2005

جنوری ۲۰۰۵ء

بھارت میں غیر سرکاری شرعی عدالتوں کا قیاممولانا ابوعمار زاہد الراشدی
نائن الیون کمیشن رپورٹ ۔ ایک امریکی مسلم تنظیم کے تاثرات کا جائزہپروفیسر میاں انعام الرحمن
ندوہ کا ایک دنڈاکٹر محمد اکرم ندوی
ثقافتی امتیازات اور مذہبی مزاجپروفیسر محسن عثمانی ندوی
قربانی کی رسم کا نفسیاتی پہلوپروفیسر میاں انعام الرحمن
احیائے اسلام کے امکانات اور حکمت عملیپروفیسر محمد اکرم ورک
شیعو اور سنیو! تاریخ سے سبق سیکھوعلامہ سید فخر الحسن کراروی
مکاتیبادارہ
تعارف و تبصرہادارہ
مولانا محمد علی جوہر کی یاد میں ایک نشستادارہ

بھارت میں غیر سرکاری شرعی عدالتوں کا قیام

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

روزنامہ جنگ لاہور ۲۱ دسمبر ۲۰۰۴ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی صوبے گجرات میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے پہلی شرعی عدالت ’’دار القضاء‘‘ کے نام سے قائم کر دی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ بہار، اڑیسہ، آسام اور اتر پردیش میں شرعی عدالتیں پہلے ہی کامیابی سے کام کر رہی ہیں جس کی کامیابی کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے، جو بھارت میں شریعت کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کا سب سے بڑا ادارہ ہے، اب گجرات میں بھی شریعت کورٹ قائم کر دی ہے۔ ’’دار القضاء‘‘ میں مسلمانوں کے روز مرہ معاملات کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا۔ مفتی عبید اللہ الاسدی کو دار القضاء کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے جو ممتاز عالم دین اور جامعہ عربیہ اسلامیہ کے سربراہ ہیں۔ اس موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اسلام کا نظام انصاف مسلمانوں سے تقاضا کرتا ہے کہ انھیں اپنے تنازعات کے لیے شریعت کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے اور خدشات کے بغیر عدالت کا فیصلہ تسلیم کرنا چاہیے۔ 
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ بھارت میں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے ذمہ دار نمائندوں کا مشترکہ فورم اور اس لحاظ سے مسلمانوں کا سب سے بڑا نمائندہ ادارہ ہے جس میں تمام مذہبی مکاتب فکر شامل ہیں اور اس کا مقصد پرسنل لا یعنی نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ کے معاملات میں مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کو قائم رکھنا اور اس عالمی اور قومی دباؤ کا مقابلہ کرنا ہے جو مسلمانوں پر انھیں نکاح وطلاق اور وراثت وغیرہ کے جداگانہ دینی قوانین واحکام سے دست برداری پر آمادہ کرنے کے لیے مسلسل بڑھایا جا رہا ہے۔ بھارت میں ’’کامن سول کوڈ‘‘ کے نام سے ایک عرصہ سے یہ تحریک جاری ہے کہ جس طرح دوسرے مذاہب کے لوگ باہم شادیاں کر رہے ہیں اور پرسنل لا میں اپنے مذہبی احکام کے بجائے مشترکہ عالمی وملکی قوانین پر عمل پیرا ہیں، اسی طرح مسلمانوں کو بھی مشترکہ برادری کا حصہ بننا چاہیے اور اپنے لیے الگ مذہبی قوانین پر اصرار نہیں کرنا چاہیے، مگر مسلمانوں نے متفقہ طور پر اس کو مسترد کر دیا ہے اور ایک عرصہ سے مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم پر وہ اپنے جداگانہ تشخص اور خاندانی قوانین وروایات کے تحفظ کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اس بورڈ کے سربراہ بالترتیب حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ ، مفکر اسلام حضرت مولاناسید ابو الحسن علی ندویؒ اور فقیہ ملت حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ رہ چکے ہیں، جبکہ ان کے بعد ندوۃ العلماء لکھنو کے سربراہ حضرت مولانا سید محمد رابع ندوی مدظلہ بورڈ کے سربراہ ہیں۔ 
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی کوششوں میں یہ بات بھی شامل رہتی ہے کہ مسلمان اپنے نکاح وطلاق کے تنازعات اور دیگر باہمی معاملات شرعی عدالتوں کے ذریعے سے حل کرائیں اور اسی مقصد کے لیے پرائیویٹ سطح پر شرعی عدالتوں کے قیام کا تجربہ کیا جا رہا ہے جہاں تحکیم کی صورت میں دونوں فریق مقدمہ لاتے ہیں اور شرعی عدالتیں ’حکم‘ کی حیثیت سے ان کا فیصلہ صادر کرتی ہیں۔ صوبہ بہار میں امارت شرعیہ کے نام سے یہ پرائیویٹ نظام بہت پہلے سے قائم ہے جس میں حضرت مولانا قاضی سجادؒ ، حضرت مولانا منت اللہؒ اور حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمیؒ ایک عرصہ تک امیر شریعت اور قاضی کے طور پرفرائض سرانجام دیتے رہے ہیں اور کم وبیش پون صدی سے یہ نظام وہاں کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے جسے مسلم پرسنل لا بورڈ، بھارت کے دوسرے صوبوں تک وسیع کرنے میں مصروف ہے جو ایک خوش آیند امر ہے۔ 
جن معاملات میں لوگ تحکیم یا ثالثی کی صورت میں باہمی رضامندی کے ساتھ اپنے تنازعات اور مقدمات پرائیویٹ عدالتوں کے پاس لے جا سکتے ہیں، ان میں لوگوں کو شرعی فیصلوں کو قبول کرنے کے لیے آمادہ کرنا اور ان کے فیصلوں کے لیے اس طرح کی عدالتوں کا اہتمام ایک انتہائی بہتر اور اچھی جدوجہد ہے جس کا تجربہ کرنے کی ایک بار ہم نے بھی کوشش کی تھی۔ اکتوبر ۱۹۷۵ء میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا ملک گیر کنونشن جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ تعالیٰ کی صدارت میں منعقد ہوا تھا جس میں ملک بھر سے ہزاروں علماء کرام اور دینی کارکنوں نے شرکت کی تھی۔ اس کنونشن میں قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز نے جمعیۃ کی مرکزی مجلس شوریٰ کے فیصلے کے مطابق ملک بھر میں آزاد شرعی عدالتیں قائم کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے مرکزی بورڈ میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے علاوہ بیر شریف لاڑکانہ کے حضرت مولانا عبد الکریم قریشی رحمہ اللہ تعالیٰ اور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم بھی شامل تھے۔ اس بورڈ نے ملک میں اس نوعیت کی آزاد شرعی عدالتوں کے قیام کے لیے ضروری امور اور طریق کار کا خاکہ طے کیا تھا اور مختلف علاقوں میں قاضیوں کا تقرر بھی کر لیا گیا تھا، لیکن عوامی سطح پر مناسب ذہن سازی نہ ہونے اور جمعیۃ علماء اسلام کی دیگر قومی سیاسی سرگرمیوں میں حد درجہ مصروفیت کی وجہ سے یہ کام آگے نہ بڑھ سکا۔
اب بھارت میں اس تجربہ کی کامیاب پیش رفت کی خبر پڑھ کر اس پروگرام کی یاد ایک بار پھر ذہن میں تازہ ہو گئی ہے اور یہ کسک سی دل میں ہونے لگی ہے کہ یہ کام اگر انڈیا میں ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ جہاں تک ملکی قوانین کا تعلق ہے، دستور وقانون، دونوں حوالوں سے اس امر کی گنجایش موجود ہے کہ جو معاملات قابل دست اندازی پولیس نہیں ہیں اور جن میں فریقین باہمی رضامندی کے ساتھ کسی کو حکم اور ثالث مان کر اپنا مقدمہ ان کے سپرد کر سکتے ہیں، ان میں اس طرح کی عدالتیں یا ثالثی کونسلیں قائم کی جا سکتی ہیں، بلکہ ان عدالتوں اور ان کے فیصلوں کو قانونی تحفظ بھی مل سکتا ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ کے حوالے سے وہاں کے دوستوں نے ہمیں یہ بتایا کہ امریکی دستور کے مطابق نہ صرف پرسنل لا میں بلکہ بعض مالی معاملات میں بھی تحکیم اور ثالثی کی صورت میں پرائیویٹ عدالتوں کی گنجایش موجود ہے جس کو ایک مخصوص پراسس اور شرائط کے ساتھ سرکاری طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور سپریم کورٹ تک تمام عدالتی فورم ان فیصلوں کااحترام کرتے ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق امریکہ میں بسنے والے یہودیوں نے اس دستوری گنجایش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جداگانہ عدالتی ادارے قائم کر رکھے ہیں اور وہ اپنے بہت سے معاملات کے فیصلے ان عدالتوں سے کراتے ہیں۔ ہم نے امریکہ میں وہاں کے بہت سے علماء کرام اور دانش وروں سے متعدد بار یہ گزارش کی ہے کہ اگر امریکہ کا دستور بعض معاملات میں اس طرح کی عدالتوں کی گنجایش دیتا ہے تو اس سے فائدہ نہ اٹھانا اور اپنے ہر طرح کے معاملات بالخصوص پرسنل لا کے امور کو غیر مسلم عدالتوں کے پاس لے جانا بہت زیادتی کی بات ہے۔ وہاں بعض حلقوں میں اس کا احساس پایا جاتا ہے، لیکن پیش رفت کے لیے جس سطح کی سوچ، حوصلہ، محنت، ہوم ورک، اور عوامی ذہن سازی کی ضرورت ہے، اس کا فقدان ہے اور کم وبیش یہی صورت حال ہمارے ہاں پاکستان میں بھی ہے جہاں ہم نے شریعت کی ہر بات کے لیے حکومت پر انحصار کر رکھا ہے اور ہر مسئلہ حکومت کے کھاتے میں ڈال کر خود آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ شریعت کے جن احکام پر عمل حکومت اور اقتدار پر موقوف نہیں ہے اور اس کے لیے لوگوں کو تیار کرنے اور اس میں پیش رفت کے لیے مناسب نظم پرائیویٹ سطح پر بنایا جا سکتا ہے، اس کے لیے ہم کیوں تیار نہیں ہوتے؟
ہمارے نزدیک سب سے زیادہ ضرورت عوامی سطح پر دینی شعور کو بیدار کرنے اور اجتماعی معاملات میں دینی راہ نمائی کو قبول کرنے کا احساس پیدا کرنے کی ہے اور اس سے بھی زیادہ ضرورت دینی اخلاقیات کو عملی زندگی میں لانے کی ہمہ گیر جدوجہد کی ہے۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کواس بات کے لیے تیار کرنا بھی ضروری ہے کہ ہر معاملہ میں عدالت اور سرکاری دروازہ کھٹکھٹانے کے بجائے جو معاملات وہ کسی سطح پر خود طے کر سکتے ہیں، انھیں عدالت اور سرکار کے دروازے سے باہر ہی نمٹا لیا جائے۔ اس سے جھگڑوں میں بھی کمی آئے گی اور عدالتوں پر کام کا بوجھ بھی کم ہوگا، مگر اس کے لیے محنت کی ضرورت ہے، مناسب منصوبہ بندی درکار ہے، ٹیم ورک اور مسلسل ورک کا حوصلہ چاہیے جس کے لیے ہم میں سے شاید کوئی بھی تیار نہ ہو اور یہی ہماری قومی زندگی کا سب سے بڑا روگ ہے۔ خدا کرے کہ ہم اپنی سوچ اور ترجیحات پر ایسی نظر ثانی کر سکیں جو ہماری معاشرتی زندگی میں کسی مثبت تبدیلی اور انقلاب کی نوید بن جائے۔ آمین یا رب العالمین۔

نائن الیون کمیشن رپورٹ ۔ ایک امریکی مسلم تنظیم کے تاثرات کا جائزہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

نائن الیون کے افسوس ناک واقعہ کی تفصیلات، محرکات اورمستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے، تشکیل دیے گئے امریکہ کے نیشنل کمیشن کی تیرہ ابواب(۵۸۵ صفحات بشمول پیش لفظ ، ضمیمہ جات، نو ٹس وغیرہ ) پر مشتمل رپورٹ ۲۲ جولائی ۲۰۰۴ کو منظرِ عام پر آنے کے بعد بحث و تمحیص کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ رپورٹ کی تیاری میں بے شمار دستاویزات (2.5 ملین صفحات) سے استفادہ کیا گیا ہے ۔ رپورٹ میں کل اکتالیس( ۴۱) سفارشات پیش کی گئی ہیں۔ اس رپورٹ کا آن لائن ایڈیشن www.9-11commission.gov/report پر دستیاب ہے ۔ امریکی مسلمانوں نے بحیثیت امریکی شہری اس رپورٹ کی بابت اپنے تاثرات کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس وقت ہمارے پیشِ نظر ایک ایسا ہی ۱۰۰ صفحات(بشمول ضمیمہ جات ) پر مشتمل کتابچہ ہے جسے امریکی مسلم ٹاسک فورس نے 'First Impression:American Muslim Perspectives' کے نام سے جاری کیا ہے تاکہ امریکی مسلمان سطحی اور ردِ عمل پر مبنی موقف اپنانے کی بجائے معروضی واقعیت اور ٹھوس حقائق پر مبنی تاثرات امریکی حکومت و امریکی معاشرے کے سامنے پیش کر سکیں ۔ یہ کتابچہ www.iiit.org اور www.ccmodc.net پر بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کتابچے میں مختلف لوگوں کی مختصر مگر جامع تحریروں کو جگہ دی گئی ہے ۔ ہم جائزے میں طوالت اور تکرار سے بچنے کے لیے کتابچے کو مجموعی حیثیت سے لیں گے ، اس کوشش کے ساتھ کہ کوئی اہم نکتہ نظروں سے اوجھل نہ ہونے پائے۔ کو آرڈی نیٹنگ کونسل آف مسلم آرگنائزیشن (سی سی ایم او)کی ایگزیکٹو کمیٹی کے مطابق امریکن مسلم ٹاسک فورس (اے ایم ٹی ایف ) کا اس کتابچے کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں اور اسے محض بحث مباحثہ کی غرض سے پیش کیا گیا ہے۔ زیرِ نظر تحریر میں ہم نے اپنی سہولت کی خاطر اے ایم ٹی ایف کا باقاعدہ نام لے کر بات کی ہے کیونکہ کتابچے کو مجموعی حیثیت سے جانچنے کے لیے ایسا کرنا ناگزیر تھا، فرداََ فرداََ تمام مضامین کی جانچ پرکھ تکرار اور طوالت کا باعث ہو سکتی تھی ۔ امید ہے زیرِ نظر تحریر اس وضاحت کی روشنی میں پڑھی جائے گی۔
نائن الیون کمیشن رپورٹ میں استعمال ہونے والی ایک اصطلاح (Islamist terrorism) کو کتابچے میں مختلف مقامات پر بطورِ خاص تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔رپورٹ کے مطابق دشمن عمومی نوعیت کی کوئی برائی (generic evil) جسے دہشت گردی کہا جاتا ہے نہیں ہے ، بلکہ واضح اور قطعی طور پر Islamist terrorism (اسلام پسندی پر مبنی دہشت گردی) ہے ۔ اگرچہ رپورٹ میں اس امر کی صراحت کر دی گئی ہے کہ Islamist سے مراد اسلام کے پیروکار نہیں، بلکہ بن لادن کا نیٹ ورک ، اس سے وابستہ لوگ اور اس کی آئیڈیالوجی ہے جو کم از کم ابنِ تیمیہ سے شروع ہو کروہابیت کے بانیوں اور سید قطب کی الاخوان المسلمون کے ادوار سے گزری ہے۔ یہ آئیڈیالوجی اسلام کے ایک’’ اقلیتی گروہ‘‘ کی روایت مانی جاتی ہے ۔ رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اسلام ، دشمن نہیں ہے نہ ہی اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے ۔ امریکہ اور اس کے دوست اسلام کی بگڑی ہوئی صورت (perversion of Islam) کی مخالفت کرتے ہیں نہ کہ خود اسلام کی۔وغیرہ غیرہ۔ اس اصطلاح پر تنقید کرنے والے ، مذکورہ امریکی صراحتوں سے مطمئن نہیں ہوئے۔ ان کے مطابق اصطلاح میں لفظ اسلام کی شمولیت سے (رپورٹ کی وضاحتوں کے باوجود ) اسلام کی ایک منفی تصویر لوگوں کے اذہان میں اپنا نقش چھوڑ جاتی ہے ، کیونکہ لفظ ’Islamist‘ میڈیا میں اورعام لوگوں کی بات چیت میں حتیٰ کہ دانشورانہ مباحث میں بھی لفظ ’Islamic’ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ، مثلاً ترکی کی جسٹس پارٹی کو عموماً اسلامسٹ پارٹی کہا جاتا ہے، جسے اسلامسٹ چلاتے ہیں جن کے پیشِ نظر اسلامی اصولوں اور روایات کی پاسداری ہے۔ اس طرح ایک ایسی مبہم اصطلاح کی اختراع سے ، امن و سلامتی کے داعی اور انسان دوست مذہب کی بابت لاعلمی، بغض اور تعصب کی فضا ہی نشوونما پائے گی، نہ کہ اس مذہب کی ایک اقلیت کے انتہاپسندانہ عقائد و اعمال اور اس مذہب کی غالب اکثریت کے( مبنی بر مذہب) درست اور صحیح عقائد و اعمال کے درمیان امتیاز یا تفریق ممکن ہو سکے گی۔ناقدین کے مطابق ہمسایوں(مسلم /غیر مسلم ) کے درمیان بد اعتمادی اور شکوک و شبہات کا سبب بننی والی ایسی ’’ثقافتی فضا ‘‘ کی اجازت ایک لمحے کے لیے بھی نہیں دی جاسکتی۔ لہٰذا بہتر ہوتا اگر اسلامسٹ کی بجائے بن لادن نیٹ ورک یا جہادازم کی اصطلاح استعمال کی جاتی جو ایک طرف عسکری گروہوں کے موافق ٹھہرتی، دوسری طرف عام Islamist (اسلام پسندوں) اور rogue Islamist (اسلام کے بدمعاش نام لیواؤں) کے درمیان خطِ امتیاز کھینچ دیتی۔ ایسا نہ ہونے سے وہ تمام Islamists بھی ریڈیکل ہوسکتے ہیں جوپوری دنیا میں ’’ مسلم سیاست ‘‘کی طاقتور علامت سمجھے جاتے ہیں۔ سی آئی اے کے سابق تجزیہ نگار گراہم فلر کی کتاب "The Future of Political Islam" کو اسلامیت اور طویل المیعاد امریکی مفادات کے حوالے سے مفید گردانتے ہوئے کمیشن سے کہا گیا ہے کہ اگر وہ اس کتاب پر سرسری نظر ہی دوڑا لیتا تو رپورٹ اس قسم کی خامیوں سے مبرا ہوتی۔ہماری رائے میں اسلامسٹ کی بجائے جہاد ازم کی اصطلاح نسبتاً بہتر قرار دی جاسکتی ہے۔ اگرچہ جہاد ازم کوئی اسلامی اصطلاح نہیں ہے، لیکن اس میں لفظ جہاد در آنے سے ذہن فوری طور پر اسلام کی طرف ہی جاتا ہے لہٰذا وہ احتمال یہاں بھی موجود رہتا ہے کہ جہاد اور جہاد ازم کے درمیان فرق کو میڈیا کے لوگ ملحوظِ خاطر نہیں رکھیں گے، جیسا کہ اسلامسٹ اور اسلامک کے درمیان فرق نہ رکھنا۔ ہمارے خیال میں یہ فرق قائم بھی نہیں رہ سکتا کیونکہ اسلامسٹ، اسلام کے عملی پہلو کی نشاندہی کرتا ہے اور اسلامک، اسلام کی نظری جہت کی۔ رپورٹ مرتب کرنے والے شاید اسلام کو بطور ’’تھیوری ‘‘ دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے متشکل ہونے سے الرجک ہیں ۔ 
Islamist terrorism کی اصطلاح کے حوالے سے ہی ایک اہم نکتہ یہ اٹھایا گیا ہے کہ اس اصطلاح کے استعمال سے منطقی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامسٹ دہشت گردی اور کسی اور نوعیت کی دہشت گردی کے درمیان ’’خطِ امتیاز ‘‘ کیسے کھینچا جائے گا؟ کیا دہشت گردی ’’اپنی اصل ‘‘میں ہوتی ہی اسلامسٹ ہے ؟ ناقدین کے مطابق ابھی تک دہشت گردی کی کوئی ایسی تعریف متعین نہیں ہو سکی جسے عالمی سطح پر یکساں پذیرائی حاصل ہو۔ اسی لیے صدر بش نے نائن الیون حملوں کے فوری بعد امریکی عوام سے خطاب کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہشت گردی کی بڑی سادہ تعریف متعین کی۔ صدر بش نے کہا تھا کہ :
"Every nation in every region now has a decision to make. Either you are with us, or you are with the terrorists." 
’’دنیا کے ہر ملک کو اب ایک فیصلہ کرنا ہوگا۔ یا تو آپ ہمارے ساتھی ہیں یا پھر دہشت گردوں کے۔‘‘
امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی تعریف نسبتاً بہتر قرار دی جا سکتی ہے جو یہ ہے :
"Premeditated, politically motivated violence perpetrated against noncombatant targets by sub-national groups or clandestine agents, usually intended to influence an audience." 
’’دہشت گردی سے مراد سیاسی محرکات کے تحت تشدد پر مبنی ایسی سوچھی سمجھی کارروائی ہے جو نیم حکومتی گروہ یا خفیہ کارندے کریں اور جس کا نشانہ غیرمقاتل افراد بنیں۔ اس کارروائی کا مقصد بالعموم کسی خاص گروہ پر اثر انداز ہونا ہوتا ہے۔‘‘
دہشت گردی کی اس تعریف سے واضح ہوتا ہے کہ جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے محرکات سیاسی ہوتے ہیں اور ان کا نشانہ بھی غیر جنگجو افراد ہوتے ہیں۔ پھر اس کے ساتھ کوئی اضافی دم چھلا لگانے کی آخر کیا ضرورت ہے؟ نیشنل کمیشن کو ’’اسلامسٹ‘‘ کا سابقہ لگاتے وقت ان امور کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے تھا۔اے ایم ٹی ایف کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے ایک غیر جانبدار بین الاقوامی عدالتی نظام وضع کیا جائے جہاں ریاستیں، دہشت گردی کے ملزموں کے خلاف باقاعدہ شواہد جمع کروائیں اور ملزموں کو صفائی کا پورا موقع دیا جائے۔ ہمارے خیال میں اے ایم ٹی ایف کی تجویز میں ’’سادگی ‘‘ جھلکتی ہے کیونکہ ریکارڈ گواہ ہے کہ جب نکاراگوا امریکی جارحیت کے خلاف اپنا کیس لے کر عالمی عدالت میں گیا اور عدالت نے امریکہ کو قوت کے غیر قانونی استعمال کو روکنے اور تاوان ادا کرنے کا حکم دیا تو امریکہ نے عدالتی حکم کے پرخچے اڑاتے ہوئے اپنے حملوں میں شدت پیدا کر لی۔ نکارا گوا سلامتی کونسل میں گیا جہاں بین الاقوامی قانون کی پاسداری کی قرار داد امریکہ نے ’’ویٹو ‘‘ کر دی۔ نکاراگوا جنرل اسمبلی میں گیا جس نے دو برسوں میں دو مرتبہ قرارداد منظور کی جس کی مخالفت امریکہ ، اسرائیل اور(ایک مرتبہ ) ایل سلواڈور نے کی۔ بڑی طاقتوں کے ایسے طرزِ عمل کی موجودگی میں ’’قانونی ‘‘ یا کوئی بھی جائز حربہ ناکامی سے ہی دوچار ہو سکتا ہے۔ اندریں صورت دہشت گردی کوہی ’’جائز انحراف ‘‘ کے زمرے میں شمار کرنا ناگزیر ہو جائے گا ۔ 
دہشت گردی کے ساتھ لفظ اسلامسٹ لگنے سے یہ نکتہ بھی سامنے آتا ہے کہ نیشنل کمیشن (کم از کم ) نفسیاتی اعتبار سے اسامہ بن لادن کے ہاتھوں میں کھیل رہاتھا کیونکہ خود اسامہ بن لادن انتہاپسندانہ کارروائیوں اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کو ’’عین اسلام ‘‘ قرار دیتا ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنے پیچھے چلنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس طرح نیشنل کمیشن بالواسطہ طور پر اسی مظہر کو اسلام سے منسلک کر رہا ہے جسے اسامہ بن لادن اسلام گردانتا ہے۔ کمیشن کا یہ طرزِ عمل اسامہ بن لادن کی خدمت کرنے کے مترادف ہے نہ کہ اس کی مخالفت کی غمازی کرتا ہے۔ اسی طرح Islamist terrorism کی اصطلاح سے ایک اور مفروضہ پنپتا ہوا نظر آرہا ہے کہ دنیامیں مسلمانوں کے دو گروہ ہیں: (۱) برے مسلمان یعنی انتہا پسند ، (۲) اچھے مسلمان یعنی اعتدال پسند۔ ناقدین کے مطابق اس صریح تقسیم سے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اربوں مسلمانوں کے، اسلام کے متعلق فہم اور اظہار میں موجود ’’تنوع ‘‘ کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے، حالانکہ ان دو گروہوں کے بین بین بہت سے گروہ موجود ہیں۔ ایسے گروہوں کو زبردستی دو گروہوں کے دائرے میں لانا ان کے ساتھ زیادتی ہے ۔ اسلامسٹ دہشت گردی کی اصطلاح پر ایک اور اہم اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں خاص قسم کے سیاسی مسائل پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے اس ملک کے اندر بعض اوقات ’’جائز انحراف ‘‘ مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے جو اکثر اوقات ’’مثبت تبدیلی‘‘ کے لیے لازمی اور ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ (خود نیشنل کمیشن کے مطابق اسلامی ممالک میں سیکولر حکومتیں ، تابناک مستقبل کی بجائے جہالت، استبداد اور آمریت کے فروغ کا باعث بنی ہیں اور نوجوانوں کو جائز انحراف کی راہ نہیں مل رہی) اب اسلامسٹ دہشت گردی کی اصطلاح گھڑ کر تبدیلی کی آواز بلند کرنے والوں کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے، کیونکہ ان ممالک کی استبدادی حکومتوں کو ’’اسلامسٹ دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘‘ کے بھیس میں جبر و تشدد کی راہ اپنانے کے لیے ’’گرین سگنل ‘‘ دے دیا گیا ہے ۔اس کا بہت بڑا نقصان یہ ہو گا کہ ’’جائز انحراف ‘‘ کا لحاظ نہ رکھنے کے باعث زیادہ ناراضگیاں جنم لیں گی اور تشدد کی آگ کو کثرت سے ایندھن ملے گا ، جس کے نتیجے میں دہشت گردی میں مسلسل اضافہ ہو گانہ کہ کمی ۔ پھر علت و معلول کے اس گھناؤنے سرکل کا سارا الزام امریکہ پرہی آئے گا ۔ 
نقادوں کے مطابق ، اسلام میں انتہا پسندی کی درجہ بندی کرتے وقت بھی نیشنل کمیشن نے مسائل پیدا کیے ہیں۔ مثلاً عام لوگوں سے ہائی جیکروں کا فرق کرتے ہوئے اور ہائی جیکروں کا اپنے عقیدے میں انتہاپسندانہ اعمال کی طرف بڑھنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایک ہائی جیکر نے ’’دن میں پانچ وقت کی نماز شروع کی‘‘ (رپورٹ کا صفحہ نمبر ۱۶۲) اسی طرح صفحہ نمبر ۱۶۳ پر درج ہے کہ جراح کے بارے میں نوٹ کیا گیا کہ اس نے ’’ پوری داڑھی رکھ لی اور نماز باقاعدہ ادا کرنا شروع کر دی‘‘۔ اے ایم ٹی ایف کے مطابق نماز اور داڑھی کو انتہاپسندی کی علامات کے طور پر لینے سے امریکہ سمیت دنیا بھر کے پر امن مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ وہ داڑھی اور نماز کو اپنے عقیدے پر عمل کرنے کے بنیادی تقاضوں میں شمار کرتے ہیں۔ اس طرح معلوم ہوا کہ نیشنل کمیشن کے نزدیک جو مظہر انتہا پسندی کے ذیل میں آتا ہے، وہ بدیہی طور پر ’’مسلم ذہن کی داخلی تفہیم ‘‘سے لگا نہیں کھاتا۔ بہرحال، اے ایم ٹی ایف کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ رپورٹ کی ’’وضاحتیں ‘‘وقت کے ساتھ ساتھ دبتی چلی جائیں گی اور بالآخر اسلام ہی (مخصوص اصطلاح کے باعث) دہشت گرد قرار پائے گا ۔
نائن الیون نیشنل کمیشن رپورٹ میں پرانی اور نئی دہشت گردی میں بھی امتیاز کیا گیا ہے ، تسلی بخش حد تک یہ بتائے بغیر کہ ان میں’’فرق ‘‘ ہے کیا ؟ البتہ اتنا واضح کیا گیا ہے کہ کلنٹن ایڈمنسٹریشن میں دہشت گردی ’’جرم ‘‘ کے زمرے میں آتی تھی جبکہ بش ایڈمنسٹریشن میں اسے ’’جنگ ‘‘ کے طور پر لیا گیا ہے ۔ اے ایم ٹی ایف نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ، رپورٹ کی تجاویز اور تجزیے کو مفید گردانتے ہوئے یہ امکان ظاہر کیا ہے کہ امریکہ کی عسکری صلاحیتیں اور اس کا defense doctrine ’’تشکیلِ نو ‘‘ کے دور سے گزر سکتے ہیں ۔
امریکن مسلم ٹاسک فورس نے کمیشن کی رپورٹ میں کی گئی اس نا انصافی پر بھی احتجاج کیا ہے کہ دوسرے مذاہب کے انتہا پسندانہ رجحانات کے لیے رپورٹ میں struggle (جدوجہد) اور zealots (نہایت پرجوش حامی) وغیرہ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جبکہ اسلام کے لیے terrorism کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ایسا شاید اس لیے ہوا کہ دوسرے مذاہب کے لوگ کمیشن کے ممبر تھے (خیال رہے کمیشن کے دس ممبرز میں سے کوئی ایک بھی مسلمان نہیں تھا ) ناقدین کے مطابق کمیشن کے ارکان میں اگر امریکی مسلمانوں کو شامل کیا جاتا تو وہ دہشت گردی کے ساتھ لفظ اسلام کسی صورت بھی منسلک نہ ہونے دیتے۔اس طرح امریکی مسلمانوں کو کمیشن سے باہر رکھ کر ایک تو انھیں دوسرے درجے کا شہری ثابت کیا گیا، دوسرا خود کمیشن اسلام کے تصورات کا جامع احاطہ نہ کر سکا جو وہ امریکی مسلمانوں کی مدد سے کر سکتا تھا۔ اسی سلسلے میں یہ اعتراض بجا معلوم ہوتا ہے کہ اسقاطِ حمل کے کلینکوں پر بم مار کر معصوم لوگوں کو ہلاک کرنے والوں Timothy Mc Veigh, Eric Rudolph کے اعمال کو ’’ مسیحی دہشت گردی ‘‘ یا کم از کم ’’حکومت مخالف دہشت گردی ‘‘ کا نام کیوں نہیں دیا جاتا؟ اور جے ایل ڈی (Jewish Defense League) کو ’’یہودی دہشت گرد تنظیم ‘‘ کیوں نہیں قرار دیا جاتا ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ناقدین کے مطابق نیشنل کمیشن کی رپورٹ سے امریکیوں کے اپنے دشمن کی نوعیت کے متعلق کنفیوژن میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس سے بہتر مواد تو Patterns of Global Terrorism نامی رپورٹ میں ملتا ہے جس میں دہشت گردی کو تمام مذاہب کے انتہاپسندانہ گروہوں سے منسلک کیا گیا ہے۔ رپورٹ کا جائزہ لینے والوں نے بجا طور پر اس خامی کی نشاندہی کی ہے کہ کمیشن کے ارکان سکالرز کی تشریحات ، مسلم دنیا کے سماجی و سیاسی حالات اور عسکریت پسندی کی وجوہات کا تجزیہ کرنے سے مکمل قاصر نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر بن لادن کی شخصیت اور اس کی سیاست کا جو تجزیہ رپورٹ میں کیا گیا ہے، اس سے کہیں بہتر جائزہ John L. Esposito نے اپنی کتاب Unholy War: Terror in the Name of Islam کے ایک باب (بن لادن کے متعلق ) میں لیا ہے۔البتہ رپورٹ کی تیاری میں ، سٹیون ایمرسن کی کتاب American Jihad سے مدد لینے پر تنقید کی گئی ہے کیونکہ مسلمانوں کی بابت اس کا تعصب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ہماری رائے میں بہت سی وقیع کتب کی موجودگی میں کسی متنازعہ شخص کی متنازعہ تصانیف سے خوامخواہ کی مدد لینا کمیشن کی غیر جانبداری کو مشکوک ٹھہرانے کو کافی ہے۔ اگر امریکی پالیسی ساز ، غیر متعصب سکالرز اور مسلم دنیا سے مکمل کٹ کراسی طرح پالیسیاں بناتے رہے تو نہ صرف موجودہ حالات کے درست ادراک بلکہ آنے والے کئی چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہیں گے ۔ ناقدین کے مطابق ، مسلم دنیا میں امریکی خارجہ پالیسی کے تاریخی کردار کے حوالے سے یہ رپورٹ حیران کن حد تک خاموش ہے، حالانکہ اس خطے میں امریکی کردار جانے بغیرہم یہ نہیں جان سکتے کہ افغانستان میں ’’مجاہدین ‘‘ کس طرح ’’جہادی ‘‘ بن گئے ؟ اس حوالے سے محمود ممدانی کی کتاب Good Muslim, Bad Muslim: America, the Cold War, and the Roots of Terror کو رپورٹ کے مندرجات سے کافی بہتر گردانا گیا ہے ۔ فلسطین اور عراق میں امریکی پالیسی کے منفی پہلو کسی ذی ہوش شخص سے مخفی نہیں ہیں، لیکن نیشنل کمیشن کی کوتاہ نظری (اس معاملے میں ) رپورٹ کے ان الفاظ سے عیاں ہوتی ہے کہ :
"America's policy choices have consequences. Right or wrong, it is simply a fact that American policy regarding the Isreal-Palestinian conflict and American actions in Iraq are dominant staples of popular commentary across the Arab and Muslim world. That does not mean U.S. choices have been wrong."(9/11 commission report, p376.) 
’’امریکہ جو بھی پالیسی اختیار کرتا ہے، اس کے کچھ نتائج نکلتے ہیں۔ صحیح یا غلط، لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ فلسطین اسرائیل تنازعے کے حوالے سے امریکی پالیسی اور عراق میں امریکی اقدامات وہ بنیادی موضوعات ہیں جن پر پوری عرب اور مسلم دنیا میں ہر سطح پر تبصرہ وتنقید جاری ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ امریکی فیصلے غلط تھے۔‘‘
لہٰذا عالمی مسلم رائے عامہ پر امریکی ردِ عمل کچھ اس طرح سے ہے : ’’پنچوں کا کہا سر آنکھوں پر ، لیکن پرنالہ وہیں رہے گا ‘‘۔ زیرِ نظر کتابچے میں پرنالہ وہیں رکھنے کی امریکی روش پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ ہو سکتا ہے رپورٹ کے مذکورہ بالا الفاظ کو نیشنل کمیشن پر’’ بش کے دباؤ ‘‘پر محمول کیا جائے کہ کمیشن نے تنقید نہ کر سکنے کے باوجود ، امریکی پالیسیوں کو ’’گول الفاظ ‘‘ میں ہی درست قرار دیا ہے۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ، بلکہ کمیشن نے تو بش کے موقف کو رد کرتے ہوئے لگی لپٹی رکھنے کی بجائے ایک انٹیلی جنس افسر کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ :
"The United States is hated across the Islamic world because of specific U.S. government policies and actions. We are at war with an al-Qaeda-led, worldwide Islamist insurgency because of and to defend those policies and not, as President Bush has mistakenly said, to defend freedom and all that is good and just in the world." 
’’امریکی حکومت کی مخصوص پالیسیوں اور اقدامات کی بنا پر پوری مسلم دنیا میں امریکہ نفرت کا نشانہ بن گیا ہے۔ ہم القاعدہ کی قیادت میں عالم گیر اسلامی مزاحمت کے ساتھ ان پالیسیوں ہی کے تحفظ کے لیے جنگ کر رہے ہیں۔ صدر بش کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ یہ لڑائی آزادی اور دنیا کی دیگر منصفانہ اقدار کو بچانے کے لیے لڑی جا رہی ہے۔‘‘
اسی طرح رپورٹ کے ان الفاظ پر کہ"The United States must do more to communicate its message." (p377) (امریکہ کو اپنے موقف کے ابلاغ کے لیے اس سے زیادہ کوششیں کرنی چاہییں)، اے ایم ٹی ایف کا یہ تبصرہ بھی بر محل ہے کہ:
".Shouting the wrong message more loudly won't make it more acceptable"
(غلط موقف کو زیادہ بلند آواز سے پیش کرنا اس کو قابل قبول نہیں بنا سکتا)
رپورٹ میں سعودی عرب ، پاکستان اور افغانستان کے سیاسی حالات کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ اے ایم ٹی ایف کے مطابق سعودی عرب اور افغانستان کے بارے میں رپورٹ کے تجزیے سے اتفاق کرنا پڑتا ہے، لیکن پاکستان کی بابت اس کی سفارشات غیر تسلی بخش ہیں کیونکہ ان سے پاکستان کی بجائے جنرل مشرف کے متعلق امریکی پالیسیوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ رپورٹ میں ایک طرف اصرار کیا گیا ہے کہ امریکہ کو مختصر مدت کے تزویراتی فوائد کے حصول کے لیے (مسلم مما لک میں ) جمہوریت پر سمجھوتہ کرنے سے بچنا چاہیے اور دوسری طرف جنرل مشرف کو’’ موقع‘‘ دینے کا کہہ کر اپنی ہی سفارش کا رد بھی کر دیا گیا ہے۔ یہ بہت بڑا عجیب و غریب تضاد ہے ۔ اسی طرح یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ رپورٹ میں ایران ، سوڈان اور شام کو امریکہ مخالف جہادی گروہوں کے خطرناک ٹھکانوں اور پناہ گاہوں کے طور پر ڈسکس نہیں کیا گیا۔ اے ایم ٹی ایف کے مطابق امریکہ مخالف جہادی گروہوں کے ٹھکانوں کی فہرست میں ’’عراق ‘‘ کی عدم شمولیت بھی سنگین غلطی ہے کیونکہ عدمِ استحکام کا شکار عراق، امریکہ مخالف جہادیوں کے لیے سرگرمیوں کا مرکز (launching pad) ثابت ہو سکتا ہے۔ شاید کمیشن نے عراق کا ذکرکرنا اس لیے مناسب نہیں سمجھا کہ اس کی سفارشات اور بش کی حالیہ پالیسیوں میں تصادم کی صورت میں تضادات سامنے آ سکتے تھے۔
اگرچہ نیشنل کمیشن آزاد ، موثر ، اور باصلاحیت تھا اور اس نے بہت تن دہی و جان فشانی سے کام کیا، بارہ سو (۱۲۰۰ ) لوگوں کے انٹرویو کیے اورایک سو ساٹھ گواہوں (witnesses) پر مشتمل بارہ کھلی سماعتیں (public hearings) ہو ئیں، اس کے باوجود اسے خیال تک نہ آیا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی عرب /مسلم کمیونٹی کے ممتاز قائدین ، سکالرز اور ماہرین کی شہادتیں بھی حاصل کرے ، کہ نائن الیون کے حادثے میں ہلاک ہونے والے معصوم لوگوں میں عرب/مسلم بھی شامل تھے۔اس طرح نہ صرف ان متاثرہ خاندانوں کی تکالیف کو یکسر نظراندازکیا گیا بلکہ انھیں اس حادثے کے ضمن میں ہونے والے قومی مباحثے سے بھی خارج کر دیا گیا، حالانکہ عرب/مسلم ۱۰۰ سال سے زیاد ہ عرصہ سے امریکی زندگی کے ہر پہلو میں مثبت انداز میں حصہ لے رہے ہیں۔ زیرِ بحث کتابچے میں امریکی مسلمانوں سے کیے جانے والے ناروا سلوک (مثلاً محکمہ مردم شماری نے عرب /مسلم اعداد و شمار خفیہ طور پر ہوم لینڈ سکیورٹی کے محکمے کو فراہم کیے اورامریکہ میں کئی نسلوں سے آباد ، عرب نسل کے افراد کے متعلق معلومات ، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو فراہم کیں) کے علاوہ رپورٹ کی ایک اہم خامی کی نشاندہی کرتے ہوئے بالکل درست نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ9/11 کے حملہ آوروں سے کوئی’’ تعلق‘‘ تلاش کرنے کی غرض سے ، امریکی مسلمانوں پر الزامات کی بھر مار ، تفتیشی کارروائیوں اور حراست میں لیے جانے جیسے اقدامات کے باوجود ایسا کوئی’’ تعلق‘‘ سامنے نہیں لایا جا سکا۔ پھر رپورٹ میں آخر کیونکر اس سوال کا جواب دینے کی کوشش نہیں کی گئی کہ دہشت گرد کسی ’’ایک عرب/مسلم ‘‘ کو بھی اپنے گروہ میں شامل کرنے میں کیونکر ناکام رہے ؟ ہماری رائے میں نیشنل کمیشن کو اس سوال کا جواب لازماً دینا چاہیے تھا کیونکہ امریکی میڈیا sleeper Al-Qaeda cells within the U.S  (امریکہ کے اندر القاعدہ کے غیر متحرک گروپ) کا راگ برابر الاپے جا رہا ہے اور اس کے اثرات کے تحت امریکی عوام کی خاصی بڑی تعداد (مختلف سروے رپورٹس کے مطابق) عرب/مسلمانوں کی امن پسندی اور وفاداری کے متعلق مشکوک ہو چکی ہے۔ نقادوں کے مطابق یہ صورتِ حال ایک ایسے ملک میں زیادہ تشویش ناک ہو جاتی ہے جہاں کسی فرد کا جرم ثابت ہونے تک اسے ’’معصوم ‘‘ خیال کرنے کو ’’قابلِ فخر قدر ‘‘ کا درجہ حاصل ہو۔ بلاشبہ امریکی قوم کو اس قدر کی پائیداری اور استقلال کو یقینی بنانا چاہیے، بالخصوص جب اس کا اطلاق اس کے اندر موجود کسی اقلیت پر ہورہا ہو۔
ہرسال چالیس ہزار امریکی کار کے حادثوں میں ہلاک ہوتے ہیں، سولہ ہزار قتل ہوتے ہیں اور سات لاکھ سے زائد عارضہ قلب ، منشیات ، سگریٹ نوشی ، خوراک سے متعلق وجوہات کے سبب اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ امریکیوں کی اموات کی یہ وجوہات بیان کرکے اے ایم ٹی ایف نے تبصرہ کیا ہے کہ ہم جانتے ہیں ہم ان زندگیوں کو بچا سکتے ہیں اگر ہم بنیادی وجوہات کو ایڈریس کر نے کے ساتھ ساتھ امتناعی اقدامات کر لیں۔ پھردہشت گردی کے خاتمے کے لیے امریکی اقدامات پر یوں نکتہ چینی کی ہے کہ آخر ہم کیسے 9/11 جیسے حملوں کی وجوہات کا ادراک حاصل کرنے کی کوشش کیے بغیرایسے حملے روک سکتے ہیں ؟ اے ایم ٹی ایف کے اس نکتے کی معقولیت سے بھی کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا کہ : کیا یہ 9/11 کے حادثے میں ہلاک ہونے والے معصوم لوگوں کی’’ تعداد ‘‘ہے ،یا وہ’’ طریقہ ‘‘جس کے ذریعے انھیں ہلاک کیا گیا ،یا جن لوگوں نے جرم کیا ان کی شناخت ، یا پھر یہ تمام عوامل اکٹھے ہو کر ہمیں فوجی طاقت کے ایسے بے محابا استعمال کا کوئی ’’جواز ‘‘ فراہم کرتے ہیں کہ ہم جس مقام کے بارے میں ’’محسوس ‘‘ کریں کہ اس کا کوئی تعلق 9/11 کے حملوں سے ہے، وہاں حملہ کردیں ،یا مداخلت کریں، جس سے ان گنت معصوم انسان موت کے گھاٹ اتر جائیں اورلوگوں کا بے تحاشا مالی نقصان بھی ہو؟ عراق اور افغانستان کا 9/11 حملوں سے کوئی براہ راست یا بالواسطہ تعلق نہیں تھا، پھر وہاں کیوں موت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟انتہائی افسوس کی بات ہے کہ دو عشروں سے دوسرے لوگوں کی لڑائی میں ان ممالک کے عوام کو رگیدا جا رہا ہے۔ 
اے ایم ٹی ایف نے اگرچہ اصلاحِ احوال کے لیے مدارس کے مقابل نئے تعلیمی نظام کے نظریے کو سراہا ہے جس کے مطابق خاص طور پر خواتین اور بچوں کو نئے اسالیب اختیار کرنے کی ترغیب دی جائے گی، لیکن ساتھ ہی یہ صراحت کر دی ہے کہ اس کوشش کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اس امر پر ہے کہ اس عمل کے لیے اقدامات ’’کیسے ‘‘ کیے جاتے ہیں؟ تعلیم، ثقافتی اعتبار سے انتہائی حساس معاملہ ہے۔ اس کا مقصد ، انتہاپسندانہ آئیڈیالوجی کو فروغ دینے والی فرقہ بندی کی تخلیق سے بچتے ہوئے علم حاصل کرنے والے کی ’’شناخت ‘‘ کو مضبوط کرنا ہونا چاہیے ۔انتہا پسندانہ ایجوکیشن اور آئیڈیالوجی کے جواب میں رپورٹ کا مجوزہ نظام ایک خاص رخ سے کمی کا شکار ہے ۔ امریکی خارجہ پالیسی کے مضمرات اور اس پالیسی کے القاعدہ نیٹ ورک اور آئیڈیالوجی پر اثرات کے ’’ناکافی مباحث‘‘ سے یہی تاثر ملتا ہے کہ نیشنل کمیشن خطے کی پیچیدگی اور اس کی متنوع سیاسی فکر کا مکمل احاطہ نہیں کر سکا ۔ نقادوں کے مطابق یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ 9/11 کے حملہ آوروں میں سے اکثر نے سیکولر ایجوکیشن حاصل کر رکھی تھی جو سطحی اسلامی علم کے ساتھ امتزاج کے بعد انتہاپسند آئیڈیالوجی کی صورت میں نمودار ہوئی ۔ اس معاملے میں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ عدل و انصاف، آزادی، انسان دوستی، رواداری اور مساوات جیسے تصورات اسلامی عقائد کا جزو لاینفک ہیں۔ یہ کوئی’’ ترجیحات کا معاملہ‘‘ نہیں ہے کہ متشددانہ فرقہ واریت اور انسانیت سوز مظالم کی بجائے ان کو اختیار کر لیا جائے۔ لہٰذا اسلام کی صحیح ، گہری اور تمام جہات پر مبنی تعلیم مسلم دنیا میں روشن خیالی کی لہر دوڑانے کے ساتھ ساتھ خود امریکہ کی سلامتی کی ضامن ہو سکتی ہے ۔
اے ایم ٹی ایف کے مطابق دہشت گردوں کے مالیاتی روابط اور ان کے ذخائر کی تلاش میں احتیاط کی ضرورت ہے کہ کہیں اس تلاش کی آڑ میں وہ ’’جائز عطیات ‘‘ بھی بند نہ ہو جائیں جو انتہائی محتاج لوگوں کی بقا کی ضمانت بنتے ہیں۔ جائزعطیات کی بندش سے ان امریکہ مخالف جذبات کو بڑھاوا مل سکتا ہے جنھیں اسامہ بن لادن ہوا دینے کی کوشش میں ہے ۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک طرف مسلمانوں کو(بحیثیت امریکی )یہ ترغیب دلائی جاتی ہے کہ قوم کی سماجی فلاح سے متعلق معاملات کے بارے میں رضاکارانہ متوجہ ہوں اور دوسری طرف خبردار کیا جاتا ہے کہ حتیٰ کہ عام مسلم تنظیموں (main stream Muslim organizations) کو فنڈ دینے سے آپ لوگوں کو دہشت گردی کی مدد کرنے کے الزام میں دھرا جا سکتا ہے۔ جائز عطیات کی بندش سے امریکہ پر مالی اعتبار سے بھی بوجھ پڑ سکتا ہے کیونکہ بندش کی صورت میں، محتاج لوگوں کی ضروریات کی تکمیل امریکہ کی حکومتی ایجنسیوں کے فرائض میں شامل ہو جائے گی جس کا بالواسطہ بوجھ امریکی عوام پر ہی پڑے گا۔ اس طرح عوام ٹیکس کے دوہرے بوجھ سے ہلکان ہو جائیں گے۔ ایک، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ہوم لینڈ سکیورٹی کے لیے اضافی ٹیکس، اور دوسرا جائز عطیات کی بندش کے نتیجے میں خوامخواہ کا ٹیکس۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ پکڑ دھکڑ کی بجائے ایسا بین الاقوامی عدالتی نظام قائم کیا جائے جو ٹھوس شواہد کی بنیاد پر فیصلہ دے کہ کسی ’’خاص عطیہ ‘‘کے دہشت گردانہ روابط ہیں یا نہیں۔کم از کم اتنا تو لازماً کیا جانا چاہیے کہ کسی عطیہ کے نمائندے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کے خلاف اپیل اور جوابی کارروائی کر سکیں تاکہ امریکہ کے مشہورِ زمانہ اصول due process of law (قانونی قواعد وضوابط کی مکمل پابندی) کا کچھ بھرم ہی رہ جائے ۔ 
ہمیں چند روز پیشتر ایک ویب سائٹ کی طرف سے نیوز لیٹرمیں مذکورہ بحث سے متعلق چند معلومات ملیں کہ : امریکہ میں پچھلے چار برسوں میں بھوک میں ۲۶فیصد اضافہ ہوا، اور تقریباً ۳۶ ملین افراد اس کا شکار ہوئے۔ ستمبر ۲۰۰۴ میں، پچھلے سال سے 2.2 ملین زائد یعنی ۲۵ ملین افراد نے امریکہ کے فوڈ سٹیمپ پروگرام میں شرکت کی۔یہ تعداد اصل (محتاج ) تعداد سے کافی کم ہے کیونکہ فوڈ سٹیمپ درخواست فارم بارہ ( ۱۲) صفحات پر مشتمل ہے، پیچیدگی کی وجہ سے بہت سے لوگ اسے پر نہیں کر سکے۔ نیوز لیٹر کے مطابق بندوق درخواست فارم کے صرف دو صفحے ہیں، لہٰذا قانون سازوں کو ترجیحات کا نئے سرے سے تعین کر کے فوڈ سٹیمپ پروگرام میں توسیع لانے کے ساتھ ساتھ اس کے درخواست فارم کو سادہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ ہماری رائے میں نیوز لیٹر کے پیش کردہ حالات، عطیات کی بندش کی مذکورہ بالا صورتِ حال میں مزید سنگینی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ امریکہ کو جائز عطیات کی ترسیل یقینی بنانے کے علاوہ اپنے Militarisation of Space (خلا میں فوجی مراکز قائم کرنے) جیسے پروگراموں پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ امریکی عوام کے ٹیکس سے حاصل کردہ خزانہ ، سماجی خوش حالی کے فروغ پر خرچ ہو نہ کہ چند افراد کے جنگی جنون کی بھینٹ چڑھ جائے ۔
اے ایم ٹی ایف کے مطابق نیشنل کمیشن کا یہ کہنا ’’بوالہوسی ‘‘ ہے کہ امریکہ کو دنیا میں اخلاقی قیادت کا ایک نمونہ ہونا چاہیے۔رپورٹ کی سفارشات میں ’’باہمی احتساب ‘‘ سے قطع نظر بہت زیادہ مغرورانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ امریکہ اور اس کے دوست دنیا کے عرب اور مسلم خطوں کو تعلیم، معاشی خوش حالی، رواداری اور سیاسی فیصلوں میں شرکت کی پیش کش کریں گے۔ اسی طرح ہوم لینڈ سکیورٹی کے لیے مطلوب اقدامات اور شہری آزادیوں کے تحفظ کے درمیان لائن کھینچنے کے لیے بھی رپورٹ میں سفارشات شامل کی گئی ہیں۔ ہماری رائے میں امریکہ لائن کھینچنے میں ’’توازن ‘‘ کا مظاہرہ نہیں کر سکا کیونکہ Intelligence Reform and Terrorism Prevention Act پر امریکی صدر نے ۱۷ دسمبر کو دستخط کر دیے ہیں۔ ایوانِ نمائندگان نے اسے ۷ دسمبر کو ۷۵ کے مقابلے میں ۳۳۶ اور سینٹ نے ۸ دسمبر کو ۲ کے مقابلے میں ۸۹ ووٹوں سے پاس کیا تھا ۔ اس ایکٹ کے مطابق( نیشنل کمیشن کی سفارشات کی پیروی میں ) ایک Privacy and Civil Liberties Board بھی تشکیل دیا جائے گا تاکہ انتظامیہ کے ہاتھوں عوام کی آزادیا ں مجروح نہ ہونے پائیں۔ ہماری رائے میں چونکہ اس بورڈ کے ارکان کے تقرر کے اختیارات صدر کو سونپ دیے گئے ہیں جو انتظامی امور کا مدارالمہام ہے، اس لیے امریکی عوام کی آزادیاں کسی نہ کسی حد تک کم ضرور ہوں گی اور عرب/مسلم دنیا کو ’’آفر‘‘ کرنے کے لیے امریکہ کے پاس بہت کچھ باقی نہیں بچے گا۔ 
نیشنل کمیشن کے مطابق مسلم ممالک میں کرپشن اور غربت کی سنگین صورتِ حال سے بن لادن کوبہ آسانی رنگروٹ مل رہے ہیں، لیکن کمیشن نے یہ کہتے ہوئے کہ یہ مسائل(کرپشن ، غربت ) اپنی نوعیت میں کمیشن کی سفارشات کے دائرے سے باہر ہیں، اس معاملے میں تحقیق کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اے ایم ٹی ایف کے مطابق دوسری عالمی جنگ اور سرد جنگ کے دوران امریکی برتری کا ایک بڑا نتیجہ غیر معمولی سطح کی خوش حالی اور امن تھا جس کا زیادہ فائدہ جاپان اور مغربی یورپ کو ہوا۔ سرد جنگ کے بعد نئے عالمی نظام میں ’’سابق مشرقی بلاک کے ممالک‘‘ کی سیاست اور سماجی و معاشی پہلو ؤں پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوئے، لیکن مسلم ممالک کواس عالمی تبدیلی کے خوشگوار اثرات سے افسوس ناک حد تک محروم رکھا گیا جس کا ایک مظہر مسلم ممالک کی ان استبدادی حکومتوں کو جو عوام کو سیاسی شرکت ’’ آفر ‘‘ کرتی رہتی ہیں، مغرب کی سپورٹ (محدودمدتی تزویراتی فوائد کی خاطر ) ہے جو عوامی خواہشات پر مبنی پر امن جمہوری تبدیلی کی آواز کو دبا کر اقتدار میں آئی ہیں۔کرپشن اور غربت کا سب سے بڑا سبب یہی ہے ۔اس لیے امریکہ اخلاقی قیادت کا نمونہ بننے اور آفر کرنے کی بجائے ’’ عدم مداخلت ‘‘ کی اخلاقیات اپنا لے تو معاشی خوش حالی سمیت تمام مثبت قدریں خود بخود ان ممالک میں جڑ پکڑ لیں گی۔ اگرچہ نیشنل کمیشن نے یہ تسلیم کیا ہے کہ طویل سرد جنگ کا ایک سبق یہ ہے کہ جابرانہ اور ظالمانہ حکومتوں سے تعاون کاحصول امریکہ کے مفادات اور اقدارکے لیے اکثر اوقات طویل المیعاد نقصان کا سبب بنا ، لیکن کمیشن نے واضح انداز میں امریکی خارجہ پالیسی کی ’’تصحیح ‘‘ پر زور نہیں دیا ۔ اے ایم ٹی ایف کے مطابق امریکہ کو اپنے سیاسی نظریے پر نظر ثانی کرنی چاہیے کہ اس کے اصل دشمن وہ ہیں جو ’’سیاسی تبدیلی اور جمہوری حقوق‘‘ کی مخالفت کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ عوام ہی ہیں جو استحکام ، عالمی سلامتی، معاشی خوش حالی اور اسی لیے دیرپا امن کے حقیقی ضامن ہیں ۔ 

ندوہ کا ایک دن

ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

(ہمارے محترم اور فاضل دوست ڈاکٹر محمد اکرم ندوی نے اپنی کتاب ’’ندوہ کا ایک دن‘‘ میں دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں اپنے زمانہ طالب علمی کے ایک دن کی سرگزشت قلم بند کی ہے۔ اس کتاب کے چند منتخب حصے ذیل میں شائع کیے جا رہے ہیں جن سے ندوہ کی علمی وتعلیمی فضا کی ایک جھلک بھی قارئین کے سامنے آ سکے گی اور ہمارے ارباب مدارس کو اپنے یہاں کے اساتذہ وطلبہ کی ذہنی اور فکری سطح کا جائزہ لینے کا موقع بھی ملے گا۔ مدیر)

ابراہیم صاحب کو نحو سے خاص دلچسپی ہے۔ محال ہے کہ ابراہیم صاحب ساتھ ہوں اور گفتگو نحو کے کسی مسئلہ کی طرف نہ مڑ جائے۔ ابراہیم صاحب کو نحو سے جتنی دلچسپی ہے، بابر بھائی کو اس سے اتنی ہی بیر۔ بابر بھائی ہم لوگوں کی صحبت سے لطف اندوز ہوتے ہیں، لیکن ابراہیم صاحب کی نحویانہ سنجیدگی ان کی برداشت سے باہر ہے۔ بابر بھائی نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ سیبویہ، ابن جنی یا ابن ہشام کا نام درمیان میں آئے اور نحو کے مدارس کوفہ وبصرہ وبغداد کے متعلق گفتگو ہو، کوئی اور موضوع شروع کرنا چاہیے۔ چنانچہ بابر بھائی نے مدینہ منورہ میں اپنے قیام کے واقعات سنانا شروع کیے۔ وہاں کے اساتذہ اور شیوخ کے انداز تدریس پر گفتگو کی۔ بابر بھائی نے بتایا کہ مدینہ منورہ میں مولانا سعید احمد خان صاحب کی ذات گرامی ہندوستانیوں کا بڑا سہارا ہے۔ مسجد النور کی مجالس روحانی اور علمی غذا فراہم کرتی ہیں۔ مولانا کے علمی مقام کی وجہ سے پڑھے لکھے لوگ بھی تبلیغ ودعوت کے کام کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ .....
بابر بھائی نے مولانا کے علمی تحقیقات کی متعدد مثالیں دیں۔ مجھے بھی یاد آ گیا کہ ایک بار نظام الدین کے تبلیغی مرکز میں ہم لوگ مولانا کے پاس بیٹھے تھے کہ مولانا نے طلبہ کی مناسبت سے سوال کیا کہ ’غیر المغضوب علیہم ولا الضالین‘ کا ترجمہ کیا ہے؟ ایک طالب علم نے اس کا مشہور ترجمہ سنایا ’’نہ کہ ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ ان لوگوں کا راستہ جو گمراہ ہوئے‘‘۔ مولانا نے فرمایا یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے۔ ندوہ کے ایک طالب علم نے مولانا کی منشا سمجھ کر عرض کیا کہ ’غیر المغضوب علیہم‘، ’الذین انعمت علیہم‘ کی صفت ہے۔ ترجمہ ہوگا ’’اے اللہ ہمیں سیدھے راستہ پر چلا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرا انعام ہوا ہے، جن پر تیرا غضب نہیں نازل ہوا اور نہ وہ گمراہ ہیں‘‘۔ مولانا نے اس کی تائید فرمائی۔
ابراہیم صاحب موقع کی تاک میں تھے ہی، فوراً بول اٹھے کہ واقعتا نحو کے مسائل سے واقفیت دقائق قرآنی تک رسائی اور اسرار حدیث کی گرہ کشائی کی کلید ہے۔ ابن ہشام ہی کو دیکھے کہ شرح قطر الندیٰ اور شرح شذور الذہب بلکہ اپنی تمام تصانیف میں نحو کے مسائل کی تشریح کرتے ہوئے قرآن وحدیث کی مثالیں بیان کرتے ہیں جن سے مشکل مقامات کے حل میں مدد ملتی ہے۔ مثلاً سورۃ الشعراء کی آیت ’’وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون‘‘ کو لیجیے۔ بابر بتائیں کہ ’’ای منقلب‘‘ کیوں منصوب ہے؟ بابر بھائی نے کہا کہ ابراہیم، یہ کون سی مشکل ترکیب ہے۔ اول ودوم کے طلبہ بھی اسے جانتے ہیں۔ ای، سیعلم کا مفعول ہے۔ ابراہیم صاحب نے کہا کہ جب علما اس طرح کی غلطیاں کرتے ہیں تو نحو کی افادیت پر مزید یقین مستحکم ہو جاتا ہے۔ ای، ینقلبون کا مفعول مطلق ہے۔ اس طرح کی ترکیبوں میں یعلم لفظاً عمل کرتا ہی نہیں ہے، اس لیے اسے اہل نحو تعلیق سے تعبیر کرتے ہیں۔
حشمت اللہ نے تبصرہ کیا کہ ابراہیم صاحب، آپ سے ابن ہشام، شرح قطر الندیٰ، شرح شذور الذہب کے نام سنتے سنتے کان تھک گئے۔ اس میں شک نہیں کہ متاخرین میں ابن ہشام کے پایہ کا کوئی نحوی نہیں اور فلسفہ تاریخ کے امام ابن خلدون نے بجا کہا ہے کہ ’ما زلنا ونحن بالمغرب نسمع انہ ظہر بمصر عالم بالعربیۃ یقال لہ ابن ہشام انحیٰ من سیبویہ‘ اور ندوہ کے نصاب تعلیم کے ذمہ داروں نے ابن ہشام کی تصنیفات نصاب میں داخل کر کے ندوہ کے نصاب تعلیم کو ایک انقلابی رخ عطا کیا ہے، ورنہ ابن حاجب کی کافیہ اور اس کی شرح ملا جامی یہاں کی عربیت کی معراج رہی ہے۔ شرح جامی پر علامہ شبلی کا تبصرہ کتنا معنی خیز ہے، ’فیہ کل شئ الا النحو‘، لیکن ابن ہشام کی پرستش سے ہم وہی غلطی کر رہے ہیں جو اب تک ابن حاجب اور ملا جامی کے نام سے چلی آ رہی ہے۔
مجھے حشمت اللہ صاحب کا تبصرہ کچھ سخت لگا۔ میں نے کہا، نصاب میں سارے نحویوں کی کتابیں داخل کرنا کیوں کر ممکن ہے۔ ندوہ نے شرح قطر الندیٰ اور شرح شذور الذہب داخل کی ہیں، بعض مراحل میں الفیہ ابن مالک پر ابن عقیل کی شرح اور مرحلہ تخصص میں ’المفصل‘ داخل کی ہے۔ آخر اس سے زیادہ کس توسع کی توقع کرتے ہیں۔ نصاب کو نحو سے گراں بار تو کرنا نہیں ہے۔ بابر بھائی کے لیے نحو کا موضوع صبر آزما تھا ہی، موقع ملتے ہی انھوں نے کہا کہ اگر ندوہ کے نصاب کی اصلاح کرنی ہے تو نصاب کو نحو سے آزاد کرنا ہوگا۔ .... حشمت اللہ نے حسب معمول بابر صاحب کی دخل اندازی پر توجہ نہیں دی اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میرا مقصد نصاب سے نہیں ہے۔ مجھے افسوس ہوتا ہے جب میں ابراہیم صاحب اور نحو کے دیگر اساتذہ کو دیکھتا ہوں کہ ابن ہشام کے بغیر لقمہ نہیں توڑ سکتے۔ آخر جب دوسرے مضامین میں ہم، نصابی کتابوں سے ہٹ کر اپنے دائرہ مطالعہ کو وسیع کر سکتے ہیں اور درسی کتابوں پر قناعت نہیں کرتے تو آخر نحو کے ساتھ یہ زیادتی کیوں ہے؟ عربیت میں مہارت اور علم نحو سے گہری واقفیت پیدا کرنے کے لیے سیبویہ کی الکتاب، مبرد کی الکامل، ابن قتیبہ کی الکاتب، ابن عبد ربہ کی العقد الفرید، جاحظ کی البیان والتبیین اور ابن جنی کی تصنیفات کا مطالعہ کیو ں نہیں کیا جاتا؟ ابن ہشام کی ہم کتنی ہی تعریف کیوں نہ کریں، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ابن ہشام نے بھی دوسرے متاخرین نحویوں کی طرح نحو کے قواعد کو منطق کی حد بندیوں میں مقید کر دیا ہے۔ نحو کی روح وہاں نہیں۔ مختصرات وشروح فن سے مناسبت پیدا کرنے کے لیے ہیں، ان سے کسی فن پر عبور نہیں ہوتا۔ میں نے حشمت اللہ کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ یہی غلطی اصول فقہ میں بھی ہے۔ عام طور سے لوگ اصول الشاشی اور حسامی پر قناعت کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انھیں فقہ کے اصول کا علم ہے، حالانکہ ان مختصرات کے بعد علم سے اصل مناسبت کی ابتدا ہوتی ہے۔ ان کے بعد اصول السرخسی، اصول البزدوی، امام شافعی کا الرسالہ، آمدی کی الاحکام، شاطبی کی الموافقات اور ابن حزم کی تصنیفات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔(ص ۲۶۔۲۹)
ہمارا درس تین روز سے کتاب الجمعۃ کے باب الاذان کی درج ذیل حدیث کے متعلق ہے: امام بخاری نے اپنی سند سے حضرت سائب بن یزید سے نقل کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ اور ابوبکرؓ وعمرؓ کے عہد میں جمعہ کی پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھتا۔ جب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے اور آبادی میں اضافہ ہو گیا تو آ پ نے زوراء کے مقام پر تیسری اذان کا اضافہ کیا۔ مولانا ضیاء الحسن صاحب اس حدیث کی تشریح محدثین اور فقہا کی اس رائے کے مطابق فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ کے عہد مبارک میں جمعہ کی نماز کے لیے خطبہ کی اذان کے علاوہ کوئی اذان نہیں تھی اور قرآن کریم میں سعی الی الجمعۃ کا حکم جس اذان کے بعد ہے، وہ یہی خطبہ کی اذان ہے۔ جمعہ کی پہلی اذان کا اضافہ حضرت عثمان کے عہد میں ہوا اور اس وقت سے جمعہ میں دو اذانیں جاری ہیں۔ اس تشریح پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ اس حدیث میں حضرت عثمان کے عہد کی اذان کو تیسری اذان کہا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان کے عہد سے پہلے جمعہ کے لیے دو اذانیں تھیں۔ اس اشکال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اقامت بھی ایک قسم کی اذان ہے، اقامت کو شامل کر کے کل تین اذانیں ہو گئیں۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ بخاری شریف کی ایک دوسری روایت میں حضرت عثمان کی اضافہ کردہ اذان کو دوسری اذان کہا گیا ہے۔ اس پر اشکال ہوتا ہے کہ حضرت عثمان کی اضافہ کردہ اذان کو پہلی اذان کہنا چاہیے تھا، تیسری اذان کیوں کہا گیا؟ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ چونکہ اس اذان کا اضافہ بعد میں ہوا تھا، اس لیے اس کو تیسری اذان کہا گیا۔
ہم میں سے بعض طلبہ اس تشریح سے مطمئن نہیں تھے اور کئی روز سے بحث جاری تھی۔ ہم نے اس کی ایک تشریح مولانا شہباز صاحب کی تشریحِ دلائل کے ساتھ بھی سنی تھی۔ ہم لوگوں نے مولانا شہباز صاحب کی تشریح دلائل کے ساتھ دہرائی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ کے لیے دو اذانیں حضور ﷺ کے دور سے ہی تھیں، سورہ جمعہ میں جس اذان کا تذکرہ ہے، وہ پہلی اذان ہے۔ حضرت عثمان نے ایک وقتی ضرورت کے تحت تیسری اذان کا اضافہ کیا تھا، وہ کوئی مستقل اضافہ نہیں تھا، وہ وقتی ضرورت تھی، جیسا کہ حدیث میں خود صراحت ہے کہ مدینہ کی آبادی کی کثرت تھی، اس لیے یہ اذان مدینہ کے دوسرے علاقہ مقام زوراء میں ہوتی تھی۔ زوراء، مدینہ منورہ میں بازار کے پاس ایک جگہ تھی۔ مولانا اپنی اس رائے پر متعدد دلائل دیتے تھے جن کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
قرآن کریم میں جمعہ کی اذان کے متعلق ہے: ’اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ وذروا البیع‘۔ ترجمہ: ’’جب جمعہ کے دن کے لیے نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کے لیے چل نکلو اور کاروبار کو چھوڑ دو۔‘‘ اللہ کے ذکر سے خطبہ اور نماز دونوں مراد ہیں، بلکہ علما کی ایک بڑی جماعت اس سے صرف خطبہ ہی مراد لیتی ہے۔ اب اگر خطبہ والی اذان کے بعد سعی فرض ہو تو مدینہ کے عوالی میں رہنے والوں کی نماز بھی چھوٹ جائے گی، یا کم سے کم خطبہ کا کچھ حصہ ضرور چھوٹ جائے گا، اس لیے قرآن کی آیت سے وہ اذان مراد لینا ضروری ہے جس کے بعد انسان جمعہ کے لیے سعی کرے اور خطبہ اور نماز دونوں میں شرکت کر سکے اور یہ پہلی اذان مراد لینے کی شکل ہی میں ممکن ہے، اس لیے امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک قرآن شریف میں جمعہ کی اذان سے مراد پہلی اذان ہے۔
اذان اور اقامت میں فرق ہے۔ اقامت، جماعت سے متصل ہوتی ہے اور اس کا مقصد جماعت کھڑی ہونے کی اطلاع ہے، جبکہ اذان کا مقصد نماز کے وقت کے دخول کی اطلاع ہے تاکہ لوگ گھروں یا اپنے کام سے فارغ ہو کر نماز کے لیے نکلیں۔ شریعت مطہرہ، جس کا ہر حکم مصالح وحکم پر مبنی ہے، اس میں یہ کس طرح ممکن ہے کہ ساری نمازوں میں تو یہ اطلاع والی اذان ہو اور جمعہ جو ساری نمازوں سے زیادہ اہم ہے، اس کی اطلاع کا کوئی انتظام نہ ہو؟
یہاں ایک نکتہ پر غور کرنا ضروری ہے کہ دخول وقت کی اطلاع کے لیے نماز سے پہلے اذان اور جماعت کے لیے اقامت مشروع ہے۔ آخر خطبہ کی اذان کا کیا مقصد ہے؟ خطبہ کی اذان سے متصل ہی خطبہ کا شروع کیا جانا دلیل ہے کہ یہ اذان وقت کے دخول کی اطلاع نہیں ہے، بلکہ اس کامقصد کچھ اور ہے۔ یہ لوگوں کو متنبہ کرنے کے لیے ہے کہ سنن ونوافل جلدی مکمل کر کے اور دوسری مشغولیات چھوڑ کر امام کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو کر بیٹھ جائیں، اب خطبہ شروع ہونے والا ہے۔ خطبہ کی اذان خطبہ کے لیے ایسی ہی ہے جیسے جماعت کے لیے اقامت۔ 
خطبہ کی اذان امام کے سامنے ہوتی ہے۔ اس کا مقصد، جیسا کہ اوپر گزرا، مسجد میں ہونے والوں کو متنبہ کرنا ہے۔ مدینہ کی آبادی کے بڑھنے یا گھٹنے کا خطبہ کی اذان پر کیا اثر؟ حضرت عثمان کے اضافہ والی حدیث دلیل ہے کہ انھوں نے خطبہ کی اذان کو ناکافی سمجھ کر یہ اضافہ نہیں کیا تھا، بلکہ جمعہ کی پہلی اذان جو اطلاع عام کے لیے ہوتی ہے، آبادی کے اضافہ کی وجہ سے کافی نہیں ہو رہی تھی، اس لیے عارضی طور پر ایک اذان کا اضافہ کر دیا تھا۔ بخاری شریف وغیرہ کی روایت میں حضرت عثمان کی اذان کو تیسری اذان کہنا بھی اسی کا قرینہ ہے کہ جمعہ کی دو اذانیں پہلے سے مشروع تھیں۔ بعض روایتو ں میں حضرت عثمان کی اذان کو دوسری اذان کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جمعہ میں ایک زائد اذان پہلے سے تھی، یہ دوسری زائد اذان تھی، اس لیے اسے دوسری اذان کہا گیا۔
استاد محترم مولانا ضیاء الحسن صاحب اس تشریح سے مطمئن نہیں تھے، لیکن انھوں نے دونوں طرف کے دلائل کو دیکھتے ہوئے فرمایاکہ اس تشریح کی گنجایش نکلتی ہے۔ ( ص ۵۰۔۵۳)
رضوان صاحب نے مدینہ منورہ یونیورسٹی سے تفسیر اور علوم قرآن کے موضوع پر اختصاص کیا ہے۔ اسی سال فارغ ہو کر آئے ہیں اور ندوہ میں تفسیر کے استاد کی حیثیت سے ان کی تقرری ہوئی ہے۔ وہ کئی روز سے میرے پیچھے پڑے ہوئے تھے کہ ان کے ساتھ مولانا فراہیؒ کے نظریہ ’’نظام القرآن‘‘ پر تبادلہ خیال کروں۔ بابر صاحب خاموش ہوئے تو رضوان صاحب نے موقع غنیمت جانتے ہوئے نظام القرآن کا موضوع چھیڑ دیا۔ میں نے عرض کیا کہ وقت تھوڑا ہے، اس وقت اچھی طرح سے گفتگو مشکل ہے۔ اگر ہم مولانا شہباز سے رجوع کریں تو شاید فکر فراہی کو زیادہ بہتر انداز سے سمجھ سکیں۔ مولانا فراہیؒ ایک متقی، پرہیزگار اور دقیقہ رس عالم تھے۔ قرآن کریم کے مطالعہ پر اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔ انھوں نے اپنے اس مطالعہ کا نچوڑ اپنی مکمل اور غیر مکمل تصنیفات ’’اسالیب القرآن‘‘، ’’دلائل النظام‘‘، ’’مقدمہ تفسیر نظام القرآن‘‘ اور ’’مفردات القرآن‘‘ وغیرہ میں پیش کیا ہے۔ ان کی کتاب ’’جمہرۃ البلاغۃ‘‘ اپنے موضوع پر نادر کتاب ہے۔ اس کتاب میں عربی زبان کی بلاغت کے اصول جس مجتہدانہ انداز میں پیش کیے گئے ہیں، اس کی نظیر نہیں۔ مولانا شبلی نے اپنے مقالات میں اس پر اچھا تعارف پیش کیا ہے۔ اسی طرح مولانا فراہیؒ کی تصنیفات ’’الرای الصحیح فی من ہو الذبیح‘‘، ’’الامعان فی اقسام القرآن‘‘ وغیرہ محققانہ ومجتہدانہ معلومات پر مشتمل ہیں۔ ان کتابوں کے مطالعہ سے مولانا فراہی کی فکر کی حقیقت واضح ہوگی۔
میں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم کے منظم اور مرتب کتاب ہونے کا تصور متقدمین کے یہاں موجود ہے اور تقریباً ہر معتبر تفسیر میں ربط آیات کی کوششوں کے نمونے ملیں گے۔ مولانا فراہیؒ نے اس موضوع کی اہمیت کو سمجھا اور اس پر پوری محنت کی، یہاں تک کہ اس زمین کو آسمان بنا دیا۔ مولانا فراہیؒ نے واضح کیا ہے کہ ہر سورہ کا ماقبل ومابعد کی سورتوں سے اور ہر آیت کا ماقبل ومابعد کی آیتوں سے ربط ہے۔ قرآن کا ترتیب نزولی پر نہ ہونا اس نظم کی بہت بڑی دلیل ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مولانا فراہیؒ نے جس طرح نظم کی تشریح کی ہے، اس سے ان کے نظریہ پر شرح صدر ہو جاتا ہے، لیکن اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ ہر آیت کا نظام بتانے میں وہ یکساں طور پر کامیاب ہیں، نہ ان کو اس کا دعویٰ ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔ ان سے اختلاف کی گنجایش موجود ہے۔
میری گفتگو جاری ہی تھی کہ ابراہیم صاحب نے کہا کہ اکرم، اس نظم کی کوئی اچھی سی مثال دو جس سے بات ذرا واضح ہو۔ میں نے عرض کیا کہ مولانا شہباز صاحب کے حوالہ سے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ مولانا کا کہنا ہے کہ نظم کے ذریعہ قرآن کریم کی معنوی تحریفات اور بہت سی تفسیری غلطیوں کا سدباب کیا جا سکتا ہے۔ اس کی مثال مولانا سورۃ الاحزاب کی آیت ’ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین‘  پیش کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کے پاس مہر نبوت تھی۔ آپ کے بعد جو بھی نبی آئے گا، آپ کی مہر نبوت کی تصدیق سے آئے گا، کوئی مستقل نبی نہیں آ سکتا۔ قادیانیوں کا یہ استدلال آیت کے سیاق سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ نظم قرآنی کی روشنی میں آیت کی تفسیر یہ ہے کہ عربوں کے رسم ورواج میں متبنیٰ کو حقیقی بیٹے کا مقام حاصل تھا۔ قرآن نے اس رسم کو ختم کرنا چاہا اور حکم دیا کہ لوگوں کو ان کے حقیقی باپ کی طرف منسوب کیا جائے۔ حضرت زید جو کہ حضور ﷺ کے متبنیٰ تھے، ان کو زید بن محمد کہا کرتے تھے۔ سورۃ الاحزاب کے نزول کے بعد زید بن حارثہ کہنا شروع کیا۔ زید بن حارثہ کی شادی نبی اکرم ﷺ کے مشورہ سے حضرت زینب سے ہوئی، لیکن یہ رشتا نبھا نہیں۔ حضرت زید نے طلا ق دے دی جس سے حضرت زینب کو مزید شکستگی ہوئی۔ آپ ﷺ کے دل میں آیا کہ آپ خود حضرت زینب سے نکاح کر لیں تو ان کے دل کی شکستگی دور ہو جائے گی، لیکن اس میں اندیشہ تھا کہ لوگ کہیں گے کہ محمد ﷺ نے اپنی بہو سے شادی کر لی۔ قرآن کریم نے اس موقع پر یہ رسم ختم کرنا چاہی، اس لیے واضح فرما دیا کہ ’ماکان محمد ابا احد من رجالکم‘  چونکہ محمد ﷺ حضرت زید کے باپ نہیں ہیں، اس لیے زینب سے شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس پر یہ سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ اگرچہ آپ زید کے باپ نہیں ہیں، پھر بھی کیا ضروری ہے کہ آپ زینب سے شادی کریں۔ اس لیے فرمایا کہ ’ولکن رسول اللہ‘، چونکہ آپ خدا کے پیغمبر ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ آپ کے ذریعہ یہ جاہلانہ رسم توڑ دی جائے۔ آپ کی رسالت کی ذمہ داری ہے کہ آپ جاہلیت کی تمام رسموں کا خاتمہ کریں۔ اس پر یہ بات ذہنوں میں آ سکتی تھی کہ کیا ضروری ہے کہ اتنے بڑے پیغمبر اس کام کو کریں۔ ان کے بعد جو نبی آئیں گے، وہ اس رسم کو ختم کر سکتے ہیں۔ اس شبہ کو دور کرنے کے لیے فرمایا کہ ’وخاتم النبیین‘، آ پ نبیوں کی مہر ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا ہے، اس لیے اس رسم کو توڑنا آپ ہی کے ذمہ ہے۔ اس مثال سے سبھی لوگ محظوظ ہوئے۔ (ص ۳۴۔۳۶)
رضی الاسلام نے کھانے کے دوران ذکر کیا کہ وہ آج کل سورۃ الفیل پر مولانا فراہیؒ کی تفسیر کی تردید لکھ رہے ہیں اور انہوں نے اس پر اچھا خاصا مواد اکٹھا کر لیا ہے۔ عبد الحی نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فراہیؒ علم وفضل کے اتنے عظیم مقام پر فائز تھے اور تقویٰ وپرہیز گاری میں بھی معاصرین سے ممتاز تھے، انھوں نے اس سورہ کی تفسیر میں جمہور کی رائے کی مخالفت کیسے کی۔ اس پر طارق نے کہا کہ مولانا فراہیؒ بھی انسان تھے اور غلطی کس سے نہیں ہوتی۔ آفتاب صاحب نے مولانا فراہی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ بات اتنی سادہ نہیں ہے جس طرح مخالفین نے پیش کی ہے۔ جاہلی شاعری پر مولانا فراہی کی گہری نظر ہے۔ عربوں نے اپنے اشعار میں اس پر فخر کیا ہے کہ انہوں نے ابرہہ کے لشکر پر حملہ کیا اور اسے شکست دے دی، اور یہ کہ پرندے مردہ لاشوں کی وجہ سے اکٹھا ہوئے تھے۔ رضی الاسلام نے اس پر اعتراض کیا کہ ایک طرف تو مولانا فراہی احادیث کی روایت کے بارے میں سخت محتاط ہیں، ان کے یہاں صحیح روایات سے کھلا ہوا اعراض موجود ہے۔ اشعار عرب کی سندیں ضعیف احادیث سے بھی کمزور ہیں اور حماد الراویۃ اور خلف الاحیر وغیرہ پر کثرت سے اشعار وضع کرنے کے الزامات ہیں۔ یہاں ایک اہم نکتہ کی نشان دہی ضروری ہے کہ شعرا کی مفاخرت کا صحیح مفہوم سمجھنا چاہیے۔ شعراے عرب کا یہ کہنا کہ ہم نے ابرہہ کے لشکر کو شکست دی ہے، اس مفہوم میں نہیں ہے کہ انہوں نے مقابلہ کر کے شکست دی ہے، بلکہ انہوں نے ابرہہ پر آنے والے عذاب الٰہی کو اپنے دین وموقف کی حقانیت کی تائید کے لیے استعمال کیا ہے۔ (ص ۶۷)
آج کل صبح کے وقت ابن حزمؒ کی ’’المحلیٰ‘‘ کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ یہ سوچ کر کہ ناغہ نہ ہو، کتاب کے ایک حصہ کا مطالعہ کیا۔ میں ابن حزمؒ کے دلائل کی قوت سے اتنا متاثر نہیں ہوں جتنا مجھ پر اس کا اثر ہے کہ جب اسلام کی تہذیب کو غلبہ تھا، لوگ کتنی آزادی سے سوچتے تھے۔ ان کے اجتہادات معاشرے کی صحت مند تعمیر میں حصہ لیتے تھے۔ نہ کہیں کوئی انتشار اور بد مزگی وافتراق۔ یونس صدقی کا قول یاد آتا ہے کہ میں نے امام شافعی سے زیادہ عقل مند کسی کو نہیں دیکھا۔ کسی مسئلہ پر ان سے ایک روز میں نے مناظرہ کیا۔ مناظرہ کے بعد ہم نے اپنی اپنی راہ لی۔ کچھ دنوں کے بعد ان سے میری ملاقات ہوئی۔ میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا، ابوموسیٰ، (یونس کی کنیت) کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہمارا کسی مسئلہ میں اختلاف ہو، تب بھی ہم بھائی بھائی بن کر رہیں؟ میرے ذہن میں آیا کہ ندوہ کے نصاب اور اس کے نظام تعلیم کی یہی دعوت ہے کہ عہد ماضی کا یہ زریں دور دوبارہ آ جائے۔ ندوہ کی فکر کا اہم پہلو یہ ہے کہ اصولوں پر سختی سے کاربند رہنے کے باوجود ہمارے دل اتنے وسیع ہوں کہ فروعی اختلافات ہمیں فرقہ بندی اور گروہ بندی کی دلدل میں نہ پھنسا سکیں۔ (ص ۳۶، ۳۷)
عبد المبین نے بتایا کہ وہ اورنگ آباد کسی کام سے گئے ہوئے تھے، وہاں کسی نے ’تعمیر حیات‘ میں شائع ہونے والے طارق کے فقہی سوال وجواب کی بڑی تعریف کی اور کہنے لگے کہ ان فتووں کو کتابی شکل میں شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ یہ مسائل تو پہلے ہی سے کتابوں میں موجود ہیں۔ عبد الحی نے کہا کہ طارق، تمہارا طریقہ فتویٰ نویسی ندوہ کے مسلک اور طرز زندگی کی نمائندگی نہیں کر رہا ہے۔ بار بار ’’صورت مسؤلہ‘‘ وغیرہ جیسی ثقیل ترکیبیں بانیان ندوہ مولانا شبلی، مولانا حبیب الرحمن خان شیروانی وغیرہ جیسے صاحب طرز ادیبوں کی ارواح کے لیے تکلیف کا باعث ہیں۔ آخر دیکھو، مصر میں مفتی محمد عبدہ، رشید رضا اور آج کل شیخ قرضاوی نے فتویٰ کی زبان کو کتنی ترقی دی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ طارق، ان سے تمہیں صرف فتویٰ کی زبان ہی نہیں، بلکہ منہج بھی اخذ کرنا چاہیے۔ فتویٰ نویسی کا ایک زمانہ میں معیار یہ تھا کہ اس میں الفاظ کم سے کم مستعمل ہوں، لیکن یہ طریقہ صحیح نہیں۔ فتویٰ نویسی میں قرآن وسنت کے دلائل اور عقلی حکمتوں کا بھی حوالہ ہونا چاہیے۔ اس سے سوال کرنے والوں کو اطمینان حاصل ہوگا اور ان کے علم میں اضافہ بھی ہوگا۔ قرآن کریم کو دیکھو کہ سوالوں کے جواب میں کتنی رعایتیں ملحوظ ہیں اور حدیث شریف تو اس طرح کی مثالوں سے پُر ہے۔ اسی طرح حدیث کے حوالوں میں صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ایک حدیث میں آیا ہے، بلکہ کتاب اور باب کے حوالہ سے پوری حدیث نقل کرنی چاہیے اور حدیث موطا اور صحیحین میں نہیں ہے تو ائمہ حدیث کے حوالہ سے اس کا درجہ بھی متعین کرنا چاہیے۔ (ص ۶۸)
وزیر کو جدید اردو ادب اور تنقید سے بڑی دلچسپی ہے۔ نیاز فتح پوری، مجنوں گورکھ پوری، مہدی افادی، کلیم الدین احمد، رشید احمد صدیقی، آل احمد سرور وغیرہ کی تحریریں ساتھیوں نے وزیر ہی کی دیکھا دیکھی پڑھی ہیں۔ آج کل ’نکات مجنوں‘ وزیر کے مطالعہ میں ہے۔ زاہد صاحب اور فٹ بال میچ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے وزیر نے مجنوں کی سخن فہمی اور تنقید نگاری پر تبصرہ کرنا شروع کردیا۔ دوران گفتگو وزیر نے میر حسن کی مثنوی ’سحر البیان‘ کے یہ اشعار پڑھے:
وہ گانے کا عالم وہ حسن بتاں
وہ گلشن کی خوبی وہ دن کا سماں
گھڑی چار دن باقی اس وقت تھا
سہانا ہر اک طرف سایہ ڈھلا
درختوں کی کچھ چھاؤں اور کچھ وہ دھوپ
وہ دھانوں کی سبزی وہ سرسوں کا روپ
وزیر نے آخری شعر کے بارے میں میری رائے معلوم کرنا چاہی۔ میں نے مولانا حالی کا اعتراض دہرایا جسے انھوں نے ’’مقدمہ شعر وشاعری‘‘ میں فن مثنوی سے بحث کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ قصہ کے ضمن میں کوئی ایسی بات بیان نہ کی جائے جو تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف ہو اور مثنوی کے اس آخری شعر کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ آخری مصرع سے صاف یہ مفہوم ہوتا ہے کہ ایک طرف دھان کھڑے تھے اور ایک طرف سرسوں پھول رہی تھی، مگر یہ بات واقعہ کے خلاف ہے، کیونکہ دھان خریف میں ہوتے ہیں اور سرسوں ربیع میں گیہوں کے ساتھ بوئی جاتی ہے۔
وزیر نے کہا کہ خواجہ الطاف حسین حالی کی پیروی میں تمام تنقید نگاروں نے اس امر پر یہی اعتراض کیا ہے۔ اندھی تقلید نے جس طرح فقہی مسالک کو نقصان پہنچایا ہے، اسی طرح ادب وتنقید بھی اس سے محفوظ نہ رہے۔ مجنوں پہلا نقاد ہے جس نے اس روش عام کی پیروی نہیں کی۔ اسے تشبیہات واستعارات کی دنیا میں میر حسن کے مقام کی عظمت کا احساس ہے اور اس نے شعر کی ایسی تشریح کی ہے کہ کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔
وزیر نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مجنوں نے اس شعر کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے سیدھے سادھے شعر کو سمجھنے میں ایسا شدید اور متواتر مغالطہ کیوں ہوتا چلا آیا ہے۔ یہ سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی کہ میر حسن کا مقصد یہ ہے کہ باغ میں واقعی ایک طرف دھان بوئے تھے اور دوسری طرف سرسوں۔ دوسرا مصرع تو استعارہ ہے ۔ ’’دھانوں کی سبزی‘‘ اور ’’سرسوں کے روپ‘‘ سے ’’درختوں کی کچھ چھاؤں‘‘ اور ’’کچھ دھوپ‘‘ کو تشبیہ دی گئی ہے اور اس طرح کہ تشبیہ، تشبیہ نہیں معلوم ہوتی۔ میر حسن کے تشبیہات واستعارات ان کے کمال تخیل کی بین دلیل ہیں۔ مجنوں کی تشریح پر ہم لوگ جھوم اٹھے اور مجنوں کی خوش فہمی اور ذوق کی بلندی کی داد دینی پڑی۔ اور جب مثنوی کے اس شعر پر نگاہ ڈالتے ہیں تو سخت استعجاب ہوتا ہے کہ اس سیدھے سادھے شعر کو سمجھنے میں حالی جیسے سخن فہم اور نقاد کو کیسے مغالطہ ہو گیا۔ (ص ۷۵۔۷۶)
مطیع الرحمن صاحب نے دیکھا کہ ہم لوگ ننگے سر کھانا کھا رہے ہیں تو بڑے حیرت زدہ ہوئے۔ کہنے لگے کہ آپ لوگ سنت کے خلاف کر رہے ہیں۔ عمر لداخی نے کہا کہ میں نے حدیث کی کتابوں میں کھانے کے آداب کے ابواب کی کئی بار مراجعت کی ہے اور اہل علم سے پوچھا بھی ہے کہ کیا کھانے کے وقت سر چھپانے کے متعلق کوئی قولی یا فعلی حدیث ہے یا آثار صحابہ سے اس سلسلے میں کوئی روشنی پڑتی ہے۔ مجھے اس تحقیق اور تلاش وجستجو کے دوران کہیں کوئی دلیل نہیں ملی۔ اگر آپ کے پاس کوئی دلیل ہو تو بتائیں۔ مطیع الرحمن صاحب نے کہا کہ میں نے ہمیشہ تبلیغی جماعت والوں کو ٹوپی لگا کر کھانا کھاتے دیکھا ہے اور تبلیغ والے ہر کام میں سنت کی پیروی کرتے ہیں۔ اس پرمولانا نے ان کو سمجھایا کہ تبلیغی جماعت یا کسی جماعت یا فرد کا عمل حجت نہیں، بلکہ تبلیغ والوں کو اپنے اس عمل کی دلیل پیش کرنی چاہیے۔ اس پر مجھے عبد الحکم کا واقعہ یاد آ گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں میری ملاقات عبد الملک بن الماجشون سے ہوئی۔ ان سے میں نے ایک مسئلہ پوچھا جس کا انھوں نے جواب دیا۔ میں نے دلیل پوچھی تو انھوں نے امام مالک کے کسی قول کا حوالہ دیا۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ میں نے کہا کہ میں آپ سے دلیل مانگتا ہوں تو آپ کہتے ہیں کہ میرے استاد کا یہ قول ہے، حالانکہ آپ اور آپ کے استاد دونوں دلیل کے محتاج ہیں۔ (ص ۹۲)
حیدر صاحب نے اس پر افسوس کا اظہار کیاکہ بعض حنفی لوگ سفر میں جمع بین الصلاتین کرتے ہیں جو کسی طرح مناسب نہیں۔ میں نے کہا کہ جمع بین الصلاتین کے مسئلہ پر اتنی سختی صحیح نہیں، خاص طور سے جب اس کے جواز کی حدیثیں موجود ہیں اور علما کی بڑی جماعت اس کی موید ہے۔ کہنے لگے کہ لیکن احناف کی فقہ کی رو سے اس کی کوئی گنجایش نہیں۔ مجھے اس سے اختلاف تھا۔ میں نے اپنا موقف واضح کیا کہ حنفی اصول فقہ کی رو سے بھی سفر وغیرہ میں جمع بین الصلاتین کے جواز کی تائید ہوتی ہے۔ حیدر بھائی نے قرآن کریم کی آیت ’ان الصلوۃ کانت علی المومنین کتابا موقوتا‘  کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بات دہرائی کہ یہ آیت قطعی ہے کہ نمازوں کی ادائیگی وقت پر ہونی چاہیے۔ خبر واحد یا قیاس سے اس کی تخصیص کی گنجایش نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ یہ بات بار بار کہی جا رہی ہے کہ یہ آیت اپنے عموم میں نص قطعی ہے، حالانکہ یہ واقعہ کے خلاف ہے۔ کیا عرفات اور مزدلفہ میں حاجیوں کے لیے جمع بین الصلاتین پر اجماع نہیں ہے؟ کیا یہ اجماع واضح نہیں کر رہا ہے کہ یہ آیت اپنے عموم پر نہیں اور جب آیت اپنے عموم پر نہیں رہی اور مخصوص منہ البعض ہو گئی تو کیا خود احناف کے قواعد کی رو سے خبر واحد اور قیاس دونوں سے اس کی مزید تخصیص نہیں ہو سکتی ہے؟ اس لیے حالت سفر اور مرض میں جمع بین الصلاتین تو احناف کے یہاں بھی صحیح ہونا چاہیے۔
حیدر بھائی نے اس پر امام ترمذی کی حدیث کا حوالہ دیا کہ حضور ﷺ نے ایک بار سفر، مرض یا بارش کے عذر کے بغیر جمع بین الصلاتین کی تھی، مگر امام ترمذی نے اس حدیث کو اپنی سنن کی ان دو حدیثوں میں شمار کیا ہے جن پر اہل علم میں سے کسی کا عمل نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ امام ترمذی کا قول صحیح ہے اور ائمہ کا عمل اصول فقہ کے قواعد کی روشنی میں بجا ہے، کیونکہ عام مخصوص منہ البعض کی تخصیص خبر واحد یا قیاس سے اس وقت تک صحیح ہے جب تک کہ اس عام کے تحت کم سے کم تین فرد باقی رہیں۔ مذکورہ بالا حدیث پر عمل کرنے کے بعد آیت کا کوئی محمل باقی نہیں رہے گا۔ آفتاب نے کہا کہ لیکن اس موقع پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ جمع بین الصلاتین کی احادیث کی تاویل کی جائے اور جمع سے مراد جمع صوری لی جائے تو قرآن وحدیث میں تطبیق کی ایک شکل نکل آئے گی۔ میں نے عرض کیا کہ جمع صوری مراد لینے میں دو رکاوٹیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ جمع کی جو نظیر موجود ہے، وہ جمع حقیقی کی ہے، جمع صوری کی کوئی نظیر نہیں۔ عرفہ ومزدلفہ میں جمع کا ثبوت ظاہر کرتا ہے کہ جمع سے جمع حقیقی ہی مراد ہوگی۔ فقہا نظیر کو نظیر پر قیاس کرنے کے قائل ہیں۔ دوسری دشواری یہ ہے کہ سفر کے مسائل آسانی پر مبنی ہیں۔ جمع صوری سے وقت اور تنگ ہو جاتا ہے، اس لیے مسافر کو بجاے آسانی کے اور زحمت ہوگی۔ (ص ۹۳۔۹۵)
مفتی اشتیاق صاحب کوئی کتاب دبائے ہوئے دوبارہ آئے۔ میں نے پوچھا کہ یہ آپ کے ہاتھ میں کون سی کتاب ہے؟ کہنے لگے کہ مولانا مودودیؒ کی ’خلافت وملوکیت‘ ہے۔ وزیر سے پڑھنے کے لیے لی تھی۔ اب پڑھ لی ہے، اس لیے واپس کرنے آیا ہوں۔ عمر لداخی نے کہا کہ وزیر کا کام لوگوں کا ذہن خراب کرنا ہے۔ مفتی اشتیاق عالم اور مفتی ہیں، یہاں ادب کی تعلیم حاصل کرنے آئے ہیں، ان کو خلافت وملوکیت دے دی۔ وزیر نے کہا کہ بات یہ ہے کہ میری اور مفتی صاحب کی بات ہو رہی تھی۔ مفتی صاحب مولانا مودودی کی تحریروں، خاص طور سے ’خلافت وملوکیت‘ پر تنقید کر رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ مفتی صاحب، کیا آپ نے ’خلافت وملوکیت‘ پڑھی ہے؟ کہنے لگے کہ اس پر بعض لوگوں کی تنقید پڑھی ہے۔ میں نے کہا کہ آپ مجھ سے کتاب لے کر پڑھیں۔ اس کے بعد جو رائے چاہیں، قائم کریں۔ عبد الحی نے استفسار کیا کہ مفتی صاحب، کیا رائے ہے؟ کہنے لگے کہ مجھے کوئی قابل اعتراض چیز نظر نہیںآئی۔ ابراہیم صاحب نے تبصرہ کیا کہ مولانا مودودی ذہین انسان ہیں، انھوں نے مقدمہ میں اس کتاب کی وجہ تالیف اور کتاب کے مراجع کے بارے میں اتنی معصومیت سے لکھا ہے کہ ایک عام قاری ان کے خلوص سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، حالانکہ اگر مولانا مودودی اتنے مخلص تھے تو ان کو چاہیے تھا کہ تاریخ اسلام کے مشکل مسائل میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے اہل علم سے مراجعت کرتے، ہو سکتا ہے کہ بعض غلطیوں سے بچ جاتے۔ آفتاب نے کہا کہ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ مودودی صاحب نے حدیث کی کتابیں باقاعدہ کسی استاد سے نہیں پڑھی ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ان کو محدثین کی اصطلاحات سے واقفیت نہیں۔
وزیر نے اس تبصرہ سے تنگ آ کر کہا کہ ان جزئیات کو چھوڑیے۔ عصر حاضر میں مولانا مودودیؒ پہلے شخص ہیں جنھوں نے خالص اسلامی ریاست کے قیام کی بات کی ہے اور اپنی مختلف تحریروں میں اس کو واضح کیا ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، یہ خدا کی طرف سے نازل کردہ نظام ہے، اس لیے نہیں آیا تھا کہ مدرسوں میں اس پر بحثیں ہوں، کتابوں میں اس کے متعلق لکھا جائے اور عملاً اس کے نفاذ کی کوشش نہ کی جائے۔ جس خدا کی غلامی کی ہم بات کرتے ہیں، کیا اسی نے نماز اور روزہ کے علاوہ وہ احکام نہیں دیے جن کا نفاذ حکومت الٰہیہ کے قیام کے بغیر ناممکن ہے؟
حشمت اللہ نے اس موضوع پر فیصلہ کن انداز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مغربی تہذیب پر حملہ کرنے میں مولانا مودودی کی مثال امام غزالی کی ہے۔ امام غزالیؒ نے یونانی فلسفہ کے ہتھیار سے یونانی فلسفہ پر حملہ کیا اور ’تہافت الفلاسفہ‘ لکھ کر ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ مولانا مودودیؒ ، سید قطب شہیدؒ ، مالک بن نبیؒ اور محمد مبارکؒ نے مغربی تہذیب کے مقابلہ میں یہی روش اختیار کی۔ ان حضرات نے مغرب کے اسلحہ سے مغرب پر حملہ کیا۔ یونانی عقلیت پسندی کا ایک جواب وہ تھا جو مولانا رومؒ نے اپنی تحریروں سے فراہم کیا۔ انھوں نے روحانیت کے طاقت ور ہتھیار سے یونان کی عقل پسندی اور مادہ پرستی کا جواب دیا۔ اس میں عطار وغیرہ ان کے شریک رہے ہیں۔ ان کا پیغام تھا:
چند خوانی حکمت یونانیاں
حکمت ایمانیاں را ہم بخواں
عصر حاضر میں مغرب کی عقلیت پسندی کے خلاف لسان العصر اکبر الٰہ آبادیؒ اور شاعر اسلام علامہ اقبالؒ نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا اور اس میں ان کو بڑی کامیابی ملی۔ ان حضرات کے کردار کی نمائندگی درج ذیل شعر سے ہوتی ہے:
تاریخ جنوں یہ ہے کہ ہر دور خرد میں
اک سلسلہ دار ورسن ہم نے بنایا
حشمت اللہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ غزالی کا طریقہ ان کے عصر کے لیے مفید تھا، مگر ضرورت تھی ایک ایسے شخص کی جو اپنے ہتھیار سے فلسفہ یونان پر حملہ کرے۔ امام ابن تیمیہ علوم نبوت سے لیس تھے، یونانی علوم فلسفہ سے گہری واقفیت کے باوجود اس کے اثرات سے ہر طرح محفوظ تھے، انھوں نے اس فلسفہ کی چولیں ہلا دیں، اس کی جڑیں اکھیڑ دیں، اسے بے دست وپا کر دیا۔ ان کے اندر مرعوبیت نہیں تھی۔ غزالی کے طریقہ کار کی خامی یہ ہے کہ ’تہافت‘ کا جواب ’تہافت التہافت‘ کی شکل میں دے دیا گیا، مگر امام ابن تیمیہ کی ’الرد علی المنطقیین‘ آج تک لاجواب ہے، بلکہ جدید منطق کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی نے ابن تیمیہؒ کے اعتراضات کی روشنی میں اسے مرتب کیا ہے۔ عصر حاضر کو ایک ابن تیمیہ کی ضرورت ہے۔ مولانا شبلی کو ابن تیمیہ کی عظمت کا احساس بہت بعد میں ہوا اور جب ہوا تو انھوں نے مکتوبات میں صراحت کی کہ ابن تیمیہ کی لائف فرض اولین ہے۔ مجھے اس شخص کے سامنے رازی وغزالی سب ہیچ نظر آتے ہیں۔ مولانا آزاد کی ترجمان القرآن اور تاریخ دعوت وعزیمت کے مطالعہ سے لگتا ہے کہ ان پر ابن تیمیہ کا کچھ رنگ ہے، لیکن سیاست میں لگ کر وہ اس کام کو آگے نہ بڑھا سکے، چنانچہ ابھی تک ابن تیمیہ کی جگہ خالی ہے۔
ہم لوگ حشمت اللہ کی اس تشریح سے اس قدر متاثر ہوئے کہ کسی نے بھی اس سے نااتفاقی ظاہر نہیں کی۔ سب لوگ اس سے مکمل متفق نظر آ رہے تھے۔ صرف آفتاب کا چہرہ کسی تاثر سے خالی تھا۔ ہم لوگوں نے آفتاب صاحب سے کہا کہ آپ کی یہ گم صم ہونے کی عادت اچھی نہیں ہے۔ حشمت اللہ نے اتنا زبردست نکتہ بیان کیا ہے، کیا آپ اس کی داد بھی نہیں دے سکتے؟ آفتاب کہنے لگے کہ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا کہ ابن تیمیہ کا طریقہ کار فکر اسلامی کی آخری منزل ہے، بلکہ امام غزالی کی طرح امام ابن تیمیہ کا انداز بھی فکر اسلامی کا ایک ناگزیر اور وقتی مرحلہ ہے۔ منزل اس سے بھی آگے ہے۔ عبد الحی کہنے لگے کہ اب اس سے آگے کون سی منزل ہوگی؟ کہیں منزل کی تلاش میں دور نہ نکل جائیں۔ آفتاب نے کہا کہ ملحدانہ فکر وفلسفہ کی تردید سے کمزور لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے، ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ امام غزالی نے غیروں کے ہتھیار سے یہ کام کیا ہے، ابن تیمیہ نے اپنے ہی ہتھیار استعمال کیے۔ لیکن پیغمبر اپنوں اور غیروں، سب پر ہمدردی کی نگاہ ڈالتے ہیں۔ پوری انسانیت ان کی امتِ دعوت ہے اور شیطان ان کا دشمن۔ ایک پیغمبر کی کوشش ہوتی ہے کہ تردید میں الجھے بغیر اخلاص وہمدردی کے ساتھ دعوت دے۔ جدل اس کی دعوت میں ہوتا ہے، لیکن نہایت حکمت کے ساتھ اور بہت ناگزیر حالات میں۔ پیغمبر کی دعوت مثبت ہوتی ہے۔ عصر حاضر میں پیغمبرانہ اسلوب کی جھلکیاں حسن البناء شہید، مولانا الیاس کاندھلوی، اور مولانا ابو الحسن علی الندوی کے یہاں ملتی ہیں۔ اس طریقہ کی اہم اساس افراد اور معاشرہ کی اصلاح اور انسانیت پر ہمدردانہ نگاہ ہے۔
بدلنا ہے تو رندوں سے کہو اپنا چلن بدلیں
فقط ساقی بدل دینے سے میخانہ نہ بدلے گا 
(ص ۱۰۸۔۱۱۲)

ثقافتی امتیازات اور مذہبی مزاج

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

مسجدیں اسلامی مرکز کے طور پر پورے امریکہ میں استعمال ہوتی ہیں۔ یہ کمیونٹی سنٹر ہیں جن میں لکچر ہال بھی ہے اور لائبریری بھی ہے اور ان میں عارضی اقامت گاہیں بھی ہیں۔ یہ وہ پاور ہاؤس ہے جس سے مسلمان گھروں میں ایمان کی حرارت پھیلتی ہے اور اخلاق وکردار کانور تقسیم ہوتا ہے۔ امریکہ کی یہ مسجدیں ہندوستان کی عام مسجدوں سے کسی قدر مختلف ہیں۔ ان مساجد میں خواتین بھی نماز میں شریک ہوتی ہیں۔ سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں۔ ایک بڑی مسجد میں نماز جمعہ کے ختم ہونے کے بعد میں نے نظر ڈالی تو مسجد کی پانچ چھ صفوں میں بمشکل چار پانچ آدمی سر پر ٹوپی پہنے ہوئے نظر آئے۔ ٹوپی پہننے والوں کو سر برہنہ نماز پڑھنے والوں پر کوئی اعتراض نہ تھا کیونکہ انھیں دین اور ثقافت کا فرق معلوم تھا۔
ان مساجد سے گہری وابستگی رکھنے والے افریقی امریکی مسلمان بھی ہیں اور برصغیر یا مڈل ایسٹ سے آنے والے مسلمان بھی ہیں، لیکن ان دونوں کے درمیان اس فرق کا احساس بھی پایا جاتا ہے کہ اول الذکر مسلمان نسلی امتیاز کو ختم کرنے اور عیسائیت اور اسلام یا یہودیت اور اسلام کے درمیان برصغیر، مشرق وسطیٰ اور بوسنیا کے حالات سے زیادہ گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ مسلمانوں کے ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک گونہ ذوقی فاصلہ پایا جاتا ہے۔ افریقی امریکی بلیک مسلمان یہ محسوس کرتے ہیں کہ دوسرے ملکوں کے تارکین وطن مسلمان انھیں ادنیٰ درجہ کامسلمان سمجھتے ہیں، محض اس بنا پر کہ عربی زبان کی ثقافت سے ان کا رشتہ کمزور ہے اور قرآن وحدیث روانی کے ساتھ نہیں پڑھ سکتے۔پشتینی مسلمانوں کی اس ذہنیت کو سمجھنے کے لیے یہ واقعہ کافی ہے کہ ہندوستان کی ایک درسگاہ کے مفتی بزرگ نے سفر میں ایک ایسی مسجد میں میرے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھی جو افریقی امریکی بلیک مسلمانوں کے زیر انتظام تھی۔ جمعہ کے دونوں خطبے انگریزی زبان میں ہوئے۔ نو مسلم خطیب کے لیے قرآن کی آیات اور احادیث کے تلفظ میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ وہ بزرگ خطبہ کے دوران اپنی کتاب کا مطالعہ کرتے رہے اور جمعہ کی نماز کے بعد انھوں نے اپنی نماز دہرائی۔ میرے لیے ان کا یہ طرز عمل سوہان روح تھا اور مجھے ان کے طرز عمل پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنا پڑا۔ بجائے اس کے کہ وہ ایک نو مسلم کے اسلام کی قدر کرتے، انھوں نے افتراق بین المسلمین کا نمونہ پیش کیا۔ 
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اسلام کی تاریخ میں گروہ بندی اور مسلکی اختلاف کی اصل وجہ نئی قوموں کا اسلام میں داخل ہونا ہے، کیونکہ ہر قوم اپنی خصوصیات اور ذہنی پس منظر کے ساتھ دین میں داخل ہوتی ہے۔ آئندہ بھی یورپ اور ایشیا کی بعض قومیں دین اسلام میں داخل ہو سکتی ہیں اور ان ہی سے شجر اسلام بار آور ہوگا۔ موجودہ مسلم ممالک میں وہ توانائی اور طاقت نہیں کہ نہضتِ اسلام کا بوجھ ان کے شانوں پر رکھا جا سکے۔ نئی زندہ قوموں کے دین اسلام میں استقبال کے لیے ذہن وفکر کی بے پناہ کشادگی اور قلب کی غیر معمولی وسعت درکار ہے۔ فروعی امور کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینا اور ہر بات میں کسی فتویٰ کی کتاب کا حوالہ دینا اور کج بحثی میں مبتلا ہونا زوال آمادہ قوموں کی خاص پہچان ہے۔ یہ اسلام کے سیلِ رواں پر بند باندھنے کے مرادف ہے۔ یہ دین کی وہ نام نہاد خدمت ہے جس سے بڑھ کر کوئی اور مضرت نہیں ہو سکتی اور اسی قماش کے لوگوں کے لیے اقبال کا یہ مصرعہ ہے ’’دین ملا فی سبیل اللہ فساد‘‘۔ مثال کے طور پر امریکہ اور یورپ میں جمعہ کے دن خواتین چھوٹے بچوں کے ساتھ مسجدوں میں آتی ہیں۔ اتوار کے دن مسجدوں کے اسلامی پروگرام میں ساتر لباس میں شریک ہوتی ہیں۔ ان شریک ہونے والیوں میں بہت سی نومسلم خواتین ہوتی ہیں۔ ان ملکوں میں اسلامی تشخص کی حفاظت اور بچوں کی تربیت اور دینی ماحول سازی کے لیے یہ ایک ضروری کام ہے، لیکن کوئی روایتی قسم کا عالم اگر روکنے کی کوشش کرے تو یہ بدبختی اور نادانی کی بات ہوگی اور عقل وحکمت سے تہی دامنی کی پہچان ہوگی، اور یہ طرز عمل نومسلم خواتین کو اسلامی سوسائٹی میں ضم ہونے سے اور غیر مسلم خواتین کو اسلام میں داخلہ سے روک دے گا۔
اسی طرح سے مسلمان اپنے مذہبی اختلافات کو جتنا زیادہ ظاہر کریں گے، اتنا ہی زیادہ وہ ان غیر مسلموں کو نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا کریں گے جو اسلام سے قریب ہو رہے ہیں اور اسلام قبول کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اس اندیشہ فردا کاذکر زبان قلم پر اس لیے آیا ہے کہ بہت سے مسلمان جو اسلامی ملکوں سے آکر امریکہ میں بسے ہیں، وہ اختلافات کی آلائشیں اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں اور اختلافات کی آلائشوں کا انبار امریکہ میں اسلام کے بڑھتے ہوئے قدم کو روک سکتا ہے۔ مستقبل میں اسلامی انقلاب کا رونما ہونا اور مسلمانوں کا پھر سے قوت حاصل کر لینا نئی قوموں کے اسلام میں داخلہ پر منحصر ہے۔ اس کے لیے خردہ گیری سے بچنے کی عادت درکار ہے۔ اس کے لیے ذہن کی آفاقیت، قلب کی وہ بے کراں وسعت مطلوب ہے جو مہمان عزیز کا خوش دلی کے ساتھ استقبال کرے اور فروعی چیزوں پر مشتعل نہ ہو۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اسلام کا Modernity یعنی جدت سے کوئی اصولی ٹکراؤ نہیں ہے۔ اس بارے میں سنی علما کو اپنے حلقہ میں اور شیعی عوام میں جن شخصیتوں کومرجع التقلید کی حیثیت حاصل ہے، صحیح رہنمائی کرنی چاہیے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں عورتیں نماز جمعہ میں آتی ہیں اور پردہ کے پیچھے خطبہ سنتی ہیں، لیکن چونکہ وہ خطیب کو دیکھ نہیں سکتی ہیں، اس لیے ان کایہ مطالبہ تھا کہ ان کے لیے محدود دائرہ کا ٹیلی وژن لگا دیا جائے تاکہ عورتیں نہ صرف خطبہ سن سکیں، بلکہ خطیب کو بھی دیکھ سکیں۔ بعض مجتہد علما نے اس سے اختلاف کیا، لیکن مرجع التقلید کا فتویٰ یہ تھا کہ مذہبی مقصد کے لیے محدود سرکٹ ٹیلی وژن کی اجازت ہے۔ ہندوستان کے لیے یہ مطالبہ حیرت انگیز ہوگا ،لیکن امریکہ میں، جہاں بہت چھوٹے پروگراموں کے لیے محدود سرکٹ کے ٹیلی وژن کا عام رواج ہے اور جہاں جمعہ کی نماز میں عورتیں شریک ہوتی ہیں، یہ مطالبہ بہت فطری نوعیت کا ہے۔ عصر جدید میں ان عصری ایجادات کے استعمال کے لیے ذہن وفکر کو لچک دار بنانا ہوگا۔ یہ کہنا کہ اس سے خطبہ جمعہ کا تعبدی پہلو اور خشوع متاثر ہوتا ہے، صرف روایتی مزاج وعادت کا اظہار ہے۔ لاس اینجلس کی شیعہ برادری کی مسجد اہل بیت میں تو عورتیں مخلوط اجتماعات کو خطاب بھی کرتی ہیں۔ ان معاملات میں جہاں مسلمانوں کی اصلاح کی ضرورت ہو، وہاں حکمت اختیار کرنی ہوگی اور احکام دین اور مروجہ کلچر کے فرق کو بھی ملحوظ رکھنا ہوگا اور یہ بھی سمجھ لینا ہوگا کہ امریکی معاشرہ برصغیر کے مسلم معاشرہ کی نقل بمطابق اصل نہیں ہو سکتا ہے۔
(بشکریہ ’تعمیر حیات‘ لکھنو)

قربانی کی رسم کا نفسیاتی پہلو

پروفیسر میاں انعام الرحمن

قربانی کا تصور شاید اتنا ہی قدیم ہے جتنی انسان کی معلوم تاریخ ۔ تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں قربانی کی رسم موجود رہی ہے ۔ یہ رسم اپنے ظاہر میں متنوع ہونے کے باوجود کسی ایسے یکساں جذبے یا داخلی تحریک کی علامت ہے جو تمام انسانوں میں فطری طور پر موجود ہے۔ تاریخ کے صدیوں پر محیط سفر سے ان گنت مثالیں دینے کے بجائے ہم صرف اسی مثال پر اکتفا کریں گے کہ اہلِ روم دوسری پیونک جنگ تک دیوتاؤں کے حضور انسانوں کی قربانی پیش کیا کرتے تھے۔ قربانی کے اس سفاک مظہر کو معاشرے میں عمومی قبولیت حاصل تھی کیونکہ اس کے ذریعے سے لوگوں کے ایک فطری داخلی جذبے کی تسکین ہوتی تھی۔ یہاں ہم تحلیلِ نفسی کی اس بنیادی دریافت کا ذکر کرنا مناسب سمجھیں گے جس کے مطابق ، اگر کسی داخلی تحریک یا جذبے کو عمل میں ظاہری اظہار پانے سے روک دیا جائے تو وہ جذبہ عموماً ختم نہیں ہوتا، بلکہ ہوتا یہ ہے کہ وہ وقتی طور پر ’’دب ‘‘ جاتا ہے اور پھر بعد میں اظہار کی ایسی راہ تلاش کرتا ہے جو اکثر اوقات اس ظاہری اظہار سے بہت زیادہ قبیح اور نقصان دہ ہوتی ہے جسے نامعقول قرار دے کر (یا کسی بھی وجہ سے ) عمل میں آنے کا موقع نہیں دیا جاتا اور اسے دبانے کی بھی (بظاہر کامیاب ) کوشش کی گئی ہوتی ہے۔ 
ہماری رائے میں سنتِ ابراہیمی ؑ کی بے شمار حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ یہ انسان کی کی بہت بڑی نفسیاتی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ اگرچہ زندہ صحت مند جانور کے گلے پر چھری پھیرنا، خون بہانا، کھال اتارنا وغیرہ کسی حد تک سفاک عمل معلوم ہوتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں یہی داخلی جذبہ جس کی تسکین جانور کو ذبح کرنے سے ہو جاتی ہے، کسی بہت ہی مکروہ اور انسانیت سوز صورت میں سامنے آسکتا ہے، جیسا کہ خود انسان کی قربانی کرنا۔ مسلم معاشرے کی تقریباً ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاں انسانیت سوز قسم کی رسوم کبھی نہیں پنپ سکیں، اس کی ایک بنیادی وجہ اسلام کا تصورِ قربانی ہے۔ اسلام کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ وہ انسان کے بنیادی جذبات اور داخلی تحاریک کی نفی نہیں کرتا، بلکہ ان کی تہذیب کرتا ہے جیسا کہ جنگ کے مقابل جہاد کا تصور۔ جہاد، انسان کے ایک فطری جذبے کی متشکل جہت اور جنگ کی تہذیب یافتہ صورت ہے۔ یہ کہنا بہت آسان ہو گا کہ جنگ ہونی ہی نہیں چاہیے اور اسی طرح قربانی بھی نہ ہو تو بہتر ہے کہ اس میں خوامخواہ خون بہایا جاتا ہے۔ ہماری رائے میں یہ کہنا ہی آسان ہے لیکن اس پر عمل عمومی انسانی نفسیات اور رویے کے باعث ناممکن ہے ۔ مثلاً اگر سبزی خور قوموں کی رسوم پر نظر دوڑائی جائے تو ایک طرف جانوروں کی پرستش نظر آئے گی اور دوسری طرف عورت کا خاوند کی لاش کے ساتھ زندہ جل مرنا۔ ان دو مظاہر کے تضاد سے وہ قومیں آگاہ ہی نہیں ہوتیں کیونکہ دونوں مظاہر انسان کے دو داخلی فطری جذبات کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔ 
ہماری رائے میں ستی اور اسی نوعیت کی دیگر رسوم اس جذباتی خلل کا نتیجہ ہیں جو ایک فطری جذبے (قربانی) کے مناسب اظہار پر پابندی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ اسلام اپنی اپروچ میں ’’خیالی اور مثالی‘‘ تعلیمات نہیں دیتا بلکہ اس کی مثالی تعلیمات کی نوعیت ’’ممکن الحصول مثالی ‘‘ کے دائرے میں آتی ہے، اسی لیے اس نے انسانی روح میں گندھے ہوئے جذبات کے اظہار پر پابندیاں عائد کرنے کے بجائے ان کے اظہار کی ایسی راہیں نہ صرف تسلیم کی ہیں بلکہ انھیں اپنانے کی ترغیب بھی دی ہے جو داخلی جذبات کی آسودگی کے ساتھ ساتھ انسان کو بطور انسان متوازن رکھتی ہیں۔ دنیا کی قومیں اگر اپنی تاریخ کے آنے والے دور میں ’’قبیح رسوم ‘‘ سے بچنا چاہتی ہیں تو عید البقر میں مضمر مذکورہ بالا حکمت کے پیشِ نظرانھیں مسلمانوں کی ہمراہی میں سنتِ ابراہیمی ؑ ادا کرنی چاہیے۔

