2005

جنوری ۲۰۰۵ء

بھارت میں غیر سرکاری شرعی عدالتوں کا قیاممولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
نائن الیون کمیشن رپورٹ ۔ ایک امریکی مسلم تنظیم کے تاثرات کا جائزہپروفیسر میاں انعام الرحمن 
ندوہ کا ایک دنڈاکٹر محمد اکرم ندوی 
ثقافتی امتیازات اور مذہبی مزاجپروفیسر محسن عثمانی ندوی 
قربانی کی رسم کا نفسیاتی پہلوپروفیسر میاں انعام الرحمن 
احیائے اسلام کے امکانات اور حکمت عملیپروفیسر محمد اکرم ورک 
شیعو اور سنیو! تاریخ سے سبق سیکھوعلامہ سید فخر الحسن کراروی 
مکاتیبادارہ 
تعارف و تبصرہادارہ 
مولانا محمد علی جوہر کی یاد میں ایک نشستادارہ 

بھارت میں غیر سرکاری شرعی عدالتوں کا قیام

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

روزنامہ جنگ لاہور ۲۱ دسمبر ۲۰۰۴ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی صوبے گجرات میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے پہلی شرعی عدالت ’’دار القضاء‘‘ کے نام سے قائم کر دی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ بہار، اڑیسہ، آسام اور اتر پردیش میں شرعی عدالتیں پہلے ہی کامیابی سے کام کر رہی ہیں جس کی کامیابی کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے، جو بھارت میں شریعت کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کا سب سے بڑا ادارہ ہے، اب گجرات میں بھی شریعت کورٹ قائم کر دی ہے۔ ’’دار القضاء‘‘ میں مسلمانوں کے روز مرہ معاملات کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا۔ مفتی عبید اللہ الاسدی کو دار القضاء کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے جو ممتاز عالم دین اور جامعہ عربیہ اسلامیہ کے سربراہ ہیں۔ اس موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اسلام کا نظام انصاف مسلمانوں سے تقاضا کرتا ہے کہ انھیں اپنے تنازعات کے لیے شریعت کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے اور خدشات کے بغیر عدالت کا فیصلہ تسلیم کرنا چاہیے۔ 
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ بھارت میں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے ذمہ دار نمائندوں کا مشترکہ فورم اور اس لحاظ سے مسلمانوں کا سب سے بڑا نمائندہ ادارہ ہے جس میں تمام مذہبی مکاتب فکر شامل ہیں اور اس کا مقصد پرسنل لا یعنی نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ کے معاملات میں مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کو قائم رکھنا اور اس عالمی اور قومی دباؤ کا مقابلہ کرنا ہے جو مسلمانوں پر انھیں نکاح وطلاق اور وراثت وغیرہ کے جداگانہ دینی قوانین واحکام سے دست برداری پر آمادہ کرنے کے لیے مسلسل بڑھایا جا رہا ہے۔ بھارت میں ’’کامن سول کوڈ‘‘ کے نام سے ایک عرصہ سے یہ تحریک جاری ہے کہ جس طرح دوسرے مذاہب کے لوگ باہم شادیاں کر رہے ہیں اور پرسنل لا میں اپنے مذہبی احکام کے بجائے مشترکہ عالمی وملکی قوانین پر عمل پیرا ہیں، اسی طرح مسلمانوں کو بھی مشترکہ برادری کا حصہ بننا چاہیے اور اپنے لیے الگ مذہبی قوانین پر اصرار نہیں کرنا چاہیے، مگر مسلمانوں نے متفقہ طور پر اس کو مسترد کر دیا ہے اور ایک عرصہ سے مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم پر وہ اپنے جداگانہ تشخص اور خاندانی قوانین وروایات کے تحفظ کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اس بورڈ کے سربراہ بالترتیب حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ ، مفکر اسلام حضرت مولاناسید ابو الحسن علی ندویؒ اور فقیہ ملت حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ رہ چکے ہیں، جبکہ ان کے بعد ندوۃ العلماء لکھنو کے سربراہ حضرت مولانا سید محمد رابع ندوی مدظلہ بورڈ کے سربراہ ہیں۔ 
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی کوششوں میں یہ بات بھی شامل رہتی ہے کہ مسلمان اپنے نکاح وطلاق کے تنازعات اور دیگر باہمی معاملات شرعی عدالتوں کے ذریعے سے حل کرائیں اور اسی مقصد کے لیے پرائیویٹ سطح پر شرعی عدالتوں کے قیام کا تجربہ کیا جا رہا ہے جہاں تحکیم کی صورت میں دونوں فریق مقدمہ لاتے ہیں اور شرعی عدالتیں ’حکم‘ کی حیثیت سے ان کا فیصلہ صادر کرتی ہیں۔ صوبہ بہار میں امارت شرعیہ کے نام سے یہ پرائیویٹ نظام بہت پہلے سے قائم ہے جس میں حضرت مولانا قاضی سجادؒ ، حضرت مولانا منت اللہؒ اور حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمیؒ ایک عرصہ تک امیر شریعت اور قاضی کے طور پرفرائض سرانجام دیتے رہے ہیں اور کم وبیش پون صدی سے یہ نظام وہاں کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے جسے مسلم پرسنل لا بورڈ، بھارت کے دوسرے صوبوں تک وسیع کرنے میں مصروف ہے جو ایک خوش آیند امر ہے۔ 
جن معاملات میں لوگ تحکیم یا ثالثی کی صورت میں باہمی رضامندی کے ساتھ اپنے تنازعات اور مقدمات پرائیویٹ عدالتوں کے پاس لے جا سکتے ہیں، ان میں لوگوں کو شرعی فیصلوں کو قبول کرنے کے لیے آمادہ کرنا اور ان کے فیصلوں کے لیے اس طرح کی عدالتوں کا اہتمام ایک انتہائی بہتر اور اچھی جدوجہد ہے جس کا تجربہ کرنے کی ایک بار ہم نے بھی کوشش کی تھی۔ اکتوبر ۱۹۷۵ء میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا ملک گیر کنونشن جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ تعالیٰ کی صدارت میں منعقد ہوا تھا جس میں ملک بھر سے ہزاروں علماء کرام اور دینی کارکنوں نے شرکت کی تھی۔ اس کنونشن میں قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز نے جمعیۃ کی مرکزی مجلس شوریٰ کے فیصلے کے مطابق ملک بھر میں آزاد شرعی عدالتیں قائم کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے مرکزی بورڈ میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے علاوہ بیر شریف لاڑکانہ کے حضرت مولانا عبد الکریم قریشی رحمہ اللہ تعالیٰ اور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم بھی شامل تھے۔ اس بورڈ نے ملک میں اس نوعیت کی آزاد شرعی عدالتوں کے قیام کے لیے ضروری امور اور طریق کار کا خاکہ طے کیا تھا اور مختلف علاقوں میں قاضیوں کا تقرر بھی کر لیا گیا تھا، لیکن عوامی سطح پر مناسب ذہن سازی نہ ہونے اور جمعیۃ علماء اسلام کی دیگر قومی سیاسی سرگرمیوں میں حد درجہ مصروفیت کی وجہ سے یہ کام آگے نہ بڑھ سکا۔
اب بھارت میں اس تجربہ کی کامیاب پیش رفت کی خبر پڑھ کر اس پروگرام کی یاد ایک بار پھر ذہن میں تازہ ہو گئی ہے اور یہ کسک سی دل میں ہونے لگی ہے کہ یہ کام اگر انڈیا میں ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ جہاں تک ملکی قوانین کا تعلق ہے، دستور وقانون، دونوں حوالوں سے اس امر کی گنجایش موجود ہے کہ جو معاملات قابل دست اندازی پولیس نہیں ہیں اور جن میں فریقین باہمی رضامندی کے ساتھ کسی کو حکم اور ثالث مان کر اپنا مقدمہ ان کے سپرد کر سکتے ہیں، ان میں اس طرح کی عدالتیں یا ثالثی کونسلیں قائم کی جا سکتی ہیں، بلکہ ان عدالتوں اور ان کے فیصلوں کو قانونی تحفظ بھی مل سکتا ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ کے حوالے سے وہاں کے دوستوں نے ہمیں یہ بتایا کہ امریکی دستور کے مطابق نہ صرف پرسنل لا میں بلکہ بعض مالی معاملات میں بھی تحکیم اور ثالثی کی صورت میں پرائیویٹ عدالتوں کی گنجایش موجود ہے جس کو ایک مخصوص پراسس اور شرائط کے ساتھ سرکاری طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور سپریم کورٹ تک تمام عدالتی فورم ان فیصلوں کااحترام کرتے ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق امریکہ میں بسنے والے یہودیوں نے اس دستوری گنجایش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جداگانہ عدالتی ادارے قائم کر رکھے ہیں اور وہ اپنے بہت سے معاملات کے فیصلے ان عدالتوں سے کراتے ہیں۔ ہم نے امریکہ میں وہاں کے بہت سے علماء کرام اور دانش وروں سے متعدد بار یہ گزارش کی ہے کہ اگر امریکہ کا دستور بعض معاملات میں اس طرح کی عدالتوں کی گنجایش دیتا ہے تو اس سے فائدہ نہ اٹھانا اور اپنے ہر طرح کے معاملات بالخصوص پرسنل لا کے امور کو غیر مسلم عدالتوں کے پاس لے جانا بہت زیادتی کی بات ہے۔ وہاں بعض حلقوں میں اس کا احساس پایا جاتا ہے، لیکن پیش رفت کے لیے جس سطح کی سوچ، حوصلہ، محنت، ہوم ورک، اور عوامی ذہن سازی کی ضرورت ہے، اس کا فقدان ہے اور کم وبیش یہی صورت حال ہمارے ہاں پاکستان میں بھی ہے جہاں ہم نے شریعت کی ہر بات کے لیے حکومت پر انحصار کر رکھا ہے اور ہر مسئلہ حکومت کے کھاتے میں ڈال کر خود آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ شریعت کے جن احکام پر عمل حکومت اور اقتدار پر موقوف نہیں ہے اور اس کے لیے لوگوں کو تیار کرنے اور اس میں پیش رفت کے لیے مناسب نظم پرائیویٹ سطح پر بنایا جا سکتا ہے، اس کے لیے ہم کیوں تیار نہیں ہوتے؟
ہمارے نزدیک سب سے زیادہ ضرورت عوامی سطح پر دینی شعور کو بیدار کرنے اور اجتماعی معاملات میں دینی راہ نمائی کو قبول کرنے کا احساس پیدا کرنے کی ہے اور اس سے بھی زیادہ ضرورت دینی اخلاقیات کو عملی زندگی میں لانے کی ہمہ گیر جدوجہد کی ہے۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کواس بات کے لیے تیار کرنا بھی ضروری ہے کہ ہر معاملہ میں عدالت اور سرکاری دروازہ کھٹکھٹانے کے بجائے جو معاملات وہ کسی سطح پر خود طے کر سکتے ہیں، انھیں عدالت اور سرکار کے دروازے سے باہر ہی نمٹا لیا جائے۔ اس سے جھگڑوں میں بھی کمی آئے گی اور عدالتوں پر کام کا بوجھ بھی کم ہوگا، مگر اس کے لیے محنت کی ضرورت ہے، مناسب منصوبہ بندی درکار ہے، ٹیم ورک اور مسلسل ورک کا حوصلہ چاہیے جس کے لیے ہم میں سے شاید کوئی بھی تیار نہ ہو اور یہی ہماری قومی زندگی کا سب سے بڑا روگ ہے۔ خدا کرے کہ ہم اپنی سوچ اور ترجیحات پر ایسی نظر ثانی کر سکیں جو ہماری معاشرتی زندگی میں کسی مثبت تبدیلی اور انقلاب کی نوید بن جائے۔ آمین یا رب العالمین۔

نائن الیون کمیشن رپورٹ ۔ ایک امریکی مسلم تنظیم کے تاثرات کا جائزہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

نائن الیون کے افسوس ناک واقعہ کی تفصیلات، محرکات اورمستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے، تشکیل دیے گئے امریکہ کے نیشنل کمیشن کی تیرہ ابواب(۵۸۵ صفحات بشمول پیش لفظ ، ضمیمہ جات، نو ٹس وغیرہ ) پر مشتمل رپورٹ ۲۲ جولائی ۲۰۰۴ کو منظرِ عام پر آنے کے بعد بحث و تمحیص کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ رپورٹ کی تیاری میں بے شمار دستاویزات (2.5 ملین صفحات) سے استفادہ کیا گیا ہے ۔ رپورٹ میں کل اکتالیس( ۴۱) سفارشات پیش کی گئی ہیں۔ اس رپورٹ کا آن لائن ایڈیشن www.9-11commission.gov/report پر دستیاب ہے ۔ امریکی مسلمانوں نے بحیثیت امریکی شہری اس رپورٹ کی بابت اپنے تاثرات کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس وقت ہمارے پیشِ نظر ایک ایسا ہی ۱۰۰ صفحات(بشمول ضمیمہ جات ) پر مشتمل کتابچہ ہے جسے امریکی مسلم ٹاسک فورس نے 'First Impression:American Muslim Perspectives' کے نام سے جاری کیا ہے تاکہ امریکی مسلمان سطحی اور ردِ عمل پر مبنی موقف اپنانے کی بجائے معروضی واقعیت اور ٹھوس حقائق پر مبنی تاثرات امریکی حکومت و امریکی معاشرے کے سامنے پیش کر سکیں ۔ یہ کتابچہ www.iiit.org اور www.ccmodc.net پر بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کتابچے میں مختلف لوگوں کی مختصر مگر جامع تحریروں کو جگہ دی گئی ہے ۔ ہم جائزے میں طوالت اور تکرار سے بچنے کے لیے کتابچے کو مجموعی حیثیت سے لیں گے ، اس کوشش کے ساتھ کہ کوئی اہم نکتہ نظروں سے اوجھل نہ ہونے پائے۔ کو آرڈی نیٹنگ کونسل آف مسلم آرگنائزیشن (سی سی ایم او)کی ایگزیکٹو کمیٹی کے مطابق امریکن مسلم ٹاسک فورس (اے ایم ٹی ایف ) کا اس کتابچے کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں اور اسے محض بحث مباحثہ کی غرض سے پیش کیا گیا ہے۔ زیرِ نظر تحریر میں ہم نے اپنی سہولت کی خاطر اے ایم ٹی ایف کا باقاعدہ نام لے کر بات کی ہے کیونکہ کتابچے کو مجموعی حیثیت سے جانچنے کے لیے ایسا کرنا ناگزیر تھا، فرداََ فرداََ تمام مضامین کی جانچ پرکھ تکرار اور طوالت کا باعث ہو سکتی تھی ۔ امید ہے زیرِ نظر تحریر اس وضاحت کی روشنی میں پڑھی جائے گی۔
نائن الیون کمیشن رپورٹ میں استعمال ہونے والی ایک اصطلاح (Islamist terrorism) کو کتابچے میں مختلف مقامات پر بطورِ خاص تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔رپورٹ کے مطابق دشمن عمومی نوعیت کی کوئی برائی (generic evil) جسے دہشت گردی کہا جاتا ہے نہیں ہے ، بلکہ واضح اور قطعی طور پر Islamist terrorism (اسلام پسندی پر مبنی دہشت گردی) ہے ۔ اگرچہ رپورٹ میں اس امر کی صراحت کر دی گئی ہے کہ Islamist سے مراد اسلام کے پیروکار نہیں، بلکہ بن لادن کا نیٹ ورک ، اس سے وابستہ لوگ اور اس کی آئیڈیالوجی ہے جو کم از کم ابنِ تیمیہ سے شروع ہو کروہابیت کے بانیوں اور سید قطب کی الاخوان المسلمون کے ادوار سے گزری ہے۔ یہ آئیڈیالوجی اسلام کے ایک’’ اقلیتی گروہ‘‘ کی روایت مانی جاتی ہے ۔ رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اسلام ، دشمن نہیں ہے نہ ہی اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے ۔ امریکہ اور اس کے دوست اسلام کی بگڑی ہوئی صورت (perversion of Islam) کی مخالفت کرتے ہیں نہ کہ خود اسلام کی۔وغیرہ غیرہ۔ اس اصطلاح پر تنقید کرنے والے ، مذکورہ امریکی صراحتوں سے مطمئن نہیں ہوئے۔ ان کے مطابق اصطلاح میں لفظ اسلام کی شمولیت سے (رپورٹ کی وضاحتوں کے باوجود ) اسلام کی ایک منفی تصویر لوگوں کے اذہان میں اپنا نقش چھوڑ جاتی ہے ، کیونکہ لفظ ’Islamist‘ میڈیا میں اورعام لوگوں کی بات چیت میں حتیٰ کہ دانشورانہ مباحث میں بھی لفظ ’Islamic’ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ، مثلاً ترکی کی جسٹس پارٹی کو عموماً اسلامسٹ پارٹی کہا جاتا ہے، جسے اسلامسٹ چلاتے ہیں جن کے پیشِ نظر اسلامی اصولوں اور روایات کی پاسداری ہے۔ اس طرح ایک ایسی مبہم اصطلاح کی اختراع سے ، امن و سلامتی کے داعی اور انسان دوست مذہب کی بابت لاعلمی، بغض اور تعصب کی فضا ہی نشوونما پائے گی، نہ کہ اس مذہب کی ایک اقلیت کے انتہاپسندانہ عقائد و اعمال اور اس مذہب کی غالب اکثریت کے( مبنی بر مذہب) درست اور صحیح عقائد و اعمال کے درمیان امتیاز یا تفریق ممکن ہو سکے گی۔ناقدین کے مطابق ہمسایوں(مسلم /غیر مسلم ) کے درمیان بد اعتمادی اور شکوک و شبہات کا سبب بننی والی ایسی ’’ثقافتی فضا ‘‘ کی اجازت ایک لمحے کے لیے بھی نہیں دی جاسکتی۔ لہٰذا بہتر ہوتا اگر اسلامسٹ کی بجائے بن لادن نیٹ ورک یا جہادازم کی اصطلاح استعمال کی جاتی جو ایک طرف عسکری گروہوں کے موافق ٹھہرتی، دوسری طرف عام Islamist (اسلام پسندوں) اور rogue Islamist (اسلام کے بدمعاش نام لیواؤں) کے درمیان خطِ امتیاز کھینچ دیتی۔ ایسا نہ ہونے سے وہ تمام Islamists بھی ریڈیکل ہوسکتے ہیں جوپوری دنیا میں ’’ مسلم سیاست ‘‘کی طاقتور علامت سمجھے جاتے ہیں۔ سی آئی اے کے سابق تجزیہ نگار گراہم فلر کی کتاب "The Future of Political Islam" کو اسلامیت اور طویل المیعاد امریکی مفادات کے حوالے سے مفید گردانتے ہوئے کمیشن سے کہا گیا ہے کہ اگر وہ اس کتاب پر سرسری نظر ہی دوڑا لیتا تو رپورٹ اس قسم کی خامیوں سے مبرا ہوتی۔ہماری رائے میں اسلامسٹ کی بجائے جہاد ازم کی اصطلاح نسبتاً بہتر قرار دی جاسکتی ہے۔ اگرچہ جہاد ازم کوئی اسلامی اصطلاح نہیں ہے، لیکن اس میں لفظ جہاد در آنے سے ذہن فوری طور پر اسلام کی طرف ہی جاتا ہے لہٰذا وہ احتمال یہاں بھی موجود رہتا ہے کہ جہاد اور جہاد ازم کے درمیان فرق کو میڈیا کے لوگ ملحوظِ خاطر نہیں رکھیں گے، جیسا کہ اسلامسٹ اور اسلامک کے درمیان فرق نہ رکھنا۔ ہمارے خیال میں یہ فرق قائم بھی نہیں رہ سکتا کیونکہ اسلامسٹ، اسلام کے عملی پہلو کی نشاندہی کرتا ہے اور اسلامک، اسلام کی نظری جہت کی۔ رپورٹ مرتب کرنے والے شاید اسلام کو بطور ’’تھیوری ‘‘ دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے متشکل ہونے سے الرجک ہیں ۔ 
Islamist terrorism کی اصطلاح کے حوالے سے ہی ایک اہم نکتہ یہ اٹھایا گیا ہے کہ اس اصطلاح کے استعمال سے منطقی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامسٹ دہشت گردی اور کسی اور نوعیت کی دہشت گردی کے درمیان ’’خطِ امتیاز ‘‘ کیسے کھینچا جائے گا؟ کیا دہشت گردی ’’اپنی اصل ‘‘میں ہوتی ہی اسلامسٹ ہے ؟ ناقدین کے مطابق ابھی تک دہشت گردی کی کوئی ایسی تعریف متعین نہیں ہو سکی جسے عالمی سطح پر یکساں پذیرائی حاصل ہو۔ اسی لیے صدر بش نے نائن الیون حملوں کے فوری بعد امریکی عوام سے خطاب کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہشت گردی کی بڑی سادہ تعریف متعین کی۔ صدر بش نے کہا تھا کہ :
"Every nation in every region now has a decision to make. Either you are with us, or you are with the terrorists." 
’’دنیا کے ہر ملک کو اب ایک فیصلہ کرنا ہوگا۔ یا تو آپ ہمارے ساتھی ہیں یا پھر دہشت گردوں کے۔‘‘
امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی تعریف نسبتاً بہتر قرار دی جا سکتی ہے جو یہ ہے :
"Premeditated, politically motivated violence perpetrated against noncombatant targets by sub-national groups or clandestine agents, usually intended to influence an audience." 
’’دہشت گردی سے مراد سیاسی محرکات کے تحت تشدد پر مبنی ایسی سوچھی سمجھی کارروائی ہے جو نیم حکومتی گروہ یا خفیہ کارندے کریں اور جس کا نشانہ غیرمقاتل افراد بنیں۔ اس کارروائی کا مقصد بالعموم کسی خاص گروہ پر اثر انداز ہونا ہوتا ہے۔‘‘
دہشت گردی کی اس تعریف سے واضح ہوتا ہے کہ جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے محرکات سیاسی ہوتے ہیں اور ان کا نشانہ بھی غیر جنگجو افراد ہوتے ہیں۔ پھر اس کے ساتھ کوئی اضافی دم چھلا لگانے کی آخر کیا ضرورت ہے؟ نیشنل کمیشن کو ’’اسلامسٹ‘‘ کا سابقہ لگاتے وقت ان امور کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے تھا۔اے ایم ٹی ایف کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے ایک غیر جانبدار بین الاقوامی عدالتی نظام وضع کیا جائے جہاں ریاستیں، دہشت گردی کے ملزموں کے خلاف باقاعدہ شواہد جمع کروائیں اور ملزموں کو صفائی کا پورا موقع دیا جائے۔ ہمارے خیال میں اے ایم ٹی ایف کی تجویز میں ’’سادگی ‘‘ جھلکتی ہے کیونکہ ریکارڈ گواہ ہے کہ جب نکاراگوا امریکی جارحیت کے خلاف اپنا کیس لے کر عالمی عدالت میں گیا اور عدالت نے امریکہ کو قوت کے غیر قانونی استعمال کو روکنے اور تاوان ادا کرنے کا حکم دیا تو امریکہ نے عدالتی حکم کے پرخچے اڑاتے ہوئے اپنے حملوں میں شدت پیدا کر لی۔ نکارا گوا سلامتی کونسل میں گیا جہاں بین الاقوامی قانون کی پاسداری کی قرار داد امریکہ نے ’’ویٹو ‘‘ کر دی۔ نکاراگوا جنرل اسمبلی میں گیا جس نے دو برسوں میں دو مرتبہ قرارداد منظور کی جس کی مخالفت امریکہ ، اسرائیل اور(ایک مرتبہ ) ایل سلواڈور نے کی۔ بڑی طاقتوں کے ایسے طرزِ عمل کی موجودگی میں ’’قانونی ‘‘ یا کوئی بھی جائز حربہ ناکامی سے ہی دوچار ہو سکتا ہے۔ اندریں صورت دہشت گردی کوہی ’’جائز انحراف ‘‘ کے زمرے میں شمار کرنا ناگزیر ہو جائے گا ۔ 
دہشت گردی کے ساتھ لفظ اسلامسٹ لگنے سے یہ نکتہ بھی سامنے آتا ہے کہ نیشنل کمیشن (کم از کم ) نفسیاتی اعتبار سے اسامہ بن لادن کے ہاتھوں میں کھیل رہاتھا کیونکہ خود اسامہ بن لادن انتہاپسندانہ کارروائیوں اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کو ’’عین اسلام ‘‘ قرار دیتا ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنے پیچھے چلنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس طرح نیشنل کمیشن بالواسطہ طور پر اسی مظہر کو اسلام سے منسلک کر رہا ہے جسے اسامہ بن لادن اسلام گردانتا ہے۔ کمیشن کا یہ طرزِ عمل اسامہ بن لادن کی خدمت کرنے کے مترادف ہے نہ کہ اس کی مخالفت کی غمازی کرتا ہے۔ اسی طرح Islamist terrorism کی اصطلاح سے ایک اور مفروضہ پنپتا ہوا نظر آرہا ہے کہ دنیامیں مسلمانوں کے دو گروہ ہیں: (۱) برے مسلمان یعنی انتہا پسند ، (۲) اچھے مسلمان یعنی اعتدال پسند۔ ناقدین کے مطابق اس صریح تقسیم سے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اربوں مسلمانوں کے، اسلام کے متعلق فہم اور اظہار میں موجود ’’تنوع ‘‘ کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے، حالانکہ ان دو گروہوں کے بین بین بہت سے گروہ موجود ہیں۔ ایسے گروہوں کو زبردستی دو گروہوں کے دائرے میں لانا ان کے ساتھ زیادتی ہے ۔ اسلامسٹ دہشت گردی کی اصطلاح پر ایک اور اہم اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں خاص قسم کے سیاسی مسائل پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے اس ملک کے اندر بعض اوقات ’’جائز انحراف ‘‘ مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے جو اکثر اوقات ’’مثبت تبدیلی‘‘ کے لیے لازمی اور ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ (خود نیشنل کمیشن کے مطابق اسلامی ممالک میں سیکولر حکومتیں ، تابناک مستقبل کی بجائے جہالت، استبداد اور آمریت کے فروغ کا باعث بنی ہیں اور نوجوانوں کو جائز انحراف کی راہ نہیں مل رہی) اب اسلامسٹ دہشت گردی کی اصطلاح گھڑ کر تبدیلی کی آواز بلند کرنے والوں کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے، کیونکہ ان ممالک کی استبدادی حکومتوں کو ’’اسلامسٹ دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘‘ کے بھیس میں جبر و تشدد کی راہ اپنانے کے لیے ’’گرین سگنل ‘‘ دے دیا گیا ہے ۔اس کا بہت بڑا نقصان یہ ہو گا کہ ’’جائز انحراف ‘‘ کا لحاظ نہ رکھنے کے باعث زیادہ ناراضگیاں جنم لیں گی اور تشدد کی آگ کو کثرت سے ایندھن ملے گا ، جس کے نتیجے میں دہشت گردی میں مسلسل اضافہ ہو گانہ کہ کمی ۔ پھر علت و معلول کے اس گھناؤنے سرکل کا سارا الزام امریکہ پرہی آئے گا ۔ 
نقادوں کے مطابق ، اسلام میں انتہا پسندی کی درجہ بندی کرتے وقت بھی نیشنل کمیشن نے مسائل پیدا کیے ہیں۔ مثلاً عام لوگوں سے ہائی جیکروں کا فرق کرتے ہوئے اور ہائی جیکروں کا اپنے عقیدے میں انتہاپسندانہ اعمال کی طرف بڑھنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایک ہائی جیکر نے ’’دن میں پانچ وقت کی نماز شروع کی‘‘ (رپورٹ کا صفحہ نمبر ۱۶۲) اسی طرح صفحہ نمبر ۱۶۳ پر درج ہے کہ جراح کے بارے میں نوٹ کیا گیا کہ اس نے ’’ پوری داڑھی رکھ لی اور نماز باقاعدہ ادا کرنا شروع کر دی‘‘۔ اے ایم ٹی ایف کے مطابق نماز اور داڑھی کو انتہاپسندی کی علامات کے طور پر لینے سے امریکہ سمیت دنیا بھر کے پر امن مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ وہ داڑھی اور نماز کو اپنے عقیدے پر عمل کرنے کے بنیادی تقاضوں میں شمار کرتے ہیں۔ اس طرح معلوم ہوا کہ نیشنل کمیشن کے نزدیک جو مظہر انتہا پسندی کے ذیل میں آتا ہے، وہ بدیہی طور پر ’’مسلم ذہن کی داخلی تفہیم ‘‘سے لگا نہیں کھاتا۔ بہرحال، اے ایم ٹی ایف کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ رپورٹ کی ’’وضاحتیں ‘‘وقت کے ساتھ ساتھ دبتی چلی جائیں گی اور بالآخر اسلام ہی (مخصوص اصطلاح کے باعث) دہشت گرد قرار پائے گا ۔
نائن الیون نیشنل کمیشن رپورٹ میں پرانی اور نئی دہشت گردی میں بھی امتیاز کیا گیا ہے ، تسلی بخش حد تک یہ بتائے بغیر کہ ان میں’’فرق ‘‘ ہے کیا ؟ البتہ اتنا واضح کیا گیا ہے کہ کلنٹن ایڈمنسٹریشن میں دہشت گردی ’’جرم ‘‘ کے زمرے میں آتی تھی جبکہ بش ایڈمنسٹریشن میں اسے ’’جنگ ‘‘ کے طور پر لیا گیا ہے ۔ اے ایم ٹی ایف نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ، رپورٹ کی تجاویز اور تجزیے کو مفید گردانتے ہوئے یہ امکان ظاہر کیا ہے کہ امریکہ کی عسکری صلاحیتیں اور اس کا defense doctrine ’’تشکیلِ نو ‘‘ کے دور سے گزر سکتے ہیں ۔
امریکن مسلم ٹاسک فورس نے کمیشن کی رپورٹ میں کی گئی اس نا انصافی پر بھی احتجاج کیا ہے کہ دوسرے مذاہب کے انتہا پسندانہ رجحانات کے لیے رپورٹ میں struggle (جدوجہد) اور zealots (نہایت پرجوش حامی) وغیرہ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جبکہ اسلام کے لیے terrorism کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ایسا شاید اس لیے ہوا کہ دوسرے مذاہب کے لوگ کمیشن کے ممبر تھے (خیال رہے کمیشن کے دس ممبرز میں سے کوئی ایک بھی مسلمان نہیں تھا ) ناقدین کے مطابق کمیشن کے ارکان میں اگر امریکی مسلمانوں کو شامل کیا جاتا تو وہ دہشت گردی کے ساتھ لفظ اسلام کسی صورت بھی منسلک نہ ہونے دیتے۔اس طرح امریکی مسلمانوں کو کمیشن سے باہر رکھ کر ایک تو انھیں دوسرے درجے کا شہری ثابت کیا گیا، دوسرا خود کمیشن اسلام کے تصورات کا جامع احاطہ نہ کر سکا جو وہ امریکی مسلمانوں کی مدد سے کر سکتا تھا۔ اسی سلسلے میں یہ اعتراض بجا معلوم ہوتا ہے کہ اسقاطِ حمل کے کلینکوں پر بم مار کر معصوم لوگوں کو ہلاک کرنے والوں Timothy Mc Veigh, Eric Rudolph کے اعمال کو ’’ مسیحی دہشت گردی ‘‘ یا کم از کم ’’حکومت مخالف دہشت گردی ‘‘ کا نام کیوں نہیں دیا جاتا؟ اور جے ایل ڈی (Jewish Defense League) کو ’’یہودی دہشت گرد تنظیم ‘‘ کیوں نہیں قرار دیا جاتا ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ناقدین کے مطابق نیشنل کمیشن کی رپورٹ سے امریکیوں کے اپنے دشمن کی نوعیت کے متعلق کنفیوژن میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس سے بہتر مواد تو Patterns of Global Terrorism نامی رپورٹ میں ملتا ہے جس میں دہشت گردی کو تمام مذاہب کے انتہاپسندانہ گروہوں سے منسلک کیا گیا ہے۔ رپورٹ کا جائزہ لینے والوں نے بجا طور پر اس خامی کی نشاندہی کی ہے کہ کمیشن کے ارکان سکالرز کی تشریحات ، مسلم دنیا کے سماجی و سیاسی حالات اور عسکریت پسندی کی وجوہات کا تجزیہ کرنے سے مکمل قاصر نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر بن لادن کی شخصیت اور اس کی سیاست کا جو تجزیہ رپورٹ میں کیا گیا ہے، اس سے کہیں بہتر جائزہ John L. Esposito نے اپنی کتاب Unholy War: Terror in the Name of Islam کے ایک باب (بن لادن کے متعلق ) میں لیا ہے۔البتہ رپورٹ کی تیاری میں ، سٹیون ایمرسن کی کتاب American Jihad سے مدد لینے پر تنقید کی گئی ہے کیونکہ مسلمانوں کی بابت اس کا تعصب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ہماری رائے میں بہت سی وقیع کتب کی موجودگی میں کسی متنازعہ شخص کی متنازعہ تصانیف سے خوامخواہ کی مدد لینا کمیشن کی غیر جانبداری کو مشکوک ٹھہرانے کو کافی ہے۔ اگر امریکی پالیسی ساز ، غیر متعصب سکالرز اور مسلم دنیا سے مکمل کٹ کراسی طرح پالیسیاں بناتے رہے تو نہ صرف موجودہ حالات کے درست ادراک بلکہ آنے والے کئی چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہیں گے ۔ ناقدین کے مطابق ، مسلم دنیا میں امریکی خارجہ پالیسی کے تاریخی کردار کے حوالے سے یہ رپورٹ حیران کن حد تک خاموش ہے، حالانکہ اس خطے میں امریکی کردار جانے بغیرہم یہ نہیں جان سکتے کہ افغانستان میں ’’مجاہدین ‘‘ کس طرح ’’جہادی ‘‘ بن گئے ؟ اس حوالے سے محمود ممدانی کی کتاب Good Muslim, Bad Muslim: America, the Cold War, and the Roots of Terror کو رپورٹ کے مندرجات سے کافی بہتر گردانا گیا ہے ۔ فلسطین اور عراق میں امریکی پالیسی کے منفی پہلو کسی ذی ہوش شخص سے مخفی نہیں ہیں، لیکن نیشنل کمیشن کی کوتاہ نظری (اس معاملے میں ) رپورٹ کے ان الفاظ سے عیاں ہوتی ہے کہ :
"America's policy choices have consequences. Right or wrong, it is simply a fact that American policy regarding the Isreal-Palestinian conflict and American actions in Iraq are dominant staples of popular commentary across the Arab and Muslim world. That does not mean U.S. choices have been wrong."(9/11 commission report, p376.) 
’’امریکہ جو بھی پالیسی اختیار کرتا ہے، اس کے کچھ نتائج نکلتے ہیں۔ صحیح یا غلط، لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ فلسطین اسرائیل تنازعے کے حوالے سے امریکی پالیسی اور عراق میں امریکی اقدامات وہ بنیادی موضوعات ہیں جن پر پوری عرب اور مسلم دنیا میں ہر سطح پر تبصرہ وتنقید جاری ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ امریکی فیصلے غلط تھے۔‘‘
لہٰذا عالمی مسلم رائے عامہ پر امریکی ردِ عمل کچھ اس طرح سے ہے : ’’پنچوں کا کہا سر آنکھوں پر ، لیکن پرنالہ وہیں رہے گا ‘‘۔ زیرِ نظر کتابچے میں پرنالہ وہیں رکھنے کی امریکی روش پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ ہو سکتا ہے رپورٹ کے مذکورہ بالا الفاظ کو نیشنل کمیشن پر’’ بش کے دباؤ ‘‘پر محمول کیا جائے کہ کمیشن نے تنقید نہ کر سکنے کے باوجود ، امریکی پالیسیوں کو ’’گول الفاظ ‘‘ میں ہی درست قرار دیا ہے۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ، بلکہ کمیشن نے تو بش کے موقف کو رد کرتے ہوئے لگی لپٹی رکھنے کی بجائے ایک انٹیلی جنس افسر کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ :
"The United States is hated across the Islamic world because of specific U.S. government policies and actions. We are at war with an al-Qaeda-led, worldwide Islamist insurgency because of and to defend those policies and not, as President Bush has mistakenly said, to defend freedom and all that is good and just in the world." 
’’امریکی حکومت کی مخصوص پالیسیوں اور اقدامات کی بنا پر پوری مسلم دنیا میں امریکہ نفرت کا نشانہ بن گیا ہے۔ ہم القاعدہ کی قیادت میں عالم گیر اسلامی مزاحمت کے ساتھ ان پالیسیوں ہی کے تحفظ کے لیے جنگ کر رہے ہیں۔ صدر بش کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ یہ لڑائی آزادی اور دنیا کی دیگر منصفانہ اقدار کو بچانے کے لیے لڑی جا رہی ہے۔‘‘
اسی طرح رپورٹ کے ان الفاظ پر کہ"The United States must do more to communicate its message." (p377) (امریکہ کو اپنے موقف کے ابلاغ کے لیے اس سے زیادہ کوششیں کرنی چاہییں)، اے ایم ٹی ایف کا یہ تبصرہ بھی بر محل ہے کہ:
".Shouting the wrong message more loudly won't make it more acceptable"
(غلط موقف کو زیادہ بلند آواز سے پیش کرنا اس کو قابل قبول نہیں بنا سکتا)
رپورٹ میں سعودی عرب ، پاکستان اور افغانستان کے سیاسی حالات کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ اے ایم ٹی ایف کے مطابق سعودی عرب اور افغانستان کے بارے میں رپورٹ کے تجزیے سے اتفاق کرنا پڑتا ہے، لیکن پاکستان کی بابت اس کی سفارشات غیر تسلی بخش ہیں کیونکہ ان سے پاکستان کی بجائے جنرل مشرف کے متعلق امریکی پالیسیوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ رپورٹ میں ایک طرف اصرار کیا گیا ہے کہ امریکہ کو مختصر مدت کے تزویراتی فوائد کے حصول کے لیے (مسلم مما لک میں ) جمہوریت پر سمجھوتہ کرنے سے بچنا چاہیے اور دوسری طرف جنرل مشرف کو’’ موقع‘‘ دینے کا کہہ کر اپنی ہی سفارش کا رد بھی کر دیا گیا ہے۔ یہ بہت بڑا عجیب و غریب تضاد ہے ۔ اسی طرح یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ رپورٹ میں ایران ، سوڈان اور شام کو امریکہ مخالف جہادی گروہوں کے خطرناک ٹھکانوں اور پناہ گاہوں کے طور پر ڈسکس نہیں کیا گیا۔ اے ایم ٹی ایف کے مطابق امریکہ مخالف جہادی گروہوں کے ٹھکانوں کی فہرست میں ’’عراق ‘‘ کی عدم شمولیت بھی سنگین غلطی ہے کیونکہ عدمِ استحکام کا شکار عراق، امریکہ مخالف جہادیوں کے لیے سرگرمیوں کا مرکز (launching pad) ثابت ہو سکتا ہے۔ شاید کمیشن نے عراق کا ذکرکرنا اس لیے مناسب نہیں سمجھا کہ اس کی سفارشات اور بش کی حالیہ پالیسیوں میں تصادم کی صورت میں تضادات سامنے آ سکتے تھے۔
اگرچہ نیشنل کمیشن آزاد ، موثر ، اور باصلاحیت تھا اور اس نے بہت تن دہی و جان فشانی سے کام کیا، بارہ سو (۱۲۰۰ ) لوگوں کے انٹرویو کیے اورایک سو ساٹھ گواہوں (witnesses) پر مشتمل بارہ کھلی سماعتیں (public hearings) ہو ئیں، اس کے باوجود اسے خیال تک نہ آیا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی عرب /مسلم کمیونٹی کے ممتاز قائدین ، سکالرز اور ماہرین کی شہادتیں بھی حاصل کرے ، کہ نائن الیون کے حادثے میں ہلاک ہونے والے معصوم لوگوں میں عرب/مسلم بھی شامل تھے۔اس طرح نہ صرف ان متاثرہ خاندانوں کی تکالیف کو یکسر نظراندازکیا گیا بلکہ انھیں اس حادثے کے ضمن میں ہونے والے قومی مباحثے سے بھی خارج کر دیا گیا، حالانکہ عرب/مسلم ۱۰۰ سال سے زیاد ہ عرصہ سے امریکی زندگی کے ہر پہلو میں مثبت انداز میں حصہ لے رہے ہیں۔ زیرِ بحث کتابچے میں امریکی مسلمانوں سے کیے جانے والے ناروا سلوک (مثلاً محکمہ مردم شماری نے عرب /مسلم اعداد و شمار خفیہ طور پر ہوم لینڈ سکیورٹی کے محکمے کو فراہم کیے اورامریکہ میں کئی نسلوں سے آباد ، عرب نسل کے افراد کے متعلق معلومات ، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو فراہم کیں) کے علاوہ رپورٹ کی ایک اہم خامی کی نشاندہی کرتے ہوئے بالکل درست نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ9/11 کے حملہ آوروں سے کوئی’’ تعلق‘‘ تلاش کرنے کی غرض سے ، امریکی مسلمانوں پر الزامات کی بھر مار ، تفتیشی کارروائیوں اور حراست میں لیے جانے جیسے اقدامات کے باوجود ایسا کوئی’’ تعلق‘‘ سامنے نہیں لایا جا سکا۔ پھر رپورٹ میں آخر کیونکر اس سوال کا جواب دینے کی کوشش نہیں کی گئی کہ دہشت گرد کسی ’’ایک عرب/مسلم ‘‘ کو بھی اپنے گروہ میں شامل کرنے میں کیونکر ناکام رہے ؟ ہماری رائے میں نیشنل کمیشن کو اس سوال کا جواب لازماً دینا چاہیے تھا کیونکہ امریکی میڈیا sleeper Al-Qaeda cells within the U.S  (امریکہ کے اندر القاعدہ کے غیر متحرک گروپ) کا راگ برابر الاپے جا رہا ہے اور اس کے اثرات کے تحت امریکی عوام کی خاصی بڑی تعداد (مختلف سروے رپورٹس کے مطابق) عرب/مسلمانوں کی امن پسندی اور وفاداری کے متعلق مشکوک ہو چکی ہے۔ نقادوں کے مطابق یہ صورتِ حال ایک ایسے ملک میں زیادہ تشویش ناک ہو جاتی ہے جہاں کسی فرد کا جرم ثابت ہونے تک اسے ’’معصوم ‘‘ خیال کرنے کو ’’قابلِ فخر قدر ‘‘ کا درجہ حاصل ہو۔ بلاشبہ امریکی قوم کو اس قدر کی پائیداری اور استقلال کو یقینی بنانا چاہیے، بالخصوص جب اس کا اطلاق اس کے اندر موجود کسی اقلیت پر ہورہا ہو۔
ہرسال چالیس ہزار امریکی کار کے حادثوں میں ہلاک ہوتے ہیں، سولہ ہزار قتل ہوتے ہیں اور سات لاکھ سے زائد عارضہ قلب ، منشیات ، سگریٹ نوشی ، خوراک سے متعلق وجوہات کے سبب اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ امریکیوں کی اموات کی یہ وجوہات بیان کرکے اے ایم ٹی ایف نے تبصرہ کیا ہے کہ ہم جانتے ہیں ہم ان زندگیوں کو بچا سکتے ہیں اگر ہم بنیادی وجوہات کو ایڈریس کر نے کے ساتھ ساتھ امتناعی اقدامات کر لیں۔ پھردہشت گردی کے خاتمے کے لیے امریکی اقدامات پر یوں نکتہ چینی کی ہے کہ آخر ہم کیسے 9/11 جیسے حملوں کی وجوہات کا ادراک حاصل کرنے کی کوشش کیے بغیرایسے حملے روک سکتے ہیں ؟ اے ایم ٹی ایف کے اس نکتے کی معقولیت سے بھی کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا کہ : کیا یہ 9/11 کے حادثے میں ہلاک ہونے والے معصوم لوگوں کی’’ تعداد ‘‘ہے ،یا وہ’’ طریقہ ‘‘جس کے ذریعے انھیں ہلاک کیا گیا ،یا جن لوگوں نے جرم کیا ان کی شناخت ، یا پھر یہ تمام عوامل اکٹھے ہو کر ہمیں فوجی طاقت کے ایسے بے محابا استعمال کا کوئی ’’جواز ‘‘ فراہم کرتے ہیں کہ ہم جس مقام کے بارے میں ’’محسوس ‘‘ کریں کہ اس کا کوئی تعلق 9/11 کے حملوں سے ہے، وہاں حملہ کردیں ،یا مداخلت کریں، جس سے ان گنت معصوم انسان موت کے گھاٹ اتر جائیں اورلوگوں کا بے تحاشا مالی نقصان بھی ہو؟ عراق اور افغانستان کا 9/11 حملوں سے کوئی براہ راست یا بالواسطہ تعلق نہیں تھا، پھر وہاں کیوں موت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟انتہائی افسوس کی بات ہے کہ دو عشروں سے دوسرے لوگوں کی لڑائی میں ان ممالک کے عوام کو رگیدا جا رہا ہے۔ 
اے ایم ٹی ایف نے اگرچہ اصلاحِ احوال کے لیے مدارس کے مقابل نئے تعلیمی نظام کے نظریے کو سراہا ہے جس کے مطابق خاص طور پر خواتین اور بچوں کو نئے اسالیب اختیار کرنے کی ترغیب دی جائے گی، لیکن ساتھ ہی یہ صراحت کر دی ہے کہ اس کوشش کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اس امر پر ہے کہ اس عمل کے لیے اقدامات ’’کیسے ‘‘ کیے جاتے ہیں؟ تعلیم، ثقافتی اعتبار سے انتہائی حساس معاملہ ہے۔ اس کا مقصد ، انتہاپسندانہ آئیڈیالوجی کو فروغ دینے والی فرقہ بندی کی تخلیق سے بچتے ہوئے علم حاصل کرنے والے کی ’’شناخت ‘‘ کو مضبوط کرنا ہونا چاہیے ۔انتہا پسندانہ ایجوکیشن اور آئیڈیالوجی کے جواب میں رپورٹ کا مجوزہ نظام ایک خاص رخ سے کمی کا شکار ہے ۔ امریکی خارجہ پالیسی کے مضمرات اور اس پالیسی کے القاعدہ نیٹ ورک اور آئیڈیالوجی پر اثرات کے ’’ناکافی مباحث‘‘ سے یہی تاثر ملتا ہے کہ نیشنل کمیشن خطے کی پیچیدگی اور اس کی متنوع سیاسی فکر کا مکمل احاطہ نہیں کر سکا ۔ نقادوں کے مطابق یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ 9/11 کے حملہ آوروں میں سے اکثر نے سیکولر ایجوکیشن حاصل کر رکھی تھی جو سطحی اسلامی علم کے ساتھ امتزاج کے بعد انتہاپسند آئیڈیالوجی کی صورت میں نمودار ہوئی ۔ اس معاملے میں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ عدل و انصاف، آزادی، انسان دوستی، رواداری اور مساوات جیسے تصورات اسلامی عقائد کا جزو لاینفک ہیں۔ یہ کوئی’’ ترجیحات کا معاملہ‘‘ نہیں ہے کہ متشددانہ فرقہ واریت اور انسانیت سوز مظالم کی بجائے ان کو اختیار کر لیا جائے۔ لہٰذا اسلام کی صحیح ، گہری اور تمام جہات پر مبنی تعلیم مسلم دنیا میں روشن خیالی کی لہر دوڑانے کے ساتھ ساتھ خود امریکہ کی سلامتی کی ضامن ہو سکتی ہے ۔
اے ایم ٹی ایف کے مطابق دہشت گردوں کے مالیاتی روابط اور ان کے ذخائر کی تلاش میں احتیاط کی ضرورت ہے کہ کہیں اس تلاش کی آڑ میں وہ ’’جائز عطیات ‘‘ بھی بند نہ ہو جائیں جو انتہائی محتاج لوگوں کی بقا کی ضمانت بنتے ہیں۔ جائزعطیات کی بندش سے ان امریکہ مخالف جذبات کو بڑھاوا مل سکتا ہے جنھیں اسامہ بن لادن ہوا دینے کی کوشش میں ہے ۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک طرف مسلمانوں کو(بحیثیت امریکی )یہ ترغیب دلائی جاتی ہے کہ قوم کی سماجی فلاح سے متعلق معاملات کے بارے میں رضاکارانہ متوجہ ہوں اور دوسری طرف خبردار کیا جاتا ہے کہ حتیٰ کہ عام مسلم تنظیموں (main stream Muslim organizations) کو فنڈ دینے سے آپ لوگوں کو دہشت گردی کی مدد کرنے کے الزام میں دھرا جا سکتا ہے۔ جائز عطیات کی بندش سے امریکہ پر مالی اعتبار سے بھی بوجھ پڑ سکتا ہے کیونکہ بندش کی صورت میں، محتاج لوگوں کی ضروریات کی تکمیل امریکہ کی حکومتی ایجنسیوں کے فرائض میں شامل ہو جائے گی جس کا بالواسطہ بوجھ امریکی عوام پر ہی پڑے گا۔ اس طرح عوام ٹیکس کے دوہرے بوجھ سے ہلکان ہو جائیں گے۔ ایک، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ہوم لینڈ سکیورٹی کے لیے اضافی ٹیکس، اور دوسرا جائز عطیات کی بندش کے نتیجے میں خوامخواہ کا ٹیکس۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ پکڑ دھکڑ کی بجائے ایسا بین الاقوامی عدالتی نظام قائم کیا جائے جو ٹھوس شواہد کی بنیاد پر فیصلہ دے کہ کسی ’’خاص عطیہ ‘‘کے دہشت گردانہ روابط ہیں یا نہیں۔کم از کم اتنا تو لازماً کیا جانا چاہیے کہ کسی عطیہ کے نمائندے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کے خلاف اپیل اور جوابی کارروائی کر سکیں تاکہ امریکہ کے مشہورِ زمانہ اصول due process of law (قانونی قواعد وضوابط کی مکمل پابندی) کا کچھ بھرم ہی رہ جائے ۔ 
ہمیں چند روز پیشتر ایک ویب سائٹ کی طرف سے نیوز لیٹرمیں مذکورہ بحث سے متعلق چند معلومات ملیں کہ : امریکہ میں پچھلے چار برسوں میں بھوک میں ۲۶فیصد اضافہ ہوا، اور تقریباً ۳۶ ملین افراد اس کا شکار ہوئے۔ ستمبر ۲۰۰۴ میں، پچھلے سال سے 2.2 ملین زائد یعنی ۲۵ ملین افراد نے امریکہ کے فوڈ سٹیمپ پروگرام میں شرکت کی۔یہ تعداد اصل (محتاج ) تعداد سے کافی کم ہے کیونکہ فوڈ سٹیمپ درخواست فارم بارہ ( ۱۲) صفحات پر مشتمل ہے، پیچیدگی کی وجہ سے بہت سے لوگ اسے پر نہیں کر سکے۔ نیوز لیٹر کے مطابق بندوق درخواست فارم کے صرف دو صفحے ہیں، لہٰذا قانون سازوں کو ترجیحات کا نئے سرے سے تعین کر کے فوڈ سٹیمپ پروگرام میں توسیع لانے کے ساتھ ساتھ اس کے درخواست فارم کو سادہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ ہماری رائے میں نیوز لیٹر کے پیش کردہ حالات، عطیات کی بندش کی مذکورہ بالا صورتِ حال میں مزید سنگینی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ امریکہ کو جائز عطیات کی ترسیل یقینی بنانے کے علاوہ اپنے Militarisation of Space (خلا میں فوجی مراکز قائم کرنے) جیسے پروگراموں پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ امریکی عوام کے ٹیکس سے حاصل کردہ خزانہ ، سماجی خوش حالی کے فروغ پر خرچ ہو نہ کہ چند افراد کے جنگی جنون کی بھینٹ چڑھ جائے ۔
اے ایم ٹی ایف کے مطابق نیشنل کمیشن کا یہ کہنا ’’بوالہوسی ‘‘ ہے کہ امریکہ کو دنیا میں اخلاقی قیادت کا ایک نمونہ ہونا چاہیے۔رپورٹ کی سفارشات میں ’’باہمی احتساب ‘‘ سے قطع نظر بہت زیادہ مغرورانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ امریکہ اور اس کے دوست دنیا کے عرب اور مسلم خطوں کو تعلیم، معاشی خوش حالی، رواداری اور سیاسی فیصلوں میں شرکت کی پیش کش کریں گے۔ اسی طرح ہوم لینڈ سکیورٹی کے لیے مطلوب اقدامات اور شہری آزادیوں کے تحفظ کے درمیان لائن کھینچنے کے لیے بھی رپورٹ میں سفارشات شامل کی گئی ہیں۔ ہماری رائے میں امریکہ لائن کھینچنے میں ’’توازن ‘‘ کا مظاہرہ نہیں کر سکا کیونکہ Intelligence Reform and Terrorism Prevention Act پر امریکی صدر نے ۱۷ دسمبر کو دستخط کر دیے ہیں۔ ایوانِ نمائندگان نے اسے ۷ دسمبر کو ۷۵ کے مقابلے میں ۳۳۶ اور سینٹ نے ۸ دسمبر کو ۲ کے مقابلے میں ۸۹ ووٹوں سے پاس کیا تھا ۔ اس ایکٹ کے مطابق( نیشنل کمیشن کی سفارشات کی پیروی میں ) ایک Privacy and Civil Liberties Board بھی تشکیل دیا جائے گا تاکہ انتظامیہ کے ہاتھوں عوام کی آزادیا ں مجروح نہ ہونے پائیں۔ ہماری رائے میں چونکہ اس بورڈ کے ارکان کے تقرر کے اختیارات صدر کو سونپ دیے گئے ہیں جو انتظامی امور کا مدارالمہام ہے، اس لیے امریکی عوام کی آزادیاں کسی نہ کسی حد تک کم ضرور ہوں گی اور عرب/مسلم دنیا کو ’’آفر‘‘ کرنے کے لیے امریکہ کے پاس بہت کچھ باقی نہیں بچے گا۔ 
نیشنل کمیشن کے مطابق مسلم ممالک میں کرپشن اور غربت کی سنگین صورتِ حال سے بن لادن کوبہ آسانی رنگروٹ مل رہے ہیں، لیکن کمیشن نے یہ کہتے ہوئے کہ یہ مسائل(کرپشن ، غربت ) اپنی نوعیت میں کمیشن کی سفارشات کے دائرے سے باہر ہیں، اس معاملے میں تحقیق کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اے ایم ٹی ایف کے مطابق دوسری عالمی جنگ اور سرد جنگ کے دوران امریکی برتری کا ایک بڑا نتیجہ غیر معمولی سطح کی خوش حالی اور امن تھا جس کا زیادہ فائدہ جاپان اور مغربی یورپ کو ہوا۔ سرد جنگ کے بعد نئے عالمی نظام میں ’’سابق مشرقی بلاک کے ممالک‘‘ کی سیاست اور سماجی و معاشی پہلو ؤں پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوئے، لیکن مسلم ممالک کواس عالمی تبدیلی کے خوشگوار اثرات سے افسوس ناک حد تک محروم رکھا گیا جس کا ایک مظہر مسلم ممالک کی ان استبدادی حکومتوں کو جو عوام کو سیاسی شرکت ’’ آفر ‘‘ کرتی رہتی ہیں، مغرب کی سپورٹ (محدودمدتی تزویراتی فوائد کی خاطر ) ہے جو عوامی خواہشات پر مبنی پر امن جمہوری تبدیلی کی آواز کو دبا کر اقتدار میں آئی ہیں۔کرپشن اور غربت کا سب سے بڑا سبب یہی ہے ۔اس لیے امریکہ اخلاقی قیادت کا نمونہ بننے اور آفر کرنے کی بجائے ’’ عدم مداخلت ‘‘ کی اخلاقیات اپنا لے تو معاشی خوش حالی سمیت تمام مثبت قدریں خود بخود ان ممالک میں جڑ پکڑ لیں گی۔ اگرچہ نیشنل کمیشن نے یہ تسلیم کیا ہے کہ طویل سرد جنگ کا ایک سبق یہ ہے کہ جابرانہ اور ظالمانہ حکومتوں سے تعاون کاحصول امریکہ کے مفادات اور اقدارکے لیے اکثر اوقات طویل المیعاد نقصان کا سبب بنا ، لیکن کمیشن نے واضح انداز میں امریکی خارجہ پالیسی کی ’’تصحیح ‘‘ پر زور نہیں دیا ۔ اے ایم ٹی ایف کے مطابق امریکہ کو اپنے سیاسی نظریے پر نظر ثانی کرنی چاہیے کہ اس کے اصل دشمن وہ ہیں جو ’’سیاسی تبدیلی اور جمہوری حقوق‘‘ کی مخالفت کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ عوام ہی ہیں جو استحکام ، عالمی سلامتی، معاشی خوش حالی اور اسی لیے دیرپا امن کے حقیقی ضامن ہیں ۔ 

ندوہ کا ایک دن

ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

(ہمارے محترم اور فاضل دوست ڈاکٹر محمد اکرم ندوی نے اپنی کتاب ’’ندوہ کا ایک دن‘‘ میں دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں اپنے زمانہ طالب علمی کے ایک دن کی سرگزشت قلم بند کی ہے۔ اس کتاب کے چند منتخب حصے ذیل میں شائع کیے جا رہے ہیں جن سے ندوہ کی علمی وتعلیمی فضا کی ایک جھلک بھی قارئین کے سامنے آ سکے گی اور ہمارے ارباب مدارس کو اپنے یہاں کے اساتذہ وطلبہ کی ذہنی اور فکری سطح کا جائزہ لینے کا موقع بھی ملے گا۔ مدیر)

ابراہیم صاحب کو نحو سے خاص دلچسپی ہے۔ محال ہے کہ ابراہیم صاحب ساتھ ہوں اور گفتگو نحو کے کسی مسئلہ کی طرف نہ مڑ جائے۔ ابراہیم صاحب کو نحو سے جتنی دلچسپی ہے، بابر بھائی کو اس سے اتنی ہی بیر۔ بابر بھائی ہم لوگوں کی صحبت سے لطف اندوز ہوتے ہیں، لیکن ابراہیم صاحب کی نحویانہ سنجیدگی ان کی برداشت سے باہر ہے۔ بابر بھائی نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ سیبویہ، ابن جنی یا ابن ہشام کا نام درمیان میں آئے اور نحو کے مدارس کوفہ وبصرہ وبغداد کے متعلق گفتگو ہو، کوئی اور موضوع شروع کرنا چاہیے۔ چنانچہ بابر بھائی نے مدینہ منورہ میں اپنے قیام کے واقعات سنانا شروع کیے۔ وہاں کے اساتذہ اور شیوخ کے انداز تدریس پر گفتگو کی۔ بابر بھائی نے بتایا کہ مدینہ منورہ میں مولانا سعید احمد خان صاحب کی ذات گرامی ہندوستانیوں کا بڑا سہارا ہے۔ مسجد النور کی مجالس روحانی اور علمی غذا فراہم کرتی ہیں۔ مولانا کے علمی مقام کی وجہ سے پڑھے لکھے لوگ بھی تبلیغ ودعوت کے کام کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ .....
بابر بھائی نے مولانا کے علمی تحقیقات کی متعدد مثالیں دیں۔ مجھے بھی یاد آ گیا کہ ایک بار نظام الدین کے تبلیغی مرکز میں ہم لوگ مولانا کے پاس بیٹھے تھے کہ مولانا نے طلبہ کی مناسبت سے سوال کیا کہ ’غیر المغضوب علیہم ولا الضالین‘ کا ترجمہ کیا ہے؟ ایک طالب علم نے اس کا مشہور ترجمہ سنایا ’’نہ کہ ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ ان لوگوں کا راستہ جو گمراہ ہوئے‘‘۔ مولانا نے فرمایا یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے۔ ندوہ کے ایک طالب علم نے مولانا کی منشا سمجھ کر عرض کیا کہ ’غیر المغضوب علیہم‘، ’الذین انعمت علیہم‘ کی صفت ہے۔ ترجمہ ہوگا ’’اے اللہ ہمیں سیدھے راستہ پر چلا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرا انعام ہوا ہے، جن پر تیرا غضب نہیں نازل ہوا اور نہ وہ گمراہ ہیں‘‘۔ مولانا نے اس کی تائید فرمائی۔
ابراہیم صاحب موقع کی تاک میں تھے ہی، فوراً بول اٹھے کہ واقعتا نحو کے مسائل سے واقفیت دقائق قرآنی تک رسائی اور اسرار حدیث کی گرہ کشائی کی کلید ہے۔ ابن ہشام ہی کو دیکھے کہ شرح قطر الندیٰ اور شرح شذور الذہب بلکہ اپنی تمام تصانیف میں نحو کے مسائل کی تشریح کرتے ہوئے قرآن وحدیث کی مثالیں بیان کرتے ہیں جن سے مشکل مقامات کے حل میں مدد ملتی ہے۔ مثلاً سورۃ الشعراء کی آیت ’’وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون‘‘ کو لیجیے۔ بابر بتائیں کہ ’’ای منقلب‘‘ کیوں منصوب ہے؟ بابر بھائی نے کہا کہ ابراہیم، یہ کون سی مشکل ترکیب ہے۔ اول ودوم کے طلبہ بھی اسے جانتے ہیں۔ ای، سیعلم کا مفعول ہے۔ ابراہیم صاحب نے کہا کہ جب علما اس طرح کی غلطیاں کرتے ہیں تو نحو کی افادیت پر مزید یقین مستحکم ہو جاتا ہے۔ ای، ینقلبون کا مفعول مطلق ہے۔ اس طرح کی ترکیبوں میں یعلم لفظاً عمل کرتا ہی نہیں ہے، اس لیے اسے اہل نحو تعلیق سے تعبیر کرتے ہیں۔
حشمت اللہ نے تبصرہ کیا کہ ابراہیم صاحب، آپ سے ابن ہشام، شرح قطر الندیٰ، شرح شذور الذہب کے نام سنتے سنتے کان تھک گئے۔ اس میں شک نہیں کہ متاخرین میں ابن ہشام کے پایہ کا کوئی نحوی نہیں اور فلسفہ تاریخ کے امام ابن خلدون نے بجا کہا ہے کہ ’ما زلنا ونحن بالمغرب نسمع انہ ظہر بمصر عالم بالعربیۃ یقال لہ ابن ہشام انحیٰ من سیبویہ‘ اور ندوہ کے نصاب تعلیم کے ذمہ داروں نے ابن ہشام کی تصنیفات نصاب میں داخل کر کے ندوہ کے نصاب تعلیم کو ایک انقلابی رخ عطا کیا ہے، ورنہ ابن حاجب کی کافیہ اور اس کی شرح ملا جامی یہاں کی عربیت کی معراج رہی ہے۔ شرح جامی پر علامہ شبلی کا تبصرہ کتنا معنی خیز ہے، ’فیہ کل شئ الا النحو‘، لیکن ابن ہشام کی پرستش سے ہم وہی غلطی کر رہے ہیں جو اب تک ابن حاجب اور ملا جامی کے نام سے چلی آ رہی ہے۔
مجھے حشمت اللہ صاحب کا تبصرہ کچھ سخت لگا۔ میں نے کہا، نصاب میں سارے نحویوں کی کتابیں داخل کرنا کیوں کر ممکن ہے۔ ندوہ نے شرح قطر الندیٰ اور شرح شذور الذہب داخل کی ہیں، بعض مراحل میں الفیہ ابن مالک پر ابن عقیل کی شرح اور مرحلہ تخصص میں ’المفصل‘ داخل کی ہے۔ آخر اس سے زیادہ کس توسع کی توقع کرتے ہیں۔ نصاب کو نحو سے گراں بار تو کرنا نہیں ہے۔ بابر بھائی کے لیے نحو کا موضوع صبر آزما تھا ہی، موقع ملتے ہی انھوں نے کہا کہ اگر ندوہ کے نصاب کی اصلاح کرنی ہے تو نصاب کو نحو سے آزاد کرنا ہوگا۔ .... حشمت اللہ نے حسب معمول بابر صاحب کی دخل اندازی پر توجہ نہیں دی اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میرا مقصد نصاب سے نہیں ہے۔ مجھے افسوس ہوتا ہے جب میں ابراہیم صاحب اور نحو کے دیگر اساتذہ کو دیکھتا ہوں کہ ابن ہشام کے بغیر لقمہ نہیں توڑ سکتے۔ آخر جب دوسرے مضامین میں ہم، نصابی کتابوں سے ہٹ کر اپنے دائرہ مطالعہ کو وسیع کر سکتے ہیں اور درسی کتابوں پر قناعت نہیں کرتے تو آخر نحو کے ساتھ یہ زیادتی کیوں ہے؟ عربیت میں مہارت اور علم نحو سے گہری واقفیت پیدا کرنے کے لیے سیبویہ کی الکتاب، مبرد کی الکامل، ابن قتیبہ کی الکاتب، ابن عبد ربہ کی العقد الفرید، جاحظ کی البیان والتبیین اور ابن جنی کی تصنیفات کا مطالعہ کیو ں نہیں کیا جاتا؟ ابن ہشام کی ہم کتنی ہی تعریف کیوں نہ کریں، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ابن ہشام نے بھی دوسرے متاخرین نحویوں کی طرح نحو کے قواعد کو منطق کی حد بندیوں میں مقید کر دیا ہے۔ نحو کی روح وہاں نہیں۔ مختصرات وشروح فن سے مناسبت پیدا کرنے کے لیے ہیں، ان سے کسی فن پر عبور نہیں ہوتا۔ میں نے حشمت اللہ کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ یہی غلطی اصول فقہ میں بھی ہے۔ عام طور سے لوگ اصول الشاشی اور حسامی پر قناعت کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انھیں فقہ کے اصول کا علم ہے، حالانکہ ان مختصرات کے بعد علم سے اصل مناسبت کی ابتدا ہوتی ہے۔ ان کے بعد اصول السرخسی، اصول البزدوی، امام شافعی کا الرسالہ، آمدی کی الاحکام، شاطبی کی الموافقات اور ابن حزم کی تصنیفات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔(ص ۲۶۔۲۹)
ہمارا درس تین روز سے کتاب الجمعۃ کے باب الاذان کی درج ذیل حدیث کے متعلق ہے: امام بخاری نے اپنی سند سے حضرت سائب بن یزید سے نقل کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ اور ابوبکرؓ وعمرؓ کے عہد میں جمعہ کی پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھتا۔ جب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے اور آبادی میں اضافہ ہو گیا تو آ پ نے زوراء کے مقام پر تیسری اذان کا اضافہ کیا۔ مولانا ضیاء الحسن صاحب اس حدیث کی تشریح محدثین اور فقہا کی اس رائے کے مطابق فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ کے عہد مبارک میں جمعہ کی نماز کے لیے خطبہ کی اذان کے علاوہ کوئی اذان نہیں تھی اور قرآن کریم میں سعی الی الجمعۃ کا حکم جس اذان کے بعد ہے، وہ یہی خطبہ کی اذان ہے۔ جمعہ کی پہلی اذان کا اضافہ حضرت عثمان کے عہد میں ہوا اور اس وقت سے جمعہ میں دو اذانیں جاری ہیں۔ اس تشریح پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ اس حدیث میں حضرت عثمان کے عہد کی اذان کو تیسری اذان کہا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان کے عہد سے پہلے جمعہ کے لیے دو اذانیں تھیں۔ اس اشکال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اقامت بھی ایک قسم کی اذان ہے، اقامت کو شامل کر کے کل تین اذانیں ہو گئیں۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ بخاری شریف کی ایک دوسری روایت میں حضرت عثمان کی اضافہ کردہ اذان کو دوسری اذان کہا گیا ہے۔ اس پر اشکال ہوتا ہے کہ حضرت عثمان کی اضافہ کردہ اذان کو پہلی اذان کہنا چاہیے تھا، تیسری اذان کیوں کہا گیا؟ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ چونکہ اس اذان کا اضافہ بعد میں ہوا تھا، اس لیے اس کو تیسری اذان کہا گیا۔
ہم میں سے بعض طلبہ اس تشریح سے مطمئن نہیں تھے اور کئی روز سے بحث جاری تھی۔ ہم نے اس کی ایک تشریح مولانا شہباز صاحب کی تشریحِ دلائل کے ساتھ بھی سنی تھی۔ ہم لوگوں نے مولانا شہباز صاحب کی تشریح دلائل کے ساتھ دہرائی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ کے لیے دو اذانیں حضور ﷺ کے دور سے ہی تھیں، سورہ جمعہ میں جس اذان کا تذکرہ ہے، وہ پہلی اذان ہے۔ حضرت عثمان نے ایک وقتی ضرورت کے تحت تیسری اذان کا اضافہ کیا تھا، وہ کوئی مستقل اضافہ نہیں تھا، وہ وقتی ضرورت تھی، جیسا کہ حدیث میں خود صراحت ہے کہ مدینہ کی آبادی کی کثرت تھی، اس لیے یہ اذان مدینہ کے دوسرے علاقہ مقام زوراء میں ہوتی تھی۔ زوراء، مدینہ منورہ میں بازار کے پاس ایک جگہ تھی۔ مولانا اپنی اس رائے پر متعدد دلائل دیتے تھے جن کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
قرآن کریم میں جمعہ کی اذان کے متعلق ہے: ’اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ وذروا البیع‘۔ ترجمہ: ’’جب جمعہ کے دن کے لیے نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کے لیے چل نکلو اور کاروبار کو چھوڑ دو۔‘‘ اللہ کے ذکر سے خطبہ اور نماز دونوں مراد ہیں، بلکہ علما کی ایک بڑی جماعت اس سے صرف خطبہ ہی مراد لیتی ہے۔ اب اگر خطبہ والی اذان کے بعد سعی فرض ہو تو مدینہ کے عوالی میں رہنے والوں کی نماز بھی چھوٹ جائے گی، یا کم سے کم خطبہ کا کچھ حصہ ضرور چھوٹ جائے گا، اس لیے قرآن کی آیت سے وہ اذان مراد لینا ضروری ہے جس کے بعد انسان جمعہ کے لیے سعی کرے اور خطبہ اور نماز دونوں میں شرکت کر سکے اور یہ پہلی اذان مراد لینے کی شکل ہی میں ممکن ہے، اس لیے امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک قرآن شریف میں جمعہ کی اذان سے مراد پہلی اذان ہے۔
اذان اور اقامت میں فرق ہے۔ اقامت، جماعت سے متصل ہوتی ہے اور اس کا مقصد جماعت کھڑی ہونے کی اطلاع ہے، جبکہ اذان کا مقصد نماز کے وقت کے دخول کی اطلاع ہے تاکہ لوگ گھروں یا اپنے کام سے فارغ ہو کر نماز کے لیے نکلیں۔ شریعت مطہرہ، جس کا ہر حکم مصالح وحکم پر مبنی ہے، اس میں یہ کس طرح ممکن ہے کہ ساری نمازوں میں تو یہ اطلاع والی اذان ہو اور جمعہ جو ساری نمازوں سے زیادہ اہم ہے، اس کی اطلاع کا کوئی انتظام نہ ہو؟
یہاں ایک نکتہ پر غور کرنا ضروری ہے کہ دخول وقت کی اطلاع کے لیے نماز سے پہلے اذان اور جماعت کے لیے اقامت مشروع ہے۔ آخر خطبہ کی اذان کا کیا مقصد ہے؟ خطبہ کی اذان سے متصل ہی خطبہ کا شروع کیا جانا دلیل ہے کہ یہ اذان وقت کے دخول کی اطلاع نہیں ہے، بلکہ اس کامقصد کچھ اور ہے۔ یہ لوگوں کو متنبہ کرنے کے لیے ہے کہ سنن ونوافل جلدی مکمل کر کے اور دوسری مشغولیات چھوڑ کر امام کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو کر بیٹھ جائیں، اب خطبہ شروع ہونے والا ہے۔ خطبہ کی اذان خطبہ کے لیے ایسی ہی ہے جیسے جماعت کے لیے اقامت۔ 
خطبہ کی اذان امام کے سامنے ہوتی ہے۔ اس کا مقصد، جیسا کہ اوپر گزرا، مسجد میں ہونے والوں کو متنبہ کرنا ہے۔ مدینہ کی آبادی کے بڑھنے یا گھٹنے کا خطبہ کی اذان پر کیا اثر؟ حضرت عثمان کے اضافہ والی حدیث دلیل ہے کہ انھوں نے خطبہ کی اذان کو ناکافی سمجھ کر یہ اضافہ نہیں کیا تھا، بلکہ جمعہ کی پہلی اذان جو اطلاع عام کے لیے ہوتی ہے، آبادی کے اضافہ کی وجہ سے کافی نہیں ہو رہی تھی، اس لیے عارضی طور پر ایک اذان کا اضافہ کر دیا تھا۔ بخاری شریف وغیرہ کی روایت میں حضرت عثمان کی اذان کو تیسری اذان کہنا بھی اسی کا قرینہ ہے کہ جمعہ کی دو اذانیں پہلے سے مشروع تھیں۔ بعض روایتو ں میں حضرت عثمان کی اذان کو دوسری اذان کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جمعہ میں ایک زائد اذان پہلے سے تھی، یہ دوسری زائد اذان تھی، اس لیے اسے دوسری اذان کہا گیا۔
استاد محترم مولانا ضیاء الحسن صاحب اس تشریح سے مطمئن نہیں تھے، لیکن انھوں نے دونوں طرف کے دلائل کو دیکھتے ہوئے فرمایاکہ اس تشریح کی گنجایش نکلتی ہے۔ ( ص ۵۰۔۵۳)
رضوان صاحب نے مدینہ منورہ یونیورسٹی سے تفسیر اور علوم قرآن کے موضوع پر اختصاص کیا ہے۔ اسی سال فارغ ہو کر آئے ہیں اور ندوہ میں تفسیر کے استاد کی حیثیت سے ان کی تقرری ہوئی ہے۔ وہ کئی روز سے میرے پیچھے پڑے ہوئے تھے کہ ان کے ساتھ مولانا فراہیؒ کے نظریہ ’’نظام القرآن‘‘ پر تبادلہ خیال کروں۔ بابر صاحب خاموش ہوئے تو رضوان صاحب نے موقع غنیمت جانتے ہوئے نظام القرآن کا موضوع چھیڑ دیا۔ میں نے عرض کیا کہ وقت تھوڑا ہے، اس وقت اچھی طرح سے گفتگو مشکل ہے۔ اگر ہم مولانا شہباز سے رجوع کریں تو شاید فکر فراہی کو زیادہ بہتر انداز سے سمجھ سکیں۔ مولانا فراہیؒ ایک متقی، پرہیزگار اور دقیقہ رس عالم تھے۔ قرآن کریم کے مطالعہ پر اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔ انھوں نے اپنے اس مطالعہ کا نچوڑ اپنی مکمل اور غیر مکمل تصنیفات ’’اسالیب القرآن‘‘، ’’دلائل النظام‘‘، ’’مقدمہ تفسیر نظام القرآن‘‘ اور ’’مفردات القرآن‘‘ وغیرہ میں پیش کیا ہے۔ ان کی کتاب ’’جمہرۃ البلاغۃ‘‘ اپنے موضوع پر نادر کتاب ہے۔ اس کتاب میں عربی زبان کی بلاغت کے اصول جس مجتہدانہ انداز میں پیش کیے گئے ہیں، اس کی نظیر نہیں۔ مولانا شبلی نے اپنے مقالات میں اس پر اچھا تعارف پیش کیا ہے۔ اسی طرح مولانا فراہیؒ کی تصنیفات ’’الرای الصحیح فی من ہو الذبیح‘‘، ’’الامعان فی اقسام القرآن‘‘ وغیرہ محققانہ ومجتہدانہ معلومات پر مشتمل ہیں۔ ان کتابوں کے مطالعہ سے مولانا فراہی کی فکر کی حقیقت واضح ہوگی۔
میں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم کے منظم اور مرتب کتاب ہونے کا تصور متقدمین کے یہاں موجود ہے اور تقریباً ہر معتبر تفسیر میں ربط آیات کی کوششوں کے نمونے ملیں گے۔ مولانا فراہیؒ نے اس موضوع کی اہمیت کو سمجھا اور اس پر پوری محنت کی، یہاں تک کہ اس زمین کو آسمان بنا دیا۔ مولانا فراہیؒ نے واضح کیا ہے کہ ہر سورہ کا ماقبل ومابعد کی سورتوں سے اور ہر آیت کا ماقبل ومابعد کی آیتوں سے ربط ہے۔ قرآن کا ترتیب نزولی پر نہ ہونا اس نظم کی بہت بڑی دلیل ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مولانا فراہیؒ نے جس طرح نظم کی تشریح کی ہے، اس سے ان کے نظریہ پر شرح صدر ہو جاتا ہے، لیکن اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ ہر آیت کا نظام بتانے میں وہ یکساں طور پر کامیاب ہیں، نہ ان کو اس کا دعویٰ ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔ ان سے اختلاف کی گنجایش موجود ہے۔
میری گفتگو جاری ہی تھی کہ ابراہیم صاحب نے کہا کہ اکرم، اس نظم کی کوئی اچھی سی مثال دو جس سے بات ذرا واضح ہو۔ میں نے عرض کیا کہ مولانا شہباز صاحب کے حوالہ سے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ مولانا کا کہنا ہے کہ نظم کے ذریعہ قرآن کریم کی معنوی تحریفات اور بہت سی تفسیری غلطیوں کا سدباب کیا جا سکتا ہے۔ اس کی مثال مولانا سورۃ الاحزاب کی آیت ’ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین‘  پیش کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کے پاس مہر نبوت تھی۔ آپ کے بعد جو بھی نبی آئے گا، آپ کی مہر نبوت کی تصدیق سے آئے گا، کوئی مستقل نبی نہیں آ سکتا۔ قادیانیوں کا یہ استدلال آیت کے سیاق سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ نظم قرآنی کی روشنی میں آیت کی تفسیر یہ ہے کہ عربوں کے رسم ورواج میں متبنیٰ کو حقیقی بیٹے کا مقام حاصل تھا۔ قرآن نے اس رسم کو ختم کرنا چاہا اور حکم دیا کہ لوگوں کو ان کے حقیقی باپ کی طرف منسوب کیا جائے۔ حضرت زید جو کہ حضور ﷺ کے متبنیٰ تھے، ان کو زید بن محمد کہا کرتے تھے۔ سورۃ الاحزاب کے نزول کے بعد زید بن حارثہ کہنا شروع کیا۔ زید بن حارثہ کی شادی نبی اکرم ﷺ کے مشورہ سے حضرت زینب سے ہوئی، لیکن یہ رشتا نبھا نہیں۔ حضرت زید نے طلا ق دے دی جس سے حضرت زینب کو مزید شکستگی ہوئی۔ آپ ﷺ کے دل میں آیا کہ آپ خود حضرت زینب سے نکاح کر لیں تو ان کے دل کی شکستگی دور ہو جائے گی، لیکن اس میں اندیشہ تھا کہ لوگ کہیں گے کہ محمد ﷺ نے اپنی بہو سے شادی کر لی۔ قرآن کریم نے اس موقع پر یہ رسم ختم کرنا چاہی، اس لیے واضح فرما دیا کہ ’ماکان محمد ابا احد من رجالکم‘  چونکہ محمد ﷺ حضرت زید کے باپ نہیں ہیں، اس لیے زینب سے شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس پر یہ سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ اگرچہ آپ زید کے باپ نہیں ہیں، پھر بھی کیا ضروری ہے کہ آپ زینب سے شادی کریں۔ اس لیے فرمایا کہ ’ولکن رسول اللہ‘، چونکہ آپ خدا کے پیغمبر ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ آپ کے ذریعہ یہ جاہلانہ رسم توڑ دی جائے۔ آپ کی رسالت کی ذمہ داری ہے کہ آپ جاہلیت کی تمام رسموں کا خاتمہ کریں۔ اس پر یہ بات ذہنوں میں آ سکتی تھی کہ کیا ضروری ہے کہ اتنے بڑے پیغمبر اس کام کو کریں۔ ان کے بعد جو نبی آئیں گے، وہ اس رسم کو ختم کر سکتے ہیں۔ اس شبہ کو دور کرنے کے لیے فرمایا کہ ’وخاتم النبیین‘، آ پ نبیوں کی مہر ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا ہے، اس لیے اس رسم کو توڑنا آپ ہی کے ذمہ ہے۔ اس مثال سے سبھی لوگ محظوظ ہوئے۔ (ص ۳۴۔۳۶)
رضی الاسلام نے کھانے کے دوران ذکر کیا کہ وہ آج کل سورۃ الفیل پر مولانا فراہیؒ کی تفسیر کی تردید لکھ رہے ہیں اور انہوں نے اس پر اچھا خاصا مواد اکٹھا کر لیا ہے۔ عبد الحی نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فراہیؒ علم وفضل کے اتنے عظیم مقام پر فائز تھے اور تقویٰ وپرہیز گاری میں بھی معاصرین سے ممتاز تھے، انھوں نے اس سورہ کی تفسیر میں جمہور کی رائے کی مخالفت کیسے کی۔ اس پر طارق نے کہا کہ مولانا فراہیؒ بھی انسان تھے اور غلطی کس سے نہیں ہوتی۔ آفتاب صاحب نے مولانا فراہی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ بات اتنی سادہ نہیں ہے جس طرح مخالفین نے پیش کی ہے۔ جاہلی شاعری پر مولانا فراہی کی گہری نظر ہے۔ عربوں نے اپنے اشعار میں اس پر فخر کیا ہے کہ انہوں نے ابرہہ کے لشکر پر حملہ کیا اور اسے شکست دے دی، اور یہ کہ پرندے مردہ لاشوں کی وجہ سے اکٹھا ہوئے تھے۔ رضی الاسلام نے اس پر اعتراض کیا کہ ایک طرف تو مولانا فراہی احادیث کی روایت کے بارے میں سخت محتاط ہیں، ان کے یہاں صحیح روایات سے کھلا ہوا اعراض موجود ہے۔ اشعار عرب کی سندیں ضعیف احادیث سے بھی کمزور ہیں اور حماد الراویۃ اور خلف الاحیر وغیرہ پر کثرت سے اشعار وضع کرنے کے الزامات ہیں۔ یہاں ایک اہم نکتہ کی نشان دہی ضروری ہے کہ شعرا کی مفاخرت کا صحیح مفہوم سمجھنا چاہیے۔ شعراے عرب کا یہ کہنا کہ ہم نے ابرہہ کے لشکر کو شکست دی ہے، اس مفہوم میں نہیں ہے کہ انہوں نے مقابلہ کر کے شکست دی ہے، بلکہ انہوں نے ابرہہ پر آنے والے عذاب الٰہی کو اپنے دین وموقف کی حقانیت کی تائید کے لیے استعمال کیا ہے۔ (ص ۶۷)
آج کل صبح کے وقت ابن حزمؒ کی ’’المحلیٰ‘‘ کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ یہ سوچ کر کہ ناغہ نہ ہو، کتاب کے ایک حصہ کا مطالعہ کیا۔ میں ابن حزمؒ کے دلائل کی قوت سے اتنا متاثر نہیں ہوں جتنا مجھ پر اس کا اثر ہے کہ جب اسلام کی تہذیب کو غلبہ تھا، لوگ کتنی آزادی سے سوچتے تھے۔ ان کے اجتہادات معاشرے کی صحت مند تعمیر میں حصہ لیتے تھے۔ نہ کہیں کوئی انتشار اور بد مزگی وافتراق۔ یونس صدقی کا قول یاد آتا ہے کہ میں نے امام شافعی سے زیادہ عقل مند کسی کو نہیں دیکھا۔ کسی مسئلہ پر ان سے ایک روز میں نے مناظرہ کیا۔ مناظرہ کے بعد ہم نے اپنی اپنی راہ لی۔ کچھ دنوں کے بعد ان سے میری ملاقات ہوئی۔ میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا، ابوموسیٰ، (یونس کی کنیت) کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہمارا کسی مسئلہ میں اختلاف ہو، تب بھی ہم بھائی بھائی بن کر رہیں؟ میرے ذہن میں آیا کہ ندوہ کے نصاب اور اس کے نظام تعلیم کی یہی دعوت ہے کہ عہد ماضی کا یہ زریں دور دوبارہ آ جائے۔ ندوہ کی فکر کا اہم پہلو یہ ہے کہ اصولوں پر سختی سے کاربند رہنے کے باوجود ہمارے دل اتنے وسیع ہوں کہ فروعی اختلافات ہمیں فرقہ بندی اور گروہ بندی کی دلدل میں نہ پھنسا سکیں۔ (ص ۳۶، ۳۷)
عبد المبین نے بتایا کہ وہ اورنگ آباد کسی کام سے گئے ہوئے تھے، وہاں کسی نے ’تعمیر حیات‘ میں شائع ہونے والے طارق کے فقہی سوال وجواب کی بڑی تعریف کی اور کہنے لگے کہ ان فتووں کو کتابی شکل میں شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ یہ مسائل تو پہلے ہی سے کتابوں میں موجود ہیں۔ عبد الحی نے کہا کہ طارق، تمہارا طریقہ فتویٰ نویسی ندوہ کے مسلک اور طرز زندگی کی نمائندگی نہیں کر رہا ہے۔ بار بار ’’صورت مسؤلہ‘‘ وغیرہ جیسی ثقیل ترکیبیں بانیان ندوہ مولانا شبلی، مولانا حبیب الرحمن خان شیروانی وغیرہ جیسے صاحب طرز ادیبوں کی ارواح کے لیے تکلیف کا باعث ہیں۔ آخر دیکھو، مصر میں مفتی محمد عبدہ، رشید رضا اور آج کل شیخ قرضاوی نے فتویٰ کی زبان کو کتنی ترقی دی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ طارق، ان سے تمہیں صرف فتویٰ کی زبان ہی نہیں، بلکہ منہج بھی اخذ کرنا چاہیے۔ فتویٰ نویسی کا ایک زمانہ میں معیار یہ تھا کہ اس میں الفاظ کم سے کم مستعمل ہوں، لیکن یہ طریقہ صحیح نہیں۔ فتویٰ نویسی میں قرآن وسنت کے دلائل اور عقلی حکمتوں کا بھی حوالہ ہونا چاہیے۔ اس سے سوال کرنے والوں کو اطمینان حاصل ہوگا اور ان کے علم میں اضافہ بھی ہوگا۔ قرآن کریم کو دیکھو کہ سوالوں کے جواب میں کتنی رعایتیں ملحوظ ہیں اور حدیث شریف تو اس طرح کی مثالوں سے پُر ہے۔ اسی طرح حدیث کے حوالوں میں صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ایک حدیث میں آیا ہے، بلکہ کتاب اور باب کے حوالہ سے پوری حدیث نقل کرنی چاہیے اور حدیث موطا اور صحیحین میں نہیں ہے تو ائمہ حدیث کے حوالہ سے اس کا درجہ بھی متعین کرنا چاہیے۔ (ص ۶۸)
وزیر کو جدید اردو ادب اور تنقید سے بڑی دلچسپی ہے۔ نیاز فتح پوری، مجنوں گورکھ پوری، مہدی افادی، کلیم الدین احمد، رشید احمد صدیقی، آل احمد سرور وغیرہ کی تحریریں ساتھیوں نے وزیر ہی کی دیکھا دیکھی پڑھی ہیں۔ آج کل ’نکات مجنوں‘ وزیر کے مطالعہ میں ہے۔ زاہد صاحب اور فٹ بال میچ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے وزیر نے مجنوں کی سخن فہمی اور تنقید نگاری پر تبصرہ کرنا شروع کردیا۔ دوران گفتگو وزیر نے میر حسن کی مثنوی ’سحر البیان‘ کے یہ اشعار پڑھے:
وہ گانے کا عالم وہ حسن بتاں
وہ گلشن کی خوبی وہ دن کا سماں
گھڑی چار دن باقی اس وقت تھا
سہانا ہر اک طرف سایہ ڈھلا
درختوں کی کچھ چھاؤں اور کچھ وہ دھوپ
وہ دھانوں کی سبزی وہ سرسوں کا روپ
وزیر نے آخری شعر کے بارے میں میری رائے معلوم کرنا چاہی۔ میں نے مولانا حالی کا اعتراض دہرایا جسے انھوں نے ’’مقدمہ شعر وشاعری‘‘ میں فن مثنوی سے بحث کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ قصہ کے ضمن میں کوئی ایسی بات بیان نہ کی جائے جو تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف ہو اور مثنوی کے اس آخری شعر کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ آخری مصرع سے صاف یہ مفہوم ہوتا ہے کہ ایک طرف دھان کھڑے تھے اور ایک طرف سرسوں پھول رہی تھی، مگر یہ بات واقعہ کے خلاف ہے، کیونکہ دھان خریف میں ہوتے ہیں اور سرسوں ربیع میں گیہوں کے ساتھ بوئی جاتی ہے۔
وزیر نے کہا کہ خواجہ الطاف حسین حالی کی پیروی میں تمام تنقید نگاروں نے اس امر پر یہی اعتراض کیا ہے۔ اندھی تقلید نے جس طرح فقہی مسالک کو نقصان پہنچایا ہے، اسی طرح ادب وتنقید بھی اس سے محفوظ نہ رہے۔ مجنوں پہلا نقاد ہے جس نے اس روش عام کی پیروی نہیں کی۔ اسے تشبیہات واستعارات کی دنیا میں میر حسن کے مقام کی عظمت کا احساس ہے اور اس نے شعر کی ایسی تشریح کی ہے کہ کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔
وزیر نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مجنوں نے اس شعر کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے سیدھے سادھے شعر کو سمجھنے میں ایسا شدید اور متواتر مغالطہ کیوں ہوتا چلا آیا ہے۔ یہ سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی کہ میر حسن کا مقصد یہ ہے کہ باغ میں واقعی ایک طرف دھان بوئے تھے اور دوسری طرف سرسوں۔ دوسرا مصرع تو استعارہ ہے ۔ ’’دھانوں کی سبزی‘‘ اور ’’سرسوں کے روپ‘‘ سے ’’درختوں کی کچھ چھاؤں‘‘ اور ’’کچھ دھوپ‘‘ کو تشبیہ دی گئی ہے اور اس طرح کہ تشبیہ، تشبیہ نہیں معلوم ہوتی۔ میر حسن کے تشبیہات واستعارات ان کے کمال تخیل کی بین دلیل ہیں۔ مجنوں کی تشریح پر ہم لوگ جھوم اٹھے اور مجنوں کی خوش فہمی اور ذوق کی بلندی کی داد دینی پڑی۔ اور جب مثنوی کے اس شعر پر نگاہ ڈالتے ہیں تو سخت استعجاب ہوتا ہے کہ اس سیدھے سادھے شعر کو سمجھنے میں حالی جیسے سخن فہم اور نقاد کو کیسے مغالطہ ہو گیا۔ (ص ۷۵۔۷۶)
مطیع الرحمن صاحب نے دیکھا کہ ہم لوگ ننگے سر کھانا کھا رہے ہیں تو بڑے حیرت زدہ ہوئے۔ کہنے لگے کہ آپ لوگ سنت کے خلاف کر رہے ہیں۔ عمر لداخی نے کہا کہ میں نے حدیث کی کتابوں میں کھانے کے آداب کے ابواب کی کئی بار مراجعت کی ہے اور اہل علم سے پوچھا بھی ہے کہ کیا کھانے کے وقت سر چھپانے کے متعلق کوئی قولی یا فعلی حدیث ہے یا آثار صحابہ سے اس سلسلے میں کوئی روشنی پڑتی ہے۔ مجھے اس تحقیق اور تلاش وجستجو کے دوران کہیں کوئی دلیل نہیں ملی۔ اگر آپ کے پاس کوئی دلیل ہو تو بتائیں۔ مطیع الرحمن صاحب نے کہا کہ میں نے ہمیشہ تبلیغی جماعت والوں کو ٹوپی لگا کر کھانا کھاتے دیکھا ہے اور تبلیغ والے ہر کام میں سنت کی پیروی کرتے ہیں۔ اس پرمولانا نے ان کو سمجھایا کہ تبلیغی جماعت یا کسی جماعت یا فرد کا عمل حجت نہیں، بلکہ تبلیغ والوں کو اپنے اس عمل کی دلیل پیش کرنی چاہیے۔ اس پر مجھے عبد الحکم کا واقعہ یاد آ گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں میری ملاقات عبد الملک بن الماجشون سے ہوئی۔ ان سے میں نے ایک مسئلہ پوچھا جس کا انھوں نے جواب دیا۔ میں نے دلیل پوچھی تو انھوں نے امام مالک کے کسی قول کا حوالہ دیا۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ میں نے کہا کہ میں آپ سے دلیل مانگتا ہوں تو آپ کہتے ہیں کہ میرے استاد کا یہ قول ہے، حالانکہ آپ اور آپ کے استاد دونوں دلیل کے محتاج ہیں۔ (ص ۹۲)
حیدر صاحب نے اس پر افسوس کا اظہار کیاکہ بعض حنفی لوگ سفر میں جمع بین الصلاتین کرتے ہیں جو کسی طرح مناسب نہیں۔ میں نے کہا کہ جمع بین الصلاتین کے مسئلہ پر اتنی سختی صحیح نہیں، خاص طور سے جب اس کے جواز کی حدیثیں موجود ہیں اور علما کی بڑی جماعت اس کی موید ہے۔ کہنے لگے کہ لیکن احناف کی فقہ کی رو سے اس کی کوئی گنجایش نہیں۔ مجھے اس سے اختلاف تھا۔ میں نے اپنا موقف واضح کیا کہ حنفی اصول فقہ کی رو سے بھی سفر وغیرہ میں جمع بین الصلاتین کے جواز کی تائید ہوتی ہے۔ حیدر بھائی نے قرآن کریم کی آیت ’ان الصلوۃ کانت علی المومنین کتابا موقوتا‘  کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بات دہرائی کہ یہ آیت قطعی ہے کہ نمازوں کی ادائیگی وقت پر ہونی چاہیے۔ خبر واحد یا قیاس سے اس کی تخصیص کی گنجایش نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ یہ بات بار بار کہی جا رہی ہے کہ یہ آیت اپنے عموم میں نص قطعی ہے، حالانکہ یہ واقعہ کے خلاف ہے۔ کیا عرفات اور مزدلفہ میں حاجیوں کے لیے جمع بین الصلاتین پر اجماع نہیں ہے؟ کیا یہ اجماع واضح نہیں کر رہا ہے کہ یہ آیت اپنے عموم پر نہیں اور جب آیت اپنے عموم پر نہیں رہی اور مخصوص منہ البعض ہو گئی تو کیا خود احناف کے قواعد کی رو سے خبر واحد اور قیاس دونوں سے اس کی مزید تخصیص نہیں ہو سکتی ہے؟ اس لیے حالت سفر اور مرض میں جمع بین الصلاتین تو احناف کے یہاں بھی صحیح ہونا چاہیے۔
حیدر بھائی نے اس پر امام ترمذی کی حدیث کا حوالہ دیا کہ حضور ﷺ نے ایک بار سفر، مرض یا بارش کے عذر کے بغیر جمع بین الصلاتین کی تھی، مگر امام ترمذی نے اس حدیث کو اپنی سنن کی ان دو حدیثوں میں شمار کیا ہے جن پر اہل علم میں سے کسی کا عمل نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ امام ترمذی کا قول صحیح ہے اور ائمہ کا عمل اصول فقہ کے قواعد کی روشنی میں بجا ہے، کیونکہ عام مخصوص منہ البعض کی تخصیص خبر واحد یا قیاس سے اس وقت تک صحیح ہے جب تک کہ اس عام کے تحت کم سے کم تین فرد باقی رہیں۔ مذکورہ بالا حدیث پر عمل کرنے کے بعد آیت کا کوئی محمل باقی نہیں رہے گا۔ آفتاب نے کہا کہ لیکن اس موقع پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ جمع بین الصلاتین کی احادیث کی تاویل کی جائے اور جمع سے مراد جمع صوری لی جائے تو قرآن وحدیث میں تطبیق کی ایک شکل نکل آئے گی۔ میں نے عرض کیا کہ جمع صوری مراد لینے میں دو رکاوٹیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ جمع کی جو نظیر موجود ہے، وہ جمع حقیقی کی ہے، جمع صوری کی کوئی نظیر نہیں۔ عرفہ ومزدلفہ میں جمع کا ثبوت ظاہر کرتا ہے کہ جمع سے جمع حقیقی ہی مراد ہوگی۔ فقہا نظیر کو نظیر پر قیاس کرنے کے قائل ہیں۔ دوسری دشواری یہ ہے کہ سفر کے مسائل آسانی پر مبنی ہیں۔ جمع صوری سے وقت اور تنگ ہو جاتا ہے، اس لیے مسافر کو بجاے آسانی کے اور زحمت ہوگی۔ (ص ۹۳۔۹۵)
مفتی اشتیاق صاحب کوئی کتاب دبائے ہوئے دوبارہ آئے۔ میں نے پوچھا کہ یہ آپ کے ہاتھ میں کون سی کتاب ہے؟ کہنے لگے کہ مولانا مودودیؒ کی ’خلافت وملوکیت‘ ہے۔ وزیر سے پڑھنے کے لیے لی تھی۔ اب پڑھ لی ہے، اس لیے واپس کرنے آیا ہوں۔ عمر لداخی نے کہا کہ وزیر کا کام لوگوں کا ذہن خراب کرنا ہے۔ مفتی اشتیاق عالم اور مفتی ہیں، یہاں ادب کی تعلیم حاصل کرنے آئے ہیں، ان کو خلافت وملوکیت دے دی۔ وزیر نے کہا کہ بات یہ ہے کہ میری اور مفتی صاحب کی بات ہو رہی تھی۔ مفتی صاحب مولانا مودودی کی تحریروں، خاص طور سے ’خلافت وملوکیت‘ پر تنقید کر رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ مفتی صاحب، کیا آپ نے ’خلافت وملوکیت‘ پڑھی ہے؟ کہنے لگے کہ اس پر بعض لوگوں کی تنقید پڑھی ہے۔ میں نے کہا کہ آپ مجھ سے کتاب لے کر پڑھیں۔ اس کے بعد جو رائے چاہیں، قائم کریں۔ عبد الحی نے استفسار کیا کہ مفتی صاحب، کیا رائے ہے؟ کہنے لگے کہ مجھے کوئی قابل اعتراض چیز نظر نہیںآئی۔ ابراہیم صاحب نے تبصرہ کیا کہ مولانا مودودی ذہین انسان ہیں، انھوں نے مقدمہ میں اس کتاب کی وجہ تالیف اور کتاب کے مراجع کے بارے میں اتنی معصومیت سے لکھا ہے کہ ایک عام قاری ان کے خلوص سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، حالانکہ اگر مولانا مودودی اتنے مخلص تھے تو ان کو چاہیے تھا کہ تاریخ اسلام کے مشکل مسائل میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے اہل علم سے مراجعت کرتے، ہو سکتا ہے کہ بعض غلطیوں سے بچ جاتے۔ آفتاب نے کہا کہ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ مودودی صاحب نے حدیث کی کتابیں باقاعدہ کسی استاد سے نہیں پڑھی ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ان کو محدثین کی اصطلاحات سے واقفیت نہیں۔
وزیر نے اس تبصرہ سے تنگ آ کر کہا کہ ان جزئیات کو چھوڑیے۔ عصر حاضر میں مولانا مودودیؒ پہلے شخص ہیں جنھوں نے خالص اسلامی ریاست کے قیام کی بات کی ہے اور اپنی مختلف تحریروں میں اس کو واضح کیا ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، یہ خدا کی طرف سے نازل کردہ نظام ہے، اس لیے نہیں آیا تھا کہ مدرسوں میں اس پر بحثیں ہوں، کتابوں میں اس کے متعلق لکھا جائے اور عملاً اس کے نفاذ کی کوشش نہ کی جائے۔ جس خدا کی غلامی کی ہم بات کرتے ہیں، کیا اسی نے نماز اور روزہ کے علاوہ وہ احکام نہیں دیے جن کا نفاذ حکومت الٰہیہ کے قیام کے بغیر ناممکن ہے؟
حشمت اللہ نے اس موضوع پر فیصلہ کن انداز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مغربی تہذیب پر حملہ کرنے میں مولانا مودودی کی مثال امام غزالی کی ہے۔ امام غزالیؒ نے یونانی فلسفہ کے ہتھیار سے یونانی فلسفہ پر حملہ کیا اور ’تہافت الفلاسفہ‘ لکھ کر ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ مولانا مودودیؒ ، سید قطب شہیدؒ ، مالک بن نبیؒ اور محمد مبارکؒ نے مغربی تہذیب کے مقابلہ میں یہی روش اختیار کی۔ ان حضرات نے مغرب کے اسلحہ سے مغرب پر حملہ کیا۔ یونانی عقلیت پسندی کا ایک جواب وہ تھا جو مولانا رومؒ نے اپنی تحریروں سے فراہم کیا۔ انھوں نے روحانیت کے طاقت ور ہتھیار سے یونان کی عقل پسندی اور مادہ پرستی کا جواب دیا۔ اس میں عطار وغیرہ ان کے شریک رہے ہیں۔ ان کا پیغام تھا:
چند خوانی حکمت یونانیاں
حکمت ایمانیاں را ہم بخواں
عصر حاضر میں مغرب کی عقلیت پسندی کے خلاف لسان العصر اکبر الٰہ آبادیؒ اور شاعر اسلام علامہ اقبالؒ نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا اور اس میں ان کو بڑی کامیابی ملی۔ ان حضرات کے کردار کی نمائندگی درج ذیل شعر سے ہوتی ہے:
تاریخ جنوں یہ ہے کہ ہر دور خرد میں
اک سلسلہ دار ورسن ہم نے بنایا
حشمت اللہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ غزالی کا طریقہ ان کے عصر کے لیے مفید تھا، مگر ضرورت تھی ایک ایسے شخص کی جو اپنے ہتھیار سے فلسفہ یونان پر حملہ کرے۔ امام ابن تیمیہ علوم نبوت سے لیس تھے، یونانی علوم فلسفہ سے گہری واقفیت کے باوجود اس کے اثرات سے ہر طرح محفوظ تھے، انھوں نے اس فلسفہ کی چولیں ہلا دیں، اس کی جڑیں اکھیڑ دیں، اسے بے دست وپا کر دیا۔ ان کے اندر مرعوبیت نہیں تھی۔ غزالی کے طریقہ کار کی خامی یہ ہے کہ ’تہافت‘ کا جواب ’تہافت التہافت‘ کی شکل میں دے دیا گیا، مگر امام ابن تیمیہ کی ’الرد علی المنطقیین‘ آج تک لاجواب ہے، بلکہ جدید منطق کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی نے ابن تیمیہؒ کے اعتراضات کی روشنی میں اسے مرتب کیا ہے۔ عصر حاضر کو ایک ابن تیمیہ کی ضرورت ہے۔ مولانا شبلی کو ابن تیمیہ کی عظمت کا احساس بہت بعد میں ہوا اور جب ہوا تو انھوں نے مکتوبات میں صراحت کی کہ ابن تیمیہ کی لائف فرض اولین ہے۔ مجھے اس شخص کے سامنے رازی وغزالی سب ہیچ نظر آتے ہیں۔ مولانا آزاد کی ترجمان القرآن اور تاریخ دعوت وعزیمت کے مطالعہ سے لگتا ہے کہ ان پر ابن تیمیہ کا کچھ رنگ ہے، لیکن سیاست میں لگ کر وہ اس کام کو آگے نہ بڑھا سکے، چنانچہ ابھی تک ابن تیمیہ کی جگہ خالی ہے۔
ہم لوگ حشمت اللہ کی اس تشریح سے اس قدر متاثر ہوئے کہ کسی نے بھی اس سے نااتفاقی ظاہر نہیں کی۔ سب لوگ اس سے مکمل متفق نظر آ رہے تھے۔ صرف آفتاب کا چہرہ کسی تاثر سے خالی تھا۔ ہم لوگوں نے آفتاب صاحب سے کہا کہ آپ کی یہ گم صم ہونے کی عادت اچھی نہیں ہے۔ حشمت اللہ نے اتنا زبردست نکتہ بیان کیا ہے، کیا آپ اس کی داد بھی نہیں دے سکتے؟ آفتاب کہنے لگے کہ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا کہ ابن تیمیہ کا طریقہ کار فکر اسلامی کی آخری منزل ہے، بلکہ امام غزالی کی طرح امام ابن تیمیہ کا انداز بھی فکر اسلامی کا ایک ناگزیر اور وقتی مرحلہ ہے۔ منزل اس سے بھی آگے ہے۔ عبد الحی کہنے لگے کہ اب اس سے آگے کون سی منزل ہوگی؟ کہیں منزل کی تلاش میں دور نہ نکل جائیں۔ آفتاب نے کہا کہ ملحدانہ فکر وفلسفہ کی تردید سے کمزور لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے، ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ امام غزالی نے غیروں کے ہتھیار سے یہ کام کیا ہے، ابن تیمیہ نے اپنے ہی ہتھیار استعمال کیے۔ لیکن پیغمبر اپنوں اور غیروں، سب پر ہمدردی کی نگاہ ڈالتے ہیں۔ پوری انسانیت ان کی امتِ دعوت ہے اور شیطان ان کا دشمن۔ ایک پیغمبر کی کوشش ہوتی ہے کہ تردید میں الجھے بغیر اخلاص وہمدردی کے ساتھ دعوت دے۔ جدل اس کی دعوت میں ہوتا ہے، لیکن نہایت حکمت کے ساتھ اور بہت ناگزیر حالات میں۔ پیغمبر کی دعوت مثبت ہوتی ہے۔ عصر حاضر میں پیغمبرانہ اسلوب کی جھلکیاں حسن البناء شہید، مولانا الیاس کاندھلوی، اور مولانا ابو الحسن علی الندوی کے یہاں ملتی ہیں۔ اس طریقہ کی اہم اساس افراد اور معاشرہ کی اصلاح اور انسانیت پر ہمدردانہ نگاہ ہے۔
بدلنا ہے تو رندوں سے کہو اپنا چلن بدلیں
فقط ساقی بدل دینے سے میخانہ نہ بدلے گا 
(ص ۱۰۸۔۱۱۲)

ثقافتی امتیازات اور مذہبی مزاج

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

مسجدیں اسلامی مرکز کے طور پر پورے امریکہ میں استعمال ہوتی ہیں۔ یہ کمیونٹی سنٹر ہیں جن میں لکچر ہال بھی ہے اور لائبریری بھی ہے اور ان میں عارضی اقامت گاہیں بھی ہیں۔ یہ وہ پاور ہاؤس ہے جس سے مسلمان گھروں میں ایمان کی حرارت پھیلتی ہے اور اخلاق وکردار کانور تقسیم ہوتا ہے۔ امریکہ کی یہ مسجدیں ہندوستان کی عام مسجدوں سے کسی قدر مختلف ہیں۔ ان مساجد میں خواتین بھی نماز میں شریک ہوتی ہیں۔ سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں۔ ایک بڑی مسجد میں نماز جمعہ کے ختم ہونے کے بعد میں نے نظر ڈالی تو مسجد کی پانچ چھ صفوں میں بمشکل چار پانچ آدمی سر پر ٹوپی پہنے ہوئے نظر آئے۔ ٹوپی پہننے والوں کو سر برہنہ نماز پڑھنے والوں پر کوئی اعتراض نہ تھا کیونکہ انھیں دین اور ثقافت کا فرق معلوم تھا۔
ان مساجد سے گہری وابستگی رکھنے والے افریقی امریکی مسلمان بھی ہیں اور برصغیر یا مڈل ایسٹ سے آنے والے مسلمان بھی ہیں، لیکن ان دونوں کے درمیان اس فرق کا احساس بھی پایا جاتا ہے کہ اول الذکر مسلمان نسلی امتیاز کو ختم کرنے اور عیسائیت اور اسلام یا یہودیت اور اسلام کے درمیان برصغیر، مشرق وسطیٰ اور بوسنیا کے حالات سے زیادہ گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ مسلمانوں کے ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک گونہ ذوقی فاصلہ پایا جاتا ہے۔ افریقی امریکی بلیک مسلمان یہ محسوس کرتے ہیں کہ دوسرے ملکوں کے تارکین وطن مسلمان انھیں ادنیٰ درجہ کامسلمان سمجھتے ہیں، محض اس بنا پر کہ عربی زبان کی ثقافت سے ان کا رشتہ کمزور ہے اور قرآن وحدیث روانی کے ساتھ نہیں پڑھ سکتے۔پشتینی مسلمانوں کی اس ذہنیت کو سمجھنے کے لیے یہ واقعہ کافی ہے کہ ہندوستان کی ایک درسگاہ کے مفتی بزرگ نے سفر میں ایک ایسی مسجد میں میرے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھی جو افریقی امریکی بلیک مسلمانوں کے زیر انتظام تھی۔ جمعہ کے دونوں خطبے انگریزی زبان میں ہوئے۔ نو مسلم خطیب کے لیے قرآن کی آیات اور احادیث کے تلفظ میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ وہ بزرگ خطبہ کے دوران اپنی کتاب کا مطالعہ کرتے رہے اور جمعہ کی نماز کے بعد انھوں نے اپنی نماز دہرائی۔ میرے لیے ان کا یہ طرز عمل سوہان روح تھا اور مجھے ان کے طرز عمل پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنا پڑا۔ بجائے اس کے کہ وہ ایک نو مسلم کے اسلام کی قدر کرتے، انھوں نے افتراق بین المسلمین کا نمونہ پیش کیا۔ 
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اسلام کی تاریخ میں گروہ بندی اور مسلکی اختلاف کی اصل وجہ نئی قوموں کا اسلام میں داخل ہونا ہے، کیونکہ ہر قوم اپنی خصوصیات اور ذہنی پس منظر کے ساتھ دین میں داخل ہوتی ہے۔ آئندہ بھی یورپ اور ایشیا کی بعض قومیں دین اسلام میں داخل ہو سکتی ہیں اور ان ہی سے شجر اسلام بار آور ہوگا۔ موجودہ مسلم ممالک میں وہ توانائی اور طاقت نہیں کہ نہضتِ اسلام کا بوجھ ان کے شانوں پر رکھا جا سکے۔ نئی زندہ قوموں کے دین اسلام میں استقبال کے لیے ذہن وفکر کی بے پناہ کشادگی اور قلب کی غیر معمولی وسعت درکار ہے۔ فروعی امور کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینا اور ہر بات میں کسی فتویٰ کی کتاب کا حوالہ دینا اور کج بحثی میں مبتلا ہونا زوال آمادہ قوموں کی خاص پہچان ہے۔ یہ اسلام کے سیلِ رواں پر بند باندھنے کے مرادف ہے۔ یہ دین کی وہ نام نہاد خدمت ہے جس سے بڑھ کر کوئی اور مضرت نہیں ہو سکتی اور اسی قماش کے لوگوں کے لیے اقبال کا یہ مصرعہ ہے ’’دین ملا فی سبیل اللہ فساد‘‘۔ مثال کے طور پر امریکہ اور یورپ میں جمعہ کے دن خواتین چھوٹے بچوں کے ساتھ مسجدوں میں آتی ہیں۔ اتوار کے دن مسجدوں کے اسلامی پروگرام میں ساتر لباس میں شریک ہوتی ہیں۔ ان شریک ہونے والیوں میں بہت سی نومسلم خواتین ہوتی ہیں۔ ان ملکوں میں اسلامی تشخص کی حفاظت اور بچوں کی تربیت اور دینی ماحول سازی کے لیے یہ ایک ضروری کام ہے، لیکن کوئی روایتی قسم کا عالم اگر روکنے کی کوشش کرے تو یہ بدبختی اور نادانی کی بات ہوگی اور عقل وحکمت سے تہی دامنی کی پہچان ہوگی، اور یہ طرز عمل نومسلم خواتین کو اسلامی سوسائٹی میں ضم ہونے سے اور غیر مسلم خواتین کو اسلام میں داخلہ سے روک دے گا۔
اسی طرح سے مسلمان اپنے مذہبی اختلافات کو جتنا زیادہ ظاہر کریں گے، اتنا ہی زیادہ وہ ان غیر مسلموں کو نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا کریں گے جو اسلام سے قریب ہو رہے ہیں اور اسلام قبول کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اس اندیشہ فردا کاذکر زبان قلم پر اس لیے آیا ہے کہ بہت سے مسلمان جو اسلامی ملکوں سے آکر امریکہ میں بسے ہیں، وہ اختلافات کی آلائشیں اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں اور اختلافات کی آلائشوں کا انبار امریکہ میں اسلام کے بڑھتے ہوئے قدم کو روک سکتا ہے۔ مستقبل میں اسلامی انقلاب کا رونما ہونا اور مسلمانوں کا پھر سے قوت حاصل کر لینا نئی قوموں کے اسلام میں داخلہ پر منحصر ہے۔ اس کے لیے خردہ گیری سے بچنے کی عادت درکار ہے۔ اس کے لیے ذہن کی آفاقیت، قلب کی وہ بے کراں وسعت مطلوب ہے جو مہمان عزیز کا خوش دلی کے ساتھ استقبال کرے اور فروعی چیزوں پر مشتعل نہ ہو۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اسلام کا Modernity یعنی جدت سے کوئی اصولی ٹکراؤ نہیں ہے۔ اس بارے میں سنی علما کو اپنے حلقہ میں اور شیعی عوام میں جن شخصیتوں کومرجع التقلید کی حیثیت حاصل ہے، صحیح رہنمائی کرنی چاہیے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں عورتیں نماز جمعہ میں آتی ہیں اور پردہ کے پیچھے خطبہ سنتی ہیں، لیکن چونکہ وہ خطیب کو دیکھ نہیں سکتی ہیں، اس لیے ان کایہ مطالبہ تھا کہ ان کے لیے محدود دائرہ کا ٹیلی وژن لگا دیا جائے تاکہ عورتیں نہ صرف خطبہ سن سکیں، بلکہ خطیب کو بھی دیکھ سکیں۔ بعض مجتہد علما نے اس سے اختلاف کیا، لیکن مرجع التقلید کا فتویٰ یہ تھا کہ مذہبی مقصد کے لیے محدود سرکٹ ٹیلی وژن کی اجازت ہے۔ ہندوستان کے لیے یہ مطالبہ حیرت انگیز ہوگا ،لیکن امریکہ میں، جہاں بہت چھوٹے پروگراموں کے لیے محدود سرکٹ کے ٹیلی وژن کا عام رواج ہے اور جہاں جمعہ کی نماز میں عورتیں شریک ہوتی ہیں، یہ مطالبہ بہت فطری نوعیت کا ہے۔ عصر جدید میں ان عصری ایجادات کے استعمال کے لیے ذہن وفکر کو لچک دار بنانا ہوگا۔ یہ کہنا کہ اس سے خطبہ جمعہ کا تعبدی پہلو اور خشوع متاثر ہوتا ہے، صرف روایتی مزاج وعادت کا اظہار ہے۔ لاس اینجلس کی شیعہ برادری کی مسجد اہل بیت میں تو عورتیں مخلوط اجتماعات کو خطاب بھی کرتی ہیں۔ ان معاملات میں جہاں مسلمانوں کی اصلاح کی ضرورت ہو، وہاں حکمت اختیار کرنی ہوگی اور احکام دین اور مروجہ کلچر کے فرق کو بھی ملحوظ رکھنا ہوگا اور یہ بھی سمجھ لینا ہوگا کہ امریکی معاشرہ برصغیر کے مسلم معاشرہ کی نقل بمطابق اصل نہیں ہو سکتا ہے۔
(بشکریہ ’تعمیر حیات‘ لکھنو)

قربانی کی رسم کا نفسیاتی پہلو

پروفیسر میاں انعام الرحمن

قربانی کا تصور شاید اتنا ہی قدیم ہے جتنی انسان کی معلوم تاریخ ۔ تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں قربانی کی رسم موجود رہی ہے ۔ یہ رسم اپنے ظاہر میں متنوع ہونے کے باوجود کسی ایسے یکساں جذبے یا داخلی تحریک کی علامت ہے جو تمام انسانوں میں فطری طور پر موجود ہے۔ تاریخ کے صدیوں پر محیط سفر سے ان گنت مثالیں دینے کے بجائے ہم صرف اسی مثال پر اکتفا کریں گے کہ اہلِ روم دوسری پیونک جنگ تک دیوتاؤں کے حضور انسانوں کی قربانی پیش کیا کرتے تھے۔ قربانی کے اس سفاک مظہر کو معاشرے میں عمومی قبولیت حاصل تھی کیونکہ اس کے ذریعے سے لوگوں کے ایک فطری داخلی جذبے کی تسکین ہوتی تھی۔ یہاں ہم تحلیلِ نفسی کی اس بنیادی دریافت کا ذکر کرنا مناسب سمجھیں گے جس کے مطابق ، اگر کسی داخلی تحریک یا جذبے کو عمل میں ظاہری اظہار پانے سے روک دیا جائے تو وہ جذبہ عموماً ختم نہیں ہوتا، بلکہ ہوتا یہ ہے کہ وہ وقتی طور پر ’’دب ‘‘ جاتا ہے اور پھر بعد میں اظہار کی ایسی راہ تلاش کرتا ہے جو اکثر اوقات اس ظاہری اظہار سے بہت زیادہ قبیح اور نقصان دہ ہوتی ہے جسے نامعقول قرار دے کر (یا کسی بھی وجہ سے ) عمل میں آنے کا موقع نہیں دیا جاتا اور اسے دبانے کی بھی (بظاہر کامیاب ) کوشش کی گئی ہوتی ہے۔ 
ہماری رائے میں سنتِ ابراہیمی ؑ کی بے شمار حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ یہ انسان کی کی بہت بڑی نفسیاتی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ اگرچہ زندہ صحت مند جانور کے گلے پر چھری پھیرنا، خون بہانا، کھال اتارنا وغیرہ کسی حد تک سفاک عمل معلوم ہوتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں یہی داخلی جذبہ جس کی تسکین جانور کو ذبح کرنے سے ہو جاتی ہے، کسی بہت ہی مکروہ اور انسانیت سوز صورت میں سامنے آسکتا ہے، جیسا کہ خود انسان کی قربانی کرنا۔ مسلم معاشرے کی تقریباً ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاں انسانیت سوز قسم کی رسوم کبھی نہیں پنپ سکیں، اس کی ایک بنیادی وجہ اسلام کا تصورِ قربانی ہے۔ اسلام کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ وہ انسان کے بنیادی جذبات اور داخلی تحاریک کی نفی نہیں کرتا، بلکہ ان کی تہذیب کرتا ہے جیسا کہ جنگ کے مقابل جہاد کا تصور۔ جہاد، انسان کے ایک فطری جذبے کی متشکل جہت اور جنگ کی تہذیب یافتہ صورت ہے۔ یہ کہنا بہت آسان ہو گا کہ جنگ ہونی ہی نہیں چاہیے اور اسی طرح قربانی بھی نہ ہو تو بہتر ہے کہ اس میں خوامخواہ خون بہایا جاتا ہے۔ ہماری رائے میں یہ کہنا ہی آسان ہے لیکن اس پر عمل عمومی انسانی نفسیات اور رویے کے باعث ناممکن ہے ۔ مثلاً اگر سبزی خور قوموں کی رسوم پر نظر دوڑائی جائے تو ایک طرف جانوروں کی پرستش نظر آئے گی اور دوسری طرف عورت کا خاوند کی لاش کے ساتھ زندہ جل مرنا۔ ان دو مظاہر کے تضاد سے وہ قومیں آگاہ ہی نہیں ہوتیں کیونکہ دونوں مظاہر انسان کے دو داخلی فطری جذبات کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔ 
ہماری رائے میں ستی اور اسی نوعیت کی دیگر رسوم اس جذباتی خلل کا نتیجہ ہیں جو ایک فطری جذبے (قربانی) کے مناسب اظہار پر پابندی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ اسلام اپنی اپروچ میں ’’خیالی اور مثالی‘‘ تعلیمات نہیں دیتا بلکہ اس کی مثالی تعلیمات کی نوعیت ’’ممکن الحصول مثالی ‘‘ کے دائرے میں آتی ہے، اسی لیے اس نے انسانی روح میں گندھے ہوئے جذبات کے اظہار پر پابندیاں عائد کرنے کے بجائے ان کے اظہار کی ایسی راہیں نہ صرف تسلیم کی ہیں بلکہ انھیں اپنانے کی ترغیب بھی دی ہے جو داخلی جذبات کی آسودگی کے ساتھ ساتھ انسان کو بطور انسان متوازن رکھتی ہیں۔ دنیا کی قومیں اگر اپنی تاریخ کے آنے والے دور میں ’’قبیح رسوم ‘‘ سے بچنا چاہتی ہیں تو عید البقر میں مضمر مذکورہ بالا حکمت کے پیشِ نظرانھیں مسلمانوں کی ہمراہی میں سنتِ ابراہیمی ؑ ادا کرنی چاہیے۔

احیائے اسلام کے امکانات اور حکمت عملی

پروفیسر محمد اکرم ورک

۱۹۹۲ میں ایک کمیونسٹ ریاست کی حیثیت سے سوویت یونین کے سقوط کے فوراً بعد مغربی پالیسی سازوں نے اپنی ترجیحات کو تبدیل کر لیا، چنانچہ ۱۹۹۳ میں امریکہ کے مشہور یہودی محقق اور دانش ور سیموئیل ہنٹنگٹن نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف Clash of Civilizations لکھ کر تہذیبوں کے تصادم کا نیا تصور پیش کیا اور اسلامی تہذیب کو مغرب کا متوقع دشمن قرار دیا۔ اس خیال اور نظریہ نے بہت جلد اس وقت حقیقت کا روپ دھار لیا جب امریکی صدر بش نے ۱۱/۹ کے پس منظر میں اکتوبر ۲۰۰۱ میں پہلے افغانستان پر اور بعد ازاں اپریل ۲۰۰۳ میں عراق پر حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ مسلمان تو پہلے ہی اس جنگ کو تہذیبوں کا تصادم یا صلیبی جنگ تصور کرتے تھے، خود مغربی دانش وروں اور امریکی صدر نے بھی کھل کر اپنے ’خبث باطن‘ کا اظہار کر دیا۔
وقت کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے کئی مسلمان دانش وروں اور ’’جہادیوں‘‘ نے مغرب کے حقیقی عزائم کو بھانپتے ہوئے امت مسلمہ کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی کوشش کی ، لیکن چونکہ ان لوگوں کا حلقہ اثر محدود تھا، اس لیے وہ ذہنی اور عملی جمود کی شکار امت مسلمہ کو اس عظیم سازش کے خلاف تیار نہ کر سکے۔ دوسری طرف عالم اسلام پر مسلط طفیلی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے اس بلاے ناگہانی کے سامنے اپنی آنکھیں بند کر لیں، لیکن اب شاید یہ طوفان بہت جلد اس طبقے کو بھی خس وخاشاک کی طرح بہا کر لے جائے، کیونکہ صلیبیوں اور جہادیوں میں سے کوئی بھی ان کو اپنی کشتی میں جگہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ اگر صلیبی کامیاب ہو گئے تو وہ یقیناًہر جگہ افغانستان اور عراق جیسی جمہوریت کا ’’کامیاب‘‘ تجربہ کریں گے اور اگر کامیابی نے جہادیوں کے قدم چومے تو وہ ان مارہاے آستین کو کبھی معاف نہیں کریں گے جو میر جعفر اور میر صادق کا کردار پورے خلوص نیت سے ادا کر رہے ہیں۔
اس وقت مجاہدین، افغانستان اور عراق میں امت مسلمہ کی آزادی اور بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہلال وصلیب کے اس معرکہ میں مجاہدین کی پسپائی کا مطلب مکمل تباہی ہوگا، اس لیے حالات کی نزاکتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مجاہدین کی مدد کرنا امت مسلمہ کا اجتماعی فریضہ ہے تاکہ عالمی طاقتوں کو مزید پیش قدمی سے روکا جا سکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جنگ اور تصادم کے اس محاذ پر ہماری مکمل کامیابی کے لیے حالات سازگار ہیں، جبکہ فریق مخالف نے اس میدان میں دنیا کی تمام طاقتوں سے اپنی برتری کا سکہ منوا لیا ہے؟ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت مستقبل بعید میں بھی شاید کوئی ملک ان کو چیلنج نہ کر سکے۔
تہذیبی کشمکش کے اس دور میں بدقسمتی سے مغرب اپنی کامیاب حکمت عملی کے ذریعے سے مسلمانوں کو تصادم کے اس میدان میں کھینچ لایا ہے جہاں ان کی کامیابی کے امکانات محدود ہیں جبکہ امت مسلمہ بھی جذبات کی رو میں بہہ کر دشمن کے دام فریب میں پھنستی چلی جا رہی ہے، حالانکہ جدید ٹیکنالوجی سے محرومی کی وجہ سے جنگ کے میدان میں ہماری کمزوری اظہر من الشمس ہے۔ دشمن کے بالمقابل اس میدان میں ہمارے وسائل اور جانوں کے اتلاف کے امکانات کہیں زیادہ ہیں۔ جب حقیقت یہی ہے تو کیا یہ کہنا مناسب نہ ہوگا کہ ایک جہاں دیدہ، زیرک اور ذہین کماندار کی طرح مد مقابل کو اس میدان میں جنگ آزمائی پر مجبور کر دیا جائے جہاں اس کو شکست دینا آسان ہے اور جہاں اس کی کمزوریوں سے پورا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ یقیناًمغرب کی کمزوریوں کا میدان عقیدے اور قابل عمل نظریات کامیدان ہے۔ مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن اور نری مادیت سے اس وقت خود مغربی معاشرہ بھی شدید گھبراہٹ اور بے چینی محسوس کر رہا ہے۔ مناسب یہی ہے کہ جہادی سرگرمیوں کو عالمگیر جنگ میں تبدیل ہونے سے روکا جائے اور مدمقابل پر دباؤ برقرار رکھتے ہوئے سرخ لائن کو عبور نہ کیا جائے کیونکہ اس محاذ پر دشمن طاقت ور اور ہم کمزور ہیں۔ دشمن ہمیں اسی محاذ پر مصروف رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس طریقہ سے مسلمانوں کے وسائل پر قبضہ کر لیا جائے اور ان کی طاقت کو مکمل طور پر کچل دیا جائے۔ ہماری حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ ہم اسے اس میدان میں اترنے پر مجبور کر دیں جس میں ہم مضبوط اور مدمقابل فریق کمزور ہے۔
اسلامی تہذیب کے احیا اور عروج کی امید وہ عقائد ونظریات اور عالم گیر اصول ہیں جو مسلم نفسیات کے اجتماعی لاشعور کا جزو لاینفک ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام نظریات اور آئیڈیالوجی کے میدان میں کبھی شکست سے دوچار نہیں ہوا۔ اس کی واضح مثال ۱۲۵۸ میں بغداد کا سقوط ہے جب تاتاریوں نے مسلم تہذیب وثقافت کا نام ونشان مٹا دیا تھا، لیکن سیاست اور جنگ کے میدا ن میں شکست وہزیمت سے دوچار ہونے کے باوجود نظریات کی جنگ میں اسلام نے مد مقابل کو چاروں شانے چت کر دیا اور فاتح قوم نے مفتوح قوم کا ہی دین اختیار کر لیا۔ بقول اقبال ’پاسباں مل کعبے کو صنم خانے سے‘۔
سلطان محمد فاتح نے ۱۴۵۳ میں قسطنطنیہ کو فتح کر کے اسلامی تہذیب وثقافت کے غلبے کو قائم رکھنے کی ایک بھرپور کوشش کی، لیکن اس کے بعد مغربی اقوام میں جدیدیت کا آغاز ہوا جبکہ اسلامی دنیا جمود کا شکار ہوتی گئی اور بالآخر پہلی جنگ عظیم میں عثمانی ترکوں کی شکست کے بعد اسلامی تہذیب مکمل مغلوبیت کا شکار ہو گئی۔ تاہم تھوڑی ہی مدت کے بعد مفتوح اسلامی ممالک میں علمی، فکری اور جہادی تحریکوں کا آغاز ہو گیا اور احیاے اسلام کے امکانات دوبارہ روشن ہو گئے۔ تہذیبوں کے تقابلی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی تہذیب کے زندہ اور قائم رہنے کے لیے دو چیزیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں:
۱۔ دائمی اصولوں کا وجود،
۲۔ اصول وضوابط میں حالات اور زمانہ کی رعایت سے لچک اور حرکت پذیری کی خوبی۔
اس وقت دائمی اصولوں کا عدم وجود یورپی تہذیب کی سب سے بڑی کمزوری ہے جو بالآخر اس تہذیب کے زوال کا باعث بنے گی۔ 
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
اس کے برعکس، دائمی اصولوں کی موجودگی کے باوجود اسلامی تہذیب کے زوال کی بڑی وجہ جمود اور غیر حرکت پذیری ہے، حالانکہ اسلام کی ساخت میں حرکت کا اصول کارفرما ہے جس کا دوسرا نام ’’اجتہاد‘‘ ہے۔ اسلام ایک ثقافتی تحریک کے طور پر کائنات کے جامد نقطہ نظر کو رد کرتا ہے اور اندھی تقلید کے بجائے اجتہاد کا قائل ہے جس کی روشنی میں حالات وزمانہ کی رعایت کرتے ہوئے پیش آمدہ نئے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اس اصول کی اساس خود قرآن کریم میں موجود ہے:
والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا (العنکبوت)
’’اور جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کریں گے، ہم ان کو اپنے راستوں کی طرف رہنمائی کریں گے۔‘‘
حضرت معاذ بن جبلؓ کی مشہور حدیث سے یہ اصول مزید واضح ہو جاتا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تو ان سے پوچھا کہ وہ اپنے سامنے پیش ہونے والے مسائل کا حل کیسے تلاش کریں گے۔ حضرت معاذ نے عرض کیا: میں معاملات کو قرآن کے مطابق طے کروں گا۔ اگر کتاب اللہ میں اس کا حل نہ پاؤں گا تو سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ اور اگر سنت میں بھی اس کی کوئی مثال نہ ہوئی تو پھر میں اپنی رائے اور سمجھ سے فیصلہ کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر انتہائی خوشی کا اظہار فرمایا۔
اسلامی تہذیب میں اساسی اور دائمی اصولوں کے ساتھ اجتہاد اور حرکت پزیری کے جواز نے اس کو تمام ادوار کے لیے قابل قبول بنا دیا ہے، اس لیے یہ بات محض خوش اعتقادی اور عقیدت کی بنا پر نہیں، بلکہ اسلامی تہذیب کے دوبارہ احیا اور عروج کے واضح دلائل اور قرائن کی بنیاد پر کہی جا رہی ہے۔
کمیونزم کی ناکامی کے بعد مغربی دنیا سمجھنے لگی ہے کہ اب دنیا کے لیے مغربی فکر وفلسفہ اور نظام زندگی اپنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں، جبکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں آج بھی اتنی کشش اور افادیت ہے کہ وہ دنیا کے تمام نظریات اور افکار پر حاوی ہو جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کے اصولوں کو نئے سرے سے دریافت کیا جائے اور حالات اور زمانے کی رعایت سے اس ڈھنگ میں اقوام عالم کے سامنے پیش کیا جائے کہ اسلام کے فکر وفلسفہ کی اصل روح ان پر آشکارا ہو جائے۔
اسلام کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کی اصل قوت دعوت واصلاح میں ہے۔ سسکتی ہوئی انسانیت کے لیے اسلام آج بھی تریاق کا کام کر سکتا ہے۔ اگر اسلام کو اس کے اصل اور فطری اسلوب میں پیش کیا جائے تو وہ سیدھا دلوں میں اتر جاتا ہے۔ اسلام اپنی ذات میں زبردست تسخیری قوت کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے سیاسی ناکامیوں کے تاریک ترین دور میں بھی نظریاتی محاذ پر شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان : ’ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون‘ (اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے سارے ادیان پر غالب کر دے، اگرچہ مشرک اسے ناپسند ہی کریں) میں دین کے غلبہ سے مراد سیاسی وعسکری غلبہ نہیں، بلکہ فکری ونظریاتی غلبہ ہے جو اسلام کو ہمیشہ اور ہر جگہ حاصل رہا ہے اور کبھی منقطع نہیں ہوا۔
سیرت طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت کی حکمت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بظاہر عسکری میدان میں پسپائی اختیار فرمائی تاکہ مکمل نظریاتی غلبہ اور فتح یابی کی راہ ہموار ہو سکے، چنانچہ رسول اللہ اپنی حکمت عملی سے مد مقابل کو فکری اور نظریاتی میدان میں لے آئے جہاں مسلمانوں کو مکمل برتری حاصل تھی۔ صلح حدیبیہ میں یہی حکمت عملی آپ کے پیش نظر تھی جس کو قرآن نے ’’فتح مبین‘‘ قرار دیا۔ چنانچہ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیانی دو سالہ عرصے میں لوگ باہم ملے جلے اور دو ’’تہذیبوں‘‘ کے درمیان مکالمہ ہوا تو بے شمار سلیم الفطرت لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ امام زہریؒ فرماتے ہیں:
’’صلح حدیبیہ سے پہلے اسلام میں اتنی بڑی فتح حاصل نہیں ہوئی تھی۔ لوگ جہاں بھی ملتے، جنگ ہو کر رہتی تھی، لیکن جب صلح ہو گئی تو جنگ موقوف ہو گئی اور لوگ ایک دوسرے سے بے خوف ہو گئے۔ باہم ملے جلے، باتیں ہوئیں تو کوئی عقل مند ایسا نہ تھا جس سے اسلام کے متعلق گفتگو ہوئی ہو اور اس نے اسلام قبول نہ کر لیا ہو۔ چنانچہ جتنے لوگ ابتدا سے اب تک مسلمان ہوئے تھے، صرف ان دو برسوں میں ان کے برابر بلکہ ان سے بھی زیادہ تعداد میں مسلمان ہو گئے۔‘‘ (ابن ہشام، ۳/۳۵۱)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی عمدہ حکمت عملی سے قریش کو نظریاتی محاذ پر ہزیمت پر مجبور کر دیا۔ عالمی حالات کی صورت حال آج بھی کچھ اسی نوعیت کی ہے۔ ایک میدان سیاست اور عسکریت کا ہے جہاں مغرب کو عالم اسلام پر مکمل برتری حاصل ہے اور وہ مسلمانوں سے اسی میدان میں لڑنا چاہتا ہے جہاں اس کو لامحدود وسائل کے ساتھ عظیم بالادستی حاصل ہے، جبکہ دوسرا میدان عقائد اور قابل عمل نظریات کا ہے جہاں اسلام کو فیصلہ کن برتری حاصل ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم حکمت عملی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مدمقابل کو اس میدان میں پنجہ آزمائی پر مجبور کر دیں جہاں وہ ناموافق پوزیشن میں ہے، اور ہماری تگ وتاز کے سامنے ٹھہرنا اس کے لیے ممکن نہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے گھوڑے تیار رکھنے کے ساتھ ساتھ امن عالم کا اسلامی تصور اجاگر کرنا ضروری ہے، تاکہ تہذیبوں کے درمیان تصادم کے بجائے مکالمے کے لیے سازگار ماحول پیدا ہو۔ مسلمان اہل علم اور دانش وروں کا فرض ہے کہ وہ مغربی فکر وفلسفہ کا پوری گہرائی سے تنقیدی مطالعہ کریں اور اسلام کو اقوام عالم کے سامنے پوری انسانیت کے دین کے طور پر پیش کریں۔ اگر اسلام کے عالمگیر وژن کو حکمت کے ساتھ مغربی اقوام کے سامنے پیش کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس کی فطری تعلیمات سے متاثر نہ ہوں۔

شیعو اور سنیو! تاریخ سے سبق سیکھو

علامہ سید فخر الحسن کراروی

اللہ کو ایک ماننے والو! اسلام نے تمھیں مومن اور مسلم کہا، تم نے اپنے آپ کو شیعہ اور سنی کہنا شروع کر دیا۔ اسلام نے اقرار توحید اور اقرار رسالت کو مدار اسلام قرار دیا، تم نے قبول اسلام کے لیے شرائط میں اپنی طرف سے نئے نئے اضافے کر لیے۔ اسلام نے تمھیں بنیان مرصوص، سیسہ پلائی ہوئی دیوار کہا تھا، لیکن تم نے افتراق پسندی کے باعث اس دیوار آہنی کو تار عنکبوت بنا دیا۔ اسلام نے مرد مومن کی تعریف کی تھی، ’اشداء علی الکفار رحماء بینہم‘ ، آپس میں رحیم، کفار کے مقابلے میں سخت۔ تم نے کافروں سے نرم خوئی اختیار کی اور مسلمانوں سے سختی ودرشتی کا برتاؤ رکھا۔ اسلام نے پوری معنویت کے ساتھ تم میں اخوت کا رشتہ پیدا کیا اور تمھیں بھائی بھائی بنایا، لیکن تم نے ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کا نجس فعل انجام دینے کا عہد کر لیا۔ اسلام نے تمھیں خیر امت کا خطاب دیا تھا، مگر تم نے اس کی قدر نہ کی اور خیر کے مقابلے میں شر کو اپنا لیا۔ بتاؤ، کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ 
شیعو اور سنیو! تم اتنے قدیم ہو جتنا کہ اسلام۔ تمہاری ابتدا تقریباً اسی روز شروع ہو جاتی ہے جب خلافت راشدہ کا دور ختم ہو رہا تھا اور حکومت وقیصریت اپنی نمود کے لیے پر تول رہی تھیں۔ اسلام کی عمر بھی قریب سوا چودہ سو سال ہے اور تم نے بھی زندگی کی اتنی ہی بہاریں دیکھ لی ہیں۔ اس سوا چودہ سو برس کی طویل مدت میں تم ایک دوسرے کے لیے رحمت نہیں بن سکے بلکہ زحمت ہی رہے۔ تم ایک دوسرے کے خلاف صف آرا عدو بنے، ایک دوسرے سے نبرد آزما رہے، ایک دوسرے کے لیے پنجہ شکنجہ ثابت ہوتے رہے۔ تم نے تلواریں بھی نکالیں اور تیر بھی پھینکے، سینے بھی چھیدے اور گردنیں بھی کاٹیں اور پھر ’’تحفہ افغان‘‘ کلاشنکوف بھی سینے کے ساتھ قرآن کی جگہ لٹکائے پھرے۔ نہ تو خانہ خدا کا سوچا اور نہ ہی امام بارگاہ کی حفاظت کر سکے، لیکن یہ بتاؤ کہ کیا تم ایک دوسرے کو ختم کر سکے؟
کیا عالم اسلام کا کوئی گوشہ ایسا ہے کہ جہاں تم موجود نہ ہو؟ کیا تم میں سے کوئی اپنا وجود قائم رکھنے اور دوسرے کے وجود کو مٹا دینے میں کامیاب ہوا؟ جو کام تم سوا چودہ سو سال میں نہیں کر سکے، کیا اب وہ کر سکو گے؟ دلی پر مغلوں کی حکومت تھی۔ وہ سنی تھے۔ لکھنو پر نوابان اودھ حکمران تھے۔ وہ شیعہ تھے۔ بے جا پور گولکنڈہ وغیرہ کی حکومتیں شیعہ تھیں۔ حیدر آباد کی راج دھانی پر سنی حاکم تھے۔ یہ ساری حکومتیں شخصی اور مطلق العنان تھیں، مگر کیا ان حکومتوں میں صرف وہی لوگ بستے تھے جو حکمران کے ہم مذہب ہوں؟ کیا مغلوں کے وزیر شیعہ نہیں تھے؟ کیا شیعوں کے دربار میں وزارت اور منصب سنیوں کو تفویض نہیں تھے؟ کتنی عجیب بات ہے، مطلق العنانی کے دور میں تم ایک دوسرے کو ختم نہیں کر سکے اور اب اینٹیں اور پھر سوڈے کی بوتلیں ایک دوسرے کے سر پر پھینک کر یہ توقع کرتے ہو کہ فریق مخالف کا وجود مٹا دو گے!
مسجد اقصیٰ اور مصر پر کئی سو برس تک اور شام، حجاز، عراق اور یمن پر عرصہ دراز تک شیعوں نے حکو مت کی اور بڑے جاہ وجلال سے کی۔ تاریخ کے اوراق ان کے دبدبے کی داستانوں سے بھرے پڑے ہیں، لیکن کیا آج ان مقامات پر سنیوں کی اکثریت نہیں؟ بغداد پر پانچ سو سال سے زیادہ عباسیوں کا پرچم اقبال بلند رہا اور بعض خلفا وقتاً فوقتاً شیعوں سے الجھتے رہے، لیکن کیا وہ حدود مملکت سے شیعوں کو نکال سکے؟ اور پھر انھی عباسیوں کا پرچم اقبال جب گہن میں آیا اور ایک شیعہ خاندان دیامہ ان کا متولی بنا تو کیا اس نے بغداد کو شیعہ کر لیا؟
تاریخ نہ تو افسانہ ہے اور نہ ہی افسانے کا حصہ، لیکن اس کی دلچسپی انتہائی دلچسپ ہوتی ہے اور سبق آموز۔ اس طلسم ہوش ربا کے اوراق نکالو اور دیکھو کہ کیا بد ترین دشمنی کے باوجود تم ایک دوسرے کو ختم کرنے میں کام یاب ہو سکے؟ کیا تمھاری خانہ جنگی اور باہم کشت وخون نے تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا؟ تم تب بھی موجود تھے اور اب بھی موجود ہو، پھر بھی موجود رہو گے، لیکن کیا تمھاری اس حرب وپیکارِ باہمی نے کئی حکومتوں کا چراغ گل نہیں کردیا؟ کیا تمہاری قابل رشک تہذیب وتمدن کے نقوش فنا نہیں ہوئے؟ کیا تمھارے غلبہ وسطوت کو داستان ماضی نہیں بنا دیا گیا؟ تم سلامت رہے، مگر تم نے اسلام کو فنا کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ تمھارے زخم مندمل ہو گئے، لیکن جو زخم جسد مطہر اسلام پر لگے تھے، وہ آج تک رس رہے ہیں۔ تمھاری زندگی کا رشتہ قائم رہا، مگر اسلام کے مقدس حلقوم پر کند چھری چلتی رہی۔ کاش تم مٹ گئے ہوتے مگر اسلام کی شان وتجمل میں کمی نہ آنے پاتی۔ کاش تم اس حقیقت کو سمجھ لیتے۔ تم ہزار بار مرتے، مگر اسلام کو سلامت رکھنے کے لیے۔ 
شیعو اور سنیو! تم نے یہ نہ سوچا، یہ بھی نہ دیکھا کہ تم ایک جسم کی دو آنکھیں ہو، ایک گاڑی کے دوپہیے ہو، ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہو۔ اسلام نے دنیا کو تہذیب وحضارت کی صورت میں، تمدن کی صورت میں، علم وفن کی صورت میں جو کچھ دیا ہے، اسے اگر آپس میں تقسیم کر لو تو کیا باقی رہ جائے گا؟ ہر چیز ناقص، ناممکن، بے سرمایہ اور بے مایہ۔ تم نے دنیا کو بڑی اچھی عمارتیں دیں، لیکن کیا وہ صرف شیعوں نے تخلیق کی تھیں؟ الحمرا سے لے کر تاج محل تک فقط ایک جائزہ لے کر دیکھو۔ تم نے علم کا چراغ ظلمت کدہ فرنگ میں روشن کیا اور حکمت کی جامع الازہر شیعوں کی ناقابل فراموش یادگار نہیں؟ کیا بغداد کا مدرسہ نظامیہ سنیوں کا کارنامہ نہیں تھا؟ کیا ان علمی کارناموں کو تقسیم کر کے تم فخر سے اپنا سر اونچا کر سکتے ہو؟ کیا یہ کارنامے مسلمانوں کے نہ تھے، شیعوں اور سنیوں کے تھے؟ صرف شیعوں کے یا صرف سنیوں کے؟
تمھیں فخر ہے کہ دنیا کو تاریخ کے فن سے تم نے آشنا کیا ہے اور یہ فخر بھی بے جا نہیں، امر واقع اور عین حقیقت ہے۔ مگر کیا تاریخ کی بہترین کتابیں یعقوبی اور مسعودی وغیرہ شیعوں کی لکھی ہوئی نہیں ہیں؟ تمھارا دعویٰ ہے اور بجا دعویٰ ہے کہ منطق اور فلسفے کا فن تم نے زندہ کیا۔ تم نے یونانی اور ہندی زبانوں کی کتابوں کے ترجمے کیے اور ان میں اتنا اضافہ کیا، اتنی اصلاح کی کہ اسے ایک نیا فن بنا دیا جس کے خالق صرف تم تھے۔ جغرافیہ، حساب، ہیئت، طب، سرجری، تصوف اور روحانیت، ادب اور شاعری، غرض کہ معقول ومنقول میں تمہارے لازوال اور غیر فانی کارنامے مشترک نہیں ہیں؟ کیا ان پر صرف شیعیت اور سنیت کا لیبل لگایا جا سکتا ہے؟
کاش صرف ایک اللہ ہی کے نام پر صرف ایک مرتبہ ہی سوچ سکو کہ آخر یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے۔ ہندوستان میں تمہاری سیاست ملی، تاریخ کا حصہ ہے۔ حصول مملکت سے قبل تمھاری سیاست ملی کا طوفان بدوش، ہنگامہ خیز اور انتشار انگیز دور کیا بھلایا جا سکتا ہے؟ نہ انگریزوں کی بارگاہ میں تمہاری کوئی حیثیت تھی اور نہ ہی کوئی پہونچ اور نہ ہی پوچھ تھی، نہ ہندو تمہارا وجود برداشت کرتے تھے۔ پھر بھی وہاں تم نے جداگانہ انتخاب کا فن حاصل کیا۔ مجالس آئین ساز میں اپنی نشستیں متعین کیں، پبلک سروس کمیشن سے اپنے حقوق منوائے۔ اس جدوجہد میں کیا محسن الملک کے ساتھ ساتھ سنیوں سے زیادہ شیعہ نہ تھے؟ کیا ان کے یہ تمام احسانات فراموش کیے جا سکتے ہیں؟ مشہد مقدس پر جب بمباری ہوئی تھی، ایران پر جب روس کے دندان تیز ہو رہے تھے اور فرنگی حکومتوں کو صرف اس بات کا خیال تھا کہ اسے کس طرح اپنی نوآبادی بنایا جائے، کیا وہ محمد علی نہیں تھا جو شیعوں کی حمایت میں ڈٹ گیا؟ کیا وہ ابو الکلام نہ تھا جس کے ’’الہلال‘‘ سے اس سلسلہ میں گراں بہا ضمانت طلب ہوئی تھی؟ کیا وہ سلیمان ندوی نہ تھا کہ جس نے مشہد مقدس کے حوالے سے ایک لرزہ خیز مقالہ لکھ کر مسلم ہند میں تہلکہ مچا دیا تھا؟ کیا یہ سب سنی نہ تھے؟ کیا تمھاری سیاست ملی کی تاریخ بھی شیعہ سنی میں منقسم ہو سکتی ہے؟ کیا وہ مشترک اور ناقابل تقسیم اور قابل فخر میراث نہیں؟
پھر ہندوؤں کی چیرہ دستی، تنگ دلی اور ہوس استعمار سے تنگ آ کر جب تم نے اپنا ایک جداگانہ وطن بنانے کا فیصلہ کیا تو کیا قائد اعظم بنانے کے لیے تمہارے اقبال، تمہارے شوکت علی اور تمہارے شبیر احمد عثمانی کی نگاہ محمد علی جناح پر نہیں پڑی جو شیعہ تھے؟ کیا جناح کے سوا کوئی اور بھی حصول پاکستان کی جنگ لڑ کر کامیاب ہو سکتا تھا؟ کیا تمھارے سواد اعظم نے ان کے سر پر قیادت کا تاج نہیں رکھا تھا؟ کیا اسے صرف سنی، قائد اعظم بنا سکتے تھے؟ کیا صرف شیعہ یہ منصب انھیں سونپ سکتے تھے؟ کیا تمھاری عظیم ترین اکثریت نے، جن میں غالب اکثریت سنیوں کی تھی، یہ منصب انھیں نہیں سونپا تھا؟ راجہ صاحب محمود آباد، راجہ غضنفر علی خان، ایم ایچ اصفہانی اور دوسرے شیعہ اکابرین نے بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیا تھا؟
کشمیر تمھارے لیے نصف صدی سے زندگی وموت کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور دوسرے ممالک کو چھوڑ کر بتاؤ کن اسلامی ممالک نے اس بات پر تمھارا ساتھ دیا، تمہاری حمایت کی؟ کیا مصر نے؟ عراق نے؟ یمن نے؟ سعودی عرب نے؟ افغانستان نے؟ لیبیا نے؟ شام نے؟ انڈونیشیا نے؟ اردن نے؟ مجھے یقین ہے کہ اگر تمھیں ماضی سے ذرا بھی واقفیت ہے تو تمھارا جواب ہوگا کہ نہیں، لیکن تمام سنی ممالک کے مقابلے میں صرف ایران کا نام لیا جا سکتا ہے جو ایک شیعہ ملک ہے۔ کیا تم پھر بھی ان کے سفارت کاروں کو موت کی وادی میں ڈالنے کی رسم کو جاری رکھو گے؟ کیا قیام پاکستان کے وقت سے لے کر اب تک ایران مسلسل اور غیر منقطع طور پر ہر معاملے میں تمھارا ساتھ نہیں دے رہا؟ جس ’’احسان‘‘ کا جواب تم نے لاہور میں دیا، ملتان میں دیا، کراچی میں دیا اور کس طرح کہ ان کی لاشوں کے تحفے پاکستانی جہاز لے کر تہران میں اترے۔
شیعو اور سنیو! تم ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہو، ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر مجبور ہو۔ ہرگز اور کبھی بھی ایک دوسرے کو فنا نہیں کر سکتے ہو، لہٰذا بھائی بن کر رہو، بھائی بن کر لڑو، لیکن بھائی بن کر گلے لگ جاؤ۔ جو زخمی ہوئے، خواہ شیعہ تھے خواہ سنی تھے، مسلمان ضرور تھے۔ ان کے زخم کی کسک تم اپنے دل میں محسوس کرو۔ جو ہلاک ہوئے، خواہ ان کامسلک شیعہ تھا یا سنی، بہرحال وہ مسلمان تھے، لہٰذا ان کی ہلاکت کو اپنے بھائی کی ہلاکت سمجھو اور اس کے داغ کو اپنا داغ سمجھتے ہوئے اپنے آنسوؤں سے دھو ڈالو۔ اللہ پاکستان اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترمی ومکرمی حضرت مولانا ابو عمار زاہد الراشدی زیدت معالیکم ودام مجدکم
امید ہے آپ مع متعلقین بعافیت ہوں گے۔
کرم فرمائی کا بہت بہت شکریہ۔ مولانا محمد موسیٰ بھٹو کی عنایت تھی کہ انھوں نے میرے تعاون کے لیے آپ کو متوجہ فرمایا۔ میں نے آپ کے عنایت نامہ کی اطلاع خال محترم حضرت مولانا سنبھلی کو دی، انھوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور یہ بھی خیال ظاہر کیا کہ آپ کی رہنمائی اور مشورے میرے لیے بہت مفید رہیں گے۔ اس سلسلے میں دو ایک باتیں دریافت طلب ہیں۔
۱۔ فارغین کے لیے قائم شدہ ادارے کا نظم الاوقات کیا رہتا ہے؟
۲۔ کیا ان سے بھی کچھ علمی کام کروایا جاتا ہے؟
۳۔ معاصر علمی وفکری بحثوں میں سے کیا کیا موضوعات زیر بحث آتے ہیں؟ (یعنی آپ کی نظر میں کیا چیزیں اولیت کی مستحق ہیں؟)
۴۔ میں نے اس مسئلے پر جب غور کیا تو سب سے پریشان کن مسئلہ سامنے آیا کہ مدارس کے اچھے طلبہ کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان کی نظر قرآن اور حدیث کے ذخیرے پر ضروری حد تک بھی نہیں ہوتی۔ قرآن کا براہ راست اور موضوعاتی علم بالکل نہیں ہوتا۔ اسی طرح حدیث میں وہ صرف احادیث احکام پر نظر رکھتے ہیں اور اس میں بھی فقہاء متاخرین کا انداز فکر ان میں بڑا رچا بسا ہوتا ہے۔ ان کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ علمی مسائل کی تحقیق اور مطالعہ کیسے کیا جاتا ہے۔ اب اگر قرآن وسنت پر بھی اچھی نظر نہ ہو تو وہ عالم جدیدیت سے باخبر ہو کر کس کام کا ہوگا؟ اس مسئلے کی وجہ سے مجھے اس ادارے کی مدت دو سال رکھنی پڑ رہی ہے۔ پھر بھی یقین نہیں کہ یہ مدت کس حد تک کافی ہوگی۔ آپ اس سلسلے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
ابھی کل ’الشریعہ‘ کے جنوری تا جون کے شمارے ملے۔ بہت بہت شکریہ۔ امید ہے اب لگاتار آتا رہے گا۔ ہم نے جون کے الفرقان میں اجتہاد پر آپ کا مضمون (پاکستانی پس منظر سے جڑی چیزوں کے حذف کے ساتھ) شائع کیا ہے۔ یہاں احباب نے پسند کیا۔ آئندہ بھی مدارس اور ان کے نصاب ونظام سے متعلق آپ کی تحریریں شائع کرنے کا ارادہ ہے۔ ابھی صرف اساتذہ کے مذاکرے کی رپورٹ دیکھنی شروع کی ہے۔ الشریعہ اکیڈمی کی یہ بڑی مبارک پہل ہے۔
ڈاکٹر محمد امین صاحب کی تحریریں عموماً بڑی قیمتی ہوتی ہیں۔
ایک مرتبہ پھر آپ کی عنایت اور تعاون کا بہت بہت شکریہ۔ حضرت والد ماجد دامت برکاتہم کی خدمت میں دعاؤں کی خصوصی درخواست پیش فرما دیں۔
والسلام۔ نیاز مند
یحییٰ نعمانی

(۲)
محترم جناب مولانا عمار خا ناصر صاحب، مدیر الشریعہ
السلام علیکم
’الشریعہ‘ میں محترم ومکرم مولانا زاہد الراشدی مدظلہ کی اعتدال پسندانہ تحریر سے خوشی ہوئی کیونکہ موجودہ زمانہ میں علماء حق علماء دیوبند کے اعتدال سے ہٹ کر بہت سے لوگوں نے اپنے من پسند نظریات پر علماء دیوبند کا غلاف چڑھانے کی کوشش کی ہے اور اسی کو علماء حق کا صحیح مشن سمجھ کر لوگوں کو بھی اسی راہ پر لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اہل تشیع سے اختلافات اپنی جگہ، مگر اس تشدد کو کوئی بھی سنجیدہ انسان پسند نہیں کرے گا۔ ہمارے اکابر نے دلائل کے میدان میں ہر باطل کا تعاقب کیا۔ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا عبد الشکور لکھنوی نے بھی مدح صحابہ کی تحریکیں چلائیں مگر ان تحریکوں میں اس قسم کا کوئی تشدد نہیں پایا جاتا۔ ہماری نوجوان نسل کو جس راستے پر ڈالا جا رہا ہے، یہ ہرگز علماء دیوبند کا مشن نہیں۔ جو شخص صحابہ کرام کا دفاع نہ کرے، ہمیں اس کے اسلام پر کوئی اعتبار نہیں، مگر صحابہ کرام کا دفاع گولی اور گالی سے نہیں، بلکہ دلائل اور اپنے کردار سے کیا جائے گا۔ ہو سکتا ہے ان تحریروں کو بھی شیعیت نوازی سے تعبیر کیا جائے، مگر اپنے اکابر کے نقش قدم سے ہٹے ہوئے جذباتی نوجوانوں کو اپنے اکابر کے نقش قدم پر لانا ہر درد دل رکھنے والے دیوبندی کے لیے ضروری ہے۔
ہمارے ہاں یہ بیماری بہت زیادہ پھیل چکی ہے کہ اپنے ذوق کے خلاف کسی بات پر دماغ خرچ کرنے کے لیے ہم تیار ہی نہیں ہوتے، اگرچہ وہ بات حق اور سچ اور دلیل کے لحاظ سے بے غبار کیوں نہ ہو۔ مولانا زاہد الراشدی صاحب اور ان جیسے درد دل رکھنے والے اہل قلم حضرات کو چاہیے کہ اس وادی پر خار میں قدم رکھ کر جذبات کی رو میں بہ جانے والے نوجوانوں کو اکابر علماء دیوبند کا صحیح راستہ دکھائیں اور اس نقصان عظیم سے نوجوان نسل کو بچائیں۔
میں شوکت بہار کا منکر نہیں ہوں دوست
دل کانپتا ہے پھول کا انجام دیکھ کر
والسلام
مومن خان عثمانی
مدرسہ مخزن العلوم۔ کٹھائی۔ تحصیل اوگی۔ ضلع مانسہرہ

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’صحابہ کرام کا اسلوب دعوت وتبلیغ‘‘

نظریہ حیات کوئی سا بھی کیوں نہ ہو، جب تک اسے اشاعت پذیر کرنے کا شعوری اہتمام نہ کیا جائے، وہ سمٹ کر چند دماغوں تک محدود رہ جائے گا اور امتداد وقت کے ساتھ ساتھ اپنی اہمیت کھو بیٹھے گا۔اسلام ایک نظریہ حیات کی حیثیت سے ابتدا ہی سے اس امر کا متقاضی رہا ہے کہ اسے دوسروں تک پہنچانے کا اہتمام کیا جائے۔ آدم علیہ السلام سے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اللہ کا پیغام ملکوتی واسطوں سے انبیاء ورسل تک پہنچا اور پھر انھوں نے اسے خلق خدا تک پہنچانے میں اپنی بھرپور توانائیاں کھپا دیں۔ یہ سلسلہ ایسا مہتم بالشان رہا کہ اس میں کوئی کڑی گم نہیں ہونے پائی۔ خداے عزوجل نے بات کبھی براہ راست قلب پیغمبر پر الہام کی تو کبھی ملکوتی وسیلے سے القا والہام کا سلسلہ جاری رکھا۔ اب ان رسولان برحق کی ذمہ داری ٹھہری کہ وہ بحیثیت انبیا کے عالم کو ان آسمانی خبروں سے آگاہ کریں۔ یہ نفوس قدسیہ اپنے اپنے دائرۂ کار میں یہ فریضہ انجام دے کر رخصت ہوئے۔ مشیت الٰہی سے اس سلسلۃ الذہب کے روشن دل افراد کا دائرہ کار کبھی قومی سطح تک اور کبھی ملکی وجغرافیائی حدود وثغور تک محدود رہا۔ تاہم جب کار نبوت اپنے انتہائی نقطہ عروج تک پہنچ گیا تو خداے قدوس نے اسے عالمگیر اور آفاقی انداز عطا کر دیے اور جس رسول اعظم وآخر پر ختم نبوت کرنا تھی، اسے ’وما ارسلناک الا کافۃ للناس بشیرا ونذیرا‘ کے حسین لفظوں سے مخاطب فرما کر اس پیغام کو پوری انسانیت کے لیے عام کر دیا۔ اب یہ پیغام تمام زمانی ومکانی حدود وثغور کو پار کرتا ہوا جملہ اکناف عالم تک جا پہنچا۔ جس بالا بلند ہستی کو اس پیغام کے لیے اختصاص عالمگیریت بخشا گیا، اسے اس بات کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی کہ ’یا ایہا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ‘۔
یوں تبلیغ دین فریضہ پیغمبر ٹھہرا۔ حق یہ ہے کہ پیغمبر نے ہر کڑی آزمایش جھیلی، ہر دکھ بطیب خاطر اٹھایا، ہر کٹھن مرحلہ طے کیا اور پوری دل سوزی اور جانفشانی سے اس خوشگوار فریضے کو انجام دیا۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ خود خالق اکبر نے اپنی شان رحیمی کے جوش میں رحمۃ للعالمین کی دل گدازیوں کی قدر افزائی کرتے ہوئے فرمایا: ’لعلک باخع نفسک علی آثارہم ان لم یؤمنوا بہذا الحدیث اسفا‘۔ تبلیغ ودعوت کو تو فریضہ قرار دیا گیا، مگر اس امر کی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی کہ ایک ایک مدعو حلقہ بگوش اسلام ہوگا تو پیغمبر اس دنیا سے رخصت ہوگا، بلکہ اس طمانینت بخش اور دل نواز ارشاد سے نوازا گیا کہ ’انما علیک البلاغ وعلینا الحساب‘۔
سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی سرگرمیوں کی ابتدا آغاز نبوت ہی سے ہو گئی اور پھر تیئیس سال کے عرصے کا ایک ایک لمحہ انھی تبلیغی مساعی میں بیتا۔ آپ کی دعوتی مصروفیات کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کی تبلیغی کوششیں بھی برابر جاری رہیں۔ اس کار دشوار میں اس فریضے کی یاد دہانی کوئی ایک لاکھ فرزندان توحید کے سامنے ان الفاظ کے ساتھ کرا دی گئی کہ ’فلیبلغ الشاہد الغائب‘۔ اور ’بلغوا عنی ولو آیۃ‘ کے الفاظ ہر مسلمان کو اس فریضے کا بقدر استطاعت مکلف کر رہے ہیں۔ صحابہ کرام تو پہلے بھی اس فریضے سے غافل ومتساہل نہ تھے، اب اور بھی زیادہ سرگرم عمل اور حساس ہو گئے۔ ان کا یہی احساس دعوت تھا جس نے آئندہ ادوار میں اس پیغام الٰہی کو دنیا کے ہر کونے تک پھیلا دیا۔
ان کا طریق دعوت کیا تھا؟ کون سے وسائل وذرائع اختیار کر کے فرزندان آدم کے اس پاک باز گروہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی تکمیل کے اس کام کو تسلسل بخشا؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب کتاب اللہ کے مابین الدفتین اور پھر حدیث کے مبارک ذخیرے میں بکھرے موتیوں کی طرح جابجا جھلک جھمک رہا ہے۔ انھی چمکتے دمکتے موتیوں کی آب وتاب کو بعض اہل علم نے اپنی علمی کوششوں سے تدوین وترتیب کا نیا پیراہن دے کر اس میدان میں علمی وعملی دلچسپی رکھنے والے داعیان اسلام کے لیے کام آسان کر دیا ہے۔ (ان کتابوں میں سے کم از کم ۱۲ وقیع شہ پاروں کا زیر نظر کتاب کے صفحہ ۳۳، ۳۴ اور ۳۵ کے حواشی میں تفصیلی ذکر موجود ہے)۔ یہ کتابیں بالعموم صحابہ کرام کے اسلوب دعوت پر خاصی روشنی ڈالتی ہیں۔ متداول طریقوں کو ان میں سے بعض حضرات نے جزوی طور پرموثر قرار دیا ہے، تاہم بعض دوسروں نے ان طریقہ ہائے دعوت سے اختلاف کر کے ان کی کمزوریوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ مثال کے طور پر ’’دعوت دین اور اس کا طریق کار‘‘ میں مولانا امین احسن اصلاحی نے مروجہ طرق دعوت پر گرفت کر کے ان کی غلطیوں پر انگلی رکھی ہے:
’’ہمارے نزدیک مروجہ طریقہ تبلیغ میں علمی اور عملی دونوں قسم کی غلطیاں ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ یہ طریقہ تبلیغ اپنے فلسفہ کے اعتبار سے بھی غلط ہے اور اپنے طریقہ کار کے پہلو سے بھی غلط ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ تبلیغ اسلام کے نام سے اب تک جتنی جدوجہد بھی کی گئی ہے، وہ بیشتر نہ صرف یہ کہ اصل مقصد کے لحاظ سے لاحاصل رہی ہے بلکہ الٹا اس سے اسلام کی دعوت کو سخت نقصان پہنچا ہے۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سا اسلوب دعوت وتبلیغ ہے جس کو اپنا کر صحابہ کرام اس مشن میں کام یاب ہوئے اور جسے آج بھی حرز جان بنا کر مختلف خطہ ہائے ارض پر مختلف شعوب وقبائل کو قائلِ پیغام اسلام اور مائلِ دین وایمان کیا جا سکتا ہے؟ اسی ایک سوال کا جواب ہمارے سامنے کی یہ کتاب ’’صحابہ کرام کا اسلوب دعوت وتبلیغ‘‘ پیش کر رہی ہے۔ کتاب کے مصنف پروفیسر محمد اکرم ورک اسلامی علوم کے ایک نوجوان ریسرچ اسکالر ہیں۔ کتاب کمپیوٹر پر طبع شدہ ۳۵۲ صفحات پر مشتمل ہے اور مکتبہ جمال کرم لاہور نے اسے خوب صورت سرورق کے ساتھ طبع کیا ہے۔ کتاب کے مشمولات پر ایک نظر ڈالنے سے پروفیسر موصوف کی اس نوجوانی کے عالم میں گہری علمی بصیرت اور موضوع زیر نظر کے لیے ان کی عقلی اور سائنٹفک اپروچ کا پتہ چلتا ہے۔ یہ تنقیح مسائل اور احقاق حق میں خاصی شعوری کوشش ہے۔ غیر جذباتی انداز میں تحقیق کاری کے جملہ لوازم کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ کتاب کے محتویات کے سرسری جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا قلم کار عنوانات کو چابک دستی سے مرتب ومدون کرنا جانتا ہے۔ ’دعوت کی اہمیت‘، ’داعیان اسلام کے لیے رہنما اصول‘، ’صحابہ کرام کی دعوتی سرگرمیاں‘، ’مکی اور مدنی ادوار کا نازک فرق‘، ’نبوی سفرا کی سیرتوں کی شفافیت‘، ’فروغ اسلام کی عمومی وجوہات‘ جیسے عنوانات قائم کر کے بڑی علمی گہرائی اور گیرائی سے کلام کیا ہے۔ قرآن وحدیث سے استناد کر کے بنیاد داعی کے اسلوب دعوت میں علمی سے بڑھ کر عملی جہد مسلسل پر رکھی ہے۔ صحابہ کرام کی انفرادی دعوت ہو یا اجتماعی جہد وپژوہش، ان کے کردار ہی کو اولیت دے کر اس گوشے کو highlight کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ آنحضور کا دعوتی منہاج ہی ان حضرات کے لیے مشعل راہ رہا، اس لیے ان کا آپس میں بعض امور میں اختلاف بھی منشاے رسول کا غماز ہے۔ کتاب میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت عمار بن یاسر کے بلند جگہ پر امامت کرانے پر حضرت حذیفہ کا فرمان رسول یاد کرانا اور عمارؓ کا فرط اطاعت رسول سے سرتسلیم خم کر دینا اس کی روشن مثال ہے۔ الم تسمع رسول اللہ یقول اذا ام الرجل القوم فلا یقم فی مکان ارفع من مقامہم قال عمار لذالک اتبعتک حین اخذت علی یدی۔ (ص ۳۰۶)
داعی کے اوصاف جگہ جگہ باضابطہ طریقے سے بالوضاحت بیان کیے گئے ہیں اور مدعو کے میلانات، رجحانات ، ذہنی صلاحیت وصالحیت، پس منظر وپیش منظر، نفسیاتی کیفیات ومعاشرتی حیثیت کے لحاظ سے دعوت دین کے جو وسائل وطرق صحابہ کرام نے استعمال کیے، موصوف نے انھیں نہایت تحقیقی انصرام سے پیش کیا ہے۔ دور نبوی کے مراکز تبلیغ پر بڑے اچھوتے انداز سے قلم اٹھایا ہے اور مستند روایات سے ان کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ انھوں نے ایک سچے اور بے لاگ محقق کی طرح طریقہ تحقیق کی وضاحت بھی کر دی ہے۔ قرآن نے دعوت کے جو زریں اصول مجملاً بیان کیے ہیں، مولف نے انھیں آیت قرآنی ’ادع الی سبیل ربک‘ (۱۶/۱۲۵) کی روشنی میں مبلغ کی جملہ دعوتی سرگرمیوں کا محور بنایا ہے۔
یہ بھی جان لینا چاہیے کہ کوئی بھی انسانی کوشش مکمل واکمل نہیں ہوتی۔ ’خلق الانسان ضعیفا‘ کے مصداق ہر انسانی کوشش میں کوتاہیاں اور کمیاں رہ جاتی ہیں کہ اس کی فطرت کا خاصہ ہے۔ یوں بعد میں آنے والے ان کا احساس کر کے ان کے ازالے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رہتی ہے۔ کبھی تو ’نقاش نقش ثانی بہتر کشد ز اول‘ اور کبھی کوئی دوسرا محقق ان خلاؤں کو پر کر دیتا ہے جو پہلے کے کام میں رہ گئی ہوں۔ 
ص ۳۷ پر الفاظ ہیں: ’’دعوت کے دو بنیادی کردار ہیں۔ ایک داعی اور دوسرا مدعو۔‘‘ یہ بات بالکل سچ ہے، مگر ان کرداروں کا رول اس وقت تک نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا جب تک مضامین دعوت کا بھی کسی قدر تفصیل سے تذکرہ نہ ہو۔ جس طرح داعی اور مدعو یا مخاطِب اور مخاطَب پر مختلف عنوانات سے تفصیلی بحث آ گئی ہے، دعوت وپیغام کے جاندار اور شاندار ہونے پر بھی کچھ کلام ہو جاتا تو شاید بہتر ہوتا۔ داعی کتنا ہی بلند فکر اور زور دار شخصیت کا مالک کیوں نہ ہو، مخاطبین اثر پذیر نہیں ہو سکتے جب تک کہ مضامین دعوت یا پیغام ہی جاندار نہ ہو۔ میری دانست میں بہتر تھا کہ ان مضامین دعوت کی اثر انگیزی پر بھی اجمالاً ہی سہی، بات ضرور ہوتی۔
کتاب اپنی ہمہ جہت خوبیوں کے باوصف ایک کمی کا شدت سے احساس دلاتی ہے اور وہ یہ کہ مسودہ خوانی کو گلدستہ طاق نسیاں کردیا گیا ہے۔ پوری کتاب پر اس زاویہ نگاہ سے نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ خیال ہے کہ نقش ثانی ان معائب سے مبرا ہوگا۔ تاہم ان جزوی اور ثانوی کمیوں کے باوصف کتاب اہمیت وافادیت کے اعتبار سے تحقیق وجستجو کا عمدہ نمونہ ہے:
  • روایات میں جھول نہیں، کوئی روایت پایہ استناد سے گرنے نہیں پائی۔
  • ہر واقعے کو روایت ودرایت کی کسوٹی پر بآسانی پرکھا جا سکتا ہے۔
  • قرآنی آیات سے استدلال برمحل بھی ہے اور مناسب حال بھی۔
  • حوالے تفصیلی ہیں جن سے قاری کسی بھی آیت یا حدیث کو بآسانی قرآن مجید یا مجموعہ ہائے حدیث سے تلاش کر سکتا ہے۔ تاہم یہ بات پیش نظر رہے کہ حوالہ اگر کتب متداولہ برصغیر سے ہے تو مطبع کا حوالہ ضروری ہے، ورنہ جدید کتب کا حوالہ رقم حدیث کی صورت میں دیا جانا چاہیے۔
  • کتابیات میں ٹھیک ٹھیک تحقیقی مقالے کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔
  • انداز بیاں علمی ہونے کے باوجود سادہ، دل نشیں اور پرکشش ہے۔ چند صفحات کے مطالعے کے بعد مزید تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔
فی الجملہ جو لوگ دعوت وتبلیغ میں اپنی توانائیاں صرف کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے یہ کتاب بہت بڑی رہنما کتاب کا حکم رکھتی ہے اور اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ وہی طریق دعوت کارآمد ومفید ثابت ہوگا جس کو اختیار کر کے صحابہ کرام نے اس دھرتی کے کونے کونے تک یہ پیغام پہنچایا، جس کا سب سے بڑا خاصہ للہیت، اخلاص، سیرت کی شفافیت اور کردار کا اجلا پن تھا۔ اسی قوت سے انھوں نے ایک عالم کو اپنا ہم نوا بنایا اور اس منہج پر چل کر آج بھی دنیا کو اپنا ہم مشرب بنایا جا سکتا ہے کہ یہ کام اب جملہ افراد امت کا ہے۔
خدمت ساقی گری با ما گزاشت
داد ما را آخریں جامے کہ داشت
(پروفیسر غلام رسول عدیم)

’’تحریک احمدیت ۔ یہودی وسامراجی گٹھ جوڑ‘‘

قادیانیت پر اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس کے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی پہلوؤں پر سینکڑوں اہل علم ودانش نے قلم اٹھایا ہے اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ قادیانی تحریک کے سیاسی اور معاشرتی رخ پر علامہ اقبالؒ ، چودھری افضل حقؒ اور آغا شورش کاشمیریؒ جیسے نامور مفکرین اور اصحاب قلم نے بحث کی ہے اور قادیانیوں کے مذہبی عقائد کو حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کاشمیریؒ ، حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑویؒ اور حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ جیسے سربرآوردہ علماء کرام نے بے نقاب کیا ہے جبکہ قادیانیت کے عمومی تعارف پر پروفیسر محمد الیاس برنی، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی، علامہ احسان الٰہی ظہیر اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی تصانیف امتیازی حیثیت کی حامل ہیں۔ ہمارے دور کے معروف فاضل اور محقق جناب بشیر احمد نے بھی قادیانیت کے سیاسی پس منظر اور سامراجی آلہ کار کی حیثیت سے اس گروہ کے کردار کا جائزہ لیا ہے اور اس کے آغاز سے اب تک کے تمام ادوار کا احاطہ کرتے ہوئے ملت اسلامیہ کے خلاف قادیانی امت کی سازشوں اور سرگرمیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ اصل کتاب انگریزی میں ہے جیسے جناب احمد علی ظفر نے اردو کا جامہ پہنایا ہے۔ ایک ہزار کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل یہ معیاری اور ضخیم کتاب ادارۂ اصلاح وتبلیغ وقف بلڈنگ، آسٹریلیا مسجد ریلوے روڈ لاہور نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۳۰۰ روپے ہے۔ 
(ابو عمار زاہد راشدی)

’’گلوبلائزیشن اور اسلام ‘‘

’گلوبلائزیشن‘ معاصر سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی موضوعات سے ایک نہایت اہم موضوع ہے اور اس کے گوناگوں پہلوؤں پر مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے اظہار خیال کیا جا رہا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’گلوبلائزیشن اور اسلام ‘‘ مولانا یاسر ندیم کی تصنیف ہے اور پیش لفظ ، حرفِ آغاز اور مولانا نور عالم خلیل امینی کے مقدمے کے ساتھ ساتھ اشاریہ اور مآخذ و مراجع کی فہرست سمیت یہ کتاب ۴۵۶ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ مصنف نے کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کر کے پانچ مختلف جہتوں سے گلوبلائزیشن کے اثرات ومظاہر کا جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ابواب کے عنوانات حسب ذیل ہیں: (۱) گلوبلائزیشن کیا ہے؟ (۲) سیاسی عالمگیریت (۳) اقتصادی عالمگیریت (۴) ثقافتی عالمگیریت (۵) معاشرتی و اخلاقی عالمگیریت۔ 
یہ کاوش اس لحاظ سے سراہے جانے کے قابل ہے کہ یہ فاضل مصنف کی پہلی تصنیفی و تحقیقی کوشش ہے اور انھوں نے قلم اٹھاتے وقت مروج نظری مذہبی مباحث کے بجائے انسانی سوسائٹی کو درپیش زندہ مسائل میں سے ایک اہم مسئلے کا چناؤ کیا ہے جس سے ان کی سوچ کے رخ کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اردو زبان میں اس موضوع پر اتنی مبسوط کتاب غالباً ابھی تک منظرِ عام پر نہیں آئی۔ کتاب میں گلوبلائزیشن کے ذیلی موضوعات کا تفصیلی تذکرہ حوالہ جات کے ساتھ کیا گیا ہے اور اسلوبِ بیان نہایت شگفتہ، رواں اور ادبی چاشنی کا حامل ہے۔ 
تاہم گلوبلائزیشن کے ذیلی موضوعات کے احاطے کے باوجود معروضی رویے کا فقدان واضح طور پر محسوس ہوتا ہے اور مسائل کے تجزیہ وتحلیل سے زیادہ مواد کے جمع کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ گلوبلائزیشن پر تنقید کے ساتھ اس سے نبرد آزما ہونے اور اس رجحان کو صحیح رخ پر ڈالنے کی بات تو ایک طرف رہی ، فاضل مصنف گلوبلائزیشن کو بطور مظہر پیش کرنے کے حوالے سے ’’امریکی و یہودی فوبیے ‘‘ کا شکار ہوکر دیگر نقطہ ہائے نظر سے بھی انصاف نہیں کر پائے۔ چونکہ کتاب کے عنوان میں اسلام کا ذکر ہے، اس لیے ’’گلوبلائزیشن اسلام کی نظر میں ‘‘ کے زیر عنوان صرف بیس (۲۰) صفحات پر مشتمل آخری باب میں مصنف نے گلوبلائزیشن کو اسلامی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے اور اس کے مقابل اسلامی پروگرام پیش کیا ہے۔ اتنی ضخیم کتاب کے مقابل میں صرف بیس صفحات میں اسلامی پروگرام کی تمام جہات کا مدلل اور جامع احاطہ یقیناًناممکن تھا ، اس لیے کتاب کا یہ باب، جسے سب سے زیادہ وقیع ہونا چاہیے تھا، سب سے کمزور صورت میں سامنے آیا ہے۔ 
ان تمام کمیوں کے باوجود راقم الحروف کی رائے میں ایسے احباب جو گلوبلائزیشن کی بابت کچھ نہیں جانتے یا پھر بہت کم جانتے ہیں، ان کے لیے یہ نہایت مفید کتاب ہے کہ اس میں خاصی معلومات اکٹھی کر دی گئی ہیں۔ معلومات کے اس ذخیرے سے قارئین کرام حسبِ صلاحیت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ 
پاکستان میں اس کتاب کو دارالاشاعت ( اردوبازار ، ایم اے جناح روڈ کراچی) نے شائع کیا ہے اور اس پر قیمت درج نہیں۔ 
(پروفیسر میاں انعام الرحمن)

مولانا محمد علی جوہر کی یاد میں ایک نشست

ادارہ

مولانا محمد علی جوہر تحریک آزادئ ہند کے عظیم رہنما اور تحریک خلافت کے قافلہ سالار تھے۔ آپ کی پیدایش ۱۰ دسمبر ۱۸۷۸ کو نجیب آباد رام پور انڈیا میں ہوئی جبکہ انتقال ۴ جنوری ۱۹۳۱ کو ہوا۔ آپ کی تدفین بیت المقدس میں ہوئی۔
۱۰  دسمبر کو مولانا محمد علی جوہر کے یوم ولادت کے موقع پر الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ پروگرام میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض جناب فضل حمید چترالی (فاضل دار العلوم حقانیہ) نے انجام دیے۔ تلاوت کی سعادت جناب محمد صاحب (فاضل دار العلوم کراچی) نے حاصل کی جبکہ جناب ابوبکر محمود (فاضل خیر المدارس ملتان) نے بارگاہ رسالت مآب میں ہدیہ عقیدت پیش کیا۔ اس کے بعد تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا۔ جناب محمد رمضان خالد (فاضل دار العلوم ربانیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ) نے مولانا محمد علی جوہر کی صحافتی زندگی پر روشنی ڈالی اور برصغیر کے عوام کی بیداری میں اخبار ’’کامریڈ‘‘ اور ’’ہمدرد‘‘ کی کوششوں کو خصوصی طور پر سراہا۔ جناب محمد شفیع (فاضل دار العلوم فیصل آباد) نے مولانا جوہر مرحوم کی پوری تحریکی زندگی کا تاریخی حوالوں کے ساتھ خلاصہ پیش کیا۔ انھوں نے مولانا محمد علی جوہر کی پوری زندگی کو سراپا عمل قرار دیا اور کہا کہ وہ ایسے بطل حریت تھے جنھوں نے انگریزی سامراج کو ہر میدان میں للکارا۔ جناب محمد توقیر (فاضل خیر المدارس ملتان) نے مولانا جوہر کو نوجوان نسل کے لیے مثالی نمونہ قرار دیا اور کہا کہ مولانا نے علماء کرام اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو تحریک خلافت کے پلیٹ فارم پر جمع کر کے عظیم کارنامہ سرانجام دیا۔
پروفیسر محمد اکرم ورک نے اختتامی کلمات میں طلبا کے خیالات کو سراہا اور اسلاف کے کارناموں کو یاد رکھنے کی تلقین کی۔ اکادمی کے ناظم مولانا محمد یوسف نے مولانا جوہر اور تحریک آزادی کے دیگر راہ نماؤں کے لیے خصوصی دعا کی اور اس طرح یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔ 
(رپورٹ: منیر احمد، فاضل جامعہ اسلامیہ راول پنڈی، شریک خصوصی تربیتی کورس الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ)

فروری ۲۰۰۵ء

موجودہ صورتحال میں دینی حلقوں کی ذمہ داریمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
علامہ اقبالؒ کی شخصیت اور ان کا فکر و فلسفہ ۔ مولانا سندھیؒ کے ناقدانہ خیالات کی روشنی میںپروفیسر محمد سرور 
اسلامی حکومت کا فلاحی تصورپروفیسر میاں انعام الرحمن 
پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ اور فتنہ انکارِ سنت ۔ تفسیر ضیاء القرآن کی روشنی میںپروفیسر محمد اکرم ورک 
مکاتیبادارہ 
ثقافتی زوال کا رجائیہ نوحہپروفیسر میاں انعام الرحمن 
پشاور فقہی کانفرنس / الشریعہ اکادمی میں فکری نشستپروفیسر حافظ منیر احمد 
تعارف و تبصرہادارہ 

موجودہ صورتحال میں دینی حلقوں کی ذمہ داری

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(لاہور سے شائع ہونے والے ایک دینی جریدہ ماہنامہ ’آب حیات‘ کی طرف سے گزشتہ دنوں ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی سے ایک انٹرویو لیا گیا جو مذکورہ جریدہ کے جنوری ۲۰۰۵ کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ یہ انٹرویو’آب حیات‘ کے شکریہ کے ساتھ یہاں نقل کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

سوال:  سب سے پہلے تو ہم آپ کو اپنے رسالہ ماہنامہ ’آب حیات‘ کی انتظامیہ کی جانب سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ اپنے خاندانی پس منظر کے حوالے سے کچھ بتائیں۔
جواب: ہمارا تعلق ضلع مانسہرہ، ہزارہ میں آباد سواتی خاندان سے ہے جس کے آباو اجداد کسی زمانے میں نقل مکانی کر کے ہزارہ میں آباد ہو گئے تھے۔ ہمارے دادا نور احمد خان مرحوم شنکیاری سے آگے کڑمنگ بالا کے قریب چیڑاں ڈھکی میں رہتے تھے اور زمینداری کرتے تھے۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفرا زخان صفدر صاحب دامت برکاتہم اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی مدظلہ العالی چھوٹے بچے تھے کہ ان کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ والدہ کا بھی انتقال ہو چکا تھا۔ یہ دونوں حضرات دینی تعلیم کی طرف آ گئے۔ حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے مدرسہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر پنجاب کے مختلف مدارس، بالخصوص مدرسہ انوار العلوم، مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں درس نظامی کا بڑا حصہ پڑھا۔ ۱۹۴۱-۱۹۴۲ میں دار العلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی۔والد محترم ۱۹۴۳ سے گکھڑ ضلع گوجرانوالہ میں مقیم ہیں۔ میری ولادت ۱۹۴۸ میں ۲۸؍ اکتوبر کو ہوئی۔ میری والدہ محترمہ کا تعلق راجپوت خاندان سے تھا اور ہمارے نانا مرحوم مولوی محمد اکبر صاحب گوجرانوالہ میں ریلوے اسٹیشن کے قریب تالاب دیوی والا، رام بستی کی ایک مسجد کے امام تھے۔
سوال:  اپنی دینی ودنیاوی تعلیم کے بارے میں ضروری معلومات سے آگاہ کریں۔
جواب:  میں نے قرآن مجید گکھڑ کے مدرسہ تجوید القرآن میں مختلف اساتذہ کرام سے حفظ کیا جس میں سب سے آخری اور بڑے استاد محترم قاری محمد انور صاحب ہیں جو کہ آج کل مدینہ منورہ میں تحفیظ القرآن کے استاد ہیں۔ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۶۰ کو میرا حفظ مکمل ہونے پر گکھڑ کی جامع مسجد میں جو تقریب ہوئی، اس میں حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی، حضرت مولانا قاری فضل کریم اور حضرت مولانا قاری محمد حسن شاہ صاحب نے شرکت فرمائی تھی اور میں نے آخری سبق ان بزرگوں کو سنایا تھا۔ درس نظامی کے بڑے حصہ کی تعلیم میں نے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں حاصل کی اور میرے اساتذہ میں حضرت والد محترم مدظلہ اور حضرت عم مکرم مدظلہ کے علاوہ حضرت مولانا عبد القیوم ہزاروی مدظلہ، حضرت مولانا قاضی محمد اسلم صاحب، حضرت مولانا قاضی عزیز اللہ صاحب اور حضرت مولانا جمال احمد بنوی مظاہری مدظلہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ۱۹۷۰ میں مدرسہ نصرۃ العلوم سے میں نے فراغت حاصل کی۔
سوال:  عملی زندگی میں کب اور کیسے قدم رکھا؟
جواب:  دوران زمانہ طالب علمی مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحبؒ کی معاونت کے لیے بطور نائب خطیب میرا تقرر ہو چکا تھا، جبکہ اس سے قبل کم وبیش دو سال تک گتہ مل راہ والی کی کالونی کی مسجد میں خطابت کے فرائض سرانجام دیتا رہا ہوں۔ مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے مدرسہ انوار العلوم میں ۱۹۷۰ سے ۱۹۹۰ تک درس نظامی کی تدریس کے فرائض سرانجام دیتا رہا ہوں۔
سوال:  اپنے دینی کام اور معاشرتی مصروفیات پر روشنی ڈالیں۔
جواب:  ۱۹۸۲ میں مولانا مفتی عبد الواحدؒ کی وفات کے بعد مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے مستقل خطیب کی حیثیت سے میں نے ذمہ داری سنبھال لی تھی جو کہ بحمد اللہ تعالیٰ اب تک حسب استطاعت نباہ رہا ہوں۔ مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں تقریباً ۲۰ سال تک تدریسی خدمات انجام دیتا رہا ہوں جبکہ گزشتہ چھ سات سال سے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں تدریسی خدمات میرے سپرد ہیں اور والد محترم مدظلہ کی معذوری کے بعد صدارتِ تدریس اور نظامتِ تعلیمات کا بوجھ بھی میرے ناتواں کندھوں پر ہے۔ اللہ تعالیٰ نباہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 
علاوہ ازیں ۱۹۸۹ میں مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں الشریعہ اکادمی قائم کی تھی جس کا مقصد دعوت اسلام اور دینی تعلیم کے حوالے سے عصری تقاضوں کو اجاگر کرنا اور ان کی طرف دینی حلقوں کو توجہ دلانا تھا۔ بعد میں جی ٹی روڈ پر کنگنی والا بائی پاس کے قریب ہاشمی کالونی میں ایک کنال زمین کسی دوست نے وقف کر دی جہاں باقاعدہ عمارت تعمیر کر کے تعلیم وتربیت کا ایک نظام قائم ہے اور مختلف کلاسوں کے علاوہ درس نظامی کے فضلا کی ایک سالہ کلاس اس وقت زیر تعلیم ہے جس میں اس سال تیرہ علماے کرام شریک ہیں جنھیں انگریزی وعربی زبانوں اور کمپیوٹر ٹریننگ کے علاوہ بین الاقوامی قانون، تقابل ادیان، تاریخ اسلام اور حجۃ اللہ البالغہ کے منتخب ابواب کی تعلیم کے ساتھ سیاست، معیشت اور نفسیات کے مضامین کا تعارفی مطالعہ کرایا جاتا ہے اور تحقیق ومطالعہ کی عملی مشق کرائی جاتی ہے۔ اکتوبر ۱۹۸۹ سے ماہنامہ ’الشریعہ‘ باقاعدگی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے جسے علمی حلقوں میں بحمد اللہ تعالیٰ توجہ کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ اس کام میں میرے دو بڑے معاون حافظ محمد عمار خان ناصر اور مولانا حافظ محمد یوسف ہیں۔ عمار خان ناصر میرا بیٹا ہے جو نصرۃ العلوم کا فاضل اور اس میں درس نظامی کا مدرس ہے۔ اس نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا ہے اور بحمد اللہ تعالیٰ تحقیق ومطالعہ کے ذوق سے بہرہ ور ہے۔ مولانا حافظ محمد یوسف بھی نصرۃ العلوم کے فاضل ہیں اور درس نظامی کے علاوہ انگلش کے بھی اچھے استاد ہیں۔
صحافتی زندگی میں طالب علمی کے دوران ۱۹۶۵ میں روزنامہ ’’وفاق‘‘ لاہور کے نامہ نگار کی حیثیت سے داخل ہوا۔ اس کے بعد جمعیت علماے اسلام کے آرگن ہفت روزہ ’’ترجمان اسلام‘‘ لاہور کے ساتھ تعلق رہا اور متعدد بار کئی برس تک ایڈیٹر کے طور پر بھی فرائض سرانجام دیے۔ روزنامہ ’’پاکستان‘‘ اسلام آباد اور روزنامہ ’’اوصاف‘‘ اسلام آباد میں کئی سال مستقل کالم نگار کے طور پر وابستہ رہا اور ’’نوائے قلم‘‘ کے نام سے ہفتہ وار کالم لکھتا رہا۔ اب یہ کالم روزنامہ ’’پاکستان‘‘ لاہور میں لکھ رہا ہوں جبکہ روزنامہ ’’اسلام‘‘ میں بھی ’’نواے حق‘‘ کے عنوان سے ہفتہ وار کالم لکھتا ہوں۔
بیرون ملک ختم نبوت کانفرنسوں اور ورلڈ اسلامک فورم کی سرگرمیوں کے علاوہ دیگر تعلیمی، دعوتی اور مطالعاتی مقاصد کے لیے کئی ممالک میں جانا ہوا جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر، بھارت، بنگلہ دیش، ایران، افغانستان، ازبکستان، ترکی، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور کینیا شامل ہیں۔ مدرسہ نصرۃ العلوم کی سالانہ تعطیلات کے دوران شعبان المعظم اور اس کے ساتھ رمضان المبارک کا کچھ حصہ برطانیہ اور امریکہ میں تعلیمی سرگرمیوں میں مصروفیت رہتی ہے اور متعدد دینی اداروں سے مشاورت اور معاونت کا تعلق ہے۔
سوال:  آپ نے کون سی جماعتوں اور تحریکوں میں سرگرم کردار ادا کیا؟
جواب:  سیاسی وتحریکی ذوق طالب علمی کے دور سے ہے۔ جمعیۃ طلباے اسلام پاکستان کو منظم کرنے میں حصہ لیا اور جمعیۃ علماے اسلام میں بتدریج شہر، ضلع، صوبہ اور مرکز کی سطح پر سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے فرائض سرانجام دینے کاموقع ملا۔ مرکزی سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے میرا انتخاب حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی تجویز پر ہوا اور پھر ان کی وفات تک ان کی معاون ٹیم کے ایک متحرک رکن کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ ۱۹۷۴ اور ۱۹۸۴ کی تحریک ختم نبوت میں عملی حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ۷۴ کی تحریک ختم نبوت میں مرکزی مجلس عمل کے سیکرٹری اطلاعات کے طور پر کام کیا۔ ۱۹۷۷ میں پاکستان قومی اتحاد قائم ہوا تو اس کی دستور ساز اور منشور ساز کمیٹیوں اور پارلیمانی بورڈ میں جمعیۃ کی نمائندگی کی۔ پنجاب کا قومی اتحاد کا نائب صدر اور پھر سیکرٹری جنرل رہا۔ ۱۹۸۸ میں اسلامی جمہوری اتحاد قائم ہوا تو اس میں بھی دستور ساز اور منشور ساز کمیٹیوں میں جمعیۃ علماء اسلام (درخواستی گروپ) کی نمائندگی کی اور صوبائی نائب صدر رہا۔
ملکی سیاسیات کے حوالہ سے اب بھی جمعیۃ علماے اسلام پاکستان سے وابستہ ہوں اور اس کا باقاعدہ رکن ہوں مگر متحرک کردار سے کنارہ کش ہوں، البتہ عملی سیاست سے ہٹ کر فکری اور نظریاتی کام کے حوالے سے حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی کے ساتھ مل کر ’’پاکستان شریعت کونسل‘‘ کے نام سے ایک فکری فورم قائم کر رکھا ہے۔
گزشتہ عشرہ کے اوائل میں لندن میں مولانا محمد عیسیٰ منصوری کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر ایک فکری اور علمی فورم ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ کے نام سے قائم کیا جو کہ علمی اور فکری میدان میں عصر حاضر کے تقاضوں کا احساس اجاگر کرنے میں مصروف ہے اور اس کی سرگرمیوں کا دائرہ برطانیہ، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔ اس وقت مولانا منصوری اس کے چیئرمین جبکہ میں سیکرٹری جنرل کے طور پر کام کر رہا ہوں۔ 
سوال:  پاکستان شریعت کونسل بنانے کی وجہ، اس کے اغراض ومقاصد اور اس کی کارکردگی پر روشنی ڈالیں۔
جواب:  جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے، پاکستان شریعت کونسل کے قیام کا مقصد عملی سیاست سے ہٹ کر خالصتاً فکری اور نظریاتی کام کے حوالے سے جدوجہد کرنا ہے۔ پاکستان شریعت کونسل کے ذریعے اسلامائزیشن اور دیگر ملی ودینی مسائل کے بارے میں دینی حلقوں کو متوجہ کرنے اور رابطہ کا ماحول قائم رکھنے کے لیے ہم سرگرم عمل رہتے ہیں۔ پاکستان شریعت کونسل میں ہمارے ساتھ مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، مولانا عبد الرشید انصاری، مولانا سیف الرحمن ارائیں، مولانا عبد العزیز محمدی، مولانا میاں عصمت شاہ کاکاخیل، مولانا سخی داد خوستی، مولانا قاری محمد الیاس، مولانا محمد نواز بلوچ، مولانا صلاح الدین فاروقی، جناب احمد یعقوب چوہدری، حاجی جاوید ابراہیم پراچہ اور دیگر بہت سے احباب شریک ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھتے ہوئے بھی ہم علمی ونظریاتی کاموں کے لیے باہمی مشاورت سے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں اور ہمارا دائرۂ کار یہ ہے کہ کوئی مسئلہ سامنے آئے تو اس کے بارے میں متعلقہ لوگوں کو توجہ دلائی جائے، مسئلہ کی نوعیت کو بریفنگ رپورٹ کی صورت میں واضح کیا جائے اور اس کے حل کے لیے مشترکہ محنت کی راہ ہموار کی جائے۔ اس سے زیادہ کوئی کام ہم اپنے ذمہ نہیں لیتے اور کوشش کرتے ہیں کہ کوئی بھی مسئلہ ہو، اس کے متعلقہ لوگوں کو متحرک کر کے اس کے لیے جدوجہد کی راہ نکالی جائے اور ان سے حتی الوسع تعاون کیا جائے۔
سوال:  کیا کبھی قید وبند کی نوبت بھی پیش آئی؟
جواب:  تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفی ﷺ، گوجرانوالہ میں مسجد نور کو محکمہ اوقاف سے واگزار کرانے کی تحریک اور دیگر متعدد تحریکات میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ بھٹو دور میں کئی بار جیل یاترا کی۔ مسجد نور کی تحریک میں کم وبیش چار ماہ اور تحریک نظام مصطفی ﷺ میں ایک ماہ جیل کاٹی۔ اس کے علاوہ بھی متعدد بار تھوڑی تھوڑی مدت کے لیے جیل جانے کا موقع ملا۔
سوال:  دینی مدارس کے نظام تعلیم کی اصلاح کے بارے میں آپ کا کیا نقطہ نظر ہے؟
جواب:  دینی مدارس کے نظام تعلیم کے بارے میں ایک عرصہ سے اس رائے کا اظہار کر رہا ہوں کہ دینی مدارس کی آزادی اور خود مختاری کا بہرحال تحفظ ہونا چاہیے اور انھیں کسی قسم کی سرکاری سرپرستی اور امداد قبول نہیں کرنی چاہیے۔ نیز دینی مدارس کو اپنے بنیادی اہداف میں بھی کوئی تبدیلی قبول نہیں کرنی چاہیے اور انھیں معاشرے میں دینی تعلیم کے فروغ، اسلامی روایات واقدار کے تحفظ اور دینی خدمت کے لیے رجال کار کی فراہمی کے کام پر ہی بنیادی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ البتہ اپنے اہداف ومقاصد کے حوالے سے انھیں آج کی ضروریات اور تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے ان کی روشنی میں تعلیمی نصاب ونظام میں مناسب ترامیم اور تبدیلیوں سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
سوال:  آپ دینی مدارس کے نصاب میں عصری نصاب کی شمولیت کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ نیز حکومت مدارس کے نصاب میں تبدیلی چاہتی ہے، جبکہ مدارس اس کی مزاحمت کر رہے ہیں۔ عام آدمی یہ جاننا چاہتا ہے کہ مدارس یہ مزاحمت کیوں کر رہے ہیں، جبکہ وہ ان مضامین کو داخل نصاب کرتے چلے جا رہے ہیں جو حکومت چاہتی ہے۔
جواب:  دینی نصاب تعلیم میں انگلش زبان، کمپیوٹر ٹریننگ، بین الاقوامی قانون، تقابل ادیان ، مغربی فلسفہ وتہذیب، تاریخ اسلام اور ان جیسے دیگر ضروری مضامین کا اضافہ ایک ناگزیر ضرورت ہے جس سے صرف نظر کے نقصانات مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ اسی طرح اساتذہ کی فنی اور فکری تربیت کے نظام ونصاب کی بھی ضرورت ہے جس کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔
سوال:  پاکستان کے عصری نظام تعلیم اور عصری اداروں پر آپ کا کیا تبصرہ ہے؟
جواب:  عصری نظام تعلیم کا تو سرے سے کوئی رخ ہی متعین نہیں ہے اور نہ ہی اہداف طے ہیں۔ وقت کی حکومت اسے اپنے رجحانات کے مطابق جس طرف کھینچنا چاہتی ہے، کھینچتی رہتی ہے۔ اسی کشمکش میں اس کا حلیہ بگڑ کر رہ گیا ہے اور اب تو اسے آغا خان فاؤنڈیشن کے ذریعے سے عالمی سیکولر ایجوکیشنل سسٹم کا تابع فرمان بنانے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں جس پر عمل درآمد کی صورت میں ہمارے قومی تعلیمی نظام ونصاب میں باقی ماندہ اور رہی سہی علامات وروایات بھی ختم ہو کر رہ جائیں گی۔ بدقسمتی سے ہماری دینی جماعتوں کے نزدیک اس مسئلہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس لیے ان کی تگ ودو اور سرگرمیوں میں عصری تعلیمی نظام پر نظر اور خرابیوں کی نشان دہی واصلاح کا کوئی پروگرام نہیں ہوتا۔
سوال:  پاکستان کی سیاسی صورت حال کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب:  ملک میں قومی سیاست کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ گروہی، طبقاتی اور علاقائی سیاست کی گرم بازاری ہے۔ مختلف طبقات اور گروہ اپنے اپنے مفادات کی سیاست کر رہے ہیں اور اجتماعی وقومی سیاست کا کوئی ماحول آج تک قائم نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے قومی معاملات پر سیاست دانوں کی گرفت نہیں ہے اور وہ دیگر طاقت ور قوتوں کے آلہ کار سے زیادہ کوئی کردار اپنے لیے حاصل نہیں کر سکے۔ سیاست دانوں کی اپنی نااہلی کے ہاتھوں ہم قومی خود مختاری سے محروم ہو چکے ہیں اور ہمارے معاملات کا کنٹرول ہمارے پاس نہیں رہا۔ دینی سیاست کی علم بردار جماعتیں بھی اصولی اور نظریاتی سیاست کے بجائے معروضی سیاست پر آگئی ہیں اور اس کان نمک میں وہ بھی نمک ہی ہوتی جا رہی ہیں۔ اس وقت ہماری سب سے بڑی ضرورت قومی خود مختاری کی بحالی اور سیاسی اداروں کا استحکام ہے، مگر کوئی اس کے لیے آواز اٹھانے اور قربانی دینے کو تیار نہیں ہے۔ ہمارے سیاسی ادارے بلکہ ریاست کے دیگر بنیادی ستون بھی اندھی طاقت کی بھٹی میں پگھل کر رہ گئے ہیں اور قومی خود مختاری، سیاسی مفادات کے دھندلکوں میں غائب ہو گئی ہے۔
سوال:  نائن الیون کے حادثے کے بعد پاکستان نے جو اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر یو ٹرن لیا ہے اور پرویز مشرف نے جو دینی ومذہبی جماعتوں اور اداروں کے متعلق سخت رویہ اپنایا ہے، اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب:  نائن الیون کے حادثہ کے بعد جنرل پرویز مشرف نے خارجہ پالیسی میں جو یو ٹرن لیا ہے اور داخلی طور پر دینی قوتوں کو دبانے اور کرش کرنے کی جو پالیسی اختیار کی ہے، وہ ایک طویل پروگرام کا حصہ ہے۔ اس میں کمی یا نرمی کا سردست کوئی امکان نظر نہیں آ رہا، بلکہ اس ایجنڈے کے مختلف نئے تقاضے سر اٹھاتے جا رہے ہیں۔ دینی حلقوں کو اس امتحان سے بہرحال گزرنا ہوگا اور صبر وحوصلہ کے ساتھ آنے والے حالات کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس وقت ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ہمارے اسلاف اور اکابر نے دین اور ملت کے حوالے سے جو ورثہ ہم تک پہنچایا ہے، ہم اسے کسی نقصان کے بغیر اگلی نسلوں تک منتقل کر دیں اور اسے اس کی اہمیت اور نزاکتوں کا صحیح طور پر احساس دلا دیں۔ اگر ہم ایسا کر پائے تو یہ اس مشن میں ہماری کامیابی اور سرخ روئی متصور ہوگی۔ اس سے زیادہ ہمیں کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
سوال:  اس وقت دنیا بھر میں دہشت گردی کی وجہ اور محرکات کیا ہیں؟
جواب:  اس وقت جس عمل کو دنیا میں دہشت گردی کہا جا رہا ہے، وہ خود امریکا کا پیدا کردہ ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں روس کے خلاف جنگ کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اسلحہ کی ٹریننگ دی اور روسی جارحیت کے خلاف افغان عوام کی مزاحمتی جنگ کو جہاد تسلیم کرتے ہوئے اس کی سیاسی وعسکری سرپرستی کی۔ اب وہی لوگ مختلف علاقوں میں امریکی بالادستی کے خلاف برسر پیکار ہیں تو انھیں دہشت گرد کہا جا رہا ہے۔ ایک امریکی دانش ور نے مجھ سے کہا کہ پاکستان کے دینی مدارس میں جہاد کی تعلیم دی جاتی ہے۔ میں نے گزارش کی کہ بالکل درست بات ہے کہ ہمارے ہاں جہاد کی تعلیم دی جاتی ہے۔ تعلیم ہم نے دی ہے مگر عملی ٹریننگ تم نے دی ہے اور اسے عملی عسکریت کا رخ تم نے دکھایا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں جہاں بھی جہاد کی کارروائیاں ہو رہی ہیں، جنھیں دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے، تو اس کی عملی ٹریننگ کا نسب نامہ امریکہ سے جا ملتا ہے۔ اسلحہ اور اس کی ٹریننگ کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے مگر امریکہ اس بات کو قبول کرنے کی اخلاقی جرات سے محروم ہے اور اس کی ذمہ داری دینی مدارس کے کھاتے میں ڈال کر دنیا کے سامنے سرخ رو ہونا چاہتا ہے۔
سوال:  اس وقت امریکہ کی سربراہی میں لڑی جانے والی جنگ دو تہذیبوں کے باہمی تصادم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ مستقبل قریب میں اس کی کیا صورت حال ہوگی اور عالمی امن پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
جواب:  اس وقت دنیا میں جو تہذیبی جنگ مسلسل آگے بڑھ رہی ہے، اس کا آغاز اسی وقت ہو گیا تھا جب مغربی ممالک نے اقوام متحدہ کے نام سے انسانی حقوق کا چارٹر یک طرفہ طور پر منظور کر کے اسے ساری دنیا کے لیے لازمی قرار دے دیا تھا۔ یہ چارٹر اسلام کی بنیادی تعلیمات سے متصادم ہے اور قرآن وسنت کے بیسیوں احکامات کی نفی کرتا ہے، لیکن اسے آج کی دنیا میں انسانی حقوق کا واحد معیار قرار دے کر اسلامی دنیا پر اسے قبول کرنے کے لیے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ اس کی بنیاد پر اسلامی تعلیمات کے خلاف لابنگ اور پراپیگنڈا کی ہمہ گیر مہم جاری ہے اور اسی کے حوالے سے قرآن وسنت کے احکام اور مسلمانوں کی دینی روایات کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ یہ یک طرفہ تہذیبی جنگ اور ون وے ثقافتی یلغار ہے جس میں سب کچھ ایک ہی طرف سے ہو رہا ہے۔ دوسری طرف مکمل سناٹا ہے، خاموشی ہے اور خود سپردگی کا مکروہ منظر ہے۔ صرف دینی حلقے اور غریب مسلمان اس حد تک میدان میں کھڑے ہیں کہ وہ اس یلغار کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور مغرب کی تہذیبی بالادستی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے کیمپ کی طرف سے اور کیا ہو رہا ہے؟ یہ انھی دینی حلقوں اور غریب مسلمانوں کی مزاحمتی مدافعت کی برکت ہے کہ مقابلے کی کچھ فضا بنی ہوئی ہے، ورنہ جہاں تک مسلمان ملکوں کے حکمران گروہوں، بالادست طبقات اور دانش وروں کا تعلق ہے، اگر ان کے بس میں ہوتا وہ دینی روایات، اسلامی اقدار اور ملی ورثہ کا لباس اتار کر کب کے اس حمام میں ننگے ہو چکے ہوتے۔
سوال:  مسلمانوں کے موجودہ زوال کے اسباب کیا ہیں؟
جواب:  مسلمانوں کے زوال کے اسباب میں سے میرے نزدیک سب سے نمایاں باتیں تین ہیں:
۱) خلافت راشدہ کے بعد ہم کوئی مستحکم سیاسی نظام قائم نہیں کر سکے۔ خلافتوں کا وجود غنیمت تھا، لیکن ان کی بنیاد طاقت اور خاندانوں پر رہی ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے خلافت کے قیام کو عام مسلمانوں کی صواب دید پر چھوڑ دیا اور رائے عامہ پر اعتماد کیا تھا، مگر ہم اس روایت کو قائم نہ رکھ سکے جبکہ یورپ نے اسے اپنا لیا۔
۲) خلافت راشدہ میں فلاحی اور رفاہی ریاست کا جو تصور اجاگر ہو رہا تھا، ہم اس کا تسلسل قائم نہ رکھ سکے اور یہ روایت بھی ہم سے یورپ نے چھین لی۔
۳) سائنس اور ٹیکنالوجی میں یورپ کو پیش قدمی کا راستہ دکھا کر خود ہم اس راہ سے ہٹ گئے اور میدان یورپ کے حوالے کر دیا جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے اور اس میدان میں مغرب سے پیچھے رہ جانے کی سزا خدا جانے ہم کب تک بھگتتے رہیں گے۔ اس شعبہ میں ہماری بے بسی کا یہ عالم ہے کہ عسکری قوت تو رہی ایک طرف، ہم اپنی روز مرہ ضرورت کی اشیا خود تیار کرنے سے قاصر ہیں اور خود اپنے وسائل سے براہ راست استفادہ کی صلاحیت سے بھی بہروہ ور نہیں ہیں۔
سوال:  پاکستان کے پاسپورٹ سے مذہب کا خانہ ختم کرنے پر آپ کے کیا ریمارکس ہیں؟
جواب:  یہ پاکستان کے نظریاتی تشخص کو ختم کرنے اور قادیانیوں کے خلاف دستوری فیصلہ کو غیر موثر بنانے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے اور ملک کے دینی حلقوں کو اس پر حکومت سے موثر احتجاج کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی لابیاں اور غیر ملکی این جی اوز ایک عرصہ سے اس کوشش میں ہیں کہ پاکستان کے دستور میں شامل اسلامی دفعات اور خاص طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے جمہوری فیصلے کو غیر موثر بنا دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے کے اضافے کا مطالبہ منظور نہیں کیا جا رہا اور اب پاسپورٹ سے بھی مذہب کا خانہ حذف کر دیا گیا ہے جو کہ ملک کے نظریاتی تشخص اور دستور کی اسلامی دفعات سے انحراف ہے۔
سوال:  آج کے ماحول میں ہمیں کون کون سے چیلنج درپیش ہیں اور علماے کرام کو اس سلسلہ میں کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟
جواب:  آج امت مسلمہ کو آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، چاروں طرف سے دشمنان اسلام کی یلغار کا سامنا ہے۔ اس سلسلے میں بہت کچھ کہنے کی ضرورت اور گنجایش ہے۔ علماے کرام اور دینی کارکنوں سے میری یہی گزارش ہے کہ دینی جدوجہد سے لاتعلق نہ رہیں، کیونکہ اس دور میں، اس ماحول میں دین کی جدوجہد سے کلیتاً لاتعلق رہنے میں مجھے ایمان کا خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ جس شعبہ میں آپ آسانی سے کام کر سکتے ہیں، وہاں کریں، لیکن دینی جدوجہد میں خاموش تماشائی نہ بنیں۔ جو شخص دین کے جس شعبے میں اور دینی جدوجہد کے جس محاذ پر کام کر رہا ہے، اسے کام کرنے دیں۔ اس کی مخالفت نہ کریں، حوصلہ شکنی نہ کریں، آپس میں رابطہ اور مشاورت کا ماحول بنائیں، ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں۔ اسی سے قوت پیدا ہوگی اور باہمی اعتماد بڑھے گا۔
سوال:  میڈیا کی طرف ہمارے دینی طبقہ کا رجحان کم ہے اور لادین طبقہ پوری طرح میڈیا پر چھایا ہوا ہے۔ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب:  میڈیا اور ذرائع ابلاغ نے پوری طرح دنیا کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ایک طرف اسلامی عقائد واحکام اور قوانین کے متعلق پروپیگنڈا ہوتا ہے۔ دوسری طرف دینی قوتوں اور اسلامی تحریکات کی کردار کشی کی مہم جاری ہے اور انھیں دہشت گرد اور بنیاد پرست قرار دے کر ان کے خلاف پوری دنیا میں نفرت کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔ تیسری طرف بے حیائی، ناچ گانا، عریانی اور سفلی خواہشات کو ابھار کر نئی نسل کو اخلاقی طور پر تباہ کیا جا رہا ہے۔ اس یلغار کا سامنا بھی اہل حق ہی نے کرنا ہے اور یہ بھی علماے کرام اور دینی مراکز کی ذمہ داری میں شامل ہے۔
دینی صحافت سے تعلق رکھنے والے حضرات کے حوالے سے میری ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ ان کے درمیان مشاورت اور تبادلہ خیال کا کوئی ایسا نظم ضرور قائم ہونا چاہیے جس کے تحت دینی جرائد کے مدیران گرامی اور قلم کار حضرات وقتاً فوقتاً مل بیٹھیں، مسائل پر باہمی تبادلہ خیالات کریں، ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں، باہمی تقسیم کار کے مختلف شعبوں میں کام کی صف بندی کریں اور ایک دوسرے کو مختلف حوالوں سے سپورٹ کریں۔
سوال:  ’’آب حیات‘‘ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:  ماہنامہ ’’آب حیات‘‘ وقتاً فوقتاً میری نظروں سے گزرتا رہتا ہے اور میں مولانا محمود الرشید حدوٹی کی صلاحیتوں اور جوش عمل کا معترف ہوں۔ وہ جس حوصلہ اور جذبات کے ساتھ دینی حلقوں کے جذبات کی ترجمانی کر رہے ہیں، وہ قابل داد ہے اور اس سے نوجوان علماے کرام کو حوصلہ ملتا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت مولانا محمود الرشید حدوٹی اور ان کے رفقاے کرام کے حوصلہ اور عزائم میں برکت دیں اور ذوق، سلیقہ، توفیق، قبولیت اور نتائج وثمرات سے بہرہ ور فرماتے رہیں۔ آمین یا رب العالمین۔
سوال:  ’’آب حیات‘‘ پڑھنے والوں کے نام کوئی پیغام؟
جواب:  ماہنامہ ’’آب حیات‘‘ ایک مقدس اور اصلاحی تحریک ہے۔ قارئین اس کوپھیلانے کی حتی الوسع کوشش کریں۔ خود بھی پڑھیں اور اپنے متعلقین کو بھی اس کے مطالعہ کی ترغیب دیں۔
سوال:  ہم اپنی طرف سے، مدیر اعلیٰ مولانا محمود الرشید حدوٹی صاحب اور ادارہ ’’آب حیات‘‘ کی جانب سے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی قیمتی مصروفیات میں سے ہم کو وقت دیا۔

علامہ اقبالؒ کی شخصیت اور ان کا فکر و فلسفہ ۔ مولانا سندھیؒ کے ناقدانہ خیالات کی روشنی میں

پروفیسر محمد سرور

مولانا سندھی نے کہا: قرآن مجید یہود اور نصاریٰ کی بے راہ رویوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: اتخذوا احبارہم ورہبانہم اربابا من دون اللہ والمسیح ابن مریم وما امروا الا لیعبدوا الہا واحدا لا الہ الا ہو سبحانہ عما یشرکون (ٹھہرا لیا اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا، اللہ کو چھوڑ کر اور مسیح مریم کے بیٹے کو بھی، اور ان کو حکم یہی ہوا تھا کہ بندگی کریں ایک معبود کی۔ کسی کی بندگی نہیں اس کے سوا۔ وہ پاک ہے ان کے شریک بتلانے سے) (سورۃ التوبہ آیت ۳۱)
مولانا فرمانے لگے کہ مسلمانوں میں پہلے شاہ پرستی آئی اور اس شاہ پرستی نے احبار (علما) ورہبان (درویش) پرستی کو جنم دیا۔ تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی (۱۲۵۸) کے بعد امام ابن تیمیہؒ (۱۲۶۳۔۱۳۲۸) نے اس احبار ورہبان پرستی کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کی اس دعوت کا سلسلہ برابر جاری رہا او ریہ آواز دور دور تک پہنچی۔ اس دعوت کی ایک کڑی شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدیؒ (۱۷۰۳۔۱۷۸۷) تھے۔ یہاں ہندوستان میں اکبر بادشاہ نے علما اور مشائخ کا زور توڑنے کی کوشش کی۔ دین الٰہی سے دراصل اس کا یہی مقصد تھا اور وہ اس طرح اس طبقے کی دینی وسیاسی اجارہ داری کو ختم کرنا چاہتا تھا جس میں وہ ناکام ہوا۔ مولانا نے کہا: میں اقبال کی بڑی عزت کرتا ہوں کہ اس نے شاعری کے ذریعہ، جس کی تاثیر نثر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے، مسلمانوں کو خودی کی تعلیم دے کر اس احبار ورہبان پرستی کے خلاف ابھارا۔ جمود، سکون پسندی، تقدیر پر صابر وشاکر ہونے اور اشخاص پرستی کو مذموم قرار دیا اور ان کے اندر جوش عمل اور جرات کردار پیدا کرنے کی جدوجہد کی۔ میں مانتا ہوں کہ اقبال کی شاعری نے بڑا کام کیا اور نوجوانوں کی ذہنی بیداری میں اس کا بڑا حصہ ہے، لیکن ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ احبار اور رہبان اب بھی ہمارے ہاں پج رہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ میرے نزدیک اس کا علاج صرف یورپین ازم اور نیابتی حکومت ہے۔ جس دن عوام نے سمجھ لیا کہ اقتدار کے مالک وہ ہیں اور حکومت ان کے ووٹوں سے بنے گی اور ٹوٹے گی، اس دن سے مسلمانوں کے ’’احبار‘‘ اور ’’رہبان‘‘ کی قبر کھدنی شروع ہو جائے گی۔
مولانا کہتے تھے کہ میں اقبال کی شاعرانہ عظمت اور ان کے اس عظیم دعوت وابلاغ کے کارنامے کا دل سے معترف ہوں، لیکن میرے نزدیک سیاسی قیادت اور دینی امامت ایک شاعر کے، خواہ وہ کتنا بھی بڑا شاعر کیوں نہ ہو، سپرد کر دینا قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں دھکیلنا ہے۔ اقبال کو میں بڑا شاعر مانتا ہوں، لیکن انھیں قوم کا قائد وامام تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اقبال کو قائد وامام ماننے سے ہی جملہ خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔ 
اقبال نے اپنے اشعار میں عجم اور قومیت کی جو مسلسل مخالفت کی ہے، مولانا کو ا س پر اعتراض تھا۔ مولانا کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا اسلامی تاریخ کے حقائق کا انکار کرنا ہے۔ ان کے نزدیک تاریخ اسلام کے اموی دور میں مسلمانوں کے جماعتی تصورات وخیالات اور ان کی ثقافت میں شامل عیسائی اور یہودی عناصر موثر تھے۔ عباسی عہد میں ایرانی تہذیب وادب اور یونانی فلسفہ ومنطق برسرکار آئے۔ اسی سے تصوف اور علم کلام واسلامی فلسفہ پروان چڑھے اور ان کے ذریعہ عجمیوں نے اسلام کی ہر لحاظ سے خدمت کی اور ہندوستان میں ہندی فکر نے اسلام کے تصورات وثقافت کو جلا دی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تاریخ اسلام کے عربوں کے دور کو مقدس سمجھ لیا گیا اور ایرانیوں، ترکوں اور ہندوستانیوں کے عہدوں کو زوال کا زمانہ مان لیا گیا، حالانکہ اسلام کے عالمگیر انقلاب کے اعتبار سے یہ سب دور ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اس انقلاب کا اپنے مختلف مراحل میں قومی رنگ اختیار کرنا بالکل فطری تھا۔ مولانا کہتے تھے کہ بد قسمتی سے اقبال اسلامی تاریخ کے ارتقا کے ان قدرتی مظاہر کو نہ سمجھا اور وہ ساری عمر عجم وعجمیت کی مذمت اور عرب وعربیت کی تعریف کرتا رہا۔
مولانا نے اقبال کی قومیت ووطنیت دشمنی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: میں مسلمانوں کی الگ الگ قومیتوں کے انکار کے خلاف ہوں، بلکہ میرے نزدیک تو خود اس برعظیم میں بڑی بڑی زبانیں بولنے والی آبادیاں، قومیں ہیں۔ ایک خاص خطے اور ایک خاص ماحول میں رہنے والے زندگی کا ایک خاص رنگ جو سب میں مشترک ہوتا ہے، اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کی ایک زبان ہوتی ہے۔ اسلام کی ترقی اور نشر واشاعت کے لیے ان قومیتوں کا اعتراف ضروری ہے اور اس سلسلے میں اسلام کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ اس کی عالمگیر تعلیم کو ان قوموں کی زبان میں پھیلایا جائے۔
ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے اور اس غلطی کو اپنی نہایت دل آویز، انتہائی موثر اور بڑی زور دار شاعری کے ذریعہ نوجوان مسلمانوں کے دلوں اور دماغوں میں بہت گہرا اتارنے میں اقبال کا سب سے بڑا حصہ ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کے الگ الگ قوم ہونے کا انکار کیا اور اپنے آپ کو بس ایک عالمگیر اسلامی برادری کا ایک حصہ سمجھتے رہے۔ اب امر واقعہ یہ ہے کہ مصری، عراقی، ایرانی، ترکی یہاں تک کہ حجازی بھی ۹۰ فی صد قومی ہیں اور ۱۰ فی صد مسلمان اور ان کے مقابلے میں ہم ۱۰۰ فی صد مسلمان ہیں اور ہمیں کسی قوم میں سے ہونے میں عار آتی ہے۔ مولانا کہتے تھے کہ اس فرضی سیاسی اسلامیت کی بدولت، جس کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں تھی، ہم مرزا غلام احمد جیسے نبی مصلح اور اقبال جیسے پیغمبر شاعر پیدا کر سکے لیکن ہم رہے ہوا ہی ہوا میں معلق۔ کسی دوسرے مسلمان ملک میں آپ کو اس زمانے میں اس طرح کے مہدی، مسیح موعود اور نبی بننے والے مذہبی پیشوا اور قومی امنگوں اور وطنی وملکی مطالبوں وآرزوؤں کو قابل توجہ نہ سمجھنے والے ’’پیغمبر‘‘ شاعر نہیں ملیں گے۔ وہاں قومی شخصیتیں پیدا ہوئیں جنھوں نے اپنے پس ماندہ محکوم اور خستہ ونزار عوام کو قومیت کے فطری جذبے کے تحت بیدار کرنے کی کوششیں کیں۔ اقبال نے جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا کو تو بے حد سراہا ہے لیکن شیخ محمد عبدہ اور مصطفی کمال کو نظر انداز کیا ہے، حالانکہ جہاں تک شیخ محمد عبدہ کا تعلق ہے، مصر اور ایک حد تک سارے عربی ممالک کا دینی فکر ان سے متاثر ہے۔ اور مصطفی کمال نے تو ترکی کی ساری کایا ہی پلٹ دی ہے۔ ان کے مقابلے میں نہ سید جمال الدین اور نہ حلیم پاشا کا مصر اور ترکی پر کوئی دیرپا اثر مترتب ہوا۔
مولانا سندھی کا کہنا یہ تھا کہ اجنبی غلامی کی سب سے بڑی لعنت یہ ہوتی ہے کہ محکوم اپنے قومی وجود اور اس کی شخصیت کو بھول جاتے ہیں، اس لیے آزادی کی جدوجہد میں سب سے پہلی منزل یہ ہوتی ہے کہ عوام میں اپنے قومی وجود اور اس کی شخصیت کا شعور پیدا کیا جائے۔ ترکوں، ایرانیوں اور عربوں نے اپنی جدوجہد آزادی میں سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا تھا۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں اقبال نے ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے ملت اسلامیہ کی ایک سیاسی شخصیت رکھی جس کا دنیا میں کہیں وجود نہ تھا۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ اگر اقبال کو ہندو مسلم متحدہ قومیت سے انکار تھا تو وہ اس برعظیم کی مسلمان آبادی کے گزشتہ آٹھ سو سال کے ہندی اسلامی فکر پر نظر ڈالتا اور اس کا احصا اور تجزیہ کر کے اس کی اساس پر اس سرزمین میں ہندوستانی مسلم قومیت کی عمارت اٹھاتا لیکن وہ دوسرے مسلمان ملکوں کے شاندار ماضی ہی کے راگ الاپتا رہا اور اسلامی ہند کی تاریخی عظمتوں میں خال خال اسے کوئی پرکشش موضوع سخن ملا۔
علامہ اقبال نے اسلامی کلچر اور اسلامی ثقافت کا جو فرضی ہیولیٰ کھڑا کر رکھا تھا، مولانا سندھی اس کے بھی سخت مخالف تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس قسم کی فرضی بحثوں سے ہندوستانی عوام، مسلمانوں اور ہندووں، ہر دو کی توجہ اصل مسائل سے، جو اجنبی غلامی سے آزادی حاصل کرنے اور معاشی حالت کو بہتر بنانے سے متعلق تھے، ہٹ جاتی تھی اور اس سے بالواسطہ انگریزی حکمرانوں کو فائدہ پہنچتا تھا۔ مولانا کا کہنا تھا کہ کلچر قومی ہوتے ہیں، جیسے زبانیں اور ادب قومی ہوتے ہیں۔ اگر ایک قوم مسلمان ہے تو ظاہر ہے اس کا قومی کلچر اسلامی عقائد وروایات وتاریخ سے متاثر ہوگا۔ اب عوام کی سیاسی آزادی اور ان کی معاشی مرفہ الحالی کو پیچھے ڈال کر ایک فرضی اسلامی کلچر کو، جس کے تصورات تک واضح ومتیقن نہ تھے، سر پر چڑھا لینا ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ مولانا نے فرمایا، تم دیکھنا، اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔ اس سے ذہنی انتشار پیدا ہوگا۔مولانا یہ باتیں کرتے کرتے غصے میں آ گئے اور کہنے لگے: آج جو لوگ بڑھ چڑھ کر اسلامی کلچر کی باتیں کرتے ہیں، ان کی اپنی پوری زندگی، ان کا رہن سہن، ان کی سوچ بچار اور ان کے مجلسی آداب واطوار سب انگریزیت میں رنگے ہوئے ہیں۔
علامہ اقبال کی خود اپنی ذات اور شخصیت کے تضادات اور پھر ان کے فکر وعمل کے تضادات، راقم الحروف ان کی کنہ وحقیقت سمجھنا چاہتا تھا۔ علامہ اقبال کی عظیم شخصیت اور ان کے افکار عالی سے جہاں اور ہزاروں لاکھوں نئے تعلیم یافتہ متاثر ہوئے اور ان کے دلوں اور دماغوں پر علامہ اقبال کی شخصیت کی گہری چھاپ لگی، وہاں ایک میں بھی تھا، اس لیے مجھے ان کے ان تضادات سے بڑی ذہنی الجھن رہتی تھی۔ میں نے مولانا کے سامنے علامہ اقبال کے اس طرح کے کئی ایک تضادات پیش کیے اور پوچھا کہ ایسا کیوں ہے۔ ان کی ایک شخصیت کے اندر یہ دو الگ الگ شخصیتیں کیسے ہیں اور ان میں باہم کش مکش کیوں رہتی ہے؟ مولانا نے فرمایا: اقبال کو تھوڑا بہت جو میں سمجھ سکا ہوں، اس کے مطابق ان کے بارے میں میری رائے یہ ہے:
اقبال جس گھرانے میں پیدا ہوئے اور جس ماحول میں ان کی ابتدائی نشوونما ہوئی، اس میں اسلام سے جذباتی عقیدت بڑی رچی بسی ہوئی تھی۔ پھر خود قدرت نے انھیں یہ نعمت بدرجہ وافر دی تھی، چنانچہ اسلام سے جذباتی عقیدت اور رسول اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات گرامی سے والہانہ عشق ومحبت کے نقوش بچپن میں ان کے دل ودماغ پر ایسے ثبت ہوئے کہ وہ آخر عمر تک اپنی اسی تازگی کے ساتھ قائم رہے۔ ان کے ان جذبات عقیدت ومحبت میں پورا خلوص تھا اور بے حد شدت بھی۔ چنانچہ جب کبھی ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آتا تو ان کے انھی جذبات کو تحریک ہوتی تو جیسا کہ تم نے بتایا ہے، ان پر رقت طاری ہو جاتی، اپنے اوپر انھیں قابو نہ رہتا اور وہ رونے لگتے۔ اسی طرح جب کبھی اسلام کے ان معتقدات کے خلاف، جن کے سچے اور حق ہونے کے نقش نو عمری میں ان کے دل ودماغ پر ثبت ہو چکے تھے، کسی سے کچھ سنتے تو ان کے دل کو دھکا لگتا اور وہ بے قرار ہو جاتے۔ مولانا سندھی نے کہا: اپنے اس احساس، تاثر اور شدید رد عمل میں وہ بڑے مخلص تھے۔ اور یہ حقیقی اظہار ہوتا تھا ان کی اس شخصیت کا جو خود ان کے اپنے طبعی رجحان، خاندانی ورثے ، ماحول اور نوعمری کی رسمی تعلیم سے تعمیر ہوئی تھی۔
مولانا نے کہا: بعد میں جب وہ کالج میں پہنچے، پھر یورپ گئے اور جرمنی اور انگلستان کی اعلیٰ درس گاہوں میں انھوں نے یورپی فلسفہ پڑھا تو ان کی اپنی جو ایک فلسفی اور حکیم کی شخصیت ہے، اس کی تشکیل ہوئی۔ فلسفہ تشکیک، تنقید، آزادانہ غور وفکر، عدم تقلید اور فکری بغاوت کے رجحانات کو ابھارتا ہے۔ اور یہ کیسے ممکن تھا کہ اقبال جیسا غیر معمولی ذہین عالم وفاضل شخص ان موثرات کے اثر قبول نہ کرتا۔ چنانچہ اس نے یہ اثرات قول کیے اور ان سے اس کی ایک فلسفی وحکیم کی شخصیت بنی۔ اقبال کی یہ دو شخصیتیں باہم ترکیب پا کر اور ایک دوسرے سے پوری ممتزج ہو کر اس طرح ایک نہیں بنیں کہ دونوں کے ائتلاف وترکیب سے اقبال کی ایک سالم، کامل اور ہر لحاظ سے مربوط ومکمل شخصیت وجود میں آتی۔ وہ ہر چیز کو، خواہ وہ ان کا اپنا مذہبی عقیدہ ہو یا کوئی اور مسئلہ، اسے ایک نظر سے دیکھتے۔ وہ نظر خواہ وہ ایک شاعر کی ہوتی جسے جذبات متحرک کرتے ہیں، یا ایک فلسفی وحکیم کی جس کا فکر تنقید وتشکیک سے آگے بڑھتا ہے، یا ایک راسخ العقیدہ مسلمان کی جو ہر مذہبی روایت کو حجت سمجھتا ہے۔
مولانا سندھی کہنے لگے: کبھی کبھی اقبال کی ان دو یا دو سے زیادہ الگ الگ شخصیتوں میں ارتباط وائتلاف بھی ہوتا ہے۔ اس وقت اقبال اپنے فکر کے اعلیٰ وارفع مقام پر کھڑا ہوتا ہے۔ بے شک اقبال کے کلام میں اس کی کمی نہیں لیکن کبھی کبھی اس کی یہ شخصیتیں باہم ٹکراتی ہیں اور انھی سے وہ تضادات پیدا ہوتے ہیں جن کا تم نے ذکر کیا ہے۔ ان کی شاعری میں یہ تضادات زیادہ ہیں اور وہی زیادہ مقبول بھی ہے۔ اب بحیثیت ایک فلسفی کے اس کی نظر وفکر عالمی ہے۔ مسلمان ہونے کے لحاظ سے وہ اپنے دور کے ہندوستان کا، جس میں چھوٹے چھوٹے ہندو مسلم تنازعات زوروں پر تھے، ایک فرقہ پرست مسلمان بن جاتا ہے اور پنجاب میں قادیانیت کے خلاف جو عام فضا تھی، اس سے متاثر ہوتا ہے تو وہ احمدیوں کو دائرہ اسلام سے باہر کر دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔
مولانا نے فرمایا: یہ ہے میرے نزدیک اقبال۔ ایک عظیم شخصیت، لیکن کامل وسالم نہیں بلکہ اپنے آپ میں بٹی ہوئی اور تضادات کا شکار۔ جوانی میں فکری ہوش سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے وطن کا ’’شخص‘‘ یعنی تصوراتی وجود اقبال کے دماغ پر حاوی ہوا۔ آگے چل کر اس کی جگہ مسلمانوں کی جماعت کے تصوراتی وجود نے لے لی اور آخر تک جماعت کا یہ کابوس اس کے دماغ پر برابر سوار رہا۔ کبھی کبھی خود اس کی اپنی ذات کے نفسی تقاضے جماعت کے بندھنوں کے خلاف بغاوت بھی کرتے رہے لیکن یہ بغاوت محض شعر وشاعری تک محدود رہتی۔ اس ضمن میں اقبال کو ایک مستقل عقلی وفکری مثبت رائے، جسے فلسفیانہ رائے کہہ سکتے ہیں، کبھی نصیب نہ ہوئی، چنانچہ اس نے جماعت کے جبر کے خلاف شاعری میں تو بغاوت ضرور کی ہے لیکن نثر میں، جہاں تشبیہات واستعارات میں اصل غرض چھپائی نہیں جا سکتی، اس بارے میں انھوں نے کچھ نہ لکھا۔ مولانا کے نزدیک یہ وجہ تھی اقبال کی زندگی کی بے عملی اور اس کی شخصیت کے تضادات کی۔
غرض مولانا سندھی کے الفاظ میں اقبال نے جماعت کو، جسے وہ ملت اسلامیہ کہتے تھے، ایک بت بنا لیا۔ ان کے طبعی تقاضے، گرد وپیش کے حالات اور خود ان کی اپنی فکری شخصیت کچھ اور مانگتی تھی۔ وہ ان طبعی، سیاسی اور معاشی مطالبوں کے سامنے ہتھیار بھی ڈال دیتے اور جو زمانے کا چلن ہوتا، اس کا ساتھ دیتے، لیکن جماعت کا ’’شخص‘‘ یعنی تصوراتی وجود اور اس سے جو خصائص وامتیازات انھوں نے متعلق کر رکھے تھے اور اس سے جو احکام وہدایات وہ لیتے تھے، یہ سب چیزیں ان کے نیم شعور میں اس طرح رچی ہوئی تھیں کہ جیسے ہی ان کو موقع ملتا، وہ ان کے شعور میں عود کر آتیں اور فلسفی اقبال ایک روایت پرست بلکہ توہم پرست لاہوری مسلمان ہو جاتا۔ اس حالت میں وہ اپنے آپ کو کوستا، اپنی گناہ گاری کا اعتراف کرتا اور جیسا کہ کہا جاتا ہے، روتا بھی۔ یہاں اس کی عقلیت جواب دے دیتی۔
مولانا نے کہا: سچ پوچھو تو اقبال ایک روایت پرست یہودی کی طرح مسلمانوں کی موہوم جماعت کو پوجتا ہے۔ وہ جماعت کی قیود سے نکلتا تو تھا لیکن اس کی یہ بغاوت منظم فکر کی بغاوت نہ تھی بلکہ یہ فکری آزادہ روی ہوتی جو شعر کا موزوں لباس پہن لیتی۔ اس کا دل اس جبر کی مخالفت کرنے کو چاہتا لیکن نوعمری کی عقیدتوں پر تشکیل شدہ شخصیت اس میں آڑے آتی۔ چنانچہ وہ ساری عمر انھی الجھنوں میں برابر پیچ وتاب کھاتا رہا:
تو شاخ سے کیوں پھوٹا، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اک جذبہ پیدائی، اک لذت یکتائی
میں مانتا ہوں کہ اقبال دل سے چاہتے تھے کہ قرآن کی حکومت بروے کار آئے اور اسلام پر بالکل ایک نئی دنیا کی تعمیر ہو، لیکن قرآن اور اسلام کی عملی تشریح جو آج کے زمانے میں قابل قبول اور قابل عمل ہو سکے، یہ ان کے بس میں نہ تھی کیونکہ وہ جماعت کے روایتی اثرات اور اس کے قوانین وضوابط سے ذہناً باہر نہیں نکل سکتے تھے اور قرآن واسلام کے نظام کو مجموعی انسانیت کا نظام بنا کر وہ پیش کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے فکراً خواہ وہ کچھ بھی ہوں، اقبال کا اسلام عملاً ایک فرقہ پرست ہندوستانی بلکہ پنجابی مسلمان کا اسلام تھا۔ کردار کے غازی تو تھے ہی نہیں، وہ گفتار کے غازی بھی نہ بن سکے۔
(افادات وملفوظات حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ )

اسلامی حکومت کا فلاحی تصور

پروفیسر میاں انعام الرحمن

(مولانا سعید الرحمن علوی مرحوم کی کتاب ’’اسلامی حکومت کا فلاحی تصور‘‘ کے بنیادی خیال کی روشنی میں لکھا گیا۔)

سرد جنگ میں سرمایہ دارانہ بلاک کی فتح کے بعد اشتراکیت کے توسط سے آنے والے فلاحی تصور کی بنیادیں کھوکھلی ہونی شروع ہو گئی ہیں۔ اب ایک طرف دنیا بھر میں قومی اداروں کی نج کاری سے بے روزگاری میں شدت سے اضافہ ہو رہا ہے، امریکہ میں سوشل سکیورٹی سسٹم بحران کی طرف بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف سیکولر ازم اور جمہوریت کی توسیع کے لیے اسی نوعیت کے تشدد اور عدم رواداری کو بروئے کار لایا جارہا ہے جس کے خاتمے کے لیے ہی مذہبیت کے بالمقابل سیکولر ازم اور بادشاہت کے مقابلے میں جمہوریت کے تصور ات پروان چڑھے تھے۔ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے! اب سیکولر عدم رواداری اور انتہاپسندی کو لگام دینے کے لیے مذہب طاقت پکڑ رہا ہے اور جمہوری آمریت کی منافقت کے مقابلے میں غیر جمہوری نظریات کو پذیرائی مل رہی ہے۔ شاید سیکولر ازم اور جمہوریت تاریخی اعتبار سے اپنے نقطہ عروج (Point of Saturation) کو پھلانگ چکے ہیں۔ یہی بات سرمایہ دارانہ نظام اور اس سے وابستہ مخصوص فلاحی تصور کی بابت سچ ہے۔ 
کیپٹل ازم، سیکولر ازم اور جمہوریت میں قدرِ مشترک ’’انفرادیت پسندی ‘‘ ہے جس کے مطابق خاندان سے لے کر ریاست تک کسی بھی اجتماعی ہیئت کو فرد کے معاملات میں، خواہ وہ معاشی ہوں یا مذہبی، اخلاقی ہوں یا سیاسی، دخل اندازی سے روکا جاتا ہے اور ان رکاوٹوں کو باقاعدہ ’’قانونی تحفظ ‘‘ بھی دیا جاتا ہے تاکہ فرد کی ’’ذاتی صلاحیت ‘‘ کے فروغ اور اظہار کے لیے انفرادیت پسندی کو یقینی بنایا جا سکے۔ مولانا سعید الرحمن علوی مرحوم نے اپنے تین مقالات میں جو ’’اسلامی حکومت کا فلاحی تصور ‘‘ کے زیرِ عنوان شائع ہوئے ہیں، مذکورہ نوعیت کی انفرادیت پسندی کے مقابلے میں اسلام کے فلاحی تصور کی بہت مدلل وضاحت کی ہے۔ علوی مرحوم نے ’’ذاتی صلاحیت کے اعتراف اور تحفظ ‘‘کے نام پر سرمایے کے ارتکاز کو ’’تقدیرِ الٰہی اور تقسیم الٰہی ‘‘ تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، یعنی مذہب کو عوام کے لیے افیون نہیں بننے دیا ۔ ان کے مطابق اس ظالمانہ اور سفاکانہ فکر و فلسفہ کا اسلام کے نظامِ عدل سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ مرحوم کا کہنا ہے : 
’’ مختلف مذاہب نے بے شک ’’ خیرات ‘‘ کا ذکر ضرور کیا تھا لیکن محض ترغیب کی حد تک، لیکن ظاہر ہے کہ ’’ترغیب ‘‘ کے راستے خیر کی راہ اپنانے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ ترغیب کے ساتھ کسی نہ کسی درجہ میں لزوم بھی ضروری ہے، ایسا نہ ہو تو سرمایہ دار طبقہ کی طبعی کنجوسی اور بخل اپنا رنگ جما کر رہتی ہے ‘‘۔ (ص۲۶) 
ہماری رائے میں یہی چند سطریں افکارِ علوی کی فکری علویت کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ تمہیدی فقرات میں ہم نے جن ’’قانونی تحفظات ‘‘ کا ذکر کیا ہے جو انفرادیت پسندی کو یقینی بنانے کے لیے بروئے کار لائے جاتے ہیں، علوی مرحوم نہایت مثبت اندازمیں انھی تحفظات کو معکوس معانی پہنا کر اجتماعی ہیئت کو وہ طاقت دینے کی بات کرتے ہیں جس کے توسط سے نظام عدل ’’انفرادیت پسندی کے لمبے ہاتھوں ‘‘ پر اپنا مضبوط ہاتھ ڈال سکے۔ اپنے موقف کی قرآنی بنیادوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے سعید الرحمن کہتے ہیں کہ : 
’’ قارون، اس میں شک نہیں کہ ایک فرد کا نام ہے ، لیکن قرآن عزیز نے جس انداز سے اس کا ذکر کیا، وہ ایک مستقل نظریہ ہے جس کی آج کے دور میں یورپی اور اب اس کے جانشین امریکی سامراج کے مالی تصور و نظام میں ’’کیپٹلزم ‘‘ سے تعبیر کی جا سکتی ہے ‘‘۔ (ص۳۲) 
اسی صفحہ پر قرآن مجید کی ان آیاتِ مبارکہ کا ترجمہ دیا گیا ہے جن میں قارون کا تذکرہ ہے۔ (القصص ، ۷۶ تا ۸۳ ) ایک قابلِ غور نکتے کی صراحت کی خاطر ، ہم یہاں صرف اس کا حوالہ دیں گے کہ : ’’ کہا (قارون نے ) یہ تو مجھے ایک ہنر سے ملا ہے جو میرے پاس ہے ‘‘ ۔ اب اگر سعید مرحوم کے قرآنی استدلال کو پہلے سے طے شدہ کسی رائے کا شکار ہوئے بغیر خالصتاً معروضی انداز میں سمجھا جائے تو تائید کیے ہی بنتی ہے، کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام (کیپٹلزم ) کا محور افراد کے معاملات، بالخصوص معاشی معاملات میں ریاست یا کسی بھی ہیئتِ اجتماعی کی عدمِ مداخلت ہے، یعنی افراد کو زیادہ سے زیادہ آزاد چھوڑ دیا جائے تاکہ خود غرضی کے ’’فطری ‘‘ جذبے کے تحت ذاتی نفع کے حصول کے لیے افراد میں باہمی تگ و دو ہو اور جن میں ’’اعلیٰ ذاتی صلاحیت ‘‘ ہو، وہ دیگر افراد سے زندگی کی دوڑ میں آگے نکل جائیں۔ اسی طرح اقوام بھی ’’ ذاتی صلاحیت اور خود غرضی ‘‘ کے طفیل باقی اقوام پر غالب آ جائیں گی۔ اسے ’’بقائے اصلح‘‘ (Survival of the Fittest) سے تعبیر کرتے ہوئے socio-economic Darwinism کہا جا سکتا ہے۔ ہماری دانست میں قارون کا اپنے ہنر پر اترانا اور سرمایہ دارانہ معیشت میں فرد کی ذاتی صلاحیت کا بے جا اعتراف کرنا ایسی ’’ قدرِ مشترک ‘‘ ہے جس کا انکار محال ہے ۔یہ قدرِ مشترک چند بنیادی سوالات پیدا کرتی ہے: 
(۱) کیا کوئی ایسی چیز در حقیقت موجود ہے جسے ’’ ذاتی صلاحیت یا ذاتی ہنر ‘‘ سے موسوم کیا جائے ؟
(۲) کیا انسان ، معاشرے یعنی دیگر افراد سے کٹ کر ذاتی صلاحیت نامی ہنر کو فروغ دے سکتا ہے؟
(۳) ایک فرد جس ذاتی صلاحیت کا ڈھنڈورا پیٹ کرد یگر افراد سے ممتاز ہوتا ہے، چاہے وہ مثبت ہو ، یعنی دیگر افراد کا تعاون اور ہمدردی وغیرہ یا منفی ، یعنی دیگر افراد کی مقابلہ بازی اور مفعولیت وغیرہ ، کیا ذاتی صلاحیت کی وہ ’’ سطح اور نوعیت ‘‘ معاشرے کی مرہونِ منت نہیں ہوتی ؟ 
(۴) کیا ذاتی صلاحیت کی اس ترقی یافتہ صورت کا، جو فرد کے بقول اس کی خالصتاً ذاتی ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں، معاشرے سے باہر کسی قسم کا استعمال ہوسکتا ہے ؟ یعنی کیا معاشرے سے الگ ہو کر ذاتی صلاحیت کی ترقی یافتہ صورت فرد کے لیے کسی کام یا اہمیت کی حامل ہو سکتی ہے، اگرچہ اس صلاحیت کا حصول معاشرے کی مرہونِ منت نہ بھی ہو؟
زیرِ بحث نکات کی تنقیح کے لحاظ سے مشہور و معروف جملہ کہ ’’ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے ‘‘ اپنے اندر معنویت کا جہان لیے ہوئے ہے۔ مثبت اور منفی ، ہر دو اعتبار سے در حقیقت یہ معاشرہ یا کوئی بھی ہیئتِ اجتماعی ہی ہے جو فرد کی ذاتی صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے۔ جس ذاتی صلاحیت یا ہنر کا شور مچا کر ایک فرد ’’ بقائے اصلح ‘‘ کے نباتاتی اور حیوانی اصول کو انسانی معاشرے میں رائج کرنے کی سعی کرتا ہے، وہ حقیقت میں معاشرے کی عطا ہوتا ہے، لہٰذا معاشرتی ہوتا ہے۔معلوم ہوا کہ ہنر یا ذاتی صلاحیت Self Oriented نہیں بلکہ Other Oriented ہے ۔ یہ کسی بھی اعتبار سے Personal نہیں، البتہ ہر لحاظ سے Social ضرور ہے۔ اس لیے اس نوعیت اور اس سطح کی ذاتی صلاحیت کے بل بوتے پر کمایا گیا مال و نفع بھی معاشرے کی ملکیت ہونا چاہیے۔ یہاں پر ایک منطقی سوال پیدا ہوتا ہے کہ مساوی ورثے، مساوی مواقع اور یکساں ماحول کی موجودگی میں مختلف افراد مختلف مدارج طے کرتے ہیں، ان کی تحصیل یکساں سطح اور یکساں نوعیت کی نہیں ہوتی، انھیں کہاں رکھا جائے گا؟ ہمارے خیال میں ذاتی صلاحیت کی یہی سطح اور یہی نوعیت حقیقی معنوں میں ’’خالصتاً ذاتی‘‘ سے تعبیر کی جا سکتی ہے ۔ اسی کی بنیاد پر کوئی فرد تفوق و فضیلت سے ہمکنار ہو سکتا ہے اور فرد کو اسی قسم کی صلاحیت کے نام پر زندگی کی دوڑ میں دیگر افراد سے ممتاز اور نمایاں ہونے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔یہی اصول گروہ اور قوم کی سطح پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔ 
یہاں یہ نکتہ بیان کرنا مناسب ہو گا کہ فرد خالصتاً ذاتی صلاحیت کی بنا پر نفع کے حصول کا دعویدار نہیں ہوتا، وہ عام طور پر معاشرت سے حاصل کردہ امتیازی حیثیت کو ہی خالصتاً ذاتی خیال کرتے ہوئے اس نفع کے حصول کا خواہاں ہوتا ہے جو اصل میں معاشرتی نفع ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مدلل تصریحات کے ذریعے فرد کی اس خام خیالی کو دور کیا جائے اور اسے قائل کیا جائے کہ جسے وہ ذاتی صلاحیت سمجھتا ہے، وہ در حقیقت معاشرتی ہے۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ایک فرد کو دوسروں سے ممتاز ہونے کے باوجود عملاً زیادہ کچھ بھی نہیں ملے گا تو پھر معاشرے نے فرد کے لیے کیا کیا؟ اس بابت ہماری یہ رائے ہے کہ ایک فرد کا دوسروں سے ’’ممتاز ‘‘ ہونا ہی معاشرے کی دین ہے۔ اس کی وضاحت ایک مثال سے ہو سکتی ہے کہ ایک جماعت کے تیس چالیس طالب علم یکساں اقامتی ماحول، نصاب اور اساتذہ سے مستفید ہوتے ہوئے بھی مختلف صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہیں، ان میں سے جو طالب علم اعلیٰ صلاحیت کے سبب دوسروں سے ممتاز ہوتے ہیں، ان کی امتیازی حیثیت ہی ان کے لیے انعام کا درجہ رکھتی ہے کہ ان کی صلاحیت کو نکھر کر سامنے آنے کا موقع مل گیا، اگرچہ یہ صلاحیت ان میں خداداد موجود تھی لیکن ایک ہیئتِ اجتماعی ( یعنی جماعت) ہی اس کے فروغ اور اظہار کا سبب بنی ۔ لہٰذا فرد کو خاندان، گروہ، ریاست یا کسی بھی ہیئتِ اجتماعی کا شکر گزار ہونا چاہیے نہ کہ وہ الٹا حقوق کی لمبی فہرست ہیئتِ اجتماعی کے سامنے رکھ دے اور دوسروں (یعنی ہیئتِ اجتماعی ) کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کرے۔ مولانا سعید الرحمن علوی مذکورہ نوعیت کی معاشرتی فکر کی معاشی توجیہ کے لیے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کی شہرہ آفاق کتاب ’حجۃ اللہ البالغہ‘ کی یہ عبارت نقل کرتے ہیں کہ : 
’’ یہ واضح رہے کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا منشا اگرچہ بالذات عبادت الہٰی سے متعلق ہے، مگر عبادات کے ساتھ ساتھ اس منشا میں رسومِ فاسد کو فنا کر کے اجتماعی زندگی میں بہترین نظام کا قیام بھی شامل ہے۔ اسی طرح پیغمبرِ خدا ﷺ کا ارشادِ مبارک ہے:
انما بعثت لا تمم مکارم الاخلاق 
’’میں اس لیے مبعوث کیا گیا ہوں کہ مکارمِ اخلاق کی تکمیل کروں ۔‘‘
اور اسی لیے اس مقدس ہستی کی تعلیم میں ’’ رہبانیت ‘‘ کو اخلاقی حیثیت نہیں دی گئی بلکہ انسانوں کے باہم اختلاط و اجتماع کی زندگی کو ترجیح دی گئی ہے، لیکن اس اجتماعیت کا امتیاز یہ قرار دیا گیا ہے کہ اس کے معاشی نظام میں نہ دولت و ثروت کو وہ حیثیت حاصل ہو جو عجمی بادشاہوں کے ہاں حاصل تھی اور نہ ایسی کیفیت ہو کہ تمدن سے بیزار دہقان اور وحشی لوگوں کی طرح ان کی معیشت ہو۔ پس اس مقام پر دو متعارض قیاس کام کر رہے ہیں۔ ایک یہ کہ نظامِ معیشت میں دولت و ثروت ایک محبوب و محمود شے ہے اس لیے وہ اگر صحیح اصول پر قائم ہے تو اس کی بدولت انسانوں کا دماغی توازن اعتدال پر رہتا ہے اور اس سے ان کے اخلاقِ کریمانہ صحیح اور درست رہتے ہیں۔ نیز انسان اس قابل بنتا ہے کہ دوسرے حیوانات سے ممتاز ہو۔ اس لیے کہ بیکسانہ اور مجبورانہ افلاس ، سوءِ تدبیر اور مزاج کے اختلال کے باعث ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ نظامِ معیشت میں دولت و ثروت ایک بد ترین چیز ہے جبکہ وہ باہمی مناقشات اور بغض و حسد کا سبب بنتی ہے اور خود اہلِ دولت و ثروت کے اطمینانِ قلب کو تعب اور حریصانہ کدو کاوش کے زہر سے مسموم کرتی ہے ، کیونکہ اس صورت میں یہ بد اخلاقی کے مرض میں مبتلا کر دیتی ہے، آخرت اور یادِ الٰہی یعنی روحانی زندگی سے یکسر غافل و بے پروا بنا دیتی ہے اور مظلوموں پر نت نئے مظالم کا دروازہ کھولتی ہے ۔ لہٰذا پسندیدہ راہ یہ ہے کہ دولت و ثروت ’’ نظامِ معیشت ‘‘ میں ایسا درجہ رکھتی ہو جو توسط اور اعتدال پر قائم ہو اور افراط و تفریط سے پاک ہو ‘‘۔ (ص ۸۶ ) 
مشہور امریکی مصنف ول ڈیو رینٹ، جس نے گیارہ جلدوں پر محیط ’The Story of Civilization‘ میں اپنی علمی و تحقیقی کاوش پیش کی ، پھر اس کا خلاصہ اور فکری نچوڑ بہت اختصار سے ’The Lessons of History‘ میں دنیا کے سامنے رکھا اور اپنے نتائجِ فکر کے سبب عالمی پذیرائی حاصل کی، اس نے بھی تاریخ سے اخذ کردہ دانش و حکمت کی بنا پر معروضی اعتبار سے شاہ ولی اللہ ؒ کے بیان کردہ نکات کو درست ثابت کیا ہے ۔ اس کے مطابق: 
We conclude that the concentration of wealth is natural and inevitable, and is periodically alleviated by violent or peaceable partial redistribution. In this view all economic history is the slow heartbeat of the social organism, a vast systole and diastole of concentrating wealth and compulsive recirculation. ( p, 57. The Lessons of History) 
’’ ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ دولت کا ارتکاز ، فطری اور ناگزیر ہے، اس میں وقتاً فوقتاً پر تشدد یا پر امن طور پر دولت کی از سرِ نو تقسیم کے باعث کمی ہو جاتی ہے۔ اس نقطہ نظر سے تمام معاشی تاریخ ، سماجی نظام کی سست رو دھڑکن کی مانند ہے جس میں دولت کا مرتکز ہونا اور لازمی طور پر دوبارہ گردش میں آنا دل کے سکڑنے اور پھر دوبارہ پھیلنے کی طرح ہوتا ہے ۔‘‘ 
بحث کے اس مقام پر ہمیں بے اختیار رسولِ پاک ﷺ کا یہ فرمانِ مبارک یاد آ رہا ہے کہ : ’’ جسمِ انسانی میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، اگر وہ ٹھیک ہو گیا تو سارا جسم ٹھیک ہو گیا اور اگر وہ بگڑ گیا تو پورا نظامِ جسمانی بگڑ گیا۔ فرمایا وہ دل ہے ‘‘۔ اسی طرح ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ نے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہے۔قرآنِ مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر تقویٰ کی اہمیت بیان فرمائی ہے :
’’اے لوگو ! اپنے پروردگار کی عبادت کرو ، جس نے تمھیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘ (البقرہ: ۲۱)
’’سب سے اچھا زادِ راہ تقویٰ ہے۔‘‘ (البقرہ: ۱۹۷)
’’اور تقویٰ کا لباس سب سے اچھا ہے۔‘‘ (الاعراف: ۲۶)
’’تم میں سے خدا کے نزدیک سب سے معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہو۔‘‘ (الحجرات: ۱۳)
’’تقویٰ والے ہی خدا کے دوست ہیں۔‘‘ (الانفال: ۳۴)
سورۃ الذاریات میں متقین کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ ان کے مالوں میں سائل اور نادار آدمی کا حق ہے۔ (آیت ۱۹) اسی طرح سورۃ المائدہ کے مطابق تقویٰ سے بہرہ ور ہوکر انسان عدل و انصاف کے تقاضوں پر عمل کرنے لگتا ہے۔ (آیت ۸) قرآن مجید نے یہ کہہ کر تقویٰ کی مدح و منقبت پر گویا مہر ثبت کر دی کہ : ’’ اور آخرت تیرے پروردگار کے نزدیک تقویٰ والوں کے لیے ہے ‘‘۔ (الزخرف: ۳۵)
تقویٰ کی اہمیت و معنویت سے متعلق قرآن و سنت کے ارشادات یہ واضح کرنے کو کافی ہیں کہ دنیوی و اخروی زندگی کی کامیابی کا مدار تقویٰ پر ہے اور تقویٰ دل میں ہوتا ہے ۔ اگر قرآن مجید کے کلی پیغام کو تقویٰ کے کلی مفہوم سے جوڑ کر سمجھنے کی کوشش کی جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ علم ، دولت ، سرمایہ اور اختیارات کا ارتکاز کوئی غیر فطری چیز نہیں ، کیونکہ اس دنیا میں انسانی جدو جہد کا مرکز درحقیقت، اسی ارتکاز کا انتشار یا پھیلاؤ ہے۔ گویا ارتکاز فطری ہے تو تسخیرِ فطرت انسان کی سرشت میں رکھی گئی ہے ۔ جو انسان یا گروہ ’’ ارتکاز ‘‘ پر جتنی زیادہ فتح پاتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ متقی ہوتا ہے کہ اس عمل سے وہ پورے معاشرتی نظام کی کلیت و استقلال کو یقینی بناتا ہے ۔ متقی معاشرے میں خونی انقلاب نہیں آتا، گویا یہ اس دل سے مشابہ ہوتا ہے جس میں خون جمع بھی ہوتا ہے اور پھیلتا بھی ہے۔ ایسے دل کے لیے ’’بائی پاس ‘‘ نا گزیر نہیں ہوتا۔ اس امر میں بھی کسی کو کلام نہیں ہونا چاہیے کہ قرآن و سنت کے میں ’’ رہبانیت ‘‘ یا ترکِ دنیا کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی اس لئے تقوی کی مجہولی و مفعولی نوعیت کی معنویت ( جو ہمارے معاشرے میں اس وقت پائی جاتی ہے) خلط مبحث اور دین کے گمراہ کن فہم پر مبنی ہے ۔ متقی شخص خانقاہ میں بیٹھ کر اللہ اللہ کی رٹ نہیں لگاتا بلکہ وہ معاشرے میں زندگی بسر کرتا ہے اور اپنے عمل کے ذریعے معاشرے کے SYSTOLE (انقباضّ قلب) اور DIASTOLE (انبساط قلب) کو یقینی بناتا ہے ۔ یہی بات گروہ کی بابت سچ ہے ۔ مولانا سعید مرحوم اپنی تحریر کے بین السطور یہی کہنا چاہتے ہیں کہ اگرچہ تقویٰ کا تعلق داخلی و باطنی دنیا سے ہے لیکن معاشرت اور معاشرت پر مبنی دیگر نظاموں کی تعمیر اسی پر ہوتی ہے ، اس لئے اگر داخلی اعتبار سے کچھ کمی بھی رہ جائے تو اس کی تلافی ایسے خارجی اقدامات سے کی جانی چاہیے جو معاشرت کا رخ تقویٰ کی جانب رکھ سکیں، کیونکہ قرآن مجید میں اس حوالے سے معروضی احکامات موجود ہیں ۔ علوی مرحوم شیخ الہند ؒ کے اسی سے ملتے جلتے اصولی موقف کو اسلامی نظامِ عدل کے محور کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ ملاحظہ کیجئے شیخ الہند ؒ کا اصولی موقف :
’’ جملہ اشیاء عالم بدلیل فرمان واجب الاذعان ’’خلق لکم ما فی الارض جمیعا‘‘ تمام بنی آدم کی مملوک معلوم ہوتی ہیں یعنی غرض خداوندی تمام اشیاء کی پیدائش سے رفع حوائج جملہ ء ناس (انسان ) ہے اور کوئی شے فی ذاتہ کسی کی مملوک خاص نہیں بلکہ ہر شے اصل خلقت میں جملہ ناس میں مشترک ہے اور من وجہ سب کی مملوک ہے۔ ہاں بوجہ رفع نزاع و حصول انتفاع قبضہ کو علتِ ملک قرار دیا گیا اور جب تک کسی شے پر ایک شخص کا قبضہ تامہ مستقلہ باقی ہے، اس وقت تک کوئی اور اس میں دست درازی نہیں کر سکتا۔ ہاں خود مالک و قابض کو چاہیے کہ اپنی حاجت سے زائد پر قبضہ نہ رکھے بلکہ اس کو اوروں کے حوالے کر دے کیونکہ باعتبار اصل دونوں کے حقوق اس کے متعلق ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مالِ کثیر حاجت سے زائد جمع رکھنا بالکل پسندیدہ نہیں گو زکوٰۃ بھی ادا کر دی جائے اور انبیا و صلحا اس سے بغایت مجتنب رہے۔ چنانچہ احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے بلکہ بعض صحابہ و تابعین وغیرہ نے حاجت سے زائد رکھنے کو حرام ہی فرما دیا۔ بہر کیف غیر مناسب و خلاف اولیٰ ہونے میں تو کسی کو کلام ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ زائد علی الحاجۃ سے تو اس کی کوئی غرض متعلق نہیں اور اوروں کی ملک’’ من وجہ‘‘ اس میں موجود۔ تو گویا شخص مذکور من وجہ مالِ غیر پر قابض و متصرف ہے اور اس کا مال بعینہ مالِ غنیمت کا سا تصور کرنا چاہیے۔ وہاں بھی قبل تقسیم یہی قصہ ہے کہ کل مالِ غنیمت کل مجاہدین کا مملوک سمجھا جا تا ہے مگر بوجہ ضرورت و حصول انتفاع بقدر حاجت ہر کوئی مالِ مذکور سے منتفع ہو سکتا ہے۔ ہاں حاجت سے زائد جو رکھنا چاہے، اس کا حال آپ کو بھی معلوم ہے کہ کیا ہونا چاہیے؟ یعنی خائن شمار ہو گا‘‘ (ص ۵۶، ۵۷ ) 
قرآن و سنت سے براہ راست راہنمائی لینے کے ساتھ ساتھ اپنے استدلال کی تنقیح شاہ ولی اللہ ؒ اور شیخ الہند ؒ کے افکار سے کرتے ہوئے مولانا سعید الرحمن مرحوم کہتے ہیں کہ : 
’’ایک شخص جس نے بے شک قانونی مطالبہ پورا کر دیا ہو اور اس کے پڑوس میں نادار، مسکین، یتیم اور بے کس بستے ہوں، وہ خیر و بھلائی کے اجتماعی اور انفرادی کاموں سے لا تعلق ہو اور اس کے پاس مال کے ڈھیر ہوں تو قانونی تقاضا پورا کرنے کے باوصف وہ مسؤلیت سے بچ نہیں سکتا۔ سورۃ توبہ میں ان منافقین کا ذکر ہے جو مال رکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کو تاوان خیال کرتے ہیں۔ (التوبہ ، آیت ۶۷) قرآن کریم نے ان کی زر پرستی کو نفاق کی دلیل قرار دیا۔ حدیثِ مبارکہ میں بھی منافقت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ذکر کی گئی ہے کہ وہ امانت واپس نہیں کرتے اور خیانت کا ارتکاب کرتے ہیں۔(مشکوۃ) ‘‘ ( ص ۴۱ )
مطلب یہ ہوا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو تاوان خیال کرنے کی بجائے امانت کی واپسی پر محمول کیا جائے۔اب ذرا غور سے شاہ ولی اللہ ؒ کے تصورِ نظامِ معیشت، ول ڈیو رینٹ کی تصریح اور شیخ الہند ؒ کی نکتہ دانی کی روشنی میں مولانا سعید کی مذکورہ بالا عبارت پر نظر دوڑائیے اور انھیں داد دیجیے کہ انھوں نے کتنی غیر جانبداری، جرات اور بے باکی سے اسلامی معیشت میں پنہاں ’’امانت ‘‘ کا تصور اجاگر کیا ہے جس کے پس منظر میں تقویٰ بدرجہ اتم موجود ہے۔ علوی مرحوم کہنا چاہتے ہیں کہ فرد نے اعلیٰ ذاتی صلاحیت کے بل بوتے پر (خواہ وہ براہ راست معاشرے سے حاصل کردہ ہو اور اسی سبب سے بالواسطہ اللہ تعالیٰ کی ہی دین ہو کہ معاشرے کے پیچھے الہٰیاتی کار فرمائی لازماً موجود ہوتی ہے، یا پھر وہ اس میں قدرتی طور پر موجود ہو یعنی خداداد ہو) جو کچھ کمایا، اس کی حیثیت ’’امانت‘‘ کی سی ہے۔ ایسا فرد در حقیقت ’’ امین ‘‘ ہوتا ہے۔ اسے معاشرے کے توسط سے، امانت کی واپسی بالواسطہ اللہ تعالیٰ کو کرنی چاہیے ( جیسا کہ اسے بالواسطہ ہی یہ نعمت ملی تھی ) اور براہ راست بھی، کہ رب العالمین نے اسے بلا واسطہ بھی نوازا ہے ۔ ایسا شخص متقی شمار ہوگا ، دنیا میں فضیلت اور آخرت میں عزت اسی کے لیے ہو گی ۔ لیکن اگر اگر کوئی شخص امین نہیں ہے یعنی متقی نہیں بلکہ خائن ہے تو ظاہر ہے، اس کے ساتھ جبر کرنا پڑے گایعنی اس کا ’’بائی پاس‘‘ کرنا ضروری اور نا گزیر ہو گا تاکہ اما نتیں، حقداروں تک پہنچ پائیں اور نظام کی کلیت رواں دواں رہے۔یہی امر گروہ اور قوم کے لیے ہے۔ ول ڈیو رینٹ نے اسی امر کو ’’جبری گردش‘‘ کا نام دیا ہے جومعاشی تاریخ کا ایک مسلمہ اصول ہے۔اپنے موقف کی تائید میں سعید علوی مرحوم ، حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ’’مساوات ‘‘ کے اصول کو پیش کرتے ہیں کہ آپؓ نے تقسیمِ مال میں مدراج قائم نہیں کیے : 
’’سید نا صدیقِ اکبرؓ جیسے مزاج شناس نبوت اور خلیفہ راشد نے تقسیمِ مال میں ’’ علی السویہ ‘‘ مساوات کا اہتمام کیا جس پر بعض لوگوں نے کہا: اے خلیفہ رسول، آپ نے مال برابر تقسیم کر دیا حالانکہ لوگوں میں ایسے بھی ہیں جن کو دوسروں پر تقدم اور تفوق حاصل ہے۔ اگر آپ ان کے سبقت الی الاسلام اور فضیلت کی رعایت رکھتے تو بہتر ہوتا ۔ آپ نے جواب میں فرمایا : تم نے جن فضائل و سوابق کا ذکر کیا ہے، ان کو مجھ سے زیادہ اور کون جانتا ہے (آپ تو اس معاملہ میں بڑے آگے تھے کہ سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور آپ نے ساری دولت خرچ کی، تمام غزوات میں شریک رہے، حضور ﷺ کے دست و بازو بنے) لیکن یہ چیزیں وہ ہیں جن کا ثواب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ یہ بہر حال معاش کا معاملہ ہے، اس میں برابری کا معاملہ کرنا ، ترجیح دینے سے بہتر ہے ‘‘۔ (ص ۱۶۹، ۱۷۰ )
شیخ الہند ؒ کی جو عبارت اوپر نقل کی گئی ہے، اس کے مندرجات اشارہ کرتے ہیں کہ انھوں نے بھی صدیقِ اکبرؓ کے اس عمل اور فرمان سے پوری مدد لی ہے اور صدیقی فکر کے اکبر ہونے میں تو کسی کو کلام نہیں ہونا چاہیے۔ اگر غور کیا جائے کہ تفوق و فضائل اور تقدم و سوابق کے لیے جن اصحابؓ کی طرف اشارہ کیا گیا تھا، وہ کون تھے اور ان کے تفوق کی نوعیت کیا تھی توہماری بحث کو ایک اور رخ ملتا ہے کہ انسان کے بعض معاملات بہر حال ایسے بھی ہیں جن کا اجر براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہی ملے گا۔ہم یہاں ازواجِ مطہراتؓ کے تقدم و سوابق اور تفوق و فضائل پر بات نہیں کریں گے ۔ زیرِ بحث نکات کی تنقیح کے لحاظ سے ’’تفوق کی نوعیت ‘‘ بہت اہم ہے۔ صدیقِ اکبرؓ نے ’’شخصی تفوق ‘‘ کو کسی بھی اعتبار سے ’’ مالی تفوق ‘‘ کی بنیاد نہیں بننے دیا۔ ان کے مطابق شخصی تفوق و فضیلت کا اجر اللہ تعالیٰ ہی دے گا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شخصی تفوق( چاہے وہ معاشرے کی خدمت کی بنا پر ہو یا کوئی اعلیٰ ذاتی صلاحیت جس کے سبب سے کسی کو امتیازی حیثیت حاصل ہو جائے ) کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے اور تقویٰ یہی ہے کہ فرد اس تفوق کی بنیاد پر معاشرے سے زیادہ سے زیادہ لینے کا مطالبہ ’’نہ ‘‘ کرے کیونکہ یہ تفوق اس قدر ’’ ذاتی ‘‘ ہے کہ معاشرہ اس کا عین بدل نہیں دے سکتا۔ اگر معاشرہ فضیلت کی بنا پر ’بدل‘ دیتا ہے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ’بدل‘ خود تفوق کی وجہ بن جاتا ہے اور فرد کی اصل فضیلت پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صدیقِ اکبرؓ نے فرد کی اصل فضیلت کے اثبات و استقلال کے لیے ہی علی السویہ کا اہتمام کیا ۔یوں سمجھیے کہ ان کاموقف یہ تھا کہ بدری صحابہؓ کی فضیلت کا بدل دینے سے ان کی بدریت آہستہ آہستہ پس منظر میں چلی جائے گی اور تقسیمِ مال میں دوسروں سے زیادہ حصہ خود ایک فضیلت بن جائے گی۔ ایسا ہر گز نہیں کہ انھوں نے تفوق کی ہر نوعیت سے انکار کیا ہے بلکہ انھوں نے تو اس کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے استقلال کو بھی یقینی بنایا ہے اور پھر یہ فرما کر گویا تفوق و فضیلت کے اثبات و استقلال پر مہر ثبت کر دی کہ اللہ تعالیٰ ہی اس فضیلت کا اجر دے گا۔ بحث کے اس مقام پر ہمیں یہ اخذ کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ صدیقِ اکبرؓ نے فضیلت کے اثبات کا ایسا اہتمام کر کے فرد کی ’’ انفرادیت ‘‘ کو اجتماعیت کے حصار میں آنے سے بچا لیا اور پھر اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق قائم کر کے انفرادیت کو الہٰیاتی تقدس بھی فراہم کیا تاکہ انفرادیت اتنی مضبوط بنیادوں پر قائم رہے کہ اس کے خاتمے کا سوچا بھی نہ جا سکے۔ مولانا سعید الرحمن کہتے ہیں کہ : 
’’ سید نا عمر فاروقؓ نے اس پالیسی کو تبدیل تو کیا ، آخر میں فرمایا کہ آئندہ سال زندہ رہا تو صدیقی پالیسی رائج کر دوں گا ۔ حضرت علیؓ بھی صدیقی پالیسی کے قائل تھے ‘‘۔ (ص۱۱۳ )
اسی طرح عراق کی زمین کے قضیے کی بابت علوی مرحوم کہتے ہیں کہ : 
’’سید نا عمر فاروقؓ کے دورِ حکومت میں ’’ سوادِ عراق ‘‘ کی زمینوں کا معاملہ ہماری اجتماعی زندگی کا بڑا اہم معاملہ ہے جس میں مجاہدین اور فوجی حضرات کا مطالبہ تھا کہ یہ ہمارے اندر تقسیم کر دی جائیں لیکن حضرت عمر فاروقؓ نے وسیع پیمانے پر مشاورت کے بعد اس مطالبہ کو مسترد کر دیا۔ اس مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے حضرت الامام ابو یوسف حنفی ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ کا فیصلہ بہترین فیصلہ ہے کہ اس پر مسلمانوں کی اجتماعی فلاح کا راز تھا۔ زمین کا خراج اکٹھا کر کے اس سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچانا مقصود تھا۔ مجاہدین میں زمین تقسیم ہو جاتی تو اسلامی مملکت کی سرحدوں کی حفاظت خطرہ میں پڑ جاتی (کہ مجاہدین کھیتی باڑی میں لگ جاتے) اور اجتماعی وظائف وغیرہ کا اہتمام نہ ہوتا تو مسلم دنیا بے چینی کا شکار ہو کر عدمِ تحفظ کا شکار ہو جاتی‘‘۔ ( ص ۱۰۹ )
ہم خیال کرتے ہیں کہ سید نا عمرؓ نے عراقی زمین کی تقسیم کے معاملے میں صدیقی پالیسی کی روح کو مدِ نظر رکھا۔ وسیع مشاورت پر مبنی اس فیصلے سے ایک بہت اہم نکتہ سامنے آتا ہے کہ کسی بھی فضیلت کے اعتبار سے فرد کو نوازتے وقت (اگر نوازنا ضروری ہی ہو ) یہ دھیان رکھا جائے کہ نوازنا اس کی ذات تک محدود رہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی وفات کے بعد اس کے ورثا اس نوازش کو ہی فضیلت کا مدار بنا لیں۔ اگر کسی فرد کو فضیلت ( اعلیٰ ذاتی صلاحیت پر مبنی فوجی خدمت و غیرہ) کی بنا پر زمین الاٹ کی جاتی ہے تو چونکہ وہ زمین ایک فضیلت کی بنا پر ملی تھی اور فضیلت( یعنی اعلیٰ ذاتی صلاحیت ) ورثا کو منتقل نہیں ہو سکتی، اس لیے اس فضیلت کی بنیاد پر حاصل کی گئی زمین متعلقہ فرد کی وفات کے بعد اجتماعی ملکیت متصور ہو گی، لیکن چونکہ ایسا عمل نا ممکن تھا کہ مجاہدین کے ورثا اس پر کبھی تیار نہ ہوتے اور قبضہ چھوڑنے سے انکاری ہوتے، اس لیے مستقبل میں آنے والے اسی قسم کے مسائل پر نظر رکھتے ہوئے زمینوں کی تقسیم عمل میں نہ لائی گئی جو بلا شبہ بہترین فیصلہ تھا ۔ اگر زمینیں تقسیم کی جاتیں تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اصل فضیلت ( جس کی بنیاد پر زمین ملی تھی) پس منظر میں چلی جاتی اور زمین رکھنے والے ، زمین رکھنے کے سبب سے معاشرے میں فضیلت کے مستحق ٹھہرتے۔ کیا یہ جعلی قسم کی فضیلت نہ ہوتی ؟ اور ایسا معاشرہ جس میں ایسی فضیلت کو قبول کیا جاتا، کیا وہ فضیلت کی اصل قسم کو فروغ دینے کے بجائے اس کے خاتمے کا سبب نہ بنتا ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ جعلی فضیلت کو فروغ دینے والا معاشرہ ترقی سے ہم کنار نہیں ہو سکتا ، کیونکہ یہ فرد کی اعلیٰ ذاتی صلاحیت یعنی حقیقی فضیلت ہی ہے جو معاشرے کے ترقی پسندانہ ارتقا کو یقینی بناتی ہے۔ سعید مرحوم اسی قسم کے صحت مندانہ معاشرتی ارتقا کے پیشِ نظر جرنیلوں کو مربعے الاٹ کرنے کی مخالفت کرتے ہیں اور ان زمینوں کی واپسی چاہتے ہیں جو موجودہ جاگیر داروں کے اجداد کو کسی قسم کی ’’فضیلت ‘‘ کے سبب سے انگریزوں نے الاٹ کی تھیں ۔ہم یہ کہہ کر پھبتی نہیں کسیں گے کہ اجداد کی ’’فضیلت ‘‘ معاصر جاگیر داروں کو منتقل ہو گئی ہے کیونکہ فضیلت منتقل نہیں ہوتی، لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ اجداد کی’’ فضیلت‘‘ کی بنا پر قائم جاگیریں اب خود فضیلت بن گئی ہیں۔ ظاہر ہے یہ جعلی قسم کی فضیلت ہے جس سے معاشرتی ارتقا جمود کا شکار ہو گیا ہے اور فرد کی اعلیٰ ذاتی صلاحیت کا اعتراف و اثبات ، جس کا اہتمام صدیقِ اکبرؓ نے کیا تھا، ہمارے معاشرے سے یکسر غائب ہو گیا ہے۔ 
اس پوری بحث سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اسلام میں انفرادیت پسندی کا دائرہ ، مغرب کے تصورِ انفرادیت پسندی سے بہت بڑھا ہوا ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ اس کی بنیاد خود غرضی پر نہیں بلکہ تقویٰ پر ہے ۔ اس پوری کتاب کے بین السطور مولانا سعید الرحمن علوی مرحوم یہی کہنا چاہتے ہیں کہ اسلام نے فرد کی انفرادیت کا التزام، مغربی تصورات سے کہیں زیادہ کیا ہے لیکن چونکہ موجودہ معاشرت ، داخلی اعتبار سے متقدمین کے سے اسلوبِ زندگی سے محترز ہے اس لیے اس طرزِ زندگی کی بازیافت کے لیے قرآن و سنت پر مبنی خارجی و معروضی اقدامات کرنے نا گزیر ہیں۔ ان اقدامات سے فرد کی انفرادیت ختم نہیں ہوگی بلکہ نکھر کر سامنے آئے گی اور الہٰیاتی تقدس کے سبب سے اپنی بقا کے لیے خارجی عوامل کی محتاج نہیں ہو گی جیسا کہ مغربی انفرادیت پسندی، قوانین کی محتاج و غلام ہے۔ مولانا سعید کے مطابق کیپٹل ازم میں خاندان کو فرد کی خود غرضی کا منبع خیال کرتے ہوئے کمیونزم میں خاندان کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی جس سے اباحیت کا دور دورہ ہوا۔ عجیب بات یہ ہے کہ خود غرضی کے محرک ’’ خاندان ‘‘ کو کیپٹل ازم اب خود تباہ کرنے کی کوشش میں ہے۔ شاید خود غرضی سکڑتے ہوئے خاندان سے فرد کی ذات تک پہنچ گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ خود غرضی کی اگلی سٹیج کیا ہو گی؟ علوی مرحوم کمیونزم اور کیپٹل ازم کا رد کرتے ہوئے اس متوازن نظام کا خاکہ پیش کرتے ہیں جس میں فرد کی انفرادیت، خاندان کی عصمت اور معاشرے کی ترقی کے تمام امکانات موجود ہیں۔ ہماری رائے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ معاصر رجحانات و اصطلاحات کی روشنی میں قرآن وسنت کے معاشی نظام کی تعبیر کے بجائے قرآن و سنت سے آزادانہ راہنمائی لی جائے۔ آج جس طرح ذاتی ملکیت کے تصور پر زور دیا جاتا ہے اور اسے اسلامی معیشت کے محور کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ہم یہ ہر گز نہیں کہنا چاہتے کہ ذاتی ملکیت نہیں ہونی چاہیے یا یہ کہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، ہماری مراد در حقیقت ترجیحات سے ہے۔ یعنی یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ذاتی ملکیت اسلامی معیشت کے مختلف عناصر میں کس مقام پر کھڑی ہے اور اسے ہم نے کیا مقام دیا ہے۔ اس کے علاوہ ذاتی ملکیت کے لوازمات پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے یہاں ذاتی ملکیت پر اس لیے زیادہ زور رہا کہ معاصر دنیا میں اسی کا پراپیگنڈا تھا۔ ہمارے بعض ’’شرعی عدالتی‘‘ فیصلے بھی شاید اسی تناظر میں کیے گئے۔ مولانا سعید مرحوم جب یہ سب کچھ دیکھتے ہیں تو ان کا لہجہ تلخ ہو جاتا ہے، لیکن ان کی تلخ نوائی حضرت ابو ذر غفاریؓ کی پیروی میں ہے کہ انھوں نے بھی داغ ، داغ کا نعرہ مستانہ ( کہ داغے جاؤ گے ) بلند کیا تھا۔ 
زیرِ نظر کتاب کا آخری مقالہ ’’ الحجر۔۔۔ حجر کی لغوی شرعی تحقیق ‘‘ آج کے ماحول سے مطابقت رکھتا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے شادی بیاہ کے کھانوں اور رسموں پر جو پابندی عائد کی ہے، وہ حجر کی طرف پہلا قدم ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ معاشرتی ابتری اس سے زیادہ اقدام کی متقاضی ہے۔ 
آخر میں ہم گزارش کریں گے کہ اس کتاب کے آئندہ ایڈیشن میں پروف ریڈنگ کا خاص اہتمام کیا جائے۔ یہ بات اس لیے بھی قابل توجہ ہے کہ کتاب کے آغاز میں ’’ تشکر ‘‘ کے زیرِ عنوان کہا گیا ہے کہ ’’ بڑی عرق ریزی سے پروف ریڈنگ کی ‘‘ ۔ اس کے باوجود پروف کی بے شمار غلطیاں رہ گئی ہیں۔ اس قابلِ مطالعہ وقیع کتاب کی قیمت ۱۲۰ روپے ہے اور اسے مکتبہ جمال ، تھرڈ فلور ، حسن مارکیٹ ، اردو بازار لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ 

پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ اور فتنہ انکارِ سنت ۔ تفسیر ضیاء القرآن کی روشنی میں

پروفیسر محمد اکرم ورک

ضیاء الامت پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ (۱۹۱۸ - ۱۹۹۸) عالمِ اسلام کے ان نامور مفکرین میں سے ہیں جنہوں نے متنوع موضوعات پر دادِ تحقیق دی ہے۔ اگرچہ انہوں نے کثیر موضوعات پر گرانقدر علمی مضامین اور مقالات رقم فرمائے ہیں، تاہم تفسیر، حدیث اور سیرت کے موضوعات پر آپ کے نوکِ قلم سے پھوٹنے والے چشمۂ فیض سے ایک زمانہ اپنی علمی پیاس بجھارہاہے ۔ تفسیر’’ ضیاء القرآن‘‘، ’’ ضیاء النبی ‘‘ اور حجیت حدیث پر ’’سنت خیر الانام ‘‘ وہ معرکہ آرا کتابیں ہیں جنہیں بجا طور پر آپ کی فکری زندگی کا نچوڑکہا جا سکتا ہے۔ 
حجیت حدیث کے موضوع پر پیر صاحب کی مستقل تصنیف ’’ سنت خیر الانام ‘‘موجود ہے ، نیز آپ نے ’’ضیاء النبیﷺ‘‘کی جلد ہفتم میں بھی تدوین و تاریخِ حدیث پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے، اس لیے جو احباب حجیت و تاریخِ حدیث پر پیر صاحب کے خیالات سے تفصیلی استفادہ کرنا چاہیں، انہیں یقینًا محولہ بالا کتب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ تاہم اس وقت ہمارے پیش نظر قارئین کو تفسیر ’’ضیاء القرآن‘‘ کے ان مقالات کی طرف متوجہ کرنا ہے جہاں پیر صاحب نے مقامِ حدیث اور اہمیتِ حدیث کے بڑے اہم مباحث پر روشنی ڈالی ہے۔
موضوع پر براہِ راست گفتگو سے قبل ضروری ہے کہ برصغیر میں فتنہ انکارِ سنت کے آغاز وارتقا کا اختصار کے ساتھ جائزہ پیش کردیاجائے تاکہ قارئین اس ماحول سے متعارف ہوجائیں جن میں پیر صاحب نے تفسیر ’’ضیاء القرآن‘‘ تصنیف فرمائی۔
برصغیر میں برطانوی غلبہ و اقتدار نے جہاں مسلمانوں کو آزادی جیسی عظیم نعمت سے محروم کردیا، وہاں ان کے مذہبی اور ثقافتی تشخص کو بھی بری طرح پامال کیا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی میں مکمل شکست کے بعد بچے کھچے مسلمان قائدین واضح طور پر تین گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ علماء کرام اور مشائخ عظام کی اکثریت نے شکست کا واضح طور پر اعتراف کرلیا اور وقت کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ان لوگوں نے ایمان کی سلامتی کو ہر چیز پر ترجیح دی۔ چنانچہ یہ لوگ سیاست اور حکومتی معاملات سے لاتعلق ہوکر اپنے مدرسوں اور خانقاہوں میں مقید ہوگئے۔ دینی تعلیم کی ترویج و اشاعت میں اپنی زندگیاں وقف کردیں اور مسلمانانِ ہند کو مغربی تہذیب وتمدن کی زہرناکیوں سے بچائے رکھنے کی جدوجہد میں ہمہ تن مصروف ہو گئے۔سچی بات تو یہ ہے کہ انہی ’’ بنیاد پرست ملاؤں‘‘کی وجہ سے برصغیر میں انگریز اسلام کو مکمل طور پر ختم نہ کرسکا، ورنہ ہمارا حشر بھی آج ترکی سے مختلف نہ ہوتا۔
دوسرے وہ لوگ تھے جنہوں نے شکست کے بعد اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرلی ، انگریز کے خلاف کسی نہ کسی انداز میں اپنی جدوجہد کو جاری رکھا، ’’اسلام بطور نظامِ زندگی‘‘ کے نعرے کے ساتھ انگریز کے خلاف نبرد آزما رہے اور بالآخر اسلام کے نام پر پاکستان حاصل کرکے جزوی طور پر اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرلی۔
تیسری قسم کے لوگ وہ تھے جو انگریزی تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کے سامنے نہ ٹھہر سکے اور ذہنی مغلوبیت کا شکار ہوگئے۔ اس گروہ نے قدیم مذہبی فکر و فلسفہ کو مسلمانوں کے زوال کا سبب قرار دیااور مسلمانوں کو ترغیب دی کہ وہ اقوامِ عالم میں اپنے مقام کی بحالی کے لیے انگریزی تہذیب وثقافت کو اپنائیں اور انگریزی علوم و فنون میں کمال حاصل کرلیں۔ سرسید احمد خاں (م ۱۸۹۸ ء) اس گروہ کے سرخیل ہیں۔نئے حالات میں اسلام کو ’’ قابل قبو ل ‘‘ بنانے کے لیے سرسید نے اسلام کی تشکیل جدید کا بیڑا اٹھایا تاکہ مسلمان ’’ ترقی ‘‘ کی رفتار میں زمانے کا ساتھ دے سکیں۔ اسلام کی من مانی تعبیر و تشریح میں چونکہ حدیثِ رسول سب سے بڑی رکاوٹ تھی، اس لیے حدیث کو ہدفِ تنقید بنایا جانے لگا۔ علمِ حدیث پر اعتراضات کا رجحان بالآخر ’’ فتنہ انکارِ سنت‘‘ کی تحریک میں تبدیل ہو گیا۔ سرسید نے سب سے پہلے عقل کی روشنی میں قرآن مجید کی تفسیر لکھی اور معجزات کے علاوہ کئی دیگر اسلامی عقائد کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش کی۔ 
مولوی چراغ علی (م ۱۸۹۵ ء) ، حافظ محمد اسلم جیراج پوری (م ۱۹۵۵ء ) ، علامہ تمنا عمادی (م ۱۹۷۲) ، ڈاکٹر فضل الرحمن (م ۱۹۸۸ء)، علامہ حبیب الرحمٰن کاندھلوی( م ۱۹۹۱ء )، مولوی عبداللہ چکڑالوی اور خواجہ احمد الدین امرتسری جیسے لوگوں نے حدیثِ رسول کو عہدِ نبوی اور عہدِ صحابہ کی دینی تاریخ کامقام دیتے ہوئے حدیث کی حجیت کا کلی طور پر انکار کردیا، لیکن جس شخص نے فتنہ انکارِ سنت کو بامِ عروج تک پہنچایا، وہ علامہ غلام احمد پرویز (م ۱۹۸۵ء) ہیں۔ ’’مقامِ حدیث ‘‘ان کی مشہور کتاب ہے جس میں انہوں نے اپنے نقطہ نظر کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
جن دنوں پیر صاحب ’’ ضیاء القرآن ‘‘ کی تصنیف میں مشغول تھے ، فتنہ انکارِ سنت کی حشر سامانیاں پورے عروج پر تھیں۔ چنانچہ پیر صاحب نے حجیتِ حدیث پر اپنی مستقل تصنیف کے باوجود تفسیر ’’ضیاء القرآن‘‘ میں بھی جابجا اس فتنہ کے رد میں اپنا قلم اٹھایا۔ منکرینِ سنت نے حدیث کی حجیت پر جو بنیادی اعتراضات کیے ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں :
۱۔ حدیث وحی نہیں ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتی رائے اور اجتہادات پر مشتمل ہے۔
۲۔ جس حکمت کا قرآن میں جابجا ذکر آیا ہے، وہ قرآن سے علیحدہ کوئی چیز نہیں ہے ۔
۳۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت سے مراد امامِ وقت یعنی مرکز ملت کی اطاعت ہے۔
ذیل کی سطور میں منکرینِ حدیث کے انہی اعتراضات کا تفسیر ’’ضیاء القرآن‘‘ کی روشنی میں ترتیب وار جائزہ لیا جائے گا۔
جمہور مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ حدیث بھی قرآن کی طرح وحی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ قرآن ایسی وحی ہے جس کے الفاظ اور مفہوم دونوں اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں، جبکہ حدیث ایسی وحی ہے جس کا مفہوم اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے جبکہ الفاظ رسول ﷺ کے ہیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتاب ’’ سنت کی آئینی حیثیت ‘‘ میں اختصار کے ساتھ اس کے دلائل دیکھے جاسکتے ہیں۔منکرینِ حدیث نے جمہور علماء کے اس نقطہ نظرکو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اور وہ وحی کی اس تقسیم کے قائل نہیں ہیں۔ حافظ محمد اسلم جیراج پوری لکھتے ہیں:
’’ بعض لوگوں نے وحی کی دو قسمیں کرڈالی ہیں،متلو اور غیر متلویا جلی اور خفی۔ ایک کو قرآن کہتے ہیں اور ایک کو حدیث، لیکن یہ ان کی محض خیالی اصطلاح ہے جس کو قرآن سے کوئی سرو کار نہیں۔‘‘  (ہمارے دینی علوم، ص ۹۴)
لیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اگر کوئی اصطلاح عہد رسالت کے بعد متعارف ہوئی ہے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ جس مفہوم پر وہ اصطلاح دلالت کررہی ہے، وہ بھی بعد کی پیداوار ہے ۔ مثلًا مختلف افعال کے لیے فرض ، واجب ، سنت ،مستحب ، حرام، مکروہ تحریمی اور مکروہ تنزیہی کی اصطلاحات فقہاء کرام نے عہد رسالت کے بعد متعارف کروائی ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب لینا کہ عہد رسالت میں افعال کی یہ درجہ بندی ہی موجود نہ تھی، بالکل غلط ہے بلکہ اس کی سادہ توجیہ یہ ہے کہ یہ درجہ بندی تو موجود تھی لیکن اس کے لیے یہ جامع و مانع اور نپی تلی اصطلاحات بعد میں مدون کی گئیں۔ بالکل یہی معاملہ وحی متلو اور وحی غیر متلو کی اصطلاحات کا بھی ہے۔ تاہم علامہ غلام احمد پرویز کا کہنا یہ ہے:
’’حدیث کے وحی خفی ہونے کا عقیدہ یہودسے مستعارلیا گیا ہے۔ اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔‘‘ (مقامِ حدیث ، ص ۲۷)
پیر صاحب جمہور علماء کے اس نقطہ نظر کے مؤید ہیں کہ حدیث بھی وحی ہی کی ایک صورت ہے، چنانچہ وہ سورۃ النجم کی آیت ’وماینطق عن الھوی ان ھو الاوحی یوحی‘ ( ۵۳ /۳،۴ ) سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ بعض علماء کی رائے ہے کہ ’ھو‘ کا مرجع صرف قرآن کریم نہیں بلکہ قرآن کریم ورجو بات حضور ﷺ کی زبان فیض ترجمان سے نکلتی ہے، وہ سب وحی ہے ۔ وحی کی دو قسمیں ہیں ۔ جب معانی اور کلمات سب منزل من اللہ ہوں، اسے وحی جلی کہتے ہیں جو قرآن کریم کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے اور جب معانی کا نزول تو من جانب اللہ ہو لیکن ان کو الفاظ کا جامہ حضورﷺ نے خود پہنایا ہو، اسے وحی خفی یا وحی غیر متلو کہا جاتا ہے جیسے احادیثِ طیبہ۔‘‘ ( ضیاء القرآن ۵/۱۰، ۱۱) 
پیر صاحب حدیث کے وحی ہونے پر استدلال کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’ کتب احادیث میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کا یہ واقعہ منقول ہے، وہ کہتے ہیں میرا دستور تھا کہ حضور ﷺ کی زبان مبارک سے جو کچھ سنتا، وہ لکھ لیا کرتا ۔ قریش کے بعض احباب نے مجھے اس سے منع کیا اور کہنے لگے تم حضورﷺ کا ہر قول لکھ لیا کرتے ہو حالانکہ حضورﷺ بھی انسان ہیں۔ کبھی غصے میں بھی کوئی بات فرمادیا کرتے ہیں، چنانچہ میں نے لکھنا بند کردیا۔ بعد میں اس کا ذکر بارگاہِ رسالت میں ہوا اور میں نے سلسلہ کتابت بند کرنے کی وجوہ بیان کیں توحضورﷺنے ارشاد فرمایا ’اکتب والذی نفسی بیدہ ماخرج منی الا الحق‘ ۔ ’ اے عبداللہ، تم میری ہر بات لکھ لیا کرو۔ اس ذا ت کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، میری زبان سے کبھی کوئی بات حق کے سوا نہیں نکلتی۔ ‘ ( ضیاء القرآن ، ۵/۱۰۔۱۱)
یہ واقعہ صحیحین کے علاوہ دیگر کتب صحاح میں بھی مروی ہے اور یہ حدیث سند کے لحاظ سے بھی صحیح ہے ۔ اس لیے پیر صاحب کا اس حدیث سے استدلال دوہرے فوائد کا حامل ہے۔ ایک تو اس اعتراض کا رد ہوگیا کہ حدیث محض حضورﷺ کا ذاتی اجتہاد ہے اور دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور دوسرا اس اعتراض کا بھی رد ہو گیا کہ اگر حدیث بھی قرآن کی طرح دین ہے تو پھر آپﷺ نے اس کے لکھنے کا حکم کیوں نہ دیا۔ چنانچہ حضورﷺ کے اس ارشاد کے بعد حضرت عبداللہ بن عمرو نے احادیث کو بالالتزام لکھنا شروع کیا۔ احادیث نبوی پر مشتمل ان کی کتاب ’’صحیفہ صادقہ ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ان کا اپنا قول ہے کہ ’’ صادقہ ایک صحیفہ ہے جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سن کر لکھا۔‘‘ (محمدبن سعد، ’ الطبقات ‘، ۲/۴۰۸)
قرآن مجید کی متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ نے ’’الکتاب‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’ الحکمۃ‘‘ کے نزول کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکمت کا یہی وہ خزانہ ہے جو آپﷺ کو عطا فرمایا گیا اور جس کی روشنی میں آپ قرآن مجید کے اصولوں کو کھول کھول کر بیان اور اس کے مشکل مقامات کی توضیح فرماتے ہیں۔ نبوی دانش و حکمت کے مہکتے ہوئے پھول احادیثِ رسول کی صورت میں امت کے پاس محفوظ ہیں، جبکہ علامہ جیراج پوری لکھتے ہیں: 
’’حکمت کا مفہوم جو انہوں نے ( جمہور علماء) نے حدیث کو قرار دیا ہے، صحیح نہیں ۔ حکمت ایک عام لفظ ہے جس کے معنیٰ ہے دانائی کی باتیں ۔ خود قرآن کی صفت بھی حکیم ہے یعنی اس میں حکمت کی باتیں ہیں۔‘‘  ( ہمارے دینی علوم، ص ۹۲)
پیر صاحب سورۃ بقرہ کی آیت ۱۲۹ میں لفظ ’’ حکمت ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : 
’’ حکمت سے کیا مراد ہے؟ اس کے سمجھنے سے ایک بہت بڑے فتنے کا اصولی رد ہوجائے گا ۔ حکمت کہتے ہیں ’’وضع الاشیاء علی مواضعھا‘‘ ہر چیز کو اپنے محل اور موقع پر رکھنا ،یہاں ’الحکمۃ‘ کا لفظ مذکور ہے۔ اس سے مراد احکام قرآن کی ایسی تفصیل اور ان کا ایسا بیان ہے جسے جاننے کے بعد انسان ان احکام کی ایسی تعمیل کر سکے جیسے قرآن نازل کرنے والے کا منشا ہے۔ اور نبی کے فرائض میں صرف یہی نہیں کہ قرآن سکھا دے بلکہ اس کا صحیح بیان اور تفصیل بھی سکھائے تاکہ قرآن پر اللہ کی منشا کے مطابق عمل ہو سکے اور اسی حکمت یعنی بیانِ قرآن کو سنتِ نبوی کہا جاتا ہے۔ دوسری متعدد آیات میں اس امر کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ حکمتِ قرآن یعنی اس کا بیان نبی کا ذاتی اجتہاد نہیں ہوتا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی جاتی ہے ۔ مثلًا ارشاد ہے ’’وانزل اللہ علیک الکتاب والحکمۃ‘‘  اللہ تعالیٰ نے آپ پر اے نبیﷺ کتاب اور حکمت نازل فرمائی۔ اس سے ثابت ہوا کہ جیسے قرآن کی اطاعت فرض ہے، اس طرح صاحبِ قرآن کی سنت پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔اس سے ان لوگوں کی غلط فہمی کا ازالہ بھی ہو گیا جو سنت کو نبی کریمﷺ کی ذاتی رائے خیال کرتے ہیں اوراس پر عمل کرنا ضروری یقین نہیں کرتے ہیں۔‘‘ (ضیاء القرآن ، ۱/۹۵)
اس اقتباس سے درج ذیل حقائق نکھر کر سامنے آتے ہیں : 
۱۔ ’الحکمت‘ سے مراد قرآن کا بیان اور تفسیر ہے ۔
۲۔ قرآن کا بیان یعنی حدیث اور سنتِ رسولﷺ خود اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا ہے۔
۳۔ حکمت یعنی قرآن کا بیان نبی کا ذاتی خیال یا اجتہاد نہیں بلکہ وہ بھی اللہ ہی کی طرف سے نازل شدہ ہے۔
۴۔ حکمتِ قرآن ( حدیثِ نبوی) پر بھی عمل کرنا قرآن ہی کی طرح فرض ہے۔
منکرینِ سنتِ کے نزدیک رسول اللہ کا دینی مقام و مرتبہ بقول حافظ اسلم جیراج پوری صرف یہ ہے:
’’ پیغاماتِ الٰہی کو لوگوں کے پاس بے کم و کاست پہنچا دینا۔ اس حیثیت سے آپﷺ کی تصدیق کرنا اور آپﷺ کے اوپر ایمان لانا فرض کیا گیا ۔یہ پیغمبری آپﷺ کی ذات پر ختم ہوگئی۔‘‘ (ہمارے دینی علوم، ص ۹۴)
لہٰذا قرآن کی تشریح و تعبیر میں آپ ﷺ کے بیانات آپ کی زندگی تک ہی معتبر ہیں۔ اب امت کے لیے احادیثِ رسول کی کوئی تشریعی حیثیت نہیں، یہ محض عہد رسالت اور عہد صحابہ کی دینی تاریخ ہے ۔ حافظ اسلم جیراج پوری دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’’الغرض حدیث کا صحیح مقام دینی تاریخ کا ہے، اس سے تاریخی فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں لیکن دین میں حجت کے طور پر وہ پیش نہیں کی جاسکتی۔‘‘ (ہمارے دینی علوم، ص ۱۰۳)
جبکہ امت کے سوادِ اعظم کا ہمیشہ سے یہ مسلمہ عقیدہ رہا ہے کہ حضور ﷺ قرآن مجید کے شارح اور مفسر ہیں اور قرآن کی جو توضیح رسول اللہ ﷺ کی وساطت سے سنتِ رسول کی شکل میں ہم تک پہنچی، وہ ہر رائے پر مقدم ہے ۔ اس لیے کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بیان و وضاحت کی ذمہ داری آپ ﷺ پر عائد کی ہے ۔ چنانچہ پیر صاحب سورۃ النحل کی آیت ۴۴ : ’’وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم ولعلھم یتفکرون‘‘ کی تفسیر میں آپ ﷺ کے اسی مقام و حیثیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس آیت طیبہ سے واضح ہوا کہ ہمارے لیے نبی اکرمﷺ کی سنت کے اتباع کے بغیر کوئی چارہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کا صحیح علم اپنے رسول کو عطا فرمایا اور اس کے معانی و مطالب کے بیان ، اس کے اجمال کی تفصیل اور اوامر و نواہی کی وضاحت کا منصب فقط اپنے محبوبِ کریم ﷺ کو تفویض کیا ۔ قرآ ن کریم کی جو تفسیر و تشریح حضوراکرمﷺ نے فرمائی، وہی قابل اعتماد ہے ۔ کسی دوسرے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے فہم و خرد پر بھروسہ کر کے کسی آیت کی ایسی تاویل کرے جو ارشادِ رسالت مآبﷺ کے خلاف ہو۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں: 
فالرسول مبین عن اللہ عزوجل مرادہ مما اجملہ فی کتابہ من احکام الصلوۃ والزکوۃ وغیرہ ذلک مما لم یفصلہ۔‘‘ (ضیاء القرآن، ۲/۵۷۲، ۵۷۳)
قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر اللہ رب العزت نے نہایت واضح انداز میں تاکید کے ساتھ مومنوں کو حکم دیاہے کہ وہ اللہ کے رسولِ برحق کی اتباع ، اطاعت اور فرمانبرداری کو حرزِجاں بنائیں اور اس پیکرِ دلنواز کی اداؤں کو اپنی زندگیوں کا اوڑھنا بچھونا بنا لیں۔ گویا نبی ﷺکی اطاعت و فرمانبرداری قرآن سے الگ کوئی چیز نہیں بلکہ قرآن ہی کی بے شمار آیا ت کی تعمیل ہے اور آپﷺ کی پیروی سے انکار صرف سنت کا ہی انکار نہیں بلکہ بے شمار آیاتِ قرآنیہ کا بھی انکار ہے۔یہی وجہ ہے کہ جمہور علماء کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اطاعتِ الہٰی سے مراد آیاتِ قرآنیہ کی اطاعت اور اطاعتِ رسول سے مراد احادیثِ نبویہ اور سنتِ رسولﷺ کی اتباع ہے، لیکن علامہ غلام احمد پرویز کا نقطہ نظر ملاحظہ فرمائیں:
’’ قرآن میں اطاعتِ رسول کے جو احکام ہیں، آپ کی ذات اور زندگی تک محدود نہیں ہیں بلکہ منصبِ امامت کے لیے ہیں ۔ قرآن میں جہاں جہاں اللہ و رسول کی اطاعت کاحکم دیاگیا ہے، اس سے مراد امامِ وقت یعنی مرکزِ ملت کی اطاعت ہے۔‘‘ ( مقامِ حدیث، ص ۸۳)
دوسری جگہ لکھتے ہیں :
’’ اطاعت صرف خدا کی، کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور کی اطاعت جائز نہیں ۔‘‘( مقامِ حدیث، ص ۴۰)
اطاعتِ رسول سے ’’ مرکز ملت‘‘ کی اطاعت مراد لینا ایک بالکل نیا نظریہ ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور جس کی بناپر سنتِ رسولﷺ سے انحراف لازم آتاہے، اس لیے پیر صاحب نے اطاعت و اتباعِ رسولﷺ کے مفہوم کو بڑے شرح و بسط سے واضح کیا تاکہ حق کی پہچان میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔ سورۃ آل عمران کی آیت ۳۱،۳۲ کی تفسیر میں اطاعت اور اتباع کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’اتباع رسول اور اطاعت رسول کسے کہتے ہیں ؟ یہ بتا دینا بھی ضروری ہے تاکہ کوئی لفظی ابہام راہِ سنت سے منحرف کرنے کا باعث نہ رہے ۔ امام ابوالحسن آمدی نے ’’ اتباع‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’الاتباع فی الفعل ھو التأسی بعینہ والتأسی ان تفعل مثل فعلہ علی وجھہ من اجلہ ‘‘ کسی کے فعل کے اتباع کا یہ معنیٰ ہے کہ اس کے اس فعل کو اس طرح کیاجائے جس طرح وہ کرتا ہے اور اس لیے کیا جائے کیونکہ وہ کرتا ہے۔ اورامام آمدی اطاعت کے مفہوم کی توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’ومن اتی بمثل فعل الغیر علی قصد اعظامہ فھو مطیع لہ‘ جب کوئی شخص کسی دوسرے کی عزت و احترام کے باعث بعینہ اس کے فعل کی طرح کوئی فعل کرے تو وہ اس کا مطیع کہلاتا ہے ۔اتباع و اطاعت رسالت مآبﷺ کے متعلق جو حکم قرآن نے ہم کو دیا ہے، اس کی تعمیل کی صرف یہی صورت ہے کہ ہم حضورﷺ کے افعال کو بالکل اسی طرح ادا کریں جیسے حضورﷺ نے ادا فرمائے اور صرف اس لیے ادا کریں کہ یہ افعال اس ذاتِ اطہر و اقدس سے ظہور پذیر ہوئے ہیں جو جمال وکمال کا وہ پیکر ہے جس سے حسین تر اور جمیل تر چیز کا تصور تک ممکن نہیں۔ کاش ہم قرآن کے الفاظ کو اپنی من گھڑت تاویلات کا اکھاڑہ بنانے سے باز رہیں اور اس آیت کے آخر میں اتباع و اطاعتِ رسول ﷺ سے رو گردانی کرنے والوں کو جن الفاظ سے یاد کیا گیا ہے، اس پرغور کریں ۔ ‘‘( ضیاء القرآن، ۱/۲۲۳)
سورۃ النساء کی آیت ۵۹: ’یا ایھا الذین آمنوا اطیعواللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم‘ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے پیر صاحب نے جس انداز میں اطاعتِ امیراور اطاعتِ رسول کے درمیان حد فاصل قائم فرمائی ہے، وہ بڑی ایمان افروز ہے اور اگر تعصب،ہٹ دھرمی اور انانیت کے دبیز پردے سدِراہ نہ ہوں تو کسی بھی سلیم الطبع انسان کے لیے آپ کے طرزِ استدلال کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ چنانچہ اطاعتِ رسول سے ’’ مرکز ملت‘‘ اورامامِ وقت کی اطاعت مراد لینے کے گمراہ کن عقیدے کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرمﷺ کی اطاعت کے علاوہ مسلمان امرا اور حکام کی اطاعت کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کیونکہ حضور ﷺ نے اس دارِ فانی میں زیادہ دیر اقامت گزیں نہیں ہونا تھا اور حضورﷺ کے بعد امورِ مملکت کی ذمہ داری خلفاء راشدین اور امرا نے سنبھالنا تھی، اس لیے ان کی اطاعت کرنے کے متعلق بھی تاکید فرمائی ۔لیکن اطاعتِ رسول اور اطاعتِ امیر میں ایک بین فرق ہے ۔ نبی معصوم ہوتا ہے جملہ امور میں۔ خصوصًااحکامِ شرعی کی تبلیغ میں اس سے خطا نہیں ہو سکتی اس لیے اس اطاعت کا جہاں حکم دیا، غیر مشروط حکم دیا۔ مثلًا ’’ما آتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا‘‘  جو کچھ تمہیں رسول دے ، لے لو اور جس سے روکیں، رک جاؤ۔ رسول کا ہر حکم واجب التسلیم اور اٹل ہے، اس میں کسی کو مجال قیل و قال نہیں ۔ خلیفہ کا معصوم ہونا ضروری نہیں، اس سے غلطی بھی ہو سکتی ہے، اس لیے اس کی مشروط اطاعت کاحکم دیا کہ اس کے حکم کو خدا اور رسول کے فرمان کی روشنی میں پرکھو۔ اگر اس کے مطابق ہے تو اس پر عمل کرو، ورنہ وہ قابل عمل نہیں ۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ’’لاطاعۃ للمخلوق فی معصیۃ اللہ‘‘  اس لیے حاکمِ وقت کی اطاعت کاحکم فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، اگر تمہارے درمیان تنازع رونما ہوجائے تو اسے لوٹا دو اللہ اور اس کے رسول کی طرف، یعنی اس کے حکم کا قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لو۔ اگر اس کے مطابق ہے تو اس پر عمل کرو، ورنہ تم پر اس کی اطاعت فرض نہیں۔‘‘ ( ضیاء القرآن ، ۱/۳۵۶ ، ۳۵۷)
سورۃ انفال کی آیت ۲۰کی تفسیر میں پیر صاحب منکرین سنت کو بڑے درد اور دل سوزی کے ساتھ دعوتِ فکر دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اطاعتِ خدا اور اطاعتِ رسول ﷺ عقائدِ اسلامیہ اور شریعتِ بیضا کا سنگِ بنیاد ہے۔ اس کے بغیر نہ اسلامی عقائد کاپتہ چل سکتاہے اور نہ شریعت کا۔ ’’وانتم تسمعون‘‘ کے کلمات کتنے معنیٰ خیز ہیں ۔ یعنی اتنا تغافل کہ قرآنی آیات سننے کے باوجود بھی اطاعتِ خدا اور رسول میں کوتاہی! تعجب ہوتاہے ان لوگوں پر جو تعلیماتِ قرآنیہ کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اطاعتِ رسول کے منکر ہیں بلکہ اتباعِ قرآن کو ترکِ اطاعتِ رسولﷺ کی دلیل بناتے ہیں۔ وہ اپنی روش پر خود ہی نظر ثانی کریں ۔ کیاوہ قرآن سے اس کے نازل کرنے والے کی منشا کے خلاف تو استنباط نہیں کررہے ؟ کیا وہ اتنا بھی غور نہیں کرتے کہ اتباعِ قرآن تب ہی ہوسکتی ہے جب اس کے ہر حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیا جائے اور اطاعتِ رسول کا حکم بھی قرآن کا ہی حکم ہے جو ایک بار نہیں، سینکڑوں بار دیا گیا ہے ۔ کیا وہ قرآن کے اس صریح حکم کی نافرمانی کرکے اپنے آپ کو قرآن کامتبع کہہ سکتے ہیں ؟آپ ہی اپنے ذرا طرزِ عمل کو دیکھیں۔ ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔‘‘ (ضیاء القرآن، ۲/۱۳۸)
سورۃ النساء کی آیت ۸۰: ’’من یطع الرسول فقد اطاع اللہ‘‘ پر پیر صاحب کا مختصرمگرانتہائی بلیغ تبصرہ ملاحظہ فرمائیں :
’’ کتنا کھول کر بتا دیا کہ اللہ کا مطیع وہی ہے جو اس کے رسول کامطیع ہو، لاکھ کوئی دعویٰ کرے اطاعتِ الہٰی اور اطاعتِ قرآن کا، وہ جھوٹا ہے جب تک اللہ کے رسولِ کریمﷺ کی سنت کا پابند نہ ہو۔‘‘  (ضیاء القرآن، ۱/۳۷۰)
سطورِ بالا کے مطالعہ سے قارئین پر یہ بات واضح ہو گئی ہوگی کہ دینی امور میں رسول اللہ ﷺ کے اقوال و افعال ، وحی الٰہی کے تابع تھے، اس لیے اطاعتِ رسول کا مفہوم اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ حدیث و سنت کی نسبت جب رسولِ خدا کی طرف ثابت ہو جائے تو اس پر بھی قرآن کی طرح ہی عمل کرنا ضروری ہے ۔ پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ نے مختلف آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے قارئین کے سامنے جو دلائل پیش کیے ہیں، اس سے ’’ضیاء القرآن ‘‘ کے قارئین پر حدیثِ رسول کی اہمیت و حجیت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ 

مکاتیب

ادارہ

(۱)
۰۴/۱۲/۲۳
مکرمی!
السلام علیکم
ماہنامہ الشریعہ کا ماہ دسمبر ۲۰۰۴ کا شمارہ نظر سے گزرا۔ اس میں چھپنے والے مضامین دل کو اچھے لگے۔ ہر مضمون عمدہ اور معیاری تحقیق کا حامل ہے۔ دعا ہے کہ یہ سلسلہ جاری وساری رہے۔
امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔
والسلام
(ڈاکٹر) محمد سہیل عمر
ناظم
اقبال اکادمی پاکستان

(۲)
۵ جنوری ۲۰۰۵
محترم ومکرم ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
سلام مسنون
الشریعہ کا جنوری ۲۰۰۵ کا شمارہ نظر نواز ہوا۔ میں جب ’’نوائے وقت‘‘ کے ادارہ میں تھا تو برادرم ارشاد احمد عارف کے پرچے سے استفادہ کرتا تھا، لیکن یہ سلسلہ کچھ بے ترتیب سا تھا۔ ضعیفی کے آزار کے باعث میں نے دفتر کی حاضری سے ریٹائرمنٹ لی تو الشریعہ کے مطالعے کا یہ بے ترتیب سلسلہ بھی ٹوٹ گیا۔ آج یہ پرچہ گھر کے پتے پر ملا تو بے پایاں خوشی ہوئی۔ میں اس غائبانہ کرم پر آپ کا بے حد شکر گزار ہوں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ تشدد پسندی کے رجحان کے خلاف آپ نے تحمل اور برداشت کے مثبت عمل کی تلقین کا سلسلہ عالیہ جاری کر رکھا ہے۔ اس پرچے میں شیعہ مجتہد اور دانش ور علامہ سید فخر الحسن کراروی کا مضمون اس جہت میں قابل عمل پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔ پروفیسر میاں انعام الرحمن نے نائن الیون کمیشن رپورٹ اور اے ایم ٹی ایف کا جائزہ معنویت سے پیش کیا ہے۔ ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد میں یہ شمارہ اب آہستہ آہستہ دل میں اتارنے کے لیے پڑھ رہا ہوں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ میرے ایک محترم دوست شبیر احمد خان میواتی آپ کے معاونین میں شامل ہیں۔ ان جیسا ’’کتاب دوست‘‘ اس زمانے میں نظر نہیں آتا یا کم ملتا ہے۔
والسلام
مخلص
(ڈاکٹر) انور سدید
۱۷۲ ۔ ستلج بلاک، اقبال ٹاؤن، لاہور

(۳)
۱۰ جنوری ۲۰۰۵
جناب ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اپنے ایک دوست جناب اسلم خان، مشعل سکول، سرائے نورنگ کے ہاں میں ماہنامہ الشریعہ دیکھا کرتا تھا۔ پڑھ کر جی خوش ہوا کہ ابھی یورپ کی طرح چرچ اور سٹیٹ کے علیحدہ ہونے کا عمل پاکستان میں نہیں دہرایا جائے گا۔ آپ کی روشن خیالی اور برداشت (tolerance) پر اپنے آپ کو مبارک باد دیں۔ عمار ناصر کے مضامین اگرچہ تلخ ہیں، تاہم مبنی بر زمینی حقائق ہیں۔ جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں، میں اسے اپنے ضمیر کی آواز کہتا ہوں۔ پروفیسر انعام الرحمن صاحب اور اکرم ورک صاحب کے مضامین بھی آنکھیں کھولنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ تاہم بعض رجعت پسند عناصر کے خطوط دیکھ کر دل کو رنج ہوتا ہے۔
یوسف خان جذاب
نار شکر اللہ، سرائے نورنگ، تحصیل وضلع بنوں

ثقافتی زوال کا رجائیہ نوحہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

’’چلو جگنو پکڑتے ہیں‘‘ کلیم احسان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں اس شعری روایت کی ’’ترفیع‘‘ جھلکتی ہے ، جو میرو ناصر کے ادوار سے گزر کر موسمِ گل کی حیرانگی میں رونما ہوئی اور خود اس مجموعے میں جا بجا بکھر گئی :
دل ہمارا اجاڑ بستی میں 
ایک خالی مکان لگتا ہے
مریدِ میر، رفیقِ حزن کہتا جا رہاہے:
مرا دیوان ہوتا جا رہا ہے
کہ غم آسان ہوتا جا رہا ہے
ہو سکتا ہے بعض اصحاب کو اس سے اتفاق نہ ہو کہ شعروسخن کے دیپ ، خونِ جگر سے جلتے ہیں اور خونِ جگر ’’روحِ غم‘‘ ہے۔ کم از کم راقم کی نظر میں تو پر مسرت لمحوں کی اچھل کود ، ہوا کے اس جھونکے کی مانند ہے ، جو آیا اور گزر گیا، جبکہ روحِ غم کی یہی ’’روح‘‘ ہے کہ شدت اور تیز بہاؤ کے باجود بھی ’’نقش گری‘‘ سے محترز نہیں رہ سکتی ۔اگر یقین نہیں تو بہتے پانی کے اس نقش پر غور کیجئے جو وہ ’’پتھر‘‘ پر بھی ثبت کر دیتا ہے ۔ روحِ غم اور بہتے پانی ، دونوں کی فطرت میں نقش گری لکھی ہے (بہاؤ اور ٹھہراؤ کے باعث)۔
محبت روگ بنتی جا رہی ہے 
مجھے سرطان ہوتا جا رہا ہے
یہاں تک تو اس مجموعے میں دبستانِ میر کا بکھراؤ ہے ،اس سے آگے سبھاؤ شروع ہو جاتا ہے ۔کلیم کے پہلے شعری مجموعے ’’موسمِ گل حیران کھڑا ہے ‘‘ میں بھی ایسی علامات جھلملا رہی تھیں ، جن سے معلوم ہوتا تھا کہ غم کی ترفیع بہت سبھاؤ سے ہو گی ، مثلاً:
مرے باہر خموشی چھا گئی ہے 
مرے اندر کبوتر بولتے ہیں 
راقم نے اس شعر کے ضمن میں لکھا تھا کہ: 
’’ کبوتر معصومیت اور جمال کا آئینہ دار ہے ۔ کبوتر امن کا پرندہ ہے ۔ کبوتر کا استعارہ ، شاعر کے مزاج کی شائستگی اور انسان دوستی کا مظہر ہے ۔ لیکن کبوتر کا صرف اندر بولنا اور باہر خاموشی ، بہت معنی خیز ہے۔برِ صغیر کی شعری روایت میں کبوتر قاصدکی علامت ہے۔ ہر اعتبار سے مترشح ہوتا ہے کہ شاعر امن کا پیغام رکھتا ہے، لیکن اس کا اظہار نہیں کر پارہا ۔ امن کا جذبہ اس کے اندر پھڑ پھڑا رہا ہے، لیکن ہمارا شاعر بے بسی محسوس کرتا ہے۔ معروضی واقعیت کی منفی صورتِ حال نے کلیم کی شعری فعلیت کو شعرِعالیہ کی سطح پر اظہار کے اعتبار سے شدید متاثر کیا ہے ۔صوفیانہ نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو شاعر، معرفت کے بعد لوگوں کی طرف واپسی کا سفر اختیار نہیں کر سکا (ایسا اکثر دیکھنے میں آیا ہے)۔ محولہ بالا شعر ، کتاب کے عنوان سے بھی مناسبت رکھتا ہے ۔ حیرانی کی انتہا خاموشی کا سبب بنتی ہے اور موسمِ گل کو کبوتر سے قریبی نسبت ہے۔یوں موسمِ گل اور کبوتر شاعر کی باطنی آواز کو ظاہر کرتے ہیں اور حیرانی و خاموشی، معروضی جبر کو‘‘۔
اب کلیم کے نئے مجموعہ کلام میں ’’جگنو‘‘ ایک ایسا استعارہ ہے، جو مذکورہ بے بسی کی ترفیع بن کر ابھرا ہے۔جگنو صرف روشنی نہیں، بلکہ قابلِ رسائی روشنی ہے ، ایسی روشنی ہے جو مستعار نہیں لی گئی ۔ اقبال نے بھی جگنو کی زبان سے کہلوایا تھا کہ :
اللہ کا سو شکر کہ پروانہ نہیں میں 
دریوزہ گرِآتشِ بیگانہ نہیں میں 
(اقبال کے تصورِ خودی کے سیاق و سباق میں آتشِ بیگانہ سے احتراز سمجھ میں آتاہے اور جگنو سے نسبت بھی)۔ کیونکہ آتشِ بیگانہ ’’شخصی شعلگی‘‘ کو ہوا نہیں دے سکتی ، اسی لئے ہمارے شاعر نے بھی کہہ دیاہے :
وہ مجھے راستہ دکھاتا ہے ! 
مری مٹھی میں ایک جگنو ہے
مٹھی میں جگنو وہ روشنی ہے جو اپنی ہے، ذاتی ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ جگنو ہتھیلی پر نہیں، کیونکہ ہتھیلی ’’لینے‘‘ کی علامت ہے اور مٹھی ’’دینے‘‘ کی۔ اس سے انانیت کا تاثر بھی ابھرتا ہے، لیکن آپ جانتے ہیں کہ پیدائش کے بعد بچے کا ہاتھ ’’ مٹھی ‘‘ ہوتا ہے، جس میں جگنو جگمگ جگمگ کر رہا ہوتا ہے ۔ یوں کلیم کی انانیت ، ایک بچے کی انانیت معلوم ہوتی ہے: 
جو خوشبو کے سفر میں ساتھ مجھ کو لے کے نکلی تھی
وہ لڑکی ایک تتلی تھی میں اک چھوٹا سا بچہ تھا
یہاں خوشبو کا سفر ’’ پہلی محبت‘‘ کا استعارہ بھی ہے ، تتلی اور بچے نے اسے اجلا اجلا کر دیا ہے ۔
جگنو کے حوالے سے ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ اس لفظ کے ذکر سے ہی کھیت کھلیان، شجر، پگڈنڈی اور ہریالی وغیرہ کا منظر ذہن کے افق پر پھیلتا چلا جاتا ہے ۔ اس طرح جگنو ایک ایسی ثقافت کی علامت بن جاتا ہے جو خاکی اور دیہی ہے ، جس میں ایک طرف شیشم کی ٹہنیوں سے گونجتی چہچہا ہٹیں اور پیپل تلے بنے ہوئے ’’ چونتے‘‘ ہیں ، تو دوسری طرف البموں میں سنبھال سنبھال کر رکھی ہوئیں اپنے پیاروں کی دل گداز یادیں ، اور ان پر مستزاد ، ماں کی محبت !! راقم کی نظر میں کلیم کی شاعری ، دراصل اسی ثقافت کی تباہی کا وہ ’’ نوحہ‘‘ ہے ، جس میں ماں کی محبت سے سرشار ایک بچہ ریں ریں کرتا ہے، روتا بسورتا ہے لیکن ماں سے یہی محبت ’’جگنو‘‘ بن کر اس بچے کو نہ تو مایوس ہونے دیتی ہے اور نہ ہی ایسے کتھا رسس کا باعث بننے دیتی ہے ، جس سے شخصی شعلگی مدھم پڑ جائے۔ (ماں ! مذکورہ ثقافت کی بھی علامت ہے)۔ کلیم کا یہ شعر راقم کے نقطہ نظر کو مزید تقویت دیتا ہے :
تمہارا کھیل تھا نادان بچو!
مگر چڑیا کو دیکھو مر رہی ہے
ہاں! بے جگنو ثقافت میں چڑیا مر ہی جاتی ہے۔ یہاں اپنی یاداشت پر دستک دے کر اس لوک کہانی کو ذہن میں لائیے جو (ذرا سے اختلاف سے) تقریباً ہر سماج میں پائی جاتی ہے ، جس میں جگنو ، چڑیا کو گھر چھوڑنے جاتاہے۔جگنو درحقیقت کسی سماج کی ’’داخلی روشنی‘‘ کی علامت ہے اور چڑیا ان خارجی اداروں اور رویوں کی علامت ہے جن سے انسان ، انسان بنتا ہے ۔ہمارا شاعر واضح طور پر آگاہ کر رہا ہے کہ ان رویوں کی اصل روح ختم ہوتی جا رہی ہے ، خالی خولی ڈھانچے سے رہ گئے ہیں ، ان کے اندر زندگی کی لہر دوڑانے والی روشنی مفقود ہوگئی ہے ، زندگی پر موت طاری ہو گئی ہے۔جب جگنو نہ رہے تو چڑیا بے سمت ہو کر آخر کیسے گھر پہنچ سکتی ہے؟ علومِ حا ضرہ کی خلعتوں میں ملبوس ’دانشور‘ شاید کلیم کا یہ نکتہ نہیں سمجھ سکتے۔
اسی شعر میں مضمر اہم نکتہ یہ ہے کہ چڑیا مری نہیں، مر ’’ رہی ‘‘ ہے اور گدھ منڈلانے شروع ہو گئے ہیں۔ یعنی ابھی کھیل ختم نہیں ہوا ، ہم لوگ ثقافت کو ’’بے جگنو ‘‘ کرنے کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ چڑیا(گھر کا رستہ بھول کر) مر جائے اور کھیل ختم ہو جائے ۔ یہاں ہمارا شاعر ہمیں دعوت دیتا ہے :
چلو جگنو پکڑتے ہیں
یہ دعوت سماج کو اس کی روح لوٹانے کی دعوت ہے، وہ ثقافت لوٹانے کی دعوت ہے جو ارضی ہے، خاکی ہے، دیہی ہے اور اپنی ہے ۔یوں سمجھیے کہ زندگی پر سے موت کو ہٹانے کی دعوت ہے ۔یہیں پر یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ شخصی شعلگی،کلیم کے تصورِ خودی کو ’’ متعین صورت‘‘ میں سامنے لاتی ہے۔ یہ صورت اول و آخر ، مذکورہ ثقافت کی ہی صورت پذیری ہے اور بس۔ (گویا کہ کلیم دبستانِ میر سے انتہائی وابستگی کے باوجود ’’ اقبالی رجائیت‘‘ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا)
اس مجموعے پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی نہ صرف مذکورہ ثقافت کی صورت پذیری کے عناصر جھلملانے لگتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس ثقافت کی تباہی و انحطاط کے مختلف شیڈز اور پہلو بھی، ترفیعی سبھاؤ میں بکھراؤ کا سماں پیدا کر دیتے ہیں، مثلاً اسی غزل کے یہ شعر دیکھیے:
چلو باغوں کو چلتے ہیں 
چلو جگنو پکڑتے ہیں 
ستارے، پھول اور شبنم 
ہمارا دکھ سمجھتے ہیں
یہ دونوں شعر بطور’’قطعہ‘‘ بھی لیے جا سکتے ہیں ۔آخری مصرعے نے معنویت اجاگر کر کے امریکن شاعرہ Maya Angelou کی نظم Woman Work کی یاد تازہ کر دی ہے۔ مایا نے بھی خواتین کی روزمرہ کی بے کیف مصروفیت کا رونا رو کر عناصرِ فطرت کی آغوش میں پناہ لینے کی خواہش کی ہے۔ اس کے ہاں بھی بے کیف مصروفیت سے مراد ، زندگی کی روح سے دوری ہے۔ ہمارا شاعر بھی اسی بے کیف مصروفیت سے شاکی ہے۔ اسے یہ دکھ ہے کہ :
یہاں پر جاگنا ہی جاگناہے 
یہاں پر رات ہوتی ہی نہیں ہے 
اسی قبیل کا یہ شعر بھی ملاحظہ کیجئے، جس میں ’ مِیری لہجے ‘ کی چاشنی بھی موجود ہے :
اک لہو سا ہے آنکھوں میں ٹپکا ہوا 
جیسے صدیوں سے جاگے ہوئے لوگ ہیں
مایا کی نظم میں اس Stanza نے بے کیفی کے مقابل کھلتی ہوئی ، تبدیلی کی کلی کو کملا دیا ہے :
Fall gently, snow flakes
Cover me with white
Cold icy kisses and
Let me rest tonight
(ترجمہ): اے برف کے گالو! دھیرے گرو
اور مجھ کو دبا ڈالو سفید 
ٹھنڈے برفانی بوسوں میں
کرنے دو مجھے آرام ام شب
معلوم ہوتا ہے کہ مایا آج کی رات آرام کرنے کی خاطر ،اپنے آپ کو سفید ٹھنڈے برفانی بوسوں سے ڈھانپنا چاہتی ہے، وہ برف کی چادر اوڑھنا چاہتی ہے، لیکن برف زندگی کی علامت نہیں ہے اس لئے مایاآرام کرنے کی آڑ میں، در حقیقت موت کی آغوش میں جانا چاہتی ہے۔ مسلسل جاگنے کی پاداش میں ، روزمرہ کی بے کیف بے روح زندگی سے اکتا کر۔ لیکن ہمارے شاعر نے بے کیفی کی انتہائی حدوں کو چھونے کے باوجود رجائیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ وہ کہتا ہے کہ ستارے ، پھول اور شبنم ہمارا ’دکھ‘ سمجھتے ہیں ۔کلیم روح سے عاری رویوں میں زندگی کا لہو دوڑانے کے لئے، ان میں رچاؤ پیدا کرنے کے لئے، باغوں میں چلنے کی بات کرتا ہے ، جگنو پکڑنے کی بات کرتا ہے یعنی زندگی کی روح کو Possess کرنے کی بات کرتا ہے ۔ وہ برف کی چادر اوڑھنے کی بجائے روشنیوں میں نہانے کی بات کرتا ہے :
سورج کو میرے سر پہ کھڑا کر دیا گیا 
یعنی مری سزا بھی اجالوں کے ساتھ تھی
اس مجموعے میں شامل ایک غزل لمبی ردیف کے باعث کافی دلچسپ ہو گئی ہے ، اس میں طرفگی اس اعتبار سے آئی ہے کہ غزل کے فطری اپج کے مطابق ہر شعر کا اپنا الگ سے معنی تو موجود ہے ہی ، اس کے ساتھ ساتھ نظم کے مزاج کے مطابق ایک ہی خیا ل یا پھر ایک خیال کے مختلف پہلوؤں کی بافت و بنت بھی اس میں جھلک رہی ہے۔ اسے ’’ نظمیہ غزل ‘‘ کہا جا سکتا ہے ، ملاحظہ کیجئے:
دل کی باتیں لکھ کر میں نے غیر مکمل چھوڑ رکھی ہیں 
کتنی غزلیں لکھ کر میں نے غیر مکمل چھوڑ رکھی ہیں
کتنے ورق ہیں سادہ جن کو با لکل سادہ رکھ چھوڑا ہے
کچھ پر سطریں لکھ کر میں نے غیر مکمل چھوڑ رکھی ہیں 
جی چاہا ہے آج پرانے کاغذ کھول کے بیٹھ رہوں 
جن میں یادیں لکھ کر میں نے غیر مکمل چھوڑرکھی ہیں 
تم بھی جانو مجھ کو تمہاری دید کی کتنی حسرت ہے 
اپنی آنکھیں لکھ کر میں نے غیر مکمل چھوڑ رکھی ہیں 
جیسے لکھتے لکھتے کوئی گہرا صدمہ پہنچا ہو !
پاگل سوچیں لکھ کر میں نے غیر مکمل چھوڑ رکھی ہیں 
اس مجموعہ کلام میں پہلے شعری مجموعے کے بہت سے حوالے بھی، یادوں کی گھمبیرتا سے لے کر خوف کی پرچھائیوں تک، تکرار کی حد تک موجود ہیں۔ ہمارے شاعرکا فکری کینوس، اسلوبِ بیان ، تراکیب اور استعارے ، انسانی احوال و ظروف سے پرے نہیں ہٹے ،کہ اس کی فطرت خاکی ہے ۔اسی وجہ سے کہیں سالاربکتا دکھائی دیتا ہے ، کہیں ضرورتوں کے اگے ہوئے جنگل سے پالا پڑتا ہے، خالی جیب کا ذکر ہوتا ہے ، کہیں کاسہ و کشکول توڑنے کے لئے کسی صاحبِ توقیر کی کھوج نظر آتی ہے اور کہیں لفظوں کے زیاں پر ، عامیانہ سخن طرازی پرطنز و تنقید کے تیر برستے دکھائی دیتے ہیں۔ بلاشبہ کلیم کے کلام میں ایسی گیرائی، گہرائی اور تنوع ہے کہ اس کا احاطہ چند صفحات میں کرنا ناممکن ہے۔اس مجموعہ کلام کی مجموعی فضا کے پیشِ نظر یہ کہنا بھی مشکل نہیں کہ ہمارے شاعر کے اظہار کا بنیادی حوالہ ’ثقافتی زوال ‘ کے ارد گرد گھومتا ہے، لیکن اس اظہار میں نا امیدی کا پہلو غالب نہیں آیا، بلکہ اس ثقافت کی بازیافت کا جگنو جگہ جگہ جگمگ جگمگ کر رہا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے ! راقم اسے ثقافتی زوال کا رجائیہ نوحہ نہ کہے تو اور کیا کہے؟

پشاور فقہی کانفرنس / الشریعہ اکادمی میں فکری نشست

پروفیسر حافظ منیر احمد

جامعۃ المرکز الاسلامی بنوں کے زیر اہتمام پانچویں سالانہ فقہی کانفرنس ۱۱، ۱۲ دسمبر ۲۰۰۴ بروز ہفتہ واتوار اوقاف ہال، چار سدہ روڈ، پشاور میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کی افتتاحی نشست کی صدارت جامعۃالمرکز الاسلامی کے رئیس مولانا سید نصیب علی شاہ ایم این اے نے کی، جبکہ مہمانان خصوصی میں وزیر اعلیٰ سرحد جناب محمد اکرم درانی اور قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمن شامل تھے۔ کارروائی کا آغاز قاری فیاض الرحمن علوی کی تلاوت قرآن مجید سے ہوا جس کے بعد کانفرنس کے داعی مولانا سید نصیب علی شاہ الہاشمی نے خطبہ استقبالیہ میں مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ کانفرنس کے انعقاد کی غرض وغایت پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمارے اسلاف زمانہ شناس تھے اور انھوں نے اپنے علم وفہم کی روشنی میں اپنے اپنے زمانے کی مشکلات کا حل پیش کیا۔ اسی طرح آج ہمیں بھی دور جدید کے حوالے سے بے شمار مسائل کا سامنا ہے جن کا عملی حل پیش کرنا دین متین سے وابستہ شخصیات کی ذمہ داری ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس کانفرنس میں جدید سائنسی انکشافات اور میڈیکل سائنس کے حوالے سے سامنے آنے والے علمی وفکری سوالات کا جائزہ لیا جائے گا اور علما، محققین اور دانش ور ان مسائل پر اظہار خیال کریں گے۔
افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سرحد جناب محمد اکرم درانی نے معزز مہمانوں کو پشاور میں خوش آمدید کہتے ہوئے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ اس نشست کے انعقاد کے لیے پشاور کا انتخاب کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ معاشرے میں سامنے آنے والے نت نئے مسائل کے حل کے لیے عوام علما ہی سے رجوع کرتے ہیں اور یہ امید کی جانی چاہیے کہ ارباب علم ودانش محققانہ انداز گفتگو اختیار کرتے ہوئے اپنے اپنے موضوع کے حوالے سے فقہ اسلامی کی روشنی میں مسائل کا حل پیش کریں گے۔ جناب اکرم درانی نے کہا کہ اسلام امن اور بھائی چارے کا دین ہے، لیکن عالمی سطح پر اس کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انھوں نے سرحد حکومت کی ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ علما وطلبا کی دعاؤں کا ثمر ہے کہ حکومت کو جو بھی مشکل پیش آتی ہے، اس کا فوری حل نکالنے میں کامیابی حاصل ہو جاتی ہے۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ آئندہ بھی ہمیشہ علما سے راہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔
قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمن نے اپنے خطاب میں فقہی مسائل وموضوعات پر کانفرنسوں کے انعقاد کو وقت کا تقاضا قرار دیا اور کہا کہ اسلام پوری انسانیت کا دین ہے اور اس کی تعلیمات شخصی زندگی کے دائرے تک محدود نہیں ہیں، بلکہ یہ معاشرہ واجتماع کے ہر مرحلہ اور ہر شعبہ میں انسان کی راہنمائی کرتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانیت کی راہنمائی کے لیے مبعوث ہوئے ہیں، اسی طرح آپ کی امت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ساری انسانیت کے لیے ذریعہ ہدایت بنے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام انسانیت کو امن کا پیغام دیتا ہے اور اس کے نزدیک تمام انسانوں کی جان، مال اور عزت وآبرو محترم اور مقدس ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تمام انسانی حقوق انھی تین چیزوں کے گرد گھومتے ہیں اور اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ان تینوں چیزوں کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرے۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی عالمی برادری کا تصور دیتا ہے اور جو دین، دنیا کی قوموں کو ایک برادری کا تصور دے کر ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے استفادہ کا پیغام دے، وہ سخت گیر نہیں ہو سکتا۔ انھوں نے کہا کہ اسلام دین اعتدال ہے اور وہ اپنے پیروکاروں کو کھانے پینے، تعلقات قائم کرنے، آمد وخرچ ، حتیٰ کہ عبادات میں بھی اعتدال کی تعلیم دیتا ہے، اور اسی وجہ سے عالم انسانیت کے ایک بڑے حصے نے اس دین کو قبول کیا ہے۔ 
انھوں نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام امن وسلامتی کے پیغمبر تھے، لیکن ان کی پیروی کے دعوے دار افغانستان اور عراق میں اپنا کردار دیکھیں کہ ان کے ہاتھوں انسانیت پر کیا گزر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے انھی لوگوں نے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے تھے، لیکن اس کے باوجود وہ انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ انسانی حقوق کے تحفظ کے علم بردار بھی بنے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے ہاں نام نہاد روشن خیالی اور اعتدال کا بڑا چرچا ہے اور اس کی آڑ میں کہیں پردہ کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جا رہا ہے تو کہیں لوگوں کو لنگڑا اور ٹنڈا بننے کا خوف دلا کر اسلامی احکام سے باغی بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اسلام کو انسانی زندگی ختم کرنے سے نہیں، بلکہ اس کی حفاظت سے دلچسپی ہے اور اسی وجہ سے اس نے معاشرتی جرائم کے خلاف سخت سزائیں تجویز کی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی سزاؤں کی تاثیر دیکھنی ہو تو اس سوسائٹی کا جن میں اسلامی حدود جاری ہیں، ان معاشروں کے جرائم کی شرح کے ساتھ تقابل کر کے دیکھ لیا جائے جو ان سزاؤں سے خالی ہیں۔ 
ملکی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ معاہدات کو توڑنا یا ان کی پاس داری نہ کرنا ہمارا شیوہ نہیں ہونا چاہیے۔ کسی قوم کے قائدین کی بڑائی کی علامت ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ زبان کی لاج رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اسلام اور جمہوریت اس ملک کی اساس ہیں اور آئین پاکستان میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ، پارلیمانی طرز حکومت اور جمہوریت کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملک کو آئین کے مطابق چلایا جائے اور اختلافات کو افہام وتفہیم سے سلجھانے کی روش اپنائی جائے۔ انھوں نے کہا کہ ہم سیاسی لوگ ہیں اور دلیل سے بات کرنا جانتے ہیں، اور ہم ملکی و عالمی قوتوں سے بھی یہی کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ طاقت سے نہیں، بلکہ دلیل سے بات کرو۔
کانفرنس کی مختلف نشستوں میں علما اور اہل دانش نے مجوزہ موضوعات پر مقالے پڑھے جن میں سے کچھ کے عنوانات حسب ذیل ہیں:
جدید سائنسی انکشافات اور اسلام، جدید سائنسی تحقیقات وایجادات اور اسلام کا نظریہ تحقیق ودلیل، جدید سائنسی تحقیقات پر مرتب شرعی احکام کے لیے فقہی اصول وضوابط، انسانی دماغ کے بارے میں جدید سائنسی تحقیقات اور اس پر مرتب فقہی مسائل، جدید طبی مسائل سے متعلق اہم سوالات کی نشان دہی، قرآن مجید کا نظریہ تسخیر کائنات، محرمات شرعیہ اور جدید سائنس، خلقت جنین کے بارے میں جدید سائنسی تحقیق اور قرآن کریم، انسانی کلوننگ کی شرعی حیثیت، قرآن، سائنس اور سمندر، خلافت وامامت کی اہمیت، رؤیت ہلال میں جدید سائنسی تحقیقات کی شرعی حیثیت، فلکیات جدیدہ قرآن وحدیث کی روشنی میں۔
مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر محمد یٰسین بٹ (انجینئرنگ یونیورسٹی، ٹیکسلا)، مولانا عبد القیوم حقانی (جامعہ ابو ہریرہ، نوشہرہ)، ڈاکٹر محمد اسلم خان، مولانا حفیظ اللہ (دار العلوم، کبیر والا) ، مولانا مفتی عبد النور (جامعہ فریدیہ، اسلام آباد)، پروفیسر صلاح الدین ثانی (قائد ملت کالج، کراچی)، مولانا مفتی محمد زاہد (جامعہ امدادیہ، فیصل آباد)، مولانا نعمت اللہ حقانی (وزیر ماحولیات، صوبہ سرحد)، پروفیسر شبیر احمد کاکاخیل (پاکستان اٹامک انرجی کمیشن)، پروفیسر نثار احمد (پشاور یونیورسٹی) ، ڈاکٹر محمد داؤد اعوان (وائس چانسلر، ہزارہ یونیورسٹی)، ڈاکٹر حمید الرحمن بن جمیل (ام القریٰ یونیورسٹی، مکہ مکرمہ) اور مصباح الدین یوسفی (دعوہ اکیڈمی، اسلام آباد) شامل تھے۔ 
دو روزہ کانفرنس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے نمایاں نکات درج ذیل ہیں:
۱۔ ملک بھر کے معتمد اہل علم وتحقیق کے باہمی اشتراک سے امت مسلمہ کو درپیش جدید مسائل کے حل کے لیے ایک مجلس قائم کی جائے گی۔
۲۔ جدید فقہی مسائل پر کانفرنسز، سیمینارز، اجتماعات اور مجالس کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔
۳۔ جامعات، مدارس اور عصری تعلیمی درس گاہوں اور تحقیقی اداروں میں عصری مسائل پر فقہی تحقیق کا سلسلہ جاری کیا جائے گا۔
۴۔ جدید مسائل پر فقہی تحقیقات پر مشتمل مقالات ومضامین سہ ماہی ’’المباحث الاسلامیہ‘‘ اور شش ماہی ’’البحوث الاسلامیہ‘‘ میں شائع کیے جائیں گے اور ان جرائد کی اشاعت کو مزید بڑھایا جائے گا۔
۵۔ عصر حاضر کے مسائل ومشکلات کے حل کے لیے اہل علم اور علمی اداروں کو آگے بڑھنا چاہیے جبکہ اہل خیر کو اس ضمن میں بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔ اسی طرح علما اور دینی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ باہمی ربط وتعاون اور اتحاد کو برقرار رکھیں۔
۶۔ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کے اسلامی اور رفاہی اقدامات قابل تحسین ہیں۔ ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ان کی مزید کامیابی کے لیے دعاگو ہیں۔
۷۔ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دینا ہر مسلمان حکومت کا فریضہ ہے۔ عالمی برادری کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں پر جاری مظالم کو بند کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

الشریعہ اکادمی میں فکری نشست

تحریک ختم نبوت کے عالمی مبلغ اور ختم نبوت اکیڈمی لندن کے ڈائریکٹر الحاج عبد الرحمن باوا نے کہا ہے کہ مغربی دنیا تک اسلام کا صحیح پیغام پہنچانے کے لیے علماء کرام کو انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ ابلاغ کے جدید ذرائع کی مہارت بھی حاصل کرنا ہوگی، ورنہ وہ اسلام کی دعوت وتبلیغ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری طرح ادا نہیں کر سکیں گے۔ الشریعہ اکیڈمی ہاشمی کالونی کنگنی والا گوجرانوالہ میں نئے تعلیمی سال کے آغاز کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مغرب میں اسلام کی دعوت وتبلیغ کا وسیع میدان موجود ہے، جبکہ قادیانی گروہ اور اس جیسے دیگر گمراہ ٹولے اسلام کے نام پر گمراہی پھیلانے میں مصروف ہیں، اس لیے دینی اداروں کو چاہیے کہ وہ علما اور فضلا کی تیاری میں اس بات کو بھی پیش نظر رکھیں اور نوجوان علماء کرام کو انگریزی زبان اور کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے استعمال کی ٹریننگ بھی دیں۔ 
مجلس احرار اسلام کے مرکزی راہ نما مولانا سید کفیل شاہ بخاری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علماء کرام اور دینی مراکز پر زور دیا کہ وہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات اور ان کے ضروری تقاضوں کا ادراک حاصل کریں اور اس کے مطابق اپنی ترجیحات اور حکمت عملی پر نظر ثانی کریں تاکہ وہ آج کے دور میں اسلام اور مسلمانوں کو درپیش چیلنج کا صحیح طور پر سامنا کر سکیں۔
تقریب کی صدارت الشریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے کی اور پروفیسر محمد اکرم ورک نے نقابت کے فرائض سرانجام دیے، جبکہ اس موقع پر شرکاء محفل کو بتایا کہ الشریعہ اکیڈمی میں حسب سابق اس سال بھی ایک سالہ کلاس میں درس نظامی کے فضلا کو انگریزی، عربی، کمپیوٹر، بین الاقوامی قانون، سیاست، معیشت، نفسیات، شہریت اور دیگر ضروری مضامین پر مشتمل کورس پڑھایا جائے گا۔

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’ارمغان حج‘‘

مولانا محمد اکرم ندوی ہمارے فاضل دوست ہیں۔ ندوۃ العلماء لکھنو سے علمی وفکری وابستگی رکھتے ہیں، آکسفورڈ میں ایک عرصہ سے مقیم ہیں اور آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز سے ریسرچ اسکالر کے طور پر وابستہ ہیں۔ علم حدیث ان کا خصوصی موضوع ہے اور علم حدیث کے اساتذہ کی تلاش، ان کی خدمت میں حاضری، ان سے استفادہ اور روایت حدیث کی اجازت حاصل کرنے کا خاص ذوق رکھتے ہیں۔ ان کی متعدد تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ کئی برسوں سے امت کی محدثات کے حالات جمع کرنے میں مصروف ہیں جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ آٹھ ہزار کے قریب محدثات کے حالات قلم بند کر چکے ہیں اور ان کی یہ قابل قدر کتاب کئی ضخیم جلدوں میں ’’الوفاء فی اسماء النساء‘‘ کے نام سے شائع ہو رہی ہے۔
مولانا ندوی موصوف نے اپنے ایک سفر حج کی روداد تحریر کی ہے جس کے بارے میں انھوں نے مجھے کچھ عرصہ قبل بتایا تو خوشی ہوئی کہ ایک باخبر اور باذوق عالم دین ہیں، اس لیے یقیناًان کی یہ تحریر استفادہ کی چیز ہوگی، لیکن مکمل ہونے کے اس کے مطالعہ سے یہ خوشی دوچند ہو گئی کہ انھوں نے صرف اپنے سفر حج کی روداد اورکیفیات وواردات کو سپرد قلم نہیں کیا، بلکہ اس کے ساتھ مختلف علماء کرام اور محدثین کی خدمت میں حاضری اور استفادہ کی تفصیلات بھی پورے اہتمام کے ساتھ جمع کر دی ہیں اور اس طرح ان کا حرمین شریفین کا یہ مبارک سفر حج بیت اللہ کی سعادت کے ساتھ ساتھ طلب علم اور حدیث نبوی علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کے ساتھ والہانہ وابستگی کا عنوان بھی بن گیا ہے۔
انھوں نے جس خوش اسلوبی اور محنت کے ساتھ اپنے سفر کی تفصیلات اور اکابر علما ومحدثین کے ساتھ ملاقاتوں کی کیفیات کو قلم بند کیا ہے اور خاص طور پر حدیث نبوی کے طلبہ کے لیے معلومات کا ایک گراں قدر ذخیرہ اس میں سمو دیا ہے، اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کو دارین میں قبولیت عطا فرمائیں اور ہم سب کو قرآن کریم اور حدیث نبوی علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کے علوم کے ساتھ فہم وعمل اور مسلسل خدمت کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔
اڑھائی سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب انجمن خدام الاسلام حنفیہ قادریہ لاہور نے شائع کی ہے اور جامعہ حنفیہ قادریہ، ۲۸۵ جی ٹی روڈ، باغ بان پورہ لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ 

’’مسائل غیر مقلدین‘‘ اور ’’غیر مقلدین کی ڈائری‘‘

اہل حدیث اور احناف کے مابین بہت سے مسائل پر بحث ومباحثہ کا سلسلہ گزشتہ ڈیڑھ صدی سے چل رہا ہے اور دونوں طرف سے مناظرانہ انداز میں ایک دوسرے کے خلاف کتابوں، پمفلٹوں اور رسائل کا تسلسل قائم ہے۔ یہ مباحث اگر علمی انداز میں ایک دوسرے کے موقف کا احترام کرتے ہوئے اپنے موقف کی وضاحت وثبوت کے لیے ہوں تو بہت کارآمد اور ضروری ہیں اور متعدد اہل علم کی تصنیفات اس حوالے سے موجود ہیں جو یقیناًافادیت کی حامل ہیں، لیکن بد قسمتی سے ان مسائل میں ایک دوسرے کی تحقیر، طعن وتشنیع اور تضلیل وتفسیق کا عنصر بھی عام طور پر گفتگو اور تحریر میں غلبہ پا جاتا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ بحث وتمحیص کی افادیت اور لطف ختم ہو کر رہ جاتا ہے بلکہ نئی نسل پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ 
تیسری صدی ہجری کے معروف حنفی محدث حضرت امام طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ’’شرح معانی الآثار‘‘ میں ایک مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انھیں اس بحث میں سخت لہجہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن چونکہ فریق مخالف یہ کہہ کر ظلم کرتا ہے کہ احناف کے پاس اپنے فقہی مسائل کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے، اس لیے اس کے جواب میں ہمیں بھی سخت لہجہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ کم وبیش یہی صورت حال آج بھی ہے اور سوال وجواب اور پھر جواب الجواب میں لہجہ کی شدت اور شکوہ وشکایت کی یہ روایت بدستور موجود ہے جو بہرحال ذوق سلیم کو کھٹکتی ہے اور جدید تعلیم یافتہ حلقوں میں الجھن کا باعث بنتی ہے۔
اسی پس منظر میں بھارت کے معروف عالم دین مولانا ابوبکر غازی پوری فاضل دیوبند کی دو کتابیں اس وقت ہمارے سامنے ہیں جن میں مناظرانہ انداز میں غیر مقلدین کے مسائل اور معمولات پر بحث کی گئی ہے۔ مختلف حوالوں اور دلائل کے ساتھ ان کے خلاف اپنے موقف کی وضاحت کی گئی ہے اور ان مسائل پر بحث ومباحثہ کا ذوق رکھنے والے علما اور طلبہ کے لیے معلومات کا ذخیرہ جمع کیا گیا ہے۔ 
’’مسائل غیر مقلدین‘‘ پونے چار سو صفحات کی مجلد کتاب ہے جس کی قیمت ۹۰ روپے ہے جبکہ ’’غیر مقلدین کی ڈائری‘‘ سوا دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے، مجلد ہے اور اس کی قیمت ۷۵ روپے ہے۔ یہ دونوں کتابیں ادارہ خدام الاحناف، ۲۸۵ جی ٹی روڈ، باغبان پورہ لاہور سے طلب کی جا سکتی ہیں۔
(ابو عمار زاہد الراشدی)

مارچ ۲۰۰۵ء

عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
امریکی تعلیمی اداروں میں آزادی فکر کی صورتحالبشارہ دومانی 
مغرب کا فکری و تہذیبی چیلنج اور علما کی ذمہ داریاںڈاکٹر محمود احمد غازی 
ندوۃ العلماء کا مسلک اعتدالڈاکٹر ہارون رشید صدیقی 
اجتہادی اختلافات میں معاشرتی مصالح کی رعایتمولانا سید سلمان الحسینی الندوی 
کیا شیعہ سنی اتحاد ممکن ہے؟سید منظر تمنائی 
’’شیعو اور سنیو!‘‘ کے بارے میں گزارشاتحافظ محمد قاسم 
مکاتیبادارہ 
قربِ گریزاں کی ایک غزلپروفیسر میاں انعام الرحمن 
مولانا حافظ محمد طاہر لدھیانوی کا انتقالادارہ 
الشریعہ اکادمی میں یوم کشمیر کے موقع پر تقریبادارہ 
’’سماجی بہبود تعلیمات نبوی کی روشنی میں‘‘پروفیسر محمد فاروق حیدر 

عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ہمارے ہاں یہ خوف عام طور پر پایا جاتا ہے جو دن بدن بڑھتا جا رہا ہے کہ مغرب نے عالم اسلام کے وسائل پر قبضہ کرنے، اس کی سیاست کو کنٹرول میں لینے اور اس کی معیشت کو اپنے مفادات میں جکڑنے کے بعد اب اس کی تہذیب وثقافت کو فتح کرنے کے لیے یلغار کر دی ہے۔ یہ یلغار سب کو دکھائی دے رہی ہے اور اس کے وجود اور شدت سے کوئی باشعور شخص انکار نہیں کر سکتا، لیکن سوال یہ ہے کہ اس یلغار کا راستہ روکنے یا اس کی زد سے اپنی تہذیب وثقافت کو بچانے کے لیے عالم اسلام میں کیا ہو رہا ہے؟ ہمارے دینی وعلمی حلقوں میں اس یلغار کا جو رد عمل سامنے آ رہا ہے، اس کا وہ رخ تویقیناًخطرناک ہے جس میں مغرب کے سامنے سپر اندازی اور ا س کے فلسفہ ونظام کو مکمل طور پر قبول کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے، لیکن وہ دوسرا رخ بھی اس سے کم خطرناک نہیں ہے جس میں مغرب کی ہر بات کو رد کر دینے پر زور دیا جا رہا ہے اور جس طرح مغرب نے بادشاہت، جاگیرداری اور مذہبی پیشوائیت کے مظالم اور جبر کے رد عمل میں ان کی ہر بات کو مسترد کر دینے کی حماقت کی تھی، اسی طرح ہم بھی مغرب کی دھاندلی، استحصال، جبر اور فریب کاری پر غضب ناک ہو کر رد عمل میں اس کی تمام باتوں کو مسترد کر دینا چاہتے ہیں۔ ان میں وہ باتیں بھی ہیں جو مغرب نے غلط طور پر اختیار کی ہیں اور وہ باتیں بھی شامل ہیں جو مغرب نے ہم سے لی ہیں، مگر ہم انھیں اپنی گم شدہ میراث سمجھنے کے بجائے مغرب کے کھاتے میں ڈال دینے میں ہی عافیت محسوس کر رہے ہیں۔ 
مغرب کی لادینی جمہوریت ہو، مطلق جمہوریت ہو یا اس کی مجموعی تہذیب وترقی ہو، اس پر مسلم امہ کا رد عمل حقیقت پسندانہ نہیں ہے اور حالات کے معروضی تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہمارا رد عمل دو انتہاؤں کے درمیان پنڈولم (pendulum) بنا ہوا ہے۔ ایک طرف اسے مکمل طور پر قبول کر لینے کی بات ہے اور دوسری طرف اسے مکمل طور پر مسترد کر دینے کا جذبہ ہے۔ ہمارے رد عمل کے اس پنڈولم کو درمیان میں قرار کی کوئی جگہ نہیں مل رہی اور یہی ہمارا اصل المیہ ہے۔ ہم ان ارباب دانش کی مساعی کی نفی نہیں کرنا چاہتے جنھوں نے درمیان کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور مغربی تہذیب وثقافت کو اپنے افکار وخیالات کی چھلنی میں چھاننے کے لیے بے پناہ صلاحیتیں صرف کی ہیں۔ ان کی مساعی یقیناًقابل قدر ہیں، لیکن یہ کوششیں انفرادی سطح پر ہوئی ہیں اور ہر دانش ور نے مغربی تہذیب وثقافت کو چھاننے کے لیے اپنی چھلنی الگ بنائی ہے جس کا نتیجہ فکری انتشار میں اضافہ کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوا۔ ہمارے بیشتر دانش وروں نے مغربی تہذیب وثقافت کا جائزہ لینے سے قبل یہ ضروری سمجھا ہے کہ اسلام کی تعبیر وتشریح کے روایتی ڈھانچے کو توڑ کر نیا ڈھانچہ تشکیل دیا جائے یا کم از کم روایتی دینی ڈھانچے سے لاتعلقی کا ضرور اعلان کیا جائے۔ 
آج مغرب اور عالم اسلام میں مکالمہ کی جو ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور جس ڈائیلاگ کی اہمیت پر زور دیا جا رہا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے ایک دوسرے کو سمجھنے میں کہیں نہ کہیں غلطی ضرور کی ہے۔ مغرب ہمیں سمجھنے میں مغالطوں کا شکار ہوا ہے اور ہم نے مغرب کو سمجھنے میں فریب کھائے ہیں۔ اگر یہ مکالمہ اور ڈائیلاگ ان غلطیوں کی نشان دہی اور فریب کے دائروں سے نکلنے کے لیے ہوں تو اس کی ضرورت، اہمیت اور افادیت سے انکار کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چند ماہ قبل جب مختلف مذاہب کے راہ نماؤں کے درمیان مکالمہ کی بات چلی اور اسلام آباد میں اس سلسلے میں ایک کانفرنس بھی ہوئی تو اس مرحلے پر مجھ سے بھی رابطہ کیا گیا اور میری رائے دریافت کی گئی۔ میں نے گزارش کی کہ میں بھی اس مکالمہ اور ڈائیلاگ کی ضرورت محسوس کرتا ہوں اور اس کی افادیت واہمیت سے مجھے انکار نہیں ہے، لیکن میرے نزدیک یہ افادیت صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے کہ یہ مذاکرات حکومتی سطح پر یا حکومتوں کے ذریعے نہ ہوں۔ یہ مکالمہ اہل علم کا کام ہے اور اس موضوع سے دلچسپی اور مناسبت رکھنے والے ارباب فہم ودانش کا مسئلہ ہے۔ حکومتوں کی مداخلت یا دلچسپی ایسے معاملات کو بگاڑ دیا کرتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ایجنڈا یک طرفہ نہ ہو بلکہ باہمی مشورہ سے ایجنڈا طے کیا جائے۔ مثلاً اس وقت بین المذاہب مکالمہ کے لیے سب سے بڑا ایجنڈا ’’دہشت گردی کے لیے مذہب کا استعمال اور اس کی روک تھام‘‘ بیان کیا جاتا ہے۔ مجھے اس کی ضرورت سے انکار نہیں، لیکن یہ یک طرفہ ایجنڈا ہے اور اگر مغرب اور عالم اسلام کے درمیان مکالمہ کے لیے ایجنڈا طے کرنے میں مجھ سے رائے طلب کی جائے تو میں اس کے لیے تین نکاتی ایجنڈا تجویز کروں گا:
  • انسانی سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے مذہب کی بے دخلی کے اثرات کا جائزہ۔
  • دہشت گردی، انتہا پسندی اور مذہبی جبر کی تعریف اور حدود کا تعین۔
  • دہشت گردی کے لیے مذہب کا استعمال اور اس کی روک تھام۔
مجھے یقین ہے کہ اسلام اور مسیحیت کے سنجیدہ ارباب علم ودانش اگر مل بیٹھ کر اس ایجنڈے پر گفتگو کریں اور ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ ان امور کا جائزہ لیں تو وہ نہ صرف بہت سی باہمی غلط فہمیوں کا ازالہ کر سکتے ہیں بلکہ عالم اسلام اور مغرب کے درمیان دن بدن بڑھتے چلے جانے والی کشیدگی میں کمی کے راستے بھی تلاش کر سکتے ہیں۔

امریکی تعلیمی اداروں میں آزادی فکر کی صورتحال

بشارہ دومانی

آپ کو کوئی کتاب خریدنی یا لائبریری سے جاری کروانی ہے تو ذرا سوچ سمجھ کر کروائیے۔ ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی، آرویلین نیمڈ پیٹریاٹ ایکٹ کے تحت آپ کی نگرانی کر سکتا ہے۔ اس قانون کی ایک اور شق کے مطابق اس بات کا بھی خطرہ موجود ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کو خبردار کرے کہ حکومت آپ کے کتابوں کے انتخاب کی نگرانی کر رہی ہے تو اس پر فوجداری مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
کلاس روم میں مطالعے کے لیے مواد تجویز کرتے وقت بھی احتیاط کیجیے۔ چیپل ہل کی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا پر امریکن فیملی اسوسی ایشن سنٹر فار لا اینڈ پالیسی نے اس بنیاد پر مقدمہ دائر کر دیا تھا کہ اس میں نئے آنے والے طلبہ کے سامنے اسلام کا مختصر تعارف کرانے کی اسائنمنٹ دی گئی تھی۔ خوش قسمتی سے یونیورسٹی اپنے موقف پر سختی سے قائم رہی اور کورٹ آف اپیلز نے مقامی سیاست دانوں اور یونیورسٹی کے بعض ٹرسٹیز کے زائد حملوں کے باوجود مقدمہ خارج کر دیا۔
اس ضمن میں بھی محتاط رہیے کہ آپ اشاعت کے لیے کون سے مضامین قبول کر رہے ہیں۔ یو ایس ٹریژری ڈپارٹمنٹ کے آفس آف فارن ایسٹس کنٹرول نے فروری ۲۰۰۴ میں فیصلہ کیا کہ امریکی اشاعتی ادارے ان ممالک میں تصنیف کیے جانے والے کاموں کو ایڈٹ نہیں کر سکتے جن پر تجارتی پابندیاں عائد ہیں، جن میں ایران، عراق، سوڈان، لیبیا اور کیوبا شامل ہیں۔ خلاف ورزی کے نتیجے میں ایک ملین ڈالر تک جرمانہ اور دس سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
جو کچھ آپ پڑھا رہے ہیں، اس میں بھی احتیاط برتیے۔ خزاں ۲۰۰۳ میں امریکی ایوان نمائندگان نے متفقہ طور پر قرارداد نمبر ۳۰۷۷ منظور کر کے ایک ایڈوائزری بورڈ تشکیل دیا جو دنیا کے مختلف خطوں کے مطالعہ کے لیے قائم مراکز کی نگرانی کرے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ یہ مراکز ’’قومی مفاد‘‘ کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اگرچہ قانون کا اطلاق تمام ان مراکز پر ہوگا جن کو وفاقی ٹائٹل وئی آئی پروگرام کے تحت امداد ملتی ہے، لیکن اس کا ہدف واضح طور پر ملک کے وہ سترہ مراکز ہیں جو مشرق وسطیٰ کے مطالعے کے لیے مخصوص ہیں۔ دی اسوسی ایشن آف امریکن یونیورسٹی پروفیسرز، دی امریکن سول لبرٹیز یونین، دی مڈل ایسٹ سٹڈیز اسوسی ایشن اور بیشتر پیشہ ور تنظیموں نے حکومت کی جانب سے کلاس روم میں اس طرح کی مداخلت پر تشویش کا اظہار کیا ہے جس کی کوئی مثا ل ماضی میں نہیں ملتی۔ ان کے خدشات میں بورڈ کے لا محدود تفتیشی اختیارات، جواب دہی کا فقدان اور بورڈ کی ہیئت تشکیلی ہے، کیونکہ اس کے کچھ ارکان ملک کی حفاظت کی ذمہ دار دو ایجنسیوں سے لیے جائیں گے۔ اگر قرارداد نمبر ۳۰۷۷ کو امریکی سینٹ بھی پاس کر دیتی ہے تو حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ایک تفتیشی باڈی کو اختیار حاصل ہو جائے گا کہ وہ کلاس روم کی نگرانی کرتے ہوئے یہ فیصلہ کرے کہ مثال کے طور پر کون سا لیکچر متنوع اور متوازن ہے اور کون سا نہیں۔ اس کے نتیجے میں پیشہ ورانہ تعلیمی معیار کا بالکل خاتمہ ہو جائے گا اور اس کی جگہ سیاسی معیار لے لے گا۔
اس کی بھی احتیاط کیجیے کہ آپ کلاس میں یا کیمپس کے باہر کیا کہہ رہے ہیں۔ امریکن کونسل آف ٹرسٹیز اینڈ ایلمنی نے، جس کی بانی نائب صدر ڈک چینی کی اہلیہ لن چینی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سینٹر اور سابق نائب صدارتی امیدوار جوزف لائبرمین ہیں، ’’تہذیب کا تحفظ: یونیورسٹیاں کیسے امریکہ کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور اس سلسلے میں کیا کیا جا سکتا ہے؟‘‘کے عنوان کے تحت ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں یونیورسٹیوں پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کمزور کردار ادا کر رہی ہیں اور یہ کہ وہ دشمن کو فائدہ پہنچانے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ تنظیم کی ویب سائٹ پر ۱۱۷؍ امریکہ مخالف پروفیسروں اور ان کے ایسے ناگوار ریمارکس کی فہرست شائع کی گئی ہے جو انھوں نے مبینہ طور پر دیے۔
اگر آپ فورڈ یا راک فیلر فاؤنڈیشن سے امداد کے لیے درخواست دینا چاہتے ہیں تو بھی احتیاط کیجیے۔ آپ سے نئے انداز سے بنائی گئی امدادی درخواستوں پر دستخط کے لیے کہا جائے گا جو آپ کو اور آپ کی تنظیم کو اس بات کا پابند کریں گی کہ، اگر آپ فورڈ فاؤنڈیشن سے امداد لینا چاہتے تو آپ ’’تشدد، دہشت گردی، تنگ نظری، یا کسی ملک کی تباہی‘‘ میں ملوث نہ ہوں۔ جو لوگ فلسطین اسرائیل تنازع کے حوالے سے ۱۱ ستمبر سے بہت پہلے سے جاری عمومی مباحثے سے واقف ہیں، وہ فوراً سمجھ جائیں گے کہ اس نئی اصطلاح کا حقیقی مفہوم کیا ہے۔ ان کے لیے یہ بات ہرگز حیرانی کا باعث نہیں ہوگی کہ درخواستوں میں یہ تبدیلیاں اسرائیل کی حامی کئی یہودی تنظیموں کی تنقید کے باعث اور پھر ان کے مشورے سے کی گئی ہیں جو اس بات پر ناراض تھیں کہ انسانی حقوق کے کچھ گروپ جنھوں نے جنوبی افریقہ میں ڈربن کانفرنس کے موقع پر اسرائیل پر سخت تنقید کی تھی، انھیں فورڈ اور راک فیلر کی طرف سے امداد ملی ہے۔ اس اصطلاح کی ایک مشکل یہ ہے کہ اس کی شرائط واضح اور متعین نہیں ہیں۔ کیا اگر کسی لیکچر میں کسی اسلام پسند تنظیم مثلاً حزب اللہ کے لبنان کے سیاسی نظام میں حصہ لینے کے حق کی حمایت کی جائے تو اس کو دہشت گردی کا فروغ قرار دیا جائے گا؟ کیا اگر کسی ریسرچ میں اسرائیل اور فلسطین پر مبنی ایک دو قومی ریاست قائم کرنے کے حق میں دلائل دیے گئے ہوں تو اس پر اسرائیل کی تباہی کا پیغام پھیلانے کا الزام لگا دیا جائے گا؟ باوقار یونیورسٹیوں مثلاً ہارورڈ، ییل، پرنسٹن، مارنل، کولمبیا، سٹین فورڈ، دی یونیورسٹی آف پنسلوینیا، میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، اور دی یونیورسٹی آف شکاگو نے اس زبان پر اعتراض کیا ہے جس پر بعض معمولی تبدیلیاں کر دی گئی ہیں۔ تاہم یہ اتنی معمولی ہیں کہ ACLU نے، جو امریکہ میں شہری حقوق کی ایک بڑی تنظیم ہے، حال ہی میں فورڈ کی طرف سے ایک ملین ڈالر کی اور راک فیلر کی طرف سے ایک لاکھ پچاس ہزار ڈالر کی امداد مسترد کر دی ہے۔ ACLU کی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ یہ ’’ایک افسوس ناک دن ہے کہ اس ملک کے دو نہایت محبوب اور قابل احترام ادارے یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ خوف اور ہراس کی ایک ایسی فضا میں کام کر رہے ہیں جس میں وہ اپنے ہزاروں وصول کنندگان سے یہ مطالبہ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ امداد حاصل کرنے کے لیے مبہم شرائط کو قبول کریں جس سے شہری آزادیوں پر سخت مضر اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘
اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے بھی محتاط رہیے۔ نجی طور پر مالی امداد سے چلنے والی تنظیموں کی طرف سے ’’ٹیک بیک دی کیمپس‘‘ مہموں میں ان طلبہ اور اساتذہ کو ہدف بنایا جا رہا ہے جن کا تعلیمی یا ثقافتی طور پر مسلمانوں یا مشرق وسطیٰ کے ممالک سے تعلق ہے۔ ان میں سے کچھ تنظیمیں کھلے بندوں طلبہ کو اپنے اساتذہ اور ساتھی طلبہ کی مخبری کا کام سونپتی ہیں جن کو پھر سامی مخالف ہونے کے الزام میں نکال دیا جاتا ہے۔ یہ جنگ محض لفظوں تک محدود نہیں ہے، بہت سے پروفیسروں کو، جن پرجھوٹے الزامات عائد کیے گئے، خود ان کی اپنی یونیورسٹیوں اور میڈیا کی طرف سے تذلیل اور کردار کش تفتیشوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بڑے بڑے چندہ دہندگان کو متحرک کر کے یونیورسٹی کے منتظمین، مثال کے طور پر ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر ،پر دباؤ ڈلوایا گیا ہے کہ وہ ایسے بیانات جاری کریں جن میں اسرائیلی پالیسیوں پر تنقید کو موثر طور پر سامیت دشمنی کے مترادف قرار دیا گیا ہو۔
اگر آپ امریکی شہری نہیں ہیں اور تدریس یا تعلیم کے لیے امریکہ جا رہے ہیں تو بھی احتیاط کیجیے۔ اگر آپ امریکی پالیسیوں کے بارے میں ناقدانہ خیالات رکھتے ہیں تو آپ کا ویزا کینسل کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ پروفیسر طارق رمضان کے کیس میں ہو چکا ہے۔ سیاسی پروفائلنگ (کسی شخص کے قومی، نسلی یا مذہبی پس منظر کی بنیاد پر بوقت ضرورت نئی پالیسیوں کے نفاذ) کی بنا پر غیر امریکیوں کے امریکہ میں پہلی مرتبہ یا دوبارہ داخلے میں رکاوٹیں پیدا کرنے سے تعلیمی پروگراموں میں خلل واقع ہوا ہے اور امریکہ میں غیر ملکی گریجویٹ طلبہ کی تعداد میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ جن طلبہ کو ویزا مل جاتا ہے، ان کے تعلیمی اداروں سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ ان طلبہ کی نگرانی کریں اور سرکاری ایجنسیوں کو ریگولر رپورٹیں جمع کروائیں۔ ان تمام پالیسیوں کے نتیجے میں امریکہ کے تعلیمی ماحول کا پورا بین الاقوامی عنصر ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ 
(ISIM Review, Spring 2005)

مغرب کا فکری و تہذیبی چیلنج اور علما کی ذمہ داریاں

ڈاکٹر محمود احمد غازی

(۲ جنوری ۲۰۰۵ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ’’دینی مدارس میں عمرانی علوم کی تدریس کی ضرورت واہمیت ‘‘ کے زیر عنوان منعقد ہونے والی فکری نشست سے خطاب۔)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلی آلہ واصحابہ اجمعین۔
قابل احترام جناب مولانا زاہد الراشدی، علماء کرام، برادران محترم، عزیز طلباء کرام!
سب سے پہلے میں آپ سب حضرات کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے عزت بخشی، یہاں حاضری کا موقع عطا فرمایا اور اپنے بعض ناچیز خیالات پیش کرنے کی ا جازت دی۔ 
برادران محترم! اس وقت دنیاے اسلام جس دور سے گزر رہی ہے، یہ دور اسلام کی تاریخ کا انتہائی مشکل دور ہے۔ امت مسلمہ کو جو مشکلات آج درپیش ہیں، شاید ماضی میں اتنی مشکلات کبھی درپیش نہیں ہوئیں۔ ایک اعتبار سے امت مسلمہ کی پوری تاریخ بحرانوں کی تاریخ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور نبوت کے آغاز سے لے کر، جب آپ دار ارقم میں قیام فرما تھے، آج تک کوئی صدی، اور صدی کا کوئی حصہ یا کوئی عشرہ ایسا نہیں گزرا جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اس میں مسلمانوں کو کوئی مشکل درپیش نہیں تھی۔ لیکن ان ساری مشکلات میں اور آج کی مشکل میں ایک بڑا بنیادی فرق ہے۔ ماضی کی جتنی مشکلات اور پریشانیاں تھیں، وہ عموماً زندگی کے کسی ایک گوشے تک محدود ہوتی تھیں۔ مسلمانوں کو عسکری اعتبار سے کسی دشمن کامقابلہ کرنا پڑا، پیچھے ہٹنا پڑا، پسپائی اختیار کرنا پڑی، یہ ایک عسکری شکست یا عسکری ہزیمت کا معاملہ تھا۔ یا مسلمانوں کی کوئی حکومت کمزور ہوئی، غیر ملکی قوتیں مضبوط ہو گئیں اور مسلمان سیاسی طور پر پس ماندگی کا شکار ہوئے، یہ سیاسی میدان میں کمزوری تھی۔ اس طرح کی کمزوریاں جو عموماً سیاسی، مالی، عسکری یا مادی ہوتی تھیں، تقریباً ہر دور میں پیش آتی رہیں، لیکن ان سارے ادوار میں مسلمانوں کا خاندان، مسلمانوں کی تعلیم، مسلمانوں کا نظام تربیت اور مسلمانوں کی جو اندرونی ساخت اور تشکیل (Internal fabric) تھی، وہ اکثر وبیشتر بیرونی خطرات اور حملوں سے محفوظ رہی۔ تاتاریوں کے حملے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دنیاے اسلام پر اس سے برا وقت کوئی نہیں آیا، اور یقیناًوہ بہت برا وقت تھا کہ افغانستان کے مشرقی علاقوں سے لے کر مصر کے حدود تک اور ترکی کے جنوبی علاقوں سے لے کر جزیرۃالعرب کے وسط تک، یہ سارا علاقہ تاتاریوں کی تاخت وتاراج کی آماجگاہ تھا۔ انھوں نے ہزاروں علماے کرام کو شہید کیا اور بڑے بڑے جید ترین اکابر اسلام ان کی تلوار کا نشانہ بنے۔ خواجہ فرید الدین عطار، جن کے بارے میں مولانا رومؒ نے فرمایا:
عطار او بود وسینائی دو چشم او
ما از پئے سینائی وعطار آمدیم
اس درجے کے انسان کہ جن کی پیروی پر مولانا روم جیسے آدمی نے فخر کا اظہار کیا ہے، ایسے اونچے اونچے لوگ تاتاریوں کی تلوار کا شکار ہوئے۔ کتب خانے انھوں نے جلا دیے، شہر برباد کر دیے، یہاں تک کہ ابن کثیرؒ نے اپنی مشہور کتاب ’البدایہ والنہایہ‘ میں لکھا ہے کہ اس زمانے میں مسلمانوں کی شکست خوردگی اور پست ہمتی کا یہ عالم تھا کہ ’اذا قیل لک ان التتار انھزموا فلا تصدق‘، یعنی اگر تمھیں یہ خبر دی جائے کہ تاتاریوں کو شکست ہو گئی ہے تو اس پر یقین نہ کرو۔ گویا تاتاریوں کی شکست ناقابل تصور سمجھی جاتی تھی اور یہ بات ضرب المثل بن گئی تھی۔ لیکن اس ساری تباہی اور بربادی کے باوجود تاتاریوں کی شکست وریخت کا دار ومدار سارا کا سارا مسلمانوں کی عسکری اور سیاسی کمزوری پر تھا۔ انھوں نے مسلمانوں کو سیاسی نقصان پہنچایا، عسکری نقصان پہنچایا، لیکن ان کے پاس کوئی دین نہیں تھا، کوئی پیغام نہیں تھا، کوئی تہذیب نہیں تھی، کوئی مذہب نہیں تھا، کوئی فکری ایجنڈا نہیں تھا، اس لیے مسلمانوں کی تہذیب وتمدن، تربیت اور خاندانی نظام ان کے حملوں سے محفوظ رہا اور ان میں سے کوئی چیز متاثر نہیں ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کی اندرونی قوت نے ان کا ساتھ دیا اور بہت جلد وہ تاتاریوں کی شکست کے نتائج اور ثمرات بد سے نکلنے میں کام یاب ہو گئے۔ یہی کیفیت بقیہ بہت سے معاملات کی بھی رہی۔ 
آج جو صورت حال درپیش ہے، اور آج سے نہیں، پچھلے ڈیڑھ سو سال سے درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ ہر آنے والا دن، ہر نکلنے والا سورج خطرے کی یا پریشانی کی ایک نئی جہت لے کر آتا ہے۔ آج اسلامی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو خطرات سے دوچار نہ ہو۔ فرد کے ذاتی کردار اور تربیت کا معاملہ ہو، گھر کے اندر ماں اور بچوں کے درمیان کامعاملہ ہو، میاں بیوی کے تعلقات کا معاملہ ہو، گھر کی خواتین کے رویے کا معاملہ ہو، تعلیم وتربیت کا معاملہ ہو، یا مساجد کے جاری اندر سرگرمیوں اور معمولات کا معاملہ ہو، ان میں سے ہر چیز آج براہ راست مغربی حملے کی زد میں ہے۔ تاتاریوں نے شاید کبھی یہ نہیں پوچھا ہوگا کہ جامعہ ازہر میں کیا پڑھایا جا رہا ہے، مسلمانوں کی نصاب کی کتابوں میں کیا لکھا جا رہا ہے یا فقہ کی کتابوں میں کیا لکھا ہے۔ انھوں نے کبھی یہ چیز زیر بحث لانے کی کوشش نہیں کی۔ اسی طرح انگریز جب شروع میں یہاں آئے تو انھوں نے بھی ان معاملات پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگریز کے ڈیڑھ دو سو سال یہاں رہنے کے باوجود مسلمانوں کی اندرونی ساخت بڑی حد تک (by and large) مغربی اثرات سے محفوظ رہی اور ایسے لوگ ہزاروں نہیں، بلکہ لاکھوں کروڑوں تھے جن کی زندگی کا ایک لمحہ یا ایک گوشہ بھی انگریزی اثرات سے متاثر نہیں ہوا۔ 
میرے خاندان کے ایک بزرگ تھے، حافظ محمد اسماعیل جو بڑے عالم اور محدث تھے۔ مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ کے والد تھے اور رشتے میں میرے والد کے چچا تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں کسی انگریز کی شکل نہیں دیکھی، انگریزی کا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا اور اپنے گھر میں کسی کو انگریزی کا لفظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ہندوستان میں پہلے شاید ٹماٹر نہیں ہوتا تھا، بعد میں جب یہاں ٹماٹر آیا تو یہ لفظ شاید انگریزی کے tomato کی اردو شکل تھی۔ حافظ اسماعیل صاحب ٹماٹر کا لفظ استعمال نہیں کرتے تھے اور اگر کوئی یہ لفظ بولتا تھا تو اس پر ناخوشی کا اظہار کرتے تھے۔ انھوں نے اس کا نام لال بینگن رکھا ہوا تھا۔ میرے والد صاحب بتاتے تھے کہ ایک دن گھر میں انھوں نے پوچھا کہ سالن میں کیا ڈالا ہے؟ ان سے کہا گیا کہ ٹماٹر ڈالا ہے تو وہ سخت ناراض ہوئے کہ نصرانیت میرے گھر میں گھس آئی؟ اس کو لال بینگن کیوں نہیں کہتے؟ 
بظاہر یہ بات آج ہمیں لطیفہ معلوم ہوتی ہے، لیکن اگر مسلمانوں میں کچھ لوگ اتنی شدت کے ساتھ مغربی اثرات میں رکاوٹ پیدا نہ کرتے تو مغربی اثرات آج سے سو سال پہلے اسی طرح لوگوں کے گھروں میں گھس جاتے جیسا کہ آج گھستے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔ اس طرح کی مثالیں ایک دو نہیں، ہزاروں ہیں اور سیکڑوں، لاکھوں، بلکہ کروڑوں انسان ایسے ہیں جنھوں نے مغربی اثرات کے خلاف مزاحمت کی اور مسلمانوں کو ان سے محفوظ رکھنے کی سعی کی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ انھوں نے مغرب کی مثبت چیزوں کو بھی روکا۔ یقیناًبعض باتیں مغرب میں مثبت بھی تھیں جن کے ثمرات سے مسلمان محروم رہے، لیکن آج یہ بات کہنا اور تبصرہ کرنا تو بڑا آسان ہے کہ فلاں بزرگ نے پابندی لگا دی تھی اور مغربی اثرات کے ثمرات سے مسلمانوں کو محروم رکھا، لیکن آج سے سو سال پہلے کے ماحول میں جو انسان طوفان کے سامنے کھڑا ہے، وہ اس کو نظر آ رہا ہے اور اس کے اثرات وثمرات اس کے سامنے ہیں، وہ ایک فیصلہ کر لے اور اس فیصلے کے نتیجے میں بعض منفی اور بیشتر مثبت سامنے چیزیں آئیں، تو آج ہم یہ کہنے میں حق بجانب نہیں ہیں کہ فیصلہ کرنے والے کو کیا فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ ویسے بھی ’لغو‘ سے حضور نے منع فرمایا ہے۔ ماضی میں جس نے کوئی فیصلہ کیا، اس نے اس کی ذمہ داری بھی لی۔ بعض لوگوں نے ایک فیصلہ کیا تو بعض نے دوسرا۔ دونوں کے ثمرات ونتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ ہم نتائج پر تو بات کر سکتے ہیں، لیکن ماضی کو مستقبل کی طرف سے مشورہ دینا کہ ان کو کیا کرنا چاہیے تھا، یہ ایک غیر ضروری مشورہ ہے جس کا کوئی نتیجہ مستقبل میں نکلنے والا نہیں۔ 
آج کی صورت حال یہ ہے کہ جن حضرات نے سو سال پہلے امت مسلمہ کو مغرب کے اثرات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی تھی، وہ جذبہ اور رویہ کمزور پڑ گیا ہے اور مغرب کے اثرات کے لیے مسلمانوں کے ہر گھر کے دروازے اور ہر کمرے کی کھڑکیاں اس طرح کھلی ہیں کہ اس میں مغرب کے کسی اچھے یا برے اثر کو آنے سے آپ نہیں روک سکتے۔ ہمارے ہاں بہت سے حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی تہذیب کے مثبت پہلوؤں کو ہمیں اپنے اندر آنے کا موقع دینا چاہیے اور اس کے منفی اثرات کا راستہ روکنا چاہیے۔ یقیناًیہ درست رویہ ہے اور ہر مسلمان اس سے اتفاق کرے گا۔ یہ ’خذ ما صفا ودع ما کدر‘ کا اصول ہے جس سے مسلمانوں نے ہمیشہ اتفاق کیا اور جو مسلمانوں کی فکری اور علمی تاریخ کا ہمیشہ طرۂ امتیاز رہا ہے، لیکن ہم میں سے بہت سے لوگ یہ اندازہ نہیں کر پاتے کہ کیا مغرب کا ایجنڈا بھی یہی ہے کہ ہم ’خذ ما صفا ودع ما کدر‘ پر عمل کریں۔ جو چیز ہمارے لیے قابل قبول ہو، وہ ہمارے سامنے پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دیں اور جو چیز ہمارے لیے قابل قبول نہ ہو، اس کو واپس اپنی الماری میں رکھ دیں؟ حقیقت یہ ہے کہ مغرب اپنا پورا ایجنڈا یہاں لانا چاہتا ہے اور انھوں نے ہم سے زیادہ اس پر غور کیا ہے کہ ان کی تہذیب کا جو پورا پیکج ہے، اس کی کون سی چیزیں ہماری تہذیب کے لیے مفید ہیں اور کیا چیزیں اس پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔ اس پر باقاعدہ کتابیں لکھی گئی ہیں اور صرف عام سطح پر نہیں بلکہ بڑی سے بڑی اور اعلیٰ سے اعلیٰ سطح پر اس پر غور وخوض ہوا ہے۔ حتیٰ کہ اگر آپ نے سابق امریکی صدر نکسن کی کتاب ’Seize the Moment‘ پڑھی ہو تو اس میں اس نے پوری تفصیل سے یہ بات بیان کی ہے کہ دنیاے اسلام میں مغربی اثرات کا نفوذ کس حد تک ہے اور کس طرح ہونا چاہیے۔ یہ بات نہ صرف نکسن نے لکھی ہے، بلکہ ا ن کے صف اول کے تمام دانش ور، مفکرین اور مدبرین یہ بات لکھ رہے ہیں۔ 
آج سے چند سال پہلے مجھے جرمنی میں ایک اجتماع میں جانے کا موقع ملا جس میں مختلف ممالک کے دانش ور اور مفکرین مدعو کیے گئے تھے جن میں واحد مسلمان شریک میں تھا۔ میرے علاوہ باقی لوگ مغربی یورپ اور خاص طور پر وسطی یورپ سے بلائے گئے تھے۔ اس اجتماع کا عنوان تھا: Is Islam a threat to West and Europe? (کیا اسلام مغرب اور یورپ کے لیے ایک خطرہ ہے؟) اس میں انھوں نے مجھے بلایا تھا کہ اپنے خیالات کا اظہار کروں۔ یہ کوئی ایک ہفتہ کی نشست تھی جس میں انھوں نے چودہ آدمیوں کو دعوت دی تھی۔ ایک د ن میں دو آدمیوں کی گفتگو ہوتی تھی جس میں ہر شخص تفصیل سے اپنے خیالات حاضرین کے سامنے پیش کرتا تھا۔ اس میں ایک دن مجھے بھی گفتگو کرنے کا موقع ملا جس میں یہ سوال سامنے آیا کہ دنیاے اسلام میں مغربی اثرات کے حوالے سے کیا رویہ رہا ہے؟ اس کے جواب میں، میں نے کہا کہ عالم اسلام میں جب سے مغربی اثرات آئے ہیں، جس کو کم وبیش دو سو سال کا عرصہ ہو چکا ہے، اس کے بارے میں دنیاے اسلام نے تین رویے اختیار کیے ہیں۔ ان میں سے دو رویے تو بتدریج کمزور ہو رہے ہیں یا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ کمزور ہو رہے ہیں، اور تیسرا رویہ بڑھتا ہوا معلوم ہوتا ہے اور اس میں پچھلے پچاس سو سالوں میں قوت پیدا ہوئی ہے۔
ایک رویہ جو سمٹ رہا ہے اور سمٹتے سمٹتے یقیناًختم ہونے کے قریب ہے، وہ ہے جس کی مثال میں نے لال بینگن اور ٹماٹر کے حوالے سے دی۔ اب شاید دنیاے اسلام میں اس طرح کی مزاحمت کرنے والے لوگ موجود نہیں بلکہ اس طرح کی مزاحمت کی افادیت کے قائل بھی میں سمجھتا ہوں کہ نہیں رہے۔ اگر ہیں تو بہت تھوڑے لوگ ہیں جن کا کوئی قابل ذکر اثر معاشرے میں نہیں ہے۔ یہ وہ رویہ تھا جو ابتدا میں بہت مضبوط تھا لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتا گیا۔ 
دوسرا رویہ جو شروع میں بہت قوت سے سامنے آتا محسوس ہوتا تھا، مسلمانوں کی اکثریت نے اس سے بھی زیادہ اتفاق نہیں کیا اور یہ رویہ بھی کمزور ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔ یہ وہ رویہ ہے جو مکمل طور پر مغرب کے رنگ میں رنگ جانے کا رویہ ہے جس نے یہ سمجھا کہ مسلمان اگر مغرب کے ساتھ سو فیصد ہم آہنگی کر لیں تو شاید ان کے تمام مسائل حل اور تمام مشکلات دور ہو جائیں گی۔ اس رویے کے ترجمان ۱۹ ویں صدی کے اواخر اور ۲۰ ویں صدی کے آغاز میں دانشوروں میں بھی، سیاسی لیڈروں میں بھی اور عام سطح پر بھی کثرت سے پائے جاتے تھے، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ یہ رویہ بھی کمزور ہو رہا ہے۔ 
تیسرا رویہ جو آغاز میں بہت کمزور اور تقریباً برائے نام تھا، اب دنیاے اسلام میں اس نے اپنی جگہ بنا لی ہے اور مسلمان مفکرین اور دانش وروں کی ایک بڑی تعداد اس کی نمائندگی کرتی ہے۔یہ وہی ’خذ ما صفا ودع ما کدر‘ کا رویہ ہے کہ مغربی تہذیب کے مثبت پہلوؤں سے مسلمانوں کو استفادہ کرنا چاہیے، ان کی سائنس، ان کی ٹیکنالوجی، ان کی سہولتیں، یہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول ہونے چاہییں اور ان کو اپنانا چاہیے، جبکہ ان کے جو منفی پہلو ہیں، مثلاً اخلاقی اقدار کے متعلق ان کے خیالات ونظریات، یا سیکولرازم اور لا مذہبیت، یا مرد وزن کی آزادی کا تصور جو ان کے ہاں ہے، یہ چیزیں دنیاے اسلام کو قبول نہیں کرنی چاہییں۔ یہ رویہ پہلے بہت محدود تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں وسعت پیدا ہوئی ہے اور آج دنیا ے اسلام کی ایک بڑی تعداد اس رویے پر قائم محسوس ہوتی ہے۔ 
۱۹۹۲ء، ۱۹۹۳ء میں مذکورہ اجتماع میں جب میں نے ایک سوال کے جواب میں مذکورہ تجزیہ تفصیل سے بیان کیا تو اس کے جواب میں اجتماع کے شرکا نے، جن میں فرانسیسی نمائندے بھی شامل تھے، جرمن بھی شامل تھے اور آسٹریلیا کے لوگ بھی تھے، تقریباً بالاتفاق مجھے controvert کیا اور کہا کہ ٹھیک ہے، آپ اس رویے کو درست سمجھتے ہوں گے لیکن مغرب ان شرائط پر اپنی ٹیکنالوجی اور اپنی تہذیب وتمدن سے آپ کو استفادہ کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہوگا۔ سچی بات یہ ہے کہ اس وقت پہلی مرتبہ یہ پہلو میرے سامنے آیا۔ اس سے پہلے میرا ذہن اس طرف متوجہ نہیں تھا کہ آیا مغرب بھی اس بات پر تیار ہے یا نہیں کہ آپ کی شرائط پر اپنی ٹیکنالوجی اور تہذیب سے آپ کو استفادہ کرنے کی اجازت دے۔ کم از کم اس اجتماع کے شرکا کا جواب بالاتفاق یہی تھا کہ مغرب آپ کو اس کی اجازت نہیں دے گا۔ یہ ایک پورا پیکج ہے جس کو آپ کو جوں کا توں قبول کرنا پڑے گا اور اس میں وہ آپ کو اخذ وانتخاب (pick and choose) کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس وقت میں نے یہ سمجھا کہ یہ دانش ور اور مفکرین شاید اپنی main stream کی ترجمانی نہیں کر رہے، اور مغربی تہذیب میں جو فیصلہ کن قوتیں ہیں، ان کی زبان نہیں بول رہے۔ جیسے ہر شخص اپنی تہذیب کے بارے میں ایک عصبیت کا رویہ رکھتا ہے، یہ بھی اپنی تہذیب کے بارے میں ایک عصبیت اور حمیت رکھتے ہیں اور اس عصبیت کی وجہ سے یہ بات ان کو پسند نہیں آئی کہ ہم ان کی تہذیب کے بعض پہلوؤں کو منفی قرار دے کر مسترد کرنا چاہتے ہیں۔ ایک کمزور اور غریب فقیر آدمی کسی دولت مند آدمی سے یہ کہے کہ آپ کی کوٹھی یا محل میں فلاں فلاں چیزیں مجھے غلط معلوم ہوتی ہیں اور میں انھیں مسترد کرتا ہوں تو ظاہر ہے کہ اسے اچھا نہیں لگے گا اور وہ اس کو بے وقوف سمجھے گا۔ میرا تاثر یہ تھا کہ شاید وہ اس نفسیاتی کیفیت میں میری بات کی تردید کر رہے ہیں، لیکن پچھلے بارہ پندرہ سالوں میں مغرب کے بہت سے لوگوں سے ملنے، ان کی باتیں سننے اور ان کی تحریریں پڑھنے کا اتفاق ہوا، اور اب مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ ان کی طے شدہ پالیسی ہے جو انھوں نے سوچ سمجھ کر اختیار کی ہے کہ دنیاے اسلام اپنے آپ کو مکمل طور پر مغرب کے رنگ میں رنگے اور مکمل طور پر مغربی ایجنڈے کو اختیار کرے، اور اگر وہ اس کے لیے تیار نہ ہو تو مغربی تہذیب کے فوائد یا مثبت اثرات سے مسلمانوں کو متمتع ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔ یہ بات جو ۱۹۹۳ء سے پہلے میرے علم میں نہیں تھی، اب وقت کے ساتھ ساتھ روز روشن کی طرح یوں واضح ہے کہ مجھے یوں لگتا ہے کہ یہ پوری دنیاے مغرب کا ایک طے شدہ فیصلہ ہے کہ پوری دنیاے اسلام پر مغرب کے ایجنڈے کو سو فی صد مسلط کر دیا جائے۔ 
مغرب کے ایجنڈا ایک ہمہ گیر ایجنڈا ہے اور اس میں ہر چیز شامل ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاں جو بہت سے کام ہو رہے ہیں، وہ محض اتفاق سے یا مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ یقیناًمسلمانوں میں کمزوریاں بھی ہیں اور ان کی دینی حمیت میں کمی بھی آئی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ بالادست قوتیں بھی ہیں جو طے شدہ پروگرام کے تحت آگے بڑھ رہی ہیں اور دنیاے اسلام کو ایک خاص رخ پر چلانا چاہتی ہیں۔ اب مسلمان کس حد تک اس میں ساتھ جانے کو تیار ہیں، مسلمان دانش ور جو سمجھتے ہیں کہ مغرب کی مثبت چیزوں سے اتفاق کریں اور منفی چیزوں کو مسترد کر دیں، وہ کس حد تک اس میں کام یاب ہوں گے، اور مستقبل کیا خبر لائے گا، یہ اللہ ہی کو بہتر معلوم ہے، لیکن اس رویے کی کامیابی کا سارا دار ومدار مسلمانوں کے فہم صحیح پر، مسلمانوں کی بصیرت اور ان کے عزم وارادے پر ہے، اور اس کے لیے جو چیز سب سے پہلے درکار ہے، وہ خود دنیاے اسلام میں اسلامی تہذیب، اسلامی علوم وفنون اور معارف اسلامی سے گہری اور ماہرانہ واقفیت ہے۔ جب تک شریعت اور شریعت کے پیغام اور تعلیم میں یہ گہری بصیرت اور ماہرانہ واقفیت پیدا نہیں ہوگی، اس وقت تک کوئی ایسی بنیاد فراہم نہیں ہو سکتی جس پر آگے چل کر عمارت کھڑی کی جا سکے۔ 
ایک زمانہ تھاکہ دنیاے اسلام میں علوم وفنون کی اساس قرآن مجید تھا۔ قرآن مجید وہ جڑ فراہم کرتا تھا جس سے علوم وفنون کا گلشن پیدا ہوا۔ یہی وہ درخت تھا جس کے برگ وبار اور ثمرات مسلمانوں کے بقیہ علوم وفنون کی صورت میں سامنے آئے۔ آج سے کم وبیش ایک ہزار سال پہلے قاضی ابوبکر بن العربی نے، جو ایک مشہور مفسر اور مالکی فقیہ ہیں، کہیں لکھا ہے کہ مسلمانوں کے جملہ علوم وفنون کی تعداد سات سو ہے۔ ان سات سو علوم وفنون کا تعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ سنت سے اور یہ سب کے سب سنت کی شرح ہیں، اور سنت رسول قرآن مجید کی تشریح وتفسیر ہے۔ اس لیے قرآن مجید کی حیثیت اس بنیاد اور جڑ کی ہے جس پر مسلمانوں کی ساری تعلیمی، فکری اور تہذیبی سرگرمی کا دارومدار ہے۔ یہ کیفیت کم وبیش گیارہ، بارہ سو سال رہی اور ایک ایسے نظام تعلیم نے جس کی اساس قرآن مجید، سنت رسول اور ان دونوں سے پیدا ہونے والے علوم وفنون پر تھی، امت مسلمہ کی تمام ضروریات کو پورا کیا۔ امت مسلمہ میں بڑی بڑی ریاستیں بھی قائم ہوئیں، بڑی بڑی تہذیبیں سامنے آئیں، اور یورپ کے کم وبیش آدھے حصے پر مسلمانوں کی حکومت رہی۔ مسلمانوں کی فوجیں آسٹریلیا کے حدود تک پہنچیں اور مشرقی اور جنوبی یورپ میں مسلمانوں کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ اسی طرح اسپین میں آج بھی مسلمانوں کی سات سو سالہ حکومت کے آثار موجود ہیں۔ جہاں بانی کے اس پورے سلسلے میں اسلامی علوم وفنون اور وحدت پر مبنی نظام تعلیم نے مسلمانوں کے خالص دینی تقاضے بھی پورے کیے اور خالص دنیوی تقاضے بھی۔ یہ تاثر کہ دینی اور دنیوی علوم جدا جدا ہیں، اسلامی تاثر نہیں، بلکہ یہ مغرب کا تحفہ اور مغربی سیکولر ازم کے باقیات واثرات میں سے ہے۔ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں اور میں بغیر کسی تردد کے یہ بات عرض کرتا ہوں کہ جب تک یہ دو نظام الگ الگ رہیں گے، دنیاے اسلام میں سیکولر ازم کو فروغ ملتا رہے گا۔ سیکولر ازم کیا ہے؟ سیکولر ازم یہ ہے کہ جو چیز مذہبی ہے، وہ مذہبی دائرے میں رہے اور جو غیر مذہبی ہے، وہ غیر مذہبی دائرے میں رہے اور ان دونوں کے درمیان کوئی اتفاق پیدا نہ ہو۔ یہ دونوں ایک نہر یا ایک دریا کے دو کنارے ہیں جو کبھی آپس میں نہیں ملتے اور ایک دوسرے کے متوازی چلتے رہتے ہیں۔ زندگی کو دو متوازی نظاموں اوردو متوازی حصوں میں تقسیم کرنا، اسی کو سیکولر ازم کہتے ہیں۔ یہی لا مذہبیت اور لادینیت ہے۔ لا دینیت کسی اور چیز کا نام نہیں ہے۔
انگریز کے زمانے میں جب main stream کی قیادت مسلمانوں سے چھن گئی تو اس وقت مسلمانوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں تھا کہ وہ اسلامی علوم وفنون کے تحفظ کے لیے ایک خالص دینی نظام تعلیم کے قیام پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ یہ ایک دفاعی حکمت عملی تھی اور امت مسلمہ میں مذہب کی باقیات کو بچانے کا واحد طریقہ تھا کہ مذہبی تعلیم کے نام پر جو کچھ کیا جا سکتا ہے، وہ کیا جائے اور جس حد تک مسلمانوں کی مذہبی زندگی کوبرقرار رکھا جا سکتا ہے، رکھا جائے۔ اس سے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں تھا کہ دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم کے دو الگ الگ نظام موجود رہے ہوں۔ چنانچہ مغلیہ دور میں جس درس گاہ نے، جس نظام تعلیم اور نصاب تعلیم نے مجدد الف ثانی جیسا شخص پیدا کیا، جس کے بارے میں علامہ اقبال مرحوم کا یہ جملہ ہمیشہ دہرایا کرتا ہوں کہ The greatest religious genious produced by Muslim India، (مسلم ہندوستان نے سب سے بڑا جو مذہبی عبقری پیدا کیا، وہ شیخ احمد سرہندی تھے)، اسی نظام میں نواب سعد اللہ خان بھی تیار ہوا تھا جو مجدد صاحب کا کلاس فیلو تھا اور جو سلطنت مغلیہ کا وزیر اعظم بنا۔ وہ سلطنت مغلیہ جو موجودہ افغانستان، پاکستان، ہندوستان، نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھوٹان، سکم، برما، ان سب ریاستوں پر مشتمل تھی۔ اس کے نظام کو اس نے شاہ جہان کے زمانے میں کامیابی سے چلایا تھا۔ پھر استاد احمد معمار جس نے تاج محل بنایا، یہ بھی مجدد صاحب کا کلا س فیلوتھا۔ یہ تینوں ایک ہی استاد کے شاگرد تھے اور ایک ہی درس گاہ کے پڑھے ہوئے تھے۔اب دیکھیے کہ ایک وہ شخص جس نے دنیا کی متمدن ترین سلطنت کو اس کے کامیاب ترین ادوار میں قیادت فراہم کی اور اس کا نظام چلا کر دکھایا، دوسرا وہ شخص جو ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مذہبی عبقری ہے، جس کی عظمت کو بیان کرنا دشوار ہے اور جس نے برصغیر کی دینی تحریکات پر اتنا گہرا اثر ڈالا کہ بعد کی کوئی دینی تحریک اور کوئی دینی سرگرمی اس کے اثر اور شخصیت کے احترام سے خالی نہیں ہے، اور تیسرا وہ شخص جس نے دنیا کے سات عجائب میں سے ایک عجوبہ بنایا، یہ تینوں افراد یہ ایک ہی نصاب کے پڑھے ہوئے اور ایک ہی تعلیمی نظام کی پیداوار تھے۔ یہی اسلام کا آئیڈیل اور یہی اسلام کا معیار ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان بننے کے بعد ہم اس پر ازسرنو غور کرتے، لیکن یہ کام نہ حکومتوں نے کیا اور نہ اہل علم نے اس پر ابھی تک کوئی توجہ دی ہے، لیکن اس پر جتنی جلدی غور ہو جائے، اچھا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام پوری امت مسلمہ کی تاریخ کے ایک مرحلہ کی تشکیل نو کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایک نئے دور کی بنیاد رکھنے کے مترادف ہے اور میں اس کو اس سے کہیں زیاد ہ اہم سمجھتا ہوں جتنی اہمیت دار العلوم دیوبند کے قیام کی تھی۔ میں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا اور اسے غیر اہم نہیں سمجھتا۔ برصغیر اور پورے جنوبی ایشیا میں پچھلے دو سو سال کی پوری مذہبی تاریخ دار العلوم دیوبند اور اس کے موسسین کی مرہون منت ہے، لیکن یہ کام جس کا آغاز مولانا زاہد الراشدی اور ان کے ہم خیال اہل علم نے کیا ہے یا کر رہے ہیں، اگر یہ نتیجہ خیز ثابت ہو تو اس کے اثرات اس سے کہیں زیادہ دیرپا اور دور رس ہوں گے، اس لیے کہ یہ اس روایت کا احیا کرنے کے مترادف ہے جو اصل اسلامی روایت ہے۔ دار العلوم دیوبند کی کاوش یا مہم ایک بدلی ہوئی صورت حال میں دفاعی اور وقتی کوشش تھی۔ وہ آئیڈیل صورت نہیں تھی اور نہ ہی وہ آئیڈیل حالات تھے۔ نہ وسائل دست یاب تھے، نہ حکومتی سرپرستی دست یاب تھی، اور نہ وہاں کے فارغ شدہ حضرات کے لیے قیادت کے مناصب موجود تھے۔ معاشرہ ان کی قیادت کو ماننے اور ان سے رہنمائی لینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ان کی رہنمائی مسجد اور مدرسے کے خاص دائرے تک محدود تھی۔ اس کے لیے انھوں نے جو کچھ کیا، اللہ تعالیٰ ان کو جزاے خیر دے گا اور جتنا دین موجود ہے، انھی کی کاوش سے موجود ہے۔ لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جو دین موجود ہے، اس کو زندگی کے روز مرہ معاملات سے Relate کیا جائے اور اس کو معاشرے میں فعال قائدانہ کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ اہل دین کے پاس دینی علوم کا تخصص بھی موجود ہو اورجس دنیا اور جس معاشرے میں انھیں قیادت فراہم کرنی ہے، اس کے بارے میں بھی قائدانہ اور ناقدانہ واقفیت انھیں حاصل ہو۔ 
جب میں یہ بات عرض کرتا ہوں تو بعض علماء کرام یہ سمجھتے ہیں اور مجھ سے انھوں نے اس کا اظہار فرمایا کہ میں اس بات کا داعی ہوں کہ دینی مدارس کو میڈیکل کالجز میں Convert کر دیا جائے یا انھیں انجینئرنگ کے ادارے بنا دیا جائے۔ ایک بڑے محترم اور بزرگ عالم نے مجھ سے غصے سے پوچھا کہ کیا انجینئرنگ کالج میں مولوی تیار ہوتے ہیں؟ نہیں تو پھر دینی مدارس میں انجینئر کیوں تیار ہوں؟ لیکن یہ اعتراض درست نہیں ہے، اس لیے کہ نہ انجینئر تیار کرنا مقصد ہے اور نہ میڈیکل ڈاکٹر تیار کرنا بلکہ علماء کرام ہی تیار کرنا مقصد ہے، لیکن نواب سعد اللہ کی طرح کے علما۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر دور کا ایک محاورہ اور ایک زبان ہوتی ہے۔ قرآن مجید اور سنت تو ایسی چیز ہیں جو ہمیشہ کے لیے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ ان کا محاورہ ہر دور کے لیے ہے اور ہر دور کے لیے رہے گا۔ ان کے محاورے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ وہ ہمیشہ وہی رہے گا، اور ان کو ہمیشہ انھی کے محاورے اور انھی کی اصطلاح میں سمجھا جائے گا، لیکن فقہاء کرام، شارحین حدیث اور مفسرین نے شریعت کے نصوص کو اپنے اپنے زمانے سے Relate کیا اور اپنے زمانے کے محاورے میں اس کی تعلیم کو مرتب کیا ہے۔ یہ محاورہ حالات کے بدلنے سے بدل سکتا ہے۔ ماضی میں بھی بدلتا رہا ہے اور آئندہ بھی بدلتا رہے گا۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال میں آپ کے سامنے عرض کرتا ہوں کہ وہ علماء کرام جن کے پاس ٹھوس دینی علوم موجود ہیں، جن کے پاس پاور ہاؤس اور اس میں قوت کا ذخیرہ موجود ہے، چونکہ ان کا محاورہ آج کے محاورے سے مختلف ہے، اس لیے دور جدید کا آدمی ان کے علم سے استفادہ نہیں کرتا۔ آج سے کم وبیش ۲۵ سال پہلے وفاقی شرعی عدالت قائم ہوئی۔ جسٹس صلاح الدین مرحوم اس کے پہلے چیف جسٹس تھے۔ بہت نفیس انسان تھے۔ میرے مشورے سے انھوں نے بعض علماء کرام کو وفاقی شرعی عدالت کا مشیر مقرر کیا۔ میں نے ان سے کہا کہ جن حضرات کو آپ نے مشیر مقرر کیا ہے،جن کی تعداد ۳۰، ۳۵ کے قریب تھی، ان سب کو آپ کھانے کی دعوت دیں۔ چنانچہ انھوں نے پورے پاکستان سے ان جید علماء کرام کو کھانے کی دعوت دی۔ ایک بزرگ جو بہت ٹھوس عالم تھے، انتہائی گہرا علم رکھتے تھے، وہ ان کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئے۔ چیف جسٹس صاحب نے ان سے پوچھا کہ حضرت! Islamic Stateکی Minimum requirement کیا ہے؟ بالکل یہی الفاظ تھے، یعنی کسی ریاست کے اسلامی ریاست ہونے کے کم سے کم تقاضے کیا ہیں؟ اس کا وہ کوئی جواب نہیں دے پائے۔ شاید سمجھے نہ ہوں۔ جسٹس صاحب نے دوبارہ اردو میں پوچھا تو وہ پھر بھی اس کا کوئی صحیح جواب نہیں دے پائے۔ میں تھوڑے فاصلے پر تھا۔ مجھے خیال ہوا کہ یہ صف اول کے عالم ہیں، اگر ان کے اس سوال کا جواب نہ دے سکے تو ہو سکتا ہے کہ علما کے بارے میں ایک منفی تاثر جسٹس صاحب کے دل میں بیٹھ جائے۔ میں نے درمیان میں مداخلت کی گستاخی کرتے ہوئے کہا کہ شاید چیف جسٹس صاحب یہ پوچھنا چاہ رہے ہیں کہ ’دار الاسلام‘ کی تعریف کیا ہے؟ اب انھوں نے فوراً جواب دیا اور بڑے مدلل انداز میں جواب دے کر چیف جسٹس کو بڑی حد تک مطمئن کر دیا۔ اس وقت یہ بات مجھ پر واضح ہوئی کہ علماء کرام کے پاس علم تو ہے، لیکن محاورہ نہیں۔ 
محاورہ ہر زمانے کا مختلف ہوتا ہے اور ہر زمانے کے علوم سے متاثر ہوتا ہے۔ جس زمانے میں منطق نہیں آئی تھی، آپ اس زمانے کی اصول فقہ کی کتابیں دیکھیں کہ ان کا انداز کیا تھا؟ امام شافعی کی کتاب ’الرسالہ‘ پڑھیں۔ اس کے بعد آپ خود شافعی فقیہ امام غزالی کی ’المستصفیٰ‘ پڑھیں۔ دونوں کے محاورے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ شاہ ولی اللہؒ نے اسرار حدیث پر کتاب لکھی ہے۔ اسرار حدیث پر ’معالم السنۃ‘ میں امام خطابیؒ نے بھی لکھا ہے۔ شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں اس کا اعتراف کیا ہے۔ آپ ان دونوں کتابوں کو پڑھیں تو دونوں کے محاورے میں زمین آسمان کا فرق محسوس ہوگا۔ شاہ ولی اللہ کا محاورہ سارے کا سارا یونانی فلسفے پر مبنی ہے اور یونانی فلسفہ جیسا کہ برصغیر میں پڑھایا جاتا تھا، میبذی اور شرح ہدایۃ الحکمۃ اور فلسفہ کے بارے میں جو جو کتابیں اس وقت رائج تھیں، ان سب کے اثرات اور مصطلحات شاہ صاحب کی ’حجۃ اللہ البالغہ‘ میں موجود ہیں۔ اب خالص علم حدیث ہے اور شاہ صاحب علم اسرار حدیث پر بات فرما رہے ہیں، لیکن منطق اور فلسفے کے محاورے میں۔ جو بات خطابی نے کی ہے، وہی بات شاہ صاحب کہہ رہے ہیں اور اسی کو آگے بڑھا رہے ہیں، لیکن اگر خطابی ہوتے تو شاید ایک لفظ نہ سمجھتے کہ شاہ صاحب کیا کہہ رہے ہیں، جیسا کہ چیف جسٹس صاحب کی بات وہ بزرگ عالم نہیں سمجھ پائے۔ 
اگر آپ کے پاس ریڈیو سیٹ تو ہو، لیکن ریڈیو اسٹیشن سے جس فریکونسی پر پیغام نشر ہو رہا ہے، آپ کا ریڈیو سیٹ اس فریکونسی پر کام نہ کرتا ہو تو آپ کے لیے وہ بے کار ہے۔ جب تک آپ اپنے ریڈیو سیٹ کو مطلوبہ فریکونسی پر نہیں لائیں گے، آپ ریڈیو اسٹیشن کی نشریات سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح یہ ضروری ہے کہ علماء کرام کے پاس جو علم دین کا پاور ہاؤس ہے، اور ایک عام آدمی جو دین کی راہنمائی چاہتا ہے اور جس کو آپ راہنمائی دینا چاہتے ہیں، ان دونوں کی فریکونسی ایک ہو۔ اس فریکونسی کو موافق بنانے کے لیے ایک تو تخصص ضروری ہے جس پر میں ابھی مزید بات کروں گا، اور دوسرا دور جدید کا محاورہ درکار ہے۔ یہ خلط مبحث اور غلط فہمی ہے کہ علما کو انجینئر یا ڈاکٹر بنانا مقصود ہے۔ نہیں، بلکہ مقصود یہ ہے کہ وہ علوم وفنون جنھوں نے آج کل کی تہذیب کی تشکیل کر رکھی ہے اور جن کی بنیاد پر آج ساری دنیا کا نظام چل رہا ہے، حتیٰ کہ پاکستان، سعودی عرب اور ایران میں بھی چل رہا ہے، ان سے علما بھی مناسب طور پر واقف اور مانوس ہوں۔ مسلمانوں نے اپنے دور میں علوم وفنون کی ایک الگ تقسیم کی تھی۔ کچھ علوم مقاصد یا علوم حقیقی ہیں اور کچھ علوم وسائل یا علوم آلیہ ہیں۔ اسی طرح کچھ علوم ہیں، کچھ صنائع ہیں اور کچھ فنون ہیں۔ یہ مسلمانوں کی تقسیم تھی۔ آج عملاً یہ تقسیم موجود نہیں ہے۔ آج تعلیم کا نظام عملاً اس تقسیم پر نہیں چل رہا۔ آج دنیا میں ایک نئے انداز سے علوم کی مختلف تقسیمیں کی جاتی ہیں۔ ان میں ایک اہم تقسیم علوم عمرانی (Social sciences) اور علوم انسانی (Humanities) کی ہے۔ سوشل سائنسز میں وہ ان علوم وفنون کو شامل کرتے ہیں جو انسانی معاشرے کی تشکیل اور معاشرتی زندگی سے بحث کرتے ہیں۔ ان میں تاریخ، سیاسیات، معاشیات، عمرانیات اور کسی حد تک قانون شامل ہیں۔ یہ عمرانی علوم ہیں جن سے اجتماعی رویوں کی تشکیل ہو رہی ہے۔ Humanities وہ علوم ہیں جو انسان کے مطالعے پر مبنی ہیں، یعنی فرد کے خیالات، فرد کے افکار، فرد کی نفسیات، فرد کے احساسات وجذبات، یہ سب کے سب ہیومینٹیز کہلاتے ہیں۔ اس میں فلسفہ، نفسیات اور بشریات شامل ہیں۔ یہ دو میدان وہ ہیں جن سے دور جدید میں تہذیب کی تشکیل ہوئی ہے۔ آج ہمارا ایک پڑھا لکھا انسان، چاہے وہ پاکستان کا ہو یا سعودی عرب کا یا مصر کا یا کسی بھی اسلامی ملک کا، جب وہ بات کرتا ہے تو اسلامی علوم اور تصورات کے تناظر (perspective) میں بات نہیں کرتا۔ وہ اسلامی اصطلاحات یا فقہی سیاق وسباق یا فقہی محاورے میں بات نہیں کرتا، بلکہ وہ مغربی سوشل سائنسز کے محاورے میں بات کرتا ہے۔ عمرانی علوم اور انسانی علوم کے کے علاوہ مختلف قسم کے طبیعی علوم بھی ہیں جن کی حیثیت Tools اور آلات کی ہے جن سے لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانا مقصود ہے۔ ان کا دینی علوم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں بنتا۔ بالواسطہ جس چیز کی ضرورت پیش آتی ہے، وہ یہ ہے کہ علماء کرام بقدر ضرورت سوشل سائنسز اور ہیومینٹیز سے واقفیت رکھتے ہوں۔ اسی طرح کی واقفیت رکھتے ہوں جیسے آج سے ایک ہزار سال پہلے منطق سے واقفیت کی ضرورت پیش آئی تھی۔ 
اگر آپ اس دور یعنی تیسری صدی کے مباحث پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ جب یونانی منطق اور فلسفہ کی کتابیں ترجمہ ہونا شروع ہوئیں، تو مسلمانوں میں اسی طرح کے تین رویے تھے جو آج مغربی تہذیب کے بارے میں ہیں۔ علماء کرام، محدثین اور مفسرین کا ایک بہت بڑا طبقہ وہ تھا جو ان سب چیزوں کو ناپاک اور گردن زدنی سمجھتا تھا، جو یونانی منطق اور فلسفہ سے اعتنا رکھنے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج یا اس کی حدود پر سمجھتا تھا، ان کو مسلمانوں کا نمائندہ نہیں سمجھتا تھا۔ یہ بحثیں موجود تھیں کہ منطق کی کتابوں سے استنجا جائز ہے یا نہیں۔ یہ جزئیات آپ کو فقہ کی کتابوں میں مل جائیں گی، یعنی یہاں تک ناپسندیدگی اور نفرت کی کیفیت تھی۔ یہ شعر آپ نے اکثر پڑھا ہوگا کہ 
وا عجبا لمنطق الیونان
کم فیہ من افک ومن بہتان
مخبط لجید الاذہان
ایک لمبی نظم ہے، پتہ نہیں کس بزرگ کی ہے۔ تو منطق کے بارے میں یہ کیفیت تھی ۔ اس کے بعد یہ رویہ محدود ہوتا گیا، جیسا وہ ٹماٹر والا رویہ محدود ہو گیا۔ پھر یہ کیفیت آئی کہ خالص اسلامی علوم میں منطق وفلسفہ آ گیا۔ شاہ ولی اللہ صاحب کی ’حجۃ اللہ البالغہ‘ علم اسرار حدیث پر بہترین کتاب ہے۔ میری دانست اور رائے میں اس سے بہتر اسلامی علوم کی نمائندہ کتاب برصغیر میں نہیں لکھی گئی اور میں شاہ صاحب کو برصغیر میں مسلمانوں کا امیر المومنین فی الحدیث سمجھتا ہوں۔ لیکن جب تک آپ منطق اور فلسفہ کی اصطلاحات سے واقف نہ ہوں، انھی یونانیوں کی منطق جو بت پرست اور مشرک تھے، بدکار تھے، اخلاقی اعتبار سے بھی کچھ اونچے لوگ نہ تھے، تو ان کی کتابوں کو سمجھے اور ان کے افکار کو جانے بغیر آپ علم اسرار حدیث پر اسلامی لٹریچر کی بہترین کتاب نہیں سمجھ سکتے۔ شاہ ولی اللہ تو بعد کے ہیں۔ امام غزالی جیسے حجۃ الاسلام کی کتاب ’المستصفیٰ‘، جو اصول فقہ جیسے خالص اسلامی علم پر ہے، اگر آپ منطق میں اچھی بصیرت نہیں رکھتے تو اس کو نہیں سمجھ سکتے اور اس میں منطق اتنی گھسی ہوئی ہے کہ اگر ’المستصفیٰ‘ کو سمجھ کر پڑھ لیں تو منطق بھی آپ کو آ جائے گی۔ انھوں نے منطق کو اس کتاب میں اتنا سمو دیا ہے۔ امام شاطبی کی کتاب ’الموافقات‘ آپ نے پڑھی ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ اصول فقہ پر انسانی تاریخ کی بہترین کتاب ہے۔ انسانی تاریخ میں اصول قانون پر اس سے بہتر کتاب موجود نہیں ہے۔ لیکن جب تک آپ منطق وفلسفہ نہ جانتے ہوں، اس کتاب کے مضامین کو بھی نہیں سمجھ سکتے حالانکہ وہ ایسے علاقے، شمالی افریقہ اور اسپین وغیرہ میں لکھی گئی جہاں منطق وفلسفہ کا رواج کم تھا۔ لیکن اس کے باوجود ساری کتاب کی اٹھان، اس کا استدلال، اس کی ترتیب، اس کا اسلوب اس دور کے عقلیات کے معیارات کے مطابق خالص عقلی ہے۔ 
یہ ایک ایسی تہذیب یا ایک ایسے علاقے کی نمائندہ تہذیب کے بارے میں مسلمانوں کا رویہ تھا جس سے مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہیں تھا، نہ سیاسی طور پر ان کی مسلمانوں کے ساتھ کوئی کشمکش تھی، نہ عسکری طور پر وہ مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچا سکتے تھے، نہ وہ اس پوزیشن میں تھے کہ اگر مسلمان ان کے نقطہ نظر کا مطالعہ نہ کریں تو وہ اسے زبردستی مسلط کر دیں۔ یہ تو مسلمانوں نے خود ہی ان کے علوم وفنون کا ترجمہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اب اگر یونانیوں کے علوم وفنون جو نہ مسلمانوں پر حاکم تھے، نہ بالادست تھے، نہ ان کے پاس اقتدار تھا، نہ وہ مسلمانوں کے لیے خطرہ تھے، مسلمانوں نے محض علمی دلچسپی کی خاطر انھیں اختیار کیا اور ان سے استفادہ کیا تو وہ علوم وفنون جو ایک بالادست طاقت نے آپ پر مسلط کر دیے ہیں اور جن کے تصورات اور اسلوب استدلال کے مضر اثرات مسلمانوں میں داخل ہو رہے ہیں، انھیں سیکھنا اور ان سے واقفیت پیدا کرنا کیونکر مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں ہے؟ آج اس کی ضرورت اس سے کئی ہزار گنا بلکہ کئی لاکھ گنا زیادہ ہے جتنی ضرورت یونانی علوم وفنون کے مطالعے کی تھی۔ 
یہ ٹھیک ہے کہ یونانی منطق اور فلسفہ سے اشتغال رکھنے والے بہت سے لوگوں نے ایسے خیالات کا اظہار بھی کیا جو اسلام کی ترجمانی نہیں کرتے تھے۔ آپ فارابی کی کوئی کتاب پڑھیں، مثلاً اس کی کتاب ہے ’آراء اہل المدینۃ الفاضلۃ‘ جس کو آپ کہہ سکتے ہیں کہ مسلم سیاسی فکر کی پہلی کتاب ہے۔ اس میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو اسلامی تعلیم وعقائد سے ہم آہنگ نہیں ہیں، لیکن ایک اعتبار سے وہ بڑی غیر معمولی کتاب ہے کہ اس نے یونانی علوم وفنون پڑھے اور ارسطو کی Politica یعنی ’سیاسیات‘ کا ترجمہ اس نے پڑھا، شاید افلاطون کی Republic کا بھی ترجمہ دیکھا ہو، لیکن بظاہر اس کے شواہد کم ہیں۔ سیاسیات پر وہ ارسطو کے نقطہ نظر سے متاثر ہوا۔ اس کے بعد اس نے ایک کتاب لکھی اور کوشش کی کہ ان خیالات کو اسلام سے ہم آہنگ کر کے بیان کرے۔ میرے خیال میں یہIslamization of Knowledge کی پہلی کوشش تھی۔ یہ داعیہ اس کے دل میں کیوں پیدا ہوا کہ وہ یونانیوں کے خیالات کو اسلام کے مطابق بنائے؟ اس کے دل میں کوئی اسلامی حمیت تھی اور کوئی اسلامی جذبہ تھا تو پیدا ہوا۔ اس اسلامی جذبے نے اس کو ارسطو کے خیالات کو جوں کا توں مسلمانوں میں پیش کرنے سے باز رکھا اور اس حد تک اس کا اسلامی فہم قابل ستایش ہے۔ اس کے مطابق اس نے ایک ایسی چیز کی بنیاد رکھی جو آگے چل کر لوگوں کی رہنما بنی۔ اس نے اسلام کی سیاسی فکر اور اس کے دستوری تصورات کو اس طرح مرتب کیا کہ وہ نقل کے معیار کے ساتھ ساتھ عقل کے معیار پر بھی پورا اترے۔ اسی وجہ سے میں ابن سینا اور فارابی کا بڑا احترام کرتا ہوں اور میرے دل میں ان کی بڑی قدر ہے، اس کے باوجود کہ ان کے بہت سے خیالات اسلامی عقائد سے متعارض ہیں۔
آج بھی اسی بات کی ضرورت ہے کہ وہ حضرات جو یہ صلاحیت رکھتے ہوں یا ارادہ اور خواہش رکھتے ہوں کہ آگے چل امت مسلمہ کی فکری قیادت کی ذمہ داری انجام دیں، ان کو بقدر ضرورت مغربی علوم سے ناقدانہ اور قائدانہ واقفیت ہونی چاہیے۔ ان کے لیے یہ ضروری نہیں کہ مثلاً وہ اصول قانون کے اس طرح عالم ہوں جس طرح کوئی ماہر مغرب میں پایا جاتا ہے۔ اگر ہونا چاہتا ہے تو ضرور ہو جائے، لیکن اتنی مہارت کی ضرورت نہیں۔ اصول قانون جیسا کہ مغرب میں ہے، اس کے بنیادی تصورت، اس کے بنیادی عقائد، اس کے بنیادی concerns and issues جس سے وہ بحث کرتا ہے، وہ کیا ہیں، کیوں پیدا ہوئے ہیں اور ان کے جو basic issuesہیں، وہ گرفت میں آ جائیں۔ اس کے بعد ان پر ایک تنقیدی نظر ڈال کر ایک صاحب علم فقیہ یہ دیکھے کہ اس میں کیا چیز ہے جو کمزور ہے، کیا چیز ہے جو مضبوط عقلی بنیادوں پر قائم ہے، اور کیا چیز یا کیا اسلوب استدلال ہے جس سے کام لے کر اصول فقہ کے اس تصور یا نظریہ کو زیادہ بہتر انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ یہ ناقدانہ انداز ہے۔ 
آپ دیکھیں کہ اصول فقہ کو جس طرح امام شافعی نے مرتب فرمایا تھا اور جس طرح امام سرخسیؒ نے اس پر ’اصول السرخسی‘ لکھی تھی جو فقہ حنفی میں پہلی کتاب ہے، اس انداز کی کتابیں بعد میں نہیں لکھی گئیں۔ امام رازی اور امام غزالی کی کتابیں اس انداز کی نہیں ہے۔ ان میں منطق اور فلسفہ آ گیا ہے جو جائز تھا۔ امام غزالی نے اصول فقہ کے ہر مسئلہ کو منطق کے دلائل سے اس طرح ثابت کر کے دکھایا کہ یونانی فلسفہ ومنطق کا کوئی بڑے سے بڑا ماہر امام غزالی کے استدلال سے اختلاف نہیں کر سکتا۔ اس طرح انھوں نے اصول فقہ کو یونانی منطق کے ماہرین کے فہم کے قریب کیا۔ منطق سے متاثر لوگ اصول فقہ سے متاثر ہوئے۔ انھوں نے اصول فقہ کے بارے میں یہ تسلیم کر لیا کہ یہ فن عقل ونقل دونوں کی میزان پر پورا اترتا ہے۔ یہی کام آج ہمیں کرنا پڑے گا۔ جب تک نہیں کریں گے تو بات آگے نہیں بڑھے گی۔ 
اسی طرح آج جو سارا طبقہ ہمارا اور آپ کا نظام چلا رہا ہے، یہ اصول فقہ سے واقف نہیں۔ یہ انگریزی اصول قانون سے واقف ہیں۔ اینگلو سیکسن لا، اس کے تصورات و استدلالات اور عقائد، سب ان کے رگ وپے اور گھٹی میں پڑے ہوئے ہیں۔ اب یا تو آپ انھیں مجبور کریں کہ وہ اپنا سب کام چھوڑ کر اصول فقہ پڑھیں تو یہ عملاً ہوگا نہیں۔ اگر آپ سے کوئی کہے کہ آپ اپنی ملازمت، تدریس، نوکری چھوڑ کر پانچ سال یا دس سال اصول قانون پڑھنے پر لگائیں تو آپ تیار نہیں ہوں گے۔ آپ کے پاس وقت نہیں ہے، آپ کے وسائل اس کی اجازت نہیں دیتے۔ آپ کے مشاغل اس کے متحمل نہیں ہوں گے۔ اسی طرح ان لوگوں کے مشاغل بھی اس کے متحمل نہیں ہوتے کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر قدیم محاورے میں لکھے ہوئے اسلامی علوم وفنون میں مہارت حاصل کریں۔ ایک وکیل اپنی وکالت کیوں چھوڑے؟ اگر چھوڑ دے تو کھائے کہاں سے اور وہ کیوں پانچ سال اصول فقہ یا فقہ پڑھنے پر لگائے؟ پانچ سال میں بھی اتنی واقفیت پیدا نہیں ہوگی جتنی ہونی چاہیے۔ اس لیے مطالبے کرنے سے، جلوس نکالنے سے، بینر لگانے سے کوئی جج یا وکیل خود بخود فقہ کاماہر نہیں ہو جائے گا۔ وہ تو تب بنے گا جب وہ پڑھے گا اور تب پڑھے گا جب آپ اسے پڑھانا چاہیں گے اور جب پڑھانا چاہیں گے تو اس کے لیے اس کے ذہنی پس منظر اور اس کے مزاج کے مطابق آپ کو تیاری کرنی پڑے گی۔ اس میں شارٹ کٹ کوئی نہیں ہے۔ یہ نہیں ہوگا کہ آج کوئی اسلامی تحریک یا دینی جماعت دھرنا دے دے اور کل اس کے نتیجے میں جتنے جج صاحبان اور وکلا ہیں، جن کی تعداد بالترتیب پانچ ہزار اور بارہ ہزار کے قریب ہے، سب کے سب فقہا ہو جائیں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ پھر بھی صورت حال یہی رہے گی جو آج ہے۔ اس کے لیے بہت long term جانا پڑے گا۔ جب دو سو سال میں یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے تو کم از کم دو سو نہیں تو پچاس سال تو کام کرنا پڑے گا۔ پچاس سال کم از کم تبدیلی کے لیے درکار ہیں، اس وقت سے جب تبدیلی کے لیے کام شروع ہوگا۔ اگر پچاس سال پہلے شروع ہو چکا ہوتا تو آج تبدیلی آ چکی ہوتی۔ اس لیے اصول فقہ کو اس انداز سے مرتب کرنا پڑے گا کہ دور جدید کا انسان جو قانو ن تو جانتا ہے اور مغربی اصول قانون سے مانوس ہے، وہ اس تصور کو سمجھ سکے اور اس تصور کو اپنے فہم کے قریب لا سکے۔ مسلمانوں کو ان علوم میں اتنی واقفیت پیدا کرنی ہوگی کہ ان کے اسلوب استدلال کے ذریعے سے اسلامی عقائد اور اسلامی تعلیم کو پیش کر سکیں، جس طرح امام غزالی نے منطق سے کام لے کر اصول فقہ کے اصولوں کو پیش کیا تھا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسے لوگ موجود ہوں۔ 
اس کی دو شکلیں ہیں۔ ایک شکل تو یہ ہے کہ جو لوگ اصول قانون کے ماہر ہوں، انھیں اصول فقہ کا ماہر بھی بنا دیا جائے۔ دوسری شکل یہ ہے کہ جو اصول فقہ کا ماہر ہو، اسے بقدر ضرورت اصول قانون کاماہر بنا دیا جائے۔ دوسری صورت زیادہ آسان معلوم ہوتی ہے۔ میں نے یہ ایک مثال صرف اصول قانون کی دی ہے۔ یہ مثال علم سیاسیات، سوشیالوجی اور دیگر علوم پر بھی منطبق ہوتی ہے۔ ان علوم وفنون سے ایک ناقدانہ واقفیت درکار ہے، لیکن اس ناقدانہ واقفیت کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی علوم کا تخصص گہرا ہو، ورنہ مغربی علوم وفنون کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا کہ یہ درست ہے اور یہ غلط ہے، یہ عقیدہ ٹھیک ہے، اسلام کے مطابق ہے اور یہ عقیدہ اسلام کے خلاف ہے، ا س کا پتہ نہیں چلے گا۔ ایک کچا آدمی ان کی گمراہیوں سے بھی متاثر ہوجائے گا جیسا کہ آج تک ہوتا رہا ہے۔ علماء کرام جو متامل ہیں، شاید اسی وجہ سے ہیں کہ ایسی مثالیں سامنے آئیں کہ کچا علم رکھنے والوں نے مغربی علوم وفنون اپنائے اور اسلام کی وہ تعبیریں کیں جو اسلام کی روایت کے مطابق نہیں تھیں اور ان میں انھوں نے اسلام کی علمی روایت کے تسلسل کو محفوظ نہیں رکھا تھا۔ اس لیے جب تک علم میں پختگی نہ ہو، اس وقت تک ناقدانہ تصور نہیں پیدا ہو سکتا۔ پختگی پیدا کرنے کے لیے بھی ابھی تک ہمارے ہاں کوئی انتظام نہیں ہے۔ 
آج جو دینی تعلیم ہم دے رہے ہیں، اس کے مقاصد کیا ہیں؟ وہ ہمارے سامنے ہونے چاہییں۔ میں ذرا بے تکلف بات کروں گا۔ آپ برا نہ مانیے گا۔ میرا تعلق آپ ہی کے طبقہ سے ہے۔ وہ ایک شعر ہے کہ
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کار تریاقی
تو گفتگو میں تھوڑی سی تلخ نوائی کا عنصر آنے کی اجازت دیجیے۔ جب دار العلوم دیوبند قائم ہوا، اس وقت مسلمانوں کو مسئلہ کیا درپیش تھا؟ اس وقت مسلمانوں کومسئلہ یہ درپیش تھا کہ انگریز نے پورے برصغیر پر قبضہ کر لیا تھا، مسلمانوں کے اوقاف سب ختم کر دیے گئے تھے، ایک ایک کر کے ضبط کر لیے گئے تھے، تعلیمی ادارے سب بند کر دیے گئے تھے۔ علماء کرام جو سارے نظام کو چلا رہے تھے، ان کو ملازمتوں سے الگ کر دیا گیا۔ عدالتوں کا نظام جو شریعت کے مطابق تھا، اس کو ختم کر کے انگریزی عدالتیں قائم کر دی گئیں، انگریزی قانون شریعت کی جگہ نافذ کر دیا گیا۔ فارسی جو نظام حکومت کی زبان تھی، اس کو ختم کر کے انگریزی جاری کر دی گئی۔ جہاں جہاں مسلمان مقرر تھے، ان کی جگہ ہندووں کو مقرر کر دیا گیا۔ بڑے مناصب پر انگریز آ گئے اور مسلمان ہٹ گئے۔ جو چیزیں مسلمانوں کی عزت کا ذریعہ تھیں، وہ مسلمانوں کی ذلت کا ذریعہ بنا دی گئیں۔ مسلمانوں کا لباس، مسلمانوں کے عہدے، مسلمانوں کے مناصب، مسلمانوں کے القاب، ہر چیز جواونچے درجے کی تھی، اس کو نیچے درجے میں انھوں نے متعارف کروا دیا۔ یہ وہ حالات تھے جن میں انھوں نے یہ محسوس کیا کہ وہ نصاب یا وہ نظام جو آسانی سے اس وقت اپنایا جا سکتا ہے، اس کو اپنا لیا جائے۔ 
اس وقت درس نظامی برصغیر میں رائج تھا۔ درس نظامی کیا ہے؟ یہ بھی میں عرض کر دوں۔ درس نظامی نہ کوئی آسمانی چیز ہے، نہ قرآن میں آیا ہے نہ حدیث میں، نہ اس کا اسلام کے مستقبل یا ماضی سے کوئی تعلق ہے۔ یہ ایک اچھی مفید چیز ہے، اس کی افادیت سے انکار نہیں۔ اصل میں انگریز کی حکومت جب برصغیر میں قائم ہوئی تو اس وقت ہندوستان میں چار پانچ قسم کے درس رائج تھے۔ ایک درس مشرقی ہندوستان، جون پور وغیرہ میں رائج تھا جو شیراز ہند کہلاتا تھا۔ شیراز ہند اس لیے کہلاتا تھا کہ جون پور اور مشرقی علاقوں میں عقلیات اور فلسفے پر زور زیادہ تھا اور وہاں کے فارغ التحصیل حضرات منطق اور فلسفے کے ماہر ہوتے تھے۔ مسلمانوں میں عقلیات پر جتنی کتابیں برصغیر میں لکھی گئیں، وہ خیر آبادی سکول کی طرف سے لکھی گئیں۔ فضل حق خیر آبادی اور فضل امام خیر آبادی اس اسکول کے معروف نام ہیں اور ان کی لکھی ہوئی کتابیں ’ہدیہ سعیدیہ‘ اور ’شمس بازغہ‘ وغیرہ سے آپ واقف ہیں۔ 
ایک دوسرا درس تھا جو افغانستان کے اثرات سے آیا تھا اور موجودہ صوبہ سرحد، افغانستان اور موجودہ پنجاب وغیرہ میں رائج تھا۔ اس میں صرف ونحو اور نحوی بحثوں پر زور دیا جاتا تھا۔ کافیہ اور اس کی شرح پڑھنے پر لوگ دس دس سال لگا تے تھے۔ کافیہ میں کیا لکھا ہے، اس سے بحث نہیں ہوتی تھی، لیکن مفردا مرفوع ہے یا منصوب یا مجرور، اس پرتین تین دن بحث ہو تی رہتی تھی۔ پھر کافیہ کی شرح، شرح جامی پڑھائی جا تی تھی۔ پھر شرح جامی کی شرح، پھر اس کے حواشی سوال باسولی، سوال کابلی، تحریر سنبٹ وغیرہ، اور دس دس سال اس میں لگ جاتے تھے۔ بہرحال، یہ تخصص کا ایک میدان تھا۔ ان کی دلچسپی تھی جس پر ہمیں اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔
تیسرا نصاب وہ تھا جو مغربی ہندوستان اور سندھ میں رائج تھا جس میں علم حدیث پر نسبتاً زیادہ زور تھا۔ شیخ علی المتقی، کنز العمال کے مصنف عبد الوہاب المتقی، ہمارے سندھ کے علماء کرام شیخ محمد حیات سندھی، شیخ محمد عابد سندھی اور شیخ ابو الحسن سندھی وغیرہ حضرات اس نظام سے وابستہ تھے۔ ان حضرات کا اعتنا علوم حدیث سے زیادہ تھا۔ 
یہ تین مختلف نظام ہندوستان میں رائج تھے اور کچھ تھوڑی تھوڑی تبدیلیوں کے ساتھ ان سے مختلف بھی تھے، لیکن بڑے اندا ز یہی تین تھے۔ اس کی تفصیل اگر آپ دیکھنا چاہیں تو مولانا مناظر احسن گیلانی کی ضخیم کتاب ’’ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت‘‘ میں دیکھ لیجیے۔ جب انگریز ہندوستان میں آئے، ایسٹ انڈیا کمپنی آئی تو اس نے سب سے پہلے بعض سرحدی علاقوں بمبئی، مدراس اور کلکتہ وغیرہ پر قبضہ کیا۔ کلکتہ پر قبضہ کرنے کے بعد انھوں نے تجارتی کوٹھیاں بنائیں۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی پولیس اور فوج رکھنا شروع کی جس کی ایک لمبی داستان ہے۔ آج کل اس کے parallels اور اس کی مشابہتیں بڑی نمایاں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آپ کے ملک میں بد امنی ہے، آپ کے ہاں راستوں میں ڈکیتیاں بہت ہوتی ہے، اس لیے ہم اپنی جان ومال اور راستوں کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی فوج الگ رکھیں گے۔ ان کو فوج رکھنے کی اجازت دے دی گئی اور انھوں نے راستوں پر سپاہی رکھنے شروع کر دیے۔ ہوتے ہوتے انھوں نے پورے بنگال پر قبضہ کر لیا اور بالآخر نواب سراج الدولہ کے خلاف فوج کشی کر کے اس کو demote کر دیا گیا۔ بنگال پر قبضہ کرنے کے بعد انھوں نے بہار اور اڑیسہ پر قبضہ کر لیا اور الٰہ آباد پہنچ گئے جو مشرقی یوپی کا سب سے بڑا شہر تھا۔ جب تین صوبوں بنگال، بہار اور اڑیسہ پر ان کا قبضہ ہو چکا تو ہندوستان میں مسلمانوں کے کان پر جوں رینگی اور یہاں کا جو حکمران تھا، غالباً شاہ عالم ثانی، وہ ان کے مقابلے کے لیے اپنی فوج لے کر نکلا۔ اس کو ناکامی ہوئی۔ اس ناکامی کے نتیجے میں الٰہ آباد میں ایک معاہدہ ہوا جو معاہدۂ دیوانی کہلاتا ہے۔ یہ معاہدہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے انتقال کے کوئی تین سال بعد ہوا۔ اس معاہدہ میں شاہ عالم ثانی نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ان تینوں صوبوں کا انتظام سپرد کر دیا یعنی اس کو قانونی طور پر ایک جائز قبضہ تسلیم کر لیا اور کہا کہ میری طرف سے آپ ان تینوں صوبوں کا نظام چلائیں گے، لیکن اس کے یہ شرائط ہوں گے۔ (انگریز ہمیشہ شروع میں شرائط مان لیتے ہیں جو ان کو سوٹ کرتے ہیں۔ پیروی اور پابندی وہ کتنی کرتے ہیں، یہ ہم سب کے سامنے ہے) 
ان شرائط میں ایک بات یہ تھی کہ مسلمانوں کے سارے معاملات شریعت حقہ محمدیہ کے مطابق ہوں گے۔ یہ معاملات مسلمان قاضی اور مفتی طے کریں گے کہ شریعت کیا ہے اور اس کو کیسے نافذ کیا جائے۔ یہ ان شرائط میں ایک چیز تھی۔ جب انگریزوں نے یہ شرائط مان لیں تو انگریزوں میں یہ خوبی ضرور ہے، ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ وہ ہر کام بڑے methodical طریقے سے کرتے ہیں۔ ہر کام کا ایک نظام اور ایک سسٹم ہوتا ہے۔ پہلے قانون بنتا ہے، اس کے مطابق نظام چلتا ہے۔ تو انگریزوں نے یہ معلوم کیا کہ مسلمانوں میں کسی کو جج مقرر کرنے کے لیے اس کا فیصلہ کیسے کیا جائے کہ وہ عالم یا فقیہ ہے؟ انھوں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ تین چار قسم کے نصاب رائج ہیں اور ہر ایک کے فارغ التحصیل کو عالم کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کوئی ایسا نصاب ہونا چاہیے جو ان تینوں خصائص کا جامع ہو۔ اب ان تینوں خصائص کا جامع نظام وہ تھا جو فرنگی محل میں رائج تھا۔ 
فرنگی محل ایک بہت بڑے مکان کا نام تھا جو جہانگیر نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو دے دیا تھا۔ جہانگیر اس زمانے میں بیمار ہوا، کئی لوگوں نے اس کا علاج کیا لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ ایک انگریز ڈاکٹر نے علاج کر دیا تو اس نے خوش ہو کر پوچھا کہ کیا چاہیے؟ انگریز ہمیشہ اپنی قوم کا وفادار ہوتا ہے۔ اس نے کہا کہ میری قوم کے کچھ لوگ یہاں لکھنو میں تجارت کے لیے آئے ہیں، ان کو مشکل پیش آتی ہے تو آپ ان کو تجارت کی اجازت دے دیں اور ان کو کوئی charter یا کوئی guarantees ایشو کر دیں۔ جہانگیر نے فرمان جاری کر دیا اور لکھنو میں ایک بہت بڑا محل یا کوٹھی ان کو دے دی۔ انگریزوں کی وجہ سے وہ کوٹھی ’فرنگی محل‘ کہلاتی تھی۔ اورنگ زیب کے زمانے میں کسی حوالے سے اس کو خبر ملی کہ انگریزوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جو جہانگیر نے طے کی تھیں اور بعض ایسے کام کیے ہیں جو حکومت کی پالیسیوں کے خلاف تھے۔ اورنگ زیب نے وہ کوٹھی ان سے ضبط کر لی اور ان کو نکال کر وہ کوٹھی ملا نظام الدین سہالوی کو دے دی جنھوں نے فتاویٰ عالم گیری مرتب کرایا تھا اور کہا کہ آپ یہاں درس گاہ قائم کر دیں۔ چنانچہ اس درس گاہ کے علما فرنگی محلی کہلانے لگے۔ مولانا جمال میاں فرنگی محلی، عبد الوہاب فرنگی محلی، عبد الباری فرنگی محلی، یہ نام آپ نے سنے ہوں گے۔ فرنگی محل میں ملا نظام الدین سہالوی کا مرتب کردہ جو نصاب تعلیم تھا، اس میں انھوں نے منطق، فلسفہ، نحو اور حدیث کے ساتھ ساتھ اصول فقہ اور فقہ کی بنیادی کتابیں بھی شامل کر دیں، اس لیے کہ وہ خود فقہ کے متخصص تھے، مفتی اور محتسب رہے تھے اور فتاویٰ عالم گیری کی ترتیب میں بھی شریک رہے تھے۔ 
جب انگریزوں کو پتہ چلا کہ فرنگی محل کا جو نصاب تعلیم ہے، اس میں فقہ کی اچھی بنیاد موجود ہے اور وہاں کے فارغ التحصیل حضرات فقہ کے ماہر ہوتے ہیں تو انھوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اسی درس نظامی کے فارغ التحصیل حضرات کو قاضی ومفتی مقرر کیا جائے گا۔ چنانچہ بڑے پیمانے پر چونکہ قاضی ومفتی مقرر ہونے لگے اور درس نظامی کے فارغ التحصیل حضرات کو ایک اچھا دنیاوی موقع ملا، ان کی تنخواہیں اچھی تھیں، ان کے وسائل اچھے تھے، معیارات اچھے تھے تو بڑے پیمانے پر مدارس نے اسی نصاب کو اپنانا شروع کر دیا اور بڑی تعداد میں انگریزوں نے اس نصاب کے فارغ التحصیل علماء کرام کو مفتی ومحتسب مقرر کر دیا۔ آپ ۱۸۵۷ء سے پہلے کی تاریخ میں بیسیوں علماء کرام کے نام سنیں گے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم کے طور پر کام کرتے تھے۔ مفتی صدر الدین آزردہ کا نام آپ نے سنا ہوگا۔ وہ اسی درس نظامی کے پڑھے ہوئے تھے اور انگریزوں کے نظام میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ ’صدر الصدور‘ تھے یعنی دہلی اور اس کے قرب وجوار کے مذہبی امور کے جتنے قاضی تھے، ان کی سربراہی ان کے پاس تھی۔ آپ انھیں اس علاقے کا چیف جسٹس کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح کی اور بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ 
یہ نصاب تھا جس سے لوگ مانوس تھے اور گزشتہ کم وبیش سو برس یا ۸۰ برس سے لوگ اس نصاب کو پڑھتے پڑھاتے چلے آ رہے تھے۔ جب مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے دار العلوم کے قیام کا فیصلہ کیا تو انھوں نے بھی اسی نصاب کو اپنا لیا۔ اور لوگوں کے ساتھ وہ بھی اس نصاب کے پڑھے ہوئے تھے۔ ان کے والد، ان کے ساتھی دوسرے علماء کرام، مثلاً مولانا محمد یعقوب نانوتوی جو دار العلوم کے پہلے صدر مدرس بھی منتخب ہوئے، ان کے والد مولانا مملوک علی، سب اسی نظام کے پڑھے ہوئے تھے اور وہ دہلی کالج میں، جسے ایسٹ انڈیا کمپنی چلاتی تھی، عربی کے پروفیسر تھے۔ اس نصاب کو اپنانے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ دینی تعلیم بقدر ضرورت اس میں شامل تھی۔ اس میں عربی زبان بھی تھی، فقہ بھی تھی، اصول فقہ بھی تھی، حدیث بھی تھی، تفسیر کی ایک دو کتابیں بھی انھوں نے شامل کر دیں۔ حدیث کی مزید کتابیں شامل کر دیں۔ اس سے پہلے تک حدیث کی صرف ایک کتاب مشکوٰۃ اور ایک آدھ کتاب ہوتی تھی۔ ان حضرات نے مزید کتابیں شامل کر دیں اور ایک نیا نصاب انھوں نے بنا دیا جس نے ہندوستان کے دینی تقاضوں کو اس وقت پورا کیا۔
کیا پاکستان بننے کے بعد بھی دینی مدارس کے تقاضے یہی تھے؟ میرے خیال میں یہ نہیں تھے۔ پاکستان بننے کے بعد اب دینی مدارس سے تین قسم کے تقاضے ہیں اور ان تینوں تقاضوں کی ضروریات الگ الگ ہیں۔ ایک تقاضا تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو مساجد ہیں، ان میں ہمیں تربیت یافتہ امام درکار ہیں۔ یہ سب سے پہلا تقاضا ہے جو مسلمانوں کی دینی زندگی کا سب سے لازمی مطالبہ ہے جسے پورا ہونا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ ایک امام مسجد کو درس نظامی پڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر وہ ’ہدیہ سعیدیہ‘ اور ’سوال کابلی‘ اور ’سوال باسولی‘ اور ’تحریر سنبٹ‘ وغیرہ نہیں پڑھے گا تو بھی وہ ایک اچھا امام ہو سکتا ہے۔ اور اگر پڑھ لے گا تو اس کے اچھا امام بننے میں ان کتابوں سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اچھا امام بننے یا نہ بننے میں ان علوم وفنون کا سرے کوئی دخل نہیں ہے۔ اس لیے یہ تحصیل حاصل ہے اور وقت کا بھی ضیاع ہے اور وسائل کا بھی۔ آپ نے ہزاروں ایسے لوگوں کو دیکھا ہوگا اور آگے چل کر کروڑوں ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جنھوں نے آٹھ دس سال لگا کر یہ ساری چیزیں یاد کیں، پھر پچاس سال امامت کی اور پچاس سالہ امامت میں کسی نے ان سے ’ہدایۃ الحکمۃ‘ کا کوئی سوال نہیں پوچھا۔ ان کو کبھی ’تحریر سنبٹ‘ کا کوئی مسئلہ وہاں بیان کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی ۔ جو مسائل لوگ پوچھتے ہیں اور جوروزانہ دین کی راہنمائی میں درکار ہوتے ہیں، وہ تو ان کو پڑھائے نہیں جاتے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ شیئرز مارکیٹ میں پیسہ لگانا جائز ہے یا نہیں، اور ان میں سے اکثر کو یہی پتہ نہیں ہوتا کہ شیئر کہتے کس کو ہیں۔ ا س کے معنی یہ ہیں کہ یہ نظام اچھا امام تیار نہیں کر سکتا۔ اب ایک اچھے امام کی حقیقی ضروریات کیا ہیں، اس پر غور وفکر ہونا چاہیے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ایک کم از کم تعلیمی معیار کے بعد، جو میٹرک ہو سکتا ہے، آپ دینی مدارس میں طلبہ کو داخلہ دیں۔ میٹرک کے بعد حفظ قرآن لازمی ہونا چاہیے۔ میں ذاتی طور پر اس بات کا قائل ہوں کہ دینی مدارس میں حافظ کے علاوہ کسی کو داخلہ نہیں دینا چاہیے۔ اس وقت جامعہ ازہر کے تحت جو ادارے کام کر رہے ہیں، ان میں طلبہ کی تعداد کم وبیش پندرہ لاکھ ہے جو پاکستان کے دینی مدارس کے طلبہ کی تعداد سے زیادہ ہے۔ ان کی آبادی ہم سے آدھی بلکہ اس سے بھی کم ہے، لیکن وہاں حفظ قرآن لازمی ہے۔ گویا پندرہ لاکھ حافظ طلبہ اس وقت جامعہ ازہر کے زیر انتظام اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ اگر وہ کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ 
اس کے بعد تین سال کا ایک نظام اور نصاب ایسا ہو جس میں بقدر ضرورت عربی زبان پڑھائی جائے۔ اتنی کہ طالب علم تفسیر اور حدیث کی کتابیں اور فقہ کی عام کتابیں پڑھ سکے۔ عربی زبان کے علاوہ حدیث اور علوم حدیث پر کوئی ایک آدھ جامع کتاب مثلاً مشکوۃٰ کا انتخاب یا معارف الحدیث یا کوئی اور اچھی کتاب پڑھا دی جائے۔ اسی طرح اردو کی کوئی تفسیر، مثلاً تفسیر عثمانی اور کوئی ایک عربی کی مختصر تفسیر پڑھائی جائے۔ ایک دو فقہ کی کتابیں ہوں اور کوئی ایک آدھ کتاب جدید معاشیات پر۔ اس طرح کا ایک تین سالہ کا نصاب ہو جس میں تقریر کی مشق بھی ہو اور تجوید بھی اس میں شامل ہو۔ جو یہ نصاب مکمل کر لے، وہ امام بننے کا اہل ہو اور اس کو پھر امام بننے کا موقع دینا چاہیے تاکہ وہ اپنا اور ادارے کا مزید وقت اور وسائل ضائع نہ کرے، اس لیے کہ اس کو اس سطح سے آگے کام نہیں کرنا۔ 
اب یہ ایک تقاضا ہے جس کے لیے آپ جب تک کوئی نظام نہیں بنائیں گے، وہی کچھ ہوتا رہے گا جو آج ہو رہا ہے۔ آپ ایک اور تلخی کی بات سنیے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے اور جب تک آپ حقائق کاسامنا نہیں کریں گے، مستقبل کی تشکیل نہیں کر سکتے۔ آج ہمارا امام جب سوسائٹی میں جا کر یہ محسوس کرتا ہے کہ میں نے جو کچھ پڑھا ہے، وہ تو irrelevant ہے اور یہاں لوگ جو سوال کر رہے ہیں، اس کا میرے پاس جواب نہیں ہے تو وہ اپنی پڑھی ہوئی چیزوں کو relevant بنانے کے لیے وہاں وہ مسائل پیدا کرتا ہے جو اس کے اپنے مسائل ہیں تاکہ وہ لوگوں کے بھی مسائل بن جائیں اور جب وہ ان کے مسائل بن جائیں گے اور وہ پوچھیں گے تو میں ان کا جواب دوں گا۔ وہ مسائل کیا ہوتے ہیں؟ وہ فرقہ وارانہ ہوتے ہیں۔ اب جن بیچاروں کو کچھ پتہ نہیں ہوتا اور نہ کبھی ان کے ذہن میں یہ خیال آیا ہوتا ہے کہ حضور نور تھے یا بشر تھے، ان کے لیے امام یہ مسئلہ پیدا کر دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم واجب التعمیل ہے، یہ کوئی نہیں بتاتا، لیکن ایک اس پر زور دینا شروع کرتا ہے کہ آپ بشر تھے اور دوسرا اس پر کہ آپ نور تھے۔ وہ نور کا ایک محدود مفہوم بیان کرتا ہے، یہ بشر کا ایک محدود مفہوم بیان کرتا ہے۔ اور جب علم کی کمی کی وجہ سے لوگوں کا ایک گروہ اس کام کے لیے تیار ہو جائے گا تو اب امام صاحب کی نوکری پکی ہو جائے گی اور انھیں کوئی وہاں سے نہیں ہٹائے گا۔ یہ ایک افسوس ناک بات ہے جس پر غور کرنا چاہیے۔ اس کو محض تنقید کے مفہوم میں نہ لیں۔ جب تک مرض کی آپ تشخیص نہیں کریں گے، اس وقت تک اس کا علاج نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے امام کو اس کام کے لیے تیار کریں جو سوسائٹی کے relevant مسائل ہیں۔ جب اسے یہ مسائل معلوم ہوں گے تو وہ غیر متعلق مسائل پیدا نہیں کرے گا۔ 
اس کے بعد تعلیم کا دوسرا درجہ ان لوگوں کے لیے ہے جو دینی علوم کے مدرس یا معلم بننا چاہتے ہیں۔ آج پاکستان کے ہر اسکول اور کالج میں ایف اے تک اسلامیات لازمی ہے۔ بہت سے لوگ بی اے میں بھی پڑھتے ہیں۔ ہر کالج اور ہر اسکول میں اسلامیات کے ٹیچر ہوتے ہیں۔ یہ دو طرح کے لوگ ہیں۔ کچھ تو وہ ہیں جو سرکاری اداروں سے ایم اے کر کے آئے ہیں جن کا علم بڑا ناپختہ ہوتا ہے۔ وہ اردو میں پڑھ کر امتحان پاس کر لیتے ہیں اور ان میں سے بہت سے لوگ قرآن پاک بھی ناظرہ نہیں پڑھ سکتے۔ میں نے اسلامیات کے ایسے اساتذہ دیکھے ہیں کہ جن سے نماز پڑھانے کے لیے کہا جائے تو نماز نہیں پڑھا سکتے۔ قرآن پاک کی شاید چار سورتیں بھی ان کوحفظ نہ ہوں، اس لیے کہ انھوں نے پڑھا ہی نہیں ہوتا۔ اردو میں پڑھ کر پاس کر لیتے ہیں اور اسلامیات کی ڈگری ان کو مل جاتی ہے اور وہ اسلام کے مجتہد اور مفتی بھی بن جاتے ہیں۔ یہ ایک دوسری خطرناک بات ہے جو ہو رہی ہے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو مدرسوں کی لائن سے آئے ہیں۔ مدرسوں میں میبذی، شرح عقائد اور خیالی قسم کی جو اسلامیات پڑھائی جاتی ہے، وہ یہاں کام نہیں کرتی۔ یہاں جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے لیے ہم نے ان لوگوں کو تیار نہیں کیا۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے ابتدائی تین چار سال کے بعد مزید تین سال کا ایک نصاب ہونا چاہیے جس کا مقصد یہی ہو کہ آپ کو اسکولوں اور کالجوں کے لیے اسلامیات کے معلم تیار کرنے ہیں۔
اس کے بعد تیسری ضرورت یہ ہے کہ ہمیں ایسے لوگ درکار ہیں جو خود ان دینی مدارس میں اعلیٰ درجے کے متخصص ہوں، جو کتابیں پڑھا سکیں اور اعلیٰ درجے کے علوم وفنون کی تدریس کر سکیں۔ ہمیں فقہا درکار ہیں، محدثین درکار ہیں، مفسرین درکار ہیں، مفتی درکار ہیں جو ان سب علوم کے متخصص ہوں۔ اس کے لیے الگ سے چار پانچ سال کی تیاری چاہیے۔ جب تک وہ تیاری نہیں ہوگی، مطلوبہ افراد تیار نہیں ہوں گے۔ اس وقت درس نظامی میں کیا ہوتا ہے؟ درس نظامی میں سب سےeglected n چیز قرآن پاک ہے، جس پر سب سے کم توجہ دی جاتی ہے۔ اب بعض مدارس میں ترجمہ قرآن شروع ہوگیا ہے۔ اول سے آخر تک ترجمہ پڑھا دیتے ہیں جس کی نوعیت اس عام درس سے مختلف نہیں ہوتی جو عام مسجدوں میں ہوتا ہے جس میں بیٹھ کر لوگ سن لیتے ہیں۔ ایک عالم صاحب نے درس دے دیا، لوگوں نے عقیدت سے سن لیا۔ کچھ یا درہا، کچھ یاد نہیں رہا۔ اسی طرح سے مدرسوں میں جو درس ہوتا ہے، وہ اکثر لوگوں کو یاد نہیں رہتا۔ جو تفسیر پڑھاتے ہیں، وہ بیضاوی کی سورہ بقرہ ہے۔ میرے خیال میں بیضاوی کوئی اچھی تفسیر نہیں ہے۔ میں امام بیضاوی کے پورے احترام کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں۔ نہ وہ تفسیر کا اچھا نمونہ ہے، نہ کسی اور چیز کا۔ تفسیر بیضاوی انھوں نے کیوں لکھی؟ وہ اصل میں متکلم تھے اور اصول فقہ کے آدمی تھے۔ انھوں نے بطور متکلم یہ دیکھا کہ زمخشری کی تفسیر بڑی مقبول ہو رہی ہے اور اس کے ہاں معتزلی عقائد ہیں تو انھوں نے کہا کہ زمخشری کی تفسیر سے اس کے جو بلاغت کے نکتے ہیں، وہ لے لیے جائیں اور معتزلی عقائد کو نکال کر اشعری عقائد اس میں ڈال دیے جائیں اور اس طرح سے تفسیر بیان کر دی جائے۔ اب جن جن باتوں میں انھوں نے زمخشری کی تردید کی ضرورت سمجھی، وہ ساری سورہ بقرہ میں آ گئیں، اس لیے وہ تو بڑی لمبی ہو گئی اور باقی تفسیر میں بس مختصر حواشی ہیں جنھیں کوئی پڑھتا نہیں۔ چنانچہ عملاً تفسیر قرآن تو طلبہ کو پڑھائی نہیں جاتی۔ میں نے جید علما میں سے بھی بہت سوں کو دیکھا کہ علم تفسیر سے واقف ہیں، نہ علوم قرآن میں جو مسلمانوں کے کارنامے ہیں، ان سے آشنا ہیں۔ اکثر لوگوں کو بڑی تفسیروں کے نام بھی پتہ نہیں ہوتے۔ آپ چاہیں تو بیضاوی کے کسی استاد سے پوچھ لیں کہ دس بہترین تفسیروں کے نام بتا دیں تو شاید طبری اور ایک آدھ کے علاوہ وہ چھٹا ساتواں نام نہ بتا سکیں۔ یہ اکثر صورتوں میں واقفیت کا عالم ہوتا ہے۔ بعض صورتیں مستثنیٰ ہیں۔ 
اب اگر قرآن پاک ہمارے علوم وفنون کی اساس ہے تو پھر اس کو فی الواقع تعلیم کی بھی اساس ہونا چاہیے۔ یہ بات کہ آپ نے پہلے طالب علم کو ساری چیزیں پڑھا کر اس کے ذہن کا ایک سانچہ بنایا، اس کے بعد اس سانچے کے مطابق آپ اسے قرآن پڑھا رہے ہیں، یہ میرے خیال میں قرآن کی توہین ہے۔ قرآن اصل سانچہ ہے۔ قرآن کے سانچے سے باقی علوم کو جانچنا چاہیے ۔ باقی علوم کے سانچے سے قرآن کو نہیں جانچنا چاہیے۔ کسی کو اچھا لگے یا برا لگے، میں اس کو غلط سمجھتا ہوں۔قرآن معیار ہے، قرآن اصل کسوٹی ہے، قرآن کے معیار اور کسوٹی پر فقہ اور اصول فقہ اور عقائد اور ہر چیز کو جانچنا چاہیے۔ ہم پہلے متاخرین کے عقائد اور فتاویٰ پڑھا کر طالب علم کا ایک ذہن بناتے ہیں، پھر اس ذہن سے کہتے ہیں کہ قرآن کے الفاظ کو توڑو مروڑو اور توڑ مروڑ اس کے مطابق ایڈجسٹ کرو۔ یہ میرے خیال میں قرآن کا صحیح استعمال نہیں ہے۔ اس لیے میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ علوم قرآن کی تعلیم کا ایک نیا نظام ہونا چاہیے۔ کیا ہونا چاہیے؟ اس پر کبھی بات ہوگی تو اس پر میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہوں۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ علوم قرآن میں تخصص موجودہ درس نظامی سے حاصل نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ اپنی ذاتی دلچسپی یا ذوق سے پیدا کر لیں تو کر لیں، نظام میں اس کا بندوبست نہیں ہے۔ کوئی inherent mechanism نظام میں نہیں ہے کہ قرآن کے متخصصین پیدا ہوں۔ 
یہی حال علم حدیث کا ہے۔ علم حدیث کا متخصص ازخود کوئی پیدا ہو جائے، اللہ تعالیٰ انور شاہ کشمیری کی طرح کے کسی آدمی کو پیدا کر دے تو کر دے، لیکن اس نصاب کو پڑھ کر جو لوگ تیار ہوتے ہیں، ان میں کوئی علم حدیث کا متخصص نہیں ہوتا۔ ان کو محض چند فقہی موضوعات سے متعلق وہ حدیثیں یاد ہوتی ہیں جن میں فقہاے احناف کا کوئی کلام یا فقہاے شوافع کا کوئی مستدل ہے۔ مدارس میں تین تین ماہ تک اس پر بحث ہوتی رہتی ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ یہاں لوگوں کے ایمان ضائع ہو رہے ہیں۔ لوگ ایمان ہی کو نہیں مان رہے کہ ایمان بھی کوئی چیز ہے۔ اور اس کو چھوڑ کر آپ تین مہینے اس پر بحث کرتے رہتے ہیں کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے کسی کو بحث نہیں۔ آپ نے ایمان کے بارے میں کیا فرمایا، وہ کسی کا concern نہیں۔ لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اپنے کسی مقتدا یا پیشوا کے نقطہ نظر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت کر دیں۔ اس کے بعد اگلے چھ مہینے ان احادیث پر خرچ ہو جاتے ہیں جن میں فاتحہ خلف الامام اور رفع یدین کی طرح کے اختلافی موضوعات بیان ہوئے ہیں۔ اس کے بعد جو طالب علم سب سے تیز پڑھنے والا ہوتا ہے، اس کو کہتے ہیں کہ تم پڑھو اور روزانہ چالیس صفحے پڑھو۔ نہ استاد کو اس سے کوئی بحث ہوتی ہے اور نہ شاگردوں کو ہی کچھ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی، جو ساری شریعتوں کاناسخ اور ہر چیز کا معیار ہے اور جس کے بعد ہر بات کالعدم ہے، اس میں کیا بات کہی گئی ہے۔ کتب حدیث کی شروح کو دیکھ لیجیے۔ جو شروع کی بحثیں ہیں، ان میں ایک باب تین جلدوں میں آیا ہے تو دوسرا باب چار جلدوں میں، جبکہ آخر میں تین تین چار چار سطروں کے حاشیے ہیں کہ کذا قال فلان یا انظر فلانا ۔ یہ شرحوں کی کیفیت ہے۔ تو حدیث میں بھی کوئی تخصص مدارس میں پیدا نہیں ہوتا۔ فقہ میں تخصص کی صورت حال بھی یہی ہے۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ان دو مرحلوں کے لیے متخصصین کے لیے ایک نیا نصاب ہو جس میں درس نظامی کی ساری کتابیں شامل ہوں۔ درس نظامی کی کسی کتاب کو میں متخصصین کے لیے غیر ضروری نہیں سمجھتا، لیکن اس کے ساتھ مزید بہت کچھ شامل کرنا ضروری ہے تاکہ واقعی ایسے متخصص پیدا ہوں جو اس فن یا علم کو آگے چل کر پڑھا سکیں۔ 
یہ تین درجے تو عام ہیں جن کی ہر وقت ضرورت ہے۔ ان کے بعد ایک درجہ اور ہے جس کے لیے مزید محنت درکار ہے۔ یہ درجہ وہ ہے کہ جو مغربی علوم وفنون کی تنقیح کا فریضہ انجام دے اور ناقدانہ جائزہ لے کر یہ بتائے کہ ان میں کیا چیز کمزور ہے اور کیا چیز مضبوط ہے، کون سی بات اسلام کے مطابق ہے اور کون سی اسلام کے مطابق نہیں ہے۔ ان میں جو فقہ کا متخصص ہو، وہ مغربی قانون کا تنقیدی جائزہ لے۔ جو فقہ المعاملات کا متخصص ہو، وہ ان کی معاشیات کا جائزہ لے۔ جو اصول فقہ کا متخصص ہو، وہ ان کے اصول قانون کاجائزہ لے۔ اس میں کتنا وقت لگے گا، کتنے لوگ تیار ہوں گے، یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ لیکن جب تک یہ سارے کام نہیں ہوں گے، اس وقت تک امت مسلمہ کا مستقبل اس طرح بن نہیں سکتا جس طرح ہم بنانا چاہتے ہیں۔ آج صورت یہ ہے کہ نظام ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو اسلام سے واقف نہیں ہیں۔ اسلام کے ساتھ ان کی جذباتی وابستگی تو ہے اور ان میں بہت سے اچھے مسلمان بھی ہیں، لیکن جذباتی وابستگی کی بنیاد پر عمارت بنانے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے آپ ریت پر بیس منزلہ عمارت بنانا چاہیں۔ جیسے وہ قائم نہیں رہ سکتی، اسی طرح یہ عمارت بھی لازماً گر جائے گی۔ چنانچہ جب تھوڑی سی ایسی بات آتی ہے جو اس طبقے کے خیالات سے مختلف ہو تو وہ فوراً اس پر تاویلیں کرتے ہیں، کیونکہ intellectual framework نہیں ہے، اس کا انفرا سٹرکچر نہیں ہے۔ اس کے لیے وقت درکار ہے۔ وہ ایک دو دن میں نہیں ہوگا۔ کسی وعظ یا مطالبے یا بینر یا دھرنے سے نہیں بنے گا۔ اس کے لیے لگ کر کام کرنا پڑے گا۔ 
حاضرین محترم! یہ وہ چند باتیں تھیں جو میں اسلامی علوم وفنون کے طلبہ سے کرنا چاہتا تھا۔ چونکہ آپ اس میدان کے شہسوار ہیں اور اس ضرورت کی تکمیل کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ہے، اس لیے میری گفتگو میں تھوڑی سی تلخی آگئی جومیں نے جان بوجھ کر شامل کی تاکہ اس تلخی کا احساس آپ کو یہ سوچنے پر مجبور کرے کہ ہم جو بات کر رہے ہیں، اس کا تعلق کسی ذہنی عیاشی یا محض فکری سرگرمی سے نہیں ہے، بلکہ وہ واقعی بڑی اہم بات اور مسلمانوں کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ میں ایک شعر پر بات ختم کرتا ہوں۔ فارسی کا شعر ہے:
نواے من ازاں پرسوز وبے باک وغم انگیز است
کہ خاشاکم در شعلہ افتاد وباد صبح دم تیز است
یعنی میں اس لیے تلخ باتیں کر رہا ہوں کہ میرے آشیانے کو آگ لگ گئی ہے، اور ہوا تیز ہے اور مجھے جلدی بچانے کی ضرورت ہے۔ امر واقعہ یہی ہے کہ آشیانے کو آگ لگ چکی ہے اور باد صبح دم تیز ہے۔ آشیانہ جل جانے کا خطرہ ہے اور بہت جلد اس کو بچانے کی ضرورت ہے۔ 
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

ندوۃ العلماء کا مسلک اعتدال

ڈاکٹر ہارون رشید صدیقی

شعور کی آنکھیں کھلیں تو دیکھا کہ والد صاحب میلاد خواں اور فاتحہ خواں ہیں، تعزیہ دار ہیں، شب براء ت، محرم، گیارہویں، بارہویں کا اہتمام کرنے والے ہیں۔ کسی کی موت پر تیجا یا چہارم، چالیسواں اور برسی کرتے ہیں۔ بس یہی دین ہے۔ دہریت تو خواب میں نہ تھی، مگر مذہبیت یہی تھی۔ برٹش دور تھا، سرکاری اسکول کی تعلیم ہوئی جہاں اردو ثقافت کا غلبہ تھا۔ جب میلاد کی کتابیں پڑھ لینے لگا اور والد صاحب کو محسوس ہوا کہ میں ان سے زیادہ علم رکھتا ہوں تو مجھے اپنا نائب بنا دیا۔ ابھی تک میری ملاقات کسی عالم دین سے نہ ہوئی تھی۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ مذہب کا کام عقلی طور پر جو باتیں بری ہیں، ان سے دور رکھنا اور جو اچھی ہیں، ان پر عمل کرانا ہے۔ ابھی تک شرک وتوحید کی بات میرے ذہن میں نہ آئی تھی۔ میں ہندوؤں کے بھجن میں لطف لیتا، قوالی بالمزامیر میں لذت پاتا، جمعہ جمعہ نماز پڑھ لیتا، نفل روزوں کا اہتمام کرتا اور بڑا دیندار سمجھا جاتا، اپنے رشتہ داروں میں بڑی عزت پاتا۔
میری اردو بہت اچھی ہو گئی، کچھ فارسی بھی آ گئی۔ بعض عزیزوں نے مجھے جناب مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی تصنیف ’’رسالہ دینیات‘‘ اور ’’خطبات‘‘ پڑھنے کا مشورہ دیا۔ سچ یہ ہے کہ یہیں سے میری زندگی میں انقلاب شروع ہوا۔ اب میں نے دین کو سمجھنے کی کوشش شروع کی تو اختلافات کی دنیا میں الجھ کر رہ گیا۔ اب جی چاہا کہ کسی عالم سے ملوں، لیکن طے کیا کہ ملنے کے بجائے پہلے اس کی تقریر سنوں، اس لیے کہ ملنے پر وہ اپنے علم سے مجھے دبا لے گا اور تقریر سن کر میں کوئی رائے قائم کرنے میں آزاد رہوں گا۔ میرے آباو اجداد کے گاؤں گرونڈہ ضلع بارہ بنکی میں مولانا حشمت علی صاحب کی تقریر ہوا کرتی تھی۔ میں نے پہلی بار جو کسی عالم کی تقریر سنی تو وہ مولانا حشمت علی صاحب کی تقریر تھی۔ میں نے ان کی تین تقریریں سنیں تو مجھے جیسے کسی عالم کی تقریر سننے سے تنفر پیدا ہو گیا اور دل میں شک وشبہات آنے لگے۔ خیال ہوا جو سمجھ میں آئے، اس پر عمل کرو اور مولویوں کے چکر میں مت پڑو کہ فلاں کو کافر کہو، فلاں کو کافر کہو۔ سوچا کہ جن کے نام میں نے مولانا حشمت علی صاحب کی زبان سے پہلی بار سنے، ان سے بالکل ناواقف ہوں تو ان کو ان کے کہنے سے کافر کیوں کہوں؟ 
کافی دنوں تک اسی کشمکش میں رہا کہ اب ایک اور عالم کی تقریر سننے کا اتفاق ہوا۔ وہ تھے حضرت مولانا محمد عبد الشکور فاروقی۔ یہ واقعہ ۱۹۵۳ء کا ہے۔ اب تو میری دنیا یکسر بدل گئی۔ ساری بدعتیں ترک ہوئیں، پنج وقتہ نماز کا اہتمام ہوا، حتی الامکان سنتوں پر عمل ہوا۔ مدرسہ ابو حمدیہ علی آباد میں مدرسی اختیار کر لی۔ وہیں کے ایک جلسہ میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ ، حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ کی تقریریں سنیں اور ان سے تعلقات ہو گئے۔ تبلیغی جماعت سے تعلق ہوا، تب تبلیغ میں نکلنا ہونے لگا۔ پھر ان دونوں مذکورہ بزرگوں سے تعلق کے سبب ندوہ آ گیا۔ مکتب میں تدریس کی خدمت سپرد ہوئی۔ یہاں یونیورسٹی کی لائن میں علمی ترقی بھی کرتا رہا اور منصبی بھی۔ میں نے یہاں دیکھا کہ حنفی بھی پڑھتے ہیں اور شافعی بھی۔ خانقاہی بھی پڑھتے ہیں اور اہل حدیث بھی۔ اساتذہ میں بھی ان چاروں مسلک کے لوگ ہیں اور شوریٰ میں بھی۔ کسی کی تقریر میں، کسی کی تحریر میں یہاں اختلافات کا ذکر آتا ہی نہیں ہے۔ یہاں رفع یدین بھی ہوتا ہے اور اس کا ترک بھی، آمین بالجہر بھی ہے اور بالسر بھی، امام کے پیچھے الفاتحہ کی قراء ت بھی ہے اور امام کی قراء ت پر اکتفا بھی، بیس رکعات تراویح پڑھنے والے بھی ہیں اور آٹھ رکعت پڑھ کر چلے جانے والے بھی۔ نہ کوئی کسی پر نکیر کرتا ہے نہ تنقیص، بلکہ باہم ایک دوسرے کا احترام ہے۔ مجھے یہ فضا بہت ہی اچھی لگی۔ یہاں کا اعتدال مجھے بھا گیا۔
اب تک میرا علم دین ترجموں سے تھا۔ مجھے شدت سے احساس ہوا کہ میں عربی سیکھوں اور دین کو براہ راست پڑھوں۔ اپنے طور پر حفظ تو کر لیا تھا۔ عربی بھی شروع کی مگر گاڑی چل نہ سکی۔ دعاؤں کا اہتمام کیا، سمع اللہ لمن حمدہ، میرے رب نے کس طرح سنی اور کس طرح اس کی شکلیں پید اہوئیں، یہ میرے اور میرے رب کے بیچ ایک راز ہے۔ اللہ کا شکر واحسان ہے کہ ریاض یونیورسٹی سے وظیفہ ملا، وہیں عربی سیکھی، وہیں کنڈس کورس کر کے تفسیر وحدیث میں تخصص کے ساتھ کلیۃ التربیۃ سے ماجستیر کیا۔ سات سال ریاض میں رہا، دوران تعلیم امامت بھی کی اور قرآن مجید کی تدریس کا کام بھی۔ اب میرے دماغ پر حضرت مولانا علی میاں صاحب، حضرت مولانا منظور نعمانی صاحب، حضرت مولانا عبد الشکور صاحب کے ساتھ علامہ ابن تیمیہ کا بھی تسلط ہوا۔ قیام ریاض کے دوران چوٹی کے وہابیوں کی جماعت میں اس حیثیت سے شامل رہا کہ میں عامل بالقرآن والحدیث ہوں۔ بہت سے مسائل میں امام ابو حنیفہ کا مقلد ہوں اور تقلید کو صحیح سمجھتا ہوں۔ میں اس جماعت میں رہا جس کی رپورٹ پر اچھے اچھے منصب والوں کے پاسپورٹ پر خروج لگ جایا کرتا تھا۔ 
۱۹۸۵ میں، میں ایم اے کر کے واپس آیا اور پھر ندوۃ العلماء سے منسلک ہو گیا۔ اب مجھے یہاں بڑا سکون ملا۔ ذاتی طور پر اتحاد بین المسلمین کو مشن بنایا۔ تحریر وتقریر سے میدان عمل میں آیا، کسی حد تک کامیاب ہوا۔ محنت جاری ہے۔ رد قادیانیت میں عملی میدان میں ہوں اور اہل بدعت کو حکمت سے سنت پر لانے میں بھی کوشاں ہوں۔ یہ سارے کام اپنے فاضل اوقات میں کچھ معاونین کے ساتھ کرتا ہوں۔ یہاں کی انتظامیہ کا تعاون بھی حاصل ہے یعنی اجازت وترغیب۔ ساتھ ہی ندوۃ العلماء کے عطا کردہ فرائض منصبی کی ادائیگی کی بھی بھرپور توفیق ملتی ہے۔ والحمد للہ علیٰ ذلک۔
ادھر کئی سالوں سے عازمین حج کی روانگی دار العلوم ندوۃ العلماء سے ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں یہاں حج میلہ لگ جاتا ہے۔ اس سال اس حج میلہ میں ایک مکتبہ پر ایک کتاب نظر آئی جس میں لکھا ہوا تھا کہ تقلید شرک ہے اور مقلد مشرک ہے۔ یہ پڑھ کر سخت دھچکا لگا۔ ظاہر ہے لکھنے والے صاحب سلفی العقیدہ ہیں، لیکن ہمارے دار العلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم اور اساتذہ، ندوۃ العلماء کے ناظم اور یہاں کے ۹۸ فیصد طلبہ سب مقلد ہیں۔ یہ بات ہم لوگوں کے لیے سخت اذیت کا باعث ہے۔
الحمد للہ یہاں تقلید کے یہ معنی نہیں لیے جاتے کہ مقلِّد، مقلَّد کے ایجاد کردہ مذہب کا مقلد ہے بلکہ وہ کتاب وسنت کی تفہیم میں اس کا مقلد ہے یعنی اسے استاد سمجھتا ہے۔ آج سلفیوں میں بھی اختلاف رائے پایا جاتا ہے اور اہل حدیث حضرات ان میں سے جسے ترجیح دیتے ہیں، اس کی رائے پر یعنی اس کی تفہیم پر عمل کرتے ہیں۔ شیخ ناصر الدین البانی سلفی حضرات کے چوٹی کے عالم ہیں۔ انھوں نے عورت کے لیے انگوٹھی کے علاوہ سونے کے زیور کے استعمال پر نکیر کی ہے، چہرہ کے پردہ کی مخالفت کی ہے اور جہری نماز میں امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے سے منع کیا ہے۔ کوئی سلفی ان کی رائے سے اتفاق کر کے اس پر عمل کرتا ہے تو کوئی دوسرے سلفی عالم کے مسلک کو اپناتا ہے۔ اسی طرح یہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ کتاب وسنت کی تفہیم میں کوئی احناف کے مسلک پر ہے تو کوئی مالکیہ کے مسلک پر، کوئی شافعی ہے تو کوئی حنبلی اور کوئی اہل حدیث کے مسلک پر ہے۔ الحمد للہ ہم سب منشرح ہیں کہ ہم سب حق پر ہیں، ناحق افتراق واختلاف کی بات ہم سب کو ناپسند ہے۔
تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
(بشکریہ پندرہ روزہ ’تعمیر حیات‘، لکھنو)

اجتہادی اختلافات میں معاشرتی مصالح کی رعایت

مولانا سید سلمان الحسینی الندوی

شادی خانہ آبادی کے لیے کی جاتی ہے، خانہ خرابی یا محض عیاشی اور لذت کوشی کے لیے نہیں، اس لیے بغیر کسی وجہ شرعی کے طلاق دینا فعل حرام ہے۔ طلاق صرف اس وقت دینا چاہیے جب ساتھ رہنا دوبھر ہو جائے اور طلاق نہ دینے میں خطرات اور فتنہ کا اندیشہ ہو۔ اس صورت حال کے لیے طلاق جیسی ناپسندیدہ چیز کو حلال قرار دیا گیا ہے۔ لیکن پاکی کی حالت میں صرف ایک طلاق دے دینا چاہیے اور پھر عدت گزر جانے دینا چاہیے۔ طلاق غصہ میں، اشتعال میں اور جذبات میں نہیں دینا چاہیے، غصہ پر قابو پانا چاہیے اور ہر حال میں تعلقات کو خوش گوار رکھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
تین طلاقیں ایک وقت میں ہرگز نہ دینا چاہیے۔ تین طلاقیں اگر ایک مجلس میں دے دی گئیں تو وہ ایک شمار ہوتی ہے یا تین ہی، ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ بعض احادیث اور حضرت عمرؓ کے فیصلہ کی روشنی میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو چاروں ائمہ نے تین طلاق ہی قرار دیا ہے، جن کے بعد حق رجوع نہیں رہتا۔ لیکن اصلاً بہت سے مردوں کی طلاق ثلاثہ کے سلسلہ میں غیر محتاط روش کی بنیاد پر تین طلاقوں کو نافذ کر کے ان کو سزا دینا مقصود تھا۔ اس معاشرہ میں بیوہ کی شادی کوئی دشوار مسئلہ نہ تھی، نہ لڑکی والوں کو کچھ خرچ کرنا پڑتا تھا۔ اس لیے اس فیصلہ کے نفاذ میں جو حضور ﷺ نے بھی بحیثیت امیر اور حضرت عمرؓ نے بھی بحیثیت خلیفۃ المسلمین فرمایا تھا، مرد کے لیے ایک طرح کی تعزیر (قانونی سزا) تھی۔ دوسری طرف آج مرد کے طلاق ثلاثہ کے گناہ کا زیادہ تر بھگتان عورت کو بھگتنا پڑتا ہے۔ عورت جہیز لاتی ہے، گھر بسانے کا ذریعہ بنتی ہے، تقریب نکاح کے موقع پر اس کے یہاں ولیمہ کی طرح دعوت ہوتی ہے، مرد سب کچھ حاصل کرتا ہے، مہر بھی معاف کرا لیتا ہے، ایک ولیمہ پر لذت کوشی کرتا ہے، پھر غصہ اور اشتعال میں تین طلاق دے کر الگ ہو جاتا ہے، دوسری شادی رچا لیتا ہے۔ عورت بیوہ ہو جاتی ہے۔ شادی کی نہ خود ہمت کرتی ہے نہ معاشرہ اس کی شادی کا فوری انتظام کرتا ہے اور اگر اس کے بچے ہیں تو شادی کا مسئلہ تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس کے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔ دین کے بارے میں جزئی حل پیش کرنے والے مفتی فتویٰ دے کر الگ ہو جاتے ہیں۔ مطلقہ عورت عمر بھر کڑھتی اور اپنے جائز تقاضوں کو دبا کر زندگی گزارتی ہے۔ دین وعفت کی مضبوط حصار ہے تو سینہ میں غم اور کسک لے کر جیتی ہے، ورنہ دین وعفت سے معافی مانگ لیتی ہے۔
ایسی شکل میں علما اور اہل افتا وقضا کو سوچنا چاہیے کہ عرف، عموم بلویٰ، ضرورت، اضطرار، حاجت، رفع حرج، تیسیر، رخصت کی ترازو میں تول کر اس کا مسئلہ حل کریں اور ایک نزاعی مسئلہ جس میں صحابہ کرام اور تابعین عظام کے درمیان اور بعد کے علماے امت کے درمیان اختلاف رہا ہے اور جو کفر وایمان کا مسئلہ نہیں ہے، ایک پہلو ہی پر شدت کامظاہرہ نہ کریں۔
دوسری طرف بعض احادیث اور صحابہ کرام، تابعین عظام اور علماے امت کے اقوال ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق مانتے ہیں۔ یہ بھی ایک رائے ہے۔ اہل حدیث حضرات آج اس کے پرزور نمائندہ بنے ہوئے ہیں۔ اس میں حرج نہیں کہ علمی اختلاف رکھنے والے اپنے اختلاف کو علمی حدود میں علم کی میز پر بیان کریں، لیکن کسی اختلافی مسئلہ کو امت میں تفریق اور گروہ بندی کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
حضرت عمرؓ نے بحیثیت خلیفۃ المسلمین ایک فیصلہ فرمایا تو مسلمانوں نے ان سے اتفاق کیا۔ جس کو اختلاف بھی ہوا، اس نے اپنے اختلاف کو اپنے تک محدود رکھا۔ آج ہندوستان میں مسلم پرسنل لا بورڈ کو ایک وقعت، وقار اور اعتبار حاصل ہے۔ وہ مسلمانوں کی اجتماعیت کا ایک مظہر اور ان کی اعتباری قوت حاکمہ کا نمائندہ ہے۔ اگر ایک اختلافی مسئلہ میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر، ارکان، علما کی اکثریت کی آرا کی بنیاد پر ایک فیصلہ کرتے ہیں تو مسلمانوں کے اجتماعی نظام کی بقا اور ان کی وحدت کو قائم رکھنے کے لیے ہمیں اس رائے کا ساتھ دینا ہے۔ ہاں انفرادی طور پر اور خاص واقعات میں ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ عوام کے لیے اور خاص طور پر عورتوں کے طبقہ کے لیے شریعت کی دی ہوئی رخصتوں کو ملحوظ رکھا جائے اور ایسے معاملات میں اگر کوئی مفتی خود فیصلہ نہیں کر پاتا تو اہل حدیث علما سے رجوع کرنے کی اجازت دے دی جائے۔

کیا شیعہ سنی اتحاد ممکن ہے؟

سید منظر تمنائی

معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع حضرات کا تنازع ازل سے ہے اور ابد تک قائم رہے گا۔ چونکہ یہ فرقے بنیادی طور پر اختلاف رکھتے ہیں، اس لیے ان کا مذہبی اعتبار سے یکجا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ تو ممکن ہے کہ ملکی اور ملی اعتبار سے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ایک مرکز پر آجائیں اور مطلب برآری کے لیے یکجا ہو کر حصول مقصد کو اولین حیثیت دیں اور شیر وشکر ہو کر اپنے اپنے مقاصد پورے کرتے رہیں، لیکن مذہبی اعتبار سے ان کا ایک ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔ اگر دونوں فریق باہم یہ طے کر لیں کہ ہمیں بہرصورت اتفاق رائے سے ایک ہو جانا ہے تو کوئی نظریہ، کوئی خیال اور کوئی عقیدہ مانع نہیں رہتا کہ درمیان میں کسی قسم کی رسہ کشی کی گنجایش باقی رہے، مگر بنیاد سے ہٹ کر ایک مرکز پر آنا نہ صرف دشوار ترین مرحلہ ہے بلکہ بادی النظر میں ناممکن نظر آتا ہے۔ بنظر غائر مطالعہ کے بعد یہ بات انتہائی واضح نظر آتی ہے کہ بنیاد سے ہٹ کر معاملہ فہمی ممکن نہیں ہے، کیونکہ بنیاد ہی میں جب فرق ہوگا تو دونوں فریق اپنی بنیادی حیثیت کو کبھی ختم کرنے پر تیار نہ ہوں گے۔ بنیادی طور پر ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کون سی شے ہے جو ہمیں اسلام میں داخل کر کے مسلمان بناتی ہے۔ یہ چیز ’’کلمہ طیبہ‘‘ ہے۔ اس پہلے کلمہ میں ہی فرق ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
سنی کلمہ یہ ہے : لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء ورسل کا کلمہ دو باتوں یعنی توحید ورسالت پر مشتمل تھا۔ صحابہ کرام واہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور پوری امت مسلمہ کا بھی یہی کلمہ ہے۔ الحمد للہ آج بھی مسلمانوں کی مساجد، کتابوں اور زبانوں پر اسی مبارک کلمہ کی گونج ہے اور پاکستان بھی اسی کلمے کے نعرے پر حاصل کیا گیا تھا۔ شیعہ حضرات نے کلمہ طیبہ میں توحید ورسالت کے ساتھ تیسرا جزو، ولایت شامل کر کے اپنے لیے الگ کلمہ بنا لیا ہے۔ اس طرح انھوں نے خود کو امت مسلمہ سے جدا بھی کر لیا ہے، کیونکہ وحدت ملت کا سب سے بڑا ذریعہ یہی مبارک کلمہ ہے۔ شیعہ حضرات نے بھٹو دور میں لڑ جھگڑ کر اپنے لیے علیحدہ نصاب دینیات منظور کرایا تھا جس کے لیے مستقل کتاب طبع کروائی گئی۔ اس میں جو کلمہ درج ہے، وہ مندرجہ ذیل ہے:
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ علی ولی اللہ وصی رسول اللہ وخلیفتہ بلا فصل  (رہنمائے اساتذہ، اسلامیات برائے نہم ودہم، اسلام آباد، ۱۹۷۵ء)
ایرانی انقلاب نے شہنشاہ ایران سے عنان حکومت لے کر حضرت خمینی کے دست مبارک میں دی تو کلمہ اس طرح بنایا گیا:
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ علی ولی اللہ خمینی حجۃ اللہ
بات صرف یہاں تک نہیں رہی ، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر کلمہ شہادت میں بھی اضافہ کر لیا گیا۔ ملاحظہ فرمائیے:
اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمدا رسول اللہ وعلی ولی اللہ واشہد ان خمینی روح اللہ حجۃ اللہ علی خلقہ (ماہنامہ وحدت اسلامی، جون ۱۹۸۴ء)
ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات کہ اہل سنت اور اہل تشیع حضرات ایک ہو جائیں گے، بظاہر ناممکن نظر آتی ہے۔ ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ دونوں گروہ با اختیار ہو کر ایک جگہ بیٹھیں اور خلوص دل اور خلوص نیت کے ساتھ کھلے دل سے طے کر لیں کہ کیا غلط ہے اور کیا درست۔ پھر دونوں حضرات غلط بات کو نہ صرف تسلیم کریں بلکہ بیک وقت ترک کر دیں اور باہم ایک ہو جائیں۔ پھر یہ ممکن ہے، کہ کسی کو کسی پر اعتراض کرنے کا موقع میسر آئے گا اور نہ کوئی اعتراض کی جرات کرے گا۔
ڈاکٹر سید منظر تمنائی
15-A/I، بفر زون، نارتھ کراچی

’’شیعو اور سنیو!‘‘ کے بارے میں گزارشات

حافظ محمد قاسم

’الشریعہ‘ کے جنوری ۲۰۰۵ کے شمارے میں علامہ سید فخر الحسن کراروی کے مضمون بعنوان ’’شیعو اور سنیو! تاریخ سے سبق سیکھو!‘‘ کے حوالے سے ہماری گزارشات حسب ذیل ہیں:
کراروی صاحب! آپ نے مضمون کے آغاز میں شیعوں اور سنیوں کو ایک اللہ کو ماننے والے اور مومن ومسلم کہا ہے۔ جہاں تک اہل سنت کا تعلق ہے تو وہ ہمیشہ سے نہ صرف عقیدۂ توحید پر قائم ہیں بلکہ ختم نبوت بھی ان کے ایمان کا لازمی جزو ہے، لیکن آپ حضرات نے کلمہ توحید میں تبرا اور جھوٹ کو شامل کر لیا ہے اور اس کے ساتھ نظریہ امامت کو بھی اپنا رکھا ہے جو ختم نبوت کے منافی ہے۔ آپ تو اپنی عبادت گاہ کو بھی مسجد کہہ کر پکارنا نہیں چاہتے، بلکہ اسے ’امام بارگاہ‘ کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں ’اشداء علی الکفار رحماء بینہم‘  کہہ کر صحابہ کرام کی مدح وتوصیف کی گئی ہے، لیکن آپ ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اور ساتھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، بلکہ ان اصحاب قدسی پر تبرا کرتے ہیں۔ 
آپ حضرات نے ہمیشہ اہل سنت کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے اور خلافت راشدہ کے زمانے سے طالبان کی امارت اسلامیہ تک ہمیشہ ان کے خلاف ریشہ دوانیاں کرتے چلے آئے ہیں۔ خلفاے راشدینؓ کے زمانے میں مشہور یہودی عبد اللہ بن سبا نے شیعیت کو پروان چڑھایا اور حضرت علیؓ کے زمانے میں مسلمانوں میں بغض وعناد پیدا کر کے انھیں آپس میں لڑایا۔ سانحہ کربلا میں کوفہ کے شیعوں نے حضرت حسین کو بلا کر شہید کروا دیا جس پر آپ آج تک ماتم کرتے ہیں۔ مصر میں جب فاطمیوں کی حکومت قائم ہوئی تو صحابہ کرامؓ پر سرعام تبرا کیا گیا۔ عراق میں بنو عباس کی خلافت اسلامیہ کو ختم کرنے میں اہل تشیع کا کردار سب سے نمایاں تھا۔ بنو عباس کے آخری خلیفہ کے وزیر ابن علقمی شیعہ نے جس طرح ہلاکو خان کے ہاتھوں خلافت کا خاتمہ اور خلیفۃ المسلمین کو شہید کروایا، تاریخ سے واقف ہر شخص جانتا ہے۔ سلطان ٹیپوؒ کے دور میں سلطنت خداداد کے شیعہ وزیروں میر جعفر اور میر غلام علی نے انگریز کے ساتھ ساز باز کر کے سلطان کو شہیدا کروا دیا اور خود بڑی بڑی جاگیریں حاصل کر لیں۔ 
حالیہ تاریخ میں افغانستان میں ایران نے امارت اسلامیہ کے خلاف جنگ کی ابتدا کرنا چاہی، لیکن منہ کی کھانی پڑی۔ بامیان کے پہاڑ ایرانی اسلحہ کے گواہ ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ وہاں ایران کی طرف سے اسلام مخالف تدریسی نصاب تقسیم کیا گیا۔ اب عراق میں مقتدیٰ الصدر کہاں غائب ہو گیا ہے؟ لوگوں کو مروا کر اس نے خود ہتھیار کیوں ڈال دیے ہیں؟ اب بھی عراق کے سنی علاقوں میں مزاحمت جاری ہے، جبکہ آیت اللہ سیستانی امریکی فوجوں اور امریکی بندوقوں کے سائے تلے انتخابات کے حق میں دھڑا دھڑ شرعی فتوے جاری کرتے رہے۔
آپ نے کشمیر کے معاملے میں ایران کی حمایت کا ذکر کیا ہے، لیکن یہ بھول گئے کہ شام، عراق اور اردن پر بھی شیعہ ہی حکمران ہیں اور لیبیا کا کرنل قذافی بھی نصیری شیعہ ہے۔ ان سب ملکوں نے کبھی پاکستان کی کشمیر پالیسی کی حمایت نہیں کی۔ ایران کی حمایت بھی جھوٹی اور منہ دکھاوے کی ہے، ورنہ ساتھ ہی ساتھ بھارت کے ساتھ پیار کی پینگیں کیوں بڑھائی جاتی رہیں؟
اگر لاشوں کے تحفے ایران پہنچے ہیں تو آپ کو کیوں دکھ ہے؟ کیا آپ ایرانی ہیں یا ایران کی مدد سے پھل پھول رہے ہیں؟ یہ لاشیں ان کی اپنی کرتوتوں اور سیاہ کاریوں کی وجہ سے ایران گئی ہیں۔ پاکستان میں جہاں بھی خانہ فرہنگ ایران ہے، وہ دہشت گردی کی پناہ گاہ ہے اور وہاں سے تبرا پر مبنی کتب چھاپی جاتی ہیں۔ شیعوں اور خصوصاً ایرانی حکومت کے مسلح غنڈوں نے ۸۴ء اور ۸۶ء میں کوئٹہ میں مسلمانوں کا جو قتل عام کیا اور پاک باز خواتین کی آبرو ریزی کی، اسی طرح کراچی میں جو ظلم ہوئے، وہ آپ کو نظر نہیں آئے؟
شیعوں خصوصاً ایرانی حکومت کی ذہنیت کا اندازہ پاکستان کے سابق کمانڈر انچیف مرزا اسلم بیگ کے ایک بیان سے کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے ہفت روزہ ’زندگی‘ لاہور کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
’’اپنا انقلاب (یعنی تشیعی حکومت) دوسرے ممالک میں برآمد کرنے کے ایرانی جذبے نے متعدد مسلم ممالک میں ایران کے متعلق ایک طرح کے مزاحمتی رویے کو جنم دیا ہے۔ میرے خیال میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ آج کے ایرانیوں میں بھی قبل از مسیح کی ایرانی سلطنت (پرشین ایمپائر) کا تصور موجود ہے۔ میرے دور میں ایران کے کمانڈر انچیف محسن رجائی پاکستان آئے تو ان کے پاس اس پرشین ایمپائر کے نقشے موجود تھے۔ وہ مجھے بتاتے رہے کہ ماضی میں پاکستان، کشمیر، افغانستان اور وسط ایشیا کے کون کون سے علاقے ایرانی سلطنت کا حصہ رہے ہیں۔ ایرانیوں کی یہ سوچ علاقائی تعاون کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ میرا احساس یہ ہے کہ ایرانی دعوے تو بہت کرتے ہیں، لیکن عمل کا وقت آتا ہے تو وہ آگے نہیں بڑھتے۔ ہم نے دفاعی میدان میں پیش قدمی کی کوشش کی، لیکن خاص حد پر جا کر وہ رک گئے۔‘‘ (ہفت روزہ زندگی، ۲۳ تا ۲۹ مئی ۱۹۹۲)
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایران کے شیعہ حکمرانوں نے ابھی تک پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور ان کی طرف سے اس کو کمزور کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ مرزا اسلم بیگ صاحب کی یہ بات ۱۰ سال کے بعد بالکل سچ ثابت ہو گئی جب ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی کمیشن کے دباؤ پر پاکستان سے لی گئی ایٹمی امداد کے بارے میں تمام راز اگل دیے او ر محسن پاکستان جناب ڈاکٹر عبد القدیر زیر عتاب آ گئے۔
حافظ محمد قاسم
دار العلوم ختم نبوت۔ بلاک ۱۲۔ چیچہ وطنی

مکاتیب

ادارہ

(۱)
(فروری ۲۰۰۵ کے ’الشریعہ‘ میں ’’پیر محمد کرم شاہ الازہری اور فتنہ انکار سنت‘‘ کے زیر عنوان پروفیسر محمد اکرم ورک کے مضمون میں علامہ تمنا عمادی مرحوم کا شمار منکرین حدیث کے ضمن میں کیا گیا تھا۔ اس پر کراچی سے جناب سید عماد الدین قادری نے بھارت سے شائع ہونے والے جریدہ ’’اردو بک ریویو‘‘ کے نومبر ؍دسمبر ۲۰۰۴ کے شمارے میں مطبوعہ ایک خط کی طرف توجہ دلائی ہے جس میں تمنا مرحوم کے ایک قریبی رفیق یوسف ریاض صاحب نے اس امر کی تردید کی ہے۔ یہ خط قارئین کی دلچسپی کے لیے یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

برادرم محمود عالم کی بدولت اردو بک ریویو دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ کساد بازاری کے اس دور میں جس لگن اور محنت سے آپ اردو کی خدمت کر رہے ہیں، کسی داد سے مستغنی ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
ستمبر ؍اکتوبر ۲۰۰۴ء کے شمارے میں یوں تومضامین رنگا رنگ ہیں اور سب ہی دعوت غور وفکر دے رہے ہیں، مگر یہاں ہماری نظر ’ادراک زوال امت‘ پر ہے۔ تبصرہ بڑا بھرپور لگتا ہے، شاید مصنف ادھر توجہ مبذول کر سکیں۔ فی الوقت ہم صرف ایک بات کی طرف توجہ دلانا چاہیں گے۔ فاضل تبصرہ نگار نے حسان الہند علامہ تمنا عمادیؒ کو منکرین حدیث میں شمار کیا ہے اور عام تاثر بھی یہی ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ ان کے مضامین اتفاق سے منکرین حدیث ہی کے رسالوں میں چھپتے رہے ہیں۔ مگر حقیقت حال یہ ہے کہ وہ ایک دن کے لیے بھی اس گروہ میں شامل نہ تھے۔ یہ صحیح ہے کہ حدیث کے باب میں ان کا مسلک بہت، بلکہ کہنا چاہیے کہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی محتاط بلکہ سخت تھا۔ فن اسماء الرجال پر ان کی بڑی گہری نظر تھی۔ ہر روایت کو خوب اچھی طرح کھنگالنے کے قائل وعادی تھے۔ ان کا بڑا واضح بیان تھا اور بھری محفلوں (محفل نہیں، ان گنت محفلوں) میں خود ہماری موجودگی میں انھوں نے بیان کیا کہ حدیث کا منکر کافر ہے۔ حدیث رسول کا انکار اور ایمان اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ ہاں حدیث کی چھان پھٹک بہت ضروری ہے، کیونکہ ان کے نزدیک خاص طور سے روافض کا ایک بہت متحرک طبقہ حدیثیں گھڑنے، اس میں سابقہ اور لاحقہ ملانے میں ید طولیٰ رکھتا تھا اور ایک سوچی سمجھی اسکیم کے ساتھ یہ کام کر رہا تھا۔ یہاں تک کہ ان کے خیال کے مطابق بخاری تک میں تلبیس کی ہر ممکن کوشش کی۔ اپنے مسلک سے متعلق انھوں نے ایک مضمون ’تجلی‘ کو بھی بھیجا تھا۔ ایک انٹرویو خود ہم نے بھی تجلی کو بھیجا تھا مگر عامر عثمانیؒ نے اسے شائع کرنا مناسب نہ سمجھا۔ علامہ نے خود ہم سے بیان کیا کہ ’طلوع اسلام‘ اور اس طرح کے رسالے ہی ہمارا مضمون اور وہ بھی جسے وہ مفید مطلب سمجھتے ہیں، چھاپ دیتے ہیں اور اس کی کم سے کم کاپیاں ہمیں بھیجتے ہیں۔ بات آہی گئی ہے تو یہ بات بھی ریکارڈ میں لانا چاہیں گے کہ وہ جناب غلام احمد پرویز کو ایک جاہل مصنف سمجھتے تھے۔ ہم ’طلوع اسلام‘ کے مطبوعات انھی سے حاصل کیا کرتے تھے۔ ہماری تنقیدوں سے بہت خوش ہوتے تھے۔ ’مفہوم القرآن‘ کے چند ابتدائی حصے پر ہم نے بڑی سخت گرفت کی تھی۔ ہم سے پوری طرح متفق تھے۔ ایک مرتبہ تو شاباشی کے روایتی انداز میں ہماری پیٹھ ٹھونکی اور کہا، ایک جاہل سے تم اور کیا توقع کرتے ہو۔ انھوں نے ہماری ہر تنقید کا ساتھ دیا۔
ایک بات اور۔ قادیانی عالموں کا ایک ٹولہ ان کے پاس آیا۔ بہت سی باتیں ہوئیں، مگر دلچسپ ترین بات یہ تھی: کہنے لگے ’مرزا صاحب جب اپنی طرف سے عربی لکھتے ہیں تو لا باس بہ، مگر جب وحی اور الہام کی حیثیت سے لکھتے ہیں تو غلطیوں کا پلندہ ہوتی ہے۔ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ جو ہستی مرزا صاحب پر وحی کرتی ہے، وہ مرزا صاحب سے زیادہ جاہل ہے۔ اس نشست میں انھوں نے چند کی نشان دہی کی۔ پھر وہ طائفہ بغیر کسی حیل حجت کے اٹھ کر چلا گیا۔
برادرم محمود حسن نے خلیفہ عبد الحکیم اور غلام جیلانی برق کو بھی منکرین حدیث میں شامل ہونے کا تاثر دیا ہے۔ خلیفہ عبد الحکیم پر فلسفہ کا غلبہ ضرور تھا، مگر منکر حدیث ہرگز نہ تھے۔ جناب برق کے سر پر تجدد اور سائنس کا سودا تھا، مگر آخر میں اس سے بھی تائب ہو گئے تھے۔ اللہ سے دعا ہے ان کی مغفرت فرمائے۔ آخر میں ایک بار پھر آپ کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔
یوسف ریاض
الدار العالمیۃ للکتاب الاسلامی، ص ب ۵۵۱۹۵
الریاض ۱۱۵۳۴، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ

(۲)
مکرمی ومحترمی جناب محمد عمار خان ناصر
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مزاج گرامی؟
’الشریعہ‘ باقاعدگی سے مل رہا ہے جس میں اہل علم کے تجدیدی مضامین پڑھ کر اپنی معلومات میں خاطر خواہ اضافہ کرتا ہوں۔ جناب محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب کے حکم پر ’’اقوام متحدہ کے منشور کا تحقیقی جائزہ‘‘ لکھا تھا جو ’المنبر‘ فیصل آباد کے شوال کے شمارہ میں شائع ہوا، جبکہ ’الشریعہ‘ میں ہیکل سلیمانی کی تولیت پر بحث ومباحثہ پڑھتا رہا جس پر اپنا نقطہ نظر ’الاعتصام‘ کو ارسال کیا۔ وہ بھی شعبان کے شماروں میں شائع ہوا۔ اس بحث کو بند کرنے کے بعد جو آپ نے اسلامی مکاتب فکر میں تحمل وبردباری کا درس دینے کی مہم شروع کی ہے، وہ قابل تحسین ہے۔ بقول ندوی فکر ’’اصولوں پر سختی سے کاربند رہنے کے باوجود ہمارے دل اتنے وسیع ہوں کہ فروعی اختلافات ہمیں فرقہ بندی اور گروہ بندی کی دلدل میں نہ پھنسا سکیں۔‘‘ 
اللہ کرے آپ کی محنت بار آور ثابت ہو اور اسلامی مکاتب فکر آپس میں بھائی بھائی بن کر ملت کفر کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔
عطا محمد جنجوعہ
کوٹ بھائی خان
براستہ جھاوریاں۔ ضلع سرگودھا

(۳)
۰۵/۲/۲۱
مولانا ابو عمار زاہد الراشدی
رئیس التحریر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
’الشریعہ‘ کے فروری ۲۰۰۵ء کے شمارے میں شائع ہونے والے پروفیسر محمد سرور کے مضمون ’’علامہ اقبال کی شخصیت اور ان کا فکر وفلسفہ‘‘ میں کہا گیا ہے کہ:’’اقبال دل سے چاہتے تھے کہ قرآن کی حکومت بروئے کار آئے اور اسلام پر بالکل ایک نئی دنیا کی تعمیر ہو، لیکن قرآن اور اسلام کی عملی تشریح جو آج کے زمانے میں قابل قبول اور قابل عمل ہو سکے، یہ ان کے بس میں نہ تھی، کیونکہ وہ جماعت کے روایتی اثرات اور اس کے قوانین وضوابط سے ذہناً باہر نہیں نکل سکے تھے اور وہ قرآن واسلام کے نظام کو مجموعی انسانیت کا نظام بنا کر پیش کر نے کا حوصلہ نہیں کر سکتے تھے۔‘‘
میرا کہنا بس یہ ہے کہ اگر مذکورہ فکر کے حامل خود روایتی اثرات اور قوانین وضوابط کے خول سے باہر نکل آئے ہیں اور قرآن واسلام کو مجموعی انسانیت کا نظام بنا کر پیش کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں تو بسم اللہ کریں، قدم بڑھائیں اور امت کی رہنمائی کریں۔ اگر یہ نظام آپ کے بس میں ہے تو پیش کریں اور امت کا بھلا کریں۔
اسی مضمون میں کہا گیا ہے کہ ’’فکراً خواہ وہ کچھ بھی ہوں، اقبال کا اسلام عملاً ایک فرقہ پرست ہندوستانی بلکہ پنجابی مسلمان کا اسلام تھا۔‘‘ یہ محض ایک تہمت ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ اقبال نے کبھی فرقہ واریت اور پنجابیت کو فروغ دینا تو کجا، ان کا نام تک نہیں لیا۔ وہ تو آفاقیت کے مبلغ تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ مولانا عبید اللہ سندھی دار العلوم دیوبند میں تکمیل علم کے بعد ۱۹۱۵ میں افغانستان چلے گئے اور کابل میں کانگرس کمیٹی کی بنیاد رکھی جس کا الحاق ہندوستان کی کانگرس سے کیا گیا۔ کانگرس کے نظریے کے مطابق ہندوستانی مسلمان اور ہندو ایک ہی قوم تھے اور ہیں۔ کانگرس دو قومی نظریہ کو فرقہ پرستی قرار دیتی تھی، اس لیے مولانا نے اقبال کو فرقہ پرست قرار دیا ہے۔ 
آخر میں آپ سے یہ سوال ہے کہ ایسے مضامین آپ کے رسالے میں کیوں شائع ہوتے ہیں؟ کانگرس کا ایک قومی نظریہ لوگوں کو اقبال سے تو شاید دور کر سکتا ہے، لیکن اس کے بعد عدم رہنمائی کے باعث لوگوں کو جنگل میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ اب تو بے شمار حقائق وشواہد، خصوصاً بھارتی صوبہ گجرات میں بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام نے ثابت کر دیا ہے کہ کانگرس کا ایک قومی نظریہ بالکل باطل تھا اور حق یہی ہے کہ مسلمان، ہندوؤں سے الگ ایک قوم ہیں۔وما علینا الا البلاغ۔
محمد خورشید
پلاٹ ۱۴ /سی۔ بلاک بی، پیپلز کالونی۔ اٹک شہر

قربِ گریزاں کی ایک غزل

پروفیسر میاں انعام الرحمن

چناب کی سر زمین گجرات سے تعلق رکھنے والا منیر الحق کعبی بہل پوری بطور کہنہ مشق شاعر و ادیب اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکا ہے ۔ حمدیہ کلام میں تغزل کی آمیزش سے 
گنگ حرفوں کو زباں دی تو نے 
مجھ کو توفیقِ بیاں دی تو نے 
کہنے والا شاعر قومی کینوس پر شاید اس لئے نہیں آسکا کیونکہ اس کا تعلق نہ تو لاہور ، کراچی جیسے بڑے شہروں سے ہے اور نہ ہی اسے ’’ پی آر ‘‘ کے لوازمات کے’’ سلسلوں ‘‘پر قدرت حاصل ہے : 
عذاب ٹھہرا ہر اک سے یہ سلسلہ رکھنا
خدا کے ساتھ بتوں سے معاملہ رکھنا
کعبی کا یہ شعرمومن کے اس شعر کی یاد دلا تا ہے جس کے عوض مرزا غالب اپنا پورا دیوان دینے کو تیار تھے: 
ان کی یادیں ہجوم کرتی ہیں 
وہ مرے پاس جب نہیں ہوتے 
اور دیکھئیے ذرا ،اسی غزل میں کعبی نے کتنی آسانی سے کتنی بڑی بات کہہ دی : 
کربلا کی حدیث کہتی ہے
پارسا منتخب نہیں ہوتے!
’’رگِ خواب ‘‘ اور ’’ قربِ گریزاں ‘‘ ( مطبوعہ) ’’ دشتِ وصال ‘‘ اور ’’حریمِ حمد ‘‘ ( غیر مطبوعہ )کے عنوان سے مجموعہ ہائے کلام کا مصنف ، زندگی کی بے برگ راہوں کا سامنا کرنے کی کس قدر جرات رکھتا ہے ملاحظہ کیجئے: 
مری آنکھو ! ابھی تا دیر جاگو 
شکستِ شب کا منظر دیکھنا ہے
شکستِ شب کا یہی یقین اور شکستِ شب کی دید کی یہی آرزو کعبی کی شاعری کا بنیادی خاصہ ہے ۔ ہمارا شاعر زیست کے رنج و الم اور ہر دم کروٹ لیتے حالات کی بے ثباتی سے ڈگمگانے کے باوجود ، اپنے ہونے کو یعنی اپنی زندگی کو شکستِ شب سے سے مشروط کر تاہے ۔ شکستِ شب کے متجسس آرزومند کے تجسس کا دائرہ ( نا تمام معنوی ابعاد کے جلو میں ) اجالوں کی صباحتوں سے لے کر گلاب کی خوشبوؤں تک پھیلا ہوا ہے : 
خوشبو کی جستجو میں ، کعبی 
شاخِ گلاب کو ہلاؤں 
اس مختصر تعارف کے بعد ، آئیے قربِ گریزاں کی ایک غزل کے چند اشعار کا جائزہ لیتے ہیں۔
اردو شاعری میں جس چیز کو تغزل کہتے ہیں وہ اس کی رمزی اور ایمائی کیفیت ہے ۔ یہ تبھی پیدا ہوتی ہے جب غزل گو الفاط کے صحیح معانی ، ان کے شیڈز اور دلالت ہائے امتزاجی سے پوری واقفیت رکھتا ہو ۔ تقریباَ َ ہر بڑے شاعر کے کلام میں کوئی نہ کوئی ایسی علامت یا استعارہ ضرور ملے گا جو نہ صرف جانِ کلام ہوتا ہے بلکہ شاعر کی نفسی کیفیت کا آئینہ دار بھی ۔ اگر قاری ذوقِ سلیم سے عاری نہ ہو تو فوراَ َ محسوس کرتا ہے کہ شاعر نے تخلیق کے دوران کن کیفیتوں کو مَس کیا ہے اور تخلیق کے پس منظر میں کیا مِس کیا ہے ۔ کعبی کے کلام میں ( بالخصوص زیرِ نظر غزل میں ) گلاب ایسی ہی علامت کے طور پر ابھرا ہے جو نہ صرف مجاز اور حقیقت کے درمیان پل کا کام دیتا ہے بلکہ اس پل کو لپیٹ بھی دیتا ہے ، یوں ایک Paradox ’’ قربِ گریزاں ‘‘ کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔ 
ہمارے مشاہدے میں جو چیزبھی آتی ہے ( چاہے مشاہدہ باطنی ہو ) اس کا ایک خاص رخ ہی ہم دیکھ پاتے ہیں مثلاََ حسن کے ضمن میں غمزہ ، عشوہ ، ناز ، ادا وغیر ہ مختلف رخ ہیں ۔ کعبی اس پہلو سے واقفیت کا اظہار تہہ داری سے یوں کرتے ہیں کہ : 
مری صبائے تصور نے لی ہے انگڑائی 
بدستِ ناز ابھی، آنکھ مَل رہے ہیں گلاب
حسن کے تنوع اور رنگا رنگی کو نہایت شدت سے اس طرح پیش کیا ہے :
نہ ایک برگہ ء گُل میں نظر مقید ہے 
مری نظر میں ہزاروں اچھل رہے ہیں گلاب 
حسن مطلق کی جستجو میں ایک مقام ایسا آتا ہے جب ہمارا شاعر اپنے آپ کو وسعت دیتا ہے اور پھر الہام کے لب کچھ یوں وا ہوتے ہیں : 
اسی مجاز میں پنہاں رہِ حقیقت بھی
ازل سے جلوۂ حسنِ ازل رہے ہیں گلاب
اردو شاعری میں لفظ ’’ جلوہ ‘‘ حسن کی مجموعی حالت اور کلیت کا آئینہ دار ہے ۔ یعنی کائنات میں پھیلا ہوا حسن ، چند لمحوں کے لئے ، وحدت کی صورت میں شاعر کے مشاہدے میں آتا ہے ۔ اس شعر کے دوسرے مصرعے میں ’’ رہے ہیں گلاب ‘‘ جمع کا صیغہ ہے اور اس کے ساتھ لفظ ’’ جلوہ ‘‘ حسن کی وحدت کی علامت۔ یوں کثرت ، وحدت بن جاتی ہے ۔ مجاز اور حقیقت ایک ہو جاتے ہیں ۔ ہماری دانست میں ’’ جلوہ ء حسنِ ازل ‘‘ کی ترکیب کچھ یہی بیان کرتی ہے ۔ غالب نے اپنے مخصوص انداز میں اسی سے ملتا جلتا مضمون یوں باندھا ہے : 
یاں نفس کرتا تھا روشن شمعِ بزمِ بے خودی 
جلوۂ گُل واں بساطِ صحبتِ احباب تھا
غالب ، شاید الہام کے مدارج کا قائل ہے جبکہ کعبی کے ہاں قطعیت جھلکتی ہے ۔ 
اس غزل کے حوالے سے ایک بات کھٹکتی ہے کہ غزل کی ردیف میں ’’ گلاب ‘‘ ہو اور پھر اشعار کی تعداد بھی چودہ (۱۴ ) ہو ، لیکن بلبل کا ذکر تک نہ ہو۔کیوں ، ہے ناعجیب بات ؟ ہماری رائے میں اس کی ایک وجہ جناب کعبی کا ’’مزاج ‘‘بھی ہو سکتا ہے۔ انھوں نے محبوب کو ( حقیقی ہو یا مجازی ) گلاب کے روپ میں پیش کیا ہے لیکن محب کو بلبل کے استعارے میں چھپانے کی کوشش نہیں کی کہ خاصے بے باک ہیں ۔ 
اس کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ چونکہ بلبل کا استعارہ عشقِ ناتمام کو ظاہر کرتا ہے جس میں قرب و وصل کا کوئی امکان نہیں، اس لئے کعبی نے جان بوجھ کر احتراز برتا ہے ۔ 
اس کا تیسرا سبب جو کافی معقول دکھائی دیتا ہے ، فارسی روایت سے انحراف کا اظہار بھی ہو سکتا ہے۔ اردو شاعری میں بلبل کا استعارہ ، اصلاََ فارسی غزل سے مستعار لیا گیا ہے کیونکہ بلبل ہمارے علاقے میں موجود نہیں ۔ مغلوں کے عہد میں فارسی زبان کے ساتھ بلبل خود تو نہیں ، البتہ بطور استعارہ آ موجود ہوا ۔ اپنے ماخذ کے اعتبار سے اردو غزل اگرچہ فارسی کی مرہونِ منت ہے لیکن اب چونکہ اردو زبان آہستہ آہستہ باوعتماد ہوتی جا رہی ہے اس لئے اس کا اپنا الگ علامتی نظام بھی تشکیل پا رہا ہے ۔ بلبل کا اس مجموعے ( قربِ گریزاں ) میں اور با لخصوص اس غزل میں نہ ہونا مذکورہ نئے تشکیل پاتے علامتی نظام کا اظہار ہے ۔ اس اظہار کے پیچھے زبان کا فطری ارتقاء کار فرما ہے اور یہ ارتقاء بقول ٹی ایس ایلیٹ ، مقامیت سے شدید متاثر ہوتا ہے ۔ہماری رائے میں کعبی کے کلام میں ارتقاء اور مقامیت کا آہستہ آہستہ در آنا واضح طور پر موجود ہے۔ شنید ہے ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’ رگِ خواب ‘‘ فارسیت کا حامل تھا ، ہو سکتا ہے اس میں بلبل کا ذکر موجود ہو ، لیکن کم از کم ’’قربِ گریزاں ‘‘ جہاں فارسی سے انحراف کی طرف پیش قدمی ہے وہاں مقامیت کا آغازبھی ہے ، بقول داغ :
کہتے ہیں اسے زبان اردو
جس میں نہ ہو رنگ فارسی کا 
زیرِ نظر غزل کی ردیف ’’ رہے ہیں گلاب ‘‘ تین الفاظ پر مشتمل ہے ، اس کے طول سے غنائیت پیدا ہوئی ہے ۔ ثقہ ناقدین کے مطابق لمبی ردیف کی غزل ’’ سامعین ‘‘ کو بہت بھلی معلوم ہوتی ہے ۔ لیکن اس فردوسِ گوش خاصیت میں ایک خامی کا احتمال رہتا ہے کہ کہیں موسیقیت کے بوجھ تلے ، تخیل و خیال آفرینی دب نہ جائے ۔ لہذا فن پارے کی قدرو قیمت کا اندازہ بھی اسی بات سے ہوتا ہے کہ کیا بھر پور نغمگی کے ہمراہ تخیل کی رم جھم بھی موجود ہے کہ نہیں ؟ ہماری دانست میں کعبی کی اس غزل کی ردیف جہاں موسیقیت کے باعث قاری کو بہانے کی کوشش کرتی ہے وہاں تخیل کی زور آوری ٹھہراؤ کا باعث بھی بنتی ہے اور قاری خود کو ہر شعر ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے پر مجبور پاتا ہے ۔ یوں ذہن میں ، شاعر کے دورانِ تخلیق موڈ کے مطابق ایک تصویر سی بنتی چلی جاتی ہے۔ یہی شاعری ہے۔ 

مولانا حافظ محمد طاہر لدھیانوی کا انتقال

ادارہ

علماے لدھیانہ کے معروف خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک نہایت محترم بزرگ مولانا حافظ محمد طاہر لدھیانوی جمعرات ۷ محرم ۱۴۲۶ کو ضلع جھنگ کے نواحی گاؤں چک ۱۵۱ ماہوں میں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ مولانا ابو احمد محمد عبد اللہ لدھیانوی ؒ کے فرزند اور علامہ محمد احمد لدھیانوی کے بڑے بھائی تھے۔ 
ان کی پیدایش قصبہ دیوبند میں ہوئی تھی۔ ان کے والد گرامی مولانا محمد عبد اللہ لدھیانوی، جو قبل ازاں علامہ انور شاہ صاحب کشمیری سے دورۂ حدیث میں تلمذ حاصل کر چکے تھے، شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے مالٹا سے رہا ہونے کے بعد ان سے دورۂ حدیث کے اسباق دوبارہ پڑھنے کے لیے دار العلوم دیوبند گئے اور وہاں اقامت کے دوران میں دار العلوم میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد وہ واپس اپنے آبائی وطن لدھیانہ تشریف لے گئے جہاں ان کے بڑے فرزند حافظ محمد طاہر صاحب ابتدائی تعلیم کے ساتھ ساتھ حفظ قرآن کریم مکمل کیا۔ اس کے بعد ان کے والد گرامی نے انھیں درس نظامی کی تعلیم کے لیے گوجرانوالہ میں مولانا محمد چراغ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بھیج دیا جو ان کے ہم سبق اور مولانا سید انور شاہ صاحب کشمیری کے شاگرد تھے اور اس وقت بیرون کھیالی گیٹ میں مدرسہ عربیہ کے نام سے ایک دینی ادارہ چلا رہے تھے۔ دورۂ حدیث کے لیے وہ مولانا خیر محمد صاحب جالندھری کی خدمت میں خیر المدارس جالندھر چلے گئے ۔ 
تعلیم سے فراغت کے بعد وہ اپنے والد گرامی کی رہنمائی میں لدھیانہ کے نواح میں رد مرزائیت اور رد بدعات کے لیے مصروف عمل رہے۔ پاکستان بننے کے بعد یہ خاندان ہجرت کر کے گوجرانوالہ آ گیا اور ۱۹۴۸ء میں مولانا محمد عبد اللہ نے حافظ محمد طاہر صاحبؒ کو چک ۱۵۱ ماہوں ضلع جھنگ بھیج دیا جہاں لدھیانہ کے بعض خاندان ہجرت کر کے آباد ہوئے تھے۔ یہاں حافظ محمد طاہر صاحبؒ نے علاقے کے علما مولانا محمد ذاکر ، مولانا محمد نافع، مولانا رحمت اللہ اور مولانامنظور احمد چنیوٹی کے ساتھ مل کر رد رافضیت، رد بدعات اور رد مرزائیت کے سلسلے بھرپور تبلیغی ودعوتی خدمات انجام دیں اور شرک وبدعت کے رنگ میں رنگے ہوئے مقامی ماحول میں توحید وسنت اور حب صحابہ کی دینی فضا قائم کی۔ انھوں نے اور ان کی اہلیہ محترمہ مرحومہ نے یہاں کی مقامی ناخواندہ آبادی پر محنت کر کے ان میں سے حفاظ، قرا اور علما تیار کیے جنھوں نے ان کی سرپرستی میں ارد گرد کے دیہات تک دعوتی کام کو پھیلایا۔ ان کی کوشش سے علاقے میں تین مساجد قائم ہوئیں اور اب یہاں تبلیغی جماعت کا ایک باقاعدہ مرکز قائم ہے۔ 
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم اور ان کے خاندان کے تمام بزرگوں اور دینی کارکنوں کی دینی خدمات کو شرف قبولیت بخشے ، ان کی خطاؤں سے درگزر فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

الشریعہ اکادمی میں یوم کشمیر کے موقع پر تقریب

ادارہ

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ۵ فروری ۲۰۰۵ بروز ہفتہ یوم یکجہتی کشمیر کے عنوان سے ایک تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب کا آغاز جناب غلام اللہ کی تلاوت کلام پاک سے ہوا جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض ابوبکر محمود نے انجام دیے۔ مہمان خصوصی اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی تھے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جناب رمضان خالد آف وہاڑی نے مسئلہ کشمیر کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ راجہ گلاب سنگھ نے ۱۵۵ روپے فی مربع میل کے حساب سے پچھتر لاکھ روپے میں انگریزوں سے پورے کشمیر کا سودا کر لیا تھا جس سے کشمیری مسلمانوں کی اصل غلامی شروع ہوئی۔ جناب توقیر معاویہ آف ساہیوال نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا پرامن حل یہی ہو سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے۔ 
مولانا زاہد الراشدی نے اختتامی کلمات میں کہا کہ مسئلہ کشمیر کے دو پہلو ہیں، ایک مذہبی اور دوسرا سیاسی۔ سیاسی لحاظ سے بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق انڈیا سے کشمیریوں کے جائز اور برحق مطالبہ آزادی کو تسلیم کروانا اقوام عالم کی ذمہ داری ہے، جبکہ مذہبی لحاظ سے کشمیر کی آزادی کے لیے جہاد ضروری ہے، کیونکہ اس کے لیے علما نے فتویٰ جاری کیا تھا جس پر عمل کرتے ہوئے کشمیر کا کچھ حصہ تو آزاد کرا لیا تھا جبکہ باقی حصے کو آزاد کرانا ابھی ہمارے ذمے ہے۔ 
تقریب کے آخر میں دنیا کے تمام خطوں میں مسلمانوں کی آزادی اور شہداے اسلام بالخصوص کشمیری شہدا کے لیے دعا کی گئی۔ 
(ابوبکر محمود۔ شریک خصوصی تربیتی کورس، الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ)

’’سماجی بہبود تعلیمات نبوی کی روشنی میں‘‘

پروفیسر محمد فاروق حیدر

سماجی بہبود عصر حاضر کا ایک اہم موضوع ہے جس پر تصنیف وتالیف کے علاوہ عملی طور پر کی جانے والی کوششیں نمایاں ہیں۔ خاص طور پر مغرب اور اس کے زیر سایہ تنظیمیں (NGOs) جو ظاہری طور پر انسانیت کی فوز وفلاح، ترقی اور خدمت میں مصروف عمل دکھائی دیتی ہیں، گزشتہ چند سالوں سے ان کے انسانیت سوز مظالم سے ان کا چھپا ہوا گھناؤنا روپ اب کسی کی نظروں سے اوجھل نہیں رہا، کیونکہ سماجی بہبود کا جو جذبہ ان میں کارفرما ہے، اس کی بنیاد نام ونمود اور دوسروں کے وسائل کو اپنے قبضے میں لے کر اپنے ملکی وقومی مفادات جیسے عزائم ہیں۔ لیکن خدمت انسانیت، سماجی بہبود، رفاہ عامہ اور فلاح انسانیت کے ہم معنی موضوعات اہل اسلام کے لیے نئے نہیں ہیں، بلکہ اس کی علمی اور عملی بنیادیں سرور عالم، غریبوں کے والی، آقاے دو جہاں محمد مصطفی کی سیرت سے ملتی ہیں جن کو عملی شکل دے کر مسلمانوں نے ایک تاب ناک تاریخ رقم کی ہے۔ فاضل مولف ڈاکٹر ہمایوں عباس شمس جو جی سی یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں، کی زیر نظر کتاب ’’سماجی بہبود تعلیمات نبوی کی روشنی میں‘‘ خدمت انسانیت کے لیے ٹھوس فکری وعملی بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ سیرت نبوی کے ایک خاص پہلو یعنی سماجی بہبود کو اس میں موثر انداز سے اجاگر کیا گیا ہے۔ کتاب کے عنوانات کی فہرست حسب ذیل ہے:
باب اول میں رفاہ عامہ اور سماجی بہبود کے معنی ومفہوم اور اس سے متعلق بنیادی امور پر بحث کی گئی ہے۔ باب دوم میں رفاہ عامہ کے سلسلے میں نبی کریم ﷺ کے عملی اقدامات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں دیگر مباحث کے علاوہ معجزات نبوی سے سماجی بہبود کا استخراج ایک دل چسپ پہلو ہے جو مصنف کی تخلیقی سوچ کا آئینہ دار ہے۔ باب سوم میں رفاہ عامہ کی اہمیت قرآن کریم کی روشنی میں بیان کی گئی ہے اور ’کان خلقہ القرآن‘ کو بنیاد بنا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی روشنی میں موضوع کی وضاحت کی گئی ہے۔ باب چہارم میں احادیث کی روشنی میں رفاہ عامہ کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے اور کتب حدیث کے مختلف ابواب کو سماجی بہبود کی بنیاد بتایا گیا ہے، مثلاً باب الاصلاح بین الناس، باب التحذیر من ایذاء الصالحین والضعفۃ والمساکین، باب الاحسان الی الیتیم والارملۃ والمساکین وغیرہ۔ پانچویں اور آخری باب میں سماجی بہبود کے دیگر مختلف پہلوؤں کو تعلیمات نبوی کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ آخر میں سماجی بہبود میں صوفیا کے کردار کا ضمیمہ لگا کر کتاب کی اہمیت کو دوچند کر دیا گیا ہے۔ 
مذکورہ عنوانات کتاب کے موضوع سے گہرے طور پر متعلق ہیں اور مصنف نے ان کو علمی انداز میں موضوع بحث بنایا ہے۔ اس طرح سیرت نبوی کے مطالعہ اور ایک اہم سماجی مسئلے کے حوالے سے فکری تربیت کا یہ حسین امتزاج یہ نہ صرف عام قارئین بلکہ علمی وتحقیقی ذوق رکھنے والے افراد کے لیے بھی دل چسپی کا باعث ہوگا۔ کتاب کے پیغام کو مزید بہتر بنانے کے لیے مناسب ہوگا کہ آئندہ ایڈیشن میں سماجی بہبود کے حوالے سے صحابہ اور علماے سلف کی خدمات کا باب بھی شامل کر لیا جائے۔ اسی طرح عصری تنظیموں کے اہداف ومقاصد اور ان کے کردار کا جائزہ لیتے ہوئے اسلامی تعلیمات سے ان کا موازنہ کیا جائے اور سماجی بہبود کے حوالے سے صوفیا کی خدمات کو مزید مثالوں سے واضح کیا جائے۔ 

