2004

جنوری و فروری ۲۰۰۴ء

دینی مدارس کے اساتذہ کیا سوچتے ہیں؟مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
خطبہ حجۃ الوداع کا دعوتی پہلو اور صحابہ کرامؓ پر اس کے اثراتپروفیسر محمد اکرم ورک
ارضی نظام کی آسمانی رمزپروفیسر میاں انعام الرحمن
ان کی پرکاری اور ہماری سادگی!مولانا عتیق الرحمن سنبھلی
دینی مدارس کا نصاب تعلیم اور اس کی اہمیت و افادیتمفتی محمد عیسی گورمانی
دینی مدارس کا نظام تربیت ۔ چند اصلاح طلب پہلوڈاکٹر محمد امین
فکری و مسلکی تربیت کے چند ضروری پہلومولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دینی مدارس میں عربی زبان کی تعلیم کا منہجمولانا محمد بشیر سیالکوٹی
مولانا مشتاق احمد کا مکتوب گرامیمولانا مشتاق احمد
وفاق المدارس کے نصاب میں نئی ترامیم کے حوالے سے دینی مدارس کے اساتذہ کا ایک مذاکرہادارہ
مولانا زاہد الراشدی کا سفر بنگلہ دیش و دوبئیادارہ

دینی مدارس کے اساتذہ کیا سوچتے ہیں؟

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ۳ ۔۴ دسمبر ۲۰۰۳ء کو دینی مدارس کے اساتذہ کی دو روزہ باہمی مشاورت اور نصاب وتربیت کے حوالے سے مختلف امور پر مذاکرہ ومباحثہ کا اہتمام کیا گیا۔ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ، مدرسہ اشرف العلوم گوجرانوالہ، جامعہ حقانیہ گوجرانوالہ، جامعہ فتاح العلوم گوجرانوالہ، دار العلوم مدنیہ رسول پارک لاہور، جامعہ قاسمیہ گوجرانوالہ، جامعہ عربیہ چنیوٹ، جامعہ حنفیہ قادریہ باغ بان پورہ لاہور، جامعہ اسلامیہ کامونکی، جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم، جامعہ فاروقیہ سیالکوٹ اور الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے تیس کے لگ بھگ اساتذہ نے اس مشاورت ومذاکرہ میں حصہ لیا۔ پہلی نشست کی صدارت پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے سینئر ایڈیٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد امین نے کی اور شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی نے ’’درس نظامی کی اہمیت وافادیت‘‘ پر مقالہ پڑھا۔ دوسری نشست کی صدارت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی نے کی اور پروفیسر ڈاکٹر محمد امین نے ’’طلبہ کی دینی واخلاقی تربیت‘‘ کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی۔ تیسری نشست کی صدارت جامعہ اسلامیہ کامونکی کے مہتمم مولانا عبد الرؤف فاروقی نے کی اور اس میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نصاب میں کی جانے والی حالیہ ترامیم کے بارے میں شرکاء مذاکرہ نے باری باری اظہار خیال کیا جبکہ چوتھی اور آخری نشست راقم الحروف کی زیر صدارت منعقد ہوئی جس میں معہد اللغۃ العربیۃ اسلام آباد کے مولانا محمد بشیر سیالکوٹی نے ’’دینی مدارس میں عربی کی تعلیم کا منہج اور ضروری اصلاحات‘‘ کے عنوان پر اظہار خیال کیا اور راقم الحروف نے ’’فکری اور مسلکی تربیت کے چند اہم پہلو‘‘ کے عنوان پر گفتگو کی۔
پروگرام کے آغاز پر راقم الحروف نے اس کا مقصد بیان کرتے ہوئے گزارش کی کہ اس مشاورت اور مذاکرہ ومباحثہ کے اہتمام میں ہمارے سامنے دو اہم مقصد ہیں۔ ایک یہ کہ دینی مدارس کے اساتذہ میں تعلیم وتربیت کے مسائل پر باہمی تبادلہ خیالات، غور وخوض اور بحث ومباحثہ کا ذوق پیدا ہو اور اس کا ماحول بنے اور دوسرا یہ کہ دینی مدارس کے نصاب ونظام اور تعلیم وتربیت کے حوالے سے اس وقت جو امور قومی بلکہ عالمی سطح پر موضوع بحث ہیں اور جن کے بارے میں ہر طرف سے آرا وتجاویز سامنے آ رہی ہیں، ان پر دینی مدارس کے اساتذہ کی آرا اور موقف بھی سامنے آئے اور جو لوگ دینی مدارس میں طلبہ کی تعلیم اور تربیت کی ذمہ داری براہ راست سرانجام دے رہے ہیں، ان کے رجحانات اور سوچ سے بھی لوگوں کو واقفیت حاصل ہو۔
اس مذاکرہ ومباحثہ کے ساتھ ہم اس کا آغاز کر رہے ہیں اور آئندہ بھی الشریعہ اکادمی متعلقہ مسائل وامور پر دینی مدارس کے اساتذہ کی باہمی مشاورت ومباحثہ کا وقتاً فوقتاً اہتمام کرتی رہے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
مذاکرہ ومشاورت کی مختلف نشستوں میں طلبہ کی تعلیم وتربیت اور وفاق المدارس کے ترمیم شدہ نصاب کے بارے میں اساتذہ نے جن خیالات کا اظہار کیا، ان کا خلاصہ قارئین کی معلومات کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
  • وفاق المدارس کے نصاب میں جو ترامیم اور تبدیلیاں کی گئی ہیں، وہ خوش آئند ہیں اور ان کی ضرورت ایک عرصہ سے محسوس کی جا رہی تھی لیکن یہ ناکافی اور وقتی ہیں۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ آئندہ کم از کم نصف صدی تک کی ممکنہ صورت حال اور ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک جامع پالیسی طے کی جائے اور بجائے اس کے کہ ہر تین چار سال کے بعد جزوی تبدیلیاں کی جاتی رہیں، پچاس سال کے لیے ایک اصولی لائحہ عمل کا تعین کیا جائے۔ مثلاً ہم نے کچھ عرصہ قبل مڈل کی سطح کی تعلیم کو نصاب میں شامل کیا اور اب میٹرک کی عصری تعلیم کو ضروری کہتے ہوئے نصاب کا لازمی حصہ بنا لیا ہے۔ اگر ہم نے چار سال کے بعد ایف اے اور پھر چار پانچ سال کے بعد بی اے کو بھی شامل کرنا ہے تو اس کے بجائے بہتر ہے کہ یہ فیصلہ ابھی سے کر لیا جائے تاکہ مدارس کے منتظمین، اساتذہ اور طلبہ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوں۔ اور اگر اس سے آگے کے عصری نصاب کو شامل کرنا ضروری نہیں ہے تو ابھی سے حتمی طور پر کہہ دیا جائے تاکہ تذبذب اور گومگو کی فضا ختم ہو اور اساتذہ وطلبہ دل جمعی کے ساتھ کام کو آگے بڑھا سکیں۔
  • مڈل تک کے نصاب کو دینی مدارس کے لیے ضروری قرار دیا گیا تو اس کا تاثر یہ تھا کہ دباؤ اور مجبوری کے تحت ایسا کیا جا رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس نصاب کی تعلیم ہمارے ہاں اہتمام اور خوش دلی کے ساتھ نہیں ہو رہی بلکہ محض رسم پوری کرنے اور امتحان میں پاس ہونے کی حد تک اس کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ میٹرک کے بارے میں بھی ایسا ہوگا اور ہمارے طلبہ میٹرک کر لینے کے بعد بھی میٹرک کے درجہ کی صلاحیت سے محروم رہیں گے، اس لیے یہ بات بھی ابھی سے اور دوٹوک انداز میں طے کرنے کی ہے کہ اگر تو یہ سب کچھ دباؤ اور مجبوری کی وجہ سے کیا جا رہا ہے تو ایسا کرنے کی کوئی ضرورت وافادیت نہیں ہے بلکہ دباؤ قبول کرنے سے کھلے لفظوں میں انکار کر دینا چاہیے اور اگر فی الواقع اس کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے اور ہم خود اس کی افادیت کا احساس کرتے ہوئے اسے شامل نصاب کرنا چاہتے ہیں تو پھر میٹرک کے نصاب کی تعلیم بھی خوش دلی اور اہتمام کے ساتھ ہونی چاہیے اور اس کے مضامین کی پوری طرح تیاری کرائی جانی چاہیے تاکہ ہمارے طلبہ اس معاملے میں دوسرے سکولوں کے طلبہ سے پیچھے نہ رہیں۔
  • عربی کی تعلیم کے حوالے سے وفاق المدارس کے نصاب میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں، وہ جزوی طور پر افادیت کی حامل ضرور ہیں لیکن ان سے اصل مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ عربی زبان کی تعلیم سے بنیادی طور پر ہمارے دو مقصد ہیں۔ ایک یہ کہ فارغ التحصیل عالم دین کا قرآن وسنت، فقہ اسلامی اور دیگر علوم اسلامی کے ساتھ تعلق ورابطہ مضبوط ہو اور وہ ان سے صحیح طور پر استفادہ کر سکے اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ وہ آج کے ماحول اور ضروریات کے مطابق عربی زبان میں گفتگو کر سکے، بوقت ضرورت خطاب کر سکے، آج کے عربی لٹریچر سے استفادہ کر سکے اور مروجہ عربی زبان میں لکھ پڑھ سکے۔ درس نظامی میں عربی زبان کے حوالے سے جن علوم اور مواد کی تعلیم دی جاتی ہے، اس سے پہلا مقصد تو کسی حد تک پورا ہو جاتا ہے لیکن دوسرا مقصد کسی درجہ میں بھی حاصل نہیں ہوتا اور فارغ التحصیل علما بلکہ سالہا سال تک تدریس کا فریضہ سرانجام دینے والے اساتذہ کرام بھی مروجہ عربی میں گفتگو اور لکھنے پڑھنے کی صلاحیت واستعداد سے محروم رہتے ہیں۔ اس کمزوری کو دور کرنا انتہائی ضروری ہے اور وفاق المدارس کے نصاب میں کی جانے والی حالیہ ترامیم سے یہ خلا پر نہیں ہوگا بلکہ صورت حال جوں کی توں رہے گی۔ اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مقصد قدیم عربی اور اس کے متعلقہ علوم کی اہمیت کم کرنا نہیں بلکہ اس کے ساتھ جدید عربی اور اس کے تقاضوں کو شامل کرنا ہے تاکہ ہمارے فضلا قدیم لٹریچر سے استفادہ کی بھرپور صلاحیت کے ساتھ ساتھ جدید اور مروجہ عربی زبان میں بھی ضروری استعداد حاصل کر سکیں۔ اس مقصد کے لیے عربی زبان کی تعلیم کے جدید اسلوب اور ادب عربی کے جدید لٹریچر سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا ناگزیر ہے اس لیے کہ اس کے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکے گا۔
  • وفاق المدارس نے نصاب میں ترمیم واضافہ کے حوالے سے سب سے زیادہ ضروری اور اہم مسئلہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور وہ ہے اساتذہ کی تربیت اور تدریس کی فنی ٹریننگ کا نصاب جس کی غیر موجودگی بہت سی کمزوریوں اور خرابیوں کا باعث بن رہی ہے۔ ہمارے ہاں اساتذہ کی تربیت کا کوئی نصاب یا نظام موجود نہیں ہے۔ صرف دورۂ حدیث کی سند میں ذہین طالب علم کی سند پر لکھ دیا جاتا ہے کہ ’’یہ تدریس کی صلاحیت رکھتا ہے‘‘ اور وہ بھی تدریس کی کسی عملی تربیت کے بغیر۔ یہ طریق کار درست نہیں ہے۔ معاصر تعلیمی نظاموں میں پرائمری سکول کے استاذ کا تقرر بھی باقاعدہ کورس کی تکمیل کے بغیر نہیں ہوتا جبکہ اس سے اعلیٰ درجوں کے لیے سال سال اور دو دو سال کے تربیتی نصاب ہیں جو ٹیچر بننے والے کو لازمی طور پر پڑھنا پڑتے ہیں لیکن ہمارے ہاں کسی عملی اور فنی تعلیم وتربیت کے بغیر کوئی بھی فاضل اپنی ذہانت یا تعلقات کی بنیاد پر مسند تدریس پر فائز ہو جاتا ہے۔
    خود ہمارے ہاں کچھ عرصہ قبل تک افتا کا کوئی باضابطہ کورس نہیں ہوتا تھا اور کوئی ذہین مدرس کسی پختہ کار مفتی کی نگرانی میں چند سال عملی تجربہ حاصل کر کے مفتی کے منصب پر فائز ہو جایاکرتا تھا مگر اب اسے کافی نہیں سمجھا جا رہا بلکہ افتا کا باقاعدہ نصاب طے کیا گیا ہے اور کورس مقرر کیا گیا ہے جس کی تکمیل مفتی کے منصب کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح استاذ کے منصب کے لیے بھی سابقہ طریق کار پر قناعت کافی نہیں ہے بلکہ تدریس کی فنی تربیت اور اس کے ساتھ ساتھ عملی استعداد میں اضافہ اور فکری اور اخلاقی ودینی تربیت کی ضروریات پر مشتمل نصاب کی ترتیب ضروری ہے اور یہ کام وفاق المدارس ہی کو کرنا چاہیے کیونکہ استاذ تمام تر ذہانت اور لیاقت کے باوجود اگر تدریس کے فن سے آگاہ نہیں ہے تو وہ اپنا علم طلبہ تک صحیح طور پر منتقل نہیں کر سکے گا۔ اگر وہ خود کسی فکری کج روی کا شکار ہے تو اس کی یہ متعدی بیماری طلبہ تک منتقل ہوگی اور اگر اس کی دینی واخلاقی تربیت ضرورت کے مطابق مکمل نہیں ہے تو اس کے شاگرد بھی اسی کے رنگ میں رنگے جائیں گے۔ یہ سب کچھ ہمارے ہاں عملی طور پر ہو رہا ہے اور اس کے تلخ نتائج بھی ہم اپنے ماحول میں دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح مدرس اور استاذ کے لیے تیار کیے جانے والے تربیتی نصاب میں طلبہ کی نفسیات اور آج کے ماحول سے آگاہی کو شامل کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ بہت سے طلبہ صرف اس لیے تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں کہ ان کے مزاج، نفسیات اور ماحول کا لحاظ نہیں رکھاجا تا اور ان کے لیے تعلیم کو جاری رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
  • فکری اور اعتقادی تعلیم کے حوالے سے بھی ہمارا نصاب تشنہ ہے۔ ’’شرح عقائد‘‘ اور ’’العقیدۃ الطحاویۃ‘‘ بہت ضروری اور مفید کتابیں ہیں جن کا شامل نصاب رہنا ضروری ہے۔ ان میں اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد کی ضروری تشریح موجود ہے لیکن جن گمراہ فرقوں کے عقائد کا ان کتابوں میں تذکرہ ہے، وہ صدیوں پرانے ہیں جو اب موجود نہیں ہیں یا پہلے سے مختلف شکلیں اختیار کر چکے ہیں جبکہ آج کے گمراہ فرقوں اور ان کے عقائد کے حوالے سے ہمارے نصاب میں کوئی مواد موجود نہیں ہے اور ا س سلسلے میں پانچ درجوں پر ضروری مواد کو شامل نصاب کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے:
    ۱۔ معاصر ادیان ومذاہب مثلاً مسیحیت، یہودیت، ہندو مت، سکھ ازم اور بدھ مت وغیرہ کے بارے میں تعارفی اور تقابلی مواد۔
    ۲۔ اسلام سے منحرف مذاہب مثلاً قادیانیت، بہائیت، نیشن آف اسلام وغیرہ کے بارے میں ضروری معلومات۔
    ۳۔ اسلام سے منسوب گمراہ گروہوں مثلاً رافضیت اور منکرین حدیث وغیرہ کا تعارف۔
    ۴۔ اہل سنت کے داخلی مذاہب مثلاً حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، ظاہری اور سلفی وغیرہ کا تعارف اور تقابلی مطالعہ۔
    ۵۔ مغربی فکر وفلسفہ اور تہذیب وثقافت کا تاریخی پس منظر اور اسلام کے ساتھ اس کی کشمکش کی موجودہ صورت حال۔
    اس ضروری مواد کو نصاب میں شامل کرنے کے لیے مستقل کتابوں کی تصنیف کی ضرورت ہے جو تدریسی نقطہ نظر سے اور تدریسی انداز میں تحریر کی گئی ہوں یا دوسری صورت یہ ہے کہ ان کے بارے میں محاضرات کا اہتمام ہو لیکن اس کے لیے اساتذہ کی تیاری اور انہیں متعلقہ مواد کی فراہمی ضروری ہوگی تاکہ وہ محاضرات کی صورت میں اپنے تلامذہ کو صحیح معلومات دے سکیں۔
  • اسلامی معیشت کے بارے میں جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کی کتاب شامل نصاب کی گئی ہے جو بہت مفید اور ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ جدید معاشی نظام اور علم معیشت کا تعارفی مطالعہ شامل نصاب کیا جائے کیونکہ جب تک طالب علم جدید معیشت کے اصول اور طریق کار سے واقف نہیں ہوگا، اس کے لیے اسلام کے معاشی احکام وقوانین اور جدید معاشی نظام میں فرق کو صحیح طور پر سمجھنا مشکل ہوگا۔ اس کے علاوہ جدید سماجی علوم اور جنرل سائنس کا تعارفی مطالعہ بھی ضروری ہے۔ اس کا مقصد ان علوم کی باقاعدہ تعلیم نہیں بلکہ ان کے مبادیات، بنیادی اصطلاحات اور افادیت سے طلبہ کو واقف کرانا ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ آج کے مجموعی ماحول، ضروریات اور آج کی مروجہ زبان واصطلاحات سے آگاہی حاصل نہیں کر سکیں گے۔
  • طلبہ کی فکری تربیت کی طرف توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت عملی صورت حال یہ ہے کہ جس استاذ کے ساتھ کسی طالب علم کا ذہنی میلان ہوتا ہے، وہ اسی کے فکر اور سوچ سے منسلک ہو جاتا ہے اور ایک ہی درس گاہ میں مختلف سوچوں اور فکری اہداف کے الگ الگ دائرے بن جاتے ہیں جو تعلیم سے فراغت کے بعد نہ صرف قائم رہتے ہیں بلکہ مزید ترقی کرتے ہیں جس سے فکری خلفشار پیدا ہوتا ہے۔ اس صورت حال کے تدارک کی طرف وفاق المدارس کی قیادت کو توجہ دینی چاہی اور اجتماعی فکری اہداف کا ایک دائرہ طے کر کے اسے اساتذہ کے تربیتی پروگرام کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ وہ طلبہ کی صحیح رخ پر تربیت کر سکیں۔
  • دینی اور اخلاقی تربیت کا معاملہ بھی توجہ طلب ہے۔ فرائض وواجبات کی ادائیگی، باہمی حقوق ومعاملات اور عام لوگوں کے ساتھ میل جول کے آداب کی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے اور اس کا زیادہ تر تعلق بھی اساتذہ سے ہے۔ اساتذہ اخلاقی اور دینی لحاظ سے مضبوط کردار کے حامل ہوں گے تو طلبہ پر اس کے اثرات ہوں گے اور اگر اساتذہ کی اخلاقی اور دینی حالت کمزور ہوگی تو طلبہ کی حالت اس سے زیادہ کمزور ہوگی۔ اس لیے اس سلسلے میں مدارس کے اساتذہ اور منتظمین کے ساتھ مسلسل رابطہ اور ان کی راہ نمائی کی ضرورت ہے۔
قارئین کرام! یہ ہے خلاصہ اس گفتگو کا جو مختلف دینی مدارس کے اساتذہ نے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی دو روزہ مشاورت کے دوران متعدد مجالس میں کی۔ اس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دینی مدارس کے نصاب ونظام کی موجودہ صورت حال اور اس میں اصلاح وترامیم کی ضروریات کے بارے میں ان اساتذہ کی سوچ کیا ہے اور وہ کس انداز سے ان امور پر غور کرتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ کے مابین مشاورت، باہمی تبادلہ خیالات اور بحث ومباحثہ کے اس دائرہ کو وسیع کیا جائے، مختلف علاقوں میں دینی مراکز اس کا اہتمام کریں بلکہ خود وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیر اہتمام قومی اور علاقائی سطح پر ایسی مشاورتوں اور مباحثوں کا انعقاد ہو تو اس کی افادیت اور اثرات زیادہ نمایاں ہوں گے۔
امید ہے کہ ارباب بست وکشاد دینی مدارس کے اساتذہ کی ان آرا وتجاویز کو سنجیدہ توجہ سے نوازیں گے اور باہمی مشاورت ومباحثہ کی اس روایت کو آگے بڑھانے میں مثبت کردار ادا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ دینی مدارس کی حفاظت فرمائیں اور ہم سب کو دینی تعلیم کے فروغ کے لیے زیادہ سے زیادہ محنت کرنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

خطبہ حجۃ الوداع کا دعوتی پہلو اور صحابہ کرامؓ پر اس کے اثرات

پروفیسر محمد اکرم ورک

۱۰ھ میں رسول اللہﷺ نے میدانِ عرفات میں حجۃ الوداع کے موقع پر ایک تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جسے ’’خطبہ حجۃ الوداع‘‘کے نام سے یادکیا جاتا ہے۔ اس خطبہ کو اسلامی تعلیمات کا نچوڑ کہاجاسکتا ہے۔آپﷺ نے اپنی پوری زندگی جس مشن کی تکمیل کے لیے صرف کی تھی، آج اس کے نتائج آپﷺکے سامنے تھے۔خطبہ کے آخر میں آپﷺ نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام تم تک پہنچادیا ہے؟تو تمام حاضرین نے اقرار کیا کہ بے شک آپ نے اللہ کا پیغام ہم تک پہنچادیا ہے۔ حاضرین کے اقرار پرآپﷺ نے اللہ تعالیٰ کو گواہ ٹھہراتے ہوئے فرمایا: اے اللہ، تو گواہ رہنا۔ اس کے بعد آپﷺ نے دعوت وتبلیغ کی ذمہ داری ہمیشہ کے لیے امتِ محمدیہ ﷺ کو سونپتے ہوئے ارشاد فرمایا:
لیبلغ الشاھد الغائب، فان الشاھد عسیٰ ان یبلغ من ھوأوعی لہ منہ (۱)
’’جو لوگ حاضرہیں، وہ غائب تک پہنچادیں،ہوسکتا ہے کہ جس کو (اللہ تعالیٰ کا پیغام)پہنچایا جائے، وہ حاضر کی نسبت اس کو زیادہ یاد رکھنے والا ہو‘‘
ظاہر ہے کہ رسول اللہﷺ کے اس پیغام کے اولین مخاطب صحابہ کرامؓتھے اس لیے نبوی فرمان کی روشنی میں صحابہ کرامؓنے دعوت وتبلیغ کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ اگرچہ رسول اللہﷺ کی حیات طیبہ ہی میں صحابہ کرامؓدعوت وتبلیغ میں رسول اللہﷺ کے شانہ بشانہ کام کرتے رہے لیکن آپﷺ کے وصال کے بعد اب یہ ذمہ داری براہ راست صحابہؓپر آن پڑی تھی۔ اس لیے صحا بہ کرامؓ نے کارِ نبوت کی انجام دہی میں اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ سیرتِ صحابہؓ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہﷺ نے ان کو جو مشن تفویض فرمایا تھا، اس کی بجاآوری میں صحابہ کرامؓ نے ہر دستیاب موقع سے پورا فائدہ اٹھایا۔سفروحضر،آسانی وتنگی ہر حال میں دعوت کے فریضہ کو اولین اہمیت دی۔ نہ صرف پوری زندگی بلکہ زندگی کی آخری سانسوں تک دعوتِ دین کی فکر ہی دامن گیر رہی اوردعوتِ دین کا فریضہ صحابہ کرامؓکے نزدیک زندگی سے بھی عزیز ترین مشن تھا۔ حضرت ابو ذر غفاریؓ،جو گھوم پھر کر لوگوں کو اسلام کی دعوت دیا کرتے تھے ،ان کا قول ہے:
لو وضعتم الصمصامۃ علی ھٰذہ واشارالی قفاہ ثم ظننت انی انفذ کلمۃ سمعتھا من النبیﷺقبل ان تجیزوا علیّ لانفذتھا(۲) 
’’اگر تم لوگ میری گردن پر تلوار رکھ دو اور مجھے یقین ہو کہ ایک کلمہ بھی جس کو میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے، ادا کرسکوں گا تو قبل اس کے کہ تلوار اپنا کام کرے، میں اس کو ادا کروں گا‘‘
دعوت وتبلیغ سے صحابہ کرامؓکو جوشغف تھا، اس کی بنا پر ایک لمحہ بھی فارغ رہنا ان کی طبیعت پر گراں گزرتاتھا۔ وابصہ الاسدی بیان کرتے ہیں کہ میں کوفہ میں دوپہر کے وقت اپنے گھر میں تھا کہ یکایک دروازے سے السلام علیکم کی آواز بلند ہوئی، میں نے جواب دیا اور باہر نکل کر دیکھا تو دروازے پر عبداللہؓ بن مسعود تھے۔میں نے کہا:اے ابوعبدالرحمن!یہ ملاقات کاوقت کیسا؟فرمانے لگے،آج بعض مشاغل ایسے پیش آئے کہ دن چڑھ گیااور اب فرصت ملی تو خیال آیا کہ کسی سے باتیں کرکے عہد مقدس کی یاد تازہ کرلوں۔غرض وہ بیٹھ گئے اور حدیثیں بیان کرنے لگے۔(۳)
زیدبن اسلمؓ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں ابن عمرؓکے ساتھ عبداللہ بن مطیع کے پاس گیا، تو انہوں نے ہمارا استقبال کرتے ہوئے کہا:ابو عبدالرحمن !خوش آمدید، اور ان کو تکیہ پیش کیا تو ابن عمرؓنے ان سے فرمایا:
انما جئت لاحدثک حدیثا سمعتہ من رسول اللّٰہ ﷺ(۴)
’’میں صرف اس لیے آیا ہوں تاکہ تم سے ایک حدیث بیان کروں جو میں نے رسول اللہﷺ سے سنی ہے.....‘‘اور پھر ایک حدیث بیان کی۔
صحابہ کرامؓ میں دعوت وتبلیغ کا یہ جوش وخروش سفروحضر، گلیوں اور بازاروں میں غرض ہر جگہ نظر آتا ہے۔حضرت اسلمؒ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓملک شام کے دورہ پر تھے تو میں وضو کا پانی لے کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؓنے پوچھا، تم یہ پانی کہاں سے لائے ہو؟ میں نے ایسا میٹھا پانی کبھی نہیں دیکھا،بارش کا پانی بھی اس سے عمدہ نہیں ہوگا۔میں نے کہا کہ میں پانی ایک بڑھیاکے گھر سے لایا ہوں۔وضو سے فارغ ہو کر آپؓاس بڑھیا کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے کہا:اے بڑی بی، اسلام لے آؤ۔اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کوحق دے کر بھیجا ہے ۔اس نے اپنا سر کھول کردکھایا تو اس کے سر کے بال بالکل سفید تھے اور کہنے لگی:میں بہت بوڑھی ہوچکی ہوں اور بس اب مرنے ہی والی ہوں۔ (یعنی اب اسلام لانے کا کیا فائدہ؟) حضرت عمرؓنے فرمایا:اے اللہ گواہ رہنا(یعنی ہم نے تیرا پیغام پہنچادیا)۔ (۵)
حضرت علیؓبازاروں اور گلیوں میں جہاں بھی موقع ملتا، دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ابحر بن جرموز روایت کرتے ہیں:
رأیت علیؓ بن ابی طالب یخرج من الکوفۃ، و ھو یطوف فی الاسواق،ومعہ درۃ،یأمرھم بتقوی اللّٰہ وصدق الحدیث ،وحسن البیع والوفاء بالکیل والمیزان(۶)
’’میں نے علیؓ بن ابی طالب(کو اپنے عہد خلافت میں)دیکھا کہ وہ کوفہ کے بازاروں میں ہاتھ میں درہ لیے گھومتے تھے اور لوگوں کوپرہیزگاری، سچائی،حسن معاملہ اور پورے ناپ تول کی ترغیب دیتے تھے‘‘
دعوت وتبلیغ کا جوش وخروش صحابہ کرامؓ کی طرح صحابیاتؓ میں بھی اسی طرح نظر آتا ہے ۔ابن عبدالبر سمراءؓ بنت نہیک کے تذکرہ میں لکھتے ہیں:
کانت تمرّ فی الاسواق، وتأمر بالمعروف، وتنھی عن المنکر وتضرب الناس علی ذالک بسوط کان معھا(۷)
’’وہ بازاروں میں گھوم پھر کر بھلائی کاحکم دیتی تھیں اور برائی سے روکتی تھیں اور ان کے ہاتھ میں ایک کوڑا ہوتا تھا جس سے وہ لوگوں کو منکر کے ارتکاب پر مارتی تھیں‘‘
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ انفرادی طورپر ہی نہیں، جماعتوں اور گروہوں کی صورت میں بھی دعوت وتبلیغ کے لیے نکلتے تھے۔حضرت مغیرہ بن عبداللہؓ یشکری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ میں کسی ضرورت سے بازار گیا تو میں نے یکایک وہاں ایک جماعت کو دیکھا،میں اس جماعت کے قریب گیا تو ان لوگوں نے مجھ سے رسول اللہﷺ کے اوصاف بیان کیے۔(۸)
صحابہ کرامؓ کی سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح زندگی بھر وہ دعوت وتبلیغ کا فریضہ ادا کرتے رہے، اسی طرح زندگی کی آخری سانسوں میں بھی اس فریضہ سے غافل نہیں ہوئے۔حضرت ابوالدرداءؓ پوری زندگی دعوت وتبلیغ میں مشغول رہے۔ ہزاروں طلبا نے ان سے کسبِ فیض کیا، جب وصال کا وقت قریب آیا تو اپنے ایک شاگردیوسف بن عبداللہ کوبلاکر کہا کہ لوگوں کو میری موت کی خبر کردو۔اس خبر کا مشتہر ہونا تھا کہ آدمیوں کا ایک طوفان امڈ آیا۔ گھر سے باہر تک آدمی ہی آدمی تھے،اندر اطلاع کی گئی تو فرمایا:مجھ کو یہاں سے باہر لے چلو۔باہر آکر اٹھ بیٹھے اور پھر تمام مجمع کو مخاطب کرکے وضو اور نماز کے متعلق ایک حدیث بیان کی۔(۹)
عمواس کے طاعون میں جب حضرت معاذؓ بن جبل بستر مرگ پر تھے توزبان مبارک سے تبلیغ حق کا سلسلہ بھی جاری تھا ۔ حضرت جابرؓ بن عبداللہ ،جو وصال کے وقت آپؓ کے خیمہ میں موجود تھے ، ان سے فرمایا : خیمے کا پر دہ اٹھا دو، میں ایک حدیث بیان کروں گا جس کو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے اور اس حدیث کو میں نے اب تک اس لیے مخفی رکھا تھا کہ لوگ اسی پر تکیہ کر بیٹھیں گے ۔ اس کے بعد آپؓ نے ایک حدیث بیان کی۔(۱۰)
عبیداللہ بن زیاد حضرت معقلؓ بن یسار کی عیادت کو آیا ۔آپؓ اس وقت مرض الموت میں مبتلا تھے۔فرمانے لگے، میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کرتا ہوں جسے میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے،آپﷺ کا فرمان ہے:
مامن امیر یلی امر المسلمین ،ثم لا یجھد لھم وینصح الا لم یدخل معھم الجنۃ (۱۱)
’’جو امیر مسلمانوں کا والی بنایاگیا اورپھر اس نے ان کے لیے تگ ودو نہ کی اور نہ ان کی خیر خواہی کی تو وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہوگا‘‘
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کا آخری وقت آیا تو ان کی بیوی نے چیخ ماری۔آپؓ نے اس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
أما علمت ماقال رسول اللّٰہﷺ؟ قالت: بلی، ثم سکتت،فلما مات ، قیل لھا: أی شئ قال رسول اللہﷺ؟ قالت: قال رسول اللّٰہﷺ : لعن من حلق او خرق او سلق(۱۲)
’’کیا تمہیں رسول اللہﷺ کا فرمان معلوم نہیں؟کہنے لگیں: کیوں نہیں اور پھر خاموش ہوگئیں۔جب ابو موسیٰؓ کا انتقال ہوگیا تو ان سے کہا گیا کہ رسول اللہﷺ کا فرمان کیا تھا ؟ (جس کی یاد دہانی آپ کو ابوموسیٰؓنے کروائی)کہنے لگیں کہ آپ ﷺ کافرمان ہے:’’جس نے مردے کے سوگ میں سرمنڈایا ،کپڑے پھاڑے یا چیخا چلایاتو اس پر لعنت ہے‘‘
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓکوآخری سانسوں میں بھی یہی فکر دامن گیر رہی کہ کہیں ان کی ذات شریعت کی خلاف ورزی کا سبب نہ بن جائے۔اس لیے فوراًاصلاح کردی۔ ابوموسیٰ الاشعریؓکے متعلق ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب ان کاآخری وقت آیا تو انہوں نے اپنے لواحقین کووصیت کرتے ہوئے فرمایا:
’’جب تم لوگ میرا جنازہ لے کرچلو تو ذرا تیزی سے چلنا اور کوئی دھونی دینے والا ساتھ نہ ہو،اور میری قبر میں کوئی ایسی چیز نہ رکھنا جو میرے جسم اور مٹی کے درمیان حائل ہو،اور میری قبر پر قبہ تعمیر نہ کرنا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں (میت کے سوگ میں)سرمنڈانے والے،چیخنے چلانے والے،اور کپڑے پھاڑنے والے سے بری ہوں‘‘۔ (۱۳)
اسی طرح حضرت عبادہؓ بن صامت نے مرض الموت میں اپنے بیٹے ولید کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:اے بیٹے!میں تمہیں اچھی اور بری ہر طرح کی تقدیر پر ایمان لانے کی نصیحت کرتا ہوں اور اگر تو تقدیر پر ایمان نہیں لائے گا تو اللہ تعالیٰ تمہیں آگ میں داخل کرے گا،کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا اور اسے لکھنے کاحکم دیا۔ قلم نے کہا کہ کیا لکھوں ؟تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’جوہوچکا ہے اور جو قیامت تک ہونے والا ہے، سب لکھو‘‘۔(۱۴)
ان چند روایات سے اس حقیقت کا اندازہ کیاجاسکتاہے کہ رسول اللہﷺ نے صحابہ کرامؓکو حجۃ الوداع کے دن جو ذمہ داری سونپی تھی، اس ذمہ داری کو انہوں نے کس تندہی کے ساتھ ادا کیا اور زندگی کے آخری لمحات میں بھی ان کواگر کوئی فکر تھی تو یہی تھی کہ وہ دین کی کوئی بات دوسروں تک پہنچا سکیں۔دعوت وتبلیغ کے مشن سے یہی وہ لگن تھی جس کی بدولت عہدِ صحابہؓمیں اسلام بڑی تیزی اور کثرت کے ساتھ پھیلا۔

حوالہ جات

(۱) صحیح البخاری،کتاب العلم،باب قول النبیﷺ: رب مبلغ أوعی من سامع،ح:۶۷،ص:۶۱
(۲) صحیح البخاری،کتاب العلم،باب العلم قبل القول والعمل،ح:۶۷،ص:۱۶
(۳) المسند،مسند عبداللہؓ بن مسعود ،ح:۴۲۷۴، ۲/۲۸
(۴) المسند،مسند عبداللہ بن عمرؓ ،ح:۲۳۸۷،۲/۳۳۰
(۵)
(۶) الاستیعاب،تذکرہ علیؓ،۳/۱۱۱۲۔
(۷) الاستیعاب،تذکرہ سمراءؓ بنت نہیک، ۴/۱۸۶۳
(۸) اسد الغابہ،تذکرہ عبداللہ یشکریؓ،۳/۲۷۵
(۹) المسند،حدیث ابی الدرداءؓ،ح:۲۶۹۵۱، ۷/۵۹۶
(۱۰) المسند،حدیث معاذ ؓ بن جبل،ح:۲۱۵۵۵،۶/۳۱۲
(۱۱) صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب استحقاق الولی الغاش لرعیتہ النار،ح:۳۶۶،ص:۷۳
(۱۲) المسند،حدیث ابی موسیٰ الاشعریؓ،ح:۱۹۱۲۹،۵/۵۵۳۔ سنن ابی داؤد،کتاب الجنائز،باب فی النوح، ح:۳۱۳۰، ص:۴۵۹
(۱۳) المسند ،حدیث ابی موسیٰ الاشعریؓ،ح:۱۹۰۵۳،۵/۵۴۰
(۱۴) المسند،حدیث عبادہؓ بن صامت،ح:۲۲۱۹۷،۶/۴۳۲

ارضی نظام کی آسمانی رمز

پروفیسر میاں انعام الرحمن

جدید دور کے ریاستی و جمہوری نظام کی فکری آبیاری ہابس (۱)، لاک(۲) اور روسو (۳)نے کی تھی ، پھر کارل مارکس(۴) نے اپنے عہد کے مخصوص احوال و ظروف کے طفیل اسے ایک نئی جہت سے روشناس کرایا۔ ان مفکرین کے پیش کردہ نظریات اور ان کے اثرات اگرچہ عمومی نوعیت کے حامل رہے ہیں لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ ان کا پس منظر اور واقعاتی حوالہ جات، مکمل طور پر مقامی ہیں۔ اس طرح ان نظریات کی خوبیوں اور ان میں مضمر آفاقی نکات کے باوجود، ان کا مقامی اور محدود واقعاتی حوالہ بعض تحفظات کو جنم دیتا ہے۔ یہ تحفظات آج کے دور میں نئے انداز اور نئی قوت سے سر ابھار رہے ہیں۔ خیال رہے کہ یہاں ان مفکرین کی نیتوں اور ان کے افکار پر تنقید مقصود نہیں، کہ انہی اور ان جیسے دیگر لوگوں کی ذکاوت کے طفیل تو نوع انسانی کا فکری کارواں زندگی کی شاہراہ پر رواں دواں رہا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج پھر کرۂ ارض اور عالمِ انسانیت کو ذکاوت درکار ہے تاکہ نہ صرف ابھرنے والے تحفظات ختم ہو سکیں بلکہ اکیسویں صدی کی دنیا اپنے قدو قامت کے مطابق نیا فکری ڈھانچہ بھی دیکھ سکے۔ جہاں تک ذکاوت کا تعلق ہے، مشہور مغربی نقاد پوپ(۵) نے کہا تھا کہ: ’’جو بات اکثر سوچی گئی مگر اتنی خوبی سے معرضِ اظہار میں نہ آئی‘‘۔
یہ مقولہ پڑھ کر پوپ کو داد دینے کو جی چاہتا ہے ، لیکن ذرا ٹھہرئیے! اور دیکھیے کہ جانسن (۶) نے پوپ کی کس طرح خبر لی ہے۔ جانسن کہتا ہے کہ : ’’یہ تعریف غلط بھی ہے اور مضحکہ خیز بھی۔ اکثر سوچی جانے والی بات میں خرابی یہی ہوتی ہے کہ وہ اکثر سوچی جاتی ہے۔ ذکاوت کے لیے شرط یہی ہے کہ بات کو نئے سرے سے سوچا جائے‘‘۔
تو پھر یہ طے ہوا کہ ہمیں بات کو نئے سرے سے سوچنا ہو گا۔ تو آئیے پھر اپنی سی کوشش کر دیکھیں۔
موجودہ دنیا پر نظر دوڑائیے ، ہر طرف افراتفری ہے۔ کہیں بم دھماکے ہیں ، قتل و غارت ، لوٹ مار ہے اور کہیں کرپشن و لاتعلقی۔ یہ صورتِ حال کسی ایک خطے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ عموم کے زمرے میں آتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ اور اس کا حل کیا ہے؟ ۔آئیے پہلے ’’کیوں‘‘ کو ایڈریس کریں۔ راقم کی نظر میں ہابس، لاک، روسو اور مارکس کے فکری ڈھانچوں پر قائم ہونے والے نظام جدید دور کی تبدیلیوں اور تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی اور گلوبلائزیشن جن تغیرات کو جنم دے رہے ہیں، مذکورہ نظام ان کا احاطہ کرنے سے مکمل طور پرقاصر ہیں۔ آج کے انسان کو تلاشِ ذات اور تحفظِ ذات جیسے مسائل درپیش ہیں۔ یہ مسائل ہی اس بے چینی ، اضطراب اور تشویش کو ابھار رہے ہیں جس کا اظہار بم دھماکوں سے لے کر کرپشن تک ہر برائی میں ہوتا ہے۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں مسائل کو ذرا تفصیل سے بیان کیا جائے ۔ 
پہلے تلاشِ ذات کو لیتے ہیں۔ ذرا اپنے ارد گرد موجود لوگوں اور خود پر تنقیدی نظر دوڑائیے ، کیا ان کو اور آپ کو ’’ شخصی بالیدگی ‘‘ حاصل ہے؟ آپ کو یہ سوال ہی بہت عجیب اور دقیانوسی معلوم ہو گا کہ بھلا یہ کیا سوال ہوا؟ زندگی تو سماجی رشتوں کی مرہونِ منت ہے ، یہ بیچ میں شخصی بالیدگی یا ذات کی بالیدگی کہاں سے ٹپک پڑی؟ حالانکہ امر واقعہ یہی ہے کہ ہم لوگ اپنی ذات کھو بیٹھے ہیں۔ ایک مثال کے ذریعے اس کی وضاحت پیشِ خدمت ہے۔ ذرا ٹی وی فلموں کے اداکاروں کو دیکھیے، وہ لوگ بیسیوں کردار ادا کرتے ہیں، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کردار میں خود کو گم کر دیں تاکہ متعلقہ کردار جیتا جاگتا نمونہ نظر آئے۔ اب ذرا غور کیجئے کہ کردار کو بہترین انداز سے ادا کرنے کے بعد کیا اداکار کی اپنی شخصیت، جو کردار ادا کرنے سے پہلے تھی ، ختم ہو جاتی ہے؟ کیا وہ اداکار اس کردار کو اپنی باقی زندگی پر حاوی کر لیتا ہے ؟ کیا وہ اپنی ذات یا شخصیت کو بھول جاتا ہے؟۔یقیناًایسا نہیں ہوتا بلکہ وہ تو نئے کردار کی تلاش میں سرگرداں ہو جاتا ہے تا کہ اس کے روزگار اور شہرت کا سلسلہ چلتا رہے ۔اس کا مطلب یہ ہو ا کہ حقیقت میں یہ اس کی اپنی ذات یا شخصیت ہے جس کے توسط سے وہ مختلف کردار ادا کرتا ہے، اسی لیے وہ کردار ادا کرنے کے بعد واپس اپنی ’’ذات‘‘ میں داخل ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی ذات کو بھولنے کی غلطی نہیں کرتا، اگر وہ بھول جائے تو ظاہر ہے نہ صرف اداکاری کی دوڑ سے خارج ہو جاتا ہے بلکہ اس بات کا قوی امکان ہوتا ہے کہ اسے ذہنی مریض قرار دے کر ذہنی امراض کے ہسپتال میں داخل کرا دیا جائے۔ اب ذرا غور کریں کہ ہم لوگ بھی معاشرے میں مختلف کردار ادا کرتے ہیں، مختلف عمروں میں اور مختلف حیثیتوں میں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بعض کردار ختم ہو جاتے ہیں اور بعض نئے کردار اپنا لیے جاتے ہیں۔ شیکسپےئر(۷) نے بھی اپنی شہرۂ آفاق نظم All the World's a Stage (ساری دنیا ایک اسٹیج ہے) (۸) میں انسان کے زندگی بھرکے کرداروں کوسمیٹنے کی ہنرمندانہ کو شش کی ہے۔
راقم الحروف کی ناقص رائے میں ہم لوگ اپنے کسی نہ کسی کردار سے چمٹ جاتے ہیں۔ کوئی شخص صرف باپ بن کر رہ جاتا ہے، کوئی بیٹا، کوئی دوست اور کوئی بھائی۔ اس طرح خود کو کسی کردار میں گم کرنے کے بعد ہمارے لیے ممکن نہیں رہتا کہ اپنی ذات کی طرف بھی توجہ دیں ، ذات کی بالیدگی تو دور کی بات ہے۔چونکہ ہم اپنے کسی کردار کو ہی حرزِ جاں بنائے ہوتے ہیں اور یہی سمجھتے ہیں کہ زندگی اسی کا نام ہے ، لہٰذا کسی کردار کے کھو جانے پر انتہائی حد تک بوکھلا جاتے ہیں، پھر ہم یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اب زندگی کا کوئی مقصد باقی نہیں رہا ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ زندگی اور زندگی میں مضمر مقاصد تو بدرجہ اتم موجود رہتے ہیں کہ زندگی ان قواعد کے مطابق رواں دواں ہے جنہیں منطق کبھی نہیں سمجھ سکتی۔ البتہ کسی کردار میں کھو جانے کی ہماری نرالی منطق ہمیں بے سرو پا ضرور کر دیتی ہے، لہٰذا یہ بہت ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اپنی ذات کی بالیدگی کی طرف متوجہ ہوں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے سماجی رشتے ناتے اور دیگر تعلقات بھی اسی شخصی بالیدگی کے خمیر سے اٹھنے چاہییں، جیسا کہ اداکار کے ضمن میں بیان ہوا کہ وہ اپنی ذات کے طفیل ہی سارے کردار ادا کرتا ہے ۔ راقم کے خیال میں اس وقت ہماری صورتِ حال اس اداکار جیسی ہے جس نے اپنے آپ کو ایک کردار میں گم کر دیا ہے ، ’’فنا فی الکردار‘‘ ہو گیا ہے، ایسے شخص یا گروہ کی منزل ظاہر ہے ، ذہنی امراض کا ہسپتال ہے ۔کیا آپ راقم سے متفق نہیں ہیں کہ ساری دنیا ذات کے بحران کا شکار ہو کر ذہنی مریض بن چکی ہے؟ بم دھماکے کرنے والے اور کرپشن میں ملوث افراد شاید اس لیے ایسے کاموں کی طرف راغب ہوتے ہیں کہ انہیں اس کردار کے کھو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے جس کے گرد ان کی دنیا گھومتی ہے۔
اگر ہم کسی ایک کردار کے ساتھ چمٹ جانے کے حوالے سے پورے معاشرے پر عمومی نظر دوڑائیں تو وہ کردار ’’شہرت‘‘ کے نام سے عبارت ہے اور آپ نے اوپر پڑھ ہی لیا ہے کہ شیکسپےئر کی اس بابت کیا رائے ہے؟۔ ہاں!! ’’.... اس شہرت کی خاطر جو بلبلہ پانی کا ہے.....‘‘ شہرت آج کے عہد کا وہ کردار ہے جس کے سحر کا شکار فرد، دوسروں کی توقعات پر نظریں جمائے ہر وقت اداکاری کرتا رہتا ہے، وہ اپنا آپ بھول جاتا ہے۔بلاشبہ ذات کی بالیدگی کی قیمت پر شہرت کا حصول ایک بہت بڑی قربانی ہے جو آج کا انسان بلاسوچے سمجھے دیے جا رہا ہے۔
اب آتے ہیں تحفظِ ذات کی طرف۔ ہوتا یوں ہے کہ انسان اپنی ذات کے ان پہلوؤں کو جو کسی کرداری سانچے میں نہیں ڈھل سکے، پوری طرح پورے جبر سے دبا دیتا ہے۔ پھر جب زندگی کی شناخت کے عام وسیلے (خارجی و کرداری قسم کے) مفقود ہونے لگیں (۹) اور انسان بالکل اکیلا رہ جائے تو احساسِ تنہائی اسے آ گھیرتا ہے ، یہاں اسے اپنی اس داخلی قوت اور اندرونی وسائل کا سہارا لینے کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے ، جن کی بالیدگی کی طرف اس نے کوئی توجہ نہیں دی تھی بلکہ الٹا ان کو پورے جبر سے دبا دیا تھا۔ اس طرح تنہائی اس کے لیے فقط ایک احساس نہیں ، بلکہ ایک حقیقی خطرے کے طور پر منہ پھاڑے کھڑی ہوتی ہے۔ یہیں سے تحفظِ ذات کا مسئلہ شروع ہوتا ہے کہ تلاشِ ذات میں ناکامی، تحفظِ ذات کو گھمبیر بنا دیتی ہے۔ اندریں صورت فرد کی ذات کا وہ حصہ جو کسی کرداری سانچے میں نہیں ڈھل سکا تھا اور جسے جبراً دبا دیا گیا تھا، یہاں پر’’ حفاظتی کشتی‘‘ کا کام دیتا ہے۔ آپ لوگ یہ بات تو بخوبی جانتے ہوں گے کہ دنیا میں ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں جو حفاظتی کشتی سے کود کر ڈوب مرنے کو ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مسلسل شک اور غیر یقینی کے کرب کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم بم دھماکے اور کرپشن اس لیے کرتے ہیں کہ ایسے ہی کسی کرب کو برداشت نہیں کر سکتے؟
تحفظِ ذات کے اس مسئلے کی نفسی جہت کے پہلوبہ پہلو اس کی دیگر جہات بھی قابلِ توجہ ہیں۔ ماحولیاتی اور حیاتیاتی جہتیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کرۂ ارض پر حیات، ماحول (۱۰)کی مرہونِ منت ہے۔ ماحول خراب ہو رہا ہے ، لہٰذا حیات ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ ماحولیاتی خرابی میں زیادہ قصور ہمارا اپنا ہے۔ ہم نہ صرف قدرتی وسائل کو بے دریغ خرچ کر رہے ہیں بلکہ افسوس ناک حد تک اس کے نتائج سے بھی غافل ہیں کیونکہ ہمیں شخصی بالیدگی حاصل نہیں اور ہماری ذات کا اظہار ان وسیلوں کے ذریعے بھی ہوتا ہے ، جنھیں ماحول اور قدرتی وسیلے کہا جاتا ہے ۔ اس لیے ہم ذات کے اظہار کی خاطر یا پھر یوں کہہ لیجیے کہ نام نہاد تشخص کی خاطر ان وسائل کو بے دریغ نگل کر رہے ہیں، فرد کے طور پر بھی اور قوم کے طور پر بھی۔ جن معاشروں میں شخصی بالیدگی کی اہمیت جتنی کم ہے، وہاں ایسا رویہ اتنی ہی شدت سے موجودہے۔ مثال کے طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے ماحولیاتی کانفرنسوں کے موقع پر اکثر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ہے، کیونکہ وہاں انفرادی اور قومی سطح پر ذات کا اظہار قدرتی وسائل کے بے دریغ خرچ کرنے پر منحصر ہے۔ ماحولیاتی خرابی سے حیات کس قدر ڈسٹرب ہو رہی ہے ، اس کا اندازہ اسی سے ہو جاتا ہے کہ:
(۱) ممبئی کی فضا میں سانس لینا ایسے ہے جیسے روزانہ دس سگریٹ پینا۔ لاہور کی فضا بھی اس سے بہتر نہیں ہو گی۔
(۲) بنکاک میں ایک ملین لوگ صرف ۱۹۹۰ کے دوران سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہوئے ، وہاں پھیپھڑے کے سرطان کی شکایت ملک کے باقی حصوں سے تین گنا زیادہ ہے۔
(۳) اوزون کی تہہ میں شگاف بڑھ رہا ہے ، اندازہ ہے کہ آئندہ پچاس سال کے دوران صرف امریکہ میں معمول سے 1.7 ملین زائد لوگوں کی موت جلد کے کینسر میں مبتلا ہونے سے واقع ہو گی۔آنے والے دنوں میں دھوپ سینکنے کو بھی اتنا ہی نقصان دہ سمجھا جائے گا جتنا آج سگریٹ نوشی کو سمجھا جاتاہے۔
(۴) پولینڈ میں دریا کے پانی کی کم از کم نصف مقدار اتنی زیادہ آلودہ ہو چکی ہے کہ صنعتی استعمال کے قابل بھی نہیں رہی ، اسی طرح کوریا میں بہت تیزی سے ہونے والی ’’ترقی‘‘ کے سبب یہاں کا دریا ، ناک ٹانگ ، بالکل ناکارہ ہو چکا ہے۔
(۵) پچھلے کئی عشروں میں ایک کے بعد دوسری مچھلی کی قسمیں کم یاب ہونے لگی ہیں، جن میں شمال مشرقی اوقیانوس کی ہرنگ، بحرِ اوقیانوس کی کاؤ، اور شمال مغربی بحر الکاہل میں پائی جانے والی سالمن ، شامل ہیں۔ شمالی اوقیانوس سے شروع ہونے والی یہ تباہی اب دنیا کے سب سمندروں تک پھیل چکی ہے۔ شمالی نصف کرے میں ، خصوصاً سکنڈے نیویا کی ہزاروں جھیلیں ایسی ہیں جن میں مچھلی با لکل باقی نہیں رہی۔ 
لہٰذا یہ واضح ہو گیا کہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی تباہی اور افراتفری کی نوعیت ، نفسی ہونے کے ساتھ ماحولیاتی اور حیاتیاتی بھی ہے۔اب یہ کہنے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے کہ ہابس، لاک، روسو اور مارکس کے عہد میں انسانی مسائل کسی حد تک نفسی نوعیت کے ضرور ہوں گے، لیکن بہرحال یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کے دور میں ماحولیاتی اور حیاتیاتی مسائل موجودہ نوعیت کے ہرگز نہیں تھے، اس لیے ان کی فکر نے بھی ان مسائل کو ایڈریس نہیں کیا۔مذکورہ مفکرین کے پیش کردہ نظریات اپنی جگہ اہم ہوتے ہوئے بھی ، اکیسویں صدی میں کسی طرح کی راہنمائی کرنے سے قاصر ہیں۔ راقم کی رائے میں اہلِ مغرب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جدید مسائل کا حل بھی انھی فکری حدود (Parameters) کے اندر ڈھونڈتے ہیں ، جن کے سوتے پچھلی صدیوں کے مقامی سرچشموں سے پھوٹے ہیں۔
خیر! آئیے، اب ہم اپنے دوسرے سوال کی طرف آئیں کہ ان مسائل کا حل کیا ہے؟ حل کے لیے ہمیں درج ذیل نکات کو ملحوظِ خاطر رکھنا پڑے گا: 
(۱) پچھلے طرز کی نفی
(۲) نئے شعور کی کاشت
(۳) ظرافت ، بطور ایک قدر
(۴) خاندانی نظام
(۵) ثقافتی اپج پر مبنی سماجی نظام ، جس کی بنیاد پر نیا معاشی ڈھانچہ تشکیل پائے
(۶) حضوری
اگر ہم لوگ مسائل حل کرنے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنے پچھلے طرز کی نفی کرنا ہو گی۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ہمیں غورو فکر کے پرانے سانچوں کو خیرباد کہنا ہو گا کہ مقامی ہونے کے باعث وہ گلوبل دنیا میں سرخرو نہیں ہو سکتے۔خوش نصیبی ہے کہ ہم مسلمانوں کی مسلمانیت کا آغاز ہی ’’ پچھلے طرز کی نفی ‘‘سے ہوتا ہے۔ ’’لا ‘‘سے ہوتا ہے (۱۱)۔ اب ہمیں ’نہیں‘‘ کہنا آ جانا چاہیے۔ راقم کی ناقص رائے میں دنیا کی تاریخ میں اتنی تباہی حریتِ فکر سے نہیں آئی، جتنی تباہی اندھے اعتقاد سے آئی ہے۔ اندھے اعتقاد کی فضا ، مکالمے اور خود کلامی کی صلاحیت کو ہڑپ کر جاتی ہے۔ خودکلامی ، شخصی بالیدگی کی اولین اینٹ ہے، اس کے بعد ہی انسان، مکالمے کے توسط سے معاشرے کے ساتھ اور دیگر خارجی مظاہر کے ساتھ شعوری رشتہ استوار کرتا ہے، ایسا رشتہ جس میں آسمانی رمز اور کائناتی پرتو جھلکتے ہیں۔یہاں یہ مت سمجھیے کہ آپ کو ایک بیمار قسم کی خود بینی کی دعوت دی جا رہی ہے۔ مقصود صرف یہ ہے کہ ہم لوگوں کو اپنی پہچان، دوسروں سے نتھی نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ اس وقت اکثر لوگوں کی حالت اس اندھے کی سی ہے جو دوسروں کی پیٹھ چھو چھو کر اپنا راستہ تلاش کرتا رہتا ہے۔
خیر! جہاں تک نئے شعور کی کاشت کا معاملہ ہے، اس کے لیے پچھلے طرز کی نفی نا گزیر ہے۔ اس سلسلے میں مغرب کے مشہور نقاد ایڈگر ایلن پو (۱۲) نے کہا تھا کہ: ’’اختراع (جب تک کہ وہ کسی غیر معمولی ذہن کا نتیجہ نہ ہو) کسی صورت میں محض جذبہ اور وجدان کا نتیجہ نہیں۔ اگرچہ یہ ایک اعلیٰ قسم کی مثبت خوبی ہے مگر اسے حاصل کرنے کے لیے ایجاد سے زیادہ پچھلے طرز کی نفی ضروری ہے‘‘۔ 
نئے شعور کی کاشت کے لیے درکار پچھلے طرز کی نفی کا بہترین اظہار اسلام کے ابتدائی دور میں ہوتا ہے ۔ اہل علم جانتے ہیں کہ چاروں خلفائے راشدین کا انتخاب چار مختلف طریقوں سے ہوا تھا (۱۳)۔ غور فرمائیے کہ صحابہ کرامؓ نے اپنے آپ کو پہلے خلیفہ کے انتخاب کے کرداریا قدر سے وابستہ نہیں کیا کہ باقی خلفا کا انتخاب بھی لازماً ایسے ہی ہوگا۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ پہلے خلیفہ کے انتخاب کا ’کردار‘ ادا کرنے کے بعد واپس اپنی ’ذات‘ میں لوٹ گئے۔پہلے خلیفہ کے انتخاب کے موقع پر جو اختلاف (۱۴) سامنے آیا، اس سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے شخصی بالیدگی کی نیو پر ایک خارجی امر کا فیصلہ کیا (۱۵)۔ اسی سلسلے میں ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ جب رسول اکرمﷺ نے اسلام کی دعوت دی تو بعض لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے اور بعض نے انکار کیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دعوت وہی تھی، نبی وہی تھا، معاشرہ وہی تھا، پھر ایسا کیوں ہوا کہ بعض نے قبول کیا اور بعض نے انکار کیا ؟ راقم کی ناقص رائے میں اس کی بدیہی وجہ یہ ہے کہ جن اصحابؓ نے اسلام قبول کیا ، ان کی نفسیات میں بعض ایسے پہلو پہلے سے موجود تھے جن کے توسط سے انہیں فیصلہ کرنے میں، پچھلے طرز کی نفی کرنے میں، زیادہ دشواری نہیں ہوئی (۱۶)۔یہ پہلو ذات کی بالیدگی کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ لہٰذا اسلام قبول کرنے والے اصحابؓ ، قبل از اسلام بھی اپنی ذات کی شناخت یا اظہار خارجی مظاہر و رشتوں میں نہیں ڈھونڈتے تھے ، کہ ان کے ختم ہونے یا چھن جانے پر ان کو شدید قسم کا احساسِ تنہائی اور تحفظِ ذات کا مسئلہ آ گھیرتا (۱۷) جبکہ اس کے برعکس ابوجہل جیسے لوگ شخصی بالیدگی سے عاری ہونے کے سبب خارجی رشتوں اور مروجہ اقدار کو ہی حرزِ جان بنائے بیٹھے تھے۔ ایسے لوگوں کے متعلق یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں کہ ذات کا کھوکھلا پن (ذات کی بالیدگی نہ ہونے کے سبب)، ان کے اندر نفسیاتی اعتبار سے یہ احساس اور خوف پیدا کر دیتا ہے کہ پچھلے طرز کی نفی سے، رشتوں اور اقدار سے منہ موڑ لینے سے ان کے قدم اکھڑنے لگیں گے اور وہ فنا کی بھیانک گھاٹیوں میں اتر جائیں گے (۱۸) چونکہ ایسے لوگ زندگی کی شناخت خارجی وسیلوں میں ہی پاتے ہیں، اس لیے ان وسیلوں کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ انہیں زندگی بے معنی سی لگنے لگتی ہے۔ حالانکہ انسان نے اپنی ذات کی بالیدگی کی طرف توجہ دی ہو تو خارجی رشتوں اور اقدار سے ایسی وفاداری کہ انسان کی ذات ہی گم ہو جائے، کبھی رونما نہیں ہوتی۔ (شاید کتا ہمارے مذہب میں اسی لیے نجس ہے کہ اس میں بھی مالک کے ساتھ ایسی ہی وفاداری پائی جاتی ہے)
اب ہم تیسرے نکتے کی طرف آتے ہیں، اور وہ ہے ظرافت بطور ایک قدر۔ آپ لوگ یہاں پر چونک جائیں گے کہ ایسی سنجیدہ گفتگو میں اس کی کیا تک؟ دراصل ظرافت کی یہی ’تک‘ ہے کہ یہ انسان کو بہت زیادہ موضوعی یا معروضی بننے سے روکتی ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ جب کوئی شخص اپنی ذات میں بہت زیادہ گم ہو تو کوئی ظریف اس پر ’چوٹ‘ کرتا ہے (یہ تو جی اللہ میاں کی گائے ہے وغیرہ) اس پر نشانہ بننے والا مسکرانے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتا۔یہی مسکراہٹ اس امر کی علامت ہوتی ہے کہ وہ شخص حقیقت کی دنیا میں واپس آگیا ہے، اس کے پاؤں زمین پر لگ گئے ہیں۔ اسی طرح جو شخص بہت زیادہ معروضیت پسند ہو، صرف دنیا میں کھویا ہوا ہو، اس پر بھی کوئی ظریف موقع دیکھتے ہی پھبتی کس دیتا ہے۔ (یہ تو جی اپنے بھی خیر خواہ نہیں ، پھر بھلا .......) ماہرینِ نفسیات تو یہ کہتے ہیں کہ ہر لطیفہ ہمارے کسی نہ کسی ردِ عمل کی ترجمانی کرتا ہے، ردِ عمل کا دائرہ جتنا وسیع ہو گا ، لطیفہ اتنا ہی دل پذیر ہو گا۔
راقم کی نظر میں ظرافت اور خوش طبعی کا معقولیت، سمجھداری، ذہانت اوردانش سے دائمی رشتہ ہے۔ ظرافت انسان میں یہ خوبی پیدا کردیتی ہے کہ دوسروں کی غلط منطق، عام حماقت اور تضاد بیانی کو ہر روپ اور ہر رنگ میں سمجھ سکے۔ ایک لطیفہ ملاحظہ کیجئے: سیاسیات کا استاد اپنے شاگردوں کو ’’تقسیمِ اختیارات‘‘ کا سبق پڑھا رہا تھا۔ اس نے ایک شاگرد سے پوچھا کہ فرض کرو، ’پرویز‘ کے پاس دس اختیارات ہیں، ان میں سے اس نے دو ’جمالی‘ کو دے دیے ، اور چار ’پارلیمنٹ ‘ کو ۔ بتاؤ باقی کتنے بچے؟ شاگردنے جواب دیا ، سر ! باقی دس بچے۔ استاد نے حیرت سے پوچھا ، وہ کیسے؟ شاگرد نے شاگردِ رشید ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کہا ، سر، میں پرویز کو اچھی طرح جانتا ہوں، وہ کسی کو کوئی اختیا رنہیں دے گا۔ 
خیال رہے، یہاں ظرافت سے مراد مسخرہ پن نہیں ہے۔ تھیٹروں میں کیا جانے والا بازاری مذاق ایک تو اس گھٹن کا نتیجہ ہے کہ معاشرے میں ظرافت موجود نہیں رہی، دوسرا یہ ظرافت کا متبادل بنتے ہوئے اس قدر کے منفی پہلو کو فروغ دے رہا ہے۔ عام لوگ اسی منفی پہلو کو ظرافت خیال کرتے ہوئے خود ظرافت کے خلاف ہو رہے ہیں ۔ اس کے منفی نتائج برآمد ہوں گے ۔
جہاں تک سنجیدہ امور کی بابت ہلکی پھلکی چوٹ کرنے کا تعلق ہے، اس بارے میں بھی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ایسا ہونا ممکن ہے کہ لوگ مزاح کا شکار ہو کر ’کتھارسس‘ کر لیں ، جس سے ان کا غصہ اور اضطراب ختم ہو جائے، جو کہ سنجیدہ امور کو (جو غلط سمت میں جا رہے ہوں) ٹھیک کرنے میں استعمال ہو سکتا تھا۔ اس لیے ظرافت کی نوعیت (خاص طور پر جب سامنے مجمع ہو) ایسی ہونی چاہیے کہ یہ (منفی امور کی بابت) لوگوں کے دبے جذبات کو’ہوا‘ دے، اور اگر لوگوں کے جذبات بہت شدید ہوں تو انہیں ذرا دبا کر درست سمت میں پیش قدمی کرنے کے قابل کرے۔ یوں سمجھیے کہ ظرافت معاشرتی ککر کا ’سیفٹی والو‘ ہے ۔ چونکہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے، لہٰذا اس قدر کو عالمی سطح پر اپنائے جانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ مزاح کبھی کبھار ہو تو سنت ہے ، لیکن بطور عادت اختیار کرنا درست نہیں ۔ راقم کی نظر میں دل مردہ بھی اس وقت ہوتا ہے جب مذاق بار بار کیا جائے، کیونکہ اس صورت میں اس کے مثبت اثرات زائل ہو جاتے ہیں، مقصود فوت ہو جاتا ہے۔ ظرافت کا بے جا استعمال، جذبات و احساسات کا ’کتھارسس‘ کر کے انسان کو بے حس کر دیتا ہے اور دل کا مردہ ٹھہرنا لازمی ہو جاتا ہے۔ بہر حال خود نبی اکرمﷺ سے بھی ظرافت سے متعلقہ روایات منقول ہیں۔ حضرت ابو ذر غفاریؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا : ’’قیامت کے دن ایک شخص اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوگا۔ فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ پہلے اس کے سامنے اس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو پیش کرو۔ فرشتے اس کے آگے اس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کی فہرست اس طرح پیش کریں گے کہ تم نے فلاں دن یہ کیا، فلاں دن یہ کیا۔ وہ بے چارہ اس کا اقرار کرتا جائے گا اور دل میں ڈرے گا کہ جب میرے بڑے گناہوں کی فہرست پیش کی جائے گی تو کیا ہو گا۔ فرشتے جب چھوٹے گناہوں کی فہرست پڑھ کر فارغ ہو جائیں گے تو اللہ کی طرف سے یہ حکم ہو گا کہ اس کو ہر گناہ کے بدلے ایک ایک نیکی دیتے چلے جاؤ۔ سرکارِ مدینہ ﷺ فرماتے ہیں کہ : اللہ غفور رحیم کی طرف سے یہ فرمان سن کر وہ شخص غل مچانے لگے گا کہ فرشتو، ٹھہرو ، ابھی تو میرے بہت سے بڑے بڑے گناہ باقی ہیں، ان کو بھی شمار کر لو، اس فہرست میں تو وہ مجھ کو نظر نہیں آ رہے۔ (یعنی ان گناہوں کے بدلے بھی مجھ کو نیکیاں ملنی چاہییں) حضرت ابوذر غفاریؓ جب یہ روایت بیان کرتے تو اس لفظ پر آ کر ٹھہر جاتے اور فرماتے کہ میرے آقا رسولِ خدا ﷺ جب اس حدیث کو بیان فرماتے تو اس قدر ہنسا کرتے کہ آپﷺ کی ڈاڑھیں نظر آنے لگتیں۔ (۱۹)
آئیے ! اب خاندانی نظام کو ڈسکس کرتے ہیں جوہمارا چوتھا نکتہ ہے۔ جدید مسائل سے عہدہ برآ ہونے اور نئے ارضی نظام کی تشکیل میں خاندان کی اہمیت بلاشبہ کلیدی ہو گی۔ہم مسلمانوں نے اس بابت عجیب رویہ اپنایا ہوا ہے کہ خاندانی نظام ہمارے پاس ہے اور مغرب کو ہماری طرف دیکھنا ہو گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سا خاندانی نظام؟ وہ جو سعودیہ میں ہے؟ یا ترکی میں، مصر میں ؟ یا پھر پاکستان میں ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں بھی چاروں صوبوں کے خاندانی نظام ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں ، جنھیں ہم ’اسلامی‘ کہتے ہیں۔ اس کے بعد برادریوں کے نظام الگ سے موجود ہیں جن کے اثرات خاندانی نظام پر مسلمہ ہیں۔امرِ واقعہ یہ ہے کہ خاندانی نظام کی جڑیں ثقافتی اقدار میں پیوست ہوتی ہیں۔ اس لیے متعلقہ ثقافتی اقدار کے تناظر میں ہی اسے دیکھا جانا چاہیے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ثقافتی اقدار غیر متبدل ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں بھی تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے کیونکہ خاندان کسی بھی اجتماعی نظام کی بنیادی اکائی ہے، اس لیے اس کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔ موجودہ عالمی حالات کے سیاق و سباق میں (کہ دنیا وحدت کی طرف بڑھ رہی ہے) یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہم لوگ مغرب پر تنقید برائے تنقید کرنے کی بجائے، علاقائی ثقافتی اقدار کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ، عالمی خاندانی نظام کے خدو خال کو واضح کریں ۔ 
اس وقت ہمارے ہاں خاندانی نظام میں رائج رویے بھی عجیب و غریب ہیں۔ کہیں زن مریدی ہے، کہیں والدین کی پرستش ہے اور کہیں بہن بھائیوں کے لیے زندگی تج دینے کی روایت۔ راقم یہاں پر پھر کہے گا کہ ہمیں خاندانی نظام سے وابستہ اقدار اور کردار وں کو شخصی بالیدگی کے سرچشمے سے ہی دیکھنا چاہیے۔ اگرچہ ہمیں حکم ملا ہے کہ ’’اف‘‘ نہ کریں ( ۲۰)، لیکن ایسے صحابہ کرامؓ ہو گزرے ہیں جن کے والدین نے اسلام قبول نہیں کیا یا پھر بعد میں قبول کیا۔ ذرا غور کیجئے کہ اگر وہ صحابہ کرامؓ ’’اف‘‘ نہ کرنے کے حکم سے شخصی بالیدگی کے بغیر وابستہ ہو جاتے تو کیا پھر والدین کی ہلکی سی تنبیہ بھی انہیں اس نفسیاتی کیفیت سے دوچار نہ کر دیتی کہ لو! اب سب کچھ لٹ گیا، دنیا وآخرت برباد ہوگئی۔ لیکن تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ایسا نہیں ہوا، کیونکہ صحابہؓ نے ’اف‘ کے حکم کو شخصی بالیدگی کے طفیل اس کے صحیح سیاق و سباق میں سمجھا اور اسی کے مطابق رویہ اختیار کیا۔ راقم کی رائے میں آج ہمارا خاندانی مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگوں نے خاندانی رشتوں، اقدار اور احکامات سے متعلقہ کسی نہ کسی ’’کردار‘‘ کو قبلہ و کعبہ بنایا ہوا ہے اور پھر دھونس یہ ہے کہ بس یہی ’’اسلامی خاندانی نظام‘‘ ہے ۔
جہاں تک ہماری بحث کے پانچویں نکتے کا تعلق ہے، اس کے مطابق سماجی نظام کو ثقافتی اپج پر استوار ہونا چاہیے کہ بعد میں اسی سے ’’ماحولیاتی معیشت ‘‘کے سوتے بھی پھوٹ سکیں گے۔ یہ آج کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ سماجی نظام کی تشکیل میں ’’تمدنی جدیدیت‘‘ پیش قدمی کرتے ہوئے بڑھتی جا رہی ہے اور’’ ثقافتی اپج ‘‘پسپائی اختیارکررہی ہے (۲۱)۔ ثقافت، وحدت اور رچاؤ کا نام ہے جبکہ تمدن، تصنع اور انتشار سے عبارت ہے۔ اسی طرح تمدن ’’سادگی‘‘ کو ہڑپ کرنے کے درپے ہے، جبکہ ثقافت ’’سادگی‘‘ کی بشارت دیتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسلامی دعوت کی نوعیت تمدنی نہیں، بلکہ ثقافتی اور دانشورانہ ہے (۲۲) اگر ہم دعوتِ اسلامی کی ثقافتی جہت پر سرسری نظر دوڑائیں تو اس کی بنیادی قدر ’’سادگی‘‘ دکھائی دے گی۔ عالمِ انسانیت کو آج اسی قدر کی ضرورت ہے کہ اسی قدر کے بل بوتے پر نیا سماجی و معاشی ڈھانچہ تشکیل پائے گا جو نفسی، حیاتیاتی اور ماحولیاتی مسائل پر قابو پا سکے گا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ’’تمدنی جدیدیت‘‘ کے ماحول میں یہ’’ ثقافتی قدر ‘‘کیسے راہ پا ئے گی؟ یہاں راقم آپ کو اس ’’خاموش اکثریت‘‘ کی طرف انگلی اٹھا کر جو دنیا میں ہر جگہ موجود ہے اور موجودہ صورتِ حال سے نالاں ہے، یہ کہے گا کہ اس کی موجودگی اس امر کی علامت ہے کہ انسان نے تمدنی جدیدیت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ انسانی ذات کی وہ جہت جسے ہم نے ابتدائی سطروں میں ’’حفاظتی کشتی‘‘ کا نام دیا تھا، آج بھی بقا کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ یہاں مسئلہ یہ آن پڑتا ہے کہ اس وقت جو لوگ ’’ثقافتی اپج‘‘ کے علمبردار بنے ہوئے ہیں، ان کی اکثریت ’’مسخروں‘‘ پر مشتمل ہے کیونکہ اصل لوگ اس محاذ پر کام کرنے سے غافل ہو چکے ہیں۔ اندریں صورت یہ خطرہ موجود ہے کہ خاموش اکثریت کہیں خاموش ہی نہ رہ جائے(۲۳) اور تمدنی جدیدیت عالمِ انسانیت پر چھا کر نفسی، حیاتیاتی اور ماحولیاتی مسائل کو مزید گھمبیر کر دے۔
بہر حال! بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ راقم کی نظر میں صرف اتنا کہہ دینے سے کہ ہمیں سادگی اپنانی چاہیے، یا پھر علماء کرام کی طرح زبانی جمع خرچ کرنے سے کام نہیں چلے گا کہ’’اسلام ہمیں سادگی کا درس دیتا ہے ‘‘۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ اس وقت ہمیں سادگی کی تعبیر و تشریح کرتے ہوئے نہ صرف علاقائی تقاضوں کو مدِنظر رکھنا ہو گا بلکہ اس امر پر بھی توجہ دینی ہو گی کہ ایک ہی فرد کے لیے عمر کے مختلف درجوں میں ’’سادگی‘‘ کے کیا معنی ہو سکتے ہیں ؟ 
یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ سماجی نظام اور اس کی اقدار ہی معاشی رویے کو متعین کرتی ہیں، لہٰذاثقافتی اپج کے حامل مذکورہ سماجی نظام کی کوکھ سے ہی نئے معاشی ڈھانچے کے خدوخال جنم لیں گے۔ ذرا تصور کیجیے کہ اگر آج کے سماجی نظام کی بنیادی قدر ’’سادگی‘‘ ٹھہر جائے تو اس کے نتیجے میں کتنی بڑی ’’معاشی تبدیلی‘‘ رونما ہو گی۔ایک نئی معیشت جنم لے گی جسے ہم ’’ماحولیاتی معیشت‘‘ قرار دینے میں حق بجانب ہوں گے (۲۴) اس نئی معیشت کا ظہور ، نوعِ انسانی کی بقا کے لیے ناگزیر ہے (۲۵) اگر فضول خرچی اور وسائل کا بے جا اسراف کرنے والی معیشت کی جگہ ایسی معیشت لے لے جس میں تیار شدہ سامان اور اس کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کے فضلے کو بار بار استعمال کیا جا سکے تو نہ صرف توانائی کے بے تحاشا استعمال میں کمی آئے گی(۲۶) بلکہ آلودگی میں بھی حیرت انگیز حد تک تخفیف ہو سکے گی۔ مثلاً:
(ا) اگر فولاد کو اس کے سکریپ سے تیار کیا جائے تو اس سے ہوائی آلودگی ۸۵ فیصد تک اور پانی کی ۷۶ فیصد تک کم ہو سکتی ہے ۔
(ب) کاغذ کی تیاری میں اگر ردی کاغذکو ہی خام مال کے طور پر استعمال کیا جائے تو اس سے نہ صرف ہوا کی آلودگی کو ۷۴ فیصد اور پانی کی آلودگی کو ۳۵ فیصد تک گھٹایا جا سکتا ہے بلکہ جنگلات پر پڑنے والے بوجھ میں بھی اسی تناسب سے کمی ہو سکتی ہے جتنی مقدار میں ردی مال کام میں لایا جائے گا۔ خیال رہے ردی کاغذکے ایسے استعمال سے زمینی آلودگی بھی ختم ہو سکتی ہے ،جو ردی کاغذ کے کچرے سے پیدا ہوتی ہے ۔ 
(ج) ڈسپوزیبل بوتلوں کی جگہ اگر شیشے کی بوتلیں استعمال کی جائیں تو توانائی اور خام مال کی بہت بڑی مقدار بچ جاتی ہے۔ اگر کئی دفعہ استعمال ہو سکنے والی شیشے کی ہر بوتل میں اوسطاًدس دفعہ مشروب بھرے جائیں تو توانائی کے استعمال میں فی بوتل ۹۰ فیصد کمی ہو سکتی ہے۔ (۲۷) 
کیمبرج یونیورسٹی میں جغرافیہ کی پروفیسر سوزن اوئنز کا کہنا ہے کہ ’’ صنعتی ملکوں میں جتنی توانائی استعمال ہوتی ہے، اس کے نصف سے زیادہ کا تعلق اس ’’بعدِ مکانی‘‘ سے ہے جو لوگوں کے گھروں، ان کی ملازمت کی جگہوں اور خریداری کے مراکز کے درمیان پایا جاتا ہے۔ گھروں اور روزگار کی جگہوں میں یہ دوری توانائی کے ضائع ہونے اور ماحول کے خراب ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے ‘‘۔ ظاہر ہے یہ دوری سٹیٹس کے سبب سے ہے۔ لوگ ’پوش‘ علاقوں میں رہنا چاہتے ہیں۔ شہر کے ایک کونے میں گھر ہے، دوسرے کونے میں روزگار ہے اور تیسرے کونے میں بچے پڑھتے ہیں۔ اب خود اندازہ کیجیے کہ اس سے ٹریفک، آلودگی کے مسائل اور وقت و توانائی کا ضیاع بھی ہوتا ہے اور فراغت کے لمحے بھی کم رہ جاتے ہیں جس سے نفسی مسائل جنم لیتے ہیں۔ لہٰذا ’سادگی‘ کے در آنے سے ’’بعدمکانی‘‘ کا مسئلہ بھی کافی حد تک کنٹرول ہو سکتا ہے کہ سٹیٹس کلچر ختم ہو جائے گا۔
اس وقت جاپان، جنوبی کوریا اور چین کے کئی شہروں میں انسانی فضلے سے آلودہ پانی کو کارآمد بنا کر واپس کھیتوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔ وہاں شہروں کے ارد گرد سبزیوں کی کاشت کے علاقے بنائے گئے ہیں۔ اس سے ایک تو ٹرانسپورٹ وغیرہ کا خرچ کم ہونے سے سبزیاں سستی پڑتی ہیں، توانائی بچتی ہے اور دوسرا سبزیوں کے ضیاع کی مقداربھی کم ہو جاتی ہے، کیونکہ مارکیٹ کھیتوں کے قریب ہوتی ہے۔ اس طرح یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ شہروں کو بہت زیادہ پھیلنا نہیں چاہیے تا کہ قریبی مضافاتی علاقے ختم نہ ہوتے جائیں اور نتیجے میں شہریوں کو مہنگائی، ماحول کی خرابی وغیرہ جیسے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اگر سماجی سطح پر ’سادگی‘ راہ پا جائے تو شہروں کی توسیع خود بخود تھم جاتی ہے۔
ماحولیاتی معیشت کے فروغ کے لیے اب مصنوعات کی ’’غیر ضروری پیکنگ‘‘ کو بھی روکنا ہو گا۔ یہ پیکنگ اکثر اوقات تصنع، نمائش اور دکھاوے کے لیے کی جاتی ہے۔ اس سے نہ صرف مہنگائی ہوتی ہے بلکہ توانائی کے ضیاع کے ساتھ ساتھ آلودگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ امریکہ میں خوراک کے سامان کی پیکنگ پر، صارفین کو خرچ کا جو بوجھ اٹھانا پڑتا ہے، وہ بعض صورتوں میں کاشتکاروں کی اصل آمدنی سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر ملک میں بھاری پیکنگ ٹیکس لگایا جائے اور سادگی کی طرف واپس آتے ہوئے ایسے تھیلے بنائے جائیں جو پائدار ہوں اور بار بار استعمال میں بھی آسکیں (۲۸)
بہر حال! اس مختصر تذکرے سے ماحولیاتی معیشت کا خاکہ سا سامنا آجاتا ہے جو یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ نوعِ انسانی کو اسی قسم کی معیشت کی ضرورت ہے اور اس معیشت کی کامیابی ایک مخصوص سماجی رویے کے اثرو نفوذ سے مشروط ہے ۔ 
اب ہم بحث کے چھٹے اور آخری نکتے کی طرف آتے ہیں جسے ہم نے ’’حضوری‘‘ کا نام دیا تھا۔ شہزاد احمد (۲۹) نے اپنی ایک نظم ’’ہوا ٹھہری ہوئی ہے‘‘ میں کہا ہے کہ: 
’’۔۔۔مگر ان وسعتوں میں 
جو ہر اک جانب بکھرتی جا رہی ہیں
ہم تو ریزہ بھی نہیں ہیں 
سمے کے بپھرے دریاؤں میں قطرہ بھی نہیں ہیں 
عبادت کرنے والے اس جہاں میں 
ایک سجدہ بھی نہیں ہیں ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
جی ہاں! ہماری اوقات یہی ہے۔ لیکن ’’الست بربکم، قالوا بلیٰ‘‘ (۳۰)کا ازلی مکالمہ ہمیں احساس دلاتا ہے کہ ہم کچھ نہ کچھ ضرور ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ہمارے مذہبی طبقے نے (ثقافتی سطح پر) خدا کا ایسا تصور متعارف کرایا ہے جس کے مطابق انسان ، خدا سے ’’خوف‘‘ ہی کھا سکتا ہے۔ اور خوف، انسان کے یقین کو دھندلا دیتا ہے۔ خدا کی ربوبیت پر سے انسان کا یقین (۳۱) کمزور ہو جاتا ہے۔ حالانکہ انسانی تاریخ (۳۲)یہی بتاتی ہے کہ ’تصورِخدا‘ ہر عہد میں موجود رہا ہے، پھر بھلا ’خوف‘ کی کیا تک؟ خوف تو عام طور پر ’اجنبیت‘ کا پیدا کردہ ہوتا ہے اور ہم لوگ خدا سے ’اجنبی‘ نہیں ہیں۔ کم ازکم یہ مکالمہ تو یہی کچھ بتاتا ہے۔ آپ کسی پرندے یا جانور کے قریب جائیے جس کے لیے آپ ’اجنبی‘ ہیں، آپ دیکھیں گے کہ وہ آپ سے خوف زدہ سا ہے، اسے آپ پر یقین نہیں ہے کہ پتہ نہیں آپ کیا ہیں ؟ اس سے کیا چاہتے ہیں ؟ اس سے کیسا سلوک کریں گے؟ یہی حالت ہماری اس وقت خدا سے تعلق میں ہے۔ ہم لوگ خوف زدہ ہیں کہ نجانے خدا کیا کرے گا؟ اس ’کیا‘ کا جواب ہمارے مذہبی طبقے نے بہت حد تک منفی دیا ہے کہ بس خیر نہیں، خدا نہیں چھوڑے گا وغیرہ۔ 
راقم کی رائے میں ’’الست بربکم، قالوا بلیٰ‘‘ کی معنویت کو ثقافتی سطح پر آشکار کرنے کی ضرورت ہے ۔اگر ایسا ہو سکے تو اسی سے وہ ’’حضوری‘‘ جنم لے گی جس کا ارضی منتہا و مقصود ’’وحدتِ انسانی‘‘ ہے۔ آپ لوگوں نے اکثر دیکھا ہو گا کہ جب چار لوگ بیٹھے کھانا کھا رہے ہوں تو ’مزہ‘ آنے پر بعض لوگ ’چٹخارہ‘ بھی لے لیتے ہیں، واہ بھی کہہ دیتے ہیں لیکن ایسے لوگ جن پر ’تہذیب‘ کی ملمع کاری ہوتی ہے، گردن میں سریا لیے مشینی انداز میں کھاتے رہتے ہیں۔ یہی صورتِ حال وحدتِ انسانی کی ہے۔ جب اس وحدت کی بات کی جاتی ہے تو ’’سادہ لوگ‘‘ فوراََ واہ کہہ ڈالتے ہیں اور جن لوگوں کی گردن میں ’’تہذیبی سریا‘‘ ہوتا ہے، دل میں اچھل کود ہونے کے باوجود، سنجیدہ بنے رہتے ہیں، یہاں کسی ظریف کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو ان کی خام خیالی پر ’چوٹ‘ کر سکے۔ نوعِ انسانی کے ’ظریف‘ کہاں ہیں؟

حاصلِ بحث

ہم کہہ سکتے ہیں کہ اکیسویں صدی کا اصل بحران ’ذات کا بحران‘ ہے ۔ اس وقت ساری دنیا ایک ہسپتال معلوم ہوتی ہے جس میں ایسے مریض داخل ہیں جو ذات کے بحران کا شکار ہیں۔ حفاظتی کشتی کی سوار، مشرقی اور مغربی دانش دوراہے پر ہے کہ ذات کی بالیدگی کی طرف قدم بڑھائے یا پھرخود کو ’’ڈاگ سائیکی‘‘ کا شکار رکھ کر، لاتعلقی بے حسی اور تعصب کے عفریت کو راہ پانے کا موقع دے۔ بڑھی سیدھی سی بات ہے کہ عالمی دانش کو شخصی بالیدگی کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا کہ انسان کا ’’ماحول‘‘ اتنا اہم نہیں ہوتا ، جتنی اہم یہ بات ہوتی ہے کہ انسان ماحول کے ساتھ ’’کیا رویہ‘‘ اختیار کرتا ہے؟ آخر بہشت کے ماحول میں کیا خرابی تھی کہ انسان کو وہاں سے نکلنا پڑا؟ اب زمین اور کرۂ ارض کا ماحول ہمارے سامنے ہے،حیاتیاتی اور نفسیاتی وغیرہ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا رویہ اس کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے کہ ماحول کے ساتھ ہمارے رویے سے ہی ’’نئی تہذیب‘‘ جنم لے گی۔ اگر ہمارا رویہ شخصی بالیدگی کی آسمانی رمز سے پھوٹا تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ایسی تہذیب تشکیل نہ دے سکیں جس کی روح میں ’’الست بربکم، قالوا بلیٰ‘‘ جیسا ازل سے ابد تک پھیلاہوا مکالمہ پنہاں نہ ہو۔ پھر ایسا کون ہو گا ، جو ایسی تہذیب کو ’’عالمی ‘‘ کہنے سے چوک سکے۔پروفیسر طارق محمود طارق (۳۳) کی نظم ’’ممکن نہیں ہوا سے‘‘ پر بات ختم کرتے ہیں کہ اس نظم میں ’’بلیٰ‘‘ کی باز گشت گونج رہی ہے : 
’’ ممکن نہیں ہوا سے 
جب اوراقِ گلاب اڑائے 
جب ذراتِ خواب اڑائے
چشم و دل میں الجھ کر ٹوٹتے 
کانٹے بھی لے جائے
عکس بھی رہنے دے نہ پیچھے 
شیشے بھی لے جائے
خواب اگر لے لے
خوابوں کے 
سائے بھی لے جائے
ممکن نہیں ہوا سے
ساری حِسّیں شل کر جاتا ہے 
تیز ہوا کا شور
سب کچھ بکھر بکھر جاتاہے
لیکن تیرا دھیان
تیرا دھیان بھی چھین لے مجھ سے 
ممکن نہیں ہوا سے‘‘