احیائے اسلام کے امکانات اور حکمت عملی

پروفیسر محمد اکرم ورک

۱۹۹۲ میں ایک کمیونسٹ ریاست کی حیثیت سے سوویت یونین کے سقوط کے فوراً بعد مغربی پالیسی سازوں نے اپنی ترجیحات کو تبدیل کر لیا، چنانچہ ۱۹۹۳ میں امریکہ کے مشہور یہودی محقق اور دانش ور سیموئیل ہنٹنگٹن نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف Clash of Civilizations لکھ کر تہذیبوں کے تصادم کا نیا تصور پیش کیا اور اسلامی تہذیب کو مغرب کا متوقع دشمن قرار دیا۔ اس خیال اور نظریہ نے بہت جلد اس وقت حقیقت کا روپ دھار لیا جب امریکی صدر بش نے ۱۱/۹ کے پس منظر میں اکتوبر ۲۰۰۱ میں پہلے افغانستان پر اور بعد ازاں اپریل ۲۰۰۳ میں عراق پر حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ مسلمان تو پہلے ہی اس جنگ کو تہذیبوں کا تصادم یا صلیبی جنگ تصور کرتے تھے، خود مغربی دانش وروں اور امریکی صدر نے بھی کھل کر اپنے ’خبث باطن‘ کا اظہار کر دیا۔
وقت کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے کئی مسلمان دانش وروں اور ’’جہادیوں‘‘ نے مغرب کے حقیقی عزائم کو بھانپتے ہوئے امت مسلمہ کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی کوشش کی ، لیکن چونکہ ان لوگوں کا حلقہ اثر محدود تھا، اس لیے وہ ذہنی اور عملی جمود کی شکار امت مسلمہ کو اس عظیم سازش کے خلاف تیار نہ کر سکے۔ دوسری طرف عالم اسلام پر مسلط طفیلی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے اس بلاے ناگہانی کے سامنے اپنی آنکھیں بند کر لیں، لیکن اب شاید یہ طوفان بہت جلد اس طبقے کو بھی خس وخاشاک کی طرح بہا کر لے جائے، کیونکہ صلیبیوں اور جہادیوں میں سے کوئی بھی ان کو اپنی کشتی میں جگہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ اگر صلیبی کامیاب ہو گئے تو وہ یقیناًہر جگہ افغانستان اور عراق جیسی جمہوریت کا ’’کامیاب‘‘ تجربہ کریں گے اور اگر کامیابی نے جہادیوں کے قدم چومے تو وہ ان مارہاے آستین کو کبھی معاف نہیں کریں گے جو میر جعفر اور میر صادق کا کردار پورے خلوص نیت سے ادا کر رہے ہیں۔
اس وقت مجاہدین، افغانستان اور عراق میں امت مسلمہ کی آزادی اور بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہلال وصلیب کے اس معرکہ میں مجاہدین کی پسپائی کا مطلب مکمل تباہی ہوگا، اس لیے حالات کی نزاکتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مجاہدین کی مدد کرنا امت مسلمہ کا اجتماعی فریضہ ہے تاکہ عالمی طاقتوں کو مزید پیش قدمی سے روکا جا سکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جنگ اور تصادم کے اس محاذ پر ہماری مکمل کامیابی کے لیے حالات سازگار ہیں، جبکہ فریق مخالف نے اس میدان میں دنیا کی تمام طاقتوں سے اپنی برتری کا سکہ منوا لیا ہے؟ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت مستقبل بعید میں بھی شاید کوئی ملک ان کو چیلنج نہ کر سکے۔
تہذیبی کشمکش کے اس دور میں بدقسمتی سے مغرب اپنی کامیاب حکمت عملی کے ذریعے سے مسلمانوں کو تصادم کے اس میدان میں کھینچ لایا ہے جہاں ان کی کامیابی کے امکانات محدود ہیں جبکہ امت مسلمہ بھی جذبات کی رو میں بہہ کر دشمن کے دام فریب میں پھنستی چلی جا رہی ہے، حالانکہ جدید ٹیکنالوجی سے محرومی کی وجہ سے جنگ کے میدان میں ہماری کمزوری اظہر من الشمس ہے۔ دشمن کے بالمقابل اس میدان میں ہمارے وسائل اور جانوں کے اتلاف کے امکانات کہیں زیادہ ہیں۔ جب حقیقت یہی ہے تو کیا یہ کہنا مناسب نہ ہوگا کہ ایک جہاں دیدہ، زیرک اور ذہین کماندار کی طرح مد مقابل کو اس میدان میں جنگ آزمائی پر مجبور کر دیا جائے جہاں اس کو شکست دینا آسان ہے اور جہاں اس کی کمزوریوں سے پورا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ یقیناًمغرب کی کمزوریوں کا میدان عقیدے اور قابل عمل نظریات کامیدان ہے۔ مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن اور نری مادیت سے اس وقت خود مغربی معاشرہ بھی شدید گھبراہٹ اور بے چینی محسوس کر رہا ہے۔ مناسب یہی ہے کہ جہادی سرگرمیوں کو عالمگیر جنگ میں تبدیل ہونے سے روکا جائے اور مدمقابل پر دباؤ برقرار رکھتے ہوئے سرخ لائن کو عبور نہ کیا جائے کیونکہ اس محاذ پر دشمن طاقت ور اور ہم کمزور ہیں۔ دشمن ہمیں اسی محاذ پر مصروف رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس طریقہ سے مسلمانوں کے وسائل پر قبضہ کر لیا جائے اور ان کی طاقت کو مکمل طور پر کچل دیا جائے۔ ہماری حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ ہم اسے اس میدان میں اترنے پر مجبور کر دیں جس میں ہم مضبوط اور مدمقابل فریق کمزور ہے۔
اسلامی تہذیب کے احیا اور عروج کی امید وہ عقائد ونظریات اور عالم گیر اصول ہیں جو مسلم نفسیات کے اجتماعی لاشعور کا جزو لاینفک ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام نظریات اور آئیڈیالوجی کے میدان میں کبھی شکست سے دوچار نہیں ہوا۔ اس کی واضح مثال ۱۲۵۸ میں بغداد کا سقوط ہے جب تاتاریوں نے مسلم تہذیب وثقافت کا نام ونشان مٹا دیا تھا، لیکن سیاست اور جنگ کے میدا ن میں شکست وہزیمت سے دوچار ہونے کے باوجود نظریات کی جنگ میں اسلام نے مد مقابل کو چاروں شانے چت کر دیا اور فاتح قوم نے مفتوح قوم کا ہی دین اختیار کر لیا۔ بقول اقبال ’پاسباں مل کعبے کو صنم خانے سے‘۔
سلطان محمد فاتح نے ۱۴۵۳ میں قسطنطنیہ کو فتح کر کے اسلامی تہذیب وثقافت کے غلبے کو قائم رکھنے کی ایک بھرپور کوشش کی، لیکن اس کے بعد مغربی اقوام میں جدیدیت کا آغاز ہوا جبکہ اسلامی دنیا جمود کا شکار ہوتی گئی اور بالآخر پہلی جنگ عظیم میں عثمانی ترکوں کی شکست کے بعد اسلامی تہذیب مکمل مغلوبیت کا شکار ہو گئی۔ تاہم تھوڑی ہی مدت کے بعد مفتوح اسلامی ممالک میں علمی، فکری اور جہادی تحریکوں کا آغاز ہو گیا اور احیاے اسلام کے امکانات دوبارہ روشن ہو گئے۔ تہذیبوں کے تقابلی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی تہذیب کے زندہ اور قائم رہنے کے لیے دو چیزیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں:
۱۔ دائمی اصولوں کا وجود،
۲۔ اصول وضوابط میں حالات اور زمانہ کی رعایت سے لچک اور حرکت پذیری کی خوبی۔
اس وقت دائمی اصولوں کا عدم وجود یورپی تہذیب کی سب سے بڑی کمزوری ہے جو بالآخر اس تہذیب کے زوال کا باعث بنے گی۔ 
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
اس کے برعکس، دائمی اصولوں کی موجودگی کے باوجود اسلامی تہذیب کے زوال کی بڑی وجہ جمود اور غیر حرکت پذیری ہے، حالانکہ اسلام کی ساخت میں حرکت کا اصول کارفرما ہے جس کا دوسرا نام ’’اجتہاد‘‘ ہے۔ اسلام ایک ثقافتی تحریک کے طور پر کائنات کے جامد نقطہ نظر کو رد کرتا ہے اور اندھی تقلید کے بجائے اجتہاد کا قائل ہے جس کی روشنی میں حالات وزمانہ کی رعایت کرتے ہوئے پیش آمدہ نئے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اس اصول کی اساس خود قرآن کریم میں موجود ہے:
والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا (العنکبوت)
’’اور جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کریں گے، ہم ان کو اپنے راستوں کی طرف رہنمائی کریں گے۔‘‘
حضرت معاذ بن جبلؓ کی مشہور حدیث سے یہ اصول مزید واضح ہو جاتا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تو ان سے پوچھا کہ وہ اپنے سامنے پیش ہونے والے مسائل کا حل کیسے تلاش کریں گے۔ حضرت معاذ نے عرض کیا: میں معاملات کو قرآن کے مطابق طے کروں گا۔ اگر کتاب اللہ میں اس کا حل نہ پاؤں گا تو سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ اور اگر سنت میں بھی اس کی کوئی مثال نہ ہوئی تو پھر میں اپنی رائے اور سمجھ سے فیصلہ کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر انتہائی خوشی کا اظہار فرمایا۔
اسلامی تہذیب میں اساسی اور دائمی اصولوں کے ساتھ اجتہاد اور حرکت پزیری کے جواز نے اس کو تمام ادوار کے لیے قابل قبول بنا دیا ہے، اس لیے یہ بات محض خوش اعتقادی اور عقیدت کی بنا پر نہیں، بلکہ اسلامی تہذیب کے دوبارہ احیا اور عروج کے واضح دلائل اور قرائن کی بنیاد پر کہی جا رہی ہے۔
کمیونزم کی ناکامی کے بعد مغربی دنیا سمجھنے لگی ہے کہ اب دنیا کے لیے مغربی فکر وفلسفہ اور نظام زندگی اپنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں، جبکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں آج بھی اتنی کشش اور افادیت ہے کہ وہ دنیا کے تمام نظریات اور افکار پر حاوی ہو جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کے اصولوں کو نئے سرے سے دریافت کیا جائے اور حالات اور زمانے کی رعایت سے اس ڈھنگ میں اقوام عالم کے سامنے پیش کیا جائے کہ اسلام کے فکر وفلسفہ کی اصل روح ان پر آشکارا ہو جائے۔
اسلام کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کی اصل قوت دعوت واصلاح میں ہے۔ سسکتی ہوئی انسانیت کے لیے اسلام آج بھی تریاق کا کام کر سکتا ہے۔ اگر اسلام کو اس کے اصل اور فطری اسلوب میں پیش کیا جائے تو وہ سیدھا دلوں میں اتر جاتا ہے۔ اسلام اپنی ذات میں زبردست تسخیری قوت کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے سیاسی ناکامیوں کے تاریک ترین دور میں بھی نظریاتی محاذ پر شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان : ’ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون‘ (اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے سارے ادیان پر غالب کر دے، اگرچہ مشرک اسے ناپسند ہی کریں) میں دین کے غلبہ سے مراد سیاسی وعسکری غلبہ نہیں، بلکہ فکری ونظریاتی غلبہ ہے جو اسلام کو ہمیشہ اور ہر جگہ حاصل رہا ہے اور کبھی منقطع نہیں ہوا۔
سیرت طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت کی حکمت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بظاہر عسکری میدان میں پسپائی اختیار فرمائی تاکہ مکمل نظریاتی غلبہ اور فتح یابی کی راہ ہموار ہو سکے، چنانچہ رسول اللہ اپنی حکمت عملی سے مد مقابل کو فکری اور نظریاتی میدان میں لے آئے جہاں مسلمانوں کو مکمل برتری حاصل تھی۔ صلح حدیبیہ میں یہی حکمت عملی آپ کے پیش نظر تھی جس کو قرآن نے ’’فتح مبین‘‘ قرار دیا۔ چنانچہ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیانی دو سالہ عرصے میں لوگ باہم ملے جلے اور دو ’’تہذیبوں‘‘ کے درمیان مکالمہ ہوا تو بے شمار سلیم الفطرت لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ امام زہریؒ فرماتے ہیں:
’’صلح حدیبیہ سے پہلے اسلام میں اتنی بڑی فتح حاصل نہیں ہوئی تھی۔ لوگ جہاں بھی ملتے، جنگ ہو کر رہتی تھی، لیکن جب صلح ہو گئی تو جنگ موقوف ہو گئی اور لوگ ایک دوسرے سے بے خوف ہو گئے۔ باہم ملے جلے، باتیں ہوئیں تو کوئی عقل مند ایسا نہ تھا جس سے اسلام کے متعلق گفتگو ہوئی ہو اور اس نے اسلام قبول نہ کر لیا ہو۔ چنانچہ جتنے لوگ ابتدا سے اب تک مسلمان ہوئے تھے، صرف ان دو برسوں میں ان کے برابر بلکہ ان سے بھی زیادہ تعداد میں مسلمان ہو گئے۔‘‘ (ابن ہشام، ۳/۳۵۱)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی عمدہ حکمت عملی سے قریش کو نظریاتی محاذ پر ہزیمت پر مجبور کر دیا۔ عالمی حالات کی صورت حال آج بھی کچھ اسی نوعیت کی ہے۔ ایک میدان سیاست اور عسکریت کا ہے جہاں مغرب کو عالم اسلام پر مکمل برتری حاصل ہے اور وہ مسلمانوں سے اسی میدان میں لڑنا چاہتا ہے جہاں اس کو لامحدود وسائل کے ساتھ عظیم بالادستی حاصل ہے، جبکہ دوسرا میدان عقائد اور قابل عمل نظریات کا ہے جہاں اسلام کو فیصلہ کن برتری حاصل ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم حکمت عملی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مدمقابل کو اس میدان میں پنجہ آزمائی پر مجبور کر دیں جہاں وہ ناموافق پوزیشن میں ہے، اور ہماری تگ وتاز کے سامنے ٹھہرنا اس کے لیے ممکن نہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے گھوڑے تیار رکھنے کے ساتھ ساتھ امن عالم کا اسلامی تصور اجاگر کرنا ضروری ہے، تاکہ تہذیبوں کے درمیان تصادم کے بجائے مکالمے کے لیے سازگار ماحول پیدا ہو۔ مسلمان اہل علم اور دانش وروں کا فرض ہے کہ وہ مغربی فکر وفلسفہ کا پوری گہرائی سے تنقیدی مطالعہ کریں اور اسلام کو اقوام عالم کے سامنے پوری انسانیت کے دین کے طور پر پیش کریں۔ اگر اسلام کے عالمگیر وژن کو حکمت کے ساتھ مغربی اقوام کے سامنے پیش کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس کی فطری تعلیمات سے متاثر نہ ہوں۔

شیعو اور سنیو! تاریخ سے سبق سیکھو

علامہ سید فخر الحسن کراروی

اللہ کو ایک ماننے والو! اسلام نے تمھیں مومن اور مسلم کہا، تم نے اپنے آپ کو شیعہ اور سنی کہنا شروع کر دیا۔ اسلام نے اقرار توحید اور اقرار رسالت کو مدار اسلام قرار دیا، تم نے قبول اسلام کے لیے شرائط میں اپنی طرف سے نئے نئے اضافے کر لیے۔ اسلام نے تمھیں بنیان مرصوص، سیسہ پلائی ہوئی دیوار کہا تھا، لیکن تم نے افتراق پسندی کے باعث اس دیوار آہنی کو تار عنکبوت بنا دیا۔ اسلام نے مرد مومن کی تعریف کی تھی، ’اشداء علی الکفار رحماء بینہم‘ ، آپس میں رحیم، کفار کے مقابلے میں سخت۔ تم نے کافروں سے نرم خوئی اختیار کی اور مسلمانوں سے سختی ودرشتی کا برتاؤ رکھا۔ اسلام نے پوری معنویت کے ساتھ تم میں اخوت کا رشتہ پیدا کیا اور تمھیں بھائی بھائی بنایا، لیکن تم نے ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کا نجس فعل انجام دینے کا عہد کر لیا۔ اسلام نے تمھیں خیر امت کا خطاب دیا تھا، مگر تم نے اس کی قدر نہ کی اور خیر کے مقابلے میں شر کو اپنا لیا۔ بتاؤ، کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ 
شیعو اور سنیو! تم اتنے قدیم ہو جتنا کہ اسلام۔ تمہاری ابتدا تقریباً اسی روز شروع ہو جاتی ہے جب خلافت راشدہ کا دور ختم ہو رہا تھا اور حکومت وقیصریت اپنی نمود کے لیے پر تول رہی تھیں۔ اسلام کی عمر بھی قریب سوا چودہ سو سال ہے اور تم نے بھی زندگی کی اتنی ہی بہاریں دیکھ لی ہیں۔ اس سوا چودہ سو برس کی طویل مدت میں تم ایک دوسرے کے لیے رحمت نہیں بن سکے بلکہ زحمت ہی رہے۔ تم ایک دوسرے کے خلاف صف آرا عدو بنے، ایک دوسرے سے نبرد آزما رہے، ایک دوسرے کے لیے پنجہ شکنجہ ثابت ہوتے رہے۔ تم نے تلواریں بھی نکالیں اور تیر بھی پھینکے، سینے بھی چھیدے اور گردنیں بھی کاٹیں اور پھر ’’تحفہ افغان‘‘ کلاشنکوف بھی سینے کے ساتھ قرآن کی جگہ لٹکائے پھرے۔ نہ تو خانہ خدا کا سوچا اور نہ ہی امام بارگاہ کی حفاظت کر سکے، لیکن یہ بتاؤ کہ کیا تم ایک دوسرے کو ختم کر سکے؟
کیا عالم اسلام کا کوئی گوشہ ایسا ہے کہ جہاں تم موجود نہ ہو؟ کیا تم میں سے کوئی اپنا وجود قائم رکھنے اور دوسرے کے وجود کو مٹا دینے میں کامیاب ہوا؟ جو کام تم سوا چودہ سو سال میں نہیں کر سکے، کیا اب وہ کر سکو گے؟ دلی پر مغلوں کی حکومت تھی۔ وہ سنی تھے۔ لکھنو پر نوابان اودھ حکمران تھے۔ وہ شیعہ تھے۔ بے جا پور گولکنڈہ وغیرہ کی حکومتیں شیعہ تھیں۔ حیدر آباد کی راج دھانی پر سنی حاکم تھے۔ یہ ساری حکومتیں شخصی اور مطلق العنان تھیں، مگر کیا ان حکومتوں میں صرف وہی لوگ بستے تھے جو حکمران کے ہم مذہب ہوں؟ کیا مغلوں کے وزیر شیعہ نہیں تھے؟ کیا شیعوں کے دربار میں وزارت اور منصب سنیوں کو تفویض نہیں تھے؟ کتنی عجیب بات ہے، مطلق العنانی کے دور میں تم ایک دوسرے کو ختم نہیں کر سکے اور اب اینٹیں اور پھر سوڈے کی بوتلیں ایک دوسرے کے سر پر پھینک کر یہ توقع کرتے ہو کہ فریق مخالف کا وجود مٹا دو گے!
مسجد اقصیٰ اور مصر پر کئی سو برس تک اور شام، حجاز، عراق اور یمن پر عرصہ دراز تک شیعوں نے حکو مت کی اور بڑے جاہ وجلال سے کی۔ تاریخ کے اوراق ان کے دبدبے کی داستانوں سے بھرے پڑے ہیں، لیکن کیا آج ان مقامات پر سنیوں کی اکثریت نہیں؟ بغداد پر پانچ سو سال سے زیادہ عباسیوں کا پرچم اقبال بلند رہا اور بعض خلفا وقتاً فوقتاً شیعوں سے الجھتے رہے، لیکن کیا وہ حدود مملکت سے شیعوں کو نکال سکے؟ اور پھر انھی عباسیوں کا پرچم اقبال جب گہن میں آیا اور ایک شیعہ خاندان دیامہ ان کا متولی بنا تو کیا اس نے بغداد کو شیعہ کر لیا؟
تاریخ نہ تو افسانہ ہے اور نہ ہی افسانے کا حصہ، لیکن اس کی دلچسپی انتہائی دلچسپ ہوتی ہے اور سبق آموز۔ اس طلسم ہوش ربا کے اوراق نکالو اور دیکھو کہ کیا بد ترین دشمنی کے باوجود تم ایک دوسرے کو ختم کرنے میں کام یاب ہو سکے؟ کیا تمھاری خانہ جنگی اور باہم کشت وخون نے تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا؟ تم تب بھی موجود تھے اور اب بھی موجود ہو، پھر بھی موجود رہو گے، لیکن کیا تمھاری اس حرب وپیکارِ باہمی نے کئی حکومتوں کا چراغ گل نہیں کردیا؟ کیا تمہاری قابل رشک تہذیب وتمدن کے نقوش فنا نہیں ہوئے؟ کیا تمھارے غلبہ وسطوت کو داستان ماضی نہیں بنا دیا گیا؟ تم سلامت رہے، مگر تم نے اسلام کو فنا کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ تمھارے زخم مندمل ہو گئے، لیکن جو زخم جسد مطہر اسلام پر لگے تھے، وہ آج تک رس رہے ہیں۔ تمھاری زندگی کا رشتہ قائم رہا، مگر اسلام کے مقدس حلقوم پر کند چھری چلتی رہی۔ کاش تم مٹ گئے ہوتے مگر اسلام کی شان وتجمل میں کمی نہ آنے پاتی۔ کاش تم اس حقیقت کو سمجھ لیتے۔ تم ہزار بار مرتے، مگر اسلام کو سلامت رکھنے کے لیے۔ 
شیعو اور سنیو! تم نے یہ نہ سوچا، یہ بھی نہ دیکھا کہ تم ایک جسم کی دو آنکھیں ہو، ایک گاڑی کے دوپہیے ہو، ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہو۔ اسلام نے دنیا کو تہذیب وحضارت کی صورت میں، تمدن کی صورت میں، علم وفن کی صورت میں جو کچھ دیا ہے، اسے اگر آپس میں تقسیم کر لو تو کیا باقی رہ جائے گا؟ ہر چیز ناقص، ناممکن، بے سرمایہ اور بے مایہ۔ تم نے دنیا کو بڑی اچھی عمارتیں دیں، لیکن کیا وہ صرف شیعوں نے تخلیق کی تھیں؟ الحمرا سے لے کر تاج محل تک فقط ایک جائزہ لے کر دیکھو۔ تم نے علم کا چراغ ظلمت کدہ فرنگ میں روشن کیا اور حکمت کی جامع الازہر شیعوں کی ناقابل فراموش یادگار نہیں؟ کیا بغداد کا مدرسہ نظامیہ سنیوں کا کارنامہ نہیں تھا؟ کیا ان علمی کارناموں کو تقسیم کر کے تم فخر سے اپنا سر اونچا کر سکتے ہو؟ کیا یہ کارنامے مسلمانوں کے نہ تھے، شیعوں اور سنیوں کے تھے؟ صرف شیعوں کے یا صرف سنیوں کے؟
تمھیں فخر ہے کہ دنیا کو تاریخ کے فن سے تم نے آشنا کیا ہے اور یہ فخر بھی بے جا نہیں، امر واقع اور عین حقیقت ہے۔ مگر کیا تاریخ کی بہترین کتابیں یعقوبی اور مسعودی وغیرہ شیعوں کی لکھی ہوئی نہیں ہیں؟ تمھارا دعویٰ ہے اور بجا دعویٰ ہے کہ منطق اور فلسفے کا فن تم نے زندہ کیا۔ تم نے یونانی اور ہندی زبانوں کی کتابوں کے ترجمے کیے اور ان میں اتنا اضافہ کیا، اتنی اصلاح کی کہ اسے ایک نیا فن بنا دیا جس کے خالق صرف تم تھے۔ جغرافیہ، حساب، ہیئت، طب، سرجری، تصوف اور روحانیت، ادب اور شاعری، غرض کہ معقول ومنقول میں تمہارے لازوال اور غیر فانی کارنامے مشترک نہیں ہیں؟ کیا ان پر صرف شیعیت اور سنیت کا لیبل لگایا جا سکتا ہے؟
کاش صرف ایک اللہ ہی کے نام پر صرف ایک مرتبہ ہی سوچ سکو کہ آخر یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے۔ ہندوستان میں تمہاری سیاست ملی، تاریخ کا حصہ ہے۔ حصول مملکت سے قبل تمھاری سیاست ملی کا طوفان بدوش، ہنگامہ خیز اور انتشار انگیز دور کیا بھلایا جا سکتا ہے؟ نہ انگریزوں کی بارگاہ میں تمہاری کوئی حیثیت تھی اور نہ ہی کوئی پہونچ اور نہ ہی پوچھ تھی، نہ ہندو تمہارا وجود برداشت کرتے تھے۔ پھر بھی وہاں تم نے جداگانہ انتخاب کا فن حاصل کیا۔ مجالس آئین ساز میں اپنی نشستیں متعین کیں، پبلک سروس کمیشن سے اپنے حقوق منوائے۔ اس جدوجہد میں کیا محسن الملک کے ساتھ ساتھ سنیوں سے زیادہ شیعہ نہ تھے؟ کیا ان کے یہ تمام احسانات فراموش کیے جا سکتے ہیں؟ مشہد مقدس پر جب بمباری ہوئی تھی، ایران پر جب روس کے دندان تیز ہو رہے تھے اور فرنگی حکومتوں کو صرف اس بات کا خیال تھا کہ اسے کس طرح اپنی نوآبادی بنایا جائے، کیا وہ محمد علی نہیں تھا جو شیعوں کی حمایت میں ڈٹ گیا؟ کیا وہ ابو الکلام نہ تھا جس کے ’’الہلال‘‘ سے اس سلسلہ میں گراں بہا ضمانت طلب ہوئی تھی؟ کیا وہ سلیمان ندوی نہ تھا کہ جس نے مشہد مقدس کے حوالے سے ایک لرزہ خیز مقالہ لکھ کر مسلم ہند میں تہلکہ مچا دیا تھا؟ کیا یہ سب سنی نہ تھے؟ کیا تمھاری سیاست ملی کی تاریخ بھی شیعہ سنی میں منقسم ہو سکتی ہے؟ کیا وہ مشترک اور ناقابل تقسیم اور قابل فخر میراث نہیں؟
پھر ہندوؤں کی چیرہ دستی، تنگ دلی اور ہوس استعمار سے تنگ آ کر جب تم نے اپنا ایک جداگانہ وطن بنانے کا فیصلہ کیا تو کیا قائد اعظم بنانے کے لیے تمہارے اقبال، تمہارے شوکت علی اور تمہارے شبیر احمد عثمانی کی نگاہ محمد علی جناح پر نہیں پڑی جو شیعہ تھے؟ کیا جناح کے سوا کوئی اور بھی حصول پاکستان کی جنگ لڑ کر کامیاب ہو سکتا تھا؟ کیا تمھارے سواد اعظم نے ان کے سر پر قیادت کا تاج نہیں رکھا تھا؟ کیا اسے صرف سنی، قائد اعظم بنا سکتے تھے؟ کیا صرف شیعہ یہ منصب انھیں سونپ سکتے تھے؟ کیا تمھاری عظیم ترین اکثریت نے، جن میں غالب اکثریت سنیوں کی تھی، یہ منصب انھیں نہیں سونپا تھا؟ راجہ صاحب محمود آباد، راجہ غضنفر علی خان، ایم ایچ اصفہانی اور دوسرے شیعہ اکابرین نے بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیا تھا؟
کشمیر تمھارے لیے نصف صدی سے زندگی وموت کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور دوسرے ممالک کو چھوڑ کر بتاؤ کن اسلامی ممالک نے اس بات پر تمھارا ساتھ دیا، تمہاری حمایت کی؟ کیا مصر نے؟ عراق نے؟ یمن نے؟ سعودی عرب نے؟ افغانستان نے؟ لیبیا نے؟ شام نے؟ انڈونیشیا نے؟ اردن نے؟ مجھے یقین ہے کہ اگر تمھیں ماضی سے ذرا بھی واقفیت ہے تو تمھارا جواب ہوگا کہ نہیں، لیکن تمام سنی ممالک کے مقابلے میں صرف ایران کا نام لیا جا سکتا ہے جو ایک شیعہ ملک ہے۔ کیا تم پھر بھی ان کے سفارت کاروں کو موت کی وادی میں ڈالنے کی رسم کو جاری رکھو گے؟ کیا قیام پاکستان کے وقت سے لے کر اب تک ایران مسلسل اور غیر منقطع طور پر ہر معاملے میں تمھارا ساتھ نہیں دے رہا؟ جس ’’احسان‘‘ کا جواب تم نے لاہور میں دیا، ملتان میں دیا، کراچی میں دیا اور کس طرح کہ ان کی لاشوں کے تحفے پاکستانی جہاز لے کر تہران میں اترے۔
شیعو اور سنیو! تم ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہو، ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر مجبور ہو۔ ہرگز اور کبھی بھی ایک دوسرے کو فنا نہیں کر سکتے ہو، لہٰذا بھائی بن کر رہو، بھائی بن کر لڑو، لیکن بھائی بن کر گلے لگ جاؤ۔ جو زخمی ہوئے، خواہ شیعہ تھے خواہ سنی تھے، مسلمان ضرور تھے۔ ان کے زخم کی کسک تم اپنے دل میں محسوس کرو۔ جو ہلاک ہوئے، خواہ ان کامسلک شیعہ تھا یا سنی، بہرحال وہ مسلمان تھے، لہٰذا ان کی ہلاکت کو اپنے بھائی کی ہلاکت سمجھو اور اس کے داغ کو اپنا داغ سمجھتے ہوئے اپنے آنسوؤں سے دھو ڈالو۔ اللہ پاکستان اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترمی ومکرمی حضرت مولانا ابو عمار زاہد الراشدی زیدت معالیکم ودام مجدکم
امید ہے آپ مع متعلقین بعافیت ہوں گے۔
کرم فرمائی کا بہت بہت شکریہ۔ مولانا محمد موسیٰ بھٹو کی عنایت تھی کہ انھوں نے میرے تعاون کے لیے آپ کو متوجہ فرمایا۔ میں نے آپ کے عنایت نامہ کی اطلاع خال محترم حضرت مولانا سنبھلی کو دی، انھوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور یہ بھی خیال ظاہر کیا کہ آپ کی رہنمائی اور مشورے میرے لیے بہت مفید رہیں گے۔ اس سلسلے میں دو ایک باتیں دریافت طلب ہیں۔
۱۔ فارغین کے لیے قائم شدہ ادارے کا نظم الاوقات کیا رہتا ہے؟
۲۔ کیا ان سے بھی کچھ علمی کام کروایا جاتا ہے؟
۳۔ معاصر علمی وفکری بحثوں میں سے کیا کیا موضوعات زیر بحث آتے ہیں؟ (یعنی آپ کی نظر میں کیا چیزیں اولیت کی مستحق ہیں؟)
۴۔ میں نے اس مسئلے پر جب غور کیا تو سب سے پریشان کن مسئلہ سامنے آیا کہ مدارس کے اچھے طلبہ کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان کی نظر قرآن اور حدیث کے ذخیرے پر ضروری حد تک بھی نہیں ہوتی۔ قرآن کا براہ راست اور موضوعاتی علم بالکل نہیں ہوتا۔ اسی طرح حدیث میں وہ صرف احادیث احکام پر نظر رکھتے ہیں اور اس میں بھی فقہاء متاخرین کا انداز فکر ان میں بڑا رچا بسا ہوتا ہے۔ ان کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ علمی مسائل کی تحقیق اور مطالعہ کیسے کیا جاتا ہے۔ اب اگر قرآن وسنت پر بھی اچھی نظر نہ ہو تو وہ عالم جدیدیت سے باخبر ہو کر کس کام کا ہوگا؟ اس مسئلے کی وجہ سے مجھے اس ادارے کی مدت دو سال رکھنی پڑ رہی ہے۔ پھر بھی یقین نہیں کہ یہ مدت کس حد تک کافی ہوگی۔ آپ اس سلسلے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
ابھی کل ’الشریعہ‘ کے جنوری تا جون کے شمارے ملے۔ بہت بہت شکریہ۔ امید ہے اب لگاتار آتا رہے گا۔ ہم نے جون کے الفرقان میں اجتہاد پر آپ کا مضمون (پاکستانی پس منظر سے جڑی چیزوں کے حذف کے ساتھ) شائع کیا ہے۔ یہاں احباب نے پسند کیا۔ آئندہ بھی مدارس اور ان کے نصاب ونظام سے متعلق آپ کی تحریریں شائع کرنے کا ارادہ ہے۔ ابھی صرف اساتذہ کے مذاکرے کی رپورٹ دیکھنی شروع کی ہے۔ الشریعہ اکیڈمی کی یہ بڑی مبارک پہل ہے۔
ڈاکٹر محمد امین صاحب کی تحریریں عموماً بڑی قیمتی ہوتی ہیں۔
ایک مرتبہ پھر آپ کی عنایت اور تعاون کا بہت بہت شکریہ۔ حضرت والد ماجد دامت برکاتہم کی خدمت میں دعاؤں کی خصوصی درخواست پیش فرما دیں۔
والسلام۔ نیاز مند
یحییٰ نعمانی

(۲)
محترم جناب مولانا عمار خا ناصر صاحب، مدیر الشریعہ
السلام علیکم
’الشریعہ‘ میں محترم ومکرم مولانا زاہد الراشدی مدظلہ کی اعتدال پسندانہ تحریر سے خوشی ہوئی کیونکہ موجودہ زمانہ میں علماء حق علماء دیوبند کے اعتدال سے ہٹ کر بہت سے لوگوں نے اپنے من پسند نظریات پر علماء دیوبند کا غلاف چڑھانے کی کوشش کی ہے اور اسی کو علماء حق کا صحیح مشن سمجھ کر لوگوں کو بھی اسی راہ پر لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اہل تشیع سے اختلافات اپنی جگہ، مگر اس تشدد کو کوئی بھی سنجیدہ انسان پسند نہیں کرے گا۔ ہمارے اکابر نے دلائل کے میدان میں ہر باطل کا تعاقب کیا۔ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا عبد الشکور لکھنوی نے بھی مدح صحابہ کی تحریکیں چلائیں مگر ان تحریکوں میں اس قسم کا کوئی تشدد نہیں پایا جاتا۔ ہماری نوجوان نسل کو جس راستے پر ڈالا جا رہا ہے، یہ ہرگز علماء دیوبند کا مشن نہیں۔ جو شخص صحابہ کرام کا دفاع نہ کرے، ہمیں اس کے اسلام پر کوئی اعتبار نہیں، مگر صحابہ کرام کا دفاع گولی اور گالی سے نہیں، بلکہ دلائل اور اپنے کردار سے کیا جائے گا۔ ہو سکتا ہے ان تحریروں کو بھی شیعیت نوازی سے تعبیر کیا جائے، مگر اپنے اکابر کے نقش قدم سے ہٹے ہوئے جذباتی نوجوانوں کو اپنے اکابر کے نقش قدم پر لانا ہر درد دل رکھنے والے دیوبندی کے لیے ضروری ہے۔
ہمارے ہاں یہ بیماری بہت زیادہ پھیل چکی ہے کہ اپنے ذوق کے خلاف کسی بات پر دماغ خرچ کرنے کے لیے ہم تیار ہی نہیں ہوتے، اگرچہ وہ بات حق اور سچ اور دلیل کے لحاظ سے بے غبار کیوں نہ ہو۔ مولانا زاہد الراشدی صاحب اور ان جیسے درد دل رکھنے والے اہل قلم حضرات کو چاہیے کہ اس وادی پر خار میں قدم رکھ کر جذبات کی رو میں بہ جانے والے نوجوانوں کو اکابر علماء دیوبند کا صحیح راستہ دکھائیں اور اس نقصان عظیم سے نوجوان نسل کو بچائیں۔
میں شوکت بہار کا منکر نہیں ہوں دوست
دل کانپتا ہے پھول کا انجام دیکھ کر
والسلام
مومن خان عثمانی
مدرسہ مخزن العلوم۔ کٹھائی۔ تحصیل اوگی۔ ضلع مانسہرہ

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’صحابہ کرام کا اسلوب دعوت وتبلیغ‘‘

نظریہ حیات کوئی سا بھی کیوں نہ ہو، جب تک اسے اشاعت پذیر کرنے کا شعوری اہتمام نہ کیا جائے، وہ سمٹ کر چند دماغوں تک محدود رہ جائے گا اور امتداد وقت کے ساتھ ساتھ اپنی اہمیت کھو بیٹھے گا۔اسلام ایک نظریہ حیات کی حیثیت سے ابتدا ہی سے اس امر کا متقاضی رہا ہے کہ اسے دوسروں تک پہنچانے کا اہتمام کیا جائے۔ آدم علیہ السلام سے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اللہ کا پیغام ملکوتی واسطوں سے انبیاء ورسل تک پہنچا اور پھر انھوں نے اسے خلق خدا تک پہنچانے میں اپنی بھرپور توانائیاں کھپا دیں۔ یہ سلسلہ ایسا مہتم بالشان رہا کہ اس میں کوئی کڑی گم نہیں ہونے پائی۔ خداے عزوجل نے بات کبھی براہ راست قلب پیغمبر پر الہام کی تو کبھی ملکوتی وسیلے سے القا والہام کا سلسلہ جاری رکھا۔ اب ان رسولان برحق کی ذمہ داری ٹھہری کہ وہ بحیثیت انبیا کے عالم کو ان آسمانی خبروں سے آگاہ کریں۔ یہ نفوس قدسیہ اپنے اپنے دائرۂ کار میں یہ فریضہ انجام دے کر رخصت ہوئے۔ مشیت الٰہی سے اس سلسلۃ الذہب کے روشن دل افراد کا دائرہ کار کبھی قومی سطح تک اور کبھی ملکی وجغرافیائی حدود وثغور تک محدود رہا۔ تاہم جب کار نبوت اپنے انتہائی نقطہ عروج تک پہنچ گیا تو خداے قدوس نے اسے عالمگیر اور آفاقی انداز عطا کر دیے اور جس رسول اعظم وآخر پر ختم نبوت کرنا تھی، اسے ’وما ارسلناک الا کافۃ للناس بشیرا ونذیرا‘ کے حسین لفظوں سے مخاطب فرما کر اس پیغام کو پوری انسانیت کے لیے عام کر دیا۔ اب یہ پیغام تمام زمانی ومکانی حدود وثغور کو پار کرتا ہوا جملہ اکناف عالم تک جا پہنچا۔ جس بالا بلند ہستی کو اس پیغام کے لیے اختصاص عالمگیریت بخشا گیا، اسے اس بات کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی کہ ’یا ایہا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ‘۔
یوں تبلیغ دین فریضہ پیغمبر ٹھہرا۔ حق یہ ہے کہ پیغمبر نے ہر کڑی آزمایش جھیلی، ہر دکھ بطیب خاطر اٹھایا، ہر کٹھن مرحلہ طے کیا اور پوری دل سوزی اور جانفشانی سے اس خوشگوار فریضے کو انجام دیا۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ خود خالق اکبر نے اپنی شان رحیمی کے جوش میں رحمۃ للعالمین کی دل گدازیوں کی قدر افزائی کرتے ہوئے فرمایا: ’لعلک باخع نفسک علی آثارہم ان لم یؤمنوا بہذا الحدیث اسفا‘۔ تبلیغ ودعوت کو تو فریضہ قرار دیا گیا، مگر اس امر کی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی کہ ایک ایک مدعو حلقہ بگوش اسلام ہوگا تو پیغمبر اس دنیا سے رخصت ہوگا، بلکہ اس طمانینت بخش اور دل نواز ارشاد سے نوازا گیا کہ ’انما علیک البلاغ وعلینا الحساب‘۔
سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی سرگرمیوں کی ابتدا آغاز نبوت ہی سے ہو گئی اور پھر تیئیس سال کے عرصے کا ایک ایک لمحہ انھی تبلیغی مساعی میں بیتا۔ آپ کی دعوتی مصروفیات کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کی تبلیغی کوششیں بھی برابر جاری رہیں۔ اس کار دشوار میں اس فریضے کی یاد دہانی کوئی ایک لاکھ فرزندان توحید کے سامنے ان الفاظ کے ساتھ کرا دی گئی کہ ’فلیبلغ الشاہد الغائب‘۔ اور ’بلغوا عنی ولو آیۃ‘ کے الفاظ ہر مسلمان کو اس فریضے کا بقدر استطاعت مکلف کر رہے ہیں۔ صحابہ کرام تو پہلے بھی اس فریضے سے غافل ومتساہل نہ تھے، اب اور بھی زیادہ سرگرم عمل اور حساس ہو گئے۔ ان کا یہی احساس دعوت تھا جس نے آئندہ ادوار میں اس پیغام الٰہی کو دنیا کے ہر کونے تک پھیلا دیا۔
ان کا طریق دعوت کیا تھا؟ کون سے وسائل وذرائع اختیار کر کے فرزندان آدم کے اس پاک باز گروہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی تکمیل کے اس کام کو تسلسل بخشا؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب کتاب اللہ کے مابین الدفتین اور پھر حدیث کے مبارک ذخیرے میں بکھرے موتیوں کی طرح جابجا جھلک جھمک رہا ہے۔ انھی چمکتے دمکتے موتیوں کی آب وتاب کو بعض اہل علم نے اپنی علمی کوششوں سے تدوین وترتیب کا نیا پیراہن دے کر اس میدان میں علمی وعملی دلچسپی رکھنے والے داعیان اسلام کے لیے کام آسان کر دیا ہے۔ (ان کتابوں میں سے کم از کم ۱۲ وقیع شہ پاروں کا زیر نظر کتاب کے صفحہ ۳۳، ۳۴ اور ۳۵ کے حواشی میں تفصیلی ذکر موجود ہے)۔ یہ کتابیں بالعموم صحابہ کرام کے اسلوب دعوت پر خاصی روشنی ڈالتی ہیں۔ متداول طریقوں کو ان میں سے بعض حضرات نے جزوی طور پرموثر قرار دیا ہے، تاہم بعض دوسروں نے ان طریقہ ہائے دعوت سے اختلاف کر کے ان کی کمزوریوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ مثال کے طور پر ’’دعوت دین اور اس کا طریق کار‘‘ میں مولانا امین احسن اصلاحی نے مروجہ طرق دعوت پر گرفت کر کے ان کی غلطیوں پر انگلی رکھی ہے:
’’ہمارے نزدیک مروجہ طریقہ تبلیغ میں علمی اور عملی دونوں قسم کی غلطیاں ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ یہ طریقہ تبلیغ اپنے فلسفہ کے اعتبار سے بھی غلط ہے اور اپنے طریقہ کار کے پہلو سے بھی غلط ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ تبلیغ اسلام کے نام سے اب تک جتنی جدوجہد بھی کی گئی ہے، وہ بیشتر نہ صرف یہ کہ اصل مقصد کے لحاظ سے لاحاصل رہی ہے بلکہ الٹا اس سے اسلام کی دعوت کو سخت نقصان پہنچا ہے۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سا اسلوب دعوت وتبلیغ ہے جس کو اپنا کر صحابہ کرام اس مشن میں کام یاب ہوئے اور جسے آج بھی حرز جان بنا کر مختلف خطہ ہائے ارض پر مختلف شعوب وقبائل کو قائلِ پیغام اسلام اور مائلِ دین وایمان کیا جا سکتا ہے؟ اسی ایک سوال کا جواب ہمارے سامنے کی یہ کتاب ’’صحابہ کرام کا اسلوب دعوت وتبلیغ‘‘ پیش کر رہی ہے۔ کتاب کے مصنف پروفیسر محمد اکرم ورک اسلامی علوم کے ایک نوجوان ریسرچ اسکالر ہیں۔ کتاب کمپیوٹر پر طبع شدہ ۳۵۲ صفحات پر مشتمل ہے اور مکتبہ جمال کرم لاہور نے اسے خوب صورت سرورق کے ساتھ طبع کیا ہے۔ کتاب کے مشمولات پر ایک نظر ڈالنے سے پروفیسر موصوف کی اس نوجوانی کے عالم میں گہری علمی بصیرت اور موضوع زیر نظر کے لیے ان کی عقلی اور سائنٹفک اپروچ کا پتہ چلتا ہے۔ یہ تنقیح مسائل اور احقاق حق میں خاصی شعوری کوشش ہے۔ غیر جذباتی انداز میں تحقیق کاری کے جملہ لوازم کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ کتاب کے محتویات کے سرسری جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا قلم کار عنوانات کو چابک دستی سے مرتب ومدون کرنا جانتا ہے۔ ’دعوت کی اہمیت‘، ’داعیان اسلام کے لیے رہنما اصول‘، ’صحابہ کرام کی دعوتی سرگرمیاں‘، ’مکی اور مدنی ادوار کا نازک فرق‘، ’نبوی سفرا کی سیرتوں کی شفافیت‘، ’فروغ اسلام کی عمومی وجوہات‘ جیسے عنوانات قائم کر کے بڑی علمی گہرائی اور گیرائی سے کلام کیا ہے۔ قرآن وحدیث سے استناد کر کے بنیاد داعی کے اسلوب دعوت میں علمی سے بڑھ کر عملی جہد مسلسل پر رکھی ہے۔ صحابہ کرام کی انفرادی دعوت ہو یا اجتماعی جہد وپژوہش، ان کے کردار ہی کو اولیت دے کر اس گوشے کو highlight کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ آنحضور کا دعوتی منہاج ہی ان حضرات کے لیے مشعل راہ رہا، اس لیے ان کا آپس میں بعض امور میں اختلاف بھی منشاے رسول کا غماز ہے۔ کتاب میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت عمار بن یاسر کے بلند جگہ پر امامت کرانے پر حضرت حذیفہ کا فرمان رسول یاد کرانا اور عمارؓ کا فرط اطاعت رسول سے سرتسلیم خم کر دینا اس کی روشن مثال ہے۔ الم تسمع رسول اللہ یقول اذا ام الرجل القوم فلا یقم فی مکان ارفع من مقامہم قال عمار لذالک اتبعتک حین اخذت علی یدی۔ (ص ۳۰۶)
داعی کے اوصاف جگہ جگہ باضابطہ طریقے سے بالوضاحت بیان کیے گئے ہیں اور مدعو کے میلانات، رجحانات ، ذہنی صلاحیت وصالحیت، پس منظر وپیش منظر، نفسیاتی کیفیات ومعاشرتی حیثیت کے لحاظ سے دعوت دین کے جو وسائل وطرق صحابہ کرام نے استعمال کیے، موصوف نے انھیں نہایت تحقیقی انصرام سے پیش کیا ہے۔ دور نبوی کے مراکز تبلیغ پر بڑے اچھوتے انداز سے قلم اٹھایا ہے اور مستند روایات سے ان کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ انھوں نے ایک سچے اور بے لاگ محقق کی طرح طریقہ تحقیق کی وضاحت بھی کر دی ہے۔ قرآن نے دعوت کے جو زریں اصول مجملاً بیان کیے ہیں، مولف نے انھیں آیت قرآنی ’ادع الی سبیل ربک‘ (۱۶/۱۲۵) کی روشنی میں مبلغ کی جملہ دعوتی سرگرمیوں کا محور بنایا ہے۔
یہ بھی جان لینا چاہیے کہ کوئی بھی انسانی کوشش مکمل واکمل نہیں ہوتی۔ ’خلق الانسان ضعیفا‘ کے مصداق ہر انسانی کوشش میں کوتاہیاں اور کمیاں رہ جاتی ہیں کہ اس کی فطرت کا خاصہ ہے۔ یوں بعد میں آنے والے ان کا احساس کر کے ان کے ازالے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رہتی ہے۔ کبھی تو ’نقاش نقش ثانی بہتر کشد ز اول‘ اور کبھی کوئی دوسرا محقق ان خلاؤں کو پر کر دیتا ہے جو پہلے کے کام میں رہ گئی ہوں۔ 
ص ۳۷ پر الفاظ ہیں: ’’دعوت کے دو بنیادی کردار ہیں۔ ایک داعی اور دوسرا مدعو۔‘‘ یہ بات بالکل سچ ہے، مگر ان کرداروں کا رول اس وقت تک نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا جب تک مضامین دعوت کا بھی کسی قدر تفصیل سے تذکرہ نہ ہو۔ جس طرح داعی اور مدعو یا مخاطِب اور مخاطَب پر مختلف عنوانات سے تفصیلی بحث آ گئی ہے، دعوت وپیغام کے جاندار اور شاندار ہونے پر بھی کچھ کلام ہو جاتا تو شاید بہتر ہوتا۔ داعی کتنا ہی بلند فکر اور زور دار شخصیت کا مالک کیوں نہ ہو، مخاطبین اثر پذیر نہیں ہو سکتے جب تک کہ مضامین دعوت یا پیغام ہی جاندار نہ ہو۔ میری دانست میں بہتر تھا کہ ان مضامین دعوت کی اثر انگیزی پر بھی اجمالاً ہی سہی، بات ضرور ہوتی۔
کتاب اپنی ہمہ جہت خوبیوں کے باوصف ایک کمی کا شدت سے احساس دلاتی ہے اور وہ یہ کہ مسودہ خوانی کو گلدستہ طاق نسیاں کردیا گیا ہے۔ پوری کتاب پر اس زاویہ نگاہ سے نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ خیال ہے کہ نقش ثانی ان معائب سے مبرا ہوگا۔ تاہم ان جزوی اور ثانوی کمیوں کے باوصف کتاب اہمیت وافادیت کے اعتبار سے تحقیق وجستجو کا عمدہ نمونہ ہے:
  • روایات میں جھول نہیں، کوئی روایت پایہ استناد سے گرنے نہیں پائی۔
  • ہر واقعے کو روایت ودرایت کی کسوٹی پر بآسانی پرکھا جا سکتا ہے۔
  • قرآنی آیات سے استدلال برمحل بھی ہے اور مناسب حال بھی۔
  • حوالے تفصیلی ہیں جن سے قاری کسی بھی آیت یا حدیث کو بآسانی قرآن مجید یا مجموعہ ہائے حدیث سے تلاش کر سکتا ہے۔ تاہم یہ بات پیش نظر رہے کہ حوالہ اگر کتب متداولہ برصغیر سے ہے تو مطبع کا حوالہ ضروری ہے، ورنہ جدید کتب کا حوالہ رقم حدیث کی صورت میں دیا جانا چاہیے۔
  • کتابیات میں ٹھیک ٹھیک تحقیقی مقالے کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔
  • انداز بیاں علمی ہونے کے باوجود سادہ، دل نشیں اور پرکشش ہے۔ چند صفحات کے مطالعے کے بعد مزید تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔
فی الجملہ جو لوگ دعوت وتبلیغ میں اپنی توانائیاں صرف کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے یہ کتاب بہت بڑی رہنما کتاب کا حکم رکھتی ہے اور اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ وہی طریق دعوت کارآمد ومفید ثابت ہوگا جس کو اختیار کر کے صحابہ کرام نے اس دھرتی کے کونے کونے تک یہ پیغام پہنچایا، جس کا سب سے بڑا خاصہ للہیت، اخلاص، سیرت کی شفافیت اور کردار کا اجلا پن تھا۔ اسی قوت سے انھوں نے ایک عالم کو اپنا ہم نوا بنایا اور اس منہج پر چل کر آج بھی دنیا کو اپنا ہم مشرب بنایا جا سکتا ہے کہ یہ کام اب جملہ افراد امت کا ہے۔
خدمت ساقی گری با ما گزاشت
داد ما را آخریں جامے کہ داشت
(پروفیسر غلام رسول عدیم)

’’تحریک احمدیت ۔ یہودی وسامراجی گٹھ جوڑ‘‘

قادیانیت پر اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس کے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی پہلوؤں پر سینکڑوں اہل علم ودانش نے قلم اٹھایا ہے اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ قادیانی تحریک کے سیاسی اور معاشرتی رخ پر علامہ اقبالؒ ، چودھری افضل حقؒ اور آغا شورش کاشمیریؒ جیسے نامور مفکرین اور اصحاب قلم نے بحث کی ہے اور قادیانیوں کے مذہبی عقائد کو حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کاشمیریؒ ، حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑویؒ اور حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ جیسے سربرآوردہ علماء کرام نے بے نقاب کیا ہے جبکہ قادیانیت کے عمومی تعارف پر پروفیسر محمد الیاس برنی، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی، علامہ احسان الٰہی ظہیر اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی تصانیف امتیازی حیثیت کی حامل ہیں۔ ہمارے دور کے معروف فاضل اور محقق جناب بشیر احمد نے بھی قادیانیت کے سیاسی پس منظر اور سامراجی آلہ کار کی حیثیت سے اس گروہ کے کردار کا جائزہ لیا ہے اور اس کے آغاز سے اب تک کے تمام ادوار کا احاطہ کرتے ہوئے ملت اسلامیہ کے خلاف قادیانی امت کی سازشوں اور سرگرمیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ اصل کتاب انگریزی میں ہے جیسے جناب احمد علی ظفر نے اردو کا جامہ پہنایا ہے۔ ایک ہزار کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل یہ معیاری اور ضخیم کتاب ادارۂ اصلاح وتبلیغ وقف بلڈنگ، آسٹریلیا مسجد ریلوے روڈ لاہور نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۳۰۰ روپے ہے۔ 
(ابو عمار زاہد راشدی)

’’گلوبلائزیشن اور اسلام ‘‘

’گلوبلائزیشن‘ معاصر سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی موضوعات سے ایک نہایت اہم موضوع ہے اور اس کے گوناگوں پہلوؤں پر مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے اظہار خیال کیا جا رہا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’گلوبلائزیشن اور اسلام ‘‘ مولانا یاسر ندیم کی تصنیف ہے اور پیش لفظ ، حرفِ آغاز اور مولانا نور عالم خلیل امینی کے مقدمے کے ساتھ ساتھ اشاریہ اور مآخذ و مراجع کی فہرست سمیت یہ کتاب ۴۵۶ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ مصنف نے کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کر کے پانچ مختلف جہتوں سے گلوبلائزیشن کے اثرات ومظاہر کا جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ابواب کے عنوانات حسب ذیل ہیں: (۱) گلوبلائزیشن کیا ہے؟ (۲) سیاسی عالمگیریت (۳) اقتصادی عالمگیریت (۴) ثقافتی عالمگیریت (۵) معاشرتی و اخلاقی عالمگیریت۔ 
یہ کاوش اس لحاظ سے سراہے جانے کے قابل ہے کہ یہ فاضل مصنف کی پہلی تصنیفی و تحقیقی کوشش ہے اور انھوں نے قلم اٹھاتے وقت مروج نظری مذہبی مباحث کے بجائے انسانی سوسائٹی کو درپیش زندہ مسائل میں سے ایک اہم مسئلے کا چناؤ کیا ہے جس سے ان کی سوچ کے رخ کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اردو زبان میں اس موضوع پر اتنی مبسوط کتاب غالباً ابھی تک منظرِ عام پر نہیں آئی۔ کتاب میں گلوبلائزیشن کے ذیلی موضوعات کا تفصیلی تذکرہ حوالہ جات کے ساتھ کیا گیا ہے اور اسلوبِ بیان نہایت شگفتہ، رواں اور ادبی چاشنی کا حامل ہے۔ 
تاہم گلوبلائزیشن کے ذیلی موضوعات کے احاطے کے باوجود معروضی رویے کا فقدان واضح طور پر محسوس ہوتا ہے اور مسائل کے تجزیہ وتحلیل سے زیادہ مواد کے جمع کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ گلوبلائزیشن پر تنقید کے ساتھ اس سے نبرد آزما ہونے اور اس رجحان کو صحیح رخ پر ڈالنے کی بات تو ایک طرف رہی ، فاضل مصنف گلوبلائزیشن کو بطور مظہر پیش کرنے کے حوالے سے ’’امریکی و یہودی فوبیے ‘‘ کا شکار ہوکر دیگر نقطہ ہائے نظر سے بھی انصاف نہیں کر پائے۔ چونکہ کتاب کے عنوان میں اسلام کا ذکر ہے، اس لیے ’’گلوبلائزیشن اسلام کی نظر میں ‘‘ کے زیر عنوان صرف بیس (۲۰) صفحات پر مشتمل آخری باب میں مصنف نے گلوبلائزیشن کو اسلامی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے اور اس کے مقابل اسلامی پروگرام پیش کیا ہے۔ اتنی ضخیم کتاب کے مقابل میں صرف بیس صفحات میں اسلامی پروگرام کی تمام جہات کا مدلل اور جامع احاطہ یقیناًناممکن تھا ، اس لیے کتاب کا یہ باب، جسے سب سے زیادہ وقیع ہونا چاہیے تھا، سب سے کمزور صورت میں سامنے آیا ہے۔ 
ان تمام کمیوں کے باوجود راقم الحروف کی رائے میں ایسے احباب جو گلوبلائزیشن کی بابت کچھ نہیں جانتے یا پھر بہت کم جانتے ہیں، ان کے لیے یہ نہایت مفید کتاب ہے کہ اس میں خاصی معلومات اکٹھی کر دی گئی ہیں۔ معلومات کے اس ذخیرے سے قارئین کرام حسبِ صلاحیت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ 
پاکستان میں اس کتاب کو دارالاشاعت ( اردوبازار ، ایم اے جناح روڈ کراچی) نے شائع کیا ہے اور اس پر قیمت درج نہیں۔ 
(پروفیسر میاں انعام الرحمن)

مولانا محمد علی جوہر کی یاد میں ایک نشست

ادارہ

مولانا محمد علی جوہر تحریک آزادئ ہند کے عظیم رہنما اور تحریک خلافت کے قافلہ سالار تھے۔ آپ کی پیدایش ۱۰ دسمبر ۱۸۷۸ کو نجیب آباد رام پور انڈیا میں ہوئی جبکہ انتقال ۴ جنوری ۱۹۳۱ کو ہوا۔ آپ کی تدفین بیت المقدس میں ہوئی۔
۱۰  دسمبر کو مولانا محمد علی جوہر کے یوم ولادت کے موقع پر الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ پروگرام میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض جناب فضل حمید چترالی (فاضل دار العلوم حقانیہ) نے انجام دیے۔ تلاوت کی سعادت جناب محمد صاحب (فاضل دار العلوم کراچی) نے حاصل کی جبکہ جناب ابوبکر محمود (فاضل خیر المدارس ملتان) نے بارگاہ رسالت مآب میں ہدیہ عقیدت پیش کیا۔ اس کے بعد تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا۔ جناب محمد رمضان خالد (فاضل دار العلوم ربانیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ) نے مولانا محمد علی جوہر کی صحافتی زندگی پر روشنی ڈالی اور برصغیر کے عوام کی بیداری میں اخبار ’’کامریڈ‘‘ اور ’’ہمدرد‘‘ کی کوششوں کو خصوصی طور پر سراہا۔ جناب محمد شفیع (فاضل دار العلوم فیصل آباد) نے مولانا جوہر مرحوم کی پوری تحریکی زندگی کا تاریخی حوالوں کے ساتھ خلاصہ پیش کیا۔ انھوں نے مولانا محمد علی جوہر کی پوری زندگی کو سراپا عمل قرار دیا اور کہا کہ وہ ایسے بطل حریت تھے جنھوں نے انگریزی سامراج کو ہر میدان میں للکارا۔ جناب محمد توقیر (فاضل خیر المدارس ملتان) نے مولانا جوہر کو نوجوان نسل کے لیے مثالی نمونہ قرار دیا اور کہا کہ مولانا نے علماء کرام اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو تحریک خلافت کے پلیٹ فارم پر جمع کر کے عظیم کارنامہ سرانجام دیا۔
پروفیسر محمد اکرم ورک نے اختتامی کلمات میں طلبا کے خیالات کو سراہا اور اسلاف کے کارناموں کو یاد رکھنے کی تلقین کی۔ اکادمی کے ناظم مولانا محمد یوسف نے مولانا جوہر اور تحریک آزادی کے دیگر راہ نماؤں کے لیے خصوصی دعا کی اور اس طرح یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔ 
(رپورٹ: منیر احمد، فاضل جامعہ اسلامیہ راول پنڈی، شریک خصوصی تربیتی کورس الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ)

فروری ۲۰۰۵ء

موجودہ صورتحال میں دینی حلقوں کی ذمہ داریمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
علامہ اقبالؒ کی شخصیت اور ان کا فکر و فلسفہ ۔ مولانا سندھیؒ کے ناقدانہ خیالات کی روشنی میںپروفیسر محمد سرور
اسلامی حکومت کا فلاحی تصورپروفیسر میاں انعام الرحمن
پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ اور فتنہ انکارِ سنت ۔ تفسیر ضیاء القرآن کی روشنی میںپروفیسر محمد اکرم ورک
مکاتیبادارہ
ثقافتی زوال کا رجائیہ نوحہپروفیسر میاں انعام الرحمن
پشاور فقہی کانفرنس / الشریعہ اکادمی میں فکری نشستپروفیسر حافظ منیر احمد
تعارف و تبصرہادارہ

موجودہ صورتحال میں دینی حلقوں کی ذمہ داری

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(لاہور سے شائع ہونے والے ایک دینی جریدہ ماہنامہ ’آب حیات‘ کی طرف سے گزشتہ دنوں ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی سے ایک انٹرویو لیا گیا جو مذکورہ جریدہ کے جنوری ۲۰۰۵ کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ یہ انٹرویو’آب حیات‘ کے شکریہ کے ساتھ یہاں نقل کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

سوال:  سب سے پہلے تو ہم آپ کو اپنے رسالہ ماہنامہ ’آب حیات‘ کی انتظامیہ کی جانب سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ اپنے خاندانی پس منظر کے حوالے سے کچھ بتائیں۔
جواب: ہمارا تعلق ضلع مانسہرہ، ہزارہ میں آباد سواتی خاندان سے ہے جس کے آباو اجداد کسی زمانے میں نقل مکانی کر کے ہزارہ میں آباد ہو گئے تھے۔ ہمارے دادا نور احمد خان مرحوم شنکیاری سے آگے کڑمنگ بالا کے قریب چیڑاں ڈھکی میں رہتے تھے اور زمینداری کرتے تھے۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفرا زخان صفدر صاحب دامت برکاتہم اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی مدظلہ العالی چھوٹے بچے تھے کہ ان کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ والدہ کا بھی انتقال ہو چکا تھا۔ یہ دونوں حضرات دینی تعلیم کی طرف آ گئے۔ حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے مدرسہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر پنجاب کے مختلف مدارس، بالخصوص مدرسہ انوار العلوم، مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں درس نظامی کا بڑا حصہ پڑھا۔ ۱۹۴۱-۱۹۴۲ میں دار العلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی۔والد محترم ۱۹۴۳ سے گکھڑ ضلع گوجرانوالہ میں مقیم ہیں۔ میری ولادت ۱۹۴۸ میں ۲۸؍ اکتوبر کو ہوئی۔ میری والدہ محترمہ کا تعلق راجپوت خاندان سے تھا اور ہمارے نانا مرحوم مولوی محمد اکبر صاحب گوجرانوالہ میں ریلوے اسٹیشن کے قریب تالاب دیوی والا، رام بستی کی ایک مسجد کے امام تھے۔
سوال:  اپنی دینی ودنیاوی تعلیم کے بارے میں ضروری معلومات سے آگاہ کریں۔
جواب:  میں نے قرآن مجید گکھڑ کے مدرسہ تجوید القرآن میں مختلف اساتذہ کرام سے حفظ کیا جس میں سب سے آخری اور بڑے استاد محترم قاری محمد انور صاحب ہیں جو کہ آج کل مدینہ منورہ میں تحفیظ القرآن کے استاد ہیں۔ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۶۰ کو میرا حفظ مکمل ہونے پر گکھڑ کی جامع مسجد میں جو تقریب ہوئی، اس میں حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی، حضرت مولانا قاری فضل کریم اور حضرت مولانا قاری محمد حسن شاہ صاحب نے شرکت فرمائی تھی اور میں نے آخری سبق ان بزرگوں کو سنایا تھا۔ درس نظامی کے بڑے حصہ کی تعلیم میں نے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں حاصل کی اور میرے اساتذہ میں حضرت والد محترم مدظلہ اور حضرت عم مکرم مدظلہ کے علاوہ حضرت مولانا عبد القیوم ہزاروی مدظلہ، حضرت مولانا قاضی محمد اسلم صاحب، حضرت مولانا قاضی عزیز اللہ صاحب اور حضرت مولانا جمال احمد بنوی مظاہری مدظلہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ۱۹۷۰ میں مدرسہ نصرۃ العلوم سے میں نے فراغت حاصل کی۔
سوال:  عملی زندگی میں کب اور کیسے قدم رکھا؟
جواب:  دوران زمانہ طالب علمی مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحبؒ کی معاونت کے لیے بطور نائب خطیب میرا تقرر ہو چکا تھا، جبکہ اس سے قبل کم وبیش دو سال تک گتہ مل راہ والی کی کالونی کی مسجد میں خطابت کے فرائض سرانجام دیتا رہا ہوں۔ مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے مدرسہ انوار العلوم میں ۱۹۷۰ سے ۱۹۹۰ تک درس نظامی کی تدریس کے فرائض سرانجام دیتا رہا ہوں۔
سوال:  اپنے دینی کام اور معاشرتی مصروفیات پر روشنی ڈالیں۔
جواب:  ۱۹۸۲ میں مولانا مفتی عبد الواحدؒ کی وفات کے بعد مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے مستقل خطیب کی حیثیت سے میں نے ذمہ داری سنبھال لی تھی جو کہ بحمد اللہ تعالیٰ اب تک حسب استطاعت نباہ رہا ہوں۔ مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں تقریباً ۲۰ سال تک تدریسی خدمات انجام دیتا رہا ہوں جبکہ گزشتہ چھ سات سال سے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں تدریسی خدمات میرے سپرد ہیں اور والد محترم مدظلہ کی معذوری کے بعد صدارتِ تدریس اور نظامتِ تعلیمات کا بوجھ بھی میرے ناتواں کندھوں پر ہے۔ اللہ تعالیٰ نباہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 
علاوہ ازیں ۱۹۸۹ میں مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں الشریعہ اکادمی قائم کی تھی جس کا مقصد دعوت اسلام اور دینی تعلیم کے حوالے سے عصری تقاضوں کو اجاگر کرنا اور ان کی طرف دینی حلقوں کو توجہ دلانا تھا۔ بعد میں جی ٹی روڈ پر کنگنی والا بائی پاس کے قریب ہاشمی کالونی میں ایک کنال زمین کسی دوست نے وقف کر دی جہاں باقاعدہ عمارت تعمیر کر کے تعلیم وتربیت کا ایک نظام قائم ہے اور مختلف کلاسوں کے علاوہ درس نظامی کے فضلا کی ایک سالہ کلاس اس وقت زیر تعلیم ہے جس میں اس سال تیرہ علماے کرام شریک ہیں جنھیں انگریزی وعربی زبانوں اور کمپیوٹر ٹریننگ کے علاوہ بین الاقوامی قانون، تقابل ادیان، تاریخ اسلام اور حجۃ اللہ البالغہ کے منتخب ابواب کی تعلیم کے ساتھ سیاست، معیشت اور نفسیات کے مضامین کا تعارفی مطالعہ کرایا جاتا ہے اور تحقیق ومطالعہ کی عملی مشق کرائی جاتی ہے۔ اکتوبر ۱۹۸۹ سے ماہنامہ ’الشریعہ‘ باقاعدگی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے جسے علمی حلقوں میں بحمد اللہ تعالیٰ توجہ کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ اس کام میں میرے دو بڑے معاون حافظ محمد عمار خان ناصر اور مولانا حافظ محمد یوسف ہیں۔ عمار خان ناصر میرا بیٹا ہے جو نصرۃ العلوم کا فاضل اور اس میں درس نظامی کا مدرس ہے۔ اس نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا ہے اور بحمد اللہ تعالیٰ تحقیق ومطالعہ کے ذوق سے بہرہ ور ہے۔ مولانا حافظ محمد یوسف بھی نصرۃ العلوم کے فاضل ہیں اور درس نظامی کے علاوہ انگلش کے بھی اچھے استاد ہیں۔
صحافتی زندگی میں طالب علمی کے دوران ۱۹۶۵ میں روزنامہ ’’وفاق‘‘ لاہور کے نامہ نگار کی حیثیت سے داخل ہوا۔ اس کے بعد جمعیت علماے اسلام کے آرگن ہفت روزہ ’’ترجمان اسلام‘‘ لاہور کے ساتھ تعلق رہا اور متعدد بار کئی برس تک ایڈیٹر کے طور پر بھی فرائض سرانجام دیے۔ روزنامہ ’’پاکستان‘‘ اسلام آباد اور روزنامہ ’’اوصاف‘‘ اسلام آباد میں کئی سال مستقل کالم نگار کے طور پر وابستہ رہا اور ’’نوائے قلم‘‘ کے نام سے ہفتہ وار کالم لکھتا رہا۔ اب یہ کالم روزنامہ ’’پاکستان‘‘ لاہور میں لکھ رہا ہوں جبکہ روزنامہ ’’اسلام‘‘ میں بھی ’’نواے حق‘‘ کے عنوان سے ہفتہ وار کالم لکھتا ہوں۔
بیرون ملک ختم نبوت کانفرنسوں اور ورلڈ اسلامک فورم کی سرگرمیوں کے علاوہ دیگر تعلیمی، دعوتی اور مطالعاتی مقاصد کے لیے کئی ممالک میں جانا ہوا جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر، بھارت، بنگلہ دیش، ایران، افغانستان، ازبکستان، ترکی، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور کینیا شامل ہیں۔ مدرسہ نصرۃ العلوم کی سالانہ تعطیلات کے دوران شعبان المعظم اور اس کے ساتھ رمضان المبارک کا کچھ حصہ برطانیہ اور امریکہ میں تعلیمی سرگرمیوں میں مصروفیت رہتی ہے اور متعدد دینی اداروں سے مشاورت اور معاونت کا تعلق ہے۔
سوال:  آپ نے کون سی جماعتوں اور تحریکوں میں سرگرم کردار ادا کیا؟
جواب:  سیاسی وتحریکی ذوق طالب علمی کے دور سے ہے۔ جمعیۃ طلباے اسلام پاکستان کو منظم کرنے میں حصہ لیا اور جمعیۃ علماے اسلام میں بتدریج شہر، ضلع، صوبہ اور مرکز کی سطح پر سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے فرائض سرانجام دینے کاموقع ملا۔ مرکزی سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے میرا انتخاب حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی تجویز پر ہوا اور پھر ان کی وفات تک ان کی معاون ٹیم کے ایک متحرک رکن کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ ۱۹۷۴ اور ۱۹۸۴ کی تحریک ختم نبوت میں عملی حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ۷۴ کی تحریک ختم نبوت میں مرکزی مجلس عمل کے سیکرٹری اطلاعات کے طور پر کام کیا۔ ۱۹۷۷ میں پاکستان قومی اتحاد قائم ہوا تو اس کی دستور ساز اور منشور ساز کمیٹیوں اور پارلیمانی بورڈ میں جمعیۃ کی نمائندگی کی۔ پنجاب کا قومی اتحاد کا نائب صدر اور پھر سیکرٹری جنرل رہا۔ ۱۹۸۸ میں اسلامی جمہوری اتحاد قائم ہوا تو اس میں بھی دستور ساز اور منشور ساز کمیٹیوں میں جمعیۃ علماء اسلام (درخواستی گروپ) کی نمائندگی کی اور صوبائی نائب صدر رہا۔
ملکی سیاسیات کے حوالہ سے اب بھی جمعیۃ علماے اسلام پاکستان سے وابستہ ہوں اور اس کا باقاعدہ رکن ہوں مگر متحرک کردار سے کنارہ کش ہوں، البتہ عملی سیاست سے ہٹ کر فکری اور نظریاتی کام کے حوالے سے حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی کے ساتھ مل کر ’’پاکستان شریعت کونسل‘‘ کے نام سے ایک فکری فورم قائم کر رکھا ہے۔
گزشتہ عشرہ کے اوائل میں لندن میں مولانا محمد عیسیٰ منصوری کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر ایک فکری اور علمی فورم ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ کے نام سے قائم کیا جو کہ علمی اور فکری میدان میں عصر حاضر کے تقاضوں کا احساس اجاگر کرنے میں مصروف ہے اور اس کی سرگرمیوں کا دائرہ برطانیہ، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔ اس وقت مولانا منصوری اس کے چیئرمین جبکہ میں سیکرٹری جنرل کے طور پر کام کر رہا ہوں۔ 
سوال:  پاکستان شریعت کونسل بنانے کی وجہ، اس کے اغراض ومقاصد اور اس کی کارکردگی پر روشنی ڈالیں۔
جواب:  جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے، پاکستان شریعت کونسل کے قیام کا مقصد عملی سیاست سے ہٹ کر خالصتاً فکری اور نظریاتی کام کے حوالے سے جدوجہد کرنا ہے۔ پاکستان شریعت کونسل کے ذریعے اسلامائزیشن اور دیگر ملی ودینی مسائل کے بارے میں دینی حلقوں کو متوجہ کرنے اور رابطہ کا ماحول قائم رکھنے کے لیے ہم سرگرم عمل رہتے ہیں۔ پاکستان شریعت کونسل میں ہمارے ساتھ مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، مولانا عبد الرشید انصاری، مولانا سیف الرحمن ارائیں، مولانا عبد العزیز محمدی، مولانا میاں عصمت شاہ کاکاخیل، مولانا سخی داد خوستی، مولانا قاری محمد الیاس، مولانا محمد نواز بلوچ، مولانا صلاح الدین فاروقی، جناب احمد یعقوب چوہدری، حاجی جاوید ابراہیم پراچہ اور دیگر بہت سے احباب شریک ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھتے ہوئے بھی ہم علمی ونظریاتی کاموں کے لیے باہمی مشاورت سے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں اور ہمارا دائرۂ کار یہ ہے کہ کوئی مسئلہ سامنے آئے تو اس کے بارے میں متعلقہ لوگوں کو توجہ دلائی جائے، مسئلہ کی نوعیت کو بریفنگ رپورٹ کی صورت میں واضح کیا جائے اور اس کے حل کے لیے مشترکہ محنت کی راہ ہموار کی جائے۔ اس سے زیادہ کوئی کام ہم اپنے ذمہ نہیں لیتے اور کوشش کرتے ہیں کہ کوئی بھی مسئلہ ہو، اس کے متعلقہ لوگوں کو متحرک کر کے اس کے لیے جدوجہد کی راہ نکالی جائے اور ان سے حتی الوسع تعاون کیا جائے۔
سوال:  کیا کبھی قید وبند کی نوبت بھی پیش آئی؟
جواب:  تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفی ﷺ، گوجرانوالہ میں مسجد نور کو محکمہ اوقاف سے واگزار کرانے کی تحریک اور دیگر متعدد تحریکات میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ بھٹو دور میں کئی بار جیل یاترا کی۔ مسجد نور کی تحریک میں کم وبیش چار ماہ اور تحریک نظام مصطفی ﷺ میں ایک ماہ جیل کاٹی۔ اس کے علاوہ بھی متعدد بار تھوڑی تھوڑی مدت کے لیے جیل جانے کا موقع ملا۔
سوال:  دینی مدارس کے نظام تعلیم کی اصلاح کے بارے میں آپ کا کیا نقطہ نظر ہے؟
جواب:  دینی مدارس کے نظام تعلیم کے بارے میں ایک عرصہ سے اس رائے کا اظہار کر رہا ہوں کہ دینی مدارس کی آزادی اور خود مختاری کا بہرحال تحفظ ہونا چاہیے اور انھیں کسی قسم کی سرکاری سرپرستی اور امداد قبول نہیں کرنی چاہیے۔ نیز دینی مدارس کو اپنے بنیادی اہداف میں بھی کوئی تبدیلی قبول نہیں کرنی چاہیے اور انھیں معاشرے میں دینی تعلیم کے فروغ، اسلامی روایات واقدار کے تحفظ اور دینی خدمت کے لیے رجال کار کی فراہمی کے کام پر ہی بنیادی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ البتہ اپنے اہداف ومقاصد کے حوالے سے انھیں آج کی ضروریات اور تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے ان کی روشنی میں تعلیمی نصاب ونظام میں مناسب ترامیم اور تبدیلیوں سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
سوال:  آپ دینی مدارس کے نصاب میں عصری نصاب کی شمولیت کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ نیز حکومت مدارس کے نصاب میں تبدیلی چاہتی ہے، جبکہ مدارس اس کی مزاحمت کر رہے ہیں۔ عام آدمی یہ جاننا چاہتا ہے کہ مدارس یہ مزاحمت کیوں کر رہے ہیں، جبکہ وہ ان مضامین کو داخل نصاب کرتے چلے جا رہے ہیں جو حکومت چاہتی ہے۔
جواب:  دینی نصاب تعلیم میں انگلش زبان، کمپیوٹر ٹریننگ، بین الاقوامی قانون، تقابل ادیان ، مغربی فلسفہ وتہذیب، تاریخ اسلام اور ان جیسے دیگر ضروری مضامین کا اضافہ ایک ناگزیر ضرورت ہے جس سے صرف نظر کے نقصانات مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ اسی طرح اساتذہ کی فنی اور فکری تربیت کے نظام ونصاب کی بھی ضرورت ہے جس کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔
سوال:  پاکستان کے عصری نظام تعلیم اور عصری اداروں پر آپ کا کیا تبصرہ ہے؟
جواب:  عصری نظام تعلیم کا تو سرے سے کوئی رخ ہی متعین نہیں ہے اور نہ ہی اہداف طے ہیں۔ وقت کی حکومت اسے اپنے رجحانات کے مطابق جس طرف کھینچنا چاہتی ہے، کھینچتی رہتی ہے۔ اسی کشمکش میں اس کا حلیہ بگڑ کر رہ گیا ہے اور اب تو اسے آغا خان فاؤنڈیشن کے ذریعے سے عالمی سیکولر ایجوکیشنل سسٹم کا تابع فرمان بنانے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں جس پر عمل درآمد کی صورت میں ہمارے قومی تعلیمی نظام ونصاب میں باقی ماندہ اور رہی سہی علامات وروایات بھی ختم ہو کر رہ جائیں گی۔ بدقسمتی سے ہماری دینی جماعتوں کے نزدیک اس مسئلہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس لیے ان کی تگ ودو اور سرگرمیوں میں عصری تعلیمی نظام پر نظر اور خرابیوں کی نشان دہی واصلاح کا کوئی پروگرام نہیں ہوتا۔
سوال:  پاکستان کی سیاسی صورت حال کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب:  ملک میں قومی سیاست کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ گروہی، طبقاتی اور علاقائی سیاست کی گرم بازاری ہے۔ مختلف طبقات اور گروہ اپنے اپنے مفادات کی سیاست کر رہے ہیں اور اجتماعی وقومی سیاست کا کوئی ماحول آج تک قائم نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے قومی معاملات پر سیاست دانوں کی گرفت نہیں ہے اور وہ دیگر طاقت ور قوتوں کے آلہ کار سے زیادہ کوئی کردار اپنے لیے حاصل نہیں کر سکے۔ سیاست دانوں کی اپنی نااہلی کے ہاتھوں ہم قومی خود مختاری سے محروم ہو چکے ہیں اور ہمارے معاملات کا کنٹرول ہمارے پاس نہیں رہا۔ دینی سیاست کی علم بردار جماعتیں بھی اصولی اور نظریاتی سیاست کے بجائے معروضی سیاست پر آگئی ہیں اور اس کان نمک میں وہ بھی نمک ہی ہوتی جا رہی ہیں۔ اس وقت ہماری سب سے بڑی ضرورت قومی خود مختاری کی بحالی اور سیاسی اداروں کا استحکام ہے، مگر کوئی اس کے لیے آواز اٹھانے اور قربانی دینے کو تیار نہیں ہے۔ ہمارے سیاسی ادارے بلکہ ریاست کے دیگر بنیادی ستون بھی اندھی طاقت کی بھٹی میں پگھل کر رہ گئے ہیں اور قومی خود مختاری، سیاسی مفادات کے دھندلکوں میں غائب ہو گئی ہے۔
سوال:  نائن الیون کے حادثے کے بعد پاکستان نے جو اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر یو ٹرن لیا ہے اور پرویز مشرف نے جو دینی ومذہبی جماعتوں اور اداروں کے متعلق سخت رویہ اپنایا ہے، اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب:  نائن الیون کے حادثہ کے بعد جنرل پرویز مشرف نے خارجہ پالیسی میں جو یو ٹرن لیا ہے اور داخلی طور پر دینی قوتوں کو دبانے اور کرش کرنے کی جو پالیسی اختیار کی ہے، وہ ایک طویل پروگرام کا حصہ ہے۔ اس میں کمی یا نرمی کا سردست کوئی امکان نظر نہیں آ رہا، بلکہ اس ایجنڈے کے مختلف نئے تقاضے سر اٹھاتے جا رہے ہیں۔ دینی حلقوں کو اس امتحان سے بہرحال گزرنا ہوگا اور صبر وحوصلہ کے ساتھ آنے والے حالات کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس وقت ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ہمارے اسلاف اور اکابر نے دین اور ملت کے حوالے سے جو ورثہ ہم تک پہنچایا ہے، ہم اسے کسی نقصان کے بغیر اگلی نسلوں تک منتقل کر دیں اور اسے اس کی اہمیت اور نزاکتوں کا صحیح طور پر احساس دلا دیں۔ اگر ہم ایسا کر پائے تو یہ اس مشن میں ہماری کامیابی اور سرخ روئی متصور ہوگی۔ اس سے زیادہ ہمیں کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
سوال:  اس وقت دنیا بھر میں دہشت گردی کی وجہ اور محرکات کیا ہیں؟
جواب:  اس وقت جس عمل کو دنیا میں دہشت گردی کہا جا رہا ہے، وہ خود امریکا کا پیدا کردہ ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں روس کے خلاف جنگ کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اسلحہ کی ٹریننگ دی اور روسی جارحیت کے خلاف افغان عوام کی مزاحمتی جنگ کو جہاد تسلیم کرتے ہوئے اس کی سیاسی وعسکری سرپرستی کی۔ اب وہی لوگ مختلف علاقوں میں امریکی بالادستی کے خلاف برسر پیکار ہیں تو انھیں دہشت گرد کہا جا رہا ہے۔ ایک امریکی دانش ور نے مجھ سے کہا کہ پاکستان کے دینی مدارس میں جہاد کی تعلیم دی جاتی ہے۔ میں نے گزارش کی کہ بالکل درست بات ہے کہ ہمارے ہاں جہاد کی تعلیم دی جاتی ہے۔ تعلیم ہم نے دی ہے مگر عملی ٹریننگ تم نے دی ہے اور اسے عملی عسکریت کا رخ تم نے دکھایا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں جہاں بھی جہاد کی کارروائیاں ہو رہی ہیں، جنھیں دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے، تو اس کی عملی ٹریننگ کا نسب نامہ امریکہ سے جا ملتا ہے۔ اسلحہ اور اس کی ٹریننگ کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے مگر امریکہ اس بات کو قبول کرنے کی اخلاقی جرات سے محروم ہے اور اس کی ذمہ داری دینی مدارس کے کھاتے میں ڈال کر دنیا کے سامنے سرخ رو ہونا چاہتا ہے۔
سوال:  اس وقت امریکہ کی سربراہی میں لڑی جانے والی جنگ دو تہذیبوں کے باہمی تصادم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ مستقبل قریب میں اس کی کیا صورت حال ہوگی اور عالمی امن پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
جواب:  اس وقت دنیا میں جو تہذیبی جنگ مسلسل آگے بڑھ رہی ہے، اس کا آغاز اسی وقت ہو گیا تھا جب مغربی ممالک نے اقوام متحدہ کے نام سے انسانی حقوق کا چارٹر یک طرفہ طور پر منظور کر کے اسے ساری دنیا کے لیے لازمی قرار دے دیا تھا۔ یہ چارٹر اسلام کی بنیادی تعلیمات سے متصادم ہے اور قرآن وسنت کے بیسیوں احکامات کی نفی کرتا ہے، لیکن اسے آج کی دنیا میں انسانی حقوق کا واحد معیار قرار دے کر اسلامی دنیا پر اسے قبول کرنے کے لیے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ اس کی بنیاد پر اسلامی تعلیمات کے خلاف لابنگ اور پراپیگنڈا کی ہمہ گیر مہم جاری ہے اور اسی کے حوالے سے قرآن وسنت کے احکام اور مسلمانوں کی دینی روایات کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ یہ یک طرفہ تہذیبی جنگ اور ون وے ثقافتی یلغار ہے جس میں سب کچھ ایک ہی طرف سے ہو رہا ہے۔ دوسری طرف مکمل سناٹا ہے، خاموشی ہے اور خود سپردگی کا مکروہ منظر ہے۔ صرف دینی حلقے اور غریب مسلمان اس حد تک میدان میں کھڑے ہیں کہ وہ اس یلغار کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور مغرب کی تہذیبی بالادستی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے کیمپ کی طرف سے اور کیا ہو رہا ہے؟ یہ انھی دینی حلقوں اور غریب مسلمانوں کی مزاحمتی مدافعت کی برکت ہے کہ مقابلے کی کچھ فضا بنی ہوئی ہے، ورنہ جہاں تک مسلمان ملکوں کے حکمران گروہوں، بالادست طبقات اور دانش وروں کا تعلق ہے، اگر ان کے بس میں ہوتا وہ دینی روایات، اسلامی اقدار اور ملی ورثہ کا لباس اتار کر کب کے اس حمام میں ننگے ہو چکے ہوتے۔
سوال:  مسلمانوں کے موجودہ زوال کے اسباب کیا ہیں؟
جواب:  مسلمانوں کے زوال کے اسباب میں سے میرے نزدیک سب سے نمایاں باتیں تین ہیں:
۱) خلافت راشدہ کے بعد ہم کوئی مستحکم سیاسی نظام قائم نہیں کر سکے۔ خلافتوں کا وجود غنیمت تھا، لیکن ان کی بنیاد طاقت اور خاندانوں پر رہی ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے خلافت کے قیام کو عام مسلمانوں کی صواب دید پر چھوڑ دیا اور رائے عامہ پر اعتماد کیا تھا، مگر ہم اس روایت کو قائم نہ رکھ سکے جبکہ یورپ نے اسے اپنا لیا۔
۲) خلافت راشدہ میں فلاحی اور رفاہی ریاست کا جو تصور اجاگر ہو رہا تھا، ہم اس کا تسلسل قائم نہ رکھ سکے اور یہ روایت بھی ہم سے یورپ نے چھین لی۔
۳) سائنس اور ٹیکنالوجی میں یورپ کو پیش قدمی کا راستہ دکھا کر خود ہم اس راہ سے ہٹ گئے اور میدان یورپ کے حوالے کر دیا جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے اور اس میدان میں مغرب سے پیچھے رہ جانے کی سزا خدا جانے ہم کب تک بھگتتے رہیں گے۔ اس شعبہ میں ہماری بے بسی کا یہ عالم ہے کہ عسکری قوت تو رہی ایک طرف، ہم اپنی روز مرہ ضرورت کی اشیا خود تیار کرنے سے قاصر ہیں اور خود اپنے وسائل سے براہ راست استفادہ کی صلاحیت سے بھی بہروہ ور نہیں ہیں۔
سوال:  پاکستان کے پاسپورٹ سے مذہب کا خانہ ختم کرنے پر آپ کے کیا ریمارکس ہیں؟
جواب:  یہ پاکستان کے نظریاتی تشخص کو ختم کرنے اور قادیانیوں کے خلاف دستوری فیصلہ کو غیر موثر بنانے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے اور ملک کے دینی حلقوں کو اس پر حکومت سے موثر احتجاج کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی لابیاں اور غیر ملکی این جی اوز ایک عرصہ سے اس کوشش میں ہیں کہ پاکستان کے دستور میں شامل اسلامی دفعات اور خاص طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے جمہوری فیصلے کو غیر موثر بنا دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے کے اضافے کا مطالبہ منظور نہیں کیا جا رہا اور اب پاسپورٹ سے بھی مذہب کا خانہ حذف کر دیا گیا ہے جو کہ ملک کے نظریاتی تشخص اور دستور کی اسلامی دفعات سے انحراف ہے۔
سوال:  آج کے ماحول میں ہمیں کون کون سے چیلنج درپیش ہیں اور علماے کرام کو اس سلسلہ میں کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟
جواب:  آج امت مسلمہ کو آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، چاروں طرف سے دشمنان اسلام کی یلغار کا سامنا ہے۔ اس سلسلے میں بہت کچھ کہنے کی ضرورت اور گنجایش ہے۔ علماے کرام اور دینی کارکنوں سے میری یہی گزارش ہے کہ دینی جدوجہد سے لاتعلق نہ رہیں، کیونکہ اس دور میں، اس ماحول میں دین کی جدوجہد سے کلیتاً لاتعلق رہنے میں مجھے ایمان کا خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ جس شعبہ میں آپ آسانی سے کام کر سکتے ہیں، وہاں کریں، لیکن دینی جدوجہد میں خاموش تماشائی نہ بنیں۔ جو شخص دین کے جس شعبے میں اور دینی جدوجہد کے جس محاذ پر کام کر رہا ہے، اسے کام کرنے دیں۔ اس کی مخالفت نہ کریں، حوصلہ شکنی نہ کریں، آپس میں رابطہ اور مشاورت کا ماحول بنائیں، ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں۔ اسی سے قوت پیدا ہوگی اور باہمی اعتماد بڑھے گا۔
سوال:  میڈیا کی طرف ہمارے دینی طبقہ کا رجحان کم ہے اور لادین طبقہ پوری طرح میڈیا پر چھایا ہوا ہے۔ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب:  میڈیا اور ذرائع ابلاغ نے پوری طرح دنیا کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ایک طرف اسلامی عقائد واحکام اور قوانین کے متعلق پروپیگنڈا ہوتا ہے۔ دوسری طرف دینی قوتوں اور اسلامی تحریکات کی کردار کشی کی مہم جاری ہے اور انھیں دہشت گرد اور بنیاد پرست قرار دے کر ان کے خلاف پوری دنیا میں نفرت کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔ تیسری طرف بے حیائی، ناچ گانا، عریانی اور سفلی خواہشات کو ابھار کر نئی نسل کو اخلاقی طور پر تباہ کیا جا رہا ہے۔ اس یلغار کا سامنا بھی اہل حق ہی نے کرنا ہے اور یہ بھی علماے کرام اور دینی مراکز کی ذمہ داری میں شامل ہے۔
دینی صحافت سے تعلق رکھنے والے حضرات کے حوالے سے میری ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ ان کے درمیان مشاورت اور تبادلہ خیال کا کوئی ایسا نظم ضرور قائم ہونا چاہیے جس کے تحت دینی جرائد کے مدیران گرامی اور قلم کار حضرات وقتاً فوقتاً مل بیٹھیں، مسائل پر باہمی تبادلہ خیالات کریں، ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں، باہمی تقسیم کار کے مختلف شعبوں میں کام کی صف بندی کریں اور ایک دوسرے کو مختلف حوالوں سے سپورٹ کریں۔
سوال:  ’’آب حیات‘‘ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:  ماہنامہ ’’آب حیات‘‘ وقتاً فوقتاً میری نظروں سے گزرتا رہتا ہے اور میں مولانا محمود الرشید حدوٹی کی صلاحیتوں اور جوش عمل کا معترف ہوں۔ وہ جس حوصلہ اور جذبات کے ساتھ دینی حلقوں کے جذبات کی ترجمانی کر رہے ہیں، وہ قابل داد ہے اور اس سے نوجوان علماے کرام کو حوصلہ ملتا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت مولانا محمود الرشید حدوٹی اور ان کے رفقاے کرام کے حوصلہ اور عزائم میں برکت دیں اور ذوق، سلیقہ، توفیق، قبولیت اور نتائج وثمرات سے بہرہ ور فرماتے رہیں۔ آمین یا رب العالمین۔
سوال:  ’’آب حیات‘‘ پڑھنے والوں کے نام کوئی پیغام؟
جواب:  ماہنامہ ’’آب حیات‘‘ ایک مقدس اور اصلاحی تحریک ہے۔ قارئین اس کوپھیلانے کی حتی الوسع کوشش کریں۔ خود بھی پڑھیں اور اپنے متعلقین کو بھی اس کے مطالعہ کی ترغیب دیں۔
سوال:  ہم اپنی طرف سے، مدیر اعلیٰ مولانا محمود الرشید حدوٹی صاحب اور ادارہ ’’آب حیات‘‘ کی جانب سے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی قیمتی مصروفیات میں سے ہم کو وقت دیا۔

علامہ اقبالؒ کی شخصیت اور ان کا فکر و فلسفہ ۔ مولانا سندھیؒ کے ناقدانہ خیالات کی روشنی میں

پروفیسر محمد سرور

مولانا سندھی نے کہا: قرآن مجید یہود اور نصاریٰ کی بے راہ رویوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: اتخذوا احبارہم ورہبانہم اربابا من دون اللہ والمسیح ابن مریم وما امروا الا لیعبدوا الہا واحدا لا الہ الا ہو سبحانہ عما یشرکون (ٹھہرا لیا اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا، اللہ کو چھوڑ کر اور مسیح مریم کے بیٹے کو بھی، اور ان کو حکم یہی ہوا تھا کہ بندگی کریں ایک معبود کی۔ کسی کی بندگی نہیں اس کے سوا۔ وہ پاک ہے ان کے شریک بتلانے سے) (سورۃ التوبہ آیت ۳۱)
مولانا فرمانے لگے کہ مسلمانوں میں پہلے شاہ پرستی آئی اور اس شاہ پرستی نے احبار (علما) ورہبان (درویش) پرستی کو جنم دیا۔ تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی (۱۲۵۸) کے بعد امام ابن تیمیہؒ (۱۲۶۳۔۱۳۲۸) نے اس احبار ورہبان پرستی کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کی اس دعوت کا سلسلہ برابر جاری رہا او ریہ آواز دور دور تک پہنچی۔ اس دعوت کی ایک کڑی شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدیؒ (۱۷۰۳۔۱۷۸۷) تھے۔ یہاں ہندوستان میں اکبر بادشاہ نے علما اور مشائخ کا زور توڑنے کی کوشش کی۔ دین الٰہی سے دراصل اس کا یہی مقصد تھا اور وہ اس طرح اس طبقے کی دینی وسیاسی اجارہ داری کو ختم کرنا چاہتا تھا جس میں وہ ناکام ہوا۔ مولانا نے کہا: میں اقبال کی بڑی عزت کرتا ہوں کہ اس نے شاعری کے ذریعہ، جس کی تاثیر نثر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے، مسلمانوں کو خودی کی تعلیم دے کر اس احبار ورہبان پرستی کے خلاف ابھارا۔ جمود، سکون پسندی، تقدیر پر صابر وشاکر ہونے اور اشخاص پرستی کو مذموم قرار دیا اور ان کے اندر جوش عمل اور جرات کردار پیدا کرنے کی جدوجہد کی۔ میں مانتا ہوں کہ اقبال کی شاعری نے بڑا کام کیا اور نوجوانوں کی ذہنی بیداری میں اس کا بڑا حصہ ہے، لیکن ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ احبار اور رہبان اب بھی ہمارے ہاں پج رہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ میرے نزدیک اس کا علاج صرف یورپین ازم اور نیابتی حکومت ہے۔ جس دن عوام نے سمجھ لیا کہ اقتدار کے مالک وہ ہیں اور حکومت ان کے ووٹوں سے بنے گی اور ٹوٹے گی، اس دن سے مسلمانوں کے ’’احبار‘‘ اور ’’رہبان‘‘ کی قبر کھدنی شروع ہو جائے گی۔
مولانا کہتے تھے کہ میں اقبال کی شاعرانہ عظمت اور ان کے اس عظیم دعوت وابلاغ کے کارنامے کا دل سے معترف ہوں، لیکن میرے نزدیک سیاسی قیادت اور دینی امامت ایک شاعر کے، خواہ وہ کتنا بھی بڑا شاعر کیوں نہ ہو، سپرد کر دینا قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں دھکیلنا ہے۔ اقبال کو میں بڑا شاعر مانتا ہوں، لیکن انھیں قوم کا قائد وامام تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اقبال کو قائد وامام ماننے سے ہی جملہ خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔ 
اقبال نے اپنے اشعار میں عجم اور قومیت کی جو مسلسل مخالفت کی ہے، مولانا کو ا س پر اعتراض تھا۔ مولانا کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا اسلامی تاریخ کے حقائق کا انکار کرنا ہے۔ ان کے نزدیک تاریخ اسلام کے اموی دور میں مسلمانوں کے جماعتی تصورات وخیالات اور ان کی ثقافت میں شامل عیسائی اور یہودی عناصر موثر تھے۔ عباسی عہد میں ایرانی تہذیب وادب اور یونانی فلسفہ ومنطق برسرکار آئے۔ اسی سے تصوف اور علم کلام واسلامی فلسفہ پروان چڑھے اور ان کے ذریعہ عجمیوں نے اسلام کی ہر لحاظ سے خدمت کی اور ہندوستان میں ہندی فکر نے اسلام کے تصورات وثقافت کو جلا دی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تاریخ اسلام کے عربوں کے دور کو مقدس سمجھ لیا گیا اور ایرانیوں، ترکوں اور ہندوستانیوں کے عہدوں کو زوال کا زمانہ مان لیا گیا، حالانکہ اسلام کے عالمگیر انقلاب کے اعتبار سے یہ سب دور ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اس انقلاب کا اپنے مختلف مراحل میں قومی رنگ اختیار کرنا بالکل فطری تھا۔ مولانا کہتے تھے کہ بد قسمتی سے اقبال اسلامی تاریخ کے ارتقا کے ان قدرتی مظاہر کو نہ سمجھا اور وہ ساری عمر عجم وعجمیت کی مذمت اور عرب وعربیت کی تعریف کرتا رہا۔
مولانا نے اقبال کی قومیت ووطنیت دشمنی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: میں مسلمانوں کی الگ الگ قومیتوں کے انکار کے خلاف ہوں، بلکہ میرے نزدیک تو خود اس برعظیم میں بڑی بڑی زبانیں بولنے والی آبادیاں، قومیں ہیں۔ ایک خاص خطے اور ایک خاص ماحول میں رہنے والے زندگی کا ایک خاص رنگ جو سب میں مشترک ہوتا ہے، اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کی ایک زبان ہوتی ہے۔ اسلام کی ترقی اور نشر واشاعت کے لیے ان قومیتوں کا اعتراف ضروری ہے اور اس سلسلے میں اسلام کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ اس کی عالمگیر تعلیم کو ان قوموں کی زبان میں پھیلایا جائے۔
ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے اور اس غلطی کو اپنی نہایت دل آویز، انتہائی موثر اور بڑی زور دار شاعری کے ذریعہ نوجوان مسلمانوں کے دلوں اور دماغوں میں بہت گہرا اتارنے میں اقبال کا سب سے بڑا حصہ ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کے الگ الگ قوم ہونے کا انکار کیا اور اپنے آپ کو بس ایک عالمگیر اسلامی برادری کا ایک حصہ سمجھتے رہے۔ اب امر واقعہ یہ ہے کہ مصری، عراقی، ایرانی، ترکی یہاں تک کہ حجازی بھی ۹۰ فی صد قومی ہیں اور ۱۰ فی صد مسلمان اور ان کے مقابلے میں ہم ۱۰۰ فی صد مسلمان ہیں اور ہمیں کسی قوم میں سے ہونے میں عار آتی ہے۔ مولانا کہتے تھے کہ اس فرضی سیاسی اسلامیت کی بدولت، جس کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں تھی، ہم مرزا غلام احمد جیسے نبی مصلح اور اقبال جیسے پیغمبر شاعر پیدا کر سکے لیکن ہم رہے ہوا ہی ہوا میں معلق۔ کسی دوسرے مسلمان ملک میں آپ کو اس زمانے میں اس طرح کے مہدی، مسیح موعود اور نبی بننے والے مذہبی پیشوا اور قومی امنگوں اور وطنی وملکی مطالبوں وآرزوؤں کو قابل توجہ نہ سمجھنے والے ’’پیغمبر‘‘ شاعر نہیں ملیں گے۔ وہاں قومی شخصیتیں پیدا ہوئیں جنھوں نے اپنے پس ماندہ محکوم اور خستہ ونزار عوام کو قومیت کے فطری جذبے کے تحت بیدار کرنے کی کوششیں کیں۔ اقبال نے جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا کو تو بے حد سراہا ہے لیکن شیخ محمد عبدہ اور مصطفی کمال کو نظر انداز کیا ہے، حالانکہ جہاں تک شیخ محمد عبدہ کا تعلق ہے، مصر اور ایک حد تک سارے عربی ممالک کا دینی فکر ان سے متاثر ہے۔ اور مصطفی کمال نے تو ترکی کی ساری کایا ہی پلٹ دی ہے۔ ان کے مقابلے میں نہ سید جمال الدین اور نہ حلیم پاشا کا مصر اور ترکی پر کوئی دیرپا اثر مترتب ہوا۔
مولانا سندھی کا کہنا یہ تھا کہ اجنبی غلامی کی سب سے بڑی لعنت یہ ہوتی ہے کہ محکوم اپنے قومی وجود اور اس کی شخصیت کو بھول جاتے ہیں، اس لیے آزادی کی جدوجہد میں سب سے پہلی منزل یہ ہوتی ہے کہ عوام میں اپنے قومی وجود اور اس کی شخصیت کا شعور پیدا کیا جائے۔ ترکوں، ایرانیوں اور عربوں نے اپنی جدوجہد آزادی میں سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا تھا۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں اقبال نے ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے ملت اسلامیہ کی ایک سیاسی شخصیت رکھی جس کا دنیا میں کہیں وجود نہ تھا۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ اگر اقبال کو ہندو مسلم متحدہ قومیت سے انکار تھا تو وہ اس برعظیم کی مسلمان آبادی کے گزشتہ آٹھ سو سال کے ہندی اسلامی فکر پر نظر ڈالتا اور اس کا احصا اور تجزیہ کر کے اس کی اساس پر اس سرزمین میں ہندوستانی مسلم قومیت کی عمارت اٹھاتا لیکن وہ دوسرے مسلمان ملکوں کے شاندار ماضی ہی کے راگ الاپتا رہا اور اسلامی ہند کی تاریخی عظمتوں میں خال خال اسے کوئی پرکشش موضوع سخن ملا۔
علامہ اقبال نے اسلامی کلچر اور اسلامی ثقافت کا جو فرضی ہیولیٰ کھڑا کر رکھا تھا، مولانا سندھی اس کے بھی سخت مخالف تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس قسم کی فرضی بحثوں سے ہندوستانی عوام، مسلمانوں اور ہندووں، ہر دو کی توجہ اصل مسائل سے، جو اجنبی غلامی سے آزادی حاصل کرنے اور معاشی حالت کو بہتر بنانے سے متعلق تھے، ہٹ جاتی تھی اور اس سے بالواسطہ انگریزی حکمرانوں کو فائدہ پہنچتا تھا۔ مولانا کا کہنا تھا کہ کلچر قومی ہوتے ہیں، جیسے زبانیں اور ادب قومی ہوتے ہیں۔ اگر ایک قوم مسلمان ہے تو ظاہر ہے اس کا قومی کلچر اسلامی عقائد وروایات وتاریخ سے متاثر ہوگا۔ اب عوام کی سیاسی آزادی اور ان کی معاشی مرفہ الحالی کو پیچھے ڈال کر ایک فرضی اسلامی کلچر کو، جس کے تصورات تک واضح ومتیقن نہ تھے، سر پر چڑھا لینا ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ مولانا نے فرمایا، تم دیکھنا، اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔ اس سے ذہنی انتشار پیدا ہوگا۔مولانا یہ باتیں کرتے کرتے غصے میں آ گئے اور کہنے لگے: آج جو لوگ بڑھ چڑھ کر اسلامی کلچر کی باتیں کرتے ہیں، ان کی اپنی پوری زندگی، ان کا رہن سہن، ان کی سوچ بچار اور ان کے مجلسی آداب واطوار سب انگریزیت میں رنگے ہوئے ہیں۔
علامہ اقبال کی خود اپنی ذات اور شخصیت کے تضادات اور پھر ان کے فکر وعمل کے تضادات، راقم الحروف ان کی کنہ وحقیقت سمجھنا چاہتا تھا۔ علامہ اقبال کی عظیم شخصیت اور ان کے افکار عالی سے جہاں اور ہزاروں لاکھوں نئے تعلیم یافتہ متاثر ہوئے اور ان کے دلوں اور دماغوں پر علامہ اقبال کی شخصیت کی گہری چھاپ لگی، وہاں ایک میں بھی تھا، اس لیے مجھے ان کے ان تضادات سے بڑی ذہنی الجھن رہتی تھی۔ میں نے مولانا کے سامنے علامہ اقبال کے اس طرح کے کئی ایک تضادات پیش کیے اور پوچھا کہ ایسا کیوں ہے۔ ان کی ایک شخصیت کے اندر یہ دو الگ الگ شخصیتیں کیسے ہیں اور ان میں باہم کش مکش کیوں رہتی ہے؟ مولانا نے فرمایا: اقبال کو تھوڑا بہت جو میں سمجھ سکا ہوں، اس کے مطابق ان کے بارے میں میری رائے یہ ہے:
اقبال جس گھرانے میں پیدا ہوئے اور جس ماحول میں ان کی ابتدائی نشوونما ہوئی، اس میں اسلام سے جذباتی عقیدت بڑی رچی بسی ہوئی تھی۔ پھر خود قدرت نے انھیں یہ نعمت بدرجہ وافر دی تھی، چنانچہ اسلام سے جذباتی عقیدت اور رسول اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات گرامی سے والہانہ عشق ومحبت کے نقوش بچپن میں ان کے دل ودماغ پر ایسے ثبت ہوئے کہ وہ آخر عمر تک اپنی اسی تازگی کے ساتھ قائم رہے۔ ان کے ان جذبات عقیدت ومحبت میں پورا خلوص تھا اور بے حد شدت بھی۔ چنانچہ جب کبھی ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آتا تو ان کے انھی جذبات کو تحریک ہوتی تو جیسا کہ تم نے بتایا ہے، ان پر رقت طاری ہو جاتی، اپنے اوپر انھیں قابو نہ رہتا اور وہ رونے لگتے۔ اسی طرح جب کبھی اسلام کے ان معتقدات کے خلاف، جن کے سچے اور حق ہونے کے نقش نو عمری میں ان کے دل ودماغ پر ثبت ہو چکے تھے، کسی سے کچھ سنتے تو ان کے دل کو دھکا لگتا اور وہ بے قرار ہو جاتے۔ مولانا سندھی نے کہا: اپنے اس احساس، تاثر اور شدید رد عمل میں وہ بڑے مخلص تھے۔ اور یہ حقیقی اظہار ہوتا تھا ان کی اس شخصیت کا جو خود ان کے اپنے طبعی رجحان، خاندانی ورثے ، ماحول اور نوعمری کی رسمی تعلیم سے تعمیر ہوئی تھی۔
مولانا نے کہا: بعد میں جب وہ کالج میں پہنچے، پھر یورپ گئے اور جرمنی اور انگلستان کی اعلیٰ درس گاہوں میں انھوں نے یورپی فلسفہ پڑھا تو ان کی اپنی جو ایک فلسفی اور حکیم کی شخصیت ہے، اس کی تشکیل ہوئی۔ فلسفہ تشکیک، تنقید، آزادانہ غور وفکر، عدم تقلید اور فکری بغاوت کے رجحانات کو ابھارتا ہے۔ اور یہ کیسے ممکن تھا کہ اقبال جیسا غیر معمولی ذہین عالم وفاضل شخص ان موثرات کے اثر قبول نہ کرتا۔ چنانچہ اس نے یہ اثرات قول کیے اور ان سے اس کی ایک فلسفی وحکیم کی شخصیت بنی۔ اقبال کی یہ دو شخصیتیں باہم ترکیب پا کر اور ایک دوسرے سے پوری ممتزج ہو کر اس طرح ایک نہیں بنیں کہ دونوں کے ائتلاف وترکیب سے اقبال کی ایک سالم، کامل اور ہر لحاظ سے مربوط ومکمل شخصیت وجود میں آتی۔ وہ ہر چیز کو، خواہ وہ ان کا اپنا مذہبی عقیدہ ہو یا کوئی اور مسئلہ، اسے ایک نظر سے دیکھتے۔ وہ نظر خواہ وہ ایک شاعر کی ہوتی جسے جذبات متحرک کرتے ہیں، یا ایک فلسفی وحکیم کی جس کا فکر تنقید وتشکیک سے آگے بڑھتا ہے، یا ایک راسخ العقیدہ مسلمان کی جو ہر مذہبی روایت کو حجت سمجھتا ہے۔
مولانا سندھی کہنے لگے: کبھی کبھی اقبال کی ان دو یا دو سے زیادہ الگ الگ شخصیتوں میں ارتباط وائتلاف بھی ہوتا ہے۔ اس وقت اقبال اپنے فکر کے اعلیٰ وارفع مقام پر کھڑا ہوتا ہے۔ بے شک اقبال کے کلام میں اس کی کمی نہیں لیکن کبھی کبھی اس کی یہ شخصیتیں باہم ٹکراتی ہیں اور انھی سے وہ تضادات پیدا ہوتے ہیں جن کا تم نے ذکر کیا ہے۔ ان کی شاعری میں یہ تضادات زیادہ ہیں اور وہی زیادہ مقبول بھی ہے۔ اب بحیثیت ایک فلسفی کے اس کی نظر وفکر عالمی ہے۔ مسلمان ہونے کے لحاظ سے وہ اپنے دور کے ہندوستان کا، جس میں چھوٹے چھوٹے ہندو مسلم تنازعات زوروں پر تھے، ایک فرقہ پرست مسلمان بن جاتا ہے اور پنجاب میں قادیانیت کے خلاف جو عام فضا تھی، اس سے متاثر ہوتا ہے تو وہ احمدیوں کو دائرہ اسلام سے باہر کر دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔
مولانا نے فرمایا: یہ ہے میرے نزدیک اقبال۔ ایک عظیم شخصیت، لیکن کامل وسالم نہیں بلکہ اپنے آپ میں بٹی ہوئی اور تضادات کا شکار۔ جوانی میں فکری ہوش سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے وطن کا ’’شخص‘‘ یعنی تصوراتی وجود اقبال کے دماغ پر حاوی ہوا۔ آگے چل کر اس کی جگہ مسلمانوں کی جماعت کے تصوراتی وجود نے لے لی اور آخر تک جماعت کا یہ کابوس اس کے دماغ پر برابر سوار رہا۔ کبھی کبھی خود اس کی اپنی ذات کے نفسی تقاضے جماعت کے بندھنوں کے خلاف بغاوت بھی کرتے رہے لیکن یہ بغاوت محض شعر وشاعری تک محدود رہتی۔ اس ضمن میں اقبال کو ایک مستقل عقلی وفکری مثبت رائے، جسے فلسفیانہ رائے کہہ سکتے ہیں، کبھی نصیب نہ ہوئی، چنانچہ اس نے جماعت کے جبر کے خلاف شاعری میں تو بغاوت ضرور کی ہے لیکن نثر میں، جہاں تشبیہات واستعارات میں اصل غرض چھپائی نہیں جا سکتی، اس بارے میں انھوں نے کچھ نہ لکھا۔ مولانا کے نزدیک یہ وجہ تھی اقبال کی زندگی کی بے عملی اور اس کی شخصیت کے تضادات کی۔
غرض مولانا سندھی کے الفاظ میں اقبال نے جماعت کو، جسے وہ ملت اسلامیہ کہتے تھے، ایک بت بنا لیا۔ ان کے طبعی تقاضے، گرد وپیش کے حالات اور خود ان کی اپنی فکری شخصیت کچھ اور مانگتی تھی۔ وہ ان طبعی، سیاسی اور معاشی مطالبوں کے سامنے ہتھیار بھی ڈال دیتے اور جو زمانے کا چلن ہوتا، اس کا ساتھ دیتے، لیکن جماعت کا ’’شخص‘‘ یعنی تصوراتی وجود اور اس سے جو خصائص وامتیازات انھوں نے متعلق کر رکھے تھے اور اس سے جو احکام وہدایات وہ لیتے تھے، یہ سب چیزیں ان کے نیم شعور میں اس طرح رچی ہوئی تھیں کہ جیسے ہی ان کو موقع ملتا، وہ ان کے شعور میں عود کر آتیں اور فلسفی اقبال ایک روایت پرست بلکہ توہم پرست لاہوری مسلمان ہو جاتا۔ اس حالت میں وہ اپنے آپ کو کوستا، اپنی گناہ گاری کا اعتراف کرتا اور جیسا کہ کہا جاتا ہے، روتا بھی۔ یہاں اس کی عقلیت جواب دے دیتی۔
مولانا نے کہا: سچ پوچھو تو اقبال ایک روایت پرست یہودی کی طرح مسلمانوں کی موہوم جماعت کو پوجتا ہے۔ وہ جماعت کی قیود سے نکلتا تو تھا لیکن اس کی یہ بغاوت منظم فکر کی بغاوت نہ تھی بلکہ یہ فکری آزادہ روی ہوتی جو شعر کا موزوں لباس پہن لیتی۔ اس کا دل اس جبر کی مخالفت کرنے کو چاہتا لیکن نوعمری کی عقیدتوں پر تشکیل شدہ شخصیت اس میں آڑے آتی۔ چنانچہ وہ ساری عمر انھی الجھنوں میں برابر پیچ وتاب کھاتا رہا:
تو شاخ سے کیوں پھوٹا، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اک جذبہ پیدائی، اک لذت یکتائی
میں مانتا ہوں کہ اقبال دل سے چاہتے تھے کہ قرآن کی حکومت بروے کار آئے اور اسلام پر بالکل ایک نئی دنیا کی تعمیر ہو، لیکن قرآن اور اسلام کی عملی تشریح جو آج کے زمانے میں قابل قبول اور قابل عمل ہو سکے، یہ ان کے بس میں نہ تھی کیونکہ وہ جماعت کے روایتی اثرات اور اس کے قوانین وضوابط سے ذہناً باہر نہیں نکل سکتے تھے اور قرآن واسلام کے نظام کو مجموعی انسانیت کا نظام بنا کر وہ پیش کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے فکراً خواہ وہ کچھ بھی ہوں، اقبال کا اسلام عملاً ایک فرقہ پرست ہندوستانی بلکہ پنجابی مسلمان کا اسلام تھا۔ کردار کے غازی تو تھے ہی نہیں، وہ گفتار کے غازی بھی نہ بن سکے۔
(افادات وملفوظات حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ )

اسلامی حکومت کا فلاحی تصور

پروفیسر میاں انعام الرحمن

(مولانا سعید الرحمن علوی مرحوم کی کتاب ’’اسلامی حکومت کا فلاحی تصور‘‘ کے بنیادی خیال کی روشنی میں لکھا گیا۔)