اپریل ۲۰۰۵ء

ڈاکٹر مہاتیر محمد کے فکر انگیز خیالاتادارہ 
بلوچستان کا مسئلہپروفیسر شیخ عبد الرشید 
حضرت عمرؓ کی دینی فہم و فراست کے چند نمونےپروفیسر محمد یونس میو 
’’حدود آرڈیننس: کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘ ۔ ’’فکر و نظر‘‘ کے تبصرے کا جائزہڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی 
قانون اسلامی کا ارتقا اور امام ولی اللہ دہلویؒمولانا محمد عیسٰی منصوری 
شیعہ سنی مکالمہ :الشیخ یوسف القرضاوی کے خیالاتڈاکٹر یوگندر سکند 
مکاتیبادارہ 
تعارف و تبصرہادارہ 
’’اجتماعی اجتہاد: تصور، ارتقا اور عملی صورتیں‘‘ کے عنوان پر تین روزہ سیمینارادارہ 

ڈاکٹر مہاتیر محمد کے فکر انگیز خیالات

ادارہ

(ڈاکٹر مہاتیر محمد عصر حاضر میں عالم اسلام کے وہ منفرد سیاسی راہ نما اور مفکر ہیں جو مغربی فلسفہ وثقافت اور عالم اسلام کے بارے میں مغرب کی پالیسیوں اور طرز عمل پر کھلم کھلا تنقید کرتے ہیں اور ملت اسلامیہ کے حقوق ومفادات کے حق میں دو ٹوک بات کرتے ہیں۔ وہ تقریباً ربع صدی تک ملائشیا کے حکمران رہے ہیں اور مسلم ممالک میں رائج نظاموں کے حوالے سے وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے ملائشیا کو معاشی لحاظ سے مغرب کے چنگل سے نجات دلانے میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ آج کے دور میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے لائق تقلید ہے۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی نے ایک کانووکیشن میں ڈاکٹر مہاتیر محمد، جنوبی افریقہ کے قومی لیڈر نیلسن منڈیلا اور اردن کے شہزادہ حسن بن طلال کو ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر اعزازی ڈگری عطا کی ہے۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں ڈاکٹر مہاتیر محمد نے قانون کی حکمرانی اور آج کے عالمی ماحول کے تناظر میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے، وہ عالم اسلام کے دینی وفکری حلقوں کی خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ انھوں نے اسلامی قوانین کے نفاذ میں حائل عملی مشکلات کاذکر کیا ہے جسے یقیناًمغرب اور اس کے نظام سے مرعوبیت کا نتیجہ قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی اسے اسلامی تعلیمات پر یقین اور ایمان کی کمزوری سے تعبیر کرنا انصاف کی بات ہوگی۔ ہمیں ڈاکٹر صاحب موصوف کی تمام باتوں سے اتفاق نہیں ہے، لیکن ہمارے خیال میں جن باتوں کی انھوں نے نشان دہی کی ہے، انھیں عملی مشکلات اور رکاوٹوں کے پس منظر میں دیکھنا ہی قرین قیاس ہوگا جن کا قابل عمل حل پیش کرنا بہرحال دینی وعلمی حلقوں کی ذمہ داری ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے اس خطاب کا اردو ترجمہ جناب عبد الباری رانا نے کیا ہے اور روزنامہ پاکستان اسلام آباد نے ۱۵ مارچ ۲۰۰۵ کو اسے شائع کیا ہے۔ ’’پاکستان‘‘ کے شکریہ کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا خطاب قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔  رئیس التحریر)

سب سے پہلے میں انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جس نے مجھے یہ اعزازی ڈگری دی ہے۔ اگرچہ میں ایک قانون دان نہیں ہوں، لیکن میں نے قانون کا مطالعہ ضرور کیا ہے۔ میں آپ کی اجازت سے قانون کے بارے میں، خاص طور پر قانون کی حکمرانی کے موجودہ حالات کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ 
ابتدائی تہذیبوں کے دور میں قانون سازوں کو سب سے بالاتر سمجھا جاتا تھا۔ بادشاہتوں کی عظمت بھی اسی وجہ سے تھی کہ انھوں نے قوانین عطا کیے تھے جن کی وجہ سے لوگوں میں نظم ونسق قائم کیا جاتا تھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ حمو رابی کے کوڈ پہلے تحریری قانون کے طور پر تسلیم کیے جاتے ہیں جو شاہ حمو رابی نے بنائے تھے۔ دنیا کے بڑے مذاہب نے بھی قوانین بنائے تھے جن کا مقصد معاشرے میں انصاف قائم کرنا تھا۔ بہت سی صورتوں میں قوانین خدا کے عطا کردہ تھے۔ اس سے قبل انسانی معاشروں نے انصاف کو یقینی بنانے کے لیے خود اپنے قوانین تیار کیے۔ یورپ میں برٹش کامن لا اینڈ کوڈ نپولین اس کی مثال ہیں، لیکن یہ بھی ناکام ثابت ہوئے۔ ہم انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے باوجود معاشرے میں انصاف کے قریب نہیں پہنچ سکے۔
ابھی تک نا انصافیوں کے خلاف ضمانت کے طور پر قوانین پر بھرپور اعتماد کیا جاتا ہے اور اس لیے آج بھی ہر ملک میں قانون کی حکمرانی کا بول بالا ہے۔ اگر کوئی ملک قانون کی حکمرانی قائم کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے، اس سے محض نفرت یا مذمت ہی نہیں کی جاتی، بلکہ بعض اوقات حکومت کی تبدیلی کے لیے جنگ اور بغاوت بھی ہو جاتی ہے اور قانون کی حکمرانی نافذ کی جاتی ہے کہ قانون کی حکمرانی کے نفاذ کے لیے جنگ اور تشدد کا راستہ بھی اختیار کرنا پڑتا ہے۔ لیکن انسان کے بنائے ہوئے قوانین اکثر غیر منصفانہ ہوتے ہیں۔ ایک ایسا وقت بھی تھا جب برٹش کامن لا کے تحت کسی شخص کو ایک بھیڑ چرانے پر سولی پر چڑھا دیا جاتا تھا۔ یہ سزا قانون کے لحاظ سے درست تھی، لیکن غیر منصفانہ تھی۔ سپین میں تحقیقات کے دوران تشدد کو قانونی تصور کیا جاتا تھا اور جن لوگوں کو گرفتار کیا جاتا تھا، ان سے تشدد کے ذریعے اقبال جرم کرانے کے بعد زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ یہ بھی قانون کے مطابق درست تھا لیکن غیر منصفانہ تھا۔ برطانوی نو آبادیاتی حکومت کے دور میں مقدمہ چلائے بغیر گرفتار کرنا قانونی تھا اور اس کے لیے قوانین موجود تھے۔ پھر برطانیہ نے آزاد ہونے والی نو آبادیوں پر، جن میں ملائشیا جیسے ملک شامل ہیں، بغیر مقدمہ چلائے گرفتاری کی اجازت کی مذمت شروع کر دی اور اس کا یہ موقف ہے کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ بھی غیر منصفانہ ہے۔ لیکن جب دہشت گردی کے حملے شروع ہوئے تو انھوں نے مشتبہ لوگوں کو بغیر مقدمہ چلائے قید کر دیا اور اس وقت قانون کی حکمرانی کے لیے ان کا شور وغوغا بلا تخفیف جاری رہا۔
اخلاقیات کے بارے میں نسلی امتیاز کے یورپی نظریات، ماسوائے ہم جنسی کے بہت سے یورپی ممالک کے مطابق خوش مزاجی کے حقوق اور جنسی شادیوں کے بارے میں قوانین موجود ہیں، حتیٰ کہ پادری بھی مردوں کو شریک زندگی رکھ سکتے ہیں۔ یہ عمل بھی قانون کی حکمرانی کے مطابق ہے، لیکن کیا یہ اخلاقی لحاظ سے درست ہے؟ یہ بات واضح ہے کہ قانون کی حکمرانی ایک منصفانہ یا اخلاقی لحاظ سے بلند معاشرے کی ضامن نہیں۔ بلاشبہ ہمیں قوانین کی ضرورت ہے، بشرطیکہ ہمیں بادشاہوں، سلطانوں اور آمروں کے رحم وکرم پر نہ چھوڑا جائے۔ لیکن عوام کو نا انصافی سے بچانے کے لیے صرف قوانین ہی کافی نہیں، حتیٰ کہ آزاد جج بھی انصاف کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ جج بھی انسان ہوتے ہیں۔ عام انسانوں کی طرح جج بھی احساسات اور جذبات کے تابع ہوتے ہیں اور ان سے بھی فیصلوں میں غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ جج بھی متعصب ہو سکتے ہیں، سیاسی وابستگیوں اور سیاسی عقائد سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ ملائشیا میں جج سیاسی اثر ورسوخ کے حامل افراد کو رہا کر دیتے ہیں ، اس وجہ سے نہیں کہ انھوں نے جرم کا ارتکاب نہیں کیا، بلکہ پراسیکیوٹرز غلط طریقے سے کیس پیش کرتے ہیں۔
عدلیہ کی آزادی ناگزیر طور پر اہم ہے۔ عدلیہ پر تنقید کے نتیجے میں کسی شخص کو توہین عدالت کے لیے عدالت میں پیش ہونا پڑتا ہے، اس لیے جج غیر جانبدار رہ کر سخت سے سخت سزا دیتے ہیں، کوئی خوف محسوس نہیں کرتے، لیکن اگر جج جان بوجھ کر اور کھل کر تعصب کا اظہار کریں تو وہ ناجائز اور غیر منصفانہ ہے۔ تنقید سے بالاتر ہونے کے نتیجے میں نا انصافیاں کی جاتی ہیں۔ اس وجہ سے عدالتوں کے تین درجے مقرر کیے گئے ہیں تاکہ اپیلیں کی جا سکیں۔ اس کے علاوہ حتمی طور پر رحم کی اپیلوں کی بھی گنجایش رکھی جاتی ہے۔ اس طرح نا انصافی کے امکانات کم ہو جاتے ہیں، لیکن ان اپیلوں پر بھاری رقوم خرچ ہوتی ہیں۔ صاف طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ غریبوں کے مقابلے میں امیروں کو زیادہ انصاف حاصل ہوتا ہے۔ بعض اوقات جج عدالتی نظر ثانی کے نظریے کے تحت خود اضافی اختیارات حاصل کر لیتے ہیں۔ کسی شخص کی طرف سے عدالتوں سے رجوع کیے بغیر بھی کوئی سنیئر جج کوئی کیس نظر ثانی کے لیے طلب کر لیتا ہے۔ اس سے بھی یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ انصاف کو یقینی بنا دیا گیا ہے، لیکن اس سے بھی عوام کی اکثریت سے منتخب ہونے والی حکومت کو، جو معاشرے کے مسائل سے موثر طور پر نمٹ رہی ہو، مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مقدمے بازی سے افراد اور گروپوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا ازالہ ہو جاتا ہے، لیکن ججوں کا امتیاز اس قدر وسیع ہے کہ غیر معقول فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ فیصلے زیادہ اور مزید معقول ہوتے جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مصائب کو کور کرنے کے لیے انشورنس کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے اور انشورنس کی لاگت میں اضافے سے کسی قوم کے معیار زندگی اور مقابلے کی پوزیشن کی لاگت بڑھ جاتی ہے، لیکن ججوں کا اپنے فیصلے کے مجموعی اثرات سے کوئی تعلق نہیں۔ جب تک وہ محسوس کرتے ہیں کہ انصاف کر دیا گیا ہے، اس کے علاوہ ہر چیز غیر ضروری ہے۔ امتیاز اور خود مختاری معاشرت پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
اسلامی قانون، شریعت کیا ہے؟ اس کے نفاذ کے سلسلے میں نا انصافی ہو سکتی ہے۔ یہ اللہ کا قانون ہے، اس لیے یہ مکمل ہے۔ اسلام ایک مذہب ہے، لیکن ہم سب یہ جانتے ہیں کہ اسلام کے پیروکار اس کی تکمیل سے بہت دور ہیں۔ ہم مسلمانوں میں جرائم، مسلمانوں کے درمیان جنگیں اور مسلمانوں میں انتہا سے زیادہ دولت اور انتہا سے زیادہ غربت دیکھتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کو سرعام گناہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ بلاشبہ مسلمانوں کا غیر اسلامی رویہ عام ہے۔ کیا یہ اسلام کی وجہ سے ہے جو کچھ مسلمان آج کر رہے ہیں؟ یقیناًنہیں۔ یہ مسلمانوں کی انسانی کمزوریاں ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اس مثالی زندگی پر کاربند نہیں ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے۔ اسی طرح اسلامی قوانین مکمل ہیں، اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ مسلمانوں کے رویے کی وجہ سے اسلامی قوانین غیر منصفانہ نظر آتے ہیں۔ 
مثال کے طور پر ہم یہ جانتے ہیں کہ جرم کا شکار ہونے والے کو سزا دینا غیر منصفانہ ہے جب تک کہ جرم کا ارتکاب کرنے والے کے خلاف کارروائی نہ کی جائے۔ ایک ایسی لڑکی کی مثال ہی لے لیں جس کے ساتھ زیادتی کی گئی ہو۔ وہ زیادتی کرنے والے کو شناخت کرتی ہے اور مجرم کے خلاف اس کی رپورٹ بھی درج کراتی ہے، لیکن وہ مجرم کے خلاف چار گواہ پیش کرنے سے قاصر ہے تو بعض مسلمان قانون دان اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس نے جھوٹا الزام لگایا ہے اور اس طرح حقائق کو سزا دی جا رہی ہے اور ملزم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا تی۔ دوسری طرف اگر وہ زیادتی کا مقدمہ درج کراتی اور اس کے نتیجے میں کسی بچے کو جنم دیتی ہے تو اسے زنا کا ملزم ٹھہرایا جاتا ہے اور اس کی سزا سنگ ساری قرار دی جاتی ہے۔ کیا ہم اسے اسلامی انصاف قرار دے سکتے ہیں؟ آج کے دور میں جب کہ ڈی این اے ٹیسٹ سے بچے کی ولدیت کی تصدیق کی جا سکتی ہے، کیا ہم ڈی این اے کے ذریعے فراہم کیے جانے والے ثبوت کو نظر انداز کر سکتے ہیں؟ کیا اس طرح اسلامی قانون اس قدر غیر منصفانہ ہے؟ کیا اسلامی قانون فرسودہ ہے؟
قرآن میں جرائم کے ضابطوں اور سزاؤں کو بیان کر دیاگیا ہے، لیکن قرآن میں کئی جگہ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ’’جب تم فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔‘‘ اگر جرم کا شکار ہونے والے کو سزا دی جاتی ہے اور مجرم کو چھوڑ دیا جاتا ہے تو یہ کسی معیار، کسی بھی مذہب کی رو سے غیر منصفانہ ہے اور ایسے فیصلے کو اسلامی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ اسلامی قانون نہیں جو غلط ہے۔ ہم قرآنی آیات کا غلط مطلب اور غلط توضیح کر رہے ہیں جو کہ غلط ہے۔
ملائشیا میں مختلف نسلوں اور مختلف مذاہب کے لوگ آباد ہیں۔ ملائشیا میں قانون کے نفاذ سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہم اسلامی تعلیمات پر کاربند ہیں، لیکن ہمیں اسلام کے تقدس اور مسلمانوں کے غیر مسلموں کے ساتھ تعلق کو ختم کیے بغیر کام کرنا پڑتا ہے۔ ہم یہ سب کچھ یہ تاثر پیدا کیے بغیر کرتے ہیں کہ مسلمان ممالک کا نظام اچھا نہیں، منصفانہ اور شفاف یا مستحکم اور ترقی یافتہ نہیں۔ ہم یہ سب کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ اسلام دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی برداشت کرنے کی تلقین کرتا ہے اور اسلام میں جبر کی کوئی گنجایش نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ مسلمان حکومت سب کے لیے منصفانہ ہے۔ اس لیے ملائشیا میں انصاف پر زور دیا جاتا ہے اور اسلامی قوانین تک ہی انصاف کے تقاضوں کو بالاتر رکھ کر سزائیں نہیں دی جاتیں۔ اگر انصاف کیا جاتا ہے تو یہ اسلامی ہے۔ اگر انصاف نہیں کیا جاتا تو یہ غیر اسلامی ہے۔
چونکہ اسلام بد نظمی سے نفرت کرتا ہے اور جس کام سے بھی بد نظمی پیدا ہو، وہ اسلام کے مطابق نہیں ہو سکتا، اس طرح اگر ایک مسلمان اور ایک غیر مسلم مل کر کوئی ایسا جرم کرتے ہیں شریعت میں جس کی سزا عضو کاٹنا ہے تو اس صورت میں انصاف کے تقاضے اور ملک میں امن وامان کی صورت حال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مسلمان اور غیر مسلم، دونوں کے ہاتھ کاٹنے سے بڑے پیمانے پر غیر مسلموں کی طرف سے احتجاج کیا جا سکتا ہے جس سے ملک میں امن وامان کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے، اس لیے اسلامی تعلیمات کے مطابق عمل کرنا ممکن نہیں۔ دوسری طرف مسلمان کے ہاتھ کاٹ دینا اور غیر مسلم کو معمولی سزاے قید دینا بھی نا انصافی ہوگی اور نا انصافی غیر اسلامی ہوگی۔ اس مسئلے کا اسلامی حل یہی ہے کہ دونوں ملزموں کو یکساں سزا دی جائے، یعنی ہلکی سزائے قید۔ بہت سے مسلمان علما اس معاملے میں بلاشبہ اختلاف کریں گے۔ اسلامی سزا منصفانہ ہو یا غیر منصفانہ، ہر قیمت پر اس پر عمل کیا جائے، ورنہ یہ اسلامی نہیں ہوگی۔ لیکن ہمیں اس نقطہ سے اختلاف ہے۔ اسلامی قانون پر عمل درآمد کے نتیجے میں انصاف ہونا چاہیے اور اس سے ملک میں بد نظمی نہیں پیدا ہونی چاہیے۔
بہت سی ایسی باتیں ہیں جن پر آج ہم عمل کر رہے ہیں، لیکن جو بظاہر اسلامی تعلیمات کے خلاف نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر اسلام انسانوں اور دوسرے جانداروں کی تصاویر بنانے سے منع کرتا ہے۔ اسلامی قانون کے مطابق تصاویر لازماً جیو میٹرک ڈیزائن تک محدود ہونی چاہییں، لیکن آج بیشتر مذہبی علما اپنی تصاویر کی نمائش کرتے ہیں اور ایکشن اور باتیں کرتے ہوئے مووی تیار کراتے ہیں۔ کیا ہم ایسا کرکے اسلامی تعلیمات اور قوانین سے انحراف کر رہے ہیں؟ ہم ایسا نہیں کر رہے۔ تصاویر کے خلاف تعلیمات اس وجہ سے تھیں کہ حضور کے دور میں اہل عرب مورتیوں کی پرستش کرتے تھے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ یہ محض تصاویر ہیں اور ہم ان کی پرستش نہیں کرتے، اس لیے اگر ہم تصاویر بنا رہے ہیں اور ان کی پرستش نہیں کرتے تو ہم قرآنی تعلیمات سے انحراف کر کے کوئی گناہ نہیں کر رہے ہیں۔ آج کے دور میں تصاویر بنانے اور ان کی نمایش کرنے سے ہم کسی طرح بھی گریز نہیں کر سکتے۔ ماضی کے دور میں جب تصاویر پینٹ کی جاتی تھیں تو اس وقت ان تصاویر پر پابندی لگانا ممکن تھا۔ فوٹو گرافی پر پابندی لگانا نہیں، اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ تصاویر کی پرستش نہ کی جائے۔ یقیناًایسی تصاویر کی ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیے جنھیں خدا یا حضور سے مشابہت دی گئی ہو۔ 
ہم اکیسویں صدی عیسوی میں رہ رہے ہیں۔ ساتویں صدی میں جو چیزیں تھیں، وہ قطعی طور پر تبدیل ہو گئی ہیں۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو آج روز مرہ کا معمول ہیں، لیکن چودہ سو سال پہلے ان کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ہم میں سے بعض لوگ اسلام کی پہلی صدی کے حالات کو پیدا کرنا چاہتے ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صرف اسی ماحول میں سچے مسلمان بن سکتے ہیں۔ ایسا کرکے وہ اسلام کی تکذیب کر رہے ہیں۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام کا قانون اور تعلیمات صرف چودہ سو سال پہلے کے معاشرے کی مناسبت سے تھے اور وہ موجودہ دور کے تقاضوں کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ اسلام تمام زمانوں کے لیے ہے۔ اگر آج ہم اسلامی تعلیمات کو سمجھنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو یہ ہمارا قصور ہے۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات کا مطالعہ کریں اور انھیں پوری طرح سمجھیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ اسلامی تعلیمات پر کاربند رہنا ممکن ہے اور اس پر موجودہ دور کے حالات زندگی کے مطابق عمل کر سکتے ہیں۔ ہم اسلامی قانون کی حکمرانی پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ ہم اس کی توضیح ضابطوں اور سزاؤں تک ہی نہ کریں، بلکہ اس کے بجائے اس بات کا خیال رکھیں کہ یہ انصاف کے حصول کا ضامن ہو۔ اگر ضروری ہو تو ہم اس کی ہیئت کو نظر انداز کر کے اس کی روح پر عمل کریں اور اسلامی قانون کی روح انصاف ہے۔ ضابطے اور سزائیں اس کی اقسام ہیں اور اسے لازماً تمام قوانین پر لاگو ہونا چاہیے جو بیان کردہ ہوں یا انسان کے بنائے ہوئے ہوں۔ انصاف کی حکمرانی ہی اہم ہے۔

بلوچستان کا مسئلہ

پروفیسر شیخ عبد الرشید

بلوچستان کا مسئلہ اس وقت وفاق پاکستان کو درپیش ایک نہایت حساس اور نازک معاملہ ہے۔ اس مسئلے کے حقیقی اور ممکنہ محرکات کوئی پوشیدہ راز نہیں، بلکہ بہت حد تک ظاہر، قابل فہم اور لائق توجہ ہیں۔ بلوچستان، پاکستان کا سب سے بڑا اور سب سے پس ماندہ صوبہ ہے جو معدنی وسائل سے مالامال مگر بڑی حد تک مراعات سے محروم وفاقی اکائی کی شناخت رکھتا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے اہم محل وقوع کا حامل اور تہذیب وثقافت کا مرکز یہ علاقہ گزشتہ دو صدیوں سے بد قسمتی کا شکارہے۔ سامراجی آقاؤں، مستبد وقاہر حکمرانوں اور مفاد پرست سرداروں کی کشمکش کی چکی میں پستے پستے آج بلوچی عوام بے حالی کے مقام پر آ گئے ہیں۔ ظہور پاکستان کے وقت سے ہی خارجی قوتوں کے کردار، اسلام آباد کی مرکزیت پسند حکمرانی اور اختیار واقتدار کے لیے قبائلی سرداروں کی سودے بازی کی فضا میں بلوچی عوام اپنی محرومی اور پس ماندگی کے جنگل میں گم کردہ راہ مسافر کی طرح ہیں اور نہ معلوم کب تک ایسے ہی رہیں گے۔ 
بلوچستان کی شکایات ومطالبات نئے نہیں، لیکن انھیں سازگار فضا موجودہ عالمی حالات نے فراہم کی ہے۔ دیکھتی آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ اگر طالبان کے خلاف عالمی جنگ میں صوبہ سرحد کی ایک خاص اہمیت تھی تو اب نئے منظر میں ایران کے خلاف کھولے جانے والے محاذ پر بلوچستان کا حساس جغرافیہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مرکز سے ارتکاز اختیارات کی شکایات بھی پرانی ہیں، مگر لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ زیادتی کے واقعہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ پاکستان کے دامن پر بنگالی خواتین کی عزتوں کی پامالی کے داغ ابھی دھلے نہیں تھے کہ ڈاکٹر شازیہ کی بے حرمتی کا شرم ناک واقعہ رونما ہو گیا۔ بلوچستان کی تاریخ وتہذیب سے آشنا جانتے ہیں کہ بنات حوا کی حرمت بلوچی روایات کا نازک معاملہ ہے جسے جدیدیت کے حامل لبرل روشن خیال شاید اس طرح نہیں سمجھتے۔ اس پہلو کو پیش نظر رکھ کر دیکھا جائے تو یہ واقعہ اتفاقی نہیں دکھائی دیتا۔ کوئی نادیدہ قوت ہے جس نے تقدس کے لبادے میں محرومیوں کے بارود میں جلتی تیلی پھینک دی ہے۔ یہ سب کچھ جیسے ہوا، وہ اپنی جگہ، مگر مقدس ادارے سے وابستہ ملزم کو اب تک جس طرح تحفظ فراہم کیا گیا ہے، اس سے وفاق کے دوسرے صوبوں کے عوام بھی حیران رہ گئے ہیں۔
بے شک بلوچستان میں قومی وسائل پر حملے ناقابل برداشت ہیں، مگر کہیں یہ کسی کی برداشت کا امتحان لینے کا نتیجہ تو نہیں؟ اب تک دونوں اطراف سے جو کچھ ہوا، اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ وہ آنکھیں صحیح صورت حال سے بے خبر ہیں جو ملک کے معاملات کا فیصلہ کر رہی ہیں۔ اعتدال پسند وروشن خیال صدر مملکت نے بلوچستان کے معاملہ پر تند وتیز لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ’’بلوچ قوم پرستوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ یہ ۷۰ کی دہائی نہیں ہے۔ انھیں پتہ بھی نہیں چلے گا کہ انھیں کیا چیز آ کر لگی ہے۔‘‘ یہ لب ولہجہ وفاقیت کے تقاضوں کے برعکس تھا۔ مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن وفاق کی روح کو گھائل کر چکا تھا، اس لیے عوامی حلقوں نے تنقید کی تو جناب صدر نے ’’حکیمانہ سکوت‘‘ اختیار کر لیا۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ بندوق کی گولی یا تحکمانہ سکوت، دونوں ہی الجھی ہوئی گتھیوں کو نہیں سلجھا سکتے۔
پاکستان آرمی پہلے بھی کئی دفعہ بلوچستان میں کارروائیاں کر چکی ہے۔ سب سے پہلے مارچ ۱۹۴۸ میں جب ریاست قلات کا الحاق پاکستان سے ہوا تو پرنس عبد الکریم نے اس کی مخالفت کی جس کو کچلنے کے لیے فوج یہاں آئی۔ پھر اکتوبر ۱۹۵۸ میں زہری قبائل کی کشاکش ختم کرنے کے لیے فوج کو تعینات کیا گیا۔ ایوب دور میں قبائلیوں سے جھڑپیں جاری رہیں۔ اس کے خاتمے پر بگتی قبیلے سے متعدد تصادم ہوئے۔ ایوبی دور میں کوشش کی گئی کہ بلوچستان کے دانش وروں کو حکومت کا حامی بنایا جائے۔ اس کے لیے ثقافتی وادبی تنظیموں کی سرکاری سرپرستی کی گئی۔ ۱۹۶۱ میں بلوچی اکیڈمی قائم کی گئی مگر ’’دی بلوچی براہوی زبان تحریک پاکستان میں‘‘ ٹی رحمان کے بیان کے مطابق مذکورہ کوششیں ناکام ہو گئیں کیونکہ نوزائیدہ پیشہ ور طبقہ پرنس عبد الکریم کی استامان گال (پیپلز پارٹی) کا حامی تھا۔ یہ پارٹی انجام کار نیپ میں مدغم ہو گئی۔ بلوچستان کا نسلی اور لسانی اختلاط ۱۹۷۱ میں ون یونٹ کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ 
ذو الفقار علی بھٹو نے ۱۹۷۱ کے بعد کی داخلی سیاست میں بھی فوج پر انحصار جاری رکھا۔ بنگلہ دیش کے سانحہ کے بعد فوج پھر جدید اسلحہ سے لیس ہو کر بحال ہو چکی تھی۔ R.G. Wirsing اپنی کتاب "The Balochis and Pathans" میں لکھتے ہیں کہ بھٹو نے یونیفارم میں ملبوس افراد کو پھر سیاست میں واپس آنے کی ترغیب دی۔ ۱۹۷۳ سے ۱۹۷۶ تک پچاس لاکھ سے بھی کم اور بکھری ہوئی آبادی والے صوبے میں ۸۰ ہزار فوجی جوانوں کو قبائلی اور صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کرنے والے باغیوں سے نمٹنے کے لیے رکھا گیا۔ قوت کا یہ استعمال جائز مطالبات کو وحشیانہ طریقے سے دبانے کا عمل تھا جس نے علاقائی مخالفت کو جنم دیا اور قومی یک جہتی کو نقصان پہنچایا۔ 
بلوچستان میں پنجابیوں اور پختونوں کی آمد نے مقامی لوگوں کے احساس تشخص کو مجروح کیا۔ بلوچی دانش ور پاکستانی ریاست میں بلوچوں کی کم تر نمائندگی پر انگشت نمائی کرتے تھے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ ان کے قدرتی وسائل مثلاً گیس وغیرہ سے استفادہ کرتے ہوئے ان کو استحصال کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر مقامی آبادی کو سہولت پہنچانے اور بلوچوں کے مفادات کے تحفظ کے بجائے فوجی نقطہ نظر سے کی جاتی ہے۔ ۱۰ فروری ۱۹۷۳ کے بعد بلوچستان میں قبائلی بغاوت ایک بڑے عسکری تصادم میں تبدیل ہو گئی۔ بلوچستان پیپلز لبریشن فرنٹ میں ۶۰ ہزار کے قریب عسکریت پسند شامل ہو گئے۔ محاذ آرائی کے عروج کے دور میں پاکستان ایئر فورس کی مدد شاہ ایران نے کی جو خود بھی اپنے بلوچ مسئلے پر پریشان تھے۔ بلوچ قبائل ایران کی آبادی کا ۲ فی صد ہیں، لیکن چار باہر کے بحری اور فضائی اڈوں کی تعمیر کے علاوہ ہرمز کے علاقے سے خلیج عمان کو تیل کی ترسیل نے بلوچ قبائل کو اہم بنا رکھا ہے۔ امریکی تجزیہ نگار Slaig Harrison نے اپنے مضمون "Baloch Nationalism and Super Power Rivalry" میں اس وقت ۷۰ کے عشرے میں سوویت خطرے کو غیر ضروری طور پر محسوس کیا تھا۔ فوج اور باغیوں کی لڑائی میں نو ہزار افراد مارے گئے۔ اس دہائی میں فوج کے متحرک کردار کے حوالے سے بھٹو نے موت کی کوٹھڑی میں اپنی آخری تحریر "If I Am Assasinated" میں دعویٰ کیا کہ بلوچستان سے واپسی کے ان منصوبوں کو فوج نے نظر انداز کر دیا کیونکہ جرنیل پورے بلوچستان میں اپنا جال بچھانا چاہتے تھے۔ بعد ازاں بلوچستان اسمبلی کی حیات نو بھی فوج کے جن کو بوتل میں قید نہ کر سکی۔ بھٹو نے اپنے بعد آنے والوں کو بتا دیا تھا کہ شورش زدہ علاقوں میں امن وامان بحال رکھنے کا درست طریقہ ترقیاتی کام ہیں۔ ۸۰ کے بعد کے عشروں میں صوبے کے زخم بھرنے کے لیے مرہم رکھے گئے اور حالات معمول پر آ گئے۔
آج ایک مرتبہ پھر بلوچستان کی صورت حال افواہوں کی زد میں ہے۔ ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ افواہیں بے یقینی کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں، مگر جب کوئی قوم یا ملک ان کی زد میں آ جائے تو سمجھ لیجیے کہ معاشرے میں جگہ جگہ ٹائم بم نصب ہو گئے ہیں جن کے پھٹنے سے سب کچھ تلپٹ ہو کر رہ جائے گا۔ اسی نازک دوراہے پر اعتدال پسندی کا اصل امتحان ہے۔ افواہ زدہ قوموں کو تعمیراتی منصوبوں یا میگا پراجیکٹس کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ تو سنسنی خیز افواہوں کی منتظر ہو کر رہ جاتی ہے۔ بلوچستان کے مسئلے کو جس طرح حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ مزید بہتری کی متقاضی ہے۔ حکمرانوں کی توجہ، ریاضت، اعتدال پسندی، رواداری، تدبر وفراست اور عوام کی اقتدار میں حقیقی معنوں میں شراکت ناگزیر ہے۔ مرکزیت اور اختیارات کا شخصی ارتکاز قومی یک جہتی کا شعور بیدار نہیں کر سکتا۔ 
وقت کے مسیحاؤں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ قوم وملت کے معمار دھیمے، محکم اور پختہ فکر ہوتے ہیں۔ ہمیں خوش فہمیوں کے گھروندوں سے باہر نکل کر سچ سننا اور سچ کہنا ہوگا۔ یہ امر باعث تشویش ہے کہ قومی یکجہتی اور اتحاد کی ضامن قوتیں پورے ساز وسامان اور بے حد وحساب وسائل کے باوجود مختلف محاذوں پر بٹی ہوئی ہیں۔ وانا سمیت ہم اپنے ہی وطن میں کتنے محاذ کھول کر لڑ سکیں گے؟ گولی مسائل کا حل کبھی نہیں بنی، بلکہ ہمیشہ مسائل کو ضرب دینے کا ذریعہ ثابت ہوئی ہے۔ طوفان پھولوں کو تو تباہ کر سکتا ہے، لیکن کیا اس سے بیج بھی برباد کیے جا سکتے ہیں؟ لازم ہے کہ وفاق کی اکائیوں کو فوجی کارروائیاں نہ ہونے کی ضمانت دی جائے، اس لیے کہ سیاسی مسائل کبھی فوجی طریقے سے حل نہیں ہو سکتے۔
بلوچستان کے مسئلے کی سنجیدگی اور ماوراے آئین تشدد آمیز ہتھکنڈوں کے نتیجے میں اصلاحاتی پیکجوں کی زکوٰۃ مستقل، پائیدار اور مناسب حل نہیں۔ اس سے ہم وفاق کی دیگر اکائیوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ کیا یہ کہ بنیادی حقوق، سہولتوں اور مراعات کے حصول کے لیے دوسرے صوبوں کو بھی یہی طریقہ اختیار کرنا ہوگا؟ قلیل المدت حوالے سے مسائل کے اونٹ کے منہ میں اصلاحاتی پیکجوں کا زیرہ اپنی جگہ، مگر جب تک ملک میں شراکتی جمہوریت کا سچا، کھرا اور دیانت دارانہ نفاذ نہیں ہو جاتا، معاملات ایسے ہی رہیں گے اور صوبوں میں تحفظ کا احساس پیدا نہیں ہو گا۔ 
یہ حقیقت تسلیم کر لینے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے کہ وفاق پاکستان کو درپیش مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ پاکستان میں فوج کا سیاسی کردار ہے۔ فوج اور انتظامی شعبوں میں پنجاب کی بالادستی کے خلاف علاقائیت کا رد عمل نصف صدی سے موجود ہے۔ اس غلبہ کے متعلق سنجیدہ مگر کھلا مباحثہ وقت کا ایک اہم تقاضا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کا خمیازہ پنجاب کو دوسری اکائیوں کی ناراضی کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے، حالانکہ پنجابیوں کی کثیر تعداد اس ’’پنجاب‘‘ سے آشنا نہیں جس سے سارا ملک ناراض ہے۔ اب وفاق میں اس ’’پنجاب ‘‘ کے کردار پر تدبر وتفکر ضروری ہو گیا ہے جس میں خود پنجابیوں کی بھی ایک بڑی تعداد نہیں رہ رہی۔ مگر یہ ساری سوچ بچار بامقصد، منظم اور باشعور عوامی سیاسی قوتوں کے ذریعے سے ہو، تب ہی خوش گوار تبدیلی ممکن ہوگی۔ حقیقت پسندی کے بغیر اعتدال پسندی خام خیال سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ سیاسیات کے ماہرین کا یہ کہنا غلط نہیں کہ وفاقیت اور جمہوریت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ شراکتی جمہوریت وفاق کی لازمی شرائط میں سے ہے۔ اقتدار واختیار کا ایک شخص، ایک ادارے یا ایک طبقے یا ٹولے تک محدود ہو کر رہ جانا وفاق کے لیے زہر قاتل ہے۔ حد سے زیادہ مرکزیت کی روک تھام نہ کی جائے تو یہ نظام یا تو وحدانی صورت اختیار کر لیتا ہے جیسا کہ سوویت یونین میں ہوا تھا، یا اگر صوبے اور اکائیاں ماورائے آئین مزاحمت پر اتر آئیں جیسا کہ ۱۹۷۱ میں جنرل یحییٰ کے دور میں ہوا تو وفاقی نظام خود ہی اپنے ہاتھوں تباہ ہو جاتا ہے، یا پھر علاقائیت نمو پا کر اس صورت میں ظاہر ہوتی ہے جس طرح یوگو سلاویہ کی تقسیم کی صورت میں ہوئی۔ ۶۰ کے عشرے میں نائیجریا میں بیافران کا بحران (Biafran Crisis) بھی ایسے ہی حالات ومسائل کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان میں وفاقیت کو درپیش مسائل کا حقیقت پسندانہ مطالعہ ضروری ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو طویل المدت منصوبے کے طور پر دھڑا دھڑ سکالر شپس دینے کے ساتھ ساتھ مختلف جامعات میں پاکستان کو درپیش مسائل کے حوالے سے سنجیدہ تحقیق کروانے کا بھی بندوبست کرنا چاہیے تاکہ تعلیمی وظائف قومی مفاد میں استعمال ہو سکیں۔ بالخصوص وفاقیت کے حوالے سے چاروں صوبوں میں اکیڈمک ریسرچ اشد ضروری ہے۔
وفاقیت کے تقاضے حقیقی معنوں میں ذہنی، فکری اور عملی اتحاد ویگانگت ہیں۔ ہمیں ذاتی مفادات، نجی تحفظات، صوبائی تعصبات اور قوم پرستانہ شبہات کو پس پشت ڈال کر ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے نعرے کو عملی شکل دینا ہوگی اور اس کے لیے اجتماعی دانش کو بروئے کار لانا ہوگا۔ آج ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے جس میں ہر فریق اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرے۔ سیاست دان سیاست کریں اور فوج، فوج بن کر رہے۔ ہر کسی کو آئینی حقوق ملیں، مرکز وفاق کا محافظ ہو اور صوبے وفاقیت کے علم بردار بن جائیں۔ ورنہ امریکی تھنک ٹینک آنے والے عشرے میں وفاق پاکستان کے حوالے سے درست اشارے نہیں دے رہے۔ ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہر کوئی اس نیک کام کے لیے تیار ہے۔ بس ان کی آمادگی کی ضرورت ہے جنھوں نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔

حضرت عمرؓ کی دینی فہم و فراست کے چند نمونے

پروفیسر محمد یونس میو

حضرت عمرؓ کے دور میں بکثرت فتوحات ہوئیں جن کے نتیجے میں مسلمانوں پر مال ودولت کے خزانے کھل گئے اور مسلمانوں کا ایسی تہذیبوں اور تمدنوں سے پالا پڑا جن سے وہ پہلے واقف نہ تھے۔ لہٰذا ناگزیر ہوا کہ خلیفہ دوم ان نئے تہذیبی اور ارتقائی حالات کا مقابلہ ایسے متبادل اصولوں سے کرتے جو اسلامی شریعت اور اس کے عمومی اصولوں ہی سے ماخوذ ہوں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے زندگی کے تمام پہلوؤں میں، خواہ وہ سیاسی ہوں یا اقتصادی، معاشرتی ہوں یا قانونی، ایسی تبدیلیاں روشناس کر ائیں جو ایک طرف امت مسلمہ کی ضرورتوں اور مصلحتوں کو پورا کریں اور دوسری طرف معاشرے کو اسلام کے بنیادی تقاضوں سے بھی دور نہ ہونے دیں۔ 
خلفائے راشدین میں سے حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ خاص طور پر مسائل شریعت کی نسبت سے ہمیشہ مصالح اور اسباب وعلل پر غور کرتے تھے اور اگر کسی بات کی حکمت ان کی گرفت میں نہ آتی تو حضور سے دریافت کرتے تھے۔ شاہ ولی اللہ نے احکام شریعت کے مصالح اور حکمتوں کے اس خاص علم کو ’’علم اسرار دین‘‘ کا نام دیا ہے اور ان کی معروف کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کا موضوع یہی علم ہے۔ مولانا شبلی نعمانی فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے علم اسرار دین کی بنیاد ڈالی۔ یہاں ایک حدیث کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے حضرت عمر کو جنت کے ایک محل میں اس حالت میں دیکھا کہ وہ لمبی چوڑی قمیض پہنے ہوئے ہیں۔ آپ نے ان کو اپنا پس خوردہ دودھ بھی عطا کیا اور ان دونوں واقعات کی تعبیر دین اور علم کے ساتھ فرمائی۔
خلیفہ اول حضرت ابوبکر حضور سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور سے سنا کہ آپ فرماتے تھے کہ ’’عمرؓ سے بہتر شخص پر کبھی سورج طلوع نہیں ہوا۔‘‘ ابوبکرؓ وعمرؓ انبیاء مرسلین کو چھوڑ کر بوڑھے اہل جنت کے سردار ہیں۔ حضرت علی کی موقوف روایات میں ہے کہ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے پروردگار کی تین مقامات پر موافقت کی: مقام ابراہیم، حجاب اور اساریٰ بدر۔ یہ تینوں موافقات عمر میں شامل ہیں۔ مولانا سید احمد رضا بجنوری نے ’’انوار الباری‘‘ میں اٹھائیس موافقات عمر کا ذکر کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب ’’ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء‘‘ میں ایک سو بارہ آیات کی شرح فرمائی ہے جس میں شیخین کے فضائل ومناقب بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے بہت سی آیات کا تعلق موافقات عمر سے ہے۔ مثال کے طور پر نماز باجماعت کے لیے اذان کا طریقہ اور منافقوں کی نماز جنازہ سے ممانعت اس سلسلے کی دو اہم مثالیں ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ اگر حضرت عمر کسی معاملہ میں یہ کہتے کہ ’’میرا اس کی نسبت یہ خیال ہے‘‘ تو ہمیشہ وہی پیش آتا تھا جو ان کا گمان ہوتا تھا۔ اس سے زیادہ اصابت رائے کی دلیل اور کیا ہوگی۔
یہاں ہم شریعت اسلامی کی تعبیر میں حضرت عمرکے اسلوب اور ان کے طریقہ اجتہاد کی چند مثالیں ذکر کریں گے:
۱۔ جزیہ وہ سالانہ ٹیکس ہے جو اسلامی ریاست میں بسنے والے غیر مسلموں پر عائد کیا جاتا ہے جس کے عوض میں ریاست ان کی جان ومال اور آبرو کی حفاظت کی ذمہ دار قرار پاتی ہے۔ جزیہ کے بارے میں بنی تغلب کے نصاریٰ کی ایک مخصوص حیثیت رہی ہے۔ بنی تغلب زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہو گئے تھے۔ حضرت عمرؓ نے انھیں دعوت اسلام دی جسے انھوں نے قبول نہیں کیا۔ پھر انہیں جزیہ ادا کرنے کے لیے کہا گیا تو اس سے بھی انکار کر دیا اور اس کو انھوں نے اپنی ذلت خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم عرب ہیں، ہم سے وہی لو جو زکوٰۃ کے نام پر تم آپس میں ایک دوسرے سے لیتے ہو۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں کسی مشرک سے زکوٰۃ نہیں لے سکتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے بعض افراد رومیوں سے جا ملے۔ اس پر نعمان بن زرعہ نے کہا، اے امیر المومنین! یہ طاقتور اور بہادر لوگ ہیں اور عرب ہیں، اس لیے جزیہ دینے میں اپنی ذلت محسوس کرتے ہیں، لہٰذا ان سے ایسا سلوک نہ کریں جس سے یہ دشمنوں کے مددگار بن جائیں۔ آپ ان سے زکوٰۃ کے نام پر جزیہ لے لیں۔ چنانچہ حضرت عمر نے ان کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا اور ان پر زکوٰۃ دوگنی کر کے عائد کر دی۔ حضرت عمر کا یہ فیصلہ اسی طرح جاری رہا اور صحابہ میں سے کسی نے اس پر اعتراض نہ کیا۔ اب یہ واضح ہے کہ غیر مسلموں سے زکوٰۃ نہیں، بلکہ بعض مراعات کے بدلے میں جزیہ لیا جاتا ہے، لیکن حضرت عمر نے ایک قومی ضرورت کے پیش نظر جزیہ کا عنوان بدل کر ’زکوٰۃ‘ رکھ دیا۔
۲۔ سیدنا عمر دینی احکام ورسوم کی حفاظت کے سلسلے میں بھی ازحد محتاط اور حساس تھے۔ آپ ’’حجر اسود‘‘ کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے اور تیرے اختیار میں زندگی ہے نہ موت، لیکن تیری تعظیم ہم اس لیے کرتے ہیں کہ حضور نے تجھے بوسہ دیا تھا۔‘‘ آپ نے اس درخت کو کٹوا دیا جس کے نیچے ’’بیعت رضوان‘‘ کی گئی تھی تاکہ لوگ عقیدت کے طور پر اس سے رجوع نہ کریں۔ مسجد نبوی میں منبر تعمیر ہونے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے ایک درخت سے ٹیک لگا کر آپ خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ اس درخت سے لوگوں کی جذباتی وابستگی کے پیش نظر آپ نے اس کو کٹوا دیا۔ درختوں کو کاٹنا بظاہر غیر مناسب اور غیر ضروری نظر آتا ہے، لیکن حضرت عمر کی بصیرت کا تقاضا یہی تھا کہ آئندہ یہ شریعت اسلامی کے محکمات میں رختہ کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ آپ نے ان راستوں کو ہی بند کر دیا جن سے برائی اور گمراہی کا صدور ہو سکتا تھا۔
۳۔ حج ہر صاحب استطاعت مرد وزن پر زندگی میں ایک بار فرض ہے، البتہ عورت پر فرضیت حج کی ایک مزید شرط یہ ہے کہ اس کے ساتھ جانے کے لیے کوئی محرم رشتہ دار موجود ہو۔ حضرت عمر نے ازواج مطہرات کو حج کی اجازت دی اور ان کے ساتھ حضرت عثمان اور حضرت عبد الرحمن بن عوف کو بھیجا۔ معلوم ہوا کہ اگر محرم موجود نہ ہو لیکن ایسے قابل اعتماد رفقا میسر ہوں تو عورت ان کے ساتھ حج کے لیے جا سکتی ہے۔ آج بھی ایسی صورت حال میں اس واقعے کو مثال بنا کر بہت سی ایسی خواتین جنھیں کسی محرم کی رفاقت میسر نہ ہو، حج کی سعادت حاصل کر سکتی ہیں۔
۴۔ ابو عبیدہ بن الجراح نے حضرت عمر کو لکھا کہ ایک شخص نے زنا کا اعتراف کیا ہے۔ حضرت عمر نے ان کو جواباً تحریر کیا کہ اس شخص سے دریافت کیا جائے کہ کیا اسے زنا کی حرمت کا پتہ ہے۔ اگر وہ اقرار کرے تو حد جاری کر دی جائے، ورنہ اسے بتایا جائے کہ یہ ایک حرام فعل ہے۔ اگر اس کے بعد وہ پھر ارتکاب کرے تو اس پر حد جاری کی جائے۔
اسی طرح ایک مرتبہ ایک عورت حضرت عمر کے پاس لائی گئی جو صحرا میں پیاسی تھی۔ اس نے ایک چرواہے سے پانی مانگا۔ چرواہے نے پانی دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ پانی اسی صورت میں مل سکتا ہے کہ تم مجھے اپنے ساتھ بدکاری کی اجازت دے دو۔ اس نے اللہ کا واسطہ دیا لیکن چرواہے نے انکار کر دیا۔ جب عورت کے لیے پیاس ناقابل برداشت ہو گئی تو اس نے چرواہے کو اپنے اوپر قدرت دے دی۔ حضرت عمر نے یہ صورت حال معلوم ہونے پر اس عورت سے حد ساقط کر دی۔
۵۔ عہد فاروقی کا مشہور واقعہ ہے کہ قحط سالی کے زمانے میں آپ نے حد سرقہ ساقط کر دی تھی اور فرمایا تھا کہ قحط کے سال میں قطع ید نہیں کیا جائے گا کیونکہ بھوک نے لوگوں کو سرقہ پر مجبور کر دیا ہے۔ 
حاطب ابن ابی بلتعہ کے غلاموں نے قبیلہ مزینہ کے ایک شخص کی اونٹنی چرا لی۔ ان غلاموں کو جب حضرت عمر کے پاس لایا گیا تو انھوں نے چوری کا اقرار کر لیا جس پر حضرت عمر نے کثیر بن ابی الصلت کو حکم دیا کہ ان غلاموں کے ہاتھ کاٹ دو۔ لیکن کثیر جب حکم کی تعمیل کرنے لگے تو آپ نے غلاموں کو واپس بلا لیا اور فرمایا: ’’یاد رکھو! بخدا، اگر مجھے یہ معلوم نہ ہوتا کہ تم لوگ غلاموں سے خوب کام لیتے ہو اور ان کو بھوکا رکھتے ہو، یہاں تک کہ اگر کوئی مجبور ہو کر حرام چیز کھالے تو وہ بھی حلال ہو جائے تو میں یقیناًان کے ہاتھ کاٹ ڈالتا۔‘‘ اس کے بعد مزنی سے پوچھا کہ اونٹنی کی قیمت کیا ہوگی؟ اس نے جواب دیا کہ چار سو درہم۔ آپ نے غلاموں کے آقا حاطب کو حکم دیا کہ وہ اونٹنی کے مالک کو چار سو درہم ادا کریں۔
امام احمد بن حنبل سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ اگر لوگ بھوک سے دوچار ہوں اور کوئی شخص مجبور ہو کر چوری کر لے تو کیا اس وقت بھی اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا؟ امام احمد نے غالباً حضرت عمرؓ ہی کے فیصلے کے پیش نظر فرمایا کہ جب اس کو حالت مجبور کرے اور لوگ بھوک اور سختی کے دور سے گزر رہے ہوں تو چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔
یہ تمام واقعات سرسری نظر سے گزر جانے کے نہیں ہیں، بلکہ غور وفکر کر کے ان کی روح تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ قرآن وحدیث سے اور بھی بہت سے دلائل دیے جا سکتے ہیں جن سے حالات زمانہ اور لوگوں کے مصالح کی رعایت کا ثبوت ملتا ہے۔ مولانا تقی امینی نے اپنی کتاب میں اس بارے میں بڑی مفصل اور مدلل بحث کی ہے۔ اس سلسلے میں نزول قرآن کے اسلوب سے بھی استدلال کیا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم کا نزول دفعۃً نہیں ہوا بلکہ ۲۳ سال کے عرصے میں حسب ضرورت ومصلحت بتدریج نازل ہوا ہے، یعنی جیسی جیسی ضرورتیں پیش آئیں اور جس طرح کے مصالح کی رعایت ناگزیر ہوئی، ان کی مناسبت سے احکام کا نزول ہوتا رہا۔ اس طریق نزول سے ایک طرف حالات وزمانہ کی رعایت کا ثبوت ملتا ہے تو دوسری طرف انسانی زندگی اور قانون کے باہمی ربط کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ 
حضرت عمر نے حالات وزمانہ کی رعایت، موقع ومحل کی تعیین، تقدیم وتاخیر، تخصیص وتعمیم اور اطلاق وتقیید کی بہت سی مثالیں قائم کیں جن کی مدد سے بعد میں فقہ کی تدوین کے عظیم الشان کام کا انجام پانا ممکن ہوا۔ آپ نے مشکل مسائل کے استنباط، نئے مسائل کے حل اور معارض روایات میں تطبیق پیدا کر کے شریعت کو زندہ وجاوید رکھنے کا راستہ متعین کر دیا۔ شاہ ولی اللہ نے حضرت عمر کے اسی فہم دین پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انھوں نے ملکی اور تمدنی مسائل کی طرف خصوصی توجہ مبذول کی جن کی وجہ سے وہ بجا طور پر ’’مجتہد مستقل‘‘ کے خطاب کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی نے ’’الفاروق‘‘ میں لکھا ہے کہ فقہ کے جس قدر مسائل حضرت عمرؓ سے بروایت صحیحہ منقول ہیں، ان کی تعداد کئی ہزار تک پہنچتی ہے۔ ان میں تقریباً ہزار مسائل ایسے ہیں جو فقہ کے مقدم اور اہم مسائل ہیں اور ان تمام مسائل میں ائمہ اربعہ نے ان کی تقلید کی ہے۔ کتب فقہ میں اولیات عمر کی بحث انہی مسائل سے متعلق ہے۔ مولانا شبلی نے بجا فرمایا ہے کہ فقہ کے تمام سلسلوں کے مرجع حضرت عمر ہیں۔ حضرت عمر کے اجتہادات، فتاویٰ ، تفحص احادیث، روایات کی جانچ پڑتال، اصول فقہ، اصول حدیث اور علم اسرار الدین کے حوالے سے یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ ’’فقہ اسلام‘‘ کی بنیاد اور وجود فقہ عمر سے ہی قائم ودائم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت عمر کے نقوش اجتہاد کی روشنی میں عصر حاضر کے جدید تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے فقہ اسلامی کی تشکیل جدید پر توجہ مرکوز کی جائے اور حالات وواقعات کی رعایت رکھتے ہوئے خلق خدا کے حق میں اسلامی احکام ومسائل کی تعبیر کا وہی طریقہ اختیار کیا جائے جو خود شارع اسلام اور آپ کے بعد حضرت عمر اور حضرت علی نے اختیار کیا۔ 

’’حدود آرڈیننس: کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘ ۔ ’’فکر و نظر‘‘ کے تبصرے کا جائزہ

ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی

فکر ونظر کے شمارہ اکتوبر۔دسمبر ۲۰۰۴ میں راقم کی کتاب ’’حدود آرڈیننس: کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘ پر ادارۂ تحقیقات اسلامی کے نامور محقق جناب ڈاکٹر محمد طاہر منصوری کا انتہائی وقیع تبصرہ شائع ہوا جس میں جہاں انھوں نے راقم کی حقیر کاوش کو دل آویز انداز میں سراہتے ہوئے اس کا تفصیلی تعارف پیش کیا، وہاں بعض مباحث پر اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ علوم اسلامیہ سے وابستہ دیگر افراد کی طرح راقم بھی طویل عرصے تک یہی سمجھتا رہا کہ حدود آرڈیننس کتاب وسنت سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہوگا اور کبھی اس کے مطالعے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ ان قوانین کی مخالفت کے بارے میں خیال یہ تھا کہ ایسی کوئی بھی کوشش مسلم معاشرے کو مغربی اور سیکولر معاشرے میں تبدیل کرنے کے مترادف ہوگی، لیکن بعض احباب کے توجہ دلانے پر جب حدود آرڈیننس کا مطالعہ کیا تو جو کچھ محسوس ہوا، اسے کتاب کی شکل میں پیش کر دیا گیا۔
یہ کتاب درحقیقت حدود آرڈیننس پر بحث ومذاکرے کا آغاز ہے۔ مجھے اپنی کسی رائے کے قطعی طور پر درست ہونے پر اصرار نہیں ہے اور میں ہر لمحہ کتاب وسنت کی ہدایات کے سامنے اپنے دل ودماغ کی پوری آمادگی کے ساتھ سر تسلیم خم کرنا اپنے لیے لازوال سعادت کا باعث سمجھتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اس موضوع پر مزید تبصرے، تحقیقات اور آرا آئیں گی جن کی روشنی میں قانون ساز اداروں کا کام نسبتاً آسان ہو جائے گا اور اجتماعی کوشش کے نتیجے میں ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا تک رسائی حاصل کرنے میں کام یاب ہو جائیں گے۔
ذیل میں ڈاکٹر محمد طاہر منصوری کے ان تحفظات کا جائزہ لیا گیا ہے جن کا راقم کی مذکورہ بالا کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے اظہار کیا۔

’حدود‘ کا مفہوم

حدود کا مفہوم متعین کرتے ہوئے کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ’حدود‘ دراصل آخری درجے کے جرائم پر آخری درجے کی یا زیادہ سے زیادہ سزائیں ہیں۔ اسلام نے ان سزاؤں میں جو تخفیف رکھی ہے، اسے برقرار رکھتے ہوئے عدلیہ کو مجرم کی حالت کے پیش نظر سزا کی کمیت اور کیفیت میں تخفیف کا اختیار ہے۔ (ص ۱۲) اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فاضل تبصرہ نگار لکھتے ہیں کہ :
’’فقہا کی تصریح کے مطابق حد ایک معین سزا ہے جس میں کمی بیشی کا کسی کو اختیار نہیں ہے۔ اس کی مقدار کا تعین شارع نے خود کر دیا ہے۔ اگر مصنف کا موقف اختیار کیا جائے تو جرم زنا میں عدلیہ سو کوڑوں کی بجائے بطور حد دس کوڑوں کی سزا دے سکے گی۔ سوال یہ ہے کہ حد زنا میں دس کوڑے کیا شارع کی منشا اور شریعت کے تقاضے کو پورا کرتے ہیں؟‘‘ (ص ۱۵۰)
اس تبصرے میں مصنف کی طرف ایک ایسی بات منسوب کر دی گئی ہے جو اس نے نہیں کہی۔ درحقیقت مصنف نے کتاب میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ’حد‘ کسی جرم میں آخری یا زیادہ سے زیادہ سزا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر کسی جرم میں زیادہ سے زیادہ مقررہ سزا سے کم سزا دی جائے گی تو وہ بھی حد کہلائے گی۔ اسے حد قرار دینا اور اس کی بنا پر یہ کہنا درست نہیں کہ اگر جرم زنا میں عدلیہ سو کوڑوں کے بجائے دس کوڑوں کی سزا دے تو وہ بھی مصنف کے موقف کے مطابق ’حد‘ ہوگی۔ مصنف کے خیال میں اگر عدلیہ نے قرآن کی مقرر کردہ سزا دی تو یہ حد کا نفاذ ہوگا۔ البتہ اگر اس نے زنا کے جرم میں دس کوڑوں کی سزا دی تو یہ حد کا نفاذ نہیں ہے بلکہ تعزیری سزا ہے۔ رہی یہ بات کہ کیا عدلیہ یا مقننہ کو زنا میں حد سے کم سزا دینے یا مقرر کرنے کا اختیار ہے تو اس ضمن میں مصنف کا موقف یہ ہے کہ کتاب وسنت کے کسی بھی حکم کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن اور سنت میں ایک موضوع مسئلہ سے متعلق جتنی آیات واحادیث ہیں، سب کو یک جا کر کے دیکھا جائے تو ان سے اس مسئلہ کے مختلف جوانب واطراف کے بارے میں احکام وہدایات کی تفصیل سامنے آئے گی۔ (۱) قرآن حکیم میں اسی اصول یعنی تصریف آیات کو روبعمل لانے کی وجہ سے ہمارے دور میں نسخ فی القرآن یعنی قرآن کے کسی حکم کی مکمل منسوخی (Total abrogation) کا نظریہ دم توڑتا دکھائی دیتا ہے۔ اس حوالے سے جب ہم زنا کی سزا کے بارے میں قرآن حکیم کی آیات کا تتبع کرتے ہیں تو ہمیں سورۃ النساء کی آیات ۱۵۔۱۶ میں یہ حکم ملتا ہے:
وَاللَّاتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآءِ کُمْ فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْہِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ فَاِنْ شَہِدُوْا فَاَمْسِکُوْہُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفَّاہُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً O وَالَّلذَانِ یَاْتِیَانِہَا مِنْکُمْ فَآذُوْہُمَا فَاِنْ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْہُمَا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا O  ۔(۲)
’’تمہاری بیویوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں، ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھو، یہاں تک کہ انھیں موت آ جائے یا اللہ ان کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔ اور تم میں سے جو دو فرد بد کاری کا ارتکاب کریں، ان دونوں کو تکلیف پہنچاؤ۔ پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں تو ان سے در گزر کرو کہ اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
مذکورہ بالا آیات میں دو مختلف صورتوں میں دو الگ الگ ہدایات دی گئی ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ کسی شخص کی بیوی نے اس طرح بد کاری کا ارتکاب کیا ہے کہ اس کے جرم کے چار گواہ موجود ہیں تو ایسی عورت کو گھر میں مقید رکھنا چاہیے تا آنکہ وہ مر جائے یا اس کے لیے اللہ کی طرف سے کوئی اور حکم آ جائے۔
مولانا امین احسن اصلاحی نے اس حکم کو ایسی عورت کے ساتھ مختص کیا ہے جو خود مسلمانوں کے معاشرے سے تعلق رکھتی ہے، لیکن اس کا شریک جرم مرد اسلامی معاشرے کے دباؤ میں نہیں ہے۔ (۳) جب کہ مولانا محمود حسن دیوبندی نے اسے بیویوں کے ساتھ مختص کرتے ہوئے گھریلو تادیب پر محمول کیا ہے۔ (۴) مولانا دیوبندی کی رائے قرآن کے الفاظ ’نِّسَآءِ کُمْ‘ سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے کیونکہ قرآن حکیم نے بالعموم نساء کم کے الفاظ مسلمانوں کی بیویوں کے لیے استعمال کرتے ہوئے ان کے شوہروں کو ان کے بارے میں احکام دینے کے ضمن میں استعمال کیے ہیں۔ (۵)
دوسری صورت یہ ہے کہ بدکاری کے دونوں مجرم عدالتی انصاف کے لیے قاضی یاجج کے سامنے ہیں تو قرآن نے ان کو ایذا دہی یعنی تعزیری سزا دینے کا حکم دیا ہے،یعنی حاکم اور قاضی کی صواب دید کے مطابق جس قدر سزا مناسب ہو، اتنی دے دی جائے۔ (۶)
ان دونوں آیات میں سے پہلی آیت کا حکم بظاہر محدود مدت کے لیے دیا گیا، کیونکہ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً کے الفاظ سے یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ حکم اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ان خواتین کے لیے اللہ کی طرف سے کوئی نیا حکم نہیں آ جاتا، جبکہ دوسری آیت کے حکم کے عارضی ہونے کی کوئی شہادت آیت میں موجود نہیں ہے۔ تاہم بیشتر مفسرین نے ان دونوں آیات کو منسوخ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سورۃ النور کی آیت نمبر ۲ کے نزول کے بعد یہ دونوں آیات منسوخ ہو گئیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ فیصلہ کرنا درست ہے کہ مذکورہ بالا دونوں آیات منسوخ ہو گئیں اور اب ان کی عملی افادیت باقی نہیں رہی؟ اس کے جواب کے لیے نسخ فی القرآن کے نظریے پر ایک اجمالی نظر ڈالنا ضروری ہے۔

نسخ فی القرآن

نسخ کے مفہوم میں متقدمین اور متاخرین میں اختلاف ہے۔ قرآن حکیم کے کسی عام حکم کی تخصیص، مطلق کی تقیید یا کسی حکم میں استثنا آجاتا تو متقدمین اس کے لیے نسخ کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔ شاہ ولی اللہ کے بقول صحابہ کرام اور تابعین کے کلام کے استقرا سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات نسخ کا لفظ اس کے لغوی معنی میں استعمال کرتے تھے نہ کہ علماء اصول کی اصطلاح کے مطابق۔ یہی وجہ ہے کہ کسی آیت کے بعض اوصاف کی تبدیلی ان کے نزدیک نسخ کہلاتی تھی، خواہ یہ تبدیلی مدت عملی کی تعیین سے متعلق ہو، یا متبادر معنی سے غیر متبادر معنی کی طرف انتقال، یا عام کی تخصیص، یا کسی قید کے بارے میں یہ بتانا کہ وہ محض اتفاقی تھی، یا منصوص اور مقیس علیہ میں امر فارق کا بیان، یا کسی جاہلی رسم یا سابقہ شریعت کے حکم کا ازالہ، یہ تمام امور ان کے نزدیک نسخ کہلاتے تھے۔ متقدمین کے نزدیک نسخ کا مفہوم بہت عام تھا، اسی لیے قدیم اسلامی ادبیات میں منسوخ آیات کی تعداد سینکڑوں تک بتائی گئی ہے، حتیٰ کہ یہ کہا گیا ہے کہ قرآن حکیم میں پانچ سو کے قریب آیات منسوخ ہیں۔ (۷) نیز یہ کہ سورۃ التوبہ کی آیت سیف (۹:۵) نے قرآن حکیم کی ایک سو تیرہ آیات منسوخ کر دیں۔ (۸)
بعد کے ادوار میں علم اصول فقہ کی تدوین اور ہر موقع اور محل کے لیے الگ الگ اصطلاحات مقرر ہونے کے بعد متاخرین نے نسخ کو اس کے متعین معنی میں استعمال کرنا شروع کیا جسے مختصر الفاظ میں ’’کلیتاً رفع حکم‘‘ سے تعبیر کیا گیا اور اس کی تعریف یوں کی گئی:
’’کسی متاخر شرعی دلیل کی بنا پر کسی شرعی حکم کا بالکل اٹھ جانا اور ختم ہو جانا نسخ کہلاتا ہے۔‘‘ (۹)
قرآن حکیم کے حوالے سے نسخ پر دو پہلوؤں سے بحث کی گئی ہے۔ ایک یہ کہ کیا قرآن حکیم میں نسخ ممکن ہے یا نہیں اور دوسرے یہ کہ اگر قرآن میں نسخ ممکن ہے تو کیا ہمارے پاس موجودہ مصحف میں کوئی آیت منسوخ ہے یا نہیں؟ قرآن حکیم میں امکان نسخ کے بارے میں اہل علم کے دو گروہ ہیں۔ علما کی اکثریت امکان نسخ کی قائل ہے جبکہ ابو مسلم اصفہانی (م ۳۲۲ھ) اور ان کے پیروکار سرے سے قرآن حکیم میں نسخ کے امکان کے ہی قائل نہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن میں نسخ تسلیم کر لیا جائے تو اس سے یہ بات ماننا پڑتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایک حکم نازل کرنے کے بعد کوئی بات سوجھی تو اس نے پہلے حکم کو منسوخ کر کے دوسرا حکم نازل کر دیا، لیکن یہ دلیل چنداں وقیع نہیں ہے کیونکہ احکام الٰہی جس قوم اور جن افراد کے لیے نازل ہوتے ہیں، ا ن کے حالات تغیر پذیر ہوتے ہیں، اس لیے حالات کے بدلنے سے احکام میں تبدیلی آتی ہے اور ان کی تربیت کی جاتی ہے، نیز سابقہ شریعتوں کے نسخ سے بھی وجود نسخ پر استدلال کیا جاتا ہے۔ (۱۰) لیکن اس سے زیادہ سے زیادہ قرآن حکیم میں نسخ کا امکان ثابت ہوتا ہے۔ یہ امر کہ ہمارے پا س موجود مصحف میں کوئی آیت منسوخ ہے، صرف روایت سے ثابت ہو سکتا ہے، درایت سے نہیں، اس لیے ا س کے ثبوت کی تین صورتیں ممکن ہیں:
۱۔ قرآن حکیم میں اس مضمون کی کوئی آیت موجود ہو کہ فلاں حکم جو پہلے تھا، اب منسوخ کر دیا گیا ہے، جیساکہ حدیث میں آتا ہے: ’میں نے تمھیں قبروں پر جانے سے روک دیا تھا، اب تم جا سکتے ہو۔‘ (۱۱) قرآن میں ایسی کوئی آیت موجود نہیں ہے۔ بعض آیات جن میں نسخ کا شبہ ہوتا ہے، ان میں قرآن حکیم نے نسخ کے بجائے تخفیف کا لفظ استعمال کیا ہے۔ (۱۲) گویا ان صورتوں میں قرآن حکیم نے حالات کی رعایت کی ہے، مطلقاً حکم منسوخ نہیں کیا بلکہ کسی قدر نرمی پیدا کر دی ہے۔
۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی واضح حکم موجود ہو کہ فلاں آیت اب منسوخ کر دی جاتی ہے۔ ایسا بھی کوئی حکم موجود نہیں ہے۔
۳۔ بعض آیات کے احکام بظاہر باہم متعارض نظر آتے ہوں اور ان میں توافق ممکن نہ ہو۔ نسخ فی القرآن کی بحث اسی تیسری صورت کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ قرآنی آیات کا تعار ض رفع کرنے کے لیے علامہ جلال الدین سیوطی نے محی الدین ابن عربی کے حوالے سے اکیس آیات کو منسوخ بتایا ہے یعنی پورے قران میں اکیس آیات ایسی ہیں کہ اگر ان پر عمل کیا جائے تو دوسری آیات سے تعارض پیدا ہوتا ہے، اس لیے انھیں منسوخ قرار دیا گیا۔ درحقیقت اس بنا پر کسی آیت کو منسوخ قرار دینے کا اس کے سوا کوئی مطلب نہیں کہ ہم اپنے عجز کا اظہار کرتے ہوئے اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہمیں ان دو آیات میں واقع ہونے والے اختلاف اور تعارض کو ختم کرنے کا کوئی طریقہ سمجھ نہیں آیا، لہٰذا قرآن میں تضاد تسلیم کرنے کے بجائے نسخ کے ذریعے سے آیات کی تاویل کی جائے، لیکن خود قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اس میں تضاد نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ وہ ایسی صداقتوں کی تعلیم دیتا ہے جو ایک دوسری کی تائید کرتی ہیں اور قرآن کی صحیح اور سچی تشریح وتفسیر وہی ہو سکتی ہے جو اختلاف اور تضاد سے خالی ہو: 
اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفًا کَثِیْرًاO ۔(۱۳)
’’کیا لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ بعد کے مفسرین اور محققین نے حالات کے تغیر، علم کی ترقی اور قرآن کے گہرے مطالعے کے نتیجے میں ان میں سے کئی آیات کے مفہوم اور محمل متعین کر دیے۔ شاہ ولی اللہ نے ان میں سے سولہ آیات کے محمل متعین کر کے ایک ایسی شاہراہ کھول دی (۱۴) جس پر چل کر بعد کے علما نے باقی چھ آیات کے محمل بھی متعین کر دیے، چنانچہ ماضی قریب میں مولانا انور شاہ کشمیری، مفتی محمد عبدہ، مولانا عبید اللہ سندھی اور دیگر کئی علما نے قرآن میں موجود کسی بھی آیت کے منسوخ ہونے سے انکار کر دیا۔ انور شاہ کاشمیری کہتے ہیں:
’’محققین کے مسلک کو دیکھتے ہوئے میں نے کلیتاً نسخ کا انکار کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ قرآن حکیم میں سرے سے کوئی آیت منسوخ نہیں ہے، یعنی ایسی کوئی آیت نہیں کہ جس کا حکم کلیتاً منسوخ ہو گیا ہو اور وہ کسی جزئی واقعہ میں بھی معمول بہا نہ ہو۔ میرے نزدیک ایسا نہیں اور کوئی بھی آیت جسے منسوخ بتایا گیا ہے، ایسی نہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے معمول بہا نہ ہو۔‘‘ (۱۵)
آیات میں تعارض کی صورت میں ہمیشہ نسخ ہی کا قول نہیں کیا جاتا بلکہ تعارض رفع کرنے کے اور حل بھی ہیں۔ مثلاً جہاں قرآن کی کسی آیت سے دوسری آیت کا حکم جزوی طور پر متاثر ہوا ہو، اسے تنسیخ (Abrogation) کے بجائے تخصیص (Particularization)، تقیید (Specification) یا استثنا (Exception) کہتے ہیں۔ نسخ فی القرآن کے مسئلے کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قرآن حکیم کی منسوخ آیات کی تعداد میں کمی کا نظریہ آگے بڑھتا رہا تا آنکہ دور حاضر کے بیشتر علما کی رائے یہ ہے کہ قرآن حکیم میں امکان نسخ کے باوجود ایسا کوئی تعارض موجود نہیں جس میں تطبیق (Adjustment)، توفیق (Reconciliation) یا توجیہ (Accommodation) ممکن نہ ہو۔ نتیجتاً قرآن حکیم کی آیات میں اختلاف یا تعارض کا نظریہ ختم ہو گیا۔
اگر نسخ فی القرآن کے مسئلہ کو درایت کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ نظریہ بہت عجیب معلوم ہوتا ہے کہ کوئی حکم موجود ہو اور ا س کے بارے میں آیت اٹھا لی گئی ہو یا آیت موجود ہو اور اس کا کوئی عملی فائدہ نہ ہو اور اس کے حکم پر کسی حالت میں عمل کرنے کی کوئی صورت نہ ہو۔ (۱۶) یہی وجہ ہے کہ دور حاضر کے مفسرین نسخ کو تشریع کے تدریجی اور ارتقائی عمل کے مراحل کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
اس اصولی بحث کے بعد اب ہم مذکورہ بالا دونوں آیات پر نسخ کے حوالے سے گفتگو کریں گے۔
بالعموم مفسرین نے ان دونوں آیات (النساء ۴:۱۵، ۱۶) کو منسوخ قرار دیا ہے اور اس کے لیے انھوں نے دو طرح کی شہادتیں پیش کی ہیں، داخلی اور خارجی۔ ان آیات کے منسوخ ہونے کی داخلی شہادت انھوں نے یہ دی ہے کہ قرآن حکیم نے خود یہ الفاظ کہے ہیں: اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً (یا اللہ ان کے لیے کوئی راہ نکال دے) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر قید کی سزا کا حکم دائمی نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ بعد میں کوئی اور حکم دے دے گا، جو اس حکم کو منسوخ کر دے گا۔ مفسرین کی یہ رائے درست ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے راہ نکالنے کا وعدہ کیا ہے، اس لیے یہ حکم دائمی نہیں ہے، لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ان دو آیات میں دو الگ الگ صورتوں کے الگ الگ حکم بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن حکیم نے راہ نکالنے کا وعدہ پہلی صورت یعنی بد کار بیوی کو عمر قید کی سزا کے سلسلے میں دیا ہے نہ کہ دوسری صورت میں۔ دوسری آیت میں بدکاری کا ارتکاب کرنے والے مرد اور عورت کو ایذا پہنچانے کا حکم ہے، جسے تبدیل کرنے کا وعدہ نہیں ہے۔ اگر تبدیلی کے وعدے میں یہ حکم بھی شامل ہوتا تو راہ نکالنے کے وعدے کے الفاظ دوسری آیت کے آخر میں ہوتے نہ کہ پہلی آیت کے آخر میں۔ قرآنی الفاظ کی ترتیب صاف بتا رہی ہے کہ پہلی صورت میں سزا کی تبدیلی کا حکم آنے کا امکان ہے جبکہ دوسری صورت میں حکم قطعی، دائمی اور ابدی ہے، لہٰذا دونوں آیات کے بارے میں یہ کہنا غلط ہے کہ ان میں دیا گیا حکم دائمی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہ نے جن آیات کے نسخ کی روایت نقل کر کے ان کے محمل بتائے ہیں، ان میں صرف پہلی آیت کے سورۃ النور سے منسوخ ہونے کا قول نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی بلکہ یہ حکم اپنی نہایت کو پہنچ گیا تو اس میں کیا گیا وعدہ پورا کر دیا گیا۔ (۱۷) شاہ صاحب کے نزدیک بھی دوسری آیت جو زنا کی تعزیری سزا کے بارے میں ہے، منسوخ نہیں ہے۔
جہاں تک ان آیات کے منسوخ ہونے کی خارجی شہادت ہے تو اس کا تعلق بھی اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً سے ہے اور مفسرین اس امر پرمتفق ہیں کہ اللہ نے جو راہ نکالنے کا وعدہ کیا تھا، وہ پورا کر دیا، البتہ اس کی تفصیل میں اختلاف ہے۔ جن اہل علم کے نزدیک قرآن کا کوئی حکم حدیث سے منسوخ ہو سکتا ہے، انھوں نے کہا ہے کہ مذکورہ بالا قرآنی حکم حضرت عبادہ بن صامت کی روایت سے منسوخ ہو گیا ہے جو یہ ہے:
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا نزل علیہ الوحی اثر علیہ کرب لذلک وتربد وجہہ علیہ الصلاۃ والسلام فانزل اللہ تبارک وتعالیٰ ذات یوم فلما سری عنہ قال خذوا عنی قد جعل اللہ لہن سبیلا الثیب بالثیب والبکر بالبکر جلد ماءۃ والرجم بالحجارۃ والبکر جلد ماءۃ ثم نفی سنۃ (۱۸)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تو اس کی وجہ سے آپ کو کرب ہوتا اور آپ کے چہرۂ انور کا رنگ متغیر ہو جاتا۔ ایک دن اللہ نے آپ پر وحی نازل کی۔ جب آپ کو اس سے افاقہ ہوا تو آپ نے فرمایا: مجھ سے لے لو۔ اللہ نے عورتوں کے لیے راہ نکال دی ہے۔ شادی شدہ، شادی شدہ سے بد کاری کرے اور کنوارے آپس میں بد کاری کریں تو سو کوڑے اور پتھروں سے رجم اور کنواروں کو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا دی جائے۔‘‘
اس حدیث کے بارے میں متعدد اشکال تھے جن کی بنا پر بیشتر علما نے اس حدیث کو ناسخ قرار نہیں دیا:
۱۔ یہ خبر واحد ہے اور خبر واحد سے قرآنی حکم منسوخ نہیں ہو سکتا، بلکہ امام شافعی کے نزدیک قرآن کے علاوہ اور کوئی چیز قرآن کو منسوخ نہیں کر سکتی۔ (۱۹)
۲۔ اس حدیث کے پہلے حصے سے جس میں وحی کی کیفیت بتائی گئی ہے، یہ ایہام ہوتا ہے کہ شاید بعد کے الفاظ قرآنی وحی ہیں، جبکہ یہ قرآن وحی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اصحاب سنن نے اس روایت کے ابتدائی جملے حذف کر دیے اور انھوں نے ’خذوا عنی‘ سے روایت نقل کی۔ (۲۰)
۳۔ اس روایت میں کنوارے جوڑے کے لیے بد کاری پر سو کوڑوں اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا بتائی گئی ہے جبکہ حنفیہ کے نزدیک جلا وطنی کی سزا حد میں شامل نہیں اور مالکیہ کے نزدیک عورت اس سے مستثنیٰ ہے۔ (۲۱) شادی شدہ جوڑے کے لیے اس روایت میں سو کوڑوں اور رجم کی سزا بتائی گئی ہے جبکہ جمہور فقہا اس پر متفق ہیں کہ جسے رجم کی سزا دی جائے، اسے کوڑوں کی سزا نہیں دی جائے گی۔ (۲۲) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی یہ راویت کسی فقہی مکتب فکر کا مستدل نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ بالعموم مفسرین نے یہ رائے اختیار کی کہ مذکورہ بالا حکم (عمر قید) سورۃ النور کی آیت نمبر ۲ : ’الزانیۃ والزانی‘ سے منسوخ ہے۔ (۲۳) اس رائے پر یہ اعتراض تو نہیں کیا جا سکتا کہ قرآنی حکم کسی غیر قرآنی حکم سے منسوخ ہو گیا، البتہ اس میں یہ امر قابل غور ہے کہ سورۃ النساء کی مذکورہ بالا آیت نمبر ۱۵ کے آخری الفاظ ہیں اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً (یا اللہ ان کے لیے کوئی راہ نکال دے) اس جملے میں ’لہن‘ کا تقاضا یہ ہے کہ بعد میں آنے والے حکم میں ان خواتین کے لیے تخفیف ہو، کیونکہ ’لہن‘ کا لام یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی خواتین کو جنھیں بد کاری پر عمر قید کی سزا دی گئی ہے، بعد میں ریلیف دینا چاہتا ہے جبکہ سو کوڑوں کی سزا یا رجم کی سزا ریلیف نہیں ہے بلکہ عمر قید کی بہ نسبت شدید تر سزا ہے، اس لیے اگر ’الزانیۃ والزانی‘ کے تحت کوڑوں کی سزا یا سنت ثابتہ کے تحت رجم کی سزا کو ناسخ قرار دیا جائے تو ’لہن‘  کے تقاضے پورے نہیں ہوتے جبکہ قرآن کے مفہوم کے تعین میں سب سے پہلی اور اہم چیز جس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، وہ عربی زبان کی دلالت لفظی ہے۔ (۲۴)
اگر ’لہن‘ کے پیش نظر اس امر سے اتفاق کیا جائے کہ اللہ کی منشا یہ ہے کہ بعد میں کوئی تخفیف کر دی جائے تو اس کے لیے ہمیں قرآن حکیم کی تفسیر کے اصول ’’تصریف آیات‘‘ کے حوالے سے دیکھنا ہوگا کہ بیوی کی بدکاری کی صورت میں قرآن نے کہاں کہاں کیا کیا احکام دیے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں دو جگہ ایسے احکام ملتے ہیں جو واقعتاً ریلیف ہیں۔ ان احکام کا تعلق ا س ا مر سے بھی ہے کہ اگر کوئی شخص بیوی کی بد کاری کا قضیہ عدالت میں لے جانے کے بجائے اسے خانگی سطح پر نبٹانا چاہتا ہے تو اس کے لیے فوری اقدام یہ بتایا گیا ہے کہ وہ بیوی کو گھر میں پابند کر دے تاکہ وہ اس ماحول سے الگ ہو جائے جو گناہ میں مبتلا ہونے کا باعث ہے۔ اس کے بعد اگر وہ اسے مستقل طور پر علیحدہ کرنا چاہتا ہے تو پہلا حکم سورۃ النساء کی آیت ۱۹ کی روشنی میں یہ ہے کہ اسے خلع کے ذریعے سے الگ کر دے، جو عمر قید کی سزا کاٹنے والی خاتون کے لیے بجا طور پر ریلیف ہے، جو یہ ہے:
یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ کَرْہًا وَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضِ مَآ آتَیْتُمُوْہُنَّ اِلاَّ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ (۲۵)
’’اے ایمان والو! تمہارے لیے حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو اور نہ یہ حلال ہے کہ جو کچھ تم نے انھیں دیا ہے، اس کا کچھ حصہ واپس لینے کے لیے انھیں تنگ کرو، مگر اس صورت میں کہ وہ کھلی بد کاری کی مرتکب ہوئی ہوں۔‘‘
ابن مسعود اور ابن عباس نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ اگر بیوی زنا کا ارتکاب کرے تو اسے پریشان کر کے مہر کی واپسی پر آمادہ کرنا جائز ہے۔ (۲۶) یعنی اس آیت کی روشنی میں بیوی کو ناجائز تنگ کرنا تاکہ وہ جان چھڑانے کے لیے شوہر سے لیا ہوا مہر واپس کر کے خلع کر لے، جائز نہیں، البتہ اگر بیوی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوتی ہے تو اس سے مہر واپس لے کر خلع کرنا جائز ہے جو اس کے لیے عمر قید سے نجات کا ذریعہ ہے۔ اگلی آیت میں ا س حکم کی مزید تاکید کرتے ہوئے کہا: ’اَتَاْخُذُوْنَہُ بُہْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا‘ (۲۷) (کیا تم بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے دیا ہوا مال واپس لو گے؟)
امر واقعہ یہ ہے کہ جو بیوی اپنے گناہ کی پاداش میں جس پر چار گواہ موجود ہیں، گھر میں نظر بند ہے اور عمر قید کاٹ رہی ہے، ساتھ ہی شوہر اور خاندان کی طرف سے ناخوش گوار تعلقات کا سامنا کر رہی ہے، ا س کے لیے خلع یعنی مال کے بدلے طلاق خریدنا بہت بڑا ریلیف ہے اور غالباً سورۃ النساء کی آیت ۱۵ میں اسی ریلیف کا وعدہ تھا۔ اگر ایسی صورت درپیش ہو کہ خلع کے معاملات نہیں طے ہوتے اور مرد ایسی بیوی کو رکھنے کے لیے تیار نہ ہو تو سورۃ الطلاق میں ایک دوسرا حل دیا گیا ہے جو یہ ہے:
یَآ اَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ وَاتَّقُوا اللّٰہَ رَبَّکُمْ لاَ تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْ بُیُوْتِہِنَّ وَلاَ یَخْرُجْنَ اِلاَّ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ (۲۸)
’’اے نبی، جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انھیں ان کی عدت کے لیے طلاق دیا کرو اور عدت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے۔ (عدت کے دوران) نہ تم انھیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خودنکلیں، الا یہ کہ وہ صریح بے حیائی کی مرتکب ہوں۔‘‘
اس آیت میں کہا گیا ہے کہ طلاق کی صورت میں عدت کے دوران مطلقہ بیوی کو گھر سے بے دخل نہ کرو، البتہ اگر اس نے کھلی بے حیائی کا ارتکاب کیا ہو تو اسے طلاق دے کر گھر سے نکال سکتے ہو۔ گویا یہ دوسرا ریلیف ہے جو اس بیوی کو دیا گیا ہے جس کو سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۵ میں عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔ 
مذکورہ بالا احکام اس صورت میں تھے جب شوہر اس معاملے کوخانگی سطح پر طے کرنا چاہتا ہو۔ اور اگر وہ اس معاملے کو عدالت میں لے جانا چاہتا ہو تو جس ریلیف کا وعدہ مذکورہ بالا آیت میں کیا گیا ہے، وہ ریلیف اگلی آیت میں دے دیا گیا جو یہ ہے:
وَالَّلذَانِ یَاْتِیَانِہَا مِنْکُمْ فَآذُوْہُمَا فَاِنْ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْہُمَا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا O ۔(۲۹)
’’جو دو فرد (مرد اور عورت) بد کاری کا ارتکاب کریں، انھیں ایذا پہنچاؤ۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور اپنی اصلاح کر لیں تو ان سے در گزر کرو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔‘‘
یعنی جو جوڑا بدکاری کا ارتکاب کرتا ہے اور ان کے خلاف چار گواہ موجود ہیں تو انھیں تعزیری سزا دو۔ ظاہر ہے تعزیری سزا دینا عدالت کا کام ہے، اس لیے اس آیت کا تعلق عدالتی کارروائی کے تحت تعزیری سزا سے ہے۔
قرآن حکیم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے جہاں جہاں اپنے سابقہ حکم میں کوئی تخفیف یا جزوی تبدیلی کی ہے، بالعموم اس امر کا التزام کیا ہے کہ پہلا اور دوسرا حکم ساتھ ساتھ بیان کیا جائے تاکہ مسلمان کسی قانونی الجھن کا شکار نہ ہوں۔ مثلاً سورۃ الانفال کی آیت نمبر ۶۵ کے حکم میں اس سے اگلی آیت میں تخفیف کر دی گئی۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۵۰، ۵۱ کی اجازت کو اس سے اگلی آیت میں ختم کر دیا گیا۔ سورۃ المزمل کے آغاز میں دیے گئے قیام اللیل کے حکم میں اسی سورت کی آخری آیت میں تخفیف کر دی گئی۔ قرآن کے اس اسلوب کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہیں کہ سورۃ النساء کی آیت ۱۵ میں دیے گئے حکم میں اگلی آیت میں تخفیف کر دی گئی۔
الغرض جرم زنا پر سو کوڑوں سے کم سزا دینا حد نہیں ہے اور نہ ہی کتاب کے مصنف نے اسے حد قرار دیا ہے، البتہ اگر عدالت ا س پر سو کوڑوں سے کم کوئی سزا دے گی تو وہ سورۃ النساء کی آیت ۱۶ کے تحت تعزیری سزا ہوگی اور کوئی بھی سزا ’حد‘ اسی وقت قرار پائے گی جب کہ قرآن کی مقرر کردہ زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے۔

عادی اور اتفاقی مجرم میں فرق

فاضل تبصرہ نگار لکھتے ہیں:
’’مصنف کا یہ بھی خیال ہے کہ حدود عادی مجرموں کے لیے ہیں، اتفاقی مجرموں کے لیے نہیں۔ (ص ۲۳) اس سے یہ مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر ایک شخص نے ایک یا دو دفعہ بد کاری کا ارتکاب کیا تو اس پر حد زنا جاری نہیں ہوگی۔ کیا اس طرح کا طرز عمل زنا، قذف، چوری اور دیگر جرائم حدود کی حوصلہ افزائی کا باعث نہیں بنے گا؟ عادی اور اتفاقی مجرم کے درمیان فرق کیسے کیا جا سکے گا؟ کسی جرم کے کتنی دفعہ ارتکاب سے ایک شخص اتفاقی سے عادی مجرم میں تبدیل ہوگا؟ ہمارے خیال میں مذکورہ موقف بہت سی قانونی پیچیدگیوں کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘ (ص ۱۵۰)
اس سلسلے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مصنف نے صرف زنا اور چوری کی سزاؤں کے حوالے سے عادی اور اتفاقی مجرم میں فرق کیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں جرائم کی حدود بیان کرتے ہوئے قرآن حکیم نے اسم فاعل کے صیغے (’السارق والسارقۃ‘ اور ’الزانیۃ والزانی‘) استعمال کیے ہیں جو اس امر کے متقاضی ہیں کہ ان الفاظ کے بعد بیان کیا گیا حکم عادی مجرموں کے لیے ہے۔ جہاں تک قذف، ڈاکے یا دیگر جرائم کا تعلق ہے، ان کے بارے میں یہ فرق نہیں ہے کیونکہ قرآن حکیم نے ان جرائم کی سزائیں بیان کرتے ہوئے مختلف اسلوب بیان اختیار کیا ہے جس کی تفصیل کتاب میں موجود ہے۔ یاد رہے کہ جن صورتوں میں عادی مجرموں پر حد جاری کرنے کا حکم ہے، ان جرائم میں اتفاقی مجرموں کے لیے کتاب وسنت میں تعزیری سزاؤں کا حکم موجود ہے۔ مثلاً سورۃ النساء کی آیت ۱۶ میں بد کاری پر تعزیری سزا کا حکم ہے، جس کی تفصیل اوپر بیان کی گئی ہے اور چوری کے جرائم میں قطع ید کے بجائے چوری کے مال سے دوگنا جرمانہ عائد کرنے کی مثالیں ہماری کتاب میں موجود ہیں۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ اس سے جرائم کی حوصلہ افزائی ہوگی یا قانونی پیچیدگیاں جنم لیں گی۔ صرف اس قدر فرق ہوگا کہ پہلی بار ارتکاب جرم پر تعزیری سزا ہوگی اور دوسری بار کے ارتکاب جرم پر حد جاری ہو جائے گی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ان جرائم سے تعزیری سزائیں ختم کرنے کی وجہ سے جرائم کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور اس قدر قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں کہ گزشتہ ربع صدی سے حدود آرڈیننس کے نفاذ کے باوجود کسی شخص پر حد جاری نہیں ہوئی جبکہ معاشرہ جرائم کی آماج گاہ بن چکا ہے۔ 
رہی یہ بات کہ اتفاقی اور عادی مجرم میں کیا فرق ہے؟ اگر لغوی اعتبار سے دیکھا جائے تو جو شخص کسی جرم میں دوسری بار ماخوذ ہوتا ہے، اسے عادی مجرم کہنا چاہیے۔ نیز دنیا بھر میں قانونی دانش دو ایسے افراد کو یکساں قرار نہیں دیتی جن میں سے ایک کسی جرم میں پہلی بار ماخوذ ہو اور دوسرا اس جرم میں ایک بار سزا یاب ہو چکا ہو اور دوسری بار ماخوذ ہوا ہو۔ کتاب وسنت نے گناہ کے ارتکاب اور گناہ پر اصرار میں جو فرق کیا ہے، اس کی تفصیل زیر بحث کتاب میں موجود ہے، تاہم ہم نے یہ بحث نہیں کی کب کوئی مجرم اتفاقی سے عادی میں تبدیل ہو جائے گا جس کی وجہ یہ ہے کہ نہ صرف ایسے امور بلکہ حدود آرڈیننس کی تمام متبادل دفعات کا تعلق قانون سازی سے ہے۔ ہمارا موضوع صر ف حدود آرڈیننس کی خامیوں کا تعین کر کے اس موضوع پر بحث ومذاکرہ کا آغاز کرنا تھا۔ متبادل قانون کیا ہو؟ یہ علما، فقہا، مفکرین، ماہرین قانون، اسلامی نظریاتی کونسل اور مقننہ کا کام ہے کہ وہ ہماری ناچیز کاوش اور حدود آرڈیننس کے نفاذ کے پچھلے پچیس سالہ تجربات کو سامنے رکھ کر کوئی فیصلہ کریں۔
مذکورہ بالا بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ:
۱۔ اگر کسی شخص کی بیوی بدکاری کا ارتکاب کرے اور اس پر چار گواہ موجود ہوں تو عورت کو گھر میں پابند کر دیا جائے اور اگر میاں بیوی اکٹھے نہ رہنا چاہتے ہوں لیکن معاملہ خاندانی سطح پر طے کرنا چاہتے ہوں تو خلع یا طلاق کے ذریعے علیحدہ ہو جائیں۔
۲۔ اگر شوہر اس معاملے کو عدالت میں لے جائے اور بدکاری میں ملوث جوڑے نے پہلی بار بدکاری کا ارتکاب کیا ہے تو سورۃ النساء کی آیت ۱۶ کے تحت انھیں تعزیری سزا دی جائے اور پھر انھیں اپنی روش تبدیل کر کے (توبہ کر کے) پاک صاف زندگی بسر کرنے کا موقع دیا جائے۔
۳۔ اگر وہ عادی مجرم ہو جاتے ہیں تو سورۃ النور کی آیت ۲ کے تحت انھیں سو سو کوڑوں کی سزا دی جائے اور اگر ان کا جرم حرابہ کے درجے کو پہنچ جاتا ہے تو سورۃ الاحزاب کی آیات ۶۰، ۶۱ کے تحت سزائے موت (رجم) دی جائے۔
۳۔ اگر شوہر کے پاس اپنی بیوی کی بد کاری ثابت کرنے کے لیے چار گواہ نہیں ہیں تو وہ دونوں سورۃ النور کی آیت ۶۔۹ کے تحت لعان کے ذریعے علیحدہ ہو جائیں۔

اسقاط حد میں توبہ کا کردار

فاضل تبصرہ نگار لکھتے ہیں:
’’مصنف کا حدود آرڈیننس پر ایک اعتراض یہ ہے کہ اس میں توبہ کی گنجایش نہیں رکھی گئی۔ ان کی رائے میں اگر کوئی شخص زنا یا چوری کے بعد عدالت میں توبہ کر لیتا ہے اور اپنے چال چلن کی درستی کا یقین دلاتا ہے تو ایسے شخص سے حد ساقط ہو جانی چاہیے۔ ہمارے خیال میں اس طرح تو حدود کبھی بھی نافذ نہیں ہو سکیں گی اور حدود کے اجرا کا پور انظام معطل ہو کر رہ جائے گا۔ اگر عدالت کو یہ قانونی حق دلایا جائے کہ وہ توبہ قبول کر کے حد کو ساقط کر دے تو عدالتیں اور خود مجرم اس کا کتنا غلط استعمال کریں گے۔ کیا کوئی شخص تصور کر سکتا ہے کہ ایک شخص کو عدالت سو کوڑے لگانے یا سنگ سار کرنے کی سزا سنائے اور وہ توبہ نہ کرے۔‘‘ (ص ۱۵۱)
فاضل تبصرہ نگار نے جس اندیشے کا ذکر کیا ہے، مصنف نے اپنی کتاب میں اس پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ’’جو گرفت میں آنے سے پہلے گناہ سے تائب ہو جائے، اس سے اسی طرح اللہ کے حقوق ساقط ہو جاتے ہیں جس طرح محارب سے ساقط ہو جاتے ہیں اور یہی رائے زیادہ صحیح ہے۔‘‘ (ص ۴۹)
درحقیقت ہمارے ہاں توبہ اور استغفار میں فرق نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے خلط مبحث پیدا ہو جاتا ہے۔ توبہ کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے گناہ پر نادم ہو کر اپنی روش تبدیل کر لے اور گناہ آلود زندگی ترک کر کے ایسی زندگی اختیار کر لے جو اس گناہ سے پاک ہو جس سے اس نے توبہ کی ہے، جبکہ استغفار کا مطلب یہ ہے کہ گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے یہ درخواست کرے کہ اسے اس گناہ کی سزا نہ دی جائے۔ استغفار کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اس شخص نے توبہ بھی کی ہو اور اپنی زندگی کی روش بدل لی ہو۔ ہماری بحث کا تعلق توبہ سے ہے جبکہ فاضل تبصرہ نگار نے جو اعتراض کیا ہے، اس کا تعلق توبہ سے نہیں بلکہ استغفار سے ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے جرم کی سزا پانے کے لیے عدالت کے سامنے پیش ہے تو اب اس کے لیے روش تبدیل کرنے کا کون سا وقت ہے؟ اب جو کچھ وہ کر سکتا ہے، وہ صرف استغفار ہے یعنی یہ درخواست کہ اسے اس جرم پر سزا نہ دی جائے اور کسی عدالت کو حدود کے معاملات میں استغفار کی قبولیت کا اختیار نہیں ہے۔ ہم نے اپنی تالیف میں ان سوالات کا جائزہ لے کر ان کے بارے میں علما کی آرا کا تجزیہ پیش کیا ہے، تاہم توبہ کے بارے میں دو امور پیش نظر رکھنا ضروری ہیں:
۱۔ توبہ کا تعلق حقوق اللہ سے ہے، حقوق العباد سے نہیں، یعنی اگر ارتکاب جرم میں کسی فرد کو جانی، مالی، عزت وآبرو کا یا کسی اور طرح کا نقصان پہنچایا گیا تو توبہ کے باوجود اس کی تلافی کے بغیر جرم معاف نہیں ہوتا۔ جہاں تک حقوق اللہ کا تعلق ہے تو جب تک اللہ تعالیٰ توبہ کا دروازہ بند نہیں کرتا، ہر شخص اپنی روش تبدیل کر کے ازسرنو اللہ سے وفاداری کا عہد وپیمان کر سکتا ہے اور اس کی توبہ قبول ہوگی۔
۲۔ توبہ کو جرائم کی سزاؤں میں موثر قرار دینے کے پس منظر میں ’’تقادم (Time bar)کے اثرات‘‘ کے نظریے کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ فقہا کا اس امر پر اتفاق ہے کہ قرض تقادم سے معاف نہیں ہوتا، لیکن شراب نوشی کی سزا تقادم سے ساقط ہو جاتی ہے۔ حدود میں تقادم سے مراد یہ ہے کہ جرائم حدود میں سے کسی جرم کے ارتکاب پر اتنا وقت گزر جائے کہ اس عرصے میں گواہ اپنی گواہی پیش کر سکتے تھے، لیکن انھوں نے بلا عذر شرعی عدالت کی طرف رجوع نہیں کیا تو حنفیہ کے نزدیک بلا عذر تاخیر کے سبب سے ان کا دعویٰ قابل سماعت رہے گا نہ ان کی شہادت قابل قبول، البتہ اس حکم کا تعلق ان حدود سے ہے جو خالصتاً حقوق اللہ سے متعلق ہیں، یعنی حد زنا، حد خمر اور حد سرقہ۔ حد قذف اس میں شامل نہیں کیونکہ وہ بندے کا حق ہے۔ (۳۰)
تقادم کے باعث دعوے کے ناقابل سماعت ہونے میں جہاں اس امر کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ تاخیر سے دعویٰ دائر کرنے میں بد نیتی اور دشمنی کا عنصر شامل ہو سکتا ہے، وہاں یہ بات بھی پیش نظر ہے کہ وقت گزر نے کے باوجود اگر اس شخص نے دوبارہ وہ جرم نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنی روش تبدیل کر لی اور یہی توبہ ہے۔
توبہ کے علاوہ دیگر مباحث میں بھی فقہا کے اختلافات اور دلائل کا مقدور بھر غیر جانب دارانہ تجزیہ پیش کیا گیا ہے، لیکن صدیوں سے چلے آنے والے فقہی اختلافات کو کسی تجزیے سے ختم کیا جا سکتا ہے نہ ان میں کوئی قول فیصل دینا ممکن ہے۔ ان کی تفصیل اور تجزیے کی افادیت صرف یہ ہوتی ہے کہ جب کوئی با اختیار ادارہ ان مسائل میں قانون سازی کرے تو فقہی اختلافات کے تجزیے کو بھی پیش نظر رکھے۔

حدود آرڈیننس کی اصل خرابی

حدود آرڈیننس کی سب سے بڑی خرابی جس کا ہم نے کتاب میں تفصیل سے ذکر کیا ، لیکن فاضل تبصرہ نگار نے اسے نظر انداز کر دیا، یہ ہے کہ اس میں انسانی قوانین کو الہامی قوانین کے نام پر نافذ کر دیا گیا ہے۔ حدود آرڈیننس چار قوانین پر مشتمل ہے جن میں ایک سو ایک دفعات ہیں۔ ان میں سے صرف اٹھارہ دفعات کا تعلق حدود سے ہے اور باقی ۸۳ دفعات تعریفات، طریق کار اور تعزیری سزاؤں سے متعلق ہیں۔ لیکن ستم یہ ہے کہ ان تمام دفعات کے بارے میں ہر قانون کے آغاز میں کہا گیا ہے کہ یہ آرڈیننس قرآن وسنت میں متعین کردہ اسلامی قانون کے مطابق ہے جبکہ تعزیرات کو کتاب وسنت میں مذکور سزائیں قرار دینا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا ہے۔ قرآن حکیم کی چودہ آیات میں اللہ کی طرف غلط بات منسوب کرنے اور اللہ پر افترا پردازی کو سب سے بڑا ظلم قرار دیا گیا۔ نیز قیامت کے روز اس جرم کی شدید ترین باز پرس کی وعید سنائی گئی۔ قرآن حکیم میں ہے:
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتَابَ بِاَیْدِیْہِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ہٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ (۳۱)
’’ان لوگوں کے لیے تباہی ہے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھ کر پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔‘‘
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَّواْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ (۳۲)
’’جس نے دانستہ میری طرف جھوٹی بات منسوب کی، وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے۔‘‘
ہمارے علم میں حدود آرڈیننس کی تشکیل ونفاذ سے پہلے اسلامی تاریخ کی پوری چودہ صدیوں میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا کہ امت کے کسی فرد یا طبقے نے اپنی آرا، افکار یا اپنی قانون سازی کو الہامی قوانین قرار دینے کی جسارت کی ہو۔ اسلامی تاریخ کا یہ پہلا اور منفرد واقعہ ہے جہاں اس قدر شدید بے احتیاطی کا ارتکاب کیا گیا۔ مثال کے طور پر حدود آرڈیننس (حد زنا) کی دفعہ ۱۵ اور ۱۶ کے تحت جائز نکاح کا یقین دلا کر کسی عورت سے دھوکے سے مباشرت کرنے کی سزا پچیس سال قید با مشقت اور تیس تک کوڑوں کی سزا ہے اور مجرمانہ نیت سے کسی عورت کو ورغلانے پر سات سال تک قید اور تیس کوڑوں کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اگرچہ مذکورہ جرائم سنگین نوعیت کے جرائم ہیں اور ان پر دی جانے والی سزا کسی طور نا مناسب نہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی سزا قرآن میں ہے نہ سنت میں جبکہ ان کو قرآن وسنت کی متعین کردہ سزاؤں کے طور پر نافذ کیا گیا ہے۔ یہ سزائیں حکومت کے اس اختیار کے نتیجے میں مقرر کی گئی ہیں جو اسے تعزیری قوانین کی تشکیل اور نفاذ کے سلسلے میں حاصل ہے۔ ان سزاؤں کو کتاب وسنت کی سزائیں قرار دینا افتراء علی اللہ ہے اور ارشاد ربانی ہے:
لاَ تَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا فَیُسْحِتَکُمْ بِعَذَابٍ وَّقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰی O (۳۳)
’’اللہ پر جھوٹ نہ باندھو ، ورنہ وہ سخت عذاب سے تمہارا ستیا ناس کر دے گا۔ جھوٹ جس نے بھی گھڑا، نامراد ہوا۔‘‘
بہرحال اللہ کی آخری عدالت میں جواب دہی کے احساس کا تقاضا یہ ہے کہ اسلامی قوانین کی تشکیل اور نفاذ میں انتہائی احتیاط، تدبر اور دانش کا مظاہرہ کیا جائے۔ مبادا ہمارا کوئی غیر محتاط اقدام اسلام اور اسلامی قوانین کی بدنامی کا باعث بن جائے۔

شراب نوشی کی سزا

شراب نوشی کی سزا کے بارے میں ہم نے لکھا ہے کہ یہ قرآن حکیم میں مذکور نہیں اور سنت نے قطعی سزا مقرر نہیں کی۔ اس سزا کو باقی رکھنا تو سنت ہے لیکن اس کی مقدار کا تعلق تعزیر سے ہے، حد سے نہیں۔ (ص ۲۵۰۔۲۵۶) اس بات کو بعض جرائد نے اس عنوان سے شائع کیا ہے کہ شراب نوشی پر کوئی سزا نہیں ہے، جس سے بہت بڑی غلط فہمی پیدا ہوئی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب نوشی پر سزا دینے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
من شرب الخمر فاجلدوہ (۳۴)
’’جو شراب پیے، اسے کوڑے لگاؤ۔‘‘
لیکن آپ نے کوڑوں کی تعداد مقرر نہیں کی، اس لیے اسے حد قرار دینا درست نہیں۔ اس رائے پر یہ اعتراض کیا جا سکتاہے کہ اسلامی ادبیات کی کتب حدیث اور فقہ میں شراب نوشی کی سزا کے لیے ’حد‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سزا حد ہے، اسے تعزیری سزا دینا تفرد ہے، لیکن اگر ہم اسلامی قوانین کی ساخت، عدالتوں کے طریق کار اور قاضیوں کے اختیارات کو مدنظر رکھیں تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ شراب نوشی کی سزا کو کتب حدیث اور فقہ میں ’حد‘ کیوں قرار دیا گیا، جبکہ انھیں کتب میں یہ تفصیل مذکور ہے کہ جب شراب نوشی کی کثرت ہو گئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کے مشورے سے ۸۰ کوڑے سزا مقرر کی۔ حد، حقوق اللہ کی پامالی پر دی جانے والی مقرر سزا کو کہتے ہیں۔ اسلامی قانون تعزیرات کی چونکہ دفعہ بندی (Codification) نہیں ہوئی تھی، اس لیے قضاۃ اپنی صواب دید کے مطابق تعزیری سزائیں دیتے تھے، لہٰذا کسی جرم کی تعزیری سزا کی مقدار مقرر نہیں تھی، البتہ شراب نوشی کی تعزیری سزا عہد صحابہ میں مقرر کر دی گئی تھی، اس لیے اسے حقوق اللہ کی پامالی پر مقرر سزا ہونے کے حوالے سے حد کا نام دیا گیا۔ پس حد سے مراد اگر ایسی مقررہ سزا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کی ہو تو شراب نوشی پر سزا حد قرار نہیں پائے گی، لیکن اگر حکومت کی مقرر کردہ سزائیں بھی ’حدود‘ قرار دی جائیں تو نہ صرف شراب نوشی کی سزا بلکہ قانون تعزیرات کی دفعہ بندی کے بعد ہر جرم کی مقررہ سزا کو حد کہنا چاہیے، جبکہ حدود آرڈیننس میں حد کی تعریف یہ کی گئی ہے:
’’حد سے مراد وہ سزا ہے جس کا قرآن کریم یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حکم دیا گیا ہو۔‘‘

حوالہ جات

۱۔ احسان اللہ فہد اصلاحی، ’علامہ ابن تیمیہ کے نزدیک فہم قرآن کے اصول‘، ماہنامہ ترجمان القرآن، لاہور، ستمبر ۱۹۹۴، ۲۲
۲۔القرآن، النساء ۴:۱۵۔۱۶
۳۔ امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن، تاج کمپنی دہلی، ۱۹۹۹، ۲:۲۶۵
۴۔ ملاحظہ ہو تفسیر عثمانی، فوائد بذیل آیت ۱۵، سورۃ النساء۔ یاد رہے کہ تفسیر عثمانی کا ترجمہ اور سورۃ البقرۃ اور النساء کے فوائد مولانا محمود حسن دیوبندی کی تحریر ہیں۔
۵۔ مثلاً احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الی نسائکم (۲:۱۸۷) ، نساء کم حرث لکم (۲:۲۲۳)، امہات نساء کم (۴:۲۳)، ربائبکم اللاتی فی حجورکم من نساء کم (۴:۲۳)، للذین یولون من نساء ہم (۲:۲۲۵)، والذین یظاہرون منکم من نساء ہم (۵۸:۲) وغیرہ متعدد آیات میں نسائکم اور نساء ہم سے بیویاں مراد لی گئی ہیں نہ کہ عام عورتیں۔
۶۔ تفسیر عثمانی، حوالہ بالا
۷۔ شاہ ولی اللہ، الفوز الکبیر فی اصول التفسیر، ادارۂ اسلامیا ت لاہور، ۱۹۸۲، ۳۲
۸۔ وہبہ الزحیلی، اصول الفقہ الاسلامی، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ ۲:۹۳۶ بحوالہ الناسخ والمنسوخ لابن خزیمہ وکتاب الناسخ والمنسوخ فی القرآن الکریم لابی جعفر النحاس، ۲۶۴
۹۔ عبد الکریم زیدان، الوجیز فی اصول الفقہ، نشر احسان للنشر والتوزیع، طہران، ۱۳۸۰، ۳۸۸
۱۰۔ تفصیل کے لیے دیکھیے، تدبر قرآن، ۱:۳۰۸۔۳۱۷
۱۱۔ مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم، دار السلام ریاض، ۱۹۹۸، حدیث نمبر ۲۲۶۰
۱۲۔ مثلاً سورۃ الانفال کی آیات ۶۵۔۶۶، المزمل ۷۳ کی آیات ۲۔۴، ۲۰، المجادلہ ۵۸ کی آیات ۱۲۔۱۳
۱۳۔ القرآن، النساء ۴:۸۲
۱۵۔ انور شاہ کاشمیری، فیض الباری علیٰ صحیح البخاری، دار المعرفۃ بیروت، ۳:۱۴۷
۱۶۔ محمد خضری بک، اصول الفقہ، مطبعۃ الاستقامۃ ، القاہرۃ، ۲۵۷
۱۷۔ شاہ ولی اللہ، الفوز الکبیر، ۳۵
۱۸۔ احمد بن حنبل، مسند، ۵:۳۱۸، ۳۲۱، ۳۲۷، حدیث نمبر ۲۲۲۰۸، ۲۲۲۲۸، ۲۲۲۷۴
۱۹۔ الشافعی، محمد بن ادریس، الرسالہ، مطبع الحلبی، ۱۱۰
۲۰۔ دیکھیے مسلم، حدیث نمبر ۱۴۴۴، ترمذی ۱۴۳۴، ابو داود ۴۴۱۵، ابن ماجہ ۲۵۵۰
۲۱۔ عبد القادر عودہ، التشریع الجنائی الاسلامی، موسسۃ الرسالۃ، بیروت، ۱۹۹۴، ۱: ۶۳۹
۲۲۔ شوکانی، محمد بن علی، نیل الاوطار، دار ابن حزم، بیروت، حدیث نمبر ۳۱۳۰، ص ۱۴۶۳
۲۳۔ ابن کثیر، اسماعیل بن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، دار القرآن الکریم بیروت، ۱:۳۶۶
۲۴۔ قرآن فہمی کے لیے عربی زبان کی دلالات کی اہمیت کے لیے دیکھیے: الشاطبی، ابو اسحاق ابراہیم، الموافقات فی اصول الاحکام، دار الفکر، ۲:۴۲۔۴۶
۲۵۔ القرآن، النساء ۴:۱۹
۲۶۔ تفسیر ابن کثیر، ۱:۳۶۸
۲۷۔ القرآن، النساء، ۴:۲۰
۲۸۔ ایضاً، الطلاق ۶۵:۱
۲۹۔ ایضاً، النساء ۴:۱۶
۳۰۔ الکاسانی، علاء الدین ابوبکر بن مسعود، بدائع الصنائع، دار الکتب العربیہ بیروت، ۷:۵۱۔ ابن عابدین، رد المحتار، بولاق، ۲:۱۵۸۔ ابن الہمام، شرح فتح القدیر، بولاق، ۴:۱۶۲۔
۳۱۔ القرآن، البقرہ ۲:۷۹
۳۲۔ یہ حدیث متواتر ہے اور بالعموم ہر مجموعہ حدیث میں موجود ہے۔
۳۳۔ القرآن، طہ ۲۰: ۶۱
۳۴۔ شوکانی، نیل الاوطار، حدیث نمبر ۳۲۱۱، ص ۱۵۰۰

قانون اسلامی کا ارتقا اور امام ولی اللہ دہلویؒ

مولانا محمد عیسٰی منصوری

حضرت مولانا سید سلمان الحسینی، استاذ حدیث ندوۃ العلماء لکھنو کی یہ کتاب درحقیقت امام ولی اللہ دہلوی کی معرکہ آرا کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے ایک اہم باب ’’اسباب اختلاف ائمہ‘‘ کے متعلق ایک نہایت بصیرت افروز اور محققانہ تبصرہ ومحاکمہ ہے۔ یہ اس دور کا اہم تقاضا بھی ہے کہ فروعی اختلافات میں شدت کو ختم کر کے دین کو ایک متفقہ لائحہ عمل کے طور پر سامنے لایا جائے۔
اسلام خالق کائنات کی طرف سے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے آیا ہے۔ کائنات اور زمانہ ترقی پذیر ہے، ا س کے تقاضے اور ضروریات ہر آن بدلتے رہتے ہیں۔ نئے نئے تقاضے اور پہلو سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس لیے قرآن وسنت میں اتنی گہرائی، وسعت اور ہمہ گیری قدرت نے پنہاں کر دی کہ قیامت تک ہر ہر زمانہ ومکان کی انسانی ضروریات کے لیے کافی ہوں، مگر قرآن وسنت کی گہرائی میں غواصی کر کے وقت کے تقاضوں میں رہبری حاصل کرنا ہر فرد بشر کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر صدی میں ایسے اشخاص رونما ہوتے رہے ہیں جو دین کو ہر طرح کی آمیزش، تحریف اور غلط تاویل سے نکھار کر اسے اپنی اصل شکل وصورت میں لے آتے ہیں جیسے کسی بیش قیمت ہیرے پر سے گرد وغبار کو صاف کر دیا جائے تو وہ اصل حالت میں چمکنے دمکنے لگتا ہے اور مرور زمانہ کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
بعض شخصیات ایسی جامعیت وعبقریت لیے ہوتی ہیں کہ ان کی فکر اور دماغی قوت وبصیرت اپنے دور سے بہت بعد تک کا احاطہ کر لیتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ وقت آ جاتا ہے تو ان کے علوم وافکار اور نتائج اجتہاد نکھر کر سامنے آتے ہیں۔ مثلاً شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کے علوم وافکار سے اگرچہ محدود طور پر ہر زمانے میں اہل علم واقف تھے، مگر ان کی وفات کے تقریباً ۶۰۰ سال بعد سعودی عرب میں آل سعود کی حکومت قائم ہوئی جس نے حنبلی فقہ ومسلک کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ امام ابن تیمیہ کے تمام اجتہادات وتفردات کا وکیل اور ترجمان بن کر اپنے وسیع وسائل سے امام موصوف کی تمام کتب آب وتاب سے شائع کر کے دنیا بھر میں پھیلا دیں۔ اسی طرح امام ولی اللہ دہلویؒ (۲۱ فروری ۱۷۰۳-۲۰ اگست ۱۷۶۲ھ) کے افکار ونظریات، ایک طویل زمانے تک زاویہ خمول میں رہے ہیں۔ ان سے خاص خاص اہل علم ہی واقف تھے۔ آپ کی پہلی کتاب آپ کی وفات سے تقریباً ۱۲۰ سال بعد ۱۸۸۰ء میں محدودتعداد میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد ۱۹۱۱ء میں مصر کے مشہور مطبع بولاق نے حجۃ اللہ البالغہ شائع کی جس سے امام ولی اللہ دہلوی کا چرچا برصغیر سے نکل کر عرب دنیا میں شروع ہوا۔ بیسویں صدی کے آخر تک آپ کی بیشتر کتب برصغیر کے مختلف اداروں سے شائع ہو کر گھر گھر پہنچ چکی تھیں۔ جگہ جگہ آپ کے نام پر ادارے، اکیڈیمیاں اور ریسرچ سنٹر قائم ہوئے۔ آپ کے نام پر ایوارڈ کا سلسلہ شروع ہوا۔ برصغیر اور دنیا بھر کی یونیورسٹیوں نے آپ کے نام پر چیئرز اور تحقیقی شعبے قائم کیے۔ آپ کی فکر اور علوم پر وسیع کام شروع ہوا، حتیٰ کہ امریکہ کی ایک نومسلم اسکالر ڈاکٹر مارسیا کے ہرمنسن (Marcia K. Hermansen) نے بھی آپ پر پی ایچ ڈی کی۔
شاید اللہ تعالیٰ نے اکیسویں صدی کے لیے آپ کے علوم وافکار کو محفوظ رکھا ہوا ہے۔ علم الٰہی میں وہ وقت آ گیا ہے جب آپ کے علوم وافکار کی عام ترویج ہو اور اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں آپ کی تصانیف اور فکر میں اس قدر کام ہو چکا ہے کہ اب ہر مکتب فکر اور گروہ اپنی نسبت آپ کی طرف کرنا اپنے لیے باعث عز وشرف سمجھ رہا ہے، حتیٰ کہ وہ گروہ جن کے تصور اسلام میں تصوف واحسان کے لیے کوئی گنجایش نہیں اور جن کے نزدیک نفس تصوف واحسان زیغ وضلال ہے اور جن کی شدت وانتہا پسندی کا یہ عالم ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان انھیں مشرک اور بدعتی نظر آتے ہیں، وہ بھی اپنی نسبت اس امام ولی اللہ دہلوی کی طرف کر رہے ہیں جو زندگی بھر تصوف واحسان پر عامل رہا اور اس موضوع پر اس کی آدھ درجن سے زیادہ مستقل تصانیف ہیں، جیسے لمعات، وحدۃ الوجود والشہود، القول الجمیل، التفہیمات الالٰہیہ، الطاف القدس، الخیر الکثیر، انفاس العارفین وغیرہ۔ جس کا اصل سلسلہ، نقشبندیہ مجددیہ تھا، مگر اس نے اپنی جامعیت سے چاروں سلسلوں کو جمع کیا۔ اس وقت برصغیر میں چاروں سلسلوں میں بیعت کا جو رواج ہے، وہ آپ ہی کا فیض ہے۔ برصغیر کے تصوف کے بیشتر سلسلے آپ کے جلیل القدر صاحبزادے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ تک منتہی ہوتے ہیں۔
امام ولی اللہ دہلوی کی سب سے نمایاں خصوصیت جامعیت وتطبیق ہے۔ شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں: 
’’شاہ ولی اللہ کی ایک نمایاں خصوصیت ان کی جامعیت ہے، یعنی وہ اختلافی مسائل میں ایسا راستہ ڈھونڈتے ہیں اور اپنی علمی وسعت اور ذہانت کی مدد سے اکثر ایسا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس پر فریقین متفق ہو سکیں۔‘‘ (موج کوثر، ص ۵۳۶)
معلوم ہوتا ہے یہ آپ کی خاندانی خصوصیت ہے۔ چنانچہ مولانا عبید اللہ سندھی، شاہ ولی اللہ کے والد اور چچا کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:
’’ہر دو بھائیوں کے خاص نظریات کا ماحصل ایک ایسی شاہراہ بنانے کی سعی ہے جس پر مسلمان فلاسفرین (صوفیہ ومتکلمین) اور فقہا ساتھ ساتھ چل سکیں۔‘‘ (ایضاً، ص ۵۳۶)
خود شاہ ولی اللہ کے الفاظ میں آپ کا فقہی مسلک فقہی مذاہب میں تطبیق کی صورت نکالنا ہے: ’’بقدر امکان جمع می کنم در مذاہب مشہورہ‘‘ ۔ آپ کے والد اور چچا حنفی تھے، لیکن محبوب استاد شیخ ابو طاہر مدنی شافعی تھے۔ اگر آپ کا بس چلتا تو چاروں فقہی مذاہب یا کم از کم دو مشہور فقہی مذاہب (حنفی وشافعی) کو ملا کر ایک کر دیتے، کیونکہ یہی دو مذاہب امت میں زیادہ مشہور وشائع ہیں۔ چنانچہ آپ ’’تفہیمات‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’اس وقت جو امر حق ملا اعلیٰ کے علوم سے مطابقت رکھتا ہے، وہ یہ ہے کہ دونوں کو ایک مذہب کی طرح کر دیا جائے۔ دونوں کے مسائل کو حدیث نبوی کے مجموعوں سے مقابلہ کر کے دیکھا جائے۔ جو کچھ ان کے موافق ہو، اس کو رکھا جائے اور جس کی کچھ اصل نہ ہو، اس کو ساقط کر دیا جائے۔ پھر جو چیزیں تنقید کے بعد ثابت نکلیں، اگر وہ دونوں میں متفق علیہ ہوں تو مسئلہ میں دونوں قول تسلیم کیے جائیں۔‘‘ (ایضاً، ص ۵۸۲)
اگر احادیث کی تدریس میں امام ولی اللہ دہلویؒ کا طریقہ جو آپ نے اپنی مشہور کتب موطا امام مالک کی عربی وفارسی شروح ’المسویٰ‘ اور ’المصفیٰ‘ میں اختیار فرمایا تھا، جاری رہتا تو بڑی حد تک فقہی اختلافات کی شدت اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی ہی میں ختم ہو جاتی اور ملت اسلامیہ کے عوام الناس کے لیے دین پر چلنے کی ایک متفقہ شاہراہ سامنے ہوتی۔ مگر بدقسمتی سے حضرت شاہ ولی اللہؒ کے فوراً بعد ہندوستان کا علمی مرکز ثقل دہلی سے لکھنو منتقل ہو گیا جہاں غالی اہل تشیع کی حکومت نے قرآن وحدیث کے درس کو ختم کرنے اور معقولات کی ترویج کی ہر امکانی کوشش کی۔ خود دہلی میں ابو المنصور صفدر جنگ نے مغلیہ سلطنت پر غاصبانہ قبضہ کر کے یہی کچھ کیا۔
حضرت امام ولی اللہ دہلوی کے فلسفہ وفکر کے عظیم شارح مولانا عبید اللہ سندھی تھے، مگر ان کے بعض شاگردوں نے ان کی فکر کو پوری طرح ہضم کیے بغیر ان کی طرف بعض کمزور باتیں منسوب کر کے مولانا کی شخصیت کو سخت نقصان پہنچایا۔ ان کے بعد دار العلوم دیوبند کے مہتمم قاری محمد طیب صاحب کا ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کا درس مشہور تھا۔ زمانہ قریب میں مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی ندویؒ اور مولانا منظور نعمانی فکر ولی اللہی کے علم بردار تھے۔ اس کی جھلک ’ارکان اربعہ‘ اور ’معارف الحدیث‘ میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اب چند سالوں سے ندوۃ العلماء کے استاذ حدیث مولانا سلمان الحسینی کے حجۃ اللہ البالغہ پر درس مشہور ہو رہے ہیں۔ مولانا سلمان صاحب مدظلہ نے گزشتہ چند سالوں سے لندن میں علماء کرام کو خصوصی طور پر حجۃ اللہ کا درس دیا۔ ۲۰۰۳ء میں لندن کے معروف تعلیمی ادارے ابراہیم کمیونٹی کالج میں اور ۲۰۰۴ میں انگلینڈ کے شہر لیسٹر میں یہ درس بہت کام یاب رہا جس میں علماء کرام کی ایک بڑی تعداد نے بھرپور دلچسپی کے ساتھ شرکت کی۔ مولانا نے وقت کے تقاضے اور احوال کی مناسبت سے درس میں حجۃ اللہ البالغہ کے اس حصے پر خصوصی توجہ مبذول کی جو باب دوم کے تتمہ میں ’اسباب اختلاف الائمہ‘ کے عنوان سے ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اس وقت فقہی اختلافات کی شدت کو کم کرنے کی جتنی ضرورت ہے، اتنی شاید کبھی نہیں تھی، کیونکہ موجودہ دور ہوائے نفس اور اعجاب بالرائے کا دور ہے۔ اختلافات میں انسان کے لیے نفسیات واغراض پر دین کا لبادہ ڈالنا آسان ہوتا ہے۔ غور کیا جائے تو فی زماننا دین کے نام سے ہمارے نوے فی صد اختلافات فی الحقیقت تعصبات اور نفسانیت کے اختلافات ہیں۔ اختلافات کی شدت کم کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ زمین کی طنابیں کھینچ دی گئی ہیں، اور پوری دنیا ایک بستی (گلوبل ولیج) بن چکی ہے اور پوری دنیا پر اہل شر وفساد اور معاندین اسلام کا پوری طرح تسلط قائم ہو چکا ہے۔ ان احوال میں فروعی اختلافات اور مسلک وذوق کے اختلافات میں فکر ولی اللہی کے مطابق اعتدال وتوازن اور وسعت ظرفی کے ساتھ تطبیق کی اشد ضرورت ہے۔ 
ایک زمانہ تھا جب سو ڈیڑھ سو میل کے فاصلے پر زبان، تمدن، معاشرت اور رہن سہن کے طور طریقے بدل جاتے تھے، مگر اب تیزی سے پوری دنیا کا کلچر، معاشرت، لباس اور طرز زندگی ایک سا ہوتا جا رہا ہے، بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں کافرانہ (مغربی) ہوتا جا رہا ہے۔ درحقیقت یہ تمہید ہے اس بات کی کہ جلد ہی دنیا کا مذہب بھی ایک یعنی اسلام ہوگا، کیونکہ قبول حق میں ایک رکاوٹ کلچر، تمدن اور طرز زندگی کا اختلاف بھی رہا ہے۔ احادیث پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ قرب قیامت میں پوری دنیا ایک ہی مذہب (اسلام) کی طرف گامزن ہو جائے گی، اس لیے علماء کرام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دور اور اس کے تقاضوں کو سمجھیں اور فروعی اختلافات کی شدت ختم کر کے اسلام کو ایک متفقہ شاہراہ کے طور پر پیش کریں۔ اگرچہ آل سعود کے سیاسی جرائم بے شمار ہیں، مگر ان کے گنتی کی چند حسنات میں ایک یہ بھی ہے کہ انھوں نے حرم میں ایک امام پر امت کو مجتمع کر دیا۔ اگر آج وہاں ماضی کی طرح چار مصلے ہوتے تو کس قدر بد نمائی اور جگ ہنسائی کا موقع ہوتا اور اسلام کے آفاقی نظام وفکرکو پیش کرنا مزید دشوار ہو جاتا۔
امام ولی اللہ دہلوی کے متعلق مولانا شبلی نعمانی ’’تاریخ علم کلام‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ابن تیمیہ اور ابن رشد کے بعد بلکہ خود انھیں کے زمانے میں مسلمانوں میں جو عقلی تنزل پیدا ہوا تھا، اس کے لحاظ سے یہ امید نہ رہی تھی کہ پھر کوئی صاحب دل ودماغ پیدا ہوگا، لیکن قدرت کو اپنی نے رنگیوں کا تماشا دکھانا تھا کہ اخیر زمانے میں جبکہ اسلام کا نفس باز بین تھا، شاہ ولی اللہ جیسا شخص پیدا ہوا جس کی نکتہ سنجیوں کے آگے غزالی، رازی اور ابن رشد کے کارنامے ماند پڑ گئے۔‘‘
نواب صدیق حسن خان بھوپالی لکھتے ہیں:
’’اگر آپ صدر اول اور پہلے زمانے میں ہوتے تو امام الائمہ اور تاج المجتہدین سمجھے جاتے۔‘‘ 
(ایضاً، ص ۵۵)
آپ کی شاہکار تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے متعلق علامہ شبلی لکھتے ہیں:
’’مذہب دو چیزوں کا مرکب ہے، عقائد واحکام۔ شاہ صاحب کے زمانے تک جس قدر تصانیف لکھی جا چکی تھیں، صرف پہلے حصے کے متعلق تھیں۔ دوسرے حصے کو کسی نے مس نہیں کیا تھا۔ شاہ صاحب پہلے شخص ہیں جنھوں نے اس موضوع پر کتاب لکھی۔‘‘ 
نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:
’’حجۃ اللہ جیسی کوئی تصنیف پہلے بارہ سو سال میں کسی نے نہیں لکھی، نہ کسی عربی نے نہ عجمی نے۔‘‘ (ترجمہ از رود کوثر)
حضرت امام ولی اللہ دہلوی کی قدرت کلام اور اعجاز اظہار کا یہ عالم ہے کہ آپ نے بیک وقت عربی وفارسی میں مہتم بالشان مسائل وموضوعات اور سنگین ونازک مسائل پر مجتہدانہ شان سے اظہار خیال فرمایا۔ آپ کی تصانیف کو درجہ کمال تک پہنچانے میں آپ کے اسلوب تحریر، دقت نظر اور سلامت فہم کے ساتھ ساتھ خود انشا وتحریر کے معجزانہ طرز کا بھی خاص حصہ ہے۔ یہ اسی کا اعجاز ہے کہ حجۃ اللہ البالغہ جیسی تصنیف وجود میں آئی جو بقول مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے اس مرتبہ کی حامل ہے کہ کسی مذہب کی تائید اور اس کی حکیمانہ توجیہ اور کسی نظام کی فلسفیانہ تشریح میں کسی زمانے میں ایسی کتاب نہیں لکھی گئی اور اگر لکھی گئی تو وہ دنیا کے سامنے نہیں ہے۔
بدیہی حقیقت ہے کہ اسلام کی بنیاد قرآن وحدیث پر ہے۔ برصغیر میں قرآن کا فارسی ترجمہ فتح الرحمن کے نام سے حضرت شاہ ولی اللہ نے کیا۔ اس کے بعد آپ کے جلیل القدر فرزندان حضرت شاہ عبد القادر اور شاہ رفیع الدین نے اردو تراجم کیے۔ یہی تراجم اب تک برصغیر کے تمام تراجم کی اصل واساس ہیں۔ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ فارسی میں شیخ سعدیؒ اور قاضی شہاب الدین دولت آبادی نے ترجمہ کیا تھا، مگر وہ کبھی بھی متداول نہیں ہو سکے۔ اسی طرح شاہ ولی اللہ سے پہلے برصغیر کا نصاب تعلیم مشارق الانوار (شرح مشکوۃ) جیسی ایک آدھ کتاب کے علاوہ کتب احادیث سے بالکل خالی تھا۔ یہ امام ولی اللہ دہلوی کی برکت ہے کہ صحاح ستہ نصاب تعلیم کا حصہ بنیں۔ اگرچہ آپ سے پہلے شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے کتب احادیث کی ترویج کی کوشش کی، مگر بوجوہ کامیاب نہ ہو سکے۔ اسی طرح مغلیہ دور سے پہلے گجرات میں شیخ علی متقی اور علامہ طاہر پٹنی وغیرہ نے کتب حدیث کے درس وتدریس کا سلسلہ جاری فرمایا تھا مگر گجرات پر مغلوں کے قبضہ کے بعد وہ ختم ہو گیا۔ حضرت امام ولی اللہ دہلوی نے احادیث پر مجتہدانہ بصیرت سے کلام فرمایا اور تدریس میں صحاح ستہ بلکہ بخاری شریف پر بھی موطا امام مالک کو ترجیح دی۔ آپ نے ’المصفیٰ‘ کے نام سے فارسی میں اور ’المسویٰ‘ کے نام سے عربی میں موطا کی شرحیں لکھیں۔ غرض گزشتہ صدیوں میں برصغیر میں قرآن اور احادیث پر جو بھی کام ہوا ہے یا ہو رہا ہے، ان سب کا سہرا امام ولی اللہ کے سر ہے۔ یہ سب آپ کا صدقہ وطفیل ہے۔ نیز آپ کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے آنے والے دور کے لیے حجۃ اللہ البالغہ میں ایک جدید علم کلام کی بنیاد رکھ دی۔ چنانچہ آپ حجۃ اللہ البالغہ کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
’’مصطفوی شریعت کے لیے وقت آ گیا ہے کہ برہان ودلیل کے پیراہنوں میں ملبوس کر کے اسے میدان میں لانا چاہیے۔‘‘
یہ ایک نئے علم کلام کا پیغام تھا۔ اللہ تعالیٰ کی سنت رہی ہے کہ ہر دور کی ضرورت کے مطابق حقائق ومعارف اپنے خاص بندوں کے دلوں پر القا فرماتے ہیں اور انھیں اپنے زمانے کی ضرورتوں کے مطابق اسلام کی خدمت کے لیے متوجہ فرماتے ہیں۔ امام ولی اللہ دہلوی نے فلسفہ یونانی کی جگہ ایک نئے فلسفہ اور علم کلام کی بنیاد رکھی جسے بجا طور پر فلسفہ ایمانی کہا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ کے دور میں انگریز کے قدم جنوب مشرقی ہندوستان (مدراس وبنگال وغیرہ) میں جم چکے تھے۔ حضرت شاہ ولی اللہ پر اللہ تعالیٰ نے علم اسرار دین منکشف فرمایا۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ آج کے دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے جو مغرب کے لائے ہوئے الحاد وتشکیک کے زہر کا تریاق بن سکتا ہے۔ بعد کے دور میں مغرب کی فکری یلغار کے نتیجے میں فکری انارکی والحاد کا جو سیلاب آیا ہے اور اس نے اسلام کے پیش کردہ نظام حیات پر مسلسل اعتراضات اور حملے کیے، اس نے جدید طبقے کا اعتماد اسلام پر سے متزلزل کر دیا۔ یہی اس دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے جس کا علاج شاہ ولی اللہ کے ایمانی فلسفے میں موجود ہے۔ کاش کہ آپ کے بعد علماء کرام اس فلسفہ سے لیس ہوتے تو انیسویں اور بیسویں صدی میں مغرب کے نظریاتی وفکری حملوں کی کامیاب مدافعت کر سکتے بلکہ اس کا رخ موڑ دیا جاتا۔ اب بھی یہ کام باقی ہے کہ علماء کرام ایمانی فلسفہ سے لیس ہو کر مغرب کے فلسفوں، افکار ونظریات اور علم کلام کا پوسٹ مارٹم کر کے انھی کی زبان واسلوب اور لب ولہجہ میں جواب دیں۔ محدث شہیر حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ کی وصیت کے مطابق علماء کرام کو اپنی توجہ فروعی اختلافات سے ہٹا کر ملت کے حقیقی مسائل کی طرف مبذول کرنی ہوگی۔ یہی وقت کی پکار ہے اور مولانا سلمان الحسینی صاحب کی اس کتاب کا خلاصہ وسبق بھی یہی ہے۔ خدا کرے کہ مولانا سلمان الحسینی کی یہ کاوش کام یابی سے ہم کنار ہو اور وہ جدید علماء کرام میں اس طرز فکر کو عام کرنے میں کام یاب ہوں۔ آمین یا رب العالمین

شیعہ سنی مکالمہ :الشیخ یوسف القرضاوی کے خیالات

ڈاکٹر یوگندر سکند

قطر کے الشیخ یوسف القرضاوی کا شمار دنیا کے ممتاز ترین مسلم علما میں ہوتا ہے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور ان کی شہرت ایک ایسے عالم کی ہے جو کھلے ذہن کے حامل اور زندہ معاصر مسائل کو حقیقی مکالمے کے جذبے کے ساتھ زیر بحث لانے کے خواہش مند ہیں۔ جن موضوعات پر الشیخ قرضاوی نے بہت وسعت کے ساتھ لکھا ہے، ان میں سے ایک مسئلہ مختلف اسلامی گروہوں، فرقوں اور تحریکوں کے مابین تعلقات کا بھی ہے۔ وہ عقیدے کی ایسی انتہا پسندانہ تشریحات کی مذمت کرتے ہیں جو دوسرے تمام مسلمانوں کو صاف صاف کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیں۔ اس کے بجائے وہ اعتدال اور مسلمانوں کے مابین مکالمہ کے داعی ہیں اور اسے قرآن وسنت سے ثابت شدہ طریقہ سمجھتے ہیں۔ 
اسلامی تاریخ کے بیشتر ادوار میں شیعہ اور سنیوں کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ بہت سے شیعہ اور سنی ایک دوسرے کو مرتد حتیٰ کہ اسلام کا دشمن سمجھتے ہیں۔ بعض ممالک میں، جیسا کہ مثلاً آج پاکستان کے بعض حصوں میں، شیعہ سنی تصادم نے نہایت پر تشدد صورت اختیار کر لی ہے۔ اگرچہ زیادہ تر مقامات پر بے حد اہم سیاسی اور معاشی عوامل بھی اس تصادم کو ہوا دیتے ہیں، تاہم فرقہ وارانہ پہلو بھی شیعہ سنی اختلافات کو مزید خراب کرنے میں ایک نہایت قوی عامل کا کردار ادا کرتا ہے۔ شیعہ سنی مکالمے کو فروغ دینے کے لیے نیم دلانہ کوششیں ماضی میں بھی کی گئی ہیں اور آج بھی کی جا رہی ہیں۔ تاہم مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بیشتر قدامت پسند اور روایتی علما حقیقی شیعہ سنی مکالمے کی کسی بھی تجویز کے اگر کھلم کھلا مخالف نہیں تو اس حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار ضرور رہے ہیں۔ مخالف فرقے کو اسلام کا دیرینہ دشمن قرار دینے والا لٹریچر، جو اگرچہ سب کا سب نہیں لیکن زیادہ تر قدامت پسند علما کے قلم سے نکلا ہے، آج بھی لکھا اور تقسیم کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ ایسا لٹریچر کئی صدیوں سے موجود ہے، تاہم لگتا ہے کہ حالیہ سالوں میں چند مخصوص ممالک نے اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے بھرپور سرپرستی کر کے اس قسم کے لٹریچر کو وسیع پیمانے پر پھیلا دیا ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب میں وسیع پیمانے پر تیار کیے جانے والے شیعہ مخالف لٹریچر کی صورت حال یہی ہے جس کا مقصد ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد نمودار ہونے والی شہنشاہیت مخالف اور خاندانی حکومت کے منافی اسلامی تعبیرات کا مقابلہ کرنا ہے۔ 
شیعہ کے بارے میں بیشتر سنی علما کے سخت مخالفانہ موقف کے تناظر میں شیخ یوسف القرضاوی کا رویہ خاص طور پر قابل توجہ ہے۔ شیخ نے حال ہی میں شیعہ کے بارے میں دو فتوے جاری کیے ہیں، جو ویب سائٹ www.islam-online.net پر پڑھے جا سکتے ہیں۔ یہ فتوے ان کی اس شدید خواہش کے آئینہ دار ہیں کہ شیعہ کے ساتھ حقیقی مکالمہ کیا جائے اور وسیع تر حدود میں مسلمانوں کے مابین اختلافات کو گوارا کیا جائے۔ ان میں سے پہلے فتوے میں شیعہ اور سنیوں کی باہمی شادی کا مسئلہ زیر بحث آیا ہے۔ شیخ نے اس سوال کے جواب میں ایک مثالی شادی کی خصوصیات بیان کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ازدواجی زندگی کی بنیاد فریقین کی ذہنی ہم آہنگی پر ہونی چاہیے۔ گرما گرم بحثیں اور مسلسل مباحثے ازدواجی زندگی کو برباد کر دے سکتے ہیں اور اس کا نتیجہ زوجین کی باہمی لڑائی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔‘‘ شیخ نے لکھا ہے کہ میاں بیوی کے مابین شدید تصادم کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ایک فریق (شیخ نے یہاں فریق کو متعین نہیں کیا) سنی ہونے کے ناتے حضرت ابوبکر کا حامی ہو جبکہ دوسرا فریق (اغلباً شیعہ) حضرت علی کا دفاع کرے۔ شیخ نے واضح طور پر لکھا ہے کہ وہ اس شادی کو حرام نہیں قرار دیتے، لیکن انہوں نے کہا ہے کہ ’’میں اس کو ترجیح نہیں دیتا۔‘‘ جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا نتیجہ تصادم اور آخر کار شادی کی ناکامی کی صورت میں نکلے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ جیسے ایک مسلمان کو کسی مسیحی خاتون سے شادی کرنے کی اجازت ہے، اسی طرح وہ کسی شیعہ لڑکی سے بھی شادی کر سکتا ہے۔ تاہم اگرچہ وہ ایک سنی مرد کی ایک شیعہ خاتون کے ساتھ شادی کو قانونی طور پر جائز تصور کرتے ہیں، لیکن ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ کوئی مثالی شادی نہیں ہے۔ البتہ وہ اس پر ایک مزید شرط عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر شیعہ خاتون ایک معتدل شیعہ ہے، سنیوں کے ساتھ ان کی مسجد میں نماز پڑھتی ہے اور ان کے ساتھ تصادم کی حمایت نہیں کرتی، تو ایک سنی مرد اس سے شادی کر سکتا ہے اگر وہ ’’سچ مچ ایسا کرنا چاہتا ہے۔‘‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ فتوے کے آخر میں شیخ نے مزید یہ کہا ہے کہ ’’یہ بات محتاج وضاحت نہیں کہ مذکورہ فتویٰ کا اطلاق اس صورت میں بھی ہوتا ہے جبکہ مرد شیعہ اور خاتون سنی ہو۔‘‘
شیخ قرضاوی کے دوسرے فتوے میں زیادہ تفصیل کے ساتھ شیعہ سنی تعلقات پر اور بالخصوص دونوں گروہوں کے مابین مکالمہ کے موضوع پر بحث کی گئی ہے۔ شیخ نے یہ فتویٰ مارچ ۲۰۰۴ میں عراق کے کسی حسین نامی شخص کے سوال کے جواب میں جاری کیا تھا اور اس کا عنوان خاصا چونکا دینے والا ہے: ’’شیعہ اور سنی مسلمانوں کے مابین اختلافات کو نظر انداز کرنا‘‘۔ شیخ نے جواب کا آغاز مسلمانوں کے مابین اخوت کے تصور سے کیا ہے جس پر اسلام نے بے حد زور دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ اس سے شیعہ اور سنی کے مابین فی الفور مکالمے کی ضرورت اجاگر ہوتی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے چند عمومی ضابطے ذکر کیے ہیں جن کی پابندی سنیوں کو شیعہ کے ساتھ مکالمے میں ملحوظ رکھنی چاہیے۔ انھوں نے کہا ہے کہ سب سے اہم ضابطہ یہ ہے کہ اتفاقی نکات پر توجہ مرکوز کی جائے، نہ کہ اختلافی امور پر۔ اتفاقی امور میں سب سے نمایاں وہ چیزیں ہیں جن کا تعلق ’’دین کی اساسات‘‘ سے ہے۔ دوسری طرف ان کا کہنا ہے کہ شیعہ اور سنیوں کے مابین اختلاف کے بیشتر نکتے ’’معمولی‘‘ باتوں سے متعلق ہیں، اس لیے انھیں مکالمے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہیے۔
اس کے بعد شیخ نے شیعہ اور سنیوں کے مابین عمومی اتفاق کے دائروں پر تفصیل سے بحث کی ہے جن کو ان کی رائے میں دونوں گروہوں کے مابین بامعنی مکالمہ اور قیام وحدت کی کوششوں کی بنیاد قرار پانا چاہیے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ شیعہ اور سنی، دونوں بہت سے بنیادی عقائد پر متفق ہیں، جیسا کہ خدا پر ایمان، رسول اللہ ﷺ کی ختم نبوت پر ایمان، تمام آسمانی صحیفوں اور رسولوں پر ایمان، اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے پر ایمان۔ شیعہ اور سنی دونوں اسلام کے پانچ بنیادی ارکان پر بھی متفق ہیں، یعنی اللہ کی وحدانیت اور محمد ﷺ کی رسالت کی گواہی، فرض نمازیں، زکاۃ، حج اور رمضان کے روزے۔ شیخ نے اعتراف کیا ہے کہ ان ارکان سے متعلق بعض احکام میں شیعہ اور سنی باہم مختلف ہیں، تاہم انھوں نے کہا ہے کہ اس نوعیت کا اختلاف رائے ’’ایک بالکل فطری چیز ہے۔‘‘ متعدد دوسرے سنی علما کے برعکس، وہ شیعہ اور سنیوں کے مابین تخیلاتی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے گریز کرتے ہیں اور اس کے بجائے یہاں تک کہتے ہیں کہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان کو سمجھنے میں شیعہ اور سنی کا اختلاف ایسے ہی ہے جیسے خود سنی فقہا، مثلاً حنبلی، حنفی اور مالکی مکاتب فکر کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ 
شیعہ اور سنیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوششوں میں شیخ نے معروف سنی عالم امام الشوکانی کا مثبت انداز میں حوالہ دیا ہے جنھوں نے ’’ممتاز سنی اور شیعہ فقہا کی آرا کا بالکل یکساں درجے میں حوالہ دیا ہے۔‘‘ شیخ نے رائے دی ہے کہ فقہی مسائل میں ، خواہ ان کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے، شیعہ اور سنیوں کے مابین غالباً کوئی ’’بنیادی اختلاف‘‘ نہیں ہے۔ انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ شیعہ، اہل سنت کی کتب حدیث کو مستند تسلیم نہیں کرتے، تاہم انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان کتابوں میں مذکور بیشتر احادیث کو شیعہ بھی مستند مانتے ہیں، خواہ وہ ایسے ذرائع سے منقول ہوں جو خود ان کے نزدیک مستند ہیں یا ان کے ائمہ کی آرا کی صورت میں جنھیں وہ معصوم عن الخطا قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے نتیجہ یہ نکالا ہے کہ مجموعی طور پر شیعہ اور سنی فقہ میں ’’اچھا خاصا اتفاق‘‘ موجود ہے اور یہ ان کے نزدیک وہ ’’سب سے اہم نکتہ‘‘ ہے جسے شیعہ سنی مکالمہ اور اتحاد کے مسئلے پر غور کرتے ہوئے ذہن میں رکھنا چاہیے۔ انھوں نے کہا ہے کہ فقہ کے دونوں ذخیرے ایک ہی ماخذ، یعنی قرآن اور سنت پر مبنی ہیں اور دونوں کا مشترک مقصد لوگوں کے مابین اللہ کے انصاف اور عدل کو قائم کرنا ہے۔
شیخ چند مخصوص امور میں شیعہ اور سنیوں کے مابین اختلاف سے ناواقف نہیں ہیں، تاہم وہ انھیں مشترکہ اور متفقہ نکات کے مقابلے میں نسبتاً کم اہم قرار دیتے ہیں۔ دونوں گروہوں کے مابین مشترکات کو نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ وہ بعض سنی حلقوں میں عمومی طور پر پائے جانے والے اس تصور کی بھی تردید کرتے ہیں کہ تمام شیعہ بعض ایسے عقائد کے حامل ہیں جنھیں سنی درست تسلیم نہیں کرتے۔ یوں بعض ایسے شیعہ خیالات جو ہمیں بڑے عجیب دکھائی ہیں، ان کو بعض سنی علما نے بھی اختیار کیا ہے۔ مثال کے طور پر وہ بتاتے ہیں کہ بیشتر شیعہ وقتی نکاح (متعہ) کو جائز سمجھتے ہیں جبکہ سنی علما بالعموم اسے ممنوع قرار دیتے ہیں۔ تاہم رسول اللہ ﷺ کے ایک صحابی حضرت ابن عباس نکاح کی اس صورت کو جائز سمجھتے تھے اور اگرچہ بعد میں انھوں نے اس ضمن میں اپنی رائے تبدیل کر لی، لیکن مکہ اور یمن میں ان کے بعض پیروکار مثلاً سعید بن جبیر اور طاووس اس نکاح کو جائز ہی قرار دیتے رہے۔
مجموعی طور پر شیعہ سنی تعلقات کے پریشان کن مسئلے کے حوالے سے شیخ قرضاوی کی نسبتاً کھلے ذہن والی اپروچ بہت سے قدامت پسند سنی علما کی رائے کے برعکس ہے، خاص طور پر وہابی علما جو اس پر اصرار کرتے ہیں کہ شیعہ مبتدع اور دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔ شیخ قرضاوی نے اس موقف سے شدید اختلاف کیا ہے اور اس کے بجائے بیشتر شیعہ کو صاف لفظوں میں اپنا مسلمان ساتھی تسلیم کیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں انھوں نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ ’’یہ بات سب کو معلوم ہونی چاہیے کہ تمام وہ شیعہ مسلمان ہیں جو خدا کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘ انھوں نے واضح کیا کہ شیعہ کی اصطلاح ’’ایسے گروہ کے لیے بولی جاتی ہے جو امام علی کے پیروکار ہیں۔‘‘ وہ اہل بیت کے بھی مکمل وفادار ہیں۔ یہ کوئی غلط یا غیر اسلامی ایجاد نہیں ہے اور نہ شیعہ کہلانے والے اس میں منفرد ہیں۔ شیخ نے کہا ہے کہ حقیقت میں ’’اس طرح کی وفاداری ہر مسلمان سے مطلوب ہے‘‘ اور اس کے بعد انھوں نے اس کے حق میں قرآن سے دلائل دیے ہیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ شیعہ کے کچھ اپنے مخصوص عقیدے ہیں جنھیں سنی بدعت قرار دے کر مسترد کرتے ہیں، تاہم ’’ان سے وہ غیر مسلم قرار نہیں پاتے۔‘‘ البتہ انھوں نے ان شیعہ گروہوں میں جنھیں بالکل جائز طور پر مسلمان کہا جا سکتا ہے، اور ان شیعہ میں جن کے عقائد اور اعمال واضح طور پر خود شیعہ اکثریت کے عقائد سے منحرف ہیں، واضح فرق قائم کیا ہے۔ موخر الذکر میں وہ گروہ شامل ہیں جو حضرت علی کو خدا مانتے ہیں یا یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اصل میں آخری پیغمبر حضرت علی تھے نہ کہ حضرت محمد ﷺ۔
شیخ کی رائے یہ ہے کہ مسلمانوں، خاص طور پر شیعہ اور سنیوں کی باہمی کشمکش صرف اور صرف ان قوتوں کے لیے کارآمد ثابت ہوتی ہے جو تمام مسلمانوں کی دشمن ہیں۔ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ ’’تمام مسلمانوں کو ان اسکیموں اور منصوبوں کے بارے میں چوکنا رہنا چاہیے جو دشمنان اسلام نے تیار کی ہیں۔ وہ ہمیں عقیدے کے نام پر آپس میں لڑانا بھڑا نا چاہتے ہیں۔‘‘ انھوں نے شیعہ اور سنیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ دشمنوں کو اس بات کا موقع فراہم نہ کریں۔
فتوے کی نوعیت کا لحاظ کرتے ہوئے شیخ نے شیعہ اور سنیوں کے مابین سادہ فقہی اختلافات کے مقابلے میں اعتقادی اختلافات پر زیادہ تفصیل سے بحث نہیں کی، بلکہ اس کے بجائے پوچھے جانے والے متعین سوالات کا محض سادہ انداز میں جواب دے دیا ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ شیعہ اور سنیوں کے مابین بامعنی مکالمہ میں عقیدہ اور تاریخ کے مسائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، تاہم شیخ کے فتوے اس بات کو واضح کر دیتے ہیں کہ مکالمہ صرف اس صورت میں شروع ہو سکتا ہے جب فریقین اپنے مابین مشترک امور کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہو جائیں، اور جیسا کہ شیخ نے واضح کیا ہے، شیعہ اور سنیوں کے مابین بہت سے امور مشترک ہیں اور انھی کو ایک حقیقی اسلامی افہام وتفہیم اور برداشت کی بنیاد بننا چاہیے۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
۵؍مارچ ۲۰۰۵
محترم ومکرم مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سب سے پہلے تو آپ کو اور تمام مسلمانوں کو نیا ہجری سال ۱۴۲۶ھ مبارک ہو۔ اللہ پاک مسلمانوں پر رحم فرمائے اور تمام عالم میں دین کے زندہ ہونے کی شکلوں کو وجود عطا فرمائے۔ آمین۔
’الشریعہ‘ کا ملنا بہت ہی حیرت کا سبب ہوا۔ یہ محض زبانی الفاظ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ دینی رسالوں کے ایک جم غفیر میں مجھے یہ ہی رسالہ ایسا لگا کہ جسے میں اپنے پڑھے لکھے دوستوں میں پیش کر سکتا ہوں کہ اس میں بھولے سے بھی کوئی ایسی بات نہ ہوگی جس سے تنگ نظری اور دین کا مسخاکہ سامنے آتا ہو۔ پہلی بار میں نے رسالہ دیکھا تو اس میں رافضیت پر آپ کے ابا جان مدظلہ کا انتہائی متوازن مضمون دیکھا۔ اگلا شمارہ ملا تو قادیانیت پر شائع کردہ ایک کتابچے پر تنقیدی تبصرہ پڑھا۔ واللہ پہلی بار معلوم ہوا کہ علما بھی علما کے کیے ہوئے کام پر جان دار تبصرہ فرما سکتے ہیں اور قادیانیت جیسے touchy موضوع پر لکھے مواد کی فنی چھان پھٹک کرنے کا حوصلہ کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد مجھے رسالے کا انتظار رہنے لگا۔ پھر آپ کے قبلہ ابا جان مدظلہ کی ایک تحریر پڑھی جس میں سوز دل کے ساتھ سپاہ صحابہ کے طریق کار پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ آج رسالہ ملا ہے تو سب کام چھوڑ کر پہلے اسے مکمل کیا۔ میں پچھلے ماہ سے ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کے خطاب ’’مغرب کا فکری وتہذیبی چیلنج اور علما کی ذمہ داریاں‘‘ کی اشاعت کے انتظار میں تھا۔ یہ پیاس آج بجھی ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ پیاس اب لگی ہے۔ میں کیا اور میری رائے کیا، لیکن یہ ضرور عرض کروں گا کہ مدارس اور ان کے نظام تعلیم کے بارے میں ایک عرصہ پہلے پڑھی ہوئی مولانا عیسیٰ منصوری صاحب کی کتاب کے بعد اس موضوع پر سب سے متوازن تحریر یہی ہے کہ جس میں نہ بڑبولا پن ہے اور نہ معذرت والی مدلل مداحی۔ کاش ایسا ہو جائے کہ یہ مضمون چند مدارس میں باقاعدہ مطالعے اور مذاکرے کے لیے بھیجا جا سکے۔ کاش کہ علما ڈاکٹر غازی صاحب کی اس بات کو ایک عالم کی بات کے طور پر لیں نہ کہ ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر کے خیالات کے تناظر میں، کہ اپنے خطاب میں انھوں نے اپنی اس حیثیت کو تحدیث بالنعمۃ کے طور سے جتایا بھی ہے۔ اور یہ بھی کیا ہی خوش کن اتفاق ہے کہ مولانا منصوری صاحب مدظلہ کی مذکورہ کتاب بھی آپ ہی کی عنایت کردہ تھی۔
انگریزی میں ایک محاورہ ہے: Food for thought، جس کا اردو مترادف مجھے معلوم نہیں۔ آپ کا رسالہ دراصل یہی ’ذہنی غذا‘ فراہم کر رہا ہے، اور واللہ یہ آج کی بہت ہی نایاب جنس ہے۔ آپ کے معاونین کی فہرست دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کس جاں گسل محنت کے بعد ایسے صاحب الرائے لوگ ایک مقصد کے لیے جمع کیے گئے ہوں گے۔ وما ذالک علی اللہ بعزیز۔
نیاز مند
حافظ صفوان محمد چوہان
سینئر لیکچرر/ ڈویژنل انجینئر (کمپیوٹر اینڈ ڈیٹا سروسز)
ٹیلی کمیونیکیشن سٹاف کالج، ہری پور
(۲)
ماہنامہ ’الشریعہ‘ جنوری ۲۰۰۵ کے شمارہ صفحہ ۳۰ پر محترم پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب کا مضمون ’قربانی کی رسم کا نفسیاتی پہلو‘ پڑھنے کے بعد یہ طالب علم سوچ میں پڑ گیا کہ محترم پروفیسر صاحب نے اپنے مضمون کا جو سر عنوان دیا ہے، اس میں قربانی کو ایک رسم اور نفسیاتی عمل کہا گیا ہے، جبکہ عام مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق قربانی کو فرض، واجب کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ میری ناقص عقل کے مطابق جس چیز یا عمل کو شریعت نے فرض یا واجب قرار دے دیا ہو، اسے رسم ورواج کے زمرہ میں شمار نہیں کیا جانا چاہیے، بلکہ اس پر عمل پیرا ہونا لازمی امر بن جاتا ہے۔ جبکہ رسم کوئی بھی ہو، اس پر عمل پیرا ہونے یا نہ ہونے سے فرد کے عقیدے اور اس کی ذات پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس طالب علم کی رائے کے مطابق پروفیسر صاحب کو سب سے پہلے قربانی کی تعریف (Definition) کرنی چاہیے تھی کہ قربانی ہے کیا؟ قربانی کیوں کی جاتی ہے؟ قربانی صرف جانور کی ہی ہو سکتی ہے یا کسی اور چیز کی بھی قربانی ہو سکتی ہے؟ نیز یہ کہ قربانی کرنے یا نہ کرنے سے فرد کی ذات اور اس کے کردار پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ اور اس سے سوسائٹی یا معاشرہ میں کیا تبدیلی رونما ہو سکتی ہے؟ تاکہ مضمون پڑھتے وقت قاری کا ذہن تذبذب یا التباس میں نہ پڑ جائے۔
بے شک انسانی تاریخ میں قربانی کا تصور موجود رہا ہے، گوکہ اس کی نوعیت مختلف ادوار میں مختلف رہی ہے اور دیوی، دیوتاؤں کے حضور انسانوں اور جانوروں کی قربانیاں دی جاتی رہی ہیں بلکہ وحشت کے دور میں تو ایک انسان دوسرے انسان کی خوراک بھی بن جایا کرتا تھا، لیکن یہ جانی قربانی کسی بھی دور میں انسان کے کسی بھی فطری جذبہ کی تسکین کی خاطر نہیں کی جاتی تھی، جیسا کہ پروفیسر صاحب نے تحریر فرمایا ہے، بلکہ یہ قربانی خارج میں فطرت کی قوتوں کے ڈر اور خوف کے جبر کا نتیجہ تھی اور اس ڈر اور خوف کی مجبوری کا اثر انسان کے خیالات اور جذبات پر بھی پڑتا تھا۔ اس وقت اس کے خیال کے مطابق انسانی یا حیوانی قربانی دینے سے وہ محفوظ ومامون رہ سکتا تھا اور اس ڈر اور خوف سے اسے نجات مل جائے گی۔ وہ جاہلیت کا دور تھا۔ جوں جوں انسانی شعور کا ارتقا اور اس کی نشوو نما ہوتی چلی گئی، انسان نے فطرت کی قوتوں کو ایک ایک کر کے مسخر کرنا شروع کر دیا تو جانی قربانی کا تصور کمزور ہوتا چلا گیا۔ اب تمام دنیا میں (ماسوائے مسلم معاشرہ کے) ہر قسم کی جانی قربانی کا تصور تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ ایک ماہر نفسیات بتا رہے تھے کہ جب سے انسان وجود میں آیا ہے، ہنوز یہ اپنی شعوری صلاحیتوں کا صرف دس فی صد حصہ اپنے تصرف میں لا سکا ہے اور ابھی نوے فیصد شعوری صلاحیتیں اسٹور میں پڑی ہیں۔ جیسے جیسے انسانی شعور بلند ہوتا چلا جائے گا، فرسودہ تصورات وروایات ازخود ختم ہوتے چلے جائیں گے۔
فطرت (Nature)، فطری جذبہ سے مراد کسی شے کی وہ خصوصیت ہے جو اٹل ہو۔ کوئی بھی شے اپنی فطرت کو بدل نہیں سکتی۔ شیر کی فطرت درندگی، بکری کی فطرت چرندگی، یہ فطری تقاضے ہیں۔ ان کے اظہار پر سب جاندار بشمول انسان مجبور ہیں۔ کیا جانی قربانی کا عمل بھی انھی معنوں میں لیا جا سکتا ہے؟
اب رہی داخلی جذبات کی بات تو عرض ہے کہ علم النفس کی رو سے جذبات مجموعہ ہوتے ہیں ان خارجی ابتدائی نقوش کا جو وراثت، ماحول اور ابتدائی تعلیم سے بچے کے ذہن پر مرتسم ہوتے رہتے ہیں یا یہ حاصل ہوتے ہیں ان تصورات، معتقدات، رسوم ورواج کا جو تمام انسانوں کو نسلی طور پر وراثتاً ملتے ہیں، لہٰذا جانی قربانی کو کسی یکساں جذبے یا داخلی تحریک کی علامت کے طور پر تمام انسانوں میں فطری طور پر موجود قرار نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ جذبات ہر انسان کے علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں، یکساں ہو ہی نہیں سکتے۔
اب رہیں نفسیاتی اور تحلیل نفسی کے حوالے سے میری معروضات۔ ہر فرد کی نفسیاتی کیفیت الگ الگ ہوتی ہے۔ اسی طرح مختلف اقوام اور قبائل کی نفسیات بھی مختلف ہوتی ہیں۔ نفسیاتی تبدیلی کیسے رونما ہوتی ہے، میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں۔ دو ایک مزید مثالیں لیجیے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ انگریزی خواتین اپنے جسم، ہاتھ اور منہ کا ننگا رکھنا معیوب اور گناہ سمجھتی تھیں۔ یہ ان کی اس وقت کی نفسیات تھی۔ آج اسی انگریزی معاشرہ کی خواتین لباس کے تکلف سے بھی آزاد ہو چکی ہیں۔ یہ اس وقت کی نفسیات ہے۔ ہندو کو گوشت کے نام سے ہی گھن آتی ہے، جبکہ مسلمان کی خوراک میں گوشت لازمی جزو کے طور پر شامل ہے۔ مسلمان کو سور کے نام سے گھن آتی ہے تو عیسائی اسے شوق سے کھاتے ہیں۔
ہندو قوم میں ستی کی رسم کو آپ نے داخلی جذبات کی گھٹن کا نتیجہ قرار دیا۔ اس عاجز نے جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے، وہ یہ کہ ستی کی رسم غیرت کے نام پر قتل قسم کی چیز تھی۔ شوہر کے مرجانے یا قتل ہو نے کے بعد بیوہ عورت کسی دوسرے مرد کی بیوی بننا گوارا نہیں کرتی تھی اور شوہر کے ساتھ جل مر نے کو ترجیح دیتی تھی۔ بعد میں اس عمل کو مذہبی تقدس بھی حاصل ہو گیا تھا۔ یہ سلسلہ انگریزوں نے آکر بند کیا۔ تو عرض ہے کہ اس رسم کو تحلیل نفسی یا داخلی جذبات کی گھٹن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فطری جذبات پر بند باندھنا اور ان گھٹے ہوئے جذبات کے اظہار کا غلط راستہ اختیار کرنا فرد کے اندر کا معاملہ ہے جبکہ تحلیل نفسی خارجی عمل ہوتا ہے۔ جانی قربانی میرے داخلی جذبات کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ خارجی تصورات، معتقدات، وراثت، ماحول کا نتیجہ ہے۔ یہ جو خود کش دہشت گرد پائے جاتے ہیں یا ایک خاص عقیدہ رکھنے والا شخص دوسرا عقیدہ رکھنے والے کو قتل کر دیتا ہے، یہ تحلیل نفسی کا نتیجہ ہوتا ہے، لہٰذا نفسیات یا تحلیل نفسی مستقل بالذات یکساں فطری جذبہ یا تحریک کی علامت نہیں جو تمام انسانوں میں مشترکہ طور پر پایا جاتا ہو اور ہر انسان اپنے آپ کو جانی قربانی کرنے پر مجبور پاتا ہو۔ یہ صرف اعتقاد اور عقیدہ کا مسئلہ ہے۔
آفتاب عروج
مکان نمبر 11/9-W۔ گوجر روڈ
گوجر چوک۔ سیٹلائیٹ ٹاؤن۔ چنیوٹ
(۳)
۲۶ فروری ۲۰۰۵
برادر محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید ہے کہ صحت اچھی ہوگی۔ معلوم نہیں کہ مولانا سرفراز خان صاحب اور مولانا عبد القیوم صاحب کی صحت کیسی ہے۔ یہ خط آپ کو اس لیے لکھ رہا ہوں کہ آپ کا تبصرہ المرکز الاسلامی بنوں کی فقہی کانفرنس پر پڑھا۔ میں نے اس سے قبل اپنے پرچے میں یہ تجویز بھی دی تھی کہ ایم ایم اے کی جماعتیں کم از کم جمعیت علماء اسلام (دیوبندیت) اور جماعت اسلامی اپنے سے روٹھے ہوئے لوگوں کو اپنے دائرے میں لے آئیں تو اس سے ایم ایم اے کو وسعت ملے گی۔
آپ نے اسلام کے حوالے سے جن جدید مسائل کا ذکر کیا ہے اور جس طرح مسلکی دائروں سے نکل کر تحقیقات کرنے کی جرات مندانہ رائے کا اظہار کیا ہے، اس سے مجھے بڑی خوشی ہوئی، لیکن اس سلسلے میں شریعہ اکیڈمی ہی اگر کوئی اقدام کرے تو اس سے کوئی راہ نکلے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلک، تفرد اور تحزب نے اسلامی عناصر کو بہت ہی کسا ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ باندھا شخص جولانی نہیں دکھا سکتا اور محدود فکر اسلام کے لا محدود تصور اور مقاصد کو گرفت میں نہیں لے سکتی۔ میں نے پہلے بھی ایک خط میں یہ عرض کی تھی کہ آپ خود آغاز کریں۔ مثلاً ایک موضوع ذہن میں ہے کہ ’’اسلام اور جمہوریت‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار کی ضرورت ہے۔ بعض دوست جمہوریت کو کفر کہتے ہیں اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جمہوریت کا موجد ہی اسلام ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلکی فقہی دائرے سے یہ ذرا اونچا موضوع ہے، جس طرح آپ چاہتے ہیں کہ جدید نظریاتی دوائر میں کام کیا جائے۔
نیاز مند
سید معروف شاہ شیرازی ایڈووکیٹ
چیئرمین ظلال القرآن فاؤنڈیشن
مین سہام روڈ۔ پشاور روڈ۔ راول پنڈی
(۴)
محترم جناب مدیر الشریعہ
سلام مسنون
امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔
’الشریعہ‘ کا شمارہ فروری ۲۰۰۵ نظر نواز ہوا جس میں محترم دوست میاں انعام الرحمن کا مضمون ’’ثقافتی زوال کا رجائیہ نوحہ‘‘ پڑھ کر خوشی ہوئی۔ ایک تو میاں صاحب کے قلم کی جولانی اور پھر زیر تبصرہ شاعری جب خود میری شاعری تھی تو صاف بات ہے، خوشی کیوں نہ ہوتی۔ تاہم مضمون سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ یہ کتاب اشاعت پذیر ہو چکی ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ میری زیر اشاعت کتاب کے حوالے سے لکھا گیا مضمون ہے۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری سمجھی کہ دوستوں کو شکایت کا موقع نہ ملے کہ کتاب چھپنے کے بعد ان تک کیوں نہیں پہنچی۔ میاں صاحب اور دیگر احباب کی خدمت میں سلام۔
نیاز مند
کلیم احسان بٹ
گورنمنٹ زمیندار کالج
بھمبر روڈ۔ گجرات
(۵)
محترم ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم
ماہنامہ ’الشریعہ‘ بڑی باقاعدگی سے ہر ماہ ملتا ہے۔ بہت شکریہ۔ خوشی اس بات کی ہے کہ آپ اور آپ کے معاونین نے اپنے اس علمی وادبی جریدے کو کسی مخصوص نقطہ نظر کے فروغ کا ذریعہ نہیں بنایا، بلکہ مذہب، سیاست اور ادب پر لکھے جانے والے متنوع موضوعات کے حامل مضامین کو ’الشریعہ‘ میں مناسب جگہ دی جاتی ہے۔ بلاشبہ ہر اچھے اور معیاری پرچے کا یہی بنیادی اصول ہونا چاہیے تاکہ ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے قاری کو اس کی طبع کے مطابق متوازن فکری انداز کے حامل مضامین پڑھنے کو ملتے رہیں۔
’الشریعہ‘ کی وساطت سے پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب کی مختلف موضوعات پر تحریریں نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ موصوف کس طرح تنقیدی اور تحقیقی زاویوں سے ہر نوع کے موضوعات پر بڑی کامیابی کے ساتھ خامہ فرسائی کر لیتے ہیں۔ یقیناًمسلسل او رمتنوع مطالعہ سے جنم لینے والی تحریری قوت ہی انھیں اس قدر مختلف موضوعات کے فکری اظہار پر اکساتی ہے۔ 
فروری ۲۰۰۵ کے شمارے میں انعام الرحمن صاحب کے دو مضامین نظر سے گزرے: ’’اسلامی حکومت کا فلاحی تصور‘‘ اور کلیم احسان بٹ کے شعری مجموعے ’’چلو جگنو پکڑتے ہیں‘‘ پر ان کا تنقیدی مضمون ’’ثقافتی زوال کا رجائیہ نوحہ‘‘۔ اگرچہ دونوں مضامین ان کی تحریری قوت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں، لیکن کلیم احسان کی کتاب پر لکھا گیا مضمون بعض مقامات پر اشعار کی تشریح کے حوالے سے فکری ابہام کا باعث بنتا ہے۔ خصوصاً یہ شعر:
وہ مجھے راستہ دکھاتا ہے
مری مٹھی میں ایک جگنو ہے
اس شعر کی تشریح کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے، کیونکہ ’’ہتھیلی‘‘ کے بجائے ’’مٹھی‘‘ میں جگنو ہونے سے کسی طور شاعر کی انانیت کا سراغ نہیں ملتا، بلکہ اس سے ایک خدشے یا ڈر کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ اس طرح کہ ہتھیلی سے جگنو کے اڑنے کا اندیشہ ہے۔ مضمون کی ابتدا میں ’’میر اور ناصر کی شعری روایت کی ترفیع‘‘ کے حوالے سے کلیم احسان کے جو اشعار بطور مثال پیش کیے گئے ہیں، میرے نزدیک وہ ’’شعری روایت کی ترفیع‘‘ نہیں بلکہ بازگشت ہیں۔ میرا خیال ہے یہ غلطی اشعار کے انتخاب کے دوران میں ہوئی۔ بہرحال یہ وہ معمولی فرو گزاشتیں ہیں جنھیں بڑی آسانی سے دور کیا جا سکتا ہے۔
میری دعا ہے کہ پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب اسی جذبے اور جوش وخروش کے ساتھ ہمیشہ اپنی فکری اور تحریری توانائی سے ساکت اذہان کو متحرک کرتے رہیں۔ آمین
والسلام
سید وقار افضل
لیکچرر، گورنمنٹ زمیندار کالج، گجرات

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’تذکار بگویہ ‘‘

بھیرہ ضلع سرگودھا میں علماء کرام کے قدیمی خاندان ’’علماء بگویہ‘‘ کی دینی وملی خدمات کا سلسلہ تین صدیوں سے زیادہ عرصے کو محیط ہے اور ان میں حضرت مولانا قاضی احمد الدین بگوی رحمہ اللہ تعالیٰ جیسے نامور بزرگ بھی شامل ہیں جنھوں نے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی درس گاہ سے کم وبیش چودہ برس تک استفادہ کیا اور حضرت شاہ محمد اسحاق دہلویؒ سے حدیث نبوی کی سند حاصل کی اور پھر اپنے گاؤں بگہ ضلع جہلم اور پنجاب کے مرکز لاہور میں بیٹھ کر ہزاروں تشنگانِ علوم کو سیراب کیا جس سے پنجاب کا تعلق دہلی کی درس گاہ ولی اللٰہی کے ساتھ قائم ہوا۔
اسی خانوادہ کے ایک فاضل دوست ڈاکٹر صاحبزادہ انوار احمد بگوی نے اس عظیم خاندان کی علمی ودینی تاریخ کو ۱۶۵۰ سے ۱۹۴۵ تک ایک جلد میں بیان کیا ہے جو بہت سی نادر اور تاریخی معلومات کا ذخیرہ ہے۔
نو سو سے زائد صفحات کی یہ مجلد کتاب شعبہ نشر واشاعت مجلس حزب الانصار، بھیرہ ضلع سرگودھا نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ساڑھے پانچ سو روپے ہے۔

’’خانقاہ احمدیہ سعیدیہ موسیٰ زئی شریف‘‘

موسیٰ زئی شریف ڈیرہ اسماعیل خان کی عظیم خانقاہ کی بنیاد حضرت شاہ احمد سعید دہلویؒ نے ۱۸۵۷ کے معرکہ حریت کے بعد مدینہ منورہ ہجرت کرنے سے قبل رکھی تھی اور حضرت خواجہ دوست محمد قندھارویؒ نے اسے آباد کیا تھا۔ حضرت شاہ احمد سعید دہلویؒ حضرت شاہ عبد الغنی محدث دہلویؒ کے بھائی، حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کے شاگرد اور حضرت شاہ غلام علی دہلویؒ کی روحانیت کے امین تھے۔ جناب محمد نذیر رانجھا نے اس عظیم خانقاہ کی تاریخ اور اس سے فیض یاب ہونے والے بہت سے علماء کرام اور مشائخ عظام کے حالات کو دل چسپ انداز میں مرتب کیا ہے اور بہت سی معلومات کا ذخیرہ اس میں سمو دیا ہے۔
سات سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب جمعیۃ پبلی کیشنز، مسجد پائیلٹ سکول، وحدت روڈ لاہور نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت تین سو روپے ہے۔

ماہنامہ ’’سوئے حرم‘‘

یہ ماہنامہ جناب محمد صدیق شاہ بخاری کی زیر ادارت لاہور سے شائع ہوتا ہے جس میں مختلف دینی وملی موضوعات پر معلوماتی مضامین شامل اشاعت ہوتے ہیں اور ایک شمارے کے ٹائیٹل پر درج عبارت ’’تمام مسالک کے احترام پر مبنی فرقہ واریت سے بالاتر دلوں کی آواز‘‘ کے مطابق قارئین کو فکری ودینی مواد مہیا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس کا سالانہ زر خریداری پاکستان میں اڑھائی سو روپے اور فی شمارہ قیمت پچیس روپے ہے۔ ملنے کا پتہ: ماہنامہ سوئے حرم، ۵۳ وسیم بلاک، حسن ٹاؤن، ملتان روڈ، لاہور۔

’’اجتماعی اجتہاد: تصور، ارتقا اور عملی صورتیں‘‘ کے عنوان پر تین روزہ سیمینار

ادارہ

۱۹ تا ۲۱ مارچ ۲۰۰۵ کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ادارۂ تحقیقات اسلامی کے زیر اہتمام ’’اجتماعی اجتہاد: تصور، ارتقا اور عملی صورتیں‘‘ کے عنوان پر تین روزہ سیمینار منعقد ہوا جس میں ممتاز عرب فقیہ اور دانش ور الدکتور وہبہ الزحیلی، سینٹ آف پاکستان میں قائد ایوان جناب وسیم سجاد، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان، یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر محمود احمد غازی، ممتاز دانش ور جناب جاوید احمد غامدی، ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری، ڈاکٹر محمود الحسن عارف، ڈاکٹر محمد طاہر منصوری، ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی، مولانا محمد صدیق ہزاروی، مولانا حافظ صلاح الدین یوسف، مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی، ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی اور دیگر اہل دانش کے علاوہ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے بھی خطاب کیا جبکہ بھارت سے مولانا سید جلال الدین العمری، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا سعود عالم قاسمی اور مولانا ڈاکٹر فہیم اختر ندوی نے سیمینار میں شرکت کی اور مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا۔
مولانا زاہد الراشدی نے سیمینار کی چوتھی نشست (۲۰ مارچ اتوار بعد نماز ظہر) کی صدارت کی اور ’’مغربی فلسفہ وتہذیب اور مسلم امہ کا رد عمل‘‘ کے موضوع پر مقالہ پڑھا، جبکہ اسی روز مغرب کے بعد کی نشست میں مولانا راشدی نے ’’پاکستان میں اجتماعی اجتہاد کی کوششوں پر ایک نظر‘‘ کے عنوان پر تفصیلی اظہار خیال کیا اور پاکستان میں سرکاری اور غیر سرکاری طور پر مختلف حوالوں سے اب تک ہونے والی اجتہادی کاوشوں کا جائزہ پیش کیا۔

مئی ۲۰۰۵ء

خدمت حدیث: موجودہ کام اور مستقبل کی ضروریاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
تاریخی افسانے اور ان کی حقیقتپروفیسر شاہدہ قاضی 
پروفیسر عابد صدیق مرحوم کی یاد میںپروفیسر ظفر احمد 
شیعہ سنی تنازع اور اس کا پائیدار حلڈاکٹر محمد امین 
جہاد اور دہشت گردی : عصری تطبیقاتادارہ 
بھارت میں ٹی وی کے جواز و عدم جواز کی بحثادارہ 
مکاتیبادارہ 
تعارف و تبصرہادارہ 

خدمت حدیث: موجودہ کام اور مستقبل کی ضروریات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وحدیث کا تاریخ کے ریکارڈ پر اس اہتمام اور اعتماد کے ساتھ محفوظ رہنا جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تاریخی امتیاز واختصاص کی حیثیت رکھتا ہے، وہاں اسلام کے اعجاز اور اس کی حقانیت وابدیت کی دلیل بھی ہے کہ نہ صرف یہ کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال واقوال اور ارشادات وفرمودات پورے اہتمام اور استناد کے ساتھ موجود ومحفوظ ہیں بلکہ ان کے نقل وفہم اور ان سے استدلال واستنباط کے عمل میں کسی بھی درجہ میں شریک ہونے والے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کے حالات وکوائف بھی تاریخ نے اپنے ریکارڈ میں محفوظ کر رکھے ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی فعل، قول اور احوال وظروف سے نسبت رکھنے والے کسی بھی شخص کے حالات اور کردار کے بارے میں ضروری معلومات کسی بھی وقت تاریخ کے ریکارڈ سے طلب کی جا سکتی ہیں جبکہ اس حوالہ سے اسماء الرجال کا علم اسلام اور مسلمانوں کی ایسی خصوصیت ہے جس کی مثال دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں پائی جاتی۔
دنیا کے تمام ادیان ومذاہب میں اسلام وہ واحد دین ہے جس کے پاس اس کی تعلیمات کسی ترمیم وتحریف اور تبدیلی کے بغیر اصلی حالت میں موجود ہیں اور پرائمری سطح سے لے کر اعلیٰ ترین درجات تک ہر سطح پر یہ تعلیمات تدریس، تحقیق اور تبلیغ واشاعت کے مراحل سے وسیع پیمانے میں ہر وقت گزرتی ہیں جس کی وجہ سے تحریف اور ترمیم کا کوئی بھی حملہ ان کے دائرے میں در اندازی کی گنجائش نہیں پا رہا اور وہ ایک زندہ، متحرک اور توانا نظام تعلیم واصلاح کی صورت میں آج کے زوال پذیر دور میں بھی مسلم معاشرے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
دنیا کے ہر مذہب کی تعلیمات انحراف وترمیم کے مراحل سے گزر چکی ہیں اور اسلام کے سوا کوئی مذہب بھی اس وقت دنیا کے مسلمہ اور معیار کے مطابق اس دعویٰ کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ اس کے پاس اس کی بنیادی تعلیمات اصلی حالت میں موجود ہیں مگر اسلام پورے اعتماد وحوصلے کے ساتھ آج بھی عالمی فورم پر اس دعوے کے ساتھ کھڑا ہے کہ اس کے پاس نہ صرف قرآن کریم اسی اصلی حالت میں موجود ہے جس طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے اولین شاگردوں صحابہ کرام کے سپرد کیا تھا بلکہ قرآن کریم کی تعبیر وتشریح میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، احوال اور سیر وسوانح بھی اس مکمل اعتماد اور معیار کے ساتھ موجود ہیں جسے آج کی دنیا بھی تسلیم کرتی ہے اور جسے کسی بھی تاریخی ذخیرہ اور دستاویز کے مستند اور صحیح ہونے کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔
قرآن کریم کو اپنے متن اور الفاظ کے لحاظ سے ایک محفوظ اور مستند دستاویز کا درجہ حاصل ہے اور اس کے سینہ بہ سینہ منتقل ہونے کا سسٹم ایسا فول پروف ہے کہ اس میں کسی قسم کی در اندازی کا کوئی امکان موجود نہیں ہے، اس لیے فطری طور پر ان عناصر کا رخ اس کی تعبیر وتشریح کے نظام کے مجروح کرنے کی طرف ہی مڑنا تھا جو دوسرے مذاہب کی طرح اسلام کی تعلیمات کو بھی انسانی خواہشات اور عقل وظن کی سان پر چڑھا دینے کے خواہش مند تھے۔ چنانچہ قرآنی تعلیمات کو نئے معانی پہنانے اور نت نئی تعبیرات وتشریحات سے روشناس کرانے کے لیے گزشتہ دو تین صدیوں کے دوران کیا کچھ نہیں ہوا اور آج بھی کیا کچھ نہیں ہو رہا لیکن جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وسوانح اور سنت وحدیث کا عظیم ذخیرہ اور ان کی چھان پھٹک کا بے مثال نظام اسلامی تعلیمات کے گرد ایسا مضبوط ومستحکم حفاظتی پشتہ ثابت ہو اہے کہ اس نے تحریف والحاد کے ہر طوفان کا رخ موڑ دیا ہے اور اسلامی عقائد واحکام کا پرچم ملی زندگی کے دیگر تمام شعبوں کی زبوں حالی کے باوجود آج بھی پوری آب وتاب کے ساتھ یہ کہتے ہوئے لہرا رہا ہے کہ
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
محدثین ومورخین نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وحدیث اور سیرت وسوانح کے سینکڑوں پہلوؤں پر جو عظیم الشان کام کیا ہے اور فقہاء کرام نے اس بحر ناپیدا کنار میں غوطہ زن ہو کر حکمت ودانش اور استنباط واستدلال کے انمول موتیوں کے جو انبار لگا دیے ہیں، اس پر تاریخ کے اس عملی خراج کے بعد کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ احادیث کے ذخیرے کو محفوظ رکھنے والے محدثین کرام، اسماء رجال سے تعلق رکھنے والے مورخین وناقدین اور استنباط واستدلال کے شناور فقہاء عظام نے ہر دور میں اس زمانے کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث وسنن کی حفاظت وروایت، تدوین وترتیب اور استدلال واستنباط کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ آپ گزشتہ چودہ صدیوں میں سے کسی بھی صدی میں ان حوالوں سے ہونے والے علمی کام کو سامنے رکھ لیں، آپ کو اس میں سابقہ طریق کار سے مختلف اسلوب نظر آئے گا، جدت دکھائی دے گی اور تنوع کے نئے افق آپ کی نگاہوں کے سامنے آئیں گے کیونکہ زمانہ جوں جوں آگے بڑھتا ہے، انسانی سوسائٹی کی نت نئی ضروریات سامنے آتی رہتی ہیں، سائنسی انکشافات سے علم ومعلومات کا دائرہ وسیع تر ہوتا رہتا ہے اور انسانی ذہن کی پرواز کی سطح بلند تر ہوتی چلی جاتی ہے، لیکن بد قسمتی سے کچھ عرصہ سے ہم نے ایک جگہ رک جانے اور اگلے مراحل سے آنکھیں اور کان بند کر لینے کو بزرگوں کی ’’روایت‘‘ سمجھ رکھا ہے حالانکہ اس کا نام روایت نہیں ہے اور ہمارے اسلاف میں، خواہ وہ محدثین ومفسرین ہوں، مورخین وناقدین ہوں یا فقہاء ومجتہدین ہوں، کسی دور میں بھی اس طرح کے ’’جمود‘‘ کی روایت نہیں رہی۔ ہماری روایت تو تحرک کی ہے، پیش رفت کی ہے اور مسائل ومشکلات کا سامنا کرنے کی ہے بلکہ میں اس سے بھی آگے بڑھ کر عرض کروں گا کہ ہمارے فقہاء عظام نے صرف حال پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مستقبل کے امکانات کو بھانپتے ہوئے ’’فقہ فرضی‘‘ اور ’’فقہ تقدیری‘‘ کا ایسا عظیم الشان ذخیرہ قرون ماضیہ میں امت کے سامنے پیش کیا ہے کہ ہم آج تک اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔
اس پس منظر میں اگر حال اور مستقبل کی ضروریات کا جائزہ لیا جائے تو تقاضوں کی ایک لمبی فہرست بن سکتی ہے اور میرے خیال میں اس موضوع پر علمی مذاکروں اور مباحثوں کی صورت میں باہمی مشاورت کے ساتھ وہ فہرست ضرور بننی چاہیے کہ تقاضوں اور ضروریات کی نشان دہی اور ان کے سامنے آنے کے بعد ہی انہیں پورا کرنے کا احساس بیدار ہوتا ہے مگر یہاں ان میں سے مثال کے طور پور دو تین پہلوؤں کا تذکرہ مناسب سمجھوں گا، اس امید پر کہ شاید ہماری علمی شخصیات اور ادارے اس طرف متوجہ ہوں اور اس حوالے سے نہ صرف مستقبل بلکہ حال کا بھی بہت سا قرض جو سنت وحدیث کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے ارباب علم ودانش کے ذمہ واجب ہے، اس کی ادائیگی کی کوئی صورت نکل آئے۔
جہاں تک احکام ومسائل کا تعلق ہے، اس حوالے سے مختلف ممالک میں کام ہو رہا ہے اور جدید پیش آمدہ مسائل کا قرآن کریم اور سنت وحدیث کی روشنی میں حل تلاش کرنے کی طرف متعدد ادارے اور علمی حلقے متوجہ ہیں۔ اگرچہ اس میں بھی ابھی تنوع اور توسع کے بہت سے پہلو تشنہ ہیں جن کی طرف توجہ کی ضرورت ہے لیکن اس شعبہ میں کچھ نہ کچھ کام بہرحال ہو رہا ہے اس لیے اسے نظر انداز کرتے ہوئے فکری اور تہذیبی راہ نمائی کے اس خلا کی طرف ارباب علم ودانش کو توجہ دلانا چاہوں گا جو عالمی تہذیبی کشمکش کے موجودہ دور میں پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ محسوس ہو رہا ہے اور جس کے منفی اثرات پوری ملت اسلامیہ کے لیے پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں عرب دنیا میں خاصا کام ہوا ہے۔ ہمارے ہاں بھی ہوا ہے مگر یہ کام روایتی حلقوں سے ہٹ کر شخصیات کے حوالے سے ہے جس کے اثرات سے انکار کی گنجائش نہیں ہے لیکن اصل ضرورت روایتی حلقوں کی بیداری کی ہے کہ امت مسلمہ کی اکثریت کا عقیدت واطاعت کا تعلق انہی سے ہے اور امت کو بحیثیت امت کسی طرف متوجہ کرنے کے لیے روایتی حلقے ہی سب سے زیادہ موثر اور بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ میں خود روایتی حلقے سے تعلق رکھتا ہوں۔ جہاں ضرورت محسوس ہوتی ہے، روایتی حلقوں کی نمائندگی بلکہ دفاع بھی کرتا ہوں لیکن مجھے اس اعتراف میں کوئی باک نہیں ہے کہ اس راہ میں بعض ایسے سخت مقام ضرور آتے ہیں کہ نمائندگی اور دفاع دونوں کے قدم لڑکھڑانے لگ جاتے ہیں اور بڑی مشکل سے قدموں کا توازن برقرار رکھنا پڑتا ہے۔
اس کے بعد میں مثال کے طور پر ان دو تین پہلوؤں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جن کے بارے میں میری طالب علمانہ رائے میں زیادہ اہتمام کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات وتعلیمات کو اجاگر کرتے ہوئے امت مسلمہ کی راہ نمائی ان شعبوں میں وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔
سب سے پہلے امت مسلمہ کی اخلاقی حالت کا مسئلہ ہے جو آج کسی طرح بھی اس قابل نہیں ہے کہ اس کا اچھے الفاظ کے ساتھ ذکر کیا جائے۔ افراد اور کچھ طبقات ہر دور میں اور ہر قوم میں مستثنیٰ رہے ہیں اور رہتے ہیں لیکن ملت بحیثیت ملت اخلاقی لحاظ سے جس سطح پر پہنچ گئی ہے، اس نے ہمیں اقوام عالم کی برادری میں نیک نام نہیں رہنے دیا۔ اخلاقیا ت کا تعلق سیاست سے ہو یا تجارت سے، معاشرت سے ہو یا مذہب سے، تعلیم سے ہو یا ملازمت سے، صنعت سے ہو یا اجارہ سے، کہیں بھی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔ ہمارے داخلی معاشرتی دائروں میں جو صورت حال ہے، وہ بھی کسی سے مخفی نہیں ہے لیکن دوسری اقوام کے معاشرے میں جا کر ہم جو گل کھلا رہے ہیں، اس نے تو لٹیا ہی ڈبو دی ہے۔ میں ایک مثال سے اپنی بات واضح کرنا چاہوں گا کہ برطانیہ میں ایک صاحب سے میں نے پوچھا کہ وہ کوئی کام کاج تو کرتے نہیں ہیں، گزارا کیسے کرتے ہیں؟ انہوں نے بڑی بے تکلفی سے کہا کہ بس ’’مال زکوٰۃ‘‘ سے گزارا ہو جاتا ہے۔ میں نے وضاحت چاہی تو کہنے لگے کہ برطانوی حکومت کی طرف سے بے روزگاری کا جو وظیفہ ملتا ہے، وہ لیتا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ کیا آپ کا قانوناًاس وظیفے کا استحقاق بنتا ہے؟ تو فرمایا کہ ’’چھڈو جی، کافر نیں۔ اینہاں نوں جناں لٹ سکدے ہو، لٹو‘‘ (چھوڑو جی، یہ کافر ہیں۔ انہیں جتنا لوٹ سکتے ہو، لوٹو)
ظاہر ہے کہ اسی قسم کے طرز عمل کے ساتھ ہم دنیا کے غیر مسلم معاشروں میں اسلام اور مسلمانوں کے تعارف کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ اب اس بات کو ہم جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ وسیرت اور سنن واحادیث کے حوالے سے دیکھیں تو معاملہ انتہائی سنگین ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے تشریف لائے ہیں اور شخصی، خاندانی، معاشرتی اور بین الاقوامی چاروں حوالوں سے اخلاقی تعلیمات کا جس قدر وسیع اور متنوع ذخیرہ اور اسوہ ونمونہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وسیرت میں ملتا ہے، دنیا کے کسی اور مذہب یا شخصیت کے پاس اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے مگر ہمارے ہاں ان کا تذکرہ محض برکت وثواب کے لیے ہوتا ہے۔ اپنے احوال وظروف پر ارشادات نبوی کا اطلاق اور سنت وحدیث کی روشنی میں اپنے طرز عمل کی اصلاح کا کوئی احساس اجتماعی طور پر ہمارے حلقوں میں موجود نہیں ہے۔ آج سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ملی اور بین الاقوامی دونوں حوالوں سے اپنی اخلاقی کوتاہیوں اور کمزوریوں کی نشان دہی کریں، انہیں بے نقاب کریں اور ایک ملی تحریک کے طو پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی تعلیمات کو آج کے معروضی حالات وضروریات کے تناظر میں جدید اسلوب اور انداز کے ساتھ امت کے ہر فرد تک پہنچانے اور اسے سمجھانے کی کوشش کریں۔ اس سے نہ صرف دوسری قوموں کے سامنے ہمارا تعارف بہتر ہوگا بلکہ ہمارے بہت سے داخلی مسائل ومشکلات بھی خود بخود فضا میں تحلیل ہو کر رہ جائیں گے۔
اس ضمن میں اس بات کا تذکرہ بھی شاید نا مناسب نہ ہو کہ سینکڑوں احادیث نبویہ میں معاشرتی خرابیوں کے ساتھ ساتھ ان کے اسباب ونتائج کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے اور بہت سی احادیث میں نتائج وعواقب کا ذکر کر کے معاشرتی خرابیوں سے روکا گیا ہے۔ ایسی احادیث کو زیادہ نمایاں طور پر سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ مثلاً صاحب مشکوٰۃ نے ’’باب تغیر الناس‘‘ کی آخری حدیث موطا امام مالک کے حوالے سے بیان کی ہے جو حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ کے قول کی صورت میں ہے لیکن اپنے مفہوم ومعنی کے لحاظ سے محدثین کرام کے اصول کے مطابق مرفوع حدیث کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ :
۱۔ جس قوم میں خیانت عام ہو جائے، ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ دشمن کا رعب ڈال دیتے ہیں۔
۲۔ جس قوم میں زنا عام ہو جائے، اس میں موت کی کثرت ہو جاتی ہے۔
۳۔ جو قوم ماپ تول میں کمی کرنے لگ جائے، اس سے رزق منقطع کر لیا جاتا ہے۔
۴۔ جس قوم میں ناحق فیصلے ہونے لگیں، اس میں خانہ جنگی پھیل جاتی ہے۔
۵۔ اور جو قوم عہد توڑ دے، اس پر دشمن کو مسلط کر دیا جاتا ہے۔
اس نوعیت کی بہت سی روایات ہیں جن میں معاشرتی جرائم کے نتائج وعواقب کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان کو اہتمام کے ساتھ اور اجتماعی تحریک کی صورت میں سامنے لانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
دوسرا پہلو جو ارباب علم ودانش کی ترجیحی توجہ کا مستحق ہے، وہ آج کا عالمی ماحول ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ گلوبلائزیشن کا دور ہے اور تہذیبوں کے اختلاط کا دور ہے کیونکہ فاصلے اس قدر سمٹ گئے ہیں کہ تہذیبوں اور ثقافتوں کے درمیان صدیوں سے قائم سرحدیں پامال ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ آج کے دور میں جبکہ تہذیبوں اور ثقافتوں کے درمیان حدود اور فاصلوں کو برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا، منطقی طور پر یہ مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے کہ مختلف تہذیبوں کے اختلاط کے دور میں اسلام کیا راہ نمائی کرتا ہے؟ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات وارشادات میں اس بارے میں واضح راہ نمائی موجود ہے اور احادیث کے ذخیرے میں بہت سی روایات پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر بخاری شریف کی ایک روایت کا حوالہ دینا چاہوں گاجو امام بخاریؒ نے کتاب النکاح، باب عظۃ الرجل بنتہ اور بعض دیگر ابواب میں بیان کی ہے اور اس تفصیلی روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ قریش کے بہت سے خاندان مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو مہاجرین اور انصار کی خاندانی روایات میں واضح فرق موجود تھا۔ مہاجرین کے ہاں کسی عورت کا خاوند کو کسی بات پر ٹوکنا یا اس کی کسی بات کو رد کرنا سرے سے متصور نہیں تھا جبکہ انصار کے خاندانوں میں عورتوں کو یہ آزادی حاصل تھی کہ وہ خاوند کو کسی بات پر ٹوک سکتی ہیں، کسی بات کا جواب دے سکتی ہیں اور کسی بات سے انکار بھی کر سکتی ہیں۔ حضرت عمرؓ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں ایک روز ان کی بیوی نے کسی بات پر ٹوک دیا تو انہیں بہت غصہ آیا اور انہوں نے بیوی کو ڈانٹا۔ بیوی نے جواب دیا کہ مجھے ڈانٹنے کی ضرورت نہیں، یہ تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بھی ہوتا ہے کہ ان کی ازواج مطہرات کسی بات پر ٹوک دیتی ہیں اور کسی بات کا جواب بھی دے دیتی ہیں۔ حضرت عمر نے اسے اس بات سے تعبیر کیا کہ انصار کی عورتوں کی عادات ہماری عورتوں پر اثر انداز ہوتی جا رہی ہیں چنانچہ حضرت عمرؓ اسی غصے کی حالت میں سیدھے ام المومنین حضرت حفصہؓ کے گھر پہنچے جو ان کی بیٹی تھیں اور انہیں سمجھایا بجھایا کہ ایسا مت کیا کرو۔ وہ تو بیٹی تھیں، خاموش رہیں مگر یہی بات جب حضرت عمرؓ نے ام المومنین حضرت ام سلمہؓ سے کہنا چاہی تو انہوں نے آگے سے یہ کہہ کر ٹوک دیا کہ ’’آپ نے میاں بیوی کے معاملات میں بھی مداخلت شروع کر دی ہے؟‘‘ حضرت عمرؓ نے یہ واقعہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ صرف یہ فرمایا کہ ’’آخر ام سلمہ ہے‘‘۔
یہ دو علاقائی ثقافتوں اور معاشرتی روایات کے اختلاط اور ٹکراؤ کا قصہ ہے اور میری طالب علمانہ رائے ہے کہ تہذیبوں کے اختلاط اور مختلف ثقافتوں کے باہمی میل جول کے مسائل میں یہ روایت اصولی اور بنیادی حیثیت رکھتی ہے جس سے ہمیں راہ نمائی حاصل کرنی چاہیے اور دور نبوی کے اس طرز کے واقعات اور روایات واحادیث کی روشنی میں آج کے عالمی حالات کے تناظر میں اصول وضوابط وضع کرنے چاہییں کہ مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے تال میل میں کہاں ایڈجسٹ منٹ کی گنجائش ہے، کہاں صاف انکار کی ضرورت ہے اور کہاں کوئی درمیان کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ یہاں میں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم نے دین اور ثقافت کے درمیان حد فاصل قائم نہیں رہنے دی اور بہت سے معاملات میں دونوں کو گڈمڈ کر دیا ہے حالانکہ دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ دین کی بنیاد آسمانی تعلیمات پر ہے اور اس کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے جبکہ ثقافت کی بنیاد ایک علاقہ میں رہنے والے لوگوں کے درمیان خود بخود تشکیل پا جانے والی معاشرتی اقدار وروایات پر ہوتی ہے اور اس کا سرچشمہ سوسائٹی اور اس کا ماحول ہوتا ہے مگر ہم نے بعض معاملات میں اپنی علاقائی ثقافتوں پر دین وشریعت کا لیبل لگا کر انہیں ساری دنیا سے ہرحال میں منوانے کی قسم کھا رکھی ہے جس سے طرح طرح کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
سنت وسیرت اور احادیث کے بیش بہا ذخیرے میں ان معاملات میں مکمل راہ نمائی موجود ہے مگر ہماری حالت یہ ہے کہ خود محنت کر کے بزرگوں کی کمائی میں اضافہ کرنے کے بجائے بزرگوں کی محنت اور کمائی سے ہی گزارا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تیسرا پہلو جس کا ذکر احادیث نبویہ کے وسیع ذخیرہ سے آج کے حالات کے تناظر میں استفادہ کے لیے کرنا چاہتا ہوں، وہ فتنوں اور آثار قیامت کے بارے میں جناب نبی اکرم ﷺ کے وہ ارشادات ہیں جو پیش گوئیوں کے طور پر معجزات کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں ہمارے لیے ایمان کی تازگی اور پختگی کے ساتھ ساتھ راہ نمائی کا بھی مکمل سامان موجود ہے۔ اس سلسلے کے سینکڑوں ارشادات نبویہ میں سے مثال کے طور پر مسلم شریف کی کتاب الفتن کی ان بعض روایات کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جن میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرات کے کنارے سونے کا پہاڑ دریافت ہونے اور اس کے حصول کے لیے مختلف اقوام کے درمیان خونریز جنگوں کا تذکرہ فرمایا ہے اور انہی میں سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی دو روایات میں مغربی اقوام کی طرف سے عراق کی اقتصادی ناکہ بندی اور اس کے ساتھ شام اور مصر کی اقتصادی ناکہ بندی کی صراحت بھی موجود ہے۔ یہ اور اس قسم کی بیسیوں دیگر روایات ہمارے آج کے حالات کی عکاسی کرتی ہیں اور بہت سے معاملات میں ہمیں راہ نمائی فراہم کرتی ہیں۔
گلوبلائزیشن کی طرف تیزی سے بڑھتے ہوئے عالمی ماحول اور مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے اختلاط اور ٹکراؤ کے موجودہ تناظر میں بہت سے پہلوؤں سے سنن واحادیث نبویہ کے ازسرنو وسیع تر مطالعہ اور اس عظیم ترین علمی ودینی ذخیرہ سے راہ نمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس سے پہلے سنجیدگی کے ساتھ یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم مستقبل کی طرف بڑھنا بھی چاہتے ہیں یا نہیں؟ کیا ہم نے زمانے کے سفر میں اسی مقام پر ہمیشہ کے لیے رکنے کا تہیہ کر لیا ہے جہاں ہم اب کھڑے ہیں؟ اور اگر ہم واقعی مستقبل کی طرف سفر جاری رکھنا چاہتے ہیں اور اس کی زمام کار اپنے ہاتھ میں لینے کے دعوے میں بھی سنجیدہ ہیں تو اس کے لیے ہمیں آگے بڑھنا ہوگا اور آگے بڑھنے کے وہ تمام منطقی تقاضے پورے کرنا ہوں گے جو ہمارے بزرگ اور اسلاف ہر دور میں پورے کرتے آ رہے ہیں۔

تاریخی افسانے اور ان کی حقیقت

پروفیسر شاہدہ قاضی

کیا دیو مالا کا تاریخ سے کوئی تعلق ہے؟ کیا دیو مالا اور تاریخ ہم معنی الفاظ ہیں؟ یا کیا تاریخ دیومالا ہی کا نام ہے؟ یہ بات مانی جاتی ہے کہ دونوں کے مابین فرق بہت باریک سا ہے۔ نا معلوم زمانے سے انسان اپنی اساسات کی تلاش میں مصروف ہے۔ وہ اس کوشش میں بھی مصروف رہا ہے کہ قدیم زمانے کی داستانوں کی، جو ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ بن چکی ہیں، کوئی حقیقی اور قابل فہم بنیاد تلاش کر لے۔ نتیجے کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ کنگ آرتھر کے وجود کو ثابت کرنے، ٹرائے شہر کا محل وقوع معلوم کرنے اور اس مقام کو دریافت کرنے کے لیے جہاں متعین طور پر کشتی نوح جا کر رکی تھی، متعدد مہمیں منظم کی گئی ہیں۔ ۶۰ اور ۷۰ کی دہائی میں پوری دنیا میں ایک تحریک چلی تھی جس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ قدیم دیومالا کے دیوتا فی الواقع وجود رکھتے ہیں اور وہ مختلف کہکشاؤں سے آئے اور بنی نوع انسان کی ترقی انھی مافوق الفطرت ہستیوں کی مرہون منت ہے۔ اس موضوع پر متعدد کتابیں تصنیف کی گئیں۔
تاہم، ہم پاکستانی ایک نرالی مخلوق ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ دنیا کی دوسری قوموں کی طرح ہمارے پاس کوئی مناسب دیومالا نہیں ہے، ہم نے اپنی دیومالا خود تخلیق کر لی ہے جو سپر ہیروز (Super heroes) کے ایک جم غفیر سے آباد ہے جن کی کتاب زندگی میں عظیم الشان اور حیرت انگیز کارناموں کا ایک طویل وعریض سلسلہ درج ہے۔ البتہ فرق یہ ہے کہ یہ سپر ہیروز، کسی انتہائی قدیم دور یا زمانہ قبل از تاریخ کا حصہ نہیں، بلکہ ہمارے موجودہ دور ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان ہیروز، ان کی شخصیتوں اور کارناموں کے حوالے سے ایک بظاہر بڑی ہی درست دکھائی دینے والی دیومالا تخلیق کی گئی ہے جسے اس وقت سے بچوں کے ذہن میں اتارنا شروع کر دیا جاتا ہے جب وہ سکول جانے لگتے ہیں۔ یہ ذہن سازی اتنی گہری ہے کہ حقائق سے پردہ اٹھانے یا سچ کی بازیافت کی کسی بھی کوشش کو ’’گستاخی اور توہین‘‘ سے کم تر کوئی نام نہیں دیا جاتا۔
یہاں ہم اس قسم کے چند زبان زد عام افسانوں کا ذکر کریں گے۔
افسانہ نمبر ۱: ’’ہماری تاریخ کا آغاز ۷۱۲ ہجری سے ہوتا ہے جب محمد بن قاسم برصغیر میں آئے اور دیبل کی بندرگاہ کو فتح کیا۔‘‘
معاشرتی علوم یا مطالعہ پاکستان کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیجیے، اس کا آغازمحمد بن قاسم سے ہوگا۔ ان کی آمد سے پہلے یہاں کیا تھا؟ جی ہاں، ظالم اور جابر ہندو راجے مثلاً راجہ داہر اور مظلوم اور اجڈ عوام جو بے چینی سے کسی آزاد کنندہ کے منتظر تھے جو انھیں ان کے ظالم راجوں کے چنگل سے چھڑائے۔ اور جب آزاد کنندہ آیا تو اس کا کھلے بازووں سے استقبال کیا گیا اور ممنون احسان عوام جوق در جوق دائرۂ اسلام میں داخل ہو گئے۔
کیا یہ سب کچھ حقیقت میں بھی ایسے ہی رونما ہوا؟ تاریخ کی یہ تصویر بڑی آسانی سے اس حقیقت کو فراموش کر دیتی ہے کہ یہ علاقہ جہاں ہمارا ملک واقع ہے، چھ ہزار سال کی ایک طویل اور شان دار تاریخ رکھتا ہے۔ موئنجو داڑو کو تو چھوڑ دیجیے کہ اس کے متعلق ہمیں کچھ زیادہ معلومات میسر نہیں ہیں، لیکن باقاعدہ مدون تاریخ یہ بتاتی ہے کہ محمد بن قاسم کے آنے سے پہلے یہ علاقہ، جو کم وبیش سندھ، پنجاب اور سرحد کے کچھ حصوں پر مشتمل ہے، دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے کم سے کم بارہ مختلف خاندانوں کے زیر اقتدار تھا۔ ان میں فارسی حکمران بھی شامل تھے (Achaemenian دور میں)، یونانی بھی جو بیکٹریا، سائتھیا اور پارتھیا کے لوگوں پر مشتمل تھے، چین کے کوشانہ بھی، اور چین ہی سے آنے والے ہن بھی جو شاہ اٹیلا (Attila) کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ متعدد ہندو خاندان تھے جن میں چندر گپت موریہ اور اشوک جیسے عظیم حکمران بھی شامل ہیں۔
گندھارا تہذیب کے دور میں یہ علاقہ اس حوالے سے ممتاز تھا کہ یہاں ٹیکسلا کے قریب اس وقت دنیا کی سب بڑی اور اہم ترین یونیورسٹیاں قائم تھیں۔ ہم بے حد مہذب، اعلیٰ تعلیم یافتہ، خوش حال، تخلیقی صلاحیت سے بہرہ ور اور اقتصادی لحاظ سے زرخیز لوگ تھے اور بہت سے ممالک ہم سے عقلی وفکری اور معاشی طور پر مستفید ہوتے تھے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جسے ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہیے، لیکن کیا ہم یہ حقائق اپنے بچوں کو بتاتے ہیں؟ نہیں، اور اس طرح یہ افسانہ مسلسل ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا چلا جا رہا ہے۔
افسانہ نمبر ۲: ’’محمد بن قاسم انڈیا میں جبر وتشدد کا شکار خواتین اور یتیم بچیوں کی مدد کے لیے آیا تھا۔‘‘
تاریخ کے تلخ حقائق سے ناواقفیت کی بنا پر ہم نہیں جانتے یا جاننے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ یہ دور مسلم سلطنت کی توسیع کا دور تھا۔ عرب، دنیا کے ایک بڑے حصے کو، جس میں مشرق وسطیٰ، ایران ، شمالی افریقہ اور اسپین کے علاقے شامل تھے، فتح کر چکے تھے۔ چنانچہ یہ بات بالکل غیر منطقی تھی کہ وہ انڈیا کو فتح کرنے کی کوشش نہ کرتے جو کہ تصوراتی اور تخیلاتی خزانوں کی سرزمین تھی۔ 
حقیقت یہ ہے کہ عربوں نے ہندوستان کی طرف اپنی پہلی مہم حضرت عمر فاروق کے دور حکومت میں روانہ کی تھی۔ اس کے بعد حضرت عثمان کے عہد میں ایک دوسری مہم مکران تک آئی، تاہم یہ مہمیں ہندوستان کے علاقے میں داخل ہونے میں ناکام رہیں۔ بعد ازاں راجہ داہر کی طرف سے ان بحری جہازوں کا تاوان ادا کرنے سے انکار پر جنھیں بحری قزاقوں نے چھین لیا تھا (اور جس میں اتفاق سے صرف عورتیں اور لڑکیاں ہی نہیں بلکہ خزانوں سے لدے ہوئے وہ آٹھ بحری جہاز بھی شامل تھے جو سری لنکا سے آ رہے تھے) دو مہمیں پہلے ہی انڈیا روانہ کی جا چکی تھیں لیکن وہ بھی ناکام ثابت ہوئیں۔ محمد بن قاسم کی مہم تیسری مہم تھی جو منصورہ سے لے کر ملتان تک سندھ کے علاقے پر قبضہ کرنے میں کام یاب ہوئی۔ تاہم عربوں کے داخلی اختلاف اور سیاسی مخاصمت کے باعث سندھ کی حیثیت عرب سلطنت کے ایک دور افتادہ کونے کی تھی جس پر زیادہ توجہ صرف نہیں کی جا سکتی تھی، اور جلد ہی یہ مفتوحہ علاقے دوبارہ مقامی راجوں کے زیر تسلط چلے گئے۔
افسانہ نمبر ۳: ’’بت شکن کا افسانہ‘‘۔
محمود غزنوی نے، جو اسلام کا ایک عظیم فرزند اور مثالی بت شکن تھا، یہ عہد کیا کہ وہ سارے ہندوستان کے بتوں کو توڑ کر برصغیر میں اسلام کا بول بالا کر دے گا۔ محمود نے، جو وسطی ایشیا کے علاقے غزنی سے آیا تھا، کم سے کم سترہ بار انڈیا پر حملہ کیا، لیکن پنجاب کے سوا اس نے کسی اور علاقے پر قبضہ کرنے یا باقی بھارت پر اپنی حکومت قائم یا مستحکم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ حقیقت میں اس کے لیے واحد باعث کشش چیز انڈیا کے خزانے یعنی سونا اور قیمتی جواہر تھے جن کے حصول کا اس نے پورا اہتمام کیا اور ہر حملے کے موقع پر ان کی ایک بڑی مقدار اپنے ساتھ لے کر گیا۔ اس وقت انڈیا کے مندروں میں، یورپ کے گرجوں کی طرح، خزانوں کی ایک بڑی مقدار جمع ہوتی تھی اور اسی وجہ سے محمود کو مندروں اور بت پرستوں کے ساتھ خاص دلچسپی تھی۔
عام تاثر کے بالکل برخلاف، برصغیر میں اسلام کو پھیلانے کا کام نہ تو بادشاہوں یعنی وسطی ایشیا کے سلطانوں نے کیا جو تین سو سال تک یہاں حکومت کرتے رہے اور نہ مغلوں نے جو اس کے بعد مزید تین سو سال حکمران رہے۔ یہ کام صوفی مشائخ نے انجام دیا جو بنیادی طور پر اپنے وطن کے بنیاد پرستوں کی ایذا رسانی سے بچنے کے لیے بھارت آئے تھے اور جنھوں نے اپنی اعلیٰ ظرفی، انسان دوستی، محبت، رواداری اور سادہ طرز زندگی باعث تمام مذاہب کے لوگوں کے دل جیت لیے۔
افسانہ نمبر ۴: ’’ٹوپیاں بننے والے بادشاہ کا افسانہ۔‘‘
ہماری نصابی کتابوں میں برصغیر پر حکومت کرنے والے تمام بادشاہوں میں سے سب سے زیادہ تعریف کا مستحق عظیم مغل بادشاہ اورنگ زیب کو قرار دیا گیا ہے۔ بابر نے سلطنت قائم کی، ہمایوں نے اسے کھو کر دوبارہ پایا، اکبر نے اسے وسعت اور استحکام بخشا، جہانگیر اپنے جذبہ انصاف کے لیے مشہور ہوا، اور شاہجہاں نے عالی شان عمارتیں بنوانے میں شہرت حاصل کی، لیکن یہ پرہیزگار کا لقب پانے والا اورنگ زیب ہی ہے جو سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بنا ہے۔ رائج عام افسانہ تو یہ ہے کہ وہ اپنی ذاتی ضروریات کے لیے رقم سرکاری خزانے سے خرچ نہیں کرتا تھا بلکہ ان کو پورا کرنے کے لیے ٹوپیاں بنتا اور قرآن مجید کے نسخوں کی کتابت کیا کرتا تھا۔ کیا اس دعوے پر بحث کرنے کی واقعتاً کوئی ضرورت ہے؟ ہر وہ شخص جو مغلوں کے طرز زندگی سے ذرا بھی واقفیت رکھتا ہے، یہ بات جانتا ہے کہ ان کے درجنوں محلات کے اخراجات پورے کرنا زر کثیر کا کس قدر محتاج تھا۔ مغل شہنشاہوں کی کئی کئی بیویاں، بچے، درباری، داشتائیں اور غلام ہوتے تھے جو ہر محل میں موجود ہوتے تھے اور جن کی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا تھا۔ کیا یہ تمام اخراجات ٹوپیاں بننے سے پورے ہو سکتے تھے؟ اور فرض کیجیے کہ بادشاہ ٹوپیاں بنتا تھا تو کیا لوگ ان کو عام ٹوپیوں کی قیمت پر خریدتے اور اسی طرح استعمال کرتے ہوں گے؟ کیا وہ ان کے لیے مہنگی ترین قیمتیں ادا کرتے اور انھیں ایک یادگار سمجھ کر انھیں سنبھالتے نہ ہوں گے؟ کیا کسی بادشاہ کو، جس کی پوری توجہ ان عسکری خطرات پر مرکوز تھی جو چاروں اطراف سے اسے گھیرے ہوئے تھے اور جس پر ایک عظیم سلطنت کی حفاظت اور استحکام کی ذمہ داری تھی، اتنا وقت اور اتنی فرصت مل جاتی تھی کہ وہ بیٹھ کر ٹوپیاں بنتا رہتا؟ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جس شخص کو ہم ایک پرہیز گار مسلمان قرار دے رہے ہیں، وہ وہی تھا جو اپنے باپ کو اس کے محل کے ایک قید خانے میں قید کرنے کے بعد خود بادشاہ بن گیا اور جس نے اس خطرے کے پیش نظر اپنے تمام بھائیوں کو قتل کر دیا کہ کہیں وہ اس کا تخت نہ چھین لیں۔
افسانہ نمبر ۵: ’’۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے ذمہ دار صرف مسلمان تھے اور انھوں نے ہی جنگ کے بعد تشدد اور ایذا رسانی کا ظلم جھیلا، جبکہ ہندو برطانویوں کے فطری حلیف تھے۔‘‘
یہ درست ہے کہ ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کی زیادہ فوجی رجمنٹوں نے ۱۸۵۷ میں برطانویوں کے بغاوت میں حصہ لیا، لیکن ہندوؤں نے بھی اس جنگ میں بڑا کردار ادا کیا۔ (جھانسی کی بہادر رانی ایک نمایاں مثال ہے) اور اگر مسلمان فوجیوں کو اس افواہ پر اشتعال آیا تھا کہ گولیوں پر خنزیر کی چربی لگائی گئی ہے تو ہندوؤں کے لیے باعث اشتعال یہ بات تھی کہ یہ گائے کی چربی تھی۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آخر وقت تک برطانویوں کی وفادار بھی رہی۔ (ان میں مشہور ترین سر سید احمد خان ہیں)۔
علاوہ ازیں، ۱۸۵۷ کے بعد برطانویوں کی حکومت ختم نہیں ہو گئی تھی۔ وہ اس سے پہلے ہی مکاری اور سازش کے ذریعے سے مسلمان اور ہندو حکمرانوں سے وسیع علاقے ہتھیا کر انڈیا کے زیادہ تر خطے پر اپنا تسلط جما چکے تھے۔ اس وقت مغل بادشاہ برائے نام حکمران تھا اور اس کا دائرۂ اختیار دہلی تک محدود تھا۔ ۱۸۵۷ کے بعد ہندو خوش حال ہوتے گئے کیونکہ انھوں نے جدید تعلیم حاصل کر کے، انگریزی زبان سیکھ کر اور تجارت اور کاروبار میں مشغول ہو کر کافی ہوشیاری کا ثبوت دیا، جبکہ مسلمان محض زمینوں کے مالک تھے اور ماضی کی شوکت وعظمت کے خوابوں میں کھوئے ہوئے تھے اور جب ان کی زمینیں بھی چھین لی گئیں تو ان کے پاس کچھ بھی نہ رہا۔ ان کی مدرسے کی تعلیم اور فارسی میں قابلیت ان کے کسی کام نہ آئی، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ان بدلتے ہوئے حالات میں الٹا ایک رکاوٹ ثابت ہوئی۔
افسانہ نمبر ۶: ’’برطانویوں کے خلاف جدوجہد میں مسلمان پیش پیش تھے اور وہ سرکار برطانیہ کی طرف سے خاص طور پر غیر منصفانہ رویے کا کا نشانہ بنے رہے۔‘‘
ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ درحقیقت مسلمانوں کو برطانویوں کی جانب سے پہلا ’’تحفہ‘‘ ۱۹۰۵ میں تقسیم بنگال کی صورت میں ملا (جسے بعدازاں ۱۹۱۱ میں منسوخ کر دیا گیا)۔ ۱۹۰۶ میں شملہ وفد کو بجا طور پر ’’Command performance‘‘ کہا گیا ہے۔ وائسرے نے مسلمانوں کو یقین دہانی کرائی کہ جیسے ہی مسلمان قائدین اس کا مطالبہ کریں گے، جداگانہ انتخابات اور نمائندگی کا اصول منظور کر لیا جائے گا۔ اس کے بعد مسلم لیگ وجود میں آئی، جسے آغا خان، جسٹس امیر علی اور کچھ دیگر نوابوں اور جاگیرداروں نے، جو سرکار برطانیہ کے زبردست حامی تھے، قائم کیا تھا۔ مسلم لیگ کے منشور میں اس کا پہلا مقصد ہی یہ لکھا گیا: ’’برطانوی حکومت کے ساتھ وفاداری کے جذبے کو فروغ دینا۔‘‘
مسلم لیگ نے کبھی برطانویوں کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کیا۔ مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کا واحد واقعہ ۲۰ کے عشرے کی ابتدا میں تحریک خلافت کے دوران میں رونما ہوا جس کے قائد علی برادران اور دوسرے انقلابی رہنما تھے۔ قائد اعظم سمیت مسلم لیگ کا کوئی بھی رہنما کبھی جیل نہیں گیا۔ یہ کانگریس ہی تھی جس نے ۳۰ اور ۴۰ کی دہائیوں میں برطانیہ کے خلاف تشدد سے پاک اور عدم تعاون پر مبنی تحریک کو جاری رکھا، جس میں ’’انڈیا چھوڑ دو‘‘ کی مشہور تحریک بھی شامل تھی، جبکہ مسلم لیگ کے رہنما ان تحریکات کی مذمت کرتے رہے اور اپنے کارکنوں کو ان میں حصہ نہ لینے کی تلقین کرتے رہے۔
افسانہ نمبر ۷: ’’مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تھی۔‘‘
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسلم لیگ اپنے آپ کو مسلمانوں کی ایک مقبول عوامی جماعت بنانے میں ۱۹۴۰ کے بعد ہی کامیاب ہوئی۔ اس سے قبل، جیسا کہ ۳۷ کے انتخابات سے واضح ہے، مسلم لیگ، مسلم اکثریتی صوبوں میں سے کسی ایک میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ ان انتخابات میں کل ۴۸۲ مسلم نشستوں میں سے مسلم لیگ کو صرف ۱۰۳ نشستیں ملیں (جو کہ ایک چوتھائی سے بھی کم ہیں)۔ دوسری نشستوں پر یا تو کانگرسی مسلمان کام یاب ہوئے یا قوم پرست جماعتیں، مثلاً پنجاب یونینسٹ پارٹی، سندھ یونینسٹ پارٹی اور بنگال کی کرشک پروجا پارٹی۔
افسانہ نمبر ۸: ’’علامہ اقبال وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے ایک جداگانہ مسلم ریاست کا تصور پیش کیا۔‘‘
یہ ان افسانوں میں سے ایک ہے جو ہماری قوم کے ذہنوں میں نہایت گہرے پیوست ہیں اور جس کا پراپیگنڈا تمام حکومتوں نے کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال کہ مسلم اکثریتی صوبوں ایک فطری گروپ قرار پاتے ہیں اور انھیں ایک بلاک سمجھنا چاہیے، برطانویوں نے ۱۸۵۸ میں پیش کیا تھا اور اس پر اخبارات کے مختلف مضامین میں اور سیاسی پلیٹ فارموں پر کھلی بحث ہوتی رہی۔ اس تصور کی مختلف شکلیں اہم برطانوی، مسلم اور بعض ہندو عوامی شخصیات نے پیش کی۔ علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ میں جب اپنا مشہور خطبہ دیا تو اس سے پہلے یہ تجویز کم از کم ۶۴ مرتبہ پیش کی جا چکی تھی۔ چنانچہ اقبال نے محض ایک ایسی بات دہرا دی جو کہ پہلے سے کہی جا رہی تھی اور یہ کوئی اچھوتا خواب نہیں تھا۔ الٰہ آباد میں اپنے خطبے کی رپورٹ شائع ہونے کے بعد، علامہ اقبال نے ایک برطانوی اخبار میں اس موقف سے اپنارجوع شائع کروایا اور کہا کہ انھوں نے ایک جداگانہ مسلم ریاست کی نہیں بلکہ محض انڈین فیڈریشن کے اندر ایک مسلم بلاک کی بات کی تھی۔
افسانہ نمبر ۹: ’’قرارداد پاکستان میں واحد مسلم ریاست کا تصور پیش کیا گیا۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ مسلم بلاک سے متعلق جو بھی تجاویز مختلف افراد یا جماعتوں نے پیش کیں، ان میں سے کسی میں بھی مشرقی بنگال کا ذکر نہیں تھا۔ پورا زور ہمیشہ سے شمال مغربی صوبوں پر مرکوز تھا جن کی سرحدیں مشترک تھیں جبکہ دوسرے مسلم اکثریتی صوبے مثلاً بنگال اور حیدر آباد الگ بلاک تصور کیے جاتے تھے۔ چنانچہ قرارداد پاکستان میں بھی ایسا ہی تھا۔ اس میں لکھا ہے کہ: ’’جن علاقوں میں مسلمان عددی اکثریت رکھتے ہیں، جیسا کہ انڈیا کے شمال مغربی اور مشرقی علاقے، انھیں ملا کر آزاد ریاستیں قائم کی جائیں جن میں شامل اکائیاں خود مختار اور آزاد ہوں۔‘‘
پوری قرارداد کے کمزور اور مبہم متن سے قطع نظر، ریاستوں سے متعلق حصہ (جس میں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے) بالکل واضح ہے۔ اصل قراداد میں ترمیم تو ۱۹۴۶ میں دہلی میں مسلم لیگ کے ارکان سمبلی کے ایک اجلاس میں کی گئی جسے مسلم لیگ کے ایک عام اجلاس میں منظور کر لیا گیا اور ایک واحد ریاست کا حصول مقصود قرار دیا گیا۔
افسانہ نمبر ۱۰: ’’۲۳ مارچ ۱۹۴۰ کا دن اس لیے یادگار ہے کہ اس دن قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی۔‘‘
حقیقت واقعہ یہ ہے کہ ۲۳ مارچ کو قرارداد مقاصد صرف پیش کی گئی تھی، جبکہ اس کی حتمی منظوری ۲۴ مارچ کو عمل میں آئی (جو کہ اجلاس کا دوسرا اور آخری دن تھا)۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ پھر ہم اس قرارداداد کی یاد میں ۲۳ مارچ کا دن کیوں مناتے ہیں تو یہ ایک بالکل مختلف قصہ ہے۔ ۱۹۵۶ سے قبل یہ دن کبھی نہیں منایا گیا۔ اس سال اس دن کو ملک کے پہلے آئین کی منظوری اور پاکستان کے ایک حقیقی آزاد جمہوریہ کے طور پر رونما ہونے کی یاد میں پہلی مرتبہ منایا گیا۔ ہمارے لیے اس دن کی اہمیت وہی تھی جو ۲۶ جنوری کی بھارت کے لیے۔ لیکن جب جنرل ایوب خان نے ۱۹۵۸ میں آئین کو منسوخ کر کے مارشل لا نافذ کر دیا تو انھیں ایک مشکل سے سابقہ پیش آ گیا۔ وہ نہ اس کی اجازت دے سکتے تھے کہ ملک میں ایک ایسے آئین کی یاد میں کوئی دن منایا جائے جسے خود انھوں نے پارہ پارہ کر دیا تھا اور نہ وہ ۲۳ مارچ کا دن منانے کی روایت کو بالکل ختم کر سکتے تھے۔ چنانچہ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ دن تو حسب سابق منایا جائے لیکن اسے ایک دوسرا عنوان دے دیا جائے، یعنی ’’یوم قرارداد پاکستان ‘‘۔
افسانہ نمبر ۱۱: ’’یہ غلام محمد تھے جنھوں نے وزیر اعظم اور سربراہ ریاست کے مابین اختیارات میں عدم توازن پیدا کیا اور انھوں نے ہی گورنر جنرل کی بالادستی وزیر اعظم اور پارلیمنٹ پر قائم کرنا چاہی۔‘‘
جب پاکستان وجو د میں آیا تو برطانوی حکومت کے منظور کردہ ۱۹۳۵ کے آئین کو عبوری آئین کے طور پر اختیار کر لیا گیا۔ اور یہ خود قائد اعظم تھے جنھوں نے اس آئین میں چند مخصوص ترامیم کرائیں تاکہ گورنر جنرل سب سے بالاتر اتھارٹی قرار پائے۔ انھی اختیارات کے تحت قائد اعظم نے اگست ۱۹۴۷ میں صوبہ سرحد میں ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت کو اور ۱۹۴۸ میں سندھ میں مسٹر ایوب کھوڑو کی حکومت کو برطرف کیا ۔ گورنر جنرل ہونے کے ساتھ ساتھ قائد اعظم نے مسلم لیگ کی صدارت اور دستور ساز اسمبلی کی سربراہی بھی برقرار رکھی ۔ یہی وہ اختیارات تھے جن کے تحت خواجہ ناظم الدین نے ۱۹۴۹ میں پنجاب میں مسٹر دولتانہ کی حکومت کو برطرف کیا۔ خود خواجہ ناظم الدین کو انہی اختیارات کے تحت گورنر جنرل غلام محمد نے ۱۹۵۳ میں وزارت عظمیٰ سے برطرف کر دیا۔ تاہم ۱۹۵۴ میں دستور ساز اسمبلی کے ارکان نے آئین میں ترمیم کروانے کی کوشش کی تاکہ گورنر جنرل کے حد سے متجاوز اختیارات واپس لیے جا سکیں۔ اس کوشش پر بر افروختہ ہو کر گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کو معطل کر دیا اور اس طرح پاکستان کی تاریخ کا رخ ہی بدل دیا۔
یہ وہ چند افسانے ہیں جو ہمارے ذہنوں میں بچپن ہی سے بٹھا دیے گئے ہیں اور جو ہمارے شعور کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس طرح کی بیسیوں باتیں اور بھی ہیں جو ہماری روز مرہ زندگی پر حاوی ہیں، اور بہت سے ایسے سوالات موجود ہیں جو ہنوز جواب طلب ہیں، مثلاً:
  • نظریہ پاکستان کیا چیز ہے اور یہ اصطلاح سب سے پہلے کب وضع کی گئی؟ (؟؟ سے پہلے یہ کبھی نہیں سنی گئی)
  • گاندھی کو کیوں قتل کر دیا گیا؟ (وہ مفروضہ طور پر پاکستانی مفاد کا تحفظ کر رہے تھے)
  • شیخ مجیب، ولی خان اور جی ایم سید جیسے مبینہ غداروں کے بارے میں حقائق کیا ہیں؟
  • مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب کیا تھے؟
  • مسٹر بھٹو کو موت کے گھاٹ کیوں اتار دیا گیا؟
  • کیا ہمارے تمام سیاست دان بد دیانت اور مفاد پرست ہیں؟
  • ہماری تاریخ ہر دس سال کے بعد اپنے آپ کو کیوں دہراتی ہے؟
ان سوالات کا جواب تاریخ کے، نہ کہ تاریخی افسانوں کے، ایک جامع مطالعے کا متقاضی ہے، لیکن بد قسمتی سے تاریخ ہی وہ میدان ہے جسے ہمارے ملک میں کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس صورت حال میں تبدیلی رونما ہو جائے۔
(بشکریہ ڈان میگزین۔ ۲۷ مارچ ۲۰۰۵)

پروفیسر عابد صدیق مرحوم کی یاد میں

پروفیسر ظفر احمد

بسا اوقات ہماری من پسند خواہشات کا خارجی حقائق سے ہم آہنگ نہ ہوپانا ہماری اُس بے بسی اور لاچاری کا کامل مظہر ہے جس کا ذکر اِس کائنات کے خالق و مدبّر نے یوں فرمایا ہے: وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَیَخْتَارُ مَاکَانَ لَھُمُ الْخِیَرَۃِ (۱) ’’اور تیرا رب ہی جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہی صاحبِ اختیار ہے، لوگوں کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔‘‘
اپنے احباب و اقارب کا ہم سے بچھڑ جانا ایک ایسی تلخ حقیقت، ایک ایسا ناخوش گوار تجربہ و مشاہدہ ہے کہ اِس دارِفانی میں کسی بھی متنفّس کے لیے اِس سے فرار کے تمام راستے مسدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔ تاہم ربِ کریم کا یہ رحم و کرم ہے کہ اُس نے نوعِ انسانی کو لاتعداد نعمتوں سے نوازا ہے۔ اُس نے ہمیں یہ صلاحیت بھی ارزاں فرمائی ہے کہ ہم اِس دنیا میں رونما ہونے والے بے شمار اہم و غیر اہم واقعات و حوادث کو اپنے ذہن میں نہ صرف ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھ سکتے ہیں بلکہ موجودات کا حسّی خاکہ اپنی فناپذیری کے باوجود چشمِ تصور سے اوجھل نہیں ہوپاتا۔ یوں ہمیں بظاہر داغِ مفارقت دینے والے ہمارے اعزہ و رفقا درحقیقت تصورات و تعقُّلات کی ہماری اِس دنیا میں ہم سے بچھڑ جانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ عابدصدیق کو بھی یہاں استثنائی حیثیت حاصل نہیں۔ لوگ اُنھیں لاکھ ’’رفتہ و گزشتہ‘‘ کہیں مگر وہ اپنے احباب کے دلوں میں زندہ و تابندہ ہیں اور اِن شاء اللہ العزیز ہمیشہ اِسی طرح رہیں گے۔
عابدصدیق مرحوم سے میرا پہلا تعارف اواخر نومبر ۱۹۶۷ء میں گورنمنٹ کالج علی پور (مظفرگڑھ) میں ہوا۔ وہ جہاں بھی رہے، اُن کی جاذبِ نظر شخصیت کے متنوع پہلو اُن کے حلقۂ احباب میں بتدریج وسعت پیدا کرتے رہے۔ چناں چہ علی پور میں بھی اُن کا حلقۂ احباب خاصا وسیع رہا۔ شعروشاعری اور موسیقی سے اُن کا شغف اُن دنوں عروج پر تھا۔ اِن مشاغل کے باوجود اُن کا خاندانی مذہبی تشخص اِس حد تک بحال رہا کہ گو اسلامی شعائر سے عملی دلچسپی بظاہر زیادہ نمایاں نہ تھی، لیکن بالاٰخر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دین سے اُن کی گہری فکری وابستگی اور اہلِ علم سے اُن کی بے لوث محبت و عقیدت کسی سے مخفی نہ رہی، اور اُن میں یہ شوق مزید پیدا ہوتا چلا گیا کہ وہ اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی نجی زندگی کے اہم معاملات میں علما سے دینی رہنمائی حاصل کریں۔ میری ترغیب پر اُنھوں نے فقیہ العصر مفتی رشید احمد لدھیانویؒ سے خط و کتابت شروع کردی جس کا اُن کے ظاہر و باطن پر نمایاں اثر ہوا۔ شعر گوئی کا سلسلہ اگرچہ جاری رہا لیکن موسیقی اور آلاتِ موسیقی سے وہ رفتہ رفتہ بے زار ہوتے چلے گئے۔ اِس کی بجائے وہ روحانی اوراد و وظائف کی طرف مزید مائل ہوئے۔ اِس مقصد کے لیے اُن کا اصرار تھا کہ میں (راقم السطور) بھی اُن کا ساتھ دوں۔ حاجی امداداللہ مہاجر مکّیؒ کے سلسلے میں شیخ ابوالحسن شازلیؒ کی مشہور دعا ’حزب البحر‘ کے وِرد کا طریقہ نسبۃً آسان ہے۔ میں نے اِس کے پڑھنے کی اجازت مدرسہ اشرفیہ سکھر کے استاد مولانا عبدالحکیمؒ سے لے رکھی تھی۔ عابدصدیق مرحوم نے بھی بذریعہ خط و کتابت اُن سے اجازت حاصل کرلی اور ہم دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی کتاب ’مناجاتِ مقبول‘ میں اِس کی زکوٰۃ کا جو طریقہ مذکور ہے، اُس کے مطابق اِسے پڑھا جائے۔ چناں چہ علی پور کی ایک مسجد میں ہم دونوں نے صفر کے مہینے میں تین روز کے لیے اعتکاف کیا اور ’حزب البحر‘ کا سہ روزہ عمل پورا کیا۔ مختلف اغراض و مقاصد کے لیے ’حزب البحر‘ کے وِرد کے متعلق عابدصدیق صاحب کی خط و کتابت مولانا عبدالحکیم صاحبؒ سے ہوتی رہتی تھی۔
پروفیسر عابدصدیق صاحب وقت کے جیّد علمائے دین سے رابطہ رکھتے تھے۔ ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۲ء تک اُنھوں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے وائس چانسلر حضرت مولانا ابوبکرغزنویؒ سے تصوف کے سلسلہ نقشبندیہ میں اسباق لِیے اور اُن سے آپ کو اجازت عطا ہوئی۔ ۱۹۶۴ء سے ۱۹۷۳ء تک حضرت الشیخ مولانا محمد قمرالدینؒ سے چشتیہ نظامیہ فخریہ فریدیہ کے سلسلے میں اسباق لِیے اور اُن سے اجازت عطا ہوئی۔ مولانا محمد قمرالدینؒ ، حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے خلیفۂ مجاز تھے۔ پروفیسر عابدصدیق صاحب ہمیں بتایا کرتے تھے کہ مولانا محمد قمرالدین صاحبؒ نے مجھے تاکید فرمائی تھی کہ میرے بعد اگر کسی سے علمی و اصلاحی تعلق قائم کرنا ہو تو اکابرعلمائے دیوبند سے وابستگی اختیار کیجیے۔ اِس سے خواجہ غلام فریدؒ کے صحیح مسلک کا بھی بخوبی علم ہوجاتا ہے۔ بریلویت و دیوبندیت کے نام پر تفریق بین المومنین کے اصل محرکات پست فکر لوگوں کی ہواپرستی اور شکم پروری ہیں، اکابر علما اور صوفیا کا دامن اِس سے پاک رہا ہے۔
علمِ حدیث میں پروفیسر عابدصدیقؒ نے امام محمدؒ کی ’کتاب الاٰثار‘ کی روایت کی اجازت محدثِ شہیر مولانا عبدالرشید نعمانیؒ سے ربیع الاوّل ۱۳۹۴ھ بمطابق اپریل ۱۹۷۴ء میں حاصل کی اور صحیح بخاری کی روایت کی اجازت مولانا شیخ لطافت الرحمٰن سے ۱۹۸۷ء میں حاصل کی۔
تصوف کے ساتھ علم الکلام اور عقلی مباحث سے بھی پروفیسرعابدصدیق مرحوم کی دلچسپی قابلِ ذکر ہے۔ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ کی تصانیف اکثر اُن کے زیرِمطالعہ رہتی تھیں۔ 
میں نے اپنی سرکاری ملازمت کے آخری سالوں میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے شعبہ علومِ اسلامیہ میں جزوقتی استاد کی حیثیت سے فلسفہ و علم الکلام پڑھانا شروع کیا۔ میری یہ کوشش رہی کہ کلامیات کی تدریس میں عام روش سے ہٹ کر طلبہ و طالبات کو رجوع اِلی القرآن کی جانب زیادہ سے زیادہ مائل کیا جائے اور عقل و نقل میں ہم آہنگی پیدا کرکے اصولی اختلافی مسائل میں صحیح و غلط میں امتیاز کے آسان طریقوں سے اُنھیں روشناس کرایا جائے۔ اِس سلسلہ میں زیادہ تر عقلی استدلال کے فراموش کردہ شعبے ’’تشقیقِ جدلی‘‘ کو بروئے کار لایا جائے۔ عابدصدیق مرحوم تشقیقِ جدلی کے ذریعہ حقائق تک رسائی حاصل کرنے کو نہایت دلچسپ اور مفید قرار دیتے تھے اور مجھ سے متعلقہ مسائل پر اُن کی بحث و تمحیص اکثر جاری رہتی تھی۔ میری طرح عابدصدیق صاحب بھی ایسے مباحث میں خاص دلچسپی لیتے تھے جن کی مدد سے پیشہ ورانہ اور سوقیانہ مناظرانہ انداز سے سراسر اجتناب کرتے ہوئے طالبانِ حق کی مختصر وقت میں صحیح رہنمائی ہوسکے اور فکری لغزشوں سے اُنھیں محفوظ رکھا جاسکے، یا اگر وہ اِن فکری لغزشوں کا شکار ہوچکے ہیں تو اُنھیں بے جا گروہی تعصب اور وابستگی کا شعور اور احساس دلائے بغیر سیدھی راہ اختیار کرنے پر بخوبی آمادہ کیا جاسکے۔ یہاں جدل سے مراد بحث و مباحثہ ہے۔ اِس طریقے میں کسی بھی زیرِبحث مسئلے کی ممکنہ شقّوں (پہلوؤں) کو فرداً فرداً زیرِبحث لاکر حقیقت تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ یہ طریقہ نہ صرف دلچسپ ہوتا ہے بلکہ بسااوقات اِس سے حقیقت تک رسائی مختصر وقت میں ہوجاتی ہے۔ تمام عقلی علوم مثلاً ریاضی میں یہ طریقہ بکثرت مستعمل ہے۔ مثلاً تیرہ کا عدد یا جفت ہے یا طاق ہے۔ چوں کہ یہ عدد دو پر پورا تقسیم نہیں ہوتا، لہٰذا اِس کے جفت ہونے کی شق غلط ثابت ہوئی، اور چوں کہ یہاں تیسری کوئی شق عقلاً ممکن ہی نہیں، لہٰذا اِس کا طاق ہونا ازخود ثابت ہوگیا۔ 
دینی اصول و فروع میں بھی تشقیقِ جدلی کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ مثلاً سورہ فاتحہ کی ابتدائی آیات میں یہی طریقہ استعمال کیا گیا ہے۔ کسی کی اطاعت کی جائے یا اتباع کیا جائے، اُس کی اطاعت و اتباع کے صرف اور صرف تین محرکات و عوامل ہی سامنے آئیں گے۔ مُطاع و متبوع یا تو صاحبِ کمال ہو، یا صاحبِ احسان (محسن) ہو، یا صاحبِ اقتدار ہو۔ مثلاً شاگرد اپنے استاد کی اطاعت و اتباع پر اِس لیے آمادہ ہوتا ہے کہ وہ استاد کو متعلقہ فن میں صاحبِ کمال سمجھتا ہے۔ مریض، طبیب کی اطاعت اِس لیے کرتا ہے کہ وہ طبیب کو فنِ طب میں صاحبِ کمال سمجھتے ہوئے اُس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ بچے والدین کی اطاعت و اتباع اِس لیے کرتے ہیں کہ وہ والدین کو ایسا محسن و شفیق پاتے ہیں کہ اُن کے خیال میں والدین کا یہ احسان اور اُن کی شفقت بے لوث ہوتی ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو نہ کسی کے کمال کو پہچانتے ہیں اور اگر پہچان بھی لیں تو قدر نہیں کرتے اور نہ ہی وہ کسی کے احسان کو خاطر میں لاتے ہیں۔ یہ ’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے‘ کا مکمل مصداق ہوتے ہیں۔ جو صاحبِ اقتدار ہوگا، وہی ایسے لوگوں کو سیدھا کرسکتا ہے۔ اب دیکھیے سورہ فاتحہ کی پہلی آیت اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ  میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ حقیقی صاحبِ کمال صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ دوسری آیت اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سے واضح ہے کہ حقیقی محسن بھی وہی ہے اور تیسری آیت مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ میں یہ بتایا گیا ہے کہ حقیقی صاحبِ اقتدار بھی وہی ہے، لہٰذا سب سے زیادہ اطاعت و اتباع بھی اُسی کی ہونی چاہیے۔ لیکن ٹھہریے! دوسرے انسانوں کی مشروط اطاعت و اتباع پر تو ہر انسان مجبور بھی ہے اور مامور بھی۔ مثلاً بچے والدین کی، شاگرد اساتذہ کی، مرید اپنے شیخ کی، رعایا اپنی حکومت کی اطاعت و اتباع کرتی ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کا اِس سے بڑھ کر کوئی اور حق ایسا ہونا چاہیے جس میں دوسروں کی شرکت کو وہ ہرگز قبول اور گوارا نہ کرے۔ اُس کا یہ حق ’عبادت‘ ہے۔ چناں چہ اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے (کہ تم اپنی زبان سے خود یہ کہو) اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ  کہ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے (مافوق الاسباب امور یعنی امورِ غیر عادیہ میں) مدد مانگتے ہیں۔
پروفیسر عابدصدیق صاحب کی بذلہ سنجی اور خوش طبعی کا ذکر بھی یہاں مناسب ہوگا۔ زندگی کے تلخ و شیریں حقائق، تجربات و مشاہدات کو دلچسپ لطائف میں ڈھال کر افسردہ مزاجی کو خوش مزاجی میں تبدیل کرنے میں اُنھیں یدِطولیٰ حاصل تھا۔ پروفیسر عابدصدیق مرحوم اپنی خوش طبعی کی بنا پر سخت ترین حالات میں بھی بسااوقات ہشاش بشاش رہتے تھے۔ چند سال قبل اُنھیں دل کا شدید عارضہ لاحق ہوا۔ بعد میں یہی عارضہ اُن کے انتقالِ پرملال کا سبب بنا۔ میں عیادت کے لیے گیا تو ہنستے ہوئے کہنے لگے: ’’بھیّا! عجیب بات ہے۔ گھر والے مجھے کہتے ہیں کہ دل چھوٹا نہ کرو اور ہسپتال والے کہتے ہیں کہ تم نے دل بڑھا رکھا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ اُنھیں عظم القلب (Senile Hypertrophy of Heart) کا عارضہ لاحق تھا۔ مرض سے اُنھیں کچھ افاقہ ہوا تو ایک مرتبہ مزاحاً فرمانے لگے: ’’برِصغیر کے (اردو کے) بڑے بڑے شعرا گزرتے جارہے ہیں۔ طبیعت میری بھی کئی دنوں سے ناساز ہے۔‘‘
کالج میں بطورِاستاد تقرری سے پہلے ہی مجھے طبِ تماثلی (ہومیوپیتھی) سے دلچسپی تھی۔ گورنمنٹ کالج علی پور میں ملازمت کے دوران میں نے عابدصدیق صاحب کو بھی اِس سے روشناس کرایا۔ میری دلچسپی تو ہومیوپیتھک کتب کے مطالعے، اور اپنے احباب و اقارب کے علاج معالجے تک ہی محدود رہی لیکن عابدصدیق صاحب نے بعد میں بہاول پور میں قیام کے دوران ہومیوپیتھک کا چار سالہ ڈپلومہ کورس باقاعدہ پورا کیا اور پھر اپنے گھر میں کلینک بھی کھولا۔ مقامی ہومیوپیتھک کالج میں وہ وقتاً فوقتاً لیکچرز بھی دیتے رہے۔ ہومیوپیتھی کے سلسلے میں اُن کا مجھ سے اور میرا اُن سے اکثر رابطہ رہتا تھا۔ ایک دوسرے کے معالجاتی تجربات سے ہم مستفید ہوتے تھے۔ فلسفۂ ہومیوپیتھی سے اُنھیں خاص دلچسپی تھی اور اِس پر قدیم و جدید مصنفین کی کتب اکثر اُن کے زیرِمطالعہ رہتی تھیں۔
پروفیسر عابدصدیق مرحوم کی طبیعت میں خاندانی جلال بھی موجود تھا۔ اپنی دانست میں جس کام کو وہ غلط سمجھتے تھے اُسے ہوتا دیکھ کر کبھی کبھار وہ تحمل و برداشت کی حدود سے کچھ باہر بھی نکل جاتے تھے۔ مثلاً ایک مرتبہ میں اُن کے ہمراہ رات کے وقت تعلیمی بورڈ بہاول پور کے چئرمین صاحب سے ملاقات کے لیے اُن کے گھر گیا کیوں کہ وہ کسی زمانے میں گورنمنٹ کالج علی پور میں ہمارے پرنسپل رہ چکے تھے۔ چئرمین صاحب کے ایک صاحب زادے نہایت بھدے انداز اور آواز میں ہارمونیم وغیرہ پر کوئی گانا گارہے تھے۔ موسیقی پر صاحب زادے کا یہ ظلم عابدصدیق صاحب سے برداشت نہ ہوسکا اور آلۂ موسیقی اُن کے ہاتھ سے چھینتے ہوئے بطورِاصلاح اُسے خود بجانا شروع کردیا اور خاصی دیر تک یہی شغل جاری رہا حالاں کہ اُن دنوں عابدصدیق صاحب موسیقی اور آلاتِ موسیقی سے بے زار ہوچکے تھے۔ جب ہم وہاں سے واپس ہوئے تو فرید گیٹ پر کسی کی خوشی کی تقریب میں مغنّیوں اور مغنّیات کے بھرپور گانے جاری تھے اور ارد گرد لوگوں کا خاصا مجمع ہونے کی وجہ سے آمدورفت کا راستہ مسدود تھا۔ وہاں سے ہم نے دوسرا راستہ لیا تو کچھ آگے چل کر وہاں بھی اِسی طرح کا منظر دکھائی دیا۔ تیسرا طویل راستہ اختیار کرتے ہوئے گھر پہنچنے کے قابل ہوئے۔ میں نے عابدصدیق صاحب سے مزاحاً کہا کہ چوں کہ آپ نے آلاتِ موسیقی بجانے کے گناہ کو پھر تازہ کیا ہے، اُسی کی ہمیں یہ سزا ملی ہے۔ تو اُنھوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا کہ اِسی لیے تو بزرگ کہا کرتے ہیں کہ اچھا یا برا جو کام بھی کروگے، اُسی کے اسباب تم پر آسان کیے جائیں گے۔
جب گورنمنٹ ایس ای کالج بہاول پور سے عابدصدیق صاحب ریٹائر ہوئے تو کالج کی روایت کے مطابق اُن کے لیے الوداعی تقریب کا اہتمام ہوا۔ اِس تقریب میں اُنھوں نے الوداعی خطبات کے جواب میں دوسری بہت سی باتوں کے علاوہ اپنے طبعی جلال اور تیزمزاجی کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے رفقائے کار سے کہا کہ اگر کسی بھی وقت میرے کسی بھی قول و فعل سے کسی نے کسی طرح کی بھی کوئی رنجش یا تکلیف محسوس کی ہو تو میں اُس پر صدقِ دل سے سب سے معافی کا خواستگار ہوں، چوں کہ میں نے نفاق سے کام لیتے ہوئے کبھی کسی کے خلاف کینہ پروری نہیں کی اِس لیے اپنے مافی الضمیر کو برملا ظاہر کرتا رہاہوں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے اور اُنھیں جنت کے اعلیٰ درجات پر فائز فرمائے۔ آمین۔

شیعہ سنی تنازع اور اس کا پائیدار حل

ڈاکٹر محمد امین

ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے دسمبر ۲۰۰۴ کے شمارے میں مولانا زاہد الراشدی صاحب نے اپنے ادارتی شذرہ بعنوان ’سنی شیعہ کشیدگی۔ چند اہم معروضات‘ میں تکفیر شیعہ کے بارے میں مولانا سرفراز خان صفدر صاحب کے فتوے کی تصویب کرتے ہوئے کالعدم سپاہ صحابہ کے رویے کی شدت پر بھی گرفت کی ہے۔ مولانا اور ’الشریعہ‘ کا موقف ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کے فروغ، مسلکی اختلافات میں وسعت سے کام لینے اور رواداری کا مظاہرہ کرنے کی تلقین پر مشتمل ہوتا ہے جس کی ہر متوازن اور غیر جانبدار شخص تعریف وتائید کرتا ہے اور خود ہم اس کے مداحوں میں سے ہیں۔ تاہم تکفیر شیعہ کے بارے میں مولانا زاہد الراشدی نے جو کچھ لکھا ہے، ہماری طالب علمانہ رائے میں وہ بھی ایک لحاظ سے سخت موقف ہے۔ اس لیے ہم اس ضمن میں نیز اس مسئلے کے پائیدار حل کے لیے بعض تجاویز مولانا اور دوسرے اہل فکر ونظر کے لیے پیش کرنا چاہتے ہیں۔

مسئلہ تکفیر

جہاں تک تکفیر شیعہ کا تعلق ہے، ہمارے علم کی حد تک یہ اہل سنت کا کوئی متفق علیہ مسئلہ نہیں ہے، بلکہ غالباً یہ کہا جا سکتا ہے کہ جمہور علماء اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ اہل تشیع کا نقطہ نظر غلط ہے۔ چلیے اسے گمراہی کہہ لیجیے، لیکن سوائے خلافیات اور مناظرہ کا ذوق رکھنے والے کچھ سخت موقف رکھنے والے علما کے، اکثریت نے کبھی انہیں کافر نہیں کہا اور نہ سمجھا۔ اسی طرح امت کے اہل علم کی اکثریت نے ان کے مزعومہ کفر کی بنا پر کبھی انہیں واجب القتل نہیں کہا اور نہ مسلم معاشرے میں بالعموم اہل سنت واہل تشیع میں قتل وغارت گری کا وہ ماحول رہا ہے جو اس وقت پاکستان میں ہے، بلکہ ان دونوں مسالک کے پیروکار مسلم معاشروں میں صدیوں سے امن وسکون سے رہتے آئے ہیں اور اب بھی رہ رہے ہیں۔
محترم مولانا سرفراز خان صفدر صاحب کے فتوے میں دو باتیں محل نظر ہیں: ایک تو یہ کہ انہوں نے ’شیعہ‘ کا عمومی لفظ استعمال کر کے اور ان کے چند اہم قابل اعتراض عقائد کا ذکر کر کے انہیں کافر قرار دیا ہے۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے اہل تشیع کے کسی وضاحتی موقف کو ماننے سے اس لیے انکار کر دیا ہے کہ وہ تقیہ پر مبنی ہو سکتا ہے۔ ہم ادب کے ساتھ عرض کریں گے کہ یہ دونوں باتیں عدل وانصاف کے مسلمہ معیارات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ پہلے جزیے کی تو خود مولانا زاہد الراشدی صاحب نے بھی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کا اطلاق سارے شیعہ گروہوں پر نہیں ہو سکتا۔ ہم کہتے ہیں کہ سارے اثنا عشری شیعوں پر بھی اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا، کیونکہ سارے اثنا عشری شیعہ مذکورہ تینوں عقائد پر یقین نہیں رکھتے۔ لہٰذا انہیں ایک گروپ کے طور پر کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تکفیر مسلمین کے بارے میں سخت شرعی احکام کے پیش نظر احتیاط وانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ فتویٰ یہ دیا جائے کہ جس شخص کے یہ اور یہ عقائد ہوں، وہ کافر ہے اور یہ نہ کہا جائے کہ سارے شیعہ کافر ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں اختلاف وانصاف کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ فریق مخالف اگر کسی الزام کے جواب میں کوئی وضاحت پیش کرے تو اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اگر ایک اثنا عشری عالم یہ کہے کہ وہ ان تینوں مذکورہ عقائد کا حامل نہیں تو ہمیں اس کی اس وضاحت کو قبول کرنا چاہیے اور یہ کہہ کر اسے رد نہیں کرنا چاہیے کہ تم تقیہ کر رہے ہو۔ یہ بھی واضح ہے کہ اس طرح کے علمی مسائل کا فیصلہ عوام الناس کی رائے پر نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح خلافیات وجدلیات کا ذوق رکھنے والے شدت پسند انفرادی آرا کے حامل کسی ایک شخص یا بعض اشخاص کی رائے پر بھی کسی سارے گروہ کو مطعون نہیں کرنا چاہیے۔ مثلاً اگر کوئی مولانا عبید اللہ سندھی صاحب کی آرا بیان کر کے کہے کہ یہ سب اہل دیوبند کی رائے ہے یا مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کی آرا بیان کر کے کوئی کہے کہ اہل ہند کے سب علماء احناف کی یہ آرا ہیں تو کیا اس بنیاد پر کوئی فیصلہ دینا صحیح ہوگا؟ اسی طرح اثنا عشری اہل تشیع میں سے کسی شدت پسند عالم دین نے اگر کبھی کوئی غلط بات لکھ دی ہے تو اس کی بنیاد پر سارے اثنا عشری گروہ یا سارے اثنا عشری افراد کو کافر کہنا صحیح نہ ہوگا۔
یہاں ایک اور بات بھی اہم ہے اور وہ یہ کہ فرض کیجیے کہ اہل سنت کا ایک عالم یا ایک عام شخص اگر کسی اثنا عشری عالم یا فرد کے بارے میں تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کے عقائد کافرانہ ہیں اور وہ اس کی نظر میں کافر ہے تو کیا اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ بندوق پکڑے اور اسے گولی مار کر ہلاک کر دے؟ یہ تو قرآن وسنت میں کہیں بھی نہیں لکھا۔ اہل سنت کے کسی امام نے بھی اس کا فتویٰ نہیں دیا۔ پھر اسے جائز کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے اور موجودہ قتل وغارت گری کی شرعی اساس کیا ہے؟
خلاصہ یہ کہ سارے شیعوں کی تکفیر کا بلا استثنا فتویٰ نہیں دینا چاہیے بلکہ صرف اس شخص کے کفر کا فتویٰ دینا چاہیے جو تسلیم کر ے کہ اس کے یہ عقائد ہیں۔ دوسرے یہ کہ جو شخص وضاحت طلبی پر ان عقائد سے براء ت کا اظہار کرے، اس کا موقف قبول کیا جانا چاہیے اور یہ کہہ کر اسے رد نہیں کرنا چاہیے کہ وہ تقیہ کر رہا ہے۔ اور تیسرے یہ کہ اگر اہل سنت کے کسی شخص کی رائے میں اہل تشیع کا کوئی شخص کفریہ عقائد رکھتا ہو اور اس کی رائے میں وہ صریحاً کافر ہو تو بھی اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے اور اسے خود قتل کر دے۔ کسی فرد یا گروہ کے ارتداد یا قتل کا فیصلہ کرنا مسلم ریاست کا کام ہے نہ کہ کسی فرد کا، جیسا کہ قادیانیوں کی تکفیر کے بارے میں ہمارے سامنے ایک فیصلہ ہو بھی چکا ہے۔
کسی التباس سے بچنے کی خاطر ہم یہاں یہ وضاحت کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ ذاتی طور پر ہمارا عقیدہ وہی ہے جو جمہور اہل سنت کا ہے یعنی جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ موجودہ قرآن اصلی نہیں، جو صحابہ پر سب وشتم روا رکھتا ہو اور انہیں کافر سمجھتا ہو، اور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی رہنما کو ان ہی کی طرح معصوم عن الخطا اور صاحب دعوت (گویا نبی) سمجھتا ہو، ہمارے نزدیک بھی وہ کافر ہے۔

سنی شیعہ تنازع کا حل

تکفیر شیعہ کے بارے میں ہماری گزارشات تمام ہوئیں۔ لیکن اس مسئلے کا ایک اور اہم پہلو بھی قابل غور ہے اور وہ یہ کہ پاکستان میں اس وقت جو شیعہ سنی کشیدگی پائی جاتی ہے، اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اہل سنت کے سارے علماء اور عامۃ الناس اہل تشیع کو کافر سمجھتے ہیں، بلکہ اس کی وجہ کچھ اور ہے۔ اہل تشیع ہمارے معاشرے میں صدیوں سے رہ رہے ہیں لیکن اکا دکا واقعات کے سوا جن میں کسی ایک طرف سے کسی شدت پسند شخص کی زیادتی ہوتی ہے، کبھی اس طرح کی قتل وغارت گری والی صورت پیدا نہیں ہوئی جو اس وقت پاکستان میں پیدا ہو چکی ہے۔ لہٰذا موجودہ تنازع کی اصل وجہ اہل تشیع کے عقائد نہیں ہے، بلکہ اگر تعیین کے ساتھ تصریح کی جائے تو یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ دراصل عموم اہل سنت اور عموم اہل تشیع میں اس وقت بھی کوئی کشیدگی نہیں پائی جاتی۔ کشیدگی دراصل اہل سنت میں سے دیوبندی حضرات کے ایک گروپ اور اہل تشیع کے ایک بڑے گروپ میں ہے، ورنہ ان دونوں گروہوں کے علاوہ شیعہ سنی عامۃ الناس میں باہم کوئی نفرت ہے اور نہ اہل سنت واہل تشیع کی ساری دینی قیادت اس میں شامل ہے۔ تو اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں گروپوں میں جھگڑے کی وجہ کیا ہے اور اس کی ابتدا کس نے کی ہے؟ کچھ کہنے سے پہلے یہ ہم یہاں یہ صراحت کر دیں کہ ہم کسی گروہ کے حامی ہیں نہ مخالف، ہم تو دونوں کے خیر خواہ ہیں اور ہماری رائے محض غیر جانبداری اور معروضیت پر مبنی ہے۔
ایرانی انقلاب کی کامیابی پچھلی دہائیوں کا ایک اہم واقعہ ہے۔ وہاں انقلابیوں کو کامیابی ملی تو انہوں نے اس انقلاب کو برآمد کرنا چاہا۔ اب عملاً صورت حال یہ ہے کہ اس پوری پٹی میں اہل تشیع موجود ہیں۔ عراق، شام، بحرین میں معتد بہ تعداد میں اور سعودی عرب، امارات، پاکستان، افغانستان میں معمولی مقدار میں۔ چنانچہ ان ممالک کی شیعہ اقلیتوں میں اضطراب اور ہیجان کی کیفیت پید اہو گئی۔ بعض لوگوں کے نزدیک ایرانی انقلابیوں کی اپنے انقلاب کو برآمد کرنے کی خواہش فطری تھی، لیکن ہمارا کہنا یہ ہے کہ اس میں معروضیت کو پیش نظر رکھنا ضروری تھا کہ ہوش جوش پر غالب نہ آئے ، ورنہ گھمبیر مسائل پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ پاکستان میں پیدا ہوئے۔
پھر عقل ومنطق، حق وانصاف اور دوسرے ملکوں میں عدم مداخلت کے بین الاقوامی اصول ومعاییر سے ایک لحظہ کے لیے صرف نظر کرتے ہوئے، ایران کے اپنے قائم کیے ہوئے معیار کو دیکھا جائے تو بھی اس بات کا کوئی جواز نہیں بنتا کہ پاکستان میں ’’تحریک نفاذ فقہ جعفریہ‘‘ کی بنیاد رکھی جائے۔ ایران نے یہ اصول اپنے دستور میں لکھا ہے اور وہ اس پر عمل پیرا بھی ہے (اور ہمارے نزدیک بھی یہ اصول صحیح ہے) کہ ملک کا دستور اور عام قانون وہ ہوگا جو ملک کی اکثریت کا عقیدہ ہے، حکومت بھی انہی کی ہوگی لیکن اقلیتی نقطہ نظر کے حقوق بھی پامال نہیں کیے جائیں گے۔ چنانچہ ایرانی دستور اور قوانین اثنا عشری عقائد کے مطابق ہیں اور اسی عقیدے کے حامل لوگ اقتدار میں ہیں۔ اسی اصول کا اطلاق پاکستان میں بھی ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں اہل تشیع کی تعداد پانچ سات فی صد سے زیادہ نہیں (چونکہ مصدقہ اعداد وشمار موجود نہیں لہٰذا اہل تشیع اگر کچھ زیادہ تعداد کا دعویٰ کریں تو بھی صورت حال پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا) اس لیے یہاں ملک کا قانون تو وہی بنے گا جو اکثریت (اہل سنت) کا ہے، لہٰذا یہاں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ قائم کرنا اور اس کے لیے عملاً جدوجہد کرنا اور دھرنے دینا غیر منطقی بھی ہے اور نا انصافی بھی۔ یہ خود ایران کے اپنے بنائے ہوئے اصول کے بھی خلاف ہے لہٰذا یہاں فقہ جعفریہ کے نفاذ کا مطالبہ کرنا یا الگ تعلیمی نصاب کا مطالبہ کرنا بلاجواز تھا اور ہے۔ اس پر جب ایرانی پشت پناہی سے دھن اور دھونس سے عمل کروانے کی کوشش کی گئی اور عاقبت نااندیش پاکستانی حکومتیں بھی بروقت صحیح فیصلہ نہ کر سکیں تو ا س کا رد عمل ہوا اور اہل سنت میں سے ایک گروہ اس کی مزاحمت پر تل گیا۔ اگر یہ عمل اور رد عمل پرامن اور علمی رہتا تو شاید قابل برداشت ہوتا، لیکن ایک دفعہ جب قانو ن ہاتھ میں لے لیا گیا تو بظاہر ظالم ومظلوم برابر ہو گئے۔ اب دونوں گروہ ایک دوسرے کے آدمی مار رہے ہیں اور مسابقت اور مقابلہ اس میں ہے کہ کس نے کس کے زیادہ آدمی مارے! انا للہ وانا الیہ راجعون۔ نہ کسی کو دین وشریعت کی پروا ہے اور نہ حق وانصاف کی۔ یہ قوم کی بدقسمتی ہے۔ یہ ایک مصیبت ہے بلکہ مصیبت کبریٰ ہے اور ہم جیسے عام مسلمان یہ دیکھ کر کڑھتے ہیں اور یہ سوچ کر پریشان ہوتے ہیں کہ اس مصیبت سے امت کو کیسے نکالا جائے؟
اس صورت حال کی اصلاح کے حوالے سے دو باتیں اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ حکومت پاکستان (بلکہ اسٹیبلشمنٹ کہنا چاہیے کیونکہ حکومتیں تو بدلتی رہتی ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ یعنی سول اور ملٹری بیورو کریسی اور جاگیردار وسرمایہ دار سیاست دانوں کی مستقل ہیئت مقتدرہ ہمیشہ قائم رہتی ہے) نے اس سلسلے میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا اور نہ آئندہ اس سے اس کی توقع ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہمارے حکمران طبقے کی پالیسی ہی یہ ہے کہ دینی عناصر کو آپس میں لڑاؤ تاکہ یہ متحد ہو کر مضبوط نہ ہو جائیں اور ان کے لیے کوئی سنجیدہ چیلنج نہ بن جائیں۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ ہر مسلک کی اپنی سیاسی جماعت ہے بلکہ ہر مسلک میں جتنے لیڈر ہیں، اتنی ہی دینی وسیاسی جماعتیں ہیں اور انتخابات میں ان کو ایک دوسرے کے خلاف لڑایا جاتا ہے تو کیا یہ محض اتفاق ہے؟ اور کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ حکومت ہر مسلک کی مسجد اور مدرسے کو رجسٹرڈ کر کے باقاعدہ سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہے اور اس نے ہر مسلک کی دینی تعلیم کا ایک وفاق منظور کیا ہوا ہے جس کی اسناد کو وہ تسلیم کرتی ہے۔ نہیں جناب! یہ سب کچھ اتفاقیہ اور الل ٹپ نہیں ہو رہا، اس کے پیچھے اسٹیلبشمنٹ کی باقاعدہ سوچ اور منصوبہ بندی ہے اور ان اقدامات کے ذریعے سے اس نے کامیابی سے دینی عناصر کے اندر افتراق کے بیج بوئے ہیں اور انہیں پروان چڑھایا ہے۔ ہمارے علما اگر ’بھولے بادشاہ‘ نہ بنیں اور بصیرت وتدبر سے کام لیں تو ان کو یہ سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کہ حکومت اگر چاہے تو مسلک پر مبنی سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ نہ کرے یا دینی تعلیم کے بہت سارے وفاقوں کی جگہ ایک وفاق بنا دے اور مسجدیں ومدرسے مسلکی بنیادوں پر رجسٹر نہ کرے ، لیکن وہ تو اس مسلک پرستی کو فروغ دینا چاہتی ہے، علما کو آپس میں لڑانا چاہتی ہے لہٰذا اسے ان اقدامات کی کیا ضرورت ہے؟ 
تو خلاصہ یہ کہ ہماری کسی حکومت نے شیعہ سنی اختلافات کو پاٹنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کبھی نہیں کی اور نہ ہمیں موجودہ یا آئندہ کسی حکومت سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ موجودہ شیعہ سنی تنازع کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کردار ادا کرے گی۔ لہٰذا ا س کا ایک ہی حل ممکن ہے اور وہ یہ ہے کہ شیعہ سنی متحارب گروپوں کے علاوہ جتنے بھی دردمند دینی اور ملی عناصر ہیں، وہ اکٹھے ہو کر ایک کمیشن، کمیٹی یا عدالت بنا لیں جو اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرے اور اس کے اسباب دور کرے۔ اوپر اوپر سے لیپا پوتی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں (جس طرح حکومت کرتی ہے کہ جب محرم آئے یا مسلسل قتل وغارت گری کی وارداتیں ہوں تو علماکو صدر اور وزیر اعظم یا گورنر صاحب سے ملوایا جاتا ہے، اتحاد کے حق میں بیان دلوائے جاتے ہیں، حکومت دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے اعلان کرتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور جب محرم گزر جاتا ہے یا وارداتیں کچھ ٹھنڈی پڑ جاتی ہیں تو پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ پھر اگلے سال جب محرم آتا ہے یا وارداتیں تیز ہوتی ہیں تو پھر وہی بیانات اور اٹھک بیٹھک دہرائی جاتی ہے اور عملاً کوئی دیرپا اقدام مسئلہ سلجھانے کے لیے نہیں کیا جاتا) اس طرح کی ایک ’’ملی یک جہتی کونسل‘‘ پہلے بنی بھی تھی، لیکن اس نے بھی ٹھوس منصوبہ بندی سے اس تنازع کے مستقل خاتمے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مرض کو جڑ سے ختم کیا جائے۔ اس غرض سے ضروری ہے کہ دردمند، جہاں دیدہ اور غیر جانبدار لوگوں پر مشتمل ایک کمیشن یا کمیٹی یا عدالت سارے دینی وملی عناصر کی طرف سے بنائی جائے جو اہل تشیع کو قائل کرے کہ وہ ایران کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نفاذ فقہ جعفریہ کی تحریک اور جدوجہد ختم کریں۔ (ہاں! اگر وہ چاہیں تو اپنے حقوق کے پرامن انداز میں تحفظ کے لیے کوئی انجمن، ادارہ یا سیاسی جماعت بنا سکتے ہیں) اس کے بعد سپاہ صحابہ کے بزرگوں سے بھی درخواست کی جائے کہ ہ اپنی تنظیم رضاکارانہ طور پر ختم کر دیں اور دینی وسیاسی مقاصد کے لیے دوسرے پلیٹ فارم استعمال کریں۔ یہ کام ایک آدھ دن یا ایک آدھ نشست کا نہیں بلکہ اس کے لیے مسلسل محنت کرنی پڑے گی لیکن ہمیں یقین ہے کہ اگر اخلاص، غیر جانب داری اور درد مندی کے ساتھ یہ کوشش کی جائے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائیں گے اور اس کے اچھے نتائج نکلیں گے۔ ان شاء اللہ۔ ہم مولانا زاہد الراشدی صاحب سے درخواست کریں گے کہ وہی اس نیک کام کی ابتدا کریں اور مختلف مسالک کے سرکردہ اور معتدل علماء کرام (ترجیحاً غیر سیاسی) پر مشتمل ایک بڑا کمیشن یا عدالت بنوائیں جو اس مسئلے کو جڑ بنیاد سے ختم کرنے کی کوشش کرے اور ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کرے۔
امت مسلمہ کو اتحاد کی جتنی ضرورت آج ہے، شاید اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔ سقوط بغداد اول کے وقت شیعہ سنی اور دوسرے فرقے آپس میں لڑ رہے تھے، یہاں تک کہ ہلاکو خان نے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ آج پھر ایک ہلاکو خاں کے ہاتھوں بغداد کا دوبارہ سقوط ہو چکا ہے، افغانستان روندا جا چکا ہے، ایران کی باری آیا چاہتی ہے اور ہمارا نمبر شاید اگلا ہو، لیکن ہم شیعہ سنی ہونے کی بنا پر آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ہم تاریخ سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں، متحد ہونے کو تیار نہیں، حالانکہ ہلاکو کی فوج نے جب حملہ کیا تو شیعہ سنی میں تمیز نہیں کی تھی، سب کو مسلمان سمجھ کر مارا تھا۔ بش بھی آج مسلمانوں کو مار رہا ہے، وہ شیعہ سنی میں تفریق نہیں کرتا۔ جو بھی مسلمان ہو، وہ اس کے نزدیک گردن زدنی ہے، لیکن ہم شیعہ سنی کی بنیاد پر ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں، خود کو کمزور کر رہے ہیں، دوسروں کو اپنے اوپرہنسنے کا اور دشمنوں کو اپنے اندر گھسنے کا موقع دے رہے ہیں، لیکن عبرت پکڑنے کو تیار نہیں، سبق سیکھنے کو تیار نہیں، متحد ہونے کو تیار نہیں! کیا ہم نے خود کشی کا ارادہ کر لیا ہے؟ فاعتبروا یا اولی الابصار۔