حواشی

(۱) انگریز مفکر تھامس ہابس (1588----1679) اسٹورٹ بادشاہوں سے تعلقات کے باعث جمہوری طرزِحکومت کو ناپسند کرتا تھا۔ انگلستان کی خانہ جنگی کے دوران میں بھی وہ شاہی خاندان کا طرفدار رہا۔ ایک عرصہ تک فرانس میں رہنے کے بعد1651 میں واپس انگلستان آیااور شاہی خزانے سے پنشن پائی۔(De Corpore politico, 1640) ، (De Cive, 1642 ) اور (Levithan,1651) ہابس کی مشہور تصانیف ہیں ۔Levithan کے معنی دیو پیکر عفریت کے ہیں، ہابس نے مقتدرِاعلیٰ کو اسی عفریت سے تشبیہ دی ہے۔
ہابس کے مطابق انسان کی قدرتی حالت کا زمانہ قبل از سماج کی صورت میں تھا۔معاشرہ موجود نہ ہونے کے سبب ہر طرف افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔ (War of all against all) اس صورتِ حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے لوگوں نے ایک معاہدہ کر لیا۔ اس معاہدہ کے مطابق لوگوں نے متفقہ طور پر اپنے تمام حقوق حکمران کو سونپ دیے ۔ حکمران اس معاہدے میں فریق نہ ہونے کے باعث بالاتر تھا۔ اب عوام کے لیے لازم ہے کہ حکمران کی اطاعت کریں، انہیں بغاوت کا کوئی حق نہیں کیونکہ معاہدے میں ایسی کوئی شق درج نہیں۔ اس طرح ہابس نے بادشاہوں کے ہاتھ مضبوط کرنے والی تھیوری پیش کی اور ریاست کو فقط ایک معاہدے کی پیداوار قرار دے کر ریاست اور حکومت میں فرق کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
(۲) انگریز مفکر جان لاک (1632.....1704) پارلیمنٹ اور جمہوری اقدار کا حامی تھا۔ اسے کچھ عرصہ ہالینڈ میں بھی ٹھہرنا پڑا۔1688 کے انقلاب کے بعد اس نے آزاد ماحول میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کیا ۔1690 میں اس کی مشہور کتاب On Civil Government منظرِعام پر آئی، جس کی اہمیت آج بھی مسلمہ ہے۔ 
لاک کا کہنا ہے کہ انسان کی قدرتی حالت کا زمانہ معاشرتی زمانہ تھا۔ البتہ اسے قبل از سیاسی ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔اس دور میں ایک نہیں بلکہ دو معاہدے ہوئے تھے۔ (۱)افراد کے مابین، (۲) افراد اور حکمران کے مابین۔ اس طرح دوسرے معاہدے میں فریق ہونے کے باعث حکمران بھی معاہدے کی شرائط کا پابند تھا، لہٰذا اگر حکمران اس معاہدے کی پاسداری نہیں کرتا جس کے مطابق اسے فرائض ادا کرنے ہیں تو افراد بھی اس معاہدے کو ختم کرنے کے مجاز ہیں۔ اس طرح لاک نے ریاست اور حکومت میں فرق کر کے جمہوری طاقتوں کو مضبوط کیا اور بادشاہوں کے مطلق العنان اختیارات پر کاری ضرب لگائی۔
(۳) جان جیکس روسو (1712.....1778) فرانسیسی نژاد تھا۔ 1749 میں دیژون کی اکادمی کی طرف سے ’’علوم و فنون کی ترقی نے اخلاق کو پاکیزگی دی ہے یا انحطاط‘‘ کے موضوع پر مضمون نویسی کے مقابلے میں روسو انعام کا حقدار قرار پایا۔ اس نے اپنے دور کی تہذیب کو آڑے ہاتھوں لیا۔1754 میں اس کی تصنیف Discourses on the Origion of Inequality) ( منظرِعام پر آئی۔ اس کی تیسری تصنیف ایک ناول Nouvell Heloise, 1761) (ہے۔ روسو کی شہرہ آفاق تصنیف (کونترا سوسیال ) یعنی معاہدہ عمرانی 1762 میں سامنے آئی اور پھر اس کے بعد) Emile ( ایمیل تعلیمی تصنیف ہے۔ اس کی آخری تصنیف (Confessions) نے بھی فرانسیسی ادب میں تہلکہ مچا دیا۔ اس تصنیف میں روسو نے اپنی زندگی کا ہر پہلو بے دھڑک بیان کر دیا۔ اعترافات پر مبنی یہ سوانح عمری 1782 میں شائع ہوئی تو اسے پڑھ کر روسو کے مداحوں کو سخت ما یوسی ہوئی ۔ بے چارے کی زندگی بس کچھ ایسی ہی تھی۔
روسو کے نظریے کے مطابق بھی معاہدہ ایک ہی تھا۔ یہ معاہدہ ایک فرد کا تمام افراد کے ساتھ تھا۔ اس معاہدے کے مطابق ہر فرد خود کو غیر مشروط طور پر پورے معاشرے کے حوالے کر دیتا ہے ، جسے روسو ’’ منشائے عام ‘‘ کا نام دیتا ہے۔ منشائے عام ہی مقتدرِ اعلیٰ ہے۔ اس طرح ہر فرد بیک وقت حکمران بھی ہے اور رعایا بھی۔ خیال رہے کہ روسو کے مطابق قدرتی حالت کا زمانہ بہترین زمانہ تھا۔
روسو کی کتاب ’’کونترا سوسیال ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کارلائل نے کہا تھا کہ: ’’ایک شخص روسو تھا۔ اس نے ایک کتاب معاہدہ عمرانی کے نام سے سپردِ قلم کی۔ اس کتاب کی اشاعت پر روسو کا تمسخر اڑایا گیا، اسے پاگل کہا گیا ، لیکن جب یہی کتاب دوبارہ اشاعت پذیر ہوئی تو اس کی جلد انھی لوگوں کے جسم کے چمڑے سے باندھی گئی جو اس کا مذاق اڑاتے تھے۔‘‘
(تھامس کارلائل 1795.....1881 انگلستان کا مشہور مورخ گزرا ہے۔ اس کے نزدیک تاریخ شخصیات کے گرد گھومتی ہے۔ سر سید احمد خان نے خود کارلائل سے ملاقات کر کے اس کی تحقیقی کاوش کو سراہا تھا جب اس نے اپنی کتاب میں رسالت مآبﷺ کو دنیا کی عظیم ترین ہستی تسلیم کیا تھا)
(۴) کارل مارکس (1818....1882) سے کون واقف نہیں ۔ اس کے مداح تو اسے جانتے ہی ہیں ، نقادوں کے ہاں بھی وہ یکساں مقبول ہے۔حکیم الامت علامہ اقبال نے فرمایا ہے کہ : 
رازدانِ جزو و کل از خویش نا محرم شد است
آدم از سرمایہ داری قاتلِ آدم شد است !
مارکس نے اشتراکی نظریے کو علمی انداز میں پیش کیا۔ اس نے ہیگل کی جدلیت کو معکوس انداز میں استعمال کر کے تاریخ کی مادی تشریح کی۔ مارکس کے نزدیک معاشی رشتے ہی دیگر رشتوں اور اقدار کا تعین کرتے ہیں۔نظریہ قدرِ زائد پیش کر کے مارکس نے ہلچل مچائے رکھی۔ کارل مارکس کی ذہانت کا اندازہ اس امر سے ہو جاتا ہے کہ اس نے 1835 میں( پیشے کے انتخاب کے بارے میں ایک نوجوان کے خیالات) کے موضوع پر ایک مضمون لکھا کہ’’... پیشے کے انتخاب میں ہمارے لیے فیصلہ کن محرک یہ ہونا چاہیے کہ اپنی ذات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ہم بنی نوع انسان کی بہبود کا کام بھی کریں ... انسانی فطرت ایسی واقع ہوئی ہے کہ آدمی دوسروں کی بہتری کے لیے کام کر کے ہی اپنی ذات کی تکمیل کر سکتا ہے ۔... ‘‘۔
مارکس نے شاعری بھی کی اور اپنی تین بیاضیں ’’ جینی‘‘ کو پیش کیں ، وہی جینی جس کے ساتھ مارکس کی شادی ہوئی ۔مارکس کی عہد
آفریں کتاب ’’سرمایہ ‘‘ہے جو 1876 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب سے حاصل ہونے والے مالی فائدے کے متعلق مارکس نے مزاحاً کہا تھا کہ اس سے تو اتنی قیمت بھی نہ ملی جتنی قیمت کے سگار اس نے اسے لکھتے وقت پھونک ڈالے تھے ۔ کارل مارکس نے انگریزوں کے خلاف چینیوں کی مسلح جدوجہد اور ہندوستان کی 1857 کی جنگِ آ زادی کی حمایت کی تھی ۔
(۵) الیگزینڈر پوپ ( 1688....1744) ،انگریزی ادب کا معروف شاعر و نقاد۔
(۶) ڈاکٹر جانسن انگریزی ادب کی تاریخ میں، اٹھارہویں صدی کی نو کلاسیکی اقدار کا آ خری نمائندہ ہے۔اپنے دور کی بھر پور نمائندگی کرتے ہوئے وہ عقلیت اور عقلی و عملی اخلاقیات کا علمبردار ہے۔اس کا ایک اور خوبصورت قول ملاحظہ کیجئے: ’’فطرت کی تخلیقات میں ایسی صفات موجود ہیں جن کا ہمیں علم نہیں اور فن کی صلاحیتوں میں ایسی ترکیبیں ہیں جنھیں برتا نہیں گیا‘‘۔
(۷) ولےئم شیکسپےئر (1564...1616) ، ادیب اور شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایکٹر بھی تھا۔ اس کی تحریریں آفاقی نوعیت کی ہیں ۔ (Hamlet)،(Othello)،(Macbeth) (، اور (King Lear)نے شیکسپےئر کو انگریزی ادب کے علاوہ عالمی ادب میں بھی اعلیٰ مقام عطا کیا ہے۔ اس کی دیگر تصانیف میں ،(Romeo and Juliet), (Julius Caesar and Antony and Cleopatra), (Timon of Athens and Coriolanus) وغیرہ شامل ہیں ۔ 
(۸) 
’’ساری دنیا ایک سٹیج ہے
اور سب مرد اور عورت اس کے اداکار ہیں
اپنے اپنے وقت پر سب آتے ہیں ،رخصت ہو جاتے ہیں 
اور ہر کوئی اپنی زیست میں کرتا ہے کردار کوئی 
اس کردار کے ہیں سات زمانے ۔سب سے پہلے شیر خوار بچہ
جو اپنی آیا کی بانہوں میں روں روں کرتا ہے اور دودھ الٹتا رہتا ہے
اور شکوہ کناں پھر اک لڑکا جو بستہ گلے میں ڈال مدرسے جاتا ہے
اور صبح سویرے روشن روشن چہرہ لیے دھیرے دھیرے سے چلتا ہے
جاتا ہے بھلاخوش ہو کے مدرسے کب کوئی۔ اور پھر عاشق بن جاتا ہے
بھرتا ہے وہ ٹھنڈے سانس دھونکنی کی مانند ، اور اک مغموم غزل بھی کہتا ہے
محبوب کے چہرے کی تعریف میں ۔اس کے بعد سپاہی بنتا ہے
اور کیسے عجیب عجیب سی قسمیں کھاتا ہے اور چیتے جیسی گھنی داڑھی رکھتا ہے
اور عزت کی خاطر وہ حسد بھی کرتا ہے ۔لڑنے مرنے پر آمادہ وہ ہر ہر لمحے رہتا ہے
اس شہرت کی خاطر جو بلبلہ پانی کا ہے
توپ کے منہ میں بھی جھٹ سے گھستا ہے ۔اور پھر منصف بن جاتا ہے 
اک گول مٹول سی توند لیے ، ہوں جس میں بھرے مرغے خصی 
آنکھوں میں بھرے سختی اور چہرے پر اک رسمی سی داڑھی 
مشہور مقولے دانش کے سب ازبر اور مثالیں بھی
اور یوں کردار وہ کرتا ہے ۔ پھر چھٹا زمانہ اس کے جسم کو ڈالتا ہے
اک پتلی دبلی اور پھسلوان سی پتلون کے اندر 
ناک پہ عینک ، پہلو میں بٹوہ
اور اس کے جوانی کے موزے جو ابھی تلک بھی سالم ہیں ،گویا کہ وسیع ہے اک دنیا 
اب اس کے سکڑے اور سمٹے سے تن کے لیے ، اور اس کی بڑی دبنگ سی مردانہ آواز 
دوبارہ بچگانہ سی اور اونچے سر کی ہوتی جاتی ہے
آوازمیں سیٹی بجتی ہے۔سب سے آخر کا منظر
جو اس رنگ برنگ عجب تاریخ کو ختم کرے
ہے دوسرا بچپن اور فراموشی خالص
بے دانت بھی، اور بے آنکھ بھی اور بے ذائقہ بھی ، اور بے سب کچھ‘‘
(۹) مثال کے طور پر ریٹائرڈاعلیٰ سرکاری ملازمین کو دیکھیے ، ان کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے، کیونکہ انہوں نے اپنی شناخت ،اپنی ذات کی اتھاہ گہرائیوں کی بجائے خالصتاً خارجی وسیلوں پر کروائی ہوتی ہے۔یہ وسیلے(عہدے) ختم ہونے پر یہ لوگ بہت تنہا رہ جاتے ہیں ، کیونکہ ان کی اندرونی ذات بھی انھی خارجی وسیلوں سے مرتب ہوتی ہے۔لہٰذا یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ انسان خارج میں یعنی معاشرے میں اپنی شناخت شخصی بالیدگی کے توسط سے استوار کرے کہ اسی میں پائداری اور پختگی ہے۔
(۱۰) یہاں ماحول سے مراد Eco System ہے۔ایکو سسٹم کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کرۂ ارضی میں نباتات، معدنیات، پانی، فضا اور جاندار وغیر ہ کا ایک خاص تناسب اور توازن رکھا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ حضرت انسان نے اس توازن کو بگاڑنے کی ٹھان لی ہے، جس کے منفی نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں ۔
(۱۱) ابومقائد شاعرِ عرب نے خلیفہ ہادی کی شان میں ایک قصیدہ لکھا، جس کے شروع میں حرف ’لا‘ تھا۔ خلیفہ نے کہا کہ قصیدہ تو اچھا ہے لیکن اس کی ابتدا حرفِ نفی ’لا‘ سے ہوتی ہے اور یہ حرفِ لا ہمارے لیے نامبارک فال ہے۔ شاعر نے جواب دیا کہ کلمہ توحید تمام جہان کے کلمات سے افضل ہے اور حرفِ ’لا‘ سے شروع ہوتا ہے ۔ خلیفہ نے اس جواب کو پسندیدہ قرار دے کر شاعر کو انعام واکرام سے نوازا۔
نیویارک میں بھی ایک کانفرنس کالج کی لڑکیوں کے مسائل پر منعقد ہوئی۔ اس میں یہ نکتہ پیش کیا گیا کہ ان لڑکیوں کو NO کہنا نہیں آتا ، انہیں ’’نو‘‘کہنا سکھایا جانا چاہیے۔
(۱۲) ایڈگر ایلن پو کے نظریات کی تشکیل ، انیسویں صدی کے امریکہ میں نو دولتی ذہن کی فنی و جمالیاتی اقدار سے بے تعلقی اور ان کی سخت گیر پیورٹن اخلاقیات نے کی۔ ایڈگر کے زیرِ اثر فرانس میں علامتیت(Symbolism) کی تحریک شروع ہوئی اور انگلستان میں فن برائے فن کی تحریک کا آغاز ہوا۔ پو کا کہنا ہے کہ ’’شدید ترین ، اعلیٰ ترین اور مقدس ترین مسرت ، تصورِحسن سے ملتی ہے۔‘‘
(۱۳) حضورِاکرمﷺ کے وصال کے بعد انصار، خلیفہ کے انتخاب کے لیے سقیفہ بنی ساعدہ میں اکٹھے ہوئے ۔ خزرج قبیلے کے سردار سعد بن عبادہؓ نے کہا کہ خلیفہ انصار میں سے ہونا چاہیے کیونکہ انصار نے مشکل وقت میں مسلمانوں کی مدد کی تھی۔حضرت عمرؓ کو اس بات کا علم ہوا تو وہ فوراًحضرت ابوبکر صدیقؓ کو سا تھ لے کر ابو عبیدہ بن جراحؓ کی معیت میں وہاں پہنچے۔حضرت ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا کہ انصار کی بات کے درست ہونے میں کوئی کلام نہیں، لیکن مہاجرین ہی تھے جنہوں نے اس وقت مصیبتیں برداشت کیں جب اسلام کا کوئی نام لیوا نہیں تھا۔ مہاجرین نے اس کڑے وقت میں حضورِ اکرم ﷺ کا ساتھ دیا اس لیے ہم مہاجرین کی عزت کرتے ہیں اور انصار کی عزت بھی کرتے ہیں ، لہٰذا حکمران ہم ہوں گے آپ ہمیں مشورہ دیں گے اور ہم آپ کے مشورے سے کام کریں گے۔ انصار میں سے حبیب بن منظر نے کہا کہ ایک امیر مہاجرین میں سے اور ایک امیر انصار میں سے ہونا چاہیے۔ حضرت عمرؓ نے اسے ناپسند فرماتے ہوئے نکتہ اٹھایا کہ اس سے اسلامی اتحاد کو سخت نقصان پہنچے گا۔ پھر حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا حضرت محمدﷺ نے آپ کو مسلمانوں کی جماعت کرانے کے لیے نہیں کہا تھا ، آپ خلیفۃ الرسول ﷺ ہیں، آپ کی بیعت سب سے اچھی ہے جسے حضورِ اکرمﷺ نے پسند فرمایاتھا۔
جب حضرت ابوبکرصدیقؓ کا آخری وقت قریب آیا تو ان کے جانشین کے لیے ان سے رائے لی گئی، اگرچہ ان کی نظر میں حضرت عمرؓ موزوں ترین تھے ، لیکن انھوں نے ان کو جانشین نامزد نہیں کیا بلکہ اکابر صحابہ کرامؓ کو بلا کر ان کی رائے معلوم کی، پھر حضرت عمرؓ کی جانشینی کی بابت اپنی وصیت املا کروائی۔ صدیق اکبرؓ نے حالتِ مرض میں اپنے حجرے کے دروازے سے مسلمانوں کے مجمع عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’کیا تم راضی ہو اس شخص سے جسے میں تم پہ اپنا جانشین بناؤں ؟ خدا کی قسم ! میں نے غور و فکر کر کے یہ رائے قائم کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے اور اپنے کسی رشتہ دار کو مقرر نہیں کیا ہے ، میں نے عمر بن الخطابؓ کو جانشین بنایا ہے ، پس تم ان کی سنو اور اطاعت کرو۔‘‘ مجمع سے آواز آئی، ہم نے سنا اور اطاعت کی۔
حضرت عمرؓ نے دنیا سے رخصت ہوتے وقت چھ اصحاب کرامؓ کی مجلس بنا دی اور ان کے سپرد یہ کام کیا کہ باہمی مشورے سے ایک شخص کو خلیفہ تجویز کریں اور اعلان کر دیا کہ تم میں سے جو کوئی مسلمانوں کے مشورے کے بغیر زبردستی امیر بنے، اس کی گردن ماردو۔ اس مجلس کے کہنے پر حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ نے مدینہ میں گھوم پھر کر عام لوگوں کی رائے معلوم کی۔ حج کر کے واپس لوٹنے والے لوگوں سے استصواب کیا، اور اس نتیجے پر پہنچے کہ چھ میں سے دو اصحابؓ زیادہ معتمد علیہ ہیں (۱)حضرت عثمانِ غنیؓ، (۲) حضرت علی مرتضیٰؓ۔ پھر حضرت عثمانؓ کی طرف لوگوں کا زیادہ میلان دیکھ کر ان کے حق میں فیصلہ ہوا۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد سخت افراتفری تھی، اس موقع پر چند صحابہؓ حضرت علیؓ کے گرد جمع ہوئے اور خلافت سنبھالنے کی درخواست کی۔ حضرت علیؓ کے انکار پر بھی ان کا اصرار بڑھتا گیا، آخر کار علی مرتضیٰؓ نے فرمایا کہ میری بیعت خفیہ نہیں ہو سکتی اور مسلمانوں کی مرضی کے بغیر اس کا انعقاد ممکن نہیں۔ آپ مسجدِنبویﷺ میں تشریف لے گئے اور مہاجرین اور انصار کی بہت بڑی اکثریت نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔
حضرت علیؓ نے آخری وقت یہ پوچھنے پر کہ کیا آپ کے صاحبزادے حضرت حسنؓ کی بیعت کر لی جائے ، فرمایا، میں نہ تمہیں اس کا حکم دیتا ہوں اور نہ ہی اس سے منع کرتا ہوں ۔ تم لوگ خود اچھی طرح دیکھ سکتے ہو۔ 
(۱۴) دیکھیے حاشیہ نمبر ۱۳، حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتخاب 
(۱۵) حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ حکومت میں حضرت خالد بن ولیدؓ کی سپہ سالاری کے عہدے سے معزولی بھی قابلِ غور ہے ۔ خالد بن ولیدؓ ، جن کی تمام عمر گھوڑے کی پیٹھ پر گزری ، انہوں نے اپنے عہدے سے دستبرداری آسانی سے قبول کر لی۔ راقم کی نظر میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ خالد بن ولیدؓ نے سپہ سالاری کو کردار کے انداز میں لیا ۔ا ن کی شخصی بالیدگی ہی ان کے خارجی تعلقات کی بنیاد تھی، لہٰذاسپہ سالاری کے کھو جانے پر بھی ان کا معتدل اور معقول ردِعمل اسی امر کی غمازی کرتا ہے ۔ پاکستان میں آرمی چیف اس لیے اپنے عہدے سے چمٹے رہتے ہیں کہ اسی خارجی مظہر یعنی عہدے کے توسط سے ہی وہ اپنی شخصیت کی شناخت اور اظہار پاتے ہیں۔وہ عہدے کو کردار کی صورت میں نہیں لیتے ۔ہمارے جرنیلوں میں ذات کی بالیدگی صفر ہے۔
(۱۶) حدیثِ نبویﷺ ہے کہ تم میں سے جو لوگ قبل از اسلام بہترین تھے ، بعد از اسلام بھی وہی لوگ بہترین ہیں۔ (خیارکم فی الجاہلیۃ خیارکم فی الاسلام اذا فقہوا)
(۱۷) ایک اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ غریبوں میں قدرتی طور پر خارجی وسیلوں پر انحصار کم ہوتا ہے ۔ انہیں بار بار بے یقینی کی کیفیت کا شکار ہو کر اپنے آپ پر انحصار کرنا پڑتا ہے، ذات کو مجتمع کرنا پڑتا ہے ۔اس لیے ان کے ہاں شخصی بالیدگی زیادہ ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ غریب لوگ ہی پہلے پہل مذہب کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جہاں تک امرا کا تعلق ہے ، ان کے ہاں سادگی ایسا وصف قرار پاتی ہے جس کے توسط سے ان میں بھی شخصی بالیدگی آ جاتی ہے، کیونکہ سادہ انسان خارجی مظاہر اور رشتوں ناتوں ، رواجات وغیرہ سے دور ہی بھاگتا ہے۔اس لیے اگر تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ اسلام قبول کرنے والوں میں مکہ کے ایسے رےئس تھے جو سادہ تھا، اور ایسے غربا تھا جو قناعت پسند تھے ۔لہٰذا ہر دو کے ہاں ایک قدرِ مشترک جھلکتی ہے ، یعنی ذات کی بالیدگی کی قدر۔ اس قدر تک رسائی ہر دو نے اپنے اپنے مخصوص احوال و ظروف کو ایک خاص نظر سے دیکھنے سے پائی تھی۔کیا آج بھی عالمِ انسانیت کو ایسی ہی قدرِ مشترک کی ضرورت نہیں ہے؟ 
(۱۸) ایسے لوگوں کی مثال اس جانور سے بھی ملتی جلتی ہے جسے شکاریوں نے گھیر لیا ہو۔ایسا جانور اپنے وجوداور بقا کے مسئلے سے دوچار ہوتا ہے۔ اسے معلوم ہو تا ہے کہ اب اس کی خیر نہیں ! لیکن اہم بات یہ ہے کہ کسی جانور میں ایسا احساس جبلی طور پر پیدا ہوتا ہے۔ وہ اپنی بقا کے مسئلے اور کسی دیگر مسئلے میں فرق، جبلی طور پر کرتا ہے۔انسان کی حالت اس سے بہت مختلف ہے۔ انسان صرف جبلت کا پابند نہیں ، اسے یہ اختیاردیا گیا ہے کہ وہ کسی عام مسئلے اور بقا و وجود سے متعلق خطرے میں خود خطِ امتیاز کھینچ سکے۔یہیں پر یہ نکتہ آ جاتا ہے کہ کوئی انسان اپنی بقا و وجود کو کس سیاق وسباق میں دیکھتا ہے؟ کیا خارجی وسیلوں کے حوالے سے دیکھتا ہے؟کیا اس کے لیے کوئی کاروبار ، کوئی عہدہ ، کوئی رشتہ ’ وجود‘ سے منسلک ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر ان میں سے کسی پر بھی حرف آنے کی صورت میں وہ بقاکے مسئلے سے دوچار ہو جائے گا اور انتہا پسند بن جائے گا۔ یورپ اور امریکہ اسی لیے انتہاپسندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
یہاں پر ایک سوال اسلامی دنیاکے حوالے سے بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ خودکش حملوں کو کس زمرے میں شمارکرے گی؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم لوگوں نے بھی کسی عام مسئلے کو بقا کا مسئلہ بنا لیا ہے؟ راقم کی نظر میں یہ خود کش حملے ، ہمارے وجود پر ان حملوں کا جواب ہیں جو مغربیوں نے ہمارے تصورِ جہاد پر کیے، اور مختلف حیلوں بہانوں سے جہاد کو دین سے الگ کرنے، اسے مسخ کرنے کی صورت میں کیے۔ چونکہ ہمارے ہاں دین ایک ’وحدت‘ ہے اور اس کے عناصر ترکیبی ناقابلِ تقسیم ہیں ، اس لیے ہم مسلمانوں نے اسے بقاکے مسئلے کے طور پر لیا ہے، لہٰذا خودکش حملے اندریں صورت فطری معلوم ہوتے ہیں۔یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ ہماری انتہاپسندی کا محرک ، مغربیوں کی انتہاپسندی کے محرک سے بہت بہتر ہے۔
پاکستان میں جاری فرقہ وارانہ انتہاپسندی کے تناظر میں ایک اور نکتے کی صراحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔راقم الحروف کے مطابق تو اس کی اصل میں بھی بقا کا مسئلہ پوشیدہ ہے۔ہر فرقہ پرست نے اپنے فرقے اور اس سے وابستگی کو بقا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔لہٰذا جب کبھی اس کے فرقے پر یا اس کی وابستگی پر حرف آنے لگتا ہے ، وہ بھڑک اٹھتا ہے اور انتہا پسند بن جاتا ہے۔ایسے شخص کی پہچان اور شناخت متعلقہ فرقے کے توسط سے ہی ہوتی ہے، اسے یہ اندیشہ دامن گیر رہتاہے کہ فرقہ ختم ہونے سے یا اس کی وابستگی ختم ہونے سے اس کی اپنی پہچان ختم ہو جائے گی۔ کیونکہ فرقہ واریت اسلام کی تعبیرو تشریح سے پھوٹی ہے اور ہر فرقے کی اپنی ایک بے لچک رائے ہے، جو اس کے لیے دین ہے ، اور اسی لیے اس کے ’وجود‘ کا حصہ ہے، لہٰذا راقم کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ اسلام کے ابتدائی عہد سے استشہاد کرنے کی کوشش کرے ۔ اہل علم جانتے ہیں کہ وصالِ نبی اکرم ﷺکے بعدفوری طور پر چار مسائل سامنے آئے: 
(ا) وصالِ نبی اکرم ﷺ پر حضرت عمرؓ کا ردِ عمل
(ب)منکرینِ زکوٰۃ کا مسئلہ
(ج) نبوت کے نئے دعویدار
(د) حضرت اسامہؓ کے لشکر کی روانگی
فرقہ پرستوں ، شخصیت پرستوں سے گزارش ہے کہ حضرت عمرؓ کے ردِ عمل پر حضرت ابوبکرصدیقؓ کے خطبے کو بغور پڑھیں ۔حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا: ’’ اے لوگو! جو شخص محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا ، اسے معلوم ہوجانا چاہیے کہ محمدﷺ فوت ہو چکے ہیں ، لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ زندہ ہیں ان پر کبھی موت وارد نہیں ہوتی ۔‘‘۔ ذرا اندازہ کیجیے اگر اس وقت صدیق اکبرؓ کا خطبہ سامنے نہ آتا تو کیا ہوتا؟ 
راقم کی محتاط رائے یہی ہے کہ مذکورہ بالا چار مسائل میں سے پہلے تین صریحاً بقا کے مسئلے تھے۔اس لیے صدیق اکبرؓ نے کوئی لچک نہیں دکھائی۔ (فرقہ پرستوں سے گزارش ہے کہ انتہا پسندی کے ایسے ہی پیرامیٹرز ڈھونڈیں، کیونکہ اسلام میں اسی قسم کے امور کی بابت ا نتہا پسندی کی اجازت ہے)
اسی بات کوایک اور نظر سے دیکھیے۔ حدیثِ نبوی ﷺ ہے کہ ’’ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے ہاں اپنے والدین اور اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں ‘‘۔ اس حدیثِ مبارکﷺ سے نبی ﷺکے مقام کی وضاحت بخوبی ہو رہی ہے ۔ صدیقِ اکبرؓ کے خطبے کو اس حدیثِ نبویﷺ سے ملا کر پڑھیے، اور پھر والدین ، بہن، بھائی اور کسی کردار، قدر وغیرہ سے اپنی ’’وابستگی‘‘ کو دیکھیے ، اور فیصلہ کیجیے کہ ایسی وابستگی کا مقام ، کیا اور کہاں تک ہو نا چاہیے اور ہم نے کیا مقام دے رکھا ہے ؟ 
اب ذرا پہلے اور چوتھے مسئلے کے حوالے سے صدیق اکبرؓ کے فرمانِ مبارک پر غور کیجئے کہ پہلے نبی اکرم ﷺ کی مبارک شخصیت سے وابستگی کو درست نہج پر رکھتے ہیں ، اس کے بعد لشکرِ اسامہؓ کی روانگی کے وقت فرماتے ہیں کہ میں کیسے اس لشکر کی روانگی کو روکوں جس کی روانگی کا حکم خود رسولِ اکرمﷺ نے دیا تھا۔ اس سے یہ نکتہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ تزویراتی تقاضے شخصیت کے گرد نہیں گھومتے۔ ( اسی سے پاکستانی جرنیلوں کا پھوہڑپن ظاہر ہو جاتا ہے کہ وہ تزویراتی تقاضوں کو اپنی شخصیت سے وابستہ کر لیتے ہیں اور ان کی آڑ میں طالع آزمائی کے مزے چکھتے ہیں ۔ بلا شبہ یہ رویہ ایک ایسی قوم کے ساتھ ظلم ہے جس کی بہت ابتدائی تاریخ نے درست سمت کی نشاندہی کر دی ہو)
(۱۹) ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ، دعا فرمائیے کہ میں جنت میں چلی جاؤں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ، کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی ۔ یہ سن کر وہ بڑھیا رونے لگ گئی ۔ حضور ﷺ نے فرمایا ، چپ کر جاؤ ( میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ) جنت میں کوئی بوڑھا نہیں ہو گا ، وہاں تو سب جوان ہی ہوں گے۔ وہ بڑھیا آپ ﷺ کی یہ بات سن کر ہنس پڑی ۔
تحریکِ خلافت کے مشہور راہنما مولانا شوکت علی سے پوچھا گیا کہ جناب ! آ پ کے بڑے بھائی ذوالفقار کا تخلص ’’گوہر‘‘ ہے اور دوسرے بھائی مولانا محمد علی کا تخلص ’’ جوہر‘‘ ہے ، قبلہ! آپ کا تخلص کیا ہے؟ مولانا شوکت علی نے برجستہ جواب دیا : ’’شوہر‘‘ ۔ 
مولانا شوکت علی کو عربی نہیں آتی تھی لیکن عربوں سے عربی میں بات کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ایک مرتبہ چند نوجوان ان کے سر ہو گئے کہ آپ کو عربی آتی نہیں، پھر بات کیسے کر لیتے ہیں ؟ اس پر مولانا نے بگڑ کر کہا، واہ ! یہ کیا بات ہوئی ، ہم عربی خوب جانتے ہیں۔ اس پر کسی لڑکے نے پوچھا ، اچھا چلیے، یہ بتائیے کہ گھٹنے کو عربی میں کیا کہتے ہیں ؟ مولانا نے بلا تامل جواب دیا، گھٹنا عرب میں ہوتا ہی نہیں ۔
(۲۰) سورۃ اسرا میں ہے : ’’اور تم اپنے والدین سے ’اف‘نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور کہو ان سے اچھی بات‘‘
(۲۱) حیرت ہوتی ہے کہ مسلمان اپنے زوال کو فقط ’’سیاسی احوال و ظروف‘‘ میں دیکھتے ہیں ، حالانکہ ہمارا اصلی زوال ، ثقافتی زوال ہے جس کے سبب سے ہمارے سماجی ڈھانچے سے ’’ثقافتی اپج‘‘ معدوم ہو گئی اور خالی خولی خیالات رہ گئے ہیں۔ نماز کو ہی لے لیں، یہ ہر صورت میں فرض ہے اور روزانہ ادا کی جاتی ہے ۔اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وقت کی پابندی سکھاتی ہے ، اس طرح وقت کی پابندی ، اسلام کی ثقافتی قدر ٹھہرتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ قدر اس وقت ہمارے سماجی ڈھانچے میں رائج ہے؟ یقیناًنہیں۔ صرف شادی بیاہ کے موقع پر ہی اس کی قلعی کھل جاتی ہے۔شادی بیاہ پر ’’تمدنی جدیدیت‘‘ کے مطابق عمل کیا جاتا ہے اور ثقافتی قدر کو ’’دقیانوسی‘‘ قرار دے کر طاقِ نسیاں میں دھر دیا جاتا ہے۔ اس طرح ’’وقت کی پابندی‘‘ ہمارے سماجی ڈھانچے میں بے ثقافت ہو کر محض ایک ’’خیال‘‘ رہ جاتی ہے۔ نماز کے حوالے سے ہی صف بندی اور ڈ سپلن کے پہلو کو دیکھیے ، معلوم یہی ہوتا ہے کہ ہمارا صرف ’’جسم‘‘ ہی ڈسپلن سیکھتا ہے ، جہاں کہیں نماز کھڑی ہوتی ہے ہم لوگ ’’خودکار‘‘ انداز میں صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگر یہی ڈسپلن ہماری ’’شخصیت‘‘ کا حصہ بن جائے تو لازمی بات ہے کہ ہم سماجی سطح پر بھی ’’خود کار‘‘ انداز میں قطاریں بنا لیا کریں ۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ، اسی لیے ہمیں نمازیوں کی بہت بڑی اکثریت سماجی سطح پر ’’بے نماز‘‘ دکھائی دیتی ہے ۔
ہم مسلمان یہ راگ بھی الاپتے ہیں کہ :’’ہماری تہذیب شاندار ہے، ہم مغربی تہذیب کو اس کے مقابلے میں طفلِ مکتب سمجھتے ہیں وغیرہ وغیرہ‘‘۔ حالانکہ درست بات یہ ہے کہ ہماری تہذیب شاندار تھی اور بس۔ موجودہ وقت کی تہذیب کو کیسے شاندار کہا جا سکتا ہے؟ اہل نظر جانتے ہیں کہ ہلاکو خان نے اگرچہ بغداد کو فتح کر لیا تھا ، لیکن اسلام کی تہذیبی قوت کو تسخیر نہیں کر سکا تھا کہ اس (تہذیبی قوت)کے پیچھے ثقافتی اپج موجود تھی، لہٰذا اس فرنٹ پر فاتحوں کو شکست ہوئی تھی۔ برِصغیر میں انگریزوں کی آمد پر ایسا نہیں ہو سکا اور مسلمان تہذیبی سطح پر بھی شکست کھا گئے، اسی لیے ہم انگریزوں کو مسلمان نہیں کر سکے۔ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کی تہذیبی قوت بھی ہم سے بہت بہتر تھی کیونکہ اس کے پیچھے ثقافتی اپج موجود تھی۔ اس وقت بھی یہی صورتِ حال ہے ، ذرا اپنے سماجی ڈھانچے کو دیکھیے، اس میں صرف ’’خیالات‘‘ ہیں (بعض خیالات بھی درست نہیں ہیں)، سچ بولنا چاہیے، وعدہ خلافی نہیں کرنی چاہیے ، ملاوٹ نہیں کرنی چاہیے، سادگی اپنانی چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔اس کے مقابلے میں مغرب کے سماجی ڈھانچے کو ملاحظہ کیجئے، کیا وہاں صرف ’’خیالات‘‘ ہیں؟ لہٰذا اگر ہم اب بھی اسی بات پر مصر ہیں کہ ہماری تہذیب شاندار ’’ہے‘‘ تو اس پر یہی کہا جا سکتا ہے ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ ۔
اسی بات کو ایک اور رخ سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم لوگوں نے اپنے ثقافتی زوال کا تجزیہ نہیں کیا ، شیکسپیئر کی مانند ’’المیہ‘‘ نہیں لکھا، کوئی ظریف بھی ہمیں اس امر کا احساس نہیں دلا سکا ، اور نہ ہی ہمیں کوئی ’’گبن‘‘ مل سکا ، جو ہمارے ثقافتی زوال پر اسی اتھارٹی سے قلم اٹھاتا جیسے اس نے سلطنتِ روما کے زوال پر اٹھایا تھا۔ 
(۲۲) اس موضوع پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے: ’’اسلامی دعوت کی ثقافتی جہت‘‘
(۲۳) یہاں پر راقم کی ایک نظم بعنوان: ’’ شعور کے آنسو‘‘ کا تذکرہ غیر مناسب نہیں ہو گا، ملاحظہ کیجئے:
’’میں نے دیکھا !
فطرت سے بھاگتی
دریچے سے راہ مانگتی
اک ہراساں کرن
فرار چاہتی ہے!!
شاید۔۔۔۔۔
شعور سے تہی ہے
(کہ زیست اتنی ہی ہے یا شاید اس سے بھی کچھ کم)
میرے رفیق ! اٹھو
فرار سے فرار کرو
کہ!! ان خرابوں کے سرابوں میں 
وہ تیرا آنسو ہے !
فضائے شبنمی کا نقیب۔‘‘
(۲۴) ماحولیاتی معیشت سے راقم کی مراد فقط یہ ہے کہ معاشی امور میں ’’ماحولیاتی عنصر‘‘ کو پیشِ نظر رکھا جائے ، تاکہ ’’ایکو سسٹم‘‘ مزید ڈسٹرب نہ ہونے پائے۔ ماحولیاتی معیشت، قناعت کے ساتھ ساتھ ، رہنے سہنے کے ڈھنگ میں’سادگی‘ کا تقاضا کرتی ہے ۔ اس اعتبار سے اسلامی دنیا ’ماڈل‘ کے طور پر سامنے آ سکتی ہے ، کیونکہ ہماری بنیادی قدر ’سادگی‘ ہے ۔اہم بات یہ ہے کہ ہمارا دین ’وحدت‘ ہے ، یہ زندگی اور اس سے متعلقہ امور کو ’کل‘ کی صورت میں دیکھتا ہے اور تقسیم یا تخصیص نہیں کرتا۔(مغربی دنیا میں تخصیصیت نے بربریت پھیلا رکھی ہے) اس طرح ہماری زندگی کے تمام پہلو ’باہم مربوط‘ ہیں کہ ہماری سماجی ، معاشی،سیاسی ، اخلاقی و دیگر اقدار’الگ الگ‘ نہیں ہیں۔راقم کی نظر میں اس موضوع پر کام کی ضرورت ہے : ’’اسلام کا تصورِ ماحول :سماجی و معاشی ڈھانچوں سے اس کا ربط اوران پر اس کے اثرات‘‘۔
(۲۵) یورپین کورٹ آف جسٹس نے یہ دلیل قبول کرتے ہوئے کہ’’ماحول کا تحفظ تجارتی فائدوں سے زیادہ اہم ہے‘‘ یہ فیصلہ سنایا تھا کہ ڈنمارک میں مشروبات کی ایسی بوتلوں کا استعمال منع ہے جو ایک دفعہ کام آنے کے بعد ضائع ہو جاتی ہیں۔ 
(۲۶) توانائی کے ذخائر کے استعمال میں ’اسراف‘ ہی سے ماحولیاتی مسئلہ شدت اختیار کر رہا ہے۔ ایک ماہر اقتصادیات ہرمن ڈیلی کہتا ہے کہ: ’’ہماری بنیادی غلطی ہماری یہ سوچ ہے کہ گویا زمین ایک تجارتی ادارہ ہے جو دیوالیہ ہو چکاہے کہ اس کے قرض خواہوں کو جو ہاتھ لگے، لے جائیں ‘‘لہٰذا ہم لوگ زمینی وسائل کے استعمال میں ’بے حس‘ ہو چکے ہیں ۔
(۲۷) دیکھیے حاشیہ نمبر (۲۵)
(۲۸) تھیلا ، دنیا کی ہر قوم کی ثقافت کا لازمی جز رہا ہے۔ گھر سے تھیلا لے کر کھانے پینے کی اشیا خریدنے جاناایک رچا ہوا رویہ تھا، جسے تمدنی جدیدیت نے منتشر کر دیا ہے ۔ اب لوگ ’ماڈرن‘ ہونے کا ثبوت دینے کے لیے راہ چلتے ’شاپر‘ میں ہی ساری چیزیں انڈیلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حتیٰ کہ دودھ دہی وغیرہ بھی ’شاپر‘ میں ڈلوا لیا جاتا ہے ۔ماحولیاتی آلودگی میں اس شاپر کلچر کا کتنا ہاتھ ہے، سبھی لوگ جانتے ہیں ۔ 
(۲۹) شہزاد احمد پاکستان کے معروف شاعر اور ادیب ہیں ۔ ان کے کئی شعری مجموعے منظرِ عام پر آچکے ہیں ۔شہزاد صاحب کی شاعری میں تفکر کے باوجود بوجھل پن نہیں آیا۔ نفسیات کو اردو دان حضرات تک پہنچانے کے لیے بھی انھوں نے قلم اٹھایا ہے ۔
(۳۰) سورۃ الاعراف میں ہے :’’ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ کہنے لگے، کیوں نہیں !‘‘
(۳۱) ایک موقع پر راقم نے ’’برگشتگی‘‘ کے عنوان سے یہ سطریں قلمبند کی تھیں :
’’حیات نے شاید
یقیں کے سارے لمحے!
چن لیے ہیں 
باقی زماں !
بے اعتباری ہے ‘‘۔ 
(۳۲) پلوٹارک ہمیں بتاتا ہے کہ :’’ ایسے شہر ملے ہیں جو بادشاہوں ، محلوں ، تہذیبوں کے نمونوں ، ادب اور تھیٹر سے محروم ہیں، لیکن کوئی شہر ایسا نہیں ملا جہاں عبادت گاہوں اور معبدوں کے آثارنہ ہوں ‘‘۔ خیال رہے پلوٹارک نے مشاہیرِ یونان اور روما پر قلم اٹھایا تھا۔ قدیم عہد کے اس مورخ کی تصنیفی کاوشوں سے فائدہ اٹھا کر ہی شیکسپیئر نے اپنے کرداروں کو اس انداز میں پیش کیا تھا کہ وہ لافانی ہو گئے، مثلاََ سیزر اور انطونی وغیرہ ۔ 
(۳۳) پروفیسر طارق محمود طارق، گورنمنٹ زمیندار کالج ،بھمبر روڈ گجرات میں شعبہ اردو سے منسلک ہیں ۔ شعر و شاعری اور تنقید و ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں ۔ نفسیات سے بھی ان کی علیک سلیک کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ موصوف نے تراجم بھی خاصی تعداد میں کر رکھے ہیں ۔ ان کے بارے میں بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ گجرات میں ’’دانشوری کا بھرم‘‘ انھی کے دم سے قائم ہے۔

ان کی پرکاری اور ہماری سادگی!

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓاس دنیا میں آ کر آنکھ کھو لی تو اسلامی دنیا مغرب کی چیرہ دستیو ں سے لہو لہان تھی ۔یعنی خلافت اسلامیہ (عثمانی) کا تیا پانچہ مغربی قزاقوں کے ہاتھو ں ہوئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔ نو عمری شروع ہوئی تو مغرب کے آپس میں ٹکرانے اور ب ہونے (جنگ عظیم دوم )کا منظر سامنے آیا ۔پھر اس کے نتیجے میں مغربی طاقتوں کی گرفت اپنے مقبوضات پر ڈھیلی پڑی تو تاریخ کا ایک نیا باب کھلنا شروع ہوا۔ مغرب کے مقبوضات چاہے اسلامی ہوں یا غیر اسلامی، ایک ایک کرکے اس کی گرفت سے آزاد ہوئے۔ اسلامی دنیا کا ایک حصہ جوکیمونسٹ روس کے پنجہء استبداد میں رہ گیا تھا، اللہ نے اس کے لیے آزادی کے اسباب غیب ہی سے پیدا کر دیے اور بیسویں صدی ختم ہونے سے پہلے ہی یہ حصہ بھی آزاد اسلامی دنیا میں شامل ہوگیا۔مگر پتہ چلا کہ آ زادی اصل میں وہ ہے جو زور بازو سے حاصل کی جائے ،نہ وہ کہ جو کسی کے دیے سے یا غیبی اسباب سے مفت مل جائے۔ ہماری اس نو آزاد دنیا کی آزادی وخود مختاری کی کیا اوقات ہے ؟ یہ ان دنوں امریکی خرمستیوں سے ایسی روشن ہوئی ہے کہ کسی مزید بیان کی حاجت نہیں۔ عالم اسلام کو پھر سے ایک نئی جدوجہد آزادی کاچیلنج درپیش ہے۔ اور جتنا بڑا ابتلا عالم اسلام کے لیے ہے اس کا ہم میں کے ہر فرد سے تقاضا ہے کہ اپنی اپنی حیثیت و بساط کے مطابق پوری سنجیدگی سے اس میں حصہ لے۔
امریکی خرمستیو ں کے پیچھے صیہونیت کا ہاتھ ہونا بھی کوئی ڈھکی چھپی چیز اب نہیں ۔ہم عام لوگ تو اس کو کہتے ہی رہتے تھے، ہمارے ارباب حکومت البتہ تکلف برتتے تھے، سو اس طبقہ پر بھی یہ تکلف بالآخر اتنا بھاری ہو ہی گیا کہ امسال او آئی سی کی دسویں سربر اہی کانفرنس (اکتوبر ۲۰۰۳ء) میں جب کہ ساری دنیا (اور خاص کر امریکی اور صیہونی) اسی طرف کو نظریں جمائے اور کان لگائے ہوئے تھی، صدر کانفرنس وزیر اعظم ملائیشیا مہاتیر محمد نے اپنی صدارتی تقریر میں اسے برطرف ہی کر دیا۔ مہاتیر نے صرف امریکہ ہی کے بارے میں نہ کہا کہ (صیہونی )یہودیوں نے اسے اپنے حق میں یرغمال بنارکھا ہے ،بلکہ دنیا (world)کالفظ اس کی جگہ بولا ۔
(Today the jews rule the world by proxy. They get others to fight and die for them.)
اور اس بیان کی سولہ آ نے سچائی سامنے آتے ذرا بھی جو دیر لگی ہو،یہودیوں کو کچھ زیادہ کرنا نہیں پڑا ۔بلکہ مہاتیر نے جس دنیا کی طرف اشارہ کیا تھا یعنی مغربی دنیا(امریکہ بشمول یورپ ) یہ پوری دنیا اسی لمحہ چیخ اٹھی کہ یہ کیسی بات کہہ دی گئی! یہ قطعاً ناقابل قبول (Totally unacceptable)ہے اور ان میں سے برطانیہ نے سب سے آ گے جاکر ملیشیائی سفیر کو باقاعدہ وزارت خارجہ میں طلب کر کے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار اس پر کیا ۔
الغرض عالم اسلام کی موجودہ آزمائشی اور ابتلائی صورت حال کا یہ وہ خاص پہلو ہے جسے کسی وقت بھی نظر انداز کرنے کی گنجائش نظرنہیں آتی۔جو طاقت دوسروں کو اپنے مقاصد وعزائم کے لیے اس انداز میں استعمال کرسکتی ہے کہ یہ اس کا آلہ کار بن کر لڑائیاں مول لیں اور جانیں دیں، اس کے لیے دنیا میں پھر اور کون سی تدبیر ی بات ہے جو مشکل یا اس سے بعید رہ جاتی ہو؟صاف الفاظ میں آپ کو یہ بھی بعید یا مشکل نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ خود آپ کو بھی استعمال کر سکتے ہیں۔نہیں، بلکہ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بارے میں ہم تقریباً یک زبان ہیں کہ یہ واقعہ اصل میں صیہونیوں کی کارروائی تھی جسے مسلمانوں کے سر تھوپ دیا گیا۔ مگر یہ کیونکر ہوا کہ ان کا کیا ہمارے سرلگ گیا ؟یہ ایسے کہ جیسے وہ دنیا پر by proxy حکومت کر رہے ہیں، ویسے ہی ۱۱ستمبر والے جہاز بھی انھوں نے ’’بائی پراکسی‘‘ اڑائے تھے اور ان کے یہ ’’پراکسی‘‘ ہمارے نوجوان تھے۔ خود سعودی عرب کو ،جہاں کے شہری یہ نوجوان بتائے گئے تھے، بالآخر ۱۵کے بارے میں تسلیم کر لینا پڑا ہے کہ اسی کے تھے اور اس کے جو نتا ئج سعودی عرب کو بھگتنا پڑرہے ہیں، وہ تھوڑے بہت ہمارے سامنے بھی اخبارات کے ذریعہ آرہے ہیں۔ اور یہ خود سعودی عرب میں خود کش دھماکو ں کا غارت گرانہ سلسلہ ادھر چلا ہے ،یقین کرنا چاہیے کہ یہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے تاکہ نتائج کے سلسلہ کو مطلوبہ انجام تک پہنچایا جاسکے۔ امریکہ کے خلاف بجاطور پر کھولتے ہوئے جذبات نے جس طرح عر ب نوجوانوں کو دشمن سازش کے جال میں پہنچایا ، ان جذبات کو عراق کے المیہ نے اور بھی جس عالم میں پہنچادیا ہے، وہ کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے ۔خودسعودی حکومت کی طرف ان برہم جذبات کا رخ بھی کوئی راز نہیں ہے۔پس سازشوں کی ماہر قوم کے لیے ذرا بھی مشکل نہیں رہ جاتا کہ ’دہشت گرد ی‘کی کارروائیاں وہ سعودی عرب کی سرزمین پر بھی خود سعودیوں ہی کے ہاتھوں کرائے ۔ 
پر افسوس کہ ہم، خاص کر ہمارے نوجوان، اپنے غم وغصہ میں اب تک بھی نہیں سمجھ پارہے کہ اس وقت غصہ کے حکم پر عمل کرنا دشمن کے ہاتھو ں میں کھیلنا ہے،بلکہ ہماراغصہ اور اضطراب اس وقت دشمن کاہتھیار بن گیا ہے۔ ہماراغصہ اور ہمارابے حد قیمتی جذبۂ جان سپاری دشمن کے کام آرہا ہے۔ وہ اس بہانہ سے ہمارے ہر ملک میں من مانی مداخلت کا حق حاصل کرکے اسے کھلی غلامی کا شکار ،اپنی طاقت کے بل پر ،بناڈالتا ہے ۔اپنی حکومتوں سے شکایت کتنی ہی بجا اور درست ہو (اور عراق کے خلاف ۱۹۹۱ء والی وہ امریکی کارروائی جس میں سعودی حکومت کی ہر حد سے گزری معاونت اور اس کے باقیات سے وہاں کے اہل دین کی شکایت اور اشتعال کاسلسلہ شروع ہوا ہے ،یہ راقم السطور اس معاونت کے ان اولین لمحات سے ناقد ہواتھا جب شاید ہی کوئی دوسری تنقید ی آواز سعودیہ میں یا اس باہر بلند ہوئی ہو، اور تنقید روز نامہ جنگ لندن کے ریکارڈ پر ان تائیدی بیانوں کے پہلو بہ پہلو موجود ہے جو بڑے بڑے اشتہارات کی شکل میں چھپ رہے تھے) لیکن یہ وقت کہ جب سعودیہ کے وجود کو انھی طاقتوں نے نشانہ پر رکھا ہواہے جن کے خلاف ہمارے سینو ں میں طوفان موجزن ہے، یہ وقت سعودیہ کے ساتھ کھڑے ہونے کاہے نہ کہ اس کے خلاف کارروائی کے لیے اس کو اچھاموقع سمجھنے کا ۔
۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے خونی ڈرامہ کا نشانہ عام طور پر افغانستان اور عراق کو سمجھا گیا ہے۔ مگر اس ڈرامہ کا خود اپنا کوئی پہلو اگر ایسا ہے جو کسی نشانہ کی نشاندہی کرتا ہو تو صرف ایک پہلو ہے جو بالکل صاف سعودی عرب کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ اور یہ ہے اس ڈرامہ کے مبینہ ۱۹ ہواباز وں میں سے کم ازکم پندرہ کاسعودی ہونا، جسے مان لینے پر سعودی حکومت بالآخر مجبور ہوگئی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا یہ محض اتفاق ہوسکتا ہے ؟ کیا امریکہ میں بسے ہوئے عربوں میں صرف سعودیوں ہی کو ہو ابازی کاشوق لاحق ہواتھا، دوسرے عرب نژاد امریکی باشند وں کو اس شوق کی بالکل ہوا نہیں لگی جو ڈرامہ کے ذمہ دار شاطروں کو سعودیوں ہی پر انحصار کرنا پڑا؟ اس نکتہ پر توجہ دیں تو صاف نظر آجاتا ہے کہ جس منصوبے کے ماتحت ۱۱ستمبر کا ہولناک ڈرامہ کھیلا گیا، اس کے نشانوں میں سعودی عرب سب سے اول طے شدہ نشانہ تھا ۔اور سعودی امریکی تعلقات کی رو سے چونکہ اس کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ، جیسا افغانستان یا عراق کے ساتھ بلا کسی ثبوت کے کر ڈالا گیا، نہیں کیا جاسکتا تھا، بلکہ کوئی معقول جواز پیدا کر نا لازم تھا کہ طوطا چشمی کی جاسکے ۔یہ ضرورت تھی جس کے لیے عربوں میں سے چھانٹ کر سعودی ہواباز ہی آلہ کار بنائے گئے۔اور ادھر واقعہ ہوا اور دوسرے دن سے سعودیہ کے ساتھ امریکہ کا جو رویہ بدلا ہے، وہ ہم دیکھ رہے ہیں اور ساری دنیا دیکھ رہی ہے ۔
کوئی اور سمجھا ہو یا نہ سمجھا ہو، سعودیہ نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ شاطرانِ دہر نے اسے نشانے پر لگوادیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ امریکی عفریت کے مقابلہ میں اپنے بچاؤ کی کوئی طاقت اس کے پاس نہیں ہے ۔اس لیے جنرل پرویز مشرف کی طرح سراپا ’’حاضر جناب‘‘ بن کر اگرچہ نہیں ،پھر بھی بڑی حد تک ’’تعمیل ارشاد‘‘ کردینے کا رویہ سعودی حکمرانوں نے اپنایا ہوا ہے تا کہ جان اونے پونے ہی چھوٹ جائے اور بات جہا ں جاسکتی ہے، اس کی نوبت نہ آئے۔ بے شک یہ صورت حال سعودیوں ہی کے لیے نہیں، ہر خود دار مسلمان کی خودی کو چیلنج ہے۔ مگر سوائے اس کے کہ ’’تعمیل ارشاد ‘‘ کے حدود اربعہ اور سائز پر گفتگو کی جاسکے، کیا کوئی دوسرا عملی راستہ بھی ہے جو ہم میں سے کوئی سعودی ذمہ داروں کو بتاسکے؟ کاش کہ ناراض سعودی عناصر اس بات کو سمجھیں کہ وقت حکومت کے رویہ کو چیلنج کرنے کا نہیں بلکہ خارجی دباؤ کے مقابلہ میں معاونت کی پیش کش کا ہے۔ یہی وہ واحد راستہ ہے کہ امریکہ کے سامنے حکومت کا جو جھکاؤ ہم گراں ہے وہ کچھ کم کرایا جاسکے ۔دوسری صورت میں بظاہر حالات ہم اس کے سواکچھ نہیں کرسکیں گے کہ امریکہ کو اس انداز سے اندر آجانے کا بہانہ فراہم کردیں جس انداز کی طلب میں نشانہ باندھنے والوں نے سعودیہ کا نشانہ باندھا تھا اور پھر (اللہ نہ کرے) ہم اپنے آپ کو موجودہ سے بھی بدتر صورت حال میں پائیں ۔ا م المؤ منین عائشہ صدیقہؓ ؓکا ایسے ہی آزما ئشی موقع کاارشاد ہے جس پر غو ر کیا جانا چاہیے، جو کہ حضر ت معاویہؓ ؓکے دور میں قتل حجرؓ ؓکے موقع پر آپ سے منقول ہوا ہے۔ فرمایا : لولا انا لم نغیر شیئا الا صارت بنا الامور الی ماھو اشد منہ لغیرنا قتل حجر (اگر یہ نہ ہوتا کہ ہم نے جب بھی معاملات کے کسی غلط رخ کو طاقت سے بدلنا چاہا تو نتیجہ اس سے بدتر ہی نکلا تو ہم حجر کے قتل پر ضرور کچھ کرتے !) یہ آپ نے ان لوگوں سے فرمایا تھا جو اس سانحہ پر آپ سے کسی اقدام کے متوقع تھے۔ 
سعودی عرب کے سلسلہ میں یہ بات پیش نظر رکھنے کی ہے کہ یہ اس عرب خطہ کی واحد مملکت ہے جس کی اور باتوں سے قطع نظر اس کا سیا سی استحکا م خطہ میں ایک مثال کا درجہ رکھتا ہے۔ مزید برآں ،حرمین شریفین کے حوالہ سے عظمت و تقدس کا ایک یگانہ مقام اسے حاصل ہے۔اس لیے یہ مملکت اگر( خدانخواستہ)اندرونی اور بیرونی دوطرفہ دباؤ کے نتیجہ میں عد م استحکا م کا شکار اور خلفشار کی نذر ہوتی ہے تو اس کے اس سے کہیں گہر ے نفسیاتی اثرات خطہ پر پڑیں گے جواثرات عراق کی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجہ میں دیکھ رہے ہیں ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ وہ اسرائیل جس کی خاطر یہ سارا ہنگامہ بپا ہے، اس کا ایک خواب ’عظیم ترین اسرائیل‘کا ہے جس کے نقشے میں مدینہ منورہ بھی آتا ہے۔ اس خواب کو اس ہنگامہ میں پورا کر لینے کا موقع اسرائیل کو ملے یا نہ ملے، خطہ کے نفسیا تی اثر کی بدولت اپنے موجودہ حدود میں اسے وہ من مانیت آسان تر بہرحال ہوجائے گی جس نے علاقہ کی زندگی پہلے ہی کچھ کم عذاب نہیں بنا رکھی ہے۔
الغرض اسلامی دنیا اور بالخصوص عربی دنیا کو مخالف حالات کے جس چیلنج کا سامنا ہے وہ ’’کھاؤں کہاں کی چوٹ بچاؤں کہاں کی چوٹ‘‘والا ایک پیچید ہ معاملہ ہے۔ اس کا کوئی ایک پہلو رکھ کر رد عمل کو حرکت دینا قرین عقل ومصلحت نہیں ہوسکتا۔مغربی دنیا جس سے ہم ایسے معاملات میں عرصہ سے زک اٹھاتے آرہے ہیں، خیال ہوتاتھا کہ وہاں اب جو لوگ ہم میں سے آبسے ہیں، انھوں نے اس دنیا کے طور طریقوں سے ان معاملات میں ضر ور کچھ سبق سیکھ لیا ہوگا ۔مگر ان آزمائش کے دنوں میں بڑی مایوسی ہورہی ہے۔ سعودی عرب جہاں کے اندرونی ردعمل کا ابھی حوالہ آیا ،وہا ں کے لوگوں کی بھی ایک تعداد دوسرے عرب ملک والوں کی طرح یورپ میں آبسی ہے ۔ان میں ایک گروہ ہے جو سعودیہ میں نظام کی تبدیلی چاہنے والوں سے تعلق رکھتا ہے اور لندن اس کا مرکز ہے ۔سعودیہ میں رہ کر اس مقصد کے لیے آزادانہ جدوجہد نہیں کی جاسکتی ہے ۔یورپ میں کہیں ٹھکانہ بناکر آپ سب کچھ کر سکتے ہیں ۔یہاں ایک جمہوریت کے ناتے اظہار خیال کی ایسی آزادی ہے کہ اللہ کی پناہ ۔دوسرے بہت دور کی سوچنے والے یہ لوگ ہیں ۔ہرملک کے ایسے گروہوں کو بڑے کام کی چیز سمجھتے اور ’’داشتہ آ ید بکار‘‘ کا معاملہ اس کے ساتھ کر تے ہیں ۔کسی ملک کی حکومت شکایت کرتی ہے کہ آپ کے زیر سایہ بیٹھ کر ہمارے خلاف یہ پروپیگنڈا ہورہا ہے تو چاہے وہ دوست ملک ہی کیوں نہ ہو ،بڑی آسانی سے عذر کردیتے ہیں کہ صاحب، ہم تو اپنے خلاف بولنے پر بھی پابند ی نہیں لگاسکتے ۔بہر حال ،جن دنوں ریا ض میں خود کش حملو ں کی وارداتیں ہوئیں، انھی دنوں میں ایک خبر پڑھی کہ اس گروہ کی کال پر ریا ض میں ایک حکومت مخالف مظاہرہ اتنے سو لوگو ں نے کیا۔ اناللہ واناالیہ راجعون،جن سے توقع کی جانی چاہیے تھی کہ جو پر جوش لوگ اس وقت حکومت کے لیے اندرون ملک مسئلہ بنارہے ہیں، یہ ان کو سمجھانا چاہیں گے کہ یہ وقت اس کا م کا نہیں ہے ،وہ تو خود بے چین ہیں کہ کسی طور پر اس میں خود بھی شرکت کر لیں۔مغر ب جو ہم پر حاوی ہے، اس میں آپ کبھی نہ دیکھیں گے کہ جب ملک کسی بیرونی طاقت کی طرف سے دباؤ میں ہو تو حزب مخالف اپنا حساب چکانے نکلے۔
مگر اپنے اس افسوس پر بعد میں خیا ل آیا کہ یہ تو پھر بھی وہ لوگ ہیں جنھوں نے باہر سے آکر یہا ں ڈیر ہ لگایا ہے۔ اپنا حال تو یہاں رشد ی کی خباثت کے بعد سے یہ ہے کہ وہ جو یہیں کی تعلیم پارہے یاپاچکے ہیں ،ان میں بھی کھیپ د رکھیپ ہمارے ایسے نوجوان دستیا ب ہیں کہ کفر کے خلاف جوش اور جذبہ کی بانسری بجاکر آپ انھیں کسی بھی مہم پر اسی ملک لگاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہاں ایک جماعت ’’حزب التحریر‘‘ کے نام سے قائم ہے ،جو خلافت اسلامیہ قائم کرنے کی علمبردار ہے۔ ذراغور کیجئے، یہ سرزمین برطانیہ جہاں سے نہ صرف خلافت کی آخری یادگار (ترکی )نشانہ بنی، بلکہ سارے عالم اسلام کی ہر وقت نگرانی بھی ہے کہ کہیں کسی اور اسلامی ملک کے افق سے تو یہ سورج پھر طلوع ہونے نہیں جارہا ہے! اور کہیں بھی ان کو شبہ ہوتا ہے تو فوراً اپنے اثرات اس امکان کی جڑ کاٹنے کے لیے استعما ل کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس کے باوجود یہا ں پر یہ نعرہ خلافت بلند کرنے والی جماعت مختلف مسلمان ملکو ں سے تعلق رکھنے والے یہیں کے پیدا نوجوانوں میں سینکڑوں کو اپنے نعرہ پر رقصاں کیے ہوئے ہے ۔اور ان کالجوں یونیورسٹیوں کے نوجوانو ں کی سمجھ اتنی موٹی بات کی طرف بھی نہیں جاتی کہ جو نعرہ مغرب والوں کو ہم مسلمانوں کے اپنے ملکوں میں خطرناک دکھائی دیتا ہے، اسے اپنے ملک میں گوارا ہی نہیں کررہے ،بلکہ جیسے کہ ’پرورش‘ کر رہے ہوں !
ٓٓٓٓٓٓٓاس جماعت کی طرف سے ہر طرح کا لٹریچر برسہا برس سے چھپتا اور آزادانہ تقسیم ہوتا ہے۔ جلسے جلوس ہوتے ہیں اور یہ سب محض خلافت اور اسلام کے حق میں ہی نہیں ہوتا، مغرب اور اس کی تہذیب، تاریخ اور افکارنظریا ت سے اظہار نفرت کو بھی اس میں بھر پور حصہ ملتا ہے۔پر کبھی جو روک ٹوک یہاں ہوتی ہو ۔اسی جماعت سے نکلا ہوا ایک گروہ ’’المہاجرون‘‘ کہلاتا ہے۔ وہ اپنے لیڈر کے فائر برانڈ (شعلہ بار ) ہونے کی وجہ سے حزب سے بھی چار قدم آگے ہے۔ اور ان سب کو پیچھے چھوڑنے والے مسجد فنسبری پارک لندن کے خود ساختہ امام ابوحمزہ مصری تو ساری دنیا میں معروف ہی ہوچکے ہیں جو ’’انصار الشریعہ‘‘نام کی جماعت چلاتے تھے۔ وہ بھی جب تک القاعدہ کے امریکی ہوّے نے ایک نئی پالیسی برطانیہ میں جاری نہیں کرادی، اپنی عام نصرت شریعت ہی نہیں ،خاص نصرت جہاد والی آتشیں انگریزی تقریر وں اور ٹی وی بیانوں مباحثوں کے باجود روک ٹوک سے محفو ظ نہیں تھے، برطانوی سوشل سیکورٹی سسٹم کے ماتحت دو سو پاؤ نڈ ہفتہ کا وظیفہ بھی سرکا ری فنڈ سے پارہے تھے جو اب اس بنیا د پر بند ہوا کہ ان کو عطاکردہ بر ٹش نیشنلٹی سلب کرلی گئی ہے۔ اوریہ وظیفہ کی عنایات کچھ جناب ابوحمزہ کے ساتھ مخصو ص نہیں تھیں، ان جماعتو ں کا جو شخص بھی سیکورٹی سسٹم کے ماتحت قانوناًحقد اربنتا ہو، وہ بالکل دوسرے حقدار شہریوں کی طرح اس طرح کے وظائف اور تمام لازمی شہری سہولتوں سے فیض یا ب تھا اور ہے ۔
یہ تینوں جماعتیں بھی (بلکہ گروپ کہیے ) جیسا کہ ان ناموں سے ظاہر ہورہا ہے ،ہیں تو ،سعودی گروپ کی طرح، اپنی اصل سے ،عربی ہی مگر ان تینو ں نے اپنے مبیّنہ مقصد کو کسی ملک کے ساتھ خاص نہیں کیا ہے اس لیے ان کے حلقہ میں کم وبیش ہر اسلامی ملک کی نمایند گی ہے ۔حزب التحریر اور المہاجرون کے سرگرم کارکنوں میں خاص طور سے پاکستانی اور بنگلہ دیشی نوجوان زیادہ نظر آتے ہیں۔ (وجہ شاید یہ کہ رشدی خباثت کے خلاف احتجاج دراصل برصغیر ہند ، پاکستان اور بنگلہ دیش والوں ہی کے جذبات سے عبارت تھا) ان نوجوانوں سے اگر یہ باتیں کہیے جو آپ کے لیے معما ہیں تو وہ اس پر غور کرنے کو تیار نہیں ہوں گے کہ وہ سادگی میں کسی کھیل کا شکا ر تو نہیں ہورہے ہیں،وہ کہیں گے یہاں کا قانون ہمیں ان باتوں کی آزادی دیتا ہے جو ہم کررہے ہیں۔اور یہاں کی یہی مجبوری ہے جو وہ روک ٹوک نہیں کرسکتی۔ مگر وہ یہ نہیں سوچیں گے کہ یہ قوانین نہ ان کے اپنے بنائے ہوئے ہیں، نہ ان کی بقا ان کے بس میں ہے ۔حتیٰ کہ اس ملک کی جو شہنشاہیت ہے، اور جس کے نام سے ہی تمام قانون سازی ہوتی اور ساراکاروبار حکو مت چلتا ہے،خود اس کا یہ حال بقول حکیم مشرق ہے کہ:
شاہ ہے برطانوی مندر میں اک مٹّی کا بت 
اس کو جب چاہیں کریں اس کے پجاری پاش پاش
یہ دراصل وہی ذہنیت ہے ،جسے بیمار کہیں یا بے شعور،جس کے ہم مسلمانانِ ہندوستان اسیر ہیں ۔ہندوستان کا دستور جس دستور ساز اسمبلی نے بنایا، اس میں مسلمان آٹے میں نمک کادرجہ رکھتے تھے۔پھرہندو مسلم بنیاد پر ملک کی تقسیم کے نتیجہ میں کم ہی ان میں وہ رہ گئے تھے جو بقیہ ہندوستان میں برابر کا حق جتانے کی اس ماحول میں ہمت دکھا سکتے ہوں۔ ایسے دستور کاکیرکٹر سیکولر رکھا جانا،یہ ہند و ممبران کی اپنی مرضی اور پسند کا نتیجہ تھا ۔ مگر ہمیں جب یہ بنی بنائی چیز ملی جس پر (Made by Hindus )لکھا ہو انہیں تھا اور لکھا جا بھی نہیں سکتا تھا، تو ہم نے سچ مچ سمجھ لیا کہ واقعی یہاں ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔ اور اس کے نتیجہ میں کوئی وہ عملی پالیسی اپنے لیے وضع نہیں کرسکے جو واقعی ہمیں سچ مچ برابر ی کی سطح کی طرف لے جاسکے۔چنانچہ جو دن گزرتا گیا، وہ برابری کی سطح سے نیچے ہی لیتا گیا ہے اور آج ہم ایسے کھلے مید ان میں خود کو کھڑا پارہے ہیں کہ جہاں سر پہ گویا آسمان بھی نہیں۔ امریکی خرمستیوں کے مقابلہ میں مسلم اقوام کی بے بسی پر آجکل اس بات کا کافی تذکرہ ہما رے یہاں ہے کہ ہما رے اسلحہ خانوں میں تو ہتھیا ر بھی انھیں کے دیے ہوئے ہیں، مقابلہ ہو تو کیسے ہو ۔قانونی اور دستوری اسلحہ کا معاملہ بھی اس سے کوئی مختلف چیز نہیں ہے ۔وہ اگر کسی ملک کے اندر آپ کا اپنا تیار کردہ نہیں ہے یا اس کی تیا ری میں برابر کا حصہ آپ کا نہیں رہا تو اس کے اوپر بھروسہ بھی ایک دن یقینااسی طرح پچھتاوے کا باعث ہو کے رہے گا جیسے آج اسلحہ جنگ کا معاملہ ہمیں رلا رہا ہے ۔برطانیہ میں جس قسم کے قوانین کا بظاہر تصو ر نہیں تھا اور جواب تک کی قانونی روش کی روشنی میں لا قانونیت کے ہم معنیٰ معلو م ہوتے ہیں ،وہ ادھر اس تیزی سے وجود میں آنا شروع ہوئے ہیں کہ اب نہیں کہا جاسکتا کہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا ؟اور قانون کی بات چھوڑیے ،عقل عام کیوں کر معاملہ کے اس پہلو سے بے اعتنائی روارکھ سکتی ہے کہ مغرب اگر اپنی سرزمین پر اسی خلافت اسلامیہ کے لیے جدوجہد کونہایت ٹھنڈے پیٹوں برداشت کررہا ہے جس کا مطلب اسلامی دنیا کا ایک سیاسی پیکر میں ڈھل جانا ہے ،تو یہ کیسے خالی ازعلت ہوسکتا ہے؟ بیشک ایسا ہوچکا ہے کہ فرعون کے محل میں موسیٰ کو پرورش ملی ۔ مگر اس مدت پرورش میں ایک معصوم موسیٰ تھے، وہ موسیٰ نہیں تھے جنہوں نے فرعون کے سامنے نعرہ حق بلند کیا۔ ایک دوسرا پہلو کہ وہ بھی عقل عام کو ایک تجسس(Curiosity) پر اکساتا ہے ، یہ ہے کہ القاعدہ کے ہوّے کے بعد سے ان جماعتوں کے بعض ارکا ن کسی نہ کسی درجہ کی گرفت میں آئے لیکن اس معاملہ میں لیڈروں پر الزام کی واضح گنجائش کے باجود صرف ایک ابو حمزہ پر تھوڑی سی آنچ آئی ہے۔وہ بھی اس منزل پر پہنچ کر کہ کیوبا کے Guantanamo Bay کیمپ میں جو چند برطانوی نوجوان طالبان کے ساتھ قید ہیں، ان کا سر ا ابو حمزہ سے ملنے کی پے بہ پے شہادتیں آتی گئیں۔ پھر بھی ان کے خلاف ایکشن کا جوانداز ہے، اس کی نیم دلی کو ،کم ازکم برطانیہ میں رہنے و الو ں کے لیے کسی بیا ن کی حاجت نہیں۔ جومسجد گزشتہ سال (۲۰۰۳) جنوری میں ان کی وجہ سے بند کی گئی، وہ اگلے ہی ہفتہ سے اس مسجد کے سامنے سڑک پر جمعہ کی نماز پڑھارہے ہیں۔ان کے شغل میں سڑک کے راہ عام ہونے کے حوالہ سے بھی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جاتی۔جبکہ پولیس کی نفری بھی اس موقع پر وہا ں متعین کی جا تی ہے !اور مسجد جو سال بھر ہونے کو آیا، اب تک نہیں کھل رہی، اس کی اصل وجہ جناب ابو حمزہ کی یہ چھوٹ ہے ۔
تو ہم اپنی معصومانہ اداؤں کو کیا کہیں؟اور کیا حق ہمیں زمانہ یا جور فلک سے شکوہ کا ہے ؟پاکستان وبنگلہ دیش یا سعودی عرب ومصر غیر ہ ہی نہیں، ہم برطانیہ وامریکہ والوں کے بیچ میں رہ کر بھی وہی رہنے کی گویا قسم کھائے ہوئے ہیں جن کی باریک چالو ں کی داد ایک دیدہ ور ان الفاظ میں دے گیا ہے:
یوں قتل سے بچو ں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسو س کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
’جہاد‘ اور ’اسلامی خلافت وحکومت‘ کے الفاظ ہماری وہ کمزوری ،ہماری سادگی اور ہمارے نامبار ک احساس محرومی ومظلومی کی وجہ سے بن گئے ہیں کہ ان کی صدا لگاکر جو بھی چاہے، ہمیں لوٹ لے جاسکتا ہے ۔ہم یورپ اور امریکہ میں دن بدن اپنی بڑ ھتی ہوئی تعد اد اورجمتی ہوئی جڑوں پر خوش تو ہوئے مگر چوکنّے پن سے بے نیازہونے کی بنا پر اس خطرہ کا کبھی بھی شاید نہیں سوچ سکے کہ ہمہ وقت چوکناّصیہونیت کو اس میں اپنے پروٹوکولی عزائم واہد اف کے لیے خطرہ نظر آئے گا اور اس لیے شاطر (Cunning ) ہر وہ کا م کرسکتے ہیں جس کے لیے یہاں کی فضا ناسازگار ہوجائے۔یہ ہماری کمزوریوں سے نہایت باخبررہنے کی کوشش کر تے ہیں ،ان کے ماہرین کی ریسرچ بڑی سرگرمی سے ہمارے سلسلہ میں جاری رہتی ہے ۔اور بلا شبہ یہ جتنا ہمیں جا ن گئے ہیں، ہم خود بھی اپنے کو اتنا نہیں جانتے ۔اور جہاں تک ان کو جاننے کا سوال ہے تو سوائے ہوائی اور خود ساختہ باتوں کے ہمارے پلّے کچھ بھی اور نہیں ہے ۔کم از کم برطانیہ میں جو تحریک خلافت ہے، اس کے بارے میں اگر ہمارا کوئی محنتی طالب علم ریسرچ پر لگ جائے تو اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہ رہ پا ئے گا کہ یہ سب پود انھی کی لگائی ہوئی ہے ۔
ہمارے بارے میں یہودی اور عیسائی ریسرچ کی کیا کیفیت ہے ،بہتر ہے کہ اس کی بھی دو مثالیں یہاں درج کردی جائیں۔گزشتہ روز دو کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ایک دیو بند پر امریکی مصنفہBarbara Metcکی کتاب Islamic Revival in British India; Deoband 1860-1900. جو اس نے ۱۹۷۲ء میں ہندوستان کا سفر کرکے لکھی۔ دوسری ابھی دو سال پہلے کی ایک فرنچ مصنف Gilles کی کتاب جہاد (Jihad) جو فرنچ سے انگریزی میں ترجمہ ہوئی۔ دیوبند سے اپنا پشتینی رشتہ hw،خو د پورے چار سال اس میں گزارے ،مگر اس کتا ب کو پڑھ کر جگر مراد آبادی مرحوم کا مصرعہ ذہن میں گھوم گیا:
غزل میں یہ وسعتیں کہا ں تھیں شعور فکرونظر سے پہلے 
دیوبند اسکول کا اس قد ر ہمہ گیر مطالعہ ہے کہ بیشتر جگہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس خاتون کو ہر ہر پہلو کی اتنی جزئیات سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے جبکہ واقعہ یہ ہے کہ میں دیوبند ی طالب علم بھی ،کیساہی مفصل کرانا چاہوں تب بھی ان میں کی بہت سی تفصیلات سے تعرض کوایک طول لاطائل سمجھوں گا۔ علیٰ ہذا جہاد پر فرنچ مصنف کی کتاب ،جس میں عالم اسلام کے تازہ جہادی رخ (Trend)کا مطالعہ کیا گیا ہے،اس کو پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ خود اپنی دنیا کے بارے میں ہم جیسے کم علم بھی جو بزعم خود خاصی واقفیت رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، کس قدر ناکافی ہے ۔ بڑے کتابی سائز پر ۴۰۰صفحہ کی یہ کتاب مشرق سے مغر ب تک کی اسلامی دنیا کا جہادی مطالعہ، ہر ہر بیان کے لیے حوالہ کے ساتھ پیش کرتی ہے ۔اور حوالے بظاہر ایسے کہ کسی استادی کا شک گزرنا مشکل۔
فرنچ مصنف کی اس کتاب کے ذکر پر یاد آیا کہ اسی میں ایک ایسا بیا ن ملتا ہے جسے اس مضمون کے شروع میں ظاہر کیے گئے اپنے ایک خیا ل کی تائید میں قرآنی الفاظ وشھد شاھد من اھلہا کا مصداق کہا جاسکتا ہے۔ مصر کے شیخ عبد الرحمان عمر (حفظہ اللہ تعالیٰ ) موجودہ جہادی ٹرینڈ کے معما روں میں سے ہیں اور جہاد افغانستان کے سرپرستو ں میں۔ جہاد افغانستان کی بدولت امریکی سی آئی اے سے ان کارشتہ جڑچکا تھا۔جب کہ اپنے ملک میں وہ حکومت کے لیے ناقابل برداشت۔مختصراً ،۱۹۹۱ء میں وہ (سوڈان کے بعد )پناہ کی طلب میں امریکہ پہنچے گئے اور اس کے بعد کی کہانی معلوم و مشہور ہے کہ ۱۹۹۳ء میں نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر بم واردات میں ملوث ٹھیر ا کر ان کا ٹھکانہ جیل کو بنادیا گیا ۔شیخ کو ملوّث کر نے کی کہانی بیا ن کرتے ہوئے جیلس کیپل نے کہا کہ ٹریڈ سینٹر کی واردات کا کام شیخ کے ارد گرد کے سادہ اور جذباتی لوگوں سے لیا گیا۔ مختصراًمسٹر کیپل کا کہنا ہے کہ جہا ں تک ان افراد کے تعین کا سوال ہے جنھوں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی واردات میں بر اہ راست حصہ لیا تو اس کے مقد مہ میں کیا گیا یہ تعین یقیناکسی شک کی گنجائش نہیں رکھتا ۔یہ تما م کے تمام شیخ سے قربت والے اور ان کی آتش ناک اینٹی امریکہ ومغرب تقریروں سے متأثر لوگ تھے ۔لیکن امریکن جسٹس ڈیپارٹمنٹ کا یہ دعویٰ کہ اس واردات کی سازش کا دماغ خود شیخ تھے، یہ آج بھی قابل گفتگو ہے بلکہ یہی نہیں کہ ایک نابینا شخص جس نے یہ سینٹر کبھی دیکھا نہ اس کے لیے آسان کہ ذہن میں اس کی شبیہ قائم کرے ،کیونکر اس کوٹارگٹ بنانے کے لیے چن سکتا تھا، اس کے وہ ساتھی بھی جو اس میں ملوّث ہوئے، نہ ذہنی طور پر امریکہ سے واقفیت کے اعتبار سے اس قابل تھے کہ ان کے ہاتھوں سے ایسی کامیاب ترین پیمانہ کی واردات بغیر بیرونی امداد کے عمل میں آنا سمجھ میں آسکے ۔چنانچہ مقدمہ کے دوران میں صفائی کے وکلا کی طرف سے اس ایک مصری مخبر کے کر دار کوبھرپور نمایاں کیا گیا تھا جسے امریکن ایجنسی FBI نے شیخ کے لوگوں میں گھسادیا تھا اور ملزمان کے ساتھ اس کی ریکارڈ شدہ گفتگو ثابت کر رہی تھی کہ اس نے ان لوگوں کو اس واردات کے لیے اچھی طرح اکسایا تھا ۔ (ص:۳۰۱)
پس یہ جو اوپر یقین کے ساتھ کہا گیا تھا کہ ۱۱ستمبرکی واردات جو بظاہر ہما رے ہی ہاتھوں سے ہوئی، یہ اصل میں اوروں ہی کی ’’بائی پراکسی‘‘ واردات تھی، ہم محض استعما ل ہوئے اور اس لیے ہوئے کہ سعودی عرب کو بھی نشانہ میں لینا تھا تو مسٹرکیپل کا مذکورہ بیان اسی طریقہ واردات کی ایک دوسری مثال بھی ہمارے سامنے لے آیا ہے ،کہ شیخ عمر کو جیل میں ڈالنا تھا، ان کے آدمی قابل مؤاخذہ کا م کے لیے استعما ل کر لیے گئے ،اور اس سے پہلے کی جو کارروائی شیخ کے ساتھ اس منزل کی طرف لیجانے کے لیے ہوئی،وہ بھی مختصراً سن لینے کی ہے۔ کیپل نے لکھا ہے کہ ایک طرف تو شیخ پر مہربانی کا یہ عالم تھا کہ امریکہ پہنچ کر جنوری۹۱ء میں انھوں نے درخواست دی اور اپریل ہی میں انھیں گرین کارڈ عطا ہوگیا۔یہ اس وقت تک کی بات تھی کہ کابل ابھی روسیوں ہی کے قبضہ میں تھا ۔مگر اس کے نگاہ بدلی تو شیخ جو حج (یا عمرہ) کے لیے مکہ گئے ہوئے تھے، واپس آئے تو پتہ چلا کہ وہ اپنی درخواست میں ایک جھوٹ کے مرتکب ہوئے تھے۔وہ یہ کہ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ Bigamist(ایک سے زائد بیویوں کے شوہر ) ہیں، پس اس بنیا د پر وہ گرین کارڈ سے محروم کردیے گئے ،اس پر شیخ نے سیاسی پناہ کی درخواست دی تو جیل شیخ کی پناہ ٹھیر ی ۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کاآسماں کیوں ہو ؟
شیخ سے دلی ہمدردی ہے ،مگر اس پر شرمند گی بھی بیحد ہے کہ جہاد کا شعلہ بار داعی، سرپرست ومربی اور امریکی طاغو ت پناہ کا طلب گار !اس کی طوطا چشمی کے بعد بھی ازسر نو طلبگار ! شیخ کے حال میں ہمارے لیے عبرت ہے کہ 
عصانہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد !

دینی مدارس کا نصاب تعلیم اور اس کی اہمیت و افادیت

مفتی محمد عیسی گورمانی

(۴ دسمبر ۲۰۰۳ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اساتذہ کے دو روزہ مشاورتی اجتماع کی پہلی نشست میں پڑھا گیا۔)

فارسی زبان وادب

درس نظامی میں سب سے پہلے جس زبان کو اولیت حاصل ہے، وہ فارسی ہے ا س لیے کہ عربی گریمر یعنی صرف ونحو کی بعض کتب فارسی میں لکھی گئی ہیں جو ہمارے نصاب میں داخل ہیں۔ نیز اکثر علوم وفنون کے تراجم، شروح اور حواشی فارسی میں ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ شروع میں اس معیار کی فارسی پڑھائی جائے کہ پیش آمدہ کتب اور ان کے تراجم، شروح اور حواشی کے پڑھنے میں آسانی ہو اور بخوبی ان کو سمجھا جا سکے۔ نیز مختلف موضوعات پر اکابر علما اور مشائخ ہند کی اکثر وبیشتر کتب فارسی میں ہیں۔ اگر شروع میں فارسی زبان میں رسوخ پیدا نہ ہو تو بعد میں اس کی تلافی مشکل نظر آتی ہے۔ ایک مستند عالم اگر فارسی نہیں جانتا، تو یہ بہت بڑی کمزوری ہے اور جو اپنے بزرگوں کے علوم وفنون سے استفادہ نہ کر سکے، تو یہ کتنی بڑی محرومی ہے۔
فارسی نصاب میں جن علما کی تالیفات کو شامل کیا گیا ہے، ان میں شیخ سعدیؒ ہیں۔ ان کی ابتدائی کتاب ’کریما‘ اور انتہائی کتب ’بوستان‘ اور ’گلستان‘ ہیں۔ شیخ شرف الدین بخاریؒ کی کتاب ’نام حق‘ کا وہ پایہ نہیں ہے جو زبان اور بیان کے اعتبار سے ایک درسی کتاب کا ہونا چاہیے۔ مصنف کی قبولیت اور مبتدی کے لیے طہارت اور نماز کے ضروری اور آسان مسائل نصاب میں اس کے داخل ہونے کا باعث ہوئے ہیں۔ شیخ فرید الدین عطارؒ کی کتاب ’پند نامہ‘ جس میں سلوک اور ہدایت کے راہنما اصول بیان کیے گئے ہیں، نصاب میں داخل ہے۔ اسی طرح مولانا جامیؒ اور علامہ نظامیؒ کی ’زلیخا‘ اور ’سکندر نامہ‘ پڑھائی جاتی ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ جس نے ’پندنامہ‘ پڑھا اور اسے درویشی اور معرفت حاصل نہ ہوئی، اس نے ’پندنامہ‘ نہیں پڑھا۔ جس نے ’بوستان‘ اور ’گلستان‘ پڑھی اور اسے تجربات عالم سے آگاہی نہ ہوئی، اس نے یہ کتابیں نہیں پڑھیں۔ اسی طرح جس نے ’زلیخا‘ پڑھی اور عشق مجازی سے عشق حقیقی تک رسائی حاصل نہ کر سکا، اور جس نے ’سکندرنامہ‘ پڑھا اور اس میں فنون حربیہ سے شناسائی اور جرات پیدا نہ ہوئی، اس نے یہ کتابیں نہیں پڑھیں۔
اس نصاب کی تکمیل پر حسب صلاحیت سال یا دو سال لگ جاتے ہیں۔ زبان دانی کے ساتھ اس میں تہذیب اخلاق اور اصلاح اعمال کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔

عربی صرف ونحو

فارسی نصاب کی تکمیل کے بعد عربی گریمر کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اس کے دو اہم جزو ہیں، علم صرف اور علم نحو۔ علم صرف میں عربی الفاظ اور ان کے اشتقاق کے بارے میں بحث ہوتی ہے، ساتھ ہی ان الفاظ میں جو تغیر رونما ہوتا ہے، اس کے اسباب معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے لیے کچھ قوانین اور ضوابط کی ضرورت پڑتی ہے۔ متعلم جب الفاظ کے اشتقاق اور اس کے متعلقہ قواعد میں مہارت پیدا کر لیتا ہے تو اس کے لیے صیغہ کی پہچان آسان ہو جاتی ہے۔ ’صیغہ‘ کہتے ہیں لفظ کی موجودہ شکل کو۔ علم صرف سے اس کی اصل ہیئت کا علم ہوتا ہے کہ یہ لفظ اصل میں کیا تھا اور اس میں یہ تبدیلی کیسے رونما ہوئی۔ نیز یہ مجرد ہے یا مزید، اور کس باب سے ہے۔ غرضیکہ اس کا کوئی گوشہ مخفی نہ رہے۔ ’صیغہ‘ کی پہچان علم ’صرف‘ کا مقصود اصلی ہے۔
علم صرف کے بعد علم نحو کا آغاز ہوتا ہے جس میں مفرد الفاظ کے بجائے جملہ اور کلام پیش نظر ہوتا ہے کہ اس میں ایک لفظ کا دوسرے سے کس طرح کا تعلق ہے۔ پھر یہ لفظ معرب ہے یا مبنی۔ معرب ہے تو اس پر کون سا اعراب ہے، رفع نصب، جر یا جزم۔ غرضیکہ الفاظ کی ترکیب، تعلیق اور اعراب اس علم میں مطلوب ہیں۔ عربی گریمر اور صرف ونحو کتنا عمیق علم ہے اور اس میں کس قدر محنت درکار ہے، اس کا کچھ اندازہ مندرجہ ذیل حکایت سے ہوگا۔
ابن جنی جامع موصل میں نحو پڑھا رہے تھے، وہاں سے ابو علی فارسیؒ کا گزر ہوا۔ انہوں نے ان سے علم صرف کا کوئی مسئلہ دریافت کیا۔ وہ جواب دینے میں کامیاب نہ ہوئے۔ ابو علیؒ نے کہا، تم نے کچے انگوروں کا منقیٰ بنا لیا ہے۔ اس دن سے ابن جنیؒ نے ابوعلیؒ کا دامن پکڑا حتیٰ کہ چالیس سال گزر گئے۔ جب ابو علیؒ فوت ہوئے تو ابن جنیؒ اپنے استاد کی مسند پر بیٹھے۔ ابن جنیؒ کے بارے میں متنبی کہا کرتے تھے کہ یہ ایک ایسا شخص ہے کہ اکثر لوگ اس کی قدر کو نہیں پہچانتے۔ ابن جنیؒ کبھی متنبی کے سامنے اس کے اشعار نہیں پڑھا کرتے تھے۔ وہ اپنے کو اس سے کہیں بڑا سمجھتے تھے۔
ہمارے سلسلہ تعلیم میں اس امر کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے کہ ایک درجے میں اچھی طرح مہارت حاصل کیے بغیر دوسرے درجے کی تعلیم کا آغاز نہ کیا جائے۔ علم نحو میں ’ماءۃ عامل‘ کے اشعار میں جو عوامل نحو ذکر کیے گئے ہیں، ان کی امثلہ اور تراکیب اچھی طرح حفظ کرا کے ’شرح ماءۃ عامل‘ شروع کرائی جائے۔ اس میں مسائل اور تراکیب کا مرحلہ اہم ہے۔ اس کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے کیونکہ نحوی ترکیب سمجھے بغیر عربی کا پڑھنا اور سمجھنا دشوار ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ نصاب کی مروجہ کتب پر انحصار نہ کیا جائے اور یہ کوشش کی جائے کہ فن کی نصابی کتب کے علاوہ ایک دو اور اضافی اور مفید کتابیں پڑھی جائیں۔ بعض علما ترکیب واعراب میں مبتدی کی استعداد بڑھانے کے لیے قرآن مجید کی کسی سورت یا پارہ کا انتخاب کرتے ہیں اور اس میں مبادئ ترکیب وقواعد نحویہ کا اجرا کراتے ہیں۔
’ہدایۃ النحو‘ ابو حیان اندلسیؒ کی تصنیف ہے۔ اس میں علامہ ابن حاجبؒ کی مشہور ومعروف کتاب ’کافیہ‘ کے مسائل کی تسہیل کی گئی ہے اور ان کی امثلہ اور شواہد کو واضح کیا گیا ہے تاکہ اس کے بعد پڑھی جانے والی کتاب جو اصل الاصول ہے، اس کے سمجھنے میں مدد مل سکے۔ اس کتاب میں وہ اکثر وبیشتر نحوی مسائل آ گئے ہیں جو ’کافیہ‘ میں ہیں۔ ’کافیہ‘ میں جس بات کو مد نظر رکھا گیا ہے، وہ عبارت کا ایجاز واختصار ہے۔ اس کے پڑھنے سے قبل ضروری ہے کہ اس کے مسائل پر عبور حاصل کر لیا جائے۔ ’کافیہؒ کی عبارت بہت پیچیدہ ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ ’کافیہ‘ میں اصل مقصود اس کی عبارت کا سمجھنا ہے۔ مسائل کا درجہ ثانوی ہے۔ بعض مدارس میں اس کی جگہ ’الفیہ ابن مالکؒ ‘ پڑھاتے ہیں جس میں مسائل نحویہ کو بمع امثلہ سہل انداز میں لایا گیا ہے۔ اس کے اشعار ضبط کر لینے سے کافی حد تک مسائل پر عبور حاصل ہو جاتا ہے۔ حفظ کر کے مشکل سے مشکل اعراب میں ’الفیہ‘ کے اشعار سے برجستہ استدلال کیا جا سکتا ہے۔ ’کافیہ‘ متن المتون کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے بعد اس کی شرح جو کہ ’شرح جامی‘ کے نام سے معروف ہے، مطالعہ کی کتاب ہے۔ ’کافیہ‘ کو سمجھ کر پڑھنے والا طالب علم ’شرح جامی‘ کے اکثر وبیشتر مطالب کو اپنے مطالعہ سے حل کر لیتا ہے۔ درس میں استاد کی تقریر سے اس کا اطمینان ہو جاتا ہے کہ مطالعہ میں، میں نے جوسمجھا تھا، وہ صحیح ہے۔ اس طرح مطالعہ کا شوق پیدا ہوتا ہے اور عادۃً مطالعہ سے مشکل مقامات حل کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
’شرح جامی‘ کے حواشی ’عبد الغفور‘، ’لاریؒ ، اور ’تکملہ ملا عبد الحکیم سیالکوٹی‘ سب میں مطالعاتی نظام ہے۔ اس سے علمی حقائق اور دقائق سے واسطہ پڑتا ہے جس کے توسط سے مشکل سے مشکل مقامات حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔

عربی ادب

محاورات عرب اور ان کے اسلوب میں کلام کرنا، محل وموقع کی مناسبت سے ضرب الامثال لانا، برجستہ موضوع پر خطاب کے لیے تیار رہنا، مختلف پیرایے میں بیان پر قدرت اس فن کا موضوع ہے۔ ادبی ذوق پیدا کرنے کے لیے ہر کتاب کے مناسب، اس کتاب کے الفاظ ومحاورات کا خیال کرتے ہوئے استاد اردو کی ایک سادہ عبارت املا کرائے اور متعلم اس کی تعریب پیش کرے۔ مثلاً ’نفحۃ الیمن‘ درس نظامی میں ادب عربی کی پہلی کتاب ہے جسے احمد یمنی نے تصنیف کیا۔ تیرہویں صدی کے ادیب تھے۔ مولانا رشید الدین خان دہلوی صاحب ’’المکاتیب‘‘ کے دوست تھے اور انہی کے توسط سے مولانا شاہ عبد العزیزؒ کے ساتھ بھی ان کی ادبی عربی خط وکتابت ہوتی رہتی تھی۔ ’نفحۃ الیمن‘ میں مختلف موضوعات پر عجیب وغریب حکایات تحریر کی گئی ہیں۔ تجربات کا خزینہ ہے۔ نحوی تراکیب کے لیے اس کی عبارات موزوں ہیں۔ ادبی کتب کی تدریس کے وقت زبان وبیان پر عبور حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ نحوی مشق کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے تاکہ متعلم اپنی ابتدائی کتابوں میں عبارت اور ترکیب میں کمال پیدا کر لے اور اسے آئندہ مطولات میں دشواری کا سامنا نہ ہو۔

علم معانی

اس علم سے مقصود یہ ہے کہ کلا م میں لفظی اور معنوی اصلاح کی جائے۔ اس میں کسی قسم کا عیب نہ ہو اور مقاصد اور مطالب کے لیے ایسا اسلوب بیان اختیار کیا جائے جس سے کسی قسم کا خفا باقی نہ رہے اور ترکیب ادا بھی حسین اور دل آویز ہو۔ اس علم کی نزاکت کو ایک حکایت سے سمجھا جا سکتا ہے۔
کسائیؒ نے کہا کہ عرب کہتے ہیں: ’ان الزنبور اشد لسعۃ من النحلۃ فاذا ہو ایاہا‘۔ سیبویہ نے کہا کہ یہ غلط ہے۔ مثل یوں ہے: ’فاذا ہو ہی‘۔ اس پر مناظرہ کی نوبت آ گئی۔ یہ طے ہوا کہ اس مثل کو کسی خالص اعرابی سے دریافت کر لیا جائے۔ فریقین کی تحقیق اور وسعت علم کا اس کو دارومدار ٹھہرایا گیا۔ خلیفہ امین نے جو کسائی کے شاگرد تھے، ایک اعرابی کو بلایا اور اس سے اس مثل کے بارے میں پوچھا۔ اعرابی نے سیبویہ کے کلام کی تائید کی۔ امین نے اس پر زور دیا کہ تم کسائی کے کلام کی تائید کرو۔ اعرابی نے جواب دیا کہ میری زبان سے غلط مثل نہیں نکل سکتی، اس لیے میری زبان پر ’فاذا ہو ہی‘ ہی جاری ہوتا ہے۔ امین نے کہا کہ مضائقہ نہیں، لیکن تم سے ایک شخص پوچھے گا کہ سیبویہ یوں کہتے ہیں اور کسائی کا یہ قول ہے، ان دونوں میں سے حق پر کون ہے؟ تم کہنا کہ کسائی حق پر ہیں۔ اعرابی نے کہا کہ ہاں یہ کہنا ممکن ہے۔ القصہ ’فاذا ہو ہی‘ اور ’فاذا ہو ایاہا‘ میں لفظی طور پر صرف ضمائر کا فرق ہے اور ضمیر بھی دونوں میں مونث ہے لیکن یہ اتنی بڑی نازک بات تھی کہ اس پر نحو کے دو اماموں کا مناظرہ ہوا۔
واضح رہے کہ قرآن عربی زبان میں ہے، جس ذات پر اتارا گیا وہ بھی عربی ہے، اس لیے عربی زبان کا اس کے قواعد وضوابط کے ساتھ اور محاورات کے توسط سے حاصل کرنا لازمی ہے۔ انا انزلنہ قرآنا عربیا لعلکم تعقلون (یوسف) ’’ہم نے اس کتاب کو عربی زبان میں نازل کیا تاکہ تم سمجھ سکو‘‘۔ بلسان عربی مبین (شعرا) ’’قرآن واضح عربی زبان میں ہے۔‘‘ وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ (ابراہیم) ’’ہم نے کسی رسول کو پیغام دے کر نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان کے موافق۔‘‘
ان آیات سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ پیغمبر اور اس پر نازل کردہ کتاب کی اصل زبان کا سیکھنا فرض ہے تاکہ علوم الٰہیہ اور علوم نبویہ کا علیٰ وجہ البصیرۃ کماحقہ ادراک کیا جا سکے۔ 
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
عربی علوم میں اس درجہ کے حصول کے بغیر قرآن وحدیث کا صحیح فہم پیدا نہیں ہو سکتا، چہ جائیکہ کوئی شخص اس سلسلے کا ہادی اور امین ہو۔ کتنا بڑا ظلم ہے کہ محض بی اے اور ایم اے کی سطح پر عربی کے امتحان پاس کر لینے والوں کو ’مولانا‘ کہا دیا جاتا ہے۔ 

علم فقہ

’فقہ‘ کہتے ہیں فہم وشعور کو۔ فقہا کی اصطلاح میں ’فقہ‘ ایک مشہور علم ہے جس میں احکام بیان کیے جاتے ہیں، خواہ وہ عبادات سے متعلق ہوں یا معاملات سے، قرآن مجید کی نصوص صریحہ یا احادیث صحیحہ کی واضح عبارات سے ثابت ہوں یا ان کا ثبوت قرآن وحدیث سے بطور استنباط کے کیا گیا ہو، یا اجماع اور قیاس کے واسطہ سے۔ ان سب امور پر فقہ کا اطلاق ہوتا ہے۔
دنیا میں نئے وقائع وحوادث کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ فقہی مسائل واحکام کا دائرہ ان کی نسبت بہت تنگ اور محدود ہے، لہٰذا داعیہ پیدا ہوا کہ فقہ کے ایسے قواعد وضوابط وضع کیے جائیں جن کی مدد سے ان مسائل کا استخراج واستنباط کیا جا سکے جو ابھی تک وجود میں نہیں آئے۔ ائمہ مجتہدین نے قرآن واحادیث کی روشنی میں اس طرح کے قواعد وضع کیے ہیں جن کو ’اصول فقہ‘ کہتے ہیں۔
جو شخص روایت اور درایت دونوں صفات سے متصف ہو، وہ فقیہ اور اصولی کہلانے کا مستحق ہے۔ صاحب ہدایہ فرماتے ہیں: ان یکون صاحب حدیث لہ معرفۃ بالفقہ لیعرف معانی الآثار او صاحب فقہ لہ معرفۃ بالحدیث لئلا یشتغل بالقیاس فی المنصوص علیہ۔ یعنی محدث ہو جو فقہ کی معرفت بھی رکھتا ہو تاکہ آثار واحادیث کے معانی کو اچھی طرح پہچان سکے، یا فقیہ ہو اور ساتھ اسے حدیث کی معرفت حاصل ہو تاکہ منصوص علیہ مسائل میں قیاس کے درپے نہ ہو۔
فقہ حنفی کی وہ کتب مطولہ جو روایت اور درایت پر مشتمل ہیں اور جن میں ادلہ، معاریض، مباحث اور مناظرہ ہے، وہ تین ہیں:
(۱) شمس الائمہ سرخسی کی ’’المبسوط ‘‘ جو نہ صرف دلائل اور براہین کا مجموعہ ہے بلکہ اس فقیہ نے مسائل اور مواقف راجحہ کی حکمت اور فضیلت بیان کرنے کا بھی التزام کیا ہے۔ عبارت نہایت فصیح، آسان اور قریب الفہم ہے اور ہر مسئلہ کو احادیث وآثار سے واضح کیا ہے۔ یہ خصوصیت کسی اور فقیہ کے ہاں دیکھنے میں نہیں آئی۔ یاد رہے کہ امام سرخسیؒ نے مبسوط کی پندرہ جلدیں اوزجند، خراسان کے جیل خانے میں، جو ایک بند کنویں کی شکل میں تھا، اپنی یادداشت سے املا کروائیں۔ ان کے تلامذہ کنویں کے دہانے پر بیٹھ کر اسے قلم بند کر لیتے تھے۔ باقی کی پندرہ جلدیں انہوں نے بالمشافہہ پڑھائیں۔ حاکم شہیدؒ نے امام محمدؒ کی کتب ستہ یعنی الجامع الصغیر، الجامع الکبیر، المبسوط، الزیادات، السیر الصغیر اور السیر الکبیر کی تلخیص کی اور اس کا نام ’’الکافی‘‘ رکھا۔ سرخسی کی ’’المبسوط‘‘ اس کی شرح ہے۔
(۲) ملک العلماء علامہ کاسانی کی ’’بدائع الصنائع ‘‘۔ انہوں نے اپنی اس اچھوتی تصنیف میں فقہ کے ایسے اصول قائم کیے ہیں جو ان شاء اللہ رہتی دنیا تک آنے والے حوادث کے لیے کافی ہوں گے۔ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ فرماتے ہیں کہ فتاویٰ شامیہ میں اگر فقہی جزئیات بکثرت پائے جاتے ہیں لیکن اگر جدید مسائل میں اصول وکلیات دیکھنے ہوں، تو اس کے لیے ’بدائع الصنائع‘ سے رجوع کرنا چاہیے۔
(۳) علامہ برہان الدین مرغینانی کی ’’الہدایہ‘‘ ۔ ائمہ اربعہ کے مابین دلائل کا تلاطم اور تسلسل، پھر امام اعظم ابو حنیفہؒ اور صاحبینؒ کے مابین دلائل کا توازن اور تبادلہ، اس کے بعد ترجیح، یہ ایسے پہلو ہیں جن سے قاری کو علم فقہ، اصول فقہ اور ساتھ ہی جدال بالاحسن کا فن آ جاتا ہے اور اسے سمجھ کر پڑھنے والا اس فن کا ماہر کہلاتا ہے۔ درس نظامی میں ’ہدایہ‘ کی چاروں جلدیں داخل نصاب ہیں۔

علم منطق

منطق، نطق سے نکلا ہے جس کے لغوی معنی بات کرنے اور بولنے کے ہیں لیکن مناطقہ کی اصطلاح میں اس کے معنی ’ادراک‘ کے ہیں۔ تنہا ادراک بھی منطق نہیں بلکہ کسی مسئلہ کو اس کے کلیات اور اصول کے ذریعے کماحقہ سمجھنا، بدیہی اور عقلی استدلال کے ذریعے مجہول اور نظری نتائج اخذ کرنا منطق کا موضوع ہے۔ اصل میں یہ یونانیوں کا مصطلح فن ہے۔ وہ اس کے ذریعے اہل اسلام میں تشکیک پیدا کر کے ان کو ان کے معتقدات سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرتے تھے تو ہمارے قدما اہل اسلام نے اس فن کو نصاب میں داخل کیا تاکہ ان کے استدلالات سے اسلامی اصولوں کو ثابت کیا جائے اور انہی کی منطق سے اسلام کے خلاف ان کے دعاوی کا رد کیا جائے۔ اسی سلسلے میں امام غزالیؒ کی کتاب ’تہافت الفلاسفۃ‘ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی کتاب ’الرد علی المنطقیین‘ ہے۔ مشہور ہے کہ اگر ایک شخص سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت نہیں کر سکتا تو وہ منطقی نہیں ہے۔ ہم اسے انقلاب استدلال سے تعبیر کرتے ہیں۔

تاریخ

یہ ایک طبعی اور فطری موضوع ہے۔ خوراک اور لباس کی طرح ہر حساس شخص کو اس سے پالا پڑتا ہے اس لیے تاریخ کی کسی اہم کتاب کو درس نظامی کے نصاب میں شامل نہیں کیا گیا، لیکن یہ ایک ایسا ضروری امر ہے کہ اس کے بغیر اسلامی تاریخ اور اسلامی سیاست کے موضوعات تشنہ رہ جاتے ہیں۔ اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ارباب علم کو اس میں افادیت کی حامل کتب کو داخل نصاب کر لینا چاہیے۔

دورۂ تفسیر

قطب عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی خدمت میں حضرت مولانا حسین علی (آف واں بھچراں، میانوالی) نے جب ۱۳۰۱ھ میں دورۂ حدیث کی تکمیل کی تو آپ نے انہیں ارشاد فرمایا کہ مولانا محمد مظہر نانوتویؒ سے قرآن کی تفسیر پڑھ لو، تو آپ نے مظاہر العلوم سہارنپور میں ۱۳۰۲ھ میں ان سے تفسیر پڑھی۔ حضرت مولانا حیدر حسن ٹونکیؒ فرماتے ہیں کہ مولانا محمد مظہر نانوتویؒ کا طریقہ یہ تھا کہ سب سے پہلے وہ علماے کرام کو تفاسیر متداولہ (مدارک، خازن، جلالین، بیضاوی) کا مطالعہ کراتے، پھر شاہ عبد القادر دہلویؒ کا ترجمہ اور اس کے حواشی ’موضح قرآن‘ کا درس دیتے تھے تاکہ اس ترجمہ اور اس کے حواشی کے فوائد کی قدرومنزلت کا پتہ چلے اور امام شاہ ولی اللہؒ اور ان کے خانوادہ کا فن تفسیر میں مقام معلوم ہو۔
امام شاہ ولی اللہ اپنے وصیت نامہ میں تحریر فرماتے ہیں: 
’’قرآن عظیم را درس گوید بایں صفت کہ صرف قرآن بخواند بغیر تفسیر وترجمہ گوید وہرچہ در اعراب وشان نزل مشکل باشد متوقف شود وبحث نماید وبعد از فراغ تفسیر جلالین را بقدر درس بیند۔ دریں طریق فیضہا است‘‘
یعنی قرآن مجید کا اس طرح درس دیں کہ تفسیر کے بغیر صرف ترجمہ بتلائیں اور نحو یا شان نزول میں جہاں مشکل ہو، ٹھہر جائیں اور تحقیق کریں۔ اس سے فراغت کے بعد تفسیر جلالین کا درس کی مقدار مطالعہ کریں۔ اس طریقے میں بہت فیوض ہیں۔
حضرت مولانا محمد مظہر نانوتویؒ کے توسط سے حضرت مولانا حسین علیؒ کو فن تفسیر کا فیضان الٰہی نصیب ہوا اور وہ عمر بھر قرآن کا درس دیتے رہے۔ وہ توحید کے مبلغ اور داعی تھے اور ان کا فیض جاری وساری ہے۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ کے حکم سے حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے دہلی میں ’نظارۃ المعارف‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس میں ولی اللٰہی طریقے پر قرآن کی تفسیر اور ان کی کتاب ’حجۃ اللہ البالغہ‘ دو اہم موضوع تھے۔ حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ چھ ماہ میں تفسیر مکمل کراتے تھے۔ مولانا ابو الکلام آزادؒ نے کلکتہ میں ’دار الرشاد‘ کے نام سے قرآنی ادارہ قائم کیا اور علماے کرام کے لیے چھ ماہ میں سورہ فاتحہ کا درس ہوتا تھا۔ اس ترتیب اور طریق تعلیم کو دورۂ تفسیر کہتے ہیں اور امام شاہ ولی اللہؒ اس کے موجد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہند وپاک میں امام شاہ ولی اللہؒ کے دیگر آثار وتبرکات کی طرح دورۂ تفسیر بھی معمول بہ ہے۔

دورۂ حدیث

آج سے تین سو سال قبل دورۂ حدیث مشکوٰۃ شریف تک پڑھایا جاتا تھا اور شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ کی شروح کے مطابق اس کی تفصیل وتحقیق کی جاتی تھی۔ حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے صحاح ستہ اور موطا امام مالک کو دورۂ حدیث کے نصاب میں شامل کر کے احادیث نبویہ کی حتی الوسع بڑی خدمت سرانجام دی ہے اور اس کے بعد دیگر کتب احادیث کو مطالعہ پر موقوف رکھا ہے۔

تکمیل

تکمیل سے ہماری مراد درج ذیل امور ہیں:
۱۔ ہر فن کی انتہائی کتب، مثلاً امور عامہ، متن متین اور شرح چغمینی وغیرہ۔
۲۔ تخصص فی الفقہ والافتاء، تخصص فی الحدیث، تخصص فی الکتابۃ والانشاء، تخصص فی المجادلۃ مع الفرق الباطلۃ 
۳۔ مشائخ صوفیہ مثلاً امام غزالیؒ ، شیخ ابن عربیؒ ، امام مجدد الف ثانیؒ ، مولانا رومیؒ ، امام شاہ ولی اللہؒ ، قاسم العلوم والخیرات مولانا محمد قاسم نانوتویؒ وغیرہ کی کتب میں تحقیق وتفتیش۔
۴۔ قومی زبان میں تحریر وانشا اور تصنیف وتالیف میں تخصص
الحاصل درس نظامی کے نصاب میں دیگر علوم اصول فقہ، علم کلام، فلسفہ وغیرہ موضوعات کی اہم کتب داخل ہیں۔ ہماری گفتگو کا موضوع درس نظامی اور اس میں پڑھائے جانے والے علوم کی افادیت ہے، درس نظامی میں شامل کتب پر سیر حاصل تبصرہ نہیں۔ اس نصاب کی تکمیل سے ایک شخص اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ خلق خدا کی راہنمائی کرے، علم وعمل کی راہ پر چل کر اپنے آپ کو بطور نمونہ پیش کر سکے۔ درس نظامی ایک ایسا نصاب ہے جسے صدہا سال سے بطور تجربہ پڑھا گیا اور پڑھایا جاتا رہا ہے۔ اس پر عبور حاصل کرنے سے اس قدر خداداد قابلیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ تنہا اسلام پر کیے گئے مطاعن کا جواب دے سکتا ہے اور اس سے وہ ملکی امارت اور خلافت کا بھی استحقاق رکھتا ہے۔
اس نصاب میں تبدیلی بایں معنی کہ جس زبان میں قرآن اترا ہے، وہ زبان بدل دی جائے اور ادب قدیم کے بجائے ادب جدید پڑھایا جائے، یہ علم نہیں ہوگا بلکہ جدید قسم کی جہالت ہوگی، البتہ یہ ضروری ہے کہ ادب جدید اور ادب قدیم دونوں سے استفادہ کیا جائے۔ مکالمہ اور محادثہ، مراسلت اور مقالات اور روزہ مرہ معاملات میں ان سے کام لیا جائے۔

حفظ وضبط

بعض اہل علم یہ خیال کرتے ہیں کہ العلم دانستن، یعنی علم جاننے کا نام ہے جبکہ حفظ کرنا ایک اضافی امر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ اس سلسلے کی بہت بڑی کاہلی اور کمزوری ہے۔ اگر کسی جگہ ہنگامی طور پر حالات حاضرہ کے متعلق کچھ بیان کرنے کی نوبت آئے تو ایسے لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کی بہت بڑی کوتاہی ہے۔ اور کچھ نہیں تو کیا موضوع سے متعلق قرآن مجید کی آیات اور احادیث نبویہ سے آنحضرت ﷺ کے چند فرامین اپنی یادداشت سے نہیں سنا سکتے؟ یہ تو پھر وہی بات ہوگی جس پر اللہ تعالیٰ نے یہود ونصاریٰ کی مذمت کی ہے: ونسوا حظا مما ذکروا بہ (مائدہ) ’’وہ اپنی کتاب میں سے اس قدر حصہ بھول گئے جس میں ان کو خدا کی یاد دلائی گئی تھی۔‘‘ قرآن وحدیث کا اچھا خاصا حصہ یاد کر کے اسے بار بار دہرانا چاہیے۔ اس یادداشت کو ہم مطالعہ سے تعبیر کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کی ذمہ داری انبیا، ربانیین اور متبحر علما کے سپرد کی ہے۔ ’ربانی‘ کہتے ہیں اس فقیہ عالم کو جو اپنے علم پر عمل پیرا ہو، جو خلق خدا کی تربیت کر کے انہیں ابتدائی مدارج سے انتہائی مدارج پر پہنچا دے۔ ’حبر‘ کہتے ہیں اس ماہر اور کامل عالم کو جو اپنے شعبہ میں مثالی ہو۔ انہی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کا گواہ ٹھہرایا ہے۔ یحکم بہا النبیون الذین اسلموا للذین ہادوا والربانیون والاحبار بما استحفظوا من کتاب اللہ وکانوا علیہ شہداء (مائدہ) 
قرآن وحدیث میں مہارت تامہ حاصل کیے بغیر اور کسی استاد اور شیخ کامل سے کسب کمال کے بغیر ایسا شخص خلق خدا کی رشد وہدایت کا اہل نہیں ہو سکتا۔ امتحانی حد تک کسی زبان میں ڈگری یا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا، اردو لٹریچر پڑھ کر ازخود مجتہد اور مفسر بن جانا ایسا عہدہ نہیں کہ اسے خدا تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز کا ترجمان یا ذمہ دار ٹھہرایا ہو۔ حاشا وکلا۔ ایسا شخص تو مندرجہ ذیل حدیث کا مصداق ہوگا:
قال رسول اللہ ﷺ ان اللہ لا یقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی اذا لم یبق عالما اتخذ الناس رء وسا جہالا فسئلوا فافتوا بغیر علم فضلوا واضلوا (متفق علیہ)
’’آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے عطا کردہ علم یوں واپس نہ لے گا کہ زبردستی چھین لے، بلکہ علما کی موت کی صورت میں علم کو واپس لے لے گا۔ حتیٰ کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کسی عالم کو باقی نہ رکھے گا یا کوئی عالم دنیا میں باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا راہنما بنا لیں گے، ان سے مسائل دریافت کیے جائیں گے تو وہ بغیر علم اور فہم کے فتویٰ دیں گے۔ خود بھی گمراہی میں پڑ جائیں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘
ملا علی قاری نے لفظ ’رء وس‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے مراد خلیفہ، صدر، قاضی، مفتی، امام، شیخ اور پیر ومرشد ہیں۔ یعنی لوگ جاہلوں کو صدر مملکت، حاکم، مفتی، امام اور پیشوا تسلیم کر لیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نیچری طبقہ جو قرآن وحدیث کو اپنی خام خیالی اور ناقص عقل کے ترازو میں تولنے کا روادار ہے، اسی طرح ان کے دم چھلے قادیانی، پرویزی اور ان کے ہم نوا ملحد فرقے سب اسی شجرہ خبیثہ کی شاخیں ہیں۔ اعاذنا اللہ منہا

تعلیم وتربیت

اللہ تعالیٰ نے خلق خدا کی تعلیم وتربیت کا جو طریقہ ارشاد فرمایا ہے، وہ صحیح اور فطری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے حق میں اسے تجویز کیا ہے۔ وہ ہے مربی کا تلاوت کے ذریعے سے تزکیہ اور کتاب وسنت کی تعلیم۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ کی سیرت اور سنت، جس سے بڑھ کر کوئی چیز باعث ہدایت نہیں ہو سکتی۔ کیا انسان کے بنائے ہوئے کورس سے یہ کم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی موعظت پر عمل کریں، قرآن کی شفا میں اپنی بیماریوں کا علاج تلاش کریں، اس کی بتلائی ہوئی راہ پر چلیں اور اس کی رحمت کے سزاوار ہوں جس سے بڑھ کر کوئی فضل ورحمت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں خشیت، تقویٰ اور اخلاص کا درس اصالتاً موجود ہے اور آنحضرت ﷺ کی زندگی کے ادوار واطوار ہمارے لیے کافی وشافی ہیں۔ ان میں صرف مربی کے توجہ دلانے سے خود، آگاہی اور شعور حاصل ہو جاتا ہے۔ کتب عقائد وفقہ میں اصلاح اعمال کے زریں اصول موقع بہ موقع موجود ہیں۔ ذرا سی توجہ کی ضرورت ہے۔ علم معانی اور علم ادب کا نصاب مربی اور استاد پر منحصر ہے۔ اگر وہ صاحب اصلاح اور احوال تربیت سے واقف ہے تو تذکرہ وتبصرہ کے طور پر ان علوم سے مستفیدین کے مناسب حال بہترین نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ ان چیزوں سے اگر وہ اثر نہیں لیتا تو پھر اور کون سا موثر کلام اور عمل ہو سکتا ہے جس سے وہ راہ راست اختیار کرے گا۔ ہر چیز کے لیے رسمی کورس اور تیاری کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ایسی چیزیں تو مطالعہ اور تجربہ سے حاصل ہو جاتی ہیں۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ مستفیدین بھی مستعد اور باصلاحیت ہوں۔ درس نظامی میں سارے تعلیمی مرحلے درجہ بدرجہ تہذیب اخلاق اور اعمال کے ساتھ طے ہوتے ہیں تو تعلیم وتربیت کے لیے مستقل نصاب کا رسمی تعین اور مستقل استاذ کا انتخاب بے معنی معلوم ہوتا ہے۔

دینی مدارس کا نظام تربیت ۔ چند اصلاح طلب پہلو

ڈاکٹر محمد امین

(۴ دسمبر ۲۰۰۳ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اساتذہ کے دو روزہ مشاورتی اجتماع کی دوسری نشست سے خطاب۔)

الحمد للہ وکفی والصلوۃ والسلام علی نبی الہدی۔ اما بعد۔ قال سبحانہ وتعالی فی کتابہ الکریم ’کما ارسلنا فیکم رسولا منکم یتلوا علیکم آیاتنا ویزکیکم ویعلمکم الکتاب والحکمۃ‘۔ وقال النبی ﷺ ’ادبنی ربی فاحسن تادیبی‘
حاضرین کرام!
مجھے جب عمار ناصر صاحب نے بتایا کہ وہ دینی مدارس کے اساتذہ کی ایک مجلس مشاورت رکھنا چاہ رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ بتایا کہ انہوں نے میرے لیے ’’تربیت طلبہ‘‘ کا موضوع تجویز کیا ہے، تو میں نے ان سے کہا کہ میرے ذہن میں تو کچھ اور باتیں تھیں جن کو اس موقع پر بیان کرنا میں زیادہ مناسب سمجھتا تھا، تاہم جب آپ نے ایک چیز طے کر لی ہے اور چھپا ہوا پروگرام بھی لوگوں کو بھجوا دیا ہے تو اب مجوزہ عنوان پر ہی اپنی معروضات پیش کروں گا۔
البتہ تمہیداً دو باتیں عرض کرنا ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ مجھ سے پہلے مولانا زاہد الراشدی صاحب نے دینی نظام تعلیم میں اصلاح کے حوالے سے کچھ باتیں کہی ہیں لیکن انہیں میرے مقابلے میں ایک advantage حاصل ہے، اور وہ یہ کہ چونکہ وہ دینی مدارس کے نظام سے براہ راست متعلق ہیں، اس لیے اگر وہ اس نظام میں اصلاح یا اس کے نہج میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو وہ کسی حد تک قابل قبول یا کم از کم قابل برداشت ہوتی ہے۔ میرا معاملہ یہ ہے کہ میں مدارس کا نہیں بلکہ کالج اور یونیورسٹی کا آدمی ہوں، اور دینی مدارس کے لوگ یہ تاثر لے سکتے ہیں کہ یہ کوئی باہر کا آدمی ہے جو ہم پر تنقید کر رہا ہے۔ میں اس تاثر کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں۔ میں بھی عربی اور اسلامیات کا آدمی ہوں، ساری عمر یہی مضامین پڑھتے پڑھاتے گزری ہے، صرف میدان عمل اور پلیٹ فارم کے بدل جانے سے آدمی ’’باہر‘‘ کا آدمی نہیں بن جاتا۔ ہمارا موضوع ایک ہے، مقصد ایک ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ مدرسے میں پڑھاتے ہیں اور میں یونیورسٹی میں کام کرتا ہوں۔ چنانچہ میری گزارشات کو کسی باہر کے آدمی کی تنقید یا تنقیص نہ سمجھیے۔ میں بھی آپ ہی میں سے ہوں، آپ سے محبت کرتا ہوں، آپ کا احترام کرتا ہوں اور آپ کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھتا ہوں اور اسی حوالے سے ان پر غوروفکر کرتا ہوں۔ 
دوسری بات یہ ہے کہ دینی مدارس کے موجودہ نظام میں اصلاح کی بات کرنے والے دو گروہ ہیں۔ ایک تو بیرونی قوتیں اور ان کے مقامی ایجنٹ ہیں جو مدارس میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ اور دوسرے کچھ اندر کے لوگ بھی ہیں جو اس نظام کو بہتر بنانے کے لیے کچھ تغیرات چاہتے ہیں۔ تو ان دونوں کی پوزیشن میں فرق کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ باہر کی قوتیں دینی مدارس کے نظام میں تبدیلی اپنے دین دشمن مقاصد کے تحت چاہتی ہیں، جبکہ ہم لوگ اگر تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو دینی مقاصد کی بہتری کے لیے کرتے ہیں۔ مولانا زاہد الراشدی صاحب یا میں اگر موجودہ دینی نظام تعلیم سے کوئی اختلاف کرتے ہیں تو اس سے مقصود ہرگز اس کی تنقیص یا اسے نقصان پہنچانا نہیں ہوتا بلکہ پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ یہ کام پہلے سے بہتر اور عمدہ طریقے سے انجام پائے، اور دینی مدارس میں ایسے علما تیار ہوں جو معاشرے میں زیادہ موثر دینی کردار ادا کر سکیں۔ لہٰذا کھرے اور کھوٹے میں فرق ملحوظ رکھیے۔ یہاں تو اب یہ حالت ہے کہ 
ہر بو الہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی
تو یہ بات ذرا ذہن میں رکھیے کہ ہم لوگ مدارس کے خیر خواہ ہیں، تبدیلی کی کوئی بات کرتے ہیں تو پیش نظر مخلصانہ اصلاح ہوتی ہے۔ ہم وہ لوگ نہیں ہیں جو باہر سے بیٹھ کر توپ وتفنگ سے کام لے رہے ہوں تاکہ خدانخواستہ یہ نظام برباد اور ختم ہو جائے۔

’تربیت‘ کا مفہوم اور اہمیت

اب میں اپنے اصل موضوع یعنی ’تربیت طلبہ‘ کی طرف آتا ہوں۔ سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنے کی ہے کہ تربیت کیا ہے اور اس سے مقصود کیا ہے؟ جس چیز کو ہم تعلیمی اصطلاح میں ’تربیت‘ کہتے ہیں، شرعی اصطلاح میں اسے ’تزکیہ‘ کہا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے میں نے آپ کے سامنے جو آیت کریمہ تلاوت کی، وہ تزکیہ سے متعلق ہے۔ تزکیہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ زک و ہے۔ اس کے دو معنی ہوتے ہیں: ایک کسی چیز کو پاک صاف کرنا اور دوسرے اس کو کو جلا دینا اور پروان چڑھانا۔ گویا جب ہم تزکیہ نفس کی اصطلاح استعمال کریں گے تو مطلب یہ ہوگا کو نفس کو عقائد واعمال اور اخلاق وکردار کی ساری کمزوریوں سے پاک کرنا اور ان کی جگہ ان خوبیوں کو پروان چڑھانا جو کہ شریعت کو مطلوب ہیں۔ اچھا کیا ہے، برا کیا ہے، کن اخلاق واوصاف کو پروان چڑھانا ہے اور کن چیزوں سے بچنا ہے؟ اس کافیصلہ شریعت کرتی ہے۔
اس تزکیہ کی اہمیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ جتنے پیغمبر بھی اس نے بھیجے، وہ لوگوں کے تزکیے کے لیے ہی بھیجے۔ سورۃ الاعلیٰ میں ہے کہ ’قد افلح من تزکی فذکر اسم ربہ فصلی........ ان ہذا لفی الصحف الاولی صحف ابراہیم وموسی‘ یعنی صحف ابراہیم وموسیٰ میں بھی یہی بات کہی گئی تھی کہ لوگوں کی فلاح کا دار ومدار تزکیہ (اور عبادت وترجیح آخرت) پر ہے۔ اسی طرح سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ ’اذہب الی فرعون انہ طغی فقل ہل لک الی ان تزکی‘ یعنی فرعون کے پاس جاؤ کہ وہ سرکش ہو گیا ہے اور اسے تزکیہ اختیار کرنے کی تلقین کرو۔ (النازعات ۷۹:۱۷) نبی کریم ﷺ کی ڈیوٹی بھی اللہ تعالیٰ نے یہ لگائی کہ لوگوں کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیں اور ان کا تزکیہ کریں۔ قرآن حکیم میں یہ بات چار مواقع پر بیان ہوئی ہے۔ سورہ جمعہ میں، آل عمران میں اور دو دفعہ سورۂ بقرہ میں۔ ایک جگہ پر آپ کی ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے تزکیہ کا ذکر شروع میں ہے اور دوسری جگہ آخر میں، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جو چیز اول وآخر مطلوب ہے، وہ تزکیہ ہی ہے۔ ویسے بھی تعلیم کا مطلب ہوتا ہے علم کاحصول اور کچھ چیزوں کا جاننا۔ ظاہر ہے کہ کسی چیز کا علم یا کچھ معلومات کا جان لینا اصل مقصد نہیں ہوتا بلکہ اصل مقصد تو اس علم پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ تعلیم سے مقصود بھی تزکیہ ہی ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، ’قد افلح من زکاہا وقد خاب من دساہا‘۔ یعنی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا، وہ کامیاب ہے اور جس نے یہ نہ کیا، وہ ناکام ہے) (الشمس ۹۱:۹، ۱۰) تو تزکیہ کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ہماری فلاح کا ضامن ہے۔ فلاح کیا ہے؟ فلاح اسلام کا ایک جامع تصور اور اصطلاح ہے۔ اس میں دین اور دنیا دونوں کی کامیابی شامل ہے۔ کامیابی یہ ہے کہ آدمی آخرت میں سرخرو ہو اور دنیا کی زندگی اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے گزارے۔ گویا تزکیہ یہ ہے کہ نفس انسانی کی ایسی تربیت ہو کہ اس کے لیے اللہ کے احکام کی اطاعت آسان ہو جائے، اور شریعت کی پیروی اس کی طبیعت بن جائے۔ 
دیکھیے! انسانی نفس کی جو ساخت اور بناوٹ ہے، اس میں خیر اور شر دونوں شامل ہیں۔ ’فالہمہا فجورہا وتقواہا‘(الشمس ۹۱:۸) یعنی انسان میں اللہ تعالیٰ نے نیکی کے جراثیم بھی رکھے ہیں اور برائی کے بھی۔ انسان جس پہلو کو ترقی دیتا ہے، وہی اس کی شخصیت پر غالب آ جاتا ہے۔ اس بات کو نبی کریم ﷺ نے یوں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو فطرت پر پیدا کرتا ہے لیکن والدین اور ماحول کسی کو یہودی اور کسی کو عیسائی بنا دیتا ہے۔ تو ماحول کے ان منفی اثرات کے ازالہ کے لیے انسانی جبلتوں، محرکات، عواطف اور مدرکات، ان سب کی صحیح تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی ان کی اس طریقے سے نشوونما کہ خیر کا پہلو بڑھتا جائے اور اس کی نمو ہوتی جائے، جبکہ انسانی شخصیت کا حیوانی پہلو جو فجور کا پہلو ہے، وہ دبتا چلا جائے۔ نفس انسانی کے سارے ذہنی، فکری اور جسمانی قویٰ کی ایسی نشوونما بے حد اہم ہے کیونکہ جب تک آدمی کی صحیح تربیت نہ ہو، وہ نہ اسلام نہ لا سکتا ہے اور نہ اسلامی احکام پر کماحقہ عمل کر سکتا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیے کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ میں، جب مسلمانوں پر بہت کڑا وقت تھا، دو آدمیوں یعنی حضرت عمر اور ابوجہل کے لیے ہدایت کی دعا فرمائی کہ یا اللہ، ان میں سے کسی ایک کو قبول اسلام کی توفیق عنایت فرما۔ تو ایک کے بارے میں دعا قبول ہو گئی جبکہ دوسرے کے بارے میں نہیں ہوئی کیونکہ قبول ہدایت کی جو صلاحیت سیدنا عمرؓ میں پائی جاتی تھی، ابو جہل اس سے محروم تھا۔ تو نفس کی سعادت کا مدار اس کے تزکیے پر ہے۔ 
اللہ تعالیٰ نے اس تربیت کا وسیلہ بھی بتا دیا ہے یعنی تعلیم کتاب۔ اس کی بنیاد قرآن حکیم ہے۔ قرآن حکیم علم کا ذریعہ بھی ہے اور تزکیہ کا بھی۔ جب علم اور تزکیہ دونوں کی بنیاد قرآن پر ہو اور حکمت کے ساتھ ہو تو وہ شخصیت وجود میں آتی ہے جو قرآن کو اور اسلام کومطلوب ہے۔ 
اس تربیت کو اگر آپ تعین کے ساتھ جاننا چاہیں کہ یہ کیا ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس کے دو پہلو ہیں: ایک معصیت سے بچنا اور دوسرے درجہ ’احسان‘ کا حصول۔ یعنی تربیت کا حاصل یہ دو چیزیں ہیں: ایک یہ کہ آدمی اللہ کی معصیت سے بچ جائے، اس کی اطاعت کے قابل ہو جائے اور اس کے احکام کی پیروی آسانی سے اور خوشی سے کرنے لگ جائے۔ دوسرے یہ کہ آدمی احکام شریعت پر عمل کرتے ہوئے انہیں بہترین طریقے سے سرانجام دے۔ ’احسان‘ کا مطلب ہے کسی کام کو اپنی بہترین صورت میں اور کمال کے ساتھ کرنا۔ حدیث جبریل میں یہ بات یوں بیان کی گئی ہے کہ ’ان تعبد اللہ کانک تراہ‘ ۔ اس سے بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی کہ احسان کا تعلق صرف عبادت سے ہے۔ اول تو عبادت کا مطلب عربی زبان میں وسیع تر ہے۔ پھر دوسری روایت میں ان تعبد اللہ کے بجائے ان تعمل للہ کے الفاظ آئے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ساری زندگی میں اطاعت کے جتنے بھی کام ہوں، وہ اعلیٰ ترین درجے کے ہوں۔ گویا احسان کا مطلب ہے حصول کمال یا excellence۔ 

تربیت سے تغافل کے اسباب

اب ذہن میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ تربیت اتنی اہم ہے اور اس کو تعلیم کی اصل غایت کی حیثیت حاصل ہے تو پھر ہمارے تعلیمی نظام میں اس سے صرف نظر کیوں کر لیا گیا ہے اور اس کو عملاً اہمیت کیوں نہیں دی جاتی؟ اس تغافل کے بہت سے نظری اور عملی اسباب ہیں۔
ایک وجہ تو یہ ہے کہ والدین کو بچوں کی تربیت کی اہمیت کا احساس ہی نہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری بس یہ ہے کہ اچھا کھلانے پلانے اور اچھا پہنانے کے ساتھ بچوں کو سکول کالج یا مدرسے میں پڑھنے کے لیے بھیج دیا جائے، اس سے زیادہ ان کو ان کی تعمیر سیرت وکردار کی کوئی فکر نہیں۔ گویا جسمانی پرورش اور ظاہری ضروریات کی فراہمی سے زیادہ وہ اپنی کوئی ذمہ داری نہیں سمجھتے۔ حالانکہ جو چیز بچوں کی ضروریات کے حوالے سے سب سے زیادہ اہم ہے، وہ یہ ہے کہ وہ ان کی تعمیر سیرت وکردار کی خبر رکھتے، اس کے لیے پریشان ہوتے، کوشش اور جدوجہد کرتے اور خود اس کے لیے وقت نکالتے۔ آج کل بچے سکولوں میں جاتے ہیں، شام کو واپس آتے ہیں تو ٹیوشن کے لیے بھجوا دیے جاتے ہیں، رات کو ٹی وی کھول کر والدین خود بھی بیٹھ جاتے ہیں اور بچوں کو بھی ساتھ بٹھا لیتے ہیں۔ اس سے زیادہ والدین بچوں کے لیے کوئی وقت نہیں نکال پاتے۔ اس کا سبب یہی ہے کہ والدین کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ بچے کی تربیت بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ 
دوسری وجہ یہ ہے کہ اساتذہ بھی طلبہ کی تربیت کی ذمہ داری سے غافل ہو گئے ہیں، حالانکہ ان کا اصل کام پڑھا دینا نہیں، بلکہ تربیت کرنا ہے۔ خاص طور پر ہمارے ماحول میں اساتذہ کی یہ ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ماحول میں ٹی وی اور وی سی آر کی صورت میں بگاڑ پیدا کرنے والے عوامل پہلے سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ ان عوامل میں سے ایک بری صحبت بھی ہے۔ غربت بھی ایک مسئلہ ہے۔ والدین دو اور دو چار کے چکر میں رہتے ہیں، دال روٹی کی فکر کرتے ہیں، صبح سے شام تک ان کو سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی کہ دیکھیں کہ بچے کس حال میں ہیں۔ بعض اوقات والدین کی ناچاقی بھی بچوں کے بگاڑ کا سبب بن جاتی ہے۔ تو تعلیمی اداروں، خاص طور سے دینی تعلیمی اداروں میں طلبہ کی تربیت پر توجہ دینے کی بے حد ضرورت ہے۔ 

تربیت کی اقسام

تربیت کو ہم کئی قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ دینی تربیت، فکری و علمی تربیت، انتظامی تربیت اور جسمانی تربیت وغیرہ۔ یہ سارے تربیت کے مختلف پہلو ہیں اور باہم متجاوز بھی ہیں۔ اب ہم ان پر ذرا تفصیل سے گفتگو کریں گے۔

۱۔ دینی تربیت:

دینی تربیت میں پورے دین کو شامل سمجھنا چاہیے۔ ہمارا جو دین ہے، اس کے مشمولات کو ہم چار بڑے شعبوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: ایک عقائد، دوسرے عبادات، تیسرے اخلاق وآداب اور چوتھے معاملات۔ عقائد ظاہر ہے کہ ہر چیز کی بنیاد ہیں۔ عبادات کا تعلق بندے اور رب کے درمیان ہے، جبکہ اخلاق وآداب اور معاملات کا تعلق انسانوں کے مابین مسائل سے ہے۔ ان مسائل سے ہمارے دین کا ایک بڑا حصہ متعلق ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ مدارس میں پڑھائے جانے والے مواد کا غالب حصہ فقہ سے متعلق ہوتا ہے، اس لیے کہ فقہ میں زندگی کے روز مرہ مسائل سے بحث ہوتی ہے اور انسانوں کو جن معاملات سے سابقہ پیش آتا ہے، وہ فقہ میں زیر بحث آتے ہیں۔ 
دینی تربیت کے بارے میں ہمارے ہاں تعلیمی اور تربیتی حلقوں میں کئی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً ہمارے ہاں تصوف کے نام سے جو ادارہ تربیت اور تزکیہ کے لیے وجود میں آیا، اس میں اس وقت ہمارے ہاں زیادہ زور ذکر اور عبادات پر دیا جاتا ہے۔ تھوڑی سی توجہ اخلاق پر دے دی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ میں ان چیزوں کی اہمیت کم نہیں کر رہا، لیکن ایک متوازن تربیت کی ضرورت ہے۔ عبادات یقیناًاہم ہیں لیکن کیا معاملات غیر اہم ہیں؟ کیا جھوٹ بولنا غیر اہم ہے؟ وعدہ خلافی کرنا غیر اہم ہے؟ بیوی بچوں کے ساتھ بدسلوکی کرنا غیر اہم ہے؟ یہ بھی اسی طرح خدا ورسول کے حکم ہیں جیسے پہلی چیزیں۔ تو تربیت میں کچھ پہلوؤں کو اہمیت دینا اور کچھ کو نہ دینا یہ دینی لحاظ سے ایک غیر متوازن رویہ ہے۔ 
عبادات کی تربیت، (مثلاً نماز وقت پر اور باجماعت ادا کرنا) : اس میں یہ ذہن میں رہے کہ چونکہ مدارس کا ماحول دینی ہوتا ہے اس لیے اس لحاظ سے وہاں بعض پہلوؤں پر کم توجہ کی ضرورت ہوگی اور بعض دوسروں پر زیادہ کی۔ عام تعلیمی اداروں میں عبادات کے حوالے سے دینی تربیت کی زیادہ ضرورت محسوس کی جاتی ہے کیونکہ وہاں مساجد نہیں ہوتیں، طہارت خانے نہیں ہوتے، وضو کی جگہ نہیں ہوتی، وغیرہ۔ 
جب ہم تربیت کی بات کرتے ہیں، خصوصاً دینی لحاظ سے تو روز مرہ زندگی کے آداب پر بھی خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے، مثلاً آداب میں سے ایک یہ ہے کہ وقت پر کام کیا جائے۔ میں نے دیکھا ہے کہ دینی مجالس میں اس چیز کا اہتمام نہیں کیا جاتا حالانکہ نماز میں ہمیں سب سے پہلے یہی بات سکھائی جاتی ہے۔ جماعت کا وقت ہوتے ہی لوگ گھڑیاں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور الحمد للہ یہ مشاہدہ ہے کہ کم از کم نماز میں ہم وقت کی پابندی کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ہماری عادت کیوں نہیں بنتی؟ ہم نماز میں تو وقت کی پابندی کرتے ہیں، اس کے بعد کیوں نہیں کرتے؟ نماز میں اگر یہ شریعت کا حکم ہے تو باہر کیوں نہیں؟ نماز میں حکم ہے کہ صف آگے پیچھے نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہم میں اتحاد پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں، خلا نہ ہو، صف ٹیڑھی نہ ہو، یہ خوبیاں جو شریعت نماز میں پیدا کرنا چاہتی ہے، وہ باہر کی زندگی میں کیوں منتقل نہیں ہوتیں؟ 

۲۔ فکری وعلمی تربیت

فکری وعلمی تربیت میں حریت فکر، تحقیق، تقریر وتحریر کی مشق، لائبریری کا استعمال، مطالعاتی وتفریحی سفر وغیرہ شامل ہیں۔ سب سے پہلے حریت فکر کو لیجیے۔ ممکن ہے میری یہ بات آپ کو قابل ہضم نہ لگے، لیکن میں عرض کرتا ہوں کہ حریت فکر کی تربیت بھی بالکل دینی اساس رکھتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی سے، جن کی ایک ایک بات ہمارے لیے حجت ہے، ہمیں اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ خود آپ نے اپنے صحابہ میں اس چیز کی حوصلہ افزائی کی۔ بدر کے موقع پر دیکھ لیجیے، جب حضرت حباب بن منذرؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ! جس جگہ آپ نے فوج کو اترنے کا حکم دیا ہے، کیا وہ وحی پر مبنی ہے؟ آپ نے فرمایا، نہیں۔ تو کہا کہ یہ جگہ تو مناسب نہیں۔ غزوۂ احزاب میں بھی ایسے ہی ہوا۔ نبی کریم ﷺ نے سوچا کہ کچھ دے دلا کر یہودیوں سے معاملہ طے کر لیا جائے کیونکہ باہر دشمن ہے، یہ کہیں اندر سے وار نہ کر دیں۔ انصار کے سرداروں کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ اگر وحی کی بنیاد پر حکم ہے تو سر تسلیم خم ہے لیکن اگر محض تجویز ہے تو ہم اتفاق نہیں کرتے۔ آپ نے ان کی بات مان لی۔ یہ تو خیر بڑے معاملات ہیں۔ گھر کی خادمہ حضرت بریرہؓ کا واقعہ تو آپ کے علم میں ہوگا۔ اس کا خاوند پاگل ہوا پھرتا تھا۔ روتا ہوا اس کے پیچھے گلیوں میں بھاگتا تھا۔ چاہتا تھا کہ اس کے نکاح میں رہے، کیونکہ بریرہؓ کے آزاد ہونے کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا تھا۔ صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی سفارش کی تو آپ نے بریرہؓ کو بلایا اور کہا کہ مغیث کے ساتھ نکاح برقرار رکھو۔ اس نے کہا کیا یہ آپ کا حکم ہے؟ فرمایا نہیں، محض سفارش ہے۔ تو کہنے لگی معاف کیجیے، میں اس کے نکاح میں نہیں رہنا چاہتی۔ 
تو بلاشبہ کمال درجے کی اطاعت کا تصور بھی شریعت میں موجود ہے، وہ اپنی جگہ، لیکن یہ چیز اس کی نقیض نہیں۔ اور رسول اللہ ﷺ صحابہ کو اس کا فرق وقتاً فوقتاً سمجھاتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو دیکھا کہ کچھ صحابہ کھڑے ہیں، آپ نے ارشاد فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ جو جہاں تھا، وہیں بیٹھ گیا۔ جو لوگ دروازے میں تھے، وہ بھی وہیں بیٹھ گئے اور راستہ بند ہو گیا۔ آپ نے بعد میں کہا کہ بھائی راستہ تو چھوڑ دو۔ صحابہ کی اطاعت کا یہ حال تھا اور ظاہر ہے کہ اگر نبی کی اطاعت بھی ہیچ پیچ کے ساتھ کریں تو وہ اطاعت کیا ہوئی؟ غیر مشروط اطاعت مطلوب ہے اور صحابہ کرام نے ہمارے لیے اس کے بہترین نمونے چھوڑے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہمارا دین فکری حریت کا بھی علمبردار ہے۔ یہ چیز اللہ ورسول کی غیر مشروط اطاعت کی نقیض نہیں۔ اطاعت غیر مشروط اور پورے جذبے اور شدت کے ساتھ کرنی چاہیے، لیکن دین ہمیں یہ نہیں سکھاتا کہ ہم اپنے دل ودماغ کے دروازے بند کر لیں اور سوچنا چھوڑ دیں۔ 
اب اگر آپ مدارس کے نظام تعلیم کے بارے میں حریت فکر کا عملی اطلاق کرنا چاہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ تین مسائل آپ کی فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ ایک مقاصد تعلیم، دوسرے نصاب تعلیم، اور تیسرے دین میں مسلک کا مقام۔ ممکن ہے یہ موضوع سے کچھ تجاوز ہو لیکن میں درخواست کرتا ہوں کہ آئیے چند منٹ کے لیے ان پر کچھ غور کر لیں۔

مقاصد تعلیم:

جب ہم نظام تعلیم کی بات کرتے ہیں تو نصاب، کتابوں، تعلیمی ماحول اور بہت سی دیگر باتوں سے پہلے جو بات زیر بحث آتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس تعلیمی نظام کے مقاصد کیا ہیں؟ ہمارے مدارس میں ایک بات مشہور ہے اور وہ یہ کہ ہم نے بس علما اور مولوی پیدا کرنے ہیں جو مسجدیں سنبھالیں اور مدرسے چلائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ناقص اور کمزور بات ہے۔ مسلمانوں کے نظام تعلیم میں کبھی ثنویت نہیں رہی، اس میں ہمیشہ وحدت رہی ہے۔ دینی نظام تعلیم کا یہ محدود ہدف دراصل گزشتہ صدی میں اس وقت کے حالات کے تناظرمیں طے کیا گیا تھا۔ درس نظامی جب ہندوستان میں رائج تھا تو سی ایس پی افسر پیدا کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ ۱۸۵۷ء سے پہلے انہی مدارس سے فارغ ہونے والے لوگ تحصیل دار اور کلکٹر لگتے تھے، جج اور قاضی بھی وہی بنتے تھے، ڈاکٹر اور طبیب بھی وہی ہوتے تھے۔ ملک کا نظام چلانے کے لیے ساری بیوروکریسی انہی مدارس سے آتی تھی۔ انگریزوں کے تسلط اور قبضے کے نتیجے میں برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی تواس کے ساتھ ہی اس تعلیمی نظام کی بساط بھی لپیٹ دی گئی۔ مسلمانوں نے ۱۸۵۷ء میں مزاحمت کی تو چھ چھ سو علما کو ایک دن میں درختوں کے ساتھ پھانسی دی گئی ۔ یوں کہنا چاہیے کہ ان کو پوری طرح کچل دیا گیا۔ فارسی جو اس وقت کی قومی زبان بھی تھی اور سرکاری بھی، اس کی جگہ انگریزی کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کر دیا گیا، تو فارسی عربی پڑھنے والے بیروزگار ہو گئے۔ مثل مشہور ہوگئی کہ پڑھیں فارسی بیچیں تیل۔ ان کو نوکری نہیں ملتی تھی۔ معاشرے میں ان کا کوئی ذریعہ روزگار نہیں تھا، کیونکہ انگریزی آ گئی تھی۔ اس صورت حال میں کچھ علما نے سوچا کہ اب حکومت تو ہمارے پاس رہی نہیں، پہلے بڑے بڑے وقف ہوتے تھے اور حکومتیں وسائل مہیا کرتی تھیں۔ اب یہ تعلیمی نظام ختم ہو گیا ہے اور انگریز نے سارا نظام بدل دیا ہے تو اب امت کا مستقبل کیا ہوگا؟ انہوں نے سوچا کہ ہمارا اجتماعی نظام تو باقی نہیں رہا تو کم از کم ہمارا یہ جو مساجد کا نظام ہے، اور نکاح طلاق کے جو مسائل ہیں، اور خوشی غمی کی جو رسمیں ہیں تو انفرادی اور معاشرتی زندگی کے ان دائروں میں ہی میں دین کو بچا لیا جائے، اگرچہ کسی کونے کھدرے میں لگ کر ہی بچایا جا سکے۔ چنانچہ انہوں نے مدرسہ دیوبند کی بنیاد ڈالی۔
لیکن یہ صورت حال ۱۹۴۷ء میں ختم ہو گئی۔ اب ہم نہ دار الحرب میں ہیں اور نہ انگریز ہم پر حکمران ہیں۔ اب تو آپ کا اپنا ملک ہے تو آپ پہلے والی پالیسی کیسے رکھ سکتے ہیں؟ لہٰذا اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں ہمیں صرف ایسے عالم دین ہی پیدا نہیں کرنے ہیں جو مدرسے اور مسجدیں سنبھالیں۔ یقیناًیہ بھی سنبھالنے چاہییں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس معاشرے کا کیا قصور ہے کہ اس کو ایسا جج نہ ملے جو دین جانتا ہو؟ مسلمانوں کی ریاست ہے تو جج آخر ایسا کیوں ہو جس کو انگریزوں کا قانون تو یاد ہو لیکن وہ شرعی قانون سے واقف نہ ہو؟ ہمارے ہاں وکیل ہیں جو قانون کی تشریح کرتے ہیں۔ ان سے پہلے مفتی ہوتے تھے، اب وکیل آ گئے ہیں۔ تو ان وکیلوں کو اسلامی قانون کی تعلیم دینا کس کا کام ہے؟ کیا وہ دینی کام نہیں؟ کیا یہ سارا نظام ایسے ہی چلتا رہے؟ ہم اس میں کوئی حصہ نہیں لیں گے؟ 
اس وقت دینی مدارس میں ایک اندازے کے مطابق حفظ وناظرے کے درجات کو چھوڑ کر زیادہ سے زیادہ دو لاکھ طالب علم پڑھتے ہیں جبکہ گزشتہ سال کے اکنامک سروے آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق پرائمری سکول میں داخلہ لینے والے پاکستانی بچوں کی تعداد تقریباً ۲ کروڑ ہے۔ اب یہ کون سا دین ہے یا دین کی کون سی حکمت عملی ہے کہ آپ دو لاکھ بچوں کو تو پڑھا رہے ہیں اور دو کروڑ کو بھولے ہوئے ہیں؟ ان کو دین کون سکھائے گا؟ کیا وہ مسلمانوں کے بچے نہیں؟ بات اس وقت حکومت یا غیر حکومت کی نہیں ہو رہی۔ سوال یہ ہے کہ اہل دین، جو لوگوں کو دین سکھانا چاہتے ہیں، ان کی ان دو کروڑ بچوں تک اپروچ ہی نہیں۔ ان بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ میں آپ کے استاد کتنے ہیں؟ ان استادوں کی تربیت میں آپ کا کتنا ہاتھ ہے؟ آپ کے پیش نظر تو دین کی خدمت ہے، آپ تو دین کو غالب کرنا چاہتے ہیں، معاشرے میں دین دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کا مقصد تعلیم یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ صرف مدرسے کے مولوی پیدا کریں؟ اس ملک کو چلانے والے لوگ جو مسلمان ہیں اور آپ کے بھائی ہیں، ان کو دین سکھانا کیا آپ کی ذمہ داری نہیں؟ آپ اس نکتے پر غور فرمائیں کہ اہل دین کو صرف مدرسے اور مسجد تک محدود نہیں رہنا ہے۔ اگر آپ اس معاشرے میں اسلام چاہتے ہیں اور دین ہی کی خدمت کے لیے آپ نے ادارے بنائے ہیں، تو آپ کا دائرہ کار محدود نہیں ہونا چاہیے۔ حالات کے بدلنے کی وجہ سے جو بنیادی تبدیلی آئی ہے، اس کے لحاظ سے آپ کو مقاصد تعلیم میں وسعت پیدا کرنی چاہیے۔

نصاب تعلیم:

جب آپ مقاصد تعلیم میں توسیع کریں گے تو نصاب خود بخود بدل جائے گا۔ معاف کیجیے گا، آپ کے لیے یہ بات شاید نئی ہو۔ ہم لوگ جو کالج یونیورسٹی میں ہیں، ہمارے لیے یہ بات نئی نہیں ہے۔ ہر سال یونیورسٹی میں کلاسیں شروع ہونے سے پہلے پروفیسروں کی میٹنگیں ہوتی ہیں جن میں پروفیسر یہ طے کرتا ہے کہ اس نے کیا پڑھانا ہے۔ مثلاً اصول فقہ ایک مضمون ہے تو میرے ذمے یہ ہے کہ میں نے اصول فقہ پڑھانا ہے۔ اب اس میں کیا پڑھانا ہے، تو وہ میری صواب دید پر منحصر ہے۔ یونیورسٹی مجبور نہیں کرتی کہ فلاں کتاب پڑھاؤ۔ بلکہ مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا کہ میں جب شریعہ اکیڈمی (بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد) میں تھا اور ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کے ساتھ کام کرتا تھا تو ہمارے پروگرام مینیجر ایک سول جج تھے جو آج کل ایڈیشنل سیشن جج ہیں۔ میں فقہ القرآن والسنۃ پڑھاتا تھا تو انہوں نے مجھ سے یہ کہا کہ تم فلاں چیز پڑھاؤ۔ مجھے اس بات پر غصہ آیا اور میں نے ڈاکٹر غازی کو ان کی تحریری شکایت کی کہ یہ کون ہوتے ہیں مجھے بتانے والے کہ میں کیا پڑھاؤں اور کیا نہ پڑھاؤں؟ ڈاکٹر صاحب نے اس سے کہا کہ جاؤ اور ڈاکٹر امین سے معذرت کرو۔ یہ تمہارا کام نہیں کہ تم یونیورسٹی کے استاد کو یہ بتاؤ کہ کیا پڑھانا ہے۔
تو نصاب کوئی غیر متبدل چیز نہیں ہوتی۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں نصاب صرف قرآن مجید تھا۔ بعد میں لوگوں نے حدیثیں بھی پڑھنا شروع کر دیں۔ اگلی صدی میں فقہ بھی شامل ہو گئی۔ اس وقت اصول فقہ نہیں تھے۔ اس سے اگلی صدی میں اصول کی تعلیم بھی شروع ہو گئی۔ جب یونانی علوم کا ریلا آیا تو منطق بھی شامل ہو گئی۔ تو نصاب کوئی مقدس گائے نہیں ہوتی۔ یہ ہمیشہ زمانے اور معاشرے کی ضروریات کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ نصاب کے کچھ اجزا مثلاً قرآن وسنت، یقیناًکبھی تبدیل نہیں ہوں گے۔ اسی طرح چونکہ ہمارے دینی مآخذ عربی میں ہیں، تو عربی زبان بھی نہیں بدلے گی۔ لیکن، معاف کیجیے، فارسی کو کوئی تقدس حاصل نہیں۔ اس کی اس وقت یقیناًضرورت تھی جب اسے قومی زبان کی حیثیت حاصل تھی، یہ اس وقت معاشرتی زبان بھی تھی۔ اس وقت جو نہیں پڑھتا تھا، تیل بیچتا تھا، اسے روزگار نہیں ملتا تھا۔ یہ ذریعہ اظہار تھی۔ اب فارسی ذریعہ اظہار نہیں ہے۔ تو کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہیں اس لحاظ سے دیکھنا چاہیے۔ نصاب کو تقدس حاصل نہیں ہوتا۔ نصاب سے مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ ایسے موثر اور متبحر علما تیار کیے جائیں جو معاشرے تک بہترین طریقے سے دین پہنچا سکیں، دین کی خدمت کر سکیں، لوگوں کے قول وعمل کو شریعت کے مطابق ڈھال سکیں۔ 
اب آپ ہماری موجودہ ضروریات کے لحاظ سے اس نصاب پر نظر ڈالیں تو کئی خامیاں محسوس ہوں گی۔ مغرب اور امریکہ کے ایجنڈوں کو چھوڑیے، خود سوچیے کہ کیا ہمارے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس دنیا کو سمجھیں؟ اگر امام غزالی کی یہ مجبوری تھی کہ وہ یونانی فلسفہ پڑھیں اور پھر ’’تہافت‘‘ لکھیں تو آج ہماری مجبوری یہ کیوں نہیں ہے کہ ہم پہلے مغرب کا فلسفہ پڑھیں اور پھر اس کی تردید کریں؟ آپ اگر مغرب کا فلسفہ سمجھتے ہی نہیں تو اس کا رد کیسے کریں گے؟ اس لیے ان علوم کو جاننا جو اس وقت دنیا میں مروج ہیں، خود ہماری ضرورت ہے۔ جس طرح قدیم زمانے میں یونانی فکر گمراہیوں کا سرچشمہ تھی، آج اسی طرح مغربی فکر گمراہیوں کا منبع ہے۔ آپ کیسے کہتے ہیں کہ انگریزی پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں؟ جب تک آپ انگریزی نہیں پڑھتے، آپ کو پتہ کیسے چلے گا کہ آپ کے دشمن کی سوچ کیا ہے اور اس کا رد کیسے کرنا ہے؟ 
اسی طرح قرآن مجید کو اس نصاب میں وہ مرکزی حیثیت حاصل نہیں جو اسے حاصل ہونی چاہیے۔ معاف کیجیے گا، آپ کو حدیث کا دورہ تو پڑتا ہے، قرآن کا کیوں نہیں پڑتا؟ کیا قرآن حدیث سے کم اہم ہے؟ پھر قرآن و حدیث کو آپ فقہی تناظر میں اور فقہی زاویہ نگاہ سے پڑھاتے ہیں۔ قرآن وحدیث کے پیغام، فلسفہ اور ان کی حکمت کے بہت کم پہلو زیر غور آتے ہیں۔ فقہی مباحث میں بھی غلط ترجیحات قائم کر لی گئی ہیں۔ بخاری کی ایک حدیث رفع یدین پر آ گئی تو حنفی نقطہ نظر کی وضاحت میں استاد چھ دن یہ ثابت کرنے پر صرف کرے گا کہ رفع یدین نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے مقابلے میں جب معاملات سے متعلق کوئی حدیث آئے گی تو ترجمہ پڑھ کر فارغ ہو جائیں گے۔ آخر کیا قصور ہے اس حدیث کا؟ عربی زبان، جیسا کہ آپ بھی تسلیم کریں گے کہ دینی مدارس کے طلبہ کو نہ لکھنی آتی ہے اور نہ بولنی۔ تو ان سب حوالوں سے نصاب اور منہج تعلیم میں اصلاح کی ضرورت ہے۔

مسلک کا مقام:

تیسری چیز یہ ہے کہ ہم نے مسالک کو دین بنا لیا ہے۔ معاف کیجیے گا، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اپنا مسلک چھوڑ دیجیے۔ مسلک ہونا چاہیے۔ فقہ ہو یا کلام، ہر آدمی کا ایک مسلک ہوتا ہے۔ یہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے، لیکن وہ مسلک دین نہیں ہوتا، وہ اجتہادی مسلک ہوتا ہے۔ اس کی حیثیت ایک رائے کی ہوتی ہے۔ حضرت قائد اعظم سے کسی نے پوچھا کہ آپ شیعہ ہیں یا سنی؟ وہ وکیل آدمی تھے اور ہوشیار تھے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ شیعہ تھے یا سنی؟ سوال کرنے والا خاموش ہو گیا کیونکہ اس کے ذہن میں شرارت تھی۔ تو عرض یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مسلکی تقسیم ضرورت سے زیادہ شدید ہے اور وہ بعض حلقوں میں خونی تقسیم بن گئی ہے۔ سیکڑوں آدمی قتل ہو چکے ہیں۔ اگرچہ اس کے اسباب زیادہ تر دوسرے ہیں، اصلاً مسلکی اور فقہی اختلافات بنیاد نہیں، لیکن نور بشر کے جھگڑوں میں مسجدیں دھلتی ہم نے بھی دیکھی ہیں۔ حالانکہ اگر غور کریں تو ہمارے ملک میں مسلکی اختلافات کی کوئی بڑی بنیاد نہیں، اس لیے کہ غالب اکثریت حنفی ہے۔ بریلوی بھی حنفی ہیں او ردیوبندی بھی۔ اہل ظاہر یا اہل حدیث بالکل تھوڑے ہیں، پانچ یا سات فی صد ہوں گے۔ تو پھر جھگڑے کیوں؟ اس وقت شیعہ کو چھوڑ کر باقی چاروں وفاقوں کے نصاب میں کوئی خاص فرق نہیں۔ چھوٹی موٹی کتابوں کا فرق ہے۔ حتیٰ کہ اہل حدیث بھی فقہ میں ہدایہ ہی پڑھاتے ہیں۔ اس کے باوجود نصاب کیوں ایک نہیں بنتا؟ وفاق کیوں ایک نہیں بنتا؟ میں عرض کروں گا کہ یہ وفاقوں کی تقسیم بھی اسٹیبلشمنٹ کی قائم کردہ ہے۔ وہ علما میں تفریق ڈالے رکھنا چاہتی ہے۔ ان کے اندر اتحاد نہیں دیکھنا چاہتی۔ ضیاء الحق چاہتا تو پانچ وفاقوں کی اجازت نہ دیتا، دو کی دیتا تو سب اہل سنت مجبور ہوتے کہ ایک ہی نظام کے تحت کام کریں۔معاف کیجیے گا، اس معاملے میں علما کو بالغ نظری کا ثبوت دینا چاہیے۔ 

تحقیق:

حریت فکر کی بحث سمیٹنے کے بعد اب آئیے، فکری وعلمی تربیت کے دوسرے اجزا کی طرف۔ ان میں سرفہرست تحقیق ہے۔ ہمیں دینی علوم میں تحقیق کی ضرورت ہے اور اس تحقیق میں بھی تخلیقیت کی ضرورت ہے۔ مکھی پر مکھی مارنا کوئی کام نہیں۔ ہمارے ایک نوجوان دوست، جو لاہور کی ایک جامعہ میں استاد ہیں، مجھ سے کہنے لگے کہ میں نے لکھنے پڑھنے کا کام شروع کیا ہے، میرے لیے دعا کریں۔ میں نے کہا ماشاء اللہ بڑی خوشی کی بات ہے، آپ کیا لکھ رہے ہیں؟ کہنے لگے کہ دعاؤ ں کا ایک مجموعہ تیار کر رہا ہوں۔ میں نے کہا، اس کے بعد کیا منصوبہ ہے؟ کہنے لگے کہ پھر نماز پر ایک کتاب لکھوں گا۔ میں نہیں کہتا کہ یہ دین کی خدمت نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ بار بار ایک ہی قسم کے موضوعات پر کام کرتے چلے جانا کیا صلاحیتوں اور وقت کا درست استعمال ہے؟ میں آپ کو اپنا ذاتی واقعہ سناتا ہوں۔ میں نے لندن یونیورسٹی کے سکول آف اورئینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز کے ایک انگریز پروفیسر سے خط وکتابت کی کہ میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا کہ تم مجھے ان موضوعات کی ایک فہرست بھجواؤ جن پر تم کام کرنا چاہتے ہو۔ میں نے جو فہرست بھجوائی اس میں پہلے نمبر پر میں نے جو موضوع لکھا، وہ وہی تھا جس پر میں نے سعودیہ میں ماجستیر میں مقالہ لکھا تھا، یعنی التشریع الاسلامی والغربی۔ چنانچہ میں نے پروفیسر صاحب کو لکھا کہ میں اجتہاد اور مغرب میں قانون سازی کے تقابلی مطالعے کے موضوع پر کا م کرنا چاہتا ہوں۔ اس انگریز مستشرق نے مجھے جواب میں لکھا کہ تم اجتہاد پر کیا نیا کام کر سکتے ہو؟ یہ تو رٹا رٹایا موضوع ہے۔ میں نے جب اصرار کیا کہ یہ موضوع مجھے پسند ہے اور میں اسی پر کام کرنا چاہتا ہوں تو اس نے کہا کہ تم دو باتیں بتاؤ۔ ایک یہ کہ مغربی قانون کا تمہارا کس حد تک مطالعہ ہے؟ اور دوسرے تم مجھے سکوپ آف اجتہاد یعنی اجتہاد کے دائرہ کار پر چار صفحے کا ایک مضمون لکھ کر بھیجو۔ میں نے جتنا زور لگا سکتا تھا، لگا کر مضمون لکھا اور اس کو بھیج دیا۔ اس نے لکھا کہ تمہارا مغربی قانون کا مطالعہ کمزور ہے، اس سطح کا نہیں ہے کہ تم اس میں پی ایچ ڈی کر سکو۔ اور دوسری بات یہ کہ تم نے اجتہاد کا جو سکوپ لکھا ہے، وہ مجھے اپیل نہیں کرتا۔ اس میں تم آخر کیا نئی بات کر سکو گے؟ تو حقیقت یہ ہے کہ ہم چیزوں کو ری پروڈیوس کر رہے ہیں۔ جتنا لٹریچر اٹھا کر دیکھ لیں، کوئی بات نئی نہیں ہے۔ کوئی نئے مسائل نہیں ہیں جن کو زیر بحث لایا گیا ہو۔ تو جب تک آپ تخلیقیت کی طرف نہیں آئیں گے، اسلامی علوم میں تحقیق کا خلا پر نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر رفیع الدین صاحب مرحوم کی ایک تحریر سے استفادہ کیا جا سکتا ہے جس میں ’’اسلامی علوم میں تحقیق کیسے کی جائے؟‘‘ کے موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
تحقیق کے لیے لائبریری بھی ایک ناگزیر ضرورت کا درجہ رکھتی ہے۔ ہمارے ہاں مدارس میں لائبریریاں نہیں ہیں۔ اگر ہیں تو طلبہ کو ان میں جاتے اور استفادہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ لاہور کے بڑے مدارس میں نے دیکھے ہیں۔ ان میں کوئی علمی رسائل نہیں آتے حتیٰ کہ اخبار تک نہیں آتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک لازمی لائبریری پیریڈ ہونا چاہیے تاکہ طلبہ کتب خانے میں وقت گزاریں۔ ان کو یہ تربیت دی جائے کہ کیٹلاگ کیسے استعمال کرنی ہے، کتاب کیسے ڈھونڈنی ہے۔ اسی طریقے سے ارد گرد کی دنیا کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے انہیں مطالعاتی دورے کروانے چاہییں۔ انڈسٹریوں میں جانا چاہیے۔ اپنے مدرسے کے ماحول سے باہر نکل کر دنیا اور اس کے ہنگاموں کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے۔ اگر ہم اپنے طلبہ کی تربیت کرنا چاہتے ہیں، ان کے ذہنی افق کو وسیع کرنا چاہتے ہیں تو ایسا کرنا ہوگا۔ مجتہد اور مفتی کی شرائط میں سے ایک لازمی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کے حالات کو جانتا ہو جن میں اس نے شریعت کا حکم دریافت کرنا ہے۔ جو آدمی اس ماحول کو ہی نہ سمجھتا ہو جس میں اس نے اجتہاد کرنا ہو تو وہ اجتہاد کا اہل کیسے ہوگا؟ مولانا زاہد الراشدی صاحب نے کچھ عرصہ پہلے ماہنامہ الشریعہ میں یہ بات لکھی کہ ان کے سامنے کسی مدرسے کے مفتی صاحب کے سامنے بنک کے کسی معاملے کے متعلق استفسار آیا تو انہوں نے مولانا سے پوچھا۔ مولانا نے جواب دیا کہ مجھے تو بنکاری نظام اور اس کی تفصیلات کا پتہ نہیں کیونکہ میں نے مغربی نظام معیشت کا مطالعہ نہیں کیا، لہٰذا میں تو اس کا جواب نہیں دے سکتا۔ غرض یہ کہ ہمیں ذہنی وسعت پیدا کرنے کے لیے فکری سطح پرکچھ کام کرنے چاہییں۔

تقریر وتحریر کی مشق:

علم و تحقیق کی تربیت کے ساتھ ساتھ دین کی دعوت وتبلیغ کے لیے تحریر اور تقریر کی بھی تربیت ہونی چاہیے۔ دینی مدارس میں تحریر کی صلاحیت کو نشوونما دینے کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا۔ اس کے مقابلے میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دیکھیے۔ یونیورسٹی کا ہر شعبہ اپنا ایک میگزین شائع کرتا ہے اور طلبہ کو ان میں لکھنے کے لیے مقابلے کرنے پڑتے ہیں۔ ندوۃ العلما کی مثال لیجیے۔ وہاں کے فارغ التحصیل فصیح وبلیغ عربی میں تقریر اور تحریر پر قادر ہوتے ہیں جبکہ ہمارے مدارس میں شاذ ونادر ہی ایسے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ ہم نے اکثر خطیبوں کو دیکھا ہے کہ وہ اردو بولتے ہوئے غلطیاں کرتے ہیں کیونکہ وہ اردو کا مطالعہ نہیں کرتے۔ تکمیل تعلیم کے بعد کتابیں نہیں پڑھتے۔ مطالعہ جاری رکھنا چاہیے۔ تحریر کی مشق ہونی چاہیے۔ دین بیزار لوگ روز بے ہودہ مضامین کے انبار لگائے جا رہے ہیں اور ان کی تحریریں بکثرت ہمارے اخبارات میں شائع ہوتی ہیں۔ ان کا جواب دینے کے لیے علما موجود نہیں ہیں اور ایسے لوگ بہت کم ہیں جن کی تحریر اچھی ہو۔
میں نے علما کی ایک مجلس میں یہ بات کہی جو سب نے مانی۔ میں نے کہا کہ میں نے لاہور کے مختلف علاقوں ڈیفنس، گلبرگ، اقبال ٹاؤن، ماڈل ٹاؤن وغیرہ میں مسجدوں میں جا کر جمعہ کے خطبے سنے ہیں۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ۹۰ فیصد لوگ دوسری اذان کے وقت مسجد میں آتے ہیں یعنی وہ تقریر سننے نہیں آتے بلکہ نماز پڑھنے آتے ہیں۔ آخر لوگ کیوں علما کی تقریر نہیں سننا چاہتے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ اہل دین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاشرے کو دین کے مطابق ڈھالیں۔ اگر وہ یہ نہیں کرتے تو وہ ناکام ہیں۔ تو علما کو موثر ہونا چاہیے۔ ایسا نہیں کہ لوگ ان کی تقریر ہی نہ سننے آئیں، ان کی فریکونسی اور ہو اور جو دو کروڑ بچے دوسرے تعلیمی اداروں سے پڑھ کر نکل رہے ہیں، ان کی فریکونسی اور ہو۔ وہ اور طرح سے سوچتے ہوں اور ہمارے علما دوسری طرح سے سوچتے ہوں۔ 

۳۔ انتظامی تربیت

اسی طریقے سے انتظامی تربیت بھی ہونی ہے تاکہ طلبہ میں لیڈر شپ کی کوالٹی پیدا ہو۔ اس مقصد کے لیے طلبہ کو مختلف انتظامی کاموں میں شریک کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً تقریبات کا انتظام ان کے سپرد کیا جا سکتا ہے اور مختلف ذمہ داریاں ان کے مابین تقسیم کی جا سکتی ہیں۔ تقریب کا انتظام کیسے کرنا ہے، اس کی ضروریات کیا ہیں، اس طریقے سے انہیں تربیت دیں۔ اس میں وقت کی پابندی کا بھی اہتمام انہیں سکھائیں۔ اگر تقریب کے آغاز کا وقت دس بجے طے کیا گیا ہے تو اسے دس بجے ہی شروع ہونا چاہیے۔ اس تربیت کی عملی زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔ 
انتظامی تربیت سے خود اعتمادی آتی ہے، سلیقہ اور قرینہ آتا ہے۔ نظم وضبط پیدا ہوتا ہے۔ مدارس میں انتظامی کام کافی ہوتے ہیں۔ طعام وقیام کے امور ہوتے ہیں، اس کے لیے طلبہ کی ڈیوٹیاں لگائی جا سکتی ہیں، ناظم صلوٰۃ کا تقرر کیا جا سکتا ہے۔ صفائی کے امور کے جائزہ کے لیے صفائی کا ناظم بنایا جا سکتا ہے۔ طلبہ کو وقت پر جگانے، طعام گاہ کی صفائی وغیرہ کا جائزہ لینے، کھانے کی تقسیم کے معاملات، برتنوں کی صفائی وغیرہ کے سارے انتظامات طلبہ کے سپرد کیے جا سکتے ہیں۔ اس سے ان کی صلاحیتیں بیدار ہوں گی۔

۴۔ جسمانی تربیت

جسمانی ورزش اور کھیلوں کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔ مجھے ڈر ہے کہ مدارس میں اس پر توجہ نہیں دی جاتی جبکہ لیکن سکولوں اور کالجوں میں ایک ادارے کی ٹیم دوسرے ادارے میں جاتی ہے اور وہاں کی ٹیم کے ساتھ کھیلتی ہے۔ انعامات دیے جاتے ہیں۔ یہ غیر اسلامی نظام نہیں۔ کھیل اور ورزش کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور اس میں مسابقت کی فضا پیدا کرنی چاہیے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے والیوں کو لکھا تھا کہ تیر اندازی کا انتظام کرو۔ یہ ساری چیزیں تربیت کے مختلف پہلو ہیں اور ان کا اہتمام کیا جانا چاہیے تاکہ ایک متوازن شخصیت وجود میں آئے اور اس کی صلاحیتوں کو نمو ملے۔ 

تربیت کا لائحہ عمل

ان ساری باتوں کی تربیت میں مدارس کی انتظامیہ کا بھی کردار ہے اور اساتذہ کا بھی، لہٰذا پہلے اساتذہ کی تربیت ہونی چاہیے۔ جامعہ نعیمیہ کے مہتمم ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب کے ساتھ اساتذہ کی تربیت کی بات ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ ان سے بھی پہلے مہتممین کی تربیت ہونی چاہیے۔ ان کی نہیں ہوگی تو اساتذہ کی کہاں سے ہونے دیں گے؟ تو استاد، طلبہ کی تربیت کا بہت بڑا آلہ ہے۔ اسے یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ صرف معلم نہیں، مربی بھی ہے۔ جب وہ اپنے آپ کو طلبہ کی تربیت کا ذمہ دار سمجھے گا تو اسے اپنے کام کی نزاکت کا اندازہ ہوگا۔ اس کا سب سے پہلا کام یہ احساس کرنا ہے کہ طلبہ اسے ماڈل سمجھتے ہیں۔ جیسے استاد کرتا ہے، ویسے ہی طلبہ بھی کرتے ہیں۔ جیسے وہ سوچتا ہے، طلبہ بھی ویسے ہی سوچتے ہیں۔ ہمارے ایک استاد تھے، وہ کلاس میں آکر سب سے پہلے سگریٹ سلگاتے تھے۔ تو استاد کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ ایک ماڈل ہے۔ خود وہ اپنے آپ کو ماڈل نہ سمجھے، لیکن یہ دیکھے کہ اس کی سیرت وکردار ایسی ہونی چاہیے کہ طلبہ اس کی اتباع کر سکیں۔ تو دینی مدارس میں اساتذہ کی تربیت کا انتظام ہونا چاہیے اور اس میں ان کو دو باتیں سکھائی جائیں۔ ایک تو فنی تربیت کہ مثلاً تختہ سیاہ کو کیسے استعمال کیا جائے، سبق کیسے تیار کیا جائے وغیرہ۔ اور دوسرے نظریاتی تربیت جس کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ خود اچھا مسلمان کیسے بننا ہے اور دوسرا یہ کہ انہیں اپنے طلبہ کی تربیت کیسے کرنی ہے اور انہیں اچھا مسلمان کیسے بنانا ہے؟ استاد کا کام یہ ہے کہ وہ دین کو طلبہ کے سامنے پرکشش بنا کر پیش کرے تاکہ ان میں اس پر عمل کے لیے آمادگی پیدا ہو۔ دین کو پرکشش بنانے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ استاد خود دین پر عمل کرے۔ دوسرا یہ کہ اس کے اندر اخلاص اور طلبہ کی خیر خواہی کا جذبہ ہو۔ طلبہ یہ محسوس کریں کہ استاد ان کے لیے اخلاص رکھتا ہے۔ وہ ان کے ساتھ محبت سے پیش آئے۔ ڈنڈے مار کو آپ کسی کو وہ چیزیں نہیں سکھا سکتے اور نہ اس کے اندر وہ جوہر پیدا کر سکتے ہیں جو محبت اور شفقت کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ بد قسمتی سے مارپیٹ کا سلسلہ بعض مدارس میں، خاص طور پر حفظ کے درجات میں اب بھی جاری ہے۔ یہ ایک غلط طریقہ ہے۔ طلبہ کے ساتھ اپنے تعلق کو شفقت، نرمی اور محبت کی اساس پر استوار کرنا چاہیے تاکہ ان میں پڑھنے کے لیے آمادگی پیدا ہو اور تحکم کے بجائے وہ شراکت کے احساس کے ساتھ سیکھنے کا عمل جاری رکھیں۔ 
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہمارے ہاں تربیت کے لیے وقت مخصوص نہیں کیا جاتا۔ مجھ سے اگر پوچھیں تو میں کہوں گا کہ چونکہ غایت ہی تربیت ہے، اس لیے کم از کم پچاس فی صد وقت تربیت کے لیے دینا چاہیے، جس کا ہمارے ہاں کوئی تصور نہیں۔ تربیت کے لیے الگ پیریڈ مخصوص کرنے چاہییں اور اگر مثال کے طور پر ۱۵۰۰ نمبر کے باقی مضامین ہیں تو ان میں کم از کم ۱۰۰ نمبر کا تربیت کا پرچہ شامل کریں۔ اس کو باقاعدہ لازمی پرچہ قرار دیں، یعنی جو تربیت کے پرچے میں فیل ہو، اس کو سارے امتحان میں فیل تصور کیا جائے۔ تربیت میں دیکھا جائے کہ کون طالب علم لڑائی جھگڑا کرتا ہے، جھوٹ بولتا ہے، چوری کرتا ہے، وقت پر کلاس میں حاضر نہیں ہوتا وغیرہ۔ 
اس تربیت کا باقاعدہ نصاب بھی ہونا چاہیے۔ تاہم اگر مدارس کی انتظامیہ توجہ نہ دے تو میں سمجھتا ہوں کہ اساتذہ اپنے طور پر تزکیہ اور تربیت کا نصاب بنا سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں تصوف کی بعض کتابیں شامل نصاب رہی ہیں۔ شاہ ولی اللہؒ نے اس کا اہتمام کیا تھا لیکن بعد میں جب دیوبند کے تعلیمی نظام کی صورت میں اس میں ارتقا ہوا تو بعض تاریخی عوامل کی وجہ سے، جن کے تجزیے میں اس وقت میں نہیں پڑوں گا، تصوف کی کتابیں نصاب میں شامل نہ رہ سکیں۔ میرے خیال میں یہ نصاب میں ایک خامی ہے، اور تربیت اور تزکیے کا مواد نصاب میں لازماً شامل ہونا چاہیے۔ شاہ ولی اللہ، امام غزالی اور دیگر اکابر تصوف کی چیزوں سے انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ روایتی تصوف کے لٹریچر میں کچھ کمزوریاں اور خرابیاں بھی موجود ہیں۔ تازہ کاموں میں سے مولانا اشرف علی تھانویؒ کی چیزیں منتخب کی جا سکتی ہیں اور ایسا مواد چھانٹ کر نکالا جا سکتا ہے جو تصوف کی روایتی کمزوریوں اور بعض غیر اسلامی عناصر سے پاک ہو۔ نصاب کی خامی کو تو ایک اچھا استاد پورا کر سکتا ہے لیکن اچھے استاد کی خامی نہ نصاب پوری کر سکتا ہے اور نہ کوئی اور چیز۔ اس لیے اگر استاد تربیت کو اپنی ذمہ داری محسوس کرے تو وہ سو راستے ایجاد کر لے گا۔ 
ہر مدرسے میں ایک تربیت کمیٹی بننی چاہیے جس کے سربراہ مہتمم صاحب ہوں یا کسی سینئر استاد کو ناظم بنا دیا جائے اور کچھ صالح طلبہ کو اس کا رکن بنا لیا جائے۔ ہر کلاس کا انچارج استاد تربیتی کمیٹی کا رکن ہو۔ وہ باقاعدہ بیٹھ کر میٹنگیں کریں۔ کچھ پرابلم کیسز ہوتے ہیں۔ بعض طلبا بگڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کی اصلاح کے لیے، ان کے والدین کو بلانے کے لیے ایک کمیٹی بنا لیں اور والدین سے رابطہ رکھیں۔ پھر تربیت کمیٹی اپنے طور پر پورے سال کا ایک پروگرام بنا سکتی ہے مثلاً آپ ہر ہفتے مختلف اخلاقی خوبیاں پیدا کرنے اور برائیوں سے بچنے کے لیے کسی ایک چیز کو موضوع بنا سکتے ہیں۔ مثلاً اس ہفتے ہمارے پیش نظر غیبت کی مذمت ہے۔ طلبہ کوبتایا جائے کہ غیبت کیا ہے، شریعت نے اس کی کیسے مذمت کی ہے، معاشرے میں اس سے کیا فساد پیدا ہوتا ہے۔ ان باتوں کو ہر کلاس میں تختہ سیاہ پرلکھ دیا جائے۔ طعام گاہ میں لکھ دیا جائے۔ اس طرح مختلف پہلوؤں سے اس چیز کو اجاگر کر کے اس کی قباحت کا احسا س زندہ کیا جائے۔ اسی طرح ہر ہفتے کسی نئی چیز پر توجہ مرکوز کی جائے۔ 
حوصلہ افزائی کے لیے انعام بھی رکھا جا سکتا ہے مثلاً پچھلے ایک ماہ میں جن طلبہ کی تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوئی، ان کو کوئی انعام دے دیا جائے۔ اس طریقے سے بعض لوگوں نے تجربات کیے ہیں۔ راول پنڈی میں عبد الجبار غازی صاحب نے جو جماعت اسلامی سے الگ ہوئے ہیں، ایک تجربہ کیا۔ انہوں نے گراف بنا کر ہر کلاس میں لٹکا دیے۔ اس پر لڑکوں کے نام لکھے ہوتے تھے۔ جو طالب علم خوبی کے کام زیادہ کرتا، اس کے دو نمبر زیادہ ہو جاتے۔ اس کے برعکس اگر کسی نے گالی دی، تو اس کے دو نمبر کم ہو گئے۔ کسی نے جھگڑا کیا، تو اس کے چار نمبر کم ہو گئے۔ والدین نے کوئی شکایت کی تو دو نمبر اور کم ہو جاتے۔ اس طرح گراف کے ذریعے سے ہر طالب علم کے اخلاق وکردار کا پتہ چلتا رہتا اور طلبہ میں اچھے نمبروں کے لیے مسابقت پیدا ہو جاتی۔
تو یہ تربیت کے مختلف پہلو اور اس کے چند اسالیب ہیں۔ غور اور تجربے سے مزید کئی تدبیریں اختیار کی جا سکتی ہیں۔ بہرحال طلبہ کو اچھے کاموں کی طرف راغب کرنے اور ان میں برے کاموں سے بچنے کا جذبہ بیدار کرنے کا ایک پورا نظام مدرسے میں ہونا چاہیے۔ 
جب ہم تربیت کے پہلو سے غور کرنا شروع کریں گے تو کافی کتابیں سامنے آنا شروع ہو جائیں گی، لیکن فوری طور پر دو چیزوں کی طرف میں اشارہ کر سکتا ہوں۔ ایک تو پروفیسر سید سلیم صاحبؒ کا چھوٹا سا مقالہ ’’درس گاہ کی ہم نصابی سرگرمیاں‘‘ کے نام سے ہے۔ اور ایک کوشش میں نے بھی کی تھی ’’تعلیمی ادارے اور کردار سازی‘‘ کے عنوان سے۔ یہ دونوں کتابیں تعلیمی ادارے میں تربیت سیرت وکردار سے بحث کرتی ہیں۔ اگرچہ ان کا پس منظر دینی مدارس کا نہیں ہے لیکن مسائل مشترک ہیں، مثلاً بچے کیوں بگڑتے ہیں، ان کی اصلاح کیسے ہونی چاہیے، سیرت وکردار کی خوبیاں کیسے پیدا کرنی چاہییں، اس کے لیے کیا ماڈل سامنے رکھنے چاہییں،کیا کیا گر استعمال کرنے چاہییں وغیرہ۔ میں نے اس کتاب میں اسلامی تربیت کے ۳۱ گر لکھے ہیں۔ ان سے آپ کو کچھ بنیادی مواد مل جائے گا۔
آخر میں، میں دوبارہ عرض کروں گا کہ میری گزارشات محض اخلاص اور دردمندی پر مبنی ہیں۔ میری باتوں سے آپ کو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن یہ موضوعات بہرحال اس قابل ضرور ہیں کہ آپ ان کے بارے میں سوچیں۔ دین محض کتابوں میں نہیں لکھا ہوتا۔ یہ معاشرے کی صورت میں ایک زندہ حقیقت ہوتا ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اپنے نبی کی امت کو یہ توفیق بخشی کہ اسلامی معاشرہ پچھلی چودہ صدیوں سے بلاانقطاع قائم ہے۔ اس تسلسل کو بقا اور استحکام بخشنے کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ معاشرہ دین سے جڑا رہے۔ یہ کام علما کا ہے لہٰذا ان کے اور معاشرے کے مابین ہم آہنگی ناگزیر ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ علما اس معاشرے کی ذہنی، فکری، جسمانی اور مادی ضرورتوں کو سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو عمل کی توفیق دیں۔ آمین