سرد جنگ میں سرمایہ دارانہ بلاک کی فتح کے بعد اشتراکیت کے توسط سے آنے والے فلاحی تصور کی بنیادیں کھوکھلی ہونی شروع ہو گئی ہیں۔ اب ایک طرف دنیا بھر میں قومی اداروں کی نج کاری سے بے روزگاری میں شدت سے اضافہ ہو رہا ہے، امریکہ میں سوشل سکیورٹی سسٹم بحران کی طرف بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف سیکولر ازم اور جمہوریت کی توسیع کے لیے اسی نوعیت کے تشدد اور عدم رواداری کو بروئے کار لایا جارہا ہے جس کے خاتمے کے لیے ہی مذہبیت کے بالمقابل سیکولر ازم اور بادشاہت کے مقابلے میں جمہوریت کے تصور ات پروان چڑھے تھے۔ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے! اب سیکولر عدم رواداری اور انتہاپسندی کو لگام دینے کے لیے مذہب طاقت پکڑ رہا ہے اور جمہوری آمریت کی منافقت کے مقابلے میں غیر جمہوری نظریات کو پذیرائی مل رہی ہے۔ شاید سیکولر ازم اور جمہوریت تاریخی اعتبار سے اپنے نقطہ عروج (Point of Saturation) کو پھلانگ چکے ہیں۔ یہی بات سرمایہ دارانہ نظام اور اس سے وابستہ مخصوص فلاحی تصور کی بابت سچ ہے۔ 
کیپٹل ازم، سیکولر ازم اور جمہوریت میں قدرِ مشترک ’’انفرادیت پسندی ‘‘ ہے جس کے مطابق خاندان سے لے کر ریاست تک کسی بھی اجتماعی ہیئت کو فرد کے معاملات میں، خواہ وہ معاشی ہوں یا مذہبی، اخلاقی ہوں یا سیاسی، دخل اندازی سے روکا جاتا ہے اور ان رکاوٹوں کو باقاعدہ ’’قانونی تحفظ ‘‘ بھی دیا جاتا ہے تاکہ فرد کی ’’ذاتی صلاحیت ‘‘ کے فروغ اور اظہار کے لیے انفرادیت پسندی کو یقینی بنایا جا سکے۔ مولانا سعید الرحمن علوی مرحوم نے اپنے تین مقالات میں جو ’’اسلامی حکومت کا فلاحی تصور ‘‘ کے زیرِ عنوان شائع ہوئے ہیں، مذکورہ نوعیت کی انفرادیت پسندی کے مقابلے میں اسلام کے فلاحی تصور کی بہت مدلل وضاحت کی ہے۔ علوی مرحوم نے ’’ذاتی صلاحیت کے اعتراف اور تحفظ ‘‘کے نام پر سرمایے کے ارتکاز کو ’’تقدیرِ الٰہی اور تقسیم الٰہی ‘‘ تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، یعنی مذہب کو عوام کے لیے افیون نہیں بننے دیا ۔ ان کے مطابق اس ظالمانہ اور سفاکانہ فکر و فلسفہ کا اسلام کے نظامِ عدل سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ مرحوم کا کہنا ہے : 
’’ مختلف مذاہب نے بے شک ’’ خیرات ‘‘ کا ذکر ضرور کیا تھا لیکن محض ترغیب کی حد تک، لیکن ظاہر ہے کہ ’’ترغیب ‘‘ کے راستے خیر کی راہ اپنانے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ ترغیب کے ساتھ کسی نہ کسی درجہ میں لزوم بھی ضروری ہے، ایسا نہ ہو تو سرمایہ دار طبقہ کی طبعی کنجوسی اور بخل اپنا رنگ جما کر رہتی ہے ‘‘۔ (ص۲۶) 
ہماری رائے میں یہی چند سطریں افکارِ علوی کی فکری علویت کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ تمہیدی فقرات میں ہم نے جن ’’قانونی تحفظات ‘‘ کا ذکر کیا ہے جو انفرادیت پسندی کو یقینی بنانے کے لیے بروئے کار لائے جاتے ہیں، علوی مرحوم نہایت مثبت اندازمیں انھی تحفظات کو معکوس معانی پہنا کر اجتماعی ہیئت کو وہ طاقت دینے کی بات کرتے ہیں جس کے توسط سے نظام عدل ’’انفرادیت پسندی کے لمبے ہاتھوں ‘‘ پر اپنا مضبوط ہاتھ ڈال سکے۔ اپنے موقف کی قرآنی بنیادوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے سعید الرحمن کہتے ہیں کہ : 
’’ قارون، اس میں شک نہیں کہ ایک فرد کا نام ہے ، لیکن قرآن عزیز نے جس انداز سے اس کا ذکر کیا، وہ ایک مستقل نظریہ ہے جس کی آج کے دور میں یورپی اور اب اس کے جانشین امریکی سامراج کے مالی تصور و نظام میں ’’کیپٹلزم ‘‘ سے تعبیر کی جا سکتی ہے ‘‘۔ (ص۳۲) 
اسی صفحہ پر قرآن مجید کی ان آیاتِ مبارکہ کا ترجمہ دیا گیا ہے جن میں قارون کا تذکرہ ہے۔ (القصص ، ۷۶ تا ۸۳ ) ایک قابلِ غور نکتے کی صراحت کی خاطر ، ہم یہاں صرف اس کا حوالہ دیں گے کہ : ’’ کہا (قارون نے ) یہ تو مجھے ایک ہنر سے ملا ہے جو میرے پاس ہے ‘‘ ۔ اب اگر سعید مرحوم کے قرآنی استدلال کو پہلے سے طے شدہ کسی رائے کا شکار ہوئے بغیر خالصتاً معروضی انداز میں سمجھا جائے تو تائید کیے ہی بنتی ہے، کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام (کیپٹلزم ) کا محور افراد کے معاملات، بالخصوص معاشی معاملات میں ریاست یا کسی بھی ہیئتِ اجتماعی کی عدمِ مداخلت ہے، یعنی افراد کو زیادہ سے زیادہ آزاد چھوڑ دیا جائے تاکہ خود غرضی کے ’’فطری ‘‘ جذبے کے تحت ذاتی نفع کے حصول کے لیے افراد میں باہمی تگ و دو ہو اور جن میں ’’اعلیٰ ذاتی صلاحیت ‘‘ ہو، وہ دیگر افراد سے زندگی کی دوڑ میں آگے نکل جائیں۔ اسی طرح اقوام بھی ’’ ذاتی صلاحیت اور خود غرضی ‘‘ کے طفیل باقی اقوام پر غالب آ جائیں گی۔ اسے ’’بقائے اصلح‘‘ (Survival of the Fittest) سے تعبیر کرتے ہوئے socio-economic Darwinism کہا جا سکتا ہے۔ ہماری دانست میں قارون کا اپنے ہنر پر اترانا اور سرمایہ دارانہ معیشت میں فرد کی ذاتی صلاحیت کا بے جا اعتراف کرنا ایسی ’’ قدرِ مشترک ‘‘ ہے جس کا انکار محال ہے ۔یہ قدرِ مشترک چند بنیادی سوالات پیدا کرتی ہے: 
(۱) کیا کوئی ایسی چیز در حقیقت موجود ہے جسے ’’ ذاتی صلاحیت یا ذاتی ہنر ‘‘ سے موسوم کیا جائے ؟
(۲) کیا انسان ، معاشرے یعنی دیگر افراد سے کٹ کر ذاتی صلاحیت نامی ہنر کو فروغ دے سکتا ہے؟
(۳) ایک فرد جس ذاتی صلاحیت کا ڈھنڈورا پیٹ کرد یگر افراد سے ممتاز ہوتا ہے، چاہے وہ مثبت ہو ، یعنی دیگر افراد کا تعاون اور ہمدردی وغیرہ یا منفی ، یعنی دیگر افراد کی مقابلہ بازی اور مفعولیت وغیرہ ، کیا ذاتی صلاحیت کی وہ ’’ سطح اور نوعیت ‘‘ معاشرے کی مرہونِ منت نہیں ہوتی ؟ 
(۴) کیا ذاتی صلاحیت کی اس ترقی یافتہ صورت کا، جو فرد کے بقول اس کی خالصتاً ذاتی ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں، معاشرے سے باہر کسی قسم کا استعمال ہوسکتا ہے ؟ یعنی کیا معاشرے سے الگ ہو کر ذاتی صلاحیت کی ترقی یافتہ صورت فرد کے لیے کسی کام یا اہمیت کی حامل ہو سکتی ہے، اگرچہ اس صلاحیت کا حصول معاشرے کی مرہونِ منت نہ بھی ہو؟
زیرِ بحث نکات کی تنقیح کے لحاظ سے مشہور و معروف جملہ کہ ’’ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے ‘‘ اپنے اندر معنویت کا جہان لیے ہوئے ہے۔ مثبت اور منفی ، ہر دو اعتبار سے در حقیقت یہ معاشرہ یا کوئی بھی ہیئتِ اجتماعی ہی ہے جو فرد کی ذاتی صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے۔ جس ذاتی صلاحیت یا ہنر کا شور مچا کر ایک فرد ’’ بقائے اصلح ‘‘ کے نباتاتی اور حیوانی اصول کو انسانی معاشرے میں رائج کرنے کی سعی کرتا ہے، وہ حقیقت میں معاشرے کی عطا ہوتا ہے، لہٰذا معاشرتی ہوتا ہے۔معلوم ہوا کہ ہنر یا ذاتی صلاحیت Self Oriented نہیں بلکہ Other Oriented ہے ۔ یہ کسی بھی اعتبار سے Personal نہیں، البتہ ہر لحاظ سے Social ضرور ہے۔ اس لیے اس نوعیت اور اس سطح کی ذاتی صلاحیت کے بل بوتے پر کمایا گیا مال و نفع بھی معاشرے کی ملکیت ہونا چاہیے۔ یہاں پر ایک منطقی سوال پیدا ہوتا ہے کہ مساوی ورثے، مساوی مواقع اور یکساں ماحول کی موجودگی میں مختلف افراد مختلف مدارج طے کرتے ہیں، ان کی تحصیل یکساں سطح اور یکساں نوعیت کی نہیں ہوتی، انھیں کہاں رکھا جائے گا؟ ہمارے خیال میں ذاتی صلاحیت کی یہی سطح اور یہی نوعیت حقیقی معنوں میں ’’خالصتاً ذاتی‘‘ سے تعبیر کی جا سکتی ہے ۔ اسی کی بنیاد پر کوئی فرد تفوق و فضیلت سے ہمکنار ہو سکتا ہے اور فرد کو اسی قسم کی صلاحیت کے نام پر زندگی کی دوڑ میں دیگر افراد سے ممتاز اور نمایاں ہونے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔یہی اصول گروہ اور قوم کی سطح پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔ 
یہاں یہ نکتہ بیان کرنا مناسب ہو گا کہ فرد خالصتاً ذاتی صلاحیت کی بنا پر نفع کے حصول کا دعویدار نہیں ہوتا، وہ عام طور پر معاشرت سے حاصل کردہ امتیازی حیثیت کو ہی خالصتاً ذاتی خیال کرتے ہوئے اس نفع کے حصول کا خواہاں ہوتا ہے جو اصل میں معاشرتی نفع ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مدلل تصریحات کے ذریعے فرد کی اس خام خیالی کو دور کیا جائے اور اسے قائل کیا جائے کہ جسے وہ ذاتی صلاحیت سمجھتا ہے، وہ در حقیقت معاشرتی ہے۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ایک فرد کو دوسروں سے ممتاز ہونے کے باوجود عملاً زیادہ کچھ بھی نہیں ملے گا تو پھر معاشرے نے فرد کے لیے کیا کیا؟ اس بابت ہماری یہ رائے ہے کہ ایک فرد کا دوسروں سے ’’ممتاز ‘‘ ہونا ہی معاشرے کی دین ہے۔ اس کی وضاحت ایک مثال سے ہو سکتی ہے کہ ایک جماعت کے تیس چالیس طالب علم یکساں اقامتی ماحول، نصاب اور اساتذہ سے مستفید ہوتے ہوئے بھی مختلف صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہیں، ان میں سے جو طالب علم اعلیٰ صلاحیت کے سبب دوسروں سے ممتاز ہوتے ہیں، ان کی امتیازی حیثیت ہی ان کے لیے انعام کا درجہ رکھتی ہے کہ ان کی صلاحیت کو نکھر کر سامنے آنے کا موقع مل گیا، اگرچہ یہ صلاحیت ان میں خداداد موجود تھی لیکن ایک ہیئتِ اجتماعی ( یعنی جماعت) ہی اس کے فروغ اور اظہار کا سبب بنی ۔ لہٰذا فرد کو خاندان، گروہ، ریاست یا کسی بھی ہیئتِ اجتماعی کا شکر گزار ہونا چاہیے نہ کہ وہ الٹا حقوق کی لمبی فہرست ہیئتِ اجتماعی کے سامنے رکھ دے اور دوسروں (یعنی ہیئتِ اجتماعی ) کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کرے۔ مولانا سعید الرحمن علوی مذکورہ نوعیت کی معاشرتی فکر کی معاشی توجیہ کے لیے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کی شہرہ آفاق کتاب ’حجۃ اللہ البالغہ‘ کی یہ عبارت نقل کرتے ہیں کہ : 
’’ یہ واضح رہے کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا منشا اگرچہ بالذات عبادت الہٰی سے متعلق ہے، مگر عبادات کے ساتھ ساتھ اس منشا میں رسومِ فاسد کو فنا کر کے اجتماعی زندگی میں بہترین نظام کا قیام بھی شامل ہے۔ اسی طرح پیغمبرِ خدا ﷺ کا ارشادِ مبارک ہے:
انما بعثت لا تمم مکارم الاخلاق 
’’میں اس لیے مبعوث کیا گیا ہوں کہ مکارمِ اخلاق کی تکمیل کروں ۔‘‘
اور اسی لیے اس مقدس ہستی کی تعلیم میں ’’ رہبانیت ‘‘ کو اخلاقی حیثیت نہیں دی گئی بلکہ انسانوں کے باہم اختلاط و اجتماع کی زندگی کو ترجیح دی گئی ہے، لیکن اس اجتماعیت کا امتیاز یہ قرار دیا گیا ہے کہ اس کے معاشی نظام میں نہ دولت و ثروت کو وہ حیثیت حاصل ہو جو عجمی بادشاہوں کے ہاں حاصل تھی اور نہ ایسی کیفیت ہو کہ تمدن سے بیزار دہقان اور وحشی لوگوں کی طرح ان کی معیشت ہو۔ پس اس مقام پر دو متعارض قیاس کام کر رہے ہیں۔ ایک یہ کہ نظامِ معیشت میں دولت و ثروت ایک محبوب و محمود شے ہے اس لیے وہ اگر صحیح اصول پر قائم ہے تو اس کی بدولت انسانوں کا دماغی توازن اعتدال پر رہتا ہے اور اس سے ان کے اخلاقِ کریمانہ صحیح اور درست رہتے ہیں۔ نیز انسان اس قابل بنتا ہے کہ دوسرے حیوانات سے ممتاز ہو۔ اس لیے کہ بیکسانہ اور مجبورانہ افلاس ، سوءِ تدبیر اور مزاج کے اختلال کے باعث ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ نظامِ معیشت میں دولت و ثروت ایک بد ترین چیز ہے جبکہ وہ باہمی مناقشات اور بغض و حسد کا سبب بنتی ہے اور خود اہلِ دولت و ثروت کے اطمینانِ قلب کو تعب اور حریصانہ کدو کاوش کے زہر سے مسموم کرتی ہے ، کیونکہ اس صورت میں یہ بد اخلاقی کے مرض میں مبتلا کر دیتی ہے، آخرت اور یادِ الٰہی یعنی روحانی زندگی سے یکسر غافل و بے پروا بنا دیتی ہے اور مظلوموں پر نت نئے مظالم کا دروازہ کھولتی ہے ۔ لہٰذا پسندیدہ راہ یہ ہے کہ دولت و ثروت ’’ نظامِ معیشت ‘‘ میں ایسا درجہ رکھتی ہو جو توسط اور اعتدال پر قائم ہو اور افراط و تفریط سے پاک ہو ‘‘۔ (ص ۸۶ ) 
مشہور امریکی مصنف ول ڈیو رینٹ، جس نے گیارہ جلدوں پر محیط ’The Story of Civilization‘ میں اپنی علمی و تحقیقی کاوش پیش کی ، پھر اس کا خلاصہ اور فکری نچوڑ بہت اختصار سے ’The Lessons of History‘ میں دنیا کے سامنے رکھا اور اپنے نتائجِ فکر کے سبب عالمی پذیرائی حاصل کی، اس نے بھی تاریخ سے اخذ کردہ دانش و حکمت کی بنا پر معروضی اعتبار سے شاہ ولی اللہ ؒ کے بیان کردہ نکات کو درست ثابت کیا ہے ۔ اس کے مطابق: 
We conclude that the concentration of wealth is natural and inevitable, and is periodically alleviated by violent or peaceable partial redistribution. In this view all economic history is the slow heartbeat of the social organism, a vast systole and diastole of concentrating wealth and compulsive recirculation. ( p, 57. The Lessons of History) 
’’ ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ دولت کا ارتکاز ، فطری اور ناگزیر ہے، اس میں وقتاً فوقتاً پر تشدد یا پر امن طور پر دولت کی از سرِ نو تقسیم کے باعث کمی ہو جاتی ہے۔ اس نقطہ نظر سے تمام معاشی تاریخ ، سماجی نظام کی سست رو دھڑکن کی مانند ہے جس میں دولت کا مرتکز ہونا اور لازمی طور پر دوبارہ گردش میں آنا دل کے سکڑنے اور پھر دوبارہ پھیلنے کی طرح ہوتا ہے ۔‘‘ 
بحث کے اس مقام پر ہمیں بے اختیار رسولِ پاک ﷺ کا یہ فرمانِ مبارک یاد آ رہا ہے کہ : ’’ جسمِ انسانی میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، اگر وہ ٹھیک ہو گیا تو سارا جسم ٹھیک ہو گیا اور اگر وہ بگڑ گیا تو پورا نظامِ جسمانی بگڑ گیا۔ فرمایا وہ دل ہے ‘‘۔ اسی طرح ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ نے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہے۔قرآنِ مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر تقویٰ کی اہمیت بیان فرمائی ہے :
’’اے لوگو ! اپنے پروردگار کی عبادت کرو ، جس نے تمھیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘ (البقرہ: ۲۱)
’’سب سے اچھا زادِ راہ تقویٰ ہے۔‘‘ (البقرہ: ۱۹۷)
’’اور تقویٰ کا لباس سب سے اچھا ہے۔‘‘ (الاعراف: ۲۶)
’’تم میں سے خدا کے نزدیک سب سے معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہو۔‘‘ (الحجرات: ۱۳)
’’تقویٰ والے ہی خدا کے دوست ہیں۔‘‘ (الانفال: ۳۴)
سورۃ الذاریات میں متقین کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ ان کے مالوں میں سائل اور نادار آدمی کا حق ہے۔ (آیت ۱۹) اسی طرح سورۃ المائدہ کے مطابق تقویٰ سے بہرہ ور ہوکر انسان عدل و انصاف کے تقاضوں پر عمل کرنے لگتا ہے۔ (آیت ۸) قرآن مجید نے یہ کہہ کر تقویٰ کی مدح و منقبت پر گویا مہر ثبت کر دی کہ : ’’ اور آخرت تیرے پروردگار کے نزدیک تقویٰ والوں کے لیے ہے ‘‘۔ (الزخرف: ۳۵)
تقویٰ کی اہمیت و معنویت سے متعلق قرآن و سنت کے ارشادات یہ واضح کرنے کو کافی ہیں کہ دنیوی و اخروی زندگی کی کامیابی کا مدار تقویٰ پر ہے اور تقویٰ دل میں ہوتا ہے ۔ اگر قرآن مجید کے کلی پیغام کو تقویٰ کے کلی مفہوم سے جوڑ کر سمجھنے کی کوشش کی جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ علم ، دولت ، سرمایہ اور اختیارات کا ارتکاز کوئی غیر فطری چیز نہیں ، کیونکہ اس دنیا میں انسانی جدو جہد کا مرکز درحقیقت، اسی ارتکاز کا انتشار یا پھیلاؤ ہے۔ گویا ارتکاز فطری ہے تو تسخیرِ فطرت انسان کی سرشت میں رکھی گئی ہے ۔ جو انسان یا گروہ ’’ ارتکاز ‘‘ پر جتنی زیادہ فتح پاتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ متقی ہوتا ہے کہ اس عمل سے وہ پورے معاشرتی نظام کی کلیت و استقلال کو یقینی بناتا ہے ۔ متقی معاشرے میں خونی انقلاب نہیں آتا، گویا یہ اس دل سے مشابہ ہوتا ہے جس میں خون جمع بھی ہوتا ہے اور پھیلتا بھی ہے۔ ایسے دل کے لیے ’’بائی پاس ‘‘ نا گزیر نہیں ہوتا۔ اس امر میں بھی کسی کو کلام نہیں ہونا چاہیے کہ قرآن و سنت کے میں ’’ رہبانیت ‘‘ یا ترکِ دنیا کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی اس لئے تقوی کی مجہولی و مفعولی نوعیت کی معنویت ( جو ہمارے معاشرے میں اس وقت پائی جاتی ہے) خلط مبحث اور دین کے گمراہ کن فہم پر مبنی ہے ۔ متقی شخص خانقاہ میں بیٹھ کر اللہ اللہ کی رٹ نہیں لگاتا بلکہ وہ معاشرے میں زندگی بسر کرتا ہے اور اپنے عمل کے ذریعے معاشرے کے SYSTOLE (انقباضّ قلب) اور DIASTOLE (انبساط قلب) کو یقینی بناتا ہے ۔ یہی بات گروہ کی بابت سچ ہے ۔ مولانا سعید مرحوم اپنی تحریر کے بین السطور یہی کہنا چاہتے ہیں کہ اگرچہ تقویٰ کا تعلق داخلی و باطنی دنیا سے ہے لیکن معاشرت اور معاشرت پر مبنی دیگر نظاموں کی تعمیر اسی پر ہوتی ہے ، اس لئے اگر داخلی اعتبار سے کچھ کمی بھی رہ جائے تو اس کی تلافی ایسے خارجی اقدامات سے کی جانی چاہیے جو معاشرت کا رخ تقویٰ کی جانب رکھ سکیں، کیونکہ قرآن مجید میں اس حوالے سے معروضی احکامات موجود ہیں ۔ علوی مرحوم شیخ الہند ؒ کے اسی سے ملتے جلتے اصولی موقف کو اسلامی نظامِ عدل کے محور کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ ملاحظہ کیجئے شیخ الہند ؒ کا اصولی موقف :
’’ جملہ اشیاء عالم بدلیل فرمان واجب الاذعان ’’خلق لکم ما فی الارض جمیعا‘‘ تمام بنی آدم کی مملوک معلوم ہوتی ہیں یعنی غرض خداوندی تمام اشیاء کی پیدائش سے رفع حوائج جملہ ء ناس (انسان ) ہے اور کوئی شے فی ذاتہ کسی کی مملوک خاص نہیں بلکہ ہر شے اصل خلقت میں جملہ ناس میں مشترک ہے اور من وجہ سب کی مملوک ہے۔ ہاں بوجہ رفع نزاع و حصول انتفاع قبضہ کو علتِ ملک قرار دیا گیا اور جب تک کسی شے پر ایک شخص کا قبضہ تامہ مستقلہ باقی ہے، اس وقت تک کوئی اور اس میں دست درازی نہیں کر سکتا۔ ہاں خود مالک و قابض کو چاہیے کہ اپنی حاجت سے زائد پر قبضہ نہ رکھے بلکہ اس کو اوروں کے حوالے کر دے کیونکہ باعتبار اصل دونوں کے حقوق اس کے متعلق ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مالِ کثیر حاجت سے زائد جمع رکھنا بالکل پسندیدہ نہیں گو زکوٰۃ بھی ادا کر دی جائے اور انبیا و صلحا اس سے بغایت مجتنب رہے۔ چنانچہ احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے بلکہ بعض صحابہ و تابعین وغیرہ نے حاجت سے زائد رکھنے کو حرام ہی فرما دیا۔ بہر کیف غیر مناسب و خلاف اولیٰ ہونے میں تو کسی کو کلام ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ زائد علی الحاجۃ سے تو اس کی کوئی غرض متعلق نہیں اور اوروں کی ملک’’ من وجہ‘‘ اس میں موجود۔ تو گویا شخص مذکور من وجہ مالِ غیر پر قابض و متصرف ہے اور اس کا مال بعینہ مالِ غنیمت کا سا تصور کرنا چاہیے۔ وہاں بھی قبل تقسیم یہی قصہ ہے کہ کل مالِ غنیمت کل مجاہدین کا مملوک سمجھا جا تا ہے مگر بوجہ ضرورت و حصول انتفاع بقدر حاجت ہر کوئی مالِ مذکور سے منتفع ہو سکتا ہے۔ ہاں حاجت سے زائد جو رکھنا چاہے، اس کا حال آپ کو بھی معلوم ہے کہ کیا ہونا چاہیے؟ یعنی خائن شمار ہو گا‘‘ (ص ۵۶، ۵۷ ) 
قرآن و سنت سے براہ راست راہنمائی لینے کے ساتھ ساتھ اپنے استدلال کی تنقیح شاہ ولی اللہ ؒ اور شیخ الہند ؒ کے افکار سے کرتے ہوئے مولانا سعید الرحمن مرحوم کہتے ہیں کہ : 
’’ایک شخص جس نے بے شک قانونی مطالبہ پورا کر دیا ہو اور اس کے پڑوس میں نادار، مسکین، یتیم اور بے کس بستے ہوں، وہ خیر و بھلائی کے اجتماعی اور انفرادی کاموں سے لا تعلق ہو اور اس کے پاس مال کے ڈھیر ہوں تو قانونی تقاضا پورا کرنے کے باوصف وہ مسؤلیت سے بچ نہیں سکتا۔ سورۃ توبہ میں ان منافقین کا ذکر ہے جو مال رکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کو تاوان خیال کرتے ہیں۔ (التوبہ ، آیت ۶۷) قرآن کریم نے ان کی زر پرستی کو نفاق کی دلیل قرار دیا۔ حدیثِ مبارکہ میں بھی منافقت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ذکر کی گئی ہے کہ وہ امانت واپس نہیں کرتے اور خیانت کا ارتکاب کرتے ہیں۔(مشکوۃ) ‘‘ ( ص ۴۱ )
مطلب یہ ہوا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو تاوان خیال کرنے کی بجائے امانت کی واپسی پر محمول کیا جائے۔اب ذرا غور سے شاہ ولی اللہ ؒ کے تصورِ نظامِ معیشت، ول ڈیو رینٹ کی تصریح اور شیخ الہند ؒ کی نکتہ دانی کی روشنی میں مولانا سعید کی مذکورہ بالا عبارت پر نظر دوڑائیے اور انھیں داد دیجیے کہ انھوں نے کتنی غیر جانبداری، جرات اور بے باکی سے اسلامی معیشت میں پنہاں ’’امانت ‘‘ کا تصور اجاگر کیا ہے جس کے پس منظر میں تقویٰ بدرجہ اتم موجود ہے۔ علوی مرحوم کہنا چاہتے ہیں کہ فرد نے اعلیٰ ذاتی صلاحیت کے بل بوتے پر (خواہ وہ براہ راست معاشرے سے حاصل کردہ ہو اور اسی سبب سے بالواسطہ اللہ تعالیٰ کی ہی دین ہو کہ معاشرے کے پیچھے الہٰیاتی کار فرمائی لازماً موجود ہوتی ہے، یا پھر وہ اس میں قدرتی طور پر موجود ہو یعنی خداداد ہو) جو کچھ کمایا، اس کی حیثیت ’’امانت‘‘ کی سی ہے۔ ایسا فرد در حقیقت ’’ امین ‘‘ ہوتا ہے۔ اسے معاشرے کے توسط سے، امانت کی واپسی بالواسطہ اللہ تعالیٰ کو کرنی چاہیے ( جیسا کہ اسے بالواسطہ ہی یہ نعمت ملی تھی ) اور براہ راست بھی، کہ رب العالمین نے اسے بلا واسطہ بھی نوازا ہے ۔ ایسا شخص متقی شمار ہوگا ، دنیا میں فضیلت اور آخرت میں عزت اسی کے لیے ہو گی ۔ لیکن اگر اگر کوئی شخص امین نہیں ہے یعنی متقی نہیں بلکہ خائن ہے تو ظاہر ہے، اس کے ساتھ جبر کرنا پڑے گایعنی اس کا ’’بائی پاس‘‘ کرنا ضروری اور نا گزیر ہو گا تاکہ اما نتیں، حقداروں تک پہنچ پائیں اور نظام کی کلیت رواں دواں رہے۔یہی امر گروہ اور قوم کے لیے ہے۔ ول ڈیو رینٹ نے اسی امر کو ’’جبری گردش‘‘ کا نام دیا ہے جومعاشی تاریخ کا ایک مسلمہ اصول ہے۔اپنے موقف کی تائید میں سعید علوی مرحوم ، حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ’’مساوات ‘‘ کے اصول کو پیش کرتے ہیں کہ آپؓ نے تقسیمِ مال میں مدراج قائم نہیں کیے : 
’’سید نا صدیقِ اکبرؓ جیسے مزاج شناس نبوت اور خلیفہ راشد نے تقسیمِ مال میں ’’ علی السویہ ‘‘ مساوات کا اہتمام کیا جس پر بعض لوگوں نے کہا: اے خلیفہ رسول، آپ نے مال برابر تقسیم کر دیا حالانکہ لوگوں میں ایسے بھی ہیں جن کو دوسروں پر تقدم اور تفوق حاصل ہے۔ اگر آپ ان کے سبقت الی الاسلام اور فضیلت کی رعایت رکھتے تو بہتر ہوتا ۔ آپ نے جواب میں فرمایا : تم نے جن فضائل و سوابق کا ذکر کیا ہے، ان کو مجھ سے زیادہ اور کون جانتا ہے (آپ تو اس معاملہ میں بڑے آگے تھے کہ سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور آپ نے ساری دولت خرچ کی، تمام غزوات میں شریک رہے، حضور ﷺ کے دست و بازو بنے) لیکن یہ چیزیں وہ ہیں جن کا ثواب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ یہ بہر حال معاش کا معاملہ ہے، اس میں برابری کا معاملہ کرنا ، ترجیح دینے سے بہتر ہے ‘‘۔ (ص ۱۶۹، ۱۷۰ )
شیخ الہند ؒ کی جو عبارت اوپر نقل کی گئی ہے، اس کے مندرجات اشارہ کرتے ہیں کہ انھوں نے بھی صدیقِ اکبرؓ کے اس عمل اور فرمان سے پوری مدد لی ہے اور صدیقی فکر کے اکبر ہونے میں تو کسی کو کلام نہیں ہونا چاہیے۔ اگر غور کیا جائے کہ تفوق و فضائل اور تقدم و سوابق کے لیے جن اصحابؓ کی طرف اشارہ کیا گیا تھا، وہ کون تھے اور ان کے تفوق کی نوعیت کیا تھی توہماری بحث کو ایک اور رخ ملتا ہے کہ انسان کے بعض معاملات بہر حال ایسے بھی ہیں جن کا اجر براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہی ملے گا۔ہم یہاں ازواجِ مطہراتؓ کے تقدم و سوابق اور تفوق و فضائل پر بات نہیں کریں گے ۔ زیرِ بحث نکات کی تنقیح کے لحاظ سے ’’تفوق کی نوعیت ‘‘ بہت اہم ہے۔ صدیقِ اکبرؓ نے ’’شخصی تفوق ‘‘ کو کسی بھی اعتبار سے ’’ مالی تفوق ‘‘ کی بنیاد نہیں بننے دیا۔ ان کے مطابق شخصی تفوق و فضیلت کا اجر اللہ تعالیٰ ہی دے گا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شخصی تفوق( چاہے وہ معاشرے کی خدمت کی بنا پر ہو یا کوئی اعلیٰ ذاتی صلاحیت جس کے سبب سے کسی کو امتیازی حیثیت حاصل ہو جائے ) کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے اور تقویٰ یہی ہے کہ فرد اس تفوق کی بنیاد پر معاشرے سے زیادہ سے زیادہ لینے کا مطالبہ ’’نہ ‘‘ کرے کیونکہ یہ تفوق اس قدر ’’ ذاتی ‘‘ ہے کہ معاشرہ اس کا عین بدل نہیں دے سکتا۔ اگر معاشرہ فضیلت کی بنا پر ’بدل‘ دیتا ہے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ’بدل‘ خود تفوق کی وجہ بن جاتا ہے اور فرد کی اصل فضیلت پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صدیقِ اکبرؓ نے فرد کی اصل فضیلت کے اثبات و استقلال کے لیے ہی علی السویہ کا اہتمام کیا ۔یوں سمجھیے کہ ان کاموقف یہ تھا کہ بدری صحابہؓ کی فضیلت کا بدل دینے سے ان کی بدریت آہستہ آہستہ پس منظر میں چلی جائے گی اور تقسیمِ مال میں دوسروں سے زیادہ حصہ خود ایک فضیلت بن جائے گی۔ ایسا ہر گز نہیں کہ انھوں نے تفوق کی ہر نوعیت سے انکار کیا ہے بلکہ انھوں نے تو اس کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے استقلال کو بھی یقینی بنایا ہے اور پھر یہ فرما کر گویا تفوق و فضیلت کے اثبات و استقلال پر مہر ثبت کر دی کہ اللہ تعالیٰ ہی اس فضیلت کا اجر دے گا۔ بحث کے اس مقام پر ہمیں یہ اخذ کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ صدیقِ اکبرؓ نے فضیلت کے اثبات کا ایسا اہتمام کر کے فرد کی ’’ انفرادیت ‘‘ کو اجتماعیت کے حصار میں آنے سے بچا لیا اور پھر اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق قائم کر کے انفرادیت کو الہٰیاتی تقدس بھی فراہم کیا تاکہ انفرادیت اتنی مضبوط بنیادوں پر قائم رہے کہ اس کے خاتمے کا سوچا بھی نہ جا سکے۔ مولانا سعید الرحمن کہتے ہیں کہ : 
’’ سید نا عمر فاروقؓ نے اس پالیسی کو تبدیل تو کیا ، آخر میں فرمایا کہ آئندہ سال زندہ رہا تو صدیقی پالیسی رائج کر دوں گا ۔ حضرت علیؓ بھی صدیقی پالیسی کے قائل تھے ‘‘۔ (ص۱۱۳ )
اسی طرح عراق کی زمین کے قضیے کی بابت علوی مرحوم کہتے ہیں کہ : 
’’سید نا عمر فاروقؓ کے دورِ حکومت میں ’’ سوادِ عراق ‘‘ کی زمینوں کا معاملہ ہماری اجتماعی زندگی کا بڑا اہم معاملہ ہے جس میں مجاہدین اور فوجی حضرات کا مطالبہ تھا کہ یہ ہمارے اندر تقسیم کر دی جائیں لیکن حضرت عمر فاروقؓ نے وسیع پیمانے پر مشاورت کے بعد اس مطالبہ کو مسترد کر دیا۔ اس مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے حضرت الامام ابو یوسف حنفی ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ کا فیصلہ بہترین فیصلہ ہے کہ اس پر مسلمانوں کی اجتماعی فلاح کا راز تھا۔ زمین کا خراج اکٹھا کر کے اس سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچانا مقصود تھا۔ مجاہدین میں زمین تقسیم ہو جاتی تو اسلامی مملکت کی سرحدوں کی حفاظت خطرہ میں پڑ جاتی (کہ مجاہدین کھیتی باڑی میں لگ جاتے) اور اجتماعی وظائف وغیرہ کا اہتمام نہ ہوتا تو مسلم دنیا بے چینی کا شکار ہو کر عدمِ تحفظ کا شکار ہو جاتی‘‘۔ ( ص ۱۰۹ )
ہم خیال کرتے ہیں کہ سید نا عمرؓ نے عراقی زمین کی تقسیم کے معاملے میں صدیقی پالیسی کی روح کو مدِ نظر رکھا۔ وسیع مشاورت پر مبنی اس فیصلے سے ایک بہت اہم نکتہ سامنے آتا ہے کہ کسی بھی فضیلت کے اعتبار سے فرد کو نوازتے وقت (اگر نوازنا ضروری ہی ہو ) یہ دھیان رکھا جائے کہ نوازنا اس کی ذات تک محدود رہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی وفات کے بعد اس کے ورثا اس نوازش کو ہی فضیلت کا مدار بنا لیں۔ اگر کسی فرد کو فضیلت ( اعلیٰ ذاتی صلاحیت پر مبنی فوجی خدمت و غیرہ) کی بنا پر زمین الاٹ کی جاتی ہے تو چونکہ وہ زمین ایک فضیلت کی بنا پر ملی تھی اور فضیلت( یعنی اعلیٰ ذاتی صلاحیت ) ورثا کو منتقل نہیں ہو سکتی، اس لیے اس فضیلت کی بنیاد پر حاصل کی گئی زمین متعلقہ فرد کی وفات کے بعد اجتماعی ملکیت متصور ہو گی، لیکن چونکہ ایسا عمل نا ممکن تھا کہ مجاہدین کے ورثا اس پر کبھی تیار نہ ہوتے اور قبضہ چھوڑنے سے انکاری ہوتے، اس لیے مستقبل میں آنے والے اسی قسم کے مسائل پر نظر رکھتے ہوئے زمینوں کی تقسیم عمل میں نہ لائی گئی جو بلا شبہ بہترین فیصلہ تھا ۔ اگر زمینیں تقسیم کی جاتیں تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اصل فضیلت ( جس کی بنیاد پر زمین ملی تھی) پس منظر میں چلی جاتی اور زمین رکھنے والے ، زمین رکھنے کے سبب سے معاشرے میں فضیلت کے مستحق ٹھہرتے۔ کیا یہ جعلی قسم کی فضیلت نہ ہوتی ؟ اور ایسا معاشرہ جس میں ایسی فضیلت کو قبول کیا جاتا، کیا وہ فضیلت کی اصل قسم کو فروغ دینے کے بجائے اس کے خاتمے کا سبب نہ بنتا ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ جعلی فضیلت کو فروغ دینے والا معاشرہ ترقی سے ہم کنار نہیں ہو سکتا ، کیونکہ یہ فرد کی اعلیٰ ذاتی صلاحیت یعنی حقیقی فضیلت ہی ہے جو معاشرے کے ترقی پسندانہ ارتقا کو یقینی بناتی ہے۔ سعید مرحوم اسی قسم کے صحت مندانہ معاشرتی ارتقا کے پیشِ نظر جرنیلوں کو مربعے الاٹ کرنے کی مخالفت کرتے ہیں اور ان زمینوں کی واپسی چاہتے ہیں جو موجودہ جاگیر داروں کے اجداد کو کسی قسم کی ’’فضیلت ‘‘ کے سبب سے انگریزوں نے الاٹ کی تھیں ۔ہم یہ کہہ کر پھبتی نہیں کسیں گے کہ اجداد کی ’’فضیلت ‘‘ معاصر جاگیر داروں کو منتقل ہو گئی ہے کیونکہ فضیلت منتقل نہیں ہوتی، لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ اجداد کی’’ فضیلت‘‘ کی بنا پر قائم جاگیریں اب خود فضیلت بن گئی ہیں۔ ظاہر ہے یہ جعلی قسم کی فضیلت ہے جس سے معاشرتی ارتقا جمود کا شکار ہو گیا ہے اور فرد کی اعلیٰ ذاتی صلاحیت کا اعتراف و اثبات ، جس کا اہتمام صدیقِ اکبرؓ نے کیا تھا، ہمارے معاشرے سے یکسر غائب ہو گیا ہے۔ 
اس پوری بحث سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اسلام میں انفرادیت پسندی کا دائرہ ، مغرب کے تصورِ انفرادیت پسندی سے بہت بڑھا ہوا ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ اس کی بنیاد خود غرضی پر نہیں بلکہ تقویٰ پر ہے ۔ اس پوری کتاب کے بین السطور مولانا سعید الرحمن علوی مرحوم یہی کہنا چاہتے ہیں کہ اسلام نے فرد کی انفرادیت کا التزام، مغربی تصورات سے کہیں زیادہ کیا ہے لیکن چونکہ موجودہ معاشرت ، داخلی اعتبار سے متقدمین کے سے اسلوبِ زندگی سے محترز ہے اس لیے اس طرزِ زندگی کی بازیافت کے لیے قرآن و سنت پر مبنی خارجی و معروضی اقدامات کرنے نا گزیر ہیں۔ ان اقدامات سے فرد کی انفرادیت ختم نہیں ہوگی بلکہ نکھر کر سامنے آئے گی اور الہٰیاتی تقدس کے سبب سے اپنی بقا کے لیے خارجی عوامل کی محتاج نہیں ہو گی جیسا کہ مغربی انفرادیت پسندی، قوانین کی محتاج و غلام ہے۔ مولانا سعید کے مطابق کیپٹل ازم میں خاندان کو فرد کی خود غرضی کا منبع خیال کرتے ہوئے کمیونزم میں خاندان کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی جس سے اباحیت کا دور دورہ ہوا۔ عجیب بات یہ ہے کہ خود غرضی کے محرک ’’ خاندان ‘‘ کو کیپٹل ازم اب خود تباہ کرنے کی کوشش میں ہے۔ شاید خود غرضی سکڑتے ہوئے خاندان سے فرد کی ذات تک پہنچ گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ خود غرضی کی اگلی سٹیج کیا ہو گی؟ علوی مرحوم کمیونزم اور کیپٹل ازم کا رد کرتے ہوئے اس متوازن نظام کا خاکہ پیش کرتے ہیں جس میں فرد کی انفرادیت، خاندان کی عصمت اور معاشرے کی ترقی کے تمام امکانات موجود ہیں۔ ہماری رائے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ معاصر رجحانات و اصطلاحات کی روشنی میں قرآن وسنت کے معاشی نظام کی تعبیر کے بجائے قرآن و سنت سے آزادانہ راہنمائی لی جائے۔ آج جس طرح ذاتی ملکیت کے تصور پر زور دیا جاتا ہے اور اسے اسلامی معیشت کے محور کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ہم یہ ہر گز نہیں کہنا چاہتے کہ ذاتی ملکیت نہیں ہونی چاہیے یا یہ کہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، ہماری مراد در حقیقت ترجیحات سے ہے۔ یعنی یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ذاتی ملکیت اسلامی معیشت کے مختلف عناصر میں کس مقام پر کھڑی ہے اور اسے ہم نے کیا مقام دیا ہے۔ اس کے علاوہ ذاتی ملکیت کے لوازمات پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے یہاں ذاتی ملکیت پر اس لیے زیادہ زور رہا کہ معاصر دنیا میں اسی کا پراپیگنڈا تھا۔ ہمارے بعض ’’شرعی عدالتی‘‘ فیصلے بھی شاید اسی تناظر میں کیے گئے۔ مولانا سعید مرحوم جب یہ سب کچھ دیکھتے ہیں تو ان کا لہجہ تلخ ہو جاتا ہے، لیکن ان کی تلخ نوائی حضرت ابو ذر غفاریؓ کی پیروی میں ہے کہ انھوں نے بھی داغ ، داغ کا نعرہ مستانہ ( کہ داغے جاؤ گے ) بلند کیا تھا۔ 
زیرِ نظر کتاب کا آخری مقالہ ’’ الحجر۔۔۔ حجر کی لغوی شرعی تحقیق ‘‘ آج کے ماحول سے مطابقت رکھتا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے شادی بیاہ کے کھانوں اور رسموں پر جو پابندی عائد کی ہے، وہ حجر کی طرف پہلا قدم ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ معاشرتی ابتری اس سے زیادہ اقدام کی متقاضی ہے۔ 
آخر میں ہم گزارش کریں گے کہ اس کتاب کے آئندہ ایڈیشن میں پروف ریڈنگ کا خاص اہتمام کیا جائے۔ یہ بات اس لیے بھی قابل توجہ ہے کہ کتاب کے آغاز میں ’’ تشکر ‘‘ کے زیرِ عنوان کہا گیا ہے کہ ’’ بڑی عرق ریزی سے پروف ریڈنگ کی ‘‘ ۔ اس کے باوجود پروف کی بے شمار غلطیاں رہ گئی ہیں۔ اس قابلِ مطالعہ وقیع کتاب کی قیمت ۱۲۰ روپے ہے اور اسے مکتبہ جمال ، تھرڈ فلور ، حسن مارکیٹ ، اردو بازار لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ 

پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ اور فتنہ انکارِ سنت ۔ تفسیر ضیاء القرآن کی روشنی میں

پروفیسر محمد اکرم ورک

ضیاء الامت پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ (۱۹۱۸ - ۱۹۹۸) عالمِ اسلام کے ان نامور مفکرین میں سے ہیں جنہوں نے متنوع موضوعات پر دادِ تحقیق دی ہے۔ اگرچہ انہوں نے کثیر موضوعات پر گرانقدر علمی مضامین اور مقالات رقم فرمائے ہیں، تاہم تفسیر، حدیث اور سیرت کے موضوعات پر آپ کے نوکِ قلم سے پھوٹنے والے چشمۂ فیض سے ایک زمانہ اپنی علمی پیاس بجھارہاہے ۔ تفسیر’’ ضیاء القرآن‘‘، ’’ ضیاء النبی ‘‘ اور حجیت حدیث پر ’’سنت خیر الانام ‘‘ وہ معرکہ آرا کتابیں ہیں جنہیں بجا طور پر آپ کی فکری زندگی کا نچوڑکہا جا سکتا ہے۔ 
حجیت حدیث کے موضوع پر پیر صاحب کی مستقل تصنیف ’’ سنت خیر الانام ‘‘موجود ہے ، نیز آپ نے ’’ضیاء النبیﷺ‘‘کی جلد ہفتم میں بھی تدوین و تاریخِ حدیث پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے، اس لیے جو احباب حجیت و تاریخِ حدیث پر پیر صاحب کے خیالات سے تفصیلی استفادہ کرنا چاہیں، انہیں یقینًا محولہ بالا کتب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ تاہم اس وقت ہمارے پیش نظر قارئین کو تفسیر ’’ضیاء القرآن‘‘ کے ان مقالات کی طرف متوجہ کرنا ہے جہاں پیر صاحب نے مقامِ حدیث اور اہمیتِ حدیث کے بڑے اہم مباحث پر روشنی ڈالی ہے۔
موضوع پر براہِ راست گفتگو سے قبل ضروری ہے کہ برصغیر میں فتنہ انکارِ سنت کے آغاز وارتقا کا اختصار کے ساتھ جائزہ پیش کردیاجائے تاکہ قارئین اس ماحول سے متعارف ہوجائیں جن میں پیر صاحب نے تفسیر ’’ضیاء القرآن‘‘ تصنیف فرمائی۔
برصغیر میں برطانوی غلبہ و اقتدار نے جہاں مسلمانوں کو آزادی جیسی عظیم نعمت سے محروم کردیا، وہاں ان کے مذہبی اور ثقافتی تشخص کو بھی بری طرح پامال کیا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی میں مکمل شکست کے بعد بچے کھچے مسلمان قائدین واضح طور پر تین گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ علماء کرام اور مشائخ عظام کی اکثریت نے شکست کا واضح طور پر اعتراف کرلیا اور وقت کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ان لوگوں نے ایمان کی سلامتی کو ہر چیز پر ترجیح دی۔ چنانچہ یہ لوگ سیاست اور حکومتی معاملات سے لاتعلق ہوکر اپنے مدرسوں اور خانقاہوں میں مقید ہوگئے۔ دینی تعلیم کی ترویج و اشاعت میں اپنی زندگیاں وقف کردیں اور مسلمانانِ ہند کو مغربی تہذیب وتمدن کی زہرناکیوں سے بچائے رکھنے کی جدوجہد میں ہمہ تن مصروف ہو گئے۔سچی بات تو یہ ہے کہ انہی ’’ بنیاد پرست ملاؤں‘‘کی وجہ سے برصغیر میں انگریز اسلام کو مکمل طور پر ختم نہ کرسکا، ورنہ ہمارا حشر بھی آج ترکی سے مختلف نہ ہوتا۔
دوسرے وہ لوگ تھے جنہوں نے شکست کے بعد اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرلی ، انگریز کے خلاف کسی نہ کسی انداز میں اپنی جدوجہد کو جاری رکھا، ’’اسلام بطور نظامِ زندگی‘‘ کے نعرے کے ساتھ انگریز کے خلاف نبرد آزما رہے اور بالآخر اسلام کے نام پر پاکستان حاصل کرکے جزوی طور پر اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرلی۔
تیسری قسم کے لوگ وہ تھے جو انگریزی تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کے سامنے نہ ٹھہر سکے اور ذہنی مغلوبیت کا شکار ہوگئے۔ اس گروہ نے قدیم مذہبی فکر و فلسفہ کو مسلمانوں کے زوال کا سبب قرار دیااور مسلمانوں کو ترغیب دی کہ وہ اقوامِ عالم میں اپنے مقام کی بحالی کے لیے انگریزی تہذیب وثقافت کو اپنائیں اور انگریزی علوم و فنون میں کمال حاصل کرلیں۔ سرسید احمد خاں (م ۱۸۹۸ ء) اس گروہ کے سرخیل ہیں۔نئے حالات میں اسلام کو ’’ قابل قبو ل ‘‘ بنانے کے لیے سرسید نے اسلام کی تشکیل جدید کا بیڑا اٹھایا تاکہ مسلمان ’’ ترقی ‘‘ کی رفتار میں زمانے کا ساتھ دے سکیں۔ اسلام کی من مانی تعبیر و تشریح میں چونکہ حدیثِ رسول سب سے بڑی رکاوٹ تھی، اس لیے حدیث کو ہدفِ تنقید بنایا جانے لگا۔ علمِ حدیث پر اعتراضات کا رجحان بالآخر ’’ فتنہ انکارِ سنت‘‘ کی تحریک میں تبدیل ہو گیا۔ سرسید نے سب سے پہلے عقل کی روشنی میں قرآن مجید کی تفسیر لکھی اور معجزات کے علاوہ کئی دیگر اسلامی عقائد کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش کی۔ 
مولوی چراغ علی (م ۱۸۹۵ ء) ، حافظ محمد اسلم جیراج پوری (م ۱۹۵۵ء ) ، علامہ تمنا عمادی (م ۱۹۷۲) ، ڈاکٹر فضل الرحمن (م ۱۹۸۸ء)، علامہ حبیب الرحمٰن کاندھلوی( م ۱۹۹۱ء )، مولوی عبداللہ چکڑالوی اور خواجہ احمد الدین امرتسری جیسے لوگوں نے حدیثِ رسول کو عہدِ نبوی اور عہدِ صحابہ کی دینی تاریخ کامقام دیتے ہوئے حدیث کی حجیت کا کلی طور پر انکار کردیا، لیکن جس شخص نے فتنہ انکارِ سنت کو بامِ عروج تک پہنچایا، وہ علامہ غلام احمد پرویز (م ۱۹۸۵ء) ہیں۔ ’’مقامِ حدیث ‘‘ان کی مشہور کتاب ہے جس میں انہوں نے اپنے نقطہ نظر کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
جن دنوں پیر صاحب ’’ ضیاء القرآن ‘‘ کی تصنیف میں مشغول تھے ، فتنہ انکارِ سنت کی حشر سامانیاں پورے عروج پر تھیں۔ چنانچہ پیر صاحب نے حجیتِ حدیث پر اپنی مستقل تصنیف کے باوجود تفسیر ’’ضیاء القرآن‘‘ میں بھی جابجا اس فتنہ کے رد میں اپنا قلم اٹھایا۔ منکرینِ سنت نے حدیث کی حجیت پر جو بنیادی اعتراضات کیے ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں :
۱۔ حدیث وحی نہیں ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتی رائے اور اجتہادات پر مشتمل ہے۔
۲۔ جس حکمت کا قرآن میں جابجا ذکر آیا ہے، وہ قرآن سے علیحدہ کوئی چیز نہیں ہے ۔
۳۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت سے مراد امامِ وقت یعنی مرکز ملت کی اطاعت ہے۔
ذیل کی سطور میں منکرینِ حدیث کے انہی اعتراضات کا تفسیر ’’ضیاء القرآن‘‘ کی روشنی میں ترتیب وار جائزہ لیا جائے گا۔
جمہور مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ حدیث بھی قرآن کی طرح وحی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ قرآن ایسی وحی ہے جس کے الفاظ اور مفہوم دونوں اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں، جبکہ حدیث ایسی وحی ہے جس کا مفہوم اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے جبکہ الفاظ رسول ﷺ کے ہیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتاب ’’ سنت کی آئینی حیثیت ‘‘ میں اختصار کے ساتھ اس کے دلائل دیکھے جاسکتے ہیں۔منکرینِ حدیث نے جمہور علماء کے اس نقطہ نظرکو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اور وہ وحی کی اس تقسیم کے قائل نہیں ہیں۔ حافظ محمد اسلم جیراج پوری لکھتے ہیں:
’’ بعض لوگوں نے وحی کی دو قسمیں کرڈالی ہیں،متلو اور غیر متلویا جلی اور خفی۔ ایک کو قرآن کہتے ہیں اور ایک کو حدیث، لیکن یہ ان کی محض خیالی اصطلاح ہے جس کو قرآن سے کوئی سرو کار نہیں۔‘‘  (ہمارے دینی علوم، ص ۹۴)
لیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اگر کوئی اصطلاح عہد رسالت کے بعد متعارف ہوئی ہے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ جس مفہوم پر وہ اصطلاح دلالت کررہی ہے، وہ بھی بعد کی پیداوار ہے ۔ مثلًا مختلف افعال کے لیے فرض ، واجب ، سنت ،مستحب ، حرام، مکروہ تحریمی اور مکروہ تنزیہی کی اصطلاحات فقہاء کرام نے عہد رسالت کے بعد متعارف کروائی ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب لینا کہ عہد رسالت میں افعال کی یہ درجہ بندی ہی موجود نہ تھی، بالکل غلط ہے بلکہ اس کی سادہ توجیہ یہ ہے کہ یہ درجہ بندی تو موجود تھی لیکن اس کے لیے یہ جامع و مانع اور نپی تلی اصطلاحات بعد میں مدون کی گئیں۔ بالکل یہی معاملہ وحی متلو اور وحی غیر متلو کی اصطلاحات کا بھی ہے۔ تاہم علامہ غلام احمد پرویز کا کہنا یہ ہے:
’’حدیث کے وحی خفی ہونے کا عقیدہ یہودسے مستعارلیا گیا ہے۔ اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔‘‘ (مقامِ حدیث ، ص ۲۷)
پیر صاحب جمہور علماء کے اس نقطہ نظر کے مؤید ہیں کہ حدیث بھی وحی ہی کی ایک صورت ہے، چنانچہ وہ سورۃ النجم کی آیت ’وماینطق عن الھوی ان ھو الاوحی یوحی‘ ( ۵۳ /۳،۴ ) سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ بعض علماء کی رائے ہے کہ ’ھو‘ کا مرجع صرف قرآن کریم نہیں بلکہ قرآن کریم ورجو بات حضور ﷺ کی زبان فیض ترجمان سے نکلتی ہے، وہ سب وحی ہے ۔ وحی کی دو قسمیں ہیں ۔ جب معانی اور کلمات سب منزل من اللہ ہوں، اسے وحی جلی کہتے ہیں جو قرآن کریم کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے اور جب معانی کا نزول تو من جانب اللہ ہو لیکن ان کو الفاظ کا جامہ حضورﷺ نے خود پہنایا ہو، اسے وحی خفی یا وحی غیر متلو کہا جاتا ہے جیسے احادیثِ طیبہ۔‘‘ ( ضیاء القرآن ۵/۱۰، ۱۱) 
پیر صاحب حدیث کے وحی ہونے پر استدلال کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’ کتب احادیث میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کا یہ واقعہ منقول ہے، وہ کہتے ہیں میرا دستور تھا کہ حضور ﷺ کی زبان مبارک سے جو کچھ سنتا، وہ لکھ لیا کرتا ۔ قریش کے بعض احباب نے مجھے اس سے منع کیا اور کہنے لگے تم حضورﷺ کا ہر قول لکھ لیا کرتے ہو حالانکہ حضورﷺ بھی انسان ہیں۔ کبھی غصے میں بھی کوئی بات فرمادیا کرتے ہیں، چنانچہ میں نے لکھنا بند کردیا۔ بعد میں اس کا ذکر بارگاہِ رسالت میں ہوا اور میں نے سلسلہ کتابت بند کرنے کی وجوہ بیان کیں توحضورﷺنے ارشاد فرمایا ’اکتب والذی نفسی بیدہ ماخرج منی الا الحق‘ ۔ ’ اے عبداللہ، تم میری ہر بات لکھ لیا کرو۔ اس ذا ت کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، میری زبان سے کبھی کوئی بات حق کے سوا نہیں نکلتی۔ ‘ ( ضیاء القرآن ، ۵/۱۰۔۱۱)
یہ واقعہ صحیحین کے علاوہ دیگر کتب صحاح میں بھی مروی ہے اور یہ حدیث سند کے لحاظ سے بھی صحیح ہے ۔ اس لیے پیر صاحب کا اس حدیث سے استدلال دوہرے فوائد کا حامل ہے۔ ایک تو اس اعتراض کا رد ہوگیا کہ حدیث محض حضورﷺ کا ذاتی اجتہاد ہے اور دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور دوسرا اس اعتراض کا بھی رد ہو گیا کہ اگر حدیث بھی قرآن کی طرح دین ہے تو پھر آپﷺ نے اس کے لکھنے کا حکم کیوں نہ دیا۔ چنانچہ حضورﷺ کے اس ارشاد کے بعد حضرت عبداللہ بن عمرو نے احادیث کو بالالتزام لکھنا شروع کیا۔ احادیث نبوی پر مشتمل ان کی کتاب ’’صحیفہ صادقہ ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ان کا اپنا قول ہے کہ ’’ صادقہ ایک صحیفہ ہے جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سن کر لکھا۔‘‘ (محمدبن سعد، ’ الطبقات ‘، ۲/۴۰۸)
قرآن مجید کی متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ نے ’’الکتاب‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’ الحکمۃ‘‘ کے نزول کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکمت کا یہی وہ خزانہ ہے جو آپﷺ کو عطا فرمایا گیا اور جس کی روشنی میں آپ قرآن مجید کے اصولوں کو کھول کھول کر بیان اور اس کے مشکل مقامات کی توضیح فرماتے ہیں۔ نبوی دانش و حکمت کے مہکتے ہوئے پھول احادیثِ رسول کی صورت میں امت کے پاس محفوظ ہیں، جبکہ علامہ جیراج پوری لکھتے ہیں: 
’’حکمت کا مفہوم جو انہوں نے ( جمہور علماء) نے حدیث کو قرار دیا ہے، صحیح نہیں ۔ حکمت ایک عام لفظ ہے جس کے معنیٰ ہے دانائی کی باتیں ۔ خود قرآن کی صفت بھی حکیم ہے یعنی اس میں حکمت کی باتیں ہیں۔‘‘  ( ہمارے دینی علوم، ص ۹۲)
پیر صاحب سورۃ بقرہ کی آیت ۱۲۹ میں لفظ ’’ حکمت ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : 
’’ حکمت سے کیا مراد ہے؟ اس کے سمجھنے سے ایک بہت بڑے فتنے کا اصولی رد ہوجائے گا ۔ حکمت کہتے ہیں ’’وضع الاشیاء علی مواضعھا‘‘ ہر چیز کو اپنے محل اور موقع پر رکھنا ،یہاں ’الحکمۃ‘ کا لفظ مذکور ہے۔ اس سے مراد احکام قرآن کی ایسی تفصیل اور ان کا ایسا بیان ہے جسے جاننے کے بعد انسان ان احکام کی ایسی تعمیل کر سکے جیسے قرآن نازل کرنے والے کا منشا ہے۔ اور نبی کے فرائض میں صرف یہی نہیں کہ قرآن سکھا دے بلکہ اس کا صحیح بیان اور تفصیل بھی سکھائے تاکہ قرآن پر اللہ کی منشا کے مطابق عمل ہو سکے اور اسی حکمت یعنی بیانِ قرآن کو سنتِ نبوی کہا جاتا ہے۔ دوسری متعدد آیات میں اس امر کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ حکمتِ قرآن یعنی اس کا بیان نبی کا ذاتی اجتہاد نہیں ہوتا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی جاتی ہے ۔ مثلًا ارشاد ہے ’’وانزل اللہ علیک الکتاب والحکمۃ‘‘  اللہ تعالیٰ نے آپ پر اے نبیﷺ کتاب اور حکمت نازل فرمائی۔ اس سے ثابت ہوا کہ جیسے قرآن کی اطاعت فرض ہے، اس طرح صاحبِ قرآن کی سنت پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔اس سے ان لوگوں کی غلط فہمی کا ازالہ بھی ہو گیا جو سنت کو نبی کریمﷺ کی ذاتی رائے خیال کرتے ہیں اوراس پر عمل کرنا ضروری یقین نہیں کرتے ہیں۔‘‘ (ضیاء القرآن ، ۱/۹۵)
اس اقتباس سے درج ذیل حقائق نکھر کر سامنے آتے ہیں : 
۱۔ ’الحکمت‘ سے مراد قرآن کا بیان اور تفسیر ہے ۔
۲۔ قرآن کا بیان یعنی حدیث اور سنتِ رسولﷺ خود اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا ہے۔
۳۔ حکمت یعنی قرآن کا بیان نبی کا ذاتی خیال یا اجتہاد نہیں بلکہ وہ بھی اللہ ہی کی طرف سے نازل شدہ ہے۔
۴۔ حکمتِ قرآن ( حدیثِ نبوی) پر بھی عمل کرنا قرآن ہی کی طرح فرض ہے۔
منکرینِ سنتِ کے نزدیک رسول اللہ کا دینی مقام و مرتبہ بقول حافظ اسلم جیراج پوری صرف یہ ہے:
’’ پیغاماتِ الٰہی کو لوگوں کے پاس بے کم و کاست پہنچا دینا۔ اس حیثیت سے آپﷺ کی تصدیق کرنا اور آپﷺ کے اوپر ایمان لانا فرض کیا گیا ۔یہ پیغمبری آپﷺ کی ذات پر ختم ہوگئی۔‘‘ (ہمارے دینی علوم، ص ۹۴)
لہٰذا قرآن کی تشریح و تعبیر میں آپ ﷺ کے بیانات آپ کی زندگی تک ہی معتبر ہیں۔ اب امت کے لیے احادیثِ رسول کی کوئی تشریعی حیثیت نہیں، یہ محض عہد رسالت اور عہد صحابہ کی دینی تاریخ ہے ۔ حافظ اسلم جیراج پوری دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’’الغرض حدیث کا صحیح مقام دینی تاریخ کا ہے، اس سے تاریخی فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں لیکن دین میں حجت کے طور پر وہ پیش نہیں کی جاسکتی۔‘‘ (ہمارے دینی علوم، ص ۱۰۳)
جبکہ امت کے سوادِ اعظم کا ہمیشہ سے یہ مسلمہ عقیدہ رہا ہے کہ حضور ﷺ قرآن مجید کے شارح اور مفسر ہیں اور قرآن کی جو توضیح رسول اللہ ﷺ کی وساطت سے سنتِ رسول کی شکل میں ہم تک پہنچی، وہ ہر رائے پر مقدم ہے ۔ اس لیے کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بیان و وضاحت کی ذمہ داری آپ ﷺ پر عائد کی ہے ۔ چنانچہ پیر صاحب سورۃ النحل کی آیت ۴۴ : ’’وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم ولعلھم یتفکرون‘‘ کی تفسیر میں آپ ﷺ کے اسی مقام و حیثیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس آیت طیبہ سے واضح ہوا کہ ہمارے لیے نبی اکرمﷺ کی سنت کے اتباع کے بغیر کوئی چارہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کا صحیح علم اپنے رسول کو عطا فرمایا اور اس کے معانی و مطالب کے بیان ، اس کے اجمال کی تفصیل اور اوامر و نواہی کی وضاحت کا منصب فقط اپنے محبوبِ کریم ﷺ کو تفویض کیا ۔ قرآ ن کریم کی جو تفسیر و تشریح حضوراکرمﷺ نے فرمائی، وہی قابل اعتماد ہے ۔ کسی دوسرے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے فہم و خرد پر بھروسہ کر کے کسی آیت کی ایسی تاویل کرے جو ارشادِ رسالت مآبﷺ کے خلاف ہو۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں: 
فالرسول مبین عن اللہ عزوجل مرادہ مما اجملہ فی کتابہ من احکام الصلوۃ والزکوۃ وغیرہ ذلک مما لم یفصلہ۔‘‘ (ضیاء القرآن، ۲/۵۷۲، ۵۷۳)
قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر اللہ رب العزت نے نہایت واضح انداز میں تاکید کے ساتھ مومنوں کو حکم دیاہے کہ وہ اللہ کے رسولِ برحق کی اتباع ، اطاعت اور فرمانبرداری کو حرزِجاں بنائیں اور اس پیکرِ دلنواز کی اداؤں کو اپنی زندگیوں کا اوڑھنا بچھونا بنا لیں۔ گویا نبی ﷺکی اطاعت و فرمانبرداری قرآن سے الگ کوئی چیز نہیں بلکہ قرآن ہی کی بے شمار آیا ت کی تعمیل ہے اور آپﷺ کی پیروی سے انکار صرف سنت کا ہی انکار نہیں بلکہ بے شمار آیاتِ قرآنیہ کا بھی انکار ہے۔یہی وجہ ہے کہ جمہور علماء کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اطاعتِ الہٰی سے مراد آیاتِ قرآنیہ کی اطاعت اور اطاعتِ رسول سے مراد احادیثِ نبویہ اور سنتِ رسولﷺ کی اتباع ہے، لیکن علامہ غلام احمد پرویز کا نقطہ نظر ملاحظہ فرمائیں:
’’ قرآن میں اطاعتِ رسول کے جو احکام ہیں، آپ کی ذات اور زندگی تک محدود نہیں ہیں بلکہ منصبِ امامت کے لیے ہیں ۔ قرآن میں جہاں جہاں اللہ و رسول کی اطاعت کاحکم دیاگیا ہے، اس سے مراد امامِ وقت یعنی مرکزِ ملت کی اطاعت ہے۔‘‘ ( مقامِ حدیث، ص ۸۳)
دوسری جگہ لکھتے ہیں :
’’ اطاعت صرف خدا کی، کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور کی اطاعت جائز نہیں ۔‘‘( مقامِ حدیث، ص ۴۰)
اطاعتِ رسول سے ’’ مرکز ملت‘‘ کی اطاعت مراد لینا ایک بالکل نیا نظریہ ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور جس کی بناپر سنتِ رسولﷺ سے انحراف لازم آتاہے، اس لیے پیر صاحب نے اطاعت و اتباعِ رسولﷺ کے مفہوم کو بڑے شرح و بسط سے واضح کیا تاکہ حق کی پہچان میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔ سورۃ آل عمران کی آیت ۳۱،۳۲ کی تفسیر میں اطاعت اور اتباع کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’اتباع رسول اور اطاعت رسول کسے کہتے ہیں ؟ یہ بتا دینا بھی ضروری ہے تاکہ کوئی لفظی ابہام راہِ سنت سے منحرف کرنے کا باعث نہ رہے ۔ امام ابوالحسن آمدی نے ’’ اتباع‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’الاتباع فی الفعل ھو التأسی بعینہ والتأسی ان تفعل مثل فعلہ علی وجھہ من اجلہ ‘‘ کسی کے فعل کے اتباع کا یہ معنیٰ ہے کہ اس کے اس فعل کو اس طرح کیاجائے جس طرح وہ کرتا ہے اور اس لیے کیا جائے کیونکہ وہ کرتا ہے۔ اورامام آمدی اطاعت کے مفہوم کی توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’ومن اتی بمثل فعل الغیر علی قصد اعظامہ فھو مطیع لہ‘ جب کوئی شخص کسی دوسرے کی عزت و احترام کے باعث بعینہ اس کے فعل کی طرح کوئی فعل کرے تو وہ اس کا مطیع کہلاتا ہے ۔اتباع و اطاعت رسالت مآبﷺ کے متعلق جو حکم قرآن نے ہم کو دیا ہے، اس کی تعمیل کی صرف یہی صورت ہے کہ ہم حضورﷺ کے افعال کو بالکل اسی طرح ادا کریں جیسے حضورﷺ نے ادا فرمائے اور صرف اس لیے ادا کریں کہ یہ افعال اس ذاتِ اطہر و اقدس سے ظہور پذیر ہوئے ہیں جو جمال وکمال کا وہ پیکر ہے جس سے حسین تر اور جمیل تر چیز کا تصور تک ممکن نہیں۔ کاش ہم قرآن کے الفاظ کو اپنی من گھڑت تاویلات کا اکھاڑہ بنانے سے باز رہیں اور اس آیت کے آخر میں اتباع و اطاعتِ رسول ﷺ سے رو گردانی کرنے والوں کو جن الفاظ سے یاد کیا گیا ہے، اس پرغور کریں ۔ ‘‘( ضیاء القرآن، ۱/۲۲۳)
سورۃ النساء کی آیت ۵۹: ’یا ایھا الذین آمنوا اطیعواللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم‘ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے پیر صاحب نے جس انداز میں اطاعتِ امیراور اطاعتِ رسول کے درمیان حد فاصل قائم فرمائی ہے، وہ بڑی ایمان افروز ہے اور اگر تعصب،ہٹ دھرمی اور انانیت کے دبیز پردے سدِراہ نہ ہوں تو کسی بھی سلیم الطبع انسان کے لیے آپ کے طرزِ استدلال کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ چنانچہ اطاعتِ رسول سے ’’ مرکز ملت‘‘ اورامامِ وقت کی اطاعت مراد لینے کے گمراہ کن عقیدے کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرمﷺ کی اطاعت کے علاوہ مسلمان امرا اور حکام کی اطاعت کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کیونکہ حضور ﷺ نے اس دارِ فانی میں زیادہ دیر اقامت گزیں نہیں ہونا تھا اور حضورﷺ کے بعد امورِ مملکت کی ذمہ داری خلفاء راشدین اور امرا نے سنبھالنا تھی، اس لیے ان کی اطاعت کرنے کے متعلق بھی تاکید فرمائی ۔لیکن اطاعتِ رسول اور اطاعتِ امیر میں ایک بین فرق ہے ۔ نبی معصوم ہوتا ہے جملہ امور میں۔ خصوصًااحکامِ شرعی کی تبلیغ میں اس سے خطا نہیں ہو سکتی اس لیے اس اطاعت کا جہاں حکم دیا، غیر مشروط حکم دیا۔ مثلًا ’’ما آتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا‘‘  جو کچھ تمہیں رسول دے ، لے لو اور جس سے روکیں، رک جاؤ۔ رسول کا ہر حکم واجب التسلیم اور اٹل ہے، اس میں کسی کو مجال قیل و قال نہیں ۔ خلیفہ کا معصوم ہونا ضروری نہیں، اس سے غلطی بھی ہو سکتی ہے، اس لیے اس کی مشروط اطاعت کاحکم دیا کہ اس کے حکم کو خدا اور رسول کے فرمان کی روشنی میں پرکھو۔ اگر اس کے مطابق ہے تو اس پر عمل کرو، ورنہ وہ قابل عمل نہیں ۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ’’لاطاعۃ للمخلوق فی معصیۃ اللہ‘‘  اس لیے حاکمِ وقت کی اطاعت کاحکم فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، اگر تمہارے درمیان تنازع رونما ہوجائے تو اسے لوٹا دو اللہ اور اس کے رسول کی طرف، یعنی اس کے حکم کا قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لو۔ اگر اس کے مطابق ہے تو اس پر عمل کرو، ورنہ تم پر اس کی اطاعت فرض نہیں۔‘‘ ( ضیاء القرآن ، ۱/۳۵۶ ، ۳۵۷)
سورۃ انفال کی آیت ۲۰کی تفسیر میں پیر صاحب منکرین سنت کو بڑے درد اور دل سوزی کے ساتھ دعوتِ فکر دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اطاعتِ خدا اور اطاعتِ رسول ﷺ عقائدِ اسلامیہ اور شریعتِ بیضا کا سنگِ بنیاد ہے۔ اس کے بغیر نہ اسلامی عقائد کاپتہ چل سکتاہے اور نہ شریعت کا۔ ’’وانتم تسمعون‘‘ کے کلمات کتنے معنیٰ خیز ہیں ۔ یعنی اتنا تغافل کہ قرآنی آیات سننے کے باوجود بھی اطاعتِ خدا اور رسول میں کوتاہی! تعجب ہوتاہے ان لوگوں پر جو تعلیماتِ قرآنیہ کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اطاعتِ رسول کے منکر ہیں بلکہ اتباعِ قرآن کو ترکِ اطاعتِ رسولﷺ کی دلیل بناتے ہیں۔ وہ اپنی روش پر خود ہی نظر ثانی کریں ۔ کیاوہ قرآن سے اس کے نازل کرنے والے کی منشا کے خلاف تو استنباط نہیں کررہے ؟ کیا وہ اتنا بھی غور نہیں کرتے کہ اتباعِ قرآن تب ہی ہوسکتی ہے جب اس کے ہر حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیا جائے اور اطاعتِ رسول کا حکم بھی قرآن کا ہی حکم ہے جو ایک بار نہیں، سینکڑوں بار دیا گیا ہے ۔ کیا وہ قرآن کے اس صریح حکم کی نافرمانی کرکے اپنے آپ کو قرآن کامتبع کہہ سکتے ہیں ؟آپ ہی اپنے ذرا طرزِ عمل کو دیکھیں۔ ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔‘‘ (ضیاء القرآن، ۲/۱۳۸)
سورۃ النساء کی آیت ۸۰: ’’من یطع الرسول فقد اطاع اللہ‘‘ پر پیر صاحب کا مختصرمگرانتہائی بلیغ تبصرہ ملاحظہ فرمائیں :
’’ کتنا کھول کر بتا دیا کہ اللہ کا مطیع وہی ہے جو اس کے رسول کامطیع ہو، لاکھ کوئی دعویٰ کرے اطاعتِ الہٰی اور اطاعتِ قرآن کا، وہ جھوٹا ہے جب تک اللہ کے رسولِ کریمﷺ کی سنت کا پابند نہ ہو۔‘‘  (ضیاء القرآن، ۱/۳۷۰)
سطورِ بالا کے مطالعہ سے قارئین پر یہ بات واضح ہو گئی ہوگی کہ دینی امور میں رسول اللہ ﷺ کے اقوال و افعال ، وحی الٰہی کے تابع تھے، اس لیے اطاعتِ رسول کا مفہوم اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ حدیث و سنت کی نسبت جب رسولِ خدا کی طرف ثابت ہو جائے تو اس پر بھی قرآن کی طرح ہی عمل کرنا ضروری ہے ۔ پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ نے مختلف آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے قارئین کے سامنے جو دلائل پیش کیے ہیں، اس سے ’’ضیاء القرآن ‘‘ کے قارئین پر حدیثِ رسول کی اہمیت و حجیت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ 

مکاتیب

ادارہ

(۱)
۰۴/۱۲/۲۳
مکرمی!
السلام علیکم
ماہنامہ الشریعہ کا ماہ دسمبر ۲۰۰۴ کا شمارہ نظر سے گزرا۔ اس میں چھپنے والے مضامین دل کو اچھے لگے۔ ہر مضمون عمدہ اور معیاری تحقیق کا حامل ہے۔ دعا ہے کہ یہ سلسلہ جاری وساری رہے۔
امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔
والسلام
(ڈاکٹر) محمد سہیل عمر
ناظم
اقبال اکادمی پاکستان

(۲)
۵ جنوری ۲۰۰۵
محترم ومکرم ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
سلام مسنون
الشریعہ کا جنوری ۲۰۰۵ کا شمارہ نظر نواز ہوا۔ میں جب ’’نوائے وقت‘‘ کے ادارہ میں تھا تو برادرم ارشاد احمد عارف کے پرچے سے استفادہ کرتا تھا، لیکن یہ سلسلہ کچھ بے ترتیب سا تھا۔ ضعیفی کے آزار کے باعث میں نے دفتر کی حاضری سے ریٹائرمنٹ لی تو الشریعہ کے مطالعے کا یہ بے ترتیب سلسلہ بھی ٹوٹ گیا۔ آج یہ پرچہ گھر کے پتے پر ملا تو بے پایاں خوشی ہوئی۔ میں اس غائبانہ کرم پر آپ کا بے حد شکر گزار ہوں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ تشدد پسندی کے رجحان کے خلاف آپ نے تحمل اور برداشت کے مثبت عمل کی تلقین کا سلسلہ عالیہ جاری کر رکھا ہے۔ اس پرچے میں شیعہ مجتہد اور دانش ور علامہ سید فخر الحسن کراروی کا مضمون اس جہت میں قابل عمل پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔ پروفیسر میاں انعام الرحمن نے نائن الیون کمیشن رپورٹ اور اے ایم ٹی ایف کا جائزہ معنویت سے پیش کیا ہے۔ ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد میں یہ شمارہ اب آہستہ آہستہ دل میں اتارنے کے لیے پڑھ رہا ہوں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ میرے ایک محترم دوست شبیر احمد خان میواتی آپ کے معاونین میں شامل ہیں۔ ان جیسا ’’کتاب دوست‘‘ اس زمانے میں نظر نہیں آتا یا کم ملتا ہے۔
والسلام
مخلص
(ڈاکٹر) انور سدید
۱۷۲ ۔ ستلج بلاک، اقبال ٹاؤن، لاہور

(۳)
۱۰ جنوری ۲۰۰۵
جناب ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اپنے ایک دوست جناب اسلم خان، مشعل سکول، سرائے نورنگ کے ہاں میں ماہنامہ الشریعہ دیکھا کرتا تھا۔ پڑھ کر جی خوش ہوا کہ ابھی یورپ کی طرح چرچ اور سٹیٹ کے علیحدہ ہونے کا عمل پاکستان میں نہیں دہرایا جائے گا۔ آپ کی روشن خیالی اور برداشت (tolerance) پر اپنے آپ کو مبارک باد دیں۔ عمار ناصر کے مضامین اگرچہ تلخ ہیں، تاہم مبنی بر زمینی حقائق ہیں۔ جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں، میں اسے اپنے ضمیر کی آواز کہتا ہوں۔ پروفیسر انعام الرحمن صاحب اور اکرم ورک صاحب کے مضامین بھی آنکھیں کھولنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ تاہم بعض رجعت پسند عناصر کے خطوط دیکھ کر دل کو رنج ہوتا ہے۔
یوسف خان جذاب
نار شکر اللہ، سرائے نورنگ، تحصیل وضلع بنوں

ثقافتی زوال کا رجائیہ نوحہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

’’چلو جگنو پکڑتے ہیں‘‘ کلیم احسان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں اس شعری روایت کی ’’ترفیع‘‘ جھلکتی ہے ، جو میرو ناصر کے ادوار سے گزر کر موسمِ گل کی حیرانگی میں رونما ہوئی اور خود اس مجموعے میں جا بجا بکھر گئی :
دل ہمارا اجاڑ بستی میں 
ایک خالی مکان لگتا ہے
مریدِ میر، رفیقِ حزن کہتا جا رہاہے:
مرا دیوان ہوتا جا رہا ہے
کہ غم آسان ہوتا جا رہا ہے
ہو سکتا ہے بعض اصحاب کو اس سے اتفاق نہ ہو کہ شعروسخن کے دیپ ، خونِ جگر سے جلتے ہیں اور خونِ جگر ’’روحِ غم‘‘ ہے۔ کم از کم راقم کی نظر میں تو پر مسرت لمحوں کی اچھل کود ، ہوا کے اس جھونکے کی مانند ہے ، جو آیا اور گزر گیا، جبکہ روحِ غم کی یہی ’’روح‘‘ ہے کہ شدت اور تیز بہاؤ کے باجود بھی ’’نقش گری‘‘ سے محترز نہیں رہ سکتی ۔اگر یقین نہیں تو بہتے پانی کے اس نقش پر غور کیجئے جو وہ ’’پتھر‘‘ پر بھی ثبت کر دیتا ہے ۔ روحِ غم اور بہتے پانی ، دونوں کی فطرت میں نقش گری لکھی ہے (بہاؤ اور ٹھہراؤ کے باعث)۔
محبت روگ بنتی جا رہی ہے 
مجھے سرطان ہوتا جا رہا ہے
یہاں تک تو اس مجموعے میں دبستانِ میر کا بکھراؤ ہے ،اس سے آگے سبھاؤ شروع ہو جاتا ہے ۔کلیم کے پہلے شعری مجموعے ’’موسمِ گل حیران کھڑا ہے ‘‘ میں بھی ایسی علامات جھلملا رہی تھیں ، جن سے معلوم ہوتا تھا کہ غم کی ترفیع بہت سبھاؤ سے ہو گی ، مثلاً:
مرے باہر خموشی چھا گئی ہے 
مرے اندر کبوتر بولتے ہیں 
راقم نے اس شعر کے ضمن میں لکھا تھا کہ: 
’’ کبوتر معصومیت اور جمال کا آئینہ دار ہے ۔ کبوتر امن کا پرندہ ہے ۔ کبوتر کا استعارہ ، شاعر کے مزاج کی شائستگی اور انسان دوستی کا مظہر ہے ۔ لیکن کبوتر کا صرف اندر بولنا اور باہر خاموشی ، بہت معنی خیز ہے۔برِ صغیر کی شعری روایت میں کبوتر قاصدکی علامت ہے۔ ہر اعتبار سے مترشح ہوتا ہے کہ شاعر امن کا پیغام رکھتا ہے، لیکن اس کا اظہار نہیں کر پارہا ۔ امن کا جذبہ اس کے اندر پھڑ پھڑا رہا ہے، لیکن ہمارا شاعر بے بسی محسوس کرتا ہے۔ معروضی واقعیت کی منفی صورتِ حال نے کلیم کی شعری فعلیت کو شعرِعالیہ کی سطح پر اظہار کے اعتبار سے شدید متاثر کیا ہے ۔صوفیانہ نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو شاعر، معرفت کے بعد لوگوں کی طرف واپسی کا سفر اختیار نہیں کر سکا (ایسا اکثر دیکھنے میں آیا ہے)۔ محولہ بالا شعر ، کتاب کے عنوان سے بھی مناسبت رکھتا ہے ۔ حیرانی کی انتہا خاموشی کا سبب بنتی ہے اور موسمِ گل کو کبوتر سے قریبی نسبت ہے۔یوں موسمِ گل اور کبوتر شاعر کی باطنی آواز کو ظاہر کرتے ہیں اور حیرانی و خاموشی، معروضی جبر کو‘‘۔
اب کلیم کے نئے مجموعہ کلام میں ’’جگنو‘‘ ایک ایسا استعارہ ہے، جو مذکورہ بے بسی کی ترفیع بن کر ابھرا ہے۔جگنو صرف روشنی نہیں، بلکہ قابلِ رسائی روشنی ہے ، ایسی روشنی ہے جو مستعار نہیں لی گئی ۔ اقبال نے بھی جگنو کی زبان سے کہلوایا تھا کہ :
اللہ کا سو شکر کہ پروانہ نہیں میں 
دریوزہ گرِآتشِ بیگانہ نہیں میں 
(اقبال کے تصورِ خودی کے سیاق و سباق میں آتشِ بیگانہ سے احتراز سمجھ میں آتاہے اور جگنو سے نسبت بھی)۔ کیونکہ آتشِ بیگانہ ’’شخصی شعلگی‘‘ کو ہوا نہیں دے سکتی ، اسی لئے ہمارے شاعر نے بھی کہہ دیاہے :
وہ مجھے راستہ دکھاتا ہے ! 
مری مٹھی میں ایک جگنو ہے
مٹھی میں جگنو وہ روشنی ہے جو اپنی ہے، ذاتی ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ جگنو ہتھیلی پر نہیں، کیونکہ ہتھیلی ’’لینے‘‘ کی علامت ہے اور مٹھی ’’دینے‘‘ کی۔ اس سے انانیت کا تاثر بھی ابھرتا ہے، لیکن آپ جانتے ہیں کہ پیدائش کے بعد بچے کا ہاتھ ’’ مٹھی ‘‘ ہوتا ہے، جس میں جگنو جگمگ جگمگ کر رہا ہوتا ہے ۔ یوں کلیم کی انانیت ، ایک بچے کی انانیت معلوم ہوتی ہے: 
جو خوشبو کے سفر میں ساتھ مجھ کو لے کے نکلی تھی
وہ لڑکی ایک تتلی تھی میں اک چھوٹا سا بچہ تھا
یہاں خوشبو کا سفر ’’ پہلی محبت‘‘ کا استعارہ بھی ہے ، تتلی اور بچے نے اسے اجلا اجلا کر دیا ہے ۔
جگنو کے حوالے سے ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ اس لفظ کے ذکر سے ہی کھیت کھلیان، شجر، پگڈنڈی اور ہریالی وغیرہ کا منظر ذہن کے افق پر پھیلتا چلا جاتا ہے ۔ اس طرح جگنو ایک ایسی ثقافت کی علامت بن جاتا ہے جو خاکی اور دیہی ہے ، جس میں ایک طرف شیشم کی ٹہنیوں سے گونجتی چہچہا ہٹیں اور پیپل تلے بنے ہوئے ’’ چونتے‘‘ ہیں ، تو دوسری طرف البموں میں سنبھال سنبھال کر رکھی ہوئیں اپنے پیاروں کی دل گداز یادیں ، اور ان پر مستزاد ، ماں کی محبت !! راقم کی نظر میں کلیم کی شاعری ، دراصل اسی ثقافت کی تباہی کا وہ ’’ نوحہ‘‘ ہے ، جس میں ماں کی محبت سے سرشار ایک بچہ ریں ریں کرتا ہے، روتا بسورتا ہے لیکن ماں سے یہی محبت ’’جگنو‘‘ بن کر اس بچے کو نہ تو مایوس ہونے دیتی ہے اور نہ ہی ایسے کتھا رسس کا باعث بننے دیتی ہے ، جس سے شخصی شعلگی مدھم پڑ جائے۔ (ماں ! مذکورہ ثقافت کی بھی علامت ہے)۔ کلیم کا یہ شعر راقم کے نقطہ نظر کو مزید تقویت دیتا ہے :
تمہارا کھیل تھا نادان بچو!
مگر چڑیا کو دیکھو مر رہی ہے
ہاں! بے جگنو ثقافت میں چڑیا مر ہی جاتی ہے۔ یہاں اپنی یاداشت پر دستک دے کر اس لوک کہانی کو ذہن میں لائیے جو (ذرا سے اختلاف سے) تقریباً ہر سماج میں پائی جاتی ہے ، جس میں جگنو ، چڑیا کو گھر چھوڑنے جاتاہے۔جگنو درحقیقت کسی سماج کی ’’داخلی روشنی‘‘ کی علامت ہے اور چڑیا ان خارجی اداروں اور رویوں کی علامت ہے جن سے انسان ، انسان بنتا ہے ۔ہمارا شاعر واضح طور پر آگاہ کر رہا ہے کہ ان رویوں کی اصل روح ختم ہوتی جا رہی ہے ، خالی خولی ڈھانچے سے رہ گئے ہیں ، ان کے اندر زندگی کی لہر دوڑانے والی روشنی مفقود ہوگئی ہے ، زندگی پر موت طاری ہو گئی ہے۔جب جگنو نہ رہے تو چڑیا بے سمت ہو کر آخر کیسے گھر پہنچ سکتی ہے؟ علومِ حا ضرہ کی خلعتوں میں ملبوس ’دانشور‘ شاید کلیم کا یہ نکتہ نہیں سمجھ سکتے۔
اسی شعر میں مضمر اہم نکتہ یہ ہے کہ چڑیا مری نہیں، مر ’’ رہی ‘‘ ہے اور گدھ منڈلانے شروع ہو گئے ہیں۔ یعنی ابھی کھیل ختم نہیں ہوا ، ہم لوگ ثقافت کو ’’بے جگنو ‘‘ کرنے کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ چڑیا(گھر کا رستہ بھول کر) مر جائے اور کھیل ختم ہو جائے ۔ یہاں ہمارا شاعر ہمیں دعوت دیتا ہے :
چلو جگنو پکڑتے ہیں
یہ دعوت سماج کو اس کی روح لوٹانے کی دعوت ہے، وہ ثقافت لوٹانے کی دعوت ہے جو ارضی ہے، خاکی ہے، دیہی ہے اور اپنی ہے ۔یوں سمجھیے کہ زندگی پر سے موت کو ہٹانے کی دعوت ہے ۔یہیں پر یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ شخصی شعلگی،کلیم کے تصورِ خودی کو ’’ متعین صورت‘‘ میں سامنے لاتی ہے۔ یہ صورت اول و آخر ، مذکورہ ثقافت کی ہی صورت پذیری ہے اور بس۔ (گویا کہ کلیم دبستانِ میر سے انتہائی وابستگی کے باوجود ’’ اقبالی رجائیت‘‘ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا)
اس مجموعے پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی نہ صرف مذکورہ ثقافت کی صورت پذیری کے عناصر جھلملانے لگتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس ثقافت کی تباہی و انحطاط کے مختلف شیڈز اور پہلو بھی، ترفیعی سبھاؤ میں بکھراؤ کا سماں پیدا کر دیتے ہیں، مثلاً اسی غزل کے یہ شعر دیکھیے:
چلو باغوں کو چلتے ہیں 
چلو جگنو پکڑتے ہیں 
ستارے، پھول اور شبنم 
ہمارا دکھ سمجھتے ہیں
یہ دونوں شعر بطور’’قطعہ‘‘ بھی لیے جا سکتے ہیں ۔آخری مصرعے نے معنویت اجاگر کر کے امریکن شاعرہ Maya Angelou کی نظم Woman Work کی یاد تازہ کر دی ہے۔ مایا نے بھی خواتین کی روزمرہ کی بے کیف مصروفیت کا رونا رو کر عناصرِ فطرت کی آغوش میں پناہ لینے کی خواہش کی ہے۔ اس کے ہاں بھی بے کیف مصروفیت سے مراد ، زندگی کی روح سے دوری ہے۔ ہمارا شاعر بھی اسی بے کیف مصروفیت سے شاکی ہے۔ اسے یہ دکھ ہے کہ :
یہاں پر جاگنا ہی جاگناہے 
یہاں پر رات ہوتی ہی نہیں ہے 
اسی قبیل کا یہ شعر بھی ملاحظہ کیجئے، جس میں ’ مِیری لہجے ‘ کی چاشنی بھی موجود ہے :
اک لہو سا ہے آنکھوں میں ٹپکا ہوا 
جیسے صدیوں سے جاگے ہوئے لوگ ہیں
مایا کی نظم میں اس Stanza نے بے کیفی کے مقابل کھلتی ہوئی ، تبدیلی کی کلی کو کملا دیا ہے :
Fall gently, snow flakes
Cover me with white
Cold icy kisses and
Let me rest tonight
(ترجمہ): اے برف کے گالو! دھیرے گرو
اور مجھ کو دبا ڈالو سفید 
ٹھنڈے برفانی بوسوں میں
کرنے دو مجھے آرام ام شب
معلوم ہوتا ہے کہ مایا آج کی رات آرام کرنے کی خاطر ،اپنے آپ کو سفید ٹھنڈے برفانی بوسوں سے ڈھانپنا چاہتی ہے، وہ برف کی چادر اوڑھنا چاہتی ہے، لیکن برف زندگی کی علامت نہیں ہے اس لئے مایاآرام کرنے کی آڑ میں، در حقیقت موت کی آغوش میں جانا چاہتی ہے۔ مسلسل جاگنے کی پاداش میں ، روزمرہ کی بے کیف بے روح زندگی سے اکتا کر۔ لیکن ہمارے شاعر نے بے کیفی کی انتہائی حدوں کو چھونے کے باوجود رجائیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ وہ کہتا ہے کہ ستارے ، پھول اور شبنم ہمارا ’دکھ‘ سمجھتے ہیں ۔کلیم روح سے عاری رویوں میں زندگی کا لہو دوڑانے کے لئے، ان میں رچاؤ پیدا کرنے کے لئے، باغوں میں چلنے کی بات کرتا ہے ، جگنو پکڑنے کی بات کرتا ہے یعنی زندگی کی روح کو Possess کرنے کی بات کرتا ہے ۔ وہ برف کی چادر اوڑھنے کی بجائے روشنیوں میں نہانے کی بات کرتا ہے :
سورج کو میرے سر پہ کھڑا کر دیا گیا 
یعنی مری سزا بھی اجالوں کے ساتھ تھی
اس مجموعے میں شامل ایک غزل لمبی ردیف کے باعث کافی دلچسپ ہو گئی ہے ، اس میں طرفگی اس اعتبار سے آئی ہے کہ غزل کے فطری اپج کے مطابق ہر شعر کا اپنا الگ سے معنی تو موجود ہے ہی ، اس کے ساتھ ساتھ نظم کے مزاج کے مطابق ایک ہی خیا ل یا پھر ایک خیال کے مختلف پہلوؤں کی بافت و بنت بھی اس میں جھلک رہی ہے۔ اسے ’’ نظمیہ غزل ‘‘ کہا جا سکتا ہے ، ملاحظہ کیجئے:
دل کی باتیں لکھ کر میں نے غیر مکمل چھوڑ رکھی ہیں 
کتنی غزلیں لکھ کر میں نے غیر مکمل چھوڑ رکھی ہیں
کتنے ورق ہیں سادہ جن کو با لکل سادہ رکھ چھوڑا ہے
کچھ پر سطریں لکھ کر میں نے غیر مکمل چھوڑ رکھی ہیں 
جی چاہا ہے آج پرانے کاغذ کھول کے بیٹھ رہوں 
جن میں یادیں لکھ کر میں نے غیر مکمل چھوڑرکھی ہیں 
تم بھی جانو مجھ کو تمہاری دید کی کتنی حسرت ہے 
اپنی آنکھیں لکھ کر میں نے غیر مکمل چھوڑ رکھی ہیں 
جیسے لکھتے لکھتے کوئی گہرا صدمہ پہنچا ہو !
پاگل سوچیں لکھ کر میں نے غیر مکمل چھوڑ رکھی ہیں 
اس مجموعہ کلام میں پہلے شعری مجموعے کے بہت سے حوالے بھی، یادوں کی گھمبیرتا سے لے کر خوف کی پرچھائیوں تک، تکرار کی حد تک موجود ہیں۔ ہمارے شاعرکا فکری کینوس، اسلوبِ بیان ، تراکیب اور استعارے ، انسانی احوال و ظروف سے پرے نہیں ہٹے ،کہ اس کی فطرت خاکی ہے ۔اسی وجہ سے کہیں سالاربکتا دکھائی دیتا ہے ، کہیں ضرورتوں کے اگے ہوئے جنگل سے پالا پڑتا ہے، خالی جیب کا ذکر ہوتا ہے ، کہیں کاسہ و کشکول توڑنے کے لئے کسی صاحبِ توقیر کی کھوج نظر آتی ہے اور کہیں لفظوں کے زیاں پر ، عامیانہ سخن طرازی پرطنز و تنقید کے تیر برستے دکھائی دیتے ہیں۔ بلاشبہ کلیم کے کلام میں ایسی گیرائی، گہرائی اور تنوع ہے کہ اس کا احاطہ چند صفحات میں کرنا ناممکن ہے۔اس مجموعہ کلام کی مجموعی فضا کے پیشِ نظر یہ کہنا بھی مشکل نہیں کہ ہمارے شاعر کے اظہار کا بنیادی حوالہ ’ثقافتی زوال ‘ کے ارد گرد گھومتا ہے، لیکن اس اظہار میں نا امیدی کا پہلو غالب نہیں آیا، بلکہ اس ثقافت کی بازیافت کا جگنو جگہ جگہ جگمگ جگمگ کر رہا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے ! راقم اسے ثقافتی زوال کا رجائیہ نوحہ نہ کہے تو اور کیا کہے؟

پشاور فقہی کانفرنس / الشریعہ اکادمی میں فکری نشست

پروفیسر حافظ منیر احمد

جامعۃ المرکز الاسلامی بنوں کے زیر اہتمام پانچویں سالانہ فقہی کانفرنس ۱۱، ۱۲ دسمبر ۲۰۰۴ بروز ہفتہ واتوار اوقاف ہال، چار سدہ روڈ، پشاور میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کی افتتاحی نشست کی صدارت جامعۃالمرکز الاسلامی کے رئیس مولانا سید نصیب علی شاہ ایم این اے نے کی، جبکہ مہمانان خصوصی میں وزیر اعلیٰ سرحد جناب محمد اکرم درانی اور قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمن شامل تھے۔ کارروائی کا آغاز قاری فیاض الرحمن علوی کی تلاوت قرآن مجید سے ہوا جس کے بعد کانفرنس کے داعی مولانا سید نصیب علی شاہ الہاشمی نے خطبہ استقبالیہ میں مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ کانفرنس کے انعقاد کی غرض وغایت پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمارے اسلاف زمانہ شناس تھے اور انھوں نے اپنے علم وفہم کی روشنی میں اپنے اپنے زمانے کی مشکلات کا حل پیش کیا۔ اسی طرح آج ہمیں بھی دور جدید کے حوالے سے بے شمار مسائل کا سامنا ہے جن کا عملی حل پیش کرنا دین متین سے وابستہ شخصیات کی ذمہ داری ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس کانفرنس میں جدید سائنسی انکشافات اور میڈیکل سائنس کے حوالے سے سامنے آنے والے علمی وفکری سوالات کا جائزہ لیا جائے گا اور علما، محققین اور دانش ور ان مسائل پر اظہار خیال کریں گے۔
افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سرحد جناب محمد اکرم درانی نے معزز مہمانوں کو پشاور میں خوش آمدید کہتے ہوئے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ اس نشست کے انعقاد کے لیے پشاور کا انتخاب کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ معاشرے میں سامنے آنے والے نت نئے مسائل کے حل کے لیے عوام علما ہی سے رجوع کرتے ہیں اور یہ امید کی جانی چاہیے کہ ارباب علم ودانش محققانہ انداز گفتگو اختیار کرتے ہوئے اپنے اپنے موضوع کے حوالے سے فقہ اسلامی کی روشنی میں مسائل کا حل پیش کریں گے۔ جناب اکرم درانی نے کہا کہ اسلام امن اور بھائی چارے کا دین ہے، لیکن عالمی سطح پر اس کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انھوں نے سرحد حکومت کی ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ علما وطلبا کی دعاؤں کا ثمر ہے کہ حکومت کو جو بھی مشکل پیش آتی ہے، اس کا فوری حل نکالنے میں کامیابی حاصل ہو جاتی ہے۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ آئندہ بھی ہمیشہ علما سے راہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔
قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمن نے اپنے خطاب میں فقہی مسائل وموضوعات پر کانفرنسوں کے انعقاد کو وقت کا تقاضا قرار دیا اور کہا کہ اسلام پوری انسانیت کا دین ہے اور اس کی تعلیمات شخصی زندگی کے دائرے تک محدود نہیں ہیں، بلکہ یہ معاشرہ واجتماع کے ہر مرحلہ اور ہر شعبہ میں انسان کی راہنمائی کرتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانیت کی راہنمائی کے لیے مبعوث ہوئے ہیں، اسی طرح آپ کی امت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ساری انسانیت کے لیے ذریعہ ہدایت بنے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام انسانیت کو امن کا پیغام دیتا ہے اور اس کے نزدیک تمام انسانوں کی جان، مال اور عزت وآبرو محترم اور مقدس ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تمام انسانی حقوق انھی تین چیزوں کے گرد گھومتے ہیں اور اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ان تینوں چیزوں کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرے۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی عالمی برادری کا تصور دیتا ہے اور جو دین، دنیا کی قوموں کو ایک برادری کا تصور دے کر ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے استفادہ کا پیغام دے، وہ سخت گیر نہیں ہو سکتا۔ انھوں نے کہا کہ اسلام دین اعتدال ہے اور وہ اپنے پیروکاروں کو کھانے پینے، تعلقات قائم کرنے، آمد وخرچ ، حتیٰ کہ عبادات میں بھی اعتدال کی تعلیم دیتا ہے، اور اسی وجہ سے عالم انسانیت کے ایک بڑے حصے نے اس دین کو قبول کیا ہے۔ 
انھوں نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام امن وسلامتی کے پیغمبر تھے، لیکن ان کی پیروی کے دعوے دار افغانستان اور عراق میں اپنا کردار دیکھیں کہ ان کے ہاتھوں انسانیت پر کیا گزر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے انھی لوگوں نے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے تھے، لیکن اس کے باوجود وہ انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ انسانی حقوق کے تحفظ کے علم بردار بھی بنے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے ہاں نام نہاد روشن خیالی اور اعتدال کا بڑا چرچا ہے اور اس کی آڑ میں کہیں پردہ کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جا رہا ہے تو کہیں لوگوں کو لنگڑا اور ٹنڈا بننے کا خوف دلا کر اسلامی احکام سے باغی بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اسلام کو انسانی زندگی ختم کرنے سے نہیں، بلکہ اس کی حفاظت سے دلچسپی ہے اور اسی وجہ سے اس نے معاشرتی جرائم کے خلاف سخت سزائیں تجویز کی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی سزاؤں کی تاثیر دیکھنی ہو تو اس سوسائٹی کا جن میں اسلامی حدود جاری ہیں، ان معاشروں کے جرائم کی شرح کے ساتھ تقابل کر کے دیکھ لیا جائے جو ان سزاؤں سے خالی ہیں۔ 
ملکی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ معاہدات کو توڑنا یا ان کی پاس داری نہ کرنا ہمارا شیوہ نہیں ہونا چاہیے۔ کسی قوم کے قائدین کی بڑائی کی علامت ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ زبان کی لاج رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اسلام اور جمہوریت اس ملک کی اساس ہیں اور آئین پاکستان میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ، پارلیمانی طرز حکومت اور جمہوریت کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملک کو آئین کے مطابق چلایا جائے اور اختلافات کو افہام وتفہیم سے سلجھانے کی روش اپنائی جائے۔ انھوں نے کہا کہ ہم سیاسی لوگ ہیں اور دلیل سے بات کرنا جانتے ہیں، اور ہم ملکی و عالمی قوتوں سے بھی یہی کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ طاقت سے نہیں، بلکہ دلیل سے بات کرو۔
کانفرنس کی مختلف نشستوں میں علما اور اہل دانش نے مجوزہ موضوعات پر مقالے پڑھے جن میں سے کچھ کے عنوانات حسب ذیل ہیں:
جدید سائنسی انکشافات اور اسلام، جدید سائنسی تحقیقات وایجادات اور اسلام کا نظریہ تحقیق ودلیل، جدید سائنسی تحقیقات پر مرتب شرعی احکام کے لیے فقہی اصول وضوابط، انسانی دماغ کے بارے میں جدید سائنسی تحقیقات اور اس پر مرتب فقہی مسائل، جدید طبی مسائل سے متعلق اہم سوالات کی نشان دہی، قرآن مجید کا نظریہ تسخیر کائنات، محرمات شرعیہ اور جدید سائنس، خلقت جنین کے بارے میں جدید سائنسی تحقیق اور قرآن کریم، انسانی کلوننگ کی شرعی حیثیت، قرآن، سائنس اور سمندر، خلافت وامامت کی اہمیت، رؤیت ہلال میں جدید سائنسی تحقیقات کی شرعی حیثیت، فلکیات جدیدہ قرآن وحدیث کی روشنی میں۔
مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر محمد یٰسین بٹ (انجینئرنگ یونیورسٹی، ٹیکسلا)، مولانا عبد القیوم حقانی (جامعہ ابو ہریرہ، نوشہرہ)، ڈاکٹر محمد اسلم خان، مولانا حفیظ اللہ (دار العلوم، کبیر والا) ، مولانا مفتی عبد النور (جامعہ فریدیہ، اسلام آباد)، پروفیسر صلاح الدین ثانی (قائد ملت کالج، کراچی)، مولانا مفتی محمد زاہد (جامعہ امدادیہ، فیصل آباد)، مولانا نعمت اللہ حقانی (وزیر ماحولیات، صوبہ سرحد)، پروفیسر شبیر احمد کاکاخیل (پاکستان اٹامک انرجی کمیشن)، پروفیسر نثار احمد (پشاور یونیورسٹی) ، ڈاکٹر محمد داؤد اعوان (وائس چانسلر، ہزارہ یونیورسٹی)، ڈاکٹر حمید الرحمن بن جمیل (ام القریٰ یونیورسٹی، مکہ مکرمہ) اور مصباح الدین یوسفی (دعوہ اکیڈمی، اسلام آباد) شامل تھے۔ 
دو روزہ کانفرنس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے نمایاں نکات درج ذیل ہیں:
۱۔ ملک بھر کے معتمد اہل علم وتحقیق کے باہمی اشتراک سے امت مسلمہ کو درپیش جدید مسائل کے حل کے لیے ایک مجلس قائم کی جائے گی۔
۲۔ جدید فقہی مسائل پر کانفرنسز، سیمینارز، اجتماعات اور مجالس کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔
۳۔ جامعات، مدارس اور عصری تعلیمی درس گاہوں اور تحقیقی اداروں میں عصری مسائل پر فقہی تحقیق کا سلسلہ جاری کیا جائے گا۔
۴۔ جدید مسائل پر فقہی تحقیقات پر مشتمل مقالات ومضامین سہ ماہی ’’المباحث الاسلامیہ‘‘ اور شش ماہی ’’البحوث الاسلامیہ‘‘ میں شائع کیے جائیں گے اور ان جرائد کی اشاعت کو مزید بڑھایا جائے گا۔
۵۔ عصر حاضر کے مسائل ومشکلات کے حل کے لیے اہل علم اور علمی اداروں کو آگے بڑھنا چاہیے جبکہ اہل خیر کو اس ضمن میں بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔ اسی طرح علما اور دینی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ باہمی ربط وتعاون اور اتحاد کو برقرار رکھیں۔
۶۔ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کے اسلامی اور رفاہی اقدامات قابل تحسین ہیں۔ ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ان کی مزید کامیابی کے لیے دعاگو ہیں۔
۷۔ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دینا ہر مسلمان حکومت کا فریضہ ہے۔ عالمی برادری کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں پر جاری مظالم کو بند کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

الشریعہ اکادمی میں فکری نشست

تحریک ختم نبوت کے عالمی مبلغ اور ختم نبوت اکیڈمی لندن کے ڈائریکٹر الحاج عبد الرحمن باوا نے کہا ہے کہ مغربی دنیا تک اسلام کا صحیح پیغام پہنچانے کے لیے علماء کرام کو انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ ابلاغ کے جدید ذرائع کی مہارت بھی حاصل کرنا ہوگی، ورنہ وہ اسلام کی دعوت وتبلیغ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری طرح ادا نہیں کر سکیں گے۔ الشریعہ اکیڈمی ہاشمی کالونی کنگنی والا گوجرانوالہ میں نئے تعلیمی سال کے آغاز کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مغرب میں اسلام کی دعوت وتبلیغ کا وسیع میدان موجود ہے، جبکہ قادیانی گروہ اور اس جیسے دیگر گمراہ ٹولے اسلام کے نام پر گمراہی پھیلانے میں مصروف ہیں، اس لیے دینی اداروں کو چاہیے کہ وہ علما اور فضلا کی تیاری میں اس بات کو بھی پیش نظر رکھیں اور نوجوان علماء کرام کو انگریزی زبان اور کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے استعمال کی ٹریننگ بھی دیں۔ 
مجلس احرار اسلام کے مرکزی راہ نما مولانا سید کفیل شاہ بخاری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علماء کرام اور دینی مراکز پر زور دیا کہ وہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات اور ان کے ضروری تقاضوں کا ادراک حاصل کریں اور اس کے مطابق اپنی ترجیحات اور حکمت عملی پر نظر ثانی کریں تاکہ وہ آج کے دور میں اسلام اور مسلمانوں کو درپیش چیلنج کا صحیح طور پر سامنا کر سکیں۔
تقریب کی صدارت الشریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے کی اور پروفیسر محمد اکرم ورک نے نقابت کے فرائض سرانجام دیے، جبکہ اس موقع پر شرکاء محفل کو بتایا کہ الشریعہ اکیڈمی میں حسب سابق اس سال بھی ایک سالہ کلاس میں درس نظامی کے فضلا کو انگریزی، عربی، کمپیوٹر، بین الاقوامی قانون، سیاست، معیشت، نفسیات، شہریت اور دیگر ضروری مضامین پر مشتمل کورس پڑھایا جائے گا۔

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’ارمغان حج‘‘

مولانا محمد اکرم ندوی ہمارے فاضل دوست ہیں۔ ندوۃ العلماء لکھنو سے علمی وفکری وابستگی رکھتے ہیں، آکسفورڈ میں ایک عرصہ سے مقیم ہیں اور آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز سے ریسرچ اسکالر کے طور پر وابستہ ہیں۔ علم حدیث ان کا خصوصی موضوع ہے اور علم حدیث کے اساتذہ کی تلاش، ان کی خدمت میں حاضری، ان سے استفادہ اور روایت حدیث کی اجازت حاصل کرنے کا خاص ذوق رکھتے ہیں۔ ان کی متعدد تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ کئی برسوں سے امت کی محدثات کے حالات جمع کرنے میں مصروف ہیں جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ آٹھ ہزار کے قریب محدثات کے حالات قلم بند کر چکے ہیں اور ان کی یہ قابل قدر کتاب کئی ضخیم جلدوں میں ’’الوفاء فی اسماء النساء‘‘ کے نام سے شائع ہو رہی ہے۔
مولانا ندوی موصوف نے اپنے ایک سفر حج کی روداد تحریر کی ہے جس کے بارے میں انھوں نے مجھے کچھ عرصہ قبل بتایا تو خوشی ہوئی کہ ایک باخبر اور باذوق عالم دین ہیں، اس لیے یقیناًان کی یہ تحریر استفادہ کی چیز ہوگی، لیکن مکمل ہونے کے اس کے مطالعہ سے یہ خوشی دوچند ہو گئی کہ انھوں نے صرف اپنے سفر حج کی روداد اورکیفیات وواردات کو سپرد قلم نہیں کیا، بلکہ اس کے ساتھ مختلف علماء کرام اور محدثین کی خدمت میں حاضری اور استفادہ کی تفصیلات بھی پورے اہتمام کے ساتھ جمع کر دی ہیں اور اس طرح ان کا حرمین شریفین کا یہ مبارک سفر حج بیت اللہ کی سعادت کے ساتھ ساتھ طلب علم اور حدیث نبوی علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کے ساتھ والہانہ وابستگی کا عنوان بھی بن گیا ہے۔
انھوں نے جس خوش اسلوبی اور محنت کے ساتھ اپنے سفر کی تفصیلات اور اکابر علما ومحدثین کے ساتھ ملاقاتوں کی کیفیات کو قلم بند کیا ہے اور خاص طور پر حدیث نبوی کے طلبہ کے لیے معلومات کا ایک گراں قدر ذخیرہ اس میں سمو دیا ہے، اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کو دارین میں قبولیت عطا فرمائیں اور ہم سب کو قرآن کریم اور حدیث نبوی علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کے علوم کے ساتھ فہم وعمل اور مسلسل خدمت کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔
اڑھائی سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب انجمن خدام الاسلام حنفیہ قادریہ لاہور نے شائع کی ہے اور جامعہ حنفیہ قادریہ، ۲۸۵ جی ٹی روڈ، باغ بان پورہ لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ 

’’مسائل غیر مقلدین‘‘ اور ’’غیر مقلدین کی ڈائری‘‘

اہل حدیث اور احناف کے مابین بہت سے مسائل پر بحث ومباحثہ کا سلسلہ گزشتہ ڈیڑھ صدی سے چل رہا ہے اور دونوں طرف سے مناظرانہ انداز میں ایک دوسرے کے خلاف کتابوں، پمفلٹوں اور رسائل کا تسلسل قائم ہے۔ یہ مباحث اگر علمی انداز میں ایک دوسرے کے موقف کا احترام کرتے ہوئے اپنے موقف کی وضاحت وثبوت کے لیے ہوں تو بہت کارآمد اور ضروری ہیں اور متعدد اہل علم کی تصنیفات اس حوالے سے موجود ہیں جو یقیناًافادیت کی حامل ہیں، لیکن بد قسمتی سے ان مسائل میں ایک دوسرے کی تحقیر، طعن وتشنیع اور تضلیل وتفسیق کا عنصر بھی عام طور پر گفتگو اور تحریر میں غلبہ پا جاتا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ بحث وتمحیص کی افادیت اور لطف ختم ہو کر رہ جاتا ہے بلکہ نئی نسل پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ 
تیسری صدی ہجری کے معروف حنفی محدث حضرت امام طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ’’شرح معانی الآثار‘‘ میں ایک مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انھیں اس بحث میں سخت لہجہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن چونکہ فریق مخالف یہ کہہ کر ظلم کرتا ہے کہ احناف کے پاس اپنے فقہی مسائل کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے، اس لیے اس کے جواب میں ہمیں بھی سخت لہجہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ کم وبیش یہی صورت حال آج بھی ہے اور سوال وجواب اور پھر جواب الجواب میں لہجہ کی شدت اور شکوہ وشکایت کی یہ روایت بدستور موجود ہے جو بہرحال ذوق سلیم کو کھٹکتی ہے اور جدید تعلیم یافتہ حلقوں میں الجھن کا باعث بنتی ہے۔
اسی پس منظر میں بھارت کے معروف عالم دین مولانا ابوبکر غازی پوری فاضل دیوبند کی دو کتابیں اس وقت ہمارے سامنے ہیں جن میں مناظرانہ انداز میں غیر مقلدین کے مسائل اور معمولات پر بحث کی گئی ہے۔ مختلف حوالوں اور دلائل کے ساتھ ان کے خلاف اپنے موقف کی وضاحت کی گئی ہے اور ان مسائل پر بحث ومباحثہ کا ذوق رکھنے والے علما اور طلبہ کے لیے معلومات کا ذخیرہ جمع کیا گیا ہے۔ 
’’مسائل غیر مقلدین‘‘ پونے چار سو صفحات کی مجلد کتاب ہے جس کی قیمت ۹۰ روپے ہے جبکہ ’’غیر مقلدین کی ڈائری‘‘ سوا دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے، مجلد ہے اور اس کی قیمت ۷۵ روپے ہے۔ یہ دونوں کتابیں ادارہ خدام الاحناف، ۲۸۵ جی ٹی روڈ، باغبان پورہ لاہور سے طلب کی جا سکتی ہیں۔
(ابو عمار زاہد الراشدی)

مارچ ۲۰۰۵ء

عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
امریکی تعلیمی اداروں میں آزادی فکر کی صورتحالبشارہ دومانی
مغرب کا فکری و تہذیبی چیلنج اور علما کی ذمہ داریاںڈاکٹر محمود احمد غازی
ندوۃ العلماء کا مسلک اعتدالڈاکٹر ہارون رشید صدیقی
اجتہادی اختلافات میں معاشرتی مصالح کی رعایتمولانا سید سلمان الحسینی الندوی
کیا شیعہ سنی اتحاد ممکن ہے؟سید منظر تمنائی
’’شیعو اور سنیو!‘‘ کے بارے میں گزارشاتحافظ محمد قاسم
مکاتیبادارہ
قربِ گریزاں کی ایک غزلپروفیسر میاں انعام الرحمن
مولانا حافظ محمد طاہر لدھیانوی کا انتقالادارہ
الشریعہ اکادمی میں یوم کشمیر کے موقع پر تقریبادارہ
’’سماجی بہبود تعلیمات نبوی کی روشنی میں‘‘پروفیسر محمد فاروق حیدر

عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ہمارے ہاں یہ خوف عام طور پر پایا جاتا ہے جو دن بدن بڑھتا جا رہا ہے کہ مغرب نے عالم اسلام کے وسائل پر قبضہ کرنے، اس کی سیاست کو کنٹرول میں لینے اور اس کی معیشت کو اپنے مفادات میں جکڑنے کے بعد اب اس کی تہذیب وثقافت کو فتح کرنے کے لیے یلغار کر دی ہے۔ یہ یلغار سب کو دکھائی دے رہی ہے اور اس کے وجود اور شدت سے کوئی باشعور شخص انکار نہیں کر سکتا، لیکن سوال یہ ہے کہ اس یلغار کا راستہ روکنے یا اس کی زد سے اپنی تہذیب وثقافت کو بچانے کے لیے عالم اسلام میں کیا ہو رہا ہے؟ ہمارے دینی وعلمی حلقوں میں اس یلغار کا جو رد عمل سامنے آ رہا ہے، اس کا وہ رخ تویقیناًخطرناک ہے جس میں مغرب کے سامنے سپر اندازی اور ا س کے فلسفہ ونظام کو مکمل طور پر قبول کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے، لیکن وہ دوسرا رخ بھی اس سے کم خطرناک نہیں ہے جس میں مغرب کی ہر بات کو رد کر دینے پر زور دیا جا رہا ہے اور جس طرح مغرب نے بادشاہت، جاگیرداری اور مذہبی پیشوائیت کے مظالم اور جبر کے رد عمل میں ان کی ہر بات کو مسترد کر دینے کی حماقت کی تھی، اسی طرح ہم بھی مغرب کی دھاندلی، استحصال، جبر اور فریب کاری پر غضب ناک ہو کر رد عمل میں اس کی تمام باتوں کو مسترد کر دینا چاہتے ہیں۔ ان میں وہ باتیں بھی ہیں جو مغرب نے غلط طور پر اختیار کی ہیں اور وہ باتیں بھی شامل ہیں جو مغرب نے ہم سے لی ہیں، مگر ہم انھیں اپنی گم شدہ میراث سمجھنے کے بجائے مغرب کے کھاتے میں ڈال دینے میں ہی عافیت محسوس کر رہے ہیں۔ 
مغرب کی لادینی جمہوریت ہو، مطلق جمہوریت ہو یا اس کی مجموعی تہذیب وترقی ہو، اس پر مسلم امہ کا رد عمل حقیقت پسندانہ نہیں ہے اور حالات کے معروضی تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہمارا رد عمل دو انتہاؤں کے درمیان پنڈولم (pendulum) بنا ہوا ہے۔ ایک طرف اسے مکمل طور پر قبول کر لینے کی بات ہے اور دوسری طرف اسے مکمل طور پر مسترد کر دینے کا جذبہ ہے۔ ہمارے رد عمل کے اس پنڈولم کو درمیان میں قرار کی کوئی جگہ نہیں مل رہی اور یہی ہمارا اصل المیہ ہے۔ ہم ان ارباب دانش کی مساعی کی نفی نہیں کرنا چاہتے جنھوں نے درمیان کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور مغربی تہذیب وثقافت کو اپنے افکار وخیالات کی چھلنی میں چھاننے کے لیے بے پناہ صلاحیتیں صرف کی ہیں۔ ان کی مساعی یقیناًقابل قدر ہیں، لیکن یہ کوششیں انفرادی سطح پر ہوئی ہیں اور ہر دانش ور نے مغربی تہذیب وثقافت کو چھاننے کے لیے اپنی چھلنی الگ بنائی ہے جس کا نتیجہ فکری انتشار میں اضافہ کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوا۔ ہمارے بیشتر دانش وروں نے مغربی تہذیب وثقافت کا جائزہ لینے سے قبل یہ ضروری سمجھا ہے کہ اسلام کی تعبیر وتشریح کے روایتی ڈھانچے کو توڑ کر نیا ڈھانچہ تشکیل دیا جائے یا کم از کم روایتی دینی ڈھانچے سے لاتعلقی کا ضرور اعلان کیا جائے۔ 
آج مغرب اور عالم اسلام میں مکالمہ کی جو ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور جس ڈائیلاگ کی اہمیت پر زور دیا جا رہا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے ایک دوسرے کو سمجھنے میں کہیں نہ کہیں غلطی ضرور کی ہے۔ مغرب ہمیں سمجھنے میں مغالطوں کا شکار ہوا ہے اور ہم نے مغرب کو سمجھنے میں فریب کھائے ہیں۔ اگر یہ مکالمہ اور ڈائیلاگ ان غلطیوں کی نشان دہی اور فریب کے دائروں سے نکلنے کے لیے ہوں تو اس کی ضرورت، اہمیت اور افادیت سے انکار کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چند ماہ قبل جب مختلف مذاہب کے راہ نماؤں کے درمیان مکالمہ کی بات چلی اور اسلام آباد میں اس سلسلے میں ایک کانفرنس بھی ہوئی تو اس مرحلے پر مجھ سے بھی رابطہ کیا گیا اور میری رائے دریافت کی گئی۔ میں نے گزارش کی کہ میں بھی اس مکالمہ اور ڈائیلاگ کی ضرورت محسوس کرتا ہوں اور اس کی افادیت واہمیت سے مجھے انکار نہیں ہے، لیکن میرے نزدیک یہ افادیت صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے کہ یہ مذاکرات حکومتی سطح پر یا حکومتوں کے ذریعے نہ ہوں۔ یہ مکالمہ اہل علم کا کام ہے اور اس موضوع سے دلچسپی اور مناسبت رکھنے والے ارباب فہم ودانش کا مسئلہ ہے۔ حکومتوں کی مداخلت یا دلچسپی ایسے معاملات کو بگاڑ دیا کرتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ایجنڈا یک طرفہ نہ ہو بلکہ باہمی مشورہ سے ایجنڈا طے کیا جائے۔ مثلاً اس وقت بین المذاہب مکالمہ کے لیے سب سے بڑا ایجنڈا ’’دہشت گردی کے لیے مذہب کا استعمال اور اس کی روک تھام‘‘ بیان کیا جاتا ہے۔ مجھے اس کی ضرورت سے انکار نہیں، لیکن یہ یک طرفہ ایجنڈا ہے اور اگر مغرب اور عالم اسلام کے درمیان مکالمہ کے لیے ایجنڈا طے کرنے میں مجھ سے رائے طلب کی جائے تو میں اس کے لیے تین نکاتی ایجنڈا تجویز کروں گا:
  • انسانی سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے مذہب کی بے دخلی کے اثرات کا جائزہ۔
  • دہشت گردی، انتہا پسندی اور مذہبی جبر کی تعریف اور حدود کا تعین۔
  • دہشت گردی کے لیے مذہب کا استعمال اور اس کی روک تھام۔
مجھے یقین ہے کہ اسلام اور مسیحیت کے سنجیدہ ارباب علم ودانش اگر مل بیٹھ کر اس ایجنڈے پر گفتگو کریں اور ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ ان امور کا جائزہ لیں تو وہ نہ صرف بہت سی باہمی غلط فہمیوں کا ازالہ کر سکتے ہیں بلکہ عالم اسلام اور مغرب کے درمیان دن بدن بڑھتے چلے جانے والی کشیدگی میں کمی کے راستے بھی تلاش کر سکتے ہیں۔