جہاد اور دہشت گردی : عصری تطبیقات

ادارہ

(مجلس فکر ونظر لاہور ایک غیر حکومتی، غیر سیاسی، غیر مسلکی اور آزاد علمی وتحقیقی مجلس ہے جس کے پیش نظر مسلم امہ کو درپیش جدید مسائل میں اسلامی رہنمائی مہیا کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں کو بروئے کار لانا ہے۔ مجلس اس سے قبل سود کے متبادل معاشی نظام، دینی وعصری نظام تعلیم کی اصلاح کی حکمت عملی اور پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات جیسے اہم موضوعات پر مذاکروں اورسیمینارز کے انعقاد کے علاوہ تحقیقی وتجزیاتی رپورٹس بھی پیش کر چکی ہے۔ نومبر ۲۰۰۴ میں مجلس کی طرف سے عصری تناظر میں جہاد اور دہشت گردی سے متعلق سوالات پر غور وفکر کے لیے مختلف مکتبہ ہائے فکر کے ممتاز علما پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے مشورے سے ایک سوال نامہ مرتب کر کے ملک بھر کے جید علماء اور اسکالرز کو بھجوایا گیا۔ بعد ازاں مجلس نے ۲۲ مارچ ۲۰۰۵ کو لاہور میں اس موضوع پر ایک روزہ سمپوزیم منعقد کیا جس میں مولانا حافظ فضل الرحیم، مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی، مولانا عبد المالک، مولانا مفتی محمد طیب، مولانا مفتی محمد خاں قادری، مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی، ڈاکٹر محمود احمد غازی، ڈاکٹر قبلہ ایاز، ڈاکٹر محمد امین اور دیگر اہل علم نے شرکت کی اور اس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ مجلس کے مرتب کردہ سوال نامہ اور سمپوزیم کے جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ کا متن قارئین کی دل چسپی کے لیے یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

سوال نامہ

۱۔ جہاد کی تعریف

اقسام جہاد

۲۔ جہاد بالدعوۃ:  کیا مسلم یا غیر مسلم معاشرے میں زبان وقلم اور دیگر پر امن ذرائع سے دین کی دعوت وتبلیغ اور اعلاء کلمۃ اللہ کی کوشش بھی جہاد ہے؟
۳۔ جہاد بالنفس: کیا دینی احکام پر عمل کے لیے اپنی ذات کی اصلاح اور اس کے لیے کوشش وجدوجہد بھی جہاد شمار ہوگی؟

اقدامی جہاد

یعنی وہ مسلح جدوجہد جس میں کسی ایسی کافر حکومت کی طاقت توڑنا اور اسے جھکانا مقصود ہو جو اپنے عوام کے فہم اسلام میں رکاوٹ ہو۔

اس جہاد کی شرائط

۴۔ شرط امام:  کیا یہ جہاد صرف کسی مسلم ریاست (یا ریاستوں) کی طرف سے ہی ہو سکتا ہے یا یہ مسلم افراد اور ان کی پرائیویٹ تنظیموں کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے؟
۵۔ شرط مقدرت:  کیا یہ جہاد ہر حالت میں فرض ہوتا ہے یا صرف اس وقت جب مسلم حکومت (یا حکومتیں) اتنی طاقتور ہوں کہ طافر حکومت کی شکست کا احتمال غالب ہو؟ کیا سورۂ انفال کی دو گنا اور دس گنا والی شرط کا اطلاق یہاں ہوتا ہے؟
۶۔ اس جہاد کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ یعنی یہ فرض ہے یا مستحب؟

دفاعی جہاد

جب کوئی غیر مسلم طاقت کسی مسلمان ریاست پر حملہ کر دے/ قبضہ کر لے تو اس وقت:
۷۔ اگر مسلم حکومت شکست کھا جائے تو کیا اس ملک کے مسلم عوام پر جہا دیا مسلح مزاحمت فرض ہو جاتی ہے؟
۸۔ اس مزاحمت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ یعنی یہ فرض کفایہ ہوتی ہے یا فرض عین یا محض مستحب؟
۹۔ کیا اس حالت میں شرط امام اور شرط مقدرت ساقط ہو جاتی ہیں؟
۱۰۔ اگر محض استخلاص وطن مقصود ہو اور اس کے بعد اسلامی حکومت قائم کرنے کا عزم واعلان موجود نہ ہو تو کیا پھر بھی یہ مسلح مزاحمت جہاد شمار ہوگی؟
۱۱۔ اگر کفار ایسے مفتوحہ ملک میں اپنی گماشتہ مسلم حکومت قائم کر دیں تو کیا اس حکومت کے خلاف مسلح مزاحمت جائز ہوگی اور وہ شرعی جہاد سمجھی جائے گی؟
۱۲۔ کیا اس طرح کے دفاعی جہاد میں دشمن ملک (اور اس کے حلیف ممالک) کے اندر جاکر حملہ کرنا جائز ہوگا؟
۱۳۔ کیا اس ملک کی شہری آبادی اور شہری مقامات پر حملہ کرنا جائز ہوگا؟
۱۴۔ کیا اس ملک کے سفارت خانوں پر حملہ جائز ہوگا؟
۱۵۔ کیا اس ملک کے معاشی مفادات پر حملہ کرنا جائز ہوگا؟
اگر ایک مسلمان ملک پر کفار کا حملہ/ قبضہ ہو جائے توکیا
۱۶۔ ساری مسلم حکومتوں پر جہاد فرض ہو جائے گا؟
۱۷۔ یا صرف مجاور مسلم حکومت/ حکومتوں پر جہاد فرض ہوگا؟
۱۸۔ یا ساری مسلم حکومتوں پر محض اس کی اعانت فرض ہوگی؟
۱۹۔ یا صرف مجاور مسلم حکومت/ حکومتوں پر اعانت فرض ہوگی؟
۲۰۔ اس اعانت کی حدود کیا ہوں گی؟ کیا محض سیاسی اعانت سے بھی حق ادا ہو جائے گا؟
۲۱۔ اس اعانت کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ یعنی فرض ہوگی یا مستحب؟
۲۲۔ اگر مسلمان ریاستیں اس متاثرہ مسلم ریاست کی مدد نہ کریں تو کیا اس صورت میں ساری امت کے مسلمانوں پر (یعنی ہر فرد مسلم پر) جہاد فرض ہو جائے گا؟
۲۳۔ یا صرف مجاور مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوگا؟
۲۴۔ مسلم افراد (یا ان کی بنائی ہوئی پرائیویٹ تنظیموں) پر یہ جہاد فرض کفایہ ہوگا یا فرض عین یا مستحب؟
۲۵۔ دفاعی جہاد میں کیا خود کش حملے جائز ہیں؟
۲۶۔ دفاعی جہاد میں اگر ان بین الاقوامی معاہدوں کے ضوابط کی خلاف ورزی ہو جن پر مسلمان حکومتوں نے دستخط کر رکھے ہیں تو اس صورت میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟
۲۷۔ دہشت گردی کی تعریف کیا ہے؟

مسلمان ریاست کے داخلی معاملات

۲۸۔ اگر مسلمان حکمران بالجبر مسلمان رعایا پر حکومت کریں، ان کی پالیسیاں بھی غیر اسلامی ہوں اور وہ کفار کے گماشتے بھی ہوں تو کیا ان کے خلاف مسلح جدوجہد جائز ہوگی اور یہ جہاد شمار ہوگی؟
۲۹۔ یہ مسلح جدوجہد فرض کفایہ ہے، فرض عین ہے یا مستحب؟
۳۰۔ ایسے مسلمان حکمران کے خلاف پرامن اصلاحی جدوجہد کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ فرض کفایہ ہے، فرض عین ہے، مستحب ہے یا غیر ضرور ی ہے؟
۳۱۔ کیا مسلمان افراد اور تنظیموں کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ باہمی دینی اختلافات (جیسے مثلاً شیعہ سنی میں، اہل سنت اور منکرین حدیث میں یا دیوبندی بریلوی وغیرہ میں ہیں) کی بنا پر ایک دوسرے کو کافر کہیں؟
اگر ایک مسلمان حکومت میں ایک مسلمان کسی دوسرے مسلمان فرد یا گروہ کے بارے میں یہ رائے رکھے کہ وہ کافر ہے تو:
۳۲۔ اسے کیا کرنا چاہیے یعنی کیا اقدامات کرنے چاہییں؟
۳۳۔ کیا وہ خود سے انہیں قتل کرنے کا مجاز ہے؟

مشترکہ اعلامیہ

جہاد اور دہشت گردی کی عصری تطبیقات کے موضوع پر مجلس فکر ونظر کی طرف سے طلب کردہ پاکستان کے مختلف مکتبہ ہائے فکر اور اداروں کے علما، محققین اور اسکالرز کا یہ اجلاس، منعقدہ لاہور ۲۲ مارچ ۲۰۰۵، مندرجہ ذیل مشترکہ اعلامیے کا اعلان کرتا ہے:

جہاد

یہ کہ
۱۔ اسلامی احکام پر عمل ا ور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کی جانے والی ہر وہ کوشش جو فی سبیل اللہ ہو، اسلامی اور شرعی جہاد ہے۔
۲۔ جہاد اسلام کا انتہائی اہم حکم ہے اور وہ قیامت تک کے لیے ہے۔
۳۔ اگر کسی مسلمان ملک پر کفار ناحق حملہ کر دیں تو وہاں کے مسلم حکمران اور عوام کا فرض ہے کہ اس کی ہر طرح سے مزاحمت کریں، یہاں تک کہ جارح کو ملک سے باہر نکال دیں اور مسلمانوں کا اقتدار بحال ہو جائے تاکہ وہ اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزار سکیں۔
۴۔ مذکورہ صورت میں مجاور اور دیگر مسلمان ممالک کا فرض ہے کہ وہ حتی المقدور اس مسلم ممالک کی حمایت کریں کیونکہ سارے مسلمان ایک امت ہیں۔
۵۔ صحیح اسلامی اور شرعی جہاد (بمعنی قتال) میں بوقت ضرورت ایسی لڑائی میں شرکت اعلیٰ درجے کی عزیمت ہے جس کا نتیجہ پہلے سے واضح طور پر شہادت نظر آ رہا ہو۔

دہشت گردی

۶۔ جہاد (بمعنی قتال) کے علاوہ کسی مسلم حکومت، تنظیم یا فرد کا قانون ہاتھ میں لینا اور مسلح کارروائی کرنا دہشت گردی ہے، الا یہ کہ مسلم حکومت باغیوں اور قانون شکنوں سے نمٹے یا حکمرانوں کے کفر بواح کے نتیجے میں مسلمان عوام متحد ہو کر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
۷۔ کسی کافر حکومت کا ناحق کسی مسلمان حکومت پر چڑھائی کرنا، اس کا اقتدار ختم کرنا اور مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھانا بھی دہشت گردی ہے۔

مسلمانوں کے داخلی معاملات

۸۔ کسی مسلم ملک کا دوسرے مسلم ملک پر حملہ کرنا ناجائز ہے اور یہ جہاد نہیں۔
۹۔ اختلاف عقیدہ اور فکر ونظر کی بنیاد پر کسی مسلمان کا کسی دوسرے مسلمان کو کافر قرار دے کر اس کے خلاف ہتھیار اٹھانا ناجائز ہے، جہاد نہیں۔ نیز کسی فرد یا مسلم گروہ کو غیر مسلم قرار دے کر اس کے خلاف کارروائی کرنا ریاست کا کام ہے نہ کہ کسی فرد یا پرائیویٹ تنظیم کا۔
۱۰۔ اگر کوئی مسلم حکومت اسلامی احکام پر پوری طرح عمل نہ کرے اور نہ کرائے تو اس کی اصلاح اور اسے بدلنے کی کوشش پرامن طریقے سے ہوگی، الا یہ کہ اس کے کفر بواح کے نتیجے میں مسلمان متحد ہو کر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
جہاد کے باب میں مندرجہ بالا موقف طے کرنے کے ساتھ ہی ہم اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کر سکتے کہ امت مسلمہ اس وقت کمزور اور منتشر ہے اور اس کی بقا خطرے میں ہے۔ لہٰذا اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے دو لازمی تقاضے ہیں:
ایک، یہ جانتے ہوئے کہ مسلمانوں کی عزت وقوت کا منبع دین حنیف سے ان کے تمسک میں ہے، ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کریں، ہر قسم کے اختلاف وانتشار سے بچتے ہوئے بنیان مرصوص بن جائیں، ہر قیمت پر جسد ملت کی حفاظت کریں اور اسلام کی عظمت وشوکت کی بحالی کے لیے ہر طرح کی کوششیں بروئے کار لائیں۔
دوسرے، اپنے موقف سے دست بردار ہوئے بغیر ہم اسے حکمت، فراست اور قوت کے ساتھ غیرمسلموں کے سامنے رکھیں اور اس کی حکمتیں اور اس کا معقول اور مناسب ومعتدل ہونا ان پر واضح کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ (آمین)

بھارت میں ٹی وی کے جواز و عدم جواز کی بحث

ادارہ

چند ماہ قبل بھارت کے سب بڑے دینی ادارے دار العلوم دیوبند نے ایک فتویٰ جاری کیا جس میں اسلامی چینلز سمیت ٹیلی ویژن دیکھنے کو مطلقاً ناجائز قرار دیا گیا۔ حسب توقع اس فتوے نے اچھی خاصی بحث کھڑی کر دی۔ فتوے سے اختلاف کرنے والے مسلمانوں نے اس کو بے معنی قرار دیا جبکہ حامیوں نے ٹیلی ویژن چینلز کے ذریعے سے پھیلائی جانے والی بد اخلاقی کی مذمت کی اور مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ مذکورہ فتوے میں دی گئی ہدایت کی سختی سے پابندی کریں۔
مذکورہ فتویٰ مفتی محمود الحسن بلند شہر ی نے جاری کیا تھا جو مدرسہ دیوبند کے ایک سینئر عالم ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے لیے ٹیلی ویژن دیکھنا ممنوع ہے کیونکہ یہ بذات خود سطحی تفریح کا ایک ذریعہ ہے، اس لیے مذہبی مقاصد مثلاً اسلامی پروگرام نشر کرنے کے لیے اس کا استعمال غلط ہے۔ فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ اسلام نے اپنے پیغام کو پھیلانے کے لیے واضح طریقے بتائے ہیں اور ٹیلی ویژن ان میں شامل نہیں ہے۔ فتوے میں قرار دیا گیا ہے کہ جو لوگ ٹیلی ویژن پر اسلامی پروگرام دیکھتے ہیں، ان کا مقصد محض تفریح ہوتا ہے، اس لیے مسلمانوں کو سختی کے ساتھ اس سے گریز کرنا چاہیے۔
فتوے کے ناقدین میں سے ایک حلقے کا کہنا ہے کہ اس فتوے کا محرک کیو ٹی وی کے نام سے کھلنے والا ایک نیا اور روز افزوں مقبولیت حاصل کرنے والا چینل ہے جس کو اب بھارت اور پاکستان میں لاکھوں ناظرین میسر ہیں۔ کیو ٹی وی روایتی بریلوی تصوف پر مبنی دین کی تصویر پیش کرتا ہے جو کہ بیشتر دیوبندی علما کے نزدیک قابل اعتراض ہے ۔ نیز اس میں علما کے روایتی حلقے کے بجائے عوامی مقررین مثلاً پاکستان کے ڈاکٹر اسرار احمد اور بمبئی کے ذاکر نائک کی تقریریں نشر کی جاتی ہیں، جو کہ باقاعدہ تربیت یافتہ میڈیکل اسپیشلسٹ ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ چونکہ یہ دونوں مقرر غیر عالم ہیں، اس لیے دیوبندی علما انھیں اپنی اتھارٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج تصور کرتے ہیں۔ بنگلور کے مقبول احمد سراج نے (اسلامک وائس، جنوری ۲۰۰۵) لکھا ہے کہ دور جدید کے اسلامی مبلغین نے، جو وسیع حلقے تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے ٹیلی ویژن استعمال کرتے ہیں، روایتی مذہبی علما کے حلقے میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ سراج کا اصرار ہے کہ ’’اس وجہ سے اس فتوے کو حقارت اور نفرت کے ساتھ مسترد کر دینا چاہیے جس کا یہ فی الواقع مستحق ہے۔‘‘
فتوے کے پس پردہ اصل محرکات جو بھی ہیں، اس نے ٹیلی ویژن کے اسلامی جواز وعدم جواز نیز خود علما کی اتھارٹی کے حوالے سے ایک بڑی بحث کا آغاز کر دیا ہے اور اردو پریس میں اس حوالے سے مخالف نقطہ ہائے نظر پر زور دار بحث جاری ہے۔ چند ماہ قبل ’اردو راشٹریا سہارا‘ کے نئی دہلی کے ایڈیشن (۲۲ اگست ۲۰۰۴) میں اس فتوے کے بارے میں موافق ومخالف، دونوں قسم کے مضامین شائع ہوئے ۔ ان مضامین میں فتوے کے حامیوں اور مخالفوں نے اسلامی اصطلاحات کے حوالے سے بحث کی۔ کچھ نے اس فتوے کو اسلامی لحاظ سے درست، جبکہ کچھ نے اسے اسلام کی ایک نہایت غلط تعبیر قرار دیا۔
فتوے کے ایک زبردست حامی دیوبند کے فارغ التحصیل مفتی اعجاز الرشید قاسمی ہیں۔ اپنے پرجوش مضمون میں انہوں نے اسلامی پروگراموں سمیت ٹیلی ویژن کو دیکھنا مسلمانوں کے لیے بالکل ممنوع قرار دیا۔ انھوں نے استدلال کیا کہ کوئی بھی فلم (بشمول ٹیلی ویژن کے اسلامی پروگراموں کے) عورتوں کی تصویریں شامل کیے یا اسے محض تفریحی سطح تک محدود کیے بغیر پرکشش نہیں بنائی جا سکتی، جبکہ یہ دونوں باتیں غیر اسلامی ہیں۔ انہوں نے یہ دلیل بھی دی ہے کہ بہت سے دیوبندی علما نے کہا ہے کہ چونکہ ٹیلی ویژن شیطانی کاموں کا مظہر بن چکا ہے، اس لیے مسلمانوں کو حتی الامکان اس سے دور رہنا چاہیے، ورنہ انھیں اخلاقی پستی سے دوچار ہونا پڑے گا۔ 
ان لوگوں کو جواب دیتے ہوئے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ٹیلی ویژن کا استعمال اسلامی تبلیغی مقاصد کے لیے ہو سکتا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ اگرچہ دعوت وتبلیغ کا فریضہ تمام مسلمانوں پر لازم ہے، لیکن یہ کام صرف اور صرف جائز ذرائع سے کیا جانا چاہیے۔ چونکہ ٹیلی ویژن ان کے بقول بالعموم غیر اخلاقی پروگرام نشر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اور بنیادی طور پر ایک ذریعہ تفریح کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے یہ اسلامی دعوت وتبلیغ کا کوئی جائز ذریعہ قرار نہیں پا سکتا، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو ہر قسم کے، اسلامی یا غیر اسلامی، پروگرام دیکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ چونکہ وہ ٹیلی ویژن کو بذات خود بد اخلاقی کا منبع سمجھتے ہیں، اس لیے انھوں نے قرار دیا ہے کہ ٹیلی ویژن کے اسلامی پروگرام لازماً اسلام کی توہین کا ذریعہ بن رہے ہیں اور آخر کار یہ مسلم تشخص کو برباد کر کے رکھ دیں گے۔ اپنے مضمون کے اختتام پر انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’تمام دنیا کے مسلمان دیوبند کے فتاویٰ کا احترام کرتے ہیں‘‘، اور یہ توقع ظاہر کی ہے کہ تمام مسلمان صدق دل سے ٹیلی ویژن کے خلاف اس فتویٰ کی تائید کریں گے۔
متنازعہ فتویٰ کی مزید تائید دار العلوم دیوبند کے نائب مہتمم مولانا عبد الخالق مدراسی نے کی ہے۔ انھوں نے مفتی اعجاز صاحب کے پیش کردہ دلائل کے علاوہ ٹیلی ویژن کے ناجائز ہونے کی ایک مزید وجہ یہ بیان کی ہے کہ اسلام میں تصویر سازی ممنوع ہے۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹیلی ویژن کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے انٹر نیٹ کو جائز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ انٹر نیٹ ’’عام طور پر تصویروں سے پاک ہوتا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ہے کہ جائز مقاصد کے لیے انٹر نیٹ استعمال کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ تصویریں استعمال نہ کی جائیں۔ چنانچہ خود دار العلوم دیوبند کی بھی اپنی ویب سائٹ قائم ہے اور بہت سے دوسرے دیوبندی گروپ بھی آن لائن فتاویٰ جاری کرتے ہیں۔
اگرچہ دیوبندی علما کی اکثریت اس متنازعہ فتویٰ کی حامی ہے، تاہم متعدد نوجوان دیوبندی فضلا اس کے شدید ناقد ہیں۔ایک عمدہ مثال انجمن فضلائے دار العلوم کے ترجمان ’’ترجمان دار العلوم‘‘ کے مدیر وارث مظہری کا لکھا ہوا طویل مضمون ہے ۔ مظہری نے اس فتویٰ کی، جو ان کے نزدیک ناقص دلائل پر مبنی ہے، کھلم کھلا مخالفت کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ فتویٰ کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ ٹیلی ویژن بنیادی طور پر سطحی یا غیر اخلاقی تفریح کا ایک ذریعہ ہے اور اس لیے اسلامی طور پر ناجائز ہے۔ اگرچہ یہ بات ناقابل انکار ہے کہ ٹیلی ویژن کے بہت سے پروگرام اسی نوعیت کے ہوتے ہیں، لیکن ٹیلی ویژن جائز مقاصد کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے، مثلاً خبروں اور معلومات کو نشر کرنا، خلاف اسلام پراپیگنڈا کی تردید کرنا، اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے سامنے اسلام کی وضاحت کرنا، چنانچہ ٹیلی ویژن سے مکمل گریز اختیار کرنے کے بجائے، مسلمانوں کو نا مناسب چینلز سے دور رہنا چاہیے اور ان کے علاوہ دیگر مفید چینلز سے بے جھجھک فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اگرچہ مظہری خود مدرسہ دیوبند کے ایک تربیت یافتہ عالم ہیں، لیکن وہ ٹیلی ویژن کے خلاف فتویٰ دینے والے مفتی صاحب سمیت قدامت پسند علما پر سخت تنقید کرتے ہیں کیونکہ وہ تبدیلی اور ترقی کے مخالف ہیں۔ ان کے خیال میں ٹی وی کے خلاف فتویٰ دراصل علما کی جانب سے نئی ایجادات کی مخالفت کی ایک طویل روایت کا تسلسل ہے۔ وہ اس ضمن میں کئی مثالیں پیش کرتے ہیں، مثلاً انیسویں صدی کے سعودی علما نے وال کلاک کو ’’شیطانی آلہ‘‘ قرار دیا تھا۔ اسی طرح ٹیلی فون اور وائرلیس کے بارے میں کہا تھا کہ یہ شیطانی ایجادات ہیں اور ان سے آنے والی آوازیں غیر مرئی شیطانی طاقتوں سے استعانت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔
ایک دوسرے دیوبندی فاضل مولانا اخلاق حسین قاسمی دہلوی نے فتویٰ کے خلاف وارث مظہری کے دلائل کی تائید کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کو یہودونصاریٰ کی سازشوں کا سامنا ہے اور خلاف اسلام پراپیگنڈا کی تردید اور اسلام کی دعوت وتبلیغ کے لیے انہیں ٹیلی ویژن سمیت ابلاغ عام کے ذرائع کو لازماً استعمال میں لانا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹیلی ویژن تعلیمی مقاصد کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے، تاہم مسلمانوں کو غیر اخلاقی پروگرام دیکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیلی ویژن کو مکمل طور پر برائی قرار دے کر اس فتویٰ نے مسلمانوں کو ساری دنیا کی نظر میں احمق ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ٹیلی ویژن کو محض اس وجہ سے مکمل طور پر مسترد کر دینا کہ بہت سے ٹی وی پروگرام غیر اخلاقی ہوتے ہیں، ایک مضحکہ خیز بات ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کالج اور یونیورسٹیاں بھی بند کر دی جائیں کیونکہ اعلیٰ تعلیم کے بعض اداروں میں مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط ہوتا ہے۔ انہوں نے تلخ لہجے میں مزید یہ تبصرہ کیا ہے کہ اگر فتویٰ نویس کی منطق مان لی جائے تو اس کی کیا وجہ ہے کہ اسی قسم کا ایک فتویٰ فلموں پر پابندی کے لیے بھی نہیں جاری کیا گیا جو کہ بد اخلاقی اور فحاشی کو فروغ دے رہی ہیں؟
فتویٰ کے خلاف رائے دینے والے ایک اور دیوبندی فاضل مولانا اسرار الحق قاسمی ہیں، جو ایک وسیع حلقے میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ اپنے مضمون میں انہوں نے تبصرہ کیا ہے کہ یہ فتویٰ حقیقی دنیا سے ناواقفیت پر مبنی ہے اور گزارش کی ہے کہ اس پرنظر ثانی کی جائے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگر ایک ڈاکٹر ماہر فن نہیں ہے تو وہ مناسب دوا نہیں دے سکتا، بلکہ درحقیقت مریض کو اور زیادہ بیمار کر دے گا۔ انہوں نے کہا ہے کہ بعینہ یہی منطق اس صورت میں بھی لاگو ہوتی ہے جب علما فتوے صادر کرتے ہیں۔ ٹی وی کے خلاف فتویٰ دینے والے عالم کی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’’اگر کوئی عالم شریعت کی روح اور اس کے مقاصد میں رسوخ نہیں رکھتا تو اسے فتویٰ دینے کا کوئی حق نہیں ہے اور اس کے جاری کردہ فتوے غلط اثرات مرتب کریں گے۔‘‘ فتویٰ نویس کا نام لیے بغیر لیکن ان کی اور ان کی طرح کے دیگر علما کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے مطابق قرب قیامت میں ایک عظیم فتنہ برپا ہوگا اور علما ایسے فتوے جاری کریں گے جو کہ قرآن اور سنت کے خلاف ہوں گے۔ وہ حد سے متجاوز فخر کی بنیاد پر ایسے امور پر گفتگو کریں گے جن کا حقیقی دین سے کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔ وہ اقتدار یا دولت کے لالچ میں غلط فتوے دیں گے جو لوگوں کے لیے شدید مشکلات پیدا کریں گے۔ یہ سب کچھ اسلامی اصولوں کے خلاف ہوگا اور کشمکش اور خون ریزی پر منتج ہوگا جس کے لیے جاہل اور ناپختہ مفتی ذمہ دار ہوں گے۔ ایسے مسائل جن میں مسلمان تقسیم ہو جائیں اور ایک دوسرے کے خلاف لڑنے لگیں ، مفتی کو فتویٰ جاری کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
مولانا انظر شاہ کشمیری نے، جو دار العلوم (وقف) دیوبند سے وابستہ ایک ممتاز عالم دین ہیں، اس فتویٰ پر تنقید کی ہے کیونکہ یہ اسلام کو ایک غیر روادار، تنگ نظر اور ترقی وتغیر کے مخالف مذہب کے طور پر پیش کر کے اس کی بدنامی کا سبب بنا ہے ۔ انھوں نے کہا ہے کہ ٹیلی ویژن کو جائز مقاصد مثلاً تعلیم، غیر اسلای پراپیگنڈا کی تردید اور اسلام کی دعوت وتبلیغ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ محض اس وجہ سے اس پر پابندی لگا دینا کہ یہ غیر اخلاقی پروگراموں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، ایسے ہی مضحکہ خیز ہے جیسے یہ مطالبہ کرنا کہ ٹیلی فون پر پابندی لگا دی جائے کیونکہ وہ بھی اسی طرح غلط استعمال ہوتا ہے۔ ان کی رائے یہ ہے کہ یہ فتویٰ دور متوسط کے علما کے متروک اور ناقابل عمل خیالات پر مبنی ہے جو کہ فقہ کی کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مسلمان علما سے گزارش کی ہے کہ وہ آج کے دور کے تناظر میں اپنے فہم اسلام کو بہتر بنائیں اور اس میں ارتقا پیدا کریں۔
ایک اور دیوبندی فاضل مفتی احمد نادر قاسمی نے کہا ہے کہ جائز مقاصد کے لیے ٹی وی کا استعمال درست ہے۔ چونکہ قرآن اور حدیث ٹیلی ویژن کے جواز یا عدم جواز کے مسئلے پر خاموش ہیں، اس لیے یہ مباح ہے بشرطیکہ اسے تعلیمی یا اسلامی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ بہت سے دیوبندی علما کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ اسلامی پروگراموں میں تصویر کا استعمال بھی جائز ہے۔ تاہم مفتی احمد نادر قاسمی اور ٹیلی ویژن کے جواز کے حامی کچھ دیگر علما ٹی وی دیکھنے کے لیے نہایت سخت اور بعض حالات میں ناممکن شرائط عائد کرتے ہیں۔ مثلاً مظاہر العلوم (وقف) سہارنپور کے مفتی محمد امین لکھتے ہیں کہ مسلمان ٹیلی ویژن دیکھ سکتے ہیں بشرطیکہ وہ صرف ایسے اسلامی پروگرام دیکھیں جن میں تصویریں بالکل نہ ہوں۔ اگر سکرین پر کوئی تصویر آتی ہے تو ناظرین کو اپنی آنکھیں جھکا لینی چاہییں، کیونکہ کسی تصویر کو دیکھنا اسلام میں ممنوع ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے ٹی وی پروگرام جن میں عورتیں ہوں، چاہے وہ اسلامی ہوں یا غیر اسلامی، شریعت کے خلاف ہیں اور مسلمانوں کے لیے ممنوع ہیں۔ مزید برآں ٹی وی پر عورتوں کی آوازیں نہیں سننی چاہییں کیونکہ ان کے بقول عورت کے جسم کی طرح اس کی آواز بھی پردے میں ہونی چاہیے۔ اسی طرح کی مشروط اجازت شاہی مسجد فتح پوری دہلی کے امام مفتی مکرم احمد نے بھی دی ہے جنھوں نے مذکورہ فتوے سے تو اختلاف کیا ہے، تاہم یہ کہا ہے کہ ٹی وی کے اسلامی پروگرام جائز ہیں بشرطیکہ وہ شریعت کے مطابق ہوں اور ان میں عورتوں کی تصویریں اور آوازیں نشر نہ کی جائیں۔ ہاں اگر ایسے پروگرام مردوں کی تصویریں دکھائے بغیر پیش نہ کیے جا سکیں تو ضرورت کے تحت وہ اسے جائز تسلیم کرتے ہیں۔
دہلی کے مولانا وحید الدین خان، جو اپنے نسبتاً لبرل خیالات کی وجہ سے قدامت پسند علما میں سخت ناپسند کیے جاتے ہیں، غضب ناک حد تک اس فتوے کے خلاف ہیں اور انہوں نے اپنے مضمون میں فتویٰ نویس کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگرچہ مسلمانوں کو غیر اخلاقی پروگرام دیکھنے سے باز رہنا چاہیے، تاہم وہ تعلیمی مقاصد، خلاف اسلام پراپیگنڈا کے مقابلہ اور اسلام کی دعوت وتبلیغ کے لیے ٹی وی کو استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک ذریعہ ابلاغ کے طور پر ٹی وی، اخلاقی لحاظ سے غیر جانبدار ہے۔ یہ اچھے مقاصد کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے اور برے مقاصد کے لیے بھی، اور علما سمیت مسلم قائدین کو اس کے منفی پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے مناسب اسلامی پروگرام بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ انہوں نے اس ضمن میں پیغمبرانہ مثالیں پیش کی ہیں اور کہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں کعبہ کو دعوت اسلام کے لیے استعمال کیا جبکہ اس وقت کعبہ میں ۳۶۰ بت رکھے ہوئے تھے۔ پیغمبر نے بتوں کو نظر انداز کر دیا اور اپنے دعوتی مشن کو جاری رکھا۔ اسی طرح مسلمانوں کو غیر اخلاقی ٹی وی چینلز اور پروگراموں کو نظر انداز کر کے اسے اسلامی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹی وی دشمنان اسلام کی کوئی خفیہ سازش نہیں جس کا مقصد مسلمانوں کو مغلوب کرنا اور غیر اسلامی پراپیگنڈا پھیلانا ہے، جیسا کہ بہت سے علما دعویٰ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس یہ خدا کی ایک نعمت، اس کی قدرت کا ایک اظہار اور خدائی قوانین کا ایک استعمال ہے۔ مولانا وحید الدین کہتے ہیں کہ ٹی وی کا امکان خدا کی تخلیق میں پوشیدہ تھا یہاں تک انسانوں نے اسے دریافت کر لیا۔ اس لیے اسے مکمل طور پر حتیٰ کہ اسلامی مقاصد کے لیے بھی ناجائز قرار دینا، جیسا کہ فتویٰ نویس نے کہا ہے، ایک مضحکہ خیز بات ہے۔
مولانا وحید الدین کے موقف کی تائید نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسلامیات کے پروفیسر ڈاکٹر اختر الواسع نے بھی کی ہے۔ انہوں نے ٹی وی کو مکمل طور پر غیر اسلامی قرار دینے والے فتوے سے اختلاف کرتے ہوئے اصرار کیا کہ اسلامی لحاظ سے درست پروگراموں پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی نزدیک ٹی وی کا غیر اخلاقی مقاصد کے لیے استعمال ہونا اس کو بطور ایک آلے کے غیر اسلامی نہیں بنا دیتا۔ وہ تلخ لہجے میں کہتے ہیں کہ اگر اس منطق کا اطلاق ہر جگہ پر کیا جائے تو کاغذ اور قلم کو بھی ناجائز قرار دینا پڑے گا کیونکہ یہ بھی ہر قسم کے غیر اسلامی خیالات کو پھیلانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ ان کی رائے میں ٹی وی کے غیر اخلاقی پروگراموں کے مسئلے کا حل یہ نہیں کہ ٹی وی پر ہی مکمل پابندی لگا دی جائے، بلکہ یہ ہے کہ ان کی جگہ پر بہتر پروگرام پیش کیے جائیں۔ مزید برآں وہ لکھتے ہیں کہ ٹی وی کے اسلامی پروگراموں پر پابندی لگانا اسلامی نقطہ نگاہ سے الٹا منفی نتائج کا باعث بنے گا، کیونکہ ان پروگراموں کے ذریعے سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسلام کے بارے میں کچھ نہ کچھ آگاہی حاصل کر رہی ہے۔ اگر ان کو بھی ممنوع قرار دیا جائے جیسا کہ فتویٰ کا مقصد ہے تو واحد نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوگ ان پروگراموں کی جگہ غیر اخلاقی پروگراموں کی طرف رجوع کرنا شروع کر دیں گے۔
اسلامی بنیادوں پر فتویٰ کو ہدف تنقید بنانے کے علاوہ اس بحث کے کچھ شرکا نے یہ دلچسپ سوال بھی اٹھایا ہے کہ فتویٰ نویس اور ان کے حامیوں کے ہاں دوہرا معیار پایا جاتا ہے۔ مثلاً انجمن فضلاے دار العلوم کے قائم مقام صدر مولانا عمید الزمان قاسمی کیرانوی نے بڑی جرات سے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ فتویٰ کی رو سے ٹی وی کو ناجائز قرار دیے جانے کے باوجود متعدد دیوبندی علما باقاعدہ ٹی وی پر آتے ہیں اور ٹی وی پر اپنے جلوسوں کی منظر کشی کا اہتمام کرتے ہیں۔ اسی طرح اترانچل کی ملی کونسل کے کنوینر مولانا ریاض الحسن ندوی ٹی وی کو مکمل طور پر ناجائز قرار دینے جبکہ انٹر نیٹ کے استعمال کی اجازت دینے کے موقف میں شدید تضاد محسوس کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بات یقینی ہے کہ غیر اخلاقی مواد نہ صرف انٹر نیٹ پر زیادہ کثرت سے میسر ہے بلکہ ٹی وی کے برعکس، وہ کسی قسم کی سنسر شپ کے دائرے میں بھی نہیں آتا۔
فتویٰ کے حامیوں اور مخالفوں کی گرما گرم بحث کے باوجود لگتا یہ ہے کہ عام مسلمانوں نے اسے سنجیدہ توجہ کا مستحق نہیں جانا، چنانچہ لوگوں کی طرف سے منظم طور پر ٹی وی سیٹ توڑ دینے کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا، جیسا کہ چند برس پہلے پاکستان کے صوبہ سرحد میں دیوبندی کارکنوں نے کیا تھا۔ خود بہت سے مسلمان اہل علم یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس قسم کے فتوے ایک وقتی بے چینی تو پھیلاتے ہیں لیکن ان سے کوئی مثبت مقصد ہرگز حاصل نہیں ہوتا۔ غطریف شہباز ندوی لکھتے ہیں (افکار ملی، نومبر ۲۰۰۴) کہ اس کے نتیجے میں صرف یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ مدارس کے مولوی حضرات عام طور پر جو فتوے جاری کرتے رہتے ہیں، ان کی کوئی اہمیت نہیں، کیونکہ انھیں جدید دنیا کی پیچیدگیوں کا سرے سے کوئی اندازہ ہی نہیں۔
(http://www.islaminterfaith.org/april2005)

مکاتیب

ادارہ

(۱)
عزیز محترم حافظ محمد عمار ناصر زیدت مکارمکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تازہ شمارہ میں محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی کا الشریعہ اکادمی کے حریم بادہ نوشاں ۔فکری نشست۔ سے خطاب بالاستیعاب پڑھ سکا۔ موصوف نے بڑی تفصیلی گفتگو کی ہے۔ یہ سچ ہے، مگر ہمارے فکری انتشار کے بعض اہم پہلوؤں پر وہ توجہ نہیں فرمائی جو اس کا حق تھا۔ عصری علوم سے ہماری دوری یقیناًایک اہم معاملہ ہے، بے شک، لیکن ہمارے قعر مذلت میں جا گرنے کا ایک اہم سبب ہمارے اصل منصب ’کنتم شہداء علی الناس‘ سے رو گردانی ہے۔ بقول اقبال ؂ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی۔ ہماری خاص ہیئت ترکیبی سے ہمارا اغماض، شرک زدہ قوموں کی عقلی میراث کا اتباع ہی تو ہے۔ غزالی کا المنقذ من الضلال اس پر گواہ ہے۔
گر بہ استدلال کار دیں بود
فخر رازی راز دار دیں بود
بقول مولانا عیسیٰ منصوری ۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات میں اضافہ فرماتا رہے۔ آمین۔ آج فخر الدین رازی کی نہیں، ابن عربی کی ضرورت ہے۔ ہم تو صدیوں سے اصل کو چھوڑ کر یونانیوں اور ایرانیوں کی طرح قال قالا قالوا قلن قلتن  کی خرافات میں ٹھہر گئے ہیں۔ اس دلدل سے کب کوئی قوم عہدہ برآ ہو سکی۔ اب تو ہمارا ہر کام بغیاً بینہم، ایک دوسرے کو عقلی ومنطقی ’’شہ مات‘‘ دینے کی کوششوں سے عبارت ہو کر رہ گیا ہے۔ 
ملل سابقہ میں مصری تہذیب اور سیدنا سلیمان کے زمانے کی تہذیب جن مادی بلندیوں پر گئی، اس سے آپ سب واقف ہیں۔ اور بقول اقبال ’تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی‘ کے مصداق یہ ساری عمارتیں محض شرکی وجہ سے ڈھے گئیں۔ آپ قوم سبا کے ذکر ہی کو لیجیے۔ یا تو وہ عالم تھا کہ ’بلدۃ طیبۃ ورب غفور‘ یا پھر وہ حالت کہ سارا ملک جھاڑ جھنکار ہو گیا۔
اس پورے خطاب میں اخلاقی وروحانی ہتھیار کا وہ ذکر نہیں جو ہونا چاہیے تھا۔ کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ’واعدوا لہم مااستطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل‘  کی ضرورت سے غافل تھے؟ اور کیا ان کی محیر العقول کامیابیوں کا سبب محض علوم ظاہری میں برتری تھی؟ بلکہ ’’خلق عظیم‘‘ کا بحد توفیق جاں نثارانہ اتباع جو ’ان کنتم مومنین‘ کے بغیر ممکن نہیں، شرک کو اس کے ہر رنگ میں پہچاننے کے بغیر ممکن نہیں۔ اللہ مجھے معاف کرے، موصوف خود علوم جدیدہ سے اتنے مرعوب ہیں کہ جو حل انھوں نے تجویز فرمائے ہیں، اسے پڑھ کر تو زبان سے یا للعجب نکلتا ہے۔ ’تا تریاق از عراق آوردہ شود، مار گزیدہ مردہ شود‘ ہی نکلتا ہے۔
(ایک محترم اور بزرگ قاری)
(۲)
محترم جناب ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
وبعد!
گزشتہ دنوں محترم جناب پروفیسر حافظ محمد منیر صاحب کی وساطت سے آپ کے موقر ماہنامہ جریدے ’الشریعہ‘ سے تعارف ہوا جس کی فکر انگیز تحریروں نے بلاشبہ سوچ پر نقش چھوڑے ہیں۔ میں چونکہ خود نوائے وقت کے سیاسی ہفت روزہ ’ندائے ملت‘ سے وابستہ ہوں جہاں پر اسلامی دنیا، اسلامی تحریکیں اور مغرب کے ساتھ اسلام کی فکری اور سیاسی پنجہ آزمائی میرا شعبہ ہے، اس تناظر میں آپ سے یہی گزارش کروں گا کہ آپ کے اس موقر جریدے میں جدید فکری کشمکش کے حوالے سے ابھی بہت گنجایش ہے اور اس کو آپ جیسے دردمند افراد ہی پورا کر سکتے ہیں۔ مغرب عالمی صہیونیت کے ایما پر آج ہمیں فکر وعلم اور عمل کے ہر میدان میں للکار رہا ہے اور ایسی حالت میں مقابلے کی دعوت دے رہا ہے کہ تمام دنیاوی وسائل اس کے قبضے میں ہیں جبکہ ’’امت وسطی‘‘ جس کے کاندھوں پر انبیا کی دعوت کی ذمہ داری ڈالی گئی، بدقسمتی سے اس سلسلے میں بے وسیلہ سی نظر آ رہی ہے۔ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے میں آپ کے موقر جریدے کے ذریعہ یہی کہہ سکوں گا کہ ماضی کے شان وشوکت کے قصے یاد کرنے اور مستقبل کی امیدوں پر آس لگانے کی بجائے اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے جدید علوم کی جانب راغب ہوں، ایسے ادارے قائم کرنے کی کوشش کریں جہاں مغربی ممالک کی لغات اور ان کے فکری محاسن ومراجع کی تعلیم دی جائے اور پھر ان کو ان کی ہی زبانوں میں اسلامی حقانیت اور مغرب کا فکری کھوکھلا پن ظاہر کیا جائے۔ میں آپ کو اور اپنے دیگر مسلمان بھائیوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اسلام کی طاقتور دعوت کا جواب تمام مادی وسائل ہونے کے باوجود نہیں دیا جا سکتا۔ میں خود اس سلسلے میں مغرب کی جامعات میں دوران تعلیم ان حقائق کا مشاہدہ کر چکا ہوں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ آپ کو اس دعوتی ذمہ داری میں سرخرو کرے۔ آمین
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خیر اندیش
محمد انیس الرحمن
انچارج بین الاقوامی امور
ہفت روزہ ندائے ملت (نوائے وقت) لاہور
(۳)
مکرم جناب زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔
’الشریعہ‘ میں مغربی فکر وفلسفے کے حوالے سے مضامین کی تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مغرب اسلام سے بخوبی آگاہ ہے، لیکن ہم مغربی فلسفے سے قطعاً آگاہ نہیں۔ اس کمی کے باعث مغرب کی بے جا مخالفت یا خواہ مخواہ حمایت کا رویہ عام ہو گیا ہے۔ افراط وتفریط کی اس روش سے بچنے کے لیے آپ جیسے علماء کا وجود غنیمت ہے۔ آپ کے رسالے میں مہاتیر محمد، وزیر اعظم ملیشیا اور ڈاکٹر غازی صاحب کی تین تقاریر شائع ہوئی ہیں۔ تینوں کا منہاج یکساں ہے۔ براہ کرام اس موضوع سے متعلق دوسرے نقطہ ہائے نظر بھی شائع فرمائیے تاکہ قارئین آپ کے علم سے استفادہ کر سکیں۔
عمر حمید ہاشمی
(نائب ناظم)
شعبہ تصنیف وتالیف وترجمہ
جامعہ کراچی۔ یونیورسٹی روڈ۔ کراچی

(۴)
مخدوم گرامی قدر حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب مدظلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
’الشریعہ‘ مارچ ۲۰۰۵ کے شمارے میں محترم المقام ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کا مقالہ پڑھنے کا موقع ملا۔ آپ کی دعوت کے باوجود ڈاکٹر صاحب کا مقالہ بالمشافہہ سننے کی جو محرومی وتشنگی تھی، الحمد للہ دور ہو گئی۔ استاذ مکرم مولانا چنیوٹی صاحب مرحوم سے ڈاکٹر صاحب کی تعریف بارہا سنی تھی، لیکن وہ صرف عربی وانگلش پر مہارت کے حوالے سے تھی۔ یہ مقالہ پڑھ کر ڈاکٹر صاحب کی وسعت نظر کا اندازہ ہوا اور یہ امر ان کے ساتھ غائبانہ عقیدت ومحبت میں اضافہ کا باعث بنا کہ وہ کاندھلہ کے علمی خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سلامت باکرامت رکھے۔ آمین۔
ڈاکٹر صاحب محترم اپنے علمی ذوق اور وقت کی ضرورت کے پیش نظر ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر اکرام الحق صاحب مدظلہ سے تفسیر قرطبی کا اردو ترجمہ کرا رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ بھی ایک اہم کام ہے۔ میں ان سطور میں آپ کی وساطت سے چند مزید امور کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ 
۱۔ قرآن مجید کی وہ آیات جن میں فلکیات، موسمیات، جغرافیہ وغیرہ علوم کی طرف اشارات ہیں، اگر ان علوم کی اصطلاحات سے واقفیت ہو جائے تو متعلقہ آیات کی بہت عمدہ تفسیر ہو سکتی ہے۔ یہ ایک کمی اور خلا محسوس ہوتا ہے۔ محض اس بنا پر کہ سائنسی نظریات بدلتے رہتے ہیں، سائنس کو مسترد کر دینا مناسب طرز عمل نہیں ہے۔ بعض حضرات قرآن مجید کی ہر ہر آیت سے سائنسی نظریات کی تائید کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ بھی غلط ہے۔ کوئی درمیانی راستہ نکالنا چاہیے۔ افراط وتفریط نہیں ہونی چاہیے۔ طب نبوی اور جدید سائنس کے موضوع پر ڈاکٹر خالد غزنوی صاحب نے لکھنے کی ابتدا کی۔ اچھی محنت کی۔ اس کے بعد تو اس موضوع پر مستند وغیر مستند کتابوں کی بھرمار ہو گئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض حضرات اس موضوع کو ایک فیشن کا درجہ دے کر اس پر خامہ فرسائی کر رہے ہیں۔ احقر سمجھتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب محترم بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسرز واسکالرز سے اپنی زیر نگرانی بہتر انداز میں یہ کام کروا سکتے ہیں۔
۲۔ علم نفسیات کہنے کو تو جدید علم ہے، مگر اس کے اصول وضوابط کی بنیادیں اسلامی تعلیمات میں مل جاتی ہیں۔ اسلامی تعلیمات، انسانی نفسیات کے عین مطابق ہیں۔ حضور علیہ السلام سب سے بڑے ماہر نفسیات بھی تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ نفسیات کے بعض پروفیسر اس موضوع پر کام کرتے رہے ہیں۔ احقر کی معلومات کے مطابق وہ ناتمام ہے۔ چند برس پہلے سعدیہ غزنوی صاحبہ نے ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بطور ماہر نفسیات‘‘ نامی کتاب لکھی۔ اس پران کو صدارتی ایوارڈ بھی ملا، لیکن بہرحال وہ ابتدائی کوشش ہے، حرف آخر نہیں۔ مصنفہ مزید لکھ سکتی تھیں، لیکن کسی وجہ سے نہیں لکھ سکیں۔ اس موضوع پر مزید کام درکار ہے۔
۳۔ فلسفہ کو دین اسلام اور سائنس، دونوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ فلسفہ کے بعض نظریات، خلاف اسلام ہیں اور بعض جدید سائنسی علوم کے خلاف ہیں۔ دونوں پر محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ حضرت اقدس تھانویؒ نے ’التلخیصات العشر‘ میں اس موضوع پر کچھ محنت کی ہے، لیکن وہ ابتدائی کام ہے۔ اس کام کو مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جو کچھ بھی لکھا جائے، آسان اور عام فہم ہو۔ ’’فہم فلکیات‘‘ کی طرح چیستان نہ ہو۔ اس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب ان موضوعات پر بھی توجہ فرمائیں تو اپنے اثر ورسوخ کی بدولت بہت کچھ لکھوا سکتے ہیں۔ امید واثق ہے کہ وہ ضرور توجہ دیں گے۔ وما علینا الا البلاغ۔
والسلام
(مولانا) مشتاق احمد
استاذ جامعہ عربیہ، چنیوٹ
(۵)
جناب پروفیسر وقار افضل صاحب 
السلام علیکم!
امید ہے مزاج بخیر ہوں گے 
بہت خوشی ہوئی کہ خاکسار کی ٹوٹی پھوٹی تحریریں آپ جیسے ذی وقار معلم کے ہاں افضل ٹھہرتی ہیں ۔ حوصلہ افزا کلمات کے لیے تہہِ دل سے مشکور ہوں ۔ 
جہاں تک کلیم احسان کے شعر کی تشریح میں فکری ابہام کا تعلق ہے کہ مٹھی میں جگنو سے انانیت کا سراغ نہیں ملتا بلکہ خوف یا خدشے کا اظہار ہوتا ہے، بظاہر درست معلوم ہوتا ہے۔لیکن ناچیز کی ناقص رائے اب بھی یہی ہے کہ مٹھی میں جگنو انانیت کا آئینہ دارہے کیونکہ اگر آپ کی رائے پر بھی غور کیا جائے تو مطلب یہی نکلتا ہے ۔ آپ نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ ’’وہ اس طرح کہ ہتھیلی سے جگنوکے اڑنے کا اندیشہ ہے ۔ ‘‘ کیا اس بات کے یہی معانی نہیں کہ ہمارا شاعر جگنو کو possess کرتا ہے ؟ possession کی یہی نفسیات ایک طرف (واقعاتی حوالے سے ) ہتھیلی کے بجائے مٹھی کو ترجیح دیتی ہے تو دوسری طرف (فکری اعتبار سے ) انانیت کی علامت بنتی ہے ۔ البتہ یہ الگ بحث ہے کہ اس انانیت کے پیچھے خوف چھپا ہوا ہے یا کوئی اور معاملہ ہے ۔ وقار صاحب ! آپ سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ اس انانیت اور possession کے پیچھے درحقیقت خوف ہی گھات لگائے بیٹھا ہے ۔پھر خوف ، خدشے یا ڈر کی نوعیت ، انانیت کے مثبت یا منفی ہونے کا اشارہ کرتی ہے ۔ ناچیز کی رائے میں ، اس شعر میں جگنو کا استعارہ اور راستہ دکھائے جانے کا پورا یقین ، انانیت کے مثبت ہونے پر دال ہے کیونکہ یہ انانیت ظلمت کی بھول بھلیوں کے مقابل روشن راہ کی حامل ہے ۔ تاریکی کے متوقع دوراہے اور ظلمت کی امکانی بھول بھلیا ں کلیم کے اندیشوں کا سبب ہیں ۔
وقار صاحب ! جہاں تک میر و ناصر کی شعری روایت کی ترفیع کے حوالے سے ، کلیم کے اشعار کے انتخاب میں فروگزاشت کا تعلق ہے، اس کی بابت یہ کہنے کی جسارت تو نہیں کر سکتا کہ آپ خاکسار کی بات سمجھ نہیں سکے۔ البتہ یہ تسلیم کیے بنتی ہے کہ ناچیز اپنی بات صحیح طور کہہ نہیں پایا ۔ مضمون کی ابتدائی دو سطریں یہ تھیں :
’’چلو جگنو پکڑتے ہیں ‘‘ کلیم احسان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے ۔ اس مجموعے میں اس شعری روایت کی ’’ترفیع ‘‘ جھلکتی ہے ، جو میر و ناصر کے ادوار سے گزر کر موسمِ گل کی حیرانگی میں رونما ہوئی اور خود اس مجموعے میں جا بجا بکھر گئی ۔‘‘
اس کے بعد جو اشعار پیش کئے گئے ہیں ، بلاشبہ وہ میر و ناصر کی باز گشت معلوم ہوتے ہیں ، کیونکہ مذکورہ سطروں میں اس شعری روایت کی طرف ہی اشارہ کیا گیا ہے۔ جہاں تک ترفیع کا معاملہ ہے اس کا ذکر پورے مجموعے کے تناظر میں کیا گیا ہے ، اسی لیے ان سطروں میں لفظ ’’مجموعہ ‘‘ استعمال کیا گیا ہے ۔ امید ہے اب اس وضاحت کے بعد ، مضمون کی ابتدا میں اشعار کے انتخاب کو بطور بازگشت لیا جائے گا نہ کہ بطور ترفیع۔ 
ابہام کی طرف توجہ دلانے اور گہری دلچسپی ظاہر کرنے پر آپ کا ایک بار پھر مشکور ہوں ۔ 
والسلام
پروفیسر میاں انعام الرحمن 
(۶)
برادرم مولانا عمار ناصر صاحب زید مجدہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج اچھے ہوں گے۔ ’الشریعہ‘ ہر ماہ نظر سے گزرتا ہے اور اس کی تحریریں پڑھ کر قلب وذہن منور ہوتے ہیں۔ مارچ ۲۰۰۵ کے ’الشریعہ‘ میں مولانا سید سلمان الحسینی الندوی کے مضمون ’’اجتہادی اختلافات میں معاشرتی مصالح کی رعایت‘‘ میں جو نکتہ اٹھایا گیا ہے، وہ بے حد اہم اور وقت کی ضرورت کے مطابق ہے۔ ایک مجلس میں طلاق ثلاثہ کا موضوع ہمارے ہاں عام طور پر احناف اور اہل حدیث کے مابین ایک اختلافی نکتے کے طور پر زیر بحث آتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسے اس وقت ایک سنگین معاشرتی مسئلے کے طور پر دیکھنے اور اس کا معقول حل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ 
پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام ایک خاندان کے وجود میں آنے کے بعد انتہائی ناگزیر ضرورت کے بغیر اس کے ٹوٹنے کو پسند نہیں کرتا۔ ایک مجلس میں طلاق ثلاثہ کو، کوئی رعایت دیے بغیر، ہر حالت میں واقع ماننا شریعت کے اس منشا کے خلاف ہے۔ خاص طور پر ہمارے معاشرے میں ایسی صورت عام طور پر شرعی طریقے سے ناواقفیت اور محض وقتی جذباتی کیفیت کے نتیجے میں رونما ہوتی ہے اور ایک لمحے میں پورا خاندان نادانی اور جذباتیت کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ اسلام چھوٹے سے چھوٹا معاہدہ توڑنے کے لیے بھی سوچ بچار کا موقع دیتا ہے، جبکہ نکاح کو تو قرآن مجید میں ’میثاقا غلیظا‘ کہا گیا ہے۔ کیا اتنے بڑے معاہدے کو ایک لمحے میں ختم کر دینا اور غلطی کرنے والے کے لیے تلافی کا کوئی موقع باقی نہ رہنے دینا اسلام کے اصول عدل کے مطابق ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت اسلام کا خاندانی نظام خاص طور پر مغرب کی تہذیبی یلغار کا ہدف بنا ہوا ہے اور اس کے حملوں میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ طلاق ثلاثہ کے بارے میں اس قدر بے لچک موقف اختیار کر کے کہیں ہم بھی نادانستہ اس تہذیبی کشمکش میں مخالف قوتوں کے لیے مددگار تو ثابت نہیں ہو رہے؟
جہاں تک اس مسئلے کے شرعی پہلو کا تعلق ہے تو روایات سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک مجلس کے اندر تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔ اسی طرح خلیفہ اول سیدنا ابوبکر کے دور خلافت میں اور سیدنا عمر کے عہد کے ابتدائی دو سال تک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی تصور کی جاتی تھیں۔ اس کے بعد حضرت عمر نے مخصوص حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے بحیثیت مجتہد اور خلیفہ کے یہ طے کیا کہ تین طلاقوں کو تین ہی تصور کیا جائے گا۔ سیدنا عمر فاروق کا یہ فیصلہ مخصوص معاشرتی صورت حال میں ایک اجتہادی فیصلہ تھا اور ایسی صورت میں بعض دفعہ اصل شرعی حکم کو عارضی طور پر معطل کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ زمانہ قحط میں انہوں نے چور کا ہاتھ کاٹنے کی سزا کو عارضی طور پر معطل فرما دیا اور جب قحط دور ہو گیا تو قطع ید کا حکم بھی اپنی اصل صورت میں بحال ہو گیا۔ گویا سیدنا عمر فاروق نے سوسائٹی کے اندر ایک خرابی کو دور کرنے کے لیے وقتی طور پر ایک فیصلے کو معطل کر کے دوسرا فیصلہ جاری کیا، لیکن یہ عبوری مدت کے لیے تھا نہ کہ مستقل اور ابدی طور پر۔
میں خود حنفی ہوں اور میں نے حنفی اساتذہ سے دینی تعلیم پائی ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ نکات کی روشنی میں اس مسئلے میں حنفی نقطہ نظر پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور میں متعدد ایسے حنفی علما کو جانتا ہوں جو اس ضرورت کا احساس بھی رکھتے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس مسئلے کو ’الشریعہ‘ میں باقاعدہ بحث کا موضوع بنائیں اور اہل علم کو دعوت دیں کہ وہ شریعت کے مزاج اور سلف صالحین کی آرا کوسامنے رکھتے ہوئے امت کے لیے گنجایش نکالیں۔
فقط۔ والسلام
احمد الرحمن
خطیب جامع مسجد پاک سیکرٹریٹ
اسلام آباد
(۷)
محترم و مکرم مولانا عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ‘
اللہ کی ذات سے امید کرتا ہوں کہ آپ بخیروعافیت ہوں گے۔ 
اپریل ۲۰۰۵ء کا ’’الشریعہ‘‘ پڑھا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ہر کتاب کے جنگل میں ایک شیر اور ایک گیدڑ ضرور چھپا ہوا ہوتا ہے، یعنی کہیں کوئی نہایت اعلیٰ چیز اور کہیں نہ کہیں کوئی کمزور چیز ضرور موجود ہوتی ہے، ’’الشریعہ‘‘ کے مطالعے کے بعد جنگل میں شیر کی موجودگی کی حد تک یہ بات رسالوں کے بارے میں بھی درست معلوم ہوتی ہے۔ مولانا محمد عیسیٰ منصوری صاحب کا مضمون ’’قانونِ اسلامی کا اِرتقا اور امام ولی اللہ دہلویؒ ‘‘ پڑھا تو وہ شیر نظر پڑگیا۔ فرماتے ہیں: ’’ایک زمانہ تھا جب سو ڈیڑھ سو میل کے فاصلے پر زبان، تمدن، معاشرت اور رہن سہن کے طور طریق بدل جاتے تھے، مگر اب تیزی سے پوری دنیا کا کلچر، معاشرت، لباس اور طرزِزندگی ایک سا ہوتا جارہا ہے، بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں کافرانہ (مغربی) ہوتا جارہا ہے۔ درحقیقت یہ تمہید ہے اِس بات کی کہ جلد ہی دنیا کا مذہب بھی ایک یعنی اسلام ہوگا، کیوں کہ قبولِ حق میں ایک رکاوٹ کلچر، تمدن اور طرزِزندگی کا اختلاف بھی رہا ہے۔۔۔ اِس لیے علماے کرام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دور اور اِس کے تقاضوں کو سمجھیں اور فروعی اختلافات کی شدت ختم کرکے اسلام کو ایک متفقہ شاہراہ کے طور پر پیش کریں۔۔۔‘‘
ایک ایسے دور میں جب کہ لوگ اُتنا اللہ سے نہیں ڈرتے جتنا پدرِفرنگ سے ڈرتے ہیں اور اچھے بھلے مسلمان بھی اپنا ’’اسلام‘‘ چھپائے رکھنے کو دین اور وقت کا تقاضا سمجھنے لگے ہیں، یہ ایک توانا آواز ہے جو نہ اسلام کے مستقبل سے مایوس ہے نہ مسلمانوں کی زبوں حالی اور زوال کی تصویر اُسے کم حوصلہ کیے ہوئے ہے۔ اِس بات کو پورے استحضار کے ساتھ کہنا کہ ’’درحقیقت یہ تمہید ہے اِس بات کی کہ جلد ہی دنیا کا مذہب بھی ایک یعنی اسلام ہوگا‘‘ ایک مجذوب کی بڑ نہیں بلکہ کھلی آنکھوں اور عمیق فہم والے ایک مدبر کے دل کی آواز ہے جو پوری بصیرت کے ساتھ اور اللہ کی قدرت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پر مکمل یقین ہونے کی کیفیت ہی میں کہی جاسکتی ہے۔ میں نے حضرت مولانا محمد عیسیٰ منصوری صاحب کو زندگی میں صرف ایک ہی بار دیکھا ہے، جب وہ بھائی سید ذوالکفل کی شادی کے موقع پر تھوڑی دیر کے لیے دارِبنی ہاشم ملتان میں تشریف لائے تھے۔ اُن کا یہ جملہ پڑھنے کے بعد میں سوچتا ہوں کہ ایک دھان پان سا آدمی کیسا توانا دل لیے ہوئے ہے۔ اللہ اُن کی زندگی میں بہت برکت دے۔ آمین۔ 
والسلام، حافظ صفوان محمد چوہان
سینئر لیکچرر (کمپیوٹر اینڈ ڈیٹا سروسز)
ٹیلی کمیونیکیشن سٹاف کالج، ہری پور
(۸)
محترم ومکرم حضرت العلامہ زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر وعافیت ہوں گے۔
آپ کی ادارت میں شائع ہونے والے ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں جولائی ۲۰۰۴ سے مارچ ۲۰۰۵ تک شیعہ سنی تعلقات کے حوالے سے دلچسپ اور سنسنی خیز مضامین شائع ہوئے ہیں جس میں مختلف حضرات کی آرا وافکار، تلخ نوائیاں اور شکوہ وشکایات سامنے آئی ہیں۔ مجھے اس بات سے قطعاً کوئی اختلاف نہیں کہ آپ نے شیعہ حضرات کے مضامین کیوں شائع کیے ہیں، بلکہ اس بات پر خوشی ہے کہ فرقہ واریت اور شیعہ سنی فسادات کے اس ماحول میں آپ نے فریقین کی توجہ باہمی رواداری کی طرف مبذول کروائی ہے جس کی موجودہ دور میں بے حد ضرورت بھی ہے، کیونکہ گزشتہ دو دہائیوں سے ایک تیسرا گروہ (جس میں اسرائیل، امریکہ اور بھارت کے ایجنٹ شامل ہیں) ہمیں آپس میں لڑا رہا ہے اور ہم اس لڑائی کو سمجھ نہیں پا رہے۔ ہمارا سب سے بڑا جو نقصان ہوا ہے، وہ ہمارے قیمتی سرمایہ یعنی علماء کرام کا بے دریغ قتل ہے جن میں مولانا حق نواز، مولانا ضیاء الرحمن، مولانا ایثار قاسمی، مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مولانا محمد عبد اللہ، مفتی نظام الدین شامزئی اور مولانا اعظم طارق رحمہم اللہ جیسے قیمتی اور جید علما شامل ہیں۔ اسی طرح شیعہ برادری کے بھی بہت سے علما اور بے گناہ عوام قتل ہوئے ہیں، لیکن اس شیعہ سنی فساد اور بے دریغ قتل وغارت سے فریقین میں سے کسی کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہاں! امریکا، اسرائیل اور بھارت کے ایجنٹوں اور آلہ کاروں نے ان فسادات سے ضرور فائدہ اٹھایا ہے۔
ہمارے علماء اہل سنت والجماعت شروع دن سے شیعہ سنی مسئلے کو درست تناظر میں دیکھتے رہے ہیں اور ہر نازک وقت میں انہوں نے شیعہ حضرات سے اتحاد اور اتفاق کی فضا کو قائم رکھا۔ تحریک ختم نبوت میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کا شیعہ حضرات کو ساتھ ملانا اور موجودہ ملکی وبین الاقوامی صورت حال کے پیش نظر متحدہ مجلس عمل میں شیعہ حضرات کی شمولیت ہمارے سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ رہی یہ بات کہ شیعہ سنی عقائد میں فرق ہے تو اس کے متعلق اکابر اہل سنت والجماعت یہ بتاتے چلے آ رہے ہیں کہ جو شیعہ تحریف قرآن کا قائل ہو، صحابہ کرام کو برا بھلا کہتا ہو، حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کرتا ہو، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اس حوالے سے شیعہ حضرات کو بھی غور کرنا چاہیے اور اپنے لٹریچر سے ایسے مواد کو نکال دینا چاہیے جس میں صحابہ کرام کی (نعوذ باللہ) تکفیر اور حضرت عائشہ صدیقہ کی شان میں گستاخی ہو۔ اس کے متعلق شیعہ اور اہل سنت کے سنجیدہ اور معاملہ فہم حضرات کی ایک کمیٹی بننی چاہیے جس میں اس لٹریچر پر غور کیا جائے جو موجب فساد بنتا ہو اور پھر اس کو ہمیشہ کے لیے نکال دینا چاہیے اور جب بھی کوئی قومی یا بین الاقوامی معاملہ پیش آئے، آپس میں رواداری اور بھائی چارے کا ماحول پیدا کرنا چاہیے۔
اس ضمن میں، میں آپ کو اس بات کی طرف خاص طور سے توجہ دلانا چاہوں گا کہ شیعہ سنی تعلقات کے حوالے سے آپ کی کچھ باتیں بعض حضرات کی سمجھ میں نہیں آئیں اور اس پر وہ آپ سے نالاں ہیں۔ مثلاً کالعدم سپاہ صحابہ کے ترجمان ماہنامہ ’خلافت راشدہ‘ کے شمارہ ستمبر ۲۰۰۴ کے ص ۱۰ پر ہے کہ:
’’محترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب سے دردمندانہ درخواست ہے کہ خدارا خود کو غیر جانب دار اور مذہبی سکالر ثابت کرنے کے لیے شیعہ کی سازشوں کا شکار ہو کر سپاہ صحابہ کے قائدین اور ہزاروں کارکنان کی قربانیوں اور اپنے اسلاف کے فتاویٰ جات کو خاک میں ملانے کی کوشش نہ کریں۔‘‘
اسی طرح مارچ ۲۰۰۵ کے شمارے کے ص ۱۵ پر حافظ ارشاد احمد دیوبندی فرماتے ہیں: 
’’اپنے آپ کو بہت بڑا سکالر شپ اور اتحاد امت کا داعی کہلانے کے لیے وہ یہ سب کچھ کر رہے ہیں بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ والد محترم حضرت شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر مدظلہ سے بغاوت کر کے یہ سب کچھ لکھا جا رہا ہے۔ حضرت شیخ کا عندیہ تو کیا، ایما بھی نہیں ہے۔ ان کے اس طرح کے طرز عمل سے صحابہ دشمنوں کی اعانت ہو رہی ہے۔‘‘
میری آپ کی خدمت میں گزارش ہے کہ آپ ان حضرات کی غلط فہمیوں کو دور کریں اور ایسا ماحول اور فضا پیدا ہونے سے ہمیں بچائیں جس کی وجہ سے ہم آپس میں ہی الجھ کر رہ جائیں۔ 
والسلام، حافظ خرم شہزاد
شریک دورۂ حدیث
مدرسہ انوار العلوم شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’حیات شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ ‘‘

جناب فیض انبالوی اور شفیق صدیقی صاحب نے تحریک پاکستان کے نامور راہ نما شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی کی حیات وخدمات کے مختلف پہلووں کو اس کتاب میں مرتب کیا ہے جس میں جمعیۃ علماء ہند اور جمعیۃ علماء اسلام کے باہمی اختلافات کو نمایاں کرنے کی طرف زیادہ توجہ دی گئی ہے اور اس پس منظر میں بہت سی تاریخی معلومات اور دستاویزات کو کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔
اڑھائی سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب ادارہ پاکستان شناسی، ۳۵ رائل پارک لاہور نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۱۲۰ روپے ہے۔

’’بزرگان دار العلوم دیوبند‘‘

محترم ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوری صاحب نے ۱۸۵۷ کے جہاد آزادی میں شاملی کے محاذ کے پس منظر میں دار العلوم دیوبند کے چند سرکردہ بزرگوں کا تذکرہ کیا ہے اور ان کی سیاسی خدمات پر روشنی ڈالی ہے۔ نیز جنگ آزادی میں اکابر علماء دیوبند کے کردار کے بارے میں دیگر نامور مورخین کی نگارشات کو بھی اس میں شامل کیا ہے۔
تین سو کے لگ بھگ صفحات کی یہ مجلد کتاب جمعیۃ پبلی کیشنز، متصل مسجد پائلٹ ہائی سکول، وحدت روڈ لاہور نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۱۵۰ روپے ہے۔

’’پرویزیت کے الہیاتی تصورات‘‘

جناب ظفر اقبال خان نے مذکورہ بالا عنوان کے تحت چودھری غلام احمد پرویز صاحب کے الہیات کے بارے میں تصورات کا جائزہ لیا ہے اور اس بات کو واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے حوالے سے پرویز صاحب کے خیالات وتصورات اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتے اور قرآن کریم کے متعدد ارشادات میں تحریف کے مترادف ہیں۔ اس جائزہ کے بعض پہلووں پر بھی گفتگو کی گنجایش موجود ہے مگر مجموعی طور پر انھوں نے فکر پرویز کی کجی اور اس کے اسباب کی کامیابی کے ساتھ نشان دہی کی ہے۔
سوا سات سو سے زائد صفحات کی یہ کتاب دو جلدوں میں پیش کی گئی ہے اور اسے ادارہ اسلامیہ، حویلی بہادر شاہ، جھنگ نے شائع کیا ہے۔

’’مقام عورت قرآن وحدیث کی روشنی میں‘‘

جناب عبد الرشید ارشد آف جوہر آباد نے عورت کی آزادی اور حقوق کے حوالے سے موجودہ دور کے تصورات اور ’’آزادی نسواں کی تحریک‘‘ کے عوامل ونتائج کے پس منظر میں قرآن وسنت کی روشنی میں عورت کے مقام کی وضاحت کی ہے اور مغربی فلسفہ وتمدن کے نتیجے میں رونما ہونے والی معاشرتی خرابیوں کا جائزہ لیا ہے۔

’’فتنہ حقوق وآزادی نسواں/تورات وانجیل کی صحت وحقانیت‘‘

اس کتابچہ میں جناب عبد الرشید ارشد نے آزادی نسواں کی مغربی تحریک کے مضر اثرات کا ذکر کیا ہے اور ایک باب میں بائبل کی صحت وحقانیت کا تجزیہ کرتے ہوئے اس میں ہونے والی تحریفات کی نشان دہی کی ہے۔
دونوں کتابچے النور ٹرسٹ، جوہر پریس بلڈنگ، جوہر آباد نے شائع کیے ہیں اور اول الذکر کی قیمت پچاس روپے ہے۔

’’چمن خیال‘‘

شیخ حبیب الرحمن بٹالوی احرار کے معروف دانش ور اور مصنف ہیں۔ ارد و اور پنجابی میں ان کے منظوم کلام کا مجموعہ مذکورہ بالا عنوان کے ساتھ بخاری اکیڈمی، دار بنی ہاشم، مہربان کالونی ملتان نے شائع کیا ہے اور سوا سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل اس مجلد کتابچہ کی قیمت ایک سو روپے ہے۔

جون ۲۰۰۵ء

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا کامیاب کنونشنمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
’الفرقان الحق‘: اکیسویں صدی کا امریکی قرآنمحمد فیروز الدین شاہ کھگہ 
’’سر اقبال‘‘ بنام ’’حسین احمد‘‘ ۔ ماضی کی ایک کہانی کا معما ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب کی روشنی میںمولانا عتیق الرحمن سنبھلی 
تغیر پذیر ثقافتوں میں خواتین کے سماجی مقام کا مسئلہلوئی ایم صافی 
مسئلہ طلاق ثلاثہ ۔ علماء کرام توجہ فرمائیںپروفیسر محمد اکرم ورک 
مکاتیبادارہ 
تعارف و تبصرہادارہ 
الشریعہ اکادمی کی سرگرمیاںادارہ 

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا کامیاب کنونشن

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے ۱۵؍ مئی ۲۰۰۵ کو اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں ملک گیر ’’دینی مدارس کنونشن‘‘ منعقد کیا جس میں ملک کے مختلف حصوں سے ہزاروں کی تعداد میں دینی مدارس کے مہتممین، اساتذہ اور طلبہ کے علاوہ زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے حضرات نے بھی شرکت کی۔ کنونشن کا عنوان گذشتہ دو سالوں کے دوران میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سالانہ امتحانات میں اول، دوم اور سوم پوزیشن پر آنے والے طلبہ اور طالبات میں انعامات کی تقسیم تھا جو صدر وفاق شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم کے ہاتھوں تقسیم ہوئے، مگر اپنے شرکا اور خطابات کے حوالے سے یہ کنونشن ملک کے دینی مدارس کے موقف، پالیسی اور کردار کے حوالے سے ایک بھرپور اجتماع تھا جس میں حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ذمہ دار حضرات کی شرکت نے اسے قومی کنونشن کی حیثیت دے دی۔
حکمران مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور وفاقی وزیر مذہبی امور جناب محمد اعجاز الحق نے کنونشن سے خطاب کیا اور دینی مدارس کی تعلیمی جدوجہد کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہوئے بعض اہم اعلانات بھی کیے جن میں جناب محمد اعجاز الحق کا یہ اعلان بطور خاص اہمیت کا حامل ہے کہ حکومت نے سرکاری خرچ سے ماڈل دینی مدارس قائم کرنے کی جو اسکیم شروع کی تھی، وہ ناکام ہو گئی ہے اور کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود صرف تین مدارس کو کامیابی کے ساتھ چلانے کا ہدف بھی پورا نہیں ہوا جس کی وجہ سے یہ منصوبہ ترک کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت دینی مدارس کے نصاب ونظام میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اور صرف عصری تقاضوں کے ساتھ ان کے نصاب ونظام کو ہم آہنگ کرنے کے لیے ان سے تعاون کرنا چاہتی ہے، اس لیے مدارس کو مطمئن رہنا چاہیے کہ ان کے معاملات میں کوئی سرکاری مداخلت نہیں ہوگی۔ مسلم لیگ کے قائد چودھری شجاعت حسین صاحب نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا ۔
قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد مولانا فضل الرحمن اور متحدہ مجلس عمل کے سربراہ جناب قاضی حسین احمد نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا اور حکومت کی دینی مدارس اور ان کے نظام کے حوالے سے پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اعلان کیا کہ دینی مدارس کی آزادی کو برقرار رکھا جائے گا اور کسی بھی بہانے ان کے نظام میں سرکاری مداخلت یا اثر ورسوخ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ ان راہ نماؤں نے معاشرے میں دینی مدارس کی دینی وتعلیمی خدمات کو سراہا اور کہا کہ اس وقت مسلم معاشرے میں عام مسلمانوں کا اسلام کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ دینی مدارس ہیں جس کی وجہ سے عالمی استعمار ان کے آزادانہ نظام کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہے، لیکن پاکستان کی دینی قوتیں ایسی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گی۔
ممتاز دانش ور جنرل (ر) حمید گل نے اپنے خطاب میں دینی مدارس کی اہمیت کا ذکر کیا اور عالمی استعمار کی ان سازشوں پر روشنی ڈالی جو دینی مدارس کو ان کے اس کردار سے محروم کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ انھوں نے دینی مدارس کے منتظمین، اساتذہ اور طلبہ سے کہا کہ وہ حوصلہ اور استقامت کے ساتھ اس دباؤ کا مقابلہ کریں اور یہ یقین رکھیں کہ بالآخر کامیابی انھی کے مقدر میں ہوگی۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے وفاق المدارس کی خدمات اور تاریخ کے مختلف پہلووں سے حاضرین کو آگاہ کیا اور دینی مدارس کے آزادانہ کردار اور دینی وتعلیمی جدوجہد کے تحفظ کے لیے وفاق کی جدوجہد اور اس سلسلے میں حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات بیان کیں۔ انھوں نے بتایا کہ وفاق نے دوسرے مکاتب فکر کے دینی مدارس کی تنظیموں کو ساتھ ملا کر ملک گیر ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ‘‘ قائم کیا اور سب وفاقوں کے اتحاد کے ساتھ دینی مدارس کے نصاب ونظام میں سرکاری مداخلت اور کنٹرول کے پروگرام کو ناکام بنایا۔
انھوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت ایک طرف دینی مدارس کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا بار بار اعلان کرتی ہے اور دوسری طرف حال ہی میں سرکاری سطح پر دینی مدارس کے لیے ایک بورڈ قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے جو حکومت کے اعلانات اور یقین دہانیوں کے منافی ہے۔ انھوں نے وفاق کی قیادت کی طرف سے اس امر کا دوٹوک اعلان کیا کہ دینی مدارس کے نظام ونصاب کے حوالے سے کسی بھی سرکاری بورڈ کو قبول نہیں کیا جائے گا اور کسی بھی سطح پر سرکاری مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
جسٹس (ر) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کا خطاب ’’دینی مدارس کنونشن‘‘ میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے دینی مدارس کے مقصد قیام کی وضاحت کی اور بتایا کہ ان دینی مدارس کا قیام معاشرے میں دینی راہ نمائی فراہم کرنے اور مسجد ومدرسہ کا نظام باقی رکھنے کے لیے رجال کار کی فراہمی کی غرض سے عمل میں آیا تھا اور دینی مدارس اپنا یہ کام خیر وخوبی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دینی مدارس سے کوئی اور تقاضا کرنا، نا انصافی کی بات ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ کہنا کہ دینی مدارس سے ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان اور وکیل کیوں پیدا نہیں ہو رہے، بالکل اسی طرح کا سوال ہے کہ میڈیکل کالج سے انجینئر کیوں نہیں نکل رہے، لا کالج سے ڈاکٹر کیوں پیدا نہیں ہو رہے، انجینئرنگ کالج سے وکیل کیوں نہیں نکل رہے اور سائنس کالج میں دینی علوم کے ماہرین کیوں تیار نہیں ہو رہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم کوتاہیوں سے پاک نہیں ہیں، اپنی اصلاح کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور اپنے نظام کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کے لیے ہر مفید تجویز کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن دینی مدارس کو ان کے مقصد قیام سے ہٹانے اور ان کے کردار کا رخ تبدیل کرنے کی کوئی بات ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہوگی۔
راقم الحروف سے بھی کچھ معروضات پیش کرنے کے لیے کہا گیا اور میں نے بطور خاص یہ گزارش کی کہ دینی مدارس کی مخالفت میں مغرب سب سے پیش پیش ہے، مگر مغرب کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ مدرسہ خود اس کی بھی ضرورت ہے۔ دینی مدرسہ ہم مسلمانوں کی بنیادی ضرورت تو ہے ہی، مغرب کی بھی ضرورت ہے اور اگر مغرب تعصب اور عناد کی عینک اتار کر مدرسہ کے کردار کا جائزہ لے تو اسے مدرسہ کا شکر گزار ہونا چاہیے، اس لیے کہ مغرب نے دو صدیاں قبل آسمانی تعلیمات سے انحراف اور وحی الٰہی کی راہ نمائی سے دست برداری کا جو فیصلہ کیا تھا، اس کے منفی نتائج انسانی سوسائٹی میں سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور عقل ودانش کے اعلیٰ حلقوں میں یہ بات محسوس کی جانے لگی ہے کہ آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی راہ نمائی کی طرف پھر سے واپس جانے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ چھ ارب افراد پر مشتمل انسانی سوسائٹی امن وخوش حالی کے لیے کسی نئے نظام کی تلاش میں ہے اور نئے نظام کے آپشنوں میں آسمانی تعلیمات کا آپشن بھی پھر سے دھیرے دھیرے ایجنڈے میں شامل ہو رہا ہے۔ گلوبل انسانی سوسائٹی کے مستقبل کے نظام کے لیے آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی ہم مسلمانوں کے لیے تو واحد آپشن کی حیثیت رکھتی ہیں، مگر باقی دنیا کے لیے بھی اسے ایک آپشن کی حیثیت ضرورت حاصل ہے۔ اب اگر انسانی سوسائٹی کسی وقت آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی طرف واپسی کی ضرورت محسوس کرتی ہے تو آسمانی تعلیمات کا محفوظ اور مستند ذخیرہ صرف مسلمانوں کے پاس ملے گا۔ دنیا کی کسی اور قوم کے پاس وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کا کوئی محفوظ ذخیرہ موجود نہیں ہے اور اگر دنیا نے آسمانی تعلیمات کی طرف واپس جانے کا فیصلہ کیا اور تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میرا یقین ہے کہ دنیا کو بالآخر اسی فیصلے پر آنا ہوگا، اس وقت صرف یہ دینی مدارس ہوں گے جہاں سے دنیا کو آسمانی تعلیمات کا ذخیرہ محفوظ اور مکمل حالت میں موجود ملے گا، کیونکہ یہ دینی مدارس اس وقت آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کے اسی ذخیرے کی حفاظت وترویج کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں، اس لیے اس کنونشن کے حوالے سے میں مغرب کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ دینی مدرسہ کے کردار کا سنجیدگی سے جائزہ لے اور جس چیز کی خود مغرب کو مستقبل میں ضرورت پیش آ سکتی ہے، اس کی حفاظت کرنے والے دینی مدرسہ کو ختم کرنے کی کوششوں کے بجائے اسے آزادی کے ساتھ اپنا کام کرنے دے۔
بہرحال ’’دینی مدارس کنونشن‘‘ اپنے مقاصد اور اہداف کے حوالے سے بہت کامیاب رہا جس پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی قیادت مبارک باد کی مستحق ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ وفاق کی قیادت اپنے کردار اور موقف کے بار ے میں اسی طرح قوم کے تمام طبقات کو اعتماد میں لے کر مزید حوصلہ اور عزم کے ساتھ معاشرے میں اسلامی تعلیمات کے فروغ اور اسلاف کی دینی جدوجہد کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے سرگرم عمل رہے گی۔

’الفرقان الحق‘: اکیسویں صدی کا امریکی قرآن

محمد فیروز الدین شاہ کھگہ

محمد فیروز الدین شاہ کھگہ (لیکچرار علوم اسلامیہ: نیشنل یونیورسٹی (FAST) لاہور)
حافظ محمد سمیع اللہ فراز (لیکچرار علومِ اسلامیہ: ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان)

قرآنِ کریم اسلامی تشریع کا اولین سرچشمہ ہے اور ہر قسم کی تحریف وآمیز ش سے پاک ہے۔ اس کے برعکس توراۃ وانجیل اپنی اصلی حیثیت کو برقرار نہ رکھتے ہوئے بے شمار تحریفات کا شکار ہوئی ہیں۔غالباً اسی وجہ سے مستشرقین نے قرآنی متن کو موضوعِ بحث بناتے ہوئے اس کو محرَّف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔دراصل استشراقی فکر کا محور یہ ہے کہ جس طرح تورات وانجیل اپنی حیثیت کھو بیٹھی ہیں اور ان کے کئی Version منظرِ عام پر آچکے ہیں، مسلمانوں کے قرآن کو بھی اسی مقام پر لا کھڑاکیاجائے۔ چنانچہ آرتھر جیفری لکھتا ہے:
"It is sometimes said that Christianity could exist without the New Testament, but Islam certainly could not exist without the Quran". (1)
یعنی عہد نامہ جدید کے بغیر عیسائیت تو اپنا وجود باقی رکھ سکتی ہے، لیکن قرآن کے بغیر اسلام باقی نہیں رہ سکتا(۲)۔
قرآن مجید کے ساتھ مسلمانوں کی عدیم المثال وابستگی اور دنیا پر اس کے حیرت انگیز اثرات کے مستشرقین بھی معترف ہیں۔ مارگولیتھ کے الفاظ ہیں:
"The Koran admittedly occupies an important position among the great religious books of the world..... it yields to hardly any in the wonderful effect which it has produced on large masses of men".(3)
اہلِ مغرب اس سے حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ جب تک مسلمان کا تعلق قرآن مجید کے ساتھ پختہ ہے، تب تک اسلامی اقدار کو منہدم کرنا مشکل ہے، چنانچہ راستے کے اس بھاری پتھر کو ہٹانے کے لیے قرآنِ مجید پر اعتراضات کا سلسلہ جاری ہے۔ سینئر برطانوی وزیر گولڈسٹون نے پارلیمنٹ کے ایک اجلاس میں قرآن مجید ہاتھ میں بلند کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ تین چیزوں کی موجودگی میں ہم اسلام اور مسلمانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے: نمازِ جمعہ، حج اور یہ کتاب‘‘۔(۴)
کچھ عرصہ قبل امریکہ سے ’الفرقان الحق‘ نامی ایک کتاب شائع ہوئی جس کو’ اکیسویں صدی کا قرآن‘ قرار دیاگیا اور اس کی نشرواشاعت پوری تن دہی کے ساتھ تاحال جاری ہے۔ ان سطور کا مقصد دنیا کو مغرب اور مستشرقین کا وہ متعصبانہ رویہ دکھانا ہے جو وہ مسلم امہ اور مسلمانوں کے بنیادی ورثہ کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں۔ مقامِ افسوس ہے کہ عہدِ طالبان میں پتھر کے دو مجسموں کے ٹوٹنے پر دنیا کا حیرتناک اور شدید ردعمل دیکھنے کو ملتا ہے، لیکن مسلمانوں کے دستورِ زندگی اور تعلیمات وعقائد کے مرکز قرآن مجید کا جب مذاق اڑایا جائے تو عالمی حقوق کی کسی تنظیم کی طرف سے کوئی مذمتی بیان جاری نہیں ہوتا۔
مغرب سے متاثر وہ افراد جو اسلام کے متعلق تعلیمات کے حصول کے لیے مستشرقین کے بظاہرسائنٹفک مگربباطن غیر حقیقی مواد پر مشتمل مقالات کامطالعہ کرتے ہیں، بہت جلد شکوک وشبہات کی گھاٹیوں میں داخل ہوجاتے ہیں۔ نوجوان نسل، جو پہلے ہی مادی ترغیبات کے سبب سے دائرۂ مذہب سے فرار کی خواہاں ہے،اس کے لیے ایک چھوٹی سی آواز بھی راہِ راست سے بھٹکانے کے لیے کافی ہے۔ ایسے حالات میں اس ضرورت کا شدید احساس ہوتا ہے کہ ہم کسی منظم شکل میں مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے مستشرقین اور اہل مغرب کے متعصب افراد کی آوازوں کا قوی اور مسکت جواب دیں۔ قارئین کرام کے لیے حالیہ امریکی قرآن کی اصلیت اوراس کے پس پردہ چشم کشا صہیونی مقاصد کا تعارف پیشِ خدمت ہے:
’الفرقان الحق‘ نامی امریکی قرآن کا مصنف ڈاکٹر انیس شوروش (Anis Shorrosh)ہے جو خود کو ’الصفی‘،’المہدی‘ اور ’مہدی منتظر‘ جیسے القاب سے ملقب کرتا ہے۔ انیس شوروش کا اصل نام پہلی مرتبہ Amazonنامی انٹر نیٹ سائٹ پر دیکھا گیا(۵)۔ انیس شوروش فلسطین میں پیدا ہوا، یعنی یہ اصلاً فلسطینی عربی ہے ۔ اُردن کے میسیسپی کالج (MISSISSIPPI COLLEGE) میں تعلیم حاصل کی۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے سے قبل ORLEANS BAPTIST NEW THEOLOGICAL SEMINARY کے ادارہ میں پڑھاتا رہا اور دومرتبہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری بالترتیب INSTITUTE OF SEMINORY MINISTORY DAYTON TENNESSEEاور INTERNATIONAL LUTHER RICEکی یونیورسٹیوں سے حاصل کی۔ یہودیوں کے ساتھ مقبوضہ ارضِ مقدس میں کام کرتا رہا۔ مزید براں 1959ء تا1966ء یروشلم کے کنیسا میں بھی خدمات انجام دیں۔ امریکہ اور اسرائیل کے مابین 40سال تک Clergymanیعنی پادری سفارتکار کے طور پر جبکہ افریقہ، کینیا، کیپ ٹاؤن، ڈربن، جوہانسبرگ وغیرہ میں بطور عیسائی مبلّغ کام کیا۔ 1955ء میں نیوزی لینڈ سے انگلینڈ منتقل ہوااوربعدازاں پرتگال میں رہائش پذیر رہا(۶)۔
مشہور اسلامی مفکر اور سکالر احمددیداتؒ نے اس کے ساتھ دومناظرے بھی کیے۔ پہلی مرتبہ 1980ء کو لندن میں ’’کیا عیسیٰ خدا ہے؟‘‘ کے موضوع پر پانچ ہزار افراد کی موجودگی میں، جبکہ دوسری مرتبہ برمنگھم میں ’’قرآن وانجیل___کلام اللہ کیا ہے؟‘‘ کے عنوان پر بارہ ہزار افراد کے اجتماع میں مناظرہ ہوا۔
انیس شوروش نے مذکورہ بالا مناظروں کے بعد ایک کتاب An Islamic Revealed, Christian Arabic Veiws of Islamتالیف کی اور اس کتاب کے متعلق کہا کہ یہ لوگوں کو اس بات سے آگاہ کرنے کے لیے کافی ہے کہ اسلام غلط عقائد پر مشتمل دہشت گردی کا دین ہے جو لوگوں کو جھگڑے، قتال اور خون بہانے کی طرف مدعو کرتا ہے کیونکہ اس کا اولین مصدر یہی قرآن ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قرآن کو ’الفرقان الحق‘ سے بدل لیں (۷)۔ شوروش کے الفاظ ہیں کہ ’’قرآنی أجود، کتبتُہ بالعربیۃ الجیدۃ وترجم الی اللغۃ الإنجلیزیۃ الجیدۃ ‘‘۔(۸) 
انیس شوروش کی اسلام اور مسلم دشمنی اس وقت کھل کر سامنے آئی جب اس نے نائن الیون کے دودن بعد امریکی ریاست ہیوسٹن کی یونیورسٹی میں بغض وعناد سے بھر پور ایک لیکچر دیا جس میں اس نے مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے پر زور دیا۔ شوروش کے الفاظ میں چونکہ دینِ اسلام دہشت گردی اور خون بہانے کا دین ہے اور اس وقت دہشت گردی کا اولین مصدر قرآن ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اس قرآن کو ختم کر دیا جائے تاکہ دہشت گردی ختم ہو سکے۔ مزید براں امریکی حکومت پر زورد یا کہ وہ مسلمانوں کو امریکہ سے نکال دے اور تمام مسلمانوں کو مشرقِ وسطیٰ کے علاقہ میں جمع کرنے کے بعد ان کو ہائیڈروجن بم سے اڑا دے۔ بعدازاں اسلام اور مسلمانوں کی ہلاکت کے لیے خصوصی سروس کا اہتمام کیا۔ شوروش کا یہ لیکچر بدکلامی اور اسلام کے خلاف گالی گلوچ سے اس قدر پُر تھا کہ یونیورسٹی کے صدر کو اگلے روز اس سلسلے میں معذرت کرنا پڑی (۹)۔
شوروش نے میڈیا کو اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کا بنیادی ذریعہ بنایا حتیٰ کہ انڈونیشیا کے مشہور ٹی وی چینلز کو خریدنے کے بعد ان کی نگرانی انڈونیشیائی عیسائیوں کے سپرد کردی(۱۰)۔
شوروش اپنی کتاب ’الفرقان الحق‘ میں قارئین کی حمایت حاصل کرنے کے لیے خود کو ایک مظلوم خاندان کا فرد ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہاس کے والد اور چچازاد کی اسرائیل میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاکت نے اس کو 1976ء میں اردن کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کیا۔ (۱۱) وہ مسلمانوں کو ’’I sincerely love all the Muslims‘‘ کے الفاظ کے ساتھ جھانسہ دینے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ ’الفرقان الحق‘ کا سببِ تالیف بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ مسلمانوں سے محبت اوران کے فائدے کی خاطر اس کتاب کو اپنی سابقہ کتاب ’’کشف حقیقۃ الاسلام‘‘کے تتمہ کے طور پر شائع کر رہا ہوں۔اسرائیلی تھنک ٹینک نے شوروش کا مقالہ ’’الاسلام یستھدف امریکا فی مخطط یمتد عشرین عاما‘‘ بھی شائع کیا ہے۔ اس مقالہ میں اپنی کتاب ’الفرقان الحق‘ کی اہمیت اس طرح بیان کی ہے کہ
’’۔۔۔ تاکہ مسلمانوں کے قرآن کو ہر لحاظ سے چیلنج کیا جا سکے۔ اس کے جوہر،اسلوب، لغت اور مشتملات ومحتویات ، غرض یہ کہ ہر لحاظ سے اسلامی قرآن کے مقابل یہی کتاب ہے‘‘(۱۲)۔
اس کے خیال میں مسلمانوں نے 2020ء تک امریکہ کی فتح کے لیے جامع منصوبہ بندی کر رکھی ہے چنانچہ اسی وجہ سے ایک وقت وہ بھی آیا جب مسلمانوں کا یہ منصوبہ 11ستمبر کو اچانک، جب امریکی سکون کی نیند سو رہے تھے، ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹاورز پر حملہ کی صورت میں رونما ہوا۔ 
شوروش اپنے تعارف میں مزید لکھتا ہے کہ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی سٹڈی کونسل کا ممبر بھی رہا اور 76سے زائد ممالک کے دورے بھی کیے۔ وہ غیر مسلم حلقوں میں حقیقتِ اسلام کو منکشف کرنے کا متخصص (Specialist) قلم کار مانا جاتا ہے۔ شوروش کے خیال میں قرآن انسانیت کو 1400سو برس سے چیلنج کر رہا ہے کہ کوئی انسان اس جیسی کتاب تالیف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتاجو زمانہ کے مناسبِ حال اورتورات وانجیل کے مابین جمع وتطبیق کرتی ہواورادیانِ ثلاثہ یعنی عیسائیت، یہودیت اور اسلام کی تعلیمات کی جامع تفسیر ہو، لیکن ’الفرقان الحق‘نے قرآن اورمسلمانوں کے اس مقولے اور چیلنج کو باطل کر دیا ہے۔ اس کے مطابق مسلمانوں کے نبی محمد(ﷺ) پر قرآن تیئیس(23)سال اترتا رہا لیکن میں نئے قرآن کی ترتیب وتدوین میں سات سال سے زیادہ مصروف نہیں رہا۔ یہ عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں مرقوم ہے جس پر 1999ء سے عمل شروع ہے۔وہ مسلمانوں کے قرآن سے ’الفرقان الحق‘ کا موازنہ کرتے ہوئے اسلامی قرآن میں قواعدِ نحو ولغت کی 100سے زائد غلطیوں کا دعویٰ کرتا ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کو چند مبہم اور غیر واضح نکات پر مشتمل ایک دستاویز سے زیادہ سمجھنے کو تیار نظر نہیں آتا ۔ اس کے برعکس اپنے خود ساختہ کلام کے واضح اور تفصیلی جزئیات کے ساتھ مالا مال ہونے کا دعویدار ہے۔ (۱۳)
’الفرقان الحق‘ 20 x 15 سم کے 366 صفحات پر مشتمل ہے۔ مقدمہ، بسملہ اور خاتمہ کے علاوہ اس کی 77سورتیں ہیں۔ اس متعفن تصنیف کی ہر سورت کی آیات کی تعدادہاتھ پاؤں کی انگلیوں کے برابر ہے جبکہ ہر سورت کو بتکلف ٹھونس ٹھانس کر بھر دیا گیا ہے ۔ 
’الفرقان الحق‘ کا جزء اول اسی سال American Center of Divine Loveکی وساطت سے امریکہ میں اومیگا۲۰۰۱ (OMEGA 2001) اور پریس وائن (PRESS WINE) سے شائع ہوا ہے ۔ (۱۵) جمعیت احیاء التراث الاسلامی کویت کے ہفت روزہ مجلہ ’’الفرقان‘‘ میں نسخہ کی قیمت 3امریکی ڈالر مذکور ہے جبکہ مذکورہ کتاب امریکہ، اسرائیل، لندن اور دیگر یورپی ممالک میں بڑی تیزی سے فروخت کی جار ہی ہے۔ ’الفرقان الحق‘ کے انٹرنیٹ ایڈیشن کی قیمت49.19امریکی ڈالر مذکور ہے(۱۶)۔ 
’الفرقان الحق‘ کے ناشرین و متعلقین کی یہ کوشش ہے کہ اس کتاب کو ہر مسلمان کے گھر بلکہ اس کے دل ودماغ تک پہنچا یا جائے۔ اگرچہ انھیں اس بات کا یقین ہے کہ مخلص مسلم سکالرز اور دانشوروں کی موجودگی میں یہ کام ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، تاہم انہوں نے اس کتاب کی تقسیم کا آغاز امریکہ کے بڑے بڑے کتب خانوں سے کیا ہے۔ ۲۰ویں صدی کے مسیلمہ سلیمان رشدی کی خصوصی توجہ سے لندن میں بھی یہ کتاب بڑے پیمانے پر دستیاب ہے۔ کویتی مجلہ ’الفرقان‘ کے مطابق اس کتاب کو خصوصاً کویت کے عجمی اداروں میں مفت تقسیم کیا جا رہا ہے تاکہ مشنری مقاصد کی تکمیل ہو سکے اور آنے والی نسلوں میں اسلامی تشخص کی ایک مسخ شدہ شکل پیش کی جا سکے تاکہ وہ دینِ حنیف سے روگرداں ہو ں۔ اس کتاب کا براہِ راست ہدف نوجوان طبقہ ہے جو امتِ مسلمہ کا قیمتی سرمایہ اور مستقبل کے قائدین ہیں۔ بہت افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے بعض نوجوان اور اسکالرز اجماعِ امت کے خلاف جب باتیں کرتے ہیں تو وہ نہ صرف اجتماعی ساکھ کو نقصان پہنچارہے ہوتے ہیں بلکہ اس سے امت کی وحدت کو بھی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
اس کتاب کی تقسیم کا دوسرا بڑا مقام ارضِ فلسطین ہے جہاں اسرائیل کے راستے کئی نسخے پہنچائے گئے ہیں جن کو فلسطینی تعلیمی اداروں میں رائج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ فلسطین کو اس کے لیے کیوں منتخب کیاگیا؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنا اس وقت آسان تر ہو جاتا ہے جب بنظر غائر یہ دیکھا جائے کہ اس امریکی مسخرہ میں اسرائیلی اہداف کو کس طرح تقویت دی گئی ہے(۱۷)۔ 
امریکی فرقان کے ایک نمائندے کی تقریر میں اس کی طرف اشارہ کیاگیا کہ 17/04/2004تک پیرس، لندن، واشنگٹن اور دیگر کئی بڑے شہروں میں اسلامی وعربی سفارت کاروں کو اس کی تقسیم مکمل کی جا چکی ہے۔20اپریل 2004ء کو BBCنے اس کا نسخہ وصول کیا۔ اسی طرح فلسطین سے شائع ہونے والے عربی، انگریزی اور عبرانی زبان کے مجلات کے دفاتر میں 15مئی 2004ء کواس کے نسخے پہنچادیے گئے۔ 17مئی 2004ء کو لندن سے شائع ہونے والے عربی مجلات کے دفاتر کی طرف اس کو ارسال کیاگیا۔ (۱۸)مزید براں مذکورہ کتاب www.amazon.comکے علاوہ کئی دوسرے انٹرنیٹ لنکس پر دستیاب ہے۔ ہمارے لیے مقامِ افسوس بایں طور ہے کہ مسلم مفکرین واسکالرز کو اس بات کی خبر تک نہیں کہ اس فحش کتاب کو کس تیزی کے ساتھ نہ صرف غیرمسلم بلکہ مسلم علاقوں تک پہنچایا جا رہا ہے۔
امریکہ سے شائع ہونے والے مشہور ومعروف جریدہ ’’صوت العربیۃ‘‘ کے چیف ایڈیٹر ولید رباح اپنے ساتھ پیش آنے والے حالیہ واقعہ کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’۔۔۔کچھ روز قبل ایک امریکی شخص نے ٹیلی فون پر مجھ سے رابطہ کیا جو کہ اہل ٹیکساس کے لہجہ میں عربی زبان بو ل رہا تھا۔ کہنے لگا کہ میرا نام قسیس الیاہو ہے اور میں آپ سے جتنی جلدی ممکن ہو، ملنے کا خواہشمند ہوں۔ اس نے مزید کہا کہ میرے پاس آپ کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے ساتھ کب اور کہاں ملاقات ممکن ہے؟ اس نے کہا کہ میں ’’صوت العربیۃ‘‘ کے دفتر میں پہنچ جاتا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس ہمارے دفتر کا ایڈریس ہے؟ تو اس نے زور دے کر کہا کہ جناب، اس کا ایڈریس تو میرے دل ودماغ پر کندہ ہے۔ میں نے کہا کہ پلیز ضرور تشریف لائیے۔ میں فوراً دفتر پہنچا تو چند ہی منٹوں بعد طویل قدوقامت اور گہرے رنگ کے بالوں والا ایک آدمی جس کے ہاتھ میں Samsoniteقسم کا ایک بیگ تھا، آن پہنچا۔ اس نے پرتکلف انداز میں زبان کو بل دیتے ہوئے کہا ’’شلام العلیکم‘‘ میں نے وعلیکم السلام کہنے کے بعد اس کو بیٹھنے کے لیے کہا۔اس نے کہا کہ میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا اور اپنا بیگ کھولتے ہوئے ایک چمکدار لفافے میں لپٹی ہوئی کوئی چیز نکالی اور کہا کہ سر! یہ میری طرف سے آپ کو ہدیہ ہے۔ میں نے طنزیہ اندا ز میں کہا کہ اس میں کہیں انتھراکس تو نہیں کیونکہ آپ لوگوں سے کچھ بعید نہیں۔ اس نے کہا نہیں جناب بلکہ اس میں ایک نئی زندگی ہے جو میں آپ کو پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے یہ کتاب میرے حوالے کی جس پر عربی میں ’الفرقان الحق‘ لکھا ہواتھا۔ میں نے اس کو ایک طرف رکھا اور اس کے ساتھ معاشیات، سیاست اور حالاتِ حاضرہ پر تقریباً آدھ گھنٹہ گفتگو ہوتی رہی۔ پھر میں نے پوچھا کہ آپ اس کی تشہیر کے لیے ہمیں کیا دیں گے؟ اس کے دوبارہ استفسار پر میں نے کہا کہ اس کی تشہیر کے لیے آپ ہمیں کیا دیں گے ؟ اس نے کہا کہ ایک تو کم ہوگا، دو ٹھیک ہے۔ میں نے پوچھا کہ اِس ایک اور دو سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اس نے کہا، ایک یا دو ملین ڈالرلیکن شرط یہ ہے کہ ’’صوت العربیۃ‘‘ کے ہر قاری کے گھر میں یہ کتاب پہنچنی چاہیے اور یہ بھی کہ یہ کم از کم دس بار شائع ہو‘‘۔ (۱۹)
’’صوت العربیۃ‘‘ کے مدیر اعلیٰ مزید کہتے ہیں کہ:

’’ وہ آدمی چلا گیا۔ میں نے اس کتاب کو کھولا تو عربی اور انگریزی میں ایک ساتھ لکھی ہوئی اس کتاب کا مقدمہ پڑھنا شروع کیا جس میں لکھا ہوا تھا:
الی الامۃ العربیۃ خاصۃ والی العالم الاسلامی عامۃ سلام علیکم ورحمۃ من اﷲ القادر علی کل شئی۔۔۔ یوجد فی اعماق النفس البشریۃ اشواق للایمان الخالص والسلام الداخلی والحریۃ الروحیۃ والحیاۃ الابدیۃ۔۔۔ واننا نثق بالالہ الواحد الاوحد بان القراء والمستمعین سیجدون الطریق لتلک الاشواق من خلال الفرقان الحق۔
یعنی امت عربیہ کے لیے خصوصاً اور عالمِ اسلام کے لیے عموماً۔ اللہ قادر مطلق کی طرف سے تم پر سلامتی اور رحمت ہو۔ نفسِ انسانی کی گہرائیوں میں ایمانِ خالص اور سلامتی ، روحانی آزادی اور ابدی زندگی موجود ہوتی ہے۔ ہم کو یقین ہے کہ الٰہ الواحد الاَوحد کے فضل سے قارئین وسامعین ایمان وسلامتی کے یہ راستے الفرقان الحق کے ذریعے پائیں گے۔۔۔ خالقِ انسانیت نے یہ روشن ستارے اس صفی ومہدی (شوروش) کی طرف وحی کیے ہیں‘‘۔

پھر ولید رباح نے جب پہلا صفحہ پلٹا تو اس پر سورۂ بسملہ تھی :
’’باسم الاب الکلمۃ الروح الالہ الواحد الأوحد۔ مثلث التوحید موحد التثلیث ما تعدد۔ فہو اب لم یلد۔ کلمۃ لم یولد۔ روح لم یفرد۔ خلاق لم یخلق۔ فسبحان مالک الملک والقوۃ والمجد۔ من ازل الازل الی ابد الابد‘‘۔
ولید بن رباح کہتے ہیں کہ میں نے امریکی قرآن کی سورۂ فاتحہ دیکھی اور کتاب بند کرتے ہوئے دل میں سوچا کہ یہ کون سا مہدی ہے جس کو عربی زبان کے اصول وابجد کا ہی علم نہیں تو میں اس کے لطیفہ پر کیوں نہیں ہنس سکتا۔ میں نے فوراً قرآنِ مجید فرقانِ حمید کھولا اور سورۂ فاتحہ کو پوری دلجمعی سے پڑھا تو زندہ ومردہ کا فرق واضح ہوگیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرا خیال اچانک مسیلمہ کذاب کی طرف چلا گیا کہ وہ کذاب ہونے کے باوجود اس فرقان امریکی سے بدرجہا بہتر عربی زبان سے واقف تھا، لیکن پھربھی اس قابل نہ تھا کہ قرآن کا مقابل تیار کر سکے۔
اس امریکی اقدام کے پس پردہ عزائم کا اندازہ حسبِ ذیل اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے:
"The purpose of The True Furqan is a tool of evangelism, because so far we have not found a breakthrough way to reach the Muslim world for Christ," Al-Mahdy said. "We have tried medicine, schools, books, movies and many other methods.(20)
’’المہدی نے کہا کہ الفرقا ن الحق کا مقصد انجیل کی تبلیغ واشاعت کے لیے اسے بطور ذریعہ اختیار کرنا ہے، کیونکہ اب تک ہمیں مسیح کی خاطر مسلم دنیا تک رسائی حاصل کرنے میں کوئی بڑی کام یابی حاصل نہیں ہوئی۔ ہم دواؤں، سکولوں، کتابوں اور فلموں سمیت کئی دوسرے طریقے بھی اختیار کر کے دیکھ چکے ہیں۔‘‘

مولفِ ’الفرقان الحق‘ کی کم علمی و کم عقلی کے ثبوت

موصوف نے اپنے انگریزی مقدمہ میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ’الفرقان الحق‘ وہ پہلی کتاب ہے جس نے اسلامی قرآن کے چیلنج کا مسکت جواب دیا ہے اور اس سے پہلے تاریخ کے کسی دور میں اسلامی قرآن کے مقابل کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ لکھتا ہے:
"1400 years ago the Quran challenged the world to produce a book like itself. Now for the first time in history, The True Furqan presents the gospel message in a unique style".(21)
شوروش مزید کہتا ہے کہ
"The True Furqan will be a breakthrough to Muslims not only because it answers the Qur'an's challenge, but because it also questions many of the Qur'an's teachings, as well as presenting the Gospel message, all in the language Muslims revere -- powerful, perfect, classical Arabic".(22)
شوروش کے مذکورہ بالا دعویٰ کے مطابق یہ وہ پہلی کتاب ہے جو قرآنی اسلوب کے مقابل تالیف کی گئی ہے اور یہی وہ فرقان ہے جس نے چودہ سو سال کے بعد پہلی مرتبہ قرآنی چیلنج کو قبول کیا ہے۔ درحقیقت اس کا یہ گمان مطلق جہالت کے سوا کچھ نہیں کیونکہ معاندینِ اسلام نے سینکڑوں بار شوروش سے بڑھ کر اسلامی قرآن کے مدمقابل کتابیں اور آیات افترا کرنے کی کوشش کی ہے۔تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مسیلمہ،حمام وغیرہ جیسے کذابین ومدعیانِ نبوت نے (وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ ۔۔۔ الخ) کے وزن پر آیات گھڑی تھیں۔ ابن اثیر نے اپنی کتاب ’’اسد الغابۃ‘‘ میں بھی ایسی عبارات ذکر کی ہیں جو قرآن کے مقابلہ میں بنائی گئیں اور اس پر تنقیدی کلام بھی کیا ہے(۲۳)۔
مزید براں امریکی قرآن میں جہاں فاتحہ،القدر،المومنین،التوبۃ،النساء، الطلاق، المائدۃ، المنافقین، الکافرین اورالانبیاء جیسی سورتوں کے نام چوری کیے گئے ہیں، وہیں بعینہ ایک دو حرف کی تحریف کے ساتھ قرآنی آیات کو بھی نقل کیا گیا ہے جو اس بات پر دال ہے کہ شاید ’الفرقان الحق‘، قرآنی کلمات،عبارات، تراکیب، ہیئت، فواصل اورآیات کے توازن وہم آہنگی سے مدد لیے بغیر کبھی معرضِ وجود میں نہ آ سکتا۔ اس ضمن میں چند مثالیں حسب ذیل ہیں:
۱۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ اَعْمَالُہُمْ کَرَمَادِ ن اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ لَایَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلَی شَیْءٍ ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلَالُ الْبَعِیْد(۲۴)
اس کے مقابلہ میں شوروش کی افترا کردہ آیت حسبِ ذیل ہے:
مثل الذین کفروا وکذبوا بالانجیل الحق اعمالہم کرماد ن اشتدت بہ الریح فی یوم عاصف لا یقدرون مما کسبوا علی شئی ذلک ہو الضلال الاکید(۲۵)
۲۔ قرآن مجید میں ہے:
ھَا اَنْتُمْ اُولَاءِ تُحِبُّوْنَہُمْ وَلَا یُحِبُّونَکُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بِالْکِتَابِ کُلِّہ وَاِذَا لَقُوْکُمْ قَالُوا آمَنَّا وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ اِنَّ اﷲَ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرO اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ وَاِنْ تُصِبْکُمْ سَیِّءَۃٌ یَّفْرَحُوْا بِھَا وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْءًا اِنَّ اﷲَ بِمَا یَعَمَلُوْنَ مُحِیْطO ۔(۲۶)
اس کے مقابلہ میں شوروش رقمطراز ہے:
’’یا ایہا الذین آمنوا من عبادنا ہا انتم اولاءِ تحبون الذین یعادونکم، وہم لا یحبونکم، واذا لقوکم قالوا: آمنا بما آمنتم واذا خلوا عضوا علیکم الانامل من الغیظ، وان تمسسکم حسنۃ تسوء ہم وان تصبکم سیئۃ یفرحوا بہا، وان تصبروا وتتقوا لا یضرکم کیدہم شیئا، ولا یضرون الا انفسہم وما یشعرون‘‘۔(۲۷)
انیس شوروش کے دیگر مقاصد کے ساتھ ساتھ یہ مقصد بھی پوشیدہ نہیں کہ ’الفرقان الحق‘ دراصل اسلام اور عیسائیت کے مابین بُعد پیدا کرنے کی کوشش ہے کیونکہ یہودی ہونے کے باوجود اس نے اس کتاب میں عیسائی تعلیمات کو استعمال کرتے ہوئے اسلام کے ساتھ نفرت کا اظہار کیا ہے۔ لیکن منصف مزاج عیسائی دانشوروں نے شوروش کی اس کوشش کو کسی قسم کی قبولیت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ سید عبدہ عبدالرزاق لکھتے ہیں:
’’۔۔۔علی شبکۃ الانترنت یقف علی الکثیر من اقوال النصاری المنصفین الذی یعلمون ان ہذا الکتاب لا یمت للسماء بصلۃ تقول اہداہن ( انا برائی ان الشئی او الکتاب المسمی الفرقان الحق ما ہو الا کذب وتحریف وہجوم علی الاسلام مع اننی مسیحیۃ۔۔۔ واظن ان الاسلام قد حفظ کتابہ القرآن وسیحفظہ۔۔۔‘‘۔ (۲۸)
شوروش کی اس کتاب میں تناقضات بھی جا بجا ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافاً کَثِیْراً (۲۹)
۱۔ یہودیوں کے نزدیک بنی اسرائیل کے بعد کسی نبی یا رسول کا آنا ممکن نہیں جیسا کہ شوروش ’الفرقان الحق‘ کی سورۂ انبیاء میں کہتا ہے:
’’ ما بشرنا بنی اسرائیل برسول یاتی من بعد کلمتنا وما عساہ ان یقول بعد ان قلنا کلمۃ الحق وانزلنا سنۃ الکمال۔۔۔‘‘ (۳۰)
اس دعویٰ کے پیش نظر وہ دراصل عیسائیت کی بھی تنکیر کررہا ہے جبکہ دوسری طرف وہ اپنی کتاب میں ’یشوع‘، ’الاناشید لسیلمان‘،’انجیل متی‘، ’انجیل مرقس‘،’ رؤیا القدیس یوحنا‘ جیسے الفاظ بھی استعمال کرتا ہے۔
۲۔ شوروش کا بنایا ہوا قرآن عربی زبان میں ہے اور یہ اصول ہے کہ ’’ما من نبی اُرسل الا بلسان قومہ‘‘۔ تو یہ ’الفرقان الحق‘ کس طرح عربی زبان میں نازل ہوگیا؟ کیونکہ یہودی حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ محترمہ حضرت ہاجرہ سلام اﷲ علیہا کو(نعوذباللہ) غلام اور باندی کہتے ہیں، بایں وجہ اس نسل سے نبوت نہیں چل سکتی(۳۱)۔ کیونکہ بنی اسرائیل حضرت یعقوب جبکہ اہلِ عرب حضرت اسماعیل علیہما السلام کی اولاد ہیں تو ’الفرقان الحق‘ کس طرح اہلِ عرب کے لیے نازل ہو سکتا ہے؟
۳۔ امریکی قرآن کی سورۂ الکبائر کی آیت 9کے الفاظ ہیں: ’’مومنین منافقین‘‘۔ ایک انسان مومن ہونے کے ساتھ کسی طرح منافق ہو سکتا ہے؟ 
۴ ۔ جیسا کہ ظاہر ہے کہ شوروش نے بہت سی قرآنی آیات کا سرقہ کیا ہے ، تو جب اس کے بقول مسلمانوں کا قرآن (نعوذ باللہ) باطل ہے تو اس نے کیوں اس ’ باطل قرآن‘ کی آیات کا سرقہ کیا؟ جیسا کہ وہ کہتا ہے ’’ومن یبتغ غیر الانجیل والفرقان کتابا فلن یقبل منہ ‘‘۔
اس کے علاوہ بھی سینکڑوں تضادات ’الفرقان الحق‘ میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔

عالمِ اسلام کا موقف

تمام اسلامی ممالک میں بالعموم اور مصر و سعودی عرب میں بالخصوص اس کریہہ اقدام پر سخت موقف کا اظہار کیا گیا ہے، ماسوائے وطنِ عزیز پاکستان کے کہ جہاں تادمِ تحریر کسی پلیٹ فارم سے کسی قسم کا کوئی ٹھوس موقف یا مذمت سننے یا دیکھنے میں نہیں آئی۔ ذیل میں بطورِ نمونہ مصر، سعودی عرب اور فلسطین کے علما کی طرف سے اس کی مذمتی بیانات ذکر کیے جاتے ہیں:
جغرافیائی حدود کے اعتبار سے مصر اسلامی دنیا کے علمی میدان میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ اس کے مختلف جرائد ورسائل میں اس بات کا اظہار کیاگیا ہے کہ امریکہ نے اسرائیلی تعاون کے ساتھ مصر سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس کتاب کی نشرواشاعت کا انتظام کرے(۳۲)۔ اس کے رد عمل میں جامعہ ازہر کے رئیس ڈاکٹر سید طنطاوی نے شرعی طور پر اس جھوٹے نسخے کی اشاعت کو حرام اور کفر قرار دیا۔ ان کے الفاظ ہیں:
’’یجب الرد علی ذلک والتنبیہ علی ان ہذا المولف لا اساس لہ من الصحۃ وتجب مصادرتہ۔۔۔ ان حکم من یوزع قرآنا مزورا خاصۃ اذا کان یعلم حقیقتہ ویتعمد توزیعہ ویقصد رد الناس عن الحق واستدراجہم الی الباطل، فعملہ ہذا عندئذٍ والعیاذ باﷲ ہو خروج عن الاسلام بل ہو الکفر بعینہ، ومن یفعل بذلک یکون محارباً للاسلام‘‘۔(۳۳)
مجمع البحوث الاسلامی کی ایک قرارداد کے مطابق انیس شوروش کا انتقامی فعل قرار دیا گیا جو اس نے احمد دیدات مرحوم سے مناظرہ میں شکست کے نتیجہ میں انجام دیا ہے اور یہ کہ شوروش اسلام کی تحقیر کرنے پر مستوجب سزا قرار دیا (۳۴)۔
سعودی عرب میں رابطہ عالمِ اسلامی مکۃ المکرمۃ کی مجلسِ تاسیس نے دینِ حنیف اور قرآنِ کریم کے متعلق اس فعلِ شنیع کی سخت مذمت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ حالیہ امریکہ قرآن درحقیقت مسلمانوں کی اسلامی ثقافت اور قرآن کے ساتھ گہری وابستگی کی وجہ سے ان کو برانگیختہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے اور اس کے ذریعے رسالتِ محمدیہؐ اور آپﷺ کی دعوت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے جیسے خطرناک عزائم مقصود ہیں۔ چنانچہ مسلم حکومتیں اس کی اشاعت رکوانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
رابطہ عالمِ اسلامی نے دیگر اسلامی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ مشترکہ طورپر قرآن کے دفاع میں اپنی کوششیں صرف کریں اور اسلام دشمن مقاصد کو منظر عام پر لاتے ہوئے مسلمانوں کو اسلام اور قرآن کا دفاع کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کریں(۳۵)۔ 
فلسطین کے مشہور عالم الشیخ عکرمہ نے ’الفرقان الحق‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا : ’’لو کنا نحن المسلمین قد انتقدنا ای دین سماوی لقامت الدنیا ولم تقعد‘‘ ۔ یعنی اگر ہم مسلمان یہودیت یا عیسائیت پر تنقید کرتے تو ساری دنیا کھڑی ہوجاتی اور چین سے نہ بیٹھتی، باوجودیکہ مسلمانوں کا یہ موقف ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی نبی کا تمسخر اڑائے یا اس پر تنقید کرے اور مسلمان حضرت داؤد وسلیمان علیہما السلام کو نبی مانتے ہوئے ان کو لائق صد احترام سمجھتے ہیں حالانکہ وہ یہودیوں کے بادشاہ ہیں (۳۶)۔
فلسطینی تنظیم ’حرکتِ اسلامی‘ کے نائب رئیس کمال خطیب نے اس کوشش کو اسلام پر ایک حملہ اور دینی شعار کے خلاف سازش قرار دیا(۳۷)۔ 
مسلم سکالر شیخ ابو اسحق الحوینی نے اس مضحکہ خیز کتاب(الفرقان الحق) کے متعلق شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے قاہر ہ کی جامع مسجد میں اس پر تنبیہ و تردید کو واجب قرار دیا :
واخطر ما فی ہذہ الحرف ان جماہیر المسلمین غافلۃ عن ہذا المخطط۔۔۔ وہذا یقضی ان یکون عندنا جیش جرار من المحققین وعلماء الحدیث الذین یعرفون المصادر الاصلیۃ، فان لم نفعل ذلک فہذا ہو الضیاع بعینہ۔۔۔‘‘(۳۸)۔
یعنی ہمارے پاس ہر وقت ایسے محققین کا لشکر موجود رہنا چاہئے جو ان جیسے شبہات کا فوری طور پر منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
سید عبدہ عبدالرزاق نے اس کتاب پر اسلامی حلقوں کی طرف سے جس کثرت سے Feed Back آنے کی ضرورت تھی، اس کے نہ آنے پر دکھ کا اظہار کیا:
’’ان رد الفعل الاسلامی علی ہذا الفرقان اقل بکثیر مما یجب، وہناک الکثیر من الدول الاسلامیۃ یوضع حولہا علامات استفہام کبیرۃ، فالکتاب یوزع فی اراضیہا، ولنا ان نسال ہؤلاء: ہل سیخیکم الصمت علیکم وکتاب الکفر یوزع باراضیکم؟‘‘(۳۹)۔
غیر مسلم ممالک میں بھی مختلف اسلامی آرگنائزیشنز نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔ برطانیہ میں مسلم تنظیموں نے برطانوی حکومت کو کثیر تعداد میں خطوط ارسال کیے ہیں جن میں ایسی ویب سائٹس کو بلاک کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے (۴۰)۔
امریکی کی مسلم تنظیموں نے بھی شدید مذمت کا اظہار کرتے ہوئے اس کو دین اسلام کے خلاف متعصبانہ اقدام قراردیتے ہوئے کہا کہ یہ ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی ہے۔ امریکی حکومت کو ایک وضاحتی بیان میں کہاگیا ہے کہ جب طالبان گورنمنٹ نے ایک مجسمے کو گرایا تھا تو ساری دنیا سے اس کی مذمت شروع ہوگئی لیکن جب امریکہ میں بیٹھا کوئی شخص مسلمانوں کے تشریعی مصدر اور انسانیت کے دستور قرآن مجید کو مسخ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دانشوروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی (۴۱)۔
شاید کچھ اہل علم یہ موقف بھی رکھتے ہوں کہ قرآن اور اسلام کے خلاف شائع ہونے والے مغربی لٹریچر کو قابلِ غور سمجھنا یا اسے کچھ وقعت دینا بھی اس کے شیوع کا سبب ہے، لیکن اس موقف کو کس اعتبار سے قریب از حکمت سمجھ لیا جائے کہ قرآن دشمن مغربی لٹریچر اور اس کے اثراتِ فاسدہ پر ہم خاموشی اختیار کیے رکھیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی امید رہے کہ بہت جلد ہم سرزمینِ یورپ پر اسلام کے جھنڈے گاڑنے والے ہیں؟
قرآن کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے ہمارا موقف ہے ، اور یقیناًہم اس میں حق بجانب ہیں، کہ اسلام اور قرآن کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو بازگشت بننے سے قبل ہی دبادینا مسلمانوں کی عموماً اور اہلِ علم کی خصوصاً ذمہ داری ہے، کیونکہ ایسا لٹریچر یقیناًپختہ مسلمان پر تو شاید اثرانداز نہ ہوسکے لیکن نو مسلم اور مستقبل قریب میں اسلام قبول کرنے والے وہ لوگ جو دینِ اسلام کے مطالعہ میں مصروف ہیں، اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے جو کسی طور پر بھی اسلام اور مسلمانوں کے حق میں نہیں۔ 
امریکہ سے شائع ہونے والے ’الفرقان الحق‘ کی اصلیت اور اس کے پس پردہ مکروہ عزائم کا پردہ چاک کرنے کے لیے یہ تحریر پیش کی گئی۔ اہل علم سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس سے باخبر ہونے کے بعدمغرب کے اس متعصبانہ اقدام پر شدید اظہارِ مذمت کے ساتھ ساتھ اس کے چہرہ سے نقاب کشائی میں اپنا علمی فریضہ ادا کرتے رہیں گے۔

حواشی

۱۔ دیکھئے: Arthur Jeffery, The Quran as Scripture, Russel & Moore Company, N,Y,1952.
۲۔ دیکھئے: (G.Margoliouth, INTRODUCTION TO J.M.RODWELL'S THE KORAN, New 
Yark, Everyman's Library, 1977, p. vii)
۳۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری، قرآن مجید ایک مسلسل معجزہ، ص۷، اورینٹل کالج میگزین ،جلد۷۶،۲۰۰۱ء
۴۔ دیکھئے: http://www.alminbar.net/alkhutab/khutbaa.asp?media
۵۔ دیکھئے: http://saaid.net/Doat/ahdat/54.htm
۶۔ السید عبدہ عبدالرزاق ابو عبدالرحمن، القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص۵۵، رقم الایداع بدارالکتب 2004/21547 مصر
۷۔ دیکھئے: http://www.messiahsgifts4u.com/truefurqan.html
۸۔ دیکھئے: Monthly GATRA, No. 1125, May 2002
۹۔ القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص ۵۶ و۵۷
۱۰۔ دیکھئے: http://www.saaid.net/Doat/ahdal/54.htm
۱۱۔ ۱۲ القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص۵۷
۱۳۔نفس المصدر، ص۵۸
۱۴۔ نفس المصدر، ص۵۹
۱۵۔ دیکھئے: http://www.alarabonline.org/index.asp?fname
۱۶۔ دیکھئے:
http://www.amazon.com/exec/obidos/tg/detail/-/1579211755/qid=1096805827/sr=1-1/ref=sr_1_1/002-446804-6629664?v=glance&s=books
۱۷۔ القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص۶۴
۱۸۔ دیکھئے:
http://www.muslimuzbekistan.com/eng/ennews/2005/05/ennews01052005a1.html
۱۹۔ القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص۶۶ تا ۶۸
۲۰۔ ۲۲ دیکھئے:
http://www.muslimuzbekistan.com/eng/ennews/2005/05/ennews01052005a1.html
۲۳۔ ڈاکٹر غازی عنایۃ کا مضمون ’’امثلۃ علی بعض المتقولین علی القرآن‘‘ بحوالہ: 
www.balagh.com/mosoa/quran/7zOtb5pi.htm
۲۴۔ القرآن الحکیم:ابراہیم:۱۸
۲۵۔ امریکی قرآن(الفرقان الحق):سورۃ الثالوث/۱۸
۲۶۔ القرآن الحکیم:آلِ عمران:۱۱۹،۱۲۰
۲۷۔ امریکی قرآن(الفرقان الحق):سورۃ الخاتم:۱
۲۸۔ القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص ۷۳
مزید دیکھئے:http://writeres.alriyadh.com.sa)
۲۹۔ القرآن الحکیم:النساء: ۸۲
۳۰۔ امریکی قرآن(الفرقان الحق): سورۂ انبیاء
۳۱۔ القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص۷۶
۳۲۔ ۳۳ جریدۃ الاسبوع الاثنین:06/12/2004، عدد403، مصر
۳۴۔ عقیدتی الثلثاء، ۲۹ ذوالحجۃ/ ۸ فروری ۲۰۰۵ء، عدد ۶۲۷
۳۵۔ ۳۷ الحیاۃ الوسط:26/04/2004
۳۸۔ دیکھئے: http://www.alheweny.com/iftra2_5.HTM
۳۹۔ القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص۱۷۳
۴۰۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: جریدۃ الوفد: الاثنین: ۳۱ جنوری ۲۰۰۵ء۔۔۔ 
مزید دیکھئے: http://www.alwafd.org/front/index.php
۴۱۔ دیکھئے: http://www.alheweny.com/index21

’’سر اقبال‘‘ بنام ’’حسین احمد‘‘ ۔ ماضی کی ایک کہانی کا معما ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب کی روشنی میں

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

کتابیں لکھے اور چھاپے جانے کی موجودہ گرم بازاری میں اگر کوئی واقعی ’’کتاب‘‘ ہاتھ آ جائے تو کچھ زیاہ ہی اچھی معلوم ہونا قدرتی بات ہے۔ علامہ اقبال کے سوانح حیات میں علامہ کے فرزند ارجمند جسٹس (ریٹائرڈ) ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کے قلم سے نکلی ہوئی ’’زندہ رود‘‘ ایک ایسی ہی کتاب کہی جانے کی مستحق ہے۔ کتاب گو تازہ بتازہ نہیں، مگر راقم سطور کے ہاتھ میں وہ گزشتہ دنوں ہی آئی۔ تین جلدوں میں ہونے کے باوجود دلچسپی کو آخر تک قائم رکھنے والی۔
برصغیر کے پڑھے لکھے لوگوں میں کم ہی ہوں گے جنھیں علامہ کی شاعری سے دلچسپی نہ رہی ہو۔ تھوڑی بہت راقم سطور کے حصہ میں بھی آئی، اور ظاہر ہے کہ یہ کچھ سمجھ لینے کی ہی بنا پر ہو سکتا تھا۔ مگر ’’زندہ رود‘‘ پڑھ لینے کے بعد جب کسی ضرورت سے ’کلیات اقبال‘ کھولی تو اندازہ ہوا کہ اب بہت سے اشعار کی وہ تہیں کھل کر سامنے آئیں گی جو شاعر کی زندگی اور شخصیت سے واقفیت ہی کے نتیجے میں کھل سکتی ہیں۔ خاص کر ان کی شاعری کا جو ایک اہم موضوع ان کی اپنی ذات ہے، اس سلسلہ کے اشعار کے بارے میں تو یہ کتاب بہت صاف صاف بتائے دیتی ہے کہ اپنی کسی کمزوری کی طرف علامہ نے اشارہ کیا ہے تو اس میں کس حد تک حقیقت ہے اور کس حد تک شاعری۔ اور کہیں جو کوئی خوبی جتائی ہے تو اس کی واقعی حقیقت کیا ہے۔ اسی طرح اگر علامہ کے کلام میں کہیں ایسے اشعار کسی کو نظر آتے ہیں جو ان کی شاعری کے عمومی مزاج سے جوڑ نہ کھاتے ہوں، ایسے اشعار کا مسئلہ حل کرنے میں بھی یہ کتاب مددگار ہونی چاہیے۔ ایسے اشعار کی ایک بہت نمایاں مثال ’’حسین احمد‘‘ کے عنوان سے کلیات کی تقریباً آخری نظم ہے جو علامہ کی وفات سے کوئی دو ماہ قبل (فروری ۱۹۳۸ میں) کہی گئی اور اس کی تلخی سے ملی فضا کچھ ایسی مکدر ہوئی کہ آج تک صاف نہ ہو پائی۔ ان اشعار کا کوئی جوڑ علامہ کی شاعری کے عمومی مزاج اور ایک صاحب علم وفضل کی حیثیت سے ان کے مسلمہ مقام ومرتبہ کے ساتھ کبھی سمجھ میں نہ آ سکا تھا۔ اس کتاب کے ذریعہ پہلی بار ہوا ہے کہ یہ ’’عقدۂ مشکل‘‘ حل ہوتا نظر آیا۔ اس تحریر کا اصل مقصد اسی یافت کا اظہار وبیان ہے۔
علامہ کے یہ اشعار ہمارے مخدوم ومحترم استاذ حدیث حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ (م ۱۹۵۷ء) کے اس نظریہ کی تردید میں سپرد قلم ہوئے تھے کہ ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان وطنی رشتہ اتحاد کی بنا پر سیاسی نوعیت کی متحدہ قومیت کا رشتہ نہ صرف قائم ہو سکتا ہے بلکہ ملک میں تحریک آزادی کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ یہ رشتہ قائم ہو۔ وہ موقع جس پر یہ اشعار سر ہوئے، اس نظریے کے سلسلہ میں حضرت مولانا کے کسی تفصیلی اظہار وبیان کا نہ تھا۔ بس ایک تقریر کی اخباری رپورٹ تھی جو علامہ کے لیے اس طرح کے سخت ترین الفاظ میں رد عمل کو کافی ہو گئی کہ
عجم ہنوز نہ داند رموز دیں ورنہ
ز دیوبند حسین احمد ایں چہ بو العجبیست
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر زمقام محمد عربیست
بہ مصطفی برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر باو نہ رسیدی تمام بو لہبیست
تین شعرو ں کے الفاظ میں جتنی سخت باتیں سما سکتی تھیں، اس کے لحاظ سے کوئی کسر یہاں نہیں رہ گئی ہے۔ تقریر اگرچہ دہلی کے ایک سیاسی جلسہ میں تھی، مگر اسے ’’بر سر منبر‘‘ ٹھیرایا گیا ہے اور وعظ یا تقریر نہیں، ’’سرود‘‘ (بہ معنی راگ) کا نام اسے دیا گیا ہے۔ پھر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ تعلق دیوبند جیسے دینی مرکز سے مسند نشینی کا ہے، مگر مرکز دین حضرت محمد عربی ﷺ کے مقام سے واقفیت کی گویا ہوا بھی نہیں لگی۔ اور پھر آخر میں نصیحت ہے کہ دین تو تمام تر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننے کا نام ہے، تم اگر ان کی ذات گرامی تک نہیں پہنچ پاتے تو پھر تمھارے حصے میں جو چیز رہ جاتی ہے، وہ ’’بو لہبیت‘‘ (یعنی معاذ اللہ، مصطفی دشمنی) ہے۔
علامہ کے کلام میں یہ حقیقت یقیناًبے نقاب ہے کہ وہ یورپ کے پیدا کردہ وطنی قومیت کے سیاسی تخیل کو انسانیت کے لیے ایک لعنت اور خاص دین ومذہب کے حق میں تو ’’کفن‘‘ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ’’زندہ رود‘‘ میں آپ کے اس فکر کی پوری تفصیلات سامنے آ جاتی ہیں، ا س لیے یہ تو سمجھ میں آنے والی بات تھی کہ علامہ جس چیز کو مذہب کا کفن جان رہے ہیں، اس کی دعوت کسی قابل لحاظ اسلامی شخصیت کی طرف سے آئے تو وہ اس کی تردید میں ’’ضبط سخن‘‘ نہ کر سکیں، لیکن یہ فرض کرتے ہوئے بھی کہ حضرت مولانا مدنی کا جو کہنا تھا، وہ وہی تھا جس کی حضرت علامہ کے فکر اور فہم اسلام میں گنجایش نہ تھی، تب بھی اس آخری درجہ کے جارحانہ انداز تردید کی توقع، جس سے ان کے اظہار مدعا سے زیادہ فریق ثانی کی معلوم ومعروف حیثیت عرفی کو خاطر میں نہ لانے کا اظہار ہوتا ہے، ان کے جیسے مرتبہ کی شخصیت سے نہیں کی جا سکتی تھی۔ اشعار میں ’’دیوبند‘‘ کا حوالہ دلیل ہے کہ علامہ پر ’’حسین احمد‘‘ کی نہایت قابل لحاظ حیثیت عرفی مخفی نہ تھی، بلکہ یہی چیز گویا باعث ہوئی کہ وہ ان کی مبینہ تقریر پر نکتہ چیں ہوں۔ پھر آخر کیونکر یہ ممکن ہوا کہ اس تقریر کا حوالہ ’’سرود بر سر منبر‘‘ کے توہین آمیز الفاظ میں آئے؟ اور اس سے بھی بڑھ کر ’’چہ بے خبر ز مقام محمد عربیست‘‘ فرماتے ہوئے علامہ یہ بھی نہ سوچیں کہ یہ وہ کس کے بارے میں فرما رہے ہیں؟ اور پھر کسے ’’بہ مصطفی برساں خویش‘‘ کا سبق دے رہے ہیں؟ وہ کہ جس نے مدتیں در مصطفی پہ فقیرانہ گزاری ہیں اور جس کا دیوبند میں شغل ہی درس حدیث مصطفی ہے؟
کیا یہ کہا جائے کہ عشق مصطفی (ﷺ) کی جو دولت علامہ کو نصیب سے مل گئی تھی، اس کے حوالے سے وہ خود بھی معاذ اللہ اسی خامی کا شکار ہوئے جس کا گلہ واعظ زاہد کے بارے میں کرتے ہوئے فرما گئے ہیں کہ
غرور زہد نے سکھلا دیا ہے واعظ کو
کہ بندگان خدا پر زباں دراز کرے
یہ علامہ کی شدت بے پناہ کے مقابلے میں محض ایک ہلکے سے شکوے کا پیرایہ ہوگا، مگر ایسا کہنا وہی پسند کرے گا جسے اندازہ نہیں یا وہ بھول گیا ہے کہ علامہ کے عشق مصطفی سے قدرت نے کیا کام ان کی شاعری کے حق میں لیا ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر خود حضرت مولانا علیہ الرحمۃ نے علامہ کی اس سراپا آتش تنقید کے جواب میں جس پاس ولحاظ سے کام لیا ہے، اس کے ہوتے ہوئے آپ کے ایک کفش بردار کو کہاں زیبا کہ وہ کوئی الگ راہ چلے؟ علامہ کی اٹھائی ہوئی اس بحث کے سلسلہ میں ’’متحدہ قومیت اور اسلام‘‘ کے عنوان سے جو ایک مقالہ حضرت والا نے اس موقع پر تحریر فرمایا، وہ مکمل ہونے نہ پایا تھا کہ علامہ نے وفات پائی۔ اس ناگہانی خبر کے حوالے سے اس مقالہ کی تمہید میں رقم طراز ہوئے ہیں:
’’جب کہ میں قومیت کی لفظی بحث کے اختتام پر پہنچ کر مقصد اصلی سے نقاب اٹھانا چاہتا تھا، ناگاہ جناب ڈاکٹر صاحب مرحوم ومغفور کے وصال کی خبر شائع ہوئی۔ اس ناسزا ودل گداز خبر نے خیالات وعزائم وافکار پر صاعقہ کا کام کیا۔ طبیعت بالکل بجھ گئی اور عزائم فسخ ہو گئے۔‘‘
پھر آئندہ صفحہ پر یہ کہنے کے لیے کہ ڈاکٹر اقبال صاحب اگرچہ مجھ سے اس درجہ فائق وبرتر تھے کہ میں گویا ان کے سامنے طفل ابجد خواں، مگر ہندوستانی سیاست کے مسئلہ میں ساحران فرنگ کے سحر کا شکار ہو گئے تھے، اور ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بڑے غلطی کر جاتے جبکہ چھوٹے محفوظ رہتے ہیں، فرمایا کہ:
’’یہ امر یقینی اور غیر قابل انکار ہے کہ جناب ڈاکٹر صاحب کی ہستی کوئی معمولی ہستی نہ تھی اور ان کے کمالات بھی غیر معمولی تھے۔ وہ آسمان حکمت وفلسفہ، شعر وسخن، تحریر وتقریر، دل ودماغ اور دیگر کمالات علمیہ اور عملیہ کے درخشندہ آفتاب تھے۔ مگر باوجود کمالات گونا گوں ساحرین برطانیہ کے سحر میں مبتلا ہو جانا یا بعض غلطیوں میں پڑ جانا اور کسی ابجد خواں طالب علم کا اس سے محفوظ رہنا کوئی تعجب خیز بات نہیں:
گاہ باشد کہ کودک ناداں
بر ہدف بر زند تیرے 
(کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک نادان بچہ کا تیر نشانہ پر بیٹھ جائے)‘‘۔
اے کاش علامہ اپنے ہدف کے اس رد عمل کو دیکھنے کے لیے زندہ رہے ہوتے! یہ راقم نہیں سمجھتا کہ مرحوم علامہ نے یہ تحریر پڑھی ہوتی تو اس بے نفسی اور خاک ساری کے لیے اپنی زندگی کا کوئی ایسا دوسرا تجربہ وہ یاد کر پاتے۔ اور یقین کیا جا سکتا ہے کہ علامہ کے ساتھ ’’سر‘‘ کا برطانوی خطاب اگر نہ لگا ہوتا تو متحدہ قومیت کی بابت آپ کی رائے میں برطانوی سحر کا دخل سمجھنے کی بات بھی ہمیں حضرت والا کی اس عبارت میں نہ ملتی۔
الغرض، اگر حضرت مولانا قومیت کا وہ نظریہ پیش کر رہے ہوتے جو حضرت علامہ کے فہم اسلام سے سیدھا ٹکراتا تھا، تب بھی اس پر رد عمل کا یہ پیرایہ اظہار کہ مسند نشین دیوبند کو بیک جنبش قلم ’’بو لہبی‘‘ تک پہنچا دیا جائے، یہ علامہ سے کسی قدر کم درجہ کی فہمیدہ وسنجیدہ شخصیت سے بھی بآسانی سمجھ میں آنے والی بات نہ تھی، لیکن مولانا کی تقریر کو تو فی الواقع دور کا تعلق بھی اس بات سے نہ تھا جو حضرت علامہ کو اس قدر ناگوار گزری۔ علامہ جس وطنی قومیت کو ’’مذہب کا کفن‘‘ سمجھتے تھے، مولانا بھی اسے ایسا سمجھنے میں علامہ سے اگر آگے نہیں تو پیچھے بہرحال نہیں تھے۔ مگر لگتا ہے کہ معاملے کے ایک خاص پس منظر کی بنا پر علامہ کو اپنا ہی بیان کردہ یہ نکتہ فراموش ہو گیا تھا کہ:
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے
وہ تحریک خلافت جس سے ’’زندہ رود‘‘ کے بیان کے مطابق علامہ دور اور نفور رہے اور جس میں حسین احمد کا مولانا محمد علی جوہر وغیرہ کے ساتھ وہ جانبازانہ حصہ تھا جس کی تفصیل کے لیے ان لوگوں پر چلائے گئے مقدمہ کراچی (۱۹۲۱) کی روداد پڑھنی چاہیے، یہ اس اسلامی خلافت کو بچانے کے لیے ہی اٹھائی گئی تحریک تو تھی جس کا ازروئے وطن ہندوستانی مسلمانوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ہاں وہ اسلامی رشتہ ان کا اس کے ساتھ تھا جو جغرافیائی حدود وقیود سے بالاتر ہے، اور یہ خلافتی جدوجہد اسی متحدہ قومیت کے ساتھ تھی جس کا حوالہ مولانا مدنی کی زیر بحث تقریر میں آیا۔ کون نہیں جانتا کہ اس تحریک نے مہاتما گاندھی کو اپنی سربراہی کے لیے قبول کر لیا تھا اور ایسا ہونے میں ’’حسین احمد‘‘ سے کہیں زیادہ حصہ مولانا محمد علی جوہر کا تھا جن سے برتر اسلامیت کا دعویٰ شاید علامہ اقبال کو کبھی نہ ہوا ہو۔ یہی وہ ’’متحدہ قومیت‘‘ تھی جس کا حوالہ مولانا اپنی تقریر میں دے رہے تھے، نہ کہ وہ جو علامہ کے تصور میں تھی جس میں مسلمان، مسلمان نہیں رہ سکتا۔
حضرت حسین احمد کے جاننے والے جانتے ہیں کہ آپ کی سیاسی زندگی ۱۹۱۷ء سے شروع ہوتی ہے جبکہ خلافت عثمانیہ کے باغی شریف حسین نے مکہ میں ان کو ان کے محترم استاد شیخ الہند مولانا محمود حسن کے ساتھ گرفتار کر کے انگریزوں کے حوالے کیا اور پھر انگریزوں نے ان کو اپنی حکومت کے خلاف باغیانہ عزائم کے حوالے سے جزیرۂ مالٹا میں چار سال قید رکھا۔ چار سال بعد ۱۹۲۰ کے شروع میں ان حضرات کی رہائی عمل میں آئی۔ شیخ الہند کی یہ گرفتاری بے وجہ نہ تھی۔ یہ جنگ عظیم اول کا زمانہ تھا کہ آپ برطانوی حکومت کے خلاف ایک مکمل باغیانہ اسکیم لے کر ہندوستان کے باہر نکلے تھے۔ حجاز مقدس کو اولین منزل بنایا، اس لیے کہ وہاں حج کے زمانے میں ان میں سے بیشتر لوگوں سے رابطہ آسان ہو سکتا تھا جن سے اپنی اسکیم کے سلسلے میں رابطہ مطلوب تھا اور اس فہرست میں سب سے پہلے ترکی حکام تھے جن سے رابطہ ہوا بھی، مگر قسمت سے اسی زمانہ میں شریف مکہ حسین پر انگریزوں کے ڈورے کام کر گئے اور حجاز مقدس عثمانی خلافت کے اقتدار سے نکل گیا۔
مارچ ۲۰ء میں شیخ الہند رہا ہوئے تو بڑھاپے اور قید کے شدائد نے زار ونزار کر دیا تھا۔ نومبر ہی میں آپ کی شمع حیات گل ہو گئی اور پھر برطانوی حکومت کے خلاف آپ کے مشن کی علم برداری ’’حسین احمد‘‘ کے حصہ میں آئی۔ اسیران مالٹا نے جب رہائی پائی تو اس سے پہلے خلافت تحریک شروع ہو چکی تھی اور یہ صرف مسلمانوں کی نہیں، تمام ہندوستانیوں کی تحریک بن گئی تھی جس میں ہندو اکثریت کے سب سے بڑے نمائندہ مہاتما گاندھی پیش پیش تھے۔ شیخ الہند جن کا تحریک خلافت کی پوری مسلم قیادت نے مع گاندھی جی کے بمبئی پہنچ کر نہایت پرجوش استقبال کیا تھا، اس تحریک کے لیے سب سے بڑی اسلامی اتھارٹی کے حامل مانے گئے اور آپ نے اس متحدہ تحریک اور اس کے پروگرام عدم موالات (نان کو اپریشن) پر مہر تصویب ثبت فرمائی۔ اسی پر عمل درآمد کے نتیجے میں حسین احمد پر مولانا محمد علی وغیرہ کے ساتھ بغاوت کا مشہور مقدمہ کراچی چلا اور دو دو سال کی جیل ہوئی۔
یہ ہے حسین احمد کے اس نظریہ متحدہ قومیت کا پس منظر جس کا آپ کی ۳۸ء کی اس تقریر میں حوالہ ایک طوفان اٹھا گیا۔ یعنی یہ وہی متحدہ قومیت تھی جس کے جھنڈے کے نیچے تحریک خلافت کے دور میں علامہ اقبال اور مسٹر محمد علی جناح جیسے خال خال افراد کو چھوڑ کر مسلم ہندوستان کی وہ تمام ہستیاں سرگرم رہی تھیں جن کی طرف ملی مسائل کے لیے لوگوں کی نظریں اٹھتی تھیں۔ علامہ اقبال، حسین احمد سے کچھ زیادہ واقف ہوں یا نہ ہوں، متحدہ قومیت والی بات کے اس پس منظر سے ناواقف نہیں ہو سکتے تھے۔ تحریک خلافت سے ان کے بے تعلق رہنے کی تو ایک اہم وجہ یہی تھی، مگر یہ دینی حوالے سے نہیں، بلکہ مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے تھی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں:
’’قیام انگلستان کے دوران جب وہ (ذہنی) انقلاب سے گزرے اور انھی ایام میں برصغیر میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا اصول تسلیم کر لیا گیا تو اقبال، سرسید احمد خان کے سیاسی مکتبہ فکر کو درست خیال کرتے ہوئے ذہنی وقلبی طور پر اس سے وابستہ ہو گئے۔ سرسید کے سیاسی مکتبہ فکر کی منطق یہ تھی کہ ....... جمہوریت کے ذریعہ قومیت متحدہ کی بنیاد تبھی رکھی جا سکتی تھی جب ہندو اور مسلمان مرکزی حکومت میں برابر کے حصہ دار ہوں، لیکن فرقہ وارانہ منافرت کے سبب ہندو ایسی صورت کو قبول کرنے کے لیے کبھی آمادہ نہیں ہو سکتے تھے۔ پس برصغیر میں قومیت متحدہ کا تخیل خیال خام تھا۔‘‘ (زندہ رود، جلد سوم، صفحہ ۲۹۱، ۹۲)
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انھیں اصولاً متحدہ قومیت سے انکار نہ تھا۔ نمائندگی میں برابری کی شرط کے ساتھ وہ منظور تھی۔ پس علامہ کے اس سیاسی فکر وعقیدہ کا بے شک یہ حق تھا کہ کوئی آواز اس شرط کے بغیر متحدہ قومیت کے حق میں بلند کی جا رہی ہو تو اسے چیلنج کریں، مگر اس کے لیے سیاسی زبان کے بجائے یہ دینیات کی زبان کا سوال کیونکر پیدا ہو گیا؟ اور وہ بھی ایک اعلیٰ درجہ کے مستند ومسلم عالم دین کے مقابلے میں! جبکہ علامہ اسلامی دینیات پر کتنا بھی عبور اپنے مطالعہ کی بنیاد پر رکھتے ہوں، مگر ان جیسے ذی فہم کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اس عبور کو باضابطہ تحصیل کا ہم سر سمجھتے ہوں گے، اور اگر سمجھتے بھی ہوں، تب بھی جو زعم وپندار آمیز لہجہ انھوں نے اس چیلنج میں اختیار فرمایا، وہ یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ضرور اس کے پس منظر میں کچھ خاص حالات ومعاملات ہونے چاہییں، ورنہ یہ علامہ کے مقام سے فروتر بات تھی اور قطعاً غیر متوقع بات تھی۔ ’’زندہ رود‘‘ نے انھیں خاص حالات سے پردہ اٹھانے کا کام انجام دیا ہے۔
کم سے کم راقم سطور کے علم میں اس سے پہلے نہ تھا کہ حضرت علامہ نے برصغیر کی سیاست میں کوئی سرگرم عملی حصہ بھی لیا۔ کل ہند مسلم لیگ کی سیاست سے ان کا عملی تعلق صرف ۱۹۳۰ء کے خطبہ صدارت الٰہ آباد کی حد تک معلوم تھا۔ اس کتاب سے معلوم ہوا کہ ۱۹۲۶ء میں جب علامہ نے لاہور سے پنجاب صوبائی کونسل کا انتخاب لڑا، تب سے مسلم لیگ سے ان کی وابستگی جو پہلے بس فکری درجہ کی تھی، سرگرم عملی وابستگی میں تبدیل ہو گئی تھی اور اس رشتہ کی یہ سرگرمی ٹھیٹھ سرسید مکتب فکر والی لائن پر تھی۔ چنانچہ ۱۹۲۷ء میں جب برطانوی حکومت نے سائمن کمیشن کے تقرر کا اعلان کیا جس کو ہندوستان کے لیے آئندہ دستوری اصلاحات کے بارے میں سفارشات پیش کرنا تھیں اور اس کمیشن میں تمام کے تمام انگریز تھے، ایک بھی ہندوستانی کونہیں لیا گیا تھا، تو اس پر کانگریس نے اس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ مسلم قائدین میں خود مسٹر جناح صدر مسلم لیگ کا یہی فیصلہ تھا، مگر اقبال اس کے برعکس اپنے صوبائی صدر سر محمد شفیع کے ساتھ اس کمیشن کے تعاون کے لیے اس حد تک گئے کہ مسلم لیگ، جناح لیگ اور شفیع لیگ کے دو ٹکڑوں میں بٹ گئی اور یہ دونوں لیگیں پبلک سطح پر ایک دوسرے سے متصادم ہوئیں۔ چنانچہ جب مسٹر جناح نے دوسرے مسلم لیڈروں کے ساتھ مل کر ایک بیان کمیشن کے مقاطعہ کے لیے شائع کیا تو ا س کے رد عمل میں علامہ اقبال نے اپنے ہم خیالوں کے ساتھ ایک بیان دیا جس کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے کہ:
’’ہم نہایت جرات اور زور سے کہتے ہیں کہ ہم کرایہ کے ٹٹو بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مسٹر جناح اور دیگر حضرات نے یہ فقرہ اڑا لیا ہے کہ ہماری خود داری ہمیں رائل کمیشن کی تائید کی اجازت نہیں دیتی۔ ہم اس کے برعکس یہ کہتے ہیں کہ فرقہ وارانہ جنگ اور خود داری یکجا قائم نہیں رکھی جا سکتیں......‘‘ (صفحہ ۳۳، ۳۴)
پنجاب مسلم لیگ، جس کے علامہ صاحب سیکرٹری تھے اور سر محمد شفیع صدر، اس کی اس روش پر مولانا محمد علی نے اپنے اخبار ہمدرد میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’سر محمد شفیع سے بھلا یہ کیوں کر ممکن ہے کہ کسی وائسرائے کی رائے سے ہم رائے نہ ہوں۔ انھوں نے اپنی وفاداری کا راگ گانا شروع کر دیا ہے۔ پنجاب کی بد قسمتی ہے کہ سر محمد اقبال جیسے لیڈرسر محمد شفیع جیسے وفادار کو اپنی آزاد خیالی کی سطح تک ابھار کر نہ لا سکے بلکہ برخلاف اس کے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی سر محمد شفیع کی وفاداری کی پست سطح پر اتر آئے ہیں۔ چنانچہ کمیشن کے متعلق پنجاب مسلم لیگ کے سیکرٹری کا بیان اس کے صدر کے بیان سے کہیں زیادہ چاپلوسی کا ہے۔‘‘ (ص ۳۳)
علامہ صاحب اس درجہ کامل ’’سرسیدی‘‘ تو ڈاکٹر جاوید اقبال کے صریح بیان کے مطابق تھے ہی، اس پرمزید یہ کتاب یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ وہ برصغیر کے معاملات کو ایک حد تک پنجابی صوبائیت (یا کہیے علاقائیت) کی سطح سے دیکھنے والوں میں بھی شامل ہو گئے تھے۔ سائمن کمیشن کے بارے میں ان کے جس بیان کے آخری فقرے اوپر نقل کیے گئے ہیں، اسی بیان میں ہے کہ:
’’جن مسلمانوں نے مسٹر جناح کے اعلان پر دستخط کیے ہیں، ان میں سے بعض تو ایسے صوبوں سے تعلق رکھتے ہیں جن میں مسلمان آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ ان کی روش پنجاب اور بنگال ایسے صوبوں کے مسلمانوں کی حکمت عملی کو تبدیل یا وضع نہیں کر سکتی۔‘‘ (ص ۳۴)
اسی طرز فکر کا اظہار ان کے مسٹر محمد علی جناح کے نام ایک خط سے بھی ہوتا ہے جو ۲۱ جون ۱۹۳۷ء کو لکھا بتایا گیا ہے۔ اس خط میں تحریر فرماتے ہیں:
’’.... میرے خیال میں نیا آئین ہندوستان کو ایک ہی وفاق میں مربوط کر لینے کی تجویز کی بنا پر حد درجہ یاس انگیز ہے۔ ہندوستان میں قیام امن اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبہ وتسلط سے بچانے کی واحد ترکیب وہی ہے جس کا ذکر میں نے اوپر کیا۔ یعنی مسلم صوبوں پر مشتمل ایک جداگانہ وفاق کا قیام ...... میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ شمال مغربی ہند اور بنگال کے مسلمانوں کو فی الحال مسلم اقلیت کے صوبوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔‘‘ (ص ۳۲۸) (نوٹ: آخری جملہ کو انڈر لائن کیا جانا، یہ راقم کی طرف سے ہے)
کیا یہ طرز کلام انھیں علامہ اقبال کا ہو سکتا ہے جنھیں ہم ’’عشق کے دردمند‘‘ کے طور پر جانتے آئے تھے؟ اور جن کی آفاقیت نے کہا تھا:
درویش خدا مست، نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمرقند
نیز ارشاد ہوا تھا:
تو ابھی رہ گزر میں ہے، قید مقام سے گزر
مصر وحجاز سے گزر، پارس وشام سے گزر
نہیں، یہ دراصل ان کے اندر ۱۹۲۷ء سے پروان چڑھنے والی ایک نئی شخصیت کا ظہور تھا جو ۳۷ء کے اس معرکہ انگیز سال میں اپنے کمال کو پہنچ گئی نظر آتی ہے جس میں انڈیا ایکٹ ۳۵ء کے ماتحت ہونے والے الیکشن کے بعد یوپی کی وزارت سازی کے مسئلہ پر لیگ اور کانگریس کے درمیان کبھی نہ پٹنے والی خلیج پیدا ہوئی اور محمد علی جناح بھی سرسید والے دو قومی نظریے کو اپنانے کی طرف چل پڑے۔ اور یہ ۳۷ء وہ سال تھا کہ علامہ کی ۳۴ء سے شروع ہونے والی علالت اپنی آخری حدیں چھونے لگی تھی اور بالآخر اپریل ۳۸ء میں شمع حیات ہی گل کر گئی۔ زندگی کے اس مرحلے میں علامہ کے لیے یہ صورت حال کس قدر تسکین بخش رہی ہوگی کہ وہ اپنے جیتے جی مسٹر محمد علی جناح کو فکری طور پر وہیں پہنچتا ہوا دیکھ رہے ہیں جہاں ان کو پہنچانے کے لیے وہ ۱۹۲۷ء سے کوشاں ہوئے تھے۔ ایسے میں ناگاہ ان کے کان میں آواز آتی ہے کہ مسند آرائے دیوبند مولانا حسین احمد مدنی اس دو قومی نظریہ کی راہ میں حائل ہونا چاہتے ہیں۔ تب ---- اس پورے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ---- ان کا اس پر یہ بھڑک اٹھنے والا انداز کچھ غیر متوقع نہیں رہتا۔ آخر کو انسان تھے۔
صحت کے اعتبار سے علامہ کے ضعف کا یہ عالم بھی یہاں ملحوظ رہے کہ فروری میں کہے گئے ان اشعار کے سلسلہ میں چھڑ جانے والی بحث پر جب علامہ نے اپنی بات مدلل کرنے کے لیے ایک مفصل بیان کی ضرورت سمجھی تو خود اس قابل نہ تھے کہ اس کو لکھ سکیں، بلکہ ڈاکٹر جاوید اقبال کے بیان کے مطابق یہ کام ان کے خاص معاونین، چودھری محمد حسین وغیرہ نے انجام دیا۔ (ص ۳۶۸) اور خود اشعار بھی اپنے معنوی پہلو سے اس گواہی کے لیے کم نہیں کہ علالت کے اثرات ایسے ہی غیر معمولی درجہ پر پہنچ چکے تھے، ورنہ اگر کسی نے ’’ملت از وطن است‘‘ کا سرود ’’بر سر منبر‘‘ الاپنے کا ارتکاب کیا بھی تھا تو ’’مقام محمد‘‘ کی معرفت تو بہت آگے کی چیز، یہ تو اس شخص کے دین محمد کی الف با تا سے بھی بے خبری کی دلیل ہے۔ پھر یہاں کیا محل کہ مقام محمد سے بے خبری کی طعن کی جائے؟ اور وہ کہ جو دین مصطفی کی الف با تا سے بھی بے خبر پایا جا رہا ہو، اسے کیا سمجھ آئے گی کہ ’’بہ مصطفی برساں خویش را‘‘ میں علامہ نے کیا فرمایا؟ مگر چونکہ علامہ کے یہاں اصل دین اور دینداری حضرت محمد مصطفی ﷺ سے جذباتی تعلق ہے، جیسا کہ ان کی شاعری سے عیاں ہے اور اسی کو جناب رشید احمد صدیقی مرحوم نے ان الفاظ میں ادا کیا ہے کہ ’’اقبال پر دنیا کے بڑے مذہب کی گرفت اتنی نہیں جتنی ایک بڑی شخصیت کی ہے‘‘ (اور اسی سے ان کی ان عملی دینی کمزوریوں کا عقدہ حل ہو جاتا ہے جو کچھ ایسی راز بھی نہ تھیں اور ڈاکٹر جاوید نے تو ان کو اس درجہ کھول کر بیان کر دیا ہے کہ اچھا تھا اگر وہ یہ نہ کرتے) پس ان اشعار کے معنوی پہلو کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ انحطاط قویٰ کے اس عالم میں جب علامہ نے ’’ملت از وطن است‘‘ کے ’’سرود‘‘ پر گرفت کے ارادہ سے قلم اٹھایا تو وہ موقع ومحل کی رعایت کرنے کے بجائے بے ساختہ اسی راہ پر رواں ہوا جس کا وہ عادی تھا۔
الغرض علامہ ان اشعار کی تسوید کے وقت جن خاص حالات کے ماحول میں اور صحت کی جس منزل میں تھے، اس کے پیش نظر ان کا یہ غیر متوقع کلام کچھ ایسا ناقابل فہم نہیں رہتا۔ صد شکر کہ علامہ کو انتقال سے پہلے اس کا موقع میسر آ گیا کہ اس قضیہ نامرضیہ کی وراثت چھوڑ کر نہ جائیں۔ حضرت مولانا کی طرف سے کی گئی ایک وضاحت آپ تک پہنچی، جس کے حوالے سے یہ اعلان اخبارات میں چھپوایا کہ اس کے بعد مولانا پر اعتراض کا کوئی حق انھیں نہیں رہتا، مگر افسوس آپ کے لوگوں نے آپ کے بعد آپ کا جو مجموعہ کلام ’’ارمغان حجاز‘‘ چھپوایا تو اس میں ان اشعار کو شامل کیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ ’زندہ رود‘ میں اس سوال کا جواب بھی آیا ہے اور اس سے ان ’’خاص حالات‘‘ کے غیر معمولی اثرات کی مزید توثیق ہوتی ہے جن کے حوالہ سے علامہ کے بالکل غیر متوقع طرز کلام کی توجیہ ممکن ہوئی۔ علامہ کے رجوع کے بعد ان اشعار کو ان کے نامہ اعمال میں برقرار رکھنے کا جواز بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مولانا نے بعد میں ’’متحدہ قومیت اور اسلام‘‘ کے نام سے جو رسالہ چھاپا، وہ وضاحت کے برعکس تھا۔ پھر اس میں علامہ کی توہین کرتے ہوئے انھیں ساحران برطانیہ کے سحر میں مبتلا قرار دیا گیا اور ’’کودک ناداں‘‘ کے لقب سے نوازا گیا۔ (ص ۳۷۰) اس بیان جواز میں صرف یہی نہیں ہے کہ ساحرین برطانیہ کے سحر میں آ جانے کی جو بات حضرت مولانا نے محض ایک بشری کمزوری کے طور پر کہی تھی جو کسی بھی شخص کو لاحق ہو سکتی ہے، اسے طنز وملامت پر محمول کر لیا گیا، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ ’’کودک ناداں‘‘ والا شعر جو صاف طور پر حضرت مولانا نے ازراہِ عجز وانکسار اپنے حق میں لکھا ہے، اسے علامہ کے حق میں پڑھ لیا گیا۔ حالانکہ ’’زندہ رود‘‘ کو پڑھ کر کسی ایسے شبہ کی ادنیٰ گنجایش نہیں رہتی کہ ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کی اردو فارسی اتنی کمزور ہو۔ تو پھر اس برعکس فہم کی ذمہ داری کے لیے نظر سوائے مسلم لیگ اور کانگریس کی ہوش ربا کشمکش والے ان حالات کے اور کس طرف جائے جو مسٹر جناح سے مولانا آزاد کو ’’شو بوائے‘‘ کہلوا دیں اور علامہ کی زبان پر شیخ دیوبند کے لیے ’’بو لہبی‘‘ کی وعید جاری کرا دیں؟
اس تحریر کا اصل مدعا تو پورا ہو گیا۔ یوں اور کافی باتیں اس میں ایسی ہیں کہ نقل کر دینے کی گنجایش ہو تو سب کام کی، تاہم ان میں ایک دو جو موجودہ مادیت اور زر پرستی کے دور میں ’’قندیل رہبانی‘‘ کا سا منظر پیش کرتی ہیں، ان کی گنجایش تو نکالنی ہی چاہیے۔ شاید ہم میں سے کچھ لوگوں کے دل ان میں پوشیدہ نصیحت سے جاگ پڑیں کہ بہت اندھیری چھائی ہے، اور یہ نصیحت علامہ کی شاعری کے خاص موضوعات میں سے بھی ہے۔
علامہ کے سفر افغانستان کے حوالہ سے وہاں کی معروف شخصیت ملا شور بازار کے یہاں حاضری کا جو ذکر آیا ہے تو بے تاج بادشاہی کا درجہ رکھنے والی اس شخصیت کے مکان کی کیفیت بھی قابل ذکر پائی گئی۔ لکھا ہے کہ
’’وہ ایک تنگ گلی کے اندر تھا اور ہر قسم کے تزک واحتشام اور ظاہری آراستگی سے خالی۔ باقاعدہ نشست گاہ بھی نہ تھی۔ زنانہ مکان تھا جہاں پردہ کرا کر ان لوگوں کو اندر جانے کی اجازت ملی۔ انھیں ایک لمبے کمرہ میں لے جایا گیا جس میں ایک طرف ایک پلنگ بچھا تھا اور باقی زمین پر سادہ فرش بچھا تھا۔‘‘ (ص ۲۳۶)
علامہ کو ان کی زندگی کے آخری سالوں میں علالت کے ساتھ ساتھ معاشی پریشانی نے بھی گھیر لیا تھا۔ آپ کے دوست اور قدر داں سر راس مسعود (وزیر تعلیم ریاست بھوپال) کی کوشش سے ریاست سے آپ کے لیے پانسو روپے ماہوار تا حیات کا وظیفہ منظور ہوا۔ سر راس مسعود نے اس کی اطلاع کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ وہ کوشاں ہیں کہ بھوپال کے علاوہ حیدر آباد، بہاول پور وغیرہ بھی ان کے لیے وظیفے جاری کریں۔ اس کے جواب میں علامہ کا خط نقل کیا گیا ہے:
’’آپ کو معلوم ہے کہ اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال نے جو رقم میرے لیے مقرر فرمائی ہے، وہ میرے لیے کافی ہے۔ اور اگر کافی نہ بھی ہو تو میں کوئی امیرانہ زندگی کا عادی نہیں۔ بہترین مسلمانوں نے سادہ اور درویشانہ زندگی بسر کی ہے۔ ضرورت سے زیادہ کی ہوس کرنا روپیہ کا لالچ ہے جو کسی طرح بھی مسلمان کے شایان شان نہیں ہے۔ آپ کو میرے اس خط سے یقیناًکوئی تعجب نہ ہوگا کیونکہ جن بزرگوں کی آپ اولاد ہیں اور جو ہم سب کے لیے زندگی کا نمونہ ہیں، ان کا شیوہ ہمیشہ سادگی اور قناعت رہا ہے۔‘‘ (ص ۳۶۸)

تغیر پذیر ثقافتوں میں خواتین کے سماجی مقام کا مسئلہ

لوئی ایم صافی

امریکی تنظیم پروگریسو مسلم یونین (PMU) کی طرف اسلام کا رخ ترقی پسند اقدار کی طرف موڑنے کے لیے جو مہم شروع کی گئی تھی، اس نے ایک ایسی نزاع پیدا کر دی ہے جو اب امریکی سرحدوں سے باہر بھی زیر بحث ہے۔ بحث اصل میں تو اس محدود نکتے کے حوالے سے چھڑی تھی کہ کیا کسی خاتون کو ایک مخلوط اجتماع کی امامت کرانے کا حق ہے یا نہیں، تاہم مباحثے سے بعض زیادہ گہرے اور عمیق مسائل اور مشکلات نمایاں ہوئے ہیں۔ اس بحث کا مرکزی نکتہ تو وہی پرانا سوال ہے کہ منشاے خداوندی کو کیسے سمجھا جائے اور الہام شدہ الفاظ کو سماجی تناظر اور ثقافتی اعمال کے ساتھ کیسے مربوط کیا جائے۔ کوئی شخص معاصر دنیا میں اسلامی مآخذ کی کیا تعبیر کرتا ہے؟ اسلامی تعلیمات کے ابدی عناصر کو ایسے ثقافتی اعمال سے کیسے الگ کیا جا سکتا ہے جو مخصوص زمان ومکان ہی کے لیے موزوں تھے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ سوال کہ اسلام امریکی ثقافت اور روایات پر کیسے اثر انداز ہوتا اور خود ان سے کس طرح متاثر ہوتا ہے؟

’عقل عام‘ سے استدلال

کیا اسلام عورتوں کو نماز میں مردوں کی امامت کی اجازت دیتا ہے؟ ترقی پسند مسلمانوں کے نزدیک اس سوال کا تعلق صنفی مساوات، عورتوں کے لیے حصول طاقت اور جدیدیت کے جذبہ مساوات پسندی جیسے تصورات سے ہے، جبکہ قدامت پسند مسلمان اس سوال کو اسلامی روایات کے تحفظ اور جدیدیت کے مخرب اثرات سے گریز کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
عورتوں کے لیے مخلوط اجتماعات کی امامت کے حق کے حامی اس امر پر زور دیتے ہیں کہ قرآن مجید مردوں اور عورتوں کی اخلاقی مساوات کے بارے میں بالکل واضح ہے۔ وہ مسلمانوں کے تعامل کے تصور کو مسترد کرتے ہیں جن کے بارے میں ان کی رائے یہ ہے کہ یہ ایسی ثقافتی روایات سے استدلال کرنا ہے جو تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے محدود اور لازمی طور پر پدر سرانہ معاشرے سے تعلق رکھتی تھیں۔ حنا اعظم کی طرف سے جب عورت کی امامت کے حامیوں سے اپیل کی گئی کہ وہ استنباط کے درست طریقوں اور تعامل کی پابندی کریں تو پروگریسو مسلم یونین کے نائب صدر حسین ابیش نے اپنے موقف کو یہ کہہ کر بہت عمدہ طور پر واضح کر دیا کہ یہ پدر سرانہ روایات کی اندھی تقلید ہے۔ ابیش نے حنا اعظم کے استدلال پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’روایت کی پاس داری میں اور مردوں کی اس مذہبی قیادت کو برقرار رکھنے کی خاطر جسے وہ خدا کا الہامی حکم قرار دیتی ہیں، انھوں نے اپنی قوت فیصلہ بلکہ درحقیقت بات کے قابل فہم ہونے کے اصول کو بھی بالائے طاق رکھ دیا ہے۔‘‘ ابیش کی رائے میں حنا اعظم نے ماہرین قانون کے زمرے میں شامل ہونے کے لیے جدیدیت کی روح کو ترک کر دینے کا ارتکاب کیا ہے۔ ’’( حنا اعظم کو) اس سے کوئی دل چسپی نہیں کہ میں یا آپ کیا چاہتے ہیں، یا کون سی بات معقول ہے، یا کسی بات کا دفاع، قانونی علم کی روایات کا حوالہ دیے بغیر، جو انتہائی پدر سرانہ اور تفہیمی اعتبار سے ناقابل بحث ہیں، کسی اور طریقے سے کیسے کیا جا سکتا ہے۔‘‘ 

’روایت‘ سے استدلال

حنا اعظم ترقی پسندوں کی طرف سے اختیار کردہ ’’عقل عام‘‘ پر مبنی موقف کو مسترد کرتی ہیں اور ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ خدا کی منشا کے سامنے سر جھکا دینا ہی اسلام کی اصل حقیقت ہے اور یہ عمل ایک منظم اور مربوط طریقے سے ہونا چاہیے۔ ’’میری رائے میں ہم خدا کی منشا کو دریافت کرنے کے پابند ہیں، نہ کہ اپنے نازک احساسات کی پاس داری کے۔‘‘ چونکہ خدا کی منشا قرآن مجید کے ذریعے سے بتائی گئی اور اس کا عملی نمونہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال اور اقوال میں یعنی سنت میں پیش کیا گیا ہے، اس لیے اس کو دریافت کرنے کا صحیح طریقہ ٹھیک ٹھیک مطالعہ اور درست طریق استدلال ہے یعنی ’’قانونی استدلال کا ایک منضبط نظام جو کہ قرآن مجید اور سنت صحیحہ سے مطابقت رکھتا ہو اور جو تقویٰ اور خشوع کی سپرٹ سے پھوٹتا ہو۔‘‘
ترقی پسند مسلمان، منظم اور داخلی طور پر مربوط طریقہ استدلال سے، جس کی بنیاد اسلامی روایات پر ہو، سرے سے چڑ جاتے ہیں اور ایک ایسے آزاد طریقہ استدلال میں زیادہ سہولت محسوس کرتے ہیں جو کہ بآسانی پوسٹ ماڈرن امریکی معاشرے کی عقل عام کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔ یہ بات سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ترقی پسند ایک ایسے مجموعہ اقدار کو فروغ دے رہے ہیں جنہیں عالمی ترقی پسند تحریک نے اختیار کر رکھا ہے۔ حسین ابیش کو حنا اعظم پر کوئی منطقی یا استدلالی اعتراض نہیں ہے، بلکہ ان کا اعتراض اس قانونی روایت پر ہے جسے وہ بطور حوالہ پیش کرتی ہے اور جو مطلق صنفی مساوات کے اس روایت شکن تصور کو مجروح کرتی ہے جسے ترقی پسند دل وجان سے اپنائے ہوئے ہیں۔

مسلم تشخص اور متضاد سماجی روایات

عورت کی امامت کے اس سارے قضیے میں دراصل جو کشمکش نمایاں ہو رہی ہے، وہ ان مقابل روایات سے پھوٹی ہے جن پر دو مخالف ثقافتوں اور نظریات واعتقادات کا اثر ہے۔ ایک انتہا پر حد سے زیادہ قدامت پسند روایت کھڑی ہے جو ایک ایسی سماجی حالت کے ساتھ چپکی ہوئی ہے جس میں مرد معاشرے میں حکمران مطلق ہیں۔ عورتیں تعلیم تو حاصل کر سکتی ہیں، لیکن سماجی خدمات میں حصہ لینے اور فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہونے سے یا تو انھیں روک دیا جاتا ہے یا ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ روایتی مسلمان معاشروں نے کئی صدیوں سے عورتوں کو نجی دائرے میں محصور اور مکمل طور پر گھریلو خدمات اور مسائل تک محدود کر دیا ہے۔ 
دوسری انتہا پر مغربی تحریک نسواں کھڑی ہے جسے بغیر کسی تنقید کے ترقی پسند مسلمانوں نے اپنا لیا ہے اور جوکسی بھی قسم کے صنفی امتیازات کو کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ نسوانیت کی جانب سے صنفی امتیازات کی بالکلیہ نفی پر خود مسلم معاشروں کے اندر اصلاح پسندوں نے سخت احتجاج کیا ہے اور اسے تمام نسوانی تجربات کی نفی اور مرد کی پوجا کے رجحانات کی علامت قرار دیا ہے۔ یاسمین موگاہد لکھتی ہیں کہ ’’چونکہ مغربی نسوانیت نے خدا کو منظر سے ہٹا دیا ہے، اس لیے ان کے پاس مرد کے سوا کوئی معیار ہی باقی نہیں رہا۔ نتیجہ یہ ہے کہ مغربی نسوانیت اپنے مقام ومرتبے کو مرد کے حوالے سے تلاش کرنے پر مجبور ہے اور اس طرح اس نے ایک غلط مفروضے کو قبول کر لیا ہے۔ اس نے تسلیم کر لیا ہے کہ مرد ہی اصل معیار ہے اور یوں کوئی عورت اس وقت تک مکمل انسان قرار نہیں پا سکتی جب تک کہ وہ اس معیار یعنی مرد کے بالکل مماثل نہیں ہو جاتی۔‘‘
یامین زکریا کو یاسمین کی اس بات سے اتفاق ہے کہ مرد کو انسانی رویے کے لیے معیار قرار دینے کا تعلق دنیا کے سیکولر زاویہ نگاہ سے خدا کے تدریجی طو رپر غائب ہو جانے کے ساتھ ہے۔ ان کے نزدیک اس سے اس بات کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ ترقی پسند، اسلام کو جدیدیت کی اقدار کے تابع بنا رہے ہیں۔ یاسمین کو اعتراض ہے کہ ’’یہ ایک یک طرفہ عمل ہی کیوں ہے جس میں خدا کی دی ہوئی مذہبی اقدار کو انسان کی بنائی ہوئی سیکولر اقدار کے مطابق بنانے کے لیے ان کی ازسرنو تعبیر کی جائے؟ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ترقی پسند مذہبی تحریکیں سیکولر اقدار کو حتمی معیار کی حیثیت دے رہی ہیں۔ یقیناًیہ دھوکہ باز مذہبی تحریکیں ہیں۔ ان کا طرز عمل الٰہی تعلیمات کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے جس سے ان کی ضرر رسانی کھلے اور جارح مرتدوں اور کافروں کے مقابلے میں بڑھ جاتی ہے۔‘‘

اسلام اور ثقافتی روایات

اسلام کا مقصد یہ ہے کہ ثقافتی رویوں اور سماجی اعمال کو ان کائناتی اقدار اور اصولوں کے دائرے میں لے آیا جائے جو تمام مخصوص ثقافتوں اور سماجی تنظیم کے طریقوں سے بالاتر ہیں۔ ابتدائی دور کے مسلمان اس اہم فرق سے اچھی طرح آگاہ تھے جو اصل مذہبی احکام اور ان کے اس ظاہری ڈھانچے کے مابین پایا جاتا ہے جو وہ مخصوص ثقافتی روایات میں اختیار کر لیتے ہیں ۔ اس فرق سے آگاہی کی بنا پر لوگ اس قابل ہوئے ا کہ وہ اسلامی تعلیمات کو اپنی اپنی ثقافتوں کے ساتھ ہم آہنگ کر سکیں۔ اس سے اسلامی اقدار کی ظاہری شکلوں کا ایک متنوع مجموعہ وجود میں آیا اور مختلف ثقافتوں کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ اسلامی تعلیمات کو قبول کرتے ہوئے بھی اپنی مقامی روایات کو برقرار رکھ سکیں۔
اسلامی اقدار اور مقامی روایات کے مابین تعامل کا مشاہدہ اس تنوع میں کیا جا سکتا ہے جو فیشن، طرز تعمیر، شادی کی تقریبات، تہواروں کے منانے اور ججوں کے انتخاب وغیرہ میں پایا جاتا ہے اور جو مختلف مسلم ثقافتوں کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتا ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف واضح کیا تھا کہ آپ کا مشن سابقہ روایات کو مسترد کرنا نہیں، بلکہ انھیں ایسی روایات اور اعمال پر جو مضبوط اخلاقی اصولوں پر مبنی ہیں، تعمیر کرنا اور پست روایات اور رواجوں کی اصلاح کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا:’’مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔‘‘ چنانچہ آپ نے اپنے معاشرے میں رائج قبل از اسلام کی ان ثقافتی روایات کو قبول کر لیا جو امداد باہمی اور محبت کو فروغ دیتی تھیں، مثلاً مہمانوں کا اکرام، اور قبیلے کی طرف سے تمام افراد قبیلہ کے لیے بہبود کا نظام۔ بالکل اسی طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ان رواجوں کا خاتمہ کر دیا جو جارحیت اور نا انصافی کا سبب بنتی تھیں، مثلاً آپ نے ایک قبیلے کے افراد کے مابین وابستگی اور حمایت ونصرت کے اس تصور کو مسترد کر دیا جو یہ تقاضا کرتا تھا کہ ہر حال میں اپنے قبیلے کا ساتھ دیا جائے، چاہے وہ قصور وار ہی کیوں نہ ہو۔
خود قرآن مجید نے مقامی روایات کو سماجی قوانین کا ایک مستند ماخذ مانا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی ہے کہ اگر مقامی روایات طے شدہ اسلامی اصولوں کے خلاف نہ ہوں تو ان کا احترام کیا جائے۔ ’’آپ معاف کرنے کے طریقے پر کاربند رہیے اور اچھی روایات پر عمل کا حکم دیجیے، لیکن جاہلوں سے منہ موڑ لیں۔‘‘ (۷: ۱۹۹) تاہم قرآن نے ایسی روایات پر سخت تنقید کی جو عدل وانصاف کے اصولوں کے خلاف ہوں۔ اس نے مسلمہ روایات کی بنیاد پر غیر منصفانہ رواجوں کو جواز فراہم کرنے کے طریقے کو قطعی طور پر مسترد کر دیا۔ فرمایا: ’’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو تو وہ کہتے ہیں، نہیں، ہم تو اپنے آباو اجداد کے طریقوں کی پیروی کریں گے۔ کیا اگرچہ ان کے آباو اوجداد عقل اور ہدایت سے محروم تھے، تب بھی؟‘‘ (۲: ۱۷۰)

ثقافتی رجحانات کو اسلامی احکام پر فوقیت دینا

انسانی ترقی کے لیے سماجی روایات ناگزیر ہیں، کیونکہ ان کا وجود انفرادی افعال کو مربوط بنانے اور سماجی ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔ روایات جامد نہیں ہوتیں بلکہ ہر معاشرے کے تجربے میں آنے والی ثقافتی اور سماجی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر رہتی ہیں۔ روایات کا ارتقا اور تغیر الل ٹپ نہیں ہوتا بلکہ بنیادی رویے اور اقدار ان کی راہنمائی کرتے ہیں۔ چنانچہ جب ہم مسلم معاشرے میں مقابل روایات اور نظریات کا جائزہ لیں تو یہ ضروری ہے کہ کسی بھی مخصوص روایت کے منبع وماخذ کو، جہاں سے وہ پھوٹی ہے، متعین کیا جائے۔ 
اس سوال پر غور کرنا بالکل بجا ہوگا کہ مشرق وسطیٰ کے معاشروں سے امریکہ میں آکر بسنے والوں پر قبائلی روایات اور صنفی تفوق سے بھرپور غیرت کے تصور کے اثرات کس حد تک ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ایک جائز سوال ہوگا کہ مغربی معاشروں میں ثقافتی تربیت پانے والے مسلمانوں پر پوسٹ ماڈرن مغرب میں پھیلی ہوئی جنسی بے راہ روی اور اخلاقی گراوٹ کس حد تک اثر انداز ہے۔ (ان دونوں پہلووں پر غور اس لیے ضروری ہے کہ) جب مضبوط قبائلی ورثے کے حامل معاشروں میں غیرت کے نام پر قتل کو گوارا کیا جاتا ہے اور مذہبی راہنما اس کی کماحقہ مذمت نہیں کرتے، حالانکہ اسلام میں یہ ایک بہت بڑا جرم ہے، تو یہ سوال ناگزیر طور پر سامنے آتا ہے کہ اسلامی اصولوں کو قبائلی روایات کے تابع بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح جب مسلم کمیونٹی عورتوں کو مسجد میں مناسب مقام دینے کے معاملے کو نظر انداز کرتی ہیں اور مسجد کا مرد امام عورتوں کو اسلامی تعلیم کی مجلسوں کے دوران میں مسجد کے مرکزی ہال میں داخل ہونے سے منع کرتا ہے، تو بھی اسلام کو پدر سرانہ ثقافت کے تابع بنانے کا سوال لازماً سامنے آتا ہے۔
دوسری طرف جب ترقی پسند، جنسی بے راوہ روی کو، چاہے وہ شادی کے بغیر جنسی تعلقات کی صورت میں ہو یا ہم جنسی پرستی کی صورت میں، ایک معمولی مسئلہ قرار دیتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ لباس کے مختصر ہونے اور اداؤں میں بے باکی کا تعلق ثقافتی ذوق سے ہے نہ کہ اسلامی اصولوں سے، تو بھی اسلامی اصولوں کو ترقی پسند عقل عام کے تابع بنا نے کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ترقی پسند حجاب کو کھلم کھلا مسترد کرتے ہیں، ہم جنس پرستی کو ایک نارمل طرز عمل قرار دیتے ہیں، اور عوامی سطح پر مسائل کو چھیڑنے کے لیے جنسی الزامات کو بطور حکمت عملی اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے۔ انھوں نے شہوت پسند اور لذت پسند پوسٹ ماڈرن کلچر کو اسلام کی بنیادی تعلیمات اور اقدار پر فوقیت دے دی ہے۔

حقیقی اخلاقی دعووں کا معیار

کسی شخص کے ایک مجموعہ اقدار کے ساتھ وابستگی کی ایک اہم علامت یہ ہے کہ ان اقدار کو ایک اخلاقی کمیونٹی میں ارتقا پاتے ہوئے دیکھا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اخلاقی اصولوں کی اصل قدر وقیمت علمی اظہارات اور اعلانات سے نہیں بلکہ اس بات سے معلوم ہوتی ہے کہ وہ ایک زندہ کمیونٹی کو تبدیل کرنے اور اس کے اندر زندگی میں بہتری پیدا کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں یا نہیں۔ ترقی پسند مسلم ایجنڈا کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے اس سوال کا جائزہ لینا بے حد اہم ہے کہ مخلوط اجتماع میں عورت کی امامت کا مسئلہ اٹھانے کا مقصد کیا ہے؟ یہ واقعہ کمیونٹی کی مثبت تعمیر سے زیادہ میڈیا میں نمایاں ہونے کے شوقین لوگوں کے لیے ایک مذہبی ہتھکنڈے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس طرح کے واقعات گینز بک میں ایک عالمی ریکارڈ تو درج کروا سکتے ہیں لیکن کسی نئے طرز زندگی کو نشو ونما نہیں دے سکتے۔ اگر ترقی پسند مسلمان نماز اور مسجد کے بارے میں زیادہ سنجیدہ ہوتے تو وہ اس بات کا انتظار کرتے کہ ایک زندہ کمیونٹی وجود میں آئے اور ایک ایسی مسجد قائم ہو جہاں کے نمازی ان کی اخلاقی تعبیر اسلام پر اعتماد رکھتے ہیں۔ اس طرح کی کوئی کمیونٹی ہی تجربے کی سطح پر اور عملی مثال کی صورت میں اس سوال کا جواب فراہم کرتی کہ مجوزہ عمل مسلمانوں کی روح کو بلند کرتا ہے یا انھیں ایک لذت پسند گروہ میں تبدیل کر کے پستیوں کی طرف دھکیل دیتا ہے۔
تاریخی مسلم معاشرہ، خواہ ہم اس میں کتنی ہی غلطیاں تلاش کر لیں، ایک نمایاں وصف رکھتا ہے، یعنی مذہبی تشخص پر پورے اصرار کے ساتھ ساتھ مذہبی، اعتقادی اور اخلاقی تنوع کے لیے بے مثال رواداری کا وصف۔ اس معاشرے میں اخلاقیت اور انصاف کو ایک مجرد تصور کے طور پر بیان نہیں کیا جاتا تھا جس پر علمی حلقوں میں بحث ہوتی رہے،، بلکہ وہ مشترکہ اقدار کا ایک مجموعہ تھا جس کے مطابق ایک زندہ کمیونٹی میں زندگی گزاری جائے اور اسے نشوونما دی جائے۔ اخلاقی زندگی کے معیارات وہی سمجھے جاتے تھے جنھیں کسی کمیونٹی کے افراد اپنے لیے معیار قرار دیں۔ مختلف فقہی مکاتب فکر محض علمی حلقے نہیں تھے، بلکہ انہوں نے (اپنے تصورات کی بنیاد پر باقاعدہ) اخلاقی کمیونٹیاں تشکیل دی تھیں۔ ہر شخص کو نہ صرف اخلاقی طور پر بلکہ قانونی طور پر بھی انھی معیارات کے مطابق جانچا جاتا تھا جن کو وہ معیار تسلیم کرتا تھا۔ حنفی فقہ کے پیروکار کا فیصلہ حنفی قاضی کرتا تھا، یعنی اسی اخلاقی کمیونٹی کا ایک فرد جس سے ان دونوں کا تعلق ہوتا تھا، نہ کہ کوئی دوسرا جج جس کا تعلق کسی دوسری اخلاقی کمیونٹی سے ہو۔ (اسی طرح فیصلہ بھی اسی فقہ کے مطابق کیا جاتا تھا جس کا وہ فرد پیروکار ہوتا) نہ کہ کسی ایسے قانونی ضابطے کے تحت جو مرکزی اتھارٹی نے نافذ کر رکھا ہو۔
لوگوں کی اخلاقی خود مختاری کے حوالے سے حساسیت کی یہ شاندار مثال اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اسلامی تہذیب کس طرح ایک مثالی ہم آہنگی کے ساتھ مختلف مذہبی، اعتقادی، الہیاتی، نسلی اور ثقافتی روایات کو کم وبیش چودہ سو برس تک اپنے اندر سمونے کے قابل رہی۔ امریکی مسلمانوں کے لیے، جو ایک نمایاں طور پر متنوع معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں اور جو اپنی کمیونٹی کو وجود میں لانا اور اپنی اسلامی اقدار کا اظہار نو کرنا چاہتے ہیں، یہ بے حد ضروری ہے کہ وہ تاریخی مسلم معاشرے کی بے مثال لچک اور آزادی کو یاد رکھیں اور تعبیرات وتجربات کے تنوع کے لیے کافی گنجایش فراہم کریں۔ 

انتقام کا جذبہ

ترقی پسند مسلمانوں کا ایجنڈا، جو اسلامی اقدار کو ترقی پسندی کے سانچے میں ڈھالنا چاہتا ہے، حدود سے متجاوز ہے کیونکہ درحقیقت یہ محض امریکہ کے اسلامی مراکز کے اختیار کردہ رویے کا رد عمل ہے جو سماجی طور پر متحرک خواتین اور امریکہ میں پیدا ہونے والے مسلمانوں کو اپنے ساتھ وابستہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اپنی ثقافتی روایات پر امریکہ میں عمل کرنے پر اصرار کر کے اور امریکی ثقافت کے مثبت اور غیر جانبدار عناصر کو نظر انداز کر کے مسلم آباد کاروں نے دانستہ یا نادانستہ، امریکہ میں پیدا ہونے والے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو، جن میں کافی تعداد خود ان کی اپنی اولاد کی ہے، اپنے سے دور کر دیا ہے۔ ان میں افریقی امریکی، سفید فام امریکی، نوجوان مسلم پروفیشنلز اور مسلم خواتین شامل ہیں۔
ترقی پسندوں کے لیے اشتعال کا باعث سب سے پہلے تو بہت سے اسلامی سنٹرز کے راہ نماؤں کی نا اہلی بنتی ہے جو امریکی معاشرے میں اسلامی اقدار کے فروغ کے مقابلے میں اپنی ثقافتی عادات اور رواجات کو برقرار رکھنے کو مسلسل ترجیح دیتے چلے آ رہے ہیں۔ پروگریسو مسلم یونین کے دو ممتاز راہنماؤں نے میرے سامنے اپنے علاقے کی مساجد کے ذمہ داروں کے رویے پر ناگواری کا اظہار کیا جو انھوں نے کمیونٹی کی خاتون ارکان کے حوالے سے اپنا رکھا ہے۔ ایک خاتون نے میرے سامنے اس افسوس کا اظہار کیا کہ اسے اسلام کے متعلق سیکھنے کا کوئی موقع میسر نہیں آیا کیونکہ اس کی کمیونٹی نوجوان لڑکیوں کے لیے اسلامی تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں کر سکی تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ ’’اس کی فیملی اسلامی تعلیم کو ایک مسلمان لڑکی کے لیے اہم نہیں سمجھتی تھی۔‘‘ مسجد میں آنے جانے کا موقع صرف اس کے بھائیوں کو حاصل تھا۔ ایک اور نہایت باصلاحیت نوجوان خاتون نے مجھے بتایا کہ اس نے حالیہ سالوں میں اپنے علاقے کے اسلامی سنٹر میں جانا چھوڑ دیا ہے کیونکہ اسے یہ طریقہ بالکل پسند نہیں تھا کہ اسے مسجد کے مرکزی ہال سے دور، جہاں تعلیم وتدریس اور بحث ومباحثہ کی ساری سرگرمیاں ہوتی تھیں، ایک الگ تھلک کمرے میں محدود کر دیا جائے۔
کئی سال تک یہ دیکھتے ہوئے کہ مسلم مہاجرین، جو زیادہ تر مشرق وسطیٰ اور برصغیر سے آئے ہیں، یہاں بھی اپنی ثقافتی عادات اور روایات ہی کو اپنانے پر مصر ہیں، ترقی پسند مسلمانوں نے جواباً امریکی کلچر کے نہایت لبرل عناصر کی روایات اور عادات پر زور دینا شروع کر دیا ہے۔ ترقی پسند مسلمان، جیسا کہ ان کا پہلا اجتماعی عمل بتاتا ہے، واضح طور پر انتقام لے رہے ہیں۔ ان کا مقصد کسی نئی کمیونٹی کو تشکیل دینا نہیں بلکہ صرف اس کمیونٹی کو اشتعال دلانا ہے جس نے انہیں نظر انداز کیے رکھا۔ وہ اس کلچر کے کسی تنقیدی جائزے میں دلچسپی نہیں رکھتے جس میں وہ پروان چڑھے ہیں، بلکہ اس کلچر کو چیلنج کرنے کے خواہش مند ہیں جس نے ان کے ساتھ بے گانگی کا رویہ اپنایا۔

اسلام کے غیر متبدل اخلاقی و روحانی مآخذ

جب مسلمان رواجات اور عادات کو اقدار اور اصولوں پر ترجیح دیتے ہیں تو اسلام کے شاندار اخلاقی اور روحانی اصولوں پر زد پڑتی ہے۔ پوری اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلم معاشرے اسلام کی اخلاقی اور روحانی طاقت کو استعمال میں لائے اور اسے غیر اخلاقی اعمال کی اصلاح اور صحت مند اور زندگی سے بھرپور روایات کے فروغ کے لیے استعمال کیا تو انھیں ترقی نصیب ہوئی ۔ اسلامی احیا کا مرکز ہمیشہ ایسے علاقے بنے جہاں لوگ سمجھ داری کے ساتھ اور آزادانہ اسلامی اقدار اور اصولوں کو اپناتے اور انھیں ایک زندہ اسلامی روایت تشکیل دینے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ آج امریکی مسلمانوں کے پاس ایک سنہری موقع ہے کہ وہ اسلامی اداروں اور اعمال کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کے لیے ایک قوت محرکہ کا کردار ادا کریں۔ اس مقصد کے لیے امریکی مسلمانوں کو اپنی ثقافتی محدودیتوں سے، چاہے وہ مقامی ہوں یا برآمد شدہ، اوپر اٹھنا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ سماجی تنظیم اور تبدیلی کے لیے بنیاد کی حیثیت ان کی اپنی عادات اور رواجات کو نہیں، بلکہ اسلام کی اعلیٰ اقدار کو حاصل ہے۔

مسئلہ طلاق ثلاثہ ۔ علماء کرام توجہ فرمائیں

پروفیسر محمد اکرم ورک

ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے مارچ ۲۰۰۵ کے شمارے میں مولانا سید سلمان الحسینی الندوی کا مضمون ’’اجتہادی اختلافات میں معاشرتی مصالح کی رعایت‘‘ کے زیر عنوان شائع ہوا ہے جس میں فاضل مضمون نگار نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کے وقوع کی صورت میں مرتب ہونے والے معاشرتی مسائل کی طرف علماء کرام کو توجہ دلائی ہے اور علماء دین اور مفتیان کرام سے تقاضا کیا ہے کہ وہ آج کے معروضی حالات کے تناظر میں اس مسئلہ پر دوبارہ غور فرمائیں۔ مئی ۲۰۰۵ کے شمارے میں مولانا احمد الرحمن نے اس نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اگرچہ طلاق ثلاثہ کے موضوع پر احناف اور اہل حدیث مکتبہ فکر کی طرف سے مناظرانہ انداز میں اپنے اپنے موقف پر دلائل پیش کیے گئے ہیں، تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء کرام اس موضوع کو ایک سنگین انسانی اور معاشرتی مسئلے کے طور پر دیکھنے کی کوشش کریں۔ طلاق ثلاثہ کوئی ایمانیات کا مسئلہ نہیں کہ جس کا اقرار یا انکار کفر کو مستلزم ہو یا جس پر غور وفکر کا دروازہ بند ہو چکا ہو۔ یہ ایک فرعی مسئلہ ہے۔ اجتہادی اور فروعی مسائل میں اصول کے دائرے کو قائم رکھتے ہوئے مختلف آرا رکھنا اسلامی علمی روایت کا ایک حصہ ہے۔ اس تناظر میں ہم سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے پر غور وفکر کی دعوت یقیناًدرست ہے اور اصحاب فکر کی ایک بڑی تعداد اس ضرورت کا احساس رکھتی ہے۔ 
طلاق ثلاثہ کے بارے میں دو فقہی مسلک ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ایک وہ فقہی مکتب ہے جو ایک مجلس کی تین طلاقوں کو مغلظہ قرار دیتا ہے، اور دوسرا وہ جو اس صورت میں صرف ایک طلاق کے وقوع کا قائل ہے۔ بعض صحابہ کرامؓ کے علاوہ امام ابن حزم، امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم اس دوسرے موقف کے قائل ہیں، جبکہ مالکی فقیہ قاضی ابن رشد کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ ہمارے دور کے اہل حدیث حضرات بھی اسی نقطہ نظر کے قائل ہیں۔ ان سطور میں ہمار ے پیش نظر اس مسئلے پر کسی حتمی رائے کا پیش کرنا نہیں ہے، بلکہ علماء کرام کو اس موضوع پر اظہار رائے کی دعوت دینا ہے تاکہ وہ ایک اہم معاشرتی مسئلے پر پوری علمی سنجیدگی کے ساتھ قلم اٹھائیں۔
اسلام کے معاشرتی نظام میں خاندان ایک اہم ترین ادارہ ہے۔ میاں بیوی کے مضبوط تعلقات خاندانی استحکام کی بنیادیں ہیں اور خاندانی نظام کی بقا ہی معاشرتی استحکام کی خشت اول ہے۔ اس لیے نکاح وطلاق جیسے بنیادی اور اہم معاشرتی مسائل کے بارے میں اسلامی تعلیمات بڑی متوازن اور فطری ہیں۔
نکاح وطلاق کے باب میں اسلامی احکام کی اصل اسپرٹ یہی ہے کہ نکاح کو باقی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ اسلام نے انسانی رویوں میں پائے جانے والے فطری اختلاف اور فرق کے پیش نظر باہمی تنازع کے امکان کو تسلیم کرتے ہوئے اختلاف کی صورت میں میاں بیوی کو مصالحت کا انداز اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ (النساء ۴/۱۲۸) شریعت نے اگرچہ انتہائی مجبوری کے عالم میں طلاق کا راستہ اختیار کرنے کی اجازت دی ہے، لیکن ’ابغض الحلال الی اللہ الطلاق‘ کہہ کر اس پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بھی کر دیا ہے۔ گویا اسلام کی نظر میں طلاق ایک ایسی دوا ہے جو ازدواجی زندگی کے ایک مستقل روگ کے علاج کے طور پر جائز قرار دی گئی ہے۔
اسلام نے طلاق دینے کا ایک نہایت حکیمانہ اور مبنی بر مصلحت طریقہ مشروع کیا ہے۔ چنانچہ بتایا گیا ہے کہ حالت طہر میں بیوی کو ایک مرتبہ صرف ایک طلاق دی جائے، تاکہ فیصلے پر نظر ثانی اور طلاق سے رجوع کرنے کا حق باقی رہے۔ عہد رسالت اور عہد صدیقی میں طلاق کا اسی فطری طریقے پر عمل ہوتا رہا، لیکن عہد فاروقی میں جب ایک مجلس میں تین طلاقیں یکجا دینے کے واقعات بڑھنے لگے تو خلیفہ ثانی نے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو واقع کر کے میاں بیوی میں تفریق کروا دی اور اس کے ساتھ شوہر کو کوڑوں کی سزا بھی دی۔ خلیفہ ثانی کا یہ حکم کوئی منصوص حکم نہ تھا بلکہ ایک اجتہادی اور انتظامی حکم تھا جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ ایک مجلس میں تین طلاقوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ چنانچہ لوگوں نے دائمی جدائی اور کوڑوں کے خوف سے ایک مجلس میں تین طلاقوں کا طریقہ چھوڑ دیا۔ اگرچہ تمام صحابہ کرام حضرت عمر فاروق کے اس حکم سے مطمئن نہ تھے، تاہم صحابہ کرام کی اکثریت نے اس فیصلے کو تسلیم کر لیا اور بعد کے دور میں سوسائٹی کے مجموعی مفاد کے پیش نظر فقہاء کرام نے بھی اسی حکم کو واجب العمل قرار دیا۔
ابتدائی صدیوں کے مخصوص معاشرتی ماحول میں یقیناًاس مسئلہ کا یہی ایک بہترین حل تھا، لیکن چونکہ یہ حکم نص قطعی سے ثابت نہیں ہے، اس لیے ہر دور میں ایک ہی مجلس کی تین طلاقوں کے بارے میں علماء کرام میں اختلاف رہا ہے۔ خود حضرت عمرؓ کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی احکام میں اس قدر لچک موجود ہے کہ اسلامی سوسائٹی کے خاص حالات میں اصلاح کی غرض سے کسی آیت کے حکم میں ظاہری تقیید یا تخصیص کا عمل کیا جا سکتا ہے اور اگر بعد کے زمانے میں مصلحت عامہ کا تقاضا یہ ہو کہ قرآن کے اصل اور منصوص حکم کی طرف رجوع کیا جائے تو یہ رجوع الی الاصل بدرجہ اولیٰ درست ہونا چاہیے، جیسا کہ حضرت عمرؓ نے کتابیہ عورت سے نکاح کے رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے منصوص اجازت کے باوجود کتابیہ عورت سے نکاح کی ممانعت کر دی۔
قدیم عرب معاشرے میں مرد اور عورت کے لیے طلاق کے بعد نکاح ثانی کبھی کوئی معاشرتی مسئلہ نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کے واقع ہونے کے تعزیری حکم کی وجہ سے کوئی سنگین مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ جبکہ اقوام عالم میں تیزی کے ساتھ بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار، مسلم معاشروں بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کا مخصوص طرز معاشرت اور معروضی حالات اس مسئلہ پر ازسر نو غور وفکر کا تقاضا کر رہے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ لوگ ضروریات دین سے واقف نہیں ہیں۔ جہالت اور لاعلمی کی وجہ سے بیک وقت تین طلاقیں دے بیٹھتے ہیں اور بعد میں پچھتانے لگتے ہیں اور مرد کی معمولی نادانی کی وجہ سے پورے خاندان کے لیے شدید مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف دین بیزار لوگ اسلام کے معاشرتی نظام اور عائلی قوانین کو ہدف تنقید بنا کر لوگوں کو اسلام سے متنفر اور بدظن کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں مصالح امت کا تقاضا یہ ہے کہ جامد تقلید اور فقہی مسلکوں کے خول میں بند رہنے کے بجائے وسعت نظری سے کام لیتے ہوئے اس خالصتاً اجتہادی مسئلہ پر ازسر نو غور وفکر کیاجائے اور اگر امت کے لیے آسانی اور سہولت کی کوئی صورت ممکن ہو تو سوسائٹی کو اس سے محروم نہ کیا جائے۔ کسی سچائی کو فقط اس لیے قبول نہ کرنا کہ اس سے کسی خاص مسلک کی تائید یا تردید ہوتی ہے، غیر علمی رویہ ہے۔
حالات اور زمانے کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے کئی اصحاب علم نے اس سے قبل بھی ارباب دانش کو اس موضوع پر غور وفکر کی دعوت دی ہے جن میں ایک نمایاں نام عصر حاضر کے معروف محقق اور دانش ور پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ کا ہے۔ پیر صاحب نے فریقین کے تفصیلی دلائل کا جو تجزیہ فرمایا ہے، یہاں اس کا اعادہ مقصود نہیں، تاہم ایک قانون دان کی حیثیت سے پیر صاحب نے آج کے معروضی حالات کے پس منظر میں حضرت عمرؓ کے ایک ہی مجلس میں طلاق ثلاثہ کی تنفیذ کے حکم کا جو تجزیہ کیا ہے، قارئین کی دلچسپی کے لیے اسے ہم پیش کیے دیتے ہیں:
’’حضرت عمر نے جب یہ ملاحظہ فرمایا کہ لوگ طلاق ثلاثہ کی حرمت کو جانتے ہوئے اب اس کے عادی ہوتے چلے جا رہے ہیں تو آپ کی سیاست حکیمانہ نے ان کو امر حرام سے باز رکھنے کے لیے بطور سزا حرمت کا حکم صادر فرمایا اور خلیفہ وقت کو اجازت ہے کہ جس وقت وہ دیکھے کہ لوگ اللہ کی دی ہوئی سہولتوں اور رخصتوں کی قدر نہیں کر رہے اور ان سے استفادہ کرنے سے رک گئے ہیں اور اپنے لیے عسر وشدت پسند کر رہے ہیں تو بطور تعزیر انھیں ان رخصتوں اور سہولتوں سے محروم کرنے کے بعد وہ اس سے باز آ جائیں۔ 
حضرت امیر المومنینؓ نے یہ حکم نافذ کرتے ہوئے یہ نہیں فرمایا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوں ارشاد گرامی ہے، بلکہ کہا ’فلو انا امضیناہ علیہم‘ (کاش ہم اس کو ان پر جاری کر دیں) ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ یہ آپ کی رائے تھی اور امت کو اس فعل حرام سے باز رکھنے کے لیے یہ تعزیری قدم اٹھایا گیا تھا۔ اس تعزیری حکم کو صحابہ کرام نے پسند فرمایا اور اسی کے مطابق فتوے دیے۔ لیکن حدود کے علاوہ تعزیرات اور سزائیں زمانہ کے بدلنے سے بدل جایا کرتی ہیں۔ اگر کسی وقت کسی مقررہ تعزیر سے بجائے فائدہ کے الٹا نقصان ہو اور مصلحت کی جگہ فساد رو پذیر ہونے لگے تو اس وقت اس تعزیر کا بدلنا ازحد ضروری ہو جاتا ہے۔
غیر شادی شدہ زانی کی حد کا ذکر تو قرآن حکیم میں موجود ہے کہ اسے سو درے لگائے جائیں، لیکن حدیث میں ہے ’مائۃ جلدۃ وتغریب عام‘، یعنی سو درے لگائے جائیں اور ایک سال جلا وطن کر دیا جائے۔ جب چند آدمیوں کو جلا وطن کیا گیا تو وہ کفار کی صحبت سے متاثر ہو کر مرتد ہو گئے اور علماء احناف نے یہ کہہ کر جلا وطنی کی سزا کو ساقط کر دیا کہ یہ تعزیر ہے اور اب اس سے بجائے اصلاح کے ارتداد کا دروازہ کھل گیا ہے، ا س لیے اب یہ تعزیر ساقط کرنی ضروری ہے۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی اس تعزیر کو آج باقی رکھنے سے جو مفاسد اسلامی معاشرے میں رونما ہو رہے ہیں، کون سی آنکھ ہے جو اشک بار نہیں اورکون سا دل ہے جو دردمند نہیں۔
لوگوں میں شرعی احکام کے علم کا فقدان ہے۔ انھیں یہ پتہ ہی نہیں کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دینا کتنا بڑا جرم ہے اور یہ تلعب بکتاب اللہ کے مرادف ہے۔ وہ غیظ وغضب کی حالت میں منہ سے بک جاتے ہیں۔ انھیں تب ہوش آتا ہے جب انھیں بتایاجاتا ہے کہ انھوں نے ایک جنبش لب سے اپنے گھر کو برباد کر دیا۔ اس کی رفیقہ حیات اور اس کے ننھے بچوں کی ماں اس پر قطعی حرام ہو گئی۔ اس کی نظروں میں دنیا تاریک ہو جاتی ہے۔ یہ ناگہانی مصیبت اس کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ پھر وہ علماء صاحبان کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں جو باستثنا چند حضرات بڑی معصومیت سے انھیں حلالہ کا دروازہ دکھاتے ہیں۔ اس وقت انھیں اپنے غیور رسول کی وہ حدیث فراموش ہو جاتی ہے، لعن اللہ المحلل والمحلل لہ۔ ’’حلالہ کرنے والے پر بھی اللہ کی لعنت اور جس (بے غیرت) کے لیے حلالہ کیا جائے، اس پر بھی اللہ کی لعنت۔‘‘
اس سلسلے میں ایک اور حدیث بھی سن لیں:
قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم الا اخبرکم بالتیس المستعار قالوا بلی یا رسول اللہ قال ہو المحلل لعن اللہ المحلل والمحلل لہ (رواہ ابن ماجہ)
’’کیا میں تمھیں کرائے کے سانڈ کی خبر نہ دوں؟ ہم نے کہا ضرور اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا، وہ حلالہ کرنے والا ہے۔ اللہ کی لعنت ہو حلالہ کرنے والے پر بھی اور اس پر بھی جس کے لیے حلالہ کیا جائے۔‘‘
ان علماء ذی شان کے بتائے ہوئے حل کو اگر کوئی بد نصیب قبول کر لیتا ہوگا تو اسلام اپنے کرم فرماؤں کی ستم ظریفی پر چیخ اٹھتا ہوگا اور دین سبز گنبد کے مکیں کی دہائی دیتا ہوگا۔
اب حالات دن بدن بد تر ہو رہے ہیں۔ جب بعض طبیعتیں اس غیر اسلامی اور غیر انسانی حل کو قبول نہیں کرتیں اور اپنے گوشہ عافیت کی ویرانی بھی ان سے دیکھی نہیں جاتی تو وہ پریشان اور سراسیمہ ہو کر ہر دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ اس وقت باطل اور گمراہ فرقے اپنا آہنی پنجہ ان کی طر ف بڑھاتے ہیں اور انھیں اپنے دام تزویر میں بھی پھنسا لیتے ہیں۔ اس کی بیوی تو اسے مل جاتی ہے لیکن دولت ایمان لوٹ لی جاتی ہے۔ میرے یہ چشم دید واقعات ہیں کہ کنبے کے کنبے مرزائی اور رافضی ہو گئے۔ جب حالات کی سنگینی کا یہ عالم ہو، جب یہ تعزیر بے غیرتی کی محرک ہو بلکہ اس کی موجودگی سے ارتداد کا دروازہ کھل گیا ہو، ان حالات میں علماء اسلام کا یہ فرض نہیں کہ امت مصطفی علیہ التحیۃ والثناء پر در رحمت کشادہ کریں؟‘‘
پیر صاحب نے حالات کا معروضی مطالعہ کرنے کے بعد اہل علم کو جس دل سوزی کے ساتھ اس موضوع پر غور وفکر کی دعوت دی ہے، وہ سنجیدہ توجہ کی مستحق ہے اور اس بات کی متقاضی ہے کہ علماء کرام غور وفکر کے بعد اس مسئلہ پر کوئی ایسا متفقہ موقف اختیار کریں جس میں امت کے لیے آسانی اور سہولت کو ملحوظ رکھا گیا ہو۔ بعض حنفی علما نے تو، جن میں خاص طور پر معروف دیوبندی عالم مولانا سعید احمد اکبر آبادی قابل ذکر ہیں، اپنے نتائج تحقیق کا برملا اظہار کیا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کے حوالے سے بہتر یہی ہے کہ عہد رسالت اور عہد صدیقی کے طرز عمل سے ہی استشہاد کیا جائے۔ برصغیر کے معروف عالم اور دانش ور مولانا وحید الدین خان نے طلاق ثلاثہ کے حوالے سے ایک بڑی مفید تجویز پیش کی ہے جو ارباب دانش کے ساتھ ساتھ ارباب حل وعقد کے لیے بھی خاص طور پر توجہ کی مستحق ہے۔ فرماتے ہیں:
’’راقم الحروف کے نزدیک موجودہ حالت میں اس معاملہ میں ہمارے لیے دو میں سے ایک طریقہ کا انتخاب ہے۔ ایک یہ کہ جب ایک شخص فوری جذبہ کے تحت طلاق طلاق طلاق کہہ دے تو اس کو شوہر کی طرف سے غصہ پر محمول کیا جائے، یعنی یہ سمجھا جائے کہ شوہر نے شدت اظہار کے طور پر اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دی، حالانکہ اس کا مقصد تکمیلی طلاق دینا نہ تھا بلکہ صرف طلاق دینے کے ارادے کا شدید انداز میں اظہار کرنا تھا۔ یہ تہدید وتشدید کا معاملہ تھا نہ کہ حقیقتاً تطلیق ثلاثہ کا معاملہ۔ اس صورت میں یہ کیا جائے گا کہ شوہر سے یہ کہا جائے گا کہ تمہاری تین طلاق عملاً پہلے مہینے کی ایک طلاق قرار دی جاتی ہے۔ اب تم کو یہ اختیار ہے کہ چاہے تو رجوع کر لو اور اگر تم تفریق کے ارادہ پر قائم ہو تو قرآنی طریقہ کے مطابق اگلے مہینے تم دوسرا طلاق دو، اور اگر اس کے بعد بھی تفریق کا ارادہ باقی رہے تو تیسرے مہینے تم طلاق کے عمل کی تکمیل کر کے اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہو۔
اس معاملہ میں دوسرا ممکن طریقہ ہمارے لیے یہ ہے کہ ہم سنت فاروقی کو اپنے زمانہ کے لحاظ سے اختیار کریں، یعنی ایک مجلس کی تین طلاق کو تین طلاق قرار دے کر عورت اور مرد کے درمیان تفریق کرا دیں مگر اس صورت میں لازمی طور پر ہمیں سنت فاروقی کے مطابق یہ کرنا ہوگا کہ اس مزاج کی حوصلہ شکنی کے لیے شوہر کو سخت سزا دیں۔ موجودہ قانونی نظام کے تحت غالباً یہ ممکن نہیں کہ ایسے شوہر کو کوڑا مارنے کی سزا دی جائے، مگر اس کا ایک بدل یقینی طور پر ممکن ہے اور وہ یہ کہ علمائے ہند نے جس طرح شاہ بانو بیگم کے مشہور کیس میں حکومت ہند سے مطالبہ کر کے پارلیمنٹ سے ایک قانون بنوایا تھا، اسی طرح اس معاملہ میں بھی حکومت سے مطالبہ کر کے ہندستانی پارلیمنٹ میں ایک قانون منظور کرایا جائے۔ اس قانون میں یہ طے کیا جائے کہ جو مسلمان ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے گا تو اس کی طلاق تو واقع کر دی جائے گی، مگر اسی کے ساتھ شوہر کو اپنے اس غیر شرعی فعل کی سخت سزا بھی بھگتنی ہوگی۔
راقم الحروف کے نزدیک وہ سزا یہ ہونی چاہیے کہ جس شوہر نے ایک مجلس میں تین طلاق دینے کا غیر شرعی فعل کیا ہے، اس سے جرمانہ کے طور پر بھاری رقم وصول کی جائے اور یہ پوری رقم مطلقہ عورت کو دے دی جائے۔ بالفرض اگر یہ شوہر نقد رقم دینے کی پوزیشن میں نہ ہو تو اس کو طویل مدت کے لیے قید با مشقت (rigorous imprisonment)کی سزا دی جائے۔ اس معاملے میں مانع جرم سزا (deterrent punishment)ضروری ہے۔ اس سے کم کوئی سزا اس معاملہ میں مفید نہیں ہو سکتی۔‘‘
بہرحال اس موضوع کی فنی اور دقیقی علمی بحثوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر زمانے کی ضرورتوں، حالات کے تقاضوں اور گلوبلائزیشن کے اس دور میں تیزی سے بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار اور مسائل کی روشنی میں دیکھا جائے تو اصل قابل غور نکتہ یہ سامنے آتا ہے کہ اس مسئلے کے عملی حل کیا پیش کیا جا سکتا ہے۔ کیا ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ مروجہ عائلی قوانین میں کوئی ایسی ترمیم لانے میں کام یاب ہو جائیں جس سے ایک مجلس کی تین طلاقوں کی حوصلہ شکنی ہو؟ اور کیا ہمارے لیے یہ زیادہ آسان اور بہتر نہیں کہ ہم شریعت اسلامیہ کے اصل حکم کی طرف رجوع کریں؟

مکاتیب

ادارہ

(۱)
بسم اللہ
بخدمت گرامی منزلت مولانا راشدی صاحب زید مجدہ
محترم مولانا، السلام علیکم
فروری مارچ میں انڈیا رہا۔ واپس آیا تو کچھ وقت گزرنے پر مولانا عیسیٰ صاحب سے پورے نصف درجن الشریعہ کے شمارے ملے۔ ایک پوسٹل رکھ رہا ہوں۔ ڈاک خرچ بہت آتا ہے۔ براہ کرم ڈاک سے بھجوا دیا کریں۔ ہر ماہ ملتا رہے۔ آپ نے ایک نئی طرح ڈالی ہے۔ باعث دلچسپی ہے۔ خدا کرے رفتہ رفتہ یہ تجربہ ایسے نہج میں ڈھل جائے کہ سوچ کی مثبت اور مفید تبدیلی کو راہ ملے۔ آپ کو ما شاء اللہ رفقائے قلم اچھے میسر آ گئے ہیں۔ شاید نئی نہج ہی کی برکت ہے۔ میاں انعام الرحمن صاحب خاص طور سے آپ کا بڑا ساتھ دے رہے ہیں۔ ذرا آپ کے خاص حلقے کی رعایت ان کے یہاں ہو جائے تو بڑا فائدہ ہو سکتا ہے۔
ایک شمارے میں یوگندر سکند صاحب کا مضمون ہے۔ میرے خیال میں ایسے موضوعات پر تو غیر مسلم حضرات کے لیے وسعت قابل نظر ثانی ہے۔ کم از کم ان کے قلم سے تو ملا کو گالی الشریعہ میں نہ چھپے۔ اپنے ہی اس کام کے لیے کیا کم ہیں! اور یہ جو دربار یزید کے اس چیف جسٹس ملا کا ذکر انھوں نے فرمایا ہے جس نے قتل حسینؓ کا فتویٰ دیا تھا، یہ کون بزرگ تھے؟ یہ پتہ نہیں سکند صاحب کی اپنی تحقیق ہے یا مولانا کلب صادق کی؟ کچھ اس پر روشنی پڑ سکے تو اچھا ہے۔
والسلام
نیاز مند
(مولانا) عتیق الرحمن سنبھلی
لندن
(۲)
۲ مارچ ۲۰۰۵
محترم مدیر صاحب ماہنامہ ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ
السلام علیکم
آپ کا شمارہ ۲ برائے ماہ فروری ۲۰۰۵ ایک لائبریری میں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس میں مضمون ’’فتنہ انکار سنت‘‘ صفحہ ۲۸ میری توجہ کا مرکز بنا۔ چونکہ ہم سب پر ذمہ داری ہے کہ اسلام کو اس کے صحیح خط وخال میں پیش کریں، اس لیے یہ چند سطریں آپ کی توجہ کے لیے گوش گزار کر رہا ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان پر اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت فرض ہے۔ اس کا قرآن میں متعدد جگہ ذکر ہے۔ اللہ کے احکام تو ہم کو قرآن سے ملتے ہیں اور ان کی تشریح اور تفسیر اور رسول اللہ ﷺ کا قول اور فعل احادیث سے ملتا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان احادیث کی کتابوں میں بے حد تحریف ہوئی ہے اور یہ اصل حالت میں باقی نہیں ہیں۔ امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کی اصل کتابیں جلا دی گئیں اور معدوم ہیں۔ چنانچہ آج کسی حدیث کی کتاب پر یہ تصدیق نہیں ملتی کہ یہ مطابق اصل کے ہیں۔
صحیح بخاری کی بعض مثالوں سے یہ بات واضح ہوگی:
۱۔ عمر حضرت عائشہؓ کے متعلق بخاری میں درج شدہ حدیث غلط ثابت ہو چکی ہے۔ نہ عہد خلفا میں اور نہ اس کے بعد کسی نے اس سنت پر عمل کرتے ہوئے ۶ سال کی عمر میں کسی لڑکی سے شادی کی۔
۲۔ حدیث قرطاس جس میں حضرت عمرؓ پر بہتان ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو لکھنے نہیں دیا، یہ کسی طرح درست نہیں۔
۳۔ مختصر صحیح بخاری مع ترجمہ انگریزی جو مکتبہ دار السلام ریاض سے شائع ہوئی ہے، جس میں دو ہزار دو سو تیس منتخب احادیث ہیں، اس میں درج ذیل احادیث ملاحظہ کریں:
حدیث نمبر ۱۴۸۲۔ راوی حضرت انسؓ۔ آنحضرت ﷺ دس سال مکہ میں اور دس سال مدینہ میں قیام پذیر رہے۔
حدیث ۱۵۸۰۔ راوی عبد اللہ بن عباس۔ (اسی کتاب میں) آنحضرت صلعم مکہ میں تیرہ سال رہے اور مدینہ میں دس سال۔
لکھنے والوں نے دوبارہ پڑھنے کی زحمت گوارا نہ کی۔
۴۔ وقت واحد میں تین طلاقوں کا بائن ہونا بھی حضرت عمرؓپر تہمت ہے۔ حضرت عمر قرآن کے واضح احکام کے خلاف نہیں جا سکتے تھے۔ اگر سزا کے طور پر حکم کرتے تھے تو وہ علیحدہ بات ہے۔ یہ ہمیشہ کے لیے شریعت کا قانون نہیں بن سکتا۔
دراصل شیعہ حکمرانوں کا جب حکومت پر قبضہ ہوا تو انھوں نے ساری شکل ہی بگاڑ دی اور ہمارے علما آنکھ بند کر کے آج تک اس کی پیروی کر رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی صحیح حدیث اور صحیح حکم سر آنکھوں پر، اس کی اطاعت ضروری ہے، لہٰذا اب علما کاکام ہے کہ صحیح احادیث کو الگ کریں اور اپنے دستخط سے اس کو جاری کریں۔ موجودہ حالت میں یہ نہ قابل تقلید ہے اور نہ قابل قبول۔ اس کو اصح الکتب بعد از قرآن کا درجہ دے کر اپنی من مانی احادیث شامل کر دی گئی ہیں۔
یہ بھی آپ دیکھیں کہ آنحضرت نے آخری حج کے موقع پر لاکھوں مسلمانوں کے سامنے جو خطبات دیے، ان کا ان دو ہزار دو سو تیس احادیث میں کہیں ذکر نہیں ۔ کیا وہ اس قابل نہیں؟
امید ہے کہ جواب سے سرفراز فرمایا جائے گا۔
والسلام
احقر سید مصلح الدین احمد
417/3 بہادر آباد
کراچی 74800
(۳)
محترمی جناب حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب زید مجدہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر وعافیت ہوں گے۔
’’الشریعہ‘‘ میں آپ کے مضامین پڑھ کر نہایت خوشی محسوس ہوتی ہے۔ سب کے دلوں کی ترجمانی آپ کے قلم کی زبانی بخوبی ہو جاتی ہے۔ اس پر فتن دور میں آپ قلم کے ذریعے جو خدمت انجام دے رہے ہیں، وہ بہت اہم ہے اور ہمارے علماء کی توجہ بھی اس طرف بہت کم ہے۔ 
الشریعہ اکادمی کے حالات اس کے ترجمان کے ذریعے سے معلوم ہو جاتے ہیں۔ مارچ کے شمارے میں ڈاکٹر محمود غازی صاحب کا الشریعہ اکادمی میں دیا گیا لیکچر پڑھا، جو کہ بہت ہی معلومات افزا ہے۔ ایسی چیزیں وقتاً فوقتاً طبع ہونی چاہییں۔
والسلام
محمد عمر انور
استاذ جامعہ علوم اسلامیہ
علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’ہزار سال پہلے‘‘

تاریخ نے اپنے سینے میں کئی ایسے اہل علم کے نام محفوظ کیے ہیں جنھوں نے تحریر وتصنیف اور تقریر وتدریس میں کمال حاصل کر کے اپنی مہارت کا سکہ منوایا۔ اس فہرست کو اگر بہت مختصر کیا جائے تو بھی ’’ازہر الہند‘‘ دار العلوم دیوبند کے فیض یافتہ مولانا سید مناظر احسن گیلانی کا نام سر فہرست ہوگا۔
مولانا نے اپنی تحقیقی وتصنیفی زندگی کا آغاز دار العلوم دیوبند کے زمانہ قیام ہی میں کر لیا تھا، لیکن اس پر بہار حیدر آباد دکن میں آئی جہاں آپ جامعہ عثمانیہ کے شعبہ تعلیمات سے وابستہ ہوئے۔ آپ کے قلم سے سینکڑوں مضامین اور مقالات نکلے جن پر صدق، برہان، ترجمان القرآن، القاسم اور معارف کے صفحات گواہ ہیں۔ مولانا کی مشہور تصانیف میں ’النبی الخاتم‘، ’تدوین قرآن‘، ’تدوین فقہ‘، ’تدوین حدیث‘، ’مسئلہ سود‘، ’نظام تعلیم وتربیت‘ اور ’احاطہ دار العلوم میں بیتے ہوئے دن‘ قابل ذکر ہیں۔ آپ کی کتب کی خاصیت یہ ہے کہ کتاب شروع کرنے کے بعد قاری اس کے سحر میں ایسا گرفتار ہوتا ہے کہ کتاب ختم کیے بغیر اسے چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔
اس وقت ہمارے سامنے مولانا کی کتاب ’’ہزار سال پہلے‘‘ ہے جو عالمی تہذیب وتمدن کے دل چسپ اور انوکھے پہلوؤں پر مولانا کے رشحات قلم سے مزین ہے۔ مولانا نے مختلف سیاحوں کی کتابوں کی سیاحت کے دوران میں جن عجیب وغریب اور متنوع معلومات کو سبق آموز محسوس کیا، انھیں اپنے تاثرات کے اضافے کے ساتھ قارئین کی نذر کر دیا ہے۔ کتاب کے صفحات میں برصغیر پاک وہند، چین، طرابلس اور دیگر اسلامی ممالک کی تہذیب وتمدن اور ثقافت ومعاشرت کی تصویر کے ساتھ ساتھ مسلمان سیاحوں کی بے تعصبی اور معروضیت بھی نمایاں ہے۔ کتاب کی اصل قدر وقیمت تو مطالعے ہی سے معلوم کی جا سکتی ہے، تاہم کتاب کے چند عنوانات کا ذکر دل چسپی سے خالی نہیں ہوگا:
کتے کے برابر چیونٹیاں، بدھ مت کا قبول اسلام، فصل خصومات کا حیرت انگیز طریقہ، (ہندووں کے) گوشت سے احتراز کا سبب، قرآن میں آم کا ذکر، جوئے کا رواج اور حیرت انگیز واقعات، بنی آدم کے لباس کا سفر پتے سے سونے چاندی تک، راجہ کا خط اور مسلمانوں کی تباہی کے اسباب۔
کتاب پہلی مرتبہ نصف صدی قبل شائع ہوئی تھی اور اس کا مواد ترتیب وتنسیق اور عنوان بندی سے عاری تھا۔ عربی وفارسی عبارات واقتباسات اور طویل حواشی اس پر مستزاد تھے۔ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فاضل مفتی محمد عمر انور نے عربی وفارسی عبارات کا ترجمہ کر کے، حواشی کو متن میں سمو کر اور مختلف عنوانات قائم کر کے کتاب سے استفادہ کو آسان بنا دیا ہے۔ اس طرح کتاب کا یہ ایڈیشن ظاہری وباطنی خوبیوں سے آراستہ ہے۔
یہ کتاب بیت العلم، اے ۱۲۰، بلاک نمبر ۱۹، گلشن اقبال کراچی سے طلب کی جا سکتی ہے۔ قیمت درج نہیں۔
(محمد خالد بلوچی۔ شریک ’خصوصی تربیتی کورس‘ الشریعہ اکادمی)

’’کاروان حیات‘‘

سرزمین پاک وہند ذہین وباکمال افراد کے اعتبار سے بڑی زرخیز ثابت ہوئی ہے۔ یہاں کے بہت سے نامور اہل علم نے اپنی ذاتی محنت اور لگن سے بلند مقام ومرتبہ حاصل کیا اور ان کی شہرت ملک سے نکل کر بلاد عرب وافریقہ تک جا پہنچی۔ ان باصلاحیت لوگوں میں ایک نام قاضی محمد اطہر مبارک پوری کا ہے۔ قاضی صاحب نے تصنیفی اور تحقیقی میدان میں جو کام کیا ہے، بلاشبہ اسے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ ہمارے سامنے اس وقت قاضی صاحب کی خود نوشت سوانح حیات ’’کاروان حیات‘‘ ہے جس میں ان کے سن پیدایش ۱۹۱۶ء سے لے کر ۱۹۸۸ء کے حالات درج ہیں۔ ان میں موعظت ونصیحت بھی ہے اور سیاسی حالات بھی، علمی تذکرے بھی ہیں اور شخصیات کا تعارف بھی۔ 
مصنف نے ابتدا میں تصنیف کتاب کا محرک بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’میں نے اپنی طالب علمی کی یہ کہانی خود ستائی اور خود نمائی کے لیے نہیں لکھی۔ عزیز طلبہ اس تحریر کو اس نقطہ نظر سے نہ پڑھیں، بلکہ اس کو پڑھ کر آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کریں۔‘‘ 
دیگر محاسن اور خوبیوں سے بھرپور ہونے کے ساتھ ساتھ یہ کتاب ایک بہترین استاد اور مصلح بھی ہے۔ جابجا ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے عبرت بھی حاصل ہوتی ہے اور اصلاح بھی ہوتی ہے۔ صفحہ ۱۷۰ پر جدہ میں سعودی سفارت خانہ کی طرف سے اپنے اعزاز میں دعوت کا تذکرہ کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں: ’’استقبالیہ میں کھانے کا انتظام مغربی طور پر کھڑے کھڑے تھا۔ میں نے جرات کر کے کہا کہ میں اسلام کے وطن میں نصاریٰ کے طریقہ پر نہیں چلوں گا۔ یہ کہہ کر اپنے حصے کا کھانا لے کر دوسری طرف میز کرسی پر بیٹھ گیا۔ یہ دیکھ کر سب حضرات نے واللہ صحیح واللہ صحیح کہتے ہوئے میز کرسی پر کھانا کھایا۔‘‘ مرد حق کی یہی شان ہوتی ہے۔ 
سچی بات یہ ہے کہ کتاب کے مطالعہ سے حیات مستعار کے لمحات کو قیمتی بنانے کی فکر بڑھ جاتی ہے، تحقیق اور جستجو کا ذوق بیدار ہوتا ہے، اور جہد مسلسل کے عز م میں پختگی آتی ہے۔ علمی ترقی کے خواہاں طلبہ اور علما کے لیے یہ کتاب ایک بہترین تحفہ ہے۔
خوب صورت سر ورق نے کتاب کو مزید پرکشش بنا دیا ہے، تاہم آئندہ طباعت میں اگر پروف کی اغلاط کو زیادہ توجہ کے ساتھ درست کر لیا جائے تو بہتر ہوگا۔ دو سو صفحات کی اس کتاب کو بیت العلم، گلشن اقبال کراچی نے شائع کیا ہے اور اس پر قیمت درج نہیں۔
(محمد شفیع خان عقیل۔ شریک ’خصوصی تربیتی کورس‘ الشریعہ اکادمی)

’’ارمغان حج‘‘

زیر نظر کتاب ندوۃ العلماء کے فاضل اور آکسفرڈ سنٹر فار اسلامک سٹڈیز کے ریسرچ اسکالر ڈاکٹر محمد اکرم ندوی کے سفر حج کی روداد ہے۔ مصنف نے دوران حج میں علم حدیث کے بہت سے اساتذہ اور مشائخ سے شرف ملاقات حاصل کیا اور ان سے سند حدیث حاصل کی۔ اس سے قاری علم حدیث کے ساتھ ان کے غیر معمولی شغف کا اندازہ کر سکتا ہے۔ مصنف نے ان اہل علم کے مختصر تعارف کے ساتھ ساتھ ان کی علمی خدمات کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامات مقدسہ کی زیارت کے حوالے سے ان کا مختصر تاریخی پس منظر بھی بیان کیا گیاہے۔ یوں یہ سفر نامہ ایک طرف حدیث کے طلبہ کے لیے بڑی افادیت اور دلچسپی کا حامل ہے اور دوسری طرف حرمین شریفین کی پوری تاریخ اس طرح قاری کے سامنے آ جاتی ہے کہ وہ مقامات مقدسہ میں خود کو مصنف کے ساتھ ساتھ محسوس کرتا ہے۔ 
کتاب کا ٹائٹل دیدہ زیب، کاغذ عمدہ اور کتابت عموماً اغلاط سے پاک ہے اور اسے انجمن خدام الاسلام ، جامعہ حنفیہ قادریہ، باغ بان پورہ، لاہور نے شائع کیا ہے۔ 
(فضل حمید چترالی۔ شریک ’خصوصی تربیتی کورس‘ الشریعہ اکادمی)

الشریعہ اکادمی کی سرگرمیاں

ادارہ

  • ۳۰ / اپریل تا ۲ مئی ۲۰۰۵ جامعہ اسلامیہ کامونکی میں دعوہ اکیڈمی اسلام آباد کے تعاون سے تین روزہ مطالعہ مذاہب کورس کا اہتمام کیا گیا۔ الشریعہ اکادمی میں خصوصی تربیتی کورس کے شرکا اس کورس میں اول تا آخر شریک ہوئے اور اس سے استفادہ کیا۔
  • ۸ مئی کو فیصل آباد سے جناب مولانا محمد الیاس قاسمی صاحب تشریف لائے اور بعد از نماز ظہر طلبہ سے خطاب کیا۔
  • ۱۶ مئی کو بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) جناب مستنصر باللہ اکادمی میں تشریف لائے اور طلبہ کو اپنے خیالات سے مستفید کیا۔
  • ۱۸  مئی کو اکادمی کے زیر اہتمام گوجرانوالہ کی سطح پر ایک انعامی تقریری مقابلہ کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف دینی مدارس کے طلبہ نے شرکت کی۔ 
  • ۱۹ مئی کو خصوصی تربیتی کورس کے شرکا نے مولانا عمار ناصر اور پروفیسر محمد اکرم ورک کی قیادت میں جامعہ جعفریہ گوجرانوالہ کا مطالعاتی دورہ کیا اور جامعہ کے منتظمین اور اساتذہ کے ساتھ ایک نشست میں شیعہ سنی مسئلے کے مختلف پہلووں پر تبادلہ خیال کیا۔
  • ۲۱  مئی کو اکادمی میں ’’سیرت نبوی ﷺ اورمستشرقین‘‘ کے عنوان پر ایک فکری نشست منعقد ہوئی جس میں معروف محقق جناب ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری نے پر مغز علمی خطاب کیا۔ اس موقع پر اکادمی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے تقریری اور تحریری مقابلوں میں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو انعامات بھی دیے گئے۔

جولائی ۲۰۰۵ء

سارک کی سطح پر علماء کرام اور دانش وروں کی رابطہ کی تجویزمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
پاکستان کا سیاسی کلچر ۔ ایک جائزہپروفیسر شیخ عبد الرشید 
میڈم شاہدہ قاضی کے افسانے اور حقیقتشاہ نواز فاروقی 
تغیر پذیر دنیا اور مسلم ثقافت کی داخلی نفسیاتپروفیسر میاں انعام الرحمن 
تکفیر شیعہ سے متعلق چند ضروری وضاحتیںحافظ عبد الرشید 
مکاتیبادارہ 
ورلڈ اسلامک فورم کی مرکزی کونسل کا اجلاسادارہ 
تعارف و تبصرہادارہ 
مولانا زاہد الراشدی گوجرانوالہ واپس پہنچ گئےادارہ 

سارک کی سطح پر علماء کرام اور دانش وروں کی رابطہ کی تجویز

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جنوبی ایشیا کی سطح پر سارک ممالک اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے حضرات کے درمیان رابطہ ومفاہمت اور باہمی تعاون کے فروغ کے لیے جو کام ہو رہا ہے، وہ جدید عالمگیریت کے ماحول میں ایک اہم علاقائی ضرورت ہے اور اس پس منظر میں مسلم علماء کرام اور دانش وروں کے درمیان رابطہ وتعاون کی ضرورت بھی شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے۔
اس سلسلے میں ۸ ؍جون ۲۰۰۵ کو لندن میں ورلڈ اسلا مک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری کی رہایش پر مولانا موصوف، مولانا سید سلمان حسینی ندوی (آف لکھنو، انڈیا)، مولانا سلمان ندوی (ڈھاکہ) اور راقم الحروف نے باہمی مشاورت سے طے کیا کہ سارک کی سطح پر مسلم دانش وروں کا ایک فورم تشکیل دیا جائے جو نسل انسانی کی بہتری اور فلاح کے لیے اسلامی تعلیمات کی اشاعت وتعلیم، جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے مسائل پر باہمی مشاورت اور تبادلہ خیالات کے اہتمام، دینی مدارس کو جدید عالمی ماحول کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے، علمی مراکز اور حلقوں کے درمیان رابطہ ومفاہمت کے فروغ اور انسانی سوسائٹی کو درپیش مسائل کے حل کے لیے مساعی کے حوالے سے کام کرے گا اور اس سلسلے میں جدوجہد کی ضرورت کا احساس بیدار کرنے کی کوشش کرے گا۔
اس مقصد کے لیے ندوۃ العلماء لکھنو کے مولانا سید سلمان حسینی ندوی کی سربراہی میں ایک رابطہ گروپ تشکیل دیا گیا ہے جس میں راقم الحروف اور مدرسہ دار الرشاد میر پور ڈھاکہ کے پرنسپل مولانا محمد سلمان ندوی شامل ہیں۔ باہمی مشورہ سے دیگر ارکان کو بھی رابطہ گروپ میں شامل کیا جا سکے گا، جبکہ اسی سال دسمبر کے آخری ہفتے کے دوران میں ڈھاکہ میں منعقد ہونے والے اجلاس میں فورم کی تشکیل کو آخری شکل دی جائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ

پاکستان کا سیاسی کلچر ۔ ایک جائزہ

پروفیسر شیخ عبد الرشید

سیاسی کلچر کا مطالعہ کسی خاص قوم کے عمومی مزاج اور سیاسی رویوں کا مطالعہ ہے۔ سیاسی کلچر ان قواعد، تصورات، عقائد اور اجتماعی رویوں سے عبارت ہوتا ہے جن کا تعلق سیاسی طرز عمل سے ہو۔ اس میں ایسے تمام ادارے، طور طریقے، طرز عمل، رسوم ورواجات، عقائد واقدار اور اجتماعی تاثرات شامل ہیں جو کسی مخصوص معاشرے کی شناخت ہوں۔ ممتاز ماہرین سیاست گبریل آلمنڈ (Gabriel A. Almond) اور سڈنی وربا (Sidney Verba) سیاسی ثقافت کی تین جہتوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ اول، مسلمہ ثقافت جو سیاسی نظام سے متعلق علم اور احساسات کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ دوم، موثر ثقافت جو سیاسی نظام، مقاصد اور عقائد کے بارے میں احساسات، تعلق داریوں، الجھاؤ یا نا منظوری سے متعلق ہے۔ سوم، فیصلہ کن یا تشخیصی طاقت جو سیاسی نظام سے متعلق عوامی آرا اور سیاسی بصیرت کی عکاس ہے۔ مذکورہ تینوں قسم کے رویے مل کر سیاسی ثقافت کی تشکیل کرتے ہیں۔ آلمنڈ اسی بنیاد پر مثالی کلچر کی بات کرتا ہے جسے اس نے Parochial اور Participant سیاسی کلچر کا نام دیا ہے۔ تاہم یہ سب مثالی اقسام ہیں۔ عمومی سیاسی کلچر اس طرح کے نہیں ہوتے۔
جہاں تک پاکستان کے سیاسی کلچر کا تعلق ہے، مذکورہ جہتیں ا س کی وضاحت اور تجزیے میں بھی مفید دکھائی دیتی ہیں، مگر یہ بھی وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا سیاسی کلچر سیاسیات کے روایتی دانش وروں کی بیان کردہ اقسام میں سے کسی پر بھی پورانہیں اترتا۔ سیاست، معاشرت ہی کی مرہون منت ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ Political culture reflects the ways people think and feel about politics. اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا سیاسی کلچر حصول پاکستان کے سنہری عہد کے تخیل پر مبنی خواہشات اور ظہور پاکستان کے بعد کی تلخ حقیقتوں کی متصادم نوعیت، اور جمہوری تصورات اور استبدادی حقیقتوں کے درمیان الجھن کی خصوصیت سے عبارت ہے۔ ہمارے سیاسی کلچر کا ایک پہلو یہاں معاشرے میں جمہوری تصورات پر یقین، برداشت، بھائی چارے، رواداری، اور پارلیمانی ادارو ں کے استحکام وغلبہ کی خواہش پر مبنی ہے جبکہ دوسرا پہلو تحکمانہ اور مستبد وقاہر حقیقتوں کا مظہر، مرکزیت، آمریت، اتحاد بذریعہ اسلام، عدم برداشت، انتہا پسندی، اختیارات پر ملٹری بیورو کریسی کے کنٹرول وقبضہ جیسے حقائق پر مبنی ہے۔
سادہ الفاظ میں پاکستان کا سیاسی کلچر جمہوری خواہشات اور استبدادی حقیقتوں کے درمیان جھولتا ہوا منافقانہ رویے کی کھونٹی کے سہارے کھڑا نظر آتا ہے۔ جمہوریت بابائے قوم کے کردار اور تحریک پاکستان کے راہنما اصولوں میں سے تھی، اس لیے آج بھی یہ مختلف سماجی وسیاسی گروہوں میں موجود ہے۔ جدوجہد پاکستان کے زمانے کے ادب پر نظر ڈالی جائے تو ہمارے لکھاری، نقاد، ادیب اور شاعر اپنی تحریروں میں خبردار کرتے ہیں کہ اگر جمہوریت پسند اشرافیہ اور سماجی گروہ ناکام ہو گئے تو آمرانہ قوتیں غالب آ جائیں گی، مگر آزادی کے بعد جمہوری تصور نے استحکام اور تسلسل حاصل نہ کیا۔ استبدادی حقیقتوں اور آمرانہ حکومتوں نے پاکستان معاشرے میں جمہوری روح کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں جس کا نتیجہ بڑھتی ہوئی بے چینی اور سیاسی کلچر میں تضادات کے ظہور کی صورت میں نکلا۔ نہ فوج عوام کی توقعات پرپورا اتری اور نہ ہی سول حکمران۔ ہر دور حکومت میں لوگوں میں بے اطمینانی، پست ہمتی، اندیشے اور خدشے پرورش پاتے رہے۔ اس سے وطن، حکومت اور سیاسی نظام سے متعلق عوام میں بے پروائی وسرد مہری کے عوامل ظاہر اور نمایاں ہوئے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان ایک تغیر پذیر معاشرے کا حامل ہے اور ایسے معاشروں میں سیاسی کلچر عام طور پر غیر مستقل مزاج ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود جو چیز حوصلہ افزا ہے، وہ یہ کہ جمہوری روایات واقدار کی کمزوری کے باوجود جمہوری تصورات وخواہشات یہاں کے سیاسی کلچر میں قابل ذکر حد تک موجود ہیں۔ مشہور مصنف C. Clapham نے اپنی کتاب Third World Politics: An Introduction میں ترقی پذیر معاشروں اور ممالک کے سیاسی کلچر میں تضادات کے حوالے سے تجزیہ کرتے ہوئے بجا طور پر لکھا ہے کہ تیسری دنیا کے سیاسی کلچر امرا اور عوام میں موجود سیاسی خلیج کی غمازی کرتے ہیں جو عموماً تضاد پر منتج ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی ریاست اور معاشرے کے بہت کمزور سیاسی تعلق کے بھی عکاس ہوتے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی اطمینان اور اعتماد مختلف حکومتوں کی کارکردگی کے ساتھ مختلف رہا۔ آئن ٹالبوٹ (Ian Talbot) کا کہنا ہے کہ اپنی تاریخ کے بیشتر حصہ میں پاکستان ایک قومی شناخت کی تلاش میں سرگرداں رہا ہے۔ یہاں علاقائی، پاکستانی (قومی) اور مذہبی تشخص اس طرح سے گندھے ہوئے ہیں کہ شناخت کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔ پانچ دہائیاں گزرنے کے باوجود یہ سوال جواب طلب ہے کہ آیا پاکستان مسلمانوں کے لیے ایک خطہ زمین ہے یا یہ مسلمان قوم کے لیے ایک اسلامی ریاست کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔ زبان اور مذہب کثیر قومی معاشرے میں یک جہتی ویگانگت کا جواز فراہم کرنے کے بجائے شناختوں کے تضاد کو تیز تر کر دینے کا باعث بن گئے۔ مرکزیت کی طرف مائل ریاستی ڈھانچوں نے بھی اس احساس کو اجاگر کیا کہ اوپر سے زبردستی نافذ کر دیے جانے والے پاکستانی نیشنلزم کا اصل مقصد ریاست کو پنجابی قالب میں ڈھالنا ہے۔ وہ پیچیدہ وجوہات جن کی بنا پر پاکستانی ریاست ثقافتی تنوع کو بظاہر اپنانے اور جگہ دینے میں ناکام رہی ہے، اس سلسلہ میں تین نکات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اختلاف کو سیاسی مسئلے کے بجائے امن وامان کا مسئلہ تصور کر لینے کا رجحان، مطلق العنان حکومتوں کے تسلسل کے نتیجے میں عوامی قوتوں کی بیخ کنی کی پالیسی، اور قومی امور کو نمٹانے میں پنجاب اور پاکستان کے دیگر صوبوں کے کرداروں میں عدم توازن اور عدم یکسانی۔
پاکستانی سیاست کافی متلون رہی ہے جس میں نئی وفاداریاں اور اتحاد تسلسل کے ساتھ وجود میں آتے رہتے ہیں اور مخصوص حالات کے پیش نظر سیاسی وابستگیوں میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ نظریات یا جماعتی اداروں کے بجائے شخصیتیں ہمارے سیاسی کلچر میں کلیدی حیثیت کی حامل ہیں۔ بلاشبہ ملک کی سیاست شخصیات ہی کے گرد گھومتی ہے۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ ہمارے یہاں سیاست اور خاص طور پر انتخابی سیاست پر چند با اثر خاندانوں کا قبضہ ہے جو انتخابی سیاست پر خرچ ہونے والے زر کثیر کو سرمایہ کاری تصور کرتے ہیں۔ اگست ۱۹۴۷ء سے ہی جمہوری تصورات اور آمرانہ قوتوں کے درمیان کشمکش شروع ہو گئی تھی۔ ایک طبقہ تو فوجی حکومتوں کو خوش آمدید کہنے کی سیاست کرتا ہے۔ فوج اور بیورو کریٹ کے حامیوں نے انتشار اور کسی بھی اخلاقیات سے مبرا صورت حال میں بارہا مداخلت کر کے حالات کو مزید ابتر کر دیا۔ وطن عزیز میں نصف سے زیادہ عرصہ فوجی حکومتیں رہیں۔ باقی عرصہ میں بھی فوجی عہدے داران ہی پس پردہ رہتے ہوئے نام نہاد جمہوری حکومتوں کو کٹھ پتلیوں کی طرح کنٹرول کرتے رہے اور آہستہ آہستہ طویل فوجی حکمرانی کے زیر سایہ جمہوریت پسندی، سیاسی اقدار، معیار اور رویے پس پشت چلے گئے۔ شاید اسی وجہ سے فروری ۱۹۹۷ء میں انتخابات سے کچھ پہلے کونسل آف ڈیفنس اینڈ نیشنل سکیورٹی (CDNS) کا قیام عمل میں لا کر اقتدار کے ڈھانچے میں فوج کے کردار کو رسمی شکل دینے کی کوشش کی گئی اور اب تو مستقل نیشنل سکیورٹی کونسل بنا دی گئی ہے۔ آئن ٹالبوٹ کے خیال میں یہ جمہوریت میں پنہاں تصور آزادی کو پابند سلاسل کرنے کی سعی تھی۔ ملک میں فوج کے متحرک سیاسی کردار کی وجہ سے ہی کچھ سیاسی دانش ور پاکستان کے لیے پریٹورین اسٹیٹ (Praetorian State) کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ عائشہ جلال جیسے لکھاری تو اس ملک کی پولیٹیکل اکانومی کو بھی پولیٹیکل اکانومی آف ڈیفنس کا نام دیتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس ہندوستانی پولیٹیکل اکانومی کو پولیٹیکل اکانومی آف ڈیویلپمنٹ کہا جاتا ہے۔ ایک اور منفی خصوصیت پاکستان میں غیر نمائندہ اداروں کا بہت زیادہ طاقت اور اہمیت اختیار کر جانا ہے۔ اس کے باعث ملک میں جائزیت (Legitimacy) کا بحران بھی نظر آتا ہے۔ سیاست میں نسلی گروہوں کی موجودگی بھی نمایاں ہو گئی ہے جن کے راہنما بغیر ہچکچاہٹ اور تامل کے پاکستانیوں کو پنجابیوں کا قیدی قرار دیتے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی کلچر میں شناخت کی سیاست کو بھی استقلال حاصل ہے۔
اگرچہ پاکستان کا ظہور ایک نئی شناخت کے ساتھ ہوا، مگر بعد ازاں اس کے سیاسی کلچر پر نو آبادیاتی دور کی سیاست کے اثرات بھی نمایاں رہے ہیں۔ آئن ٹالبوٹ پانچ نمایاں اثرات کا ذکر کرتا ہے۔ پہلا اثر علاقائی تشخص اور مسلم نیشنلزم کا متصادم رشتہ ہے جو تحریک پاکستان کے دوران میں بھی خصوصاً بنگال اور سندھ میں کچھ زیادہ ڈھکا چھپا نہ تھا۔ دوسرا اثر اسلام اور مسلم نیشنلزم میں نہایت ہی گنجلک اور الجھاؤ پر مبنی رشتہ ہے۔ تیسرا نمایاں اثر سیاسی عدم رواداری اور تعصب سے عبارت وہ کلچر تھا جیسے یونس صمد اپنے ایک تحقیقی مقالے "Reflections on Partition: Pakistan's Perspective" میں عدم برداشت کے سیاسی کلچر سے زیادہ سنگین صورت حال قرار دیتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد کے ادوار میں غلبہ پانے کا رجحان برقرار رہا۔ مسلم لیگ نے کانگرس اور پنجاب میں اپنے مضبوط حریف یونینسٹ پارٹی کے خلاف جدوجہد کے دوران اپنا شعار بنا لیا تھا۔ نو آبادیاتی دور کی چوتھی وراثت جسے یہاں کی مقتدر ہستیوں نے اپنے پلو سے باندھ رکھا، بالواسطہ حکمرانی کا اصول یعنی زمینداروں، قبائلی سرداروں، راجہ مہاراجوں کے ذریعے حکومت وانتظامی امر کو چلانا جو کہ نوآبادیاتی دور کا خاصہ تھا۔ انگریز حکمرانوں نے ان سرداروں اور صوفی پیروں کو سرپرستی کے ایک وسیع جال میں جکڑ رکھا تھا، البتہ انہوں نے یہ امر یقینی بنائے رکھا کہ ان کے حلیفوں کو زرعی کمرشلائزیشن اور نمائندہ اداروں کی ترقی ونمو سے کوئی خطرہ درپیش نہ ہو۔ او رپانچواں اثر ان متنوع تاریخی روایات سے متعلق ہے جو پاکستان کے ورثے میں آئیں۔ مثال کے طور پر سندھ میں ۱۹۳۰ کے عشرے میں ہی بیرونی یا غیر سندھی آباد کاروں سے متعلق رویہ یا قومی شعور تھا۔ بلوچستان کا مسئلہ، سرحد میں علاقائیت، پنجاب کے اندر علاقائیت ولسانیت وغیرہ۔ لہٰذا پاکستان میں ریاست کا متنازعہ قومی تشخص، غیر متوازن ترقی، نوکر شاہی کے آمرانہ اطوار اور ناتواں سول سوسائٹی اور طاقت ور فوج میں موجود عدم توازن، یہ سب نوآبادیاتی دور کے اثرات بھی رکھتے ہیں۔ ان اثرات کے حامل سیاسی کلچر میں آہستہ آہستہ استبدادیت، سیاسی مرکزیت، سماجی انتشار، تحمل مزاجی، عمرانی ومعاشرتی تضادات نمایاں ہوتے ہو گئے۔ مشہو رمصنف M. Kamrava اپنی کتاب "Politics and Society in Third World" میں تجزیے کے بعد رقم طراز ہیں کہ مذکورہ خصوصیات کے حامل سیاسی کلچر کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ایسے ممالک میں لوگوں کی سیاسی سوچ پر یا تو مایوسی کا غلبہ ہو جاتا ہے یا پھر انتہا پسندی کا۔ پاکستان کے متضاد سیاسی کلچر میں بھی آمرانہ وتحکمانہ رجحانات، تشدد، دہشت گردی، انتہا پسندی، عدم برداشت جیسی مشکلات نے فروغ پایا۔ دوسرے، مقتدر حلقوں اور عوامی طبقوں کے مابین سماجی اور سیاسی عدم اعتماد کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ باہمی اعتماد پاکستانی معاشرے کے اجتماعی رویوں اور انفرادی اطوار سے بھی غائب ہو گیا۔ یہی بد اعتمادی وسیاسی بے یقینی سیاسی زعما، مفاداتی گروہوں، فوج اور بیورو کریسی کے باہمی تعلق سے بھی نمایاں ہوتی ہے۔ اسی لیے ماہرین عمرانیات وسیاسیات نے پاکستان کی ریاست وسیاست پر مختلف لیبل لگائے ہیں۔ اسے کوئی کچھ قرار دیتا ہے تو کوئی کچھ اور۔ مثلاً جمال نقوی "Inside Pakistan" میں پاکستان کو Over Developed State کہتا ہے۔ S.H. Hashmi اسے Bureaucratic Polity یعنی نوکر شاہی سے مغلوب اکائی کہتا ہے۔
K. L. Kamal نے کتاب کا نام ہی Pakistan the Garrison State رکھا ہے یعنی فوجی غلبہ کی حامل ریاست۔ کمال اظفر بھی پاکستان کو فوجی ریاست ہی کا نام دیتا ہے۔ کئی ماہرین یہاں تحکمانیت (Authoritarianism) کے حوالے سے نشان دہی کرتے ہیں۔ مشہور ماہر عمرانیات حمزہ علوی ریاست اور معاشرے کے درمیان پیدا ہونے والے فاصلے اور فرق کو بونا پارٹزم (Bonapartism) کے پیمانے سے جانچتا ہے۔ بعض مفکرین کے نزدیک یہاں کے سیاسی کلچر میں جواز کی کمی اور امرا کو درپیش یہ خوف کہ نسلی، لسانی اور زیریں (Subaltarn) قوتیں ریاست کی تشکیل کو درہم برہم کر دیں گی۔ یہی یہاں کا بنیاد ی مسئلہ ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قومیتی وگروہی تحریکوں سے نپٹنے کے لیے پاکستان کے سیاسی مقتدر طبقے نے جبر واستبداد پر مبنی پالیسیاں اپنائی ہیں اور افہام وتفہیم سے ہمیشہ گریز کیا ہے، چنانچہ ماہرین سیاسیات کا خیال ہے کہ پاکستان کے سیاسی کلچر میں تصادم بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ۸۰ اور ۹۰ کی دہائی میں ذرا بہتری رہی اور ہمارے ہاں بھی اتھارٹی کی جائزیت کا تصور ابھرا۔ سیاسی مفکر Ronald Inglehart نے امریکن پولیٹکل سائنس ریویو کے دسمبر ۱۹۸۹ کے شمارے میں اپنے ایک آرٹیکل "The Renaissance of Political Culture" میں لکھا کہ 
"Interpersonal trust and commitment to democratic order are a pre-requisite for the development of Pluralistic Culture."
یعنی سیاسی حکم سے پیدا ہونے والا باہمی اعتماد ومعاہدہ سیاسی کلچر کی ترقی کے لیے لازمی شرط ہے۔ ایک ایسا سیاسی کلچر جس میں اختلاف رائے احترام کے ساتھ برداشت کیا جائے۔ سیاسی شرکت وباہمی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے، وہی جمہوریت کے لیے پائیدار راہ ہموار کرتا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں باہمی اعتماد اور جمہوری اداروں سے کمٹمنٹ ہمیشہ کمزور رہی۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے پروفیسر سجاد نصیر نے ۶ جولائی ۱۹۸۵ کو روزنامہ ڈان میں اپنے ایک مضمون Politics of Dissent میں لکھا کہ
A political culture in which dissent is tolerated and respected, political participation and associational activity are encouraged, is likely to pave the way for the democratic order. Unfortunately, in Pakistan political culture, interpersonal trust and commitment to democratic institutions have both remained rather weak. This is primarily because dissent has been treated as a non functional category in our political vocabulary.
بلاشبہ جب تک اختلاف کو ایک پسندیدہ عمل سمجھ کر قبول اور برداشت نہیں کیا جاتا، جمہوری رویے، روایات اور اقدار فروغ نہیں پا سکتے۔ لوگوں کا جمہوری ڈھانچے پر اعتماد صرف اختلاف کی سیاست سے ابھرتا ہے۔ اس موقع پر پاکستان کے سیاسی کلچر کی تشکیل کرنے والے بڑے عوامل کا مختصر جائزہ بھی ضروری ہے۔ اسے تین جہتوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔

روایتی سماجی وسیاسی ڈھانچہ

پاکستان کے سیاسی وسماجی ڈھانچے پر جاگیرداروں کا غلبہ ہے۔ ہر انتخابی نتیجے میں واضح ہوا کہ شہری حلقوں سے تو شاید پروفیشنل کاروباری حضرات میدان سیاست میں آتے رہے، مگر دیہی اور قبائلی علاقوں پر زمین داروں اور سرداروں کا ہی کنٹرول رہا۔ دیہی علاقوں میں وڈیروں نے تبدیلی اور جدیدیت کو متعارف کروانے کے بجائے اختیارات وطاقت سے لطف اندوز ہونا ہی پسند کیا۔ یہ زمیندار بڑھتے ہوئے سیاسی شعور کے بجائے لگان داری پر انحصار کرتے ہیں جو ان کے لیے ووٹ بینک کا کام بھی کرتے ہیں۔ ان مزارعوں کی سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی بندگی کے گرد گھومتی ہے۔ اس نظام میں انفرادیت کی کوئی حیثیت نہیں۔ شناخت محض ایک درمیانے ایجنٹ کی ہوتی ہے جسے حقارت انگیز اصطلاح میں ’’چمچہ‘‘ کہا جاتا ہے، جو خود طاقت ور نہیں ہوتا لیکن طاقت پر کنٹرول رکھنے والوں تک رسائی رکھتا ہے۔ یہ ڈھانچہ جاتی تعلق دو طرح کے اختیاراتی طریقوں کو رواج دیتا ہے۔ پہلا طریقہ گروہ بندی ہے۔ زمیندار زعما ایک ہی طرح کی سماجی بنیادوں کی بجائے گروہ بندی میں تقسیم ہوتے ہیں۔ یہ تضاد عمومی اور پر پیچ ہوتا ہے۔ سیاسی خاندان شعوری طور پر گروہ بندی کو ابھارتے ہیں۔ جیسے سندھ میں مخدوم، پیر، سید اپنے اپنے گروہوں کے راہنما ہیں۔ پنجاب میں لغاری، قریشی اور ٹوانے نہ صرف جاگیردار خاندانوں سے ہیں بلکہ گروہی لیڈروں کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ اس طرح بلوچستان اور سرحد میں معاشرے کے قبائلی طرز کے باوجود قبائلی لیڈر سیاسی راہنما ہی ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں گروہ بندی، ٹریڈ یونینز ودیگر تنظیموں میں منتقل ہوئی ہے۔ یہ گروہی تضادات انتشار کو جنم دیتے ہیں، لیکن یہ اختیار یا طاقت کو تقسیم نہیں کرتے۔ یہ دل چسپ تضاد نہ ختم ہونے والا ہے۔ دو سرا طریقہ اختیاراتی مرکزیت واستبدادیت کا ہے۔ وڈیرے صرف دولت کو ہی کنٹرول نہیں کرتے بلکہ اختیارات پر بھی قابض ہیں۔ دیہی نظام میں روایتی اختیار پر جاگیرداروں، پیروں، وڈیروں کی نگرانی ہوتی ہے۔ یہ اپنے مزارعوں اور مریدوں کی سرپرستی کرتے ہوئے معاون کا رشتہ قائم رکھتے ہیں، یہاں تک کہ شہری گروہ اس اصول کو اپنا لیتے ہیں۔ سیاسی راہنماؤں کا انداز زمینداروں سے مختلف نہیں ہوتا۔ یہ اختیاراتی طریقہ ہے جو مغلیہ عہد سے شروع ہوا۔ غیر منقسم ہندوستان میں برطانوی آقاؤں نے اسے مضبوط کیا اور اب تک قائم ہے۔

نو آبادیاتی رویے

زمیندار زعما مکمل طور پر خود مختار نہیں ہوتے۔ ان کی سرپرستی نوکر شاہی کی اشرافیہ کرتی ہے۔ اس سرپرستی نے دیہی سطح پر زمینداروں کے مقام کو بلند کیا ہے۔ بیورو کریٹ اشرافیہ اس سرپرستی سے دوہرا عمل انجام دیتی ہے۔ ایک طرف یہ حکومتی افسران کے اختیار کو مستحکم کرتے ہیں تو دوسری طرف ان لوگوں کے مقام کو بڑھاتے ہیں جو حکومتی سرپرستی حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح استبدادیت پاکستان ذہن وافکار میں پختہ ہو گئی ہے۔ استبدادی تحکم نے سرایت کرنے والے عنصر کے طور پر ترقی کی ہے۔ عام خیال ہے کہ حکومتی اختیار نے زمیندار زعما کے اختیار کو بڑھایا ہے جبکہ غریب انصاف سے محروم ہوتا چلا گیا ہے۔ تاہم بیورو کریسی کا غلبہ یکساں نہیں رہا۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں بیورو کریسی نے زمینداروں پر وسیع اثر قائم کیا مگر ستر کے عشرے میں زمینداروں نے سیاسی اثر پھر حاصل کر لیا۔ ۸۰ کی دہائی کے وسط میں ہی جمہوری پالیسی سے زمیندار دوبارہ اپنی برتری کا دعویٰ کرنے لگے۔ اس کشمکش کے باوجود یہ نظر آتا ہے کہ جاگیردار مسلسل جدوجہد کرتے ہیں،جمہوریت کی وکالت کرتے ہیں اور جمہوری عمل میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ۸۰ کی دہائی میں ایم آر ڈی اس کی نمایاں مثال ہے۔ یہ بھی دل چسپ پہلو ہے کہ آزادی سے پہلے بیورو کریٹ اور زمین دار زعما کے درمیان تعلق زیادہ تھا مگر بعد میں فوجی زعما نے ان کے درمیان پیچیدگی پید اکی ہے۔ فوج کے سیاسی کردار اور آمرانہ مزاج نے پاکستان کے سیاسی کلچر میں استبدادیت کو رواج دیا ہے۔

اسلام کا کردار

ہمارے سیاسی عقائد پر اسلام کا اثر بہت گہرا ہے۔ اسلام نے پاکستانی اقدار کے ڈھانچے کی تخلیق میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ Stanley Kochanek اس حوالے سے کہتا ہے:
Two most important influences on the political culture of Pakistan are Islam and the folk milieu of the Traditional order.
یہ درست ہے۔ اسلام خاص طور پر سنی اسلام میں چرچ یا Priesthood کا کوئی تصور نہیں۔ تاہم تنظیمی اعتبار سے یہ اہم ہے کہ توقع کی جاتی ہے کہ علما کی نصیحت پر سنت اور اسلامی قوانین کے مطابق عمل کیا جائے گا۔ یہ بات سماجی رویے اور مذہبی اقدار کو باقاعدہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسلامی ممالک میں حکمران طبقہ خود کو خدا کا نمائندہ سمجھتے ہوئے اپنی خواہش کی مکمل اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے۔ اسلامی دنیا کا مشاہدہ کرنے والا P. J. Vatikiotis اپنی کتاب "Islam and the State' میں گیارہویں صدی سے اسلام کی واحد تھیوری کے حوالے سے رقم طراز ہے کہ:
"The only Political theory of Islam has been that of Passive obedience to any de facto authority, government by consent remains an unknown concept, autocracy has been the real and in the main only experience."
یہ بات پاکستان کے سیاسی کلچر میں تحکمانہ حکمرانی کی اطاعت وفرماں برداری میں بھی نظر آتی ہے۔ سنی مسلمان کا مزاج استبدادیت کی اطاعت کا مزاج رہا ہے۔ یہاں بھی سنی مسلمانوں کی اکثریت کے ملک میں مرضی ومنشا کی حکومت محض فریب نظر ہے۔ ڈاکٹر سعید شفقت کے خیال میں
Centralisation and the authoritarian tenets of Islam have been used as political instrument to promote authoritarianism and regimentation rather than encourage egalitarian, participatory and democratic tendencies.
اسلام کے ایسے استعمال کے ذریعے ہی حکمران طبقہ نے استبدادی رجحانات وعقائد کے ذریعے اپنے اختیارات میں اضافہ کیا۔ ۸۰ کی دہائی میں استبدادی قوتوں اور جمہوری خواہشات کے درمیان کشمکش شرو ع ہوئی جو ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۹۹ کو ایک بار پھر فوجی حکمرانی پر منتج ہوئی۔ اس کے بعد سے دوبارہ یہ کشمکش جاری ہے۔ پاکستانی سیاسی تاریخ کے مطالعے سے بآسانی ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہاں حاکم استبدادیت پسند ہیں، جبکہ عوام ناخواندہ، غیر منظم، شعور مدنیت سے ناآشنا اور غیر جمہوری رویوں کے حامل ہیں، اس لیے یہاں سیاسی کلچر میں شراکتی جمہوریت وسیاست کا فروغ ممکن نہ ہو سکا۔
یہ کھلی حقیقت ہے کہ طویل فوجی آمریتوں نے پاکستان کے سیاسی کلچر کی نس سے جمہوری خواہشات نچوڑ لی ہیں ۔ سیاسی عمرانیا ت کی اصطلاحوں اور اقدار کی روشنی میں فوجی حکومتیں استبدادیت کو بڑھانے اور اختیارات کے استعمال میں خود غرضی کو فروغ دینے کا سبب بنی ہیں تو ساتھ ہی ساتھ جمہوری قدروں، روایات، رویوں اور معیارات کو کمزور کرنے کا سبب ہوتی ہیں، مگر ہمارے یہاں تو جمہوری اقدار کی ترقی کے حوالے سے سول حکمرانوں کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی ہے کہ اکثر سول حکمران جائز راستوں سے آنے کے بجائے جی ایچ کیو کے سیاسی پولٹری فارم سے آنے والے رہنما تھے جن کی اپنی ٹانگیں کمزور تھیں۔ یہ شیور سیاست دان سول سوسائٹی کو مستحکم کرنے کی قوت واہلیت نہیں رکھتے تھے۔

زبان اور علاقائیت

زبان صرف تبادلہ خیال اور تاثرات کے اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک شناخت بھی ہے۔ پاکستان مختلف زبانوں کا مجموعہ ہے اور اس کی تمام علاقائی زبانیں ترقی کا یکساں معیار نہیں رکھتیں اور نہ ہی تمام لسانی گروہ علاقائی زبانوں کے معیار اور نسلی شناخت کو یکساں سمجھتے ہیں۔ یہ لسانی انسیت اور لسانی قومیت پنجاب میں کم ظاہر ہوئی تاہم سندھ میں مضبوط ہے۔ یہی حال سرحد اور بلوچستان کا ہے۔ ان لسانی شناختوں نے پاکستانی سیاسی کلچر کو منتشر بنا دیا ہے۔ ان لسانی تضادات کے جواب کے لیے کئی حکومتیں بنیں اور وقتاً فوقتاً متحد کرنے والی قوت اور سرکاری شناخت کے طور پر اسلام کو بھی بارہا استعمال کیا گیا۔ پاکستانی، سیاسی کلچر میں اسلام کے کردار کے حوالے سے دو گروہ ہیں۔ ایک کا خیال ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ اگر اسلام کے مرکزی کردار کو تسلیم کیا جائے تو یہ اس ملک کے تضادات اور نسلی اختلافات کو ختم کرنے کے لیے متحد کرنے والی ایک قوت ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ پاکستان کی تمام سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی بیماریوں کا علاج ہے۔ اسلام پر زور تمام حکومتیں دیتی رہی ہیں کہ یہ سرکاری نظریہ کے طور پر مرکزیت پر یقین رکھنے والی قوتوں کو تحفظ دیتا ہے۔ دوسرا گروہ پاکستان کو ایک ریاست تو مانتا ہے مگر یہ کہتا ہے کہ یہاں ایک سے زیادہ زبانیں اور کلچر ہیں۔ ان زبانوں اور ثقافتوں کو ان کی تاریخ، روایات اور معیارات کے مطابق ترقی کے مواقع ملنے چاہییں۔ نیز لامرکزیت اور زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری سے پاکستانی کلچر میں یک جائی وہم آہنگی بڑھے گی۔ اسی تضاد کے پیش نظر فیض نے کہا تھا کہ پاکستانی سیاسی کلچر کو عیاں کر کے قومی شناخت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس طے شدہ مرکز میں سب سے اندرونی دائرہ اسلام ہے۔ دوسرا دائرہ ہماری علاقائی ثقافت کا ہے۔ سب سے باہر والا دائرہ پاکستانی علاقہ، تاریخ اور عام ورثہ ہے۔ اگر ہم سیاسی کلچر اور قومی شناخت کو ان دائروں میں دیکھیں تو یہ ایک دوسرے کا دروازہ کھولتے ہیں۔ اس صورت میں سماجی اقدار، نسلی شناخت اور مذہبی خواہشات سے سیاسی رجحانات میں توازن پیدا ہوتا ہے۔ اس سے جمہوری رویے اور سوجھ بوجھ کی نشو ونما ہوتی ہے۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ نو آبادیاتی روایتی طرز فکر، اسلام کے مقلدانہ کردار اور نسلی ولسانی عناصر نے پاکستان کے سیاسی کلچر پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ہمارے ہاں ان مخلوط اثرات نے ایک طرف استبدادیت، مرکزیت، عدم برداشت اور کبھی نہ ختم ہونے والے جھگڑوں کو فروغ دیا تو دوسری طرف جمہوریت کے حوالے سے تصورات وخواہشات پیدا کیں، تاہم ہمارے سیاسی زعما اور عوام تقابلی سیاست اور جمہوری اداروں کے استحکام کی ضرورت سے آشنا ہیں۔ ہمارے سیاسی کلچر کا دل چسپ پہلو یہ ہے کہ ہماری نصف صدی سے زاید کی تاریخ میں عوام مستبد حکمرانوں کی پیروی میں وقتی طور پر پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور فوجی حکمرانوں کو تسلیم کر لیتے ہیں اور نئی قوت ونئی مضبوطی سے دوبارہ ظاہر ہوتے ہیں جیسا کہ جنرل مشرف کے آنے کے بعد بھی دیکھا گیا۔
ہر جمہوری کوشش سماجی آزادی کے لیے بڑے پیمانے پر جوش پیدا کرتی ہے لیکن جب لوگوں کی توقعات ختم ہو جائیں تو سیاسی اشرافیہ اور سماجی گروہ طاقت حاصل کرتے ہیں۔ کیا جمہوری قوتیں آمرانہ قوتوں پر برتری حاصل کر سکتی ہیں؟ آج پاکستان کا سیاسی کلچر ابتدائی سطح پر ہے۔ یہ مختلف زعما، سیاسی راہنماؤں اور سماجی گروہوں کے درمیان سیاسی ناپختگی کا عکاس ہے۔ یہ اس ابتدائی سطح پر ہے جہاں پر استبدادی جواز، نسلی شعور، اور معاشی خلیج نے سیاست کے تضاد کو شدید کیا ہے۔ یہ پاکستانی راہ نماؤں کے مفاد میں ہے کہ افہام وتفہیم کے راستے تلاش کریں۔ سیاسی ماحول کی تشکیل کے لیے تدبر وفراست کی حوصلہ افزائی کر کے مخالفین کے درمیان نظریاتی اور مفاداتی تضادات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ جمہوری فہم وادراک ہی پاکستان معاشرے اور ریاست کو مضبوط کرے گا۔ پاکستان کے مستقبل اور کامیابی کا انحصار پاکستانی زعما یا اعیان پر ہے نہ کہ عوام پر۔ کام مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔

میڈم شاہدہ قاضی کے افسانے اور حقیقت

شاہ نواز فاروقی

(’الشریعہ‘ کے مئی ۲۰۰۵ کے شمارے میں پروفیسر شاہدہ قاضی کی تحریر ’’تاریخی افسانے اور ان کی حقیقت‘‘ شائع ہوئی تھی۔ روزنامہ جسارت کراچی کے کالم نگار شاہ نواز فاروقی صاحب نے اس کے بعض مندرجات پر تنقید کی ہے جسے یہاں نقل کیا جا رہا ہے۔ اس موضوع پر بحث ومباحثہ کی وسیع گنجایش موجود ہے اور اگر کوئی صاحب علم زیادہ پختگی اور معروضیت کے ساتھ زیر بحث نکات پر اظہار خیال کرنا چاہیں تو ’الشریعہ‘ کے صفحات اس کے لیے حاضر ہیں۔ مدیر)

ان دنوں پاکستان میں اسلام، اسلامی تاریخ اور تاریخ پاکستان کے ’’مزے‘‘ آئے ہوئے ہیں۔ کوئی اسلام کو مشرف بہ اعتدال کرنے پر لگا ہوا ہے، کسی نے اسلامی تاریخ کو مشرف بہ حقیقت کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے اور کوئی تاریخ پاکستان کی چولیں درست بٹھانے کے لیے کوشاں ہے۔ نتیجہ یہ کہ ریڈیو اسٹیشنز ہوں یا ٹیلی ویژن چینلز، اخبارات ہوں یا رسائل وجرائد، ہر طرف علم، تحقیق اور فکر کے دریا بہہ رہے ہیں اور ہم جیسوں کا حال Alice in wonder land کی ایلس جیسا ہے۔ کبھی حیران ہو رہے ہیں اور کبھی پریشان۔
جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کی پروفیسر شاہدہ قاضی نے ڈان کراچی کی ۲۷ ؍مارچ کی اشاعت میں علم وتحقیق کا ایک ایسا ہی دریا بہایا ہے۔ یہاں ہماری مشکل یہ ہے کہ پروفیسر شاہدہ قاضی صاحبہ ہماری استاد رہی ہیں اور ہم انھیں آج بھی میڈم کہتے ہیں اور وہ بھی ایک استاد کی طرح شفقت فرماتی ہیں۔ اس صورت میں گفتگو کی دشواری عیاں ہے، لیکن یہاں تین باتوں سے ہماری حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ ایک بات تو یہ کہ ہم دور طالب علمی میں بھی میڈم کو پریشان کرتے رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ میڈم نے مسائل دلچسپ چھیڑے ہیں۔ تیسری بات یہ کہ ہمیں کون سا میڈم کی طرح علم وتحقیق کی گنگا بہانی ہے؟ یہ کام ہم جیسے بنیاد پرستوں کو کبھی آیا ہی نہیں۔
میڈم کے مضمون کا عنوان ہے "The myth of History"، یعنی تاریخ کا اسطور یا تاریخ کا افسانہ۔ میڈم کے مضمون کے ابتدائی حصے کا لب لباب یہ ہے کہ تاریخ اور Myth کے درمیان باریک فرق ہے اور انسان ہمیشہ سے ان Legends کے لیے ٹھوس جواز تلاش کرتا رہا ہے جو ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کی دہائی میں ایک تحریک چلی جس میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ قدیم اساطیر کے دیوتا حقیقت میں وجود رکھتے ہیں، لیکن پاکستانیوں کی بات ہی اور ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں کوئی مناسب Mythology نہیں ہے، چنانچہ ہم نے سپر ہیروز کی اچھی خاصی کہکشاں تخلیق کر ڈالی ہے اور نہ صرف یہ، بلکہ ہم نے ان ہیروز کے گرد اساطیری تانا بانا بھی بن ڈالا ہے۔ یہ تمام چیزیں ہم ابتدا میں ہی اپنے بچوں کے ذہنوں میں انڈیلتے رہتے ہیں، چنانچہ پھر ان کے لیے حقیقت کا اظہار بھی گناہ بن جاتا ہے۔ اس کے بعد میڈم نے دس Myths پیش کیے ہیں اور ایک ایک کا الگ الگ تجزیہ کیا ہے، لیکن ان کا ذکر بعد میں ہوگا۔ پہلے ہم ان امور کاجائزہ لے لیں جن کی نشان دہی مذکورہ بالا سطورمیں کی گئی ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ لفظ Myth کے معنی کیا ہیں؟ یہاں ہم کسی مسلمان دانش ور کا حوالہ دیں گے تو میڈم کہیں گی کہ مسلمان کا حوالہ تو جانب داری ہے، چنانچہ ہم آنند کمار سوامی کے پاس چلتے ہیں۔ کون آنند کمار سوامی؟ آنند کمار سوامی ۲۰ ویں صدی میں ہندو ازم پر سب سے بڑی اتھارٹی سمجھے گئے ہیں۔ قدیم اور روایتی آرٹ اور مختلف تہذیبوں میں Mythology کی روایت ان کا خاص موضوع تھا اور وہ کم وبیش پچاس سال تک انھی موضوعات پر لکھتے رہے۔ وہ سنسکرت، یونانی، لاطینی، اطالوی، فرانسیسی، عربی، فارسی، عبرانی، سریانی اور انگریزی سے واقف ہی نہیں، ان کے ’’ماہر‘‘ تھے۔ ان کی تحریروں میں ان زبانوں سے براہ راست استفادے کی ہزاروں شہادتیں موجود ہیں۔ ان آنند کمار سوامی کا کہنا ہے کہ Myth کے جو معنی جدید لغات میں بیان کیے گئے ہیں، وہ سرسری، سطحی، محدود، چنانچہ غلط ہیں۔ Myth خیالی پلاؤ، ماضی کا افسانہ یا انسانی تخیل کی پرواز نہیں۔ ان کے نزدیک Myth کی تعریف یہ ہے:
’’ایک ایسی حقیقت جس کی حقیقی معنویت گم ہو گئی ہو۔‘‘ (Figure of Speech or Figure of Thought, p. 212)
چنانچہ آنند کمار سوامی کا خیال ہے کہ Myth کی حقیقی معنویت کی بحالی کے ذریعے اسے زندہ حقیقت میں تبدیلی کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ میڈم کے لیے آنند کمار سوامی کا پہلا مشورہ یہ ہے کہ وہ Myth کی غلط تعریف پر نظر ثانی کریں۔ وہ ایسا کر لیں گی تو ان کے مضمون میں موجود کئی تبصروں، مشاہدوں اور آرا کی معنویت ہی بدل کر رہ جائے گی، بلکہ انھیں پھر اپنے مضمون کا عنوان ہی بدلنا پڑ جائے گا۔ ہمیں لفظوں، اصطلاحوں اور تصورات کو ان کے حقیقی معنی میں استعمال کرنا چاہیے۔ دانش وری، علم اور تحقیق ہی کا نہیں، ایمان داری کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اب دیکھیے نا میڈم نے Myth کے لفظ کو غلط معنوں میں استعمال کر کے بجائے خود ایک اسطور یا ایک افسانہ اور ایک فینٹیسی تخلیق کر ڈالی، حالانکہ انھوں نے اپنے مضمون میں اسی شے کے خلاف جہاد کیا ہے، لیکن یہ تو محض میڈم کا تخلیق کردہ پہلا Myth ہے۔ 
میڈم شاہد ہ نے خیال ظاہر کیا ہے کہ چونکہ ہمارے پاس Proper Mythology نہیں ہے، اس لیے ہم نے گویا اس کی ’’کمی‘‘ سپر ہیروز تخلیق کر کے پوری کی ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو میڈم نے ایک جملے میں ایک نہیں، دو Myth تخلیق کر ڈالے ہیں۔ پہلا Myth تو یہ ہے کہ ہمارے پاس ’’مناسب‘‘ اساطیری سرمایہ نہیں ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس غیر مناسب اساطیری سرمایہ بھی نہیں ہے، بلکہ ہماری تاریخ میں Myth لفظ کا سایہ تلاش کرنا بھی محال ہے، یعنی ہماری تاریخ میں Myth لفظ نہ غلط معنوں میں موجود ہے نہ صحیح معنوں میں، چنانچہ جو چیز موجود نہیں اور کبھی اہم نہیں سمجھی گئی، اس کی ’’کمی‘‘ کا مسئلہ لاحق ہونا بعید از قیاس ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ صرف پاکستانی قوم کا نہیں ہے بلکہ پوری امت مسلمہ کا بحیثیت مجموعی یہی معاملہ ہے، لیکن ہمارے یہاں Myth کیوں نہیں ہے؟
اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو اسلام ہزاروں سالہ تاریخ کے تناظر میں کل کی بات ہے اور Mythology معروف معنوں میں ماقبل تاریخ کی چیز ہے، چنانچہ ہمارے پاس Mythology آتی تو کہاں سے آتی؟ دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ اتنی شاندار، اتنی جاندار، اتنی پراسرار، اتنی معجزانہ، اتنی دلکش اور اتنی معنی خیز ہے کہ مسلمانوں کو کسی Mythology کی ضرورت ہی نہیں۔ ایک ایسا دین جس نے اپنے ظہور سے حضرت عمر فاروق کے زمانے تک اپنے لاکھوں پیروکار پیدا کر لیے ہوں، جس نے صرف تین دہائیوں میں اپنے وقت کی دو سپر پاورز کو شکست دے دی ہو، جس نے ۳۰، ۳۵ سال میں دو کروڑ مربع کلو میٹر رقبہ فتح کر لیا ہو، اس کے ماننے والوں کو نہ کسی اسطور کی حاجت ہو سکتی ہے اور نہ انھیں سپر ہیروز کی تخلیق کی نفسیاتی ضرورت کے مسئلے سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔
خود جنوبی ایشیا میں بھی مسلمانوں کے کارنامے کم نہیں۔ انھوں نے یہاں ہزار سال تک حکومت کی ہے۔ انھوں نے یہاں ایک نئی زبان اردو تخلیق کی۔ میر خسرو، میر، غالب، اقبال جیسے شاعر پیدا کیے۔ اٹھارہویں، انیسویں، اور بیسویں صدی میں ایسے علما پیدا کیے جن کی مثال پورے عالم اسلام میں کہیں موجود نہیں۔ مسلمانوں نے تاج محل، دہلی کی جامع مسجد اور لاہور کی شاہی مسجد تعمیر کی۔ شیر شاہ سوری نے زرعی اراضی کی پیمایش اور سڑکوں کی تعمیر کے شعبے میں انقلاب آفریں مثالیں قائم کیں۔ ہندو معاشرت کا شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہوگا جس پر مسلمانوں نے اثرات نہ مرتب کیے ہوں۔ تفصیلات کے لیے دیکھیے ڈاکٹر تارا چند کی مشہور زمانہ تصنیف "Influence of Islam on Indian Culture"۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسی ملت کے پاس حقیقی ہیروز کی کیا کمی ہو سکتی ہے؟ گویا یہ میڈم کا تخلیق کردہ دوسرا Myth تھا۔
چلیے تھوڑی دیر کے لیے مانے لیتے ہیں کہ ہم نے ہیروز گھوڑے ہوں گے، لیکن کیا اس مرض میں صرف ہم ہی مبتلا ہیں؟ یہ دنیا کی تمام اقوام کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ اگر یہ مرض صرف ہمیں لاحق ہے تو پھر ہم یقیناًسزا اور اس سلوک کے مستحق ہیں کہ ہمیں اقوام عالم کی برادری سے نکال کر الگ کھڑا کر دیا جائے، لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناًایسا نہیں ہے تو پھر مذکورہ تبصرہ بجائے خود ایک Myth ہے۔
میڈم نے لکھا ہے کہ ہم اپنے سپر ہیروز کی شخصیت اور کارناموں کو اوائل عمر ہی سے اپنے بچوں کے ذہنوں میں انڈیلنے لگتے ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ میڈم کا ایک اور خود ساختہ Myth ہے۔ میڈم کے دانش میں ڈوبے ہوئے تبصرے سے لگ رہا ہے جیسے مذکورہ کام صرف ہم ہی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس دنیا کی باقی اقوام کا وتیرہ یہ ہے کہ جب ان کے بچے پچیس تیس سال کے ہو جاتے ہیں تب وہ اپنے ہیروز اور ان کے کارناموں سے انھیں آگاہ کرتی ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ باقی اقوام کی تاریخ ہماری تاریخ کی طرح افسانہ اور ان کے ہیروز ہمارے ہیروز کی طرح متنازعہ نہیں ہوتے۔ کیا میڈم کا دعویٰ یہ ہے؟ تو سوچیے پونے دو سو اقوام کی عالمی برادری میں سے کس قوم اور کس ملک کی تاریخ اور ہیروز ملاحظہ کریں۔ غالباً اس سلسلے میں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ بھارت کو اس کا آئین دینے والے ڈاکٹر امبیدکر نے اپنی خود نوشت میں بھارت کے یوم آزادی یعنی ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ کی تعبیر یہ کی ہے:
’’آج ہم برطانوی سامراج سے آزاد ہو کر دوسرے (یعنی برہمن) سامراج کی غلامی میں چلے گئے۔‘‘
تو کیا بھارت کے اسکولوں میں یہ ’’تعبیر‘‘ بھی پڑھائی جاتی ہے؟ کیا گاندھی جی کو مہاتما نہیں کہا جاتا؟ اب کہاں سامراج اور کہاں مہاتما؟
چلیے امریکا چلتے ہیں۔ امریکا کے بانیان کے بارے میں وہاں کے بچوں کے ذہنوں میں کیا انڈیلا جاتا ہے؟ کیا یہ کہ وہ عظیم لوگ تھے؟ یا یہ کہ امریکا کے بانیوں نے ریڈ انڈینز کے آبائی ملک پر قبضہ کیا اور دو سو سال میں دو کروڑ ریڈ انڈینز کو قتل کر کے عظیم امریکا کی بنیاد رکھی؟ لیجیے معلوم ہوا میڈم نے ایک اور متھ کو گرانے کی کوشش میں خود ایک اور متھ تخلیق کر دیا۔ یہاں تک آتے آتے ہم سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ میڈم نے متھ توڑنے کے لیے مضمون لکھا ہے یا نئے متھ تخلیق کرنے کے لیے؟
میڈم شاہدہ قاضی کے دس Myths کی سیریز کا پہلا Myth کیا ہے؟ انھی کے الفاظ میں سنیے: ’’ہماری تاریخ ۷۱۲ عیسوی میں اس وقت شروع ہوئی جب محمد بن قاسم نے برصغیر میں قدم رکھا اور دیبل کا ایک حصہ فتح کر لیا۔‘‘
میڈم سوال اٹھاتی ہیں: مگر اس سے قبل کیا تھا؟ بقول ان کے ہمارے درسی کتب کے مطابق اس سے پہلے راجہ داہر جیسے ظالم حکمرانوں کی حکمرانی تھی جن کے ظلم سے ان کی پرجا عاجز آئی ہوئی تھی۔ محمد بن قاسم آئے اور انھوں نے مظلوموں کو ظلم سے نجات دلائی۔ یہی وجہ ہے کہ مقامی لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور بڑے پیمانے پر مشرف بہ اسلام ہونے لگے۔ میڈم کے مطابق ایسا نہیں تھا۔ یہ علاقہ چھ ہزار سال پرانی اور شان دار تہذیبوں کا مرکز تھا۔ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹیاں یہاں تھیں۔ لوگ انتہائی مہذب اور تعلیم یافتہ تھے، لیکن میڈم کے بقول ہم اپنے بچوں کو یہ سب نہیں بتاتے۔
متھ نمبر ۱ کا جواب: جنوبی ایشیا میں ہماری تاریخ یقیناً۷۱۲ء سے شروع ہوئی۔ یہاں ’’ہماری‘‘ سے مراد ’’مسلمانوں‘‘ کی تاریخ ہے۔ بلاشبہ اس علاقے کی منضبط تاریخ چھ ہزار سال پرانی ہے، لیکن تاریخ دو طرح کی ہوتی ہے، مردہ تاریخ اور زندہ تاریخ۔ مردہ تاریخ مردہ ہو کر میوزیم میں پہنچ جاتی ہے، جیسے موئن جودوڑو اور ٹیکسلا کی تاریخ۔ اس تاریخ سے ہمارا تعلق تجسس کا ہو سکتا ہے، لیکن اس سے ہمارا تعلق تخلیقی، متحرک اور زندہ نہیں ہو سکتا۔ بندروں کے بارے میں محققین کا کہنا ہے کہ ان کا بچہ مر جاتا ہے تو بندریا کئی کئی دنوں تک مردہ بچے کی لاش کو سینے سے لگائے گھومتی رہتی ہے، مگر کچھ دنوں بعد اسے یاد بھی نہیں رہتا اور نئے بچے کی پیدایش کے بعد تو اسے کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ مردہ تہذیب کو بھی سینے سے لگا کر گھوما جا سکتا ہے، مگر اس کا کوئی حاصل نہیں۔ وہ اب ہماری رگوں میں خون بن کر نہیں دوڑ رہی۔ چنانچہ محمد بن قاسم کی آمد کے بعد جو لوگ مسلمان ہوئے، ان کے لیے چھ ہزار سال کی تاریخ میں کوئی معنی نہیں رہ گئے۔ کیا تبدیلی مذہب معمولی بات ہے؟ اور کیا مذہب کی تبدیلی سے کچھ بھی نہیں بدلتا؟ ایسا نہیں ہے۔ مذہب بدل گیا تو سب کچھ بدل گیا۔ مثلاً پہلے اس علاقے کے لوگ مشرک تھے، اسلام لا کر وہ توحید پرست ہو گئے۔ ہزاروں جھوٹے خداؤں کے بجائے ایک خدا کو ماننے لگے۔ پہلے وہ یقین رکھتے تھے کہ ہزاروں جنم ممکن ہیں، اب وہ اس بات پر ایمان لے آئے کہ دنیا میں انسان صرف ایک بار آتا ہے۔ پہلے وہ کرشن اور رام کو دیوتا سمجھتے تھے، اب وہ محمد عربی ﷺ پر ایمان لے آئے ہیں۔ ان کی عبادات تبدیل ہو گئیں۔ ان کے ہیروز بدل گئے۔ کتابیں تبدیل ہو گئیں۔ تہوار کچھ سے کچھ ہو گئے۔ شادی بیاہ کے طریقے اور سماجی رسوم بدل گئیں۔ سنسکرت یا پالی کی جگہ عربی اور فارسی نے لے لی۔ سندھی کا رسم الخط تبدیل ہو گیا۔ اس کی لغت کے زمین آسمان بدل گئے۔ تو پھر باقی ہی کیا رہا؟ اور جب کچھ باقی ہی نہیں رہا تو اسے اپنی تاریخ کیسے کہا جائے؟ میڈم اس تاریخ کا اتنا ذکر کرتی ہے مگر ان کی شخصیت اور رہن سہن پر موئن جودڑو اور ٹیکسلا کی تہذیب کا کیا، اسلامی تہذیب کا بھی کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا، بلکہ وہ تو جدید مذہب سے زیادہ متاثر ہیں۔ البتہ ان کے گھر میں ہم نے موئن جودڑو اور ٹیکسلا سے برآمد ہونے والی مورتیوں اور اشیا کے نمونے ’’شو پیس‘‘ کے طو رپر رکھے ہوئے ضرور دیکھے ہیں۔ کاش وہ انگریزی کے بجائے سنسکرت اور پالی سیکھتیں۔ اس طرح وہ اس تہذیب کے ایک جزو کو اپنے وجود کا حصہ بنا لیتیں جس کو وہ بہت یاد کرتی ہیں اور جس پر کسی جواز اور معنویت کے بغیر انھیں بہت فخر ہے، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ کیا خود اس بات سے بھی یہی ثابت نہیں ہوتا کہ موئن جودڑو ہو یا ہڑپہ اور ٹیکسلا، یہ مردہ تہذیبیں ہیں اور اب انھیں یا تو میوزیم میں رکھا جا سکتا ہے یا ان کے نمونوں کو ’’شو پیس‘‘ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیجیے میڈم نے ایک اور متھ کو رد کرتے کرتے ایک اور متھ تخلیق کر دیا۔
بلاشبہ مسلمان جس جنوبی ایشیا میں آئے، وہ تہذیبی اعتبار سے ’’بنجر سرزمین‘‘ نہیں تھی، لیکن میڈم کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ بات بھی اسلام کے حق میں جاتی ہے۔ اسلام کی قوت اور کشش ہی ایسی ہے کہ وہ جس خطے میں گیا ہے، اس نے معجزے دکھائے ہیں۔ محمد بن قاسم ۷۱۲ء میں آئے۔ اس وقت علاقہ میں چند ہزار مسلمان تھے۔ آج سن ۲۰۰۵ ہے اور علاقے میں مسلمانوں کی آبادی ۵۰ کروڑ سے زائد ہے۔ کیا یہ معجزہ نہیں ہے؟ لیکن میڈم کو یہ سامنے کا معجزہ اہم نہیں لگتا، البتہ انھیں چھ ہزار سال پہلے کی کہانیاں رہ رہ کر یاد آتی ہیں اور ان کے دل پر اثر کرتی ہیں۔ اس طرح کہ ان کے دل سے آہ نکلتی ہے۔ ہائے موئن جودڑو، ہائے ہڑپہ، ہائے ٹیکسلا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ نصاب میں ’’واہ محمد بن قاسم‘‘ پڑھتی ہیں تو انھیں یہ ’’واہ‘‘ اور خود محمد بن قاسم ایک Myth نظر آتا ہے۔
میڈم کو یہ تسلیم کرنے میں بڑی دقت ہوتی ہے کہ راجہ داہر بھی ظالم ہو سکتا تھا، کیونکہ بقول ان کے اس زمانے کے لوگ تو بڑے مہذب اور تعلیم یافتہ تھے، لیکن ہندووں کی تاریخ میں رام کا زمانہ تو گولڈن پیریڈ تھا، لیکن رام اور اس کی بیوی سیتا کو رام کی سوتیلی ماں کیکئی نے سازش کر کے چودہ سا ل کا بن باس دلا دیا۔ مہا بھارت کا دور بھی ایسا ہی ہے، لیکن پانچ پانڈوں اور سو کوروں کے درمیان، جو ایک ہی باپ کی اولاد تھے، مہا بھارت یعنی جنگ عظیم برپا ہوئی جس میں مہا بھارت کے اپنے بیان کے مطابق لاکھوں لوگ مارے گئے اور کوروں کے بادشاہ در پداہن کے اشارے پر پانڈوں کی بیوی درویدی کو بھرے دربار میں بے لباس کیا گیا۔ تو بے چارہ راجہ داہر کس کھیت کی مولی ہے؟ مگر چونکہ راجہ داہر کے مقابلے پر مسلم سپہ سالار محمد بن قاسم ہے، اس لیے میڈم کو یہ تسلیم کرنے میں بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ راجہ داہر ظالم تھا۔ حالانکہ اس کا عیاش طبع ہونا تاریخی شہادتوں سے ثابت ہے اور عیاش طبع لوگوں کا ظلم پر مائل ہونا قابل قیاس ہے۔
بلاشبہ ہمیں اپنی نئی نسل کو بتانا چاہیے کہ ہندو تہذیب گئی گزری نہیں تھی۔ اس کے پاس بہت کچھ بلکہ سبھی کچھ تھا۔ لیکن اسلام کا حسن اور جاذبیت ایسی تھی کہ ہر تہذیبی سانچے کو نگل جانے والی ہندو تہذیب خود اسلام سے متاثر ہو گئی۔ ایسا نہ ہوتا تو آج جنوبی ایشیا میں دنیا کے کسی بھی علاقے سے زیادہ مسلمان نہ ہوتے۔ مگر ہماری بدقسمتی کہ ہمارا نصاب مرتب کرنے والے اکثر لوگ احمق ہوتے ہیں اور انھیں خود اسلام کے بے پناہ حسن وجمال اور قوت کا اندازہ نہیں ہوتا۔
میڈم شاہدہ قاضی کی نظرمیں دوسرا Myth یہ ہے: ’’محمد بن قاسم مظلوم بیواؤں اور ییتم لڑکوں کی مدد کے لیے انڈیا آئے تھے۔‘‘
میڈم کے بقول ہم یہ Myth پیش کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ یہ اسلامی سلطنت کی توسیع کا زمانہ تھا۔ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں مسلمانوں نے بھارت کے سلسلے میں ’’مہم جوئی‘‘ کی مگر کام یاب نہ ہوئے، البتہ محمد بن قاسم کو کام یابی ملی، لیکن عربوں کی باہمی چپقلشوں کی وجہ سے مرکز سندھ پر زیادہ توجہ نہ دے سکا۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ ہی عرصہ بعد سندھ مقامی راجاؤں کی گود میں چلا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایک جانب تو میڈم تسلیم کرتی ہیں کہ یہ ’’مسلم ایمپائر‘‘ کی توسیع کا زمانہ تھا۔ پورا مشرق وسطی، ایران، شمالی افریقہ اور اسپین کا بڑا حصہ مسلمانوں کے زیر نگیں آ گیا تھا۔اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان اس دور کی واحد عالمی طاقت تھے، لیکن دوسری جانب میڈم کو یہ تسلیم کرنے میں بڑی دقت ہوتی ہے کہ وقت کی عالمی طاقت اپنی ہم عقیدہ مظلوم عورتوں اور بچیوں کی مدد کے لیے نہیں آ سکتی تھی۔ کیا میڈم کو نہیں معلوم کہ ہمارے دور کی بڑی طاقتیں اپنے شہریوں یا ہم عقیدہ افراد کے تحفظ کے لیے آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں۔ تو کیا اسلامی سلطنت اپنے مظلوم ہم عقیدہ انسانوں کے لیے راجہ داہر جیسے معمولی شخص کے خلاف بھی کارروائی نہیں کر سکتی تھی؟ میڈم تھوڑا سا دل بڑا کریں۔ وہ مسلمانوں کو ’’اخلاقی‘‘ Advantage نہیں دینا چاہتیں تو نہ دیں، واحد عالمی طاقت ہونے کا Advantage تو دیں۔ انھیں کم از کم اتنا تو سمجھنا ہی چاہیے کہ عالمی طاقت، عالمی طاقت ہوتی ہے۔ ویسے میڈم کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مسلمانوں نے اپنی تاریخ کے مختلف ادوار میں ثابت کیا ہے کہ وہ محض اخلاقی محرکات کے زیر اثر بھی بڑے بڑے اقدامات کر سکتے ہیں۔ اور یہ بھی مسلمانوں کی ’’ذاتی خوبی‘‘ نہیں، انھیں قرآن مجید کا حکم ہے کہ مسلمان جہاں کہیں بھی مظلوم ہوں، ان کی مدد کرو۔
دیکھا جائے تو میڈم نے ملفوف انداز میں یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ مظلوم عورتوں اور بچیوں کا قصہ تو محض بہانہ تھا۔ عرب سندھ پر حملہ کی منصوبہ بندی کیے ہوئے تھے۔ ہم پھر میڈم کو یاد دلائیں گے کہ مسلمان واحد عالمی طاقت تھے اور ایک عالمی طاقت کو راجہ داہر جیسے معمولی اور حقیر شخص کے خلاف کارروائی کے لیے بہانہ تراشنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مسلمانوں نے اس وقت کی دو عالمی طاقتوں قیصر وکسریٰ پر حملہ کے لیے بہانہ نہیں بنایا۔ انھوں نے صاف کہا، اسلام لاؤ، جزیہ دو یا جنگ کے لیے تیار رہو۔ میڈم کے نزدیک یہ روش بھی قابل اعتراض ہوگی، مگر وہ کم از کم یہ تو تسلیم کریں کہ مسلمانوں کو گھٹیا بہانہ بازی کی ضرورت نہ تھی۔ راجہ داہر ایک حقیر شخص تھا۔ اس نے مسلمان خواتین اور بچیوں پر واقعتا ظلم کیا تھا اور محمد بن قاسم کی کارروائی کی اصل وجہ یہی تھی۔
کیا میڈم کو نہیں معلوم کہ تاریخ میں بسا اوقات بہت چھوٹے چھوٹے واقعات بڑے بڑے واقعات کا سبب بنے ہیں۔ انگریز جنوبی ایشیا میں تاجر بن کر آئے، جہانگیر کی بیٹی بیمار پڑی اور ایک انگریز طبیب کے علاج سے صحت یاب ہو گئی۔ بادشاہ خوش ہوا اور انگریزوں نے کاروباری ٹھکانوں کے لیے تھوڑی سی زمین انعام کے طور پر مانگ لی اور یوں انگریزوں کے قدم جم گئے۔ مطلب یہ کہ اگر راجہ داہر مسلمان عورتوں اور بچیوں کو اغوا نہ کرتا تو ہو سکتا ہے مسلمان کچھ عرصہ اور سندھ کا رخ نہ کرتے۔
میڈم کے بقول تیسرا Myth یہ ہے کہ محمود غزنوی بت شکن تھا۔ میڈم نے لکھا ہے کہ ایسا نہیں تھا۔ محمود نے بھارت پر ۱۷ حملے کیے، لیکن اس نے پنجاب کو فتح کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کی دل چسپی صرف مندروں سے تھی جہاں سونے اور قیمتی پتھروں کا خزانہ موجود تھا۔ میڈم کے بقول یہ مسلم بادشاہ اور سلطان نہیں تھے جنھوں نے جنوبی ایشیا میں اسلام پھیلایا، بلکہ یہ کام ان صوفیا نے کیا جو مسلم دنیا کے مختلف ملکوں میں ’’بنیاد پرستوں‘‘ کے ظلم سے تنگ آ کر بھارت آ گئے تھے۔ انھی صوفیا نے اپنی بلند خیالی، محبت، رواداری، درگزر اور سادہ طرز زندگی سے مقامی لوگوں کے دل جیت لیے۔
محمود غزنوی کی شخصیت کے بارے میں ہمارے اپنے ’’تحفظات‘‘ ہیں، لیکن ان تحفظات کا تعلق اسلام کے بعض تصورات اور اعلیٰ ترین اقدار سے ہے اور ان کی روشنی میں محمود غزنوی کا دفاع قدرے دشوار ہے، مگر بھارت کی تاریخ کے مقابلے پر محمود کا دفاع سہل ترین کام ہے۔ میڈم نے محمود غزنوی کو Invader قرار دیا ہے، لیکن محمود نے جس ہندوستان پر حملہ کیا، وہ آریوں کا ہندوستان تھا اور آریہ خود Invader تھے۔ چنانچہ ان میں اور محمود میں فرق یہ ہے کہ محمود ایک نیا Invader تھا اور آریہ قدیم Invader، بلکہ لسانیات کے دائرے میں ہونے والی حالیہ تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ آریوں سے پہلے ہندوستان میں جو دراوڑ موجود تھے، وہ بھی Invader تھے اور ان سے قبل ہندوستان میں قبائل آباد تھے۔ تفصیلات کے لیے میڈم کو دیکھنا چاہیے جامعہ کراچی کے شعبہ تصنیف وتالیف کے ترجمان ’’جریدہ‘‘ کا وہ شمارہ جس میں اس حوالے سے خالد حسن کا تحقیقی مقالہ شائع ہوا ہے۔ چنانچہ میڈم محمود غزنوی کو ڈی گریڈ کرنا چاہتی ہیں تو انھیں آریوں اور دراوڑیوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کرنا ہوگا جو شاید ان کے لیے تکلیف دہ عمل ہو۔ مگر یہ سوال کہ محمود نے پنجاب کو کیوں فتح نہیں کیا؟ میڈم، فوجی حکمت عملی کا پہلا اصول ہے کہ جہاں مزاحمت نہ ہو، وہاں اپنی توانائی ضائع نہ کرو۔ پنجاب میں مزاحمت تھی ہی نہیں تو بے چارہ محمود کس کے خلاف تلوار اٹھاتا؟ یہاں اتفاق سے بت شکنی کے مواقع بھی دست یاب نہ تھے۔
میڈم تاریخی ریکارڈ درست کریں۔ محمود غزنوی نے بھارت پر نہیں، سومناتھ پر ۱۷ حملے کیے۔ کیوں کیے؟ میڈم کا خیال ہے کہ اس کا اصل مسئلہ مال تھا۔ ایسا نہیں ہے۔ سومناتھ علاقہ کا مرکز تھا۔ مزاحمت سومناتھ اور اس کے آس پاس ہی تھی اور سومناتھ کے مندر میں کیا تھا؟ ایک شعبدہ۔ ایک بہت بڑا بت مندر میں اس طرح معلق تھا جیسے اس کا معلق ہونا کوئی معجزہ ہو، لیکن یہ شعبدہ اور مال کمانے کا ایک طریقہ تھا۔ محمود نے بت گرا دیا اور شعبدہ کا شعبدہ ہونا ثابت ہو گیا۔ یہاں مال غنیمت بھی ہے مگر بت شکنی سے بھی صر ف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ محمود بلاشبہ بت شکن بھی تھا۔
میڈم کی ذرہ نوازی ہے کہ انھوں نے اسلام کو تلوار کے زور سے پھیلتا نہیں دیکھا، بلکہ اسے صوفیا سے منسوب کر دیا۔ میڈم کا شکریہ، مگر یہاں انھوں نے ایک اور Myth تخلیق کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جو صوفیا مختلف علاقوں سے بھارت آئے، وہ اپنے وقت کے بنیاد پرستوں کے ظلم سے عاجز آئے ہوئے تھے اور اس لیے وہ یہاں آ گئے۔ بھارت میں آنے والے صوفیا کی تعداد سینکڑوں بلکہ ہزاروں میں ہے، میڈم ذرا تین ایسے صوفیوں کے نام بتائیں جو بنیاد پرستوں کے خوف سے یہاں آئے ہوں۔ Fantasy اچھی چیز ہے، مگر ایسی بھی کیا ٰFantasy؟
میڈم نے درست کہا ہے کہ اسلام مغل بادشاہوں اور سلطانوں نے نہیں پھیلایا، بلکہ یہ کام صوفیا نے کیا ہے۔ میڈم کو لفظ علما شاید پسند نہیں، ورنہ وہ کہتیں کہ اسلام صوفیا اور علما نے پھیلایا۔ ہم خود صوفیاے کرام کے بہت قائل ہیں، مگر یہاں ایک ایسا نکتہ ہے جس پر لبرل دانش وروں کی کیا، مذہب پرستوں کی بھی نظر نہیں جاتی۔ وہ نکتہ کیا ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ اسلام صوفیا اور (میڈم سے معذرت کے ساتھ) علما نے پھیلایا، مگر صوفیا اور علما بادشاہوں اور سلطانوں کے بغیر اتنا اسلام نہیں پھیلا سکتے تھے جتنا انھوں نے پھیلایا۔ اس کی دلیل؟ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ بدھ ازم، ہندو ازم ہی کا شاخسانہ تھا، لیکن برہمنوں اور دوسری اعلیٰ ذات کے ہندووں نے گوتم بدھ اور ان کے نظریے کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ انھوں نے گوتم کو ’’اوتار‘‘ تو مانا مگر ملیچھ اوتار یعنی ’’ناپاک اوتار‘‘ ۔ اور اشوک کے بعد انھوں نے بدھ ازم کے پیروکاروں کو مار مار کر بھگا دیا، چنانچہ بدھ ازم کے اثرات بھارت سے باہر تو پھیلے مگر Heart Land میں نہیں، چنانچہ اگر بادشاہ اور سلطان نہ ہوتے تو ہندو ازم کے ترجمان محبت اور رواداری میں ڈوبے ہوئے صوفیا کا وہ حشر کرتے کہ دنیا دیکھتی۔ چنانچہ بادشاہت اسلام تو نہ پھیلا سکی، لیکن وہ صوفیاے کرام اور علما کو غیر محسوس انداز میں تحفظ فراہم کرتی رہی۔ میڈم کو یاد رکھنا چاہیے کہ گوتم بدھ کے زمانے اور اس سے متصل ادوار کے بدھسٹ بھی محبت، امن، رواداری، اور درگز ر کا مرقع تھے، مگر یہ تمام صفات ان کے زیادہ کام نہ آ سکیں۔
میڈم کی نوازش کہ انھوں نے مان لیا کہ اسلام صوفیا کی محبت آمیز روش، رواداری اور درگزر جیسی صفات سے پھیلا۔ اس سے پہلے مضمون کی ابتدا میں وہ فرما چکی ہیں کہ سندھ کی سرزمین قدیم تہذیبوں کا مرکز تھی۔ یہاں کے لوگ انتہائی مہذب، تعلیم یافتہ، خوش حال اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل تھے۔ ایسا تھا تو پھر سوال یہ ہے کہ اسلام کیونکر تیزی کے ساتھ پھیل گیا؟ کیا صرف محبت کے زور سے؟ ظاہر ہے کہ مجرد محبت کچھ نہیں ہوتی، اصل بات یہ ہے کہ اسلام کے تصورات اور اسلامی تہذیب بھی مقامی مذہب کے تصورات اور مقامی تہذیب سے بدرجہا بہتر تھی اور یہ علاقہ اتنا تہذیب یافتہ نہیں تھا جتنا کہ میڈم نے باور کرایا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کروڑوں شودر اور اچھوت اعلیٰ ذات کے ہندووں کے چنگل میں پھنسے صدیوں سے حیوانوں سے بدتر زندگی بسر کر رہے تھے۔ ہندو معاشرے میں عورت کا مقام انتہائی پست تھا۔ شرک کے مقابلے پر توحید کے تصور میں بڑی کشش اور نیا پن تھا۔ آواگون کے تصور کے مقابلے پر دنیا میں انسان کی ایک بار آمد کا تصور سہل اور زیادہ قابل فہم تھا۔ ایسا نہ ہوتا تو اسلام کی پیش قدمی شاید سست ہوتی۔
میڈم کو اس بات سے بھی بڑی تکلیف ہے کہ لوگ یہ کیوں کہتے اور سمجھتے ہیں کہ اورنگ زیب بڑا متقی اور پرہیز گار تھا اور وہ ٹوپیاں سی کر اور قرآن مجید کے قلمی نسخے فروخت کر کے گزر اوقات کرتا تھا۔ میڈم نے اپنے مضمون میں اسے Myth نمبر ۴ قرار دیا ہے۔ میڈم نے کہا ہے کہ اورنگ زیب بادشاہ تھا، وہ ٹوپیاں سیتا ہوگا تو اس کی ٹوپیاں عام قیمت پر تھوڑی فروخت ہوتی ہوں گی۔ بقول میڈم کے اورنگ زیب تو یوں بھی خطرات میں گھرا ہوا تھا، اس کے پاس اتنا وقت کہاں ہوتا ہوگا کہ وہ آرام سے بیٹھ کر ٹوپیاں سیے۔ میڈم کے مطابق اورنگ زیب کو ’’متقی‘‘ کہا جاتا ہے، مگر یہ وہی ’’متقی‘‘ ہے جس نے اپنے باپ کو جیل میں ڈالا اور اپنے بھائیوں کو قتل کرا دیا۔
میڈم کو اورنگ زیب اور اس سے وابستہ حقائق کے حوالے سے جو ’’تکلیف‘‘ ہے، اس پر ہم اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کی جانب سے معذرت خواہ ہیں، مگر یہاں پہنچتے پہنچتے میڈم کے دلائل کی حالت قابل رحم حد تک کمزور ہو چکی ہے۔ پہلے انھوں نے فرمایا کہ اورنگ زیب کو ٹوپیوں کی معمولی قیمت تھوڑی ملتی ہوگی بلکہ لوگ انھیں بھاری داموں خریدتے ہوں گے۔ پھر انھوں نے فرمایا کہ ویسے اورنگ زیب کے پاس ٹوپیاں سینے کا وقت ہی کہاں ہوتا ہوگا۔ اب یہاں میڈم پہلے طے کر لیں کہ اورنگ زیب عالمگیر ٹوپیاں سیتے تھے یا نہیں؟ دوسری بات یہ کہ تاریخ میں ’’کیا ہوگا، ہوا ہوگا‘‘ جیسے الفاظ کے کوئی معنی نہیں ہوتے اور جب کوئی تاریخ کے سلسلے میں اس طرح کی زبان استعمال کرتا ہے تو وہ لاعلم ہی نہیں، بد دیانت بھی ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے میڈم نے اورنگ زیب عالمگیر کے سلسلے میں یہی اسلوب اختیار کیا ہے۔ انھیں اورنگ زیب سے متعلق Myth توڑنے کا اتنا ہی شوق ہے تو وہ تخیل کے گھوڑے اور تذبذب کے تانگے دوڑانے کے بجائے ’’یقینی معلومات‘‘ پیش کریں اور کہیں کہ جی نہیں، اس ریکارڈ سے ثابت ہے کہ اورنگ زیب ٹوپیاں نہیں سیتا تھا، یا سیتا تھا تو اس شہادت سے ثابت ہے کہ وہ بہت مہنگی فروخت ہوتی تھیں۔ ٹوپیوں کے سلسلے میں "Would they not pay exorbitant price"، اورنگ زیب کے سلسلے میں "Would a king have the time" جیسے فقرے اور الفاظ Myth توڑتے نہیں، نئے اور شرم ناک Myth تخلیق کرتے ہیں۔
میڈم نے اپنے طور پر یہ کہہ کر اورنگ زیب عالمگیر کی شخصیت پر کلہاڑا چلا دیا ہے کہ وہ ایسے متقی تھے کہ انھوں نے اپنے باپ کو جیل میں ڈالا اور بھائیوں کو قتل کرا دیا۔ میڈم کو ایسا کرنے سے پہلے کسی لغت میں تقوے کے معانی دیکھ لینے تھے۔ انھوں نے یہ زحمت کر لی ہوتی تو انھیں اورنگ زیب عالمگیرؒ کے تقوے اور عمل میں تضاد نظر نہ آتا۔
میڈم کو قدیم ہندو تہذیب پر بڑا فخر ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس تہذیب کے مردہ حصوں کو بھی یاد کرتی ہیں اور اپنی تاریخ قرار دیتی ہیں، لیکن اسی شاندار تاریخ میں مہا بھارت ہے۔ مہا بھارت میں پانڈو اور کورو ہیں۔ پانڈو ۵ ہیں اور کورو ۱۰۰، لیکن یہ تمام آپس میں بھائی ہیں، ایک باپ اور دو ماؤں کی اولاد۔ پھر ان دونوں کے درمیان کروا کشیتر میں ’’جنگ عظیم‘‘ ہوتی ہے اور پانڈو اپنے ۱۰۰ بھائیوں کو نہیں، سینکڑوں عزیزوں کو بھی تہ تیغ کر دیتے ہیں۔ ان عزیزوں میں ماموں، چاچا، بھانجے، بھتیجے اور استاد بھی شامل ہیں، یہاں تک کہ بھیم ایک کورو کے خون سے اپنی بیوی دروپدی کے بال دھوتا ہے۔ اور میڈم کو معلوم ہے کہ اس سب کا جواز کیا دیا گیا ہے؟ یہ کہ پانڈو خیر ہیں اور کورو شر۔ اورنگ زیب عالمگیرؒ کے اقدامات کا جواز بھی یہی ہے۔ یہ اقتدار کا مسئلہ تھا ہی نہیں۔ اورنگ زیبؒ کے سامنے صرف اسلام اور اس کے تقاضے تھے، لیکن میڈم اورنگ زیب پر طنز کرتی ہیں اور مہا بھارت کی تہذیب پر انھیں فخر ہے۔
میڈم نے پانچویں Myth کے ذیل میں ۱۸۷۵ کی جنگ آزادی پر حملہ کیا ہے۔ انھوں نے فرمایا ہے کہ مسلمانوں کے مطابق جنگ آزادی مسلمانوں نے شروع کی اور اس کے اختتام پر اس کا خمیازہ بھی صرف مسلمانوں کو بھگتنا پڑا جبکہ ہندو انگریزوں کے فطری اتحادی تھے۔ میڈم کے مطابق ایسا نہیں تھا۔بے شک ا نگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے والی اکثر رجمنٹس مسلمانوں کی تھیں، مگر ہندو بھی جنگ آزادی میں شریک تھے۔ جھانسی کی رانی کی جدوجہد اس کا ثبوت ہے۔ مزید برآں مسلمانوں کی اکثریت آخر وقت تک انگریزوں کی وفادار رہی، سرسید اس کا ثبوت ہیں۔ علاوہ ازیں یہ کہنا بھی درست نہیں کہ مسلم ایمپائر ۱۸۵۷ میں مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلی۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریز بہت پہلے ہندوستان کے بیشتر علاقے پر قابض ہو چکے تھے اور بہادر شاہ ظفر کی حکومت دلی تک محدود تھی۔ ۱۷۸۵ کے بعد ہندو اس لیے کامیاب اور خوش حال ہوئے کیونکہ انھوں نے جدید تعلیم حاصل کی، انگریزی سیکھی، تجارت شروع کی، جبکہ مسلمان ماضی کی عظمت میں کھوئے رہے۔ وہ دینی مدارس کی تعلیم اور فارسی سے آگے نہ بڑھے اور یہ دونوں چیزیں اس ’’انقلاب آفریں‘‘ وقت میں ان کے راستے کا پتھر بن گئیں۔
میڈم کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ تاریخی حقائق کا ذکر ضرور کرتی ہیں مگر ذاتی پسند وناپسند میں الجھ کر رہ جانے کا ثبوت بھی فوراً فراہم کر دیتی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ان کے بیانات بجائے خود ایک Myth بن جاتے ہیں۔ اب مثلاً ایک جانب انھوں نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی میں ہندو بھی برابر کے شریک تھے اور دوسری جانب انھوں نے کہا ہے کہ ہندووں کی ترقی اور خوش حالی کا راز یہ تھا کہ انھوں نے ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے بعد جدید تعلیم حاصل کی، انگریزی سیکھی اور کاروبار پر توجہ مرکوز کی، مگر وہ اس سوال پر غور نہیں کرتیں کہ جو قوم ایک جنگ آزادی لڑ رہی تھی، وہ پلک جھپکتے ہی دشمن کی لائی ہوئی تعلیم اور اس کی زبان سیکھنے پر کیسے اور کیونکر چل پڑی اور اسے کاروبار کے لیے وہ حالات کیسے فراہم ہو گئے جن کے بغیر بڑے پیمانے پر کاروباری تجربہ خلق نہیں ہو سکتا؟ اس الجھن، پیچیدگی اور تضاد کاجواب واضح ہے۔ ہندووں کی عظیم اکثریت جنگ آزادی سے بے نیاز رہی۔ بلاشبہ جھانسی کی رانی نے انگریزوں کے خلاف بے مثال جدوجہد کی اور مسلمانوں نے ہمیشہ اس کا اعتراف کیا۔ علامہ اقبال تک نے اس کی تعریف کی ہے اور جھانسی کی رانی کیا، نانا صاحب بھی جدوجہد میں شریک تھے، مگر جنگ آزادی کی مجموعی فضا پر مسلمانوں ہی کی چھاپ تھی اور اس کی نفسیاتی، جذباتی، تاریخی اور سیاسی وجہ ظاہر تھی۔ گزشتہ ایک ہزار سال سے بھارت ہندووں کا بھارت نہیں تھا، مسلمانوں کا ہندوستان تھا۔ اس کے ہونے کے بیشتر فوائد اور اس کے نہ ہونے کے بیشتر نقصانات مسلمانوں ہی کے حصے میں آنا تھے، چنانچہ بغاوت کی جو تڑپ مسلمانوں میں ہو سکتی تھی، وہ ہندووں میں ممکن ہی نہیں تھی۔
بے شک جنگ آزادی سپاہیوں کی بغاوت سے شروع ہوئی، لیکن جلد ہی اس نے عوامی رنگ اختیار کر لیا۔ چنانچہ اس بات کے کوئی معنی ہی نہیں کہ برٹش فوج میں موجود کتنے مسلم فوجیوں نے جنگ آزادی میں حصہ لیا اور کتنے مسلمان آخری وقت تک انگریزوں کے وفادار رہے۔ میڈم کا خیال ہے کہ جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کے زیادہ نقصان کی بات بھی افسانہ ہے۔ سرسید بلاشبہ انگریزوں کے وفادار تھے بلکہ تاریخی شواہد سے ثابت ہو چکا ہے کہ وہ مجاہدین آزادی کی مخبری کرتے رہے۔ مگر سرسید نے بھی اسباب بغاوت ہند میں تسلیم کیا کہ بغاوت کا بہت زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہوا۔
میڈم اس سلسلے میں یہ تک دیکھنے کی روادار نہیں ہوئیں کہ بے چارے ہندووں کی بڑی تعداد کیونکر جنگ آزادی میں شریک ہو سکتی تھی۔ ہندو صدیوں سے لڑنے کی اسپرٹ سے محروم تھے، ا ن میں فوجی تنظیم اور فوجی تربیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ انھیں لڑنے کا تجربہ بھی تھا تو صرف مسلمانوں یا انگریزوں کی فوج میں شامل ہو کر لڑنے کا تجربہ تھا۔ کیا یہ ایک تاریخی حقیقت نہیں ہے؟ میڈم نے سرسید کو انگریزوں کا وفادار کہا ہے اور بالکل ٹھیک کہا ہے، حالانکہ انگریزوں کا یہ وفادار بھی مسلمانوں سے کہہ رہا تھا کہ جدید تعلیم حاصل کرو، انگریزی سیکھو، لیکن راجہ موہن رائے کے مشوروں پر، جو دراصل ہندووں کے سرسید تھے، ہندووں نے جدید تعلیم حاصل کی اور انگریزی سیکھی تو میڈم نے اسے ہندووں کی وفاداری کے بجائے اسے ہندووں کی ’’ذہانت‘‘ قرار دیا۔ اس کے لیے انھوں نے "They were clever enough" کا فقرہ استعمال کیا ہے۔ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا یہ ایمان داری ہے؟
میڈم کا یہ خیال درست ہے کہ ہندوستان ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی سے قبل ہی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل چکا تھا اور بہادر شاہ ظفر کی حکومت دلی تک محدود تھی، لیکن اس سلسلے میں بے چارے مسلمانو ں نے کون سا Myth تخلیق کر ڈالا۔ پوری انسانی تاریخ میں سیاسی مرکز کی علامتی اہمیت بنیادی رہی ہے۔ سقوط بغداد تو بہت بعد میں ہوا۔ امریکا اور برطانیہ کے فوجی عراق کے دیگر علاقوں پر پہلے ہی قابض ہو چکے تھے، لیکن سقوط بغداد کے ساتھ ہی تسلیم کر لیا گیا کہ اب پورے عراق پر جارح فوجوں کا قبضہ ہو گیا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ بھارتی فوج سقوط ڈھاکہ کے وقت پورے مشرق پاکستان پر قابض نہیں تھی، لیکن ڈھاکہ کے سقوط کے ساتھ ہی پورا مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ ۱۸۵۷ کی جنگ آزای میں بھی یہی ہوا۔ جب تک دار الحکومت پر بہادر شاہ ظفر کی حکومت تھی، بادشاہ کی علامتی اہمیت برقرار تھی۔ بخت خان نے قلعے میں بادشاہ کے ساتھ جو ملاقاتیں کیں، ان میں اس نے بادشاہ کے ذہن میں یہ با ت بٹھانے کی کوشش کی کہ آپ قلعے سے نکلیں، ہندوستان کے عوام آج بھی آپ کو حاکم تسلیم کرتے ہیں۔ آپ قلعے سے باہر نکلیں گے تو جدوجہد آزادی کا دائرہ وسیع ہو جائے گا، مگر جو بات ساری دنیا میں تسلیم کی جاتی ہے، ہماری میڈم نے اسے بھی Myth بنا کر مسلمانوں کے منہ پر دے مارا ہے۔ آدمی اپنی تاریخ اور تہذیب سے متعلق نہ ہو تو ایسے ہی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
میڈم نے ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے بعد کی صورت حال کو Changing time قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ہندووں نے بدلتے ہوئے حالات سے خود کو ہم آہنگ کیا، لیکن مسلمان دینی مدارس کی تعلیم اور فارسی سے چمٹ کر رہ گئے جو ان کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوئی، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ میڈم نے جس چیز کو بدلتے ہوئے حالات قرار دیا ہے، وہ سامراج کا قبضہ اور اس کا پھیلاؤ تھا اور اس کے خلاف مسلمانوں کا طرز عمل فطری، برجستہ اور انسانی تھا۔ اور ہندو جو کچھ کر رہے تھے، وہ ذہانت یا Cleverness نہیں، کھلی موقع پرستی تھی۔ اور اگر نہیں تھی تو ویت نام کے لوگوں کی ذہانت یہ ہوتی کہ وہ امریکی فوجیوں کے قبضے کو محض بدلتے ہوئے حالات سمجھتے، انگریزی سیکھتے، امریکی فوج سے تعاون کرتے، جمہوریت کی پریکٹس کرتے، اور آج عراق کے لوگوں کو بھی دراصل مزاحمت کے بجائے امریکا اور اس کے ایجنٹوں کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے امریکا کا لایا ہوا نصاب قبول کر لینا چاہیے۔ انگریزی سیکھنی چاہیے اور خود کو بدلتے ہوئے حالات سے پوری طرح ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
میڈم کے بقول چھٹی Myth یہ ہے کہ مسلمان انگریزوں کے خلاف جدوجہد کے حوالے سے صف اول میں تھے اور انگریزوں نے بعد ازاں ان کے ساتھ برا سلوک کر کے انھیں نشان زد کر دیا۔ میڈم کے مطابق ایسا نہیں تھا، بلکہ اس کے برعکس انگریزوں نے مسلمانوں کو ۱۹۰۵ میں پہلا تحفہ تقسیم بنگال کی صورت میں دیا۔ انگریزوں نے مسلمانوں کے جداگانہ حق انتخاب کو تسلیم کیا۔ بعد ازاں انگریزوں کے حامیوں نے مسلم لیگ قائم کی۔ مسلم لیگ نے کبھی انگریزوں کی مزاحمت نہیں کی۔ مسلمانوں نے صرف خلافت تحریک میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی۔ قائد اعظم کبھی جیل نہیں گئے، البتہ کانگریس ۱۹۳۰ اور ۱۹۴۰ کی دہائیوں میں انگریزوں کے خلاف پرامن جدوجہد کرتی رہی۔ اس نے ہندوستان چھوڑو تحریک شروع کی، مگر مسلم لیگ کے رہنمااس کی مخالفت کرتے رہے۔
خدا کی پناہ ایسے ہی مواقع پر باآواز بلند طلب کی جاتی ہے۔ میڈم جھانسی کی رانی کو تو کھود کر نکال لائیں مگر انھیں مسلمانوں کی طویل وعریض مزاحمت کہیں نظر نہیں آئی۔ آخری اطلاعات کے مطابق حیدر علی مسلمان ہی تھا۔ اس کا فرزند ارجمند سلطان ٹیپو شہید بھی مسلمان تھا۔ سراج الدولہ کے بارے میں بھی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ وہ بھی اتفاق سے مسلمان تھا۔ تیتو میر ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کا مرکزی کردار جنرل بخت خان ۔ اور کتنے نام گنوائے جائیں؟ خلافت تحریک اس کے علاوہ ہے۔ علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک بھی مسلح مزاحمت پر مائل تھی۔ تقسیم بنگال یقیناًمسلمانوں کے لیے رعایت تھی، لیکن خود میڈم نے تسلیم کیا ہے کہ یہ رعایت فوراً واپس لے لی گئی۔ پھر یہ کہ تقسیم بنگال انتظامی اعتبار سے انگریزوں کی ضرورت تھی اور اسے تحفہ قرار دینا کسی بھی اعتبار سے قرین انصاف نہیں ہے۔ بالفرض یہ تحفہ بھی تھا تو یہ کیسا تحفہ تھا جو دے کر تقریباً فوراً ہی واپس لے لیا گیا۔ اس سلسلے میں محرک کے طور پر انگریزوں کی ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
بلاشبہ مسلم لیگ انگریزوں سے قربت رکھنے والوں نے قائم کی، لیکن کانگریس تو خود ایک انگریز نے قائم کی، مگر میڈم کانگریس کو مزاحمتی جماعت کہتی ہیں اور مسلم لیگ کو مفاہمتی پارٹی۔ یہ کیسا تاریخی شعور ہے؟ بلاشبہ مسلم لیگ نوابوں کی جماعت تھی، لیکن ۱۹۴۰ میں مسلم لیگ ایک عوامی جماعت بن چکی تھی اور اس کی تحریک کی پشت پر بڑے بڑے مذہبی، تاریخی اور نفسیاتی محرکات کارفرما ہو چکے تھے اور جب تاریخ میں کسی سیاسی گروہ کے ساتھ ایسا ہو جاتا ہے تو اس کے ظاہری سانچے کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی۔ جہاں تک کانگریس کا تعلق ہے تو اسے صرف مسلمان ہی نہیں ہندووں کی جدید تاریخ کے کئی اہم کردار بھی مشتبہ سمجھتے تھے۔ بھگت سنگھ اس کی ایک علاقائی مثال تھا اور سبھاش چندر بوس ملک گیر مثال، اور یہ دونوں ہندووں میں کم مقبول نہیں تھے۔ سبھاش چندر بوس مسلح جدوجہد کے قائل تھے اور انھیں اپنی اس فکر کے باعث بالآخر ہندوستان چھوڑنا پڑا اور عجیب بات یہ ہے کہ انھیں بھارت سے افغانستان پہنچانے والا کوئی ہندو نہیں، ایک پٹھان تھا۔
بلاشبہ قائد اعظم کبھی جیل نہیں گئے، لیکن کیا کسی لیڈر کا جیل نہ جانا اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ رہنما ہی نہیں یا اس کی عظمت مشتبہ ہے؟ لیکن قائد اعظم کبھی جیل کیوں نہیں گئے؟ اس سوال کا جواب قائد اعظم کی شخصیت اور نفسیات کا مرکزی نکتہ ہے اور مرکزی نکتہ یہ ہے کہ قائد اعظم اول وآخر ایک وکیل تھے اور آئینی وقانونی جدوجہد ان کا انتخاب نہیں، ان کا ’’مزاج‘‘ تھی۔ انھوں نے پاکستان کا مقدمہ اساسی طور پر ایک ’’رہنما‘‘ کی طرح نہیں، بلکہ ایک ’’وکیل‘‘ کی طرح لڑا۔ اس کی دو اور سمجھ میں آنے والی ثانوی وجوہ بھی ہیں۔ قائد اعظم کو احساس تھا کہ مسلمان انگریزوں اور ہندووں کے درمیان ہیں۔ انھیں بیک وقت دو حریفوں کا سامنا ہے۔ ایک حریف طاقت ور حاکم ہے اور دوسرا فریق عددی اکثریت کا حامل ہے، چنانچہ مسلمانوں نے طاقت کا طریقہ استعمال کیا تو انھیں بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پھر قائد اعظم کو معلوم تھا کہ انھیں گاندھی کی طرح کوئی نہرو، پٹیل اور ابو الکلام فراہم نہیں۔ وہ جیل میں ہوں گے تو اقلیتی گروہ کی جدوجہد کسی بھی سمت میں جا سکتی ہے۔ چنانچہ جیل قائد اعظم کے لیے ایک ایسی تعیش تھی جس کے وہ متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔
جہاں تک مسلمانوں کے ہندوستان چھوڑو تحریک میں حصہ نہ لینے کا تعلق ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کانگریس اور مسلم لیگ دو الگ الگ سیاسی پلیٹ فارم تھے۔ ان کی اپنی اپنی سیاسی حکمت عملی تھی اور وہ اپنے تناظر کے مطابق کچھ بھی کرنے میں آزاد تھے۔ ویسے بھی گاندھی جی نے اس تحریک کی ابتدا اچانک کی تھی اور اس سلسلے میں انھوں نے مسلم لیگ سے کوئی مشاورت نہیں کی تھی۔ گاندھی کا ایک مسئلہ یہ تھا کہ وہ کانگریس کو بھارت کی واحد نمائندہ جماعت ثابت کرنے کے لیے کوشاں رہتے تھے، جبکہ مسلم لیگ کے لیے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی جداگانہ شناخت اور مفادات کا سوال اہم تھا۔ 
میڈم شاہدہ قاضی نے ساتواں Myth یہ پیش کیا ہے کہ مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تھی۔ میڈم کے بقول مسلم لیگ ۱۹۴۰ سے قبل کبھی مقبول عوامی جماعت نہ تھی اور اس سے پہلے ہونے والے انتخابات میں اسے ۴۸۲ میں سے صرف ۱۰۳ نشستیں ملی تھیں۔ باقی نشستیں کانگریس کے مسلم نمائندوں، قوم پرستوں یا یونینسٹوں نے حاصل کی تھیں۔
انتخابی نتائج کے اعتبار سے دیکھا جائے تو میڈم کی رائے سو فیصد درست ہے، لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ کے واحد نمائندہ جماعت ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ قوم پرست اور یونینسٹ کانگریس اور انگریزوں کے پٹھو تھے۔ یہ بالکل وہی صورت حال ہے جو اس وقت عراقی عوام کو درپیش ہے۔ عراق کی واحد نمائندہ قوت امریکہ کی مزاحمت کرنے والے عناصر ہیں۔ رہے وہ لوگ جنھوں نے امریکہ کے زیر اہتمام فراڈ انتخابات میں حصہ لیا ہے تو انھیں حقیقی معنوں میں عراق کا نمائندہ نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ انھوں نے عراق پر امریکہ کے قبضے کو اصولی طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ یہی پوزیشن کبھی مسلم لیگ اور دیگر مسلم تنظیموں اور شخصیات کی تھی۔ پھر تاریخ میں اصل چیز یہ نہیں ہوتی کہ ’’کیا تھا‘‘ بلکہ اصل چیز یہ ہوتی ہے کہ بالآخر ’’کیا ہوا؟‘‘ اور بالآخر یہ ہوا کہ ۱۹۴۶ کے انتخابات میں مسلم لیگ نے ہر علاقے میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ سرحد کے غفار خان اور پنجاب کے یونینسٹ دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ ایسا نہ ہوتا تو پاکستان کا قیام ممکن ہی نہ ہوتا۔
میڈم شاہدہ کے مطابق آٹھواں Myth یہ ہے کہ علامہ اقبال نے سب سے پہلے مسلمانوں کی جداگانہ ریاست کا تصور پیش کیا۔ میڈم کے بقول اقبال انڈین یونین کے دائرے میں مسلمانوں کے سیاسی بندوبست کے قائل تھے۔ اس کے سوا ان کا کوئی مطالبہ نہیں تھا اور یہ ایک ایسی بات تھی جو اقبال سے پہلے کم از کم ۶۴ بار مختلف حوالوں سے سامنے آ چکی تھی۔ خود انگریز بھی اس کے حامی تھے۔ چنانچہ اقبال نے کوئی نئی بات نہیں کہی، بلکہ جب ان کے خطبہ الٰہ آباد سے یہ ’’غلط فہمی‘‘ پیدا ہوئی کہ وہ مسلمانوں کے لیے الگ ریاست طلب کر رہے ہیں تو انھوں نے ایک بیان کے ذریعے وضاحت کی کہ ایسا نہیں ہے۔
اس سلسلے میں اقبال کی مرکزی اہمیت سے بہت سے لوگوں کو تکلیف ہے۔ البتہ کسی کی تکلیف لسانی ہے اور کسی کی نسلی۔ اقبال کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کچھ Claim ہی نہیں کرتے۔ وہ عظیم شاعر تھے مگر انھیں عظیم شاعر کیا، شاعر ہونے کا دعویٰ بھی نہیں ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ شاعر تو میں نہیں ہوں، البتہ میرے پاس کچھ خیالات ضرور ہیں۔ چونکہ میری قوم کو شاعری سے گہرا شغف ہے، اس لیے میں نے شاعری کو میڈیم کے طور پر استعمال کیا ہے اور بس۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انھوں نے جداگانہ ریاست کا تصور پیش نہیں کیا۔ یہ حقیقت اتنی عیاں ہے کہ اس پر بحث ہی فضول ہے۔ البتہ یہ ٹھیک ہے کہ اقبال یہ تصور پیش کرنے والے پہلے آدمی نہیں تھے، مگر یہاں بھی اقبال کی اہمیت غیر معمولی ہے۔
ایک تصور تاریخ کے مختلف ادوار میں پیش کیا جاتا رہتا ہے، لیکن وہ ایک خاص وقت سے قبل لوگوں کی توجہ حاصل نہیں کر پاتا۔ مثال کے طور پر یورپی مشترکہ منڈی اور مشترکہ کرنسی کا تصور ۷۵ سال پرانا ہے، لیکن اسے اب جا کر قبول عام حاصل ہوا ہے۔ مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودی ریاست کا تصور کئی سو سال سے یہودیو ں کی تاریخ میں سفر کر رہا ہے، لیکن اسرائیل کا قیام ۱۹۴۸ میں ممکن ہوا۔ اقبال کی اہمیت یہ ہے کہ ان کی بات پر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی توجہ مرکوز ہو کر رہ گئی اور اصل بات یہی ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کے جداگانہ سیاسی بندوبست کا تعلق ہے تو اس کا قائل کون نہیں تھا؟ قائد اعظم آخری وقت تک اس کے لیے کوشاں رہے، لیکن کانگریس نے کابینہ مشن پلان کو بھی مسترد کر دیا اور بالآخر ۱۹۴۰ تک یہ حقیقت عیاں ہو گئی کہ اب مسلمانوں کے مسائل کا واحد حل پاکستان ہے۔
میڈم شاہدہ قاضی نے مزید تین Myth پیش کیے ہیں، مگر وہ اتنے معمولی ہیں کہ ان کا ذکر صرف الطاف حسین جیسے لوگوں کی زبان پر اچھا لگتا ہے۔ مثلاً یہ کہ پاکستان واحد ریاست نہیں تھا بلکہ مسلم لیگ کی قرارداد میں State کے بجائے ’’ریاستوں‘‘ کا لفظ استعمال ہوا تھا۔ اب بھلا ایسی باتوں کا کوئی کیا جواب دے!
البتہ اس پورے سلسلے کے بارے میں اتنی بات کہنے کی شدید ضرورت ہے کہ قوموں کی تہذیب وتاریخ کو سمجھنے کے لیے صرف معلومات کافی نہیں ہوتیں، اس قوم اور اس قوم کی تاریخ سے تھوڑا بہت تعلق ہونا بھی ضروری ہوتا ہے، ورنہ معلومات بھی بھول بھلیاں بن جاتی ہیں۔ کاش میڈم شاہدہ قاضی کو اسلام اور مسلمانوں اور پاکستان کے تصور سے تھوڑی بہت محبت ہوتی۔

تغیر پذیر دنیا اور مسلم ثقافت کی داخلی نفسیات

پروفیسر میاں انعام الرحمن

ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے جون ۲۰۰۵ کے شمارے میں جناب لوئ ایم صافی کا نہایت فکر انگیز مضمون نظر سے گزرا۔ فاضل مضمون نگار نے معروضیت کے تقاضے نبھاتے ہوئے مسلم ثقافت کی داخلی نفسیات کی مختلف پرتوں کو بہت تدبر، بصیرت اور گہرائی سے کھول کھول کر بیان کیا ہے۔ پوسٹ ماڈرن کلچر سے مسلم ثقافت کی اثر پذیری کے حوالے سے دو متضاد رویوں کے حامل گروہوں یعنی روایت پسندوں اور ترقی پسندوں کے نقطہ ہائے نظر اور پھر ان کی تحلیل بھی لوئ ایم صافی نے کمال غیر جانب داری سے کی ہے۔ ہماری رائے میں عالمگیریت کی موجودہ فضا میں ان دو متضاد رویوں کا تجزیہ وتنقیح ایک اور زاویے سے بھی ہو سکتی ہے۔ 
کسی بھی معاشرت کی تشکیل میں فرد اور گروہ کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ فرد اور گروہ کے انفرادی رویے، ان کا باہم اختلاط اور اتفاق واختلاف معاشرت کی تشکیل کے ساتھ ساتھ اس کے صحت مند ارتقا کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ فرد اور گروہ کے باہمی تعلق سے فرد اور گروہ کے مختلف النوع رویے ظاہر ہوتے ہیں اور یہی متنوع رویے فرد اور گروہ کی شناخت کے حوالے سے ان کی حساسیت سمیت دیگر کئی مظاہر کی نشان دہی کرتے ہیں۔ عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک فرد جس رویے کا اظہار بطور فرد کر رہا ہوتا ہے اور جو معاشرے میں اس کی مخصوص شناخت کا سبب ہوتا ہے، کسی گروہ میں شامل ہونے کے بعد وہ بعینہ اس رویے کا اظہار نہیں کرتا۔ چنانچہ بہت سے شرمیلی طبیعت کے افراد گروہ میں شامل ہو کر بہت بے باک ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح بے باک مزاج کے افراد گروہ میں شامل ہونے کے بعد شرمیلے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسے افراد کا رویہ یہ ظاہر کر رہا ہوتا ہے کہ وہ گروہ کی نفسیات کے سحر کا شکار ہو گئے ہیں اور اس کے ہاتھوں اپنی بعض انفرادی خصوصیات کھو بیٹھے ہیں۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔
دوسری طرف بعض افراد ایسے ہوتے ہیں کہ وہ کہیں بھی چلے جائیں اور کسی بھی گروہ میں شامل ہو جائیں، ان کے ان رویوں میں جن کا اظہار وہ بطور فرد کر رہے ہوتے ہیں، ذرہ برابر فرق نہیں پڑتا۔ ایسے افراد کی بابت ایک بات تو بآسانی کہی جا سکتی ہے کہ وہ گروہی نفسیات کا شکار نہیں ہوتے کہ ان کی انفرادی شخصیت ہی اتنی مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے، لیکن ان کی بابت ایک دوسری بات بھی اتنی ہی آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ ایسے افراد طبعاً ضدی اور اڑیل ہوتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں مطابقت پزیری اور وسعت پزیری کے عناصر مفقود ہوتے ہیں۔
اب ہم اصل نکتے کی طرف آتے ہیں۔ اگر دنیا میں موجود مسلم کمیونٹی کو بطور فرد لیا جائے اور خارجی مظاہر کے اثرات (گلوبلائزیشن، انفرمیشن ٹیکنالوجی وغیرہ) کو بطور گروہ تو مترشح ہوگا کہ مذکورہ بالا تصویر کے دو رخوں میں سے پہلا رخ ترقی پسند افراد کی نشان دہی کرتا ہے اور دوسرا رخ روایت پسند افراد کی نمائندگی کرتا ہے۔ اب اگر روایت پسندوں کو ترقی پسندوں کی حد سے بڑھی ہوئی مطابقت پزیری چبھتی ہے یا ترقی پسندوں کو روایت پسندوں کے استقلال میں بوسیدگی کی بو آتی ہے تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔ دونوں گروہوں کی افتاد طبع ہی ایک دوسرے یکسر مختلف ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ دونوں گروہوں کے ہاں یہ رویے کیونکر ہیں اور ان کا حل کیا ہے؟ پہلے نکتے پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ترقی پسندوں کی بے جا مطابقت پزیری درحقیقت ان کے تربیتی نظام کی ناپختگی کی علامت ہے۔ روایت پسندوں کے اڑیل پن کے رد عمل میں اختیار کی گئی بے جا مطابقت پزیری اور نام نہاد وسعت پزیری کسی بھی اعتبار سے صاحبان فہم کے ہاں قابل قبول نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ گروہ اپنی امتیازی خصوصیات سے دست بردار ہو کر پوسٹ ماڈرن کلچر کے خارجی مظاہر کو بطور معیار تسلیم کر رہا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگر کوئی فرد کسی گروہ میں شامل ہو کر اپنی بعض خصوصیات سے دست بردار ہو کر اپنی بنیادی انفرادیت سے محروم نہیں ہوتا تو اس کے طرز عمل کو عموماً صحت مندانہ قرار دیا جاتا ہے کہ اس فرد نے توازن کا مظاہرہ کیا ہے۔ البتہ اس کے برعکس رویہ قابل مذمت ٹھہرتا ہے۔ ہماری رائے میں مسلم کمیونٹی کا ترقی پسند گروہ بھی اگر تغیر پذیر دنیا کے خارجی اثرات کو معیار تسلیم کرنے کے بجائے اپنی منفرد بنیاد تلاش کر کے پوسٹ ماڈرن کلچر کے خارجی اثرات سے مطابقت پزیری اختیار کرے تو اس کا طرز عمل لائق تحسین اور صحت مند قرار پائے گا۔
اب روایت پسندوں کے اس استحکام اور استقلال کو دیکھیے جو حد سے بڑھ کر ہٹ دھرمی اور اڑیل پن کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ اگر کوئی فرد کسی گروہ میں شامل ہو کر اس کے کسی بھی نوعیت کے اثرات کو قبول کرنے سے انکاری ہوتا ہے تو ایسا فرد لازماً ابنارمل سمجھا جاتا ہے۔ اپنی منفرد خصوصیات پر اصرار جو امتیازی اور بنیادی نوعیت کی ہوں، اپنی جگہ اہم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ثانوی نوعیت کے کرداری مظاہر کو تج دینا بھی اتنا ہی اہم اور ضروری ہے۔ روایت پسندوں کے ہاں ایسا استقلال جو ہر شخص کے کرداری اور قدری مظہر پر چھا کر ہٹ دھرمی کو جنم دیتا ہے، درحقیقت کسی ایسے تربیتی نظام کی نام نہاد پختگی سے پھوٹتا ہے جس میں معاصر تقاضوں سے بے رغبتی کو ایمان واخلاق کی نیو سمجھا جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات بتاتے ہیں کہ ایسے افراد کا علاج ناممکن نہیں تو بہت زیادہ مشکل ضرور ہوتا ہے، کیونکہ ایسے افراد یا گروہ دنیا بھر کے ہر معاملے کو ’’طے شدہ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ طے شدگی کی یہ نفسیات لچک اور مطابقت پزیری کے ہر لمحے میں ہر پل حائل ہو جاتی ہے۔
یہاں اس نکتے کا بیان شاید موزوں اور برمحل ہوگا کہ اگر روایت پسند افراد یا گروہ اپنی افتاد طبع کو ہٹ دھرمی کے دائرے سے نکال کر ’’استقلال‘‘ کے دائر ے میں لے آئیں تو اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ وہ اپنی استقلالی نفسیات کے بل بوتے پر بطور فرد، گروہ کی نفسیات پر اور بطور گروہ، پوسٹ ماڈرن کلچر کی حامل تغیر پزیر دنیا کے خارجی اثرات پر گہرے اور ان مٹ نقوش ثبت کر دیں۔ اگر فرد کے لیے مطابقت پذیری اہم ہے تو گروہ کے لیے بھی کسی مضبوط فرد کے منفرد اثرات سے بچنا محال اور غیر ضروری ہے۔ چنانچہ روایت پسندوں کے اثرات اگر ہٹ دھرمی پر مبنی ہونے کے بجائے استقلالی نوعیت کے ہوں تو ان سے بچنا تغیر پذیر دنیا کے پوسٹ ماڈرن کلچر کے لیے ناممکن ہوگا۔

تکفیر شیعہ سے متعلق چند ضروری وضاحتیں

حافظ عبد الرشید

گزشتہ ایک برس سے ماہنامہ الشریعہ میں سنی شیعہ کشیدگی اور اس کے خاتمے کے متعلق مختلف اصحاب فکر ودانش اپنی آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں اپریل ۲۰۰۵ کی اشاعت میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کا مضمون بعنوان ’’شیعہ سنی تنازع اور اس کا پائیدار حل‘‘ شائع ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں دو مسئلوں پر گفتگو فرمائی ہے۔ ایک شیعہ کی تکفیر کا مسئلہ، اور دوسرا سنی شیعہ تنازع کا حل۔ پہلے نکتے پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے الشریعہ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی کے موقف کو ایک سخت موقف قرار دیا ہے اور اس کے ساتھ مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے ایک فتوے میں مذکور دو باتوں کو محل نظر قرار دے کر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ ذیل کی سطور میں ہم تکفیر شیعہ سے متعلق مولانا سرفراز خان صفدر صاحب کے موقف اور اس پر ڈاکٹر صاحب کے تبصرہ کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
مولانا سرفراز خان صفدر نے اپنی مختلف تصانیف میں اہل تشیع کی بنیادی مذہبی کتب سے ان کے عقائد ونظریات باحوالہ نقل کیے ہیں۔ مثال کے طور پر اپنی تصنیف ’الکلام الحاوی فی تحقیق عبارۃ الطحاوی‘ میں ’’تشیع کا اجمالی نقشہ‘‘ کے زیر عنوان انھوں نے شیعہ کی معتبر کتب سے ان کے بعض نظریات وعقائد نقل کیے ہیں۔ بخاری شریف پر اپنے افادات کے مجموعہ ’’احسان الباری لفہم البخاری‘‘ کے آخر میں حدیث قرطاس کی تشریح کرتے ہوئے انھوں نے صحابہ کرام خصوصاً خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق کے متعلق اہل تشیع اور بالخصوص امام خمینی کے نظریات نقل کیے ہیں۔ اس موضوع پر مولانا موصوف نے ۱۹۸۷ میں ایک مستقل کتاب بھی ’’ارشاد الشیعہ‘‘ کے نام سے تحریر فرمائی ہے۔ 
اہل تشیع کے عقائد ونظریات کے متعلق مولانا سرفراز صفدر کی تمام تحریرات کا مطالعہ کرنے سے قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ مولانا کے نزدیک اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین فروعی آرا کا نہیں، بلکہ عقیدے اور نظریے کا اختلاف ہے۔ چنانچہ مولانا نے ’ارشاد الشیعہ‘ میں درج ذیل تین عقائد کی بنیاد پر شیعہ حضرات کو خارج از اسلام قرار دیا ہے:
۱۔ تحریف قرآن کا عقیدہ،
۲۔ خلفاء راشدین اور دیگر صحابہؓ کی تکفیر ،
۳۔ عقیدہ امامت۔
جہاں تک تحریف قرآن کا تعلق ہے تو مولانا نے شیعہ اثنا عشریہ کا یہ عقیدہ ان کی مرکزی وبنیادی کتاب ’’اصول کافی‘‘ سے نقل کیا ہے جس میں امام ابو عبد اللہ جعفر صادق کی طرف یہ قول منسوب کیا گیا ہے:
ان القرآن الذی جاء بہ جبریل علیہ السلام الی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سبعۃ عشر الف آیۃ (اصول کافی ص ۶۷۱)
’’بلاشبہ وہ قرآن کریم جس کو حضرت جبریل علیہ السلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے، اس کی سترہ ہزار آیات تھیں۔‘‘
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا فرماتے ہیں: ’’غور فرمائیں کہ بقول شیعہ شنیعہ کے سترہ ہزار آیات پرمشتمل قرآن گھٹتے گھٹتے تقریباً سوا چھ ہزار آیات رہ گیا۔‘‘
شیعہ کے محقق ومجتہد اور خمینی صاحب کے معتمد علیہ ملا باقر مجلسی لکھتے ہیں:
ودر قرآن در آیات بسیار نام علی بود کہ عثمان بیروں کردہ۔ (تذکرۃ الائمہ ص ۴۸)
’’قرآن کی بہت سی آیات میں حضرت علیؓ کا نام تھا، مگر عثمانؓ نے ان کا نام قرآن سے خارج کر دیا۔‘‘
ان حوالہ جات سے نہ صرف شیعہ کا عقیدہ تحریف قرآن واضح ہو کر سامنے آتا ہے، بلکہ ان میں حضرت عثمان اور جماعت صحابہ پر تحریف قرآن کا صریح بہتان اور بے بنیاد افترا بھی باندھا گیا ہے۔
تکفیر شیعہ کی دوسری وجہ بیان کرتے ہوئے مولانا موصوف رقم طراز ہیں:
’’شیعہ حضرات خلفاے راشدین اور دیگر حضرات صحابہ کی تکفیر کرتے ہیں اور اس سے نصوص قطعیہ اور احادیث صحیحہ متواترہ کا رد اور انکار لازم آتا ہے جو کفر ہے۔‘‘
اس عقیدہ کی وضاحت میں ’’الجامع الکافی‘‘ کی کتاب الروضہ سے شیعہ کے پانچویں امام، امام محمد باقر کا یہ قول نقل کیا گیا ہے:
ان الشیخین فارقا الدنیا ولم یتوبا ولم یتناکرا ما صنعا بامیر المومنین علیہ السلام فعلیہما لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین (کتاب الروضہ، ص ۱۱۵ طبع لکھنو)
’’ابوبکروعمر دنیا سے رخصت ہوئے۔ نہ تو انھوں نے توبہ کی اور نہ اس کارروائی پر ندامت محسوس کی جو انھوں نے امیر المومنین حضرت علی سے کی۔ سو ان دونوں پر اللہ تعالیٰ اور فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔‘‘
مولانا سرفراز خان صفدر صاحب نے تکفیر شیعہ کی تیسری اصولی وجہ اہل تشیع کے عقیدہ امامت کو قرار دیا ہے۔ اس عقیدے کے مطابق شیعہ امامیہ کے نزدیک حضرات ائمہ کرام کا درجہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام سے زیادہ ہے۔ شیعہ کے عمدۃ المحدثین ملا محمد باقر مجلسی لکھتے ہیں:
مرتبہ امامت بالاتر از مرتبہ پیغمبری است (حیات القلوب ج ۳ ص ۳)
’’امامت کا مرتبہ نبوت وپیغمبری سے بالاتر ہے۔ ‘‘
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ ملا محمد باقر مجلسی اہل تشیع کے وہ عالم ہیں جن کی کتابوں کے مطالعہ کا حکم دور حاضر میں شیعہ کے رہبر اعلیٰ خمینی صاحب نے بطور خاص دیا ہے۔ 
اب آئیے مولانا صفدر صاحب کے فتوے کے ان نکات کی طرف جنھیں ڈاکٹر صاحب نے محل نظر قرار دیا ہے: 
’’محترم مولانا سرفراز خان صفدر صاحب کے فتوے میں دو باتیں محل نظر ہیں۔ ایک تو یہ کہ انھوں نے شیعہ کا عمومی لفظ استعمال کر کے اور چند اہم قابل اعتراض عقائد کا ذکر کر کے انھیں کافر قرار دیا ہے۔ دوسرے یہ کہ انھوں نے اہل تشیع کے کسی وضاحتی موقف کو ماننے سے اس لیے انکار کر دیا ہے کہ وہ تقیہ پر مبنی ہو سکتا ہے۔ ہم ادب کے ساتھ عرض کریں گے کہ یہ دونوں باتیں عدل وانصاف کے مسلمہ معیارات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔‘‘
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مولانا نے اپنے فتوے میں شیعہ کا عمومی لفظ استعمال کر کے ان کو کافر قرار دیا ہے تو ہم عرض کریں گے کہ فتویٰ میں جہاں شیعہ کا عمومی لفظ ذکر کیا گیا ہے، وہیں چند مخصوص عقائد بھی ذکر کیے گئے ہیں جن کی بنیاد پر شیعہ کی تکفیر کی گئی ہے۔ گویا شیعہ کے عام لفظ کو ان مخصوص عقائد کا ذکر کر کے خاص کر دیا گیا ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس فتویٰ کا اطلاق صرف ان حضرات پر ہوتا ہے جو درج بالا عقائد ونظریات کے حامل ہوں۔ جو لوگ ان عقائد سے صدق دل کے ساتھ براء ت کا اعلان کریں، ان پر اس فتویٰ کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اسی بات کی مزید وضاحت درج ذیل تحریر سے ہوتی ہے جو مولانا موصوف نے امام ابن حجر عسقلانی کی کتاب ’’تہذیب التہذیب‘‘ کے حوالے سے اپنی کتاب ’‘ارشاد الشیعہ‘‘ میں نقل کی ہے:
فالتشیع فی عرف المتقدمین ہو اعتقاد تفضیل علی علی عثمان وان علیا کان مصیبا فی حروبہ وان مخالفہ مخطئ مع تقدیم الشیخین وتفضیلہما
’’متقدمین کے عرف واصطلاح میں تشیع کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت علیؓ کو حضرت عثمانؓ پر فضیلت دی جائے اور یہ کہ حضرت علی اپنی جنگوں میں حق بجانب تھے اور ان کے مخالف خطا پر تھے اور وہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی تقدیم وتفضیل کے قائل تھے۔‘‘
مولانا نے حافظ ابن حجر کا یہ قول اپنی کتاب میں نقل فرما کر اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی شیعہ آج بھی اسی فکر کا امین وداعی ہے اور تحریف قرآن، عقیدہ امامت اور شیخین کی تکفیر کے قائلین کو خارج از اسلام سمجھتا ہے تو اس فتویٰ کا اطلاق اس پر نہیں ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج اس فکر کا حامل کوئی شیعہ موجود ہے؟ ہم نہیں سمجھ سکے کہ ڈاکٹر صاحب کے اس فرمان کی کیا بنیاد ہے کہ ’’تمام شیعہ اثنا عشری تحریف قرآن، تکفیر شیخین، عصمت ائمہ کے قائل نہیں اور عصر حاضر میں سارے اثنا عشری شیعہ مذکورہ عقائد پر یقین نہیں رکھتے‘‘۔ اگر ڈاکٹر صاحب با حوالہ اور مدلل اس کی نشان دہی فرما سکیں تو ہمارے علم میں اضافے کا باعث ہوگا۔
جہاں تک مولانا سرفراز صفدر کے اس موقف کا تعلق ہے کہ انھوں نے اہل تشیع کے وضاحتی موقف کو تقیہ پر مبنی قرار دے کر تسلیم نہیں کیا تو مولانا نے یہ بات اہل تشیع کی مذہبی اصطلاح ’’تقیہ‘‘ کے پس منظر میں کہی ہے۔ تقیہ کا مطلب ہے اپنے قول یا عمل سے واقعہ یا حقیقت کے خلاف یا اپنے عقیدہ وضمیر ومذہب کے خلاف ظاہر کرنا۔ شیعہ حضرات کی بنیادی کتاب ’’اصول کافی‘‘ میں تقیہ کے متعلق ایک مستقل باب ہے جس میں ائمہ کے ارشادات نقل کیے گئے ہیں۔ اس باب کی ایک روایت درج ذیل ہے:
عن ابی عمیر الاعجمی قال قال لی ابو عبد اللہ علیہ السلام یا ابا عمیر تسعۃ اعشار الدین فی التقیۃ ولا دین لمن لا تقیۃ لہ
’’ابو عمیر اعجمی راوی ہیں کہ امام جعفر صادق نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابو عمیر! دین کے دس حصوں میں سے نو حصے تقیہ ہے اور جو تقیہ نہیں کرتا، وہ بے دین ہے۔‘‘
اصول کافی کے ’’باب الکتمان‘‘ میں امام جعفر صادق کے خاص مرید اور راوی سلیمان بن خالد کی روایت ہے :
قال ابو عبد اللہ علیہ السلام انکم علی دین من کتمہ اعزہ اللہ ومن اذاعہ اذلہ اللہ (اصول کافی، ص ۴۸۵، طبع لکھنو)
’’امام جعفر صادق نے فرمایا کہ اے سلمان، تم ایسے دین پر ہو کہ جو شخص اس کو چھپائے گا، اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عزت عطا ہوگی اور جو اس کو ظاہر اور شائع کرے گا، اس کو اللہ تعالیٰ ذلیل ورسوا کرے گا۔‘‘
کسی شخص کے وضاحتی موقف کو قبول کرنے کا یہ ایک مسلمہ معیار ہے کہ اس شخص کا کوئی دوسرا قول یا عمل یا کوئی اور قرینہ اس موقف کی تردید نہ کر رہا ہو جس کو بطور وضاحت پیش کیا جا رہا ہے۔ اگر کوئی ایسا قرینہ پایا جائے تو اس شخص کے موقف کو قبول کرنے کے لیے کوئی بھی منصف مزاج آدمی تیار نہیں ہوگا۔ تقیہ کے مذکورہ بالا نظریہ کے پیش نظر جس شخص کا اپنے دین کے متعلق اصول وقاعدہ ہی یہ ہو کہ ’’دین چھپاؤ، عزت پاؤ‘‘ اور اس طرز عمل کو باعث اجر وثواب سمجھا جائے تو اس شخص کے کسی وضاحتی موقف کو بے چون وچرا کس طرح قبول کیا جا سکتا ہے؟ اس شخص سے کم از کم یہ وضاحت تو طلب کرنی چاہیے کہ تم جس عقیدہ ونظریہ سے براء ت کا اعلان کر رہے ہو، اس عقیدے کے حاملین ومبلغین کے متعلق تمھارا کیا خیال ہے؟ اگر عقیدہ باطلہ سے انکار کے باوجود اس کے حاملین ومبلغین کو حجۃ اللہ اور آیت اللہ قرار دیا جاتا ہو تو ایسے شخص کے اعلان براء ت کی کوئی وقعت نہیں۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ مولانا صفدر صاحب نے شیعہ کی وضاحت کو رد کرنے کے لیے جس چیز کو بنیاد بنایا ہے، وہ خود اہل تشیع کے عقائد میں سے ایک بنیادی عقیدہ ہے۔ مولانا نے اپنی طرف سے کوئی اصول وضع نہیں کیا۔ اس لیے اہل تشیع کے وضاحتی موقف کو عقیدہ تقیہ کی موجودگی میں قبول کرنے کے لیے درج بالا معیار پر پرکھنا ضروری ہے۔ 
ڈاکٹر صاحب تکفیر مسلمین سے متعلق ایک محتاط اور مبنی بر انصاف اصول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’تکفیر مسلمین کے بار ے میں سخت شرعی احکام کے پیش نظر احتیاط اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ فتویٰ یہ دیا جائے کہ جس شخص کے یہ اور یہ عقائد ہوں، وہ کافر ہے اور یہ نہ کہا جائے کہ سارے شیعہ کافر ہیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کے اس ارشاد پر ہم دو معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں:
پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ شخص جس کے یہ اور یہ عقائد ہوں، اس کا نام ذکر کرنے میں کیا قباحت ہے؟ اگر تاریخ کے آئینے اور موجودہ حالات کے تناظر میں کوئی مستقل فرد، جماعت یا گروہ ان عقائد ونظریات کا نہ صرف حامل ہو بلکہ پوری شد ومد کے ساتھ ان کی تبلیغ وترویج میں بھی مصروف ہو تو اس گروہ یا جماعت کو نامزد کرنے میں کیا حرج ہے؟ ہماری بحث ان عقائد ونظریات سے ہے جن کے داعی پوری امت مسلمہ میں صرف شیعہ حضرات ہیں۔ اس صورت حال کا تقاضا تو یہ ہے کہ ’’جس شخص‘‘ کے عام الفاظ کے بجائے فتوے کو دائرے کو مزید متعین اور محدود کرتے ہوئے یہ کہا جائے کہ ’’جس شیعہ کے یہ اور یہ عقائد ہیں، وہ کافر ہے۔‘‘
دوسری بات یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب کے قائم کردہ اصول کو تسلیم کر کے ہر جگہ ا س کا من وعن اطلاق کیا جائے تو پھر ایسے فتاویٰ کو بھی واپس لینا پڑے گا جو امت مسلمہ کی جانب سے متفقہ طور پر اسلامی عقائد کے منافی نظریات کے حامل بعض گروہوں اور جماعتوں کے بارے میں دیے گئے ہیں۔ مثلاً قادیانیوں کے متعلق بھی فتویٰ یوں دینا چاہیے کہ ’’جو لوگ ختم نبوت کے منکر ہیں، وہ کافر ہیں‘‘۔ حالانکہ قادیانیوں اور ان کی ذیلی جماعتوں کو نہ صرف علماے امت نے نامزد کر کے کافر قرار دیا ہے، بلکہ حکومت پاکستان کی وزارت داخلہ کی طرف سے قومی شناختی کارڈ کے فارم پر درج حلف نامہ میں بھی واضح طور پر لکھا ہے کہ ’’نہ ہی میں قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ سے تعلق رکھتا/رکھتی ہوں یا خود کو احمدی کہتا/ کہتی ہوں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب مزید فرماتے ہیں:
’’اثنا عشری اہل تشیع میں سے کسی شدت پسند عالم دین نے اگر کبھی کوئی غلط بات لکھ دی ہے تو اس کی بنیاد پر سارے اثنا عشری گروہ یا سارے اثنا عشری افراد کو کافر کہنا صحیح نہ ہوگا۔‘‘
ہم اس ضمن میں یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ کبھی بھی کسی متشدد اور انتہا پسند فرد کی رائے کو کسی بھی مسلک میں مذہب کا درجہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ مذہب کا درجہ وہی نظریات رکھتے ہیں جو کسی گروہ کی مستند ومعتمد ترین کتب میں مذکور ہوں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جن عقائد ونظریات کی بنیاد اثنا عشری اہل تشیع کو خارج از اسلام قرار دیا جاتا ہے، آیا وہ کسی شدت پسند فرد واحد کی آرا ہیں یا شیعہ مسلک کی معتمد ومستند کتب کی تعلیمات ہیں۔ ہم پورے وثوق سے عرض کرتے ہیں کہ یہ عقائد ونظریات اہل تشیع کی مستند ترین کتب میں موجود ہیں اور آج بھی شیعہ فکر کی عمارت انھی عقائد ونظریات پر قائم ہے، اس لیے اگر چند اثنا عشری افراد یا علما زبانی طور پر ان عقائد ونظریات سے براء ت کا اعلان کر بھی دیں تو یہ ان کا انفرادی طرز عمل ہوگا، اس سے شیعہ مذہب میں ہر گز کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو جاتی۔ 
ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ہے:
’’اہل سنت کا ایک عالم یا ایک عام شخص اگر کسی اثنا عشری عالم یا فرد کے بارے میں تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کے عقائد کافرانہ ہیں اور وہ اس کی نظر میں کافر ہے تو کیا اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ بندوق پکڑے اور اسے گولی مار کر ہلاک کر دے؟‘‘
ہم اس معاملے میں ڈاکٹر صاحب سے مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ کسی بھی فرد کو اس بات کا کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کے کافر ثابت ہو جانے پر اس کے قتل کے درپے ہو۔ کوئی بھی ذی فہم وذی شعور آدمی اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ تاہم ایسے مبنی بر تشدد رویے کی سخت مذمت کے ساتھ ساتھ انتشار وافتراق کے خاتمہ کے لیے بلا تفریق ایسے مذہبی لٹریچر پر بھی پابندی عائد کی جانی چاہیے جو دیگر جماعتوں اور گروہوں کی مذہبی حمیت وغیرت کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ حالات کے گہرے تجزیے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تشدد اور قتل وغارت کی موجودہ صورت حال کا باعث اسی طرح کے نظریات اور ان کی بر سر عام ترویج واشاعت ہے۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
۲۶ مئی ۲۰۰۵
محترم جناب حافظ عمار خان ناصر
ایڈیٹر ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ 
ماہ مارچ ۲۰۰۵ کے تیسرے ہفتے میں دو سرکاری اداروں ، ادارہ تحقیقات اسلامی اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے زیر اہتمام ’’اجتہاد‘‘ کے موضوع پر اسلام آباد میں ایک سیمینار منعقد ہوا۔ اس کی مختصر سی خبریں تو ملک کے متعدد اخبارات میں چھپیں، لیکن تفصیلی کارروائیاں زیب قرطاس نہ ہوئیں۔ مولانا زاہد الراشدی بھی اس سیمینار کے اہم شرکا میں سے تھے۔ انھی کے لطف وکرم سے لاہو رکے دو روزناموں، پاکستان اور اسلام میں مولانا موصوف کی تقریر کا مطبوعہ متن میسر آیا۔ روزنامہ اسلام لاہور نے اپنی اسی مارچ ۲۰۰۵ کی اشاعت میں مولانا محترم کا مقالہ بعنوان ’’پاکستان میں اجتماعی اجتہاد کی کوششوں پر ایک نظر‘‘ سپرد قلم کیا۔ مذکورہ مقالے میں اس سیمینار کی کارروائیوں کے حوالے سے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر جسٹس (ر) خلیل الرحمان خان کی ایک تجویز کا ذکر یوں آتا ہے:
’’مجھے جسٹس خلیل الرحمان خان کی اس تجویز اور تجزیہ میں موجودہ معروضی صورت حال کی روشنی میں اہمیت وضرورت کا پہلو زیادہ نمایاں نظر آیا کہ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ پارلیمنٹ کے ارکان اور عدلیہ کو قرآن وسنت کے احکام سے باخبر کرنے کے لیے ان اداروں کے ساتھ مستقل تحقیقی شعبے قائم کیے جائیں اور ایک بڑی لائبریری موجود ہونی چاہیے کہ اگر کوئی مسئلہ پارلیمنٹ میں پیش ہو تو ارکان اس سلسلے میں دینی رہنمائی کے لیے اس سے رجوع کر سکیں اور انھیں اس بارے میں بریف کیا جا سکے۔ ..... اسی طرح عدلیہ میں بھی اس قسم کے شعبوں کا قیام ضروری ہے۔ ..... جسٹس (ر) خلیل الرحمان نے بتایا کہ بعض مسائل میں جج صاحبان اس لیے بھی صحیح فیصلہ نہیں کر پاتے کہ ان کے پاس دینی طور پر اس مسئلہ میں ضروری معلومات نہیں ہوتیں۔ انھیں اگر صحیح طور پر بریف کر دیا جائے تو وہ بہتر فیصلے کر سکتے ہیں۔ ...... جسٹس (ر) خلیل الرحمان خان کی یہ تجویز مجھے بہت اچھی لگی اور اس نشست کے صدر جناب وسیم سجاد نے بھی اس میں دل چسپی لی۔ میرا خیال ہے کہ اگر وسیم سجاد صاحب اس کی اہمیت کو محسوس کر لیں تو وہ اس وقت اس پوزیشن میں ہیں کہ اس پر عمل درآمد کا اہتمام کر سکتے ہیں۔‘‘
’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘ والی اس صورت حال کو دیکھ کر جان وتن وجد میں آ گئے۔ جسٹس خلیل الرحمان مدظلہم کی یہ تجویز ایک ایسی نشست میں سامنے آئی جس کی صدارت محترم وسیم سجاد کر رہے تھے۔ محترم وسیم سجاد ملک کی ایک مایہ ناز شخصیت جسٹس سجاد احمد خان کے صاحب زادے ہیں۔ قانون ان کی گھٹی میں پڑا ہے۔ دشت سیاست کے خارزار کے آبلہ پا ہونے کے باوجود ضمیر کی دولت ان سے وابستہ ہے۔ سینٹ کے چیئرمین رہے اور اس ناتے کئی بار ملک کے قائم مقام صدر بھی۔ حکمران طبقات کی باہمی آویزش میں توازن واعتدال قائم رکھنے میں ابلہ رہے۔ ان تمام اونچی سیجوں پر رہ کر محترم وسیم سجاد نے ملت کی پستیوں کی ہر سطح بھی دیکھی، پرکھی اور بھگتی ہے۔ یقین ہے وہ اس تجویز سے نہ صرف اتفاق کریں گے بلکہ تن ومن سے (دھن سے نہ سہی) اسے آگے بڑھانے میں لگ جائیں گے۔ آمین۔ اللہ تعالیٰ اس تجویز سے وابستہ تمام حضرات کی فکر ونظر میں ’وجعلنا لہ نورا یمشی بہ فی الناس‘ کی وسعتیں سمو دے۔ آمین
اس غیر معمولی تجویز کی اہمیت وافادیت سے صرف وہی انکاری ہوگا جس کے بارے میں ’الا من سفہ نفسہ‘ کہا جا سکے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ابھی ہوش مندوں کا وجود ہے۔ راقم الحروف کو نہ صرف وقتاً فوقتاً اراکین مقننہ سے واسطہ رہا، بلکہ معزز اراکین عدالت نیز معروف وکلا صاحبان سے بھی ربط ضبط رہا کیا۔ فہم دین کے معاملے میں ہو کہ دنیا دانی کی بات ہو، ان معاملات سے وابستہ حضرات کو تہی دامنی کا الزام دینا غلط ہے، یوں کہ خود مروجہ عصری نظام تعلیم ہی ملی سوچ، حکمت ودانائی کے معاملے میں کور چشم ہے، بلکہ صرف ’عمی‘ ہی نہیں، ’صم وبکم‘ بھی ہے۔ (ہاں وہ حضرات مستثنیٰ ملتے ہیں کہ جن کے گھرانے مذہبی تعلیم سے بھی آراستہ چلے آئے ہوں، مگر اب یہ صف خاصی الٹ چکی ) ظاہر ہے کہ یہ تمام حضرات مروجہ نظام تعلیم کے پروردہ ہوتے ہیں اور ان میں سے جو حضرات خم خانہ مغرب کے جرعہ تعلیم سے بھی فیض یاب ہوئے ہوں، ان کی جدید رندی، خوب صورتی پر رسولی کی کیفیت سے عبارت ہوتی ہے۔ 
پھر یہ کہ عصری نظام تعلیم تو انگریز بہادر کے دم قدم سے آیا تھا، ہمارے مدارس کی کیفیت تو گزشتہ کئی صدیوں سے ایسی رہی کہ اب تو رونے کے لیے بھی آنسو کسی سے قرض ہی لینے پڑیں گے۔ فکری جمود اور کم نگہی کی جس منزل پر ہم آج نظر آتے ہیں، وہ آج کی بات نہیں۔ یہ بے ڈول قدم آج سے نصف صدی سے بھی پہلے دیکھے جاتے تھے۔ آخر ’’نہ خود بیں، نے خدا بیں، نے جہاں بیں‘‘ کی فغاں اور ’’زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ‘‘ کا نالہ ایک دردمند نے اسی برصغیر میں یہ دیکھ کر ہی تو بھرا تھا کہ ہم من حیث الملت خود داری، خود اعتمادی اور خودی سب کچھ کھوتے جا رہے ہیں۔
آنکھوں نے اس پیاری سرزمین میں وہ منظر بھی دکھلائے جب مقننہ اور عدلیہ کے مقتدر اراکین میں بعض حضرات حیات بعد الموت کو خرافات اور جواب دہی وجزائے اعمال کو دل بہلاوا علی الاعلان گردانتے رہے۔ ایسے ’’معززین‘‘ بھی ملے (اب بھی ملتے ہیں) جنھیں قرآن کریم کی ناظرہ تلاوت بھی نہیں آتی۔ ایک ایسے ملک میں جسے اسلام کے نام پر لاکھوں جانوں کا نذرانہ دے کر حاصل کیا گیا ہو، اگر عصائے قانون سازی اور میزان عدل ان افراد کے ہاتھوں نظر آئے جو 
دیر وحرم سے ان کا برابر ہے فاصلہ
جتنے یہاں سے دور ہیں، اتنے وہاں سے دور
کی تصویر ہوں تو پھر حاصل جاں سرکوبی اور سینہ کوبی ہی رہ جاتا ہے۔ مشکل مگر یہ ہے کہ آدمی کا ایک ہی سر، ایک ہی سینہ ہوتا ہے۔ وہ اسے کتنی بار پیٹے اور کس کس بات پر؟ اب تو وہ منزل آن لگی کہ بنی اسرائیل کو دی گئی اجتماعی سزا (فاقتلوا انفسکم) کے امتثال میں اجتماعی طور پر ’توبوا الی بارئکم‘ کے ساتھ ساتھ کم از کم ایک نسل تک ایک دوسرے کا سر پیٹنے پر مکلف ہونا پڑے گا کہ ہم سب ہی اس صورت حال کے ذمہ دار وقصور وار ہیں۔
’’چلو موجیں کرو اب سر سے اونچا ہو گیا پانی‘‘ کی صورت حال ہے۔ گو یقیناًبہت دیر ہو چکی، بریں ہم یہ تجویز فوری روبہ عمل لائے جانے کی حق دار ہے۔ نہ صرف مقننہ وعدلیہ کے حوالے سے، بلکہ ایسے تحقیقی مراکز اور لائبریریاں دینی مدارس کے مختلف وفاقوں کے تحت بوہلہ اول ملک کے بڑے تعلیمی مراکز میں بھی ضرور قائم ہونے چاہییں جہاں مغربی فلسفہ وتہذیب کی پر فریب دیدہ زیبی پر تحقیق ہو سکے اور علاج درد ڈھونڈا جاتا رہے۔ اگر عصر حاضر کے اس شور محشر کی گونج اب بھی ہمارے وارثین منبر ومحراب سننے کے روادار نہیں تو پھر وہ اس دکھیاری کی طرح جس کی دو دفعہ طلاق ہو چکی ہو اور پھر دو دفعہ بیوگی کے داغ بھی اٹھائے ’’ہم تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہہ محراب‘‘ کے مصداق ’اللہم غرق دیارہم‘ کے کوسنے ہی تا قیام قیامت دیتے رہ سکیں گے۔
آپ نے وہ مشہور سرائیکی کہاوت تو ضروری سنی ہوگی، ’’جے عقل نئیں تے موجاں ای موجاں‘‘۔ ہم کرائے کے سپاہیوں کی طرح دوسروں سے کلاشن کوف لے کر ادھر ادھر فی سبیل اللہ فساد کا جہاد ہی کریں گے۔ مغرب کی فکری یلغار زندگی کے ہر میدان میں جتنی مہیب ہے، ہمارا فکری اندھا پن جس قدر روز افزوں ہے، اس حوالے سے مجھے پنجابی کی یہ مشہور کہاوت یاد آتی ہے ’’اتے کتے ہرناں دا پچھا کرنا‘‘۔ شاید ہم ثمود کی طرح ’انہم کانوا قوما عمین‘ کی منزل پر ہیں۔
وہ عصری تعلیم کے مراکز ہوں یا ایرانی روایات (بلکہ خرافات) گزیدہ دینی مدارس، ہماری ملت وہیں سے یک چشم دانش ور گود لیتی رہی ہے۔ ہم سب اسی جمود رسیدہ، جہل خورسند، داماں دریدہ مگر خود فریب ملت کا حصہ ہیں۔ سچ بولنا ہم نے صدیوں سے چھوڑ دیا تو نتیجے میں سچ سننے کی صلاحیت ہی نہ رہی، جبکہ سچ بولنا اور سچ سننا یک جان دو قالب حقیقتیں ہیں۔ زندگی کے ہر میدان میں ہماری ملت کی فکری قیادت اب انھی مہربانوں کے ہاتھوں میں ہے جنھوں نے یک چشمی کو کامل بینائی ودانائی سمجھ رکھا ہے اور انھی کی نوازشوں سے ہماری ملت کا فکری جہل مستند تاریخ کے صفحات پر ثبت ہے۔ اس حد تک بھی کہ اب ہمارا ہر طبقہ اپنے سوا ہر دوسرے طبقے کو یا تو مغضوب علیہم سمجھتا ہے یا ضالین گردانتا ہے۔
جسٹس (ر) خلیل الرحمان کی تجویز اپنی جگہ جہاں امید افزا ہے، وہاں ہوش فرسا بھی ہے۔ آپ سوچیے تو یہ مایوس کن حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس کے رو بہ عمل آنے میں کئی ایسے مرحلے آئیں گے کہ مردان کار اپنے اپنے گریبانوں کی دھجیاں اپنے ہاتھوں میں لیے بیٹھے ہوں گے۔ وہ ہمارے گریجویٹ اسمبلیوں کے اراکین ہوں کہ وارثان منبر ومحراب مفتیان کرام، ان کی معتد بہ تعداد رائج الوقت کسی بھی علمی زبان سے وہ علاقہ بھول کر بھی نہیں رکھتی جو سب سے اہم پہلو ہے۔ بے زبانی یا بد زبانی ہی ان کی زبان دانی سے عبارت ہے۔ پبلک سروس کمیشن کی رپورٹوں ہی کو دیکھ لیجیے، یہ زار وزبوں صورت حال پوری طرح ہویدا ہو جاتی ہے۔ اب یہ اور بات ہے کہ احساس زیاں ہی کاملاً جاتا رہا ہو۔ وہ دینی مواد ہو کہ قانونی وفنی، ہمارے ملک کے معروضی حقائق کے تناظر میں ہمیں یا تو عربی میں درکار ہوگا یا انگریزی میں یا پھر پارٹیشن کے بعد سے ملک بدر اردو مرحوم میں، جبکہ صورت حال یہ ہے کہ عصری تعلیم یافتہ ہمارے یک چشم دانش ور عربی سے اتنے ہی آشنا ہوتے ہیں جتنے کہ آسٹریلیا کے قدیم باشندے لباس سے۔ اردو سے ایسے گریز پا ومتنفر جیسے ’کانہم حمر مستنفرۃ فرت من قسورۃ‘ ہوں۔ انگریزی پولیو زدہ اور لکنت ماری اور اسی پر نازاں۔ ؂
عقل کی موت ، علم کی پستی
الاماں لعنت سیر مستی
کی تصویر! آپ ذرا ان حضرات کو ملی سطح پر کسی بھی میدان عمل میں دیکھ تو لیں۔ ادھر ہمارے وارثان منبر ومحراب!! 
رات بھر واعظ نے کی ہجو بتاں
لیکن ایک انداز تحسینی کے ساتھ
انگریزی سن کر ہی جن کی اکثریت کو غسل شرعی واجب ہو جاتا ہے۔ عربی اتنی ہی سیکھتے ہیں جو شاید جنت کی حوریں بولتی ہوں تو ہوں، کیونکہ منتہائے نظر وہی مقام ہے اور اسی غرض سے ہے۔ اور رہی اردو، ذرا کسی دار العلوم میں باوضو ہی سہی، جانے کی ہمت تو کر لیجیے۔ اردو کا جنازہ آپ کو دار الافتا کے باہر ہی رکھا ہوا بے کفن ملے گا۔ آئیے تو، ذرا با جماعت یہ شعر الاپیں ؂
آ عندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں 
دوسرا مصرعہ ہم سب انفراداً پڑھ لیں گے۔ مگر آپ یقین کیجیے، اس تن ہمہ داغ داغ صورت حال کے باوجود محترم جسٹس خلیل الرحمان کی یہ نوائے درا، یہ نغمہ جرس، عصر کی اذان کے خاصی دیر بعد دی جانے والی صدائے ’الصلوۃ خیر من النوم‘ ہماری لگ بھگ ساٹھ سالہ حیات ملی کے دھند، دھول اور دھویں سے آلودہ افق پر آس کی ایک کرن ہے اور کام اگر خلوص نیت سے آج بھی شروع کیا جائے تو عین ممکن ہے کہ رب غفور، عزیز ورحیم ہمیں کچھ اور مہلت دے دیں گے، ورنہ ہم تو بطور ملت خزی فی الدنیا والآخرۃ کی منزل کے عین نواح پر آن پہونچے ہیں۔
بات نکلے تو بہت دور تک جائے گی۔ اسی گفتگو کے تناظر میں یہ بات میرے لیے بعید از فہم رہتی ہے کہ ادارہ تحقیقات اسلامی کو، اسلامی نظریاتی کونسل کو، اور خود بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کو باہم فوری طور پر اس منفرد اور عظیم ذمہ داری سے مکلف کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ کسی نئی تحقیقاتی لائبریری کا قیام اتنا آسان تو نہیں! کسی بالک کا خواب تو نہیں!! آخر ملک وقوم کے خطیر خرچ سے قائم یہ ادارے کس مرض کی دوا ہیں اور کس دن کے لیے ہیں؟ ان اداروں کو وجود ملے ربع صدی سے زاید گزر چکی، قوم کے سامنے آج تک ان کی کوئی انقلابی اجتہادی مساعی نہیں آئیں، سوائے چند ترجمہ شدہ کتابوں یا ادھر ادھر کی گانٹھ جوڑ سے کی گئی تالیفات کے، جن پر ایک ادارہ بزعم خود یہ چھاپ کر کے کہ Not for sale outside Pakistan اپنی کارستانی پر نازاں رہتا ہے، ہٹ دھرم رہتا ہے۔ یہ تمام ادارے عین دار الحکومت اسلام آباد میں براجمان ہیں، قائم ہیں مگر عملاً نائم ہیں۔ ان سب کی اپنی اپنی وقیع لائبریریاں ہیں، تحقیقی شعبے ہیں اور کئی اسکالرز نہ صرف سیاسی اساس پر بلکہ علمی اساس پر بھی وہاں مامور ہیں۔
پاکستان ایک نظریے کا نتیجہ ہے۔ دنیا کی ہر نظریاتی مملکت اپنے فلسفہ حیات کو، اپنے نظریہ حکمرانی وجہاں بانی کو اپنی مطبوعات کی تقسیم کے ذریعے دنیا بھر کو ایکسپورٹ کرتی ہے، جبکہ مملکت خداداد پاکستان کا ایک اسلامی تحقیقاتی ادارہ اپنی گنی چنی مطبوعات کو قیمتاً بھی ملک سے باہر جانے دینے کا روادار نہیں۔ شاید وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کے سوا اسلام کا وجود اور کہیں نہیں۔ اگر یہ کتابیں وہاں جائیں تو بے حرمتی ہوگی۔ یا پھر کام اتنے نکمے ہیں کہ سبکی ہوگی۔ نہیں، بلکہ صرف یہ تاجرانہ سوچ اس سرکاری ادارے میں بھی کار فرما ہے کہ یہ کتابیں صرف ڈالر کی اونچی سطح پر ہی دان کی جا سکتی ہیں۔ بریں عقل ودانش بباید گریست۔
نیز یہ بات بھی وجہ حیرت رہی کہ اپنے مقالہ میں مولانا زاہد الراشدی نے دینی مدارس کے وفاقوں کے تحت تحقیقاتی لائبریریوں کے قیام کی ضرورت کا، ضمناً ہی سہی، ذکر کیوں نہ کیا؟ اسے جسٹس خلیل الرحما ن مدظلہم کی زیر تبصرہ تجویز کے ساتھ نتھی کیوں نہ کر دیا؟ حالانکہ مولانائے محترم نے یہی بات بڑے درد آشام لہجے میں ایک سرکاری فورم (انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد) کے تحت منعقدہ ایک سیمینار میں اپنے مقالہ بعنوان ’’عصر حاضر میں دینی مدارس کے طریق تحقیق وتالیف کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ (جولائی ۲۰۰۴) میں کہہ دی تھی۔ واقعہ کل کا ہے، بات اتنی پرانی تو نہیں! اچھی اور ضروری بات تو سورہ رحمن کے تکراری لحن میں بار بار کہی جاتی ہے۔
یہ بات نہیں کہ حاشا وکلا زاہد الراشدی مدظلہم نے اس سے اغماض کیا ہو۔ ان سے تو اغماز بھی نہیں ہوتا! بلکہ یہ ایک ایسے سہو کا رونا ہے جو کم از کم اسلام آباد کے بے دیوار وبے دروازہ صحرا میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ کان پر جوں وہاں رینگتی ہے جہاں کان ہونے کا کم از کم شائبہ تو ہو! اسلام آباد کے خود مست قلندروں کو تو سنائی صرف اس وقت دیتا ہے جب وہ نفخہ ثانیہ کے صوری لہجہ میں ہو۔ بھائی عمار ناصر، وہ دن گئے جب صرف فجر میں ’الصلوۃ خیر من النوم‘ کہنے سے لوگ آ جاتے تھے، چاہے فجر کی دو فرض میں درود ابراہیمی کی نوبت پر سہی۔ اب تو ہم نیند کے اتنے ماتے ہیں کہ ہر اذان میں اس نعرہ کی ضرورت ہے۔ ہم کسی اور کو جاگنے بھی تو نہیں دیتے۔ اب ہمارے نزدیک نیند انسان کا بنیادی حق ہے اور ہم ٹھہرے ’’بنیاد پرست‘‘۔ آخر ہمارے قریہ بہ قریہ، کو بہ کو قائم خود ساختہ مسلکی دار الافتا یہ اجتہادی فتویٰ تو دے سکتے ہیں نا کہ طویل نیند اصحاب کہف کی سنت ہے۔ 
حافظ عمار، سلمکم اللہ، کاش کوئی ایسی صورت ہو جاتی کہ آپ جولائی ۲۰۰۴ کے اس مذکورہ مقالے کو ایک بار چھاپ سکتے کہ ملک کی کئی آنکھیں اس نالہ پر سوز کو تحریراً دیکھ لیتیں۔ جو اسے سن نہ پائے، پڑھ ہی لیتے اور عقل کو دعوت دینے کی، ’افلا تعقلون، افلا تذکرون‘ کی تعمیل کو کچھ تو صورت بنتی۔ آخر ’لو کنا نسمع او نعقل‘ کی صورت ابھی تو نہیں آگئی۔ کیا آپ ’انک لا تسمع الموتی‘ کی نوبت کو کاملاً مستولی سمجھ بیٹھے؟
اللہ سائیں سبحانہ زاہد الراشدی صاحب کو اپنی حفاظت میں رکھیں۔ آمین۔ ان کا خیال آتا ہے تو اس عاجز کا حرف دعا اس شعر میں بھی ڈھل جاتا ہے۔ نہ معلوم کس دل جلے کا ہے۔ ؂
حشر کے میدان میں کچھ اور وسعت چاہیے
ایک دنیا آ رہی ہے تیرے دیوانے کے ساتھ
میری زباں پر تو یہ دعا جاری ہی رہتی ہے۔ مجھے کوئی اعتراض بھی نہیں ہوگا اگر آپ اپنے قارئین کو بھی اس دعا میں شریک ہونے کی دعوت دیں، انھیں یاد دلائیں کہ الم یان للذین آمنوا ان تخشع قلوبہم لذکر اللہ؟
اللہ آپ کا حامی وناصر ہو۔ آمین
العبد العاجز
الراجی رحمۃ ربہ العزیز الوہاب
سید عماد الدین قادری۔ کراچی
(۲)
مکرم ومحترم حضرت مولانا ابو عمار زاہد الراشدی صاحب دامت برکاتہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
ماہنامہ ’الشریعہ‘ کا شمارہ مئی ۲۰۰۵ موصول ہوا۔ ایک ہی نشست میں تمام کا مطالعہ کیا۔ اداریہ بہترین تھا۔ محترمہ شاہدہ قاضی کا مضمون ایک وسیع وعریض موضوع کا حامل ہے اور اس میں ابھی بہت زیادہ گنجایش ہے۔ اگر تاریخ کے کسی پروفیسر صاحب سے نسیم حجازی کے تاریخی ناولوں کی انھی اغلاط کو ’الشریعہ‘ کے ذریعے سامنے لایا جائے تو یقیناًیہ بہت اہم کام ہوگا، کیونکہ نسیم حجازی صاحب نے جن شخصیات پر یہ تاریخی ناول لکھے ہیں، ہماری تاریخ میں ان کا کردار نہایت روشن اور واضح ہے، لیکن ان سے منسوب بہت سے من گھڑت قصے عجیب وغریب دلائل کے ساتھ بیان کیے جاتے ہیں۔ ان میں ایک دلیل نسیم حجازی صاحب کے ناول بھی ہیں۔ مذہب وتاریخ سے دور طبقہ انھی پر ایمان رکھتا ہے، حالانکہ یہ درست نہیں۔ (میں نے تاریخ کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ ہماری اکثریت اپنی تاریخ سے ناواقف ہے۔ وہ محض سنی سنائی باتوں کو ہی تاریخ سمجھتی ہے) امید ہے ’الشریعہ‘ کے ذمہ داران اس جانب توجہ فرمائیں گے۔
’’آرا وافکار‘‘ میں محترم ڈاکٹر امین صاحب نے ایک اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ فی زمانہ جاری حالات وواقعات کے پیش نظر یہ نہایت ضروری اور لازم ہے کہ امت مسلمہ اپنے داخلی جھگڑوں اور رنجشوں کو پس پشت ڈال کر مشترکہ مقاصد کے لیے جدوجہد کرے اور مشترکہ دشمن (یہود ونصاریٰ، امریکہ، برطانیہ، اسرائیل، بھارت وغیرہ) کے خلاف لڑنے کے لیے تمام تر تدابیر بروئے کار لائے۔ یہ موجودہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امت مسلمہ بالخصوص سنی اور اہل تشیع حضرات بھلا کیسے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے اپنے طویل مضمون میں جہاں بہت سی تجاویز دی ہیں، وہاں انتہائی اہم نکات کو نظر انداز کر دیا ہے۔ ممکن ہے علماء اہل سنت اور اہل تشیع میں باہمی عناد کی وجہ فقہ جعفریہ کے نفاذ کے لیے چلائی جانے والی تحریک ہو، لیکن علماء اہل سنت کی طرف سے آج تک اس کے خلاف واضح اور موثر آواز نہیں اٹھائی گئی۔ ان کی آواز ، ان کی تحریک اس سے کہیں زیادہ بلند، پیچیدہ اور نہایت خطرناک مسئلے کی جانب مبذول رہی ہے اور وہ ہے اہل تشیع کا صحابہ کرام وامہات المومنین کے خلاف نہایت ہی نازیبا زبان کا استعمال۔ انھوں نے اپنی سینکڑوں کتابوں میں اس خباثت کا واضح طور پر اظہار کیا ہے۔ وہ اسے اچھا، بہترین اور حق پر سمجھتے ہیں۔ یہ صرف علماء اہل تشیع تک محدود نہیں، اہل تشیع کا ہر وہ فرد جو اپنے مسلک کو سمجھتا ہے، وہ اس بد زبانی کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ شاید ڈاکٹر موصوف نے اہل تشیع حضرات کے شائع کردہ لٹریچر کا کبھی مطالعہ نہیں کیا۔ ان کی کتابوں میں صحابہ کرام وامہات المومنین کے خلاف ایسے گستاخانہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں کہ جنھیں پڑھ کر ایک عام مسلمان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لے۔ علماء اہل سنت کی ان کے خلاف تحریک اسی کا نتیجہ ہے، وگرنہ مولانا حق نواز جھنگوی، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی، مولانا اعظم طارق، علامہ شعیب ندیم وغیرہ کو اس بات کا یقین تھا کہ انھیں جلد یا بدیر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا، لیکن وہ اپنے مشن پر ڈٹے رہے۔
ان دونوں گروہوں میں بھلا اتحاد واتفاق کیسے ہو سکتا ہے جب حکومت اس میں مخلص ہی نہیں؟ اگر حکومت چاہے تو شیعہ حضرات کی صحابہ کرام کے خلاف لکھی گئی تمام کتابوں، تقریروں وغیرہ پر مکمل پابندی عائد کر کے اس سنگین مسئلے کو ختم کر سکتی ہے، لیکن ایسا ممکن نہیں۔ ایران بھلا ایسا کب ہونے دیتا ہے؟ اگر اہل تشیع پر یہ پابندی عائد ہو تو پھر ان کے خلاف کسی قسم کی تحریک اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ علماء دیوبند میں باہمی رنجش بجا ، لیکن یہ اعزاز بھی انھی کو حاصل ہے کہ انھوں نے کبھی کسی فتنے، کسی جھگڑے کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا، خواہ بدلے میں جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ اگر آپ غیر جانبدارانہ تحقیق کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ علماء دیوبند انتہائی نامساعد حالات، اپنوں کی چیرہ دستیوں اور عددی قلت کے باوجود کفر کے خلاف ہر میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ انھوں نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ اس کے بدلے میں انھیں نقصان پہنچے گا۔ آپ کوئی بھی میدان ان کی موجودگی سے خالی نہیں پائیں گے، خواہ وہ جنگی میدان ہے یا مناظرہ کا میدان یا کوئی اور میدان۔ لہٰذا یہ کہنا کسی بھی طرح درست نہیں کہ فلاں گروہ نے علماء حق کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اگر اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو سب سے زیادہ نقصان طالبان نے پہنچایا ہے ۔ تو کیا طالبان حق پر نہیں تھے؟
بھارت میں ٹی وی کے جواز وعدم جواز کی بحث پر مبنی مضمون محض انتشار پھیلانے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ علماء کے مابین یقیناًایسے مسائل جنم لیتے رہتے ہیں اور یہ ضروری بھی ہیں کہ اس سے مزید بہت سی نئی راہیں کھلتی ہیں، لیکن یہ کسی صورت بھی مناسب نہیں کہ انھیں صفحہ قرطاس پر رقم کر کے عوام الناس کے سامنے پیش کیا جائے اور خاص طور پر اس صورت میں کہ یہ معاملہ علماء دیوبند کے مابین ہو۔ ہاں، اگر کوئی اور مسلک اس قسم کی حرکت کرتا تو یہ ان کے نزدیک اچھی کوشش ہوتی، لیکن ’الشریعہ‘ کی یہ کوشش باہمی انتشار کو فروغ دینے کی ایک مذموم حرکت ہے۔ ہمارے جیسے مذہب سے دور لوگ اس قسم کی تحریروں کو پڑھ کر علماء کرام کے خلاف غلط قسم کے خیالات سے اپنے ذہنوں کو بھر لیتے ہیں اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ مولوی تو ہمیشہ آپس میں لڑتے ہی رہتے ہیں۔ آپ براہ کرم اس قسم کی اختلافی تحریروں کو شائع کر کے یہ ثبوت نہ دیں کہ آپ بھی روشن خیالی اور اعتدال کی جانب گام زن ہیں۔ یہ کم از کم آپ جیسی شخصیت کو زیب نہیں دیتا، کیونکہ اس قسم کی تحریروں کو پڑ ھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب علما ومذہب بیزار طبقہ ہی کی کوشش ہے جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔
باہمی اختلافات پر مبنی تحریروں کے بجائے ایسی تحریروں کو جگہ دیجیے جن سے مذہب سے دور طبقہ علماء کرام اور مذہب سے قریب ہو۔ وہ یہود وہنود کی چالوں کو سمجھ سکے۔ نیز اسے یہ بھی معلوم ہو سکے کہ اس وقت علما ان چالوں کے خلاف کیا کیا تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔ یہ صرف ’ضرب مومن‘ یا ’اسلام‘ کا کام نہیں، ’الشریعہ‘ جیسے رسائل وجرائد کو بھی پوری طرح مسلح ہو کر اس میدان میں اترنا چاہیے، وگرنہ وہ لوگ جو کسی ایک راہ پر چلنے کے بجائے بہت سی راہوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ درحقیقت ایک نئے راستے کو جنم دیتے ہیں۔ یہاں راستے کا مفہوم آپ بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں۔ اللہ پاک آپ کا حامی ومددگار ہو اور آپ کو اپنے نیک مقاصد میں کامیابی وکامرانی عطا فرمائے۔ آمین
خیر اندیش
انعام الحسن کاشمیری
فیچر رائٹر اردو ڈائجسٹ
۲۱۔ ایکڑ اسکیم سمن آباد لاہور

ورلڈ اسلامک فورم کی مرکزی کونسل کا اجلاس

ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم نے اس سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر عالم اسلام کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اب تک کے طرز عمل اور کارکردگی کے بارے میں ایک ’’جائزہ رپورٹ‘‘ شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں اقوام متحدہ کے تنظیمی ڈھانچے، مجموعی کارکردگی، عالم اسلام کے بارے میں طرز عمل اور اصلاحات کے مجوزہ خاکے کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا اور اس سلسلے میں ورلڈ اسلامک فورم کا موقف اور تجاویز پیش کی جائیں گی۔ یہ فیصلہ ۲۰ جون ۲۰۰۵ کو ورلڈ اسلامک فورم کی مرکزی کونسل کے اجلاس میں کیا گیا جو ابراہیم کمیونٹی کالج لندن میں فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی جبکہ دیگر شرکا میں پاکستان سے فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی اور ڈھاکہ سے فورم کے نائب صدر مولانا محمد سلمان ندوی کے علاوہ مولانا مفتی برکت اللہ، الحاج عبد الرحمن باوا، مولانا عبد السبحان، مولانا عادل فاروقی، رانا محمد الطاف، حاجی غلام قادر، مولانا قاری محمد عمران خان جہانگیری، مولانا حسن علی، مفتی عبد المنتقم سلہٹی، مولانا مشفق الدین، مولانا بلال احمد، کامران رعد، ریاض الحق، شفیق احمد، مولانا نور العالم حمیدی، مولانا اشرف زمان، مولانا ابراہیم کاپودروی، شمیم بخاری، نجم العالم اور قاضی محمد لطف الرحمن بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے کہا کہ اب جبکہ اقوام متحدہ نئی اصلاحات کے ساتھ ایک عالمی حکومت کی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہے، عالم اسلام کو اقوام متحدہ کے مجموعی کردار اور طرز عمل کا ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ جائزہ لے کر اپنے آئندہ طرز عمل کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ جب اقوام متحدہ وجود میں آئی تھی، اس وقت ایک دو مسلم ممالک کے علاوہ اکثر مسلم ممالک غلام تھے، اس لیے مغربی ممالک نے اقوام متحدہ کا منشور اور تنظیمی ڈھانچہ یک طرفہ طور پر اپنے فکر وفلسفہ کی بنیاد پر طے کر دیا اور اس میں عالم اسلام کے عقائد اور ثقافت کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا۔ اسی طرح اپنے عملی کردار کے حوالے سے اقوام متحدہ بالادست اور حکمران ممالک کے مفادات کی محافظ ثابت ہوئی ہے اور ویٹو پاور رکھنے والے پانچ ملکوں کے سوا کسی کو اقوام متحدہ کے فیصلوں میں اختیار کے درجے کی شرکت حاصل نہیں ہے جبکہ مزید اصلاحات میں بھی دوسرے ممالک کو شریک کرنے کی بات محض نمایشی ہے اور دراصل بالادست قوتیں اور امیر ممالک اقوام متحدہ کے ذریعے دنیا پر اپنا کنٹرول مزید مستحکم کرنے اور اپنا فلسفہ وثقافت مسلط کرنے کی فکر میں ہیں۔ اس لیے اس صورت حال سے عالمی رائے عامہ اور دنیا بھر کے مسلم عوام کو آگاہ اور بیدار کرنا ضروری ہے اور اسی مقصد کے لیے ورلڈ اسلامک فورم نے ’’جائزہ رپورٹ‘‘ مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کی ذمہ داری فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی کو سونپ دی گئی ہے جو مختلف دانش وروں اور ماہرین کے تعاون سے یہ رپورٹ مرتب کریں گے اور اگست کے آخر میں لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے سالانہ جنرل اجلاس میں یہ رپورٹ منظوری کے لیے پیش کی جائے گی اور اس کے بعد یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے لندن آفس کے علاوہ مسلم ممالک کے سفارت خانوں اور ذرائع ابلاغ کے لیے پیش کر دی جائے گی۔
ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی صورت حال میں دینی حلقوں کو بیدار رکھنے کی ضرورت ہے اور علماء کرام کو اس سلسلے میں روایتی بے پروائی کو چھوڑ کر متحرک کردار ادا کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ آنے والے گلوبل دور میں اپنے ممکنہ کردار کا دنیا کے تمام طبقات سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں اور اس کے لیے تیاری کر رہے ہیں، مگر دینی حلقوں میں اس طر ف پیش رفت کے آثار بہت کم دکھائی دے رہے ہیں، جبکہ ورلڈ اسلامک فورم دینی حلقوں کو اسی خلا کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہودیت اپنے سیاسی اور معاشی ایجنڈے کے ذریعے دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ مسیحیت کے دو حلقے متحرک ہیں۔ ایک حلقہ سیکولرازم کے فروغ کے عنوان سے مسلم امہ کو دین سے بے گانہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے جبکہ دوسرا حصہ مسیحی مشنریوں کی صورت میں دنیا کے مختلف ممالک میں ہزاروں مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لیے تگ ودو کر رہا ہے۔ عالم اسلام کے دینی حلقوں کو ان سرگرمیوں سے پوری طرح باخبر ہونا چاہیے اور اس ماحول میں اپنے کردار کے تعین اور ادائیگی کے لیے سنجیدگی کے ساتھ پیش رفت کرنی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ گلوبلائزیشن کے نام پر دنیا کے معاشی وسائل پر قبضے اور سیاسی وعسکری بالادستی کے لیے امیر ممالک جس ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، اس کے خلاف مزاحمت اور احتجاج کی فضا عالم اسلام کے بجائے تیسری دنیا کے غیر مسلم ممالک میں زیادہ پائی جاتی ہے اور ہمارا حال یہ ہے کہ نہ تو ہم خود اس سلسلے میں کوئی کردار ادا کر رہے ہیں اور نہ ہی اس میدان میں کام کرنے والوں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں، بلکہ ہمارے بیشتر دینی حلقوں کو سرے سے اس کا ادراک ہی نہیں ہے کہ گلوبلائزیشن کے نام سے کون کون سے حلقے کس کس ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اور ان کی پیش رفت کی صورت حال کیا ہے؟
پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ فکری بیداری کا جو کام یہاں لندن میں ہو رہا ہے، اس کا دائرہ دنیا کے دوسرے ممالک تک وسیع کیا جائے اور مختلف علاقوں میں اس قسم کے حلقے قائم کیے جائیں جو دینی حوالے سے مسلم علماء اور عوام میں فکری بیداری کے لیے کام کریں۔ انھوں نے کہا کہ فکر وعقیدہ کی اصلاح کی طرف اسلام نے سب سے زیادہ توجہ دلائی ہے اور اس کے ساتھ خلوص اور خیر خواہی کے جذبہ کی ضرورت ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنے اسلاف اور بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس جدوجہد کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں۔
اجلاس میں برطانیہ میں مذہبی منافرت کی روک تھام کے حوالے سے پیش کیے جانے والے قانون کا جائزہ لیا گیا اورمختلف شرکا نے اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے قانون کی ضرورت کو تسلیم کرنے کے باوجود اس کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا۔ اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے برطانیہ کی تمام مسلم جماعتوں سے اپیل کی گئی کہ وہ باہمی مشورہ کے ساتھ اس قانون کا جائزہ لیں اور مل بیٹھ کر اس کی ضرورت وافادیت اور تحفظات پر غور کرتے ہوئے مشترکہ موقف اختیار کریں۔
اجلاس میں گوانتانامو بے کے امریکی قید خانے میں قرآن کریم کی بے حرمتی کے افسوس ناک واقعات کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت امریکہ سے مطالبہ کیا گیا کہ ان واقعات کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔ قراداد میں او آئی سی کے ہیڈ کوارٹر سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں متحرک کردار ادا کرے اور قرآن کریم کی حرمت وتقدس کے تحفظ کے لیے اسلامیان عالم کے جذبات واحساسات کی نمائندگی کرے۔
اجلا س میں ایک قرارداد کے ذریعے او آئی سی کے اس مطالبہ کی حمایت کی گئی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسلم ممالک کے لیے ایک نشست مخصوص کی جائے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ عالم اسلام کا حق ہے جس سے مسلسل غفلت برتی جا رہی ہے مگر او آئی سی کو صرف سلامتی کونسل کی ایک نشست کے مطالبے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اقوام متحدہ کے پورے تنظیمی ڈھانچے اور انسانی حقوق کے منشور پر نظر ثانی کا بھی مطالبہ کرنا چاہیے، کیونکہ بنیادی تنظیمی ڈھانچے اور انسانی حقوق کے منشور پر نظر ثانی اور بنیادی تبدیلیوں کے بغیر اقوام متحدہ کے نظام میں غیر مشروط شمولیت عالم اسلام کے مفاد میں نہیں ہے اور اسلامی تعلیمات سے بھی مطابقت نہیں رکھتی۔
ورلڈ اسلامک فورم نے ایک اور قرارداد میں دنیا بھر کے دینی اداروں اور حلقوں اور خاص طور پر برطانیہ کے دینی مراکز سے اپیل کی ہے کہ وہ موجودہ عالمی صورت حال اور بڑھتی ہوئی مشکلات ومسائل سے مسلمانوں کو باخبر کرنے کا اہتمام کریں، کیونکہ ہمارے بیشتر مسائل کی ایک بڑی وجہ ’’بے خبری‘‘ ہے، ا س لیے یہ ضروری ہے کہ دینی حلقے حالات سے باخبر رہتے ہوئے زمینی حقائق کی روشنی میں صحیح کردار ادا کریں۔

تعارف و تبصرہ

ادارہ

بیت العلم کراچی کی مطبوعات

برصغیر کے دینی مدارس میں رائج نصاب اور طریقہ تعلیم کی اصلاح کے مختلف پہلو گزشتہ ڈیڑھ صدی سے اہل علم کے ہاں بحث ومناقشہ کا عنوان ہیں۔ اس سلسلے میں جہاں علوم عالیہ کی تدریس کا معیار بہتر بنانے اور نصاب میں نئے مضامین کی شمولیت کے مسائل زیر بحث ہیں، وہاں یہ نکتہ بھی بجا طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ تعلیم وتدریس کو ایک زندہ، موثر اور مفید عمل بنانے کے لیے نہ صرف جدید تعلیمی نظریات وتجربات پر مبنی طریقہ تدریس کو رائج کرنا ضروری ہے، بلکہ تعلیمی مواد کو آسان اور قابل فہم زبان میں مرتب کرنا اور نصابی کتابوں کو تعلیمی نفسیات اور جدید طباعتی معیار کے مطابق خوب صورت اور دل کش پیرایے میں پیش کرنا بھی اصلاح کے عمل کا ناگزیر تقاضا ہے۔ 
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ اصلاح کی ضرورت کا احساس رکھنے والے اصحاب فکر کی کاوشوں اور ان کے تعاون سے مختلف اشاعتی اداروں کی جانب سے نصابی کتابوں کو جدید تدریسی وطباعتی معیار پر پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اس ضمن میں ایک نمایاں نام بیت العلم کراچی کا ہے جس کی مطبوعات میں سے اس وقت درج ذیل کتب ہمارے سامنے ہیں:
  • ’المنطق المنہجی للمبتدئین‘ (سید شریف کے رسائل صغریٰ، اوسط اور کبریٰ کا سلیس عربی میں ترجمہ)
  • ’تسہیل المنطق‘ (مفید تمرینات اور جداول پر مشتمل علم منطق کا ایک مفید رسالہ)
  • ’مرآۃ النحو‘ (نحو کے مشہور رسالے ’’الضریری‘‘ کی تسہیل باضافہ تمرینات )
  • ’تفہیم مصطلح الحدیث‘ (علم حدیث کی انواع اور اصطلاحات کا تعارف اور توضیحی مثالیں )
  • ’اصول الحدیث للامام السرخسی‘ (’اصول السرخسی‘ سے حدیث سے متعلق اصولی مباحث کا انتخاب) 
  • ’تیسیر علوم الحدیث للمبتدئین‘ (مبتدی طلبہ کے لیے علوم حدیث کا تعارف اور اطلاقی مثالیں)
  • ’تیسیر اصول الفقہ‘ ( آسان پیرایے میں اصول فقہ کے مباحث اور بعض جگہ منہج احناف و متکلمین کا تقابل )
  • ’اصول الفقہ للمبتدئین‘ (مبتدیوں کے لیے آسان اسلوب میں حنفی اصول فقہ کے مباحث )
  • ’تسہیل اصول الشاشی‘ (درسی کتاب ’اصول الشاشی‘ کے مباحث کی تسہیل باضافہ تمرینات)
  • ’طریق الوصول الی علوم البلاغۃ‘ (شاہ عبد العزیز دہلویؒ کے رسالہ ’’میزان البلاغۃ‘‘ کی آسان عربی زبان میں شرح، اور مثالوں کے ذریعے سے اسالیب بلاغت کی تشریح وتوضیح )
  • ’البلاغۃ الصافیۃ‘ (درسی کتاب ’’مختصر المعانی‘‘ کی تسہیل وتہذیب اور مفید تمرینات کا اضافہ)
  • ’توضیح الفرائض السراجیۃ‘ (درسی کتاب ’’سراجی‘‘ کی تسہیل، اور جداول وتدریبات کے ذریعے سے مسائل وراثت کی وضاحت)
  • ’تلخیص شرح العقیدۃ الطحاویۃ‘ (صدر الدین علی بن علی بن محمد کی شرح العقیدۃ الطحاویۃ کی تلخیص اور جگہ جگہ موضوع کی مناسبت سے اہم مباحث کا اضافہ )
مذکورہ کتب میں سے بیشتر کے مولف ومرتب مولانا محمد انور بدخشانی ہیں جو دینی علوم وفنون کے ایک ماہر اور کہنہ مشق استاذ ہیں اور جامعہ بنوریہ کراچی میں سالہا سال سے تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے جس خوش اسلوبی کے ساتھ پرانی درسی کتب کو تسہیل وتیسیر کے قالب میں ڈھالا ہے، اس سے نہ صرف متعلقہ علوم وفنون پر ان کی دسترس کا ثبوت ملتا ہے، بلکہ ترتیب وتدوین کے فن سے واقفیت کے ساتھ ساتھ خوش ذوقی اور سلیقہ مندی کے اوصاف بھی ان کتابوں سے نمایاں ہیں۔ عبارتوں کی پیرا گرافنگ، رموز اوقاف کے استعمال، مباحث کی تفہیم کے لیے مرکزی اور ذیلی سرخیوں کے اضافہ، آیات واحادیث، اشعار اور اقتباسات کے عام متن سے امتیاز، پرانے طریقے کے مطابق متن کے اوپر نیچے حواشی گھسیڑنے کے بجائے صفحے کے نیچے اندراج، کتاب کے مباحث اور مسائل کی ترقیم اور ترتیب وتدوین کے دیگر اصولوں کے استعمال نے ان کتب کو بلاشبہ ایک نیا رنگ دے دیا ہے اور درس وتدیس میں ان سے استفادہ پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ سہل ہو گیا ہے۔ اگر آئندہ ایڈیشنوں میں مشکل الفاظ کی تشریح اور آیات واحادیث کی تخریج کا بھی اہتمام کیا جا سکے تو ان کتب کی افادیت یقیناًدوچند ہو جائے گی۔ 
مولانا موصوف اس خدمت پر مدارس کے پورے طبقے کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں اور توقع ہے کہ اپنی خداداد صلاحیت اور ذوق کو بروے کار لاتے ہوئے وہ اس میدان میں مزید کاوشیں کرتے رہیں گے۔ ہماری رائے میں اصل ضرورت تو اس بات کی ہے کہ اس نوعیت کی جدید نصابی کتب کی تیاری کا اہتمام مجموعی تعلیمی وتدریسی ضروریات کے پیش نظر خود وفاق المدارس کے مرکزی نظام کے تحت ہو، تاہم اس کی غیر موجودگی میں مولانا بدخشانی اور ان جیسے دوسرے اہل علم اپنی انفرادی حیثیت میں جو خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور مدارس میں ان کی محنت سے استفادہ کا اداراتی سطح پر اہتمام ہونا چاہیے۔
مذکورہ کتب بیت العلم، اے ۱۲۰، بلاک نمبر ۱۹، گلشن اقبال کراچی سے طلب کی جا سکتی ہیں۔

’’اشاریہ معارف القرآن‘‘

مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ دور حاضر کی متداول اور مقبول تفسیروں میں سے ایک ہے جس میں جمہور کے تفسیری مسلک کے دائر ے میں رہتے ہوئے عام فہم انداز میں قرآنی معارف کی تشریح اور متعلقہ فقہی مسائل کی وضاحت کی گئی ہے۔ ایک عرصہ سے ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ ’’معارف القرآن‘‘ میں پھیلے ہوئے ان علمی وفقہی اور تفسیری نکات کا ایک جامع اشاریہ مرتب کر دیا جائے تاکہ اہل ذوق کو مطلوبہ عنوانات پر کتاب سے مراجعت کرنے میں آسانی ہو۔ جامعہ عربیہ چنیوٹ کے استاذ مولانا مشتاق احمد صاحب نے مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کی راہنمائی میں بڑی محنت اور کاوش کے ساتھ اس ضرورت کو پورا کر دیا ہے جس پر وہ تمام مستفیدین کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں۔ 
دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ اشاریہ صاف ستھری کمپیوٹر کمپوزنگ کے ساتھ ادارۃ المعارف کراچی نے شائع کیا ہے ۔
(عمار ناصر)

مولانا زاہد الراشدی گوجرانوالہ واپس پہنچ گئے

ادارہ

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے ڈائریکٹر اور ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی برطانیہ کا ۱۶ دن کا دورہ مکمل کر کے ۲۳ جون کو گوجرانوالہ واپس پہنچ گئے ہیں۔ انھوں نے اس دوران میں لندن، برمنگھم، مانچسٹر، نوٹنگھم، لیسٹر، بلیک برن، برنلی، ہڈرز فیلڈ، چالی، گرینتھم، کنزلین اور دوسرے مقامات پر مختلف اجتماعات سے خطاب کے علاوہ ورلڈ اسلامک فورم، جامعۃ الہدیٰ شیفیلڈ اور ابراہیم کمیونٹی کالج لندن کے مشاورتی اجلاسوں میں شرکت کی اور کیمبرج کی مسجد ابوبکر صدیق مین بھی ایک اجتماع سے خطاب کیا۔ 

انھوں نے ابراہیم کمیونٹی کالج لندن میں ۲۰ جون کو علماء کرام کی ایک بھرپور فکری نشست میں ’’سوشل گلوبلائزیشن کا ایجنڈا اور علماء کرام کی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان پر تفصیلی خطاب کیا جس کا خلاصہ ’الشریعہ‘ کے آئندہ شمارے میں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ (ادارہ)

اگست ۲۰۰۵ء

سوشل گلوبلائزیشن کا ایجنڈا اور علماء کرام کی ذمہ داریاںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
دینی مدارس پر دہشت گردی کا الزامادارہ 
مغرب کی ابھرتی ہوئی مذہبی شناخت اور اس کی تشکیل میں مسلمانوں کا کردارپروفیسر میاں انعام الرحمن 
اشتعال انگیز واقعات پر مسلم امہ کا رد عملمولانا نظام الدین 
احیائی تحریکیں اور غلبہ اسلامڈاکٹر محمد امین 
عوامی مفاد کے لیے قبرستان اور مسجد کی جگہ کا استعمالقاضی محمد رویس خان ایوبی 
مکاتیبادارہ 
تعارف و تبصرہادارہ 

سوشل گلوبلائزیشن کا ایجنڈا اور علماء کرام کی ذمہ داریاں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۲۰ جون ۲۰۰۵ کو ابراہیم کمیونٹی کالج لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام ایک فکری نشست منعقد ہوئی جس کی صدارت فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے کی، جبکہ پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔ نشست میں لندن کے مختلف علاقوں کے علماء کرام کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی نے سوشل گلوبلائزیشن کے موضوع پر تفصیلی خطاب کیا۔ ان کے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

بعد الحمد والصلوۃ!
مجھے آج کی اس نشست میں گلوبلائزیشن کے ایجنڈے اور علماء کرام کی ذمہ داریوں کے حوالے سے گفتگو کے لیے کہا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی گزارش یہ ہے کہ گلوبلائزیشن کیا ہے؟ گلوبلائزیشن، عولمہ، بین الاقوامیت، عالمگیریت اور انٹرنیشنل ازم کی اصطلاحات کم وبیش ایک ہی معنی میں استعمال کی جا رہی ہیں۔ وہ یہ کہ سائنسی ترقی اور مواصلات کے جدید ترین ذرائع نے انسانی آبادی کو طویل جغرافیائی فاصلوں کے باوجود ایک دوسرے کے اس قدر قریب کر دیا ہے کہ پوری انسانی آبادی ایک مشترکہ سوسائٹی کا نقشہ پیش کر رہی ہے اور اسے ’’گلوبل ویلج‘‘ سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ دنیا کے ایک کونے میں واقعہ ہوتا ہے تو دوسرے کونے تک چند منٹوں میں اس کی نہ صرف خبر پہنچ جاتی ہے بلکہ اس کے مناظر بھی نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں اور اب صورت حال یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں رونما ہونے والا واقعہ اور اس کے اثرات صرف اس خطے تک محدود نہیں رہتے بلکہ واقعہ کی نوعیت کے لحاظ سے دوسری دنیا بھی اس سے متاثر ہوتی ہے۔ سوسائٹیاں ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہیں، ثقافتیں ایک دوسرے میں مدغم ہو رہی ہیں اور تہذیبیں باہمی کش مکش کے باوجود ایک دوسرے کا اثر قبول کرتے ہوئے گڈمڈ ہوتی جا رہی ہیں۔ اس طرح دنیا ایک مشترکہ عالمی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے اور عالمگیریت کا ماحول دن بدن گہرا ہوتا جا رہا ہے۔
یہ گلوبلائزیشن انسانی معاشرے کے ارتقا کا نام ہے جسے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے عروج تک پہنچا دیا ہے اور نسل انسانی کے معاشرتی ارتقا اور سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی کے امتزاج نے پوری انسانی آبادی کو ایک دوسرے کے نہ صرف قریب کر دیا ہے بلکہ ذہنوں اور دلوں کے فاصلے بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس گلوبلائزیشن کا اپنا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ یہ صرف ارتقا کا ایک عمل ہے جو اپنی انتہا کی طرف فطری رفتار سے بڑھ رہا ہے، البتہ گلوبلائزیشن کے حوالے سے دنیا میں مختلف ایجنڈوں پر کام ہو رہا ہے اور ان ایجنڈوں کا مشترکہ نکتہ یہ ہے کہ مستقبل کے گلوبل ویلج میں جو کم وبیش پوری نسل انسانی کو محیط ہوگا، فکری اور تہذیبی قیادت کس کے ہاتھ میں ہوگی اور اس کا نظام کن اصولوں پر استوار ہوگا۔ اس پر مختلف ایجنڈوں میں کش مکش جاری ہے اور اس میں مسلسل پیش رفت ہو رہی ہے۔ یہ کش مکش دنیا کے وسائل پر کنٹرول کے حوالے سے بھی ہے، تہذیب وثقافت کی بالادستی کے نام سے بھی ہے، فکر وعقیدہ کی برتری کے عنوان سے بھی ہے، عسکری کنٹرول اور اجارہ داری کے میدان میں بھی ہے اور مذہب کے شعبے میں بھی ہے۔ دنیا میں مختلف گروہ اور قوتیں ان میدانوں میں سرگرم عمل ہیں اور اس وقت مغرب کو بہرحال اس حوالے سے بالادستی کی پوزیشن حاصل ہے کہ دنیا بھر کے معاشی وسائل اس کے کنٹرول میں ہیں، اسے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بالادستی بلکہ اجارہ داری حاصل ہے، بین الاقوامی سیاسی نظام میں اسے فیصلہ کن برتری حاصل ہے اور عسکری میدان میں اسے چیلنج کرنے والی کوئی قوت سردست میدان میں موجود نہیں ہے، اس لیے گلوبلائزیشن کے حوالے سے وہی اس وقت سب سے زیادہ سرگرم عمل ہے۔ امیر ترین ممالک مشترکہ گروپ قائم کر کے دنیا کے معاشی وسائل اور معدنی ذخائر پر اپنی اجارہ داری کو مضبوط کرنے، دنیا بھر کی تجارت وصنعت پر بالادستی قائم رکھنے، اسلحہ اور عسکریت کے میدان میں باقی ساری دنیا کو اپنی سطح تک آنے سے روکنے اور دنیا بھر میں اپنی ثقافت وتہذیب کو فروغ دینے کے لیے مسلسل مصروف کار ہیں، جبکہ ان کی تگ وتاز کا سب سے بڑا میدان عالم اسلام ہے۔ 
ہمارے حوالے سے مغرب کی یلغار دو جانب سے دنیا میں تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ ایک طرف مغرب کی سیکولر حکومتیں اور سیکولر لابیاں مسلم معاشرہ میں سیکولر ازم اور لادینیت کو فروغ دے کر اور اس کے لیے اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں پوری طرح جھونک کر ہماری نئی نسل کی دینی اساس اور فکر وعقیدہ کی بنیادوں کو کمزور کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ عالم اسلام کے بارے میں ان کے تمام تر ایجنڈے کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ مسلمان اپنی معاشرتی زندگی میں مذہب کے کردار سے دست بردار ہو جائیں اور مذہب کے فکر وفلسفہ کو من وعن قبول کرتے ہوئے اپنی معاشرتی اور تہذیبی زندگی کو اس کے سانچے میں ڈھال لیں۔ دوسری طرف مسیحی مشنری سرگرمیاں دنیا کے مختلف مسلم ممالک میں سادہ لوح مسلمانوں کو مسیحیت کے دائرے میں شامل کرنے کی تگ ودو کر رہی ہیں۔ افریقہ کے کم وبیش سب ممالک، انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور افغانستان سمیت وسطی ایشیا میں مسیحی مشنریوں اور مسیحی رفاہی این جی اوز کی تبلیغی سرگرمیاں دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو عیسائیت کا حلقہ بگوش کرنے کے لیے کس تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ مغرب کی سیکولر حکومتوں اور مسیحی مشنری اداروں کو ایک دوسرے کا بھرپور تعاون حاصل ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں باقاعدہ منصوبے اور انڈر سٹینڈنگ کے ساتھ عالم اسلام کو مغلوب اور فتح کرنے کی مہم میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
دوسری طرف عالم اسلام کی صورت حال یہ ہے کہ ہمارے بیشتر حلقوں اور افراد کو سرے سے اس صورت حال کا ادراک ہی نہیں ہے۔ مغرب کی اس مذہبی اور تہذیبی یلغار کا مقابلہ صرف دینی شعبہ سے تعلق رکھنے والے بعض حلقے کر رہے ہیں اور انھیں نہ صرف یہ کہ مسلم حکومتوں کا تعاون حاصل نہیں ہے بلکہ اکثر ممالک میں مسلم حکومتوں کا وزن دینی بیداری کے لیے کام کرنے والے دانش وروں اور حلقوں کے بجائے ان کے مخالف پلڑے میں ہے۔ اس طرح مسلم معاشرہ میں دینی بیداری، مذہبی وابستگی اور اسلامی تہذیب وثقافت کے تحفظ وبقا کی جدوجہد کرنے والوں کو مغرب کی حکومتوں اور این جی اوز کے ساتھ ساتھ اپنی حکومتوں اور مقتدر طبقات کی مخالفت اور دباؤ کا بھی سامنا ہے اور انھیں دو طرفہ جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔
ان حالات میں علماء کرام کی ذمہ داریوں اور کردار کے حوالے سے سب سے پہلے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ہمارا سب سے پہلا اور اہم فریضہ معروضی صورت حال سے آگاہی حاصل کرنا ہے، کیونکہ ہماری غالب اکثریت اس صورت حال سے آگاہ نہیں ہے اور اسے حالات کی سنگینی کا سرے سے کوئی ادراک نہیں ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب حالات پر ہماری نظر نہیں ہوگی اور ہم معروضی صورت حال سے باخبر نہیں ہوں گے تو اس کشمکش میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔ یہ درست ہے کہ ہم سیاسی، معاشی، عسکری، سائنسی اور صنعتی وتجارتی میدانوں میں مغرب کا مقابلہ کرنے اور اس کا راستہ روکنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، لیکن فکر وفلسفہ، تہذیب وثقافت، تعلیم وتربیت اور دعوت وتبلیغ کے میدان ہمارے لیے اجنبی نہیں ہیں اور ان محاذوں پر اگر ہم نئی نسل کی ذہن سازی اور صف بندی کے کام کو صحیح کر لیں تو نہ صرف یہ کہ عالم اسلام کو فتح کرنے کی مغربی مہم کا کم از کم ان میدانوں میں کامیابی کے ساتھ سامنا کر سکتے ہیں بلکہ زندگی کے دوسرے شعبوں کے باشعور افراد کو بھی ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلا سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں ہماری دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی ترجیحات کا ازسرنو جائزہ لیں۔ جو کام ہم کر سکتے ہیں، اس کی منصوبہ بندی کریں۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی فضا قائم کریں۔ ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں اور مل جل کر نئی نسل کو دین کے ساتھ وابستہ رکھنے، اسے موجودہ صورت حال سے آگاہ کرنے اور بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی کوشش کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم اگر فکری بیداری کے ماحول کو قائم رکھ سکیں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے حضرات کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے رہیں تو حالات میں بہت حد تک سدھار آ سکتا ہے۔
میں گفتگو کے خلاصہ کے طور پر علماء کرام سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ وہ دنیا کے حالات سے بے خبر نہ رہیں۔ یہ بے خبریت جس میں ہم عافیت محسوس کر رہے ہیں، دینی فرائض کے حوالے سے ہمارے لیے زہر قاتل ہے۔ حالات سے آگاہی حاصل کریں اور ان کے مطابق اپنی صلاحیتوں، توانائیوں اور مواقع کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے کردار کا تعین کریں۔ آج کے حالات میں یہی ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے اور اسی صورت میں ہم عالم اسلام کی بہتری اور مسلم امہ کے مفاد کے لیے کوئی مثبت اور موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔

دینی مدارس پر دہشت گردی کا الزام

ادارہ

(لندن میں ہونے والے حالیہ بم دھماکوں کے بعد برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے پاکستان کے دینی مدارس کو دہشت گردی کا مرکز قرار دیا جس سے قومی اور عالمی صحافت میں ان مدارس کا کردار ایک بار پھر موضوع بحث بن گیا ہے۔ اس تناظر میں وفاق المدارس العربیۃ پاکستان کی طرف سے جاری کردہ تحریری موقف کا متن یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

لندن میں خود کش دھماکوں کے ذریعے جو جانیں ضائع ہوئی ہیں او رخوف وہراس کی کیفیت پیدا ہوئی ہے، اس سے دنیا کا ہر با شعور شخص پریشان ہے اور دنیا بھر کے امن پسند لوگ اس دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے اس کا شکار ہونے والے افراد اور خاندانوں کے ساتھ ہم دردی کا اظہار کر رہے ہیں۔ پاکستان میں دینی مدارس کا سب سے بڑا فورم وفاق المدارس العربیۃ پاکستان بھی اس تشویش واضطراب میں دنیا کے امن پسند افراد اور حلقوں کے ساتھ شریک ہے اور پرامن شہریوں کے خلاف کی جانے والی اس کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے متاثرہ افراد، خاندانوں اور پوری برطانوی قوم کے ساتھ ہم دردی اور یک جہتی کا اظہار کرتا ہے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت جنگ میں بھی بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور جنگ سے لاتعلق افراد کو قتل کرنے سے منع کیا ہے، چہ جائیکہ حالت امن میں بے گناہ شہریوں کا اس طرح خون بہایا جائے اور خوف ودہشت کی کیفیت پیدا کی جائے، اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ لندن میں گزشتہ دنوں کیے جانے والے بم دھماکے، جن کے نتیجے میں پچاس سے زائد افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے ہیں، نہ صرف امن کو سبوتاژ کرنے کی مذموم حرکت کے مترادف ہیں، بلکہ اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا باعث بھی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی وفاق المدارس العربیۃ پاکستان کے صدر حضرت مولانا محمد سلیم اللہ خان، سیکرٹری جنرل مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور دیگر راہ نما دو اہم امور کی طرف عالمی رائے عامہ اور بین الاقوامی حلقوں کو متوجہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ایک یہ کہ دہشت گردی کے خلاف موجودہ عالمی جنگ کا ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے، کیونکہ عالمی سطح پر دہشت گردی کی کوئی تعریف طے کیے بغیر کسی بھی گروہ کو یک طرفہ طور پر دہشت گرد قرار دے کر اس کے خلاف کی جانے والی کارروائی انصاف کے تقاضوں پر پوری نہیں اترتی اور اس سے شکوک وشبہات کم ہونے کے بجائے ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ان اسباب وعوامل کو نظر انداز کر دینا بھی اس مبینہ دہشت گردی کے خاتمہ کے بجائے اس کے مزید فروغ کا باعث بن رہا ہے جن اسباب وعوامل کے نتیجے میں اس مبینہ دہشت گردی نے جنم لیا ہے اور جن کی طرف عالمی طاقتوں کے سنجیدگی کے ساتھ متوجہ نہ ہونے کی وجہ سے تشدد کی کارروائیوں کی حمایت کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔
اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی محل نظر ہے کہ لندن کے مذکورہ بم دھماکوں کی ذمہ داری کے حوالے سے پاکستان کے دینی مدارس کو عالمی میڈیا کے ذریعے بلاوجہ طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، حالانکہ یہ بات ایک سے زائد بار دلائل وشواہد کے ساتھ واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس میں کسی طرح کی کوئی فوجی تربیت نہیں دی جاتی، حتیٰ کہ چند ماہ قبل اسلام آباد میں دینی مدارس کے ایک بھرپور کنونشن میں پاکستان کے سابق وزیر داخلہ چودھری شجاعت حسین نے صاف لفظوں میں اعلان کیا کہ انھوں نے اپنے دور میں پورے ملک کے مدارس کی چھان بین کرائی ہے، مگر کوئی مدرسہ بھی دہشت گردی کی تربیت میں ملوث نہیں پایا گیا۔ نیز گزشتہ دو سالوں کے دوران ملک کے درجنوں دینی مدارس پر چھاپے مارے گئے ہیں اور اچانک آپریشن کیا گیا ہے ، لیکن کہیں بھی کوئی ہتھیار یا ٹریننگ کے آلات موجود نہیں پائے گئے، حتیٰ کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات اور کھلے اعلانات کے ذریعے متعدد بار اعلان کیا ہے کہ ملک کے کسی بھی دینی مدرسے کے بارے میں یہ شکایت پائی جائے کہ اس میں اسلحہ کے استعمال کی ٹریننگ دی جا رہی ہے تو اس کی نشان دہی کی جائے۔ اگر اس کا ثبوت فراہم ہو گیا تو اس مدرسہ کے خلاف کارروائی میں خود وفاق بھی حکومت کے ساتھ شریک ہوگا۔ مگر اس کے باوجود دینی مدارس کو مسلسل ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے اور ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ اس لیے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی ہائی کمان اس امر کا ایک بار پھر اعلان ضروری سمجھتی ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس میں صرف اور صرف تعلیم دی جاتی ہے اور قرآن وسنت کے علوم سے نئی نسل کو آراستہ کیا جاتا ہے۔ تعلیم اور دینی تربیت کے سوا ان مدارس کی سرگرمیوں میں اور کوئی بات شامل نہیں ہے اور قرآن وسنت اور ان کے متعلقہ علوم کی تعلیم اور ان کے مطابق نئی نسل کی دینی تربیت کے مشن سے وفاق المدارس سرمو انحراف کے لیے تیار نہیں ہے اور اس سلسلے میں کسی سطح پر کوئی دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا، البتہ عسکری ٹریننگ اور دوسرے مذاہب کے خلاف عسکری محاذ آرائی کی فکری تربیت نہ ان مدارس میں دی جاتی ہے اور نہ ہی کسی مرحلے میں اس کا پروگرام مدارس کے اہداف میں شامل ہے اور اس حوالے سے وفاق المدارس کی ہائی کمان پاکستان کی حکومت اور بین الاقوامی حلقوں کو ہر قسم کی ضمانت دینے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ لندن کے خود کش دھماکوں میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انھوں نے پاکستان کے بعض دینی مدارس میں تعلیم پائی ہے، اس لیے دینی مدارس اس مبینہ دہشت گردی میں ملوث ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قطعی طور پر غیر منطقی اور غیر حقیقی بات ہے، اس لیے کہ اگر بالفرض یہ بات ثابت بھی ہو جائے کہ ان افراد نے کسی وقت پاکستان کے کسی دینی مدرسہ میں تعلیم پائی ہے تو اسے ان کی کارروائی میں مدارس کی شمولیت کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا ہے، اس لیے کہ دنیا بھر میں مختلف حوالوں سے دہشت گردی، قتل وغارت، ڈکیتی اور سنگین جرائم میں ملوث افراد نے کہیں نہ کہیں ضرور تعلیم حاصل کی ہے اور ان میں ہاورڈ، آکسفورڈ اور کیمبرج یونی ورسٹیوں کے تعلیم یافتہ حضرات کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد مل جائے گی لیکن کسی ڈاکو اور قاتل نے اگر آکسفورڈ میں تعلیم پائی ہے تو اس کے لیے یہ نہیں کہا جاتا اور نہ کہا جا سکتا ہے کہ آکسفورڈ یونی ورسٹی میں ڈاکے کی تعلیم دی جاتی ہے اور اگر کسی فوج سے بھاگے ہوئے افراد مجرموں کا گروہ بنا لیں تو ان کے لیے بھی اس فوج کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاتا، اس لیے چند افراد کی کارروائی کو دینی مدارس کے کھاتے میں ڈال کر دینی مدارس کے پورے نظام کو بدنام کرنے کی مہم حقائق کا منہ چڑانے کے مترادف ہے، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ یہ بات طے ہے کہ دینی مدارس میں کسی قسم کی دہشت گردی کی تربیت نہیں دی جاتی اور ایسی کارروائی کرنے والوں نے یہ تربیت کہیں اور سے حاصل کی ہے اور دہشت گردی کی تربیت کے اصل سرچشموں کا بہرحال سراغ لگانے کی ضرورت ہے۔
اس لیے ہم دنیا بھر کے انصاف پسند حلقوں اور افراد سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ دینی مدارس کے خلاف عالمی حلقوں اور میڈیا کے اس یک طرفہ پراپیگنڈا کا نوٹس لیں اور پرامن ماحول میں اسلامی تعلیمات سے نئی نسل کو روشناس کرانے والے اداروں کو اس جارحانہ اور معاندانہ پراپیگنڈے سے بچانے کے لیے کردار ادا کریں۔

مغرب کی ابھرتی ہوئی مذہبی شناخت اور اس کی تشکیل میں مسلمانوں کا کردار

پروفیسر میاں انعام الرحمن

شمالی امریکہ میں نائن الیون کے اندوہ ناک حادثے کے بعد مغربی یورپ میں سیون سیون کے بم دھماکوں نے ایک بار پھر پوری دنیا کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ اگرچہ مغربی میڈیا نے حسبِ روایت چیخ پکار کر کے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس کے باوجود یہ حیرت زدگی اقوامِ عالم کو اس شدت کے ساتھ ماتم پر مجبور نہیں کر سکی جس کی توقع اہلِ مغرب کے یک رخی سوچ کے حامل افراد کر رہے تھے۔ اس قسم کے حادثات جہاں آنے والے وقت کی سختی اور پیچیدگی کو ظاہر کر رہے ہیں، وہاں مغربی استعماریت کے داخلی ڈھانچے کے دیمک زدہ ہونے کی بھی نشاندہی کر رہے ہیں۔ ہماری رائے میں مغرب نے اپنے تہذیبی گھروندے میں ایسا کوئی دریچہ نہیں رکھا جس سے تازہ ہوا کے جھونکے داخل ہو کر اسے تعفن کی گھٹن اور دقیانوسیت کی وبا سے محفوظ رکھ سکیں۔ کمیونزم کے زوال کے بعد اسلام کو کمیونزم کے مقام پر رکھ کر اس کے گھیراؤ کی حالیہ کوششیں، جو کہ حکومتوں کی سطح پر ہو رہی ہیں، اور عوامی سطح پر قوم پرستی پر بے جا اصرار، جس کا مظہر فرانسیسی عوام کا یورپی یونین کی بابت موقف ہے، کیا ہماری رائے کو تقویت دینے کو کافی نہیں؟ حقیقت یہی ہے کہ مغربی پالیسی ساز اور مغربی معاشرہ ابھی تک نیشنل ازم کے فساد اور سرد جنگ کے خوف کی نفسیات میں مبتلا ہیں۔ بہر حال، نائن الیون اور سیون سیون کے واقعات کو جیسے تیسے مذہبی مظہر کی منفیت کے طور پر پینٹ paint) (کیا جا رہا ہے اور مغرب میں مذہب پر گرما گرم بحث و مباحثہ جاری ہے۔ اسی تناظر میں ہم آنے والی سطور میں مختلف عنوانات کے تحت موجودہ حالات کی روشنی میں مغرب کی مذہبی شناخت پر بات کریں گے ۔ 
اہلِ مشرق اور مسلمانوں کے ہاں عام طور پر مغرب کو ایک ’’وحدت‘‘ کی صورت میں دیکھا جاتا ہے، لیکن مماثلتوں کا گراف خاصا بلند ہونے کے باوجوداہلِ مغرب کو ہر لحاظ سے یکساں قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مغرب کی داخلی تقسیم کی جہتیں اتنی مختصر نہیں کہ اس وقت ان پر کم از کم سرسری نظر ہی ڈالی جا سکے۔ موضوع کی مناسبت سے ہم یہاں صرف مذہبی پہلو پر بات کریں گے اور وہ بھی میکرو لیول (macro level) پر۔ 

یورپ - امریکہ مذہبی خلیج 

معاشرتی رویوں کو کریدنے والے European Values Study کے ایک حالیہ مطالعہ نے بتیس یورپی ممالک کے سروے سے ظاہر کیا ہے کہ صرف 21% یورپی یہ کہتے ہیں کہ مذہب ان کے لیے بہت اہم ہے۔ امریکہ میں صورتِ حال نسبتاً بہتر ہے۔ پیو فورم آن ریلیجن اینڈ پبلک لائف (Pew Forum on Religion and Public Life) کے سروے کے مطابق 59% امریکیوں کے نزدیک ان کا عقیدہ بہت اہم ہے ۔ مغرب کے مذہبی رویے کے دو بڑے مظاہر ، شمالی امریکہ اور یورپ مذکورہ اعدادو شمار کے مطابق وسیع خلیج کے حامل ہیں ۔ اس وقت امریکہ، یورپ سے سبقت لے جا کر اپنی آزاد روی اور تکنیکی ترقی کے بل بوتے پر جس طرح اقوامِ عالم کا تھانیدار بنا ہوا ہے، اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ مذہب مادی ترقی اور فکری آزادی کی راہ میں حائل نہیں ہوتا ۔ سیکولرفکر کو ترقی کا ناگزیر تقاضا سمجھنے والوں کے لیے مذہب پسند امریکہ ایک معکوس زندہ مثال ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بے شمار مماثلتوں کے ہوتے ہوئے یورپ اور امریکہ کے مذہبی رویے میں یہ خلیج کیونکر ہے ؟ برطانیہ کیExeter University میں مذہبیات کے ماہر Grace Davie کے مطابق یورپ میں روشن خیالی (Enlightenment) کا مطلب مذہب سے آزادی (Freedom from religion) یعنی عقیدے سے نجات لیا گیا، جبکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اس کا مطلب ہے ''Freedom to believe'' ، یعنی عقیدہ رکھنے کی آزادی ۔ کرسچیئن سائنس مانیٹر کے مطابق مسٹر ویل (Weil) کہتے ہیں کہ امریکہ میں، جو ایسا ملک ہے جس کی تشکیل میں استبدادی حکومتوں کے چنگل سے فرار ہونے والے مذہبی منحرف بھی شامل تھے، مذہبی گروہوں نے ریاستی مداخلت کے خلاف افراد کو تحفظ فراہم کرنے کا کردار ادا کیا۔ اس کے برعکس یورپ میں تحریک تنویر کے بعد ریاست کو، مذہبی گروہوں کی چھیڑ چھاڑ سے پناہ گاہ کی حیثیت حاصل ہوئی۔ امریکہ میں جمہوریت اور مذہب باہم پیوست رہے ہیں کیونکہ وہاں چرچوں نے غلامی کے خلاف جنگ اور شہری حقوق کے حق میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے ۔ یورپ میں ایسا کبھی نہیں ہوا ، بلکہ وہاں اسپین اور فرانس جیسے ممالک کے منظم چرچوں نے سیاسی اصلاح کی ہمیشہ دل و جان سے مخالفت کی۔ کرسچیئن سائنس مانیٹر کے سٹاف رائٹر پیٹر فورڈ (Peter Ford) نے اسی امریکی -یورپی اختلاف کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یورپی کمیشن کے سابق صدر ژاک ڈیلور(Jacques Delors) کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں :
''The clash between those who believe and those who do't believe will be a dominant aspect of relations between the US and Europe in the coming years.'' 
’’جو لوگ خدا پر یقین رکھتے ہیں اور جو یقین نہیں رکھتے، ان کے درمیان تصادم ، آنے والے برسوں میں امریکہ - یورپ تعلقات کا غالب پہلو ہو گا ‘‘۔ 
پیٹر فورڈ ، یورپی کمیشن کے سابق صدر کا حوالہ دیتے ہوئے مزید نقل کرتے ہیں کہ : 
''This question of values gap is being posed more sharply now than at any time in the history of European--US relations since 1945.'' 
’’ اقدار کی خلیج کا سوال جس تندی کے ساتھ اس وقت ابھر رہا ہے، 1945 سے امریکہ -- یورپی تعلقات کی تاریخ میں کبھی نہیں ابھرا ۔‘‘
مذہب پر یورپ کی بد اعتمادی میں اس وقت مزید اضافہ ہو جاتا ہے جب اسے یعنی مذہب کو مبالغانہ حد تک کے جذبہ حب الوطنی سے ملا دیا جاتا ہے، جیسا کہ امریکی صدر بش نے کیا ۔ ایک طرف صدر بش نے US under attack کی مہم چلائی اور دوسری طرف Crusade کا نعرہ لگایا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر بش نے نائن الیون کے واقعے کے بعد جو بیان جاری کیا، اس کا لبِ لباب یہ تھا کہ دنیا کی اقوام اب یا ہمارے ساتھ ہیں یا دہشت گردوں کے، یعنی کوئی تیسرا آپشن نہیں چھوڑا۔ صدر بش کا یہ انداز شاید متی کی انجیل 12 : 30 کی باز گشت تھا کہ:
’’جو میرا حامی نہیں، وہ میرا مخالف ہے ‘‘ ۔
ڈاکٹر انتھونی سٹیونز ، اپنی کتاب ''The Roots of War and Terror'' میں رقمطراز ہیں: 
’’ بش کی 'axis of evil' والی تقریر کے لیے ذمہ دار آدمی صدارتی تقریر نویس ڈیوڈ فرم تھے۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ انھوں نے اصل میں ' axis of hatred' کا جملہ لکھا تھا، لیکن انھیں مجبور کیا گیا کہ اس کی جگہ 'axis of evil' لکھا جائے جو زیادہ ’’بائبلی ‘‘ انداز رکھتا ہے۔ ‘‘ 
اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ صدر بش نے Evil یعنی بدی کی کوئی ایسی باقاعدہ تعریف پیش نہیں کی جو امریکی قوم کے مشترکہ ضمیر کی آئینہ دار ہو، کیونکہ عیسائیت کی مخصوص اخلاقی روایت اور امریکی معاشرے کے سیکولر رجحانات کے سبب ، ہر امریکی کی اپنی ایک تعریف ہے، اس لیے صدر بش کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ امریکی شہریوں کی خالصتاً موضوعی Evil کو اپنے جنگی جنون کی خاطر بطور ہتھیار استعمال کریں۔ اگر (غیر محرف) بائبل امریکیوں کی معاشرتی زندگی میں رچی بسی ہوتی توصدر بش امریکی قوم کے اجتماعی مذہبی ضمیر کو نیشنل ازم کی خواب آور گولیوں سے کبھی نہ سلا سکتے۔ لہٰذا واضح ہو جاتا ہے کہ یورپ کے مقابلے میں امریکہ کی نام نہاد مذہب پسندی درحقیقت مذہب کے اس فہم کے گرد گھومتی ہے جسے پیش کرنے کا اختیار صرف اور صرف امریکی قدامت پسندوں اور پالیسی سازوں کو ہے ۔ اگر عملی اعتبار سے امریکہ کی مذہب پسندی سے فساد پیدا ہو رہا ہے، انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں اوراس کے مقابلے میں یورپ کی سیکولر فکر، مذہبی انتہاپسندی سے تحفظ دے رہی ہے تو بھی مذہب کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ، اس لیے کہ یہ فہمِ مذہب یا مذہب کی ایک خاص تعبیر ہے جو دنیا میں فساد و شر کا باعث ہے، نہ کہ خود مذہب ۔
فرانس کا ایک موقر سیاسی تجزیہ نگار Dominique Moisi امریکی مذہبی -- قومی انتہاپسندی کے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ : 
''the combination of religion and nationalism in America is frightening..........We feel betrayed by God and by nationalism which is why we are building the European Union as a barrier to religious warfare.''
’’امریکا میں مذہب اور قوم پرستی کا امتزاج اندیشہ انگیز ہے۔ ہمیں خدا اور قوم پرستی پر اعتماد نہیں رہا، اور یہی وجہ ہے کہ ہم مذہبی جنگوں کو روکنے کے لیے یورپین یونین کو تشکیل دے رہے ہیں۔‘‘
معلوم ہوتا ہے کہ یورپ، مذہبی انتہاپسندی اور قوم پرستی کے نام پر جنگوں کے حوالے سے اپنی تاریخ کے مخصوص تناظر کے باعث مذہب اور حب الوطنی کے ملاپ سے خائف ہے ۔ جنرل فرانسیسکوفرانکو کی آمریت میں کئی سال جیل میں گزارنے والا سپین کا Nicolas Sartorius اپنے تجربات کی روشنی میں خبردار کرتاہے کہ : 
''God and patriotism are an explosive mixture.'' 
’’خدا اور حب وطن، دونوں کا امتزاج دھماکہ خیز ہوتا ہے۔‘‘
Nicolas مزید تنبیہ کرتا ہے کہ آمرجنرل فرانکو کے راہنما نظریے کا نام تھا ’’ کیتھولک نیشنل ازم ‘‘۔ جرمنی کے چانسلر Gerhard Schroder کے ایڈوائزر برائے تعلقات واشنگٹن Karsten Voigt کے مطابق بھی مذہب کے نام پر صدیوں جاری رہنے والی پر تشدد جنگوں کی تاریخ کے بعد، جن میں لاکھوں لوگ بے موت مارے گئے، یورپی لوگ ایسے مبالغانہ جذبہ حب الوطنی کو انتہائی شک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں جس کے ساتھ مذہبی معنویت نتھی کر دی جائے۔ مسٹر Voigt نے اپنے موقف کی تائید میں پہلی جنگِ عظیم کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا ہے کہ :
''Remember, German soldiers in World War I wore belt buckles reading 'Gott Mitt Uns' [God With Us]'' 
’’یاد رکھیے، پہلی جنگ عظیم میں جرمن فوجیوں نے جو بیلٹ بکلز پہن رکھی تھیں، ان پر لکھا تھا: خدا ہمارے ساتھ ہے۔‘‘
ہمارے خیال میں مسٹر Voigt اور ان جیسا نقطہ نظر رکھنے والے دیگر اہل فکر غالباً ایسے واقعاتی حوالوں سے سبق سیکھنے کی کوشش میں ہیں جن میں حکمرانوں نے آفاقی انسانی اقدار کو پامال کرتے ہوئے ، ریاست کے دفاع اور ریاستی طاقت میں اضافے کی خاطر مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ جس معاشرے میں مذہب کے ایسے استعمال کی گنجایش زیادہ سے زیادہ ہو، بلاشبہ اس معاشرے کا مذہبی کے بجائے سیکولر ہونا خود اس کے لیے بھی اور دنیا کے حق میں بھی زیادہ مفید ہے کیونکہ ایسے معاشرے میں سیکولر رویہ ہی مذہبی مقاصد کی ترجمانی کرے گا۔ کرسچیئن سائنس مانیٹر کے مطابق:
''More generally, secularism refers to an approach to life grounded not in religious morality but in human reason and universal ethics.'' 
’’سیکولر ازم کا مطلب زندگی کے متعلق ایسا زاویہ نگاہ ہے جس کی بنیاد مذہبی اخلاقیات پر نہیں بلکہ انسانی عقل اور کائناتی اخلاقی اصولوں پر ہے۔‘‘
سیکولر فکر کی اسی نہج کی نشاندہیMartin Ortega نے بھی کی ہے جو یورپی یونین کے انسٹیٹیوٹ فار سکیورٹی سٹڈیز میں تجزیہ نگارہے۔ دنیا کے معاملات میں امریکی صدر بش کی تنہا پرواز کے پیشِ نظر مارٹن کہتا ہے کہ :
''Europe's history has led Europeans to a more cosmopolitan worldview, which tries to understand 'the other'.'' 
’’یورپ کی تاریخ نے اہل یورپ کے ہاں دنیا کا ایک نسبتاً وسیع کائناتی تصور پیدا کر دیا ہے جو دوسری قوموں کے موقف کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘
مارٹن کے خیال میں اس یورپی اپروچ کے مضمرات میں سے ایک یہ ہے کہ سنگین ترین حالات کے استثنا کے ساتھ طاقت کے استعمال پر پابندی لگ چکی ہے۔ اب یہ پابندی ایک یورپی قدر بن چکی ہے جس سے امریکہ محروم ہے۔ یورپ ، عالمی فوجی عدالت کی تائید کرتا ہے جبکہ امریکہ اس کی مخالفت میں پیش پیش ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں کمی کی خاطر کیے گئے کیو ٹو معاہدے کو امریکہ مسترد کر چکا ہے جبکہ یورپ نے اسے پذیرائی بخشی ہے۔ مارٹن کے مطابق امریکی - یورپی اختلاف ''is a matter of principle, a matter of values'' (اصول اور اقدار کا اختلاف ہے)۔
جرمن چانسلر کے ایڈوائزر مسٹر Voigt تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :
''in some segments of conservative US opinion, anti-European feeling is on the rise.........They see us as soft on terrorism or as simply immoral.'' 
’’امریکہ کے قدامت پسند اہل الرائے کے بعض حلقوں میں یورپ مخالف احساسات پروان چڑھ رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف ہمارا موقف نرم یا سیدھا سیدھا غیر اخلاقی ہے۔‘‘
حقیقت یہی ہے کہ اکثر یورپی حکومتیں، اپنی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں اخلاقی اقدار کو مناسب مقام دینے کی خواہش مند ہیں جبکہ امریکہ کی خارجہ پالیسی ''the war on terror'' کے نعرہ کے گرد گھومتی ہے۔ یورپی اخلاقی اقدار کا منبع سیکولر ازم ہے اور امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سرچشمہ''axis of evil'' کا نام نہاد مذہبی نعرہ ہے۔

یورپ کا مذہبی احیا

یورپ میں مذہب کی واپسی، اگرچہ فی الحال ان معنوں میں ہی سہی کہ مذہب ، یورپی زندگی کی تیز رفتاری میں گفتگو کا موضوع بن گیا ہے ، کافی اہمیت کی حامل ہے ۔ سپین (میڈرڈ) کے بم دھماکوں ، ہالینڈ (ایمسٹرڈیم ) میں ڈچ فلم ساز Theo van Gogh  کی ہلاکت اور حالیہ لندن بم دھماکوں سے یورپی ذہن میں زلزلہ آگیا ہے ۔ اس زلزلے کے منفی پہلو کسی بھی ہوش مند فرد سے مخفی نہیں ہیں، لیکن جس طرح بعض اوقات کسی فرد کی یاد داشت کسی حادثے سے واپس آ جاتی ہے ( ڈاکٹر خود بھی شاکس تجویز کرتے ہیں )، اسی طرح نائن الیون کے بعد یورپ میں ہونے والے حادثات نے یورپی ذہن کی تلچھٹ کو سطح پر لا کھڑا کیا ہے۔ غلط اور گمراہ کن مذہبی تعبیر کے ردِ عمل میں برپا ہونے والے انقلاب ( جسے یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کہا جاتا ہے) نے یورپی ذہن کو انتہائی گہرائی میں مذہب سے بد ظن کر رکھا تھا۔ مذہب سے اتنی گہری بد ظنی کے بعد اس سے دوبارہ میل ملاقات ، شاید ایسے ہی حادثات کی متقاضی تھی ، اگرچہ کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ یورپ کا مذہب کے ساتھ یہ نیا تعارف کسی اچھے ماحول میں نہیں ہوا، بلکہ یہ ماحول تو اسی سابق ماحول کی باز گشت ہے جس کے ردِ عمل میں یورپ ، مذہب بیزار بنتا چلا گیا۔
Sorbonne پیرس میں مذہب کا ماہرِ عمرانیات Patrick Weil بھی یہ پیشین گوئی کرتا ہے کہ 
Those incidents "will reinforce secularism."
’’ان واقعات سے سیکولر ازم کو مزید تقویت ملے گی۔‘‘ 
Patrick Weil کے تحت الشعور میں یورپی تاریخ کی وحشت ناک انسان دشمن مذہبی روایت کس حد تک رچی بسی ہے، ملاحظہ کیجئے : 
''We are not going to sacrifice womens's equality, democracy and individual freedom on the altar of a new religion.'' 
’’ہم خواتین کی مساوات، جمہوریت اور انفرادی آزادی کو کسی نئے مذہب کی بھینٹ چڑھانے کے لیے تیار نہیں‘‘
جزوی صداقت کے اعتراف کے ساتھ، ہم گزارش کریں گے کہ یورپ کے قدیم مذہبی ماحول اور حالیہ تشدد پسند مذہبی لہر میں’’یکسانی ‘‘ محض ظاہری اور سطحی سی ہے ۔ دونوں ادوار کے ماحول میں ’’ نوعیت ‘‘ کا ایک بنیادی فرق موجود ہے۔ یورپ کی مذہبی روایت، جس کے ردِ عمل میں مذہب بیزار روایت ’’ سیکولر ازم ‘‘ نے جنم لیا ، بنیادی طور پر مذہبی آقاؤں کے بے لچک اور علم دشمن رویے سے پھوٹی تھی۔ اس کے برعکس حالیہ تشدد آمیزمذہبی لہر کا سر چشمہ بیسویں صدی کے وہ تاریخی و واقعاتی عوامل ہیں جن کی تشکیل میں کلیدی کردار مذہبی آقاؤں کی بجائے مغربی پالیسی سازوں کا رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں موجودہ مذہبی انتہاپسندی کے پیچھے سیاسی عوامل کار فرما ہیں نہ کہ کسی قسم کی الہٰیاتی تعبیر جس کا یورپ کو ماضی میں سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس لیے Patrick Weil جیسے اہل دانش کا یہ خوف بے معنی ہے کہ موجودہ مذہبی لہر عورتوں کے حقوق، جمہوریت اور انفرادی آزادیوں کی قاتل ثابت ہو گی۔ہم سمجھتے ہیں کہ یورپ کی بلند شرح خواندگی کے باعث یورپی عوام اپنی مذہبی روایت اور موجودہ مذہبی لہر کے درمیان مذکورہ ’’فرق ‘‘ کو بخوبی سمجھتے ہیں ۔ اگر یورپی عوام ایسے شعور سے بہرہ ور نہ ہوتے تویورپ میں مذہبی کتب کی مانگ میں اضافہ نہ ہوتا۔ برطانیہ میں سب سے زیادہ کتب فروخت کرنے والے ادارے Waterstone کی ترجمان خاتون Lucy Avery کے مطابق انھیں مذہبی و روحانی کتب کی شیلفیں بڑھانی پڑی ہیں کیونکہ ایسی کتب کی فروخت میں 4% اضافہ ہوا ہے۔ فرانس میں مذہبی کتب کے سب سے بڑے ناشر Cerf کی ترجمان خاتون Laurence Vandamme کہتی ہیں کہ : 
''I have noticed that a lot of general-interest publishers are turning to religious books now for commercial reasons, because that is what the public wants.'' 
’’میں نے یہ بات محسوس کی ہے کہ عوامی دل چسپی کے موضوعات پر کتابیں چھاپنے والوں کی ایک بڑی تعداد اب تجارتی وجوہ کی بنا پر مذہبی کتابوں کی طرف متوجہ ہو رہی ہے، اس لیے کہ اب لوگ ایسی کتابوں کے طالب ہیں۔‘‘
ہمارے موقف کی مزید تائید ڈاکٹر مرے ولیمز کی بات سے ہو جاتی ہے کہ : 
''The discourse has changed. Ten or 15 years ago, any mention of spiritual experiences would have drawn blank looks. Today people are hungry to talk about them.'' 
’’اب بحث کا رخ بدل گیا ہے۔ دس یا پندرہ سال پہلے روحانی تجربات کا ذکر ہونے پر لوگ کسی دل چسپی کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ اب لوگ ان کے متعلق گفتگو کے لیے بے چین ہیں۔‘‘
''The Republic and Religion'' نامی انٹرویوز پر مشتمل ایک کتاب میں ، فرانس کی بر سرِ اقتدار پارٹی کے صدر Nicolas Sarkozy نے، جن کے فرانسیسی صدر بننے کی توقع ہے، یہ کہہ کر سیکولر حلقے کو ششدر کر دیا ہے : 
''That the religious phenomenon is more important than people think, that it can contribute to peace, to balance, to integration, to unity and dialogue.'' 
’’مذہب کا مظہر اس سے بڑھ کر اہمیت رکھتا ہے جتنا کہ لوگ سمجھتے ہیں۔ یہ امن، توازن، یک جہتی، اتحاد اور مکالمے کے فروغ میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘
Nicolas ایک قدم بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں : 
''The Republic should debate this, and reflect on it''. 
’’جمہوریہ فرانس کو اس پر غور وخوض اور بحث کرنی چاہیے۔‘‘
اپنے ملک کی ایک صدی قدیم سیکولر روایت سے انحراف کرتے ہوئے متوقع فرانسیسی صدر تجویز پیش کرتے ہیں کہ ریاست کو چرچوں اور مساجد کو subsidize کرنا چاہیے۔ مسٹر نکولس اصرار کرتے ہیں کہ وہ مذاہب اور public authorities کے درمیان نئے تعلقات کے لیے کوشاں رہیں گے۔ مسٹر Moisi ، نکولس کی اس اپروچ پر یوں تبصرہ کرتے ہیں کہ :
''Sarkozy's novel approach is based on a sense that while for some, religion is the problem, it can also be part of the solution. He is bringing a kind of oxygen to the debate.'' 
’’سارکوزی کی اچھوتی اپروچ کی بنیاد ا س احساس پر ہے کہ مذہب اگر کچھ لوگوں کے لیے مسئلہ پیدا کرنے کا باعث ہے تو یہ اس کا حل نکالنے میں بھی کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ اس نے اس بحث میں ایک نئی زندگی پیدا کر دی ہے۔‘‘
اور تو اور ،فرانس کے نمایاں فلسفی Regis Debray نے، جو بولیویا کی پہاڑیوں میںChe Guevara کی فوج میں کامریڈ رہے، اپنی دو حالیہ کتب کا انتساب ، خدا اور مذہب کے نام کیا ہے ۔ وارسا میں Stefan Batory Foundation کے صدر اور Sorbonne پیرس کے استاد ، ایک ممتاز یورپی مفکر Aleksander Smolar ، مذہب بیزاری کی رومانویت کی پسپائی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں : 
'' God is back among intellectuals. You can feel there is a problem of soul in Europe; people are conscious of a void and there is a certain crisis of secularism.'' 
’’دانش وروں کے ہاں خدا واپس آ چکا ہے۔ تم محسوس کر سکتے ہو کہ یورپ میں ایک روحانی مشکل موجود ہے۔ لوگ ایک خلا کو محسوس کر رہے ہیں اور سیکولر ازم کو ایک خاص مفہوم میں بحران کا سامنا ہے۔‘‘
اس سلسلے میں یورپی کمیشن کے ایک سابق صدر Jacques Delors کا یہ اقتباس بھی ملاحظہ فرمائیے : 
''I fear that the construction of Europe is sinking into absolute materialism. Things are not going well for society, so society is little by little going to start asking itself what life is for, what death is, and what happens afterwards.'' 
’’مجھے خدشہ ہے کہ یورپ کی تعمیر مادیت کے اتھاہ سمندر میں ڈوب رہی ہے۔ معاملات سوسائٹی کے حق میں بہتر نہیں رہے، اس لیے معاشرہ رفتہ رفتہ اپنے آپ سے یہ سوال کرنا شروع کر رہا ہے کہ زندگی کا مقصد کیا ہے، موت کیا ہے اور اس کے بعد کیا ہوتا ہے۔‘‘

یورپ میں کثیر مذہبی روایت کی کاشت 

تاریخی و تہذیبی عوامل سے قطع نظر ، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی واقعاتی قوت ہے جس نے یورپ کے سیکولر سمندر میں روحانی لہریں برپا کی ہیں؟ جواب میں آنکھیں فوراً مسلمانوں کی طرف اٹھ جاتی ہیں۔ بلا شبہ یورپ میں مذہب پر موجودہ گرما گرم بحث کے ذمہ دار مسلمان ہی ہیں۔ اس کی چند وجوہات درج ذیل ہیں :
(۱) سرد جنگ میں سوشل ازم کی شکست میں ’’بنیادی کردار‘‘ مسلمانوں کی مذہبی وابستگی کا رہا ہے ۔ مسلمانوں کے اس کردار سے یورپی لوگ چونک گئے ہیں اور یہ جان گئے ہیں کہ مذہب بہت بڑی قوت ہے ۔
(۲) مسلمان جتنے بھی بے عمل ہوں، وہ کم از کم یورپی لوگوں کے مقابلے میں مذہبی ضرور قراردیے جا سکتے ہیں۔ ان کے ہاں مسجد میں جانے والوں کی شرح ، چرچ جانے والوں سے کہیں زیادہ ہے ۔ پچھلے تیس سالوں میں یورپ کی مسلم آبادی میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ آبادی مذہبی رویے میں عمومی پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہے ۔برطانوی مسلمان اگرچہ برطانیہ کی آبادی کا صرف 3% ہیں، لیکن ایک سروے کے مطابق جمعہ کی نماز میں مسجد جانے والوں کی تعداد ، اتوار کے روز چرچ جانے والوں سے کہیں زیادہ ہے ۔
(۳) یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کے قضیے نے مذہبی سوال کو شدت سے ابھارا ہے ۔ آئندہ دس برسوں میں 83 ملین مسلمانوں کی یورپ میں متوقع شمولیت سے نہ صرف مذہب پسندی کو فروغ مل سکتا ہے بلکہ یورپ کی شناخت بھی از سرِ نو تشکیل پا سکتی ہے۔ کیتھولک چرچ اسی بنیاد پر یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت سے خائف ہے اور وٹیکن کی طرف سے یورپ کی مسیحی شناخت پر زور دیتے ہوئے متعدد بار ترکی کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ یورپی یونین میں شمولیت کی کوششیں ترک کر دے۔
(۴) یورپ کی نئی شناخت کی تشکیل میں موثر مسلم آبادی کی موثر شرکت کے باعث یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ کیا یورپی سیکولر ازم مسلمانوں کی مذہب پسندی سے ہم آہنگ ہو سکے گا، کیونکہ مسلمانوں کی مذہبی روایت میں علم کشی اور انسان دشمنی کے وہ جراثیم نہیں پائے جاتے جو یورپی مذہبی روایت کا خاصا ہے ، اس لیے مسلمان اپنے مذہب کو معاشرتی زندگی سے نکالنے پر رضامند نہیں ہوں گے ۔ 
اس صورت حال میں یورپی مدبرین کے سامنے ایک بڑا سوال یہ ہے کہ اگر یورپ اور اسلام کا ادغام نہیں ہوتا تو کیا یورپی کلچر اتنی لچک کا مظاہرہ کر سکے گا کہ اس کے شہری دو دھاروں میں منقسم ہوجائیں؟ نئے مذہبی سوال اور سیکولر فکر کی امکانی قوت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہی فرانس کا ماہر عمرانیات Patrick Weil ایک چیلنج کی نشاندہی کرتا ہے : 
''This is the first time for a long time ......that we have had to show that we can adapt and accept religious diversity........that is a challenge.'' 
’’طویل مدت کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ہمیں اپنی اس صلاحیت کو ثابت کرنا پڑ رہا ہے کہ ہم مذہبی تنوع کو قبول کر کے اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال سکتے ہیں۔ یہ واقعتا ایک چیلنج ہے۔‘‘
Patrick Weil نے جس چیلنج کی بات کی ہے ، اس کی واقعاتی حیثیت سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو ۔ بلاشبہ یہ ایک عظیم چیلنج ہے جس سے یورپ کو مشترکہ طور پر نمٹنا ہے۔ابھرتی ہوئی نئی مذہبی لہر وں کے سامنے سیکولر ازم کی کشتی ڈوبتی محسوس ہو رہی ہے۔ اس کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ یورپ اپنی سیکولر روایت سے انحراف کرتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر ’’ امتیازی سلوک‘‘ کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ اس وقت یورپ کو ایک ’’نئے سیکولر رویے‘‘ کی اشد ضرورت ہے جس میں ہر مذہب کے شہریوں کے انسانی حقوق کی ضمانت موجود ہو ۔ خیال رہے کہ یورپی سیکولر ازم کی موجودہ روایت ، کثیر مذہبی پس منظر نہیں رکھتی ۔ یہ در حقیقت عیسائیت کی داخلی تقسیم کے انتہاپسندانہ رویے کے ردِ عمل میں قائم ہوئی تھی ۔
ایک گیلپ پول کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ 44% امریکی اور 15% یورپی ہفتے میں ایک بار عبادت گاہ جاتے ہیں۔ (یورپی شرح بحیثیت مجموعی ہے، ورنہ برِ اعظم یورپ کے ہر ملک میں یہ شرح مختلف ہے۔) European Values Study کے سروے کے مطابق 74% یورپی کہتے ہیں کہ وہ خدا اور روح پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی یورپی یقین کو دیکھتے ہوئے مذہبی لوگ پر امید ہیں کہ وہ یورپ کو ’’خدا آشنا ‘‘کرنے کا کام آسانی سے کر سکیں گے۔ ملاحظہ فرمائیے پوپ کے ایک قریبی رفیق Rocco Buttiglione کے خیالات، جنھیں سماجی مسائل پر سخت کیتھولک موقف کے باعث یورپی کمیشن میں شمولیت کی اجازت نہ ملی : 
''For a long time, they told us that science and maths would give us the identity we need.......Both failed. Now when Europeans ask themselves 'Who are we?' they do't have an answer. I suggest we are christians.'' 
’’طویل عرصے تک وہ ہمیں یہ بتاتے رہے کہ سائنس اور ریاضی ہمیں وہ شناخت عطا کر سکتے ہیں جس کی ہمیں ضرورت ہے، لیکن یہ دونوں ناکام ہو چکے ہیں۔ اب جب اہل یورپ خود سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم کون ہیں تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ میرے خیال میں اس کا جواب یہ ہے کہ ہم مسیحی ہیں۔‘‘
لیکن اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ یورپی لوگ روحانیت کے متلاشی تو ضرور ہیں، لیکن ایسے مذہب کے نام سے اب بھی بدکتے ہیں جس کی منشا انسانوں کی سماجی سدھار ہو ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ مذہبی لہر کے ہمراہ آنے والے تشدد نے یورپی لوگوں کو اپنے ماضی کی یاد دلا کر تحفظات کا شکار کر دیا ہے ۔ اس لیے یورپی لوگ ، مذہب اور روحانیت کو دو علیحدہ علیحدہ مظاہر کے طور پر لے رہے ہیں ۔ Murray Williams کے مطابق:
''Many people are seeing spirituality as something positive, while religion is seen as a system that can be divisive.'' r
’’بہت سے لوگ روحانیت کو تو ایک مثبت چیز سمجھ رہے ہیں جبکہ مذہب ان کے خیال میں ایک ایسی قوت ہے جو تقسیم اور افتراق پیدا کر سکتی ہے۔‘‘
نیو میگزین کے ایڈیٹر Frederic Lenoir نے بھی لکھا ہے : 
''The need for meaning affects secularized and de-ideologized West most of all.......Ultramodern individuals mistrust religious institutions.......and they no longer believe in the radiant tomorrow promised by science and politics; they are still confronted, though, by the big questions about origins, suffering, and death.'' 
’’معنویت کی ضرورت سیکولر اور نظریہ واعتقاد سے محروم مغرب کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔ حد سے زیادہ جدیدیت پسند افراد مذہبی اداروں پر اعتماد نہیں کرتے اور انھیں سائنس اور سیاست کی طرف سے روشن مستقبل کے وعدے پر بھی اب زیادہ بھروسہ نہیں رہا۔ وہ اب بھی حیات وکائنات کی ابتدا، زندگی کے مصائب اور موت سے متعلق غیر معمولی سوالات سے دوچار ہیں۔‘‘
شاید اسی لیے بدھ مت یورپی لوگوں کو زیادہ متاثر کر رہا ہے۔ ایک روسی نژاد برطانوی تعلیم یافتہ منک Suvannavira کہتا ہے کہ : 
''I have noticed a steady increase in interest.....Our order has doubled in size since 1990.'' 
’’میں نے لوگوں کی دل چسپی میں ایک مسلسل اضافہ محسوس کیا ہے۔ ۱۹۹۰ کے بعد سے ہمارے مذہبی حلقے میں دوگنا اضافہ ہو چکا ہے۔‘‘
ہماری رائے میں عیسائیت اب انسان کی انفرادی (ذاتی) زندگی سے بھی بے دخل ہوچکی ہے۔ یورپی لوگ خواہش مند ہیں کہ انھیں کوئی ایسا روحانی سرچشمہ مل جائے جو سیکولر فکر میں عیسائیت کاجانشین بن سکے ۔بدھ مت کی حالیہ پذیرائی کے باوجود آنے والے چند عشرے ہی یہ ثابت کر سکیں گے کہ بدھ مت ، یورپی ضرورت کو پورا کرنے کی سکت رکھتا ہے یا نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یورپ میں مختلف مذاہب کے قائدین کے درمیان ’’ ورکنگ ریلیشن شپ ‘‘ دیکھنے میں آ رہا ہے جس سے دلچسپ صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے، کیونکہ ایسے مفاہمتی رجحانات جہاں مذاہب کے مابین تشدد کی نفی کے غماز ہیں، وہاں اس بات کی نوید بھی ہیں کہ نئے سیکولر رویے میں ( مذاہب کی باہمی برداشت اور رواداری کے باعث) مذہب کو کارنر کرنے کی بجائے اسے اہم مقام دینا زیادہ سودمند ثابت ہوگا ۔ مذاہب کے درمیان مفاہمت کی دو مثالیں ملاحظہ فرمائیے: 
(۱) پیرس کا آرک بشپ Jean-Marie Lustiger سکولوں میں مسلم طالبات پر سکارف کی حکومتی پابندی کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ۔ اس کے مطابق یہ حکومتی اقدام ، مذہبی آزادی پر حملہ ہے ۔
(۲) اسی طرح کیتھولک اور پروٹسٹنٹ پادریوں نے بھی برمنگھم میں سکھوں کے بلوے کی حمایت کی، کیونکہ ایک ایسا تھیٹر ڈرامہ پیش کیا گیا تھا جس میں گوردوارے میں مارپیٹ ، آبرو ریزی اور قتل و غارت کے مناظر پیش کیے گئے تھے۔برمنگھم کے کیتھولک آرک بشپ Vincent Nichols نے ایک بیان جاری کیا کہ : 
''Such a deliberate, even if fictional, violation of the sacred place of the sikh religion demeans the sacred place of every religion.'' 
’’سکھ مذہب کی مقدس عبادت گاہ کی اس طرح سوچی سمجھی بے حرمتی سے، چاہے وہ افسانوی رنگ ہی میں کیوں نہ ہو، تمام مذاہب کے مقدس مقامات کی توہین ہوتی ہے۔‘‘
( ایک دوسرے کی مساجد پر زبردستی قبضہ کر کے مساجد کی بے حرمتی کرنے والے ’’ پاکستانی فرقہ بازوں ‘‘ کو کیتھولک پادری کے اس بیان سے کم از کم شرمسار ضرور ہونا چاہیے)۔ 
اگر ایک طرف مذاہب کے درمیان مذکورہ مفاہمتی رویہ جنم لے رہا ہے تو دوسری طرف مذہبی اتحادی اور سیکولر محوری ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ تہذیبوں کے درمیان تصادم کے بجائے اصل تصادم خدا کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے درمیان ہو گا۔شاید اسی لیے اسپینی حکومت کے عہدیدار Luis Lopez کو اس بات پر حیرانی ہے کہ جس ملک کی نصف سے زیادہ آبادی شاید ہی کبھی چرچ گئی ہو، اس ملک میں یہ مطالبہ کرنا کہ دستور کے ساتھ بائبل کو بھی ڈیسک میں جگہ دی جائے ، خاصا عجیب و غریب ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ ہم جنس پرستی ، اسقاطِ حمل اور طلاق کے قوانین کو مزید liberalize کرنے کا مطلب ، کسی الحادی نوعیت کے ریاستی مذہب کو مسلط کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے شہری حقوق میں اضافہ ہوتا ہے اور قوانین بھی کیتھولک عقیدے سے بے نیاز ہو جاتے ہیں ۔وہ مزید کہتا ہے کہ : 
''The government has a responsibility to represent the majority of the people. Our policy has to depend on the people's will, not on the preferences of the Catholic church.'' 
’’حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عوام کی اکثریت کی نمائندگی کرے۔ ہماری پالیسی کی بنیاد لوگوں کی مرضی پر ہونی چاہیے نہ کہ کیتھولک کلیسا کی ترجیحات پر۔‘‘
اگر پالیسی کا انحصار لوگوں کی منشا اور ارادہ ہی ہے تو ہم نے اوپر کی بحث میں نشاندہی کردی ہے کہ مذہب، یورپ کی معاشرت میں دبے پاؤں دوبارہ داخل ہورہا ہے۔ مسٹر Delors بھی اس سے ملتی جلتی بات کرتے ہیں : 
''I do't expect a wholesale social mutation. But I can see little white stones marking out a path.'' 
’’مجھے سماجی سطح پر اس رجحان کے عمومی فروغ کی توقع تو نہیں ہے، لیکن چھوٹے چھوٹے سفید کنکر مجھے ایک راستہ بناتے دکھائی دیتے ہیں۔‘‘

مخمصے کا شکار یورپی مسلمان

موجودہ اسلام / مغرب کشمش میں ، مغربی کرے میں رہنے والا مسلمان دوراہے پر کھڑا ہے۔ ان میں مسلم علاقوں سے ہجرت کر کے مغرب میں بسنے والے لوگوں کے علاوہ نومسلم بھی شامل ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دو مغربی مسلم گروہوں کے مابین بھی فکری آویزش موجود ہے ۔ اگر مہاجر مسلم گروہ اپنے آبائی خطوں کی علاقائی روایات و رسومات کو اسلام کا لبادہ اوڑھا کر مغربی کلچر سے تحفظ کا خواہاں ہے تو نومسلم گروہ اپنے مغربی کلچر اور اسلامی تعلیمات میں موافقت کا خواہش مند ہے۔ (خیال رہے یہ عمومی صورتِ حال ہے) بی بی سی نے دو تصاویر کے ذریعے سے یورپی مسلمانوں کے پہلے گروہ کے دو رویوں کی نشاندہی کی ہے۔ ایک تصویر میں مسلمان لڑکیاں اسکارف پہنے ہوئے ، فرانسیسی جھنڈے میں ملبوس ہیں۔ یہ تصویر بجا طور پر مذہبی شناخت پر اصرار اور فرانسیسی معاشرے کے بنیادی دھارے میں شمولیت کی آرزو کی نمائندہ ہے۔ دوسری تصویر میں برطانوی مسلمانوں کا ایک گروہ لندن کی ایک مسجد کے باہر یونین جیک ( برطانوی جھنڈا) نذرِ آتش کر رہا ہے اور اسامہ بن لادن کے حق میں نعرے بازی کر رہا ہے۔ یہ تصویر reactionary رویے کی مظہر ہے۔ اس میں یورپی معاشرے سے اغماض کا پہلو جھلکتا ہے۔ در حقیقت یہ تصاویر دو ایسے’’ یورپی مسلم رویوں ‘‘کی علامت ہیں جو متحرک اور فعال ہیں۔ تیل اور تیل کی دھار کو دیکھنے والی خاموش اکثریت کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپناوزن کس پلڑے میں ڈالتی ہے۔ہوسکتا ہے وہ کوئی تیسرا راستہ تلاش کرے۔ اس وقت ایک کروڑ بیس لاکھ کے لگ بھگ یورپ کی مسلم آبادی ، مجموعی طور پربے روز گاری ، غربت اور marginalisation کا شکار ہے ۔ جہاں تک marginalisation کا تعلق ہے، یہ کثیر الجہات مسئلہ ہے لیکن بنیادی طور پر یہ مسئلہ ’’مذہب ‘‘ ہی کے گرد گھومتا ہے ۔ مہاجر مسلمانوں کی دوسری، تیسری نسل دو انتہاؤں کے درمیان معلق ہے ۔ خارجی دنیا اور معاشرتی ماحول انھیں سیکولر اقدار کا پابند بنا نا چاہتا ہے جبکہ گھر کا ماحول ( اور کسی حد تک ان کی داخلی دنیا ، یعنی باطن بھی) انھیں طرزِ معاشرت میں مذہبی اقدار کی اطاعت پر ابھارتا ہے۔ خارج اور داخل کی ان دو انتہاؤں کے درمیان جب تک ’’ تطبیق ‘‘ نہیں ہوجاتی ، یورپی (مہاجر)مسلمان marginalisation کا شکار رہے گا۔ کرسچیئن سائنس مانیٹر کے مطابق برطانوی اخبار گارجین کی ایک حالیہ رائے شماری نے ظاہر کیا ہے کہ 1.8 ملین برطانوی مسلمانوں میں سے 33% مسلمان بنیادی برطانوی ثقافتی دھارے سے زیادہ سے زیادہ ’’موافقت‘‘ چاہتے ہیں، اگرچہ 26% مسلمان موجودہ موافقت کو ہی بے جا اور حد سے بڑھا ہوا خیال کرتے ہیں۔نسلی مساوات کے کمیشن میں مسلم مسائل کے ترجمان خورشید احمد نے بھی بی بی سی سے بات کرتے ہوئے33% کی نمائندگی کی ہے ۔ ان کے مطابق : 
''The Muslim community has to stand up and be counted as a British Muslim community.''
’’مسلم کمیونٹی کو آگے بڑھ کر ’برطانوی مسلم کمیونٹی‘ کا مقام حاصل کرنا ہوگا۔‘‘
برطانوی و یورپی بزر جمہروں کے لیے یہ امر باعثِ تشویش ہے کہ ’’برٹش مسلم ، فرنچ مسلم اور جرمن مسلم ‘‘ وغیرہ سے حقیقت میں کیا مرادہے ؟ کیونکہ اپنے تئیں وہ مذہب کوصدیوں پہلے دفن کر چکے ہیں۔ ان کے لائف سٹائل میں ’’قبر رسیدہ مذہبی پس منظر ‘‘ جس شدت سے موجود ہے، اس کے ہوتے ہوئے ان کے کسی ذہنی خانے میں ’’مذہبی شناخت پر اصرار‘‘ کی مسلم روش اپنی جگہ نہیں بنا پاتی۔یہ تضاد بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ’’ برٹش مسلم ، جرمن مسلم‘‘ وغیرہ جیسی تراکیب میں ’’برٹش ، جرمن‘‘ کے الفاظ اکثر مہاجر مسلمانوں کو خاصے چبھتے ہیں۔ ان کی سائیکی، یورپی نیشنل ازم کے تاریخی پس منظر کو سمجھنے سے یکسر قاصر ہے۔ اس طرح یہ دو انتہائیں سامنے آ جاتی ہیں ۔ ہماری رائے میں ان انتہاؤں میں راہ و و رسم بڑھانے میں یورپی نومسلم اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ 
بہرحال ، دوسرا یورپی مسلم گروہ یعنی نومسلم بھی تا حال marginalisation سے دوچار ہے۔ اس گروہ کی عمومی نفسیات، نیشنل ازم کے یورپی تصور اور مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دینے والی سیکولر روایت میں گندھی ہوئی ہے۔ روحانیت کی تلاش میں سرگرداں اس گروہ نے، مختلف آپشنز کی موجودگی میں اسلام کا انتخاب کیا ہے ۔ اب ایک طرف امہ کا مسلم تصور ہے اور دوسری طرف قوم پرستی کی یورپی روایت ، جو یورپی ثقافت کا جزو لاینفک ہے ۔ اسی طرح ایک طرف اسلام کی، دین ودنیا کو ’’ وحدت ‘‘ میں دیکھنے کی خصوصیت ہے اور دوسری طرف یورپی ثقافت میں رائج دین و دنیا کی تقسیم ہے۔ اس صورتِ حال میں اگر قومیت کے عامل کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ، تصورِ امہ پر بے جا زور دیا جائے اور فرد کی ذاتی زندگی میں مذہب کے کردار سے صرفِ نظر کر کے ، مذہب کے سماجی منہاج کو ہی عین مذہب قرار دیا جائے تو ذرا سوچیے کہ یورپ کا نومسلم، نفسیاتی اعتبار سے کہاں کھڑا ہو گا ۔ 
جہاں تک انسانی حقوق اور عورت کے سماجی مقام جیسے مسائل کا تعلق ہے ، یورپی نو مسلم اس حوالے سے بھی دوراہے پر کھڑا ہے۔ مسلم ممالک کی مقامی روایات اور علاقائی ثقافت کو جس طرح عین اسلامی تعلیمات قرار دیا جارہا ہے، اس سے یورپی نو مسلم کنفیوژن کا شکار ہو جاتا ہے کہ اسلام اگر مشرقِ وسطیٰ ، افریقہ اور ایشیا کی مختلف علاقائی روایات سے ہم آہنگ ہو سکتا ہے تو یورپی اقدار میں آخر کون سی ایسی خامی ہے کہ اس کی کوئی قدر بھی اسلامی تعلیمات سے موافق نہیں ہو سکتی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یورپ کی کثیر مذہبی روایت کی کاشت میں اسلام کا کردار اسی وقت نمایاں ہو سکتا ہے جب یورپی ثقافت اور اسلامی تعلیمات میں اسی طرح ربط و تعلق قائم ہو جس طرح دیگر خطوں کی روایات اور اسلامی تصورات میں قائم و دائم ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ اسلام صرف پیدایشی مسلمانوں کی میراث ہے ۔اسلام ان کے لیے ہے جو اس کی جستجو کرتے ہیں۔ یورپی نو مسلم کی جستجو پر پیدائشی مسلمانوں کو خوامخواہ کے تحفظات ظاہر کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ۔ پلین فیلڈ انڈیانا امریکہ میں ILDC کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جناب لوئی ایم صافی کے مطابق : 
’’اسلامی اقدار اور مقامی روایات کے مابین تعامل کا مشاہدہ اس تنوع میں کیا جا سکتا ہے جو فیشن ، طرزِ تعمیر ، شادی کی تقریبات ، تہواروں کے منانے اور ججوں کے انتخاب وغیرہ میں پایا جاتا ہے اور جو مختلف مسلم ثقافتوں کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتا ہے۔ پیغمبر ﷺ نے صاف واضح کیا تھا کہ آپﷺ کا مشن سابقہ روایات کو مسترد کرنا نہیں ، بلکہ انھیں ایسی روایات اور اعمال پر جو مضبوط اخلاقی اصولوں پر مبنی ہوں ، تعمیر کرنا اور پست روایات اور رواجوں کی اصلاح کرنا ہے .... جب مضبوط قبائلی ورثے کے حامل معاشروں میں غیرت کے نام پر قتل کو گوارا کیا جاتا ہے اور مذہبی راہنما اس کی کماحقہ مذمت نہیں کرتے، حالانکہ اسلام میں یہ ایک بہت بڑا جرم ہے، تو یہ سوال نا گزیر طور پر سامنے آتا ہے کہ اسلامی اصولوں کو قبائلی روایات کے تابع بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح جب مسلم کمیونٹی عورتوں کو مسجد میں مناسب مقام دینے کے معاملے کو نظر انداز کرتی ہے اور مسجد کا مرد امام ، عورتوں کو اسلامی تعلیم کی مجلسوں کے درمیان مسجد کے مرکزی ہال میں داخل ہونے سے منع کرتا ہے تو بھی اسلام کو پدر سرانہ ثقافت کے تابع بنانے کا سوال لازماً سامنے آتا ہے۔ ...... تاریخی مسلم معاشرہ، خواہ ہم اس میں کتنی ہی غلطیاں تلاش کر لیں ، ایک نمایا ں وصف رکھتا ہے ، یعنی مذہبی تشخص پر پورے اصرار کے ساتھ ساتھ مذہبی ، اعتقادی اور اخلاقی تنوع کے لیے بے مثال رواداری کا وصف۔ مختلف فقہی مکاتب محض علمی حلقے نہیں تھے بلکہ انھوں نے ( اپنے تصورات کی بنیاد پر باقاعدہ ) اخلاقی کمیونٹیاں تشکیل دی تھیں ۔ ہر شخص کو نہ صرف اخلاقی طور پر بلکہ قانونی طور بھی انھی معیارات کے مطابق جانچا جاتا تھا ، جن کو وہ معیار تسلیم کرتا تھا ۔ لوگوں کی اخلاقی خود مختاری کے حوالے سے حساسیت کی یہ شاندار مثال اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اسلامی تہذیب کس طرح ایک مثالی ہم آہنگی کے ساتھ مختلف مذہبی، اعتقادی، الہٰیاتی، نسلی اور ثقافتی روایات کو کم و بیش چودہ سو برس تک اپنے اندر سمونے کے قابل رہی ‘‘۔(یہ پورا بصیرت افروز مضمون ’’ الشریعہ‘‘ کے جون 2005 کے شمارے میں دیکھیے )
ہو سکتا ہے بعض احباب اخلاقی معیار کی مذکورہ انفرادی نوعیت پر تبصرہ فرمائیں کہ یہ تو وہی صورتِ حال ہے جس پر ہم نے بش کے axis of evil والے بیان کے ضمن میں تنقید کی تھی اور اب حمایت میں اسی نوعیت کے نکات کا حوالہ دے دیا ہے ۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ لوئی ایم صافی نے اخلاقی معیار کوانفرادی نہیں بلکہ در حقیقت ’’انفرادی گروہی معیار‘‘ کے طور پر ڈسکس کیا ہے ۔ ملاحظہ کیجئے جناب صافی کے اپنے الفاط:
’’ اس ( اسلامی) معاشرے میں اخلاقیت اور انصاف کو ایک مجرد تصور کے طور پر بیان نہیں کیا جاتا تھا ، جس پر علمی حلقوں میں بحث ہوتی رہے ، بلکہ وہ مشترکہ اقدار کا مجموعہ تھا جس کے مطابق ایک زندہ کمیونٹی میں زندگی گزاری جائے اور اسے نشوو نما دی جائے ‘‘۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یورپ کی کثیر مذہبی روایت کی کاشت میں یورپی نومسلم اسی انداز میں اپنا متحرک کردار ادا کر سکتے ہیں جس کی طرف جناب لوئی ایم صافی نے اشارہ کیا ہے۔ 

حرفِ آخر 

اب تک کی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مغرب میں مذہب پسندی کی موجودہ لہر مغرب کی مذہبی شناخت کی بنیاد بن سکتی ہے۔ امریکہ کی نیم مذہبی اپروچ (کہ مذہب کی انفرادی حیثیت کو اجتماعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے) سے امیدیں وابستہ کرنے کے بجائے تحفظات ہی جنم لیتے ہیں ۔ اس کے برعکس یورپ کی سیکولر اپروچ ( کہ مذہب کی انفرادی حیثیت کو اجتماعی معاملات میں دخل کا موقع نہ دیا جائے) ایک نئے سیکولر رویے کی آبیاری کا سبب بن سکتی ہے ، ایک تواس لیے کہ موجودہ مذہبی تشدد ، الہٰیاتی تعبیرات کے سبب نہیں ہے بلکہ اس کی نوعیت ’’ سیاسی ‘‘ ہے، اور دوسرا اس لیے کہ عیسائیت کی متشددانہ داخلی تقسیم کے بر عکس اب یورپی معاشرہ کثیر مذہبی معاشرہ ہے۔ لہٰذا یو رپ کی پرانی سیکولر روایت پر نظر ثانی نا گزیر ہو جاتی ہے۔ ہماری رائے میں اس وقت یورپی ثقافت اور اسلامی تعلیمات میں مناقشت کا بنیادی سبب انسانی حقوق کے نام پر عورت و مرد کی مساوات، موت کی سزا، اسلامی حدود اور جہادوغیرہ ہیں۔ جیساکہ ذکر ہو چکا ، یورپ کو امریکہ کے مقابلے میں (خارجہ پالیسی جیسے معاملات میں) اپنی اخلاقی برتری پر بہت ناز ہے۔ اسی طرح وہ موت کی سزا کوبھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم گزارش کریں گے کہ یورپ کی ثقافت جن اخلاقی اصولوں پر قائم کی گئی ہے، وہ حقیقت میں سوچے سمجھے فکری اصول کم اور ردِ عمل کا مظہر زیادہ ہیں۔ اگر یورپ جنگ کا مخالف ہے تو اس کے پیچھے جنگوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اپنی جنگی تاریخ کے ردِ عمل میں جہاد کا مخالف ہو کر یورپی ثقافت کے علمبردار یہ بھول گئے کہ جنگ کبھی ختم نہیں ہوسکتی ۔ انسانی تاریخ میں ابھی تک کوئی ایسی تہذیب نہیں گزری جس نے کبھی جنگ نہ کی ہو ۔ لہٰذا جنگ کی مخالفت میں انتہاپسندانہ رویہ اپنانے کے بجائے واقعیت پسندی کا تقاضا یہی ہے کہ جنگ کی اخلاقی تطہیر کی جائے۔ ''The Roots of War and Terror'' کے مصنف ڈاکٹر انتھونی سٹیونزکا نقل کردہ یہ حوالہ بھی دعوتِ فکر دینے کو کافی ہے :
’’ آخر جنگ ایک ہمہ گیر کج روی ہی تو ہے۔ ہم سب اس سے داغ دار ہیں ۔ اگر ہم اس کج روی کا براہِ راست تجربہ نہ کر سکیں تو جنگ کی کہانیاں پڑھنے میں وقت گزارتے ہیں ، جنگ کی پورنو گرافی یا فلمیں دیکھتے ہیں، جنگ کی بلیو فلمیں؛ یا عظیم کارناموں کا تصور کر کے اپنی حسیات کو تسکین دیتے ہیں، یعنی جنگ کی مشت زنی ‘‘ ( جان رے، کسٹرڈ بوائز) 
اگر یورپ جہاد کے اسلامی تصور پر غیر جانبداری سے غور و فکر کرے تو اس کے خدشات ختم ہو سکتے ہیں اور ایک زیادہ پائیدار اخلاقی نظام جنم لے سکتا ہے جس میں جنگ کی گنجایش محدود معنوں میں موجود رہے گی ۔اعلیٰ اخلاقی اقدار کے نام پر یورپی ثقافت میں اسلام کے ادغام کی خاطر تصورِ جہاد کے خاتمے کے لیے جس طرح مختلف گروپس کوشاں ہیں، اس پر ہمیں ڈاکٹر انتھونی کا یہ اقتباس بھی پیش کرنا پڑ رہا ہے : 
’’ جب امن پسند لوگوں نے کبھی کبھار لڑنے سے انکار کیا تو انھیں نہایت اندوہ ناک نتائج کا سامنا کرنا پڑا ۔ بالعموم وہ صفحہ ہستی سے ہی مٹ گئے،یا تہِ تیغ ہوئے ، یا غلام بنائے گئے یا دور افتادہ خطوں میں دھکیل دیے گئے ۔ مثلاًافریقہ میں Manansas  امن پسند زراعتی تھے جو سخت جان ، مویشی پال اور جنگ پسند Matabele کا نشانہ بنے۔ Matabele جب آئے تو Manansas نے ان کا استقبال امن پسندوں والے کلاسیکی انداز میں کیا ۔ انھوں نے اپنے برچھے زمین پر پھینکتے ہوئے کہا ، ’’ ہم لڑنا نہیں چاہتے ، ہمارے مکانات میں آ جاؤ‘‘۔ Matabele اس غیر معمولی طرزِ عمل پر حیران رہ گئے اور اسے ایک چال سمجھ کرManansas کے بادشاہ کو پکڑا اور اس کا سینہ چیر کر دل باہر نکال لیا۔ بادشاہ کے دل کو اس کے منہ سے لگاتے ہوئے وہ بولے ، ’ تمہارے دو دل ہیں۔‘‘
ثقافتی تغیرات کی حامل موجودہ دنیا میں ’’کچھ لو، کچھ دو ‘‘ کی پالیسی سے ہمیں انکار نہیں ۔ بلاشبہ مسلمان ، معتدل اور روشن خیال ہو سکتا ہے لیکن کوئی ایسا مسلمان، چاہے وہ نو مسلم ہو، بمشکل ہی مل سکے گا جس کے دو دل ہوں۔اختتامی کلمات کی طرف بڑھتے ہوئے ہم عرض کریں گے کہ یورپ میں موت کی سزا کا خاتمہ بھی درحقیقت ، کیتھولک چرچ کے انسانیت سوز مظالم کا ردِ عمل ہے۔ ورنہ یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ کوئی فرد کسی کو قتل کر دے، یا پھر معاشرے میں فساد کا باعث بنے اور اسے انسانی حقوق کے نام پر، موت کی سزا نہ دی جا سکے۔ یورپی ذہن Manansas قبیلے جیسے اخلاقی معیارات کو معاشرے میں رائج کرنے کا خواہش مند معلوم ہوتا ہے ، حالانکہ ایسے معیار، فرد کی حد تک تو لاگو ہوسکتے ہیں ، لیکن اجتماع کی سطح پر نہیں۔ اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے نہ صرف فرد کی سطح پر ایسے معیار تسلیم کیے ہیں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے، جیسا کہ عدل کے مقابلے میں احسان کا تصور ہے۔ اگر یورپ نے فرد اور اجتماع میں فرق روا نہ رکھا تو ہمیں احتمال ہے کہ آنے والے وقت میں، وہ معکوس ردِ عمل میں مذہب کے ایسے ایڈیشن کی طرف رجوع کرے گا جس میں انفرادی سطح پر بھی احسان جیسے تصورات کی گنجایش مفقود ہوگی ۔بہر حال ! یہ نو مسلم ہی ہیں جو یورپ کو یہ بات سمجھا سکتے ہیں اور یورپ کی ابھرتی ہوئی کثیر مذہبی روایت میں متوازن اسلامی تصورات شامل کر کے پورے مغرب کو ایک بار پھر مذہبی شناخت سے بہرہ ور کر سکتے ہیں۔

اشتعال انگیز واقعات پر مسلم امہ کا رد عمل

مولانا نظام الدین

(پندرہ روزہ ’تعمیر حیات‘ لکھنو (۱۰ جون ۲۰۰۵) میں شائع شدہ ایک انٹرویو سے اقتباس۔)

سوال: آپ کے علم میں ہے کہ فاشسٹ عناصر نے تاج محل کے تاجیشوری مندر ہونے کا شوشہ چھوڑ کر باسی کڑھی کو ایک بار پھر ابال دینے کی کوشش کی ہے۔ پیش بندی کے طور پر شاہجہاں وممتاز محل کی قبروں کو بنیاد بنا کر تاج محل کو سنی سنٹرل وقف بورڈ میں قبرستان کے طور پر مندرج کرنے کی بات ملت کے دردمند افراد نے کہی ہے۔ کیا یہ اقدام فاشسٹ عناصر اور شر پسندانہ عناصر کو روکنے کے لیے کافی ثابت ہوگا؟ آپ کے نزدیک اس کا پائیدار حل کیا ہے؟
جواب: تاج محل کو آج کل ہی تاجیشوری کا مندر نہیں کہا جا رہا ہے، یہ پراپیگنڈا آج کا نہیں ہے۔ ایک انگریز مورخ برس ہا برس قبل اس قسم کی زہر افشانی کر چکا ہے اور تاج محل ہی نہیں، قطب مینار اور جامع مسجد کے متعلق بھی ایسا پراپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے۔ تاج محل کو تاجیشوری کا مندر سب سے پہلے اسی انگریز مورخ نے کہا۔ اب جو یہ بات آپ نے کہی کہ سنی سنٹرل وقف بورڈ میں ملت کے ذمہ دار عناصر تاج محل کا رجسٹریشن کرانا چاہتے ہیں تاکہ پیش بندی ہو شاہ جہاں اور ممتاز محل کی قبروں کی بنیاد پر، تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ صرف اتنا ہی اقدام اس پراپیگنڈا کے پیش نظر کافی نہیں ہے۔ اصل کام تو حکومت کا ہے۔ اس کے پاس سارا ریکارڈ موجود ہے۔ وہ اپنے ریکارڈ کو بنیاد بنا کر اس قسم کے مذموم پراپیگنڈا کا استیصال کر سکتی ہے۔ اس کی پوری قوت کے ساتھ تردید کر سکتی ہے۔ محض سنی سنٹرل بورڈ کا قبروں کی بنیاد پر رجسٹریشن کافی نہیں۔ اس کے بعد بھی یہ پراپیگنڈا جاری رہے گا۔ تاج محل کا وقف بورڈ میں اندراج کرا لیں گے، لیکن تب بھی پراپیگنڈا تو جاری رہے گا۔
مثلاً جو دہلی کی جامع مسجد ہے، وہ آج بھی وقف بورڈ میں مندرج ہے لیکن یہ پراپیگنڈا کہ یہ مندر پر بنائی گئی، اب بھی کیا جاتا ہے تو ایسا پراپیگنڈا تو اس لیے کیا جاتا ہے کہ جھوٹ کو اتنی بار دہراتے رہو کہ وہ سچ معلوم ہونے لگے اور اس کی بنیاد پر تخریبی کارروائی اور مذہبی جذبات کوبھڑکانے کا کبھی موقع ملے۔ اس لیے مسلمانو ں کے جو شعائر ہیں جن سے ان کی تاریخ وابستہ ہے، جن سے ان کی شناخت بنتی ہے اور قائم ہے، اس کو تبدیل کرنے کے لیے یا مسخ کرنے کے لیے بلکہ ان کو ختم کرنے کے لیے منصوبہ بند کوششیں بہت دنوں سے جاری ہیں۔ یہ اسی کا ایک شاخسانہ ہے۔
تو جو لوگ رجسٹریشن کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، ٹھیک ہے، ہم ان کی مخالفت نہیں کرتے، لیکن یہ کافی نہیں۔ اصل ذمہ داری حکومت کی ہے۔ حکومت کو اپنی سطح سے تاج محل کے مندر ہونے جیسے پراپیگنڈا کی مذمت ومخالفت اور ان کے تدارک کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان کے پاس اس کا ریکارڈ موجود ہے۔ اگر حکومت اس کی تردید کر دے تو بات ختم ہو جاتی ہے، لیکن ہوتا یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے ایک بات پھیلتی رہتی ہے لیکن حکومت کی طرف سے کوئی بیان نہیں آتا۔
س: کیا آ پ محسوس کرتے ہیں کہ ایسے جذباتی ایشوز مخصوص شر پسندانہ مقاصد کی تکمیل کے لیے کیے جاتے ہیں تاکہ مسلمان مشتعل ہو کر اپنا ہی نقصان کر بیٹھیں؟ اس موقع پر مسلمانوں کو آپ کیا مشورہ دینا چاہیں گے؟
ج: یہ جذباتیت کا مسئلہ ہی نہیں ہے، مسلمانوں کو اس پر مشتعل ہی نہیں ہونا چاہیے۔ میں نے مدارس کے بارے میں بھی یہی کہا تھا کہ جو لوگ مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ کہہ رہے ہیں، ان کے جواب میں ہمیں مشتعل ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ مدارس کے دروازے سب پر کھول دیے جانے چاہییں کہ آؤ دیکھو، ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہمیں مدارس کا معیار تعلیم اور ان کے نظام تربیت کو بہتر سے بہتر بنانا چاہیے، بلکہ موقع ہو تو آپ برادران وطن کے لیے بھی تعلیم کے دروازے کھول دیں۔
تو تاج محل کے متعلق جو کچھ پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے، وہ کھلا جھوٹ ہے۔ اگر ہم مشتعل ہوئے تو شرپسند عناصر کو کھل کھیلنے کا موقع ملے گا۔ مسلمانوں کے مشتعل ہونے سے ہمیشہ فرقہ پرستوں کو فائدہ پہنچا۔ جھوٹ جھوٹ ہے۔ اس پر اشتعال کیسا؟ کوئی رات کو دن کہہ دے اور کوئی دن کو رات کہہ دے تو آپ کا رد عمل کیا ہوگا، سوائے اس کے کہ اس کو آپ جھوٹا سمجھیں۔ اس پر مشتعل ہونا حماقت کی بات ہوگی۔ اس سے زیادہ سنگین مسئلے ملت کے سامنے آئے، جیسا کہ ابھی آپ نے بابری مسجد کا ذکر کیا۔ اس سلسلے میں بڑے سنگین مرحلے آئے، آئینی حقوق وقانونی دائرۂ کار میں رہتے ہوئے ہم اپنی پر امن جدوجہد جاری رکھیں تو اس کے مفید نتائج برآمد ہوں گے، اس لیے کہ سچ کو سچ کہنے میں کسی ملاوٹ کی ضرورت نہیں ہے اور کسی سچ کو جھوٹ بنانے کے لیے کافی ملاوٹ کرنی پڑتی ہے۔
س: گوانتا نامو بے قید خانے میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعہ کو منظر عام پر لانے کے پس پشت امریکہ کے کیا عزائم ہو سکتے ہیں؟ نیز عالم اسلام کو امریکہ کی اس نفسیات کا جواب کس انداز سے دینا چاہیے؟
ج: دیکھیے اگر آپ بغور مسائل کا جائزہ لیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ عالم اسلام میں حالیہ چند برسوں میں اس سے زیادہ سنگین واقعات رونما ہوئے۔ مثلاً ایک مثال سقوط کابل کی ہے۔ افغانستان پر حملہ کیا کم سنگین واقعہ ہے؟ آخر طالبان کا قصور کیا تھا؟ یہی نا کہ وہ ایک مثالی اسلامی نظام حکومت کے قیام کے لیے کوشاں تھے اور اسلام کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کر رہے تھے۔ بغیر کسی تصادم وٹکراؤ کے وہ دنیا کے سامنے اسلام کی پرامن شبیہ پیش کر رہے تھے، لیکن طالبان کو ملیا میٹ اور نیست ونابود کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ لاکھوں کی تعداد میں بے گناہ انسانوں کا قتل ناحق کیا گیا۔ اسی طرح عراق کے معاملہ کو لیجیے۔ صدام حسین کی شخصیت پر بحث ایک جداگانہ بحث ہے، لیکن صدام حسین پر بھی مہلک ہتھیاروں کے رکھنے کا الزام ثابت نہیں ہوا اور آج تک عراق میں حالات پرامن نہیں ہیں۔ نیز معصوم عوام نشانے پر ہیں۔ تو یہ واقعات تو قرآن کی بے حرمتی سے بھی زیادہ بڑھ کر ہیں۔
قرآن کی بے حرمتی تو ہمیں مشتعل کرنے کے لیے ہے، اس لیے کہ جنھوں نے قرآن مجید کی بے حرمتی کی، انھوں نے ہی اس واقعہ کو میڈیا میں پیش کیا اور اس کی تشہیر کی ہے۔ اس تشہیر کا مقصد مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ بات ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جیل کی چار دیواری کے واقعہ کو ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ساری دنیا میں عام کرنے کے پس پشت مقصد یہی ہے کہ مسلمان سہل انگاری سے کام لیں، اس کے خلاف احتجاج کریں، دفاع میں اپنی توانائی خرچ کریں اور تعمیری کاموں کی طرف سے ان کی توجہ منعطف ہو جائے۔
قرآن پاک کی بے حرمتی پر مسلمانوں کے احتجاج کو بے جا تو نہیں کہا جا سکتا، یہ غیرت وحمیت کا تقاضا ہے، لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جو اقدام طاقت کے نشہ میں اٹھایا جاتا ہے، وہ طاقت ہی کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔ اگر عالم اسلام میں طاقت ہے تو وہ امریکہ کی اس مذموم حرکت کو طاقت سے روک دے۔ پھر وہ کبھی جرات وجسارت نہیں کرے گا قرآن پاک کی بے حرمتی جیسی ناپاک حرکت کی۔
جو لوگ قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف بیانات دے رہے ہیں، مذمتی قراردادیں پاس کر رہے ہیں تو اس سے امریکہ پر کیا اثر پڑنے والا ہے؟ اصل مسئلہ طاقت کا ہے۔ شعائر اسلام کو مٹانے، مدارس کو دہشت گرد قرار دینے، اسلامی نظام حکومت کو نیست ونابود کرنے، مسلم ممالک پر نظر بد رکھنے اور اس زمرہ کے جتنے اقدامات ہیں، انھیں روکنے کے لیے احتجاج کافی نہیں، طاقت کی ضرورت ہے۔ دنیا ’Might is right‘ کے اصول کو جانتی ہے۔
عالم اسلام جب تک مضبوط ومتحد نہیں ہوگا، اپنی طاقت وتوانائیوں کو مجتمع نہیں کرے گا، انتشار کو باہمی اتحاد سے نہیں بدلے گا اور جب تک امریکہ اور اس کی حلیف قوتوں کے سامنے خطرہ اور چیلنج بن کر نہیں آئے گا، عالم اسلام امریکہ کی مذموم حرکتوں اور اس کے ناپاک ارادوں کو روک نہیں سکتا۔ اصل مسئلہ ہے عالم اسلام کی غیرت ایمانی کا، ان کے اتحاد فکر وعمل کا۔ کیا وہ بدلہ لینے کی پوزیشن میں آ سکتے ہیں؟ تب ہی جا کر مسئلہ کا حل سامنے آئے گا۔
یہ مسئلہ ہے سارے عالم اسلام کا۔ ایک ایسی طاقت جو نشہ میں سرشار ہو کر ہماری قوتوں کو ضائع کرنے پر تلی ہوئی ہے، اس پر عالم اسلام غیر ت ایمانی کا ثبوت نہ دے۔ رہا احتجاج کا مسئلہ تو ہمارا تجربہ یہ ہے کہ ایسے مسائل کھڑے ہی اس نیت سے کیے جاتے ہیں کہ مسلمان سڑک پر آ جائیں، احتجاجی مظاہرے کریں اور پھر انھیں بہانہ تراشنے میں آسانی ہو، نقض امن کے نام پر مسلمانوں پر زیادتی کریں، گولیاں برسائیں، عورتوں کی عصمت وناموس سے کھلواڑ کریں۔
امریکہ ایک طرف تو عالم اسلام کو تباہ کرنے کے درپے ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً شوشے بھی چھوڑتا رہتا ہے۔ اس طرح ان کا استہزا وتضحیک بھی کرتا ہے۔

احیائی تحریکیں اور غلبہ اسلام

ڈاکٹر محمد امین

(لاہور میں ۶ جون ۲۰۰۵ کو منعقد ہونے والے، احیائی تحریکوں کے ایک اجتماع سے خطاب۔)