فکری و مسلکی تربیت کے چند ضروری پہلو

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۵ دسمبر ۲۰۰۳ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اساتذہ کے دو روزہ مشاورتی اجتماع کی چوتھی نشست سے خطاب۔)

بعد الحمد والصلوۃ۔ کل سے مختلف مسائل پر گفتگو چل رہی ہے۔ ہم نے صبح کی نشست میں نصاب اور اساتذہ کی تدریسی اور تربیتی مشکلات کے حوالے سے بات کی، جس کے نتیجے میں تفصیلی تجاویز سامنے آئی ہیں۔
اس نشست میں میری گفتگو کا عنوان ہے ’’فکری ومسلکی تربیت کے چند ضروری پہلو‘‘۔ فکری تربیت سے مراد یہ ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ جب ایک خاص نصاب کی تعلیم پاکر سوسائٹی میں جاتے ہیں اور انہیں آج کے مسائل اور حالات سے سابقہ پیش آتا ہے تو ان کی فکر اور سوچ کیا ہو؟ ان کا نصب العین اور زندگی کا مقصد کیا ہو؟ ہر آدمی کا کوئی نہ کوئی فکری نصب العین بن جاتا ہے جس کے ارد گرد اس کی زندگی کی ساری تگ ودو گھومتی ہے۔ طالب علمی کے دوران میں اس کے ذہن میں کوئی نہ کوئی ترجیح قائم ہو جاتی ہے کہ میں نے تو یہ کام کرنا ہے، اور پھر وہ ساری زندگی اسی میں لگا رہتا ہے۔ یہ مرحلہ یعنی کسی طالب علم کی فکری تربیت کے رخ کا تعین، ہم نے اسے آزاد چھوڑا ہوا ہے اور طالب علم اپنی مرضی سے اس کا تعین کر رہے ہیں۔ اس کا تعلق بھی اس بات سے ہے جو اساتذہ کی تربیت کے حوالے سے ہماری مشاورت میں زیر غور آئی، یعنی چونکہ ہمارے ہاں اساتذہ کی تربیت کا کوئی نظم موجود نہیں، اس لیے ہوتا یہ ہے کہ مدارس میں اساتذہ میں سے جس استاد کے ساتھ طالب علم زیادہ مانوس ہو جاتا ہے، تو جو ذہنی سوچ اس کی ہوتی ہے، وہی طالب علم کی بھی بن جاتی ہے۔ ایک مدرسے میں اساتذہ کے ذہنی رجحانات مختلف ہیں تو دو دو، چار چار طالب علم ان میں سے ہر ایک کے ساتھ مانوس ہو جاتے ہیں۔ اس طرح فکری تربیت تو ہوتی ہے لیکن یہ فکر کوئی اجتماعی فکر نہیں ہوتی۔ ہر طالب علم اپنے ذوق کے مطابق کسی استاد کے ساتھ منسلک ہو جاتا ہے اور اسی کے مطابق اس کی ذہنی وفکری تربیت ہوتی ہے اور وہ اسی سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ میں اس کو خون کے گروپ سے تعبیر کیا کرتا ہوں۔ ہمارے ہاں خون کے مختلف گروپ کام کر رہے ہیں۔ سپاہ صحابہ کا خون گروپ ہے، جہادی خون گروپ ہے، جمعیت علماء اسلام کا خون گروپ ہے۔ اسی طرح تبلیغی جماعت، اشاعت التوحید اور خدام اہل سنت کے خون گروپ موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ گروپ آپس میں ملتے ہیں اور کچھ نہیں ملتے۔ اور لطیفے کی بات یہ ہے کہ اتفاق سے میرا خون کا گروپ سب سے مل جاتا ہے۔ میرا خون سب کو لگ جاتا ہے اور سارے خون اس کو لگ جاتے ہیں۔ 
اب سوال یہ ہے کہ طالب علم کو مجموعی فکر ہم نے کیا دی ہے؟ میں وفاق والوں سے اکثر عرض کیا کرتا ہوں کہ آپ اساتذہ کی تربیت کا اہتمام کریں تاکہ وہ طلبہ کا کوئی اجتماعی ذہن تو بنائیں اور انہیں کوئی بنیادی سوچ تو دیں۔ یہ تو انہیں بتائیں کہ ملک وملت کے تقاضے کیا ہیں، عالمی صورت حال کے تقاضے کیا ہیں، اور آپ کے مسلک کے بنیادی تقاضے کیا ہیں۔ انہیں کوئی اجتماعی سوچ دیں، اس کے ساتھ ساتھ ضمنی ترجیحات کا دائرہ بھی موجود رہے۔ 
آپ تقریباً اتفاق کریں گے کہ صورت حال ایسی ہی ہے اور اس کی بنیادی وجہ ہے کہ اساتذہ، جنہوں نے سوچ دینی ہے اور فکری تربیت کرنی ہے، خود ان کی اپنی اجتماعی فکر کا کوئی اہتمام نہیں۔ عصر ی تعلیم میں ہر سطح کے استاذ کے لیے اس سطح کا تربیتی کورس کرنا ضروری ہے لیکن ہمارے ہاں اس کا کوئی نظم نہیں۔ 
آج صورت حال یہ ہے کہ فکری طور پر ہم خلفشار کا شکار ہیں۔ ہم پر مغرب کی فکری اور تہذیبی یلغار ہے۔ اس کی صحیح تعبیر وہ ہے جو ہمارے شیخ حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ نے کی ہے کہ ’ردۃ ولا ابابکر لہا‘۔ یہ فکری ارتداد کا زمانہ ہے۔ آپ ذرا محدود حلقے میں ہیں، اللہ آپ کے ایمان کو سلامت رکھے، لیکن اگر آپ جدید حلقے میں چلے جائیں، کسی کے ذہن کو ٹٹولیں تو احتراماً اور عقیدتاً یا فتوے کے ڈر سے تو وہ شاید کوئی بات نہ کہے لیکن جب آپ اس کی فکر کا تجزیہ کریں گے تو کہیں نہ کہیں ارتداد، ارتیاب اور شک کا کوئی نہ کوئی پہلو موجود ہوگا۔ کسی نہ کسی حوالے سے وہ آج کی فکری ارتداد کی لہر سے متاثر ہوگا۔ 
ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس کشمکش کو سرے سے سمجھ ہی نہیں رہے۔ ہم پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، ہمارے گرد حصار تنگ ہوتا جا رہا ہے اور ہم بالکل ایک دائرے میں محصور ہوتے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک جدید تعلیم یافتہ نوجوان آپ سے گفتگو کرتا ہے۔ اس کے ذہن میں نکاح وطلاق یا دوسرے مسائل کے بارے میں شریعت کے احکام کے بارے میں شک ہے۔ اس نے جدید لٹریچر پڑھا ہوا ہے۔ ہم اس کے شک اور اس کی وجہ کو سمجھ کر شک کا کانٹا نکالنے کے بجائے اس کے ساتھ طعنے اور فتوے کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ وہ ہمارے سامنے تو احتراماً خاموش ہو جاتا ہے لیکن اس کا شک پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے کہ کوئی بات ضرور ہے، اس لیے یہ جواب نہیں دے سکے اور مجھے ڈانٹ رہے ہیں۔ ہم سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ اس کو شک کیا ہوا ہے، اس لیے کہ خود ہمیں معلوم نہیں ہے کہ اس کے پس منظر میں کون سا فکری الجھاؤ کارفرما ہے۔
بات سمجھانے کے لیے ایک حوالہ دوں گا۔ میں ایک عرصے سے مدارس کے منتظمین سے گزارش کر رہا ہوں کہ آج کا بین الاقوامی قانون جو رائج الوقت ہے، جس کی بنیاد پر ہم پر اعتراضات ہوتے ہیں اور الزام لگایا جاتا ہے، وہ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر ہے۔ اس کی تیس دفعات ہیں۔ ہم نے اس کو تسلیم کر رکھا ہے اور اس پر دستخط کر رکھے ہیں۔ اس وقت عالمی کشمکش میں ایک جھگڑا یہ ہے کہ مغربی اقوام کا موقف یہ ہے کہ جب آپ نے اس چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں، اس کے نظام میں شریک ہیں، اس سے فائدے اٹھاتے ہیں، یہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس کے آپ رکن ہیں، آپ نے یہ عہد کیا ہے کہ اس میں لکھی ہوئی باتوں کی اپنے دستور میں پابندی کریں گے، تو آپ اس کے خلاف اقدامات کیوں کر رہے ہیں؟ یہ موقف اس حوالے سے درست ہے کہ جب ہم نے باقاعدہ معاہدہ کر رکھا ہے تو یا تو اس پر عمل کریں اور یا اس سے پیچھے ہٹ جائیں۔
دوسری طرف ہماری صورت حال یہ ہے کہ اگر اس چارٹر کو اور اس کی ان تشریحات کو قبول کر لیا جائے جو اقوام متحدہ کے باضابطہ ادارے مثلاً جنیوا انسانی حقوق کنونشن، یونیسکو اور یونیسف وغیرہ کرتے ہیں، تو ہمیں احکام شرعیہ میں سے کم از کم ۸۰ فیصد سے دستبردار ہونا ہوگا۔ مثلاً اس میں لکھا ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان مساوات کو یقینی بنایا جائے اور جنس کی بنیاد پر کوئی امتیازی قانون نہ بنایا جائے۔ مرد اور عورت کے مابین تمام معاملات میں مساوات ضروری ہے۔ اب آپ اپنے قوانین کو دیکھ لیں کہ مرد اور عورت کے لیے قوانین میں کہاں کہاں فرق نہیں ہے۔ نماز سے شروع ہو جائیں۔ عائلی قوانین کو دیکھ لیں۔ آپ مرد کو طلاق کا حق دیتے ہیں، عورت کو نہیں دیتے۔ یہ امتیازی قانون ہے۔ وراثت میں آپ مرد کو حصہ زیادہ دیتے ہیں، عورت کو کم دیتے ہیں۔ یہ امتیازی قانون ہے۔ شہادت میں آپ بعض معاملات میں عورتوں کی گواہی قبول نہیں کرتے۔ یہ امتیاز کا قانون ہے۔ عورت کو آپ صدر اور وزیر اعظم بننے کا حق نہیں دیتے۔ یہ امتیاز کا قانون ہے۔ اس طرح آپ کی فقہ میں بہت سے ایسے احکام نکلیں گے جہاں آپ امتیاز کے قانون پر عمل کر رہے ہیں جو کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف ہے اور اس پر فوراً کہا جائے گا کہ آپ اس کو منسوخ کریں۔
ایک دوسری مثال لیں۔ عالمی قانون میں آزادی رائے اور تبدیلی مذہب کا حق ہر شخص کو حاصل ہے۔ ہر شخص کو کوئی بھی مذہب چھوڑنے یا اختیار کرنے کا اور کسی بھی قسم کی رائے ظاہر کرنے کا حق ہے۔ لیکن ہم نے توہین رسالت پر موت کی سزا کا قانون نافذ کر رکھا ہے جو رائے کی آزادی کے خلاف ہے۔ ہم نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہے، ان کو مسجدیں نہیں بنانے دیتے، ان کو اسلامی اصطلاحات استعمال نہیں کرنے دیتے جو مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔ 
یا مثلاً بین الاقوامی قانون میں غلامی کی تمام صورتیں ممنوع ہیں۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ غلامی اسلام کی مطلوبہ چیزوں میں سے نہیں، اس لیے بین الاقوامی معاہدے کے تحت یہ ممنوع سہی، لیکن وہ کہتے ہیں کہ جب ممنوع ہے اور آپ مانتے ہیں کہ غلامی درست نہیں تو پھر پڑھاتے کیوں ہیں؟ تعلیمی نصاب سے خارج کیوں نہیں کرتے؟ قرآن پاک سے وہ آیات اور حدیث وفقہ سے وہ ابواب خارج کیوں نہیں کرتے ؟
اسی طرح اس میں ایک دفعہ ہے کہ کوئی سزا ایسی نافذ نہیں کی جائے گی جس میں جسمانی تشدد یا ذہنی اذیت ہو یا جس میں توہین وتذلیل ہو۔ یعنی سزا کو تین چیزوں، جسمانی تشدد، ذہنی اذیت اور توہین وتذلیل سے خالی ہونا چاہیے۔ اب آپ کی کون سی سزا اس سے خالی ہے؟ آپ کی ساری حدود میں تشدد ہے، ہاتھ پاؤں کاٹنا، سنگسار کرنا، کوڑے مارنا، کھلے بندوں سزا دینا ہے جس میں توہین اور تذلیل ہے۔ 
گویا حدود کا نظام لے لیں، خاندانی نظام لے لیں، وراثت کا نظام لے لیں، نکاح وطلاق کا مسئلہ لے لیں، ہمارا کوئی بھی مسئلہ نہیں بچتا جس پر اعتراض نہ ہو۔ 
تو میرے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کی ان تیس دفعات کو ہمارے ہاں نصاب میں پڑھایا جانا چاہیے، اس حوالے سے کہ آج کا مروجہ بین الاقوامی قانون کیا ہے، ہمارے قوانین کیا ہیں، ٹکراؤ کہاں ہے، ان کا موقف کیا ہے اور ہمارا موقف کیا ہے؟ ہمارے عالم دین کو پتہ تو ہونا چاہیے۔ جب کوئی اعتراض سامنے آئے تو وہ سمجھ تو سکے کہ اعتراض کیوں ہے؟ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ہم نے ان کی کون سی بات قبول کرنی ہے اور کون سی نہیں، لیکن کم ازکم ہمارے علما کو اس جھگڑے سے واقف تو ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں سرے سے اس کا کوئی پتہ نہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب بحث کو اپنے دائرے میں محدود رکھتے ہیں تو اپنے لوگوں کو تو مطمئن کر لیں گے لیکن جب بات جدید تعلیم یافتہ ماحول میں کریں گے تو ہماری بات سنی نہیں جائے گی کیونکہ ہماری بات ادھوری اور بے علمی پر مبنی ہوگی۔ 
تو فکری تربیت سے مراد یہ ہے کہ ہمارے علما کو یہ پتہ ہو کہ آج کا عالمی ماحول کیا ہے، ہماری کشمکش کس سے ہے، لڑائی کس سے ہے، اس کے مقابلے میں ہم نے کیا تیاری کی ہے؟ اس انداز سے ہم قرآن مجید کا مطالعہ کریں، احادیث کا مطالعہ کریں۔ سارا ذخیرہ موجود ہے۔ قرآن پاک میں ہر چیز موجود ہے، احادیث کے ذخیرے میں ہر بات کا جواب موجود ہے، البتہ فقہی کتابوں میں اس کی نئی تعبیرات کرنے کی ضرورت ہے، لیکن چونکہ ہماری اپنی اس انداز سے مطالعہ کرنے کی تربیت نہیں ہے، اس لیے آج کی اس فکری کشمکش میں ہم موثر طور پر حصہ لینے اور کوئی عملی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں بھی پہلے بات اساتذہ کی آئے گی۔ استاد کو پتہ ہوگا تو وہ شاگرد کو بتائے گا۔ اگر اسے خود پتہ نہیں ہوگا تو شاگردوں کو کیا بتائے گا؟ میں نے وفاق والوں سے گزارش کی تھی کہ آج کے مغربی فلسفہ، عالمی کشمکش اور تہذیبی جنگ پر اساتذہ کے لیے بریفنگ کورس کا اہتمام کریں اور نصاب میں بھی ایسی چیزیں شامل کریں، خواہ وہ محاضرات کی شکل میں ہوں یا کسی کتاب کی صورت میں۔ ہمارے ہاں اس موضوع پر کام نہیں ہو رہا لیکن عرب دنیا میں کافی کام ہو رہا ہے۔ اس میں سے اچھا مواد مل جائے گا۔ 
اس کے بعد دوسرا مسئلہ ہے مسلکی تربیت کا۔ ہمارا مسلک کیا ہے اور دیوبندیت کیا ہے؟ یہاں میں تھوڑی سی گستاخی کروں گا جس کے لیے مجھے معاف کر دیں۔ میری عادت یہ ہے کہ جو بات سمجھ میں آتی ہے، کہہ دیا کرتا ہوں۔ اگر ناراض نہ ہوں تو ایک کہاوت عرض کرتا ہوں۔ کہتے کہ چار پانچ نابینا کہیں اکٹھے ہو گئے اور آپس میں باتیں کرنے لگے کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے۔ طے یہ ہوا کہ اس کا فیصلہ ’مشاہدہ‘ کرنے کے بعد کیا جائے۔ اب وہ گئے اور جا کر ہاتھی کو ٹٹولنے لگے۔ دیکھا تو تھا نہیں، تو کسی کے ہاتھ کان پر آ گئے، کسی کے سونڈ پر اور کسی کے سینگ پر۔ اب وہ تبصرہ کر رہے ہیں کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے؟ ایک نے کہا کہ ہاتھی لمبا سا ہڈی کا سینگ ہوتا ہے۔ دوسرے نے کہا کہ نہیں وہ تو چھاج کی طرح لمبا اور چوڑا سا ہوتا ہے۔ تیسرے نے کہا کہ پانی کا ایک نل ہے جس کو ہاتھی کہتے ہیں۔ چوتھے نے کہا کہ چمڑے کے ایک بڑے سے ستون کو ہاتھی کہا جاتا ہے۔ 
ہمارا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ہم میں سے جس شخص کو جس ماحول میں جس سے واسطہ پڑ جاتا ہے، ہماری دیوبندیت اسی تک محدود ہو جاتی ہے۔ ایک ماحول میں شیعہ سے واسطہ ہے تو دیوبندیت یہی ہے کہ ان کا مقابلہ کیا جائے۔ ہماری دیوبندیت اس دائرے میں بند ہو جاتی ہے۔ کہیں اہل حدیث سے سابقہ پیش آ جائے تو وہاں دیوبندیت صرف حنفیت کے دفاع میں محصور ہو جاتی ہے، باقی سارے تقاضے ختم ہو جاتے ہیں۔ کہیں بریلویوں سے لڑائی آ گئی ہے تو دیوبندیت اس دائرے میں بند ہو جاتی ہے۔ میں ان مسائل سے انکار نہیں کر رہا۔ یہ تمام شعبے ہیں۔ مجھے نہ حنفیت کے دفاع کی اہمیت سے انکار ہے، نہ بریلویت کے مقابلے سے اور نہ انکار حدیث اور شیعہ کا جواب دینے سے، لیکن یہ تمام جزوی شعبے ہیں۔ ہم ان الگ الگ شعبوں کی بات تو کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اہل السنت والجماعت کا جو اجتماعی دھارا چلا آ رہا ہے، اس کی بات ہم میں سے کوئی نہیں کرتا۔ 
قیام دیوبند کا اصل مقصد کیا تھا؟ جب انگریز یہاں آیا تھا اور اس کے ہاتھوں دین مٹ رہا تھا تو کچھ اللہ والوں نے اس تحریک کی بنیاد رکھی کہ دین کو جس حد تک ممکن ہو، بچا لیا جائے۔ مجموعی دین کو، ا س کے اجتماعی حصے کو اور سب شعبوں کو بھی۔ میرے نزدیک دیوبندیت تین چیزوں کا نام ہے۔ اگر دیوبندیت میں کسی کو معیار سمجھا جائے تو میرے نزدیک سب سے بڑا معیار شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ تعالیٰ ہیں جن کو بطور نمونہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان میں وہ تینوں باتیں تھیں: علم بھی بدرجہ اتم، روحانیت بھی بدرجہ اتم، اور جہاد بھی بدرجہ اتم۔ گویا دیوبندیت یہ ہے کہ علم میں بھی کمال ہو، روحانیت میں بھی کمال ہو اور ملی غیرت اور جہاد کے جذبے میں بھی کمال ہو۔ 
دیوبندی مسلک کوئی نیا مسلک نہیں ہے۔ ہم عقائد کے لحاظ سے اہل سنت ہیں اور فقہی اعتبار سے حنفی ہیں۔ کوئی نیا تشخص ہم نے قائم نہیں کیا۔ ایک مدرسے کے ساتھ ہماری نسبت ہے، جس کے اجتماعی مقاصد کے حوالے سے میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ہمارے اکابر نے ضمنی طور پر سارے کام کیے۔ حضرت شیخ الہند کو لے لیں۔ کیا انہوں نے حنفیت کا دفاع نہیں کیا؟ ان کے اس پر رسالے موجود ہیں، لیکن اس حد تک جتنی ضرورت پڑی۔ حضرت مدنی رحمہ اللہ نے ’الشہاب الثاقب‘ لکھی، لیکن یہ کام ضرورت کی حد تک محدود رہا۔ ان کا اصل مقصد ملی وجود اور ملی مقاصد تھے۔ جہاں ضرورت پڑی، ضمنی اور فروعی مسائل سے بھی تعرض کیا، لیکن اس کے لیے اپنے آپ کو وقف نہیں کر دیا۔ میں بھی یہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دیوبندیت سے مراد اگر ہم نے الگ الگ شعبے لے رکھے ہیں تو میں اس کو دیوبندیت نہیں سمجھتا۔ دیوبندیت نام ہے ملت کے اجتماعی دینی کام کا۔ جہاں کسی ضمنی کام کی ضرورت پڑتی ہے، وہاں وہ ضرور کیا جائے لیکن ہمارا اجتماعی اور مین دھارا یہ ہے کہ اس ملک میں، اس معاشرے میں دین کی اجتماعی حفاظت کی جائے اور نئی نسل تک دین صحیح حالت میں منتقل ہو۔ اجتماعی مقاصد اور ملی مقاصد کے حوالے سے ہم طلبہ کی تربیت کریں۔
ہمیں اس پہلو کی طرف توجہ دینی چاہیے کہ فکری تربیت، ملکی مقاصد اور مسلک کے اصل اہداف کے حوالے سے ہمیں تھوڑا سا ماضی کی طرف پلٹ کر اپنے بزرگوں کو دیکھیں اور اس کے مطابق علمی کمال، روحانیت اور ملی غیرت وحمیت کی خصوصیات اپنے طلبہ میں پیدا کر کے اجتماعی مقاصد اور ضروریات کے لیے ان کو تیار کریں۔
باتیں تو میں اور بھی بہت سی کہنا چاہتا تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وقت اس کی اجازت نہیں دیتا۔ پھر کبھی موقع ملا تو ان شاء اللہ ان پر تفصیل سے بات ہوگی۔ اس وقت میں چاہوں گا کہ مولانا محمد بشیر صاحب سیالکوٹی آپ حضرات کے ساتھ عربی زبان کی تعلیم وتدریس کے جدید اسلوب اور اس کی اہمیت کے موضوع پر تفصیل کے ساتھ گفتگو فرمائیں۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

دینی مدارس میں عربی زبان کی تعلیم کا منہج

مولانا محمد بشیر سیالکوٹی

(۵ دسمبر ۲۰۰۳ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اساتذہ کے دو روزہ مشاورتی اجتماع کی چوتھی نشست سے خطاب۔)

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔ اما بعد
معزز حاضرین! 
مجھ سے قبل میرے بزرگ دوست مولانا زاہد الراشدی ہمارے فکری اور مسلکی رویوں کے حوالے سے نہایت اہم گفتگو فرما رہے تھے۔ مولانا کی گفتگو مجھے بھی جرات سخن عطا کرتی ہے، کیونکہ انہوں نے اپنی گفتگو میں بعض باتیں ایسی فرمائی ہیں جو عام طور پر لوگ نہیں کہتے۔ 
۱۹۶۵ء میں، میں کراچی میں حاضر ہوا تو حضرت مولانا یوسف بنوری صاحبؒ کے ہاں ٹھہرا۔ ہفتہ عشرہ مولانا مفتی محمد شفیعؒ کے ہاں بھی گزارا۔ مفتی صاحبؒ نے اپنی وہ معروف تقریر جو اب ’’وحدت امت‘‘ کے نام سے چھپی ہوئی ہے، ہمارے ہی ادارے ’’جامعہ تعلیمات اسلامیہ‘‘ میں فرمائی تھی۔ مولانا عبد الرحیم اشرفؒ اس کے سرپرست تھے اور میں اس ادارے کا ناظم تھا۔ اس تقریر میں انہوں نے مولانا انور شاہ کشمیریؒ کا یہ واقعہ بیان کیا کہ ایک دن بڑے غمگین بیٹھے تھے۔ ہم نے پوچھا کہ حضرت کیا بات ہے؟ تو فرمایا کہ ہم نے ساری زندگی اس بات میں لگا دی کہ حنفی مسلک کی ترجیح اور فضیلت دوسرے مسالک کے مقابلے میں ثابت کر دیں، جبکہ ہماری اصل ذمہ داری تو اسلام کی اساسی تعلیمات کو پیش کرنا تھا۔
اس رویے کا ایک پہلو تو یہی ہے جس کی طرف شاہ صاحبؒ نے اشارہ فرمایا، یعنی مسلک کی تائیدواشاعت کو ہی زندگی کا مقصد بنا لینا، حالانکہ مسلک ایک بہت محدود دائرہ ہے اور اصل چیز دین کی خدمت ہے۔ اس مسئلے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے، اور وہ یہ کہ ہمارے ہاں مسلک زدگی کا مرض اس حد تک پایا جاتا ہے کہ ذہین اور باصلاحیت اہل قلم جو کچھ لکھتے ہیں، ان کی علمی کاوشوں کی قدروقیمت بھی مسلک کی بنیاد پر متعین کی جاتی ہے۔ ہمارے استاد محترم مولانا عبد الغفار حسن صاحب مدظلہ ایک نہایت فاضل علمی شخصیت ہیں اور مدینہ یونیورسٹی میں اٹھارہ سال تک علم الاسناد کے پروفیسر رہے ہیں۔ مسلکاً اہل حدیث ہیں لیکن مخصوص مسلکی مزاج نہ رکھنے کی وجہ سے ان کے اہل حدیث ہونے پر خود اہل حدیث حضرات میں کئی لطیفے بنے ہوئے ہیں۔ میں خود اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہوں، لیکن اس طرح کہ اس حوالے سے اپنا تعارف پسند نہیں کرتا، ہاں اگر کوئی مجھے اہل حدیث کہے تو اس سے براء ت بھی نہیں کرتا۔ لیکن اہل حدیث میں پانچ چھ گروہ ہیں اور عربی زبان کے حوالے سے میری جو ٹوٹی پھوٹی خدمات ہیں، ان سے عمومی استفادہ میں بھی یہی چیز حائل ہے کہ میں کس حلقے کے زیادہ قریب ہوں اور کس سے دور۔ 
مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کا شکوہ بھی سناتا جاؤں۔ وہ فرماتے تھے کہ میں دار العلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کا رکن ہوں لیکن میری کتابوں کی پذیرائی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پہلے ہوئی ہے اور ان درویشوں کے ہاں بعد میں۔ ان کی زندگی میں تو برصغیر کے مدارس میں بہت ہی کم ہوئی۔ یہ مرض ہمارے اس خطے میں، واقعہ یہ ہے کہ بہت زیادہ ہے۔ 
خیر یہ تو میرے کچھ جذبات تھے جن کا مولانا راشدی کی گفتگو کے حوالے سے اظہار ہو گیا۔ جہاں تک میرے موضوع کا تعلق ہے تو عربی زبان کے ایک خادم اور اس کی تعلیم وتدریس سے متعلق ہونے کے ناتے سے میں اپنی زندگی کے بعض تجربات سے آپ حضرات کو آگاہ کرنا چاہوں گا۔ 
میرے خاندان میں کوئی پرائمری پاس نہیں تھا۔ گاؤں میں پہلا سکول بنا تھا۔ جب سکھ وہاں سے گئے تو میری عمر گیارہ سال تھی۔ والد صاحب کبھی پرائمری کرنے کے لیے سکول میں داخل ہونے کو کہتے تھے، اور کبھی کہتے تھے کہ پرائمری کی کیا ضرورت ہے، تم زراعت کیا کرو۔ میں جب پہلی جماعت میں تھا توہمارے گاؤں میں ایک موحد عالم آئے۔ وہ شروع شروع میں چھوٹی موٹی بدعات کر لیا کرتے تھے تاکہ لوگ انہیں وہابی نہ سمجھیں، مثلاً ختم پڑھ لیتے تھے، لیکن ہمارے دل میں یہ بات انہوں نے ڈال دی کہ یہ شرک ہے۔ انہوں نے مجھے تین سال میں گلستان، بوستان اور پندنامہ وغیرہ کتابیں پڑھا دیں۔ بس یہ ایک تعلیمی پس منظر ذہن میں آتا ہے، ورنہ مجھ سے پہلے میرے خاندان میں کوئی شخص پڑھا لکھا نہیں تھا۔
اس کے بعد آج سے چالیس پینتالیس سال پہلے جب مجھے دینی مدارس میں پڑھنے کا موقع ملا تو صورت حال یہ تھی کہ مجھے پڑھانے والے اساتذہ پٹھان تھے، میں خود پنجابی تھا، کتاب فارسی میں تھی اور جس زبان کو سیکھنا مقصود تھا، وہ عربی تھی۔ اس صورت حال میں غالباً آج بھی کوئی زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ میں نے دو سال اس نظام میں پڑھا اور میرا شمار انعام پانے والے طلبہ میں ہوتا تھا۔ میں نے ’زرادی‘ وغیرہ کتابیں پڑھ لی تھیں اور صرف ونحو کے قواعد اچھی طرح سے رٹے ہوئے تھے۔ 
یہ غالباً ۵۷ء یا ۵۸ء کی بات ہے کہ کتابوں کے ایک تاجر نے بیروت سے تفسیر ابن کثیر وغیرہ کچھ عربی کی کتابیں منگوائیں جن کی پیکنگ کے لیے عربی کے پرانے اخبارات استعمال کیے گئے تھے۔ آپ یقین جانیے، ان اخبارات کو دیکھ کر مجھے پہلی مرتبہ یہ معلوم ہوا کہ یہ جس زبان کی گردانیں ہم یاد کرتے اور جس کے قواعد کو ہم رٹا لگاتے ہیں، یہ دنیا کے کسی علاقے میں لکھی پڑھی بھی جاتی ہے اور اس میں اخبارات بھی شائع ہوتے ہیں۔ یعنی بات ’ضرب زید عمرا‘ سے آگے بھی ہے۔ 
اسی طالب علمی کے دور میں جب میں ’ابواب الصرف‘ پڑھتا تھا تو مجھے یاد ہے کہ ایک دن استاد نے لم یضرب کے صیغے پر ہلکی سی چھڑی مار دی۔ یہ پہلی اور آخری چھڑی تھی، لیکن میں نے اس وقت یہ سوچا کہ بڑا ہو کر اس کتاب کا کچھ نہ کچھ علاج ضرور کروں گا۔ اب اتنے عرصے کے بعد جب میں ’ابواب الصرف‘ کو بطرز جدید مرتب کر رہا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اس وقت کی سوچی ہوئی بات کیسے حقیقت کا روپ دھار رہی ہے۔ 
عربی نصاب اور طرز تدریس کی اصلاح کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے بہت پہلے جو ابتدائی خیال ذہن میں ڈالا تھا، وہ بعد میں انگریزی زبان کی تعلیم حاصل کرنے سے اور پختہ ہوا کہ اس پہلو میں عربی مدارس کی مدد کرنی ہے، کیونکہ عربی زبان دنیا کی دوسری زبانوں کی طرح محض ایک زبان نہیں ہے۔ یہ ہمارے دین کا حصہ ہے۔
اس کے بعد مجھے عرب ممالک میں رہنے اور کام کرنے اور حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ اور مولانا ابو الحسن علی ندویؒ اور دوسرے عالمی سطح کے اہل علم اور مفکرین سے ملنے کا موقع ملا۔ مولانا ندویؒ فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان میں ایک سپاہی تو ایسا ہونا چاہیے جو قرآن کی زبان کو صحیح انداز میں پیش کرنے کے لیے کام کرے۔ اس عرصے میں، میں مختلف نوکریاں بھی کرتا رہا۔ وزارت خارجہ میں کام کا موقع ملا، اقوام متحدہ سے بھی آفر ہوئی۔ اور میں کئی دفعہ بزنس اور نوکریوں کو چھوڑ کر واپس آیا کہ مجھے یہ کام کرنا ہے۔ میں اس لیے نہیں پیدا ہوا کہ کوئی کوٹھی بنا کر مرجاؤں۔ 
مجھے عربوں میں سرکاری سطح پر کام کرنے کا موقع ملا۔ میں نے حکومت پاکستان بلکہ مملکت پاکستان کے بے شمار خسارے خود ٹیبل پر بیٹھ کر دیکھے ہیں جو عربی زبان نہ جاننے کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ بیس کے قریب عرب ملک ہیں جن کے ساتھ ہمیں سرکاری سطح پر ڈیلنگ کرنی ہوتی ہے۔ ان میں سے بعض نہایت خفیہ تجارتی اور سیاسی ڈیلنگز بھی ہوتی ہیں، لیکن ہمارے ملک میں وزارت خارجہ کی سطح پر صرف ایک مترجم ہوتا ہے جو بوقت ضرورت صدر ہاؤس اور وزیر اعظم ہاؤس میں بھی خدمات انجام دیتا ہے۔
میں ایک واقعہ آپ کو سنانا چاہوں گا جس کا میں عینی شاہد ہوں۔ ۱۹۷۹ء میں بیت اللہ پر جب کچھ جذباتی نوجوانوں نے قبضہ کیا تو میری ڈیوٹی اس وقت پاکستانی وزارت خارجہ میں تھی۔ اتفاق سے اس واقعہ کی اطلاع جب دفتر میں موصول ہوئی تو میں میز پر موجود نہیں تھا۔ میرے ایک ساتھی مترجم نے، جو علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے، اس کی فوری رپورٹ تیار کر کے حکومت پاکستان کو بھجوا دی، لیکن عربی سے مناسب واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے ایک ایسی بھیانک غلطی ان سے سرزد ہوئی کہ اس کا بہت بھاری نقصان حکومت پاکستان کو اٹھانا پڑا۔ ہوا یوں کہ سعودی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ عربی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’بعض الخارجین علی النظام‘  یعنی حکومت کے کچھ باغیوں نے بیت اللہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ عربی زبان میں خرج کے ساتھ جب علیٰ کا صلہ آئے تو اس کا مطلب بغاوت کرنا ہوتا ہے، لیکن میرے ساتھی مترجم اس سے واقف نہیں تھے، چنانچہ انہوں نے ترجمہ یوں کر دیا کہ Some non-Muslims have captured the Kaba.، یعنی کچھ غیر مسلموں نے بیت اللہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ میں جب اگلے دن دفتر میں گیا اور رپورٹ کی کاپی دیکھی تو میں نے سر پکڑ لیا اور اپنے ساتھی سے کہا کہ یہ آپ نے کیا کر دیا؟ کم از کم ترجمہ چیک تو کرا لیتے۔ میں نے کہا کہ فوراً پاکستان کا ریڈیو آن کرو۔ سعودیہ کے وقت کے مطابق آٹھ بجے جبکہ پاکستان کے وقت کے مطابق دس بجے کی خبریں نشر ہو رہی تھیں اور ان میں بتایا جا رہا تھا کہ یہاں علماے کرام امریکی سفارت خانے کو جلا چکے ہیں۔ ظاہر ہے، اگر یہ خبر نشر ہوگی کہ کعبہ پر کافروں نے قبضہ کر لیا ہے تو رد عمل یہی ہوگا۔ بعد میں حکومت پاکستان کو کروڑوں روپے خرچ کر کے ایمبیسی کی مرمت کرانا پڑی کیونکہ بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق ہماری حکومت اس کی حفاظت کی ذمہ دار تھی۔ 
اب میں مختصراً یہ بات واضح کرنے کی کوشش کروں گا کہ عربی زبان کی تدریس کے حوالے سے دینی مدارس میں مروج طریقے میں کیا نقص پایا جاتا ہے۔ میرے خیال میں اس طریقے کی بنیادی خامیاں دو ہیں:
ایک، زبان کے عملی استعمال کے بغیر صرف ونحو کے قواعد رٹانا۔
اور دوسرا، لسانی مسائل کی تعلیم میں مناسب ترتیب اور تقسیم کا فقدان۔
حقیقت یہ ہے کہ عربی کی تعلیم کے لیے ’ابواب الصرف‘ کی طرز پر گردانوں کارٹانا عربی مدارس اور دینی علوم کے لیے بدنامی کا باعث ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ گردانیں نہیں ہونی چاہییں، لیکن جس طرح سے صرف کا یہ پیچیدہ فن زبان کے عملی استعمال کے بغیر پڑھایا جاتا ہے، وہ ایک نقصان دہ بات ہے۔ دنیا کے عجائبات میں اگر اس کا شمار کریں تو غلط نہیں ہوگا۔ آپ اندازہ کیجیے کہ مثلاً ’ارشاد الصرف‘ یا ’ابواب الصرف‘ وغیرہ پڑھنے والا طالب علم تقریباً ۵۳ ہزار الفاظ پڑھتا اور یاد کرتا ہے، اور صرفی قواعد کا اتنا ماہر ہوتا ہے کہ آپ اسے پنجابی کا کوئی لفظ دیں تو وہ عربی کی طرز پر اس کی گردان بنا دے گا۔ میں خود اس طریقے سے گزرا ہوں۔ اور یہ جو مدارس میں جملہ مشہور ہے کہ ’’دعا یدعو پڑھدے نٹھے تے ہل ویندے ڈٹھے‘‘ تو حقیقت یہ ہے کہ ہم خود انہیں بھگاتے ہیں۔ 
اس ضمن میں دوسری بات یہ ہے کہ صرف ونحو بلکہ تمام علوم میں مناسب ترتیب اور ان کے مواد میں تقدیم وتاخیر ہونی چاہیے۔ موجودہ نصاب میں، مثال کے طور پر، نحو کی سب سے پہلی کتاب ’علم النحو‘ میں وہ بیشتر مسائل اور مثالیں جو طالب عالم اگلے مرحلے کی کتابوں ’ہدایۃ النحو‘ اور ’شرح جامی‘ وغیرہ میں پڑھتا ہے، درج کر دی گئی ہیں۔ مثلاً جملہ انشائیہ کی ساری قسمیں اسی سطح پر طالب علم کے سامنے رکھ دی گئی ہیں، جبکہ سردست صرف جملہ انشائیہ اور جملہ خبریہ کا فرق سمجھا دینا کافی ہے۔ اسی طرح مستثنیٰ منہ کی مختلف اقسام، جن میں سے بعض کافی پیچیدہ ہیں،ایک مبتدی طالب علم کو ان میں الجھانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ اسی طرح باقی مباحث میں بھی موٹی موٹی اور بنیادی چیزیں سکھانے کی ضرورت ہے، باقی تفصیلات اگلے درجات پر چھوڑ دی جائیں۔ ہمارے ہاں ’شرح ماءۃ عامل‘ کو جس طرح سے پڑھایا جاتا ہے، وہ معلوم ہی ہے۔ 
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ایک واقعہ ہوا کہ مصر سے نحو کے ایک بلند پایہ استاد تشریف لائے اور انہوں نے اس موضوع پر پاکستانی طلبہ کو ایک لیکچر دیا۔ اس میں انہوں نے کہا کہ عبد القاہر جرجانی نے فلسفہ نحو پر ایک رسالہ لکھا ہے جس کا نام ’العوامل الماءۃ‘ ہے، اس پر بھی نظر ڈالنی چاہیے۔ حاضرین نے انہیں بتایا کہ یہ کتاب تو یہاں بلکہ ترکی سے انڈونیشیا تک ہر جگہ داخل نصاب ہے اور عربی کے ابتدائی طلبہ کو پڑھائی جاتی ہے۔ وہ حیران رہ گئے اور کہنے لگے کہ یہ رسالہ تو فلسفہ نحو میں لکھا گیا ہے نہ کہ نحو میں اور اس کا مطالعہ ایک منتہی کو کرنا چاہیے نہ کہ ایک مبتدی طالب علم کو۔
اگر آپ کسی بچے سے یہ کہیں کہ چونکہ تم نے ABC یاد کر لی ہے، اس لیے اب ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ کے قواعد بھی رٹ لو تو یہ کتنی غلط بات ہوگی۔ ان کا مرحلہ تو بہت بعد میں آئے گا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہم اپنے طلبہ کے ساتھ اس سے بھی زیادہ غیر معقول رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ایک طالب علم بیچارہ گاؤں کے ماحول سے اٹھ کر آتا ہے اور اس کو ’اسناد‘ کی نظری بحثوں سے واسطہ پڑ جاتا ہے کہ ایک ’مسند‘ ہوتا ہے اور ایک ’مسند الیہ‘، اسم ’مسند الیہ‘ بھی ہو سکتا ہے اور ’مسند‘ بھی، فعل صرف ’مسند‘ ہو سکتا ہے، ’مسند الیہ‘ نہیں ہو سکتا، جبکہ حرف نہ ’مسند‘ ہوتا ہے اور نہ ’مسند الیہ‘۔ اب واقعہ یہ ہے کہ ان نظری بحثوں اور تدقیقات کو سمجھنے کے لیے طالب علم کا ذہن اس مرحلے پر تیار نہیں ہوتا اور نتیجتاً وہ اس فن سے متوحش ہو جاتا ہے۔ 
یہ باتیں تو صرف ونحو کی تعلیم کے حوالے سے تھیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ عربی کی ’لغت‘ بھی سکھائی جانی چاہیے، جوکہ مدارس میں نہیں پڑھائی جاتی۔ ہم ہر چیز عربی میں پڑھاتے ہیں لیکن عربی نہیں پڑھاتے۔ زبان کے استعمال میں بعض نازک چیزیں ایسی ہیں جن پر خاص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، مثلاً مختلف افعال کے درست مصادر کا استعمال، مصادر کے بدلنے سے معانی کے بدلنے کا علم، فعل کے مفہوم میں صلات کے بدلنے سے پیدا ہونے والی تبدیلی، اور اس طرح کے بعض دوسرے امور۔ ان چیزوں کو توجہ سے سیکھے بغیر درست عربی نہ بولی جا سکتی ہے اور نہ لکھی، بلکہ ترجمہ بھی درست نہیں کیا جا سکتا۔ آرمی میں ایک خطیب صاحب نے تقریر کرتے ہوئے ’الشیطان یعدکم الفقر’ کا ترجمہ یہ کیا کہ ’’شیطان تم سے فقر کا وعدہ کرتا ہے‘‘۔ میں نے گزارش کی کہ یہاں یعد کا معنی وعدہ کرنا نہیں بلکہ ڈرانا ہے۔ اگر وعد کا مصدر وعد ہو تو معنی وعدہ کرنا ہوتا ہے، لیکن وعید ہو تو معنی ڈرانا اور دھمکانا ہوتا ہے۔ واللہ یعدکم مغفرۃ میں پہلا جبکہ الشیطان یعدکم الفقر میں دوسرا معنی مراد ہے۔ تو کہنے لگے کہ مدارس میں ہم نے یہ چیزیں نہیں سیکھیں۔ اسی طرح گزشتہ حاضری کے موقع پر میں نے یہاں تفنن کے لیے اساتذہ اور طلبہ سے بعض افعال کے مصادر پوچھے تو غلط جواب ملا۔ مثلاً فرح یفرح کا مصدر فرحا اور نظر ینظر کا نظرا بتایا گیا، حالانکہ صحیح مصادر فرحا اور نظرا ہیں۔ 
اگر کسی کو تجوید کی سات کتابیں ازبر ہوں تو آپ اسے قاری نہیں مانتے، بلکہ قاریوں کا محض نقاد مانتے ہیں جو خود تو ایک سورت بھی تجوید کے قواعد کے مطابق نہ پڑھ سکے لیکن نکتہ چینی ہر قاری پر کر سکے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ عربی مدارس کے لوگوں کو صرف ونحو آتی ہے، یہ صحیح بات نہیں ہے۔ یہاں تو یہ ہو رہا ہے کہ سات آٹھ سال کے نصاب میں وہی باتیں بار بار طوطے کی طرح طلبہ کی رٹا دی جاتی ہیں اور وہ بھی بغیر استعمال کے، اور اسے آتا کچھ بھی نہیں۔ آپ کسی کو زبانی کتنا ہی لیکچر دے ڈالیں کہ ڈرائیونگ کرتے وقت گاڑی کو یوں سنبھالنا ہے، بریک یوں لگانی ہے وغیرہ، لیکن جب تک آپ اس کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھائیں گے نہیں، اسے ڈرائیونگ نہیں آئے گی۔ تمام ٹیکنیکل فنون کا یہی معاملہ ہے کہ انہیں عملی طور پر سکھانا پڑتا ہے۔ زبان بھی ایک عملی، اور استعمال کی چیز ہے۔ اس کی تعلیم میں بھی اس اصول کی پابندی کی جانی چاہیے۔ صرف ونحو کا مقصد تو آپ یہ بتاتے ہیں کہ ’صیانۃ الذہن عن الخطا اللفظی‘ یعنی لکھنے اور بولنے میں خطا سے بچ جانا، لیکن جب لکھنا بولنا ہی نہیں تو غلطی کہاں سے ہوگی؟
اس طریقے کے دفاع میں عام طور پر کئی باتیں کہی جاتی ہیں۔ مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ یہ اکابر نے بنایا ہے اور اسی کے مطابق تعلیم پا کر بڑے بڑے اہل علم تیار ہوئے ہیں۔ ہمیں اکابر کا پورا احترام ملحوظ ہے لیکن بات یہ ہے کہ ہمارے حالات اور ضروریات کے لحاظ سے اگر کہیں ترمیم اور تبدیلی کی ضرورت ہے تو اس سے گریز نہیں کیا جا سکتا۔ 
کچھ کہتے ہیں کہ آپ کو صرف عربی زبان کی فکر ہے، آپ اسی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ میں عرض کرتا ہوں کہ آپ کا ستر فی صد نصاب عربی میں ہے، تو عربی کی استعداد سے کیسے صرف نظر کیا جا سکتا ہے؟ کچھ کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد عربی بطور زبان سکھانا نہیں بلکہ علوم شرعیہ اور مسائل کی تعلیم دینا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ایک غلط طرز فکر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بسا اوقات علما ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ عربی کی تعلیم کے مخالف ہوں۔ ہمارے اختیار کردہ طریقے سے جو قباحتیں سامنے آ رہی ہیں، میں ان میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا۔
ایک تو یہ کتنی عجیب بات ہے کہ دینی مدارس کے اہل علم صحیح عربی میں چند جملے بھی لکھ اور بول نہ سکیں۔ اس سے زبان بدنام ہوتی ہے۔ جب سالہا سال تک اعلیٰ عربی نصاب پڑھانے والا شیخ الحدیث عربی میں گفتگو نہ کر سکتا ہو تو ایک عام ڈاکٹر اور پروفیسر تو لازماً متوحش ہوگا کہ یہ تو ایسی مشکل زبان ہے کہ بڑے بڑے علما کو بھی زندگی بھر پڑھنے پڑھانے کے باوجود بولنی نہیں آتی۔ واقعہ یہ ہے کہ لوگ یہی سمجھتے ہیں۔ میں نے اس بات کا بڑا وسیع تجربہ کیا ہے کہ ہمارا طریقہ عربی کی بدنامی اور بالواسطہ انگریزی کے غیر ضروری تسلط اور فروغ کا سبب بن رہا ہے۔ 
آپ کے شہر گوجرانوالہ میں ہم نے چند ماہ قبل طالبات اور معلمات کے لیے عربی ریفریشر کورس کا اہتمام کیا۔ ایک ایم اے پاس معلمہ نے کہا کہ پہلی مرتبہ سنا ہے کہ عربی میں بھی ریفریشر کورس ہوتے ہیں۔ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ عربی ایک مردہ زبان ہے، ہمارے دین کی مقدس زبان ہے، کہیں لکھی بولی نہیں جاتی، تو اس میں ریفریشر کورس کرانے کا کیا مطلب، کیونکہ ریفریشر کورس تو نئی جان ڈالنے یا تازگی پیدا کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ تصور ہمارے صرف ونحو کے طریقے سے عربی پڑھانے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ عام طلبہ تو کیا، خود دینی مدارس کے اساتذہ بھی اسی تصور میں مبتلا ہیں۔ میرے پاس علما عربی میں خط لکھوانے کے لیے آتے ہیں، یا کہیں عربی میں تقریر کرنی ہو تو مجھ سے کہا جاتا ہے۔ میں نے ایک مرتبہ اپنے بڑے عالم سے کہا کہ مولانا، آپ شیخ الحدیث والتفسیر ہیں، آپس میں بیٹھے ہیں، بے تکلفی سے بتائیے کہ آپ عربی کو مشکل سمجھتے ہیں یا آسان؟ کہنے لگے، خدا کی قسم مشکل ہے۔ ساری عمر پڑھی پڑھائی ہے لیکن عربوں کے پاس جاتا ہوں تو بول نہیں سکتا۔ میں نے ان سے کہا، خدا کی قسم یہ بالکل مشکل نہیں ہے۔ آپ کو مشکل اس لیے لگتی ہے کہ آپ دوڑ تو پنڈی کی طرف رہے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ لاہور نہیں آ رہا۔ اس طرح اگر آپ تیز دوڑیں گے تو لاہور قریب نہیں آئے گا بلکہ اور دور ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اردو دان لوگوں کے لیے انگریزی کی نسبت عربی سیکھنا زیادہ آسان ہے۔ دونوں زبانوں کے حروف تہجی اور ان کا تلفظ ایک جیسا ہے اور عربی زبان کے الفاظ کا ایک بڑا ذخیرہ ہم خود اپنی زبان میں روز مرہ استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح ہم انگریزی کی بہ نسبت عربی سے زیادہ مانوس ہیں۔
اسلامی تہذیب وتمدن کو مٹانے کے لیے جو بھی منصوبے استعماری طاقتوں نے تیار کیے، عربی زبان کو دبانے اور ختم کرنے کی کوششیں ان کا لازمی حصہ تھیں۔ وہ اسلام دشمنی کی بنا پر ایسا کرتے ہیں اور ہم وہی کام اپنی سادہ لوحی اور قدیم طرز تعلیم پر جمود کے ذریعے سے کر رہے ہیں۔ 
پھر آپ یہ دیکھیں کہ برصغیر کے علما کی تصنیفات کا ایک قیمتی ذخیرہ ہے جو اردو اور فارسی زبانوں میں ہے اور اس وجہ سے عالم عرب ان سے استفادہ کرنے سے محروم ہے۔ مثال کے طور پر شاہ ولی اللہؒ کی کتاب ازالۃ الخفاء، جس کے بارے میں نواب صدیق حسن خانؒ نے لکھا ہے کہ لم یولف مثلہ قبلہ ولا بعدہ، لیکن عرب لوگ اس سے واقف نہیں۔ ہم کچھ دوست فیصل آباد میں مولانا اسحاق چیمہ صاحب کے گھر بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے تو میں نے عرض کیا کہ مولانا، ہماری جان تو فاتحہ خلف الامام کی بحث سے نہیں چھوٹتی، جبکہ اس کے علاوہ بھی کئی کام ہیں۔ مثال کے طور پر ازالۃ الخفاء کو عالمی سطح پر علمی حلقوں کے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ وہیں اس کتاب کی تعریب کی ابتدائی تحریک ہوئی۔ میں نے مولانا ارشاد الحق اثری صاحب سے گزارش کی کہ وہ اس کی تخریج کر دیں اور خود میں نے اس کی تعریب کرنا شروع کر دی۔ ایک بڑے حصے کا عربی ترجمہ میں نے خود کیا ہے اور باقی ماندہ ایک عرب مترجم سے کروا رہا ہوں۔ یہ کام دو تہائی کے قریب مکمل ہو گیا ہے۔ اگر مولانا یوسف بنوریؒ حیات ہوتے تو ان سے گزارش کرتا کہ اس کا مقدمہ تحریر فرمائیں، لیکن یہ بھی مجھے خود ہی لکھنا پڑا اور اب وہ ’’الشاہ ولی اللہ، حیاتہ ودعوتہ‘‘ کے نام سے الگ کتاب کی صورت میں بیروت سے چھپ گیا ہے۔ اسی طرح شرعی عدالت نے قادیانی مسئلے پر جو فیصلہ کیا تھا، اس کا بھی میں نے عربی اور اردو دونوں زبانوں میں ترجمہ کیا۔ تو اس نوعیت کے علمی کاموں کا ایک بڑا ذخیرہ ہے جو فصیح عربی میں ترجمہ کی صلاحیت رکھنے والے مستعد اور قابل نوجوانوں کی ایک بڑی کھیپ کا منتظر ہے۔ 
مسئلے کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے۔ علما یہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ حکومت ان کے سپرد کر دی جائے اور وہ اس کے معاملات کو چلانے کے اہل ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت سے عملی میدانوں میں کام کرنے کے لیے علما کی مناسب تیاری نہیں ہے جس کی وجہ سے سیکولر ذہن کے لوگوں کو ان میدانوں میں آگے بڑھنے اور سیکولر نظریات اور اقدار کو فروغ دینے کے مواقع ملتے ہیں۔ اسلام آباد میں نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (NUML) میں سیکولر مزاج کے حامل عربی کے ماہرین تیار کیے جا رہے ہیں۔ وہ لوگ مدارس پر پھبتیاں کستے ہیں کہ ان لوگوں کو عربی نہیں آتی۔ وہاں مخلوط تعلیم کا ماحول ہے اور آزاد ماحول میں تربیت پانے والے فوجی افسران اس کے نگران ہیں۔ اگر کوئی دینی مزاج رکھنے والا استاذ اس کے خلاف کوئی بات کرتا ہے تو کرنل صاحب ڈانٹ پلا دیتے ہیں۔ گویا عربی زبان کے میدان میں خدمات انجام دینے کے لیے بھی ماہرین سیکولر بنیادوں پر تیار ہو رہے ہیں، اور یہ اس لیے کہ مذہبی طبقات کے نوجوان اس کام کے لیے آگے نہیں بڑھے۔
میں اپنی ان گزارشات کا حاصل چند نکات کی صورت میں پیش کرنا چاہوں گا:
۱۔ آپ عربی زبان کو سہل اور دلچسپ بنا کر پیش کریں، اس کے مشکل ہونے کے تاثر کو ختم کریں اور صرف ونحو کے قواعد سے بقدر ضرورت مدد لیتے ہوئے اصل توجہ زبان کے عملی استعمال پر مرکوز کریں۔ اس ضمن میں اب کافی ذخیرہ سامنے آ چکا ہے، آپ اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ عرب دنیا میں رائج کتابوں میں سے ایک کتاب التحفۃ السنیۃ فی شرح الآجرومیۃ ہے، جو میں نے اہل حدیث مدارس میں لگوائی تھی اور آپ کو بھی مشورہ دیتا ہوں کہ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ کہتے ہیں کہ مصر میں یہ کتاب ہر بچے کو ازبر ہوتی ہے۔ اصل ’’رسالہ آجرومیہ‘‘ مراکش کے علاقے آجروم کے رہنے والے کسی قدیم بزرگ کا ہے اور اس کی شرح محی الدین عبد الحمید نے لکھی ہے۔ یمنیوں نے اسے مزید اتنا آسان بنا دیا ہے کہ اسے ہمارے یہاں سکول کی پہلی جماعت میں پڑھایا جا سکتا ہے۔ 
۲۔ ابواب الصرف کے بارے میں میری اصل رائے تو یہ ہے کہ اس طریقے سے ’صرف‘ نہ پڑھائی جائے، لیکن مانے گا کون۔ اس لیے میں نے سوچا کہ اس میں استعمالات اور مشقوں کا اضافہ کر دیا جائے تاکہ کچھ تو صورت حال بہتر ہو سکے۔ مثلاً صرف کے بجائے، جو نسبتاً قلیل الاستعمال ہے، علم کی گردان پڑھائی جائے۔ اور خالی صیغے اور گردانیں رٹانے کے بجائے ان کے استعمال کے لیے جملے دیے جائیں۔ مثلاً من علمک القراء ۃ، من علمک الحدیث، ممن تعلمت الحدیث الشریف، تعلمت من فلان۔ اس طرح طالب علم گردان کے ساتھ ساتھ استعمال بھی سیکھ جائے گا۔ اسی کے ضمن میں آپ مدرسے کے ماحول سے متعلق کئی دوسرے جملوں کی مشق بھی کروا سکتے ہیں۔ مثلاً فی مدرستنا عشرۃ مدرسین۔ الشیخ محمود یعلمنا القران۔ والشیخ حامد یعلمنا الفقہ الاسلامی۔ من یعلمک اللغۃ العربیۃ؟ الاستاذ ابراہیم یعلمنا اللغۃ العربیۃ۔ وغیرہ
اسی طرح باقی کتابوں میں سے بھی کوئی کتاب عملی استعمال کے بغیر نہ پڑھائی جائے۔ فوری طور پر وہ کتابیں نصاب میں لگانی چاہییں جن میں قواعد کے استعمال کی مشقیں شامل کی گئی ہیں، کیونکہ مشق اور اجرا سے ہی قاعدہ صحیح طور پر سمجھ میں آتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ طلبہ کو ’قصص النبیین‘ پڑھائیں لیکن مشقوں کے ساتھ۔ اس کی ورک بک بھی ساتھ پڑھائیں۔ اس طریقے سے طالب علم جب پڑھے ہوئے ذخیرے کو استعمال کرے گا تو اسے سالہ شیئا اور سالہ عن شئ جیسے محاورات کا فرق عملی طور پر سمجھ میں آئے گا اور وہ غلطی نہیں کرے گا۔ اسلامی یونیورسٹی میں محاوروں کے غلط استعمال پر اکثر مذاق ہوتا رہتا ہے۔ طالب علم کہتا ہے، سالت من المدرس یا سالت من المدیر۔ حالانکہ صحیح محاورہ یا تو سالہ شیئا ہے (یعنی کسی سے کوئی چیز مانگنا) اور یا سالہ عن شئ (یعنی کسی چیز کے بارے میں پوچھنا)۔ سال کے ساتھ من صلے کے طور پر استعمال نہیں ہوتا۔ اسی طرح مثال کے طور پر ارحم علیٰ حالنا غلط ہے۔ صحیح محاورہ اللہم ارحمنا ہے۔ رحم کے ساتھ علیٰ استعمال نہیں ہوتا۔ ہر زبان میں صلات (Prepositions) کے صحیح استعمال پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ انگریزی میں مثلاً Look into کا مطلب اور ہوتا ہے اور Look at کا معنی اور۔ تو میں نے جب یہ چیزیں انگریزی سیکھتے ہوئے محسوس کیں تو مجھے احساس ہوا کہ عربی کی تعلیم میں بھی مدارس کی اس پہلو سے مدد کرنی چاہیے۔ چنانچہ میں نے اپنی تصنیفات میں روز مرہ محاورات میں غلطیوں کی اصلاح کے لیے قل / لاتقل کا ایک سلسلہ رکھا ہے، یعنی یوں کہیے اور یوں نہ کہیے۔ 
۳۔ دوران تعلیم میں درسی کتابوں کے وہ نسخے استعمال کریں جو کتابت وطباعت کے جدید معیار پر شائع کیے گئے ہیں۔ تعلیم کو دلچسپ اور پر کشش بنانے میں اس چیز کا بڑا دخل ہے۔ اس معاملے میں بھی دینی علوم کی مظلومیت کی ایک مثال دیکھیے۔ میں درس گاہ میں بیٹھا طالبات کو وفاق کے امتحان کے لیے ’شرح ماءۃ عامل‘ پڑھا رہا تھا تو اس میں مجھے ایک بحث تلاش کرنے میں کچھ وقت لگ گیا۔ میں نے سوچا کہ میں مصنف ہوتے ہوئے اتنی دقت محسوس کر رہا ہوں تو طلبہ کا کیا حال ہوگا۔ اس وقت ’شرح ماءۃ عامل‘ کا جو نسخہ بازار میں ملتا ہے، اس کی کتابت ۱۱۳ سال قبل کانپور میں ہوئی تھی اور آج بھی کراچی، ملتان اور لاہور کے تمام پبلشر اسی نسخے کا عکس چھاپتے ہیں۔ میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اس کتاب کو کمپیوٹر پر نئے سرے سے ٹائپ کرو اور اس کو نئی شکل دو۔ اس میں عوامل کو ایک چارٹ کی صورت میں واضح کرنے کے علاوہ، میں نے متن میں عوامل کو جلی کر دیا ہے اور کچھ اس کو سہل بنانے کی کوشش کی ہے، ورنہ اب تک اس کی جتنی شروح سامنے آئی ہیں، وہ اس کو منتہی درجے کی ایک مشکل کتاب بنا چکی ہیں۔
۴۔ آپ کو تربیت اساتذہ کا بھی انتظام کرنا چاہیے۔ جب تک آپ اساتذہ کی ٹریننگ کا بندوبست نہیں کرتے، اس وقت تک خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ تدریس زبان کی جدید تکنیک اور معاون ذرائع کے استعمال سے انہیں مناسب واقفیت ہونی چاہیے تاکہ وہ جدید مواد اور نصابی کتب کی بہتر طور پر تدریس کر سکیں۔ خود میں نے کتابیں لکھنے کے ساتھ ساتھ معلمین اور معلمات کی ٹیمیں بھی تیار کی ہیں۔ آپ کسی بھی شہر میں کہیں، ہم اپنے اساتذہ کی ٹیم بھیجنے کے لیے تیار ہیں جو عربی کے مدرسین کو پندرہ دن یا ایک ماہ کے دورانیے کے کورسز کروائیں گے۔ اس میں خود ان کو بھی عربی بولنے کی مشق کروائیں گے اور تدریس کے سلسلے میں ان کی پوری راہنمائی کریں گے۔ ابھی رمضان سے پہلے ہم نے دار العلوم تعلیم القرآن اور دوسرے اداروں کے تیس مدرسین کو تیس روزہ کورس مکمل کروایا ہے اور اس قسم کے مزید کورسز کے لیے درخواستیں مسلسل آ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ عام پڑھے لوگوں کے لیے ہم نے پچاس روزہ عربی کورس ترتیب دیا ہے جس میں وکلا، تاجر اور فوجی افسران وغیرہ عربی سیکھ رہے ہیں۔ 
۵۔ یہ تجاویز وفاق والوں کے سامنے بھی پیش کریں اور اگر وہ نہیں مانتے تو آپ خود مدارس میں اس طریقے پر کام کرنا شروع کر دیں۔ ہم نے وفاق المدارس السلفیہ کا چار سال کا نصاب تو الحمد للہ کوشش کر کے تبدیل کروا دیا ہے۔ اس کے صدر پروفیسر ساجد میر ہیں جو انگریزی کے پروفیسر ہیں اور ہمارے نقطہ نظر کو سمجھتے ہیں، اس لیے وہاں عربی کا نصاب ہم نے نیا نافذ کر دیا ہے۔ اسی طرح پنجاب یونیورسٹی نے حال ہی میں ایم اے عربی کے نصاب میں ہماری تیار کردہ چار کتابیں شامل کر لی ہیں، حالانکہ میں کبھی ان سے ملنے نہیں گیا۔ آپ بھی اس طریقے سے کام شروع کر دیں۔ جب اس کے فوائد سامنے آئیں گے، آپ کے طلبہ کی عربی کی استعداد اچھی ہو جائے گی اور وہ پرچے عربی میں حل کرنے کے قابل ہو جائیں گے تو کسی نہ کسی مرحلے پر وفاق والوں کو بھی تبدیلی کرنا پڑے گی۔ آپ اخلاص سے کام شروع کریں گے تو یقیناًاس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔ 

مولانا مشتاق احمد کا مکتوب گرامی

مولانا مشتاق احمد

باسمہ سبحانہ
بخدمت گرامی قدر مخدومی حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب مدظلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ- مزاج گرامی؟
۸، ۹ شوال کو الشریعہ اکیڈمی میں منعقدہ دینی مدارس کے اساتذہ کرام کی مجلس مشاورت کے حوالے سے ایک بات مزید عرض کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ اگر وفاق المدارس سے وابستہ اہم علمی شخصیات ’میبذی‘ اور ’ہدیہ سعیدیہ‘ وغیرہ کو امام رازیؒ وغزالیؒ کی تصنیفات کو سمجھنے کے لیے ضروری خیال کرتی ہیں تو ان کی شخصیات وآرا اپنی جگہ مسلم ومحترم ہیں، لیکن ان سے یہ عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ہر ہر طالب علم پر میبذی/ہدیہ سعیدیہ کا پڑھنا لازم کرنے کے بجائے اردو میں فلسفہ کے کسی سینئر استاد سے عام فہم اور جامع مانع انداز میں ایک کتاب لکھوا کر بطور تعارف شامل نصاب کر دی جائے جس سے پرانے فلسفہ کو سمجھنا آسان ہو۔ نیز اس میں یہ بھی مذکور ہو کہ جدید سائنسی تحقیقات نے پرانے فلسفہ کے کس کس پہلو کو بیکار ثابت کر دیا ہے۔ ہدیہ سعیدیہ اور میبذی کی تعلیم وتعلم کو فرض عین قرار دینے کے بجائے اگر اس طرز کی اردو کتاب شامل نصاب کر دی جائے تو یہ پرانے فلسفہ کی بہتر خدمت ہوگی اور اس کو پڑھانے کی غرض وغایت بھی احسن طریق سے پوری ہو سکے گی۔ اگر یہ کتاب دو تین حضرات سے مشترکہ طور پر لکھوائی جائے تو بہتر ہوگا۔
الشریعہ اکیڈمی کے مذکورہ پروگرام (دینی اساتذہ کرام کی مجلس مشاورت) کے حوالے سے چند باتیں عرض ہیں:
۱۔ اس پروگرام کو سالانہ حیثیت دیں اور زیادہ انحصار گوجرانوالہ کے دینی مدارس پر نہ ہو بلکہ دوسرے شہروں کے دینی مدارس پر ہو۔ ’گھر کی مرغی دال برابر‘ کے مصداق مقامی حضرات کسی بھی شخصیت اور پروگرام کی ناقدری کرتے ہیں۔ اس ناقدری کا مشاہدہ گزشتہ پروگرام میں بخوبی ہوا ہے۔
۲۔ دو یا تین دن کا جو پروگرام بھی ہو، بھرپور ہو۔ صبح سے رات گئے تک مصروفیات ہوں۔ مولانا قاضی حمید اللہ خان صاحب مدظلہ جیسے سینئر مدرسین کو بھی دعوت دی جائے جو کہ مختلف فنون پڑھانے کے متعلق اپنے تجربات سے رہنمائی فرمائیں اور ہر فن کے پڑھانے کا جو مخصوص طریقہ ہے، اس کی نشان دہی کریں۔
۳۔ مولانا بشیر احمد صاحب سیالکوٹی کا جدید عربی کا پروگرام ایک ہفتہ کا ضرور رکھیں۔ ایک ہزار روپے فیس ہوگی تو صرف قدر دان ہی آ سکیں گے، قدر ناشناسوں سے جان چھوٹ جائے گی۔ البتہ آپ کو میزبانی کا بار گراں اٹھانا پڑے گا۔ اس پروگرام کی بہت ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
۴۔ آئندہ پروگراموں میں مجالس مذاکرہ کے چند مجوزہ عنوانات درج ذیل ہیں:
(الف) علماے کرام میں مطالعہ وتحقیق کے ذوق کی کمی کے وجوہ
(ب) معاشرہ پر علماے کرام کے اثرات کی کمی کے وجوہ، بالفاظ دیگر معاشرہ اور علماے کرام میں بڑھتی ہوئی خلیج کے اسباب
(ج) دور حاضر کے جدید تقاضے جو کہ علماے کرام کی فوری توجہ چاہتے ہیں
امید واثق ہے کہ آپ مذکورہ عنوانات اور دیگر اہم موضوعات پر مجالس مذاکرہ کا اہتمام فرماتے رہیں گے۔ 
۵۔ محترم مولانا عمار خان ناصر صاحب نے مسجد اقصیٰ کی تولیت کے حوالے سے پچاس صفحات کا مضمون لکھا۔ احقر نے پڑھا بھی تھا، پھر محترم مولانا محمد یوسف صاحب سے اس کا خلاصہ بھی سنا اور ان کی تنقیدی رائے بھی سنی اور پڑھی۔ بعض اور حضرات کی آرا بھی پڑھیں۔ احقر معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہے کہ محترم مولانا عمار صاحب کے مضمون کی حکمت سمجھ میں نہیں آئی۔ آخر اس مضمون کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی؟ کیا یہ اپنی صلاحیتوں کا ضیاع نہیں ہے؟ احقر کے نزدیک یہ اسی قسم کی تحقیق ہے جس قسم کی تحقیق تاتاریوں کے ہاتھوں سقوط بغداد کے وقت بغداد کے علماے کرام کر رہے تھے۔ خدارا، مولانا عمار صاحب محترم کو ایسی بے فائدہ تحقیقات سے روکیے۔ تحقیق طلب مسائل کی تو بہت لمبی فہرست ہے، اس پر وہ زور قلم صرف کریں تو بہتر ہوگا، ان کے لیے بھی اور قوم کے لیے بھی۔ تلخ نوائی پر ایک بار پھر معذرت خواہ ہوں۔ (اگر اس تنقیدی رائے کو بوقت اشاعت خط سے حذف کرنا چاہیں تو اجازت ہے)
اللہ تعالیٰ آپ کا حامی وناصر ہو۔
والسلام۔ آپ کا نیاز مند
مشتاق احمد عفی عنہ
استاذ جامعہ عربیہ چنیوٹ

وفاق المدارس کے نصاب میں نئی ترامیم کے حوالے سے دینی مدارس کے اساتذہ کا ایک مذاکرہ

ادارہ

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام ۳۔۴ دسمبر ۲۰۰۳ء کو دینی مدارس کے اساتذہ کے دو روزہ مشاورتی اجتماع کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف تعلیمی اداروں کے مندرجہ ذیل اساتذہ نے شرکت کی:
مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ
مولانا زاہد الراشدی، مولانا محمد فیاض خان سواتی، مولانا ظفر فیاض، مولانا محمد عمار خان ناصر، مولانا محمد عرباض خان سواتی
مدرسہ اشرف العلوم گوجرانوالہ
مولانا عبد الواحد رسول نگری
دار العلوم مدنیہ لاہور
مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی
جامعہ فتاح العلوم گوجرانوالہ
مولانا حافظ احمد اللہ
جامعہ قاسمیہ گوجرانوالہ
مولانا قاری گلزار احمد قاسمی، مولانا حامد گلزار قاسمی۔
جامعہ حقانیہ گوجرانوالہ
مولانا محمد یعقوب تبسم، مولانا ظہیر الدین بابر۔
جامعہ اسلامیہ کامونکی
مولانا عبد الرؤف فاروقی
جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم
مولانا ظفر اقبال، مولانا حافظ محمد ابوبکر
جامعہ حنفیہ قادریہ لاہور
مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، مولانا ذکاء الرحمن اختر
جامعہ عربیہ چنیوٹ
مولانا مشتاق احمد
جامعہ فاروقیہ سیالکوٹ

مولانا حماد انذر قاسمی

معہد اللغۃ العربیۃ اسلام آباد
مولانا محمد بشیر سیالکوٹی
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ
مولانا حافظ محمد یوسف، مفتی محمد عامر، مولانا احسن ندیم، مولانا عبد الحمید، پروفیسر میاں انعام الرحمن، پروفیسر حافظ منیر احمد
اجتماع کی پہلی نشست کی صدارت پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے سینئر ایڈیٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد امین نے کی جس میں شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی نے ’’درس نظامی کی اہمیت وافادیت‘‘ پر مقالہ پیش کیا۔ دوسری نشست کی صدارت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی نے کی جس میں پروفیسر ڈاکٹر محمد امین نے ’’طلبہ کی دینی واخلاقی تربیت‘‘ کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی۔ تیسری نشست جامعہ اسلامیہ کامونکی کے مہتمم مولانا عبد الرؤف فاروقی کی زیر صدارت منعقد ہوئی جس میں شرکاء اجلاس نے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ترمیم شدہ نصاب کے بارے میں اظہار خیال کیا جبکہ چوتھی اور آخری نشست کی صدارت مولانا زاہد الراشدی نے کی اور اس میں معہد اللغۃ العربیۃ اسلام آباد کے مولانا محمد بشیر سیالکوٹی نے ’’دینی مدارس میں عربی کی تعلیم کا منہج اور ضروری اصلاحات‘‘ کے عنوان پر اظہار خیال کیا اور مولانا زاہد الراشدی نے ’’فکری اور مسلکی تربیت کے چند اہم پہلو‘‘ کے عنوان پر گفتگو کی۔
وفاق المدارس العربیہ کے ترمیم شدہ نصاب کے بارے میں نشست کی مختصر روداد درج ذیل ہے:

ترامیم کا خلاصہ

الشریعہ اکادمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور مدرسہ نصرۃ العلوم کے استاذ مولانا محمد عمار خان ناصر نے نئی ترامیم کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ نئے نصاب میں چار طرح کی تبدیلیاں رو بہ عمل لائی گئی ہیں:
۱۔ بعض نئے مضامین کا اضافہ کیا گیا ہے، مثلاً:
  • سیرت وتاریخ جس کے تحت ثانویہ خاصہ سال اول میں عبد السلام قدوائی کی ’’مختصر تاریخ اسلام‘‘ اور عالیہ سال اول میں ابراہیم شریقی کی ’’التاریخ الاسلامی‘‘ پڑھائی جائے گی۔
  • علوم القرآن جس کے تحت عالمیہ سال اول میں الشیخ محمد علی الصابونی کی ’’التبیان فی علوم القرآن‘‘ پڑھائی جائے گی۔
  • جدید فقہی مسائل جس کے تحت عالمیہ سال اول میں مولانا تقی عثمانی کی ’’اسلام اور جدید معیشت وتجارت‘‘ پڑھائی جائے گی۔
  • مقارنۃ الادیان والفرق جس کے تحت عالمیہ سال اول میں مولانا اللہ وسایا کی ’’آئینہ قادیانیت‘‘ پڑھائی جائے گی۔
۲۔ بعض مضامین میں سابقہ کتب کی جگہ نئی کتب شامل کی گئی ہیں، مثلاً:
  • عالیہ سال اول میں فلسفہ قدیم کی ’’میبذی‘‘ کی جگہ ’’ہدیہ سعیدیہ‘‘ اور ’’ہدایت الحکمۃ‘‘، جبکہ عربی ادب میں ’’دیوان المتنبی‘‘ کی جگہ ’’مختارات من ادب العرب‘‘ پڑھائی جائے گی۔
  • عالیہ سال دوم میں حدیث کے مضمون میں ’’کتاب الآثار‘‘ کی جگہ ’’موطا امام محمد‘‘ اور ’’مسند امام اعظم‘‘ کو شامل کیا گیا ہے۔ 
۳۔ زیادہ تر مضامین میں پہلے سے پڑھائی جانے والی کتب کے ساتھ معاون کتب کا اضافہ کیا گیا ہے، چنانچہ:
  • ثانویہ عامہ سال اول میں نحوی قواعد کی تمرین کے لیے ’’المنہاج فی القواعد والاعراب، النحو الیسیر اور تسہیل النحو‘‘ شامل کی گئی ہیں۔
  • ثانویہ عامہ سال دوم میں ’’ہدایۃ النحو‘‘ کے ساتھ تمرینات از ’’تسہیل الادب‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے۔
  • ثانویہ خاصہ سال اول میں ’’اصول الشاشی‘‘ سے قبل ’’آسان اصول الفقہ‘‘ کو شامل کیا گیا ہے۔
  • ثانویہ خاصہ سال دوم کے نصاب میں علم بلاغت کی دو کتابوں ’’دروس البلاغہ‘‘ اور ’’تلخیص المفتاح‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے جو عالیہ سال اول میں ’’مختصر المعانی‘‘ کی تعلیم کے لیے بنیاد کا کام دیں گی۔
  • عالیہ سال اول میں عقائد کے مضمون میں ’’الانتباہات المفیدۃ‘‘ کا جبکہ سال دوم میں ’’العقیدۃ الطحاویۃ‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح اس درجے میں اصول حدیث میں ’’خیر الاصول‘‘ اور علم الفرائض میں ’’سراجی‘‘ کے ساتھ ’’تسہیل الفرائض‘‘ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
  • عالمیہ سال اول میں ’’ہدایہ‘‘ کے ساتھ اصول افتا پر ’’شرح عقود رسم المفتی‘‘ شامل کی گئی ہے۔
۴۔ بعض کتب کو ترتیب میں مقدم اور موخر کیا گیا ہے۔ مثلاً:
  • اصول تفسیر کی کتاب ’’الفوز الکبیر‘‘ کو، جو قبل ازیں عالمیہ سال اول میں پڑھائی جاتی تھی، عالیہ سال دوم کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔
  • ’’موطا امام محمد‘‘ کو، جو عالمیہ سال دوم کے نصاب میں تھی، عالیہ سال دوم میں شامل کر دیا گیا ہے۔
۵۔ بعض کتابیں نصاب سے بالکل خارج کر دی گئی ہیں جن میں عالیہ سال اول میں علم منطق کی ’’سلم العلوم‘‘، عربی شاعری کی ’’دیوان المتنبی‘‘، جبکہ عالیہ سال دوم میں قدیم فلسفہ کی ’’میبذی‘‘ شامل ہیں۔ اسی طرح عالمیہ سال اول سے علم بلاغت کی کتاب ’’مطول‘‘ خارج کر دی گئی ہے۔
اس کے بعد مذاکرہ کے شرکا نے فرداً فرداً ان تبدیلیوں کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

مولانا مشتاق احمد (جامعہ عربیہ چنیوٹ)

  • عربی زبان وادب کی تدریس کے لیے نئے نصاب میں نسبتاً بہتر کتابیں شامل کی گئی ہیں، لیکن اس سے عربی بول چال کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ اس خامی کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تدریس، مدرسے کی حدود میں گفتگو اور امتحانی پرچوں کے حل کے لیے عربی کو لازم قرار دے دیا جائے۔ 
  • عقائد میں شامل کی جانے والی کتب نئی ضروریات کے حوالے سے ناکافی ہیں۔ اس ضمن میں نصابی ضروریات کے پیش نظر ایک نئی کتاب مرتب کروانے کی ضرورت ہے۔
  • قدیم فلسفہ میں ’’میبذی‘‘ کی ’’ہدیہ سعیدیہ‘‘ کو شامل کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ معاملہ جوں کا توں رہتا ہے۔ ’’الانتباہات المفیدۃ‘‘ عقلی استدلال کے حوالے سے نہایت مفید ہے لیکن اس کے لیے خود استاذ کو گہرے مطالعہ اور غیر معمولی تیاری کی ضرورت ہے۔
  • مقارنۃ الادیان والفرق کا اضافہ خوش آئند ہے۔
  • تاریخ سے علما وطلبا کی شناسائی کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے۔ اس ضمن میں تاریخ کو باقاعدہ نصاب میں شامل کرنا اچھا اقدام ہے۔
  • ’’سلم العلوم‘‘ کی طرح کی کتابوں کا اخراج بھی مثبت قدم ہے۔

مفتی محمد عامر (الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ)

  • عربی صرف ونحو کی موجودہ کتابیں اور طرز تعلیم مطلوبہ استعداد پیدا نہیں کرتیں اور درجہ رابعہ تک مسلسل عربی قواعد پڑھنے کے باوجود عربی سے مناسب شناسائی نہیں ہو پاتی، جس کی وجہ یہ ہے کہ ’’کافیہ‘‘ اور ’’شرح جامی‘‘ وغیرہ کتابوں میں غیر ضروری طویل بحثیں کی جاتی ہیں۔ ’’علم الصیغہ‘‘ فارسی کی جگہ اردو کو شامل نصاب کرنا چاہیے۔اسی طرح ’’کافیہ‘‘ اور ’’شرح جامی‘‘ کی جگہ دوسری سہل اور مفید کتابیں شامل کرنی چاہییں۔
  • قدیم عربی زبان وادب کے حوالے سے تو بعض تبدیلیاں کی گئی ہیں لیکن جدید عربی کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ ہمارے علما وطلبا جدید عربی ذخیرے سے استفادہ کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اسی طرح بول چال اور تحریر وتقریر میں عربی زبان کے استعمال کی صورت حال پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ کراچی کے اکثر مدارس میں معہد اللغۃ العربیہ قائم ہے جس سے استفادہ کرنے والے طلبہ عربی زبان میں پرچے حل کرتے ہیں اور اس طرح امتحانات میں اچھی پوزیشنیں حاصل کرتے ہیں۔
  • مدارس کے طلبہ کا اردو تلفظ، املا اور استعمال بھی کافی کمزور ہے، اس لیے اردو زبان کو بھی بطور مستقل مضمون کے شامل نصاب کرنا چاہیے۔

مولانا محمد ابوبکر (جامعہ حنفیہ جہلم)

  • درس نظامی کا کورس پہلے ہی کافی طویل ہے اور اس کے دورانیے میں اضافہ نئے آنے والے طلبہ کے لیے مزید توحش کا باعث بنے گا۔

مولانا عبد الحمید (چار سدہ)

  • جدید عربی کو بھی نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔
  • معیشت وتجارت کے حوالے سے اسلامی احکام وقوانین کے ساتھ ساتھ جدید معاشیات کو بطور مستقل مضمون کے نصاب میں شامل کرنا چاہیے۔

مولانا احسن ندیم (الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ)

  • عربی زبان کی تعلیم کے حوالے سے قدیم عربی کے ساتھ جدید عربی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
  • میٹرک تک جدید تعلیم کو، اختیاری درجے میں ہی سہی، شامل نصاب کرنا مستحسن اقدام ہے۔ اسی طرح بی اے کی سطح تک جدید تعلیم کو بھی نصاب میں شامل کرنا چاہیے۔ جس طرح میٹرک کے لیے ایک سال الگ مخصوص کر دیا گیا ہے، اسی طر ح ہر مرحلے کی تکمیل پر اگلے مرحلے میں داخلے سے قبل ایک سال مساوی جدید تعلیم کے لیے مخصوص کر دیا جائے۔ مثلاً عالیہ سے قبل ایف اے اور عالمیہ سے قبل بی اے مکمل کرنا ضروری قرار دیا جائے۔
  • اردو زبان وادب کو بھی باقاعدہ نصابی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے۔

مولانا محمد عمار خا ن ناصر (مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ)

  • عربی زبان وادب کی تعلیم کے لیے کیے جانے والے اضافے اور تبدیلیاں یقیناًمثبت ہیں، تاہم چند مزید پہلووں پر توجہ کی ضرورت ہے۔ ایک یہ کہ بعض کتابیں مفید ہونے کے باوجود غلط جگہ پر رکھے جانے کے باعث الٹا مشکل کا باعث بن جاتی ہیں۔ مثلاً نئے نصاب میں عربی نحو کی تمرین کے لیے ’’المنہاج فی القواعد والاعراب‘‘ کو ثانویہ عامہ سال اول میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں عربی جملوں کی فنی تحلیل جس سطح پر کی گئی اور اس کے لیے قرآن اور اشعار سے جن مثالوں کا انتخاب کیا گیا ہے، اس کے لحاظ سے اسے ’’شرح جامی‘‘ کے بھی بعد پڑھایا جانا چاہیے۔ موجودہ ترتیب میں اس کتاب سے خاطر خواہ فائدہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ 
  • اسی طرح کی صورت حال ’’معلم الانشاء‘‘ کے حوالے سے درپیش ہے جو عربی ترجمہ وانشا کی مشق کے لیے ایک مفید کتاب ہے لیکن اس سے قبل طالب علم کے پاس عربی الفاظ ومحاورات کا مناسب ذخیرہ ہونا چاہیے جنہیں وہ جملوں میں استعمال کرنے کی مشق کر سکے۔ ندوۃ العلماء لکھنو کے نصاب میں اسی وجہ سے ’’معلم الانشاء‘‘ کو عربی نظم ونثر کا اچھا خاصا ذخیرہ پڑھانے کے بعد رکھا گیا ہے، جبکہ ہمارے ہاں اس کی تعلیم کا آغاز ثانویہ عامہ سے کر دیا جاتا ہے جب طالب علم ابھی عربی جملوں کی ساخت اور محاوروں سے مناسب طور پر مانوس نہیں ہوا ہوتا۔ چنانچہ عملاً یہ کتاب طلبہ میں ترجمہ اور انشا کی کوئی صلاحیت پیدا نہیں کرتی بلکہ اساتذہ مشقوں کا ترجمہ ازخود بنا کر طلبہ کو دے دیتے ہیں جنہیں رٹ کر طلبہ امتحان میں کام یاب ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
  • عربی نظم کا کچھ حصہ تو قدیم جاہلی ادب کی صورت میں داخل نصاب ہے، لیکن نثر کا حصہ ناکافی ہے۔ اس ضمن میں ’’دیوان المتنبی‘‘ کی جگہ ’’مختارات من ادب العرب‘‘ کا شامل کیا جانا قابل تحسین ہے۔ لیکن عربی نثر کی تعلیم کے طریقے میں تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ طریقے میں متن کا لفظی یا بامحاورہ ترجمہ یاد کرانے پر اکتفا کی جاتی ہے، لیکن متن میں استعمال ہونے والے الفاظ، محاورات اور تراکیب کو طالب علم کے لسانی ذخیرہ کا حصہ بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ تعلیم زبان کے جدید طریقے میں متن کے مطالعہ کو مفید اور موثر بنانے کے لیے لسانی اصولوں پر مبنی مختلف مشقیں تیار کی جاتی ہیں جو زبان کے فہم اور استعمال پر گرفت پیدا کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ’’القراء ۃ الراشدہ، نفحۃ العرب، مختارات اور ریاض الصالحین‘‘ کے شامل نصاب حصوں پر اس نوعیت کی جامع مشقیں تیار کروا کر اساتذہ کو فراہم کی جائیں اور اس طریقے کو تدریسی نظام کا باقاعدہ حصہ بنایا جائے۔ 