امریکی تعلیمی اداروں میں آزادی فکر کی صورتحال

بشارہ دومانی

آپ کو کوئی کتاب خریدنی یا لائبریری سے جاری کروانی ہے تو ذرا سوچ سمجھ کر کروائیے۔ ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی، آرویلین نیمڈ پیٹریاٹ ایکٹ کے تحت آپ کی نگرانی کر سکتا ہے۔ اس قانون کی ایک اور شق کے مطابق اس بات کا بھی خطرہ موجود ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کو خبردار کرے کہ حکومت آپ کے کتابوں کے انتخاب کی نگرانی کر رہی ہے تو اس پر فوجداری مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
کلاس روم میں مطالعے کے لیے مواد تجویز کرتے وقت بھی احتیاط کیجیے۔ چیپل ہل کی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا پر امریکن فیملی اسوسی ایشن سنٹر فار لا اینڈ پالیسی نے اس بنیاد پر مقدمہ دائر کر دیا تھا کہ اس میں نئے آنے والے طلبہ کے سامنے اسلام کا مختصر تعارف کرانے کی اسائنمنٹ دی گئی تھی۔ خوش قسمتی سے یونیورسٹی اپنے موقف پر سختی سے قائم رہی اور کورٹ آف اپیلز نے مقامی سیاست دانوں اور یونیورسٹی کے بعض ٹرسٹیز کے زائد حملوں کے باوجود مقدمہ خارج کر دیا۔
اس ضمن میں بھی محتاط رہیے کہ آپ اشاعت کے لیے کون سے مضامین قبول کر رہے ہیں۔ یو ایس ٹریژری ڈپارٹمنٹ کے آفس آف فارن ایسٹس کنٹرول نے فروری ۲۰۰۴ میں فیصلہ کیا کہ امریکی اشاعتی ادارے ان ممالک میں تصنیف کیے جانے والے کاموں کو ایڈٹ نہیں کر سکتے جن پر تجارتی پابندیاں عائد ہیں، جن میں ایران، عراق، سوڈان، لیبیا اور کیوبا شامل ہیں۔ خلاف ورزی کے نتیجے میں ایک ملین ڈالر تک جرمانہ اور دس سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
جو کچھ آپ پڑھا رہے ہیں، اس میں بھی احتیاط برتیے۔ خزاں ۲۰۰۳ میں امریکی ایوان نمائندگان نے متفقہ طور پر قرارداد نمبر ۳۰۷۷ منظور کر کے ایک ایڈوائزری بورڈ تشکیل دیا جو دنیا کے مختلف خطوں کے مطالعہ کے لیے قائم مراکز کی نگرانی کرے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ یہ مراکز ’’قومی مفاد‘‘ کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اگرچہ قانون کا اطلاق تمام ان مراکز پر ہوگا جن کو وفاقی ٹائٹل وئی آئی پروگرام کے تحت امداد ملتی ہے، لیکن اس کا ہدف واضح طور پر ملک کے وہ سترہ مراکز ہیں جو مشرق وسطیٰ کے مطالعے کے لیے مخصوص ہیں۔ دی اسوسی ایشن آف امریکن یونیورسٹی پروفیسرز، دی امریکن سول لبرٹیز یونین، دی مڈل ایسٹ سٹڈیز اسوسی ایشن اور بیشتر پیشہ ور تنظیموں نے حکومت کی جانب سے کلاس روم میں اس طرح کی مداخلت پر تشویش کا اظہار کیا ہے جس کی کوئی مثا ل ماضی میں نہیں ملتی۔ ان کے خدشات میں بورڈ کے لا محدود تفتیشی اختیارات، جواب دہی کا فقدان اور بورڈ کی ہیئت تشکیلی ہے، کیونکہ اس کے کچھ ارکان ملک کی حفاظت کی ذمہ دار دو ایجنسیوں سے لیے جائیں گے۔ اگر قرارداد نمبر ۳۰۷۷ کو امریکی سینٹ بھی پاس کر دیتی ہے تو حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ایک تفتیشی باڈی کو اختیار حاصل ہو جائے گا کہ وہ کلاس روم کی نگرانی کرتے ہوئے یہ فیصلہ کرے کہ مثال کے طور پر کون سا لیکچر متنوع اور متوازن ہے اور کون سا نہیں۔ اس کے نتیجے میں پیشہ ورانہ تعلیمی معیار کا بالکل خاتمہ ہو جائے گا اور اس کی جگہ سیاسی معیار لے لے گا۔
اس کی بھی احتیاط کیجیے کہ آپ کلاس میں یا کیمپس کے باہر کیا کہہ رہے ہیں۔ امریکن کونسل آف ٹرسٹیز اینڈ ایلمنی نے، جس کی بانی نائب صدر ڈک چینی کی اہلیہ لن چینی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سینٹر اور سابق نائب صدارتی امیدوار جوزف لائبرمین ہیں، ’’تہذیب کا تحفظ: یونیورسٹیاں کیسے امریکہ کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور اس سلسلے میں کیا کیا جا سکتا ہے؟‘‘کے عنوان کے تحت ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں یونیورسٹیوں پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کمزور کردار ادا کر رہی ہیں اور یہ کہ وہ دشمن کو فائدہ پہنچانے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ تنظیم کی ویب سائٹ پر ۱۱۷؍ امریکہ مخالف پروفیسروں اور ان کے ایسے ناگوار ریمارکس کی فہرست شائع کی گئی ہے جو انھوں نے مبینہ طور پر دیے۔
اگر آپ فورڈ یا راک فیلر فاؤنڈیشن سے امداد کے لیے درخواست دینا چاہتے ہیں تو بھی احتیاط کیجیے۔ آپ سے نئے انداز سے بنائی گئی امدادی درخواستوں پر دستخط کے لیے کہا جائے گا جو آپ کو اور آپ کی تنظیم کو اس بات کا پابند کریں گی کہ، اگر آپ فورڈ فاؤنڈیشن سے امداد لینا چاہتے تو آپ ’’تشدد، دہشت گردی، تنگ نظری، یا کسی ملک کی تباہی‘‘ میں ملوث نہ ہوں۔ جو لوگ فلسطین اسرائیل تنازع کے حوالے سے ۱۱ ستمبر سے بہت پہلے سے جاری عمومی مباحثے سے واقف ہیں، وہ فوراً سمجھ جائیں گے کہ اس نئی اصطلاح کا حقیقی مفہوم کیا ہے۔ ان کے لیے یہ بات ہرگز حیرانی کا باعث نہیں ہوگی کہ درخواستوں میں یہ تبدیلیاں اسرائیل کی حامی کئی یہودی تنظیموں کی تنقید کے باعث اور پھر ان کے مشورے سے کی گئی ہیں جو اس بات پر ناراض تھیں کہ انسانی حقوق کے کچھ گروپ جنھوں نے جنوبی افریقہ میں ڈربن کانفرنس کے موقع پر اسرائیل پر سخت تنقید کی تھی، انھیں فورڈ اور راک فیلر کی طرف سے امداد ملی ہے۔ اس اصطلاح کی ایک مشکل یہ ہے کہ اس کی شرائط واضح اور متعین نہیں ہیں۔ کیا اگر کسی لیکچر میں کسی اسلام پسند تنظیم مثلاً حزب اللہ کے لبنان کے سیاسی نظام میں حصہ لینے کے حق کی حمایت کی جائے تو اس کو دہشت گردی کا فروغ قرار دیا جائے گا؟ کیا اگر کسی ریسرچ میں اسرائیل اور فلسطین پر مبنی ایک دو قومی ریاست قائم کرنے کے حق میں دلائل دیے گئے ہوں تو اس پر اسرائیل کی تباہی کا پیغام پھیلانے کا الزام لگا دیا جائے گا؟ باوقار یونیورسٹیوں مثلاً ہارورڈ، ییل، پرنسٹن، مارنل، کولمبیا، سٹین فورڈ، دی یونیورسٹی آف پنسلوینیا، میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، اور دی یونیورسٹی آف شکاگو نے اس زبان پر اعتراض کیا ہے جس پر بعض معمولی تبدیلیاں کر دی گئی ہیں۔ تاہم یہ اتنی معمولی ہیں کہ ACLU نے، جو امریکہ میں شہری حقوق کی ایک بڑی تنظیم ہے، حال ہی میں فورڈ کی طرف سے ایک ملین ڈالر کی اور راک فیلر کی طرف سے ایک لاکھ پچاس ہزار ڈالر کی امداد مسترد کر دی ہے۔ ACLU کی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ یہ ’’ایک افسوس ناک دن ہے کہ اس ملک کے دو نہایت محبوب اور قابل احترام ادارے یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ خوف اور ہراس کی ایک ایسی فضا میں کام کر رہے ہیں جس میں وہ اپنے ہزاروں وصول کنندگان سے یہ مطالبہ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ امداد حاصل کرنے کے لیے مبہم شرائط کو قبول کریں جس سے شہری آزادیوں پر سخت مضر اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘
اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے بھی محتاط رہیے۔ نجی طور پر مالی امداد سے چلنے والی تنظیموں کی طرف سے ’’ٹیک بیک دی کیمپس‘‘ مہموں میں ان طلبہ اور اساتذہ کو ہدف بنایا جا رہا ہے جن کا تعلیمی یا ثقافتی طور پر مسلمانوں یا مشرق وسطیٰ کے ممالک سے تعلق ہے۔ ان میں سے کچھ تنظیمیں کھلے بندوں طلبہ کو اپنے اساتذہ اور ساتھی طلبہ کی مخبری کا کام سونپتی ہیں جن کو پھر سامی مخالف ہونے کے الزام میں نکال دیا جاتا ہے۔ یہ جنگ محض لفظوں تک محدود نہیں ہے، بہت سے پروفیسروں کو، جن پرجھوٹے الزامات عائد کیے گئے، خود ان کی اپنی یونیورسٹیوں اور میڈیا کی طرف سے تذلیل اور کردار کش تفتیشوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بڑے بڑے چندہ دہندگان کو متحرک کر کے یونیورسٹی کے منتظمین، مثال کے طور پر ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر ،پر دباؤ ڈلوایا گیا ہے کہ وہ ایسے بیانات جاری کریں جن میں اسرائیلی پالیسیوں پر تنقید کو موثر طور پر سامیت دشمنی کے مترادف قرار دیا گیا ہو۔
اگر آپ امریکی شہری نہیں ہیں اور تدریس یا تعلیم کے لیے امریکہ جا رہے ہیں تو بھی احتیاط کیجیے۔ اگر آپ امریکی پالیسیوں کے بارے میں ناقدانہ خیالات رکھتے ہیں تو آپ کا ویزا کینسل کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ پروفیسر طارق رمضان کے کیس میں ہو چکا ہے۔ سیاسی پروفائلنگ (کسی شخص کے قومی، نسلی یا مذہبی پس منظر کی بنیاد پر بوقت ضرورت نئی پالیسیوں کے نفاذ) کی بنا پر غیر امریکیوں کے امریکہ میں پہلی مرتبہ یا دوبارہ داخلے میں رکاوٹیں پیدا کرنے سے تعلیمی پروگراموں میں خلل واقع ہوا ہے اور امریکہ میں غیر ملکی گریجویٹ طلبہ کی تعداد میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ جن طلبہ کو ویزا مل جاتا ہے، ان کے تعلیمی اداروں سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ ان طلبہ کی نگرانی کریں اور سرکاری ایجنسیوں کو ریگولر رپورٹیں جمع کروائیں۔ ان تمام پالیسیوں کے نتیجے میں امریکہ کے تعلیمی ماحول کا پورا بین الاقوامی عنصر ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ 
(ISIM Review, Spring 2005)

مغرب کا فکری و تہذیبی چیلنج اور علما کی ذمہ داریاں

ڈاکٹر محمود احمد غازی

(۲ جنوری ۲۰۰۵ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ’’دینی مدارس میں عمرانی علوم کی تدریس کی ضرورت واہمیت ‘‘ کے زیر عنوان منعقد ہونے والی فکری نشست سے خطاب۔)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلی آلہ واصحابہ اجمعین۔
قابل احترام جناب مولانا زاہد الراشدی، علماء کرام، برادران محترم، عزیز طلباء کرام!
سب سے پہلے میں آپ سب حضرات کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے عزت بخشی، یہاں حاضری کا موقع عطا فرمایا اور اپنے بعض ناچیز خیالات پیش کرنے کی ا جازت دی۔ 
برادران محترم! اس وقت دنیاے اسلام جس دور سے گزر رہی ہے، یہ دور اسلام کی تاریخ کا انتہائی مشکل دور ہے۔ امت مسلمہ کو جو مشکلات آج درپیش ہیں، شاید ماضی میں اتنی مشکلات کبھی درپیش نہیں ہوئیں۔ ایک اعتبار سے امت مسلمہ کی پوری تاریخ بحرانوں کی تاریخ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور نبوت کے آغاز سے لے کر، جب آپ دار ارقم میں قیام فرما تھے، آج تک کوئی صدی، اور صدی کا کوئی حصہ یا کوئی عشرہ ایسا نہیں گزرا جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اس میں مسلمانوں کو کوئی مشکل درپیش نہیں تھی۔ لیکن ان ساری مشکلات میں اور آج کی مشکل میں ایک بڑا بنیادی فرق ہے۔ ماضی کی جتنی مشکلات اور پریشانیاں تھیں، وہ عموماً زندگی کے کسی ایک گوشے تک محدود ہوتی تھیں۔ مسلمانوں کو عسکری اعتبار سے کسی دشمن کامقابلہ کرنا پڑا، پیچھے ہٹنا پڑا، پسپائی اختیار کرنا پڑی، یہ ایک عسکری شکست یا عسکری ہزیمت کا معاملہ تھا۔ یا مسلمانوں کی کوئی حکومت کمزور ہوئی، غیر ملکی قوتیں مضبوط ہو گئیں اور مسلمان سیاسی طور پر پس ماندگی کا شکار ہوئے، یہ سیاسی میدان میں کمزوری تھی۔ اس طرح کی کمزوریاں جو عموماً سیاسی، مالی، عسکری یا مادی ہوتی تھیں، تقریباً ہر دور میں پیش آتی رہیں، لیکن ان سارے ادوار میں مسلمانوں کا خاندان، مسلمانوں کی تعلیم، مسلمانوں کا نظام تربیت اور مسلمانوں کی جو اندرونی ساخت اور تشکیل (Internal fabric) تھی، وہ اکثر وبیشتر بیرونی خطرات اور حملوں سے محفوظ رہی۔ تاتاریوں کے حملے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دنیاے اسلام پر اس سے برا وقت کوئی نہیں آیا، اور یقیناًوہ بہت برا وقت تھا کہ افغانستان کے مشرقی علاقوں سے لے کر مصر کے حدود تک اور ترکی کے جنوبی علاقوں سے لے کر جزیرۃالعرب کے وسط تک، یہ سارا علاقہ تاتاریوں کی تاخت وتاراج کی آماجگاہ تھا۔ انھوں نے ہزاروں علماے کرام کو شہید کیا اور بڑے بڑے جید ترین اکابر اسلام ان کی تلوار کا نشانہ بنے۔ خواجہ فرید الدین عطار، جن کے بارے میں مولانا رومؒ نے فرمایا:
عطار او بود وسینائی دو چشم او
ما از پئے سینائی وعطار آمدیم
اس درجے کے انسان کہ جن کی پیروی پر مولانا روم جیسے آدمی نے فخر کا اظہار کیا ہے، ایسے اونچے اونچے لوگ تاتاریوں کی تلوار کا شکار ہوئے۔ کتب خانے انھوں نے جلا دیے، شہر برباد کر دیے، یہاں تک کہ ابن کثیرؒ نے اپنی مشہور کتاب ’البدایہ والنہایہ‘ میں لکھا ہے کہ اس زمانے میں مسلمانوں کی شکست خوردگی اور پست ہمتی کا یہ عالم تھا کہ ’اذا قیل لک ان التتار انھزموا فلا تصدق‘، یعنی اگر تمھیں یہ خبر دی جائے کہ تاتاریوں کو شکست ہو گئی ہے تو اس پر یقین نہ کرو۔ گویا تاتاریوں کی شکست ناقابل تصور سمجھی جاتی تھی اور یہ بات ضرب المثل بن گئی تھی۔ لیکن اس ساری تباہی اور بربادی کے باوجود تاتاریوں کی شکست وریخت کا دار ومدار سارا کا سارا مسلمانوں کی عسکری اور سیاسی کمزوری پر تھا۔ انھوں نے مسلمانوں کو سیاسی نقصان پہنچایا، عسکری نقصان پہنچایا، لیکن ان کے پاس کوئی دین نہیں تھا، کوئی پیغام نہیں تھا، کوئی تہذیب نہیں تھی، کوئی مذہب نہیں تھا، کوئی فکری ایجنڈا نہیں تھا، اس لیے مسلمانوں کی تہذیب وتمدن، تربیت اور خاندانی نظام ان کے حملوں سے محفوظ رہا اور ان میں سے کوئی چیز متاثر نہیں ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کی اندرونی قوت نے ان کا ساتھ دیا اور بہت جلد وہ تاتاریوں کی شکست کے نتائج اور ثمرات بد سے نکلنے میں کام یاب ہو گئے۔ یہی کیفیت بقیہ بہت سے معاملات کی بھی رہی۔ 
آج جو صورت حال درپیش ہے، اور آج سے نہیں، پچھلے ڈیڑھ سو سال سے درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ ہر آنے والا دن، ہر نکلنے والا سورج خطرے کی یا پریشانی کی ایک نئی جہت لے کر آتا ہے۔ آج اسلامی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو خطرات سے دوچار نہ ہو۔ فرد کے ذاتی کردار اور تربیت کا معاملہ ہو، گھر کے اندر ماں اور بچوں کے درمیان کامعاملہ ہو، میاں بیوی کے تعلقات کا معاملہ ہو، گھر کی خواتین کے رویے کا معاملہ ہو، تعلیم وتربیت کا معاملہ ہو، یا مساجد کے جاری اندر سرگرمیوں اور معمولات کا معاملہ ہو، ان میں سے ہر چیز آج براہ راست مغربی حملے کی زد میں ہے۔ تاتاریوں نے شاید کبھی یہ نہیں پوچھا ہوگا کہ جامعہ ازہر میں کیا پڑھایا جا رہا ہے، مسلمانوں کی نصاب کی کتابوں میں کیا لکھا جا رہا ہے یا فقہ کی کتابوں میں کیا لکھا ہے۔ انھوں نے کبھی یہ چیز زیر بحث لانے کی کوشش نہیں کی۔ اسی طرح انگریز جب شروع میں یہاں آئے تو انھوں نے بھی ان معاملات پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگریز کے ڈیڑھ دو سو سال یہاں رہنے کے باوجود مسلمانوں کی اندرونی ساخت بڑی حد تک (by and large) مغربی اثرات سے محفوظ رہی اور ایسے لوگ ہزاروں نہیں، بلکہ لاکھوں کروڑوں تھے جن کی زندگی کا ایک لمحہ یا ایک گوشہ بھی انگریزی اثرات سے متاثر نہیں ہوا۔ 
میرے خاندان کے ایک بزرگ تھے، حافظ محمد اسماعیل جو بڑے عالم اور محدث تھے۔ مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ کے والد تھے اور رشتے میں میرے والد کے چچا تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں کسی انگریز کی شکل نہیں دیکھی، انگریزی کا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا اور اپنے گھر میں کسی کو انگریزی کا لفظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ہندوستان میں پہلے شاید ٹماٹر نہیں ہوتا تھا، بعد میں جب یہاں ٹماٹر آیا تو یہ لفظ شاید انگریزی کے tomato کی اردو شکل تھی۔ حافظ اسماعیل صاحب ٹماٹر کا لفظ استعمال نہیں کرتے تھے اور اگر کوئی یہ لفظ بولتا تھا تو اس پر ناخوشی کا اظہار کرتے تھے۔ انھوں نے اس کا نام لال بینگن رکھا ہوا تھا۔ میرے والد صاحب بتاتے تھے کہ ایک دن گھر میں انھوں نے پوچھا کہ سالن میں کیا ڈالا ہے؟ ان سے کہا گیا کہ ٹماٹر ڈالا ہے تو وہ سخت ناراض ہوئے کہ نصرانیت میرے گھر میں گھس آئی؟ اس کو لال بینگن کیوں نہیں کہتے؟ 
بظاہر یہ بات آج ہمیں لطیفہ معلوم ہوتی ہے، لیکن اگر مسلمانوں میں کچھ لوگ اتنی شدت کے ساتھ مغربی اثرات میں رکاوٹ پیدا نہ کرتے تو مغربی اثرات آج سے سو سال پہلے اسی طرح لوگوں کے گھروں میں گھس جاتے جیسا کہ آج گھستے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔ اس طرح کی مثالیں ایک دو نہیں، ہزاروں ہیں اور سیکڑوں، لاکھوں، بلکہ کروڑوں انسان ایسے ہیں جنھوں نے مغربی اثرات کے خلاف مزاحمت کی اور مسلمانوں کو ان سے محفوظ رکھنے کی سعی کی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ انھوں نے مغرب کی مثبت چیزوں کو بھی روکا۔ یقیناًبعض باتیں مغرب میں مثبت بھی تھیں جن کے ثمرات سے مسلمان محروم رہے، لیکن آج یہ بات کہنا اور تبصرہ کرنا تو بڑا آسان ہے کہ فلاں بزرگ نے پابندی لگا دی تھی اور مغربی اثرات کے ثمرات سے مسلمانوں کو محروم رکھا، لیکن آج سے سو سال پہلے کے ماحول میں جو انسان طوفان کے سامنے کھڑا ہے، وہ اس کو نظر آ رہا ہے اور اس کے اثرات وثمرات اس کے سامنے ہیں، وہ ایک فیصلہ کر لے اور اس فیصلے کے نتیجے میں بعض منفی اور بیشتر مثبت سامنے چیزیں آئیں، تو آج ہم یہ کہنے میں حق بجانب نہیں ہیں کہ فیصلہ کرنے والے کو کیا فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ ویسے بھی ’لغو‘ سے حضور نے منع فرمایا ہے۔ ماضی میں جس نے کوئی فیصلہ کیا، اس نے اس کی ذمہ داری بھی لی۔ بعض لوگوں نے ایک فیصلہ کیا تو بعض نے دوسرا۔ دونوں کے ثمرات ونتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ ہم نتائج پر تو بات کر سکتے ہیں، لیکن ماضی کو مستقبل کی طرف سے مشورہ دینا کہ ان کو کیا کرنا چاہیے تھا، یہ ایک غیر ضروری مشورہ ہے جس کا کوئی نتیجہ مستقبل میں نکلنے والا نہیں۔ 
آج کی صورت حال یہ ہے کہ جن حضرات نے سو سال پہلے امت مسلمہ کو مغرب کے اثرات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی تھی، وہ جذبہ اور رویہ کمزور پڑ گیا ہے اور مغرب کے اثرات کے لیے مسلمانوں کے ہر گھر کے دروازے اور ہر کمرے کی کھڑکیاں اس طرح کھلی ہیں کہ اس میں مغرب کے کسی اچھے یا برے اثر کو آنے سے آپ نہیں روک سکتے۔ ہمارے ہاں بہت سے حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی تہذیب کے مثبت پہلوؤں کو ہمیں اپنے اندر آنے کا موقع دینا چاہیے اور اس کے منفی اثرات کا راستہ روکنا چاہیے۔ یقیناًیہ درست رویہ ہے اور ہر مسلمان اس سے اتفاق کرے گا۔ یہ ’خذ ما صفا ودع ما کدر‘ کا اصول ہے جس سے مسلمانوں نے ہمیشہ اتفاق کیا اور جو مسلمانوں کی فکری اور علمی تاریخ کا ہمیشہ طرۂ امتیاز رہا ہے، لیکن ہم میں سے بہت سے لوگ یہ اندازہ نہیں کر پاتے کہ کیا مغرب کا ایجنڈا بھی یہی ہے کہ ہم ’خذ ما صفا ودع ما کدر‘ پر عمل کریں۔ جو چیز ہمارے لیے قابل قبول ہو، وہ ہمارے سامنے پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دیں اور جو چیز ہمارے لیے قابل قبول نہ ہو، اس کو واپس اپنی الماری میں رکھ دیں؟ حقیقت یہ ہے کہ مغرب اپنا پورا ایجنڈا یہاں لانا چاہتا ہے اور انھوں نے ہم سے زیادہ اس پر غور کیا ہے کہ ان کی تہذیب کا جو پورا پیکج ہے، اس کی کون سی چیزیں ہماری تہذیب کے لیے مفید ہیں اور کیا چیزیں اس پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔ اس پر باقاعدہ کتابیں لکھی گئی ہیں اور صرف عام سطح پر نہیں بلکہ بڑی سے بڑی اور اعلیٰ سے اعلیٰ سطح پر اس پر غور وخوض ہوا ہے۔ حتیٰ کہ اگر آپ نے سابق امریکی صدر نکسن کی کتاب ’Seize the Moment‘ پڑھی ہو تو اس میں اس نے پوری تفصیل سے یہ بات بیان کی ہے کہ دنیاے اسلام میں مغربی اثرات کا نفوذ کس حد تک ہے اور کس طرح ہونا چاہیے۔ یہ بات نہ صرف نکسن نے لکھی ہے، بلکہ ا ن کے صف اول کے تمام دانش ور، مفکرین اور مدبرین یہ بات لکھ رہے ہیں۔ 
آج سے چند سال پہلے مجھے جرمنی میں ایک اجتماع میں جانے کا موقع ملا جس میں مختلف ممالک کے دانش ور اور مفکرین مدعو کیے گئے تھے جن میں واحد مسلمان شریک میں تھا۔ میرے علاوہ باقی لوگ مغربی یورپ اور خاص طور پر وسطی یورپ سے بلائے گئے تھے۔ اس اجتماع کا عنوان تھا: Is Islam a threat to West and Europe? (کیا اسلام مغرب اور یورپ کے لیے ایک خطرہ ہے؟) اس میں انھوں نے مجھے بلایا تھا کہ اپنے خیالات کا اظہار کروں۔ یہ کوئی ایک ہفتہ کی نشست تھی جس میں انھوں نے چودہ آدمیوں کو دعوت دی تھی۔ ایک د ن میں دو آدمیوں کی گفتگو ہوتی تھی جس میں ہر شخص تفصیل سے اپنے خیالات حاضرین کے سامنے پیش کرتا تھا۔ اس میں ایک دن مجھے بھی گفتگو کرنے کا موقع ملا جس میں یہ سوال سامنے آیا کہ دنیاے اسلام میں مغربی اثرات کے حوالے سے کیا رویہ رہا ہے؟ اس کے جواب میں، میں نے کہا کہ عالم اسلام میں جب سے مغربی اثرات آئے ہیں، جس کو کم وبیش دو سو سال کا عرصہ ہو چکا ہے، اس کے بارے میں دنیاے اسلام نے تین رویے اختیار کیے ہیں۔ ان میں سے دو رویے تو بتدریج کمزور ہو رہے ہیں یا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ کمزور ہو رہے ہیں، اور تیسرا رویہ بڑھتا ہوا معلوم ہوتا ہے اور اس میں پچھلے پچاس سو سالوں میں قوت پیدا ہوئی ہے۔
ایک رویہ جو سمٹ رہا ہے اور سمٹتے سمٹتے یقیناًختم ہونے کے قریب ہے، وہ ہے جس کی مثال میں نے لال بینگن اور ٹماٹر کے حوالے سے دی۔ اب شاید دنیاے اسلام میں اس طرح کی مزاحمت کرنے والے لوگ موجود نہیں بلکہ اس طرح کی مزاحمت کی افادیت کے قائل بھی میں سمجھتا ہوں کہ نہیں رہے۔ اگر ہیں تو بہت تھوڑے لوگ ہیں جن کا کوئی قابل ذکر اثر معاشرے میں نہیں ہے۔ یہ وہ رویہ تھا جو ابتدا میں بہت مضبوط تھا لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتا گیا۔ 
دوسرا رویہ جو شروع میں بہت قوت سے سامنے آتا محسوس ہوتا تھا، مسلمانوں کی اکثریت نے اس سے بھی زیادہ اتفاق نہیں کیا اور یہ رویہ بھی کمزور ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔ یہ وہ رویہ ہے جو مکمل طور پر مغرب کے رنگ میں رنگ جانے کا رویہ ہے جس نے یہ سمجھا کہ مسلمان اگر مغرب کے ساتھ سو فیصد ہم آہنگی کر لیں تو شاید ان کے تمام مسائل حل اور تمام مشکلات دور ہو جائیں گی۔ اس رویے کے ترجمان ۱۹ ویں صدی کے اواخر اور ۲۰ ویں صدی کے آغاز میں دانشوروں میں بھی، سیاسی لیڈروں میں بھی اور عام سطح پر بھی کثرت سے پائے جاتے تھے، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ یہ رویہ بھی کمزور ہو رہا ہے۔ 
تیسرا رویہ جو آغاز میں بہت کمزور اور تقریباً برائے نام تھا، اب دنیاے اسلام میں اس نے اپنی جگہ بنا لی ہے اور مسلمان مفکرین اور دانش وروں کی ایک بڑی تعداد اس کی نمائندگی کرتی ہے۔یہ وہی ’خذ ما صفا ودع ما کدر‘ کا رویہ ہے کہ مغربی تہذیب کے مثبت پہلوؤں سے مسلمانوں کو استفادہ کرنا چاہیے، ان کی سائنس، ان کی ٹیکنالوجی، ان کی سہولتیں، یہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول ہونے چاہییں اور ان کو اپنانا چاہیے، جبکہ ان کے جو منفی پہلو ہیں، مثلاً اخلاقی اقدار کے متعلق ان کے خیالات ونظریات، یا سیکولرازم اور لا مذہبیت، یا مرد وزن کی آزادی کا تصور جو ان کے ہاں ہے، یہ چیزیں دنیاے اسلام کو قبول نہیں کرنی چاہییں۔ یہ رویہ پہلے بہت محدود تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں وسعت پیدا ہوئی ہے اور آج دنیا ے اسلام کی ایک بڑی تعداد اس رویے پر قائم محسوس ہوتی ہے۔ 
۱۹۹۲ء، ۱۹۹۳ء میں مذکورہ اجتماع میں جب میں نے ایک سوال کے جواب میں مذکورہ تجزیہ تفصیل سے بیان کیا تو اس کے جواب میں اجتماع کے شرکا نے، جن میں فرانسیسی نمائندے بھی شامل تھے، جرمن بھی شامل تھے اور آسٹریلیا کے لوگ بھی تھے، تقریباً بالاتفاق مجھے controvert کیا اور کہا کہ ٹھیک ہے، آپ اس رویے کو درست سمجھتے ہوں گے لیکن مغرب ان شرائط پر اپنی ٹیکنالوجی اور اپنی تہذیب وتمدن سے آپ کو استفادہ کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہوگا۔ سچی بات یہ ہے کہ اس وقت پہلی مرتبہ یہ پہلو میرے سامنے آیا۔ اس سے پہلے میرا ذہن اس طرف متوجہ نہیں تھا کہ آیا مغرب بھی اس بات پر تیار ہے یا نہیں کہ آپ کی شرائط پر اپنی ٹیکنالوجی اور تہذیب سے آپ کو استفادہ کرنے کی اجازت دے۔ کم از کم اس اجتماع کے شرکا کا جواب بالاتفاق یہی تھا کہ مغرب آپ کو اس کی اجازت نہیں دے گا۔ یہ ایک پورا پیکج ہے جس کو آپ کو جوں کا توں قبول کرنا پڑے گا اور اس میں وہ آپ کو اخذ وانتخاب (pick and choose) کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس وقت میں نے یہ سمجھا کہ یہ دانش ور اور مفکرین شاید اپنی main stream کی ترجمانی نہیں کر رہے، اور مغربی تہذیب میں جو فیصلہ کن قوتیں ہیں، ان کی زبان نہیں بول رہے۔ جیسے ہر شخص اپنی تہذیب کے بارے میں ایک عصبیت کا رویہ رکھتا ہے، یہ بھی اپنی تہذیب کے بارے میں ایک عصبیت اور حمیت رکھتے ہیں اور اس عصبیت کی وجہ سے یہ بات ان کو پسند نہیں آئی کہ ہم ان کی تہذیب کے بعض پہلوؤں کو منفی قرار دے کر مسترد کرنا چاہتے ہیں۔ ایک کمزور اور غریب فقیر آدمی کسی دولت مند آدمی سے یہ کہے کہ آپ کی کوٹھی یا محل میں فلاں فلاں چیزیں مجھے غلط معلوم ہوتی ہیں اور میں انھیں مسترد کرتا ہوں تو ظاہر ہے کہ اسے اچھا نہیں لگے گا اور وہ اس کو بے وقوف سمجھے گا۔ میرا تاثر یہ تھا کہ شاید وہ اس نفسیاتی کیفیت میں میری بات کی تردید کر رہے ہیں، لیکن پچھلے بارہ پندرہ سالوں میں مغرب کے بہت سے لوگوں سے ملنے، ان کی باتیں سننے اور ان کی تحریریں پڑھنے کا اتفاق ہوا، اور اب مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ ان کی طے شدہ پالیسی ہے جو انھوں نے سوچ سمجھ کر اختیار کی ہے کہ دنیاے اسلام اپنے آپ کو مکمل طور پر مغرب کے رنگ میں رنگے اور مکمل طور پر مغربی ایجنڈے کو اختیار کرے، اور اگر وہ اس کے لیے تیار نہ ہو تو مغربی تہذیب کے فوائد یا مثبت اثرات سے مسلمانوں کو متمتع ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔ یہ بات جو ۱۹۹۳ء سے پہلے میرے علم میں نہیں تھی، اب وقت کے ساتھ ساتھ روز روشن کی طرح یوں واضح ہے کہ مجھے یوں لگتا ہے کہ یہ پوری دنیاے مغرب کا ایک طے شدہ فیصلہ ہے کہ پوری دنیاے اسلام پر مغرب کے ایجنڈے کو سو فی صد مسلط کر دیا جائے۔ 
مغرب کے ایجنڈا ایک ہمہ گیر ایجنڈا ہے اور اس میں ہر چیز شامل ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاں جو بہت سے کام ہو رہے ہیں، وہ محض اتفاق سے یا مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ یقیناًمسلمانوں میں کمزوریاں بھی ہیں اور ان کی دینی حمیت میں کمی بھی آئی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ بالادست قوتیں بھی ہیں جو طے شدہ پروگرام کے تحت آگے بڑھ رہی ہیں اور دنیاے اسلام کو ایک خاص رخ پر چلانا چاہتی ہیں۔ اب مسلمان کس حد تک اس میں ساتھ جانے کو تیار ہیں، مسلمان دانش ور جو سمجھتے ہیں کہ مغرب کی مثبت چیزوں سے اتفاق کریں اور منفی چیزوں کو مسترد کر دیں، وہ کس حد تک اس میں کام یاب ہوں گے، اور مستقبل کیا خبر لائے گا، یہ اللہ ہی کو بہتر معلوم ہے، لیکن اس رویے کی کامیابی کا سارا دار ومدار مسلمانوں کے فہم صحیح پر، مسلمانوں کی بصیرت اور ان کے عزم وارادے پر ہے، اور اس کے لیے جو چیز سب سے پہلے درکار ہے، وہ خود دنیاے اسلام میں اسلامی تہذیب، اسلامی علوم وفنون اور معارف اسلامی سے گہری اور ماہرانہ واقفیت ہے۔ جب تک شریعت اور شریعت کے پیغام اور تعلیم میں یہ گہری بصیرت اور ماہرانہ واقفیت پیدا نہیں ہوگی، اس وقت تک کوئی ایسی بنیاد فراہم نہیں ہو سکتی جس پر آگے چل کر عمارت کھڑی کی جا سکے۔ 
ایک زمانہ تھاکہ دنیاے اسلام میں علوم وفنون کی اساس قرآن مجید تھا۔ قرآن مجید وہ جڑ فراہم کرتا تھا جس سے علوم وفنون کا گلشن پیدا ہوا۔ یہی وہ درخت تھا جس کے برگ وبار اور ثمرات مسلمانوں کے بقیہ علوم وفنون کی صورت میں سامنے آئے۔ آج سے کم وبیش ایک ہزار سال پہلے قاضی ابوبکر بن العربی نے، جو ایک مشہور مفسر اور مالکی فقیہ ہیں، کہیں لکھا ہے کہ مسلمانوں کے جملہ علوم وفنون کی تعداد سات سو ہے۔ ان سات سو علوم وفنون کا تعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ سنت سے اور یہ سب کے سب سنت کی شرح ہیں، اور سنت رسول قرآن مجید کی تشریح وتفسیر ہے۔ اس لیے قرآن مجید کی حیثیت اس بنیاد اور جڑ کی ہے جس پر مسلمانوں کی ساری تعلیمی، فکری اور تہذیبی سرگرمی کا دارومدار ہے۔ یہ کیفیت کم وبیش گیارہ، بارہ سو سال رہی اور ایک ایسے نظام تعلیم نے جس کی اساس قرآن مجید، سنت رسول اور ان دونوں سے پیدا ہونے والے علوم وفنون پر تھی، امت مسلمہ کی تمام ضروریات کو پورا کیا۔ امت مسلمہ میں بڑی بڑی ریاستیں بھی قائم ہوئیں، بڑی بڑی تہذیبیں سامنے آئیں، اور یورپ کے کم وبیش آدھے حصے پر مسلمانوں کی حکومت رہی۔ مسلمانوں کی فوجیں آسٹریلیا کے حدود تک پہنچیں اور مشرقی اور جنوبی یورپ میں مسلمانوں کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ اسی طرح اسپین میں آج بھی مسلمانوں کی سات سو سالہ حکومت کے آثار موجود ہیں۔ جہاں بانی کے اس پورے سلسلے میں اسلامی علوم وفنون اور وحدت پر مبنی نظام تعلیم نے مسلمانوں کے خالص دینی تقاضے بھی پورے کیے اور خالص دنیوی تقاضے بھی۔ یہ تاثر کہ دینی اور دنیوی علوم جدا جدا ہیں، اسلامی تاثر نہیں، بلکہ یہ مغرب کا تحفہ اور مغربی سیکولر ازم کے باقیات واثرات میں سے ہے۔ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں اور میں بغیر کسی تردد کے یہ بات عرض کرتا ہوں کہ جب تک یہ دو نظام الگ الگ رہیں گے، دنیاے اسلام میں سیکولر ازم کو فروغ ملتا رہے گا۔ سیکولر ازم کیا ہے؟ سیکولر ازم یہ ہے کہ جو چیز مذہبی ہے، وہ مذہبی دائرے میں رہے اور جو غیر مذہبی ہے، وہ غیر مذہبی دائرے میں رہے اور ان دونوں کے درمیان کوئی اتفاق پیدا نہ ہو۔ یہ دونوں ایک نہر یا ایک دریا کے دو کنارے ہیں جو کبھی آپس میں نہیں ملتے اور ایک دوسرے کے متوازی چلتے رہتے ہیں۔ زندگی کو دو متوازی نظاموں اوردو متوازی حصوں میں تقسیم کرنا، اسی کو سیکولر ازم کہتے ہیں۔ یہی لا مذہبیت اور لادینیت ہے۔ لا دینیت کسی اور چیز کا نام نہیں ہے۔
انگریز کے زمانے میں جب main stream کی قیادت مسلمانوں سے چھن گئی تو اس وقت مسلمانوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں تھا کہ وہ اسلامی علوم وفنون کے تحفظ کے لیے ایک خالص دینی نظام تعلیم کے قیام پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ یہ ایک دفاعی حکمت عملی تھی اور امت مسلمہ میں مذہب کی باقیات کو بچانے کا واحد طریقہ تھا کہ مذہبی تعلیم کے نام پر جو کچھ کیا جا سکتا ہے، وہ کیا جائے اور جس حد تک مسلمانوں کی مذہبی زندگی کوبرقرار رکھا جا سکتا ہے، رکھا جائے۔ اس سے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں تھا کہ دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم کے دو الگ الگ نظام موجود رہے ہوں۔ چنانچہ مغلیہ دور میں جس درس گاہ نے، جس نظام تعلیم اور نصاب تعلیم نے مجدد الف ثانی جیسا شخص پیدا کیا، جس کے بارے میں علامہ اقبال مرحوم کا یہ جملہ ہمیشہ دہرایا کرتا ہوں کہ The greatest religious genious produced by Muslim India، (مسلم ہندوستان نے سب سے بڑا جو مذہبی عبقری پیدا کیا، وہ شیخ احمد سرہندی تھے)، اسی نظام میں نواب سعد اللہ خان بھی تیار ہوا تھا جو مجدد صاحب کا کلاس فیلو تھا اور جو سلطنت مغلیہ کا وزیر اعظم بنا۔ وہ سلطنت مغلیہ جو موجودہ افغانستان، پاکستان، ہندوستان، نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھوٹان، سکم، برما، ان سب ریاستوں پر مشتمل تھی۔ اس کے نظام کو اس نے شاہ جہان کے زمانے میں کامیابی سے چلایا تھا۔ پھر استاد احمد معمار جس نے تاج محل بنایا، یہ بھی مجدد صاحب کا کلا س فیلوتھا۔ یہ تینوں ایک ہی استاد کے شاگرد تھے اور ایک ہی درس گاہ کے پڑھے ہوئے تھے۔اب دیکھیے کہ ایک وہ شخص جس نے دنیا کی متمدن ترین سلطنت کو اس کے کامیاب ترین ادوار میں قیادت فراہم کی اور اس کا نظام چلا کر دکھایا، دوسرا وہ شخص جو ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مذہبی عبقری ہے، جس کی عظمت کو بیان کرنا دشوار ہے اور جس نے برصغیر کی دینی تحریکات پر اتنا گہرا اثر ڈالا کہ بعد کی کوئی دینی تحریک اور کوئی دینی سرگرمی اس کے اثر اور شخصیت کے احترام سے خالی نہیں ہے، اور تیسرا وہ شخص جس نے دنیا کے سات عجائب میں سے ایک عجوبہ بنایا، یہ تینوں افراد یہ ایک ہی نصاب کے پڑھے ہوئے اور ایک ہی تعلیمی نظام کی پیداوار تھے۔ یہی اسلام کا آئیڈیل اور یہی اسلام کا معیار ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان بننے کے بعد ہم اس پر ازسرنو غور کرتے، لیکن یہ کام نہ حکومتوں نے کیا اور نہ اہل علم نے اس پر ابھی تک کوئی توجہ دی ہے، لیکن اس پر جتنی جلدی غور ہو جائے، اچھا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام پوری امت مسلمہ کی تاریخ کے ایک مرحلہ کی تشکیل نو کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایک نئے دور کی بنیاد رکھنے کے مترادف ہے اور میں اس کو اس سے کہیں زیاد ہ اہم سمجھتا ہوں جتنی اہمیت دار العلوم دیوبند کے قیام کی تھی۔ میں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا اور اسے غیر اہم نہیں سمجھتا۔ برصغیر اور پورے جنوبی ایشیا میں پچھلے دو سو سال کی پوری مذہبی تاریخ دار العلوم دیوبند اور اس کے موسسین کی مرہون منت ہے، لیکن یہ کام جس کا آغاز مولانا زاہد الراشدی اور ان کے ہم خیال اہل علم نے کیا ہے یا کر رہے ہیں، اگر یہ نتیجہ خیز ثابت ہو تو اس کے اثرات اس سے کہیں زیادہ دیرپا اور دور رس ہوں گے، اس لیے کہ یہ اس روایت کا احیا کرنے کے مترادف ہے جو اصل اسلامی روایت ہے۔ دار العلوم دیوبند کی کاوش یا مہم ایک بدلی ہوئی صورت حال میں دفاعی اور وقتی کوشش تھی۔ وہ آئیڈیل صورت نہیں تھی اور نہ ہی وہ آئیڈیل حالات تھے۔ نہ وسائل دست یاب تھے، نہ حکومتی سرپرستی دست یاب تھی، اور نہ وہاں کے فارغ شدہ حضرات کے لیے قیادت کے مناصب موجود تھے۔ معاشرہ ان کی قیادت کو ماننے اور ان سے رہنمائی لینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ان کی رہنمائی مسجد اور مدرسے کے خاص دائرے تک محدود تھی۔ اس کے لیے انھوں نے جو کچھ کیا، اللہ تعالیٰ ان کو جزاے خیر دے گا اور جتنا دین موجود ہے، انھی کی کاوش سے موجود ہے۔ لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جو دین موجود ہے، اس کو زندگی کے روز مرہ معاملات سے Relate کیا جائے اور اس کو معاشرے میں فعال قائدانہ کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ اہل دین کے پاس دینی علوم کا تخصص بھی موجود ہو اورجس دنیا اور جس معاشرے میں انھیں قیادت فراہم کرنی ہے، اس کے بارے میں بھی قائدانہ اور ناقدانہ واقفیت انھیں حاصل ہو۔ 
جب میں یہ بات عرض کرتا ہوں تو بعض علماء کرام یہ سمجھتے ہیں اور مجھ سے انھوں نے اس کا اظہار فرمایا کہ میں اس بات کا داعی ہوں کہ دینی مدارس کو میڈیکل کالجز میں Convert کر دیا جائے یا انھیں انجینئرنگ کے ادارے بنا دیا جائے۔ ایک بڑے محترم اور بزرگ عالم نے مجھ سے غصے سے پوچھا کہ کیا انجینئرنگ کالج میں مولوی تیار ہوتے ہیں؟ نہیں تو پھر دینی مدارس میں انجینئر کیوں تیار ہوں؟ لیکن یہ اعتراض درست نہیں ہے، اس لیے کہ نہ انجینئر تیار کرنا مقصد ہے اور نہ میڈیکل ڈاکٹر تیار کرنا بلکہ علماء کرام ہی تیار کرنا مقصد ہے، لیکن نواب سعد اللہ کی طرح کے علما۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر دور کا ایک محاورہ اور ایک زبان ہوتی ہے۔ قرآن مجید اور سنت تو ایسی چیز ہیں جو ہمیشہ کے لیے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ ان کا محاورہ ہر دور کے لیے ہے اور ہر دور کے لیے رہے گا۔ ان کے محاورے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ وہ ہمیشہ وہی رہے گا، اور ان کو ہمیشہ انھی کے محاورے اور انھی کی اصطلاح میں سمجھا جائے گا، لیکن فقہاء کرام، شارحین حدیث اور مفسرین نے شریعت کے نصوص کو اپنے اپنے زمانے سے Relate کیا اور اپنے زمانے کے محاورے میں اس کی تعلیم کو مرتب کیا ہے۔ یہ محاورہ حالات کے بدلنے سے بدل سکتا ہے۔ ماضی میں بھی بدلتا رہا ہے اور آئندہ بھی بدلتا رہے گا۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال میں آپ کے سامنے عرض کرتا ہوں کہ وہ علماء کرام جن کے پاس ٹھوس دینی علوم موجود ہیں، جن کے پاس پاور ہاؤس اور اس میں قوت کا ذخیرہ موجود ہے، چونکہ ان کا محاورہ آج کے محاورے سے مختلف ہے، اس لیے دور جدید کا آدمی ان کے علم سے استفادہ نہیں کرتا۔ آج سے کم وبیش ۲۵ سال پہلے وفاقی شرعی عدالت قائم ہوئی۔ جسٹس صلاح الدین مرحوم اس کے پہلے چیف جسٹس تھے۔ بہت نفیس انسان تھے۔ میرے مشورے سے انھوں نے بعض علماء کرام کو وفاقی شرعی عدالت کا مشیر مقرر کیا۔ میں نے ان سے کہا کہ جن حضرات کو آپ نے مشیر مقرر کیا ہے،جن کی تعداد ۳۰، ۳۵ کے قریب تھی، ان سب کو آپ کھانے کی دعوت دیں۔ چنانچہ انھوں نے پورے پاکستان سے ان جید علماء کرام کو کھانے کی دعوت دی۔ ایک بزرگ جو بہت ٹھوس عالم تھے، انتہائی گہرا علم رکھتے تھے، وہ ان کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئے۔ چیف جسٹس صاحب نے ان سے پوچھا کہ حضرت! Islamic Stateکی Minimum requirement کیا ہے؟ بالکل یہی الفاظ تھے، یعنی کسی ریاست کے اسلامی ریاست ہونے کے کم سے کم تقاضے کیا ہیں؟ اس کا وہ کوئی جواب نہیں دے پائے۔ شاید سمجھے نہ ہوں۔ جسٹس صاحب نے دوبارہ اردو میں پوچھا تو وہ پھر بھی اس کا کوئی صحیح جواب نہیں دے پائے۔ میں تھوڑے فاصلے پر تھا۔ مجھے خیال ہوا کہ یہ صف اول کے عالم ہیں، اگر ان کے اس سوال کا جواب نہ دے سکے تو ہو سکتا ہے کہ علما کے بارے میں ایک منفی تاثر جسٹس صاحب کے دل میں بیٹھ جائے۔ میں نے درمیان میں مداخلت کی گستاخی کرتے ہوئے کہا کہ شاید چیف جسٹس صاحب یہ پوچھنا چاہ رہے ہیں کہ ’دار الاسلام‘ کی تعریف کیا ہے؟ اب انھوں نے فوراً جواب دیا اور بڑے مدلل انداز میں جواب دے کر چیف جسٹس کو بڑی حد تک مطمئن کر دیا۔ اس وقت یہ بات مجھ پر واضح ہوئی کہ علماء کرام کے پاس علم تو ہے، لیکن محاورہ نہیں۔ 
محاورہ ہر زمانے کا مختلف ہوتا ہے اور ہر زمانے کے علوم سے متاثر ہوتا ہے۔ جس زمانے میں منطق نہیں آئی تھی، آپ اس زمانے کی اصول فقہ کی کتابیں دیکھیں کہ ان کا انداز کیا تھا؟ امام شافعی کی کتاب ’الرسالہ‘ پڑھیں۔ اس کے بعد آپ خود شافعی فقیہ امام غزالی کی ’المستصفیٰ‘ پڑھیں۔ دونوں کے محاورے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ شاہ ولی اللہؒ نے اسرار حدیث پر کتاب لکھی ہے۔ اسرار حدیث پر ’معالم السنۃ‘ میں امام خطابیؒ نے بھی لکھا ہے۔ شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں اس کا اعتراف کیا ہے۔ آپ ان دونوں کتابوں کو پڑھیں تو دونوں کے محاورے میں زمین آسمان کا فرق محسوس ہوگا۔ شاہ ولی اللہ کا محاورہ سارے کا سارا یونانی فلسفے پر مبنی ہے اور یونانی فلسفہ جیسا کہ برصغیر میں پڑھایا جاتا تھا، میبذی اور شرح ہدایۃ الحکمۃ اور فلسفہ کے بارے میں جو جو کتابیں اس وقت رائج تھیں، ان سب کے اثرات اور مصطلحات شاہ صاحب کی ’حجۃ اللہ البالغہ‘ میں موجود ہیں۔ اب خالص علم حدیث ہے اور شاہ صاحب علم اسرار حدیث پر بات فرما رہے ہیں، لیکن منطق اور فلسفے کے محاورے میں۔ جو بات خطابی نے کی ہے، وہی بات شاہ صاحب کہہ رہے ہیں اور اسی کو آگے بڑھا رہے ہیں، لیکن اگر خطابی ہوتے تو شاید ایک لفظ نہ سمجھتے کہ شاہ صاحب کیا کہہ رہے ہیں، جیسا کہ چیف جسٹس صاحب کی بات وہ بزرگ عالم نہیں سمجھ پائے۔ 
اگر آپ کے پاس ریڈیو سیٹ تو ہو، لیکن ریڈیو اسٹیشن سے جس فریکونسی پر پیغام نشر ہو رہا ہے، آپ کا ریڈیو سیٹ اس فریکونسی پر کام نہ کرتا ہو تو آپ کے لیے وہ بے کار ہے۔ جب تک آپ اپنے ریڈیو سیٹ کو مطلوبہ فریکونسی پر نہیں لائیں گے، آپ ریڈیو اسٹیشن کی نشریات سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح یہ ضروری ہے کہ علماء کرام کے پاس جو علم دین کا پاور ہاؤس ہے، اور ایک عام آدمی جو دین کی راہنمائی چاہتا ہے اور جس کو آپ راہنمائی دینا چاہتے ہیں، ان دونوں کی فریکونسی ایک ہو۔ اس فریکونسی کو موافق بنانے کے لیے ایک تو تخصص ضروری ہے جس پر میں ابھی مزید بات کروں گا، اور دوسرا دور جدید کا محاورہ درکار ہے۔ یہ خلط مبحث اور غلط فہمی ہے کہ علما کو انجینئر یا ڈاکٹر بنانا مقصود ہے۔ نہیں، بلکہ مقصود یہ ہے کہ وہ علوم وفنون جنھوں نے آج کل کی تہذیب کی تشکیل کر رکھی ہے اور جن کی بنیاد پر آج ساری دنیا کا نظام چل رہا ہے، حتیٰ کہ پاکستان، سعودی عرب اور ایران میں بھی چل رہا ہے، ان سے علما بھی مناسب طور پر واقف اور مانوس ہوں۔ مسلمانوں نے اپنے دور میں علوم وفنون کی ایک الگ تقسیم کی تھی۔ کچھ علوم مقاصد یا علوم حقیقی ہیں اور کچھ علوم وسائل یا علوم آلیہ ہیں۔ اسی طرح کچھ علوم ہیں، کچھ صنائع ہیں اور کچھ فنون ہیں۔ یہ مسلمانوں کی تقسیم تھی۔ آج عملاً یہ تقسیم موجود نہیں ہے۔ آج تعلیم کا نظام عملاً اس تقسیم پر نہیں چل رہا۔ آج دنیا میں ایک نئے انداز سے علوم کی مختلف تقسیمیں کی جاتی ہیں۔ ان میں ایک اہم تقسیم علوم عمرانی (Social sciences) اور علوم انسانی (Humanities) کی ہے۔ سوشل سائنسز میں وہ ان علوم وفنون کو شامل کرتے ہیں جو انسانی معاشرے کی تشکیل اور معاشرتی زندگی سے بحث کرتے ہیں۔ ان میں تاریخ، سیاسیات، معاشیات، عمرانیات اور کسی حد تک قانون شامل ہیں۔ یہ عمرانی علوم ہیں جن سے اجتماعی رویوں کی تشکیل ہو رہی ہے۔ Humanities وہ علوم ہیں جو انسان کے مطالعے پر مبنی ہیں، یعنی فرد کے خیالات، فرد کے افکار، فرد کی نفسیات، فرد کے احساسات وجذبات، یہ سب کے سب ہیومینٹیز کہلاتے ہیں۔ اس میں فلسفہ، نفسیات اور بشریات شامل ہیں۔ یہ دو میدان وہ ہیں جن سے دور جدید میں تہذیب کی تشکیل ہوئی ہے۔ آج ہمارا ایک پڑھا لکھا انسان، چاہے وہ پاکستان کا ہو یا سعودی عرب کا یا مصر کا یا کسی بھی اسلامی ملک کا، جب وہ بات کرتا ہے تو اسلامی علوم اور تصورات کے تناظر (perspective) میں بات نہیں کرتا۔ وہ اسلامی اصطلاحات یا فقہی سیاق وسباق یا فقہی محاورے میں بات نہیں کرتا، بلکہ وہ مغربی سوشل سائنسز کے محاورے میں بات کرتا ہے۔ عمرانی علوم اور انسانی علوم کے کے علاوہ مختلف قسم کے طبیعی علوم بھی ہیں جن کی حیثیت Tools اور آلات کی ہے جن سے لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانا مقصود ہے۔ ان کا دینی علوم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں بنتا۔ بالواسطہ جس چیز کی ضرورت پیش آتی ہے، وہ یہ ہے کہ علماء کرام بقدر ضرورت سوشل سائنسز اور ہیومینٹیز سے واقفیت رکھتے ہوں۔ اسی طرح کی واقفیت رکھتے ہوں جیسے آج سے ایک ہزار سال پہلے منطق سے واقفیت کی ضرورت پیش آئی تھی۔ 
اگر آپ اس دور یعنی تیسری صدی کے مباحث پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ جب یونانی منطق اور فلسفہ کی کتابیں ترجمہ ہونا شروع ہوئیں، تو مسلمانوں میں اسی طرح کے تین رویے تھے جو آج مغربی تہذیب کے بارے میں ہیں۔ علماء کرام، محدثین اور مفسرین کا ایک بہت بڑا طبقہ وہ تھا جو ان سب چیزوں کو ناپاک اور گردن زدنی سمجھتا تھا، جو یونانی منطق اور فلسفہ سے اعتنا رکھنے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج یا اس کی حدود پر سمجھتا تھا، ان کو مسلمانوں کا نمائندہ نہیں سمجھتا تھا۔ یہ بحثیں موجود تھیں کہ منطق کی کتابوں سے استنجا جائز ہے یا نہیں۔ یہ جزئیات آپ کو فقہ کی کتابوں میں مل جائیں گی، یعنی یہاں تک ناپسندیدگی اور نفرت کی کیفیت تھی۔ یہ شعر آپ نے اکثر پڑھا ہوگا کہ 
وا عجبا لمنطق الیونان
کم فیہ من افک ومن بہتان
مخبط لجید الاذہان
ایک لمبی نظم ہے، پتہ نہیں کس بزرگ کی ہے۔ تو منطق کے بارے میں یہ کیفیت تھی ۔ اس کے بعد یہ رویہ محدود ہوتا گیا، جیسا وہ ٹماٹر والا رویہ محدود ہو گیا۔ پھر یہ کیفیت آئی کہ خالص اسلامی علوم میں منطق وفلسفہ آ گیا۔ شاہ ولی اللہ صاحب کی ’حجۃ اللہ البالغہ‘ علم اسرار حدیث پر بہترین کتاب ہے۔ میری دانست اور رائے میں اس سے بہتر اسلامی علوم کی نمائندہ کتاب برصغیر میں نہیں لکھی گئی اور میں شاہ صاحب کو برصغیر میں مسلمانوں کا امیر المومنین فی الحدیث سمجھتا ہوں۔ لیکن جب تک آپ منطق اور فلسفہ کی اصطلاحات سے واقف نہ ہوں، انھی یونانیوں کی منطق جو بت پرست اور مشرک تھے، بدکار تھے، اخلاقی اعتبار سے بھی کچھ اونچے لوگ نہ تھے، تو ان کی کتابوں کو سمجھے اور ان کے افکار کو جانے بغیر آپ علم اسرار حدیث پر اسلامی لٹریچر کی بہترین کتاب نہیں سمجھ سکتے۔ شاہ ولی اللہ تو بعد کے ہیں۔ امام غزالی جیسے حجۃ الاسلام کی کتاب ’المستصفیٰ‘، جو اصول فقہ جیسے خالص اسلامی علم پر ہے، اگر آپ منطق میں اچھی بصیرت نہیں رکھتے تو اس کو نہیں سمجھ سکتے اور اس میں منطق اتنی گھسی ہوئی ہے کہ اگر ’المستصفیٰ‘ کو سمجھ کر پڑھ لیں تو منطق بھی آپ کو آ جائے گی۔ انھوں نے منطق کو اس کتاب میں اتنا سمو دیا ہے۔ امام شاطبی کی کتاب ’الموافقات‘ آپ نے پڑھی ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ اصول فقہ پر انسانی تاریخ کی بہترین کتاب ہے۔ انسانی تاریخ میں اصول قانون پر اس سے بہتر کتاب موجود نہیں ہے۔ لیکن جب تک آپ منطق وفلسفہ نہ جانتے ہوں، اس کتاب کے مضامین کو بھی نہیں سمجھ سکتے حالانکہ وہ ایسے علاقے، شمالی افریقہ اور اسپین وغیرہ میں لکھی گئی جہاں منطق وفلسفہ کا رواج کم تھا۔ لیکن اس کے باوجود ساری کتاب کی اٹھان، اس کا استدلال، اس کی ترتیب، اس کا اسلوب اس دور کے عقلیات کے معیارات کے مطابق خالص عقلی ہے۔ 
یہ ایک ایسی تہذیب یا ایک ایسے علاقے کی نمائندہ تہذیب کے بارے میں مسلمانوں کا رویہ تھا جس سے مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہیں تھا، نہ سیاسی طور پر ان کی مسلمانوں کے ساتھ کوئی کشمکش تھی، نہ عسکری طور پر وہ مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچا سکتے تھے، نہ وہ اس پوزیشن میں تھے کہ اگر مسلمان ان کے نقطہ نظر کا مطالعہ نہ کریں تو وہ اسے زبردستی مسلط کر دیں۔ یہ تو مسلمانوں نے خود ہی ان کے علوم وفنون کا ترجمہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اب اگر یونانیوں کے علوم وفنون جو نہ مسلمانوں پر حاکم تھے، نہ بالادست تھے، نہ ان کے پاس اقتدار تھا، نہ وہ مسلمانوں کے لیے خطرہ تھے، مسلمانوں نے محض علمی دلچسپی کی خاطر انھیں اختیار کیا اور ان سے استفادہ کیا تو وہ علوم وفنون جو ایک بالادست طاقت نے آپ پر مسلط کر دیے ہیں اور جن کے تصورات اور اسلوب استدلال کے مضر اثرات مسلمانوں میں داخل ہو رہے ہیں، انھیں سیکھنا اور ان سے واقفیت پیدا کرنا کیونکر مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں ہے؟ آج اس کی ضرورت اس سے کئی ہزار گنا بلکہ کئی لاکھ گنا زیادہ ہے جتنی ضرورت یونانی علوم وفنون کے مطالعے کی تھی۔ 
یہ ٹھیک ہے کہ یونانی منطق اور فلسفہ سے اشتغال رکھنے والے بہت سے لوگوں نے ایسے خیالات کا اظہار بھی کیا جو اسلام کی ترجمانی نہیں کرتے تھے۔ آپ فارابی کی کوئی کتاب پڑھیں، مثلاً اس کی کتاب ہے ’آراء اہل المدینۃ الفاضلۃ‘ جس کو آپ کہہ سکتے ہیں کہ مسلم سیاسی فکر کی پہلی کتاب ہے۔ اس میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو اسلامی تعلیم وعقائد سے ہم آہنگ نہیں ہیں، لیکن ایک اعتبار سے وہ بڑی غیر معمولی کتاب ہے کہ اس نے یونانی علوم وفنون پڑھے اور ارسطو کی Politica یعنی ’سیاسیات‘ کا ترجمہ اس نے پڑھا، شاید افلاطون کی Republic کا بھی ترجمہ دیکھا ہو، لیکن بظاہر اس کے شواہد کم ہیں۔ سیاسیات پر وہ ارسطو کے نقطہ نظر سے متاثر ہوا۔ اس کے بعد اس نے ایک کتاب لکھی اور کوشش کی کہ ان خیالات کو اسلام سے ہم آہنگ کر کے بیان کرے۔ میرے خیال میں یہIslamization of Knowledge کی پہلی کوشش تھی۔ یہ داعیہ اس کے دل میں کیوں پیدا ہوا کہ وہ یونانیوں کے خیالات کو اسلام کے مطابق بنائے؟ اس کے دل میں کوئی اسلامی حمیت تھی اور کوئی اسلامی جذبہ تھا تو پیدا ہوا۔ اس اسلامی جذبے نے اس کو ارسطو کے خیالات کو جوں کا توں مسلمانوں میں پیش کرنے سے باز رکھا اور اس حد تک اس کا اسلامی فہم قابل ستایش ہے۔ اس کے مطابق اس نے ایک ایسی چیز کی بنیاد رکھی جو آگے چل کر لوگوں کی رہنما بنی۔ اس نے اسلام کی سیاسی فکر اور اس کے دستوری تصورات کو اس طرح مرتب کیا کہ وہ نقل کے معیار کے ساتھ ساتھ عقل کے معیار پر بھی پورا اترے۔ اسی وجہ سے میں ابن سینا اور فارابی کا بڑا احترام کرتا ہوں اور میرے دل میں ان کی بڑی قدر ہے، اس کے باوجود کہ ان کے بہت سے خیالات اسلامی عقائد سے متعارض ہیں۔
آج بھی اسی بات کی ضرورت ہے کہ وہ حضرات جو یہ صلاحیت رکھتے ہوں یا ارادہ اور خواہش رکھتے ہوں کہ آگے چل امت مسلمہ کی فکری قیادت کی ذمہ داری انجام دیں، ان کو بقدر ضرورت مغربی علوم سے ناقدانہ اور قائدانہ واقفیت ہونی چاہیے۔ ان کے لیے یہ ضروری نہیں کہ مثلاً وہ اصول قانون کے اس طرح عالم ہوں جس طرح کوئی ماہر مغرب میں پایا جاتا ہے۔ اگر ہونا چاہتا ہے تو ضرور ہو جائے، لیکن اتنی مہارت کی ضرورت نہیں۔ اصول قانون جیسا کہ مغرب میں ہے، اس کے بنیادی تصورت، اس کے بنیادی عقائد، اس کے بنیادی concerns and issues جس سے وہ بحث کرتا ہے، وہ کیا ہیں، کیوں پیدا ہوئے ہیں اور ان کے جو basic issuesہیں، وہ گرفت میں آ جائیں۔ اس کے بعد ان پر ایک تنقیدی نظر ڈال کر ایک صاحب علم فقیہ یہ دیکھے کہ اس میں کیا چیز ہے جو کمزور ہے، کیا چیز ہے جو مضبوط عقلی بنیادوں پر قائم ہے، اور کیا چیز یا کیا اسلوب استدلال ہے جس سے کام لے کر اصول فقہ کے اس تصور یا نظریہ کو زیادہ بہتر انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ یہ ناقدانہ انداز ہے۔ 
آپ دیکھیں کہ اصول فقہ کو جس طرح امام شافعی نے مرتب فرمایا تھا اور جس طرح امام سرخسیؒ نے اس پر ’اصول السرخسی‘ لکھی تھی جو فقہ حنفی میں پہلی کتاب ہے، اس انداز کی کتابیں بعد میں نہیں لکھی گئیں۔ امام رازی اور امام غزالی کی کتابیں اس انداز کی نہیں ہے۔ ان میں منطق اور فلسفہ آ گیا ہے جو جائز تھا۔ امام غزالی نے اصول فقہ کے ہر مسئلہ کو منطق کے دلائل سے اس طرح ثابت کر کے دکھایا کہ یونانی فلسفہ ومنطق کا کوئی بڑے سے بڑا ماہر امام غزالی کے استدلال سے اختلاف نہیں کر سکتا۔ اس طرح انھوں نے اصول فقہ کو یونانی منطق کے ماہرین کے فہم کے قریب کیا۔ منطق سے متاثر لوگ اصول فقہ سے متاثر ہوئے۔ انھوں نے اصول فقہ کے بارے میں یہ تسلیم کر لیا کہ یہ فن عقل ونقل دونوں کی میزان پر پورا اترتا ہے۔ یہی کام آج ہمیں کرنا پڑے گا۔ جب تک نہیں کریں گے تو بات آگے نہیں بڑھے گی۔ 
اسی طرح آج جو سارا طبقہ ہمارا اور آپ کا نظام چلا رہا ہے، یہ اصول فقہ سے واقف نہیں۔ یہ انگریزی اصول قانون سے واقف ہیں۔ اینگلو سیکسن لا، اس کے تصورات و استدلالات اور عقائد، سب ان کے رگ وپے اور گھٹی میں پڑے ہوئے ہیں۔ اب یا تو آپ انھیں مجبور کریں کہ وہ اپنا سب کام چھوڑ کر اصول فقہ پڑھیں تو یہ عملاً ہوگا نہیں۔ اگر آپ سے کوئی کہے کہ آپ اپنی ملازمت، تدریس، نوکری چھوڑ کر پانچ سال یا دس سال اصول قانون پڑھنے پر لگائیں تو آپ تیار نہیں ہوں گے۔ آپ کے پاس وقت نہیں ہے، آپ کے وسائل اس کی اجازت نہیں دیتے۔ آپ کے مشاغل اس کے متحمل نہیں ہوں گے۔ اسی طرح ان لوگوں کے مشاغل بھی اس کے متحمل نہیں ہوتے کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر قدیم محاورے میں لکھے ہوئے اسلامی علوم وفنون میں مہارت حاصل کریں۔ ایک وکیل اپنی وکالت کیوں چھوڑے؟ اگر چھوڑ دے تو کھائے کہاں سے اور وہ کیوں پانچ سال اصول فقہ یا فقہ پڑھنے پر لگائے؟ پانچ سال میں بھی اتنی واقفیت پیدا نہیں ہوگی جتنی ہونی چاہیے۔ اس لیے مطالبے کرنے سے، جلوس نکالنے سے، بینر لگانے سے کوئی جج یا وکیل خود بخود فقہ کاماہر نہیں ہو جائے گا۔ وہ تو تب بنے گا جب وہ پڑھے گا اور تب پڑھے گا جب آپ اسے پڑھانا چاہیں گے اور جب پڑھانا چاہیں گے تو اس کے لیے اس کے ذہنی پس منظر اور اس کے مزاج کے مطابق آپ کو تیاری کرنی پڑے گی۔ اس میں شارٹ کٹ کوئی نہیں ہے۔ یہ نہیں ہوگا کہ آج کوئی اسلامی تحریک یا دینی جماعت دھرنا دے دے اور کل اس کے نتیجے میں جتنے جج صاحبان اور وکلا ہیں، جن کی تعداد بالترتیب پانچ ہزار اور بارہ ہزار کے قریب ہے، سب کے سب فقہا ہو جائیں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ پھر بھی صورت حال یہی رہے گی جو آج ہے۔ اس کے لیے بہت long term جانا پڑے گا۔ جب دو سو سال میں یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے تو کم از کم دو سو نہیں تو پچاس سال تو کام کرنا پڑے گا۔ پچاس سال کم از کم تبدیلی کے لیے درکار ہیں، اس وقت سے جب تبدیلی کے لیے کام شروع ہوگا۔ اگر پچاس سال پہلے شروع ہو چکا ہوتا تو آج تبدیلی آ چکی ہوتی۔ اس لیے اصول فقہ کو اس انداز سے مرتب کرنا پڑے گا کہ دور جدید کا انسان جو قانو ن تو جانتا ہے اور مغربی اصول قانون سے مانوس ہے، وہ اس تصور کو سمجھ سکے اور اس تصور کو اپنے فہم کے قریب لا سکے۔ مسلمانوں کو ان علوم میں اتنی واقفیت پیدا کرنی ہوگی کہ ان کے اسلوب استدلال کے ذریعے سے اسلامی عقائد اور اسلامی تعلیم کو پیش کر سکیں، جس طرح امام غزالی نے منطق سے کام لے کر اصول فقہ کے اصولوں کو پیش کیا تھا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسے لوگ موجود ہوں۔ 
اس کی دو شکلیں ہیں۔ ایک شکل تو یہ ہے کہ جو لوگ اصول قانون کے ماہر ہوں، انھیں اصول فقہ کا ماہر بھی بنا دیا جائے۔ دوسری شکل یہ ہے کہ جو اصول فقہ کا ماہر ہو، اسے بقدر ضرورت اصول قانون کاماہر بنا دیا جائے۔ دوسری صورت زیادہ آسان معلوم ہوتی ہے۔ میں نے یہ ایک مثال صرف اصول قانون کی دی ہے۔ یہ مثال علم سیاسیات، سوشیالوجی اور دیگر علوم پر بھی منطبق ہوتی ہے۔ ان علوم وفنون سے ایک ناقدانہ واقفیت درکار ہے، لیکن اس ناقدانہ واقفیت کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی علوم کا تخصص گہرا ہو، ورنہ مغربی علوم وفنون کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا کہ یہ درست ہے اور یہ غلط ہے، یہ عقیدہ ٹھیک ہے، اسلام کے مطابق ہے اور یہ عقیدہ اسلام کے خلاف ہے، ا س کا پتہ نہیں چلے گا۔ ایک کچا آدمی ان کی گمراہیوں سے بھی متاثر ہوجائے گا جیسا کہ آج تک ہوتا رہا ہے۔ علماء کرام جو متامل ہیں، شاید اسی وجہ سے ہیں کہ ایسی مثالیں سامنے آئیں کہ کچا علم رکھنے والوں نے مغربی علوم وفنون اپنائے اور اسلام کی وہ تعبیریں کیں جو اسلام کی روایت کے مطابق نہیں تھیں اور ان میں انھوں نے اسلام کی علمی روایت کے تسلسل کو محفوظ نہیں رکھا تھا۔ اس لیے جب تک علم میں پختگی نہ ہو، اس وقت تک ناقدانہ تصور نہیں پیدا ہو سکتا۔ پختگی پیدا کرنے کے لیے بھی ابھی تک ہمارے ہاں کوئی انتظام نہیں ہے۔ 
آج جو دینی تعلیم ہم دے رہے ہیں، اس کے مقاصد کیا ہیں؟ وہ ہمارے سامنے ہونے چاہییں۔ میں ذرا بے تکلف بات کروں گا۔ آپ برا نہ مانیے گا۔ میرا تعلق آپ ہی کے طبقہ سے ہے۔ وہ ایک شعر ہے کہ
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کار تریاقی
تو گفتگو میں تھوڑی سی تلخ نوائی کا عنصر آنے کی اجازت دیجیے۔ جب دار العلوم دیوبند قائم ہوا، اس وقت مسلمانوں کو مسئلہ کیا درپیش تھا؟ اس وقت مسلمانوں کومسئلہ یہ درپیش تھا کہ انگریز نے پورے برصغیر پر قبضہ کر لیا تھا، مسلمانوں کے اوقاف سب ختم کر دیے گئے تھے، ایک ایک کر کے ضبط کر لیے گئے تھے، تعلیمی ادارے سب بند کر دیے گئے تھے۔ علماء کرام جو سارے نظام کو چلا رہے تھے، ان کو ملازمتوں سے الگ کر دیا گیا۔ عدالتوں کا نظام جو شریعت کے مطابق تھا، اس کو ختم کر کے انگریزی عدالتیں قائم کر دی گئیں، انگریزی قانون شریعت کی جگہ نافذ کر دیا گیا۔ فارسی جو نظام حکومت کی زبان تھی، اس کو ختم کر کے انگریزی جاری کر دی گئی۔ جہاں جہاں مسلمان مقرر تھے، ان کی جگہ ہندووں کو مقرر کر دیا گیا۔ بڑے مناصب پر انگریز آ گئے اور مسلمان ہٹ گئے۔ جو چیزیں مسلمانوں کی عزت کا ذریعہ تھیں، وہ مسلمانوں کی ذلت کا ذریعہ بنا دی گئیں۔ مسلمانوں کا لباس، مسلمانوں کے عہدے، مسلمانوں کے مناصب، مسلمانوں کے القاب، ہر چیز جواونچے درجے کی تھی، اس کو نیچے درجے میں انھوں نے متعارف کروا دیا۔ یہ وہ حالات تھے جن میں انھوں نے یہ محسوس کیا کہ وہ نصاب یا وہ نظام جو آسانی سے اس وقت اپنایا جا سکتا ہے، اس کو اپنا لیا جائے۔ 
اس وقت درس نظامی برصغیر میں رائج تھا۔ درس نظامی کیا ہے؟ یہ بھی میں عرض کر دوں۔ درس نظامی نہ کوئی آسمانی چیز ہے، نہ قرآن میں آیا ہے نہ حدیث میں، نہ اس کا اسلام کے مستقبل یا ماضی سے کوئی تعلق ہے۔ یہ ایک اچھی مفید چیز ہے، اس کی افادیت سے انکار نہیں۔ اصل میں انگریز کی حکومت جب برصغیر میں قائم ہوئی تو اس وقت ہندوستان میں چار پانچ قسم کے درس رائج تھے۔ ایک درس مشرقی ہندوستان، جون پور وغیرہ میں رائج تھا جو شیراز ہند کہلاتا تھا۔ شیراز ہند اس لیے کہلاتا تھا کہ جون پور اور مشرقی علاقوں میں عقلیات اور فلسفے پر زور زیادہ تھا اور وہاں کے فارغ التحصیل حضرات منطق اور فلسفے کے ماہر ہوتے تھے۔ مسلمانوں میں عقلیات پر جتنی کتابیں برصغیر میں لکھی گئیں، وہ خیر آبادی سکول کی طرف سے لکھی گئیں۔ فضل حق خیر آبادی اور فضل امام خیر آبادی اس اسکول کے معروف نام ہیں اور ان کی لکھی ہوئی کتابیں ’ہدیہ سعیدیہ‘ اور ’شمس بازغہ‘ وغیرہ سے آپ واقف ہیں۔ 
ایک دوسرا درس تھا جو افغانستان کے اثرات سے آیا تھا اور موجودہ صوبہ سرحد، افغانستان اور موجودہ پنجاب وغیرہ میں رائج تھا۔ اس میں صرف ونحو اور نحوی بحثوں پر زور دیا جاتا تھا۔ کافیہ اور اس کی شرح پڑھنے پر لوگ دس دس سال لگا تے تھے۔ کافیہ میں کیا لکھا ہے، اس سے بحث نہیں ہوتی تھی، لیکن مفردا مرفوع ہے یا منصوب یا مجرور، اس پرتین تین دن بحث ہو تی رہتی تھی۔ پھر کافیہ کی شرح، شرح جامی پڑھائی جا تی تھی۔ پھر شرح جامی کی شرح، پھر اس کے حواشی سوال باسولی، سوال کابلی، تحریر سنبٹ وغیرہ، اور دس دس سال اس میں لگ جاتے تھے۔ بہرحال، یہ تخصص کا ایک میدان تھا۔ ان کی دلچسپی تھی جس پر ہمیں اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔
تیسرا نصاب وہ تھا جو مغربی ہندوستان اور سندھ میں رائج تھا جس میں علم حدیث پر نسبتاً زیادہ زور تھا۔ شیخ علی المتقی، کنز العمال کے مصنف عبد الوہاب المتقی، ہمارے سندھ کے علماء کرام شیخ محمد حیات سندھی، شیخ محمد عابد سندھی اور شیخ ابو الحسن سندھی وغیرہ حضرات اس نظام سے وابستہ تھے۔ ان حضرات کا اعتنا علوم حدیث سے زیادہ تھا۔ 
یہ تین مختلف نظام ہندوستان میں رائج تھے اور کچھ تھوڑی تھوڑی تبدیلیوں کے ساتھ ان سے مختلف بھی تھے، لیکن بڑے اندا ز یہی تین تھے۔ اس کی تفصیل اگر آپ دیکھنا چاہیں تو مولانا مناظر احسن گیلانی کی ضخیم کتاب ’’ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت‘‘ میں دیکھ لیجیے۔ جب انگریز ہندوستان میں آئے، ایسٹ انڈیا کمپنی آئی تو اس نے سب سے پہلے بعض سرحدی علاقوں بمبئی، مدراس اور کلکتہ وغیرہ پر قبضہ کیا۔ کلکتہ پر قبضہ کرنے کے بعد انھوں نے تجارتی کوٹھیاں بنائیں۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی پولیس اور فوج رکھنا شروع کی جس کی ایک لمبی داستان ہے۔ آج کل اس کے parallels اور اس کی مشابہتیں بڑی نمایاں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آپ کے ملک میں بد امنی ہے، آپ کے ہاں راستوں میں ڈکیتیاں بہت ہوتی ہے، اس لیے ہم اپنی جان ومال اور راستوں کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی فوج الگ رکھیں گے۔ ان کو فوج رکھنے کی اجازت دے دی گئی اور انھوں نے راستوں پر سپاہی رکھنے شروع کر دیے۔ ہوتے ہوتے انھوں نے پورے بنگال پر قبضہ کر لیا اور بالآخر نواب سراج الدولہ کے خلاف فوج کشی کر کے اس کو demote کر دیا گیا۔ بنگال پر قبضہ کرنے کے بعد انھوں نے بہار اور اڑیسہ پر قبضہ کر لیا اور الٰہ آباد پہنچ گئے جو مشرقی یوپی کا سب سے بڑا شہر تھا۔ جب تین صوبوں بنگال، بہار اور اڑیسہ پر ان کا قبضہ ہو چکا تو ہندوستان میں مسلمانوں کے کان پر جوں رینگی اور یہاں کا جو حکمران تھا، غالباً شاہ عالم ثانی، وہ ان کے مقابلے کے لیے اپنی فوج لے کر نکلا۔ اس کو ناکامی ہوئی۔ اس ناکامی کے نتیجے میں الٰہ آباد میں ایک معاہدہ ہوا جو معاہدۂ دیوانی کہلاتا ہے۔ یہ معاہدہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے انتقال کے کوئی تین سال بعد ہوا۔ اس معاہدہ میں شاہ عالم ثانی نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ان تینوں صوبوں کا انتظام سپرد کر دیا یعنی اس کو قانونی طور پر ایک جائز قبضہ تسلیم کر لیا اور کہا کہ میری طرف سے آپ ان تینوں صوبوں کا نظام چلائیں گے، لیکن اس کے یہ شرائط ہوں گے۔ (انگریز ہمیشہ شروع میں شرائط مان لیتے ہیں جو ان کو سوٹ کرتے ہیں۔ پیروی اور پابندی وہ کتنی کرتے ہیں، یہ ہم سب کے سامنے ہے) 
ان شرائط میں ایک بات یہ تھی کہ مسلمانوں کے سارے معاملات شریعت حقہ محمدیہ کے مطابق ہوں گے۔ یہ معاملات مسلمان قاضی اور مفتی طے کریں گے کہ شریعت کیا ہے اور اس کو کیسے نافذ کیا جائے۔ یہ ان شرائط میں ایک چیز تھی۔ جب انگریزوں نے یہ شرائط مان لیں تو انگریزوں میں یہ خوبی ضرور ہے، ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ وہ ہر کام بڑے methodical طریقے سے کرتے ہیں۔ ہر کام کا ایک نظام اور ایک سسٹم ہوتا ہے۔ پہلے قانون بنتا ہے، اس کے مطابق نظام چلتا ہے۔ تو انگریزوں نے یہ معلوم کیا کہ مسلمانوں میں کسی کو جج مقرر کرنے کے لیے اس کا فیصلہ کیسے کیا جائے کہ وہ عالم یا فقیہ ہے؟ انھوں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ تین چار قسم کے نصاب رائج ہیں اور ہر ایک کے فارغ التحصیل کو عالم کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کوئی ایسا نصاب ہونا چاہیے جو ان تینوں خصائص کا جامع ہو۔ اب ان تینوں خصائص کا جامع نظام وہ تھا جو فرنگی محل میں رائج تھا۔ 
فرنگی محل ایک بہت بڑے مکان کا نام تھا جو جہانگیر نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو دے دیا تھا۔ جہانگیر اس زمانے میں بیمار ہوا، کئی لوگوں نے اس کا علاج کیا لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ ایک انگریز ڈاکٹر نے علاج کر دیا تو اس نے خوش ہو کر پوچھا کہ کیا چاہیے؟ انگریز ہمیشہ اپنی قوم کا وفادار ہوتا ہے۔ اس نے کہا کہ میری قوم کے کچھ لوگ یہاں لکھنو میں تجارت کے لیے آئے ہیں، ان کو مشکل پیش آتی ہے تو آپ ان کو تجارت کی اجازت دے دیں اور ان کو کوئی charter یا کوئی guarantees ایشو کر دیں۔ جہانگیر نے فرمان جاری کر دیا اور لکھنو میں ایک بہت بڑا محل یا کوٹھی ان کو دے دی۔ انگریزوں کی وجہ سے وہ کوٹھی ’فرنگی محل‘ کہلاتی تھی۔ اورنگ زیب کے زمانے میں کسی حوالے سے اس کو خبر ملی کہ انگریزوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جو جہانگیر نے طے کی تھیں اور بعض ایسے کام کیے ہیں جو حکومت کی پالیسیوں کے خلاف تھے۔ اورنگ زیب نے وہ کوٹھی ان سے ضبط کر لی اور ان کو نکال کر وہ کوٹھی ملا نظام الدین سہالوی کو دے دی جنھوں نے فتاویٰ عالم گیری مرتب کرایا تھا اور کہا کہ آپ یہاں درس گاہ قائم کر دیں۔ چنانچہ اس درس گاہ کے علما فرنگی محلی کہلانے لگے۔ مولانا جمال میاں فرنگی محلی، عبد الوہاب فرنگی محلی، عبد الباری فرنگی محلی، یہ نام آپ نے سنے ہوں گے۔ فرنگی محل میں ملا نظام الدین سہالوی کا مرتب کردہ جو نصاب تعلیم تھا، اس میں انھوں نے منطق، فلسفہ، نحو اور حدیث کے ساتھ ساتھ اصول فقہ اور فقہ کی بنیادی کتابیں بھی شامل کر دیں، اس لیے کہ وہ خود فقہ کے متخصص تھے، مفتی اور محتسب رہے تھے اور فتاویٰ عالم گیری کی ترتیب میں بھی شریک رہے تھے۔ 
جب انگریزوں کو پتہ چلا کہ فرنگی محل کا جو نصاب تعلیم ہے، اس میں فقہ کی اچھی بنیاد موجود ہے اور وہاں کے فارغ التحصیل حضرات فقہ کے ماہر ہوتے ہیں تو انھوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اسی درس نظامی کے فارغ التحصیل حضرات کو قاضی ومفتی مقرر کیا جائے گا۔ چنانچہ بڑے پیمانے پر چونکہ قاضی ومفتی مقرر ہونے لگے اور درس نظامی کے فارغ التحصیل حضرات کو ایک اچھا دنیاوی موقع ملا، ان کی تنخواہیں اچھی تھیں، ان کے وسائل اچھے تھے، معیارات اچھے تھے تو بڑے پیمانے پر مدارس نے اسی نصاب کو اپنانا شروع کر دیا اور بڑی تعداد میں انگریزوں نے اس نصاب کے فارغ التحصیل علماء کرام کو مفتی ومحتسب مقرر کر دیا۔ آپ ۱۸۵۷ء سے پہلے کی تاریخ میں بیسیوں علماء کرام کے نام سنیں گے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم کے طور پر کام کرتے تھے۔ مفتی صدر الدین آزردہ کا نام آپ نے سنا ہوگا۔ وہ اسی درس نظامی کے پڑھے ہوئے تھے اور انگریزوں کے نظام میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ ’صدر الصدور‘ تھے یعنی دہلی اور اس کے قرب وجوار کے مذہبی امور کے جتنے قاضی تھے، ان کی سربراہی ان کے پاس تھی۔ آپ انھیں اس علاقے کا چیف جسٹس کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح کی اور بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ 
یہ نصاب تھا جس سے لوگ مانوس تھے اور گزشتہ کم وبیش سو برس یا ۸۰ برس سے لوگ اس نصاب کو پڑھتے پڑھاتے چلے آ رہے تھے۔ جب مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے دار العلوم کے قیام کا فیصلہ کیا تو انھوں نے بھی اسی نصاب کو اپنا لیا۔ اور لوگوں کے ساتھ وہ بھی اس نصاب کے پڑھے ہوئے تھے۔ ان کے والد، ان کے ساتھی دوسرے علماء کرام، مثلاً مولانا محمد یعقوب نانوتوی جو دار العلوم کے پہلے صدر مدرس بھی منتخب ہوئے، ان کے والد مولانا مملوک علی، سب اسی نظام کے پڑھے ہوئے تھے اور وہ دہلی کالج میں، جسے ایسٹ انڈیا کمپنی چلاتی تھی، عربی کے پروفیسر تھے۔ اس نصاب کو اپنانے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ دینی تعلیم بقدر ضرورت اس میں شامل تھی۔ اس میں عربی زبان بھی تھی، فقہ بھی تھی، اصول فقہ بھی تھی، حدیث بھی تھی، تفسیر کی ایک دو کتابیں بھی انھوں نے شامل کر دیں۔ حدیث کی مزید کتابیں شامل کر دیں۔ اس سے پہلے تک حدیث کی صرف ایک کتاب مشکوٰۃ اور ایک آدھ کتاب ہوتی تھی۔ ان حضرات نے مزید کتابیں شامل کر دیں اور ایک نیا نصاب انھوں نے بنا دیا جس نے ہندوستان کے دینی تقاضوں کو اس وقت پورا کیا۔
کیا پاکستان بننے کے بعد بھی دینی مدارس کے تقاضے یہی تھے؟ میرے خیال میں یہ نہیں تھے۔ پاکستان بننے کے بعد اب دینی مدارس سے تین قسم کے تقاضے ہیں اور ان تینوں تقاضوں کی ضروریات الگ الگ ہیں۔ ایک تقاضا تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو مساجد ہیں، ان میں ہمیں تربیت یافتہ امام درکار ہیں۔ یہ سب سے پہلا تقاضا ہے جو مسلمانوں کی دینی زندگی کا سب سے لازمی مطالبہ ہے جسے پورا ہونا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ ایک امام مسجد کو درس نظامی پڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر وہ ’ہدیہ سعیدیہ‘ اور ’سوال کابلی‘ اور ’سوال باسولی‘ اور ’تحریر سنبٹ‘ وغیرہ نہیں پڑھے گا تو بھی وہ ایک اچھا امام ہو سکتا ہے۔ اور اگر پڑھ لے گا تو اس کے اچھا امام بننے میں ان کتابوں سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اچھا امام بننے یا نہ بننے میں ان علوم وفنون کا سرے کوئی دخل نہیں ہے۔ اس لیے یہ تحصیل حاصل ہے اور وقت کا بھی ضیاع ہے اور وسائل کا بھی۔ آپ نے ہزاروں ایسے لوگوں کو دیکھا ہوگا اور آگے چل کر کروڑوں ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جنھوں نے آٹھ دس سال لگا کر یہ ساری چیزیں یاد کیں، پھر پچاس سال امامت کی اور پچاس سالہ امامت میں کسی نے ان سے ’ہدایۃ الحکمۃ‘ کا کوئی سوال نہیں پوچھا۔ ان کو کبھی ’تحریر سنبٹ‘ کا کوئی مسئلہ وہاں بیان کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی ۔ جو مسائل لوگ پوچھتے ہیں اور جوروزانہ دین کی راہنمائی میں درکار ہوتے ہیں، وہ تو ان کو پڑھائے نہیں جاتے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ شیئرز مارکیٹ میں پیسہ لگانا جائز ہے یا نہیں، اور ان میں سے اکثر کو یہی پتہ نہیں ہوتا کہ شیئر کہتے کس کو ہیں۔ ا س کے معنی یہ ہیں کہ یہ نظام اچھا امام تیار نہیں کر سکتا۔ اب ایک اچھے امام کی حقیقی ضروریات کیا ہیں، اس پر غور وفکر ہونا چاہیے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ایک کم از کم تعلیمی معیار کے بعد، جو میٹرک ہو سکتا ہے، آپ دینی مدارس میں طلبہ کو داخلہ دیں۔ میٹرک کے بعد حفظ قرآن لازمی ہونا چاہیے۔ میں ذاتی طور پر اس بات کا قائل ہوں کہ دینی مدارس میں حافظ کے علاوہ کسی کو داخلہ نہیں دینا چاہیے۔ اس وقت جامعہ ازہر کے تحت جو ادارے کام کر رہے ہیں، ان میں طلبہ کی تعداد کم وبیش پندرہ لاکھ ہے جو پاکستان کے دینی مدارس کے طلبہ کی تعداد سے زیادہ ہے۔ ان کی آبادی ہم سے آدھی بلکہ اس سے بھی کم ہے، لیکن وہاں حفظ قرآن لازمی ہے۔ گویا پندرہ لاکھ حافظ طلبہ اس وقت جامعہ ازہر کے زیر انتظام اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ اگر وہ کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ 
اس کے بعد تین سال کا ایک نظام اور نصاب ایسا ہو جس میں بقدر ضرورت عربی زبان پڑھائی جائے۔ اتنی کہ طالب علم تفسیر اور حدیث کی کتابیں اور فقہ کی عام کتابیں پڑھ سکے۔ عربی زبان کے علاوہ حدیث اور علوم حدیث پر کوئی ایک آدھ جامع کتاب مثلاً مشکوۃٰ کا انتخاب یا معارف الحدیث یا کوئی اور اچھی کتاب پڑھا دی جائے۔ اسی طرح اردو کی کوئی تفسیر، مثلاً تفسیر عثمانی اور کوئی ایک عربی کی مختصر تفسیر پڑھائی جائے۔ ایک دو فقہ کی کتابیں ہوں اور کوئی ایک آدھ کتاب جدید معاشیات پر۔ اس طرح کا ایک تین سالہ کا نصاب ہو جس میں تقریر کی مشق بھی ہو اور تجوید بھی اس میں شامل ہو۔ جو یہ نصاب مکمل کر لے، وہ امام بننے کا اہل ہو اور اس کو پھر امام بننے کا موقع دینا چاہیے تاکہ وہ اپنا اور ادارے کا مزید وقت اور وسائل ضائع نہ کرے، اس لیے کہ اس کو اس سطح سے آگے کام نہیں کرنا۔ 
اب یہ ایک تقاضا ہے جس کے لیے آپ جب تک کوئی نظام نہیں بنائیں گے، وہی کچھ ہوتا رہے گا جو آج ہو رہا ہے۔ آپ ایک اور تلخی کی بات سنیے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے اور جب تک آپ حقائق کاسامنا نہیں کریں گے، مستقبل کی تشکیل نہیں کر سکتے۔ آج ہمارا امام جب سوسائٹی میں جا کر یہ محسوس کرتا ہے کہ میں نے جو کچھ پڑھا ہے، وہ تو irrelevant ہے اور یہاں لوگ جو سوال کر رہے ہیں، اس کا میرے پاس جواب نہیں ہے تو وہ اپنی پڑھی ہوئی چیزوں کو relevant بنانے کے لیے وہاں وہ مسائل پیدا کرتا ہے جو اس کے اپنے مسائل ہیں تاکہ وہ لوگوں کے بھی مسائل بن جائیں اور جب وہ ان کے مسائل بن جائیں گے اور وہ پوچھیں گے تو میں ان کا جواب دوں گا۔ وہ مسائل کیا ہوتے ہیں؟ وہ فرقہ وارانہ ہوتے ہیں۔ اب جن بیچاروں کو کچھ پتہ نہیں ہوتا اور نہ کبھی ان کے ذہن میں یہ خیال آیا ہوتا ہے کہ حضور نور تھے یا بشر تھے، ان کے لیے امام یہ مسئلہ پیدا کر دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم واجب التعمیل ہے، یہ کوئی نہیں بتاتا، لیکن ایک اس پر زور دینا شروع کرتا ہے کہ آپ بشر تھے اور دوسرا اس پر کہ آپ نور تھے۔ وہ نور کا ایک محدود مفہوم بیان کرتا ہے، یہ بشر کا ایک محدود مفہوم بیان کرتا ہے۔ اور جب علم کی کمی کی وجہ سے لوگوں کا ایک گروہ اس کام کے لیے تیار ہو جائے گا تو اب امام صاحب کی نوکری پکی ہو جائے گی اور انھیں کوئی وہاں سے نہیں ہٹائے گا۔ یہ ایک افسوس ناک بات ہے جس پر غور کرنا چاہیے۔ اس کو محض تنقید کے مفہوم میں نہ لیں۔ جب تک مرض کی آپ تشخیص نہیں کریں گے، اس وقت تک اس کا علاج نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے امام کو اس کام کے لیے تیار کریں جو سوسائٹی کے relevant مسائل ہیں۔ جب اسے یہ مسائل معلوم ہوں گے تو وہ غیر متعلق مسائل پیدا نہیں کرے گا۔ 
اس کے بعد تعلیم کا دوسرا درجہ ان لوگوں کے لیے ہے جو دینی علوم کے مدرس یا معلم بننا چاہتے ہیں۔ آج پاکستان کے ہر اسکول اور کالج میں ایف اے تک اسلامیات لازمی ہے۔ بہت سے لوگ بی اے میں بھی پڑھتے ہیں۔ ہر کالج اور ہر اسکول میں اسلامیات کے ٹیچر ہوتے ہیں۔ یہ دو طرح کے لوگ ہیں۔ کچھ تو وہ ہیں جو سرکاری اداروں سے ایم اے کر کے آئے ہیں جن کا علم بڑا ناپختہ ہوتا ہے۔ وہ اردو میں پڑھ کر امتحان پاس کر لیتے ہیں اور ان میں سے بہت سے لوگ قرآن پاک بھی ناظرہ نہیں پڑھ سکتے۔ میں نے اسلامیات کے ایسے اساتذہ دیکھے ہیں کہ جن سے نماز پڑھانے کے لیے کہا جائے تو نماز نہیں پڑھا سکتے۔ قرآن پاک کی شاید چار سورتیں بھی ان کوحفظ نہ ہوں، اس لیے کہ انھوں نے پڑھا ہی نہیں ہوتا۔ اردو میں پڑھ کر پاس کر لیتے ہیں اور اسلامیات کی ڈگری ان کو مل جاتی ہے اور وہ اسلام کے مجتہد اور مفتی بھی بن جاتے ہیں۔ یہ ایک دوسری خطرناک بات ہے جو ہو رہی ہے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو مدرسوں کی لائن سے آئے ہیں۔ مدرسوں میں میبذی، شرح عقائد اور خیالی قسم کی جو اسلامیات پڑھائی جاتی ہے، وہ یہاں کام نہیں کرتی۔ یہاں جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے لیے ہم نے ان لوگوں کو تیار نہیں کیا۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے ابتدائی تین چار سال کے بعد مزید تین سال کا ایک نصاب ہونا چاہیے جس کا مقصد یہی ہو کہ آپ کو اسکولوں اور کالجوں کے لیے اسلامیات کے معلم تیار کرنے ہیں۔
اس کے بعد تیسری ضرورت یہ ہے کہ ہمیں ایسے لوگ درکار ہیں جو خود ان دینی مدارس میں اعلیٰ درجے کے متخصص ہوں، جو کتابیں پڑھا سکیں اور اعلیٰ درجے کے علوم وفنون کی تدریس کر سکیں۔ ہمیں فقہا درکار ہیں، محدثین درکار ہیں، مفسرین درکار ہیں، مفتی درکار ہیں جو ان سب علوم کے متخصص ہوں۔ اس کے لیے الگ سے چار پانچ سال کی تیاری چاہیے۔ جب تک وہ تیاری نہیں ہوگی، مطلوبہ افراد تیار نہیں ہوں گے۔ اس وقت درس نظامی میں کیا ہوتا ہے؟ درس نظامی میں سب سےeglected n چیز قرآن پاک ہے، جس پر سب سے کم توجہ دی جاتی ہے۔ اب بعض مدارس میں ترجمہ قرآن شروع ہوگیا ہے۔ اول سے آخر تک ترجمہ پڑھا دیتے ہیں جس کی نوعیت اس عام درس سے مختلف نہیں ہوتی جو عام مسجدوں میں ہوتا ہے جس میں بیٹھ کر لوگ سن لیتے ہیں۔ ایک عالم صاحب نے درس دے دیا، لوگوں نے عقیدت سے سن لیا۔ کچھ یا درہا، کچھ یاد نہیں رہا۔ اسی طرح سے مدرسوں میں جو درس ہوتا ہے، وہ اکثر لوگوں کو یاد نہیں رہتا۔ جو تفسیر پڑھاتے ہیں، وہ بیضاوی کی سورہ بقرہ ہے۔ میرے خیال میں بیضاوی کوئی اچھی تفسیر نہیں ہے۔ میں امام بیضاوی کے پورے احترام کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں۔ نہ وہ تفسیر کا اچھا نمونہ ہے، نہ کسی اور چیز کا۔ تفسیر بیضاوی انھوں نے کیوں لکھی؟ وہ اصل میں متکلم تھے اور اصول فقہ کے آدمی تھے۔ انھوں نے بطور متکلم یہ دیکھا کہ زمخشری کی تفسیر بڑی مقبول ہو رہی ہے اور اس کے ہاں معتزلی عقائد ہیں تو انھوں نے کہا کہ زمخشری کی تفسیر سے اس کے جو بلاغت کے نکتے ہیں، وہ لے لیے جائیں اور معتزلی عقائد کو نکال کر اشعری عقائد اس میں ڈال دیے جائیں اور اس طرح سے تفسیر بیان کر دی جائے۔ اب جن جن باتوں میں انھوں نے زمخشری کی تردید کی ضرورت سمجھی، وہ ساری سورہ بقرہ میں آ گئیں، اس لیے وہ تو بڑی لمبی ہو گئی اور باقی تفسیر میں بس مختصر حواشی ہیں جنھیں کوئی پڑھتا نہیں۔ چنانچہ عملاً تفسیر قرآن تو طلبہ کو پڑھائی نہیں جاتی۔ میں نے جید علما میں سے بھی بہت سوں کو دیکھا کہ علم تفسیر سے واقف ہیں، نہ علوم قرآن میں جو مسلمانوں کے کارنامے ہیں، ان سے آشنا ہیں۔ اکثر لوگوں کو بڑی تفسیروں کے نام بھی پتہ نہیں ہوتے۔ آپ چاہیں تو بیضاوی کے کسی استاد سے پوچھ لیں کہ دس بہترین تفسیروں کے نام بتا دیں تو شاید طبری اور ایک آدھ کے علاوہ وہ چھٹا ساتواں نام نہ بتا سکیں۔ یہ اکثر صورتوں میں واقفیت کا عالم ہوتا ہے۔ بعض صورتیں مستثنیٰ ہیں۔ 
اب اگر قرآن پاک ہمارے علوم وفنون کی اساس ہے تو پھر اس کو فی الواقع تعلیم کی بھی اساس ہونا چاہیے۔ یہ بات کہ آپ نے پہلے طالب علم کو ساری چیزیں پڑھا کر اس کے ذہن کا ایک سانچہ بنایا، اس کے بعد اس سانچے کے مطابق آپ اسے قرآن پڑھا رہے ہیں، یہ میرے خیال میں قرآن کی توہین ہے۔ قرآن اصل سانچہ ہے۔ قرآن کے سانچے سے باقی علوم کو جانچنا چاہیے ۔ باقی علوم کے سانچے سے قرآن کو نہیں جانچنا چاہیے۔ کسی کو اچھا لگے یا برا لگے، میں اس کو غلط سمجھتا ہوں۔قرآن معیار ہے، قرآن اصل کسوٹی ہے، قرآن کے معیار اور کسوٹی پر فقہ اور اصول فقہ اور عقائد اور ہر چیز کو جانچنا چاہیے۔ ہم پہلے متاخرین کے عقائد اور فتاویٰ پڑھا کر طالب علم کا ایک ذہن بناتے ہیں، پھر اس ذہن سے کہتے ہیں کہ قرآن کے الفاظ کو توڑو مروڑو اور توڑ مروڑ اس کے مطابق ایڈجسٹ کرو۔ یہ میرے خیال میں قرآن کا صحیح استعمال نہیں ہے۔ اس لیے میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ علوم قرآن کی تعلیم کا ایک نیا نظام ہونا چاہیے۔ کیا ہونا چاہیے؟ اس پر کبھی بات ہوگی تو اس پر میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہوں۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ علوم قرآن میں تخصص موجودہ درس نظامی سے حاصل نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ اپنی ذاتی دلچسپی یا ذوق سے پیدا کر لیں تو کر لیں، نظام میں اس کا بندوبست نہیں ہے۔ کوئی inherent mechanism نظام میں نہیں ہے کہ قرآن کے متخصصین پیدا ہوں۔ 
یہی حال علم حدیث کا ہے۔ علم حدیث کا متخصص ازخود کوئی پیدا ہو جائے، اللہ تعالیٰ انور شاہ کشمیری کی طرح کے کسی آدمی کو پیدا کر دے تو کر دے، لیکن اس نصاب کو پڑھ کر جو لوگ تیار ہوتے ہیں، ان میں کوئی علم حدیث کا متخصص نہیں ہوتا۔ ان کو محض چند فقہی موضوعات سے متعلق وہ حدیثیں یاد ہوتی ہیں جن میں فقہاے احناف کا کوئی کلام یا فقہاے شوافع کا کوئی مستدل ہے۔ مدارس میں تین تین ماہ تک اس پر بحث ہوتی رہتی ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ یہاں لوگوں کے ایمان ضائع ہو رہے ہیں۔ لوگ ایمان ہی کو نہیں مان رہے کہ ایمان بھی کوئی چیز ہے۔ اور اس کو چھوڑ کر آپ تین مہینے اس پر بحث کرتے رہتے ہیں کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے کسی کو بحث نہیں۔ آپ نے ایمان کے بارے میں کیا فرمایا، وہ کسی کا concern نہیں۔ لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اپنے کسی مقتدا یا پیشوا کے نقطہ نظر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت کر دیں۔ اس کے بعد اگلے چھ مہینے ان احادیث پر خرچ ہو جاتے ہیں جن میں فاتحہ خلف الامام اور رفع یدین کی طرح کے اختلافی موضوعات بیان ہوئے ہیں۔ اس کے بعد جو طالب علم سب سے تیز پڑھنے والا ہوتا ہے، اس کو کہتے ہیں کہ تم پڑھو اور روزانہ چالیس صفحے پڑھو۔ نہ استاد کو اس سے کوئی بحث ہوتی ہے اور نہ شاگردوں کو ہی کچھ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی، جو ساری شریعتوں کاناسخ اور ہر چیز کا معیار ہے اور جس کے بعد ہر بات کالعدم ہے، اس میں کیا بات کہی گئی ہے۔ کتب حدیث کی شروح کو دیکھ لیجیے۔ جو شروع کی بحثیں ہیں، ان میں ایک باب تین جلدوں میں آیا ہے تو دوسرا باب چار جلدوں میں، جبکہ آخر میں تین تین چار چار سطروں کے حاشیے ہیں کہ کذا قال فلان یا انظر فلانا ۔ یہ شرحوں کی کیفیت ہے۔ تو حدیث میں بھی کوئی تخصص مدارس میں پیدا نہیں ہوتا۔ فقہ میں تخصص کی صورت حال بھی یہی ہے۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ان دو مرحلوں کے لیے متخصصین کے لیے ایک نیا نصاب ہو جس میں درس نظامی کی ساری کتابیں شامل ہوں۔ درس نظامی کی کسی کتاب کو میں متخصصین کے لیے غیر ضروری نہیں سمجھتا، لیکن اس کے ساتھ مزید بہت کچھ شامل کرنا ضروری ہے تاکہ واقعی ایسے متخصص پیدا ہوں جو اس فن یا علم کو آگے چل کر پڑھا سکیں۔ 
یہ تین درجے تو عام ہیں جن کی ہر وقت ضرورت ہے۔ ان کے بعد ایک درجہ اور ہے جس کے لیے مزید محنت درکار ہے۔ یہ درجہ وہ ہے کہ جو مغربی علوم وفنون کی تنقیح کا فریضہ انجام دے اور ناقدانہ جائزہ لے کر یہ بتائے کہ ان میں کیا چیز کمزور ہے اور کیا چیز مضبوط ہے، کون سی بات اسلام کے مطابق ہے اور کون سی اسلام کے مطابق نہیں ہے۔ ان میں جو فقہ کا متخصص ہو، وہ مغربی قانون کا تنقیدی جائزہ لے۔ جو فقہ المعاملات کا متخصص ہو، وہ ان کی معاشیات کا جائزہ لے۔ جو اصول فقہ کا متخصص ہو، وہ ان کے اصول قانون کاجائزہ لے۔ اس میں کتنا وقت لگے گا، کتنے لوگ تیار ہوں گے، یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ لیکن جب تک یہ سارے کام نہیں ہوں گے، اس وقت تک امت مسلمہ کا مستقبل اس طرح بن نہیں سکتا جس طرح ہم بنانا چاہتے ہیں۔ آج صورت یہ ہے کہ نظام ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو اسلام سے واقف نہیں ہیں۔ اسلام کے ساتھ ان کی جذباتی وابستگی تو ہے اور ان میں بہت سے اچھے مسلمان بھی ہیں، لیکن جذباتی وابستگی کی بنیاد پر عمارت بنانے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے آپ ریت پر بیس منزلہ عمارت بنانا چاہیں۔ جیسے وہ قائم نہیں رہ سکتی، اسی طرح یہ عمارت بھی لازماً گر جائے گی۔ چنانچہ جب تھوڑی سی ایسی بات آتی ہے جو اس طبقے کے خیالات سے مختلف ہو تو وہ فوراً اس پر تاویلیں کرتے ہیں، کیونکہ intellectual framework نہیں ہے، اس کا انفرا سٹرکچر نہیں ہے۔ اس کے لیے وقت درکار ہے۔ وہ ایک دو دن میں نہیں ہوگا۔ کسی وعظ یا مطالبے یا بینر یا دھرنے سے نہیں بنے گا۔ اس کے لیے لگ کر کام کرنا پڑے گا۔ 
حاضرین محترم! یہ وہ چند باتیں تھیں جو میں اسلامی علوم وفنون کے طلبہ سے کرنا چاہتا تھا۔ چونکہ آپ اس میدان کے شہسوار ہیں اور اس ضرورت کی تکمیل کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ہے، اس لیے میری گفتگو میں تھوڑی سی تلخی آگئی جومیں نے جان بوجھ کر شامل کی تاکہ اس تلخی کا احساس آپ کو یہ سوچنے پر مجبور کرے کہ ہم جو بات کر رہے ہیں، اس کا تعلق کسی ذہنی عیاشی یا محض فکری سرگرمی سے نہیں ہے، بلکہ وہ واقعی بڑی اہم بات اور مسلمانوں کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ میں ایک شعر پر بات ختم کرتا ہوں۔ فارسی کا شعر ہے:
نواے من ازاں پرسوز وبے باک وغم انگیز است
کہ خاشاکم در شعلہ افتاد وباد صبح دم تیز است
یعنی میں اس لیے تلخ باتیں کر رہا ہوں کہ میرے آشیانے کو آگ لگ گئی ہے، اور ہوا تیز ہے اور مجھے جلدی بچانے کی ضرورت ہے۔ امر واقعہ یہی ہے کہ آشیانے کو آگ لگ چکی ہے اور باد صبح دم تیز ہے۔ آشیانہ جل جانے کا خطرہ ہے اور بہت جلد اس کو بچانے کی ضرورت ہے۔ 
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

ندوۃ العلماء کا مسلک اعتدال

ڈاکٹر ہارون رشید صدیقی

شعور کی آنکھیں کھلیں تو دیکھا کہ والد صاحب میلاد خواں اور فاتحہ خواں ہیں، تعزیہ دار ہیں، شب براء ت، محرم، گیارہویں، بارہویں کا اہتمام کرنے والے ہیں۔ کسی کی موت پر تیجا یا چہارم، چالیسواں اور برسی کرتے ہیں۔ بس یہی دین ہے۔ دہریت تو خواب میں نہ تھی، مگر مذہبیت یہی تھی۔ برٹش دور تھا، سرکاری اسکول کی تعلیم ہوئی جہاں اردو ثقافت کا غلبہ تھا۔ جب میلاد کی کتابیں پڑھ لینے لگا اور والد صاحب کو محسوس ہوا کہ میں ان سے زیادہ علم رکھتا ہوں تو مجھے اپنا نائب بنا دیا۔ ابھی تک میری ملاقات کسی عالم دین سے نہ ہوئی تھی۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ مذہب کا کام عقلی طور پر جو باتیں بری ہیں، ان سے دور رکھنا اور جو اچھی ہیں، ان پر عمل کرانا ہے۔ ابھی تک شرک وتوحید کی بات میرے ذہن میں نہ آئی تھی۔ میں ہندوؤں کے بھجن میں لطف لیتا، قوالی بالمزامیر میں لذت پاتا، جمعہ جمعہ نماز پڑھ لیتا، نفل روزوں کا اہتمام کرتا اور بڑا دیندار سمجھا جاتا، اپنے رشتہ داروں میں بڑی عزت پاتا۔
میری اردو بہت اچھی ہو گئی، کچھ فارسی بھی آ گئی۔ بعض عزیزوں نے مجھے جناب مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی تصنیف ’’رسالہ دینیات‘‘ اور ’’خطبات‘‘ پڑھنے کا مشورہ دیا۔ سچ یہ ہے کہ یہیں سے میری زندگی میں انقلاب شروع ہوا۔ اب میں نے دین کو سمجھنے کی کوشش شروع کی تو اختلافات کی دنیا میں الجھ کر رہ گیا۔ اب جی چاہا کہ کسی عالم سے ملوں، لیکن طے کیا کہ ملنے کے بجائے پہلے اس کی تقریر سنوں، اس لیے کہ ملنے پر وہ اپنے علم سے مجھے دبا لے گا اور تقریر سن کر میں کوئی رائے قائم کرنے میں آزاد رہوں گا۔ میرے آباو اجداد کے گاؤں گرونڈہ ضلع بارہ بنکی میں مولانا حشمت علی صاحب کی تقریر ہوا کرتی تھی۔ میں نے پہلی بار جو کسی عالم کی تقریر سنی تو وہ مولانا حشمت علی صاحب کی تقریر تھی۔ میں نے ان کی تین تقریریں سنیں تو مجھے جیسے کسی عالم کی تقریر سننے سے تنفر پیدا ہو گیا اور دل میں شک وشبہات آنے لگے۔ خیال ہوا جو سمجھ میں آئے، اس پر عمل کرو اور مولویوں کے چکر میں مت پڑو کہ فلاں کو کافر کہو، فلاں کو کافر کہو۔ سوچا کہ جن کے نام میں نے مولانا حشمت علی صاحب کی زبان سے پہلی بار سنے، ان سے بالکل ناواقف ہوں تو ان کو ان کے کہنے سے کافر کیوں کہوں؟ 
کافی دنوں تک اسی کشمکش میں رہا کہ اب ایک اور عالم کی تقریر سننے کا اتفاق ہوا۔ وہ تھے حضرت مولانا محمد عبد الشکور فاروقی۔ یہ واقعہ ۱۹۵۳ء کا ہے۔ اب تو میری دنیا یکسر بدل گئی۔ ساری بدعتیں ترک ہوئیں، پنج وقتہ نماز کا اہتمام ہوا، حتی الامکان سنتوں پر عمل ہوا۔ مدرسہ ابو حمدیہ علی آباد میں مدرسی اختیار کر لی۔ وہیں کے ایک جلسہ میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ ، حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ کی تقریریں سنیں اور ان سے تعلقات ہو گئے۔ تبلیغی جماعت سے تعلق ہوا، تب تبلیغ میں نکلنا ہونے لگا۔ پھر ان دونوں مذکورہ بزرگوں سے تعلق کے سبب ندوہ آ گیا۔ مکتب میں تدریس کی خدمت سپرد ہوئی۔ یہاں یونیورسٹی کی لائن میں علمی ترقی بھی کرتا رہا اور منصبی بھی۔ میں نے یہاں دیکھا کہ حنفی بھی پڑھتے ہیں اور شافعی بھی۔ خانقاہی بھی پڑھتے ہیں اور اہل حدیث بھی۔ اساتذہ میں بھی ان چاروں مسلک کے لوگ ہیں اور شوریٰ میں بھی۔ کسی کی تقریر میں، کسی کی تحریر میں یہاں اختلافات کا ذکر آتا ہی نہیں ہے۔ یہاں رفع یدین بھی ہوتا ہے اور اس کا ترک بھی، آمین بالجہر بھی ہے اور بالسر بھی، امام کے پیچھے الفاتحہ کی قراء ت بھی ہے اور امام کی قراء ت پر اکتفا بھی، بیس رکعات تراویح پڑھنے والے بھی ہیں اور آٹھ رکعت پڑھ کر چلے جانے والے بھی۔ نہ کوئی کسی پر نکیر کرتا ہے نہ تنقیص، بلکہ باہم ایک دوسرے کا احترام ہے۔ مجھے یہ فضا بہت ہی اچھی لگی۔ یہاں کا اعتدال مجھے بھا گیا۔
اب تک میرا علم دین ترجموں سے تھا۔ مجھے شدت سے احساس ہوا کہ میں عربی سیکھوں اور دین کو براہ راست پڑھوں۔ اپنے طور پر حفظ تو کر لیا تھا۔ عربی بھی شروع کی مگر گاڑی چل نہ سکی۔ دعاؤں کا اہتمام کیا، سمع اللہ لمن حمدہ، میرے رب نے کس طرح سنی اور کس طرح اس کی شکلیں پید اہوئیں، یہ میرے اور میرے رب کے بیچ ایک راز ہے۔ اللہ کا شکر واحسان ہے کہ ریاض یونیورسٹی سے وظیفہ ملا، وہیں عربی سیکھی، وہیں کنڈس کورس کر کے تفسیر وحدیث میں تخصص کے ساتھ کلیۃ التربیۃ سے ماجستیر کیا۔ سات سال ریاض میں رہا، دوران تعلیم امامت بھی کی اور قرآن مجید کی تدریس کا کام بھی۔ اب میرے دماغ پر حضرت مولانا علی میاں صاحب، حضرت مولانا منظور نعمانی صاحب، حضرت مولانا عبد الشکور صاحب کے ساتھ علامہ ابن تیمیہ کا بھی تسلط ہوا۔ قیام ریاض کے دوران چوٹی کے وہابیوں کی جماعت میں اس حیثیت سے شامل رہا کہ میں عامل بالقرآن والحدیث ہوں۔ بہت سے مسائل میں امام ابو حنیفہ کا مقلد ہوں اور تقلید کو صحیح سمجھتا ہوں۔ میں اس جماعت میں رہا جس کی رپورٹ پر اچھے اچھے منصب والوں کے پاسپورٹ پر خروج لگ جایا کرتا تھا۔ 
۱۹۸۵ میں، میں ایم اے کر کے واپس آیا اور پھر ندوۃ العلماء سے منسلک ہو گیا۔ اب مجھے یہاں بڑا سکون ملا۔ ذاتی طور پر اتحاد بین المسلمین کو مشن بنایا۔ تحریر وتقریر سے میدان عمل میں آیا، کسی حد تک کامیاب ہوا۔ محنت جاری ہے۔ رد قادیانیت میں عملی میدان میں ہوں اور اہل بدعت کو حکمت سے سنت پر لانے میں بھی کوشاں ہوں۔ یہ سارے کام اپنے فاضل اوقات میں کچھ معاونین کے ساتھ کرتا ہوں۔ یہاں کی انتظامیہ کا تعاون بھی حاصل ہے یعنی اجازت وترغیب۔ ساتھ ہی ندوۃ العلماء کے عطا کردہ فرائض منصبی کی ادائیگی کی بھی بھرپور توفیق ملتی ہے۔ والحمد للہ علیٰ ذلک۔
ادھر کئی سالوں سے عازمین حج کی روانگی دار العلوم ندوۃ العلماء سے ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں یہاں حج میلہ لگ جاتا ہے۔ اس سال اس حج میلہ میں ایک مکتبہ پر ایک کتاب نظر آئی جس میں لکھا ہوا تھا کہ تقلید شرک ہے اور مقلد مشرک ہے۔ یہ پڑھ کر سخت دھچکا لگا۔ ظاہر ہے لکھنے والے صاحب سلفی العقیدہ ہیں، لیکن ہمارے دار العلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم اور اساتذہ، ندوۃ العلماء کے ناظم اور یہاں کے ۹۸ فیصد طلبہ سب مقلد ہیں۔ یہ بات ہم لوگوں کے لیے سخت اذیت کا باعث ہے۔
الحمد للہ یہاں تقلید کے یہ معنی نہیں لیے جاتے کہ مقلِّد، مقلَّد کے ایجاد کردہ مذہب کا مقلد ہے بلکہ وہ کتاب وسنت کی تفہیم میں اس کا مقلد ہے یعنی اسے استاد سمجھتا ہے۔ آج سلفیوں میں بھی اختلاف رائے پایا جاتا ہے اور اہل حدیث حضرات ان میں سے جسے ترجیح دیتے ہیں، اس کی رائے پر یعنی اس کی تفہیم پر عمل کرتے ہیں۔ شیخ ناصر الدین البانی سلفی حضرات کے چوٹی کے عالم ہیں۔ انھوں نے عورت کے لیے انگوٹھی کے علاوہ سونے کے زیور کے استعمال پر نکیر کی ہے، چہرہ کے پردہ کی مخالفت کی ہے اور جہری نماز میں امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے سے منع کیا ہے۔ کوئی سلفی ان کی رائے سے اتفاق کر کے اس پر عمل کرتا ہے تو کوئی دوسرے سلفی عالم کے مسلک کو اپناتا ہے۔ اسی طرح یہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ کتاب وسنت کی تفہیم میں کوئی احناف کے مسلک پر ہے تو کوئی مالکیہ کے مسلک پر، کوئی شافعی ہے تو کوئی حنبلی اور کوئی اہل حدیث کے مسلک پر ہے۔ الحمد للہ ہم سب منشرح ہیں کہ ہم سب حق پر ہیں، ناحق افتراق واختلاف کی بات ہم سب کو ناپسند ہے۔
تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
(بشکریہ پندرہ روزہ ’تعمیر حیات‘، لکھنو)