میں اس مجلس کے منتظمین کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے یہاں مجھے اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کا موقع دیا۔ جیسا کہ کنوینر صاحب نے واضح کیا ہے کہ اس مجلس کے انعقاد کا مقصد یہ ہے کہ وطن عزیز میں قیام نظام خلافت اور نفاذ اسلام کے لیے جو بہت سی جماعتیں کام کر رہی ہیں، ان کے اتحاد کے بارے میں غور کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ ان میں اتحاد کے موانع کیا ہیں اور ان موانع کا سدباب کیسے ہو سکتا ہے۔ نیز ان میں اتحاد کے لیے موثر لائحہ عمل تجویز کیا جائے۔
اس مجلس میں مجھ سے پہلے مختلف احیائی تحریکوں کے مندوبین نے، جو بلاشبہ بہت سمجھ دار، پڑھے لکھے اور جہاں دیدہ افراد ہیں، اس وقت تک جو گفتگو کی ہے، وہ ایک خاص فکری دائرے کے اندر رہی ہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ ذرا اس سے ہٹ کر بھی سوچیں۔ یوں میری باتیں آپ میں سے اکثر اصحاب کے لیے نامانوس اور اجنبی ہو سکتی ہیں اور آپ میں سے بعض اسے اختلافی بلکہ مخالفانہ بھی سمجھ سکتے ہیں ----- اور اس غیر متوقع صورت حال کے لیے میں آپ سے معذرت خواہ بھی ہوں ----- لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جب یہ غور وفکر کی مجلس ہے تو ضروری نہیں ہے کہ اس میں سب روٹین کی اور آپ کی من پسند باتیں ہوں، بلکہ اس میں ہر طرح کی تجاویز اور آرا سامنے آنی چاہییں اور طلب حق میں آپ کے اخلاص کا تقاضا ہے کہ آپ انھیں توجہ سے سنیں اور وزن دیں، جیسا کہ امام شافعی نے فرمایا ہے اور سچ فرمایا ہے کہ میں اپنی رائے کو صحیح سمجھتا ہوں اور مخالف کی رائے کو غلط سمجھتا ہوں، لیکن اپنی رائے میں غلطی کا اور مخالف کی رائے میں صحت کا امکان تسلیم کرتا ہوں (کیونکہ مجھ پر وحی نہیں اترتی اور نہ میں پیغمبر ہوں)۔
تو میری درخواست یہ ہے کہ آپ تھوڑی دیر کے لیے اپنے فکری دائرے سے باہر نکل کر اپنے بنیادی تھیسس اور طریقہ کار پر ذرا ازسرنو غور کریں۔ آپ لوگوں کے نزدیک دین کا نصب العین، مقصد اور کرنے کا بنیادی کام یہ ہے کہ معاشرے میں نظام خلافت قائم کیا جائے، دین نافذ کیا جائے اور اسی غرض سے آپ نے جماعتیں بنائی ہیں۔ میں یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ دین ہم پر آج نازل نہیں ہوا کہ اس کے مفہوم اور نصب العین پر ہم ازسرنو غور کرنے بیٹھیں۔ یہ آج سے چودہ سو سال پہلے نازل ہوا تھا اور الحمد للہ کہ مسلم معاشرہ پچھلے چودہ سو سال سے بلا انقطاع قائم ہے۔ ایک آدھ استثنا چھوڑ کر (جیسے ہم نے اندلس کو کھویا اور سسلی کو کھویا) الحمد للہ کہ مسلم معاشرہ پچھلے چودہ سو سال سے بلا انقطاع قائم ہے اور (ثم الحمد للہ) کہ بعض کمزوریوں کے باوجود بڑی حد تک اسلام پر ہی قائم رہا ہے۔ تو کیا ہمارے اسلاف نے، ہمارے علما وصلحا نے وہ کام کیا ہے جو آپ کرنے اٹھے ہیں؟ سعید بن مسیبؒ ، امام زہریؒ ، ابو حنیفہؒ ، شافعیؒ ، مالکؒ اور ابن حنبلؒ نے نفاذ اسلام کے لیے کون سی سیاسی جماعت قائم کی تھی؟ ابن حزمؒ ، ابن تیمیہؒ ، ابن کثیرؒ اور امام بخاریؒ ومسلمؒ نے کب قیام خلافت کے لیے جلسے کیے اور ریلیاں نکالی تھیں؟ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ حضرت حسین بن علیؓ اور حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کے تجربے کے بعد جمہور امت نے یہی طے کیا کہ مسلم معاشرے میں جمے ہوئے سیاسی نظام کی اکھاڑ پچھاڑ کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا نقصان ہے، لہٰذا اس نظام کے اندر رہتے ہوئے پر امن انداز سے اور انفرادی طور پر اس کی اصلاح کی کوششیں جاری رکھی جائیں اور ساتھ ساتھ باقی سارے شعبوں میں دینی کام جاری رکھے جائیں۔ یہ اجماع امت ہے، یہ جمہور علما کا مسلک ہے، یہ ساڑھے تیرہ سو سالہ قدیم اور مستحکم مسلم روایت ہے، اس سے صرف نظر روا نہیں۔ اور اس مسلک کی اساس کیا ہے؟ اس مسلک کی اساس یہ ہے کہ سیاسی اصلاح کا کام بلاشبہ اہم ہے، یہ دینی کام ہے لیکن یہ بہرحال بہت سے دینی کاموں میں سے ایک کام ہے۔ دیکھیے! دین کے چار بڑے شعبے ہیں: عقائد، عبادات، اخلاق اور معاملات، اور معاملات کی بھی بہت سی شاخیں ہیں جیسے مالی اور تجارتی امور، نکاح، طلاق اور وراثت، قانون فوج داری اور مدنی، عدالتی نظام، تعلیم وتدریس اور سیاسی امور وغیرہ۔ تو سیاسی نظام کی اصلاح نہ تو پورا دین ہے اور نہ دین کا بنیادی ترین کام ہے، بلکہ یہ دین کے چوتھے جزو کا ایک جزو ہے۔ بلاشبہ یہ بھی ایک دینی کام ہے اور اہم کام ہے، لیکن ہم اسے دسویں نمبر سے اٹھا کر پہلے نمبر پر نہیں لا سکتے، کیونکہ اس سے دین کا سارا نظام ترجیحات تلپٹ ہو کر رہ جائے گا۔
ہمارے اسلاف نے دین اور اس کی ترجیحات کو یوں سمجھا تھا کہ اصل چیز آخرت اور آخرت کی کامیابی اور اللہ کی خوشنودی اور رضا طلبی ہے اور دنیا، آخرت کے مقابلے میں حقیر تر ہے۔ پیغمبردنیا میں اس لیے تشریف لاتے ہیں کہ وہ تعلیم وتربیت سے لوگوں کے نفوس کا تزکیہ کریں۔ (۱) تاکہ لوگ دنیا کی زندگی اللہ کے احکام کے مطابق گزاریں اور آخرت میں کامیاب رہیں۔ تو گویا دین کا آخری نصب العین اور غایت آخرت اور اس کی کامیابی ہے نہ کہ دنیا اور اس کی کامیابی اور اس میں قوت واقتدار کا حصول۔ اس دنیا میں اگر چند اشخاص کماحقہ مسلمان ہوں اور ساری دنیا ان کی مخالف ہو اور وہ دنیا کی ساری آسائشوں سے محروم، دکھوں اور تکلیفوں میں زندگی گزاریں، جہاں نہ نظام خلافت ہو اور نہ اس کے قیام کی کوئی صورت ہو، تو پھر بھی وہ کامیاب ہیں کیونکہ انھیں ان شاء اللہ آخرت میں کامیابی ملے گی۔ لیکن اگر کسی معاشرے کی اکثریت (۲) ایمان لاتی ہے اور مسلم ہونے کا اقرار کرتی ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اپنا نظم اجتماعی قائم کرے اور ایک منظم معاشرہ تشکیل دے، یعنی آج کی اصطلاح میں اپنی ریاست قائم کرے اور اس کی قوت حاکمہ ونافذہ کے ذریعے دین کے ان احکام پرعمل کرے جن کا تعلق اجتماعی زندگی سے ہے۔ اس چیز کو کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں ’خلافت‘ واجب ہے اور یہی وہ ’الجماعت‘ ہے جس سے وابستگی لازم ہے اور جس سے خروج نقیض ایمان ہے اور جس سے دوری، بجز کسی شدید اجتماعی دینی ضرورت کے، جائز نہیں کیونکہ اس کے بغیر فرد کے لیے اپنے دین کی حفاظت اور اس پر عمل خطرے میں پڑ جاتا ہے (لیکن اس حقیقت کو پوری طرح نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض لوگ غلط فہمی سے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ نفاذ دین کے لیے جماعت بنانی ضروری ہے تاکہ جب تک ’الجماعت‘ وجود میں نہ آئے، ان کی جماعت ’الجماعت‘ کی قائم مقام ہو یا اسے وجود میں لانے کا ذریعہ بنے۔ حالانکہ ’الجماعت‘ سے مراد مسلم معاشرہ اور ریاست ہے جو پہلے سے موجود ہے۔ )
اسی طرح بعض لوگ خلافت کے مفہوم کو سمجھنے میں ٹھوکر کھاتے ہیں۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا خلیفہ کہا ہے۔ (۳) ان معنوں میں کہ وہ زمین میں اللہ کی طرف سے صاحب اختیار بنایا گیا ہے کہ حق وباطل میں سے جو راستہ چاہے، اختیار کرے اور اللہ کے دیے ہوئے اختیار سے زمین میں جیسے چاہے، تصرف کرے، لیکن بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ’مسلمان‘ اللہ کے خلیفہ ہیں، حالانکہ قرآن نے مسلمانوں کو نہیں بلکہ انسان کو دنیا میں اپنا خلیفہ بنایا ہے (خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو)۔ ’خلافت‘ تو دراصل مسلمانوں کے سیاسی نظام کا نام ہے، یعنی مسلمان حاکم اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کرتا ہے۔ اب تاریخی حقیقت یہ ہے کہ مسلم عہد کی ابتدا میں (خلفاء راشدین کے عہد میں) یہ سیاسی نظام صحیح خطوط پر کام کر رہا تھا جبکہ بعد کے ادوار میں یہ آمریت اور وراثتی نظام میں بدل گیا اور اس میں بہت سی خرابیوں نے راہ پا لی۔ اب اگر ہم آج عصر حاضر میں اسلام کے صحیح سیاسی نظام (یا نظام خلافت) کی بحالی چاہتے ہیں تو اس کے لیے ماضی کے نظام خلافت کی صوری ہیئت (Form) کا احیا اور پیروی ضروری نہیں بلکہ اس کی سیرت اور روح کو سامنے رکھنا ہوگا۔ 
ہمارے نزدیک نظام خلافت یا مسلمانوں کے سیاسی نظام کے چار بڑے اجزا ہیں: ۱۔ شریعت کا نفاذ، ۲۔ امت کا اتحاد، ۳۔ حکومت کا مسلمانوں کی رائے سے بننا اور ٹوٹنا، ۴۔ مسلمان معاشرے میں حریت، عدل، مساوات، شوریٰ وغیرہ جیسے اسلامی تصورات پر عمل اور ہر قسم کے ظلم وجور اور استبداد کا خاتمہ۔ تو ان بنیادی خصائص کا حامل جو سیاسی نظام بھی آپ کھڑا کریں گے، وہ اسلامی ہوگا خواہ اسے آپ ’خلافت‘ کہیں یا ’اسلامی نظام‘ یا ’نظام مصطفی’ یا کچھ اور۔
اس وقت سب مسلم ممالک کے حکمران مسلمان ہیں، لیکن انھوں نے اسلام کا صحیح سیاسی نظام قائم نہیں کیا، لہٰذا مسلمانوں کو پرامن طریقے سے ایسی جدوجہد کرنی چاہیے کہ ان حکمرانوں کے بجائے ایسے لوگ برسر اقتدار آئیں جو اسلام کا صحیح سیاسی نظم قائم کریں۔ سیاسی اصلاح کا یہ کام مسلمانوں کے لیے اس لیے بھی ضروری ہے کہ انھیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیا ہے۔ (۴) اگر وہ اس کے لیے کوشش کرتے ہیں تو گویا انھوں نے اپنا فرض ادا کر دیا، خواہ موجودہ غلط سیاسی نظام بدلے یا نہ بدلے۔
خلافت کا جو ناقص اور برا بھلا نظام مسلمانوں میں چل رہا تھا، وہ خود ترکوں نے، مغربی تہذیب کے زیر اثر ۱۹۲۴ء میں ختم کر دیا۔ استعمار سے آزادی حاصل کرنے والے ممالک میں اکثر ایسے مسلمان حکمران برسر اقتدار آئے جنھیں اسلام کے سیاسی نظام کی خبر تھی اور نہ وہ اس پر عمل کرنے کے خواہاں نظر آتے تھے۔ ان حالات میں دینی رہنماؤں نے اپنی جماعتیں بنا لیں اور مسلمان حکمرانوں کے خلاف جدوجہد شروع کر دی۔ اس جدوجہد کے تین پہلو ایسے تھے جو اپنی نوعیت میں منفرد تھے اور ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی:
۱۔ یہ دینی رہنما خود اقتدار کے طالب اور حکمرانوں کے حریف بن کر سامنے آئے۔ (ماضی میں اصلاح کے طالب علما وزعما اصلاح کی کوشش کرتے تھے، لیکن خود اقتدار کے طالب نہ ہوتے تھے)۔
۲۔ ان دینی رہنماؤں نے اپنے اس کام کو محض سیاسی کام نہیں سمجھا، بلکہ اسے پورا دین قرار دیا اور دین کی ایسی تشریح وتعبیر کی جس سے یہ سیاسی کام اصل اور پورا دین ثابت ہو۔ (ماضی میں وہ درس وتدریس، فقہ وافتا، تزکیہ وتربیت، قضا وتجارت اور صنعت وحرفت کے کام کرتے تھے اور مسلم حکمرانوں کی اصلاح کو دوسرے دینی کاموں کے ساتھ ایک جزوی دینی کام سمجھتے تھے) یہی نہیں، بلکہ ان میں سے ہر جماعت نے دین کی اپنی تشریح وتعبیر کو دین کی واحد صحیح تعبیر قرار دیا۔ انھوں نے روایتی علما سے بھی مخاصمت کی راہ اپنائی۔ یوں مسلم معاشرے میں وہ مزید تقسیم کا سبب بن گئے اور اپنے مقاصد بھی حاصل نہ کر سکے۔
۳۔ دین کے سیاسی پہلو کے لیے جدوجہد کو پورا دین اور دین کا جامع تصور قرار دے کر ان دینی زعما نے جو موقف اپنایا، اس سے دین کے نصب العین اور اس کی ترجیحات کا نظام تلپٹ ہو گیا۔ مسلم معاشرے میں اور صحابہ واسلاف کے ہاں دین اسلام کی مرکزی روح ’آخرت‘ تھی اور تقویٰ، للہیت، اللہ کی محبت وخشیت، قناعت، بے غرضی اور زہد ان کا طریقہ کار تھا۔ وہ دنیا کو مزرعۃ الآخرۃ سمجھتے تھے اور اس سے محبت کو سارے معاصی کی جڑ سمجھتے تھے۔ اب جب دین کا ہدف اور نصب العین دنیا میں حصول اقتدار قرار پایا اور یہی ساری دینی جدوجہد کا حاصل ٹھہرا اور اس کے لیے دن رات غور وفکر اور جدوجہد کرنا مقصد زندگی بنا تو آخرت کی ترجیح اور اس کے مقتضیات غیر نمایاں اور ثانوی حیثیت اختیار کر گئے۔ یہ سب کچھ مغربی فکر وتہذیب سے غیر شعوری تاثر اور رد عمل کا نتیجہ تھا۔
مغربی فکر وفلسفے کا خلاصہ اور منتہا یہ ہے کہ زندگی بس دنیا ہی کی یہ زندگی ہے۔ جو کچھ کرنا ہے، یہیں کے لیے کرنا ہے۔ گویا ’بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘۔ چنانچہ اہل مغرب نے دنیا کو سہولتوں اور آسائشوں کا گھر بنانے کے لیے دولت کی کثرت (نظام سرمایہ داری) مال ومتاع کی کثرت (ہر طرح کی صنعتیں اور ٹیکنالوجی) اور لذات کی کثرت (عورت ومرد کی بے لگام آزادی) کا اہتمام کیا۔ ا س فکر وفلسفے کے ساتھ مغرب چونکہ اپنے سیاسی، دفاعی اور مالی استحکام کی وجہ سے غالب وبرتر تھا، لہٰذا اس کے مقابلے میں مسلمانوں کو ابھارنے اور انھیں دنیا میں غلبے کی راہ دکھانے کے لیے ہمارے ان علما ومفکرین نے یہ کہنا شروع کیا کہ ہمارا دین بھی ایک مکمل نظام زندگی ہے، یہ بھی ایک تحریک ہے، یہ بھی دنیا میں غلبے کی راہ دکھاتا ہے اور چونکہ مسلمان حکمران مغربی فکر ونظر سے مرعوب اور اعلیٰ اخلاق وکردار کے حامل نہ تھے، لہٰذا ان دینی زعما نے یہ موقف اختیار کیا کہ صرف ہم ہی یہ کام کر سکتے ہیں کہ اسلامی نظام زندگی غالب کر دکھائیں، لہٰذا اقتدار ہمیں اور ہماری جماعت کو ملنا چاہیے۔ پھر چونکہ یہ علما تھے، لہٰذا انھوں نے اپنے اس نقطہ نظر کے حق میں دین وشریعت سے دلائل تلاش کر لیے اور یوں دین کی ایک نئی تشریح، ایک نئی تعبیر اور ایک نیا نصب العین ہمارے سامنے آیا اور آخرت کو ترجیح اول بنانے والا، سیاست کو دین کے بے شمار اہم کاموں میں سے محض ایک کام سمجھنے والا اور اللہ کی ہمہ جہت بندگی کے لیے نفوس کی تعلیم وتزکیے کو اہمیت دینے والا، روایتی اور صحیح نقطہ نظر دبتا اور پسپا ہوتا چلا گیا۔ پھر جتنی جماعتیں اور جتنے لیڈر تھے، انھوں نے اس کام کے لیے جو لائحہ عمل بنایا، اسے کتاب وسنت سے دلائل فراہم کیے۔ یوں ہر جماعت کا تصور دین ایک منفرد دینی تعبیر بنتا گیا اور ہر فریق صرف اپنی دینی تعبیر ہی کو صحیح سمجھنے لگ گیا۔ 
میں نے یہ تفصیلی تجزیہ اس لیے کیا ہے کہ اس تجزیے سے آپ حضرات اپنے کام کی نوعیت اور حقیقت کو بھی سمجھ لیں اور آپ پر یہ بھی واضح ہو جائے کہ احیائی تحریکوں میں اتحاد کیوں نہیں ہو سکتا؟ اس لیے نہیں ہو سکتا کہ ان میں سے ہر تحریک یہ سمجھتی ہے کہ اس کی تعبیر دین ہی دین کی واحد صحیح تعبیر ہے۔ اس کا مطلب خود بخود یہ ہے (گو ان میں سے بعض مصلحتاً اس کا اعلان نہ کریں) کہ ان سے ہٹ کر سوچنے والے کافر، فاسق اور منافق یا کم از کم گمراہ اور غلط سوچ کے حامل اور غلط راہ پر چلنے والے ہیں۔ ان حالات میں ان میں اتحاد کیسے ہو سکتا ہے؟
ہماری طالب علمانہ رائے میں ان کے اتحاد کی فکری بنیاد صرف یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی دینی رائے کو دین کی واحد صحیح تعبیر سمجھنا چھوڑ دیں، بلکہ اسے دین کے بے شمار کاموں میں سے ایک کام اور محض سیاسی نظام کی اصلاح کا کام سمجھیں۔ اس سے ان کے دل میں دوسروں کے لیے وسعت اور گنجایش پیدا ہوگی اور وہ اسے ایک پراجیکٹ سمجھتے ہوئے مل جل کر کامیاب کرانے کا سوچ سکیں گے۔ جب وہ اس کام کو سیاسی کام سمجھنے لگیں گے تو پھر ان کو یہ سمجھنے میں بھی مشکل پیش نہیں آئے گی کہ سیاسی کامیابی کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایک مشترکہ سیاسی حکمت عملی اختیار کی جائے۔ نیز یہ کہ اس کے لیے دینی تصورات میں مکمل اتفاق کی ضرورت نہیں۔ دیکھیے مسلم لیگ نے ایک سیاسی تحریک چلائی اور پاکستان بنانے میں کامیاب ہو گئی، کیونکہ اس میں دیوبندی بھی تھے، بریلوی بھی، اہل حدیث بھی تھے، اہل قرآن بھی، اہل سنت بھی تھے، اہل تشیع بھی (بلکہ اس میں قادیانی بھی تھے اور کمیونسٹ بھی) نتیجتاً ایک سیاسی ہدف پر سارے مسلمان مجتمع ہو گئے، لیکن اگر ایک سیاسی جماعت فرض کیجیے کہ دیوبندیوں پر مشتمل ہو اور وہ چاہے کہ وہ سارے ملک سے نشستیں جیت کر حکمران بن جائے تو یہ ممکن نہیں، کیونکہ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے پاکستان کے سارے مسلمان دیوبندی ہو جائیں جو عقلاً محال ہے۔ لہٰذا جو لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کر کے قیام خلافت یا نفاذ اسلام کے ہیرو بننا چاہتے ہیں، ان کا تدبر مشکوک ہے اور بعض لوگوں کے نزدیک اخلاص بھی۔ (بلکہ ہمارے ایک رفیق کار تو طنزاً کہا کرتے ہیں کہ ان کی عقل یا تو ٹخنوں میں ہے یا پیٹ میں)۔
جہاں تک ان اہل دین کے مشترکہ سیاسی ایجنڈے کا تعلق ہے تو ہماری طالب علمانہ رائے میں اس میں کوئی بڑی رکاوٹ حائل نہیں اور ان کے درمیان اتفاقی نکات ومفاہیم اتنے زیادہ ہیں کہ ان پر جمع ہونا ان کے لیے بہت آسان ہے، جبکہ ڈاکٹر سید عبد اللہ مرحوم (حامئ اردو واستاذ جامعہ پنجاب) کہا کرتے تھے کہ اگر میرا کسی کے ساتھ ایک فیصد اتفاق اور ۹۹ فیصد اختلاف ہو تو میں اس ایک فیصد میں اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہوں، لیکن اکثر دینی لوگوں کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ باہم مل کر کام کرنے کے لیے گویا سو فیصد اتفاق ضروری ہے۔ تو ہم یہ عرض کر رہے تھے کہ مختلف دینی جماعتیں بڑی آسانی سے ایک مشترکہ سیاسی ایجنڈے پر مل کر کام کر سکتی ہیں، جس کے اہم نکات بطور مثال مندرجہ ذیل ہو سکتے ہیں:
سیاست: اللہ کی حاکمیت، نفاذ شریعت، پاکستان کا استحکام، شورائیت۔
قانون: قرآن وسنت ماخذ قانون ہیں، عدالتی نظام سادہ، تیز رفتار اور مبنی بر اسلامی قانون ہونا چاہیے۔
معیشت: مہنگائی کا خاتمہ، سادگی، جاگیرداری وسرمایہ داری کا خاتمہ۔
معاشرت: امن وامان کا قیام، بے حیائی اور عریانی کے کلچر کا خاتمہ۔
تعلیم: ہر طرح کی دینی ودنیاوی تعلیم دینا، فرقہ واریت اور مغرب پرستی کا خاتمہ۔
خارجہ امور: مسلم ممالک سے قریبی تعلقات، امن عالم کا قیام، دشمنوں سے حذر، اتحاد امت وغیرہ۔
غرض زندگی کے جتنے بھی اہم شعبے ہیں اور ان میں جو امہات مسائل ہیں، ان کے حل پر ساری دینی جماعتوں کا اتفاق ہے اور اگر یہ ساری دینی جماعتیں اس طرح کے ایک سیاسی ایجنڈے پر متحد ہو جائیں تو وہ یقیناًکامیاب ہو کر برسر اقتدار آ سکتی ہیں اور معاشرے میں دین نافذ کر سکتی ہیں، لیکن اس کے لیے جو اخلاص اور فراست درکار ہے، وہ بازار سے خریدی نہیں جا سکتی بلکہ دینی قیادت کو خود اپنے اندر پیدا کرنی ہوگی۔
اس وقت تک جو ہمارا مشاہدہ ہے، وہ یہ کہ ایک تو یہ اہل دین داخلی لحاظ سے مذکورہ بالا عوامل کی بنا پر متحد نہیں۔ دوسرے خارجی لحاظ سے مغربی طاقتیں ، ان کے ایجنٹ مقامی حکمران اور ان کی قائم کردہ خفیہ ایجنسیاں انھیں متحد نہیں ہونے دیتیں۔ وہ انھیں آپس میں لڑاتی رہتی ہیں تاکہ یہ سرمایہ دار، جاگیردار، فوجی اور سول افسران، جو ان عالمی طاقتوں کے گماشتے ہیں، آرام سے حکومت کرتے رہیں اور مولانا صاحبان یا تو مدرسے چلاتے رہیں یا ان میں سے ہر ایک اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد (الگ دینی سیاسی جماعت) بنا کر اپنی لیڈری کا سکہ جماتا رہے اور اسلامی خلافت اور اسلامی انقلاب کے خواب (اگر مخلص وسادہ لوح ہے) تو دیکھتا اور دکھاتا رہے اور (اگر ہشیار وعیار ہے تو) بیچتا رہے (کہ یہ ایک عمدہ کاروبار ہے جس میں جاہ ومنصب بھی ہے، عزت ووقار بھی ہے اور دولت کی ریل پیل بھی ہے) فاعتبروا یا اولی الابصار۔
دینی حوالے سے سیاسی کام کرنے والوں کو ایک اور نقطہ پر بھی غور کرنا چاہیے اور یہ وہی بات ہے جس کی طرف ہم نے پہلے اشارہ کیا ہے کہ امت پچھلے ساڑھے ۱۳ سو سال سے اس کی عادی نہیں رہی کہ اہل دین، اہل سیاست کے حریف بن کر ان کے مد مقابل آ جائیں اور عوام کی طاقت سے فتح یاب ہونا چاہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اہل دین کا احترام تو کرتی ہے لیکن انھیں ووٹ نہیں دیتی، ان کی سیاسی حمایت نہیں کرتی۔ اس کا ایک عارضی حل یہ ہو سکتا ہے کہ پہلے مرحلے میں اہل دین خود براہ راست انتخاب میں حصہ نہ لیں، بلکہ ایک مضبوط پریشر گروپ بنا کر کسی ہم خیال سیاسی جماعت کی حمایت کریں اور اسے کامیاب کرا کر جہاں تک ہو سکے، زیادہ سے زیادہ دینی مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ جہاں تک ان احیائی تحریکوں کا بزور قوت حکومت پر قبضے کا تعلق ہے تو ہمارے زمانے میں ریاست کو فوج، پولیس اور جدید ترین اسلحے کی وجہ سے جو قوت قاہرہ حاصل ہے اور مسلم حکمرانوں کو دینی تحریکوں کے مقابلے کے لیے مغرب کی جو سرپرستی حاصل ہے، اس کے پیش نظر ان دینی قوتوں کے بزور قوت غلبے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس لیے جمے ہوئے سیاسی نظام کو بزور بازو اکھاڑنے کی غیر موثر کوششوں سے جان ومال کی خواہ مخواہ کی قربانی اور سیاسی عدم استحکام کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکتا، لہٰذا جمہور امت کی رائے اور مستحکم مسلم روایت پر ہی عمل کرنا چاہیے اور سیاسی تبدیلی کے لیے تشدد سے باز رہنا چاہیے۔ یہ کام آج اگر ہو سکتا ہے تو عوام کی قوت وطاقت ہی سے ہو سکتا ہے۔ مسلمان عوام کی حمایت اگر میسر آ جائے تو ضروری نہیں کہ اس کے لیے الیکشن ہی کا طریقہ اختیار کیا جائے، بلکہ دوسرے طریقوں پر بھی غور اور عمل کیا جا سکتا ہے۔
حاضرین گرامی قدر! آپ نے جو موضوع تجویز کیا تھا، اس کا تجزیہ وتحلیل اور آپ کے ممکنہ اتحاد کے اصول اور لائحہ عمل کے بارے میں اپنی گزارشات میں نے پیش کر دی ہیں اور آپ سے توقع ہے کہ آپ ان پر ہمدردانہ غور فرمائیں گے۔ تاہم گفتگو کو سمیٹنے سے پہلے ایک ضروری بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ اگر آپ اس بات کے قائل ہو جائیں کہ انقلاب امامت اور قیام خلافت کا کام کل دین نہیں بلکہ بے شمار دینی کاموں میں سے ایک کام یا محض سیاسی کام ہے (اگرچہ یہ ایک اہم کام ہے اور ضرور کیا جانا چاہیے) اور اس کے باہر بھی دین کے بڑے بڑے کام پڑ ے ہیں جو کیے جانے کے مستحق ہیں، تو ہم یہ گزارش کرنا چاہیں گے کہ ہمارے نزدیک دیگر دینی کاموں میں سے پہلی ترجیح مسلمان عوام کی تعلیم وتزکیے کے کام کو حاصل ہے۔ یہ وہ کام ہے جس سے شخصیت بنتی ہے، یہ تطہیر فکر اور تعمیر سیرت کا کام ہے، یہ انسان سازی کا کام ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے موجودہ ناقص تعلیمی منہاج کو بدلیں۔ میری طالب علمانہ رائے میں ہمارا دینی نظام تعلیم بھی ایک بڑے اصلاحی پیکج کا متقاضی ہے اور دنیوی نظام تعلیم بھی، بلکہ ان دونوں نظاموں کا الگ الگ ہونا خود ایک بنیادی مرض اور مصیبت ہے جس کا فوری خاتمہ ضروری ہے۔ 
ان دونوں نظام ہائے تعلیم میں کن اصلاحات کی ضرورت ہے؟ یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے جس پر اس محدود وقت میں تفصیلی گفتگو ممکن نہیں، تاہم میں اس بات کی طرف اشارہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ’تعلیم وتزکیے‘ کے قرآنی حکم کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ ہمارا نظام تعلیم صرف علم اور معلومات کی منتقلی کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اسے اقدار کی منتقلی کا ذریعہ بھی بننا چاہیے، یعنی صرف تطہیر فکر نہیں، بلکہ تعمیر سیرت وکردار کو بھی تعلیم کا جزو لاینفک ہونا چاہیے تاکہ ایک ایسی شخصیت وجود میں آ سکے جو اللہ تعالیٰ کی مکمل بندگی پر راغب وقادر ہو۔ لہٰذا ہمارے تعلیم وتزکیے کے منہاج کی اصلاح انتہائی ضروری ہے۔ یہی ایسے افراد تیار کر سکتی ہے جو باصلاحیت، باکردار اور دین دار ہوں۔ ایسے افراد تیار ہوں گے تو صحیح مسلم معاشرہ وجود میں آئے گا۔ دنیا میں بھی عزت ووقار اور کامیابی ہمارا مقدر ٹھہرے گی (ان شاء اللہ) اور آخرت میں بھی، اور اصل کامیابی تو آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ ہمارا دینی طبقہ صحیح تعلیم وتزکیے کا یہ کام اگر مستقل مزاجی، دل جمعی اور پوری قوت ولگن سے کرتا رہے تو اس کے مثبت وخوش گوار اثرات لازماً دینی سیاسی جدوجہد پر بھی پڑیں گے اور اسے کام یاب کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ ہمارے نظام تعلیم وتربیت کے منہاج میں مذکورہ تبدیلی لانے کا کام پرائیویٹ سیکٹر میں خوش اسلوبی سے انجام دیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے اگر حکومت تیار نہ ہو یا ساتھ نہ دے تو بھی اس ملک میں ہزاروں دینی مدارس، لاکھوں اسکول اور بیسیوں کالج اور یونیورسٹیاں پرائیویٹ سیکٹر میں کام کر رہی ہیں جو یہ تبدیلی لا سکتی ہیں، بشرطیکہ اہل دین اس کام کی اہمیت وضرورت کو سمجھیں اور اس پر اپنی توانائیاں، وقت اور صلاحیتیں صرف کرنے کو تیار ہوں۔
آخر میں ایک بار پھر آپ حضرات سے معذرت کہ آپ کو اپنی روٹین، مزاج اور مانوس نظریات سے ہٹ کر یہ باتیں سننا پڑیں، لیکن توقع ہے کہ آپ ان گزارشات پر کھلے اور ٹھنڈے دماغ سے غور کریں گے اور ممکن ہے یہ باتیں جو آج آپ کو اجنبی اور نامانوس لگ رہی ہیں، کل کو معقول اور مانوس لگنے لگیں۔ اس سلسلے میں اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال یا استفسار ہو تو مجھے اس کا جواب دے کر خوشی ہوگی۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

عوامی مفاد کے لیے قبرستان اور مسجد کی جگہ کا استعمال

قاضی محمد رویس خان ایوبی

میر پور میں بطور ضلع مفتی فرائض کی انجام دہی کے چودہ سالہ عرصہ میں بہت سے مسائل سامنے آئے جن پر راقم نے وقتاً فوقتاً شریعت مطہرہ کی روشنی میں جوابات دے کر اور شرعی فتاویٰ جاری کر کے فقہاء اسلام کا نقطہ نظر پیش کیا۔ ان مسائل میں ٹیلی فون پر نکاح وطلاق کی شرعی حیثیت، سرکاری زمینوں پر بغیر اجازت مسجد کی تعمیر، کفار کی عدالتوں کے فیصلہ ہائے تنسیخ نکاح کی شرعی حیثیت، مقدمات زنا میں شرعی ثبوت دست یاب نہ ہونے پر ملزمان کے خلاف کارروائی، حدود آرڈیننس کی خامیاں اور خوبیاں اور دیگر بے شمار انفرادی واجتماعی مسائل زیر بحث آئے۔ ان سطور میں جس موضوع پر ہم گفتگو کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ کیا قبرستان یا مسجد کو عوامی مفاد کی خاطر کسی مصرف میں لایا جا سکتا ہے یا نہیں؟
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ انسانوں اور شہروں کے احوال مختلف اوقات اور ادوار میں بدلتے رہتے ہیں۔ کہیں آبادی بڑھتی ہے اور کہیں جزیروں کے جزیرے آفات سماویہ اور جنگوں سے برباد ہو جاتے ہیں۔ سابقہ ادوار اور آج کے حالات میں جو فرق ہے، اس کے مختلف مظاہر میں کثرت آبادی، جدید ضروریات، شہروں کی تعمیر وتزئین، سڑکوں کی تعمیر، تجارتی مراکز، ہوائے اڈے اور ریلوے اسٹیشن وغیرہ شامل ہیں۔ ماضی میں لوگوں کی مالی حالت نہایت کمزور تھی۔ زمینداری پر گزارا کرنے والے لوگ، محنت کش لوہار، مستری، ترکھان اور حجام چند روپے کماتے اور اپنے ضروری اخراجات پورے کرتے تھے۔ دیہات میں لوگوں کی اپنی زمینیں ہوتی تھیں۔ اگر کوئی شخص فوت ہو جاتا تو اسے اسی کی موروثی زمین میں قبر کھود کر دفن کر دیا جاتا۔ چند سال پیشتر بلکہ اب بھی بہت سے ایسے دیہات اور قصبے موجود ہیں جہاں لوگ اپنے گھروں کے قریب اپنی زمینوں میں قبریں بنایا کرتے تھے۔ ایک ایک گاؤں میں مختلف برادریوں کے مختلف قبرستان بنتے چلے گئے۔ شہروں کی وسعت پذیری، نئی کالونیوں، چھاؤنیوں، ایئر پورٹس اور خشک گودیوں کی تعمیر کے منصوبوں کی وجہ سے بہت سے قبرستان بھی ان نقشوں کی زد میں آ گئے جہاں درج بالا تعمیرات کی جانی تھیں۔ 
اسی طرح ہر گاؤں میں اپنی اپنی مسجد تعمیر کر لی جاتی تھی۔ چھوٹے سے گاؤں میں ہر برادری کا اپنا اپنا قبرستان ہوتا تھا اور اپنی اپنی مسجد۔ جوں جوں آبادی بڑھتی گئی اور سڑکیں تعمیر ہوتی گئیں، قبرستان بغیر کسی فاصلے کے عین محلے کے درمیان میں آ گئے۔ کئی گاؤں اجڑ گئے تو مسجدیں ویران ہو گئیں۔ لوگوں کی نقل مکانی کی وجہ سے اب ان میں نماز پڑھنے والا کوئی نہ رہا۔ پاکستان سے لوگوں نے مشرق وسطیٰ اور یورپ منتقل ہونا شروع کیا تو بہتر حالات کار اور اچھی آمدنی کی وجہ سے شہری سہولیات، مین سیوریج، ریلوے لائن، ہوائی اڈوں اور نئے شہروں کی تعمیرات نے زمانے کو انقلاب سے روشناس کرا دیا۔
آج نئے نئے شہر آباد ہو رہے ہیں۔ ان شہروں میں ہوائی اڈے، سڑکیں، شاپنگ سنٹرز، سکولز، کالجز، یونیورسٹیاں اور دانش گاہیں بن رہی ہیں۔ ان تیز رفتار ترقیاتی پروگراموں کی تکمیل کے لیے بعض اوقات مساجد اور قبرستان بھی زد میں آ جاتے ہیں۔ تو کیا ان ترقیاتی پروگراموں کو رو بہ عمل لانے کے لیے اشد ضرورت کے تحت جہاں کوئی متبادل حل ممکن نہ ہو، مساجد کو شہید کیا جا سکتا ہے؟ کیا قبرستان کو ہائی وے میں شامل کیا جا سکتا ہے؟ یہ سوال ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بھی مجھ سے بہت سے اجتماعات میں کیا گیا۔ اسی سوال کا جواب ہم زیر نظر سطور میں شریعت مطہرہ کی روشنی میں تلاش کریں گے۔
مسجدیں روئے زمین پر وہ مقدس مقامات ہیں جن کا احترام اور ادب کرنا ہر مسلمان کے لیے واجبات دینیہ میں سے ہے، کیونکہ یہ اللہ کے گھر ’کعبۃ اللہ‘ کی بیٹیاں ہیں۔ یہ وہ مقدس مقامات ہیں جہاں خالق کائنات کا نام بلند کیا جاتا ہے، جہاں سے وہ صدائے دل نواز گونجتی ہے جو خداوند عالم کی کبریائی اور عظمت کا گیت بن کر فضا میں وحدانیت کی مہک پھیلاتی ہے، جہاں پانچ وقت اللہ کے نیک بندے اپنی جبینوں سے رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر سجدے بجا لاتے ہیں۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ’’روئے زمین پر سب سے مقدس مقام مسجدیں ہیں اور بدترین مقامات بازار۔‘‘ لہٰذا مساجد کی حفاظت اور ان کا احترام وادب ہر حال میں واجب ہے، لیکن اگر شہروں کی جدید خطوط پر منصوبہ بندی کے نتیجے میں سڑکوں کی توسیع یا ایئر پورٹس کی تعمیر کے نقشوں میں تعمیر شدہ مسجد حائل ہو جائے اور کوئی متبادل راستہ نہ ہو تو ان حالات میں ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا پبلک مفاد کی خاطر مسجد کو منہدم کر کے دوسری جگہ متبادل مسجد بنائی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں ہمیں خیر القرون سے استفادہ کرنا ہوگا کہ وہی دور ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ چنانچہ تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے والے ہر ذی شعور اور صاحب بصیرت عالم دین کو معلوم ہے کہ مصالح عامہ کی خاطر یتیموں اور بیواؤں کی جائیداد اور اوقاف کی جائیدادوں کو پبلک کے مفاد میں معاوضہ طے کر کے اور اس کی ادائیگی کر کے انھیں یا تو منہدم کر دیا گیا یا اسی معاوضہ کے تحت کسی دوسری جگہ ان کی متبادل حکومت وقت نے تعمیر کرا دیں، کیونکہ بڑی مصلحت کے لیے چھوٹے اور محدود مفاد کو ترک کرنا یا تبدیل کرنا جائز ہے۔ اصل مقصد تو پبلک کو سہولت فراہم کرنا ہے، خواہ وہ مکان عبادت کے حوالے سے ہو یا دیگر تعمیرات کے حوالے سے۔ کیونکہ مساجد اور مقابر بھی پبلک کے عمومی مفاد کے لیے ہیں اور سڑکوں کی تعمیر بھی مفاد عامہ کے لیے ہے۔ خلفائے راشدین کے دور کا، جو ہمارے لیے احکام شرعیہ کا مثالی دور ہے، جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان ہدایت کے ستاروں نے مفاد عامہ کے لیے جو فیصلے کیے، وہ دور حاضر کے مسائل کے لیے مشعل راہ ہیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص نے امیر المومنین عمر بن خطاب کو خط لکھا کہ کوفہ میں سرکاری خزانے میں چوروں نے نقب زنی کر کے بھاری رقم چرا لی ہے اور سرکاری خزانہ بازار میں واقع ہے جہاں ہمیشہ چوری کا خطرہ رہتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد کو حکم دیا کہ بازار کا کچھ حصہ گرا کر وہاں مسجد تعمیر کر دی جائے اور جہاں اس وقت مسجد قائم ہے، اس کو گرا کر سرکاری خزانہ کے لیے عمارت تعمیر کر دی جائے۔ (طبری) اس طرح مفاد سرکار کے لیے مسجد کو شہید کر کے وہاں خزانہ قائم کر دیا گیا اور بازار کا کچھ حصہ گرا کر وہاں مسجد تعمیر کر دی گئی۔ اس دور میں بے شمار صحابہ کرام موجود تھے، مگر کسی نے حضرت عمر کے اس اقدام کی مخالفت نہیں کی۔ 
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے مسائل ماردینیہ میں فرمایا ہے کہ حضرت عمر نے کوفہ کی قدیم مسجد کو بازار میں تبدیل کر دیا اور بازار کی جگہ نئی اور بڑی مسجد تعمیر فرما دی، لہٰذا اگر مفاد عامہ کا تقاضا ہو کہ سڑکیں کشادہ کی جائیں، نئے دار الحکومت تعمیر کیے جائیں اور قدیم مسجدیں گرا کر ان کی جگہ متبادل نئی مسجدیں جدید نقشوں کے مطابق بنائی جائیں تو ایسا کرنا نہ صرف درست ہے، بلکہ مقاصد شریعت کی منشا کے مطابق ہے۔ امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
ان ابدال المسجد لمصلحۃ راجحۃ مثل ان یبدل بخیر منہ او یبنی بدلہ مسجد آخر اصلح منہ لاہل البلد (فتاویٰ ابن تیمیہ)
عوامی مفاد کی خاطر مسجد کو گرا کر اس کے بدلے میں دوسری جگہ پہلی مسجد سے زیادہ وسیع اور گھروں کے قریب تر مسجد بنانا، جہاں عوام کو زیادہ فائدہ ہو، جائز ہے۔ 
اسلام آباد کی تعمیر کے وقت جی ٹی روڈ کی توسیع کے دوران میں گوجر خان کی ایک بڑی جامع مسجد سڑک میں آ گئی جسے شہید کر دیا گیا اور اس کی جگہ حکومت نے معاوضہ دے کر نئی جگہ مسجد تعمیر کرا دی۔ سعودی عرب کے دار الحکومت ریاض کی تعمیر کے وقت بھی بہت سی مساجد سڑکوں کی زد میں آ گئیں۔ حکومت سعودیہ نے پرانی مسجدوں کی جگہ جدید ڈیزائن کے مطابق لاکھوں ریال صرف کر کے نئی مسجدیں تعمیر کروائیں۔ مسجد نبوی کی توسیع میں کئی مساجد زد میں آئیں اور انھیں شہید کر کے مسجد نبوی میں توسیع کر کے وضو خانے اور وسیع وعریض فرش بچھائے گئے تاکہ زائرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو جگہ کی قلت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسی طرح بحرین، قطر، منامہ، کویت، ڈھاکہ اور دیگر کئی اسلامی ملکوں میں کیا گیا، مگر کسی جید عالم دین نے اس عمل کو خلاف شریعت نہیں کہا۔ راول پنڈی میں نئی جیل تعمیر کی گئی۔ راقم الحروف خود پرانی جیل میں قیدی رہا ہے۔ وہاں بھی جیل کے اندر ایک خوب صورت مسجد تھی۔ اب نہ وہ جیل ہے اور نہ مسجد، کیونکہ جیل اڈیالہ منتقل ہو گئی ہے اور پرانی جیل کو دیگر اغراض کے لیے مختص کر کے اسے مسمار کیا جا رہا ہے۔ منگلا ڈیم، تربیلا ڈیم، راول ڈیم اور وارسک ڈیم کی تعمیر کے وقت سیکڑوں مسجدیں ڈیم کے نقشے میں آئیں۔ تعمیر مکمل ہونے پر جب پانی ذخیرہ کیا جانے لگا تو تمام مساجد اور قبرستان پانی میں آ گئے اور اب ان کا نشان تک باقی نہیں، اس لیے کہ ذخیرہ آب بڑی قومی ضرورت تھی۔ جو لوگ ان ڈیموں کی وجہ سے بے گھر ہوئے، انھیں جہاں آباد کیا گیا، وہاں گورنمنٹ نے سرکاری خرچ پر مسجدیں تعمیر کر کے دیں اور قبرستان کے لیے مفت زمین الاٹ کی گئی۔ اگر کالا باغ ڈیم تعمیر کیا گیا تو سینکڑوں مساجد اور مقابر اس کی زد میں آئیں گی، لیکن چونکہ پانی کی ضرورت پاکستان کے اجتماعی مفاد سے وابستہ ہے لہٰذا نسبتاً چھوٹے مفادات کو اس عظیم مفاد کی خاطر قربان کرنا عین تقاضائے شریعت ہے۔
اب دوسرے نکتے کی طرف آئیے کہ کیا قبرستان بھی مصلحت عامہ کے تحت مسمار کر کے سڑکوں یا دیگر پبلک مفاد کی تعمیرات کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں یا نہیں؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ سے ہمیں اس موضوع پر کیا راہنمائی ملتی ہے۔ نبی کریم نے جب مکہ سے مدینہ شریف کی طرف ہجرت فرمائی تو مدینہ منورہ میں ایک مقام پر پہنچ کر آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی۔ حضور ﷺ نے فرمایا، اس جگہ کو اللہ تعالیٰ نے مسجد کے لیے منتخب فرما لیا ہے۔ یہ جگہ سہل اور سہیل نامی دو بچوں کی ملکیت تھی اور یہاں مشرکین کی کچھ قبریں اور کچھ کھجوروں کے درخت تھے۔ حضور ﷺ نے سہل اور سہیل کو معاوضے کی پیش کش کی جس کے جواب میں انھوں نے یہ ارادہ کیا کہ کوئی معاوضہ لیے بغیر یہ جگہ مسجد کے لیے ہبہ کر دیں، لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس کا معاوضہ ادا کر کے یہ جگہ ان سے خرید لی۔ حضور ﷺ نے درخت کٹوا دیے، قبریں مسمار کروا دیں اور یہاں مسجد تعمیر کرائی جسے اب مسجد نبوی کہا جاتا ہے۔ 
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قبرستان کو مسمار کیے بغیر مسجد کی تعمیر ممکن نہ ہو یا مسجد کو وسعت نہ دی جا سکتی ہو تو قبرستان کو مسمار کیا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ چونکہ یہ مشرکین کی قبریں تھیں، اس لیے مسمار کی گئیں، تو میرے خیال میں یہ بات درست نہیں اس لیے کہ اگر مشرکین کی قبریں ان کے شرک کی وجہ سے مسمار کی گئیں تو مکہ میں مقبرۃ المعلی میں ہزاروں مشرکین دفن تھے، حضور ﷺ فتح مکہ کے بعد اس قبرستان کو بھی مسمار فرما دیتے۔ بلا ضرورت عامہ غیر مسلموں کے قبرستانوں، عبادت خانوں کو اسلام نے منہدم کرنے کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی کفار کی قبروں کو تباہ کرنا ثواب کا کام ہے۔ البتہ مصلحت عامہ کے تحت نہ صرف غیر مسلموں بلکہ مسلمانوں کے قبرستان کو بھی مفاد عامہ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اہل مدینہ کی آبی ضروریات کے لیے ایک حوض بنایا گیا۔ اس جگہ شہدائے احد دفن تھے، مگر جب حوض کا منصوبہ بنایا گیا تو شہدا کی قبروں سے لاشیں نکال کر دوسری جگہ دفن کی گئیں۔ امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں کہ شہدا کے جسموں سے تازہ خون ٹپک رہا تھا۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ پبلک مفاد کے منصوبے کی خاطر قبرستان کو استعمال کرنا جائز ہے۔ اہل سنت کے ائمہ اربعہ اس امر پر متفق ہیں کہ اگر میت کا کفن درست کرنا مقصود ہو یا قبر میں پانی داخل ہو رہا ہو یا کسی جگہ سے دیوار سرک گئی ہو اور مردہ نظر آ رہا ہو یا کسی اور بہتر مقام پر تدفین مقصود ہو تو ان حالات میں ضرورت کے تحت قبر سے لاش کو نکالنا اور اس گڑھے کو پر کر کے اس پر تعمیرات کرنا جائز ہے، چاہے وہ سڑک کی صورت میں ہو یا مسجد یا رفاہ عامہ کی کوئی اور تعمیر۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد شہداء احد میں پہلے شہید ہیں، انھیں شہادت کے بعد ایک اور شخص کے ساتھ ایک ہی قبر میں دفن کر دیا گیا تھا۔ بعد ازں میں نے اپنے والد کو وہاں سے نکال کر علیحدہ قبر میں دفن کیا۔ میں نے چھ ماہ کے بعد اپنے والد کی لاش قبر سے نکالی۔ وہ بالکل تر وتازہ تھے، صرف ان کا کان علیحدہ ہو گیا تھا۔ اس واقعہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت کے تحت لاش کو دوسری جگہ منتقل کرنا جائز ہے۔ تاہم اس طرح کے واقعات قبر سے لاش نکال کر دوسری جگہ دفن کرنے سے متعلق ہیں، لیکن اگر کہیں کسی قومی منصوبے کے تحت ایسا قبرستان زد میں آ جائے جس کوقائم ہوئے اتنی مدت گزر چکی ہو کہ ہڈیاں مٹی میں مل کر مٹی ہو گئی ہوں، تو ایسے قبرستان کو دوبارہ انسانی آبادی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور وہاں مکانات، دوکانیں، سکول، کالج اور مساجد بنائی جا سکتی ہیں۔ اس طرح کے قبرستان کے لیے مدت قدامت تقریباً سو سال مقرر کی گئی ہے، لیکن یہ حد بھی کوئی حتمی اور یقینی نہیں کیونکہ ہر علاقے میں ہڈیوں کے بوسیدہ ہونے اور گلنے سڑنے کا عمل وہاں کے موسمی حالات پر منحصر ہے۔ یورپ، امریکہ کی بعض ریاستوں، کشمیر، روس اور وسطی ایشیا کی ریاستوں میں شدید سردی پڑتی ہے اور برفانی موسم کی وجہ سے کئی کئی سال تک لاشیں موجود اور محفوظ رہتی ہیں، جبکہ مشرق وسطیٰ، امریکہ کی بعض ریاستوں، پاکستان میں پنجاب اور بلوچستان میں سبی، تھرپارکر کا علاقہ شدید ترین گرم علاقہ ہے۔ اسی طرح افریقہ میں بعض علاقے شدید گرم ہیں جہاں گلنے سڑنے کا عمل تیزی سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔
اسلام نے دوبارہ آبادی کے نقطہ نظر سے ہی قبروں کو پختہ کرنے اور ان پر عمارت تعمیر کرنے سے منع کیا ہے، لہٰذا اصل میں یہ دیکھا جائے گا کہ جس منصوبے کی تکمیل کی خاطر قبرستان کو منہدم کیا جا رہا ہے، اس کی اہمیت اور ضرورت کس حد تک ہے اور وہ منصوبہ کہاں تک ملکی اور قومی مفاد میں ہے۔ یہاں ایک شبہہ پیدا ہوتا ہے کہ قبرستان تو وقف ہے اور میت سے اجازت لینا ناممکن ہے اور بلا اجازت اس زمین میں تصرف کس طرح جائز ہوگا؟ اس شبہہ کا جواب یہ ہے کہ ریاست کی انتظامیہ شرعاً ہر اس کام کا اختیار رکھتی ہے جو عوامی مفاد میں ہو اور ہر اس شخص کے مال میں تصرف کا اختیار حکومت وقت کو حاصل ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو۔ اوقاف کا کنٹرول حکومت کا حق ہے۔ قبرستان بھی چونکہ اراضی موقوفہ پر بنائے جاتے ہیں، اس لیے اس امر پر بھی حکومت کو ہی تصرف کاحق حاصل ہے۔ جیسے انفرادی ملکیت کو بوقت ضرورت مفاد سرکار میں حکومت ، مالک کی رضامندی کے بغیر ادائیگی معاوضہ کے بعد حاصل کرنے کا اختیار رکھتی ہے، اسی طرح حکومت وقت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مفاد عامہ کی خاطر قبرستان کو سڑک کے منصوبے میں شامل کر دے یا ایئر پورٹ اور ریلوے اسٹیشن کے نقشے میں آنے والے قبرستان کو اس وقت مسمار کر دے جبکہ اس کا کوئی متبادل حل نہ ہو کیونکہ سڑکوں کی توسیع نہیں ہوگی تو ٹریفک میں خلل پڑے گا، حادثات کاخطرہ بڑھے گا جو کہ عوام کے لیے ضرر کا باعث ہوگا لہٰذا بڑے ضرر کو دور کرنے کے لیے چھوٹا نقصان جائز ہے۔
فقہا ے اسلام نے اس ضمن میں ایک نہایت اہم قانونی مسئلہ پر اظہار خیال فرمایا ہے جسے ’تترس بالمسلمین‘ کہا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کفار دوران جنگ میں مسلمان مردوں اور عورتوں کو ڈھال بنا کر مسلم افواج پر حملے کریں یا مسجدوں کو مورچے کے طور پر استعمال کریں تو ان حالات میں کیا مسلمان افواج ان مسلمان مردوں اور عورتوں کو جنھیں کفار نے ڈھال بنا رکھا ہے، بمباری، گولہ باری یا کسی اور ذریعے سے ہلاک کر سکتی ہے جس سے دشمن کی یہ دیوار گر جائے ور اس پر براہ راست حملہ کیا جا سکے؟ یا کیا ایسی مسجد، مندر، سینی گاگ یا چرچ کو منہدم کیا جا سکتا ہے جسے جنگی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہو؟ تمام فقہاے اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ حملہ کرنے سے پہلے ہر ممکن کوشش کی جائے گی کہ ان مظلوم مسلمانوں کو یا دیگر مذاہب کے عبادت گزاروں کو بغیر نقصان پہنچائے سامنے سے ہٹا دیا جائے یا عبادت خانے دشمن سے کسی طریقے سے خالی کروا لیے جائیں، لیکن اگر سوائے بمباری، فائرنگ، گولہ باری یا آگ لگانے کے اور کوئی چارہ کار باقی نہ رہ گیا ہو تو حالت اضطرار میں اس ڈھال کو ختم کرنے کے لیے کفار پر حملہ کی نیت سے بمباری کی جائے، یا فائرنگ اور آتش باری کی جائے اور اس طرح اگر اس دوران میں وہ مظلوم مسلمان مرد وزن مارے جائیں تو مسلمان افواج گناہ گار نہ ہوں گی اور نشانہ بننے والے مسلمان شہید ہوں گے، کیونکہ مصلحت عامہ اور ملک ووطن کو بچانے کی خاطر چند سو افراد کا شہید ہو جانا اس نقصان سے بہرحال کم ہے جو وطن پر قبضے اور اسلامی ریاست کی شکست کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ 
اسی قبیل سے یہ مسئلہ بھی متفق علیہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم دشمن ریاست کی جاسوسی کر رہا ہو اور اسے قتل کیے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو تو ایسے مسلمان کو موت کے گھاٹ اتارا جا سکتا ہے، تاہم جاسوسی کرنے والا شہید نہ ہوگا۔ ماضی قریب میںیکم محرم ۱۴۰۱ھ کو خانہ کعبہ پر جیہمانی گروپ کے قبضہ کے بعد علما نے ان کے قبضے سے حرم شریف کو واگزار کرانے کے لیے قابضین پر حملہ کرنے کی اجازت کا فتویٰ جاری کیا جس کے نتیجے میں حرم شریف کے میناروں پر گولہ باری کی گئی۔ حرم مکی کے تہہ خانے میں مسلسل ۱۶ دن تک باغیوں اور سعودی افواج کے درمیان گھمسان کا رن پڑا اور بالآخر ۱۶ دن کے بعد حرم شریف کو واگزار کرالیا گیا۔ اسی طرح سکھوں کے عظیم معبد گولڈن ٹمپل پر گولہ باری کی گئی کیونکہ حکومت ہند کے بقول سکھوں کے گولڈن ٹمپل کو ریاست کے خلاف جنگی مقاصدکا اڈہ بنا لیا گیا تھا۔
قومی مفاد میں قبرستان کو مسمار کرنے کی شرعی نوعیت واضح کرنے کے بعد اس ضمن میں بعض متعلقہ سوالات پر روشنی ڈالنا بھی یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے۔ 
اس ضمن میں پہلا سوال یہ ہے کہ مردوں کے اجسام کے متعلق کیا حکم ہے؟ کیا قبرستان کو بلڈوز کر کے میدان بنا دیا جائے یا ہڈیوں اور لاشوں کو دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے؟ شریعت اسلامیہ کا قاعدہ ہے کہ اہون البلیتین ، دو نقصانوں میں سے جو کم نقصان والا عمل ہو، اسے اختیار کیا جائے تاکہ بڑے نقصان سے بچا جا سکے۔ مثلاً حالت اضطرار میں اگر ایک طرف سور کا گوشت ہوا ور دوسری طرف بھیڑیے یا ریچھ کا گوشت ہو تو سور کو چھوڑ دیا جائے اور بھیڑیے کا گوشت استعمال کر لیا جائے۔ یہ بات ہر ذی شعور انسان کو معلوم ہے کہ قبروں سے مردوں کو نکالنا، ہڈیاں اکٹھی کرنا یا گلی سڑی لاشوں کو نکالنا فطرت سلیمہ اور نفیس الطبع افراد کے لیے کافی مشکل ہے، لیکن قبروں کو برابر کر دینا اور ان کی بالائی سطح کو کام میں لانا نہ صرف میت کی پردہ پوشی کا سبب ہے بلکہ اس کی حرمت اور توقیر کے منافی بھی نہیں اور نسبتاً محفوظ راستہ ہے۔ اس لیے اگر قبروں سے ہڈیاں ادھر ادھر منتقل کرنے کے بجائے انھیں ہموار کر دیا جائے اور پھر ان پر منصوبے کے مطابق روڈز یا ایئر پورٹس یا ریلوے لائن یا ڈیم تعمیر کر دیے جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ اس طرح قبروں کی بے حرمتی بھی نہیں ہوگی اور میت اور زندہ آبادی کے مقاصد بھی پورے ہو جائیں گے۔ البتہ قبروں کی موجودگی میں ان پر بیٹھنا، تکیہ لگانا اور ان پر چلنا منع ہے۔ اس طرح قبور کی توہین ہوتی ہے اور اس سے حضور ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ لیکن جب قبریں مٹ جائیں یا مفاد عامہ کے کسی منصوبے میں آ جائیں تو ان پر کی جانے والی تعمیرات توہین کے زمرے میں نہیں آتیں کیونکہ نشانات مٹ جانے سے احکام بدل جاتے ہیں، جیسے قرآن کریم کے اوراق دریا میں یا سمندر میں بہا دیے جائیں، تو اوراق کے گل جانے کے بعد ان کا وہ تقدس باقی نہیں رہتا اور کبھی کسی شخص نے یہ فتویٰ نہیں دیا کہ جلے ہوئے یا گلے ہوئے اوراق کو بلا وضو چھونا جائز نہیں، اس لیے کہ اب حروف کی شکل باقی نہیں رہی۔ اسی طرح آڈیو ٹیپ کو جس میں قرآن کریم کی تلاوت ریکارڈ کی گئی ہو، بغیر وضو کے ہاتھ لگانا جائز ہے، حائضہ عورت بھی ان کیسٹوں کو اٹھا سکتی ہے کیونکہ نہ ٹیپ ریکارڈر کے بغیر آڈیو کیسٹ سے آواز سنی جا سکتی ہے اور نہ ہی وی سی آر کے حروف نظر آتے ہیں۔ اسی طرح قبروں کے مٹ جانے کے بعد ان کے احکام بھی بدل جاتے ہیں۔ قبر کا نشان تو صرف زندوں کے لیے ایک نفسیاتی تسلی کی علامت ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ قبروں کو مٹانے سے مردوں پر بعد الموت جو احوال وارد ہوتے ہیں، ان میں تو کوئی خلل واقع نہیں ہوتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک عالم برزخ میں پیش آنے والے احوال کا تعلق ہے تو ان کا ا س جہان سے کوئی واسطہ نہیں۔ اگر انسانی حیات بعد الموت بھی دنیوی حیات ہوتی تو بند قبر میں آکسیجن، مردے کا اٹھ کر بیٹھنا، سوال وجواب، کھانا پینا اور دیگر ضروریات زندگی کیسے اور کہاں سے پوری ہوتیں؟ معلوم ہوا کہ حیات برزخیہ کا وجود تو ہے مگر ہماری سمجھ سے بالاتر ہے اور یہ حیات کافر ومسلم سب کو حاصل ہے کیونکہ اگر کافر کے لیے اس حیات کا انکار کر دیا جائے تو پھر عذاب کفار کا بھی انکار کرنا پڑے گا۔ فراعنہ مصر کی لاشیں مصر کے عجائب گھر میں پڑی ہیں اور سیاح ان کی تصویریں لیتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ میوزیم میں رکھنے سے فرعون عذاب سے بچ گئے۔ عذاب ہو رہا ہے، لیکن کیسے ہو رہا ہے، یہ کیفیت صرف اللہ کے علم میں ہے یا بطور معجزہ انبیاء علیہم السلام یا بطور کرامت اولیاء اللہ پر منکشف ہوتی ہے۔ جیسے حضور ﷺ دو قبروں کے قریب سے گزرے تو چیخ پکار کی آواز سنی۔ آپ کا خچر بدک گیا تو آپ نے سواری سے اتر کر دو تر وتازہ ٹہنیاں قبروں پر گاڑ دیں اور فرمایا کہ ان دونوں مردوں کو عذاب ہو رہا ہے۔ ایک چغل خور تھا اور دوسرا پیشاب کے قطرات سے نہیں بچتا تھا۔ اس طرح کے دیگر واقعات بے شمار اولیاء اللہ سے منقول ہیں۔ اس موضوع پر امام جلال الدین سیوطی کی کتاب نور الصدور اور مولانا سرفراز خان صفدر کی کتاب تسکین الصدور میں متعدد واقعات درج ہیں۔ اگرچہ بعض واقعات سنداً نہایت ضعیف ہیں، لیکن اس سے نفس موضوع یعنی عذاب وثواب قبر کے عقیدے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ 
بے شمار لوگ جنگوں میں ہلاک ہوتے ہیں، زلزلوں میں مارے جاتے ہیں، سب کی راکھ، خون اور ہڈیاں مکس ہو جاتی ہیں، مگر قانون الٰہی کے مطابق ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق جزا وسزا اور سوال وجواب کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ عذاب وثواب کا تعلق عالم برزخ سے ہے جس کی ہمیں کوئی خبر نہیں کہ کس کو کتنا عذاب ہو رہا ہے یا کون جنت الفردوس کے مزے لوٹ رہا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ومن وراء ہم برزخ الی یوم یبعثون۔ روز قیامت تک، مرنے والوں اور زندوں کے درمیان عالم برزخ ہے۔ قبر کا وہ گڑھا جو ہمیں نظر آتا ہے، اگر یہی گڑھا عذاب وثواب کا مرکز ہو تو پھر ذرا غور کیجیے کہ جن لوگوں کو درندے کھا جاتے ہیں، جو بحری جہازوں میں غرق ہو کر مچھلیوں کی خوراک بن جاتے ہیں یا ہوائی حادثوں میں جہازوں میں آگ لگ جانے سے راکھ کے ڈھیر میں بدل جاتے ہیں، ان کو عذاب قبر کیسے ہوگا یا سوال وجواب کی صورت کیا ہوگی اور نم کنومۃ العروس کب، کیسے اور کہاں کہا جائے گا؟ لہٰذا میرا قطعی اور یقینی دلائل کی بنا پر یہ عقیدہ ہے کہ عذاب قبر حق ہے لیکن قبر سے کیا مراد ہے؟ یہ امر تفصیل طلب ہے۔ میرے علم ویقین کی حد تک قبر ہر وہ جگہ ہے جہاں مرنے والے کے ذرات موجود ہیں، خواہ وہ مچھلیوں کے پیٹ میں ہیں یا جنگلی درندوں کے پیٹ میں یا بکھر کر فضاؤں میں تیر رہے ہیں۔ لہٰذا جو لوگ دفن ہیں، ان کے عذاب وثواب کا تعلق بھی برزخ سے ہے او رجو درندوں کے پیٹ میں ہیں، ان کا تعلق بھی برزخ سے ہے۔ سوال وجواب، منکر نکیر کی آمد، عذاب وثواب برحق ہیں مگر ایسے عالم میں ہیں جن کا ہمارے اس عالم دنیوی سے اسباب ظاہری کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ اس کی کیفیات ہماری سمجھ میں آ سکتی ہیں۔ یہ خالصتاً یومنون بالغیب سے متعلق ہے جس پر ہمارا ایمان ہے۔ کیفیات پر ہم اس حد تک گفتگو کر سکتے ہیں جس حد تک احادیث صحیحہ میں ہمیں بتایا گیا ہے۔ اس سے زیادہ اپنی عقل وخرد کو لڑانے والے راہ راست سے بھٹک سکتے ہیں، اس لیے ہر صحیح العقیدہ مسلمان کا فرض ہے کہ وہ عالم برزخ کو ایک حقیقت سمجھ کر اس کی تفصیلات میں جائے بغیر ایمان لائے اور جوکچھ رسالت مآب ﷺ سے بسند صحیح منقول ہے، اسے اپنے ایمان کا جزو بنائے۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
مکرمی مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج ڈاک سے غیر متوقع طو رپر کئی برسوں کے بعد اچانک ماہنامہ ’الشریعہ‘ کا جون کا شمارہ ملا۔ مسرت اور تعجب کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اس کی ورق گردانی کی۔ مسرت آپ کی عنایت اور مجلے کے نئے ’’رنگ‘‘ پر اور تعجب اس پر کہ اچانک اس خاکسار کی یا د کس طرح تازہ ہو گئی اور آپ کو میرا نیا پتہ کس طرح معلوم ہو گیا۔ ۹، ۱۰ سال قبل آپ کا مجلہ میرے پاس آتا تھا اور یہ عام دینی مدارس کے مجلات کی طرح تھا، لیکن اس شمارے سے معلوم ہوا کہ آپ نے نیا فکری منہج اختیار کیا ہے۔ مجلہ کے مضامین اور خاص طور پر ’’طلاق ثلاثہ کا مسئلہ‘‘ اور لوئی ایم صافی کے انگریزی مضمون کا ترجمہ: ’’تغیر پذیر ثقافتوں میں خواتین کے سماجی مقام کا مسئلہ‘‘ اس کے گواہ ہیں۔ کاش کہ لفظ مسئلہ کی تکرار دونوں جگہ نہ ہوتی اور مترجم کا نام درج ہوتا۔ امریکہ میں مسلمان خواتین کے حوالے سے اسنا (ISNA) امریکہ کے اس نو مسلم بھائی کا تجزیہ بڑا حقیقت مندانہ اور درد مندانہ ہے اور اس میں اپنے وطن کے دینی مدارس کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ عاصمہ جہانگیر جیسی خواتین کے ظہور کا سبب خواتین کی مناسب دینی تعلیم وتربیت میں علما کی تقصیر ہے۔
طلاق ثلاثہ کے مسئلے میں اب غور وفکر کی دعوت سے کام نہیں چلے گا، بلکہ اس کو باطل قرار دے کر قرآنی اور مسنون طلاق پر عمل ضروری ہے اور ہمارے شریعت کورٹ کو اس بارے میں دو ٹوک فیصلہ کر دینا چاہیے۔ مولوی سلمان الحسینی صاحب اور مرحوم مولانا پیر کرم علی شاہ الازہری دونوں نے طلاق ثلاثہ بیک مجلس کے خلاف آواز اس لیے اٹھائی کہ ان دونوں صاحبان نے عرب ممالک میں پڑھا ہے۔ جس زمانے میں، میں جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ کے کلیۃ العلوم الاجتماعیۃ میں فل پروفیسر تھا، اس وقت (انیسویں صدی کے آٹھویں عشرے میں) سلمان صاحب جامعہ کے کلیۃ الدعوۃ میں ماجستیر (M.A) کے طالب علم تھے جہاں بیشتر مصری اساتذہ پڑھاتے تھے۔ اور مرحوم پیر کرم شاہ تو الازہر ہی کے فاضل تھے۔ بریلوی مکتب فکر کے ان مرحوم عالم کی (جن سے صرف ایک بار اسلام آباد میں ۱۹۸۸ میں میری ملاقات ہوئی تھی) طلاق ثلاثہ کے خلاف مدلل رائے پڑھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ اب تو عرب ممالک سے میرا رشتہ منقطع ہے، لیکن یاد پڑتا ہے کہ مصر وشام میں عرصہ ہوا کہ ایک مجلس میں طلاق ثلاثہ کو غیر نافذ قرار دیا جا چکا ہے۔ میرے اساتذہ بھی کلیۃ الشریعۃ، جامعہ دمشق میں شامی ومصری تھے تو یہی یاد پڑتا ہے کہ وہاں اب یہ مسئلہ باقی نہیں رہ گیا ہے۔
ہمارے یہاں کے علماء نے تو حالات سے آنکھیں بند کر لینے اور تحجر کی قسم کھا رکھی ہے۔ پیر کرم شاہ صاحب مرحوم نے طلاق ثلاثہ کے سبب قادیانی اور عیسائی بن جانے کے جن واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے، ان میں سب علماے دین کے لیے بڑا سامان عبرت ہے۔ یہ علما قرآن وحدیث کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، ان کی دہائی بھی دیتے ہیں، لیکن اس مسئلے میں وہ قرآن وحدیث کو بھول جاتے ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ حضرت عمرؓ نے طلاق ثلاثہ کو بطور تعزیر نافذ کر دیا تھا۔ اب کون سی چیز ہے جو ہم کو ’الطلاق مرتان‘ کے قرآنی حکم سے روک رہی ہے؟
جعلی قرآن ’’الفرقان الحق‘‘ پر بھی آپ کے مجلہ میں ناقدانہ مضمون بہت چشم کشا ہے۔ مضمون نگار صاحبان نے اچھا کیا کہ مختلف ویب سائٹس کے پتے دے دیے۔
کاش کہ آپ مولانا عتیق الرحمن صاحب سنبھلی کا مضمون علامہ اقبالؒ کے خلاف شایع نہ کرتے۔ مرحوم نے جو تنقید مولانا حسین مدنیؒ کی وطنی قومیت (کانگریس سے اتحاد) پر کی تھی، وہ اب پرانی بات ہو گئی۔ اس کو اچھالنے سے اب کیا فائدہ؟ ویسے میں عتیق الرحمن صاحب سنبھلی کو اس وقت سے جانتا ہوں جب یہ لکھنو میں صرف مولوی عتیق الرحمن کہلاتے تھے۔ آپ کی شاید ان سے ملاقات لندن میں ہوئی، جو موصوف کو اتنا پسند آیا کہ اسی کے ہو کر رہ گئے۔ اور علامہ اقبال کی زندگی پر انھوں نے وہ طنز کیے ہیں جو تکلیف دہ ہیں۔ کسی بھی برصغیر کے عالم نے انگریزی تہذیب پر وہ بھرپور اور گہری تنقید نہیں کی ہے جو علامہ مرحوم نے کی تھی۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر جاوید اقبال دوسری دنیا کے انسان ہیں۔ میرا ان کے ساتھ عمان ایک کانفرنس میں ایک ہفتہ کا ساتھ ۱۹۹۲ میں ہوا تھا۔ اس وقت اس کا صحیح اندازہ ہوا۔ انھوں نے تو اپنے والد مرحوم کی درویشانہ سادہ زندگی پر بھی بہت گھٹیا تنقید کی ہے۔ ویسے آپ کو بتاؤں کہ نصف صدی قبل استاذی ومربی مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے جو خود اہل اللہ میں سے تھے، ایک دوسرے اہل اللہ مولانا الیاس رحمہ اللہ کا قول اس نظم کے بارے میں مجھے سنایا تھا کہ اقبال کو یہ کہنے کا حق تھا۔
امید ہے کہ آیندہ آپ کا مجلہ آتا رہے گا۔
والسلام۔ خاکسار
(ڈاکٹر) رضوان علی ندوی
مکان نمبر ۵، پی اسٹریٹ، خیابان سحر
فیز VII، ڈی ایچ اے، کراچی
(۲)
محترم ومکرم جناب مدیر الشریعہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج گرامی بخیریت ہوں گے۔
بلاشک وشبہہ ’الشریعہ‘ ایک علمی، فکری اور ادبی رسالہ ہے جسے پڑھ کر بہت خوشی ہوتی ہے اور آپ کی وسعت ظرفی بھی یقیناًقابل آفریں ہے، لیکن شکوہ آپ سے یہ ہے کہ بعض دفعہ آپ اتنی وسعت ظرفی سے کام لیتے ہیں کہ آپ کے رسالے میں اغیار کے افکار ونظریات بلا کسی تردید وتنقید کے نظر آتے ہیں۔ اسی قبیل کا ایک مضمون جون ۲۰۰۵ کے شمارے میں طلاق ثلاثہ سے متعلق پروفیسر محمد اکرم ورک صاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔ اس میں موصوف نے بہت سی ایسی باتیں ذکر کی ہیں جن کے مطالعے سے یقیناًقارئین کے اذہان میں طلاق ثلاثہ کے متعلق تشکیک وخلجان پیدا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ترقی، مسلمات میں تشکیک پیدا کرنے سے نہیں ہوتی، بلکہ ترقی تو بالکل اس کے معکوس ہے۔ موصوف کی اس کاوش میں سوائے ایک دو باتوں کے، باقی سب توہمات اور مغالطات ہیں جن کو ذکر کر کے قارئین کے نظریات کو بری طرح جھنجھوڑا گیا ہے۔ اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں چند باتوں کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں۔
۱۔ پہلی عرض تو یہ ہے کہ موصوف نے طلاق ثلاثہ کے متعلق اہل سنت والجماعت کے مسلک کو بعض صحابہ کرامؓ کا مسلک بتایا جو کہ سراسر خیانت ہے، کیونکہ حضرت عمرؓ کے فیصلے کے بعد کسی صحابی نے بھی آپ کے فیصلے سے عدول نہیں کیا یا اس کے خلاف فتویٰ نہیں دیا۔ بقول موصوف اگر کسی صحابی کا اس فیصلے سے اختلاف تھا یا اس کے برعکس فتویٰ دیا تو ہاتوا برہانکم ان کنتم صادقین۔ اس کے برعکس امام المفسرین حضرت عبد اللہ ابن عباس (جو کہ فریق مخالف کی دلیل کے راوی بھی ہیں) کے فتاویٰ سنن ابی داؤد میں اپنی روایت کے خلاف موجود ہیں۔ معلوم ہوا، ان کا بھی مسلک اپنی روایت کے موافق نہیں، چہ جائیکہ ہم دیگر صحابہ کرامؓ سے یہ توقع رکھیں۔
۲۔ موصوف نے حضرت عمرؓ کے اس فیصلے کو خالصتاً اجتہادی اور سیاسی فیصلے پر محمول کیا جو کہ وقتی مصلحت کے پیش نظر کیا گیا تھا۔ گویا حضرت عمرؓ نے ایک منصوص حکم کو اپنی عقل سے وقتی مصلحت کے پیش نظر تبدیل کر دیا اور پھر صحابہ کرامؓ نے بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے خلاف حضرت عمرؓ کے سیاسی حکم پر عمل کیا۔ (العیاذ باللہ) اور پھر ائمہ اربعہ، تمام محدثین بشمول امام بخاریؒ اور تمام فقہاء کرام (سوائے علامہ ابن تیمیہؒ اور ان کے تلامذہ) نے بھی بارہ سو سال تک اس اصل حکم پرعمل نہیں کیا، بلکہ حضرت عمرؓ کے سیاسی فیصلے پر عمل کرتے اور کراتے رہے۔ گویا جو علت حضرت عمر کے دور میں تھی، وہ بارہ سو سال تک رہی۔ پھر مسلمانوں میں اہل حدیث کے نام سے ایک فرقے نے جنم لیا اور انھوں نے اس مسئلے کو سمجھا جس کو جملہ محدثین وفقہاء کرام نہ سمجھ سکے۔ فیا للعجب! جب یہ بات نہیں تو تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ فیصلہ محض معاشرتی وسیاسی نہیں تھا، بلکہ اصل حکم ہی یہ تھا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہوں۔ باقی قرن اول کو خصوصیت صحابہ کرامؓ پر محمول کریں گے اور وہ اس لائق بھی تھے۔
۳۔ موصوف نے زیر بحث مسئلے کو ہر دور میں مختلف فیہ مسئلہ قرار دیا جو کہ تسلیم نہیں، کیونکہ علامہ ابن تیمیہؒ کا تفرد اس مسئلے کی اجماعیت کے لیے مضر یا مانع نہیں اور میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ائمہ اربعہ کا اس مسئلے میں اتفاق ہے اور آج تک پوری دنیا میں مسلمانوں کے یہی چار فقہی مسلک ہیں۔ تو گویا ائمہ اربعہ سے لے کر آج تک اس مسئلے میں اجماع ہی نقل ہوتا چلا آ رہا ہے۔ باقی رہا اہل حدیث حضرات کا اختلاف تو ان کی تو اپنی عمر ڈیڑھ پونے دو سو سال سے زیادہ نہیں۔ ان کے اختلاف کو ہر دور کا اختلاف کیسے تسلیم کر لیا جائے؟
۴۔ موصوف نے تقلید جامد اور فقہی مسلکوں کے خول میں بند رہنے کے بجائے وسعت نظر سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔ مشورے کا شکریہ تو مخاطب پر لازم ہے۔ میں تو صرف مخاطب کی تعیین کا فیصلہ موصوف سے کرانا چاہتا ہوں۔ جناب عالی! آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ ایک شخص جملہ صحابہ کرام وجملہ محدثین وجملہ فقہاء کرام کے مسلک کو اپناتا ہے اور دوسرا پوری امت کو خیر باد کہہ کر علامہ ابن تیمیہؒ کی عملی تقلید کرتا ہے تو مقلد جامد کون ہوا؟
۵۔ موصوف نے اس مسئلے پر ازسرنو غور کرنے کی بھی دعوت دی ہے۔ موصوف کی اس سے کیا مراد ہے؟ اگر تو مراد یہ ہے کہ فقہاء کرام مصالح امت کو نظر انداز کر کے محض تقلید جامد کی بنا پر اس مسئلے پر مصر رہے تو اس کا بطلان واضح ہے۔ اور اگر موصوف کی مراد یہ ہے کہ ان تمام اکابر کے مسلک کوسیاست پر محمول کر کے اپنے اجتہاد سے یہ رائے قائم کی جائے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار ہوں گی، چاہے طلاق دینے والا اس بات پر مصر بھی ہو کہ میں نے تین کی نیت کی تھی (کیونکہ اس امر کی ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں)، گویا مدعی سست گواہ چست کا عملی نمونہ پیش کر کے اسے اقرب الی الحق گردانیں اور امت مسلمہ کے لیے مفید تر سمجھیں تو شاید ہی کسی مسلم کا ضمیر اس کی اجازت دے۔
ہمیں تو ڈر ہے کہ موصوف کے اس مشورے پرعمل کرنے سے اصلاح امت کے بجائے عدم اعتماد علی السلف کی وجہ سے کہیں مزید فساد نہ پیدا ہو جائے اور پھر مجتہد مطلق نہ پیدا ہونے شروع ہو جائیں اور پھر ہم پر شاعر کا یہ شعر نہ صادق آئے ؂
تزئین کائنات کا تو ہی نقیب تھا
تو نے ہی اپنے ہاتھ سے گلشن جلا دیے
والسلام
محمد یوسف بھکروی
متخصص جامعہ مدنیہ، کریم پارک۔ لاہور
(۳)
۲۰ جون ۲۰۰۵
محترم ومکرم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب زید مجدہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ مزاج بخیر ہوں گے اور دعوتی، تعلیمی اور دینی سرگرمیوں میں کوشاں ہوں گے۔ 
ماہنامہ ’الشریعہ‘ باقاعدگی سے فکر ونظر کی تازگی کے لیے موصول ہو رہا ہے۔ بظاہر مجلہ پچاس کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل ہوتا ہے، لیکن ان صفحات میں جو مواد ہوتا ہے، وہ نہایت قیمتی اور فکر انگیز ہوتا ہے۔ مجلہ کو جب تک اول تا آخر پڑھ نہ لیا جائے، چین نہیں آتا۔
ماہ جون ۲۰۰۵ کے شمارے میں ’الفرقان الحق‘ (The True Furqan) پر تحقیقی مضمون بلاشبہ امت مسلمہ کے لیے چشم کشا مضمون ہے۔ فاضل مقالہ نگاروں کی قابل قدر کاوش ہے۔ مضمون کے مندرجات سے احساس ہوتا ہے کہ نام نہاد استعمار عسکری میدان کے بعد مسلمانوں کی متاع عزیز قرآن حکیم کو بھی مشق ستم بنائے ہوئے ہے۔ قرآن حکیم کی اس انداز میں بے حرمتی کے بعد مسلمانوں کے لیے کوئی چارہ نہیں کہ وہ اس پر کھلے عام احتجاج نہ کریں ، بالخصوص ہمارے اہل قلم اس طرف توجہ نہ دیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ امت مسلمہ کی قیادت کب بیدار ہوگی اور اہل قلم کب اس طرف توجہ دیں گے؟
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے اپنے مضمون ’’سر اقبال بنام حسین احمد‘‘ میں نہایت نازک مگر اہم مسئلہ پر قلم اٹھایا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ علامہ اقبال نے مولانا حسین احمد مدنی کے بار ے میں اپنے کلام میں جو کچھ کہہ دیا، وہ ہم نے من وعن قبول کر لیا اور اس نقطہ نظر سے ہٹ کر ہم سوچنے کے لیے سرے سے تیار ہی نہیں۔ مولانا سنبھلی نے اس دور کا پس منظر دکھا کر جو نقطہ نظر پیش کیا ہے، اس پر بھی غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اور سوال یہ ہے کہ علامہ اقبال نے اپنے موقف سے جو رجوع کیا تھا، اس کو قبول عام کیوں حاصل نہ ہوا؟
محترم لوئ ایم صافی نے مغرب کی تغیر پذیر ثقافتوں میں خواتین کے سماجی مقام پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ مضمون پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مغربی تہذیب میں مسلمان کن مسائل سے دوچار ہیں اور ان کے حل کے لیے مسلمانوں کے پاس کوئی متفقہ لائحہ عمل بھی ہے یا نہیں۔ امت مسلمہ کو بحیثیت مجموعی اہل مغرب مسلمانوں کے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پروفیسر محمد اکرم ورک نے بھی علما وفقہا کی توجہ ایک ابھرتے ہوئے مسئلہ ’طلاق ثلاثہ‘ کی طرف دلائی ہے۔ ان کے مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض علما کو اس بار ے میں تشویش ہے۔ اس بارے میں بھی کوئی متفقہ لائحہ عمل طے ہو جائے تو پاکستانی سوسائٹی خاندانی انتشار سے بچ سکتی ہے۔
الغرض ’الشریعہ‘ کے تمام سلسلے اور تمام قلم کار خوب ہیں۔ ایسے مضامین کے بہترین انتخاب پر آپ کو اور آپ کی ٹیم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی علمی وفکری جدوجہد کو قبول فرمائے۔
برادرم محمد عمار خان ناصر اور دیگر احباب کو سلام۔
والسلام۔ نیا زمند
ڈاکٹر محمد عبد اللہ
شعبہ علوم اسلامیہ۔ پنجاب یونیورسٹی۔ لاہور
(۴)
گرامی قدر جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج عالی بخیریت ہوں گے۔
آپ کا رسالہ ماشاء اللہ دیگر مذہبی رسائل کے مقابلے میں بالکل جدا اسلوب کا حامل اور دل چسپ موضوعات پر مشتمل ہوتا ہے۔ مختصر ہونے کے باوجود بعض اہم معلومات فراہم کرتا ہے۔ 
جون کے شمارے میں امریکی قرآن ’’الفرقان الحق‘‘ پر بہت عمدہ مضمون شائع ہوا ہے۔ میں اسے اپنے رسالے میں آپ کے رسالے کے حوالے سے اگست ۲۰۰۵ کے شمارے میں شائع کر رہا ہوں۔ لوئ ایم صافی کا مضمون فکری انتشار اور گنجلک خیالات پر مشتمل ہے۔ ایسے مضامین نہ عوام کے لیے مفید ہیں، نہ اہل علم کے لیے۔ ص ۴۴ کا بے ہودہ سوال اگر شائع کرنا تھا تو جوا ب دینے کا بھی اہتمام کیا جاتا۔
(ڈاکٹر) صلاح الدین ثانی
162 سیکٹر 8/L اورنگی ٹاؤن کراچی
۰۵؍۰۶؍۱۱
(۵)
باسمہ تعالیٰ
مکرمی ومحترمی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
الشریعہ (جون ۲۰۰۵) میں ’الفرقان الحق .....‘ نظر سے گزرا۔ عمدہ گرفت ہے۔ مصنف کے عربی کے معیار کا تو اندازہ مضمون سے ہو گیا، مگر قرآن نے انسانی زندگی کے مسائل کے حل کے لیے جو پائیدار اصول دیے ہیں، جو حقیقتاً قرآن کا چیلنج ہے، ’الفرقان الحق‘ اس حوالے سے کیسے پایا گیا؟ اس پہلو کی تشنگی محسوس ہوئی۔ اگر یہ پہلو بھی سامنے آ جائے تو بہت اچھا ہو۔ 
شکریہ! والسلام
امجد عباسی
عباسی منزل، نور پارک
حیدر روڈ، اسلام پورہ، لاہور
۵۰/۷۰/۲۰
(۶)
محترم ومکرم جناب علامہ زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گزشتہ کچھ عرصہ سے ماہنامہ ’الشریعہ‘ پڑھنے کا شرف حاصل کر رہا ہوں۔ الحمد للہ کافی معلوماتی مواد پڑھنے کو مل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سلسلے کو مزید مستحکم فرمائے۔ 
جولائی ۲۰۰۵ کے شمارے میں حافظ عبد الرشید صاحب نے شیعہ حضرات کی مستند کتب سے ان کے مخالف اسلام عقائد نقل کر کے ان کے دعواے ایمان کی حقیقت کو واضح کیا ہے۔ میں اس مکتوب کے ذریعے سے دور حاضر میں شیعہ کے امام اور ایرانی انقلاب کے بانی جناب خمینی کی چند مزید عبارتیں قارئین کے سامنے لانا چاہتا ہوں تاکہ شیعہ حضرات کے عقائد وخیالات کی حقیقت اور نکھر کر سامنے آ جائے۔
جون ۲۰۰۵ میں جناب خمینی کی برسی کے موقع پر پاکستان کے اکثر اخبارات میں ایسے مضامین شائع ہوئے جن میں خمینی صاحب کو اسلام کا ہیرو، اسلامی انقلاب کا علم بردار اور بہت سے ایسے القابات سے نوازا گیا جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ خمینی صاحب کی کتابوں کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص اس بات سے آگاہ ہے کہ انھوں نے خلفاے راشدین پر کفر کے فتوے لگائے ہیں اور اسلامی بنیادوں پر کلہاڑا چلا کر انھیں منہدم کرنے کی کوشش کی ہے۔خمینی صاحب کی اہم ترین کتاب ’الحکومۃ الاسلامیۃ‘ہے جو ایرانی انقلاب کی فکری بنیاد کی وضاحت کرتی ہے۔ اس کے صفحہ ۴۹ پر خمینی صاحب رقم طراز ہیں: ’’جب کوئی عالم وعادل فقیہ حکومت کی تشکیل کے لیے اٹھ کھڑا ہو تو وہ معاشرے اور اجتماعی معاملات میں ان تمام امور واختیارات کا مالک ہوگا جو نبی کے زیر اختیارات تھے اور تمام لوگوں پر اس کی سمع وطاعت واجب ہوگی اور یہ صاحب اقتدار فقیہ نظام حکومت، سماجی مسائل اور امت کی سیاست کے جملہ معاملات کا اسی طرح مالک ومختار ہوگا جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) اور امیر المومنین حضرت علیؓ مالک ومختار تھے۔ ‘‘
یہ ’ولایت فقیہ‘ کا نظریہ ہے جس میں خمینی صاحب نے حاکم کے اختیارات کو نبی کے اختیارات سے ملا دیا ہے ۔ اس نظریے کے ڈانڈے اہل تشیع کے عقیدۂ امامت سے جا ملتے ہیں جس کی رو سے اماموں کا رتبہ انبیا سے بھی برتر ہے۔ اسی کتاب کے صفحہ ۵۲ پر خمینی صاحب لکھتے ہیں: ’’امام کو وہ اعلیٰ مقام، بلند درجہ اور تکوینی حکومت حاصل ہوتی ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ ان کے حکم واقتدار کے سامنے سرنگوں ہوتا ہے اور ہمارے مذہب کے ضروری اور بنیادی عقائد میں یہ عقیدہ بھی ہے کہ ہمارے امام ، مقام ومرتبہ کی جس بلندی پر فائز ہیں، وہاں تک کوئی مقرب فرشتہ اور نبی مرسل بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘
خمینی صاحب کے انقلاب کو اسلامی انقلاب قرار دینے والے دانش وروں سے میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ اسلامی عقائد ہیں؟ کیا اسلام میں حاکم کی اطاعت اسی طرح واجب ہوتی ہے جیسے نبی کی؟ اور کیا ائمہ واقعی مقام ومرتبہ میں انبیا سے بھی بڑھے ہوئے ہیں؟ کیا یہ ختم نبوت کا انکار نہیں ہے؟ کیا ختم نبوت کا منکر مسلمان ہو سکتا ہے؟ اگر نہیں اور یقیناًنہیں تو پھر خمینی صاحب کے انقلاب کو کس بنیاد پر اسلامی انقلاب شمار کیا جا رہا ہے؟
اب خمینی صاحب کی ایک اور کتاب ’کشف الاسرار‘ کے چند اقتباس ملاحظہ فرمائیے جن سے اندازہ ہوگا کہ خمینی صاحب نے کس طرح خلفاء راشدین کے ایمان وکردار پر حملہ کیا ہے۔ اس کتاب کے صفحہ ۱۱۹ پر حدیث قرطاس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت عمرؓ کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ ’’یہ بے ہودہ کلام کفر وزندقہ کی بنا پر ظاہر ہوا ہے۔‘‘ مزید لکھا ہے، ’’کتب تاریخ وحدیث کی طر ف مراجعت کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کفر آمیز گفتگو کرنے والا عمر تھا۔‘‘ (نعوذ باللہ)
اسی طرح حضرت عثمانؓ اور حضرت معاویہؓ پر کیچڑ اچھالتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ہم ایسے خدا کو جانتے اور اس کی پرستش کرتے ہیں جس کے سارے کام عقل کی بنیاد پر قائم ہیں اور عقل کے خلاف وہ کوئی کام نہیں کرتا ہے، نہ کہ ایسے خدا کی جو خدا پرستی، عدالت اور دین داری کی بلند عمارت تیار کر کے خود اس کی ویرانی کے درپے ہو جائے اور یزید، معاویہ اور عثمان جیسے بدقماشوں کو امارت وحکومت سپرد کر دے۔‘‘ (صفحہ ۱۰۷)
خمینی صاحب کے ان نظریات سے ہر ذی شعور شخص پریہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ خمینی ازم اور اسلام دو علیحدہ علیحدہ نظریے ہیں۔ ان کی حقیقتیں اور بنیادیں جدا جدا ہیں۔ لہٰذا ہم جدید دور کے دانش وروں سے دست بستہ عرض کریں گے کہ خدارا اس انقلاب کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور مصلحت کے بت کو پاش پاش کر کے حقیقت حال کا واشگاف اظہار فرمائیں۔
والسلام
حافظ محمد عثمان
متعلم مدرسہ اشرف العلوم۔ گوجرانوالہ

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’شرح اسلامی قانون شفعہ‘‘

برطانوی دور حکومت میں ۱۹۱۳ء میں پنجاب میں قانون شفعہ نافذ کیا گیا جس نے ۱۹۸۶ء اور ۱۹۹۱ء میں ہونے والی بعض ترامیم کے ساتھ موجودہ قانون شفعہ کی شکل اختیار کی ہے۔ زیر نظر کتاب میں معروف قانون دان سلیم محمود چاہل صاحب نے اس قانون کی شق وار شرح کی ہے اور اس ضمن میں بعض دفعات اور عدالتی فیصلوں کو قرآن وسنت کے منافی قرار دیتے ہوئے ان پر تنقید کی ہے۔ 
مصنف کی تنقید کے بعض نکات قابل غور ہیں، چنانچہ لینڈ ریفارمز ریگولیشن ۱۹۷۲ میں مزارع کو شفعہ کا اولین حق دار قرار دیے جانے پر تنقید کرتے ہوئے مصنف نے بجا طور پر بتایا ہے کہ یہ نہ صرف فقہی مسلمات کے منافی ہے، بلکہ خود قرآن مجید نے حسن سلوک کے حوالے سے والدین، قریبی اعزہ، قرابت دار پڑوسی اور غیر قرابت دار پڑوسی کے مابین جو ترتیب قائم کی ہے، اس کی روح کے بھی خلاف ہے۔ اسی طرح طلب مواثبت اور طلب اشہاد کی فقہی تفصیلات پر، جو کہ سراسر استنباطی ہیں، اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے کیا جانے والا اصرار فی الواقع قابل نظر ثانی ہے۔ طلب مواثبت کے شرط ہونے کے حق میں قاضی شریح کے ایک اثر (انما الشفعۃ لمن واثبہا) سے استدلال کیا جاتا ہے جسے سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں میں حدیث کے طور پردرج کر دیا گیا۔ ان پہلووں پر مصنف کی تنقید واقعتا قابل توجہ ہے۔ تاہم مصنف کا اصل زور بیان قانون کی متنازعہ جزئیات کی علمی غلطی واضح کرنے کے بجائے تیز وتند عمومی تنقیدوں میں صرف ہوا ہے۔ کتب احادیث اور فقہا و اہل علم کی آرا پر تبصرے کا انداز حدیث وفقہ کے ذخیروں کو’’عجمی سازش‘‘ قرار دینے والے ایک مخصوص مکتب فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔ علاوہ ازیں کتاب کا اسلوب بیان آسانی سے گرفت میں آنے والا نہیں۔ علامہ اقبال کی نظمیں، قانون شفعہ کی شقوں پر فنی ونیم فنی تبصرے، غیر متعلقہ قرآنی آیات، فوجی وسیاسی حکمرانوں پر تنقید اور لاطائل بحثیں، یہ سب عناصر کسی مناسبت یا ربط کے بغیر کتاب کے صفحات پر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کتاب کا آخری تہائی حصہ ہی ایسا ہے جس میں کسی بڑے انحراف کے بغیر قانون کی تشریح وتعبیر پر توجہ مرکوز رکھی جا سکی ہے۔ فقہی اصطلاحات سے براہ راست واقفیت نہ ہونے کے باعث جگہ جگہ ’’شفیع‘‘ ( حق شفعہ رکھنے والے) کو ’’شافعی‘‘ لکھا گیا ہے۔ پروف خوانی کی زحمت غالباً گوارا نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں قرآنی آیات کا متن بھی بعض جگہ ناقص اور محرف ہو گیا ہے۔ 
۲۴۰ صفحات کی یہ کتاب ’’سلیم محمود چاہل، میاں ضیاء الحق روڈ، سول لائن گوجرانوالہ‘‘ سے طلب کی جا سکتی ہے۔ کتاب پر قیمت درج نہیں۔ (عمار ناصر)

ستمبر ۲۰۰۵ء

دینی مدارس کی اسناد اور رجسٹریشن کا مسئلہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
ہم جنس پرستی کا سیلاب اور ہماری ذمہ داریاںمولانا محمد یوسف 
تاریخی افسانے اور ان کی حقیقتیوسف خان جذاب 
انسان کا حیاتیاتی ارتقا اور قرآنڈاکٹر محمد آصف اعوان 
غیر مادی کلچر میں عورت کے سماجی مقام کی تلاشپروفیسر میاں انعام الرحمن 
مکاتیبادارہ 
’’پوشیدہ تری خاک میں۔۔۔‘‘ : ایک مطالعہحافظ صفوان محمد چوہان 
تعارف و تبصرہادارہ 

دینی مدارس کی اسناد اور رجسٹریشن کا مسئلہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دینی مدارس کی اسناد کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اور رجسٹریشن کے حوالے سے صدارتی آرڈیننس بیک وقت سامنے آئے ہیں اور دین کی تعلیم دینے والی درس گاہیں ایک بار پھر ملک بھر میں گفتگو اور تبصروں کا موضوع بن گئی ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس سے قبل عبوری فیصلے میں دینی مدارس کی اسناد رکھنے والوں کو بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے دی تھی مگر الیکشن کے پہلے مرحلے سے صرف دو روز قبل حتمی فیصلہ صادر کر کے یہ قرار دے دیا کہ دینی مدارس کے وفاقوں سے شہادۃ ثانیہ رکھنے والے افراد نے چونکہ مطالعہ پاکستان، انگلش اور اردو کے لازمی مضامین کا میٹرک کے درجے میں امتحان نہیں دیا، اس لیے اس سند کو میٹرک کے مساوی تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور اس سند کے حاملین بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہیں۔ اگرچہ اس فیصلے کا فوری اطلاق ان حضرات پر ہوا ہے جو اس رٹ میں فریق تھے، لیکن اٹارنی جنرل کا یہ کہنا اہمیت رکھتا ہے کہ جن لوگوں نے دینی مدارس کی اسناد کی بنیاد پر بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیا ہے، وہ کامیاب ہونے کے باوجود اس فیصلے کی رو سے نااہل ہو جائیں گے، بلکہ یہ فیصلہ سینٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ان ارکان پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے جنھوں نے دینی مدارس کی اسناد کی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لیا ہے اور منتخب ہوئے ہیں۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے کم وبیش دو سو ارکان اس فیصلے کی زد میں آ سکتے ہیں، چنانچہ ایک معروف قانون دان جناب محمد اسلم خاکی صاحب نے اپنی ایک سابقہ رٹ کو جلد از جلد زیر بحث لانے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دے دی ہے۔ ان کی رٹ میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ دینی مدارس کی اسناد کو یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے چونکہ صرف تعلیمی مقاصد کے لیے ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی کے برابر تسلیم کیا ہے، اس لیے تعلیمی مقاصد کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے ان اسناد کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور چیف الیکشن کمشنر نے گزشتہ انتخابات میں شہادۃ العالمیۃ کی سند کو ایم اے کے برابر تسلیم کرتے ہوئے اس کے حاملین کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصہ لینے کی جو اجازت دی تھی، وہ درست نہیں تھی اس لیے عدالت عظمیٰ اس اجازت نامے کو منسوخ کرتے ہوئے دینی اسناد پر منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی کو نااہل قرار دے۔ یہ رٹ ابھی موجود ہے اور اس پر فیصلہ ہونا باقی ہے، اسی لیے رٹ کے محرک نے دوبارہ درخواست دائر کر دی ہے کہ اس رٹ کو جلد زیر بحث لایا جائے اور اس پر فیصلہ صادر کیا جائے۔
دوسری طرف بعض سیاسی حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ دینی مدارس کی اسناد کے بارے میں گومگو اور تذبذب کی فضا قائم رکھنا موجودہ حکومت کی طے شدہ پالیسی کا حصہ ہے تاکہ متحدہ مجلس عمل کو دباؤ میں رکھا جائے اور اسے حکومت کے خلاف کسی عملی تحریک کا حصہ بننے سے روکا جائے۔ ان سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ چونکہ متحدہ مجلس عمل نے اے آر ڈی کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس قائم کرنے اور احتجاجی تحریک منظم کرنے کا حال ہی میں فیصلہ کر لیا ہے، اس لیے دینی مدارس کی اسناد کی قانونی حیثیت کا مسئلہ دوبارہ سامنے آ گیا ہے تاکہ متحدہ مجلس عمل حکومت کے خلاف کسی عملی تحریک کا حصہ نہ بنے اور اگر وہ حکومت کے خلاف تحریک کے فیصلے میں سنجیدہ ہے تو اسمبلیوں میں اپنے کم وبیش دو سو ارکان کو نااہل قرار دیے جانے کے فیصلے کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے۔ اس طرح دینی مدارس کی اسناد کا مسئلہ فنی اور تعلیمی دائرے سے نکل کر سیاسی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے جو بہرحال ایک توجہ طلب بات ہے اور اس پر دینی مدارس کے وفاقوں کی اعلیٰ قیادت اور اس کے ساتھ ہی متحدہ مجلس عمل کی ہائی کمان کو بھی سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
جہاں تک فنی مسئلے کی بات ہے، ہمارے خیال میں جب دینی مدارس کے وفاقوں نے میٹرک کی سطح پر مطالعہ پاکستان، اردو اور انگلش کے مضامین کو اپنے نصاب میں شامل کر کے اس پر عمل درآمد شروع کر رکھا ہے تو اس تبدیلی کو سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں بالکل نظر انداز کیے جانے کی بات سمجھ میں نہیں آ رہی۔ ہمارے خیال میں یہ بات سپریم کورٹ کے علم میں سرے سے لائی ہی نہیں گئی اور دینی مدارس کی اسناد کا دفاع کرنے والے وکلا اس سلسلے میں پورے حقائق عدالت عظمیٰ کے سامنے نہیں رکھ سکے، ورنہ شاید فیصلے کی حتمی صورت یہ نہ ہوتی۔ اب بھی وفاقوں کی قیادت سے ہماری گزارش یہ ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ میں اس کیس کی خود پیروی کریں اور مذکورہ فیصلے پرنظر ثانی کی اپیل کے لیے ملک کے نامور وکلا سے صلاح مشورہ کر کے دینی مدارس کی اسناد کے دفاع کے لیے پیش رفت کریں۔ 
جہاں تک رجسٹریشن کا تعلق ہے، ہمارے خیال میں یہ بات اطمینان بخش ہے کہ دینی مدارس کی رجسٹریشن سابقہ سوسائٹی ایکٹ کے تحت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو خود دینی مدارس کا مطالبہ تھا اور وہ اس ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کے لیے نہ صرف تیار تھے بلکہ ہزاروں مدارس نے اس سے قبل سوسائٹی ایکٹ کے تحت اپنی رجسٹریشن کرا رکھی ہے، البتہ اس سلسلے میں ۱۸۶۰ کے سوسائٹی ایکٹ میں ایک نئی شق کا اضافہ قابل غور ہے جس کے تحت دینی مدارس کے لیے رجسٹریشن کو لازمی قرار دے دیا گیا ہے اور سالانہ کارکردگی اور آڈٹ شدہ حسابات کی رپورٹ کی کاپی رجسٹریشن آفس میں جمع کرانے کا انھیں پابند کیا گیا ہے۔ ہمارے خیال میں ان تینوں امور میں بظاہر کوئی حرج کی بات نہیں ہے اور یہ باتیں نتائج کے حوالے سے دینی مدارس کے لیے فائدہ کا باعث ہی ہوں گی، البتہ فرقہ وارانہ تعلیم کی دینی مدارس میں ممانعت کی شق مبہم ہے، اس لیے کہ فرقہ وارانہ تعلیم کا ایک پہلو یہ ہے کہ ملک میں مختلف مذہبی فرقے آباد ہیں اور ان کے دینی مدارس کام کر رہے ہیں، اس لیے ان فرقوں کے درمیان منافرت پیدا کرنے، امن عامہ کے لیے مسائل کھڑے کرنے اور قومی وحدت کو مجروح کرنے کی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور ایسی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور ان کی روک تھام کرنا حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے، لیکن اس کا دوسرا پہلو علمی وتحقیقی مباحث سے تعلق رکھتا ہے جس میں اپنے مسلک کی علمی وضاحت اور دلائل کی بنیاد پر اس کی ترجیح کی طرز اختیار کی جاتی ہے۔ نہ صرف پاکستان کے دینی مدرسوں میں ایسا ہوتا ہے، بلکہ دنیا بھر میں تمام مذاہب کی مذہبی درس گاہوں میں اس کا صدیوں سے اہتمام چلا آ رہا ہے اور نئے آرڈیننس میں ان دونوں پہلووں کے درمیان فرق کی وضاحت ضروری ہے ورنہ یہ مسئلہ بھی وہی صورت اختیار کر سکتا ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی صورت میں اس وقت دنیا کو درپیش ہے کہ دہشت گردی کی کسی سطح پر کوئی تعریف طے نہیں ہے اور اسے مکمل طور پر ابہام میں رکھا گیا ہے جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والے اس ابہام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جس مخالف کو چاہتے ہیں، دہشت گرد قرار دے کر اس کے خلاف جنگ کا محاذ کھول دیتے ہیں۔ اسی طرح فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ سرگرمیوں کی حدود اگر واضح طور پر طے نہ کی گئیں تو نہ صرف یہ کہ علم وتحقیق کے راستے مسدود ہو جائیں گے بلکہ یہ بات مکمل طور پر حکومت اور متعلقہ افسران کی صواب دید پر ہوگی کہ وہ جس مدرسہ کو چاہیں، فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں ملوث قرار دے کر اسے بند کرنے کا حکم جاری کر دیں۔
ہمارے خیال میں وفاق المدارس العربیۃ پاکستان اور دینی مدارس کے دیگر وفاقوں کی قیادتوں کو اس مسئلہ کے حوالے سے صورت حال کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے اور حکومت کے ساتھ مذاکرات اور مفاہمت کے ذریعے اس کا فوری طور پر حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے ورنہ یہ بیورو کریسی کے ہاتھ میں دینی مدارس کے خلاف ایک ایسا ہتھیار ثابت ہوگا جس سے ملک کی تمام دینی درس گاہیں مکمل طور پر متعلقہ محکموں اور افسروں کے رحم وکرم پر ہوں گی اور دینی مدارس کی جس آزادی اور خود مختاری کے تحفظ کی ایک عرصہ سے جنگ لڑی جا رہی ہے، وہ فرقہ وارانہ تعلیم پر پابندی کی اس مبہم شق کے باعث بیورو کریسی کے ہاتھوں میں گروی ہو کر رہ جائے گی۔

ہم جنس پرستی کا سیلاب اور ہماری ذمہ داریاں

مولانا محمد یوسف

معاشرے کی وہ حس تیزی سے کند ہوتی جا رہی ہے جو کسی نازیبا حرکت پر آتش زیرپا ہوجایا کر تی تھی اور اس حرکت کے مر تکب کے خلاف احتجاج کی ایک تند و تیز لہر بن کر ا بھرتی تھی۔ یہی و جہ ہے کہ دور حاضر میں لادینی قوتیں اپنے تمام ترمذموم ہتھکنڈوں کے ساتھ ہمارے گھر کی دہلیز پر ڈیرا جما ٰئے بیٹھی ہیں اور ہماری سوچ کے دھاروں کو اپنی تعفن زدہ فکر سے آلودہ کرنے کے لیے مصروف کار ہیں۔ لمحہ فکریہ ہے کہ اگر ہماری بے حسی کے باعث لادینیت کی ا ن بپھری ہوئی موجوں نے ہمارے گھروں کا مو رچہ بھی سر کر لیا تو پھر آنے والی نسلوں کا خدا ہی حافظ ہے۔ ہمارا حال تویہ ہے کہ جب مغرب کے ا س تہذیبی سیلاب کی کوئی تندوتیز لہر ہمارے دل و دما غ سے ٹکراتی ہے تو بس انفرادی سطح پر کوئی اکا دکا صداے احتجاج بلند ہوتی ہے اور وہ بھی وقت کے ساتھ خامو ش ہو جاتی ہے اور کاروبار زندگی پھر سے اپنی ڈگر پر رواں دواں ہو جا تا ہے۔
مو رخہ ۱۲ ؍اگست ۲۰۰۵ کو روزنامہ پاکستان میں ’’گندے نالے پر ایک اورگھر ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے ایک کالم کی وساطت سے معلوم ہوا کہ مغربی تہذیب کے زیر اثر .ہم جنس پرستی کی لہر باقاعدہ اور منظم طور پر ہمارے ملک میں داخل ہو چکی ہے اور اس کار بد کو پاکستان میں فروغ دینے کے لیے چار سنٹرز قا ئم ہو چکے ہیں۔ کالم کے مطابق پاکستان کے چاربڑے شہر کراچی، ملتان، لاہور اوراسلام آباد بچوں کی سیکس مارکیٹ بن چکے ہیں۔یہ"Gay sex centers" کہلاتے ہیں اور ان کی سرگرمیاں اور ان کے بارے میں معلومات کا طریقہ اتنا اوپن ہے کہMIRC چینل پرآپ net chat کر سکتے ہیں۔ "Gay Pakistani" سا ئٹ بالکل ویسے ہی آپریٹ کر تی ہے ، جیسے Gay America اور Gay India۔ اس سائٹ کو سرکاری یا غیر سرکاری طو ر پر کبھی Lock نہیں کیا گیا۔ راقم نے اس سا ئٹ کو خود چیک کیا ہے۔ جب آپ اس سا ئٹ پر جاتے ہیں تو آپ سے ASL یعنی Age, sex & Location پوچھا جائے گا۔ پھر Status یعنی Body, Weight & Color۔ یہ تفصیلات یوں دی اور لی جاتی ہیں جیسے منڈی سے کسی چوپائے کو خریدتے اور بیچتے ہوئے درکار ہوتی ہیں۔ پھر آئی ڈی کا تبادلہ کیا جا تا ہے، Contact لیا اور دیا جاتا ہے۔ ریٹ کبھی وہاں اور کبھی بعد میں موقع پر طے کیا جاتا ہے۔ یہ سب لوگ عیاشی کو ہی زندگی کا مقصد اور حاصل سمجھتے ہیں۔ ان کی روشن خیالی یہیں سے شروع ہو تی ہے اور یہیں پر ختم ہو جا تی ہے ۔
یہ چھوٹی عمر کے غریب بروس [پیشہ ور] ملتان میں بسوں کے اڈے ، شاہ رکن عالم کالونی ، کھاد فیکٹری سے بہاول پور مظفر گڑ ھ بائی پاس ، پوری ایل شیپ پٹی ہے جہاں ٹین ایجرز دستیاب ہو تے ہیں۔ پولیس، ٹرک ڈرائیورز، دوسرے شہروں سے آنے والے تاجر اور عیاش زمین دار ان سے براہ راست رابطہ کر تے ہیں، جب کہ پڑھے لکھے اور امیر تاجر نیٹ پر رابطہ کرتے ہیں اور ہوٹلوں میں ملاقاتیں کرتے ہیں ۔
قارئین ! یہ ہے وہ طوفان جو ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ اس ملک میں پھیلایا جا رہا ہے جب کہ اس کی روک تھام کے لیے نہ حکومتی سطح پر کو ئی باقاعدہ پلاننگ کی گئی ہے اور نہ عوامی سطح پر۔اس قبیح عمل کے پھیلاؤ کا ذمہ دار وہ نام نہاد مہذب معاشرہ ہے جس کو نہ صرف اپنی ہم جنس پرستانہ تہذیب پر فخر ہے بلکہ وہ اس شنیع فعل کو قانونی شکل دینے کے لیے بیتاب ہے۔ اس ضمن میں روزنامہ پاکستان میں ۳۱ ؍ مئی ۲۰۰۵ کو شائع ہونے والی ایک خبر ملاحظہ فرمائیں :
برازیل کے شہر ساؤ پاؤلو میں ہم جنس پرستوں کا ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا جس میں بعض اندازوں کے مطابق تقریباً بیس لاکھ افراد نے حصہ لیا ۔اگر یہ تعداد صحیح ثابت ہوئی تو یہ دنیا میں ہم جنس پرستوں کا سب سے بڑا جلوس ہو گا۔ ہم جنس پرستوں کا مطالبہ تھا کہ انھیں آپس میں شادی کا قانونی حق دیا جائے۔
ایک دوسری خبر کے مطابق ہم جنس پرستوں کے مطالبے کو تسلیم کر تے ہوئے ایک امریکی عدالت نے ان کو شادی کا قانونی حق دے دیا ہے ۔ ملاحظہ ہو:
امریکی عدالت نے ہم جنس پرستوں کو شادی کی قانونی اجازت دے دی ۔ نیو یارک کی اسٹیٹ کورٹ کے جج ڈورس لنگ کوہن نے اپنے فیصلے میں ہم جنس پرستوں کو شادی کا لائسنس جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔ اپنے فیصلے میں انہوں نے کہا ہے کہ ہم جنس پرست بھی برابر کے بنیادی حقوق کے حامل امریکی باشندے ہیں اور ان کو مخالف جنس کے شادی شدہ جوڑوں کی طرح تمام قانونی اور معاشرتی حقوق حاصل ہیں جب کہ ہم جنس پرستی کے مخالفین ایسی شادیوں کو روکنے کے لیے آئینی ترامیم کے حق میں ہیں ۔پانچ ہم جنس پرست جوڑوں نے جن کے بچے بھی ہیں، ریاستی عدالت میں اپیل کی تھی۔ ( نوائے وقت لاہور، ۶ فروری ۲۰۰۵)
تیسری خبر میں کینیڈا کی اسمبلی کا ایک فیصلہ مذکور ہے جو پارلیمنٹ نے تقریباً ۸۰ فی صد اراکین کی متفقہ رائے سے منظور کیا:
کینیڈاکی پارلیمنٹ نے مذہبی گروپوں اور اعتدال پسند سیاستدانوں کی مخالفت کے باوجود ملک بھر میں ہم جنس شادیوں کی اجازت کے قانون کی بھاری اکثریت سے منظوری دے دی۔کینیڈا، بلجیم اور نیدر لینڈ کے بعد دنیا کا تیسرا ملک ہے جس کی ۱۵۸ رکنی پارلیمنٹ میں سے ۱۳۳ ارکان پارلیمنٹ نے ہم جنس شادیوں کی اجازت کے بل کے حق میں ووٹ دیا۔ کینیڈا کے زیادہ تر صوبے پہلے ہی ہم جنس شادیوں کی اجازت دے چکے ہیں اور کینیڈا میں Gay اور لیزبئین جوڑوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے بارے میں عام خیال پایاجاتا ہے جہاں پر ان کی یونین پر پابندی ہے۔اقلیتی لبرل حکومت نے کہاکہ اس نے ملک کے دس صوبوں میں سے آٹھ میں عدالت کی طرف سے ہم جنس شادیوں پر پابندی کوکینیڈاکے حقوق اور آزاد ی کے چارٹر کے منافی قرار دینے اور مستردکرنے کے بعد قانون تیار کیا ہے جسے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا اور پارلیمنٹ نے بھاری اکثریت سے اس قانون کو پاس کیا ہے۔ کینیڈا Gayشادیوں اور دوسرے سماجی امور کے بارے میں لچک دار موقف رکھتا ہے جب کہ امریکہ میں صدر بش نے کانگریس سے درخواست کی ہے کہ وہ ہم جنس شادیوں پر پابندی سے متعلق آئینی ترامیم کی حمایت کرے۔ (روزنامہ پاکستان لاہور، ۳۰ جون ۲۰۰۵)
نام نہاد مہذب دنیاکے قانون ساز اداروں اور عدلیہ کے ان ’’مبنی بر انصاف‘‘ قوانین اور فیصلوں کے متعلق اس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
آئیے اس ناپاک اور خبیث عمل کے متعلق آسمانی تعلیمات کا جائزہ لے کر قانون الٰہی کے آئینے میں انسانیت کا مستقبل دیکھنے کی کوشش کریں کیونکہ قانون الٰہی ہر قسم کے تغیروتبدل سے ماورا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
فلن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا ولن تجد لسنۃ اللہ تحویلا (فاطر : ۴۳)
’’اور تم اللہ کے قانون میں ہرگز نہ کوئی تبدیلی پاؤ گے اور نہ اس کا فیصلہ ٹل سکتا ہے۔‘‘
قرآن کریم میں مختلف قسم کی بد اعمالیوں اور برائیوں میں ملوث افراد اور ان برائیوں کو دیکھتے ہوئے ان کے بارے میں جانتے بوجھتے خاموش رہنے والوں کو بڑے عجیب انداز میں وعیدسنائی گئی ہے :
افامن اھل القری ان یاتیھم باسنا بیاتا وھم نائمون O او امن اھل القری ان یاتیہم باسنا ضحی وھم یلعبون O افامنوا مکراللہ فلا یامن مکراللہ الا القوم الخسرون O (اعراف: ۹۷۔۹۹)
’’کیا پھر بھی ان بستیوں کے باسی اس بات سے بے فکر ہو گئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آپڑے اس حال میں کہ وہ سو رہے ہوں ؟اور کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہو گئے ہیں کہ ان پرہمارا عذاب دن چڑھے آپڑے جس وقت کہ وہ اپنے کھیلوں میں مشغول ہوں؟ کیا پھر وہ اللہ کی پکڑ سے بے خوف ہو گئے ہیں؟ سو اللہ کی پکڑ سے بجز ان کے جن کی شامت ہی آگئی ہو، اور کوئی بے فکر نہیں ہوتے۔‘‘
دین اسلام زندگی میں جنس کی اہمیت کو پوری طرح تسلیم کرتا ہے لیکن اس کی تسکین کے لیے اسلام نے نکاح کا پاکیزہ نظام عطا کیا ہے۔ رشتہ ازدواج سے باہر مرد وعورت سے ہر قسم کے جنسی تعلق کو اسلام سخت ترین جرم قرار دیتا ہے جو موجب تعزیر ہے۔ جنس کے منحرف رویوں میں سب سے بدترین جرم، مرد کا مرد سے غیر فطری جنسی تعلق یعنی ہم جنس پرستی homosexuality ہے ،لیکن افسوس کہ ’’مہذب‘‘ دنیاکی مختلف پارلیمنٹوں نے اس جرم کے لیے باقا عدہ سند جواز عطا کر دی ہے۔ وہاں سماج کے ہر طبقے میں اس پرعمل کرنے والے موجود ہیں۔ اسلام اس غیر فطری فعل کو سخت ترین جرم اور گناہ قرار دیتا ہے ۔یہاں تک کہ اس کے دستور اساسی قرآن کریم میں ایک جلیل القدر پیغمبر حضرت لوط علیہ السلام کی دعوت کا اہم ترین نکتہ اس حرام کام کی اصلاح بیان کیا دیا گیا ہے۔
قرآن کریم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم جنس پرستی کا آغاز حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے کیا ۔ان سے پہلے دنیا کی قوموں میں اس عمل کا عمومی معاشرتی سطح پر کوئی رواج نہ تھا ۔یہی بدبخت قوم ہے جس نے اس ناپاک عمل کو ایجاد کیا۔ اس سے زیادہ شرارت ،خباثت اور بے حیائی یہ تھی کہ وہ اپنی اس بدکرداری کو عیب نہیں سمجھتے تھے بلکہ علی الاعلان فخر کے ساتھ اس کو سر انجام دیتے تھے۔اس کا ذکر قرآن کریم میں اس طرح آیاہے:
ولوطا اذ قال لقومہ اتاتون الفاحشتہ ما سبقکم بھا من احد من العالمین O انکم لتاتون الرجال شھوۃ من دون النساء بل انتم قوم مسرفون O (الاعراف: ۱۸۰، ۸۱)
’’(اور یاد کرو) لوط کا واقعہ جس وقت اس نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ تم اس کھلی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہوجسے تم سے پہلے دنیا والوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔ تم اپنی شہوانی خواہش کی تکمیل کے لیے عورتوں کے بجائے مردوں کے پاس آتے ہو۔ یقیناًتم حد سے گزرنے والے ہو ۔‘‘
قوم نے پیغمبر وقت حضرت لوط علیہ السلام کی نصیحت کو سن کر ان کا مذاق اڑایا اور شہر سے نکال دینے کی دھمکی دی اور ستم بالائے ستم یہ کہ عذاب الٰہی کا مطالبہ خود اپنی زبانوں سے کر دیا ۔قوم کے جواب کو قرآن کریم نے اس انداز میں نقل فرمایا ہے :
فما کان جواب قومہ الا ان قالو ا ائتنا بعذاب اللہ ان کنت من الصادقین O (العنکبوت: ۲۹)
’’پس لوط کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ کہنے لگے، تو ہمارے پاس اللہ کا عذاب لے آ اگر تو سچا ہے ۔‘‘
چنانچہ اس عمل بد کی وجہ سے ان پر اللہ کا عذاب آیا ۔قرآن میں مذکور ہے :
فلما جاء امرنا جعلنا عا لیھا سافلھا وامطرنا علیھا حجارۃ من سجیل منضود O مسومۃ عند ربک وما ھی من الظا لمین ببعید (ہود: ۸۲، ۸۳)
’’پھر جب ہماراحکم آپہنچا تو ہم نے اس بستی کو زیروزبر کر دیا اور ان پر کنکریلے پتھربرسائے جو تہ بہ تہ تھے، تیرے رب کی طرف سے نشان دار تھے اور یہ بستی ان ظالموں سے کچھ دور نہیں ہے ۔‘‘
درج بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس عمل قبیح کا ارتکاب کرنے والے اور اس پرخاموش تماشائی بننے والوں کو متنبہ فرمایا ہے کہ جیسے ہمارے عذاب کا کوڑا قوم لوط پر برسا، ایسے ہی تم لوگوں پر بھی برس سکتا ہے ۔اعاذنااللہ منہ 
قوم لوط کی یہ بستیاں (سدوم وعمورہ) اردن میں اس جگہ واقع تھیں جہاں آج بحر میت یا بحر لوط واقع ہے۔ یہاں پہلے سمندر نہیں تھا۔ جب قوم لوط پر عذاب آیا اور زمین کا تختہ الٹ دیا گیا اور سخت زلزلے اور بھونچال آئے، تب یہ زمین تقریباً چار سو میٹر سمندر سے نیچے چلی گئی اور پانی ابھر آیا۔اسی لیے اس کا نام بحر میت یا بحر لوط ہے۔(قصص القرآن از مولاناحفظ الرحمن سیوہاروی)
پیکر شرم وحیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں اس فعل بد پر شدیدترین وعید سنائی ہے اور اسے سخت ترین جرم قرار دیا ہے۔ ایک موقع پر فرمایا:
ملعون من عمل قوم لوط (رواہ الترمذی)
’’اس شخص پر لعنت ہے جو قوم لوط کا عمل کرے۔‘‘
لعن اللہ من عمل قوم لوط (مسند احمد)
’’ اللہ تعالیٰ اس شخص پرلعنت کرتاہے جو قوم لوط کا عمل کرے۔‘‘
ان اخوف ما اخاف علی امتی عمل قوم لوط (رواہ الترمذی وابن ماجہ)
’’سب سے زیادہ خطرناک چیز جس کا مجھ کو اپنی امت پر خطرہ (اندیشہ) ہے، وہ قوم لوط کا عمل ہے۔‘‘
مختلف احادیث میں اس عمل کی مختلف سزائیں بیانکی گئی ہیں ۔حضرت عبد اللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من وجدتموہ یعمل عمل قوم لوط فاقتلو الفاعل والمفعول بہ (رواہ ابو داود)
’’جس کسی کو تم قوم لوط کاعمل کرتے ہوئے پاؤ تو اس حرکت کے کرنے والے اور جس کے ساتھ یہ حرکت کی جارہی ہو، دونوں کی گردن اڑادو۔ ‘‘
اس مضمون پر اور بیسیوں روایات موجود ہیں لیکن اہم ترین حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ کی بیان کردہ روایت ہے ۔فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ہمیں ایک روز خطبہ دیا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کا مدینہ میں آخری خطبہ تھا ۔اس کے بعد آپ اپنے پروردگارکے پاس چلے گئے۔ آپ نے مبارک وعظ میں فرمایا:
من نکح امراۃ فی دبرھا او رجلا او صبیا حشر یوم القیامۃ وریحہ انتن من الجیفۃ یتاذی بہ الناس حتی یدخل النار واحبط اللہ اجرہ ولا یقبل منہ صرفا ولا عدلا ویدخل فی تابوت من النار۔
’’جس کسی نے اپنی بیوی یا کسی مرد یا کسی لڑکے کے ساتھ پچھلی طرف سے بد فعلی کی ، قیامت کے روز اس کے جسم کی بدبو مردار کی بدبو سے زیادہ ہو گی جس کی وجہ سے لوگ سخت اذیت محسوس کریں گے، یہاں تک کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ اللہ تعالی اس کے اجر کو ضائع کر دیں گے اور اس کی فرض عبادت یا نفلی عبادت قبول نہ ہو گی۔ جہنم میں اسے آگ سے بنے ہوئے صندوق میں رکھا جائے گا۔‘‘
حضر ات صحابہ کرام سے ایسے مجرم کے سلسلے میں مختلف سزائیں منقول ہیں، مثلاً آگ میں جلادیا جائے، نیچے کھڑاکرکے اس کے اوپر دیوار گرا دی جائے، کسی بلند مقام سے اسے اوندھے منہ گرا دیا جائے ،اور اس کے ساتھ ہی اس کے اوپر پتھروں کی بارش کر دی جائے ،وغیرہ۔ 
قرآن وحدیث کے علاوہ دیگر آسمانی کتب نے بھی اس عمل قبیح کی شدید مذمت کی ہے ۔ تورات میں اس کی مذمت ان الفاظ میں آئی ہے:
’’اور اگر کوئی مرد سے صحبت کرے جیسے عورت سے کرتے ہیں تو ان دونوں نے نہایت مکروہ کام کیا ہے۔ سو وہ دونوں ضرور جان سے مارے جائیں۔ ان کا خون ان ہی کی گردن پر ہوگا۔‘‘ (احبار، ۲۰ : ۱۳)
قارئین کرام! آپ نے درج بالا دلائل وبراہین کی روشنی میں ہم جنس پرستی کے قبیح ہونے کے متعلق آسمانی تعلیمات کامطالعہ کیااور اس فعل بد کاارتکاب کرنے والوں کے انجام سے با خبر ہوئے۔ اب انصاف کاتقاضا یہ ہے کہ آسمانی تعلیمات کا ہر حقیقی پیروکار، خواہ وہ مسلمان ہو یا عیسائی یا یہودی اس عمل قبیح کی روک تھام کے لیے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائے۔ تاہم جو لوگ خود کو آزاد خیال تصور کرتے ہیں، ان پر بھی لازم ہے کہ وہ انسانی معاشرے کی فلاح وبہبود کے لیے اس معاشرتی برائی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں صرف کریں کیونکہ صرف اس صورت میں ایک فلاحی انسانی معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے۔
ہم جنس پرستی جس طرح انسان کی روحانی زندگی کے لیے سم قاتل ہے، ایسے ہی انسان کی جسمانی زندگی کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ اور خطرناک ہے۔ جدید طبی تحقیقات کے مطابق Aids ایک ایسی بیماری ہے جو اس بد چلنی کی وجہ سے پھیلتی ہے ۔یہ ہمارے جسم کے دفاعی نظام کو کمزور کر دیتی ہے۔ اس بیماری نے حال ہی میں ان تمام ممالک میں تہلکہ مچادیا ہے جن میں ہم جنس پرستی اور فحاشی کو برا نہیں جاناجاتا ہے۔یہ چھوت کی بیماری ہے ،جو ایک سے دوسرے کو لگتی ہے اور اس بیماری کے وائرس کو (LAY) Human lyphadenopathy virus کہاجاتاہے۔ اس بیماری کواس وقت تک کنٹرول نہیں کیا جا سکتاجب تک اس فعل بد اور فحاشی کو ختم نہ کیا جائے، لیکن افسوس صد افسوس اس برے عمل کو ختم کرنے کی بجائے مختلف NGOs کی طرف سے safe sexکے نام پر اس عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کو ختم کرنے کے لیے مختلف پمفلٹ تقسیم کیے جاتے ہیں اور مختلف ادویات متعارف کروائی جاتی ہیں تاکہ یہ عمل زیادہ ’’اچھے‘‘ اور ’’مطمئن‘‘ انداز میں فروغ پاسکے۔
شاید دنیا اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ مختلف قسم کی ادویات کے ذریعے سے ہم جنس پرستی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو کنٹرول کرکے اس فعل قبیح کی قباحت وشناعت کو ختم کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں۔ ایں خیال است ومحال است وجنوں۔ safe sex  کی اس مہم کے ذریعے سے نہ ہم جنس پرستی کی شناعت کم ہو گی ،اور نہ ا س کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل میں کوئی کمی ہی آئے گی۔ایسا تو ممکن ہے کہ ادویات کے ذریعے کسی ایک بیماری کو کنٹرول کر لیا جائے لیکن جلد ہی اس سے بھی مہلک کوئی اور بیماری ظاہر ہو کر میڈیکل سائنس کے لیے چیلنج بن جائے گی کیونکہ جب تک بیماریوں کی جڑ یعنی ہم جنس پرستی اور فحاشی اور عریانی کو معاشرے سے نہیں اکھاڑ پھینکا جائے گا، اس وقت تک بیماریاں ظاہر ہوتی رہیں گی ۔اس ضمن میں مخبر صادق جناب نبی کریمﷺ کا فرمان ملاحظہ فرمائیں:
لم یظھر الفاحشۃ فی قوم قط حتی یعلنوا بھا الا مشی فیھم الطاعون والاوجاع التی لم تکن مضت فی اسلافھم الذین مضوا ( رواہ ابن ماجہ)
’’جب کسی قوم میں فحاشی اور عریانی ظاہر ہو جائے اور وہ اس کو علانیہ کرنے لگے تو ان میں طاعون کی بیماری پھیل جائے گی اور ایسی ایسی بیماریاں پیدا ہونگی جو ان کے آباؤ اجداد میں نہ تھیں۔ ‘‘
درج بالا حدیث میں نت نئی بیماریوں کا بنیادی سبب فحاشی اور عریانی کو قرار دیا گیا ہے۔کاش! ہمارے ارباب اقتدارکو بھی یہ بات سمجھ میںآجائے کہ نت نئی بیماریوں کو صرف ہسپتالوں، جدید میڈیکل انسٹی ٹیوٹس یا میڈیکل ٹریننگ سنٹرز کے قیام کے ذریعے سے ختم نہیں کیا جا سکتا، جب تک کہ بنیادی سبب ،عریانی وفحاشی کے خاتمہ کی کو ئی سنجیدہ کوشش نہ کی جائے۔
ہم جنس پرستی کی لعنت نے جدید نام نہاد مہذب دنیا میں کیا تہلکہ مچایاہے، اس کا اندازہ ایک امریکی اداکار راک ہڈسن کے درج ذیل واقعے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
راک ہڈسن ایک امریکی اداکار تھا۔ وہ بڑا خوبصورت اور جوان تھا۔ بہت بڑا ایکٹر تھا اور کروڑوں میں کھیلتا تھا۔ اس کی بنیادی دلچسپی ہم جنسیت سے تھی اور وہ غیر فطری افعال کا مرتکب ہو تارہتاتھا۔ اس نے رواج کے مطابق شادی بھی کی۔ چونکہ جنس مخالف سے اسے کوئی دلچسپی نہ تھی، اس لیے وہ شادی جلد ہی ختم ہو گئی۔ اس نے غیر فطری افعال کے لیے اپنے ہی جیسے متعدد افراد سے جنسی تعلقات رکھے ہوئے تھے جن میں سے کسی سے اسے ایڈز کی بیماری لاحق ہو گئی۔ بیماری کی تشخیص کے بعد وہ تقریباً تین سال زندہ رہا مگر یہ تین سال ایک عام زندگی کے نہ تھے۔ وہ اکثر بیمار رہتا تھا۔ اس کے وزن میں چالیس پونڈ کمی ٓا گئی۔ بات چیت کے دوران بھی اسے سانس چڑھ جاتا تھا۔ اسے روزانہ نت نئی تکالیف گھیرتی رہتیں۔ جب وہ سیر کے لے پیرس گیا تو اس کی حالت زیادہ خراب ہو گئی۔ وہاں اسے ایک ایسے ہسپتال میں داخل کیا گیا جو صرف ایڈز کا علاج کرتا تھا، لیکن وہاں پر صرف فرانسیسی مریض داخل کیے جاتے تھے۔ امریکا کے صدرکی اہلیہ (نینسی ریگن) نے فرانس کے صدر سے ذاتی التماس کی اور راک ہڈسن اس خصوصی شفاخانہ میں داخل ہوا۔ کافی عرصہ زیرعلاج رہنے کے بعد وہ جان کنی کی کیفیت میں امریکالایاگیا جہاں اس کی موت واقع ہوئی۔ اس کی رفیقہ کارالزبتھ ٹیلرنے اس کی موت پر ایڈز کے خلاف تحقیقاتی کام کرنے والے ڈاکٹروں کے لیے فنڈمیں چالیس لاکھ ڈالر جمع کرکے دیے ۔اس کے مرنے کے کچھ عرصہ بعد ایک نوجوان نے امریکی عدالت میں دعویٰ کیاکہ راک ہڈسن کے اس کے ساتھ غیر فطری تعلقات رہے ہیں۔ چونکہ راک ہڈسن ایڈز سے مرا ہے،اس لیے اندیشہ موجود ہے کہ مدعی کو بھی غالباً ایڈز ہو جائے گی۔ اس لیے عدالت اسے راک ہڈسن کی جائیداد میں سے ہرجانہ دلوائے۔عدالت نے مدعی کی ذہنی اذیت اور دہشت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کو چار لاکھ ڈالر بطور ہرجانہ اور معاوضہ دلوائے۔ (امراض جلداور علاج نبویﷺ،ڈاکٹرخالد محمود غزنوی )
یہ تو صرف ایک واقعہ ہے۔نہ جانے ہم جنس پرستی کی اس لعنت نے کتنے لوگوں کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔ ان تکلیف دہ حالات میں ہر مسلمان کی خصوصی اور درد دل رکھنے والے اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے متمنی افراد کی یہ عمومی ذمہ داری ہے کہ اپنے اپنے دائرہ کار میں انفرادی واجتماعی سطح پر ہم جنس پرستی کے نقصانات کو اجاگر کرکے اس کے خلاف بھر پور کردار ادا کریں۔اس سلسلے میں درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں :
۱۔ قومی اخبارات، رسائل وجرائد،خصوصاً مذہبی رسائل ہم جنس پرستی کے متعلق آسمانی تعلیمات سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے قلم کی قوت عطافرمائی ہے، وہ اس نعمت کا شکریہ اداکرتے ہوئے اس کے ذریعے سے ہم جنس پرستی کے خلاف بھر پورآواز بلند کریں۔
۲۔ وارثان منبر ومحراب اپنے دروس، جمعۃالمبار ک کے خطبات اور نجی محافل میں عامۃالناس کو ہم جنس پرستی کے تصور،اس کے آغاز ،اس کے نقصانات اور اس کے نتیجے میں قوم لوط کی تباہی وبربادی کے متعلق آگاہ کریں اور انہیں اخلاقی طور پر آمادہ کریں کہ وہ اپنے نونہالوں کو جو کہ ان کا بھی اور پاکستان کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کا بھی مستقبل ہیں، بلیرڈگیمز کی دوکانوں ، ویڈیو گیمز کے مراکز، سنوکر کلبوں ، تھیٹرز ، منی سینماز اور دیگر ایسے مقامات میں جانے سے روکیں جہاں ہر طبقے ،ہر عمر اور ہر مزاج و فطرت کے لوگ جمع ہوکر مختلف قسم کی گیمز کھیلتے ہیں۔
۳۔ تعلیمی درس گاہیں، خواہ وہ دینی ہوں یا عصری ، اس ضمن میں طلبہ کی فکری تربیت کرتے ہوئے انھیں ہم جنس پرستی کی حقیقت اور اس کے دینی و دنیاوی نقصانات سے روشناس کرائیں ۔ یہ بات یقینی ہے کہ مختلف NGOs کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کے مقابلے میں تعلیمی اداروں کی تھوڑی سی کاوش بھی بہترین نتائج کا باعث بنے گی۔
۴۔ جدوجہد کا ایک دائرہ کار یہ بھی ہے کہ حضرت لوط کی قوم کی تباہی کا مکمل قرآنی واقعہ،اس برائی کی مذمت میں مذکور احادیث نبویہ،اس برائی کے روحانی اور طبی نقصانات کو کتابچے کی صورت میں شائع کرواکر عامۃالناس میں تقسیم کرنے کا اہتمام کیا جائے ۔
امت مسلمہ ہی نہیں، بلکہ ہر وہ شخص جو آسمانی تعلیمات کی حقانیت و صداقت پر یقین رکھتا ہے اور ہر وہ شخص جو انسانیت کی فلاح و بہبود کا حامی ہے، اسے اس برائی کے خلاف اپنا پورا کردار ادا کرنا چاہیے۔
قارئین !آخر میں ہمیں کچھ وقت کے لیے پوری قوت فکر کو مجتمع کرتے ہوئے سوچنا چاہیے کہ کہیں بحرلوط کی کوئی طوفانی لہرپھر انسانیت کا پیچھا تو نہیں کر رہی؟یہ سوچتے ہوئے یہ فرمان الہٰی بھی پیش نظر رہے: وما ھی من الظالمین ببعید (سورہ ہود) ’’اور قوم لوط کی یہ (تباہ وبرباد ہونے والی )بستی ان ظالموں سے دور تو نہیں ۔‘‘

تاریخی افسانے اور ان کی حقیقت

یوسف خان جذاب

جولائی ۲۰۰۵ کے ’الشریعہ‘ میں شاہ نواز فاروقی صاحب کی تحریر، جو انھوں نے پروفیسر شاہدہ قاضی کے مضمون ’’تاریخی افسانے اور ان کی حقیقت‘‘ کے جواب میں لکھی ہے، نظر سے گزری۔ پروفیسر شاہدہ قاضی صاحبہ نے اپنے مذکورہ مضمون میں جو کچھ لکھا، اس سے کلی اتفاق تو نہیں کیا جا سکتا، لیکن انگریزی کے اس فقرے کے مصداق کہ: Allegations are not facts, but they are based on facts، (الزامات حقائق تو نہیں ہوتے، لیکن حقائق پر مبنی ضرور ہوتے ہیں) ان کے مضمون کے سمندر میں حقائق کے موتی تہہ نشیں تھے جس سے ان کی حب الوطنی، اسلام سے ان کے لگاؤ اور حقیقت پسندی پر ان کے غیر متزلزل ایمان کا اندازہ ہوا۔ شاہ نواز صاحب نے اس کے جواب میں جو کچھ لکھا ہے، میرے خیال میں کوئی سنجیدہ قاری اس کی داد نہیں دے گا۔ ان کا مضمون استدلالی کم اور جذباتی زیادہ ہے اور اس کے بعد دعویٰ، جواب دعویٰ سے زیادہ مضبوط دکھائی دینے لگا ہے۔ تاہم اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ جب امت مرحومہ کی مجموعی حالت تحت الثریٰ کی اتھاہ گہرائیوں تک پہنچی ہوئی ہو، اس وقت ان جیسے مضامین کا ملی نغمے ثابت ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ ایسے وقت میں حقائق کی نقاب کشائی اپنے آپ کو قعر مذلت میں پھینکنا ہے۔ پروفیسر صاحبہ شاید یہ سب کچھ قصداً کر رہی ہیں، اسی لیے میں نے ان کے نام کے ساتھ چند صفتی نام لگا دیے ہیں، ورنہ فاروقی صاحب نے تو انھیں انگریز پرست، تاریخ سے ناآشنا اور مسلم واسلام دشمن جیسے القابات سے نوازا ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، فاروقی صاحب کا جوابی مضمون جذباتی زیادہ اور مدلل کم تھا۔ اس کی پہلی مثال لیجیے۔ لفظ Myth کے بارے میں پروفیسر صاحبہ نے لکھا تھا کہ یہ خیالی پلاؤ، افسانہ ماضی، یا بلند پرواز ی تخیل انسان کا دوسرا نام ہے۔ یہی اس لفظ کی مشہور ومعروف تعریف ہے۔ Oxford Adnvanced Learner's Dictionary میں متھ کی تعریف یوں کی گئی ہے:
(1) A story from ancient times. (2) Something that many people believe but that does not exist or is false. 
متھالوجی کا تعارف ان الفاظ میں کرایا گیا ہے:
Ideas or facts that many people think are true but that do not exist or are false. 
ہر جگہ متھ کی اس معروف تعریف کو مد نظر رکھا جاتا ہے، لیکن فاروقی صاحب نے اس کو آنند کمار سوامی کی اس تعریف کی بنیاد پر مسترد کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’’ایک ایسی حقیقت جس کی حقیقی معنویت وتعریف گم ہو گئی ہو۔‘‘ یہ علم کی دنیا ہے جس میں جیت ہمیشہ استدلال کی ہوتی ہے۔ قارئین خود سوچیں کہ ’’متھ‘‘ جھوٹ کے معنی میں معروف ہے یا کسی ایسی حقیقت کے معنی میں جس کی معنویت پنہاں ہو چکی ہو؟ خود فاروقی صاحب نے پروفیسر شاہدہ صاحبہ کی جن باتوں کو غلط ٹھہرایا ہے، انھیں متھ قرار دیا ہے۔ اس طرح انھوں نے لاشعوری طور پر آنند کمار سوامی کے بجائے پروفیسر صاحب کی پیش کردہ تعریف کو درست مان لیا ہے۔
فاروقی صاحب نے آنند کمار سوامی کے حوالے سے مزید لکھا ہے کہ متھ کی حقیقی معنویت کی بحالی کے ذریعے اسے زندہ حقیقت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ میں بڑے احترام سے درخواست کروں گا کہ فاروقی صاحب ہندو متھالوجی یا یونانی متھالوجی کے کسی کردار کو حقیقی معنویت کی بحالی کے ذریعے زندہ حقیقت میں تبدیل کر کے اپنے اصول کی کوئی ایک مثال پیش فرما دیں۔
شاہ نواز صاحب نے پروفیسر صاحبہ کی اس بات کے جواب میں کہ ہمارے پاس Proper Myth نہیں ہے، لکھا ہے : ’’پہلا متھ تو یہ ہے کہ ہمارے پاس مناسب اساطیری سرمایہ نہیں ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس غیر مناسب اساطیری سرمایہ بھی نہیں ہے، بلکہ ہماری تاریخ میں Myth لفظ کا سایہ تلاش کرنا بھی محال ہے۔ یعنی ہماری تاریخ میں متھ لفظ نہ غلط معنوں میں موجود ہے نہ صحیح معنوں میں۔‘‘
متھ کے لفظ کی عدم موجودگی اس حقیقت کو رد کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ ہمارے ہاں Myth کا تصور بھی پہلے سے موجود نہیں تھا۔ یہ درست ہے کہ ہمارے ہاں لفظ Myth انگریزی زبان سے آیا ہے، تاہم متھ کا جو تصور ہے، وہ ہم پہلے سے اپنے مذہبی، ملی، قومی اور صوفیانہ کرداروں کے گرد بمثل ’’ہالہ‘‘ موجود پاتے ہیں۔ ہمارا صوفیانہ ادب ہماری بہترین متھالوجی ہے۔ صوفیاء کرام سے متعلق قصے کہانیاں Myths نہیں تو اور کیا ہیں؟ آخر اس بات کا کون یقین کرے گا کہ ایک صوفی صاحب کی کرامت نے چالیس سال بعد سمندر میں غرق ہونے والی ایک کشتی کے سواروں کی جانیں انھیں لوٹا دیں، یا ایک صوفی کے لیے گوشت نہ بھوننے پر اہل ملتان پر عذاب الٰہی کے نتیجے میں سورج کو نیچے آنا پڑا، یا سمندر کو اس کی سرکشی کی بنا پر کچکول میں بند کر دیا گیا؟ 
اس سے فاروقی صاحب کی یہ بات بھی غلط ثابت ہوتی ہے کہ متھالوجی معروف معنوں میں ماقبل تاریخ کی کوئی چیز ہے۔ اگر مسلمان زیور تعلیم سے آراستہ وپیراستہ نہیں ہوتے تو بائیسویں صدی عیسوی میں بھی ان کے ہاں بہترین متھالوجی ملے گی۔ مسلم تاریخ واقعی شاندار شخصیتوں اور ان کے کارناموں سے بھری پڑی ہے، لیکن یہ بھی ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جب کوئی قوم تنزل وانحطاط کے راستے پر گام زن ہو جاتی ہے تو وہ ماضی میں جینے کی کوشش کرتی ہے اور بات بات پر عظمت رفتہ کا حوالہ دیتی ہے، کیونکہ ان کی اپنی زندگیاں عمل سے تہی دامن ہوتی ہیں۔ اسلام ایک پرکشش مذہب ہے اور اس نے مختلف تہذیبوں پر اپنے اثرات ثبت کیے ہیں، لیکن یہاں Give and take کا اصول کارفرما ہے۔ اگر ہندو معاشرت پر اسلام نے اثرات مرتب کیے ہیں تو کیا برصغیر کی مسلم معاشرت میں ہندو روایات کی آمیزش فاروقی صاحب کو دکھائی نہیں دیتی؟ کیا طریقت، اسلام کے ساتھ ویدانت اور نوفلاطونیت کی پیوند کاری نہیں ہے؟ مسلمانوں میں ذات پات کے نظام کے بیج کس نے بوئے ہیں اور ان میں توہمات کی شب تاریک کس نے بسائی ہے؟
پروفیسر صاحبہ نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ ہم اپنے سپر ہیروز کی شخصیت اور کارناموں کو اوائل عمر ہی سے اپنے بچوں کے ذہنوں میں انڈیلنے لگتے ہیں۔ اس کے جواب میں فاروقی صاحب نے لکھا ہے کہ بھارت اور امریکہ میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اس پر میرا سوال بس یہ ہے کہ کیا اغیار کا کوئی ناجائز کام ہمیں سند جواز عطا کر سکتا ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو فاروقی صاحب ذرا ’’امت وسط‘‘ کی تشریح فرما دیں۔
پروفیسر شاہدہ صاحبہ کا ذکر کردہ پہلا افسانہ یہ تھا کہ ’’ہماری تاریخ ۷۱۲ء سے اس وقت شروع ہوئی جب محمد بن قاسم نے برصغیر میں قدم رکھا اور دیبل کا ایک حصہ فتح کر لیا۔‘‘ انھوں نے لکھا تھا کہ یہ محض ایک افسانہ ہے اور یہ علاقہ مذکورہ حملے سے پہلے شاندار تہذیبوں کا مرکز تھا۔ اس کے جواب میں فاروقی صاحب نے لکھا ہے کہ موئنجو داڑو اور ٹیکسلا کی تاریخ مردہ ہے اور ہماری تاریخ زندہ۔ تاریخ کی یہ تقسیم میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس تقسیم کی رو سے ہماری سلطنت اور اندلس کی اسلامی سلطنت بھی ’’مردہ تاریخ‘‘ کے کھاتے میں چلی جاتی ہیں۔ فاروقی صاحب نے مذکورہ علاقوں کی چھ ہزار سالہ تاریخ کو اس وجہ سے بے معنی ٹھہرایا ہے کہ وہاں بڑے پیمانے پر لوگوں نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اسلام کی جاذبیت نے وہاں کے لوگوں کو متاثر کیا، لیکن فقط تبدیلی مذہب کی بنیاد پر کسی تہذیب کو بے معنی نہیں قرار دیا جا سکتا، ورنہ تاریخ شاہد ہے کہ عیسائیوں نے جب اندلس کو فتح کیا تو وہاں بھی تبدیلی مذہب کا عمل بہت پڑے پیمانے پر ہوا۔ کیا فاروقی صاحب کی خود ساختہ تقسیم کے مطابق اب وہاں کی مسلم تاریخ مردہ قرار پائے گی؟
فاروقی صاحب نے اسی افسانے کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’محمد بن قاسم ۷۱۲ء میں آئے۔ اس وقت اس علاقے میں چند ہزار مسلمان تھے۔ آج ۲۰۰۵ء ہے اور علاقے میں مسلمانوں کی آبادی پچاس کروڑ سے زائد ہے۔ کیا یہ معجزہ نہیں ہے؟‘‘ اس دعوے کے جواب میں فقط اتنا کہنا کافی ہوگا کہ فاروقی صاحب اس عرصے میں اس علاقے کی ہندو، سکھ اور عیسائی آبادی میں ہونے والے اضافے کو بھی پیش نظر رکھیں۔
فاروقی صاحب نے لکھا ہے: ’’میڈم کو یہ تسلیم کرنے میں بڑی دقت ہوتی ہے کہ راجہ داہر بھی ظالم ہو سکتا ہے۔‘‘ یہاں فاروقی صاحب نے پروفیسر صاحبہ کے فقروں سے غلط نتیجہ اخذ کیا ہے۔ پروفیسر صاحبہ نے فقط اتنا لکھا تھا کہ ’’معاشرتی علوم یا مطالعہ پاکستان کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ اس کا آغاز محمد بن قاسم سے ہوگا۔ ان کی آمد سے پہلے یہاں کیا تھا؟ جی ہاں، ظالم اور جابر ہندو راجے مثلاً راجہ داہر اور مظلوم اور اجڈ عوام جو بے چینی سے کسی آزاد کنندہ کے منتظر تھے۔‘‘
ان فقروں سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ راجہ داہر کے ظالم قرار پانے سے میڈم کو تکلیف ہوتی ہے؟ انھوں نے ایک عمومی بات لکھی ہے اور پھر ایک مثال راجہ داہر کی پیش کر دی ہے۔ فاروقی صاحب بھی تو ان لوگوں کے مہذب اور تعلیم یافتہ ہونے پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور ہندووں کی تاریخ سے رام کا زمانہ بطور عبرت پیش کرتے ہیں کہ یہ ظلم اور بربریت کا دور تھا۔ 
پروفیسر شاہدہ صاحبہ نے اس مشہور ومعروف تصور کو ایک افسانہ قرار دیا تھا کہ ’’محمد بن قاسم مظلوم بیواؤں اور یتیم لڑکیوں کی مدد کے لیے انڈیا آئے تھے۔‘‘ جواب میں فاروقی صاحب نے میڈم کے اس تبصرے کو تسلیم کیا ہے کہ یہ زمانہ اسلامی سلطنت کی توسیع کا زمانہ تھا اور پھر لکھا ہے کہ ’’مسلمان اس دور کی واحد عالمی طاقت تھے۔ دوسری جانب میڈم کو یہ تسلیم کرنے میں بڑی دقت ہوتی ہے کہ وقت کی عالمی طاقت اپنی ہم عقیدہ مظلوم عورتوں اور بچیوں کی مدد کے لیے نہیں آ سکتی تھی۔‘‘ جب ہم کسی سلطنت کے لیے ’’توسیع‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس سلطنت کے حکمران اپنی سلطنت کے پھیلاؤ کے لیے ہر جائز وناجائز طریقہ استعمال کریں گے۔ یہ لفظ Negative sense میں استعمال ہوتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں حکومت توسیع پسندانہ عزائم رکھتی ہے تو یہ ایک منفی اور ناقدانہ تبصرہ ہوتا ہے۔ یہ بات بجا ہے کہ اس وقت مسلمان واحد عالمی طاقت تھے، لیکن کیا عالمی طاقت اور اخلاقیات کا چولی دامن کا ساتھ ہے؟ مسلمانوں کے عالمی طاقت ہونے سے یہ بات کیسے لازم آتی ہے کہ وہ کسی ملک پر فقط اس صورت میں چڑھائی کریں گے جب وہاں ان کے ہم عقیدہ لوگوں سے زیادتی ہی ہو رہی ہو؟ مسلمانوں کا توسیعی عزائم کے تحت ہندوستان پر حملہ آور ہونا کوئی استثنائی واقعہ نہیں ہے۔ انسانی جبلت کے تحت دنیا کی دوسری قوموں کی طرح مسلمانوں نے اقتدار کی خاطر کیا کچھ نہیں کیا ہے؟
فاروقی صاحب نے اسی تناظر میں آگے لکھا ہے کہ ’’انھیں (مسلمانوں کو) قرآن مجید کا حکم ہے کہ مسلمان جہاں کہیں بھی مظلوم ہوں، ان کی مدد کرو۔‘‘ فاروقی صاحب کو اسلام اور مسلمانوں میں فرق کرنا چاہیے۔ زندگی کا کون سا شعبہ ہے جس میں مسلمانوں نے اطاعت شیطان کا شیوہ نہیں اپنایا ہے؟ میں جب بھی سورۃ البقرۃ پڑھتا ہوں تو جو خامیاں اس وقت کے بنی اسرائیل میں موجود تھیں، وہی مجھے عصر حاضر کے مسلمانوں میں دکھائی دیتی ہیں۔ اگر مسلمانوں نے ہر دور میں قرآنی تعلیمات ہی کو مشعل راہ بنایا ہے تو سلطنت خوارزم کا شیرازہ بکھرنے پر التمش کی مضبوط حکومت ان مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے کیوں نہ اٹھ کھڑی ہوئی؟
فاروقی صاحب غیر ضروری طور پر ان مبہم واقعات کو اسلام اور اخلاقیات کا لبادہ پہنانا چاہتے ہیں۔ ان کے بقول صحابہ کرام نے اپنے وقت کی دو عالمی طاقتوں قیصر وکسریٰ پر حملے کے لیے بہانہ نہیں تراشا۔ یہاں پھر فاروقی صاحب نے ٹھوکر کھائی ہے۔ جہاں تک صحابہ کرام کی جماعت کا تعلق ہے تو وہ توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے بجائے اتمام حجت کی بنیاد پر ان طاقتوں پر حملہ آور ہوئے تھے اور اس طرح عالمی سطح پر دینونت خداوندی کا ایک نمونہ پیش کیا تھا ۔ بعد کے مسلم حکمران اس کے مکلف نہیں تھے۔ ان کی جنگی مہمات کے حقیقی محرکات فاروقی صاحب کے اس جملے سے سمجھے جا سکتے ہیں: ’’اگر راجہ داہر مسلمان عورتوں اور بچیوں کو اغوا نہ کرتا تو ہو سکتا ہے مسلمان کچھ عرصہ اور سندھ کا رخ نہ کرتے۔‘‘ اس جملے میں ’’کچھ عرصہ‘‘ کے کوزے میں ایک سمندر مقید ہے۔
تیسرے افسانے میں فاروقی صاحب کو پروفیسر صاحبہ کی یہ بات ناگوار گزری ہے کہ محمود غزنوی نے سومنات پر دولت کی خاطر حملے کیے تھے۔ جہاں پروفیسر صاحبہ کے پاس اپنے دعوے کو موکد کرنے کے لیے کوئی دلیل نہیں، وہاں فاروقی صاحب کے پاس بھی اس بات کے لیے کوئی دلیل نہیں کہ محمود غزنوی نے اسلام کی اشاعت کو مدنظر رکھ کر سومنات پر حملے کیے۔ محمود بلاشبہ بت شکن تھا جس پر فاروقی صاحب کو ناز ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا یہ عمل قرآن وسنت کی رو سے کیا حیثیت رکھتا ہے؟
فاروقی صاحب نے آریاؤں کے Invader ہونے کو محمود کے حملوں کے لیے وجہ جواز بنایا ہے۔ میں اپنا یہ سوال پھر دہراؤں گا کہ کیا آریاؤں کا غلط طرز عمل محمود غزنوی کے لیے جواز کی بنیاد بن سکتا ہے؟ شاہ نواز صاحب ہمیں ایک عجیب وغریب کلیے سے نواز رہے ہیں۔ اگر ’’جواز برائے جواز‘‘ کا یہ کلیہ درست ہے تو آخر انگریزوں کو استعماری قوتیں کہہ کر ان پر تنقید کیوں کی جاتی ہے؟
پروفیسر صاحبہ اور فاروقی صاحب کے مابین اس بات پر اختلاف ہے کہ اسلام، صوفیا کی محبت اور رواداری کی وجہ سے پھیلا یا صوفیا وعلما کی کاوشوں کے ساتھ ساتھ تلوار کے سایے میں پروان چڑھا۔ گو کہ مختلف علاقوں میں اسلام صوفیا، علما اور حکمرانوں کی مجموعی کوششوں سے پھیلا، تاہم متوازن رائے یہ ہے کہ اسلام کو ہمیشہ محبت، رواداری اور درگزر جیسی صفات کی وجہ سے قبول عام حاصل ہوا۔ اس کی مثال موجودہ دور میں امریکہ میں اسلام کی اشاعت ہے جہاں ایک اندازے کے مطابق ہر سال تقریباً ایک لاکھ لوگ مشرف باسلام ہوتے ہیں۔ کیا وہاں تبدیلی مذہب کا یہ عمل کسی سیاسی قوت کا مرہون منت ہے؟
متھ نمبر ۴ میں اورنگ زیب کے متقی ہونے، ٹوپیاں سینے اور قرآن مجید کے قلمی نسخے فروخت کرنے کی بات ہوئی ہے۔ پروفیسر صاحبہ نے اورنگ زیب کے متقی ہونے کو ان اعمال کی بنیاد پر چیلنج کیا ہے کہ اس نے اپنے باپ کو جیل میں ڈالا اور اپنے بھائیوں کو قتل کرا دیا۔ فاروقی صاحب نے ان حقائق پر اورنگ زیب عالمگیر کی جانب سے معذرت کی ہے۔ کیا میں یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ ان ذاتی اعمال کے سلسلے میں اورنگ زیب کی طرف سے ایک دوسرا شخص کیسے معذرت کر سکتا ہے؟ تلک امۃ قد خلت۔ 
متقی کا مفہوم سمجھاتے ہوئے انھوں نے پروفیسر صاحبہ کو مشورہ دیا ہے کہ ’’میڈم کو ایسا کرنے سے پہلے کسی لغت میں تقویٰ کے معنی دیکھ لینے تھے۔ انھوں نے یہ زحمت کر لی ہوتی تو انھیں اورنگ زیب عالمگیر کے تقویٰ اور عمل میں تضاد نظر نہ آتا۔‘‘ میرے خیال میں اس مشورے کے مستحق خود فاروقی صاحب زیادہ ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے باپ کو جیل میں ڈالنے اور اپنے بھائیوں کو قتل کرانے کے بعد بھی متقی رہ سکتا ہے تو تقویٰ کا یہ مفہوم کم از کم میری سمجھ سے بالاتر ہے۔
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
باقی رہی ٹوپیوں اور خطاطی کے بارے میں پروفیسر صاحبہ کے Would سے شروع ہونے والے فقروں کی بات تو یہ اعتراضات Common Sense کی بنیاد پر اٹھائے گئے ہیں، اس لیے ان کو ایسے ہی الفاظ سے شروع ہونا چاہیے۔ اورنگ زیب کا سارا وقت جنگ وجدل میں گزرا۔ اسے ان کاموں کی فرصت کب ملی؟ کیا وہ حکمران بننے سے پہلے یہ کام کر چکا تھا یا تخت نشینی کے بعد اس کا مزاج بدل گیا تھا؟ پشتو کے عظیم صوفی شاعر رحمان بابا، جن پر سماجی حالات سے چشم پوشی کا الزام ہے اور جن کے کلام میں اورنگ زیب کے سوا کسی کی مذمت نہیں ہے، کہتے ہیں: ’’اورنگ زیب فقیر منش آدمی تھا جو عاجزی کی وجہ سے ٹوپی پہنا کرتا تھا، لیکن جب تاج سر پر سجایا تو ٹوپی کو بالائے طاق رکھ دیا۔‘‘
اورنگ زیب کی تخت نشینی کے سلسلے میں پانڈو اور کورو کے واقعات کو وجہ جواز بنانا اور انھیں اسلامی رنگ میں رنگنا فاروقی صاحب ہی کی ذہانت کا کمال ہے۔
پانچویں متھ میں ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے سلسلے میں پروفیسر شاہدہ قاضی صاحبہ اور فاروقی صاحب ، دونوں نے سرسید کے حوالے سے ایک ایسی بات کہی ہے جسے بہرصورت غیر ذمہ دارانہ اور غیر علمی قرار دیا جائے گا۔ سرسید اپنے زمانے کے مہدی تھے۔ انھوں نے حالات کے تقاضوں کو سمجھا اور جو کچھ بھی کیا، مسلمانوں کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا۔ ان کے کٹڑ مخالفوں نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خیر خواہ تھے۔ سرسید کی علمی، ادبی، مذہبی اور سیاسی خدمات سے چشم پوشی کرنا اپنی نادانی پر مہر ثبت کرنا ہے۔ ان کی علمی وادبی خدمات پر تو سب متفق ہیں۔ مذہبی لحاظ سے وہ آج بھی روشن خیالوں کے امام ہیں۔ جو لوگ ان کی سیاسی پالیسی کے مخالف ہیں، انھیں وطن عزیز پاکستان سے ہجرت کر جانی چاہیے۔ انھوں نے صحیح معنوں میں پاکستان کی بنیاد رکھی ہے۔ وہ ایک دور اندیش مفکر تھے جنھوں نے حالات کا غیر متعصبانہ جائزہ لیا اور مسلمانوں کے لیے درست سمت کی نشان دہی کی۔ ان کا موقف تھا کہ انگریزوں کا مقابلہ ان ہی کے متعارف کردہ ہتھیار یعنی جدید تعلیم سے کیا جا سکتا ہے۔ سرسید سے پہلے تعلیم کے حوالے سے برصغیر کے لوگ دو دھڑوں میں تقسیم تھے۔ جدید لوگ اپنے مذہب وثقافت سے بے گانہ اور قدامت پسند، عصری محاورے اور علوم سے ناآشنا تھے۔ سرسید نے حقیقی معنوں میں دار العمل کو دار العمل بنایا۔ انھوں نے چرچ اور اسٹیٹ کے جدا ہونے کے عمل کو یہاں دہرانے نہ دیا۔ اس لیے فاروقی صاحب کی یہ بات کہ ’’سرسید بلاشبہ انگریزوں کے وفادار تھے بلکہ تاریخی شواہد سے ثابت ہو چکا ہے کہ مجاہدین آزادی کی مخبری کرتے رہے‘‘ سراسر ظلم اور نا انصافی پر مبنی ہے۔
آگے چل کر مضمون نگار نے قائد اعظم کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ اس لیے جیل نہیں گئے کہ وہ ایک وکیل تھے اور آئینی وقانونی جدوجہد ان کے مزاج کا حصہ تھی اور انھوں نے پاکستان کا مقدمہ ایک وکیل کی طرح لڑا۔ نیز یہ کہ انھوں نے اپنے دو حریفوں یعنی ہندووں اور انگریزوں کو سمجھا اور طاقت کے طریقے کو Avoid کیا۔ انھیں احساس تھا کہ اگر وہ جیل چلے گئے تو اقلیتی گروہ کی جدوجہد کسی بھی سمت میں جا سکتی ہے۔ یہ سب باتیں درست ہیں، لیکن فاروقی صاحب کو قائد اعظم اور سرسید میں یہ عظیم مشابہت کیوں نہ دکھائی دی؟ کیا سرسید نے بھی طاقت کے استعمال کو Avoid نہیں کیا؟ کیا انھوں نے بھی قائد اعظم کی طرح مسلمانوں کا دفاع ایک وکیل کی طرح نہیں کیا؟ کیا سرسید کو قائد اعظم سے زیادہ سخت حالات کا سامنا نہیں تھا، جبکہ ایک طرف ہندو اور انگریز ان کے مخالف تھے تو دوسری طرف مسلمان ان کو تکفیر کے ہار پہنا رہے تھے؟ لیکن اس مشابہت کے باوجود کمال کی بات یہ ہے کہ فاروقی صاحب کی نظر میں ایک ہیرو اور دوسرا زیرو ہے۔ حالانکہ اگر کوئی شخص تعصب کی عینک اتار کر تاریخ کا معروضی مطالعہ کرے تو اس پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگی کہ سرسید نے ایک کڑے وقت میں مسلمانوں کی خاطر جو کچھ کیا، اسی کی وجہ سے ان کا شمار ہمیشہ مسلمانان ہند کے اکابر میں کیا جاتا رہے گا۔ 
فاروقی صاحب کے مضمون سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ مسلح کارروائی کے حق میں ہیں اور حالات کے تقاضوں کو سمجھنے کے بجائے طاقت سے ٹکرا جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارے اکثر دانش ور اب بھی مسلح مزاحمت کو ہر مسئلے کا واحد حل سمجھتے ہیں، جبکہ تاریخ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ گزشتہ دو سو سال میں مسلمانوں کو ہر جنگی میدان میں پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے۔ ۱۸۵۷ء، کشمیر، فلسطین، چیچنیا، عراق اور افغانستان، ہر جگہ ہمیں شکست ہوئی ہے، لیکن یہ دانش ور اس سے کوئی عبرت حاصل نہیں کر سکے۔ فاروقی صاحب کا شمار بھی انھی دانش وروں میں ہوتا ہے، اس لیے وہ اگر سرسید احمد خان کی غیر مسلح جدوجہد کی مذمت کرتے ہیں تو یہ ان کا فکری حق ہے، لیکن باعث تعجب بات یہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ قائد اعظم کی غیر مسلح حکمت عملی کی تائید کرتے ہیں اور ان کا طرز جدوجہد انھیں بدلتے ہوئے حالات کے عین مطابق دکھائی دیتا ہے۔
فاروقی صاحب نے عراقیوں کو مسلح جدوجہد کا مشورہ دیا ہے، لیکن میں انھیں یہ مشورہ دوں گا کہ وہ حالات کو سمجھیں، مسلح کارروائی کو ترک کر کے صبر کا طریقہ اختیار کریں جو مکی دور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا تھا اور یہ امید رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے ضرور کوئی راہ نکالے گا۔ وہ بے فائدہ طور پر اپنی توانائیاں جہادی سرگرمیوں میں ضائع نہ کریں، خصوصاً ایسی حالت میں کہ ساری مسلم دنیا مل کر بھی امریکہ سے ٹکر لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یہ جذبات کی باتیں نہیں ہیں۔ خدا کی نصرت کچھ شرائط کے پورا ہونے کے بعد ہی آتی ہے۔ جب تک ہم ان شرائط کو پورا نہیں کرتے، خدا کی مدد کبھی شامل حال نہیں ہو سکتی۔ اس وقت مسلمانوں پر جو بھی گزر رہی ہے، وہ سنت الٰہی کے عین مطابق ہے اور اس پر اللہ کو اپنا وعدہ پورا نہ کرنے کا الزام نہیں دیا جا سکتا۔
فاروقی صاحب نے اپنے مضمون میں پہلے سرسید کو مورد الزام ٹھہرایا ہے کہ وہ لوگوں کو انگریزی تعلیم کے حصول پر ابھارتے رہے، پھر پروفیسر شاہدہ صاحبہ کو انگریز پرست قرار دیا ہے کیونکہ انھیں انگریزی آتی ہے۔ انگریزوں سے نفرت کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن انگریزی سے بطور ایک زبان کے نفرت ناقابل فہم ہے۔ زبانیں تو وسیلہ اظہار ہوتی ہیں۔ انگریزی ایک بین الاقوامی زبان بن چکی ہے۔ دنیا کے سارے علوم وفنون اس زبان میں ہیں۔ اب اگر کوئی رہبانی طرز عمل کا داعی نہیں ہے، مسلمانوں کے لیے کاروبار حیات میں بھرپور شرکت کا خواہاں ہے اور مسلمانوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے اسلحہ سے لیس دیکھنا چاہتا ہے تو وہ مسلمانوں کو کبھی بھی انگریزی سے نفرت کا مشورہ نہیں دے گا۔ اب تو مدارس والے بھی اس زبان کی اہمیت وافادیت سے واقف ہو چکے ہیں۔ ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیاست نے ہمارے دوسرے قومی شعبوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ ہمارا اسلام بھی Politicize ہو چکا ہے۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں نے ہر مسئلے کو باقاعدہ ایشو بنا دیا ہے۔ انگریزی سے نفرت سکھانا بھی ان لوگوں کا تحفہ ہے۔ ہمارے مذہبی رہنما امریکہ مردہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے نہیں تھکتے، لیکن موقع ملتے ہی اپنے اعزہ واقربا کو وہاں بسا دیتے ہیں اور اپنی اولاد کے لیے تعلیم کا بندوبست بھی وہیں کرتے ہیں۔ شاہ نواز صاحب ایک طرف انگریزی سے نفرت ظاہر کر رہے ہیں، لیکن دوسری طرف ان کے مضمون میں اس بات کے اظہار کی خواہش بھی جابجا جھلک رہی ہے کہ انھیں انگریزی آتی ہے۔
مملکت پاکستان کے حوالے سے پروفیسر صاحبہ کا موقف یہ ہے کہ اقبال مسلمانوں کے لیے سیاسی بندوبست انڈین یونین کے زیر سایہ کرنا چاہتے تھے، جبکہ فاروقی صاحب کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایک الگ ریاست کا تصور پیش کیا تھا۔ پروفیسر صاحبہ نے یہ بھی لکھا تھا کہ خطبہ الٰہ آباد کے بعد اقبال نے الگ ریاست کی غلط فہمی کی تردید کی تھی۔ اس کے جواب میں فاروقی صاحب نے لکھا ہے کہ اقبال کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کچھ Claim ہی نہیں کرتے۔ وہ عظیم شاعر تھے، مگر انھیں عظیم شاعر کیا، شاعر ہونے کا دعویٰ بھی نہیں ہے۔ فاروقی صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ مملکت کے جداگانہ تصور اور اقبال کے شاعر ہونے کو مماثل نہیں قرار دیا جا سکتا۔ مملکت کے جداگانہ تصور کی وہ صریح الفاظ میں مخالفت کر چکے ہیں اور انھوں نے اخبار کو بتا دیا تھا کہ انھوں نے جداگانہ مسلم ریاست کی نہیں، بلکہ محض انڈین فیڈریشن کی بات کی تھی۔ اس طرح انھوں نے ایک غلط فہمی کا ازالہ اور ایک غلط بیان کی تصحیح کی۔ ویسے بھی اقبال ایک وسیع النظر انسان تھے۔ یہ بعد کے لوگوں کاکارنامہ ہے جنھوں نے ان کا ناتا ملت اسلامیہ سے کاٹ کر الگ وطن سے جوڑ دیا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ وہ اپنے آپ کو شاعر نہیں کہتے تھے تو یہاں وہ کسی غلط بیان کی تصحیح نہیں کرنا چاہتے، بلکہ نفسیاتی لحاظ سے موثر انداز میں اپنی شاعری کا اثبات چاہتے ہیں۔ دیکھیے، میر تقی میر اسی طریقے سے اپنی شاعری کا اثبات کر رہے ہیں:
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا

انسان کا حیاتیاتی ارتقا اور قرآن

ڈاکٹر محمد آصف اعوان

قرآن پاک کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ ارتقا سنتِ الٰہی ہے اور کارخانہ قدرت میں ہر سو اسی کی کارفرمائی ہے ۔اللہ اپنی ربوبیت سے مختلف انواع کو پیدا کرتا ،انہیں تاریخی مراحل سے گزارتا اور اکملیت کی جانب گامزن رکھتا ہے ۔اللہ اگر چاہے تو کسی بھی چیز کو فوراً مکمل حالت میں نیست سے ہست میں لے آئے لیکن ایسا کرنا اس کی شانِ ربوبیت کے خلاف ہے ۔خلیفہ نصیرالدین صدیقی اپنی کتاب "The Quran And the World Today" میں لفظ ’’ِرب‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : 
"The quality of being "Rabb" implies a process of nourishment, providing from moment to moment and from age to age all that creation needs to attain the fullest possible development. The analogy of a mother , rearing her child , however , imperfect , illustrates the solicitous characteristic of Allah's attribute of Rabubiyya" 1 
فلسفیوں اور حکیموں کے لیے یہ سوال نہایت اہمیت کے رہے ہیں کہ آخر حیات کیا ہے ؟ انسان کیا ہے؟ اور یہ کہ انسان کیسے وجود میں آیا ؟ حقیقت یہ ہے کہ حیات کی ابتدا اور ارتقا کے متعلق فلسفی ،حکیم اور سائنسدان کوئی حتمی اور قطعی بات کر ہی نہیں سکتے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی نظر صرف مادی دنیا پر ہے ۔مادی دنیا کے خالق اور اس میں تدریجی تبدیلیاں لانے والے اُس رب ذوالجلال پر نہیں جو مادے کو حیات میں اور حیات کو مختلف انواع میں بدلتا اور پھیلاتا ہے ۔اس لحاظ سے حکیم اور فلسفی ایک ایسی اندھی گلی میں ہیں جس میں وہ دیواروں سے سر تو ٹکرا سکتے ہیں لیکن راستہ نہیں پاسکتے ۔
قرآنِ پاک خدا کی طرف سے انسان کے نام ایک کھلا خط ہے جس میں خدا نے انسان کو مخاطب کرکے براہِ راست مکالمہ کیا ہے۔اپنا تعارف کرایا ہے ،حیات و کائنات کے رموز سے آگاہ کیا ہے اور انسان کو اُس کی ابتدا و ارتقا سے متعلق معلومات فراہم کی ہیں ۔قرآنِ پاک میں اصولِ ارتقا کو قانونِ اِلٰہی کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔ ارشادِ ربُّ العزت ہے :
’’یُدَبّرُ الامرَ مِنَ السَماءِ اِلَی الاَرضِ ثُمَّ یَعرُجُ اِلیہِ فِی یَومٍ کَانَ مِقدارُہٓ اَلفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ذٰلِکَ عٰلِمُ الغَیبِ والشَّھادَۃِ العَزِیزُ الرَّحِیم (۲)
سید قطب شہید نے اپنی تفسیر ’’فی ظلال القرآن ‘‘ میں درج بالا آیات کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:
’’ وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی روداد اوپر اس کے حضور جاتی ہے، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمھارے شمار سے ایک ہزار سال ہے ۔وہی ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے، زبردست اور حکیم‘‘ (۳)
پھر ان آیات کی تشریح کرتے ہوئے سید قطب شہید لکھتے ہیں :
’’اللہ نے ہر چیز کو موجودہ شکل تک پہنچایا مختلف مراحل ،ادوار سے گزار کر‘‘ (۴)
مولانا جعفر شاہ پھلواروی اپنی کتاب ’’ اسلام اور فطرت‘‘ میں سورۃ السجدہ کی انہی دو آیات(۳۲:۵،۶) کے حوالے سے رقم طراز ہیں :
’’ اِن آیات کا مطلب دوسرے لفظوں میں یوں بیان کیا جاسکتاہے کہ اس کائنات کی ہر شے خواہ وہ کثیف ہو یا لطیف وجود میں آنے کے بعد منازلِ ارتقا کی طرف رجوع و صعود کرتی رہی اور ایک منزل سے دوسری منزل میں آنے تک اُسے ہزاروں سال لگے ۔یہ ہزاروں سال کی میعاد ہمارے پیمانہء وقت کے مطابق ہے ورنہ اللہ جو زمان و مکاں کے انسانی پیمانوں سے بالا تر ہے ،کے نزدیک ایک یوم ہے‘‘ ۔ (۵)
ارتقا ایک ایسا قانونِ قدرت اور اصولی نظام ہے جس کا اطلاق ہر چیز پر ہوتا ہے ۔کوئی شے ارتقائی مراحل کے بڑے بڑے وقفوں سے گزرے بغیر حیات کے اگلے مراحل میں داخل نہیں ہوتی ۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ارتقا شعبدہ بازی نہیں بلکہ تدریجی ترقی کا نام ہے۔
زندگی کے اس ارتقائی تصور پر نظر رکھتے ہوئے حیات کی نچلی سطحوں (Lower orders of life) کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہر نچلی سطح سے نچلی سطح پر زندگی تنوع ،بوقلمونی اور رنگارنگی سے محروم ہوتی جارہی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ابتداءً حیاتیاتی ارتقا کا مقصدِ اوّل حیات کا تحفظ اور بقا تھا تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ حیات کی اس سطح پر دوئی (Reproduction) کا فقدان تھا۔دوئی تو موجود تھی اور حیات کی بقا دوئی کے وجود سے ہی ممکن تھی لیکن اس دوئی میں وہ نیا پن ،جدت اور تازگی نہ تھی جو زندگی میں نکھار ،ترقی اور نوعیتی تبدیلی (Variety) پیدا کرسکتی ۔دراصل حیات کا تخلیقی عمل ارتقا کے کئی مراحل سے گزر کر موجودہ حالت تک پہنچا اور ہر سطح پر ارتقا کا دھارا اور شعوری شدت اختیار کرتا گیا ،تاہم بنیادی سوال یہ ہے کہ حیات کی ابتدا کیسے ہوئی؟ کہاں سے ہوئی ؟ اور کن کن مراحل سے گزر کر ہوئی ؟ یہ بے چین کردینے والے سوالات ہیں جن کا تسلی بخش جواب تلاش کرنا ایک متجسّس ذہن کی تحقیقی جستجو کے لئے چیلنج ہے ۔ڈاکٹر رفیع الدین لکھتے ہیں :
"There could have been no organic life without matter and its laws. It is on account of the operation of the physical law that the sun shines, the winds blow, the clouds rain , the rivers flow, the seasons change, and the days and nights alternate. The laws of matter seem to have been designed consciously or unconsciously in order to make possible the appearance and the evolution of life on earth." 6
مادہ کی طویل اور انتھک جدوجہد کے بعد کائنات میں اس پہلے جانور نے جنم لیا جسے امیبا کہتے ہیں ۔ (۷)
"The universe evolved itself into what it did in order to prepare the way for the appearance of this thin cell." 8 
کیا مادے کی اس تخلیقی کارکردگی کے حیاتیاتی اظہار سے حیات و کائنات کے متعلق بنیادی استفسارات کا غیر مشتبہ اور یقینی جواب مِل جاتا ہے ؟یقیناًنہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جواب تبھی قابلِ قبول ہوسکتا ہے جب اس کا سرچشمہ ایک ایسی اتھارٹی ہو جس پر کوئی ایک فرد یا گروہ نہیں بلکہ اجتماع یقین اور اعتماد رکھتا ہو۔گویا کسی بات کا محض درست ہونا ہی کافی نہیں ،درست اور صحیح نظریہ کے قبولِ عام کیلئے اس کا پُراعتماد اور غیر متشکک ہونا بھی ضروری ہے ،چنانچہ نمودِ حیات اور ارتقا کے متعلق حقیقی اور حتمی معلومات کیلئے کتابِ الٰہی کے علاوہ اور کوئی وسیلہ اتنا موثر اور با اعتماد نہیں ہوسکتا ۔ ارشادِ ربّ العزت ہے:
’’ وَ نَزّلنَا عَلیکَ الکِتٰبَ تِبیَاناً لِّکُلِّ شَیءٍ ‘‘ (۹) 
ترجمہ:’’ اور ہم نے تم پر وہ کتاب اتاری ہے جو ہر چیز کی خوب وضاحت کرنے والی ہے‘‘ ۔
چنانچہ حیات کی ابتدا اور ارتقا کے مباحث بھی قرآنِ پاک میں بالتفصیل موجود ہیں۔ارشاد ہوتا ہے :
’’وَجَعَلنَا مِنَ المآءِ کُلَّ شَیٍ حَیّیٍ اَفَلَا یُؤ مِنُونَ‘‘ (۱۰)
ترجمہ: ’’ ہم نے ہر جاندار شے کو پانی سے بنایا تو کیا (پھر بھی) وہ ایمان نہیں لاتے‘‘۔
مولانا شہاب الدین اس حوالے سے لکھتے ہیں : 
’’یہاں پر قابلِ غور بات یہ ہے کہ زمین کے ساتھ ساتھ اجرامِ سماوی کی تخلیق کا تذکرہ بھی موجود ہے جس کے معاً بعد صاف صاف تصریح کردی کہ ’’ زندگی‘‘ یا ’’ زندہ شے‘‘ (ہر قسم کا پروٹوپلازم خواہ وہ حیوانات کا ہو یا نباتات کا جس کا اکثر حصہ پانی پر ہی مشتمل ہوتا ہے )محض پانی ہی کی بدولت ظہورپذیر ہوتی ہے ۔اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ ہماری زمین کی طرح دیگر اجرامِ فلکی کے تمام جانداروں کی افرینش میں پانی ایک بنیادی عنصر اور لازمی جزو کی حیثیت رکھتا ہے ‘‘ ۔ (اا)
سورۃ نور میں ارشاد ہوتا ہے:
’’ وَاللہُ خَلَقَ کُلَّ دِآبَّۃٍ مّن مَّاءٍ‘‘ (۱۲) 
ترجمہ:’’ اور اللہ نے ہر جاندار پانی سے پیدا کیا‘‘۔
اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا محمد شہاب الدین رقمطراز ہیں :
’’ اس آیت کریمہ میں اصولی حیثیت سے ’’ دابَّہ‘‘ کی فلسفیانہ تقسیم کی گئی ہے یعنی ’’ دابَّہ ‘‘ کا اطلاق انسانوں کے علاوہ چرندوں ،پرندوں،درندوں اور ہر قسم کے حشرات پر ہوتا ہے ۔یہ ایک کلیہ ہوا اور دوسرا کلیہ یہ بیان کیاگیا کہ ان تمام ’’ انواعِ حیات‘‘ کی تخلیق پانی سے ہوئی ہے یعنی آغازِ حیات کی رو سے بھی ، نطفہ کے وجود میں آنے کے لحاظ سے بھی ،نخرمایہ(Protoplasm) کا بنیادی جزو ہونے کی حیثیت سے بھی اور خود پوری زندگی کا دارومدار پانی پر ہونے کی رعایت سے بھی ۔غرض جس حیثیت سے بھی نظر ڈالی جائے یہ ایک سائینٹیفک اور صداقت سے بھرپور کلمہ نظر آتا ہے ۔اس لحاظ سے پانی ’’ دابّہ‘‘ کی زندگی اور اس کے وجود کیلئے جزوِ لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔ (۱۳)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
’’ وَکاَنَ عَرشُہُ عَلَی المَآءِ ‘‘ (۱۴)
ترجمہ:’’ اور اس کا عرش پانی پر تھا‘‘ ۔
پانی زندگی کا سرچشمہ ہے ۔اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو زندگی کے اس سرچشمہ پر پورا پورا کنٹرول حاصل ہے۔قرآنِ پاک کی آیتِ مبارکہ ایک جامع بیان ہے تاہم قرآنِ مجید میں اُن ارتقائی مراحل کا ذکر بھی ملتا ہے جن سے گزر کر مادہ ارتقا کی اُس منزل پر آ پہنچا جہاں سے حیات کا آغاز ہوا ۔ارشاد ہوتا ہے : 
’’ وَ بَدَاَ خَلقَ الاِ نسانِ مِن طِینٍ‘‘ (۱۵)
ترجمہ: اور انسان کی پیدائش کی ابتدا مٹی سے ہوئی‘‘۔
اس مفہوم کو قرآنِ پاک میں دو اور مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے:۔
’’ ھُوَ الّذِی خَلَقَکُم مِّنْ طِینٍ‘‘ (۱۶)
ترجمہ:’’وہی ہے جس نے پیدا کیا تم کو مٹی سے ‘‘ 
’’ اِذ قَالَ رَبُّکَ لِلمَلٰئِکَۃِ اِنِّی خَالِق بَشَرًا مِّنْ طِینٍ‘‘ (۱۷)
ترجمہ:’’ جس وقت تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا تحقیق میں پیدا کرنے والا ہوں انسان کو مٹی سے‘‘۔
قرآنِ پاک میں تخلیقِ آدم کے حوالے سے ’’ طین‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’ تراب‘‘ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے مثلاً:
’’ خَلَقَکَ مِن تُرابٍ‘‘ (۱۸)
ترجمہ:’’پیدا کیا ہے تجھ کو مٹی سے‘‘۔
’’ خَلَقَکُم مِن تُرابٍ‘‘ (۱۹)
ترجمہ: ’’ پیدا کیا تم کو مٹی سے ‘‘ ۔
تخلیقِ انسان کے اگلے مرحلے کیلئے ’’ طینِ لاذب‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔’’طینِ لاذب ‘‘ سے مراد ایسا گارا (Mud) ہے جس میں دیر تک پڑے رہنے سے لیس پیدا ہوجائے ۔ارشاد ہوتا ہے :
’’ اِنَّا خَلَقنٰہُم مِّن طِینٍ لّاَزِب‘‘ (۲۰) 
ترجمہ: ’’ بیشک ہم نے انہیں چپکتی ہوئی مٹی (گارے) سے پیدا کیا‘‘۔
ابھی تک تخلیقِ آدم کے حوالے سے تین ارتقائی مراحل، طین،تراب اور طینِ لاذب کا ذکر ہوا ہے۔یہ ارتقائی مراحل کتنے بڑے بڑے وقفوں پر مشتمل تھے اس کا صحیح علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں ۔ڈاکٹر عبدالمجید نے قرآنِ پاک کے انگریزی ترجمے میں تراب،طین اور طینِ لاذب کیلئے تین مختلف الفاظ استعمال کئے ہیں مثلاً: 
تراب Dust ۔ (۲۱)
طین Clay ۔  (۲۲)
طینِ لاذب Cohesive Black Clay  ۔(۲۳)
تراب سے مراد ایسی مٹی ہے جو خاک کی صورت ہوتی ہے۔اِدھر اُدھر اُڑتی پھرتی ہے اور جس کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا ۔طین سے مراد گیلی مٹی اور طینِ لاذب سے مراد گوندھی ہوئی کالی گندی مٹی ہے ۔اس کے بعد قرآنِ پاک میں حیات کے اگلے ارتقائی مرحلے کا ذکر ہوتا ہے ۔ سورۃ الحجر میں بتایا جاتا ہے کہ :
’’وَلَقَد خَلَقنَا الانسانَ مِن صلصالٍ مِّن حَمَاٍ مَّسنُونٍ‘‘ (۲۴)
ترجمہ:’’اور تحقیق ہم نے انسانوں کو پیدا کیا ایک کھنکھناتے ہوئے،سیاہ سڑے ہوئے گارے سے‘‘۔
ڈاکٹر عبدالمجید نے ’’ صلصال ‘‘ اور’’ حماٍ مَسنُون ‘‘کا ترجمہ بالترتیب "Dried Ringing Clay" (۲۵) اور "Black Smelling Mud" (۲۶) سے کیا ہے۔گویا صلصال سے مراد سڑا ہوا اور سوکھا ہوا گارا اور حماٍمسنون سے مراد وہ گارا جس سے سڑنے اور سوکھنے کے بعد بُو پیدا ہوجائے ۔یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ یہ سڑی ہوئی اور سوکھی ہوئی مٹی ایک طرف تو بدبودار تھی اور پھر ارتقا کے اگلے مرحلے پر اس میں خمیر پیدا ہوگیا ۔ارشاد ہوتا ہے:
’’ خَلَقَ الاِنسَانَ مِن صَلصَالٍ کَالفَخَّارِ ‘‘ (۲۷)
ترجمہ: ’’(اُس نے) انسان کو ٹھیکری کی مانند بجنے والی مٹی سے پیدا کیا‘‘۔
اس کے بعد قرآنِ پاک میں مادی ارتقا کے اس آخری مرحلے کا ذکر ہے جس کے طے پانے پر مادہ کے اندر حیات کی ایک نئی شکل نے جنم لیا۔ ارشاد ہوتا ہے:
’’ وَلَقَد خَلَقنَا الانسانَ مِن سُلٰلَۃٍ مِّن طِین‘‘ (۲۸)
ترجمہ:’’اور تحقیق ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا ‘‘ 
اس آیت کے حوالے سے غلام احمد پرویز رقمطراز ہیں :
ٍٍ’’ مٹی کے خلاصہ کے الفاظ بڑے غور طلب ہیں ۔ہم جب کوئی بیج زمین میں بوتے ہیں تو وہ اُن اجزا کو جن پر اِس کی نشونما کا مدار ہوتا ہے کھینچ کر اپنے اندر جذب کرلیتا ہے ۔انہی اجزا (نمکیات ،معدنیات) وغیرہ کو سُلٰلۃٍ مِّن طِین 23/12یعنی مٹی کا خلاصہ کہا جائے گا۔اس قسم کے مٹی کے خلاصہ سے حیات کا پہلا خلیہ (Cell) وجود میں آیا‘‘ (۲۹)
اِس یک خلیائی جاندار (One Celled Creature) کے متعلق قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
’’ وَھُوَ الَّذِیٓ اَنشَا کُم مِّن نَّفسٍ وَّاحِدَۃٍ‘‘ (۳۰)
ترجمہ:’’ اور وہی ہے جس نے پیدا کیا تم کو جان ایک سے‘‘
اس آیت کے حوالے سے علامہ عنایت اللہ مشرقی فرماتے ہیں کہ:
’’ نفس کا لفظ نہایت معنی خیز ہے جس کے معنی مطلق جان کے ہیں قرآن حکیم میں انسان کی پیدائش کے متعلق نفسِ وّاحدَۃٍ کا ذکر ہے، بشرِ واحد کا کہیں ذکر نہیں ‘‘ (۳۱)
مادہ سے حیات (نفس واحدہ) کا ظہور ایک بہت اہم واقعہ تھا جس نے کائنات کی مادی زندگی میں بہت بڑا انقلاب برپا کردیا ۔زندگی لاکھوں برس مادہ (Matter) کی شکل میں کائنات میں سر پٹختی رہی ۔مادی دنیا کے اندر کئی تبدیلیاں آئیں لیکن یہ تبدیلیاں مادے کی حیاتیاتی نوعیت میں تبدیلی کا باعث نہ بن سکیں ، تاہم مادے میں زندگی کا ارتقا جاری رہا اور حیات کا مادّہ کی سطح پر شعورِ ارتقا مسلسل آگے قدم بڑھاتا رہا۔ اس ارتقا سے دمبدم یک رنگ مادے کی تخلیق ایک طویل دور ہے ۔آخر کار امیبا کی پیدائش مادے کی حیاتیاتی نوعیت سے مختلف ایک نئی نوعِ حیات کی تخلیق تھی۔دراصل امیبا مادی قوانین کی قید میں گرفتار مادی زندگی کی حامل کائنات میں زندگی کی ایک نئی اور بلند تر سطح کا آغاز تھا جِسے مادے کے اٹل قوانین (Fixed Laws) نے جنم تو ضرور دیا تاہم اب یہ حیاتیاتی وجود مادی قوانین سے آزاد ایک خود آشنا ہستی تھا۔ یہ حیات کا ایک نیا رخ تھا ۔پہلے سے بالکل مختلف اور جدا ۔حیات کی اس سطح کی تخلیق میں کائنات کی ہزاروں بلکہ لاکھوں برس کی مسلسل جدوجہد صرف ہوئی ،تب کہیں جاکر کائنات نے حیاتیاتی ارتقا کے اس مرحلے میں قدم رکھا کہ اس کی کوکھ سے ایک نئی ،مختلف ،پہلے سے بلند تر اور اعلیٰ تر نوعِ حیات نے جنم لیا ۔ارتقائی مراحل کے نتیجے میں زندگی کی ایک سطح سے دوسری بلند تر سطح پر جست فجائی ارتقا (Emergent Evolution) کہلاتی ہے ۔قرآنِ پاک کی سورۃ المومنین میں اس کی ایک مثال اس طرح ملتی ہے کہ اس سورت کی آیت نمبر۱۱۴،میں اللہ فرماتا ہے کہ رحمِ مادر میں نطفہ ٹھہرنے کے بعد ،ارتقا کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے یہاں تک کہ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتا ہے اورپھر اس پر گوشت کی تہہ چڑھ جاتی ہے ۔آیت مذکورہ کے آخری الفاظ نہایت اہم ہیں:
’’ ثُمَّ اَنشَانٰہُ خَلْقاً اٰخَرَ فَتَبٰرَکَ اللّٰہ اَحْسَنُ الخٰلِقِینَ‘‘ (۳۲) 
ترجمہ: پھر ہم نے انسان کو ایک بالکل نئی اور دوسری قسم کی مخلوق کی شکل میں نمودار کردیا ۔پس اللہ بڑا ہی بابرکت ہے۔ سب کاریگروں سے اچھا کاریگر‘‘۔ 
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی فرماتے ہیں کہ:
’’ فتبارک اللہ کا فقرہ محض ایک تعریفی فقرہ ہی نہیں بلکہ یہ دلیل کے بعد نتیجہء دلیل بھی ہے ۔اس میں گویا یہ کہا جارہا ہے کہ جو خدا مٹی کے ست کو ترقی دے کر ایک پورے انسان کے مرتبے تک پہنچا دیتا ہے وہ اس سے بدرجہا زیادہ منزہ ہے کہ خدائی میں کوئی اس کا شریک ہو سکے ‘‘ (۳۳)
سوال یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو دوسری قسم کی مخلوق بنانے کا دعوےٰ کس بنا پر کیا ہے ؟اس کی وجہ یہ ہے کہ رحمِ مادر میں جنین پر جو ارتقائی مراحل گزرتے ہیں ان کی یکسانیت کی بنا پر تو انسان اور حیوان برابر ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے شکل و صورت اور شعور کے اعتبار سے انسان کو ایک منفرد ماہئیت اور مرتبہ عطا فرمایا ہے اور اسی بنا پر وہ حیوانات سے ممیز اور ممتاز ہے بلکہ اللہ اس کے لئے احسن الخالقین کے الفاظ استعمال کرتا ہے :
’’ لَقَد خَلَقنَا الانسانَ فِی اَحسَنِ تَقوِیم‘‘ (۳۴)
ارتقائی مراحل کی بہت سی مماثلتوں کے باوجود نتیجہء تخلیق کے لحاظ سے انسان اور حیوان میں شکل و صورت اور عقل و شعور کے اعتبار سے واضح فرق اور انسان کا خدا کی جانب سے ’’ احسن تقویم‘‘ کے مرتبے پر فائز ہونا ،حیات کی ادنیٰ سے اعلیٰ مرتبے پر جست اور فجائی ارتقا ہے ۔انسان کے حیاتیاتی ارتقا کے حوالے سے ارشادِ ربّ العزّت ہے :
’’ وَاللّٰہ انْبَتَکُم مِّنَ الَارضِ نَبَاتاً‘‘ (۳۵)
ترجمہ:’’ اور اللہ نے تم کو (انسانوں کو) زمین سے درخت کی طرح اُگایا‘‘۔
علامہ عنایت اللہ مشرقی اس آیت کے حوالے سے ’’ تذکرہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ گویا جب انسان کے زمین سے درخت کی مانند اگنے کی ظاہری صورت کوئی نہیں تو اِن الفاظِ وحی کے لامحالہ کوئی اور عظیم الشان معانی ہیں جن کی تعلیم دینے کے لئے ربِّ بے مثال نے ایک مستقل آیت بھیجنے کی تکلیف گوارا کی‘‘۔ (۳۶)
ان معانی کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد رفیع الدین رقمطراز ہیں :
’’خدا کے نزدیک انسان کی پیدائش ایک تدریجی حیاتیاتی عمل ہے جو ایک درخت کی نشوونما سے مشابہت رکھتا ہے۔ امیبا سے جو شجرِ زندگی پھوٹا ،اُس کی مختلف شاخیں ہوگئیں ۔ ہر شاخ اپنی ترقی کے ایک خاص نکتہ پر جاکر رُک گئی لیکن صرف ایک شاخ برابر ترقی کرتی رہی۔اس شاخ کی انتہا پر جسمِ انسانی نمودار ہوا ۔اس شاخ پر جسمِ انسانی سے پہلے حیوانات کی جس قدر انواع وجود میں آئیں اُن کے اجسام جسمِ انسانی کی سابقہ صورتیں تھیں جو پے در پے بہتر سے بہتر ہوتی رہیں اور جسمِ انسانی کی آخری ساخت اور شکل کے قریب آتی رہیں ۔یہاں تک کہ اس کی آخری شکل یعنی مکمل جسمِ انسانی وجود میں آگیا ‘‘ ۔ (۳۷) 
ارشادِ رب العزت ہے:
’’وَ قَد خَلَقَکُم اطواراً‘‘ (۳۸) 
ترجمہ:’’ اور تحقیق پیدا کیا ہے تم کو طرح طرح سے ‘‘ ۔
قرآنِ پاک کے فرمودات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حیات کا آغاز تو یک خلیائی جاندار سے ہوا ، پھر اس سے کائنات کے اندر حیات کی حامل مختلف شاخیں نمودار ہوئیں ۔جمادات،نباتات بھی،چرند پرند بھی اور حیوانات بھی ۔گویا زندگی کا بنیادی سرچشمہ ایک ہی تھا جیسے درخت کا بیج اور تنا ایک ہی ہوتا ہے اور پھر اس پر مختلف شاخیں نمودار ہوتی ہیں۔ حیات کی انہی مختلف شاخوں میں سے ایک سب سے زیادہ ترقی والی اور ارتقائی مراحل سے گزرنے والی شاخ کے آخری سرے پر انسان پیدا ہوا جو ہئیتی اور شعوری لحاظ سے تمام سابقہ مراحلِ حیات کے حامل جانداروں سے ممتاز اور افضل ہے۔ انسان حیات کی اعلیٰ ترین صورت کا نمائندہ ہے ۔
جس طرح مادہ اپنے ابتدائی ارتقائی مراحل سے گزرنے کے بعد آخر اس مرحلے میں پہنچ گیا کہ جہاں مادہ سے ایک بالکل مختلف نوع پیدا ہوئی جو فجائی ارتقا کا نتیجہ تھی،اس طرح پھر حیات نے مختلف قسموں ،شکلوں اور صورتوں میں اپنے ارتقائی سفر کو جاری رکھا اور مختلف مراحلِ ارتقا پر فجائی ارتقا (Emergent Evolution) اپنا کام دکھاتا رہا۔حیوانی سطح سے انسانی سطح کا ظہور بھی فجائی ارتقا کا ثمر ہے ۔فجائی ارتقا ایک طرح سے ایک نئی نوع حیات کی براہِ راست تخلیق کا نام ہے۔ قرآن پاک کے الفاظ ’’ کن فیکون‘‘ کا مفہوم بھی اس میں مضمر ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی طالب علم کو یونیورسٹی ایم،۔اے کی ڈگری جاری کرنے کا حکم صادرکرے اور فوراًاُسے وہ ڈگری عطا بھی کردی جائے ،لیکن کیا یہ سب آناً فاناً ہوگیا ۔دراصل اس سے پہلے کہ طالب علم کو یونیورسٹی اس مرتبے کا مستحق ٹھہراتی اور وہ مرتبہ اُسے عطا کیا جاتا ،طالب علم نے اس منزل تک پہنچنے کیلئے بہت سے ارتقائی مراحل طے کئے تھے اور اس میں اسکا بہت سا وقت صرف ہوا تھا ۔مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب رقمطراز ہیں:
’’ حیات کا پہلا جرثومہ براہِ راست تخلیق سے وجود میں آیا تھا تو پھر آخر یہی ماننے میں کیا قباحت ہے کہ ہر نوعِ حیوانی کا پہلا فرد خالق کے تخلیقی عمل سے پیدا ہوا ہے ‘‘۔ (۳۹)
ارتقا اور تخلیقی عمل زندگی کی علامت ہے ۔زندگی ارتقا سے قائم رہتی ہے اور ارتقا ثباتِ زندگی سے آگے قدم بڑھاتا ہے ۔گویا ارتقا کے دو مراحل ہیں۔ پہلے مرحلے میں حیات اپنے وجود کا تحفط کرتی ہے اور پھر اس کے اندر کسی نوعی تبدیل کیلئے جستجو کرتی ہے ۔وجود کو برقرار رکھنے کیلئے ایک سے زیادہ حیاتیاتی اجسام کی تخلیق ضروری ہے،لیکن محض تخلیق ارتقا نہیں۔ تخلیق میں جدت اور نیا پن ارتقا کہلاتا ہے ۔وزیر آغا لکھتے ہیں :
’’ حیاتیاتی سطح پر زندگی ابتداً محض بقائے نسل کے مقصد کے تابع تھی ،لیکن جیسے جیسے وہ ارتقا پذیر ہوئی تو انفرادیت کے اظہار کا عمل زیادہ فعال ہوتا چلا گیا‘‘۔ (۴۰)
مادے سے امیبا کی تخلیق میں جتنی مدت صرف ہوئی ،امیبا نے اس سے کم مدت کی ارتقائی جدوجہد سے حیات کی نئی منزلوں میں قدم رکھنا شروع کیا تاہم یہ حقیقت ہے کہ زندگی کی مسلسل ارتقائی جدوجہد کے بعد حیات کی اگلی اور بہتر سطح جنم لیتی ہے ۔اس بہتر حیاتیاتی سطح کے حصول کیلئے زندگی کو کس قدر خراج ادا کرنا پڑتا ہے اور کتنی قربانیاں دینی پڑتی ہیں ،اس ضمن میں ڈاکٹر رفیع الدین لکھتے ہیں :
"Much waste for the sake of a precious gain seems to be a characteristic of the process of evolution" 41. 
تاہم : 
" The very slow pace of the process, the waste and the suffering need not blind us to what has been achieved. The contrast between primitive protoplasm and man, beggars description" 42.
دراصل عملِ ارتقا کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ جو انواع ماحول کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتیں اور وقت اور حالات کے سیلِ رواں کے مقابل کمزور پڑ جاتی ہین ، جن کا وجود عصرِ رواں کے لئے مفید اور نفع بخش نہیں رہتا ،ایسی انواع وقت کے بہتے ہوئے دریا کے طوفانوں کی نذر ہوجاتی ہیں اور ان کی جگہ وہ انواع لے لیتی ہیں جو بہتر ہوں اور جن کا وجود زمانے کے لئے مفید اور نفع بخش ہو۔ڈاکٹر غلام جیلانی برق لکھتے ہیں :
’’ دنیا یہ سمجھتی ہے کہ بقائے اصلح کا راز سب سے پہلے ڈارون پر منکشف ہوا تھا ،یہ ایک عالمگیر غلط فہمی ہے ۔قرآنِ پاک نے چودہ سو سال پہلے اعلان فرمایا تھا :
’’ صرف وہی چیز دنیا میں باقی رہتی ہے جو لوگوں کیلئے مفید ہو ‘‘ ۔ (۴۳)
قرآنِ پاک میں ایک اور جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اَنزَلَ مِنَ السَّمآءِ مَآءً فَسَالَتْ اَودِیۃ بِقَدَرِھا فَاحتَمَالَ السَّبِیلُ زَبَداً رَّابِیاً ط وَمِمَّا یُوقِدونَ عَلیہِ فیِ النَّارِ ابْتِغَآ ءَ حِلْیَۃٍ اَو مَتَاع زَبَد مِّثلَہُ ط کَذٰلِکَ یَضرِبُ اللہُ الحَقَّ وَالباطِلَ ط فَامَّا الزَّ بَدُ فَیَذھَبُ جُفآءً ج وَامَّا ما یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمکُت فِی الارضِ ط کَذٰلِکَ یَضرِبُ اللہُ الامْثَال‘‘ (۴۴)
ترجمہ:’’اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے تو نالے اپنے انداز کے مطابق بہنے لگتے ہیں پھر سیلاب اوپر کی جھاگ اور خس و خاشاک کو بہا لے جاتا ہے اور جن دھاتوں کو لوگ آگ میں ڈال کر تپا تے ہیں زیور یا دیگر سامان تیار کرنے کے لیے ،ان میں بھی اسی طرح کا جھاگ اور میل کچیل ہوتا ہے ۔اللہ حق اور باطل کی مثال یوں ہی دیتا ہے ۔ غرض میل کچیل یا خس و خاشاک تو یوں ہی رائیگاں جاتا ہے لیکن جو چیز انسانوں کے لیے نفع بخش ہوتی ہے اس کو زمین میں بقا حاصل ہوتی ہے ۔اللہ اسی طرح مثالیں بیان فرماتا ہے ‘‘۔
یہ آیت اس کائناتی اصول کو بیان کرتی ہے کہ بقا و قیام کا حق صرف اُسے ہے جو زمانے کا مقابلہ کرتے ہوئے اور اپنے وجود کی افادیت برقرار رکھتے ہوئے زندہ رہتا ہے ۔بے فائدہ اور عبث چیزوں کا دنیا میں کوئی مقام نہیں ۔قدرت صرف انہی چیزوں کو قائم رکھتی ہے جو مفید اور نفع بخش ہوتی ہیں اور جب کسی شے میں نافعیت نہیں رہتی تو وہ اپنا وجود کھودیتی ہے۔آسمانی ستاروں سے لیکر زمینی مخلوق تک ساری کائنات میں یہی قانونِ فطرت کار فرماہے ۔قرآنِ پاک کی رو سے عملِ ارتقا میں بقائے انفع (Survival of the most useful) کے اصول کا اطلاق ہوتا ہے ۔اس اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو حیات اور کائنات خوب سے خوبتر کے سفر پر رواں دواں ہے اور جو وجود اس سفرمیں کاروانِ حیات کا ساتھ نہیں دیتے ، وہ معدوم ہوجاتے ہیں ۔اسے فطرت کا ظلم نہیں سزا قرار دیا جاسکتا ہے ۔
انواعِ حیات میں انسان سب سے ارفع مقام پر متعین ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کے وجود کے ظہور کے بعد عملِ ارتقا ختم ہوگیا ؟کیا سفرِ ارتقا کی آخری منزل انسان کی موجودہ ہستی اور شعوری ساخت ہی ہے اور بس ۔مولانا جعفر شاہ پھلواری لکھتے ہیں کہ:
’’موجودہ درجے تک کے ارتقا کو تو سائنس نے پالیا ہے لیکن اب تک یہ نہیں معلوم کہ اس ارتقا کا رخ کدھر ہے اور اس کی منزل کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب صرف قرآنِ پاک کے پاس ہے‘‘۔ (۴۵) 
خلیفہ نصیرالدین لکھتے ہیں :
"And further , if man has been evolving , attaining more and more perfection , why should we not believe that the present form of human life , both in its physical and mental characteristics, will disappear only to assume still higher forms" 46. 
قرآنِ پاک کی درج ذیل آیت میں انسان کے حیاتیاتی ارتقا کی اگلی منزلوں کی طرف واضح اشارات ملتے ہیں :
’’ ثُمَّ اِنَّکُم بَعدَ ذٰلِکَ لَمیتُونَ ط ثُمَّ اِنَّکُم یَومَ القِیٰمَۃِ تُبعَثُوْنَ‘‘۔ (۴۷)
ترجمہ: ’’ پھر بیشک اس کے بعد تم ضرور مرنے والے ہو ۔پھر بلاشبہ تم روزِ قیامت اُٹھائے جاؤ گے‘‘۔
’’وَاِلَی اللہِ تُرجِعُ الاُمُورَ‘‘۔ (۴۸)
ترجمہ:اور تمام کام اللہ کی طرف لوٹیں گے‘‘۔
’’ وَکَذٰلِکَ تُخرَجُونَ‘‘۔ (۴۹)
ترجمہ: ’’ اور اسی طرح تم (قبروں سے) نکالے جاؤ گے‘‘ ۔
’’ وَاِلیہِ تُرجَعُونَ‘‘۔ (۵۰)
ترجمہ: ’’ اور اُسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے‘‘۔ 
مندرجہ بالا مباحث سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام عملِ ارتقا کو ایک ایسی کائناتی حقیقت کے طور پر پیش کرتا ہے جس میں کہیں ٹھہراؤ نہیں ہے ۔قانونِ ارتقا ہر لحظہ حیات کی نئی اور تازہ صورتیں پیدا کر رہا ہے ۔انسان کی موجودہ شکل و ہئیت اور شعوری سطح بھی اس سے مبرا نہیں بلکہ اسے بھی ایک نئی ماہیت (Form) اختیار کرنے اور نئے شعوری نظام میں ڈھلنے کے لئے ارتقا کے عمل سے گزرتے ہوئے ایک ایسے ماحول میں داخل ہونا ہوگا جس میں داخل ہونے کیلئے اُسے مادی دنیا ہی نہیں بلکہ اپنے مادّی جسم کو بھی چھوڑنا پڑے گا تب ہی حیات کی ایک نئی ارتقائی منزل اُس کا استقبال کرے گی۔ 

حواشی و حوالہ جات

۱۔ 
Nasir-ud-Din Siddiqi, "The Quran and the world today"  Izhar Sons,Lahore :1971,P.49 
۲۔ القرآن ۳۲:۵،۶
۳۔ قطب شہید،سید، ’’ فی ظلال القرآن‘‘،ترجمہ:سید معروف شاہ ،ادارہ منشوراتِ اسلامی ،لاہور :۱۹۹۷،ص۔۲۹۳،۲۹۴۔
۴۔ ایضاً،ص۔۲۹۴۔
۵۔ جعفر شاہ پھلواری ،’’ اسلام اور فطرت‘‘،ادارہ ثقافتِ اسلامیہ ،لاہور :۱۹۴۹،ص:۶۷
۶۔ 
Muhammad Rafi-ud-Din ,"Ideology of The Future " ,Mangotra Printing Press,Jammu:1946,P.23. 
۷۔ 
Microscopic One Celled Creature.
۸۔ 
Muhammad Rafi-ud-Din ,"Ideology of The Future" P.24.
۹۔ القرآن ، ۱۶:۸۹۔
۱۰۔ القرآن،۲۱:۳۰۔
۱۱۔ محمد شہاب الدین ،مولانا ندوی ،’’ اسلام اور جدید سائنس‘‘ مکتبہ تعمیرِ انسانیت ،لاہور:۱۹۸۸،ص:۱۰۷۔
۱۲۔ القرآن ، ۲۴:۴۵۔
۱۳۔ محمد شہاب الدین ،مولانا ندوی ،’’ اسلام اور جدید سائنس‘‘ ص:۱۰۵۔
۱۴۔ القرآن ، (۱۱:۷)
۱۵۔ القرآن ، (۳۲:۷)
۱۶۔ القرآن ، (۶:۲)
۱۷۔ القرآن ، (۳۸:۷۱)
۱۸۔ القرآن ، (۱۸:۳۸)
۱۹۔ القرآن ، (۳۰:۲۰)
۲۰۔ القرآن ، (۳۷:۳۱)
۲۱۔ 
The Holy Qruan , Translated by Dr.,Abdul Majeed. Awais Company:year not mentioned,P.31
۲۲۔ 
Ibid, P.601.
۲۳۔
Ibid, P.645.
۲۴۔ القرآن ، (۱۵:۲۶)
۲۵۔
The Holy Quran Translated by Dr.Abdul Majeed ,P.776.
۲۶۔ 
Ibid, P.382.
۲۷۔ القرآن ، (۵۵:۱۴)
۲۸۔ القرآن ، (۲۳:۱۲)
۲۹۔ غلام احمد پرویز،’’مطالب الفرقان(جلد دوم)‘‘،ص:۷
۳۰۔ القرآن ، (۶:۹۸)
۳۱۔ محمد عنایت اللہ خان ،المشرقی،علامہ،’’ تذکرہ(جلد دوم)‘‘ التذکرہ پبلی کیشنز،لاہور:۱۹۹۷،ص:۱۶۔
۳۲۔ القرآن ، (۳۲:۱۴)
۳۳۔ مودودی،مولانا سید ابولاعلیٰ ،’’تفہیم القرآن(جلد سوم)‘‘م ص:۲۷۰۔
۳۴۔ القرآن ، (۹۵:۴)
۳۵۔ القرآن ، (۷۱:۱۷)
۳۶۔ محمد عنایت اللہ خان ،المشرقی،علامہ،’’ تذکرہ(جلد دوم)‘‘ ،ص:۱۷۔
۳۷۔ محمد رفیع الدین ،ڈاکٹر،’’ قرآن اور علمِ جدید‘‘،ص،۱۵۵:۱۵۶ ۔
۳۸۔ القرآن،(۷۱:۱۴)
۳۹۔ مودودی،مولانا سید ابولاعلیٰ ،’’تفہیم القرآن(جلد پنجم)‘‘ص:
۴۰۔ وزیر آغا،’’تخلیقی عمل‘‘ ،مکتبہ اردو زبان ،سرگودھا :۱۹۷۰،ص:۷۰۔
۴۱۔
Muhammad Rafi-ud-Din ,"Ideology of the Future ", P.35.
۴۲۔
Shah Nawaz , Riaz A. ,"Avolution And Human Behaviour," Feroz Sons, L.T.D.,lahore :1963, P.33.
۴۳۔ غلام جیلانی برق،ڈاکٹر،’’رمزِ ایمان‘‘،شیخ غلام علی اینڈ سنز ،کراچی :۱۹۴۹ء ص:۱۱۸۔
۴۴۔ القرآن،(۱۳:۱۷)
۴۵۔ جعفر شاہ پھلواری،’’اسلام اور فطرت‘‘،ص:۶۸۔
۴۶۔ 
Nasir-ud-Din, Khalifa,"The Quran And The world Today," P.62.
۴۷۔ القرآن،(۲۳:۱۵،۱۶)
۴۸۔ القرآن،(۲:۲۱۰)
۴۹۔ القرآن،(۳۰:۱۹)
۵۰۔ القرآن،(۲:۲۴۵)

غیر مادی کلچر میں عورت کے سماجی مقام کی تلاش

پروفیسر میاں انعام الرحمن

جب سے یہ کائنات بنی ہے اور جب سے انسان نے زمین پر قدم رکھا ہے ، تب سے اس ارضِ رنگ و بو میں خیر و شر کا معرکہ برپا ہے ۔ اب تک کی معلوم تاریخ کی یہی مختصر داستان ہے۔ اگر ہم انسانی تاریخ کے مخصوص احوال و ظروف پر عمیق نظر رکھتے ہوئے اس کی معنوی شناسائی کے درپے ہوں تو معلوم تاریخ، انسانیت کی جستجو سے عبارت دکھائی دے گی ۔ حقیقت یہ ہے کہ نوعِ انسانی کئی صدیوں سے اپنی ضروریات کے جبر اور تخیلات کی پرواز کے ذریعے مادی کلچر کو منصہ شہود پر لا رہی ہے۔ تلوار، ٹینک، بندوق، ہل، ٹریکٹر، جہاز اور میزائل سے لے کر تفریحی کھیلوں اور آرٹ کے متجسم نمونوں تک انسانی ترقی کے تمام شواہد و ظواہر اس مادی کلچر کی زندہ مثال ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی بہت واضح ہے کہ اس مادی کلچر کی افادیت اور معنویت ، غیر مادی کلچر (ضروریات کے جبر اور فراغت کی لطافت سے جنم لینے والے خیالات وغیرہ )کی مرہونِ منت ہے ۔ مثلاً اگر فٹ بال کے کھیل کا فہم اور اس کے اصول و قواعد انسان کے لیے بے معنی ہو جائیں تو فٹ بال ( جو مادی کلچر کے تفریحی پہلو کی علامت ہے) کی افادیت و ضرورت بالکل ختم ہو جائے گی۔ ہماری رائے میں ایسے خاتمے کی زندہ علامت مغرب کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے وہ چرچ بھی ہیں جو کبھی مغربیوں کی زندگی کے عکاس تھے لیکن جہاں اب خود زندگی بھیک مانگتے دکھائی دیتی ہے۔ 
اب ہم تصویر کے دوسرے رخ پر نظر ڈالتے ہیں ۔ معلوم تاریخ ہمیں آگاہ کرتی ہے کہ خود انسانی وجود ، بطور مادی کلچر ہر عہد میں موجود رہا ہے۔ یہ مادی کلچر ( یعنی انسانی وجود ) انسانی خیالات کا تراشیدہ نہیں ہے، اگرچہ انسان نے مختلف ادوار میں کئی صنم کدے ضرور تعمیر کیے ہیں ۔مادی کلچر کی یہ جہت ( یعنی انسانی وجود ) بھی اس وقت تک ہی اہم اور زندہ رہ سکتا ہے جب تک اس سے متعلق فہم اور اصول و قواعد موجود رہیں، ورنہ اس کا انجام بھی اس مادی کلچر کی طرح ہو سکتا ہے جو صرف میوزیم کی چار دیواری میں ہی کروٹیں لیتا ہے لیکن زندگی کے لمحہ گزراں میں اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی، جیسا کہ مغربی کرے میں واقع فلک بوس چرچ۔ یوں زندگی کی ندی حقیقت میں دو متوازی کناروں کے درمیان ہچکولے کھا تی محسوس ہوتی ہے۔ ایک کنارہ انسانی تخیلات سے متشکل ہو رہا ہے اور دوسرا کنارہ متشکل ہونے کے ناطے اپنے جواز کی صورت پذیری کر رہا ہے۔یہ کنارے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں اور زندگی کی ندی ان کے درمیان رواں دواں ہے ۔
اس مختصر بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ زندگی، انسانیت کی جستجو کا نام ہے اور انسان ، انسانیت کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ بلاشبہ انسان ( مادی کلچر ) اپنے آپ کو بامعنی بنانے کے لیے انسانیت ( غیر مادی کلچر ) کا متلاشی ہے اور پیغمبروں نے خداکے حکم سے نوعِ انسانی کو اسی تلاش میں متحرک وانگیخت کرنے کے ساتھ ساتھ مدد دینے کی بھی کوشش کی ہے کہ اس تلاش میں کامیابی کے بعد ہی انسان اپنے مخصوص احوال وظروف میں ایک ایسے بہتر مادی کلچر تخلیق کر سکتا ہے جس کے محرک خیالات ، انسانیت کے خمیر میں گندھے ہوئے ہوں ۔ 
تاریخ کے قدیم دور سے لے کر ہمارے اپنے عہد تک صنفِ نازک ( یعنی عورت جو انسان بھی ہے )کے اس سماجی مقام کی نوعیت ہمیشہ زیرِ بحث رہی ہے جسے انسانیت کے دائرے میں شمار کیا جا سکے تا کہ انسان اپنی معنوی شناسائی کی اس بعُد کوبھی چھو سکے ۔ اس ضمن میں معلوم تاریخ کا مجموعی تاثر یہی ہے کہ صنفِ نازک ہر دور میں مرد کے زیرِ نگین رہی ہے، اگرچہ عورت کی برتری کی چند استثنائی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ جہاں تک پیغمبروں کا تعلق ہے، انھوں نے بھی خدائی حکم کی پیروی میں صنفِ نازک کے ایسے سماجی مقام کو انسانیت کی حدود میں تسلیم کیا ہے جو شاید پہلی نظر میں اور بظاہر مرد کے مقابلے میں کمتر دکھائی دے۔ ہم اس سلسلے میں قدیم آسمانی صحیفوں اور نبیوں کی طرف مراجعت کرنے کے بجائے ناسخِ کتب الٰہیہ قرآن مجیدکے احکامات اور خاتم النبیین محمد ﷺ رسول اللہ کی عملی تفسیر کا حوالہ دینا پسند کریں گے ۔ نزولِ قرآن مجید اور بعثتِ نبوی ﷺ کے وقت عرب اور کرۂ ارض کے دیگرخطوں کے باسیوں کی حالتِ زار کے متعلق یہ کہنا کفایت کرے گا کہ ان کے ہاں عورت ’’انسان‘‘ نہیں سمجھی جاتی تھی۔ عورت کے سماجی مقام کی اس سطح (حالانکہ یہ کوئی سطح نہیں ہے ) سے ہی نہ صرف متعلقہ کلچروں کی انسانیت فہمی کی انتہائی کمتر اور پست سطح ظاہر ہو رہی تھی بلکہ اس کی کوکھ سے شواہد و ظواہر میں ابتذالی مادی کلچر بھی جنم لے رہا تھا۔ اس مخصوص انسانی احوال و ظروف میں ربِ کائنات کی بخشی ہوئی ہدایت کی روشنی میں خاتم النبیین ﷺ نے انسان کی انسانیت فہمی کی درستی کے لیے عورت کے سماجی مقام کو وہ سطح عطا کی جس کے بعد یہ ممکن ہو سکا کہ انسان ، انسانیت نواز مادی کلچر کی تشکیل کر سکے۔ اہم بات یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے انسانی تاریخ کے روایتی دھارے سے ہٹ کر عورت کے سماجی مقام کوromanticise کرنے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی۔ آپ نے حقوقِ نسواں کی کوئی تحریک شروع نہیں کی۔ حکم الٰہی کی پیروی اور انسانی تاریخ کے اسباق کی مطابقت میں ( خیال رہے کہ تشریعی احکامات اور تکوینی مظاہر متضاد نہیں ہو سکتے) آپ ﷺ نے مردکی برتری کے پیشِ نظر مرد کے اس رویے کی اصلاح کی جو عورت سے متعلق تھا ۔ عورت کی حالتِ زار اور مظلومیت کا اس کے علاوہ اور کوئی مطلب نہیں تھا کہ مرد اپنے اصل مقام سے ہٹ گیا ہے، کیونکہ مرد کی بظاہر برتری کے مظہر کے باوجود ، اگر مرد اپنے مردانہ سماجی مقام سے انحراف نہ کرے تو عورت کبھی بھی ایسے سماجی مقام کی مستحق نہیں ٹھہر سکتی جو اسے مظلومیت کی علامت بنا ڈالے ۔ آپ ﷺ نے عورت کے سماجی مقام کی کمتری کو romanticise کرنے اور عارضی ، جعلی و مصنوعی مساوات کا نعرہ لگانے کے بجائے ، مرد کو مردانگی کی تلاش میں مدد دے کر عورت کو استحقاقی سماجی مقام عطا کیا ۔ 
ہمارے اپنے عہد میں اگر حقوقِ نسواں کی تحریکوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور عورت اپنے روایتی تاریخی مقام سے ہٹتی دکھائی دے رہی ہے تو اس کا مطلب اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ انسانیت اپنی مردانگی کی تلاش میں سرگرداں ہے ۔ بہت عجیب بات ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگوں کو عورت کی بے جا آزادی اور بے لگامی بہت چبھتی ہے، لیکن ہم میں سے اکثر لوگ اس کی وجہ پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ آخر ایسا کیونکر ہو رہا ہے، اگرچہ ’’کیونکر‘‘ کے بعض نام نہاد متلاشی ، شواہد و ظواہر کے مادی کلچر (صنعتی انقلاب ، انفارمیشن ٹیکنالوجی وغیرہ) کو الزام دے کر اس غیر مادی کلچر ( انسانیت فہمی کی نا درستی ) سے صرفِ نظر کیے ہوئے ہیں جو مسئلے کا اصل سبب ہے ۔یہ بات کچھ ایسے ہی ہے جیسے کسی کمرے میں موجود رائٹنگ ٹیبل کی جگہ تبدیل کر دی جائے۔ پھر لامحالہ کرسی کو بھی نئی جگہ پر ٹیبل کے قریب رکھ دیا جائے اور ٹیبل کو نظر انداز کرتے ہوئے کرسی پر الزام دھرا جائے کہ اس نے خوامخواہ اپنی جگہ تبدیل کر لی ہے۔ کوئی بھی معروضیت پسند ایسا الزام لگانے کی غلطی نہیں کرے گا ۔ وہ یہ بات بہت اچھی طرح جانتا ہو گاکہ ٹیبل کے اپنے مقام سے ہٹنے کے بعد کرسی کا اپنے مقام سے ہٹ کر نئے مقام پر منتقل ہونا نا گزیر ہے۔ اگر کرسی کو سابقہ مقام پر منتقل کرنا مقصود ہو تو ٹیبل کاسابقہ مقام پر انتقال ، بنیادی تقاضا بن جا تا ہے ۔ لٰہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان اپنے وجود کو با معنی بنانے کے لیے غیر مادی کلچر کی درستی کرے کہ اپنے وجود کی معنوی شناسائی کے طفیل ہی وہ اپنی کھوئی ہوئی مردانگی پا سکتا ہے ، جس کے بعد اس کی افراط و تفریط کی شکار بعُد ( حالانکہ حقیقت میں افراط و تفریط مرد کے ہاں ہے) جسے ہم صنفِ نازک کہتے ہیں، خود بخود متوازن راہ چن لے گی۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
مکرمی ومحترمی مولانا زاہد الراشدی صاحب زید مجدہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی!
انتہائی سپاس گزار ہوں کہ ایک عرصہ سے آپ کا موقر ماہنامہ ’الشریعہ‘ موصول ہو رہا ہے، مگر یہ ناکارہ اس کی کوئی رسید بھی نہ بھیج سکا۔اس کوتاہی کے باوجود ’الشریعہ‘ مسلسل مل رہا ہے۔ یہ بس آپ کی ذرہ نوازی ہے۔ اس محبت وشفقت پر مکرر شکر گزار ہوں۔ ادارہ میں آنے والے جرائد ورسائل میں ایک ’الشریعہ‘ بھی ہے جسے بالاستیعاب پڑھتا ہوں اور اس کے مضامین سے استفادہ کرتا ہوں۔
’الشریعہ‘ کے ذریعے بلاشبہ سب کے دلوں کی ترجمانی ہوتی رہتی ہے اور یہ آپ کی وسعت ظرفی کا نتیجہ ہے، مگر میری ناقص رائے میں یہ ’الشریعہ‘ کی قطعاً ترجمانی نہیں۔ ممکن ہے کہ یہ آپ کی پالیسی ہو کہ اس میں ہر صاحب قلم جو چاہے قلم کاری کرے اور ’’ما تخفی صدورہم اکبر‘‘ کے کچھ مصداق بھی ’الشریعہ‘ کو اپنے لیے وسیلہ ظفر بنانا چاہیں تو بنا لیں، مگر معاف کیجیے یہ ’الشریعہ‘ کے نام پر دین کی کوئی خدمت نہیں۔ اگر دین اسلام کے بارے میں تشکیک پیدا کرنا جرم ہے تو ایسے مضامین کو طبع کرنا مستحسن کیونکر ہو سکتا ہے؟
’’مکاتیب‘‘ میں الشریعہ کے معزز قارئین نے کئی بار اس قضیہ نامرضیہ کے بارے میں آپ کو توجہ دلائی، مگر وہ تاحال صدا بصحرا ہی ثابت ہوئی۔ اسی تناظر میں سمجھتا ہوں کہ اس ناکارہ کی یہ جسارت بھی رائیگاں جائے گی۔ تاہم ’الشریعہ‘ سے تعلق ، جو آپ نے محض اپنی شفقت سے پیدا کیا ہے، کا تقاضا ہے کہ اپنی بات کہہ ہی دی جائے۔
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
والسلام۔ دعا جو
ارشاد الحق اثری
ادارۃ العلوم الاثریہ
منٹگمری بازار فیصل آباد
(۲)
مکرم ومحترم مولانا ارشاد الحق اثری صاحب زیدت فیوضکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ مزاج گرامی؟
آپ کا عنایت نامہ موصول ہوا۔ بے حد شکریہ! مکتوب کے مخاطب تو والد گرامی ہیں، تاہم چونکہ وہ ان دنوں بیرونی سفر پر ہیں، نیز ’الشریعہ‘ کے مندرجات کی ترتیب کی ذمہ داری زیادہ تر مجھ پر عائد ہوتی ہے، اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ میں خود آپ سے مکاتبت کی سعادت حاصل کروں۔
آپ نے جس نکتے کی طرف اشارہ فرمایا ہے، میرا خیال ہے کہ زاویہ نگاہ کے ایک معمولی سے فرق کے باعث اس میں ہمارا موقف سمجھنے میں بالعموم قارئین کو دشواری پیش آتی ہے۔ اس وقت امت میں رائج بے شمار نقطہ ہائے نظر ہیں جن سے ہم اتفاق نہیں کرتے، تاہم چونکہ ہماری نظر میں وہ کسی نہ کسی فکری یا عملی الجھن سے پھوٹے ہوئے ہوتے ہیں اور ایک سنجیدہ مباحثہ کے بغیر ان کی غلطی کسی طرح سے واضح نہیں کی جا سکتی، اس لیے ہم انھیں ’الشریعہ‘ کے صفحات میں موضوع بحث بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو اپریل ۲۰۰۵ کے شمار ے میں ڈاکٹر مہاتیر محمد کے خطاب پر ادارتی نوٹ کو دوبارہ ملاحظہ فرما لیں۔
یہ بات ہمارے لیے بے حد حوصلہ افزائی کا باعث ہے کہ ’الشریعہ‘ آپ جیسے اہل علم کی نظر سے بالاستیعاب گزرتا ہے۔ امید ہے کہ آپ کی توجہ اور عنایت ہمیں آئندہ بھی حاصل رہے گی۔
والسلام
عمار ناصر
۰۵/۰۶/۲۲
(۳)
باسمہ تعالیٰ
محترم المقام سلام مسنون!
مزاج گرامی؟
اعزازی طور پر فرستادہ جریدہ ’الشریعہ‘ نظر نواز ہوا۔ یہ آپ کا کرم ہے کہ ایک دور افتادہ، اجنبی گوشہ نشین کو آپ نے سرفراز فرمایا۔ اس یاد فرمائی پر میں خلوص دل سے آپ کا شکر گزار ہوں۔ میں اظہار تشکر کے طور پر نہیں، بلکہ امر واقعی کے طور پر بغیر کسی مبالغہ آرائی کے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے اسے دیگر مذہبی رسالوں سے بہت مختلف پایا ہے۔ آپ نے اس میں فروعی مسائل کے بجائے ٹھوس، جامع اور اہم بنیادی مسائل پر مبنی مضامین شامل کر کے اسے منفرد اور پروقار بنا دیا ہے۔
گزشتہ شمارے میں آپ نے بیک وقت طلاق ثلاثہ پر مختلف الرائے علما کو جو دعوت فکر دی ہے، وہ قابل تحسین ہے۔ فروعی مسائل پر فتاواے کفر جاری کرنے والے ، قرآن مجید کے واضح حکم پر ایک وقتی، انتظامی اور تہدیدی حکم کو کیونکر فوقیت دیے ہوئے ہیں اور اسے حکم خداوندی کی ہی توضیح کا نام دے رہے ہیں، یہ ناقابل فہم ہے۔
دین اسلام نوع انسانی کی سہولت کے لیے ہے، انھیں مصائب میں مبتلا کرنے کے لیے نہیں۔ بلاد عرب میں طلاق ودوبارہ شادی تہذیبی وسماجی معمولات میں شامل ہے، لیکن یہاں باپ اپنی بیٹی کو رخصتی کے وقت نصیحت کرتا ہے کہ بیٹی! اب سسرال سے تمہارا جنازہ ہی نکلے، لیکن بلاد عرب میں ایسا نہیں۔ حضرت اسماء بنت عمیس، حضرت عقیل بن ابو طالب کی زوجہ تھیں۔ پھر وہ حضرت ابوبکر صدیق کے عقد میں آئیں اور حضرت محمد بن ابوبکر کی والدہ بنیں۔ پھر یہی خاتون حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زوجہ بنیں اور حضرت محمد بن ابوبکر کی پرورش اہل بیت میں ہوئی، لیکن یہاں پر دوسری شادی کو بہت سے خاندانوں میں غیر شریفانہ اور غیر خاندانی تصور کیا جاتا ہے۔
ہمارے اہل فکر ودانش کو شاید یہ احساس نہیں کہ اگر عتاب واشتعال کا وہی ایک لمحہ جس میں مغلوب الغضب شوہر اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دیتا ہے، اگر وہی ایک لمحہ بغیر طلاق مغلظہ کے گزر جائے تو ۸۰ فی صد گھر برباد ہونے سے بچ جائیں۔ میرے علم میں ہے کہ ایک بھوکے مزدور نے اپنی بیوی کو اس لیے طلاق دے دی کہ جب وہ گھر آیا تو اسے کھانا تیار نہ ملا۔ ایسے بے شمار واقعات ہیں لیکن 
ایں رشتہ بانگشت نہ پیچی کہ دراز است
آخر میں (دورۂ حدیث کے دوران) مجھے ایک حدیث ابھی تک اس عمر میں یاد ہے کہ ایک جید صحابیؓ نے (نام مجھے یاد نہیں رہا) اسی طرح اپنی زوجہ کو طلاق دے دی اور مغموم صورت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے مسکرا کر فرمایا: ’’تمھیں تو طلاق دینی بھی نہ آئی۔ جاؤ طلاق (مغلظ) واقع نہیں ہوئی۔‘‘
اس مسئلہ پر اور موجودہ دور کے دیگر نئے اجتہاد طلب مسئلوں پر مسلسل دعوت فکر دیتے رہیں، کیونکہ یہ اجتہاد بھی ہے، جہاد بھی ہے اور امت مسلمہ کی اہم ضرورت بھی ہے۔
میری زیر طبع کتاب ’’فرمودات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور جدید دور کے تقاضے‘‘ عنقریب الفیصل لاہور سے شائع ہونے والی ہے۔ پیش کروں گا۔
والسلام
مخلص
(خواجہ) طاہر محمود کوریجہ
۱۵۔ سی ، ماڈل ٹاؤن اے، بہاول پور
(۴)
برادر محترم جناب عمار ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ! مزاج گرامی؟
میں ایک عرصے سے ’الشریعہ‘ کا قاری ہوں۔ جونہی ’الشریعہ‘ بذریعہ ڈاک مجھ تک پہنچتا ہے، تمام مصروفیات کے باوجود میری کوشش ہوتی ہے کہ اسے ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالوں۔ 
الشریعہ کے صفحہ اول پر اس کا پیغام ’’وحدت امت کا داعی اور غلبہ اسلام کا علم بردار‘‘ کے الفاظ میں مرقوم ہے۔ الشریعہ پڑھتے ہوئے کبھی کبھی یہ پیغام بھی ذہن میں آتا ہے، لیکن مضامین کی اکثریت اس پیغام سے عاری ہوتی ہے۔ کئی بار خیال ہوا کہ الشریعہ کے چند شمارے سامنے رکھوں اور اپنے تاثرات لکھ ڈالوں، لیکن پھر سوچا کہ الشریعہ کے صفحات کے لیے میری بے ڈھنگی تحریر موزوں بھی ہوگی یا نہیں، کیونکہ الشریعہ میں ایسے مضامین آب وتاب سے صفحات کی زینت بنائے جاتے ہیں جن میں انوکھی بات کو چھیڑا جائے اور اپنوں کو نہ چھوڑا جائے۔ اس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی ہوتا ہے کہ جب الشریعہ میں ایسے مضامین چھپ سکتے ہیں جو پوری طرح اس کے پیغام کی نمائندگی نہ کرتے ہوں تو شاید میرے بے ترتیب خیالات بھی اس میں جگہ پا کر قارئین تک پہنچ سکیں۔ 
’’کلمہ حق‘‘ میں استاذی مولانا زاہد الراشدی صاحب کی حقیقت پسندانہ تحریریں واقعی قاری کو تصویر کا صحیح رخ دکھاتی ہیں، مگر ہم مولوی لوگ شاید حقیقت پسندی سے اتنا دور ہو چکے ہیں کہ حالات کا صحیح ادراک کر کے اپنی خامی کا اقرار کرنے کے بجائے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں مزید غلطیاں کر ڈالتے ہیں۔ ایک شمارے میں استاذی نے حقیقت کا ایک رخ دکھلایا اور ’’کافر کافر‘‘ کے نعرے پر تنقید کی تو ایک طوفان برپا ہو گیا۔ بعض دوسرے جرائد میں بھی اس موضوع پر لکھا گیا، لیکن خود ’الشریعہ‘ نے مختلف نقطہ ہائے نظر کو اپنے صفحات پر جگہ دے کر دینی صحافت میں ایک مثبت قدم اٹھایا۔ ایک طرف شیعہ سنی اتحاد کے داعی ہیں اور دوسری طرف وہ جو اس بات پر بضد ہیں کہ شیعہ حضرات کا وجود یہودیوں اور عیسائیوں سے بھی بدتر ہے۔ غالباً دونوں گروہوں نے چودہ سو سال کی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا۔ شیعہ سنی اختلاف ہر دور میں معرکہ کامیدان رہا ہے۔ شیعہ حضرات نہ صرف اپنے عقائد پر کاربند ہیں بلکہ اپنی تحریر وتقریر سے سنیوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔ کیا اتحاد کے داعیوں کو ان حضرات کے بنیادی عقائد میں کوئی کجی نظر نہیں آتی؟ کیا ان کو خلافت راشدہ کے عہد سے لے کر آج تک ان کا غیر ذمہ دارانہ رویہ نظر نہیں آتا؟ کیا وہ ہلاکو خان کے ہاتھوں سقوط بغداد سے لے کر بش کے ہاتھوں سقوط بغداد تک کی تاریخ سے غافل ہیں؟ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ چودہ سو سال کی شدید نفرتیں شیعہ اقلیت کو مٹا نہیں سکیں نہ سنیوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر سکیں۔ یہاں ایک متوازن حقیقت پسندانہ رویے کی ضرورت ہے کہ دونوں گروہ اپنے اپنے وجود کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے دائرۂ امتیاز میں رہ کر اپنے عقائد پر کاربند رہیں اور چھیڑ چھاڑ سے اپنی صلاحیتوں کو ضائع کر کے یہود ونصاریٰ کے آلہ کار نہ بنیں۔
ڈاکٹر محمود احمد صاحب غازی کا خطاب الشریعہ (فروری ۲۰۰۵) میں پڑھنے سے قبل میں براہ راست سن بھی چکا تھا۔ آج کے دور میں ہر چیز تیزی سے ارتقا کا سفر طے کر رہی ہے، مگر دینی سامراج مختلف حیلوں بہانوں سے ارتقا کی راہ میں جمود کے روڑے اٹکانے کے لیے کوشاں ہے۔ مدارس کے نصاب میں کیا تبدیلیاں ہونی چاہییں، ڈاکٹر صاحب کی باتیں دل کو تو لگتی ہیں لیکن اکابر پرستی اس کی بھلا کیسے اجازت دے سکتی ہے۔ مدارس کے نصاب کو اگر طلبہ کی متفاوت صلاحیتوں اور دستیاب ذرائع ووسائل کے پیش نظر ترتیب دیا جائے تو دینی نصاب کو مختلف درجات میں تقسیم کر کے بہترین نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اگر درجہ اعدادیہ سے دورۂ حدیث تک کے طلبہ کی تعداد کو سامنے رکھیں تو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ شاید ۱۰ فی صد طلبہ ہی تکمیل کر پاتے ہیں۔ درمیان میں کسی وجہ سے تعلیم چھوڑ جانے والے طلبہ کو نہ ہم مولوی شمار کرتے ہیں اور نہ مذہبی ٹھیکے داری میں شریک۔ ہماری دوسری کوتاہ نظری یہ ہے کہ کہ اگر کوئی طالب علم تعلیم حاصل کر کے تجارت یا کوئی دوسری دنیوی پیشہ اختیار کرتا ہے تو ہم اس کے اس عمل کو اساتذہ کی بد دعاؤں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، حالانکہ اگر ایک عالم شرعی طریقے کے مطابق تجارت کرے تو یہ مدارس کی کامیابی ہے کہ انھوں نے معاشرے کو ایک امانت دار اور سچا تاجر فراہم کیا۔ انگریز کے قابض ہونے سے پہلے برصغیر پاک وہند میں ایک ہی نظام تعلیم تھا جو مفتی، قاضی، عالم اور معاشرے کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے رجال کار مہیا کرتا تھا اور اس کے فضلا ہر میدان میں اپنی خدمات پیش کرتے تھے۔ آج بھی مدارس کے نصاب کو مختلف صلاحیتوں کے پیش نظر ترتیب دینا چاہیے اور ایک متوازن نصاب کے ذریعے سے متنوع صلاحیتوں کے طلبہ پیدا کرنے کا اہتمام ہونا چاہیے۔ فارغ التحصیل ہونے والے تمام علما نہ تو تدریس کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ اہل مدارس سب کے لیے ایسے مواقع پیدا کر سکتے ہیں کہ وہ اس میدان میں دین کی خدمت کریں۔ چنانچہ گنتی کے چند باصلاحیت افراد کو نکال کر باقی فضلاے مدارس کو دوسرے میدانوں میں معاشرے کی راہنمائی کرنی چاہیے، نہ یہ کہ وہ معاشرتی سرگرمیوں اور مسائل سے لاتعلق اور احساس کمتری کا شکار ہو کر مدرسے کی چار دیواری تک محدود ہو جائیں۔ 
ہمارے قابل احترام دوست پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب کے قلم سے عموماً ایسی تحریریں برآمد ہوتی ہیں جن سے خاموش سمندر میں تلاطم پیدا ہو جائے۔ پروفیسر صاحب الفاظ کے داؤ پیچ، ہیر پھیر اور اونچ نیچ کو برمحل استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اسی صلاحیت کو اپنے حق میں دلائل بنا کر الشریعہ کے صفحات کو زینت بخشتے ہیں۔
جون کے شمارے میں تاریخی افسانوں اور ان کی حقیقت سے متعلق پروفیسر شاہدہ قاضی صاحب کا مضمون قابل توجہ تھا، تاہم یہ بات دیکھنے کی ہے کہ خود ان کے دعویٰ کی بھی کوئی حقیقت ہے یا وہ بھی افسانے پر افسانے کا درجہ رکھتا ہے۔
الشریعہ کا سب سے جرات مندانہ قدم اس میں شائع ہونے والے ’’مکاتیب‘‘ ہیں جنھیں من وعن قارئین تک پہنچا دیا جاتا ہے، ورنہ روش عام یہی ہے کہ اگر کسی کی کوئی رائے آپ پر تنقید کا دروازہ کھولتی ہے تو اسے امانت داری کے ساتھ ردی کی ٹوکری کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ الشریعہ کے رئیس التحریر یا مدیر پر تنقیدی خطوط یا دیگر مندرجات پر ناقدانہ تبصروں کو الشریعہ میں جگہ دینا مجلس ادارت کی مثبت سوچ، رواداری اور تحمل کا واضح ثبوت ہے۔
الغرض الشریعہ اگرچہ اپنے پیغام کے معیار پر سو فیصد پورا نہیں اترتا، لیکن ایک نئی سوچ، مثبت رویوں،اچھوتی تحریروں اور بے لاگ تبصروں کا امین ضرور ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ الشریعہ اپنے مضبوط قلم کاروں کے سہارے اہل علم کے لیے غور وفکر کا سامان میسر کرتا رہے۔ آمین
حماد انذر قاسمی
استاذ جامعہ فاروقیہ 
چوک امام صاحب ۔ سیالکوٹ
(۵)
محترم ومکرم جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے۔ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کا فکری منہج اور اسلوب صاحب فکر قارئین کے لیے بے حد دلچسپی کا باعث ہے، جس پر اللہ رب العزت کے حضور اظہار تشکر ضروری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ استاذی مولانا زاہد الراشدی صاحب کی صالح اور متوازن سوچ ہی ہے جس کا عکس الشریعہ کے جملہ کالم نگاروں کی تحریروں میں دکھائی دیتا ہے اور الشریعہ کی ٹیم اس پر بجا طور مبارکباد کی مستحق ہے۔ 
ماہِ اگست کے شمارہ میں میاں انعام الرحمن صاحب نے سرزمینِ مغرب میں وجود پذیر حقائق کی جس انداز میں تصویر کشی کی ہے، وہ واقعۃً قابل تعریف ہے۔ احقر ہمیشہ سے میاں صاحب کے اندازِ فکر وتحریر کا معترف ہے۔ اللہ رب العزت میاں صاحب اورجملہ قلمکاروں کے علم وعمل میں برکت عطافرمائے۔ آمین۔
مزید براں راقم اپنی اور برادرم فیروز الدین شاہ کھگہ صاحب کی طرف سے ان تمام قارئین کرام کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہے جنہوں نے اندرون وبیرون ملک سے ’’الفرقان الحق‘‘ کے حوالے سے ہمارے تنقیدی مضمون پر اپنی آرا اور تجزیوں کا اظہار فرمایا اور اس طرح ہمارے اس عزم کو مزید تقویت پہنچائی کہ ہم استشراقی طرز فکر، منہج استدلال اور اس کے پس پردہ کارفرما عزائم کی حقیقت کو مسلمانوں پر آشکارا کریں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری کوششیں اس کی بارگاہ میں قبولیت سے سرفراز ہوں اور مسلم امہ کی نشاۃ ثانیہ کے حصول میں کسی بھی درجے میں مفید اور مددگار ثابت ہو سکیں۔ آمین
والسلام
حافظ محمد سمیع اللہ فراز
ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان، لاہور
(۶)
جناب محمد عمار خان ناصر صاحب، مدیر ماہ نامہ الشریعہ
السلام علیکم!
خداوند تعالیٰ ہمیشہ آپ کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ ماہنامہ الشریعہ ہمیں باقاعدگی سے موصول ہو رہا ہے جس کی وجہ سے میں اپنی لائبریری کی طرف سے آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔
ماہنامہ الشریعہ ایک معیاری رسالہ ہے جس میں عصر حاضر کے اہم موضوعات، حالات وواقعات پر خوبصورت مواد پڑھنے کو ملتا ہے جو کہ ہمارے طلبا وطالبات، ریسرچرز اور اساتذہ کرام کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔ ایک دفعہ پھر شکریہ اس امید کے ساتھ کہ آپ آئندہ بھی ہماری لائبریری کو یاد رکھیں گے۔
خداوند تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
رفعت رفیق
(لائبریرین)
شعبہ علوم اسلامیہ، جامعہ پنجاب
قائد اعظم کیمپس، لاہور

’’پوشیدہ تری خاک میں۔۔۔‘‘ : ایک مطالعہ

حافظ صفوان محمد چوہان

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کا سفرنامۂ اندلس ’’پوشیدہ تری خاک میں۔۔۔‘‘ پڑھا۔ جو چند باتیں فوری طور پر ذہن میں جگہ پاگئی ہیں، اُنھیں ایک امانت خیال کرتے ہوے معرضِ تحریر میں لانے کی کوشش کررہاہوں۔ 
سب سے پہلی اور نمایاں بات تو یہ ہے کہ پونے تین سو صفحات کے اِس سفرنامے میں، جو کہ سرزمینِ یورپ کے دو ممالک کے سفر کی روداد ہے، ایک جگہ پر بھی کوئی خاتون در نہیں آئی-- نہ اِشارتاً نہ صورتاً۔ یہ بات نمایاں اِس لیے ہے کہ اردو میں سفرنامہ لکھنا جب سے ’’صنعت‘‘ کی شکل اختیار کرگیا ہے، Marketing کا یہ اُصول کہ ہر چیز کی تشہیر عورت کے ذریعے سے ہو، ہر سفرنامے کا بنیادی جزو بن گیا ہے۔ ہر سفرنامے کے بالعموم ہر دوسرے صفحے پر کسی اصلی یا خیالی نامحرم خاتون کا چٹخارے دار ذکر ہوتا ہے۔ کچھ ایسے شیردل سفرنامہ نگار بھی موجود ہیں جو اِس صفت سے متصف اپنے سفرناموں کا انتساب بھی اپنی بیگمات کے نام کرتے ہیں۔ خیر، یہ تو جملۂ معترضہ تھا۔ میں اپنے نہایت محدود مطالعے کی روشنی میں دورِ حاضر میں لکھے گئے صرف ایک سفرنامے، ’جہانِ دیدہ‘ کو اِس علت سے پاک پاتا ہوں جس میں سفرنامے کے تمام ادبی لوازم بھی موجود ہیں اور معلومات کا تنوع اور رنگارنگی بھی، جب کہ مذکورۂ بالا ’’تشہیری عنصر‘‘ سے اِس کا دامن آلودہ نہیں ہے۔ میرے مطالعے میں آنے والا دوسرا سفرنامہ اِس باب میں یہی ہے۔ 
ہاں! سفرنامۂ حج و عمرہ کا مسئلہ بالکل مختلف ہے۔ جو قلم کار حج یا عمرہ کا سفر کرتے ہیں اُنھیں عموماً اِس مخلوق سے پالا نہیں پڑتا۔ لیکن یہ صرف اِس سفر کا اعجاز ہوتا ہے، وگرنہ اِنھی میں سے کسی کے کسی دوسرے سفر کی روداد پڑھ لیجیے، یہ مخلوق ہر ہر قدم پر دامن گیر ملے گی، الاماشاء اللہ۔ حدیثِ پاک میں جن کم تر نیت کو لے کر عازمِ سرزمینِ حجاز ہونے والے لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے، اُن میں نام و نمود کی طلب والے لوگ بھی شامل ہیں۔ فی زمانہ شاید اِن لوگوں سے ’’سفرنامۂ حج و عمرہ نویس‘‘ ہی مراد ہیں۔ واللہ اعلم۔ 
دوسری بات جو اِس سفرنامۂ اندلس میں ہر ہر سطر سے عیاں ہے، شاعرِمشرق علامہ محمد اقبالؒ کی محبت کی بکھری ہوئی خوشبو ہے۔ ایک اقبال شناس جب اقبال کے خوابوں کی سرزمین، اندلس میں اقبال ہی کے حوالے سے جمع ہونے والے عالم بھر کے اقبال شناسوں میں ایک مقالہ پڑھنے کے لیے مدعو ہوگا تو ہر حوالہ اقبال ہی کو مشیر ہوناچاہیے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ پوری کتاب میں ایسی جگہ شاذ کے حکم میں ہے جہاں اقبال کے کسی شعر یا فلسفیانہ خیال کا استعمال آورد معلوم ہوتا ہو۔ کئی مصرعے تو ایسے برجستہ استعمال ہوئے ہیں کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ 
سفرناموں میں طویل نویسی کی ایک ٹیکنیک یہ بھی ہوتی ہے کہ معلومات کا تذکرہ کرنے کے بجاے قاری کو معلومات کے بوجھ سے لادنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میں ایک سفرنامۂ حج کا ذکر مثال کے طور پر کروں گا۔ جن لوگوں کو اللہ نے حج کی سعادت نصیب فرمائی ہے وہ یہ ضرور جانتے ہیں کہ جنت البقیع کا سارا علاقہ آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک کی طرف ہے۔ اِس میں ایک مختصر لمبائی کا احاطہ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ میں سے نو اَزواجِ مطہراتؓ کی قبریں ہیں جو آپس میں اِس قدر قریب ہیں کہ ایک دوسری میں تقریباً پیوست ہیں۔ اِس باب میں علم معدوم ہے کہ یہ قبریں کس ترتیب سے ہیں۔ ہمارے ایک قلم کار کے سفرنامۂ حج کا تقریباً بیس فی صد حصہ اَزواجِ مطہراتؓ کی قبور پر فاتحہ خوانی کی روداد پر مشتمل ہے۔ اور بہت سی باتوں کے علاوہ ہر اُم المومنینؓ کی حضورِپاک صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کی تفصیل اور اُن کے اور اُن کے خاندان کے فضائل اور بعض تاریخی واقعات بھی فاتحہ خوانی کے اِس موقع پر بیان کیے گئے ہیں۔ پیرایۂ اظہار اِس تخصیص اور صراحت کے ساتھ یوں ہے کہ ’’میں [فلاں] ام المومنینؓ سے اجازت لے کر [فلاں] ام المومنینؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔۔۔‘‘ Pedantry کا عالم یہ ہے کہ موصوف نے سفرنامے کے ہر باب کا عنوان کسی مصرعے سے باندھنے کا التزام کیا ہے، گو وہ مصرع کتنا ہی غیرمعروف اور غریب ہو۔ آمدم برسرِمطلب۔ ’’پوشیدہ تری خاک میں۔۔۔‘‘ کے مطالعے کے دوران میں مجھے طویل نویسی اور قاری کو معلومات کے بوجھ سے لادنے کی ایسی کوئی کوشش کسی ایک جگہ پر بھی نہیں ملی۔ رواں دواں انداز میں بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے، اور ہر بات ایک منطقی ترتیب میں ہے۔ جو بات کہنے کی ہے، صرف وہی کہی گئی ہے۔ لیکن ایک بات ضرور عرض کروں گا کہ کچھ چیزیں بلاضرورت محسوس ہوتی ہیں، جیسے ایک جگہ پر دفتری سیاست کا اور ایک اور جگہ پر ملکی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا اقبالیات کے حوالے سے مختصر مختصر تذکرہ، گو یہ زیادہ بوجھل بھی نہیں ہے۔ 
رہا Pedantryکا سوال-- یہ بات واضح ہے کہ جب ایک شخص ایک ایسے سفر کی روداد بیان کرے گا جو اُس کے خوابوں کی سرزمین میں ہوا، تو اُسے اِس بات کا کہاں ہوش ہوگا کہ اندازِبیاں، جملوں کی بُنت اور الفاظ کے چناؤ پر توجہ دے۔ وہ تو بلاتمنّاے ستایش و کلمۂ تحسین اپنی کہے چلا جاے گا۔ اِس فحواے کلام کو دل کی آواز کہتے ہیں۔ ’’پوشیدہ تری خاک میں۔۔۔‘‘ میں ہر جگہ یہی انداز ہے۔ مجھے یہاں ہٹلر کی خودنوشت سوانح Mein Kampf [میری جدوجہد] سے ایک بات یاد آرہی ہے۔ اُس نے ایک جگہ پر لکھا ہے کہ اگر دشمن کا کوئی جاسوس پکڑا جاے تو راز اُگلوانے کے لیے اُسے زمین پر ننگے پاؤں کھڑا کرکے دونوں میں سے کسی ایک پاؤں کی سب سے چھوٹی انگلی پر بوٹ کی ایڑی رکھ کر پوری قوت سے گھوم جاؤ۔ ایک چیخ کے ساتھ اُس کی ایک انگلی نکل جاے گی۔ یہ بے اختیار چیخ اُس کی مادری زبان میں ہوگی۔ یہ مثال یہاں پر شاید نادرست اور بے موقع ہے لیکن میرا اِس سے مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ یہ پورا سفرنامہ ہی، کم و بیش، ایک ایسا ہی بے اختیار اور تصنع سے پاک اظہارِ واقعہ ہے۔ 
سفرنامے پر اپنے ابتدائیے ’’حرفِ اوّل‘‘ میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب نے ایک بڑی کمال کی بات کہی ہے جو اگر مکمل بیان نہ کی جاے تو میرا بیان ناقص رہے گا۔ فرماتے ہیں: 
’’میں ہسپانیہ میں مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں کسی رومانوی خوش فہمی کا شکار نہیں ہوں۔ ’’اندلس میں چند روز‘‘ کے مصنف جسٹس محمد تقی عثمانی کی ایک بات دل کو لگی۔ وہ بتاتے ہیں کہ اختتامِ سفر پر ایک ساتھی نے سوال کیا:’’کیا کبھی مسلمان اِس خطے کو دوبارہ ایمان سے منور کرسکیں گے؟‘‘ عثمانی صاحب کا جواب بہت حقیقت پسندانہ تھا:’’اِس وقت تو مسلمان اپنے موجودہ خِطوں کو ٹھیک سے سنبھال لیں تو بہت ہے کہ وہاں اندلس کی تا ریخ نہ دُہرائی جاے۔‘‘ 
بہت سی چشم کشا باتیں بھی معلومات میں اضافے کا سبب بنیں۔ جہاں ایک طرف ابنِ رشد اور ابنِ حزم وغیرہ مفکرین کے ایسے خیالات جو امتِ مسلمہ کے سوادِ اعظم کے عقائد سے بالکل مختلف بلکہ اہلِ کفر کے خیالات کے مماثل ہیں اور اُن کے بارے میں ایسی باتیں علم میں آئیں جن سے ہم لوگ بُعدِمکانی کی وجہ سے لاعلم ہیں، اور اِن کے معلوم ہوجانے پر دل میں خفگی پیدا ہوئی، وہیں دوسری طرف مرحوم ڈاکٹر محمد حمیداللہ صاحب کے حقیقت بینی پر مشتمل خیالات اور فرانس کی لائبریری میں سیکڑوں طلبہ و طالبات کے یکسوئی سے مطالعے میں محو ہونے کے بیان نے بے حد متاثر کیا۔ یونیورسٹی میں تعلیم کا آغاز علی الصبح ہونا اور طلبہ و طالبات کا شوق و لگن کے ساتھ وقت پر پہنچنے کی فکر میں ہونا جہاں مصنف کو حیران کن اور کیف آور لگا وہاں مجھے بھی ایک ایسا پرلطف منظر لگا کہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ 
یہ بات قابلِ لحاظ ہے اور قابلِ رشک بھی، اور قابلِ صد افتخار بھی کہ یہ سفرنامہ جناب رشید حسن خاں کے مجوزہ اِملا کے مطابق لکھا گیا ہے جو بہت ہی احسن بات ہے۔ اردو املا کی یکسانی کے لیے جناب رشید حسن خاں کی خدمات اور محنت کسی پیمانے سے ناپی تولی نہیں جاسکتیں، کہ ہر پیمایش کی کوئی حد ضرور ہوتی ہے۔ میں اِس بات سے بہت خوش ہوا کہ مجھے پاکستان میں شائع ہونے والی ایک ایسی کتاب پڑھنے کو ملی جس میں خاں صاحب کے تجویز کردہ اصولِ املا و رموزِاوقاف کی ہر ممکن حد تک پابندی کی گئی ہے۔ 
مرحوم مشفق خواجہ صاحب نے اِس کتاب کے ابتدائیے ’’تقدیم‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ اب سفرنامہ کوئی الگ صنفِ ادب نہیں رہی، اِسے افسانہ نگاری کا بدل بلکہ نعم البدل سمجھاجاسکتا ہے۔ یہ اِس لیے کہ وہ واقعات بھی سفرنامے میں شامل ہوجاتے ہیں جو سفر کا حصہ نہیں ہوتے۔ عرض ہے کہ خواجہ صاحب ادب کے پارکھ ہونے کی وجہ سے ادب کی ایک صنف کا دوسری صنف سے موازنہ کررہے ہیں جب کہ میں ٹیکنالوجی کی دنیا کا باشندہ ہونے کی بناپر ادب کی اِس صنف یعنی سفرنامہ نگاری کا موازنہ ٹیکنالوجی سے کرتے ہوے اِسے ایک باقاعدہ ’’صنعت‘‘ کہہ رہا ہوں۔ بات ایک ہی ہے۔ کہنے والوں نے اپنے اپنے شعبوں کی زبان استعمال کی ہے۔ 
مختصر یہ کہ ’’پوشیدہ تری خاک میں۔۔۔‘‘ کے مطالعے کے دوران میں قاری اکیلا نہیں ہے بلکہ ہر لحظہ اُس مختصر قافلے کے ساتھ ہے جس میں امیرِ سفر جناب سہیل عمر جیسے دین دار آدمی ہیں، مرزا محمد منور مرحوم جیسے مرنجاں مرنج اقبالیات کے عالمِ بے بدل ہیں، اور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی جیسے ’’فنافی الاقبال‘‘ استادِ ادب۔ دنیا بھر کے بڑے اور اہم اقبال شناسوں کے علاوہ مرحوم ڈاکٹر محمد حمیداللہ صاحب سے ملاقات بھی اِس سفرنامے کے قاری کو نصیب ہوتی ہے، جو میرے خیال میں اگر جناب رفیع الدین ہاشمی صاحب کے لیے ’’حاصلِ سفر‘‘ ہے تو قاری کے لیے ’’حاصلِ مطالعہ‘‘۔ زہے نصیب! 