مولانا ذکاء اللہ اختر (جامعہ حنفیہ لاہور)

  • نصاب میں موجودہ تبدیلیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بارے میں پایا جانے والا جمود ٹوٹ رہا ہے اور اہل نظر کافی عرصہ سے جس نظر ثانی کا مشورہ دے رہے تھے، اس کی اہمیت کا احساس کیا جانے لگا ہے۔
  • جدید علوم میں معیشت کے ساتھ ساتھ دوسرے سماجی علوم مثلاً سیاسیات، علم معاشرہ اور نفسیات وغیرہ کو بھی شامل کیا جائے۔
  • مقارنۃ الادیان میں آئینہ قادیانیت پر اکتفا درست نہیں۔ دیگر معاصر فتنوں کے حوالے سے بھی مواد شامل نصاب ہونا چاہیے۔

قاری جمیل الرحمن اختر (جامعہ حنفیہ لاہور)

  • نصاب میں کی جانے والی تبدیلیاں بلاشبہ درست سمت میں اقدام ہے، لیکن اصل مسئلہ اساتذہ کی تربیت کا ہے۔ ایک اچھے نصاب کی تدریس کے لیے اگر ماہر اور تربیت یافتہ اساتذہ میسر نہ ہوں تو کیا فائدہ؟ یہ تربیت تعلیم وتدریس کے حوالے سے بھی ہونی چاہیے، اخلاق وکردار کے حوالے سے بھی اور اس حوالے سے بھی کہ اساتذہ کو آگے طلبہ کی تربیت کیسے کرنی ہے۔ اساتذہ کی نئی پود میں اپنی یا طلبہ کی تربیت کی اہمیت کا احساس نہ ہونے کے برابر ہے اور بسا اوقات ان کا رویہ ناگوار اثرات پیدا کرتا ہے۔ وفاق المدارس کو نئے حالات کے تحت تربیت اساتذہ کا بھی باقاعدہ نظام وضع کرنا چاہیے، جیسا کہ افتا کی تربیت کے لیے ایک باقاعدہ نظام بنا لیا گیا ہے۔

مولانا حماد انذر قاسمی (جامعہ فاروقیہ سیالکوٹ)

  • مدارس میں عربی زبان کا معیار تعلیم بہتر کرنے کے لیے سب سے پہلے خود اساتذہ کا معیار بہتر کرنا ہوگا۔ اگر اساتذہ ہی عربی بول چال اور تحریر وتقریر پر قدرت نہیں رکھتے تو طلبہ میں یہ صلاحیت کیسے پیدا ہوگی؟
  • قدیم عربی کے ساتھ جدید عربی پر بھی بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
  • قدیم اعتقادی فرقوں کے ساتھ ساتھ جدید علمی واعتقادی فتنوں سے واقفیت بھی طلبہ کو بہم پہنچائی جانی چاہیے اور ان کی ایسی فکری تربیت ہونی چاہیے کہ وہ عملی میدان میں ان فتنوں کے پیدا کردہ شبہات کا موثر جواب دے سکیں۔ اس حوالے سے کسی خاصے درجے کے نصاب میں کوئی ایک آدھ کتاب شامل کر دینے کے بجائے اساتذہ کو ایسا مواد فراہم کیا جائے جس کی بنیاد پر وہ تسلسل کے ساتھ تمام طلبہ کی ذہنی اور فکری تربیت کر سکیں۔
  • اساتذہ کے لیے طلبہ کی نفسیاتی ساخت اور صلاحیتوں سے واقف ہونا بھی بہت ضروری ہے، اس لیے اساتذہ کو تعلیمی نفسیات کے مضمون کا باقاعدہ مطالعہ کرنا چاہیے اور طلبہ کے ساتھ شفقت ومحبت پر مبنی شخصی تعلق قائم کر کے ان کی فکری وعملی تربیت کی کوشش کرنی چاہیے۔ 
  • اساتذہ کے انتخاب میں معیار کی حیثیت علمی قابلیت کے ساتھ ساتھ تدریسی صلاحیت اور اخلاق وکردار کو حاصل ہونی چاہیے۔ اقرا تعلیم الاطفال کے نظام میں تربیت اساتذہ کے نظام ہی کی بدولت اچھے تعلیمی نتائج حاصل ہو رہے ہیں۔

مولانا قاری ظفر اقبال (جامعہ حنفیہ جہلم)

  • * درس نظامی کے موجودہ نصاب کو اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک خاص قبولیت حاصل ہے، اگرچہ اس میں ضروریات کے لحاظ سے تبدیلیاں بھی کی جا سکتی ہیں۔ جدید تعلیم کو میٹرک کی سطح تک شامل کرنا تو قابل قبول ہے لیکن اس سے زائد اسے جگہ دینا دینی تعلیم کو مغلوب کرنے کے مترادف ہوگا۔
  • اصل ضرورت تربیت اساتذہ کی ہے۔ اس سے پہلے اسی نصاب سے اچھے طلبہ تیار ہوتے رہے ہیں، کیونکہ اساتذہ محنتی اور قابل تھے۔ اصل خامی نصاب میں نہیں بلکہ طریق تدریس میں ہے۔
  • بعض کتابوں پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ مثلاً ’’شرح جامی‘‘ عربی عبارت میں مہارت پیدا کرنے کے لیے بے نظیر ہے۔ اسی طرح ’’شرح عقائد‘‘ کے آخری حصے میں بہت سے جدید اعتقادی فتنوں کی تردید کے لیے بھی مواد موجود ہے۔
  • جدید عربی اور عربی بول چال کی فی الواقع نہایت کمی ہے لیکن اس کی تلافی بھی اساتذہ کی تربیت کے بغیر نہیں کی جا سکتی۔
  • استاذ کے لیے علمی وتدریسی قابلیت، اعتقادی اصلاح اور اخلاقیات کے لحاظ سے ایک معیار متعین ہونا چاہیے کیونکہ استاذ کے نظریات اور کردار کے اثرات طلبہ پر پڑتے ہیں۔ اساتذہ کو یہ حقیقت جاننی چاہیے کہ دینی تعلیم کا خاصہ ہی یہ ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی کی جائے۔

مولانا محمد یوسف (الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ)

  • اسلامی معاشی تعلیمات کے ساتھ ساتھ جدید معیشت کے اصول وضوابط اور جدید سیاسی نظام کا مطالعہ بھی شامل نصاب کیا جائے۔ اسی طرح دیگر سماجی علوم پڑھا کر طلبہ میں جدید معاشرے کی ضروریات کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی پیدا کی جائے تاکہ وہ مدرسے اور مسجد کے ماحول تک محدود رہنے کے بجائے عام زندگی کے شعبوں میں بھی اپنی جگہ بنا سکیں۔
  • گمراہ مذاہب اور فرقوں کا تعارف اور اسی طرح تاریخ اسلام کسی خاص درجے کے بجائے درجہ ثالثہ کے بعد مسلسل پڑھائے جائیں۔ سیرت اور تاریخ کے وہ پہلو جن پر مستشرقین وغیرہ کے اعتراضات ہیں، ان پر خاص توجہ دی جائے۔
  • جدید تعلیم بورڈ کے نصاب کے مطابق مکمل دی جائے اور اس کا باقاعدہ امتحان بھی بورڈ سے دلوایا جائے۔ اس ضمن میں میٹرک کی سطح پر صرف انگریزی اور ریاضی مسلسل پڑھانے کی ضرورت ہے۔ باقی مضامین کی تیاری آخری ایک دو ماہ میں بآسانی کروائی جا سکتی ہے۔ 
  • درس نظامی کو تدریج کے اصول پر مختلف مراحل میں تقسیم کرنا چاہیے۔ بنیادی مضامین آغاز کے درجوں میں پڑھائے جائیں اور مشکل علوم وفنون کو بعد کے مراحل میں شامل کیا جائے۔ اس طرح طلبہ کو یہ سہولت دی جائے کہ وہ اپنی صلاحیت اور رجحان کے مطابق جس مرحلہ کی تکمیل پر تعلیم کو چھوڑنا چاہیں، چھوڑ سکیں۔ 

مولانا زاہد الراشدی (مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ)

  • اساتذہ کی تربیت، عربی بول چال اور تحریر کی صلاحیت اور جدید اعتقادی فتنوں سے واقفیت کے حوالے سے جو تجاویز سامنے آئی ہیں، مجھے ان سے اتفاق ہے۔
  • اس کے ساتھ میں یہ اضافہ کرنا چاہوں گا کہ جدید عالمی حالات اور مغربی فکر وفلسفہ کو بھی بطور مضمون مدارس میں پڑھایا جانا چاہیے۔

مولانا عبد الرؤف فاروقی (جامعہ اسلامیہ کامونکی)

  • نصاب میں عربی زبان وادب، عقیدہ، جدیدمعیشت، تاریخ اور مقارنۃ الادیان کے حوالے سے کیے جانے والے اضافے اور تبدیلیاں یقیناًدرپیش ضروریات کے حوالے سے مثبت ہیں، لیکن معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے ان پر انحصار کافی نہیں۔ ایک عمومی مسئلہ یہ ہے کہ ان مضامین کو بہتر انداز میں پڑھانے والے اساتذہ کیا ہر سطح پر مدارس کو میسر ہیں؟ علاوہ ازیں نظام تعلیم میں فن کو بطور فن سمجھنے اور پڑھنے کے بجائے محض امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کا رجحان فروغ پا چکا ہے۔ ہر سطح پر کتابوں کے تراجم، شروح اور امتحان کے لیے منتخب مقامات کی تیاری میں مدد دینے والی کتابیں عام ہو چکی ہیں۔ اس سے پیدا ہونے والی خرابیوں کی تلافی کتابوں میں اضافے یا تبدیلی سے نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے لیے اساتذہ کے معیار اور طریق تدریس کو بہتر بنانا ہوگا۔ 
  • جدید تعلیم کے حوالے سے ایک واضح اور شعوری رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر جدید علوم دینی نظام کے لیے نقصان دہ ہیں تو حکومتی دباؤ کو بالکل مسترد کر دینا چاہیے، چاہے اس کے لیے کوئی بھی قربانی دینی پڑے۔ لیکن اگر یہ علوم کسی نہ کسی درجے میں علما کی ضرورت ہیں تو پھر اس کے حوالے سے ہر دو چار سال کے بعد بیرونی دباؤ پر ہنگامی فیصلے کرنے کے بجائے تعلیمی ضروریات کے حوالے سے ایک مستقل اور جامع پالیسی وضع کی جائے۔ موجودہ نصاب میں میٹرک کی سطح تک تعلیم کو بے دلی سے جگہ دی گئی ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ میٹرک کی تعلیم بھی، اگر دی گئی تو، اسی پست معیار پر دی جائے گی جس پر ہم مڈل کی تعلیم دے رہے ہیں۔ ہماری بہت عرصے سے یہ تجویز ہے کہ داخلے کے لیے میٹرک کو شرط قرار دے کر چھ سال میں درس نظامی کو مکمل کروایا جائے۔
  • مقارنۃ الادیان وغیرہ پر کتابوں کو داخل نصاب کرنے کے بجائے موضوع کے ماہرین سے لیکچرز دلوائے جائیں اور تفصیلی مطالعہ کے لیے متعلقہ کتابوں کی طرف رہنمائی کر دی جائے۔ 
  • اساتذہ اور طلبہ کی تربیت کا مسئلہ سب سے زیادہ توجہ کا مستحق ہے۔ دینی مدارس کا نظام تربیت، سلیقہ مندی، اخلاقیات اور نظم وضبط کے لحاظ سے دیوالیہ پن کے قریب پہنچ چکا ہے۔

مولانا زاہد الراشدی کا سفر بنگلہ دیش و دوبئی

ادارہ

’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی نے ۲۹ دسمبر ۲۰۰۳ء سے ۱۰ جنوری ۲۰۰۴ء تک دوبئی اور بنگلہ دیش کا دورہ کیا اور دوبئی، شارجہ، ابو ظبی، ڈھاکہ، چاٹگام، سلہٹ، سونام گنج اور دیگر مقامات پر متعدد اجتماعات سے خطاب کیا۔ ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری بھی اس دورہ میں ان کے ساتھ شریک تھے۔ مولانا راشدی کے قلم سے اس دورہ کی تفصیلی رپورٹ اور تاثرات ’الشریعہ‘ کے آئندہ شمارے میں شائع کیے جائیں گے۔

مولانا محمد عیسیٰ منصوری کی گوجرانوالہ تشریف آوری

ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری ۲۱ جنوری ۲۰۰۴ء کو گوجرانوالہ تشریف لائے اور الشریعہ اکادمی میں اساتذہ وطلبہ کی ایک نشست سے فکر انگیز خطاب کے علاوہ مدرسہ نصرۃ العلوم اور دیگر اداروں کا دورہ کیا۔ ان کے دورہ کی رپورٹ ’الشریعہ‘ کے آئندہ شمارے میں پیش کی جا رہی ہے۔ ان شاء اللہ العزیز

حافظ ظفر یاسین بٹ انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

گکھڑ کی معروف سماجی شخصیت اور معارف اسلامیہ اکادمی کے سیکرٹری جنرل حافظ ظفر یاسین بٹ گزشتہ روز انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی نماز جنازہ مولانا زاہد الراشدی نے پڑھائی جس میں ہر طبقہ کے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مرحوم جمعیۃ طلباء اسلام پاکستان کے سرگرم راہ نماؤں میں شامل رہے اور انہوں نے متعدد دینی تحریکات میں بھرپور کردار ادا کیا۔ وہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کے معتمد ساتھیوں اور مولانا زاہد الراشدی کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں، کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور جملہ پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

مارچ ۲۰۰۴ء

ڈھاکہ میں ’’سید ابو الحسن علی ندویؒ ایجوکیشن سنٹر‘‘ کی افتتاحی تقریبمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ ۔ دعوت ومکالمہ کے چند حکیمانہ پہلوپروفیسر محمد اکرم ورک
برصغیر کی مذہبی فکر کا ایک تنقیدی جائزہ ۔ عالمی سیاست ومعیشت کے تناظر میںپروفیسر میاں انعام الرحمن
جہادی حکمت عملی: مثبت اور منفی پہلوادارہ
مکاتیبادارہ
مولانا محمد عیسیٰ منصوری کا دورۂ پاکستانادارہ
تعارف و تبصرہادارہ

ڈھاکہ میں ’’سید ابو الحسن علی ندویؒ ایجوکیشن سنٹر‘‘ کی افتتاحی تقریب

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جنوری ۲۰۰۴ کا پہلا عشرہ مجھے بنگلہ دیش میں گزارنے کا موقع ملا۔ میرپور ڈھاکہ میں مدرسہ دار الرشاد کے مہتمم مولانا محمد سلمان ندوی کا تقاضا تھا کہ وہ ’’سید ابو الحسن علی ندویؒ ایجوکیشن سنٹر‘ کے نام سے ایک نئے تعلیمی شعبے کا آغاز کر رہے ہیں جس کی افتتاحی تقریب یکم جنوری کو رکھی گئی ہے اور اس موقع پر ’’عصر حاضر میں دینی مدارس کی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان سے مسجد بیت المکرم ڈھاکہ میں سیمینار کا اہتمام بھی کیا گیا ہے، اس لیے مجھے اس میں ضرور شریک ہونا چاہیے۔ مولانا سلمان ندوی سے ا س سے قبل میرا تعارف نہیں تھا، البتہ انھوں نے میرے بہت سے مضامین پڑھ رکھے تھے اور دینی مدارس کے نصاب ونظام کے حوالہ سے بنگلہ زبان میں انھوں نے ایک ضخیم کتاب شائع کی ہے جس میں اکابر علماے کرام کے مقالات کے ساتھ ساتھ میرے ایک دو مضامین کا ترجمہ بھی شامل ہے اور ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری کے بعض مضامین بھی اس کتاب کا حصہ ہیں۔ مجھے دعوت مولانا منصوری کی وساطت سے ملی جس میں ان کا اصرار بھی شامل تھا۔ ان دنوں مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں اسباق کا آغاز ہو چکا تھا اور میرے لیے ہفتہ دس دن کی غیر حاضری بہت مشکل تھی لیکن مولانا منصوری کا اصرار غالب آیا اور میں نے سفر کا پروگرام بنا لیا۔
دسمبر کے آخری عشرہ میں ڈھاکہ میں بنگلہ دیش کا سالانہ تبلیغی اجتماع تھا جس کی وجہ سے کراچی سے براہ راست ڈھاکہ جانے والی فلائیٹ پر سیٹ نہ مل سکی اور ویزے کے حصول کے بعد براستہ دوبئی ڈھاکہ جانے کا پروگرام بن گیا۔ ۲۹ دسمبر ۲۰۰۳ کو صبح نماز فجر کے وقت میں لاہور سے دوبئی پہنچا۔ وہاں ہمارے پرانے دوست محمد فاروق شیخ اور حافظ بشیر احمد چیمہ ایئر پورٹ پر موجود تھے۔ میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوبئی میں بھی دو دن رکنے کا پروگرام بنا لیا اور دوبئی ایئرپورٹ سے ٹرانزٹ ویزاحاصل کر لیا جس کی وجہ سے دوبئی، شارجہ اور ابو ظبی میں مختلف دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔ محمد فاروق شیخ گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، جمعیۃ طلباے اسلام میں خاصے متحرک رہے ہیں اور ایک عرصہ سے شارجہ میں مقیم ہیں۔ ان کے ہاں قیام رہا۔ شارجہ میں ہی جمعیۃ کے ایک اور اہم ساتھی قاری عبید الرحمن قریشی صاحب مقیم ہیں اور ایک دینی مدرسہ چلا رہے ہیں۔ ان دونوں دوستوں نے اسی روز ابو ظبی جانے کا پروگرام بنا لیا۔ اس سے قبل ہم نے بزرگ عالم دین حضرت مولانا محمد اسحاق خان مدنی مدظلہ سے ملاقات کی۔ ان کا تعلق منگ آزادکشمیر سے ہے، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان دامت برکاتہم آف پلندری کے قریبی رفقا میں سے ہیں، مدت سے دوبئی میں قیام پذیر ہیں اور دینی خدمات میں مصروف رہتے ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور قرآن کریم کی تفسیر وتشریح کا خاص ذوق رکھتے ہیں۔ اچانک ملاقات پر بہت خوش ہوئے، کچھ دیر گفتگو ہوتی رہی، دعاؤں سے نوازا اور دوسرے روز پھر حاضری کی دعوت دی۔
ابو ظبی میں مغرب کے بعد علماے کرام اور جماعتی احباب کے ساتھ ایک نشست ہوئی جس میں ملکی حالات، عالم اسلام کی صورت حال اور دینی حلقوں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر گفتگو ہوئی۔ ۳۰ دسمبر کو دوبئی میں مرکز جمعۃ الماجد میں حاضری کا موقع ملا۔ متحدہ عرب امارات کے ایک باذوق تاجر الشیخ جمعہ الماجد نے تعلیم، رفاہی خدمات اور لائبریری کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے جو ان کے حسن ذوق کی علامت ہے۔ متعدد تعلیمی ادارے مصروف ہیں، رفاہی خدمات کا سلسلہ جاری ہے اور سب سے بڑھ کر وہ وسیع لائبریری ہے جس میں مختلف علوم وفنون پر کتابوں اور مخطوطات کا ایک وسیع ذخیرہ مہیا کیا گیا ہے اور استفادہ کی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ کتابوں کی فراہمی، مخطوطات کے حصول اور ان کی حفاظت وترتیب کا کام انتہائی منظم طریقہ سے ہو رہا ہے اور علمی ورثہ کی حفاظت کے اس نظام کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ میں اس سے قبل بھی اس لائبریری میں حاضر ہو چکا ہوں۔ اب کے یہ حاضری اپنے شوق کے ساتھ ساتھ اس وجہ سے بھی تھی کہ میرے بہنوئی اور جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم کے مہتمم مولانا قاری خبیب احمد عمر اتفاق سے ان دنوں دوبئی گئے ہوئے تھے اور میری خواہش تھی کہ وہ اس لائبریری اور اس کے طریق کار کو دیکھیں، چنانچہ وہ بھی ہمراہ تھے اور اس علمی خدمت سے بہت محظوظ ہوئے۔ دوپہر کا کھانا ہم نے حضرت مولانا محمد اسحاق خان مدنی کے دستر خوان پر کھایا اور شام کو شارجہ میں قاری عبید الرحمن قریشی نے اپنے مدرسہ میں علماے کرام اور جماعتی احباب کے اجتماع کا اہتمام کر رکھا تھا۔ مختصر خطاب کے ساتھ احباب سے ملاقاتیں ہوئیں اور پھر ایئر پورٹ روانہ ہو گئے جہاں سے مجھے ڈھاکہ کے لیے روانہ ہونا تھا۔
۳۱ دسمبر کو صبح آٹھ بجے طیارے نے ڈھاکہ ایئر پورٹ پر اترنا تھا مگر دھند اس قدر شدید تھی کہ الامارات کا طیارہ کم وبیش ڈیڑھ گھنٹہ تک فضا میں چکر کاٹتا رہا اور بالآخر پائلٹ کو اعلان کرنا پڑا کہ اگر مزید پندرہ بیس منٹ تک اسے ڈھاکہ میں اترنے کا راستہ صاف نہ ملا تو مجبوراً طیارے کو کلکتہ ایئر پورٹ پر اتارنا پڑے گا مگر ایسا نہ ہوا اور تھوڑی دیر کے بعد طیارہ ڈھاکہ ایئر پورٹ پر اتر گیا۔ اس کے ساتھ ہی الامارات کی ایک اور فلائیٹ ڈھاکہ ایئر پورٹ پر اتری جس میں لندن سے مولانا محمد عیسیٰ منصوری، مولانا محمد فاروق ملا اور مولانا مشفق الدین تشریف لائے۔ مولانا محمد عیسیٰ منصوری ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین ہیں اور ہمارے قارئین ان سے اچھی طرح متعارف ہیں۔ مولانا محمد فاروق ملا کا تعلق گجرات انڈیا سے ہے اور برطانیہ کے شہر لیسٹر میں دار الارقم کے نام سے ایک تعلیمی ادارے کے ڈائریکٹر ہیں جبکہ مولانا مشفق الدین بنگلہ دیش سلہٹ سے تعلق رکھتے ہیں اور وائٹ چیپل لندن میں ابراہیم کمیونٹی کالج کے نام سے ایک تعلیمی اور رفاہی ادارہ کے منتظم ہیں۔ ایئر پورٹ پر ہم چاروں اکٹھے ہو گئے اور امیگریشن سے فارغ ہو کر مولانا سلمان صاحب کے ہمراہ، جو استقبال کے لیے ایئر پورٹ پر موجود تھے، ان کے مدرسہ دار الرشاد میر پور میں پہنچ گئے۔ اگلے روز ’’سید ابو الحسن علی ندویؒ ایجوکیشن سنٹر‘‘ کا افتتاح تھا جس کے لیے بھارت سے دار العلوم دیوبند کے مفتی حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی اور دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی شریعت فیکلٹی کے سربراہ مولانا سید محمد سلمان حسینی ندوی بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔
شام کو مدرسہ دار الرشاد کی مسجد کے ہال میں مولانا سلمان حسینی نے علماے کرام اور دینی حلقوں کی ذمہ داریوں پر مفصل خطاب کیا اور یکم جنوری ۲۰۰۴ کو صبح نماز فجر کے بعد ’’سید ابو الحسن علی ندویؒ ایجوکیشن سنٹر‘‘ میں علماے کرام کی کلاس کو حجۃ اللہ البالغہ کا پہلا سبق پڑھا کر اس کی تعلیمی سرگرمیوں کا افتتاح کیا۔ اس سنٹر میں درس نظامی کے فضلا کے لیے دو سالہ کورس رکھا گیا ہے جس میں انھیں انگلش، بنگلہ، عربی اور اردو زبانوں کے علاوہ مقارنۃ الادیان، مغربی فکر وفلسفہ، کمپیوٹر اور دیگر ضروری مضامین کی تعلیم دی جائے گی۔ گیارہ بجے جامع مسجد بیت المکرم ڈھاکہ میں واقع اسلامک فاؤنڈیشن کے ہال میں سیمینار تھا جس کی صدارت بزرگ عالم دین اور جامع مسجد بیت المکرم کے خطیب حضرت مولانا عبید الحق مدظلہ نے کی جو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت بنگلہ دیش کے امیر بھی ہیں اور اس سے مولانا مفتی حبیب الرحمن اعظمی، مولانا سید سلمان حسینی، مولانا محمد عیسیٰ منصوری، راقم الحروف اور دیگر حضرات کے علاوہ بزرگ عالم دین حضرت مولانا محی الدین خان صاحب نے بھی خطاب کیا جو جمعیۃ علماے اسلام کے پرانے بزرگوں میں سے ہیں اور علمی وفکری محاذ پر گراں قدر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ مولانا محی الدین خان جمعیۃ علماے اسلام بنگلہ دیش کے نائب امیر ہیں، ’المدینہ‘ کے نام سے بنگلہ زبان میں ایک جریدہ شائع کرتے ہیں اور علمی وفکری کامو ں کے لیے انہوں نے شریعت کونسل تشکیل دے رکھی ہے جس کی طرف سے انھوں نے ہمارے اعزاز میں ڈھاکہ کے گرینڈ آزاد ہوٹل میں پرتکلف عشائیہ کا اہتمام بھی کیا۔
ہمارے میزبان مولانا محمد سلمان صاحب نے ڈھاکہ، چاٹگام اور سلہٹ میں مختلف دینی مدارس میں ہماری حاضری کا پروگرام ترتیب دے رکھا تھا۔ چاٹگام میں بنگلہ دیش کے دو بڑے مدارس جامعہ معین الاسلام ہاٹ ہزاری اور جامعہ اسلامیہ ٹپیا میں حاضری ہوئی جو بنگلہ دیش کے سب سے قدیمی اور بڑے ادارے ہیں۔ ان میں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ ہر سال فارغ ہوتے ہیں اور مخلص علماے کرام کی ایک بڑی کھیپ تعلیمی وانتظامی خدمات میں ہمہ تن مصروف ہے مگر مولانا محمد سلطان ذوق کے ’دار المعارف‘ میں جا کر بہت زیادہ خوشی ہوئی کہ انھوں نے دینی تعلیم کے روایتی طرز کے ساتھ ساتھ ندوۃ العلماء لکھنؤ کے اسلوب پر جدید تقاضو ں کا بھی لحاظ رکھا ہے اور علما وطلبہ کی تربیت وٹریننگ کے نئے اسلوب کو بھی نظام ونصاب کا حصہ بنایا ہے۔ سلہٹ میں ہمارا قیام دار السلام مدینۃ العلوم میں تھا جس کے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد العزیز دیامیری مدظلہ انتہائی متواضع اور باذوق بزرگ ہیں، انھوں نے ایک کمیونٹی سنٹر کے ہال میں سیمینار کا اہتمام کیا ہوا تھا جس میں ’’عصر حاضر میں علماے کرام کی ذمہ داریاں‘‘ کے موضوع پر ہم لوگوں نے گفتگو کی۔
سلہٹ میں حضرت شاہ جلالؒ کے مزار کے ساتھ مدرسہ قاسم العلوم میں حاضری ہوئی اور بزرگ عالم دین حضرت مولانا اکبر علی مدظلہ سے ملاقات ہوئی۔ ان سے میرا پہلے سے تعارف نہیں تھا مگر انھوں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ میں ہاتھ لیتے ہی حضرت درخواستی رحمہ اللہ تعالیٰ کا تذکرہ شروع کر دیا اور کہا کہ حضرت درخواستیؒ فرمایا کرتے تھے کہ: ’’ہاتھ میں چھتری، پیٹ میں مچھلی اور منہ میں پان، یہ ہے بنگالی کا نشان‘‘۔ مولانا اکبر علی معمر بزرگ ہیں اور تحریک پاکستان میں شریک رہ چکے ہیں۔ انھی کے ہاں حضرت مولانا محمد سالم قاسمی مدظلہ سے بھی ملاقات ہو گئی جو ان دنوں سلہٹ تشریف لائے ہوئے تھے۔ حضرت مولانا محمد سالم قاسمی حکیم الامت حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ کے فرزند ہیں اور دار العلوم دیوبند (وقف) کے مہتمم ہیں۔ انھیں دیکھ کر حضرت قاری صاحبؒ کی یاد تازہ ہو گئی۔ وہی چہرہ مہرہ، وہی ناک نقشہ اور وہی طرز گفتگو۔ ان سے تھوڑی دیر مختلف مسائل پر گفتگو ہوئی اور ان کی شیریں بیانی کا حظ اٹھایا۔
سلہٹ میں ہی حضرت مولانا نور الدین مدظلہ سے بھی ملاقات وزیارت کا شرف حاصل ہوا۔ وہ وفاق المدارس العربیۃ بنگلہ دیش کے صدر ہیں اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے خاص شاگردوں میں سے ہیں۔ حضرت مدنی کا تذکرہ ہوا تو فرمانے لگے کہ میں نے پانچ سال حضرت مدنیؒ کی خدمت کی ہے اور ان کے سر پر تیل کی مالش کیا کرتا تھا۔ سلہٹ کے قریب سونام گنج ایک پروگرام میں شرکت کے لیے جانا ہوا تو راستہ میں دار العلوم درگا پور میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے خلیفہ مجاز حضرت مولانا عبد الحق مدظلہ سے ملاقات وزیارت کا موقع ملا۔ وہیں مولانا نور الاسلام خان سے بھی ملاقات ہوئی جو مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل ہیں اور دار العلوم درگا پور میں شیخ الحدیث کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے نصرۃ العلوم میں ۱۳۹۱ھ میں دورۂ حدیث کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مجھ سے ایک سال بعد فارغ ہوئے کیونکہ میں نے مدرسہ نصرۃ العلوم میں دورۂ حدیث مکمل کر کے ۱۳۹۰ھ میں فراغت حاصل کر لی تھی۔
مجھے ۷ جنوری کو واپس آنا تھا مگر ڈھاکہ کے قریب مدھوپور میں ایک بزرگ عالم اور روحانی پیشوا حضرت مولانا عبد الحمید مدظلہ نے اصرار کر کے روک لیا کہ ان کے دینی مدرسہ جامعہ حلیمیہ کا سالانہ جلسہ ۹ جنوری کو ہو رہا تھا۔ ان کے فرزند مولانا محمد عبد اللہ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل ہیں اور ہمارے ساتھ بہت محبت کرتے ہیں۔ باپ بیٹے کے اصرار کے سامنے سرتسلیم خم کرنا پڑا اور میری وجہ سے مولانا محمد عیسیٰ منصوری کو بھی اپنے پروگرام میں توسیع کرنا پڑی۔ جامعہ حلیمیہ کے سالانہ جلسہ میں دار العلوم دیوبند کے نائب شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق اعظمی مدظلہ مہمان خصوصی تھے۔ ان کی زیارت بھی اس بہانے ہو گئی اور انھوں نے بہت شفقت اور دعاؤں سے نوازا۔
۱۰ جنوری کو ڈھاکہ میں بہت مصروف دن گزرا۔ لال باغ دیکھنے کا پروگرام تھا مگر اس کے گیٹ پر پہنچنے پر معلوم ہوا کہ اگلے روز بنگلہ دیش کی وزیر اعظم محترمہ خالدہ ضیا صاحبہ تشریف لانے والی ہیں۔ ان کی آمد کی تیاریوں کی وجہ سے باغ بند ہے۔ مدرسہ عالیہ ڈھاکہ میں حاضری ہوئی جو بنگلہ دیش کے سرکاری دینی مدارس میں سب سے بڑا ور سب سے قدیمی مدرسہ ہے۔ اس کے پرنسپل صاحب سے خاصی مفید گفتگو ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ انگریزی زبان اور بعض دیگر مضامین کے اضافے کے ساتھ درس نظامی کا یہ مدرسہ نواب سراج الدولہ شہیدؒ کی شہادت اور بنگال پر انگریزوں کے قبضہ کے صرف ربع صدی بعد کلکتہ میں قائم ہو گیا تھا جس کے اخراجات انگریزی حکومت برداشت کرتی تھی اور طویل عرصہ تک اس کے مہتمم برطانیہ سے آنے والے انگریز رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد اسے کلکتہ سے ڈھاکہ منتقل کیا گیا اور اس میں آج بھی انگریزی اور دیگر چند جدید علوم کے ساتھ درس نظامی کے اکثر مضامین کی تعلیم دی جاتی ہے اور مدرسہ ایجوکیشن بورڈ اس کے نصاب ونظام کو کنٹرول کرتا ہے۔ بنگلہ دیش میں سرکاری اخراجات اور تعاون کے ساتھ چلنے والے دینی مدارس ’’عالیہ مدرسے‘‘ کہلاتے ہیں اور ان میں محکمہ تعلیم کے تحت ’’مدرسہ ایجوکیشن بورڈ‘‘ کا نصاب پڑھایا جاتا ہے جبکہ پرائیویٹ دینی مدارس کو ’’قومی مدرسے‘‘ کہا جاتا ہے جہاں کم وبیش وہی نصاب تعلیم رائج ہے جو ہمارے ہاں دینی مدارس میں پڑھایا جاتا ہے۔ پرائیویٹ دینی مدارس کم وبیش آٹھ نو ہزار کی تعداد میں ہیں جو کسی ایک وفاق کے ساتھ ملحق نہیں ہیں بلکہ دو تین الگ الگ وفاق قائم ہیں اور بہت سے مدارس ان سے بھی الگ تھلگ ہیں جبکہ عالیہ مدرسوں کی تعداد بھی اس سے کم نہیں ہے مگر وہ مدرسہ ایجوکیشن بور ڈکے تحت ایک نظام میں منسلک ہیں۔ 
ڈھاکہ کے تبلیغی مرکز میں بھی حاضری ہوئی۔ ظہر کی نماز وہیں ادا کی اور کھانا کھایا۔ ڈھاکہ سے بنگلہ زبان میں روزنامہ ’انقلاب‘ شائع ہوتا ہے جسے دینی حلقوں کا ترجمان سمجھا جاتا ہے۔ اس کے دفتر میں حاضری ہوئی اور اس کے ذمہ دار حضرات سے مختلف امور پر بات چیت ہوئی۔ اس کے بعد مولانا محمد عیسیٰ منصوری اور میں دونوں ایئر پورٹ کی طرف روانہ ہوئے تو بنگلہ دیش کے سیاسی ماحول کی ایک جھلک بھی دیکھ لی۔ اس روز ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں عوامی لیگ کے جلسہ سے محترمہ حسینہ واجد نے خطاب کرنا تھا اور جلسہ میں شرکت کے لیے چاروں طرف سے عوامی لیگ کے کارکنوں کے جلوس پلٹن میدان کی طرف بڑھ رہے تھے۔ نوجوانوں کی پرجوش نعرہ بازی، ڈھول کی تھاپ پر رقص اور بہت سے دیگر مظاہر دیکھ کر اپنے ہاں کی پیپلز پارٹی کی یاد تازہ ہو گئی کہ کم وبیش ایک جیسا ہی انداز تھا۔ اس طرح بنگلہ دیش میں کم وبیش گیارہ روز گزار کر مولانا محمد عیسیٰ منصوری اور راقم الحروف دونوں شام ڈھاکہ ایئر پورٹ پہنچے جہاں سے انھوں نے بمبئی اور میں نے کراچی کے لیے سفر کرنا تھا اور رات ہی رات ڈھاکہ سے کراچی اور کراچی سے لاہور کا سفر کر کے میں سحری کے وقت گوجرانوالہ واپس پہنچ گیا۔

پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ ۔ دعوت ومکالمہ کے چند حکیمانہ پہلو

پروفیسر محمد اکرم ورک

(پیر محمد کرم شاہ صاحب الازہریؒ بریلوی مکتبہ فکر کے ایک نامور اور سنجیدہ صاحب علم ہونے کے ناتے ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ مسلکی اختلافات میں اعتدال و توازن اور علمی واخلاقی حدود کی پابندی ان کے طرز فکر کی نمایاں خصوصیت ہے اور اسی بنا پر انھیں تمام علمی حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ عقیدۂ ختم نبوت کے حوالے سے بانی دار العلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی ایک عبارت دیوبندی اور بریلوی حلقوں میں ہمیشہ نزاع کا باعث رہی ہے اور بریلوی مکتب فکر کے بہت سے علما کی طرف سے اس عبارت کو ختم نبوت کے انکار کے مترادف قرار دے کر حضرت نانوتویؒ کے خلاف طعن وتشنیع کی جاتی ہے۔ حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ نے اس بارے میں بھی متوازن موقف اختیار کیا اور کہا کہ حضرت نانوتویؒ کی عبارت کا مطلب وہ نہیں ہے جو معترضین بیان کرتے ہیں بلکہ انھیں مذکورہ عبارت کو سمجھنے میں غلطی لگی ہے۔ زیر نظر مضمون میں ان کی علمی ودعوتی جدوجہد کے جن پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے، وہ ہر مکتبہ فکر کے علما وطلبہ کی فکری وعملی تربیت کے حوالے سے خاص طور پر توجہ کے مستحق ہیں اور اسی تناظر میں اس مضمون کو یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری اب قیامت تک امت محمدیہ ﷺ کے ذمہ ہے ۔ داعی اعظم ﷺکی سیرت ہادیان عالم میں اس حوالے سے ممتاز اور منفرد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو دعوت و تبلیغ کے بنیادی اصولوں کی خود تعلیم ارشاد فرمائی۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے: ’اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَا دِلھُمْ بِاَلَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ‘ (۱) 
اس آیت مقدسہ میں دعوت دین کے تین بنیادی اصول بیان ہو ئے ہیں : -iحکمت، -ii موعظہ حسنہ، -iiiبحث و تمحیص کا معقول انداز ۔ رسول کریم ﷺ کی دعوت زندگی انہی اصولوں کی عملی تفسیر اور داعیان اسلام کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آپ ﷺ نے دعوت دین کے جو مختلف اسا لیب اختیار فرمائے، سیرت طیبہ کے مطالعہ سے ان کی اثر آفرینی کی بے شمار مثالیں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو دعوتِ دین کے مختلف اسالیب کی تعلیم دی ۔ آپ ﷺ کی تر بیت سے براہ راست فیض یاب ہو نے والے صحابہ کرامؓ کے دعوتی کر دار میں بھی انھی اصولوں کا غلبہ نظر آتا ہے۔ ایک غیر تر بیت یا فتہ داعی دعوت دین کے لیے کس قدر غیرموزوں ہے، اس کی وضاحت کرتے ہو ئے پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ رقمطراز ہیں :
’’ ایک نادان اور غیر تر بیت یافتہ مبلغ اپنی دعوت کے لیے اس دعوت کے دشمنوں سے بھی زیادہ ضرر رساں ہو سکتا ہے۔ اگر اس کے پیش کیے ہو ئے دلائل بودے اور کمزور ہوں، اگر اس کا اندازِ خطابت درشت اور معاندانہ ہو گا، اگر اس کی تبلیغ اخلاص اور للہیت کے نور سے محروم ہو گی تو وہ اپنے سا معین کو اپنی دعوت سے متنفر کر دے گا ۔ کیونکہ اسلام کی نشر و اشاعت کا انحصار تبلیغ اور فقط تبلیغ پر ہے، اس کو قبول کرنے کے لیے نہ کوئی رشوت پیش کی جاتی ہے اور نہ جبرو کراہ سے کام لیا جاتا ہے ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ایمان ، ایمان نہیں جس کے پس پر دہ کوئی دنیوی لالچ یا خوف و ہراس ہو اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے محبوب مکرم ﷺ کو دعوتِ اسلامی کے آداب کی تعلیم دی۔‘‘(۲) 
گویا دعوتِ دین کی کامیابی میں مر کزی کر دار داعی کا ہے۔ داعی جس قدر تر بیت یافتہ اور انسانی نفسیات کا عالم ہوگا، اسی قدر اس کی دعوت موثر ہو گی۔ ایک جاہل، ان پڑھ اور اجڈ مخاطب کو دعوت کا انداز پڑھے لکھے اور شہر کے رہنے والے سے مختلف ہو نا چاہیے۔
ضیاء الا مت پیر محمد کرم شاہ ؒ داعیانِ اسلام کے اس عظیم سلسلہ کے سر خیل اور میرِ کارواں ہیں جنھوں نے اپنی زندگیاں دعوتِ دین کے لیے وقف کیے رکھیں اور دعوت کے میدان میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ ایک سچے داعی اور عاشق رسول ﷺ کی طرح آپ ؒ نے دعوتِ دین کے وہ جملہ اسا لیب اختیار کیے جو اسوۂ رسول ﷺ ہو نے کی وجہ سے داعیانِ اسلام کا لازمی نصاب ہیں۔ آپ ؒ نے اپنے قول و فعل، تقریر ، تدریس اور تحریر کے ذریعہ ایک عالَم کو متاثر کیا ۔ پیر صاحب ؒ نے دعوتِ دین کی کامیابی کے لیے مخاطبینِ دعوت کی ذہنی استعداد، صلاحیت ،نفسیات اور موقع و محل کی مناسبت سے جو اسا لیب اختیار فرمائے، وہ ایک مستقل موضوعِ تحقیق ہے اور آپ ؒ سے محبت اور عقیدت رکھنے والے احباب پر قرض ہے کہ وہ اس موضوع کا تفصیل سے جائزہ لیں اور ان وجوہات کا تعین کریں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو کارِِ نبوت ﷺ کی انجام دہی میں شاندار کامیابیاں عطا فرمائیں۔ 
دعوتِ دین کے لیے آپؒ نے جو مختلف اسالیب اختیار فرمائے، درج ذیل عناوین کے تحت ان کی وضاحت کی جا سکتی ہے تا کہ دورِ حاضر کے مبلغین ان سے بھر پور استفادہ کر سکیں ۔ سرِ دست ان سطور میں ضیاء الا مت ؒ کے تحریری سر مایہ سے چند مثالیں پیش کر کے اس حقیقت کی وضاحت کی جا رہی ہے کہ مخاطبینِ دعوت کو متاثر کر نے کے لیے کس طرح آپ ؒ نے اسوہ رسول ﷺکی پیروی کی اور صحابہ کرامؓ اور داعیانِ اسلام کے طریقِ دعوت کی بھر پور خوشہ چینی کی۔

داعی کی دل سوزی / اخلاص و للہیت

اگر داعی کی نیت صحیح اور خالص ہو اور اس کا مقصود رضائے الٰہی کا حصول ہو تو نہ صرف وہ عند اللہ اجر و ثواب کا مستحق ہو گا بلکہ اس کی بات میں اثر بھی زیادہ ہو گا۔ لوگ نہ صرف اس کی بات کو زیادہ توجہ سے سنیں گے بلکہ اس پر عمل پیرا بھی ہوں گے ۔ کوئی شخص اس وقت تک اپنے تاریخی پس منظر، نظریاتی وابستگی اور خاندانی وقار کے تقاضوں کو نہیں بھلا سکتا ، جب تک اسے داعی کی بے لوثی ، نیک نفسی اور دل سوزی کا یقین نہ ہو جائے۔ حضرت ضیاء الا مت کی تصانیف کے مطالعہ سے یہ حقیقت نکھر کرسامنے آتی ہے کہ آپ کی تحریر کا ایک ایک لفظ واضح اور با مقصد پیغام پر مشتمل ہے اور آپ کے دل میں امت کا جو درد ہے، ہر ہرفقرہ اس در دِ نہاں کا تر جمان ہے اور آپ کی جملہ تصا نیف آپ کے خون جگر کا ثمرہ ہیں۔ ’’عصر حاضر اور ہماری ذمہ داریاں ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہو ئے آپ کے سورزِ دروں اور دل سوزی کو ملاحظہ فرمائیں:
’’ میں یہ تصور کر کے لرز جاتا تھا۔ مجھے یہ احساس کچھ کرنے پر مجبور کرتا تھا۔ اگر میرا بس چلتا تو ایسا صور پھونکتا کہ سارے سو نے والے سنی جاگ اٹھتے اور اگر کوئی سونا چاہتا تو اس کے لیے سو نا نا ممکن بنا دیتا۔ اگر میرے مقدور میں ہو تا تو میں ایسی دل دوز چیخ مارتا کہ پتھروں میں شگاف ہو جاتے اور احساسِ زیاں سے سب بے چین و بے قرار ہو جاتے ۔ طوفان بن کر آتا اور فتنہ و فساد کے شعلوں کو بھسم کر کے رکھ دیتا ۔ نسیم سحر بن کر چلتا ، خوابیدہ غنچوں کو جگاتا ، دل گرفتہ عنادل کو گدگداتا اور انہیں حیات آفریں نغموں پر مجبور کر دیتا ۔‘‘ (۳) 
ضیاء الا مت ؒ کی پوری زندگی اخلاص اور للہیت کی عملی تفسیرتھی اور آپ کے پیغام کی اثر آفرینی کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔ جن احباب کو براہ راست آپ کی ؒ صحبت سے فیض یاب ہو نے کا موقع ملا ہے، وہ اسلام کے لیے آپ کی والہانہ محبت،سوزِ دروں اور دل سوزی کے عینی شاہد ہیں۔ گویا اشاعت اسلام کے لیے آپ کی حیات مستعار کا ایک ایک لمحہ آیت مقدسہ: ’وَمَا اَسْألُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ ان اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘ (۴) کی عملی تفسیر تھا ۔ آپ کی جملہ تحریروں میں اخلاص اور محبت کا یہی رنگ نمایاں ہے ۔بحیثیت داعئ اسلام آپ ؒ کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد بے اختیار زبان سے نکلتا ہے : 
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لیے

انتشار و افتراق سے اجتناب

اسلام کے بنیادی عقائد و نظریات جن کے بغیر اسلام کا تشخص باقی نہیں رہتا ، مثلاً توحید ، رسالت ، آخرت اور دیگر ارکانِ اسلام وغیرہ، ان پر کوئی سمجھوتہ کرنا دین کی عمارت منہدم کرنے کے مترادف ہے اس لیے داعی کے لیے کسی صورت یہ درست نہیں کہ وہ فریق مخالف سے بنیادی عقائد پر کوئی سمجھوتہ کرے یا اپنے رویہ میں لچک پیدا کرے ، تا ہم فروعی مسائل میں داعی کارویہ نسبتاً لچک دار ہو نا چاہے اور اس کو ایسا موقف اختیار کرنا چاہیے جس سے قوم انتشار و افتراق کا شکار نہ ہو ۔دورِ حاضر میں فرقہ وارنہ تشدد لا علاج مرض کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے ،حالانکہ بقول اقبال :
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں، اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
بدقسمتی سے عوام الناس ایسے تفرقہ بازوں سے بد ظن ہونے کی وجہ سے اسلام سے بھی دور ہو رہے ہیں اور صورتِ حال کچھ یوں ہے:
کوئی کارواں سے ٹوٹا، کوئی بد گماں حرم سے
کہ میرِ کارواں میں نہیں ہے خوئے دل نوازی
حضرت ضیاء الا مت نے فروعی مسائل میں ہمیشہ لچک دار رویہ اختیارکیا ہے۔ ’ ضیاء القرآن‘ اور ’ ضیاء النبی‘ سے اس کی بے شمار مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ آپ کو امت کے انتشار و افتراق سے جو قلبی دکھ تھا، اس کا اظہار ان الفاظ سے ہو تا ہے :
’’یہ ایک بڑی دل خراش او ر روح فر سا حقیقت ہے کہ مرورِ زمانہ سے اس امت میں بھی افتراق و انتشار کا دروازہ کھل گیا ہے جسے ’’ واعتصمو ابحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا ‘‘ کا حکم دیا گیا تھا ۔ یہ امت بھی بعض خود غرض اور بد خواہ لوگوں کی ریشہ دوانیو ں سے متنازع گروہوں میں بٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور جذبات میں آئے دن کشیدگی اور تلخی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔۔۔۔۔۔ اس باہمی اور داخلی انتشار کا سب سے الم ناک پہلو اہل السنۃ والجماعت کا آپس میں اختلاف ہے جس نے انہیں دو گروہوں میں بانٹ دیا ہے۔ دین کے اصولی مسائل میں دونوں متفق ہیں، اللہ تعالیٰ کی تو حیدِ ذاتی اور صفاتی ، حضور نبی کریمﷺکی رسالت اور ختمِ نبوت ، قرآن کریم، قیامت اور دیگر ضروریاتِ دین میں کلی موافقت ہے لیکن بسا اوقات طرزِ تحریر میں بے احتیاطی اور اندازِ تقریر میں بے اعتدالی کے باعث غلط فہمیاں پیدا ہو تی ہیں اور باہمی سوء ظن ، غلط فہمیوں کو ایک بھیانک شکل دے دیتا ہے ۔‘‘ (۵) 
امت کو انتشار و افتراق اور گروہ بندیوں سے بچانے کا جو نسخہ آپ ؒ نے تجویز فرمایا ہے، اگر مبلغین اور واعظین حضرات اس کو پیش نظر رکھیں تو نہ صرف باہمی اختلافات کا دائرہ محدود کیا جا سکتا ہے بلکہ غیر ضروری اختلاف کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کیا جا سکتا ہے ۔ آپ کی تجویز ملاحظہ ہو :
’’ اگر تقریر و تحریر میں احتیاط و اعتدال کا مسلک اختیار کیا جائے اور اس بد ظنی کا قلع قمع کر دیا جائے تو اکثر و بیشتر مسائل میں اختلاف ختم ہو جائے اور اگر چند امور میں اختلاف باقی رہ بھی جائے تو اس کی نوعیت ایسی نہیں ہو گی کہ دونوں فریق عصرِ حاضر کے سارے تقاضوں سے چشم پوشی کیے آستینیں چڑھائے ، لٹھ لیے ایک دوسرے کی تکفیر میں عمریں بر باد کرتے رہیں۔ ملتِ اسلامیہ کا جسم پہلے ہی اغیار کے چر کوں سے چھلنی ہو چکا ہے۔ ہمارا کام تو ان خونچکاں زخموں پر مر ہم رکھنا ہے، ان رستے ہو ئے نا سوروں کو مندمل کرنا ہے، اس کی ضائع شدہ توانائیوں کو واپس لانا ہے۔ یہ کہاں کی دانش مندی اور عقیدت مندی ہے کہ ان زخموں پر نمک پاشی کرتے رہیں، ان ناسوروں کو اور اذیت ناک اور تکلیف دہ بناتے رہیں ۔‘‘ (۶) 
خود آپ ؒ نے اپنی پیش کردہ تجویز پر کس حد تک عمل کیا، اس کو جاننے کے لیے آپ کی جملہ تصنیفات کا سر سری مطالعہ ہی کافی ہے۔ دعوہ اکیڈمی اسلام آباد کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد علوی فرماتے ہیں:
’’اختلافی مسائل کے حوالے سے آ پ نے جو اسلوب اختیار کیا ہے، وہ بہت دل نشیں ہے۔ آپ میں دوسرے گروہ کو دکھی کیے بغیر اپنا موقف بیان کرنے کا سلیقہ اور قرینہ تھا۔ آپ میں مسلکی حوالے سے مناظرانہ رنگ نہیں تھا۔‘‘ (۷) 
اختلافِ امت سے اجتناب کی اسی روش نے آپ ؒ کو ہر مسلک کے وابستگان کی نظر میں محترم و معتبر ٹھہرایا اور اسی وجہ سے آپؒ کی تصنیفات نہ صرف ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں بطور نصاب شامل ہیں بلکہ تمام مسالک کے سر کردہ اہل علم آپ کی آرا کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اختلافِ امت کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے آپ کے تجویز کردہ مسلکِ اعتدال کو اختیار کیا جائے۔

عصر ی تقاضوں کا لحاظ

دعوت دین کے ہر کارکن کو اپنے گرد و پیش کا پوری ہو شیاری اور مستعدی سے جائزہ لیتے رہنا چاہیے اور دعوت کے بیج کی تخم ریزی کے لیے ایسا اسلوب اختیار کرنا چاہیے جو حالات اور موقع محل کے مطابق ہو۔ ہمارے مبلغین کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ موقع محل اور عصری تقاضوں کا لحاظ کیے بغیر دعوت کا کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ان تھک اور پر خلوص کوششوں کے با وجود دعوت کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہو تے۔ حضرت ضیاء الا مت ؒ نے اپنی تصانیف میں ایسا اسلوب تحریر اختیار فرمایا ہے جو عصر ی تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہے اور جس میں مخاطبینِ دعوت کی ذہنی اور نفسیاتی ضرورتوں کا پوری طرح لحاظ رکھا گیا ہے ، عصری تقاضوں اور قارئین کی خواہشات کو پوری اہمیت دی گئی ہے۔ عصری تقاضوں اور قارئین کی خواہشات کو پیش نظر رکھنے کی خوبصورت مثال تر جمہ قرآن میں ضیاء الامتؒ کا منفرد اسلوبِ تحریر ہے ۔ پیر صاحب خود فرماتے ہیں:
’’ قرآن کریم کے اردو تر اجم جو میری نظر سے گزرے ہیں، وہ عموماً دو طرح کے ہیں: ایک قسم تحت اللفظ تراجم کی ہے لیکن ان میں زورِبیان مفقود ہے جو قرآن کریم کا طرۂ امتیاز بلکہ اس کی روح رواں ہے ۔ دوسری قسم با محاورہ تراجم کی ہے۔ ان میں دقت یہ ہے کہ لفظ کہیں ہو تا ہے اور اس کا تر جمہ دو سطر پہلے یا دو سطر بعد درج ہو تا ہے اور مطالعہ کرنے والا یہ معلوم نہیں کر سکتا کہ میں جو نیچے لکھا ہوا تر جمہ پڑھ رہا ہوں، اس کا تعلق کس کلمہ یا جملہ سے ہے۔ میں نے سعی کی ہے کہ ان دونوں طرزوں کو اس طرح یکجا کر دوں کہ کلام کا تسلسل اور روانی بھی بر قرار رہے، زور بیان میں بھی فرق نہ آنے پائے اور ہر کلمہ کا تر جمہ اس کے نیچے بھی مر قوم ہو ۔‘‘ (۸) 
پیر صاحب ؒ کی تفسیر ’’ ضیاء القرآن‘‘ اور تر جمہ’’ جمال القرآن ‘‘کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ عصری تقاضوں اور قارئین کی ذہنی استعداد اور ضرورتوں کے مطابق ہے۔ دورِ حاضر کے مصنفین اگر اس معاملہ میں ضیاء الا مت کے طرزِ تحریر کو سامنے رکھیں تو یقیناًوہ دعوتِ دین کا کام زیادہ موثر انداز میں کر سکتے ہیں۔
پیر صاحب ؒ نے موقع و محل کی مناسبت سے تفسیرِ قرآن میں قارئین کو محاسبہ نفس اور عمل کی طرف بلایا ہے۔ ایک ماہر اور حاذق حکیم کی طرح آپ ؒ نے حالات حاضرہ کو پیش نظررکھ کر تفسیرِ قرآن کا جو اسلوب اختیار کیا ہے، اس کی وضاحت خود آپ ؒ کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے:
’’ ہم اکثر بگڑی ہو ئی قوموں کے حالات اور ان کے حسرت ناک انجام کے متعلق قرآن میں پڑھتے ہیں اور ایک لمحہ توقف کیے بغیر آگے نکل جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ میں نے ہر ایسے موقع پر کوشش کی ہے کہ مطالعہ کرنے والے کے وجدان کو جھنجھوڑوں اور اسے اپنا محاسبہ کرنے کی رغبت دلاؤں تا کہ وہ اپنی جنسِ عمل کواسلام اور قرآن کے مقرر کیے ہو ئے ترازو میں تولے اور اس کی کسوٹی پر پرکھے تا کہ اسے اپنے متعلق کوئی غلط فہمی یا اشتباہ نہ رہے اور اگر اس کا قدم جادۂ حق سے پھسل گیا ہے تو وہ سنبھلنے کی بروقت کوشش کرے ‘‘۔ (۹) 
عصرِحاضر کے دینی لٹریچر کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے اور اس میں دین کے اس پہلو کو کم ہی اجاگر کیا جاتا ہے جس کا لوگوں تک اس مخصوص وقت میں پہنچنا ضروری ہو تا ہے۔ حضرت ضیاء الامت نے اپنی تصا نیف میں علمی ، عقلی ، تحقیقی اور منطقی اسلوب اختیار کیا جو ہر طبقہ فکر کے افراد کے لیے یکساں مفید ہے اور کسی نہ کسی پہلو سے ان کی ذہنی صلاحیتوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ آپ کی تحریروں سے متاثر ہو نے والوں میں اصحابِ علم و ادب کی ایک بڑی تعداد ہے تو دوسری طرف طبقہ عوام سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔

بحث و تمحیص کا دل نشیں اسلوب

قرآن مجید کے بیان کردہ دعوتِ دین کے تیسرے اصول ’’ مجادلہ ‘‘ سے مراد دلائل کا باہمی تبادلہ ہے جس سے مخاطب کو مطمئن کرنے کے لیے اس کے دلائل کا جواب دیا جاتا ہے اور ایسا طرزِ استدلال اختیار کیا جاتا ہے جو فریق ثانی کو قبولِ حق پر آمادہ کر سکے۔ مجا دلہ کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ اس کی نوعیت محض مناظرہ بازی نہ ہو، اس میں الزام تراشیاں ، چوٹیں اور پھبتیاں نہ ہوں، اور اس اسلوبِ دعوت کا مقصد فریقِ مخالف کو چپ کر ا دینا اور اپنی زبان آوری کے ڈنکے بجا دینا نہ ہو بلکہ اس میں شیریں کلامی ، اعلیٰ درجہ کا شریفانہ اخلاق ، معقول اور دل لگتے دلائل ہوں ، جو مخاطب کے اندر ضد اور ہٹ دھرمی پیدا نہ ہو نے دیں۔ اپنی بات منوانے کے لیے مخاطب پر محبت، اعتماد، حسنِ اخلاق اور حسنِ استدلال کا ایسا جال پھینکا جائے کہ وہ داعی کی دل سوزی، اس کی بے لوثی اور اس کے اخلاص سے متاثر ہو کر اس کی بات کی صداقت پر غور کرنے کے لیے مجبور ہو جائے ۔
حضرت ضیاء الا مت کی تصنیفات اس طرزِ تحریر کا نادر نمونہ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بریلوی مسلک پیر صاحب ؒ کی پہچان ہے اور پیر صاحب ؒ بریلوی مسلک کے بعض مخصوص عقائد کے مبلغ بھی ہیں، لیکن فریقِ مخالف سے بحث و تمحیص میں انہوں نے کبھی مناظرانہ انداز اختیار نہیں فرمایا۔ ان کے قلم میں نشتر کی چبھن نہیں بلکہ احساسِ زیاں کا مرہم ہے۔ ’’ ایک شیعہ دوست کے جواب میں‘‘ (۱۰) آپ کا ایک مقالہ ہے جس میں آپ نے گیارہ سوالات کے جوابات دیے ہیں۔ اس مقالے میں آپ نے جو ناصحانہ اسلوبِ تحریر اختیار فرمایا، اس کی ایک ایک سطر سے مخاطب کے لیے اخلاص جھلکتا ہے اور فریق ثانی کے لیے ’’جناب معترض‘‘ کے الفاظ آپ ؒ کی دل سوزی اور اخلاص کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس مقالے کی ہر سطر سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی نظر میں فریق ثانی دشمن قوم کا فرد نہیں بلکہ اپنا ہے، مقصودِ نظر اس کو لا جواب کرنا نہیں بلکہ اس کی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔ مقالے کا عنوان آپ کی اسی خواہش کا واضح ثبوت ہے ۔
میلاد النبی ﷺکے موقع پر پوری دنیا کے مسلمان اپنے اپنے انداز میں بارگاہ رسالتِ مآبﷺ میں عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔ اس موقع پرچراغاں کرنا ، جلسے اور جلوسوں کا اہتمام کرنا اور میلاد النبی کو ’’ عید ‘‘ کے طور پر منانا بریلوی مسلک کی خاص پہچان بن چکا ہے ۔ بہت سے اہل علم اس طرزِ عمل کو بدعت کہہ کر ناجائز گر دانتے ہیں ۔ پیر صاحب ؒ کوجناب رسالت مآبﷺ سے جو والہانہ عشق و محبت ہے، اس کی بنا پر آپ ؒ نے اظہارِ عقیدت کے اس انداز کا دفاع پورے علمی اور تحقیقی انداز میں اپنی کتاب ’’ضیاء النبی‘ میں تقریباً بارہ صفحات پر کیا ہے۔ (۱۱) لیکن جذبات کی رو میں بہہ کر نہ تو آپ ؒ نے مناظرانہ انداز اختیار کیا اور نہ ہی فریق ثانی پر الزام تراشیاں اور پھبتیاں کسی ہیں بلکہ آپ ؒ نے ایسا علمی اور تحقیقی انداز اختیار کیا ہے جو متلاشیانِ حق کو اپنے موقف پر نظر ثانی پر مجبور کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ خالص علمی دلائل کے بعد دل کو موہ لینے والا یہ انداز ملاحظہ ہو:
’’ ہم بصد ادب اور ازراہ جذبہ خیر اندیشی ان حضرات کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ وہ اس تشدد کو ترک کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کے محبوب کی ولادت با سعادت سب امتیوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا عظیم الشان احسان ہے۔ آئیے اس روز مل کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ شکر ادا کریں۔ سب مل کر اس کی تسبیح و تہلیل کے نغمے الا پا کریں۔ اظہارِ مسرت کے ہر جائز طریقہ کو شر عی حدود کے اندر رہتے ہو ئے بروئے کار لائیں ‘‘۔ (۱۲) 
یہ طرزِ کلام ، یہ طرزِ تخاطب اور محبت بھرے اصرار کا یہ انداز قرآن کی اصلاح میں مجادلہ ہے۔ پیر صاحب ؒ نے اپنے طرزِ استدلال اور اسلوبِ تحریر سے ’’ مجادلہ ‘‘ اور’’ مناظرہ‘‘ کے درمیان بڑی خوبصورتی سے فرق قائم کیا ہے ۔ بد قسمتی سے ہمارے واعظین اورمبلغین اس فرق کو نہیں سمجھ سکے ۔ عموماً مناظرانہ طرز استدلال ،فریقِ ثانی کو ہٹ دھر می پر مجبور کر دیتا ہے جس کی وجہ سے دعوت کے مطلوبہ نتائج کی توقع رکھنا عبث ہے ۔ضیاء الا مت ؒ کی مسلمانوں کے تمام مسالک میں ہر دل عزیزی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ کے اسلوبِ نگارش میں اعتدال کا رنگ بڑا واضح اور نمایاں ہے ۔
اہل کتاب اور دیگر غیر مسلم اقوام میں دعوت کا کام کرنے والے کارکنوں کے لیے اس اسلوبِ دعوت کو پیش نظر رکھنا اور بھی ضروری ہے۔ بات اگر دلیل اور شائستگی کے ساتھ کی جائے تو وہ موثر ہو گی کیونکہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ وہ دلیل سے متاثر ہو تا ہے اور جو بات وہ دلیل کے بغیر ماننے کے لیے تیار نہیں ہو تا، اس کو مضبوط دلیل کے ساتھ تسلیم کر لیتا ہے۔ ضیاء الا مت کا مقالہ ’’ مقامِ مصطفی انجیل کی روشنی میں ‘‘ اس طرزِ تخاطب اور طرزِ استدلال کی بہترین مثال ہے جس کی طرف قرآن مجید نے ان الفاظ میں واضح اشارہ کیا ہے: ’وجادلہم بالتی ہی احسن‘۔ (۱۳)

از دل خیزد بر دل ریزد / خطیبانہ طرزِ تحریر

داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ انسانی عقل کے ساتھ ساتھ انسانی دل کو بھی مخاطب کر ے کیونکہ انسانی جسم میں اصل قوتِ محرکہ دل ہے۔ اگر داعی دل کو متاثر کرنے میں کامیاب ہو جائے تو باقی کام آسان ہو جاتاہے اور بسا اوقات عقلِ انسانی معمولی استدلال کے سامنے بھی ہتھیار پھینک دیتی ہے جس کی وجہ سے داعی مخاطب کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔
حضرت ضیاء الا مت ؒ دعوتِ دین کے جملہ اسالیب سے پوری طرح آگاہ تھے، اورانسانی نفسیات کا پورا شعور رکھتے تھے ۔ چنانچہ آپ کی تحریروں کا معقول حصہ ایسا بھی ہے جس میں آپ نے تحقیقی انداز کو یکسر تر ک کرتے ہو ئے براہ راست انسانی دل کو متاثر کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ قاری چشم تصور میں آپ کو ایک ایسے خطیب کے روپ میں دیکھتا ہے جو اپنی جگر پاش چیخوں سے امت کے تنِ مردہ میں زندگی کی روح دوڑانا چاہتا ہے۔ خطیبانہ طرز کی یہ تحریر ملاحظہ فرمائیں :
’’ اے در ماندہ راہ قوم ! قرآن تمہیں عظمت و عزت کی بلندیوں کی طرف آج بھی لے جا سکتا ہے بشر طیکہ تم اس کی قیادت قبول کر لو۔ اے اپنی قسمت بر گشتہ پر آہ و فغاں کرنے والے نوجوانو ! دنیاکی امامت تمہاری متاعِ گم گشتہ ہے۔ تمہیں یہ واپس مل سکتی ہے اگر تم میں اس کی واپسی کی تڑپ ہو ۔۔۔ قرآن تمہیں واپس دلا سکتا ہے اگر تم اس کا حکم ماننے کے لیے تیار ہو ‘‘ (۱۴) 
نوجوانانِ امت کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کا انداز ملاحظہ ہو:
’’ اے سنتِ مصطفویﷺ کے پاسبانو! تمہارے وجود سے گلشنِ اسلام میں بہاریں ہیں ۔ گلستانِ وجود میں تمہاری ہستی ہی شمع محفل ہے۔ خدارا ! اپنا فرض پہچانیے اور اپنی انانیت پر اپنی ملت کی عزت کو قر بان نہ کیجیے۔ ان سنگین حالات میں اپنی بھر پور اجتماعی کوششوں سے ملک کے اندرونی و بیرونی دشمنوں کو خاک میں ملائیے‘‘۔ (۱۵) 
آپ کے دل سے نکلنے والی یہ ایسی بانگ درا تھی جس نے امت کے وسیع حلقہ کو متاثر کیا اور کتنے ہی بھٹکے ہو ئے آہو پھر سوئے حرم رواں دواں ہو گئے اور ان کے قدم پھر کبھی جادۂ حق سے نہ ڈگمگائے۔
بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں مگر طاقتِ پرواز رکھتی ہے

حق گوئی وبیباکی / اظہارِ حق

اگر خود امرا ، سلاطین اور حکومتی عہدہ داروں میں حق پسندی کا مادہ موجود نہ ہو تو رعایا کی نکتہ چینی اور حقوق طلبی بالکل بیکار ہے ۔ قرونِ اولی میں خود خلفا اور امرا میں حق پسندی کا اس قدر مادہ موجود تھا کہ و ہ ہر قسم کی جائز نکتہ چینی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے تھے ۔ اس لیے جائز مثبت اور تعمیری تنقید و احتساب کے ہمیشہ عملی نتائج نکلتے تھے اور دوسری طرف عوام الناس میں حق پسندی کا مادہ پیدا ہو تا تھا جو اسلامی ریاست کے استحکام کے لیے ایک ضروری اور لازمی چیز ہے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امرا کا احتساب جان جو کھوں کا کام ہے جو ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ۔ ضیاء الا مت ؒ کی دعوتی زندگی جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی بہترین مثال ہے۔ کلمہ حق کہنے کے جرم کی پا داش میں نہ صرف آپ کو ہراساں کیا گیا بلکہ حوالہ زنداں بھی کیا گیا لیکن دنیا کی کوئی طاقت آپ کو حق کہنے سے باز نہ رکھ سکی ۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی جماعت پر بے لاگ تنقید ملاحظہ ہو :
’’پیپلز پارٹی کے لچھن صاف بتا رہے ہیں کہ کھلنڈرے بے فکروں کا یہ طائفہ لٹیا ڈبو کر رہے گا۔ ان میں حالات کا مزاج پہچاننے کی صلاحیت ہے اور نہ حالات سے نبرد آزما ہو نے کی اہلیت۔ یہ طائفہ اس سے یکسربے بہرہ ہے ۔ اجڑے ہو ئے چمن کو پھر بہار آشنا کرنا مداریوں کے بس کا روگ نہیں۔ اگر کسی کو اس پارٹی کے بارے میں غلط فہمی تھی تو وہ اس رات دور ہو گئی جس رات لاڑکانہ میں جشنِ عیش و نشاط منایا گیا ۔ شراب کے خم کے خم لنڈھائے گئے اور ملک کا عوامی صدر اپنے حواریوں کے ساتھ دنیا بھر کے سفرا کی آنکھوں کے سامنے رنگ رلیاں منانے میں مصروف ہو گیا ‘‘۔ (۱۶) 
وزیر اعلیٰ پنجاب حنیف رامے کے رویہ پر تنقید کرتے ہو ئے رقمطراز ہیں :
’’ ہمارے وزیر اعلیٰ بھی بڑے مزے کے آدمی ہیں ۔ آیتیں بھی پڑھتے ہیں اور اشتراکیت کے گن بھی گاتے ہیں اور اس کو اپنی دانشوری کا کمال بھی خیال کرتے ہیں ۔ حق و باطل کی یہ آمیزش معلوم نہیں ہمارے وزیر اعلیٰ کے لیے کس طرح قابل قبول ہے۔ ان کے نام میں حنیف اور رامے کا جو بے ربط جوڑ ہے، شاید اس کا اثر ہو ۔ بہرحال ہم ان کی خدمت میں عرض کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے لیے کسی سوشلسٹ یا کمیونسٹ نے کوئی قر بانی نہیں دی۔ اس گلشن کی آبیاری فر زندانِ تو حید نے اپنے خونِ ناب سے کی ہے ۔ اس کا حصول اور اس کی بقا غلامانِ مصطفی ﷺکی مخلصانہ سر فروشیوں کی مر ہونِ منت ہے۔ اگر پاکستان کی مانگ میں شہیدوں کے خون کی سر خی دمک نہ رہی ہو تی، اگر یتیموں اور بیواؤں کے آنسوؤں کے موتیوں کا جھومر اس کی پیشانی کو مزین نہ کر رہا ہو تا تو شاید کوئی اس مذموم ارادے میں کامیاب ہو جاتا ۔ لیکن شہیدوں کے خون کی چمک چشمِ مہر و ماہ کو خیرہ کر رہی ہو، وہاں انسانیت و کر دار کشی کی سر انڈ میں بسی ہو ئی اشتراکیت سے پاکستان کی مانگ کو ملوث کرنا کون عقلمند گوارا کرے گا ۔ ہمار ے وزیر اعلیٰ اس غلط فہمی سے جتنا جلد چھٹکارا حاصل کر لیں گے اتنا ہی ان کے مفید ہو گا ۔ سارے کمیونسٹ سن لیں اور ہمارے وزیر اعلی بھیٰ اگروہ خدا نخواستہ کمیونسٹ ہیں تو وہ بھی سن لیں کہ پاکستان نے اسلام کی آغوش میں جنم لیا ہے ،اسلام کی آغوش میں پروان چڑھا ہے اور جب تک یہ زندہ رہے گا، اس کی فضاؤں میں صرف اسلام کا پر چم ہی لہرا سکتا ہے ۔‘‘ (۱۷) 
حقیقت یہ ہے کہ آپ کے قلم کی اسی کاٹ کا اثر تھا کہ وقت کی فر عونی طاقتیں لرزہ براندام ہو گئیں۔ اس طرح آپ ؒ نے نہ صرف پاکستان کی نظریاتی سر حدوں کی حفاظت کا فریضہ کما حقہ ادا کیا بلکہ اظہارِ حق کے اس بے باک اسلوبِ تحریر نے حکمرانوں کو اپنے رویوں میں تبدیلی پر بھی مجبور کر دیا۔ آزادانہ تنقید اور حق پسندی کے اس طرزِ عمل کا مثبت اثر یہ ہوا کہ اس سے نہ صرف اسلام طاغوتی طاقتوں کی دست برد سے محفوظ ہو گیا بلکہ دوسرے اخبار و رسائل کو بھی نیا حوصلہ ملا۔ داعیانِ اسلام نے ہر دور میں ہمیشہ اس اسلوبِ دعوت کو پوری تندہی سے اختیار کیا ہے اور دین اسلام کو ہر طرح کی تحریف سے محفوظ رکھا ہے۔ اگر آج حکمران طبقہ اسلام کے خلاف زہر اگلنے میں بے باک ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ان لوگوں کا اسلام سے تعلق محض برائے نام ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ داعیانِ اسلام اظہارِ حق کا فرض پوری قوت سے ادا نہیں کر رہے اور ملت کا اجتماعی ضمیر اس فریضہ سے غفلت کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔

مخاطب کی عزتِ نفس اور مقام و مر تبہ کا لحاظ

اگر داعی غلطی کرنے والے کو براہ راست مخاطب کرنے کے بجائے اشارے کنایے میں اس کی کو تا ہی کو واضح کرے تو اس صورت میں غلطی کرنے والے کی عزت نفس مجروح نہیں ہو تی۔ نیز وضاحت کے اس عمومی انداز سے مخاطب کی طرف سے کس قسم کے منفی ردِ عمل کا بھی خطرہ نہیں رکھتا اور شیطان اس کے انتقامی جذبات کو ہوا دے کر انتقام کی طرف مائل نہیں کر سکتا ۔ ویسے بھی اس اسلوب سے مخاطب کے دل میں داعی کی قدر و منزلت بڑ ھ جاتی ہے اور وہ ا س کی بات کو زیادہ توجہ اور انہماک کے ساتھ سنتا ہے۔ اگر بات بھلائی اور خیر خواہی کے جذبے سے کی جائے تو یہ ایسا اندازِ تر بیت ہے کہ جس سے غلطی کرنے والے کو بھی فائدہ ہو تا ہے اور عام لوگوں کو بھی ، بشر طیکہ اسے استعمال کرتے ہو ئے حکمت سے کام لیا جائے ۔
رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے دعوت و تبلیغ میں اس اسلوب کو بارہا اختیار کیا اور غلطی کرنے والے کو براہ راست مخاطب کرنے کے بجائے عمومی وضاحت پر اکتفا کیا تا کہ مخاطب کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اور اس کی اصلاح بھی ہو جائے ۔ حضرت ضیاء الا مت ؒ نے بھی دعوتِ دین کے اس اسلوب کو اپنی تحریروں میں جا بجا استعمال کیا ہے۔ آپ ؒ چونکہ خود مشائخ کرام اور پیرانِ عظام کے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں مشائخ کرام کو جو مقام و مر تبہ حاصل ہے، بد قسمتی سے پیران عظام اس اثر و رسوخ کو دین کی سر بلندی کے لیے کم اور ذاتی فوائد کے لیے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ حضرت ضیاء الا متؒ نے اپنا فرضِ منصبی سمجھا کہ انھیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جائے لیکن اس مقصد کے لیے انھوں نے جو اسلوب تحریر اختیار کیا، اس میں ان کی عزت نفس اور معاشرتی وقار کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچنے دی، فرماتے ہیں :
’’ اگر میرے کرم فرما مجھ سے بر ہم نہ ہوں تو حدیثِ دل زبان پر لاؤں اور زخمِ جگر سے پر دہ اٹھاؤں۔ نہیں نہیں، ان کی بر ہمی کا خطرہ مول لیتے ہو ئے بھی بصد ادب و نیاز عرض کروں گا ۔موجودہ صورتِ حال کی ساری نہیں تو بیشتر ذمہ داری پیر صاحبان پر عائد ہو تی ہے جو اہل سنت کے کشورِ دل کے سلطان ہیں، جو ہماری عقیدتوں کا مر کز ہیں، جو ہمارے عشق و مستی کا عنوان ہیں، جن کے اشارہ ابرو پر نیک دل سنی دل و جان قر بان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ تسلیم کہ انھوں نے پاکستان کے حصول میں قابلِ فخر حصہ لیا ہے لیکن پاکستان کو اسلامی سلطنت بنانے کے لیے جس مسلسل جدو جہد کی ضرورت تھی، غیر اسلامی تحریکوں کو ختم کرنے کے لیے عملی اور فکری میدان میں جس جہاد کی ضرورت تھی، اس کی طر ف انھوں نے توجہ نہیں دی ۔۔۔۔۔۔ اگر ہمارے مشائخ یہ فرض ادا کریں تو بخدا ہم باطل کے ہر لشکر کو ہزیمت دے سکتے ہیں، لا دینیت کی تحریکیں خود بخود حرفِ غلط کی طرح مٹ جائیں گی۔ برائی اور گناہوں کا نام و نشان تک نہ رہے گا۔ سارا پاکستان صحنِ حرم کی طرح مصفیٰ و مجلیٰ اور اس کی فضا ئیں معطر و معنبر بن جائیں گی ‘‘۔ (۱۸) 
مسلمانوں کے اندر پائے جانے والے اسلامی فر قوں کے عقائد و نظریات میں باہم اختلاف موجود ہے۔ حضرت ضیاء الا متؒ کو ان میں سے کئی ایک سے اختلاف بھی ہے۔ اگرچہ باطل فر قوں کے رد میں آپؒ نے معقول سختی سے کام لیا اور نام لے کر ان کی گرفت کی ہے تا ہم اسلامی فر قوں میں پائے جانے والے فروعی اختلافات پر آپ کی تنقید بڑی حکیمانہ اور متاثر کرنے والی ہے۔ آپ نے براہ راست فریق ثانی پر طعن و تشنیع کے تیر چلانے کے بجائے نام لیے بغیر ان کے نظریات کی اصلاح کی مساعی جمیلہ فرمائی ہے۔ آپ کی جملہ تصانیف اس اسلوبِ تحریر کی بہترین مثال ہیں ۔ 

حاصل کلام 

حضرت ضیاء الا متؒ اسلام کے ایک سچے داعی تھے، انہوں نے پوری دل سوزی کے ساتھ دعوتِ دین کا مقدس فریضہ سر انجام دیا ۔ آپ ؒ کی دعوتی زندگی کا مطالعہ ایک مستقل موضوعِ تحقیق ہے ۔ سطور بالا میں آپ ؒ کے طرزِ تحریر سے دعوتِ دین کے چند اسا لیب اخذ کیے گئے ہیں۔ یہ اس سلسلہ کی بالکل ابتدائی اور غالباً پہلی تحریر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس موضوع پر بھر پور تحقیق کی جائے۔ آپ سے محبت اور عقیدت رکھنے والے اصحابِ علم پر یہ فرض ہے کہ وہ آپ ؒ کی تحریر، تدریس ، خطابت و تقاریر کے ساتھ ساتھ کر دار یت کو موضوعِ تحقیق بنائیں ، تا کہ میدانِ دعوت میں آپ ؒ کو جو کامیابیاں حاصل ہو ئی ہیں، ان کا حقیقی عرفان حاصل کیا جا سکے۔ اس طرح دورِ حاضر کے مبلغین کے لیے دعوتِ دین کے ان اصولوں اور اسالیب سے راہنمائی حاصل کرنا آسان ہو جائے گا ۔

حوالہ جات

(۱) النحل، ۱۶:۱۲۵
(۲) محمد کرم شاہ، پیر، ضیاء القرآن، ۲/۶۱۷۔ ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور ۱۴۰۲ھ
(۳) محمد کرم شاہ، پیر، مقالات (مرتبہ: پروفیسر حافظ احمد بخش) ۱/۸۳، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور ۱۹۹۸ء
(۴) الشعراء، ۲۶:۱۲۷
(۵) ضیاء القرآن، مقدمہ، ۱/۱۱
(۶) ضیاء القرآن، مقدمہ، ۱/۱۱
(۷) چشتی، شہباز احمد، دانائے راز ضیاء الامت، ص ۳۱۷، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور، ۲۰۰۲ء
(۸) ضیاء القرآن، مقدمہ، ۱/۱۲
(۹) ضیاء القرآن، مقدمہ، ۱/۱۰
(۱۰) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: مقالات، ۲/۳۳۷ تا ۳۶۷
(۱۱) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: محمد کرم شاہ، پیر، ضیاء النبی، ۲/۴۶ ۔ ۵۷۔ ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور ۱۹۹۳
(۱۲) ایضاً، ۲/۵۵
(۱۳) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: مقالات، ۲/۸۔۲۲
(۱۴) ضیاء القرآن، مقدمہ، ۱/۹
(۱۵) ماہنامہ ضیاے حرم، ’سر دلبراں‘، شمارہ اگست ۱۹۷۱ء
(۱۶) ایضاً، شمارہ دسمبر، ۱۹۷۵ء
(۱۷) ایضاً، شمارہ جولائی، ۱۹۷۵ء
(۱۸) ایضاً، شمارہ دسمبر، ۱۹۷۷ء