اجتہادی اختلافات میں معاشرتی مصالح کی رعایت

مولانا سید سلمان الحسینی الندوی

شادی خانہ آبادی کے لیے کی جاتی ہے، خانہ خرابی یا محض عیاشی اور لذت کوشی کے لیے نہیں، اس لیے بغیر کسی وجہ شرعی کے طلاق دینا فعل حرام ہے۔ طلاق صرف اس وقت دینا چاہیے جب ساتھ رہنا دوبھر ہو جائے اور طلاق نہ دینے میں خطرات اور فتنہ کا اندیشہ ہو۔ اس صورت حال کے لیے طلاق جیسی ناپسندیدہ چیز کو حلال قرار دیا گیا ہے۔ لیکن پاکی کی حالت میں صرف ایک طلاق دے دینا چاہیے اور پھر عدت گزر جانے دینا چاہیے۔ طلاق غصہ میں، اشتعال میں اور جذبات میں نہیں دینا چاہیے، غصہ پر قابو پانا چاہیے اور ہر حال میں تعلقات کو خوش گوار رکھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
تین طلاقیں ایک وقت میں ہرگز نہ دینا چاہیے۔ تین طلاقیں اگر ایک مجلس میں دے دی گئیں تو وہ ایک شمار ہوتی ہے یا تین ہی، ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ بعض احادیث اور حضرت عمرؓ کے فیصلہ کی روشنی میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو چاروں ائمہ نے تین طلاق ہی قرار دیا ہے، جن کے بعد حق رجوع نہیں رہتا۔ لیکن اصلاً بہت سے مردوں کی طلاق ثلاثہ کے سلسلہ میں غیر محتاط روش کی بنیاد پر تین طلاقوں کو نافذ کر کے ان کو سزا دینا مقصود تھا۔ اس معاشرہ میں بیوہ کی شادی کوئی دشوار مسئلہ نہ تھی، نہ لڑکی والوں کو کچھ خرچ کرنا پڑتا تھا۔ اس لیے اس فیصلہ کے نفاذ میں جو حضور ﷺ نے بھی بحیثیت امیر اور حضرت عمرؓ نے بھی بحیثیت خلیفۃ المسلمین فرمایا تھا، مرد کے لیے ایک طرح کی تعزیر (قانونی سزا) تھی۔ دوسری طرف آج مرد کے طلاق ثلاثہ کے گناہ کا زیادہ تر بھگتان عورت کو بھگتنا پڑتا ہے۔ عورت جہیز لاتی ہے، گھر بسانے کا ذریعہ بنتی ہے، تقریب نکاح کے موقع پر اس کے یہاں ولیمہ کی طرح دعوت ہوتی ہے، مرد سب کچھ حاصل کرتا ہے، مہر بھی معاف کرا لیتا ہے، ایک ولیمہ پر لذت کوشی کرتا ہے، پھر غصہ اور اشتعال میں تین طلاق دے کر الگ ہو جاتا ہے، دوسری شادی رچا لیتا ہے۔ عورت بیوہ ہو جاتی ہے۔ شادی کی نہ خود ہمت کرتی ہے نہ معاشرہ اس کی شادی کا فوری انتظام کرتا ہے اور اگر اس کے بچے ہیں تو شادی کا مسئلہ تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس کے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔ دین کے بارے میں جزئی حل پیش کرنے والے مفتی فتویٰ دے کر الگ ہو جاتے ہیں۔ مطلقہ عورت عمر بھر کڑھتی اور اپنے جائز تقاضوں کو دبا کر زندگی گزارتی ہے۔ دین وعفت کی مضبوط حصار ہے تو سینہ میں غم اور کسک لے کر جیتی ہے، ورنہ دین وعفت سے معافی مانگ لیتی ہے۔
ایسی شکل میں علما اور اہل افتا وقضا کو سوچنا چاہیے کہ عرف، عموم بلویٰ، ضرورت، اضطرار، حاجت، رفع حرج، تیسیر، رخصت کی ترازو میں تول کر اس کا مسئلہ حل کریں اور ایک نزاعی مسئلہ جس میں صحابہ کرام اور تابعین عظام کے درمیان اور بعد کے علماے امت کے درمیان اختلاف رہا ہے اور جو کفر وایمان کا مسئلہ نہیں ہے، ایک پہلو ہی پر شدت کامظاہرہ نہ کریں۔
دوسری طرف بعض احادیث اور صحابہ کرام، تابعین عظام اور علماے امت کے اقوال ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق مانتے ہیں۔ یہ بھی ایک رائے ہے۔ اہل حدیث حضرات آج اس کے پرزور نمائندہ بنے ہوئے ہیں۔ اس میں حرج نہیں کہ علمی اختلاف رکھنے والے اپنے اختلاف کو علمی حدود میں علم کی میز پر بیان کریں، لیکن کسی اختلافی مسئلہ کو امت میں تفریق اور گروہ بندی کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
حضرت عمرؓ نے بحیثیت خلیفۃ المسلمین ایک فیصلہ فرمایا تو مسلمانوں نے ان سے اتفاق کیا۔ جس کو اختلاف بھی ہوا، اس نے اپنے اختلاف کو اپنے تک محدود رکھا۔ آج ہندوستان میں مسلم پرسنل لا بورڈ کو ایک وقعت، وقار اور اعتبار حاصل ہے۔ وہ مسلمانوں کی اجتماعیت کا ایک مظہر اور ان کی اعتباری قوت حاکمہ کا نمائندہ ہے۔ اگر ایک اختلافی مسئلہ میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر، ارکان، علما کی اکثریت کی آرا کی بنیاد پر ایک فیصلہ کرتے ہیں تو مسلمانوں کے اجتماعی نظام کی بقا اور ان کی وحدت کو قائم رکھنے کے لیے ہمیں اس رائے کا ساتھ دینا ہے۔ ہاں انفرادی طور پر اور خاص واقعات میں ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ عوام کے لیے اور خاص طور پر عورتوں کے طبقہ کے لیے شریعت کی دی ہوئی رخصتوں کو ملحوظ رکھا جائے اور ایسے معاملات میں اگر کوئی مفتی خود فیصلہ نہیں کر پاتا تو اہل حدیث علما سے رجوع کرنے کی اجازت دے دی جائے۔

کیا شیعہ سنی اتحاد ممکن ہے؟

سید منظر تمنائی

معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع حضرات کا تنازع ازل سے ہے اور ابد تک قائم رہے گا۔ چونکہ یہ فرقے بنیادی طور پر اختلاف رکھتے ہیں، اس لیے ان کا مذہبی اعتبار سے یکجا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ تو ممکن ہے کہ ملکی اور ملی اعتبار سے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ایک مرکز پر آجائیں اور مطلب برآری کے لیے یکجا ہو کر حصول مقصد کو اولین حیثیت دیں اور شیر وشکر ہو کر اپنے اپنے مقاصد پورے کرتے رہیں، لیکن مذہبی اعتبار سے ان کا ایک ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔ اگر دونوں فریق باہم یہ طے کر لیں کہ ہمیں بہرصورت اتفاق رائے سے ایک ہو جانا ہے تو کوئی نظریہ، کوئی خیال اور کوئی عقیدہ مانع نہیں رہتا کہ درمیان میں کسی قسم کی رسہ کشی کی گنجایش باقی رہے، مگر بنیاد سے ہٹ کر ایک مرکز پر آنا نہ صرف دشوار ترین مرحلہ ہے بلکہ بادی النظر میں ناممکن نظر آتا ہے۔ بنظر غائر مطالعہ کے بعد یہ بات انتہائی واضح نظر آتی ہے کہ بنیاد سے ہٹ کر معاملہ فہمی ممکن نہیں ہے، کیونکہ بنیاد ہی میں جب فرق ہوگا تو دونوں فریق اپنی بنیادی حیثیت کو کبھی ختم کرنے پر تیار نہ ہوں گے۔ بنیادی طور پر ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کون سی شے ہے جو ہمیں اسلام میں داخل کر کے مسلمان بناتی ہے۔ یہ چیز ’’کلمہ طیبہ‘‘ ہے۔ اس پہلے کلمہ میں ہی فرق ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
سنی کلمہ یہ ہے : لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء ورسل کا کلمہ دو باتوں یعنی توحید ورسالت پر مشتمل تھا۔ صحابہ کرام واہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور پوری امت مسلمہ کا بھی یہی کلمہ ہے۔ الحمد للہ آج بھی مسلمانوں کی مساجد، کتابوں اور زبانوں پر اسی مبارک کلمہ کی گونج ہے اور پاکستان بھی اسی کلمے کے نعرے پر حاصل کیا گیا تھا۔ شیعہ حضرات نے کلمہ طیبہ میں توحید ورسالت کے ساتھ تیسرا جزو، ولایت شامل کر کے اپنے لیے الگ کلمہ بنا لیا ہے۔ اس طرح انھوں نے خود کو امت مسلمہ سے جدا بھی کر لیا ہے، کیونکہ وحدت ملت کا سب سے بڑا ذریعہ یہی مبارک کلمہ ہے۔ شیعہ حضرات نے بھٹو دور میں لڑ جھگڑ کر اپنے لیے علیحدہ نصاب دینیات منظور کرایا تھا جس کے لیے مستقل کتاب طبع کروائی گئی۔ اس میں جو کلمہ درج ہے، وہ مندرجہ ذیل ہے:
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ علی ولی اللہ وصی رسول اللہ وخلیفتہ بلا فصل  (رہنمائے اساتذہ، اسلامیات برائے نہم ودہم، اسلام آباد، ۱۹۷۵ء)
ایرانی انقلاب نے شہنشاہ ایران سے عنان حکومت لے کر حضرت خمینی کے دست مبارک میں دی تو کلمہ اس طرح بنایا گیا:
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ علی ولی اللہ خمینی حجۃ اللہ
بات صرف یہاں تک نہیں رہی ، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر کلمہ شہادت میں بھی اضافہ کر لیا گیا۔ ملاحظہ فرمائیے:
اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمدا رسول اللہ وعلی ولی اللہ واشہد ان خمینی روح اللہ حجۃ اللہ علی خلقہ (ماہنامہ وحدت اسلامی، جون ۱۹۸۴ء)
ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات کہ اہل سنت اور اہل تشیع حضرات ایک ہو جائیں گے، بظاہر ناممکن نظر آتی ہے۔ ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ دونوں گروہ با اختیار ہو کر ایک جگہ بیٹھیں اور خلوص دل اور خلوص نیت کے ساتھ کھلے دل سے طے کر لیں کہ کیا غلط ہے اور کیا درست۔ پھر دونوں حضرات غلط بات کو نہ صرف تسلیم کریں بلکہ بیک وقت ترک کر دیں اور باہم ایک ہو جائیں۔ پھر یہ ممکن ہے، کہ کسی کو کسی پر اعتراض کرنے کا موقع میسر آئے گا اور نہ کوئی اعتراض کی جرات کرے گا۔
ڈاکٹر سید منظر تمنائی
15-A/I، بفر زون، نارتھ کراچی

’’شیعو اور سنیو!‘‘ کے بارے میں گزارشات

حافظ محمد قاسم

’الشریعہ‘ کے جنوری ۲۰۰۵ کے شمارے میں علامہ سید فخر الحسن کراروی کے مضمون بعنوان ’’شیعو اور سنیو! تاریخ سے سبق سیکھو!‘‘ کے حوالے سے ہماری گزارشات حسب ذیل ہیں:
کراروی صاحب! آپ نے مضمون کے آغاز میں شیعوں اور سنیوں کو ایک اللہ کو ماننے والے اور مومن ومسلم کہا ہے۔ جہاں تک اہل سنت کا تعلق ہے تو وہ ہمیشہ سے نہ صرف عقیدۂ توحید پر قائم ہیں بلکہ ختم نبوت بھی ان کے ایمان کا لازمی جزو ہے، لیکن آپ حضرات نے کلمہ توحید میں تبرا اور جھوٹ کو شامل کر لیا ہے اور اس کے ساتھ نظریہ امامت کو بھی اپنا رکھا ہے جو ختم نبوت کے منافی ہے۔ آپ تو اپنی عبادت گاہ کو بھی مسجد کہہ کر پکارنا نہیں چاہتے، بلکہ اسے ’امام بارگاہ‘ کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں ’اشداء علی الکفار رحماء بینہم‘  کہہ کر صحابہ کرام کی مدح وتوصیف کی گئی ہے، لیکن آپ ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اور ساتھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، بلکہ ان اصحاب قدسی پر تبرا کرتے ہیں۔ 
آپ حضرات نے ہمیشہ اہل سنت کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے اور خلافت راشدہ کے زمانے سے طالبان کی امارت اسلامیہ تک ہمیشہ ان کے خلاف ریشہ دوانیاں کرتے چلے آئے ہیں۔ خلفاے راشدینؓ کے زمانے میں مشہور یہودی عبد اللہ بن سبا نے شیعیت کو پروان چڑھایا اور حضرت علیؓ کے زمانے میں مسلمانوں میں بغض وعناد پیدا کر کے انھیں آپس میں لڑایا۔ سانحہ کربلا میں کوفہ کے شیعوں نے حضرت حسین کو بلا کر شہید کروا دیا جس پر آپ آج تک ماتم کرتے ہیں۔ مصر میں جب فاطمیوں کی حکومت قائم ہوئی تو صحابہ کرامؓ پر سرعام تبرا کیا گیا۔ عراق میں بنو عباس کی خلافت اسلامیہ کو ختم کرنے میں اہل تشیع کا کردار سب سے نمایاں تھا۔ بنو عباس کے آخری خلیفہ کے وزیر ابن علقمی شیعہ نے جس طرح ہلاکو خان کے ہاتھوں خلافت کا خاتمہ اور خلیفۃ المسلمین کو شہید کروایا، تاریخ سے واقف ہر شخص جانتا ہے۔ سلطان ٹیپوؒ کے دور میں سلطنت خداداد کے شیعہ وزیروں میر جعفر اور میر غلام علی نے انگریز کے ساتھ ساز باز کر کے سلطان کو شہیدا کروا دیا اور خود بڑی بڑی جاگیریں حاصل کر لیں۔ 
حالیہ تاریخ میں افغانستان میں ایران نے امارت اسلامیہ کے خلاف جنگ کی ابتدا کرنا چاہی، لیکن منہ کی کھانی پڑی۔ بامیان کے پہاڑ ایرانی اسلحہ کے گواہ ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ وہاں ایران کی طرف سے اسلام مخالف تدریسی نصاب تقسیم کیا گیا۔ اب عراق میں مقتدیٰ الصدر کہاں غائب ہو گیا ہے؟ لوگوں کو مروا کر اس نے خود ہتھیار کیوں ڈال دیے ہیں؟ اب بھی عراق کے سنی علاقوں میں مزاحمت جاری ہے، جبکہ آیت اللہ سیستانی امریکی فوجوں اور امریکی بندوقوں کے سائے تلے انتخابات کے حق میں دھڑا دھڑ شرعی فتوے جاری کرتے رہے۔
آپ نے کشمیر کے معاملے میں ایران کی حمایت کا ذکر کیا ہے، لیکن یہ بھول گئے کہ شام، عراق اور اردن پر بھی شیعہ ہی حکمران ہیں اور لیبیا کا کرنل قذافی بھی نصیری شیعہ ہے۔ ان سب ملکوں نے کبھی پاکستان کی کشمیر پالیسی کی حمایت نہیں کی۔ ایران کی حمایت بھی جھوٹی اور منہ دکھاوے کی ہے، ورنہ ساتھ ہی ساتھ بھارت کے ساتھ پیار کی پینگیں کیوں بڑھائی جاتی رہیں؟
اگر لاشوں کے تحفے ایران پہنچے ہیں تو آپ کو کیوں دکھ ہے؟ کیا آپ ایرانی ہیں یا ایران کی مدد سے پھل پھول رہے ہیں؟ یہ لاشیں ان کی اپنی کرتوتوں اور سیاہ کاریوں کی وجہ سے ایران گئی ہیں۔ پاکستان میں جہاں بھی خانہ فرہنگ ایران ہے، وہ دہشت گردی کی پناہ گاہ ہے اور وہاں سے تبرا پر مبنی کتب چھاپی جاتی ہیں۔ شیعوں اور خصوصاً ایرانی حکومت کے مسلح غنڈوں نے ۸۴ء اور ۸۶ء میں کوئٹہ میں مسلمانوں کا جو قتل عام کیا اور پاک باز خواتین کی آبرو ریزی کی، اسی طرح کراچی میں جو ظلم ہوئے، وہ آپ کو نظر نہیں آئے؟
شیعوں خصوصاً ایرانی حکومت کی ذہنیت کا اندازہ پاکستان کے سابق کمانڈر انچیف مرزا اسلم بیگ کے ایک بیان سے کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے ہفت روزہ ’زندگی‘ لاہور کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
’’اپنا انقلاب (یعنی تشیعی حکومت) دوسرے ممالک میں برآمد کرنے کے ایرانی جذبے نے متعدد مسلم ممالک میں ایران کے متعلق ایک طرح کے مزاحمتی رویے کو جنم دیا ہے۔ میرے خیال میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ آج کے ایرانیوں میں بھی قبل از مسیح کی ایرانی سلطنت (پرشین ایمپائر) کا تصور موجود ہے۔ میرے دور میں ایران کے کمانڈر انچیف محسن رجائی پاکستان آئے تو ان کے پاس اس پرشین ایمپائر کے نقشے موجود تھے۔ وہ مجھے بتاتے رہے کہ ماضی میں پاکستان، کشمیر، افغانستان اور وسط ایشیا کے کون کون سے علاقے ایرانی سلطنت کا حصہ رہے ہیں۔ ایرانیوں کی یہ سوچ علاقائی تعاون کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ میرا احساس یہ ہے کہ ایرانی دعوے تو بہت کرتے ہیں، لیکن عمل کا وقت آتا ہے تو وہ آگے نہیں بڑھتے۔ ہم نے دفاعی میدان میں پیش قدمی کی کوشش کی، لیکن خاص حد پر جا کر وہ رک گئے۔‘‘ (ہفت روزہ زندگی، ۲۳ تا ۲۹ مئی ۱۹۹۲)
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایران کے شیعہ حکمرانوں نے ابھی تک پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور ان کی طرف سے اس کو کمزور کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ مرزا اسلم بیگ صاحب کی یہ بات ۱۰ سال کے بعد بالکل سچ ثابت ہو گئی جب ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی کمیشن کے دباؤ پر پاکستان سے لی گئی ایٹمی امداد کے بارے میں تمام راز اگل دیے او ر محسن پاکستان جناب ڈاکٹر عبد القدیر زیر عتاب آ گئے۔
حافظ محمد قاسم
دار العلوم ختم نبوت۔ بلاک ۱۲۔ چیچہ وطنی

مکاتیب

ادارہ

(۱)
(فروری ۲۰۰۵ کے ’الشریعہ‘ میں ’’پیر محمد کرم شاہ الازہری اور فتنہ انکار سنت‘‘ کے زیر عنوان پروفیسر محمد اکرم ورک کے مضمون میں علامہ تمنا عمادی مرحوم کا شمار منکرین حدیث کے ضمن میں کیا گیا تھا۔ اس پر کراچی سے جناب سید عماد الدین قادری نے بھارت سے شائع ہونے والے جریدہ ’’اردو بک ریویو‘‘ کے نومبر ؍دسمبر ۲۰۰۴ کے شمارے میں مطبوعہ ایک خط کی طرف توجہ دلائی ہے جس میں تمنا مرحوم کے ایک قریبی رفیق یوسف ریاض صاحب نے اس امر کی تردید کی ہے۔ یہ خط قارئین کی دلچسپی کے لیے یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

برادرم محمود عالم کی بدولت اردو بک ریویو دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ کساد بازاری کے اس دور میں جس لگن اور محنت سے آپ اردو کی خدمت کر رہے ہیں، کسی داد سے مستغنی ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
ستمبر ؍اکتوبر ۲۰۰۴ء کے شمارے میں یوں تومضامین رنگا رنگ ہیں اور سب ہی دعوت غور وفکر دے رہے ہیں، مگر یہاں ہماری نظر ’ادراک زوال امت‘ پر ہے۔ تبصرہ بڑا بھرپور لگتا ہے، شاید مصنف ادھر توجہ مبذول کر سکیں۔ فی الوقت ہم صرف ایک بات کی طرف توجہ دلانا چاہیں گے۔ فاضل تبصرہ نگار نے حسان الہند علامہ تمنا عمادیؒ کو منکرین حدیث میں شمار کیا ہے اور عام تاثر بھی یہی ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ ان کے مضامین اتفاق سے منکرین حدیث ہی کے رسالوں میں چھپتے رہے ہیں۔ مگر حقیقت حال یہ ہے کہ وہ ایک دن کے لیے بھی اس گروہ میں شامل نہ تھے۔ یہ صحیح ہے کہ حدیث کے باب میں ان کا مسلک بہت، بلکہ کہنا چاہیے کہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی محتاط بلکہ سخت تھا۔ فن اسماء الرجال پر ان کی بڑی گہری نظر تھی۔ ہر روایت کو خوب اچھی طرح کھنگالنے کے قائل وعادی تھے۔ ان کا بڑا واضح بیان تھا اور بھری محفلوں (محفل نہیں، ان گنت محفلوں) میں خود ہماری موجودگی میں انھوں نے بیان کیا کہ حدیث کا منکر کافر ہے۔ حدیث رسول کا انکار اور ایمان اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ ہاں حدیث کی چھان پھٹک بہت ضروری ہے، کیونکہ ان کے نزدیک خاص طور سے روافض کا ایک بہت متحرک طبقہ حدیثیں گھڑنے، اس میں سابقہ اور لاحقہ ملانے میں ید طولیٰ رکھتا تھا اور ایک سوچی سمجھی اسکیم کے ساتھ یہ کام کر رہا تھا۔ یہاں تک کہ ان کے خیال کے مطابق بخاری تک میں تلبیس کی ہر ممکن کوشش کی۔ اپنے مسلک سے متعلق انھوں نے ایک مضمون ’تجلی‘ کو بھی بھیجا تھا۔ ایک انٹرویو خود ہم نے بھی تجلی کو بھیجا تھا مگر عامر عثمانیؒ نے اسے شائع کرنا مناسب نہ سمجھا۔ علامہ نے خود ہم سے بیان کیا کہ ’طلوع اسلام‘ اور اس طرح کے رسالے ہی ہمارا مضمون اور وہ بھی جسے وہ مفید مطلب سمجھتے ہیں، چھاپ دیتے ہیں اور اس کی کم سے کم کاپیاں ہمیں بھیجتے ہیں۔ بات آہی گئی ہے تو یہ بات بھی ریکارڈ میں لانا چاہیں گے کہ وہ جناب غلام احمد پرویز کو ایک جاہل مصنف سمجھتے تھے۔ ہم ’طلوع اسلام‘ کے مطبوعات انھی سے حاصل کیا کرتے تھے۔ ہماری تنقیدوں سے بہت خوش ہوتے تھے۔ ’مفہوم القرآن‘ کے چند ابتدائی حصے پر ہم نے بڑی سخت گرفت کی تھی۔ ہم سے پوری طرح متفق تھے۔ ایک مرتبہ تو شاباشی کے روایتی انداز میں ہماری پیٹھ ٹھونکی اور کہا، ایک جاہل سے تم اور کیا توقع کرتے ہو۔ انھوں نے ہماری ہر تنقید کا ساتھ دیا۔
ایک بات اور۔ قادیانی عالموں کا ایک ٹولہ ان کے پاس آیا۔ بہت سی باتیں ہوئیں، مگر دلچسپ ترین بات یہ تھی: کہنے لگے ’مرزا صاحب جب اپنی طرف سے عربی لکھتے ہیں تو لا باس بہ، مگر جب وحی اور الہام کی حیثیت سے لکھتے ہیں تو غلطیوں کا پلندہ ہوتی ہے۔ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ جو ہستی مرزا صاحب پر وحی کرتی ہے، وہ مرزا صاحب سے زیادہ جاہل ہے۔ اس نشست میں انھوں نے چند کی نشان دہی کی۔ پھر وہ طائفہ بغیر کسی حیل حجت کے اٹھ کر چلا گیا۔
برادرم محمود حسن نے خلیفہ عبد الحکیم اور غلام جیلانی برق کو بھی منکرین حدیث میں شامل ہونے کا تاثر دیا ہے۔ خلیفہ عبد الحکیم پر فلسفہ کا غلبہ ضرور تھا، مگر منکر حدیث ہرگز نہ تھے۔ جناب برق کے سر پر تجدد اور سائنس کا سودا تھا، مگر آخر میں اس سے بھی تائب ہو گئے تھے۔ اللہ سے دعا ہے ان کی مغفرت فرمائے۔ آخر میں ایک بار پھر آپ کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔
یوسف ریاض
الدار العالمیۃ للکتاب الاسلامی، ص ب ۵۵۱۹۵
الریاض ۱۱۵۳۴، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ

(۲)
مکرمی ومحترمی جناب محمد عمار خان ناصر
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مزاج گرامی؟
’الشریعہ‘ باقاعدگی سے مل رہا ہے جس میں اہل علم کے تجدیدی مضامین پڑھ کر اپنی معلومات میں خاطر خواہ اضافہ کرتا ہوں۔ جناب محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب کے حکم پر ’’اقوام متحدہ کے منشور کا تحقیقی جائزہ‘‘ لکھا تھا جو ’المنبر‘ فیصل آباد کے شوال کے شمارہ میں شائع ہوا، جبکہ ’الشریعہ‘ میں ہیکل سلیمانی کی تولیت پر بحث ومباحثہ پڑھتا رہا جس پر اپنا نقطہ نظر ’الاعتصام‘ کو ارسال کیا۔ وہ بھی شعبان کے شماروں میں شائع ہوا۔ اس بحث کو بند کرنے کے بعد جو آپ نے اسلامی مکاتب فکر میں تحمل وبردباری کا درس دینے کی مہم شروع کی ہے، وہ قابل تحسین ہے۔ بقول ندوی فکر ’’اصولوں پر سختی سے کاربند رہنے کے باوجود ہمارے دل اتنے وسیع ہوں کہ فروعی اختلافات ہمیں فرقہ بندی اور گروہ بندی کی دلدل میں نہ پھنسا سکیں۔‘‘ 
اللہ کرے آپ کی محنت بار آور ثابت ہو اور اسلامی مکاتب فکر آپس میں بھائی بھائی بن کر ملت کفر کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔
عطا محمد جنجوعہ
کوٹ بھائی خان
براستہ جھاوریاں۔ ضلع سرگودھا

(۳)
۰۵/۲/۲۱
مولانا ابو عمار زاہد الراشدی
رئیس التحریر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
’الشریعہ‘ کے فروری ۲۰۰۵ء کے شمارے میں شائع ہونے والے پروفیسر محمد سرور کے مضمون ’’علامہ اقبال کی شخصیت اور ان کا فکر وفلسفہ‘‘ میں کہا گیا ہے کہ:’’اقبال دل سے چاہتے تھے کہ قرآن کی حکومت بروئے کار آئے اور اسلام پر بالکل ایک نئی دنیا کی تعمیر ہو، لیکن قرآن اور اسلام کی عملی تشریح جو آج کے زمانے میں قابل قبول اور قابل عمل ہو سکے، یہ ان کے بس میں نہ تھی، کیونکہ وہ جماعت کے روایتی اثرات اور اس کے قوانین وضوابط سے ذہناً باہر نہیں نکل سکے تھے اور وہ قرآن واسلام کے نظام کو مجموعی انسانیت کا نظام بنا کر پیش کر نے کا حوصلہ نہیں کر سکتے تھے۔‘‘
میرا کہنا بس یہ ہے کہ اگر مذکورہ فکر کے حامل خود روایتی اثرات اور قوانین وضوابط کے خول سے باہر نکل آئے ہیں اور قرآن واسلام کو مجموعی انسانیت کا نظام بنا کر پیش کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں تو بسم اللہ کریں، قدم بڑھائیں اور امت کی رہنمائی کریں۔ اگر یہ نظام آپ کے بس میں ہے تو پیش کریں اور امت کا بھلا کریں۔
اسی مضمون میں کہا گیا ہے کہ ’’فکراً خواہ وہ کچھ بھی ہوں، اقبال کا اسلام عملاً ایک فرقہ پرست ہندوستانی بلکہ پنجابی مسلمان کا اسلام تھا۔‘‘ یہ محض ایک تہمت ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ اقبال نے کبھی فرقہ واریت اور پنجابیت کو فروغ دینا تو کجا، ان کا نام تک نہیں لیا۔ وہ تو آفاقیت کے مبلغ تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ مولانا عبید اللہ سندھی دار العلوم دیوبند میں تکمیل علم کے بعد ۱۹۱۵ میں افغانستان چلے گئے اور کابل میں کانگرس کمیٹی کی بنیاد رکھی جس کا الحاق ہندوستان کی کانگرس سے کیا گیا۔ کانگرس کے نظریے کے مطابق ہندوستانی مسلمان اور ہندو ایک ہی قوم تھے اور ہیں۔ کانگرس دو قومی نظریہ کو فرقہ پرستی قرار دیتی تھی، اس لیے مولانا نے اقبال کو فرقہ پرست قرار دیا ہے۔ 
آخر میں آپ سے یہ سوال ہے کہ ایسے مضامین آپ کے رسالے میں کیوں شائع ہوتے ہیں؟ کانگرس کا ایک قومی نظریہ لوگوں کو اقبال سے تو شاید دور کر سکتا ہے، لیکن اس کے بعد عدم رہنمائی کے باعث لوگوں کو جنگل میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ اب تو بے شمار حقائق وشواہد، خصوصاً بھارتی صوبہ گجرات میں بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام نے ثابت کر دیا ہے کہ کانگرس کا ایک قومی نظریہ بالکل باطل تھا اور حق یہی ہے کہ مسلمان، ہندوؤں سے الگ ایک قوم ہیں۔وما علینا الا البلاغ۔
محمد خورشید
پلاٹ ۱۴ /سی۔ بلاک بی، پیپلز کالونی۔ اٹک شہر

قربِ گریزاں کی ایک غزل

پروفیسر میاں انعام الرحمن

چناب کی سر زمین گجرات سے تعلق رکھنے والا منیر الحق کعبی بہل پوری بطور کہنہ مشق شاعر و ادیب اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکا ہے ۔ حمدیہ کلام میں تغزل کی آمیزش سے 
گنگ حرفوں کو زباں دی تو نے 
مجھ کو توفیقِ بیاں دی تو نے 
کہنے والا شاعر قومی کینوس پر شاید اس لئے نہیں آسکا کیونکہ اس کا تعلق نہ تو لاہور ، کراچی جیسے بڑے شہروں سے ہے اور نہ ہی اسے ’’ پی آر ‘‘ کے لوازمات کے’’ سلسلوں ‘‘پر قدرت حاصل ہے : 
عذاب ٹھہرا ہر اک سے یہ سلسلہ رکھنا
خدا کے ساتھ بتوں سے معاملہ رکھنا
کعبی کا یہ شعرمومن کے اس شعر کی یاد دلا تا ہے جس کے عوض مرزا غالب اپنا پورا دیوان دینے کو تیار تھے: 
ان کی یادیں ہجوم کرتی ہیں 
وہ مرے پاس جب نہیں ہوتے 
اور دیکھئیے ذرا ،اسی غزل میں کعبی نے کتنی آسانی سے کتنی بڑی بات کہہ دی : 
کربلا کی حدیث کہتی ہے
پارسا منتخب نہیں ہوتے!
’’رگِ خواب ‘‘ اور ’’ قربِ گریزاں ‘‘ ( مطبوعہ) ’’ دشتِ وصال ‘‘ اور ’’حریمِ حمد ‘‘ ( غیر مطبوعہ )کے عنوان سے مجموعہ ہائے کلام کا مصنف ، زندگی کی بے برگ راہوں کا سامنا کرنے کی کس قدر جرات رکھتا ہے ملاحظہ کیجئے: 
مری آنکھو ! ابھی تا دیر جاگو 
شکستِ شب کا منظر دیکھنا ہے
شکستِ شب کا یہی یقین اور شکستِ شب کی دید کی یہی آرزو کعبی کی شاعری کا بنیادی خاصہ ہے ۔ ہمارا شاعر زیست کے رنج و الم اور ہر دم کروٹ لیتے حالات کی بے ثباتی سے ڈگمگانے کے باوجود ، اپنے ہونے کو یعنی اپنی زندگی کو شکستِ شب سے سے مشروط کر تاہے ۔ شکستِ شب کے متجسس آرزومند کے تجسس کا دائرہ ( نا تمام معنوی ابعاد کے جلو میں ) اجالوں کی صباحتوں سے لے کر گلاب کی خوشبوؤں تک پھیلا ہوا ہے : 
خوشبو کی جستجو میں ، کعبی 
شاخِ گلاب کو ہلاؤں 
اس مختصر تعارف کے بعد ، آئیے قربِ گریزاں کی ایک غزل کے چند اشعار کا جائزہ لیتے ہیں۔
اردو شاعری میں جس چیز کو تغزل کہتے ہیں وہ اس کی رمزی اور ایمائی کیفیت ہے ۔ یہ تبھی پیدا ہوتی ہے جب غزل گو الفاط کے صحیح معانی ، ان کے شیڈز اور دلالت ہائے امتزاجی سے پوری واقفیت رکھتا ہو ۔ تقریباَ َ ہر بڑے شاعر کے کلام میں کوئی نہ کوئی ایسی علامت یا استعارہ ضرور ملے گا جو نہ صرف جانِ کلام ہوتا ہے بلکہ شاعر کی نفسی کیفیت کا آئینہ دار بھی ۔ اگر قاری ذوقِ سلیم سے عاری نہ ہو تو فوراَ َ محسوس کرتا ہے کہ شاعر نے تخلیق کے دوران کن کیفیتوں کو مَس کیا ہے اور تخلیق کے پس منظر میں کیا مِس کیا ہے ۔ کعبی کے کلام میں ( بالخصوص زیرِ نظر غزل میں ) گلاب ایسی ہی علامت کے طور پر ابھرا ہے جو نہ صرف مجاز اور حقیقت کے درمیان پل کا کام دیتا ہے بلکہ اس پل کو لپیٹ بھی دیتا ہے ، یوں ایک Paradox ’’ قربِ گریزاں ‘‘ کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔ 
ہمارے مشاہدے میں جو چیزبھی آتی ہے ( چاہے مشاہدہ باطنی ہو ) اس کا ایک خاص رخ ہی ہم دیکھ پاتے ہیں مثلاََ حسن کے ضمن میں غمزہ ، عشوہ ، ناز ، ادا وغیر ہ مختلف رخ ہیں ۔ کعبی اس پہلو سے واقفیت کا اظہار تہہ داری سے یوں کرتے ہیں کہ : 
مری صبائے تصور نے لی ہے انگڑائی 
بدستِ ناز ابھی، آنکھ مَل رہے ہیں گلاب
حسن کے تنوع اور رنگا رنگی کو نہایت شدت سے اس طرح پیش کیا ہے :
نہ ایک برگہ ء گُل میں نظر مقید ہے 
مری نظر میں ہزاروں اچھل رہے ہیں گلاب 
حسن مطلق کی جستجو میں ایک مقام ایسا آتا ہے جب ہمارا شاعر اپنے آپ کو وسعت دیتا ہے اور پھر الہام کے لب کچھ یوں وا ہوتے ہیں : 
اسی مجاز میں پنہاں رہِ حقیقت بھی
ازل سے جلوۂ حسنِ ازل رہے ہیں گلاب
اردو شاعری میں لفظ ’’ جلوہ ‘‘ حسن کی مجموعی حالت اور کلیت کا آئینہ دار ہے ۔ یعنی کائنات میں پھیلا ہوا حسن ، چند لمحوں کے لئے ، وحدت کی صورت میں شاعر کے مشاہدے میں آتا ہے ۔ اس شعر کے دوسرے مصرعے میں ’’ رہے ہیں گلاب ‘‘ جمع کا صیغہ ہے اور اس کے ساتھ لفظ ’’ جلوہ ‘‘ حسن کی وحدت کی علامت۔ یوں کثرت ، وحدت بن جاتی ہے ۔ مجاز اور حقیقت ایک ہو جاتے ہیں ۔ ہماری دانست میں ’’ جلوہ ء حسنِ ازل ‘‘ کی ترکیب کچھ یہی بیان کرتی ہے ۔ غالب نے اپنے مخصوص انداز میں اسی سے ملتا جلتا مضمون یوں باندھا ہے : 
یاں نفس کرتا تھا روشن شمعِ بزمِ بے خودی 
جلوۂ گُل واں بساطِ صحبتِ احباب تھا
غالب ، شاید الہام کے مدارج کا قائل ہے جبکہ کعبی کے ہاں قطعیت جھلکتی ہے ۔ 
اس غزل کے حوالے سے ایک بات کھٹکتی ہے کہ غزل کی ردیف میں ’’ گلاب ‘‘ ہو اور پھر اشعار کی تعداد بھی چودہ (۱۴ ) ہو ، لیکن بلبل کا ذکر تک نہ ہو۔کیوں ، ہے ناعجیب بات ؟ ہماری رائے میں اس کی ایک وجہ جناب کعبی کا ’’مزاج ‘‘بھی ہو سکتا ہے۔ انھوں نے محبوب کو ( حقیقی ہو یا مجازی ) گلاب کے روپ میں پیش کیا ہے لیکن محب کو بلبل کے استعارے میں چھپانے کی کوشش نہیں کی کہ خاصے بے باک ہیں ۔ 
اس کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ چونکہ بلبل کا استعارہ عشقِ ناتمام کو ظاہر کرتا ہے جس میں قرب و وصل کا کوئی امکان نہیں، اس لئے کعبی نے جان بوجھ کر احتراز برتا ہے ۔ 
اس کا تیسرا سبب جو کافی معقول دکھائی دیتا ہے ، فارسی روایت سے انحراف کا اظہار بھی ہو سکتا ہے۔ اردو شاعری میں بلبل کا استعارہ ، اصلاََ فارسی غزل سے مستعار لیا گیا ہے کیونکہ بلبل ہمارے علاقے میں موجود نہیں ۔ مغلوں کے عہد میں فارسی زبان کے ساتھ بلبل خود تو نہیں ، البتہ بطور استعارہ آ موجود ہوا ۔ اپنے ماخذ کے اعتبار سے اردو غزل اگرچہ فارسی کی مرہونِ منت ہے لیکن اب چونکہ اردو زبان آہستہ آہستہ باوعتماد ہوتی جا رہی ہے اس لئے اس کا اپنا الگ علامتی نظام بھی تشکیل پا رہا ہے ۔ بلبل کا اس مجموعے ( قربِ گریزاں ) میں اور با لخصوص اس غزل میں نہ ہونا مذکورہ نئے تشکیل پاتے علامتی نظام کا اظہار ہے ۔ اس اظہار کے پیچھے زبان کا فطری ارتقاء کار فرما ہے اور یہ ارتقاء بقول ٹی ایس ایلیٹ ، مقامیت سے شدید متاثر ہوتا ہے ۔ہماری رائے میں کعبی کے کلام میں ارتقاء اور مقامیت کا آہستہ آہستہ در آنا واضح طور پر موجود ہے۔ شنید ہے ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’ رگِ خواب ‘‘ فارسیت کا حامل تھا ، ہو سکتا ہے اس میں بلبل کا ذکر موجود ہو ، لیکن کم از کم ’’قربِ گریزاں ‘‘ جہاں فارسی سے انحراف کی طرف پیش قدمی ہے وہاں مقامیت کا آغازبھی ہے ، بقول داغ :
کہتے ہیں اسے زبان اردو
جس میں نہ ہو رنگ فارسی کا 
زیرِ نظر غزل کی ردیف ’’ رہے ہیں گلاب ‘‘ تین الفاظ پر مشتمل ہے ، اس کے طول سے غنائیت پیدا ہوئی ہے ۔ ثقہ ناقدین کے مطابق لمبی ردیف کی غزل ’’ سامعین ‘‘ کو بہت بھلی معلوم ہوتی ہے ۔ لیکن اس فردوسِ گوش خاصیت میں ایک خامی کا احتمال رہتا ہے کہ کہیں موسیقیت کے بوجھ تلے ، تخیل و خیال آفرینی دب نہ جائے ۔ لہذا فن پارے کی قدرو قیمت کا اندازہ بھی اسی بات سے ہوتا ہے کہ کیا بھر پور نغمگی کے ہمراہ تخیل کی رم جھم بھی موجود ہے کہ نہیں ؟ ہماری دانست میں کعبی کی اس غزل کی ردیف جہاں موسیقیت کے باعث قاری کو بہانے کی کوشش کرتی ہے وہاں تخیل کی زور آوری ٹھہراؤ کا باعث بھی بنتی ہے اور قاری خود کو ہر شعر ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے پر مجبور پاتا ہے ۔ یوں ذہن میں ، شاعر کے دورانِ تخلیق موڈ کے مطابق ایک تصویر سی بنتی چلی جاتی ہے۔ یہی شاعری ہے۔ 

مولانا حافظ محمد طاہر لدھیانوی کا انتقال

ادارہ

علماے لدھیانہ کے معروف خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک نہایت محترم بزرگ مولانا حافظ محمد طاہر لدھیانوی جمعرات ۷ محرم ۱۴۲۶ کو ضلع جھنگ کے نواحی گاؤں چک ۱۵۱ ماہوں میں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ مولانا ابو احمد محمد عبد اللہ لدھیانوی ؒ کے فرزند اور علامہ محمد احمد لدھیانوی کے بڑے بھائی تھے۔ 
ان کی پیدایش قصبہ دیوبند میں ہوئی تھی۔ ان کے والد گرامی مولانا محمد عبد اللہ لدھیانوی، جو قبل ازاں علامہ انور شاہ صاحب کشمیری سے دورۂ حدیث میں تلمذ حاصل کر چکے تھے، شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے مالٹا سے رہا ہونے کے بعد ان سے دورۂ حدیث کے اسباق دوبارہ پڑھنے کے لیے دار العلوم دیوبند گئے اور وہاں اقامت کے دوران میں دار العلوم میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد وہ واپس اپنے آبائی وطن لدھیانہ تشریف لے گئے جہاں ان کے بڑے فرزند حافظ محمد طاہر صاحب ابتدائی تعلیم کے ساتھ ساتھ حفظ قرآن کریم مکمل کیا۔ اس کے بعد ان کے والد گرامی نے انھیں درس نظامی کی تعلیم کے لیے گوجرانوالہ میں مولانا محمد چراغ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بھیج دیا جو ان کے ہم سبق اور مولانا سید انور شاہ صاحب کشمیری کے شاگرد تھے اور اس وقت بیرون کھیالی گیٹ میں مدرسہ عربیہ کے نام سے ایک دینی ادارہ چلا رہے تھے۔ دورۂ حدیث کے لیے وہ مولانا خیر محمد صاحب جالندھری کی خدمت میں خیر المدارس جالندھر چلے گئے ۔ 
تعلیم سے فراغت کے بعد وہ اپنے والد گرامی کی رہنمائی میں لدھیانہ کے نواح میں رد مرزائیت اور رد بدعات کے لیے مصروف عمل رہے۔ پاکستان بننے کے بعد یہ خاندان ہجرت کر کے گوجرانوالہ آ گیا اور ۱۹۴۸ء میں مولانا محمد عبد اللہ نے حافظ محمد طاہر صاحبؒ کو چک ۱۵۱ ماہوں ضلع جھنگ بھیج دیا جہاں لدھیانہ کے بعض خاندان ہجرت کر کے آباد ہوئے تھے۔ یہاں حافظ محمد طاہر صاحبؒ نے علاقے کے علما مولانا محمد ذاکر ، مولانا محمد نافع، مولانا رحمت اللہ اور مولانامنظور احمد چنیوٹی کے ساتھ مل کر رد رافضیت، رد بدعات اور رد مرزائیت کے سلسلے بھرپور تبلیغی ودعوتی خدمات انجام دیں اور شرک وبدعت کے رنگ میں رنگے ہوئے مقامی ماحول میں توحید وسنت اور حب صحابہ کی دینی فضا قائم کی۔ انھوں نے اور ان کی اہلیہ محترمہ مرحومہ نے یہاں کی مقامی ناخواندہ آبادی پر محنت کر کے ان میں سے حفاظ، قرا اور علما تیار کیے جنھوں نے ان کی سرپرستی میں ارد گرد کے دیہات تک دعوتی کام کو پھیلایا۔ ان کی کوشش سے علاقے میں تین مساجد قائم ہوئیں اور اب یہاں تبلیغی جماعت کا ایک باقاعدہ مرکز قائم ہے۔ 
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم اور ان کے خاندان کے تمام بزرگوں اور دینی کارکنوں کی دینی خدمات کو شرف قبولیت بخشے ، ان کی خطاؤں سے درگزر فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

الشریعہ اکادمی میں یوم کشمیر کے موقع پر تقریب

ادارہ

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ۵ فروری ۲۰۰۵ بروز ہفتہ یوم یکجہتی کشمیر کے عنوان سے ایک تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب کا آغاز جناب غلام اللہ کی تلاوت کلام پاک سے ہوا جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض ابوبکر محمود نے انجام دیے۔ مہمان خصوصی اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی تھے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جناب رمضان خالد آف وہاڑی نے مسئلہ کشمیر کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ راجہ گلاب سنگھ نے ۱۵۵ روپے فی مربع میل کے حساب سے پچھتر لاکھ روپے میں انگریزوں سے پورے کشمیر کا سودا کر لیا تھا جس سے کشمیری مسلمانوں کی اصل غلامی شروع ہوئی۔ جناب توقیر معاویہ آف ساہیوال نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا پرامن حل یہی ہو سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے۔ 
مولانا زاہد الراشدی نے اختتامی کلمات میں کہا کہ مسئلہ کشمیر کے دو پہلو ہیں، ایک مذہبی اور دوسرا سیاسی۔ سیاسی لحاظ سے بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق انڈیا سے کشمیریوں کے جائز اور برحق مطالبہ آزادی کو تسلیم کروانا اقوام عالم کی ذمہ داری ہے، جبکہ مذہبی لحاظ سے کشمیر کی آزادی کے لیے جہاد ضروری ہے، کیونکہ اس کے لیے علما نے فتویٰ جاری کیا تھا جس پر عمل کرتے ہوئے کشمیر کا کچھ حصہ تو آزاد کرا لیا تھا جبکہ باقی حصے کو آزاد کرانا ابھی ہمارے ذمے ہے۔ 
تقریب کے آخر میں دنیا کے تمام خطوں میں مسلمانوں کی آزادی اور شہداے اسلام بالخصوص کشمیری شہدا کے لیے دعا کی گئی۔ 
(ابوبکر محمود۔ شریک خصوصی تربیتی کورس، الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ)

’’سماجی بہبود تعلیمات نبوی کی روشنی میں‘‘

پروفیسر محمد فاروق حیدر

سماجی بہبود عصر حاضر کا ایک اہم موضوع ہے جس پر تصنیف وتالیف کے علاوہ عملی طور پر کی جانے والی کوششیں نمایاں ہیں۔ خاص طور پر مغرب اور اس کے زیر سایہ تنظیمیں (NGOs) جو ظاہری طور پر انسانیت کی فوز وفلاح، ترقی اور خدمت میں مصروف عمل دکھائی دیتی ہیں، گزشتہ چند سالوں سے ان کے انسانیت سوز مظالم سے ان کا چھپا ہوا گھناؤنا روپ اب کسی کی نظروں سے اوجھل نہیں رہا، کیونکہ سماجی بہبود کا جو جذبہ ان میں کارفرما ہے، اس کی بنیاد نام ونمود اور دوسروں کے وسائل کو اپنے قبضے میں لے کر اپنے ملکی وقومی مفادات جیسے عزائم ہیں۔ لیکن خدمت انسانیت، سماجی بہبود، رفاہ عامہ اور فلاح انسانیت کے ہم معنی موضوعات اہل اسلام کے لیے نئے نہیں ہیں، بلکہ اس کی علمی اور عملی بنیادیں سرور عالم، غریبوں کے والی، آقاے دو جہاں محمد مصطفی کی سیرت سے ملتی ہیں جن کو عملی شکل دے کر مسلمانوں نے ایک تاب ناک تاریخ رقم کی ہے۔ فاضل مولف ڈاکٹر ہمایوں عباس شمس جو جی سی یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں، کی زیر نظر کتاب ’’سماجی بہبود تعلیمات نبوی کی روشنی میں‘‘ خدمت انسانیت کے لیے ٹھوس فکری وعملی بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ سیرت نبوی کے ایک خاص پہلو یعنی سماجی بہبود کو اس میں موثر انداز سے اجاگر کیا گیا ہے۔ کتاب کے عنوانات کی فہرست حسب ذیل ہے:
باب اول میں رفاہ عامہ اور سماجی بہبود کے معنی ومفہوم اور اس سے متعلق بنیادی امور پر بحث کی گئی ہے۔ باب دوم میں رفاہ عامہ کے سلسلے میں نبی کریم ﷺ کے عملی اقدامات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں دیگر مباحث کے علاوہ معجزات نبوی سے سماجی بہبود کا استخراج ایک دل چسپ پہلو ہے جو مصنف کی تخلیقی سوچ کا آئینہ دار ہے۔ باب سوم میں رفاہ عامہ کی اہمیت قرآن کریم کی روشنی میں بیان کی گئی ہے اور ’کان خلقہ القرآن‘ کو بنیاد بنا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی روشنی میں موضوع کی وضاحت کی گئی ہے۔ باب چہارم میں احادیث کی روشنی میں رفاہ عامہ کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے اور کتب حدیث کے مختلف ابواب کو سماجی بہبود کی بنیاد بتایا گیا ہے، مثلاً باب الاصلاح بین الناس، باب التحذیر من ایذاء الصالحین والضعفۃ والمساکین، باب الاحسان الی الیتیم والارملۃ والمساکین وغیرہ۔ پانچویں اور آخری باب میں سماجی بہبود کے دیگر مختلف پہلوؤں کو تعلیمات نبوی کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ آخر میں سماجی بہبود میں صوفیا کے کردار کا ضمیمہ لگا کر کتاب کی اہمیت کو دوچند کر دیا گیا ہے۔ 
مذکورہ عنوانات کتاب کے موضوع سے گہرے طور پر متعلق ہیں اور مصنف نے ان کو علمی انداز میں موضوع بحث بنایا ہے۔ اس طرح سیرت نبوی کے مطالعہ اور ایک اہم سماجی مسئلے کے حوالے سے فکری تربیت کا یہ حسین امتزاج یہ نہ صرف عام قارئین بلکہ علمی وتحقیقی ذوق رکھنے والے افراد کے لیے بھی دل چسپی کا باعث ہوگا۔ کتاب کے پیغام کو مزید بہتر بنانے کے لیے مناسب ہوگا کہ آئندہ ایڈیشن میں سماجی بہبود کے حوالے سے صحابہ اور علماے سلف کی خدمات کا باب بھی شامل کر لیا جائے۔ اسی طرح عصری تنظیموں کے اہداف ومقاصد اور ان کے کردار کا جائزہ لیتے ہوئے اسلامی تعلیمات سے ان کا موازنہ کیا جائے اور سماجی بہبود کے حوالے سے صوفیا کی خدمات کو مزید مثالوں سے واضح کیا جائے۔ 

اپریل ۲۰۰۵ء

ڈاکٹر مہاتیر محمد کے فکر انگیز خیالاتادارہ
بلوچستان کا مسئلہپروفیسر شیخ عبد الرشید
حضرت عمرؓ کی دینی فہم و فراست کے چند نمونےپروفیسر محمد یونس میو
’’حدود آرڈیننس: کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘ ۔ ’’فکر و نظر‘‘ کے تبصرے کا جائزہڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی
قانون اسلامی کا ارتقا اور امام ولی اللہ دہلویؒمولانا محمد عیسٰی منصوری
شیعہ سنی مکالمہ :الشیخ یوسف القرضاوی کے خیالاتڈاکٹر یوگندر سکند
مکاتیبادارہ
تعارف و تبصرہادارہ
’’اجتماعی اجتہاد: تصور، ارتقا اور عملی صورتیں‘‘ کے عنوان پر تین روزہ سیمینارادارہ

ڈاکٹر مہاتیر محمد کے فکر انگیز خیالات

ادارہ

(ڈاکٹر مہاتیر محمد عصر حاضر میں عالم اسلام کے وہ منفرد سیاسی راہ نما اور مفکر ہیں جو مغربی فلسفہ وثقافت اور عالم اسلام کے بارے میں مغرب کی پالیسیوں اور طرز عمل پر کھلم کھلا تنقید کرتے ہیں اور ملت اسلامیہ کے حقوق ومفادات کے حق میں دو ٹوک بات کرتے ہیں۔ وہ تقریباً ربع صدی تک ملائشیا کے حکمران رہے ہیں اور مسلم ممالک میں رائج نظاموں کے حوالے سے وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے ملائشیا کو معاشی لحاظ سے مغرب کے چنگل سے نجات دلانے میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ آج کے دور میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے لائق تقلید ہے۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی نے ایک کانووکیشن میں ڈاکٹر مہاتیر محمد، جنوبی افریقہ کے قومی لیڈر نیلسن منڈیلا اور اردن کے شہزادہ حسن بن طلال کو ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر اعزازی ڈگری عطا کی ہے۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں ڈاکٹر مہاتیر محمد نے قانون کی حکمرانی اور آج کے عالمی ماحول کے تناظر میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے، وہ عالم اسلام کے دینی وفکری حلقوں کی خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ انھوں نے اسلامی قوانین کے نفاذ میں حائل عملی مشکلات کاذکر کیا ہے جسے یقیناًمغرب اور اس کے نظام سے مرعوبیت کا نتیجہ قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی اسے اسلامی تعلیمات پر یقین اور ایمان کی کمزوری سے تعبیر کرنا انصاف کی بات ہوگی۔ ہمیں ڈاکٹر صاحب موصوف کی تمام باتوں سے اتفاق نہیں ہے، لیکن ہمارے خیال میں جن باتوں کی انھوں نے نشان دہی کی ہے، انھیں عملی مشکلات اور رکاوٹوں کے پس منظر میں دیکھنا ہی قرین قیاس ہوگا جن کا قابل عمل حل پیش کرنا بہرحال دینی وعلمی حلقوں کی ذمہ داری ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے اس خطاب کا اردو ترجمہ جناب عبد الباری رانا نے کیا ہے اور روزنامہ پاکستان اسلام آباد نے ۱۵ مارچ ۲۰۰۵ کو اسے شائع کیا ہے۔ ’’پاکستان‘‘ کے شکریہ کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا خطاب قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔  رئیس التحریر)

سب سے پہلے میں انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جس نے مجھے یہ اعزازی ڈگری دی ہے۔ اگرچہ میں ایک قانون دان نہیں ہوں، لیکن میں نے قانون کا مطالعہ ضرور کیا ہے۔ میں آپ کی اجازت سے قانون کے بارے میں، خاص طور پر قانون کی حکمرانی کے موجودہ حالات کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ 
ابتدائی تہذیبوں کے دور میں قانون سازوں کو سب سے بالاتر سمجھا جاتا تھا۔ بادشاہتوں کی عظمت بھی اسی وجہ سے تھی کہ انھوں نے قوانین عطا کیے تھے جن کی وجہ سے لوگوں میں نظم ونسق قائم کیا جاتا تھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ حمو رابی کے کوڈ پہلے تحریری قانون کے طور پر تسلیم کیے جاتے ہیں جو شاہ حمو رابی نے بنائے تھے۔ دنیا کے بڑے مذاہب نے بھی قوانین بنائے تھے جن کا مقصد معاشرے میں انصاف قائم کرنا تھا۔ بہت سی صورتوں میں قوانین خدا کے عطا کردہ تھے۔ اس سے قبل انسانی معاشروں نے انصاف کو یقینی بنانے کے لیے خود اپنے قوانین تیار کیے۔ یورپ میں برٹش کامن لا اینڈ کوڈ نپولین اس کی مثال ہیں، لیکن یہ بھی ناکام ثابت ہوئے۔ ہم انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے باوجود معاشرے میں انصاف کے قریب نہیں پہنچ سکے۔
ابھی تک نا انصافیوں کے خلاف ضمانت کے طور پر قوانین پر بھرپور اعتماد کیا جاتا ہے اور اس لیے آج بھی ہر ملک میں قانون کی حکمرانی کا بول بالا ہے۔ اگر کوئی ملک قانون کی حکمرانی قائم کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے، اس سے محض نفرت یا مذمت ہی نہیں کی جاتی، بلکہ بعض اوقات حکومت کی تبدیلی کے لیے جنگ اور بغاوت بھی ہو جاتی ہے اور قانون کی حکمرانی نافذ کی جاتی ہے کہ قانون کی حکمرانی کے نفاذ کے لیے جنگ اور تشدد کا راستہ بھی اختیار کرنا پڑتا ہے۔ لیکن انسان کے بنائے ہوئے قوانین اکثر غیر منصفانہ ہوتے ہیں۔ ایک ایسا وقت بھی تھا جب برٹش کامن لا کے تحت کسی شخص کو ایک بھیڑ چرانے پر سولی پر چڑھا دیا جاتا تھا۔ یہ سزا قانون کے لحاظ سے درست تھی، لیکن غیر منصفانہ تھی۔ سپین میں تحقیقات کے دوران تشدد کو قانونی تصور کیا جاتا تھا اور جن لوگوں کو گرفتار کیا جاتا تھا، ان سے تشدد کے ذریعے اقبال جرم کرانے کے بعد زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ یہ بھی قانون کے مطابق درست تھا لیکن غیر منصفانہ تھا۔ برطانوی نو آبادیاتی حکومت کے دور میں مقدمہ چلائے بغیر گرفتار کرنا قانونی تھا اور اس کے لیے قوانین موجود تھے۔ پھر برطانیہ نے آزاد ہونے والی نو آبادیوں پر، جن میں ملائشیا جیسے ملک شامل ہیں، بغیر مقدمہ چلائے گرفتاری کی اجازت کی مذمت شروع کر دی اور اس کا یہ موقف ہے کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ بھی غیر منصفانہ ہے۔ لیکن جب دہشت گردی کے حملے شروع ہوئے تو انھوں نے مشتبہ لوگوں کو بغیر مقدمہ چلائے قید کر دیا اور اس وقت قانون کی حکمرانی کے لیے ان کا شور وغوغا بلا تخفیف جاری رہا۔
اخلاقیات کے بارے میں نسلی امتیاز کے یورپی نظریات، ماسوائے ہم جنسی کے بہت سے یورپی ممالک کے مطابق خوش مزاجی کے حقوق اور جنسی شادیوں کے بارے میں قوانین موجود ہیں، حتیٰ کہ پادری بھی مردوں کو شریک زندگی رکھ سکتے ہیں۔ یہ عمل بھی قانون کی حکمرانی کے مطابق ہے، لیکن کیا یہ اخلاقی لحاظ سے درست ہے؟ یہ بات واضح ہے کہ قانون کی حکمرانی ایک منصفانہ یا اخلاقی لحاظ سے بلند معاشرے کی ضامن نہیں۔ بلاشبہ ہمیں قوانین کی ضرورت ہے، بشرطیکہ ہمیں بادشاہوں، سلطانوں اور آمروں کے رحم وکرم پر نہ چھوڑا جائے۔ لیکن عوام کو نا انصافی سے بچانے کے لیے صرف قوانین ہی کافی نہیں، حتیٰ کہ آزاد جج بھی انصاف کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ جج بھی انسان ہوتے ہیں۔ عام انسانوں کی طرح جج بھی احساسات اور جذبات کے تابع ہوتے ہیں اور ان سے بھی فیصلوں میں غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ جج بھی متعصب ہو سکتے ہیں، سیاسی وابستگیوں اور سیاسی عقائد سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ ملائشیا میں جج سیاسی اثر ورسوخ کے حامل افراد کو رہا کر دیتے ہیں ، اس وجہ سے نہیں کہ انھوں نے جرم کا ارتکاب نہیں کیا، بلکہ پراسیکیوٹرز غلط طریقے سے کیس پیش کرتے ہیں۔
عدلیہ کی آزادی ناگزیر طور پر اہم ہے۔ عدلیہ پر تنقید کے نتیجے میں کسی شخص کو توہین عدالت کے لیے عدالت میں پیش ہونا پڑتا ہے، اس لیے جج غیر جانبدار رہ کر سخت سے سخت سزا دیتے ہیں، کوئی خوف محسوس نہیں کرتے، لیکن اگر جج جان بوجھ کر اور کھل کر تعصب کا اظہار کریں تو وہ ناجائز اور غیر منصفانہ ہے۔ تنقید سے بالاتر ہونے کے نتیجے میں نا انصافیاں کی جاتی ہیں۔ اس وجہ سے عدالتوں کے تین درجے مقرر کیے گئے ہیں تاکہ اپیلیں کی جا سکیں۔ اس کے علاوہ حتمی طور پر رحم کی اپیلوں کی بھی گنجایش رکھی جاتی ہے۔ اس طرح نا انصافی کے امکانات کم ہو جاتے ہیں، لیکن ان اپیلوں پر بھاری رقوم خرچ ہوتی ہیں۔ صاف طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ غریبوں کے مقابلے میں امیروں کو زیادہ انصاف حاصل ہوتا ہے۔ بعض اوقات جج عدالتی نظر ثانی کے نظریے کے تحت خود اضافی اختیارات حاصل کر لیتے ہیں۔ کسی شخص کی طرف سے عدالتوں سے رجوع کیے بغیر بھی کوئی سنیئر جج کوئی کیس نظر ثانی کے لیے طلب کر لیتا ہے۔ اس سے بھی یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ انصاف کو یقینی بنا دیا گیا ہے، لیکن اس سے بھی عوام کی اکثریت سے منتخب ہونے والی حکومت کو، جو معاشرے کے مسائل سے موثر طور پر نمٹ رہی ہو، مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مقدمے بازی سے افراد اور گروپوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا ازالہ ہو جاتا ہے، لیکن ججوں کا امتیاز اس قدر وسیع ہے کہ غیر معقول فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ فیصلے زیادہ اور مزید معقول ہوتے جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مصائب کو کور کرنے کے لیے انشورنس کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے اور انشورنس کی لاگت میں اضافے سے کسی قوم کے معیار زندگی اور مقابلے کی پوزیشن کی لاگت بڑھ جاتی ہے، لیکن ججوں کا اپنے فیصلے کے مجموعی اثرات سے کوئی تعلق نہیں۔ جب تک وہ محسوس کرتے ہیں کہ انصاف کر دیا گیا ہے، اس کے علاوہ ہر چیز غیر ضروری ہے۔ امتیاز اور خود مختاری معاشرت پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
اسلامی قانون، شریعت کیا ہے؟ اس کے نفاذ کے سلسلے میں نا انصافی ہو سکتی ہے۔ یہ اللہ کا قانون ہے، اس لیے یہ مکمل ہے۔ اسلام ایک مذہب ہے، لیکن ہم سب یہ جانتے ہیں کہ اسلام کے پیروکار اس کی تکمیل سے بہت دور ہیں۔ ہم مسلمانوں میں جرائم، مسلمانوں کے درمیان جنگیں اور مسلمانوں میں انتہا سے زیادہ دولت اور انتہا سے زیادہ غربت دیکھتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کو سرعام گناہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ بلاشبہ مسلمانوں کا غیر اسلامی رویہ عام ہے۔ کیا یہ اسلام کی وجہ سے ہے جو کچھ مسلمان آج کر رہے ہیں؟ یقیناًنہیں۔ یہ مسلمانوں کی انسانی کمزوریاں ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اس مثالی زندگی پر کاربند نہیں ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے۔ اسی طرح اسلامی قوانین مکمل ہیں، اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ مسلمانوں کے رویے کی وجہ سے اسلامی قوانین غیر منصفانہ نظر آتے ہیں۔ 
مثال کے طور پر ہم یہ جانتے ہیں کہ جرم کا شکار ہونے والے کو سزا دینا غیر منصفانہ ہے جب تک کہ جرم کا ارتکاب کرنے والے کے خلاف کارروائی نہ کی جائے۔ ایک ایسی لڑکی کی مثال ہی لے لیں جس کے ساتھ زیادتی کی گئی ہو۔ وہ زیادتی کرنے والے کو شناخت کرتی ہے اور مجرم کے خلاف اس کی رپورٹ بھی درج کراتی ہے، لیکن وہ مجرم کے خلاف چار گواہ پیش کرنے سے قاصر ہے تو بعض مسلمان قانون دان اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس نے جھوٹا الزام لگایا ہے اور اس طرح حقائق کو سزا دی جا رہی ہے اور ملزم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا تی۔ دوسری طرف اگر وہ زیادتی کا مقدمہ درج کراتی اور اس کے نتیجے میں کسی بچے کو جنم دیتی ہے تو اسے زنا کا ملزم ٹھہرایا جاتا ہے اور اس کی سزا سنگ ساری قرار دی جاتی ہے۔ کیا ہم اسے اسلامی انصاف قرار دے سکتے ہیں؟ آج کے دور میں جب کہ ڈی این اے ٹیسٹ سے بچے کی ولدیت کی تصدیق کی جا سکتی ہے، کیا ہم ڈی این اے کے ذریعے فراہم کیے جانے والے ثبوت کو نظر انداز کر سکتے ہیں؟ کیا اس طرح اسلامی قانون اس قدر غیر منصفانہ ہے؟ کیا اسلامی قانون فرسودہ ہے؟
قرآن میں جرائم کے ضابطوں اور سزاؤں کو بیان کر دیاگیا ہے، لیکن قرآن میں کئی جگہ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ’’جب تم فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔‘‘ اگر جرم کا شکار ہونے والے کو سزا دی جاتی ہے اور مجرم کو چھوڑ دیا جاتا ہے تو یہ کسی معیار، کسی بھی مذہب کی رو سے غیر منصفانہ ہے اور ایسے فیصلے کو اسلامی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ اسلامی قانون نہیں جو غلط ہے۔ ہم قرآنی آیات کا غلط مطلب اور غلط توضیح کر رہے ہیں جو کہ غلط ہے۔
ملائشیا میں مختلف نسلوں اور مختلف مذاہب کے لوگ آباد ہیں۔ ملائشیا میں قانون کے نفاذ سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہم اسلامی تعلیمات پر کاربند ہیں، لیکن ہمیں اسلام کے تقدس اور مسلمانوں کے غیر مسلموں کے ساتھ تعلق کو ختم کیے بغیر کام کرنا پڑتا ہے۔ ہم یہ سب کچھ یہ تاثر پیدا کیے بغیر کرتے ہیں کہ مسلمان ممالک کا نظام اچھا نہیں، منصفانہ اور شفاف یا مستحکم اور ترقی یافتہ نہیں۔ ہم یہ سب کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ اسلام دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی برداشت کرنے کی تلقین کرتا ہے اور اسلام میں جبر کی کوئی گنجایش نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ مسلمان حکومت سب کے لیے منصفانہ ہے۔ اس لیے ملائشیا میں انصاف پر زور دیا جاتا ہے اور اسلامی قوانین تک ہی انصاف کے تقاضوں کو بالاتر رکھ کر سزائیں نہیں دی جاتیں۔ اگر انصاف کیا جاتا ہے تو یہ اسلامی ہے۔ اگر انصاف نہیں کیا جاتا تو یہ غیر اسلامی ہے۔
چونکہ اسلام بد نظمی سے نفرت کرتا ہے اور جس کام سے بھی بد نظمی پیدا ہو، وہ اسلام کے مطابق نہیں ہو سکتا، اس طرح اگر ایک مسلمان اور ایک غیر مسلم مل کر کوئی ایسا جرم کرتے ہیں شریعت میں جس کی سزا عضو کاٹنا ہے تو اس صورت میں انصاف کے تقاضے اور ملک میں امن وامان کی صورت حال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مسلمان اور غیر مسلم، دونوں کے ہاتھ کاٹنے سے بڑے پیمانے پر غیر مسلموں کی طرف سے احتجاج کیا جا سکتا ہے جس سے ملک میں امن وامان کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے، اس لیے اسلامی تعلیمات کے مطابق عمل کرنا ممکن نہیں۔ دوسری طرف مسلمان کے ہاتھ کاٹ دینا اور غیر مسلم کو معمولی سزاے قید دینا بھی نا انصافی ہوگی اور نا انصافی غیر اسلامی ہوگی۔ اس مسئلے کا اسلامی حل یہی ہے کہ دونوں ملزموں کو یکساں سزا دی جائے، یعنی ہلکی سزائے قید۔ بہت سے مسلمان علما اس معاملے میں بلاشبہ اختلاف کریں گے۔ اسلامی سزا منصفانہ ہو یا غیر منصفانہ، ہر قیمت پر اس پر عمل کیا جائے، ورنہ یہ اسلامی نہیں ہوگی۔ لیکن ہمیں اس نقطہ سے اختلاف ہے۔ اسلامی قانون پر عمل درآمد کے نتیجے میں انصاف ہونا چاہیے اور اس سے ملک میں بد نظمی نہیں پیدا ہونی چاہیے۔
بہت سی ایسی باتیں ہیں جن پر آج ہم عمل کر رہے ہیں، لیکن جو بظاہر اسلامی تعلیمات کے خلاف نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر اسلام انسانوں اور دوسرے جانداروں کی تصاویر بنانے سے منع کرتا ہے۔ اسلامی قانون کے مطابق تصاویر لازماً جیو میٹرک ڈیزائن تک محدود ہونی چاہییں، لیکن آج بیشتر مذہبی علما اپنی تصاویر کی نمائش کرتے ہیں اور ایکشن اور باتیں کرتے ہوئے مووی تیار کراتے ہیں۔ کیا ہم ایسا کرکے اسلامی تعلیمات اور قوانین سے انحراف کر رہے ہیں؟ ہم ایسا نہیں کر رہے۔ تصاویر کے خلاف تعلیمات اس وجہ سے تھیں کہ حضور کے دور میں اہل عرب مورتیوں کی پرستش کرتے تھے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ یہ محض تصاویر ہیں اور ہم ان کی پرستش نہیں کرتے، اس لیے اگر ہم تصاویر بنا رہے ہیں اور ان کی پرستش نہیں کرتے تو ہم قرآنی تعلیمات سے انحراف کر کے کوئی گناہ نہیں کر رہے ہیں۔ آج کے دور میں تصاویر بنانے اور ان کی نمایش کرنے سے ہم کسی طرح بھی گریز نہیں کر سکتے۔ ماضی کے دور میں جب تصاویر پینٹ کی جاتی تھیں تو اس وقت ان تصاویر پر پابندی لگانا ممکن تھا۔ فوٹو گرافی پر پابندی لگانا نہیں، اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ تصاویر کی پرستش نہ کی جائے۔ یقیناًایسی تصاویر کی ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیے جنھیں خدا یا حضور سے مشابہت دی گئی ہو۔ 
ہم اکیسویں صدی عیسوی میں رہ رہے ہیں۔ ساتویں صدی میں جو چیزیں تھیں، وہ قطعی طور پر تبدیل ہو گئی ہیں۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو آج روز مرہ کا معمول ہیں، لیکن چودہ سو سال پہلے ان کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ہم میں سے بعض لوگ اسلام کی پہلی صدی کے حالات کو پیدا کرنا چاہتے ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صرف اسی ماحول میں سچے مسلمان بن سکتے ہیں۔ ایسا کرکے وہ اسلام کی تکذیب کر رہے ہیں۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام کا قانون اور تعلیمات صرف چودہ سو سال پہلے کے معاشرے کی مناسبت سے تھے اور وہ موجودہ دور کے تقاضوں کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ اسلام تمام زمانوں کے لیے ہے۔ اگر آج ہم اسلامی تعلیمات کو سمجھنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو یہ ہمارا قصور ہے۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات کا مطالعہ کریں اور انھیں پوری طرح سمجھیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ اسلامی تعلیمات پر کاربند رہنا ممکن ہے اور اس پر موجودہ دور کے حالات زندگی کے مطابق عمل کر سکتے ہیں۔ ہم اسلامی قانون کی حکمرانی پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ ہم اس کی توضیح ضابطوں اور سزاؤں تک ہی نہ کریں، بلکہ اس کے بجائے اس بات کا خیال رکھیں کہ یہ انصاف کے حصول کا ضامن ہو۔ اگر ضروری ہو تو ہم اس کی ہیئت کو نظر انداز کر کے اس کی روح پر عمل کریں اور اسلامی قانون کی روح انصاف ہے۔ ضابطے اور سزائیں اس کی اقسام ہیں اور اسے لازماً تمام قوانین پر لاگو ہونا چاہیے جو بیان کردہ ہوں یا انسان کے بنائے ہوئے ہوں۔ انصاف کی حکمرانی ہی اہم ہے۔

بلوچستان کا مسئلہ

پروفیسر شیخ عبد الرشید

بلوچستان کا مسئلہ اس وقت وفاق پاکستان کو درپیش ایک نہایت حساس اور نازک معاملہ ہے۔ اس مسئلے کے حقیقی اور ممکنہ محرکات کوئی پوشیدہ راز نہیں، بلکہ بہت حد تک ظاہر، قابل فہم اور لائق توجہ ہیں۔ بلوچستان، پاکستان کا سب سے بڑا اور سب سے پس ماندہ صوبہ ہے جو معدنی وسائل سے مالامال مگر بڑی حد تک مراعات سے محروم وفاقی اکائی کی شناخت رکھتا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے اہم محل وقوع کا حامل اور تہذیب وثقافت کا مرکز یہ علاقہ گزشتہ دو صدیوں سے بد قسمتی کا شکارہے۔ سامراجی آقاؤں، مستبد وقاہر حکمرانوں اور مفاد پرست سرداروں کی کشمکش کی چکی میں پستے پستے آج بلوچی عوام بے حالی کے مقام پر آ گئے ہیں۔ ظہور پاکستان کے وقت سے ہی خارجی قوتوں کے کردار، اسلام آباد کی مرکزیت پسند حکمرانی اور اختیار واقتدار کے لیے قبائلی سرداروں کی سودے بازی کی فضا میں بلوچی عوام اپنی محرومی اور پس ماندگی کے جنگل میں گم کردہ راہ مسافر کی طرح ہیں اور نہ معلوم کب تک ایسے ہی رہیں گے۔ 
بلوچستان کی شکایات ومطالبات نئے نہیں، لیکن انھیں سازگار فضا موجودہ عالمی حالات نے فراہم کی ہے۔ دیکھتی آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ اگر طالبان کے خلاف عالمی جنگ میں صوبہ سرحد کی ایک خاص اہمیت تھی تو اب نئے منظر میں ایران کے خلاف کھولے جانے والے محاذ پر بلوچستان کا حساس جغرافیہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مرکز سے ارتکاز اختیارات کی شکایات بھی پرانی ہیں، مگر لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ زیادتی کے واقعہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ پاکستان کے دامن پر بنگالی خواتین کی عزتوں کی پامالی کے داغ ابھی دھلے نہیں تھے کہ ڈاکٹر شازیہ کی بے حرمتی کا شرم ناک واقعہ رونما ہو گیا۔ بلوچستان کی تاریخ وتہذیب سے آشنا جانتے ہیں کہ بنات حوا کی حرمت بلوچی روایات کا نازک معاملہ ہے جسے جدیدیت کے حامل لبرل روشن خیال شاید اس طرح نہیں سمجھتے۔ اس پہلو کو پیش نظر رکھ کر دیکھا جائے تو یہ واقعہ اتفاقی نہیں دکھائی دیتا۔ کوئی نادیدہ قوت ہے جس نے تقدس کے لبادے میں محرومیوں کے بارود میں جلتی تیلی پھینک دی ہے۔ یہ سب کچھ جیسے ہوا، وہ اپنی جگہ، مگر مقدس ادارے سے وابستہ ملزم کو اب تک جس طرح تحفظ فراہم کیا گیا ہے، اس سے وفاق کے دوسرے صوبوں کے عوام بھی حیران رہ گئے ہیں۔
بے شک بلوچستان میں قومی وسائل پر حملے ناقابل برداشت ہیں، مگر کہیں یہ کسی کی برداشت کا امتحان لینے کا نتیجہ تو نہیں؟ اب تک دونوں اطراف سے جو کچھ ہوا، اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ وہ آنکھیں صحیح صورت حال سے بے خبر ہیں جو ملک کے معاملات کا فیصلہ کر رہی ہیں۔ اعتدال پسند وروشن خیال صدر مملکت نے بلوچستان کے معاملہ پر تند وتیز لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ’’بلوچ قوم پرستوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ یہ ۷۰ کی دہائی نہیں ہے۔ انھیں پتہ بھی نہیں چلے گا کہ انھیں کیا چیز آ کر لگی ہے۔‘‘ یہ لب ولہجہ وفاقیت کے تقاضوں کے برعکس تھا۔ مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن وفاق کی روح کو گھائل کر چکا تھا، اس لیے عوامی حلقوں نے تنقید کی تو جناب صدر نے ’’حکیمانہ سکوت‘‘ اختیار کر لیا۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ بندوق کی گولی یا تحکمانہ سکوت، دونوں ہی الجھی ہوئی گتھیوں کو نہیں سلجھا سکتے۔
پاکستان آرمی پہلے بھی کئی دفعہ بلوچستان میں کارروائیاں کر چکی ہے۔ سب سے پہلے مارچ ۱۹۴۸ میں جب ریاست قلات کا الحاق پاکستان سے ہوا تو پرنس عبد الکریم نے اس کی مخالفت کی جس کو کچلنے کے لیے فوج یہاں آئی۔ پھر اکتوبر ۱۹۵۸ میں زہری قبائل کی کشاکش ختم کرنے کے لیے فوج کو تعینات کیا گیا۔ ایوب دور میں قبائلیوں سے جھڑپیں جاری رہیں۔ اس کے خاتمے پر بگتی قبیلے سے متعدد تصادم ہوئے۔ ایوبی دور میں کوشش کی گئی کہ بلوچستان کے دانش وروں کو حکومت کا حامی بنایا جائے۔ اس کے لیے ثقافتی وادبی تنظیموں کی سرکاری سرپرستی کی گئی۔ ۱۹۶۱ میں بلوچی اکیڈمی قائم کی گئی مگر ’’دی بلوچی براہوی زبان تحریک پاکستان میں‘‘ ٹی رحمان کے بیان کے مطابق مذکورہ کوششیں ناکام ہو گئیں کیونکہ نوزائیدہ پیشہ ور طبقہ پرنس عبد الکریم کی استامان گال (پیپلز پارٹی) کا حامی تھا۔ یہ پارٹی انجام کار نیپ میں مدغم ہو گئی۔ بلوچستان کا نسلی اور لسانی اختلاط ۱۹۷۱ میں ون یونٹ کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ 
ذو الفقار علی بھٹو نے ۱۹۷۱ کے بعد کی داخلی سیاست میں بھی فوج پر انحصار جاری رکھا۔ بنگلہ دیش کے سانحہ کے بعد فوج پھر جدید اسلحہ سے لیس ہو کر بحال ہو چکی تھی۔ R.G. Wirsing اپنی کتاب "The Balochis and Pathans" میں لکھتے ہیں کہ بھٹو نے یونیفارم میں ملبوس افراد کو پھر سیاست میں واپس آنے کی ترغیب دی۔ ۱۹۷۳ سے ۱۹۷۶ تک پچاس لاکھ سے بھی کم اور بکھری ہوئی آبادی والے صوبے میں ۸۰ ہزار فوجی جوانوں کو قبائلی اور صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کرنے والے باغیوں سے نمٹنے کے لیے رکھا گیا۔ قوت کا یہ استعمال جائز مطالبات کو وحشیانہ طریقے سے دبانے کا عمل تھا جس نے علاقائی مخالفت کو جنم دیا اور قومی یک جہتی کو نقصان پہنچایا۔ 
بلوچستان میں پنجابیوں اور پختونوں کی آمد نے مقامی لوگوں کے احساس تشخص کو مجروح کیا۔ بلوچی دانش ور پاکستانی ریاست میں بلوچوں کی کم تر نمائندگی پر انگشت نمائی کرتے تھے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ ان کے قدرتی وسائل مثلاً گیس وغیرہ سے استفادہ کرتے ہوئے ان کو استحصال کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر مقامی آبادی کو سہولت پہنچانے اور بلوچوں کے مفادات کے تحفظ کے بجائے فوجی نقطہ نظر سے کی جاتی ہے۔ ۱۰ فروری ۱۹۷۳ کے بعد بلوچستان میں قبائلی بغاوت ایک بڑے عسکری تصادم میں تبدیل ہو گئی۔ بلوچستان پیپلز لبریشن فرنٹ میں ۶۰ ہزار کے قریب عسکریت پسند شامل ہو گئے۔ محاذ آرائی کے عروج کے دور میں پاکستان ایئر فورس کی مدد شاہ ایران نے کی جو خود بھی اپنے بلوچ مسئلے پر پریشان تھے۔ بلوچ قبائل ایران کی آبادی کا ۲ فی صد ہیں، لیکن چار باہر کے بحری اور فضائی اڈوں کی تعمیر کے علاوہ ہرمز کے علاقے سے خلیج عمان کو تیل کی ترسیل نے بلوچ قبائل کو اہم بنا رکھا ہے۔ امریکی تجزیہ نگار Slaig Harrison نے اپنے مضمون "Baloch Nationalism and Super Power Rivalry" میں اس وقت ۷۰ کے عشرے میں سوویت خطرے کو غیر ضروری طور پر محسوس کیا تھا۔ فوج اور باغیوں کی لڑائی میں نو ہزار افراد مارے گئے۔ اس دہائی میں فوج کے متحرک کردار کے حوالے سے بھٹو نے موت کی کوٹھڑی میں اپنی آخری تحریر "If I Am Assasinated" میں دعویٰ کیا کہ بلوچستان سے واپسی کے ان منصوبوں کو فوج نے نظر انداز کر دیا کیونکہ جرنیل پورے بلوچستان میں اپنا جال بچھانا چاہتے تھے۔ بعد ازاں بلوچستان اسمبلی کی حیات نو بھی فوج کے جن کو بوتل میں قید نہ کر سکی۔ بھٹو نے اپنے بعد آنے والوں کو بتا دیا تھا کہ شورش زدہ علاقوں میں امن وامان بحال رکھنے کا درست طریقہ ترقیاتی کام ہیں۔ ۸۰ کے بعد کے عشروں میں صوبے کے زخم بھرنے کے لیے مرہم رکھے گئے اور حالات معمول پر آ گئے۔
آج ایک مرتبہ پھر بلوچستان کی صورت حال افواہوں کی زد میں ہے۔ ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ افواہیں بے یقینی کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں، مگر جب کوئی قوم یا ملک ان کی زد میں آ جائے تو سمجھ لیجیے کہ معاشرے میں جگہ جگہ ٹائم بم نصب ہو گئے ہیں جن کے پھٹنے سے سب کچھ تلپٹ ہو کر رہ جائے گا۔ اسی نازک دوراہے پر اعتدال پسندی کا اصل امتحان ہے۔ افواہ زدہ قوموں کو تعمیراتی منصوبوں یا میگا پراجیکٹس کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ تو سنسنی خیز افواہوں کی منتظر ہو کر رہ جاتی ہے۔ بلوچستان کے مسئلے کو جس طرح حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ مزید بہتری کی متقاضی ہے۔ حکمرانوں کی توجہ، ریاضت، اعتدال پسندی، رواداری، تدبر وفراست اور عوام کی اقتدار میں حقیقی معنوں میں شراکت ناگزیر ہے۔ مرکزیت اور اختیارات کا شخصی ارتکاز قومی یک جہتی کا شعور بیدار نہیں کر سکتا۔ 
وقت کے مسیحاؤں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ قوم وملت کے معمار دھیمے، محکم اور پختہ فکر ہوتے ہیں۔ ہمیں خوش فہمیوں کے گھروندوں سے باہر نکل کر سچ سننا اور سچ کہنا ہوگا۔ یہ امر باعث تشویش ہے کہ قومی یکجہتی اور اتحاد کی ضامن قوتیں پورے ساز وسامان اور بے حد وحساب وسائل کے باوجود مختلف محاذوں پر بٹی ہوئی ہیں۔ وانا سمیت ہم اپنے ہی وطن میں کتنے محاذ کھول کر لڑ سکیں گے؟ گولی مسائل کا حل کبھی نہیں بنی، بلکہ ہمیشہ مسائل کو ضرب دینے کا ذریعہ ثابت ہوئی ہے۔ طوفان پھولوں کو تو تباہ کر سکتا ہے، لیکن کیا اس سے بیج بھی برباد کیے جا سکتے ہیں؟ لازم ہے کہ وفاق کی اکائیوں کو فوجی کارروائیاں نہ ہونے کی ضمانت دی جائے، اس لیے کہ سیاسی مسائل کبھی فوجی طریقے سے حل نہیں ہو سکتے۔
بلوچستان کے مسئلے کی سنجیدگی اور ماوراے آئین تشدد آمیز ہتھکنڈوں کے نتیجے میں اصلاحاتی پیکجوں کی زکوٰۃ مستقل، پائیدار اور مناسب حل نہیں۔ اس سے ہم وفاق کی دیگر اکائیوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ کیا یہ کہ بنیادی حقوق، سہولتوں اور مراعات کے حصول کے لیے دوسرے صوبوں کو بھی یہی طریقہ اختیار کرنا ہوگا؟ قلیل المدت حوالے سے مسائل کے اونٹ کے منہ میں اصلاحاتی پیکجوں کا زیرہ اپنی جگہ، مگر جب تک ملک میں شراکتی جمہوریت کا سچا، کھرا اور دیانت دارانہ نفاذ نہیں ہو جاتا، معاملات ایسے ہی رہیں گے اور صوبوں میں تحفظ کا احساس پیدا نہیں ہو گا۔ 
یہ حقیقت تسلیم کر لینے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے کہ وفاق پاکستان کو درپیش مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ پاکستان میں فوج کا سیاسی کردار ہے۔ فوج اور انتظامی شعبوں میں پنجاب کی بالادستی کے خلاف علاقائیت کا رد عمل نصف صدی سے موجود ہے۔ اس غلبہ کے متعلق سنجیدہ مگر کھلا مباحثہ وقت کا ایک اہم تقاضا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کا خمیازہ پنجاب کو دوسری اکائیوں کی ناراضی کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے، حالانکہ پنجابیوں کی کثیر تعداد اس ’’پنجاب‘‘ سے آشنا نہیں جس سے سارا ملک ناراض ہے۔ اب وفاق میں اس ’’پنجاب ‘‘ کے کردار پر تدبر وتفکر ضروری ہو گیا ہے جس میں خود پنجابیوں کی بھی ایک بڑی تعداد نہیں رہ رہی۔ مگر یہ ساری سوچ بچار بامقصد، منظم اور باشعور عوامی سیاسی قوتوں کے ذریعے سے ہو، تب ہی خوش گوار تبدیلی ممکن ہوگی۔ حقیقت پسندی کے بغیر اعتدال پسندی خام خیال سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ سیاسیات کے ماہرین کا یہ کہنا غلط نہیں کہ وفاقیت اور جمہوریت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ شراکتی جمہوریت وفاق کی لازمی شرائط میں سے ہے۔ اقتدار واختیار کا ایک شخص، ایک ادارے یا ایک طبقے یا ٹولے تک محدود ہو کر رہ جانا وفاق کے لیے زہر قاتل ہے۔ حد سے زیادہ مرکزیت کی روک تھام نہ کی جائے تو یہ نظام یا تو وحدانی صورت اختیار کر لیتا ہے جیسا کہ سوویت یونین میں ہوا تھا، یا اگر صوبے اور اکائیاں ماورائے آئین مزاحمت پر اتر آئیں جیسا کہ ۱۹۷۱ میں جنرل یحییٰ کے دور میں ہوا تو وفاقی نظام خود ہی اپنے ہاتھوں تباہ ہو جاتا ہے، یا پھر علاقائیت نمو پا کر اس صورت میں ظاہر ہوتی ہے جس طرح یوگو سلاویہ کی تقسیم کی صورت میں ہوئی۔ ۶۰ کے عشرے میں نائیجریا میں بیافران کا بحران (Biafran Crisis) بھی ایسے ہی حالات ومسائل کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان میں وفاقیت کو درپیش مسائل کا حقیقت پسندانہ مطالعہ ضروری ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو طویل المدت منصوبے کے طور پر دھڑا دھڑ سکالر شپس دینے کے ساتھ ساتھ مختلف جامعات میں پاکستان کو درپیش مسائل کے حوالے سے سنجیدہ تحقیق کروانے کا بھی بندوبست کرنا چاہیے تاکہ تعلیمی وظائف قومی مفاد میں استعمال ہو سکیں۔ بالخصوص وفاقیت کے حوالے سے چاروں صوبوں میں اکیڈمک ریسرچ اشد ضروری ہے۔
وفاقیت کے تقاضے حقیقی معنوں میں ذہنی، فکری اور عملی اتحاد ویگانگت ہیں۔ ہمیں ذاتی مفادات، نجی تحفظات، صوبائی تعصبات اور قوم پرستانہ شبہات کو پس پشت ڈال کر ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے نعرے کو عملی شکل دینا ہوگی اور اس کے لیے اجتماعی دانش کو بروئے کار لانا ہوگا۔ آج ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے جس میں ہر فریق اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرے۔ سیاست دان سیاست کریں اور فوج، فوج بن کر رہے۔ ہر کسی کو آئینی حقوق ملیں، مرکز وفاق کا محافظ ہو اور صوبے وفاقیت کے علم بردار بن جائیں۔ ورنہ امریکی تھنک ٹینک آنے والے عشرے میں وفاق پاکستان کے حوالے سے درست اشارے نہیں دے رہے۔ ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہر کوئی اس نیک کام کے لیے تیار ہے۔ بس ان کی آمادگی کی ضرورت ہے جنھوں نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔

حضرت عمرؓ کی دینی فہم و فراست کے چند نمونے

پروفیسر محمد یونس میو

حضرت عمرؓ کے دور میں بکثرت فتوحات ہوئیں جن کے نتیجے میں مسلمانوں پر مال ودولت کے خزانے کھل گئے اور مسلمانوں کا ایسی تہذیبوں اور تمدنوں سے پالا پڑا جن سے وہ پہلے واقف نہ تھے۔ لہٰذا ناگزیر ہوا کہ خلیفہ دوم ان نئے تہذیبی اور ارتقائی حالات کا مقابلہ ایسے متبادل اصولوں سے کرتے جو اسلامی شریعت اور اس کے عمومی اصولوں ہی سے ماخوذ ہوں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے زندگی کے تمام پہلوؤں میں، خواہ وہ سیاسی ہوں یا اقتصادی، معاشرتی ہوں یا قانونی، ایسی تبدیلیاں روشناس کر ائیں جو ایک طرف امت مسلمہ کی ضرورتوں اور مصلحتوں کو پورا کریں اور دوسری طرف معاشرے کو اسلام کے بنیادی تقاضوں سے بھی دور نہ ہونے دیں۔ 
خلفائے راشدین میں سے حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ خاص طور پر مسائل شریعت کی نسبت سے ہمیشہ مصالح اور اسباب وعلل پر غور کرتے تھے اور اگر کسی بات کی حکمت ان کی گرفت میں نہ آتی تو حضور سے دریافت کرتے تھے۔ شاہ ولی اللہ نے احکام شریعت کے مصالح اور حکمتوں کے اس خاص علم کو ’’علم اسرار دین‘‘ کا نام دیا ہے اور ان کی معروف کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کا موضوع یہی علم ہے۔ مولانا شبلی نعمانی فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے علم اسرار دین کی بنیاد ڈالی۔ یہاں ایک حدیث کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے حضرت عمر کو جنت کے ایک محل میں اس حالت میں دیکھا کہ وہ لمبی چوڑی قمیض پہنے ہوئے ہیں۔ آپ نے ان کو اپنا پس خوردہ دودھ بھی عطا کیا اور ان دونوں واقعات کی تعبیر دین اور علم کے ساتھ فرمائی۔
خلیفہ اول حضرت ابوبکر حضور سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور سے سنا کہ آپ فرماتے تھے کہ ’’عمرؓ سے بہتر شخص پر کبھی سورج طلوع نہیں ہوا۔‘‘ ابوبکرؓ وعمرؓ انبیاء مرسلین کو چھوڑ کر بوڑھے اہل جنت کے سردار ہیں۔ حضرت علی کی موقوف روایات میں ہے کہ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے پروردگار کی تین مقامات پر موافقت کی: مقام ابراہیم، حجاب اور اساریٰ بدر۔ یہ تینوں موافقات عمر میں شامل ہیں۔ مولانا سید احمد رضا بجنوری نے ’’انوار الباری‘‘ میں اٹھائیس موافقات عمر کا ذکر کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب ’’ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء‘‘ میں ایک سو بارہ آیات کی شرح فرمائی ہے جس میں شیخین کے فضائل ومناقب بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے بہت سی آیات کا تعلق موافقات عمر سے ہے۔ مثال کے طور پر نماز باجماعت کے لیے اذان کا طریقہ اور منافقوں کی نماز جنازہ سے ممانعت اس سلسلے کی دو اہم مثالیں ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ اگر حضرت عمر کسی معاملہ میں یہ کہتے کہ ’’میرا اس کی نسبت یہ خیال ہے‘‘ تو ہمیشہ وہی پیش آتا تھا جو ان کا گمان ہوتا تھا۔ اس سے زیادہ اصابت رائے کی دلیل اور کیا ہوگی۔
یہاں ہم شریعت اسلامی کی تعبیر میں حضرت عمرکے اسلوب اور ان کے طریقہ اجتہاد کی چند مثالیں ذکر کریں گے:
۱۔ جزیہ وہ سالانہ ٹیکس ہے جو اسلامی ریاست میں بسنے والے غیر مسلموں پر عائد کیا جاتا ہے جس کے عوض میں ریاست ان کی جان ومال اور آبرو کی حفاظت کی ذمہ دار قرار پاتی ہے۔ جزیہ کے بارے میں بنی تغلب کے نصاریٰ کی ایک مخصوص حیثیت رہی ہے۔ بنی تغلب زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہو گئے تھے۔ حضرت عمرؓ نے انھیں دعوت اسلام دی جسے انھوں نے قبول نہیں کیا۔ پھر انہیں جزیہ ادا کرنے کے لیے کہا گیا تو اس سے بھی انکار کر دیا اور اس کو انھوں نے اپنی ذلت خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم عرب ہیں، ہم سے وہی لو جو زکوٰۃ کے نام پر تم آپس میں ایک دوسرے سے لیتے ہو۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں کسی مشرک سے زکوٰۃ نہیں لے سکتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے بعض افراد رومیوں سے جا ملے۔ اس پر نعمان بن زرعہ نے کہا، اے امیر المومنین! یہ طاقتور اور بہادر لوگ ہیں اور عرب ہیں، اس لیے جزیہ دینے میں اپنی ذلت محسوس کرتے ہیں، لہٰذا ان سے ایسا سلوک نہ کریں جس سے یہ دشمنوں کے مددگار بن جائیں۔ آپ ان سے زکوٰۃ کے نام پر جزیہ لے لیں۔ چنانچہ حضرت عمر نے ان کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا اور ان پر زکوٰۃ دوگنی کر کے عائد کر دی۔ حضرت عمر کا یہ فیصلہ اسی طرح جاری رہا اور صحابہ میں سے کسی نے اس پر اعتراض نہ کیا۔ اب یہ واضح ہے کہ غیر مسلموں سے زکوٰۃ نہیں، بلکہ بعض مراعات کے بدلے میں جزیہ لیا جاتا ہے، لیکن حضرت عمر نے ایک قومی ضرورت کے پیش نظر جزیہ کا عنوان بدل کر ’زکوٰۃ‘ رکھ دیا۔
۲۔ سیدنا عمر دینی احکام ورسوم کی حفاظت کے سلسلے میں بھی ازحد محتاط اور حساس تھے۔ آپ ’’حجر اسود‘‘ کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے اور تیرے اختیار میں زندگی ہے نہ موت، لیکن تیری تعظیم ہم اس لیے کرتے ہیں کہ حضور نے تجھے بوسہ دیا تھا۔‘‘ آپ نے اس درخت کو کٹوا دیا جس کے نیچے ’’بیعت رضوان‘‘ کی گئی تھی تاکہ لوگ عقیدت کے طور پر اس سے رجوع نہ کریں۔ مسجد نبوی میں منبر تعمیر ہونے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے ایک درخت سے ٹیک لگا کر آپ خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ اس درخت سے لوگوں کی جذباتی وابستگی کے پیش نظر آپ نے اس کو کٹوا دیا۔ درختوں کو کاٹنا بظاہر غیر مناسب اور غیر ضروری نظر آتا ہے، لیکن حضرت عمر کی بصیرت کا تقاضا یہی تھا کہ آئندہ یہ شریعت اسلامی کے محکمات میں رختہ کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ آپ نے ان راستوں کو ہی بند کر دیا جن سے برائی اور گمراہی کا صدور ہو سکتا تھا۔
۳۔ حج ہر صاحب استطاعت مرد وزن پر زندگی میں ایک بار فرض ہے، البتہ عورت پر فرضیت حج کی ایک مزید شرط یہ ہے کہ اس کے ساتھ جانے کے لیے کوئی محرم رشتہ دار موجود ہو۔ حضرت عمر نے ازواج مطہرات کو حج کی اجازت دی اور ان کے ساتھ حضرت عثمان اور حضرت عبد الرحمن بن عوف کو بھیجا۔ معلوم ہوا کہ اگر محرم موجود نہ ہو لیکن ایسے قابل اعتماد رفقا میسر ہوں تو عورت ان کے ساتھ حج کے لیے جا سکتی ہے۔ آج بھی ایسی صورت حال میں اس واقعے کو مثال بنا کر بہت سی ایسی خواتین جنھیں کسی محرم کی رفاقت میسر نہ ہو، حج کی سعادت حاصل کر سکتی ہیں۔
۴۔ ابو عبیدہ بن الجراح نے حضرت عمر کو لکھا کہ ایک شخص نے زنا کا اعتراف کیا ہے۔ حضرت عمر نے ان کو جواباً تحریر کیا کہ اس شخص سے دریافت کیا جائے کہ کیا اسے زنا کی حرمت کا پتہ ہے۔ اگر وہ اقرار کرے تو حد جاری کر دی جائے، ورنہ اسے بتایا جائے کہ یہ ایک حرام فعل ہے۔ اگر اس کے بعد وہ پھر ارتکاب کرے تو اس پر حد جاری کی جائے۔
اسی طرح ایک مرتبہ ایک عورت حضرت عمر کے پاس لائی گئی جو صحرا میں پیاسی تھی۔ اس نے ایک چرواہے سے پانی مانگا۔ چرواہے نے پانی دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ پانی اسی صورت میں مل سکتا ہے کہ تم مجھے اپنے ساتھ بدکاری کی اجازت دے دو۔ اس نے اللہ کا واسطہ دیا لیکن چرواہے نے انکار کر دیا۔ جب عورت کے لیے پیاس ناقابل برداشت ہو گئی تو اس نے چرواہے کو اپنے اوپر قدرت دے دی۔ حضرت عمر نے یہ صورت حال معلوم ہونے پر اس عورت سے حد ساقط کر دی۔
۵۔ عہد فاروقی کا مشہور واقعہ ہے کہ قحط سالی کے زمانے میں آپ نے حد سرقہ ساقط کر دی تھی اور فرمایا تھا کہ قحط کے سال میں قطع ید نہیں کیا جائے گا کیونکہ بھوک نے لوگوں کو سرقہ پر مجبور کر دیا ہے۔ 
حاطب ابن ابی بلتعہ کے غلاموں نے قبیلہ مزینہ کے ایک شخص کی اونٹنی چرا لی۔ ان غلاموں کو جب حضرت عمر کے پاس لایا گیا تو انھوں نے چوری کا اقرار کر لیا جس پر حضرت عمر نے کثیر بن ابی الصلت کو حکم دیا کہ ان غلاموں کے ہاتھ کاٹ دو۔ لیکن کثیر جب حکم کی تعمیل کرنے لگے تو آپ نے غلاموں کو واپس بلا لیا اور فرمایا: ’’یاد رکھو! بخدا، اگر مجھے یہ معلوم نہ ہوتا کہ تم لوگ غلاموں سے خوب کام لیتے ہو اور ان کو بھوکا رکھتے ہو، یہاں تک کہ اگر کوئی مجبور ہو کر حرام چیز کھالے تو وہ بھی حلال ہو جائے تو میں یقیناًان کے ہاتھ کاٹ ڈالتا۔‘‘ اس کے بعد مزنی سے پوچھا کہ اونٹنی کی قیمت کیا ہوگی؟ اس نے جواب دیا کہ چار سو درہم۔ آپ نے غلاموں کے آقا حاطب کو حکم دیا کہ وہ اونٹنی کے مالک کو چار سو درہم ادا کریں۔
امام احمد بن حنبل سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ اگر لوگ بھوک سے دوچار ہوں اور کوئی شخص مجبور ہو کر چوری کر لے تو کیا اس وقت بھی اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا؟ امام احمد نے غالباً حضرت عمرؓ ہی کے فیصلے کے پیش نظر فرمایا کہ جب اس کو حالت مجبور کرے اور لوگ بھوک اور سختی کے دور سے گزر رہے ہوں تو چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔
یہ تمام واقعات سرسری نظر سے گزر جانے کے نہیں ہیں، بلکہ غور وفکر کر کے ان کی روح تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ قرآن وحدیث سے اور بھی بہت سے دلائل دیے جا سکتے ہیں جن سے حالات زمانہ اور لوگوں کے مصالح کی رعایت کا ثبوت ملتا ہے۔ مولانا تقی امینی نے اپنی کتاب میں اس بارے میں بڑی مفصل اور مدلل بحث کی ہے۔ اس سلسلے میں نزول قرآن کے اسلوب سے بھی استدلال کیا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم کا نزول دفعۃً نہیں ہوا بلکہ ۲۳ سال کے عرصے میں حسب ضرورت ومصلحت بتدریج نازل ہوا ہے، یعنی جیسی جیسی ضرورتیں پیش آئیں اور جس طرح کے مصالح کی رعایت ناگزیر ہوئی، ان کی مناسبت سے احکام کا نزول ہوتا رہا۔ اس طریق نزول سے ایک طرف حالات وزمانہ کی رعایت کا ثبوت ملتا ہے تو دوسری طرف انسانی زندگی اور قانون کے باہمی ربط کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ 
حضرت عمر نے حالات وزمانہ کی رعایت، موقع ومحل کی تعیین، تقدیم وتاخیر، تخصیص وتعمیم اور اطلاق وتقیید کی بہت سی مثالیں قائم کیں جن کی مدد سے بعد میں فقہ کی تدوین کے عظیم الشان کام کا انجام پانا ممکن ہوا۔ آپ نے مشکل مسائل کے استنباط، نئے مسائل کے حل اور معارض روایات میں تطبیق پیدا کر کے شریعت کو زندہ وجاوید رکھنے کا راستہ متعین کر دیا۔ شاہ ولی اللہ نے حضرت عمر کے اسی فہم دین پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انھوں نے ملکی اور تمدنی مسائل کی طرف خصوصی توجہ مبذول کی جن کی وجہ سے وہ بجا طور پر ’’مجتہد مستقل‘‘ کے خطاب کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی نے ’’الفاروق‘‘ میں لکھا ہے کہ فقہ کے جس قدر مسائل حضرت عمرؓ سے بروایت صحیحہ منقول ہیں، ان کی تعداد کئی ہزار تک پہنچتی ہے۔ ان میں تقریباً ہزار مسائل ایسے ہیں جو فقہ کے مقدم اور اہم مسائل ہیں اور ان تمام مسائل میں ائمہ اربعہ نے ان کی تقلید کی ہے۔ کتب فقہ میں اولیات عمر کی بحث انہی مسائل سے متعلق ہے۔ مولانا شبلی نے بجا فرمایا ہے کہ فقہ کے تمام سلسلوں کے مرجع حضرت عمر ہیں۔ حضرت عمر کے اجتہادات، فتاویٰ ، تفحص احادیث، روایات کی جانچ پڑتال، اصول فقہ، اصول حدیث اور علم اسرار الدین کے حوالے سے یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ ’’فقہ اسلام‘‘ کی بنیاد اور وجود فقہ عمر سے ہی قائم ودائم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت عمر کے نقوش اجتہاد کی روشنی میں عصر حاضر کے جدید تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے فقہ اسلامی کی تشکیل جدید پر توجہ مرکوز کی جائے اور حالات وواقعات کی رعایت رکھتے ہوئے خلق خدا کے حق میں اسلامی احکام ومسائل کی تعبیر کا وہی طریقہ اختیار کیا جائے جو خود شارع اسلام اور آپ کے بعد حضرت عمر اور حضرت علی نے اختیار کیا۔ 

’’حدود آرڈیننس: کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘ ۔ ’’فکر و نظر‘‘ کے تبصرے کا جائزہ

ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی

فکر ونظر کے شمارہ اکتوبر۔دسمبر ۲۰۰۴ میں راقم کی کتاب ’’حدود آرڈیننس: کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘ پر ادارۂ تحقیقات اسلامی کے نامور محقق جناب ڈاکٹر محمد طاہر منصوری کا انتہائی وقیع تبصرہ شائع ہوا جس میں جہاں انھوں نے راقم کی حقیر کاوش کو دل آویز انداز میں سراہتے ہوئے اس کا تفصیلی تعارف پیش کیا، وہاں بعض مباحث پر اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ علوم اسلامیہ سے وابستہ دیگر افراد کی طرح راقم بھی طویل عرصے تک یہی سمجھتا رہا کہ حدود آرڈیننس کتاب وسنت سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہوگا اور کبھی اس کے مطالعے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ ان قوانین کی مخالفت کے بارے میں خیال یہ تھا کہ ایسی کوئی بھی کوشش مسلم معاشرے کو مغربی اور سیکولر معاشرے میں تبدیل کرنے کے مترادف ہوگی، لیکن بعض احباب کے توجہ دلانے پر جب حدود آرڈیننس کا مطالعہ کیا تو جو کچھ محسوس ہوا، اسے کتاب کی شکل میں پیش کر دیا گیا۔
یہ کتاب درحقیقت حدود آرڈیننس پر بحث ومذاکرے کا آغاز ہے۔ مجھے اپنی کسی رائے کے قطعی طور پر درست ہونے پر اصرار نہیں ہے اور میں ہر لمحہ کتاب وسنت کی ہدایات کے سامنے اپنے دل ودماغ کی پوری آمادگی کے ساتھ سر تسلیم خم کرنا اپنے لیے لازوال سعادت کا باعث سمجھتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اس موضوع پر مزید تبصرے، تحقیقات اور آرا آئیں گی جن کی روشنی میں قانون ساز اداروں کا کام نسبتاً آسان ہو جائے گا اور اجتماعی کوشش کے نتیجے میں ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا تک رسائی حاصل کرنے میں کام یاب ہو جائیں گے۔
ذیل میں ڈاکٹر محمد طاہر منصوری کے ان تحفظات کا جائزہ لیا گیا ہے جن کا راقم کی مذکورہ بالا کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے اظہار کیا۔

’حدود‘ کا مفہوم

حدود کا مفہوم متعین کرتے ہوئے کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ’حدود‘ دراصل آخری درجے کے جرائم پر آخری درجے کی یا زیادہ سے زیادہ سزائیں ہیں۔ اسلام نے ان سزاؤں میں جو تخفیف رکھی ہے، اسے برقرار رکھتے ہوئے عدلیہ کو مجرم کی حالت کے پیش نظر سزا کی کمیت اور کیفیت میں تخفیف کا اختیار ہے۔ (ص ۱۲) اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فاضل تبصرہ نگار لکھتے ہیں کہ :
’’فقہا کی تصریح کے مطابق حد ایک معین سزا ہے جس میں کمی بیشی کا کسی کو اختیار نہیں ہے۔ اس کی مقدار کا تعین شارع نے خود کر دیا ہے۔ اگر مصنف کا موقف اختیار کیا جائے تو جرم زنا میں عدلیہ سو کوڑوں کی بجائے بطور حد دس کوڑوں کی سزا دے سکے گی۔ سوال یہ ہے کہ حد زنا میں دس کوڑے کیا شارع کی منشا اور شریعت کے تقاضے کو پورا کرتے ہیں؟‘‘ (ص ۱۵۰)
اس تبصرے میں مصنف کی طرف ایک ایسی بات منسوب کر دی گئی ہے جو اس نے نہیں کہی۔ درحقیقت مصنف نے کتاب میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ’حد‘ کسی جرم میں آخری یا زیادہ سے زیادہ سزا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر کسی جرم میں زیادہ سے زیادہ مقررہ سزا سے کم سزا دی جائے گی تو وہ بھی حد کہلائے گی۔ اسے حد قرار دینا اور اس کی بنا پر یہ کہنا درست نہیں کہ اگر جرم زنا میں عدلیہ سو کوڑوں کے بجائے دس کوڑوں کی سزا دے تو وہ بھی مصنف کے موقف کے مطابق ’حد‘ ہوگی۔ مصنف کے خیال میں اگر عدلیہ نے قرآن کی مقرر کردہ سزا دی تو یہ حد کا نفاذ ہوگا۔ البتہ اگر اس نے زنا کے جرم میں دس کوڑوں کی سزا دی تو یہ حد کا نفاذ نہیں ہے بلکہ تعزیری سزا ہے۔ رہی یہ بات کہ کیا عدلیہ یا مقننہ کو زنا میں حد سے کم سزا دینے یا مقرر کرنے کا اختیار ہے تو اس ضمن میں مصنف کا موقف یہ ہے کہ کتاب وسنت کے کسی بھی حکم کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن اور سنت میں ایک موضوع مسئلہ سے متعلق جتنی آیات واحادیث ہیں، سب کو یک جا کر کے دیکھا جائے تو ان سے اس مسئلہ کے مختلف جوانب واطراف کے بارے میں احکام وہدایات کی تفصیل سامنے آئے گی۔ (۱) قرآن حکیم میں اسی اصول یعنی تصریف آیات کو روبعمل لانے کی وجہ سے ہمارے دور میں نسخ فی القرآن یعنی قرآن کے کسی حکم کی مکمل منسوخی (Total abrogation) کا نظریہ دم توڑتا دکھائی دیتا ہے۔ اس حوالے سے جب ہم زنا کی سزا کے بارے میں قرآن حکیم کی آیات کا تتبع کرتے ہیں تو ہمیں سورۃ النساء کی آیات ۱۵۔۱۶ میں یہ حکم ملتا ہے:
وَاللَّاتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآءِ کُمْ فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْہِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ فَاِنْ شَہِدُوْا فَاَمْسِکُوْہُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفَّاہُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً O وَالَّلذَانِ یَاْتِیَانِہَا مِنْکُمْ فَآذُوْہُمَا فَاِنْ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْہُمَا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا O  ۔(۲)
’’تمہاری بیویوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں، ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھو، یہاں تک کہ انھیں موت آ جائے یا اللہ ان کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔ اور تم میں سے جو دو فرد بد کاری کا ارتکاب کریں، ان دونوں کو تکلیف پہنچاؤ۔ پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں تو ان سے در گزر کرو کہ اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
مذکورہ بالا آیات میں دو مختلف صورتوں میں دو الگ الگ ہدایات دی گئی ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ کسی شخص کی بیوی نے اس طرح بد کاری کا ارتکاب کیا ہے کہ اس کے جرم کے چار گواہ موجود ہیں تو ایسی عورت کو گھر میں مقید رکھنا چاہیے تا آنکہ وہ مر جائے یا اس کے لیے اللہ کی طرف سے کوئی اور حکم آ جائے۔
مولانا امین احسن اصلاحی نے اس حکم کو ایسی عورت کے ساتھ مختص کیا ہے جو خود مسلمانوں کے معاشرے سے تعلق رکھتی ہے، لیکن اس کا شریک جرم مرد اسلامی معاشرے کے دباؤ میں نہیں ہے۔ (۳) جب کہ مولانا محمود حسن دیوبندی نے اسے بیویوں کے ساتھ مختص کرتے ہوئے گھریلو تادیب پر محمول کیا ہے۔ (۴) مولانا دیوبندی کی رائے قرآن کے الفاظ ’نِّسَآءِ کُمْ‘ سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے کیونکہ قرآن حکیم نے بالعموم نساء کم کے الفاظ مسلمانوں کی بیویوں کے لیے استعمال کرتے ہوئے ان کے شوہروں کو ان کے بارے میں احکام دینے کے ضمن میں استعمال کیے ہیں۔ (۵)
دوسری صورت یہ ہے کہ بدکاری کے دونوں مجرم عدالتی انصاف کے لیے قاضی یاجج کے سامنے ہیں تو قرآن نے ان کو ایذا دہی یعنی تعزیری سزا دینے کا حکم دیا ہے،یعنی حاکم اور قاضی کی صواب دید کے مطابق جس قدر سزا مناسب ہو، اتنی دے دی جائے۔ (۶)
ان دونوں آیات میں سے پہلی آیت کا حکم بظاہر محدود مدت کے لیے دیا گیا، کیونکہ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً کے الفاظ سے یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ حکم اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ان خواتین کے لیے اللہ کی طرف سے کوئی نیا حکم نہیں آ جاتا، جبکہ دوسری آیت کے حکم کے عارضی ہونے کی کوئی شہادت آیت میں موجود نہیں ہے۔ تاہم بیشتر مفسرین نے ان دونوں آیات کو منسوخ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سورۃ النور کی آیت نمبر ۲ کے نزول کے بعد یہ دونوں آیات منسوخ ہو گئیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ فیصلہ کرنا درست ہے کہ مذکورہ بالا دونوں آیات منسوخ ہو گئیں اور اب ان کی عملی افادیت باقی نہیں رہی؟ اس کے جواب کے لیے نسخ فی القرآن کے نظریے پر ایک اجمالی نظر ڈالنا ضروری ہے۔