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’بائبل کا تحقیقی جائزہ‘‘

جناب بشیر احمد ایک تجربہ کار اور وسیع المطالعہ مصنف ہیں اور قادیانی ویہودی تعلقات کے حوالے سے ’’تحریک احمدیت‘‘ کے زیر عنوان ایک ضخیم دستاویزی کتاب مرتب کرنے کے علاوہ بہائی مذہب اور یہودی تنظیم فری میسنری پر بھی معلوماتی کتابیں پیش کر چکے ہیں۔ زیر نظر تصنیف میں انھوں نے بائبل کے متن کے تاریخی وتحقیقی جائزے کا اپنا موضوع بنایا ہے اور انسائیکلو پیڈیاز اور دیگر مستند علمی مآخذ کے ایک قابل قدر ذخیرے سے استفادہ کرنے کے بعد بائبل کے متن کی ترتیب وتدوین، اس کے تاریخی ارتقا، مقدس صحائف کے مختلف نسخوں، تاریخی اہمیت رکھنے والے تراجم اور دور جدید میں بائبل پر ہونے والی علمی وفنی تنقید کے مختلف پہلووں پر بنیادی اور اہم معلومات جمع کر دی ہیں۔ 
کتاب یقیناًایک اہم علمی موضوع پر ہے اور اس میں، عام مذہبی روایت کے برعکس، مناظرانہ انداز سے بھی بالعموم اجتناب کیا گیا ہے، تاہم ترتیب وپیش کش کے پہلو سے کتاب میں بہتری پیدا کرنے کی کافی گنجایش موجود ہے۔ اندازہ یہ ہوتا ہے کہ نوٹس کی صورت میں کتاب کا مواد جمع کرنے کے بعد موضوع کی تسہیل اور مواد کی مناسب پیش کش کے لیے درکار ترتیب وتہذیب کا خاص اہتمام نہیں کیا گیا۔ جا بجا ایسے پیرا گرافس ملتے ہیں جن میں جملوں کے مابین کوئی منطقی ربط تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بعض مقامات پر تاریخی نظریات وواقعات کا حوالہ اس طرح اجمال واختصار سے آیا ہے کہ مسئلے کی پوری تصویر قاری کے سامنے نہیں آتی۔ اسی طرح بعض ایسے ابواب شامل کتاب کر لیے گئے ہیں جو فنی طور پر کتاب کے عنوان کے دائرے میں نہیں آتے، مثلاً باب چہارم ابتدائی دور کے مسیحی فرقوں کی فہرست پر مشتمل ہے، باب نہم میں اسلام اور عیسائیت کے عقائد کا تقابل کیا گیا ہے جبکہ باب دہم میں مسلم ممالک میں عیسائی مشنریوں کے تبلیغی حربوں کے حوالے سے معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں ترتیب کتاب میں عہد نامہ جدید کو ناقابل فہم طور پر عہد نامہ قدیم سے مقدم کر دیا گیا ہے۔ پروف خوانی کی صورت حال بھی تسلی بخش نہیں۔ 
ان فنی نقائص سے قطع نظر یہ کتاب، ایک ایسے قاری کے لیے جو انگریزی مآخذ تک براہ راست رسائی نہیں رکھتا، موضوع سے واقفیت کا ایک اچھا اور قابل استفادہ ماخذ ثابت ہو سکتی ہے۔ ہر باب کے آخر میں مزید مطالعہ کے لیے کتب تجویز کی گئی ہیں جو خصوصی طور پر ایک مفید چیز ہے۔ 
۱۸۸ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ۱۵۰ روپے درج ہے اور اسے اسلامک اسٹڈی فورم (پوسٹ بکس ۶۳۹ اسلام آباد) نے شائع کیا ہے۔ 

سہ ماہی ’’التفسیر‘‘ کراچی

برصغیر کے مذہبی مکاتب فکر میں سے بریلوی مکتب فکر عام طور پر علمی وتحقیقی مسائل سے عدم دلچسپی اور عامیانہ تصوف کی نمائندگی کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ حیات اجتماعی کی مشکلات اور اعلیٰ سطحی فکر وتدبر سے گریز کی ایک عمومی کیفیت اگرچہ اب بھی پائی جاتی ہے، تاہم مولانا غلام رسول سعیدی اور پیر کرم شاہ صاحب الازہری جیسے اصحاب علم کی کاوشوں کے نتیجے میں پچھلے کچھ عرصے میں صورت حال میں بہتری کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔ مذکورہ دونوں بزرگوں کی ایک اور امتیازی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے فقہ حنفی کی علمی روایت کے ساتھ وابستہ ہونے کے باوجود بہت سے مسائل میں علمی دلائل اور اجتماعی مصالح کی روشنی میں دوسری فقہی آرا سے اخذ واستفادہ کے باب میں وسیع المشربی کا طریقہ اپنایا ہے اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کے منتسبین میں بھی اس رجحان کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ 
زیر نظر جریدہ مولانا غلام رسول صاحب سعیدی کے حلقہ فکر کے ایک صاحب علم اور جامعہ کراچی میں فقہ وتفسیر کے استاد ڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج صاحب کی زیر ادارت شائع ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے اس کا تیسرا شمارہ (جولائی تا ستمبر ۲۰۰۵) ہے جو مختلف علمی وفقہی مضامین پر مشتمل ہے اور ان میں سے بعض مضامین علمی مسائل میں آزادانہ غور وفکر کا نمونہ بھی پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر محمد شکیل اوج شرعی اصولوں اور فقہی جزئیات پر غور کرنے کے بعد مروجہ فقہی فتوے کے برعکس، اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ خواتین کے لیے ناخن پالش لگانا اور اس کو اتارے بغیر وضو اور غسل کرنا شرعی لحاظ سے بالکل درست ہے۔ ایک دوسرے مضمون میں محمد عارف خان ساقی صاحب کے نتائج تحقیق یہ ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹخنوں کو ننگا رکھنے کا حکم عرب کی مخصوص معاشرتی روایت کے تناظر میں تکبر اور نخوت کی علت کی بنا پر دیا تھا جس کا دنیا کے مختلف معاشروں میں رائج لباس کی تمام شکلوں پر اطلاق نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ ’’حالت نماز میں پائنچے سے ٹخنے ڈھکے رہنے کی صورت میں نماز کی صحت اور درستگی پر قطعاً کوئی اثر نہیں پڑتا۔ نماز کے ’’واجب الاعادہ‘‘ ہونے کا قول محض بے اعتدالی ہے۔ کسی ذاتی ضرورت یا مصلحت کے تحت شلوار کو آدھی پنڈلی پر یا ٹخنے سے اوپر رکھنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ شریعت لوگوں کے روزہ مرہ میں نہیں الجھتی۔‘‘
توقع کی جا سکتی ہے کہ یہ جریدہ تحقیقی رجحانات اور مثبت علمی رویوں کے فروغ میں ایک مفید کردار ادا کرے گا۔
اس جریدے کی اشاعت کا اہتمام مجلس التفسیر کراچی کی جانب سے کیا جاتا ہے اور اس سے متعلق معلومات کے لیے پوسٹ بکس ۸۴۱۳، جامعہ کراچی، کراچی ۷۵۲۷۰ کے پتے پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ماہنامہ ’’حق چاریار ‘‘ (اشاعت خاص)

ماہنامہ حق چاریار کا زیر نظر خصوصی شمارہ تحریک خدام اہل سنت کے بانی اور قائد مولانا قاضی مظہر حسین علیہ الرحمۃ کی یاد میں شائع کیا گیا ہے اور اس میں مولانا مرحوم کے حالات زندگی اور علمی وتصنیفی خدمات کے تذکرہ کے علاوہ ان کے ساتھ استفادہ وعقیدت کا تعلق رکھنے والے بیسیوں اہل قلم کے تاثرات، مختلف عنوانات پر مولانا کی تحریریں ، ان کے نام اکابر کے خطوط اور تحریروں کے عکسی نمونے جمع کر دیے گئے ہیں۔ 
خالصتاً عقیدت کی نگاہ سے مطالعہ کرنے والے قارئین کا معاملہ الگ ہے، لیکن سوانحی لٹریچر سے دلچسپی رکھنے والا ایک عام باذوق قاری مولانا مرحوم جیسی شخصیت پر تیرہ سو سے زائد صفحات کے اس خصوصی نمبر کی تیاری میں جس درجے کی محنت اور فنی مہارت کی توقع کر سکتا ہے، وہ نمایاں طور پر مفقود ہے۔ مشمولہ تحریرات کا بیشتر حصہ مولانا کی وفات پر اخبارات وجرائد میں شائع ہونے والے یا منتسبین سے خصوصی طور پر لکھوائے گئے متفرق اور جزوی نوعیت کے تاثرات پر مشتمل ہے جو کسی طرح بھی مولانا کی شخصیت، سوانح اور خدمات کے اہم پہلوؤں پر مستقل اور مفصل مضامین کا بدل نہیں ہو سکتے۔ مواد کے ’انتخاب‘ اور ترتیب وپیشکش کے پہلوؤں سے بھی یہ خصوصی اشاعت زیادہ قابل اطمینان نہیں ہے۔
اس ضخیم اشاعت کی رعایتی قیمت ۳۰۰ روپے مقرر کی گئی ہے اور اسے دفتر ماہنامہ حق چاریار، متصل جامع مسجد میاں برکت علی، ذیل دار روڈ، اچھرہ لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

’’بھینس کی قربانی‘‘

قرآن مجید میں قربانی کا حکم دیتے ہوئے ’’بہیمۃ الانعام‘‘ یعنی چوپایوں میں سے بہیمہ قسم کے جانوروں کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جن میں اونٹ، گائے اور بکری شامل ہیں۔ فقہی روایت میں بھینس کو بھی گائے ہی کی ایک نوع شمار کر کے اس کی قربانی کو جائز تسلیم کیا گیا ہے، تاہم اہل حدیث مکتبہ فکر کے بعض اہل علم اس رائے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ مولانا حافظ نعیم الحق ملتانی نے، جو خود ایک اہل حدیث عالم ہیں، جمہور فقہا کی رائے کی تائید اور مخالفین کے نقطہ نظر کی تردید میں علمی مباحث کا ایک اچھا ذخیرہ زیر نظر کتاب میں جمع کر دیا ہے جو موضوع سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کے لیے قابل مطالعہ ہے۔
۲۴۴ صفحات پر مشتمل یہ کتاب مکتبہ دار الحسنیٰ، سمبڑیال روڈ ڈسکہ نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۱۰۰ روپے ہے۔

اکتوبر ۲۰۰۵ء

دینی مدارس اور عصر حاضرمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
پاکستان، اسرائیل اور مسئلہ فلسطینپروفیسر میاں انعام الرحمن 
سرسید کے بارے میں تاریخی افسانوں کی حقیقتضیاء الدین لاہوری 
اہل تشیع کی تکفیر کا مسئلہادارہ 
اسلام اور نظریہ ارتقاپروفیسر میاں انعام الرحمن 
مکاتیبادارہ 
ادارہ مباحث فقہیہ بھارت کا آٹھواں فقہی اجتماعادارہ 
الشریعہ اکادمی کی سرگرمیاںادارہ 

دینی مدارس اور عصر حاضر

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۲۷ اگست ۲۰۰۵ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں خصوصی تربیتی کورس کی تکمیل کے موقع مولانا زاہد الراشدی نے حاضرین سے مختصر خطاب کیا جس کا خلاصہ در ج ذیل ہے۔ مدیر)

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔ اما بعد!
حاضرین کرام! یہ میرے ایک بہت پرانے خواب کی تعبیر کا آغاز ہے جو آج آپ موجودہ شکل میں الشریعہ اکادمی میں دیکھ رہے ہیں۔ ایک مدت سے میں یہ سوچ رہا تھا کہ درس نظامی کے فضلا کے لیے کسی ایسے کورس اور تربیت گاہ کا اہتمام ہونا چاہیے جس میں انھیں دور حاضر کے تقاضوں اور ضروریات سے آگاہ کیا جائے اور اس بات کے لیے تیار کیا جائے کہ وہ اس دور کے لوگوں کی نفسیات اور ذہنی سطح کو سمجھتے ہوئے ان کے سامنے دین کو بہتر انداز میں پیش کر سکیں۔ آج مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ اس سمت میں سفر کا آغاز ہو گیا ہے۔
حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی نے ایک زمانے میں یہ بات کی تھی کہ جس طرح اصحاب کہف حالات کے جبر سے بے بس ہو کر اپنا ایمان بچانے کے لیے غار میں گھس گئے تھے اور اپنے ایمان کا تحفظ کیا تھا، اسی طرح ہمارے اساتذہ نے بھی حالات کے جبر کو بھانپتے ہوئے ہمیں مدارس کی غاروں میں داخل کر دیا ہے۔ اصحاب کہف جب تین صدیوں کے بعد غار سے نکلے تھے تو سب کچھ بدل چکا تھا۔ زبان بدل چکی تھی، سکہ تبدیل ہو چکا تھا اور حالات انقلابات کا شکار ہو چکے تھے۔ اسی طرح جب ہم ان مدارس کی غاروں سے نکل کر سوسائٹی میں آتے ہیں تو ہمیں بھی سب کچھ بدلا ہوا ملتا ہے۔ سوسائٹی کی عام زبان ہمارے لیے نامانوس ہوتی ہے اور ہمارا سکہ آج کے دور میں مارکیٹ میں قبول نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ہم اپنی ہی سوسائٹی کے لیے اجنبی ہو جاتے ہیں۔
حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی کی بیان کردہ یہ تمثیل ہمارے موجودہ ماحول اور معاشرتی تناظر کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے خاصا کام دیتی ہے اور الشریعہ اکادمی کا بنیادی مقصد اسی اجنبیت کو کم کرنا اور دینی مدارس کے فضلا کو معاشرے کے عمومی ماحول سے باخبر اور مانوس کرنا ہے تاکہ وہ لوگوں کی زبان، نفسیات اور ذہنی سطح کا ادراک کرتے ہوئے ان کے سامنے دینی تعلیمات کو پیش کر سکیں۔ ہمارا دوسرا بڑا مقصد یہ ہے کہ دینی مدارس آج کے عالمی ماحول سے واقف ہوں، اپنے معاصر مذاہب اور فکری وعلمی تحریکات سے آگاہ ہو ں اور علمی وفکری کام کرنے والوں کے طریق کار اور ہتھیاروں سے باخبر ہوں۔ آج دنیا کے عالمی ماحول سے بے خبر یا لا تعلق رہ کر کوئی دینی، علمی یا فکری تحریک آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ دین کی بات کرنے والے کی بات اس قدر عام فہم اور باعث کشش ہو کہ اس کی بات ہر جگہ توجہ سے سنی جائے اور اس پر غور کیا جائے کیونکہ کوئی بات کتنی ہی سچی اور حقیقت پر مبنی کیوں نہ ہو، اگر اس میں کشش نہیں ہوگی تو وہ قابل توجہ نہیں سمجھی جائے گی۔ غالباً مولانا روم کی بیان کردہ کہاوتوں میں ذکر ہے کہ مسلمانوں کا ایک قافلہ سفر پر جا رہا تھا۔ ان میں ایک صاحب کو اذان دینے کا بہت شوق تھا، مگر آواز اس قدر مکروہ تھی کہ سننے والے آواز سنتے ہی کانوں میں انگلیاں رکھ لیتے تھے۔ ایک جگہ وہ غیر مسلموں کی بستی کے پاس سے گزرے۔ وہاں نماز کے لیے ٹھہرے اور ان صاحب نے بڑے شوق کے ساتھ اذان دی، مگر جب نماز سے فارغ ہوئے تو بستی سے ایک غیر مسلم مٹھائی کا ٹوکرا اٹھائے ہوئے ان کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ وہ اذان دینے والے بزرگ کون ہیں؟ میں یہ مٹھائی ان کے لیے لایا ہوں۔ لوگوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ آخر کیوں؟ اس نے جواب دیا کہ میری ایک جوان لڑکی ہے جو کچھ دنوں سے اسلام کی طرف مائل نظر آ رہی تھی اور ہم اسے سمجھا بجھا کر اسلام قبول کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کر رہے تھے مگر ہماری کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی تھی۔ آج آپ حضرات کا قافلہ آیا تو میری بیٹی پھر بے تاب ہو نے لگی۔ اتنے میں اس موذن نے اذان دی تو اس کی آواز سن کر میری بیٹی کا ارادہ بدل گیا ہے۔ اس خوشی میں مٹھائی کا یہ ٹوکرا لایا ہوں اور شکرانے کے طور پر موذن صاحب کو پیش کرنا چاہتا ہوں۔
ہم اس بات کے دعوے دار نہیں ہیں کہ ہم جو کچھ درس نظامی کے فضلا کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، وہ انھیں ایک سال کے اس عرصے میں دے دیتے ہیں اور نہ یہ بات ممکن ہے۔ البتہ ہمیں اس قدر اطمینان ضرور حاصل ہے کہ ہم ان کے دلوں میں ان ضروریات کا احساس اجاگر کر دیتے ہیں اور اس خلا کو پورا کرنے کے راستوں کی طرف نشان دہی کر دیتے ہیں جس سے اس سمت میں ان کا اگلا سفر قدرے آسان ہو جاتا ہے۔
ہم اس مشن کے لیے آپ حضرات سے تعاون کے خواست گار بھی ہیں، راہ نمائی اور تجاویز کے طلب گار بھی ہیں اور خصوصی دعاؤں اور توجہات کے متمنی بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خلوص اور محنت کے ساتھ پیش رفت کی توفیق سے نوازیں۔ آمین

پاکستان، اسرائیل اور مسئلہ فلسطین

پروفیسر میاں انعام الرحمن

1897 کی بیسل کانفرس میں یہودیوں نے اپنی جدا گانہ آزاد ریاست کے قیام کے لیے منصوبہ بندی کر لی تھی اوراس کے بعد سے وہ اسے عملی شکل دینے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ انہی دنوں انگریزوں نے پہلی عالمی جنگ میں ترکوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے ’انعام کے طور پر عربوں کو آزاد اور خود مختار علاقے دینے کا وعدہ کر رکھا تھا، لیکن سلطنتِ عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر نے میں عربوں کے تعاون کے باوجود برطانوی وزیرِ خارجہ بالفور نے ۱۹۱۷ء میں یہودیوں سے فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا وعدہ کر لیا۔ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ ادھر برِ صغیر پاک و ہند میں مسلمان اپنے ہم وطن ہندوؤں کے ہمراہ سلطنتِ عثمانیہ کی حمایت میں انگریزوں کے خلاف انتہائی جوش و جذبے سے تحریکِ خلافت چلا رہے تھے اور اُدھر عرب موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اپنے ہم مذہب مسلمان ترکوں کے خلاف بر سرِ پیکار تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے نام رشید رضا کا خط ملاحظہ کیجئے: 
’’ مسئلہ بیداری عرب کے متعلق آپ کی رائے معلوم ہوئی ۔ آپ کے خیال میں عجلت کی ضرورت نہیں ، تامل درکار ہے۔ یورپ کے بھوت سے خوف لازم ہے۔ یہ خیال کہ اہلِ عرب ترکی کی حالت سے واقف نہیں، اس لیے درست ہے کہ اہلِ ہند عربوں کی حالت سے واقف نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ رہی یہ بات کہ یورپ کے خوف سے اہلِ عرب کو اپنے مطالبات میں جلدی نہیں کرنی چاہیے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم کہیں کہ یورپ کے خوف سے اہلِ عرب کو مطالبہ اصلاح میں جلدی کرنی چاہیے تو یہ زیادہ موزوں ہو گا ۔ ۔۔‘‘
صرف اسی اقتباس سے عالمی سیاست کی سفاکی معلوم ہو جاتی ہے۔ 9 جون 1916 کو فلسطینی عربوں نے ترکوں کے خلاف بغاوت کر دی۔ عربوں کی بغاوت جب زور پکڑ گئی تو ترکوں نے 8 اور 9 دسمبر 1917 کی درمیانی شب میں بیت المقدس خالی کر دیا تاکہ اس مقدس شہر میں خون خرابہ نہ ہو۔ 10 دسمبر 1917 کو عربوں کے دوست اور مسیحا برطانیہ نے اس شہر پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت یہودیوں کی تعداد کل آبادی کا پانچ فیصد یعنی 2600 تھی لیکن کچھ ماہ بعد ہی ان کی آبادی 83000 ہوگئی ،جبکہ فلسطینی عربوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد تھی ۔ جنگ کے اختتام پر فلسطین برطانوی کنٹرول میں آیا اور برطانیہ نے حسبِ وعدہ فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کی مہم شروع کر دی۔ یہودی 1922 میں مجموعی آبادی کا 12 فیصد، 1931 میں 17فیصداور 1944 میں 31 فیصد ہوگئے۔ 1937 میں جب برطانیہ کی طرف سے فلسطین کی تقسیم کی تجویز سامنے آئی تو محمد علی جناح ؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اس کی مذمت کی ۔ دوسری عالمی جنگ میں لاکھوں یہودی ہٹلر کے نازی ازم کا شکار ہوئے۔ بچ جانے والوں کو نازی کیمپوں سے نکال کر سر زمین فلسطین میں منتقل کر دیا گیا جس سے اس خطے میں یہودیوں کی عددی قوت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ خیال رہے کہ عربوں نے اپنے بہت سے علاقے یہودیوں کو فروخت بھی کیے تھے۔ 1943 میں یہودیوں نے یورپ اور امریکہ میں پراپیگنڈا مہم چلا کر اسرائیلی ریاست کے قیام کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔ انہی دنوں 1944 میں علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے محمد علی جناح ؒ نے کہا: 
’’اگر یہودی عناصر کے دباؤ کے تحت ( امریکی) صدر روزویلٹ ، برطانیہ کو فلسطین کے سوال پر عربوں سے نا انصافی کرنے پر مجبور کرتے ہیں تو یہ فیصلہ مسلم دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آگ لگا دے گا۔ اگر یہودیوں کی آباد کاری کا سلسلہ جاری رہا تو پوری اسلامی دنیا اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہو گی۔ ‘‘
برطانیہ نے 1947 میں فلسطین کو اپنے انتداب سے نکال کر اس کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی ذمہ داری اقوامِ متحدہ پر ڈال دی۔ اس وقت اقوامِ متحدہ کے صرف 56 ارکان تھے۔ مسئلے کے حل کے لیے جنرل اسمبلی کی ایک سب کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا چےئرمین پاکستان تھا۔ افغانستان اور چھ عرب ریاستوں کو بھی کمیٹی کی رکنیت دی گئی ۔ کمیٹی نے رپورٹ میں سفارش کی کہ فلسطین میں ایسا وحدانی نظام اپنایا جائے جس میں یہودی اقلیت کے حقوق کی ضمانت موجود ہو اور باہر سے آنے والے یہودیوں کو یورپ میں یا پھر ان کے ابتدائی علاقوں میں آباد کیا جائے۔ مسئلہ فلسطین کو بین الاقوامی عدالت انصاف کے سپرد کرنے کی بات بھی چلائی گئی۔ بہرحال یہ رپورٹ جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی۔ تقسیم کے سوال پر ووٹنگ ہوئی تو 13 ووٹ مخالفت میں اور 33 حق میں آئے، جبکہ 10 ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہ لیا ۔ اہم بات یہ ہے کہ فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والی ریاستوں کی اکثریت ان علاقوں سے تعلق رکھتی تھی جن کا مشرقِ وسطی سے کسی قسم کا بالواسطہ یا بلاواسطہ رشتہ موجود نہیں تھا۔ اس طرح پاکستان سمیت مسلم دنیا کی شدید مخالفت کے باوجود مئی 1948 میں اسرائیل کا قیام عمل میں آگیا۔ اس کے بعد بھی پاکستان نے اسرائیل کی حقیقت کو قانونی طور پر تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اسرائیل کے خلاف جدوجہد میں فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھی ۔ 

قیامِ اسرائیل کے بعد مشرقِ وسطی کے حالات

اسرائیل کے قیام کے بعد مشرقِ وسطی کے حالات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ 14 مئی 1948 کو فلسطین سے برطانوی دستبرداری کے صرف 7 گھنٹے بعد یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تھا ۔ یہ بات حیران کن ہے کہ 10 منٹ بعد امریکہ نے اور 15 منٹ بعد سوویت یونین نے اسے تسلیم کر لیا ۔ اس وقت 6 لاکھ سے زائد عرب بے گھر ہو چکے تھے ۔ اس صورتِ حال میں پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی ۔عربوں نے جرات سے مقابلہ کیا اور بیت المقدس کے قدیم حصے پر قبضہ کر کے تل ابیب تک پہنچ گئے۔ بڑی طاقتوں کی مداخلت پر اقوامِ متحدہ نے عارضی صلح کرا دی۔17 ستمبر کو یہودیوں نے اقوامِ متحدہ کے ثالثی نمائندے کاؤنٹ برنا ڈوٹ کو ہلاک کر دیا جس سے دوبارہ جنگ چھڑ گئی ۔ اسرائیلی فتوحات کے بعد جب اسرائیل کو مار پڑنے لگی تو اقوامِ متحدہ نے مصالحت کراتے ہوئے مارچ 1949 میں جنگ بند کرا دی۔ جنگ کے خاتمے پر فلسطین کا 78 فیصد علاقہ اسرائیل کے قبضے میں تھا ۔ جنگ کے نتیجے میں تقریباً 10 لاکھ فلسطینی بے گھر ہوئے۔ 70 فیصد عربوں کو ان کے قدیم آبائی گھروں سے نکال دیا گیا۔ 1948 کی سنگین صورتِ حال کے بعد حالات ابھی معمول پر نہ آئے تھے کہ 1956 میں جنگ کے شعلے پھر بھڑک اٹھے ۔ مصر نے نہر سوئز کا نظام چلانے والی کمپنی کو قومی تحویل میں لیا تو برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے اس پر حملہ کر دیا ۔ اسرائیلی فوج نہر سوئز کی حدود کے 40 میل اندر تک اتاری گئی۔ اس چھ روزہ جنگ کے دوران اسرائیل نے نہ صرف 6 ہزار مصری فوجیوں کو گرفتار کر لیا بلکہ سینائی کے مصری علاقے پر بھی قبضہ کر لیا۔ جنگ میں شدید نقصان کے باوجود جمال ناصر نے اپنا فیصلہ تبدیل نہ کیا۔ سوویت یونین کے خروشیف کی طرف سے فرانس ، برطانیہ اور اسرائیل کو دی جانے والی دھمکی شاید اس لیے کام کر گئی کہ امریکہ اس جنگ سے لاتعلق بلکہ قدرے ناراض تھا کہ تینوں ممالک نے امریکی عندیے کے بغیر یہ جنگ چھیڑ دی تھی۔ اس طرح جنگ بند ہو گئی ۔ بعد ازاں امریکی دباؤ پر اسرائیل کو مارچ 1957 میں غزہ کا علاقہ خالی کرنا پڑا جس پر اس نے دورانِ جنگ قبضہ کر لیا تھا ۔ اس جنگ میں عالمی طاقتوں کے کردار سے اسرائیل نے بھانپ لیا کہ اب برطانیہ کی عالمی شہنشاہیت قصہ ماضی ہے اور امریکہ اس کا حقیقی جانشین ہے۔ اس کے بعد اسرائیل نے امریکہ میں اپنی جڑیں مضبوط کرنی شروع کر دیں ۔ جون 1967 کی جنگ میں عربوں کو یقین تھا کہ وہ بآسانی اسرائیل کو شکست دے لیں گے لیکن اسرائیل نے 5 جون کو حملہ کر کے پوری مصری فضائیہ کو زمین پر ہی تباہ کر ڈالا اور 7 جون کو یروشلم کے تاریخی شہر کو فتح کر لیا ۔ اس جنگ میں اسرائیل نے عربوں کے بہت سے علاقے ہتھیا لیے اور عربوں کو ہر میدان میں شکست فاش دی۔ 1948 میں اسرائیل کا رقبہ آٹھ ہزار مربع میل تھا ۔ 1967 کی جنگ کے بعد یہ چار گنا ہو گیا۔ نومبر 1967 میں اقوامِ متحدہ نے قرارداد 242 کے تحت اسرائیل سے کہا کہ وہ اپنی سرحدیں جنگ سے پہلے والے مقامات پر لے جائے، لیکن اسرائیل نے اس پر عمل نہیں کیا اور ان علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ اس سے پہلے 19 اگست 1967 کو خرطوم کانفرنس میں عربوں نے اپنے تین مشہور ’’ نہیں ‘‘ کا اعلان کر دیا تھا: (۱) اسرائیل کے ساتھ امن نہیں ہو گا، (۲) اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، (۳) کسی فلسطینی علاقے کے حوالے سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے جائیں گے ۔
1971 میں مصر کے جمال ناصر کے جانشین انور سادات کی آفر سے خطے میں ڈرامائی تبدیلی رونماہوئی ۔ سادات نے کہا کہ اگر اسرائیل جزیرہ نمائے سینائی سے اپنی فوجیں نکال لے تو مصر اسرائیل کے لیے نہر سوئز کھول دے گا ، نہر کے مشرقی کنارے سے مصری فوجیں ہٹا لی جائیں گی اور اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات شروع کر دیے جائیں گے ، لیکن اسرائیل نے انور سادات کی یہ پیشکش ٹھکرا دی ۔ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں نے اسرائیل سے حساب چکانے کی کوشش کی ۔سادات کی قیادت میں مصر ، نہر سوئز آزاد کرانے میں کامیاب ہوگیا ۔ امریکی مداخلت اور سوویت یونین کی غیر جانبداری کے باوجود اس جنگ سے عربوں کے اعتماد میں بھی قدرے بہتری آئی ۔ اس وقت تک سوویت یونین کی منافقانہ پالیسیوں کے باعث عربوں کے مسائل جوں کے توں قائم تھے ۔ یہ دیکھتے ہوئے انور سادات نے امریکی راہنماؤں سے تعلقات قائم کیے۔ امریکی تعاون سے نہر سوئز کُھل گئی۔ انور سادات نے 9 نومبر 1977 کو مصری پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ امن کی خاطر زمین کے آخری سرے تک جانے کو تیار ہے ۔ 15 نومبرکو بیجن نے سادات کو یروشلم کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ عرب لیڈروں کی شدید مخالفت کے باوجود سادات عیدالاضحی کے دن یروشلم گیا اور مسجدِ اقصیٰ میں نماز ادا کی۔ سادات نے کنیسٹ ( اسرائیلی پارلیمنٹ) سے بھی خطاب کیا اور مذہبی بقائے باہمی کی بات کی ۔ سادات نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ صلیبی جنگوں کی عدم روادار ی کو ترک کر دیا جائے اور حضرت عمرؓ اور صلاح الدین ایوبی کے جذبے کی طرف واپسی اختیار کی جائے جنہوں نے مقدس شہر میں پر امن بقائے باہمی کی حوصلہ افزائی کی تھی ۔ستمبر 1978 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا جس کی پاداش میں مصر کو عرب لیگ سے نکال دیا گیا اور لیگ کا صدر مقام قاہرہ سے تیونس منتقل کر دیا گیا ۔مصر کو او آئی سی کی رکنیت سے بھی ہاتھ دھونے پڑے ۔ بیجن نے 1979 میں معاہدے پر دستخط کیے ۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے خود کو تسلیم کرا لیا لیکن اسے سینائی چھوڑنا پڑا ۔ اس معاہدے کے بعد بھی بیجن نے توسیع پسندانہ پالیسی جاری رکھتے ہوئے مغربی کنارے میں مزید بستیاں بسانے کا اعلان کیا ۔ بیجن کے اس اقدام کے باوجود معاہدے کے خلاف احتجاج کے طور پر یہودیوں نے ’’ تہیہ ‘‘ پارٹی قائم کی، جس کے تین اہم اصول یہ تھے: 
(۱) اسرائیل کی بقا کے لیے جنگ نا گزیر ہے ۔
(۲) اسرائیل کو کسی بھی مقبوضہ علاقے سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔
(۳) کیمپ ڈیوڈ معاہدے کو لازماً مسترد کر دینا چاہیے اور مقبوضہ علاقوں میں نئی بستیاں قائم کی جانی چاہئیں ۔
اسرائیل کے خلاف اکتوبر 1973 کی جنگ میں فتح کی خوشی میں منعقدہ پریڈ میں 6 اکتوبر 1981کومصر کے صدر سادات کو قتل کر دیا گیا ۔ دن عید الاضحی کا تھا ۔ سادات نے اسی دن 1977 میں یروشلم کا تاریخی دورہ کرکے اپنی موت کے وارنٹ پر دستخط کیے تھے اور کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرکے اس نے اس وارنٹ پر باقاعدہ مہر تصدیق ثبت کر دی تھی ۔ سادات پر گولیاں برسانے والا فرسٹ لیفٹیننٹ خالد چیختا رہا: ’’ یہ کتا ، یہ کافر میرے حوالے کر دو‘‘۔
پچاس سیکنڈ کے اس حملے میں سات افراد ہلاک اور اٹھائیس زخمی ہوئے ۔ مصری عوام سادات کے قتل پر نہ تو روئے اور نہ اس کے جنازے کے انتظار میں دو رویہ قطار باندھ کر کھڑے ہوئے ۔ سادات کے قتل کی رات قاہرہ کی سڑکیں بھی بالکل خاموش تھیں ۔ سادات کو دفن کرتے ہی امن خاک آلود ہو گیا ۔

فلسطین کاز ، عرب اور فلسطینی 

مصر نے اسرائیلی ریاست کے قیام کے چار ماہ بعد ہی غزہ کے علاقے میں فلسطینی ریاست قائم کرنے کی کوشش کی اور 20 ستمبر 1948 کو مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی کی قیادت میں فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا، مگر اردن کے امیر عبداللہ نے نہ صرف اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ فلسطین کے ان علاقوں کو جن پر ان کی فوج نے 1948 کی جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا ، اردن میں ضم کر لیا ۔ 24 اپریل 1950 کو اردن کی پارلیمنٹ نے بھی دریائے اردن کے مشرقی اور مغربی علاقوں کو اردن میں باقاعدہ ضم کرنے کی منظوری دے دی ۔ اردن کو عرب لیگ سے خارج کر دیا گیا ۔ اسرائیل سے مذاکرات کا حامی ہونے اور برطانیہ کی طرف بے جا جھکاؤ کے باعث 20 جولائی 1951 کو بیت المقدس کی مسجد عمر فاروقؓ میں دوران نماز ، امیر عبداللہ کو کسی نامعلوم عرب نے گولی مار دی ۔ اس طرح آزاد و خود مختار فلسطین کا مصری منصوبہ عربوں کی باہمی منافرت کی نذر ہو گیا ۔ 1952 میں مصر کے شاہ فاروق کا تختہ جنرل نجیب اور کرنل ناصر نے الٹ دیا۔ 1958 میں عراق میں خونی انقلاب آیا۔ 1961 میں شامی فوج میں بعث پارٹی کے غلبے کے بعد شام ، مصر سے علیحدہ ہو گیا ۔ 1963 میں عراق میں انقلاب در انقلاب آئے ۔ ان واقعات نے مصر ، شام اور عراق میں قوم پرستانہ رجحانات کو فروغ دیا ۔ عالمِ عرب کی قیادت کے لیے تینوں ملکوں کی رقابت نے فلسطین کاز کو بے حد نقصان پہنچایا ۔
1964 میں مصر کے جمال ناصر نے پہلی عرب سر براہ کانفرنس کے دوران معروف فلسطینی راہنما احمد شکیری کی قیادت میں تنظیم آزادی فلسطین (P.L.O) کی بنیاد رکھی، لیکن یاسر عرفات کی فدائی تنظیم ’’ الفتح ‘‘ نے دنیا کو اپنی طرف زیادہ متوجہ کر لیا۔ 1965 میں اس تنظیم نے اسرائیل کے اندر 35 کامیاب کارروائیاں کیں ۔ 1967 تک اس تنظیم نے پوری عرب دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ جون 1967 کی جنگ میں اسرائیل کے ہاتھوں شکست کے بعد مصر کے جمال ناصر نے P.L.O کی قیادت عبدالرحمان یاسر عرفات کے سپرد کر دی ، جس سے آزادی فلسطین کی سیاسی اور عسکری جدوجہد ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہو گئی۔ اگست 1969 میں مقبوضہ بیت المقدس میں مسجدِ اقصیٰ کو آگ لگا دی گئی ۔ اس واقعہ سے مسلم اتحاد کو مہمیز ملی اور ستمبر 1969 میں (O.I.C) کا قیام عمل میں آگیا ۔1970 میں فلسطینی گوریلوں نے اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر اور اس کے اندر غیر معمولی کارر وائیاں کیں ، جس سے تنظیم کو عالمی شہرت حاصل ہوئی ۔ فلسطینیوں کی جدوجہد کو اس وقت سخت دھچکا لگا جب اردن کے شاہ حسین نے ان کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ خیال کرتے ہوئے 1971 میں ان کو اردن سے نکالنے کے لیے بڑے پیمانے پر فوج کشی کی ۔ اردنی فوج اور فلسطینیوں میں دست بدست جنگ ہوئی ۔ فلسطینیوں کے انخلا کے لیے اردن نے بیرون ممالک سے فوجی امداد بھی حاصل کی۔ اردن سے نکالے جانے پر فلسطینیوں نے لبنان کے شہر بیروت کو اپنا مسکن بنایا ۔ 1974 میں اردن کے شاہ حسین سمیت تمام عرب حکمرانوں نے پی ایل او اور اس کے سربراہ یاسر عرفات کو فلسطینیوں کی واحد نمائندہ تنظیم اور لیڈر تسلیم کر لیا ۔ یاسر عرفات کو اس کے بعد کانفرنسوں میں سر براہ مملکت کا درجہ دیا جانے لگا۔ اسرائیل نے لبنانی عیسائیوں میں فلسطینیوں کے خلاف پراپیگنڈا مہم شروع کر دی ۔ انہیں گوریلا تربیت دی اور بڑے پیمانے پر اسلحہ تقسیم کیا ۔ اسرائیلی پالیسی کے نتیجے میں لبنانی عیسائیوں اور فلسطینیوں کے درمیان مسلح جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ شامی لیڈر جو یاسر عرفات سے خائف تھے، انھوں نے بھی در پردہ عیسائیوں کی مدد کی ۔ 1976 میں جب عیسائیوں کی نیم فوجی تنظیم ’’عیسائی ملیشیا ‘‘ اور فلسطینی مجاہدین میں لڑائی جاری تھی، شامی فوج عیسائیوں کی مدد کو آگئی ۔ شامی فوج نے زبردست کارروائی کر کے فلسطینی مجاہدین کی کمر توڑ کر رکھ دی ۔ یوں اردن کے بعد شام نے بھی فلسطینیوں کے خلاف ’’ جہاد ‘‘ کا علم بلند کر کے فلسطین کاز کو شدید نقصان پہنچایا ۔ اس کے بعد تنظیم کے مختلف متحارب گروپوں پر پی ایل او کا کنٹرول کمزور پڑ گیا۔ اب کوئی گروپ شام کے حافظ الاسد کے زیرِ اثر تھا تو کوئی لیبیا کے کرنل قذافی کا احسان مند تھا ۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد مصر ، فلسطینی کاز سے لا تعلق ہوچکا تھا ۔ ایسے ماحول میں ایک اسرائیلی سفیر پر قاتلانہ حملے کے الزام میں جون 1982 میں اسرائیل نے لبنان کے فلسطینی کیمپوں پر شدید حملہ کر دیا ۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کی خوب دھلائی کی لیکن کوئی عرب ریاست فلسطینیوں کی ’’ عملی مدد ‘‘ کو نہیں پہنچی ۔ امریکہ حسبِ روایت ’’ امن کا علم ‘‘ تھامے میدان میں کود پڑا اور اس نے بیروت سے فلسطینی انخلا کو مسئلے کا شاندار حل بتایا۔ جولائی 1982 میں برطانیہ ، امریکہ ، اٹلی اور فرانس کی مشترکہ فوج قیام امن کے لیے بیروت میں آئی ۔ اس فوج کا مقصد لبنان سے فلسطینی گوریلا فوج کا مکمل انخلا تھا ۔ لہٰذا ان طاقتوں نے عربوں کی پسِ پردہ حمایت کے ساتھ فلسطینی ہیڈ کوارٹر بیروت سے تیونس منتقل کر دیا۔ اسرائیلی، فلسطینی تنظیم کے ہیڈ کوارٹر کو اپنے پڑوس میں برداشت نہیں کر سکتے تھے، اس لیے ان کی کوششوں اور عربوں کی بے وفائی سے پی ایل او کو اپنے مرکزی دفاتر با ر بار مختلف مقامات پر منتقل کرنے پڑے ۔ 
4 جولائی 1988کو مغربی کنارے اور غزہ پر قبضہ کے اکیسویں سال کے موقع پر اسرائیل میں عسکری گروپس نے جلوس نکالا ۔ اس میں دس ہزار اسرائیلی شریک ہوئے ۔ اسی دن تل ابیب میں امن پسندوں نے بھی جلوس نکالا اور قبضہ ختم کرنے، فلسطینیوں کے ساتھ امن قائم کرنے اور فوج کو واپس بلانے کا مطالبہ کیا ۔14 نومبر 1988کو اسرائیل میں الیکشن ہوئے ۔ 15 نومبر کو فلسطین تحریکِ آزادی کے ہیرو یاسر عرفات نے فلسطینی آزادی اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ ساری دنیا میں عرفات کے اس اقدام کی دھوم مچ گئی ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل کے ہاں دہشت گرد قرار پانے والا یاسر عرفات قلابازی کھا کر سادات کے مقام پر کیوں جا کھڑا ہوا ؟ اس کا دو لفظی جواب ہے: ’عربوں کی باہمی مناقشت‘۔ 
دسمبر1987 میں غزہ میں انتفاضہ کے نام سے ایک انقلابی فلسطینی تحریک منظرِ عام پر آئی جو مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم تک پھیل گئی ۔ اس تحریک سے عرب دنیا اور بین الاقوامی برادری کافی متاثر ہوئی ۔ انتفاضہ کے آغاز میں ہی ایک نئی تنظیم ’’ حماس ‘‘ بنائی گئی جس نے فلسطینیوں کی جدوجہد کو اسلامی رخ دے دیا ۔ یہ اسرائیلیوں اور فلسطینی قوم پرستوں ، دونوں کے خلاف کمر بستہ تھی ۔ 1992 میں جب اسحاق رابن اسرائیل کا وزیر اعظم بنا تو وہ انہی تنظیموں کو مدِ نظر رکھ کر پی ایل او کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہو گیا۔ 1993 میں اسرائیل اور پی ایل او نے معاہدہ اوسلو پر دستخط کیے ۔ 4 نومبر1995 کو تل ابیب میں ایک امن ریلی کے دوران رابن کو امن معاہدے کرنے کے پاداش میں قتل کر دیا گیا۔ قاتل کے بقول رابن ایک ’’روڈیف ‘‘ یعنی یہودیوں کا دشمن تھا، اس لیے اس کا قتل اس پر فرض تھا ۔اس طرح مصر کے سادات کی طرح ، اسرائیل کے رابن کے قتل نے واضح کر دیا کہ اس خطے میں ایک نہیں، بلکہ دو جنگیں لڑی جا رہی ہیں ۔ ایک وہ جس کا دنیا میں چرچا ہے یعنی عرب اسرائیل جنگ، اور دوسری قدرے ڈھکی چھپی ہے لیکن اب منظرِ عام پر آ چکی ہے ۔ یہ جنگ اسرائیل اور عرب ممالک میں سیکولر اور مذہبی قوتوں کے درمیان زور پکڑ رہی ہے ۔

مشرقِ وسطی کی موجودہ صورتِ حال

اسرائیل کے موجودہ وزیر اعظم ایریل شیرون ، مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودیوں کی آباد کاری کی پالیسی کے بانی ہیں۔ غزہ کی پٹی سے یہودی نو آبادیوں کے خاتمہ کا اعلان بھی انھی کی طرف سے آیا ہے ۔ ان کی اپنی پارٹی ’ لکوڈ ‘ اس مسئلے پر انتشار کا شکار ہو گئی ہے اور انتہا پسند یہودی عناصر ان کے خلاف ہو گئے ہیں۔ جب انخلا کی پالیسی منظوری کے لیے کابینہ میں پیش کی گئی تو وزیر خزانہ اور لکوڈ پارٹی کے اہم راہنما نیتن یاہو نے احتجاجاً استعفا دے دیا ۔ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے یا نہ کیا جائے، لیکن یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اسرائیل کی موجودہ قیادت نے انخلا کے ڈرامے کو بڑی خوبصورتی سے سٹیج کیا ہے ۔ بین الاقوامی میڈیا اس وقت شیرون کو ’ امن کا ہیرو‘ بنا کر پیش کر رہا ہے ، حالانکہ غزہ کی پٹی میں بمشکل آٹھ نو ہزار یہودی آباد کار ہیں جو دس لاکھ فلسطینیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ یہ پٹی حماس اور اسلامی جہاد جیسی عسکریت پسند تنظیموں کی آماجگاہ ہے ۔ اسرائیل کو اپنی ان نوآبادیوں کی حفاظت کے لیے جدید اسلحہ سے لیس فوج رکھنی پڑ رہی ہے جس پر کثیر اخراجات آرہے ہیں۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم غزہ کی پٹی سے نکل کر ایک طرف دنیا کی ہمدردیاں سمیٹ رہے ہیں اور دوسری طرف اوسلو معاہدے کو سبوتاژ کرتے ہوئے ’’ زمین برائے امن ‘‘ کے عمل کو تج کر اپنی شرائط پر امن کے خواہاں ہیں ۔ اقوامِ متحدہ ، امریکہ ، یورپی یونین اور دیگر عالمی طاقتوں کی کوششوں سے جو ’’ امن روڈ میپ ‘‘ تشکیل پایا تھا، فلسطینیوں کی طرف سے مثبت ردعمل کے باوجود وہ اسرائیلی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کاغذوں میں بند پڑا ہے۔عالمی برادری کے نزدیک اسرائیلی انخلا امن روڈ میپ کی طرف پیش قدمی ہے ، لیکن شاید عالمی برادری کی نگاہوں سے یہ امر پوشیدہ ہے کہ اسرائیل نے مغربی کنارے (West Bank) میں حفاظتی دیوار کے نام پر پورے علاقے کو بھول بھلیاں میں بدل دیا ہے ۔ یہ دیوار جان بوجھ کر اس طرح اٹھائی گئی ہے کہ متصل اور یکجا علاقے کا وجود ہی غائب ہو جائے ۔عالمی عدالتِ انصاف نے اسرائیل کے دیوار تعمیر کرنے کے عمل کوجولائی 2004 میں خلافِ قانون اور ناجائز قرار دیا ہے لیکن اسرائیل نے عدالت کے فیصلے کی تعمیل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ستمبر 2005 میں اسرائیلی سپریم کورٹ نے عالمی عدالت کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے فیصلے میں سقم پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ عالمی عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اسرائیل کی سکیورٹی ضروریات کو مدِ نظر نہیں رکھا۔ امریکی صدر بش نے بھی جب اس دیوار کا نقشہ دیکھا تو اس کی زبان سے بے ساختہ نکلا تھا کہ: ’’ پھر فلسطینی ریاست کہاں ہوگی ؟ ‘‘ 
بدیہی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا غزہ کی پٹی سے انخلا فلسطینی ریاست کے قیام کو التوا میں ڈالنے کے لیے کیا جا رہا ہے ؟ کیا یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے والی بات نہیں کہ مغربی کنارے کے چار لاکھ یہودی آباد کاروں سے آنکھیں بند کرتے ہوئے غزہ کی پٹی کے آٹھ ہزار آباد کاروں کے انخلا کو فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف جرات مندانہ اہم قدم سمجھا جائے۔ موجودہ صورتِ حال میں Demographic Balance اسرائیل کے حق میں ہے ۔اسرائیلی وزیر دفاع کے مطابق غزہ کی پٹی کے ساتھ سیکورٹی زون قائم کیاجائے گا۔ اس سیکورٹی زون میں یورپی یونین کی فوج کی تعیناتی کی بات چل رہی ہے ۔ یورپی یونین کی ابھرتی ہوئی طاقت دیکھتے ہوئے اب اسرائیل شاید امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنا چاہ رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ غزہ سے انخلا کے باوجود اس علاقے پر اسرائیل کا تزویراتی کنٹرول باقی رہے گا ۔ ایریل شیرون یہ بات بھی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ یروشلم تقسیم نہیں ہو گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر مغربی یروشلم فلسطینی ریاست کا دارالحکومت کیسے بنے گا ؟ شیرون مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقوں سے بھی پسپائی اختیار کرنے کو تیار نہیں۔کثیر الاشاعت عبرانی اخبار ’’ یدیعوت احرنوت ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق غزہ سے انخلا ہی بہت بڑا زخم ہے اور اسرائیل آئندہ کسی علاقے سے دستبردار نہیں ہو گا۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کا ایک اعلیٰ فوجی افسرجنرل عودید تیرہ اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھتا ہے کہ ’’ غربِ اردن ‘‘ کے بارے میں اسرائیل کا موقف وہی ہے جو 1967 میں اس پر قبضے کے وقت تھا ۔ عودید کے مطابق غربِ اردن کی اسرائیل کے لیے علیحدہ سے دفاعی اہمیت ہے لہٰذا اسرائیل کسی ایسے منصوبے پر غور نہیں کرے گا جس سے اس کے دفاع میں کمزوری آتی ہو ۔ ایریل شیرون اور عودید کے بیانات سے یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں رہتی کہ فلسطینی مزاحمت کی وجہ سے ہی اسرائیل غزہ کی پٹی چھوڑ رہا ہے ۔ اندریں صورت حماس جیسی تنظیموں کا یہ کہنا کہ موجودہ انخلا مکمل آزادی کی طرف پہلا قدم ہے اور ہم مکمل آزادی تک لڑتے رہیں گے ، درست معلوم ہوتا ہے۔ 

پاکستان / اسرائیل روابط کی تاریخ 

جہاں تک پاکستان کے اسرائیل سے روابط کا تعلق ہے، یہ دو چار روز کی بات نہیں بلکہ نصف صدی کا قصہ ہے ۔ بانی پاکستان محمد علی جناح ؒ کواسرائیل کی طرف سے تسلیم کر لینے کی درخواست موصول ہوئی ۔ پاکستان کے پہلے وزیرِ خارجہ ظفر اللہ (جو قادیانی تھے) تقسیم ہند سے قبل فلسطین کی تقسیم کو غیر قانونی اور عربوں کے ساتھ نا انصافی خیال کرتے تھے ۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد ظفر اللہ نے بھی پنیترہ بدلا اور عربوں کو عملیت پسند (Pragmatic) ہونے کا مشورہ دیا ۔ ایک وقت میں یہ قیاس آرائیاں بھی شروع ہو گئیں کہ پاکستان ،انڈیا کی مخالفت میں انڈیا پر سبقت لے جاتے ہوئے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے والا ہے ۔ان دنوں قاہرہ میں پاکستانی وزیرِ خارجہ نے بیان دیا کہ عربوں کواسرائیل سے اپنے معاملے پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔ اس کے نتیجے میں اپریل 1952 میں ظفراللہ اور واشنگٹن میں اسرائیلی سفیر Abba Eban کے درمیان ایک اعلیٰ سطحی نشست ہوئی۔ اس کے بعد جنوری 1953 میں ایک اور ملاقات کا اہتمام کیا گیا ۔ 1956 کے نہر سوئز کے بحران میں پاکستان تیسری دنیا کا غالباً سب سے اہم ملک تھا جس نے عوامی خواہشات کے بر عکس مصر کے بجائے مغربی طاقتوں کا ساتھ دیا۔ اسرائیل کے ہاتھوں جمال ناصر کی حواس باختگی پر پاکستانی سفارت کار نجی محفلوں میں خوشی کا اظہار کرتے رہے۔ اوٹاوہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر مرزا عثمان علی نے اسرائیلی سفارت کار کوکچھ یوں مبارک باد دی:
''Wonderful show! Your splendid little army put up in beating the Egyptian.'' 
’’زبردست! آپ کی شاندار فوج مصریوں کو شکست دینے میں ثابت قدم رہی۔‘‘
اور پھر عثمان صاحب نے افسوس کا بھی اظہار کیا کہ اگر برطانوی اور فرانسیسی مداخلت نہ ہوتی تو اسرائیلی فوج قاہرہ میں مارچ کر رہی ہوتی۔ جنرل ضیاء الحق، جنہیں اپنے ’’ امیر المومنین ‘‘ ہونے کا بہت زعم تھا ، 1970 میں فلسطینی مجاہدین کے خلاف اردنی حکومت کی شدید فوجی کارروائی میں بطور بریگیڈےئر شریک تھے۔ اس کارروائی کو بعد میں Black September Massacre of 1970 کا نام دیا گیا ۔ ظاہر ہے یہ عمل اردن کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے بھی مفاد میں تھا کیونکہ یہودی لیڈر ہر اس کارrوائی کے حامی تھے جس سے پی ایل او کمزور ہوتی اور فلسطین کاز کوزیادہ سے زیادہ نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ۔ شاہ حسین نے ’’ گراں قدر خدمات ‘‘ کے اعتراف میں ضیاء الحق کو خوب نوازا۔ عربوں سے الگ راہ اپنا کر مصرنے اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کیا تھا جس کی وجہ اسے عرب لیگ ( جس کا وہ بانی ممبر تھا ) اور او آئی سی سے نکال دیا گیا تھا - 1984 میں او آئی سی کی سربراہی کانفرنس منعقدہ کاسا بلانکا میں جنرل ضیاء الحق نے بڑی مہارت سے مصر کے حق میں راہ ہموار کی۔ اس کے بعد مصر کے لیے اسلامی دنیا کے دروازے کُھل گئے ۔ ظاہر ہے یہ ایک بڑی پیش رفت تھی کہ کوئی اسلامی ملک اسرائیل کے ساتھ دیرینہ مراسم رکھتے ہوئے بھی اسلامی بلاک میں رہ سکتا ہے ۔ جنرل ضیاء الحق کا یہ عمل، بالواسطہ ہی سہی، واضح طور پر پاکستان / اسرائیل رابطے کا غماز ہے اور طرفین کے نرم رویوں کا آئینہ دار بھی۔ 
بیسویں صدی کے آخری عشرے میں سرد جنگ کے خاتمے، بھارت اسرائیل سفارتی تعلقات اور پاکستان میں جمہوریت کی بحالی سے اسرائیل کے ساتھ روابط کا ایک نیا دور آیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف ، دونوں نے کئی بار اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان مخصوص حالات میں اپنی اسرائیل پالیسی پر نظر ثانی کر سکتا ہے ۔ بیگم عابدہ حسین نے، جو امریکہ میں پاکستان کی سفیر تھیں، اسرائیل سے مکالمہ کرنے پر زور دیا ۔ ان دنوں اقوامِ متحدہ کے مشن میں پاکستانی نمائندے نے ایک ایسے سفارتی استقبالیہ میں شرکت کی جس کا میزبان نیویارک میں متعین اسرائیلی سفیر تھا ۔پاکستانی وزیرِ خارجہ سردار آصف احمد علی اوران کے اسرائیلی ہم منصب شمعون پیریز کے درمیان بھی خفیہ روابط قائم رہے ۔ محترمہ بے نظیربھٹو نے اسرائیل سے معاملات طے کیے بغیر اگست 1994 میں فلسطینی اتھارٹی کے تحت غزہ کی پٹی میں جانے کی کوشش کی تو اسرائیلی وزیرِ اعظم نے کہا: 
''The lady from Pakistan should be taught some manners.'' 
’’اس پاکستانی خاتون کو کچھ آداب واطوار سکھائے جانے چاہییں۔‘‘
اس کے باوجود چند ہفتوں بعد ہی پاکستان Arava میں اسرائیل/ اردن امن معاہدے کی تقریب میں شریک تھا۔ نومبر1995 میں اسحاق رابن کے قتل پر ایسی تمام دہشت گرد کارروائیوں کی پاکستان نے سرکاری سطح پر مذمت کی ۔ محترمہ بے نظیر نے تو رابن کے قتل اور ضیاء الحق کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی میں مشابہت تلاش کرنے کی بھی کوشش کی ۔ جنوری 1996 میں ایک ممتاز اسرائیلی روز نامہYediot Ahronot کو انٹر ویو دیتے ہوئے محترمہ نے کہا کہ امن کے عمل میں پیش رفت اور دوسرے عرب ممالک کی رضا مندی سے پاکستان اپنی پالیسی تبدیل کر سکتا ہے ۔ محترمہ نے اسرائیل اور امریکہ میں اس کے دوستوں کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے F-16 کی سپلائی کی بحالی اور اسلحہ کی پابندی ختم کرانے میں پاکستان کی مدد کی ۔مئی 1998 کے ایٹمی دھماکوں کے بعد اسرائیل نے پاکستان کو ذمہ دار ملک قرار دیا اور توقع ظاہر کی کہ پاکستان اسے کسی Third Country or Entity کو منتقل نہیں کرے گا ۔ غالباً Entity کا لفظ اسرائیل Palestinian Entity کے تناظر میں استعمال کرتا ہے ۔ان دنوں پاکستانی وزرا اسرائیلی ٹیلی ویژن پر خدشات دور کراتے پائے گئے ۔ اسرائیل نے بھی پاکستانی بم کو جنوب ایشیائی حوالے سے دیکھا اور اس کے دفاعی ماہرین نے اسے اسلامی بم کی بجائے چینی بم قرار دیا۔ انہی دنوں اسرائیلی میڈیا نے انکشاف کیا کہ پاکستان سے باقاعدہ تعلقات نہ ہونے کے باوجود ، سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت کے زمانہ عروج میں اسرائیل اسلام آباد میں مستقلاً موجود رہا ۔ جنرل پرویز مشرف نے جون2003 میں پاکستانیوں سے کہا تھا کہ: 
''We should not overreact on this issue. We should give serious consideration. It is a very sensitive issue. We fought three wars with India but still had diplomatic relations.'' 
’’ہمیں اس مسئلے پر ضرورت سے زیادہ رد عمل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ یہ ایک بہت حساس معاملہ ہے۔ ہم نے بھارت سے تین جنگیں لڑی ہیں، لیکن اس کے باوجود ہمارے مابین سفارتی تعلقات بھی قائم رہے ہیں۔‘‘
جنرل پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اسرائیل سے کبھی کوئی جنگ نہیں ہوئی ۔ اگر انڈیا سے تعلقات قائم رہ سکتے ہیں تو اسرائیل سے تعلقات قائم کیوں نہیں کیے جا سکتے ؟ جرمن ہفت روزہ Der Spiegel سے بات کرتے ہوئے جنرل پرویز نے اسرائیلی وزیرِ اعظم شیرون کے بارے میں کہا تھا: A great soldier and a courageous leader ( ایک عظیم سپاہی اور جرات مند لیڈر) ۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم جناب شوکت عزیز نے بھی اس سال جنوری میں ورلڈ اکنامک فورم ڈیوس میں اسرائیلی ڈپٹی وزیرِ اعظم شمعون پیریز سے ہیلو ہائے کی ۔ حال ہی میں پاکستانی اور اسرائیلی وزراے خارجہ نے انقرہ میں با ضابطہ ملاقات کی ہے۔ جنرل پرویزمشرف نے امریکہ کے حالیہ دورے کے دوران میں اسرائیلی وزیرِ اعظم شیرون سے مصافحہ کرنے کے علاوہ جیوش نیشنل کانگرس سے خطاب بھی کیا۔

جنوبی ایشیامیں پاک بھارت کشمکش اور اسرائیل

جنوبی ایشیا میں پاک بھارت کشمکش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دونوں ممالک میں اب تک تین باقاعدہ جنگیں ہو چکی ہیں ۔1971 کی جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ، بنگلہ دیش بن گیا ۔ ان جنگوں کے علاوہ چھوٹی موٹی جھڑپیں بھی تاریخ کا حصہ ہیں اور حالتِ جنگ(State of War) کی نوبت بھی کئی بار آئی ہے ۔ بھارت نے پاکستان سے معاندانہ تعلقات کے باوجود اپنی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں عربوں کو ناراض کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی ۔ 1956 کے نہر سوئز بحران میں بھارت نے امریکی تجاویز کو رد کرتے ہوئے کھلم کھلا مصر کا ساتھ دیا تھا۔ سوئز کو قومیانے سے مصر کا جمال ناصر عرب دنیا کا لیڈر بن کر ابھرا تھا، ایسے میں پاکستان کا معذرت خواہانہ رویہ اور بھات کا دو ٹوک موقف پاکستان کی رسوائی کا سبب بنا ۔ جب پی ایل او قائم کی گئی تو بھارت پہلی غیر عرب ریاست تھی جس نے اسے تسلیم کیا اور پوری طرح سپورٹ کیا ۔ عربوں کی طرف بھارت کے واضح جھکاؤ کے باوجود اسرائیل بھارت کو کیسے دیکھ رہا تھا؟ اس کا اندازہ جون 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد بننے والے اسرائیلی وزیرِ اعظم بن گوریان کی Sorbone (پیرس) میں تقریرسے ہوتا ہے ۔ اس کی ایک جھلک 19 اگست 1967 کے برطانوی ہفت روزہ The Jewish Chronicle کے اس اقتباس میں دیکھی جا سکتی ہے:
’’ عالمی صیہونی تحریک کو پاکستان کے خطرہ سے غافل نہیں رہنا چاہیے ۔ اب پاکستان اس کا پہلا نشانہ ہونا چاہیے ، کیونکہ یہ نظریاتی ریاست ہمارے وجود کے لیے ایک چیلنج ہے ۔ پاکستان یہودیوں سے نفرت اور عربوں سے محبت کرتا ہے ۔ عرب ہمارے لیے اتنے خطرناک نہیں ہیں جتنا عربوں کے ساتھ محبت کرنے والا پاکستان خطرناک ہے ۔ اس خطرے کے پیشِ نظر صہیونیت کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف فوری قدم اٹھائے ۔اس کے بر خلاف ہندوستان کے ہندو تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں سے نفرت کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے خلاف جدوجہد کرنے اور تحریک چلانے کے لیے ہندوستان ہی ہمارے لیے سب سے اہم Base ہے۔ ضروری ہے کہ ہم اسے استعمال کریں اور بھیس بدل کر یا خفیہ پلان کے ذریعے یہیں سے یہودیوں اور صہیونیت سے نفرت کرنے والے پاکستانیوں پر کاری ضرب لگائیں اور انہیں فنا کر دیں‘‘۔ 
اسرائیلی موقف میں یہ سختی شاید اس لیے آئی کہ اس سے قبل پاکستان کے اسرائیل سے روابط معمول کے تھے اور سفارتی تعلقات قائم ہونے کی بھی توقع تھی ، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی فلسطین پالیسی واضح ہوتی چلی گئی جس میں اسرائیل کو دیوار سے لگا دیا گیا تھا ۔ پاکستان میں عوامی سطح پر فلسطین تحریک کو ، جو در حقیقت قوم پرستی پر مبنی تھی ، اسلامی زاویے سے لیا جا رہا تھا۔ خیال رہے، ماضی میں بھارت اسرائیل تعلقات خیر سگالی پر مبنی نہیں رہے ۔1966 میں جب اسرائیلی صدر Shazar کا جہاز نیپال جاتے ہوئے غیر متوقع طور پر کلکتہ میں ایندھن لینے اترا اور اسرائیلی صدر نے رات کلکتہ میں ٹھہرنے کا عندیہ دیا تو بھارت سرکار نے صاف انکار کر دیا اور کسی افسر کو استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہ بھیجا ۔ اسرائیل سے لاتعلقی کی بھارتی پالیسی اس وقت مزید کھچاؤ کا شکار ہو گئی جب 1975 میں بھارت نے اقوامِ متحدہ کی ایک قراردادکے حق میں ووٹ دیا جس کے مطابق صیہونیت اور نسل پرستی کو مساوی قرار دیا گیا تھا ۔ 
بہر حال، یہ بھار ت کے پہلے وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو تھے جنھوں نے اسرائیلی ریاست کی de jure حیثیت تسلیم کر لی تھی۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات قائم رہے اور 1953 سے ممبئی میں اسرائیلی کونسلیٹ کام کرتا رہا جبکہ اسرائیل میں بھارت نے اپنا کونسلیٹ نہ کھولا۔ کانگرس پارٹی کے سرد رویے سے خائف ہو کربھی اسرائیل نے بھارت سے دیرینہ مراسم قائم کرنے کی جدوجہد ترک نہ کی۔ 1977 میں جب پہلی غیر کانگرس حکومت ( جنتا پارٹی ) قائم ہوئی تو اس وقت کے اسرائیلی وزیرِ خارجہ موشے دایان نے اگست1977 میں بھارت کا خفیہ دورہ اس امید کے ساتھ کیا کہ اب اسرائیل کو عربوں کے خلاف بھارت کی سفارتی سپورٹ مل جائے گی، لیکن موشے دایان کو ناکام لوٹنا پڑا ، کیونکہ ابھی سوویت یونین( جو اسرائیل مخالف تھا ) پورے دم خم میں تھا اور بھارت کے اس کے ساتھ تزویراتی مفادات وابستہ تھے۔ اس وقت اٹل بہاری واجپائی بھارت کے وزیرِ خارجہ تھے۔ انھوں نے واضح الفاظ میں موشے دایان سے کہہ دیا کہ عربوں کے حقوق کی بازیابی تک بھارت ، اسرائیل کے ساتھ تعاون اور سفارتی تعلقات قائم نہیں کرے گا۔ 80 کے عشرے میں افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت پر پاکستان کو اسلام کے نام پر عربوں کی امداد پاتے دیکھ کر بھی اس وقت کی بھارتی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے فلسطین کاز کی حمایت جاری رکھی، لیکن عربوں کو خبردار کیا کہ افغانستان میں مقدس جنگ کے نام پر جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، اس سے بالآخر جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطی کے خطے عدم استحکام کا شکار ہو جائیں گے ۔ 
جنوری 1992 میں بھارت نے اسرائیل سے’’ سفارتی تعلقات‘‘ قائم کیے تو پاکستان کے مقتدر حلقوں میں کھلبلی مچ گئی ۔ بھارت نے یہ دیکھتے ہوئے کہ سوویت یونین کی طاقت پارہ پارہ ہو چکی ہے اور دنیا میں unipolar system رائج ہو چکا ہے ، فوراً اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی اور ایک تو براہ راست امریکہ سے قربت کی پینگیں بڑھائیں اور دوسرا اسے خوش کرنے کے لیے ( اور امریکہ میں یہودی لابی کے بے پناہ اثرات دیکھتے ہوئے ) اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے میں دیر نہیں لگائی ۔ غالباً بھارتی پالیسی سازوں نے بھانپ لیا تھا کہ عرب اسرائیل کشمکش مفاہمت کی طرف بڑھ رہی ہے کیونکہ بھارت کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد ہی اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان اوسلو معاہدہ ہو گیا۔بھارت کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے میں عربوں نے بھی بالواسطہ اہم کردار ادا کیا ۔ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے بعد ایسے عرب مجاہدین جو افغانستان میں تھے ، پاکستان کے کشمیر کازکی حمایت میں کشمیر چلے آئے ۔ اب بھارت کے سامنے واضح راستہ تھا کہ ایک تو سوویت یونین ٹوٹ چکا ہے، دوسرے عرب مجاہدین پاکستان کی حمایت میں باقاعدہ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اس لیے آپشن صرف ایک ہی ہے کہ اسرائیل سے تعلقات استوار کیے جائیں تاکہ جنوبی ایشیا میں عرب فیکٹر کو بیلنس کیا جا سکے۔بین الاقوامی میڈیا نے بھارتی پالیسی کو پاکستان کی سفارتی ناکامی پر محمول کیا ۔1998 میں بی جے پی کے بر سر اقتدار آنے سے بھارت اسرائیل تعلقات میں گرم جوشی آئی ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسرائیل نواز بھارتی پالیسی کے باوجود مشرقِ وسطی میں بھارتی مفادات پر کوئی ضرب نہیں لگی ۔ غالباً اس کی وجہ عربوں کی داخلی سیاست میں مسئلہ فلسطین کی مسلسل زوال پذیر اہمیت ہے ۔ 2000 میں فلسطینیوں پر ظلم و ستم ڈھانے پر بھارت کی بائیں بازو کی جماعتوں نے اسرائیل نواز بھارتی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی ، تل ابیب سے سفیر واپس بلانے کا مطالبہ کیا اور اسرائیلی سفیر کو بھارت سے نکالنے کے لیے بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالا۔ اسرائیل مخالف ، کمیونسٹوں کی آواز پر کان نہیں دھرا جا رہا ۔ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد بھارت نے اپنے تزویراتی مفادات( Strategic Interests ) اسرائیل سے وابستہ کر لیے ہیں ۔ ستمبر 2003 میں شیرون نے بھارت کا متنازعہ دورہ کیا تو عالمی سطح پر ہلچل مچ گئی ۔ یاسر عرفات کی وفات کے بعد اس کی آخری رسومات میں بھارتی وزیرِ اعظم من موہن سنگھ اور کانگرس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی کی عدم موجودگی کو اسرائیل کی طرف بھارت کے واضح جھکاؤ پر محمول کیا گیا۔ یاسر عرفات کی وفات سے صرف اسرائیل عرب تعلقات میں ہی تبدیلی نہیںآئی بلکہ فلسطینیوں اور عربوں کے تعلقات بھی از سرِ نو ترتیب پا رہے ہیں ، جس سے بھارتی حکومت کو اسرائیل سے دوطرفہ تعلقات قائم کرنے میں مزید سہولت مل گئی ہے ۔ 2004 میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان Phalcon spy planes کی فراہمی کا معاہدہ ہوا ، جسے پاکستان نے روکنے کی ناکام کوشش کی۔ یہ معاہدہ اس اعتبار سے بھی اہم تھا کہ امریکہ نے اسرائیل کو انہی طیاروں کی چین کو فراہمی سے روک دیا تھا ۔ اس تناظر میں مبصرین نے بھارت اسرائیل اور امریکہ کو عالمی سیاست میں ایک نئی ٹرائیکا قرار دیا ۔ بھارت اس وقت اسلحہ درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور اسرائیل کی سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ بھی ۔ ان کے مابین اسلحہ ڈیل 2.8 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ چکی ہے ۔ دونوں ممالک انٹیلی جینس معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں ۔ اسرائیل کے دفاعی ماہرین نے بھارتی سیکورٹی فورسز کی تربیت بھی کی ہے جو پاکستان کے خلاف کشمیر میں نبرد آزما ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل ، کشمیر میں بھارتی پوزیشن کی پوری حمایت کرتا ہے ، جبکہ پاکستان کشمیر کو ہی بھارت کے ساتھ مخاصمت کی بنیادی وجہ قرار دیتا ہے ۔ ایسے میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات پاکستان کے لیے کیا معنی رکھتے ہیں ؟ ہاں، اگر پاکستان نے اپنی کشمیر پالیسی پر بھی یو ٹرن لے لیا ہے تو پاک اسرائیل تعلقات میں معنویت بآسانی تلاش کی جا سکتی ہے ۔

پاک / اسرائیل تعلقات میں مذہبی سوال

بعض حلقے اسرائیل / پاکستان روابط کو مذہبی تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔ ان کے نزدیک اسرائیل سے رابطے قائم کرنا مذہبیات کے خلاف ہے۔ ایسے حلقے قرآن مجید کی کچھ آیات اپنے موقف کی تائید میں پیش کرتے ہیں ۔ مثلاً: 
’’ اے ایمان والو ! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ ۔ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے خلاف اللہ کو کھلا ثبوت دے دو؟ ‘‘ ( النساء : ۱۴۴) 
’’ اے ایمان والو ! تم یہود و نصاریٰ کو دوست مت بناؤ۔ وہ ( آپس میں ) ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ اور جو کوئی تم میں سے ان کو دوست بنائے گا، وہ بلا شبہ انھیں میں سے ہو جائے گا ۔ بلاشبہ اللہ ظالم لوگوں کی راہنمائی نہیں کیا کرتا‘‘ ( المائدہ : ۵۱) 
ہم گزارش کریں گے کہ قرآن مجید کی ایسی تمام آیات میں خدائی منشا بہت واضح ہے ، لیکن ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ایک تو ان آیات میں کفاراور یہود و نصاریٰ کو ’’ دوست ‘‘ بنانے سے منع کیا گیا ہے اور دوسرا وہ بھی ایسی دوستی جو مسلمانوں کے خلاف ہو ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسرائیل سے رابطے قائم کرنے میں ’’ دوستی ‘‘ کا عنصر شامل نہیں ہے اور یہ رابطے مسلمانوں کے خلاف ہر گز نہیں ہیں کیونکہ مسلم دنیا کے اسرائیل کے ساتھ پہلے سے روابط قائم ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسرائیل کے ساتھ روابط کا تعلق عقیدے یا ایمانیات سے نہیں ہے، بلکہ اس کی جڑیں خارجہ پالیسی کی مابعد الطبیعات میں پیوست ہیں۔
اسرائیل کئی برسوں سے پاکستان کے ساتھ روابط کا خواہاں ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے اب تک اس وجہ سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کیے کہ اسرائیل نے عربوں کے بہت سے علاقے ہتھیا رکھے ہیں، اور چونکہ یہ صورت حال آج بھی برقرار ہے، اس لیے ایک غاصب کی طرف سے تعلقات کی پیش کش کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ ہم عرض کریں گے کہ بین الاقوامی سیاسی تعلقات کی اصل بنیاد اس طرح کے اخلاقی اصولوں پر نہیں ہوتی، بلکہ ان کا حوالہ کسی سیاسی پالیسی کو محض اضافی جواز فراہم کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ یہ خالصتاً خارجہ پالیسی کا داؤ پیچ تھا تاکہ اسرائیل پر دباؤ ڈالا جاسکے ۔ اب اگر معروضی حالات نئے داؤ پیچ کے متقاضی ہیں تو ہم اس سے محترز نہیں ہو سکتے۔ 
پاکستان / اسرائیل روابط کے سلسلے میں مذہبی سوال اٹھاتے وقت ہمیں یہ تاریخی حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ خود عربوں نے، بشمول فلسطینیوں کے، اپنے ’’ قومی حقوق ‘‘ پانے کے لیے ترکوں کی مخالفت میں اسلامی پہلو کا لحاظ نہیں رکھا تھا اور انگریزوں کا ساتھ دیاتھا ۔عربوں کے اسی کردار کی وجہ سے اسرائیلی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوئی اور عرب / اسرائیل مسئلہ پیدا ہوا ۔ یہ عرب ہی ہیں جنھوں نے اسلامی دنیا کی وحدت کی علامت ’’ خلافت ‘‘ کے ادارے کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا۔ یہ عجیب تضاد ہے کہ آج عرب اور فلسطینی اپنے حقوق کے حصول کے لیے اسی ’’ وحدت ‘‘ کو تلاش کر رہے ہیں ۔ آج اگر مسلم دنیا عربوں اور فلسطینیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونے سے قاصر ہے تو اس کی وجہ ’’ قومی مسائل ‘‘ ہیں جن سے مسلم ریاستیں بر سر پیکار ہیں ۔

حاصل مطالعہ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل ، فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے سنجیدہ نہیں ہے ۔ تمام عرب مقبوضات کے پیشِ نظر ، غزہ سے اس کاانخلا اونٹ کے منہ میں زیرے والی بات ہے ۔ لیکن مسئلہ فلسطین کا اونٹ آخر کسی کروٹ تو بیٹھنا ہے ۔ آج اسے جس کروٹ بٹھایا جا رہا ہے، وہ بلاشبہ اسرائیل کے مفاد میں ہے لیکن اس کی کچھ نہ کچھ ذمہ داری ہم مسلمانوں پر بھی عائد ہوتی ہے ۔ 1948-49  میں اگر واقعیت پسندی کا مظاہرہ کیا جاتا اور اسرائیل کو تسلیم کر لیا جاتا تو یروشلم ، مغربی کنارے کا علاقہ اور غزہ کی پٹی بدستور فلسطین کے قبضے میں ہوتے ۔ ان علاقوں کو اسرائیلی تسلط سے آزاد کرانے کے لیے کئی سالوں سے جو جدوجہد ہو رہی ہے، اس کی نوبت ہی نہ آتی ۔ 1948 سے لے کر اب تک اگر اسرائیلی ریاست قائم ہے اور اس کی قوت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اسرائیل کو کارنر کرنے کی ہماری پالیسی بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ اسرائیل کا قیام عالمی طاقتوں کے ہاتھوں عمل میں آیا ہے اور اس کی بقا اور قوت کے پیچھے بھی وہی طاقتیں کارفرماہیں ۔ ایک محدود آبادی والے چھوٹے سے ملک کو ساری مسلم دنیا مل کر بھی ہڑپ کیوں نہ کر سکی ؟ کیا اس کی وجہ یہی نہیں کہ ہمارا اصل مقابلہ صرف اسرائیل کے ساتھ نہیں بلکہ اس کی پشت پناہی کرنے والی طاقتور ریاستوں سے بھی ہمیں نبرد آزما ہو نا ہے۔ کیا ہم کبھی اس قابل ہوئے ہیں کہ ہتھیاروں کی اپنی سپلائی لائن کے ساتھ ان طاقتوں کو چیلنج کر سکیں؟ ہم اکثر اوقات دیکھتے ہیں کہ کوئی چڑیا دانہ ڈالے جانے پر فوراً ہی اس پر نہیں جھپٹتی۔ وہ شروع میں بہت محتاط انداز میں دانوں کی طرف بڑھتی ہے ۔ دانہ چگنے کے دوران یہ احساس ہو جانے کے باوجود کہ اب سر پر کوئی خطرہ نہیں ، وہ غافل نہیں ہوتی اور ادھر اُدھر نظریں دوڑاتی رہتی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ غزہ سے اسرائیلی انخلا کا دانہ چگنے میں کوئی مضائقہ نہیں ، البتہ اتنا ضرور ہے کہ ہم غافل نہ ہوں۔عسکریت کی ایک اپنی کیمسٹری ہوتی ہے اور خارجہ پالیسی کی اپنی ایک ما بعد الطبیعیات ہے اور وہ وہی ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے ۔ ہمیں اسی کی پیروی کرنی چاہیے ۔
1990کی دہائی میں صورتِ حال 1948-49  والی تھی ۔ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے ساتھ ہی دوقطبی نظام ختم ہوگیا اور یک قطبی نظام ابھر کر سامنے آیا۔ بھارت نے فوراً اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی اور سوویت یونین کی زندگی میں اس کی وفادار ی کا دم بھرتے ہوئے اس سے مفاد اٹھانے والا اس کے خاتمے سے بھی فوائد سمیٹ گیا۔ یہی خارجہ سیاست کا بنیادی اصول ہے ۔ شخصی اخلاقیات، قومی معاملات میں پوری طرح لاگو نہیں کی جاسکتی۔ کوئی شخص نقصان اٹھا کر بھی اپنے دوست کا وفادار رہ سکتا ہے، لیکن ریاست کے لیے ایسا ممکن نہیں ہوتا ۔ آج پاکستان میں اسرائیل کے حوالے سے جو بحث ہو رہی ہے، ہماری رائے میں اس کا آغاز سوویت یونین کے خاتمے کے فوراً بعد ہو جانا چاہیے تھا ۔ ہمیشہ کی طرح ہم اس بار بھی واقعات کی رفتار سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ایران جیسے ملک نے بھی، جس کے بھارت کے ساتھ گہرے مراسم ہیں اور وہ اسرائیل کے شدید خلاف ہے ، بھارت / اسرائیل گٹھ جوڑ پر بھار ت سے احتجاج نہیں کیا۔ عالمی اور علاقائی سیاست میں تبدیلی آنے کے بعد بھارت کے یہ انداز و اطوار ایران کے لیے قابلِ فہم ہو گئے ہیں۔ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ درحقیقت ایران نے بھی اسرائیلی ریاست کے بارے میں پہلے کے سے رومانوی رویے کے بجائے ٹھوس حقائق کی روشنی میں معتدل راہ اپنائی ہے ۔ یقیناً امریکہ ، اسرائیل اور بھارت پر مشتمل ٹرائیکا کے تینوں ممالک سے بگاڑ رکھنا ایران کے مفادمیں نہیں تھا ۔ اندریں صورت بھارت پر ایرانی دباؤ ایران کے مفادات کے خلاف ہوتا۔ ایران کا یہ کہنا کہ روس، چین اور پاکستان مشترکہ کوشش سے عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کو ٹریک پر لا سکتے ہیں، کچھ ایسا بھی غلط نہیں تھا، لیکن روس اور چین کے بدلتے ہوئے موقف کے باعث ایران کی توقعات نہیں ہوئیں اور بھارت نے تو ایٹمی تنازع پر واضح طور پر امریکا کی حمایت میں ایران کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ اس کے باوجود ایران بھارت مراسم تناؤ کا شکار نہیں ہوئے۔ بھارت کے ائر چیف مارشل ایس پی تائیگی کے مطابق اس سال نومبر میں بھارتی فضائیہ امریکی فضائیہ کے ساتھ ’’ مقبوضہ کشمیر ‘‘ میں مشترکہ فضائی مشقیں کرے گی ۔ مقبوضہ کشمیر میں ہی برطانوی فضائیہ کے ساتھ مشترکہ مشقیں نئے سال کے شروع میں ہوں گی ۔ بھارت / امریکہ دفاعی و ایٹمی معاہدہ ہو چکا ہے ۔اگست میں روس / چین جنگی مشقیں ہوئیں ۔ یورپی یونین میں داخلی کشمکش اور Old Europe, New Europe  کی بحث نے امریکہ کے لیے ممکن بنایا ہے کہ وہ یورپی یونین کو علاقائی طاقت کے طور پر ابھرنے سے روک سکے ۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں لیکن اس مختصر سے تعارف سے عالمی سیاست کی نئی صف بندی کے متوقع خط و خال نمایاں ہو جاتے ہیں۔ یک قطبی نظام (Unipolar System)م یں ضعف کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں ۔ امریکی قیادت کی دھول بیٹھنی شروع ہو گئی ہے اور Power Vacuum کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں ۔ ایک طویل المیعاد کثیر قطبی نظام ( Multipolar System ) ظہور پذیر ہے ۔ اس نظام میں یورپی یونین ، رشین فیڈریشن ، امریکی فیڈریشن کی نئی ہیئت، بھارت اور چین طاقت کے مختلف منطقوں کی نشاندہی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اس سارے عمل میں ہمارے لیے ایک پیغام موجود ہے ۔ 
یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ امن معاہدے امن قائم نہیں کرتے ، اگرچہ وہ اس بات کی علامت ضرور ہوتے ہیں کہ ’’فی الحال ‘‘ امن قائم ہو گیا ہے۔ روسیوں کی ایک پرانی ضرب المثل ہے کہ ’دائمی امن صرف اگلے برس تک ہی قائم رہتا ہے‘۔ ایک اندازے کے مطابق 1500 قبل مسیح اور 1860 کے درمیانی عرصہ میں امن کے 8000 معاہدے ہوئے ۔ ہر معاہدے کو ہمیشہ کے لیے نافذ اور دائمی امن کا ضامن تصور کیا گیا ، لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ یہ معاہدے اوسطاً دو برس سے زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکے۔موجودہ عہد کی معروف مصنفہ کیرن آرم سٹرانگ اپنی کتاب Holy War میں لکھتی ہیں کہ: 
’’جب صدر جمی کارٹر ، وزیرِ اعظم میناحم بیجن اور صدر انور سادات نے 1979 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کیے تھے تو ہم میں سے بیشتر لوگوں نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ عرب اسرائیل مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ تاہم اب ہمیں ادراک ہو گیا ہے کہ ہم غلطی پر تھے۔ ۔۔۔۔یہ مسئلہ عام علاقائی معاہدوں سے حل نہیں ہو سکتا ، اس میں بہت گہرے مذہبی جذبات ملوث ہیں جنہوں نے ایک ملک میں مل جل کر رہنے کو نا ممکن بنا دیا ہے ۔۔۔۔‘‘
اگر اوپر کی سطریں قارئین کے ذہن میں تازہ ہیں تو وہ یقیناًنہیں بُھولے ہوں گے کہ عربوں کے تین مشہور ’’ نہیں ‘‘ اوراسرائیلی تہیہ پارٹی کے تین اصول دو انتہاؤں کے غماز ہیں۔ایسی تشویش ناک صورتِ حال میں امن کے عارضی معاہدے بھی آس کی کرن بن کر کسی نہ کسی راستے کی نشاندہی ضرور کرتے رہتے ہیں ۔ ہمیں ایسی کرنوں کی قدر کرنی چاہیے ۔
ایک اندازے کے مطابق 1500 قبل مسیح اور 1860 کے درمیان معلوم دنیا میں جنگ اور امن کے برسوں کی شرح 1:13 رہی ، یعنی جنگ کے تیرہ برسوں کے مقابلے میں امن کا صرف ایک سال ۔ 1820 اور 1970 کے درمیان دنیا کی بڑی اقوام ہر بیس سال میں اوسطاً ایک مرتبہ جنگ میں ملوث ہوئیں ، یعنی فی پشت ایک بار ۔ ہمیں اس حقیقت کا بھی اعتراف کر لینا چاہیے کہ دنیا میں دائمی امن کبھی قائم نہیں گا ۔ ایسی امید صرف اسی وقت کی جا سکتی ہے جب سائنس موت کو شکست دینے کے قابل ہو جائے۔ موت میں تاخیر ایک الگ بات ہے اور موت کی موت ایک بالکل جداگانہ تصور ہے ۔ اگر سائنس موت کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب ہو گا کہ اس نے زندگی کے اسرار و رموز تک رسائی پا لی ہے ۔ پھر ان اسرار و رموز کی شناسائی کے طفیل ہی وہ انسانی نفسیات میں بنیادی تبدیلی لا کر انسانی زندگی میں جنگ کے عنصر کو مکمل طور پر ختم کر سکے گی ۔ ہم یہ کہہ کر ’’ انسان دوست ‘‘ سیکولر حلقوں کو پھبتی کسنے کا موقع نہیں دینا چاہتے کہ ایسا ہونا نا ممکن ہے ۔ ہم تو ان سے درخواست کریں گے کہ وہ ’’انسان دوستی ‘‘ کے نام پر اپنے انسانیت سوز تجربات جاری رکھیں کہ بقول شخصے ہر چیز کی انتہاسے اس کی نفی ہو جاتی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موت کی موت کے لیے زندگی پر قابو پانا پہلی شرط ہے ۔ ہمیں اپنی محدود زندگی پر کتناقابو حاصل ہے، یہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ پھر لامحدود زندگی پانے کے بعد ہمارا اس پر کتنا کنٹرول ہو گا ، یہ ہمیں ضرور سوچنا چاہیے ۔ لا محدود زندگی کی لاحاصل تگ و دو کرنے کے بجائے اگر ہم اپنی محدود زندگی پر ہی کنٹرول حاصل کرنا سیکھ لیں تو دیر پا امن قائم ہو سکتا ہے، اگرچہ دائمی نہ سہی ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امن کی عمر غالب فریق کے اخلاقی رویے پر منحصر ہوتی ہے ۔ اگر دنیا میں امن کی مدت قلیل رہی ہے تو اس کا مطلب سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ غالب فریق اکثر اوقات غیر اخلاقی رویے کا مظاہرہ کرتا رہا ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ اسرائیلیوں اور دیگر سامراجی قوتوں کے پاس عسکری و اقتصادی طاقت ہونے کے باوجود ایسی اخلاقی قوت کی انتہائی کمی ہے جو دیرپا امن کی ضامن بن سکے ۔وہ وقت زیادہ دور نہیں ہے جب اسرائیل خود ہی موجودہ امن روڈ میپ کی دھجیاں بکھیر دے گا ۔ غالب قوتوں کا اخلاقی انحطاط ہمیں بارہا ایسے مواقع فراہم کرے گا کہ ہم ٹیبل کے بجائے میدان کا رخ اختیار کریں ۔ ہمیں ایک بڑی جنگ لڑنی ہے ۔ اگر ہم مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ اسلام امن کا مذہب ہے تو ہمیں غالب آنے کے لوازمات پورے کرنے کے ساتھ ساتھ ، اپنی زندگیوں میں ان اخلاقی معیارات کی بازیابی کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے جو عالمی امن کی پائیداری کے حقیقی ضامن ثابت ہو سکتے ہیں ۔ 
جہاں تک اسلامی حمیت کا تعلق ہے ، یہ تحت الشعوری کیفیت ہے جو ہمیں شعوری سطح پر مضطرب رکھتی ہے ۔ہمیں اس کا علاج کرنا چاہیے ۔ ہم تاریخی ناولوں کی خیالی دنیاؤں میں رہتے ہیں جن میں گھوڑوں کی ٹاپیں ہیں ، شمشیروں کی جھنکاریں ہیں اور اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے ۔ یہ ’’فقط اللہ ہو اللہ ہو‘‘ والی کیفیت ہے ۔ شاید ہم لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے تصور کرنے سے ہی فتوحات حاصل ہو جائیں گی اور دودھ کی نہریں بہنی شروع ہو جائیں گی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم (نعوذ باللہ ) خدا ہیں کہ کہا ہو جا اور ہو گیا؟ کیا ہم ان تصورات کو عملی شکل دینے کے لیے اس تگ و دو کے پابند نہیں ہیں جو رب العزت نے انسانوں کے لیے مقدر کر رکھی ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ بغیر کسی مادی تیاری کے صرف ایک ذہنی کیفیت کے زیرِ اثر کوئی ہاری ہوئی لڑائی لڑنا اور مسیحی اخلاقیات کے مطابق تھپڑ مارنے والے کو دوسرارخسار پیش کرنا ، ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ 
اس وقت موجودہ عالمی سیاق و سباق میں اسرائیل سے رابطے قائم کرنا بحث طلب نہیں ہے ۔ اس سے زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ روابط قائم کرنے کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا جاتا ہے ۔ جنرل پرویز مشرف نے اس ایشو پر قومی بحث و مباحثہ کرانے کے بجائے جس طرح آمرانہ انداز میں پیش رفت کی ہے، اس سے تحفظات جنم لیتے ہیں ۔ نماز کی بے وضو ادائیگی کے بعد وضو کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے حساس معاملات ، جن کی بابت قوم حد سے زیادہ جذباتی ہو ، ان سے متعلق عوام سے بالاتر ہو کر آمرانہ فیصلے کرنے سے خارجی حقائق کو صحیح تناظر میں دیکھنے کی قومی نفسیات پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوں گے۔ 
جنرل پرویز مشرف نے جیوش نیشنل کانگرس سے اپنے خطاب میں دہشت گردی اور انتہاپسندی سے نمٹنے کے لیے جرات اور مصالحت کی طرف رجوع کرنے کی بات کی ہے ۔ ہم جنرل صاحب سے یہ کہنے کی جسارت کریں گے کہ ایک دہشت گردی 12 اکتوبر 1999 کو بھی ہوئی تھی ، انھیں جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے بھی سختی سے ختم کر دینا چاہیے ۔ اسی طرح دو مقبول جماعتوں کے قائدین اور سابق وزراے اعظم کو ملک سے باہر رکھ کر ’’ انتہا پسندی ‘‘ سے کام لیا رہا ہے۔ جنرل صاحب کو ’’مصالحت ‘‘ کی لاج رکھتے ہوئے انھیں ملک میں آنے اور آزادانہ الیکشن میں حصہ لینے کا موقع دینا چاہیے تاکہ پاکستانی قوم اپنے ’’ قومی مسائل ‘‘ حل کرنے کے قابل ہو سکے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے اگر جنرل صاحب اپنے ہی بتائے ہوئے اصولوں ’’ جرات اور مصالحت ‘‘ کو اپنی شخصی سطح پر بھی نافذ کرنے سے قاصر ہیں تو وہ اسرائیلیوں سے ان اصولوں کی پیروی کی توقع کیسے کر سکتے ہیں ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سب بے نظیر اور نواز شریف ہیں ، ہم سب جنرل پرویز مشرف ہیں ، ہم سب بھٹو اور ضیا ہیں ۔ ہم سب اپنے اپنے سچ کے دائروں میں قید ہیں ۔ ہم سب دوہرے انسان ہیں ، منتشر ہیں ، بٹے ہوئے ہیں۔ ہاں ! ہم سب اکائی سے محروم ہیں۔ 

سرسید کے بارے میں تاریخی افسانوں کی حقیقت

ضیاء الدین لاہوری

الشریعہ کے گزشتہ تین شماروں میں ’’تاریخی افسانے اور ان کی حقیقت‘‘ کے عنوان سے پروفیسر شاہدہ قاضی، جناب شاہ نواز فاروقی اور مسٹر یوسف خان جذاب کی علمی بحث مطالعے میں آئی۔ اول الذکر اور موخر الذکر نے تاریخی افسانوں کے رد میں بڑے ہاتھ پاؤں مارے ہیں۔ اس رد وقدح میں سرسید کے بارے میں ایسی باتوں کو بھی حقیقت کے روپ میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو خود تاریخی افسانوں کے ضمن میں آتی ہیں اور جن کی اشاعت ہمارا تعلیمی نصاب اور ذرائع ابلاغ کئی نسلوں سے کرتے آ رہے ہیں۔ راقم ایک محدود دائرے میں اس موضوع پر سرسید کی اپنی تحریروں سے حقیقت کی نقاب کشائی کرنے کی جسارت کرتا ہے۔
فاروقی صاحب نے اپنے مضمون میں تحریر کیا تھا کہ 
’’سرسید بلاشبہ انگریزوں کے وفادار تھے بلکہ تاریخی شواہد سے ثابت ہو چکا ہے کہ وہ مجاہدین آزادی کی مخبری کرتے رہے۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ، جولائی ۲۰۰۵ء، ص ۲۲)
مسٹر جذاب نے اس پر یہ تبصرہ فرمایا کہ یہ بات 
’’سراسر ظلم اور نا انصافی ہے۔‘‘ (ایضاً، ستمبر ۲۰۰۵ء، ص ۱۸)
اس سلسلے میں ہم سرسید ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ وہ اس الزام پر اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں وہ اپنے کردار کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’بڑا شکر خدا کا یہ ہے کہ اس ناگہانی آفت میں، جو ہندوستان میں ہوئی، فدوی بہت نیک نام اور سرکار دولت مدار انگریزی کا طرف دار اور خیر خواہ رہا۔‘‘ (مکتوبات سرسید، مجلس ترقی ادب لاہور، جلد اول ۱۹۸۵ء، ص ۴۰۹)
اس خیر خواہی کے عوض انھیں کیا ملا، ان کی زبانی ملاحظہ فرمائیے:
’’اس کے عوض میں سرکار نے میری بڑی قدر دانی کی، عہدہ صدر الصدور پر ترقی کی اور علاوہ اس کے دو سو روپیہ ماہواری پنشن مجھ کو اور میرے بڑے بیٹے کو عنایت فرمائے اور خلعت پانچ پارچہ اور تین رقم جواہر، ایک شمشیر عمدہ قیمتی ہزار روپیہ کا اور ہزار روپیہ نقد واسطے مدد خرچ کے مرحمت فرمایا۔‘‘  ( لائل محمڈنز آف انڈیا، سرسید احمد خان، مون لائٹ پریس میرٹھ، ۱۸۹۸ء، ص ۱۰۱)
انعام واکرام کی درج بالا رقوم کی مالیت کا تعین موجودہ زمانے کے حساب سے نہیں، بلکہ ڈیڑھ سو برس قبل کے دور کے مطابق کرنا ضروری ہے۔ انگریزوں کی وفاداری کا یہ جذبہ اس واقعہ کے چالیس سال بعد یعنی ان کی حیات کے آخری سال میں بھی پوری طرح کارفرما تھا۔ لکھتے ہیں:
’’ہمارا مذہبی فرض ہے کہ ہم گورنمنٹ انگریزی کے خیر خواہ اور وفادار رہیں اور کوئی بات قولاً وفعلاً ایسی نہ کریں جو گورنمنٹ انگریزی کی خیر خواہی اور وفاداری کے برخلاف ہو۔‘‘  (آخری مضامین، سرسید احمد خان، رفاہ عام پریس لاہور، ۱۹۰۰، ص ۱۰۱)
ثابت ہو ا کہ سرسید مرتے دم تک انگریزوں کی وفاداری کا دم بھرتے رہے۔ ایک موقع پر وہ مسلمانوں کو انگریزوں کی اطاعت کی تلقین کرتے ہوئے اپنی فرماں برداری کا عرصہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
’’ہندوستان میں برٹش گورنمنٹ خدا کی طرف سے ایک رحمت ہے۔ اس کی اطاعت اور فرماں برداری اور پوری وفاداری اور نمک حلالی، جس کے سایہ عاطفت میں ہم امن وامان کی زندگی بسر کرتے ہیں، خدا کی طرف سے ہمارا فرض ہے۔ میری یہ رائے آج کی نہیں، بلکہ پچاس ساٹھ برس سے میں اسی رائے پر قائم اور مستقل ہوں۔‘‘  (مکمل مجموعہ لکچرز سرسید، مصطفائی پریس لاہور، ۱۹۰۰ء، ص ۲۲۲)
ان کے یہ خیالات ۱۸۷۳ کے ہیں۔ سنہ پیدایش ۱۸۱۷ ہے۔ گویا ان کے وفادارانہ جذبات کی بنیاد ان کے بچپن میں پڑی۔ اس حساب سے وہ اپنی پیدایش سے وفات تک انگریزوں کے وفادار رہے۔ وہ اپنی تمنا کا اظہار یوں کرتے ہیں:
’’ہماری خواہش ہے کہ ہندوستان میں انگلش گورنمنٹ صرف ایک زمانہ دراز تک ہی نہیں بلکہ اٹرنل (Eternal) ہونی چاہیے۔‘‘ (ایڈریس اور اسپیچیں متعلق ایم اے او کالج، مرتبہ نواب محسن الملک، انسٹی ٹیوٹ پریس علی گڑھ، ۱۸۹۸ء، ص ۷۵)
سرسید کے ایسے خیالات کے اندراج کے لیے ایک دفتر چاہیے۔ اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے درج بالا اقتباسات پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے کہ یہی ان کی وفاداری کے ثبوت کے لیے کافی ہیں۔
سرسید پر دوسرا الزام مجاہدین آزادی کی مخبری کا ہے۔ اس کی صداقت جاننے کے لیے ہم ان کی تاریخی تصانیف کی ورق گردانی کرتے ہیں۔ ’’لائل محمڈنز آف انڈیا‘‘ میں وہ جنگ آزادی کے آغاز کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جب غدر ہوا، میں بجنور میں صدر امین تھا کہ دفعتاً سرکشی میرٹھ کی خبر بجنورمیں پہنچی۔ اول تو ہم نے جھوٹ جانا مگر جب یقین ہوا تو اسی وقت سے میں نے اپنی گورنمنٹ کی خیر خواہی اور سرکار کی وفاداری پر چست کمر باندھی۔‘‘  (لائل محمڈنز آف انڈیا، جلد اول، ص ۱۳)
اپنی تصنیف ’’سرکشی ضلع بجنور‘‘ میں سرسید نے اپنی وفاداری کے کاموں کا ذکر بڑی تفصیل اور فخر سے بیان کیا ہے۔ نواب محمود خان نے جب بجنور پر قبضہ کیا تو انھوں نے اپنی جان کو داؤ پر لگا کر انگریزوں کو وہاں سے بحفاظت نکالنے میں اپنی تمام صلاحیتوں سے کام لیا۔ وہ ان کے ساتھ نہیں گئے۔ کیوں؟ انگریزوں کے اخبار ’’مارننگ ایڈورٹائزر‘‘ مورخہ ۱۲ دسمبر ۱۸۸۵ء میں اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے:
’’سرسید احمد پیچھے بجنور میں نواب (محمود خاں) کی ملازمت کے بہانے ٹھہرے مگر یہ قیام دراصل انگریز آقاؤں کے لیے کام کرنے کی خاطر تھا۔‘‘
اس کام کا آغاز انھوں نے جس طرح کیا، سرسید اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’نواب نے ہم کو کہا کہ تم سب اپنا اپنا کام کرو۔ اس وقت میں نے اور سید تراب علی تحصیل دار اور پنڈت رادھا کرشن ڈپٹی انسپکٹر نے باہم مشورہ کیا اور آپس کی ایک کمیٹی بنائی اور یہ تجویز کی کہ ہم میں سے کوئی شخص کوئی کام نہ کرے جب تک کہ باہم کمیٹی کے اس کی صلاح نہ ہو لے۔ چنانچہ اسی وقت کام کرنے کے باب میں یہ رائے ٹھہری کہ میر سید تراب علی تحصیل دار بجنور کو جو ضروری حکم نواب کا پہنچے، اس کو لاچار تعمیل کریں اور باقی احکام سب ملتوی پڑے رہنے دیں اور باقی مال گزاری، بجز اس قدر روپیہ کے جس سے تنخواہ عملہ تحصیل وتھانہ تقسیم ہو جائے، اور کچھ وصول نہ کریں۔ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا اور بخش رام تحویل دار کی معرفت، کہ وہ بھی خیر خواہ سرکار اور ہمارا ہم راز تھا، جو مال گزار آیا اس کو فہمایش کی کہ روپیہ مت دے۔ ‘‘(سرکشی ضلع بجنور، سرسید احمد خان، مون لائٹ پریس آگرہ، ۱۸۵۸ء، ص ۳۲)
اس دوران منیر خاں جہادی ان کے درپے ہوا۔ اس کا ذکر سرسید کی اپنی زبانی سنیے جس میں انھوں نے انگریزوں سے سازش رکھنے کا برملا اعتراف کیا ہے:
’’منیر خاں جہادی نے بجنور میں بہت غلغلہ مچایا اور مجھ صدر امین اور رحمت خاں ڈپٹی کلکٹر اور میر سید تراب علی تحصیل دار بجنور پر یہ الزام لگایا کہ انھوں نے انگریزوں کی رفاقت کی ہے اور ان کو زندہ بجنور سے جانے دیا ہے اور اب بھی انگریزوں سے سازش اور خط وکتابت رکھتے ہیں، اس لیے ان کا قتل واجب ہے۔ اور درحقیقت ہماری خفیہ خط وکتابت جناب مسٹر جان کری کرافٹ ولسن صاحب بہادر سے جاری تھی۔‘‘ (ایضاً، ص ۳۷)
مزے کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنی تصنیف میں ان خطوط کی نقول بھی شامل کی ہیں جو انھوں نے خفیہ طور پر انگریزوں کو لکھے۔ ان میں ’’باغیوں‘‘ کی عسکری کیفیت بیان کر کے بار بار بجنور پر جلد از جلد حملہ آور ہونے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ساری کتاب ان کی انگریزوں سے جاں نثاری کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ پھر جب حالات سے مجبور ہو کر وہ بجنور سے بھاگے اور بعد میں انگریزی فوج نے بجنور پر چڑھائی کی تو وہ اس کے عقب میں رواں دواں تھے۔ ایک محاربے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’تمام جنگل اور سڑک پر ہتھیار بکھرے ہوئے تھے اور ہر ہر قدم پر لاش پڑی تھی۔ میں، جو لشکر محارب کے پیچھے پیچھے چلا آتا تھا، قصداً لاشوں کو دیکھتا تھا کہ شاید کوئی شناخت میں آئے مگر کوئی نامی آدمی نہیں مارا گیا، البتہ دو لاشیں ملنگان نمک حرام کی نظر پڑیں۔ ......‘‘ (ایضاً، ص ۱۳۳)
پوری کتاب حریت پسندوں کے لیے غلیظ گالیوں سے بھری پڑی ہے۔ مفسد، غنیم، غادر، کم بخت، بد ذات، بد نیتی اور فساد کا پتلا، بدمعاش، قدیمی بدمعاش، پکا بدمعاش اور حرام زادہ جیسے الفاظ بکثرت استعمال کیے گئے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ تمام ’’القابات‘‘ مسلمانوں کو دیے گئے ہیں جبکہ ہندووں کا ذکر بڑے احترام کے ساتھ کیا گیا ہے۔
اپنی بحث میں سرسید کی وکالت کرتے ہوئے مسٹر جذاب لکھتے ہیں کہ 
’’ ایک طرف ہندو اور انگریز ان کے مخالف تھے تو دوسری طرف مسلمان ان کو تکفیر کے ہار پہنا رہے تھے۔‘‘ (الشریعہ گوجرانوالہ، ستمبر ۲۰۰۵ء، ص ۱۸)
کیا موصوف یہ بتانا گوارا کریں گے کہ کس نسل کے انگریز ان کی مخالفت کر رہے تھے؟ الف سے یا تک سب ان کے دوست تھے۔ ایک انگریز کرنل نے سب سے پہلے ان کی سوانح حیات لکھ کر انھیں بلند مقام عطا کیا۔ ہندوستان سے برطانیہ تک انگریزی اخبارات ان کی تعریفوں کے پل باندھتے رہے۔ لندن گئے تو ملکہ معظمہ کی خدمت حاضری کا شرف حاصل ہوا اور گھٹنے ٹیک کر ان کے ہاتھ کو بوسا دیا۔ کالج بنا تو انگریزوں کی مدد سے جس کے بیشتر اساتذہ اور پرنسپل انگریز تھے اور کالج کے اغراض ومقاصد میں یہ بات شامل تھی:
’’ہندوستان کے مسلمانوں کو سلطنت انگریزی کی لائق وکارآمد رعایا بنانا۔‘‘ (ایڈریس اور اسپیچیں، ص ۳۲)
کالج کے ٹرسٹیوں کے ایک اعلان کے مطابق:
’’من جملہ کالج کے مقاصد اہم کے یہ مقصد نہایت اہم ہے کہ یہاں کے طلبہ میں حکومت برطانیہ کی برکات کا سچا اعتراف اور انگلش کیرکٹر کا نقش پیدا ہو۔‘‘ (تذکرہ وقار، محمد امین زبیری، عزیزی پریس آگرہ، ۱۹۳۸ء، ص ۲۱۲)
سرسید کے دست راست اور جانشیں محسن الملک فرماتے ہیں:
’’اس کا بیج تو بویا سرسید نے، اب جب کہ یہ پھلے پھولے گا اور اس میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو تہذیب، شایستگی، علمی قابلیت اور گورنمنٹ کی وفادار رعایا ہونے کی حیثیت سے آپ اپنی مثال ہوں گے تو اس وقت گورنمنٹ انگریزی کی برکتوں اور آزادی کی بشارت دیتے پھریں گے۔‘‘  ( مجموعہ لکچرز نواب محسن الملک، نول کشور پرنٹنگ ورکس پریس لاہور، ۱۹۰۴، ص ۴۸۶)
سرسید کے سب سے بڑے مقلد الطاف حسین حالی لکھتے ہیں:
’’وہ اپنی قوم میں وفاداری، اخلاص اور اطاعت کا ہمیشہ کے لیے بیج بو گیا ہے۔ وہ ان کی آئندہ نسلوں کے لیے ایک بارآور درخت لگا گیا ہے جس کا پھل انگلش نیشن کی محبت اور انگلش گورنمنٹ کی وفاداری اور فرماں برداری ہے۔‘‘  (کلیات نثر حالی، جلد دوم، مجلس ترقی ادب لاہور، ۱۹۶۸ء، ص ۵۸)
یہ ہے اعلیٰ تعلیم کے لیے سرسید کی کوششوں اور علی گڑھ کے نام پر تاریخی افسانے کا کچا چٹھا جو اس ادارے کے بانی ارکان کی زبانی حقیقت بیان کر رہا ہے۔ تو پھر ان کی مخالفت کی بنیاد کیا تھی؟ شیخ محمد اکرام ’’موج کوثر‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ان کی سب سے زیادہ مخالفت اس وقت ہوئی جب انھوں نے تہذیب الاخلاق جار ی کیا اور ان مذہبی عقائد کا اظہار کیا جنھیں عام مسلمان تعلیم اسلامی کے خلاف اور ملحدانہ سمجھتے تھے، مثلاً شیطان، اجنہ اور ملائک کے وجود سے انکار، حضرت عیسیٰ کے بن باپ پیدا ہونے یا زندہ آسمان پر جانے سے انکار، حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ کے معجزات سے انکار وغیرہ وغیرہ۔‘‘ ( موج کوثر، شیخ محمد اکرام، مرکنٹائل پریس لاہور، ۱۹۴۰، ص ۵۳)
اور یہی عقائد ان کی تکفیر کا باعث بنے۔ اس کے متعلق افسانے تراشے جاتے ہیں کہ انگریزی کی تعلیم اور مغربی علوم سے علما کی نفرت کی بنا پر ان کے خلاف کفر کے فتوے عائد کیے گئے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس بارے میں شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں:
’’اس معما کے حل کرنے کے لیے ان مضامین اور فتاویٰ کا مطالعہ کرنا چاہیے جو سرسید کی مخالفت اور ان کی تکفیر میں شائع ہوئے۔ ..... علی گڑھ کالج کے متعلق سخت سے سخت مضامین اوردرشت سے درشت فتاویٰ میں یہ نہیں لکھا کہ انگریزی پڑھنا کفر ہے بلکہ یہی ہوتا تھا کہ جس شخص کے عقائد سرسید جیسے ہوں، وہ مسلمان نہیں اور جو مدرسہ ایسا شخص قائم کرنا چاہیے، اس کی اعانت جائز نہیں ....... لوگوں کا خیال تھاکہ سرسید اپنے مدرسے میں اپنے عقائد کی تبلیغ کریں گے جن کا اظہار وہ اپنے رسائل وکتب میں کر رہے تھے۔ سرسید نے ایسا نہیں کیا لیکن ان کی تصانیف میں کئی ایسی باتیں ہوتی تھیں جن سے مخالف بلکہ موافق بھی بدظن ہو جاتے تھے۔‘‘ (ایضاً، ص ۵۱)
مسٹر جذاب فرماتے ہیں کہ 
’’سرسید اپنے زمانے کے مہدی تھے ......... مذہبی لحاظ سے وہ آج بھی روشن خیالوں کے امام ہیں۔ جو لوگ ان کی سیاسی پالیسی کے مخالف ہیں، انھیں وطن عزیز پاکستان سے ہجرت کر جانی چاہیے۔‘‘ (الشریعہ گوجرانوالہ، ستمبر ۲۰۰۵ء، ص ۱۸) 
یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ سرسید کے درج بالا عقائد کون سے اسلام اور کون سے مذہب میں روشن خیالی کے زمرے میں آتے ہیں۔ شیطان، جن اور ملائکہ کا وجود اور انبیاء علیہم السلام کے معجزات پر اہل کتاب حاکم بھی اعتقاد رکھتے تھے جنھیں ان کے دینی عالموں نے آج تک چیلنج نہیں کیا۔ سرسید جس قسم کا روشن خیال اسلام ایجاد کر رہے تھے، اس پر تو ان کے اندھے اور بے مغز عشاق بھی یقین نہیں رکھتے۔ سرسید نے اسلام کی جو تعبیر کی، عامۃ المسلمین نے اسے کبھی قبول نہیں کیا۔ یہ ملک سرسید کے نظریہ (فرنگی وفاداری) کے برعکس عالم وجود میں آیا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزی حکومت کی برکات کے نظریے کو رد کر کے اپنی جدوجہد سے آزادی حاصل کی۔ اس کے قیام میں نہ سرسید کی روشن خیالی کا حصہ ہے اور نہ ان کی سیاسی پالیسی کا۔ بہتر ہے کہ دوسروں کو ملک چھوڑنے کا مشورہ دینے والے سرسید پرست خود اپنے مہدی اور امام کے ’’برکاتی‘‘ آقاؤں کے ملک سدھاریں۔

اہل تشیع کی تکفیر کا مسئلہ

ادارہ

(۱)
ماہنامہ الشریعہ شمارہ مئی ۲۰۰۵ میں محترم ڈاکٹر محمد امین صاحب کا مضمون بعنوان ’’شیعہ سنی تنازع اور اس کا پائیدار حل‘‘ نظر نواز ہوا۔ سب سے پہلے تو میں محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب کی خدمت اقدس میں سلام پیش کرنا چاہوں گا کہ فرقہ واریت کے اس لرزہ خیز اور بھیانک دور میں اور بذات خود بھی ایک فرقہ سے متعلق ہو کر ان کے نہاں خانہ دل میں ’’اتحاد بین المسلمین‘‘ کے تصور کا پیدا ہونا ہی ایک بہت بڑی قلب ماہیت ہے۔ اس کی جس قدر بھی ستایش کی جائے، کم ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں استقامت عطا فرمائیں، ان کی حفاظت فرمائیں۔ میری مسلم امہ سے مایوسی کی تاریک سرنگ میں روشنی کی ایک معمولی سی کرن نظر آئی تو اب فرقہ واریت کی اس تاریک سرنگ کے اس پار محترم ڈاکٹر محمد امین صاحب کی شکل میں روشنی کی دوسری کرن بھی نمودار ہوئی ہے۔ گو کہ ان ہلکی سی معمولی دو کرنوں سے فرقہ واریت کے گھپ اندھیروں میں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، لیکن روشنی بہرحال روشنی ہوتی ہے، خواہ وہ کتنی معمولی ہی کیوں نہ ہو۔ جہاں روشنی ہوگی، وہاں اندھیرا نہیں رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب مل کر اپنے اپنے طور پر وحی الٰہی قرآن کے نور (النساء ۱۷۵) کے دیے روشن کرتے چلے جائیں تو اندھیرا خود بخود چھٹ جائے گا اور تمام عالم میں ہر سو اجالا ہو کر رہے گا۔
محترم ڈاکٹر محمد امین صاحب نے مذکورہ مسئلہ کے پائیدار حل کے لیے کچھ تجاویز تحریر فرمائی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ 
’’تکفیر مسلمین کے بارے میں سخت شرعی احکام کے پیش نظر احتیاط وانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ فتویٰ یہ دیا جائے کہ جس شخص کے یہ اور یہ عقائد ہوں، وہ کافر ہے۔ یہ نہ کہا جائے کہ سارے شیعہ کافر ہیں۔‘‘ 
اس عاجز کم علم قاری کی محترم ڈاکٹر محمد امین صاحب سے درخواست ہے کہ وہ اپنی اس تجویز کو مزید وسعت دیں، اس لیے کہ اس تجویز سے یہ التباس پیدا ہوتا ہے کہ صرف شیعہ کمیونٹی میں سے کچھ گروپ یا گروہ ایسے ہیں جو کفر کے مرتکب ہوئے ہیں، باقی تمام فرقوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا، وہ تمام پکے اور مستند مسلمان ہیں، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دوسرے فرقوں کے خلاف بھی فتوے جاری ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں اور اب ان فتاویٰ کی رو سے کوئی بھی فرقہ مسلمان نہیں رہا اور یہ فتاویٰ کوئی ہما شما قسم کے اشخاص نے نہیں دے رکھے، بلکہ مکہ ومدینہ کے علما کے دستخطوں اور مہروں کے ساتھ منگوائے جاتے رہے ہیں۔ یہ عاجز کم علم ڈاکٹر محمد امین صاحب سے عرض گزار ہے کہ آپ کی پیش کردہ تجاویز کو اس طرح وسعت دی جائے کہ جس شخص کے یہ اور یہ عقائد ہوں، وہ کافر ہے۔ اس میں کسی مخصوص فرقہ کی بات نہ ہو اور وہ فتویٰ تمام مسالک کے علماء کرام کا متفق علیہ ہو اور اس پر تمام مسالک کے علما کے دستخط ہوں اور وہ فتویٰ کسی حکومتی ادارہ یا بینک میں محفوظ کر دیا جائے اور اس کی نقل تمام اخبارات وجرائد میں شائع کی جائے اور تمام ٹی وی چینلز اور ریڈیو اسٹیشنز سے اس طرح بار بار نشر ہوتا رہے جس طرح حکومت تمباکو نوشی کے خلاف اشتہار نشر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ دوسرا جو کوئی بھی شخص کسی بھی فرد یا گروہ کے خلاف فتویٰ جاری کرے، اس کے خلاف انضباطی کارروائی کا کوئی مستقل ادارہ قائم کر دیا جائے۔ بصورت دیگر وہ مقاصد ہرگز حاصل نہ ہو سکیں گے جو مولانا زاہد الراشدی صاحب اور محترم ڈاکٹر محمد امین صاحب اپنی آرزووں میں رکھتے ہیں۔
ہر شخص پر اپنے اپنے فرقہ اور مذہب کی گرفت اس قدر مضبوط ہوتی ہے کہ اس پر اپنے فرقہ سے الگ ہونے کے تصور سے ہی کپکپی طاری ہونے لگتی ہے۔ وہ ایک ان دیکھے خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ میرے محترم ڈاکٹر محمد امین صاحب جیسی صاحب علم اور مدبر شخصیت کو بھی صراحت کرنی پڑ گئی۔ وہ فرماتے ہیں، 
’’التباس سے بچنے کی خاطر ہم یہاں مناسب سمجھتے ہیں کہ ذاتی طور پر ہمارا عقیدہ وہی ہے جو جمہور اہل سنت کا .....۔‘‘ 
میں یہاں شاید سوء ادب کا مرتکب گردانا جاؤں کہ اس عاجز، کم علم کے مطابق اللہ جل شانہ نے اپنی ہدایت وتعلیمات کے ذریعے انسانوں کے لیے جو ضابطہ زندگی عملاً اختیار کرنے کو دیا ہے، اسے اسلام کہا ہے: 
’’اور آج ہم نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمتیں پوری کر دیں اور تمھارے لیے اسلام کو دین پسند کیا ہے۔‘‘ (مائدہ ۳) 
اور جو لوگ اس دین (ضابطہ حیات) کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں، انھیں مسلم (مسلمان) کہا ہے۔ (الانبیاء ۱۰۸۔ یونس ۷۲) اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تعارف مسلم (مسلمین) کہہ کر کروایا ہے۔ (الانعام ۱۶۴) تو یہ بیچ میں جمہور اہل سنت یا جمہور اہل تشیع کہاں سے آ گئے؟ کیا جمہور یا کسی گروہ یا کسی شخصیت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ وحی الٰہی قرآن کے رکھے گئے نام واصلاحات واحکامات کو تبدیل کر دیں یا اپنی نسبت یا اپنا تعارف کسی دوسرے نام سے کرائیں؟ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سنی یا شیعہ تھے؟ کیا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سنی یا شیعہ تھے یا حضرت علی رضی اللہ عنہ شیعہ تھے؟ ہرگز ہرگز ایسا نہیں تھا۔ وہ سنی تھے نہ شیعہ۔ وہ فقط مسلم تھے، مومن تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا تعارف ان الفاظ میں کرایا ہے: 
’’محمد خدا کے پیغمبر ہیں۔ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، وہ کافروں کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں رحم دل۔‘‘ (الفتح ۲۹) 
صحابہ کرام کے کردار کے متعلق اس آیت میں جو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے، وہ صحیح ومستند اور لاریب ہے یا صحابہ کرام کے کردار کا وہ رخ جو تاریخ ہمیں دکھاتی ہے، وہ معتبر ہے؟ 
اسی آیہ مبارکہ میں صحابہ کرام کو کھیتی کے بیج سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اگر تاریخ کے مطابق جو اس نے ہمیں بتایا ہے، بیج ہی ناقص ہو تو زمین سے نہ کونپل پھوٹے گی، نہ نال مضبوط ہوگی، نہ کھیتی والے خوش ہوں گے۔ نہ کافروں کا جی جلتا، نہ اسلام پھلتا پھولتا۔ دراصل یہ سارا قصہ ہماری تاریخ کا ہے جس پر وحی الٰہی سے زیادہ ہمارا ایمان ہے اور تاریخ ہمیشہ ظنی ہوتی ہے۔ 
’’اور ان میں سے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں اور کچھ شک نہیں کہ ظن، حق کے مقابلے میں کچھ بھی کارآمد نہیں ہو سکتا۔‘‘ (یونس ۳۶) 
اس کے ثبوت کے لیے ماہنامہ الشریعہ ماہ مئی اور جولائی کے شماروں میں محترمہ پروفیسر شاہدہ قاضی اور محترم شاہ نواز فاروقی کی تحریریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ہماری تاریخ انھی محترم حضرات کی چپقلشوں سے بھری پڑی ہے جنھوں نے نہ جانے کتنے افسانوں کو ہمارے سامنے حقیقت کے روپ میں پیش کر کے ہمارے ایمان کا جزو اول بنا رکھا ہے۔ شیعہ سنی تنازع بھی ایک افسانہ تھا جو حقیقت بن کر اللہ اور اس کے رسول کے ماننے والوں میں موجب فساد بن کر ہزاروں لاکھوں کروڑوں بے گناہ انسانوں کی جانیں لے چکا ہے اور اب بھی لے رہا ہے۔ دشمنان دین اسلام کی سازشوں اور کارستانیوں اور ہمارے علماء کرام کی انتہائی سادگی کے سبب اعلیٰ وارفع سچے دین کے پیروکاروں کو فرقہ واریت کی اس آگ میں جھونک دیا گیا ہے جس سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں بچایا تھا۔ 
’’اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمھارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تمھیں بچا لیا۔‘‘ (الانفال ۶۵)
محترم ڈاکٹر محمد امین صاحب کا یہ تجزیہ صحیح ہے کہ حکومتی انتظامیہ اور جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے دینی عناصر سے متعلق لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی اپنا رکھی ہے، لیکن میرے محترم، یہ تو میکیاولی کی سیاست ہے جسے جمہوریت کہتے ہیں اور یہ حربے اور طور طریقے جمہوریت کا مرکزی نظریہ اور اس کی اساس ہیں۔ سیاست دانوں کی حد تک تو میکیاولی سیاست کا یہ حربہ یا طریقہ شاید قابل قبول ہو، لیکن دینی علما اس میکیاولی سیاست کا حصہ بننے پر کیوں بضد ہیں، جبکہ یہ کبھی بھی ان کا فریضہ نہیں رہا۔ ان کا اصل فریضہ اور غایت الغایات تعمیر سیرت وکردار اور انسان سازی ہے۔ (سورۃ البقرہ ۱۲۹، ۱۵۱) لیکن یہ حضرات تزکیہ نفس یعنی تعمیر سیرت وکردار کو ترک کر کے سیاست دانوں کی تقلید میں مفاد عاجلہ کی خاطر حصول اقتدار کے لیے میکیاولی سیاست کے گند میں کیوں کود پڑے اور اپنے مقام ومرتبہ، اپنے وقار اور احترام کو خاک میں ملا کر بیٹھے؟ انھیں چاہیے تھا کہ سیاست واقتدار کے بجائے امت میں موجود فرقہ واریت کو ختم کرتے، قوم میں فکری ونظریاتی ہم آہنگی پیدا کرتے اور افراد معاشرہ کی اصلاح اور تعمیر سیرت وکردار کے لیے (جو اس وقت ناپید ہے) جدوجہد کرتے۔ اس کے لیے اگر جان کی قربانی بھی دینی پڑتی تو اس سے دریغ نہ کیا جاتا۔ 
اس وقت میرے سامنے جنوری ۱۹۵۱ میں پاکستان کے اکیس علماء کرام کے منظور کردہ بائیس نکات پر مشتمل دستخط شدہ متفقہ قرارداد کی کاپی ہے جس میں حکومت وقت سے ملک میں نفاذ شریعت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس قرارداد کی شق نمبر ۴ میں یہ الفاظ درج ہیں:
’’اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ وہ مسلمہ اسلامی فرقوں کے لیے ان کے اپنے مذہب کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کا بندوبست کرے۔‘‘
شق نمبر ۹ کے الفاظ ہیں: 
’’مسلمہ اسلامی فرقوں کو حدود قانون کے اندر پوری مذہبی آزادی ہوگی۔‘‘
یعنی ملک کے اکتیس جید علماء کرام متفق ہوئے ہیں فرقہ واریت پر جس کو اللہ تعالیٰ نے شرک قرار دے رکھا ہے۔
۱۹۵۸ میں (ہندو مسلم نہیں) مرزائیوں اور دوسرے لوگوں کے درمیان فسادات کروائے گئے۔ سیکڑوں انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ پہلا مارشل لا متعارف ہوا جس کا باعث مذہب تھا۔ حکومت نے اس قضیہ کو مٹانے کی خاطر ایک خصوصی عدالت تشکیل دی جس کے سربراہ جسٹس منیر تھے۔ اس عدالت نے تمام علماء کرام سے استدعا کی تھی کہ وہ عدالت کی راہنمائی فرمائیں اور ہمیں بتائیں کہ مسلم کی تعریف (Definition) کیا ہے۔ اس کے جواب میں کسی بھی ایک عالم نے دوٹوک جواب نہیں دیا۔ جن علما حضرات نے جواب داخل کروائے، ان کا جواب کسی بھی دوسرے عالم سے نہیں ملتا تھا۔ نتیجتاً جو فیصلہ دیا گیا، اس کے الفاظ یہ تھے:
’’ان متعدد تعریفوں کو جو علما نے پیش کی ہیں، پیش نظر رکھ کر ہماری طرف سے کسی تبصرہ کی ضرورت ہے، بجز اس کے کہ دین کے دو عالم بھی اس بنیادی امر پر متفق نہیں ہیں؟ اگر ہم اپنی طرف سے مسلم کی کوئی Definition کر دیں جیسے ہر عالم دین نے کی ہے اور وہ ان تعریفوں سے مختلف ہو جو دوسروں نے پیش کی ہیں تو ہم کو متفقہ طور پر دائرۂ اسلام سے خارج کر دیا جائے گا۔ اگر ہم علما میں سے کسی ایک کی تعریف اختیار کر لیں تو اس عالم کے نزدیک تو مسلمان رہیں گے، لیکن دوسرے تمام علما کی تعریف کی رو سے کافر ہو جائیں گے۔‘‘  (حوالہ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات پنجاب، ص ۲۳۵، ۱۹۵۳)
جنرل ضیاء الحق نے نفاذ اسلام کے شوق میں ۱۹۷۳ کے آئین کی دفعہ ۲۲۷ میں وضاحتی نوٹ کے نام پر ترمیم کر کے فرقہ واریت کو دوام دے کر مختلف فرقوں کے درمیان محاذ آرائی کا دروازہ کھول دیا تھا۔ اب اگر علماء کرام خلوص نیت سے فرقہ واریت کا خاتمہ کر کے اتحاد بین المسلمین اور مملکت خداداد پاکستان میں نفاذ اسلام چاہتے ہیں تو اپنی لیڈر شپ متحدہ مجلس عمل سے مطالبہ کریں کہ وہ صوبہ سرحد میں جہاں ان کو اقتدار حاصل ہے، ضیاء الحق کے دور میں آئین کی دفعہ ۲۲۷ میں وضاحتی نوٹ کے نام پر کی گئی ترمیم کو منسوخ کرانے کے لیے سرحد اسمبلی سے ایک قرارداد منظور کرائیں جس طرح حسبہ بل اسمبلی سے منظور کروایا تھا۔ اس کے بعد قومی اسمبلی میں بھی اس ترمیم کو منسوخ کرانے کے لیے بل پیش کریں جو فوراً منظور ہو جائے گا۔ یہیں سے ہماری نیتوں کا پتہ چل جائے گا کہ یہ جو نفاذ شریعت، نظام مصطفی کے نعرے گزشتہ ساٹھ سال سے فضا میں گونجتے رہے ہیں، ان میں کتنی صداقت ہے اور کتنی سیاست۔ یہ اس لیے کہ فرقہ واریت کو ختم کیے بغیر اسلامی نظام کا نفاذ ممکن نہیں۔ یہ بات قرآن میں لکھ دی گئی ہے۔ 
’’جو اللہ تعالیٰ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دیں، تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں، فاسق ہیں۔‘‘ (مائدہ ۴۴، ۴۵، ۴۷) 
باقی جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
ان تلخ حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اس عاجز کم علم کی رائے یہ ہے کہ یہ شریعت بل، نفاذ شریعت کونسلیں اور حسبہ بل سب بے کار وبے معنی ہیں، جب تک ملک میں دین کے حوالے سے فکری ونظریاتی ہم آہنگی نہ ہو۔ فرقہ واریت اتحاد ملی کے لیے زہر قاتل ہے اور یہ مسئلہ ایسا ہے کہ اس نے مسلم امہ میں عموماً اور پاکستانی معاشرہ میں خصوصاً ایک ناسور کی شکل اختیار کر رکھی ہے جس میں سے ہر وقت زہریلا مواد بہتا رہتا ہے۔ اگر اس کا تدارک نہ کیا گیا تو ہمارا مذہبی ومعاشرتی جسم اس کی لپیٹ میں آ کر گل سڑ جائے گا اور ہماری موت واقع ہو جائے گی۔ 
کرنے کا کام یہ ہے کہ پہلے فرقہ واریت کی خلیج کو پاٹا جائے۔ میرے ممدوح جناب محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب اور جناب محترم ڈاکٹر محمد امین صاحب تمام مسالک کے علماء کرام سے رابطہ کریں اور کسی مقام پر مسلمان کی تعریف کے ایک نکاتی ایجنڈے پر سیمینار منعقد کروائیں اور اس میں تمام مسالک کے علماء کرام کے علاوہ دیگر صاحبان علم وقلم، دانش وروں، سیاست دانوں کو اس موضوع پر اظہار خیال کی دعوت دیں۔ علماء کرام کو دین سے محبت ہے اور اب وہ بہت سے سرد وگرم حالات سے گزر چکے ہیں اور گزر رہے ہیں۔ اب انھیں معروضی حالات اور زمینی حقائق کا ادراک حاصل ہو چکا ہوگا اور وہ یقیناًمسلم کی تعریف کرنے میں کام یاب ہو جائیں گے۔ اس کے بعد شیعہ سنی اور دیگر تمام تنازعات خود بخود ختم ہو جائیں گے، لیکن اس کے لیے محکم اساس کا ہونا از بس ضروری ہے۔ مجھ کم علم، عاجز کے نزدیک یہ اساس محکم قرآن کریم کے علاوہ کہیں اور سے نہیں مل سکتی اور وہ یہ ہے: 
’’اے رسول! جس نے امت کے اندر فرقہ بنایا، تو ان میں سے نہیں۔‘‘ (انعام ۱۶۰، الروم ۳۱، ۳۲) 
میری حضرت مولانا زاہد الراشدی اور ڈاکٹر محمد امین صاحب کے علاوہ دیگر تمام مسالک کے علماء کرام سے دست بستہ التجا ہے کہ وہ قرآن کریم کی ان آیات پر غور وتدبر فرمائیں اور انھیں اس مسئلہ میں بنیاد بنائیں۔ ہم کب تک باہمی ضد کی وجہ سے منتشر اور بھٹکتے پھرتے رہیں گے اور اسلام دشمن قوتوں کا ایک ایک کر کے نوالہ بنتے چلے جائیں گے؟ اس عاجز کم علم کی تمام مذہبی وسیاسی قیادت، اہل علم وقلم اور ملک کے تمام دانش وروں سے دردمندانہ اپیل ہے کہ وہ اٹھیں اور آگے بڑھ کر جس قدر جلد ممکن ہو، اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے میں مولانا زاہد الراشدی اور ڈاکٹر محمد امین صاحب کی مساعی جمیلہ میں ان کا ہاتھ بٹائیں۔ گو کہ یہ مسائل صدیوں پر محیط ہیں لیکن خلوص نیت، جذبہ صادق اور اللہ اور اس کے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہو تو کوئی مشکل کام نہیں۔ ایک نہ ایک دن ہم اپنے ہاتھوں سے لگائی ہوئی آگ پر قابو پانے میں ضرور کام یاب ہو جائیں گے۔ 
(آفتاب عروج 
مکان 11/9-W۔ گوجر روڈ۔
سیٹلائیٹ ٹاؤن۔ چنیوٹ)
(۲)
گزشتہ ایک برس سے ماہنامہ الشریعہ میں مختلف حضرات شیعہ سنی مسئلے پر اپنی اپنی رائے کا اظہار فرما رہے ہیں۔ اسی سلسلے کا ایک مضمون مئی ۲۰۰۵ کے شمارے میں ’’شیعہ سنی تنازع اور اس کا پائیدار حل‘‘ کے زیر عنوان نظر سے گزرا جس میں فاضل مضمون نگار محترم ڈاکٹر محمد امین صاحب نے تکفیر شیعہ سے متعلق شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے موقف پر تنقید کی ہے۔ شیعیت سے معمولی واقفیت رکھنے والا آدمی بھی دیکھ سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے حقائق سے کھلم کھلا انحراف کی راہ اختیار کی ہے۔ حافظ عبد الرشید صاحب نے جولائی کے شمارے میں ڈاکٹر صاحب کے اعتراضات کے مسکت اور مدلل جواب دیے ہیں جنھیں پڑھ کر ایک خالی الذہن آدمی بھی حقیقت حال سے آگاہی حاصل کر سکتا ہے۔ تاہم ڈاکٹر صاحب کے مضمون کے ایک نکتے پر حافظ عبد الرشید صاحب نے روشنی نہیں ڈالی۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
’’جہاں تک تکفیر شیعہ کا تعلق ہے، ہمارے علم کے مطابق یہ اہل سنت کا کوئی متفق علیہ مسئلہ نہیں ہے، بلکہ غالباً یہ کہا جا سکتا ہے کہ جمہور اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ اہل تشیع کا نقطہ نظر غلط ہے۔ چلیے اسے گمراہی کہہ لیجیے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کی یہ وضاحت اہل سنت کے موقف کی ہرگز ترجمانی نہیں کرتی۔ یہاں ہم اسلامی تاریخ کے مقتدر علماء کرام، محدثین عظام اور رؤساے امت کے صرف چند حوالہ جات نقل کریں گے جن سے یہ واضح ہوگا کہ تکفیر شیعہ کا مسئلہ اہل سنت کے ہاں ایک متفق علیہ اور اجماعی مسئلہ ہے۔
۱۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: 
’’اگر میں اپنے شیعوں کو جانچوں تو یہ زبانی دعویٰ کرنے والے اور باتیں بنانے والے نکلیں گے اور اگر ان کا امتحان لوں تو سب مرتد نکلیں گے۔‘‘ (روضہ کلینی ص ۱۵۷، بحوالہ احسن الفتاویٰ ۱/۸۴)
۲۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جماعت صحابہ کے لیے ترقی اور کامرانی کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا ہے: لیغیظ بہم الکفار (الفتح ۲۹) ’’تاکہ اللہ ان کے ذریعے سے کفار کو غیظ ناک کرے‘‘۔ اس آیت کریمہ کی بنیاد پر امام دار الہجرۃ امام مالکؒ نے رافضیوں کو کافر قرار دیا ہے اور یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ جو شخص صحابہ کرام سے بغض رکھے، وہ کافر ہے۔ علماء کی ایک کثیر تعداد نے امام صاحب کی تائید کی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر۔ تفسیر روح المعانی) امام شافعی (۲۰۴ھ) نے بھی امام مالک سے اتفاق کرتے ہوئے روافض کو کافر کہا ہے۔ (الصواعق المحرقہ ص ۲۱۰)
۳۔ علامہ عبد اللہ بن ادریس الاردی (۱۹۲ھ) فرماتے ہیں:
’’شفعہ مسلمان کا حق ہے، رافضی کا نہیں کیونکہ رافضی مسلمان نہیں ہے۔ وہ کفار کی مثل ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ صحابہ کرام سے کفار بغض رکھتے ہیں۔ اور یہی معنی ہے امام احمدؒ کے اس قول کا کہ جو شخص حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عائشہ کو برا بھلا کہتا ہے، میں اسے اسلام پر نہیں سمجھتا۔‘‘ (الصارم المسلول ص ۵۷۰)
۴۔امام ابن حزم اندلسیؒ (۴۵۶ھ) کا فتویٰ یہ ہے:
’’پورا فرقہ امامیہ، ان کے متقدمین اور متاخرین سب اس کے قائل ہیں کہ قرآن بدل ڈالا گیا ہے۔ اس میں وہ کچھ بڑھا دیا گیا ہے اور شامل کر دیا گیا ہے جو اس میں نہیں تھا اور بہت کچھ کم کر دیا گیا ہے۔ بہت تبدیلی اور تحریف کر دی گئی ہے۔‘‘
مسیحیوں کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہ رافضیوں کے بقول تمہارے نبی کے صحابہ نے قرآن میں تحریف کر دی، امام ابن حزم لکھتے ہیں: ان الروافض لیسوا من المسلمین (الملل والنحل ۲/۷۸، ۳/۱۸۱) کہ روافض مسلمانوں میں شامل نہیں ہیں۔
۵۔ قاضی عیاض مالکیؒ (۵۵۴ھ) فرماتے ہیں:
’’ہم ان غالی شیعوں کو اس قول کی وجہ سے قطعی کافر قرار دیتے ہیں کہ ان کے اماموں کا درجہ نبیوں سے اونچا ہے۔‘‘ (الشفاء ۲/۲۹۰)
۶۔ شیخ عبد القادر جیلانی لکھتے ہیں:
’’شیعوں کے تمام گروہ اس پر متفق ہیں کہ اماموں کا تعین اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ وہ معصوم ہوتا ہے۔ حضرت علیؓ تمام صحابہ سے افضل ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علیؓ کو امام وخلیفہ نہ ماننے کی وجہ سے چند ایک کے سوا تمام صحابہ مرتد ہو گئے ۔ ان کا عقیدہ ہے کہ امام کو دنیا اور دین کی تمام چیزوں کا علم ہے۔ یہودیوں نے تورات میں تحریف کی۔ اسی طرح روافض بھی اپنے اس دعویٰ کی وجہ سے کہ قرآن میں تبدیلی کی گئی ہے، قرآن مجید میں تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں۔‘‘ (غنیۃ الطالبین ص ۱۶۴ تا ص ۱۶۲)
۷۔ امام فخر الدین رازی کا فتویٰ:
’’رافضیوں کی طرف سے قرآن میں تحریف کا دعویٰ اسلام کو باطل کر دیتا ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر)
۸۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ کا فتویٰ:
’’عصر حاضر کے ان مرتدین سے اللہ کی پناہ! یہ لوگ کھلم کھلا اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اس کی کتاب اور اس کے دین کے دشمن ہیں۔ اسلام سے خارج ہیں ........ یہ حضرت صدیق اکبرؓاور ان کے ساتھیوں سے عداوت رکھنے والے ہیں اور اسی طرح کے مرتد اور کافر ہیں جیسے وہ مرتدین تھے جن سے صدیق نے جنگ کی تھی۔‘‘ (منہاج السنۃ ۲/۱۹۸ تا ۲۰۰)
مزید فرماتے ہیں:
’’اگر کوئی صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کو جائز سمجھ کر کرے تو وہ کافر ہے۔ صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرنے والا سزائے موت کا مستحق ہے۔ جو صدیق اکبر کی شان میں گالی بکے، وہ کافر ہے۔ رافضی کا ذبیحہ حرام ہے، حالانکہ اہل کتاب کا ذبیحہ جائز ہے۔ اور روافض کا ذبیحہ کھانا اس لیے جائز نہیں کہ شرعی حکم کے لحاظ سے یہ مرتد ہیں۔‘‘ (الصارم المسلول ص ۵۷۵)
۹۔ شیخ الاسلام ومفتی اعظم سلطنت عثمانیہ شیخ ابو السعود کا فتویٰ:
’’شیعوں سے جنگ جہاد اکبر ہے اور ان سے جنگ میں ہمارا جو آدمی مارا جائے، وہ شہید ہوگا۔ شیعہ اسلامی فرقوں سے خارج ہیں۔ ان کا کفر ایک سطح پر نہیں رہتا بلکہ بتدریج بڑھتا رہتا ہے۔ ہمارے گزشتہ علما کا اس پر اتفاق ہے کہ ان پر تلوار اٹھانا جائز ہے اور یہ کہ ان کے کافر ہونے میں جس کو شک ہو، وہ خود بھی کفر کا مرتکب قرار دیا جائے گا۔ چنانچہ امام اعظمؒ ، امام سفیان ثوریؒ ، امام اوزاعیؒ کا مسلک یہ ہے کہ اگر یہ لوگ توبہ کر کے اسلام میں آ جائیں تو انھیں قتل نہیں کیا جائے گا اور امید کی جا سکتی ہے کہ دوسرے کافروں کی طرح توبہ کے بعد ان کی بھی بخشش ہو جائے گی، لیکن امام مالکؒ ، امام شافعیؒ ، امام احمد بن حنبلؒ ، امام لیث بن سعدؒ اور بہت سے ائمہ کبار کا مسلک یہ ہے کہ نہ ان کی توبہ قبول کی جائے گی اور نہ ان کے اسلام لانے کا اعتبار کیا جائے گا، بلکہ حد جاری کرتے ہوئے ان کو قتل کر دیا جائے گا۔‘‘ (رسائل ابن عابدین، ۱/۳۶۹)
۱۰۔ ملا علی قاری (۱۰۱۴ھ) کا فتویٰ:
’’ہمارے دور کے رافضی تمام اہل سنت والجماعت کی تکفیر کا اعتقاد رکھنے کے علاوہ اکثر صحابہ کرام کی تکفیر کرتے ہیں، لہٰذا بغیر کسی نزاع کے رافضی بالاجماع کافر ہیں۔‘‘ (مرقاۃ ۹/۱۳۷ بحوالہ ارشاد الشیعہ)
۱۱۔ شیخ احمد سرہندی (۱۰۳۴ھ) کا فتویٰ:
’’شیعہ کو کافر ٹھہرانا احادیث صحاح کے مطابق اور طریق سلف کے موافق ہے۔‘‘ (رد رفض ۳۹)
۱۲۔ شاہ ولی اللہ دہلویؒ (۱۱۷۶ھ) کا فتویٰ:
’’شیعوں کی اصطلاح میں امام معصوم ہوتا ہے۔ اس کی اطاعت فرض ہوتی ہے۔ اللہ کی طرف سے مخلوق کی ہدایت کے لیے مقرر کیا جاتا ہے۔ اس پر باطنی وحی آتی ہے۔ پس درحقیقت وہ ختم نبوت کے منکر ہیں، اگرچہ زبان سے حضور کو خاتم الانبیاء کہتے ہیں۔‘‘ (تفہیمات الٰہیہ ص ۲۴۴ بحوالہ بینات ص ۷۸)
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے زمانے میں علماء کرام کی طرف سے شیعہ اثنا عشریہ کی تکفیر کے بارے میں ایک متفقہ فتویٰ جاری کیا گیا۔ اس فتوے پر مولانا سید حسین احمد مدنی نے بھی دستخط فرمائے تھے۔ مولانا عبد الماجد دریابادی نے اس فتوے کے بارے میں کچھ اشکالات لکھ کر مولانا تھانوی کی خدمت میں بھیجے جس کے جواب میں مولانا نے تفصیل سے تمام اشکالات کا جواب تحریر فرمایا اور فتوے کے ہر ہر جزو کی تصویب وتصدیق فرمائی۔ یہ سوال وجواب امداد الفتاویٰ جلد چہارم کے صفحہ ۵۸۴ تا ۵۸۷ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں ہم ان میں سے ایک سوال اور اس کا جواب نقل کرنے پر اکتفا کریں گے:
’’سوال ۷: حضرت حاجی صاحب کا جو مکتوب سرسید احمد کے نام تھا، مجھے اس قدر پسند آیا تھا کہ میں نے اہتمام کے ساتھ سچ میں شائع کیا تھا۔ پس میری فہم ناقص میں اسی کو معیار بنا لینا چاہیے اور اسی کے مطابق معاملہ تمام گمراہ فرقوں سے رکھنا چاہیے۔ یعنی نہ مداہنت، نہ اتنی مخالفت کہ ان میں اور آریوں عیسائیوں وغیرہ میں کوئی فرق ہی نہ رکھا جائے۔
جواب: لیکن اگر وہ خود ہی اپنے کو کافر بنائیں تو کیا ہم اس وقت بھی ان کو کافر نہ بنائیں؟ دنیا میں اپنے کو آج تک کسی نے کافر نہیں کہا بلکہ کوئی عیسائی کہتا ہے، کوئی یہودی۔ مگر چونکہ ان تمام فرقوں کے عقائد کفریہ دلائل سے ثابت ہیں، اس لیے ان کو کافر ہی کہا جاوے گا۔ تو مدار اس حکم کا عقائد کفریہ پر ٹھہرا۔ گویا اگر ایک شخص اپنے کو فرقہ شیعہ سے کہتا ہے اور کوئی عقیدہ کفریہ اس مذہب کے اجزا یا لوازم سے ہے تو اپنے کو اس فرقہ میں بتلانا بدلالت التزامی اس عقیدہ کو اپنا عقیدہ بتلانا ہے تو عدم تکفیر کی کیا وجہ؟ اور اگر ان کے یہاں یہ عقیدہ مختلف فیہ ہوتا، تب بھی اس کی تکفیر میں تردد ہوتا، لیکن یہ بھی نہیں اور جو اختلاف ہے، وہ غیر معتد بہ ہے جس کی خود ان کے جمہور رد کرتے ہیں۔ اس حالت میں اصل تو کفر ہوگا۔ البتہ کوئی صراحتاً کہے کہ میرا یہ عقیدہ نہیں ہے یا کوئی فرقہ اپنا لقب جدا رکھ لے مثلاً جو علما ان کے تحریف کے نافی ہیں، ان کی طرف اپنے کو منسوب کیا کریں، مثلاً اپنے کو صدوقی یا قمی یا مرتضوی یا طبرسی کہا کرے، مطلق شیعہ نہ کہے تو خاص اس شخص کو یا اس فرقہ کو اس عموم سے مستثنیٰ کہہ دیں گے، لیکن ایسے استثناؤں سے قانونی حکم نہیں بدلتا ہے۔ حرمت نکاح اور حرمت ذبیحہ قانونی احکام ہیں۔ اس پر بھی جاری ہوں گے، جب تک وہ فرقہ متمیز ومشہور نہ ہو جائے۔ خصوصاً جب تقیہ کا بھی شبہہ ہو تو خواہ سوء ظن نہ کریں، مگر احتیاطاً عمل تو سوء ظن ہی ایسا ہوگا۔ البتہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا معاملہ وہ اس کے عقیدہ کے مطابق ہوگا۔ اگر کوئی ہندو توحید کا بھی قائل ہو اور رسالت کا بھی لیکن اپنے کو ہندو ہی کہتا ہو، گو کچھ تاویل ہی کرتا ہو تو اس کے ساتھ آخر کیا معاملہ ہوگا؟ یہی حالت یہاں کی ہے۔ ضلع فتح پور میں ہندووں کی ایک جماعت ہے جو قرآن اور حدیث پڑھتے ہیں اور نماز روزہ بھی رکھتے ہیں مگر اپنے کو ہندو کہتے ہیں۔ لباس اور نام سب ہندووں جیسے رکھتے ہیں۔ اگر وہ اپنے کو ہندو کہیں اور اپنا مشرب ظاہر نہ کریں تو کیا سامع کے ذمہ تفصیل واجب ہوگی کہ اگر ایسے عقیدہ کا ہے تو مسلمان؟‘‘
(حافظ محمد عثمان
متعلم مدرسہ اشرف العلوم گوجرانوالہ)

اسلام اور نظریہ ارتقا

پروفیسر میاں انعام الرحمن

ماہنامہ الشریعہ کے ستمبر ۲۰۰۵ کے شمارے میں ڈاکٹر محمد آصف اعوان صاحب کا مضمون ’’ انسان کا حیاتیاتی ارتقا اور قرآن ‘‘ نظر سے گزرا۔ اس میں ڈاکٹر صاحب نے مختلف اہلِ قلم کی آرا کی روشنی میں انسان کے حیاتیاتی ارتقا کو جیسے تیسے ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ غیر ارضی مظاہر ( جیسا کہ انسان کی تخلیق ) کو ارضی سیاق و سباق میں کیسے اور کیونکر سمجھا جا سکتا ہے ؟ اس مضمون کے مندرجات صاف چغلی کھا رہے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے ذہن میں ڈارون کا نظریہ ارتقا ہی غوطے کھا رہا ہے ، جسے اب علمی حلقوں میں متروک خیال کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اگر ماہرِ حیاتیات ہوتے تو شاید ان کی یہ کاوش کسی نہ کسی حد تک معاصر مباحث پر محیط ہوتی اور اس میں قدرے تازگی بھی در آتی ۔ موصوف ماہرِ اقبالیات ہونے کے ناطے ، اقبال کی اقبالیت کے اقبال کے لیے ہی کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اقبال جیسا عظیم مفکر نطشے کے ’’ مافوق البشر‘‘ کے تصور کے ساتھ ساتھ ’’ نظریہ ارتقا ‘‘ سے بھی متاثر تھا تو اس سے اس کی عظمت میں کمی نہیں آجاتی۔ اقبال نے جہاں جمو د زدہ مسلم فکر میں حرکت پیدا کر کے مسلم معاشرے کی مردہ رگوں میں زندگی کی لہر دوڑا دی، وہاں نطشے اور ڈارون کے افکار کی اسلامی تعلیمات سے تطبیق کی کوشش میں مسلم معاشرے کی روایتی فکر کوبری طرح مجروح کیا۔ یہ مافوق البشر کے مسلم ایڈیشن کا نتیجہ ہے کہ مسلم معاشرے کا بہت بڑا طبقہ آج ’’ خودی ‘‘ کے اظہار کے چکر میں غیر انسانی سرگر میوں میں ملوث ہے اور انہیں عین اسلام سمجھنے پر مصر ہے، حالانکہ ہمیں ماضی میں ایسی ’’ خودی ‘‘ کی کوئی مثال نہیں ملتی جسے مخالف فریق دہشت گردی کی فہرست میں شامل کر سکے ۔ اسلام کے بعض پہلوؤں پر گہری نظر رکھنے کے باوجود اقبال نظریہ ارتقا کو بھی قابلِ فہم انداز میں لیتے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ مسلم معاشرے کا ایک طبقہ ’’ ارتقائی مذہب ‘‘ کی تشکیل کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہا ہے اور اسلام کی تعلیمات کی بھی اسی کے مطابق تاویل کر رہا ہے ۔ڈاکٹر آصف صاحب نے زیرِ بحث مضمون میں اقبال کے تصورِ ارتقا کو اگرچہ براہ راست ڈسکس نہیں کیا لیکن ان کی تحریر کے پس منظر کی بافت و بنت اسی تصور سے ہوئی ہے۔ ملاحظہ کیجئے، Survival of the Fittest یعنی بقائے اصلح کو اسلامیانے کی کوشش: 
’’ قرآن پاک کی رو سے عملِ ارتقا میں بقائے انفع (Survival of the most useful) کے اصول کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اس اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو حیات اور کائنات خوب سے خوب تر کے سفر پر رواں دواں ہے اور جو وجود اس سفر میں کاروانِ حیات کا ساتھ نہیں دیتے ، وہ معدوم ہو جاتے ہیں ۔ اسے فطرت کا ظلم نہیں ، سزا قرار دیا جا سکتا ہے ‘‘۔ (الشریعہ، ستمبر ۲۰۰۵، ص ۲۹ )
ڈاکٹر صاحب ص ۳۰ پر رقم طراز ہیں کہ ’’کیا انسان کے وجود کے ظہور کے بعد عملِ ارتقا ختم ہو گیا؟ کیا سفرِ ارتقا کی آخری منزل انسان کی موجود ہستی اور شعوری ساخت ہی ہے اور بس؟‘‘ پھر مولانا جعفر شاہ پھلواروی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ : 
’’ موجودہ درجے تک کے ارتقا کو تو سائنس نے پا لیا ہے لیکن اب تک یہ نہیں معلوم کہ اس ارتقا کا رخ کدھر ہے اور اس کی منزل کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب صرف قرآن پاک کے پاس ہے ‘‘۔
مولانا جعفر شاہ پھلواروی کا یہ کہنا کہ اب تک کے ارتقا کو سائنس نے پا لیا ہے، ڈاکٹر صاحب کے لیے تو موجبِ حیرت نہیں، لیکن ہماری رائے میں ایسے کسی بھی شخص کے لیے، جو نظریہ ارتقا کو تفصیلاً جانتا ہے ، مولانا کی یہ بات ’’ انکشاف ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ خود ڈارون بھی ارتقا کی تمام کڑیاں پیش کرنے سے قاصر تھا ، بعد میں تو خیر سائنس دانوں نے اس نظریے کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔ ممتاز ماہرینِ بشریات ثبوت کے ساتھ نظریہ ارتقا کا رد کر چکے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ جب سے انسان نے ارضی تاریخ کے اسٹیج پر قدم رکھا ہے ، اس وقت سے لے کر اب تک وہ ’’ ذرہ برابر ‘‘ بھی ارتقا پذیر نہیں ہوا ۔ ہو سکتا ہے ڈاکٹر صاحب ارشاد فرمائیں کہ انھوں نے قرآنی آیات کی روشنی میں ارتقا کو ’’ غیر ارضی سٹیج ‘‘ پر رونما ہوتے دیکھا ہے تو پھر بھی ہمارا بنیادی سوال قائم رہتا ہے کہ ارضی سیاق و سباق میں غیر ارضی مظاہر کی تعبیرو توجیہ کیسے کی جا سکتی ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے غیر ارضی مظہر کی توجیہ، ارضی حیات کے طور پر کرنے کی جو کوشش کی ہے، وہ بے حد عجیب و غریب ہے ۔ 
اپنے اسی مضمون میں آصف اعوان صاحب نے مولانا شہاب الدین ندوی کی کتاب ’’ اسلام اور جدید سائنس ‘‘ کا بھی حوالہ دیا ہے ۔اگر ڈاکٹر صاحب، ندوی صاحب کی دیگر تصانیف پر بھی نظر ڈال لیتے تو انہیں بخوبی معلوم ہو جاتا کہ ندوی صاحب کا ذہن ارتقا کی بابت بالکل واضح ہے ۔ اپنی کتاب ’’ اسلام کی نشاۃِ ثانیہ ، قرآن کی نظر میں ‘‘ ندوی صاحب رقم طراز ہیں کہ:
’’دنیا کا پہلا انسان اتفاقی طور پر یا ’’ ارتقا ‘‘ کے نتیجے میں نہیں بلکہ تخلیقِ خصوصی کے طور پر ظہور پذیر ہوا ہے۔ خلق الانسان علمہ البیان( اس نے انسان کو پیدا کر کے بولنا سکھایا) میں اسی صداقتِ عظمی کا اظہار موجود ہے کہ تخلیقِ انسان اور اس کی قوتِ بیانی کی تعلیم کے دوران کسی قسم کا فصل یا انقطاع موجود نہیں ہے ۔ یہ فائدہ یہاں اس لیے حاصل ہو رہا ہے کہ ان دونوں فقروں کے درمیان حرفِ عطف موجود نہیں ہے ۔ ‘‘
مولانا شہاب الدین ندوی اسی تحریر کے حاشیے( ص۴۶ ) میں لکھتے ہیں کہ :
’’ ابھی حال ہی میں آکسفرڈ سے ایک کتاب The Encyclopedia of ignorance کے نام سے شائع ہوئی ہے ۔ اس میں سائنس کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ساٹھ مستند ماہرین نے بنظرِ غائر اپنے اپنے علم و فن کا جائزہ لے کر دکھایا ہے کہ انسانی معلومات کا دائرہ بہت ہی محدود ہے اور طبیعی و حیاتیاتی علوم کے بہت سے اسرار ہیں جن کو انسان اب تک نہیں جان سکا ہے ۔ اس وقیع اور قابلِ قدر کتاب میں نظریہ ارتقا کی تردید میں بھی چند مضامین بہت اچھے ہیں اور ایک مضمون کا عنوان ہی ’’ نظریہ ارتقا کے مغالطات ‘‘ Fallacies of Evolutionary Theory ہے ۔صاحبِ مضمون TOMLIN اپنے مضمون کے آخر میں تحریر کرتا ہے کہ ’’موجودہ ارتقائی تفکیر میں سخت پیچیدگی، جو بہت سے مغالطات پیدا کرنے کا باعث ہے، یہ ہے کہ حیاتیاتی حقائق کی تشریح و توجیہ ازکار رفتہ طبیعی نظریات کی روشنی میں کی جاتی ہے ‘‘ ۔ (انسائیکلو پیڈیا آف اگنورنس، ص ۲۳۴، آکسفرڈ ۱۹۷۸ )
ذرا غور فرمائیے کہ یہ اقتباس ۱۹۷۸کی کتاب سے لیا گیا ہے ۔ اس وقت سے اب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے ۔ نظریہ ارتقاء ۱۹۷۸میں اگر ہچکیاں لے رہا تھا تو اب تو اس کی تدفین کو بھی عرصہ دراز گزر چکا ہو گا ۔ اگر ڈاکٹر آصف اعوان صاحب معاصر مباحث کے مطالعہ سے گریزاں ہیں تو انہیں قرآن کے تصورِ حیات اور تخلیقِ انسان کا فہم، ارتقا جیسے متروک نظریے کی روشنی میں حاصل کرنے کے بجائے کم از کم ذہنی خود کفالت سے حاصل کرنا چاہیے تھا۔ اس طرح وہ لایعنیت کے سمندر میں غوطے کھانے سے بچ جاتے۔ 

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترم مدیر ماہنامہ الشریعہ
سلام مسنون! مزاج بخیر؟
آپ کی عنایت سے باقاعدگی سے الشریعہ کے مطالعے کا موقع ملتا ہے۔ الشریعہ کے موضوعات چونکا دینے والے اور انتہائی سنجیدہ وفکری ہوتے ہیں، اور بالعموم ان موضوعات پر ایک سے زیادہ آرا موجود ہوتی ہیں۔ لہٰذا نقطہ نظر کے اختلافات سے بحث ومباحثہ کی فضا پیدا ہو جاتی ہے جو بطور مدیر آپ کی کامیابی کی دلیل ہے، تاہم بعض اوقات مذہبی منافرت پر مبنی موضوعات سے تکلیف بھی ہوتی ہے اور اس رائے کا اظہار میں نے برادرم انعام الرحمن کے سامنے بھی کیا تھا کہ شیعہ سنی تضادات کو موضوع بنانے کے بجائے مشترک مواد کو موضوع بنایا جائے تاکہ مذہبی ہم آہنگی پیدا ہو۔
اس بار برادرم انعام الرحمن کے مضمون سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ عورت کی فی ذات کوئی حیثیت واہمیت نہیں ہے اور وہ مرد کی طفیلی ہے اور مرد کے کردار کی تبدیلی سے عورت کا کردار خود بخود تبدیل ہو جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے میں نے انھیں سمجھنے میں غلطی کی ہو، لیکن اگر ایسا ہے تو اس موضوع پر بھی مباحثہ چل سکتا ہے۔
کلیم احسان بٹ
شعبہ اردو۔ گورنمنٹ زمیندار کالج
بھمبر روڈ۔ گجرات
(۲)
مدیر مکرم جناب محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
الشریعہ کا اعزازی شمارہ موصول ہوا۔ میں آپ کے اس اعزاز پر شکر گزار ہوں اور ساتھ ہی دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے اور آپ روایتی حلقے کے خدشات وخطرات سے بے نیاز ہو کر ولا یخافون لومۃ لائم کے شان خود داری سے دین متین کی عصری تقاضوں کے مطابق خدمت کا حق ادا کر پائیں۔ احقاق حق اور ابطال باطل میں ذاتی رجحانات، فکری حلقات، جماعتی تعصبات اور شخصی مفادات ہی آڑے آتے ہیں۔ ان کے پروا کیے بغیر وحدت امت کے ماٹو کی خاطر گروہی تعصبات، مذہبی فرقہ جات اور سیاسی سلسلہ جات کو خیر باد کہنا کارے دارد ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی وناصر ہو کہ آپ وحدت امت کے داعی بن کر غلبہ اسلام کی علم برداری میں حائل ان گروہ بندیوں او رجکڑبندیوں سے بالاتر اور آزاد ہو کر کچھ کر گزریں جو کہ عند اللہ مقبول اور عند الناس محبوب ہو۔
اخوکم فی اللہ
(ڈاکٹر) خالد ظفر اللہ
صدر شعبہ علوم اسلامیہ۔ گورنمنٹ کالج۔ سمندری
(۳)
بخدمت جناب مدیر اعلیٰ ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر وعافیت ہوں گے۔
ماہنامہ الشریعہ ماشاء اللہ اسلامی اخبارات ورسائل میں ایک معیاری اور قابل قدر رسالہ ہے جس میں فکری وتحقیقی مضامین کا بے بہا ذخیرہ پایا جاتا ہے۔ و سعت فکر کا اہتمام کرنے والے احباب کے لیے یقیناًاس کا مطالعہ نہایت مفید اور ضروری ہے۔ مغربی نظام حیات اور تہذیب وتمدن کی خامیوں اور ان کا مدبرانہ تجزیہ اور ان جیسے دیگر ضروری زندہ موضوعات ماشاء الہ وقتاً فوقتاً رسالہ کی وقعت میں اضافہ کا سبب بنتے رہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ رسالہ کی ہر طرح کی مشکلات کا ازالہ فرماتے ہوئے اس کے ارباب قلم میں مزید جودت فکر اور سلامت طبع پیدا فرمائے اور اتحاد امت کے سلسلے میں ان سے گراں قدر خدمات لے۔
والسلام
محمود خارانی
جامعہ دار العلوم کراچی ۱۴ ، کورنگی ۵
(۴)
محترم ایڈیٹر ماہنامہ الشریعہ 
السلام علیکم
آپ کا ارسال کردہ ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ بار کے لیے انتہائی مفید ثابت ہو رہا ہے اور اس سے گوجرانوالہ بار کے تمام وکلا صاحبان استفادہ کر رہے ہیں۔ اس امر کے لیے ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔
آصف ندیم (لائبریری سیکرٹری )
ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن گوجرانوالہ

ادارہ مباحث فقہیہ بھارت کا آٹھواں فقہی اجتماع

ادارہ

۲۷ اپریل سے جمعیۃ علماء ہند کے شعبہ مباحث فقہیہ کی طرف سے جمعیۃ علماء کرناٹک کے زیر اہتمام ’’دینی مقاصد کے لیے ٹیلی ویژن اور انٹر نیٹ کا استعمال‘‘ کے عنوان سے سہ روزہ فقہی اجتماع کا آغاز حضرت امیر الہند مولانا سید اسعد مدنی کی صدارت میں مفتی مولوی سید محمد عفان کی تلاوت اور قاری فراست کی نعت سے ہوا۔ اس اجتماع میں پورے ملک سے ۱۵۰ سے زائد اصحاب افتا اور ارباب علم ودانش اور علماے کرام نے شرکت کی۔ آج کی پہلی نشست میں کرناٹک، تامل ناڈو اور آندھرا پردیش سے بھی ایک ہزار سے زائد منتخب علما، مفتیان اور موقر افراد شریک ہوئے۔ خطبہ استقبالیہ مولانا شعیب اللہ خان کی طرف سے مولانا زین العابدین نے پیش کیا جبکہ افتتاحی وتعارفی کلمات مولانا مفتی سلمان منصوری پوری نے کہے۔ انھوں نے نظامت کے ساتھ موضوع کے تعلق سے تحریر کردہ مقالات کے پیش نظر چار نکات پر روشنی ڈالی اور غور وفکر کر کے حضرات علماے کرام ومفتیان عظام کو مسئلے کے صحیح حل کرنے کی دعوت دی۔
صدر اجلاس حضرت امیر الہند مولانا سید اسعد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند دامت برکاتہم نے کہا کہ موجودہ حالات بہت سنگین ہیں۔ امت کو انتشار سے بچانا، ان تک صحیح معلومات پہنچانا اور درپیش مسائل کا حل کرنا اصحاب افتا اور علماے کرام کی ذمہ داری ہے اور اگر وہ امت کو انتشار اور پریشانی سے نکالنے کی کوشش نہیں کریں گے تو یہ بہت برا وقت ہوگا۔ انھوں نے ٹیلی ویژن اور انٹر نیٹ جیسے ذرائع کے دینی مقاصد کے لیے استعمال کے سلسلے میں اپنی کوئی رائے ظاہر کیے بغیر پورے ملک سے تشریف لائے ہوئے اہل علم وافتا کو مسئلے کے حل اور اس پر غور وفکر کے لیے متوجہ کیا۔ اس نشست میں اس موقع پر حضرت امیر الہند دامت برکاتہم کے دست مبارک سے مولانا مفتی سلمان منصور پوری کی کتاب ’’لمحات فکریہ‘‘، مولانا اختر امام عادل کی کتاب ’’امام شاہ ولی اللہ کے افکار کی معنویت‘‘ اور مولانا محمد سالم قاسمی مہتمم دار العلوم (وقف) دیوبند کی تقریروں کے مجموعہ ’’خطبات خطیب الاسلام‘‘ کا اجرا عمل میں آیا۔
موضوع پر آغاز بحث سے پہلے جامعہ باقیات الصالحات ویلور کے شیخ الحدیث مولانا محمد اقبال قاسمی نے قدرے تفصیل سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کی اصطلاحات کا تعارف کرایا۔ اس کے بعد دار العلوم دیوبند کے مفتی مولانا محمد ظفیر الدین کا مقالہ مفتی کوکب نے پیش کیا جبکہ مفتی صاحب بذات خود اجتماع میں موجود تھے۔ مقالہ میں جائز ذرائع کے استعمال پر زور دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ دعوت وتبلیغ ایک دینی فریضہ ہے لیکن اس کے طریقے منصوص ومتعین نہیں ہیں۔ ریڈیو کے استعمال کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹیلی ویژن مجموعہ مفاسد ہے اور تصویر کشی ناجائز ہے۔ دعوت وتبلیغ کے طریقے مباح ہیں، لہٰذا ناجائز اور حرام کا استعمال صحیح نہیں ہوگا۔ سد ذریعہ کے تحت مجموعہ مفاسد ٹیلی ویژن کا دینی مقاصد کے لیے استعمال جائز نہیں ہونا چاہیے۔
جبکہ دوسرے مقالہ نگار مولانا مفتی عبد اللہ معروفی استاذ دار العلوم دیوبند نے کہا کہ ٹیلی ویژن پر جو صورت نظر آتی ہے، وہ تصویر کے حکم میں نہیں بلکہ وہ عکس ہے، لہٰذا اس پر تصویر کشی کی حرمت والی روایتوں سے استدلال صحیح نہیں ہوگا۔ انھوں نے تصویر اور اس کے متعلقہ نئے پہلووں پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انٹر نیٹ کا جائز مقاصد کے لیے استعمال بالکل صحیح ہے۔ رہا ٹیلی ویژن کا معاملہ تو اس کے استعمال کی دو نوعیت ہیں۔ (۱) دینی معلومات حاصل کرنے کے لیے اس کا استعمال۔ (۲) دینی معلومات فراہم کرنا۔ مثلاً اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ درست کرنا، ان کے سلسلے میں غلط فہمیوں کو دور کرنا اور ضروری اسلامی تعلیمات کے بارے میں بتانا۔ مولانا معروفی نے دوسری صورت (یعنی ضرور ی معلومات فراہم کرنا) کے لیے ٹیلی ویژن کے استعمال کو جائز قرار دیا جبکہ پہلی صورت کے بارے میں بتایا کہ متبادل ذرائع معلومات دست یاب ہونے کی وجہ سے اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا کیونکہ اس سے زیادہ مفاسد کی ترسیل ہوتی ہے، اس پر شر کا غلبہ ہے۔ 
اس موقع پر مولانا حبیب الرحمن اعظمی استاذ حدیث ومدیر ماہنامہ دار العلوم دیوبند نے یہ اہم نکتہ اٹھایا کہ قدیم فقہا نے جو صورت اور تصویر کی تعریف کی ہے، وہ جدید سائنسی ایجادات، کیمرہ وغیرہ سے لی گئی تصویر پر صادق آتی ہے یا نہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر ٹیلی ویژن میں نظر آنے والی صورت تصویر نہیں، بلکہ عکس ہے تو ابتداء اً بھی عکس ہے یا تصویر، صورت حال کے مکمل جائزے کے بعد نئی تعریف ہونی چاہیے۔ مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری استاذ دار العلوم دیوبند نے مولانا اعظمی کے اٹھائے نکتے کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ سائنسی تمدنی ترقیات اور حالات کے مطابق اشیا کی تعریف کر کے مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔
اس موقع پر کراچی (پاکستان) کے نامور محقق عالم مولانا مفتی تقی عثمانی اور آگرہ کے مفتی اعظم مولانا عبد القدوس رومی کے پیغامی خط مولانا معز الدین احمد ناظم امارت شرعیہ ہند وناظم اجتماع نے اجلاس کے سامنے پڑھ کر سنائے۔ مولانا رومی نے تصویر کشی کی حرمت اور ٹیلی ویژن کو فواحش ومنکرات پھیلانے کا ذریعہ اور مفاسد کا مجموعہ قرار دے کر اس کے استعمال کو ناجائز قرار دیا، جبکہ مولانا عثمانی نے ٹیلی ویژن میں نظر آنے والی صورت کو تصویر کے بجائے عکس قرار دیتے ہوئے دینی مقاصد کے لیے ٹیلی ویژن کے ان پروگراموں کو جائز قرار دیا جو براہ راست نشر ہوں۔
آج کی دوسری نشست کا آغاز بعد نماز مغرب مولانا محمد سالم قاسمی مہتمم دار العلوم (وقف) دیوبند کی صدارت میں ہوا۔ اس نشست کا پہلا مقالہ مولانا مفتی حبیب الرحمن خیر آبادی کا تھا۔ ان کے مقالے میں بڑی شدت تھی۔ زبان وبیان پربھی حاضرین کو اعتراض تھا۔ محترم خیر آبادی نے تصویر کی تعریف اور اس کے متعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پروگرام چاہے براہ راست نشر ہو یا بالواسطہ، دونوں صورتیں تصویر کشی کے ذیل وتعریف میںآتی ہیں لہٰذا ٹیلی ویژن کا استعمال کسی طرح جائز نہیں، وہ ناجائز اور حرام ہے۔ وہ آلہ لہو ولعب ومجسم مفاسد ہے۔ اس کے ذریعہ اسلام اور دینی مقاصد کی اشاعت ان کی اہانت ہے۔ اس پر پروگرام پیش کرنا، دیکھنا سب ناجائز ہے۔ اس پر نظر آنے والی صورت عکس نہیں، بلکہ تصویر ممنوعہ ہے۔ البتہ انھوں نے انٹر نیٹ کے استعمال کو جائز قرار دیا۔ مولانا خیر آبادی کے مقالے پر صدر جمعیۃ مولانا سید اسعد مدنی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اتنی شدت مناسب نہیں ہے۔ ہر چیز کو قطعی حرام قرار دینے سے کام نہیں چلے گا۔ علما کو امت کو انتشار سے نکالنے کی صورت پر توجہ دینی چاہیے۔ لوگ ٹیلی ویژن پر قادیانیوں، عیسائیوں کی طرف سے نشر ہونے والے پروگراموں کو دیکھ کر مرتد ہو رہے ہیں۔ کیا لوگوں کو ارتداد سے بچانے اور ان تک صحیح معلومات پہنچانے کے لیے ایسی صورت نہیں نکالی جا سکتی ہے جیسی کہ شناختی کارڈ، پاسپورٹ وغیرہ کے لیے تصویر کے سلسلے میں نکالی گئی ہے؟ انھوں نے سوال اٹھایا کہ کیا نفلی حج، عمرہ یا اسفار کے لیے تصویر کھینچنے کھنچوانے کی ضرورت کو تسلیم نہیں کر لیا گیا ہے؟ کیا یہ ضرورت، ضرورت اضطراری کے ذیل میں آتی ہے؟
مولانا مدنی مدظلہ کے تبصرہ کے بعد مولانا برہان الدین سنبھلی، مولانا سید طاہر حسین گیاوی، مولانا زبیر احمد سیتا مڑھی، مولانا شبیر احمد قاسمی مدرسہ شاہی مراد آباد، مولانا الطاف الرحمن مدرسہ حیات العلوم مراد آباد، مفتی اشفاق احمد سرائے میر اعظم گڑھ، مفتی ابو الحسن مدراس، مولانا مفتی راشد دار العلوم دیوبند، مولانا ابو سفیان مؤ، مفتی ساجدمبارک پور نے مقالات پیش کیے۔
مولانا سنبھلی نے بالواسطہ، محفوظ کر کے باتصویر پروگرام کو پیش کرنے کو بلا ضرورت شرعی ناجائز قرار دیا، جبکہ براہ راست جائز پروگراموں کو پیش کرنے کو جائز قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ خفی اور چھوٹی تصویر رکھنا ضرورتاً جائز ہے اور تصویر کی حرمت قطعی نہیں، ظنی ہے۔ باطل عقائد کی تردید، اسلام کی اشاعت ممنوعہ اور غلط طریقوں مثلاً عریاں تصویر سے بچتے ہوئے کی جا سکتی ہے۔ اس کا لحاظ کرتے ہوئے اپنا چینل بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔ ٹیلی ویژن اور دیگر نشریات کی وضع اصلاً شر کے لیے نہیں، بلکہ فراہمی معلومات کے لیے ہوئی ہے۔ ان کی کلیتاً مخالفت فہم سے بالاتر ہے۔ جو چیز ٹیلی ویژن کے باہر دیکھنا جائز ہے، اس کا دیکھنا اس کے اندر بھی جائز ہے۔ حدود وشرائط کا لحاظ کرتے ہوئے نشریات جائز، دیکھنا جائز ہے۔
صدر اجلاس مولانا محمد سالم قاسمی دامت برکاتہم نے بیماری اور ضعف کے پیش نظر بقیہ دیگر مقالہ نگاروں سے پہلے اپنے صدارتی کلمات میں بدلتے ہوئے حالات میں نئی ایجادات سے شرعی حدود میں رہتے ہوئے ان کے استعمال کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اسلام ایک عالمی مذہب ہے۔ اسے تمام انسانوں تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن جائز طریقہ وذریعہ اختیار کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ مسئلے کا مدار پروگرام پر ہے۔ جس کو دیکھنا سننا جائز ہے، اس کا نشر بھی جائز ہے۔ جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی نے جو صورت حال پیدا کر دی ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے مسئلے کا حل نکالنا اصحاب علم وافتا کی ذمہ داری ہے۔ مولانا قاسمی نے مزید کہا کہ ٹیلی ویژن وغیرہ فی نفسہ آلہ اشاعت ومعلومات ہے۔ اس سے شر کی بھی اشاعت ہوتی ہے اور اچھائی کی بھی۔ اسے مطلقاً ناجائز قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ ا س لیے جو باہر جائز ہے، وہ آلہ کے اندر بھی جائز ہوگا۔ الیکٹرانک میڈیا کی شر انگیزی اور وسعت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس پر باطل کی تردید کے ساتھ اسلام کی تعلیمات کو اس قوت سے پیش کریں کہ دشمنان اسلام دفاعی پوزیشن میں آ جائیں۔
مولانا سید طاہر حسین گیاوی او رمولانا مفتی اشفاق احمد نے عکس اور تصویر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ٹیلی ویژن میں نظر آنے والی صورت تصویر ہے، لیکن ضرورتاً اس کو عام ضرورت کے مفہوم میں لے کر اس پر پروگرام کے نشر کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ مولانا مفتی زبیر نے ضرورتاً مقاصد شریعت کے تحت جواز کی رائے دی۔ انھوں نے کہا کہ صہیونی میڈیا کس طرح اسلام اور مسلمانوں کی صورت کو مکروہ بنا کر پیش کر رہا ہے، تو کیا اصل صورت حال کو پیش کرنے کے لیے گنجایش نکالنی چاہیے یا نہیں؟ مقاصد شریعت کے تحت اس کے استعمال کی گنجایش ہونی چاہیے۔ مولانا مفتی شبیر احمد قاسمی نے موضوع پر بڑا تفصیلی مقالہ تحریر کیا۔ انھوں نے مختلف مثالوں اور دلیلوں سے اپنے موقف کو مدلل کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے اہون البلیتین (دو مصیبتوں میں آسان مصیبت کو اختیار کرنے) اور اخف المفسدین (دو فساد میں ہلکا فساد) کے قاعدہ کو پیش نظر رکھنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ضرورت کے تحت دینی مقاصد کے لیے شروط وقیود کے ساتھ حد میں رہ کر جائز قرار دیا، لیکن ٹیلی ویژن ناجائز اور برائی کی اشاعت کا ذریعہ ہے اور شر کا غلبہ ہے، اس لیے مطلق ناجائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ٹیلی ویژن وغیرہ فی نفسہ آلہ معلومات ہے، البتہ اس کے غلط استعمال نے اسے مجموعہ مفاسد بنا دیا ہے۔ ایک بات یہ کہ جائز کا عکس لینا بھی جائز ہے اور دیکھنا بھی۔ مناقشہ میں حصہ لیتے ہوئے انھوں نے ضرورتاً تصویر کی طرح اس کے استعمال کی گنجایش بتائی۔ 
مولانا مجیب اللہ دار العلوم دیوبند نے احتیاط اور ضرورت کے تحت جواز کی رائے دی۔ مولانا ابو الحسن مدراس، مفتی راشد دیوبند، مفتی ابو سفیان مؤ، مفتی ساجد مبارک پور، مفتی جمیل الرحمن پرتاب گڑھ، مفتی خورشید انور گیاوی دیوبند، مفتی احمد الراشد مبارک پور، مفتی سعید الحق، مفتی سید صدیق نلکنڈا، مفتی ذکر اللہ بہرائچ، مفتی ابو الکلام بھوپال، مفتی شاہد سہارنپور، مفتی تبارک حسین بہادر گنج بہار نے ٹیلی ویژن کو مجموعہ شر ومفاسد قرار دے کر دینی مقاصد کے لیے اس کے استعمال کو ناجائز قرار دیا اور موجودہ حالات میں اس کی ضرورت سے انکار اور دیگر متبادل اپنانے کی رائیں دیں، جبکہ مولانا مفتی نذیر احمد کشمیر، مفتی محی الدین گجرات، مولانا مفتی عتیق احمد راندر گجرات، مولانا مفتی اختر امام عادل منوروا شمستی پور بہار، مولانا مفتی اقبال احمد کانپور، مولانا مفتی حبیب الرحمن مؤ ائمہ، مولانا مفتی خلیل الرحمن ناندیڑ، مولانا مفتی عبد الرشید کانپور، مفتی لقمان مراد آباد، مولانا یعقوب قاسمی برطانیہ، مفتی عثمان گورینی جونپور، مفتی جاوید اقبال کشن گنج بہار، مولانا متین الحق اسامہ کانپور، مولانا مفتی بدر نجیبی پھلواری شریف، مولانا مفتی اشتیاق احمد بہرائچ، مولانا مفتی سلیمان منصور پوری، مولانا مفتی وحید الدین قاسمی فلاح دارین ترکیسر گجرات، مفتی کوکب، مولانا مفتی ابو جندل، مولانا ریاست علی رام پوری ہاپوڑ، مفتی امان اللہ نرابی گوڑا (اے بی)، مولانا مفتی عبد الغفور سنبھلی مدرسہ حسینیہ تاؤلی مظفر نگر، مولانا مفتی مزمل حسین مدرسہ مظاہر علوم سیلم، دانش بن نعیم کوکن، مولانا مفتی مبین پرنامٹ، مولانا نور الحسن غازی آباد وغیرہم نے ضرورت کے تحت ٹیلی ویژن کے استعمال کو، منکرات وفواحش سے بچتے ہوئے جائز قرار دیا،چینل کے قیام کو ایک ضرورت بتایا۔ ان حضرات نے اسے آلہ لہو ولعب قرار دینے کو غلط قرار دیا۔ ان میں سے بعض حضرات نے ضرورتاً تصویر کو تصویر مانتے ہوئے جائز قرار دیا تو کچھ حضرات نے ٹیلی ویژن میں نظر آنے والی تصویر کو تصویر ہی تسلیم نہیں کیا۔ مفتی عقیل اور مفتی اختر امام عادل تو آلہ لہو ولعب کو بھی مطلقاً حرام قرار دینے کے خلاف ہیں۔ ا س کے غلط استعمال سے وہ غلط ہے۔ چھوٹی تصویروں کے جواز اور مواقع مستثنیات، ضرورت/حاجت کے ذیل میں آتے ہیں۔ بعض مثلاً مولانا نذیر کشمیری، مفتی اقبال، مفتی عبد الرشید جوا زکے ساتھ اس کو وقت کی ایک ضرورت مانتے ہیں۔ 
پاکستان سے آئے خصوصی مہمان مولانا سید نصیب علی شاہ نے مسئلے کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالتے ہوئے توقف کو احوط قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان علما اور اہل علم، علماے دیوبند کے فیصلے کی طرف بڑی امید کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ آپ کے پاس جو تحقیقی مواد ہے، وہ ہمیں دیں اور جو ہمارے پاس ہے، وہ ہم آپ کو دیں گے۔ 
اجلاس کے دیگر صدور میں مولانا مفتی منظور احمد مظاہری کانپور اور مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری عدم جواز کی طرف گئے ہیں۔ مولانا مدنی اور مولانا قاسمی کا رجحان ان کے صدارتی اور تبصراتی کلمات سے پتہ چلتا ہے۔ مولانا مفتی ظفیر الدین کی رائے بھی سابق میں آ چکی ہے۔ ان تمام تر اختلافات آرا کے باوجود کمیٹی برائے تجاویز کی تیار کردہ تجاویز سے اتفاق کر کے مسئلے کے متفقہ حل تک پہنچنے اور افہام وتفہیم کی راہ اچھے ماحول میں فراہم کی۔ اس آخری نشست کی صدارت مولانا عبد الحق استاذ دار العلوم دیوبند کو کرنی تھی، لیکن طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے صدارت کا فریضہ مولانا مفتی ظفیر الدین نے ادا کیا۔ ان حضرات پر مشتمل ایک تجاویز کمیٹی بنائی گئی تھی:
(۱) مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری (۲) مولانا حبیب الرحمن اعظمی (۳) مولانا مفتی حبیب الرحمن خیر آبادی (۴) مفتی شبیر احمد قاسمی (۵) مولانا سید طاہر حسین گیاوی (۶) مولانا مفتی سلمان منصور پوری (۷) مولانا محمد اقبال قاسمی (۸) مولانا زبیر احمد سیتا مڑھی (۹) مولانا عبد اللہ معروفی۔
ان کے علاوہ بحث وگفتگو میں مولانا معز الدین قاسمی اور عبد الحمید نعمانی بھی شریک رہے۔ کمیٹی کی تیار کردہ تجاویز مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری نے پیش کیں۔ تجویز شکریہ مولانا محمود مدنی نے پیش کی جو تمام تر انتہائی مصروفیات کے باوجود آخری اجلاس میں شریک ہوئے۔ ۲۷؍اپریل سے ۲۹؍اپریل تک کل پانچ نشستیں ہوئیں۔
اس سہ روزہ فقہی اجتماع میں پورے ملک سے بھرپور نمائندگی تھی۔ کرناٹک، آندھرا پردیش، تامل ناڈو کے علاوہ دیگر صوبوں سے بھی بڑی تعداد میں موقر حضرات نے فقہی اجتماع میں شرکت کی ۔ ان میں مولانا ابو سفیان بن محمد سالم قاسمی، مولانا سید محمد عفان دیوبند، مولانا قاری حماد دہلی، مولانا حسیب صدیقی، مفتی شکیل راجستھان، مولانا مفتی ایوب پرنامبٹ، مفتی حبیب اللہ راجستھان، مفتی عبد القیوم، مولانا عبد الہادی پرتاب گڑھ، مولانا مفتی عبد الرزاق بھوپال، مولانا سید مشہود حسن دہلی، مولانا مفتی ضیاء اللہ بھوپال، مولانا محمد قاسم امروہہ قابل ذکر ہیں۔ مولانا مفتی سید معصوم تو اجتماع کے روح رواں نظر آتے تھے۔ صبح سے شام تک سراپا متحرک۔ ان کے علاوہ بہت سے اہم حضرات ہیں جن کا فقہی اجتماع کے انعقاد اور کامیابی میں بڑا دخل ہے۔ مثلاً دار العلوم شاہ ولی اللہ کے مہتمم مولانا زین العابدین، مولانا افتخار صدر جمعیۃ علماء کرناٹک، مولانا مفتی شمس الدین، مولانا شعیب اللہ خان، ڈاکٹر ظفر الاسلام۔ 
راقم (عبد الحمید نعمانی) کا سہ روزہ اجتماع کے تعلق سے تاثر یہ ہے کہ اجتماع میں جو مقالات پڑھے گئے اور جس انداز سے بحث وگفتگوہوئی، اس سے غور وفکر کے مختلف ابواب وا ہوئے ہیں۔ افہام وتفہیم کا جو ماحول بنا ہے، اس نے امیدوں کے ساتھ بحث ومباحثے کو تعمیری ومثبت رخ دیا ہے۔ یہ خوش آئند مستقبل کا اشاریہ بھی ہے۔

تجاویز

ادارۃ المباحث الفقہیۃ جمعیۃ علماے ہند کے آٹھویں فقہی اجتماع منعقدہ ۱۷۔۱۸۔۱۹ ربیع الاول ۱۴۲۶ مطابق ۲۷۔۲۸۔۲۹ ؍اپریل ۲۰۰۵ بمقام مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ ہال، عید گاہ جدید، ٹیانری روڈ، بنگلور میں ’’ٹیلی ویژن اور انٹر نیٹ کا دینی مقاصد کے لیے استعمال‘‘ پر غور وخوض کے بعد درج ذیل امور طے کیے گئے:
۱۔ آج ٹیلی ویژن پر زیادہ تر فحاشی، عریانیت اور مخرب اخلاق پروگراموں کا غلبہ ہے۔ چوبیس گھنٹے اس کے مختلف چینلوں پر رقص وسرود اور حد درجہ شرمناک مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ پھر ڈش انٹینا اور پرائیویٹ کیبل چینلوں نے تو تمام اخلاقی اور انسانی حدود کو پار کر دیا اور آج ٹی وی زدہ معاشرہ جن شرمناک حرکتوں میں ملوث ہے، وہ ناقابل بیان ہیں اور جس گھر میں ٹیلی ویژن ہو، وہاں کے لوگوں کا اس کے مخرب اخلاق پروگراموں سے بچنا تقریباً محال ہے لہٰذا ٹیلی ویژن گھر میں رکھنا اور اس کے پروگراموں کو دیکھنا شرعاً ناجائز ہے جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
۲۔ اسلام میں بلا ضرورت شرعی تصویر کھنچوانا نائز ہے، لیکن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ٹیلی ویژن اور دیگر ذرائع ابلاغ پر اعداے اسلام یا شرپسند فرقہ پرست طاقتوں کی طرف سے کوئی ایسی چیز سامنے آئے جس سے اسلامی عقائد اور احکام واقدار پر زد پڑتی ہو اور اس کا مناسب جواب نہ دینے سے اسلام کی شبیہ بگڑنے یا مسلمانوں کے حقوق کے ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہو تو اس کے دفاع کے لیے ٹیلی ویژن کے کسی پروگرام پر آنے کی ضرورتاً گنجایش ہے۔
۳۔ اسلامی ٹی وی چینل قائم کرنا مشکل ترین امر ہے اور اگر ایسا چینل وجود میں آ بھی جائے تو اس کے ذریعہ سے فوائد کے مقابلے میں نقصانات کہیں زیادہ ہیں کیونکہ اس طرح کے چینلوں کو بہانہ بنا کر لوگ ٹیلی ویژن کے فحش پروگراموں تک بآسانی رسائی حاصل کر لیں گے اور دیگر باطل فرقوں کے چینلوں سے اس کا امتیاز بھی دشوار ہوگا۔ نیز عام لوگوں کی دل چسپی کی چیزیں شامل کیے بغیر خالص اسلامی چینل کے ناظرین کی تعداد غیرمعمولی حد تک کم ہوگی اور متوقع فوائد حاصل نہ ہو سکیں گے۔ ان وجوہ سے اسلامی چینل قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۴۔ انٹر نیٹ اس دور میں ایسا معلوماتی ذریعہ ہے جس میں ہر طرح کے اچھے اور برے پروگرام پائے جاتے ہیں۔ گو کہ آج زیادہ تر اس ذریعہ کو ناجائز اور حرام چیزوں میں استعمال کیا جا رہا ہے، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس کو اگر شرعی حدود میں رہ کر استعمال کیا جائے تو منکرات وفواحش سے بچتے ہوئے اس سے عظیم تعلیمی، تجارتی اور انتظامی وغیرہ فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس لیے یہ فقہی اجتماع انٹر نیٹ کے جائز حدود میں استعمال کو جائز قرار دیتا ہے اور اس کے ناجائز استعمال کو ناجائز اور حرام قرار دیتا ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔
نوٹ: تمام شرکا نے اس تجویز سے مکمل اتفاق کیا، البتہ مولانا مفتی اشفاق صاحب (سرائے میر) نے شق نمبر ۲ سے جزوی اختلاف کرتے ہوئے یہ نوٹ تحریر کیا: ’’ٹیلی ویژن پر آنے کی اجازت ہے‘‘ سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔ تجویز نمبر ۳ سے تضاد محسوس ہوتا ہے اور ٹیلی ویژن کے جواز کا دروازہ کھلتا ہے۔
(بشکریہ ہفت روزہ الجمعیۃ، دہلی)

دار العلوم دیوبند اور سیاسی معاملات میں فتویٰ

دار العلوم دیوبند نے ۱۶ اگست ۲۰۰۵ کو ایک فتویٰ جاری کیا تھا جس کا مدعا یہ تھا کہ مسلم خواتین انتخابات میں حصہ نہ لیں، اور اگر وہ ایسا کرنا ہی چاہتی ہیں تو پردے کی لازماً پابندی کریں۔ اس پر سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے شدید رد عمل کا اظہار ہوا۔ بھارتی وزیر قانون ایچ آر بھردواج نے اس پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی گروہوں کی طرف سے دیے جانے والے فتووں کی آئینی لحاظ سے کوئی اہمیت نہیں اور ان کو ماننا یا نہ ماننا لوگوں کے اپنے اختیار میں ہے۔ مختلف حلقوں کی جانب سے رد عمل سامنے آنے کے بعد دار العلوم نے سیاسی معاملات میں فتویٰ دینے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ دار العلوم کے نائب مہتمم مولانا مفتی مرغوب الرحمن نے بتایا کہ ’’تمام مفتیوں کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ نہ تو کوئی فتویٰ جاری کریں اور نہ میڈیا کے ساتھ رابطہ رکھیں۔‘‘ انھوں نے مزید بتایا کہ جن مفتیوں نے انتخابات میں خواتین کے حصہ لینے سے متعلق فتویٰ دیا تھا، انھیں سرزنش کی گئی ہے۔ انھوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ دار العلوم نے کبھی مسلم خواتین کو انتخابات میں حصہ لینے سے نہیں روکا اور جدوجہد آزادی میں مسلم خواتین کسی رکاوٹ کے بغیر شریک ہوتی رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم نے تو اسلامی شریعت میں بیان کردہ صرف ان حدود وقیود کی وضاحت کی ہے جن کی خواتین کو پبلک زندگی میں اپنے لباس اور طور طریقوں کے حوالے سے پابندی کرنی چاہیے۔‘‘ 
مولانا مرغوب الرحمن نے بتایا کہ آئندہ فتویٰ جاری کرنے کے عمل کو محتاط بنانے اور کسی بھی غلط تشریح سے بچنے کے لیے دار العلوم کی طرف سے ایک چھ رکنی کمیٹی مقرر کی گئی ہے جو کسی بھی فتوے کو جاری کرنے سے پہلے اس کے متن پر غور کر کے اسے حتمی شکل دے گی۔
(http:203.199.69.66/news/nation/2005/august/116893.htm)

بدسلوکی کے مرتکب شوہروں کا سماجی مقاطعہ

امریکی ریاست فلا ڈیلفیا کی شریعہ کونسل نے مسلمان خواتین پر ان کے شوہروں کی طرف سے ہونے والے تشدد کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن کی رو سے بیویوں سے بدسلوکی کرنے اور ان کو گھروں میں تنہا چھوڑ دینے والے شوہروں کو سماجی سطح پر رسوا کیا جائے گا اور انھیں مسلم کمیونٹی سے الگ کر دیا جائے گا۔ فیصلے کی رو سے بیویوں سے بدسلوکی کرنے والے شوہروں کے ناموں کی ایک فہرست علاقے کے مسلمانوں کو بھجوا دی جائے گی اور جو علاقے اس فیصلے سے اتفاق کریں گے، ان میں ایسے مردوں کے ساتھ آئندہ شادی کرنا ممنوع ہوگا۔ اسی طرح یہ کوشش بھی کی جائے گی کہ مسلم کمیونٹی کی طرف سے ایسے لوگوں کی تجارتی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ اسلام آن لائن کے مطابق شکاگو ٹربیون نے کونسل کے رکن عبد المتین کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ 
’’اس معاملے پر بھرپور طریقے سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمان شوہروں کو یہ حقیقت جان لینی چاہیے کہ ہم اس معاملے میں کوئی لچک نہیں دکھائیں گے۔‘‘ 
(العالم الاسلامی، مکۃ المکرمۃ، ۲۲ اگست ۲۰۰۵)

غزہ میں یہودی عبادت گاہیں نذر آتش

اسرائیلی حکومت کی طرف سے غزہ سے انخلا کا اصولی فیصلہ ہوتے ہی اس سوال پر غور وخوض شروع ہو گیا تھا کہ یہاں موجود متعدد یہودی عبادت گاہوں کے حوالے سے کیا رویہ اختیار کیا جائے۔ ایک حلقے کی رائے یہ تھی کہ ان عبادت گاہوں کو خود اسرائیلی فوج مسمار کر دے۔ تاہم ایک بڑے حلقے نے اس کو ترجیح دی کہ ان عبادت گاہوں کے معاملے کو ایک باقاعدہ سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جائے اور فلسطینیوں کو مذہبی عدم رواداری کے حوالے سے دنیا میں بدنام کیا جائے۔ چنانچہ ۱۱ اگست ۲۰۰۵ کو اسرائیلی کابینہ نے باقاعدہ فیصلہ کیا کہ غزہ میں یہودی عبادت گاہوں کو مسمار نہ کیا جائے۔ اسرائیلی وزیر دفاع شاؤل موفاز نے اس فیصلے کی توجیہ کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ 
’’فیصلہ ہماری اس خواہش کا آئینہ دار تھا کہ یہ عبادت گاہیں نہ ڈھائی جائیں۔ اس سوال پر حکومتی حلقوں اور مذہبی قیادت کے ہاں وسیع غور وخوض ہوتا رہا۔ ہمیں معلوم تھا کہ فلسطینی اس فیصلے کا جواب دیں گے۔ تاہم ربیوں نے فیصلہ کیا کہ یہ زیادہ بہتر ہے کہ اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے بجائے یہ عبادت گاہیں فلسطینیوں کے ہاتھوں مسمار ہوں۔‘‘
توقع کے عین مطابق اسرائیلیوں کے انخلا کے فوراً بعد جوشیلے فلسطینیوں نے متعدد یہودی عبادت گاہوں پر حملہ کیا اور انھیں آگ لگا دی۔ اگلے روز منصوبہ بندی کے مطابق اسرائیلی وزیر خارجہ سلوان شیلوم نے ۱۳ اگست کو بیان جاری کیا کہ 
’’عبادت گاہوں کی حفاظت نہ کر کے فلسطینیوں نے اپنی پہلی ہی ذمہ داری میں ناکامی کا ثبوت دے دیا ہے۔‘‘ انھو ں نے کہا کہ ’’عبادت گاہوں کو جلانے کا واقعہ ایسے وحشی لوگوں کا کارنامہ ہے جو مقدس مقامات کا کوئی احترام نہیں کرتے۔‘‘ 
(یروشلم پوسٹ، ۱۲ ستمبر ۲۰۰۵)

الشریعہ اکادمی کی سرگرمیاں

ادارہ

۲۴؍ اگست ۲۰۰۵ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں خواتین کا ایک اجتماع منعقد ہوا جس میں عربی گریمر کے ساتھ ترجمہ قرآن کریم مکمل کرنے والی طالبات کو سرٹیفکیٹ دیے گئے۔ اس موقع پر جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم کے شعبہ بنات کی صدر معلمہ حافظہ سعیدہ اختر نے، جو شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر کی دختر اور مولانا قاری خبیب احمد عمر (مہتمم جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم) کی اہلیہ ہیں اور سالہا سال سے بخاری شریف پڑھا رہی ہیں، خواتین سے خطاب کیا۔ ان کے ساتھ جامعۃ الہدیٰ نوٹنگھم (برطانیہ) کی معلمہ قاریہ عائشہ ظہیر نے بھی خطاب کیا۔ اکادمی کے شعبہ بنات میں تعلیم وتدریس کے فرائض مولانا محمد یوسف (ناظم اکادمی) کی اہلیہ محترمہ انجام دے رہی ہیں۔
۲۷؍ اگست کو درس نظامی کے فضلا کے لیے خصوصی تربیتی کورس کی تکمیل کے موقع پر اکادمی میں ایک خصوصی تقریب منعقد کی گئی جس کی صدارت بزرگ عالم دین مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی نے کی جبکہ جامعہ اسلامیہ ٹرسٹ کامونکی کے مہتمم مولانا عبد الرؤف مہمان خصوصی تھے اور ان کے ساتھ گوجرانوالہ بار ایسوسی ایشن کے سینئر رکن چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ بھی خصوصی مہمانوں کی نشست پر تشریف فرما تھے۔ اکادمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر حافظ محمد عمار خان ناصر نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور اکادمی کی سرگرمیوں کا مختصر تعارف کرایا۔ اکادمی کے ناظم اور استاد مولانا حافظ محمد یوسف نے شرکا کو اکادمی کی سرگرمیوں اور فضلاے درس نظامی کے ایک سالہ خصوصی کورس کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ فضلاے درس نظامی کی ایک سالہ کلاس میں اس سال پندرہ فضلا نے داخلہ لیا جن میں سے گیارہ نے کورس کی تکمیل کی اور مقالات تحریر کیے جبکہ ان میں سے دو حضرات کورس کی تکمیل اور مقالہ تحریر کرنے کے باوجود کسی وجہ سے سالانہ امتحان میں شریک نہ ہو سکے۔ نو حضرات نے امتحان میں شرکت کی اور کامیابی حاصل کر کے سند کے مستحق ٹھہرے۔ ان حضرات نے کورس کی تکمیل کے ساتھ مختلف عنوانات پر اساتذہ کی نگرانی میں مقالات تحریر کیے جنھیں شہر کے تین بڑے دینی مدارس مدرسہ نصرۃ العلوم، مدرسہ اشرف العلوم اور جامعہ عربیہ کے اساتذہ نے چیک کر کے ان کی توثیق کی۔ کامیاب ہونے والے طلبہ اور ان کے تحریر کردہ مقالات کی تفصیل حسب ذیل ہے:
غلام اللہ: ’’اہل السنۃ والشیعۃ فی ضوء العقائد‘‘
فضل حمید چترالی: ’’اسلامی حدود وتعزیرات کا فلسفہ اور ان پر اعتراضات کا تجزیہ‘‘
محمد شفیع: ’’تذکرہ محدثین احناف‘‘
محمد توقیر معاویہ: ’’سورۃ التوبہ اور سورۃ الانفال کی روشنی میں اسلام کا تصور جہاد‘‘
محمد خالد رمضان: ’’کتاب پیدایش اور قرآن مجید کے بیانات کا تقابلی جائزہ‘‘
محمد قاسم: ’’آداب رسالت سورۃ الحجرات کی روشنی میں‘‘
ابوبکر محمود: ’’حلال وحرام سورۂ مائدہ کی روشنی میں‘‘
عبد القادر: ’’حفاظت حدیث کے ذرائع اور وسائل‘‘
محمد بن ابراہیم: ’’مسیحیت کی بنیادی تعلیمات: ایک مطالعہ‘‘
تقریب میں ان فضلا کو مہمانان خصوصی نے اسناد اور انعامات عطا کیے جبکہ اکادمی کے عملہ میں سے مولانا حافظ محمد یوسف (ناظم)، پروفیسر محمد اکرم ورک (نگران خصوصی تربیتی کورس) اور ڈاکٹر محمود احمد (انچارج فری ڈسپنسری) کو حسن کارکردگی کے خصوصی سرٹیفکیٹ دیے گئے۔ حاضرین کو بتایا گیا کہ الشریعہ فری ڈسپنسری علاقہ کے غریب عوام کی مسلسل خدمت کر رہی ہے اور روزانہ کم وبیش ۷۰، ۸۰ کے لگ بھگ مریض ڈسپنسری کی سہولتوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس موقع پر الشریعہ اکادمی کے دو سابق طلبہ کو بھی خصوصی انعامات دیے گئے جنھوں نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں قانون کی تعلیم حاصل کی ہے اور ان میں سے ایک اب ڈسٹرکٹ کورٹس گوجرانوالہ میں پریکٹس کر رہے ہیں۔
تقریب میں بتایا گیا کہ اکادمی میں دینی مدارس کے طلبہ کے لیے تعطیلات کے دوران میں مختصر مدت کے کورس بھی کرائے جاتے ہیں جن کے تحت اس سال ۵؍ شعبان سے ۲۹؍ شعبان تک عربی بول چال اور کمپیوٹر ٹریننگ کے ایک کورس کا اہتمام کیا جا رہا ہے جبکہ بعض دیگر طلبہ بھی مختلف کورسز کے حوالے سے مولانا حافظ محمد یوسف اور دیگر اساتذہ سے فارغ اوقات میں تیاری کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اکادمی میں عام مسلمانوں خصوصاً تاجر حضرات کے لیے تین تین ماہ کے دورانیہ کے ’’فہم دین کورسز‘‘ کا بھی اہتمام کیا گیا ہے جس میں مجموعی طور پر ایک سو سے زیادہ حضرات نے شرکت کی۔ پروگرام کے مطابق فضلاے درس نظامی کی اگلے سال کی کلاس کے لیے درخواستیں طلب کر لی گئی ہیں۔
شہر کے معروف علاقے واپڈا ٹاؤن کے عقب میں کورو ٹانہ کے مقام پر کھیالی کے ایک مخیر دوست حاجی ثناء اللہ طیب نے ایک ایکڑ جگہ ’’الشریعہ اکادمی‘‘ کے لیے وقف کی ہے جہاں تعمیر کا کام شروع کیا جا رہا ہے۔ پروگرام کے مطابق عید الاضحیٰ سے قبل یا اس کے فوراً بعد وہاں حفظ قرآن کریم کی کلاس کا آغاز ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس کلاس کے تحت پرائمری پاس بچوں کو چار سال میں حفظ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ گوجرانوالہ تعلیمی بورڈ کے نصاب کے مطابق مڈل کرایا جائے گا۔
تقریب میں اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کے علاوہ مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی اور مولانا عبد الرؤف فاروقی نے بھی خطاب کیا اور دور حاضر کی ضروریات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے الشریعہ اکادمی کی کارکردگی کو سراہا۔ مولانا راشدی نے الشریعہ اکادمی کے اغراض ومقاصد اور اس حوالے سے اپنی سوچ اور ایجنڈے کا قدرے تفصیل سے ذکر کیا۔ 

نومبر ۲۰۰۵ء

متاثرین زلزلہ اور ہماری مذہبی و اخلاقی ذمہ داریمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
اسلام، مسلمان اور مغربی ذرائع ابلاغایم جے اکبر 
قرآنی متن کے حوالے سے مستشرقین کا زاویہ نگاہمحمد فیروز الدین شاہ کھگہ 
فروعی مسائل میں سہولت و رخصت کا فقہی اصولادارہ 
مِتھ کی بحث پر ایک نظرپروفیسر میاں انعام الرحمن 
انسان کا حیاتیاتی ارتقا: نظریہ یا حقیقت؟پروفیسر محمد عمران 
مکاتیبادارہ 
افتخار عارف کی شاعریپروفیسر شیخ عبد الرشید 
اخبار و آثارادارہ 

متاثرین زلزلہ اور ہماری مذہبی و اخلاقی ذمہ داری

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان میں ۸؍اکتوبر کو جو خوف ناک زلزلہ آیا ہے اور جس کے جھٹکوں کا تسلسل ابھی تک جاری ہے، اس کی تباہ کاریوں نے پوری دنیا کو ملول اور افسردہ خاطر کر دیا ہے۔ پاکستانی قوم اور اس کی بہی خواہ اقوام زلزلہ سے متاثر ہونے والوں تک پہنچنے اور باقی بچ جانے والوں کو دوبارہ آباد کرنے کے لیے امدادی سرگرمیوں میں مسلسل مصروف ہیں۔ پاکستانی فوج اور دیگر سرکاری ادارے سرگرم عمل ہیں جبکہ ان کے ساتھ دینی، سیاسی وسماجی تنظیمیں اور عوام کے مختلف گروپ بھی امدادی کاموں میں شریک ہیں مگر ابھی تک نہ تو زلزلہ میں ہونے والے جانی نقصانات کا صحیح طور پر اندازہ کیا جا سکا ہے اور نہ ہی زلزلہ کی زد میں آنے والی تمام بستیوں اور انسانوں تک رسائی ممکن ہو سکی ہے۔ یہ قدرت کی مخفی قوتوں کے سامنے انسان کی بے بسی اور کمزوری کا ایک ایسا اظہار ہے جس کی کیفیت وکمیت میں سائنسی ترقی اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی۔
قرآن کریم نے گزشتہ اقوام کے حوالے سے زلزلہ، طوفان اورسیلاب جیسی قدرتی آفات کا تذکرہ قوموں کی اجتماعی بد اعمالیوں پر سزا اور عذاب کے طور پر کیا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے انسانی سوسائٹی میں عام ہونے والی بد اعمالیوں پر تنبیہ اور عذاب کے طور پر ایسی قدرتی آفات کے رونما ہونے کی متعدد احادیث نبویہ میں پیش گوئی فرمائی ہے۔ اس لیے زلزلہ اور اس کے نقصانات کا ظاہری اسباب کے حوالے سے جائزہ لینے اور ایسے اسباب کو روکنے کی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ایسی آفات کے روحانی اور باطنی اسباب اور عوامل پر بھی نظر رکھنی چاہیے اور قرآن وسنت کے ساتھ ساتھ گزشتہ اقوام کی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے ان روحانی اسباب وعوامل کو تلاش کرنا اور ان کا تعین کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا ادراک اور احساس عطا فرمائیں۔ آمین
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ یہ تھی کہ ایسے مواقع پر وہ اللہ تعالیٰ کے حضور پریشانی کا اظہار فرماتے اور کثرت سے استغفار کرتے تھے، اس لیے ہمارے لیے بھی اسوۂ نبوی یہی ہے کہ توبہ واستغفار کا اہتمام کریں اور اپنے اعمال وکردار پر نگاہ کرتے ہوئے ان کی اصلاح کی کوشش کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ اور استغفار کو اجتماعی طور پر اپنا معمول بنائیں۔
زلزلہ سے متاثر ہونے والے بھائیوں کی مدد ہماری دینی، اخلاقی اور قومی ذمہ داری ہے جس کے لیے ہمیں تمام ممکن ذرائع اختیار کرنے چاہییں اور ان کی بحالی وآبادی کے لیے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرنا چاہیے۔ اس زلزلہ کی تباہ کاریوں نے ہماری بہت سی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو بے نقاب کر دیا ہے جن کو دور کرنے کے لیے خصوصی توجہ اور محنت کی ضرورت ہے، لیکن پاکستانی قوم نے جس یک جہتی، ہم آہنگی اور ایثار وقربانی کے ساتھ اپنے متاثرہ بھائیوں کی امداد وبحالی کی طرف پیش رفت کی ہے، اس نے اطمینان کا یہ پہلو بھی اجاگر کر دیا ہے کہ پاکستان کے شہریوں اور اس ملک کے مسلمانوں میں خیر کا جذبہ بحمد اللہ تعالیٰ ابھی تک موجود ہے جسے صحیح راہنمائی اور قیادت میسر آ جائے تو وہ دنیا بھر کے لیے خیر کی نمائندہ اور علامت بن سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جاں بحق ہونے والوں کی مغفرت فرمائیں، بے آباد ہونے والوں کو دوبارہ پہلے سے بہتر آبادی نصیب کریں، پوری قوم کو صبر وحوصلہ کے ساتھ اس صدمہ سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق دیں اور قوم میں خیر کا جو اجتماعی جذبہ ایک بار پھر ابھر کر سامنے آیا ہے، اسے ہماری اجتماعی صلاح اور خیر کے دوسرے پہلووں کی طرف پیش رفت کا ذریعہ بنائیں۔ آمین 
اس سال عید الفطر اس ماحول میں آ رہی ہے کہ ہم ابھی تک شہدا کی لاشوں کی تلاش، زخمیوں کے علاج اور بے گھر ہونے والے ہزاروں خاندانوں کی آباد کاری میں مصروف ہیں، اس لیے اس موقع پر سادگی کا اہتمام زیادہ ضروری ہے۔ ہم عید کے موقع پر معمول سے زیادہ جو اخراجات کرتے ہیں، ان کے مستحق ہمارے وہ بھائی بہنیں اور بچے ہم سے زیادہ ہیں جو کھلے آسمان کے نیچے بے بسی کے ساتھ سخت سردی کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے غم واندوہ میں کمی کرنے کی کوئی بھی کوشش ہمارے لیے عید کی ان مصنوعی خوشیوں سے زیادہ اطمینان بخش ہونی چاہیے جن کا ہم ہر سال بھرپور تکلف کے ساتھ اہتمام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین

اسلام، مسلمان اور مغربی ذرائع ابلاغ

ایم جے اکبر

اسلام اور مسلمانوں، خاص طور پر توانائی کی دولت رکھنے والے مسلم ممالک پر ایک زبردست فکری یلغار جاری ہے۔ پراپیگنڈے کی ایک آندھی ہے جس میں الزامات بڑی شاطرانہ مہارت سے تیار کیے گئے ہیں۔ یہ الزامات عوامی ذرائع ابلاغ کے واسطے سے بری طرح پھیلائے جا رہے ہیں۔ ان الزامات کا جواب حقائق کی وضاحت اور عقل وحکمت کے ساتھ دیا جانا ضروری ہے۔ اس بحث میں ہم کو اس وقت شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب ہم خود سپردگی کی حد تک جھک کر دفاعی انداز اختیار کرنے لگتے ہیں، یا عقل وہوش کھو کر رد عمل اور جوش کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں، لیکن ہمیں جان لینا ہوگا کہ ہمارے لیے ان دونوں کے بیچ کا راستہ ہی اصل راستہ ہے اور اس پر چلنا کوئی بہت مشکل بھی نہیں۔
مسلمانوں اور امریکیوں کے درمیان ایک دوسرے کے عقیدہ ومذہب کے متعلق حساسیت کا پایا جانا فطری ہے، اس لیے کہ موجودہ دنیا میں یہی دو قومیں اپنے عقیدے پر پختہ یقین رکھنے والی قومیں ہیں۔ چرچ کے ادارے کی طرف سے کرائے جانے والا ایک سروے اسی سال کے شروع میں سامنے آیا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ ساٹھ فی صد امریکی روزانہ عبادت کرتے ہیں۔ ستر فیصد کہتے ہیں کہ امریکی صدر کو مذہب پر پختہ یقین رکھنے والا ہونا چاہیے۔ اکسٹھ فی صد اسقاط حمل پر اس لیے پابندی لگانے کے حق میں ہیں کہ یہ مذہبی اخلاقیات کی رو سے غلط ہے۔ میرے پاس مسلمانوں کے بارے میں اس طرح کے اعداد وشمار نہیں ہیں۔ یقیناًمسلمانوں میں دین داری کا رجحان اس سے کم نہیں ہے، بلکہ اس سے زیادہ ہے۔ کسی بھی مسلم ملک کا صدر یا وزیر اعظم یہ چاہتا ہے کہ وہ جمعہ کی نماز میں ضرور نظر آتا رہے۔ امریکہ کے برخلاف یورپ اپنا مذہب عقل پرستی اور اس کے بعد اٹھنے والی مذہب بیزار تحریکوں اور کمیونزم کے سیلاب میں کب کا بہا چکا ہے۔ یورپ میں مارکس اور لینن کی تحریکیں ایسا زور پا گئی تھیں کہ انھوں نے آدھے ایشیا سے بدھ اور کنفیوشس کے مذہب کو اور آدھے یورپ سے عیسیٰ مسیح کے مذہب کو بے دخل کر دیا۔
مذہب انسانی عقل پر مبنی نہیں ہوتا۔ مذہبی ایمان کا تعلق روحانی احساسات، اخلاقی شعور اور عقیدے پر پختگی سے ہوتا ہے۔ اسلام اکیلے خالق، اللہ کے جمال وجمال کے سامنے سرنگوں ہونے کا نام ہے۔ ایک مسلمان کہتا ہے کہ ہم اگرچہ یہ جان سکتے ہیں کہ ہم کیسے پیدا ہوتے ہیں، مگر ہمارے پاس خود یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ ہم کیوں پیدا ہوتے ہیں یعنی ہماری پیدایش، موت اور سارے وجود کی غرض وغایت کیا ہے۔ ایک مسلمان اس پر ایمان رکھتا ہے کہ موت سے پہلے بھی زندگی ہے اور اس کے بعد بھی۔ اسی عقیدے کی مظہر یہ مشہور دعا ہے : انا للہ وانا الیہ راجعون (ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے)۔
مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کسی خاص عبارت کو توڑ مروڑ کر اس کے سیاق وسباق سے کاٹ کر اس مقصد کے تحت پیش کیا جاتا ہے کہ ایک خاص مذہب اور اس کے ماننے والوں کو ایک خوف ناک صورت میں دکھایا جائے۔ مغرب میں خود کش حملوں کو حقارت آمیز مضحکہ کا موضوع بنایا جاتا ہے۔ بجائے اس کے کہ یہ سوچا جائے کہ (اکثر اوقات) یہ جبر وظلم سے آخری درجے تک تنگ آ جانے کے بعد ایک بے چین چیخ ہوتی ہے، اس کے بجائے اسلامی عقیدے کا اس طرح مذاق اڑایا جاتا ہے کہ ’’خود کش حملہ کرو اور حوروں سے جا ملو، عیش کے مزے لوٹو۔‘‘ حالانکہ اسلامی ہدایات کا سرسری مطالعہ بھی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ مرنے کے بعد ایسا مادی جسمانی وجود باقی نہیں رہے گا اور یہ دنیا کی زندگی کی ضروریات اور حظ ومسرت کے احساسات آخرت کی زندگی کے احساسات سے مختلف ہیں، لیکن یہاں جان بوجھ کر اسلامی نصوص کی غلط تشریح کی جاتی ہے اور اس کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے جذبہ قربانی، خصوصاً جان کی قربانی کے سرچشمے یعنی آخرت پر یقین اور جنت کے شوق کا مذاق اڑایا جائے اور اس کو بے وقوفوں کا خواب قرار دیا جائے۔ میڈیا کے ذریعے اسلام کو بری طرح بدنام کیا جا رہا ہے۔ یہ ہمارے لیے زمانے کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اس کا جواب دینا ضروری ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید سچائی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف الزامات کی یہ بارش ۱۱؍۹ کے حملوں سے بہت پہلے سے جاری ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ یہ سب بس رد عمل ہے۔ ہنٹنگٹن نے تہذیبی تصادم سے متعلق اپنی کتاب ۱۱؍۹ سے سات سال پہلے شائع کی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب تقریباً سارے ہی مسلم ممالک نے افغانستان اور کویت کی جنگو ں میں امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔ امریکہ کے نو قدامت پسندوں (Neo-cons) کی تحریک کو سارا الزام دے کر خاموش بیٹھ جانا غلط ہے۔ ہم کو جواب دینا ہوگا۔
مغربی میڈیا کی کچھ خبروں پر اعتماد کیجیے تو یہی تاثر پیدا ہوگا کہ خود کش حملے مسلمانوں کی ایجاد ہیں۔ خودکش مہمیں ہمیشہ سے جنگ کا حصہ رہی ہیں اور ان بہادروں کو جو اپنی جان آخری حد تک خطرے میں ڈالنے پر آمادہ ہو جائیں، بڑا احترام کا رتبہ دیا جاتا رہا ہے۔ ابھی حال میں ایک مبصر نے (مشہور برطانوی روزنامہ) گارڈین میں لکھا ہے کہ سامسن (Samson) دنیا کا سب سے مشہور خود کش مشنری تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپانی ایئر فورس نے کامیکاز (Kamikaze) کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا۔ اس وقت امریکہ کی طرف سے اس پر جو تبصرہ آیا تھا، وہ دلچسپ بھی تھا اور ایسا سچا بھی کہ اس کی سچائی آج بھی باقی نظر آ رہی ہے۔ ایڈمرل ولیم فریڈرک ہالسے (William Fredrick Halsey 1884-1959) جو امریکن تھرڈ فلیٹ کا کمانڈر تھا، اس نے کہا تھا: ’’یہ وہ چیز ہے جس سے ہم بالکل آشنا نہیں۔ امریکن جو جینے کے لیے لڑتے ہیں، ان کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کچھ لوگ مرنے کے لیے لڑتے ہیں۔‘‘ اس امریکی بہادر پر ایسا ہی ایک حملہ ہوا تھا۔
جاپانی کامیکاز (Kamikaze) کو خود کشی نہیں کہتے تھے۔ وہ اس کو بزدلوں پر اخلاقی فتح کہتے تھے۔ وہ اپنے پائلٹوں سے کہتے تھے: سارے غموں، دکھوں کو چھوڑ کر جنت میں داخل ہو جاؤ۔ یہ موت نظر آتی ہے مگر حقیقی زندگی تک لے جاتی ہے۔ وائس ایڈمرل تاکیرو دانسی نے رجزیہ انداز میں کہا تھا:
زندگی ایک کلی کی مانند ہے
مسکراتی ہے، پھر اس کی پنکھڑیاں بکھر جاتی ہیں
کیا کوئی خوشبو کو ہمیشہ باقی رہنے والا تصور کر سکتا ہے؟
غیر علانیہ جنگ میں خود کش حملوں کا سب سے موثر استعمال تامل ٹائیگرز نے کیا ہے جو ہندو ہیں۔ ایک ایسے ہی حملے میں ہمارے ایک وزیر اعظم (راجیو گاندھی) کی جان گئی۔ مگر حقائق مسخ کر کے دنیا کی رائے عامہ کو ا س طرح گمراہ کیا گیا ہے کہ لوگ یہ سمجھنے لگے کہ ’’دہشت گردی‘‘ اسلامی عقائد کی پیداوار ہے۔ یہ بدترین اتہام ہے۔
ہم کو ۱۱؍۹ اور لندن حملوں کے بعد پیدا ہونے والی پیچیدہ اور جذباتی رد عمل کی فضا کو سامنے رکھ کر بات کرنا ہوگی۔ میں خود کش حملوں سے متفق نہیں ہوں، مگر ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سارے خود کش حملہ آور ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی، خاص طور پر جب کوئی غیر ملکی دشمن طاقت کسی علاقے پر قبضہ کر لے تو خود کش حملہ ایک نوجوان کی آخری درجہ بے چینی اور مایوسی کا اظہار ہوتا ہے۔ ہم کو ان مایوسیوں اور بے چینیوں کا علاج فراہم کرنا ہوگا۔ ہم کو ناقابل قبول ’’دہشت گردی‘‘ اور جائز جدوجہد اور مزاحمت میں فرق کرنا ہوگا۔ تاریخ کا کوئی دور مسائل اور نا انصافیوں سے خالی نہیں رہا۔ نا انصافیوں کے علاج کے لیے پرامن گفتگو کسی بھی ہوش مند آدمی کی ترجیح ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں کسی مسلح جدوجہد یا خود کش حملے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
میں کچھ عرصہ قبل اگست کے وسط میں برلن ایک سیمینار میں شرکت کے لیے گیا۔ عنوان تھا ’’یورپ اور ماڈرن اسلام‘‘۔ میزبان اس پارٹی کے ممبر تھے جو اس ماہ کے آخر میں اقتدار میں آنے کی امید رکھتی ہے۔ یہ لوگ، ایسا محسوس ہوا، اسلام کے بارے میں متعصبانہ ذہن نہیں رکھتے بلکہ موجودہ حالات میں اسلام اور مغرب کے درمیان ناواقفیت کی جو خلیج حائل ہے، اس کو پاٹنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ کانفرنس میں فطری طور پر حجاب کا تذکرہ آیا، میں نے بحث کی کہ پوری مشرقی دنیا میں، مذہبی تفریق سے قطع نظر، سر پر دوپٹہ رکھنا عورت کی حیا کا لازمی تقاضا سمجھا جاتا ہے۔ میں نے کسی عیسائی کی بنائی ہوئی حضرت مریم کی کوئی تصویر ایسی نہیں دیکھی جس میں وہ ایک طرح کے حجاب میں نہ ہوں۔ساری کیتھولک ننیں سر پر ایک خاص طرح کا کپڑا رکھتی ہیں اور یہ عجیب حیران کن مگر سچی بات ہے کہ (جسم پر) ایک پٹکا (Thong) مہذب سمجھا جا رہا ہے اور اسکارف وحشیانہ!!
میں نے بار بار دہرایا جانے والا یہ طعنہ بھی سنا کہ مسلم معاشروں میں ابھی تک نشاۃ ثانیہ (Renaissance)نہیں آئی ہے۔ مجھے کہنا پڑا کہ نشاۃ ثانیہ کی اس کو ضرورت پڑتی ہے جو قرون مظلمہ (Dark Ages) سے گزرا ہو۔ چائنا، ہندوستان اور عثمانی خلافت کے زیر انتظام علاقوں میں قرون مظلمہ کا وہ تجربہ نہیں ہوا جو یورپ کو ہوا تھا۔ بغداد میں اس وقت سو کتابوں کی دوکانیں تھیں جب آکسفورڈ کے قیام میں ابھی دو سو سال باقی تھے۔ میرے اس طرح کے ریمارکس پر ایک صاحبہ نے کہا کہ ’’ایک مسلمان نے مہاتما گاندھی کو قتل کیا تھا۔‘‘ جب میں نے کہا کہ یہ ایک برہمن ہندو کا کام تھا تو ان کی حیرت کی انتہا نہیں تھی۔
اپنے دیگر مسلم بھائیوں کی طرح مجھ پر یہ آوازے کسے گئے کہ تمہارا دین بس ’’جہاد‘‘ ہے ، اور کچھ نہیں۔ میں اپنے دین کے بنیادی اصولوں کے بارے میں کوئی معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کرتا۔ اسلام ایک امن کا دین ہے، مگر وہ یہ جانتا اور مانتا ہے کہ کبھی کبھی حالات ایسے ہوتے ہیں کہ جنگ آپ پر تھوپ دی جاتی ہے۔ اسلام جائز اور ناجائز جنگ کے درمیان فرق کرتا ہے۔ جہاد نا انصافی کے خلاف جنگ ہے۔ جہاد کے واضح قوانین ہیں۔ حکم دیا گیا ہے کہ عورتوں، بچوں او ر بے قصوروں کو مت قتل کرو ، یہاں تک کہ پھل دار پیڑ تک کو کاٹنے سے منع کیا گیا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی ہر جنگ جہاد نہیں ہے۔
برلن کے سیمینار کا عنوان (’’یورپ اور ماڈرن اسلام‘‘) ہی نہایت بے معنی اور غلط تھا۔ اسلام میں کچھ ایسا نہیں کہ اس کو ماڈرن، قرون وسطیٰ کا یا قدیم کہا جا سکے۔ اسلام ایک ہی ہے۔ اسلام، اسلام ہے۔دوسری بات یہ کہ یورپ ایک جغرافیائی خطے کا نام ہے اور اسلام ایک دین ہے۔ دونوں کے درمیان تقابل کیسا؟ مغرب اور وسط ایشیا کا آپ تقابل کر سکتے ہیں۔ مغرب اور جنوبی ایشیا میں آپ تقابل کر سکتے ہیں،مگر یہ کیسا تقابل کیا جا رہا ہے؟ ہاں، اسلام اور عیسائیت میں آپ تقابل کر سکتے ہیں۔ مغرب کا اسلام سے موازنہ کرنے کے پیچھے یہی تعصب آمیز ذہنیت چھپی ہوئی ہے کہ ’مغرب‘ نام ہے روشن خیالی، ترقی اور جدید زمانے کی ہر اچھائی کا، اور اسلام نام ہے ظلمت پسندی، رجعت پسندی اور زوال وانحطاط کا۔ یہ خیال کہ اسلام ایک وحشیانہ مذہب ہے، صلیبی جنگوں کے باقی ماندہ اثرات میں سے ہے جس کی جڑیں مغرب کی فکر میں ابھی تک باقی ہیں۔
مختلف مسلم قوموں کو جب اسلام کے نام سے جانا جاتا ہے اور ان کی ساری تہذیب وتاریخ کو اسلام کہا جاتا ہے تو یہ مختلف کلچروں اور تاریخوں کو ایک بے معنی وحدت میں خلط ملط کرنے کی بے نتیجہ حماقت ہوتی ہے۔ انڈونیشیا کی حالیہ ترقی اور سیاسی وسماجی ارتقا کا کوئی تعلق مراکش کی ترقی سے نہیں ہے۔ یہ باور کرنا کہ اسلام بعض قوموں کے غریبی اور مطلق العنانی میں پھنسے ہونے کا سبب ہے، حقائق کے ساتھ کھلواڑ ہے۔
اسی طرح ’’اسلام اور جمہوریت‘‘ بھی ایک بے معنی بات ہے۔ اسلام ۱۴۰۰ سال پرانا دین ہے۔ جمہوریت کی عمر کتنی ہے؟ بس امریکہ کہہ سکتا ہے کہ اس کی جمہوریت دو سو سالہ ہے۔ امریکہ کا دستور انفرادی اور اجتماعی آزادی کا زبردست نمونہ ہے، مگر اس ’’شاندار‘‘ جمہوریت کا حال یہ ہے کہ ایک نسل پہلے تک یہ جمہوریت گورے کے لیے الگ تھی، کالے کے لیے الگ۔ یہ تو ۱۹۶۵ء کے حق رائے دہی کے قانون کے بعد مسی سپی جیسی ریاست میں کالوں کا ووٹنگ لسٹ میں باقاعدہ اندراج ہوا ہے جس کے نتیجے میں ان کا تناسب جو ۱۹۶۴ء میں محض سات فی صد تھا، بڑھ کر ۱۹۶۸ء میں ستر فی صد ہو گیا۔ امریکہ کی آزادی کے تین سال بعد فرانس نے آزادی، مساوات اور اخوت کا اعلان ووعدہ کیا، مگر اس سلسلے میں دستور اور نظام کی سطح پر کچھ بھی ایک صدی کے بعد کیا جا سکا۔ جمہوریت کے سب سے بڑے وکیل برطانیہ میں بیسویں صدی میں ہی سب کو حق رائے دہی مل سکا۔ مشرقی یورپ میں اب آ کر ہر بالغ کو رائے دہی کا حق مل رہا ہے۔ ایک ارب چینیوں نے آج تک جمہوریت نہیں دیکھی۔ کیا کسی علمی ادارے نے کنفیوشس ازم اور جمہوریت پر کوئی سیمینار کیا ہے؟
اگر بہت سے ممالک آج غیر جمہوری ہیں تو اس کے اسباب مذہب میں نہیں بلکہ ان کی تاریخ میں ہیں جس میں استعماری عہد اور جدید زمانے کا استعمار شامل ہے۔ مسلمانوں کی کمیوں کے لیے اسلام کو قصور وار ٹھیرانا غلط ہے۔ یہ عیسائیت کا جرم نہیں کہ لاطینی امریکہ میں ایسے ڈکٹیٹر ہیں جو چرچ جاتے ہیں۔ اسلام مطلق العنانی کی ہمت افزائی نہیں کرتا بلکہ وہ جمہوری خیالات کی آبیاری کرتا ہے، مثلاً اجتماعی انصاف، مساوات اور رحم دلی کو وہ بنیادی اصول واقدار قرار دیتا ہے۔ وسیع النظر مسلم علما نے ہمیشہ محسوس کیا ہے کہ اسلام جمہوری عقیدہ ہے۔ ۱۹۴۰ء میں مولانا آزاد نے کانگریس کا صدر منتخب ہونے پر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا: ’’اسلام نے ہندوستان کو جو عظیم تحفے دیے، ان میں جمہوری خیالات بھی ہیں۔‘‘
مغرب میں ایک مشہور کتاب تاریخ کے خاتمے (End of History) سے بحث کرتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انسانی تہذیب وافکار کا ارتقا امریکی تہذیب پر جا کر ختم ہوتا ہے، مگر عالم اسلام کی موجودہ حالت پر غور کرتے ہوئے میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ ایک ’’نئی تاریخ کی ابتدا‘‘ ہے۔ اس تاریخ کا آغاز ۱۹۱۸ء سے ہوتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب سارا عالم اسلام غلامی کے شکنجے میں کسا ہوا تھا۔ سلطنت مغلیہ کے زوال کے ساٹھ سال بعد ۱۹۱۸ء میں عثمانی سلطنت کا چراغ بھی گل کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے نے مسلمانوں کو مکمل طور پر غلام بنا دیا تھا۔ عرب قوم پرست مغرب کے آزادی کے وعدوں پریقین کیے ہوئے تھے مگر مغرب، جس کی قیادت اس وقت برطانیہ اور فرانس کر رہے تھے، ان کے نزدیک آزادی کا مطلب تھا تیل کی سیاست۔
جمہوریت یقیناًضروری ہے، مگر یہ مکمل خود مختاری اور آزادی کے بغیر ممکن نہیں۔ امریکی نگرانی میں اگر آزادانہ الیکشن ہو بھی جائیں تو بھی کوئی ان کا اعتبار نہیں کرے گا۔ یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ قبضے اور تسلط کو آزادی کا نام دیا جا رہا ہے۔ برطانیہ نے مصر پر یہی کہہ کر ۱۸۸۲ء میں قبضہ کیا تھا۔ یہ قبضہ ہمیشہ مال دار ملک پر ہی کیا جاتا ہے۔ رابرٹ کلائیو نے ۱۷۵۷ء میں ہندوستان کے شہر مرشد آباد پر قبضے کے بعد اس کو خوشحالی میں لندن جیسا بتایا تھا۔ یہ اس وقت کا حال ہے کہ ہندوستان میں اورنگ زیب کی وفات کے بعد تقریباً ایک صدی سے انارکی چلی آ رہی تھی۔ اس وقت ہندوستان دنیا کی صنعتی پیداوار کا ۲۳ فی صد پیدا کرتا تھا اور برطانیہ ۲ فی صد سے کم۔ آزادی کے وقت ۱۹۴۷ء میں یہ تناسب اس طرح تھا: برطانیہ ۲۳ فی صد اور ہندوستان ۲ فی صد سے کم۔ آزادی کے علم برداروں کے کارناموں پر اس سے زیادہ روشنی کس چیز سے پڑے گی؟
مگر ہمیں جاننا چاہیے! غصہ علاج نہیں ہے۔ علاج خود احتسابی ہے۔
(بشکریہ ماہنامہ ’الفرقان‘ لکھنو)

قرآنی متن کے حوالے سے مستشرقین کا زاویہ نگاہ

محمد فیروز الدین شاہ کھگہ

محمد فیروزالدین شاہ کھگہ (لیکچرر: نیشنل یونیورسٹی FAST، لاہور)
حافظ محمد سمیع اللہ فراز (لیکچرر: ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان، لاہور)

جب ہم قرآنی متن کی تحقیق وتوثیق کے حوالے سے مستشرقین کے علمی کام کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ وہ درحقیقت وحی کی اصل روح کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ اس کی وجوہات میں ان کے پہلے سے طے شدہ مقاصد کارفرماہوں یا اسلام کے مصادر کا حقیقی فہم حاصل کرنے کی عدمِ صلاحیت، بہرحال ان کی تحقیقی نگارشات میں دیانت دارانہ رویوں کے برعکس مصادرِ اسلامیہ کو مشکوک قرار دینے کے جذبات کا عکس نظر آتا ہے۔
مستشرقین کو اس بات کا بخوبی احساس تھا کہ مسلمانوں کے نزدیک قرآن کی کیا حیثیت اور قدرو قعت ہے، اور جب تک یہ کتاب روئے زمین پر رہے گی، فوزوفلا ح کے راستے ان کے لیے کھلے رہیں گے۔ وہ کسی وقت بھی اس کی راہنمائی میں پوری دنیا کو مغلوب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا اس مصدر کو اس انداز اور پیرایہ میں دنیا کے سامنے پیش کیا جائے کہ یہ اپنی صحت وحفاظت کے معیار کے لحاظ سے دیگر کتبِ سماویہ ہی کے ہم پلہ نظر آنے لگے۔ 
اس سلسلے میں مستشرقین نے مسلمانوں کے ذہنوں میں قرآن کے بارے میں شکو ک وشبہات پیدا کرنے کی غرض سے دو بنیادی قسم کے اعتراضات کو اپنی تحقیقات کا مرکز ومحوربنایا۔ اول، قرآن کی جمع وتدوین اور دوم، قرآن کی قراء ات کا اختلاف۔ قرآنی متن کی توثیق و عدمِ توثیق کے حوالے سے یہ دونوں اعتراضات بالکل اساسی اہمیت کے حامل ہیں، کیونکہ ان دونوں کا تعلق قرآنی متن اور الفاظ سے ہے۔ الفاظ ہی معنی اور مفہوم تک رسائی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اگر الفاظ ہی کی صحت میں تذبذب پیدا ہو جائے تو معنی ومرادکی قطعیت ایک بے معنی چیز بن کر رہ جاتی ہے۔ 
قرآنِ کریم کی حفاظت کے لیے اختیار کردہ تدابیر، زمانۂ نبوت میں تدوینِ قرآن کی راہ میں حائل رکاوٹیں، ترتیب اور مندرجات کے اعتبار سے مصحفِ صدیقی کا دیگر صحابہ کے قرآنی نسخوں سے اختلاف، حضرت عثمانؓ کی طرف سے مصحفِ صدیقی پر اعتماد کے اسباب، بعض حلقوں کی طرف سے مبینہ طور پر مصحفِ عثمانی کا انکار، قرآن کی جمع وتدوین کا کام حضرت زیدؓ کے سپرد کرنے کی وجوہات اور عبد الملک بن مروان کے دور میں نصِ قرآنی میں چند ترامیم اور تبدیلیوں کا تذکرہ، اور ان جیسے بیسیوں اعتراضات ہیں جو مستشرقین نے حفاظت قرآن سے متعلق اٹھائے ہیں۔ اسی طرح ظاہری طور پر قراء ات کا اختلاف بھی خصوصی طور پر ان کی توجہ کا مستحق رہا ہے۔ ڈاکٹر محمد حسین علی الصغیر کے تجزیے کے مطابق مستشرقین نے جس فہم اور مزاج کو لے کر قرآنی مسائل پر طبع آزمائی کرنے کی کوشش کی ہے، وہ اس فہم وفراست سے بہت بعید ہے جس کے ساتھ مسلمانوں نے ان مسائل کا حل پیش کیا ہے۔ مستشرقین کے ہاں کتابیات کی معلومات اورتاریخی واقعات کی اصلاح وتصحیح زیادہ اہمیت کی حامل اور قابلِ تحقیق ہے۔ وہ وحیِ قرآنی میں شکوک وشبہات اور کتابت وتدوینِ قرآن کو ایک دقیق علمی الجھن کے طور پر پیش کرتے ہیں۔(۱)
زیر نظر میں ہم قرآن کریم کے متعلق استشراقی فکر کے اساسی تصورات اور دعووں اور ان کے فکری منہج وماخذ کی ایک جھلک پیش کریں گے۔ 

تھیوڈر نولڈیکے (Theodor Noldeke)

جرمن مستشرق نولڈیکے نے ’تاریخ القرآن‘ کے نام سے کتاب لکھی جس میں قرآن کریم کی تاریخی حیثیت کو متعین کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے متعدد مباحث کو موضوع بنایا گیا ہے۔نولڈیکے طبقۂ مستشرقین میں ایک پیش رَو کی حیثیت رکھتا ہے جس سے بعد کے مستشرقین نے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے۔ بلاشیر نے اپنے تحقیقی اسلوب میں اسی سے راہنمائی حاصل کی ہے ۔ نولڈیکے نے اپنی کتاب میں قرآنی متن کے حوالے سے سورتوں کی ترتیب اور نسبتاً عمیق اور منفرد مباحث کو موضوع بنانے کی کوشش کی ہے۔ ابو عبد اللہ زنجانی(م۱۳۶۰ھ) نے تاریخِ قرآن پر مستشرقین کی اہم تالیفا ت میں سے اس کتاب کو مختلف پہلوؤں کی وجہ سے اہم قرار دیا ہے ۔(۲)
نولڈیکے نے تاریخ قرآن کی تحقیق میں اس موضوع سے متعلق پانچویں صدی ہجری کے عالم ابو القاسم عمر بن محمد بن عبد الکافی کی کتاب پر اعتماد کرتے ہوئے نزولِ قرآن کی تاریخ کا استقصا کیا ہے۔ نولڈیکے کے مطابق یہ کتاب God Lygd 674 Warnلائبریری میں موجود ہے۔ اس نے قرآنی متن کو مکی اور مدنی حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ابو عبد اللہ زنجانی نے پروفیسر نولڈیکے کو مذکورہ کتاب پر اعتماد کرنے اور ابراہیم بن عمر بقاعی کی کتاب ’’نظم الدرر وتناسق الآیاتِ والسور‘‘اور ابن ندیم کی ’’الفہرست‘‘ کی مدد سے فہارس تیار کرنے پر دادِ تحسین دی ہے ۔(۳)
قرآنی سورتوں کی ترتیب کا ذکر کرتے ہوئے نولڈیکے نے الفاتحہ کو نہ مکی سورتوں میں شمار کیا ہے اور نہ مدنی سورتوں میں۔ شاید اس نے اس معاملے میں توقف اختیار کیا ہے یا پھر کوئی اور وجہ ہو سکتی ہے۔ سورتوں کی ترتیبِ نزولی کا اعتبار کرتے ہوئے اس نے ابتدا سورۃ العلق سے کی ہے ،پھر سورۃ القلم اور پھر تاریخی لحاظ سے باقی سورتوں کی ترتیب قائم کی ہے۔ (۴)
نولڈیکے نے کتابت کو مختلف قراء اتِ قرآنیہ کے وجود میں آنے کا سبب قرار دیا ہے۔ اسی نظریہ کی توثیق بعد میں کارل بروکلمان نے کی اور یہ نظریہ زوروشور سے بیان کیا جانے لگا کہ مختلف قراء ات کا دروازہ دراصل کتابت سے کھلا ہے اور اسی بنیاد پر قراء ،قراء ات کی تصحیح میں منہمک نظر آتے ہیں(۵)۔ اس طرح بظاہر نولڈیکے وہ اولین مستشرق ہے جس نے قرآنِ کریم پر متن کے حوالہ سے اعتراضات کا باقاعدہ اور رسمی طور پر آغاز کیا(۶)۔ 

ریجس بلا شیر (Blachere)

بلا شیر ایک فرانسیسی مستشرق ہے جو ۱۹۰۰ء میں پیدا ہوا ،رباط (مراکش) میں تعلیم حاصل کی اور ۱۹۳۹ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں جامعہ سوربون میں پروفیسر متعین ہوا(۷)۔ بعض مآخذ کے مطابق بلاشیر فرانسیسی وزارتِ خارجہ میں بھی خدمات سرانجام دیتا رہا۔ نجیب عقیقی نے اس کی تالیفات کا ذکر کرتے ہوئے پانچ اہم کتابوں کے نام ذکر کیے ہیں :
۱۔ المتنبی: حیاتہ وآثارہ
۲۔ مقتبسات عن اشہر الجغرافیین العرب فی العصر الوسیط
۳۔ قواعد نشر وترجمۃ النصوص العربیۃ
۴۔ فرانسیسی زبان میں ترجمۂ قرآن جو ۱۹۴۷ء سے۱۹۵۲ء کے دوران میں تین جلدوں میں پیرس سے شائع ہوا۔ 
۵۔ معضلۃ محمد: یہ کتاب ۱۹۵۳ء میں منظرِ عام پر آئی ۔(۸)
تاریخِ قرآنی کے حوالہ سے ،اس کی مشہورِ زمانہ کتاب ’’القرآن نزولہ تدوینہ‘‘ہے۔ اس کی دوسری جلد میں اس نے علومِ اسلامیہ میں تحقیقی مباحث پر قلم زنی کرتے ہوئے قرآن کے متعلق کذب بیانی سے کام لیتے ہوئے مغالطات اور شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے(۹)۔ اگرچہ بلا شیر کے متعلق اس کے اساتذہ کا خیال ہے کہ وہ ایک معتدل المزاج اور حقیقت پسند محقق ہے اور مستشرقین کی صف میں اس کا شمار انصاف پسند اور بالغ النظر فکر کے حامل گنے چُنے افراد میں ہوتا ہے (۱۰)، لیکن ڈاکٹر التہامی نقرہ کے بقول بلا شیر نے قرآن کے متعلق شکوک وشبہات پیدا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اس نے نصِ قرآنی کی حفاظت کے متعلق دلائل سے قطع نظر یہ دعویٰ اختیار کیا کہ قرآن محمد کے زمانہ میں نہیں لکھا گیا تھا ۔ اس کے نزدیک نزولِ وحی کے وقت رسول اللہ ﷺپر شدتِ خوف کی حالت طاری ہو جاتی تھی، اس لیے یہ ممکن نہ تھا کہ آپ وحی کو لکھوا لیا کرتے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں اور مدینہ کے یہودیوں کے مابین، جو تحریر وکتابت کے تمام وسائل پر قابض تھے، شدید کشمکش تھی۔ ان مقدمات سے بلا شیر یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ دورِ نبوت میں قرآن کی مکمل تدوین نہیں ہو سکی اور محض حافظے کے بل بوتے پر قرآن کو کلی طور پر محفوظ کرنا ممکن نہ تھا۔ وہ اس خدشے کا بھی اظہار کرتا ہے کہ ممکن ہے قرآنی متن کے ساتھ وہ معمولی اضافہ جات بھی خلط ملط ہو گئے ہوں جنہیں بعد کے ادوار میں قرآن ہی کا حصہ سمجھ لیا گیا(۱۱)۔ 
بلاشیر کا یہ خیال کہ نبی ﷺ نے قرآن کو کتابتاً محفوظ کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا، اور اس کی جو وجوہات اس نے بیان کی ہیں، محض فرضی خیالات ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس کے پاس اس بات کا نہ تو کوئی نقلی اور تاریخی ثبوت ہے اور نہ عقلی۔ آپ ﷺنے قرآنِ مجید کو مدون کرنے کا جو اہتمام کیا، وہ اس اہتمام سے کسی بھی طرح کم نہ تھا جو آپ ﷺنے یادداشت کے ذریعے سے قران کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا۔ آپ ﷺ نے صحابہ کو ابتدا میں کتابتِ حدیث سے صرف اس لیے منع فرمایا تھا کہ تنہا قرآن ہی کے لیے وسائلِ کتابت کو استعمال میں لایا جا سکے اور حدیثِ نبوی قرآن کے ساتھ مختلط نہ ہو جائے(۱۲)۔ چنانچہ صحیح مسلم کی روایت میں آپ ﷺکا قول منقول ہے :
’’لا تکتبوا عنی غیر القرآن ومن کتب عنی غیر القرآن فلیمحہ وحدثوا عنی ولا حرج‘‘۔ (۱۳)
’’مجھ سے قرآن کے علاوہ کچھ نہ لکھو ، جس نے مجھ سے قرآن کے علاوہ کچھ تحریر کیا ہے، وہ اسے مٹا دے ۔ البتہ میری باتیں میری طرف سے زبانی بیان کرو، اس میں کوئی حرج نہیں۔ ‘‘
مسلمانوں کے نزدیک بلا شیر ایک ایسا مستشرق ہے جس نے قرآنی نص کے حوالہ سے ایسے شبہات اور شکوک کو نئے سرے سے زندہ کیا جن میں قطعاً انصاف کی جھلک نظرنہیں آتی۔ جو شخص قرآنی مصدر کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ اس کو محمد نے کلیساؤں اور راہبوں سے اخذ کیا اور یہ کہ اس میں مذکور قصے کہانیاں دراصل جزیرہ عرب کے مشہور افسانے تھے، یہ اور اس کے علاوہ بہت کچھ بغیر دلیل وروایت بیان کرنے والے شخص کو انصاف پسندی اوراعتدال کا حامل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہماری رائے میں بلا شیر ایک متعصب مستشرق ہے ۔ وہ قرآنی فہم حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے ۔خود اس نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ایک غیر عربی، قرآن کو سمجھنے میں تردد کا شکار ہو جاتا ہے(۱۵)۔

گولڈزیہر (Gold Zhir)

گولڈ زیہر ایک یہودی مستشرق ہے جو حدیث پر اعتراضات کے حوالہ سے شہرت رکھتا ہے۔ اس کی پیدائش ۱۸۵۰ء اور وفات ۱۹۲۱ء میں ہوئی(۱۶)۔ اس نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ’’مذاہب التفیسر الاسلامی‘‘(۱۷)کے پہلے باب کے ابتدائیہ میں قراء اتِ قرآنیہ کے ضمن میں سبعۂ احرف کی روایات کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا(۱۸)۔اس کے اہم ترین اعتراضات تین ہیں:
۱۔  قرآنی متن دیگر تمام کتبِ سماویہ کے برعکس زیادہ اضطراب،تحریف اور عدمِ ثبات کا شکار ہوا۔ (۱۹)
۲۔ قراء ات کا اختلاف مصحف عثمانی کے رسم الخط کے نقطوں اور اعراب سے خالی ہونے کے سبب وجود میں آیا اور یہ تمام قراء ات انسانی اختراع ہیں۔ (۲۰)
۳۔ صحابہ کے مصاحف میں باہم کمی بیشی کا فرق موجود تھا، مثلاً حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓکے مصحف میں فاتحہ اور معوذتین نہ تھیں، جبکہ ابی بن کعبؓ کے مصحف میں سورۃ الخلع اور سورۃ الحفد کی اضافی سورتیں شامل تھیں۔ (۲۱)
گولڈزیہر کے خیال میں قرآن محمد ﷺکی دینی معلومات کا ملغوبہ ہے جس کا ماخذ دو عناصر تھے: ایک خارجی، اور دوسرا داخلی۔ اپنی کتاب ’’العقیدۃ والشریعۃ‘‘میں وہ رقم طراز ہے:
’’پیغمبر عربی ﷺکا پیغام ان منتخب معارف ومسائل کا ملغوبہ تھا جو آپ کو یہودی اور عیسائی حلقوں کے ساتھ گہرے تعلقات کے سبب حاصل ہوئے تھے۔ محمد ان نظریات سے بہت زیادہ متاثر ہوئے اورانہوں نے سوچا کہ ان کے ذریعے سے وطن کے فرزندوں کے دل میں سچا مذہبی جذبہ بیدار کیا جاسکتا ہے ،اور یہ تعلیمات جو آپ نے بیرونی عناصر سے حاصل کی تھیں ،آپ ﷺکے خیال میں رضائے الٰہی کے اصول میں زندگی کی کشتی کو ایک نیا رُخ دینے کے لیے نہایت ضروری تھی۔ ان افکار سے آپ اس قدر متاثر ہوئے کہ یہ افکار آپ کے دل کی گہرائیوں میں پیوست ہوگئے اور مضبوط بیرونی اثرات کے ذریعہ آپ نے ان نظریات کی کنہ اور حقیقت کا اس قدر ادراک کر لیا کہ یہی نظریات عقیدہ بن کر آپ کے دماغ میں جا گزیں ہو گئے اور انہی تعلیمات کو آپ وحیِ الٰہی سے تعبیر کرتے رہے‘‘۔(۲۲)
گولڈزیہر کے بقول دیگر کتبِ سماویہ کی بہ نسبت قرآنی متن میں زیادہ تحریفات واقع ہوئی ہیں اور وہ قرآن کو ان کتب کے مقابلہ میں زیادہ پُرنقص قرار دینے پر مُصر ہے۔ (۲۳) اس نے قراء ات کے وجود میں آنے کا سبب رسم الخط کے نقطوں اور حرکات سے خالی ہونے کو قرار دیا ہے اور اس کی پانچ سات مثالیں بھی ذکر کی ہیں، لیکن وہ ان بیسیوں مثالوں سے صرفِ نظر کرتا ہے جہاں رسم الخط کے محتمل الوجوہ ہونے کے باعث متن کو مختلف صورتوں میں پڑھے جانے کی گنجائش موجود تھیں، لیکن ان کو ایک ہی صورت میں پڑھا گیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قراء ات کا اختلاف اختراعی نہیں بلکہ نقل وروایت پر مبنی ہے۔ (۲۴) گولڈ زیہر نے موجودہ مصحفِ عثمانی کے ساتھ مصاحف صحابہ کے اختلافات کو کسی سند اور روایت کے بغیر ثابت تسلیم کر لیا ہے اور اس قدر بھی گوارانہیں کیا کہ مستند تاریخی روایات سے اس کا ثبوت فراہم کرے۔

گستاف لیبان (Gustave Lebon)

یہ ایک فرانسیسی مستشرق ہے جس نے گولڈ زیہر سے بھی پہلے ۱۸۸۴ء میں ایک کتاب ’’حضارۃ العرب‘‘ شائع کی(۲۵)۔ اس کتاب کے دوسرے باب کی دوسری فصل کو قرآنِ کریم کی تحقیق کے لیے مخصوص کیا گیا ہے ۔ اس فصل میں قرآن کی جمع وتدوین اور نظمِ قرآن کے متعلق خصوصیت سے تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ اس نے قرآن کو تورات اور انجیل کے قریب لانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور ساتھ ہی وہ قرآنی مضامین کا ہندوستان کی مذہبی کتب سے بھی موازنہ کرتا ہے۔ وہ قرآن کے متعلق مسلمانوں کے تصورات ونظریات کو غلط قرار دینے کے ضمن میں عیسائیوں اور یہودیوں کی مسامحت ،دنیا میں سرعت کے ساتھ پھیلنے والی قرآنی تعلیمات اور امتِ مسلمہ میں قرآن کے ذریعہ اتحاد جیسے حقائق کو بڑی تنگ نظری سے پیش کرتا ہے(۲۶)۔ 

منٹگمری واٹ (W. Montgomary Watt) 

متن قرآنی کو محمد ﷺکی اختراع قرار دینے والوں میں منٹگمری واٹ مستشرقین کے ہاں سب سے زیادہ متحرک دکھائی دیتا ہے۔ اس کے اعتراضات میں بھی دیگر مستشرقین کی طرح اسلام اور قرآن سے تعصب اور عناد کی بو موجود ہے۔ وہ افسانوی طرزِ استدلال کے ذریعے سے ایک مصنوعی ماحول تخلیق کرتا ہے اور اس نے نقلی دلائل وشواہد کے مقابلے میں ’’عقلی‘‘ امکانات سے استدلال کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ اس سلسلے میں وہ قرآن وسنت جیسے عظیم اور محکم مصادر کی تنقیص صرف امکانات کے ذریعے سے کرتا ہے ۔ مثلاً وہ وحی کا انکار کرتے ہوئے اس امکان کا اظہار کرتا ہے :
"What seems to man to come from outside himself, may actually come from his unconscious". (27)
’’شاید جو خیالات انسان کو خارج سے آتے دکھائی دیتے ہیں وہ درحقیقت اس کے اپنے ہی لا شعور کی پیداوار ہوتے ہیں‘‘۔
وہ اس امکان کا بھی اظہار کرتا ہے کہ ممکن ہے کہ محمد(ﷺ)پر برس ہا برس کے ماحولیاتی عوامل کے اثرات سے ان کے جذبات کی دنیا اس قدر منفعل ہو گئی ہو کہ وہی جذبات ابھر کر ’’وحی‘‘کی صورت میں ظاہر ہوگئے ہوں۔ (۲۸) 
مستشرقین کا مقصد چونکہ تشکیک پیداکرنا ہوتا ہے، اس لیے وہ ایسے شوشے چھوڑنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے جن کی کوئی علمی بنیاد نہیں ہوتی۔ مثلاً منٹگمری واٹ نے بیل(Bell)کے حوالہ سے لکھا ہے:
"From an early point in his Prophetic career, ..Muhammad thought of the separate revelations he was receiving as constituting a single Qur'an. After he had been a year or tow in Medina, however, he thought of them as constituting The Book which it was his task to produce."(29)
’’قرآن اور الکتاب دوعلیحدہ چیزیں ہیں ۔اپنے منصبِ نبوت کے ابتدائی ایام میں محمد (ﷺ)کا خیال یہ تھا کہ آپ پر جو وحی نازل ہو رحی ہے، اس کا مجموعہ ’قرآن‘ کی شکل میں ظاہر ہوگا، لیکن مدینہ میں ایک یا دو سال قیام کے بعد آپ کو ’الکتاب‘ مرتب کرنے کا خیال آیا جس کو اپنی امت کے سامنے پیش کرنا آپ کی ذمہ داری تھی‘‘۔
منٹگمری واٹ اور بیل (Bell)کے یہ تصورات محض قرآن کریم کو محرَّف قرار دینے کے بنیاد فراہم کرتے ہیں الکتاب اور قرآن کے اس فرق میں جو ضرب مخفی ہے اس کے مطابق قرآن کے بغیر کسی تحریف اور تبدیلی کے محفوظ رہنا مشکوک ہو جاتا ہے اور یہی مستشرقین کا مقصد اور منتہائے تحقیق ہے ۔
منٹگمری نے عبد اللہ بن مسعودؓ کے مصحف میں معوذتین نہ ہونے کے مسئلہ کو بہت اچھالا ہے ۔ اس کے نزدیک ابن مسعودؓان سورتوں کو قرآن کا جز نہیں مانتے تھے(۳۰)۔ اسی طرح خلافتِ صدیقی میں جمعِ قرآن کی روایات پر بھی منٹگمری نے متعدد اعتراضات کیے ہیں۔
منٹگمری کی کتب کے مآخذ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ موصوف نے اپنی تحقیقی نگارشات میں زیادہ تر ’اہرمینس‘،رچرڈبیل،بہل(Bull)،کائتانی ، گولڈزیہر، جیفری، کینس، نکلسن، نولڈکے اور ٹوری کے علاوہ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام سے استفادہ کیا ہے۔ اس کے مآخذ میں بخاری کا ذکر ضرور ملتا ہے، لیکن اس سے مدد فرانسیسی ترجمہ کے ذریعے سے لی گئی ہے۔ اسی طرح قرآنِ مجید کو رچرڈبیل کے ترجمہ سے سمجھا گیا ہے۔ (۳۱)

ڈی۔ایس۔ مارگولیتھ (D.S. Morgoliouth) 

ڈی ۔ایس مارگولیتھ ایک ایسا مستشرق ہے جو نصوصِ قرآنیہ اور ذخیرۂِ احادیث میں سے خصوصیت سے ان نصوص واحادیث کو اپنا مستدل بناتا ہے جن سے بظاہر قرآن مجید کی حفاظت میں تشکیک پیدا کرنے میں مدد لی جا سکتی ہے۔مثلاً وہ مسندِ احمد کی ایک روایت ذکر کرتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کچھ آیات گم ہو گئی تھیں(۳۲)۔
مسندِ احمد میں یہ روایت اس طرح مذکور ہے:
’’عن عائشۃ زوج النبی ﷺ قالت: لقد انزلت آیت الرجم ورضعات الکبیر عشراً فکانت فی ورقۃ تحت سریر فی بیتی فلما اشتکی رسول اﷲ ﷺ تشاغلنا بامرہ ودخلت دویبۃ لنا فاکلتہا‘‘
’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رجم کی آیت اور بالغ کے لیے دس رضعات (سے حرمت رضاعت ثابت ہونے) کی آیات نازل ہوئیں تھیں۔ یہ آیات میرے گھر میں چارپائی کے نیچے ایک کاغذ پر لکھی ہوئی پڑھی تھیں۔ جب آنحضرت ﷺکو (مرضِ وفات کی )تکلیف شروع ہوئی تو ہم آپ کی دیکھ بھال میں لگ گئے ۔ہمارا ایک پالتو جانور آیا اور اس نے اس کاغذکو کھالیا‘‘۔ 
اصل حقیقت یہ ہے کہ روایت میں جن آیات کا ذکر ہوا ہے، وہ منسوخ التلاوت ہوچکی تھیں۔ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان آیات کے منسوخ التلاوت ہونے کی قائل ہیں کیونکہ کاغذ پر لکھ کر یہ آیات رکھنا محض ایک یادگار کے طور پر تھا، ورنہ اگر یہ آیات جو حضرت عائشہؓ کو یاد تھیں، اگر ان کے نزدیک قرآن کریم کا جز ہوتیں تو وہ انھیں قرآن کریم کے نسخوں میں درج کروانے کی کوشش کرتیں، لیکن انہوں نے ساری عمر ایسی کوشش نہیں کی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ خود حضرت عائشہؓ کے نزدیک یہ آیات ایک علمی یادگار کی حیثیت رکھتی تھیں اور قرآن کریم کی دوسری آیات کی طرح ان کو مصحف میں درج کروانے کا کوئی اہتمام ان کے پیشِ نظر بھی نہیں تھا۔ اس سے قرآنِ کریم کی حفاظت پر کوئی حرف نہیں آتا (۳۴)۔ 
ڈی ۔ایس مارگولیتھ نے قرآن میں کمی بیشی اور نقائص ثابت کرنے کے لیے جو اعتراضات کیے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آنحضرتﷺایک مرتبہ کچھ آیات بھول گئے تھے۔ چونکہ قرآن لکھا نہیں ہوا تھا، اس لیے آیات کی تعداد میں کمی بیشی واقع ہونا ممکن تھا۔ ڈی ۔ایس مارگولیتھ نے امام بخاری کی جانب یہ منسوب کیا ہے کہ وہ قرآنی آیت الا المواد فی القربی (۳۵) کے بعد ’’الا ان تصلوا ما بینی و بینکم من القرابۃ‘‘ کو قر بھی آن کا جز مانتے تھے اور اس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ امام بخاری ایک ایسے جملے کو قرآن کریم کا جز مانتے ہیں جو اس وقت قرآن میں موجود نہیں ہے، حالانکہ ہر شخص صحیح بخاری اٹھا کر دیکھ سکتا ہے کہ امام بخاری نے باب کے عنوان میں یہی جملہ نقل کیا ہے جو قرآن کریم میں موجود ہے پھر اس کی تشریح میں حضرت ابن عباسؓ کی وہ روایت نقل کی ہے جس میں آیت ’’الا المودۃ فی القربیٰ‘‘ کی تفسیر پوچھی گئی جس کے جواب میں آپ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا کہ’’ان لا ان تصلوا ما بینی وبینکم من القرابۃ‘‘۔ خود جملے کی نوعیت سے صاف واضح ہے کہ یہ قرآنی آیت کی تفسیر وتشریح ہے اور اس کا یہی مطلب مسلم شارحین نے سمجھا ہے (۳۶) لیکن مارگولیتھ امام بخاری کی طرف اس قول کے آیتِ قرآنی ہونے کو منسوب کرنے پر مُصر ہے۔ (۳۸)

جان برٹن (John Burton) 

مشہورِ زمانہ مستشرق جان برٹن بھی نصِ قرآنی کو موضوعِ بحث بنانے والے مستشرقین میں قابلِ ذکر ہے ۔اس نے "The Collection of the Qur`an"کے نام سے کتاب لکھی جس میں قرآن کی جمع وتدوین اور علومِ قرآنیہ میں سے علم الناسخ والمنسوخ پربڑی تفصیلی بحث کی ہے ۔جان برٹن نے یہ کتا ب اپنے رفیق Dr. J. Wansbrough کے تعاون سے لکھی ہے (۳۹)۔
جمع وتدوین پر متفرق اعتراضات کے ضمن میں جان برٹن نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں قرآن مجید کے تحریری شکل میں موجود ہونے کا انکار کیا ہے اور اس ضمن میں لکھا ہے کہ :
"Its collection was not undertaken until sometimes after the death of the prophet".(40)
’’قرآن کی جمع وتدوین کا کام حضور ﷺکی وفات کے کچھ عرصہ بعد ہی شروع کیا گیا‘‘۔
اسی ذیل میں وہ چند روایات کا سہارا لیتے ہوئے یہ نظریہ ا ختیارکرتا ہے کہ قرآن کی اسی غیر تکمیلی حالت کی بنا پر اس کاتواتر بھی متاثرہوا ہے۔ (۴۱) چنانچہ حضرت زیدؓ سے مروی روایت میں اُن کے الفاظ ’’فقدت آیۃ‘‘( یعنی میں نے سورۂِ توبہ کی آخری آیت کو نہ پایا) کو بنیاد بنا کر جان برٹن نے قرآن کے نامکمل اور محرّ ف ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ 
حضرت زیدؓ کی روایت رقم کرنے کے بعد لکھتا ہے:
ُ"all these elements predispose one to an expectation that the edition prepared by Zaid might be incomplete"....."The Qur'an texts which come down to us from `Umar's day are unquestionably incomplete".(42)
’’یہ تمام شواہد اسی رجحان کو تقویت دیتے ہیں کہ زید کا تیارہ کردہ متن نامکمل تھا۔ قرآن کے وہ متن جو عمر کے دور سے ہم تک پہنچے ہیں، بلاشبہ نامکمل ہیں۔‘‘
جان برٹن اور دیگر مستشرقین کا یہ نظریہ حضرت زیدبن ثابتؓ کے قول کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔ قولِ زیدؓ کا مفہوم یہ ہے کہ میں نے یہ آیت لکھی ہوئی کسی کے پاس نہ پائی ۔ اس سے یہ ہر گز مراد نہیں کہ سورۂِ توبہ کی آیات ،حضرت ابو خزیمہؓ اور سورۂِ احزاب کی آیت حضرت خزیمہ بن ثابت انصاریؓ کے علاوہ دیگر صحابہؓ کو یاد بھی نہ تھیں۔
جان برٹن نے اپنی کتاب میں مصاحف کے متعلق اچھی خاصی تفاصیل ذکر کی ہیں۔ وہ اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ صحابہ کرام سے منسوب مصاحف ہوں یا بڑے شہروں میں پائے جانے والے دیگرقرآنی نسخے یا پھر انفرادی طورپر بعض حضرات سے منسوب مختلف قراء ات، سب کی سب بعد کے ماہرینِ لسانیات کی ایجاد ہیں۔ (۴۳)
واضح رہے کہ جان برٹن جن روایات کا سہار الے کر قرآن اور اس کی قراء ات کے بارے میں تمہیدات باندھ کر نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے نزدیک صرف وہی قراء ات وروایات اسلامی ورثہ میں قابلِ اعتماد ہیں جو اس کی مخصوص فکر سے ہم آہنگ ہیں۔ جو اس کے برعکس روایات ہیں، وہ ان کو خاطر میں نہیں لاتا۔ یہی مزاج ہمیں تقریباً تمام مستشرقین کے یہاں ملتا ہے جو حقیقی معنوں میں علم وتحقیق کے میدان میں ان کے جانبدارانہ رویہ کی عکاسی کرتا ہے۔

جارج سیل (George Sale)

جارج سیل ایک مشہور مستشرق ہے۔ اس نے قرآن کا انگریزی ترجمہ کیا ہے جو اہل مغرب کے لیے ایک علمی وثیقہ کا درجہ رکھتا ہے ۔اس نے قرآن کو حضور ﷺکی تصنیف ثابت کرنے کے لیے عہد نامہ قدیم کے موضوعات سے اس کے مستفاد ہونے کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس میں درج قصے کہانیاں بائبل کے برخلاف قرآن میں حقائق کی صورت میں بیان کی گئی ہیں۔ (۴۴) اس اعتراف کے باوجود کہ قرآن ہی بائبل کے مندرجات کی ایک شکل ہے، جارج سیل قرآن کو دیگر صحفِ سماویہ کے مقابلہ میں کمتر درجہ دیتا ہے ۔اس نے قرآن کے متعلق یہ نظریہ قائم کیا ہے:
"Muhammad was really the author and chief Contriver of the Koran beyond dispute".(45)
’’یقیناًمحمد ہی قرآن کے مصنف اور مخترع تھے اور یہ بات شک وشبہ سے بالا تر ہے‘‘۔
ڈاکٹر پریڈیاکس (Dr. Prideakux) نے قرآن کے مصادر ومآخذ کو متعین کرنے میں جو تفصیلات اور امکانات ذکر کیے ہیں، ان کا جائزہ لیتے ہوئے جارج سیل نے خود ہی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یہ تفصیلات اور بیانات قابلِ اعتماد نہیں ہیں، اس طرح محمد (ﷺ)کے قرآن کے مصادر ومراجع کو حتمی طور پر متعین نہیں کیا جاسکتا(۴۶)۔ براہِ راست قرآن کی حیثیت پر اعتراضات کے علاوہ جارج سیل نے اس کے متن خصوصاً قراء اتِ قرآنیہ اور مصاحف کے متعلق بھی مختلف نظریات اختیار کیے ہیں ۔ اس نے،بائبل کی طرح، مصاحفِ عثمانیہ اور قراء ات کوبھی قرآن کے مختلف نسخے Versions قرار دیا ہے۔ 

آرتھر جیفری (Arthur Jeoffery) 

آرتھر جیفری آسٹریلوی نژاد امریکی مستشرق ہے جس نے قرآن حکیم کے دیگر پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس کی مختلف قراء ات کو بھی موضوعِ بحث بنایا ہے۔ آرتھر جیفری کے تحقیقی کاموں میں نمایاں ترین کام’’ کتاب المصاحف‘‘کی تحقیق وتخریج اور اس سے ملحق "Materials of the History of The Text of The Qur`an"میں مصاحفِ صحابہ کو مصحفِ عثمانی کے بالمقابل متوازی قرآنی نسخے قرار دینے کی کوشش ہے۔ اس نے قرآن حکیم کی تدوین اور اس کی مختلف قراء ات کے مضامین پر مشتمل دومزید مسودات بعنوان مقدمتان فی علوم القرآن بھی مدون کیے(۴۸)۔
جیفری نے تقریباً چھ ہزار ایسے مقامات کی نشاندہی کی ہے جو کہ مصحفِ عثمانی سے مختلف ہیں۔ اس نے قراء ات کے یہ سارے اختلاف تفسیر،لغت،ادب اور قراء ات کی کتابوں میں سے جمع کیے ۔ اس کام کے لیے ابن ابی داؤد کی مذکورہ کتاب’’المصاحف‘ ‘اس کا بنیادی مآخذ رہی۔ (۴۹)
مصحفِ عثمانی کے مقابلے میں دیگر صحابہ اور تابعین کے مختلف قراء ات پر مبنی نسخوں اور روایتوں کوپیش کرتے ہوئے جیفری نے اس حقیقت کو یکسر نظر انداز کیا ہے کہ مصحفِ عثمانی سے اختلاف کرنے والے مصاحف جن صحابہ سے منسوب ہیں، وہ سب حضرت عثمانؓ کے تشکیل کردہ مصاحف کی تائید وتوثیق کرنے والے تھے اور بعض تو اس کمیٹی کے براہِ راست رکن تھے، مثلاً حضرت ابي بن کعبؓ جمعِ قرآنی میں شریک تھے اور حضرت علیؓ نے اس عظیم کام کی خوب تائید وتوصیف کی۔ (۵۰) 

حواشی

(۱)علی الصغیر،المستشرقون والدراسات القرآنیہ:ص۸۵
(۲)نفس المصدر:ص۸۸
(۳)زنجانی،تاریخ القرآن:ص۴۹تا۶۱
(۴)علی الصغیر،المستشرقون والدراسات القرآنیہ:ص۹۰
(۵)بروکلمان،تاریخ الادب العربی،۱؍۱۴۰
(۶) 
Noldeke, (Theoder), Geshichte des Qor`ans, p.1 to end, 
(۷)بلاشیر، القرآن نزولہ تدوینہ ترجمتہ وتاثیرہ، (تمہید المترجم ص۹و۱۰)، مترجم: رضا سعادۃ
(۸)نجیب العقیقی، المستشرقون ،۱؍۳۱۶تا۳۱۸
(۹) القرآن نزولہ تدوینہ ترجمتہ وتاثیرہ،۲؍۱۶۷تا۱۷۶
(۱۰)التہامی نقرہ، القرآن والمستشرقون،ص۳۱تا۴۰
(۱۱)مرجعِ سابق
(۱۲)مرجعِ سابق
(۱۳)مسلم بن حجاج القشیری،الجامع الصحیح، 
(۱۴)محمد الغزالی، دفاع عن العقیدۃ والشریعۃ ضد متاع المستشرقین، ص۱۳
(۱۵)علی الصغیر،المستشرقون والدراسات القرآنیہ:ص۹۱
(۱۶)زرکلی،خیر الدین ،الاعلام،۱؍۸۴
(۱۷)گولڈزیہر،مذاہب التفسیر الاسلامی
(۱۸)نفس المصدر:ص
(۱۹)نفس المصدر:ص۴
(۲۰)نفس المصدر:ص۸و۹
(۲۱)نفس المصدر:ص۱۶تا۲۱
(۲۲)گولڈزیہر،العقیدہ والشریعۃ فی الاسلام،ص۱۲
(۲۳) مذاہب التفسیر الاسلامی:ص۵۳
(۲۴)الشلبی،عبد الفتاح،رسم المصحف والاحتجاج بہ فی القراء ات،ص۳۵
(۲۵)یہ کتاب عادل زعیتر کی تعریب کے ساتھ مطبع عیسیٰ البابی الحلبی ،قاہرہ مصر سے 1884ء میں شائع ہوئی۔ 
(۲۶)علی الصغیر،المستشرقون والدراسات القرآنیہ:ص۸۶
(۲۷)
Watt Montgomery, Muhammad The Prophet and Statesman, p.17 
(۲۸)نفس المصدر:ص۱۳
(۲۹)
Watt Montgomery, Muhammad at Mecca, p.80 
(۳۰)
Watt Montgomery, Muhammad The Prophet and Statesman, p.41
(۳۱)’’محمد ایٹ مکہ پر ایک نظر‘‘،ترجمہ: سید صباح الدین عبدالرحمن ،بحوالہ معارف اعظم گڑھ،ص۲۰۸
(۳۲)تقی عثمانی ،علوم القرآن،انسائیکلو پیڈیا ریلیجن اینڈ ایتھکس،Vol. 10, p. 543
(۳۳)احمد بن حنبل،مسند احمد،حصہ زوائد،مسنداتِ عائشہ،۶؍۲۶۹
(۳۴)تقی عثمانی ،علوم القران،ص۲۲۰
(۳۵)الشوری:۲۳
(۳۶)تقی عثمانی ،علوم القرآن،انسائیکلو پیڈیا ریلیجن اینڈ ایتھکس،Vol. 10, p. 543
(۳۷)بخاری محمد بن اسماعیل،الجامع الصحیح، کتاب التفسیر،سورۂِ حم عسق،۲؍۷۱۳
(۳۸)تقی عثمانی ،علوم القران،ص۲۲۰
(۳۹)
John Burton, The Collection of the Qur`an, p.VII 
(۴۰)نفس المصدر:p.126 
(۴۱)نفس المصدر:p.127 
(۴۲)نفس المصدر:p.119 
(۴۳)نفس المصدر:
Wans Brough, Quranic Studies, Vol.31, p.44-46,  p.204
(۴۴)
George Sale, The Koran, p.49 
(۴۵)نفس المصدر:p.50 
(۴۶)مرجعِ سابق
(۴۷)
(۴۸)
M.A.Chaudhary, Orientalism on Variant Readings of the Qur`an: The Case of Arthur Jeffery, p.170
(۴۹)نفس المصدر:p.171 
(۵۰) ابن ابی داؤد،کتاب المصاحف،ص۱۲

فروعی مسائل میں سہولت و رخصت کا فقہی اصول

ادارہ

(۱)
(مولانا عبد الماجد دریابادیؒ کے نام مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ کے ایک خط سے اقتباس)
تدوین فقہ پر کام شروع کر دیا گیا تھا۔ ۱۰۰ صفحات سے زیادہ جامعہ عثمانیہ کے ریسرچ جرنل میں شائع بھی ہو چکا تھا۔ اگرچہ اس کی حیثیت بالکل مقدمہ کتاب کی تھی، تاہم لوگوں نے پسند کیا تھا۔ مولانا مودودی صاحب کے غیر مشہور ایک بڑ ے بھائی ابو الخیر مودودی صاحب سے شاید آپ واقف ہوں۔ انھوں نے اس مقدمہ کو چھاپنے کے لیے لاہور سے طلب کیا تھا۔ فقیر نے روانہ کر دیا، لیکن پھر کچھ پتہ نہ چلا کہ کتاب کیا ہوئی۔ آپ جانتے ہوں یا جان سکتے ہوں تو اپنے کچھ لاہوری یا پنجابی عقیدت مند سے دریافت تو کیجیے۔ یوں تو اس کتاب کے سلسلے میں خدا ہی جانتا ہے کن کن باتوں کے لکھنے کا ارادہ تھا، لیکن ہندی ’’مجددیت‘‘ کی تین خاص باتوں میں سے ارادہ تھا کہ اس خاص مسئلہ کے مالہ وماعلیہ پر اس کتاب میں بحث کی جائے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے الف ثانی کے مجدد ہند رحمۃ اللہ علیہ نے ارقام فرمایا ہے:
در دیار ہندوستان کہ ایں ابتلا بیش تر است، دریں مسئلہ کہ عموم بلویٰ دارد اولیٰ آنست کہ فتویٰ باسہل وایسر امور بدہند۔ اگر موافق مذہب خود نبود بقول ہر مجتہد کہ باشد۔ (مکتوب ۲۲)
’’اس خطہ ہندوستان میں جہاں ابتلا کی یہ صورت زیادہ پیش آئی ہے تو عموم بلویٰ (عام مصیبت) کی حیثیت اس مسئلہ نے اختیار کر لی ہے۔ یعنی بہتر اور زیادہ پسندیدہ بات ہے کہ فتویٰ اس پہلو کے مطابق دیا جائے جو آسان اور زیادہ سہل ہو، خواہ فتویٰ دینے والے مفتی کے مسلک کے مطابق یہ فتویٰ نہ ہو۔ کسی دوسرے مجتہد کے قول کے مطابق فتویٰ کا ہونا ایسی صورت میں کافی ہے۔‘‘
عام مولویوں کے لیے ظاہر ہے کہ فتوے میں اتنی مطلق العنانی ذرا مشکل ہی سے قابل برداشت خصوصاً اس زمانہ میں ہو سکتی تھی جس زمانے میں مجدد رحمۃ اللہ علیہ پیدا ہوئے تھے کہ ندوہ اس وقت تک ہندوستان میں قائم نہیں ہوا تھا، اس لیے بجائے فقہ یا آثار واخبار کے اس موقع پر حضرت مجدد نے قرآنی آیات ہی کو استدلال میں پیش کیا ہے۔ لکھا ہے کہ:
قال اللہ تعالیٰ یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر وقال تعالیٰ یرید اللہ ان یخفف عنکم وخلق الانسان ضعیفا۔
’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تمہارے ساتھ اللہ آسانی چاہتا ہے اور دشواری پیدا کرنا نہیں چاہتا۔ دوسری جگہ ہے کہ اللہ تمہارے بار کو ہلکا کرنا چاہتا ہے اور انسان تو کمزور ناتواں پیدا کیا گیا ہے۔‘‘
آگے ہند کے اسی مجدد نے لکھا ہے کہ:
بر خلق تنگ گرفتن ایشاں را رنجانیدن حرام است۔
’’عام مخلوق کو سختی کے ساتھ پکڑنا اور ان کو دلوں کو (اپنی تنگی گرفت سے) دُکھانا حرام ہے۔‘‘
یہ مکتوب گرامی اس قسم کے گراں مایہ تجدیدی زریں دانش آموزیوں سے معمور ہے۔ اس زمانہ میں ہم عام مولوی لوگ معیاری اسلام کو ہاتھ میں لے کر غریب مسلمانوں کی زندگی کا جو جائزہ لیتے رہتے ہیں اور آئے دن ان کے مومن قلوب کو دُکھاتے رہتے ہیں، دل چاہتا تھا کہ حضرت مجدد کے مشوروں کو اس سلسلہ میں ان کے آگے رکھتا۔ نیز معمولی عام کتابوں میں تلفیق کے نام سے مسلمانوں میں خوف ودہشت کی کیفیت پیدا کر دی گئی ہے، یعنی مجتہدین ائمہ ہدیٰ میں سے کسی ایک امام کے اجتہادی نتائج کے ساتھ ہم آہنگی کا فیصلہ تاریخ کے مختلف وجوہ واسباب کے تحت مختلف ممالک کے مسلمانوں کو کرنا پڑا تو سمجھایا جاتا ہے کہ آیندہ اپنے اپنے ما نے ہوئے امام کے خلاف عمل کی اجازت ان کی آیندہ نسلوں کو نہیں دی جائے گی۔ ایسے آدمی کو فعل مذموم اور ’’عمل تلفیق‘‘ کا مرتکب ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ واقع کے لحاظ سے مسئلہ کی صحیح صورت حال چونکہ یہ نہیں ہے، ارادہ تھا کہ کافی بسط وتفصیل کے ساتھ اس مسئلہ پر بحث کی جائے، مگر بحث کے میدان ہی سے جو نکال دیا گیا، وہ کیا کرے۔
(صدق جدید ،۲۲ جولائی ۱۹۵۶ء بحوالہ ماہنامہ بیداری حیدر آباد)
(۲)
حضرت ڈاکٹر مفتی مظہر بقا صاحب بھی اگست کی دوسری دہائی میں ہم سے رخصت ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مفتی مظہر بقا صاحب کیا تھے اور کن صلاحیتوں کے حامل تھے، جنھیں ان سے تعارف نہیں تھا، انھیں یہ بتانا مشکل ہے کہ وہ کن اوصاف کے حامل تھے۔ انھوں نے اپنے حالات زندگی پر مشتمل کتاب لکھی ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ موصوف جدید وقدیم علوم کی جامع شخصیت تھے۔ حضرت مولانا ڈاکٹر غلام مصطفی خان مدظلہ کے خلیفہ مجاز تھے۔ کراچی یونیورسٹی میں اسلامیات کے پروفیسر رہے۔اس کے بعد ان کا مکہ کی ام القریٰ یونیورسٹی میں تقرر ہوا۔ ۲۵ سال تک وہاں کام کرتے رہے۔ تقریباً پندرہ سولہ سال پہلے کراچی تشریف لائے اور تصنیف وتالیف کے ساتھ ساتھ سالکین راہ حق کی تعلیم وتربیت کا فریضہ بھی سرانجا م دیتے رہے۔ ......
مفتی صاحب کا بیشتر علمی کام فنی اور تحقیقی نوعیت کا ہے۔ ان کی پندرہ سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ موصوف کی شخصیت اور کام کے بہت سارے پہلو ایسے ہیں جن پر قلم اٹھانے کی ضرورت ہے لیکن یہاں اس کا موقع نہیں۔ ان کی شخصیت کے حوالے سے ہم یہاں جس چیز کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں، وہ فقہی مسائل میں ان کا طرز عمل ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں فقہی اختلافات کی وجہ سے مختلف گروہ باہم ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں اور ان کی توانائیاں ایک دوسرے کی تردید وتنقید میں صرف ہو رہی ہیں، اس لیے اس معاملے میں دار العلوم دیوبند کی فاضل اور مفتی کی حیثیت سے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کے ساتھ کام کرنے والی شخصیت کا موقف شاید ہمارے مذہبی حلقوں میں فقہی اختلافات کی شدت کو کم کرنے اور اس معاملے میں کسی حد تک ایک دوسرے سے رواداری پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائے۔ اس سلسلے میں مفتی صاحب نے اپنی کتاب ’’حیات بقا‘‘ میں ’فقہی مسائل میں میرا طرز عمل‘ کے عنوان سے گفتگو کی ہے۔ ہم ان کی کتاب کا یہ حصہ یہاں نقل کر رہے ہیں:
’’میں حنفی ہوں اور جب تک ہندو پاک میں رہا، صرف حنفی مذہب پر عمل کرتا رہا۔ سعودی عربیہ آنے کے بعد جب مکہ مکرمہ میں جو مختلف مکاتب فکر کا سنگم ہے، اقامت کی سعادت حاصل ہوئی تو حنفیت میں جو شدت تھی، اس میں رفتہ رفتہ کمی آنی شروع ہوئی اور دوسرے فقہی مذاہب کے ساتھ متعصبانہ طرز فکر تقریباً ختم ہو گیا اور اس کے نتیجے میں متعدد تبدیلیاں عمل میں آئیں۔
۱۔ رکوع میں جاتے اور اس سے اٹھتے وقت رفع یدین چونکہ صحیح اور قوی احادیث سے ثابت ہے، اس لیے کبھی کبھی رفع یدین بھی کر لیتا ہوں۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایک مرتبہ اپنی نجی مجلس میں حاضرین سے فرمایا تھا: کبھی کبھی رفع یدین بھی کر لیا کرو، کیونکہ اگر قیامت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرما لیا کہ تم تک میری یہ سنت بھی تو صحیح طریقہ پر پہنچی تھی، تم نے اس پر کیوں عمل نہ کیا تو کوئی جواب نہ بن پڑے گا۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اگر کوئی حدیث مجھ تک ضعیف طریقے سے بھی پہنچی تو میں نے کم از کم ایک بار ضرور اس پر عمل کیا۔
۲۔ قیام میں کبھی کبھی، شاذ ونادر سینے پر بھی ہاتھ باندھ لیتا ہوں۔ اگرچہ جہاں تک میرا علم ہے، اس سلسلے میں صحاح ستہ میں کوئی صحیح روایت موجود نہیں اور دوسری کتب حدیث میں اس سلسلے کی جو روایات ہیں، وہ کلام سے مبرا نہیں۔
۳۔ سفر میں صحیح احادیث سے جمع تقدیم بھی ثابت ہے اور جمع تاخیر بھی۔ دوسرے ائمہ کے برخلاف احناف اسے جمع حقیقی کے بجائے جمع صوری پر محمول کرتے ہیں۔ میں نے سفر میں بوقت ضرورت جمع تقدیم بھی کی ہے اور جمع تاخیر بھی، لیکن ایک مرتبہ خیال آیا کہ عصر کے وقت میں ظہر اور عصر کو اور عشا کے وقت میں مغرب اور عشا کو جمع کیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ حنفی مذہب کے مطابق ظہر اور مغرب کی نمازیں قضا ہوں گی، لیکن ہو سب کے نزدیک جائیں گی۔ اس کے برخلاف اگر ظہر کے وقت میں اس کے ساتھ عصر کو اور مغرب کے وقت میں اس کے ساتھ عشا کو جمع کیا جائے تو وقت نہ ہونے کی وجہ سے حنفیہ کے نزدیک عصر اور عشا کی نمازیں درست ہی نہ ہوں گی۔ چنانچہ اس کے بعد بوقت ضرورت صرف جمع تاخیر کرنے لگا۔
۴۔ طائف چونکہ میقات سے خارج ہے، اس لیے وہاں سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے احناف کے نزدیک میقات پر احرام باندھنا ضروری ہے۔ تفریح کی غرض سے بکثرت ہمارا طائف جانا ہوتا ہے۔ تقریباً دو سال تک تو میں واپسی پر عمرہ کا احرام باندھتا رہا، لیکن بعد میں حنفیت چھوڑ کر ائمہ ثلاثہ کے مسلک پر عمل کرنے لگا کہ جب تک خاص طور پر عمرہ یا حج کی نیت نہ ہو، میقات سے احرام باندھنا ضروری نہیں۔
۵۔ حج کے اعمال میں حاجیوں سے بکثرت غلطیاں صادر ہوتی ہیں۔ لوگ مجھ سے مسائل دریافت کرتے ہیں۔ میرا طریقہ یہ ہے کہ عمل سے پہلے اگر کسی نے مسئلہ دریافت کیا تو حنفی مذہب کے مطابق مسئلہ بتاتا ہوں اور اگر کسی نے عمل کے بعد دریافت کیا تو اگر وہ عمل کسی بھی امام کے نزدیک درست نہیں ہوا تو بھی حنفی مذہب کے مطابق بتا دیتا ہوں کہ اب تمھیں یہ کرنا چاہیے اور اگر ائمہ اربعہ میں سے کسی امام کے نزدیک وہ عمل درست ہو گیا ہے تو کہہ دیتا ہوں کہ جو ہو گیا، وہ ہو گیا، آئندہ ایسا نہ کرنا۔ ایسے موقع پر میرے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ طرز عمل رہتا ہے جو آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اختیار فرمایا تھا کہ صحابہ کی ہر غلطی پر آپ نے ’’افعل ولا حرج‘‘ ہی فرمایا تھا۔
ایک مسئلہ ایسا ہے کہ مشکل ہی سے کوئی سال ایسا گزرتا ہے جب وہ مسئلہ مجھ سے نہ پوچھا جاتا ہو۔ وہ یہ کہ طواف زیارت سے پہلے کسی عورت کو حیض آ جائے اور سیٹ بک ہو، اس حالت میں عورت طواف کر نہیں سکتی اور طواف کے بغیر چلی جائے تو زندگی بھر شوہر کے لیے حلال نہیں ہو سکتی تاآنکہ دوبارہ یہاں آئے اور طواف زیارت کرے اور تاخیر کا دم بھی دے۔ اپنی یا شوہر کی ملازمت وغیرہ کی مجبوری کی وجہ سے وہ رک نہیں سکتی اور اگر سیٹ منسوخ کرا کے رک بھی جائے تو حج کے ایام میں دوبارہ اپنی مرضی کی سیٹ ملنا آسان نہیں اور یہ بھی ہر ایک کے بس میں نہیں کہ دوبارہ آئے اور طواف زیارت کرے۔ دوسرے ائمہ کے یہاں اس مسئلہ میں زیادہ شدت ہے کہ ان کے نزدیک طہارت کے بغیر طواف کر لیا تو ہوگا ہی نہیں۔ حنفی مذہب میں کچھ نرمی ہے کہ ہو تو جائے گا لیکن بدنہ (گائے یا اونٹ) قربان کرنا واجب ہوگا، لیکن عورت سے یہ نہ کہا جائے کہ وہ اسی حالت میں طواف کر لے اور بدنہ کی قربانی دے دے، بلکہ اسے اس طرح مسئلہ بتایا جائے کہ اس کے لیے اس حالت میں مسجد میں داخل ہونا اور طواف کرنا حرام ہے، لیکن اگر اس نے کر لیا تو بدنہ واجب ہوگا۔ اب عورت کی اپنی مرضی ہے، چاہے تو وہ اس پر عمل کرے، چاہے تو نہ کرے۔ علامہ ابن تیمیہ نے اس پر مفصل گفتگو کے بعد فتویٰ دیا ہے کہ عورت اسی حالت میں طواف کر لے اور اس پر کوئی دم واجب نہیں۔ میں ایسے مواقع پر کہہ دیتا ہوں کہ حنفیہ کے نزدیک تو مسئلہ یہ ہے، لیکن علامہ ابن تیمیہ کا فتویٰ یہ ہے۔ پھر مجھے نہیں معلوم کہ کون کس پر عمل کرتا ہے۔
یہ میں لکھ چکا ہوں کہ میری حنفی عصبیت بڑی حد تک ختم ہو چکی ہے، لیکن عدم تقلید کی حدود میں کبھی داخل نہیں ہوا۔‘‘
(بشکریہ ماہنامہ بیداری، حیدر آباد)