برصغیر کی مذہبی فکر کا ایک تنقیدی جائزہ ۔ عالمی سیاست ومعیشت کے تناظر میں

پروفیسر میاں انعام الرحمن

اس وقت عالمِ اسلام اور وطنِ عزیز کی ناگفتہ بہ حالت کے معروضی تجزیے کے لیے جس اخلاقی جرات اور تاریخی شعور کی ضرورت ہے، شاید اس سے دیدہ و دانستہ پہلو تہی برتی جا رہی ہے۔ نتیجے کے طور پر قومی و ملی مورال گرتا جا رہاہے۔ عوام الناس آنکھوں میں سینکڑوں سوالات لیے قائدین کی طرف دیکھ رہے ہیں ، جو اب بھی ایڑیاں اٹھا اٹھا کر’ قد آور‘ ہونے کی ادھیڑ بن میں مبتلا ہیں کہ ان کی اپنی سوچ محدود، منتشر اور غیر منظم ہے۔ ان نام نہاد قائدین نے جماعت، طبقہ، ذات، حیثیت، نسل اور مسلک وغیرہ جیسی خواہشات سے دب کر اپنے نظریات اور کمٹ منٹ کو انتہائی منفی حد تک متاثر کیا ہے۔ وہ حقائق جاننے سے قبل ہی فیصلہ سنا دینے کے عادی ہو چکے ہیں، کسی کام کے دور رس نتائج کو بھانپے بغیر ہی اسے ناکام یا کامیاب قرار دیتے ہیں اور کسی صورتِ حال کا سامنا کرتے وقت ’’ادراک‘‘ مکمل ہونے سے قبل ہی آخری قدم اٹھا بیٹھتے ہیں۔ اب بات اتنی بڑھ چکی ہے کہ ان قائدین کواپنے فکری انتشاراور عملی تضادات کا احساس تک نہیں رہا (۱)، لہٰذاوہ دن قریب ہیں جب عوام الناس حدِ نظرتک پھیلی ہوئی مایوسی کے ردِعمل میں کوئی اور پلیٹ فارم ڈھونڈ لیں گے۔ 
اس زبوں حالی کی وجوہ اورحقائق جاننے کے لیے اگر ہم تاریخ کے آئینے سے مدد لیں تو عیاں ہوگا کہ صنعتی انقلاب (۲) کے بعد دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پرقائم نوآبادیاتی نظام (۳) ’’منظم سامراجیت‘‘ کی صورت میں ظاہر ہوا (۴) جس سے ایک طویل استحصالی سلسلہ شروع ہوا اوراس وقت کے یورپ میں قومی ریاستوں کی باہمی آویزش سے ’’کثیر قطبی‘‘دنیا سامنے آئی (۵)۔ شاید ان دنوں ایسے مواقع موجود تھے کہ دانش مندانہ حکمتِ عملی سے ابھرتے ہوئے نوآبادیاتی نظام کے ممکنہ پھیلاؤ کو روکا جا سکتا اور اسلامی دنیا یورپ کی قومی ریاستوں سے ’’متوازن تعلقات‘‘ قائم کر کے ’’بچاؤ اور پیش قدمی‘‘ کی کوئی راہ تلاش کر لیتی۔ اس حوالے سے فقط برِصغیر پاکستان وہند میں ٹیپو سلطان (۶)کے ہاں ہی بالغ نظری اور درکارسیاسی عزم(Required Political Will) کی جھلک نظر آتی ہے۔ اس دور کے قائدین کی افسوس ناک حد تک ’’غیر منظم فکر ‘‘ نے ٹیپو کی آواز پر کان نہ دھرا، اور یہ سرمایہ دارانہ نظام (جو اپنی فطرت میں کھٹمل سے مشابہ ہے)، انیسویں صدی کے آخر تک اپنے ’’سامراجی مظہر‘‘ کے ساتھ عالمِ انسانیت کوہڑپ کر گیا۔ تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ اس ’’کھٹملی فکر‘‘ کے سرخیل انگریزوں نے طاقت کے نشے سے مخمور ہو کر نہ صرف چینیوں کو افیون خریدنے اور کھانے پر مجبور کیا (۷)، بلکہ مذہب کو بھی لوٹ کھسوٹ کے لیے شرمناک حد تک ’استعمال‘ کیا(۸)۔ اہم بات یہ ہے کہ برِصغیر پاکستان وہندمیں ٹیپوسلطان کی مجاہدانہ تزویراتی کوششوں سے قبل شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ (۹) فکری سطح پر ’’منظم اور مربوط‘‘ کام کر چکے تھے۔ اگر شاہ صاحب کی فکر کو طاقِ نسیاں کی زینت بنانے کی بجائے عملی سطح پر ’’شعوری تحریک‘‘ کی صورت میں پھیلایا جاتا تو کھٹملی فکر کو بر وقت لگام دینے کا سہرا برِ صغیر کے مسلمانوں کے سر بندھتا۔ لیکن شاہ صاحب ؒ کو کوئی لینن، کوئی گورکی نہ مل سکا۔
بہرحال !تاریخ کا سفر جاری رہا اور 1857 میں سامراجیت کے خلاف جنگِ آزادی کے بعد برِ صغیر میں مسلمانوں کے دو گروہ منظرِ عام پر آئے۔ ایک نے انگریزوں کی ہم نوائی کی اور دوسرے نے تصادم کا راستہ چنا۔ علی گڑھ تحریک کا محور مسلمانوں کی’تعلیمی و معاشی‘ ترقی تھا (۱۰) ، جس کے حصول کے لیے سیاست سے قطع تعلق کرنے کو ترجیح دی گئی۔ اس کے برعکس رویہ مدرسہ دیوبند کاتھا جس نے سامراجیت کو کھلے بندوں چیلنج کیا۔ تاریخ کے اسی دور میں ’کھٹملی فکر‘ کو نکیل ڈالنے کے لیے ’مارکس ازم ‘ سامنے آیا جس نے سرمایہ داروں کی انسانیت دشمنی سب پر ظاہر کردی۔ وقت نے بیسویں صدی کا دروازہ کھٹکھٹایا تو دہلیز پر علی گڑھ تحریک کی سیاسی جہت ’آل انڈیا مسلم لیگ‘ کو برِ صغیر میں کھٹملی فکر کے علمبرداروں کا ہم نوا پایا۔ اسی صدی کی دوسری دہائی میں جناح کی مسلم لیگ میں شمولیت کے ساتھ ہی اس کے منشور میں تبدیلی ہوئی اور لیگ ’’سیاسی وژن‘‘کی حد تک سامراج مخالف ہوگئی، اگرچہ اس کی معاشی ’’آؤٹ لک‘‘ سامراج موافقت پر مبنی رہی۔ دیوبند مکتبہ فکر کا ’’خانقاہی گروہ‘‘ بھی لیگ کی اس اپروچ کا ہم نوا بن گیا۔ دوسری طرف وہ لوگ جو سامراجیت کی اصل نوعیت کو سمجھتے تھے، انہوں نے ’’ریشمی خطوط‘‘ جیسی تحاریک کے ذریعے ’کلی آزادی‘ حاصل کرنے کی کوشش کی (۱۱)۔
تاریخ کا دھارا بہتا رہا ۔ دوسری عالمی جنگ (1939-1945) میں برطانیہ فتح یاب ہونے کے باوجود اس پوزیشن میں نہ رہا کہ برِ صغیر پر قبضہ برقرار رکھ سکے اور 1947 میں اسے یہاں سے جانا پڑا۔1945میں جاپان ، جرمنی اور اٹلی کی شکست کی صورت میں عالمی جنگ کے خاتمے سے قبل ہی عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے مدبرین نے بھانپ لیاتھا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھ رہا ہے۔اس لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جاپان پر گرائے جانے والے بم ’ جنگ کا تقاضا‘ نہیں تھے، بلکہ اس کے ذریعے ایک سوویت یونین کو، جو اس وقت امریکہ کا اتحادی تھا، وارننگ دینا مقصود تھااور دوسرا بموں کی ٹیسٹنگ بھی۔ اس اعتبار سے سامراجیوں کی حکمتِ عملی بہت کامیاب رہی کہ بوقتِ ضرورت سوویت یونین سے اتحاد کر کے فوری خطرے کا تدارک کیا اور اس کے دوران ہی سوویت یونین سے پنجہ آزمائی کی حکمت عملی بھی تیار کر لی(۱۲)۔
1947 میں پاکستان کے ظہور میں آنے کے بعد کلی آزادی کے علمبردار پس منظرمیں چلے گئے اورسرمایہ دارانہ فکرکے ہم رکاب (Pro-Capitalist) امورِ سلطنت پر چھا گئے ۔پراپیگنڈا اور مخصوص لٹریچر کے ذریعے کمیونسٹ مخالف(Anti-Communist) فضا قائم کی گئی ۔ یہ طے کر کے پاکستان کو سرمایہ دارانہ بلاک کا باقاعدہ حصہ بنا گیاکہ کمیونزم اسلام مخالف نظریہ ہے۔راقم کی رائے میں اس معاملے میں ’’غلو‘‘ سے کام لیا گیا ۔ضرورت اس امر کی تھی کہ دونوں بلاکوں میں کسی میں شمولیت یا غیر جانبداری اختیار کرنے کے حوالے سے ’’اجتہاد‘‘ کیا جاتا، کہ معاملہ اتنا سادہ نہ تھا۔ اس طرح غلو کی وجہ سے اسلام’’ سامراجیت پسند‘‘ بن کر سامنے آیا ، حالانکہ اسلام کی صحیح اپروچ افراط و تفریط کی بجائے توازن کے داعی اور علم بردار (Balancer) کی ہے اور اسی وجہ سے پڑھا لکھا باشعور طبقہ ’دین‘ سے دور ہوتا چلا گیا کہ شاید مذہب عوام کے لیے افیون ہی ہے کیونکہ مذہبی طبقہ بالعموم سرمایہ دارانہ سامراجیت کی حمایت کرتا رہا۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ مغربی بلاک میں شمولیت کا فیصلہ اور اس کی پشت پناہی ’عسکری ادارے‘ نے کی۔ یوں اجتہاد کا حق بھی اس ادارے نے حاصل کر لیا جس کے بل بوتے پر انگریزوں نے برِ صغیر پر حکومت کی تھی۔ (خیال رہے کہ انگریزوں کے خلاف جدوجہدِ آزادی میں ملٹری آفیسرز کی ’’دیسی کھیپ‘‘ کا کوئی کردار نہیں تھا) بہر حال ’’قومی سلامتی‘‘ کے نام پر بنائی گئی اس اجتہادی پالیسی کے غبارے سے 1971 میں ہوا نکل گئی اور مشرقی پاکستان باقی ماندہ ملک سے کٹ گیا۔
1979 میں افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کے بعد عسکری ادارے نے ایک بار پھر ’اجتہاد اور علما نے جہاد کیا بلکہ کروایا۔ حیرت کی بات ہے کہ اس بار بھی توازن قائم کرنے والی قوت (Balancer) کا کردار ادا کرنے کے بجائے ’’غلو ‘‘ کا مظاہرہ کیا گیا۔ یہ غلو اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارنے کے مترادف ثابت ہوا اور سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد ۹۰ کے عشرے میں’’یک قطبی‘‘ دنیا سامنے آنا شروع ہو گئی جس کے ہمہ گیر منفی اثرات اب کھل کر سامنے آچکے ہیں۔
۹۰ کے عشرے میں ہی ’کفار‘ کے خلاف جیت کے نعروں کی گونج میں افغانستان میں طالبان تحریک ابھری اور کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کوتیز کر دیا گیا۔ حسبِ سابق ’’ اجتہاد‘‘ عسکری ادارے نے کیا اور ’’جہاد‘‘ علما نے۔ چند سالوں تک کھٹملی فکر کے سرخیلوں کی ’خاموشی‘ شاید اس لیے تھی کہ اس عمل سے پاکستان کی ’عسکری قوت‘ کی وہ تمام جہات بے نقاب ہو رہی تھیں جو اس نے سوویت یونین سے ’جہاد‘ کے دوران خود حاصل کی تھیں،یاپھر مغربیوں سے اینٹھی تھیں۔ گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر کھٹملی فکر نے اپنی عسکری قوت کے بل بوتے پر اسلامی دنیا پر چڑھائی کر دی۔ پاکستان میں عسکری ادارے کی روایت کے مطابق ’ٹیلی فونک ہاں‘ کے لیے جنرل پرویز، اسی طرح مشرف بہ اقتدارہو چکے تھے جس طرح سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت سے قبل جنرل ضیاء الحق اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوئے تھے۔
اب آج کی مسلم دنیا کی صورتِ حال سب کے سامنے واضح ہے۔مذکورہ بالا پس منظر یہ بنیادی سوال پیدا کرتا ہے کہ ہم لوگوں نے سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم کے درمیان کشمکش میں کم از کم ’فکری و نظری سطح پر’Balancer‘ کا کردار ادا کیوں نہیں کیا؟ عسکری ادارے کی سا مراجیت پسندی پر بحث کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔ یہ سوال ان لوگوں سے ہے جو خود کو دینِ اسلام کی تفہیم کے ضمن میں حرفِ آخر خیال کرتے ہیں۔ ان لوگوں سے بہتر تو کمیونسٹ ہیں جو دہریے تھے ، ان کا ایک نعرہ مذہبی طبقے کی سامراجیت پسندی کی وجہ سے ’لا الٰہ‘ بھی تھا۔ انھوں نے (لا الہ کے توسط ہی سے) کھٹملی فکر میں’’فلاحی پہلو‘‘ شامل کرادیا اور اس کی اندوہ ناکی میں تخفیف کر دی۔ سوال یہ ہے کہ الا اللہ والوں نے کیا کیا؟ کھٹملی فکر کی درستگی کے لیے ان کا کردار ’کہاں ‘ہے؟
راقم کی نظر میں اس صورتِ حال کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہمارے ہاں آمریت کی وجہ سے ’مکالمہ بندی‘ کی فضا رہی جس کی وجہ سے فکری سطح پر افراط و تفریط سے پالا پڑا، اور عسکری ادارے کی پالیسیاں ہی اسلام کی ’تعبیر ‘ کہلائیں جس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ کھٹملی فکر ہی اسلام کی معاشی فکر ہے۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ابھی تک بہت سے نام نہاد مجتہد یہی سوچ رکھتے ہیں ۔ 
اس وقت موجودہ عالمی حالات تقاضاکر رہے ہیں کہ مسلمان فکری و نظری اعتبار سے واضح ہوں ۔مثلاًدہشت گردی کو ہی لیجیے۔ اسے سمجھنے کے لیے اس کے’’ تاریخی محرکات‘‘ کا سنجیدگی سے تجزیہ کرنا ہوگا۔راقم کی رائے میں اس کی جڑیں ’کلی آزادی‘ کے تصور میں پیوست ہیں ۔ دہشت گردی ،درحقیقت، ان غلاموں کی بغاوت ہے جنہیں مختلف حیلوں بہانوں سے کئی صدیوں سے غلام رکھا جا رہا ہے (۱۳)۔ اس وقت ’دہشت گردی‘ کی نہیں بلکہ ’’غلامی‘‘ کی تعریف متعین کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آقاؤں کے استحصالی حیلے ، کارِ جہاں کی طرح دراز نہ ہوتے جائیں ۔دینِ اسلام میں غلامی کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان نہ ہونے کا سبب شاید یہی ہے کہ غلامی اپنی فطرت میں بہروپیے سے مشابہ ہے جو اپنی صورت بدلتی رہتی ہے ، مکمل ختم نہیں ہوتی۔اگر اس کے خاتمے کا باقاعدہ اظہار کردیا جاتا تو پھر لفظی دنیا میں تو یہ موجود نہ ہوتی لیکن عملاًکسی نہ کسی مکروہ شکل میں برقرار رہتی۔ اسلام اپنی اپروچ میں اس قسم کے آئیڈیل ازم (Idealism) کو ناپسند کرتا ہے جس میں زمینی حقائق اور انسانی نفسیات کو مدِ نظر نہ رکھا جائے ۔اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام کے ’ذاتی ملکیت کے حق‘ سے اسلام کی موافقت موجود ہے کہ یہ انسانی نفسیات کے مطابق ہے،لیکن ایسے نظام میں ’طبقاتی تفاوت‘ کے در آنے کو بھانپتے ہوئے، چاہے انفرادی ، قومی یا عالمی سطح پر ہو، غلامی کا خاتمہ اس لیے نہیں کیا گیا تاکہ ذاتی ملکیت سے پھوٹنے والے منفی و استحصالی رویے کو ’’غلامی‘‘ گردان کر اسے باقاعدہ ایڈریس کیا جائے نہ کہ چشم پوشی اختیار کی جائے۔ اس طرح اسلام نے سرمایہ دارانہ نظام کے ’کھٹملی پہلو‘ کو نکیل ڈالنے کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے ۔ عہدِ نبوی ﷺ اور عہدِ صحابہؓ میں بہت سے ایسے واقعات مرقوم ہیں جن سے غلامی کے خاتمے کی طرف بڑھنے کے اقدامات ملتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام کا آدرش غلامی یعنی کسی بھی نوع کے استحصالی رویے میں مسلسل تخفیف کرتے رہنا ہے (۱۵) ۔ رسالت مآب ﷺ کے خطبہ حجۃالوداع کے آفاقی نکات دینِ اسلام کی اس اپروچ کا بلیغ اظہار ہیں ۔ 
تاریخی شعور اور موجودہ حالات کے سیاق و سباق ہم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اب پھونک پھونک کر قدم اٹھا یا جائے۔ ہمیں ماضی والے رویے کے برعکس ’مستقبل بین ‘ (Futurist) ہونا ہو گا(۱۶) ۔ ہمیں سامراجیت کی اصل نوعیت پر ہاتھ ڈالنا ہوگا اور دیکھنا ہو گا کہ ہمارے کون سے ادارے اور رویے غلامی کی نئی شکل کو تقویت دینے والے ہیں۔ غلامی کی نئی صورت ’گلوبلائزیشن ‘ کے مغربی عمل سے ظہور پا رہی ہے۔ اس حوالے سے تبلیغی جماعت کے کردار سے متعلق کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ خیال رہے ، یہاں کسی کی بزرگی کو چیلنج کرنا مقصود نہیں بلکہ صرف ان چند ممکنات پر بات کرنی ہے جو غلامی کی نئی شکل کو تقویت دے سکتے ہیں۔ ایک تو یہ بات ہے کہ تبلیغی اجتماع عیدین اور حج کے درمیان بڑا مذہبی اجتماع بن چکا ہے۔ اندیشہ ہے کہ مستقبل میں اس ’تہوار‘ کو منانا بھی لازمی ہو جائے گا ۔ اس کی وجہ تبلیغی جماعت کا ’غلو‘ ہو گا جو وہ دین میں کر رہی ہے کہ تبلیغ ہی دین ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس جماعت کا رجحان ’معاملات‘ کی طرف نہ ہونے کے برابر ہے ، اسی لیے اس کے معاشرتی اثرات معاملات سے پرے پرے ہی ہیں۔ لوگ اسی طرح کرپشن کرتے ہیں، ملاوٹ کرتے ہیں، ہیرا پھیری کرتے ہیں، اگرچہ نمازی اور حاجی ہو جاتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ معاملات سے دانستہ چشم پوشی سے ’’نادانستگی‘‘ امت کو غلامی کی نئی شکل کا اسیر بنایا جا رہا ہے۔ جب لوگوں کے اذہان میں یہ بات ڈالی جائے کہ دولت کی تقسیم ’خدائی کام‘ ہے اور وسائل وااسباب کی کوئی اہمیت نہیں، اور یہ کہ مسلمانوں کو سب کچھ آخرت میں ہی ملے گا تو بتائیے اس کا نتیجہ معاشرتی سطح پر کیا ہوگا؟ کیا اس سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ ’سرمایہ دار‘ جو کرتے ہیں، انہیں کرنے دیا جائے، اس سے ہمیں کوئی سرو کار نہیں؟ کیا یہ با لواسطہ (Pro- Capitalist) اپروچ نہیں ؟ کیا یہ مذہب کی ایسی تشریح نہیں جس سے وہ عوام کے لیے حقیقتاً ’’افیون‘‘ بن جائے ؟ غصہ کرنے کی ضرورت نہیں، بس ذرا تاریخ کے آئینے سے مدد لے کر Futurist بن کر غور کیجیے ۔ انیسویں صدی میں سر سید کا آدرش بھی مسلمانوں کی ’’تعلیمی ترقی‘‘ تھا لیکن اس کے حصول کے لیے انہوں نے با لواسطہ ’’سرمایہ دارانہ فکر‘‘ کا ساتھ دیا، اس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے، کیونکہ ان کے بعد مسلم لیگ، دیو بند کے خانقاہی گروہ اور پھر حیرت ناک حد تک سامراج مخالف گروہ نے بھی ایسا ہی کیا اور لوگوں کے اذہان میں کمیونزم مخالفت اس طرح بھری جیسے سر مایہ دارانہ نظام عین اسلام کے مطابق ہے، حالانکہ اسی نظام کے ذریعے مسلمانوں کو غلام رکھا جا رہا تھا اور پوری بیسویں صدی میں مسلمان غلام بنے رہے۔ اسی طرح بیسویں صدی میں شروع ہونے والی تبلیغی جماعت کا آدرش بھی مسلمانوں کی اخلاقی و مذہبی حالت کو سنوارنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اکیسویں صدی میں یہ جماعت بھی ’نا دانستگی ‘ میں تاریخ کو دہرا تو نہیں رہی؟ ایسی صورتِ حال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ دین کے فقط ایک پہلو کو ’’دین ‘‘قرار دینے کے’’غلو‘‘ سے بچتے ہوئے Balancer اور Futurist بنا جائے۔(۱۷)

حواشی

(۱) اس کی تازہ مثال متحدہ مجلسِ عمل کا بیک وقت اپوزیشن میں ہونا اور ایل ایف او کو دستورکا حصہ بنانے کے لیے حکومت کا ساتھ دینا ہے۔ متحدہ مجلسِ عمل کا یہ فیصلہ ،کم از کم کسی’’ منظم سوچ‘‘ کی غمازی نہیں کرتا ۔
(۲) انگلستان کے بادشاہ جارج سوم (1760-1820) کے عہد سے پہلے انگریز لوگ معمولی چرخوں پر سوت کاتتے اور معمولی کھڈیوں کے ذریعے کپڑا تیار کرتے تھے۔ یہ کپڑا بہت موٹا ہوتا تھا اور اس کی یومیہ پیداوار بھی بہت تھوڑی تھی۔1765 میں ہرگریوز نے سوت کاتنے کی کل ایجاد کی اور اس کا نام (Spinning Jenny) رکھا،اس میں 80 تکلے بیک وقت کام کرتے تھے ۔آرک رائٹ نے اس کے دو سال بعد پانی کے زور سے چلنے والی ایک اور کل(The Water Frame) ایجاد کی جو ہرگریوز کی کل سے بھی زیادہ سوت کاتتی تھی۔1779 میں ایک اور مشین ایجاد ہوئی ،جسے میول(Mule) کہتے تھے ، اس کل میں سابقہ مشینوں کے اصول اکٹھے کر دیے گئے ، اسی لیے یہ مشین کثیر مقدار میں باریک سوتی کپڑا بنتی تھی ۔ 1787 میں کارٹ رائٹ کی ایجاد کردہ کل (The Power Loom)پہلے سے بھی زیادہ کپڑا تیار کرنے لگی، کہ وہ بھاپ سے چلتی تھی(1769 میں واٹس ، بھاپ کا انجن ایجاد کر چکا تھا)۔1790 میں ہنری کورٹ نے لوہا پگھلانے کا آسان اور سستا طریقہ ایجاد کیا۔1830 میں سٹیفن سن نے متحرک انجن یعنی بھاپ کے ذریعے خودبخود چلنے والا انجن ایجاد کیا تو صنعتی انقلاب بھر پور طریقے سے پر پرزے نکالنے لگا، ریل کی پٹڑی بچھ گئی اور بھاپ کی طاقت سے چلنے والے جہاز سمندروں میں دوڑنے لگے۔
(۳)نوآبادیاتی نظام کا آغاز پندرہویں صدی کے دوسرے نصف میں ، یورپ میں تحریکِ احیائے علوم(Renaissance) کے بعد دریافتوں کے زمانے (Age Of Discovery) سے ہوا۔پرتگیزوں نے بحرِ اوقیانوس کا چپہ چپہ چھان مارا،اورکئی نامعلوم جزیرے دریافت کیے۔ 1486 میں افریقہ کے مغربی ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے وہ افریقہ کے عین جنوب میں اس مقام پر پہنچے جسے راس امید(Cape Of Good Hope) کہا جاتا ہے ۔ اس کے گیارہ سال بعد واسکوڈے گاما ، راس امید کا چکر کاٹ کر، افریقہ کے مشرقی ساحل کے ساتھ ساتھ ہوتاہوا، ہندوستان (کالی کٹ )پہنچ گیا۔ واسکوڈے گاما پہلا یورپی شخص تھا ، جو بالکل بحری راستے سے ہندوستان آیا۔ اس طرح یورپ نے برِصغیر پاکستان و ہند کی ’راہ‘ دیکھ لی۔تاریخ کے اسی عہد میں سپین کے شہرہ آفاق جہاز ران کولمبس نے اتفاقاً ’امریکہ ‘ دریافت کرلیا، اور پھر امریکہ بھی کالونی بنتا چلا گیا۔ سولہویں صدی کے اختتام اورسترہویں صدی کے آغاز میں ڈچ اور انگریز بھی بحرِ ہند میں ’’طالع آزمائی‘‘ کے لیے داخل ہو گئے ۔ فرانسیسی پیچھے رہنے والے نہیں تھے۔ان اقوام کے درمیان برِصغیر کی دولت اور اقتدار پر قبضے کے لیے شدید کھینچا تانی ہوئی ،جس میں انگریز آخر کار فاتح رہے ۔انگریزوں کی قوم پرستی، حربی مہارت اور سیاسی تدابیر کے ساتھ جب صنعتی انقلاب بھی ان کا ہمقدم ہوگیا تو نوآبادیاتی نظام مستحکم ہوتا چلاگیا اور ’کھٹملی فکر‘ کو مزید پاؤں پسارنے کا موقع مل گیا ۔
(۴) سامراجیت(Imperialism) اور استعماریت(Colonialism) میں تھوڑا سا فرق ہے ۔ نوآبادیت یا استعماریت کا مطلب یہ ہے کہ افراد کے کسی گروہ کا کسی ایسے خطے میں دائمی قیام کرنا جہاں عام طور پر پہلے آبادی بھی نہیں ہوتی ۔جبکہ سامراجیت سے مراد یہ ہے کہ کوئی ریاست کسی دوسری قوم کے علاقے پر ناجائزتسلط قائم کرے تاکہ وہاں کے وسائل کو اپنی طاقت اور اپنے عوام کی بہتری کے لیے تصرف میں لا سکے ۔اس طرح معلوم ہوا کہ سامراجیت ، استعماریت سے زیادہ خطرناک اورانسانیت سوز ہے ۔ 
(۵)کثیر قطبی نظام سے مراد ہے کہ اس وقت طاقت کے کئی ’مرکز‘ تھے ۔ مختلف اقوام اور ریاستیں ’توازنِ طاقت‘ کی پالیسی اختیار کر کے کسی ایک کو بالادستی قائم کرنے کا موقع نہیں دیتی تھیں ۔ سترہویں صدی میں تیس سالہ جنگ(1618-1648) کے بعد ویسٹ فالیامعاہدہ(1648) نے قومی ریاست کا نظام(Nation State System) تشکیل دے دیا۔ اسی صدی میں فرانس کے جارحانہ عزائم کو بھانپتے ہوئے انگلینڈ اور نیدرلینڈ نے باہمی اتحاد سے فرانس کو کنٹرول کیا۔اٹھارہویں صدی میں (Treaty Of Utrech) سے لے کر پولینڈ کی تقسیم تک کا دور (1713....1772) نظری اور عملی اعتبار سے توازنِ طاقت کا سنہری زمانہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی دوران جنگ ہفت سالہ (1756-1763) تین برِاعظموں میں لڑی گئی۔1789 کے انقلابِ فرانس کے بعد نپولین کے عروج سے توازنِ طاقت بگڑ گیا تو پھر جنگوں کا ایک اورسلسلہ شروع ہوا ، جو واٹرلو میں نپولین کی شکست (1815)پر ختم ہوا ۔نپولین کو سینٹ ہلینا کے جزیرے میں قید کرنے کے بعد ’اتحادی‘ ویانا میں جمع ہوئے اور انھوں نے یورپ کا نقشہ نئے سرے سے ترتیب دیا۔ محکوم قوموں نے آزادی حاصل کرنے کے لیے جلد ہی ’ویانا کانگرس‘ کے صلح نامے کے پرزے پرزے کر دیے۔1854 میں فرانس ، برطانیہ اور آسٹریا نے روس کے خلاف ’اتحاد‘ بنایا جس سے جنگِ کریمیا(1854-1856) چھڑ گئی۔برلن کانگرس(1878) بھی ’توازنِ طاقت‘ کے سلسلے کی ایک کڑی تھی کہ اس کے ذریعے روس کو،شکست خوردہ ترکی سے کیے گئے معاہدے پر نظر ثانی کے لیے مجبورکیا گیا ۔1882 میں جرمنی ،آسٹریا اور اٹلی کا اتحاد وجود میں آیا تو جواباً ’توازن‘ رکھنے کے لیے فرانس، انگلینڈ اور روس نے اتحاد(1907) کر لیا۔ بیسویں صدی میں جب توازنِ طاقت بگڑا تو پھر ایک جنگ چھڑ گئی (1914)، جسے پہلی عالمی جنگ کہتے ہیں ۔اس میں ایک طرف (محوری)جرمنی ،آسٹریا ، ہنگری، ترکی اور بلغاریہ تھے اور دوسری طرف(اتحادی) برطانیہ ، فرانس، روس جاپان اور امریکہ تھے ۔ اٹلی پہلے تومحوری گروپ میں تھا ، بعد میں لندن پیکٹ کے تحت اتحادی کیمپ میں شامل ہوگیا۔ 1919 میں جمعیتِ اقوام(League Of Nations) کی تشکیل سے بھی توازنِ طاقت کی سٹریٹیجی متاثر نہ ہوئی اور اتحادات ، جوابی اتحادات سے 1939 میں دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی، جس میں ایک طرف اتحادی ممالک برطانیہ ، فرانس ، روس، امریکہ و غیرہ تھے ، اور دوسری طرف محوری ممالک جرمنی، اٹلی اور جاپان تھے۔اس جنگ میں محوری کیمپ کی شکست کے بعد ’’کثیر قطبی‘‘ دنیا کا خاتمہ ہوا ، اور ’’دوقطبی‘‘ دنیا کا ظہور ہوا، جس میں ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی جبکہ دوسری طرف سوویت یونین اور اس کے اتحادی تھے ۔ 
(۶) فتح علی ٹیپو سلطان(1750-1799) اٹھارہویں صدی کی سیاست کا درخشندہ ستارہ تھا ۔ٹیپو نے برِ صغیر میں انگریزوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لیے اعلیٰ تدبر کا مظاہرہ کیا ۔اس نے فرانس، افغانستان اور ایران سے ’تزویراتی تعلقات‘ قائم کرنے کی کوشش کی، مر ہٹوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایااور چاہا کہ میسور اور حیدرآباد کے حکمران ’خاندانی قرابت‘ کے رشتے میں منسلک ہو جائیں ۔ سلطنتِ عثمانیہ کے ساتھ اس کی مراسلت و سفارت کاری بھی تزویراتی اہمیت کی حامل تھی لیکن یورپی سیاست کے جبر (روس اور آسٹریا سے ترکی کی مخاصمت) نے ترکوں کو ٹیپو کی حمایت سے باز رکھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ 4 مئی1799 کو جامِ شہادت نوش کرنے والے اس عظیم فرزندِ اسلام کی یاد میں ہر سال4 مئی کو سیمینارز منعقد ہوں اور اس کے نام پرکوئی سٹریٹیجک پالیسی سازادارہ بھی قائم کیا جائے تا کہ اس کے وقت کی مسلم دنیا کی تزویراتی غلطیوں کی نشاندہی اس طور ہوسکے کہ انہیں دہرایا نہ جاسکے۔
(۷) اس سلسلے میں جنگِ افیون(1839-1842)، (1856-1860) مشہور ہیں۔ 
(۸) جنوبی افریقہ کے ایک قبائلی سردار نے اس’’ کٹھملی فکر‘‘ کو یوں عیاں کیا تھا کہ: ’’جب سفید آدمی آیا تو اس کے پاس بائبل تھی اور ہمارے پاس اراضی، اب اس کے پاس اراضی ہے اور ہمارے پاس بائبل‘‘۔ 
(۹) شاہ صاحب (1703-1763) کا اصل نام قطب الدین ہے ۔ان کے نظریات میں جدت اور ندرت پائی جاتی ہے ۔شاہ صاحب کی فکر کا معاشی پہلو اس اعتبار سے قابلِ توجہ ہے کہ اس میں (Political Economy) کی جھلک نظر آتی ہے ، منصوبہ بندی اور انفرا سٹرکچر کا ذکر ملتا ہے اور اجتماعی نفع کے شواہد ملتے ہیں ۔
(۱۰) علی گڑھ تحریک کے بانی سرسید احمد خان (1817-1898) تھے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ان کے ہاں عقل ،مادیت اور معاش پر زور دینے کے باوجود’’مارکسسٹ اپروچ‘‘ نظر نہیں آتی ، حالانکہ 1876 میں ’’سرمایہ‘‘ شائع ہو چکی تھی ۔اگر سرسید نے مارکس ازم کا بغور مطالعہ کیا ہوتا تو سرمایہ دارانہ فکر کی ’’منفیت‘‘ ان پر ضرور عیاں ہوتی اور وہ انگریزوں سے مصالحت کی پالیسی کے باوجود سرمایہ دارانہ فکر پر چند تحفظات کا اظہار ضرور کرتے ۔لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی ’عقل پسندی‘ ذہنی خود کفالت کا نتیجہ نہیں بلکہ انگریزوں سے مرعوبیت کے باعث تھی۔
(۱۱) انگریزوں کے جانے کے بعد جب ریشمی رومال رپورٹ شائع ہوئی تو انڈین صدر جناب فخر الدین علی احمد نے ایوانِ صدارت میں پانچ صد منتخب مدعوین کے ساتھ (جس میں وزیرِ اعظم اور دوسرے بڑے بڑے عمائدین تھے) کتاب کا افتتاح کیا۔ 
(۱۲) خیال رہے کہ ایک گروہ ہمیشہ سے اس خیال کا حامی رہا ہے کہ برِ صغیر کی تقسیم بھی ، سوویت یونین (کمیونزم ) کے خطرے کے باعث کی گئی تھی اور اس وقت کے امریکی صدر نے تقسیم کے لیے برطانیہ پر دباؤ ڈالا تھا۔
(۱۳) پہلے سامراجیت اور نئی سامراجیت کے ذریعے ، اور اب گلوبلائزیشن کے ذریعے۔
(۱۴) اس وقت بھی بہت سے ایسے معاملات موجود ہیں جن کی بابت حکومت نے قوانین بنا رکھے ہیں لیکن پھر بھی عمل درآمد نہ ہونے کا رونا رویا جاتا ہے۔ یہ بہت آسان بات ہے کہ کسی سنجیدہ معاملے سے جان چھڑانے کے لیے قانون بنا کر کہا جائے ، لو جی حکومت نے قانون تو بنا دیا ہے ، اب مزید اور کیا کرے ؟ 
(۱۵) استحصالی رویے کی ہر نوعیت اور ہر سطح کے خاتمے کے لیے ’خود تسخیری‘ ضروری ہے ، جو ہمیشہ ناتمام رہتی ہے ۔ بھلا خود سے ماورا ہونا کس کے بس میں ہے ؟ 
(۱۶) اگر Louis Halle ، عین سرد جنگ کے عروج کے عہد میں (1967) ، ایک کتاب The Cold War As History لکھ سکتا ہے ، تو ہم آج Uni Polar World As History کیوں نہیں لکھ سکتے ؟ 
(۱۷) قرآن مجید میں آتا ہے کہ ’’اے اہلِ کتاب تم اپنے دین میں غلو نہ کرو‘‘۔ حدیثِ نبویﷺ ہے کہ ’’ غلو فی الدین سے بچتے رہو ، کیونکہ تم سے پہلی امتیں غلو فی الدین ہی کی وجہ سے ہلاک و بر باد ہوئیں ۔‘‘

جہادی حکمت عملی: مثبت اور منفی پہلو

ادارہ

(۱) 
کشمیر کے محاذ پر کل کیا ہونے والا ہے، اس کی تفصیلات ابھی پردۂ غیب میں ہیں لیکن اب تک کیا ہو چکا، اس باب میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔ ۸۹۔۱۹۸۸ء میں جو حکمت عملی اختیار کی گئی تھی، اس کی صفیں اب لپیٹی جا رہی ہیں۔ گزشتہ پندرہ سالوں میں جو کچھ ہوا، اس کا قرض ان لوگوں کے ذمے ہے جنھوں نے یہ ساری حکمت عملی ترتیب دی اور جو ان کے دست وبازو بنے۔ ہمارے ہاں چونکہ خود احتسابی کی کوئی روایت نہیں، اس لیے یہ امکان تو موجود نہیں کہ یہاں کوئی تحقیقاتی کمیشن بنے جو اس ناکامی کے اسباب کو موضوع بنائے لیکن ایک احتساب بہرحال اللہ کی عدالت میں ہونا ہے۔ اب یہ ان لوگوں کو سوچنا ہے کہ وہ اپنے پروردگار کے حضور میں کیا عذر پیش کریں گے۔ سردست ہمارے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس نئی تبدیلی کے منفی اثرات سے اپنی قوم کو کیسے محفوظ رکھا جائے اور جو لوگ پورے اخلاص اور ایک دینی احساس کے ساتھ دامے، درمے، سخنے اس عمل میں شریک رہے ہیں، کسی نفسیاتی حادثے کا شکار نہ ہوں اور ان کی صلاحیتیں کوئی مثبت رخ اختیار کریں۔
پہلا کام جو ناگزیر ہے، وہ یہ ہے کہ جہاد کشمیر کے نام پر عامۃ الناس کے جذباتی استحصال کا سلسلہ اب رک جانا چاہیے۔ اس عنوان سے ہم نے بہت سی زندگیاں برباد کیں۔ ہمارے گھر اور مال تو محفوظ رہے لیکن ہم نے بہت سے گھروں پر دکھ کی چادر ہمیشہ کے لیے تان دی اور انھیں کوئی خوشی نہیں دے سکے۔ اپنے مذہبی راہ نماؤں سے میری درخواست ہے کہ وہ جہاد کشمیر کے نام پر اب اس قوم کے نوجوانوں کو بہکانے کا سلسلہ ازراہ کرم بند کر دیں۔ ان کی یہ بڑی خدمت ہوگی اگر وہ اس سارے معاملے کے بارے میں قوم کی صحیح راہنمائی کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ اس وقت ان کے کرنے کے کام دوسرے ہیں۔ وہ نوجوانوں کو اس جانب متوجہ کریں کہ وہ تعلیم اور ہنر کے ذریعے اپنی تعمیر کریں۔ اس محاذ پر اپنی توانائیاں صرف کریں جہاں ان کی کامیابی یقینی ہے اور خود فطرت کے قانون کے تحت جس محاذ پر ان کی پیش قدمی کو روکنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔
میں جانتا ہوں یہ ایک مشکل کام ہے لیکن اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ ’’جہاد‘‘ اب ختم ہو چکا، ہم نے اگر ’’مجاہدین‘‘ کی تیاری کا کام جاری رکھا تو ہم اس قوم کے مجرم ہوں گے اور اللہ کے حضور میں بھی ہمارا کوئی عذر، مجھے ڈر ہے کہ شاید قبول نہ ہو۔ میری خوش گمانی ہے کہ ہماری مذہبی قیادت میں سے اکثر حضرات نے ایک نیک جذبے اور اللہ کی رضا کے لیے اس عمل کا ساتھ دیا لیکن اب صورت حال کی تبدیلی کے بعد اللہ کی رضا ہی کے لیے ضروری ہے کہ وہ جانتے بوجھتے لوگوں کو ایک آگ میں نہ جھونکیں۔ حکومت کو وہ مطعون کر سکتے ہیں کہ اس نے کیوں اس حکمت عملی پر نظر ثانی کی لیکن عوام کو صحیح صورت حال کے مطابق تیار کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے، تو یہاں بھی مذہبی قیادت کو یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کے پاس اب کیا راستہ باقی تھا؟ میں ان کالموں میں متعدد بار یہ بات دہرا چکا ہوں کہ دنیا میں آج کسی مسلح جدوجہد کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ ۹ ستمبر کے بعد جو کچھ ہوا، اس کے بعد بھی اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسے نوعیت کی کوئی سرگرمی نتیجہ خیز ہو سکتی ہے تو اسے کسی نفسیاتی معالج کے پاس جانا چاہیے۔ یہاں معاملہ صحیح یا غلط کا نہیں، زمینی تبدیلیوں کے ادراک کا ہے۔ دنیا میں آنے والی تبدیلیاں یہ بتاتی ہیں کہ کسی صحیح مقصد کے لیے بھی اگر پر تشدد طریقے اختیار کیے جائیں گے تو ایسے کسی عمل کو عالمی سطح پر کوئی تائید حاصل نہیں ہوگی۔ ضرورت ہے کہ ہماری مذہبی قیادت بھی اس تبدیلی کا ادراک کرے اور اپنے متاثرین کی تربیت نئی نہج پر کرے جس میں اس تبدیلی کی رعایت رکھی گئی ہو۔
دوسرا کرنے کا کام یہ ہے کہ جو لوگ اتنے سالوں سے پورے اخلاص کے ساتھ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس عمل کو آگے بڑھاتے رہے ہیں، ان کی واپسی کا محفوظ راستہ تلاش کیا جائے۔ یہ کام حکومت اور مذہبی جماعتوں کو مل کر کرنا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوج کے معاون ادارے کے طور پر ایک نیا ادارہ قائم کرے جس میں ان تربیت یافتہ نوجوانوں کو شامل کیا جائے۔ ان کی تنخواہوں اور ملازمت کا ایک باقاعدہ نظام ہو۔ جہاد کشمیر کے نام پر جو کروڑوں روپے جمع کیے گئے ہیں، وہ اس ادارے کو دے دیے جائیں۔ اس ادارے کو مختلف خدمات سونپ دی جائیں، جیسے تعلیمی اداروں میں این سی سی کی ٹریننگ، حادثات کی صورت میں لوگوں کی مدد، شہری دفاع کی تربیت اور اس نوعیت کے دیگر کام۔ اس طرح یہ امکان ختم ہو جائے گا کہ ان نوجوانوں کو کوئی غیر حکومتی یا عسکری تنظیم اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے اور اس سے معاشرے میں بد امنی اور فساد پیدا ہو۔
اس عمل میں مقبوضہ کشمیر کے جو لوگ شریک ہیں، ان کی واپسی کے بارے میں بھی ہمیں سوچنا ہوگا۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے میں بھارتی حکومت سے بات کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ یہ لوگ اپنے گھروں کو واپس جائیں اور بھارت ان سے کسی نوعیت کی بازپرس نہ کرے، تاکہ یہ لوگ وہاں اپنی معمول کی زندگی دوبارہ شروع کر سکیں۔ میرے نزدیک کشمیریوں کے جان ومال کے مزید ضیاع کو روکنا ہماری ذمہ داری ہے اور اس مرحلے پر جب یہ صفیں لپیٹی جا رہی ہیں، ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر کے جو لوگ اس سارے عمل میں ہمارے ساتھ شریک رہے ہیں، ان کا مستقبل محفوظ ہو۔
تیسرا کام ان اثرات کا جائزہ ہے جو جہاد کے عمل کو نجی تحویل میں دے دینے سے مرتب ہوئے ہیں۔ ہمیں اس پر پوری سنجیدگی سے غور وفکر کرنا ہوگا کہ کسی دوسرے ملک یا قوم کے خلاف ہم نے جہاد کو جس طرح غیر حکومتی سطح پر منظم کیا، اس کے اثرات خود ہمارے معاشرے پر کیا مرتب ہوئے؟ یہ بات بھی میں بارہا لکھ چکا کہ اسلام میں نجی جہاد کا کوئی تصور نہیں۔ جہاد ہمیشہ ریاست اور حکومت کے اہتمام میں ہوتا ہے اور حکومت بھی یہ کام کسی خفیہ طریقے سے نہیں بلکہ علانیہ کرنے کی پابند ہے۔ ہم نے اس اصول سے انحراف کیا اور نیا اجتہاد کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرہ بحیثیت مجموعی غیر محفوظ ہو گیا اور بد امنی نے ہمیں اپنے حصار میں لے لیا۔ جب جہاد نجی تحویل میں گیا تو یہ حق بھی مختلف تنظیموں کو منتقل ہو گیا کہ وہ اپنے طور پر یہ طے کریں کہ دین کا دشمن کون ہے۔ کسی کے نزدیک یہ دشمن خارج میں ہے اور کسی نے اسے اپنے ملک میں تلاش کیا۔ اس کے جو معاشرتی اثرات مرتب ہوئے، اس کو ہم سب بچشم سر دیکھ رہے ہیں۔ آج اس کی بھی ضرورت ہے کہ ہم غور کریں اور اس کو سنجیدہ بحث کا موضوع بنائیں کہ منظم فوج کی موجودگی میں جب افغانستان اور کشمیر کے تناظر میں ہم نے جہاد کو نجی تحویل میں دیا تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟
کشمیر کے محاذ پر آج جب ہم اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کر رہے ہیں، یہ تین کام ہمیں کرنا ہوں گے۔ حکمت عملی کی تبدیلی اقوام کی زندگی میں کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ قوم اس کے بارے میں باخبر ہو اور یہ جانتی ہو کہ اب اس کو کیا کرنا ہے۔ قوم کو اس معاملے میں کسی نئے انتشار فکر سے بچانا اب حکومت اور اس سے زیادہ ہماری مذہبی قیات کی ذمہ داری ہے۔
(خورشید احمد ندیم، روزنامہ جنگ، لاہور)

(۲) 
جناب خورشید احمد ندیم ہمارے محترم اور فاضل دوست ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں علم ودانش کی دولت سے نوازا ہے اور وہ اپنے کالموں کے ذریعے اس میں ہم نیاز مندوں کو بھی شریک کرتے رہتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں سوچ اور فکر کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کی حالت زار پر اضطراب اور بے چینی کے نئے پہلوؤں کی نشان دہی ہوتی ہے اور فطری طور پر بعض معاملات میں اختلاف رائے بھی پیدا ہو جاتا ہے جس کا اظہار بسا اوقات ضروری محسوس ہونے لگتا ہے۔ انھوں نے حال ہی میں کشمیر کے حوالے سے حکومت پاکستان کی حکمت عملی میں نظر آنے والی تبدیلیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ افغانستان اور کشمیر میں جہاد کے نام پر جو جدوجہد گزشتہ دو عشروں میں جاری رہی ہے، وہ ناکام ہو گئی ہے، اس کا آغاز ہی غلط تھا، یہ محض جذبات پر مبنی تھی اور ملک کی مذہبی قیادت کو اس حکمت عملی کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے طرز عمل اور طریقہ کار کو تبدیل کرنا چاہیے۔ انھیں اس بات پر بھی اصرار ہے کہ اس طریق کار کا مسئلہ کشمیر کو فائدہ پہنچنے کے بجائے نقصان ہوا ہے اور چونکہ یہ حکومتی اور ریاستی سطح کے بجائے پرائیویٹ طور پر نجی جماعتوں اور افراد نے شروع کی تھی، اس لیے ان کے نزدیک اس کا شرعی جواز بھی موجود نہیں تھا۔
ہمیں محترم ندیم صاحب کی ان دونوں باتوں سے اختلاف ہے۔ جہاں تک جہادی حکمت عملی کے ناکام ہونے کا تعلق ہے، اگر کسی تحریک کے صرف معروضی حالات اور محض وقتی نتائج دیکھ کر فیصلہ کر لینا ہی عقل ودانش کا تقاضا ہے تو ان کا یہ ارشاد کسی حد تک قرین قیاس لگتا ہے، لیکن اگر تحریکات کو ان کے تاریخی تسلسل اور دور رس نتائج کی روشنی میں دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے تو پھر ہم بصد ادب گزارش کریں گے کہ افغانستان اور کشمیر میں جہادی تحریکات کے بارے میں محترم خورشید احمد ندیم کا یہ تجزیہ حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔
ہمارے ہاں یہ روایت بن گئی ہے کہ کسی جدوجہد اور تحریک کی وقتی پسپائی کو دیکھ کر اس کی ناکامی کا فتویٰ صادر کر دیا جاتا ہے، حالانکہ جدوجہد اگر جاری ہے اور تحریک کی قیادت خود شکست قبول نہ کرے تو اس کی ناکامیاں بھی آخر کامیابی کا زینہ ہوتی ہیں۔ محمود غزنوی نے سومنات پر سترھویں حملے میں کامیابی حاصل کی تھی جبکہ اس کے پہلے سولہ حملوں کے بارے میں تاریخ یہ کہتی ہے کہ اگر وہ آخری حملے سے قبل ہتھیار ڈال دیتا اور شکست قبول کر کے گھر بیٹھ جاتا تو یہ سولہ حملے ناکامی ہی کے زمرے میں آتے، لیکن اس کے عزم واستقلال کے تسلسل اور جنگ جاری رکھنے کے عزم نے ان سولہ حملوں کو اس کے آخری اور کامیاب حملے کا زینہ بنا دیا تھا۔ ہمارے ہاں تحریک خلافت کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہ ناکام ہو گئی تھی اور اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ خلافت ترکی کا مسئلہ تھا، اس پھڈے میں شریک ہونا دوسروں کی آگ میں ہاتھ ڈالنا تھا اور محض جذباتیت تھی، جس کا کوئی فائدہ نہیں تھا، حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ خلافت ترکی کا نہیں، عالم اسلام کا مسئلہ تھا اور جناب نبی اکرم ﷺ نے ملت اسلامی کو ’’جسد واحد‘‘ سے تشبیہ دے کر اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ جسم کا ایک حصہ تکلیف محسوس کرے تو دوسرا حصہ خود بخود اسے محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ ملت اسلامیہ کے مسائل پاکستان، مصر، انڈونیشیا، سوڈان اور سعودی عرب کے جغرافیائی حوالوں سے نہیں بلکہ عالم اسلام کے اجتماعی ماحول اور ضروریات کے حوالے سے ہیں اور اگر ملت اسلامیہ کے کسی ایک حصے کے مسئلے اور تکلیف کو دوسرا حصہ محسوس نہیں کرتا اور اس کے ازالے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتا تو یہ ایسا ہی ہوگا جیسے آنکھ کو تکلیف ہوا ور پاؤں یہ کہہ کر ڈاکٹر کی طرف جانے سے انکار کر دیں کہ ہمیں تو کوئی تکلیف نہیں ہے، ہم کیوں آنکھ کی خاطر چلنے کی زحمت اٹھائیں۔
پھر تحریک خلافت ناکام نہیں ہوئی، بلکہ اس نے برصغیر کے مسلمانوں میں آزادی کے احساس اور جذبے کو بیدار کیا اور آزادی کی تحریکات کو نیا خون دیا۔ آپ تحریک خلافت کے بعد کی سیاسی تحریکات کو دیکھ لیجیے، وہ کانگریس ہو، مسلم لیگ ہو، مجلس احرار اسلام ہو یا جمعیت علماے ہند، ان میں سیاسی راہنماؤں اور کارکنوں کی ایک بڑی کھیپ تحریک خلافت ہی نے مہیا کی تھی اور اس طرح تحریک خلافت نے جنوبی ایشیا میں آزادی کی تازہ دم تحریکات کے لیے نرسری کا کام دیا تھا، اس لیے یہ کہنا کہ تحریک خلافت ناکام ہو گئی، برصغیر کی سیاسی جدوجہد کے تسلسل سے بے خبری کی علامت ہے۔ اسی طرح تحریک کشمیر میں جہادی جدوجہد کی صورت حال ہے، اور دو باتیں تو نقد نتائج کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں:
آزاد کشمیر کے نام سے جو خطہ اس وقت ہمارے ساتھ ہے، بلکہ گلگت، بلتستان اور سکردو پر مشتمل شمالی علاقہ جات کی پٹی کی آزادی بھی جہادی عمل ہی کا نتیجہ ہے، کیونکہ اسے جہاد کے باقاعدہ اور پرائیویٹ فتوے کی بنیاد پر ہی مجاہدین نے لڑ کر آزاد کرایا تھا اور اس وقت جہاد کے بجائے صرف مذاکرات کا سہارا لیا جاتا اور چند سرفروش جذبہ جہاد سے سرشار ہو کر ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف مسلح جنگ نہ لڑتے تو بھمبر سے گلگت تک کا پورا علاقہ بھی آج مقبوضہ کشمیر کے ساتھ بھارت کا حصہ ہوتا۔ دوسری بہت سی باتوں کے علاوہ ہم منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم کے پانی کے لیے بھی بھارت کے دست نگر ہوتے۔
آج اگر بھارت کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات کے لیے آمادہ ہے اور امریکہ سمیت دنیا کی بڑی قوتیں مسئلہ کشمیر کے حل میں دلچسپی لے رہی ہیں تو یہ بھی مجاہدین کے خون کا صدقہ ہے۔ مجاہدین نے ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھا ہے۔ اس بات میں کسی شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور مقبوضہ کشمیر میں انڈین آرمی کے خلاف مجاہدین کی مسلح جدوجہد کی وجہ سے آج مسئلہ کشمیر زندہ ہے اور پوری دنیا کی توجہ کو اپنی طرف کھینچے ہوئے ہے۔ اگر مجاہدین کی یہ جدوجہد نہ ہوتی تو پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا وہ ماحول ہی نہ ہوتا جس نے آج کے بین الاقوامی ماحول میں پاکستان کے لیے ایٹمی قوت بننے کا کسی حد تک جواز فراہم کر رکھا ہے، اس لیے مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کے ہاتھوں انڈین آرمی کی بے بسی اور پاکستان کا ایٹمی قوت بن جانا ہی وہ اہم عنصر ہیں جو بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے ہیں اور عالمی برادری نے بھارت کو مجبور کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات پر گفتگو کرے۔ اگر یہ دو باتیں نہ ہوتیں تو کشمیر کا مسئلہ کبھی کا ’’داخل دفتر‘‘ ہو چکا ہوتا اور اس کا تذکرہ اقوام متحدہ کی بوسیدہ فائلوں کے سوا کہیں نہ ملتا۔ کسی دیوار کے نیچے بنیادوں میں جو روڑے اور پتھر توڑے جاتے اور کوٹ کر دبا دیے جاتے ہیں، وہ دیوار بن جانے کے بعد کسی کو نظر نہیں آتے، لیکن دیوار کی مضبوطی اور اس کے کھڑے رہنے کی اصل وجہ وہی ہوتے ہیں اور ساری دیوار کا بوجھ انھوں نے ہی اٹھایا ہوتا ہے۔ انھیں معمولی سمجھ کر بے وقعت قرار دے دینا عقل ودانش کا تقاضا ہرگز نہیں ہے۔
محترم خورشید احمد ندیم صاحب کو دوسرا اعتراض جہاد کے پرائیویٹ ہونے پر ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ جہاد کرنا صرف ریاست کا کام ہے، کسی پرائیویٹ جماعت یا فرد کا کام نہیں کہ وہ جہاد کا اعلان کرے اور اس کے لیے مسلح لوگوں کو تیار کر کے میدان جنگ میں دھکیل دے، مگر ہمارے خیال میں یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ فقہاے کرام نے جہاد کی جو مختلف صورتیں تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں، ان کی روشنی میں یہ بات حالات پر منحصر ہے کہ پرائیویٹ سطح پر لوگوں کو جہاد کا فیصلہ کرنے اور اس کے لیے میدان میں آنے کا حق حاصل ہے یا نہیں۔ اکثر وبیشتر صورتوں میں جہاد کا اعلان اور اقدام دونوں ریاست کا حق ہیں اور ہمیں اس سے انکار نہیں کہ ایسی صورتوں میں ریاست ہی اس بات کی مجاز ہے کہ وہ جہاد کا اعلان کرے اور اس کے لیے عملی اقدام کرے، لیکن جہاد کی بعض صورتیں فقہا نے ایسی بھی لکھی ہیں جن میں ریاست کے اقدام اور فیصلے کے بغیر بھی عام لوگوں پر جہاد میں شرکت واجب ہو جاتی ہے حتیٰ کہ فقہاے کرام کی تصریح کے مطابق بعض صورتوں میں بیوی پر خاوند سے اجازت لینا بھی ضروری نہیں رہتا اور اس پر جہاد میں شریک ہونا واجب ہو جاتا ہے۔
یہ بات صرف فقہاے کرام تک ہی محدود نہیں بلکہ جناب نبی اکرم ﷺ کی سنت وسیرت میں بھی اس کی مثال موجود ہے کہ صلح حدیبیہ میں کفار قریش نے یہ یک طرفہ اور غیر منصفانہ شرط ضد کے ساتھ معاہدے میں شامل کرا دی کہ اگر قریش کا کوئی شخص معاہدے کی دس سالہ مدت کے دوران مسلمان ہو کر مدینہ منورہ جائے گا تو نبی اکرم ﷺ اسے قریش کے مطالبے پر واپس بھجوانے کے پابند ہوں گے۔ اس کے بعد حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ سے مسلمان ہو کر مدینہ منورہ پہنچے تو قریش نے دو آدمی بھیج کر ان کی واپسی کا مطالبہ کر دیا۔ نبی اکرم ﷺ نے معاہدے کے مطابق ابوبصیرؓ کو ان دو افراد کے ساتھ واپس بھجوا دیا۔ راستے میں ابوبصیرؓ نے موقع ملنے پر ان میں سے ایک کو قتل کر کے دوسرے کو بھگا دیا اور خود مدینہ منورہ آ گئے۔ وہ شخص بھی مدینہ منورہ پہنچا اور جناب نبی اکرم ﷺ کو ابو بصیرؓ کی کارروائی سے آگاہ کیا۔ آنحضرت ﷺ نے ابو بصیرؓ کو دوبارہ مکہ مکرمہ بھجوانے کا ارادہ کیا تو ابو بصیرؓ اس ارادے کو بھانپتے ہوئے وہاں سے کھسک گئے اور سمندر کے کنارے قریش کے شام کی طرف تجارتی راستے پر ایک جگہ ڈیرہ لگا لیا۔ مکہ مکرمہ میں اس طرح کے اور نو مسلموں کو پتہ چلا تو وہ بھی آہستہ آہستہ ان کے پاس جمع ہونے لگے اور اچھا خاصا جتھہ بن گیا۔ اب قریش کا جو تجارتی قافلہ اس راستے سے گزرتا، اس جتھے کی گوریلا کارروائیوں کا نشانہ بن جاتا، حتیٰ کہ قریش کے لیے اس راستے سے پرامن طور پر گزرنا ممکن نہ رہا۔ اس پر قریش نے جناب نبی اکرم ﷺ سے رابطہ قائم کیا اور یہ ’’گوریلا کیمپ‘‘ ختم کرنے کی شرط پر معاہدے کی مذکورہ شرط ختم کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ اس شرط کے خاتمے پر نبی اکرم ﷺ نے ان مجاہدین کو کیمپ ختم کرنے کا حکم دے کر مدینہ منورہ بلا لیا۔
اب اگر محترم خورشید احمد ندیم کے فلسفے کی روشنی میں دیکھا جائے تو حضرت ابوبصیرؓ کی یہ کارروائی جناب نبی اکرم ﷺ اور قریش کے دو طرفہ معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ یہ پرائیویٹ جہاد تھا جس کی ریاست کی طرف سے اجازت نہیں تھی اور آج کے معروف معنوں میں یہ دہشت گردی کی کارروائی تھی جس میں تجارت کے لیے جانے والے پرامن لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا تھا، لیکن یہی پرائیویٹ جہاد اور ریاستی نظم سے ہٹ کر مسلح جدوجہد تھی جس نے قریش مکہ کو اپنی غلط شرط پر نظر ثانی کرنے اور مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کر دیا اور جناب نبی اکرم ﷺ نے ان پرائیویٹ مجاہدین اور گوریلوں کی مسلح کارروائیوں کے سیاسی نتائج کو نہ صرف قبول کیا بلکہ انھیں باعزت طور پر واپس بلا کر مدینہ منورہ میں کسی باز پرس کے بغیر آباد کیا۔
دنیا کے کسی بھی حصے اور قوم کی آزادی کی تحریکات کو دیکھ لیا جائے، یہ مراحل ان میں لازمی طور پر ملیں گے۔ خود امریکہ کی جنگ آزادی کا مطالعہ کیا جائے تو اس کی تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری ہوئی ہے، کیونکہ اس کے بغیر آزادی کی کوئی تحریک آگے بڑھ ہی نہیں سکتی۔ اس طرح جانیں ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کی اندھی طاقت سے ٹکرا جانے والے گوریلے ہی قوموں کی آزادی کے اصل ہیرو ہوتے ہیں، اس لیے ہماری گزارش ہے کہ اگر مجاہدین کی جدوجہد اور قربانیوں کے اعتراف اور انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کا حوصلہ نہیں ہے تو کم از کم ان کی تحقیر تو نہ کی جائے اور انھیں جذباتی اور بیوقوف قرار دے کر ان کا تمسخر تو نہ اڑایا جائے۔
باقی رہا محترم خورشید احمد ندیم کا یہ ارشاد کہ اب مسلح تحریکوں اور قوت کے زور سے کوئی بات منوانے کا زمانہ گزر گیا ہے اور اب جو بات بھی ہوگی، مذاکرات کی میز پر ہی ہوگی، اگر ہمارے فاضل دوست ناراض نہ ہوں تو اس کے بارے میں یہ عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ یہ وہی سبق ہے جو مغرب ہمیں پڑھانا چاہتا ہے۔ وہ مغرب جس نے خود تو اسلحہ کے ذخائر جمع کر رکھے ہیں، قوت وطاقت کا انبار لگایا ہوا ہے اور دنیا سے اپنی ہر بات طاقت، دھونس، دباؤ اور دھوکے کے ذریعے منوانے پر تلا ہوا ہے۔ اس کا ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ ہم ہتھیار کو بھول جائیں، طاقت اور قوت حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہ کریں اور ہر مسئلے پر صرف درخواستیں لکھ لکھ کر اس کی بارگاہ میں پیش کرتے چلے جائیں۔ مگر اسلام اس کی نفی کرتا ہے اور جناب نبی اکرم ﷺ نے الجہاد ماض الی یوم القیامۃ (جہاد قیامت تک جاری رہے گا) کا تاریخی جملہ ارشاد فرما کر اس فکر کو ہمیشہ کے لیے مسترد کر دیا ہے۔ حالات اور طاقت کے جبر کا وقتی طور پر شکار ہو جانا اور بات ہے اور اسے ذہنی طور پر قبول کر لینا اور بات ہے، اور اسے اپنے موقف اور حکمت عملی کے لیے بنیاد قرار دے لینا اس سے بالکل مختلف چیز ہے۔
(ابو عمار زاہد الراشدی، روزنامہ پاکستان، لاہور)
(۳) 
[یہ ایک فلسطینی کی کہانی ہے جس نے صہیونیوں کے مفاد میں اپنے دین اور ضمیر کا سودا کر لیا تھا اور ایک عرصے تک ’موساد‘ کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتا رہا۔ آنکھیں کھلنے کے بعد اس نے ایک انٹرویو میں اپنی داستان بیان کی اور بعض انتہائی سنگین حقائق کا انکشاف کیا۔ اس کے انٹرویو کا ایک حصہ درج ذیل ہے:]

س: ہمیں معلوم ہے کہ بعض اسلامی اور قومی جماعتوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے میں تمھیں کامیابی ملی ہے۔ آخر یہ کیسے ممکن ہوا؟
ج: درحقیقت صہیونیوں نے فلسطینیوں کی سادگی، دور اندیشی کے فقدان اور حالات کے تجزیے کی کمی کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے ہمیں مکلف کیا کہ ہم انٹرنیٹ پر اسلامی فلسطینی جہاد مقدس ، آزادی بیت المقدس، نوجوانان انتفاضہ کے نام سے ویب سائٹس جاری کریں اور ان ویب سائٹوں کے ذریعہ ہمیں بہت سے پرجوش نوجوانوں سے رابطے کا موقع ملا۔ یہ لوگ جہادی روح سے سرشار تھے۔ ہم نے انھیں مال اور ہتھیار سے لیس کیا اور انھیں بتایا کہ یہ مال انھیں کویت، اردن، خلیج اور مصر کے مال داروں کی طرف سے دیا جا رہا ہے۔ 
اس طرح ہمیں اسلام اور جہاد کے نام پر مجاہدین کے اکثر حلقوں میں دراڑ ڈالنے اور ان کے اندر گھسنے کا موقع ملا اور اس سے زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ بعض جذباتی نوجوانوں کے ذریعے ہمیں ایسی کتابوں کی نشر واشاعت کا موقع ملا جو مسلمانوں کے درمیان فتنہ بھڑکانے اور تفرقہ ڈالنے والی تھیں۔ ان کتابوں کے لیے سرمایہ کاری اور طباعت کا کام موساد کے حساب پر ہوا۔ ان کتابوں میں ایسا مواد تھا جن سے مسلمانوں کے درمیان فروعی اختلافات پیدا ہو سکتے تھے۔ خاص طور پر فلسطین، پاکستان، یمن اور اردن میں شیعہ، سنی اختلافات کو ہوا دینے کے لیے ان ملکوں میں دسیوں موضوعات پر کتابیں شائع کی گئیں۔ بعض کتابیں شیعوں کے خلاف تھیں جن میں انتہائی گندے اور رکیک انداز میں ان پر حملہ تھا اور بعض دوسری کتابیں سنیوں کے خلاف شائع کی گئیں جن میں سنیوں پر شدید ترین حملہ کیا گیا تھا اور اس گھٹیا کام کے لیے دونوں طرف کے متعصب لوگوں کو استعمال کیا گیا اور انھیں بتایا گیا کہ ان کتابوں کی شان دار طباعت بعض خلیجی محسنین کے ذریعے انجام پا رہی ہے اور بقیہ کام سنی گروہ کے بعض عقل سے پیدل متعصب لوگوں نے انجام دیے۔ بہرحال ان کتابچوں کی طباعت اور نشر واشاعت کا مقصد مسلمانوں کے درمیان فتنہ اور بغض اور کینہ بھڑکانا تھا تاکہ یہ لوگ ایک دوسرے کی تکفیر اور آپس کے فروعی اور غیر ضروری معرکوں میں مشغول ہو جائیں اور اسرائیلی اسلام کو مٹانے، ارض فلسطین کو نگلنے اور مسلم نوجوانوں کی شناخت کو ملیا میٹ کرنے کے اپنے ناپاک عزائم میں آسانی سے کام یاب ہو جائیں۔ صہیونیوں کا بڑا ہدف مسلم نوجوانوں کو اخلاق کے لحاظ سے بے قید وبے راہ رو بنانا ہے یا انھیں ایک ایسے وجود میں تبدیل کرنا ہے جو زندگی کے اہم مسائل سے بے خبر ہوں اور ان کے دل اپنے مسلمان بھائیوں (خواہ شیعہ ہوں یا سنی) کے خلاف کینہ اور بغض وعداوت سے بھر جائیں۔
اس میں شک نہیں کہ اس پہلو سے موساد کو بڑی حد تک کامیابی ملی ہے۔ یہ بات یمن، پاکستان اور فلسطین میں قابل لحاظ حد تک دیکھنے میں آ رہی ہے کہ تمام مساجد اور نوجوانوں کے مراکز کو ان کتب سے بھر دیا گیا ہے جو نامعلوم صاحب ثروت لوگوں کے خرچ پر شائع کی جا رہی ہیں اور جنھیں بلاقیمت تقسیم کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ درحقیقت ان کتب کی پشت پر موساد کا ہاتھ ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بہت سے احمق مسلمان ، ائمہ مساجد، خطبا اور داعیان کرام پوری تن دہی اور اخلاص کے ساتھ ان کی نشر واشاعت میں لگے ہوئے ہیں حالانکہ ان کتابوں سے متعلق کم سے کم جو بات کہی جا سکتی ہے، وہ یہ کہ یہ کتابیں فحاشی پر مبنی اور فتنہ پرور ہیں جبکہ فتنہ قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے۔ یہ بیچارے اپنی ذہنی تنگی کے باعث یہ سوچ نہیں پاتے کہ یہ کتابیں جن سے کراہیت، نفرت، تفرقہ وفتنہ کی بو پھوٹ رہی ہے، اس کی اشاعت کے پیچھے حقیقی اہداف کیا ہیں اور بالخصوص آج کل کے حالات میں ان کی کیا ضرورت ہے۔
ان کتابوں کے اثرات پاکستان میں صاف طور پر دیکھنے میں آ رہے ہیں جہاں انھوں نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ یہاں سنیوں نے سپاہ صحابہ تشکیل کر لی ہے جس کے جوشیلے نوجوان شیعوں پر ان کے شعائر دینی، ان کے گھروں پر ان کی نمازوں کے درمیان حملے کر رہے ہیں اور مساجد میں نماز فجر کے درمیان اتنی بری طرح انھیں قتل کر رہے ہیں کہ ان مناظر کو دیکھ کر پیشانی شرم سے جھک جاتی ہے۔ اسی طرح شیعوں نے رد عمل کے طور پر سپاہ محمد بنا لی ہے اور اس کے بے ہوش نوجوان بھی سنیوں پر شدید حملے کر کے انھیں قتل کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ان دونوں سپاہ کے تصادم کے نتیجے میں ہر ماہ کوئی نہ کوئی خوں ریز واقعہ پیش آتا رہتا ہے اور ان کے ذریعہ دونوں فرقوں کی جانب سے سنگین قسم کے فتنے اٹھائے جا رہے ہیں اور دونوں کے درمیان غیر ضروری جنگ جاری ہے۔ ان دونوں سپاہ کے سورما دراصل (موجودہ زمانے کے) خوارج ہیں جن سے موساد مسلمانوں میں فرقہ واریت پھیلانے کے لیے خود فائدہ اٹھا رہی ہے اور اس کی منصوبہ بندی یمن میں بھی جاری ہے جہاں بڑے پیمانے پر اس جہت میں کام ہو رہا ہے جس کے افسوس ناک نتائج قریب ہی ظاہر ہوں گے۔ بالخصوص مسلکی فتنہ جو کام پاکستان اور یمن میں کر رہا ہے، وہ اب تک فلسطین میں بھی نہیں کر سکا ہے (۱)۔ 
(بہ شکریہ روزنامہ انصاف لاہور)
(۴)
اپنی زندگی کو ختم کرنے سے آدھا گھنٹہ قبل جمیل بے حد مصروف رہا۔ سی فور پلاسٹک دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئی پک اپ پر بیٹھے ہوئے اس نے اپنے موبائل فون پر ۱۰۹ رابطے کیے۔ ان میں سے چند رابطوں میں اس نے صدر مشرف پر قاتلانہ حملے کے منصوبے میں شریک اپنے ساتھیوں کے ساتھ بات کی۔ ۲۳ سالہ جمیل نے غالباً سوچا ہوگا کہ (موبائل پر رابطوں کی) جو شہادتیں وہ بہم پہنچا رہا ہے، مشرف پر حملے کے دوران میں ختم ہو جائیں گی لیکن اس کا اندازہ غلط تھا۔ نہ صرف یہ کہ وہ اور اس کا ایک ساتھی حملہ آور ۲۵ دسمبر کو پرویز مشرف کو قتل کرنے میں ناکام رہے بلکہ اس کے موبائل فون کی یادداشت کی مدد سے، جو تفتیش کاروں کو دھماکوں کے ملبے میں محفوظ مل گئی، حکام درجنوں مشتبہ شرکاے جرم تک پہنچا چکے ہیں۔ ان میں سے کافی لوگوں کا تعلق ایک انتہا پسند پاکستانی تنظیم ’جیش محمد‘ سے ہے۔ یہ جماعت کبھی مشرف حکومت کے ساتھ تھی لیکن اب اس کا تعلق القاعدہ کے ساتھ ہے جس کے لیڈر اسامہ بن لادن نے ایک حالیہ آڈیو ٹیپ میں مشرف کا تختہ الٹنے پر (اپنے ساتھیوں کو) اکسایا ہے۔
ایک فون کال جس نے خاص طور پر تفتیش کاروں کو پریشان کر دیا، جمیل اور صدر مشرف کے محافظ دستے کے ایک سپاہی کے مابین تھی۔ کیس کی تفتیش کرنے والے ایک افسر نے ’ٹائم‘ کو بتایا کہ اس سپاہی نے، جس کو گرفتار کر کے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے، جمیل کو اطلاع دی تھی کہ مشرف کون سی کار میں سوار ہوئے ہیں، کیونکہ صدر کئی decoy لیموسین کاریں استعمال کرتے ہیں۔ امریکی اور پاکستانی تفتیش کاروں کو یقین ہے کہ ۱۴ دسمبر کے ناکام حملے کی منصوبہ بندی میں بھی، جس میں ایک پل کے نیچے پانچ بم فٹ کر دیے گئے تھے جو صدر کے وہاں سے گزرنے کے فوراً بعد پھٹ گئے، صدر مشرف کے محافظوں میں سے کوئی شخص ضرور شریک تھا۔ اس حملے کے حوالے سے بھی، جس میں صدر بال بال بچے، جیش محمد پر شک کیا جا رہا ہے۔ نئے حکم کے تحت صدر کے قافلے پر مقرر پولیس افسروں کو ڈیوٹی کے دوران میں موبائل فون ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ خدشہ ہے کہ وہ مشرف پر حملوں میں حملہ آوروں کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں۔
صدر کے محافظوں کی اندرونی مدد کے ساتھ جیش محمد کا اس قابل ہو جانا کہ وہ صدر پر اس طرح کے ماہرانہ حملے کروا سکے، خود مشرف کی پیدا کردہ صورت حال ہے۔ پاکستانی حکومت ایک طویل عرصے تک پہلے تو ہمسایہ ملک افغانستان سے سوویت یونین کو نکالنے اور پھر بھارت کے زیر تحویل کشمیر کے متنازعہ علاقے میں بھارتی فوج کو پریشان کرنے کے لیے انتہا پسند اسلامی گروپوں کو سپورٹ اور ان کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے۔ جیش محمد کو اسی دوسرے مقصد کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔ سرکاری طور پر ان گروپوں کو برداشت کرنے بلکہ بعض اوقات ان کی مدد کرنے کی پالیسی ۱۹۹۹ء میں مشرف کے حکومت پر قابض ہونے کے بعد بھی جاری رہی۔ صدر مشرف، جیش محمد کے جنگجو قائد مولانا مسعود ازہر کے خاص طور پر بڑے حامی تھے۔ جب مسعود ازہر دسمبر ۲۰۰۰ میں قیدیوں کے تبادلے میں بھارتی جیل سے آزاد ہوئے تو انھیں کراچی میں ایک بہت بڑی ریلی منعقد کرنے کا موقع دیا گیا جس میں بندوقیں لہراتے ہوئے ان کے (ہزاروں) پیروکار شریک ہوئے۔ حتیٰ کہ ۲۰۰۱ء میں مشرف نے مختلف کشمیری گوریلا گروپوں کو ان کی قیادت میں متحد کرنے کی کوشش بھی جو ناکام رہی۔
انتہا پسندوں کے ساتھ حکومت کی اس رفاقت میں گیارہ ستمبر کے بعد اس وقت دراڑ پڑی جب مشرف نے اسلامی دہشت پسندی کے خلاف بش انتظامیہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے باوجود مشرف نے شروع میں اپنے ملک کے انتہا پسندوں کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کیے رکھا۔ امریکی دباؤ کے تحت انھوں نے جنوری ۲۰۰۲ میں کئی انتہا پسند تنظیموں پر پابندی تو لگا دی لیکن ان کے قائدین کو عام طور پر کھلا چھوڑ دیا گیا اور تنظیموں کو نئے ناموں سے کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ جیش محمد کے حوالے سے مشرف کا رویہ اس باپ کا سا تھا جو اپنے بیٹے کے دیوالیہ ہو جانے کے بعد اس کو اپنا ماننے سے انکار کر دے۔ پاکستان کی انٹیلی جنس سروسز بھی، جو ان گروپوں کو تشکیل دینے اور بھارت کے زیر تحویل کشمیر میں در اندازی کروانے میں (باقاعدہ) کردار ادا کرتی رہیں، خود ملک کے اندر جیش محمد کی طرف سے مذہبی دہشت گردی پھیلانے کی کوششوں کے باوجودان گروپوں پر ہاتھ ڈالنے میں جھجھک محسوس کر رہی تھیں۔ حکومت اس تنظیم اور اس کے ذیلی گروپوں کو کراچی میں ہونے والے دونوں بم دھماکوں کا ذمہ دار سمجھتے ہیں: ایک مئی ۲۰۰۲ میں ہونے والا حملہ جس میں فرانس کے گیارہ بحری فنی ماہرین جاں بحق ہوئے، اور دوسرا جون ۲۰۰۲ میں امریکی قونصلیٹ کے باہر ہونے والا دھماکہ ہوا جس میں بارہ پاکستانی شہید ہو گئے۔ اسلام آباد میں سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ مسلمان انتہا پسندوں پر سخت گرفت کرنے میں جھجھک محسوس کرنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان میں سے بیشتر گروپ ان مذہبی جماعتوں کے ساتھ منسلک تھے جن کی حمایت کی خود مشرف حکومت کو ضرورت تھی۔
اپنے اوپر دو حملے ہونے کے بعد مشرف کا رویہ بدلتا دکھائی دیتا ہے۔ جمیل کے موبائل فون سے اکٹھی کی جانے والی معلومات کی مدد سے پولیس نے گزشتہ ہفتے وسطی پنجاب کے علاقے میں مختلف مسجدوں اور مدرسوں سے ۳۵ مشکوک افراد کو گرفتار کیا جن میں سے بیشتر کے بارے میں خیال ہے کہ وہ جیش محمد سے منسلک ہیں۔ غیر معین تعداد میں کچھ لوگوں کو بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ تاہم امریکی حکام کو یہ تسلی ہے کہ مشرف آخر کار جیش محمد کا پیچھا کرنے کے بارے میں پرعزم ہو گئے ہیں۔ یہ بات امریکہ کی طرف سے بڑے عرصے سے کہی جا رہی تھی لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا تھا۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک افسر نے کہا کہ ’’مشرف سنجیدہ ہیں۔ ۲۵ دسمبر کو انھیں ایک نئی زندگی ملی ہے۔‘‘
گزشتہ ہفتے جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا، ان میں سے ایک جنوری ۲۰۰۲ میں امریکی صحافی ڈینئل پرل کے اغوا اور قتل کے سلسلے میں شریک جرم کے طور پر پہلے ہی مطلوب تھا۔ پاکستانی عدالت احمد عمر سعید شیخ کو، جو جیش محمد سے قریبی تعلق رکھنے والا ایک انتہا پسند ہے، پہلے ہی پرل کے اغوا کا مجرم قرار دے کر اسے سزائے موت دے چکی ہے (۲)۔ ایک عینی شاہد کا کہنا ہے کہ اصل میں پرل کو القاعدہ کے کمانڈر خالد شیخ محمود نے قتل کیا تھا، جسے امریکہ نے یکم مارچ ۲۰۰۳ کو گرفتار کر لیا اور اب وہ امریکی تحویل میں ہے۔ انسداد دہشت گردی کے ایک سینئر پاکستانی افسر کے مطابق اسے ڈیگو گارشیا کے ایک فوجی اڈے پر رکھا گیا ہے۔ پاکستان کے وزیر داخلہ فیصل صالح حیات نے ’ٹائم‘ کو بتایا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ۲۵ دسمبر کے حملے میں بھی القاعدہ ملوث تھی۔
القاعدہ اور جیش محمد کے آپس میں یقینی روابط ہیں۔ کشمیر میں بھارت سے جنگ کرنے سے پہلے ۹۰ کی پوری دہائی میں جیش محمد کے انتہا پسند افغانستان جا کر القاعدہ کے تربیتی کیمپوں میں شریک ہوتے رہے اور پاکستان کی انٹیلی جنس سروسز چشم پوشی کرتی رہیں۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ آج کل جیش محمد کے کارکن القاعدہ کے دہشت گردوں کو پناہ فراہم کر رہے ہیں جبکہ القاعدہ ،جیش محمد کو فنڈز اور راہنمائی فراہم کرتی ہے اور غالباً قتل وغارت کے لیے ان کو ہدف بھی بتاتی ہے۔ اسلام آباد میں سکیورٹی امور کے ماہر ریٹائرڈ جنرل طلعت مسعود کہتے ہیں کہ ’’فوج کا ان جہادی گروپوں کے ساتھ گہرا تعلق قائم رہا لیکن پھر یہ بالکل قابو سے باہر ہو گئے۔‘‘
صدر پر خود کش حملہ کرنے والا جمیل پاکستانی انٹیلی جنس کی نظروں میں تھا۔ ہمالیہ کے دامن میں بھارتی بارڈ کے قریب ایک قصبے راولا کوٹ کا رہنے والا یہ دبلا پتلا نوجوان طالبان کی جانب سے امریکیوں کے خلاف افغانستان میں لڑتا رہا۔ کابل کے سقوط کے موقع پر زخمی ہو جانے کے باعث اسے پاکستان واپس آنے کی اجازت دی گئی۔ پشاور پہنچنے پر پاکستانی انٹیلی جنس سروسز نے اس سے پوچھ گچھ کی اور اپریل ۲۰۰۲ میں اسے بے ضرر قرار دے کر چھوڑ دیا۔ راولاکوٹ میں اس کے عزیزوں کے مطابق دوسرے بہت سے مسلم انتہا پسندوں کی طرح جمیل بھی مشرف کو مغرب کا ایجنٹ سمجھتا تھا۔ انتہا پسندوں کو شکایت ہے کہ مشرف نے طالبان کے ساتھ غداری کی اور اب جنوری میں بھارت کے ساتھ پرامن تعلقات کے لیے ان کی کوششوں کی بنا پر وہ یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ مشرف کشمیریوں سے بے وفائی کر رہے ہیں۔ ہمسایوں کا کہنا ہے کہ امریکہ اور مشرف کے خلاف جمیل اس قدر غم وغصے کا اظہار کرتا تھا کہ اس کے گھر والوں نے اسے گھر سے نکال دیا۔ لیکن کیا جمیل ۲۵ دسمبر کے حملوں کا گروپ سربراہ تھا؟ وزیر داخلہ فیصل صالح حیات طنزیہ انداز میں کہتے ہیں کہ ہرگز نہیں۔ سربراہ خود کبھی اپنے آپ کو ہلاک نہیں کرتے۔ یہ اپنے ماتحتوں کو اس کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘
مشرف پاکستانی انتہا پسندوں کا صفایا کرنے میں اب کتنے ہی پرعزم کیوں نہ ہوں، یہ کام لمبا اور خطرناک ہوگا۔ جمعرات کو کراچی میں دہشت گردوں نے ایک کرسچین سٹڈی سنٹر پر حملہ کر کے چودہ آدمیوں کو زخمی کر دیا۔ فیصل صالح حیات کہتے ہیں کہ ’’ان کے ہاتھ بہت دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔‘‘ (پولیس اور فوج کو) مطلوب یہ گروپ اب پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ لاہور میں ان کے ایک سابقہ کمانڈر نے کہا کہ ’’لڑکے کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ وہ بے حد مشتعل ہیں۔ وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ جہاد کے دن اب ختم ہو چکے ہیں۔‘‘ 
(ہفت روزہ ٹائم، ۲۶ جنوری ۲۰۰۴ء)

حواشی

(۱) جنوری ۲۰۰۴ء میں عراق سے گرفتار ہونے والے القاعدہ کے ایک کارکن حسن گل سے پکڑی جانے والی بعض دستاویزات عراق میں القاعدہ کی طویل مدتی حکمت عملی کو واضح کرتی ہیں۔ اس میں طے کیا گیا ہے کہ امریکی انتظامیہ کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے لیے عراق کی شیعہ اور سنی آبادی کے مابین تصادم کرایا جائے۔ اس مقصد کے لیے شیعہ آبادی پر حملے کروائے جائیں تاکہ وہ جواب میں سنی آبادی پر حملے کریں اور اس طرح صورت حال حکومت کے قابو سے باہر ہو جائے۔ (ہفت روزہ ٹائم، ۲۳ فروری، ۲۰۰۴ء)

(۲) جولائی ۲۰۰۲ء میں جب احمد عمر سعید شیخ کو امریکی صحافی ڈینئل پرل کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تو اس نے عدالت میں یہ دھمکی دی کہ: ’’دیکھتے ہیں، کون پہلے مرتا ہے۔ میں یا مشرف‘‘ ۔ صدر مشرف پر حالیہ قاتلانہ حملوں کے بعد تفتیش کار عمر شیخ کی اس دھمکی کو ایک جذباتی بیان سے بڑھ کر حیثیت دے رہے ہیں اور اسے اچانک میں حیدر آباد سے راول پنڈی منتقل کر دیا گیا ہے جہاں قاتلانہ حملوں کی تحقیقات جاری ہیں۔ (ہفت روزہ ٹائم، ۲ فروری ۲۰۰۴ء)

مکاتیب

ادارہ

(۱)
از عتیق الرحمن سنبھلی۔ لندن
مورخہ جنوری ۲۰۰۴
بخدمت گرامی جناب ڈاکٹر صفدر محمود بالقابہ ۔ پاکستان
محترمی ڈاکٹر صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آج، ۴ جنوری کے جنگ میں جناب کے کالم (بعنوان ’’قرض اور فرض‘‘) پر نظر گئی تو شروع ہی میں حضرت مولانا حسین احمدؒ مدنی کا نام خاص طور پر باعث ہوا کہ اسے پڑھوں۔ یہ آج کا کالم آپ نے جس سابق مضمون کے حوالہ سے تحریر فرمایا ہے، اس میں حضرت مولانا سے متعلق حصہ میں آپ کے آخری جملہ نے میرے دل میں تقاضا پیدا کیا تھا کہ کچھ گزارش کروں، مگر ایک دو بار کے سابق تجربہ کو یاد کر کے خیال ہوا کہ آپ ہی کیوں ایک اجنبی کی گزارش سے کوئی فرض اپنے اوپر عائد سمجھ لیں گے۔ یہ سوچ کر رہ گیا۔ مگر آج کے کالم نے جو اس دن کی بات یاد دلا دی ہے تو اب وہ آپ تک پہنچ ہی جانی بہتر لگتی ہے۔
میرے پاس آپ کا سابقہ مضمون محفوظ نہیں ہے کہ بعینہ الفاظ نقل کر سکوں، لیکن بات یاد ہے کہ آنجناب نے حضرت مولانا کا اپنے مبینہ خواب سے متعلق ارشاد نقل کر کے فرمایا تھا کہ میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے بس آپ کے اسی جملہ پر کچھ عرض کرنے کا تقاضا ہوا تھا، اس لیے کہ اس میں تبصرہ نہ کر کے بھی آپ نے تبصرہ کے لیے کچھ نہ چھوڑا تھا۔ صرف ’’برہنہ گفتن‘‘ تک جانے سے احتیاط فرمائی تھی۔ اور پاکستانی تحریک کے ساتھ آپ کے قلبی لگاؤ کو دیکھتے ہوئے مخالف تحریک بزرگوں کے معاملے میں اتنی احتیاط بھی قدرے قدر کی چیز تھی، ورنہ خیال ہی نہ ہوتا کہ اس معاملہ میں کچھ عرض کیا جائے۔ بہرحال عرض یہ کرنا تھا کہ اہل کتاب جو اپنے بہت سے مذہبی رویوں پر اصرار کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے دیا کرتے تھے تو اس سلسلہ میں ایک موقع پر قرآن پاک میں ان سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا گیا ہے: (ترجمہ) ’’سنتے ہو، تم لوگ جھگڑ چکے اس بات میں جس کی تمھیں کچھ خبر تھی، سو اب کس بنیاد پر جھگڑتے ہو ان باتوں میں جن کا تمھیں علم نہیں؟‘‘ (آل عمران۔ ۶۶) معاف کیجیے گا، میرا مقصد آپ کے علمی مقام کی تنقیص نہیں ہے، صرف ازراہ خیر خواہی اس طرف توجہ دلانا ہے کہ حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، جن سے سیاسی اختلاف کا کچھ بھی حق آپ جیسے اہل علم کو ہو، تاہم علم دین میں ان کے مقام اور مرتبہ سے اگر زیادہ نہیں تو اتنی واقفیت کے بعد بھی (جس سے آپ جیسے حضرات کی ناواقفیت کا تصور مشکل ہے) کہ وہ دیوبند جیسی مسلمہ درس گاہ کے صدر نشیں تھے، دینی معاملات میں ان کے کسی ارشاد پر اس طرح کے تبصرہ کا حق بھی اپنے لیے سمجھنا اپنے حدود سے تجاوز کے زمرہ کی بات ہے۔
میں خود کوئی ایسا صاحب علم نہیں، مگر حضرت مولانا جیسے بزرگ اہل علم کی جوتیاں سیدھی کرنے کے طفیل جو تھوڑی شد بد ہے، اس کی بنیاد پر عرض کرتا ہوں کہ حضرت مولانا نے جو یہ فرمایا تھا کہ ان پر جو کچھ منکشف ہوا، وہ تکوینی معاملہ ہے، اس سے ان کے لیے کوئی امر ونہی ثابت نہیں ہوتی ہے، تو یہ عین حق ہے۔ اور یہ انھیں کے جیسے اصحاب علم کا مقام ہے کہ تکوین اور تشریع کے باریک فرق کو سمجھ سکیں۔ عام آدمی تو واقعی کہہ اٹھے گا اور قابل معافی ہوگا کہ لیجیے صاحب، اللہ تبارک وتعالیٰ نے مولانا حسین احمد صاحب کو براہ راست بتا دیا کہ ہمارا فیصلہ پاکستان بنوانے کا ہے، لیکن (معاذ اللہ) وہ اللہ کی بھی مان کے نہیں دیے! مگر آپ کے درجہ کے اہل علم سے اگر یہ ’’دخل در معقولات‘‘ دیکھنے میں آئے تو ایک سانحہ ہی کہا جائے گا۔ عالم بالا کے فیصلے جنھیں تکوینیات کہا جاتا ہے، وہ جہاں ایسے ہوتے ہیں کہ جب پردۂ غیب سے ظہور میں آئیں تو ہم شاداں وفرحاں ہوں، وہیں ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اپنی بد قسمتی کو روئیں۔ یہ افغانستان اور عراق پہ جو قیامت ان دنوں ٹوٹی ہے، یہ بھی تو تکوینی فیصلوں ہی کا ظہور ہے۔ اب اگر کوئی اللہ والا عالم کشف یا خواب میں انھیں دیکھ چکا ہو تو کیا اسے چاہیے کہ کوئی کوشش اس ہونے والے حادثہ کے روک تھام کی نہ کرے؟ حضرت مولانا کی رائے میں پاکستان کا قیام مسلمانان ہند کی مجموعی مصلحت کے خلاف تھا، اس لیے وہ اپنی ملی اور شرعی ذمہ داری سمجھتے تھے کہ جو کچھ بھی اس کی مزاحمت کی راہ میں کر سکتے ہیں، کریں۔
اور ڈاکٹر صاحب، یہ تو تکوینیات کا معاملہ ہے جس کا کوئی بندہ پابند نہیں۔ آنحضرت ﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے کچھ منافقین کے بارے میں صراحتاً اپنا فیصلہ بتایا جاتا ہے کہ ’’آپ اگر ستر مرتبہ بھی ان کی بخشش ہم سے مانگیں تب بھی ہم ان کو بخشنے والے نہیں ہیں۔‘‘ پھر بھی آپ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھانے کو بڑھتے ہیں۔ اور چونکہ نماز جنازہ کی حقیقت دعاے مغفرت ہے، اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ دامن کش ہوتے ہیں کہ یا رسول اللہ، آپ اس کی نماز پڑھائیں گے جس کے لیے اللہ فرما چکا کہ ستر بار بھی دعا ہو تو قبول نہیں؟ رحمت عالم نے فرمایا، تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ دعا کروں گا۔ حتیٰ کہ اللہ کی طرف سے صاف ممانعت ہی نازل ہو گئی کہ: ’لا تصل علی احد منھم مات ابدا ولا تقم علی قبرہ‘ ’’اور کبھی بھی نماز نہ پڑھیں ان میں سے کسی مرنے والے کی، نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔‘‘ (التوبہ: ۹۔۸۴)
محترم، اگر آپ خیال فرمائیں کہ آپ کا سابقہ مضمون ایک دینی مسئلہ میں اور دینی شخصیت کی بابت غلط فہمی کا باعث بنا ہوگا تو ان سطور کی اشاعت پر بھی غور فرمائیں۔ ورنہ کم از کم اتنی توقع تو رکھوں گا ہی کہ آپ کے رد عمل سے آگاہ کیا جاؤں۔ ( ڈاکٹر صاحب کی طرف سے خط کا کوئی جواب یا رسید مولانا کو نہیں بھجوائی گئی۔ مدیر)
والسلام ۔ خاکسار 
عتیق سنبھلی
(۲)
۱۲ فروری ۲۰۰۴۔ جمعرات
۲۰/۱۲/۲۴
محترم پروفیسر میاں انعام الرحمن مدظلکم ومتعنا اللہ بکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ الحمد للہ علیٰ کل حال
آپ کا فکر انگیز مقالہ ’’ارضی نظام کی آسمانی رمز‘‘ ماہنامہ ’الشریعہ‘ گجرانوالہ کے جنوری/ فروری ۰۴ کے شمارے میں نظر سے گزرا۔ ذاتی طور پر میں اس بیش بہا تجزیاتی تحریر کے لیے تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ اس سلسلے میں بعض باتیں عرض کرنی ہیں جنھیں میں بلا کم وکاست، گو مختصراً، عرض کیے دے رہا ہوں، لیکن آگے بڑھنے سے پہلے ایک بات کا یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اس میں تنقید کا کوئی پہلو ہرگز نہیں۔ یوں بھی آپ ایک ذی وقار معلم ہیں اور معلم کا وقار، معلم انسانیت ﷺ کے فرمان کے مطابق بہت بڑا مقام رکھتا ہے۔
ہم ایک علم دشمن، ہنر گریز، فن بیزار، تحقیق ناآشنا مگر جہل خود سند ملت ہیں۔ ہمارا اجتماعی جہل اب مستند ترین ہے۔ ملی فضاے بسیط پر طاری وساری اس مایوسی کے اندھیاروں میں اگر کہیں سے بھی امید کی کوئی کرن نظر آ جاتی ہے تو امید وبیم کی کشمکش میں سانس کچھ تیز سی چلنے لگتی ہے۔ فکر ونظر کی یہ جاں بخش روشنیاں کچھ ’الشریعہ‘ ہی میں نظر آتی ہیں۔ عرصہ ہوا، دینی اداروں کے جرائد کو چھونے سے بھی توبہ کر رکھی تھی کہ ان میں سواے بھس کے کچھ نہیں ہوتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس مرد قلندر، جناب زاہد الراشدی سلمہم اللہ کو سلامت رکھیں جن کی جرات رندانہ نے اس رسالہ کا ’’فورم‘‘ قائم کیا۔ میں آپ کے مضمون کے لیے اور اسی بنا پر ’الشریعہ‘ کی ندرت فکر کے لیے اللہ تعالیٰ کا اور آپ حضرات کا شکر گزار ہوں۔ میں کون ہوں، اس وضاحت کی کم از کم فی الحال فوری ضرورت لاحق نہیں۔ آپ کے در پر یہ دستک تو ملت کے ایک فرد کی طرف سے کچھ معروضات پیش کرنے کے لیے ہے۔
آپ کا یہ تجزیاتی مضمون حقائق کا مرقع ہے اور اپنی طرز کا نادر بھی۔ لیکن اس کی زبان اور اس کی انشا پر کاملاً انگریزی طرز نگارش کی چھاپ ہے۔ اس قسم کے تجزیاتی مضامین کی آج کے دور میں بے حد ضرورت ہے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ وہ دینی درس گاہوں سے فارغ طبقہ ہو کہ کالجز اور یونیورسٹیز کا، علم کے اس بحر زخار کی غواصی تو کیا کر پائے، کنارے کنارے بھی نہیں شناوری کر سکے گا۔ ذاتی طور پر چونکہ یہ بندۂ عاجز وبے نوا کئی زبانوں سے علاقہ رکھتا ہے، اس مضمون سے نہ صرف بہرہ ور ہوا بلکہ اس دھنک نے آنسوؤں کے تار دامن میں بھر دیے۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔ آمین۔ لیکن میں نہایت عاجزی سے التماس کروں گا کہ اس پر غور فرمایا جائے کہ آپ کی انشا ایسی ہو کہ ہمارے دینی مدارس کے اساتذہ استفادہ کر سکیں۔ ساتھ ساتھ جدید تعلیم یافتہ طبقہ بھی۔
آپ جدید علوم سے، خاص طور پر جدید علم سیاسیات، معاشرتی علوم، نفسیات اور علم تاریخ کے ابواب میں خاص طور پر ثروت مند ہیں۔ ادب وشاعری کے میدانوں کے شہسوار ہیں۔ میں عمر کی اڑسٹھ سیڑھیاں طے کر چکا ہوں۔ جدید وقدیم علوم کے نامور قسم کے حاملین سے واسطہ رہتا ہے۔ میں اس تہی دامن ملت کا فرد ہوں۔ گھوڑا اور میدان ہر دو کو دیکھا اور پرکھا ہے۔ بس اتنا ہی عرض کروں گا کہ کچھ نہ کہنا بہتر ہے کیونکہ ہونٹ بھی اپنے ہیں اور دانت بھی اپنے ہی ہیں۔
میری گزارش ہے کہ اپنی تحریر کو بالخصوص ہمارے علما کو سامنے رکھ کر لکھیے۔ اس طبقے کو ۹۵ فیصد حضرات اردو ادب سے قطعی نابلد ہیں۔ آپ ذرا ان کی تصنیفات ہی دیکھ لیں۔ گھر کی بولی میں فارسی کے رستے زخم اور عربی کے گومڑ ٹانک دینے کو اردو نہیں کہا جا سکتا۔ جدید علوم سے یہ حضرات اس وحشت کی حد تک نابلد ہیں کہ ان کتابوں کو چھو بھی لیں تو انہیں ذہنی احتلام ہو جاتا ہے، جبکہ جدید طبقہ --- جی ہاں، اس عاجز سے ملنے کئی پی ایچ ڈی حضرات بھی آتے ہیں --- مطالعہ سے بے بہرہ، انگریزی ایسی کہ انگریز اپنی قبر میں بے چین ہو جائے، اور اردو ! میرا خاموش رہنا بہتر ہے۔ مگر ان حضرات پر کیا دوش؟ ہم نے دو نسلوں سے پڑھایا کیا ہے؟
تلاش ذات، ثقافتی اپج، ظرافت بطور قدر، حضوری، یہ معاشرے کی تشکیل کے وہ عناصر ہیں جن کے ذکر سے قرآن کریم اور حدیث مبارک کا دفتر بھرا پڑا ہے۔ تاریخ کا شعور سب سے بڑی بات ہے۔ قرآن کریم تو ہے ہی تاریخ عروج وزوال امم اور قانون عروج وزوال امم۔ آپ کا مضمون پڑھتے ہوئے عرب پروفیسر محمد عثمان نجاتی کی عربی تصانیف ’القرآن وعلم النفس‘ اور ’الحدیث النبوی وعلم النفس‘ کے مندرجات کارواں در کارواں یادوں کے افق سے گزرنے لگے۔
دنیا میں جہاں کہیں جمال نظر آتا ہے، میاں جی جان کائنات طٰہ سیاں ﷺ کے جمال جہاں آرا کا صدقہ ہے۔ آپ کا مضمون آپ کی جمالیاتی حس کے اعلیٰ وارفع ہونے کا غماز ہے۔ میاں جی سیاں ﷺ ہی کا حکم ہے: ’کلموا الناس علی قدر عقولہم‘ (Talk to the people on their level of intelligence) اس لیے اگر آپ ان تجزیاتی نکات کو، نوبت بہ نوبت، علما کو اور جدید طبقہ کو سامنے رکھ کر دوبارہ لیکن نئے مضامین کے روپ میں لکھیں اور سبک وسلیس مثالیں، بطور توضیح، دے دیا کریں تو مجھے یقین ہے کہ ہر قاری کی فکر میں نئے دریچے کھلیں گے۔ صدیاں گزریں، من حیث الملت ہماری فکر کے دریچے کچھ یوں بند ہیں کہ پچھلا سرمایہ بھی کائی اور پھپھوند آسودہ ہے (آلودہ تو معمولی بات ہے) ؂ ’جہاں تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود‘ کتنا سچ ہے۔ 
؂ آنکھیں سوکھی ہوئی ندیاں ہو گئیں اور طوفان بدستور آتے رہے
کے مصداق، دل میں سخن ہاے گفتنی کا ایک طوفان برپا ہے، لیکن میں نے اپنے ذہن ودل اور قلم کو اس پر راضی کر لیا ہے کہ وہ مندرجہ بالا گزارش پر ہی اکتفا کر لیں۔ آخر میں، مجھے یقین ہے کہ آپ اس تحریر کو تنقید پر محمول نہیں فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی فکر ونظر کو بلندیاں عطا فرماتا رہے۔ آمین
فقط والسلام۔العبد العاجز
سید عماد الدین قادری
گلشن معمار۔ کراچی