نسخ فی القرآن

نسخ کے مفہوم میں متقدمین اور متاخرین میں اختلاف ہے۔ قرآن حکیم کے کسی عام حکم کی تخصیص، مطلق کی تقیید یا کسی حکم میں استثنا آجاتا تو متقدمین اس کے لیے نسخ کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔ شاہ ولی اللہ کے بقول صحابہ کرام اور تابعین کے کلام کے استقرا سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات نسخ کا لفظ اس کے لغوی معنی میں استعمال کرتے تھے نہ کہ علماء اصول کی اصطلاح کے مطابق۔ یہی وجہ ہے کہ کسی آیت کے بعض اوصاف کی تبدیلی ان کے نزدیک نسخ کہلاتی تھی، خواہ یہ تبدیلی مدت عملی کی تعیین سے متعلق ہو، یا متبادر معنی سے غیر متبادر معنی کی طرف انتقال، یا عام کی تخصیص، یا کسی قید کے بارے میں یہ بتانا کہ وہ محض اتفاقی تھی، یا منصوص اور مقیس علیہ میں امر فارق کا بیان، یا کسی جاہلی رسم یا سابقہ شریعت کے حکم کا ازالہ، یہ تمام امور ان کے نزدیک نسخ کہلاتے تھے۔ متقدمین کے نزدیک نسخ کا مفہوم بہت عام تھا، اسی لیے قدیم اسلامی ادبیات میں منسوخ آیات کی تعداد سینکڑوں تک بتائی گئی ہے، حتیٰ کہ یہ کہا گیا ہے کہ قرآن حکیم میں پانچ سو کے قریب آیات منسوخ ہیں۔ (۷) نیز یہ کہ سورۃ التوبہ کی آیت سیف (۹:۵) نے قرآن حکیم کی ایک سو تیرہ آیات منسوخ کر دیں۔ (۸)
بعد کے ادوار میں علم اصول فقہ کی تدوین اور ہر موقع اور محل کے لیے الگ الگ اصطلاحات مقرر ہونے کے بعد متاخرین نے نسخ کو اس کے متعین معنی میں استعمال کرنا شروع کیا جسے مختصر الفاظ میں ’’کلیتاً رفع حکم‘‘ سے تعبیر کیا گیا اور اس کی تعریف یوں کی گئی:
’’کسی متاخر شرعی دلیل کی بنا پر کسی شرعی حکم کا بالکل اٹھ جانا اور ختم ہو جانا نسخ کہلاتا ہے۔‘‘ (۹)
قرآن حکیم کے حوالے سے نسخ پر دو پہلوؤں سے بحث کی گئی ہے۔ ایک یہ کہ کیا قرآن حکیم میں نسخ ممکن ہے یا نہیں اور دوسرے یہ کہ اگر قرآن میں نسخ ممکن ہے تو کیا ہمارے پاس موجودہ مصحف میں کوئی آیت منسوخ ہے یا نہیں؟ قرآن حکیم میں امکان نسخ کے بارے میں اہل علم کے دو گروہ ہیں۔ علما کی اکثریت امکان نسخ کی قائل ہے جبکہ ابو مسلم اصفہانی (م ۳۲۲ھ) اور ان کے پیروکار سرے سے قرآن حکیم میں نسخ کے امکان کے ہی قائل نہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن میں نسخ تسلیم کر لیا جائے تو اس سے یہ بات ماننا پڑتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایک حکم نازل کرنے کے بعد کوئی بات سوجھی تو اس نے پہلے حکم کو منسوخ کر کے دوسرا حکم نازل کر دیا، لیکن یہ دلیل چنداں وقیع نہیں ہے کیونکہ احکام الٰہی جس قوم اور جن افراد کے لیے نازل ہوتے ہیں، ا ن کے حالات تغیر پذیر ہوتے ہیں، اس لیے حالات کے بدلنے سے احکام میں تبدیلی آتی ہے اور ان کی تربیت کی جاتی ہے، نیز سابقہ شریعتوں کے نسخ سے بھی وجود نسخ پر استدلال کیا جاتا ہے۔ (۱۰) لیکن اس سے زیادہ سے زیادہ قرآن حکیم میں نسخ کا امکان ثابت ہوتا ہے۔ یہ امر کہ ہمارے پا س موجود مصحف میں کوئی آیت منسوخ ہے، صرف روایت سے ثابت ہو سکتا ہے، درایت سے نہیں، اس لیے ا س کے ثبوت کی تین صورتیں ممکن ہیں:
۱۔ قرآن حکیم میں اس مضمون کی کوئی آیت موجود ہو کہ فلاں حکم جو پہلے تھا، اب منسوخ کر دیا گیا ہے، جیساکہ حدیث میں آتا ہے: ’میں نے تمھیں قبروں پر جانے سے روک دیا تھا، اب تم جا سکتے ہو۔‘ (۱۱) قرآن میں ایسی کوئی آیت موجود نہیں ہے۔ بعض آیات جن میں نسخ کا شبہ ہوتا ہے، ان میں قرآن حکیم نے نسخ کے بجائے تخفیف کا لفظ استعمال کیا ہے۔ (۱۲) گویا ان صورتوں میں قرآن حکیم نے حالات کی رعایت کی ہے، مطلقاً حکم منسوخ نہیں کیا بلکہ کسی قدر نرمی پیدا کر دی ہے۔
۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی واضح حکم موجود ہو کہ فلاں آیت اب منسوخ کر دی جاتی ہے۔ ایسا بھی کوئی حکم موجود نہیں ہے۔
۳۔ بعض آیات کے احکام بظاہر باہم متعارض نظر آتے ہوں اور ان میں توافق ممکن نہ ہو۔ نسخ فی القرآن کی بحث اسی تیسری صورت کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ قرآنی آیات کا تعار ض رفع کرنے کے لیے علامہ جلال الدین سیوطی نے محی الدین ابن عربی کے حوالے سے اکیس آیات کو منسوخ بتایا ہے یعنی پورے قران میں اکیس آیات ایسی ہیں کہ اگر ان پر عمل کیا جائے تو دوسری آیات سے تعارض پیدا ہوتا ہے، اس لیے انھیں منسوخ قرار دیا گیا۔ درحقیقت اس بنا پر کسی آیت کو منسوخ قرار دینے کا اس کے سوا کوئی مطلب نہیں کہ ہم اپنے عجز کا اظہار کرتے ہوئے اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہمیں ان دو آیات میں واقع ہونے والے اختلاف اور تعارض کو ختم کرنے کا کوئی طریقہ سمجھ نہیں آیا، لہٰذا قرآن میں تضاد تسلیم کرنے کے بجائے نسخ کے ذریعے سے آیات کی تاویل کی جائے، لیکن خود قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اس میں تضاد نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ وہ ایسی صداقتوں کی تعلیم دیتا ہے جو ایک دوسری کی تائید کرتی ہیں اور قرآن کی صحیح اور سچی تشریح وتفسیر وہی ہو سکتی ہے جو اختلاف اور تضاد سے خالی ہو: 
اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفًا کَثِیْرًاO ۔(۱۳)
’’کیا لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ بعد کے مفسرین اور محققین نے حالات کے تغیر، علم کی ترقی اور قرآن کے گہرے مطالعے کے نتیجے میں ان میں سے کئی آیات کے مفہوم اور محمل متعین کر دیے۔ شاہ ولی اللہ نے ان میں سے سولہ آیات کے محمل متعین کر کے ایک ایسی شاہراہ کھول دی (۱۴) جس پر چل کر بعد کے علما نے باقی چھ آیات کے محمل بھی متعین کر دیے، چنانچہ ماضی قریب میں مولانا انور شاہ کشمیری، مفتی محمد عبدہ، مولانا عبید اللہ سندھی اور دیگر کئی علما نے قرآن میں موجود کسی بھی آیت کے منسوخ ہونے سے انکار کر دیا۔ انور شاہ کاشمیری کہتے ہیں:
’’محققین کے مسلک کو دیکھتے ہوئے میں نے کلیتاً نسخ کا انکار کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ قرآن حکیم میں سرے سے کوئی آیت منسوخ نہیں ہے، یعنی ایسی کوئی آیت نہیں کہ جس کا حکم کلیتاً منسوخ ہو گیا ہو اور وہ کسی جزئی واقعہ میں بھی معمول بہا نہ ہو۔ میرے نزدیک ایسا نہیں اور کوئی بھی آیت جسے منسوخ بتایا گیا ہے، ایسی نہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے معمول بہا نہ ہو۔‘‘ (۱۵)
آیات میں تعارض کی صورت میں ہمیشہ نسخ ہی کا قول نہیں کیا جاتا بلکہ تعارض رفع کرنے کے اور حل بھی ہیں۔ مثلاً جہاں قرآن کی کسی آیت سے دوسری آیت کا حکم جزوی طور پر متاثر ہوا ہو، اسے تنسیخ (Abrogation) کے بجائے تخصیص (Particularization)، تقیید (Specification) یا استثنا (Exception) کہتے ہیں۔ نسخ فی القرآن کے مسئلے کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قرآن حکیم کی منسوخ آیات کی تعداد میں کمی کا نظریہ آگے بڑھتا رہا تا آنکہ دور حاضر کے بیشتر علما کی رائے یہ ہے کہ قرآن حکیم میں امکان نسخ کے باوجود ایسا کوئی تعارض موجود نہیں جس میں تطبیق (Adjustment)، توفیق (Reconciliation) یا توجیہ (Accommodation) ممکن نہ ہو۔ نتیجتاً قرآن حکیم کی آیات میں اختلاف یا تعارض کا نظریہ ختم ہو گیا۔
اگر نسخ فی القرآن کے مسئلہ کو درایت کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ نظریہ بہت عجیب معلوم ہوتا ہے کہ کوئی حکم موجود ہو اور ا س کے بارے میں آیت اٹھا لی گئی ہو یا آیت موجود ہو اور اس کا کوئی عملی فائدہ نہ ہو اور اس کے حکم پر کسی حالت میں عمل کرنے کی کوئی صورت نہ ہو۔ (۱۶) یہی وجہ ہے کہ دور حاضر کے مفسرین نسخ کو تشریع کے تدریجی اور ارتقائی عمل کے مراحل کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
اس اصولی بحث کے بعد اب ہم مذکورہ بالا دونوں آیات پر نسخ کے حوالے سے گفتگو کریں گے۔
بالعموم مفسرین نے ان دونوں آیات (النساء ۴:۱۵، ۱۶) کو منسوخ قرار دیا ہے اور اس کے لیے انھوں نے دو طرح کی شہادتیں پیش کی ہیں، داخلی اور خارجی۔ ان آیات کے منسوخ ہونے کی داخلی شہادت انھوں نے یہ دی ہے کہ قرآن حکیم نے خود یہ الفاظ کہے ہیں: اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً (یا اللہ ان کے لیے کوئی راہ نکال دے) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر قید کی سزا کا حکم دائمی نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ بعد میں کوئی اور حکم دے دے گا، جو اس حکم کو منسوخ کر دے گا۔ مفسرین کی یہ رائے درست ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے راہ نکالنے کا وعدہ کیا ہے، اس لیے یہ حکم دائمی نہیں ہے، لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ان دو آیات میں دو الگ الگ صورتوں کے الگ الگ حکم بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن حکیم نے راہ نکالنے کا وعدہ پہلی صورت یعنی بد کار بیوی کو عمر قید کی سزا کے سلسلے میں دیا ہے نہ کہ دوسری صورت میں۔ دوسری آیت میں بدکاری کا ارتکاب کرنے والے مرد اور عورت کو ایذا پہنچانے کا حکم ہے، جسے تبدیل کرنے کا وعدہ نہیں ہے۔ اگر تبدیلی کے وعدے میں یہ حکم بھی شامل ہوتا تو راہ نکالنے کے وعدے کے الفاظ دوسری آیت کے آخر میں ہوتے نہ کہ پہلی آیت کے آخر میں۔ قرآنی الفاظ کی ترتیب صاف بتا رہی ہے کہ پہلی صورت میں سزا کی تبدیلی کا حکم آنے کا امکان ہے جبکہ دوسری صورت میں حکم قطعی، دائمی اور ابدی ہے، لہٰذا دونوں آیات کے بارے میں یہ کہنا غلط ہے کہ ان میں دیا گیا حکم دائمی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہ نے جن آیات کے نسخ کی روایت نقل کر کے ان کے محمل بتائے ہیں، ان میں صرف پہلی آیت کے سورۃ النور سے منسوخ ہونے کا قول نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی بلکہ یہ حکم اپنی نہایت کو پہنچ گیا تو اس میں کیا گیا وعدہ پورا کر دیا گیا۔ (۱۷) شاہ صاحب کے نزدیک بھی دوسری آیت جو زنا کی تعزیری سزا کے بارے میں ہے، منسوخ نہیں ہے۔
جہاں تک ان آیات کے منسوخ ہونے کی خارجی شہادت ہے تو اس کا تعلق بھی اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً سے ہے اور مفسرین اس امر پرمتفق ہیں کہ اللہ نے جو راہ نکالنے کا وعدہ کیا تھا، وہ پورا کر دیا، البتہ اس کی تفصیل میں اختلاف ہے۔ جن اہل علم کے نزدیک قرآن کا کوئی حکم حدیث سے منسوخ ہو سکتا ہے، انھوں نے کہا ہے کہ مذکورہ بالا قرآنی حکم حضرت عبادہ بن صامت کی روایت سے منسوخ ہو گیا ہے جو یہ ہے:
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا نزل علیہ الوحی اثر علیہ کرب لذلک وتربد وجہہ علیہ الصلاۃ والسلام فانزل اللہ تبارک وتعالیٰ ذات یوم فلما سری عنہ قال خذوا عنی قد جعل اللہ لہن سبیلا الثیب بالثیب والبکر بالبکر جلد ماءۃ والرجم بالحجارۃ والبکر جلد ماءۃ ثم نفی سنۃ (۱۸)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تو اس کی وجہ سے آپ کو کرب ہوتا اور آپ کے چہرۂ انور کا رنگ متغیر ہو جاتا۔ ایک دن اللہ نے آپ پر وحی نازل کی۔ جب آپ کو اس سے افاقہ ہوا تو آپ نے فرمایا: مجھ سے لے لو۔ اللہ نے عورتوں کے لیے راہ نکال دی ہے۔ شادی شدہ، شادی شدہ سے بد کاری کرے اور کنوارے آپس میں بد کاری کریں تو سو کوڑے اور پتھروں سے رجم اور کنواروں کو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا دی جائے۔‘‘
اس حدیث کے بارے میں متعدد اشکال تھے جن کی بنا پر بیشتر علما نے اس حدیث کو ناسخ قرار نہیں دیا:
۱۔ یہ خبر واحد ہے اور خبر واحد سے قرآنی حکم منسوخ نہیں ہو سکتا، بلکہ امام شافعی کے نزدیک قرآن کے علاوہ اور کوئی چیز قرآن کو منسوخ نہیں کر سکتی۔ (۱۹)
۲۔ اس حدیث کے پہلے حصے سے جس میں وحی کی کیفیت بتائی گئی ہے، یہ ایہام ہوتا ہے کہ شاید بعد کے الفاظ قرآنی وحی ہیں، جبکہ یہ قرآن وحی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اصحاب سنن نے اس روایت کے ابتدائی جملے حذف کر دیے اور انھوں نے ’خذوا عنی‘ سے روایت نقل کی۔ (۲۰)
۳۔ اس روایت میں کنوارے جوڑے کے لیے بد کاری پر سو کوڑوں اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا بتائی گئی ہے جبکہ حنفیہ کے نزدیک جلا وطنی کی سزا حد میں شامل نہیں اور مالکیہ کے نزدیک عورت اس سے مستثنیٰ ہے۔ (۲۱) شادی شدہ جوڑے کے لیے اس روایت میں سو کوڑوں اور رجم کی سزا بتائی گئی ہے جبکہ جمہور فقہا اس پر متفق ہیں کہ جسے رجم کی سزا دی جائے، اسے کوڑوں کی سزا نہیں دی جائے گی۔ (۲۲) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی یہ راویت کسی فقہی مکتب فکر کا مستدل نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ بالعموم مفسرین نے یہ رائے اختیار کی کہ مذکورہ بالا حکم (عمر قید) سورۃ النور کی آیت نمبر ۲ : ’الزانیۃ والزانی‘ سے منسوخ ہے۔ (۲۳) اس رائے پر یہ اعتراض تو نہیں کیا جا سکتا کہ قرآنی حکم کسی غیر قرآنی حکم سے منسوخ ہو گیا، البتہ اس میں یہ امر قابل غور ہے کہ سورۃ النساء کی مذکورہ بالا آیت نمبر ۱۵ کے آخری الفاظ ہیں اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً (یا اللہ ان کے لیے کوئی راہ نکال دے) اس جملے میں ’لہن‘ کا تقاضا یہ ہے کہ بعد میں آنے والے حکم میں ان خواتین کے لیے تخفیف ہو، کیونکہ ’لہن‘ کا لام یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی خواتین کو جنھیں بد کاری پر عمر قید کی سزا دی گئی ہے، بعد میں ریلیف دینا چاہتا ہے جبکہ سو کوڑوں کی سزا یا رجم کی سزا ریلیف نہیں ہے بلکہ عمر قید کی بہ نسبت شدید تر سزا ہے، اس لیے اگر ’الزانیۃ والزانی‘ کے تحت کوڑوں کی سزا یا سنت ثابتہ کے تحت رجم کی سزا کو ناسخ قرار دیا جائے تو ’لہن‘  کے تقاضے پورے نہیں ہوتے جبکہ قرآن کے مفہوم کے تعین میں سب سے پہلی اور اہم چیز جس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، وہ عربی زبان کی دلالت لفظی ہے۔ (۲۴)
اگر ’لہن‘ کے پیش نظر اس امر سے اتفاق کیا جائے کہ اللہ کی منشا یہ ہے کہ بعد میں کوئی تخفیف کر دی جائے تو اس کے لیے ہمیں قرآن حکیم کی تفسیر کے اصول ’’تصریف آیات‘‘ کے حوالے سے دیکھنا ہوگا کہ بیوی کی بدکاری کی صورت میں قرآن نے کہاں کہاں کیا کیا احکام دیے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں دو جگہ ایسے احکام ملتے ہیں جو واقعتاً ریلیف ہیں۔ ان احکام کا تعلق ا س ا مر سے بھی ہے کہ اگر کوئی شخص بیوی کی بد کاری کا قضیہ عدالت میں لے جانے کے بجائے اسے خانگی سطح پر نبٹانا چاہتا ہے تو اس کے لیے فوری اقدام یہ بتایا گیا ہے کہ وہ بیوی کو گھر میں پابند کر دے تاکہ وہ اس ماحول سے الگ ہو جائے جو گناہ میں مبتلا ہونے کا باعث ہے۔ اس کے بعد اگر وہ اسے مستقل طور پر علیحدہ کرنا چاہتا ہے تو پہلا حکم سورۃ النساء کی آیت ۱۹ کی روشنی میں یہ ہے کہ اسے خلع کے ذریعے سے الگ کر دے، جو عمر قید کی سزا کاٹنے والی خاتون کے لیے بجا طور پر ریلیف ہے، جو یہ ہے:
یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ کَرْہًا وَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضِ مَآ آتَیْتُمُوْہُنَّ اِلاَّ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ (۲۵)
’’اے ایمان والو! تمہارے لیے حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو اور نہ یہ حلال ہے کہ جو کچھ تم نے انھیں دیا ہے، اس کا کچھ حصہ واپس لینے کے لیے انھیں تنگ کرو، مگر اس صورت میں کہ وہ کھلی بد کاری کی مرتکب ہوئی ہوں۔‘‘
ابن مسعود اور ابن عباس نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ اگر بیوی زنا کا ارتکاب کرے تو اسے پریشان کر کے مہر کی واپسی پر آمادہ کرنا جائز ہے۔ (۲۶) یعنی اس آیت کی روشنی میں بیوی کو ناجائز تنگ کرنا تاکہ وہ جان چھڑانے کے لیے شوہر سے لیا ہوا مہر واپس کر کے خلع کر لے، جائز نہیں، البتہ اگر بیوی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوتی ہے تو اس سے مہر واپس لے کر خلع کرنا جائز ہے جو اس کے لیے عمر قید سے نجات کا ذریعہ ہے۔ اگلی آیت میں ا س حکم کی مزید تاکید کرتے ہوئے کہا: ’اَتَاْخُذُوْنَہُ بُہْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا‘ (۲۷) (کیا تم بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے دیا ہوا مال واپس لو گے؟)
امر واقعہ یہ ہے کہ جو بیوی اپنے گناہ کی پاداش میں جس پر چار گواہ موجود ہیں، گھر میں نظر بند ہے اور عمر قید کاٹ رہی ہے، ساتھ ہی شوہر اور خاندان کی طرف سے ناخوش گوار تعلقات کا سامنا کر رہی ہے، ا س کے لیے خلع یعنی مال کے بدلے طلاق خریدنا بہت بڑا ریلیف ہے اور غالباً سورۃ النساء کی آیت ۱۵ میں اسی ریلیف کا وعدہ تھا۔ اگر ایسی صورت درپیش ہو کہ خلع کے معاملات نہیں طے ہوتے اور مرد ایسی بیوی کو رکھنے کے لیے تیار نہ ہو تو سورۃ الطلاق میں ایک دوسرا حل دیا گیا ہے جو یہ ہے:
یَآ اَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ وَاتَّقُوا اللّٰہَ رَبَّکُمْ لاَ تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْ بُیُوْتِہِنَّ وَلاَ یَخْرُجْنَ اِلاَّ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ (۲۸)
’’اے نبی، جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انھیں ان کی عدت کے لیے طلاق دیا کرو اور عدت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے۔ (عدت کے دوران) نہ تم انھیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خودنکلیں، الا یہ کہ وہ صریح بے حیائی کی مرتکب ہوں۔‘‘
اس آیت میں کہا گیا ہے کہ طلاق کی صورت میں عدت کے دوران مطلقہ بیوی کو گھر سے بے دخل نہ کرو، البتہ اگر اس نے کھلی بے حیائی کا ارتکاب کیا ہو تو اسے طلاق دے کر گھر سے نکال سکتے ہو۔ گویا یہ دوسرا ریلیف ہے جو اس بیوی کو دیا گیا ہے جس کو سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۵ میں عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔ 
مذکورہ بالا احکام اس صورت میں تھے جب شوہر اس معاملے کوخانگی سطح پر طے کرنا چاہتا ہو۔ اور اگر وہ اس معاملے کو عدالت میں لے جانا چاہتا ہو تو جس ریلیف کا وعدہ مذکورہ بالا آیت میں کیا گیا ہے، وہ ریلیف اگلی آیت میں دے دیا گیا جو یہ ہے:
وَالَّلذَانِ یَاْتِیَانِہَا مِنْکُمْ فَآذُوْہُمَا فَاِنْ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْہُمَا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا O ۔(۲۹)
’’جو دو فرد (مرد اور عورت) بد کاری کا ارتکاب کریں، انھیں ایذا پہنچاؤ۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور اپنی اصلاح کر لیں تو ان سے در گزر کرو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔‘‘
یعنی جو جوڑا بدکاری کا ارتکاب کرتا ہے اور ان کے خلاف چار گواہ موجود ہیں تو انھیں تعزیری سزا دو۔ ظاہر ہے تعزیری سزا دینا عدالت کا کام ہے، اس لیے اس آیت کا تعلق عدالتی کارروائی کے تحت تعزیری سزا سے ہے۔
قرآن حکیم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے جہاں جہاں اپنے سابقہ حکم میں کوئی تخفیف یا جزوی تبدیلی کی ہے، بالعموم اس امر کا التزام کیا ہے کہ پہلا اور دوسرا حکم ساتھ ساتھ بیان کیا جائے تاکہ مسلمان کسی قانونی الجھن کا شکار نہ ہوں۔ مثلاً سورۃ الانفال کی آیت نمبر ۶۵ کے حکم میں اس سے اگلی آیت میں تخفیف کر دی گئی۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۵۰، ۵۱ کی اجازت کو اس سے اگلی آیت میں ختم کر دیا گیا۔ سورۃ المزمل کے آغاز میں دیے گئے قیام اللیل کے حکم میں اسی سورت کی آخری آیت میں تخفیف کر دی گئی۔ قرآن کے اس اسلوب کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہیں کہ سورۃ النساء کی آیت ۱۵ میں دیے گئے حکم میں اگلی آیت میں تخفیف کر دی گئی۔
الغرض جرم زنا پر سو کوڑوں سے کم سزا دینا حد نہیں ہے اور نہ ہی کتاب کے مصنف نے اسے حد قرار دیا ہے، البتہ اگر عدالت ا س پر سو کوڑوں سے کم کوئی سزا دے گی تو وہ سورۃ النساء کی آیت ۱۶ کے تحت تعزیری سزا ہوگی اور کوئی بھی سزا ’حد‘ اسی وقت قرار پائے گی جب کہ قرآن کی مقرر کردہ زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے۔

عادی اور اتفاقی مجرم میں فرق

فاضل تبصرہ نگار لکھتے ہیں:
’’مصنف کا یہ بھی خیال ہے کہ حدود عادی مجرموں کے لیے ہیں، اتفاقی مجرموں کے لیے نہیں۔ (ص ۲۳) اس سے یہ مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر ایک شخص نے ایک یا دو دفعہ بد کاری کا ارتکاب کیا تو اس پر حد زنا جاری نہیں ہوگی۔ کیا اس طرح کا طرز عمل زنا، قذف، چوری اور دیگر جرائم حدود کی حوصلہ افزائی کا باعث نہیں بنے گا؟ عادی اور اتفاقی مجرم کے درمیان فرق کیسے کیا جا سکے گا؟ کسی جرم کے کتنی دفعہ ارتکاب سے ایک شخص اتفاقی سے عادی مجرم میں تبدیل ہوگا؟ ہمارے خیال میں مذکورہ موقف بہت سی قانونی پیچیدگیوں کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘ (ص ۱۵۰)
اس سلسلے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مصنف نے صرف زنا اور چوری کی سزاؤں کے حوالے سے عادی اور اتفاقی مجرم میں فرق کیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں جرائم کی حدود بیان کرتے ہوئے قرآن حکیم نے اسم فاعل کے صیغے (’السارق والسارقۃ‘ اور ’الزانیۃ والزانی‘) استعمال کیے ہیں جو اس امر کے متقاضی ہیں کہ ان الفاظ کے بعد بیان کیا گیا حکم عادی مجرموں کے لیے ہے۔ جہاں تک قذف، ڈاکے یا دیگر جرائم کا تعلق ہے، ان کے بارے میں یہ فرق نہیں ہے کیونکہ قرآن حکیم نے ان جرائم کی سزائیں بیان کرتے ہوئے مختلف اسلوب بیان اختیار کیا ہے جس کی تفصیل کتاب میں موجود ہے۔ یاد رہے کہ جن صورتوں میں عادی مجرموں پر حد جاری کرنے کا حکم ہے، ان جرائم میں اتفاقی مجرموں کے لیے کتاب وسنت میں تعزیری سزاؤں کا حکم موجود ہے۔ مثلاً سورۃ النساء کی آیت ۱۶ میں بد کاری پر تعزیری سزا کا حکم ہے، جس کی تفصیل اوپر بیان کی گئی ہے اور چوری کے جرائم میں قطع ید کے بجائے چوری کے مال سے دوگنا جرمانہ عائد کرنے کی مثالیں ہماری کتاب میں موجود ہیں۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ اس سے جرائم کی حوصلہ افزائی ہوگی یا قانونی پیچیدگیاں جنم لیں گی۔ صرف اس قدر فرق ہوگا کہ پہلی بار ارتکاب جرم پر تعزیری سزا ہوگی اور دوسری بار کے ارتکاب جرم پر حد جاری ہو جائے گی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ان جرائم سے تعزیری سزائیں ختم کرنے کی وجہ سے جرائم کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور اس قدر قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں کہ گزشتہ ربع صدی سے حدود آرڈیننس کے نفاذ کے باوجود کسی شخص پر حد جاری نہیں ہوئی جبکہ معاشرہ جرائم کی آماج گاہ بن چکا ہے۔ 
رہی یہ بات کہ اتفاقی اور عادی مجرم میں کیا فرق ہے؟ اگر لغوی اعتبار سے دیکھا جائے تو جو شخص کسی جرم میں دوسری بار ماخوذ ہوتا ہے، اسے عادی مجرم کہنا چاہیے۔ نیز دنیا بھر میں قانونی دانش دو ایسے افراد کو یکساں قرار نہیں دیتی جن میں سے ایک کسی جرم میں پہلی بار ماخوذ ہو اور دوسرا اس جرم میں ایک بار سزا یاب ہو چکا ہو اور دوسری بار ماخوذ ہوا ہو۔ کتاب وسنت نے گناہ کے ارتکاب اور گناہ پر اصرار میں جو فرق کیا ہے، اس کی تفصیل زیر بحث کتاب میں موجود ہے، تاہم ہم نے یہ بحث نہیں کی کب کوئی مجرم اتفاقی سے عادی میں تبدیل ہو جائے گا جس کی وجہ یہ ہے کہ نہ صرف ایسے امور بلکہ حدود آرڈیننس کی تمام متبادل دفعات کا تعلق قانون سازی سے ہے۔ ہمارا موضوع صر ف حدود آرڈیننس کی خامیوں کا تعین کر کے اس موضوع پر بحث ومذاکرہ کا آغاز کرنا تھا۔ متبادل قانون کیا ہو؟ یہ علما، فقہا، مفکرین، ماہرین قانون، اسلامی نظریاتی کونسل اور مقننہ کا کام ہے کہ وہ ہماری ناچیز کاوش اور حدود آرڈیننس کے نفاذ کے پچھلے پچیس سالہ تجربات کو سامنے رکھ کر کوئی فیصلہ کریں۔
مذکورہ بالا بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ:
۱۔ اگر کسی شخص کی بیوی بدکاری کا ارتکاب کرے اور اس پر چار گواہ موجود ہوں تو عورت کو گھر میں پابند کر دیا جائے اور اگر میاں بیوی اکٹھے نہ رہنا چاہتے ہوں لیکن معاملہ خاندانی سطح پر طے کرنا چاہتے ہوں تو خلع یا طلاق کے ذریعے علیحدہ ہو جائیں۔
۲۔ اگر شوہر اس معاملے کو عدالت میں لے جائے اور بدکاری میں ملوث جوڑے نے پہلی بار بدکاری کا ارتکاب کیا ہے تو سورۃ النساء کی آیت ۱۶ کے تحت انھیں تعزیری سزا دی جائے اور پھر انھیں اپنی روش تبدیل کر کے (توبہ کر کے) پاک صاف زندگی بسر کرنے کا موقع دیا جائے۔
۳۔ اگر وہ عادی مجرم ہو جاتے ہیں تو سورۃ النور کی آیت ۲ کے تحت انھیں سو سو کوڑوں کی سزا دی جائے اور اگر ان کا جرم حرابہ کے درجے کو پہنچ جاتا ہے تو سورۃ الاحزاب کی آیات ۶۰، ۶۱ کے تحت سزائے موت (رجم) دی جائے۔
۳۔ اگر شوہر کے پاس اپنی بیوی کی بد کاری ثابت کرنے کے لیے چار گواہ نہیں ہیں تو وہ دونوں سورۃ النور کی آیت ۶۔۹ کے تحت لعان کے ذریعے علیحدہ ہو جائیں۔

اسقاط حد میں توبہ کا کردار

فاضل تبصرہ نگار لکھتے ہیں:
’’مصنف کا حدود آرڈیننس پر ایک اعتراض یہ ہے کہ اس میں توبہ کی گنجایش نہیں رکھی گئی۔ ان کی رائے میں اگر کوئی شخص زنا یا چوری کے بعد عدالت میں توبہ کر لیتا ہے اور اپنے چال چلن کی درستی کا یقین دلاتا ہے تو ایسے شخص سے حد ساقط ہو جانی چاہیے۔ ہمارے خیال میں اس طرح تو حدود کبھی بھی نافذ نہیں ہو سکیں گی اور حدود کے اجرا کا پور انظام معطل ہو کر رہ جائے گا۔ اگر عدالت کو یہ قانونی حق دلایا جائے کہ وہ توبہ قبول کر کے حد کو ساقط کر دے تو عدالتیں اور خود مجرم اس کا کتنا غلط استعمال کریں گے۔ کیا کوئی شخص تصور کر سکتا ہے کہ ایک شخص کو عدالت سو کوڑے لگانے یا سنگ سار کرنے کی سزا سنائے اور وہ توبہ نہ کرے۔‘‘ (ص ۱۵۱)
فاضل تبصرہ نگار نے جس اندیشے کا ذکر کیا ہے، مصنف نے اپنی کتاب میں اس پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ’’جو گرفت میں آنے سے پہلے گناہ سے تائب ہو جائے، اس سے اسی طرح اللہ کے حقوق ساقط ہو جاتے ہیں جس طرح محارب سے ساقط ہو جاتے ہیں اور یہی رائے زیادہ صحیح ہے۔‘‘ (ص ۴۹)
درحقیقت ہمارے ہاں توبہ اور استغفار میں فرق نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے خلط مبحث پیدا ہو جاتا ہے۔ توبہ کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے گناہ پر نادم ہو کر اپنی روش تبدیل کر لے اور گناہ آلود زندگی ترک کر کے ایسی زندگی اختیار کر لے جو اس گناہ سے پاک ہو جس سے اس نے توبہ کی ہے، جبکہ استغفار کا مطلب یہ ہے کہ گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے یہ درخواست کرے کہ اسے اس گناہ کی سزا نہ دی جائے۔ استغفار کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اس شخص نے توبہ بھی کی ہو اور اپنی زندگی کی روش بدل لی ہو۔ ہماری بحث کا تعلق توبہ سے ہے جبکہ فاضل تبصرہ نگار نے جو اعتراض کیا ہے، اس کا تعلق توبہ سے نہیں بلکہ استغفار سے ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے جرم کی سزا پانے کے لیے عدالت کے سامنے پیش ہے تو اب اس کے لیے روش تبدیل کرنے کا کون سا وقت ہے؟ اب جو کچھ وہ کر سکتا ہے، وہ صرف استغفار ہے یعنی یہ درخواست کہ اسے اس جرم پر سزا نہ دی جائے اور کسی عدالت کو حدود کے معاملات میں استغفار کی قبولیت کا اختیار نہیں ہے۔ ہم نے اپنی تالیف میں ان سوالات کا جائزہ لے کر ان کے بارے میں علما کی آرا کا تجزیہ پیش کیا ہے، تاہم توبہ کے بارے میں دو امور پیش نظر رکھنا ضروری ہیں:
۱۔ توبہ کا تعلق حقوق اللہ سے ہے، حقوق العباد سے نہیں، یعنی اگر ارتکاب جرم میں کسی فرد کو جانی، مالی، عزت وآبرو کا یا کسی اور طرح کا نقصان پہنچایا گیا تو توبہ کے باوجود اس کی تلافی کے بغیر جرم معاف نہیں ہوتا۔ جہاں تک حقوق اللہ کا تعلق ہے تو جب تک اللہ تعالیٰ توبہ کا دروازہ بند نہیں کرتا، ہر شخص اپنی روش تبدیل کر کے ازسرنو اللہ سے وفاداری کا عہد وپیمان کر سکتا ہے اور اس کی توبہ قبول ہوگی۔
۲۔ توبہ کو جرائم کی سزاؤں میں موثر قرار دینے کے پس منظر میں ’’تقادم (Time bar)کے اثرات‘‘ کے نظریے کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ فقہا کا اس امر پر اتفاق ہے کہ قرض تقادم سے معاف نہیں ہوتا، لیکن شراب نوشی کی سزا تقادم سے ساقط ہو جاتی ہے۔ حدود میں تقادم سے مراد یہ ہے کہ جرائم حدود میں سے کسی جرم کے ارتکاب پر اتنا وقت گزر جائے کہ اس عرصے میں گواہ اپنی گواہی پیش کر سکتے تھے، لیکن انھوں نے بلا عذر شرعی عدالت کی طرف رجوع نہیں کیا تو حنفیہ کے نزدیک بلا عذر تاخیر کے سبب سے ان کا دعویٰ قابل سماعت رہے گا نہ ان کی شہادت قابل قبول، البتہ اس حکم کا تعلق ان حدود سے ہے جو خالصتاً حقوق اللہ سے متعلق ہیں، یعنی حد زنا، حد خمر اور حد سرقہ۔ حد قذف اس میں شامل نہیں کیونکہ وہ بندے کا حق ہے۔ (۳۰)
تقادم کے باعث دعوے کے ناقابل سماعت ہونے میں جہاں اس امر کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ تاخیر سے دعویٰ دائر کرنے میں بد نیتی اور دشمنی کا عنصر شامل ہو سکتا ہے، وہاں یہ بات بھی پیش نظر ہے کہ وقت گزر نے کے باوجود اگر اس شخص نے دوبارہ وہ جرم نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنی روش تبدیل کر لی اور یہی توبہ ہے۔
توبہ کے علاوہ دیگر مباحث میں بھی فقہا کے اختلافات اور دلائل کا مقدور بھر غیر جانب دارانہ تجزیہ پیش کیا گیا ہے، لیکن صدیوں سے چلے آنے والے فقہی اختلافات کو کسی تجزیے سے ختم کیا جا سکتا ہے نہ ان میں کوئی قول فیصل دینا ممکن ہے۔ ان کی تفصیل اور تجزیے کی افادیت صرف یہ ہوتی ہے کہ جب کوئی با اختیار ادارہ ان مسائل میں قانون سازی کرے تو فقہی اختلافات کے تجزیے کو بھی پیش نظر رکھے۔

حدود آرڈیننس کی اصل خرابی

حدود آرڈیننس کی سب سے بڑی خرابی جس کا ہم نے کتاب میں تفصیل سے ذکر کیا ، لیکن فاضل تبصرہ نگار نے اسے نظر انداز کر دیا، یہ ہے کہ اس میں انسانی قوانین کو الہامی قوانین کے نام پر نافذ کر دیا گیا ہے۔ حدود آرڈیننس چار قوانین پر مشتمل ہے جن میں ایک سو ایک دفعات ہیں۔ ان میں سے صرف اٹھارہ دفعات کا تعلق حدود سے ہے اور باقی ۸۳ دفعات تعریفات، طریق کار اور تعزیری سزاؤں سے متعلق ہیں۔ لیکن ستم یہ ہے کہ ان تمام دفعات کے بارے میں ہر قانون کے آغاز میں کہا گیا ہے کہ یہ آرڈیننس قرآن وسنت میں متعین کردہ اسلامی قانون کے مطابق ہے جبکہ تعزیرات کو کتاب وسنت میں مذکور سزائیں قرار دینا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا ہے۔ قرآن حکیم کی چودہ آیات میں اللہ کی طرف غلط بات منسوب کرنے اور اللہ پر افترا پردازی کو سب سے بڑا ظلم قرار دیا گیا۔ نیز قیامت کے روز اس جرم کی شدید ترین باز پرس کی وعید سنائی گئی۔ قرآن حکیم میں ہے:
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتَابَ بِاَیْدِیْہِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ہٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ (۳۱)
’’ان لوگوں کے لیے تباہی ہے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھ کر پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔‘‘
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَّواْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ (۳۲)
’’جس نے دانستہ میری طرف جھوٹی بات منسوب کی، وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے۔‘‘
ہمارے علم میں حدود آرڈیننس کی تشکیل ونفاذ سے پہلے اسلامی تاریخ کی پوری چودہ صدیوں میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا کہ امت کے کسی فرد یا طبقے نے اپنی آرا، افکار یا اپنی قانون سازی کو الہامی قوانین قرار دینے کی جسارت کی ہو۔ اسلامی تاریخ کا یہ پہلا اور منفرد واقعہ ہے جہاں اس قدر شدید بے احتیاطی کا ارتکاب کیا گیا۔ مثال کے طور پر حدود آرڈیننس (حد زنا) کی دفعہ ۱۵ اور ۱۶ کے تحت جائز نکاح کا یقین دلا کر کسی عورت سے دھوکے سے مباشرت کرنے کی سزا پچیس سال قید با مشقت اور تیس تک کوڑوں کی سزا ہے اور مجرمانہ نیت سے کسی عورت کو ورغلانے پر سات سال تک قید اور تیس کوڑوں کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اگرچہ مذکورہ جرائم سنگین نوعیت کے جرائم ہیں اور ان پر دی جانے والی سزا کسی طور نا مناسب نہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی سزا قرآن میں ہے نہ سنت میں جبکہ ان کو قرآن وسنت کی متعین کردہ سزاؤں کے طور پر نافذ کیا گیا ہے۔ یہ سزائیں حکومت کے اس اختیار کے نتیجے میں مقرر کی گئی ہیں جو اسے تعزیری قوانین کی تشکیل اور نفاذ کے سلسلے میں حاصل ہے۔ ان سزاؤں کو کتاب وسنت کی سزائیں قرار دینا افتراء علی اللہ ہے اور ارشاد ربانی ہے:
لاَ تَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا فَیُسْحِتَکُمْ بِعَذَابٍ وَّقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰی O (۳۳)
’’اللہ پر جھوٹ نہ باندھو ، ورنہ وہ سخت عذاب سے تمہارا ستیا ناس کر دے گا۔ جھوٹ جس نے بھی گھڑا، نامراد ہوا۔‘‘
بہرحال اللہ کی آخری عدالت میں جواب دہی کے احساس کا تقاضا یہ ہے کہ اسلامی قوانین کی تشکیل اور نفاذ میں انتہائی احتیاط، تدبر اور دانش کا مظاہرہ کیا جائے۔ مبادا ہمارا کوئی غیر محتاط اقدام اسلام اور اسلامی قوانین کی بدنامی کا باعث بن جائے۔

شراب نوشی کی سزا

شراب نوشی کی سزا کے بارے میں ہم نے لکھا ہے کہ یہ قرآن حکیم میں مذکور نہیں اور سنت نے قطعی سزا مقرر نہیں کی۔ اس سزا کو باقی رکھنا تو سنت ہے لیکن اس کی مقدار کا تعلق تعزیر سے ہے، حد سے نہیں۔ (ص ۲۵۰۔۲۵۶) اس بات کو بعض جرائد نے اس عنوان سے شائع کیا ہے کہ شراب نوشی پر کوئی سزا نہیں ہے، جس سے بہت بڑی غلط فہمی پیدا ہوئی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب نوشی پر سزا دینے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
من شرب الخمر فاجلدوہ (۳۴)
’’جو شراب پیے، اسے کوڑے لگاؤ۔‘‘
لیکن آپ نے کوڑوں کی تعداد مقرر نہیں کی، اس لیے اسے حد قرار دینا درست نہیں۔ اس رائے پر یہ اعتراض کیا جا سکتاہے کہ اسلامی ادبیات کی کتب حدیث اور فقہ میں شراب نوشی کی سزا کے لیے ’حد‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سزا حد ہے، اسے تعزیری سزا دینا تفرد ہے، لیکن اگر ہم اسلامی قوانین کی ساخت، عدالتوں کے طریق کار اور قاضیوں کے اختیارات کو مدنظر رکھیں تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ شراب نوشی کی سزا کو کتب حدیث اور فقہ میں ’حد‘ کیوں قرار دیا گیا، جبکہ انھیں کتب میں یہ تفصیل مذکور ہے کہ جب شراب نوشی کی کثرت ہو گئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کے مشورے سے ۸۰ کوڑے سزا مقرر کی۔ حد، حقوق اللہ کی پامالی پر دی جانے والی مقرر سزا کو کہتے ہیں۔ اسلامی قانون تعزیرات کی چونکہ دفعہ بندی (Codification) نہیں ہوئی تھی، اس لیے قضاۃ اپنی صواب دید کے مطابق تعزیری سزائیں دیتے تھے، لہٰذا کسی جرم کی تعزیری سزا کی مقدار مقرر نہیں تھی، البتہ شراب نوشی کی تعزیری سزا عہد صحابہ میں مقرر کر دی گئی تھی، اس لیے اسے حقوق اللہ کی پامالی پر مقرر سزا ہونے کے حوالے سے حد کا نام دیا گیا۔ پس حد سے مراد اگر ایسی مقررہ سزا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کی ہو تو شراب نوشی پر سزا حد قرار نہیں پائے گی، لیکن اگر حکومت کی مقرر کردہ سزائیں بھی ’حدود‘ قرار دی جائیں تو نہ صرف شراب نوشی کی سزا بلکہ قانون تعزیرات کی دفعہ بندی کے بعد ہر جرم کی مقررہ سزا کو حد کہنا چاہیے، جبکہ حدود آرڈیننس میں حد کی تعریف یہ کی گئی ہے:
’’حد سے مراد وہ سزا ہے جس کا قرآن کریم یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حکم دیا گیا ہو۔‘‘

حوالہ جات

۱۔ احسان اللہ فہد اصلاحی، ’علامہ ابن تیمیہ کے نزدیک فہم قرآن کے اصول‘، ماہنامہ ترجمان القرآن، لاہور، ستمبر ۱۹۹۴، ۲۲
۲۔القرآن، النساء ۴:۱۵۔۱۶
۳۔ امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن، تاج کمپنی دہلی، ۱۹۹۹، ۲:۲۶۵
۴۔ ملاحظہ ہو تفسیر عثمانی، فوائد بذیل آیت ۱۵، سورۃ النساء۔ یاد رہے کہ تفسیر عثمانی کا ترجمہ اور سورۃ البقرۃ اور النساء کے فوائد مولانا محمود حسن دیوبندی کی تحریر ہیں۔
۵۔ مثلاً احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الی نسائکم (۲:۱۸۷) ، نساء کم حرث لکم (۲:۲۲۳)، امہات نساء کم (۴:۲۳)، ربائبکم اللاتی فی حجورکم من نساء کم (۴:۲۳)، للذین یولون من نساء ہم (۲:۲۲۵)، والذین یظاہرون منکم من نساء ہم (۵۸:۲) وغیرہ متعدد آیات میں نسائکم اور نساء ہم سے بیویاں مراد لی گئی ہیں نہ کہ عام عورتیں۔
۶۔ تفسیر عثمانی، حوالہ بالا
۷۔ شاہ ولی اللہ، الفوز الکبیر فی اصول التفسیر، ادارۂ اسلامیا ت لاہور، ۱۹۸۲، ۳۲
۸۔ وہبہ الزحیلی، اصول الفقہ الاسلامی، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ ۲:۹۳۶ بحوالہ الناسخ والمنسوخ لابن خزیمہ وکتاب الناسخ والمنسوخ فی القرآن الکریم لابی جعفر النحاس، ۲۶۴
۹۔ عبد الکریم زیدان، الوجیز فی اصول الفقہ، نشر احسان للنشر والتوزیع، طہران، ۱۳۸۰، ۳۸۸
۱۰۔ تفصیل کے لیے دیکھیے، تدبر قرآن، ۱:۳۰۸۔۳۱۷
۱۱۔ مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم، دار السلام ریاض، ۱۹۹۸، حدیث نمبر ۲۲۶۰
۱۲۔ مثلاً سورۃ الانفال کی آیات ۶۵۔۶۶، المزمل ۷۳ کی آیات ۲۔۴، ۲۰، المجادلہ ۵۸ کی آیات ۱۲۔۱۳
۱۳۔ القرآن، النساء ۴:۸۲
۱۵۔ انور شاہ کاشمیری، فیض الباری علیٰ صحیح البخاری، دار المعرفۃ بیروت، ۳:۱۴۷
۱۶۔ محمد خضری بک، اصول الفقہ، مطبعۃ الاستقامۃ ، القاہرۃ، ۲۵۷
۱۷۔ شاہ ولی اللہ، الفوز الکبیر، ۳۵
۱۸۔ احمد بن حنبل، مسند، ۵:۳۱۸، ۳۲۱، ۳۲۷، حدیث نمبر ۲۲۲۰۸، ۲۲۲۲۸، ۲۲۲۷۴
۱۹۔ الشافعی، محمد بن ادریس، الرسالہ، مطبع الحلبی، ۱۱۰
۲۰۔ دیکھیے مسلم، حدیث نمبر ۱۴۴۴، ترمذی ۱۴۳۴، ابو داود ۴۴۱۵، ابن ماجہ ۲۵۵۰
۲۱۔ عبد القادر عودہ، التشریع الجنائی الاسلامی، موسسۃ الرسالۃ، بیروت، ۱۹۹۴، ۱: ۶۳۹
۲۲۔ شوکانی، محمد بن علی، نیل الاوطار، دار ابن حزم، بیروت، حدیث نمبر ۳۱۳۰، ص ۱۴۶۳
۲۳۔ ابن کثیر، اسماعیل بن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، دار القرآن الکریم بیروت، ۱:۳۶۶
۲۴۔ قرآن فہمی کے لیے عربی زبان کی دلالات کی اہمیت کے لیے دیکھیے: الشاطبی، ابو اسحاق ابراہیم، الموافقات فی اصول الاحکام، دار الفکر، ۲:۴۲۔۴۶
۲۵۔ القرآن، النساء ۴:۱۹
۲۶۔ تفسیر ابن کثیر، ۱:۳۶۸
۲۷۔ القرآن، النساء، ۴:۲۰
۲۸۔ ایضاً، الطلاق ۶۵:۱
۲۹۔ ایضاً، النساء ۴:۱۶
۳۰۔ الکاسانی، علاء الدین ابوبکر بن مسعود، بدائع الصنائع، دار الکتب العربیہ بیروت، ۷:۵۱۔ ابن عابدین، رد المحتار، بولاق، ۲:۱۵۸۔ ابن الہمام، شرح فتح القدیر، بولاق، ۴:۱۶۲۔
۳۱۔ القرآن، البقرہ ۲:۷۹
۳۲۔ یہ حدیث متواتر ہے اور بالعموم ہر مجموعہ حدیث میں موجود ہے۔
۳۳۔ القرآن، طہ ۲۰: ۶۱
۳۴۔ شوکانی، نیل الاوطار، حدیث نمبر ۳۲۱۱، ص ۱۵۰۰

قانون اسلامی کا ارتقا اور امام ولی اللہ دہلویؒ

مولانا محمد عیسٰی منصوری

حضرت مولانا سید سلمان الحسینی، استاذ حدیث ندوۃ العلماء لکھنو کی یہ کتاب درحقیقت امام ولی اللہ دہلوی کی معرکہ آرا کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے ایک اہم باب ’’اسباب اختلاف ائمہ‘‘ کے متعلق ایک نہایت بصیرت افروز اور محققانہ تبصرہ ومحاکمہ ہے۔ یہ اس دور کا اہم تقاضا بھی ہے کہ فروعی اختلافات میں شدت کو ختم کر کے دین کو ایک متفقہ لائحہ عمل کے طور پر سامنے لایا جائے۔
اسلام خالق کائنات کی طرف سے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے آیا ہے۔ کائنات اور زمانہ ترقی پذیر ہے، ا س کے تقاضے اور ضروریات ہر آن بدلتے رہتے ہیں۔ نئے نئے تقاضے اور پہلو سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس لیے قرآن وسنت میں اتنی گہرائی، وسعت اور ہمہ گیری قدرت نے پنہاں کر دی کہ قیامت تک ہر ہر زمانہ ومکان کی انسانی ضروریات کے لیے کافی ہوں، مگر قرآن وسنت کی گہرائی میں غواصی کر کے وقت کے تقاضوں میں رہبری حاصل کرنا ہر فرد بشر کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر صدی میں ایسے اشخاص رونما ہوتے رہے ہیں جو دین کو ہر طرح کی آمیزش، تحریف اور غلط تاویل سے نکھار کر اسے اپنی اصل شکل وصورت میں لے آتے ہیں جیسے کسی بیش قیمت ہیرے پر سے گرد وغبار کو صاف کر دیا جائے تو وہ اصل حالت میں چمکنے دمکنے لگتا ہے اور مرور زمانہ کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
بعض شخصیات ایسی جامعیت وعبقریت لیے ہوتی ہیں کہ ان کی فکر اور دماغی قوت وبصیرت اپنے دور سے بہت بعد تک کا احاطہ کر لیتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ وقت آ جاتا ہے تو ان کے علوم وافکار اور نتائج اجتہاد نکھر کر سامنے آتے ہیں۔ مثلاً شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کے علوم وافکار سے اگرچہ محدود طور پر ہر زمانے میں اہل علم واقف تھے، مگر ان کی وفات کے تقریباً ۶۰۰ سال بعد سعودی عرب میں آل سعود کی حکومت قائم ہوئی جس نے حنبلی فقہ ومسلک کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ امام ابن تیمیہ کے تمام اجتہادات وتفردات کا وکیل اور ترجمان بن کر اپنے وسیع وسائل سے امام موصوف کی تمام کتب آب وتاب سے شائع کر کے دنیا بھر میں پھیلا دیں۔ اسی طرح امام ولی اللہ دہلویؒ (۲۱ فروری ۱۷۰۳-۲۰ اگست ۱۷۶۲ھ) کے افکار ونظریات، ایک طویل زمانے تک زاویہ خمول میں رہے ہیں۔ ان سے خاص خاص اہل علم ہی واقف تھے۔ آپ کی پہلی کتاب آپ کی وفات سے تقریباً ۱۲۰ سال بعد ۱۸۸۰ء میں محدودتعداد میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد ۱۹۱۱ء میں مصر کے مشہور مطبع بولاق نے حجۃ اللہ البالغہ شائع کی جس سے امام ولی اللہ دہلوی کا چرچا برصغیر سے نکل کر عرب دنیا میں شروع ہوا۔ بیسویں صدی کے آخر تک آپ کی بیشتر کتب برصغیر کے مختلف اداروں سے شائع ہو کر گھر گھر پہنچ چکی تھیں۔ جگہ جگہ آپ کے نام پر ادارے، اکیڈیمیاں اور ریسرچ سنٹر قائم ہوئے۔ آپ کے نام پر ایوارڈ کا سلسلہ شروع ہوا۔ برصغیر اور دنیا بھر کی یونیورسٹیوں نے آپ کے نام پر چیئرز اور تحقیقی شعبے قائم کیے۔ آپ کی فکر اور علوم پر وسیع کام شروع ہوا، حتیٰ کہ امریکہ کی ایک نومسلم اسکالر ڈاکٹر مارسیا کے ہرمنسن (Marcia K. Hermansen) نے بھی آپ پر پی ایچ ڈی کی۔
شاید اللہ تعالیٰ نے اکیسویں صدی کے لیے آپ کے علوم وافکار کو محفوظ رکھا ہوا ہے۔ علم الٰہی میں وہ وقت آ گیا ہے جب آپ کے علوم وافکار کی عام ترویج ہو اور اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں آپ کی تصانیف اور فکر میں اس قدر کام ہو چکا ہے کہ اب ہر مکتب فکر اور گروہ اپنی نسبت آپ کی طرف کرنا اپنے لیے باعث عز وشرف سمجھ رہا ہے، حتیٰ کہ وہ گروہ جن کے تصور اسلام میں تصوف واحسان کے لیے کوئی گنجایش نہیں اور جن کے نزدیک نفس تصوف واحسان زیغ وضلال ہے اور جن کی شدت وانتہا پسندی کا یہ عالم ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان انھیں مشرک اور بدعتی نظر آتے ہیں، وہ بھی اپنی نسبت اس امام ولی اللہ دہلوی کی طرف کر رہے ہیں جو زندگی بھر تصوف واحسان پر عامل رہا اور اس موضوع پر اس کی آدھ درجن سے زیادہ مستقل تصانیف ہیں، جیسے لمعات، وحدۃ الوجود والشہود، القول الجمیل، التفہیمات الالٰہیہ، الطاف القدس، الخیر الکثیر، انفاس العارفین وغیرہ۔ جس کا اصل سلسلہ، نقشبندیہ مجددیہ تھا، مگر اس نے اپنی جامعیت سے چاروں سلسلوں کو جمع کیا۔ اس وقت برصغیر میں چاروں سلسلوں میں بیعت کا جو رواج ہے، وہ آپ ہی کا فیض ہے۔ برصغیر کے تصوف کے بیشتر سلسلے آپ کے جلیل القدر صاحبزادے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ تک منتہی ہوتے ہیں۔
امام ولی اللہ دہلوی کی سب سے نمایاں خصوصیت جامعیت وتطبیق ہے۔ شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں: 
’’شاہ ولی اللہ کی ایک نمایاں خصوصیت ان کی جامعیت ہے، یعنی وہ اختلافی مسائل میں ایسا راستہ ڈھونڈتے ہیں اور اپنی علمی وسعت اور ذہانت کی مدد سے اکثر ایسا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس پر فریقین متفق ہو سکیں۔‘‘ (موج کوثر، ص ۵۳۶)
معلوم ہوتا ہے یہ آپ کی خاندانی خصوصیت ہے۔ چنانچہ مولانا عبید اللہ سندھی، شاہ ولی اللہ کے والد اور چچا کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:
’’ہر دو بھائیوں کے خاص نظریات کا ماحصل ایک ایسی شاہراہ بنانے کی سعی ہے جس پر مسلمان فلاسفرین (صوفیہ ومتکلمین) اور فقہا ساتھ ساتھ چل سکیں۔‘‘ (ایضاً، ص ۵۳۶)
خود شاہ ولی اللہ کے الفاظ میں آپ کا فقہی مسلک فقہی مذاہب میں تطبیق کی صورت نکالنا ہے: ’’بقدر امکان جمع می کنم در مذاہب مشہورہ‘‘ ۔ آپ کے والد اور چچا حنفی تھے، لیکن محبوب استاد شیخ ابو طاہر مدنی شافعی تھے۔ اگر آپ کا بس چلتا تو چاروں فقہی مذاہب یا کم از کم دو مشہور فقہی مذاہب (حنفی وشافعی) کو ملا کر ایک کر دیتے، کیونکہ یہی دو مذاہب امت میں زیادہ مشہور وشائع ہیں۔ چنانچہ آپ ’’تفہیمات‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’اس وقت جو امر حق ملا اعلیٰ کے علوم سے مطابقت رکھتا ہے، وہ یہ ہے کہ دونوں کو ایک مذہب کی طرح کر دیا جائے۔ دونوں کے مسائل کو حدیث نبوی کے مجموعوں سے مقابلہ کر کے دیکھا جائے۔ جو کچھ ان کے موافق ہو، اس کو رکھا جائے اور جس کی کچھ اصل نہ ہو، اس کو ساقط کر دیا جائے۔ پھر جو چیزیں تنقید کے بعد ثابت نکلیں، اگر وہ دونوں میں متفق علیہ ہوں تو مسئلہ میں دونوں قول تسلیم کیے جائیں۔‘‘ (ایضاً، ص ۵۸۲)
اگر احادیث کی تدریس میں امام ولی اللہ دہلویؒ کا طریقہ جو آپ نے اپنی مشہور کتب موطا امام مالک کی عربی وفارسی شروح ’المسویٰ‘ اور ’المصفیٰ‘ میں اختیار فرمایا تھا، جاری رہتا تو بڑی حد تک فقہی اختلافات کی شدت اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی ہی میں ختم ہو جاتی اور ملت اسلامیہ کے عوام الناس کے لیے دین پر چلنے کی ایک متفقہ شاہراہ سامنے ہوتی۔ مگر بدقسمتی سے حضرت شاہ ولی اللہؒ کے فوراً بعد ہندوستان کا علمی مرکز ثقل دہلی سے لکھنو منتقل ہو گیا جہاں غالی اہل تشیع کی حکومت نے قرآن وحدیث کے درس کو ختم کرنے اور معقولات کی ترویج کی ہر امکانی کوشش کی۔ خود دہلی میں ابو المنصور صفدر جنگ نے مغلیہ سلطنت پر غاصبانہ قبضہ کر کے یہی کچھ کیا۔
حضرت امام ولی اللہ دہلوی کے فلسفہ وفکر کے عظیم شارح مولانا عبید اللہ سندھی تھے، مگر ان کے بعض شاگردوں نے ان کی فکر کو پوری طرح ہضم کیے بغیر ان کی طرف بعض کمزور باتیں منسوب کر کے مولانا کی شخصیت کو سخت نقصان پہنچایا۔ ان کے بعد دار العلوم دیوبند کے مہتمم قاری محمد طیب صاحب کا ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کا درس مشہور تھا۔ زمانہ قریب میں مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی ندویؒ اور مولانا منظور نعمانی فکر ولی اللہی کے علم بردار تھے۔ اس کی جھلک ’ارکان اربعہ‘ اور ’معارف الحدیث‘ میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اب چند سالوں سے ندوۃ العلماء کے استاذ حدیث مولانا سلمان الحسینی کے حجۃ اللہ البالغہ پر درس مشہور ہو رہے ہیں۔ مولانا سلمان صاحب مدظلہ نے گزشتہ چند سالوں سے لندن میں علماء کرام کو خصوصی طور پر حجۃ اللہ کا درس دیا۔ ۲۰۰۳ء میں لندن کے معروف تعلیمی ادارے ابراہیم کمیونٹی کالج میں اور ۲۰۰۴ میں انگلینڈ کے شہر لیسٹر میں یہ درس بہت کام یاب رہا جس میں علماء کرام کی ایک بڑی تعداد نے بھرپور دلچسپی کے ساتھ شرکت کی۔ مولانا نے وقت کے تقاضے اور احوال کی مناسبت سے درس میں حجۃ اللہ البالغہ کے اس حصے پر خصوصی توجہ مبذول کی جو باب دوم کے تتمہ میں ’اسباب اختلاف الائمہ‘ کے عنوان سے ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اس وقت فقہی اختلافات کی شدت کو کم کرنے کی جتنی ضرورت ہے، اتنی شاید کبھی نہیں تھی، کیونکہ موجودہ دور ہوائے نفس اور اعجاب بالرائے کا دور ہے۔ اختلافات میں انسان کے لیے نفسیات واغراض پر دین کا لبادہ ڈالنا آسان ہوتا ہے۔ غور کیا جائے تو فی زماننا دین کے نام سے ہمارے نوے فی صد اختلافات فی الحقیقت تعصبات اور نفسانیت کے اختلافات ہیں۔ اختلافات کی شدت کم کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ زمین کی طنابیں کھینچ دی گئی ہیں، اور پوری دنیا ایک بستی (گلوبل ولیج) بن چکی ہے اور پوری دنیا پر اہل شر وفساد اور معاندین اسلام کا پوری طرح تسلط قائم ہو چکا ہے۔ ان احوال میں فروعی اختلافات اور مسلک وذوق کے اختلافات میں فکر ولی اللہی کے مطابق اعتدال وتوازن اور وسعت ظرفی کے ساتھ تطبیق کی اشد ضرورت ہے۔ 
ایک زمانہ تھا جب سو ڈیڑھ سو میل کے فاصلے پر زبان، تمدن، معاشرت اور رہن سہن کے طور طریقے بدل جاتے تھے، مگر اب تیزی سے پوری دنیا کا کلچر، معاشرت، لباس اور طرز زندگی ایک سا ہوتا جا رہا ہے، بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں کافرانہ (مغربی) ہوتا جا رہا ہے۔ درحقیقت یہ تمہید ہے اس بات کی کہ جلد ہی دنیا کا مذہب بھی ایک یعنی اسلام ہوگا، کیونکہ قبول حق میں ایک رکاوٹ کلچر، تمدن اور طرز زندگی کا اختلاف بھی رہا ہے۔ احادیث پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ قرب قیامت میں پوری دنیا ایک ہی مذہب (اسلام) کی طرف گامزن ہو جائے گی، اس لیے علماء کرام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دور اور اس کے تقاضوں کو سمجھیں اور فروعی اختلافات کی شدت ختم کر کے اسلام کو ایک متفقہ شاہراہ کے طور پر پیش کریں۔ اگرچہ آل سعود کے سیاسی جرائم بے شمار ہیں، مگر ان کے گنتی کی چند حسنات میں ایک یہ بھی ہے کہ انھوں نے حرم میں ایک امام پر امت کو مجتمع کر دیا۔ اگر آج وہاں ماضی کی طرح چار مصلے ہوتے تو کس قدر بد نمائی اور جگ ہنسائی کا موقع ہوتا اور اسلام کے آفاقی نظام وفکرکو پیش کرنا مزید دشوار ہو جاتا۔
امام ولی اللہ دہلوی کے متعلق مولانا شبلی نعمانی ’’تاریخ علم کلام‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ابن تیمیہ اور ابن رشد کے بعد بلکہ خود انھیں کے زمانے میں مسلمانوں میں جو عقلی تنزل پیدا ہوا تھا، اس کے لحاظ سے یہ امید نہ رہی تھی کہ پھر کوئی صاحب دل ودماغ پیدا ہوگا، لیکن قدرت کو اپنی نے رنگیوں کا تماشا دکھانا تھا کہ اخیر زمانے میں جبکہ اسلام کا نفس باز بین تھا، شاہ ولی اللہ جیسا شخص پیدا ہوا جس کی نکتہ سنجیوں کے آگے غزالی، رازی اور ابن رشد کے کارنامے ماند پڑ گئے۔‘‘
نواب صدیق حسن خان بھوپالی لکھتے ہیں:
’’اگر آپ صدر اول اور پہلے زمانے میں ہوتے تو امام الائمہ اور تاج المجتہدین سمجھے جاتے۔‘‘ 
(ایضاً، ص ۵۵)
آپ کی شاہکار تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے متعلق علامہ شبلی لکھتے ہیں:
’’مذہب دو چیزوں کا مرکب ہے، عقائد واحکام۔ شاہ صاحب کے زمانے تک جس قدر تصانیف لکھی جا چکی تھیں، صرف پہلے حصے کے متعلق تھیں۔ دوسرے حصے کو کسی نے مس نہیں کیا تھا۔ شاہ صاحب پہلے شخص ہیں جنھوں نے اس موضوع پر کتاب لکھی۔‘‘ 
نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:
’’حجۃ اللہ جیسی کوئی تصنیف پہلے بارہ سو سال میں کسی نے نہیں لکھی، نہ کسی عربی نے نہ عجمی نے۔‘‘ (ترجمہ از رود کوثر)
حضرت امام ولی اللہ دہلوی کی قدرت کلام اور اعجاز اظہار کا یہ عالم ہے کہ آپ نے بیک وقت عربی وفارسی میں مہتم بالشان مسائل وموضوعات اور سنگین ونازک مسائل پر مجتہدانہ شان سے اظہار خیال فرمایا۔ آپ کی تصانیف کو درجہ کمال تک پہنچانے میں آپ کے اسلوب تحریر، دقت نظر اور سلامت فہم کے ساتھ ساتھ خود انشا وتحریر کے معجزانہ طرز کا بھی خاص حصہ ہے۔ یہ اسی کا اعجاز ہے کہ حجۃ اللہ البالغہ جیسی تصنیف وجود میں آئی جو بقول مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے اس مرتبہ کی حامل ہے کہ کسی مذہب کی تائید اور اس کی حکیمانہ توجیہ اور کسی نظام کی فلسفیانہ تشریح میں کسی زمانے میں ایسی کتاب نہیں لکھی گئی اور اگر لکھی گئی تو وہ دنیا کے سامنے نہیں ہے۔
بدیہی حقیقت ہے کہ اسلام کی بنیاد قرآن وحدیث پر ہے۔ برصغیر میں قرآن کا فارسی ترجمہ فتح الرحمن کے نام سے حضرت شاہ ولی اللہ نے کیا۔ اس کے بعد آپ کے جلیل القدر فرزندان حضرت شاہ عبد القادر اور شاہ رفیع الدین نے اردو تراجم کیے۔ یہی تراجم اب تک برصغیر کے تمام تراجم کی اصل واساس ہیں۔ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ فارسی میں شیخ سعدیؒ اور قاضی شہاب الدین دولت آبادی نے ترجمہ کیا تھا، مگر وہ کبھی بھی متداول نہیں ہو سکے۔ اسی طرح شاہ ولی اللہ سے پہلے برصغیر کا نصاب تعلیم مشارق الانوار (شرح مشکوۃ) جیسی ایک آدھ کتاب کے علاوہ کتب احادیث سے بالکل خالی تھا۔ یہ امام ولی اللہ دہلوی کی برکت ہے کہ صحاح ستہ نصاب تعلیم کا حصہ بنیں۔ اگرچہ آپ سے پہلے شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے کتب احادیث کی ترویج کی کوشش کی، مگر بوجوہ کامیاب نہ ہو سکے۔ اسی طرح مغلیہ دور سے پہلے گجرات میں شیخ علی متقی اور علامہ طاہر پٹنی وغیرہ نے کتب حدیث کے درس وتدریس کا سلسلہ جاری فرمایا تھا مگر گجرات پر مغلوں کے قبضہ کے بعد وہ ختم ہو گیا۔ حضرت امام ولی اللہ دہلوی نے احادیث پر مجتہدانہ بصیرت سے کلام فرمایا اور تدریس میں صحاح ستہ بلکہ بخاری شریف پر بھی موطا امام مالک کو ترجیح دی۔ آپ نے ’المصفیٰ‘ کے نام سے فارسی میں اور ’المسویٰ‘ کے نام سے عربی میں موطا کی شرحیں لکھیں۔ غرض گزشتہ صدیوں میں برصغیر میں قرآن اور احادیث پر جو بھی کام ہوا ہے یا ہو رہا ہے، ان سب کا سہرا امام ولی اللہ کے سر ہے۔ یہ سب آپ کا صدقہ وطفیل ہے۔ نیز آپ کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے آنے والے دور کے لیے حجۃ اللہ البالغہ میں ایک جدید علم کلام کی بنیاد رکھ دی۔ چنانچہ آپ حجۃ اللہ البالغہ کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
’’مصطفوی شریعت کے لیے وقت آ گیا ہے کہ برہان ودلیل کے پیراہنوں میں ملبوس کر کے اسے میدان میں لانا چاہیے۔‘‘
یہ ایک نئے علم کلام کا پیغام تھا۔ اللہ تعالیٰ کی سنت رہی ہے کہ ہر دور کی ضرورت کے مطابق حقائق ومعارف اپنے خاص بندوں کے دلوں پر القا فرماتے ہیں اور انھیں اپنے زمانے کی ضرورتوں کے مطابق اسلام کی خدمت کے لیے متوجہ فرماتے ہیں۔ امام ولی اللہ دہلوی نے فلسفہ یونانی کی جگہ ایک نئے فلسفہ اور علم کلام کی بنیاد رکھی جسے بجا طور پر فلسفہ ایمانی کہا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ کے دور میں انگریز کے قدم جنوب مشرقی ہندوستان (مدراس وبنگال وغیرہ) میں جم چکے تھے۔ حضرت شاہ ولی اللہ پر اللہ تعالیٰ نے علم اسرار دین منکشف فرمایا۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ آج کے دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے جو مغرب کے لائے ہوئے الحاد وتشکیک کے زہر کا تریاق بن سکتا ہے۔ بعد کے دور میں مغرب کی فکری یلغار کے نتیجے میں فکری انارکی والحاد کا جو سیلاب آیا ہے اور اس نے اسلام کے پیش کردہ نظام حیات پر مسلسل اعتراضات اور حملے کیے، اس نے جدید طبقے کا اعتماد اسلام پر سے متزلزل کر دیا۔ یہی اس دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے جس کا علاج شاہ ولی اللہ کے ایمانی فلسفے میں موجود ہے۔ کاش کہ آپ کے بعد علماء کرام اس فلسفہ سے لیس ہوتے تو انیسویں اور بیسویں صدی میں مغرب کے نظریاتی وفکری حملوں کی کامیاب مدافعت کر سکتے بلکہ اس کا رخ موڑ دیا جاتا۔ اب بھی یہ کام باقی ہے کہ علماء کرام ایمانی فلسفہ سے لیس ہو کر مغرب کے فلسفوں، افکار ونظریات اور علم کلام کا پوسٹ مارٹم کر کے انھی کی زبان واسلوب اور لب ولہجہ میں جواب دیں۔ محدث شہیر حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ کی وصیت کے مطابق علماء کرام کو اپنی توجہ فروعی اختلافات سے ہٹا کر ملت کے حقیقی مسائل کی طرف مبذول کرنی ہوگی۔ یہی وقت کی پکار ہے اور مولانا سلمان الحسینی صاحب کی اس کتاب کا خلاصہ وسبق بھی یہی ہے۔ خدا کرے کہ مولانا سلمان الحسینی کی یہ کاوش کام یابی سے ہم کنار ہو اور وہ جدید علماء کرام میں اس طرز فکر کو عام کرنے میں کام یاب ہوں۔ آمین یا رب العالمین

شیعہ سنی مکالمہ :الشیخ یوسف القرضاوی کے خیالات

ڈاکٹر یوگندر سکند

قطر کے الشیخ یوسف القرضاوی کا شمار دنیا کے ممتاز ترین مسلم علما میں ہوتا ہے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور ان کی شہرت ایک ایسے عالم کی ہے جو کھلے ذہن کے حامل اور زندہ معاصر مسائل کو حقیقی مکالمے کے جذبے کے ساتھ زیر بحث لانے کے خواہش مند ہیں۔ جن موضوعات پر الشیخ قرضاوی نے بہت وسعت کے ساتھ لکھا ہے، ان میں سے ایک مسئلہ مختلف اسلامی گروہوں، فرقوں اور تحریکوں کے مابین تعلقات کا بھی ہے۔ وہ عقیدے کی ایسی انتہا پسندانہ تشریحات کی مذمت کرتے ہیں جو دوسرے تمام مسلمانوں کو صاف صاف کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیں۔ اس کے بجائے وہ اعتدال اور مسلمانوں کے مابین مکالمہ کے داعی ہیں اور اسے قرآن وسنت سے ثابت شدہ طریقہ سمجھتے ہیں۔ 
اسلامی تاریخ کے بیشتر ادوار میں شیعہ اور سنیوں کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ بہت سے شیعہ اور سنی ایک دوسرے کو مرتد حتیٰ کہ اسلام کا دشمن سمجھتے ہیں۔ بعض ممالک میں، جیسا کہ مثلاً آج پاکستان کے بعض حصوں میں، شیعہ سنی تصادم نے نہایت پر تشدد صورت اختیار کر لی ہے۔ اگرچہ زیادہ تر مقامات پر بے حد اہم سیاسی اور معاشی عوامل بھی اس تصادم کو ہوا دیتے ہیں، تاہم فرقہ وارانہ پہلو بھی شیعہ سنی اختلافات کو مزید خراب کرنے میں ایک نہایت قوی عامل کا کردار ادا کرتا ہے۔ شیعہ سنی مکالمے کو فروغ دینے کے لیے نیم دلانہ کوششیں ماضی میں بھی کی گئی ہیں اور آج بھی کی جا رہی ہیں۔ تاہم مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بیشتر قدامت پسند اور روایتی علما حقیقی شیعہ سنی مکالمے کی کسی بھی تجویز کے اگر کھلم کھلا مخالف نہیں تو اس حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار ضرور رہے ہیں۔ مخالف فرقے کو اسلام کا دیرینہ دشمن قرار دینے والا لٹریچر، جو اگرچہ سب کا سب نہیں لیکن زیادہ تر قدامت پسند علما کے قلم سے نکلا ہے، آج بھی لکھا اور تقسیم کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ ایسا لٹریچر کئی صدیوں سے موجود ہے، تاہم لگتا ہے کہ حالیہ سالوں میں چند مخصوص ممالک نے اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے بھرپور سرپرستی کر کے اس قسم کے لٹریچر کو وسیع پیمانے پر پھیلا دیا ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب میں وسیع پیمانے پر تیار کیے جانے والے شیعہ مخالف لٹریچر کی صورت حال یہی ہے جس کا مقصد ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد نمودار ہونے والی شہنشاہیت مخالف اور خاندانی حکومت کے منافی اسلامی تعبیرات کا مقابلہ کرنا ہے۔ 
شیعہ کے بارے میں بیشتر سنی علما کے سخت مخالفانہ موقف کے تناظر میں شیخ یوسف القرضاوی کا رویہ خاص طور پر قابل توجہ ہے۔ شیخ نے حال ہی میں شیعہ کے بارے میں دو فتوے جاری کیے ہیں، جو ویب سائٹ www.islam-online.net پر پڑھے جا سکتے ہیں۔ یہ فتوے ان کی اس شدید خواہش کے آئینہ دار ہیں کہ شیعہ کے ساتھ حقیقی مکالمہ کیا جائے اور وسیع تر حدود میں مسلمانوں کے مابین اختلافات کو گوارا کیا جائے۔ ان میں سے پہلے فتوے میں شیعہ اور سنیوں کی باہمی شادی کا مسئلہ زیر بحث آیا ہے۔ شیخ نے اس سوال کے جواب میں ایک مثالی شادی کی خصوصیات بیان کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ازدواجی زندگی کی بنیاد فریقین کی ذہنی ہم آہنگی پر ہونی چاہیے۔ گرما گرم بحثیں اور مسلسل مباحثے ازدواجی زندگی کو برباد کر دے سکتے ہیں اور اس کا نتیجہ زوجین کی باہمی لڑائی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔‘‘ شیخ نے لکھا ہے کہ میاں بیوی کے مابین شدید تصادم کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ایک فریق (شیخ نے یہاں فریق کو متعین نہیں کیا) سنی ہونے کے ناتے حضرت ابوبکر کا حامی ہو جبکہ دوسرا فریق (اغلباً شیعہ) حضرت علی کا دفاع کرے۔ شیخ نے واضح طور پر لکھا ہے کہ وہ اس شادی کو حرام نہیں قرار دیتے، لیکن انہوں نے کہا ہے کہ ’’میں اس کو ترجیح نہیں دیتا۔‘‘ جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا نتیجہ تصادم اور آخر کار شادی کی ناکامی کی صورت میں نکلے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ جیسے ایک مسلمان کو کسی مسیحی خاتون سے شادی کرنے کی اجازت ہے، اسی طرح وہ کسی شیعہ لڑکی سے بھی شادی کر سکتا ہے۔ تاہم اگرچہ وہ ایک سنی مرد کی ایک شیعہ خاتون کے ساتھ شادی کو قانونی طور پر جائز تصور کرتے ہیں، لیکن ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ کوئی مثالی شادی نہیں ہے۔ البتہ وہ اس پر ایک مزید شرط عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر شیعہ خاتون ایک معتدل شیعہ ہے، سنیوں کے ساتھ ان کی مسجد میں نماز پڑھتی ہے اور ان کے ساتھ تصادم کی حمایت نہیں کرتی، تو ایک سنی مرد اس سے شادی کر سکتا ہے اگر وہ ’’سچ مچ ایسا کرنا چاہتا ہے۔‘‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ فتوے کے آخر میں شیخ نے مزید یہ کہا ہے کہ ’’یہ بات محتاج وضاحت نہیں کہ مذکورہ فتویٰ کا اطلاق اس صورت میں بھی ہوتا ہے جبکہ مرد شیعہ اور خاتون سنی ہو۔‘‘
شیخ قرضاوی کے دوسرے فتوے میں زیادہ تفصیل کے ساتھ شیعہ سنی تعلقات پر اور بالخصوص دونوں گروہوں کے مابین مکالمہ کے موضوع پر بحث کی گئی ہے۔ شیخ نے یہ فتویٰ مارچ ۲۰۰۴ میں عراق کے کسی حسین نامی شخص کے سوال کے جواب میں جاری کیا تھا اور اس کا عنوان خاصا چونکا دینے والا ہے: ’’شیعہ اور سنی مسلمانوں کے مابین اختلافات کو نظر انداز کرنا‘‘۔ شیخ نے جواب کا آغاز مسلمانوں کے مابین اخوت کے تصور سے کیا ہے جس پر اسلام نے بے حد زور دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ اس سے شیعہ اور سنی کے مابین فی الفور مکالمے کی ضرورت اجاگر ہوتی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے چند عمومی ضابطے ذکر کیے ہیں جن کی پابندی سنیوں کو شیعہ کے ساتھ مکالمے میں ملحوظ رکھنی چاہیے۔ انھوں نے کہا ہے کہ سب سے اہم ضابطہ یہ ہے کہ اتفاقی نکات پر توجہ مرکوز کی جائے، نہ کہ اختلافی امور پر۔ اتفاقی امور میں سب سے نمایاں وہ چیزیں ہیں جن کا تعلق ’’دین کی اساسات‘‘ سے ہے۔ دوسری طرف ان کا کہنا ہے کہ شیعہ اور سنیوں کے مابین اختلاف کے بیشتر نکتے ’’معمولی‘‘ باتوں سے متعلق ہیں، اس لیے انھیں مکالمے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہیے۔
اس کے بعد شیخ نے شیعہ اور سنیوں کے مابین عمومی اتفاق کے دائروں پر تفصیل سے بحث کی ہے جن کو ان کی رائے میں دونوں گروہوں کے مابین بامعنی مکالمہ اور قیام وحدت کی کوششوں کی بنیاد قرار پانا چاہیے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ شیعہ اور سنی، دونوں بہت سے بنیادی عقائد پر متفق ہیں، جیسا کہ خدا پر ایمان، رسول اللہ ﷺ کی ختم نبوت پر ایمان، تمام آسمانی صحیفوں اور رسولوں پر ایمان، اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے پر ایمان۔ شیعہ اور سنی دونوں اسلام کے پانچ بنیادی ارکان پر بھی متفق ہیں، یعنی اللہ کی وحدانیت اور محمد ﷺ کی رسالت کی گواہی، فرض نمازیں، زکاۃ، حج اور رمضان کے روزے۔ شیخ نے اعتراف کیا ہے کہ ان ارکان سے متعلق بعض احکام میں شیعہ اور سنی باہم مختلف ہیں، تاہم انھوں نے کہا ہے کہ اس نوعیت کا اختلاف رائے ’’ایک بالکل فطری چیز ہے۔‘‘ متعدد دوسرے سنی علما کے برعکس، وہ شیعہ اور سنیوں کے مابین تخیلاتی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے گریز کرتے ہیں اور اس کے بجائے یہاں تک کہتے ہیں کہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان کو سمجھنے میں شیعہ اور سنی کا اختلاف ایسے ہی ہے جیسے خود سنی فقہا، مثلاً حنبلی، حنفی اور مالکی مکاتب فکر کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ 
شیعہ اور سنیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوششوں میں شیخ نے معروف سنی عالم امام الشوکانی کا مثبت انداز میں حوالہ دیا ہے جنھوں نے ’’ممتاز سنی اور شیعہ فقہا کی آرا کا بالکل یکساں درجے میں حوالہ دیا ہے۔‘‘ شیخ نے رائے دی ہے کہ فقہی مسائل میں ، خواہ ان کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے، شیعہ اور سنیوں کے مابین غالباً کوئی ’’بنیادی اختلاف‘‘ نہیں ہے۔ انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ شیعہ، اہل سنت کی کتب حدیث کو مستند تسلیم نہیں کرتے، تاہم انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان کتابوں میں مذکور بیشتر احادیث کو شیعہ بھی مستند مانتے ہیں، خواہ وہ ایسے ذرائع سے منقول ہوں جو خود ان کے نزدیک مستند ہیں یا ان کے ائمہ کی آرا کی صورت میں جنھیں وہ معصوم عن الخطا قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے نتیجہ یہ نکالا ہے کہ مجموعی طور پر شیعہ اور سنی فقہ میں ’’اچھا خاصا اتفاق‘‘ موجود ہے اور یہ ان کے نزدیک وہ ’’سب سے اہم نکتہ‘‘ ہے جسے شیعہ سنی مکالمہ اور اتحاد کے مسئلے پر غور کرتے ہوئے ذہن میں رکھنا چاہیے۔ انھوں نے کہا ہے کہ فقہ کے دونوں ذخیرے ایک ہی ماخذ، یعنی قرآن اور سنت پر مبنی ہیں اور دونوں کا مشترک مقصد لوگوں کے مابین اللہ کے انصاف اور عدل کو قائم کرنا ہے۔
شیخ چند مخصوص امور میں شیعہ اور سنیوں کے مابین اختلاف سے ناواقف نہیں ہیں، تاہم وہ انھیں مشترکہ اور متفقہ نکات کے مقابلے میں نسبتاً کم اہم قرار دیتے ہیں۔ دونوں گروہوں کے مابین مشترکات کو نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ وہ بعض سنی حلقوں میں عمومی طور پر پائے جانے والے اس تصور کی بھی تردید کرتے ہیں کہ تمام شیعہ بعض ایسے عقائد کے حامل ہیں جنھیں سنی درست تسلیم نہیں کرتے۔ یوں بعض ایسے شیعہ خیالات جو ہمیں بڑے عجیب دکھائی ہیں، ان کو بعض سنی علما نے بھی اختیار کیا ہے۔ مثال کے طور پر وہ بتاتے ہیں کہ بیشتر شیعہ وقتی نکاح (متعہ) کو جائز سمجھتے ہیں جبکہ سنی علما بالعموم اسے ممنوع قرار دیتے ہیں۔ تاہم رسول اللہ ﷺ کے ایک صحابی حضرت ابن عباس نکاح کی اس صورت کو جائز سمجھتے تھے اور اگرچہ بعد میں انھوں نے اس ضمن میں اپنی رائے تبدیل کر لی، لیکن مکہ اور یمن میں ان کے بعض پیروکار مثلاً سعید بن جبیر اور طاووس اس نکاح کو جائز ہی قرار دیتے رہے۔
مجموعی طور پر شیعہ سنی تعلقات کے پریشان کن مسئلے کے حوالے سے شیخ قرضاوی کی نسبتاً کھلے ذہن والی اپروچ بہت سے قدامت پسند سنی علما کی رائے کے برعکس ہے، خاص طور پر وہابی علما جو اس پر اصرار کرتے ہیں کہ شیعہ مبتدع اور دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔ شیخ قرضاوی نے اس موقف سے شدید اختلاف کیا ہے اور اس کے بجائے بیشتر شیعہ کو صاف لفظوں میں اپنا مسلمان ساتھی تسلیم کیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں انھوں نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ ’’یہ بات سب کو معلوم ہونی چاہیے کہ تمام وہ شیعہ مسلمان ہیں جو خدا کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘ انھوں نے واضح کیا کہ شیعہ کی اصطلاح ’’ایسے گروہ کے لیے بولی جاتی ہے جو امام علی کے پیروکار ہیں۔‘‘ وہ اہل بیت کے بھی مکمل وفادار ہیں۔ یہ کوئی غلط یا غیر اسلامی ایجاد نہیں ہے اور نہ شیعہ کہلانے والے اس میں منفرد ہیں۔ شیخ نے کہا ہے کہ حقیقت میں ’’اس طرح کی وفاداری ہر مسلمان سے مطلوب ہے‘‘ اور اس کے بعد انھوں نے اس کے حق میں قرآن سے دلائل دیے ہیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ شیعہ کے کچھ اپنے مخصوص عقیدے ہیں جنھیں سنی بدعت قرار دے کر مسترد کرتے ہیں، تاہم ’’ان سے وہ غیر مسلم قرار نہیں پاتے۔‘‘ البتہ انھوں نے ان شیعہ گروہوں میں جنھیں بالکل جائز طور پر مسلمان کہا جا سکتا ہے، اور ان شیعہ میں جن کے عقائد اور اعمال واضح طور پر خود شیعہ اکثریت کے عقائد سے منحرف ہیں، واضح فرق قائم کیا ہے۔ موخر الذکر میں وہ گروہ شامل ہیں جو حضرت علی کو خدا مانتے ہیں یا یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اصل میں آخری پیغمبر حضرت علی تھے نہ کہ حضرت محمد ﷺ۔
شیخ کی رائے یہ ہے کہ مسلمانوں، خاص طور پر شیعہ اور سنیوں کی باہمی کشمکش صرف اور صرف ان قوتوں کے لیے کارآمد ثابت ہوتی ہے جو تمام مسلمانوں کی دشمن ہیں۔ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ ’’تمام مسلمانوں کو ان اسکیموں اور منصوبوں کے بارے میں چوکنا رہنا چاہیے جو دشمنان اسلام نے تیار کی ہیں۔ وہ ہمیں عقیدے کے نام پر آپس میں لڑانا بھڑا نا چاہتے ہیں۔‘‘ انھوں نے شیعہ اور سنیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ دشمنوں کو اس بات کا موقع فراہم نہ کریں۔
فتوے کی نوعیت کا لحاظ کرتے ہوئے شیخ نے شیعہ اور سنیوں کے مابین سادہ فقہی اختلافات کے مقابلے میں اعتقادی اختلافات پر زیادہ تفصیل سے بحث نہیں کی، بلکہ اس کے بجائے پوچھے جانے والے متعین سوالات کا محض سادہ انداز میں جواب دے دیا ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ شیعہ اور سنیوں کے مابین بامعنی مکالمہ میں عقیدہ اور تاریخ کے مسائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، تاہم شیخ کے فتوے اس بات کو واضح کر دیتے ہیں کہ مکالمہ صرف اس صورت میں شروع ہو سکتا ہے جب فریقین اپنے مابین مشترک امور کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہو جائیں، اور جیسا کہ شیخ نے واضح کیا ہے، شیعہ اور سنیوں کے مابین بہت سے امور مشترک ہیں اور انھی کو ایک حقیقی اسلامی افہام وتفہیم اور برداشت کی بنیاد بننا چاہیے۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
۵؍مارچ ۲۰۰۵
محترم ومکرم مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سب سے پہلے تو آپ کو اور تمام مسلمانوں کو نیا ہجری سال ۱۴۲۶ھ مبارک ہو۔ اللہ پاک مسلمانوں پر رحم فرمائے اور تمام عالم میں دین کے زندہ ہونے کی شکلوں کو وجود عطا فرمائے۔ آمین۔
’الشریعہ‘ کا ملنا بہت ہی حیرت کا سبب ہوا۔ یہ محض زبانی الفاظ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ دینی رسالوں کے ایک جم غفیر میں مجھے یہ ہی رسالہ ایسا لگا کہ جسے میں اپنے پڑھے لکھے دوستوں میں پیش کر سکتا ہوں کہ اس میں بھولے سے بھی کوئی ایسی بات نہ ہوگی جس سے تنگ نظری اور دین کا مسخاکہ سامنے آتا ہو۔ پہلی بار میں نے رسالہ دیکھا تو اس میں رافضیت پر آپ کے ابا جان مدظلہ کا انتہائی متوازن مضمون دیکھا۔ اگلا شمارہ ملا تو قادیانیت پر شائع کردہ ایک کتابچے پر تنقیدی تبصرہ پڑھا۔ واللہ پہلی بار معلوم ہوا کہ علما بھی علما کے کیے ہوئے کام پر جان دار تبصرہ فرما سکتے ہیں اور قادیانیت جیسے touchy موضوع پر لکھے مواد کی فنی چھان پھٹک کرنے کا حوصلہ کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد مجھے رسالے کا انتظار رہنے لگا۔ پھر آپ کے قبلہ ابا جان مدظلہ کی ایک تحریر پڑھی جس میں سوز دل کے ساتھ سپاہ صحابہ کے طریق کار پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ آج رسالہ ملا ہے تو سب کام چھوڑ کر پہلے اسے مکمل کیا۔ میں پچھلے ماہ سے ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کے خطاب ’’مغرب کا فکری وتہذیبی چیلنج اور علما کی ذمہ داریاں‘‘ کی اشاعت کے انتظار میں تھا۔ یہ پیاس آج بجھی ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ پیاس اب لگی ہے۔ میں کیا اور میری رائے کیا، لیکن یہ ضرور عرض کروں گا کہ مدارس اور ان کے نظام تعلیم کے بارے میں ایک عرصہ پہلے پڑھی ہوئی مولانا عیسیٰ منصوری صاحب کی کتاب کے بعد اس موضوع پر سب سے متوازن تحریر یہی ہے کہ جس میں نہ بڑبولا پن ہے اور نہ معذرت والی مدلل مداحی۔ کاش ایسا ہو جائے کہ یہ مضمون چند مدارس میں باقاعدہ مطالعے اور مذاکرے کے لیے بھیجا جا سکے۔ کاش کہ علما ڈاکٹر غازی صاحب کی اس بات کو ایک عالم کی بات کے طور پر لیں نہ کہ ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر کے خیالات کے تناظر میں، کہ اپنے خطاب میں انھوں نے اپنی اس حیثیت کو تحدیث بالنعمۃ کے طور سے جتایا بھی ہے۔ اور یہ بھی کیا ہی خوش کن اتفاق ہے کہ مولانا منصوری صاحب مدظلہ کی مذکورہ کتاب بھی آپ ہی کی عنایت کردہ تھی۔
انگریزی میں ایک محاورہ ہے: Food for thought، جس کا اردو مترادف مجھے معلوم نہیں۔ آپ کا رسالہ دراصل یہی ’ذہنی غذا‘ فراہم کر رہا ہے، اور واللہ یہ آج کی بہت ہی نایاب جنس ہے۔ آپ کے معاونین کی فہرست دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کس جاں گسل محنت کے بعد ایسے صاحب الرائے لوگ ایک مقصد کے لیے جمع کیے گئے ہوں گے۔ وما ذالک علی اللہ بعزیز۔
نیاز مند
حافظ صفوان محمد چوہان
سینئر لیکچرر/ ڈویژنل انجینئر (کمپیوٹر اینڈ ڈیٹا سروسز)
ٹیلی کمیونیکیشن سٹاف کالج، ہری پور
(۲)
ماہنامہ ’الشریعہ‘ جنوری ۲۰۰۵ کے شمارہ صفحہ ۳۰ پر محترم پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب کا مضمون ’قربانی کی رسم کا نفسیاتی پہلو‘ پڑھنے کے بعد یہ طالب علم سوچ میں پڑ گیا کہ محترم پروفیسر صاحب نے اپنے مضمون کا جو سر عنوان دیا ہے، اس میں قربانی کو ایک رسم اور نفسیاتی عمل کہا گیا ہے، جبکہ عام مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق قربانی کو فرض، واجب کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ میری ناقص عقل کے مطابق جس چیز یا عمل کو شریعت نے فرض یا واجب قرار دے دیا ہو، اسے رسم ورواج کے زمرہ میں شمار نہیں کیا جانا چاہیے، بلکہ اس پر عمل پیرا ہونا لازمی امر بن جاتا ہے۔ جبکہ رسم کوئی بھی ہو، اس پر عمل پیرا ہونے یا نہ ہونے سے فرد کے عقیدے اور اس کی ذات پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس طالب علم کی رائے کے مطابق پروفیسر صاحب کو سب سے پہلے قربانی کی تعریف (Definition) کرنی چاہیے تھی کہ قربانی ہے کیا؟ قربانی کیوں کی جاتی ہے؟ قربانی صرف جانور کی ہی ہو سکتی ہے یا کسی اور چیز کی بھی قربانی ہو سکتی ہے؟ نیز یہ کہ قربانی کرنے یا نہ کرنے سے فرد کی ذات اور اس کے کردار پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ اور اس سے سوسائٹی یا معاشرہ میں کیا تبدیلی رونما ہو سکتی ہے؟ تاکہ مضمون پڑھتے وقت قاری کا ذہن تذبذب یا التباس میں نہ پڑ جائے۔
بے شک انسانی تاریخ میں قربانی کا تصور موجود رہا ہے، گوکہ اس کی نوعیت مختلف ادوار میں مختلف رہی ہے اور دیوی، دیوتاؤں کے حضور انسانوں اور جانوروں کی قربانیاں دی جاتی رہی ہیں بلکہ وحشت کے دور میں تو ایک انسان دوسرے انسان کی خوراک بھی بن جایا کرتا تھا، لیکن یہ جانی قربانی کسی بھی دور میں انسان کے کسی بھی فطری جذبہ کی تسکین کی خاطر نہیں کی جاتی تھی، جیسا کہ پروفیسر صاحب نے تحریر فرمایا ہے، بلکہ یہ قربانی خارج میں فطرت کی قوتوں کے ڈر اور خوف کے جبر کا نتیجہ تھی اور اس ڈر اور خوف کی مجبوری کا اثر انسان کے خیالات اور جذبات پر بھی پڑتا تھا۔ اس وقت اس کے خیال کے مطابق انسانی یا حیوانی قربانی دینے سے وہ محفوظ ومامون رہ سکتا تھا اور اس ڈر اور خوف سے اسے نجات مل جائے گی۔ وہ جاہلیت کا دور تھا۔ جوں جوں انسانی شعور کا ارتقا اور اس کی نشوو نما ہوتی چلی گئی، انسان نے فطرت کی قوتوں کو ایک ایک کر کے مسخر کرنا شروع کر دیا تو جانی قربانی کا تصور کمزور ہوتا چلا گیا۔ اب تمام دنیا میں (ماسوائے مسلم معاشرہ کے) ہر قسم کی جانی قربانی کا تصور تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ ایک ماہر نفسیات بتا رہے تھے کہ جب سے انسان وجود میں آیا ہے، ہنوز یہ اپنی شعوری صلاحیتوں کا صرف دس فی صد حصہ اپنے تصرف میں لا سکا ہے اور ابھی نوے فیصد شعوری صلاحیتیں اسٹور میں پڑی ہیں۔ جیسے جیسے انسانی شعور بلند ہوتا چلا جائے گا، فرسودہ تصورات وروایات ازخود ختم ہوتے چلے جائیں گے۔
فطرت (Nature)، فطری جذبہ سے مراد کسی شے کی وہ خصوصیت ہے جو اٹل ہو۔ کوئی بھی شے اپنی فطرت کو بدل نہیں سکتی۔ شیر کی فطرت درندگی، بکری کی فطرت چرندگی، یہ فطری تقاضے ہیں۔ ان کے اظہار پر سب جاندار بشمول انسان مجبور ہیں۔ کیا جانی قربانی کا عمل بھی انھی معنوں میں لیا جا سکتا ہے؟
اب رہی داخلی جذبات کی بات تو عرض ہے کہ علم النفس کی رو سے جذبات مجموعہ ہوتے ہیں ان خارجی ابتدائی نقوش کا جو وراثت، ماحول اور ابتدائی تعلیم سے بچے کے ذہن پر مرتسم ہوتے رہتے ہیں یا یہ حاصل ہوتے ہیں ان تصورات، معتقدات، رسوم ورواج کا جو تمام انسانوں کو نسلی طور پر وراثتاً ملتے ہیں، لہٰذا جانی قربانی کو کسی یکساں جذبے یا داخلی تحریک کی علامت کے طور پر تمام انسانوں میں فطری طور پر موجود قرار نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ جذبات ہر انسان کے علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں، یکساں ہو ہی نہیں سکتے۔
اب رہیں نفسیاتی اور تحلیل نفسی کے حوالے سے میری معروضات۔ ہر فرد کی نفسیاتی کیفیت الگ الگ ہوتی ہے۔ اسی طرح مختلف اقوام اور قبائل کی نفسیات بھی مختلف ہوتی ہیں۔ نفسیاتی تبدیلی کیسے رونما ہوتی ہے، میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں۔ دو ایک مزید مثالیں لیجیے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ انگریزی خواتین اپنے جسم، ہاتھ اور منہ کا ننگا رکھنا معیوب اور گناہ سمجھتی تھیں۔ یہ ان کی اس وقت کی نفسیات تھی۔ آج اسی انگریزی معاشرہ کی خواتین لباس کے تکلف سے بھی آزاد ہو چکی ہیں۔ یہ اس وقت کی نفسیات ہے۔ ہندو کو گوشت کے نام سے ہی گھن آتی ہے، جبکہ مسلمان کی خوراک میں گوشت لازمی جزو کے طور پر شامل ہے۔ مسلمان کو سور کے نام سے گھن آتی ہے تو عیسائی اسے شوق سے کھاتے ہیں۔
ہندو قوم میں ستی کی رسم کو آپ نے داخلی جذبات کی گھٹن کا نتیجہ قرار دیا۔ اس عاجز نے جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے، وہ یہ کہ ستی کی رسم غیرت کے نام پر قتل قسم کی چیز تھی۔ شوہر کے مرجانے یا قتل ہو نے کے بعد بیوہ عورت کسی دوسرے مرد کی بیوی بننا گوارا نہیں کرتی تھی اور شوہر کے ساتھ جل مر نے کو ترجیح دیتی تھی۔ بعد میں اس عمل کو مذہبی تقدس بھی حاصل ہو گیا تھا۔ یہ سلسلہ انگریزوں نے آکر بند کیا۔ تو عرض ہے کہ اس رسم کو تحلیل نفسی یا داخلی جذبات کی گھٹن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فطری جذبات پر بند باندھنا اور ان گھٹے ہوئے جذبات کے اظہار کا غلط راستہ اختیار کرنا فرد کے اندر کا معاملہ ہے جبکہ تحلیل نفسی خارجی عمل ہوتا ہے۔ جانی قربانی میرے داخلی جذبات کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ خارجی تصورات، معتقدات، وراثت، ماحول کا نتیجہ ہے۔ یہ جو خود کش دہشت گرد پائے جاتے ہیں یا ایک خاص عقیدہ رکھنے والا شخص دوسرا عقیدہ رکھنے والے کو قتل کر دیتا ہے، یہ تحلیل نفسی کا نتیجہ ہوتا ہے، لہٰذا نفسیات یا تحلیل نفسی مستقل بالذات یکساں فطری جذبہ یا تحریک کی علامت نہیں جو تمام انسانوں میں مشترکہ طور پر پایا جاتا ہو اور ہر انسان اپنے آپ کو جانی قربانی کرنے پر مجبور پاتا ہو۔ یہ صرف اعتقاد اور عقیدہ کا مسئلہ ہے۔
آفتاب عروج
مکان نمبر 11/9-W۔ گوجر روڈ
گوجر چوک۔ سیٹلائیٹ ٹاؤن۔ چنیوٹ
(۳)
۲۶ فروری ۲۰۰۵
برادر محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید ہے کہ صحت اچھی ہوگی۔ معلوم نہیں کہ مولانا سرفراز خان صاحب اور مولانا عبد القیوم صاحب کی صحت کیسی ہے۔ یہ خط آپ کو اس لیے لکھ رہا ہوں کہ آپ کا تبصرہ المرکز الاسلامی بنوں کی فقہی کانفرنس پر پڑھا۔ میں نے اس سے قبل اپنے پرچے میں یہ تجویز بھی دی تھی کہ ایم ایم اے کی جماعتیں کم از کم جمعیت علماء اسلام (دیوبندیت) اور جماعت اسلامی اپنے سے روٹھے ہوئے لوگوں کو اپنے دائرے میں لے آئیں تو اس سے ایم ایم اے کو وسعت ملے گی۔
آپ نے اسلام کے حوالے سے جن جدید مسائل کا ذکر کیا ہے اور جس طرح مسلکی دائروں سے نکل کر تحقیقات کرنے کی جرات مندانہ رائے کا اظہار کیا ہے، اس سے مجھے بڑی خوشی ہوئی، لیکن اس سلسلے میں شریعہ اکیڈمی ہی اگر کوئی اقدام کرے تو اس سے کوئی راہ نکلے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلک، تفرد اور تحزب نے اسلامی عناصر کو بہت ہی کسا ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ باندھا شخص جولانی نہیں دکھا سکتا اور محدود فکر اسلام کے لا محدود تصور اور مقاصد کو گرفت میں نہیں لے سکتی۔ میں نے پہلے بھی ایک خط میں یہ عرض کی تھی کہ آپ خود آغاز کریں۔ مثلاً ایک موضوع ذہن میں ہے کہ ’’اسلام اور جمہوریت‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار کی ضرورت ہے۔ بعض دوست جمہوریت کو کفر کہتے ہیں اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جمہوریت کا موجد ہی اسلام ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلکی فقہی دائرے سے یہ ذرا اونچا موضوع ہے، جس طرح آپ چاہتے ہیں کہ جدید نظریاتی دوائر میں کام کیا جائے۔
نیاز مند
سید معروف شاہ شیرازی ایڈووکیٹ
چیئرمین ظلال القرآن فاؤنڈیشن
مین سہام روڈ۔ پشاور روڈ۔ راول پنڈی
(۴)
محترم جناب مدیر الشریعہ
سلام مسنون
امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔
’الشریعہ‘ کا شمارہ فروری ۲۰۰۵ نظر نواز ہوا جس میں محترم دوست میاں انعام الرحمن کا مضمون ’’ثقافتی زوال کا رجائیہ نوحہ‘‘ پڑھ کر خوشی ہوئی۔ ایک تو میاں صاحب کے قلم کی جولانی اور پھر زیر تبصرہ شاعری جب خود میری شاعری تھی تو صاف بات ہے، خوشی کیوں نہ ہوتی۔ تاہم مضمون سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ یہ کتاب اشاعت پذیر ہو چکی ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ میری زیر اشاعت کتاب کے حوالے سے لکھا گیا مضمون ہے۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری سمجھی کہ دوستوں کو شکایت کا موقع نہ ملے کہ کتاب چھپنے کے بعد ان تک کیوں نہیں پہنچی۔ میاں صاحب اور دیگر احباب کی خدمت میں سلام۔
نیاز مند
کلیم احسان بٹ
گورنمنٹ زمیندار کالج
بھمبر روڈ۔ گجرات
(۵)
محترم ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم
ماہنامہ ’الشریعہ‘ بڑی باقاعدگی سے ہر ماہ ملتا ہے۔ بہت شکریہ۔ خوشی اس بات کی ہے کہ آپ اور آپ کے معاونین نے اپنے اس علمی وادبی جریدے کو کسی مخصوص نقطہ نظر کے فروغ کا ذریعہ نہیں بنایا، بلکہ مذہب، سیاست اور ادب پر لکھے جانے والے متنوع موضوعات کے حامل مضامین کو ’الشریعہ‘ میں مناسب جگہ دی جاتی ہے۔ بلاشبہ ہر اچھے اور معیاری پرچے کا یہی بنیادی اصول ہونا چاہیے تاکہ ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے قاری کو اس کی طبع کے مطابق متوازن فکری انداز کے حامل مضامین پڑھنے کو ملتے رہیں۔
’الشریعہ‘ کی وساطت سے پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب کی مختلف موضوعات پر تحریریں نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ موصوف کس طرح تنقیدی اور تحقیقی زاویوں سے ہر نوع کے موضوعات پر بڑی کامیابی کے ساتھ خامہ فرسائی کر لیتے ہیں۔ یقیناًمسلسل او رمتنوع مطالعہ سے جنم لینے والی تحریری قوت ہی انھیں اس قدر مختلف موضوعات کے فکری اظہار پر اکساتی ہے۔ 
فروری ۲۰۰۵ کے شمارے میں انعام الرحمن صاحب کے دو مضامین نظر سے گزرے: ’’اسلامی حکومت کا فلاحی تصور‘‘ اور کلیم احسان بٹ کے شعری مجموعے ’’چلو جگنو پکڑتے ہیں‘‘ پر ان کا تنقیدی مضمون ’’ثقافتی زوال کا رجائیہ نوحہ‘‘۔ اگرچہ دونوں مضامین ان کی تحریری قوت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں، لیکن کلیم احسان کی کتاب پر لکھا گیا مضمون بعض مقامات پر اشعار کی تشریح کے حوالے سے فکری ابہام کا باعث بنتا ہے۔ خصوصاً یہ شعر:
وہ مجھے راستہ دکھاتا ہے
مری مٹھی میں ایک جگنو ہے
اس شعر کی تشریح کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے، کیونکہ ’’ہتھیلی‘‘ کے بجائے ’’مٹھی‘‘ میں جگنو ہونے سے کسی طور شاعر کی انانیت کا سراغ نہیں ملتا، بلکہ اس سے ایک خدشے یا ڈر کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ اس طرح کہ ہتھیلی سے جگنو کے اڑنے کا اندیشہ ہے۔ مضمون کی ابتدا میں ’’میر اور ناصر کی شعری روایت کی ترفیع‘‘ کے حوالے سے کلیم احسان کے جو اشعار بطور مثال پیش کیے گئے ہیں، میرے نزدیک وہ ’’شعری روایت کی ترفیع‘‘ نہیں بلکہ بازگشت ہیں۔ میرا خیال ہے یہ غلطی اشعار کے انتخاب کے دوران میں ہوئی۔ بہرحال یہ وہ معمولی فرو گزاشتیں ہیں جنھیں بڑی آسانی سے دور کیا جا سکتا ہے۔
میری دعا ہے کہ پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب اسی جذبے اور جوش وخروش کے ساتھ ہمیشہ اپنی فکری اور تحریری توانائی سے ساکت اذہان کو متحرک کرتے رہیں۔ آمین
والسلام
سید وقار افضل
لیکچرر، گورنمنٹ زمیندار کالج، گجرات

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’تذکار بگویہ ‘‘

بھیرہ ضلع سرگودھا میں علماء کرام کے قدیمی خاندان ’’علماء بگویہ‘‘ کی دینی وملی خدمات کا سلسلہ تین صدیوں سے زیادہ عرصے کو محیط ہے اور ان میں حضرت مولانا قاضی احمد الدین بگوی رحمہ اللہ تعالیٰ جیسے نامور بزرگ بھی شامل ہیں جنھوں نے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی درس گاہ سے کم وبیش چودہ برس تک استفادہ کیا اور حضرت شاہ محمد اسحاق دہلویؒ سے حدیث نبوی کی سند حاصل کی اور پھر اپنے گاؤں بگہ ضلع جہلم اور پنجاب کے مرکز لاہور میں بیٹھ کر ہزاروں تشنگانِ علوم کو سیراب کیا جس سے پنجاب کا تعلق دہلی کی درس گاہ ولی اللٰہی کے ساتھ قائم ہوا۔
اسی خانوادہ کے ایک فاضل دوست ڈاکٹر صاحبزادہ انوار احمد بگوی نے اس عظیم خاندان کی علمی ودینی تاریخ کو ۱۶۵۰ سے ۱۹۴۵ تک ایک جلد میں بیان کیا ہے جو بہت سی نادر اور تاریخی معلومات کا ذخیرہ ہے۔
نو سو سے زائد صفحات کی یہ مجلد کتاب شعبہ نشر واشاعت مجلس حزب الانصار، بھیرہ ضلع سرگودھا نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ساڑھے پانچ سو روپے ہے۔

’’خانقاہ احمدیہ سعیدیہ موسیٰ زئی شریف‘‘

موسیٰ زئی شریف ڈیرہ اسماعیل خان کی عظیم خانقاہ کی بنیاد حضرت شاہ احمد سعید دہلویؒ نے ۱۸۵۷ کے معرکہ حریت کے بعد مدینہ منورہ ہجرت کرنے سے قبل رکھی تھی اور حضرت خواجہ دوست محمد قندھارویؒ نے اسے آباد کیا تھا۔ حضرت شاہ احمد سعید دہلویؒ حضرت شاہ عبد الغنی محدث دہلویؒ کے بھائی، حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کے شاگرد اور حضرت شاہ غلام علی دہلویؒ کی روحانیت کے امین تھے۔ جناب محمد نذیر رانجھا نے اس عظیم خانقاہ کی تاریخ اور اس سے فیض یاب ہونے والے بہت سے علماء کرام اور مشائخ عظام کے حالات کو دل چسپ انداز میں مرتب کیا ہے اور بہت سی معلومات کا ذخیرہ اس میں سمو دیا ہے۔
سات سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب جمعیۃ پبلی کیشنز، مسجد پائیلٹ سکول، وحدت روڈ لاہور نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت تین سو روپے ہے۔

ماہنامہ ’’سوئے حرم‘‘

یہ ماہنامہ جناب محمد صدیق شاہ بخاری کی زیر ادارت لاہور سے شائع ہوتا ہے جس میں مختلف دینی وملی موضوعات پر معلوماتی مضامین شامل اشاعت ہوتے ہیں اور ایک شمارے کے ٹائیٹل پر درج عبارت ’’تمام مسالک کے احترام پر مبنی فرقہ واریت سے بالاتر دلوں کی آواز‘‘ کے مطابق قارئین کو فکری ودینی مواد مہیا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس کا سالانہ زر خریداری پاکستان میں اڑھائی سو روپے اور فی شمارہ قیمت پچیس روپے ہے۔ ملنے کا پتہ: ماہنامہ سوئے حرم، ۵۳ وسیم بلاک، حسن ٹاؤن، ملتان روڈ، لاہور۔

’’اجتماعی اجتہاد: تصور، ارتقا اور عملی صورتیں‘‘ کے عنوان پر تین روزہ سیمینار

ادارہ

۱۹ تا ۲۱ مارچ ۲۰۰۵ کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ادارۂ تحقیقات اسلامی کے زیر اہتمام ’’اجتماعی اجتہاد: تصور، ارتقا اور عملی صورتیں‘‘ کے عنوان پر تین روزہ سیمینار منعقد ہوا جس میں ممتاز عرب فقیہ اور دانش ور الدکتور وہبہ الزحیلی، سینٹ آف پاکستان میں قائد ایوان جناب وسیم سجاد، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان، یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر محمود احمد غازی، ممتاز دانش ور جناب جاوید احمد غامدی، ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری، ڈاکٹر محمود الحسن عارف، ڈاکٹر محمد طاہر منصوری، ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی، مولانا محمد صدیق ہزاروی، مولانا حافظ صلاح الدین یوسف، مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی، ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی اور دیگر اہل دانش کے علاوہ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے بھی خطاب کیا جبکہ بھارت سے مولانا سید جلال الدین العمری، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا سعود عالم قاسمی اور مولانا ڈاکٹر فہیم اختر ندوی نے سیمینار میں شرکت کی اور مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا۔
مولانا زاہد الراشدی نے سیمینار کی چوتھی نشست (۲۰ مارچ اتوار بعد نماز ظہر) کی صدارت کی اور ’’مغربی فلسفہ وتہذیب اور مسلم امہ کا رد عمل‘‘ کے موضوع پر مقالہ پڑھا، جبکہ اسی روز مغرب کے بعد کی نشست میں مولانا راشدی نے ’’پاکستان میں اجتماعی اجتہاد کی کوششوں پر ایک نظر‘‘ کے عنوان پر تفصیلی اظہار خیال کیا اور پاکستان میں سرکاری اور غیر سرکاری طور پر مختلف حوالوں سے اب تک ہونے والی اجتہادی کاوشوں کا جائزہ پیش کیا۔

مئی ۲۰۰۵ء

خدمت حدیث: موجودہ کام اور مستقبل کی ضروریاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
تاریخی افسانے اور ان کی حقیقتپروفیسر شاہدہ قاضی
پروفیسر عابد صدیق مرحوم کی یاد میںپروفیسر ظفر احمد
شیعہ سنی تنازع اور اس کا پائیدار حلڈاکٹر محمد امین
جہاد اور دہشت گردی : عصری تطبیقاتادارہ
بھارت میں ٹی وی کے جواز و عدم جواز کی بحثادارہ
مکاتیبادارہ
تعارف و تبصرہادارہ