مِتھ کی بحث پر ایک نظر

پروفیسر میاں انعام الرحمن

محترمہ شاہدہ قاضی ، جو جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغِ عامہ میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں ، ان کا روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والا ایک مضمون نہایت دلکش ترجمے کی صورت میں ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے مئی ۲۰۰۵ کے شمارے کی زینت بنا۔ یہ مضمون مجموعی طور پر بہت عمدہ اور مضبوط دلائل پر مشتمل تھا ۔ محترمہ کے پیش کردہ بعض تاریخی حقائق میں ’افسانوی رنگ‘ ڈھونڈنے کی ’جسارت‘ روزنامہ ’جسارت‘ کے کالم نگار جناب شاہ نواز فاروقی نے کی۔ ’الشریعہ‘ نے بحث کے مختلف، متنوع اور متضاد پہلوؤں کو سامنے لانے کی درخشندہ روایت برقرار رکھی اور ’جسارت‘ کی جسارت کو جولائی کے شمارے میں من وعن قارئینِ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ پھر ستمبر ۲۰۰۵ کے شمارے میں جناب یوسف خان جذاب کی وقیع اور دلکش تحریر شائع ہوئی، جس میں یوسف صاحب نے فاروقی صاحب کی جذباتیت کے خوب لتے لیے۔ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ طنز کی نشتریت کے باوجود، جذاب صاحب کا طرزِ استدلال خاصا متوازن تھا۔اکتوبر ۲۰۰۵ کے شمارے میں جناب ضیاء الدین لاہوری نے اپنے anti-Sir Syed fame کی لاج رکھی اور یوسف جذاب صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا ۔ مذکورہ چاروں افراد نے جس موضوع پر اظہارِ خیال کیا ہے، ہم اس کے باقی مندرجات میں الجھے بغیر بحث کے ایک نکتے یعنی متھ کی حقیقت پر مختصراًبات کریں گے۔ محترمہ شاہدہ قاضی کے نزدیک ’مِتھ‘ سے مراد ایسی غیر حقیقی اور لایعنی باتیں ہیں جو کسی معاشرے میں اساطیری روپ دھار لیتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ :
’’ نا معلوم زمانے سے انسان اپنی اساسات کی تلاش میں مصروف ہے ۔ وہ اس کوشش میں مصروف رہا ہے کہ قدیم زمانے کی داستانوں کی، جو ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ بن چکی ہیں، کوئی حقیقی اور قابلِ فہم بنیاد تلاش کر لے ‘‘۔
محترمہ شاہدہ قاضی سے اختلاف کرتے ہوئے فاروقی صاحب نے آنند کمار سوامی کی بیان کردہ مِتھ کی تعریف اپنائی ہے جس کی رو سے مِتھ خیالی پلاؤ، ماضی کا افسانہ یا انسانی تخیل کی پرواز نہیں، بلکہ مِتھ سے مراد ایک ایسی حقیقت ہے جس کی حقیقی معنویت گم ہو گئی ہو۔ اس کے جواب میں یوسف جذاب صاحب نے آکسفرڈ ڈکشنری سے مدد لیتے ہوئے محترمہ شاہدہ قاضی کی بیان کردہ تعریف کو درست قرار دیا ہے ۔وہ بہت اصرار سے کہتے ہیں کہ :
’’ یہ علم کی دنیا ہے جس میں جیت ہمیشہ استدلال کی ہوتی ہے ۔ قارئین خود سوچیں کہ ’ مِتھ ‘ جھوٹ کے معنی میں معروف ہے یا کسی ایسی حقیقت کے معنی میں جس کی معنویت پنہاں ہو چکی ہو ؟ ‘‘ 
ہم گزارش کریں گے کہ فاروقی صاحب کی مانند یوسف صاحب نے بھی بعض جذباتی باتیں کی ہیں ۔ وہ سر سید کی خدمات کا تجزیہ کرنے میں افراط و تفریط کا شکار ہوئے جس کے جواب میں محترم ضیاء ا لدین لاہوری کو بھی افراط و تفریط پر مبنی مضمون لکھنا پڑا۔ سچ تو یہ ہے کہ دونوں صاحبان ہمارے ہاں موجود دو انتہاپسند حلقوں کے نمائندہ محسوس ہوتے ہیں ۔ ایک کے نزدیک سر سید، مہدی زماں ہیں تو دوسرے کے نزدیک ان کا ایمان بھی مشکوک ہے ۔ ہماری تاریخ ایسے ہی انتہاپسندانہ رویوں سے بھری پڑی ہے جس میں کسی بھی چیز کو ہم اس کے صحیح مقام پر دیکھنے کے روادار نہیں۔ بہرحال یہ موضوع سرِ دست ہماری بحث سے خارج ہے۔ یوسف جذاب صاحب ’ مِتھ‘ کی ایک ایسی تعریف میں الجھ گئے جو ان کے نزدیک ’ معروف ‘ ہے، حالانکہ وہ اسی فقرے میں کہتے ہیں کہ یہ علم کی دنیا ہے جس میں جیت ہمیشہ استدلال کی ہوتی ہے ۔ یوں ایک ہی سانس میں جذاب صاحب نے دو متضاد باتیں کہی ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ علمی دنیا کے معروف اور معاشرتی معروف میں کافی فرق ہوتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ’مِتھ‘ کی عام فہم اور مقبولِ عام تعریف وہی ہے جو یوسف جذاب صاحب نے بیان کی ہے۔ چنانچہ آکسفرڈ ڈکشنری میں بھی واضح طور پرمِتھ کو جھوٹ کے معنی میں لیا گیا ہے ، اس لیے کہ لغات میں عام طور پر کسی لفظ کے اسی مفہوم کو لیا جاتا ہے جسے لوگوں کی اکثریت سندِ قبولیت بخشتی ہو۔ اس کے برعکس دانش ورانہ سطح پر بحث و مباحثہ جاری رہتا ہے اور قطعیت کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ یہ صرف آنند کمار سوامی ہی نہیں ہیں جو ’ معروف ‘ سے ہٹ کر مِتھ کی بے لغتی تعریف کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ’تفرد ‘ کے مرتکب ہوئے ہیں ، بلکہ ان سے پہلے اور بعد بھی کئی نامور مصنفین نے مِتھ کی نہایت مثبت تعریف کی ہے، بلکہ ہماری رائے میں تو اس کی کچھ نہ کچھ جھلک خود محترمہ شاہدہ قاضی کی تحریر میں بھی موجود ہے۔ فاروقی صاحب جذباتیت کی دھول میں اس جھلک کو نہیں دیکھ سکے۔ البتہ جذاب صاحب نے مِتھ کی مکمل بے لچک اور لغتی تعریف کی ہے۔ فاروقی صاحب کا طرزِ استدلال اگر یوسف جذاب جیسی بیان کردہ تعریف کی مخالفت میں ہوتا تو شاید کسی حد تک معقولیت کے دائرے میں شمار کیا جا سکتا ۔
مِتھ میں مثبت معنی تلاش کرنے کی کوشش فرانسس بیکن (۱۵۶۱۔۱۶۲۶) کے ہاں ملتی ہے ۔ اپنے مضمون سفنکس(The Sphinx) میں بیکن رقمطراز ہے کہ : 
’’ سفنکس ایک ایسا عفریت یا بلا تھی جس میں بہت سی شکلیں جمع ہو گئی تھیں۔ اس کی شکل اور آواز دوشیزاؤں جیسی تھی ، بازو پرندے کے اور پنجے سیمرغ جیسے تھے۔ وہ تھیبس کے قریب ایک پہاڑی کے پتلے سے ابھار پر رہتی تھی اور تمام راستوں پر نگاہ رکھتی تھی۔ وہ گھات لگاتی اور اچانک راہگیروں پر حملہ کرتی اور جب ان پر قابو پا لیتی تو ان سے پریشان کر دینے والی پہیلیاں بوجھنے کو کہتی ۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے یہ پہیلیاں فنونِ لطیفہ کی دیویوں (Muses) سے حاصل کی تھیں ۔ اگر اس کے چنگل میں پھنسا ہوا قیدی فوری طور پر درست جواب نہ دے پاتا اور الجھا ہوانظر آتا تو وہ نہایت بے رحمی سے اس کے پرخچے اڑا دیتی ۔ یہ سلسلہ ایک عرصے سے جاری تھا ۔ خاصی مدت گزر جانے کے بعد بھی اس آفت میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی تو اہلِ تھیبس نے اعلان کیا کہ جو شخص اس کی پہیلیاں بوجھ لے گا، اسے بادشاہ بنا دیا جائے گا ۔ چونکہ یہ بہت بڑا انعام تھا اس لیے ایڈی پس ، جو زیرک اوردانا تھا مگر لنگڑا کر چلتا تھا، سفنکس کی شرائط مان کر جان کی بازی لگانے کو تیار ہوگیا ۔ اس نے خود کو بڑے اعتماد اور خوش دلی کے ساتھ سفنکس کے سامنے پیش کیا۔ سفنکس نے اس سے پوچھا ، وہ کون سا جاندار ہے جو پیدائش کے وقت چوپایہ (Four Footed) ہوتا ہے ، پھر دو پایہ ہوتا ہے اس کے بعد سہ پایہ ہوتا ہے اور آخر میں ایک بار پھر چوپایہ ہو جاتا ہے ۔ ایڈی پس نے بغیر کسی تاخیر کے جواب دیا، وہ ( جاندار ) انسان ہے جو اپنی پیدائش کے بعد بچپن میں چاروں ہاتھ پاؤں سے گھسٹتا ہے اور بمشکل رینگنے کی کوشش کرتا ہے ۔ تھوڑی مدت میں دو پیروں پر سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے پھر بڑھاپے میں چھڑی تھامے ہوئے جھک کر چلتا ہے اور یوں لگتا ہے گویا وہ تین پیروں پر چل رہا ہے ۔ اپنی آخری عمر میں جب وہ بے حد بوڑھا ہو جاتا ہے ، ضعف و ناتوانی اس پر طاری ہو جاتی ہے اور قوت عطا کرنے والے سرچشمے سوکھ جاتے ہیں تو وہ پھر سے چوپایہ بننے کی ذلت میں گرفتار ہو جاتا ہے اور اپنے بستر سے اٹھنے کے قابل بھی نہیں رہتا ۔ یہ جواب بالکل صحیح تھا ۔ اس جواب کی وجہ سے اسے فتح حاصل ہوگئی ۔ اس نے سفنکس کو قتل کر دیا اور اس کی لاش گدھے پر لاد کر فاتحانہ انداز میں آگے بڑھا ۔ معاہدے کے مطابق اسے تھیبس کا بادشاہ بنا دیا گیا ‘‘ ۔
اب محترمہ شاہدہ قاضی کے ان الفاظ کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ ’’وہ (انسان ) اس کوشش میں بھی مصروف رہا ہے کہ قدیم زمانے کی داستانوں کی ، جو ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ بن چکی ہیں ، کوئی حقیقی اور قابلِ فہم بنیاد تلاش کر لے‘‘ بیکن کی درج ذیل تشریح پر غور کریں کہ اس نے سفنکس کے مذکورہ بالا قصے کو بلا کے معنی پہنا دیے ہیں اور اسے حقیقی نہ سہی ، کم از کم قابلِ فہم ضرور بنا دیا ہے ۔ ملاحظہ کیجئے:
’’یہ بہت شاندار حکایت ہے ۔حکمت والی بھی ہے ۔ ظاہر ہے یہ اس لیے ایجاد کی گئی کہ سائنس کا استعارہ بیان ہو سکے۔ اس کا اطلاق خاص طور پر عملی زندگی پر ہوتا ہے ۔ سائنس ، جاہلوں اور بے ہنروں کے لیے عجوبہ ہے ۔ اس کو بے وقوفی سے عفریت نہیں کہا جانا چاہیے ۔ شماریات میں اور دیگر مختلف شعبوں میں اسے بہت سے چہروں والا ظاہر کیا جاتا ہے کیونکہ استعاراتی طور پر اس کا تعلق بے شمار معاملات سے ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا چہرہ اور آواز عورت کی سی ہے ، خوبصورتی اور پیرایہ اظہار میں وہ نسائیت رکھتی ہے ۔ پرندے جیسے بازوؤں کا اضافہ اس لیے کیا گیا ہے کہ سائنس اور سائنس کی دریافتیں فوراً ہی پھیل جاتی ہیں ، گویا اڑ جاتی ہیں ۔ علم کی ترسیل اس طرح ہے جیسے ایک موم بتی سے دوسری موم بتی جلائی جاتی ہے اور فوراً ہی جل اٹھتی ہے ۔ تیز اور مڑے ہوئے پنجے جو اس کے ساتھ لگا دیے گئے ہیں ، بہت مرعو ب کرنے والے ہیں ۔ یہ اس لیے کہ سائنس کے کلیے اور استدلال دل میں اتر جانے والے ہیں اور ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں ۔ جب ایک بار وہ دل میں اتر جائیں تو پھر ان سے فرار یا مفر ممکن نہیں ہوتا ۔ یہ وہ نکتہ ہے جو مقدس فلسفی کے علم میں بھی خاص طور پر ہوتا ہے ۔ دانش مند کے الفاظ مہمیز کی مانند ہوتے ہیں یا پھر کیل کی طرح ، جو اندر دور تک کھبا ہوا ہوتا ہے ۔ پھر یہ بھی ہے کہ علم کے بارے میں یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کا مقام کسی اونچی پہاڑی پر ہی ہو گا ۔ وہ ( علم )اس بات کا حقدار ہے کہ اس کا احترام پر شکوہ اور جمالیاتی شے کے طور پر کیا جائے ، جو ایک باوقار بلند و بالا مقام سے جہالت پر حقارت کی نگاہ ڈالتا ہے ۔ اس کے چاروں طرف پھلنے پھولنے کی بہت گنجایش ہوتی ہے ، ویسے ہی جیسے پہاڑ کی چوٹیوں سے ہمیں نظر آتی ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ علم ، راستوں کی نگہبانی کرتا ہے کیونکہ سفر کے ہر موڑ پر یا انسانی زندگی کے مقدس سفر میں ایسے معاملات اور مواقع کثرت سے آتے ہیں جب اپنے ارد گرد کو دیکھنے اور اس پر غور کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ سفنکس ، انسانوں سے کئی نوعیت کے مشکل سوالات کرتی ہے ، یہ چیستان اس کو فنون کی دیویوں سے موصول ہوتے ہیں۔ یہ سوالات جب تک دیویوں کے پاس رہتے ہیں ، شاید ان میں کسی طرح کی سفاکی موجود نہیں ہوتی۔ جب تک اس کا مقصد محض اس قدر ہو کہ ان پر غور کرنا اور ان کو مطالعے میں لانا محض جاننے کی حد تک ہے تو نہ ہی فہم پر زور پڑتا ہے اور نہ ہی اسے سیدھا اور صاف کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ، یہی کافی ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں کچھ آوارہ خیالی کر لی جائے یا تھوڑی بہت تشریح ہو جائے۔ اس صورتِ حال میں نتائج حاصل ہونا ضروری نہیں ، البتہ انتخاب کرنے کے لیے مواد بہت ہوتا ہے جس سے خوشی اور انبساط حاصل کیا جا سکتا ہے ، لیکن یہ مواد دیوی سے سفنکس کے پاس آ جاتا ہے تو گویا فکر و عمل کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی فوری عملی انتخاب اور فیصلے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ یہ گویا تکلیف اور بے رحمی کا آغاز ہوتا ہے اور جب تک ان کا حل تلاش کر کے ان سے چھٹکارا نہ پا لیا جائے ، وہ عجیب طریقے سے ذہن کو پریشان رکھتے ہیں ۔ کبھی ایک طرف کھینچتے ہیں کبھی دوسری طرف، اور یوں انسان کے پرخچے اڑا دیتے ہیں ۔ پھر یہ بھی ہے کہ سفنکس کی پہیلیاں اپنے ساتھ دوہری معنویت رکھتی ہیں۔ پریشان خیالی اور دل آزاری اس صورت میں ہے جب آپ انھیں حل نہ کر سکیں، اور اگر آپ کامیاب ہو جائیں تو ایک بھری بھرائی سلطنت مل جاتی ہے جو پوری طرح حاوی ہوتی ہے ۔ ہر کاریگر اپنے کام کا بادشاہ ہے ۔ 
سفنکس کی پہیلیاں مجموعی طور پر دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک کا تعلق اشیا کی ماہیت کے ساتھ ہے اور دوسر ی کا رشتہ انسانی فطرت کے ساتھ ہے ۔ اس طرح ان پہیلیوں کو حل کرنے کی صورت میں دو طرح کی سلطنتیں انعام میں پیش کی جاتی ہیں ۔ ایک کا تعلق فطرت کے ساتھ ہے اور دوسری کا انسان کے ساتھ ۔ جب قدرتی اشیا پر قابو پا لیا جاتا ہے، جیسے اجسام ، ادویات ، میکانکی قوتیں اور اس قسم کی ان گنت چیزیں ، یہ قدرت فلسفے کا خاص اور حتمی مقصد ہے ۔ مگر وہ فلسفہ جس کا تعلق کلیسا کے مسلک سے ہے ، جو کچھ اسے حاصل ہوتا ہے وہ اس سے مطمئن ہو جاتا ہے اور اس بارے میں لمبی چوڑی باتیں شروع کر دیتا ہے ۔ اس عمل میں وہ یہ فراموش کر دیتا ہے کہ اسے حقائق اور اعمال کے بارے میں تحقیق بھی کرنی چاہیے۔ جو پہیلی ایڈی پس سے پوچھی گئی تھی ، جسے بوجھ کر وہ تھیبس کا بادشاہ بنا، اس کا تعلق انسانی فطرت سے ہے ۔ اگر کوئی شخص انسانی فطرت سے پوری آگاہی رکھتا ہو تو پھر وہ اپنی قسمت اپنی مرضی کے مطابق بنا سکتا ہے ۔ وہ گویا پیدایشی طور پر سلطنت کا حق دار ہے ، جیسا کہ رومنوں کے فنون کے متعلق کہا جاتا ہے :
کیا تم وہ فن ہو 
اے روم ، جو ایک نظام کے ذریعے قوم پر حکومت کرتا ہے 
اور جانتا ہے کہ کس کو چھوڑنا ہے اور کس کو گھیرنا ہے 
اور کس طرح دنیا کے اعمال کا فیصلہ کرنا ہے 
شاید اسی وجہ سے سیزر آگسٹس نے جان بوجھ کر یا اتفاق سے سفنکس کو اپنی مہر کے لیے چنا ۔ وہ یقینی طور پر سیاست کے فن کا بہت بڑا ماہر تھا ۔ اس جیسا شاید کوئی اور نہیں تھا اور اس نے اپنی زندگی میں انسانی فطرت کے بارے میں بہت سے معمے کا میابی سے حل کیے تھے ۔ اگر وہ چابک دستی سے فوراً انھیں حل نہ کر پاتا تو کئی بار ناگزیر خطروں میں گھِر کر تباہی سے ہم کنار ہو جاتا ۔ حکایت میں یہ بات بھی بہت خوبصورتی سے بیان کی گئی ہے کہ جب سفنکس کو مارگرایا گیا تو پھر اس کی لاش گدھے کی پیٹھ پر رکھی گئی۔ یہ بات اس کہانی کی سب سے دقیق اور نازک بات ہے ۔ اسے ایک بار سمجھ لیا جائے اور اسے زمانے میں پھیلا دیا جائے تو یہ بات ان کی سمجھ میں بھی آ جاتی ہے جو بہت کم عقل ہیں ۔ اس کے کچھ اور نکات بھی ہیں جن کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ سفنکس کو قابو کرنے والا لنگڑا تھا اور اس کا پاؤں پھرا ہوا (Club Foot ) تھا ۔ ہوتا یہ ہے کہ انسان عام طور پر بہت جلدی میں ہوتے ہیں۔ وہ اس قدر تیز رفتار ہوتے ہیں کہ ان کے پاس سفنکس کی پہیلی بوجھنے کا وقت ہی نہیں ہوتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سفنکس جیت جاتی ہے۔ کام اور اعمال سے حکمرانی حاصل کرنے کے بجائے انسان صرف اپنے ذہنوں کو پریشان کرتے ہیں اور مباحث میں الجھ جاتے ہیں ‘‘۔ 
بیکن کی اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ مِتھ غیر حقیقی ضرور ہو سکتی ہے لیکن یہ ہوتی مبنی بر حقیقت ہے اور اس کی وساطت سے کسی گم گشتہ حقیقت تک رسائی آسان ہو جاتی ہے ۔ 
موجودہ عہد کی معروف مصنفہ کیرن آرم سٹرانگ نے بھی اپنی تصنیف The Battle for God میں (جس کا اردو ترجمہ ’’ فی سبیل اللہ فساد ‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے) مِتھ کو مثبت معنی میں استعمال کیا ہے۔ اس کتاب کے ’ تعارف ‘ میں کیرن رقمطراز ہیں : 
’’ ہم سمجھتے ہیں کہ ماضی میں بھی لوگ کم و بیش ہم جیسے ہی ہوتے ہوں گے مگر دراصل ان کی روحانی زندگی ہم سے مختلف تھی۔ انہوں نے سوچنے ، بولنے اور علم حاصل کرنے کے دو طریقے وضع کیے تھے جنہیں سکالر مائتھوس اور لوگوس کہتے ہیں ۔ دونوں ہی انتہائی ضروری تھے کیونکہ خیال کیا جاتا تھا کہ سچ کی تلاش میں دونوں ایک دوسرے کے معاون ہیں مگر دونوں اپنی انفرادی حیثیت میں بھر پور تاثر کے مالک تھے ۔ مِتھ ابتدا تھی مگر اسے دائمی اور وقت کی قید سے آزاد سمجھا جاتا تھا ۔ مِتھ کا تعلق زندگی کے آغاز ، کلچر کی جڑوں اور انسانی ذہن کی گہرائیوں سے ہے ۔ عملی معاملات کے بجائے اس کی تمام تر توجہ زندگی کی معنویت اور گہرائی پر ہوتی ہے ۔ جب تک ہمیں اپنی زندگی میں کوئی معنی نہ ملیں، ہم فانی انسان بڑی آسانی سے دل برداشتہ ہو جاتے ہیں ۔ معاشرے کی مائتھوس لوگوں کو جینے کا شعور دیتی ہے ۔ ایسی آگاہی دیتی ہے جس سے انہیں اپنے ہونے میں ، اپنی روز مرہ زندگی میں معنی نظر آتے ہیں ۔ وہ ان کی توجہ زندگی کے دائمی اور کائناتی پہلوؤں کی طرف موڑ دیتی ہے جب کہ اس کی جڑیں جسے ہم لاشعور کہتے ہیں، اس میں بھی موجود ہوتی ہیں ۔کئی دیو مالائی کہانیاں اس لیے نہیں کہ انہیں لفظی معنوں میں لیا جائے ، نفسیات کی ایک قدیم شکل ہیں۔ جب لوگ عفریتوں کے ساتھ بہادروں کی لڑائیوں کے قصے سنایا کرتے تھے تو ایسا کرتے ہوئے در اصل وہ تحت الشعور کے وہ مخفی گوشے اور پہلو سامنے لاتے تھے جو ریشنلزم ( عقلیت ) کی پہنچ سے باہر ہیں ، مگر جو ہمارے تجربے اور زاویے پر بہت گہرا اثر کرتے ہیں ۔ اپنی ماڈرن سوسائٹی میں مِتھ کے قحط کی وجہ سے ہمیں نفسیاتی تجزیے کی بنیاد رکھنی پڑی تاکہ اپنی باطنی دنیا سے عہدہ برآ ہونے میں مدد مل سکے ۔ مِتھ کو ثابت کرنا ریشنلزم کے بس کی بات نہیں اور نہ اس کے ذریعے مِتھ کی توجیہ ہو سکتی ہے ۔ آرٹ ، موسیقی ، شاعری اور صنم تراشی کی طرح اس کی بصیرتیں وجدانی ہوتی ہیں ۔ مِتھ صرف اس وقت حقیقت بنتی ہے جب وہ مراسم ، مسلک اور تہواروں کا حصہ بن کر ان میں جلوہ گر ہو جو لوگوں پر جمالیاتی لحاظ سے اثر انداز ہوتے ہیں، انہیں ایک گہری معنویت کا شعور دیتے ہوئے اس قابل بناتے ہیں کہ زندگی کی گہرائیوں کا ادراک کر سکیں۔ ........کسی مسلک یا صوفیانہ ریاضت کے بغیر مذہبی مِتھ کے کوئی معنی نہیں ، ان کے بغیر وہ مجرد اور غیر معتبر ہوتی ہے ۔ .......لوگوس کی اہمیت کم نہیں ۔ لوگوس ہی وہ ریشنل اور سائنسی اندازِ فکر ہے جس نے مردوں اور عورتوں کو دنیا میں اچھی طرح رہنے کے قابل بنایا ہے ۔ آج مغرب میں ہمیں شاید مائتھوس کا شعور نہ رہا ہو مگر ہم لوگ لوگوس سے خوب واقف ہیں کہ وہی تو ہماری سوسائٹی کی خشتِ اول ہے ۔......لوگوس کی کچھ مجبوریاں اور اس کی اپنی حدیں ہیں۔ انسانی دکھ درد میں کمی کرنا اس کے بس کی بات نہیں ۔ عقلی دلائل سے ٹریجڈی میں معنی پیدا نہیں ہوتے ۔ لوگوس کے پاس انسانی زندگی کی قدرو قیمت کے متعلق کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ سائنسدان بڑی قابلیت کے ساتھ جسمانی کائنات کا مشاہدہ کر سکتا ہے ، اس کے بارے میں نئی حیرت انگیز باتوں کا انکشاف کر سکتا ہے ، مگر یہ نہیں بتا سکتا کہ زندگی کیا ہے اور زندگی کے معنی کیا ہیں ۔ زندگی کے معنی بتانا مسلک اور مِتھ کا اعزاز ہے ۔ ‘‘
ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا صوفیانہ ادب ، لوک داستانیں ، مولانا رومی اور شیخ سعدی کی حکایات وغیرہ ’مِتھ‘ کی اسی معنویت کی حامل ہیں جس کی نشاندہی مائتھوس کے بیان میں کیرن نے کی ہے۔
جیلانی کامران اپنے مضامین کے مجموعے ’’ ہمارا ادبی و فکری سفر ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : 
’’بیان کیا جاتا ہے کہ پرانے زمانے میں سیالکوٹ شہر میں ایک ہندو راجہ کی حکومت تھی جس کی بیٹی بے حد خوبصورت تھی۔ انہی دنوں شہر کے باہر ایک مسلمان فقیر کا گزر ہوا اور وہ شہر کے باہر عبادتِ الہٰی کے لیے رک گئے ۔ جوگی یاترا میں لوگ گروہ در گروہ انہیں دیکھنے گئے اور سارے شہر میں ان کا چرچا ہو گیا ۔ محبت کی کہانیوں کے مطابق راج کماری ، مسلمان فقیر پر فریفتہ ہو گئی ۔ اس نے مسلمان فقیر سے خفیہ ملاقات کا تہیہ کیا اور جب تک وہ ان سے مل نہ لیتی ، اسے چین نصیب نہ ہوتا ۔ 
جب یہ خبر راجہ تک پہنچی تو اس نے سب راستوں پر پہرہ بٹھا دیا ۔ ایک دن جب راج کماری تالاب میں نہا رہی تھی اور قریب سے مسلمان فقیر کا گزر ہوا تو پہرہ داروں نے فقیر کا سر قلم کر دیا ۔ لہو کی ایک بوند اڑ کر تا لاب کے پانی میں جا گری اور راج کماری امید سے ہو گئی۔ جب راجہ کو اس دوہرے سانحے کا پتہ چلا ، اس نے راج کماری کو محل سے نکال دیا اور وہ پریشان حال جنگل جنگل ہوتی ہوئی لاہور پہنچی ۔ 
یہاں لاہور میں مقررہ دنوں کے بعد اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام مراد ہے ۔ جب وہ لڑکا بڑا ہوا تو اس نے اپنے ننھیال کا پوچھا ۔ ماں نے اسے بہت کچھ کہا مگر وہ بضد رہا کہ وہ صرف ایک بار اپنے ننھیال ضرور جانا چاہتا ہے ۔ ناچار راج کماری اپنے بیٹے کو ہمراہ لے کر اپنے ماں باپ کے دیس روانہ ہوئی ۔ اس دوران میں سیالکوٹ پر مسلمانوں کے حملے شدت اختیار کر چکے تھے اور راجہ مسلمانوں کی متواتر یلغار سے بہت پریشان تھا ۔ قلعے کی دیوار ہر بار تعمیر ہوتی تھی مگر کسی نہ کسی نقص کی وجہ سے ہر بار گر جاتی تھی ۔ راجہ اپنے شہر کو غیر محفوظ پا کر بے حد ہراساں تھا ۔ جوتشیوں سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ قلعے کی بنیاد میں کسی مسلمان کو دفن کرنا ضروری ہے ، ورنہ دیوار گرتی رہے گی ۔ ان حالات میں جب راج کماری اور مراد راجہ کے دربار میں پہنچے تو راجہ نے مراد کو ہتھکڑی ڈلوا کر اس کا سر قلم کروا دیا اور اس کی لاش کو قلعے کی بنیاد میں چن کر دیوار کھڑی کر دی ۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد مسلمانوں کی یلغار ہوئی اور راجہ مقابلے کی تاب نہ لا کر رن میں مارا گیا اور قلعے کی دیوار مسلمانوں کی گولہ باری سے ٹوٹ پھوٹ گئی ۔ مگر دیوار کا وہ حصہ اسی طرح سلامت رہا جس کی بنیاد میں مراد کی لاش دفن تھی ۔‘‘ ( آمدِ اسلام کے ادبی کاشفے )
اب ملاحظہ کیجیے کہ فرانسس بیکن کی طرح جیلانی کامران مذکورہ مِتھ سے کیسی معنویت اخذ کرتے ہیں :
’’ اس مکاشفے میں آمدِ اسلام کا علامتی رنگ ان مخصوص اشاروں سے پیدا ہوتا ہے جن کا پہلے ( یعنی مضمون ، آمدِ اسلام کے ادبی مکاشفے میں ) ذکر کیا جا چکا ہے ۔ پانی ، مسلمان فقیر اور راج کماری ۔ مگر ان اجزا میں ایک گہرا رشتہ قائم کیا گیا ہے ۔ اس دفعہ راج کماری پانی میں ہے اور مسلمان فقیر پانی کے باہر ہے ۔ پانی کا وہی روایتی مفہوم ہے اور پانی میں نہانا بھی اسی مفہوم کی وضاحت کرتا ہے ۔ اگر ہم کہیں کہ پانی مسلمان فقیر کا دیا ہوا علمِ معرفت ہے ، تو راج کماری کا اس کے ساتھ تعلق واضح ہو جاتا ہے۔ مگر پچھلے مکاشفوں کے بر عکس ، مسلمان فقیر کے لہو کی بوند اڑ کر تالاب کے پانی میں گرتی ہے ۔ یہاں لہو کی بوند مرکزی صورت اختیار کر لیتی ہے اور اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ علمِ معرفت لہو کے بغیر پختہ نہیں ہوتا ۔ اس پختگی کو راج کماری کے حاملہ ہونے کی کیفیت میں بیان کیا گیا ہے ۔ مکاشفے کے پہلے حصے میں لہو کی بوند ایک اشارہ ہے جس کی گواہی مراد کی قربانی کی صورت میں ملتی ہے ۔ اس اعتبار سے مراد نو برس کا لڑکا ہی نہیں بلکہ ایک اعتقاد ہے جو لہو کی سرخی سے پختہ ہو کر اینٹ اور گچ کی دیواروں کو فولاد بنا دیتا ہے یہاں تک کہ ان دیواروں پر وزنی گولہ باری کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ ادبی مکاشفوں کی تاریخ میں مراد پیر ، لہو کی علامت استعمال کر کے اس سچائی کی تصدیق کرتا ہے کہ علم و عرفان کا اصل معیار شہادت ہے ۔‘‘ ( آمدِ اسلام کے ادبی مکاشفے ) 
اپنے اسی مضمون کی ابتدائی سطروں میں جیلانی کامران حقیقت اور افسانے کا تذکرہ کچھ یوں کرتے ہیں :
’’ زمانے نے جس تیزی کے ساتھ اپنا چہرہ بدلا ہے اور جس شدت سے حالات کا نیا ظہور ہوا ہے، ان کی موجودگی میں بہت سی باتیں نہ صرف عجیب و غریب دکھائی دے رہی ہیں بلکہ حقیقت اور افسانے کے درمیان کچھی ہوئی حد بندیاں فرضی محسوس ہونے لگی ہیں۔ حقیقت بڑی تیزی کے ساتھ ایک ایسے منظر میں گم ہو رہی ہے جسے کچھ برس پہلے افسانہ کہا جاتا تھا ۔ حقیقت باقی نہیں رہی ، افسانہ ظاہر ہوا ہے اور بدستور پھیلتا جا رہا ہے ۔ یہ ایک عجیب افسانہ ہے جس کا مرکزی کردار انسان ہے مگر اس انسان کی آغوش میں زندہ اور مردہ لوگ ظاہر اور غائب ہو تے دکھائی دیتے ہیں ۔ قوموں کے سیاسی آشوب ، انسانوں کی نسلی شکست و ریخت ، نئی قوموں کا جغرافیائی اور تاریخی ظہور ، اور زمین پر خوش نما عمارتوں کے نئے خدو خال ۔ اس بڑے طلسم کے ایک طرف زمین اور چاند کی کہانی ظاہر ہوئی ہے اور چاند تک انسان کا بڑھا ہوا ہاتھ بخوبی نظر آ رہا ہے ۔ انسان کی حاکمیت کا فسانہ سچائی بن کر نمودار ہوا ہے ۔ ......یہ افسانہ اور طلسم ہر زمانے میں ظاہر ہوا ، اور ہر زمانے کے لوگوں نے اس عجیب و غریب کیفیت کو دیکھا ، جس نوع کی عجیب و غریب کیفیت کو ہم آج دیکھ رہے ہیں ۔ افسانہ غیر فانی ہے ‘‘ ۔
کیرن آرم سٹرانگ ’’ فی سبیل اللہ فساد ‘‘ میں ہی متھ کو ان معانی میں استعمال کرتی ہیں : 
’’ مسلم لا پر عمل نے حضرت محمد ﷺ کی تاریخی شخصیت کو مِتھ میں بدل دیا ۔ انہیں اس وقت کی حدوں سے آزاد کر دیا جس میں وہ رہتے تھے ۔ وقت سے اوپر اٹھ کر وہ ہر سچے مسلمان کے دل میں زندہ ہیں ۔ اسی طرح اسوۂ رسول ﷺ پر بار بار عمل کرنے سے صحیح اسلامی معاشرہ وجود میں آیا ۔ اسوۂ رسول ﷺ کے ذریعے محمد ﷺ کی ذات سے قربت کے احساس نے انہیں سکھا دیا ہے کہ اچھا مسلمان بننا کیسے ممکن ہے ۔ تیرہویں صدی میں منگولوں کے حملوں تک یہ شرعی روحانیت تمام مسلم دنیا میں ( سنی ہو کہ شیعہ) جڑ پکڑ چکی تھی ۔ اس لیے نہیں کہ اسے خلفا اور علما نے لوگوں پر مسلط کیا بلکہ اس لیے کہ اس نے انھیں خدا کے ہونے کا احساس دیا تھا اور ان کی زندگیوں کو معنی دیے تھے ۔ ماضی سے ان کی وابستگی نے ان کے پاؤں میں زنجیریں نہیں ڈال دی تھیں کہ وہ آگے نہ بڑھتے ۔ ابتدائی سولہویں صدی میں عثمانی ریاست دنیا بھر میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ریاست تھی ۔ ‘‘ 
کیرن آرمسٹرانگ غالباً یہ کہنا چاہتی ہیں کہ تاریخی شخصیت ، محض تاریخ کا حصہ ہوتی ہے، زمانہ حال اور مستقبل سے اس کا کوئی بامعنی رشتہ قائم و دائم نہیں ہوتا ۔لیکن اگر تاریخی شخصیت، مِتھ میں بدل جائے تو اس شخصیت سے نسبت کے لحاظ سے ماضی ، حال اور مستقبل ، زمانی قیود سے ماورا ہوکر وحدت میں ڈھل جاتے ہیں ۔
مذکورہ بالا تمام اقتباسات سے مترشح ہوتا ہے کہ مِتھ معنوی اعتبار سے اضافیت کی حامل ہے ، اس کے معنی قطعیت کے ساتھ جھوٹ کے ہر گز نہیں ہیں ۔ مِتھ عام طور پر زندگی کی ان حقیقتوں کی طرف اشارہ کر رہی ہوتی ہے جو موجود یا ممکن ہونے کے باوجود انسانی زندگی کے عملی پہلو سے غائب ہوتی ہیں۔ مِتھ کے توسط سے ان مستور موجودات یا امکانات کی دریافت آسان ہو جاتی ہے ۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہم ( مسلمانوں ) نے بعض تاریخی واقعات کے گرد غیر حقیقی ہالہ بُن دیا ہے، اس سے بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اپنے زوال کے ایام میں قومیں اپنا مورال بلند رکھنے کے لیے ایسے ’’ ملی نغمے ‘‘ لا زماً الاپتی ہیں ۔ ملی نغمے خود غیر حقیقی ضرور ہو سکتے ہیں لیکن بہر حال یہ کسی حقیقت پر ہی مبنی ہوتے ہیں ۔ ایسے نغمے قوموں کو نفسیاتی اعتبار سے مضمحل نہیں ہونے دیتے اور درخشاں امکانی مستقبل کے خواب دیکھنے کے قابل بناتے ہیں۔ یوں سمجھیے یہ مائتھوس ہے ۔مائتھوس نے ہمیں نفسیاتی لحاظ سے ’’ بحال‘‘ کر دیا ہے۔اس بحالی کے بعد لوگوس کا در آنا نا گزیر ہو جاتا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم ذہن نے مائتھوس کے ہمراہ لوگوس کو بھی جگہ دینی شروع کر دی ہے ۔محترمہ شاہدہ قاضی اور یوسف جذاب صاحب کے مضامین اس حقیقت کے آئینہ دار ہیں۔ 

انسان کا حیاتیاتی ارتقا: نظریہ یا حقیقت؟

پروفیسر محمد عمران

سائنسی اصطلاح میں ارتقا ایک ایسا عمل ہے جس میں موجودہ دور کے پودے اور جانور ماضی کی اقسام سے، مختلف اور بتدریج تبدیلیوں کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں۔ ارتقا کے بارے میں مختلف لوگوں نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں، لیکن عام طور پر ڈارvن کے نظریہ ارتقا کو زیادہ پزیرائی ملی ہے۔ ارتقا کے تصور کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان نظریات پر بھی ایک نظر ڈالنی ہوگی۔ یونانی فلسفیوں میں سے جن لوگوں نے شروع میں ارتقا کے نظریات پیش کیے، ان میں انیکسی مینڈر، زینو فینز، ایمیڈوکلس اور ارسطو نمایاں ہیں۔ 
انیکسی مینڈر نے چھٹی صدی قبل مسیح میں یہ نظریہ پیش کیا کہ انسان ایک مچھلی کی شکل میں پیدا ہوا اور پھر اپنے چھلکوں کو اتار کر پانی سے خشکی پر نمودار ہوا۔
ایمپیڈوکلس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ پودے اور جانور زمین سے پیدا ہوئے۔ اس کے مطابق جانور مکمل طور پر وجود میں آنے کے بجائے الگ الگ حصوں کی صورت میں پیدا ہوئے۔ بعد میں یہ حصے ارتقا کے عمل کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک مکمل جسم کی صورت اختیار کر گئے۔
ارسطو (۳۶۴۔۳۲۲ قبل مسیح) نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ماضی میں رہنے والے جاندار اور مادہ نامکمل تھے۔ انھوں نے بتدریج پیچیدہ اور مکمل جانداروں کی صورت اختیار کی۔
لیمارک (۱۸۰۹) ایک فرانسیسی ماہر حیاتیات تھا۔ اس کے نظریے کے مطابق ماحول میں تبدیلیوں کی وجہ سے جسم کے مختلف حصوں کا استعمال کم یا زیادہ ہو جاتا ہے۔ جو حصے زیادہ استعمال ہوتے ہیں، وہ زیادہ کارآمد اور مضبوط ہو جاتے ہیں اور جو زیادہ استعمال نہیں ہوتے، آہستہ آہستہ کمزور اور غیر ضروری ہو جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ غائب بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کے مطابق نئی خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں اور نئی نسل میں منتقل ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور اس کی وجہ سے ارتقا کا عمل ہوتا ہے۔
ماہرین کی حالیہ تحقیق کے مطابق لیمارک کے اس نظریے کی تردید ہوتی ہے کہ ماحول کے تمام اکتسابی اثرات (خصوصیات) اولاد میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ جدید سائنس یہ ثابت کرتی ہے کہ وہی تبدیلیاں دوسری نسلوں کو منتقل ہوتی ہیں جو کروموسومز یا جینیاتی مادے میں مستحکم ہوتی ہیں۔
ڈارون (۱۸۵۹) کے نظریے کے اہم نکات یہ ہیں:
۱۔ تمام جاندار اپنی نسل کی افزایش کے لیے تعداد میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرتے ہیں۔
۲۔ بقا کی اس جدوجہد میں جو جاندار ماحول کے مطابق اپنے اندر خصوصیات پیدا کر لیتا ہے، وہ زندہ رہنے کے قابل ہوتا ہے اور اس کی نسل آگے بڑھتی ہے۔
۳۔ اگر یہ تبدیلیاں حالات اور موسم اور ماحول کے ناموافق ہوں تو وہ جاندار ناموزوں رہتا ہے اور نتیجے کے طور پر آہستہ آہستہ ناپید ہو جاتا ہے۔
۴۔ جانداروں میں ضروریات زندگی حاصل کرنے اور اپنی بقا کے لیے جدوجہد کے نتیجے میں جو تبدیلیاں رو نما ہوتی ہیں، وہ اگر ماحول اور حالات کے موافق ہوں تو جاندار زندہ رہتے ہیں، لیکن جن جانداروں میں یہ تبدیلیاں موافق نہ ہوں، وہ آہستہ آہستہ ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ عمل ’’قدرتی انتخاب‘‘ (natural selection) کہلاتا ہے۔
ڈارون اپنے نظریہ ارتقا یا قدرتی انتخاب میں وضاحت کرتا ہے کہ قدرت انواع کے ان خط وخال کو منتخب کر لیتی ہے جو اس کے ماحول سے مطابقت رکھتے ہوں اور ان خصوصیات کو خارج کر دیتی ہے جو ضروری نہیں ہوتے۔ اس کے لیے وہ اپنڈکس کی مثال دیتا ہے کہ شاید ہزاروں سال قبل یہ نظام انہضام میں مدد دیتی ہو، لیکن اب یہ آنتوں کا ایک زائد حصہ تصور کی جاتی ہے۔ ڈارون کے نزدیک انواع میں تبدیلی ہزاروں سال میں رونما ہوتی ہے۔
قدرتی انتخاب کے نظریے پر کئی اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ یہاں صرف اہم اعتراضات کا ذکر کریں گے:
۱۔ ڈارون کے بیان کے مطابق ایک نئی جنس (species) کے وجود میں آنے کی وجہ اس میں پیدا ہونے والی تبدیلیاں ہیں جو ماحول کے تحت پیدا ہوتی ہیں، لیکن اس بات کا کوئی یقینی ثبوت نہیں ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں مل کر بالآخر ایک نئی جنس کو وجود میں لانے کا سبب بنیں۔
۲۔ اس نظریے میں ارتقا کی بنیادی وجہ ماحول کے مطابق پیدا ہونے والی تبدیلیوں کو قرار دیا گیا ہے، لیکن یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ یہ تبدیلیاں کیسے وجود میں آتی ہیں۔
۳۔ اس نظریے کے مطابق پیدا ہونے والی تمام تبدیلیاں ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہیں، جبکہ جدید سائنسی تحقیقات کی رو سے صرف وہی تبدیلیاں اگلی نسلوں کو منتقل ہو سکتی ہیں جو وراثتی مادے (DNA)کے اندر ہوتی ہیں۔ 
۱۸۵۹ میں جب چارلس ڈارون نے اپنی کتاب ’’اصل انواع‘‘ (Origin of Species) شائع کی جس میں اس نے قدرتی انتخاب کے اصول کے تحت اپنے نظریہ ارتقا کی وضاحت کی تھی تو بحث وتمحیص کا میدان گرم ہو گیا۔ ڈارون نے اپنی اس کتاب میں انسان کو موضوع بحث نہیں بنایا تھا، تاہم یہ بات صاف ظاہر تھی کہ یہ انسان کے بارے میں ہی ہے۔ اس کا نظریہ بہت سی ایسی قدروں کی نفی کرتا تھا جو کہ انجیل میں انسان کی تخلیق سے متعلق بیان کی گئی ہیں۔ بارہ سال بعد ڈارون کی کتاب Descent of Man شائع ہوئی جس میں اس نے قدرتی انتخاب کا فلسفہ بشریات کے حوالے سے پیش کیا۔ بعد میں اس نے اپنی کتاب ’’انسانوں اور جانوروں میں جذبات کا اظہار‘‘ میں نفسیات کے حوالے سے نظریہ ارتقا یا قدرتی انتخاب کے تصور کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔
ڈارون کے نظریے کے مطابق تمام موجودہ انواع لاکھوں سال پرانے سادہ جانداروں میں بتدریج رونما ہونے والی حیاتیاتی تبدیلیوں کے ذریعے سے وجود میں آئی ہیں، حتیٰ کہ انسان کا وجود ان کی آخری کڑی ہے۔ ڈارون کو یقین تھا کہ اس سارے عمل کے دوران میں جو انواع وجود میں آئی تھیں اور پھر ختم ہو گئیں، ان کا فاسل ریکارڈ بھی مل جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اگر ماضی میں انواع کے اندر تبدیلیاں وجود میں آئی تھیں تو ان کے بارے میں بہت سا ایسا فاسل ریکارڈ ملنا چاہیے تھا جس کے ملنے کی خود ڈارون توقع کرتا تھا، لیکن ہمارے پاس کوئی ایسا ریکارڈ موجود نہیں جس کی بنیاد پر ہم کہہ سکیں کہ انھیں درمیانی کڑیوں سے انسان وجود میں آیا ہے۔
یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ ڈارون کی طرف یہ بات عام طور پر منسوب کی جاتی ہے کہ انسان بندر کے ارتقا سے وجود میں آیا، جو کہ بالکل غلط ہے۔ ڈارون کا نظریہ اصل میں یہ ہے کہ انسان انھی آباو اجداد سے وجود میں آیا ہے جن سے بندر اور دوسرے میملز وجود میں آئے ہیں۔ 
بعض سادہ لوح حضرات سائنسی نظریہ ارتقا کو قرآنی آیات سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ ایک غلط طریقہ ہے۔ سائنس ایک انسانی علم ہے اور اس میں کوئی بات کبھی حرف آخر نہیں ہو سکتی۔ سائنس میں نظریات پیش کیے جاتے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد ان کا بطلان ثابت ہو جاتا ہے۔ یہاں پیر محمد کرم شاہ صاحب کا ایک اقتباس برمحل ہوگا:
’’یہاں ایک خاص چیز کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ بعض لوگ کائنات کی تخلیق کی تفصیلات قرآن میں تلاش کرنا چاہتے ہیں اور اپنے زمانہ کے مفکرین وفلاسفہ کے نظریات جو مقبول عام ہوتے ہیں، ان کے رنگ میں قرآن کو بھی رنگنا چاہتے ہیں، لیکن ان کا یہ اسلوب فکر قرآن کے متعلق قطعاً دانش مندانہ نہیں، کیونکہ ہر زمانہ کے اہل فکر اپنی ذہنی کاوشوں سے اپنے نظریات واضح کرتے ہیں اور لوگ ان کے زور دار دلائل سے مرعوب ہو کر ان کو حق تسلیم کر لیتے ہیں اور اس باب میں ان کو حرف آخر قرار دیتے ہیں۔ لیکن کچھ عرصہ بعد انھیں مفکرین کے پیروکار اور شاگرد اپنے پیش رو اساتذہ کے نظریات کو غلط ثابت کر دیتے ہیں اورپہلے دلائل سے بھی زیادہ وزنی دلیلوں پر اپنے نئے نظریات کی پرشکوہ عمارت لا کھڑی کرتے ہیں اور ان نظریات کا حشر بھی دیر یا بزود یہی ہوا کرتا ہے۔ اس لیے آیات قرآنی کو کسی قدیم یا جدید نظریہ کا پابند کرنا قرآن کے مزاج کے خلاف ہے۔ کچھ وقت کے لیے کسی نظریہ سے ہم آہنگ کر کے لوگوں کو بتایا جا سکتا ہے کہ قرآن کے ارشادات بھی وہی ہیں جن کو فلاں فلاسفر یا سائنس دان نے پیش کیا ہے، لیکن آپ خود غور فرمائیے اگر کچھ عرصہ بعد ان نظریات کا بطلان ہو گیا تو اس کی زد آیات قرآنی پر نہیں پڑے گی؟ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ قرآن تخلیق کائنات کی تفصیل بیان کرنے والی کتاب نہیں بلکہ یہ رشد وہدایت کا صحیفہ ہے۔ اس میں جہاں کہیں انفسی اور آفاقی آیات کا ذکر کیا گیا ہے، اس کا مدعا فقط اللہ تعالیٰ کی عظمت وکبریائی اور علم وحکمت کو ظاہر کرنا ہے۔‘‘

مآخذ

۱۔ بیالوجی (۲۰۰۳) ڈاکٹر محمد فرید اختر، کفایت اکیڈمی کراچی؍لاہور صفحہ ۱۵۲ تا ۱۵۹
۲۔ دنیا کے عظیم سائنس دان ۔ رقیہ جعفری ، سرفراز احمد۔ اردو سائنس بورڈ ، صفحہ ۳۴۵
۳۔ Biology: Concepts and Connection، نیل کیمپبل، تیسرا ایڈیشن، ص ۲۶۳
۴۔ The Miracle of Creation of DNA، ہارون یحییٰ، گڈ ورڈ بکس، صفحہ ۷۲
۵۔ تفسیر ضیاء القرآن، پیر محمد کرم شاہ، جلد دوم۔ صفحہ ۹۴۹

مکاتیب

ادارہ

(۱)
مکرمی مدیر صاحب الشریعہ، 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ مزاج گرامی!
تازہ شمارہ (اکتوبر ۲۰۰۵ء) ایک روز کی تاخیر سے ملا۔ باقی دوستوں کے ہاں دیکھا تو گمان ہوا کہ اس بار ترسیل سے رہ گیا ہے مگر ایک روز بعد ملنے پر میرا گمان غلط ثابت ہوا ۔
شمارہ ملا تو میں بہت ہی مخدوش اور مخبوط صورت حال میں تھا۔ نوید انور نوید کی بے وقت موت، پھر مرحوم کے ساتھ رفاقت کے ماہ و سال اور اس دوران ان کے ساتھ ربط و تعلق کی اونچ نیچ ذہن پر چھا گئی۔ مصروفیات کے تمام بندھن ٹوٹ پھوٹ گئے۔ مرحوم کا طویل کیریر ذہن کی سکرین پر فلم کی طرح رواں ہو گیا۔ مسجد نور کی تحریک خاص طور پر مرحوم کی ایجی ٹیشنل صلاحیت کا ابتدائی شاہکار تھی۔ اس وجہ سے مسجد نور کے ارباب علم نے ان کو ہمیشہ یاد رکھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ مولانا سرفراز خان صفدر صاحب اپنے دروس کی ہر جلد مرحوم کو بطور خاص بھجواتے رہے۔ گوجرانوالہ کے اہل علم و دین کے اس اعتراف کے علاوہ شہر و سیاست دوراں میں مرحوم کو کہیں بھی نہ جگہ مل سکی اور نہ قرار ہی آیا۔ ان کی آخری پناہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن گوجرانوالہ تھی۔ یہ عجیب و غریب بات ہے کہ ہماری بار پر کچھ عرصہ سے عمومی سیاست سے دل شکستہ نوجوانوں کا قبضہ ہے۔ ان میں نوید صاحب سر فہرست تھے۔ انہوں نے ڈسٹرکٹ بار کا سترہ بار انتخاب لڑا۔ پانچ بار سیکرٹری، تین بار صدر اور دو بار پنجاب بار کونسل کے رکن ہوئے۔ باقی بار ’’ہار‘‘ کے ہار گلے میں ڈالے۔ جنوری ۲۰۰۵ء کے سالانہ انتخابات میں انہوں نے آخری بار قسمت آزمائی کی۔ ان کی وفات بڑی مختصر علالت کے بعد زید ہسپتال میں ہوئی۔ بیمار تو بہت عرصہ سے تھے مگر بیماری کو کبھی اپنے ذہن پر سوار نہیں ہونے دیا۔ بیماری نے شدت اختیار کر لی تو وزن کافی کم ہو چکا تھا۔ گوشت جسم سے اتر چکا تھا۔ وہ صحیح معنوں میں زندہ لاشہ کی صورت اختیار کر چکے تھے۔ آخری مرحلہ میں جب فاضل ہسپتال لائے گئے تو حالت یہ تھی کہ پیٹ سے خون کا بہاؤ بھی جاری تھا اور ساتھ ہی ڈرپ کے ذریعہ خون کی سپلائی کی رسم بھی ادا ہو رہی تھی، مگر خون جسم میں ٹھہرنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ چند گھنٹوں بعد لاہور ریفر کر دیا گیا جہاں جا کر رات بارہ بجے بے ہوش ہوئے۔ اس دم تک، بیماری کی اس حالت میں بھی ذہن پوری طرح توانا تھا اور وہ اپنی کچہری کی ذمہ داریوں سے با خبر رہنے کی کوشش میں رہے۔ پھر چند گھنٹے بعد سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔ شعبان کی آخری تاریخ تھی اور نماز جنازہ میں وکلا اور ججوں کی کثیر تعداد شریک تھی۔ وکلا ساتھیوں نے واقعتا ان کو پورے اعزاز کے ساتھ رخصت کیا۔ ہمارے ہاں بہت سینئر وکلا کے جنازے میں بھی اتنے وکلا کی شرکت بہت کم دیکھنے میں آئی ہے، جب کہ ان کا شمار بھی زیادہ سینئرز میں نہیں تھا۔ اس کی وجوہات بہت سی ہیں، مگر نمایاں ترین بات یہ ہے آٹھ سال ڈسٹرکٹ بار کے سیاہ و سفید کا مالک رہنے کے باوجود بار فنڈز میں خیانت اور خرد برد میں خود ملوث ہوئے اور نہ کسی کو ہی اس کا کوئی موقع دیا۔ امانت داری کی روایت ان کے بعد دم توڑ چکی ہے۔ جنازے میں شریک ان کے کٹڑ مخالف بھی ان کی اس خوبی کا بر ملا اظہار کرتے رہے۔ 
بات ہو رہی تھی تازہ شمارے کی۔ درمیان میں نوید صاحب کا ذکر اس لیے آ گیا کہ ارباب ’الشریعہ‘ کے ساتھ مرحوم کا ایک تعلق خاطر رہا ہے۔ بہر حال شمارہ ملا تو طبیعت پڑھنے اور کام سے بیزار تھی مگر ایک دن کے انتظار کے بعد ملنے کی وجہ سے شمارہ دیکھنے کی بے چینی تھی۔ سرسری طور پردیکھا تو اس کی شاندار ترتیب دیکھ کر طبیعت بحال ہو گئی۔ مدیر صاحب کی مہارتِ ترتیب نے حیران کر دیا۔ کہتے ہیں تضادِ بیان حسن بلاغت کی انتہا ہے۔ اجتماع ضدین، جمع بین المشرقین، جدید و قدیم کا امتزاج، پھر اس میں توازن و اعتدال کے ٹچ۔ ذرا دیکھیے تو سہی، بھارت میں فقہائے اسلام کے اجتماع میں ٹی وی اور انٹر نیٹ جیسے ذرائع کے جوازو عدم جواز کی بحث، جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب کا سید مناظر احسن گیلانی صاحب کی تمثیل اور مولانا روم کی حکایت کا حوالہ، مسئلہ فلسطین پر میاں انعام الرحمن صاحب کا فاضلانہ اور متوازن تجزیہ، پھر اس میں سے ایک دو جملوں کو سر ورق پر چسپاں کر کے تو آپ نے کمال کر دیا ہے بلکہ کمال ڈھا دیا ہے۔ اس پر مستزاد سرسید کے بارے میں بحث کا تسلسل ہے۔ ادارت کا یہ کمال ہی تو ہے کہ شمارہ پڑھنے کے بعد لکھنے پر بھی مائل ہونا پڑا۔ 
تو جناب عرض یہ ہے کہ آپ نے تو اپنی مشاقیت کی تسکین کر لی مگر پڑھنے والا اگر سوچ میں غرق ہو گیا تو اس پر کیا گزرے گی۔ شاید آپ بھی غرق ہی کرنا چاہتے ہیں۔ صورت حال کی تصویر کشی تو حسب حال ہے، مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ واضح سمت میں عملی سفر کے لیے رہنمائی کی جائے۔ اس بارے میں اشارے کنایے سے بات کچھ آگے جانی چاہیے۔ آپ تو نوجوان ہیں۔ مولانا زاہد الراشدی نو جوان نہ سہی مگر جوان تو ہیں، طویل کیریر میں سیار الارض بھی ہیں۔ پھر ان کو بڑے بڑے اہل علم کی رفاقت بھی میسر رہی ہے، لہٰذا ان کو یہ منصب حاصل ہو گیا ہے کہ وہ بھر پور راہنمائی مہیا فرمائیں۔ 
فقہی مباحث اور فتاویٰ اپنا مقام رکھتے ہیں مگر عملی طور پر یہ بھی سوچنا ضروری ہے کہ انگریز کے دور سے چلے آنے والے تعلیمی اداروں سے نکلنے والوں میں ایسے لوگ بھی تو سامنے آئے ہیں جنہوں نے دنیا کے ہر فورم پر، جدید اسلوب اور زبان میں بات کرتے ہوئے دین کا موثر دفاع کیا ہے۔ در اصل علم، تعلیم اور ذرائع برے ہیں نہ اچھے، ان کا استعمال اچھا یا برا ہے۔ یہ فرد کے اختیار کی بات ہے۔ اس میں بھی اصل چیز یہ ہے کہ ذرائع کی فنی گہرائیوں سے واقفیت ہی نہیں بلکہ مہارت حاصل کر لی جائے تو اس کے منفی اور مثبت استعمال پر یکساں قدرت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس مہارت کو چابک دستی سے کام لے کر اگر مثبت طور پر کام کیا جائے تو مقاصد کی سمت سفر میں پیش رفت کافی تیز ہو سکتی ہے۔ 
اس سلسلہ میں ایک حالیہ مثال بہت سبق آموز ہے۔ افغانستان کی جنگ میں تو گیارہ ستمبر کے ایک خود ساختہ و پرداختہ حادثے کی آڑ میں میڈیا کے زور پر پوری دنیا کے ذہنوں کو مفتوح کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس موقع پر طالبان کی حکومت اپنی پوزیشن کا دفاع نہیں کر سکی، حالانکہ طالبان کی حکومت میں امن و سلامتی کی کیفیت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے پر کہیں زیادہ اچھی تھی۔ یہی افغانستان جہاں آج بھی امن و سلامتی ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں، وہاں کیفیت یہ تھی کہ طالبان کی قید میں آنے والی خاتون صحافی ان کے حسن سلوک سے متاثر ہوئی۔ اس نے اس حسن سلوک کا پوری دنیا میں چرچا کیا۔ دین اسلام کا مطالعہ کیا اور اس کی حقانیت پر ایمان لے آئی۔ آج وہ اسلام کی مبلغہ بنی ہوئی ہے۔ طالبان کے پختہ حسن عمل نے اس کی ذہن کی کایا پلٹ دی اور اس نے میسر جدید ترین ذرائع سے اسلام کے پیغام کو پھیلانا شروع کر دیا۔ آزادی کے ٹھیکے دار اہل مغرب نے اس کی کتابوں کی اشاعت کو ممنوع قرار دے دیا۔ 
یہاں ایک پہلو قابل غور ہے۔ یورپ کا معاشرہ انفرادیت پسند ہے۔ وہاں چھوٹے سے چھوٹابچہ بھی جس بات کو درست سمجھ لے، اس کے اعلان میں ایک لمحے کے لیے بھی توقف نہیں کرتا۔ پھر اسے اپنے حالات میں اس کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دینے سے روکا نہیں جا سکتا، جیسے اوپر ذکر کردہ خاتون صحافی کی مثال ہے۔ لیکن ہمارے ہاں کیفیت بالکل مختلف ہے۔ اہل علم کی مجالس میں مسائل کی ترجیحات کا افادی پہلوؤں سے کوئی تعین نہیں۔پھر ان پر غور کے لیے کھلے دل سے کام نہیں لیا جاتا۔ ہم اختلاف کی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ بحث ہو بھی تو دلیل سے بات کرتے ہیں اور نہ دلیل سے دوسرے کی بات سنتے ہیں۔ پھر دلیل کتنی ہی سادہ اور قوی ہو، اسے تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اپنے تعصبات کے اسیر ہیں۔ ایسے میں فکر و ندرت کہاں سے راہ پائے۔ بہر حال اس بارے میں مزید کچھ عرض کرنے سے پہلے سات جولائی ۲۰۰۵ء کو لندن کے زیرِ زمین ریلوے میں دھماکوں کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ دھماکوں کے بارے میں جو سٹوری برطانیہ نے وضع کرکے پوری دنیا میں پھیلا دی تھی، اس کے مطابق دھماکوں کا تمام تر ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ ایک شخص کی لاش کو لے کر اس کی سفری دستاویزات اکٹھی کی گئیں۔ پھر ان کی بنیاد پر پوری ایک داستان ترتیب دی گئی، حالانکہ وہ شخص زندہ تھا۔ اس نے یہ صورت حال دیکھی تو وہ اے آر وائی کے ٹی وی چینل کے ذریعہ منظر عام پر آ گیا۔ ہفتے دو سے پھیلائی ہوئی داستان پوری دنیا کے اعصاب پر سوار تھی مگر اے آر وائی نے نصف گھنٹے کے اندر اندر پوری دنیا کی فضا کو صاف و شفاف کر دیا۔ اس شرمناک شکست پر برطانوی وزیر اعظم بلیئر صاحب ہاتھ ملتے رہ گئے، جبکہ ہمارے اپنے مبصرین برطانوی تفتیشی ایجنسیوں کی صلاحیتوں کی تعریف کے پل باندھنے میں مصروف تھے۔
اس کارنامے پر اے آر وائی کو خراج تحسین پیش کیا جانا ان کا حق ہے مگر ہمارے ہاں کے ’’دانشوروں ‘‘ کو اس کی عملی افادیت کو بلا تاخیر قلب و ذہن کی گہرائیوں سے تسلیم کرنا چاہیے۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ذرائع اچھے ہیں نہ برے۔ ان کی فنی باریکیوں پر کمانڈ حاصل کر لی جائے تو ان کے اچھے یا برے استعمال پر قدرت حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ قدرت اگر بر وقت حاصل کر کے اس کا بر موقع استعمال کیا جائے تو کامیابی آپ کے قدم، بڑھ کر چومے گی۔
حالیہ زلزلہ کے بعد میڈیا کے مثبت کردار کا انکار ایسے ہی ہے جیسے روز روشن کا انکار کیا جائے۔ حالات کے تناظر میں میڈیا نے لمحات میں پوری قوم میں روح و ایمان کی توانا لہر دوڑا دی ہے۔ کمپیئرنگ کرنے والے کوئی مسند ارشاد سے نہیں آئے۔ ان کےِ ’’کردار ‘‘ پر بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی بات دل سے نکلتی ہے اور گہرا اثر پیدا کر رہی ہے۔ زلزلہ کوئی خوشی کی بات نہیں، یقینابڑا اور سخت امتحان ہے۔ ہم کسی طرح امتحان و آزمایش کے لائق نہیں۔ آزمایش کا کوئی طالب نہیں ہو سکتا۔ ہزاروں میتیں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔ پچاس ہزار سے زائد خدا کے حضور پہنچ چکے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد معصوم بچوں کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اللہ تعالی کی طرف سے آزمایش اور امتحان کا بھی کوئی قانون ہے یا نہیں۔ ان معصوموں کو کس بات کی سزا ملی ہے؟ میں سوچتا ہوں تو دل میں یہ خیال اٹھتا ہے کہ سالہا سال سے مقبوضہ کشمیر میں لوگ ظلم کا شکار ہو رہے ہیں، قبائلی علاقوں میں ہماری فوج ان مجاہدین کے خلاف نبرد آزما ہے جن کو پوری دنیا نے روسی جارحیت کے خلاف مجاہد تسلیم کیا۔ ان میں ایسے بھی تھے جو اپنی دولت و راحت کو چھوڑ کر افغانستان کی سنگلاخ وادیوں میں سرخ جارحیت کے خلاف ایک عشرہ تک بر سر جہاد رہے۔ ہماری مسلح افواج اور حکومت نے اس جہاد میں پورا حصہ لیا۔ مرحوم جنرل محمد ضیا ء الحق کو روس کا wrecker in cheif کا لقب عطا فرمایا گیا۔ (ہنری کسنجر) لیکن دنیا کے ضمیر نے یو ٹرن لیا۔ یہ مجاہد دہشت گرد قرار پا گئے۔ سر حد کے موجود حکمرانوں کو اس صورت حال کے خلاف ایک واضح مینڈیٹ ملا، مگر انہوں نے اس سے انحراف کیا اور بے حسی اختیار کر لی۔ ادھر آزاد کشمیر کی ریاست کے قیام کا تصور، آزادی کی جنگ کے بیس کیمپ کا ہے مگر سب کچھ پلٹ گیا۔ آخر قدرت کو کسی نہ کسی صورت میں اپنی تعزیریں نافذ کرنا ہوتی ہیں۔ ایک ہفتہ ہو گیا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑی دہشت گرد مملکت اور اس کے دہشت گرد صدر بش کی قیادت میں جو کچھ ہوتا رہا، اس کی تائیدی گردان اب ہمیں بھول گئی ہے۔ 
فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے
لیکن کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
ہمیں اس مرحلے پر مجموعی طور پر اپنی کوتاہی اور غفلت کا اعتراف کرنا چاہیے۔ یہ ایسا مرحلہ ہے کہ ہم تعمیر نو پر تیار ہیں۔ پوری قوم میں زندگی کی روح بیدار ہو چکی ہے۔ رہنماؤں کو بھی کچھ خیال ہونا چاہیے۔ اس مرحلہ پر نیشنل سکیورٹی کونسل میں وزیر اعلیٰ سرحد کی شرکت پر تحفظات کا اظہار موقع کی مناسبت سے عاری ہے۔ 
افسوس یہ ہے کہ آج تک ہمیں بلندی کردار کا صحیح تصور تک نہیں دیا گیا۔ منبر و محراب سے اعلیٰ کردار کا جو تصور دیا گیا، وہ بہت ناقص ہے۔ میں یہاں ایک مثال دینا چاہتا ہوں۔ ہمارے شہر گوجرانوالہ کے ایک نامور کمپیئر دلدار پرویز بھٹی تھے۔ وہ میرے ہم جماعت تھے۔ ایف سی کالج کے پروفیسر تھے۔ ان کا عمر بھر کا عمل یہ رہا کہ اپنا گزارا تنخواہ میں کیا۔ تنخواہ کے علاوہ جو کچھ بھی کمایا، وہ تنخواہ سے کہیں زیادہ رہا مگر وہ اسے ہمیشہ ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے۔ کیا یہ ایسا کردار نہیں کہ جس پر فلمیں بنیں، ناول لکھے جائیں اور ڈرامے دکھائے جائیں؟ 
اسی طرح ہمارے ملک کے ایک چیف جسٹس اے آر کارنیلیس تھے۔ ریٹائر ہونے کے بعد لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں مقیم رہے۔ ان کا اپنا کوئی مکان نہیں تھا۔ اس وجہ سے پنشن میں ہوٹل کے ایک آدھ کمرے میں رہتے تھے۔ عمر کے آخری مرحلے میں بیماری شدت اختیار کر گئی تو بار کے حلقوں نے شور مچایا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ اتنے عظیم شخص کا علاج حکومت کو کرانا چاہیے۔ حکومت کی جانب سے اس کے لیے پیش کش ہوئی تو جناب کارنیلیس نے حکومتی پیشکش یہ کہہ کر مسترد کردی کہ وہ پنشن کے اندر رہ کر جتنا علاج کرا سکتے ہیں، کرا رہے ہیں۔ اس سے زیادہ کے وہ مکلف ہیں اور نہ ضرورت مند۔ صحت اور زندگی اور موت آخر کار آنی ہے۔ مملکت کے وسائل اپنی صحت یابی پر خرچ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
کردار کے اونچے مینار ہمارے معاشرے میں رہے ہیں اور اب بھی موجود ہیں۔ میں کہوں گا کہ کردار کی عظمت کے حقیقی تصور اور اس کی روشن مثالوں کو جو سوسائٹی میں پے درپے موجود ہیں، ان کو میڈیا کے ہر ذریعے، (ریڈیو، فلم، ناول، ڈرامہ، ٹی وی ، انٹر نیٹ) سے پھیلایا جائے۔ ذرائع کے مثبت استعمال کے بارے میں کوئی دوسری رائے ہو ہی نہیں سکتی ۔ہم ان کی جانب رخ کرنے کے بجائے دولت کی دوڑ میں شریک ہو گئے ہیں۔ یہ حدیث تو ٹی وی سکرین پر ہر دوسرے چوتھے دیکھتا ہوں: ’’مال و دولت اور جائیدادیں مت بناؤ، کہ تم دنیا کے ہو کر رہ جاؤ گے‘‘۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پوری عمر اقدس میں کبھی صاحب نصاب نہیں ہوئے، کبھی کل کے لیے بچا رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ حضور پاک کا یہ عمر بھر کا اسوہ ہے۔ منبر و محراب سے نصاب زکوٰۃ، نصاب عمرہ اور نصاب حج جمع کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے، پھر تعمیر مسجد کی ترغیب دی جاتی ہے۔ غربا کے محلوں میں محل نما مساجد غربت، بیماری اور جہالت کا منہ چڑانے کے لیے کافی ہیں۔ مسجد نبوی حضور اکرم کے آخر دور تک بھی کس تعمیری معیار پر رہی، کوئی نہیں بتاتا۔ منبر و محراب سے جو شریعت بیان کی جاتی ہے، اس میں بنیادی نکتہ یہ ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کی رونق اور جبہ و دستار کی چمک دمک قائم رہے ، مگر حلال ذرائع سے کمانے کے بارے میں کبھی زور نہیں دیا جاتا۔ ہمیں کوئی نہیں بتاتا کہ معاشرے میں رشوت اور بد دیانتی کا چلن عام ہو گیا ہے، اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ لوگوں کی دوڑ بیرون ملک کے لیے تیز سے تیز ہو رہی ہے۔ انہیں کوئی نہیں بتاتا کہ یہاں اگر اتنی محنت اور کفایت اختیار کی جائے جتنی ہمارے یہ دوست باہر جا کر کرتے ہیں تو ہمارے ہاں بھی کوئی کمی نہیں۔ حلال کما کر ضروریات پورا کر لینا بھی مشکل ہے۔ ان حالات میں ہر گلی اور نکر پر ضرورت سے زائد اور حجم اور تعداد میں امیر محلوں کے طرز پر مساجد کی تعمیر کے جواز عدم جواز پر کبھی بحث نہیں ہوئی ہو گی۔ در اصل مولانا راشدی صاحب نے بالکل درست کہا ہے کہ:
’’جس طرح اصحاب کہف حالات کے جبر سے بے بس ہو کر اپنا ایمان بچانے کے لیے غار میں گھس گئے تھے اور اس طرح انہوں نے اپنے ایمان کا تحفظ کیا تھا، اسی طرح ہمارے اساتذہ نے حالات کے جبر کو بھانپتے ہوئے ہمیں مدارس کی غاروں میں داخل کر دیا ہے۔ ‘‘
غاروں میں گھسنے والوں کا ایمان تو شاید بچ گیا، مگر جن کو وہ باہر چھوڑ گئے، ان کے ایمان کا کیا حشر ہوا ہو گا۔ بات بڑھتی جا رہی ہے۔ حالات کے جبر کو توڑنے اور ایمان کے لیے ساز گار بنانے کا ایجنڈا کہا ں ہے؟
میں مسائل پر بحث و استدلال کی طرف واپس لوٹتا ہوں۔ اوپر عرض کیا گیا ہے کہ علمی طریقہ یہ ہے کہ علمی مسائل پر بات اہل علم کے درمیان ہو۔ گلی اور سڑک پر نہ لائیں جائیں۔ جب اہل رائے سے مسائل غیر اہل رائے میں لائے جاتے ہیں تو، فکری انتشار اور عملی رذالت پیدا ہوتی ہے۔ یہ علم کا استحصال ہے۔ پھر مسائل زیر بحث کی عملی ضرورت کے لحاظ سے درست ترجیحات متعین ہوں۔ ان پر بات کرنے والے اس مضمون کے ماہرین ہونے لازم ہیں۔ بات کھل کر کی جائے۔ سنی بھی جائے اور سنائی بھی جائے۔ دلیل سے بات کی جائے اور دلیل کو سنا بھی جائے۔ اس کے ساتھ قوی تر دلیل کو تسلیم کرنے سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ اس طرح دلیل ہی کو حکم مانا جائے۔ فیصلہ کے لیے بنیاد اکثریت ہو اور نہ ہی تعصب اور مفاد کو پیش نظر رکھا جائے۔ decisive پوزیشن دلیل ہی کو حاصل ہو۔ اس ضابطہ کار کے تحت معاملات طے کرنے کا کلچر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہاں میں ایک حوالہ پیش کرنا چاہتا ہوں: 
یہ حوالہ سید امیر علی کا ہے۔ سید امیر علی قیام پاکستان سے پہلے ہائیکورٹ کے جج رہے۔ انہوں نے تین بڑی فاضلانہ کتابیں تحریر کی ہیں جن کے نام، سپرٹ آف اسلام، شارٹ ہسٹری آف سیری سنز اور محمڈن لا ہیں۔ ان کا تعلق شیعہ مسلک سے تھا۔ شاید اسی تعصب کا نتیجہ تھا کہ ان کی انتہائی فاضلانہ کتابیں ہمارے ہاں مارکیٹ میں جگہ نہیں پا سکیں۔ اس سلسلہ میں ان کی ایک کتاب محمڈن لا، اسلام کے شخصی قانون سے متعلق ہے۔ یہ کتاب ہمارے ہاں لا کالجوں کے نصاب کے لحاظ سے مرتب کی گئی۔ کتاب ہر لحاظ سے معیاری ہے مگر اسے کوئی جانتا ہی نہیں۔ اس کے مقابلے پر ایک پارسی،دنشا فریدون جی ملا (ڈی ایف ملا )نے بھی ’’پرنسلز آف محمڈن لا ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی ہے۔ یہ کتاب ہمارے ہاں مارکیٹ میں چھائی ہوئی ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۱۸۵۲ء میں شائع ہوا۔ یہ کتاب ہمارے ہاں یونیورسٹی میں قانون کے نصاب میں شامل ہے۔ اس کے ایڈیشن ہر سال شائع ہوتے ہیں۔ سید امیر علی کی کتاب ہر لحاظ سے بہتر ہے مگر اسے کوئی جانتا بھی نہیں۔
بہرحال اس بحث سے میرا منشا محمڈن لا کی کتاب کے بارے میں کچھ کہنا نہیں۔ سید امیر علی نے اپنی ایک کتاب میں اپنی ایک آبزرویشن دی ہے، ایک اصول بیان کیا ہے۔ بس اسی کا ذکر کرنا ہے۔ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر میں انہوں نے فرمایا:
"He (Muhammed P.B.U.H) upheld the sovereignty of reason".
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دلیل کی حاکمیت قائم کی‘‘۔
سید امیر علی کا یہ جملہ بظاہر ایک جملہ ہے مگر حقیقت میں یہ جملہ اپنے اندر اک جہانِ معنی رکھتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ پورے نظام استدلال کی بنیاد ہے۔ یہ اسلام کے اجتماعی اور سیاسی نظام کی روح کا بیان ہے۔ جس بلاغت اور جامعیت سے انہوں نے اس بنیادی اصول کو بیان کیا ہے، سیرت کے دیگر ذخائر میں ایسا اشارہ ملنا مشکل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس جملہ کی گہرائیوں میں اتر کر اسلام کے حقیقی نظام اقتدار کی حدود دریافت کی جائیں۔ جمہوری اور شورائی نظام کی جن شکلوں کو ہمارے ہاں مختلف وجوہ اور حالات کے تحت قبول کر لیا گیا ہے،اس کا نتیجہ اس بنیادی اصول کی نفی ہے۔ تجربہ نے ثابت کیا ہے کہ جمہوری نظام کا خاصہ میرٹ، دلیل اور اہلیت کی نفی ہے۔ جھوٹ، بد دیانتی اور استحصال کا غلبہ ہے۔ اس میں جماعتی اور گروہی سوچ اور فکر کے تحت، دلیل کی اہمیت کو مکمل طور پر نظر انداز کرکے کام کیا جاتا ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ جمہوریت نے جو شاہکار کیریکٹر پیدا کیے ہیں، وہ کس معیار کے لوگ ہیں۔ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعوے دار ہے۔ کشمیر کے مسئلہ پر، بین الاقوامی ’’برادری‘‘ کے سامنے کیے گئے اپنے مواعید سے آج تک نہایت بے شرمی کے ساتھ مکرے جا رہا ہے۔ دنیا نے بھی پنڈت نہرو کی یقین دہانیوں کو بھلا دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرار دادیں ’’پرانی‘‘ ہو گئی ہیں۔ واجپائی بہت پڑھا لکھا شخص ہے۔ شاعر بھی ہے۔ چند سال پہلے، اس نے انتخابات میں ہندو ووٹ حاصل کرنے کے لیے کس طرح پاکستان اور ہندوستان کی بھاری افواج کو سال ڈیڑھ سال تک آمنے سامنے رکھا۔ دونوں ایٹمی قوتیں ٹکراتے ٹکراتے رہ گئیں۔ آج امریکہ کے بش صاحب افغانستان اور عراق میں جمہوریت اور آزادی تقسیم کر رہے ہیں۔ انہوں نے کس طرح اقوام عالم اور خود اپنے شہریوں کو دھوکہ دیا۔ جھوٹ کو اس ڈھٹائی سے بولا گیا کہ وہ سچ دکھائی دینے لگا۔ آخر کار میکیاویلی ان سب کا استاد ٹھہرا۔
میرا منشا یہ ہے کہ یہ پورا نظام استدلال کی نفی پر مبنی ہے جبکہ اسلامی نظام کا ہر شعبہ دلیل و استدلال کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس کا سب سے بڑا اصول بھی دلیل ہے اور ہتھیار بھی۔ قرآن حکیم نے بار بار غور و فکر پر زور دیا ہے۔ ہر حقیقت کو واضح کرنے کے لیے دلیلِ روشن پیش کی ہے اور کفار کو دلیل لانے کا چیلنج دیا ہے۔ میں اس وقت اس بارے میں کسی تفصیلی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا مگر یہ حقیقت ہے کہ دلیل کی حاکمیت کا اصول ایسا زبردست اصول ہے کہ دنیا بھر میں اس کی حقانیت کو پیش کرنے کا بیڑا اٹھانے کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ اگر ہم علوم جدید و قدیم پر کامل دسترس کے ساتھ دلیل کی بالا دستی کے علمبردار بنیں تو دلیل کی قوت کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا۔ اسے محض تعلّی نہ سمجھا جائے، ہم علم ، قلم اور سکرین کے ذرائع سے لیس ہو کر فاتح عالم بن سکتے ہیں۔ کل تک ہم اس پوزیشن میں تھے۔ ہمارے ہی علمی ذخائر سے استفادہ کر کے ہمیں پچھاڑا گیا ہے۔ ہمارے اپنے ہتھیار ہم پر استعمال ہوئے ہیں۔
بلا شبہہ دینی حلقوں میں مذکورہ بالا مسائل پر کھلا بحث و مباحثہ بھی غنیمت کے درجے کی چیز ہے، مگر بات غنیمت سے نہیں بنتی۔ میں نے ا وپر عرض کیا ہے کہ حالات میں عملی پہلوؤں سے ترجیحات کے درست تعین اور مسائل کے بارے میں بر وقت اور درست فیصلے اور ان کے مطابق درست اور دور رس عملی اقدات سے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ہمارا تمام تر لائحہ عمل مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے ایک موثر اور کامیاب حکمت عملی کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔ انسانی ذہن دنیا کی سب سے بڑی قوت ہے۔ اس کو بھر پور طور پر استعمال کیا جائے تو کم سے کم وسائل میں بھی بڑے سے بڑے نتائج حاصل کرنا ممکن ہوتا ہے۔ سائنسی تجزیے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ بڑے سے بڑے سائنسدان اور محقق نے بھی اپنے دماغ کا بہت ہی تھوڑا حصہ استعمال کیا ہے۔ اس نعمت خدا داد کے تھوڑے سے استعمال ہی سے اتنی بڑی ایجادیں دریافت ہوئی ہیں اور عظیم علمی حقائق سامنے آئے ہیں۔ ہمیں یکسوئی سے موثر اور نتیجہ خیز لائحہ عمل اختیا رکرنے کے لیے اپنے ذہن کے کسی حصے کو تو کام میں لانا چاہیے۔ 
ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ ہم لائحہ عمل بناتے ہیں تو وہ کسی گہری فکر اور عملی طور پر ایسی موثر حکمت عملی پر مشتمل نہیں ہوتا جو کامیابی کی ضمانت ہو۔ اس طرح جب ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہم یہ کہہ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ اللہ تعالی کو ایسا ہی منظور تھا۔ سوچ کا یہ انداز کسی طرح درست نہیں۔ اللہ تعالی نے اسباب کی دنیا بنائی ہے۔ ذرائع اور وسائل پیدا کر دیے ہیں۔ ہم ان کو پیدا نہیں کرتے، صرف ان کی جستجو کرتے ہیں۔ جستجو صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔ نتائج بھی اسی کی بنیاد پر ہوں گے۔ نتائج کے لیے ذمہ دار اور جوابدہ بھی ہونا ہو گا۔ عام آدمی اپنی صلاحیت کی حد تک ذمہ دار ہو گا۔ ذمہ دار حیثیت والے حضرات کی جواب دہی بھی اسی درجے کی ہوگی۔ ان کے لیے جواب دہی اور ذمہ داری میں رعایت نہیں ہو گی۔ جس درجہ ذمہ داری بڑھے گی، اسی درجہ جواب دہی بھی کڑی ہو جائے گی۔ اہل علم و دین، وراثت انبیا کے دعوے دار ہیں۔ اسی لحاظ سے ان پر ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ اہل ایمان کی راہنمائی ان کا فرض منصبی ہے۔ اس رہنمائی کے لیے ان کا جدید و قدیم علوم سے آگاہ ہونا لازم ہے۔ اس کے بغیر وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر سکتے۔ کردار کے لحاظ سے ان کا معیار عام مسلمان کے معیار سے کہیں اونچا ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔ بلندی کردار کے ہوتے ہوئے زبان کھولنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کردار کی خوشبو خود بخود دور دور تک پھیلتی ہے۔ لیکن کردار اگر بد بو دار ہو تو اس کی بد بو کو کوئی پھیلنے سے نہیں روک سکتا، خواہ اس اروڑی پر کوئی کتنی ہی مٹی ڈالے یا سپرے کرے۔ یہ سپرے کتنا ہی موثر کیوں نہ ہو، یہ امریکہ سے آیا ہوا ہی کیوں نہ ہو، اس بد بو کو پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ جب یہ بد بو پھیلے گی تو دعوت و تبلیغ کی تمام تر پکاریں صدا بصحرا ہو جائیں گی۔ 
پھر اس میں بھی قرآن کا حکم واضح ہے جس کی رو سے فریضہ دعوت سب پر عائد نہیں ہوتا۔ دعوت و تبلیغ کا فریضہ، اپنے دائرہ کار کے اندر ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے: 
وما کان المومنون لینفروا کافۃ فلو لا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقہوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون (۹:۱۲۲)
’’ یہ تو نہ تھا کہ سب ہی مسلمان نکل کھڑے ہوتے، تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے تاکہ دین میں بصیرت حاصل کرتے اور اپنی قوم کے لوگوں کو آگاہ کرتے جب ان کی طرف لوٹتے تاکہ وہ بھی بچتے۔‘‘
عمومی سطح پر اس فریضے کی ادائیگی کے لیے بڑے ہی عالم، فاضل اور صاحب بصیرت لوگوں کی ضرورت ہے۔ اس کو ایک فن اور سائنس کے درجہ دیا جانا چاہیے۔ جس طرح طب، قانون اور انجینئرنگ کے شعبوں میں اعلیٰ صلاحیت، تعلیم، تربیت اور تجربہ درکار ہے، اسی طرح دعوت و تبلیغ کے شعبے کے لیے بھی بڑے ہی اعلیٰ درجے کے لوگوں کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جو لوگ میدانِ دعوت میں آئیں، وہ میدان میں آنے سے پہلے دین میں بصیرت حاصل کریں۔ یہ پیشگی ضرورت ہے۔ بغیر اس کے آپ میدان میں اتریں گے تو قرآن کے واضح حکم کی خلاف ورزی ہو گی۔ 
یہاں تو دعوت کے میدان میں اترنے سے بھی بڑا مرحلہ در پیش ہے۔ زمانے کے چیلنجوں سے نبٹنا، بہت بڑا کام ہے۔ اس کے لیے اور بھی زیادہ بصیرت کی ضرورت ہے۔ اس میں ایک بات بڑی اہم ہے اور وہ ہے بر وقت فیصلہ۔ میں اپنی بات کی تقویت کے لیے ماؤ زے تنگ کا ایک قول پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں، مگر اس سے پہلے کہہ دینا چاہتا ہوں کہ عقل ودانش مومن کی گم شدہ میراث ہے۔ جدید دور میں ہمارے گرد و پیش میں تین لیڈر مانے ہوئے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح، ماؤ زے تنگ اور امام خمینی۔ ان میں سے ماؤ زے تنگ جدید طرز انقلاب میں بڑی اہمیت اور امتیازی شان رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: 
"This is an age of war of quick decision."
’’یہ جلد فیصلے کی جنگ کا زمانہ ہے‘‘
اقبال نے بھی کہا ہے کہ:
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
مگر ہمارے ہاں عملی صورت یہ ہے کہ آج بھی یہ بحث موجود ہے کہ آیا لاؤڈ سپیکر پر اذان اور نماز ہو سکتی ہے یا نہیں۔ جواز کا قائل ہو جانے کے بعد، اس کے بے محابا استعمال کی بھی ایک تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ عریاں لٹریچر کی مد میں منٹو پر فرد جرم سو فی صد جائز مگر یہ حقیقت ہے کہ جنس ایسا موضوع ہے جس کی جستجو میں جبہ و دستار والے دوسروں سے کسی طرح کم نہیں۔ ٹی وی اور انٹر نیٹ اور سی ڈیز اور دیگر جدید ذرائع کے استعمال کی بحث تو بحث کرنے والوں کے لیے ہے مگر ان کے مثبت اور منفی استعمال کو روکنا کس کے بس میں ہے۔ وہ جواں عزم بھی ہیں جنہوں نے ایک سی ڈی میں کتنے صحاح جمع کر دیے ہیں۔ ٹی وی اور انٹر نیٹ پر مثبت کام بھی ہو رہا ہے۔افسوس یہ ہے کہ چرچا مثبت کا نہیں، منفی کام کا ہے۔ شکست خوردہ ذہنیت کی وجہ سے ہم خود بھی تمام تر چرچا تنقید کے رنگ میں منفی پہلوؤں ہی کا کرتے ہیں۔ 
ایک اور پہلو سے دیکھ لیں۔ معاشرے میں کرپشن کا کتنا چرچا ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ معاشرے سے دیانت و امانت ناپید ہو گئی ہے؟ نہیں، اس کی عظیم الشان مثالیں تلاش کرنا پڑتی ہیں،لیکن ان کو کوئی تلاش کرتا ہے اور نہ ان کا چرچا ہوتا ہے۔ کرپشن والے تو معاشرے کے کندھوں پر سوار ہیں۔ ہم مثبت طرز عمل کے بجائے ان پر تنقیدی رویہ اختیار کر کے انہی کے چرچے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ مجموعی طور پر آج بھی ہمارے معاشرے کی بڑی اکثریت (حالات کی مجبوری کے تھوڑے سے الاؤنس کے ساتھ) دیانت و امانت سے کام لیتی ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ تمام تر کھیل با اثر طبقات کے درمیان ہے۔ ہم بھی انہی کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ مثبت کھیل کے لیے کوئی میدان رہا ہے، نہ کھیل اور نہ کوئی کھیل کا سامان۔ نمایشی کاموں نے ہمیں کسی کام کا نہیں چھوڑا۔ عام سطح پر لوگ آج بھی بہتر کردار کے حامل ہیں، مگر جہاں کسی کو کوئی اختیار، اثر یا حیثیت میسر آئی، وہ ہر حد سے گزرنے پر بے چین نظر آتا ہے۔ بے چینی حل نہیں۔ قرار کی ضرورت ہے۔ ہم میں سے بہتر پوزیشن والوں کو دوسروں کے کھیل میں، ان کے میدان میں، ان کے رولز آف گیم میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنا الگ میدان لگانا چاہیے۔ سامان کھیل بھی ہمارا اپنا ہو اور رولز بھی اپنے۔ اس کے لیے 
چیتے کا جگر شاہیں کا تجسس چاہیے
چودہ پندرہ صدیوں کی تاریخ میں جد وجہد کے دوران، عزیمت و عظمت کی روشن مثالیں موجود ہیں مگر یہ سب کچھ تاریخ کا سرمایہ ہے۔ یہ سرمایہ بہت ہو چکا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ کا رخ پلٹ دیاجائے۔ اس کا دھارا تبدیل ہو۔ یہ درست ہے کہ آج تک 
ہوئی نہ جہاں میں کبھی حکومت عشق
سبب اس کا یہ ہے کہ محبت زمانہ ساز نہیں
مگر یہ تو ماضی کا تجزیہ ہے۔ آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہو؟ ایسے لائحہ عمل پر گفتگو ہو تو اک زمانہ سنے گا۔ سنے گا ہی نہیں کان بھی دھرے گا اور زمانے کا رخ بھی پلٹ کر رہے گا۔
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
عابد کالونی کھوکھر کی، گوجرانوالہ
(۲)
۲۵؍ستمبر ۲۰۰۵
محترم محمد عمار خان ناصر صاحب، السلام علیکم
امید ہے کہ خیریت سے ہوں گے۔
ماہنامہ ’الشریعہ‘ کا اعزازی شمار باقاعدگی سے موصول ہو رہا ہے جس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ ستمبر ۲۰۰۵ کے شمارے میں ڈاکٹر محمد آصف اعوان کا مضمون ’انسان کا حیاتیاتی ارتقا اور قرآن‘ پڑھا۔ میری رائے میں قرآن ماسوائے انسان کے، کسی دوسری نوع کے متعلق صراحت سے یہ نہیں بتاتا کہ اسے special creation کے ذریعے تخلیق کیا گیا ہے۔ اس لیے دیگر جانداروں کی تخلیق کے متعلق اگر نظریہ ارتقا کو درست مان لیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ تخلیق آدم کے معاملے میں نظریہ ارتقا نصوص قرآنی سے ٹکراتا ہے۔ سورۃ آل عمران میں ہے:
’’اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم جیسی ہے۔ اس نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور کہا ہو جا اور وہ ہو گیا۔‘‘
گویا حضرت آدم علیہ السلام کو بغیر والدین کے پیدا کیا گیا۔ یاد رہے کہ نظریہ ارتقا ایک سائنسی اصطلاح ہے اور اس اصطلاح کو اسی معنی میں استعمال کرنا چاہیے جس کے لیے اسے وضع کیا گیا ہے۔ ارتقا ایک نوع کے، نسلاً بعد نسل، کسی نئی نوع میں تبدیل ہونے کے عمل کو کہا جاتا ہے۔ بعض اہل علم اس اصطلاح کو ان معانی میں استعمال کرنے کے بجائے اپنے اس تصور کی وضاحت کے لیے کرتے ہیں جس کے مطابق حضرت آدم تراب، طین اور طین لازب کے مختلف مراحل سے گزر کر انسانی وجود میں آئے۔ بہتر ہے کہ اس نظریے کو ارتقا کے بجائے کوئی اور نام دیا جائے، اس لیے کہ حیاتیات میں ارتقا اس طرح کے کسی عمل کا نام نہیں ہے۔
والسلام
محمد عزیر بھور
۹۰۔ اے۔۵، پی۔ جی۔ ای۔ سی۔ ایچ۔ ایس،
ٹاؤن شپ لاہور
(۳)
محترم جناب ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
ایڈیٹر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ ا..... وبرکاتہ مزاج گرامی!
آپ کی زیر ادارت شائع ہونے والے ماہنامہ ’الشریعہ‘ کا مئی ۲۰۰۵ کا شمارہ ان دنوں ہمارے زیر نظر ہے جس کے صفحہ نمبر ۲۱ پر ’’شیعہ سنی تنازع اور اس کا پائیدار حل‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر محمد امین صاحب کا مضمون موجود ہے جس میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ (جسے بعد میں تحریک جعفریہ سے موسوم کیا گیا) کی تشکیل وکردار کے بارے میں بعینہ وہی موقف دہرایا گیا ہے جو تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی تشکیل کے بعد خفیہ ایجنسیوں نے اختیار کیا اور پھر ا س کی نشر واشاعت سپاہ صحابہ کے لٹریچر اور اس کے ذمہ داران کے ذریعے کرائی گئی جو سراسر بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔
ہمیں تعجب ہے کہ دیوبند مکتب فکر کے دانش ور اور سنجیدہ افراد بھی اس پروپیگنڈا مہم کا شکار ہیں اور ایجنسیوں اور ایک متعصب گروہ کے موقف کے حامی ہیں۔ بغیر دلیل کے اس طرح کا نظریہ قائم کرنا قرآنی احکامات کے قطعاً مطابق نہیں ہے۔ فرقہ واریت کی وجوہ کی تلاش میں موصوف سے جو چوک ہوئی ہے، اس میں ہم ان کی بہتر مدد کر سکتے ہیں۔ خداوند کریم ہمیں سچ بولنے، سچ سننے اور سچ لکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
والسلام
سید عبد الجلیل نقوی
مسؤل روابط
قائد ملت جعفریہ پاکستان
۱۰؍ اکتوبر ۲۰۰۵

افتخار عارف کی شاعری

پروفیسر شیخ عبد الرشید

اردو شاعری کی ارتقائی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جدید اردو شاعری کا آغاز مولانا الطاف حسین حالی سے ہوا جسے اقبال اور فیض نے بام عروج تک پہنچایا۔ جہاں تک جدید نظم کے ابتدائی سفر، عہد وسطیٰ اور عہد حاضر کا تعلق ہے تو ان تمام سفری مراحل کی منزلیں ن۔ م۔ راشد کے نام پر آ کر رک جاتی ہیں۔ انھوں نے اس صنف کے ضمن میں ایسے تجربات کیے کہ جدید نظم ان کے نام سے منسوب ہو کر رہ گئی ہے۔ اگرچہ آج کی غزل میں غالب کے مروجہ افکار واسالیب اور ن۔ م۔ راشد کے متنوع اسالیب سے روشنی حاصل کی جا رہی ہے، تاہم تیزی سے بدلتی ہوئی سماجی قدروں نے نظم اور غزل ہر دو کے مقاصد ومطالب میں واضح تبدیلی اور ضرورت پیدا کی ہے جس سے ایک نیا راستہ نئی منزل کی طرف نکلا ہے۔ افتخار عارف اسی راستے کے تازہ دم مسافر ہیں۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’مہر دو نیم‘‘ ۱۹۸۰ کی دہائی میں ادبی حلقوں سے داد وتحسین وصول کر چکا ہے۔ لگ بھگ ایک عشرے کی طویل شعری مسافت کے بعد ان کا دوسرا مجموعہ کلام ’’حرف باریاب‘‘ مئی ۱۹۹۴ میں شائع ہوا۔ ۱۳۲ صفحات کی اس دلکش کتاب میں ۴۲ غزلیں، کچھ نظمیں اور متفرق اشعار ہیں۔ ’’مہر دو نیم‘‘ کے پس ورق پر فیض نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ افتخار عارف کی شاعری کے مستقبل کا دار ومدار ان کی شعری ریاضت پر ہے، چنانچہ ’’حرف باریاب‘‘ میں افتخار عارف سعادت مندی کے ساتھ فیض کے اس مشورے کو گرہ میں باندھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کلام میں نغمگی، نئے استعاروں کی تلاش اور اظہار میں انفرادیت ریاضت کی واضح دلیل ہے۔ مندرجہ بالا اوصاف کی دلیل میں ان کی شاعری سے کئی اشعار تلاش کیے جا سکتے ہیں۔
تری بلا سے گروہ جنوں پر کیا گزری
تو اپنا دفتر سود وزیاں سنبھال کے رکھ
ہمیں تو اپنے سمندر کی ریت کافی ہے
تو اپنے چشمۂ بے فیض کو سنبھال کے رکھ
یہ کثیر المفہوم اشعار ہیں۔ افتخار عارف اپنی سرزمین سے بے پناہ لگاؤ کا واضح اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنے وطن کے ریگ زاروں کو گراں مایہ سرمایہ قرار دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ، ہاتھ میں کشکول لیے کسی فیض کے حصول کے لیے قطار میں کھڑا ہونا بھی گوارا نہیں کرتے۔ 
شعری ریاضت کی کچھ اور مثالیں ملاحظہ فرمائیے:
نتیجہ کربلا سے مختلف ہو یا وہی ہو
مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا
یہ شعر، شاعری میں تلمیح باندھنے کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ یہ شعر دیکھیے:
یہ رات یوں ہی تو دشمن نہیں ہماری کہ ہم
درازئ شب غم کے سبب سے واقف ہیں

کسی پندار شکستہ کا بھرم تو رہ گیا
اب یہ بات اور کہ خود قیمت پندار گری
حرف کی حرمت اور توقیر شاعر کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ افتخار عارف نے ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر اشعار تخلیق کیے ہوں کیونکہ وہ ایک طویل عرصہ سے مراعات یافتہ شہروں، لندن اور اسلام آباد میں رہ رہے ہیں، تاہم حرف کی تلاش میں انھوں نے ریگ زاروں کا بھی ایک طویل سفر کیا ہے۔
یہ سارے ادب آداب ہنر یونہی تو نہیں آ جاتے
عمریں تج دینی پڑتی ہیں اک حرف رقم کرنے کے لیے
افتخار عارف، فیض سے متاثر نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری میں فیض کو بآسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ کہیں مضامین میں اور کہیں فکر وفن کے حوالے سے۔ اپنی ایک غزل ’’نذر فیض‘‘ میں فیض سے اپنی عقیدت کا برملا اظہار بھی انھوں نے کیا ہے۔ اس غزل کا ایک لطیف پہلو یہ بھی ہے کہ یہ غزل غالب کی زمین میں کہی گئی ہے۔ پھر اسی زمین میں فیض نے ایک غزل ’’نذر غالب‘‘ کہی ہے۔ غالب نے کہا کہ:
زمانہ سخت کم آزار ہے بجان اسد
وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے تھے
فیض نے یوں کہا کہ:
غم جہاں ہو، غم یار ہو یا تیر ستم
جو آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں
افتخار عارف کہتے ہیں:
جو فیض سے شرف استفادہ رکھتے ہیں
کچھ اہل درد سے نسبت زیادہ رکھتے ہیں
افتخار عارف کی اس غزل کا مقطع بجائے خود فیض اور غالب سے ان کی عقیدت کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ فکر وفن پر ان کی دسترس کا بآواز بلند اعلان بھی کرتا ہے۔ غالب کا مصرعہ اولیٰ، فیض کا مصرعہ ثانی اور افتخار عارف کا کمال فن یکجا ہو تبھی ایسا شعر تخلیق ہو سکتا ہے۔شعر دیکھیے:
بنام فیض، بجان اسد فقیر کے پاس
جو آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں
فیض جیسے شاعر کی تقلید ایک ماہر فن شاعر ہی کر سکتا ہے، تاہم افتخار عارف نے اپنی انفرادیت کے لیے ایک الگ راستے کا تعین بھی کر رکھا ہے اور وہ ہے سعادت مندی کا راستہ جو بہت کم شعرا کے حصے میں آیا ہے۔ اکثر شعرا تو خود ستایشی کے مصنوعی خول سے ہی باہر نہیں نکل پاتے۔ شعر دیکھیے:
زندگی نذر گزاری تو ملی چادر خاک
اس سے کم پر تو یہ نعمت نہیں ملنے والی
یہ زندگی بھر کی کمائی یہی مصرعے دو چار
اس کہانی سے تو عزت نہیں ملنے والی
موصوف کی غزلوں کا مزاج وماحول، ان کی لغت، ان کے حسی تجربے اور ان تجربوں کے اظہار کا پیرایہ دوسروں سے مختلف ہے اور روح عصر کے تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ بھی۔
افتخار عارف بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں، تاہم اپنی نظموں میں بھی انھوں نے جو جدت اپنائی ہے، وہ انھیں اپنے ہم عصر نظم گو شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔ نظموں کی بات طوالت کی متقاضی ہے، اس لیے مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق افتخار عارف کی مقبول نظم ’’خوں بہا‘‘ کا یہ آخری بند ملاحظہ کیجیے:
خلق ہم سے کہتی ہے سارا ماجرا لکھیں
کس نے کس طرح پایا اپنا خوں بہا لکھیں
چشم نم سے شرمندہ
ہم قلم سے شرمندہ سوچتے ہیں کیا لکھیں
شاعر کا یہ بند جہاں خلقت کی ان توقعات کی عکاسی کرتا ہے جو وہ تخلیق کار سے جبر وظلم کے خلاف رکھتی ہے، وہیں لوح وقلم کی مجبوری اور خوف سلاسل کا اظہار بھی کرتا ہے۔ یہ فکر ایسے سماج کی عکاسی کر رہی ہے جہاں فریضہ تخلیق اور حرمت قلم کو نبھانا مشکل ہے، اس لیے قلم کار، قلم سے شرمندہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس نمونے سے ہی افتخار عارف کی نظموں کے مضامین، مزاج اور لہجے کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
حقیقی شاعری احساس کی ریاضت اور وجدان کا وہ بے پایاں خلوص ہے جو فن کا پہلا اور آخری سوال ہے۔ اس ریاضت اور خلوص کی بدولت ہی شاعر محبت کے جان لیوا کرب کو سہہ جاتا ہے۔ افتخار عارف نے غم عشق اور غم زندگی کا صحت مندانہ اور شفا بخش تصور پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری کا مجموعی مزاج خالص فکری ہے۔

اخبار و آثار

ادارہ

دسمبر ۲۰۰۵ء

برطانیہ اور امریکہ کے حالیہ سفر کے چند تاثراتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
اسلام کا نظریہ مال و دولت قصہ قارون کی روشنی میںڈاکٹر سید رضوان علی ندوی 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مراسلاتحافظ عبد الواجد 
ایٹمی پھیلاؤ کا ’’بڑا مجرم‘‘!جمی کارٹر 
بالاکوٹ کا سفر: چند تاثراتمولانا محمد یوسف 
اسلام اور تجدد پسندیڈاکٹر محمد امین 
ڈارون کا تصور ارتقا اور اقبالڈاکٹر محمد آصف اعوان 
علماء کی زیر نگرانی ٹی وی چینل کا قیام / مولانا قاسمی اور مولانا مدنی کے مابین مصالحتادارہ 

برطانیہ اور امریکہ کے حالیہ سفر کے چند تاثرات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گزشتہ اٹھارہ بیس برس سے میرا یہ معمول چلا آ رہا ہے کہ ہر سال چند ماہ کے لیے بیرون ملک چلا جاتا ہوں۔ احباب سے ملاقاتیں ہوتی ہیں، مختلف دینی اجتماعات میں شرکت ہوتی ہے، ورلڈ اسلامک فورم کے حوالے سے کچھ سرگرمیاں ہوتی ہیں، بعض تعلیمی اداروں کے معاملات میں مشاورت ہوتی ہے اور ’’سیروا فی الارض‘‘ کے حکم خداوندی پر تھوڑا بہت عمل ہو جاتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک جب مدرسہ نصرۃ العلوم کی تدریسی خدمات میرے ذمہ نہیں تھیں اور مدرسہ انوار العلوم میں اپنی مرضی کے چند اسباق پڑھایا کرتا تھا جن کا دورانیہ اور اوقات طے کرے میں مجھے اختیار ہوتا تھا، بیرون ملک سفر کا شیڈول میرے ہاتھ میں ہوتا تھا اور عام طور پر گرمیوں کے تین چار ماہ برطانیہ یا امریکہ میں گزرتے تھے، مگر حضرت والدمحترم مدظلہ کی معذوری کے بعد مدرسہ نصرۃ العلوم میں باقاعدہ تدریسی ذمہ داریوں کے باعث اب میرے پاس اس کام کے لیے شعبان المعظم اور اس کے ساتھ رمضان المبارک کے آٹھ دس دن کا وقت ہی فارغ ہوتا ہے یا شش ماہی امتحان کے موقع پر کھینچ تان کر دو ہفتے نکل آتے ہیں، اس لیے اپنی بیرونی سرگرمیوں کو انھی اوقات میں سمیٹنا پڑتا ہے اور اسی کا معمول ہو گیا ہے۔
اس سال مدرسہ نصرۃ العلوم کے سالانہ امتحان اور جلسہ تقسیم اسناد کے بعد ۳۰؍اگست کو سفر کے آغاز کا پروگرام طے ہوا۔ میں نے ڈیڑھ ماہ قبل ہی ٹریول ایجنٹ سے کہہ دیا کہ مجھے ۳۰؍ اگست کو لندن کے لیے اور اس کے ایک ہفتہ بعد وہاں سے امریکہ کے لیے سفر کرنا ہے اس لیے اس کے مطابق سیٹوں کی ترتیب طے کر لی جائے۔ اس نے اپنے طور پر سیٹ پی آئی اے سے بک کرا لی جو کنفرم نہیں تھی اور ٹریول ایجنٹ کا خیال تھا کہ درمیان میں خاصا وقت ہے، اس وقت تک کنفرم ہو جائے گی۔ میں نے بھی لندن میں احباب کو مطلع کر دیا اور انھوں نے لندن، مانچسٹر، لیسٹر اور گلاسگو میں تین چار پروگرام رکھ لیے، مگر جب لاہور کے ایئر پورٹ پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ سیٹ کنفرم نہیں ہے، جہاز فل ہے اور آئندہ بھی دس بارہ روز تک کوئی سیٹ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ یورپ کے ممالک میں گرمیوں کی تعطیلات ختم ہو رہی ہیں اور جو افراد اور خاندان چھٹیاں گزارنے پاکستان آئے تھے ، وہ واپس جا رہے ہیں اس لیے بظاہر سیٹ ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
کم وبیش ایک ہفتہ سیٹ کے حصول کے لیے تگ ودو میں گزر گیا اور بالآخر ۶؍ ستمبر کو الامارات کے ذریعے دوبئی اور ۷؍ ستمبر کو وہاں سے لندن پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ اس دوران میں لندن سے ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری، لیسٹر کے مولانا محمد فاروق ملا، مانچسٹر کے مولانا حافظ محمد اقبال رنگونی اور گلاسگو کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب مولانا حبیب الرحمن فون پر مسلسل رابطے میں رہے کہ کسی طرح ان کے کسی پروگرام میں شرکت ہو جائے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ ۷؍ ستمبر کو صبح لندن کے گیٹ وک ایئر پورٹ پر اترا تو کراؤلی سے مولانا قاری عبد الرشید رحمانی نے مجھے وہاں سے وصول کیا۔ قاری صاحب کا تعلق اچھڑیاں ہزارہ سے ہے۔ استاذ العلما ء حضرت مولانا رسول خان صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے پوتے ہیں، میرے پرانے دوستوں میں سے ہیں اور ایک عرصہ سے کراؤلی کی جامع مسجد قوت الاسلام میں خطابت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
میری خواہش ۱۱؍ ستمبر سے قبل نیو یارک پہنچنے کی تھی اور میں نائن الیون کے حوالے سے اس روز کی سرگرمیاں دیکھنا چاہتا تھا، اس لیے لندن زیادہ دن نہ رک سکا۔ جمعہ کراؤلی میں پڑھایا، ایک دن ساؤتھ آل میں گزارا اور ایک دن مولانا محمد عیسیٰ منصوری کے ہاں قیام رہا۔ اسی سال جون میں دو ہفتے کے لیے لندن آیا تو اس موقع پر ورلڈ اسلامک فورم کے ایک اجلاس میں ہم نے طے کیا تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس جو ستمبر میں ہو رہا ہے، اس میں اس سال اقوام متحدہ کے نظام میں کچھ اصلاحات کی تجاویز بھی زیر بحث آنے والی ہیں، اس لیے اس موقع پر ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے اقوام متحدہ اور عالم اسلام کے حوالے سے ایک رپورٹ مرتب کر کے شائع کی جائے جس میں عالم اسلام کے ساتھ اقوام متحدہ کے جانب دارانہ طرز عمل اور مسلم ممالک کی مشکلات ومسائل کے بارے میں اس عالمی ادارے کی سرد مہری کا جائزہ لیتے ہوئے اصلاح احوال کے لیے تجاویز سامنے لائی جائیں۔ یہ رپورٹ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے ساتھ ساتھ لندن میں مسلم ملکوں کے سفارت خانوں کو باضابطہ طور پر بھجوائی جائے اور عالمی پریس میں بھی اس کی اشاعت کی کوشش کی جائے۔ اس رپورٹ کی تیاری میرے ذمے تھی، مگر جب اس رپورٹ کی تیاری کے لیے کچھ کرنے کا ارادہ کیا تو اپنی تہی دامنی کا احساس ہوا کہ سوائے جذبات، احساسات اور تخیلات کے، دامن میں کچھ بھی نہ تھا اور اس رپورٹ کے لیے جو معلومات او رحوالہ جات درکار تھے، ان تک اتنے عرصے میں رسائی ممکن ہی نہ تھی، اس لیے رپورٹ سے نیچے اتر کر ’’میمورنڈم‘‘ پر اکتفا کرنے میں عافیت سمجھی اور ۸؍ستمبر کو جب ہم اس سلسلے میں لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے اجلاس میں بیٹھے تو اس میمورنڈم کا ہلکا سا خاکہ طے کرنے کے سوا کچھ نہ کر پائے۔
اس میمورنڈم میں ہم نے عالم اسلام کے بارے میں اقوام متحدہ کے جانب دارانہ طرز عمل اور دوہرے معیار کا شکوہ کرتے ہوئے اصولی طور پر تین گزارشات پیش کی ہیں:
  • انسانی حقوق کے چارٹر کی بعض دفعات قرآن وسنت اور اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں جبکہ مسلم دنیا پر اس چارٹر کو من وعن تسلیم کرنے کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے جو غیر منصفانہ بات ہے، اس لیے اس چارٹر پر نظر ثانی کی جائے۔
  • ایٹمی توانائی اور جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی پر چند ممالک کی اجارہ داری اور باقی دنیا بالخصوص مسلم ممالک کو اس سے محروم رکھنے کے قوانین غیر منصفانہ ہیں، ان پر نظر ثانی کی جائے اور انھیں متوازن بنایا جائے۔
  • سلامتی کونسل کے مستقل ارکان اور ویٹو پاور میں مسلم دنیا کی نمائندگی بالکل نہیں ہے جو عالم اسلام کی حق تلفی ہے، اس لیے سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں ویٹو پاور کے ساتھ مسلم دنیا کو آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے۔
ان اصولی گزارشات کی بنیاد پر میمورنڈم کی تیاری اور اسے متعلقہ اداروں تک بھجوانے کی ذمہ داری ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری کے سپرد کی گئی اور میں ۱۰؍ ستمبر کو لندن سے نیو یارک کے لیے پرواز کر گیا۔ مجھے ۱۰؍ ستمبر کو رات آٹھ بجے کے لگ بھگ نیو یارک کے جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ پر اترنا تھا اور اس کے تقریبا چار گھنٹے کے بعد نائن الیون شروع ہونے والا تھا، اس لیے مجھے اس بات کا اندازہ تھا کہ ایئر پورٹ پر چیکنگ اور پوچھ گچھ کا نظام پہلے سے خاصا سخت ہوگا، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جب میں امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچا تو ایک سیاہ فام افسر سے سامنا ہوا جس نے میرا پاسپورٹ دیکھا اور ایک آدھ سوال کے بعد مجھے امیگریشن آفس میں پہنچا دیاجہاں مجھ سے پاس پورٹ لے کر ایک کرسی پر بٹھا دیا گیا۔ وہاں ایک خاتون اور دو مرد آفیسر تھے جو باری باری مجھ سے سوالات کرتے رہے، سامان کا بیگ تفصیل سے چیک کیا اور ٹیلی فون پر ان تفصیلات کی کسی اور جگہ رپورٹ بھی دیتے رہے۔ اس دوران میں اور بھی افراد باری باری وہاں لائے گئے مگر تھوڑی بہت انکوائری کے بعد انھیں چھوڑ دیا گیا، مگر میں مسلسل دو گھنٹے تک اسی ماحول میں رہا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے کہیں اور سے میرے بارے میں ’کلیئرنس‘ لی جا رہی ہے۔ بالآخر دو گھنٹے کی مسلسل پوچھ گچھ اور تلاشی کے بعد گیارہ بجے کے لگ بھگ مجھے باہر جانے کی اجازت دے دی گئی۔
میرے پاس امریکہ کا پانچ سالہ ملٹی پل ویزا تھا جو میں نے نائن الیون سے پہلے حاصل کیا تھا اور اسی پر تین سال سے سفر کر رہا تھا۔ اس کی میعاد اٹھارہ ستمبر کو ختم ہو رہی تھی اس لیے اس ویزے پر میرا یہ آخری سفر تھا اور میرے ذہن میں یہ بات بھی تھی کہ اس کے بعد امریکہ کا سفر نیا ویزا ملنے کی صورت میں ہی ہو سکے گا۔ بہرحال جب ان مراحل سے گزر کر میں ایئر پورٹ سے باہر نکلا تو مولانا محمد یامین اور بھائی برکت اللہ میرے انتظار میں پریشان کھڑے تھے۔ ان کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے، ڈھاکہ کے المرکز الاسلامی کے سربراہ مولانا محمد شہید الاسلام کے متعلقین میں سے ہیں جو وہاں کی قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور بہت بڑا رفاہی ادارہ چلا رہے ہیں۔ میں ڈھاکہ میں ان کے مرکز میں حاضر ہو چکا ہوں اور ان کی رفاہی سرگرمیوں سے آگاہ ہوں۔ مولانا محمد یامین اور بھائی برکت اللہ جے ایف کینیڈی ایئر پورٹ کے قریب کوئنز کے علاقے میں دار العلوم نیو یارک کے نام سے دینی ادارہ چلا رہے ہیں۔ میں پہلے بھی متعدد بار وہاں حاضر ہوا ہوں۔ میں نے نیو یارک حاضری کی اطلاع کسی اور دوست کو دی تھی، مگر ان دوستوں کو پتہ چلا تو اس دوست کو یہ کہہ کر روک دیا کہ ہم خود ایئر پورٹ سے وصول کر لیں گے اور دار العلو م لے آئیں گے۔ تقریباً ایک ہفتہ دار العلوم میں قیام رہا۔ ہمارے گوجرانوالہ کے ایک دوست مولانا حافظ محمد اعجاز صاحب بھی اسی دار العلوم سے منسلک ہیں۔ حافظ صاحب موصوف جامعہ اشرفیہ کے فاضل ہیں، مدرسہ نصرۃ العلوم میں دورۂ تفسیر کیا ہے، حافظ آباد روڈ گوجرانوالہ کی مسجد فضل میں ایک عرصہ تک امامت وخطابت کے فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں اور اب چند سالوں سے نیو یارک میں مقیم ہیں۔ 
۱۱؍ ستمبر کو میں نے ان دوستوں سے عرض کیا کہ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے علاقے میں جانا چاہتا ہوں اور وہاں کے مناظر کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے تاثرات بھی دیکھنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ شام کو وہاں یادگاری تقریب ہوگی، ا س موقع پر یا اس سے قبل وہاں جانا مناسب نہیں ہوگا۔ رات نو بجے کے بعد وہاں چلیں گے اور جو دیکھنا ہوگا، دیکھ لیں گے۔ چنانچہ رات کو نو بجے کے بعد وہاں پہنچے تو ہزاروں افراد مختلف ٹولیوں کی صورت میں اس علاقے میں گھوم رہے تھے۔ وہ جگہ خالی میدان کی صورت میں ہے اور وہیں تھوڑی دیر قبل یادگاری تقریب ہوئی تھی جس میں نیو یارک کے لارڈ میئر کے علاوہ امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس نے بھی شرکت کی تھی۔ تھوڑی دیر ہم وہاں گھومے پھرے، ایک مرحلہ پر ارادہ ہوا کہ گاڑی سے نیچے اتر کر ان ٹولیوں سے بات چیت کریں مگر پھر خیال آیا کہ چار پانچ باریش افراد کا اس طرح گاڑی سے اترنا سارے ہجوم کو اپنی طرف متوجہ کر لے گا جس سے کوئی مسئلہ بھی کھڑا ہو سکتا ہے، اس لیے گاڑی میں گھومتے پھرتے ہی ہم وہاں کے مختلف مناظر کا مشاہدہ کرتے رہے۔
۱۷؍ ستمبر کو دار العلوم نیو یارک کا سالانہ جلسہ تھا جس کے لیے وہاں رکنا پڑا۔ اس دوران میں جمعہ، مکی مسجد بروک لین میں پڑھایا جو نیو یارک میں پاکستانیوں کا ایک بڑا دینی مرکز ہے اور مولانا حافظ محمد صابر صاحب کی سربراہی میں کام کر رہا ہے۔ لانگ آئی لینڈ میں مولانا عبد الرزاق عزیز کے ہاں حاضری ہوئی۔ ان کا تعلق ہزارہ سے ہے، میرے بعد جمعیۃ علماے اسلام پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رہے ہیں اور اب لانگ آئی لینڈ کے اسلامک سنٹر میں خطابت وامامت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
ہل سائیڈ کے ایک ہوٹل میں ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے اگلے روز نیو یارک آنا تھا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرنا تھا۔ ان کے سیاسی مخالفین وہاں جمع تھے اور جنرل پرویز مشرف کے دورے کو خراب کرنے کی پلاننگ کر رہے تھے۔ میں اتفاق سے وہاں موجود تھا۔ تقریب کے بعض شرکا نے مجھے پہچان لیا اور گفتگو میں شرکت کے لیے کہا۔ میرا اقتدار اور اپوزیشن کی سیاست سے ایک عرصہ سے کوئی عملی تعلق نہیں ہے، اس لیے اس حوالے سے ان کی گفتگو میں خاموش تماشائی بنا رہا، البتہ جب مجھے اظہار خیال کی دعوت دی گئی تو میں نے اقوام متحدہ میں اصلاحات کے بارے میں ورلڈ اسلامک فورم کے میمورنڈم کی طرف شرکاے محفل کو توجہ دلائی اور یہ گزارش کی کہ آپ حضرات ان مسائل کی طرف توجہ دیں اور نیو یارک میں بیٹھ کر عالم اسلام کے اجتماعی مسائل اور اقوام متحدہ کے طرز عمل کے بارے میں آواز اٹھائیں۔
ہل سائیڈ ایونیو کے قریب ہی ’’شریعہ بورڈ‘‘ کا دفتر ہے جو میری دلچسپی کا مرکز تھا اس لیے کہ میں۸۷ء اور ۸۸ء سے امریکہ میں مقیم مسلمانوں کو توجہ دلا رہا تھا کہ امریکی دستور میں انھیں اپنے پرسنل لاز اور بزنس لاز میں اپنے مذہبی قوانین پر عمل کرنے اور اس کے لیے نیم عدالتی نظام قائم کرنے کا جو حق حاصل ہے، اس سے فائدہ اٹھائیں اور دستور کے مطابق عدالتی یا مصالحتی ادارے قائم کر کے مسلمانوں کو کم از کم پرسنل لا میں دینی راہ نمائی کی سہولت ضرور فراہم کریں۔ اس سال مجھے معلوم ہوا کہ شکاگو میں ’’شریعہ بورڈ‘‘ کے نام سے اس نوعیت کا ایک ادارہ کئی برسوں سے کام کر رہا ہے اور اب نیو یارک میں بھی ’’شریعہ بورڈ‘‘ قائم کر دیا گیا ہے جو رجسٹریشن اور منظوری کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ اس بورڈ میں ڈھاکہ سے تعلق رکھنے والے مولانا مفتی روح الامین، حیدر آباد دکن سے تعلق رکھنے والے مولانا مفتی محمد نعمان اور گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے مولانا حافظ محمد اعجاز خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ باہمی شکر رنجی اور تنازعات کاشکار ہونے والے مسلمان جوڑے ان سے رجوع کرتے ہیں، وہ ان میں شرعی گنجایش کے مطابق مصالحت کراتے ہیں اور تنازعات کا تصفیہ کراتے ہیں۔ یہ کام دیکھ کر دلی خوشی ہوئی اور طریق کار کے بارے میں تفصیلات معلوم کر کے بعض معاملات میں مشورے بھی دیے۔
ایک ہفتہ نیو یارک میں گزار کر ۱۸؍ ستمبر کو واشنگٹن پہنچا اور ۱۰؍ اکتوبر تک وہاں قیام رہا۔ اس دفعہ میرا قیام چھوٹے بیٹے عامر خان کے ہاں تھا جو کرایے کے ایک کمرے میں سپرنگ فیلڈ میں رہایش پذیر تھا۔ دار الہدیٰ وہاں سے قریب ہے، اس لیے نمازوں میں حاضری اور دار الہدیٰ کے پرنسپل مولانا عبد الحمید اصغر کی فرمایش پر مختلف نمازوں کے بعد درس حدیث کا سلسلہ قائم رہا۔ اس دوران کے تین جمعے وہیں پڑھائے اور بخاری شریف کی ثلاثیا ت کا سلسلہ وار درس بھی کم وبیش تین ہفتے تک چلتا رہا، البتہ ۳۰؍ ستمبر کو امریکی ریاست الاباما کے شہر برمنگھم جانا ہوا جہاں سے ۳؍ اکتوبر کو واپسی ہوئی۔ یہ برمنگھم امریکی وزیر خارجہ مس کونڈو لیزا رائس کا شہر ہے اور امریکہ میں کالوں اور گوروں کی کشمکش کے حوالے سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ برمنگھم کے قریب ’’ہوور‘‘ نامی بستی میں میرے بچپن کے دوست افتخار رانا قیام پذیر ہیں جن کا تعلق گکھڑ سے ہے اور مسلکاً خاندانی اہل حدیث ہونے کے باوجود حضرت والد محترم مدظلہ کے ساتھ گہری محبت وعقیدت رکھتے ہیں۔ ہمارا آپس میں بھائیوں جیسا معاملہ ہے، اس لیے امریکہ آنے پر مجھے ان کے ہاں ایک دو روز کے لیے لازماً جانا ہوتا ہے۔ اس دفعہ انھوں نے اپنی ایک بچی کا نکاح بھی میری حاضری کی مناسبت سے طے کر رکھا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ نکاح میں پڑھاؤں چنانچہ دو تین روز ان کے ہاں رہا، نکاح کی تقریب میں شرکت کی اور وہاں کے حضرات چونکہ سعودی عر ب کے ساتھ روزہ اور عید کا اہتمام کرتے ہیں، اس لیے منگل کا پہلا روزہ افتخار رانا کے گھر میں ہی رکھا۔
افتخار رانا زندہ دل آدمی ہیں اور میرے ذوق سے واقف ہیں، اس لیے انھوں نے مجھے تاریخی اہمیت کے دو تین مقامات دکھانے کا پروگرام بنا لیااور ہمارے دو تین روز خاصے مصروف گزرے۔ برمنگھم کسی زمانے میں ’’آئرن سٹی‘‘ کہلاتا تھا کہ وہاں سٹیل کی آٹھ نو ملیں رہی ہیں۔ زیر زمین لوہے اور کوئلے کے خاصے ذخائر ہیں۔ جس زمانے میں وہاں سٹیل ملیں کام کر رہی تھیں، اسے ’’میجک سٹی‘‘ اور ’’آئرن سٹی‘‘ کے نام سے یاد کیا جا تا تھا اور ملوں کے دھویں کی وجہ سے دن کو بھی سورج کی روشنی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اب ان ملوں کی یادگار ایک مجسمے کی شکل میں محفوظ کر دی گئی ہے۔ وولکن کے نام سے ۵۶ فٹ کا بلند وبالا مجسمہ ۱۲۴؍ فٹ کے پیڈسٹل پر کھڑا شہر کے چاروں طرف سے دکھائی دیتا ہے جس کے ہاتھ میں لوہے کے اوزار ہیں اور وہ اس دور کی یاد دلاتا ہے جب ان اوزاروں سے مشینری بنانے کا کام لیا جاتا تھا۔ اس مجسمے کے نیچے ایک میوزیم میں اس دور کی متعدد یادگاریں محفوظ کی گئی ہیں اور مووی کے ذریعے سے اس زمانے کی بھٹیوں میں لوہے کو پگھلانے کا عمل دکھایا جاتا ہے جسے دیکھ کر مجھے گوجرانوالہ کی وہ بھٹیاں یاد آ گئیں جہاں آج بھی اسی طریقے سے لوہے اور تانبے کو پگھلایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس شہر کا آغاز سٹیل ملوں ہی کے حوالے سے ۱۸۷۰ء میں ہوا تھا لیکن ۱۹۲۷ء تک آبادی خاصی بڑھ گئی تو ماحولیاتی مشکلات کے باعث لوگوں کے مطالبہ پر سٹیل ملیں وہاں سے ہٹا لی گئیں۔
اس شہر کی ایک اہمیت سیاہ فام اور سفید فام آبادی میں کشمکش کے حوالے سے بھی ہے کہ مارٹن لوتھر کنگ نے ۱۹۶۳ء میں سیاہ فام آبادی کے لیے برابر کے شہری حقوق کے حصول کی جدوجہد کا آغاز یہیں سے کیا تھا اور پانچ سال کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں وہ سیاہ فاموں کے لیے ووٹ کے حق کے ساتھ ساتھ برابر کے شہریوں کا استحقاق منوانے میں کامیاب ہو گیا تھا، ورنہ اس سے پہلے سیاہ فاموں کو امریکہ میں ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا اور کالوں کو گوروں کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں تھی۔ کالوں کی بستیاں گوروں سے الگ تھیں، ان کے ہسپتال، اسکول، ہوٹل، دکانیں اور پارک گوروں سے الگ تھے۔ بسوں میں ان کے لیے الگ سیٹیں ہوتی تھیں اور وہ گوروں کے ساتھ کسی سیٹ پر نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ ہوٹلوں، پٹرول پمپوں اور دیگر بہت سے مراکز پر باقاعدہ بورڈ آویزاں ہوتے تھے کہ سیاہ فام افراد کو یہاں سروس مہیا نہیں کی جاتی۔
سفید فام مذہبی گروپوں کے نقاب پوش جتھے سیاہ فاموں کے چرچوں پرحملے کرتے تھے، انھیں بسوں سے اتار کر قتل کر دیتے تھے اور اتوار کو کسی بھی سیاہ فام کو راستے میں پکڑ کر درخت پر سولی سے لٹکا دیتے تھے اور ارد گرد کھڑے تماشا دیکھا کرتے تھے۔ الاباما کے دار الحکومت منٹگمری میں ایک اٹھارہ سالہ سیاہ فام لڑکی روزا پارک بس میں بیٹھی تھی کہ ایک سفید فام شخص بس میں داخل ہوا۔ قانون کے مطابق اس لڑکی کو وہ سیٹ اس سفید فام کے لیے خالی کرنا تھی، مگر اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا جس پر اسے وہیں سیٹ سے گرفتار کر کے پولیس نے جیل پہنچا دیا۔ اس واقعہ نے منٹگمری کے سیاہ فاموں میں تحریک پیدا کی اور وہ اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑ ے ہوئے۔
برمنگھم میں سیاہ فاموں کے ایک بپٹسٹ چرچ میں دوران عبادت سفید فاموں کے نقاب پوش جتھے نے بم پھینک دیا جس سے چار جوان بچیاں ہلاک ہو گئیں۔ اس سے سیاہ فام آبادی میں اشتعال پھیل گیا۔ مارٹن لوتھر کنگ کا تعلق ریاست جارجیا کے دار الحکومت اٹلانٹا سے تھا۔ وہ وہاں کا مذہبی راہ نما تھا اور سیاہ فاموں کے شہری حقوق کے لیے آواز بلند کیا کرتا تھا۔ برمنگھم کے اس واقعہ کے بعد وہ وہاں پہنچا اور اس چرچ کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے سیاہ فاموں کے لیے برابر کے شہری حقوق کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اسے وہیں سے گرفتار کر کے جیل پہنچا دیا گیا۔ اس مقام پر اب اس کے نام سے پارک ہے اور جس مقام پر کھڑے ہو کر اس نے جدوجہد شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، وہاں اس کا مجسمہ نصب ہے۔ اس کی گرفتاری کے بعد سیاہ فام لوگ سڑکوں پر آ گئے۔ اس پارک میں مجسموں کے ذریعے سے ان مناظر کو محفوظ کیا گیا ہے کہ کس طرح سیاہ فام نہتے مظاہرین پر خونخوار کتے چھوڑے جاتے تھے اور کس طرح فائرنگ کر کے انھیں منتشر اور ہلاک کیا جاتا تھا۔ ریاستی جبر اور پولیس کے وحشیانہ تشدد کے باوجود مارٹن لوتھر کنگ نے اپنی تحریک کو پرامن رکھنے اور مزاحمت نہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے انڈیا جا کر مہاتما گاندھی کی عدم تشدد تحریک کا مطالعہ کیا اور اسی کی روشنی میں پرامن جدوجہد کا فیصلہ کیا ہے، چنانچہ اٹلانٹا میں مارٹن لوتھر کنگ کی یاد میں قائم کیے جانے والے میوزیم کے سامنے پارک میں اس حقیقت کے اعتراف کے طور پر مہاتما گاندھی کا مجسمہ نصب ہے۔
مارٹن لوتھر کنگ نے پر امن رہنے، مزاحمت نہ کرنے اور تشدد کو برداشت کرتے ہوئے احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا جس کے نتیجے میں پورے امریکہ میں سیاہ فام منظم ہونے لگے، ان کی گرفتاریا ں ہونے لگیں، جیلیں بھری جانے لگیں اور بالآخر واشنگٹن میں سیاہ فاموں کی ایک بہت بڑی ریلی کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے مارٹن لوتھر کنگ کو مذاکرات کے لیے وائٹ ہاؤس بلایا اور اس سے باضابطہ مذاکرات کا آغاز کیا۔
مارٹن لوتھر کنگ کی اس پرامن سیاسی جدوجہد کے ساتھ اسے ایک قابل وکیل سٹال ورتھ کی رفاقت میسر آ گئی جس نے یہی جنگ عدالتوں میں لڑی اور مسلسل عدالتی اور قانونی جدوجہد کے بعد سپریم کورٹ سے یہ فیصلہ حاصل کرنے میں کام یاب ہو گیا کہ سیاہ فام بھی امریکہ کے باشندے ہیں اور سفید فاموں کی طرح برابر کے شہری حقوق کے حق دار ہیں۔
سیاہ فاموں کو ووٹ اور برابر کے شہری حقوق ۱۹۶۸ میں باضابطہ طور پر حاصل ہوئے۔ اس جدوجہد کے مختلف مراحل اور مناظر بلکہ اس سے قبل سیاہ فاموں اور سفید فاموں کی الگ الگ زندگی کے مناظر اور ان کے درمیان مراعات اور سہولتوں کے تفاوت کو برمنگھم اور اٹلانٹا، دونوں جگہ مارٹن لوتھر کنگ کی یاد میں قائم کیے جانے والے اداروں میں محفوظ کر دیا گیا ہے اور میں نے اس سفر میں افتخار رانا کے ساتھ یہ دونوں میوزیم دیکھے ہیں۔
امریکہ کی موجودہ وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ برمنگھم سے چالیس میل دور ٹسگہ لوسا نامی ایک بستی میں پیدا ہوئیں۔ ٹسگہ لوسا ریڈ انڈینز کے ایک قبیلے کا نام ہے جس کے حوالے سے اس علاقے کا نام ٹسگہ لوسا ہے۔ جب یورپین آباد کاروں نے اس علاقے پر قبضہ کیا تو ریڈ انڈینز کو اسلحے کے زور پر وہاں سے بھگا کر اپنے سیاہ فام غلاموں کو وہاں آباد کیا تاکہ وہ ان کے لیے زمینیں آباد کر سکیں۔ مس کونڈو لیزا رائس انھی سیاہ فاموں میں سے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے والد کو بھی ووٹ کا حق حاصل کرنے کے لیے لمبی عدالتی جنگ لڑنا پڑی تھی اور وہ بڑی مشکل سے ۷۰ کی دہائی میں عدالت کے ذریعے سے ووٹ کا حق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
میں افتخار رانا کے ساتھ اٹلانٹا بھی گیا جہاں مارٹن لوتھر کنگ کی یاد میں قائم میوزیم دیکھا اور اس کے علاوہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے قائم کردہ انسٹی ٹیوٹ او ر ریسرچ سنٹر بھی گیا۔ اگرچہ دفتری اوقات ختم ہو گئے تھے مگر سنٹر کے ریسیپشن کے عملے نے ہمیں ضروری معلومات فراہم کیں اور سنٹر کے طریق کار کے بارے میں آگاہ کیا۔
افتخار رانا نے مجھے برمنگھم میں سیاہ فاموں اور سفید فاموں کے الگ الگ چرچ دکھائے جہاں آج بھی یہ فرق موجود ہے کہ سیاہ فاموں کے چرچ میں کوئی سفید فام نہیں آتا اور سفید فاموں کے چرچ میں کوئی سیاہ فام داخل نہیں ہو سکتا۔ ہم نے سیاہ فاموں کے ایک بپٹسٹ چرچ میں اتوار کی ہفتہ وار دعا میں شرکت کی اور چرچ کے ذمہ دار حضرات سے مختلف امور پر تبادلہ خیالات کیا۔ جیمز نامی ایک مسیحی راہ نما سے ہم نے شراب کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ شراب ہمارے نزدیک حرام ہے، مگر ہم جنس پرستی کے بارے میں سوال کا جواب دینے میں اس نے ہچکچاہٹ سے کام لیا۔ پہلے امریکی دستور کا حوالہ دیا، پھر انسانی حقوق کے فلسفے کاذکر کرنے لگا، لیکن جب ہم نے کہا کہ ہم صرف چرچ کی رائے معلوم کرنا چاہتے ہیں تو بڑے تردد کے ساتھ اس نے بالآخر یہ کہا کہ چرچ اسے حرام سمجھتا ہے اور اسے condemn کرتا ہے۔
امریکہ کے اس سفر کے تاثرات کے بہت سے پہلو ابھی تشنہ ہیں، مگر اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔ اگلے سال اگر امریکہ کے سفارت خانے نے ویزا دے دیا اور صحت وتوفیق شامل حال رہی تو ا س سلسلے کو آگے بڑھانے کی کوشش کروں گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ

اسلام کا نظریہ مال و دولت قصہ قارون کی روشنی میں

ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی

قرآن مجید میں قارون اور اس کی بے انتہا دولت، اس کے تکبر اور تباہی کا عبرت انگیز بیان صرف ایک جگہ (سورہ القصص آیت ۷۶ تا ۸۴) آیا ہے۔ یہ گویا دولت ومنصب رکھنے والوں کا ایک ایسا عبرت ناک قصہ ہے جو ہمیشہ پیش آ سکتا ہے اور اس پر قرآن کا یہ تبصرہ انتہائی سبق آموز ہے۔
قرآن میں قارون کا قصہ اس طرح شروع ہوتا ہے:
اِنَّ قَارُوْنَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰی فَبَغٰی عَلَیْہِمْ وَآتَیْنٰہُ مِنَ الْکُنُوْزِ مَآ اِنَّ مَفَاتِحَہُ لَتَنُوْءُ بِالْعُصْبَۃِ اُولِی الْقُوَّۃِ اِذْ قَالَ لَہُ قَوْمُہُ لاَ تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْفَرِ حِیْنَ O(آیت ۷۶)
’’کوئی شک نہیں کہ قارون موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں سے تھا۔ پھر اس نے ان کے خلاف سرکشی کی۔ اور ہم نے جو خزانے اس کو دیے تھے، وہ اتنے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقت ور جماعت بھی مشکل سے ہی اٹھا سکتی تھی۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس کی قوم نے اس سے کہا کہ (اپنی بے انتہا دولت پر) اتراؤ نہیں، کیونکہ یقیناًاللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔‘‘
اس آیت کی تشریح یہ ہے کہ قارون تھا تو موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل سے، لیکن اس نے اپنی قوم کو چھوڑ کر مال وزر اور جاہ ومنصب کے لالچ میں فرعون وقت کا ساتھ دیا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جو فرعون تھا، ا س کا نام جدید ترین تحقیقات کے مطابق رعمسیس دوم تھا۔ اس فرعون نے قارون کو بنی اسرائیل (مصر میں مقیم یہودی) پر حاکم بنا دیا تھا اور بنی اسرائیل کو اپنا غلام یا فرماں بردار رکھنے کے لیے اس کو بہت مال ودولت سے نوازا تھا۔ اس وقت فرعون کا وزیر ایک شخص ہامان تھا۔ اسی وجہ سے قرآن میں ایک اور جگہ اس کا ذکر فرعون وہامان کے ساتھ آیا ہے۔ (سورۃ المومن آیت ۲۳) اس بے انتہا دولت نے اس کو اتنا سرکش وخود غرض بنا دیا تھا کہ وہ اپنی قوم کے خلاف ہو گیا۔
توراۃ میں بھی قارون کا ذکر ہے لیکن اس میں اس کا ذکر بالکل مختلف انداز سے ہے۔ اس میں اس کی فراوانی دولت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو متنبہ (Challenge) کیا تھا اور کہا تھا کہ تم اپنے آپ کو اللہ کا برگزیدہ بندہ کہتے ہو اور میں بھی برگزیدہ ہوں کیونکہ مال ودولت میں تم سے زیادہ ہوں۔ (توراۃ، کتاب گنتی، اصحاح ۱۶)
بائبل کے عہد عتیق (Old Testament) کے اس بیان کے برخلاف قرآن میں قارون کے مال ودولت کی حرص اور تکبر اور گھمنڈ کا ذکر تو ہے لیکن اس Challenge کا ذکر نہیں اور جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ بائبل کی یہ بات یہودی مادہ پرستوں کی اس فکر سے زیادہ تعلق رکھتی ہے جس کے بموجب اہل ثروت وجاہ کو برگزیدہ وبرتر انسان سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کی تعلیمات اس کے بالکل برعکس ہیں۔
توراۃ کی مذکورہ کتاب اور اسی فصل میں قارون کے خزانے کی تفصیل میں ہے کہ ’’اس کے خزانے کی کنجیاں چمڑے کی تھیں اور تین سو اونٹوں پر لادی جاتی تھیں۔‘‘
بعض عرب مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ کنجیاں ساٹھ خچروں پر لادی جاتی تھیں۔ ’’عصبۃ‘‘ عربی زبان میں دس سے چالیس آدمیوں کو کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قارون کے خزانے کی کنجیاں ہی اتنی زیادہ تھیں کہ ان کو دس بیس آدمی اٹھاتے تھے۔ یہاں توراۃ کا بیان غلط معلوم ہوتا ہے کہ چمڑے کی کنجیوں میں اتنا وزن نہیں ہوتا۔
بعض مفسرین نے توراۃ کے حوالے سے یہ بات لکھی ہے کہ قارون، موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا اس لیے ا س کو یہ بھی غرور تھا کہ میں انبیا کی اولاد میں سے ہوں اور دوسرے یہ کہ مال ودولت بھی بہت رکھتا ہوں، اس لیے میں بھی موسیٰ علیہ السلام کی طرح برگزیدہ ہوں۔
سورۂ قصص، جس میں قارون کا ذکر ہے، مکہ مکرمہ میں اتری۔ اس قصے کی شان نزول یہ معلوم ہوتی ہے کہ سرداران قریش حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ ہمیں اللہ نے مال ودولت دی ہے، اگر تم اللہ کے محبوب بندے ہوتے تو تمھار ے پاس بھی کثیر مال ودولت ہوتی۔ اس طرح کی باتیں کر کے کفار مکہ یہ سمجھتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو اسلام کی دعوت دے رہے ہیں، ان کے مقابلے میں اپنی ناداری کی وجہ سے کبھی کامیاب نہ ہو سکیں گے اور وہ خود اپنی دولت کی وجہ سے ہمیشہ سرخ رو اور کامیاب رہیں گے۔
اس قصے کے ذیل میں قرآن کا نظریہ مال ودولت بھی ہمارے سامنے آتا ہے۔ جہاں تک مال ودولت کا تعلق ہے تو قرآن میں مختلف مقامات پر ذکر ہے کہ مال کس طرح سے کمایا جائے اور کس طرح خرچ کیا جائے، لیکن قارون کے سیاق (Context) میں یہ ذکر نہیں کیا گیا ہے بلکہ بنیادی طور پر یہ بات ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ مال انسان کو تکبر میں مبتلا کر دے اوروہ یہ سمجھنے لگے کہ یہ محض اس کی اپنی دانش وحکمت کے سبب حاصل ہوا ہے تو ایسے آدمی سے یہ دولت چھین لی جاتی ہے۔
اِنَّ قَارُوْنَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰی فَبَغٰی عَلَیْہِمْ وَآتَیْنٰہُ مِنَ الْکُنُوْزِ مَآ اِنَّ مَفَاتِحَہُ لَتَنُوْءُ بِالْعُصْبَۃِ اُولِی الْقُوَّۃِ اِذْ قَالَ لَہُ قَوْمُہُ لاَ تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْفَرِ حِیْنَ (۷۶) وَابْتَغِ فِیْ مَآ آتَاکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْآخِرَۃَ وَلاَ تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ وَلاَ تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ (۷۷) قَالَ اِنَّمَا اُوْتِیْتُہُ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ اَوَلَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَہْلَکَ مِنْ قَبْلِہٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ ہُوَ اَشَدُّ مِنْہُ قُوَّۃً وَّاَکْثَرُ جَمْعًا وَّلاَ یُسْئَلُ عَنْ ذُنُوْبِہِمُ الْمُجْرِمُوْنَ (۷۸) فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ فِیْ زِیْنَتِہٖ قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ قَارُوْنُ اِنَّہُ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ (۷۹) وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوتُوا الْعِلْمَ وَیْلَکُمْ ثَوَابُ اللّٰہِ خَیْرٌ لِّمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً وَّلاَ یُلَقّٰہَا اِلاَّ الصّٰبِرُوْنَ (۸۰) فَخَسَفْنَا بِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَ فَمَا کَانَ لَہُ مِنْ فِئَۃٍ یَّنْصُرُوْنَہُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَمَا کَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ (۸۱) وَاَصْبَحَ الَّذِیْنَ تَمَنَّوْا مَکَانَہُ بِالْاَمْسِ یَقُوْلُوْنَ وَیْکَاَنَّ اللّٰہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ لَوْلَآ اَنْ مَّنَّ اللّٰہُ عَلَیْنَا لَخَسَفَ بِنَا وَیْکَاَنَّہُ لاَ یُفْلِحُ الْکَافِرُوْنَ (۸۲) تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لاَ یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلاَ فَسَادًا وَّالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ (۸۳) مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ خَیْرٌ مِّنْہَا وَمَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَۃِ فَلاَ یُجْزَی الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّآتِ اِلاَّ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (۸۴)
اس قصے کے آغاز میں قارون کے بے انتہا مال ودولت کے ذکر کے بعد ارشاد ہوتا ہے:
آیت ۷۷: ’’اللہ نے تجھے جو مال ودولت دیا ہے، اس کے ذریعے تو اپنی آخرت کو بنا‘‘ ۔
یعنی اللہ کے راستے میں خرچ کر کے اپنی آخرت کو سنوار۔ اس سے پتہ چلا کہ مال خود بری چیز نہیں لیکن اگر مال سے صرف اور صرف دنیا کی زندگی ہی بنائی جائے تو وہ بے کار چیز ہے، لیکن مال سے آدمی اپنی آخرت کی زندگی بھی بنا سکتا ہے۔ قرابت داروں، یتیموں اور مساکین کے ساتھ سلوک کر کے یا فلاح وبہبود یعنی ہسپتال، مساجد، اسکول، مدارس وغیرہ قائم کر کے اپنی آخرت کا بہترین سامان کر سکتا ہے، اس صورت میں مال برا نہیں۔ ’وَابْتَغِ فِیْ مَآ آتَاکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْآخِرَۃَ‘ کے جملے سے اس کی ترغیب دی گئی ہے تاکہ فلاحی کام کیے جا سکیں جن سے آخرت بنتی ہے۔
’’اور دنیا میں جو تمھارا حصہ ہے، اس کو بھی نہ بھولو‘‘۔ 
دنیا کی ضروریات مثلاً گھر، سامان، سواری، ان چیزوں کو بھی حاصل کر سکتے ہو۔ اس حقیقت کو مولانا رومی نے اپنی مثنوی میں اس طرح بیان فرمایا ہے:
چیست دنیا از خدا غافل بدن
نے قماش ونقرہ وفرزند وزن
یعنی دنیا داری خدا سے غافل رہنے کا نام ہے، کپڑے لتے، چاندی (مال) اور اولاد وبیوی کا نام نہیں۔
’’اور اللہ نے جس طرح تمھارے ساتھ اچھائی کی ہے، تم بھی ایسے ہی لوگوں کے ساتھ بھلائی کرو اور زمین میں فساد پھیلانے کی آرزو نہ کرو۔‘‘ 
دیکھیے اسلام نے کیسا اچھا اصول معاشرے میں بھلائی پھیلانے کے لیے پیش کیا ہے۔ اللہ نے تمھارے ساتھ بھلائی کرتے ہوئے تمھیں مال ودولت میسر کیا تو تم بھی لوگوں کے ساتھ بھلائی کے کام کرو۔ افسوس ہے کہ اگرچہ ہمیں قرآن نے فلاحی کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے لیکن مسلمان ممالک کے کروڑ پتی، ارب پتی اس درجے کے فلاحی کام نہیں کرتے جیسے فورڈ فاؤنڈیشن (Ford Foundation) یا راک فیلر فاؤنڈیشن (Rockfeller Foundation) وغیرہ کرتے ہیں۔
فساد عربی زبان کا ایک عام لفظ ہے۔ ہر خرابی، خواہ وہ فکری ہو یا مادی، ا س میں شامل ہے۔ ’فسد اللبن‘ کے معنی ہیں: دودھ پھٹ گیا۔ فساد کے مقابل میں صلاح کا لفظ ہے۔ جو آدمی اصلاح نہیں کر رہا، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فساد کر رہا ہے۔ جو لوگ اپنے مال کو فتنہ وفساد پھیلانے یا برائیوں کو عام کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، وہ بڑا گناہ کرتے ہیں اور قرآن کی رو سے فسادی ہیں۔
آیت ۷۸: ’’اس (قارون) نے کہا کہ یہ مال ودولت تو میں نے اپنے علم سے حاصل کی ہے (یعنی اپنی مہارت اور اپنی دانش سے حاصل کی ہے) کیا اس (قارون) کو معلوم نہیں کہ اس سے پہلے جو زیادہ طاقتور اور زیادہ لاؤ لشکر رکھنے والے تھے، ان کو اللہ نے ہلاک کر دیا اور مجرموں سے اللہ ان کے گناہوں کے بارے میں پوچھتا نہیں ہے، (بلکہ ان کے جرائم اور ان کے گناہوں کی پاداش میں ان کو بغیر کسی پوچھ گچھ کے ہلاک کر دیا جاتا ہے)‘‘
آج خلیج کے علاقے میں جو لوگ ہیں، ان میں سے ایک ایک کے پاس سو سو قارونوں کے برابر دولت ہے مگر یہ اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے اور نہ مسلمانوں پر جو مصائب آتے ہیں، مثلاً بوسنیا میں، چیچنیا میں، ان پر صرف کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو عالمی سیاست میں بے مقام اور خوار کر رکھا ہے۔ وہ اپنے مال کے مختار نہیں ہیں۔ وہ امریکہ کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے۔ ان کے ساتھ ان کے گناہوں اور جرائم کی صورت میں وہ ہو سکتا ہے جو قارون کے ساتھ کیا گیا۔
آیت ۷۹: ’’ایک دن وہ (قارون) پوری شان وشوکت کے ساتھ باہر نکلا۔‘‘
’یوم الزینۃ‘ ان کے ہاں جشن کا دن تھا۔ اس کی تفصیل قرآن میں نہیں لیکن Jewish Encyclopaedia میں ہے کہ اس کے ساتھ پانچ ہزار زرق برق باندیاں تھیں اور بہت سے گھڑ سوار تھے اور حشم وخدام وغیرہ تھے۔ یہ سب شان وشوکت دیکھ کر :
’’جو لوگ دنیا کی زندگی کے خواہش مند تھے، وہ کہنے لگے، کاش جیسا مال ودولت قارون کو دیا گیا، ہمارے پاس بھی وہ سب کچھ ہوتا۔ وہ تو بڑا نصیب والا ہے۔‘‘
کسی بڑے سرمایہ دار کو دیکھ کر ہم میں سے بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ کاش ہم بھی اس طرح سرمایہ دار بن جائیں۔ اس قصے سے معلوم ہوا کہ ایسی آرزو کرنا بڑی غلط بات ہے۔
آیت ۸۰: ’’جن لوگوں کو (حق کا) علم دیا گیا تھا، انھوں نے کہا، کیا بات کرتے ہو، خدا کی تم پر پھٹکار ہو۔ اللہ کا ثواب اس شخص کے لیے بہتر ہے جو ایمان لائے اور نیک کام کرے۔ اور اس بات کو وہی سمجھ سکتے ہیں جو ایمان پر جمے ہوئے ہیں۔‘‘
اس سے یہ سبق نکلتا ہے کہ صاحب ایمان نیک لوگوں کو کسی کافر ومغرور دولت مند کو دیکھ کر یہ خواہش نہیں کرنی چاہیے کہ ان کو بھی اس کے جیسی دولت مل جائے، بلکہ ان کو اللہ کے ثواب کا طلب گار رہنا چاہیے۔
آیت ۸۱: ’’پھر اس غرور کی وجہ سے ہم نے اسے (قارون کو) زمین میں دھنسا دیا اور اس کا گھر بھی۔ اس کا کوئی ایسا جتھا نہ تھا جو اللہ کے مقابلے میں اس کی مدد کو آتا اور نہ وہ کسی سے انتقام لے سکتا تھا۔‘‘
اب اس کے بعد دوسرے گروہ کا ذکر آتا ہے:
آیت ۸۲: ’’سو صبح ہوئی تو وہ لوگ جو کل اس جیسا مقام حاصل کرنے کی تمنا کر رہے تھے، کہنے لگے، ارے معلوم تو یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے رزق میں چاہے، کشایش پیدا کر دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے، رزق تنگ کر دیتا ہے۔‘‘
یعنی جس کو بہت رزق دیا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اللہ کا محبوب بندہ ہے۔ غریب آدمی اللہ کا زیادہ محبوب ہوتا ہے۔ یہ نیک لوگ قارون کا یہ حشر دیکھ کر کہنے لگے:
آیت ۸۳: ’’اگر اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان نہ ہوتا تو ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا۔ (ہماری اس آرزو کی وجہ سے کہ ہمیں بھی قارون کی طرح دولت مل جائے) معلوم تو ایسا ہوتا ہے کہ کافر کامیاب نہیں ہوتے۔‘‘ 
یعنی ناشکرے کامیاب نہیں ہوتے۔
اس پورے قصے کاخلاصہ اب آگے آنے والی آیت میں بتایا گیا ہے:
آیت ۸۳: ’’یہ آخرت کا گھر ہم نے بنایا ہے ان لوگوں کے لیے جو نہ تو دنیا میں سربلندی کے متمنی ہوتے ہیں اور نہ فساد کرتے ہیں اور اچھا انجام ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ کی نافرمانی سے بچتے ہیں۔‘‘
اس کے بعد ایک عام اصول بیان کیا گیا ہے:
آیت ۸۴: ’’جو آدمی اچھائی کرے گا، ا س کو اللہ تعالیٰ اس سے بہتر عطا فرمائے گا، لیکن جو برائی کرے گا، اس کو وہی بدلہ ملے گا۔‘‘
یعنی ایک نیکی کے مقابلے میں دس نیکیاں ملیں گی بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ سات سو گنا تک اللہ بڑھا دیں گے۔ اس کے بالمقابل ایک برائی کے بدلے میں ایک ہی سزا ملے گی۔ 
یہ اس قصے کا خلاصہ ہے کہ وہ قارون جس کو اللہ تعالیٰ نے اتنا مال ودولت دیا تھا، اس کو یہ توفیق نہیں تھی کہ نیکیاں کرے او اس کے بدلے میں سینکڑوں گنا ثواب حاصل کرے، بلکہ اس نے تکبر کیا جس کے نتیجے میں اسے نہ تو دنیا میں فائدہ حاصل ہوا اور نہ ہی آخرت میں ہوگا۔ اس سے مسلمانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ اگر وہ تکبر نہ کریں اور اللہ کے دیے ہوئے مال کو اللہ کی راہ میں فلاحی کاموں میں خرچ کریں تو ان کی دنیا بھی آباد ہوگی اور آخرت بھی۔ غریب کو مال ودولت والے آدمی کو دیکھ کر یہ تمنا نہیں کرنی چاہیے کہ مال ودولت مل جائے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخرت کے ثواب کی تمنا اور امید رکھنی چاہیے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مراسلات

حافظ عبد الواجد

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام عالم کے لیے رسول بنا کر بھیجا اور تمام انسانوں تک حق کا پیغام پہنچانے کا سلسلہ شروع کرنا آپ کی ذمہ داری تھی، ورنہ حق رسالت ادا نہیں ہو سکتا تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیرہ عرب کے گرد ونواح میں اس وقت کے تمام بادشاہوں کے نام خط لکھا۔ علامہ احمد بن علی القلقشندی کی تصنیف ’صبح الاعشیٰ فی صناعۃ الانشاء‘ کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مراسلات کی مختلف نوعیتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ ان خطوط کو دو بنیادی قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
ایک، مسلم امرا وقبائل کے نام مراسلات،
دوسرے، غیر مسلم امرا وقبائل کے نام مراسلات۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن غیرمسلم بادشاہوں اور امراے قبائل کو خطوط ارسال فرمائے، ان میں سے نمایاں حسب ذیل ہیں:
شاہ حبشہ اصحمہ نجاشی، شاہ روم قیصر ہرقل، شاہ فارس کسریٰ خسرو پرویز، شاہ اسکندریہ ومصر مقوقس، شاہ بحرین منذر بن ساویٰ، شاہ یمامہ ہوذہ بن علی، شاہ دمشق حارث غسانی، شاہ عمان جیفر وعبد، اہل نجران، مسیلمہ کذاب، بنو جذامہ، بنو بکر بن وائل، ذی الکلاع وغیرہ۔
چند غیر مسلم امرا کے علاوہ اکثر امرا وقبائل نے اسلام قبول کر لیا اور کفر وشرک کے اندھیروں سے نکل کر ایمان واسلام کی روشنی میں آ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرمسلموں کے علاوہ مسلم امراے قبائل کے نام بھی فرامین جاری فرمائے۔ ان میں سے چند حسب ذیل ہیں:
خالد بن ولید، منذر بن ساویٰ، فروہ بن عمرو جذامی، اکیدر، وائل بن حجر، مالک بن نمط، بنی نہد، اہل حضرموت، اقیال عباہلہ۔
مطالعہ سیرت میں یہ خطوط متنوع پہلووں سے اہمیت کے حامل ہیں۔ ذیل میں ان میں سے چند پہلووں پر روشنی ڈالی جائے گی۔

دعوت وانذار کے پہلو سے خطوط کی اہمیت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین عرب کے علاوہ عیسائی، یہودی اور مجوسی امرا اور سرداروں کے نام دعوتی پیغامات اور مراسلات کا سلسلہ جاری رکھا جن میں انھیں وعظ ونصیحت کی گئی اور ایمان وعمل کی دعوت دی گئی۔ 
مشرکین عرب کے نام دعوتی پیغامات میں آپ نے انھیں شرک وبت پرستی سے اجتناب اور تنہا اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دعوت دی اور اپنی آخرت کو سنوارنے اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو کرحساب دینے پر یقین کی دعوت دی۔ علاوہ ازیں رسالت محمدی تسلیم کرنے کو کہا اور دینی ودنیاوی معاملات میں اتباع نبوت کا حکم دیا۔ 
عیسائیوں کے نام دعوتی مراسلات میں انھیں مشترک امر یعنی توحید اور عیسیٰ بن مریم کے اللہ کا بندہ ورسول اور کلمۃ اللہ ہونے کے ناتے سے اسلام اور اپنی نبوت کی تصدیق واتباع کی دعوت دی ہے جیسا کہ قیصر، مقوقس اور اہل نجران کے نام خطوط سے عیاں ہے۔ 
مجوسیوں کے نام پیغام میں آپ نے انھیں اہرمن اور یزداں کی پوجا چھوڑ کر ایک اللہ عز وجل کی طرف بلایا اور تمام کائنات کے لیے اپنے رسول ہونے کا اعلان کیا، اور انھیں توحید ورسالت پر ایمان کی دعوت دی، جیسا کہ خسرو پرویز کسریٰ کے نام خط سے ظاہر ہے۔ کسریٰ سے اسلام قبول کرنے کی صورت میں امن وسلامتی کا وعدہ فرمایا اور اسلام قبول کرنے سے انکار کی صورت میں اسے تمام اہل فارس کی گمراہی اور تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا، لیکن اس بدبخت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نامہ مبارک کو پھاڑ ڈالا۔ رسول اللہ نے اس کی سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی پیش گوئی فرمائی جو کہ سچ اور درست ثابت ہوئی۔
مسلم امرا وقبائل کے نام مراسلات دعوتی نوعیت کے نہیں، بلکہ وعظ ونصیحت پر مبنی ہیں اور بعض نماز، روزہ کے مسائل اور خصوصاً زکوٰۃ کی تفصیلات پر مشتمل ہیں، مثلاً زکوٰۃ کی مقدار نصاب، مقدار واجب زکوٰۃ، زکوٰۃ میں دیے جانے والے مال کی اہمیت، نوعیت او رحالت وغیرہ۔ مسلم امرا کے نام بعض مراسلات انتظامی نوعیت کی ہدایت پر مشتمل ہیں، مثلاً امرا کو اراضی دینے اور ان کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے احکام۔ اہل دومۃ الجندل کو ملکیت باغات اور اراضی کی نوعیت کا خط لکھ کر ایک قسم کا معاہدہ فرمایا۔ اسی طرح وائل بن حجر کے نام خط میں ان کی تمام جائیداد ان کی ملکیت میں برقرار رکھا گیا ہے اور کسی دوسرے آدمی کے اس زمین سے ہر قسم کے تعرض کوممنوع قرار دیا گیا ہے۔ معاہدات کے ضمن میں مختلف قبائل کو عہد وپیماں پر کاربند رہنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کا لحاظ رکھنے کی ترغیب دی ہے۔ مسلم امرا وقبائل کو ایمان وعمل پر ثابت قدم رہنے کی صورت میں اجر وثواب، انعام واکرام اور جنت کی خوش خبری سنائی گئی ہے جبکہ غیر مسلم امرا کو اسلام قبول کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے پر امن، سلامتی اور مغفرت وبخشش کی نوید دی گئی ہے۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحیثیت بشیر ونذیر پیغمبرانہ صداقت کی وجہ سے کفار کو ڈنکے کی چوٹ ایمان سے انکار کی حالت میں جزیہ اور جزیہ سے انکار پر جنگ کی دھمکی دی اور جہنم کے عذاب سے ڈرایا دھمکایا اور ان کو اس سے آگاہ کر دیا کہ حکمران وسردار قبیلہ کے اسلام قبول نہ کرنے پر اس کی تمام رعایا اور اہل قبیلہ کا گناہ اس کی گردن پر ہوگا، جب کہ مسلمانوں کو اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر عدم عمل کی صورت میں ان کی املاک کی واپسی اور امرا واقیال کی معزولی کی دھمکی دی اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے ڈرایا ہے۔

مراسلات کی سیاسی اہمیت

ساتویں صدی عیسوی میں دنیا میں دو بڑی بنیادی سلطنتیں قائم تھیں، یعنی سلطنت روم اور سلطنت فارس، جبکہ جزیرہ نمائے عرب میں قبائلی طرز زندگی رائج تھا۔ سلطنت روم میں عیسائی مذہب ترقی کر رہا تھا کیونکہ قیصر مذہباً نصرانی تھا اور مسیحی مذہب کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی۔ یہی حیثیت فارس میں مجوسی مذہب کو حاصل تھی اور وہاں کی آبادی اہرمن اور یزداں کو اپنا خالق تصور کرتی تھی۔ جزیرہ عرب میں گردش ایام نے ملت ابراہیمی کی جگہ بت پرستی کو جنم دیا۔ لوگوں نے ملت ابراہیمی سے روگردانی کی اور اللہ کے علاوہ کئی معبودان باطلہ بنا لیے تھے۔ یوں رومیوں مسیحی گمراہیوں کا شکار ہو چکے تھے، فارسی عوام توہم پرستی میں مبتلا تھے اور عرب قبائل ملت ابراہیمی سے انحراف کے علاوہ فخر ومباہات اور شدید باہمی نفرت اور تعصب کی فضا میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ پوری دنیا کفر وشرک کی لپیٹ میں تھی اور کفر وشرک کی ظلمت چاروں طرف چھائی ہوئی تھی۔ انسانیت گمراہیوں کی دلدل میں بری طرح دھنسی ہوئی تھی اور ظلم وستم کی چکی میں بری طرح پس رہی تھی۔ اب وقت آ گیا تھا کہ دنیا سے ظلم وستم کا راج ختم کر دیا جائے، ذات پات کی اونچ نیچ اور امیر وغریب اور آقا وغلام کا فرق مٹا دیا جائے اور کفر وشرک کی بیخ کنی کر دی جائے۔ دنیا میں ہمہ گیر اور عالم گیر امن کی ضرورت تھی، لہٰذا دنیاے ضلالت کے عین وسط میں آفتاب نبوت ومہتاب رشد وہدایت طلوع ہوا ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آفاقی امن وفلاح کا پیغام لے کر وادئ فاران میں نمودار ہوئے اور لوگوں کے سامنے اپنا پیغام پیش کیا۔ چند ارواح مقدسہ نے اس پیغام کو دل وجاں سے قبول کر لیا اور بارگاہ رسالت میں حاضری کا شرف حاصل کرتے ہوئے فیض یاب ہونے لگے تھے۔ اب وقت آ گیا تھا کہ جزیرہ عرب کو رشد وہدایت کی آغوش میں لینے کے بعد رحمت للعالمین ہونے کا عملی مظاہرہ کیا جائے۔ چنانچہ جاں نثاروں کو جمع کر کے اعلان کیا گیا کہ مجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت اور رسول بنا کر بھیجا گیا، لہٰذا پیغام امن وانقلاب لے کر قریب وبعید قبائل اور ارباب اقتدار کے پاس جاؤ اور انھیں اسلام کی آغوش میں لے آؤ، بصورت دیگر وہ ذلیل ورسوا ہو کر جزیہ دینے کے لیے آمادہ ہو جائیں، ورنہ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار رہیں، کیونکہ یہی اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے۔ مذکورہ تینوں صورتوں میں سے ایک کے انتخاب میں ہر شخص کو ضمیر ورائے کی مکمل آزادی دی گئی، چنانچہ کئی ایک حضرات نے اس دعوت کو قبول کر لیا اور کئی ایک نے خاموشی اختیار کر لی۔ صرف کسریٰ نے اپنی بدبختی کو دعوت دی اور نامہ مبارک کو چاک کر کے قعر مذلت کے کنویں میں جا گر اور ہمیشہ کے لیے ناکام ونامراد ہو گیا۔ 
جہاں دیگر عرب قبائل اور روم وفارس اور حبشہ کے حکمرانوں کو دعوتی مراسلات ارسال کیے گئے، وہاں یمن کو خصوصی اہمیت دی گئی۔ یمن اپنی زرخیزی، شادابی، خوش حالی اور منظم ومستحکم نظام حکمرانی کی وجہ سے عرب کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں نمایاں وامتیازی حیثیت رکھتا تھا، لہٰذا عالمی دعوتی پروگرام میں یمن پر خصوصی توجہ دی گئی۔ اکثر خطوط اس علاقے سے تعلق رکھنے والے قبائل کی طرف لکھے گئے ۔ مراسلات کے ذریعے دی جانے والی دعوت کو قبول کرتے ہوئے مندرجہ ذیل قبائل وفود کی صورت میں دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور اسلام سے بہرہ ور ہو کر رشد وہدایت کے ستارے بن کر دنیا کو جگمگائے:
وفد عبد القیس، وفد اشعریین، وفد کندہ، وفد ازد، وفد ہمدان، وفد غامد، وفد نخع، وفد بنی الحارث، وفد دوس، وفد تجیب، وفد بہرا، وفد بلی، اور وفد نجران وحضرموت۔
یہ وفود اپنے سرداروں اور ممتاز افراد کی قیادت میں حاضر ہوئے اور ذہنی وفکری انقلاب کے بعد دینی مسائل سیکھتے، سیاسی نکات حاصل کرتے اور نصائح سے فیض یاب ہو کر اصول جہاں بانی وحکمرانی معلوم کر کے اپنے اپنے علاقوں کو واپس روانہ ہوگئے۔

مراسلات کے ادبی خصائص

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مراسلات میں مکتوب نگاری کی تمام عمدہ واعلیٰ خوبیاں نمایاں ہیں۔ کلام اللہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو فصاحت وبلاغت کے لحاظ سے یکتا ہونے کے ساتھ عروج وکمال کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ آپ کے مراسلات کو عمیق نظر سے دیکھا جائے تو فصاحت وبلاغت کی بھی کئی خصوصیات روز روشن کی طرح نمایاں ہیں۔ مثلاً آپ کے مراسلات طوالت بیان سے پاک اور مسجع ومقفیٰ عبارت آرائی کے تکلف وتصنع سے کوسوں دور ہیں۔ الفاظ کے گورکھ دھندوں اور لفظ وبیان کی نمایش کے بجائے اسلوب کی سادگی نمایاں ہے۔ مراسلات ایجاز واختصار کا عظیم شاہکار ہیں۔ مراسلات کے علاوہ یہ خصوصیت آپ کی عام گفتگو میں بھی پائی جاتی ہے۔ مراسلات کا ہر جملہ پیغمبرانہ صداقت وامانت کا آئینہ دار ہے۔ یہ پختہ یقین، بلند حوصلہ اور عزم مصمم کے ساتھ دعوت حق سے معمور ہیں جن میں بڑے واضح اور نمایاں انداز میں اصول دین یعنی توحید ورسالت کی تبلیغ کی گئی ہے۔ ان کا لہجہ تند خوئی کے بجائے نرم خوئی ودل جوئی کا عمدہ نمونہ ہے۔ چند ایک امرا کے علاوہ اکثر بادشاہ آپ کے مراسلات سے متاثر ہوئے اور آپ کی دعوت پر لبیک کہا۔ مختلف قبائل سے آنے والے وفود کی اکثریت آپ کی نرم خوئی اور اعلیٰ اخلاق سے متاثر ہو کر دائرۂ اسلام میں داخل ہو گئی۔ آپ کے مراسلات پر نزاکت ولطافت کی گہری چھاپ ہے۔ 
مراسلات کا انداز تحریر واسلوب بیان بڑا سہل، نمایاں اور واضح ہے۔ تمام مراسلات کو پیش نظر رکھ کر ان کے اسلوب کو جانچا جائے تو ان کا اسلوب انشاء خطوط کا رہنما بن جاتا ہے۔ 
مراسلات کی ابتدا میں بحیثیت مرسل اسم گرامی لکھا گیا ہے۔ اسم گرامی کے ہمراہ مشہور صفت، رسول اللہ تحریر کی گئی ہے۔ بعض مراسلات میں اسم گرامی کے ساتھ لفظ عبد اللہ کا اضافہ کیا گیا تاکہ نصاریٰ کے عقیدہ فاسدہ، الوہیت مسیح کا لطیف پیرایے میں رد ہو جائے۔ مکتوب الیہ کا نام، مشہور لقب یا عرف ذکر کیا گیا ہے۔ ہرقل کے ساتھ ’عظیم الروم‘ کے لفظ سے اشارہ ہے کہ مکاتیب ومراسلات میں مناسب القاب سے مکتوب الیہ کو خطاب کیا جائے جیسے ’ہرقل عظیم الروم‘، ’کسری ابرویز ملک الفرس‘ اور ’النجاشی ملک الحبشۃ‘۔ امن وسلامتی کا جملہ مکتوب الیہ کے حسب حال مختلف ہو جاتا ہے۔ ان سے یہ رہنمائی بھی ملتی ہے مسلم مکتوب الیہ کے لیے ’سلام علیک‘ اور ’سلام علی من آمن باللہ ورسولہ‘ جبکہ کافر مکتوب الیہ کے لیے ’سلام علی من اتبع الہدی‘ لکھا جائے۔ جامع الفاظ سے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی جائے اور اللہ کی وحدانیت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دی جائے۔ 
مراسلات میں جامع انداز میں وعظ ونصیحت اور پند وارشاد کا اہتمام ہے۔ قاصدوں کی فرماں برداری کواپنی اطاعت واتباع قرار دیا گیا ہے۔ خطا کاروں سے درگزر کا برملا اعلان کیا گیا ہے۔ دعوت اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں نفاذ جزیہ کا حکم ہے۔ بغرض تصدیق مراسلات کے آخر میں مہر رسالت کی چھاپ ہے۔ مہر میں سب سے اوپر لفظ اللہ، درمیان میں لفظ رسول اور نیچے لفظ محمد نقش کیا گیا۔
مندرجہ بالا اسلوب تحریر اکثر مراسلات میں عیاں ہے، البتہ کچھ مراسلات میں اسلوب تحریر اور انداز ابتدا ذرا مختلف ہے۔ چنانچہ مالک بن نمط اور رفاعہ بن زید کے نام خط کا عنوان ’ہذا کتاب‘ ہے جبکہ منذر بن ساویٰ کے نام خط کا عنوان ’سلم انت‘ ہے۔

ایٹمی پھیلاؤ کا ’’بڑا مجرم‘‘!

جمی کارٹر

حکومت ڈیموکریٹس کی ہو یا ری پبلکن پارٹی کی، بعض اساسی اصول ایسے ہیں جن پر دونوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے، لیکن حالیہ چند برسوں کے دوران بش انتظامیہ نے چند ایسی پالیسیاں اپنائیں جنھیں ان اساسی اصولوں کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ میں ان پالیسیوں پر حد درجہ فکر مند ہوں۔ ان میں وہ پالیسیاں بھی شامل ہیں جن پر ہم عالمی امن، عالمی اقتصادی ترقی، عالمی سطح پر سماجی انصاف، شہری آزادیوں اور بنیادی حقوق کے حصول اور آب وہوا میں آلودگی کی مقدار کو ممکنہ حد تک کم کرنے کے لیے عمل پیرا ہیں۔
ہمارے تاریخی اوصاف ہیں کہ ہم اپنے شہریوں کو درست معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ہم اختلاف رائے اور اختلافی عقائد کو عزت واحترام کے ساتھ برداشت کرتے ہیں۔ ہم نے ریاستوں اور مقامی حکومتوں کو (جائز حد تک) خود مختاری دے رکھی ہے اور مالیاتی ذمہ داریاں بھی وفاق ہی کے کندھوں پر ہوتی ہیں، لیکن اندریں حالات یہ تاریخی اوصاف خطرے سے دوچار ہیں۔
(یہ امر افسوس ناک ہے کہ) ہمارے سیاسی رہنماؤں نے یک طرفہ طور پر بین الاقوامی تنظیموں اور دیرینہ عالمی معاہدوں کی پابندیوں سے آزادی کا اعلان کر دیا ہے۔ ان میں وہ تمام معاہدے شامل ہیں جو ایٹمی اسلحے اور جراثیمی وحیاتیاتی ہتھیاروں کے ضمن میں طے ہوئے یا جو عالمی نظام انصاف کے بارے میں تھے۔
جب تک ہماری ملکی سلامتی کو (براہ راست) کوئی خطرہ لاحق نہ ہو، امن ہماری قومی ترجیحات میں سرفہرست ہے لیکن ہم اپنی اس روایت کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ ہم نے ’’قبل از وقت‘‘ حملے کی پالیسی اپنا لی ہے۔ کسی ناپسندیدہ حکومت کو بدلنا مقصود ہو یاکوئی اور مقصد پیش نظر ہو، یک طرفہ اقدام کو ہم نے اپنا استحقاق سمجھ لیا ہے۔ جب کسی ملک کے ساتھ ہمارے اختلافات کی نوعیت سنگین ہو جاتی ہے تو ہم اسے ’’عالمی اچھوت‘‘ قرار دے کر اس کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے انکار کر دیتے ہیں۔
ہمارے چوٹی کے رہنماؤں کی شدید کوشش ہے کہ ساری دنیا پر امریکی سامراجیت مسلط کر دی جائے۔انھیں کوئی پروا نہیں کہ اس خواہش یا کوشش کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ یہ انقلابی پالیسیاں ان لوگوں کی تشکیل کردہ ہیں جن کی خواہش ہے کہ ہماری بے پناہ قوت اور ہمارے اثر ونفوذ کی راہ میں عالمی سطح پر کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ ایک طرف ہماری فوج مصروف جنگ ہے اور دوسری طرف ہمیں مزید دہشت گرد حملوں کے خطرات لاحق ہیں۔ پھر بھی ہم یہی کہہ رہے ہیں کہ ’’یا تو ہمارا ساتھ دو یا ہم تمھیں اپنا مخالف سمجھیں گے۔‘‘ ہم نے کسی کے لیے کوئی تیسرا راستہ رہنے ہی نہیں دیا۔ وہ دن گئے جب بین الممالک اتحاد کی بنیاد باہمی افہام وتفہیم کو یا مشترکہ مفاد کو پیش نظر رکھا جاتا تھا اور یا پھر دہشت گردی کے خطرے کو دو یا دو سے زیادہ ممالک مشترکہ خطرہ خیال کرتے تھے۔
ایک اور امر بھی خاصا پریشان کن ہے۔ قومی بحران کے اس دور میں ہمارا انحصار انھی گنے چنے مرد وزن پر ہے جنھیں لڑنے کے لیے عراقی دلدل میں بار بار دھکیلا جا رہا ہے۔ ہماری باقی ماندہ قوم سے کسی ایثار کا مطالبہ یا درخواست نہیں کی جا رہی، بلکہ ممکنہ حد تک ان سے حقائق چھپائے جا رہے ہیں اور ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ امریکی عوام کو مرنے والے امریکی فوجیوں کی اصل تعداد کا علم نہ ہو سکے۔
بجائے اس امر کے کہ ہم بنیادی انسانی حقوق کے علم بردار اور چیمپین کا کردار ادا کرتے، ’’قانون حب الوطنی‘‘ (Patrio Act) کی بعض انتہا پسندانہ شقوں نے ہماری شہری آزادیوں اور نجی زندگی کے حقوق کو سلب کر لیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ امریکہ نے ’’جنیوا سمجھوتوں‘‘ کو پس پشت ڈال کر عراق، افغانستان اور گوانتانامو بے میں تشدد کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ مختلف ملکوں کی جو حکومتیں امریکہ کی حامی ہیں، ان سے بھی ان کے عوام پر تشدد کرایا جا رہا ہے۔ صدر اور نائب صدر مصر ہیں کہ سی آئی اے کو فری ہینڈ دے دیا جائے۔ اسے اجازت بخش دی جائے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ انتہائی متشدد، شرمناک، غیر انسانی اور توہین آمیز سلوک کر سکے جو امریکی حراست میں ہیں۔
چاہیے تو یہ تھا کہ ایٹمی اسلحے پر ہم اپنا انحصار (بتدریج) کم کر دیتے۔ ایٹمی پھیلاؤ کی راہ میں رکاوٹ بنتے، لیکن ہم تو ایٹمی اسلحے کے وسیع تر ذخائر کو برقرار رکھنے کا حق مانگ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسرے ملکوں کو بھی یہ حق حاصل رہے۔ گزشتہ نصف صدی کے دوران تخفیف اسلحہ کے ضمن میں جتنے عالمی معاہدے طے پائے، ہم چاہتے ہیں کہ انھیں بیک جنبش قلم منسوخ کر دیا جائے یا ان کی صریحاً خلاف ورزی کی جائے۔ ہم اب عالمی سطح پر ایٹمی پھیلاؤ کے ’’بڑے مجرم‘‘ بن چکے ہیں۔ غیر ایٹمی ممالک پر ایٹمی حملے میں پہل پر جو پابندی عائد تھی، امریکہ اس کو بھی ترک کر چکا ہے۔ ماضی میں خلا میں اسلحے کی تنصیب کو ناپسندیدہ قرار دے دیا گیا تھا، تاہم امریکہ اس پریکٹس کی تجدید کا ارادہ رکھتا ہے۔
حکومت امریکہ تیل کے صنعت کاروں اور دیگر طاقتور لابیوں کے سیاسی دباؤ کے سامنے بے بس ہو چکی ہے۔ ہماری آب وہوا اور فضا کو آلودگیوں کے خلاف جوتحفظ میسر تھا، وہ تنزل پذیر ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں سے ہمارا آلودگی کا تناسب جانچنے کا معیار مسلسل گر رہا ہے اور آب وہوا کے حوالے سے ہماری عالمی پالیسیاں عالمی سطح پر شدید تنقید کی زد میں ہیں۔
ہماری حکومت اپنی مالیاتی ذمہ داریوں کو نبھانے سے بھی قاصر رہی ہے۔ امرا کو بے پناہ مراعات دینے کے ساتھ ساتھ امریکہ کی ورکنگ کلاس کو کاملاً نظر انداز کر دیا گیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ امریکی کانگریس کے ارکان نے اپنی تنخواہوں میں ۳۰ ہزار ڈالر فی کس سالانہ اضافے کی منظوری دے دی ہے۔
عبادت گاہوں کے اندر اور حکومت میں مذہبی بنیاد پرستی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ مذہب اور ریاست بڑی تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ ماضی میں یہ صورت حال ناقابل تصور تھی۔
دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے ناتے امریکہ کو چاہیے تھا کہ وہ امن، آزادی اور انسانی حقوق کا انتہائی ثابت قدم علم بردار نظر آتا۔ عالمی امن کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اقوام عالم ہمارے گرد جمع ہو جاتیں۔ ہم ان کی توجہ کا مرکز بن جاتے۔ دوسرے ممالک ہماری عمومی آب وہوا کو معیار مان کر ہماری تقلید کرتے اور ہم ضرورت مند انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہوتے۔
ہمارے ملک میں پائی جانے والی گہری اور تشویش ناک سیاسی تقسیم کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے کے لیے یہ وقت انتہائی مناسب اور موزوں ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی ان تاریخی، سیاسی اور اخلاقی اقدار کی تجدید اور نشاۃ ثانیہ کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں جن کی ہم گزشتہ ۲۳۰ برس مسلسل آب یاری کرتے رہے۔
(بشکریہ روزنامہ پاکستان لاہور)

بالاکوٹ کا سفر: چند تاثرات

مولانا محمد یوسف

(رمضان المبارک کے دوران میں الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کا ایک گروپ، جس میں مولانا حافظ محمد یوسف اور ڈاکٹر محمود احمد بھی شامل تھے، بالاکوٹ گیا اور زلزلہ سے متاثر ہونے والے افراد اور خاندانوں کو میڈیکل ایڈ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ الشریعہ اکادمی کی طرف سے کچھ امدادی رقوم تقسیم کیں۔ اس سلسلے میں لندن کے محترم میاں محمد اختر صاحب اور الشریعہ اکادمی کے بزرگ اور مہربان معاون ڈاکٹر انعام اللہ صاحب آف اٹک نے خصوصی تعاون فرمایا۔ اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر سے نوازیں۔ آمین۔ مولانا حافظ محمد یوسف نے اس سفر کے حوالے سے درج ذیل مختصر تاثرات واحساسات قلم بند کیے ہیں ۔ مدیر)

سفر کے محرک اٹک سے ہمارے ایک مخلص اور محترم دوست ڈاکٹر انعام اللہ صاحب (چائلڈ اسپیشلسٹ) تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے فون پر ہمیں زلزلہ زدہ علاقوں میں ابتدائی طبی امداد کے لیے جاری سرگرمیوں میں شرکت کی دعوت دی جسے ہم نے اپنی سعادت سمجھتے ہوئے قبول کر لیا۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریک پر میں نے چند مزید احباب کو بھی ا س سفر میں شریک ہونے کی دعوت دی، چنانچہ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ سے چھ افراد پر مشتمل ایک ٹیم تیار ہو گئی جس میں راقم الحروف کے علاوہ الشریعہ فری ڈسپنسری کے انچارج ڈاکٹر محمود احمد صاحب اور اکادمی کے رفقا وطلبہ میں سے محمد اکرام، فخر عالم، عبد الرشید اور محمد عارف شامل تھے۔ اس مختصر سی جماعت کی قیادت رسماً تو میرے ذمے تھی لیکن عملاً ڈاکٹر محمود احمد صاحب ہمارے رہنما تھے۔ 
بالاکوٹ میں ہم نے انفرادی، تنظیمی اور حکومتی سطح پر جاری امدادی سرگرمیوں کو قریب سے دیکھا۔ حکومتی سطح پر فوج کی امدادی ٹیمیں تو اپنی ذمہ داریاں انجام دے ہی رہی تھیں، دینی رفاہی تنظیموں نے بھی اس حادثے میں ایسا بھرپور کردار ادا کیا ہے کہ صدر پاکستان کے علاوہ عالمی میڈیا بھی بادل نخواستہ ان کا اعتراف کر چکا ہے۔ الرشید ٹرسٹ، جماعت اسلامی، الرحمت ٹرسٹ، جماعۃ الدعوۃ، تبلیغی جماعت اور جامعہ فریدیہ اسلام آباد کے زیر اہتمام قائم ریلیف کیمپوں کی امدادی سرگرمیاں نمایاں طور پر دکھائی دے رہی تھیں۔ بالخصوص الرحمت ٹرسٹ کی ٹیموں نے دور دراز علاقوں تک پہنچنے میں سبقت حاصل کی۔ نامعلوم وجوہ کی بنا پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا کوئی حصہ امدادی سرگرمیوں میں دکھائی نہیں دیا۔ بین الاقوامی سطح پر کوریا، چین، ترکی اور امریکہ کی ٹیمیں بالاکوٹ شہر میں بھرپور اور موثر کردار ادا کرتی ہوئی نظر آئیں۔
ہم بالاکوٹ پہنچے تو شہر کی سطح پر تو امدادی سرگرمیاں پوری تن دہی کے ساتھ جاری تھیں، لیکن گرد ونواح کے کئی علاقوں تک ابھی تک کسی قسم کی کوئی امداد نہیں پہنچی تھی۔ چنانچہ ہم نے ملک کی معروف دینی درسگاہ جامعہ فریدیہ اسلام آباد کے کیمپ کے ساتھ مل کر امدادی کارروائیوں کے لیے ایسے ہی علاقوں کا انتخاب کیا۔ 
بالاکوٹ کے ایک بلند وبالا پہاڑ پر واقع ایک جھونپڑی میں ہم نے نویں کلاس کی ایک طالبہ کی زخمی ٹانگ پر مرہم پٹی کی۔ اس نے بتایا کہ زلزلے کے وقت ۸۰۰ دیگر طالبات کے ساتھ وہ اپنے اسکول میں تھی اور زلزلے میں اسکول کی پرنسپل اور کئی طالبات ومعلمات جاں بحق ہو گئی ہیں۔
پہاڑ سے ہم نے شہر پر نگاہ ڈالی تو یوں لگا جیسے شہر خموشاں سامنے ہو۔ حد نگاہ تک منہدم عمارات کا ملبہ، ٹوٹی ہوئی کرسیاں، چارپائیاں، بیڈ، الماریاں، صوفے، روشن دان، کھڑکیاں، دروازے اور بکھرا ہوا گھریلو سامان کباڑ خانے کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ڈاکٹر محمود صاحب نے یہ منظر دیکھ کر کہا کہ آج ہم بالاکوٹ کو نہیں، پست کوٹ کو دیکھ رہے ہیں۔ 
ہمارا گزر ایک ایسی گری ہوئی عمارت کے پاس سے ہوا جہاں جابجا بستے، بوٹ، ٹوٹی ہوئی پنسلیں اور قلم بکھرے ہوئے تھے۔ یہ ملبہ ایک اسکول کی عمارت کا تھا جہاں ۸۰۰ نونہال زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے تھے۔ ان میں سے ۶۰۰ اس حادثے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
راہ چلتے منہدم عمارات کے ملبے پر جابجا بلدیاتی امیدواروں کے پوسٹر نظر آئے۔ ایک شکستہ دیوار پر شاہ عالم خان امیدار برائے ناظم یونین کونسل بالاکوٹ کااشتہار نظر آیا۔ ایک شخص نے بتایا کہ یہ صاحب بلدیاتی الیکشن میں کامیاب ہو گئے تھے، لیکن زلزلے میں اپنے خاندان سمیت عالم بقا کو روانہ ہو گئے۔
اپنے گھروں کے ملبے کے نیچے دب کر ہلاک ہونے والوں میں سے تو اکثر کو نکال کر دفنایا جا چکا ہے، لیکن بازاروں اور گلی کوچوں میں دبی ہوئی اکثر لاشوں کو ابھی تک نہیں نکالا جا سکا ۔ زندہ رہنے والوں کو کچھ پتہ نہیں کہ ان کے پیارے کس بازار یا کس گلی کوچے میں زندگی کی بازی ہار کر ملبے کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان عمارتوں کے ملبے سے اس قدر ناگوار بدبو اٹھ رہی تھی کہ ان کے قریب سے گزرنا محال ہو رہا تھا۔ ملبے کے نیچے بے شمار انسان اور جانور مدفون ہیں جن کی لاشوں سے یہ بدبو اٹھ رہی ہے۔ 
بالاکوٹ کے بلیانی باغ میں ہم نے ایک ہی خاندان کی چالیس قبریں دیکھیں۔ سانولے رنگ کا ایک ادھیڑ عمر شخص برستی بارش اور یخ بستہ ہوا میں خیمے سے باہر بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور سلام کیا۔ وہ چند لمحے میری طرف دیکھتا رہا۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ اگر اسے کوئی تکلیف ہے تو میں اس کو دوا دوں؟ اس نے کہا، تمھارے پاس میرے غم کی کوئی دوا ہے تو دے دو۔ اس نے بتایا کہ نہ صرف اس کے خاندان بلکہ اس کے محلے کا بھی کوئی فرد بشر زندہ نہیں بچا۔ وہ رو پڑا اور بار بار یہ کہتا رہا کہ میرا کیا بنے گا؟ میں اس کو تسلی کے دو لفظ بھی نہ کہہ سکا۔ شہر میں ہر شخص اسی طرح غم والم کی تصویر ہے۔ ہر بازار، گلی کوچے، ہر گھر بلکہ ہر جھونپڑی میں غم کی ایسی ہی داستانیں بکھری ہوئی ہیں اور خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہر شخص کو جھنجوڑ رہی ہیں کہ ’فاعتبروا یا اولی الابصار‘۔ کئی خاندانوں کو ہم نے دیکھا جو کھلے آسمان تلے بیٹھے تھے۔ کئی باپردہ خواتین گلیوں میں کپڑے چنتی نظر آئیں۔
ہمارے سروے کے مطابق بالاکوٹ اور گرد ونواح کے علاقوں کی ۷۰ فی صد آبادی اس سانحہ میں جاں بحق ہو گئی ہے۔ اگر شرح اموات کو مجموعی آبادی پر تقسیم کیا جائے تو ہر ہر گھر سے اوسطاً چار پانچ افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ اکثر سرکاری ونجی عمارات منہدم ہو چکی ہیں۔ جو عمارتیں کھڑی ہیں، دراڑیں پڑ جانے کی وجہ سے وہ رہایش کے قابل نہیں ہیں اور ان کے مکین ان کے اندر جانے سے ڈرتے ہیں۔ پورے بالاکوٹ شہر میں صرف ایک مارکیٹ اور مشرقی جانب میں پہاڑ پر واقع صرف ایک بستی ہمیں ایسی نظر آئی جو زلزلے کے آثار سے بالکل محفوظ ہے۔ 
زندہ رہنے والوں میں سے گنتی کے چند افراد ایسے ہیں جنھیں کوئی گزند نہیں پہنچی، ورنہ اکثر لوگ زخمی ہیں۔ بہت سے مردوں، خواتین اور بچوں کی ہڈیوں کا فریکچر ہو گیا ہے۔ زخمی ہونے والوں میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔ خیموں میں مرہم پٹی کے دوران میں ہم نے کئی بچے شدید زخمی حالت میں کراہتے ہوئے اور کئی نیم بے ہوشی کی حالت میں اپنی ماؤں کی گود میں بے سدھ پڑے ہوئے دیکھے۔ ایک ایسے بچے کو مرہم پٹی کے لیے لایا گیا جس کے سر میں اتنا گہرا زخم تھا کہ سر کا اندرونی حصہ صاف نظر آ رہا تھا۔ میں نے اس کو ٹافی کی پیش کش کی تو اپنی حالت سے بے نیاز بچے نے معصومیت کے ساتھ ٹافی لینے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ اس کو ٹافی دیتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔
یہ زخمی بچے امت مسلمہ کے نونہال ہیں جس کے رہبر ورہنما محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذہب، وطن، قوم اور زبان سے قطع نظر ہر بچے کے ساتھ شفقت ومحبت اور حسن سلوک کا درس دیا اور یتیم بچوں کو بہلانے کے لیے اپنے کندھوں پر سوار کرایا۔ کیا ہم ان بچوں، بوڑھوں، جوانوں، زخمی عورتوں اور بے سہارا اور بے یار ومددگار لوگوں کو ان حالات میں تنہا چھوڑ دیں گے؟ ہرگزنہیں۔ ہمیں تو روز اول سے سبق ہی یہ پڑھایا گیا ہے کہ
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
آخر میں ہم خداے رحیم کی بارگاہ میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں کہ یا اللہ! اس امت پر رحم فرما۔ جو لوگ اس سانحے میں جاں بحق ہو گئے ہیں، ان کی مغفرت فرما۔ زخمیوں کو شفاے کامل وعاجل عطا فرما۔ بے آباد لوگوں کو پہلے سے بہتر آبادی اور پہلے سے اچھا روزگار عطا فرما۔ آمین یا رب العالمین

اسلام اور تجدد پسندی

ڈاکٹر محمد امین

مغربی تہذیب کے غلبے کے نتیجے میں جب اہل مغرب نے مسلمان ممالک پر قبضہ کر لیا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اس وقت تک جو صورت حال ہے کہ مغربی استعمار بظاہر مسلم ممالک سے نکل گیا ہے لیکن اپنا تہذیبی، تعلیمی، سیاسی اور معاشی تسلط بہرحال اس نے مسلم دنیا پر قائم کر رکھا ہے، مغرب کے اس عمل کے نتیجے میں مسلم معاشرے سے جو رد عمل ابھرا، اسے ہم تین دائروں یا حلقوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک روایتی دینی حلقہ جس نے اس ہمہ جہت تہذیبی حملے کی بھرپور مزاحمت کی اور شکست کے بعد عافیت اس میں جانی کہ اپنے نظریات پر سختی سے قائم رہے اور مغرب سے استفادہ کرے نہ مفاہمت۔ دوسرے وہ حلقہ جو فکری مرعوبیت کا شکار ہو گیا اور اس نے مغربی تہذیب اور اس کے اصولوں کی ’’بڑائی‘‘ کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور وہ اس چیز کا علم بردار بن گیا کہ اپنے نظام فکر وعمل کو بدل کر اسے اس نئی اور غالب تہذیب سے ہم آہنگ کر دے۔ اور تیسرے وہ معتدل مزاج حلقہ جس نے مغرب کے اس فکری چیلنج کی اہمیت کو محسوس کیا اور اپنی اساس سے جڑے رہ کر اپنے نظام فکر وعمل کی کمزوریوں کو دور کرنے اور مغرب کی ان اچھی باتوں کو قبول کرنے میں حجاب محسوس نہ کیا جو اس کے اپنے فکری دائرے کے خانہ مباحات میں قابل قبول ہو سکتی تھیں۔ مسلم معاشرے میں مغربی تہذیب کے غلبے کے خلاف رد عمل میں یہ تین فکری دائرے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے، ان کی صورت حال کوئی ہوا بند کمروں جیسی نہیں تھی کہ یہ مکمل طور پر الگ تھلک ہوتے بلکہ ہر دائرے میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو دوسرے دائرے کے قریب تھے۔ تاہم سہولت بیان کی خاطر کہا جا سکتا ہے کہ بڑے فکری دائرے یہی تین تھے۔ اس وقت ان میں سے دوسرے فکری دائرے پر کچھ گفتگو مقصود ہے، گو اس ضمن میں دیگر فکری دائروں پر بھی کچھ تبصرہ ہو جائے گا۔
برصغیر میں اس نقطہ نظر کے علم بردار سرسید احمد خان تھے اور امیر علی، عبد اللہ چکڑالوی، علامہ مشرقی، اسلم جیراج پوری، چراغ علی اور احمد دین امرتسری وغیرہ سے ہوتی ہوئی یہ روایت قیام پاکستان کے بعد غلام احمد پرویز، غلام جیلانی برق اور نیاز فتح پوری وغیرہ تک پہنچی۔ آج کل لاہور میں اس کے علم بردار جناب جاوید احمد غامدی اور ڈاکٹر جاوید اقبال ہیں۔ ڈاکٹر رشید جالندھری، قاضی جاوید، حنیف رامے، محمود مرزا اور پروفیسر رفیق وغیرہ بھی اسی حلقے میں شامل ہیں۔ غامدی صاحب کا تعلق فراہی مکتب فکر سے ہے۔ شروع میں لوگوں کا خیال تھا کہ مولانا حمید الدین فراہی اور مولانا امین احسن اصلاحی کا حدیث کے بارے میں رویہ محض ان کے تفردات میں سے ہے جس سے صرف نظر کرنا چاہیے کہ ہر بڑے عالم کے کچھ تفردات ہوتے ہیں جن کی حیثیت اس کی مجموعی فکر کے استثناء ات کی سی ہوتی ہے (اگرچہ کچھ حساس لوگ ابتدا ہی میں کھٹک گئے تھے اور انھوں نے مولانا حمید الدین فراہی کی تکفیر کی تھی)۔ مولانا اصلاحی صاحب نے اس لے کو مزید آگے بڑھایا، لیکن جناب غامدی صاحب کے اجتہادات نے تو اس حسن ظن کا خاتمہ ہی کر دیا اور دوسرے متجددین کی طرح اب ان کا رویہ بھی یہی لگتا ہے کہ مغربی تہذیب کے فکری چولے کو اسلام پر فٹ کرنے کی کوشش کی جائے۔ خصوصاً حدیث وسنت کے بارے میں ان لوگوں کے موقف کے حوالے سے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ تجدد کا پائے چوبیں جب بھی حرکت میں آتا ہے، خواہ وہ قدیم تجدید ی تحریکیں ہوں (جیسے خوارج اور معتزلہ) یا عصر حاضر کی تجدیدی تحریکیں ہوں، ان کا پہلا نشانہ حدیث وسنت بنتی ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ حدیث وسنت قرآنی فکر کو تفصیلی عملی ڈھانچہ مہیا کرتی ہے اور دین کو ’’جدید تقاضوں‘‘ کے مطابق ڈھالنے میں رکاوٹ بنتی ہے، لہٰذا قرآن اور دین کی من چاہی تفسیر وتاویل اور اسے ’’جدید افکار‘‘ سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ان اسکالرز کو ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ درمیان میں سے حدیث وسنت کا کانٹا نکال دیا جائے۔ قدیم تجدیدی تحریکوں سے جدید تجدیدی تحریکوں کا قارورہ اس لیے بھی ملتا ہے کہ پہلی تحریکیں جس یونانی فکر سے مرعوبیت کا نتیجہ تھیں، وہ عقل پرستی اور الحاد پر مبنی تھی اور جاہلیت جدیدہ یعنی مغربی تہذیب جس فکری اساس پر مبنی ہے، وہ بھی عقل پرستی اور الحاد پر مبنی ہے، بلکہ حقیقی صورت یہ ہے کہ موجودہ مغربی تہذیب اسی یونانی تہذیب کا تسلسل اور اس کی نشاۃ نو ہے۔
تو بات ہو رہی تھی لاہور کے اہل تجدد کی۔ یہ لوگ اگرچہ پہلے سے موجود تھے اور کام کر رہے تھے اور اپنے افکار پھیلا رہے تھے، لیکن مغربی تہذیب کی حالیہ ’’کامیابیوں‘‘ (افغانستان اور عراق کی فتح) اور عالم اسلام اور مسلم معاشرے کے مختلف طبقات کو ترغیب وترہیب سے (مغربی محاورے کے مطابق چھڑی اور گاجر کی پالیسی سے) اپنے ڈھب پر لانے کا عمل جب سے امریکہ نے نئی آب وتاب اور نئے جوش وجذبے سے شروع کیا ہے، اور ہمارے مولانا مفتی سید پرویز مشرف صاحب نے جب سے اعتدال پسند اور روشن خیال اسلام کا ڈول ڈالا ہے، ان تجدد پسندوں کو بھی مہمیز ملی ہے اور سرکاری میڈیا اور حکمرانوں کی آنکھ کا اشارہ سمجھنے والے پرائیویٹ میڈیا نے ان حضرات کو ابھارنا شروع کیا ہوا ہے اور افسوس تو یہ ہے کہ روایتی ذہن سے قربت رکھنے والے مجید نظامی صاحب (اور ان کے ادارے) اور مجیب الرحمن شامی صاحب (اور ان کے اخبارات وجرائد) بھی اس میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ مزید حیرانی بلکہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان حضرات کو چیک کرنے اور انھیں ان کے غلط نظریات سے ٹوکنے اور ان کے نظریات پر پھیلنے والے فساد کا تدارک کرنے والے لوگ غافل پڑے ہیں۔ روایتی علما حسب عادت اپنے مدارس ومساجد میں لمبی تان کر سو رہے ہیں۔ مشائخ اپنے مراقبوں میں مشغول ہیں اور اسکالرز اپنی علمی غیر جانبداری اور رواداری کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ لے دے کر دم غنیمت ہے جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب کا جو ان سے مجادلہ حسنہ کرتے رہتے ہیں، یا پھر ماہنامہ ’’محدث‘‘ کے حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب ہیں جو جارحانہ انداز میں ان کا پیچھا کرتے ہیں۔ مسائل اور مباحث تو بہت ہیں لیکن اس نشست میں ہم ان سے صرف نظر کرتے ہوئے تجدد پسندی کے مرکزی موضوع اور اساسی فکر پر کچھ گفتگو کریں گے۔
مسئلہ تجدد کی اساس کیاہے؟ اس کی فکری اساس یہ ہے کہ شارع حکیم نے یہ فیصلہ فرما دیا کہ نبوت محمدی کے بعد لوگوں کی رہنمائی کے لیے اب نبوت کے تسلسل کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ اعلان کر دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں اور ان کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ (الاحزاب ۳۳:۴۰) اس کے مابعد زمانے میں لوگوں کی ہدایت کے لیے اس نے یہ انتظام فرمایا کہ ایک تو یہ اعلان کر دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک آنے والی ساری نسلوں اور سارے علاقوں کے لیے نبی ہیں۔ (سبا ۳۴: ۲۸) دوسرے اس نے کتاب (قرآن حکیم) کی حفاظت کا ذمہ خود لیا کہ یہ محفوظ رہے گی۔ (الحجر ۱۵:۹) تیسرے اس نے امت محمدیہ کی یہ ڈیوٹی لگائی کہ ہدایت لوگوں تک پہنچانا اب اس کی ذمہ داری ہے۔ (البقرۃ ۲:۱۴۳) چوتھا یہ کہ ہدایت کی بنیادی باتیں تفصیل سے بتانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان امور کی بھی نشان دہی فرما دی جو انسانوں کے لیے اس زمین میں صالح معاشرت کی بنیاد ہیں۔ (جیسے حدود، نکاح وطلاق اور وراثت کے مسائل) اور اس کے اجتماعی معاملات میں (جیسے معیشت، معاشرت اور سیاست وغیرہ) جہاں تفصیلات کا پہلے سے تعین لوگوں کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتا تھا (اور ویسے بھی خالق کائنات یہ جانتا تھا کہ قرآن وسنت کی محدود نصوص قیامت تک پیدا ہونے والے لا محدود مسائل کے لیے کافی نہیں ہو سکتی تھیں) چنانچہ اس نے اپنی رحمت سے ان معاملات میں صرف پالیسی اور بنیادی اصول دینے کا اہتمام کیا اور تفصیلات کا تعین امت کے اہل علم اور مجتہدین پرچھوڑ دیا کہ وہ اپنے زمانے، علاقے اور حالات کی رعایت سے ان کا تعین کر لیں۔ یہ انتظامات دین اسلام اور شریعت محمدی کے دوام کے لیے کافی تھے اور ہیں۔
پہلے تین امور تو واضح ہیں، چوتھے کے لیے اہل علم اور ہمارے اسلاف نے ابتدائی تجربات کے بعد اس کے بھی تفصیلی قواعد وضوابط وضع کر لیے اور یوں اجتہاد کا ادار ہ بھی منظم ہو گیا۔ یہ قواعد وضوابط اگرچہ انسانوں ہی کے وضع کردہ ہیں لیکن قرآن وسنت سے ماخوذ ہونے کے ساتھ وہ اتنے جامع اور وسیع انسانی تجربات کی کسوٹی پر اتنے آزمائے جا چکے ہیں کہ ان میں شاید ہی کسی کمی بیشی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ چنانچہ الشاطبی جیسا عبقری اور عالی فکر فقیہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ اصول فقہ قطعی الدلالۃ ہیں۔ (الشاطبی، الموافقات فی اصول الشریعہ، ج ۱ ص ۴۵ ومابعد (اردو ترجمہ) مرکز تحقیق، دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری، لاہور، ۱۹۹۳) پس اصولی لحاظ سے دیکھا جائے تو کوئی مسئلہ باقی نہیں رہتا اور ہر مسئلے کے حل کا میکانزم فکر اسلامی میں موجود ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی اجتہادی مسئلے میں اہل علم کا آپس میں اختلاف ہو جائے۔ تو ہوتا رہے، یہ کون سی بڑی بات ہے۔ سوچنے سمجھنے والے لوگوں کا آپس میں اختلاف تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ ویسے امت نے صدیوں کے تجربات سے اس کا بھی حل نکال لیا اور امت کی ایک بہت بڑی اکثریت منتخب اجتہادی مکتب ہائے فکر سے منسلک ہو گئی (ائمہ اربعہ، غیر مقلدین اور شیعہ) اور آج بھی منسلک ہے۔ تو یوں کسی ممکنہ بڑے فکری انتشار سے بچنے کا بھی ایک مستحکم حل مل گیا۔ تو اب اصولی طور پر کوئی مسئلہ باقی نہیں، مسئلہ ہے تو صرف ہمارے رویوں کا کہ اعتدال کا راستہ چھوڑ کر کچھ لوگ تجمد کا رویہ اختیار کر لیتے ہیں تو کچھ تجدد کا۔ تجمد کا رویہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنے اختیار کردہ اجتہادی مسلک کو عین دین سمجھنے لگتے ہیں اور اس کی حقانیت ثابت کرنے اور اس کی مدافعت میں اپنی زندگیاں لگا دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حرف آخر اور حتمی ہے، ناقابل تغیر ہے اور اس میں کسی کمی بیشی کی کوئی گنجایش نہیں۔ یہ رویہ لاریب غلط اور نقصان د ہ ہے۔ اس سے مقاصد شریعت فوت ہوتے ہیں۔ دین اسلام ظاہر ہے کہ محض پوجا پاٹ کی مناجات اور اخلاقی ہدایات کا مجموعہ نہیں، یہ تو زندگی گزارنے کا لائحہ عمل ہے۔ تو جب ہم اس تجمد کا شکار ہوتے ہیں تو ہم اس دین کو زندگی کے رواں دواں دھارے سے کاٹ دیتے ہیں اور اس سے پچھڑنا قبول کر لیتے ہیں۔ یہ گویا زندگی کے متحرک ریلے کے ساتھ عدم مطابقت اور اس کا ساتھ نہ دینا ہے جس کے نتیجے میں ظاہر ہے کہ زندگی کا متحرک ریلا آگے نکل جائے گا اور آپ کا دین پیچھے رہ جائے گا۔ یوں تجمد کا رویہ اختیار کرنے والے لوگوں سے دین اور امت کو نقصان پہنچتا ہے۔
اس کے مقابلے میں تجدد کا رویہ یہ ہے کہ کچھ لوگ دوسری قوموں اور تہذیبوں کے افکار واعمال سے متاثر ہو جاتے ہیں، انھیں اپنے فکر وعمل سے اچھا اور اعلیٰ وبرتر سمجھنے لگتے ہیں اور یہ کوشش کرنے لگتے ہیں کہ انھیں اسلامی لباس پہنا کر اختیار کر لیا جائے۔ یوں وہ اجتہا د کے نام پر غیر اسلامی افکار واعمال کو گلے لگا لیتے ہیں اور اپنا اور اپنے دین کا نقصان کرتے ہیں۔ آج اسلام اور مسلمانوں کی صورت حال بڑی گھمبیر ہے اور بڑے حوصلے، تدبر اور ژرف نگاہی کا تقاضا کرتی ہے۔ مسلمان جو اپنے دین سے تمسک کی وجہ سے اور اسے دنیا میں پھیلانے اور غالب کرنے کی دھن میں ایک ہزار سال تک دنیا پر چھائے رہے، پچھلی تین صدیوں میں کمزور اور مغلوب ہو گئے ہیں۔ اس دوران میں مغربی قومیں اپنے نظریہ حیات (سیکولرزم، ہیومنزم، لبرلزم، میٹریلزم وغیرہ جن کا مطلب ہے اجتماعی زندگی میں اللہ کی اتھارٹی کا انکار اور اپنی عقل اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنا، دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھنا، آخرت سے صرف نظر کرنا اور اللہ کی ہدایت کو جاننے کے لیے اس کے فرستادہ شخص کی غیر مشروط اطاعت نہ کرنا، گویا توحید، رسالت، آخرت اور آسمانی دین کا صریح انکار) سے مستحکم وابستگی کے نتیجے میں دنیا میں ترقی کر گئیں۔ چونکہ وہ مسلمانوں سے مغلوب ہوئی تھیں، لہٰذا انھوں نے انتقاماً مسلمانوں کے علاقوں کو فتح کیا، انھیں کچلا، غلام بنایا، ان پر ظلم ڈھائے اور آج بھی وہ اسی مسلم دشمنی کی روش پر گام زن ہیں۔ چونکہ وہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی قوت وشوکت کی بحالی ان کے دین سے تمسک میں پوشیدہ ہے، اس لیے مجبوراً مسلم ممالک کو آزادی دینے کے باوجود وہ ہر ایسا ہتھکنڈا اختیار کر رہی ہیں جن سے مسلمان اپنے دین سے حقیقی وابستگی اختیار نہ کر سکیں۔ ظاہر ہے انھیں نماز روزے وغیرہ سے پرخاش نہیں، لیکن وہ اسلام کو بحیثیت ایک نظریہ حیات اور نظام حیات اور بطور ایک منفرد ومستقل تہذیب کے قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ان حالات میں مسلم امہ کے اہل علم وفکر کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ فکری استقلال کی روش اختیار کریں، اپنے اصولوں پر سختی سے جمے رہیں اور یہ جدوجہد کریں کہ امت دوبارہ اپنے دین سے جڑ جائے اور اس کے تقاضوں کو کماحقہ پورا کرنے لگے۔ یہ ہے کرنے کا اصل کام اور نجات کا راستہ۔ اس کے برعکس دین کے وہ داعی اور علم بردار جو منفعل اور مرعوب ذہن کے مالک ہیں، وہ اپنی کوتاہ فکری سے یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی تہذیب کی بالادستی کی وجہ اس کی خوبیاں اور اچھائیاں ہیں، لہٰذا وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی قوم میں بھی یہ اچھائیاں پیدا ہو جائیں اور وہ دنیا میں ترقی کرنے لگے۔ ا س کے لیے وہ یہ طریقہ اختیار کر تے ہیں کہ قرآن وسنت کی نصوص کی ایسی تاویل وتشریح اور تعبیر کرتے ہیں کہ مغربی فکر وعمل مسلمانوں کے لیے قابل قبول ہو جائے اور اجتماعی معاملات کی تفصیلات کے تعین کے لیے شریعت نے اجتہاد کا جو دروازہ کھلا رکھا ہے، اسے اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ مغربی فکر وعمل اور اس کے اداروں کو اسلام میں امپورٹ کر لیا جائے۔ ظاہر ہے تجدید اسلام کا یہ منہج اگر نیک نیتی سے اپنایا جائے تو یہ گمراہی ہے اور اگر ذاتی مفاد کے لیے اپنایا جائے تو یہ اسلام اور مسلمانوں سے غداری ہے۔ اس کی بدترین مثال غلام احمد قادیانی کی ہے جس نے استعمار کی نفیِ جہاد کی ضرورت پوری کرنے کے لیے جعلی نبوت کا ڈھونگ رچایا۔ باقی متجددین بھی اسی راہ کے راہی ہیں، لیکن مرزا غلام احمد جیسی اونچی اڑان، ظاہر ہے، ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔

کج فکری کی اساس

متجددین عصر حاضر کی کج نظری کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اس بات کو نہیں سمجھ سکے کہ مسلمانوں کے زوال کی اصل وجہ کیا ہے اور وہ کس طرح زوال کے اس گرداب سے نکل سکتے ہیں۔ اسی طرح وہ یہ بھی نہیں سمجھ سکے کہ مغرب کے عروج کی اصل وجہ کیا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب کے عروج کی وجہ اس کی سائنس وٹیکنالوجی میں ترقی ہے، اس کا انفع اور اصلح ہونا ہے اور اس میں بعض انسانی خوبیوں (اتحاد، محنت، تنظیم، پلاننگ، استقرائی منہج اور ریسرچ وغیرہ) کا ہونا ہے، لہٰذا مسلمان بھی اگر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو اس کی واحد صورت یہی ہے کہ وہ مغربی تہذیب کے ان خصائص کی پیروی کریں۔ یوں وہ اپنے ضمیر اور شعور کو مطمئن کرتے ہیں کہ وہ اسلام کی تعبیر نو اور اجتہاد کے ذریعے اگر مغربی تہذیب اور اس کے اصولوں کو مسلمانوں کے لیے قابل قبول بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ کوئی غلط کام نہیں کرتے بلکہ مفید اور اچھا کام کرتے ہیں، حالانکہ یہ سارا تصور ہی سراب پر مبنی ہے اور غلط فہمیوں کا پلندہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ دنیا میں قوموں کے عروج وزوال کے فلسفے کو سمجھ ہی نہیں سکے۔
دنیا میں قوموں کے عروج وزوال کا صحیح اور اسلامی فلسفہ یہ ہے کہ اللہ نے یہ دنیا دار الاسباب بنائی ہے اور جو فرد اور قوم بھی اسباب دنیا فراہم کرنے پر زیادہ بہتر طور پر اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں کو استعمال کرتی ہے ، وہ ایسا نہ کرنے والوں سے آگے نکل جاتی ہے۔ اس کا کسی کے دینی موقف کے صحیح یا غلط ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ دیکھیے، اللہ ان کو بھی رزق دیتا ہے جو اسے مانتے اور اس کی عبادت کرتے ہیں اور ان کو بھی رزق دیتا ہے جو اس کا انکار کرتے اور اسے گالیاں دیتے ہیں۔ ایک تہجد گزار مسلمان اگر اپنی دکان وقت پرنہیں کھولتا، اس کے پاس سامان تجارت کم ہے اور گاہکوں سے درشتی سے پیش آتا ہے تو اس کی دکان فیل ہو جائے گی۔ اور اس کے برعکس ایک بت پرست ہندو اگر اپنی دکان وقت پر کھولتا ہے، اس کے پاس سامان وافر ہے اور وہ گاہکوں سے خوش اخلاقی سے پیش آتا ہے تو اس کی دکان خوب چلے گی، لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہوگا کہ اس مسلمان کو ہندو بن جانا چاہیے یا ہندووں کی اور ہندو مت کی پیروی شروع کر دینی چاہیے، کیونکہ خود اس مسلمان کا اپنا دین اس سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ خوش اخلاق ہو، وہ وقت کی پابندی کرے اور جو کام بھی کرے، بہترین انداز میں کرے۔ لہٰذا ایسے مسلمان کو یہ کہنا چاہیے کہ اگر تم کامیاب دکاندار بننا چاہتے ہو تو اپنے دینی اصولوں کی پیروی کرو نہ کہ یہ کہنا چاہیے کہ تم ہندووں کی، ان کے اصولوں کی اور ان کی تہذیب کی پیروی کرو۔ اسی مثال کو آپ مغرب اور مغربی تہذیب پر منطبق کر لیں تو آپ سمجھ لیں گے کہ مسلمانوں کو دنیوی ترقی کے لیے مغرب کی اور اس کی بعض خوبیوں کی طرف دعوت دینا کس طرح غلط ہے۔
جو بات سمجھنے کی ہے، وہ یہ ہے کہ کسی قوم کی دنیوی ترقی کا تعلق اس کے اختیار کردہ نظریہ حیات؍دین کے سچا یا جھوٹا ہونے سے نہیں ہوتا بلکہ اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ قوم جس نظریہ حیات پر ایمان لائی ہے (یا اس کا دعویٰ کرتی ہے) وہ کتنی شدت اور اخلاص سے اس سے عملاً وابستہ ہے۔ اگر وہ ہو تو اس کے اندر وہ معروضی انسانی خوبیاں پید اہو جائیں گی جو دنیوی ترقی کا سبب بنتی ہیں ( جیسے محنت، تنظیم، پابندی قانون، اتحاد، ایثار، تحقیق وغیرہ) اور اگر وہ نہ ہوں تو اس میں وہ خوبیاں پیدا نہ ہوں گی۔ مسلمان جب تک اخلاص اور شدت سے اپنے دین سے وابستہ رہے، ان میں وہ خوبیاں پیدا ہو گئیں جو دنیوی ترقی کے لیے ضروری ہیں اور جب ان کی یہ وابستگی کمزور ہو گئی تو ان میں وہ خوبیاں بھی ناپید ہو گئیں اور وہ کمزور ومضمحل ہو کر مغربی قوموں کے غلام بن گئے جو اپنے نظریہ حیات (سیکولرزم، ہیومنزم وغیرہ) پر اخلاص اور شدت سے عمل پیرا تھے اور وہ میں وہ معروضی خوبیاں پید اہو گئیں جو دنیوی ترقی کے لیے مطلوب ہیں۔
سطور بالا میں جس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان اہل مغرب اور مغربی تہذیب کی پیروی کر کے ترقی نہیں کر سکتے، کیونکہ ان کا نظریہ حیات اہل مغرب کے نظریہ حیات کے بالکل الٹ ہے (مسلمان توحید، رسالت اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں، جبکہ اہل مغرب سیکولرزم، ہیومنزم، لبرلزم وغیرہ پر جو کہ اسلامی اصولوں کے بالکل متضاد ہیں) لہٰذا اگر وہ اپنے نظریہ حیات کو چھوڑ کر مغرب کے نظریہ حیات پر چلیں گے تو ان میں ہرگز وہ معروضی انسانی اوصاف پیدا نہیں ہوں گے جو دنیوی ترقی کے لیے ضروری ہیں بلکہ اس اجتماع ضدین کا لازمی نتیجہ فکری انتشار اور ذہنی پراگندگی کی صورت میں نکلے گا جس سے ان کی شخصیت مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر بکھر جائے گی اور وہ قعر ذلت سے نکلنے کے بجائے مزید اس میں دھنستے چلے جائیں گے۔ اور اگر ایک لمحے کے لیے اس ناممکن بات کو صحیح فرض بھی کر لیا جائے کہ مسلمان مغربی تہذیب کی پیروی کر کے دنیوی ترقی کر سکتے ہیں تو یہ دیکھیے کہ مغرب کے پیش نظر صرف دنیا ہے (ظاہر ہے کہ سیکولرزم ، لبرلزم، میٹریلزم وغیرہ آخرت کے تصور پر مبنی نہیں) اور آخرت تو ان کے پیش نظر ہے ہی نہیں، تو کیا مسلمانوں کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ دنیوی ترقی کے ایک ایسے ماڈل کی پیروی کریں جس کے نتیجے میں ان کی آخرت برباد ہو جائے؟ ظاہر بات ہے کہ کمزور سے کمزور ایمان کا حامل مسلمان بھی اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا، لہٰذا عقل ومنطق کے ہر تقاضے کی رو سے مسلمانوں کو مغرب اور مغربی تہذیب کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ (اس مبحث کے تفصیلی مطالعے کے لیے دیکھیے ہماری کتاب ’’مسلم نشاۃ ثانیہ۔ اساس اور لائحہ عمل‘‘ مطبوعہ کتاب سرائے، اردو بازار لاہور)
لہٰذا وہ علما اور اسکالرز صریح غلطی پر ہیں جو مسلمانوں کو مغربی تہذیب کے اچھے اصولوں کی پیروی کا مشورہ دیتے ہیں یا اسلام کی ایسی تاویل وتعبیر کرتے ہیں جس سے وہ مغربی اصولوں کے مطابق ہو جائے یا اجتہاد کے نام پر مغربی تصورات اور اداروں کو مسلمانوں میں رائج کرنا چاہتے ہیں۔ دراصل یہ فاتح اور غالب مغربی تہذیب کا جادو ہے جو ان کے سر چڑھ کر بول رہا ہے اور وہ اپنی فکری مرعوبیت کو دانش کے ملمع میں چھپا کر مسلمانوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ یہ اسکالرز بھول جاتے ہیں کہ اسلام کی دانش ابدی اور سرمدی ہے اور غیر حقیقی دانشیں وقتی طور پر اپنی چھب دکھا کر تاریخ کے سفر میں گم ہو جاتی ہیں۔ اعتزال کا غلغلہ کس زور سے اٹھا تھا لیکن وہ کتنی دیر چل سکا؟ مین اسٹریم اسلام یا جمہور اہل سنت کا اسلام معتزلہ سے پہلے بھی موجود تھا، ان کے بعد بھی موجود رہا، الحمد للہ آج بھی موجود ہے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی موجود رہے گا لیکن معتزلہ آج کہاں ہیں؟ ابھی کل تک ہمارے دیکھتے اشتراکیت کا طوطی بولتا تھا اور کتنے بڑے بڑے علما اور اسکالرز تھے جو اسلام کی تعبیر وتشریح اشتراکی اصولوں کے مطابق کرتے تھے اور سوشلزم کو عین اسلام ثابت کرتے تھے۔ آج وہ کہاں ہیں اور ان کی دانش کہاں ہے؟ یہی حال مغربی تہذیب کا ہے۔ وہ اسکالرز جو آج مغربی تہذیب سے مرعوب ہو کر اسلام کی تعبیر وتاویل کر رہے ہیں، ان کی سطحی سوچ کا مہتاب جلد غروب ہو جائے گا کیونکہ مغربی تہذیب کی جھوٹی ملمع کاری زیادہ دیر چلنے کی نہیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ دس، بیس، پچاس، چلیے سو برس اور چل جائے گی۔ خود مغربی دانش ور کہہ رہے ہیں کہ یہ زیادہ سے زیادہ سو سال اور نکالے گی۔ (Samuel P. Huntington: Clash of Civilization & Remaking of World Order, Simon & Scuster, New York, 1997) جبکہ ہمارا اندازہ یہ ہے کہ یہ ربع صدی بھی نہیں نکالے گی اور اس کا تارو پود بکھر جائے گا جیسے کہ کمیونزم کا بکھرا۔ اس وقت یہ دانش ور کیاکریں گے اور کیا کہیں گے؟ ان کی حالت تو یہ ہے کہ ڈارونزم اور ارتقا کو خود مغربی اہل علم اور سائنس دان رد کر چکے ہیں، لیکن یہ بزرجمہر آج بھی نظریہ ارتقا کو صحیح ثابت کرنے کے لیے قرآن وسنت سے دلائل پیش کرتے ہیں۔ یہ ’’عبقری‘‘ نہیں سوچتے کہ مغربی دانش کا سورج غروب ہو جائے گا لیکن اسلام کی دانش مندی کا سورج ہمیشہ چمکتا رہے گاکیونکہ وہ وحی پر مبنی ہے نہ کہ محدود انسانی عقل اور اس کے مخدوش تجربات پر۔
ہم تجمد کی مذمت کرتے ہیں، ہم حریت فکر کی حمایت کرتے ہیں، ہم اجتہا دکے حامی ہیں، ہم روشن خیالی کے قائل ہیں، ہم جدت کو سراہتے ہیں، ہم ترقی کے خواہاں ہیں، دوسری قوموں سے محتاط استفادے میں بھی کوئی حرج نہیں، یہ سب ہونا چاہیے لیکن اسلام کے فکری دائرے کے اندر رہتے ہوئے، فکری استقلال کے ساتھ، مین اسٹریم اسلام پر چلتے ہوئے، کسی غیر اسلامی فکر اور تہذیب سے مرعوب ہوئے بغیر اور تجدد سے بچتے ہوئے۔ یہی اعتدال کا راستہ ہے۔ تجمد اور تجدد کا راستہ غلط ہے اور تباہی کا راستہ ہے۔

تجدد پسندوں کا طریق کار

اس بحث کو سمیٹنے سے پہلے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ تجدد پسندوں کی حکمت عملی اور ان کے طریق کار پر کچھ روشنی ڈا ل دی جائے تاکہ ان کو پہچاننے میں آسانی رہے۔ ان کی حکمت عملی کے اہم نکات یہ ہیں:
۱۔ قرآن حکیم پر زور دیا جائے لیکن اس طرح کہ جس ہستی پر قرآن نازل ہوا تھا اور جس کے ذمے اس کی تبیین تھی، دین میں اس کے کردار اور اس کی تبیین (حدیث وسنت) دونوں کو اہمیت نہ دی جائے (گویا یہ بے عقل لوگ اس بات کو نہیں سمجھ سکے کہ یہ امت آج اگر زندہ اور متحد ہے تو صرف محبت رسول کے صدقے۔ فداہ ابی وامی صلی اللہ علیہ وسلم)
۲۔ حدیث وسنت کو بے اعتبار ٹھہرایا جائے۔ اس کے لیے جو ’دلائل‘ دیے جاتے ہیں، وہ کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں:
احادیث اکثر وضعی ہیں اور عجمی سازش۔ یہ بہت تاخیر سے مدون ہوئیں لہٰذا قابل اعتماد نہیں۔ بہت سی احادیث قرآن حکیم کے خلاف ہیں۔ متواتر احادیث گنتی کی ہیں اور اکثر حدیثیں آحاد ہیں اور آحاد حدیثیں ظنی الدلالۃ ہوتی ہیں۔ احادیث اس زمانے کے حالات کے مطابق تھیں۔ اب حالات بدل گئے ہیں۔ حدیث وسنت میں فرق ہے۔ حدیثیں آحاد ہیں اور ناقابل اعتماد، صرف وہ چند سنتیں قابل اعتماد ہیں جو تعامل امت سے ثابت ہوتی ہیں ، وغیرہ۔ 
۳۔ مغرب اس لیے غالب ہے کہ انفع اور اصلح ہے، لہٰذا وہ خلافت ارضی کا حق دار ہے۔
۴۔ مغرب نے اسلامی اصول اپنا لیے ہیں، اس لیے وہ غالب اور بالادست ہے۔
۵۔ اہل مغرب سے ہمیں مفاہمت اختیار کرنی چاہیے کیونکہ وہ اہل کتاب ہیں، آخر حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ ہمارے بھی تو پیغمبر ہیں۔
۶۔ مغرب نے جن اصولوں پر عمل کر کے دنیا میں ترقی کی ہے، ان کی پیروی کر کے ہمیں بھی ترقی کرنی چاہیے۔
۷۔ ملا کی تحقیر اور اس کو گالی دینا، کیونکہ ان کے نزدیک وہ مسلمانوں میں ساری خرابیوں کی جڑ ہے اور مسلم معاشرے سے اس کا خاتمہ اور اس کو غیر موثر کرنا ضروری ہے۔
۸۔ مسلمان اگر اپنے علاقے کا دفاع کریں تو بھی اسے جہاد نہ سمجھنا اور دہشت گردی قرار دینا۔
۹۔ مغرب کی ریاستی دہشت گردی کو صحیح ثابت کرنے کے لیے دلائل دینا اور جواز تراشنا۔
۱۰۔ اسلاف کی بے ادبی۔
۱۱۔ اجماع کا انکار۔
۱۲۔ تقلید کی مذمت۔
۱۳۔ مغرب سے متاثر جو تنظیمیں مسلم معاشرے میں آزادی نسواں کی تحریک چلا رہی ہیں، ان کی حمایت کرنا۔
۱۴۔ مغربی لائف اسٹائل کا دفاع کرنا مثلاً دوپٹے کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، کوٹ پتلون اور نکٹائی وغیرہ پہننے میں کوئی حرج نہیں۔
۱۵۔ مغربی تصورات اور اداروں کی حمایت کرنا، جیسے جمہوریت، آزادی، رواداری، عدل، بنیادی حقوق اور حریت فکر وغیرہ، حالانکہ ان امور کے مغربی تصور اور اسلامی تصور میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔
۱۷۔ بے دین مسلم حکمرانوں کی حمایت کرنا۔
۱۸۔ قوم پرست اور سیکولر سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور اداروں کی حمایت کرنا۔
۱۹۔ ملک میں قائم دینی اداروں کی تنقیص اور ان پر تنقید، جیسے شرعی عدالت، حدود قوانین اور نظریاتی کونسل وغیرہ۔
۲۰۔ تصوف کے غیر اسلامی رسوم ورواج اور افکار واعمال کی حمایت کرنا۔
۲۱۔ دعوت دین کے ایک ایسے تصور کی حمایت جو مفاہمت، مسکینی اور گوسفندی پر مبنی ہو اور جس میں عزیمت، نہی عن المنکر، جہاد، نفاذ دین اور غلبہ اسلام کا ذکر نہ ہو۔
۲۲۔ مسلمانوں کے زوال کی وجہ ان کا مادی انحطاط ہے۔
۲۳۔ شریعت پر عمل کیا جائے اور فقہ کو چھوڑ دیا جائے۔
۲۴۔ خاندانی منصوبہ بندی کی حمایت۔
۲۵۔ قربانی دینے کے بجائے اس کے پیسے غریبوں کو دے دیے جائیں۔
۲۶۔ عورتوں کی آزادی، مساوات، بے پردگی اور مردوں کے ساتھ کام کرنے کی حمایت۔
۲۷۔ عقلیت پسندی بلکہ عقل پرستی۔
۲۸۔ لغت اور بائبل کو سنت پر ترجیح دینا۔
۲۹۔ موسیقی اور گانے بجانے کی حمایت بلکہ اس پر عمل۔
خلاصہ یہ کہ ہمیں تجمد اور تجدد کا راستہ چھوڑ کر اعتدال کا راستہ اپنانا چاہیے۔ ہمیں اسلام کو جدید بنانے کی ضرورت نہیں بلکہ ’’الی الاسلام من جدید‘‘ کی ضرورت ہے۔

ڈارون کا تصور ارتقا اور اقبال

ڈاکٹر محمد آصف اعوان

چارلس ڈارون (۱۸۸۲۔۱۸۰۹) کو مغرب کی مادہ پرست فکر اور تحریک الحاد کا نمائندہ مفکر قرار دیا جا سکتا ہے۔ ڈارون نے اگرچہ ابتدائی عمر میں طب اور دینیات کی تعلیم حاصل کی تاہم اسے حیوانات اور نباتات کے مشاہدہ اور ان کی شکل وساخت کے تغیرات معلوم کرنے اور ان کی توجیہات پر غور کرنے کا بہت لپکا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کے پانچ نہایت قیمتی سال بحری سفر میں صرف کیے۔ یہ سفر دراصل ڈارون کے لیے حیوانات اور مظاہر فطرت کا ایک مطالعاتی سفر تھا۔ اس سفر کے مشاہدات نے ڈارون کے فلسفہ ارتقا کے لیے خشت اول کا کردار ادا کیا۔ مظاہر فطرت کے اندر تغیرات اور مماثلتوں کے مشاہدہ نے اس کے ذہن میں کئی ایک سوالات پیدا کیے جس کے نتیجے میں اس کے دماغ میں مختلف انواع کے درمیان ایک منطقی ربط اور تسلسل کا خیال پیدا ہوا۔ یہ گویا ڈارون کے تصور ارتقا کا ابتدائی مبہم خاکہ تھا۔
ڈارون کا فلسفہ ارتقا پہلی مرتبہ جامع صورت میں اس کی کتاب ’’مبدا حیات بوسیلہ قدرتی انتخاب‘‘ (On the Origin of Species by Means of Natural Selection) میں منظر عام پر آیا۔ یہ کتاب ۱۸۵۹ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب نے فکری دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ ڈارون نے کہا کہ ہر جاندار کے جسم اور شکل وساخت میں مسلسل خفیف تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں اور ایک طویل مدت کے بعد ان تبدیلیوں کے جمع ہونے سے ایک نیا جاندار وجود میں آ جاتا ہے۔ اگر اس جاندار کی نسل جسمانی بناوٹ کے لحاظ سے جہد للبقا (Struggle for existence) کے دوران میں اپنے ماحول کی مشکلات کے ساتھ کامیاب مقابلہ کر سکے تو وہ زندہ رہتی ہے ورنہ مٹ جاتی ہے۔ زندگی اپنے ظہور کے بعد مسلسل ارتقا پذیر ہے اور اسی وجہ سے مختلف انواع کے وجود بنتے اور مٹتے رہتے ہیں۔ روئے زمین پر نوع بشر کا ظہور بھی ارتقا کے اسی قاعدے کا نتیجہ ہے۔
"As Natural selection acts solely by the preservation of profitable modifications, each new form will tend in a fully-stocked country to take the place of, and finally to exterminate, its own less improved parent form and other less favoured forms with which it comes into competition. Thus extinction and natural selection go hand in hand." 1
ڈارون کے تصور ارتقا میں انتخاب طبعی (Natural Selection) اور تنازع للبقا (Struggle for existence) دو اہم پہلو ہیں۔ ڈارون کے خیال میں وقت اور ماحول کے مطابق اپنے آپ کو جلد از جلد ڈھال لینے کا عمل انواع کی نہ صرف بقا بلکہ دیگر انواع پر حکمرانی اور تغلب کا باعث بھی بنتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا آف فلاسفی میں درج ہے:
"Some variations provide the organisms with an advantage over the rest of the population in the struggle for existence." 2
ایسی انواع جو تنازع للبقا کے دوران میں بہتر حکمت عملی کی بدولت اپنے نظام اور ساخت حیات میں ایسے تیز رفتار تغیرات کے عمل سے گزرتی ہیں جو انھیں دیگر انواع سے یکسر مختلف (Distinct) کر دے، وہ انتخاب طبعی کے عمل میں بھی سرخرو رہتی ہیں۔ انتخاب طبعی کا عمل کیا ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈارون کہتا ہے کہ انواع کے اندر غیر محدود طور پر بڑھنے، ترقی کرنے اور اپنی نسل میں اضافہ کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے جس سے آبادی میں بے حد اضافہ ہو جاتا ہے، لیکن وسائل حیات نہیں بڑھتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قدرتی آفات مثلاً بیماری، وبا، جنگ، قحط، زلزلہ اور موت کی دیگر صورتوں سے انواع اور وسائل حیات میں توازن قائم ہوتا ہے۔ ڈارون کا خیال ہے کہ اس طریقے سے قدرت صرف ان انواع کا انتخاب کرتی ہے اور صرف انھیں زندہ رہنے کا حق دیتی ہے جو کسی لحاظ سے دیگر انواع سے بہتر ہوں اور جنھوں نے تنازع للبقا کے عمل میں ماحول کے ساتھ موافقت کرتے ہوئے اپنے آپ کو تغیرات کے عمل سے گزار کر ارتقا کے اگلے مراحل میں قدم رکھ لیا ہو۔ (۳) ڈارون لکھتا ہے:
Every being, which during its natural lifetime produces several eggs or seeds, must suffer destruction during some period of its life, and during some season or occasional year, otherwise, on the principle of geometrical increase, its number would quickly become so inordinately great that no country could support the product. Hence, as more individuals are produced than can possibly survive, there must in every case be a struggle for existence, either one individual with another of the same species, or with the individuals of distinct species or with the physical conditions of life." 4
آگے چل کر ڈارون زیادہ واضح انداز میں رقم طراز ہے:
"There is no exception to the rule that every organic being naturally increases at so high a rate that, if not destroyed, the earth would soon be covered by the progeny of a single pair." 5
چارلس ڈارون چونکہ میکانکی اور مادی نقطہ نظر کا حامل تھا، اس لیے ابتداے حیات کے سوال کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں اور وہ اسے ایک ناقابل حل معما اور انسان کے حیطہ عقل سے ماورا مسئلہ قرار دیتا ہے۔ اسے اس بات کا پختہ یقین تھا کہ انواع کے حیاتیاتی ارتقا میں کسی مافوق الفطرت ہستی یا قوت کا عمل دخل نہیں۔ ہیرلڈ ہونڈنگ لکھتا ہے:
’’اگر مادیت سے محض یہ مراد لی جائے کہ یہ فوق الفطرت مداخلت کو برطرف کر کے مظاہر کو فطری طور پر معین فطری قوانین میں تحویل کرنے کا نام ہے تو ڈارون یقیناًمادیتی تھا۔ اس کا نظریہ یہ ہے کہ جانداروں کی صورتیں مکمل طور پر خدا کے تصور میں نہیں تھیں۔ یہ شکلیں نہایت ادنیٰ شروعات سے اور ماحول کے مسلسل اثرات سے طویل عمل ارتقا کے بعد بنی ہیں۔‘‘ (۶)
مختصر یہ کہ ڈارون کے نزدیک کائنات کی حیثیت ایک مشین کی سی ہے جس میں مظاہر اور انواع، مشین کے پرزوں کی صورت میں میکانکی انداز میں کام کرتے ہوئے اور مقررہ قوانین کے تحت چلتے ہیں۔ زندگی اپنے ادنیٰ ترین مراحل سے انسانی سطح کے اعلیٰ ترین مرحلے تک انھی معین قوانین اور میکانکی عمل کے نتیجے میں پہنچی ہے۔
اقبال کی فکرکا بنیادی نکتہ اس کا فلسفہ خودی تصور کیا جاتا ہے، تاہم اگر بنظر عمیق دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کی فکر پر اول تا آخر فلسفہ ارتقا کی چھاپ ہے، یہاں تک کہ تصور خودی بھی اسی بنیادی اور بڑے فلسفے کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔ (۷)
اقبال اور ڈارون کا ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک تمام مادہ کی حقیقت روحانی ہے۔ ’’کائنات میں جذبہ الوہیت جاری وساری ہے۔‘‘ (۸) مادہ کو اس کی روحانی حقیقت سے الگ رکھ کر دیکھا اور پرکھا نہیں جا سکتا جبکہ ڈارون کی کمزوری یہ ہے کہ اس کی نظر کائنات کے صرف مادی پہلو پر ہے جیسے کہ ڈارون کے متعلق پروفیسر سی۔ ای۔ ایم جوڈ رقم طراز ہیں کہ ’’ڈارون کاپیش کردہ عمل ارتقا ارتقاے حیات کا ایسا عمل ہے جسے خالصتاً فطری قوتوں کی کارفرمائی کا ماحصل سمجھنا چاہیے۔‘‘ (۹) چنانچہ مغربی فلسفہ ارتقا میں ڈارون مادیت پرست اور میکانکی طرز فکر کا سب سے بڑا نمائندہ مفکر بن کر سامنے آتا ہے۔ اس کا یہ خیال ہے کہ تمام مظاہر فطرت میکانکی نوعیت کے حامل قوانین قدرت کے پابند اور اسیر ہیں۔ خدا کے وجود کو فرض کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہاں تک کہ حیات اور اس کے تمام ارتقائی مراحل بھی طبعی اور کیمیائی طاقتوں کے اندھا دھند عمل سے انجام پاتے ہیں۔ گویا اقبال کے الفاظ میں:
"The concept of mechanism, a purely physical concept, claimed to be the all embracing explanation of nature." 10
لیکن اقبال کے خیال میں مظاہر فطرت کی توضیح کے لیے محض میکانکی نقطہ نظر کافی اور تسلی بخش نہیں کیونکہ میکانکی انداز فکر نہ صرف یہ کہ نامکمل معلومات فراہم کرتا ہے بلکہ مظاہر کے باہمی ربط وتعلق کی نوعیت پر روشنی نہیں ڈالتا۔ اقبال رقم طراز ہیں:
"Natural science is by nature sectional; it can not, if it is true to its own nature and function, set up its theory as a complete view of Reality." 11
ڈارون کی مادیت پرست سوچ نہ صرف مظاہر فطرت کو میکانکی قوانین کا اسیر دیکھتی ہے بلکہ حیاتیاتی مظاہر کو بھی میکانکی قوانین کی قلم رو میں شامل کر کے تمام حیاتیاتی ارتقائی مراحل کو فطرت کے اندھا دھند عمل کا حاصل قرار دیتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ڈارون کے تصور ارتقا میں حیات ارتقائی مراحل طے کرنے کے باوجود ان ماقبل ارتقائی مراحل کی قوتوں کے رحم وکرم پر ہے جنھیں وہ تنازع للبقا کے عمل میں پیچھے چھوڑ آئی ہے۔ اس طرح ڈارون حیات کی آزادہ روی اور تخلیقی رو کا گلہ دبا کر رکھ دیتا ہے کیونکہ اقبال کے بقول:
"In fact all creative activity is free activity. Creation is opposed to repetition which is a characteristic of mechanical action." 12
اقبال کی نظر میں مادہ درحقیقت حیات کی ادنیٰ درجے کی خودیوں کی بستی کا نام ہے۔ ان خودیوں کے مسلسل ارتباط، اتصال، عمل اور رد عمل سے باہمی یگانگت کا ایک ایسا مقام آ جاتا ہے کہ جہاں سے ایک ایسی اعلیٰ درجے کی خودی کا صدور ہو کہ جو احساس وادراک کی حامل ہو۔ اقبال لکھتے ہیں:
"Suffice it to indicate that even if the body takes the initiative, the mind does enter as a consenting factor at a definite stage in the development of motion." 13
چونکہ ابتدا میں اشیا میں خودی کا احساس پست درجے کا ہوتا ہے، اس لیے جسم پر میکانکی قوانین کی عمل داری زیادہ نظر آتی ہے۔ تاہم خودی کے احساس وادراک کا رجحان مسلسل ترقی پذیر رہتا ہے، یہاں تک کہ خودی مراحل ارتقا طے کرتے کرتے ارتفاع کے اس درجے پر فائز ہو جاتی ہے جہاں وہ بدن اور مادے کی غلامی سے مکمل طور پر آزادی حاصل کر لیتی ہے۔ اقبال رقم طراز ہیں:
"The evolution of life shows that though in the beginning the mental is dominated by the physical, the mental -- as it grows in power -- tends to dominate the physical and may eventually rise to a position of complete independence." 14
دراصل ڈارون اس حقیقت کو نہ سمجھ سکا کہ حیات، ارتقا کے سفر میں تدریجی مراحل سے گزرتی ہوئی ہر مرحلے کی صفات وخصوصیات کو اپنے اندر سمو کر ایک نئی اور بے چگوں کلیت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اقبال کے بقول:
"The movement of life as an organic growth involves a progressive synthesis of its various stages." 15
اقبال کے خیال میں زندگی میکانگی نقطہ نظر سے توضیح کرنے والے ماہرین حیاتیات کا مطالعہ ومشاہدہ حیات کی صرف ایسی ادنیٰ صور واشکال تک محدود ہے جن کے طرز عمل میں کسی حد تک میکانکیت سے مشابہت ہے، لیکن اگر وہ خود اپنی ذات اور اس کے اندر مچلتے ہوئے احساسات، تحریکات، جذبات اور ماضی وحال سے مستقبل کی طرف ابھار اور حرکت کے رجحان پر غور کریں تو انھیں یقیناًحیات کے میکانکی تصور سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ گویا حیات کے اندر آئندہ مراحل میں جو تبدیلیاں بھی واقع ہوتی ہیں، وہ اس کی اپنی آغوش سے جنم لیتی ہیں اور اس پر کوئی خارجی میکانکی جبریت عمل پیرا نہیں ہوتی۔ فکر کا یہی وہ مقام ہے کہ جہاں اقبال حیات کے اندر ارتقا کی لگن کو مقصد کے ساتھ وابستہ کر کے اسے میکانکیت کی حدود سے باہر لے آتا ہے اور لکھتا ہے:
"The action of living organisms, initiated and planned in view of an end, is totally different to causal action." 16
اقبال ڈارون کے اس خیال سے تو متفق ہیں کہ انواع کے اندر غیر محدود طور پر بڑھنے اور اپنی نسل میں اضافہ کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ انواع کا تحرک اور کثرت آفات قدرت کو دعوت دینے کاباعث بنتا ہے۔ اقبال
غنچہ ہے اگر گل ہو، گل ہے تو گلستاں ہے (۱۷)
اور 
یمے تعمیر کن از شبنم خویش (۱۸)
کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک کائنات کا ذرہ ذرہ سوئے منزل دوست گامزن ہے اور ارتقا کی منازل طے کر رہا ہے۔ اقبال کے ہاں ارتقا ادنیٰ درجات حقیقت سے اعلیٰ درجات حقیقت کی طرف سفر کا نام ہے اور یہ سفر خارجی عوامل کے سفاکانہ عمل سے نہیں، بلکہ انواع کی اندرونی لگن اور تسلسل عمل سے انجام پاتا ہے، چنانچہ اقبال ڈارون کے اس خیال کو درست نہیں سمجھتے کہ آفات قدرت ارتقا کے رخ کو متعین کرنے میں کوئی کردار ادا کرتی ہیں کیونکہ اگر اس نقطہ نظر کو قبول کر لیا جائے تو مراحل ارتقا میں حرکت وعمل اور جدوجہد کے تصور کی نفی ہو جاتی ہے اور ارتقا کا عمل محض آفات قدرت کا محتاج نظر آنے لگتا ہے۔ علاوہ ازیں ارتقا ایک ایسا اتفاقی اور حادثاتی عمل بن کر رہ جاتا ہے جس میں نہ عضویہ کی مرضی اور خواہش کو دخل حاصل ہے اور نہ کسی لگن، مقصد اور آرزو کو۔ یوں عضویہ کے جسم میں تمام تبدیلیاں خارجی عوامل کی مرہون منت ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ ڈارون کے نظری ارتقائی دھارے کے مطابق کسی عضویہ کے لیے ارتقا کے اگلے مرحلے میں داخل ہونے سے پہلے بڑے سکون اور صبر سے کسی ناگہانی آفت یا بلا کا انتظار اس کا مقدر ہے۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین اپنے ایک انگریزی مضمون میں لکھتے ہیں:
"Darwin is a terrible shock to man's justified conviction of his own dignity over the rest of creation, which he thinks he enjoys by virtue of the nobility of his mind and spirit and the sanctity of his reason and free will. For the implications of his theory are that the whole of his wonderful world of life is nothing but the blind and fortuitous play of the reckless forces of nature-----this position is, of course, completely antagonistic to that of Iqbal." 19
ڈارون کے نزدیک چونکہ ماحول ایک تغیر پذیر عامل ہے، اس لیے حالات اور ماحول کے مطابق انواع کی مطابقت کی خواہش، تحول اور جدوجہد ارتقا کا باعث ہے۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ نئے حالات اور جدید تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا، زمانے کی نبض پر ہاتھ رکھنا اور آئین نو کا ساتھ دینا افراد اور اقوام کی زندگی میں بہت اہم ہے اور وہی افراد اور اقوام ترقی، کامیابی اور ارتقا حاصل کرتی ہیں جو جمود اور سکوت کا شکار رہنے کے بجائے وقت اور حالات پر گہری نظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو ان کے مطابق ڈھال لیتی ہیں، تاہم اقبال کے نزدیک افراد اور اقوام کی کامیابی اور ارتقا وقت اور حالات کی اندھا دھند تقلید سے ہی مشروط نہیں، بلکہ ان کے ہاں بقول اکبر الٰہ آبادی:
مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں (۲۰)
کے فلسفے کی زیادہ اہمیت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال انسان کو مظاہر فطرت کے سامنے جھکانا نہیں چاہتا، بلکہ وہ مظاہر فطرت پر انسان کے دست تسخیر کو قائم اور مستحکم دیکھنے کا متمنی ہے۔ انسان کے لیے قوانین فطرت کا اسیر ہونا شایان شان نہیں، بلکہ قوانین فطرت، وقت اور حالات کو اپنے دست تصرف میں لانا، انھیں اپنی آرزووں اور گہری تمناؤں کے مطابق ڈھالنا، اپنی دنیا آپ پیدا کرنا، نئی بستیاں بسانا اور راہوار وقت کی لگام کو ہاتھ میں لے کر اپنے آدرش کے مطابق موڑنا اور پھیرنا اصل کامیابی اور ارتقا کی علامت ہے۔ اقبال رقم طراز ہیں:
"It is the lot of man to share in the deeper aspirations of the universe around him and to shape his own destiny as well as that of the universe now by adjusting himself to its forces, now by putting the whole of his energy to mould its forces to his own ends and purposes." 21
گفتند جہان ما آیا بتو می سازد؟
گفتم کہ نمی سازد، گفتند کہ برہم زن ۲۲
ڈارون کے برعکس اقبال کے نزدیک عالم رنگ وبو میں اپنے آپ کو کھو دینے، گم کر دینے یا محض موافقت پیدا کرنے میں ہی کمال حیات یا ارتقا مضمر نہیں بلکہ باطنی امکانات کی زیادہ سے زیادہ تسخیر سے اپنے اندر ایسی قابلیت اور صلاحیت کو نشوو نما دینا وہ کارنامہ ہے جس سے انسان اس ’’بت خانہ شش جہات‘‘ پر نہ صرف تغلب اور تسلط حاصل کر پاتا ہے` بلکہ اس کی اپنی مرضی کے مطابق تراش کرتے ہوئے ارتقا حاصل کرتا ہے۔
مہر ومہ وانجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر ۲۳
اقبال کے تصور ارتقا کے اس پہلو کی بہترین تفسیر ڈاکٹر اے۔ ریہل (Dr. A. Riehl) کے درج ذیل اقتباس سے ہوتی ہے:
"The animal can adopt its actions to the changed conditions of its environments and from this power of adaptation, we first have reason to conclude that it possesses intelligence. Man on the other hand, can change the conditions about him and adopt them to his mind. He knows how to call forth independently new conditions which correspond to his purpose. He creates tools for himself, and changes the external world by his work. He fills and changes the surface of his plannet with the products of his industry and skill; and his practical understanding shows its superiority to mere adaptation by its power of initative, his theoretical understanding shows its superiority by its power to arrange the perceptions it receives according to the concepts of his thought." 24
اس میں شک نہیں کہ اقبال نے مذہب، فلسفہ، سیاست اور سائنس، ہر میدان میں حکمائے مغرب کی فکر ونظر کا گہرا مطالعہ کیا اور جہاں جو خوبی نظر آئی، اسے قبول کیا، تاہم انھوں نے یکسرمادی اور الحادی نظریات پر بھرپور تنقید بھی کی اور انھیں انسانیت کے لیے گمراہ کن قرار دیا۔ اقبال اور ڈارون کا بنیادی فرق یہ ہے کہ اقبال کے فکر کی اساس دینی وروحانی ہے جبکہ ڈارون کی مادی وعنصری فکری روش اس روحانی سہارے سے محروم ہے۔ اقبال کا تصور ارتقا مغربی طرز فکر کی غلامانہ پیروی کا ماحصل نہیں۔ وہ ارتقا کے ضرور قائل ہیں اور اس لحاظ سے وہ ڈارون کے ہم نوا بھی نظر آتے ہیں، تاہم انھیں ارتقا کا وہی تصور دل پذیر ہے جس کی تعلیم قرآن پاک دیتا ہے۔

------------------
’الشریعہ‘ کے اکتوبر ۲۰۰۵ کے شمارے میں میرے ایک فاضل دوست پروفیسر میاں انعام الرحمن نے راقم کے ایک مضمون بعنوان ’’انسان کا حیاتیاتی ارتقا اور قرآن‘‘ (الشریعہ ستمبر ۲۰۰۵) پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ڈاکٹر آصف صاحب نے زیر بحث مضمون میں اقبال کے تصور ارتقا کو اگرچہ براہ راست ڈسکس نہیں کیا، لیکن ان کی تحریر کے پس منظر کی بافت وبنت اس تصور سے ہی ہوئی ہے۔‘‘ (ص ۳۴)
پھر میاں صاحب اقبال کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اقبال نے جہاں جمود زدہ مسلم فکر میں حرکت پیدا کر کے مسلم معاشرے کی مردہ رگوں میں زندگی کی لہر دوڑا دی، وہاں نطشے اور ڈارون کے افکار کی اسلامی تعلیمات سے تطبیق کی کوشش میں مسلم معاشرے کی روایتی فکر کو بری طرح مجروح کیا۔‘‘ (ص ۳۴)
قارئین محترم نے درج بالا سطور میں ڈارون اور اقبال کے تصور ارتقا کا تقابل ملاحظہ فرمایا ہے۔ چنانچہ اب قارئین بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اقبال نے ڈارون کے تصور ارتقا کو کس حد تک سراہا ہے اور آیا اقبال نے ڈارون کے تصور کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ تطبیق دینے کی کوشش کی ہے یا اس کے بہت سے اجزا کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا ہے۔ ان شاء اللہ جلد ہی نطشے اور اقبال کے حوالے سے بھی ایک مضمون پیش کروں گا جس سے یہ بات بھی واضح ہو جائے گی کہ اقبال مغربی مفکر نطشے یا اس کے خیالی کردار ’’مافوق البشر‘‘ کے متعلق کیا رائے رکھتے تھے۔
------------------

حوالہ جات

۱۔ 
 Darwin, Charles, "The Origin of Species, by Means of Natural Selection", William Benton Publishers, Chicago:1987, p.80
۲۔ 
 Edwards, Pual, (Ed) et.el., "The Encyclopedia of Philosophy", vol.3 & 4, Collier Macmillan Publishers, London: 1972, p.297
۳۔ ڈارون نے انتخاب طبعی کا یہ تصور مالتھس (Robert Malthus) کے نظریہ آبادی سے لیا اور اسے حیوانات کی دنیا پر چسپاں کر دیا۔
۴۔ 
 Darwin, Charles, "The Origin of Species, by Means of Natural Selection", p.33
۵۔ As above
۶۔ ہیرلڈ ہونڈنگ، ڈاکٹر، ’’تاریخ فلسفہ جدید‘‘ (جلد دوم)، ترجمہ: خلیفہ عبد الحکیم، نفیس اکیڈمی کراچی:۱۹۸۷، ص ۵۳۱
۷۔ اقبال نے ’’اسرار خودی‘‘ میں ارتقاے خودی کے تین مراحل بیان کیے۔ مرحلہ اول اطاعت، مرحلہ دوم ضبط نفس اور مرحلہ سوم نیابت الٰہی۔
۸۔ محمد اقبال، ’’اقبال نامہ‘‘ (حصہ اول)، شیخ محمد اشرف لاہور، سن ندارد، ص ۴۵۹
۹۔ جوڈ، سی ای، ایم۔ ’’افکار حاضرہ‘‘، ترجمہ: محمد بن علی باوہاب، مجلس ترقی ادب لاہور: ۱۹۶۶، ص ۳۵
۱۰۔ 
 Muhammad Iqbal, "The Reconstruction of Religious Thought in Islam", Sh. Muhammad Ashraf, Lahore: 1965, p. 41
۱۱۔ Ibid, 42
۱۲۔ Ibid
۱۳۔
 Muhammad Iqbal, "The Secrets of the Self", translated by Reynold A. Nicholson, Sh. Muhammad Ashraf, Lahore: 1975, p.XIX
۱۴۔
 Muhammad Iqbal, "The Reconstruction of Religious Thought in Islam", p. 106
۱۵۔ Ibid, p.56
۱۶۔ Ibid, p.42
۱۷۔ بانگ درا، ص ۲۸۰
۱۸۔ پیام مشرق، ص ۶۶
۱۹۔ 
 Muhammad Rafiuddin, Dr., "Iqbal's Concept of Evolution", essay included in "Iqbal Review", Ed. Dr. Rafiuddin, vol. 1, April 1960, No. 1, Karachi, p. 39
۲۰۔ اکبر الٰہ آبادی، ’’کلیات اکبر‘‘، پنجاب پبلشرز، کراچی: سن ندارد، ص ۳۸
۲۱۔ 
 Muhammad Iqbal, "The Reconstruction of Religious Thought in Islam", p.12
۲۲۔ زبور عجم، ص ۷۵
۲۳۔ ضرب کلیم ص ۴۱
۲۴۔
 Riehl, Dr. A., "Introduction to the theory of Science and Metaphysics", Regan Paul, Trench & Trubner & Com., L.T.D, London,: 1894, p.75,76

علماء کی زیر نگرانی ٹی وی چینل کا قیام / مولانا قاسمی اور مولانا مدنی کے مابین مصالحت

ادارہ

پردہ، دہشت گردی، عمرانہ کیس اور اس طرح کے دیگر موضوعات کے حوالے سے ٹیلی ویژن پر اسلام کی معاندانہ اور تعصب پر مبنی تصویر کشی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کی مسلم کمیونٹی نے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس مقصد کے لیے دو نئے اسلامی چینل قائم کیے گئے ہیں جو پوری مسلم دنیا کو درپیش مسائل سے متعلق صحیح اسلامی نقطہ نظر پیش کریں گے۔ ایک چینل ’کتاب‘ کے نام سے ہے جبکہ دوسرا چینل جس کے لیے ’پیس ٹی وی‘ کا نام زیر غور ہے، کیو ٹی وی کے معروف مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائک شروع کریں گے۔
’کتاب‘ چینل کے بانی اور چیف پروموٹر اختر شیخ نے کہا ہے کہ یہ چینل نہ صرف میڈیا میں مسلم مخالف پراپیگنڈا کا مقابلہ کرے گا بلکہ مسلم سوسائٹی کی تربیت کی ذمہ داری بھی انجام دے گا۔ انھوں نے کہا کہ مسلمان بڑے عرصے سے ایک ایسے چینل کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں جو ان کے خیالات واحساسات کی ترجمانی کرتا ہو۔ 
چینل کی پروگرامنگ کی ذمہ داری مدارس کے تعلیم یافتہ قدامت پسند دیوبندی علما کے ایک گروپ کو سونپی گئی ہے۔ بمبئی کے مرکز المعارف نے اس چینل کے اغراض ومقاصد متعین کیے ہیں جن میں اسلام سے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ، مولانا آزاد، علی برادران اور ان جیسے جنگ آزادی میں خدمات انجام دینے مسلمانوں کی قربانیوں کو نمایاں کرنا، نکاح، طلاق، نفقہ او ر پردہ جیسے پرسنل لا کے مسائل پر بحث ومباحثہ شامل ہیں۔ 
بھارت میں ٹی وی کے جواز وعدم جواز کے حوالے سے علما دو گرہوں میں تقسیم ہیں۔ گزشتہ سال دار العلوم دیوبند کے مفتی محمود الحسن نے ٹی وی کے عدم جواز کا فتویٰ دیا تھا۔ مفتی مذکور نے یہ کہہ کر اردو پریس میں ایک بحث کا آغاز کر دیا تھا کہ ’’ٹیلی ویژن سطحی تفریح کا ذریعہ ہے۔‘‘تاہم مولانا برہان الدین قاسمی نے، جو ’کتاب‘ کی پروگرامنگ میں شریک ہیں، کہا ہے کہ علما بصری ذرائع ابلاغ کی اہمیت کا انکار نہیں کر سکتے۔ انھوں نے کہا کہ ’’عمرانہ کیس ہی کو لے لیجیے۔ اس پر باقی تمام مسئلوں کو نظر انداز کر کے ایک نہ ختم ہونے والی بحث چھیڑ دی گئی، گویا مسلمانوں کو اس کے علاوہ کوئی مسئلہ ہی درپیش نہیں۔‘‘
پروگرامنگ پینل میں شریک دوسرے ارکان میں جمعیۃ علماے ہند کے مولانا محمود مدنی اور ندوۃ العلماء لکھنو کے سید سلمان ندوی بھی شامل ہیں۔
(ٹائمز آف انڈیا۔ ۲۸ ستمبر ۲۰۰۵)

مولانا قاسمی اور مولانا مدنی کے مابین مصالحت

دار العلوم دیوبند اور دار العلوم وقف کے مابین اختلافات کے تصفیے کے حوالے سے کچھ پیش رفت کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ یہ حقیقت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ دار العلوم وقف کے مہتمم مولانا سالم قاسمی نے مولانا اسعد مدنی کی طرف سے مجلس شوریٰ کے ارکان اور اپنے اعزہ اور قریبی دوستوں کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے میں شرکت کی۔ اسی طرح جب مولانا سالم قاسمی نے اپنی رہایش گاہ پر مجلس شوریٰ کے ارکان کو ایک پرتکلف دعوت پر مدعو کیا تو مولانا اسعد مدنی نے اپنے بیٹے اور قریبی دوستوں کے ساتھ اس میں شرکت کی۔ مولانا سالم قاسمی نے ان کا پرجوش استقبال کیا اور مولانا مدنی اور دیگر رفقا سے معانقہ کیا۔ دونوں مواقع پر ماحول بے حد دوستانہ تھا۔
یہ بتانا مشکل ہے کہ فریقین کے مابین مصالحت کامعاملہ کس حد تک آگے بڑھا ہے، تاہم دار العلوم کے مہتمم مولانا مرغوب الرحمن نے بتایا ہے کہ فریقین کے مابین بعض عدالتی مقدمات واپس لینے کا معاہدہ طے پا چکا ہے، اگرچہ اس کی عدالتی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔ مجلس شوریٰ کا اجلاس منعقد ہوا ہے، لیکن تنازع پر بحث اس کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھی اور متنازعہ امور پر فریقین کے مابین کوئی سنجیدہ بحث مباحثہ نہیں ہوا۔ مولانا مرغوب الرحمن اس سے پہلے یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ تنازع مولانا مدنی کا ذاتی معاملہ ہے نہ کہ دار العلوم کا۔ یہی رویہ مولانا سالم قاسمی کا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تنازع دراصل اداروں کے مابین نہیں بلکہ زیادہ تر دونوں بزرگوں کی انا کا مسئلہ ہے۔ دار العلوم کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ملی گزٹ کو بتایا کہ زیادہ تر مقدمات اپنے آخری مراحل کو پہنچ چکے ہیں۔ انھوں نے واضح طور پر کہا کہ دونوں اداروں کا انضمام نہ کسی بھی صورت میں ممکن ہے اور نہ اس پر کوئی گفت وشنید ہی ہو رہی ہے۔
(ملی گزٹ، دہلی، ۱۶۔۳۰ نومبر ۲۰۰۵)