مولانا محمد عیسیٰ منصوری کا دورۂ پاکستان

ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے جنوری کے تیسرے عشرے میں پاکستان کا دورہ کیا اور کراچی، لاہور، ملتان، چیچہ وطنی، ساہیوال اور اسلام آباد میں مختلف دینی مدارس ومراکز کے معائنہ اور سرکردہ علماے کرام سے ملاقاتوں کے علاوہ ۲۱ جنوری کو دو روز کے لیے گوجرانوالہ تشریف لائے۔ انھوں نے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اساتذہ اور طلبہ کی مشترکہ نشست میں موجودہ عالمی صورت حال اور دینی حلقوں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی اور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں دورۂ حدیث کے طلبہ کو اسی عنوان پر لیکچر دیا۔ انھوں نے جامعہ مدینہ جدید رائے ونڈ لاہور، دار بنی ہاشم مہربان کالونی ملتان، مرکزی جامع مسجد چیچہ وطنی، جامع مسجد عثمان غنی جی ٹین مرکز اسلام آباد، ادارۂ علوم اسلامی بھارہ کہو اسلام آباد، جامعہ اسلامیہ ٹرسٹ کامونکی، دفتر عالمی مجلس احرار اسلام نیو مسلم ٹاؤن لاہور اور دیگر اداروں میں علماے کرام اور دینی راہ نماؤں سے عالم اسلام کے مسائل پر تبادلہ خیالات کیا اور متعدد اجتماعات سے خطاب کیا۔ انھوں نے کراچی میں پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی سے جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن میں ملاقات کی اور گوجرانوالہ میں پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی سے ورلڈ اسلامک فورم کے معاملات اور دیگر امور پر صلاح مشورہ کیا۔ لیسٹر برطانیہ کے تعلیمی ادارہ دار ارقم کے ڈائریکٹر مولانا محمد فاروق ملا بھی ان کے ہمراہ تھے۔ مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے اپنے خطابات میں اس بات پر بطور خاص زور دیا کہ جناب نبی اکرم ﷺ نے پوری نسل انسانی سے خطاب کر کے اپنی دعوت پیش کی تھی لیکن ہم نے نسل انسانی سے مخاطب ہونا چھوڑ دیا ہے اور اپنے محدود مسلکی، علاقائی اور طبقاتی حلقوں میں محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام نے دنیا میں ہر دور میں دو مقاصد کے لیے کام کیا ہے۔ایک یہ کہ انسان کا رشتہ اللہ تعالیٰ سے جڑ جائے اور وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا راستہ اختیار کر لے اور دوسرا یہ کہ انسان کو انسان کی خدائی سے نجات دلائی جائے اور زبردستی خدا بن بیٹھنے والوں کے جبر سے غریب انسانوں کی جان چھڑائی جائے۔ آج پھر مٹھی بھر لوگ پوری دنیا کے خدا بن بیٹھے ہیں اور زمین کے بیشتر وسائل پر قبضہ کر کے پوری نسل انسانی کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔ اس ظلم وجبر کے خلاف آواز اٹھانا اور انسان کا رشتہ اس کے خالق ومالک کے ساتھ پھر سے جوڑنا ہماری ذمہ داری ہے اس لیے کہ اب اس کام کے لیے کوئی نبی نہیں آئے گا اور اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ﷺ کے امتی کی حیثیت سے یہ ذمہ داری ہم پر آتی ہے کہ ہم اپنے محدود حلقوں سے باہر نکل کر پوری نسل انسانی کو مخاطب بنائیں اور سب انسانوں تک اسلام کی دعوت پہنچانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ غریب انسانوں کو جھوٹے خداؤں کے جبر اور استحصال سے نجات دلانے کی محنت کریں۔
انھوں نے علماے کرام پر زور دیا کہ وہ آج کے حالات اور تقاضوں کو سمجھیں اور جدید علمی وفکری چیلنجز کا ادراک حاصل کر کے قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں ان کے بارے میں امت مسلمہ کی راہ نمائی کریں۔ انھوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ آج مغرب مادی وسائل، سائنس، ٹیکنالوجی اور سیاست ومعیشت میں ہم سے بہت آگے ہے اور ہم کسی شعبہ میں بھی اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ مغرب فکری لحاظ سے تہی دامن ہے اور اس کے پاس انسانیت کو دینے کے لیے کوئی پیغام نہیں ہے۔ آج دنیا کا منظر یہ ہے کہ فکری اور تہذیبی ورثہ مسلمانوں کے پاس ہے اور وہ قرآن وسنت کی محفوظ تعلیمات کی دولت سے مالامال ہیں لیکن دنیاوی اسباب اور مادی وسائل کے حوالہ سے تہی دست ہیں جبکہ مغرب دنیاوی اسباب اور مادی وسائل کے ساتھ ساتھ عسکری قوت اور بالادستی سے مالامال ہے مگر فکری اور تہذیبی لحاظ سے تہی دامن ہے۔ اس صورت حال میں ہماری ذمہ داری اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ ہم دنیا تک خدا کا پیغام پہنچانے اور پوری نسل انسانی کو جناب نبی اکرم ﷺ کی سنت واسوہ سے روشناس کرانے کے لیے کمربستہ ہو جائیں کیونکہ آج بھی دنیا کی نجات وفلاح اسی پیغام میں ہے۔
مولانا منصوری نے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے پروگرام اور معمولات کا جائزہ لیا اور اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ الشریعہ اکادمی آج کے حالات اور تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے علمی اور عملی پیش رفت کر رہی ہے۔

مولانا محمد عامر انور کی شادی خانہ آبادی

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے رفیق کار مولانا محمد عامر انور ۷ فروری ۲۰۰۳ء کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی اور رفقاے کار مولانا محمد یوسف، مولانا حبیب نجار، مولانا محمد عمار ناصر، پروفیسر میاں انعام الرحمن اور مولانا احسن ندیم نے ۹ فروری کو چک ۶۴ جنوبی، سلانوالی، ضلع سرگودھا میں ان کی دعوت ولیمہ میں شرکت کی اور ان کی خانہ آبادی پر انھیں اور ان کے اہل خانہ کو مبارک باد پیش کی۔ 

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’نور علیٰ نور‘‘ کا قرآن نمبر

کراچی سے مولانا عبد الرشید انصاری کی زیر ادارت ماہنامہ ’’نور علیٰ نور‘‘ نے قرآن کریم کے حوالہ سے ایک خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا ہے جس کا پہلا حصہ اس وقت ہمارے سامنے ہے جو ممتاز اہل قلم کی نگارشات پر مشتمل ہے اور قرآن کریم کی جمع وتدوین، ناموس رسالت، عقیدۂ ختم نبوت، عظمت صحابہؓ، قرآن کا نظام اور تجوید وقراء ت کے ساتھ ساتھ عورتوں کے حقوق وفرائض کے بارے میں قرآن کریم کی تعلیمات جیسے اہم عنوانات کا احاطہ کرتا ہے۔ 
یہ نمبر معنوی اور صوری لحاظ سے مولانا عبد الرشید انصاری کے حسن ذوق کی نمائندگی کرتا ہے۔ عمدہ کمپوزنگ اور طباعت کے ساتھ پونے چار سو صفحات کے لگ بھگ اس خصوصی اشاعت کی قیمت ۲۵۰ روپے ہے اور اسے مسجد عائشہ صدیقہ، سیکٹر 11/B ، نارتھ کراچی سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

’’ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ ‘‘

عالم اسلام کی ممتاز علمی شخصیت ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ کی شخصیت، حالات اور خدمات پر مختلف جرائد میں شائع ہونے والے مضامین کا ایک جامع انتخاب جناب محمد راشد شیخ کی کاوش سے المیزان پبلشرز، ۲۳۴۔ المعصوم ٹاؤن، گلی ۷، ڈاک خانہ فوارہ چوک، فیصل آباد نے شائع کیا ہے جس میں ڈاکٹر صاحب مرحوم کی تصانیف کے تعارف کے ساتھ ساتھ ان کے متعدد مکتوبات بھی شامل اشاعت ہیں۔ 
۵۰۰ کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل اس مجموعہ کی قیمت اڑھائی سو روپے ہے۔

’’بیسل سے بغداد تک‘‘

ممتاز مصنف اور صحافی جناب محمود جاوید نے اسرائیل کے قیام کے لیے ۱۸۹۷ء میں ترتیب دیے جانے والے منصوبہ سے ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکی قبضہ تک صہیونی سازشوں کو تاریخی دستاویزات کے حوالہ سے بے نقاب کیا ہے اور بتایا ہے کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ سے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے قیام اور اس کی بالادستی کے لیے مغربی استعمار نے کن مراحل میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ اسرائیل کے قیام کے پس منظر اور موجودہ عرب اسرائیل کشمکش کو سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ انتہائی مفید بلکہ ضروری ہے۔
تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ۳۰۰ روپے ہے اور اسے حاصل کرنے کا پتہ یہ ہے: A-19، سرینہ ٹاورز، سخی حسن چورنگی، نارتھ ناظم آباد، کراچی

’’صدائے محبت‘‘

جناب محمد موسیٰ بھٹو عصر حاضر کے ان دانش وروں میں سے ہیں جو انتہائی خاموشی اور دل جمعی کے ساتھ فکری محاذ پر سرگرم عمل ہیں اور اردو اور سندھی میں اسلامی افکار وتعلیمات کو جدید اسلوب میں پیش کرنے کے علاوہ معاصر ارباب دانش اور اہل فکر کے ساتھ مراسلت اور تبادلہ افکار کا رابطہ بھی رکھتے ہیں۔ بہت سے ممتاز ارباب علم وفکر کے نام ان کے خطوط کا مجموعہ سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ، ۴۰۰۔بی، لطیف آباد نمبر ۴، حیدر آباد سندھ نے شائع کیا ہے جو بیسیوں فکری مسائل اور علمی امور کی طرف اہل فکر ودانش کو توجہ دلاتے ہیں۔
ضخامت : ۳۹۶ صفحات۔ قیمت : ۱۲۰ روپے۔

’’مولانا مفتی محمودؒ ۔ درویش سیاست دان‘‘

ملک کے معروف صحافی اور کالم نگار سید انور قدوائی نے حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کی شخصیت اور کردار پر قلم اٹھایا ہے اور ان کے بارے میں اپنی خوب صورت یادیں قلم بند کی ہیں جن سے قومی سیاست میں حضرت مفتی صاحب کی مسلمہ حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ کتاب میں سید انور قدوائی کے تاثرات کے علاوہ نواب زادہ نصر اللہ خانؒ ، میاں طفیل محمد، حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ ، سردار محمد عبد القیوم خان، محمد صلاح الدین اور جناب مصطفی صادق کی نگارشات بھی شامل ہیں۔
۲۰۰ صفحات کی اس مجلد کتاب کی قیمت ۱۲۰ روپے ہے اور اسے جمعیۃ پبلی کیشنز، متصل مسجد پائلٹ ہائی اسکول، وحدت روڈ، لاہور نے شائع کیا ہے۔

’’حیات بخاریؒ ‘‘

امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی حیات وخدمات پر ان کے پرانے رفیق خان غازی کابلی مرحوم نے ایک عرصہ قبل قلم اٹھایا تھا مگر یہ کتاب مدت سے ناپید تھی۔ احرار فاؤنڈیشن، 69/C، حسین اسٹریٹ، نیو مسلم ٹاؤن، وحدت روڈ، لاہور نے نئے انداز سے اسے شائع کیا ہے اور جناب شاہد بخاری نے اس میں مزید معلومات کا بھی اضافہ کیا ہے۔
دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ایک سو بیس روپے ہے۔

’’اقبالیات شورشؒ ‘‘

مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے شارحین اور پیروکاروں میں آغا شورش کاشمیریؒ کا مقام بہت بلند ہے۔ انھوں نے نہ صرف اقبال کی شخصیت، کلام اور افکار سے نئی نسل کو متعارف کرایا بلکہ اقبال کے نام کو اپنے اپنے غلط افکار کے لیے استعمال کرنے والوں کا بھی زندگی بھر تعاقب کیا۔ ہمارے فاضل دوست مولانا مشتاق احمد مدرس جامعہ عربیہ چنیوٹ نے آغا شورش کاشمیریؒ کی تحریروں کو کھنگال کر ان میں سے علامہ اقبالؒ کے بارے میں ان کی منتخب تحریروں کو مرتب کیا ہے جو آج کے دور کی اہم ضرورت تھی۔
احرار فاؤنڈیشن پاکستان کی شائع کردہ اس مجلد کتاب کے صفحات ۳۸۴ اور قیمت ۱۶۰ روپے ہے۔ اسے مذکورہ بالا پتہ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ 

’’خطبات بنگلور‘‘

یہ دار العلوم ندوۃ العلما لکھنؤ کے استاذ حدیث حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی کے خطبات سیرت کا مجموعہ ہے جو انھوں نے بنگلور میں جناب نبی اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ اور تعلیمات کے مختلف پہلوؤں پر ارشاد فرمائے۔ 
صفحات : ۲۰۸ مجلد۔قیمت : ۶۰ روپے۔ ملنے کا پتہ : مکتبہ ندویہ، پوسٹ بکس ۹۳، ندوۃ العلما، لکھنؤ، انڈیا

ماہنامہ ’’القاسم‘‘ (تذکرہ وسوانح مولانا سید سلیمان ندویؒ )

جنوبی ایشیا کی علمی وسیاسی دنیا میں حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کی شخصیت تعارف کی محتاج نہیں۔ جامعہ ابو ہریرہ، خالق آباد نوشہرہ کے سربراہ مولانا عبد القیوم حقانی نے حضرت السیدؒ کے سوانح وافکار پر ماہنامہ ’’القاسم‘‘ کی خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا ہے جس میں حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی حیات وخدمات کے اہم پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
یہ مجلد نمبر ۴۵۶ صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی قیمت درج نہیں ہے۔

’’قرآن پاک کا مطالعہ کیسے کیا جائے؟‘‘

مفکر انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ برصغیر میں آزادی کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ قرآن فہمی کی تحریک میں بھی حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی جماعت کے اہم مفکر اور راہ نما ہیں اور بعض تفردات کے باوجود قرآن فہمی کی جدوجہد میں ان کی حیثیت مسلمہ ہے۔ ان کا گراں قدر مقالہ ’’قرآن کریم کا مطالعہ کیسے کیا جائے؟‘‘ سندھ ساگر اکادمی، ۲۱ عزیز مارکیٹ، اردو بازار لاہور نے شائع کیا ہے جس کے صفحات ۱۱۲ اور قیمت ۶۰ روپے ہے۔

’’انجیل بارناباس کا تحلیلی جائزہ‘‘

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں حضرت بارناباسؓ کی شخصیت کا تذکرہ مستند تاریخ میں ملتا ہے اور ان کی مرتب کردہ انجیل بھی تاریخ کے ریکارڈ میں موجود ہے مگر بہت سے مسیحی حلقے ان کی شخصیت اور ان کی مرتب کردہ انجیل کے بارے میں شکوک وشبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ محترم بشیر محمود اختر نے اس سلسلے میں اصل صورت حال کا تجزیاتی جائزہ لیا ہے جو اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بہت مفید کاوش ہے۔ 
۱۱۲ صفحات کا یہ تحقیقی مقالہ مجلس علم وادب، قاضی ہاؤس، منصور ٹاؤن، ایبٹ آباد نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت ۶۰ روپے ہے۔

’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت امام مہدیؒ ‘‘ (تین اہم رسائل)

سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور حضرت امام مہدیؒ کے ظہور کے بارے میں امت کے دو نامور محققین ومحدثین امام جلال الدین سیوطیؒ اور امام ابن حجر مکی ہیتمیؒ کے گراں قدر رسالوں کو ہمارے فاضل دوست مولانا قاری قیام الدین الحسینی نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے اور الطاف اینڈ سنز، پوسٹ بکس ۵۸۸۲، کراچی ۷۴۰۰۰ نے معیاری انداز میں اسے شائع کیا ہے۔ سوا تین سو سے زائد صفحات کی اس کتاب کی قیمت درج نہیں ہے۔

’’تذکرہ اراکان برما‘‘

میانمار (برما) کے مسلم اکثریت کے صوبہ اراکان کے مسلمان اس وقت اپنے دینی تشخص اور آزادی کے لیے جو جاں گسل محنت کر رہے ہیں اور مصائب وآلام کے جن صبر آزما مراحل سے گزر رہے ہیں، اس سے ہمارے ملک کے اکثر مسلمان بلکہ علماے کرام تک آگاہ نہیں ہیں۔ مولانا حافظ محمد صدیق اراکانی نے اس سلسلے میں تاریخی حقائق اور موجودہ صورت حال کو بڑی محنت کے ساتھ مرتب کیا ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو اراکان کے مظلوم مسلمانوں کی حالت زار کی طرف توجہ دلائی ہے۔ نیز اراکان کے تاریخی پس منظر اور وہاں کے مسلمانوں کی جدوجہد پر روشنی ڈالی ہے۔
صفحات : ۴۱۰۔ ملنے کا پتہ: مکتبہ فیضیہ، برمی کالونی، ۳۶/جی، لانڈھی، نزد دار العلوم کراچی۔ قیمت درج نہیں۔

جناب محمد طاہر رزاق کی تصانیف

جناب محمد طاہر رزاق قادیانیت کے رد اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے محاذ پر مسلسل سرگرم عمل رہتے ہیں اور اس حوالے سے ان کی متعدد تصانیف منظر عام پر آ چکی ہیں۔
’’قادیانی افسانے‘‘ : جناب محمد طاہر رزاق نے قادیانیت کے حوالہ سے مختلف حقائق کو افسانوی انداز میں بے نقاب کیا ہے اور نئی نسل کو قادیانیوں کے دجل وفریب سے روشناس کرانے کی کوشش کی ہے۔ اس مجلد کتابچہ کے صفحات ۱۳۴ اور قیمت ۵۰ روپے ہے۔
’’قادیانیت‘‘ : یہ مختلف مضامین کا مجموعہ ہے جس میں قادیانیت کے متعدد پہلوؤں کو بے نقاب کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس فتنہ سے خبردار کیا گیا ہے۔ صفحات: ۳۵۸۔ قیمت: ۱۰۰ روپے
’’قادیانیت شکن‘‘ : اس مجموعے میں بھی مذکورہ موضوع پر مختلف مضامین کو جمع کیا گیا ہے اور پونے تین سو سے زائد صفحات کی اس مجلد کتاب کی قیمت ۷۵ روپے ہے۔
مذکورہ تمام کتب عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، حضوری باغ روڈ ملتان سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔

’’موذن کا مقام اور اذان کی اہمیت وفضیلت‘‘

مولانا حبیب الرحمن ہاشمی نے اذان کے بارے میں احادیث کے ذخیرہ سے بہت سی مفید معلومات خوب صورت انداز میں جمع کی ہیں اور اذان کی فضیلت واہمیت کے ساتھ ساتھ موذن کے مقام پر روشنی ڈالی ہے۔
۱۲۸ صفحات کی یہ مجلد کتاب مکتبہ قاسمیہ ملتان نے شائع کی ہے۔ اس کی قیمت ۶۰ روپے ہے اور اسے بخاری اکیڈمی، مہربان کالونی، ملتان سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

ماہنامہ ’’التبلیغ‘‘ راول پنڈی

ادارۂ غفران راول پنڈی نے ماہنامہ ’’التبلیغ‘‘ کے نام سے ایک دینی واصلاحی جریدہ کا آغاز کیا ہے جس کا پہلا شمارہ اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ مولانا مفتی محمد رضوان اس کے مدیر ہیں اور اس میں مختلف عنوانات پر علمی اور اصلاحی مضامین کو شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ کمپوزنگ اور طباعت معیاری ہے۔ فی شمارہ پندرہ روپے اور سالانہ زر مبادلہ ڈیڑھ سو روپے ہے۔ ملنے کا پتہ: ماہنامہ ’’التبلیغ‘‘، ادارہ غفران، پوسٹ بکس ۹۵۹، راول پنڈی

’’اوراد ووظائف‘‘

ہمارے ملک کے معروف خطیب مولانا عبد الکریم ندیم نے قرآن وسنت کی روشنی میں دینی ودنیاوی پریشانیوں کے حل کے لیے ’’اوراد ووظائف‘‘ کے عنوان سے یہ مختصر مجموعہ مرتب کیا ہے اور روز مرہ ضروریات ومعمولات کے حوالہ سے مسنون دعاؤں اور وظائف کی طرف راہ نمائی کی ہے۔ 
صفحات : ۶۴۔ ملنے کا پتہ: انجمن خدام الاسلام حنفیہ قادریہ، مسجد امن، جی ٹی روڈ، باغبا ن پورہ، لاہور۔

اپریل و مئی ۲۰۰۴ء

علمی وفکری مباحث اور جذباتی رویہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
درس نظامی کا نصاب اور کتب حدیثمولانا حماد انذر قاسمی
مکاتیبادارہ
تعارف و تبصرہادارہ
مسجد اقصیٰ، یہود اور امت مسلمہ ۔ تنقیدی آراء کا جائزہمحمد عمار خان ناصر

علمی وفکری مباحث اور جذباتی رویہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

کم وبیش پینتیس برس پہلے کی بات ہے۔ میرا طالب علمی کا زمانہ تھا۔ لکھنے پڑھنے کا ذوق پیدا ہو چکا تھا۔ جناب ذو الفقار علی بھٹو مرحوم نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھنے کے بعد ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا نعرہ لگا کر ملکی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی تھی۔ قومی اخبارات اور دینی جرائد میں اسلام، جمہوریت اور سوشلزم کے حوالے سے گرما گرم بحث جاری تھی اور اسی ضمن میں جاگیرداری نظام، زمینداری سسٹم، مزارعت اور اجارہ پر زمین دینے کے جواز اور عدم جواز پر بہت کچھ لکھا جا رہا تھا۔ اسلامی سوشلزم کے نعرے کی بنیاد پر مسٹر بھٹو مرحوم کے خلاف مختلف دینی حلقوں کی طرف سے طعن وفتویٰ کا آغاز ہو چکا تھا جو بالآخر ایک سو تیرہ اکابر علماء کرام کے اس فتویٰ پر منتج ہوا جس میں اسے کفر قرار دے دیا گیا تھا۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی سیاسی قیادت اس وقت حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے ہاتھ میں تھی۔ ان کی راہ نمائی میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان نے کفر کے اس فتویٰ سے کھلم کھلا اختلاف کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ اگرچہ ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کی اصطلاح درست نہیں ہے اور سوشلزم کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص یا گروہ مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں کے جائز حقوق کے لیے آواز اٹھاتا ہے، جاگیردارانہ وسرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کرتا ہے اور اس کے لیے اسلامی تعلیمات کی بالادستی سے منحرف نہیں ہے البتہ وہ اپنی جدوجہد کو ’’اسلامی سوشلزم‘‘ سے تعبیر کرتا ہے تو اسے تعبیر کی غلطی کہا جائے گا، اسے اس غلطی پر تنبیہ کی جائے اور سمجھایا جائے گا لیکن اس پر کفر کا فتویٰ عائد کرنا درست نہیں ہے۔ اس پر بعض حلقوں کی طرف سے جمعیۃ علماء اسلام کے راہ نماؤں کو ’’سوشلسٹ علما‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا اور ۱۹۷۰ء کے الیکشن تک یہ معرکہ خوب گرم رہا۔
اس پس منظر میں راقم الحروف نے مزارعت اور بٹائی کے عنوان پر ایک تحقیقی مضمون لکھا جو ہفت روزہ ’’ترجمان اسلام‘‘ لاہور میں قسط وار شائع ہوا۔ حصہ اور بٹائی پر زمین کاشت کے لیے دینے کے جواز پر حضرت امام ابو حنیفہؒ اور ان کے صاحبین حضرت امام ابو یوسفؒ اور حضرت امام محمدؒ کا اختلاف مشہور ہے۔ صاحبین مزارعت اور بٹائی کے جواز کے قائل ہیں جبکہ حضرت امام ابو حنیفہؒ اسے ناجائز قرار دیتے ہیں۔ میں نے دونوں طرف کے دلائل کا مطالعہ کیا اور خاصی محنت کی جس میں بعض نادر کتابوں کے لیے خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف میں بھی ایک دو روز کے لیے حاضری دی اور وہاں کے معروف کتب خانہ سے استفادہ کیا۔ اس مطالعہ کے دوران مجھے حضرت امام ابو حنیفہؒ کے دلائل زیادہ وزنی معلوم ہوئے اور بعض اکابر احناف کی ایسی تصریحات بھی نظر سے گزریں کہ اس مسئلہ میں دلائل امام صاحبؒ کے ساتھ ہیں اور صاحبین کے موقف پر فتویٰ ’’مصلحت عامہ‘‘ کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس کی بنیاد پر میں نے یہ موقف اختیار کیا کہ دلائل بھی امام صاحبؒ کے ساتھ ہیں اور آج کے دور کی ’’مصلحت عامہ‘‘ کا تقاضا بھی یہ ہے کہ جاگیردارانہ سسٹم کا زور توڑ کر غریب کسانوں کو تحفظات فراہم کیے جائیں، اس لیے آج کے دور کے لیے حضرت امام ابو حنیفہؒ کا موقف زیادہ قرین مصلحت اور قابل عمل ہے اور علماء کرام کو بٹائی اور مزارعت کے جواز کا فتویٰ دینے کے بجائے امام صاحبؒ کے موقف کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ میرا موقف آج بھی یہی ہے اور اگرچہ اجتہاد یا افتا کی اہلیت نہ رکھنے کی وجہ سے عمل اسی پر کرتا ہوں اور مسئلہ بھی لوگوں کو وہی بتاتا ہوں جو صاحبین کے موقف کے مطابق جمہور فقہاء احناف کا مفتیٰ بہ قول ہے لیکن علمی اور تحقیقی طور پر امام صاحبؒ کے موقف کو ہی راجح اور آج کے دور کی ضروریات سے ہم آہنگ سمجھتا ہوں۔
جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے آرگن ہفت روزہ ’’ترجمان اسلام‘‘ لاہور میں اس مضمون کا شائع ہونا تھا کہ ہر طرف شور مچ گیا۔ ’’سوشلسٹ علما‘‘ کا خطاب تو ہمیں مل ہی چکا تھا، یہ کہا جانے لگا کہ یہ مضمون سوشلزم کی حمایت کے لیے اور سوشلسٹوں کو تقویت پہنچانے کے لیے لکھا گیا ہے بلکہ بعض انتہائی ذمہ دار بزرگوں نے میری طالب علمانہ حیثیت کو دیکھتے ہوئے یہ تبصرہ بھی فرما دیا کہ یہ مضمون اس کا لکھا ہوا نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے یہ مضمون لکھا ہے اور اسے بیٹے کے نام سے شائع کرا دیا ہے حالانکہ نہ حضرت والد صاحب مدظلہ کا یہ موقف تھا اور نہ ہی مضمون کی اشاعت سے قبل انھیں اس کا کوئی علم تھا لیکن زبانوں کو کون بند کر سکتا ہے؟ اس لیے چہ میگوئیوں کا سلسلہ جاری رہا۔
میری یہ خواہش تھی کہ کوئی صاحب طعن وتشنیع کی زبان اور نفسیات سے ہٹ کر اس مضمون کا علمی طور پر جواب لکھیں اور دلائل کا رد کریں تاکہ اگر میری کوئی استدلال کی غلطی ہے تو مجھ پر واضح ہو لیکن یہ خواہش پوری نہ ہوئی اور طعن وتشنیع کا سلسلہ کچھ دیر جاری رہ کر بات ٹھندی پڑ گئی۔
یہ قصہ مجھے مسجد اقصیٰ کی تولیت کے حوالہ سے عزیزم حافظ محمد عمار خان سلمہ کا مضمون اور اس پر مختلف اطراف سے ہونے والی تنقید کو دیکھ کر یاد آیا اور میں نے مناسب سمجھا کہ اسے ریکارڈ پر لے آؤں کہ اس قسم کا معاملہ اس سے قبل عمار خان سلمہ کے والد یعنی میرے ساتھ بھی ہو چکا ہے۔ عزیزم سلمہ نے ایک علمی وتحقیقی عنوان پر اپنے مطالعہ وتحقیق کا حاصل اس مضمون میں پیش کیا ہے۔ میں خود اس پر اپنے موقف اور بعض تحفظات کا اظہار اپنے تبصرہ میں کر چکا ہوں جو ’’الشریعہ‘‘ کے ایک گزشتہ شمارے میں شائع ہو چکا ہے، لیکن میں اسے اس عزیز کا بلکہ مطالعہ وتحقیق سے دل چسپی رکھنے والے ہر شخص کا حق سمجھتا ہوں کہ وہ اپنے مطالعہ وتحقیق کے نتائج کو سامنے لائے اور اپنا موقف دلائل کے ساتھ پیش کرے اور اگر کسی کو اختلاف ہے تو وہ طعن وتشنیع کا سہارا لینے کے بجائے دلائل کی بنیاد پر اختلاف کرے اور اس کا اختلاف بھی اسی طرح ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات کی زینت بنے مگر مجھے افسوس ہے کہ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے ناظم اور ہمارے رفیق کار مولانا حافظ محمد یوسف کے سوا کسی اور اختلاف کرنے والے دوست نے اسے سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کا موضوع نہیں بنایا جبکہ ہماری خواہش ہے کہ اہل علم آج کی دنیا کے ایک اہم بین الاقوامی تنازع کے اس علمی پہلو کو سنجیدگی سے لیں اور دلائل کے ساتھ اپنے موقف کو پیش کریں کیونکہ علمی مباحثہ کے ساتھ ہی اس قسم کے مسائل میں اصل صورت حال تک رسائی ہوتی ہے۔
مجھے امیدہے کہ اس مضمون سے اختلاف کرنے والے دوست اپنی علمی اور اخلاقی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے علمی بنیاد پر اس سے اظہار اختلاف کریں گے اور ایسے کسی بھی تنقیدی مضمون کو ’’الشریعہ‘‘ میں جگہ دے کر ہمیں خوشی ہوگی۔

درس نظامی کا نصاب اور کتب حدیث

مولانا حماد انذر قاسمی

امام الانبیاء خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کے ارشادات مبارکہ قرآن مجید کے بعد شریعت اسلامیہ کا دوسرا بڑا ماخذ ہیں۔ قرآن مجید کے ساتھ احادیث مبارکہ کی تعلیم ہر زمانے میں خصوصی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ صحابہ کرام بھی قرآن مجید کے بعد احادیث مبارکہ کو جمع کرنے کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ خصوصاً حضرت ابو ہریرہ، حضرت انس، حضرت عائشہ اور عبادلہ ثلاثہ رضی اللہ عنہم اس فہرست میں نمایاں ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ کی جمع کردہ احادیث سب سے زیادہ ہیں۔ اس مصروفیت ہی کی وجہ سے آپ کاروبار دنیا سے بے نیاز رہے۔ صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین حضرت اکرم ﷺ کے موتیوں جیسے الفاظ کے ذخیرے کو سمیٹنے میں ہمہ تن مصروف رہتے۔ بعد ازاں خلافت امویہ وعباسیہ میں احادیث کی جمع وتدوین کا کافی کام ہوا اور اسی دور میں صحاح ستہ اور دیگر مجموعہ ہائے احادیث مدون ہوئے۔ 
درس نظامی میں بھی تعلیم حدیث کو خاص مقام حاصل ہے اور وقت کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے امہات کتب حدیث کو شامل نصاب کیا گیا ہے۔ برصغیر پاک وہند میں خاندان شاہ ولی اللہؒ کے دور تک مشکوٰۃ شریف کو حدیث کی سب سے بڑی کتاب کے طور پر پڑھایا جاتا تھا۔ بعد ازاں صحاح ستہ کو بھی شامل نصاب کیا گیا۔ مگر سوچنے کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں حدیث کی تعلیم کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے، کیا وہ حدیث نبوی کی تعلیم کے لیے مناسب ہے یا اس میں اصلاح کی ضرورت ہے؟ 
حدیث کی پہلی مختصر کتاب ’’زاد الطالبین‘‘ درجہ ثانیہ میں پڑھائی جاتی ہے۔ اس کتاب کو پڑھانے کا بنیادی مقصد صرف ونحو کے قواعد کی مشق ہے۔ اگر اس کے ساتھ ساتھ طلبہ کو احادیث زبانی یاد کرائی جائیں تو زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ اس میں ہر موقع ومحل کی مختصر احادیث موجود ہیں جو تقریر وتحریر میں سود مند ہو سکتی ہیں۔ 
دوسری کتاب ’’ریاض الصالحین‘‘ جو کہ امام نوویؒ کی تصنیف ہے، اس میں زیادہ تر فضائل وآداب ومعاملات کی احادیث کا ذخیرہ ہے، مگر اس کتاب کے ساتھ یہ زیادتی کی گئی ہے کہ اس کے صرف مخصوص ابواب شامل نصاب ہیں۔ مثلاً درجہ ثالثہ میں فقط ’’کتاب الآداب‘‘ اور درجہ رابعہ میں ’’کتاب الجہاد‘‘ سے ’’کتاب الدعوات‘‘ تک کا حصہ شامل نصاب ہے۔ میری ناقص رائے کے مطابق اگر ریاض الصالحین کو مختلف درجات میں مکمل طور پر شامل کر لیا جائے تو طلبہ دورۂ حدیث سے قبل ایک مرتبہ کم از کم فضائل وآداب کی احادیث کے ترجمہ اور مختصر تشریح سے واقف ہو سکیں گے۔ 
درجہ خامسہ میں پڑھائی جانے والی ایک اور حدیث کی کتاب ’’آثار السنن‘‘ للنیمویؒ فقہی مسائل پر مشتمل لاجواب تصنیف ہے۔ اگر اس کو طلبہ اچھی طرح ذہن نشین کر لیں تو بعد کے درجات میں میں عبادات سے متعلق اختلافی مباحث کے سمجھنے میں کافی سہولت ہو سکتی ہے۔ مگر نصاب میں اس کتاب کو ترجمہ قرآن کے ضمنی مضمون کی حیثیت سے شامل کیا گیا ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک ہی پیریڈ میں دس پاروں کا ترجمہ بھی پڑھایا جائے اور بعد ازاں ’’آثار السنن‘‘ بھی کماحقہ پڑھائی جاسکے؟ لہٰذا ضروری ہے کہ ’’ریاض الصالحین‘‘ اور ’’آثار السنن‘‘ کو حدیث کے مستقل اسباق کے طور پر شمار کیا جائے نہ کہ ترجمہ قرآن کے ضمنی حصے کے طور پر۔ 
اس کے بعد درجہ سادسہ میں حدیث کی دو کتب ’’موطا امام محمد‘‘ اور ’’مسند امام اعظم‘‘ نصاب میں حالیہ ترمیم کے بعد شامل کی گئی ہیں۔ یہ ایک اچھی ترمیم ہے مگر ان کتب کو اصول حدیث اور علم الفرائض (خیر الاصول، سراجی) کے ساتھ شامل کر کے تین مستقل اور جداگانہ علوم (حدیث، اصول حدیث اور علم الفرائض) کو ایک ہی پرچہ میں جمع کر دینا زیادتی ہے۔ اس کے بجائے ’’سراجی‘‘ (علم الفرائض) اور حدیث کے الگ الگ پرچے ہونے چاہییں تاکہ ہر کتاب کو استفادہ کی نیت سے پڑھا جائے نہ کہ صرف رسمی کارروائی مکمل کرنے کے لیے۔
اور آخر میں دورۂ حدیث صحاح ستہ، شمائل، موطا امام مالک اور طحاوی شریف شامل نصاب ہیں۔ یہ کل ۹ کتابیں ہیں جن کو ۶ پرچوں میں سمیٹ دینا مناسب نہیں۔ ان کو اسی آخری سال میں پڑھایا جائے مگر بالاستیعاب ایسے طریقے سے کہ عبادات سے متعلق فقہی مباحث بھی زیر بحث آئیں، معاملات اور آداب معاشرت بھی اور سیر صحابہ بھی۔ صرف عبادات سے متعلق فقہی مباحث کو بہت طول دے کر معاملات اور آداب معاشرت سے متعلق ذخیرہ کو نظر انداز کرنا طلبہ میں تزکیہ وتربیت کے فقدان کا باعث بنتا ہے۔ ان مباحث کے علاوہ فضائل صحابہ اور آداب معاشرت ومعاملات پر بھی اچھی طرح بحث کی جائے تاکہ طلبہ عملی زندگی کے حوالے سے اس ذخیرہ سے خاطر خواہ استفادہ کر سکیں۔ بلاشبہ کتب حدیث نصاب کا ایک اہم جزو ہیں مگر ان کے مباحث سے تیز رفتاری کے ساتھ گزر جانے کے بجائے مباحث کے مکمل استیعاب کا اہتمام ہونا چاہیے۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
بخدمت گرامی قدر مخدوم گرامی حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب مدظلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
احقر ایک اہم تحریری کام کی وجہ سے بہت سے دوسرے اہم کاموں کو نظر انداز کیے ہوئے ہے، لیکن الشریعہ کے تازہ شمارہ نے اس اہم تحریری کام کو بھی رکھ چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ غیر مربوط طور پر چند امور، جو ہر وقت ذہن میں کھٹکتے رہتے ہیں، پیش خدمت ہیں:
۱۔ اسلامی اور فکری محاذ پر درد دل رکھنے والے حضرات کی ایک مکمل ڈائریکٹری مرتب ہونی چاہیے۔ اس ڈائریکٹری میں خصوصی طور پر ان حضرات کا ذکر ہو جو تحریری کام کرتے رہتے ہیں۔ تقریریں کرنے والوں کی کمی نہیں۔ ان کا ذکر کرنا نہ کرنا برابر ہوگا۔ احقر ایسے بے سروسامان جو واقفیت بیس تیس سال کے عرصہ میں حاصل کریں گے، بہت کم وقت میں حاصل ہو جائے گی اور خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔ یہ کام آپ گوجرانوالہ کے کسی صاحب علم وصاحب درد دل سے اپنی زیر نگرانی ضرور کروائیں۔
۲۔ علماء کرام کو معاشی، سیاسی، علمی وادبی میدانوں میں جن امور پر کام کرنے کی ضرورت ہے، ان امور کا ایک انڈیکس کتابی شکل میں یا کم از کم الشریعہ کے ایک خاص نمبر کی صورت میں معرض وجود میں لانے کی ضرورت ہے۔ مغربی افکار کی یلغار کی صورتیں، طریق کار، ان کی وسعت اور جوابی طور پر اسلامی افکار کے ساتھ مغرب کے مقابلہ کرنے کا طریق، یہ سب امور اس کتاب یا خاص نمبر میں درج ہونے چاہییں۔ ’کیفما اتفق‘ طریقہ پر کام کرنے کی روش بدلنے کے لیے ذہن سازی کی ضرورت ہے اور ذہن سازی کے لیے مذکورہ امور پر مشتمل کتب درکار ہیں۔
۳۔ نمبر ۲ میں مذکور امور میں سے بہت سے امور آپ اپنے کالموں میں ذکر فرماتے رہتے ہیں۔ آپ موضوعات کے اعتبار سے اپنے کالموں کو جمع کر کے شائع کرا دیں۔ شائع کرانا آپ کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ احقر ایسے مبتدی حضرات کے لیے یہ مجموعہ جات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ اس طرف فوری توجہ دیں۔
۴۔ الشریعہ اکیڈمی کی لائبریری کو دو حصوں میں تقسیم کریں۔ ایک سالہ کورس کرنے والے علماء کرام سے متعلقہ حصہ الگ ہو اور اساتذہ کرام کا حصہ الگ ہو۔ نیز لائبریری میں تاریخ، اسلامیات، نفسیات، معاشیات، سیاسیات، سوشیالوجی وغیرہ موضوعات کی ایم اے کی کتب جو اردو میں ہوں، ان کے مکمل نصاب موجود ہونے چاہییں۔ وسعت نظر کے لیے یہ ایک ضروری امر ہے۔
۵۔ برصغیر پاک وہند میں اسلامی وغیر اسلامی افکار کے دفاع میں کام کرنے والوں کے مثبت ومنفی کارہائے زندگی پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا مجموعہ ہو جس سے بیک نظر سب کچھ معلوم ہو جائے کہ کن لوگوں نے اسلامی افکار کے دفاع میں اور کن لوگوں نے غیر اسلامی افکار کے دفاع میں کام کیا ہے، اور ان کے کاموں کی مختصر وجامع تفصیل بھی درج ہو۔ ہے کوئی مرد میداں جو یہ کام کر سکے؟
حضرت والا! زمانہ جس تیزی سے گزر رہا ہے، معاشی ومعاشرتی ضروریات جس طرح اپنے پاؤں پھیلا رہی ہیں، لہوولعب کے ذرائع جس تیزی سے لوگوں کو مسخر کر رہے ہیں، ان حالات میں وسعت مطالعہ ممکن نہیں رہی بلکہ نوجوان نسل سے مطالعہ کا شوق ہی ختم ہو رہا ہے۔ مثلاً احقر کم از کم دس سال سے مدرسہ نصرۃ العلوم سمیت ملک کے اہم دینی اداروں کے کتب خانے اور اہم سرکاری لائبریریاں دیکھنے اور ان سے استفادہ کرنے کا آرزو مند ہے۔ پڑھنا تو درکنار، دیکھنے کی بھی حالات اجازت نہیں دے رہے۔ لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا۔
۶۔ ہمارے دیوبندی مکتبہ فکر میں ایک طبقہ جماعت اسلامی کی طرف سے چھپنے والی ہر کتاب کو نفرت سے دیکھتا ہے۔ یہ نفرت ’’خلافت وملوکیت‘‘ کا رد عمل ہے، لیکن جماعت اسلامی کے اداروں کی طرف سے چھپنے والی ہر چیز کو ہی ’’خلافت وملوکیت‘‘ کا عکس سمجھ لینا غلو اور غلط ہے۔ ’خذ ما صفا ودع ما کدر‘ پر عمل کرنا چاہیے۔ احقر کہنا یہ چاہتا ہے کہ اس خط میں ذکر کیے گئے امور پر جماعت اسلامی کے مختلف اداروں کی مطبوعات بھی حیرت انگیز طور پر ممد ومعاون ثابت ہو سکتی ہیں۔
جی چاہتا ہے کہ ’الشریعہ‘ میں ہر ماہ کچھ نہ کچھ لکھا کروں لیکن ع ’’یک حرف کاشکے صد جانوشتہ ایم‘‘ والا معاملہ ہے۔ احقر آپ سے اور الشریعہ کے تمام قارئین کرام سے دعاؤں کا ملتجی ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کا حامی وناصر ہو۔
والسلام
آپ کا نیاز مند
مشتاق احمد عفی عنہ
جامعہ عربیہ ، چنیوٹ
۱۸ محرم الحرام ۱۴۲۵ھ
(۲)
گرامی قدر جناب ابو عمار زاہد الراشدی صاحب زاد مجدہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ مزاج بخیر ہوں گے اور دعوت وتعلیم کی سرگرمیوں میں کوشاں ہوں گے۔
ماہنامہ ’الشریعہ‘ باقاعدگی سے موصول ہو رہا ہے اور علم وفکر کا سامان تازہ کر رہا ہے۔ اس کے علمی وفکری مضامین ذہن وقلب کو جلا بخشتے ہیں۔
اس وقت مارچ ۲۰۰۴ء کا شمارہ پیش نظر ہے۔ آپ کے خاص سلسلہ ’’حالات وواقعات‘‘ کے تحت خورشید احمد ندیم کا مضمون ’’جہادی حکمت عملی: مثبت اور منفی پہلو‘‘ پڑھا۔ نیز اس پر آپ کا تبصرہ بھی ملاحظہ ہوا۔ اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ فکری مغالطے پیدا کرنے والے لوگ ہر دور میں رہے ہیں، تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی فکر اور سوچ کا تعاقب کیا جائے۔ خورشید احمد ندیم ماضی قریب کے حوالے سے قومی وملی سطح پر جس طرح ملت کے طرز عمل پر تنقید بلکہ اس کو غلط ثابت کرنے پر دلائل کا سہارا لے رہے ہیں اور کشمیر ودیگر معاملات پر ’سجدۂ سہو‘ کی تلقین کر رہے ہیں، یہ چشم کشا ہے۔ اہل قلم کی ذمہ داری ہے کہ امت کے سامنے صحیح اور متوازن نقطہ نظر پیش کیا جائے۔ آپ نے گویا اہل قلم کی طرف سے کفارہ ادا کیا ہے۔ تاہم ایسے سوالات کے بارے میں سوچنا اہل قلم ودانش کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
والسلام
(ڈاکٹر) محمد عبد اللہ
ادارۂ علوم اسلامیہ 
جامعہ پنجاب، لاہور
(۳)
محترم مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ ورعاہ 
السلام علیکم
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے لیے شکر گزار ہوں۔ نازک سا ہلکا پھلکا ماہنامہ ہے مگر مندرجات قیمتی، تزیین سادہ اور افادیت بہت زیادہ۔ میں اس کا باقاعدہ مگر ادنیٰ سا قاری ہوں۔ بہت فائدہ ہوتا ہے۔ ویسے میں آنے والی ہر کتاب اور رسالہ کو بغور دیکھتا اور پھر پڑھتا ہوں اور یہ ضروری ہے۔ میرے استاذ گرامی مولانا عبد العزیز میمن رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ہر شے کی زکوٰۃ ہوتی ہے اور کتاب کی زکوٰۃ یہ ہے کہ اسے پڑھا جائے۔
تازہ شمارہ - مارچ ۲۰۰۴ء- میں ورک صاحب کا مقالہ ’’پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ ‘‘ بہت مفید اور اس کی اشاعت قابل تحسین ہے۔ اس قسم کی کوششیں علماے اہل سنت - بریلوی، دیوبندی- کو قریب لا کر امت کے اتحاد واتفاق کے لیے بہت ضروری ہیں اور پیر صاحب جیسے اعتدال پسند بلکہ منصف مزاج اہل علم کا احترام، قدر شناسی اور عزت افزائی نہایت قابل تحسین ہے۔ جزاکم اللہ خیراً۔
آپ کے سفر بنگلہ دیش کی روداد بھی بہت دل چسپ، معلومات افزا اور یادوں کو تازگی عطا کرنے والی عالمانہ سعی مشکور ہے۔ بارک اللہ فیکم واعانکم وسدد خطاکم۔
بصد احترام، ہدیہ نیاز گزار
ظہور احمد اظہر
10/3/04
سابق صدر شعبہ عربی/پرنسپل اورئنٹل کالج
پنجاب یونیورسٹی وسابق ممبر PPSC لاہور

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’خطبات شورش‘‘

آغا شورش کاشمیریؒ کا شمار برصغیر کے نامور خطبا میں ہوتا ہے جنھوں نے خطابت کی رزم گاہ میں خطابت کی جولانیاں دکھائیں اور اس خطہ کے لوگوں کو حریت کے جذبہ سے روشناس کرایا۔ ان کے خطبات کا ایک مجموعہ جناب شیخ حبیب الرحمن بٹالوی نے مرتب کیا ہے اور احرار فاؤنڈیشن لاہور نے اسے شائع کیا ہے۔ اس مجلد مجموعہ کی ضخامت سوا تین سو صفحات سے زائد ہے اور اس کی قیمت ۲۰۰ روپے ہے۔

’’اقبال اور قادیانیت‘‘

محترم پروفیسر خالد شبیر احمد نے قادیانیت کے بارے میں علامہ اقبالؒ کے افکار وتعلیمات اور اس سلسلے میں ایک عرصہ سے چلی آنے والی بحث کو آج کی نئی نسل کے لیے ازسرنو جامع انداز میں مرتب کیا ہے اور اس سلسلے میں مختلف شکوک وشبہات کا جواب دیا ہے۔
دو سو سے زائد صفحات کی یہ مجلد کتاب بھی احرار فاؤنڈیشن پاکستان نے شائع کی ہے۔

ماہنامہ ’’القاسم‘‘ کا تعلیم وتربیت نمبر

جامعہ ابو ہریرہ کے ترجمان ماہنامہ ’’القاسم‘‘ نے تعلیم وتربیت کے مختلف مسائل پر ایک خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا ہے جو مختلف اہل علم کی گراں قدر نگارشات پر مشتمل ہے۔ 

’’بزم منور‘‘ (جلد ۶)

مرکزی جامع مسجد بالہم لندن کے خطیب مولانا منور حسین سورتی کے دروس وخطبات اور افادات کو جامعہ ابو ہریرہؓ کے حافظ محمد قاسم مرتب کر رہے ہیں اور یہ اس کی چھٹی جلد ہے جو تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے اور اس مجلد کتاب کی قیمت درج نہیں ہے۔

’’ماں کی عظمت‘‘

شاہی مسجد سرائے عالمگیر ضلع گجرات کے خطیب مولانا جمیل احمد بالاکوٹی نے ماں کی عظمت کے بارے میں قرآن کریم کی آیات، جناب نبی اکرم ﷺ کے فرمودات، بزرگوں کے ارشادات اور نصیحت آموز واقعات کے ذریعے معلومات کا ایک اچھا ذخیرہ مرتب کر دیا ہے جو آج کے دور میں خاص طور پر مفید ہے جبکہ ماں باپ اور بزرگوں کی خدمت واحترام کی معاشرتی اقدار مغرب کی ثقافتی یلغار کی زد میں ہیں۔ ڈیڑھ سو سے زائد صفحات کے اس کتابچہ کی قیمت ۶۰ روپے ہے اور اسے بک کارنر، مین بازار جہلم سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

مسجد اقصیٰ، یہود اور امت مسلمہ ۔ تنقیدی آراء کا جائزہ

محمد عمار خان ناصر

اس مضمون کی اردو کمپوزنگ دستیاب نہیں ہے اس لیے فی الوقت اسے یونیکوڈ فارمیٹ میں مہیا نہیں کیا جا رہا۔ پرانی ویب سائیٹ کے فارمیٹ میں یہ مضمون دیکھنے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں۔ 
http://old.alsharia.org/mujalla/2004/apr-may/aqsa3_ammar

جون ۲۰۰۴ء

اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور ہمارے دینی مراکز کی ذمہ داریمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
انسانی حقوق کا عالمی منشورادارہ
دین اسلام کی معاشرتی ترویج میں آرٹ کی اہمیتپروفیسر میاں انعام الرحمن
قومی نصاب تعلیم کے فکری اور نظریاتی خلاڈاکٹر خورشید حسنین
SDPI کی رپورٹ کا ایک جائزہپروفیسر میاں انعام الرحمن
تعارف و تبصرہادارہ
الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام تعلیمی و مطالعاتی دورہادارہ
الشریعہ اکادمی کی لائبریری کے لیے ہدیہ کتبادارہ
حضرت داؤد علیہ السلام اور حج بیت اللہ کی آرزوادارہ

اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور ہمارے دینی مراکز کی ذمہ داری

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اقوام متحدہ کا ’’انسانی حقوق کا چارٹر‘‘ الشریعہ کے زیر نظر شمارے میں شائع کیا جا رہا ہے۔ یہ اردو ترجمہ اقوام متحدہ کی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے اور یہ چارٹر کا سرکاری ترجمہ ہے۔ اقوام متحدہ کے اس چارٹر کو آج کی دنیا میں بین الاقوامی دستور کا درجہ حاصل ہے اور کم وبیش تمام ممالک نے اس پر دستخط کر کے اس کی پابندی کا عہد کر رکھا ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس پر دستخط کرنے والے تمام ممالک نے یہ پابندی قبول کی ہوئی ہے کہ وہ اپنے اپنے ملک میں دستور وقانون کے نفاذ اور ملکی نظام کو چلاتے وقت اس معاہدہ کا لحاظ رکھیں گے اور اپنے باشندوں کو وہ تمام حقوق دیں گے جن کا اس چارٹر میں ذکر کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے تحت انسانی حقوق کا کمیشن اور دیگر بہت سے بین الاقوامی ادارے اس چارٹر کے حوالے سے دنیا بھر کی صورت حال کا جائزہ لیتے رہتے ہیں اور ہر سال مختلف رپورٹیں منظر عام پر آتی ہیں جن میں یہ بتایا جاتا ہے کہ دنیا کے کون کون سے ممالک میں ان حقوق کی کس حد تک خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ان رپورٹوں کی بنیاد پر بیشتر ممالک اور عالمی ادارے متعلقہ ملکوں کے بارے میں اپنی پالیسیوں کی ترجیحات قائم کرتے ہیں اور ان کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرتے رہتے ہیں۔ مسلم ممالک اور پاکستان کے بارے میں بھی یہ رپورٹیں ہر سال جاری ہوتی ہیں اور ان میں نہ صرف واقعات کے حوالے سے اس چارٹر کی مختلف دفعات کی خلاف ورزی کی نشان دہی کی جاتی ہے بلکہ ملک میں نافذ ایسے قوانین کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے جو رپورٹ جاری کرنے والے اداروں کے خیال میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی خلاف ورزی تصور کیے جاتے ہیں۔
اسی چارٹر کے حوالے سے متعدد اسلامی احکام وقوانین پر مسلسل تنقید ہوتی رہتی ہے اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چونکہ یہ اسلامی قوانین واحکام اقوام متحدہ کے منشور کے منافی ہیں اور بین الاقوامی معاہدہ کی خلاف ورزی پر مبنی ہیں اس لیے ان احکام وقوانین کو نافذ نہیں ہونا چاہیے اور اگر کسی ملک میں یہ اسلامی احکام وقوانین نافذ ہیں تو انھیں انسانی حقوق کے مذکورہ بالا چارٹر کی روشنی میں ختم یا تبدیل کر دینا چاہیے۔ اسی بنیاد پر اسلامی نظام اور شرعی قوانین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آج کے عالمی حالات سے ہم آہنگ نہیں ہیں، دور جدید کے تقاضے پورے نہیں کرتے اور مستقبل کی گلوبل اور عالمی سوسائٹی کے ساتھ چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ اعتراضات صرف غیر مسلم اداروں اور لابیوں کی طرف سے نہیں ہوتے بلکہ متعدد مسلم ادارے اور دانش ور بھی بین الاقوامی معاہدہ کی پابندی اور عالمی برادری کے ساتھ ہم آہنگی کے نام پر اس قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ہزاروں این جی اوز اس وقت اس ایجنڈے پر عالم اسلام کے مختلف ممالک میں مصروف عمل ہیں اور مسلمان نوجوانوں اور عورتوں کو ان حقوق کے عنوان سے اسلامی شریعت اور احکام وقوانین کے خلاف ورغلانے کے لیے سرگرمی سے کام کر رہے ہیں۔ ہم نے اس سلسلے میں متعدد علمی ودینی مراکز کو توجہ دلائی ہے اور ایک عرصہ سے اس ضمن میں آواز بلند کر رہے ہیں کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کا اس طور پر تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کون کون سے اسلامی احکام وقوانین اس کی کون کون سی دفعات کی زد میں آتے ہیں اور شریعت اسلامیہ کا اس چارٹر کے ساتھ کہاں کہاں ٹکراؤ ہے۔ ظاہر بات ہے کہ مابہ النزاع امور کی نشان دہی ہوگی تو اسلامی احکام وقوانین پر کیے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لیا جا سکے گا اور ان کا جواب بھی دیا جا سکے گا، مگر ہمیں افسوس ہے کہ مسلسل چیخ پکار کے باوجود ہمارے بڑے علمی ودینی مراکز اس طرف متوجہ نہیں ہو رہے بلکہ بعض اہم علمی اداروں نے ہماری درخواست کے جواب میں لکھا ہے کہ انھیں اس کام کی کوئی ضرورت اور افادیت محسوس نہیں ہوتی اس لیے وہ اس سلسلے میں کسی پیش رفت سے قاصر ہیں۔ چنانچہ اس بارے میں اپنا فرض سمجھتے ہوئے ملک کے تمام علمی ودینی مراکز سے عمومی اتمام حجت کے طور پر ہم یہ گزارش کر رہے ہیں کہ وہ اس صورت حال کا نوٹس لیں اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے مذکورہ چارٹر کا، جو اس وقت بین الاقوامی دستور کے طور پر دنیا بھر میں نافذ ہے اور بین الاقوامی معاہدہ کی حیثیت سے اس کی پابندی تمام ممالک پر لازم ہے، جائزہ لیں اور اس کا گہری سنجیدگی اور باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کر کے اس سلسلے میں اپنی دینی وملی ذمہ داری سے سبک دوش ہوں۔
ہمارے نزدیک اس کے لیے تین مراحل میں کام کرنے کی ضرورت ہے:
پہلے مرحلہ میں اس چارٹر کا دفعہ وار تفصیلی مطالعہ کر کے ان اسلامی احکام وقوانین کی نشان دہی کی جائے جو اس منشور کی زد میں آتے ہیں اور جن پر اس حوالے سے اعتراضات کیے جاتے ہیں۔
دوسرے مرحلے میں تقابلی مطالعہ کے ساتھ اسلامی احکام وقوانین کی صحت وبرتری کی وضاحت کی جائے اور نہ صرف عقلی ونقلی بلکہ معروضی دلائل کے ساتھ اسلامی احکام وقوانین کی افادیت اور ضرورت کو ثابت کیا جائے۔
تیسرے مرحلے میں اسلامی دستور کے لیے تمام مکاتب فکر کے سرکردہ ۳۱ علماے کرام کے مرتب کردہ ۲۲ دستوری نکات کی طرز پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انسانی حقوق کا ایسا جامع چارٹر مرتب کرنے کی ضرورت ہے جسے اقوام متحدہ کے مذکورہ چارٹر کے متبادل کے طور پر پیش کیا جا سکے اور جسے ۲۲ دستوری نکات کی طرح تمام مکاتب فکر کے اکابر علماے کرام کی تصدیق حاصل ہو۔ اس پر بحث کی تمہید اور گفتگو کے آغاز کے طور پر ہم اقوام متحدہ کے چارٹر کے حوالے سے ان چند اسلامی احکام وقوانین کی نشان دہی کر رہے ہیں جن پر اس منشور کی بنیاد پر اعتراضات سامنے آ رہے ہیں اور جن پر اس وقت عالمی سطح پر گفتگو اور بحث ومباحثہ کا سلسلہ جاری ہے۔

عورتوں کے امتیازی قوانین

اس منشور کی تمہید میں مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات کا بطور عقیدہ ذکر کیا گیا ہے اور اسی حوالے سے دنیا بھر میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان ہر شعبہ میں برابری اور مساوات قائم کی جائے اور کوئی ایسا قانو ن نافذ نہ کیا جائے جو عورتوں کے حوالے سے امتیازی حیثیت رکھتا ہو۔ اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے جو اسلامی احکام امتیازی قوانین قرار پاتے ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:
  • اسلام میں حکمرانی کا حق صرف مردوں کے لیے مخصوص ہے۔
  • پبلک مقامات پر عورتوں اور مردوں کے آزادانہ میل جول کی ممانعت ہے۔
  • دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے۔
  • وراثت میں مردوں اور عورتوں کے حصوں میں فرق ہے۔
  • عورتوں کے لیے طلاق کا حق تسلیم نہیں کیا گیا۔

غلامی کا مسئلہ

انسانی حقوق کے مذکورہ چارٹر کی دفعہ ۴ میں کہا گیا ہے کہ:
’’کوئی شخص غلام یا لونڈی بنا کر نہ رکھا جا سکے گا، غلامی اور بردہ فروشی چاہے اس کی کوئی بھی شکل ہو، ممنوع قرار دی جائے گی۔‘‘
اس دفعہ کے حوالے سے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ جب مسلم حکومتیں بین الاقوامی معاہدے کی رو سے غلامی کو ختم کرنے کا عہد کر چکی ہیں تو پھر اسلامی ممالک میں قرآن کریم، احادیث نبوی اور فقہ اسلامی سے غلامی کے احکام کو خارج کیوں نہیں کیا جا رہا اور دینی مدارس میں ان مسائل واحکام کی مسلسل تعلیم کیوں دی جا رہی ہے؟

شرعی حدود کا مسئلہ

دفعہ ۵ میں کہا گیا ہے کہ:
’’کسی شخص کو جسمانی اذیت یا ظالمانہ سلوک، انسانیت سوز، ذلیل سلوک یا سزا نہیں دی جائے گی۔‘‘
اس دفعہ کی رو سے کسی بھی سزا کا جسمانی اذیت اور تذلیل سے خالی ہونا ضروری ہے جبکہ ہاتھ کاٹنا، سنگسار کرنا، کوڑے مارنا اور سرعام سزا دینا وغیرہ جسمانی اذیت اور تذلیل پر مشتمل سزائیں ہیں۔ اسی بنا پر ان سزاؤں کو وحشیانہ کہا جاتا ہے اور انھیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے۔

خاندانی قوانین

دفعہ ۱۶ میں کہا گیا ہے کہ:
’’بالغ مردوں اور عورتوں کو بغیر کسی ایسی پابندی کے جو نسل، قومیت یا مذہب کی بنا پر لگائی جائے، شادی بیاہ کرنے اور گھر بسانے کا حق ہے، مردوں اور عورتوں کو نکاح، ازدواجی زندگی اور نکاح کو فسخ کرنے کے معاملے میں برابر کے حقوق حاصل ہیں۔‘‘
اس دفعہ کی رو سے مندرجہ ذیل احکام انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار پاتے ہیں:
  • کم سنی کے نکاح کا جواز
  • غیر مسلموں کے ساتھ شادی نکاح کی ممانعت
  • کفو اور ولایت کے تمام احکام
  • عورت کے لیے طلاق کا حق تسلیم نہ کرنا۔ اور
  • خاندانی ماحول میں مرد کا حاکم ہونا۔

آزادی مذہب

دفعہ ۱۸ اور دفعہ ۱۹ میں رائے کی آزادی، مذہب کی آزادی، مذہب تبدیل کرنے کا حق، اپنی رائے کے آزادانہ اظہار کا حق اور اس کے لیے دعوت وتبلیغ کا حق ہر شخص کا بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے اور اس کی رو سے ارتداد کی شرعی سزا، توہین مذہب اور توہین رسالت کی سزا، غیر مسلموں کا مسلم معاشرہ میں اپنے مذہب کی تبلیغ سے روکنا، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا اور امتناع قادیانیت آرڈی ننس وغیرہ سب انسانی حقوق کی خلاف ورزی شمار ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے عالمی حلقوں اور لابیوں کی تنقید کا مسلسل نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ 
یہ چند امور بطور نمونہ عرض کیے گئے ہیں تاکہ اس انداز سے انسانی حقوق کے چارٹر کا تفصیلی مطالعہ کیا جا سکے۔ یہ ضروری نہیں کہ اس چارٹر کی ہر بات کی مخالفت کی جائے۔ اس میں بہت سی باتیں درست ہیں اور ان سے اختلاف کی گنجائش نہیں ہے لیکن جو امور متنازعہ ہیں اور جن کی بنا پر بہت سے اسلامی احکام وقوانین کی مخالفت کی جا رہی ہے بلکہ مسلم ممالک اور حکومتوں پر ان کے خاتمہ کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے، ان کی نشان دہی اور ان کے بارے میں مسلمانوں کا علمی موقف سامنے لانا بہرحال ہماری دینی وملی ذمہ داری ہے۔ امید ہے کہ تمام علمی ودینی مراکز اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں گے اور اسلام کی نمائندگی وترجمانی کا فرض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی نئی نسل کی علمی وفکری راہ نمائی کی ذمہ داری سے بھی سبک دوش ہوں گے۔

انسانی حقوق کا عالمی منشور

ادارہ

Adopted and proclaimed by General Assembly resolution 217 A (III) of 10 December 1948.
On December 10, 1948 the General Assembly of the United Nations adopted and proclaimed the Universal Declaration of Human Rights the full text of which appears in the following pages. Following this historic act the Assembly called upon all member countries to publicize the text of the Declaration and "to cause it to be disseminated, displayed, read and expounded principally in schools and other educational institutions, without distinction based on the political status of countries or territories."

تمہید

  • چونکہ ہر انسان کی ذاتی عزت اور حرمت اور انسانوں کے مساوی اور ناقابل انتقال حقوق کو تسلیم کرنا دنیا میں آزادی، انصاف اور امن کی بنیاد ہے۔
  • چونکہ انسانی حقوق سے لاپروائی اور ان کی بے حرمتی اکثر ایسے وحشیانہ افعال کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے جن سے انسانیت کے ضمیر کو سخت صدمے پہنچے ہیں اور عام انسانوں کی بلند ترین آرزو یہ رہی ہے کہ ایسی دنیا وجود میں آئے جس میں تمام انسانوں کو اپنی بات کہنے اور اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی آزادی حاصل ہو اور خوف اور احتیاج سے محفوظ رہیں۔
  • چونکہ یہ بہت ضروری ہے کہ انسانی حقوق کو قانون کی عمل داری کے ذریعے محفوظ رکھا جائے، اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ انسان عاجز آکر جبر اور استبداد کے خلاف بغاوت کرنے پر مجبور ہوں۔
  • چونکہ یہ ضروری ہے کہ قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو بڑھایا جائے۔
  • چونکہ اقوام متحدہ کی ممبر قوموں نے اپنے چارٹر میں بنیادی انسانی حقوق، انسانی شخصیت کی حرمت اور قدر اور مردوں اور عورتوں کے مساوی حقوق کے بارے میں اپنے عقیدے کی دوبارہ تصدیق کر دی ہے اور وسیع تر آزادی کی فضا میں معاشرتی ترقی کو تقویت دینے اور معیار زندگی کو بلند کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔
  • چونکہ ممبر ملکوں نے یہ عہد کر لیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے اشتراک عمل سے ساری دنیا میں اصولاً اور عملاً انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا زیادہ سے زیادہ احترام کریں گے اور کرائیں گے۔
  • چونکہ اس عہد کی تکمیل کے لیے بہت ہی اہم ہے کہ ان حقوق اور آزادیوں کی نوعیت کو سب سمجھ سکیں۔ 

لہٰذا جنرل اسمبلی اعلان کرتی ہے کہ انسانی حقوق کا یہ عالمی منشور تمام اقوام کے واسطے حصول مقصد کا مشترک معیار ہوگا تاکہ ہر فرد اور معاشرے کا ہر ادارہ اس منشور کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہوئے تعلیم وتبلیغ کے ذریعے ان حقوق اور آزادیوں کا احترام پیدا کرے اور انھیں قومی اور بین الاقوامی کارروائیوں کے ذریعے ممبر ملکوں میں اور ان قوموں میں جو ممبر ملکوں کے ماتحت ہوں، منوانے کے لیے بتدریج کوشش کر سکے۔

دفعہ ۱

تمام انسان آزاد اور حقوق وعزت کے اعتبار سے برابر پیدا ہوئے ہیں۔ انھیں ضمیر اور عقل ودیعت ہوئی ہے۔ اس لیے انھیں ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کا سلوک کرنا چاہیے۔

دفعہ ۲

(۱) ہر شخص ان تمام آزادیوں اور حقوق کا مستحق ہے جو اس اعلان میں بیان کیے گئے ہیں اور اس حق پر نسل، رنگ، جنس، زبان، مذہب اور سیاسی تفریق کا یا کسی قسم کے عقیدے، قوم، معاشرے، دولت یا خاندانی حیثیت وغیرہ کا کوئی اثر نہ پڑے گا۔
(۲) اس کے علاوہ جس علاقے یا ملک سے جو شخص تعلق رکھتا ہے، اس کی سیاسی کیفیت، دائرۂ اختیار یا بین الاقوامی حیثیت کی بنا پر اس سے کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا، چاہے وہ ملک یا علاقہ آزاد ہو یا تولیتی ہو یا غیر مختار ہو یا سیاسی اقتدار کے لحاظ سے کسی دوسری بندش کا پابند ہو۔

دفعہ ۳

ہر شخص کو اپنی جان، آزادی اور ذاتی تحفظ کا حق ہے۔

دفعہ ۴

کوئی شخص غلام یا لونڈی بنا کر نہ رکھا جا سکے گا۔ غلامی اور بردہ فروشی، چاہے اس کی کوئی شکل بھی ہو، ممنوع قرار دی جائے گی۔

دفعہ ۵ 

کسی شخص کو جسمانی اذیت یا ظالمانہ، انسانیت سوز یا ذلیل سلوک یا سزا نہیں دی جائے گی۔

دفعہ ۶ 

ہر شخص کا حق ہے کہ ہر مقام پر قانون اس کی شخصیت کو تسلیم کرے۔

دفعہ ۷ 

قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور سب بغیر کسی تفریق کے قانون کے اندر امان پانے کے برابر کے حق دار ہیں۔ اس اعلان کے خلاف جو تفریق کی جائے یا جس تفریق کے لیے ترغیب دی جائے، اس سے سب برابر کے بچاؤ کے حق دار ہیں۔

دفعہ ۸

ہر شخص کو ان افعال کے خلاف جو اس دستور یا قانون میں دیے ہوئے بنیادی حقوق کو تلف کرتے ہوں، بااختیار قومی عدالتوں سے موثر طریقے پر چارہ جوئی کرنے کا پورا حق ہے۔

دفعہ ۹

کسی شخص کو محض حاکم کی مرضی پر گرفتار، نظر بند یا جلاوطن نہیں کیا جائے گا۔

دفعہ ۱۰

ہر ایک شخص کو یکساں طور پر حق حاصل ہے کہ اس کے حقوق وفرائض کا تعین یا اس کے خلاف کسی عائد کردہ جرم کے بارے میں مقدمہ کی سماعت آزاد اور غیر جانب دار عدالت کے کھلے اجلاس میں منصفانہ طریقے پر ہو۔

دفعہ ۱۱

(۱) ایسے ہر شخص کو جس پر کوئی فوجداری کا الزام عائد کیا جائے، بے گناہ شمار کیے جانے کا حق ہے تاوقتیکہ اس پر کھلی عدالت میں قانون کے مطابق جرم ثابت نہ ہوجائے اور اسے اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا موقع نہ دیا جا چکا ہو۔
(۲) کسی شخص کو کسی ایسے فعل پر فروگزاشت کی بنا پر جو ارتکاب کے وقت قومی یا بین الاقوامی قانون کے اندر تعزیری جرم شمار نہیں کیا جاتا تھا، کسی تعزیری جرم میں ماخوذ نہیں کیا جائے گا۔

دفعہ ۱۲ 

کسی شخص کی نجی زندگی، خانگی زندگی، گھر بار، خط وکتابت میں من مانے طریقے پر مداخلت نہ کی جائے گی اور نہ ہی اس کی عزت اور نیک نامی پر حملے کیے جائیں گے۔ ہر شخص کا حق ہے کہ قانون اسے حملے یا مداخلت سے محفوظ رکھے۔

دفعہ ۱۳ 

(۱) ہر شخص کا حق ہے کہ اسے ہر ریاست کی حدود کے اندر نقل وحرکت کرنے اور سکونت اختیار کرنے کی آزادی ہو۔
(۲) ہر شخص کو اس بات کا حق ہے کہ وہ ملک سے چلا جائے، چاہے یہ ملک اس کا اپنا ہو۔ اور اسی طرح اسے ملک میں واپس آجانے کا بھی حق ہے۔

دفعہ ۱۴

(۱) ہر شخص کو ایذا رسانی سے دوسرے ملکوں میں پناہ ڈھونڈنے، اور پناہ مل جائے تو اس سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے۔
(۲) یہ حق ان عدالتی کارروائیوں سے بچنے کے لیے استعمال میں نہیں لایا جا سکتا جو خالصاً غیر سیاسی جرائم یا ایسے افعال کی وجہ سے عمل میں آتی ہیں جو اقوام متحدہ کے مقاصد اور اصول کے خلاف ہیں۔

دفعہ ۱۵

(۱) ہر شخص کو قومیت کا حق ہے۔
(۲) کوئی شخص محض حاکم کی مرضی پر اپنی قومیت سے محروم نہیں کیا جائے گا اور اس کو قومیت تبدیل کرنے کا حق دینے سے انکار نہ کیا جائے گا۔

دفعہ ۱۶

(۱) بالغ مردوں اور عورتوں کو بغیر کسی ایسی پابندی کے جو نسل، قومیت یا مذہب کی بنا پر لگائی جائے، شادی بیاہ کرنے اور گھر بسانے کا حق ہے۔ مردوں اور عورتوں کو نکاح، ازدواجی زندگی اور نکاح کو فسخ کرنے کے معاملہ میں برابر کے حقوق حاصل ہیں۔
(۲) نکاح فریقین کی پوری اور آزاد رضامندی سے ہوگا۔
(۳) خاندان، معاشرے کی فطری اور بنیادی اکائی ہے اور وہ معاشرے اور ریاست دونوں کی طرف سے حفاظت کا حق دار ہے۔

دفعہ ۱۷

(۱) ہر انسان کو تنہا یا دوسروں سے مل کر جائیداد رکھنے کا حق ہے۔
(۲) کسی شخص کو زبردستی اس کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جائے گا۔

دفعہ ۱۸

ہر انسان کو آزادی فکر، آزادی ضمیر اور آزادی مذہب کا پورا حق ہے۔ اس حق میں مذہب یا عقیدے کو تبدیل کرنے اور پبلک میں یا نجی طور پر، تنہا یا دوسروں کے ساتھ مل جل کر عقیدے کی تبلیغ، عمل، عبادت اور مذہبی رسمیں پوری کرنے کی آزادی بھی شامل ہے۔

دفعہ ۱۹

 ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے اور اظہار رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں یہ امر بھی شامل ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنی رائے قائم کرے اور جس ذریعے سے چاہے، ملکی سرحدوں کا خیال کیے بغیر علم اور خیالات کی تلاش کرے، انھیں حاصل کرے اور ان کی تبلیغ کرے۔

دفعہ ۲۰ 

(۱) ہر شخص کو پر امن طریقے پر ملنے جلنے اور انجمنیں قائم کرنے کی آزادی کا حق ہے۔
(۲) کسی شخص کو کسی انجمن میں شامل ہونے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

دفعہ ۲۱

 (۱) ہر شخص کو اپنے ملک کی حکومت میں براہ راست یا آزادانہ طور پر منتخب کیے ہوئے نمائندوں کے ذریعے حصہ لینے کا حق ہے۔
(۲) ہر شخص کو اپنے ملک میں سرکاری ملازمت حاصل کرنے کا برابر کا حق ہے۔
(۳) عوام کی مرضی حکومت کے اقتدار کی بنیاد ہوگی۔ یہ مرضی وقتاً فوقتاً ایسے حقیقی انتخابات کے ذریعے ظاہر کی جائے گی جو عام اور مساوی رائے دہندگی سے ہوں گے اور جو خفیہ ووٹ یا اس کے مساوی کسی دوسرے آزادانہ طریق رائے دہندگی کے مطابق عمل میں آئیں گے۔

دفعہ ۲۲ 

معاشرے کے رکن کی حیثیت سے ہر شخص کو معاشرتی تحفظ کا حق حاصل ہے اور یہ حق بھی کہ وہ ملک کے نظام اور وسائل کے مطابق قومی کوشش اور بین الاقوامی تعاون سے ایسے اقتصادی، معاشرتی اور ثقافتی حقوق کو حاصل کرے جو اس کی عزت اور شخصیت کی آزادانہ نشوونما کے لیے لازم ہیں۔

دفعہ ۲۳

(۱) ہر شخص کو کام کاج، روزگار کے آزادانہ انتخاب، کام کاج کی مناسب ومعقول شرائط اور بے روزگاری کے خلاف تحفظ کا حق ہے۔
(۲) ہر شخص کو کسی تفریق کے بغیر مساوی کام کے لیے مساوی معاوضے کا حق ہے۔
(۳) ہر شخص جو کام کرتا ہے، وہ ایسے مناسب ومعقول مشاہرے کا حق رکھتا ہے جو خود اس کے اور اس کے اہل وعیال کے لیے باعزت زندگی کا ضامن ہو اور جس میں اگر ضروری ہو تو معاشرتی تحفظ کے دوسرے ذریعوں سے اضافہ کیا جا سکے۔
(۴) ہر شخص کو اپنے مفاد کے بچاؤ کے لیے تجارتی انجمنیں قائم کرنے اور اس میں شریک ہونے کا حق حاصل ہے۔

دفعہ ۲۴ 

ہر شخص کو آرام اور فرصت کا حق ہے جس میں کام کے گھنٹوں کی حد بندی اور تنخواہ کے علاوہ مقررہ وقفوں کے ساتھ تعطیلات بھی شامل ہیں۔

دفعہ ۲۵

 (۱) ہر شخص کو اپنی اور اپنے اہل وعیال کی صحت اور فلاح وبہبود کے لیے مناسب معیار زندگی کا حق ہے جس میں خوراک، پوشاک، مکان اور علاج کی سہولتیں اور دوسری ضروری معاشرتی مراعات شامل ہیں اور بے روزگاری، بیماری، معذوری، بیوگی، بڑھاپا یا ان حالات میں روزگار سے محرومی جو اس کے قبضہ قدرت سے باہر ہوں، کے خلاف تحفظ کا حق حاصل ہے۔
(۲) زچہ اور بچہ خاص توجہ اور امداد کے حق دار ہیں۔ تمام بچے خواہ وہ شادی سے پہلے پید اہوئے ہوں یا شادی کے بعد، معاشرتی تحفظ سے یکساں طور پر مستفید ہوں گے۔

دفعہ ۲۶

 (۱) ہر شخص کو تعلیم کا حق ہے۔ تعلیم مفت ہوگی، کم سے کم ابتدائی اور بنیادی درجوں میں۔ ابتدائی تعلیم جبری ہوگی۔ فنی اور پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرنے کا عام انتظام کیا جائے گا اور لیاقت کی بنا پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا سب کے لیے مساوی طور پر ممکن ہوگا۔
(۲) تعلیم کا مقصد انسانی شخصیت کی پوری نشوونما ہوگا اور وہ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے احترام میں اضافہ کرنے کا ذریعہ ہوگی۔ وہ تمام قوموں اور نسلی یا مذہبی گروہوں کے درمیان باہمی مفاہمت، رواداری اور دوستی کو ترقی دے گی اور امن کو برقرار رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کی سرگرمیوں کو آگے بڑھائے گی۔
(۳) والدین کو اس بات کے انتخاب کا اولین حق ہے کہ ان کے بچوں کو کس قسم کی تعلیم دی جائے گی۔

دفعہ ۲۷

(۱) ہر شخص کو قوم کی ثقافتی زندگی میں آزادانہ حصہ لینے، ادبیات سے مستفید ہونے اور سائنس کی ترقی اور اس کے فوائد میں شرکت کا حق حاصل ہے۔
(۲) ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ اس کے ان اخلاقی اور مادی مفادات کا بچاؤ کیا جائے جو اسے ایسی سائنسی، علمی یا ادبی تصنیف سے جس کا وہ مصنف ہے، حاصل ہوتے ہیں۔

دفعہ ۲۸

(۱) ہر شخص ایسے معاشرتی اور بین الاقوامی نظام میں شامل ہونے کا حق دار ہے جس میں وہ تمام آزادیاں اور حقوق حاصل ہو سکیں جو اس اعلان میں پیش کر دیے گئے ہیں۔

دفعہ ۲۹

(۱) ہر شخص پر معاشرے کے حقوق ہیں کیونکہ معاشرے میں رہ کر ہی اس کی شخصیت کی آزادانہ اور پوری نشوونما ممکن ہے۔
(۲) اپنی آزادیوں اور حقوق سے فائدہ اٹھانے میں ہر شخص صرف ایسی حدود کا پابند ہوگا جو دوسروں کی آزادیوں اور حقوق کو تسلیم کرانے اور ان کا احترام کرانے کی غرض سے یا جمہوری نظام میں اخلاق، امن عامہ اور عام فلاح وبہبود کے مناسب لوازمات کو پورا کرنے کے لیے قانون کی طرف سے عائد کیے گئے ہیں۔
(۳) یہ حقوق اور آزادیاں کسی حالت میں بھی اقوام متحدہ کے مقاصد اور اصول کے خلاف عمل میں نہیں لائی جا سکتیں۔

دفعہ ۳۰

اس اعلان کی کسی چیز سے کوئی ایسی بات مراد نہیں لی جا سکتی جس سے ملک، گروہ یا شخص کو کسی ایسی سرگرمی میں مصروف ہونے یا کسی ایسے کام کو انجام دینے کا حق پیدا ہو جس کا منشا ان حقوق اور آزادیوں کی تخریب ہو جو یہاں پیش کی گئی ہیں۔
(http://www.unhchr.ch/udhr/lang/urd.htm)