خدمت حدیث: موجودہ کام اور مستقبل کی ضروریات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وحدیث کا تاریخ کے ریکارڈ پر اس اہتمام اور اعتماد کے ساتھ محفوظ رہنا جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تاریخی امتیاز واختصاص کی حیثیت رکھتا ہے، وہاں اسلام کے اعجاز اور اس کی حقانیت وابدیت کی دلیل بھی ہے کہ نہ صرف یہ کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال واقوال اور ارشادات وفرمودات پورے اہتمام اور استناد کے ساتھ موجود ومحفوظ ہیں بلکہ ان کے نقل وفہم اور ان سے استدلال واستنباط کے عمل میں کسی بھی درجہ میں شریک ہونے والے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کے حالات وکوائف بھی تاریخ نے اپنے ریکارڈ میں محفوظ کر رکھے ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی فعل، قول اور احوال وظروف سے نسبت رکھنے والے کسی بھی شخص کے حالات اور کردار کے بارے میں ضروری معلومات کسی بھی وقت تاریخ کے ریکارڈ سے طلب کی جا سکتی ہیں جبکہ اس حوالہ سے اسماء الرجال کا علم اسلام اور مسلمانوں کی ایسی خصوصیت ہے جس کی مثال دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں پائی جاتی۔
دنیا کے تمام ادیان ومذاہب میں اسلام وہ واحد دین ہے جس کے پاس اس کی تعلیمات کسی ترمیم وتحریف اور تبدیلی کے بغیر اصلی حالت میں موجود ہیں اور پرائمری سطح سے لے کر اعلیٰ ترین درجات تک ہر سطح پر یہ تعلیمات تدریس، تحقیق اور تبلیغ واشاعت کے مراحل سے وسیع پیمانے میں ہر وقت گزرتی ہیں جس کی وجہ سے تحریف اور ترمیم کا کوئی بھی حملہ ان کے دائرے میں در اندازی کی گنجائش نہیں پا رہا اور وہ ایک زندہ، متحرک اور توانا نظام تعلیم واصلاح کی صورت میں آج کے زوال پذیر دور میں بھی مسلم معاشرے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
دنیا کے ہر مذہب کی تعلیمات انحراف وترمیم کے مراحل سے گزر چکی ہیں اور اسلام کے سوا کوئی مذہب بھی اس وقت دنیا کے مسلمہ اور معیار کے مطابق اس دعویٰ کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ اس کے پاس اس کی بنیادی تعلیمات اصلی حالت میں موجود ہیں مگر اسلام پورے اعتماد وحوصلے کے ساتھ آج بھی عالمی فورم پر اس دعوے کے ساتھ کھڑا ہے کہ اس کے پاس نہ صرف قرآن کریم اسی اصلی حالت میں موجود ہے جس طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے اولین شاگردوں صحابہ کرام کے سپرد کیا تھا بلکہ قرآن کریم کی تعبیر وتشریح میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، احوال اور سیر وسوانح بھی اس مکمل اعتماد اور معیار کے ساتھ موجود ہیں جسے آج کی دنیا بھی تسلیم کرتی ہے اور جسے کسی بھی تاریخی ذخیرہ اور دستاویز کے مستند اور صحیح ہونے کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔
قرآن کریم کو اپنے متن اور الفاظ کے لحاظ سے ایک محفوظ اور مستند دستاویز کا درجہ حاصل ہے اور اس کے سینہ بہ سینہ منتقل ہونے کا سسٹم ایسا فول پروف ہے کہ اس میں کسی قسم کی در اندازی کا کوئی امکان موجود نہیں ہے، اس لیے فطری طور پر ان عناصر کا رخ اس کی تعبیر وتشریح کے نظام کے مجروح کرنے کی طرف ہی مڑنا تھا جو دوسرے مذاہب کی طرح اسلام کی تعلیمات کو بھی انسانی خواہشات اور عقل وظن کی سان پر چڑھا دینے کے خواہش مند تھے۔ چنانچہ قرآنی تعلیمات کو نئے معانی پہنانے اور نت نئی تعبیرات وتشریحات سے روشناس کرانے کے لیے گزشتہ دو تین صدیوں کے دوران کیا کچھ نہیں ہوا اور آج بھی کیا کچھ نہیں ہو رہا لیکن جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وسوانح اور سنت وحدیث کا عظیم ذخیرہ اور ان کی چھان پھٹک کا بے مثال نظام اسلامی تعلیمات کے گرد ایسا مضبوط ومستحکم حفاظتی پشتہ ثابت ہو اہے کہ اس نے تحریف والحاد کے ہر طوفان کا رخ موڑ دیا ہے اور اسلامی عقائد واحکام کا پرچم ملی زندگی کے دیگر تمام شعبوں کی زبوں حالی کے باوجود آج بھی پوری آب وتاب کے ساتھ یہ کہتے ہوئے لہرا رہا ہے کہ
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
محدثین ومورخین نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وحدیث اور سیرت وسوانح کے سینکڑوں پہلوؤں پر جو عظیم الشان کام کیا ہے اور فقہاء کرام نے اس بحر ناپیدا کنار میں غوطہ زن ہو کر حکمت ودانش اور استنباط واستدلال کے انمول موتیوں کے جو انبار لگا دیے ہیں، اس پر تاریخ کے اس عملی خراج کے بعد کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ احادیث کے ذخیرے کو محفوظ رکھنے والے محدثین کرام، اسماء رجال سے تعلق رکھنے والے مورخین وناقدین اور استنباط واستدلال کے شناور فقہاء عظام نے ہر دور میں اس زمانے کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث وسنن کی حفاظت وروایت، تدوین وترتیب اور استدلال واستنباط کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ آپ گزشتہ چودہ صدیوں میں سے کسی بھی صدی میں ان حوالوں سے ہونے والے علمی کام کو سامنے رکھ لیں، آپ کو اس میں سابقہ طریق کار سے مختلف اسلوب نظر آئے گا، جدت دکھائی دے گی اور تنوع کے نئے افق آپ کی نگاہوں کے سامنے آئیں گے کیونکہ زمانہ جوں جوں آگے بڑھتا ہے، انسانی سوسائٹی کی نت نئی ضروریات سامنے آتی رہتی ہیں، سائنسی انکشافات سے علم ومعلومات کا دائرہ وسیع تر ہوتا رہتا ہے اور انسانی ذہن کی پرواز کی سطح بلند تر ہوتی چلی جاتی ہے، لیکن بد قسمتی سے کچھ عرصہ سے ہم نے ایک جگہ رک جانے اور اگلے مراحل سے آنکھیں اور کان بند کر لینے کو بزرگوں کی ’’روایت‘‘ سمجھ رکھا ہے حالانکہ اس کا نام روایت نہیں ہے اور ہمارے اسلاف میں، خواہ وہ محدثین ومفسرین ہوں، مورخین وناقدین ہوں یا فقہاء ومجتہدین ہوں، کسی دور میں بھی اس طرح کے ’’جمود‘‘ کی روایت نہیں رہی۔ ہماری روایت تو تحرک کی ہے، پیش رفت کی ہے اور مسائل ومشکلات کا سامنا کرنے کی ہے بلکہ میں اس سے بھی آگے بڑھ کر عرض کروں گا کہ ہمارے فقہاء عظام نے صرف حال پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مستقبل کے امکانات کو بھانپتے ہوئے ’’فقہ فرضی‘‘ اور ’’فقہ تقدیری‘‘ کا ایسا عظیم الشان ذخیرہ قرون ماضیہ میں امت کے سامنے پیش کیا ہے کہ ہم آج تک اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔
اس پس منظر میں اگر حال اور مستقبل کی ضروریات کا جائزہ لیا جائے تو تقاضوں کی ایک لمبی فہرست بن سکتی ہے اور میرے خیال میں اس موضوع پر علمی مذاکروں اور مباحثوں کی صورت میں باہمی مشاورت کے ساتھ وہ فہرست ضرور بننی چاہیے کہ تقاضوں اور ضروریات کی نشان دہی اور ان کے سامنے آنے کے بعد ہی انہیں پورا کرنے کا احساس بیدار ہوتا ہے مگر یہاں ان میں سے مثال کے طور پور دو تین پہلوؤں کا تذکرہ مناسب سمجھوں گا، اس امید پر کہ شاید ہماری علمی شخصیات اور ادارے اس طرف متوجہ ہوں اور اس حوالے سے نہ صرف مستقبل بلکہ حال کا بھی بہت سا قرض جو سنت وحدیث کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے ارباب علم ودانش کے ذمہ واجب ہے، اس کی ادائیگی کی کوئی صورت نکل آئے۔
جہاں تک احکام ومسائل کا تعلق ہے، اس حوالے سے مختلف ممالک میں کام ہو رہا ہے اور جدید پیش آمدہ مسائل کا قرآن کریم اور سنت وحدیث کی روشنی میں حل تلاش کرنے کی طرف متعدد ادارے اور علمی حلقے متوجہ ہیں۔ اگرچہ اس میں بھی ابھی تنوع اور توسع کے بہت سے پہلو تشنہ ہیں جن کی طرف توجہ کی ضرورت ہے لیکن اس شعبہ میں کچھ نہ کچھ کام بہرحال ہو رہا ہے اس لیے اسے نظر انداز کرتے ہوئے فکری اور تہذیبی راہ نمائی کے اس خلا کی طرف ارباب علم ودانش کو توجہ دلانا چاہوں گا جو عالمی تہذیبی کشمکش کے موجودہ دور میں پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ محسوس ہو رہا ہے اور جس کے منفی اثرات پوری ملت اسلامیہ کے لیے پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں عرب دنیا میں خاصا کام ہوا ہے۔ ہمارے ہاں بھی ہوا ہے مگر یہ کام روایتی حلقوں سے ہٹ کر شخصیات کے حوالے سے ہے جس کے اثرات سے انکار کی گنجائش نہیں ہے لیکن اصل ضرورت روایتی حلقوں کی بیداری کی ہے کہ امت مسلمہ کی اکثریت کا عقیدت واطاعت کا تعلق انہی سے ہے اور امت کو بحیثیت امت کسی طرف متوجہ کرنے کے لیے روایتی حلقے ہی سب سے زیادہ موثر اور بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ میں خود روایتی حلقے سے تعلق رکھتا ہوں۔ جہاں ضرورت محسوس ہوتی ہے، روایتی حلقوں کی نمائندگی بلکہ دفاع بھی کرتا ہوں لیکن مجھے اس اعتراف میں کوئی باک نہیں ہے کہ اس راہ میں بعض ایسے سخت مقام ضرور آتے ہیں کہ نمائندگی اور دفاع دونوں کے قدم لڑکھڑانے لگ جاتے ہیں اور بڑی مشکل سے قدموں کا توازن برقرار رکھنا پڑتا ہے۔
اس کے بعد میں مثال کے طور پر ان دو تین پہلوؤں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جن کے بارے میں میری طالب علمانہ رائے میں زیادہ اہتمام کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات وتعلیمات کو اجاگر کرتے ہوئے امت مسلمہ کی راہ نمائی ان شعبوں میں وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔
سب سے پہلے امت مسلمہ کی اخلاقی حالت کا مسئلہ ہے جو آج کسی طرح بھی اس قابل نہیں ہے کہ اس کا اچھے الفاظ کے ساتھ ذکر کیا جائے۔ افراد اور کچھ طبقات ہر دور میں اور ہر قوم میں مستثنیٰ رہے ہیں اور رہتے ہیں لیکن ملت بحیثیت ملت اخلاقی لحاظ سے جس سطح پر پہنچ گئی ہے، اس نے ہمیں اقوام عالم کی برادری میں نیک نام نہیں رہنے دیا۔ اخلاقیا ت کا تعلق سیاست سے ہو یا تجارت سے، معاشرت سے ہو یا مذہب سے، تعلیم سے ہو یا ملازمت سے، صنعت سے ہو یا اجارہ سے، کہیں بھی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔ ہمارے داخلی معاشرتی دائروں میں جو صورت حال ہے، وہ بھی کسی سے مخفی نہیں ہے لیکن دوسری اقوام کے معاشرے میں جا کر ہم جو گل کھلا رہے ہیں، اس نے تو لٹیا ہی ڈبو دی ہے۔ میں ایک مثال سے اپنی بات واضح کرنا چاہوں گا کہ برطانیہ میں ایک صاحب سے میں نے پوچھا کہ وہ کوئی کام کاج تو کرتے نہیں ہیں، گزارا کیسے کرتے ہیں؟ انہوں نے بڑی بے تکلفی سے کہا کہ بس ’’مال زکوٰۃ‘‘ سے گزارا ہو جاتا ہے۔ میں نے وضاحت چاہی تو کہنے لگے کہ برطانوی حکومت کی طرف سے بے روزگاری کا جو وظیفہ ملتا ہے، وہ لیتا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ کیا آپ کا قانوناًاس وظیفے کا استحقاق بنتا ہے؟ تو فرمایا کہ ’’چھڈو جی، کافر نیں۔ اینہاں نوں جناں لٹ سکدے ہو، لٹو‘‘ (چھوڑو جی، یہ کافر ہیں۔ انہیں جتنا لوٹ سکتے ہو، لوٹو)
ظاہر ہے کہ اسی قسم کے طرز عمل کے ساتھ ہم دنیا کے غیر مسلم معاشروں میں اسلام اور مسلمانوں کے تعارف کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ اب اس بات کو ہم جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ وسیرت اور سنن واحادیث کے حوالے سے دیکھیں تو معاملہ انتہائی سنگین ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے تشریف لائے ہیں اور شخصی، خاندانی، معاشرتی اور بین الاقوامی چاروں حوالوں سے اخلاقی تعلیمات کا جس قدر وسیع اور متنوع ذخیرہ اور اسوہ ونمونہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وسیرت میں ملتا ہے، دنیا کے کسی اور مذہب یا شخصیت کے پاس اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے مگر ہمارے ہاں ان کا تذکرہ محض برکت وثواب کے لیے ہوتا ہے۔ اپنے احوال وظروف پر ارشادات نبوی کا اطلاق اور سنت وحدیث کی روشنی میں اپنے طرز عمل کی اصلاح کا کوئی احساس اجتماعی طور پر ہمارے حلقوں میں موجود نہیں ہے۔ آج سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ملی اور بین الاقوامی دونوں حوالوں سے اپنی اخلاقی کوتاہیوں اور کمزوریوں کی نشان دہی کریں، انہیں بے نقاب کریں اور ایک ملی تحریک کے طو پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی تعلیمات کو آج کے معروضی حالات وضروریات کے تناظر میں جدید اسلوب اور انداز کے ساتھ امت کے ہر فرد تک پہنچانے اور اسے سمجھانے کی کوشش کریں۔ اس سے نہ صرف دوسری قوموں کے سامنے ہمارا تعارف بہتر ہوگا بلکہ ہمارے بہت سے داخلی مسائل ومشکلات بھی خود بخود فضا میں تحلیل ہو کر رہ جائیں گے۔
اس ضمن میں اس بات کا تذکرہ بھی شاید نا مناسب نہ ہو کہ سینکڑوں احادیث نبویہ میں معاشرتی خرابیوں کے ساتھ ساتھ ان کے اسباب ونتائج کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے اور بہت سی احادیث میں نتائج وعواقب کا ذکر کر کے معاشرتی خرابیوں سے روکا گیا ہے۔ ایسی احادیث کو زیادہ نمایاں طور پر سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ مثلاً صاحب مشکوٰۃ نے ’’باب تغیر الناس‘‘ کی آخری حدیث موطا امام مالک کے حوالے سے بیان کی ہے جو حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ کے قول کی صورت میں ہے لیکن اپنے مفہوم ومعنی کے لحاظ سے محدثین کرام کے اصول کے مطابق مرفوع حدیث کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ :
۱۔ جس قوم میں خیانت عام ہو جائے، ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ دشمن کا رعب ڈال دیتے ہیں۔
۲۔ جس قوم میں زنا عام ہو جائے، اس میں موت کی کثرت ہو جاتی ہے۔
۳۔ جو قوم ماپ تول میں کمی کرنے لگ جائے، اس سے رزق منقطع کر لیا جاتا ہے۔
۴۔ جس قوم میں ناحق فیصلے ہونے لگیں، اس میں خانہ جنگی پھیل جاتی ہے۔
۵۔ اور جو قوم عہد توڑ دے، اس پر دشمن کو مسلط کر دیا جاتا ہے۔
اس نوعیت کی بہت سی روایات ہیں جن میں معاشرتی جرائم کے نتائج وعواقب کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان کو اہتمام کے ساتھ اور اجتماعی تحریک کی صورت میں سامنے لانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
دوسرا پہلو جو ارباب علم ودانش کی ترجیحی توجہ کا مستحق ہے، وہ آج کا عالمی ماحول ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ گلوبلائزیشن کا دور ہے اور تہذیبوں کے اختلاط کا دور ہے کیونکہ فاصلے اس قدر سمٹ گئے ہیں کہ تہذیبوں اور ثقافتوں کے درمیان صدیوں سے قائم سرحدیں پامال ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ آج کے دور میں جبکہ تہذیبوں اور ثقافتوں کے درمیان حدود اور فاصلوں کو برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا، منطقی طور پر یہ مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے کہ مختلف تہذیبوں کے اختلاط کے دور میں اسلام کیا راہ نمائی کرتا ہے؟ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات وارشادات میں اس بارے میں واضح راہ نمائی موجود ہے اور احادیث کے ذخیرے میں بہت سی روایات پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر بخاری شریف کی ایک روایت کا حوالہ دینا چاہوں گاجو امام بخاریؒ نے کتاب النکاح، باب عظۃ الرجل بنتہ اور بعض دیگر ابواب میں بیان کی ہے اور اس تفصیلی روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ قریش کے بہت سے خاندان مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو مہاجرین اور انصار کی خاندانی روایات میں واضح فرق موجود تھا۔ مہاجرین کے ہاں کسی عورت کا خاوند کو کسی بات پر ٹوکنا یا اس کی کسی بات کو رد کرنا سرے سے متصور نہیں تھا جبکہ انصار کے خاندانوں میں عورتوں کو یہ آزادی حاصل تھی کہ وہ خاوند کو کسی بات پر ٹوک سکتی ہیں، کسی بات کا جواب دے سکتی ہیں اور کسی بات سے انکار بھی کر سکتی ہیں۔ حضرت عمرؓ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں ایک روز ان کی بیوی نے کسی بات پر ٹوک دیا تو انہیں بہت غصہ آیا اور انہوں نے بیوی کو ڈانٹا۔ بیوی نے جواب دیا کہ مجھے ڈانٹنے کی ضرورت نہیں، یہ تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بھی ہوتا ہے کہ ان کی ازواج مطہرات کسی بات پر ٹوک دیتی ہیں اور کسی بات کا جواب بھی دے دیتی ہیں۔ حضرت عمر نے اسے اس بات سے تعبیر کیا کہ انصار کی عورتوں کی عادات ہماری عورتوں پر اثر انداز ہوتی جا رہی ہیں چنانچہ حضرت عمرؓ اسی غصے کی حالت میں سیدھے ام المومنین حضرت حفصہؓ کے گھر پہنچے جو ان کی بیٹی تھیں اور انہیں سمجھایا بجھایا کہ ایسا مت کیا کرو۔ وہ تو بیٹی تھیں، خاموش رہیں مگر یہی بات جب حضرت عمرؓ نے ام المومنین حضرت ام سلمہؓ سے کہنا چاہی تو انہوں نے آگے سے یہ کہہ کر ٹوک دیا کہ ’’آپ نے میاں بیوی کے معاملات میں بھی مداخلت شروع کر دی ہے؟‘‘ حضرت عمرؓ نے یہ واقعہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ صرف یہ فرمایا کہ ’’آخر ام سلمہ ہے‘‘۔
یہ دو علاقائی ثقافتوں اور معاشرتی روایات کے اختلاط اور ٹکراؤ کا قصہ ہے اور میری طالب علمانہ رائے ہے کہ تہذیبوں کے اختلاط اور مختلف ثقافتوں کے باہمی میل جول کے مسائل میں یہ روایت اصولی اور بنیادی حیثیت رکھتی ہے جس سے ہمیں راہ نمائی حاصل کرنی چاہیے اور دور نبوی کے اس طرز کے واقعات اور روایات واحادیث کی روشنی میں آج کے عالمی حالات کے تناظر میں اصول وضوابط وضع کرنے چاہییں کہ مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے تال میل میں کہاں ایڈجسٹ منٹ کی گنجائش ہے، کہاں صاف انکار کی ضرورت ہے اور کہاں کوئی درمیان کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ یہاں میں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم نے دین اور ثقافت کے درمیان حد فاصل قائم نہیں رہنے دی اور بہت سے معاملات میں دونوں کو گڈمڈ کر دیا ہے حالانکہ دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ دین کی بنیاد آسمانی تعلیمات پر ہے اور اس کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے جبکہ ثقافت کی بنیاد ایک علاقہ میں رہنے والے لوگوں کے درمیان خود بخود تشکیل پا جانے والی معاشرتی اقدار وروایات پر ہوتی ہے اور اس کا سرچشمہ سوسائٹی اور اس کا ماحول ہوتا ہے مگر ہم نے بعض معاملات میں اپنی علاقائی ثقافتوں پر دین وشریعت کا لیبل لگا کر انہیں ساری دنیا سے ہرحال میں منوانے کی قسم کھا رکھی ہے جس سے طرح طرح کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
سنت وسیرت اور احادیث کے بیش بہا ذخیرے میں ان معاملات میں مکمل راہ نمائی موجود ہے مگر ہماری حالت یہ ہے کہ خود محنت کر کے بزرگوں کی کمائی میں اضافہ کرنے کے بجائے بزرگوں کی محنت اور کمائی سے ہی گزارا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تیسرا پہلو جس کا ذکر احادیث نبویہ کے وسیع ذخیرہ سے آج کے حالات کے تناظر میں استفادہ کے لیے کرنا چاہتا ہوں، وہ فتنوں اور آثار قیامت کے بارے میں جناب نبی اکرم ﷺ کے وہ ارشادات ہیں جو پیش گوئیوں کے طور پر معجزات کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں ہمارے لیے ایمان کی تازگی اور پختگی کے ساتھ ساتھ راہ نمائی کا بھی مکمل سامان موجود ہے۔ اس سلسلے کے سینکڑوں ارشادات نبویہ میں سے مثال کے طور پر مسلم شریف کی کتاب الفتن کی ان بعض روایات کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جن میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرات کے کنارے سونے کا پہاڑ دریافت ہونے اور اس کے حصول کے لیے مختلف اقوام کے درمیان خونریز جنگوں کا تذکرہ فرمایا ہے اور انہی میں سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی دو روایات میں مغربی اقوام کی طرف سے عراق کی اقتصادی ناکہ بندی اور اس کے ساتھ شام اور مصر کی اقتصادی ناکہ بندی کی صراحت بھی موجود ہے۔ یہ اور اس قسم کی بیسیوں دیگر روایات ہمارے آج کے حالات کی عکاسی کرتی ہیں اور بہت سے معاملات میں ہمیں راہ نمائی فراہم کرتی ہیں۔
گلوبلائزیشن کی طرف تیزی سے بڑھتے ہوئے عالمی ماحول اور مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے اختلاط اور ٹکراؤ کے موجودہ تناظر میں بہت سے پہلوؤں سے سنن واحادیث نبویہ کے ازسرنو وسیع تر مطالعہ اور اس عظیم ترین علمی ودینی ذخیرہ سے راہ نمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس سے پہلے سنجیدگی کے ساتھ یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم مستقبل کی طرف بڑھنا بھی چاہتے ہیں یا نہیں؟ کیا ہم نے زمانے کے سفر میں اسی مقام پر ہمیشہ کے لیے رکنے کا تہیہ کر لیا ہے جہاں ہم اب کھڑے ہیں؟ اور اگر ہم واقعی مستقبل کی طرف سفر جاری رکھنا چاہتے ہیں اور اس کی زمام کار اپنے ہاتھ میں لینے کے دعوے میں بھی سنجیدہ ہیں تو اس کے لیے ہمیں آگے بڑھنا ہوگا اور آگے بڑھنے کے وہ تمام منطقی تقاضے پورے کرنا ہوں گے جو ہمارے بزرگ اور اسلاف ہر دور میں پورے کرتے آ رہے ہیں۔

تاریخی افسانے اور ان کی حقیقت

پروفیسر شاہدہ قاضی

کیا دیو مالا کا تاریخ سے کوئی تعلق ہے؟ کیا دیو مالا اور تاریخ ہم معنی الفاظ ہیں؟ یا کیا تاریخ دیومالا ہی کا نام ہے؟ یہ بات مانی جاتی ہے کہ دونوں کے مابین فرق بہت باریک سا ہے۔ نا معلوم زمانے سے انسان اپنی اساسات کی تلاش میں مصروف ہے۔ وہ اس کوشش میں بھی مصروف رہا ہے کہ قدیم زمانے کی داستانوں کی، جو ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ بن چکی ہیں، کوئی حقیقی اور قابل فہم بنیاد تلاش کر لے۔ نتیجے کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ کنگ آرتھر کے وجود کو ثابت کرنے، ٹرائے شہر کا محل وقوع معلوم کرنے اور اس مقام کو دریافت کرنے کے لیے جہاں متعین طور پر کشتی نوح جا کر رکی تھی، متعدد مہمیں منظم کی گئی ہیں۔ ۶۰ اور ۷۰ کی دہائی میں پوری دنیا میں ایک تحریک چلی تھی جس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ قدیم دیومالا کے دیوتا فی الواقع وجود رکھتے ہیں اور وہ مختلف کہکشاؤں سے آئے اور بنی نوع انسان کی ترقی انھی مافوق الفطرت ہستیوں کی مرہون منت ہے۔ اس موضوع پر متعدد کتابیں تصنیف کی گئیں۔
تاہم، ہم پاکستانی ایک نرالی مخلوق ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ دنیا کی دوسری قوموں کی طرح ہمارے پاس کوئی مناسب دیومالا نہیں ہے، ہم نے اپنی دیومالا خود تخلیق کر لی ہے جو سپر ہیروز (Super heroes) کے ایک جم غفیر سے آباد ہے جن کی کتاب زندگی میں عظیم الشان اور حیرت انگیز کارناموں کا ایک طویل وعریض سلسلہ درج ہے۔ البتہ فرق یہ ہے کہ یہ سپر ہیروز، کسی انتہائی قدیم دور یا زمانہ قبل از تاریخ کا حصہ نہیں، بلکہ ہمارے موجودہ دور ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان ہیروز، ان کی شخصیتوں اور کارناموں کے حوالے سے ایک بظاہر بڑی ہی درست دکھائی دینے والی دیومالا تخلیق کی گئی ہے جسے اس وقت سے بچوں کے ذہن میں اتارنا شروع کر دیا جاتا ہے جب وہ سکول جانے لگتے ہیں۔ یہ ذہن سازی اتنی گہری ہے کہ حقائق سے پردہ اٹھانے یا سچ کی بازیافت کی کسی بھی کوشش کو ’’گستاخی اور توہین‘‘ سے کم تر کوئی نام نہیں دیا جاتا۔
یہاں ہم اس قسم کے چند زبان زد عام افسانوں کا ذکر کریں گے۔
افسانہ نمبر ۱: ’’ہماری تاریخ کا آغاز ۷۱۲ ہجری سے ہوتا ہے جب محمد بن قاسم برصغیر میں آئے اور دیبل کی بندرگاہ کو فتح کیا۔‘‘
معاشرتی علوم یا مطالعہ پاکستان کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیجیے، اس کا آغازمحمد بن قاسم سے ہوگا۔ ان کی آمد سے پہلے یہاں کیا تھا؟ جی ہاں، ظالم اور جابر ہندو راجے مثلاً راجہ داہر اور مظلوم اور اجڈ عوام جو بے چینی سے کسی آزاد کنندہ کے منتظر تھے جو انھیں ان کے ظالم راجوں کے چنگل سے چھڑائے۔ اور جب آزاد کنندہ آیا تو اس کا کھلے بازووں سے استقبال کیا گیا اور ممنون احسان عوام جوق در جوق دائرۂ اسلام میں داخل ہو گئے۔
کیا یہ سب کچھ حقیقت میں بھی ایسے ہی رونما ہوا؟ تاریخ کی یہ تصویر بڑی آسانی سے اس حقیقت کو فراموش کر دیتی ہے کہ یہ علاقہ جہاں ہمارا ملک واقع ہے، چھ ہزار سال کی ایک طویل اور شان دار تاریخ رکھتا ہے۔ موئنجو داڑو کو تو چھوڑ دیجیے کہ اس کے متعلق ہمیں کچھ زیادہ معلومات میسر نہیں ہیں، لیکن باقاعدہ مدون تاریخ یہ بتاتی ہے کہ محمد بن قاسم کے آنے سے پہلے یہ علاقہ، جو کم وبیش سندھ، پنجاب اور سرحد کے کچھ حصوں پر مشتمل ہے، دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے کم سے کم بارہ مختلف خاندانوں کے زیر اقتدار تھا۔ ان میں فارسی حکمران بھی شامل تھے (Achaemenian دور میں)، یونانی بھی جو بیکٹریا، سائتھیا اور پارتھیا کے لوگوں پر مشتمل تھے، چین کے کوشانہ بھی، اور چین ہی سے آنے والے ہن بھی جو شاہ اٹیلا (Attila) کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ متعدد ہندو خاندان تھے جن میں چندر گپت موریہ اور اشوک جیسے عظیم حکمران بھی شامل ہیں۔
گندھارا تہذیب کے دور میں یہ علاقہ اس حوالے سے ممتاز تھا کہ یہاں ٹیکسلا کے قریب اس وقت دنیا کی سب بڑی اور اہم ترین یونیورسٹیاں قائم تھیں۔ ہم بے حد مہذب، اعلیٰ تعلیم یافتہ، خوش حال، تخلیقی صلاحیت سے بہرہ ور اور اقتصادی لحاظ سے زرخیز لوگ تھے اور بہت سے ممالک ہم سے عقلی وفکری اور معاشی طور پر مستفید ہوتے تھے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جسے ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہیے، لیکن کیا ہم یہ حقائق اپنے بچوں کو بتاتے ہیں؟ نہیں، اور اس طرح یہ افسانہ مسلسل ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا چلا جا رہا ہے۔
افسانہ نمبر ۲: ’’محمد بن قاسم انڈیا میں جبر وتشدد کا شکار خواتین اور یتیم بچیوں کی مدد کے لیے آیا تھا۔‘‘
تاریخ کے تلخ حقائق سے ناواقفیت کی بنا پر ہم نہیں جانتے یا جاننے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ یہ دور مسلم سلطنت کی توسیع کا دور تھا۔ عرب، دنیا کے ایک بڑے حصے کو، جس میں مشرق وسطیٰ، ایران ، شمالی افریقہ اور اسپین کے علاقے شامل تھے، فتح کر چکے تھے۔ چنانچہ یہ بات بالکل غیر منطقی تھی کہ وہ انڈیا کو فتح کرنے کی کوشش نہ کرتے جو کہ تصوراتی اور تخیلاتی خزانوں کی سرزمین تھی۔ 
حقیقت یہ ہے کہ عربوں نے ہندوستان کی طرف اپنی پہلی مہم حضرت عمر فاروق کے دور حکومت میں روانہ کی تھی۔ اس کے بعد حضرت عثمان کے عہد میں ایک دوسری مہم مکران تک آئی، تاہم یہ مہمیں ہندوستان کے علاقے میں داخل ہونے میں ناکام رہیں۔ بعد ازاں راجہ داہر کی طرف سے ان بحری جہازوں کا تاوان ادا کرنے سے انکار پر جنھیں بحری قزاقوں نے چھین لیا تھا (اور جس میں اتفاق سے صرف عورتیں اور لڑکیاں ہی نہیں بلکہ خزانوں سے لدے ہوئے وہ آٹھ بحری جہاز بھی شامل تھے جو سری لنکا سے آ رہے تھے) دو مہمیں پہلے ہی انڈیا روانہ کی جا چکی تھیں لیکن وہ بھی ناکام ثابت ہوئیں۔ محمد بن قاسم کی مہم تیسری مہم تھی جو منصورہ سے لے کر ملتان تک سندھ کے علاقے پر قبضہ کرنے میں کام یاب ہوئی۔ تاہم عربوں کے داخلی اختلاف اور سیاسی مخاصمت کے باعث سندھ کی حیثیت عرب سلطنت کے ایک دور افتادہ کونے کی تھی جس پر زیادہ توجہ صرف نہیں کی جا سکتی تھی، اور جلد ہی یہ مفتوحہ علاقے دوبارہ مقامی راجوں کے زیر تسلط چلے گئے۔
افسانہ نمبر ۳: ’’بت شکن کا افسانہ‘‘۔
محمود غزنوی نے، جو اسلام کا ایک عظیم فرزند اور مثالی بت شکن تھا، یہ عہد کیا کہ وہ سارے ہندوستان کے بتوں کو توڑ کر برصغیر میں اسلام کا بول بالا کر دے گا۔ محمود نے، جو وسطی ایشیا کے علاقے غزنی سے آیا تھا، کم سے کم سترہ بار انڈیا پر حملہ کیا، لیکن پنجاب کے سوا اس نے کسی اور علاقے پر قبضہ کرنے یا باقی بھارت پر اپنی حکومت قائم یا مستحکم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ حقیقت میں اس کے لیے واحد باعث کشش چیز انڈیا کے خزانے یعنی سونا اور قیمتی جواہر تھے جن کے حصول کا اس نے پورا اہتمام کیا اور ہر حملے کے موقع پر ان کی ایک بڑی مقدار اپنے ساتھ لے کر گیا۔ اس وقت انڈیا کے مندروں میں، یورپ کے گرجوں کی طرح، خزانوں کی ایک بڑی مقدار جمع ہوتی تھی اور اسی وجہ سے محمود کو مندروں اور بت پرستوں کے ساتھ خاص دلچسپی تھی۔
عام تاثر کے بالکل برخلاف، برصغیر میں اسلام کو پھیلانے کا کام نہ تو بادشاہوں یعنی وسطی ایشیا کے سلطانوں نے کیا جو تین سو سال تک یہاں حکومت کرتے رہے اور نہ مغلوں نے جو اس کے بعد مزید تین سو سال حکمران رہے۔ یہ کام صوفی مشائخ نے انجام دیا جو بنیادی طور پر اپنے وطن کے بنیاد پرستوں کی ایذا رسانی سے بچنے کے لیے بھارت آئے تھے اور جنھوں نے اپنی اعلیٰ ظرفی، انسان دوستی، محبت، رواداری اور سادہ طرز زندگی باعث تمام مذاہب کے لوگوں کے دل جیت لیے۔
افسانہ نمبر ۴: ’’ٹوپیاں بننے والے بادشاہ کا افسانہ۔‘‘
ہماری نصابی کتابوں میں برصغیر پر حکومت کرنے والے تمام بادشاہوں میں سے سب سے زیادہ تعریف کا مستحق عظیم مغل بادشاہ اورنگ زیب کو قرار دیا گیا ہے۔ بابر نے سلطنت قائم کی، ہمایوں نے اسے کھو کر دوبارہ پایا، اکبر نے اسے وسعت اور استحکام بخشا، جہانگیر اپنے جذبہ انصاف کے لیے مشہور ہوا، اور شاہجہاں نے عالی شان عمارتیں بنوانے میں شہرت حاصل کی، لیکن یہ پرہیزگار کا لقب پانے والا اورنگ زیب ہی ہے جو سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بنا ہے۔ رائج عام افسانہ تو یہ ہے کہ وہ اپنی ذاتی ضروریات کے لیے رقم سرکاری خزانے سے خرچ نہیں کرتا تھا بلکہ ان کو پورا کرنے کے لیے ٹوپیاں بنتا اور قرآن مجید کے نسخوں کی کتابت کیا کرتا تھا۔ کیا اس دعوے پر بحث کرنے کی واقعتاً کوئی ضرورت ہے؟ ہر وہ شخص جو مغلوں کے طرز زندگی سے ذرا بھی واقفیت رکھتا ہے، یہ بات جانتا ہے کہ ان کے درجنوں محلات کے اخراجات پورے کرنا زر کثیر کا کس قدر محتاج تھا۔ مغل شہنشاہوں کی کئی کئی بیویاں، بچے، درباری، داشتائیں اور غلام ہوتے تھے جو ہر محل میں موجود ہوتے تھے اور جن کی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا تھا۔ کیا یہ تمام اخراجات ٹوپیاں بننے سے پورے ہو سکتے تھے؟ اور فرض کیجیے کہ بادشاہ ٹوپیاں بنتا تھا تو کیا لوگ ان کو عام ٹوپیوں کی قیمت پر خریدتے اور اسی طرح استعمال کرتے ہوں گے؟ کیا وہ ان کے لیے مہنگی ترین قیمتیں ادا کرتے اور انھیں ایک یادگار سمجھ کر انھیں سنبھالتے نہ ہوں گے؟ کیا کسی بادشاہ کو، جس کی پوری توجہ ان عسکری خطرات پر مرکوز تھی جو چاروں اطراف سے اسے گھیرے ہوئے تھے اور جس پر ایک عظیم سلطنت کی حفاظت اور استحکام کی ذمہ داری تھی، اتنا وقت اور اتنی فرصت مل جاتی تھی کہ وہ بیٹھ کر ٹوپیاں بنتا رہتا؟ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جس شخص کو ہم ایک پرہیز گار مسلمان قرار دے رہے ہیں، وہ وہی تھا جو اپنے باپ کو اس کے محل کے ایک قید خانے میں قید کرنے کے بعد خود بادشاہ بن گیا اور جس نے اس خطرے کے پیش نظر اپنے تمام بھائیوں کو قتل کر دیا کہ کہیں وہ اس کا تخت نہ چھین لیں۔
افسانہ نمبر ۵: ’’۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے ذمہ دار صرف مسلمان تھے اور انھوں نے ہی جنگ کے بعد تشدد اور ایذا رسانی کا ظلم جھیلا، جبکہ ہندو برطانویوں کے فطری حلیف تھے۔‘‘
یہ درست ہے کہ ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کی زیادہ فوجی رجمنٹوں نے ۱۸۵۷ میں برطانویوں کے بغاوت میں حصہ لیا، لیکن ہندوؤں نے بھی اس جنگ میں بڑا کردار ادا کیا۔ (جھانسی کی بہادر رانی ایک نمایاں مثال ہے) اور اگر مسلمان فوجیوں کو اس افواہ پر اشتعال آیا تھا کہ گولیوں پر خنزیر کی چربی لگائی گئی ہے تو ہندوؤں کے لیے باعث اشتعال یہ بات تھی کہ یہ گائے کی چربی تھی۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آخر وقت تک برطانویوں کی وفادار بھی رہی۔ (ان میں مشہور ترین سر سید احمد خان ہیں)۔
علاوہ ازیں، ۱۸۵۷ کے بعد برطانویوں کی حکومت ختم نہیں ہو گئی تھی۔ وہ اس سے پہلے ہی مکاری اور سازش کے ذریعے سے مسلمان اور ہندو حکمرانوں سے وسیع علاقے ہتھیا کر انڈیا کے زیادہ تر خطے پر اپنا تسلط جما چکے تھے۔ اس وقت مغل بادشاہ برائے نام حکمران تھا اور اس کا دائرۂ اختیار دہلی تک محدود تھا۔ ۱۸۵۷ کے بعد ہندو خوش حال ہوتے گئے کیونکہ انھوں نے جدید تعلیم حاصل کر کے، انگریزی زبان سیکھ کر اور تجارت اور کاروبار میں مشغول ہو کر کافی ہوشیاری کا ثبوت دیا، جبکہ مسلمان محض زمینوں کے مالک تھے اور ماضی کی شوکت وعظمت کے خوابوں میں کھوئے ہوئے تھے اور جب ان کی زمینیں بھی چھین لی گئیں تو ان کے پاس کچھ بھی نہ رہا۔ ان کی مدرسے کی تعلیم اور فارسی میں قابلیت ان کے کسی کام نہ آئی، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ان بدلتے ہوئے حالات میں الٹا ایک رکاوٹ ثابت ہوئی۔
افسانہ نمبر ۶: ’’برطانویوں کے خلاف جدوجہد میں مسلمان پیش پیش تھے اور وہ سرکار برطانیہ کی طرف سے خاص طور پر غیر منصفانہ رویے کا کا نشانہ بنے رہے۔‘‘
ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ درحقیقت مسلمانوں کو برطانویوں کی جانب سے پہلا ’’تحفہ‘‘ ۱۹۰۵ میں تقسیم بنگال کی صورت میں ملا (جسے بعدازاں ۱۹۱۱ میں منسوخ کر دیا گیا)۔ ۱۹۰۶ میں شملہ وفد کو بجا طور پر ’’Command performance‘‘ کہا گیا ہے۔ وائسرے نے مسلمانوں کو یقین دہانی کرائی کہ جیسے ہی مسلمان قائدین اس کا مطالبہ کریں گے، جداگانہ انتخابات اور نمائندگی کا اصول منظور کر لیا جائے گا۔ اس کے بعد مسلم لیگ وجود میں آئی، جسے آغا خان، جسٹس امیر علی اور کچھ دیگر نوابوں اور جاگیرداروں نے، جو سرکار برطانیہ کے زبردست حامی تھے، قائم کیا تھا۔ مسلم لیگ کے منشور میں اس کا پہلا مقصد ہی یہ لکھا گیا: ’’برطانوی حکومت کے ساتھ وفاداری کے جذبے کو فروغ دینا۔‘‘
مسلم لیگ نے کبھی برطانویوں کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کیا۔ مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کا واحد واقعہ ۲۰ کے عشرے کی ابتدا میں تحریک خلافت کے دوران میں رونما ہوا جس کے قائد علی برادران اور دوسرے انقلابی رہنما تھے۔ قائد اعظم سمیت مسلم لیگ کا کوئی بھی رہنما کبھی جیل نہیں گیا۔ یہ کانگریس ہی تھی جس نے ۳۰ اور ۴۰ کی دہائیوں میں برطانیہ کے خلاف تشدد سے پاک اور عدم تعاون پر مبنی تحریک کو جاری رکھا، جس میں ’’انڈیا چھوڑ دو‘‘ کی مشہور تحریک بھی شامل تھی، جبکہ مسلم لیگ کے رہنما ان تحریکات کی مذمت کرتے رہے اور اپنے کارکنوں کو ان میں حصہ نہ لینے کی تلقین کرتے رہے۔
افسانہ نمبر ۷: ’’مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تھی۔‘‘
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسلم لیگ اپنے آپ کو مسلمانوں کی ایک مقبول عوامی جماعت بنانے میں ۱۹۴۰ کے بعد ہی کامیاب ہوئی۔ اس سے قبل، جیسا کہ ۳۷ کے انتخابات سے واضح ہے، مسلم لیگ، مسلم اکثریتی صوبوں میں سے کسی ایک میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ ان انتخابات میں کل ۴۸۲ مسلم نشستوں میں سے مسلم لیگ کو صرف ۱۰۳ نشستیں ملیں (جو کہ ایک چوتھائی سے بھی کم ہیں)۔ دوسری نشستوں پر یا تو کانگرسی مسلمان کام یاب ہوئے یا قوم پرست جماعتیں، مثلاً پنجاب یونینسٹ پارٹی، سندھ یونینسٹ پارٹی اور بنگال کی کرشک پروجا پارٹی۔
افسانہ نمبر ۸: ’’علامہ اقبال وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے ایک جداگانہ مسلم ریاست کا تصور پیش کیا۔‘‘
یہ ان افسانوں میں سے ایک ہے جو ہماری قوم کے ذہنوں میں نہایت گہرے پیوست ہیں اور جس کا پراپیگنڈا تمام حکومتوں نے کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال کہ مسلم اکثریتی صوبوں ایک فطری گروپ قرار پاتے ہیں اور انھیں ایک بلاک سمجھنا چاہیے، برطانویوں نے ۱۸۵۸ میں پیش کیا تھا اور اس پر اخبارات کے مختلف مضامین میں اور سیاسی پلیٹ فارموں پر کھلی بحث ہوتی رہی۔ اس تصور کی مختلف شکلیں اہم برطانوی، مسلم اور بعض ہندو عوامی شخصیات نے پیش کی۔ علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ میں جب اپنا مشہور خطبہ دیا تو اس سے پہلے یہ تجویز کم از کم ۶۴ مرتبہ پیش کی جا چکی تھی۔ چنانچہ اقبال نے محض ایک ایسی بات دہرا دی جو کہ پہلے سے کہی جا رہی تھی اور یہ کوئی اچھوتا خواب نہیں تھا۔ الٰہ آباد میں اپنے خطبے کی رپورٹ شائع ہونے کے بعد، علامہ اقبال نے ایک برطانوی اخبار میں اس موقف سے اپنارجوع شائع کروایا اور کہا کہ انھوں نے ایک جداگانہ مسلم ریاست کی نہیں بلکہ محض انڈین فیڈریشن کے اندر ایک مسلم بلاک کی بات کی تھی۔
افسانہ نمبر ۹: ’’قرارداد پاکستان میں واحد مسلم ریاست کا تصور پیش کیا گیا۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ مسلم بلاک سے متعلق جو بھی تجاویز مختلف افراد یا جماعتوں نے پیش کیں، ان میں سے کسی میں بھی مشرقی بنگال کا ذکر نہیں تھا۔ پورا زور ہمیشہ سے شمال مغربی صوبوں پر مرکوز تھا جن کی سرحدیں مشترک تھیں جبکہ دوسرے مسلم اکثریتی صوبے مثلاً بنگال اور حیدر آباد الگ بلاک تصور کیے جاتے تھے۔ چنانچہ قرارداد پاکستان میں بھی ایسا ہی تھا۔ اس میں لکھا ہے کہ: ’’جن علاقوں میں مسلمان عددی اکثریت رکھتے ہیں، جیسا کہ انڈیا کے شمال مغربی اور مشرقی علاقے، انھیں ملا کر آزاد ریاستیں قائم کی جائیں جن میں شامل اکائیاں خود مختار اور آزاد ہوں۔‘‘
پوری قرارداد کے کمزور اور مبہم متن سے قطع نظر، ریاستوں سے متعلق حصہ (جس میں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے) بالکل واضح ہے۔ اصل قراداد میں ترمیم تو ۱۹۴۶ میں دہلی میں مسلم لیگ کے ارکان سمبلی کے ایک اجلاس میں کی گئی جسے مسلم لیگ کے ایک عام اجلاس میں منظور کر لیا گیا اور ایک واحد ریاست کا حصول مقصود قرار دیا گیا۔
افسانہ نمبر ۱۰: ’’۲۳ مارچ ۱۹۴۰ کا دن اس لیے یادگار ہے کہ اس دن قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی۔‘‘
حقیقت واقعہ یہ ہے کہ ۲۳ مارچ کو قرارداد مقاصد صرف پیش کی گئی تھی، جبکہ اس کی حتمی منظوری ۲۴ مارچ کو عمل میں آئی (جو کہ اجلاس کا دوسرا اور آخری دن تھا)۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ پھر ہم اس قرارداداد کی یاد میں ۲۳ مارچ کا دن کیوں مناتے ہیں تو یہ ایک بالکل مختلف قصہ ہے۔ ۱۹۵۶ سے قبل یہ دن کبھی نہیں منایا گیا۔ اس سال اس دن کو ملک کے پہلے آئین کی منظوری اور پاکستان کے ایک حقیقی آزاد جمہوریہ کے طور پر رونما ہونے کی یاد میں پہلی مرتبہ منایا گیا۔ ہمارے لیے اس دن کی اہمیت وہی تھی جو ۲۶ جنوری کی بھارت کے لیے۔ لیکن جب جنرل ایوب خان نے ۱۹۵۸ میں آئین کو منسوخ کر کے مارشل لا نافذ کر دیا تو انھیں ایک مشکل سے سابقہ پیش آ گیا۔ وہ نہ اس کی اجازت دے سکتے تھے کہ ملک میں ایک ایسے آئین کی یاد میں کوئی دن منایا جائے جسے خود انھوں نے پارہ پارہ کر دیا تھا اور نہ وہ ۲۳ مارچ کا دن منانے کی روایت کو بالکل ختم کر سکتے تھے۔ چنانچہ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ دن تو حسب سابق منایا جائے لیکن اسے ایک دوسرا عنوان دے دیا جائے، یعنی ’’یوم قرارداد پاکستان ‘‘۔
افسانہ نمبر ۱۱: ’’یہ غلام محمد تھے جنھوں نے وزیر اعظم اور سربراہ ریاست کے مابین اختیارات میں عدم توازن پیدا کیا اور انھوں نے ہی گورنر جنرل کی بالادستی وزیر اعظم اور پارلیمنٹ پر قائم کرنا چاہی۔‘‘
جب پاکستان وجو د میں آیا تو برطانوی حکومت کے منظور کردہ ۱۹۳۵ کے آئین کو عبوری آئین کے طور پر اختیار کر لیا گیا۔ اور یہ خود قائد اعظم تھے جنھوں نے اس آئین میں چند مخصوص ترامیم کرائیں تاکہ گورنر جنرل سب سے بالاتر اتھارٹی قرار پائے۔ انھی اختیارات کے تحت قائد اعظم نے اگست ۱۹۴۷ میں صوبہ سرحد میں ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت کو اور ۱۹۴۸ میں سندھ میں مسٹر ایوب کھوڑو کی حکومت کو برطرف کیا ۔ گورنر جنرل ہونے کے ساتھ ساتھ قائد اعظم نے مسلم لیگ کی صدارت اور دستور ساز اسمبلی کی سربراہی بھی برقرار رکھی ۔ یہی وہ اختیارات تھے جن کے تحت خواجہ ناظم الدین نے ۱۹۴۹ میں پنجاب میں مسٹر دولتانہ کی حکومت کو برطرف کیا۔ خود خواجہ ناظم الدین کو انہی اختیارات کے تحت گورنر جنرل غلام محمد نے ۱۹۵۳ میں وزارت عظمیٰ سے برطرف کر دیا۔ تاہم ۱۹۵۴ میں دستور ساز اسمبلی کے ارکان نے آئین میں ترمیم کروانے کی کوشش کی تاکہ گورنر جنرل کے حد سے متجاوز اختیارات واپس لیے جا سکیں۔ اس کوشش پر بر افروختہ ہو کر گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کو معطل کر دیا اور اس طرح پاکستان کی تاریخ کا رخ ہی بدل دیا۔
یہ وہ چند افسانے ہیں جو ہمارے ذہنوں میں بچپن ہی سے بٹھا دیے گئے ہیں اور جو ہمارے شعور کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس طرح کی بیسیوں باتیں اور بھی ہیں جو ہماری روز مرہ زندگی پر حاوی ہیں، اور بہت سے ایسے سوالات موجود ہیں جو ہنوز جواب طلب ہیں، مثلاً:
  • نظریہ پاکستان کیا چیز ہے اور یہ اصطلاح سب سے پہلے کب وضع کی گئی؟ (؟؟ سے پہلے یہ کبھی نہیں سنی گئی)
  • گاندھی کو کیوں قتل کر دیا گیا؟ (وہ مفروضہ طور پر پاکستانی مفاد کا تحفظ کر رہے تھے)
  • شیخ مجیب، ولی خان اور جی ایم سید جیسے مبینہ غداروں کے بارے میں حقائق کیا ہیں؟
  • مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب کیا تھے؟
  • مسٹر بھٹو کو موت کے گھاٹ کیوں اتار دیا گیا؟
  • کیا ہمارے تمام سیاست دان بد دیانت اور مفاد پرست ہیں؟
  • ہماری تاریخ ہر دس سال کے بعد اپنے آپ کو کیوں دہراتی ہے؟
ان سوالات کا جواب تاریخ کے، نہ کہ تاریخی افسانوں کے، ایک جامع مطالعے کا متقاضی ہے، لیکن بد قسمتی سے تاریخ ہی وہ میدان ہے جسے ہمارے ملک میں کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس صورت حال میں تبدیلی رونما ہو جائے۔
(بشکریہ ڈان میگزین۔ ۲۷ مارچ ۲۰۰۵)

پروفیسر عابد صدیق مرحوم کی یاد میں

پروفیسر ظفر احمد

بسا اوقات ہماری من پسند خواہشات کا خارجی حقائق سے ہم آہنگ نہ ہوپانا ہماری اُس بے بسی اور لاچاری کا کامل مظہر ہے جس کا ذکر اِس کائنات کے خالق و مدبّر نے یوں فرمایا ہے: وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَیَخْتَارُ مَاکَانَ لَھُمُ الْخِیَرَۃِ (۱) ’’اور تیرا رب ہی جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہی صاحبِ اختیار ہے، لوگوں کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔‘‘
اپنے احباب و اقارب کا ہم سے بچھڑ جانا ایک ایسی تلخ حقیقت، ایک ایسا ناخوش گوار تجربہ و مشاہدہ ہے کہ اِس دارِفانی میں کسی بھی متنفّس کے لیے اِس سے فرار کے تمام راستے مسدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔ تاہم ربِ کریم کا یہ رحم و کرم ہے کہ اُس نے نوعِ انسانی کو لاتعداد نعمتوں سے نوازا ہے۔ اُس نے ہمیں یہ صلاحیت بھی ارزاں فرمائی ہے کہ ہم اِس دنیا میں رونما ہونے والے بے شمار اہم و غیر اہم واقعات و حوادث کو اپنے ذہن میں نہ صرف ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھ سکتے ہیں بلکہ موجودات کا حسّی خاکہ اپنی فناپذیری کے باوجود چشمِ تصور سے اوجھل نہیں ہوپاتا۔ یوں ہمیں بظاہر داغِ مفارقت دینے والے ہمارے اعزہ و رفقا درحقیقت تصورات و تعقُّلات کی ہماری اِس دنیا میں ہم سے بچھڑ جانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ عابدصدیق کو بھی یہاں استثنائی حیثیت حاصل نہیں۔ لوگ اُنھیں لاکھ ’’رفتہ و گزشتہ‘‘ کہیں مگر وہ اپنے احباب کے دلوں میں زندہ و تابندہ ہیں اور اِن شاء اللہ العزیز ہمیشہ اِسی طرح رہیں گے۔
عابدصدیق مرحوم سے میرا پہلا تعارف اواخر نومبر ۱۹۶۷ء میں گورنمنٹ کالج علی پور (مظفرگڑھ) میں ہوا۔ وہ جہاں بھی رہے، اُن کی جاذبِ نظر شخصیت کے متنوع پہلو اُن کے حلقۂ احباب میں بتدریج وسعت پیدا کرتے رہے۔ چناں چہ علی پور میں بھی اُن کا حلقۂ احباب خاصا وسیع رہا۔ شعروشاعری اور موسیقی سے اُن کا شغف اُن دنوں عروج پر تھا۔ اِن مشاغل کے باوجود اُن کا خاندانی مذہبی تشخص اِس حد تک بحال رہا کہ گو اسلامی شعائر سے عملی دلچسپی بظاہر زیادہ نمایاں نہ تھی، لیکن بالاٰخر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دین سے اُن کی گہری فکری وابستگی اور اہلِ علم سے اُن کی بے لوث محبت و عقیدت کسی سے مخفی نہ رہی، اور اُن میں یہ شوق مزید پیدا ہوتا چلا گیا کہ وہ اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی نجی زندگی کے اہم معاملات میں علما سے دینی رہنمائی حاصل کریں۔ میری ترغیب پر اُنھوں نے فقیہ العصر مفتی رشید احمد لدھیانویؒ سے خط و کتابت شروع کردی جس کا اُن کے ظاہر و باطن پر نمایاں اثر ہوا۔ شعر گوئی کا سلسلہ اگرچہ جاری رہا لیکن موسیقی اور آلاتِ موسیقی سے وہ رفتہ رفتہ بے زار ہوتے چلے گئے۔ اِس کی بجائے وہ روحانی اوراد و وظائف کی طرف مزید مائل ہوئے۔ اِس مقصد کے لیے اُن کا اصرار تھا کہ میں (راقم السطور) بھی اُن کا ساتھ دوں۔ حاجی امداداللہ مہاجر مکّیؒ کے سلسلے میں شیخ ابوالحسن شازلیؒ کی مشہور دعا ’حزب البحر‘ کے وِرد کا طریقہ نسبۃً آسان ہے۔ میں نے اِس کے پڑھنے کی اجازت مدرسہ اشرفیہ سکھر کے استاد مولانا عبدالحکیمؒ سے لے رکھی تھی۔ عابدصدیق مرحوم نے بھی بذریعہ خط و کتابت اُن سے اجازت حاصل کرلی اور ہم دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی کتاب ’مناجاتِ مقبول‘ میں اِس کی زکوٰۃ کا جو طریقہ مذکور ہے، اُس کے مطابق اِسے پڑھا جائے۔ چناں چہ علی پور کی ایک مسجد میں ہم دونوں نے صفر کے مہینے میں تین روز کے لیے اعتکاف کیا اور ’حزب البحر‘ کا سہ روزہ عمل پورا کیا۔ مختلف اغراض و مقاصد کے لیے ’حزب البحر‘ کے وِرد کے متعلق عابدصدیق صاحب کی خط و کتابت مولانا عبدالحکیم صاحبؒ سے ہوتی رہتی تھی۔
پروفیسر عابدصدیق صاحب وقت کے جیّد علمائے دین سے رابطہ رکھتے تھے۔ ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۲ء تک اُنھوں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے وائس چانسلر حضرت مولانا ابوبکرغزنویؒ سے تصوف کے سلسلہ نقشبندیہ میں اسباق لِیے اور اُن سے آپ کو اجازت عطا ہوئی۔ ۱۹۶۴ء سے ۱۹۷۳ء تک حضرت الشیخ مولانا محمد قمرالدینؒ سے چشتیہ نظامیہ فخریہ فریدیہ کے سلسلے میں اسباق لِیے اور اُن سے اجازت عطا ہوئی۔ مولانا محمد قمرالدینؒ ، حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے خلیفۂ مجاز تھے۔ پروفیسر عابدصدیق صاحب ہمیں بتایا کرتے تھے کہ مولانا محمد قمرالدین صاحبؒ نے مجھے تاکید فرمائی تھی کہ میرے بعد اگر کسی سے علمی و اصلاحی تعلق قائم کرنا ہو تو اکابرعلمائے دیوبند سے وابستگی اختیار کیجیے۔ اِس سے خواجہ غلام فریدؒ کے صحیح مسلک کا بھی بخوبی علم ہوجاتا ہے۔ بریلویت و دیوبندیت کے نام پر تفریق بین المومنین کے اصل محرکات پست فکر لوگوں کی ہواپرستی اور شکم پروری ہیں، اکابر علما اور صوفیا کا دامن اِس سے پاک رہا ہے۔
علمِ حدیث میں پروفیسر عابدصدیقؒ نے امام محمدؒ کی ’کتاب الاٰثار‘ کی روایت کی اجازت محدثِ شہیر مولانا عبدالرشید نعمانیؒ سے ربیع الاوّل ۱۳۹۴ھ بمطابق اپریل ۱۹۷۴ء میں حاصل کی اور صحیح بخاری کی روایت کی اجازت مولانا شیخ لطافت الرحمٰن سے ۱۹۸۷ء میں حاصل کی۔
تصوف کے ساتھ علم الکلام اور عقلی مباحث سے بھی پروفیسرعابدصدیق مرحوم کی دلچسپی قابلِ ذکر ہے۔ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ کی تصانیف اکثر اُن کے زیرِمطالعہ رہتی تھیں۔ 
میں نے اپنی سرکاری ملازمت کے آخری سالوں میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے شعبہ علومِ اسلامیہ میں جزوقتی استاد کی حیثیت سے فلسفہ و علم الکلام پڑھانا شروع کیا۔ میری یہ کوشش رہی کہ کلامیات کی تدریس میں عام روش سے ہٹ کر طلبہ و طالبات کو رجوع اِلی القرآن کی جانب زیادہ سے زیادہ مائل کیا جائے اور عقل و نقل میں ہم آہنگی پیدا کرکے اصولی اختلافی مسائل میں صحیح و غلط میں امتیاز کے آسان طریقوں سے اُنھیں روشناس کرایا جائے۔ اِس سلسلہ میں زیادہ تر عقلی استدلال کے فراموش کردہ شعبے ’’تشقیقِ جدلی‘‘ کو بروئے کار لایا جائے۔ عابدصدیق مرحوم تشقیقِ جدلی کے ذریعہ حقائق تک رسائی حاصل کرنے کو نہایت دلچسپ اور مفید قرار دیتے تھے اور مجھ سے متعلقہ مسائل پر اُن کی بحث و تمحیص اکثر جاری رہتی تھی۔ میری طرح عابدصدیق صاحب بھی ایسے مباحث میں خاص دلچسپی لیتے تھے جن کی مدد سے پیشہ ورانہ اور سوقیانہ مناظرانہ انداز سے سراسر اجتناب کرتے ہوئے طالبانِ حق کی مختصر وقت میں صحیح رہنمائی ہوسکے اور فکری لغزشوں سے اُنھیں محفوظ رکھا جاسکے، یا اگر وہ اِن فکری لغزشوں کا شکار ہوچکے ہیں تو اُنھیں بے جا گروہی تعصب اور وابستگی کا شعور اور احساس دلائے بغیر سیدھی راہ اختیار کرنے پر بخوبی آمادہ کیا جاسکے۔ یہاں جدل سے مراد بحث و مباحثہ ہے۔ اِس طریقے میں کسی بھی زیرِبحث مسئلے کی ممکنہ شقّوں (پہلوؤں) کو فرداً فرداً زیرِبحث لاکر حقیقت تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ یہ طریقہ نہ صرف دلچسپ ہوتا ہے بلکہ بسااوقات اِس سے حقیقت تک رسائی مختصر وقت میں ہوجاتی ہے۔ تمام عقلی علوم مثلاً ریاضی میں یہ طریقہ بکثرت مستعمل ہے۔ مثلاً تیرہ کا عدد یا جفت ہے یا طاق ہے۔ چوں کہ یہ عدد دو پر پورا تقسیم نہیں ہوتا، لہٰذا اِس کے جفت ہونے کی شق غلط ثابت ہوئی، اور چوں کہ یہاں تیسری کوئی شق عقلاً ممکن ہی نہیں، لہٰذا اِس کا طاق ہونا ازخود ثابت ہوگیا۔ 
دینی اصول و فروع میں بھی تشقیقِ جدلی کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ مثلاً سورہ فاتحہ کی ابتدائی آیات میں یہی طریقہ استعمال کیا گیا ہے۔ کسی کی اطاعت کی جائے یا اتباع کیا جائے، اُس کی اطاعت و اتباع کے صرف اور صرف تین محرکات و عوامل ہی سامنے آئیں گے۔ مُطاع و متبوع یا تو صاحبِ کمال ہو، یا صاحبِ احسان (محسن) ہو، یا صاحبِ اقتدار ہو۔ مثلاً شاگرد اپنے استاد کی اطاعت و اتباع پر اِس لیے آمادہ ہوتا ہے کہ وہ استاد کو متعلقہ فن میں صاحبِ کمال سمجھتا ہے۔ مریض، طبیب کی اطاعت اِس لیے کرتا ہے کہ وہ طبیب کو فنِ طب میں صاحبِ کمال سمجھتے ہوئے اُس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ بچے والدین کی اطاعت و اتباع اِس لیے کرتے ہیں کہ وہ والدین کو ایسا محسن و شفیق پاتے ہیں کہ اُن کے خیال میں والدین کا یہ احسان اور اُن کی شفقت بے لوث ہوتی ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو نہ کسی کے کمال کو پہچانتے ہیں اور اگر پہچان بھی لیں تو قدر نہیں کرتے اور نہ ہی وہ کسی کے احسان کو خاطر میں لاتے ہیں۔ یہ ’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے‘ کا مکمل مصداق ہوتے ہیں۔ جو صاحبِ اقتدار ہوگا، وہی ایسے لوگوں کو سیدھا کرسکتا ہے۔ اب دیکھیے سورہ فاتحہ کی پہلی آیت اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ  میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ حقیقی صاحبِ کمال صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ دوسری آیت اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سے واضح ہے کہ حقیقی محسن بھی وہی ہے اور تیسری آیت مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ میں یہ بتایا گیا ہے کہ حقیقی صاحبِ اقتدار بھی وہی ہے، لہٰذا سب سے زیادہ اطاعت و اتباع بھی اُسی کی ہونی چاہیے۔ لیکن ٹھہریے! دوسرے انسانوں کی مشروط اطاعت و اتباع پر تو ہر انسان مجبور بھی ہے اور مامور بھی۔ مثلاً بچے والدین کی، شاگرد اساتذہ کی، مرید اپنے شیخ کی، رعایا اپنی حکومت کی اطاعت و اتباع کرتی ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کا اِس سے بڑھ کر کوئی اور حق ایسا ہونا چاہیے جس میں دوسروں کی شرکت کو وہ ہرگز قبول اور گوارا نہ کرے۔ اُس کا یہ حق ’عبادت‘ ہے۔ چناں چہ اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے (کہ تم اپنی زبان سے خود یہ کہو) اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ  کہ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے (مافوق الاسباب امور یعنی امورِ غیر عادیہ میں) مدد مانگتے ہیں۔
پروفیسر عابدصدیق صاحب کی بذلہ سنجی اور خوش طبعی کا ذکر بھی یہاں مناسب ہوگا۔ زندگی کے تلخ و شیریں حقائق، تجربات و مشاہدات کو دلچسپ لطائف میں ڈھال کر افسردہ مزاجی کو خوش مزاجی میں تبدیل کرنے میں اُنھیں یدِطولیٰ حاصل تھا۔ پروفیسر عابدصدیق مرحوم اپنی خوش طبعی کی بنا پر سخت ترین حالات میں بھی بسااوقات ہشاش بشاش رہتے تھے۔ چند سال قبل اُنھیں دل کا شدید عارضہ لاحق ہوا۔ بعد میں یہی عارضہ اُن کے انتقالِ پرملال کا سبب بنا۔ میں عیادت کے لیے گیا تو ہنستے ہوئے کہنے لگے: ’’بھیّا! عجیب بات ہے۔ گھر والے مجھے کہتے ہیں کہ دل چھوٹا نہ کرو اور ہسپتال والے کہتے ہیں کہ تم نے دل بڑھا رکھا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ اُنھیں عظم القلب (Senile Hypertrophy of Heart) کا عارضہ لاحق تھا۔ مرض سے اُنھیں کچھ افاقہ ہوا تو ایک مرتبہ مزاحاً فرمانے لگے: ’’برِصغیر کے (اردو کے) بڑے بڑے شعرا گزرتے جارہے ہیں۔ طبیعت میری بھی کئی دنوں سے ناساز ہے۔‘‘
کالج میں بطورِاستاد تقرری سے پہلے ہی مجھے طبِ تماثلی (ہومیوپیتھی) سے دلچسپی تھی۔ گورنمنٹ کالج علی پور میں ملازمت کے دوران میں نے عابدصدیق صاحب کو بھی اِس سے روشناس کرایا۔ میری دلچسپی تو ہومیوپیتھک کتب کے مطالعے، اور اپنے احباب و اقارب کے علاج معالجے تک ہی محدود رہی لیکن عابدصدیق صاحب نے بعد میں بہاول پور میں قیام کے دوران ہومیوپیتھک کا چار سالہ ڈپلومہ کورس باقاعدہ پورا کیا اور پھر اپنے گھر میں کلینک بھی کھولا۔ مقامی ہومیوپیتھک کالج میں وہ وقتاً فوقتاً لیکچرز بھی دیتے رہے۔ ہومیوپیتھی کے سلسلے میں اُن کا مجھ سے اور میرا اُن سے اکثر رابطہ رہتا تھا۔ ایک دوسرے کے معالجاتی تجربات سے ہم مستفید ہوتے تھے۔ فلسفۂ ہومیوپیتھی سے اُنھیں خاص دلچسپی تھی اور اِس پر قدیم و جدید مصنفین کی کتب اکثر اُن کے زیرِمطالعہ رہتی تھیں۔
پروفیسر عابدصدیق مرحوم کی طبیعت میں خاندانی جلال بھی موجود تھا۔ اپنی دانست میں جس کام کو وہ غلط سمجھتے تھے اُسے ہوتا دیکھ کر کبھی کبھار وہ تحمل و برداشت کی حدود سے کچھ باہر بھی نکل جاتے تھے۔ مثلاً ایک مرتبہ میں اُن کے ہمراہ رات کے وقت تعلیمی بورڈ بہاول پور کے چئرمین صاحب سے ملاقات کے لیے اُن کے گھر گیا کیوں کہ وہ کسی زمانے میں گورنمنٹ کالج علی پور میں ہمارے پرنسپل رہ چکے تھے۔ چئرمین صاحب کے ایک صاحب زادے نہایت بھدے انداز اور آواز میں ہارمونیم وغیرہ پر کوئی گانا گارہے تھے۔ موسیقی پر صاحب زادے کا یہ ظلم عابدصدیق صاحب سے برداشت نہ ہوسکا اور آلۂ موسیقی اُن کے ہاتھ سے چھینتے ہوئے بطورِاصلاح اُسے خود بجانا شروع کردیا اور خاصی دیر تک یہی شغل جاری رہا حالاں کہ اُن دنوں عابدصدیق صاحب موسیقی اور آلاتِ موسیقی سے بے زار ہوچکے تھے۔ جب ہم وہاں سے واپس ہوئے تو فرید گیٹ پر کسی کی خوشی کی تقریب میں مغنّیوں اور مغنّیات کے بھرپور گانے جاری تھے اور ارد گرد لوگوں کا خاصا مجمع ہونے کی وجہ سے آمدورفت کا راستہ مسدود تھا۔ وہاں سے ہم نے دوسرا راستہ لیا تو کچھ آگے چل کر وہاں بھی اِسی طرح کا منظر دکھائی دیا۔ تیسرا طویل راستہ اختیار کرتے ہوئے گھر پہنچنے کے قابل ہوئے۔ میں نے عابدصدیق صاحب سے مزاحاً کہا کہ چوں کہ آپ نے آلاتِ موسیقی بجانے کے گناہ کو پھر تازہ کیا ہے، اُسی کی ہمیں یہ سزا ملی ہے۔ تو اُنھوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا کہ اِسی لیے تو بزرگ کہا کرتے ہیں کہ اچھا یا برا جو کام بھی کروگے، اُسی کے اسباب تم پر آسان کیے جائیں گے۔
جب گورنمنٹ ایس ای کالج بہاول پور سے عابدصدیق صاحب ریٹائر ہوئے تو کالج کی روایت کے مطابق اُن کے لیے الوداعی تقریب کا اہتمام ہوا۔ اِس تقریب میں اُنھوں نے الوداعی خطبات کے جواب میں دوسری بہت سی باتوں کے علاوہ اپنے طبعی جلال اور تیزمزاجی کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے رفقائے کار سے کہا کہ اگر کسی بھی وقت میرے کسی بھی قول و فعل سے کسی نے کسی طرح کی بھی کوئی رنجش یا تکلیف محسوس کی ہو تو میں اُس پر صدقِ دل سے سب سے معافی کا خواستگار ہوں، چوں کہ میں نے نفاق سے کام لیتے ہوئے کبھی کسی کے خلاف کینہ پروری نہیں کی اِس لیے اپنے مافی الضمیر کو برملا ظاہر کرتا رہاہوں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے اور اُنھیں جنت کے اعلیٰ درجات پر فائز فرمائے۔ آمین۔

شیعہ سنی تنازع اور اس کا پائیدار حل

ڈاکٹر محمد امین

ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے دسمبر ۲۰۰۴ کے شمارے میں مولانا زاہد الراشدی صاحب نے اپنے ادارتی شذرہ بعنوان ’سنی شیعہ کشیدگی۔ چند اہم معروضات‘ میں تکفیر شیعہ کے بارے میں مولانا سرفراز خان صفدر صاحب کے فتوے کی تصویب کرتے ہوئے کالعدم سپاہ صحابہ کے رویے کی شدت پر بھی گرفت کی ہے۔ مولانا اور ’الشریعہ‘ کا موقف ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کے فروغ، مسلکی اختلافات میں وسعت سے کام لینے اور رواداری کا مظاہرہ کرنے کی تلقین پر مشتمل ہوتا ہے جس کی ہر متوازن اور غیر جانبدار شخص تعریف وتائید کرتا ہے اور خود ہم اس کے مداحوں میں سے ہیں۔ تاہم تکفیر شیعہ کے بارے میں مولانا زاہد الراشدی نے جو کچھ لکھا ہے، ہماری طالب علمانہ رائے میں وہ بھی ایک لحاظ سے سخت موقف ہے۔ اس لیے ہم اس ضمن میں نیز اس مسئلے کے پائیدار حل کے لیے بعض تجاویز مولانا اور دوسرے اہل فکر ونظر کے لیے پیش کرنا چاہتے ہیں۔

مسئلہ تکفیر

جہاں تک تکفیر شیعہ کا تعلق ہے، ہمارے علم کی حد تک یہ اہل سنت کا کوئی متفق علیہ مسئلہ نہیں ہے، بلکہ غالباً یہ کہا جا سکتا ہے کہ جمہور علماء اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ اہل تشیع کا نقطہ نظر غلط ہے۔ چلیے اسے گمراہی کہہ لیجیے، لیکن سوائے خلافیات اور مناظرہ کا ذوق رکھنے والے کچھ سخت موقف رکھنے والے علما کے، اکثریت نے کبھی انہیں کافر نہیں کہا اور نہ سمجھا۔ اسی طرح امت کے اہل علم کی اکثریت نے ان کے مزعومہ کفر کی بنا پر کبھی انہیں واجب القتل نہیں کہا اور نہ مسلم معاشرے میں بالعموم اہل سنت واہل تشیع میں قتل وغارت گری کا وہ ماحول رہا ہے جو اس وقت پاکستان میں ہے، بلکہ ان دونوں مسالک کے پیروکار مسلم معاشروں میں صدیوں سے امن وسکون سے رہتے آئے ہیں اور اب بھی رہ رہے ہیں۔
محترم مولانا سرفراز خان صفدر صاحب کے فتوے میں دو باتیں محل نظر ہیں: ایک تو یہ کہ انہوں نے ’شیعہ‘ کا عمومی لفظ استعمال کر کے اور ان کے چند اہم قابل اعتراض عقائد کا ذکر کر کے انہیں کافر قرار دیا ہے۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے اہل تشیع کے کسی وضاحتی موقف کو ماننے سے اس لیے انکار کر دیا ہے کہ وہ تقیہ پر مبنی ہو سکتا ہے۔ ہم ادب کے ساتھ عرض کریں گے کہ یہ دونوں باتیں عدل وانصاف کے مسلمہ معیارات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ پہلے جزیے کی تو خود مولانا زاہد الراشدی صاحب نے بھی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کا اطلاق سارے شیعہ گروہوں پر نہیں ہو سکتا۔ ہم کہتے ہیں کہ سارے اثنا عشری شیعوں پر بھی اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا، کیونکہ سارے اثنا عشری شیعہ مذکورہ تینوں عقائد پر یقین نہیں رکھتے۔ لہٰذا انہیں ایک گروپ کے طور پر کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تکفیر مسلمین کے بارے میں سخت شرعی احکام کے پیش نظر احتیاط وانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ فتویٰ یہ دیا جائے کہ جس شخص کے یہ اور یہ عقائد ہوں، وہ کافر ہے اور یہ نہ کہا جائے کہ سارے شیعہ کافر ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں اختلاف وانصاف کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ فریق مخالف اگر کسی الزام کے جواب میں کوئی وضاحت پیش کرے تو اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اگر ایک اثنا عشری عالم یہ کہے کہ وہ ان تینوں مذکورہ عقائد کا حامل نہیں تو ہمیں اس کی اس وضاحت کو قبول کرنا چاہیے اور یہ کہہ کر اسے رد نہیں کرنا چاہیے کہ تم تقیہ کر رہے ہو۔ یہ بھی واضح ہے کہ اس طرح کے علمی مسائل کا فیصلہ عوام الناس کی رائے پر نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح خلافیات وجدلیات کا ذوق رکھنے والے شدت پسند انفرادی آرا کے حامل کسی ایک شخص یا بعض اشخاص کی رائے پر بھی کسی سارے گروہ کو مطعون نہیں کرنا چاہیے۔ مثلاً اگر کوئی مولانا عبید اللہ سندھی صاحب کی آرا بیان کر کے کہے کہ یہ سب اہل دیوبند کی رائے ہے یا مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کی آرا بیان کر کے کوئی کہے کہ اہل ہند کے سب علماء احناف کی یہ آرا ہیں تو کیا اس بنیاد پر کوئی فیصلہ دینا صحیح ہوگا؟ اسی طرح اثنا عشری اہل تشیع میں سے کسی شدت پسند عالم دین نے اگر کبھی کوئی غلط بات لکھ دی ہے تو اس کی بنیاد پر سارے اثنا عشری گروہ یا سارے اثنا عشری افراد کو کافر کہنا صحیح نہ ہوگا۔
یہاں ایک اور بات بھی اہم ہے اور وہ یہ کہ فرض کیجیے کہ اہل سنت کا ایک عالم یا ایک عام شخص اگر کسی اثنا عشری عالم یا فرد کے بارے میں تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کے عقائد کافرانہ ہیں اور وہ اس کی نظر میں کافر ہے تو کیا اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ بندوق پکڑے اور اسے گولی مار کر ہلاک کر دے؟ یہ تو قرآن وسنت میں کہیں بھی نہیں لکھا۔ اہل سنت کے کسی امام نے بھی اس کا فتویٰ نہیں دیا۔ پھر اسے جائز کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے اور موجودہ قتل وغارت گری کی شرعی اساس کیا ہے؟
خلاصہ یہ کہ سارے شیعوں کی تکفیر کا بلا استثنا فتویٰ نہیں دینا چاہیے بلکہ صرف اس شخص کے کفر کا فتویٰ دینا چاہیے جو تسلیم کر ے کہ اس کے یہ عقائد ہیں۔ دوسرے یہ کہ جو شخص وضاحت طلبی پر ان عقائد سے براء ت کا اظہار کرے، اس کا موقف قبول کیا جانا چاہیے اور یہ کہہ کر اسے رد نہیں کرنا چاہیے کہ وہ تقیہ کر رہا ہے۔ اور تیسرے یہ کہ اگر اہل سنت کے کسی شخص کی رائے میں اہل تشیع کا کوئی شخص کفریہ عقائد رکھتا ہو اور اس کی رائے میں وہ صریحاً کافر ہو تو بھی اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے اور اسے خود قتل کر دے۔ کسی فرد یا گروہ کے ارتداد یا قتل کا فیصلہ کرنا مسلم ریاست کا کام ہے نہ کہ کسی فرد کا، جیسا کہ قادیانیوں کی تکفیر کے بارے میں ہمارے سامنے ایک فیصلہ ہو بھی چکا ہے۔
کسی التباس سے بچنے کی خاطر ہم یہاں یہ وضاحت کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ ذاتی طور پر ہمارا عقیدہ وہی ہے جو جمہور اہل سنت کا ہے یعنی جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ موجودہ قرآن اصلی نہیں، جو صحابہ پر سب وشتم روا رکھتا ہو اور انہیں کافر سمجھتا ہو، اور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی رہنما کو ان ہی کی طرح معصوم عن الخطا اور صاحب دعوت (گویا نبی) سمجھتا ہو، ہمارے نزدیک بھی وہ کافر ہے۔

سنی شیعہ تنازع کا حل

تکفیر شیعہ کے بارے میں ہماری گزارشات تمام ہوئیں۔ لیکن اس مسئلے کا ایک اور اہم پہلو بھی قابل غور ہے اور وہ یہ کہ پاکستان میں اس وقت جو شیعہ سنی کشیدگی پائی جاتی ہے، اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اہل سنت کے سارے علماء اور عامۃ الناس اہل تشیع کو کافر سمجھتے ہیں، بلکہ اس کی وجہ کچھ اور ہے۔ اہل تشیع ہمارے معاشرے میں صدیوں سے رہ رہے ہیں لیکن اکا دکا واقعات کے سوا جن میں کسی ایک طرف سے کسی شدت پسند شخص کی زیادتی ہوتی ہے، کبھی اس طرح کی قتل وغارت گری والی صورت پیدا نہیں ہوئی جو اس وقت پاکستان میں پیدا ہو چکی ہے۔ لہٰذا موجودہ تنازع کی اصل وجہ اہل تشیع کے عقائد نہیں ہے، بلکہ اگر تعیین کے ساتھ تصریح کی جائے تو یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ دراصل عموم اہل سنت اور عموم اہل تشیع میں اس وقت بھی کوئی کشیدگی نہیں پائی جاتی۔ کشیدگی دراصل اہل سنت میں سے دیوبندی حضرات کے ایک گروپ اور اہل تشیع کے ایک بڑے گروپ میں ہے، ورنہ ان دونوں گروہوں کے علاوہ شیعہ سنی عامۃ الناس میں باہم کوئی نفرت ہے اور نہ اہل سنت واہل تشیع کی ساری دینی قیادت اس میں شامل ہے۔ تو اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں گروپوں میں جھگڑے کی وجہ کیا ہے اور اس کی ابتدا کس نے کی ہے؟ کچھ کہنے سے پہلے یہ ہم یہاں یہ صراحت کر دیں کہ ہم کسی گروہ کے حامی ہیں نہ مخالف، ہم تو دونوں کے خیر خواہ ہیں اور ہماری رائے محض غیر جانبداری اور معروضیت پر مبنی ہے۔
ایرانی انقلاب کی کامیابی پچھلی دہائیوں کا ایک اہم واقعہ ہے۔ وہاں انقلابیوں کو کامیابی ملی تو انہوں نے اس انقلاب کو برآمد کرنا چاہا۔ اب عملاً صورت حال یہ ہے کہ اس پوری پٹی میں اہل تشیع موجود ہیں۔ عراق، شام، بحرین میں معتد بہ تعداد میں اور سعودی عرب، امارات، پاکستان، افغانستان میں معمولی مقدار میں۔ چنانچہ ان ممالک کی شیعہ اقلیتوں میں اضطراب اور ہیجان کی کیفیت پید اہو گئی۔ بعض لوگوں کے نزدیک ایرانی انقلابیوں کی اپنے انقلاب کو برآمد کرنے کی خواہش فطری تھی، لیکن ہمارا کہنا یہ ہے کہ اس میں معروضیت کو پیش نظر رکھنا ضروری تھا کہ ہوش جوش پر غالب نہ آئے ، ورنہ گھمبیر مسائل پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ پاکستان میں پیدا ہوئے۔
پھر عقل ومنطق، حق وانصاف اور دوسرے ملکوں میں عدم مداخلت کے بین الاقوامی اصول ومعاییر سے ایک لحظہ کے لیے صرف نظر کرتے ہوئے، ایران کے اپنے قائم کیے ہوئے معیار کو دیکھا جائے تو بھی اس بات کا کوئی جواز نہیں بنتا کہ پاکستان میں ’’تحریک نفاذ فقہ جعفریہ‘‘ کی بنیاد رکھی جائے۔ ایران نے یہ اصول اپنے دستور میں لکھا ہے اور وہ اس پر عمل پیرا بھی ہے (اور ہمارے نزدیک بھی یہ اصول صحیح ہے) کہ ملک کا دستور اور عام قانون وہ ہوگا جو ملک کی اکثریت کا عقیدہ ہے، حکومت بھی انہی کی ہوگی لیکن اقلیتی نقطہ نظر کے حقوق بھی پامال نہیں کیے جائیں گے۔ چنانچہ ایرانی دستور اور قوانین اثنا عشری عقائد کے مطابق ہیں اور اسی عقیدے کے حامل لوگ اقتدار میں ہیں۔ اسی اصول کا اطلاق پاکستان میں بھی ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں اہل تشیع کی تعداد پانچ سات فی صد سے زیادہ نہیں (چونکہ مصدقہ اعداد وشمار موجود نہیں لہٰذا اہل تشیع اگر کچھ زیادہ تعداد کا دعویٰ کریں تو بھی صورت حال پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا) اس لیے یہاں ملک کا قانون تو وہی بنے گا جو اکثریت (اہل سنت) کا ہے، لہٰذا یہاں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ قائم کرنا اور اس کے لیے عملاً جدوجہد کرنا اور دھرنے دینا غیر منطقی بھی ہے اور نا انصافی بھی۔ یہ خود ایران کے اپنے بنائے ہوئے اصول کے بھی خلاف ہے لہٰذا یہاں فقہ جعفریہ کے نفاذ کا مطالبہ کرنا یا الگ تعلیمی نصاب کا مطالبہ کرنا بلاجواز تھا اور ہے۔ اس پر جب ایرانی پشت پناہی سے دھن اور دھونس سے عمل کروانے کی کوشش کی گئی اور عاقبت نااندیش پاکستانی حکومتیں بھی بروقت صحیح فیصلہ نہ کر سکیں تو ا س کا رد عمل ہوا اور اہل سنت میں سے ایک گروہ اس کی مزاحمت پر تل گیا۔ اگر یہ عمل اور رد عمل پرامن اور علمی رہتا تو شاید قابل برداشت ہوتا، لیکن ایک دفعہ جب قانو ن ہاتھ میں لے لیا گیا تو بظاہر ظالم ومظلوم برابر ہو گئے۔ اب دونوں گروہ ایک دوسرے کے آدمی مار رہے ہیں اور مسابقت اور مقابلہ اس میں ہے کہ کس نے کس کے زیادہ آدمی مارے! انا للہ وانا الیہ راجعون۔ نہ کسی کو دین وشریعت کی پروا ہے اور نہ حق وانصاف کی۔ یہ قوم کی بدقسمتی ہے۔ یہ ایک مصیبت ہے بلکہ مصیبت کبریٰ ہے اور ہم جیسے عام مسلمان یہ دیکھ کر کڑھتے ہیں اور یہ سوچ کر پریشان ہوتے ہیں کہ اس مصیبت سے امت کو کیسے نکالا جائے؟
اس صورت حال کی اصلاح کے حوالے سے دو باتیں اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ حکومت پاکستان (بلکہ اسٹیبلشمنٹ کہنا چاہیے کیونکہ حکومتیں تو بدلتی رہتی ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ یعنی سول اور ملٹری بیورو کریسی اور جاگیردار وسرمایہ دار سیاست دانوں کی مستقل ہیئت مقتدرہ ہمیشہ قائم رہتی ہے) نے اس سلسلے میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا اور نہ آئندہ اس سے اس کی توقع ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہمارے حکمران طبقے کی پالیسی ہی یہ ہے کہ دینی عناصر کو آپس میں لڑاؤ تاکہ یہ متحد ہو کر مضبوط نہ ہو جائیں اور ان کے لیے کوئی سنجیدہ چیلنج نہ بن جائیں۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ ہر مسلک کی اپنی سیاسی جماعت ہے بلکہ ہر مسلک میں جتنے لیڈر ہیں، اتنی ہی دینی وسیاسی جماعتیں ہیں اور انتخابات میں ان کو ایک دوسرے کے خلاف لڑایا جاتا ہے تو کیا یہ محض اتفاق ہے؟ اور کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ حکومت ہر مسلک کی مسجد اور مدرسے کو رجسٹرڈ کر کے باقاعدہ سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہے اور اس نے ہر مسلک کی دینی تعلیم کا ایک وفاق منظور کیا ہوا ہے جس کی اسناد کو وہ تسلیم کرتی ہے۔ نہیں جناب! یہ سب کچھ اتفاقیہ اور الل ٹپ نہیں ہو رہا، اس کے پیچھے اسٹیلبشمنٹ کی باقاعدہ سوچ اور منصوبہ بندی ہے اور ان اقدامات کے ذریعے سے اس نے کامیابی سے دینی عناصر کے اندر افتراق کے بیج بوئے ہیں اور انہیں پروان چڑھایا ہے۔ ہمارے علما اگر ’بھولے بادشاہ‘ نہ بنیں اور بصیرت وتدبر سے کام لیں تو ان کو یہ سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کہ حکومت اگر چاہے تو مسلک پر مبنی سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ نہ کرے یا دینی تعلیم کے بہت سارے وفاقوں کی جگہ ایک وفاق بنا دے اور مسجدیں ومدرسے مسلکی بنیادوں پر رجسٹر نہ کرے ، لیکن وہ تو اس مسلک پرستی کو فروغ دینا چاہتی ہے، علما کو آپس میں لڑانا چاہتی ہے لہٰذا اسے ان اقدامات کی کیا ضرورت ہے؟ 
تو خلاصہ یہ کہ ہماری کسی حکومت نے شیعہ سنی اختلافات کو پاٹنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کبھی نہیں کی اور نہ ہمیں موجودہ یا آئندہ کسی حکومت سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ موجودہ شیعہ سنی تنازع کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کردار ادا کرے گی۔ لہٰذا ا س کا ایک ہی حل ممکن ہے اور وہ یہ ہے کہ شیعہ سنی متحارب گروپوں کے علاوہ جتنے بھی دردمند دینی اور ملی عناصر ہیں، وہ اکٹھے ہو کر ایک کمیشن، کمیٹی یا عدالت بنا لیں جو اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرے اور اس کے اسباب دور کرے۔ اوپر اوپر سے لیپا پوتی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں (جس طرح حکومت کرتی ہے کہ جب محرم آئے یا مسلسل قتل وغارت گری کی وارداتیں ہوں تو علماکو صدر اور وزیر اعظم یا گورنر صاحب سے ملوایا جاتا ہے، اتحاد کے حق میں بیان دلوائے جاتے ہیں، حکومت دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے اعلان کرتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور جب محرم گزر جاتا ہے یا وارداتیں کچھ ٹھنڈی پڑ جاتی ہیں تو پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ پھر اگلے سال جب محرم آتا ہے یا وارداتیں تیز ہوتی ہیں تو پھر وہی بیانات اور اٹھک بیٹھک دہرائی جاتی ہے اور عملاً کوئی دیرپا اقدام مسئلہ سلجھانے کے لیے نہیں کیا جاتا) اس طرح کی ایک ’’ملی یک جہتی کونسل‘‘ پہلے بنی بھی تھی، لیکن اس نے بھی ٹھوس منصوبہ بندی سے اس تنازع کے مستقل خاتمے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مرض کو جڑ سے ختم کیا جائے۔ اس غرض سے ضروری ہے کہ دردمند، جہاں دیدہ اور غیر جانبدار لوگوں پر مشتمل ایک کمیشن یا کمیٹی یا عدالت سارے دینی وملی عناصر کی طرف سے بنائی جائے جو اہل تشیع کو قائل کرے کہ وہ ایران کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نفاذ فقہ جعفریہ کی تحریک اور جدوجہد ختم کریں۔ (ہاں! اگر وہ چاہیں تو اپنے حقوق کے پرامن انداز میں تحفظ کے لیے کوئی انجمن، ادارہ یا سیاسی جماعت بنا سکتے ہیں) اس کے بعد سپاہ صحابہ کے بزرگوں سے بھی درخواست کی جائے کہ ہ اپنی تنظیم رضاکارانہ طور پر ختم کر دیں اور دینی وسیاسی مقاصد کے لیے دوسرے پلیٹ فارم استعمال کریں۔ یہ کام ایک آدھ دن یا ایک آدھ نشست کا نہیں بلکہ اس کے لیے مسلسل محنت کرنی پڑے گی لیکن ہمیں یقین ہے کہ اگر اخلاص، غیر جانب داری اور درد مندی کے ساتھ یہ کوشش کی جائے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائیں گے اور اس کے اچھے نتائج نکلیں گے۔ ان شاء اللہ۔ ہم مولانا زاہد الراشدی صاحب سے درخواست کریں گے کہ وہی اس نیک کام کی ابتدا کریں اور مختلف مسالک کے سرکردہ اور معتدل علماء کرام (ترجیحاً غیر سیاسی) پر مشتمل ایک بڑا کمیشن یا عدالت بنوائیں جو اس مسئلے کو جڑ بنیاد سے ختم کرنے کی کوشش کرے اور ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کرے۔
امت مسلمہ کو اتحاد کی جتنی ضرورت آج ہے، شاید اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔ سقوط بغداد اول کے وقت شیعہ سنی اور دوسرے فرقے آپس میں لڑ رہے تھے، یہاں تک کہ ہلاکو خان نے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ آج پھر ایک ہلاکو خاں کے ہاتھوں بغداد کا دوبارہ سقوط ہو چکا ہے، افغانستان روندا جا چکا ہے، ایران کی باری آیا چاہتی ہے اور ہمارا نمبر شاید اگلا ہو، لیکن ہم شیعہ سنی ہونے کی بنا پر آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ہم تاریخ سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں، متحد ہونے کو تیار نہیں، حالانکہ ہلاکو کی فوج نے جب حملہ کیا تو شیعہ سنی میں تمیز نہیں کی تھی، سب کو مسلمان سمجھ کر مارا تھا۔ بش بھی آج مسلمانوں کو مار رہا ہے، وہ شیعہ سنی میں تفریق نہیں کرتا۔ جو بھی مسلمان ہو، وہ اس کے نزدیک گردن زدنی ہے، لیکن ہم شیعہ سنی کی بنیاد پر ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں، خود کو کمزور کر رہے ہیں، دوسروں کو اپنے اوپرہنسنے کا اور دشمنوں کو اپنے اندر گھسنے کا موقع دے رہے ہیں، لیکن عبرت پکڑنے کو تیار نہیں، سبق سیکھنے کو تیار نہیں، متحد ہونے کو تیار نہیں! کیا ہم نے خود کشی کا ارادہ کر لیا ہے؟ فاعتبروا یا اولی الابصار۔

جہاد اور دہشت گردی : عصری تطبیقات

ادارہ

(مجلس فکر ونظر لاہور ایک غیر حکومتی، غیر سیاسی، غیر مسلکی اور آزاد علمی وتحقیقی مجلس ہے جس کے پیش نظر مسلم امہ کو درپیش جدید مسائل میں اسلامی رہنمائی مہیا کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں کو بروئے کار لانا ہے۔ مجلس اس سے قبل سود کے متبادل معاشی نظام، دینی وعصری نظام تعلیم کی اصلاح کی حکمت عملی اور پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات جیسے اہم موضوعات پر مذاکروں اورسیمینارز کے انعقاد کے علاوہ تحقیقی وتجزیاتی رپورٹس بھی پیش کر چکی ہے۔ نومبر ۲۰۰۴ میں مجلس کی طرف سے عصری تناظر میں جہاد اور دہشت گردی سے متعلق سوالات پر غور وفکر کے لیے مختلف مکتبہ ہائے فکر کے ممتاز علما پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے مشورے سے ایک سوال نامہ مرتب کر کے ملک بھر کے جید علماء اور اسکالرز کو بھجوایا گیا۔ بعد ازاں مجلس نے ۲۲ مارچ ۲۰۰۵ کو لاہور میں اس موضوع پر ایک روزہ سمپوزیم منعقد کیا جس میں مولانا حافظ فضل الرحیم، مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی، مولانا عبد المالک، مولانا مفتی محمد طیب، مولانا مفتی محمد خاں قادری، مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی، ڈاکٹر محمود احمد غازی، ڈاکٹر قبلہ ایاز، ڈاکٹر محمد امین اور دیگر اہل علم نے شرکت کی اور اس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ مجلس کے مرتب کردہ سوال نامہ اور سمپوزیم کے جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ کا متن قارئین کی دل چسپی کے لیے یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

سوال نامہ

۱۔ جہاد کی تعریف

اقسام جہاد

۲۔ جہاد بالدعوۃ:  کیا مسلم یا غیر مسلم معاشرے میں زبان وقلم اور دیگر پر امن ذرائع سے دین کی دعوت وتبلیغ اور اعلاء کلمۃ اللہ کی کوشش بھی جہاد ہے؟
۳۔ جہاد بالنفس: کیا دینی احکام پر عمل کے لیے اپنی ذات کی اصلاح اور اس کے لیے کوشش وجدوجہد بھی جہاد شمار ہوگی؟

اقدامی جہاد

یعنی وہ مسلح جدوجہد جس میں کسی ایسی کافر حکومت کی طاقت توڑنا اور اسے جھکانا مقصود ہو جو اپنے عوام کے فہم اسلام میں رکاوٹ ہو۔

اس جہاد کی شرائط

۴۔ شرط امام:  کیا یہ جہاد صرف کسی مسلم ریاست (یا ریاستوں) کی طرف سے ہی ہو سکتا ہے یا یہ مسلم افراد اور ان کی پرائیویٹ تنظیموں کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے؟
۵۔ شرط مقدرت:  کیا یہ جہاد ہر حالت میں فرض ہوتا ہے یا صرف اس وقت جب مسلم حکومت (یا حکومتیں) اتنی طاقتور ہوں کہ طافر حکومت کی شکست کا احتمال غالب ہو؟ کیا سورۂ انفال کی دو گنا اور دس گنا والی شرط کا اطلاق یہاں ہوتا ہے؟
۶۔ اس جہاد کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ یعنی یہ فرض ہے یا مستحب؟

دفاعی جہاد

جب کوئی غیر مسلم طاقت کسی مسلمان ریاست پر حملہ کر دے/ قبضہ کر لے تو اس وقت:
۷۔ اگر مسلم حکومت شکست کھا جائے تو کیا اس ملک کے مسلم عوام پر جہا دیا مسلح مزاحمت فرض ہو جاتی ہے؟
۸۔ اس مزاحمت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ یعنی یہ فرض کفایہ ہوتی ہے یا فرض عین یا محض مستحب؟
۹۔ کیا اس حالت میں شرط امام اور شرط مقدرت ساقط ہو جاتی ہیں؟
۱۰۔ اگر محض استخلاص وطن مقصود ہو اور اس کے بعد اسلامی حکومت قائم کرنے کا عزم واعلان موجود نہ ہو تو کیا پھر بھی یہ مسلح مزاحمت جہاد شمار ہوگی؟
۱۱۔ اگر کفار ایسے مفتوحہ ملک میں اپنی گماشتہ مسلم حکومت قائم کر دیں تو کیا اس حکومت کے خلاف مسلح مزاحمت جائز ہوگی اور وہ شرعی جہاد سمجھی جائے گی؟
۱۲۔ کیا اس طرح کے دفاعی جہاد میں دشمن ملک (اور اس کے حلیف ممالک) کے اندر جاکر حملہ کرنا جائز ہوگا؟
۱۳۔ کیا اس ملک کی شہری آبادی اور شہری مقامات پر حملہ کرنا جائز ہوگا؟
۱۴۔ کیا اس ملک کے سفارت خانوں پر حملہ جائز ہوگا؟
۱۵۔ کیا اس ملک کے معاشی مفادات پر حملہ کرنا جائز ہوگا؟
اگر ایک مسلمان ملک پر کفار کا حملہ/ قبضہ ہو جائے توکیا
۱۶۔ ساری مسلم حکومتوں پر جہاد فرض ہو جائے گا؟
۱۷۔ یا صرف مجاور مسلم حکومت/ حکومتوں پر جہاد فرض ہوگا؟
۱۸۔ یا ساری مسلم حکومتوں پر محض اس کی اعانت فرض ہوگی؟
۱۹۔ یا صرف مجاور مسلم حکومت/ حکومتوں پر اعانت فرض ہوگی؟
۲۰۔ اس اعانت کی حدود کیا ہوں گی؟ کیا محض سیاسی اعانت سے بھی حق ادا ہو جائے گا؟
۲۱۔ اس اعانت کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ یعنی فرض ہوگی یا مستحب؟
۲۲۔ اگر مسلمان ریاستیں اس متاثرہ مسلم ریاست کی مدد نہ کریں تو کیا اس صورت میں ساری امت کے مسلمانوں پر (یعنی ہر فرد مسلم پر) جہاد فرض ہو جائے گا؟
۲۳۔ یا صرف مجاور مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوگا؟
۲۴۔ مسلم افراد (یا ان کی بنائی ہوئی پرائیویٹ تنظیموں) پر یہ جہاد فرض کفایہ ہوگا یا فرض عین یا مستحب؟
۲۵۔ دفاعی جہاد میں کیا خود کش حملے جائز ہیں؟
۲۶۔ دفاعی جہاد میں اگر ان بین الاقوامی معاہدوں کے ضوابط کی خلاف ورزی ہو جن پر مسلمان حکومتوں نے دستخط کر رکھے ہیں تو اس صورت میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟
۲۷۔ دہشت گردی کی تعریف کیا ہے؟

مسلمان ریاست کے داخلی معاملات

۲۸۔ اگر مسلمان حکمران بالجبر مسلمان رعایا پر حکومت کریں، ان کی پالیسیاں بھی غیر اسلامی ہوں اور وہ کفار کے گماشتے بھی ہوں تو کیا ان کے خلاف مسلح جدوجہد جائز ہوگی اور یہ جہاد شمار ہوگی؟
۲۹۔ یہ مسلح جدوجہد فرض کفایہ ہے، فرض عین ہے یا مستحب؟
۳۰۔ ایسے مسلمان حکمران کے خلاف پرامن اصلاحی جدوجہد کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ فرض کفایہ ہے، فرض عین ہے، مستحب ہے یا غیر ضرور ی ہے؟
۳۱۔ کیا مسلمان افراد اور تنظیموں کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ باہمی دینی اختلافات (جیسے مثلاً شیعہ سنی میں، اہل سنت اور منکرین حدیث میں یا دیوبندی بریلوی وغیرہ میں ہیں) کی بنا پر ایک دوسرے کو کافر کہیں؟
اگر ایک مسلمان حکومت میں ایک مسلمان کسی دوسرے مسلمان فرد یا گروہ کے بارے میں یہ رائے رکھے کہ وہ کافر ہے تو:
۳۲۔ اسے کیا کرنا چاہیے یعنی کیا اقدامات کرنے چاہییں؟
۳۳۔ کیا وہ خود سے انہیں قتل کرنے کا مجاز ہے؟

مشترکہ اعلامیہ

جہاد اور دہشت گردی کی عصری تطبیقات کے موضوع پر مجلس فکر ونظر کی طرف سے طلب کردہ پاکستان کے مختلف مکتبہ ہائے فکر اور اداروں کے علما، محققین اور اسکالرز کا یہ اجلاس، منعقدہ لاہور ۲۲ مارچ ۲۰۰۵، مندرجہ ذیل مشترکہ اعلامیے کا اعلان کرتا ہے:

جہاد

یہ کہ
۱۔ اسلامی احکام پر عمل ا ور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کی جانے والی ہر وہ کوشش جو فی سبیل اللہ ہو، اسلامی اور شرعی جہاد ہے۔
۲۔ جہاد اسلام کا انتہائی اہم حکم ہے اور وہ قیامت تک کے لیے ہے۔
۳۔ اگر کسی مسلمان ملک پر کفار ناحق حملہ کر دیں تو وہاں کے مسلم حکمران اور عوام کا فرض ہے کہ اس کی ہر طرح سے مزاحمت کریں، یہاں تک کہ جارح کو ملک سے باہر نکال دیں اور مسلمانوں کا اقتدار بحال ہو جائے تاکہ وہ اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزار سکیں۔
۴۔ مذکورہ صورت میں مجاور اور دیگر مسلمان ممالک کا فرض ہے کہ وہ حتی المقدور اس مسلم ممالک کی حمایت کریں کیونکہ سارے مسلمان ایک امت ہیں۔
۵۔ صحیح اسلامی اور شرعی جہاد (بمعنی قتال) میں بوقت ضرورت ایسی لڑائی میں شرکت اعلیٰ درجے کی عزیمت ہے جس کا نتیجہ پہلے سے واضح طور پر شہادت نظر آ رہا ہو۔

دہشت گردی

۶۔ جہاد (بمعنی قتال) کے علاوہ کسی مسلم حکومت، تنظیم یا فرد کا قانون ہاتھ میں لینا اور مسلح کارروائی کرنا دہشت گردی ہے، الا یہ کہ مسلم حکومت باغیوں اور قانون شکنوں سے نمٹے یا حکمرانوں کے کفر بواح کے نتیجے میں مسلمان عوام متحد ہو کر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
۷۔ کسی کافر حکومت کا ناحق کسی مسلمان حکومت پر چڑھائی کرنا، اس کا اقتدار ختم کرنا اور مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھانا بھی دہشت گردی ہے۔

مسلمانوں کے داخلی معاملات

۸۔ کسی مسلم ملک کا دوسرے مسلم ملک پر حملہ کرنا ناجائز ہے اور یہ جہاد نہیں۔
۹۔ اختلاف عقیدہ اور فکر ونظر کی بنیاد پر کسی مسلمان کا کسی دوسرے مسلمان کو کافر قرار دے کر اس کے خلاف ہتھیار اٹھانا ناجائز ہے، جہاد نہیں۔ نیز کسی فرد یا مسلم گروہ کو غیر مسلم قرار دے کر اس کے خلاف کارروائی کرنا ریاست کا کام ہے نہ کہ کسی فرد یا پرائیویٹ تنظیم کا۔
۱۰۔ اگر کوئی مسلم حکومت اسلامی احکام پر پوری طرح عمل نہ کرے اور نہ کرائے تو اس کی اصلاح اور اسے بدلنے کی کوشش پرامن طریقے سے ہوگی، الا یہ کہ اس کے کفر بواح کے نتیجے میں مسلمان متحد ہو کر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
جہاد کے باب میں مندرجہ بالا موقف طے کرنے کے ساتھ ہی ہم اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کر سکتے کہ امت مسلمہ اس وقت کمزور اور منتشر ہے اور اس کی بقا خطرے میں ہے۔ لہٰذا اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے دو لازمی تقاضے ہیں:
ایک، یہ جانتے ہوئے کہ مسلمانوں کی عزت وقوت کا منبع دین حنیف سے ان کے تمسک میں ہے، ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کریں، ہر قسم کے اختلاف وانتشار سے بچتے ہوئے بنیان مرصوص بن جائیں، ہر قیمت پر جسد ملت کی حفاظت کریں اور اسلام کی عظمت وشوکت کی بحالی کے لیے ہر طرح کی کوششیں بروئے کار لائیں۔
دوسرے، اپنے موقف سے دست بردار ہوئے بغیر ہم اسے حکمت، فراست اور قوت کے ساتھ غیرمسلموں کے سامنے رکھیں اور اس کی حکمتیں اور اس کا معقول اور مناسب ومعتدل ہونا ان پر واضح کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ (آمین)

بھارت میں ٹی وی کے جواز و عدم جواز کی بحث

ادارہ

چند ماہ قبل بھارت کے سب بڑے دینی ادارے دار العلوم دیوبند نے ایک فتویٰ جاری کیا جس میں اسلامی چینلز سمیت ٹیلی ویژن دیکھنے کو مطلقاً ناجائز قرار دیا گیا۔ حسب توقع اس فتوے نے اچھی خاصی بحث کھڑی کر دی۔ فتوے سے اختلاف کرنے والے مسلمانوں نے اس کو بے معنی قرار دیا جبکہ حامیوں نے ٹیلی ویژن چینلز کے ذریعے سے پھیلائی جانے والی بد اخلاقی کی مذمت کی اور مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ مذکورہ فتوے میں دی گئی ہدایت کی سختی سے پابندی کریں۔
مذکورہ فتویٰ مفتی محمود الحسن بلند شہر ی نے جاری کیا تھا جو مدرسہ دیوبند کے ایک سینئر عالم ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے لیے ٹیلی ویژن دیکھنا ممنوع ہے کیونکہ یہ بذات خود سطحی تفریح کا ایک ذریعہ ہے، اس لیے مذہبی مقاصد مثلاً اسلامی پروگرام نشر کرنے کے لیے اس کا استعمال غلط ہے۔ فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ اسلام نے اپنے پیغام کو پھیلانے کے لیے واضح طریقے بتائے ہیں اور ٹیلی ویژن ان میں شامل نہیں ہے۔ فتوے میں قرار دیا گیا ہے کہ جو لوگ ٹیلی ویژن پر اسلامی پروگرام دیکھتے ہیں، ان کا مقصد محض تفریح ہوتا ہے، اس لیے مسلمانوں کو سختی کے ساتھ اس سے گریز کرنا چاہیے۔
فتوے کے ناقدین میں سے ایک حلقے کا کہنا ہے کہ اس فتوے کا محرک کیو ٹی وی کے نام سے کھلنے والا ایک نیا اور روز افزوں مقبولیت حاصل کرنے والا چینل ہے جس کو اب بھارت اور پاکستان میں لاکھوں ناظرین میسر ہیں۔ کیو ٹی وی روایتی بریلوی تصوف پر مبنی دین کی تصویر پیش کرتا ہے جو کہ بیشتر دیوبندی علما کے نزدیک قابل اعتراض ہے ۔ نیز اس میں علما کے روایتی حلقے کے بجائے عوامی مقررین مثلاً پاکستان کے ڈاکٹر اسرار احمد اور بمبئی کے ذاکر نائک کی تقریریں نشر کی جاتی ہیں، جو کہ باقاعدہ تربیت یافتہ میڈیکل اسپیشلسٹ ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ چونکہ یہ دونوں مقرر غیر عالم ہیں، اس لیے دیوبندی علما انھیں اپنی اتھارٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج تصور کرتے ہیں۔ بنگلور کے مقبول احمد سراج نے (اسلامک وائس، جنوری ۲۰۰۵) لکھا ہے کہ دور جدید کے اسلامی مبلغین نے، جو وسیع حلقے تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے ٹیلی ویژن استعمال کرتے ہیں، روایتی مذہبی علما کے حلقے میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ سراج کا اصرار ہے کہ ’’اس وجہ سے اس فتوے کو حقارت اور نفرت کے ساتھ مسترد کر دینا چاہیے جس کا یہ فی الواقع مستحق ہے۔‘‘
فتوے کے پس پردہ اصل محرکات جو بھی ہیں، اس نے ٹیلی ویژن کے اسلامی جواز وعدم جواز نیز خود علما کی اتھارٹی کے حوالے سے ایک بڑی بحث کا آغاز کر دیا ہے اور اردو پریس میں اس حوالے سے مخالف نقطہ ہائے نظر پر زور دار بحث جاری ہے۔ چند ماہ قبل ’اردو راشٹریا سہارا‘ کے نئی دہلی کے ایڈیشن (۲۲ اگست ۲۰۰۴) میں اس فتوے کے بارے میں موافق ومخالف، دونوں قسم کے مضامین شائع ہوئے ۔ ان مضامین میں فتوے کے حامیوں اور مخالفوں نے اسلامی اصطلاحات کے حوالے سے بحث کی۔ کچھ نے اس فتوے کو اسلامی لحاظ سے درست، جبکہ کچھ نے اسے اسلام کی ایک نہایت غلط تعبیر قرار دیا۔
فتوے کے ایک زبردست حامی دیوبند کے فارغ التحصیل مفتی اعجاز الرشید قاسمی ہیں۔ اپنے پرجوش مضمون میں انہوں نے اسلامی پروگراموں سمیت ٹیلی ویژن کو دیکھنا مسلمانوں کے لیے بالکل ممنوع قرار دیا۔ انھوں نے استدلال کیا کہ کوئی بھی فلم (بشمول ٹیلی ویژن کے اسلامی پروگراموں کے) عورتوں کی تصویریں شامل کیے یا اسے محض تفریحی سطح تک محدود کیے بغیر پرکشش نہیں بنائی جا سکتی، جبکہ یہ دونوں باتیں غیر اسلامی ہیں۔ انہوں نے یہ دلیل بھی دی ہے کہ بہت سے دیوبندی علما نے کہا ہے کہ چونکہ ٹیلی ویژن شیطانی کاموں کا مظہر بن چکا ہے، اس لیے مسلمانوں کو حتی الامکان اس سے دور رہنا چاہیے، ورنہ انھیں اخلاقی پستی سے دوچار ہونا پڑے گا۔ 
ان لوگوں کو جواب دیتے ہوئے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ٹیلی ویژن کا استعمال اسلامی تبلیغی مقاصد کے لیے ہو سکتا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ اگرچہ دعوت وتبلیغ کا فریضہ تمام مسلمانوں پر لازم ہے، لیکن یہ کام صرف اور صرف جائز ذرائع سے کیا جانا چاہیے۔ چونکہ ٹیلی ویژن ان کے بقول بالعموم غیر اخلاقی پروگرام نشر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اور بنیادی طور پر ایک ذریعہ تفریح کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے یہ اسلامی دعوت وتبلیغ کا کوئی جائز ذریعہ قرار نہیں پا سکتا، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو ہر قسم کے، اسلامی یا غیر اسلامی، پروگرام دیکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ چونکہ وہ ٹیلی ویژن کو بذات خود بد اخلاقی کا منبع سمجھتے ہیں، اس لیے انھوں نے قرار دیا ہے کہ ٹیلی ویژن کے اسلامی پروگرام لازماً اسلام کی توہین کا ذریعہ بن رہے ہیں اور آخر کار یہ مسلم تشخص کو برباد کر کے رکھ دیں گے۔ اپنے مضمون کے اختتام پر انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’تمام دنیا کے مسلمان دیوبند کے فتاویٰ کا احترام کرتے ہیں‘‘، اور یہ توقع ظاہر کی ہے کہ تمام مسلمان صدق دل سے ٹیلی ویژن کے خلاف اس فتویٰ کی تائید کریں گے۔
متنازعہ فتویٰ کی مزید تائید دار العلوم دیوبند کے نائب مہتمم مولانا عبد الخالق مدراسی نے کی ہے۔ انھوں نے مفتی اعجاز صاحب کے پیش کردہ دلائل کے علاوہ ٹیلی ویژن کے ناجائز ہونے کی ایک مزید وجہ یہ بیان کی ہے کہ اسلام میں تصویر سازی ممنوع ہے۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹیلی ویژن کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے انٹر نیٹ کو جائز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ انٹر نیٹ ’’عام طور پر تصویروں سے پاک ہوتا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ہے کہ جائز مقاصد کے لیے انٹر نیٹ استعمال کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ تصویریں استعمال نہ کی جائیں۔ چنانچہ خود دار العلوم دیوبند کی بھی اپنی ویب سائٹ قائم ہے اور بہت سے دوسرے دیوبندی گروپ بھی آن لائن فتاویٰ جاری کرتے ہیں۔
اگرچہ دیوبندی علما کی اکثریت اس متنازعہ فتویٰ کی حامی ہے، تاہم متعدد نوجوان دیوبندی فضلا اس کے شدید ناقد ہیں۔ایک عمدہ مثال انجمن فضلائے دار العلوم کے ترجمان ’’ترجمان دار العلوم‘‘ کے مدیر وارث مظہری کا لکھا ہوا طویل مضمون ہے ۔ مظہری نے اس فتویٰ کی، جو ان کے نزدیک ناقص دلائل پر مبنی ہے، کھلم کھلا مخالفت کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ فتویٰ کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ ٹیلی ویژن بنیادی طور پر سطحی یا غیر اخلاقی تفریح کا ایک ذریعہ ہے اور اس لیے اسلامی طور پر ناجائز ہے۔ اگرچہ یہ بات ناقابل انکار ہے کہ ٹیلی ویژن کے بہت سے پروگرام اسی نوعیت کے ہوتے ہیں، لیکن ٹیلی ویژن جائز مقاصد کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے، مثلاً خبروں اور معلومات کو نشر کرنا، خلاف اسلام پراپیگنڈا کی تردید کرنا، اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے سامنے اسلام کی وضاحت کرنا، چنانچہ ٹیلی ویژن سے مکمل گریز اختیار کرنے کے بجائے، مسلمانوں کو نا مناسب چینلز سے دور رہنا چاہیے اور ان کے علاوہ دیگر مفید چینلز سے بے جھجھک فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اگرچہ مظہری خود مدرسہ دیوبند کے ایک تربیت یافتہ عالم ہیں، لیکن وہ ٹیلی ویژن کے خلاف فتویٰ دینے والے مفتی صاحب سمیت قدامت پسند علما پر سخت تنقید کرتے ہیں کیونکہ وہ تبدیلی اور ترقی کے مخالف ہیں۔ ان کے خیال میں ٹی وی کے خلاف فتویٰ دراصل علما کی جانب سے نئی ایجادات کی مخالفت کی ایک طویل روایت کا تسلسل ہے۔ وہ اس ضمن میں کئی مثالیں پیش کرتے ہیں، مثلاً انیسویں صدی کے سعودی علما نے وال کلاک کو ’’شیطانی آلہ‘‘ قرار دیا تھا۔ اسی طرح ٹیلی فون اور وائرلیس کے بارے میں کہا تھا کہ یہ شیطانی ایجادات ہیں اور ان سے آنے والی آوازیں غیر مرئی شیطانی طاقتوں سے استعانت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔
ایک دوسرے دیوبندی فاضل مولانا اخلاق حسین قاسمی دہلوی نے فتویٰ کے خلاف وارث مظہری کے دلائل کی تائید کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کو یہودونصاریٰ کی سازشوں کا سامنا ہے اور خلاف اسلام پراپیگنڈا کی تردید اور اسلام کی دعوت وتبلیغ کے لیے انہیں ٹیلی ویژن سمیت ابلاغ عام کے ذرائع کو لازماً استعمال میں لانا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹیلی ویژن تعلیمی مقاصد کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے، تاہم مسلمانوں کو غیر اخلاقی پروگرام دیکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیلی ویژن کو مکمل طور پر برائی قرار دے کر اس فتویٰ نے مسلمانوں کو ساری دنیا کی نظر میں احمق ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ٹیلی ویژن کو محض اس وجہ سے مکمل طور پر مسترد کر دینا کہ بہت سے ٹی وی پروگرام غیر اخلاقی ہوتے ہیں، ایک مضحکہ خیز بات ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کالج اور یونیورسٹیاں بھی بند کر دی جائیں کیونکہ اعلیٰ تعلیم کے بعض اداروں میں مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط ہوتا ہے۔ انہوں نے تلخ لہجے میں مزید یہ تبصرہ کیا ہے کہ اگر فتویٰ نویس کی منطق مان لی جائے تو اس کی کیا وجہ ہے کہ اسی قسم کا ایک فتویٰ فلموں پر پابندی کے لیے بھی نہیں جاری کیا گیا جو کہ بد اخلاقی اور فحاشی کو فروغ دے رہی ہیں؟
فتویٰ کے خلاف رائے دینے والے ایک اور دیوبندی فاضل مولانا اسرار الحق قاسمی ہیں، جو ایک وسیع حلقے میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ اپنے مضمون میں انہوں نے تبصرہ کیا ہے کہ یہ فتویٰ حقیقی دنیا سے ناواقفیت پر مبنی ہے اور گزارش کی ہے کہ اس پرنظر ثانی کی جائے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگر ایک ڈاکٹر ماہر فن نہیں ہے تو وہ مناسب دوا نہیں دے سکتا، بلکہ درحقیقت مریض کو اور زیادہ بیمار کر دے گا۔ انہوں نے کہا ہے کہ بعینہ یہی منطق اس صورت میں بھی لاگو ہوتی ہے جب علما فتوے صادر کرتے ہیں۔ ٹی وی کے خلاف فتویٰ دینے والے عالم کی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’’اگر کوئی عالم شریعت کی روح اور اس کے مقاصد میں رسوخ نہیں رکھتا تو اسے فتویٰ دینے کا کوئی حق نہیں ہے اور اس کے جاری کردہ فتوے غلط اثرات مرتب کریں گے۔‘‘ فتویٰ نویس کا نام لیے بغیر لیکن ان کی اور ان کی طرح کے دیگر علما کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے مطابق قرب قیامت میں ایک عظیم فتنہ برپا ہوگا اور علما ایسے فتوے جاری کریں گے جو کہ قرآن اور سنت کے خلاف ہوں گے۔ وہ حد سے متجاوز فخر کی بنیاد پر ایسے امور پر گفتگو کریں گے جن کا حقیقی دین سے کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔ وہ اقتدار یا دولت کے لالچ میں غلط فتوے دیں گے جو لوگوں کے لیے شدید مشکلات پیدا کریں گے۔ یہ سب کچھ اسلامی اصولوں کے خلاف ہوگا اور کشمکش اور خون ریزی پر منتج ہوگا جس کے لیے جاہل اور ناپختہ مفتی ذمہ دار ہوں گے۔ ایسے مسائل جن میں مسلمان تقسیم ہو جائیں اور ایک دوسرے کے خلاف لڑنے لگیں ، مفتی کو فتویٰ جاری کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
مولانا انظر شاہ کشمیری نے، جو دار العلوم (وقف) دیوبند سے وابستہ ایک ممتاز عالم دین ہیں، اس فتویٰ پر تنقید کی ہے کیونکہ یہ اسلام کو ایک غیر روادار، تنگ نظر اور ترقی وتغیر کے مخالف مذہب کے طور پر پیش کر کے اس کی بدنامی کا سبب بنا ہے ۔ انھوں نے کہا ہے کہ ٹیلی ویژن کو جائز مقاصد مثلاً تعلیم، غیر اسلای پراپیگنڈا کی تردید اور اسلام کی دعوت وتبلیغ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ محض اس وجہ سے اس پر پابندی لگا دینا کہ یہ غیر اخلاقی پروگراموں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، ایسے ہی مضحکہ خیز ہے جیسے یہ مطالبہ کرنا کہ ٹیلی فون پر پابندی لگا دی جائے کیونکہ وہ بھی اسی طرح غلط استعمال ہوتا ہے۔ ان کی رائے یہ ہے کہ یہ فتویٰ دور متوسط کے علما کے متروک اور ناقابل عمل خیالات پر مبنی ہے جو کہ فقہ کی کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مسلمان علما سے گزارش کی ہے کہ وہ آج کے دور کے تناظر میں اپنے فہم اسلام کو بہتر بنائیں اور اس میں ارتقا پیدا کریں۔
ایک اور دیوبندی فاضل مفتی احمد نادر قاسمی نے کہا ہے کہ جائز مقاصد کے لیے ٹی وی کا استعمال درست ہے۔ چونکہ قرآن اور حدیث ٹیلی ویژن کے جواز یا عدم جواز کے مسئلے پر خاموش ہیں، اس لیے یہ مباح ہے بشرطیکہ اسے تعلیمی یا اسلامی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ بہت سے دیوبندی علما کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ اسلامی پروگراموں میں تصویر کا استعمال بھی جائز ہے۔ تاہم مفتی احمد نادر قاسمی اور ٹیلی ویژن کے جواز کے حامی کچھ دیگر علما ٹی وی دیکھنے کے لیے نہایت سخت اور بعض حالات میں ناممکن شرائط عائد کرتے ہیں۔ مثلاً مظاہر العلوم (وقف) سہارنپور کے مفتی محمد امین لکھتے ہیں کہ مسلمان ٹیلی ویژن دیکھ سکتے ہیں بشرطیکہ وہ صرف ایسے اسلامی پروگرام دیکھیں جن میں تصویریں بالکل نہ ہوں۔ اگر سکرین پر کوئی تصویر آتی ہے تو ناظرین کو اپنی آنکھیں جھکا لینی چاہییں، کیونکہ کسی تصویر کو دیکھنا اسلام میں ممنوع ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے ٹی وی پروگرام جن میں عورتیں ہوں، چاہے وہ اسلامی ہوں یا غیر اسلامی، شریعت کے خلاف ہیں اور مسلمانوں کے لیے ممنوع ہیں۔ مزید برآں ٹی وی پر عورتوں کی آوازیں نہیں سننی چاہییں کیونکہ ان کے بقول عورت کے جسم کی طرح اس کی آواز بھی پردے میں ہونی چاہیے۔ اسی طرح کی مشروط اجازت شاہی مسجد فتح پوری دہلی کے امام مفتی مکرم احمد نے بھی دی ہے جنھوں نے مذکورہ فتوے سے تو اختلاف کیا ہے، تاہم یہ کہا ہے کہ ٹی وی کے اسلامی پروگرام جائز ہیں بشرطیکہ وہ شریعت کے مطابق ہوں اور ان میں عورتوں کی تصویریں اور آوازیں نشر نہ کی جائیں۔ ہاں اگر ایسے پروگرام مردوں کی تصویریں دکھائے بغیر پیش نہ کیے جا سکیں تو ضرورت کے تحت وہ اسے جائز تسلیم کرتے ہیں۔
دہلی کے مولانا وحید الدین خان، جو اپنے نسبتاً لبرل خیالات کی وجہ سے قدامت پسند علما میں سخت ناپسند کیے جاتے ہیں، غضب ناک حد تک اس فتوے کے خلاف ہیں اور انہوں نے اپنے مضمون میں فتویٰ نویس کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگرچہ مسلمانوں کو غیر اخلاقی پروگرام دیکھنے سے باز رہنا چاہیے، تاہم وہ تعلیمی مقاصد، خلاف اسلام پراپیگنڈا کے مقابلہ اور اسلام کی دعوت وتبلیغ کے لیے ٹی وی کو استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک ذریعہ ابلاغ کے طور پر ٹی وی، اخلاقی لحاظ سے غیر جانبدار ہے۔ یہ اچھے مقاصد کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے اور برے مقاصد کے لیے بھی، اور علما سمیت مسلم قائدین کو اس کے منفی پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے مناسب اسلامی پروگرام بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ انہوں نے اس ضمن میں پیغمبرانہ مثالیں پیش کی ہیں اور کہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں کعبہ کو دعوت اسلام کے لیے استعمال کیا جبکہ اس وقت کعبہ میں ۳۶۰ بت رکھے ہوئے تھے۔ پیغمبر نے بتوں کو نظر انداز کر دیا اور اپنے دعوتی مشن کو جاری رکھا۔ اسی طرح مسلمانوں کو غیر اخلاقی ٹی وی چینلز اور پروگراموں کو نظر انداز کر کے اسے اسلامی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹی وی دشمنان اسلام کی کوئی خفیہ سازش نہیں جس کا مقصد مسلمانوں کو مغلوب کرنا اور غیر اسلامی پراپیگنڈا پھیلانا ہے، جیسا کہ بہت سے علما دعویٰ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس یہ خدا کی ایک نعمت، اس کی قدرت کا ایک اظہار اور خدائی قوانین کا ایک استعمال ہے۔ مولانا وحید الدین کہتے ہیں کہ ٹی وی کا امکان خدا کی تخلیق میں پوشیدہ تھا یہاں تک انسانوں نے اسے دریافت کر لیا۔ اس لیے اسے مکمل طور پر حتیٰ کہ اسلامی مقاصد کے لیے بھی ناجائز قرار دینا، جیسا کہ فتویٰ نویس نے کہا ہے، ایک مضحکہ خیز بات ہے۔
مولانا وحید الدین کے موقف کی تائید نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسلامیات کے پروفیسر ڈاکٹر اختر الواسع نے بھی کی ہے۔ انہوں نے ٹی وی کو مکمل طور پر غیر اسلامی قرار دینے والے فتوے سے اختلاف کرتے ہوئے اصرار کیا کہ اسلامی لحاظ سے درست پروگراموں پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی نزدیک ٹی وی کا غیر اخلاقی مقاصد کے لیے استعمال ہونا اس کو بطور ایک آلے کے غیر اسلامی نہیں بنا دیتا۔ وہ تلخ لہجے میں کہتے ہیں کہ اگر اس منطق کا اطلاق ہر جگہ پر کیا جائے تو کاغذ اور قلم کو بھی ناجائز قرار دینا پڑے گا کیونکہ یہ بھی ہر قسم کے غیر اسلامی خیالات کو پھیلانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ ان کی رائے میں ٹی وی کے غیر اخلاقی پروگراموں کے مسئلے کا حل یہ نہیں کہ ٹی وی پر ہی مکمل پابندی لگا دی جائے، بلکہ یہ ہے کہ ان کی جگہ پر بہتر پروگرام پیش کیے جائیں۔ مزید برآں وہ لکھتے ہیں کہ ٹی وی کے اسلامی پروگراموں پر پابندی لگانا اسلامی نقطہ نگاہ سے الٹا منفی نتائج کا باعث بنے گا، کیونکہ ان پروگراموں کے ذریعے سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسلام کے بارے میں کچھ نہ کچھ آگاہی حاصل کر رہی ہے۔ اگر ان کو بھی ممنوع قرار دیا جائے جیسا کہ فتویٰ کا مقصد ہے تو واحد نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوگ ان پروگراموں کی جگہ غیر اخلاقی پروگراموں کی طرف رجوع کرنا شروع کر دیں گے۔
اسلامی بنیادوں پر فتویٰ کو ہدف تنقید بنانے کے علاوہ اس بحث کے کچھ شرکا نے یہ دلچسپ سوال بھی اٹھایا ہے کہ فتویٰ نویس اور ان کے حامیوں کے ہاں دوہرا معیار پایا جاتا ہے۔ مثلاً انجمن فضلاے دار العلوم کے قائم مقام صدر مولانا عمید الزمان قاسمی کیرانوی نے بڑی جرات سے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ فتویٰ کی رو سے ٹی وی کو ناجائز قرار دیے جانے کے باوجود متعدد دیوبندی علما باقاعدہ ٹی وی پر آتے ہیں اور ٹی وی پر اپنے جلوسوں کی منظر کشی کا اہتمام کرتے ہیں۔ اسی طرح اترانچل کی ملی کونسل کے کنوینر مولانا ریاض الحسن ندوی ٹی وی کو مکمل طور پر ناجائز قرار دینے جبکہ انٹر نیٹ کے استعمال کی اجازت دینے کے موقف میں شدید تضاد محسوس کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بات یقینی ہے کہ غیر اخلاقی مواد نہ صرف انٹر نیٹ پر زیادہ کثرت سے میسر ہے بلکہ ٹی وی کے برعکس، وہ کسی قسم کی سنسر شپ کے دائرے میں بھی نہیں آتا۔
فتویٰ کے حامیوں اور مخالفوں کی گرما گرم بحث کے باوجود لگتا یہ ہے کہ عام مسلمانوں نے اسے سنجیدہ توجہ کا مستحق نہیں جانا، چنانچہ لوگوں کی طرف سے منظم طور پر ٹی وی سیٹ توڑ دینے کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا، جیسا کہ چند برس پہلے پاکستان کے صوبہ سرحد میں دیوبندی کارکنوں نے کیا تھا۔ خود بہت سے مسلمان اہل علم یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس قسم کے فتوے ایک وقتی بے چینی تو پھیلاتے ہیں لیکن ان سے کوئی مثبت مقصد ہرگز حاصل نہیں ہوتا۔ غطریف شہباز ندوی لکھتے ہیں (افکار ملی، نومبر ۲۰۰۴) کہ اس کے نتیجے میں صرف یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ مدارس کے مولوی حضرات عام طور پر جو فتوے جاری کرتے رہتے ہیں، ان کی کوئی اہمیت نہیں، کیونکہ انھیں جدید دنیا کی پیچیدگیوں کا سرے سے کوئی اندازہ ہی نہیں۔
(http://www.islaminterfaith.org/april2005)

مکاتیب

ادارہ

(۱)
عزیز محترم حافظ محمد عمار ناصر زیدت مکارمکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تازہ شمارہ میں محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی کا الشریعہ اکادمی کے حریم بادہ نوشاں ۔فکری نشست۔ سے خطاب بالاستیعاب پڑھ سکا۔ موصوف نے بڑی تفصیلی گفتگو کی ہے۔ یہ سچ ہے، مگر ہمارے فکری انتشار کے بعض اہم پہلوؤں پر وہ توجہ نہیں فرمائی جو اس کا حق تھا۔ عصری علوم سے ہماری دوری یقیناًایک اہم معاملہ ہے، بے شک، لیکن ہمارے قعر مذلت میں جا گرنے کا ایک اہم سبب ہمارے اصل منصب ’کنتم شہداء علی الناس‘ سے رو گردانی ہے۔ بقول اقبال ؂ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی۔ ہماری خاص ہیئت ترکیبی سے ہمارا اغماض، شرک زدہ قوموں کی عقلی میراث کا اتباع ہی تو ہے۔ غزالی کا المنقذ من الضلال اس پر گواہ ہے۔
گر بہ استدلال کار دیں بود
فخر رازی راز دار دیں بود
بقول مولانا عیسیٰ منصوری ۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات میں اضافہ فرماتا رہے۔ آمین۔ آج فخر الدین رازی کی نہیں، ابن عربی کی ضرورت ہے۔ ہم تو صدیوں سے اصل کو چھوڑ کر یونانیوں اور ایرانیوں کی طرح قال قالا قالوا قلن قلتن  کی خرافات میں ٹھہر گئے ہیں۔ اس دلدل سے کب کوئی قوم عہدہ برآ ہو سکی۔ اب تو ہمارا ہر کام بغیاً بینہم، ایک دوسرے کو عقلی ومنطقی ’’شہ مات‘‘ دینے کی کوششوں سے عبارت ہو کر رہ گیا ہے۔ 
ملل سابقہ میں مصری تہذیب اور سیدنا سلیمان کے زمانے کی تہذیب جن مادی بلندیوں پر گئی، اس سے آپ سب واقف ہیں۔ اور بقول اقبال ’تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی‘ کے مصداق یہ ساری عمارتیں محض شرکی وجہ سے ڈھے گئیں۔ آپ قوم سبا کے ذکر ہی کو لیجیے۔ یا تو وہ عالم تھا کہ ’بلدۃ طیبۃ ورب غفور‘ یا پھر وہ حالت کہ سارا ملک جھاڑ جھنکار ہو گیا۔
اس پورے خطاب میں اخلاقی وروحانی ہتھیار کا وہ ذکر نہیں جو ہونا چاہیے تھا۔ کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ’واعدوا لہم مااستطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل‘  کی ضرورت سے غافل تھے؟ اور کیا ان کی محیر العقول کامیابیوں کا سبب محض علوم ظاہری میں برتری تھی؟ بلکہ ’’خلق عظیم‘‘ کا بحد توفیق جاں نثارانہ اتباع جو ’ان کنتم مومنین‘ کے بغیر ممکن نہیں، شرک کو اس کے ہر رنگ میں پہچاننے کے بغیر ممکن نہیں۔ اللہ مجھے معاف کرے، موصوف خود علوم جدیدہ سے اتنے مرعوب ہیں کہ جو حل انھوں نے تجویز فرمائے ہیں، اسے پڑھ کر تو زبان سے یا للعجب نکلتا ہے۔ ’تا تریاق از عراق آوردہ شود، مار گزیدہ مردہ شود‘ ہی نکلتا ہے۔
(ایک محترم اور بزرگ قاری)
(۲)
محترم جناب ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
وبعد!
گزشتہ دنوں محترم جناب پروفیسر حافظ محمد منیر صاحب کی وساطت سے آپ کے موقر ماہنامہ جریدے ’الشریعہ‘ سے تعارف ہوا جس کی فکر انگیز تحریروں نے بلاشبہ سوچ پر نقش چھوڑے ہیں۔ میں چونکہ خود نوائے وقت کے سیاسی ہفت روزہ ’ندائے ملت‘ سے وابستہ ہوں جہاں پر اسلامی دنیا، اسلامی تحریکیں اور مغرب کے ساتھ اسلام کی فکری اور سیاسی پنجہ آزمائی میرا شعبہ ہے، اس تناظر میں آپ سے یہی گزارش کروں گا کہ آپ کے اس موقر جریدے میں جدید فکری کشمکش کے حوالے سے ابھی بہت گنجایش ہے اور اس کو آپ جیسے دردمند افراد ہی پورا کر سکتے ہیں۔ مغرب عالمی صہیونیت کے ایما پر آج ہمیں فکر وعلم اور عمل کے ہر میدان میں للکار رہا ہے اور ایسی حالت میں مقابلے کی دعوت دے رہا ہے کہ تمام دنیاوی وسائل اس کے قبضے میں ہیں جبکہ ’’امت وسطی‘‘ جس کے کاندھوں پر انبیا کی دعوت کی ذمہ داری ڈالی گئی، بدقسمتی سے اس سلسلے میں بے وسیلہ سی نظر آ رہی ہے۔ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے میں آپ کے موقر جریدے کے ذریعہ یہی کہہ سکوں گا کہ ماضی کے شان وشوکت کے قصے یاد کرنے اور مستقبل کی امیدوں پر آس لگانے کی بجائے اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے جدید علوم کی جانب راغب ہوں، ایسے ادارے قائم کرنے کی کوشش کریں جہاں مغربی ممالک کی لغات اور ان کے فکری محاسن ومراجع کی تعلیم دی جائے اور پھر ان کو ان کی ہی زبانوں میں اسلامی حقانیت اور مغرب کا فکری کھوکھلا پن ظاہر کیا جائے۔ میں آپ کو اور اپنے دیگر مسلمان بھائیوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اسلام کی طاقتور دعوت کا جواب تمام مادی وسائل ہونے کے باوجود نہیں دیا جا سکتا۔ میں خود اس سلسلے میں مغرب کی جامعات میں دوران تعلیم ان حقائق کا مشاہدہ کر چکا ہوں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ آپ کو اس دعوتی ذمہ داری میں سرخرو کرے۔ آمین
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خیر اندیش
محمد انیس الرحمن
انچارج بین الاقوامی امور
ہفت روزہ ندائے ملت (نوائے وقت) لاہور
(۳)
مکرم جناب زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔
’الشریعہ‘ میں مغربی فکر وفلسفے کے حوالے سے مضامین کی تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مغرب اسلام سے بخوبی آگاہ ہے، لیکن ہم مغربی فلسفے سے قطعاً آگاہ نہیں۔ اس کمی کے باعث مغرب کی بے جا مخالفت یا خواہ مخواہ حمایت کا رویہ عام ہو گیا ہے۔ افراط وتفریط کی اس روش سے بچنے کے لیے آپ جیسے علماء کا وجود غنیمت ہے۔ آپ کے رسالے میں مہاتیر محمد، وزیر اعظم ملیشیا اور ڈاکٹر غازی صاحب کی تین تقاریر شائع ہوئی ہیں۔ تینوں کا منہاج یکساں ہے۔ براہ کرام اس موضوع سے متعلق دوسرے نقطہ ہائے نظر بھی شائع فرمائیے تاکہ قارئین آپ کے علم سے استفادہ کر سکیں۔
عمر حمید ہاشمی
(نائب ناظم)
شعبہ تصنیف وتالیف وترجمہ
جامعہ کراچی۔ یونیورسٹی روڈ۔ کراچی

(۴)
مخدوم گرامی قدر حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب مدظلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
’الشریعہ‘ مارچ ۲۰۰۵ کے شمارے میں محترم المقام ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کا مقالہ پڑھنے کا موقع ملا۔ آپ کی دعوت کے باوجود ڈاکٹر صاحب کا مقالہ بالمشافہہ سننے کی جو محرومی وتشنگی تھی، الحمد للہ دور ہو گئی۔ استاذ مکرم مولانا چنیوٹی صاحب مرحوم سے ڈاکٹر صاحب کی تعریف بارہا سنی تھی، لیکن وہ صرف عربی وانگلش پر مہارت کے حوالے سے تھی۔ یہ مقالہ پڑھ کر ڈاکٹر صاحب کی وسعت نظر کا اندازہ ہوا اور یہ امر ان کے ساتھ غائبانہ عقیدت ومحبت میں اضافہ کا باعث بنا کہ وہ کاندھلہ کے علمی خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سلامت باکرامت رکھے۔ آمین۔
ڈاکٹر صاحب محترم اپنے علمی ذوق اور وقت کی ضرورت کے پیش نظر ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر اکرام الحق صاحب مدظلہ سے تفسیر قرطبی کا اردو ترجمہ کرا رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ بھی ایک اہم کام ہے۔ میں ان سطور میں آپ کی وساطت سے چند مزید امور کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ 
۱۔ قرآن مجید کی وہ آیات جن میں فلکیات، موسمیات، جغرافیہ وغیرہ علوم کی طرف اشارات ہیں، اگر ان علوم کی اصطلاحات سے واقفیت ہو جائے تو متعلقہ آیات کی بہت عمدہ تفسیر ہو سکتی ہے۔ یہ ایک کمی اور خلا محسوس ہوتا ہے۔ محض اس بنا پر کہ سائنسی نظریات بدلتے رہتے ہیں، سائنس کو مسترد کر دینا مناسب طرز عمل نہیں ہے۔ بعض حضرات قرآن مجید کی ہر ہر آیت سے سائنسی نظریات کی تائید کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ بھی غلط ہے۔ کوئی درمیانی راستہ نکالنا چاہیے۔ افراط وتفریط نہیں ہونی چاہیے۔ طب نبوی اور جدید سائنس کے موضوع پر ڈاکٹر خالد غزنوی صاحب نے لکھنے کی ابتدا کی۔ اچھی محنت کی۔ اس کے بعد تو اس موضوع پر مستند وغیر مستند کتابوں کی بھرمار ہو گئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض حضرات اس موضوع کو ایک فیشن کا درجہ دے کر اس پر خامہ فرسائی کر رہے ہیں۔ احقر سمجھتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب محترم بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسرز واسکالرز سے اپنی زیر نگرانی بہتر انداز میں یہ کام کروا سکتے ہیں۔
۲۔ علم نفسیات کہنے کو تو جدید علم ہے، مگر اس کے اصول وضوابط کی بنیادیں اسلامی تعلیمات میں مل جاتی ہیں۔ اسلامی تعلیمات، انسانی نفسیات کے عین مطابق ہیں۔ حضور علیہ السلام سب سے بڑے ماہر نفسیات بھی تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ نفسیات کے بعض پروفیسر اس موضوع پر کام کرتے رہے ہیں۔ احقر کی معلومات کے مطابق وہ ناتمام ہے۔ چند برس پہلے سعدیہ غزنوی صاحبہ نے ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بطور ماہر نفسیات‘‘ نامی کتاب لکھی۔ اس پران کو صدارتی ایوارڈ بھی ملا، لیکن بہرحال وہ ابتدائی کوشش ہے، حرف آخر نہیں۔ مصنفہ مزید لکھ سکتی تھیں، لیکن کسی وجہ سے نہیں لکھ سکیں۔ اس موضوع پر مزید کام درکار ہے۔
۳۔ فلسفہ کو دین اسلام اور سائنس، دونوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ فلسفہ کے بعض نظریات، خلاف اسلام ہیں اور بعض جدید سائنسی علوم کے خلاف ہیں۔ دونوں پر محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ حضرت اقدس تھانویؒ نے ’التلخیصات العشر‘ میں اس موضوع پر کچھ محنت کی ہے، لیکن وہ ابتدائی کام ہے۔ اس کام کو مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جو کچھ بھی لکھا جائے، آسان اور عام فہم ہو۔ ’’فہم فلکیات‘‘ کی طرح چیستان نہ ہو۔ اس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب ان موضوعات پر بھی توجہ فرمائیں تو اپنے اثر ورسوخ کی بدولت بہت کچھ لکھوا سکتے ہیں۔ امید واثق ہے کہ وہ ضرور توجہ دیں گے۔ وما علینا الا البلاغ۔
والسلام
(مولانا) مشتاق احمد
استاذ جامعہ عربیہ، چنیوٹ
(۵)
جناب پروفیسر وقار افضل صاحب 
السلام علیکم!
امید ہے مزاج بخیر ہوں گے 
بہت خوشی ہوئی کہ خاکسار کی ٹوٹی پھوٹی تحریریں آپ جیسے ذی وقار معلم کے ہاں افضل ٹھہرتی ہیں ۔ حوصلہ افزا کلمات کے لیے تہہِ دل سے مشکور ہوں ۔ 
جہاں تک کلیم احسان کے شعر کی تشریح میں فکری ابہام کا تعلق ہے کہ مٹھی میں جگنو سے انانیت کا سراغ نہیں ملتا بلکہ خوف یا خدشے کا اظہار ہوتا ہے، بظاہر درست معلوم ہوتا ہے۔لیکن ناچیز کی ناقص رائے اب بھی یہی ہے کہ مٹھی میں جگنو انانیت کا آئینہ دارہے کیونکہ اگر آپ کی رائے پر بھی غور کیا جائے تو مطلب یہی نکلتا ہے ۔ آپ نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ ’’وہ اس طرح کہ ہتھیلی سے جگنوکے اڑنے کا اندیشہ ہے ۔ ‘‘ کیا اس بات کے یہی معانی نہیں کہ ہمارا شاعر جگنو کو possess کرتا ہے ؟ possession کی یہی نفسیات ایک طرف (واقعاتی حوالے سے ) ہتھیلی کے بجائے مٹھی کو ترجیح دیتی ہے تو دوسری طرف (فکری اعتبار سے ) انانیت کی علامت بنتی ہے ۔ البتہ یہ الگ بحث ہے کہ اس انانیت کے پیچھے خوف چھپا ہوا ہے یا کوئی اور معاملہ ہے ۔ وقار صاحب ! آپ سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ اس انانیت اور possession کے پیچھے درحقیقت خوف ہی گھات لگائے بیٹھا ہے ۔پھر خوف ، خدشے یا ڈر کی نوعیت ، انانیت کے مثبت یا منفی ہونے کا اشارہ کرتی ہے ۔ ناچیز کی رائے میں ، اس شعر میں جگنو کا استعارہ اور راستہ دکھائے جانے کا پورا یقین ، انانیت کے مثبت ہونے پر دال ہے کیونکہ یہ انانیت ظلمت کی بھول بھلیوں کے مقابل روشن راہ کی حامل ہے ۔ تاریکی کے متوقع دوراہے اور ظلمت کی امکانی بھول بھلیا ں کلیم کے اندیشوں کا سبب ہیں ۔
وقار صاحب ! جہاں تک میر و ناصر کی شعری روایت کی ترفیع کے حوالے سے ، کلیم کے اشعار کے انتخاب میں فروگزاشت کا تعلق ہے، اس کی بابت یہ کہنے کی جسارت تو نہیں کر سکتا کہ آپ خاکسار کی بات سمجھ نہیں سکے۔ البتہ یہ تسلیم کیے بنتی ہے کہ ناچیز اپنی بات صحیح طور کہہ نہیں پایا ۔ مضمون کی ابتدائی دو سطریں یہ تھیں :
’’چلو جگنو پکڑتے ہیں ‘‘ کلیم احسان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے ۔ اس مجموعے میں اس شعری روایت کی ’’ترفیع ‘‘ جھلکتی ہے ، جو میر و ناصر کے ادوار سے گزر کر موسمِ گل کی حیرانگی میں رونما ہوئی اور خود اس مجموعے میں جا بجا بکھر گئی ۔‘‘
اس کے بعد جو اشعار پیش کئے گئے ہیں ، بلاشبہ وہ میر و ناصر کی باز گشت معلوم ہوتے ہیں ، کیونکہ مذکورہ سطروں میں اس شعری روایت کی طرف ہی اشارہ کیا گیا ہے۔ جہاں تک ترفیع کا معاملہ ہے اس کا ذکر پورے مجموعے کے تناظر میں کیا گیا ہے ، اسی لیے ان سطروں میں لفظ ’’مجموعہ ‘‘ استعمال کیا گیا ہے ۔ امید ہے اب اس وضاحت کے بعد ، مضمون کی ابتدا میں اشعار کے انتخاب کو بطور بازگشت لیا جائے گا نہ کہ بطور ترفیع۔ 
ابہام کی طرف توجہ دلانے اور گہری دلچسپی ظاہر کرنے پر آپ کا ایک بار پھر مشکور ہوں ۔ 
والسلام
پروفیسر میاں انعام الرحمن 
(۶)
برادرم مولانا عمار ناصر صاحب زید مجدہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج اچھے ہوں گے۔ ’الشریعہ‘ ہر ماہ نظر سے گزرتا ہے اور اس کی تحریریں پڑھ کر قلب وذہن منور ہوتے ہیں۔ مارچ ۲۰۰۵ کے ’الشریعہ‘ میں مولانا سید سلمان الحسینی الندوی کے مضمون ’’اجتہادی اختلافات میں معاشرتی مصالح کی رعایت‘‘ میں جو نکتہ اٹھایا گیا ہے، وہ بے حد اہم اور وقت کی ضرورت کے مطابق ہے۔ ایک مجلس میں طلاق ثلاثہ کا موضوع ہمارے ہاں عام طور پر احناف اور اہل حدیث کے مابین ایک اختلافی نکتے کے طور پر زیر بحث آتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسے اس وقت ایک سنگین معاشرتی مسئلے کے طور پر دیکھنے اور اس کا معقول حل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ 
پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام ایک خاندان کے وجود میں آنے کے بعد انتہائی ناگزیر ضرورت کے بغیر اس کے ٹوٹنے کو پسند نہیں کرتا۔ ایک مجلس میں طلاق ثلاثہ کو، کوئی رعایت دیے بغیر، ہر حالت میں واقع ماننا شریعت کے اس منشا کے خلاف ہے۔ خاص طور پر ہمارے معاشرے میں ایسی صورت عام طور پر شرعی طریقے سے ناواقفیت اور محض وقتی جذباتی کیفیت کے نتیجے میں رونما ہوتی ہے اور ایک لمحے میں پورا خاندان نادانی اور جذباتیت کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ اسلام چھوٹے سے چھوٹا معاہدہ توڑنے کے لیے بھی سوچ بچار کا موقع دیتا ہے، جبکہ نکاح کو تو قرآن مجید میں ’میثاقا غلیظا‘ کہا گیا ہے۔ کیا اتنے بڑے معاہدے کو ایک لمحے میں ختم کر دینا اور غلطی کرنے والے کے لیے تلافی کا کوئی موقع باقی نہ رہنے دینا اسلام کے اصول عدل کے مطابق ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت اسلام کا خاندانی نظام خاص طور پر مغرب کی تہذیبی یلغار کا ہدف بنا ہوا ہے اور اس کے حملوں میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ طلاق ثلاثہ کے بارے میں اس قدر بے لچک موقف اختیار کر کے کہیں ہم بھی نادانستہ اس تہذیبی کشمکش میں مخالف قوتوں کے لیے مددگار تو ثابت نہیں ہو رہے؟
جہاں تک اس مسئلے کے شرعی پہلو کا تعلق ہے تو روایات سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک مجلس کے اندر تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔ اسی طرح خلیفہ اول سیدنا ابوبکر کے دور خلافت میں اور سیدنا عمر کے عہد کے ابتدائی دو سال تک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی تصور کی جاتی تھیں۔ اس کے بعد حضرت عمر نے مخصوص حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے بحیثیت مجتہد اور خلیفہ کے یہ طے کیا کہ تین طلاقوں کو تین ہی تصور کیا جائے گا۔ سیدنا عمر فاروق کا یہ فیصلہ مخصوص معاشرتی صورت حال میں ایک اجتہادی فیصلہ تھا اور ایسی صورت میں بعض دفعہ اصل شرعی حکم کو عارضی طور پر معطل کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ زمانہ قحط میں انہوں نے چور کا ہاتھ کاٹنے کی سزا کو عارضی طور پر معطل فرما دیا اور جب قحط دور ہو گیا تو قطع ید کا حکم بھی اپنی اصل صورت میں بحال ہو گیا۔ گویا سیدنا عمر فاروق نے سوسائٹی کے اندر ایک خرابی کو دور کرنے کے لیے وقتی طور پر ایک فیصلے کو معطل کر کے دوسرا فیصلہ جاری کیا، لیکن یہ عبوری مدت کے لیے تھا نہ کہ مستقل اور ابدی طور پر۔
میں خود حنفی ہوں اور میں نے حنفی اساتذہ سے دینی تعلیم پائی ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ نکات کی روشنی میں اس مسئلے میں حنفی نقطہ نظر پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور میں متعدد ایسے حنفی علما کو جانتا ہوں جو اس ضرورت کا احساس بھی رکھتے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس مسئلے کو ’الشریعہ‘ میں باقاعدہ بحث کا موضوع بنائیں اور اہل علم کو دعوت دیں کہ وہ شریعت کے مزاج اور سلف صالحین کی آرا کوسامنے رکھتے ہوئے امت کے لیے گنجایش نکالیں۔
فقط۔ والسلام
احمد الرحمن
خطیب جامع مسجد پاک سیکرٹریٹ
اسلام آباد
(۷)
محترم و مکرم مولانا عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ‘
اللہ کی ذات سے امید کرتا ہوں کہ آپ بخیروعافیت ہوں گے۔ 
اپریل ۲۰۰۵ء کا ’’الشریعہ‘‘ پڑھا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ہر کتاب کے جنگل میں ایک شیر اور ایک گیدڑ ضرور چھپا ہوا ہوتا ہے، یعنی کہیں کوئی نہایت اعلیٰ چیز اور کہیں نہ کہیں کوئی کمزور چیز ضرور موجود ہوتی ہے، ’’الشریعہ‘‘ کے مطالعے کے بعد جنگل میں شیر کی موجودگی کی حد تک یہ بات رسالوں کے بارے میں بھی درست معلوم ہوتی ہے۔ مولانا محمد عیسیٰ منصوری صاحب کا مضمون ’’قانونِ اسلامی کا اِرتقا اور امام ولی اللہ دہلویؒ ‘‘ پڑھا تو وہ شیر نظر پڑگیا۔ فرماتے ہیں: ’’ایک زمانہ تھا جب سو ڈیڑھ سو میل کے فاصلے پر زبان، تمدن، معاشرت اور رہن سہن کے طور طریق بدل جاتے تھے، مگر اب تیزی سے پوری دنیا کا کلچر، معاشرت، لباس اور طرزِزندگی ایک سا ہوتا جارہا ہے، بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں کافرانہ (مغربی) ہوتا جارہا ہے۔ درحقیقت یہ تمہید ہے اِس بات کی کہ جلد ہی دنیا کا مذہب بھی ایک یعنی اسلام ہوگا، کیوں کہ قبولِ حق میں ایک رکاوٹ کلچر، تمدن اور طرزِزندگی کا اختلاف بھی رہا ہے۔۔۔ اِس لیے علماے کرام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دور اور اِس کے تقاضوں کو سمجھیں اور فروعی اختلافات کی شدت ختم کرکے اسلام کو ایک متفقہ شاہراہ کے طور پر پیش کریں۔۔۔‘‘
ایک ایسے دور میں جب کہ لوگ اُتنا اللہ سے نہیں ڈرتے جتنا پدرِفرنگ سے ڈرتے ہیں اور اچھے بھلے مسلمان بھی اپنا ’’اسلام‘‘ چھپائے رکھنے کو دین اور وقت کا تقاضا سمجھنے لگے ہیں، یہ ایک توانا آواز ہے جو نہ اسلام کے مستقبل سے مایوس ہے نہ مسلمانوں کی زبوں حالی اور زوال کی تصویر اُسے کم حوصلہ کیے ہوئے ہے۔ اِس بات کو پورے استحضار کے ساتھ کہنا کہ ’’درحقیقت یہ تمہید ہے اِس بات کی کہ جلد ہی دنیا کا مذہب بھی ایک یعنی اسلام ہوگا‘‘ ایک مجذوب کی بڑ نہیں بلکہ کھلی آنکھوں اور عمیق فہم والے ایک مدبر کے دل کی آواز ہے جو پوری بصیرت کے ساتھ اور اللہ کی قدرت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پر مکمل یقین ہونے کی کیفیت ہی میں کہی جاسکتی ہے۔ میں نے حضرت مولانا محمد عیسیٰ منصوری صاحب کو زندگی میں صرف ایک ہی بار دیکھا ہے، جب وہ بھائی سید ذوالکفل کی شادی کے موقع پر تھوڑی دیر کے لیے دارِبنی ہاشم ملتان میں تشریف لائے تھے۔ اُن کا یہ جملہ پڑھنے کے بعد میں سوچتا ہوں کہ ایک دھان پان سا آدمی کیسا توانا دل لیے ہوئے ہے۔ اللہ اُن کی زندگی میں بہت برکت دے۔ آمین۔ 
والسلام، حافظ صفوان محمد چوہان
سینئر لیکچرر (کمپیوٹر اینڈ ڈیٹا سروسز)
ٹیلی کمیونیکیشن سٹاف کالج، ہری پور
(۸)
محترم ومکرم حضرت العلامہ زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر وعافیت ہوں گے۔
آپ کی ادارت میں شائع ہونے والے ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں جولائی ۲۰۰۴ سے مارچ ۲۰۰۵ تک شیعہ سنی تعلقات کے حوالے سے دلچسپ اور سنسنی خیز مضامین شائع ہوئے ہیں جس میں مختلف حضرات کی آرا وافکار، تلخ نوائیاں اور شکوہ وشکایات سامنے آئی ہیں۔ مجھے اس بات سے قطعاً کوئی اختلاف نہیں کہ آپ نے شیعہ حضرات کے مضامین کیوں شائع کیے ہیں، بلکہ اس بات پر خوشی ہے کہ فرقہ واریت اور شیعہ سنی فسادات کے اس ماحول میں آپ نے فریقین کی توجہ باہمی رواداری کی طرف مبذول کروائی ہے جس کی موجودہ دور میں بے حد ضرورت بھی ہے، کیونکہ گزشتہ دو دہائیوں سے ایک تیسرا گروہ (جس میں اسرائیل، امریکہ اور بھارت کے ایجنٹ شامل ہیں) ہمیں آپس میں لڑا رہا ہے اور ہم اس لڑائی کو سمجھ نہیں پا رہے۔ ہمارا سب سے بڑا جو نقصان ہوا ہے، وہ ہمارے قیمتی سرمایہ یعنی علماء کرام کا بے دریغ قتل ہے جن میں مولانا حق نواز، مولانا ضیاء الرحمن، مولانا ایثار قاسمی، مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مولانا محمد عبد اللہ، مفتی نظام الدین شامزئی اور مولانا اعظم طارق رحمہم اللہ جیسے قیمتی اور جید علما شامل ہیں۔ اسی طرح شیعہ برادری کے بھی بہت سے علما اور بے گناہ عوام قتل ہوئے ہیں، لیکن اس شیعہ سنی فساد اور بے دریغ قتل وغارت سے فریقین میں سے کسی کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہاں! امریکا، اسرائیل اور بھارت کے ایجنٹوں اور آلہ کاروں نے ان فسادات سے ضرور فائدہ اٹھایا ہے۔
ہمارے علماء اہل سنت والجماعت شروع دن سے شیعہ سنی مسئلے کو درست تناظر میں دیکھتے رہے ہیں اور ہر نازک وقت میں انہوں نے شیعہ حضرات سے اتحاد اور اتفاق کی فضا کو قائم رکھا۔ تحریک ختم نبوت میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کا شیعہ حضرات کو ساتھ ملانا اور موجودہ ملکی وبین الاقوامی صورت حال کے پیش نظر متحدہ مجلس عمل میں شیعہ حضرات کی شمولیت ہمارے سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ رہی یہ بات کہ شیعہ سنی عقائد میں فرق ہے تو اس کے متعلق اکابر اہل سنت والجماعت یہ بتاتے چلے آ رہے ہیں کہ جو شیعہ تحریف قرآن کا قائل ہو، صحابہ کرام کو برا بھلا کہتا ہو، حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کرتا ہو، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اس حوالے سے شیعہ حضرات کو بھی غور کرنا چاہیے اور اپنے لٹریچر سے ایسے مواد کو نکال دینا چاہیے جس میں صحابہ کرام کی (نعوذ باللہ) تکفیر اور حضرت عائشہ صدیقہ کی شان میں گستاخی ہو۔ اس کے متعلق شیعہ اور اہل سنت کے سنجیدہ اور معاملہ فہم حضرات کی ایک کمیٹی بننی چاہیے جس میں اس لٹریچر پر غور کیا جائے جو موجب فساد بنتا ہو اور پھر اس کو ہمیشہ کے لیے نکال دینا چاہیے اور جب بھی کوئی قومی یا بین الاقوامی معاملہ پیش آئے، آپس میں رواداری اور بھائی چارے کا ماحول پیدا کرنا چاہیے۔
اس ضمن میں، میں آپ کو اس بات کی طرف خاص طور سے توجہ دلانا چاہوں گا کہ شیعہ سنی تعلقات کے حوالے سے آپ کی کچھ باتیں بعض حضرات کی سمجھ میں نہیں آئیں اور اس پر وہ آپ سے نالاں ہیں۔ مثلاً کالعدم سپاہ صحابہ کے ترجمان ماہنامہ ’خلافت راشدہ‘ کے شمارہ ستمبر ۲۰۰۴ کے ص ۱۰ پر ہے کہ:
’’محترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب سے دردمندانہ درخواست ہے کہ خدارا خود کو غیر جانب دار اور مذہبی سکالر ثابت کرنے کے لیے شیعہ کی سازشوں کا شکار ہو کر سپاہ صحابہ کے قائدین اور ہزاروں کارکنان کی قربانیوں اور اپنے اسلاف کے فتاویٰ جات کو خاک میں ملانے کی کوشش نہ کریں۔‘‘
اسی طرح مارچ ۲۰۰۵ کے شمارے کے ص ۱۵ پر حافظ ارشاد احمد دیوبندی فرماتے ہیں: 
’’اپنے آپ کو بہت بڑا سکالر شپ اور اتحاد امت کا داعی کہلانے کے لیے وہ یہ سب کچھ کر رہے ہیں بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ والد محترم حضرت شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر مدظلہ سے بغاوت کر کے یہ سب کچھ لکھا جا رہا ہے۔ حضرت شیخ کا عندیہ تو کیا، ایما بھی نہیں ہے۔ ان کے اس طرح کے طرز عمل سے صحابہ دشمنوں کی اعانت ہو رہی ہے۔‘‘
میری آپ کی خدمت میں گزارش ہے کہ آپ ان حضرات کی غلط فہمیوں کو دور کریں اور ایسا ماحول اور فضا پیدا ہونے سے ہمیں بچائیں جس کی وجہ سے ہم آپس میں ہی الجھ کر رہ جائیں۔ 
والسلام، حافظ خرم شہزاد
شریک دورۂ حدیث
مدرسہ انوار العلوم شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’حیات شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ ‘‘

جناب فیض انبالوی اور شفیق صدیقی صاحب نے تحریک پاکستان کے نامور راہ نما شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی کی حیات وخدمات کے مختلف پہلووں کو اس کتاب میں مرتب کیا ہے جس میں جمعیۃ علماء ہند اور جمعیۃ علماء اسلام کے باہمی اختلافات کو نمایاں کرنے کی طرف زیادہ توجہ دی گئی ہے اور اس پس منظر میں بہت سی تاریخی معلومات اور دستاویزات کو کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔
اڑھائی سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب ادارہ پاکستان شناسی، ۳۵ رائل پارک لاہور نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۱۲۰ روپے ہے۔

’’بزرگان دار العلوم دیوبند‘‘

محترم ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوری صاحب نے ۱۸۵۷ کے جہاد آزادی میں شاملی کے محاذ کے پس منظر میں دار العلوم دیوبند کے چند سرکردہ بزرگوں کا تذکرہ کیا ہے اور ان کی سیاسی خدمات پر روشنی ڈالی ہے۔ نیز جنگ آزادی میں اکابر علماء دیوبند کے کردار کے بارے میں دیگر نامور مورخین کی نگارشات کو بھی اس میں شامل کیا ہے۔
تین سو کے لگ بھگ صفحات کی یہ مجلد کتاب جمعیۃ پبلی کیشنز، متصل مسجد پائلٹ ہائی سکول، وحدت روڈ لاہور نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۱۵۰ روپے ہے۔

’’پرویزیت کے الہیاتی تصورات‘‘

جناب ظفر اقبال خان نے مذکورہ بالا عنوان کے تحت چودھری غلام احمد پرویز صاحب کے الہیات کے بارے میں تصورات کا جائزہ لیا ہے اور اس بات کو واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے حوالے سے پرویز صاحب کے خیالات وتصورات اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتے اور قرآن کریم کے متعدد ارشادات میں تحریف کے مترادف ہیں۔ اس جائزہ کے بعض پہلووں پر بھی گفتگو کی گنجایش موجود ہے مگر مجموعی طور پر انھوں نے فکر پرویز کی کجی اور اس کے اسباب کی کامیابی کے ساتھ نشان دہی کی ہے۔
سوا سات سو سے زائد صفحات کی یہ کتاب دو جلدوں میں پیش کی گئی ہے اور اسے ادارہ اسلامیہ، حویلی بہادر شاہ، جھنگ نے شائع کیا ہے۔

’’مقام عورت قرآن وحدیث کی روشنی میں‘‘

جناب عبد الرشید ارشد آف جوہر آباد نے عورت کی آزادی اور حقوق کے حوالے سے موجودہ دور کے تصورات اور ’’آزادی نسواں کی تحریک‘‘ کے عوامل ونتائج کے پس منظر میں قرآن وسنت کی روشنی میں عورت کے مقام کی وضاحت کی ہے اور مغربی فلسفہ وتمدن کے نتیجے میں رونما ہونے والی معاشرتی خرابیوں کا جائزہ لیا ہے۔

’’فتنہ حقوق وآزادی نسواں/تورات وانجیل کی صحت وحقانیت‘‘

اس کتابچہ میں جناب عبد الرشید ارشد نے آزادی نسواں کی مغربی تحریک کے مضر اثرات کا ذکر کیا ہے اور ایک باب میں بائبل کی صحت وحقانیت کا تجزیہ کرتے ہوئے اس میں ہونے والی تحریفات کی نشان دہی کی ہے۔
دونوں کتابچے النور ٹرسٹ، جوہر پریس بلڈنگ، جوہر آباد نے شائع کیے ہیں اور اول الذکر کی قیمت پچاس روپے ہے۔

’’چمن خیال‘‘

شیخ حبیب الرحمن بٹالوی احرار کے معروف دانش ور اور مصنف ہیں۔ ارد و اور پنجابی میں ان کے منظوم کلام کا مجموعہ مذکورہ بالا عنوان کے ساتھ بخاری اکیڈمی، دار بنی ہاشم، مہربان کالونی ملتان نے شائع کیا ہے اور سوا سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل اس مجلد کتابچہ کی قیمت ایک سو روپے ہے۔

جون ۲۰۰۵ء

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا کامیاب کنونشنمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
’الفرقان الحق‘: اکیسویں صدی کا امریکی قرآنمحمد فیروز الدین شاہ کھگہ
’’سر اقبال‘‘ بنام ’’حسین احمد‘‘ ۔ ماضی کی ایک کہانی کا معما ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب کی روشنی میںمولانا عتیق الرحمن سنبھلی
تغیر پذیر ثقافتوں میں خواتین کے سماجی مقام کا مسئلہلوئی ایم صافی
مسئلہ طلاق ثلاثہ ۔ علماء کرام توجہ فرمائیںپروفیسر محمد اکرم ورک
مکاتیبادارہ
تعارف و تبصرہادارہ
الشریعہ اکادمی کی سرگرمیاںادارہ

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا کامیاب کنونشن

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے ۱۵؍ مئی ۲۰۰۵ کو اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں ملک گیر ’’دینی مدارس کنونشن‘‘ منعقد کیا جس میں ملک کے مختلف حصوں سے ہزاروں کی تعداد میں دینی مدارس کے مہتممین، اساتذہ اور طلبہ کے علاوہ زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے حضرات نے بھی شرکت کی۔ کنونشن کا عنوان گذشتہ دو سالوں کے دوران میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سالانہ امتحانات میں اول، دوم اور سوم پوزیشن پر آنے والے طلبہ اور طالبات میں انعامات کی تقسیم تھا جو صدر وفاق شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم کے ہاتھوں تقسیم ہوئے، مگر اپنے شرکا اور خطابات کے حوالے سے یہ کنونشن ملک کے دینی مدارس کے موقف، پالیسی اور کردار کے حوالے سے ایک بھرپور اجتماع تھا جس میں حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ذمہ دار حضرات کی شرکت نے اسے قومی کنونشن کی حیثیت دے دی۔
حکمران مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور وفاقی وزیر مذہبی امور جناب محمد اعجاز الحق نے کنونشن سے خطاب کیا اور دینی مدارس کی تعلیمی جدوجہد کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہوئے بعض اہم اعلانات بھی کیے جن میں جناب محمد اعجاز الحق کا یہ اعلان بطور خاص اہمیت کا حامل ہے کہ حکومت نے سرکاری خرچ سے ماڈل دینی مدارس قائم کرنے کی جو اسکیم شروع کی تھی، وہ ناکام ہو گئی ہے اور کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود صرف تین مدارس کو کامیابی کے ساتھ چلانے کا ہدف بھی پورا نہیں ہوا جس کی وجہ سے یہ منصوبہ ترک کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت دینی مدارس کے نصاب ونظام میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اور صرف عصری تقاضوں کے ساتھ ان کے نصاب ونظام کو ہم آہنگ کرنے کے لیے ان سے تعاون کرنا چاہتی ہے، اس لیے مدارس کو مطمئن رہنا چاہیے کہ ان کے معاملات میں کوئی سرکاری مداخلت نہیں ہوگی۔ مسلم لیگ کے قائد چودھری شجاعت حسین صاحب نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا ۔
قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد مولانا فضل الرحمن اور متحدہ مجلس عمل کے سربراہ جناب قاضی حسین احمد نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا اور حکومت کی دینی مدارس اور ان کے نظام کے حوالے سے پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اعلان کیا کہ دینی مدارس کی آزادی کو برقرار رکھا جائے گا اور کسی بھی بہانے ان کے نظام میں سرکاری مداخلت یا اثر ورسوخ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ ان راہ نماؤں نے معاشرے میں دینی مدارس کی دینی وتعلیمی خدمات کو سراہا اور کہا کہ اس وقت مسلم معاشرے میں عام مسلمانوں کا اسلام کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ دینی مدارس ہیں جس کی وجہ سے عالمی استعمار ان کے آزادانہ نظام کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہے، لیکن پاکستان کی دینی قوتیں ایسی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گی۔
ممتاز دانش ور جنرل (ر) حمید گل نے اپنے خطاب میں دینی مدارس کی اہمیت کا ذکر کیا اور عالمی استعمار کی ان سازشوں پر روشنی ڈالی جو دینی مدارس کو ان کے اس کردار سے محروم کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ انھوں نے دینی مدارس کے منتظمین، اساتذہ اور طلبہ سے کہا کہ وہ حوصلہ اور استقامت کے ساتھ اس دباؤ کا مقابلہ کریں اور یہ یقین رکھیں کہ بالآخر کامیابی انھی کے مقدر میں ہوگی۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے وفاق المدارس کی خدمات اور تاریخ کے مختلف پہلووں سے حاضرین کو آگاہ کیا اور دینی مدارس کے آزادانہ کردار اور دینی وتعلیمی جدوجہد کے تحفظ کے لیے وفاق کی جدوجہد اور اس سلسلے میں حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات بیان کیں۔ انھوں نے بتایا کہ وفاق نے دوسرے مکاتب فکر کے دینی مدارس کی تنظیموں کو ساتھ ملا کر ملک گیر ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ‘‘ قائم کیا اور سب وفاقوں کے اتحاد کے ساتھ دینی مدارس کے نصاب ونظام میں سرکاری مداخلت اور کنٹرول کے پروگرام کو ناکام بنایا۔
انھوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت ایک طرف دینی مدارس کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا بار بار اعلان کرتی ہے اور دوسری طرف حال ہی میں سرکاری سطح پر دینی مدارس کے لیے ایک بورڈ قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے جو حکومت کے اعلانات اور یقین دہانیوں کے منافی ہے۔ انھوں نے وفاق کی قیادت کی طرف سے اس امر کا دوٹوک اعلان کیا کہ دینی مدارس کے نظام ونصاب کے حوالے سے کسی بھی سرکاری بورڈ کو قبول نہیں کیا جائے گا اور کسی بھی سطح پر سرکاری مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
جسٹس (ر) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کا خطاب ’’دینی مدارس کنونشن‘‘ میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے دینی مدارس کے مقصد قیام کی وضاحت کی اور بتایا کہ ان دینی مدارس کا قیام معاشرے میں دینی راہ نمائی فراہم کرنے اور مسجد ومدرسہ کا نظام باقی رکھنے کے لیے رجال کار کی فراہمی کی غرض سے عمل میں آیا تھا اور دینی مدارس اپنا یہ کام خیر وخوبی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دینی مدارس سے کوئی اور تقاضا کرنا، نا انصافی کی بات ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ کہنا کہ دینی مدارس سے ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان اور وکیل کیوں پیدا نہیں ہو رہے، بالکل اسی طرح کا سوال ہے کہ میڈیکل کالج سے انجینئر کیوں نہیں نکل رہے، لا کالج سے ڈاکٹر کیوں پیدا نہیں ہو رہے، انجینئرنگ کالج سے وکیل کیوں نہیں نکل رہے اور سائنس کالج میں دینی علوم کے ماہرین کیوں تیار نہیں ہو رہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم کوتاہیوں سے پاک نہیں ہیں، اپنی اصلاح کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور اپنے نظام کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کے لیے ہر مفید تجویز کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن دینی مدارس کو ان کے مقصد قیام سے ہٹانے اور ان کے کردار کا رخ تبدیل کرنے کی کوئی بات ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہوگی۔
راقم الحروف سے بھی کچھ معروضات پیش کرنے کے لیے کہا گیا اور میں نے بطور خاص یہ گزارش کی کہ دینی مدارس کی مخالفت میں مغرب سب سے پیش پیش ہے، مگر مغرب کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ مدرسہ خود اس کی بھی ضرورت ہے۔ دینی مدرسہ ہم مسلمانوں کی بنیادی ضرورت تو ہے ہی، مغرب کی بھی ضرورت ہے اور اگر مغرب تعصب اور عناد کی عینک اتار کر مدرسہ کے کردار کا جائزہ لے تو اسے مدرسہ کا شکر گزار ہونا چاہیے، اس لیے کہ مغرب نے دو صدیاں قبل آسمانی تعلیمات سے انحراف اور وحی الٰہی کی راہ نمائی سے دست برداری کا جو فیصلہ کیا تھا، اس کے منفی نتائج انسانی سوسائٹی میں سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور عقل ودانش کے اعلیٰ حلقوں میں یہ بات محسوس کی جانے لگی ہے کہ آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی راہ نمائی کی طرف پھر سے واپس جانے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ چھ ارب افراد پر مشتمل انسانی سوسائٹی امن وخوش حالی کے لیے کسی نئے نظام کی تلاش میں ہے اور نئے نظام کے آپشنوں میں آسمانی تعلیمات کا آپشن بھی پھر سے دھیرے دھیرے ایجنڈے میں شامل ہو رہا ہے۔ گلوبل انسانی سوسائٹی کے مستقبل کے نظام کے لیے آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی ہم مسلمانوں کے لیے تو واحد آپشن کی حیثیت رکھتی ہیں، مگر باقی دنیا کے لیے بھی اسے ایک آپشن کی حیثیت ضرورت حاصل ہے۔ اب اگر انسانی سوسائٹی کسی وقت آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی طرف واپسی کی ضرورت محسوس کرتی ہے تو آسمانی تعلیمات کا محفوظ اور مستند ذخیرہ صرف مسلمانوں کے پاس ملے گا۔ دنیا کی کسی اور قوم کے پاس وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کا کوئی محفوظ ذخیرہ موجود نہیں ہے اور اگر دنیا نے آسمانی تعلیمات کی طرف واپس جانے کا فیصلہ کیا اور تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میرا یقین ہے کہ دنیا کو بالآخر اسی فیصلے پر آنا ہوگا، اس وقت صرف یہ دینی مدارس ہوں گے جہاں سے دنیا کو آسمانی تعلیمات کا ذخیرہ محفوظ اور مکمل حالت میں موجود ملے گا، کیونکہ یہ دینی مدارس اس وقت آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کے اسی ذخیرے کی حفاظت وترویج کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں، اس لیے اس کنونشن کے حوالے سے میں مغرب کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ دینی مدرسہ کے کردار کا سنجیدگی سے جائزہ لے اور جس چیز کی خود مغرب کو مستقبل میں ضرورت پیش آ سکتی ہے، اس کی حفاظت کرنے والے دینی مدرسہ کو ختم کرنے کی کوششوں کے بجائے اسے آزادی کے ساتھ اپنا کام کرنے دے۔
بہرحال ’’دینی مدارس کنونشن‘‘ اپنے مقاصد اور اہداف کے حوالے سے بہت کامیاب رہا جس پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی قیادت مبارک باد کی مستحق ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ وفاق کی قیادت اپنے کردار اور موقف کے بار ے میں اسی طرح قوم کے تمام طبقات کو اعتماد میں لے کر مزید حوصلہ اور عزم کے ساتھ معاشرے میں اسلامی تعلیمات کے فروغ اور اسلاف کی دینی جدوجہد کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے سرگرم عمل رہے گی۔

’الفرقان الحق‘: اکیسویں صدی کا امریکی قرآن

محمد فیروز الدین شاہ کھگہ

محمد فیروز الدین شاہ کھگہ (لیکچرار علوم اسلامیہ: نیشنل یونیورسٹی (FAST) لاہور)
حافظ محمد سمیع اللہ فراز (لیکچرار علومِ اسلامیہ: ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان)

قرآنِ کریم اسلامی تشریع کا اولین سرچشمہ ہے اور ہر قسم کی تحریف وآمیز ش سے پاک ہے۔ اس کے برعکس توراۃ وانجیل اپنی اصلی حیثیت کو برقرار نہ رکھتے ہوئے بے شمار تحریفات کا شکار ہوئی ہیں۔غالباً اسی وجہ سے مستشرقین نے قرآنی متن کو موضوعِ بحث بناتے ہوئے اس کو محرَّف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔دراصل استشراقی فکر کا محور یہ ہے کہ جس طرح تورات وانجیل اپنی حیثیت کھو بیٹھی ہیں اور ان کے کئی Version منظرِ عام پر آچکے ہیں، مسلمانوں کے قرآن کو بھی اسی مقام پر لا کھڑاکیاجائے۔ چنانچہ آرتھر جیفری لکھتا ہے:
"It is sometimes said that Christianity could exist without the New Testament, but Islam certainly could not exist without the Quran". (1)
یعنی عہد نامہ جدید کے بغیر عیسائیت تو اپنا وجود باقی رکھ سکتی ہے، لیکن قرآن کے بغیر اسلام باقی نہیں رہ سکتا(۲)۔
قرآن مجید کے ساتھ مسلمانوں کی عدیم المثال وابستگی اور دنیا پر اس کے حیرت انگیز اثرات کے مستشرقین بھی معترف ہیں۔ مارگولیتھ کے الفاظ ہیں:
"The Koran admittedly occupies an important position among the great religious books of the world..... it yields to hardly any in the wonderful effect which it has produced on large masses of men".(3)
اہلِ مغرب اس سے حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ جب تک مسلمان کا تعلق قرآن مجید کے ساتھ پختہ ہے، تب تک اسلامی اقدار کو منہدم کرنا مشکل ہے، چنانچہ راستے کے اس بھاری پتھر کو ہٹانے کے لیے قرآنِ مجید پر اعتراضات کا سلسلہ جاری ہے۔ سینئر برطانوی وزیر گولڈسٹون نے پارلیمنٹ کے ایک اجلاس میں قرآن مجید ہاتھ میں بلند کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ تین چیزوں کی موجودگی میں ہم اسلام اور مسلمانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے: نمازِ جمعہ، حج اور یہ کتاب‘‘۔(۴)
کچھ عرصہ قبل امریکہ سے ’الفرقان الحق‘ نامی ایک کتاب شائع ہوئی جس کو’ اکیسویں صدی کا قرآن‘ قرار دیاگیا اور اس کی نشرواشاعت پوری تن دہی کے ساتھ تاحال جاری ہے۔ ان سطور کا مقصد دنیا کو مغرب اور مستشرقین کا وہ متعصبانہ رویہ دکھانا ہے جو وہ مسلم امہ اور مسلمانوں کے بنیادی ورثہ کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں۔ مقامِ افسوس ہے کہ عہدِ طالبان میں پتھر کے دو مجسموں کے ٹوٹنے پر دنیا کا حیرتناک اور شدید ردعمل دیکھنے کو ملتا ہے، لیکن مسلمانوں کے دستورِ زندگی اور تعلیمات وعقائد کے مرکز قرآن مجید کا جب مذاق اڑایا جائے تو عالمی حقوق کی کسی تنظیم کی طرف سے کوئی مذمتی بیان جاری نہیں ہوتا۔
مغرب سے متاثر وہ افراد جو اسلام کے متعلق تعلیمات کے حصول کے لیے مستشرقین کے بظاہرسائنٹفک مگربباطن غیر حقیقی مواد پر مشتمل مقالات کامطالعہ کرتے ہیں، بہت جلد شکوک وشبہات کی گھاٹیوں میں داخل ہوجاتے ہیں۔ نوجوان نسل، جو پہلے ہی مادی ترغیبات کے سبب سے دائرۂ مذہب سے فرار کی خواہاں ہے،اس کے لیے ایک چھوٹی سی آواز بھی راہِ راست سے بھٹکانے کے لیے کافی ہے۔ ایسے حالات میں اس ضرورت کا شدید احساس ہوتا ہے کہ ہم کسی منظم شکل میں مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے مستشرقین اور اہل مغرب کے متعصب افراد کی آوازوں کا قوی اور مسکت جواب دیں۔ قارئین کرام کے لیے حالیہ امریکی قرآن کی اصلیت اوراس کے پس پردہ چشم کشا صہیونی مقاصد کا تعارف پیشِ خدمت ہے:
’الفرقان الحق‘ نامی امریکی قرآن کا مصنف ڈاکٹر انیس شوروش (Anis Shorrosh)ہے جو خود کو ’الصفی‘،’المہدی‘ اور ’مہدی منتظر‘ جیسے القاب سے ملقب کرتا ہے۔ انیس شوروش کا اصل نام پہلی مرتبہ Amazonنامی انٹر نیٹ سائٹ پر دیکھا گیا(۵)۔ انیس شوروش فلسطین میں پیدا ہوا، یعنی یہ اصلاً فلسطینی عربی ہے ۔ اُردن کے میسیسپی کالج (MISSISSIPPI COLLEGE) میں تعلیم حاصل کی۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے سے قبل ORLEANS BAPTIST NEW THEOLOGICAL SEMINARY کے ادارہ میں پڑھاتا رہا اور دومرتبہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری بالترتیب INSTITUTE OF SEMINORY MINISTORY DAYTON TENNESSEEاور INTERNATIONAL LUTHER RICEکی یونیورسٹیوں سے حاصل کی۔ یہودیوں کے ساتھ مقبوضہ ارضِ مقدس میں کام کرتا رہا۔ مزید براں 1959ء تا1966ء یروشلم کے کنیسا میں بھی خدمات انجام دیں۔ امریکہ اور اسرائیل کے مابین 40سال تک Clergymanیعنی پادری سفارتکار کے طور پر جبکہ افریقہ، کینیا، کیپ ٹاؤن، ڈربن، جوہانسبرگ وغیرہ میں بطور عیسائی مبلّغ کام کیا۔ 1955ء میں نیوزی لینڈ سے انگلینڈ منتقل ہوااوربعدازاں پرتگال میں رہائش پذیر رہا(۶)۔
مشہور اسلامی مفکر اور سکالر احمددیداتؒ نے اس کے ساتھ دومناظرے بھی کیے۔ پہلی مرتبہ 1980ء کو لندن میں ’’کیا عیسیٰ خدا ہے؟‘‘ کے موضوع پر پانچ ہزار افراد کی موجودگی میں، جبکہ دوسری مرتبہ برمنگھم میں ’’قرآن وانجیل___کلام اللہ کیا ہے؟‘‘ کے عنوان پر بارہ ہزار افراد کے اجتماع میں مناظرہ ہوا۔
انیس شوروش نے مذکورہ بالا مناظروں کے بعد ایک کتاب An Islamic Revealed, Christian Arabic Veiws of Islamتالیف کی اور اس کتاب کے متعلق کہا کہ یہ لوگوں کو اس بات سے آگاہ کرنے کے لیے کافی ہے کہ اسلام غلط عقائد پر مشتمل دہشت گردی کا دین ہے جو لوگوں کو جھگڑے، قتال اور خون بہانے کی طرف مدعو کرتا ہے کیونکہ اس کا اولین مصدر یہی قرآن ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قرآن کو ’الفرقان الحق‘ سے بدل لیں (۷)۔ شوروش کے الفاظ ہیں کہ ’’قرآنی أجود، کتبتُہ بالعربیۃ الجیدۃ وترجم الی اللغۃ الإنجلیزیۃ الجیدۃ ‘‘۔(۸) 
انیس شوروش کی اسلام اور مسلم دشمنی اس وقت کھل کر سامنے آئی جب اس نے نائن الیون کے دودن بعد امریکی ریاست ہیوسٹن کی یونیورسٹی میں بغض وعناد سے بھر پور ایک لیکچر دیا جس میں اس نے مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے پر زور دیا۔ شوروش کے الفاظ میں چونکہ دینِ اسلام دہشت گردی اور خون بہانے کا دین ہے اور اس وقت دہشت گردی کا اولین مصدر قرآن ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اس قرآن کو ختم کر دیا جائے تاکہ دہشت گردی ختم ہو سکے۔ مزید براں امریکی حکومت پر زورد یا کہ وہ مسلمانوں کو امریکہ سے نکال دے اور تمام مسلمانوں کو مشرقِ وسطیٰ کے علاقہ میں جمع کرنے کے بعد ان کو ہائیڈروجن بم سے اڑا دے۔ بعدازاں اسلام اور مسلمانوں کی ہلاکت کے لیے خصوصی سروس کا اہتمام کیا۔ شوروش کا یہ لیکچر بدکلامی اور اسلام کے خلاف گالی گلوچ سے اس قدر پُر تھا کہ یونیورسٹی کے صدر کو اگلے روز اس سلسلے میں معذرت کرنا پڑی (۹)۔
شوروش نے میڈیا کو اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کا بنیادی ذریعہ بنایا حتیٰ کہ انڈونیشیا کے مشہور ٹی وی چینلز کو خریدنے کے بعد ان کی نگرانی انڈونیشیائی عیسائیوں کے سپرد کردی(۱۰)۔
شوروش اپنی کتاب ’الفرقان الحق‘ میں قارئین کی حمایت حاصل کرنے کے لیے خود کو ایک مظلوم خاندان کا فرد ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہاس کے والد اور چچازاد کی اسرائیل میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاکت نے اس کو 1976ء میں اردن کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کیا۔ (۱۱) وہ مسلمانوں کو ’’I sincerely love all the Muslims‘‘ کے الفاظ کے ساتھ جھانسہ دینے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ ’الفرقان الحق‘ کا سببِ تالیف بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ مسلمانوں سے محبت اوران کے فائدے کی خاطر اس کتاب کو اپنی سابقہ کتاب ’’کشف حقیقۃ الاسلام‘‘کے تتمہ کے طور پر شائع کر رہا ہوں۔اسرائیلی تھنک ٹینک نے شوروش کا مقالہ ’’الاسلام یستھدف امریکا فی مخطط یمتد عشرین عاما‘‘ بھی شائع کیا ہے۔ اس مقالہ میں اپنی کتاب ’الفرقان الحق‘ کی اہمیت اس طرح بیان کی ہے کہ
’’۔۔۔ تاکہ مسلمانوں کے قرآن کو ہر لحاظ سے چیلنج کیا جا سکے۔ اس کے جوہر،اسلوب، لغت اور مشتملات ومحتویات ، غرض یہ کہ ہر لحاظ سے اسلامی قرآن کے مقابل یہی کتاب ہے‘‘(۱۲)۔
اس کے خیال میں مسلمانوں نے 2020ء تک امریکہ کی فتح کے لیے جامع منصوبہ بندی کر رکھی ہے چنانچہ اسی وجہ سے ایک وقت وہ بھی آیا جب مسلمانوں کا یہ منصوبہ 11ستمبر کو اچانک، جب امریکی سکون کی نیند سو رہے تھے، ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹاورز پر حملہ کی صورت میں رونما ہوا۔ 
شوروش اپنے تعارف میں مزید لکھتا ہے کہ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی سٹڈی کونسل کا ممبر بھی رہا اور 76سے زائد ممالک کے دورے بھی کیے۔ وہ غیر مسلم حلقوں میں حقیقتِ اسلام کو منکشف کرنے کا متخصص (Specialist) قلم کار مانا جاتا ہے۔ شوروش کے خیال میں قرآن انسانیت کو 1400سو برس سے چیلنج کر رہا ہے کہ کوئی انسان اس جیسی کتاب تالیف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتاجو زمانہ کے مناسبِ حال اورتورات وانجیل کے مابین جمع وتطبیق کرتی ہواورادیانِ ثلاثہ یعنی عیسائیت، یہودیت اور اسلام کی تعلیمات کی جامع تفسیر ہو، لیکن ’الفرقان الحق‘نے قرآن اورمسلمانوں کے اس مقولے اور چیلنج کو باطل کر دیا ہے۔ اس کے مطابق مسلمانوں کے نبی محمد(ﷺ) پر قرآن تیئیس(23)سال اترتا رہا لیکن میں نئے قرآن کی ترتیب وتدوین میں سات سال سے زیادہ مصروف نہیں رہا۔ یہ عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں مرقوم ہے جس پر 1999ء سے عمل شروع ہے۔وہ مسلمانوں کے قرآن سے ’الفرقان الحق‘ کا موازنہ کرتے ہوئے اسلامی قرآن میں قواعدِ نحو ولغت کی 100سے زائد غلطیوں کا دعویٰ کرتا ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کو چند مبہم اور غیر واضح نکات پر مشتمل ایک دستاویز سے زیادہ سمجھنے کو تیار نظر نہیں آتا ۔ اس کے برعکس اپنے خود ساختہ کلام کے واضح اور تفصیلی جزئیات کے ساتھ مالا مال ہونے کا دعویدار ہے۔ (۱۳)
’الفرقان الحق‘ 20 x 15 سم کے 366 صفحات پر مشتمل ہے۔ مقدمہ، بسملہ اور خاتمہ کے علاوہ اس کی 77سورتیں ہیں۔ اس متعفن تصنیف کی ہر سورت کی آیات کی تعدادہاتھ پاؤں کی انگلیوں کے برابر ہے جبکہ ہر سورت کو بتکلف ٹھونس ٹھانس کر بھر دیا گیا ہے ۔ 
’الفرقان الحق‘ کا جزء اول اسی سال American Center of Divine Loveکی وساطت سے امریکہ میں اومیگا۲۰۰۱ (OMEGA 2001) اور پریس وائن (PRESS WINE) سے شائع ہوا ہے ۔ (۱۵) جمعیت احیاء التراث الاسلامی کویت کے ہفت روزہ مجلہ ’’الفرقان‘‘ میں نسخہ کی قیمت 3امریکی ڈالر مذکور ہے جبکہ مذکورہ کتاب امریکہ، اسرائیل، لندن اور دیگر یورپی ممالک میں بڑی تیزی سے فروخت کی جار ہی ہے۔ ’الفرقان الحق‘ کے انٹرنیٹ ایڈیشن کی قیمت49.19امریکی ڈالر مذکور ہے(۱۶)۔ 
’الفرقان الحق‘ کے ناشرین و متعلقین کی یہ کوشش ہے کہ اس کتاب کو ہر مسلمان کے گھر بلکہ اس کے دل ودماغ تک پہنچا یا جائے۔ اگرچہ انھیں اس بات کا یقین ہے کہ مخلص مسلم سکالرز اور دانشوروں کی موجودگی میں یہ کام ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، تاہم انہوں نے اس کتاب کی تقسیم کا آغاز امریکہ کے بڑے بڑے کتب خانوں سے کیا ہے۔ ۲۰ویں صدی کے مسیلمہ سلیمان رشدی کی خصوصی توجہ سے لندن میں بھی یہ کتاب بڑے پیمانے پر دستیاب ہے۔ کویتی مجلہ ’الفرقان‘ کے مطابق اس کتاب کو خصوصاً کویت کے عجمی اداروں میں مفت تقسیم کیا جا رہا ہے تاکہ مشنری مقاصد کی تکمیل ہو سکے اور آنے والی نسلوں میں اسلامی تشخص کی ایک مسخ شدہ شکل پیش کی جا سکے تاکہ وہ دینِ حنیف سے روگرداں ہو ں۔ اس کتاب کا براہِ راست ہدف نوجوان طبقہ ہے جو امتِ مسلمہ کا قیمتی سرمایہ اور مستقبل کے قائدین ہیں۔ بہت افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے بعض نوجوان اور اسکالرز اجماعِ امت کے خلاف جب باتیں کرتے ہیں تو وہ نہ صرف اجتماعی ساکھ کو نقصان پہنچارہے ہوتے ہیں بلکہ اس سے امت کی وحدت کو بھی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
اس کتاب کی تقسیم کا دوسرا بڑا مقام ارضِ فلسطین ہے جہاں اسرائیل کے راستے کئی نسخے پہنچائے گئے ہیں جن کو فلسطینی تعلیمی اداروں میں رائج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ فلسطین کو اس کے لیے کیوں منتخب کیاگیا؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنا اس وقت آسان تر ہو جاتا ہے جب بنظر غائر یہ دیکھا جائے کہ اس امریکی مسخرہ میں اسرائیلی اہداف کو کس طرح تقویت دی گئی ہے(۱۷)۔ 
امریکی فرقان کے ایک نمائندے کی تقریر میں اس کی طرف اشارہ کیاگیا کہ 17/04/2004تک پیرس، لندن، واشنگٹن اور دیگر کئی بڑے شہروں میں اسلامی وعربی سفارت کاروں کو اس کی تقسیم مکمل کی جا چکی ہے۔20اپریل 2004ء کو BBCنے اس کا نسخہ وصول کیا۔ اسی طرح فلسطین سے شائع ہونے والے عربی، انگریزی اور عبرانی زبان کے مجلات کے دفاتر میں 15مئی 2004ء کواس کے نسخے پہنچادیے گئے۔ 17مئی 2004ء کو لندن سے شائع ہونے والے عربی مجلات کے دفاتر کی طرف اس کو ارسال کیاگیا۔ (۱۸)مزید براں مذکورہ کتاب www.amazon.comکے علاوہ کئی دوسرے انٹرنیٹ لنکس پر دستیاب ہے۔ ہمارے لیے مقامِ افسوس بایں طور ہے کہ مسلم مفکرین واسکالرز کو اس بات کی خبر تک نہیں کہ اس فحش کتاب کو کس تیزی کے ساتھ نہ صرف غیرمسلم بلکہ مسلم علاقوں تک پہنچایا جا رہا ہے۔
امریکہ سے شائع ہونے والے مشہور ومعروف جریدہ ’’صوت العربیۃ‘‘ کے چیف ایڈیٹر ولید رباح اپنے ساتھ پیش آنے والے حالیہ واقعہ کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’۔۔۔کچھ روز قبل ایک امریکی شخص نے ٹیلی فون پر مجھ سے رابطہ کیا جو کہ اہل ٹیکساس کے لہجہ میں عربی زبان بو ل رہا تھا۔ کہنے لگا کہ میرا نام قسیس الیاہو ہے اور میں آپ سے جتنی جلدی ممکن ہو، ملنے کا خواہشمند ہوں۔ اس نے مزید کہا کہ میرے پاس آپ کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے ساتھ کب اور کہاں ملاقات ممکن ہے؟ اس نے کہا کہ میں ’’صوت العربیۃ‘‘ کے دفتر میں پہنچ جاتا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس ہمارے دفتر کا ایڈریس ہے؟ تو اس نے زور دے کر کہا کہ جناب، اس کا ایڈریس تو میرے دل ودماغ پر کندہ ہے۔ میں نے کہا کہ پلیز ضرور تشریف لائیے۔ میں فوراً دفتر پہنچا تو چند ہی منٹوں بعد طویل قدوقامت اور گہرے رنگ کے بالوں والا ایک آدمی جس کے ہاتھ میں Samsoniteقسم کا ایک بیگ تھا، آن پہنچا۔ اس نے پرتکلف انداز میں زبان کو بل دیتے ہوئے کہا ’’شلام العلیکم‘‘ میں نے وعلیکم السلام کہنے کے بعد اس کو بیٹھنے کے لیے کہا۔اس نے کہا کہ میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا اور اپنا بیگ کھولتے ہوئے ایک چمکدار لفافے میں لپٹی ہوئی کوئی چیز نکالی اور کہا کہ سر! یہ میری طرف سے آپ کو ہدیہ ہے۔ میں نے طنزیہ اندا ز میں کہا کہ اس میں کہیں انتھراکس تو نہیں کیونکہ آپ لوگوں سے کچھ بعید نہیں۔ اس نے کہا نہیں جناب بلکہ اس میں ایک نئی زندگی ہے جو میں آپ کو پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے یہ کتاب میرے حوالے کی جس پر عربی میں ’الفرقان الحق‘ لکھا ہواتھا۔ میں نے اس کو ایک طرف رکھا اور اس کے ساتھ معاشیات، سیاست اور حالاتِ حاضرہ پر تقریباً آدھ گھنٹہ گفتگو ہوتی رہی۔ پھر میں نے پوچھا کہ آپ اس کی تشہیر کے لیے ہمیں کیا دیں گے؟ اس کے دوبارہ استفسار پر میں نے کہا کہ اس کی تشہیر کے لیے آپ ہمیں کیا دیں گے ؟ اس نے کہا کہ ایک تو کم ہوگا، دو ٹھیک ہے۔ میں نے پوچھا کہ اِس ایک اور دو سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اس نے کہا، ایک یا دو ملین ڈالرلیکن شرط یہ ہے کہ ’’صوت العربیۃ‘‘ کے ہر قاری کے گھر میں یہ کتاب پہنچنی چاہیے اور یہ بھی کہ یہ کم از کم دس بار شائع ہو‘‘۔ (۱۹)
’’صوت العربیۃ‘‘ کے مدیر اعلیٰ مزید کہتے ہیں کہ:

’’ وہ آدمی چلا گیا۔ میں نے اس کتاب کو کھولا تو عربی اور انگریزی میں ایک ساتھ لکھی ہوئی اس کتاب کا مقدمہ پڑھنا شروع کیا جس میں لکھا ہوا تھا:
الی الامۃ العربیۃ خاصۃ والی العالم الاسلامی عامۃ سلام علیکم ورحمۃ من اﷲ القادر علی کل شئی۔۔۔ یوجد فی اعماق النفس البشریۃ اشواق للایمان الخالص والسلام الداخلی والحریۃ الروحیۃ والحیاۃ الابدیۃ۔۔۔ واننا نثق بالالہ الواحد الاوحد بان القراء والمستمعین سیجدون الطریق لتلک الاشواق من خلال الفرقان الحق۔
یعنی امت عربیہ کے لیے خصوصاً اور عالمِ اسلام کے لیے عموماً۔ اللہ قادر مطلق کی طرف سے تم پر سلامتی اور رحمت ہو۔ نفسِ انسانی کی گہرائیوں میں ایمانِ خالص اور سلامتی ، روحانی آزادی اور ابدی زندگی موجود ہوتی ہے۔ ہم کو یقین ہے کہ الٰہ الواحد الاَوحد کے فضل سے قارئین وسامعین ایمان وسلامتی کے یہ راستے الفرقان الحق کے ذریعے پائیں گے۔۔۔ خالقِ انسانیت نے یہ روشن ستارے اس صفی ومہدی (شوروش) کی طرف وحی کیے ہیں‘‘۔

پھر ولید رباح نے جب پہلا صفحہ پلٹا تو اس پر سورۂ بسملہ تھی :
’’باسم الاب الکلمۃ الروح الالہ الواحد الأوحد۔ مثلث التوحید موحد التثلیث ما تعدد۔ فہو اب لم یلد۔ کلمۃ لم یولد۔ روح لم یفرد۔ خلاق لم یخلق۔ فسبحان مالک الملک والقوۃ والمجد۔ من ازل الازل الی ابد الابد‘‘۔
ولید بن رباح کہتے ہیں کہ میں نے امریکی قرآن کی سورۂ فاتحہ دیکھی اور کتاب بند کرتے ہوئے دل میں سوچا کہ یہ کون سا مہدی ہے جس کو عربی زبان کے اصول وابجد کا ہی علم نہیں تو میں اس کے لطیفہ پر کیوں نہیں ہنس سکتا۔ میں نے فوراً قرآنِ مجید فرقانِ حمید کھولا اور سورۂ فاتحہ کو پوری دلجمعی سے پڑھا تو زندہ ومردہ کا فرق واضح ہوگیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرا خیال اچانک مسیلمہ کذاب کی طرف چلا گیا کہ وہ کذاب ہونے کے باوجود اس فرقان امریکی سے بدرجہا بہتر عربی زبان سے واقف تھا، لیکن پھربھی اس قابل نہ تھا کہ قرآن کا مقابل تیار کر سکے۔
اس امریکی اقدام کے پس پردہ عزائم کا اندازہ حسبِ ذیل اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے:
"The purpose of The True Furqan is a tool of evangelism, because so far we have not found a breakthrough way to reach the Muslim world for Christ," Al-Mahdy said. "We have tried medicine, schools, books, movies and many other methods.(20)
’’المہدی نے کہا کہ الفرقا ن الحق کا مقصد انجیل کی تبلیغ واشاعت کے لیے اسے بطور ذریعہ اختیار کرنا ہے، کیونکہ اب تک ہمیں مسیح کی خاطر مسلم دنیا تک رسائی حاصل کرنے میں کوئی بڑی کام یابی حاصل نہیں ہوئی۔ ہم دواؤں، سکولوں، کتابوں اور فلموں سمیت کئی دوسرے طریقے بھی اختیار کر کے دیکھ چکے ہیں۔‘‘

مولفِ ’الفرقان الحق‘ کی کم علمی و کم عقلی کے ثبوت

موصوف نے اپنے انگریزی مقدمہ میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ’الفرقان الحق‘ وہ پہلی کتاب ہے جس نے اسلامی قرآن کے چیلنج کا مسکت جواب دیا ہے اور اس سے پہلے تاریخ کے کسی دور میں اسلامی قرآن کے مقابل کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ لکھتا ہے:
"1400 years ago the Quran challenged the world to produce a book like itself. Now for the first time in history, The True Furqan presents the gospel message in a unique style".(21)
شوروش مزید کہتا ہے کہ
"The True Furqan will be a breakthrough to Muslims not only because it answers the Qur'an's challenge, but because it also questions many of the Qur'an's teachings, as well as presenting the Gospel message, all in the language Muslims revere -- powerful, perfect, classical Arabic".(22)
شوروش کے مذکورہ بالا دعویٰ کے مطابق یہ وہ پہلی کتاب ہے جو قرآنی اسلوب کے مقابل تالیف کی گئی ہے اور یہی وہ فرقان ہے جس نے چودہ سو سال کے بعد پہلی مرتبہ قرآنی چیلنج کو قبول کیا ہے۔ درحقیقت اس کا یہ گمان مطلق جہالت کے سوا کچھ نہیں کیونکہ معاندینِ اسلام نے سینکڑوں بار شوروش سے بڑھ کر اسلامی قرآن کے مدمقابل کتابیں اور آیات افترا کرنے کی کوشش کی ہے۔تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مسیلمہ،حمام وغیرہ جیسے کذابین ومدعیانِ نبوت نے (وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ ۔۔۔ الخ) کے وزن پر آیات گھڑی تھیں۔ ابن اثیر نے اپنی کتاب ’’اسد الغابۃ‘‘ میں بھی ایسی عبارات ذکر کی ہیں جو قرآن کے مقابلہ میں بنائی گئیں اور اس پر تنقیدی کلام بھی کیا ہے(۲۳)۔
مزید براں امریکی قرآن میں جہاں فاتحہ،القدر،المومنین،التوبۃ،النساء، الطلاق، المائدۃ، المنافقین، الکافرین اورالانبیاء جیسی سورتوں کے نام چوری کیے گئے ہیں، وہیں بعینہ ایک دو حرف کی تحریف کے ساتھ قرآنی آیات کو بھی نقل کیا گیا ہے جو اس بات پر دال ہے کہ شاید ’الفرقان الحق‘، قرآنی کلمات،عبارات، تراکیب، ہیئت، فواصل اورآیات کے توازن وہم آہنگی سے مدد لیے بغیر کبھی معرضِ وجود میں نہ آ سکتا۔ اس ضمن میں چند مثالیں حسب ذیل ہیں:
۱۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ اَعْمَالُہُمْ کَرَمَادِ ن اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ لَایَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلَی شَیْءٍ ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلَالُ الْبَعِیْد(۲۴)
اس کے مقابلہ میں شوروش کی افترا کردہ آیت حسبِ ذیل ہے:
مثل الذین کفروا وکذبوا بالانجیل الحق اعمالہم کرماد ن اشتدت بہ الریح فی یوم عاصف لا یقدرون مما کسبوا علی شئی ذلک ہو الضلال الاکید(۲۵)
۲۔ قرآن مجید میں ہے:
ھَا اَنْتُمْ اُولَاءِ تُحِبُّوْنَہُمْ وَلَا یُحِبُّونَکُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بِالْکِتَابِ کُلِّہ وَاِذَا لَقُوْکُمْ قَالُوا آمَنَّا وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ اِنَّ اﷲَ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرO اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ وَاِنْ تُصِبْکُمْ سَیِّءَۃٌ یَّفْرَحُوْا بِھَا وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْءًا اِنَّ اﷲَ بِمَا یَعَمَلُوْنَ مُحِیْطO ۔(۲۶)
اس کے مقابلہ میں شوروش رقمطراز ہے:
’’یا ایہا الذین آمنوا من عبادنا ہا انتم اولاءِ تحبون الذین یعادونکم، وہم لا یحبونکم، واذا لقوکم قالوا: آمنا بما آمنتم واذا خلوا عضوا علیکم الانامل من الغیظ، وان تمسسکم حسنۃ تسوء ہم وان تصبکم سیئۃ یفرحوا بہا، وان تصبروا وتتقوا لا یضرکم کیدہم شیئا، ولا یضرون الا انفسہم وما یشعرون‘‘۔(۲۷)
انیس شوروش کے دیگر مقاصد کے ساتھ ساتھ یہ مقصد بھی پوشیدہ نہیں کہ ’الفرقان الحق‘ دراصل اسلام اور عیسائیت کے مابین بُعد پیدا کرنے کی کوشش ہے کیونکہ یہودی ہونے کے باوجود اس نے اس کتاب میں عیسائی تعلیمات کو استعمال کرتے ہوئے اسلام کے ساتھ نفرت کا اظہار کیا ہے۔ لیکن منصف مزاج عیسائی دانشوروں نے شوروش کی اس کوشش کو کسی قسم کی قبولیت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ سید عبدہ عبدالرزاق لکھتے ہیں:
’’۔۔۔علی شبکۃ الانترنت یقف علی الکثیر من اقوال النصاری المنصفین الذی یعلمون ان ہذا الکتاب لا یمت للسماء بصلۃ تقول اہداہن ( انا برائی ان الشئی او الکتاب المسمی الفرقان الحق ما ہو الا کذب وتحریف وہجوم علی الاسلام مع اننی مسیحیۃ۔۔۔ واظن ان الاسلام قد حفظ کتابہ القرآن وسیحفظہ۔۔۔‘‘۔ (۲۸)
شوروش کی اس کتاب میں تناقضات بھی جا بجا ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافاً کَثِیْراً (۲۹)
۱۔ یہودیوں کے نزدیک بنی اسرائیل کے بعد کسی نبی یا رسول کا آنا ممکن نہیں جیسا کہ شوروش ’الفرقان الحق‘ کی سورۂ انبیاء میں کہتا ہے:
’’ ما بشرنا بنی اسرائیل برسول یاتی من بعد کلمتنا وما عساہ ان یقول بعد ان قلنا کلمۃ الحق وانزلنا سنۃ الکمال۔۔۔‘‘ (۳۰)
اس دعویٰ کے پیش نظر وہ دراصل عیسائیت کی بھی تنکیر کررہا ہے جبکہ دوسری طرف وہ اپنی کتاب میں ’یشوع‘، ’الاناشید لسیلمان‘،’انجیل متی‘، ’انجیل مرقس‘،’ رؤیا القدیس یوحنا‘ جیسے الفاظ بھی استعمال کرتا ہے۔
۲۔ شوروش کا بنایا ہوا قرآن عربی زبان میں ہے اور یہ اصول ہے کہ ’’ما من نبی اُرسل الا بلسان قومہ‘‘۔ تو یہ ’الفرقان الحق‘ کس طرح عربی زبان میں نازل ہوگیا؟ کیونکہ یہودی حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ محترمہ حضرت ہاجرہ سلام اﷲ علیہا کو(نعوذباللہ) غلام اور باندی کہتے ہیں، بایں وجہ اس نسل سے نبوت نہیں چل سکتی(۳۱)۔ کیونکہ بنی اسرائیل حضرت یعقوب جبکہ اہلِ عرب حضرت اسماعیل علیہما السلام کی اولاد ہیں تو ’الفرقان الحق‘ کس طرح اہلِ عرب کے لیے نازل ہو سکتا ہے؟
۳۔ امریکی قرآن کی سورۂ الکبائر کی آیت 9کے الفاظ ہیں: ’’مومنین منافقین‘‘۔ ایک انسان مومن ہونے کے ساتھ کسی طرح منافق ہو سکتا ہے؟ 
۴ ۔ جیسا کہ ظاہر ہے کہ شوروش نے بہت سی قرآنی آیات کا سرقہ کیا ہے ، تو جب اس کے بقول مسلمانوں کا قرآن (نعوذ باللہ) باطل ہے تو اس نے کیوں اس ’ باطل قرآن‘ کی آیات کا سرقہ کیا؟ جیسا کہ وہ کہتا ہے ’’ومن یبتغ غیر الانجیل والفرقان کتابا فلن یقبل منہ ‘‘۔
اس کے علاوہ بھی سینکڑوں تضادات ’الفرقان الحق‘ میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔

عالمِ اسلام کا موقف

تمام اسلامی ممالک میں بالعموم اور مصر و سعودی عرب میں بالخصوص اس کریہہ اقدام پر سخت موقف کا اظہار کیا گیا ہے، ماسوائے وطنِ عزیز پاکستان کے کہ جہاں تادمِ تحریر کسی پلیٹ فارم سے کسی قسم کا کوئی ٹھوس موقف یا مذمت سننے یا دیکھنے میں نہیں آئی۔ ذیل میں بطورِ نمونہ مصر، سعودی عرب اور فلسطین کے علما کی طرف سے اس کی مذمتی بیانات ذکر کیے جاتے ہیں:
جغرافیائی حدود کے اعتبار سے مصر اسلامی دنیا کے علمی میدان میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ اس کے مختلف جرائد ورسائل میں اس بات کا اظہار کیاگیا ہے کہ امریکہ نے اسرائیلی تعاون کے ساتھ مصر سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس کتاب کی نشرواشاعت کا انتظام کرے(۳۲)۔ اس کے رد عمل میں جامعہ ازہر کے رئیس ڈاکٹر سید طنطاوی نے شرعی طور پر اس جھوٹے نسخے کی اشاعت کو حرام اور کفر قرار دیا۔ ان کے الفاظ ہیں:
’’یجب الرد علی ذلک والتنبیہ علی ان ہذا المولف لا اساس لہ من الصحۃ وتجب مصادرتہ۔۔۔ ان حکم من یوزع قرآنا مزورا خاصۃ اذا کان یعلم حقیقتہ ویتعمد توزیعہ ویقصد رد الناس عن الحق واستدراجہم الی الباطل، فعملہ ہذا عندئذٍ والعیاذ باﷲ ہو خروج عن الاسلام بل ہو الکفر بعینہ، ومن یفعل بذلک یکون محارباً للاسلام‘‘۔(۳۳)
مجمع البحوث الاسلامی کی ایک قرارداد کے مطابق انیس شوروش کا انتقامی فعل قرار دیا گیا جو اس نے احمد دیدات مرحوم سے مناظرہ میں شکست کے نتیجہ میں انجام دیا ہے اور یہ کہ شوروش اسلام کی تحقیر کرنے پر مستوجب سزا قرار دیا (۳۴)۔
سعودی عرب میں رابطہ عالمِ اسلامی مکۃ المکرمۃ کی مجلسِ تاسیس نے دینِ حنیف اور قرآنِ کریم کے متعلق اس فعلِ شنیع کی سخت مذمت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ حالیہ امریکہ قرآن درحقیقت مسلمانوں کی اسلامی ثقافت اور قرآن کے ساتھ گہری وابستگی کی وجہ سے ان کو برانگیختہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے اور اس کے ذریعے رسالتِ محمدیہؐ اور آپﷺ کی دعوت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے جیسے خطرناک عزائم مقصود ہیں۔ چنانچہ مسلم حکومتیں اس کی اشاعت رکوانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
رابطہ عالمِ اسلامی نے دیگر اسلامی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ مشترکہ طورپر قرآن کے دفاع میں اپنی کوششیں صرف کریں اور اسلام دشمن مقاصد کو منظر عام پر لاتے ہوئے مسلمانوں کو اسلام اور قرآن کا دفاع کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کریں(۳۵)۔ 
فلسطین کے مشہور عالم الشیخ عکرمہ نے ’الفرقان الحق‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا : ’’لو کنا نحن المسلمین قد انتقدنا ای دین سماوی لقامت الدنیا ولم تقعد‘‘ ۔ یعنی اگر ہم مسلمان یہودیت یا عیسائیت پر تنقید کرتے تو ساری دنیا کھڑی ہوجاتی اور چین سے نہ بیٹھتی، باوجودیکہ مسلمانوں کا یہ موقف ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی نبی کا تمسخر اڑائے یا اس پر تنقید کرے اور مسلمان حضرت داؤد وسلیمان علیہما السلام کو نبی مانتے ہوئے ان کو لائق صد احترام سمجھتے ہیں حالانکہ وہ یہودیوں کے بادشاہ ہیں (۳۶)۔
فلسطینی تنظیم ’حرکتِ اسلامی‘ کے نائب رئیس کمال خطیب نے اس کوشش کو اسلام پر ایک حملہ اور دینی شعار کے خلاف سازش قرار دیا(۳۷)۔ 
مسلم سکالر شیخ ابو اسحق الحوینی نے اس مضحکہ خیز کتاب(الفرقان الحق) کے متعلق شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے قاہر ہ کی جامع مسجد میں اس پر تنبیہ و تردید کو واجب قرار دیا :
واخطر ما فی ہذہ الحرف ان جماہیر المسلمین غافلۃ عن ہذا المخطط۔۔۔ وہذا یقضی ان یکون عندنا جیش جرار من المحققین وعلماء الحدیث الذین یعرفون المصادر الاصلیۃ، فان لم نفعل ذلک فہذا ہو الضیاع بعینہ۔۔۔‘‘(۳۸)۔
یعنی ہمارے پاس ہر وقت ایسے محققین کا لشکر موجود رہنا چاہئے جو ان جیسے شبہات کا فوری طور پر منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
سید عبدہ عبدالرزاق نے اس کتاب پر اسلامی حلقوں کی طرف سے جس کثرت سے Feed Back آنے کی ضرورت تھی، اس کے نہ آنے پر دکھ کا اظہار کیا:
’’ان رد الفعل الاسلامی علی ہذا الفرقان اقل بکثیر مما یجب، وہناک الکثیر من الدول الاسلامیۃ یوضع حولہا علامات استفہام کبیرۃ، فالکتاب یوزع فی اراضیہا، ولنا ان نسال ہؤلاء: ہل سیخیکم الصمت علیکم وکتاب الکفر یوزع باراضیکم؟‘‘(۳۹)۔
غیر مسلم ممالک میں بھی مختلف اسلامی آرگنائزیشنز نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔ برطانیہ میں مسلم تنظیموں نے برطانوی حکومت کو کثیر تعداد میں خطوط ارسال کیے ہیں جن میں ایسی ویب سائٹس کو بلاک کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے (۴۰)۔
امریکی کی مسلم تنظیموں نے بھی شدید مذمت کا اظہار کرتے ہوئے اس کو دین اسلام کے خلاف متعصبانہ اقدام قراردیتے ہوئے کہا کہ یہ ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی ہے۔ امریکی حکومت کو ایک وضاحتی بیان میں کہاگیا ہے کہ جب طالبان گورنمنٹ نے ایک مجسمے کو گرایا تھا تو ساری دنیا سے اس کی مذمت شروع ہوگئی لیکن جب امریکہ میں بیٹھا کوئی شخص مسلمانوں کے تشریعی مصدر اور انسانیت کے دستور قرآن مجید کو مسخ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دانشوروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی (۴۱)۔
شاید کچھ اہل علم یہ موقف بھی رکھتے ہوں کہ قرآن اور اسلام کے خلاف شائع ہونے والے مغربی لٹریچر کو قابلِ غور سمجھنا یا اسے کچھ وقعت دینا بھی اس کے شیوع کا سبب ہے، لیکن اس موقف کو کس اعتبار سے قریب از حکمت سمجھ لیا جائے کہ قرآن دشمن مغربی لٹریچر اور اس کے اثراتِ فاسدہ پر ہم خاموشی اختیار کیے رکھیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی امید رہے کہ بہت جلد ہم سرزمینِ یورپ پر اسلام کے جھنڈے گاڑنے والے ہیں؟
قرآن کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے ہمارا موقف ہے ، اور یقیناًہم اس میں حق بجانب ہیں، کہ اسلام اور قرآن کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو بازگشت بننے سے قبل ہی دبادینا مسلمانوں کی عموماً اور اہلِ علم کی خصوصاً ذمہ داری ہے، کیونکہ ایسا لٹریچر یقیناًپختہ مسلمان پر تو شاید اثرانداز نہ ہوسکے لیکن نو مسلم اور مستقبل قریب میں اسلام قبول کرنے والے وہ لوگ جو دینِ اسلام کے مطالعہ میں مصروف ہیں، اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے جو کسی طور پر بھی اسلام اور مسلمانوں کے حق میں نہیں۔ 
امریکہ سے شائع ہونے والے ’الفرقان الحق‘ کی اصلیت اور اس کے پس پردہ مکروہ عزائم کا پردہ چاک کرنے کے لیے یہ تحریر پیش کی گئی۔ اہل علم سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس سے باخبر ہونے کے بعدمغرب کے اس متعصبانہ اقدام پر شدید اظہارِ مذمت کے ساتھ ساتھ اس کے چہرہ سے نقاب کشائی میں اپنا علمی فریضہ ادا کرتے رہیں گے۔

حواشی

۱۔ دیکھئے: Arthur Jeffery, The Quran as Scripture, Russel & Moore Company, N,Y,1952.
۲۔ دیکھئے: (G.Margoliouth, INTRODUCTION TO J.M.RODWELL'S THE KORAN, New 
Yark, Everyman's Library, 1977, p. vii)
۳۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری، قرآن مجید ایک مسلسل معجزہ، ص۷، اورینٹل کالج میگزین ،جلد۷۶،۲۰۰۱ء
۴۔ دیکھئے: http://www.alminbar.net/alkhutab/khutbaa.asp?media
۵۔ دیکھئے: http://saaid.net/Doat/ahdat/54.htm
۶۔ السید عبدہ عبدالرزاق ابو عبدالرحمن، القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص۵۵، رقم الایداع بدارالکتب 2004/21547 مصر
۷۔ دیکھئے: http://www.messiahsgifts4u.com/truefurqan.html
۸۔ دیکھئے: Monthly GATRA, No. 1125, May 2002
۹۔ القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص ۵۶ و۵۷
۱۰۔ دیکھئے: http://www.saaid.net/Doat/ahdal/54.htm
۱۱۔ ۱۲ القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص۵۷
۱۳۔نفس المصدر، ص۵۸
۱۴۔ نفس المصدر، ص۵۹
۱۵۔ دیکھئے: http://www.alarabonline.org/index.asp?fname
۱۶۔ دیکھئے:
http://www.amazon.com/exec/obidos/tg/detail/-/1579211755/qid=1096805827/sr=1-1/ref=sr_1_1/002-446804-6629664?v=glance&s=books
۱۷۔ القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص۶۴
۱۸۔ دیکھئے:
http://www.muslimuzbekistan.com/eng/ennews/2005/05/ennews01052005a1.html
۱۹۔ القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص۶۶ تا ۶۸
۲۰۔ ۲۲ دیکھئے:
http://www.muslimuzbekistan.com/eng/ennews/2005/05/ennews01052005a1.html
۲۳۔ ڈاکٹر غازی عنایۃ کا مضمون ’’امثلۃ علی بعض المتقولین علی القرآن‘‘ بحوالہ: 
www.balagh.com/mosoa/quran/7zOtb5pi.htm
۲۴۔ القرآن الحکیم:ابراہیم:۱۸
۲۵۔ امریکی قرآن(الفرقان الحق):سورۃ الثالوث/۱۸
۲۶۔ القرآن الحکیم:آلِ عمران:۱۱۹،۱۲۰
۲۷۔ امریکی قرآن(الفرقان الحق):سورۃ الخاتم:۱
۲۸۔ القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص ۷۳
مزید دیکھئے:http://writeres.alriyadh.com.sa)
۲۹۔ القرآن الحکیم:النساء: ۸۲
۳۰۔ امریکی قرآن(الفرقان الحق): سورۂ انبیاء
۳۱۔ القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص۷۶
۳۲۔ ۳۳ جریدۃ الاسبوع الاثنین:06/12/2004، عدد403، مصر
۳۴۔ عقیدتی الثلثاء، ۲۹ ذوالحجۃ/ ۸ فروری ۲۰۰۵ء، عدد ۶۲۷
۳۵۔ ۳۷ الحیاۃ الوسط:26/04/2004
۳۸۔ دیکھئے: http://www.alheweny.com/iftra2_5.HTM
۳۹۔ القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص۱۷۳
۴۰۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: جریدۃ الوفد: الاثنین: ۳۱ جنوری ۲۰۰۵ء۔۔۔ 
مزید دیکھئے: http://www.alwafd.org/front/index.php
۴۱۔ دیکھئے: http://www.alheweny.com/index21

’’سر اقبال‘‘ بنام ’’حسین احمد‘‘ ۔ ماضی کی ایک کہانی کا معما ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب کی روشنی میں

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

کتابیں لکھے اور چھاپے جانے کی موجودہ گرم بازاری میں اگر کوئی واقعی ’’کتاب‘‘ ہاتھ آ جائے تو کچھ زیاہ ہی اچھی معلوم ہونا قدرتی بات ہے۔ علامہ اقبال کے سوانح حیات میں علامہ کے فرزند ارجمند جسٹس (ریٹائرڈ) ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کے قلم سے نکلی ہوئی ’’زندہ رود‘‘ ایک ایسی ہی کتاب کہی جانے کی مستحق ہے۔ کتاب گو تازہ بتازہ نہیں، مگر راقم سطور کے ہاتھ میں وہ گزشتہ دنوں ہی آئی۔ تین جلدوں میں ہونے کے باوجود دلچسپی کو آخر تک قائم رکھنے والی۔
برصغیر کے پڑھے لکھے لوگوں میں کم ہی ہوں گے جنھیں علامہ کی شاعری سے دلچسپی نہ رہی ہو۔ تھوڑی بہت راقم سطور کے حصہ میں بھی آئی، اور ظاہر ہے کہ یہ کچھ سمجھ لینے کی ہی بنا پر ہو سکتا تھا۔ مگر ’’زندہ رود‘‘ پڑھ لینے کے بعد جب کسی ضرورت سے ’کلیات اقبال‘ کھولی تو اندازہ ہوا کہ اب بہت سے اشعار کی وہ تہیں کھل کر سامنے آئیں گی جو شاعر کی زندگی اور شخصیت سے واقفیت ہی کے نتیجے میں کھل سکتی ہیں۔ خاص کر ان کی شاعری کا جو ایک اہم موضوع ان کی اپنی ذات ہے، اس سلسلہ کے اشعار کے بارے میں تو یہ کتاب بہت صاف صاف بتائے دیتی ہے کہ اپنی کسی کمزوری کی طرف علامہ نے اشارہ کیا ہے تو اس میں کس حد تک حقیقت ہے اور کس حد تک شاعری۔ اور کہیں جو کوئی خوبی جتائی ہے تو اس کی واقعی حقیقت کیا ہے۔ اسی طرح اگر علامہ کے کلام میں کہیں ایسے اشعار کسی کو نظر آتے ہیں جو ان کی شاعری کے عمومی مزاج سے جوڑ نہ کھاتے ہوں، ایسے اشعار کا مسئلہ حل کرنے میں بھی یہ کتاب مددگار ہونی چاہیے۔ ایسے اشعار کی ایک بہت نمایاں مثال ’’حسین احمد‘‘ کے عنوان سے کلیات کی تقریباً آخری نظم ہے جو علامہ کی وفات سے کوئی دو ماہ قبل (فروری ۱۹۳۸ میں) کہی گئی اور اس کی تلخی سے ملی فضا کچھ ایسی مکدر ہوئی کہ آج تک صاف نہ ہو پائی۔ ان اشعار کا کوئی جوڑ علامہ کی شاعری کے عمومی مزاج اور ایک صاحب علم وفضل کی حیثیت سے ان کے مسلمہ مقام ومرتبہ کے ساتھ کبھی سمجھ میں نہ آ سکا تھا۔ اس کتاب کے ذریعہ پہلی بار ہوا ہے کہ یہ ’’عقدۂ مشکل‘‘ حل ہوتا نظر آیا۔ اس تحریر کا اصل مقصد اسی یافت کا اظہار وبیان ہے۔
علامہ کے یہ اشعار ہمارے مخدوم ومحترم استاذ حدیث حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ (م ۱۹۵۷ء) کے اس نظریہ کی تردید میں سپرد قلم ہوئے تھے کہ ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان وطنی رشتہ اتحاد کی بنا پر سیاسی نوعیت کی متحدہ قومیت کا رشتہ نہ صرف قائم ہو سکتا ہے بلکہ ملک میں تحریک آزادی کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ یہ رشتہ قائم ہو۔ وہ موقع جس پر یہ اشعار سر ہوئے، اس نظریے کے سلسلہ میں حضرت مولانا کے کسی تفصیلی اظہار وبیان کا نہ تھا۔ بس ایک تقریر کی اخباری رپورٹ تھی جو علامہ کے لیے اس طرح کے سخت ترین الفاظ میں رد عمل کو کافی ہو گئی کہ
عجم ہنوز نہ داند رموز دیں ورنہ
ز دیوبند حسین احمد ایں چہ بو العجبیست
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر زمقام محمد عربیست
بہ مصطفی برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر باو نہ رسیدی تمام بو لہبیست
تین شعرو ں کے الفاظ میں جتنی سخت باتیں سما سکتی تھیں، اس کے لحاظ سے کوئی کسر یہاں نہیں رہ گئی ہے۔ تقریر اگرچہ دہلی کے ایک سیاسی جلسہ میں تھی، مگر اسے ’’بر سر منبر‘‘ ٹھیرایا گیا ہے اور وعظ یا تقریر نہیں، ’’سرود‘‘ (بہ معنی راگ) کا نام اسے دیا گیا ہے۔ پھر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ تعلق دیوبند جیسے دینی مرکز سے مسند نشینی کا ہے، مگر مرکز دین حضرت محمد عربی ﷺ کے مقام سے واقفیت کی گویا ہوا بھی نہیں لگی۔ اور پھر آخر میں نصیحت ہے کہ دین تو تمام تر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننے کا نام ہے، تم اگر ان کی ذات گرامی تک نہیں پہنچ پاتے تو پھر تمھارے حصے میں جو چیز رہ جاتی ہے، وہ ’’بو لہبیت‘‘ (یعنی معاذ اللہ، مصطفی دشمنی) ہے۔
علامہ کے کلام میں یہ حقیقت یقیناًبے نقاب ہے کہ وہ یورپ کے پیدا کردہ وطنی قومیت کے سیاسی تخیل کو انسانیت کے لیے ایک لعنت اور خاص دین ومذہب کے حق میں تو ’’کفن‘‘ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ’’زندہ رود‘‘ میں آپ کے اس فکر کی پوری تفصیلات سامنے آ جاتی ہیں، ا س لیے یہ تو سمجھ میں آنے والی بات تھی کہ علامہ جس چیز کو مذہب کا کفن جان رہے ہیں، اس کی دعوت کسی قابل لحاظ اسلامی شخصیت کی طرف سے آئے تو وہ اس کی تردید میں ’’ضبط سخن‘‘ نہ کر سکیں، لیکن یہ فرض کرتے ہوئے بھی کہ حضرت مولانا مدنی کا جو کہنا تھا، وہ وہی تھا جس کی حضرت علامہ کے فکر اور فہم اسلام میں گنجایش نہ تھی، تب بھی اس آخری درجہ کے جارحانہ انداز تردید کی توقع، جس سے ان کے اظہار مدعا سے زیادہ فریق ثانی کی معلوم ومعروف حیثیت عرفی کو خاطر میں نہ لانے کا اظہار ہوتا ہے، ان کے جیسے مرتبہ کی شخصیت سے نہیں کی جا سکتی تھی۔ اشعار میں ’’دیوبند‘‘ کا حوالہ دلیل ہے کہ علامہ پر ’’حسین احمد‘‘ کی نہایت قابل لحاظ حیثیت عرفی مخفی نہ تھی، بلکہ یہی چیز گویا باعث ہوئی کہ وہ ان کی مبینہ تقریر پر نکتہ چیں ہوں۔ پھر آخر کیونکر یہ ممکن ہوا کہ اس تقریر کا حوالہ ’’سرود بر سر منبر‘‘ کے توہین آمیز الفاظ میں آئے؟ اور اس سے بھی بڑھ کر ’’چہ بے خبر ز مقام محمد عربیست‘‘ فرماتے ہوئے علامہ یہ بھی نہ سوچیں کہ یہ وہ کس کے بارے میں فرما رہے ہیں؟ اور پھر کسے ’’بہ مصطفی برساں خویش‘‘ کا سبق دے رہے ہیں؟ وہ کہ جس نے مدتیں در مصطفی پہ فقیرانہ گزاری ہیں اور جس کا دیوبند میں شغل ہی درس حدیث مصطفی ہے؟
کیا یہ کہا جائے کہ عشق مصطفی (ﷺ) کی جو دولت علامہ کو نصیب سے مل گئی تھی، اس کے حوالے سے وہ خود بھی معاذ اللہ اسی خامی کا شکار ہوئے جس کا گلہ واعظ زاہد کے بارے میں کرتے ہوئے فرما گئے ہیں کہ
غرور زہد نے سکھلا دیا ہے واعظ کو
کہ بندگان خدا پر زباں دراز کرے
یہ علامہ کی شدت بے پناہ کے مقابلے میں محض ایک ہلکے سے شکوے کا پیرایہ ہوگا، مگر ایسا کہنا وہی پسند کرے گا جسے اندازہ نہیں یا وہ بھول گیا ہے کہ علامہ کے عشق مصطفی سے قدرت نے کیا کام ان کی شاعری کے حق میں لیا ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر خود حضرت مولانا علیہ الرحمۃ نے علامہ کی اس سراپا آتش تنقید کے جواب میں جس پاس ولحاظ سے کام لیا ہے، اس کے ہوتے ہوئے آپ کے ایک کفش بردار کو کہاں زیبا کہ وہ کوئی الگ راہ چلے؟ علامہ کی اٹھائی ہوئی اس بحث کے سلسلہ میں ’’متحدہ قومیت اور اسلام‘‘ کے عنوان سے جو ایک مقالہ حضرت والا نے اس موقع پر تحریر فرمایا، وہ مکمل ہونے نہ پایا تھا کہ علامہ نے وفات پائی۔ اس ناگہانی خبر کے حوالے سے اس مقالہ کی تمہید میں رقم طراز ہوئے ہیں:
’’جب کہ میں قومیت کی لفظی بحث کے اختتام پر پہنچ کر مقصد اصلی سے نقاب اٹھانا چاہتا تھا، ناگاہ جناب ڈاکٹر صاحب مرحوم ومغفور کے وصال کی خبر شائع ہوئی۔ اس ناسزا ودل گداز خبر نے خیالات وعزائم وافکار پر صاعقہ کا کام کیا۔ طبیعت بالکل بجھ گئی اور عزائم فسخ ہو گئے۔‘‘
پھر آئندہ صفحہ پر یہ کہنے کے لیے کہ ڈاکٹر اقبال صاحب اگرچہ مجھ سے اس درجہ فائق وبرتر تھے کہ میں گویا ان کے سامنے طفل ابجد خواں، مگر ہندوستانی سیاست کے مسئلہ میں ساحران فرنگ کے سحر کا شکار ہو گئے تھے، اور ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بڑے غلطی کر جاتے جبکہ چھوٹے محفوظ رہتے ہیں، فرمایا کہ:
’’یہ امر یقینی اور غیر قابل انکار ہے کہ جناب ڈاکٹر صاحب کی ہستی کوئی معمولی ہستی نہ تھی اور ان کے کمالات بھی غیر معمولی تھے۔ وہ آسمان حکمت وفلسفہ، شعر وسخن، تحریر وتقریر، دل ودماغ اور دیگر کمالات علمیہ اور عملیہ کے درخشندہ آفتاب تھے۔ مگر باوجود کمالات گونا گوں ساحرین برطانیہ کے سحر میں مبتلا ہو جانا یا بعض غلطیوں میں پڑ جانا اور کسی ابجد خواں طالب علم کا اس سے محفوظ رہنا کوئی تعجب خیز بات نہیں:
گاہ باشد کہ کودک ناداں
بر ہدف بر زند تیرے 
(کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک نادان بچہ کا تیر نشانہ پر بیٹھ جائے)‘‘۔
اے کاش علامہ اپنے ہدف کے اس رد عمل کو دیکھنے کے لیے زندہ رہے ہوتے! یہ راقم نہیں سمجھتا کہ مرحوم علامہ نے یہ تحریر پڑھی ہوتی تو اس بے نفسی اور خاک ساری کے لیے اپنی زندگی کا کوئی ایسا دوسرا تجربہ وہ یاد کر پاتے۔ اور یقین کیا جا سکتا ہے کہ علامہ کے ساتھ ’’سر‘‘ کا برطانوی خطاب اگر نہ لگا ہوتا تو متحدہ قومیت کی بابت آپ کی رائے میں برطانوی سحر کا دخل سمجھنے کی بات بھی ہمیں حضرت والا کی اس عبارت میں نہ ملتی۔
الغرض، اگر حضرت مولانا قومیت کا وہ نظریہ پیش کر رہے ہوتے جو حضرت علامہ کے فہم اسلام سے سیدھا ٹکراتا تھا، تب بھی اس پر رد عمل کا یہ پیرایہ اظہار کہ مسند نشین دیوبند کو بیک جنبش قلم ’’بو لہبی‘‘ تک پہنچا دیا جائے، یہ علامہ سے کسی قدر کم درجہ کی فہمیدہ وسنجیدہ شخصیت سے بھی بآسانی سمجھ میں آنے والی بات نہ تھی، لیکن مولانا کی تقریر کو تو فی الواقع دور کا تعلق بھی اس بات سے نہ تھا جو حضرت علامہ کو اس قدر ناگوار گزری۔ علامہ جس وطنی قومیت کو ’’مذہب کا کفن‘‘ سمجھتے تھے، مولانا بھی اسے ایسا سمجھنے میں علامہ سے اگر آگے نہیں تو پیچھے بہرحال نہیں تھے۔ مگر لگتا ہے کہ معاملے کے ایک خاص پس منظر کی بنا پر علامہ کو اپنا ہی بیان کردہ یہ نکتہ فراموش ہو گیا تھا کہ:
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے
وہ تحریک خلافت جس سے ’’زندہ رود‘‘ کے بیان کے مطابق علامہ دور اور نفور رہے اور جس میں حسین احمد کا مولانا محمد علی جوہر وغیرہ کے ساتھ وہ جانبازانہ حصہ تھا جس کی تفصیل کے لیے ان لوگوں پر چلائے گئے مقدمہ کراچی (۱۹۲۱) کی روداد پڑھنی چاہیے، یہ اس اسلامی خلافت کو بچانے کے لیے ہی اٹھائی گئی تحریک تو تھی جس کا ازروئے وطن ہندوستانی مسلمانوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ہاں وہ اسلامی رشتہ ان کا اس کے ساتھ تھا جو جغرافیائی حدود وقیود سے بالاتر ہے، اور یہ خلافتی جدوجہد اسی متحدہ قومیت کے ساتھ تھی جس کا حوالہ مولانا مدنی کی زیر بحث تقریر میں آیا۔ کون نہیں جانتا کہ اس تحریک نے مہاتما گاندھی کو اپنی سربراہی کے لیے قبول کر لیا تھا اور ایسا ہونے میں ’’حسین احمد‘‘ سے کہیں زیادہ حصہ مولانا محمد علی جوہر کا تھا جن سے برتر اسلامیت کا دعویٰ شاید علامہ اقبال کو کبھی نہ ہوا ہو۔ یہی وہ ’’متحدہ قومیت‘‘ تھی جس کا حوالہ مولانا اپنی تقریر میں دے رہے تھے، نہ کہ وہ جو علامہ کے تصور میں تھی جس میں مسلمان، مسلمان نہیں رہ سکتا۔
حضرت حسین احمد کے جاننے والے جانتے ہیں کہ آپ کی سیاسی زندگی ۱۹۱۷ء سے شروع ہوتی ہے جبکہ خلافت عثمانیہ کے باغی شریف حسین نے مکہ میں ان کو ان کے محترم استاد شیخ الہند مولانا محمود حسن کے ساتھ گرفتار کر کے انگریزوں کے حوالے کیا اور پھر انگریزوں نے ان کو اپنی حکومت کے خلاف باغیانہ عزائم کے حوالے سے جزیرۂ مالٹا میں چار سال قید رکھا۔ چار سال بعد ۱۹۲۰ کے شروع میں ان حضرات کی رہائی عمل میں آئی۔ شیخ الہند کی یہ گرفتاری بے وجہ نہ تھی۔ یہ جنگ عظیم اول کا زمانہ تھا کہ آپ برطانوی حکومت کے خلاف ایک مکمل باغیانہ اسکیم لے کر ہندوستان کے باہر نکلے تھے۔ حجاز مقدس کو اولین منزل بنایا، اس لیے کہ وہاں حج کے زمانے میں ان میں سے بیشتر لوگوں سے رابطہ آسان ہو سکتا تھا جن سے اپنی اسکیم کے سلسلے میں رابطہ مطلوب تھا اور اس فہرست میں سب سے پہلے ترکی حکام تھے جن سے رابطہ ہوا بھی، مگر قسمت سے اسی زمانہ میں شریف مکہ حسین پر انگریزوں کے ڈورے کام کر گئے اور حجاز مقدس عثمانی خلافت کے اقتدار سے نکل گیا۔
مارچ ۲۰ء میں شیخ الہند رہا ہوئے تو بڑھاپے اور قید کے شدائد نے زار ونزار کر دیا تھا۔ نومبر ہی میں آپ کی شمع حیات گل ہو گئی اور پھر برطانوی حکومت کے خلاف آپ کے مشن کی علم برداری ’’حسین احمد‘‘ کے حصہ میں آئی۔ اسیران مالٹا نے جب رہائی پائی تو اس سے پہلے خلافت تحریک شروع ہو چکی تھی اور یہ صرف مسلمانوں کی نہیں، تمام ہندوستانیوں کی تحریک بن گئی تھی جس میں ہندو اکثریت کے سب سے بڑے نمائندہ مہاتما گاندھی پیش پیش تھے۔ شیخ الہند جن کا تحریک خلافت کی پوری مسلم قیادت نے مع گاندھی جی کے بمبئی پہنچ کر نہایت پرجوش استقبال کیا تھا، اس تحریک کے لیے سب سے بڑی اسلامی اتھارٹی کے حامل مانے گئے اور آپ نے اس متحدہ تحریک اور اس کے پروگرام عدم موالات (نان کو اپریشن) پر مہر تصویب ثبت فرمائی۔ اسی پر عمل درآمد کے نتیجے میں حسین احمد پر مولانا محمد علی وغیرہ کے ساتھ بغاوت کا مشہور مقدمہ کراچی چلا اور دو دو سال کی جیل ہوئی۔
یہ ہے حسین احمد کے اس نظریہ متحدہ قومیت کا پس منظر جس کا آپ کی ۳۸ء کی اس تقریر میں حوالہ ایک طوفان اٹھا گیا۔ یعنی یہ وہی متحدہ قومیت تھی جس کے جھنڈے کے نیچے تحریک خلافت کے دور میں علامہ اقبال اور مسٹر محمد علی جناح جیسے خال خال افراد کو چھوڑ کر مسلم ہندوستان کی وہ تمام ہستیاں سرگرم رہی تھیں جن کی طرف ملی مسائل کے لیے لوگوں کی نظریں اٹھتی تھیں۔ علامہ اقبال، حسین احمد سے کچھ زیادہ واقف ہوں یا نہ ہوں، متحدہ قومیت والی بات کے اس پس منظر سے ناواقف نہیں ہو سکتے تھے۔ تحریک خلافت سے ان کے بے تعلق رہنے کی تو ایک اہم وجہ یہی تھی، مگر یہ دینی حوالے سے نہیں، بلکہ مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے تھی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں:
’’قیام انگلستان کے دوران جب وہ (ذہنی) انقلاب سے گزرے اور انھی ایام میں برصغیر میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا اصول تسلیم کر لیا گیا تو اقبال، سرسید احمد خان کے سیاسی مکتبہ فکر کو درست خیال کرتے ہوئے ذہنی وقلبی طور پر اس سے وابستہ ہو گئے۔ سرسید کے سیاسی مکتبہ فکر کی منطق یہ تھی کہ ....... جمہوریت کے ذریعہ قومیت متحدہ کی بنیاد تبھی رکھی جا سکتی تھی جب ہندو اور مسلمان مرکزی حکومت میں برابر کے حصہ دار ہوں، لیکن فرقہ وارانہ منافرت کے سبب ہندو ایسی صورت کو قبول کرنے کے لیے کبھی آمادہ نہیں ہو سکتے تھے۔ پس برصغیر میں قومیت متحدہ کا تخیل خیال خام تھا۔‘‘ (زندہ رود، جلد سوم، صفحہ ۲۹۱، ۹۲)
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انھیں اصولاً متحدہ قومیت سے انکار نہ تھا۔ نمائندگی میں برابری کی شرط کے ساتھ وہ منظور تھی۔ پس علامہ کے اس سیاسی فکر وعقیدہ کا بے شک یہ حق تھا کہ کوئی آواز اس شرط کے بغیر متحدہ قومیت کے حق میں بلند کی جا رہی ہو تو اسے چیلنج کریں، مگر اس کے لیے سیاسی زبان کے بجائے یہ دینیات کی زبان کا سوال کیونکر پیدا ہو گیا؟ اور وہ بھی ایک اعلیٰ درجہ کے مستند ومسلم عالم دین کے مقابلے میں! جبکہ علامہ اسلامی دینیات پر کتنا بھی عبور اپنے مطالعہ کی بنیاد پر رکھتے ہوں، مگر ان جیسے ذی فہم کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اس عبور کو باضابطہ تحصیل کا ہم سر سمجھتے ہوں گے، اور اگر سمجھتے بھی ہوں، تب بھی جو زعم وپندار آمیز لہجہ انھوں نے اس چیلنج میں اختیار فرمایا، وہ یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ضرور اس کے پس منظر میں کچھ خاص حالات ومعاملات ہونے چاہییں، ورنہ یہ علامہ کے مقام سے فروتر بات تھی اور قطعاً غیر متوقع بات تھی۔ ’’زندہ رود‘‘ نے انھیں خاص حالات سے پردہ اٹھانے کا کام انجام دیا ہے۔
کم سے کم راقم سطور کے علم میں اس سے پہلے نہ تھا کہ حضرت علامہ نے برصغیر کی سیاست میں کوئی سرگرم عملی حصہ بھی لیا۔ کل ہند مسلم لیگ کی سیاست سے ان کا عملی تعلق صرف ۱۹۳۰ء کے خطبہ صدارت الٰہ آباد کی حد تک معلوم تھا۔ اس کتاب سے معلوم ہوا کہ ۱۹۲۶ء میں جب علامہ نے لاہور سے پنجاب صوبائی کونسل کا انتخاب لڑا، تب سے مسلم لیگ سے ان کی وابستگی جو پہلے بس فکری درجہ کی تھی، سرگرم عملی وابستگی میں تبدیل ہو گئی تھی اور اس رشتہ کی یہ سرگرمی ٹھیٹھ سرسید مکتب فکر والی لائن پر تھی۔ چنانچہ ۱۹۲۷ء میں جب برطانوی حکومت نے سائمن کمیشن کے تقرر کا اعلان کیا جس کو ہندوستان کے لیے آئندہ دستوری اصلاحات کے بارے میں سفارشات پیش کرنا تھیں اور اس کمیشن میں تمام کے تمام انگریز تھے، ایک بھی ہندوستانی کونہیں لیا گیا تھا، تو اس پر کانگریس نے اس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ مسلم قائدین میں خود مسٹر جناح صدر مسلم لیگ کا یہی فیصلہ تھا، مگر اقبال اس کے برعکس اپنے صوبائی صدر سر محمد شفیع کے ساتھ اس کمیشن کے تعاون کے لیے اس حد تک گئے کہ مسلم لیگ، جناح لیگ اور شفیع لیگ کے دو ٹکڑوں میں بٹ گئی اور یہ دونوں لیگیں پبلک سطح پر ایک دوسرے سے متصادم ہوئیں۔ چنانچہ جب مسٹر جناح نے دوسرے مسلم لیڈروں کے ساتھ مل کر ایک بیان کمیشن کے مقاطعہ کے لیے شائع کیا تو ا س کے رد عمل میں علامہ اقبال نے اپنے ہم خیالوں کے ساتھ ایک بیان دیا جس کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے کہ:
’’ہم نہایت جرات اور زور سے کہتے ہیں کہ ہم کرایہ کے ٹٹو بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مسٹر جناح اور دیگر حضرات نے یہ فقرہ اڑا لیا ہے کہ ہماری خود داری ہمیں رائل کمیشن کی تائید کی اجازت نہیں دیتی۔ ہم اس کے برعکس یہ کہتے ہیں کہ فرقہ وارانہ جنگ اور خود داری یکجا قائم نہیں رکھی جا سکتیں......‘‘ (صفحہ ۳۳، ۳۴)
پنجاب مسلم لیگ، جس کے علامہ صاحب سیکرٹری تھے اور سر محمد شفیع صدر، اس کی اس روش پر مولانا محمد علی نے اپنے اخبار ہمدرد میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’سر محمد شفیع سے بھلا یہ کیوں کر ممکن ہے کہ کسی وائسرائے کی ر