دین اسلام کی معاشرتی ترویج میں آرٹ کی اہمیت

پروفیسر میاں انعام الرحمن

معاشرے میں چھائی ہوئی ابتری کے پیشِ نظر ہمارے ہاں ایک جملے کی مقبولیت کا گراف مسلسل بلند ہوتا جا رہا ہے۔ وہ مقبولِ عام جملہ یہ ہے کہ ’’لوگ بے دین ہو گئے ہیں ‘‘۔ حالانکہ یہ بات صریحاً غلط ہے، کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ جس سوچ کو دین کا نام دیا جا رہا ہے، وہ دین نہیں ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ وہ دین کی فقط ایک جہت ہے۔ اسی کی وجہ سے معاشرتی ابتری بڑھ رہی ہے نہ یہ کہ بے دینی اس کاسبب ہے۔ 
راقم کی نظر میں ہمارے محترم علما جب بھی دین کی بات کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں حقیقتاً ’’ فقہ‘‘ ہوتی ہے اور فقہ کی بھی جزئیات (۱) یہ ایک عظیم فروگزاشت ہے جو تسلسل سے ہو رہی ہے۔اگر کسی صاحب کو اس بنیادی نکتے سے ہی اختلاف ہو جس پر اس مضمون کی پوری عمارت کھڑی ہے تو گزارش ہے کہ ذرا دینی مدارس کے نصاب اور اس نصاب کو پڑھانے کی ’’اپروچ‘‘ پر سرسری نظر ڈال لیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ فقہ کو دین کے متوازی کھڑا کرنے اور اسی کو دین قرار دینے سے معاشرتی بگاڑآج جن جہتوں پر پنپ رہا ہے ، وہ کسی وقت بھی ان امکانات کو چٹ کر سکتا ہے جو ٹمٹماتے چراغوں کی مانند اب بھی ہمارے باطن میں روشنیاں بکھیر رہے ہیں۔
ہمارے ہاں دین کی غلط تعبیر کی مانند ’عالم‘ کی تعریف بھی غلط کی گئی ہے۔ آج جنھیں ’علما‘ کہا جاتا ہے ، وہ دراصل ’ماہرین فقہ‘ کہلائے جانے کے زیادہ مستحق ہیں (۲)۔ چونکہ ان ’ماہرین فقہ‘ کو علما گردانا جا رہا ہے، اس لیے اس حدیث مبارکﷺ کے مطابق کہ’’علما، انبیا کے وارث ہیں ‘‘ ’ماہرین فقہ‘ کو ہی انبیا کا وارث تسلیم کر لیا گیا ہے۔ یہ بھی قابلِ گرفت فروگزاشت ہے ۔اس حدیثِ مبارک ﷺ میں ’’علما‘‘ جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ یوں نہیں فرمایا گیا کہ ’عالم انبیاء کا وارث ہے ‘ ۔ کیوں ؟ آخر اس میں کیا حکمت ہے ؟ راقم کی محتاط رائے میں جمع کا صیغہ یہ لطیف اشارہ دے رہا ہے کہ کوئی شخص انفرادی حیثیت میں انبیا کی وراثت کے تقاضے نہیں نبھا سکتا کہ انبیا کی شخصیت اور دعوت ہمہ گیر و ہمہ جہت ہوتی ہے ۔جہاں تک رسولِ پاکﷺ کی ذاتِ گرامی اور آپ کی سیرتِ طیبہ کا تعلق ہے ، وہ قرآن مجید، فرقان حمید کی ’’عملی تفسیر‘‘ ہے۔ کون نہیں جانتا کہ قرآن مجید اپنے اندر بے شمار امکانات رکھتا ہے ، بالکل اسی طرح نبی کریم ﷺ کی ذاتِ گرامی بھی بے شمار امکانات کی حامل ہے ۔ لہٰذا اگر ہم ’ماہر فقہ‘ کو عالم تسلیم کر بھی لیں تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا انبیاء کرام کی دعوت (بالخصوص خاتم النبیینﷺ کی دعوت) محض ’’فقہ‘‘ کے گرد گھومتی تھی؟ کیا کوئی ’فقیہ‘سیرت النبی ﷺ میں مضمر امکانات کا احاطہ کر سکتا ہے ؟ یقیناًنہیں۔ تو پھر ضرورت اس امر کی ہے کہ انبیاء کرام کی وراثت کے دعویدار حضرات فقہ کے علاوہ ان دیگر پہلوؤں کو بھی تلاش کریں جو ان کی شخصیت و دعوت میں امتیازی اہمیت رکھتے تھے۔ راقم کی نظر میں قرآن مجید آخری الہامی کتاب ہونے کی حیثیت سے اور محمد مصطفی ﷺ آخری نبی ہونے کی حیثیت سے تما م قسم کے ’’امکانات ‘‘پر حاوی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی پاک ﷺ کی وراثت کے تقاضے نبھانے کے لیے (تصورِ خاتمیت کے تحت) امکانات کو چھونے کی سکت بھی ہو نی چاہیے۔ آخر ان امکانات کو کیسے چھوا جا سکتا ہے ؟ کیا اجتہادی نور کی روشنیوں کے بغیر ایسا ہو سکتا ہے ؟اہم بات یہ ہے کہ اگر ہم لوگ اس مطلوب اجتہادی نور کو نہیں اپناتے ، تو اس کا حقیقت میں یہ مطلب ہو گا کہ ہم لوگ (نعوذ باللہ) دین کے تصورِ خاتمیت سے عملاً منحرف ہیں ، جو ہمارے دین کی امتیازی پہچان ہے اور جس کی وجہ سے ہمارے دین اور سابقہ شریعتوں میں بنیادی فرق ہو تا ہے۔
چونکہ آپ ﷺ کی ذاتِ گرامی ﷺ ’’مثالی نمونہ ‘‘ ہے اس لیے دین کی اس امتیازی صفت یعنی تصورِ خاتمیت سے پھوٹنے والی اجتہادی جہت کی مثال بھی آپ کی سیرت طیبہ سے مل جاتی ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک شخص رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی ، یا رسول اللہ مجھ میں چار بری خصلتیں ہیں۔ ایک یہ کہ بدکار ہوں ، دوسری یہ کہ چوری کرتا ہوں، تیسری یہ کہ شراب پیتا ہوں ، چوتھی یہ کہ جھوٹ بولتا ہوں ۔ ان میں سے جس کو فرمائیے ، آپﷺ کی خاطر چھوڑ دوں ۔ ارشاد فرمایا کہ جھوٹ نہ بولا کرو ۔ چنانچہ اس نے عہد کیا ۔ جب رات ہوئی تو اس کا شراب پینے کو جی چاہا اور پھر بدکاری کے لیے آمادہ ہوا ، تو اس کو خیال گزرا کہ صبح کو جب رسول کریم ﷺ استفسار فرمائیں گے کہ رات تم نے شراب پی اور بدکاری کی تھی؟ تو کیا جواب دوں گا ۔اگر ہاں کہوں تو شراب اور زنا کی سزا دی جائے گی اور اگر نہیں کہوں تو عہد کے خلاف ہو گا ۔ یہ سوچ کر ان دونوں سے باز رہا ۔ جب رات گزری اور اندھیرا چھا گیا تو چوری کے لیے گھر سے نکلنا چاہا۔ پھر اسی خیال نے اس کا دامن تھام لیا کہ کل پوچھ گچھ ہوئی تو کیا کہوں گا ؟ ہاں کہوں گا تو ہاتھ کٹے گا اور نہیں کہتا ہوں تو بد عہدی ہوتی ہے ۔اس خیال کے آتے ہی اس جرم سے باز آ گیا۔ صبح ہوئی تو وہ بار گاہِ رسالتﷺ میں حاضر ہوا اور عرض کی ، یا رسول اللہ ! جھوٹ نہ بولنے سے چاروں بری خصلتیں مجھ سے چھوٹ گئی ہیں ۔یہ سن کر رسول کریم ﷺ بہت مسرور ہوئے ۔ 
اس حدیث مبارک میں مضمر جہانِ حکمت سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبیﷺ کی ذاتِ گرامی کے اس بیش بہا پہلو کو کہ آپﷺ نے چار قباحتوں میں سے بنیادی قباحت کو ’’ایڈریس‘‘ کیا ، جس سے دیگر قباحتوں پر بھی باآسانی قابو پا لیا گیا، آج کے دور میں کیوں پیشِ نظر نہیں رکھا جا رہا؟ کیا اس کا سبب یہ نہیں کہ چونکہ ہمارے علما اصل میں ’ماہر فقہ‘ ہیں، اسی لیے شعورِ نبوت کی پیروی کے بجائے انبیاء کرام کی وراثت کے تقاضوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے خالصتاََ فقہی انداز میں معاملات کو دیکھتے ہیں۔ ان کی نظر جھوٹ کے بجائے دیگر تین معاملات پر زیادہ ہے۔ چوری ، زنا ، شراب اور اسی نوعیت کی دیگر قباحتوں پر انھوں نے دفتروں کے دفتر لکھ ڈالے ہیں ، لیکن جھوٹ پر یوں سمجھیے کہ ایک چھوٹی سی تختی بھی موجود نہیں۔ حالانکہ اس حدیث مبارک ﷺسے صاف مترشح ہوتا ہے کہ جھوٹ باقی قباحتوں کی ’’جڑ‘‘ ہے ۔ پھر ہمارے ہاں معاملات کو ایڈریس کرنے میں یہ افراط و تفریط آخر کیونکر ہے ؟ اس کی وجہ ایک ہی ہے کہ علما، فقہ کے سحر کا شکار ہو کرتصورِ خاتمیت سے دور ہو گئے ہیں۔ان میں اتنی سکت نہیں کہ معاشرتی معاملات کو ’’اجتہادی نظر ‘‘ سے دیکھ سکیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت بھی ہمارے معاشرے میں یہ تمام قباحتیں عروج پر ہیں ۔ عجیب بات یہ ہے کہ علما ابھی تک مصر ہیں کہ شریعت نافذ کی جائے۔ شریعت نہ ہوئی ، جادو کی چھڑی ہو گئی کہ اس کے حرکت میں آتے ہی ’خلافتِ راشدہ‘ کا عہد لوٹ آئے گا۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ جس عہد کی بازیافت چاہتے ہیں ، خود اپنے احوال و ظروف میں اس مثالی عہدکے تصورات کو سمونے کی بجائے(۳) بعد کے تصورات کو لیے بیٹھے ہیں ۔ راقم کی رائے میں تو فقہی انداز میں معاملات کو دیکھنے کا مطلب کچھ ایسے ہی ہے کہ کنویں میں مراہوا کتا موجود ہو ، اور پانی کے چند ڈول باہر پھینک کر یہ کہا جائے کہ ’’کنواں پاک ہو گیا‘‘ ۔اس وقت ہمارے معاشرتی کنو یں میں مرا ہوا کتا ’’جھوٹ‘‘ ہے (۴) سطح پر نظر آنے والے ’’چند مظاہر‘‘ کے ڈول باہر پھینک دینے سے یہ کنواں پاک نہیں ہو گا ۔ اگر مرے ہوئے کتے کو نکال باہر پھینکا جائے ، تو بار بار ڈول نکالنے کا تکلف نہیں کرنا پڑے گا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ مرا ہوا کتا ’’فقیہ‘‘ نکالے گا؟ کیا یہ ’’فقہ‘‘ کا منصب ہے کہ ’’جھوٹ‘‘ کو ایڈریس کرے؟ راقم کے خیال میں یہ کام فقہ کا نہیں ، آرٹ کا ہے۔ (۵)
اسی بات کا ایک اور رخ نہایت قابلِ غور ہے کہ فقہ کو دین اور فقیہ کو عالم تسلیم کرنے سے مسلم ذہن نے ہمیشہ انکار کیا ہے ۔ یہ انکار ، تفہیم و اظہار کی لطیف سطح پر بہت بلیغ اندازمیں کیا گیا ہے ۔ راقم کا اشارہ اردو شاعری میں مقبول ترکیب ’’فقیہِ شہر‘‘ کی جانب ہے ۔ کیا کوئی ایسا شعر بھی ہے جس میں فقیہِ شہر کو نرمی سے اور بغیر طنز کے مخاطب کیا گیا ہو؟ اس ترکیب کا اسی انداز میں متواتر اور مسلسل استعمال اور پھر مسلم معاشرے کا اس پر لبیک کہنا ، اس فرمانِ رسولﷺ کے عین مطابق ہے کہ ’’میری امت گمراہی پر متفق نہیں ہو سکتی ‘‘ ۔ جن لوگوں کو دین کے فقہی ایڈیشن پر اب بھی اصرار ہو ، ان سے فقط ہمدردی ہی کی جا سکتی ہے ۔
اب اگر ہم فقہی خول اتار کر دینی حوالہ پیشِ نظر رکھیں تو ہماری نظر اس آرٹ پر پڑتی ہے جس کا تعلق خطابت ، گفتگو، اور مکالمے سے ہے ۔ اس حوالے سے رسالت مآب ﷺ کا کوہِ صفا پر خطاب سامنے آتا ہے ۔ ذرا غور کیجیے کہ آپ ﷺ نے وہاں کیا اندازِ خطابت اختیار فرمایا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم سے کہوں کہ وادی میں ایک لشکر اتر آیا ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات کو سچ مانو گے؟ انہوں نے جواب دیا، ہاں ! تم ہمیشہ ہمارے تجربے میں سچے ثابت ہوئے ہو۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے میں نذیر یعنی تمہیں متنبہ کرنے والا ہوں کہ تمہارے آگے سخت عذاب موجود ہے ۔ یہ سن کر ابو لہب نے کہا ، تیرے لیے سارے دن موجبِ ہلاکت و بربادی ہوں ، کیا تو نے اسی لیے ہمیں جمع کیا تھا ؟ اس پر مجمع منتشر ہو گیا ۔ 
کوہِ صفا کے اس واقعے پر بغور نظر دوڑائیں ۔ مخاطبین کا پہلا جواب رسولِ پاک ﷺ کے ’’سٹیٹس ‘‘ کو ظاہر کر رہا ہے۔، وہ لوگ آپ ﷺ کی جملہ صفات سے بخوبی آگاہ ہیں اور ان کا اعتراف بھی کر رہے ہیں ۔ اس اعتراف کی روشنی میں دوسرا جواب ’’غیر متوقع‘‘ معلوم ہوتا ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ راقم کی ناقص رائے میں اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کے خطاب مبارک سے جو فضا وہاں پر اس وقت قائم ہوئی ، وہ سراسر شعورِ انسانی کو ایڈریس کرنے والی تھی۔ آپ ﷺ نے اپنے سٹیٹس کے ذریعے ان کے جذبات کو ’’ہائی جیک‘‘ کرنے کی بجائے ان کے شعور کو مخاطب کیا۔ اگرچہ ان کے جذبات سے کھیل کر انہیں فوری طور پر مائل بہ اسلام کیا جا سکتا تھا، جس سے وہ عارضی طور پرتو مسلمان ہو جاتے لیکن ان کی روح کی گہرائیوں میں اسلام کی جڑیں مضبوط نہ ہونے سے وہ کردار نہ بنتا جس کا اظہار حبشہ میں مسلم وفد نے کیا (۶)۔ آج مسلم معاشرے میں ’’کردار‘‘ اسی لیے سامنے نہیں آرہا کہ ہمارا خطیب شعورِ نبوت کی پیروی کے بجائے مداری گر کی طرح لوگوں کے جذبات سے کھیل رہا ہے، غوغا آرائی اور شور شرابہ کر رہا ہے ۔جھوٹا آرٹ جھوٹ کو کیسے ختم کر سکتا ہے ؟یہ صحیح ہے کہ جذباتی فضا قائم کر کے وقتی طور پر ’’اسلامیت ‘‘ ظاہر کی جاسکتی ہے ، چندہ نکلوایا جا سکتا ہے، سہ روزے ، چالیس روزے کا ’’ارادہ‘‘ کروایا جاسکتا ہے ، نو جوانوں کو بارڈر پر بھیجا جا سکتا ہے ، لیکن بہرحال اس فضا سے وہ ’’کردار ‘‘ نہیں بن سکتا جو صرف اور صرف شعورِ انسانی کو مخاطب کرنے سے ہی سامنے آ سکتا ہے۔ بفرضِ محال اگر کہیں کہیں خلوص جھلکتا ہے تو بھی ہمارے خطیب کے خطاب کی نوعیت ’’پراپیگنڈا‘‘ والی ہوتی ہے ۔ حالانکہ ہمارے نبی کریم ﷺ کے تمام خطبات گواہ ہیں کہ رسول کے فنِ خطابت میں پراپیگنڈے کا عمل دخل نہیں ہوتا، کیونکہ پراپیگنڈا کے پیچھے دوسرے کو ’’پھانسنے‘‘ کی نفسیات کام کر رہی ہوتی ہے ، جبکہ شعورِ نبوت ، ہر حوالے سے ہر سطح پر شعورکو خطاب کرتا ہے کہ وہ ’’آزادانہ ‘‘فیصلہ کرے۔ لا اکراہ فی الدین کے یہی معنی ہیں ۔ یہاں پر پھر وہی ’’اجتہادی روح‘‘ نظر آتی ہے جو اسلام کی امتیازی صفت ’’تصورِ خاتمیت‘‘ کا نتیجہ ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ پراپیگنڈا والے انداز کے بجائے ’’اجتہادی طریق‘‘ کو خطاب میں سمویا جائے۔ سوال پیدا ہوتا ہے شعورِ انسانی کو خطاب کرنے کے اس ’’نبوی آرٹ‘‘ سے ہم کب تک پہلوتہی کریں گے ؟
اسی بات کو اگر دوسرے رخ سے دیکھیں تو نہایت سنگین صورتِ حال سے پالا پڑتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ فطرت، روحِ انسانی ہے اور روح کے نہاں خانوں میں انسان کے مذہبی عقائد کی جڑیں ہوتی ہیں ۔ آرٹ کے ذریعے روح اظہار کرتی ہے ، یعنی انسان کے انتہائی اندرونی عقائد ،منظرِ عام پر آتے ہیں ۔ اس طرح آرٹ کی وہ قسم جسے خطابت کہا جاتا ہے ، یہی ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے خطیبوں کا ’’دینی ادراک‘‘ انتہائی حد تک ناقص ہے۔ ان کے موضوعات ، مواد، الفاظ کا چناؤ اور اپروچ یہی چغلی کھاتے ہیں کہ ان کا دینی ادراک ،گھن گرج، چیخ پکار ،لفظی مباحث ، جگت بازی ، جذباتیت اور فروعی مسائل کے گرد گھومتا ہے ۔ اگر موسیقی کو جذبات انگیز قرار دے کر ہم اس کی بابت بہت ’’حساس ‘‘ ہو سکتے ہیں تو ایسی حساسیت کا مظاہرہ ، مشترکہ علت کی بنا پر ایسے فنِ خطابت کے حولے سے بھی ہونا چاہیے جو لوگوں کے جذبات ’’ ہائی جیک ‘‘ کرنے کو اوڑھنا بچھونا بنا چکا ہو ۔ راقم کو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ مذہبی طبقے کے فنِ خطابت کا فنی جائزہ یہی مترشح کرتا ہے کہ ان کا دینی ادراک ’’ابلیسیت زدہ‘‘ ہے۔ اگر صورتِ حال اس کے بر عکس ہوتی تو معاشرہ بھی بہت مختلف ہوتا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شعورِ نبوت کی پیروی اختیار کی جائے ، اس آرٹ پر ایسی کتب لکھی جائیں جن میں نبی ﷺ کے فنِ خطابت پر سیر حاصل بحث ہو اور تصورِ خاتمیت کے تحت اجتہادی روح بھی متحرک ہو ، پھر ایسی کتب کو دینی نصاب میں با قا عدہ جگہ دی جائے ، تاکہ یہ آرٹ دین کی معاشرتی ترویج میں ممدو معان ثابت ہو نہ کہ افراتفری کو ہوا دے ۔ 
دین کی ترویج میں آرٹ کی اہمیت کا اندازہ خطبۃالوداع کے اس نکتے سے واضح ہو جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ’’ جو لوگ یہاں موجود ہیں، انہیں چاہیے کہ یہ احکام اور یہ باتیں ان لوگوں کو بتا دیں جو یہاں نہیں ہیں ، ہوسکتا ہے کہ کوئی غیر موجود تم سے زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والا ہو ‘‘۔ مسلمانوں نے اس حکمِ رسول کریم ﷺ کی پیروی میں پیغام رسانی اور ’’بتا دینے کو‘‘ اجتہادی رنگ و نور سے بہت بڑا آرٹ بنا ڈالا ۔ اس فرمانِ مبارک ﷺ سے ہی وہ آرٹ متشکل ہونا شروع ہوا جو حدیث شریف اور اسماء الرجال سے ہوتا ہوا ابنِ خلدون کے مقدمے تک جا پہنچا ۔برِ صغیر میں سر سید احمد خان کی علی گڑھ تحریک کی یہی بنیادی خوبی ہے کہ اس نے مسلمانوں کی توجہ دوبارہ اس آرٹ کی طرف مبذول کرائی ۔ اس تحریک نے تاریخ اور ابلاغ کے آرٹ کا احیا کیا ۔ الطاف حسین حالی کی ’’مسدس‘‘ اور شبلی نعمانی کی ’’سیرت النبی ﷺ‘‘ اسی آرٹ کا بیش بہا اظہار ہیں ۔راقم کی رائے میں تو برِ صغیر کی مسلم معاشرت پر ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ کے اثرات اس حد تک مرتب نہیں ہوسکے ، جس ٖحد تک گہرے نقوش ’’سیرت النبی‘‘ اور ’’مسدسِ حالی‘‘ نے چھوڑے ہیں ۔ بہر حال خطبۃالوداع کے اسی نکتے کی پیروی میں ، جس طرح صحابہ کرامؓ نے (غیر فقہی انداز میں ، کہ فقہ پر اس طرح زور ہی نہیں دیا جا رہا تھا ) اسلام کو پوری دنیا میں پھیلا دیا ، وہ اپنی جگہ ایک مثال ہے ۔ بحث کے اس مقام پر تبلیغ کوبطور ’’ارفع آرٹ‘‘ دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ کیا تبلیغ ارفع آرٹ نہیں ہے ؟ کیا اس آرٹ کو ’’تصورِ خاتمیت‘‘ سے الگ رکھا جا سکتا ہے ؟ کیا نبوت کے خاتمے کے بعد یہ ذمہ داری خالصتاً مسلمانوں کے سپرد نہیں ہو جاتی کہ وہ قولی ، عملی ، تحریری و دیگر انداز سے اس الہیاتی پیغام کو،ممکنہ حد تک اس کے امکانی پرت کھول کھول کر، تمام عالمِ انسانیت تک پہنچاتے رہیں؟ لہٰذا ہمارے لیے اہم ہو جاتا ہے کہ تبلیغ کی کسی بھی سطح اور نوع کو جانچتے وقت اس میں جاری ’’اجتہادی روح ‘‘ کو تلاش کریں ،(یعنی اس کی ’اپروچ‘ کیا ہے ، کیا یہ شعورِ انسانی کو خطاب کرتی ہے؟ ) اگر یہ موجود ہو تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تصورِ خاتمیت اس میں پوری شان سے موجود ہے اور مبلغ کا ’’دینی ادراک‘‘ بھی ابلیسیت سے محفوظ ہے۔ خیال رہے، یہاں تبلیغ کو ارفع آرٹ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس کے اندر ہی خطابت ، گفتگو، مکالمہ، تحریراور خطاطی وغیرہ آجاتے ہیں ۔ خطیب بھی ایک طرح سے تبلیغ کر رہا ہوتا ہے ، اس کا ذکر ہو چکا۔ اب ادیب کی بات ہو جائے ، جس کا ضمنی ذکر سطورِ بالا میں ہوا ۔ 
یہ بڑی عجیب اور افسوس ناک بات ہے کہ ہمارے ہاں جس تحریر کو ’’دینی‘‘ سمجھا جاتا ہے ، اسے شاید دینی کے علاوہ اور سب کچھ کہا جا سکتا ہے ۔ ذرا ’’دینی رسائل ‘‘ کے محض عنوانات پر ہی سرسری نظر ڈال لیجیے ، آپ اپنا سر پیٹ لیں گے۔ ان کے مدیران کا دینی درک تو’’ سرورق‘‘ سے ہی فاش ہو جاتا ہے کہ رسالے کی پیشانی پر جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے: ’’فلاں .......کا ترجمان‘‘ یہ کیا ہے ؟ یہ آرٹ کی کون سی سطح ہے ؟ کیا یہ سطح ، تصورِ خاتمیت سے میل کھاتی ہے ؟ راقم کی نظر میں فروعی اختلافات پر مبنی کتابیں اور ان اختلافات کو بھڑکانے والے رسائل و جرائد، حقیقت میں ان لوگوں کے روحانی میل کچیل اور ذہنی کثافت کی علامت ہیں جن کے ہاں تصورِ خاتمیت’’ دھندلا ‘‘گیا ہے ، جس کے سبب سے اجتہادی نور بھی ان سے گریزاں ہے ۔یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ ایسے میں اپنی روح اور اپنے اساسی الہام سے بچھڑ کر ثانوی چیزوں کو ہی ’’بنیادی‘‘ تسلیم کر لیا جائے اور لوگوں کو انتہائی سطحی آرٹ کے ذریعے گمراہ کرنے کی کوشش کی جائے کہ لیجیے ہم نے ’’سونے کا انڈہ‘‘ دے دیا ہے ۔ 
اگر ’’دینی ادب‘‘ میں موضوع اور مواد کے اعتبار سے شاذ شاذ کام کی چیز نظر بھی آتی ہے تو ’’اپروچ‘‘ کے حوالے سے پراپیگنڈا سے سابقہ پڑتا ہے ۔ تزکیہ نفس سے لے کر تاریخی واقعات کے بیان تک ، ہر جگہ کچھ ایسی ہی صورتِ حال ہے ۔ نسیم حجازی کی تصانیف دیکھ لیجیے ، اور سچ سچ بتائیے کہ ان کا اثر جذبات پر پڑتا ہے یا شعور پر؟ آرٹ کی یہ سطح ، عہدِ رفتہ کے مقابر کی مجاوری کی مانند ہے اور مجاوری کبھی شعور نہیں بخشتی۔ اسی طرح دیگر مصنفین بھی موضوع کے انتخاب اور مواد کے چناؤ میں ’’ خلوص‘‘ کا نمونہ نظر آتے ہیں لیکن چونکہ ان کا دینی ادراک (تصورِ خاتمیت دھندلانے سے)اجتہادی روح میں گندھا ہوا نہیں ہوتا ، اس لیے وہ جبر اور پراپیگنڈے کی بھول بھلیاں میں گرفتار ہو جاتے ہیں جس کے باعث معاشرے پر ان کی تحریروں کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں کیونکہ قاری محض وقتی طور پر ، جذبات کی سطح تک ہی متاثر ہوتا ہے ۔ 
اسی سلسلے کا اہم نکتہ یہ ہے کہ حقیقت میں دینی ادب کی اصطلاح ہی عجیب و غریب ہے ۔ کیونکہ ادب ، انسان کی شخصیت ، اس کے باطن ، اس کے وجدان کا اظہار ہے ۔ اس کا مخرج وہ مقام ہے ، جہاں انسان کے مذہبی عقائد پڑاؤ ڈالے ہوتے ہیں ۔ اس طرح ادب (ہر سطح کا ) ، ہوتا ہی دینی ہے ، البتہ اس کے ذریعے فرد کے دینی عقائد کی نوعیت کا پتہ ضرور چل جاتا ہے ۔ مذہبی طبقے کے ’’باطنی اظہار ‘‘ کے متعلق بات ہو چکی ۔ اگر ہم غیر مذہبی طبقے کی طرف دیکھیں تو وہاں بھی صورتِ حال مختلف نہیں ہے ۔ یہ طبقہ آج کل بڑے زور و شور سے رونا رو رہا ہے کہ عوام الناس ، مطالعہ ادب سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ ان سے گزارش ہے کہ بھئی عوام ایسے ادب کی طرف مائل کیوں ہوں گے جس کے پیچھے روحانی و باطنی سر چشمے کے بجائے محض خارجی واقعیت کا جبر جھلکتا ہو ۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ اس وقت مذہبی اور غیر مذہبی آرٹسٹ ، جھوٹے آرٹ کو فروغ دے رہا ہے ۔ 
اگر ہم اپنی معاشرتی برائیوں کی فہرست مرتب کریں تو یہ بہت طویل ہو گی ۔ صرف موٹی موٹی برائیوں کو ہی گن لیں، مثلاً کرپشن، رشوت، جھوٹ ، قانون شکنی ، نمود و نمائش ، دولت کی ہوس، طاقت کی بھوک، اپنی اپنی دوڑ وغیرہ وغیرہ۔ اب ذرا بتائیے کہ انہیں ایڈریس کرنے کے لیے کیا ’’آرٹ‘‘ کی ضرورت نہیں ہے ؟ کیا لوگوں میں سادگی ، محبت ، اخوت ، انکساری ، رحم، رواداری ، صدق، قانون پسندی ،قناعت، ایثار وغیرہ آرٹ کے بغیر پیدا کیے جا سکتے ہیں؟راقم کی نظر میں ایسا نہیں کہ ہماری سوسائٹی میں آرٹ موجود نہیں، کیونکہ کوئی سوسائٹی بغیر آرٹ کے نہیں ہو سکتی ۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے ’’جھوٹاآرٹ‘‘ ہماری جڑوں میں بیٹھ گیا ہے۔موجودہ معاشرتی ابتری ، اسی آرٹ کا ’’عطیہ‘‘ ہے جسے ہم بھگت رہے ہیں ۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ہاں ’’نقد و انتقاد‘‘ کے پلیٹ فارم سے جھوٹے اور سچے آرٹ پر بحث کی جائے ۔ راقم کی رائے میں سچا آرٹ وہی ہے جس میں ’’تصورِ خاتمیت ‘‘ جھلکتا ہو ۔ لہٰذا ہمارے لیے لازمی ٹھہرجاتا ہے کہ تصورِ خاتمیت کے معنوی ابعاد مسلسل آشکار کرتے رہیں ۔ اس سلسلے میں چند نکات پیشِ خدمت ہیں۔ تصورِ خاتمیت تقاضا کرتا ہے کہ آرٹ کے ہر نمونے میں :
(۱) وحدتِ انسانیت رچی بسی ہو ۔
(۲) مساواتِ انسانی کا پیغام ہو۔
(۳) مساوات کے قیام کے لیے انسان سے ماورا ہستی کا اثبات موجود ہو ۔
(۴) تکریمِ انسانیت کا سبق آفتاب کی مانند واضح ہو۔
(۵) عورت کو ’شے‘ کی بجائے انسان گردانا جاتا ہو۔
(۶) کمتر اور محکوموں سے اعلیٰ حسنِ سلوک کی تعلیم ہو۔
(۷) انفرادی و گروہی تشخص کی تسلیمیت پنہاں ہو۔
(۸)جبر کی نفی کا تاثر بھر پور ملتا ہو ۔ 
یہ چند نکات ہیں۔ انہیں ’’دینی ادب ‘‘ پر منطبق کیجیے ، خاصی شرمندگی اٹھانی پڑے گی ۔ہمارے مذہبی طبقے کا بڑا مسئلہ یہی ہے کہ اسے آرٹ کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ۔ یہ طبقہ لگے بندھے اصولوں پر دین کی ’’معاشرتی ترویج ‘‘ کے لیے کوشاں ہے ۔ اس کے ہاں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ فقہی ڈنڈے سے اصلاحِ عام ہو جائے گی ۔ اگر یہ طبقہ اور دوسرا ادبی طبقہ بھی ، تصورِ خاتمیت کی روح کو تھام لے تو عظیم تبدیلی رونما ہو سکتی ہے ۔ نماز ، روزے ، حج، زکوۃ، سنتِ نبوی ﷺ کی پیروی اور دیگر احکامات اگر شعورِ انسانی کو مخاطب کرنے والی ’’اپروچ ‘‘ سے مکالموں، انشائیوں ، ناولوں وغیرہ میں پیش کیے جائیں تو اس کے اثرات زیادہ تیزی سے اور دور رس مرتب ہوں گے ۔ مثلاً ناول کے کسی کردارکو اس طرح ’’ایکٹ‘‘ کرتے دکھایا جا سکتا ہے کہ’’جب اس کی آنکھ کھلی تو گھڑی پانچ بجا چکی تھی ، وہ جلدی جلدی ہاتھ منہ دھونے کی نیت سے اٹھا ، لیکن پھر اسے خیال آیا ، اوہو! آج تو جمعہ ہے، غسل کرنا چاہیے ......... ‘‘۔اس طرح قاری کوجمعہ کے دن کی فضیلت اور غسل کے مسائل (غیر فقہی زبان میں ) سمجھائے جا سکتے ہیں، کچھ اس طرح کہ شاید وہ دوبارہ کبھی نہ بھولے۔ اسی طرح دیگر ضروری احکام جن کی بابت آگاہی تمام مسلمانوں کے لیے لازمی ہے ،بہت فنکارانہ انداز میں قارئین کے اذہان میں نقش کیے جا سکتے ہیں۔ یہ تبلیغ کی وہ سطح ہوگی ، جس میں اجتہادی رنگ نظر آئے گا کہ ہر لکھاری بہتر سے بہتر اور منفرد انداز سے قلم اٹھائے گا ۔راقم کے خیال میں ہمارے معاشرے میں ’’السلام علیکم‘‘ کہنے کی ریت ، آرٹ کے توسط سے آئی ہے ، فقیہِ شہر کی چیخ پکار کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔ اسی طرح الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بہت بڑی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے، اگر ہماری ’’اپروچ‘‘ پراپیگنڈا کی بجائے شعور کو ایڈریس کرنے والی ہو ۔ 
آرٹ کے دیگر نمونوں پر بھی مذکورہ بالا نکات کا انطباق کرنے سے انتہائی غیر تسلی بخش صورت سامنے آتی ہے ۔ فنِ تعمیر کو ہی لیجیے اور مساجد کے ’’جغرافیہ ‘‘ پر ناقدانہ نظر دوڑائیے۔ پہلی نظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ چونکہ یہ اسلامی معاشرہ ہے اس لیے مسلمانوں کی کثیر تعداد کے پیشِ نظر مساجد کندھے سے کندھا ملائے کھڑی ہیں ۔ لیکن جب معاملے کو ذرا گہرائی سے دیکھیں تو پسینہ چھوٹ جاتا ہے ۔ امرواقعہ یہ ہے کہ مساجد کے ماتھے ’’نیتوں کے فتور‘‘ کا برملا اظہار کر رہے ہوتے ہیں ۔ مسجد عام طور پر اس لیے نہیں بنائی جاتی کہ فلاں علاقے میں مسجدکی’’ ضرورت ‘‘ہے بلکہ تعمیر اس لیے اٹھائی جاتی ہے کہ فلاں علاقے میں ’’ہماری‘‘ مسجد موجود نہیں۔ اب انصاف سے فیصلہ کیجیے کہ جب مسلم معاشرت کی اجتماعیت کی پہلی اکائی کے پیچھے ایسی نیت ہے جو تفریق ڈالنے والی ہے ، تو پھر ہم (خاص طور پر مذہبی طبقہ) شور شرابہ کر کے آسمان سر پر کیوں اٹھائے ہوئے ہیں کہ مسلمان ’’متحد‘‘ نہیں ہوتے۔ بہت صاف اور کھری سی بات ہے کہ ’’فنِ تعمیر‘‘ کسی قوم کے باطن کو متشکل کرتا ہے۔ ہندوؤں کے گھروں ،محلوں وغیرہ کی پیچیدگی ، تنگی اور اندھیارے سے ان کے باطن(مذہبی عقائد) کا بعینہ اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمارا فنِ تعمیر بھی ہمارے دینی ادراک کا اظہار ہے ۔ ہم توتعمیر کے لیے جگہ کے انتخاب یعنی ’’جغرافیے ‘‘ پر آ کر ہی اٹک جاتے ہیں کہ دینی درک ’’منقسم ‘‘ کرنے والا دکھائی دیتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا دین یہ کہتا ہے کہ تفرقے میں پڑ جاؤ ؟ اگر نہیں، تو پھر ’’مسجدِ ضرار کی توسیع‘‘ کیوں نظر آرہی ہے ؟اس کا جواب ایک ہی ہے کہ ہمارا دینی ادراک ، ابلیسیت زدہ ہو چکا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ فقہ ایسی مساجد کے لیے ’’جوازات‘‘ تلاش کر لے ، لیکن آرٹ کی سطح سے ، اس کا دفاع کرنا ممکن نہیں ۔ راقم کی رائے میں ان مساجد کے قیام کے پیچھے بنیادی طور پر ’’پراپیگنڈا ‘‘ کی نفسیات کام کر رہی ہوتی ہے نہ کہ شعورِ انسانی کو خطاب کرنے کی ذمہ داری کا جمالیاتی احساس۔ 
مساجد کی تعمیر کے پیچھے جس قسم کی نیت نظر آتی ہے ، اسی قسم کے ارادوں کا اظہار دیگر اجتماعی اداروں کے پس منظر میں بھی جھلکتا ہے ۔جی ہاں ! عیدین’’اپنے اپنے فرقے ‘‘ کے مولوی صاحب کے پیچھے ہی ادا ہوتی ہیں ، اگرچہ نماز کی ادائیگی کے بعد ’’کسی اور پلیٹ فارم ‘‘ پر یہی متفرق لوگ ’’آپس میں ‘‘مل بیٹھتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذہب تو لوگوں کے مابین ’’تفریق‘‘ڈالتا ہے لیکن دیگر معاشرتی رشتے ناتے انہیں آپس میں گوندھ دیتے ہیں ۔یہ کیا ہے؟ ہمارے مذہبی طبقے کے سامنے یہ بہت بڑا سوال ہے۔ عیدین کے مواقع پر ایسا اکثر ہوتا ہے کہ جو لوگ خوش قسمتی سے کسی فقیہِ شہر کے ’’ تنگنائے فکر ‘‘ کے حصار میں نہیں ہوتے ، (آرٹ کے رسیا ہونے کے باعث )، وہ منہ اٹھائے کسی بھی اجتماع میں جا گھستے ہیں۔ شاید ایسے لوگ ہی اجتماع کی اصل روح کی ’’کفایت ‘‘ ہوتے ہیں ۔ ان لوگوں کے علاوہ جو لوگ زیادہ حساس ہوتے ہیں ، ان کی نفاستِ طبع انہیں اجتماع میں جانے سے روک لیتی ہے(آخر لطافت کا کثافت سے کیا میل؟) ان حالات کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا یہ بھی امریکہ کی سازش ہے؟
ہماری سب سے بڑی اجتماعی علامت حج ہے ۔ یہ علامت بھی مسجد اور عیدین کی طرح موجودتو ہے ، لیکن اس کا ادراک بھی آلودہ ہو چکا ہے ۔ اب ماضی کی نسبت لوگوں کی بہت بڑی تعداد حج کرتی ہے۔ جس نسبت سے تعداد بڑھ رہی ہے، اسی نسبت سے ’’حاجی‘‘ کے معنی بھی معنی خیز ہوتے جا رہے ہیں۔ حج کے موقع پر مسلمانوں کو ’’ابلیس ‘‘ کی پہچان بھی کرائی جاتی ہے، جمرات کا مقصود ابلیس کو دھتکارنا بھی ہے اور للکارنا بھی ۔ ستم ظریفی کی انتہا دیکھیے کہ اب ان دھتکارنے للکارنے والوں پر معاشرہ ’’جمرات‘‘ کرتا ہے ، لطائف بنا کر ، پھبتیاں کس کر ،ان پر کنکریاں مارتا ہے ۔ اگر ہم حقیقت سے آنکھ چرانا چاہیں تو الگ بات ہے ورنہ صورتِ حال یہی ہے ۔ یہاں بھی سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال کا ذمہ دار کون ہے ؟راقم کی نظر میں بات وہی ہے کہ ہمارا مذہبی طبقہ آرٹ سے بے بہرہ ہے ۔ اس لیے نہ صرف وہ خود اجتہادی روح سے بیگانہ ہو کر اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے بلکہ سادہ لوح عوام کو بھی شعور دینے سے قاصر ہے۔ جس طرح ’’السلام علیکم‘‘ کی ریت غیر مذہبی طبقے نے ڈالی ہے، اسی طرح اجتماعیت کی اصل روح کا ادراک بھی (جو کہیں کہیں نظر آتا ہے ) اسی طبقے نے دیا ہے ۔ 
اجتماعیت کی یہ بات فنِ تعمیر سے چلی تھی ۔ رسولِ کریمﷺ کا ارشادِ مبارک ہے کہ ’’مومن کی دولت کو جو چیز کھا جاتی ہے اور نفع نہیں پہنچاتی ، وہ عمارت ہے ‘‘۔ اس حدیث مبارک ﷺ کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہے کہ پر شکوہ عمارتیں ہمارے دینی ادراک کا اظہار نہیں ہیں۔ البتہ یہ ہماری ’’آرزوؤں ‘‘ کا نوحہ ضرور ہیں۔ جب ہم لوگ دین کی عالمگیر،آفاقی اور اجتہادی روح کو باہم رشتوں، رویوں میں سمو نہیں پاتے تو یہ روح ، پر شکوہ اور شاندار عمارتوں کی صورت میں (گنبد ، مینار وغیرہ آفاقیت کی علامت ہیں ) اپنا جلوہ دکھاتی ہے ۔ راقم کے خیال میں جب مسلم معاشرت نے دینی ادراک کا اظہار ، باہم رشتوں ناتوں میں کرنا شروع کر دیا تو ایسی پرشکوہ عمارتیں بننا بند ہو جائیں گی کہ روح کو اظہار کااصل راستہ مل جائے گا۔ صحابہ کرامؓ کے دور میں یہ روح چونکہ آرزو نہیں ، بلکہ اظہار کر رہی تھی، اس لیے پر شکوہ عمارتوں کا سلسلہ ہائے دراز اس عہد میں نہیں ملتا ۔
دین اسلام کا تصورِ خاتمیت انسان کے ’’آزاد اور ذمہ دار ‘‘ رویے پربھی دلالت کرتا ہے ۔ اس طرح ہونا یہ چاہیے تھا کہ اسلامی ادب(اور آرٹ کی دیگر اقسام) کی اپروچ ، آزادانہ اور ذمہ دارانہ ہوتی ، جس کے نتیجے میں عالمی ادب کا کثیر حصہ مسلمانوں کی تحریروں پر مشتمل ہوتا ۔لیکن تصورِ خاتمیت دھندلانے سے ، آزادی اور ذمہ داری کی دونوں خصوصیات مسلمانوں کے دینی ادراک سے یکسر اٹھ گئیں ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ’’ وحدتِ انسانیت ‘‘ کا خواب بکھر کر رہ گیا ۔ یہودی اور عیسائی ’’آرٹ‘‘ کے پلیٹ فارم سے بھی وحدتِ انسانیت کو فروغ نہیں دے سکتے تھے ، کیونکہ یہودی موحد ہوتے ہوئے بھی نسل پرست ہیں ، عیسائی اگرچہ نسل پرست نہیں لیکن ان کے ہاں توحید نہیں پائی جاتی ۔ اس طرح صرف اسلام کے پیروکار ہی موحد ہیں اور (تصورِ خاتمیت کے توسط سے ) ساتھ ساتھ وحدتِ انسانیت کے علمبردار بھی۔ سورۃ نساء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو ، جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد اور عورت دنیامیں پھیلا دیے ‘‘سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے تین بڑے گروہ (جو اپنے اپنے تئیں اپنی ہی اپروچ کو دین سمجھتے ہیں یعنی فقہی، جہادی اور تبلیغی) موحد ہوتے ہوئے بھی وحدتِ انسانیت کے فروغ کی ضمانت دیتے ہیں ؟ کیا فقہ ،انسانوں کو ایک لڑی میں پرو سکتی ہے کیا پراپیگنڈا والے جہاد سے افتراق کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ کیا تبلیغ کا منظم انداز دوسروں کو منفی طور پر الرٹ نہیں کر دیتا ؟ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ تینوں گروہ ’’اجتہادی روح ‘‘سے عاری ہیں (اجتہادی نظر کا نہ ہونا ہی سب سے بڑی بدعت ہے ) اسی لیے تینوں ایک دوسرے سے بیگانہ ، بے لچک انداز میں کام کر رہے ہیں ۔ اجتہادی نظر ہی واحد نقطہ اشتراک ہے ۔ اگر کوئی جہادی ہے اور اس کے ساتھ اجتہادی ہے ، اگر کوئی فقہی ہے اور اس کے ساتھ اجتہادی ہے ، اسی طرح اگر کوئی تبلیغی ہے اور اس کے ساتھ اجتہادی ہے (خیال رہے کہ اجتہادی نظر ، تصورِ خاتمیت کے سبب ہے ) تواس سے نہ صرف آپس میں ربط بڑھے گا بلکہ ان کے اپنے اپنے مخصوص شعبے میں بھی تازگی ہمہ دم موجود رہے گی ۔ اسی ربط اور تازگی سے دین کی پوری تصویر سامنے آئے گی اور وحدتِ انسانیت کی طرف پیش قدمی ممکن ہو سکے گی ۔
وحدتِ انسانیت کے حوالے سے ہی ایک بات یہ ہے کہ موجودہ وقت میں ایک طرف گلوبلائزیشن کا شورو غوغا ہے تو دوسری طرف علاقائی ثقافتیں ابھر رہی ہیں ، جس سے عالمی فضا غیر یقینی سی ہو گئی ہے ۔ راقم کے نزدیک گلوبلائزیشن اور علاقائی ثقافتوں کا احیا ، دو متضاد رجحانات نہیں ہیں ۔ ذرا غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ علاقائی ثقافتیں ’’لوک ورثے‘‘ کا احیا چاہتی ہیں ۔ لوک ورثے کے احیا سے گلوبلائزیشن کے ظاہری عمل کو ’’روح ‘‘ مل جائے گی ۔ کیونکہ روحِ انسانی فطرت ہے ،آرٹ کے ذریعے روحِ انسانی کا اظہار ہوتا ہے اور دنیا کا بہترین آرٹ ’’لوک سطح‘‘ پر ملتا ہے ۔ اس کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ ’’لوک سطح ‘‘ پر انسانی فطرت خارجی علم اور خارجی عناصر سے ممکنہ حد تک بچی رہتی ہے اور خالصتاً داخل کا، باطن کا اظہار کرتی ہے ۔اس لیے ہمیں دنیا کی تمام ثقافتوں کا لوک ورثہ ’’ملتا جلتا ‘‘ دکھائی دے گا کیونکہ روحِ انسانی ایک ہے ۔ اس طرح لوک ورثے کی جانب رجوع ، وحدت کا سفر ہے ۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ تاریخ کے اس موڑ پر جب خارجی جبر(تمدنی سطح پر ) گلوبلائزیشن لا رہا ہے، انسان کا داخل بھی (ثقافتی سطح پر ) وحدت سے از سرِ نو آشنائی پیدا کر رہا ہے۔ جہاں تک لوک سطح پر افتراق کا تعلق ہے ، وہ بہت جزوی ہے ۔ ایسا فرق کچھ ایسے ہی ہے جیسے سورج کی روشنی کو منشور سے گزاریں تو وہ سات رنگوں میں منقسم ہو جاتی ہے۔ روحِ انسانی بھی جب ’’ارضی منشور ‘‘ سے گزرتی ہے تو (شاید سات) رنگوں میں منقسم ہو جاتی ہے ، حالانکہ اس کی اصل سورج کی روشنی (سفیدی )کی مانندایک ہے ۔ قرآن مجید میں (سورۃ الحجرات ، آیت ۱۳)اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’ لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ، پھر تمہارے کنبے اور قبیلے بنا دیے ، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے ، جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ، اللہ سب کچھ جاننے والا اور با خبر ہے ‘‘(۷) راقم الحروف کے مطابق رنگا رنگی کا یہ فرق ’’اندیشوں ‘‘ میں اس وقت ڈھلتا ہے جب کوئی رنگ یا ہر رنگ ’’اصل ‘‘ سے دور ہٹتے ہوئے اپنے رنگ کو ہی ’’اصل ‘‘ سمجھ بیٹھتا ہے ۔پھر اندیشوں کی ایسی سرزمین میں قوم پرستی، نسل پرستی اور زبان پرستی وغیرہ کی ’’باڑیں ‘‘ لگنی شروع ہو جاتی ہیں ۔ اگر نوعِ انسانی اس ’’تعارفی رنگا رنگی‘‘کو قائم رکھتے ہوئے بھی، اپنی اصل کے ساتھ ’’وابستگی ‘‘سے محترز نہ ہو توتصادم کی بجائے موافقت و اخوت پروان چڑھے گی اور وحدتِ انسانیت کا ازلی خواب پورا ہو گا ۔ راقم کے نزدیک تبلیغی جماعت ان مختلف ثقافتی منطقوں کو ’’اصل‘‘ سے متعارف کرا رہی ہے ۔ یہ عظیم خدمت ہے ۔ اگر تبلیغی جماعت ،دین اسلام کے امتیازی وصف ’’تصورِ خاتمیت‘‘ کی روح ،یعنی اجتہادی نظر کو اپنے احوال میں سمو لے ، توتبلیغ کے جامد اور لگے بندھے طریقے ،رونما ہونے والی ممکنہ تبدیلی کی راہ نہیں روک سکیں گے ۔رسول کریم ﷺ کا ارشادِ پاک ہے ’’من استوی یو ماہ فہو مغبون‘‘ کہ جس شخص کے دو دن یکساں ہوں، یعنی جس نے کل کے مقابلے میں آج کوئی ترقی نہیں کی وہ شخص گھاٹے میں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ’’کل یوم ھو فی شان ‘‘ بھی یکسانیت کو رد کرتا ہے کہ یک رنگی زندگی کی سرشت میں ہی نہیں ۔ لہٰذا ہمارے مبلغ کو ’’آرٹ‘‘ کی طرف رجوع کرنا ہو گا ۔
سورۃ الحجرات کی اس آیت مبارکہ سے ایک اور نکتہ سامنے آتاہے کہ زندگی کا حسن اور رعنائی ’’سادگی‘‘ میں ہے ۔ جیسے سورج کی روشنی سفید ہونے کے باعث ، سادہ ہوتی ہے لیکن اس میں حسن اس اعتبار سے عروج پر ہوتا ہے کہ اس میں ’’ساتوں رنگ‘‘ گھلے ملے ہوتے ہیں ۔ بظاہر ایسا معلوم ہو گا کہ(منشور سے گزر کر ) ہر رنگ ’’سفیدی‘‘ سے زیادہ خوش نما ہے ، لیکن اہلِ نظر کو سفیدی میں ہی ایک کے بجائے ساتوں رنگ اکٹھے دکھائی دیں گے ۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ حسن ، سادگی میں ہے ۔ راقم کی رائے میں اگر انسان حسن پسند بن جائے تو وہ لازماً حقیقی حسن کو ظاہری رنگا رنگی کی بجائے اس وحدت میں دیکھے گا جہاں تمام رنگ بغل گیر ہوتے ہیں ۔ ایسی حسن پسندی کبھی بھی انسانوں کے مابین اس حد تک تفریق نہیں ہونے دے گی کہ کراہت زندگی کا لازمہ بن جائے ۔ سوال وہی ہے کہ کیا فقہ ، حسن پسندی کو فروغ دے سکتی ہے ؟ راقم کے نزدیک یہ منصب آرٹ کا ہی ہے ۔ کیا ہمارے آرٹ کی موجودہ سطح، ایسی رمزیت کی حامل ہے کہ ہم اس سے ایسی امیدیں باندھ سکیں؟ یقیناًایسا نہیں ہے ۔لہٰذا اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ آرٹ کو اس کا مقام دیتے ہوئے ، دین اسلام کے عالمگیر تصورات کو ، جو وحدتِ انسانیت اور تکریمِ انسانیت کے گرد گھومتے ہیں ، اجاگر کیا جائے ۔ 

حواشی 

(۱) خیال رہے کہ یہاں فقہ بمعنی قانون مراد ہے ۔ 
(۲) اگرچہ علوم کے ایک شعبہ پر دسترس کے باعث انہیں ’عالم‘ کہا جا سکتا ہے ، لیکن اس حوالے سے انہیں عالم قرار نہیں دیا جا سکتا ، جس حوالے سے وہ خود کو عالم سمجھتے ہیں ، یا معاشرہ میں انہیں سمجھا جاتا ہے ۔
(۳) خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ نے قحط کے زمانے میں چوری کی سزا (ہاتھ کاٹنے کو ) ساقط قرار دیا تھا ۔ان کے ہاں یہ اپروچ ، تصورِ خاتمیت سے پھوٹنے والی اجتہادی نظر کا نتیجہ ہے ۔ 
(۴)جھوٹ ہمارے معاشرے کے رگ و پے میں جس قدر سرایت کر چکا ہے اس سے بات بہت بڑھ گئی ہے ۔ برِ صغیر میں انگریز راج کے دوران لارڈ کرزن (وائسرائے ہند) نے کہا تھا کہ ہندوستانی بہت جھوٹے ہوتے ہیں ۔ اس پر ایک انگریز ادیب نے کہا تھاکہ ہندوستانی غیر معمولی طور پر جھوٹے ہوں گے کہ کرزن جیسے سیاستدان کا دم بھی وہاں گھٹنے لگا ، حالانکہ پارٹی پالیٹکس کا دارو مدار ہی جھوٹ پر ہے ۔ 
اسی طرح جھوٹ کی عوامی سطح پر پذیرائی بھانپتے ہوئے لارڈ میکالے نے کہا تھا کہ ’’ حضور اس ملک میں بہت بڑی لعنت وہ شخص ہیں جو جھوٹی قسم کھاتے ہیں ۔ جج جھوٹ اور سچ میں امتیاز نہیں کر سکتا ۔ اگر حضور لوگوں کو سچی قسم کھانے کی عادت ڈال دیں توآپ کی شہرت کو چار چاند لگ جائیں گے اور کمپنی کو بے حد فائدہ ہو گا ۔ اگر آپ جھوٹی قسم کھانے والے کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمائیں تو حضور آپ کی شہرت کو پر لگ جائیں گے ‘‘۔راقم کی نظر میں سچی قسم کھانے کی عادت ڈالنا اور جھوٹی قسم کھانے سے روکنا ’’قانون‘‘ کے بس میں نہیں ہے ۔ 
حیرت کی بات تو ہے کہ جھوٹ اس وقت پہلے سے بھی زیادہ ’’کروفر اور شان ‘‘ سے ہماری روزمرہ زندگی کا لازمہ بن چکا ہے ۔ جھوٹ کو فرد کے نفس سے نکالنے کا ’’اظہار‘‘ تاریخِ اسلام کے اس واقعہ سے بخوبی ہو جاتا ہے ۔جب نجاشی کے دربار میں جب حضرت جعفرؓ تشریف لے گئے تو پہلے دن کی پسپائی کے بعد عمروبن العاص (جو کفارِ مکہ کی نمائندگی کر رہے تھے )نے دوسرے دن پھر دربار میں رسائی حاصل کی اور نجاشی اور درباریوں کو مشتعل کرنے کی خاطر بادشاہ سے عرض کی کہ حضرت عیسی سے متعلق مسلمانوں کا عقیدہ معلوم کیجیے، پھر فیصلہ دیجیے۔ نجاشی نے مسلمانوں سے یہ دریافت کیا تو مسلم وفد کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ اگر عیسی کے ابنِ اللہ ہونے کا اقرار کرتے ہیں تو ایمان ہاتھ سے جاتا ہے ، تاہم صحابہؓ نے حالات کی سنگینی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ ’’واللہ ہم وہی کہیں گے جو اللہ کا حکم ہے اور جو ہمارے نبی کی تعلیم ہے چاہے کچھ ہو جائے ‘‘۔ 
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ مسلم وفد میں ایسی کون سی چیز تھی جس نے حالات کی انتہائی سنگینی کے باوجود (کہ اسلام کا ابتدائی عہد تھا کفارِ مکہ نے جینا دوبھر کر دیا تھا، اسی لیے مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی کہ کچھ دوست مل سکیں )انہیں جھوٹ بولنے سے باز رکھا ۔ یہ سوال بہت اہم ہے ۔ ہمارا فقیہہ تو یہ کہہ کر اپنے فرض سے ’’فارغ‘‘ ہو جائے گا کہ وہ صحابہ کرامؓ کی جماعت تھی ان کا ایمان ہی اتنا مضبوط تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بول سکتے تھے ۔ یہ جواب صحیح ہونے کے باوجود ’’سطحی ‘‘ ہے ۔ بھئی ایمان آخر اتنا مضبوط کیسے ہو گیا؟ یہ تو تفقہ فی الدین سے جان چھڑانے والی بات ہے ۔ راقم کی نظر میں مسلم وفد کا سچا جواب اس وجہ سے تھا کہ رسالت مآب ﷺ نے دعوتِ دین دیتے وقت ہمیشہ مخاطب کے ’’شعور‘‘ کو ایڈریس کیا نہ کہ جذبات کو ۔ کسی انسان میں جذباتی سطح تک سمائی ہوئی فکر ، حالات سے دب کر کوئی اور رخ لے سکتی ہے ، لیکن شعور میں سمائی ہوئی فکر ،حالات کو اپنے رخ پرلے جاتی ہے ۔ لہذا یہ رسولِ کریم ﷺ کا مخصوص اندازِ دعوت تھا جس کے سبب صحابہؓ، آسمان کے ستارے بن گئے ۔ اس لیے شعور میں ’’صدق‘‘ راسخ ہونے سے صحابہؓ جھوٹ نہ بول سکے۔ ہجرتِ حبشہ کے حوالے سے ہی ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’اگر تم سر زمینِ حبشہ کو نکل جاؤ تو بہتر ہے کہ وہاں کے بادشاہ کے ہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا اور وہ سرزمینِ صدق ہے ‘‘۔اس طرح روانگی سے قبل بھی سرزمینِ حبشہ کے چناؤ کی ’’وجہ‘‘ صحابہؓ کے شعور میں ڈال دی کہ وہ سرزمینِ صدق ہے ۔
(۵) آرٹ کے مترادف مختلف الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ، مثلاََ ہنر، زخرف، صناعتہ اور فن وغیرہ۔ راقم کی رائے میں قرآن مجید میں ’’حکمت‘‘ اور اسی نوع کے دیگر الفاظ ، آرٹ کی خصوصیات اور صفات کو محیط ہیں ۔ 
(۶) دیکھئے حاشیہ نمبر ۴۔ 
(۷) اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی الگ پہچان ، اس کے تشخص اور انفرادیت کے لیے ’’شعوباََ و قبائل‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ۔ آج کی اصطلاح میں یہ دونوں الفاظ قوم کی بجائے ’’قومیت‘‘ کی نمائندگی کر رہے ہیں ۔ قومیت ، الگ تشخص کی وہ سطح ہے ، جہاں سے دوسری قومیت بھی ’’انسان ‘‘ دکھائی دیتی ہے ۔ جبکہ ایک قوم دوسری قوم کو انسان کا سٹیٹس دینے کو ’’ عملاََ ‘‘ تیارہی نہیں ہوتی ۔ مثال کے طور پر پاکستان کی چار قومیتیں ہیں اور قوم ایک ہے ۔ وفاقی نظام کی وجہ سے چاروں قومیتوں کی ’’شناخت‘‘ قائم ہے ۔ جب ان میں سے کوئی ایک یا سبھی قومیتیں ’’قوم ‘‘ بننے کے لیے پر تو لیں تو پھر وہ اپنے الگ تشخص کے لیے اس سطح پر جا پہنچتی ہیں ، جہاں کوئی دوسرا نظر نہیں آتا ۔ یہ صورتِ حال بین الاقوامی سطح پر بہت واضح ہے کہ ہر قوم فقط اپنے آپ ہی کو ’’انسان ‘‘ سمجھتی ہے ۔ اس وقت امریکی اسی سوچ کی نمائندگی کر رہے ہیں ۔ قراآن مجید کی اس آیت مبارکہ کی روشنی میں ذرا غور کیجیے کہ اگر عالمی سطح پر بھی ’’شناخت ‘‘ کو قوم کی بجائے قومیت کی حد تک رکھا جائے تو انسانوں کے مابین تفریق ’’تعارف ‘‘ کی سطح تک رہے گی اور مشترکہ انسانی حوالہ ہمیشہ پیشِ نظر رہے گا ۔ سول یہ ہے کہ اسلام کے اس آفاقی پیغام کو تمام عالمِ انسانیت تک پہنچانے کی سکت ، کیا ہمارا نام نہاد دینی طبقہ رکھتا ہے ؟ تکلف بر طرف ! کیا دینی طبقے کے اندر ،اس پیغام کی معنویت کی تفہیم بھی ہے کہ نہیں؟

قومی نصاب تعلیم کے فکری اور نظریاتی خلا

ڈاکٹر خورشید حسنین

(یہ تحریر سرکاری نظام تعلیم میں شامل نصابی کتابوں کے بارے میں SDPI کی اس رپورٹ کا پانچواں باب ہے جس پر ایک مفصل تبصرہ زیر نظر شمارے ہی میں شامل اشاعت ہے۔ اصل تحریر انگریزی میں ہے اور اس کا اردو ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

تعلیمی عمل، ایک لحاظ سے دیکھیے تو انفرادی اور اجتماعی شناخت کی تعیین اور تشکیل کا عمل ہے۔ جیسے جیسے یہ عمل آگے بڑھتا ہے، شعوری یا غیر شعوری طور پر فرد کے بعض بنیادی نفسیاتی اور سماجی مسائل اس کا موضوع بنتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاً میں کون ہوں؟ ماضی اور مستقبل سے میرا تعلق کیا ہے؟ دوسرے انسانوں کے ساتھ میرا واسطہ کس نوعیت کا ہے؟ میری زندگی کا مقصد اور مصرف کیا ہے؟ ایک فرد جب اپنے گھر کے قریبی ماحول کی حدود سے باہر نکلتا ہے تو اس کی شخصیت (فکری اعتبار سے) وسعت پذیر ہو جاتی ہے اور وہ بالعموم اپنے قرب وجوار، شہر، ملک اور خطے سے ماورا ہو کر (دوسرے انسانوں کے ساتھ) تصورات، اقدار، اہداف اور خواہشات کی مماثلتیں تلاش کرنے لگتا ہے۔ وسعت ذہنی کے اس سفر میں حدود کا تعین ہر فرد کے لیے اس بات سے ہوتا ہے کہ اس کو آزادی فکر اور آزادی عمل کس قدر حاصل ہے۔ ہمارے دور میں بالخصوص عوامی سطح پر اس طرح کے ایک آزادانہ اور وسعت نظر پر مبنی زاویہ نگاہ کی تشکیل کے جو مواقع میسر ہیں، غالباً کسی دوسرے زمانے میں نہیں تھے۔ اس میں جزوی طور پر ٹیکنالوجی کی انقلابی طاقت کا بھی دخل ہے، مثلاً الیکٹرانک میڈیا اور اس کی یہ صلاحیت کہ وہ قومی اور ثقافتی امتیازات کی تنقیح کر سکتا اور اور مقبول عام لیکن غلط تصورات کا ازالہ کر سکتا ہے۔ تاہم ان تکنیکی صلاحیتوں کا گٹھ جوڑ اگر جبر پر مبنی سیاسی نظاموں اور منظم نظریہ سازی کے ساتھ ہو جائے تو یہ تعلیم کے عمل کو برباد کرنے کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہیں جس کے نتیجے میں یہ عمل آزادی فکر کا ایک تجربہ بننے کے بجائے ایک ایسی شناخت کی تشکیل کا عمل بن جائے جو اختلاف وامتیاز کے تمام مظاہر سے بے زار ہو اور اپنے ہی ماضی اور حال کے ایک بہت بڑے حصے سے اجنبی بن کر رہ جائے۔ 
آج پاکستان کے تعلیمی نظام کا منظر یہی ہے جو کہ ایک حادثے سے کم نہیں۔ اس کا بنیادی مقصد چند مخصوص نظریاتی اور سیاسی مقاصد کا حصول اور ان کے حصول میں معاون ثابت ہونے والی مخصوص ’’شناخت‘‘ کی تشکیل ہے۔ یہ نظریاتی مقاصد کیسے طے کیے گئے اور حکمران اشرافیہ کے مفادات کے لیے وہ کیا خدمات انجام دیتے ہیں، یہ سوال ان سطور کے دائرہ بحث سے خارج ہے۔ تاہم یہاں ہم اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ ہمارے ملک اور زمانے کے لیے عمومی اور مخصوص اہمیت کے حامل وہ بڑے بڑے تصورات اور موضوعات کون سے ہیں جو اس مخصوصی تعلیمی سوچ کے ستم زدہ ہیں اور جنھیں نصابی کتابوں سے بالکل خارج رکھا گیا ہے۔ اور ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ اس نظریاتی تنگنائے میں فٹ نہیں بیٹھتے جن کے اندر نوجوان پاکستانی ذہن کو محدود رکھنا پیش نظر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس پالیسی کا فوری نتیجہ اجنبیت کا ایک گہرا احساس پیدا کرنے کی صورت میں نکلا ہے اور (فکری) تربیت کے اس نظام سے گزرنے والی کئی نسلیں تخلیقییت پر مبنی قومی اور سماجی شناخت اور (مقاصد کے ساتھ) ایسا احساس وابستگی پیدا کرنے میں ناکام ہیں جو مذہبی تشدد پسندی، عسکریت اور تنگ نظر قومیت سے ماورا ہو۔

تاریخ

متعدد مصنفین اس بات کی نشان دہی کر چکے ہیں کہ ایک مصنوعی شناخت اور نظریہ کو فروغ دینے کے لیے تاریخ کی تدوین کو کس طرح مسخ کیا گیا ہے۔ اس ساری کوشش کا نقطہ ارتکاز یہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین تاریخی اختلافات اور دشمنیاں اجاگر کی جائیں اور ہندوؤں کی چالاکی، فریب اور ظلم وجبر کے مقابلے میں مسلمانوں کا حق بجانب ہونا ثابت کیا جائے۔ ایک مزید مقصد یہ بھی ہے کہ بچے کے ذہن میں یہ بات راسخ کر دی جائے کہ ان مذاہب کے ماننے والوں کے مابین دوستانہ تعلقات اور میل جول کا کوئی دور کبھی وجود میں نہیں آیا، کیونکہ یہی وہ چیز ہے جس کو مطالبہ پاکستان کے جواز کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ اس شناخت کو قائم کرنے کے لیے تاریخ کو ازسرنو لکھا گیا اور ماضی کے بعض پورے کے پورے ادوار کو اس میں سے حذف کر دیا گیا۔ مثال کے طور پر ۱۹۶۱ء تک لکھی جانے والی نصابی کتابوں میں قدیم ہندو دیو مالا کی داستانیں اور ان ہندو اور بدھ حکمران خاندانوں کے بارے میں معلومات شامل تھیں جنھوں نے موجودہ پاکستان کے علاقے پر حکومت کی۔ تاہم بعد کی نصابی کتابوں سے ان قدیم ادوار (مثلاً موریہ اور اشوک خاندانوں) کو مکمل طور پر نکال دیا گیا، جبکہ بعض کتابوں میں بدھوں کے زمانے کا مختصراً حوالہ دے دیا گیا ہے (مثلاً دیکھیے جماعت ششم کی معاشرتی علوم) اس خطے کے ایک نہایت اہم دور کو حذف کرنا ایک علمی خیانت ہونے کے علاوہ اس نتیجے کو، جو کہ غالباً مطلوب بھی ہے، پیدا کرنے کا سبب ہے کہ بچے کے ذہن میں بھارت میں رہنے والے اپنے ہندو ہمسایوں سے اجنبیت کا احساس کھڑا کر دیا جائے، گویا کہ ہم کبھی ایک مشترک تاریخ یا مشترکہ تاریخی تجربات میں کبھی حصہ دار رہے ہی نہیں۔
قدیم معاشروں (موئنجو داڑو، ہڑپہ اور ہندومت سے پہلے کے دور) کا مختصر تذکرہ کرنے کے بعد تاریخ اچانک ایک چھلانگ لگا کر ہندوستان میں مسلمانوں (محمد بن قاسم) کی آمد کے مرحلے تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش میں کہ مسلمان، فتوحات اور غلبے کی خواہشات سے متاثر ہوئے بغیر ہمیشہ اعلیٰ مقاصد ہی کے لیے میدان عمل میں آئے، سندھ کے حکمرانوں سے عربوں کے تصادم کو حاجیوں کے ایک جہاز پر حملے کا رد عمل ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہ نامکمل تصویر ان متعدد سابقہ کوششوں کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے جو عربوں نے مکران ۔بلوچستان کے علاقے میں داخل ہونے کے لیے کیں اور جنھیں مقامی حکمرانوں نے پسپا کر دیا۔ ان تصادمات کو اس زمانے میں غالب حقیقی سیاسی اور معاشی محرکات مثلاً تجارتی راستوں پر کنٹرول اور سلطنت کی توسیع وغیرہ کے ساتھ مربوط کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ ان عوامل کے دیانت دارانہ اور تنقیدی جائزہ سے صرف نظر کر کے اور ان فتوحات کی ایک پرشکوہ اور رومانوی تصویر پیش کر کے طالب علم کو ان قوتوں اور حرکیات کے علم سے محروم رکھا جاتا ہے جو تاریخ کی تشکیل کرتی ہیں، بالخصوص وہ جنھوں نے ہمارے اپنے خطے کی تاریخ کو تشکیل دیا ہے۔ اس سے ملتا جلتا تبصرہ بعد کے مسلمان حملہ آوروں مثلاً محمود غزنوی، محمود غوری اور بعد ازاں مغلوں اور آخر کار احمد شاہ ابدالی کی آمد کے بارے میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ ان حملوں کے پیچھے موجود محرکات پر معروضی انداز میں بحث کرنے اور ان وجوہ کو واضح کرنے کے بجائے کہ حملہ آور طاقتیں کیوں عمومی طور پر مقامی مزاحمت کو فرو کرنے میں کامیاب رہیں، ان تمام واقعات کو اسلام بمقابلہ ہندو ازم کے سلسلے ہی کی مختلف کڑیاں ظاہر کیا جاتا ہے جس میں ہر مہم جو کی کام یابی اسلام کی عظمت اور فتح یابی قرار پاتی ہے۔

برطانوی دور: استعماری تجربہ اور تحریک آزادی

تاریخ کے ایک اگلے دور کی طرف آئیے۔ برطانویوں کی آمد اور ان کی جانب سے بھارت پر منظم اور تیز رفتار قبضہ اور لوٹ مار کے حوالے سے نصابی کتابیں افسوس ناک حد تک ایسی معلو مات سے خالی ہیں جن سے سامراجیت کے مظہر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہو۔ یہ کتابیں تحریک احیاے علوم اور اس کے نتیجے میں مغرب میں علم اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا کوئی ذکر نہیں کرتیں اور نہ ان میں صنعت کی اس تیز رفتار ترقی کا ذکر ہے جس نے (مصنوعات کی تیاری کے لیے) سستے خام مال اور (ان کی کھپت کے لیے) منڈیوں پر قبضے کا داعیہ مغرب میں پیدا کیا۔ وہ یہ بالکل نہیں بتاتیں کہ یہ دراصل اعلیٰ فہم وادراک، جدید ٹیکنالوجی اور انسانوں کی جانب سے ان کی بہتر تنظیم جیسے اسباب تھے جنھوں نے چند ہزار انگریزوں کے لیے کروڑوں ہندوستانیوں کو مغلوب کر لینا ممکن بنا دیا۔ اس طرح سے یہ کتابیں علم کی طاقت اور ٹیکنالوجی پر عبور کی اہمیت کا سبق ذہن نشین کرانے میں ناکام رہتی ہیں۔ طالب علم کو تاریخ کے ایک متبادل منظر سے بھی روشناس کرانا چاہیے، مثلاً اس سے یہ پوچھنا چاہیے کہ دنیا کے اس حصے کی تاریخ کیا ہوتی اگر ابتدائی مغل بادشاہ مغربی تاجروں کی اس پیش کش کو حقارت سے ٹھکرا نہ دیتے کہ وہ اپنی نو ایجاد شدہ ٹیکنالوجی مثلاً پرنٹنگ پریس کو ہندوستان میں متعارف کرانا چاہتے ہیں۔ یہ پیش کش اکبر نے اس عذر کا سہارا لیتے ہوئے مسترد کر دی کہ اس سے کاتب بے روزگار ہو جائیں گے۔ علاوہ ازیں یہ کتابیں مغل حکومت اور اس وقت کے نوابوں اور راجاؤں کے دقیانوسی اور دیوالیہ معاشی اور معاشرتی نظام کے بارے میں خاموش ہیں جس نے عام آبادی میں اس بات کا کوئی محرک نہیں رہنے دیا تھا کہ وہ برطانوی اقتدار کے خلاف فوری طور پر اٹھ کھڑے ہوتے۔ یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخی بیانات مقامی سطح پر معاشی اور سماجی لحاظ سے اثر انداز ہونے والے عوامل کے ذکر سے بالکل خالی ہیں۔

سماجی ڈھانچہ

اگرچہ بہت سے مقامی افراد مثلاً میر جعفر اور میر صادق اور نظام حیدر آباد کی غداری کا تو اکثر ظاہر کیا جاتا ہے، لیکن جس حقیقت کا بالکل کوئی تذکرہ نہیں کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ اس وقت مغل حکومت کے بے دست وپا ہو جانے کے بعد کوئی بلند تر سیاسی اکائی مثلاً قوم یا ملک کا کوئی تصور ہی باقی نہیں رہا تھا جس کے ساتھ لوگ وفاداری اختیار کرتے۔ ایک مقامی طبقاتی ڈھانچہ رکھنے والے روایتی معاشرے کے ایک قومی ریاست بننے کے گہرے مضمرات طالب علم پر بالکل واضح نہیں ہو پاتے، گروہی امتیازات کا تو ذکر ہی کیا۔ اس بحث کی غیر موجودگی میں یہ بات ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہو جاتی ہے کہ ایک اوسط درجے کا طالب علم انیسویں صدی کے آخری حصے میں ابھرنے والے قوم پرستی کے مختلف اور اکثر اوقات متضاد رجحانات کو سمجھ سکے۔ ساری گفتگو ہمیشہ مسلمان بمقابلہ ہندو کے تناظر میں ہوتی ہے ، بمقابلہ ان زیادہ بنیادی تقسیمات کے جو اس وقت موجود تھیں، یعنی انڈین قوم پرستی بمقابلہ برطانوی استعمار۔ اس طرح کی تاریخی بحث لوگوں میں محض دشمنیوں ہی کو دوام بخش سکتی ہے جبکہ اصل مطلوبہ مقصد، یعنی ایک ایسی پاکستانی شناخت کی تشکیل جس کی بنیاد محض ہندو شناخت کی نفی کے علاوہ کسی اور چیز پر بھی ہو، اس سے کسی طور بھی حاصل نہیں ہوتا۔

استحصال

اس طریقے کے نقصانات میں سے، جو سامراج مخالف جدوجہد کو (ہندو مسلم) گروہی اختلافات کے مقابلے میں محض ثانوی درجے کی اہمیت دیتا ہے، ہے، ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ پاکستانی طالب علم کو ماضی کے سامراجی نظام اور اس کی ان باقیات سے متعارف نہیں کرایا جاتا جو آج بھی سول اور ملٹری افسر شاہی، جاگیرداروں اور دلال کا کردار ادا کرنے والے سرمایہ داروں کی صورت میں اس کی زندگی پر حاوی ہیں۔ سامراجی طاقتوں نے ان لوگوں کے اندر سے جنھوں نے اپنی قوم کے لوگوں کے برخلاف اس سے تعاون کیا تھا، کیسے نئے اشرافی طبقات پیدا کیے، اور جاگیریں اور زمینیں ان کو کیسے الاٹ کرائی گئیں، اس پر کوئی بحث نہیں ہوتی کیونکہ ان وسیع وعریض جاگیروں اور ان کے ساتھ ازخود حاصل ہو جانے والی طاقت اور استحقاقات کو تقسیم کے بعد پچپن سال سے طاقت اور اقتدار کے نظام میں ایک ایسی مقدس چیز کی حیثیت حاصل ہے (جنھیں چھیڑنے کی کوئی جرات نہیں کرتا) سامراجیت نے انڈین معاشرے کے ارتقا کو کیسے متاثر کیا، مثال کے طور پر (انگریزوں نے) اپنی مصنوعات کی منڈیاں بنانے کے لیے بڑی تعداد میں فاضل سرمایے کو کیسے بیرون ملک منتقل کر دیا جس کے نتیجے میں مقامی صنعت معذور بلکہ درحقیقت ختم ہو گئی، اور اس کے نتیجے میں غربت کا دور دورہ کیسے ہوا، ان سب سوالوں کا جواب ہماری کتابیں نہیں دیتیں۔ سامراجی طاقت کی جانب سے لوگوں کے معاشی استحصال اور سماجی سطح پر اختیارات سلب کرنے کی پالیسی کو نمایاں نہیں کیا جاتا، غالباً اس لیے کہ لوگوں کو بے اختیار کرنے اور ان کے استحصال کا یہ طریقہ بعینہ آج بھی قائم ودائم ہے، فرق صرف یہ ہے کہ بدیسی آقاؤں کی جگہ دیسی آقاؤں نے لے لی ہے۔

گروہ بندی پر زور

جیسا کہ اوپر اختصار سے ذکر ہوا، ایک قابل لحاظ نکتہ یہ ہے کہ نصابی کتابوں میں آزادی کی ساری جدوجہد کے بیان میں (ہندو مسلم) گروہی مسئلہ غالب ترین حیثیت حاصل کر لیتا ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز امر ہے کہ ہماری کتابوں میں سارا زور یہ دکھانے پر صرف کیا گیا ہے کہ یہ جدوجہد مسلمانوں کی جانب سے ایک ممکنہ ہندو تسلط کے خلاف کی جا رہی تھی، نہ یہ کہ ایک استعماری طاقت کے خلاف یہ انڈیا کے لوگوں (ہندو اور مسلمانوں وغیرہ) کی مشترکہ جدوجہد تھی۔ یہ موضوع سرسید احمد خان کو ایک ایسی شخصیت کے طور پر نمایاں کرنے سے شروع ہوتا ہے جنھوں نے مسلمانوں میں دور جدید کی ضروریات کے حوالے سے بیداری پیدا کی اور مسلم قومیت کی بنیادیں قائم کیں۔ اس کا نقطہ کمال یہ ہے کہ قائد اعظم ایک ’’ملا‘‘ تھے جو شریعت کا نظام قائم کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ اس بحث میں جو چیز غائب ہے، وہ یہ کہ مولانا آزاد جیسے بہت سے ممتاز مسلمان قوم پرست ایسے بھی تھے جو تحریک آزادی کے ہراول دستے میں شامل تھے اور تقسیم کے تصور کے شدید مخالف تھے۔ مسلمانوں کو ایک متفق الرائے گروہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مسلم سیاسی قومیت کے ارتقا کے دوران میں جو دوسرے مسلم نقطہ ہائے نظر سامنے آئے، ان کی ترجمانی اس میں بالکل نہیں ہے۔ ممتاز علما سمیت بہت سے مسلمان تقسیم کے خلاف تھے جبکہ بہت سے دوسرے لوگ سرے سے اس سوال میں دل چسپی ہی نہیں رکھتے تھے۔ تاریخی صحت اور درستی کی خاطر یہ اہم بات ہے کہ طالب علموں کو یہ بتایا جائے کہ نہ مسلمان ایک متفق الرائے گروہ تھے اور نہ ہندو۔ دونوں جانب کئی آرا تھیں جن کا ذکر نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے۔ تاہم ان گروہوں کے اندر پائے جانے والے اختلافات اور اختلافی آوازوں کا ہماری کتابوں میں کوئی ذکر نہیں جس سے اس ساری جدوجہد کے بارے میں بالکل لگی بندھی، بے لچک اور ہر لحاظ سے یکسو ہونے کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ (مثلاً انٹر میڈیٹ کلاسز، مطالعہ پاکستان، صفحہ ۱۹، مصنف مظہر الحق، طباعت چہارم، ۲۰۰۰، بک لینڈ) کم از کم انٹر میڈیٹ کے نسبتاً پختہ مرحلے پر طلبہ تاریخ کی پیچیدگیوں سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں اور ہر معیار کے لحاظ سے ان چیزوں کو نصاب میں شامل ہونا چاہیے۔
ان واقعات اور شخصیات کو معروضی انداز میں شامل کرنا اور متعلقہ استدلالات کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر بحث کرنا بے حد اہم ہے۔ اس سے طلبہ میں یہ احساس پیدا ہوگا کہ سیاسی اور نظریاتی اختلافات لازمی طور پر کسی گروہ کے ساتھ نفرت اور دشمنی کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتے بلکہ یہ مختلف سماجی، معاشی اور سیاسی پس منظروں کا قدرتی نتیجہ ہوتے ہیں۔ اس سے ہمارے معاشرے میں رواداری اور جمہوریت کے کلچر کو فروغ دینے اور اپنے ہمسایوں یعنی ہندوؤں کے ساتھ دشمنی کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

معاصر مسائل

نصابی کتابیں قائد اعظم او رحصول پاکستان کے لیے ان کی کوششوں کے تذکرہ سے جس قدر بھری پڑی ہیں، اسی قدر یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ ان کتابوں میں کہیں بھی ان کے اعلیٰ لبرل، جمہوری اور وادارانہ تصورات کو نمایاں نہیں کیا گیا۔ دستور ساز اسمبلی میں ان کی ۱۱۔ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کا کسی بھی سطح پر کوئی تذکرہ نہیں ہے، جس میں انھوں نے ایک جمہوری اور سیکولر پاکستان کا خاکہ واضح کیا تھا، جس میں ریاست کو اپنے شہریوں کے مذہب سے کوئی واسطہ نہیں ہوگا اور جس میں مذہبی امتیاز کے بغیر تمام شہری مساوی حیثیت کے حامل ہوں گے۔ ہم اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے اس ذہنی رجحان کا اظہار اس بات سے کیا تھا کہ ملک کی پہلی کابینہ جو قائد اعظم نے تشکیل دی، اس میں وزیر قانون ایک ہندو اور وزیر خارجہ ایک احمدی تھا۔ ایسا ہم اس مفروضے کے تحت کرتے ہیں کہ یہ بات اس افسانے میں، جسے ہم برقرار رکھنا چاہتے ہیں، فٹ نہیں بیٹھتی کہ قائد اعظم کے ذہن میں ایک ’’اسلامی‘‘ ریاست کا قیام تھا نہ کہ محض مسلم اکثریتی ریاست کا قیام۔ اسی تناظر میں ان تمام غیر مسلموں کا کوئی ذکر نصابی کتابوں میں نہیں ملتا جنھوں نے اس خطے کی، جو اب پاکستان کہلاتا ہے، تعلیمی، سماجی اور انسانی ترقی میں خدمات انجام دیں۔ اگرچہ وہ تعلیمی ادارے، ہسپتال اور پارک وغیرہ جو انھوں نے قائم کیے، اب بھی ان کے جذبہ خدمت انسانیت کی یادگار کے طور پر موجود ہیں، نصابی کتابوں کی حد تک وہ ناقابل قبول شخصیات ہیں۔ جن غیر مسلموں نے ۱۹۴۷ء کے بعد پاکستان کی خدمت کی، ان کا حال بھی اس سے بہتر نہیں۔ چاہے وہ ڈاکٹر عبد السلام جیسا عظیم سائنس دان ہو، یا اے آر کارنیلیس جیسا ممتاز قانون دان یا سچل چودھری جیسا فوجی ہیرو یا بہت سے دوسرے لوگ جنھوں نے اس ملک کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں، ان کا کہیں بھی شایان شان ذکر نہیں کیا گیا۔ ان سے غیر مسلموں کے خلاف اس نفرت اور تعصب کو تقویت ملتی ہے جس کا حصول اسلامی شناخت کے فروغ کے نام پر پورے تعلیمی نظام کا ہدف ہے۔
تاہم یہ صرف غیر مسلم ہیروز اور غیر معمولی شخصیات ہی نہیں ہیں جن کے تذکرہ سے نصاب خالی ہے۔ اس سے بھی زیادہ نمایاں حقیقت یہ ہے کہ سول سوسائٹی کے معاصر مرد اور خواتین ہیروز، چاہے وہ قومی ہوں یا بین الاقوامی، مسلمان ہوں یا غیر مسلم، افراد ہوں یا ادارے، نصابی کتابوں سے مکمل طور پر خارج ہیں۔ نہ سائنس دانوں کا کوئی ذکر ہے، نہ فن کاروں اور سماجی کارکنوں کا اور نہ صحافیوں اور سیاست دانوں کا۔ سول سوسائٹی کی حاصل کردہ کام یابیوں کو نمایاں کرنے کے حوالے سے نصابی کتابوں میں موت کی سی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ معاصر ہیروز میں سے اگر کسی کے متعلق بچوں کو بتایا گیا ہے تو وہ صرف فوجی ہیروز ہیں۔ یقیناًان لوگوں کے مقام و مرتبہ کو کم کرنا کسی کا مقصد نہیں ہو سکتا جنھوں نے اس ملک کے لیے لڑتے ہوئے جانیں قربان کر دیں، لیکن یہ بات بھی اگر زیادہ نہیں تو اتنی ہی اہم ضرور ہے کہ ان لوگوں کو بھی نمایاں کیا جائے جنھوں نے اس ملک کی بہتری کے لیے عمر بھر کام کیا۔ سول سوسائٹی کے ہیروز کا کوئی ذکر نہ کرنا یہ تاثر پیدا کرتا ہے کہ (ہمارے معاشرے میں) ایسے قابل ذکر افراد پائے ہی نہیں جاتے جن کے کردار کو بچوں کے سامنے نمونے کے طور یا اثر انگیز شخصیات کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ اس سے فوج کے اس دعوے کو بھی تقویت ملتی ہے کہ وہی ملک کی نجات دہندہ ہے اور اس کے افراد سول سوسائٹی کے افراد سے برتر ہیں۔ معاصر شخصیات کا ذکر نہ کرنے کے متعدد وجوہ ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم عمومی طور پر کسی شخصیت یا واقعہ کو محض ’’ہر لحاظ سے اچھا‘‘ یا ’’ہر اعتبار سے برا‘‘ ہی کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ کوئی بھی عوامی شخصیت جو کسی حوالے سے متنازعہ ہے، اس اصول پر خارج از بحث ہو جاتی ہے۔ ہمارے زمانے کی زیادہ تر بڑی شخصیات بظاہر ان غیر حقیقی معیارات پر پورا اترنے سے قاصر ہیں ، اور اس کی وجہ بالعموم یہ نہیں کہ ان کے کارنامے معمولی ہیں، بلکہ اصل سبب ان کے مذہبی یا سیاسی نظریات یا شخصی اعجوبہ کاریوں سے منسلک ہوتا ہے۔
یہ ایک بے حد اہم بات ہے کہ ہماری نصابی کتابیں معاشیات اور سیاسیات میں ایک شدید حد فاصل قائم رکھے ہوئے ہیں اور سماجی تنقید اور سوالیہ رویے کے پیدا ہونے کو دبانا چاہتی ہیں۔ یہ رویہ تقسیم اقتدار کے مقامی نظام اور عالمی مالیاتی اداروں دونوں کے حوالے سے یکساں موجود ہے۔ مثلاً معاشرتی علوم کی کتابوں (انٹر میڈیٹ کلاسز، مطالعہ پاکستان، مصنف مظہر الحق، طباعت چہارم، ۲۰۰۰، بک لینڈ) میں ایک باب پاکستانی کے قدرتی وسائل کے لیے مخصوص ہے۔ تاہم اس پر سرے سے کوئی بحث نہیں کہ معاشرے میں معاشی وسائل کے تقسیم کے مضمرات کیا ہیں، اور وسائل اور مواقع تک غیر مساوی رسائی کے کیا اثرات افراد، گروہوں اور صوبوں کی زندگیوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ اسی طرح ریاست کی اس ذمہ داری پر بھی کوئی گفتگو نہیں کی گئی کہ وہ صوبوں، طبقات اور دونوں صنفوں (مرد وعورت) کے مابین وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے۔
شہریوں کے حوالے سے ریاست کی ذمہ داریوں ہی کے تناظر میں اگرچہ حکومت کی آمدن اور اخراجات سے متعلقہ باب میں ٹیکس لگانے کا ذکر کیا گیا ہے (صفحہ ۹۷ تا ۹۹) لیکن اس پر کوئی گفتگو نہیں کہ لوگ ٹیکس کیوں دیتے ہیں، اس کے بدلے میں انھیں کیا ملنا چاہیے اور کیا ہماری ریاست انھیں فی الواقع وہ سہولیات دے رہی ہے جو انھیں ادا کردہ ٹیکسوں کے عوض میں ملنی چاہییں؟ کیا حکومت پیسہ صحیح جگہ پر خرچ کر رہی ہے یا اس کی ترجیحات غلط ہیں؟ اس میں نہ صرف شہریوں کے حقوق کا بلکہ شہریوں کے حوالے سے ریاست کی ذمہ داریوں کا نیز اس بات کا ذکر بھی شامل ہونا چاہیے کہ عوامی رقم کیسے وصول اور خرچ کی جاتی ہے اور یہ رقم ادا کون کرتا ہے اور اسے خرچ کون کرتا ہے، وغیرہ۔

نتیجہ

سطور بالا میں ہم نے ان بنیادی موضوعات کا ایک خاکہ پیش کیا ہے جن کے بارے میں ہم سمجھتے ہیں کہ انھیں چن کر اور منصوبہ بندی کے ساتھ نصابی کتابوں سے خارج کیا گیا ہے، اور اس کے پیچھے کوئی علمی یا تعلیمی اسباب نہیں بلکہ زیادہ تر تنگ نظری پر مبنی نظریاتی وجوہ کارفرما ہیں۔ جابجا ہم نے ان متعین نتائج کی نشان دہی کرنے کی بھی کوشش کی ہے جو ان موضوعات کے شامل نہ ہونے سے سے طلبہ کے ذہنی رویے اور ان کے تصورات میں پیدا ہو رہے ہیں کیونکہ ان کو انسان دوستی اور آزادانہ فکری وذہنی فضا سے کوئی واسطہ پیش نہیں آتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عدم رواداری، بنیاد پرستی اور انتہا پسندی جیسے امراض دیگر بہت سے بنیادی ذرائع کے علاوہ اس طرح کے نصاب اور نصابی کتابوں سے بھی فروغ پا رہے ہیں جو کہ سکولوں کے ایک وسیع عوامی نظام میں نافذ العمل ہیں۔
ان موضوعات کو نظر انداز کرنے کا ایک آخری پہلو بھی ہے جس کی طرف ہم توجہ دلانا چاہتے ہیں اور اس کا تعلق ایک ایسی شخصیت کی تشکیل سے ہے جو اختلافات اور بحث مباحثہ کا احترام کرتی ہو۔ انسانی حقیقت کو، چاہے وہ تاریخی ہو یا سیاسی یا سماجی، صرف ایک ہی منفرد تعبیر کی صورت میں پیش کر کے جو کہ کسی مخصوص نصابی کتاب کے ایک مخصوص پیرا گراف میں لکھی ہوئی ہے، ہماری کتابیں دور جدید میں تعلم کے پورے تصور کا مذاق اڑا رہی ہیں۔ پورا نصاب مجموعی طور پر اس بنیادی خامی کا شکار ہے کہ اس میں تنقیدی سوچ کے ذریعے سے تجزیہ کرنے، اور سیکھنے کے قدرتی عمل میں اختلاف رائے کو فطری طور پر طلبہ کے مزاج اور رویے کا حصہ بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ بذات خود سب سے بنیادی تصوراتی خلا ہے جو ہمارے تعلیمی نظام میں پایا جاتا ہے اور اس پر سنجیدہ انداز میں توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ایک ایسی نسل پیدا ہو جس کے لیے تعلیم کو محض مخصوص معلومات کا ڈھیر اکٹھا کرنے کے بجائے فہم وادراک کے ایک ذریعے اور آلے کی حیثیت حاصل ہو۔

SDPI کی رپورٹ کا ایک جائزہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

(سرکاری نظام تعلیم میں رائج نصابی کتب پر اسلام آباد کی ایک غیر حکومتی تنظیم SDPI کی تیار کردہ ایک رپورٹ ان دنوں علمی وتعلیمی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ ہمارے روایتی قومی مزاج کے باعث بحث ومباحثہ میں اس رپورٹ کے منفی پہلوؤں پر توجہ زیادہ مرکوز ہو گئی ہے اور اس کے نتیجے میں بحث کے بہت سے مثبت اور قابل اعتنا گوشے نظر انداز ہو گئے ہیں۔ پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب نے اسی تناظر میں اپنے خیالات قلم بند کیے ہیں جنھیں عمومی بحث ومباحثہ کی غرض سے یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

پاکستان کی تاریخ محض سیاسی کشمکش کی تاریخ نہیں ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے اسے مختلف مسائل کا سامنا رہا ہے۔ ان مسائل کی نوعیت مختلف ہونے کے باوجود ’’تعلیم ‘‘ ہمیشہ موضوع بحث ہونے کے باعث ہر دور کا مشترکہ مسئلہ رہی۔ یہ بات بہرحال تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ تعلیم کے حوالے سے حکومتوں کا رویہ بالخصوص اور غیر حکومتی تنظیموں (NGOs) کا رویہ بالعموم، فقط گفتار تک محدود رہا۔ حکومتی اور غیر حکومتی سطح پرہم لوگ کس حد تک گفتار کے غازی ہیں، ہماری شرح خواندگی اس کی واقعاتی گواہ ہے۔ 
تعلیم کے حوالے سے ہی وطنِ عزیز میں مختلف طبقات کے درمیان کھینچا تانی جاری رہی۔ پہلے پہلے مسٹر اور ملا کی تقسیم تھی۔ حکومتی ادارے مسٹروں کو جنم دے رہے تھے اور خالصتاً مذہبی ادارے ملا پیداکر رہے تھے۔ ان دو طبقات کی سوچ، فکر اور اپروچ میں گہری خلیج حائل تھی جس کی وجہ سے معاشرہ بھی منقسم تھااور نت نئے مسائل سر ابھار رہے تھے ۔ ان حالات کے پیشِ نظر دونوں طرف سے اصلاحِ احوال کی کوشش کی گئی۔ نتیجے کے طور پراب خلیج پہلے جیسی گہری نہیں رہی۔
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ وطنِ عزیز کے مذکورہ دوطبقات نے جب شدید تگ و دو کے بعد کچھ ہم آہنگی حاصل کر لی تا کہ قومی یک جہتی کے تقاضے نبھائے جا سکیں اور معاشرتی اشتراک بھی راہ پاسکے تو ایک نہایت محدود طبقے نے قومی یک جہتی کے نام پر ہی قومی انتشار کی جھنڈی لہرا دی اور یہ واویلا شروع کردیا کہ حکومتی اداروں میں ’’اسلام کی تعلیم‘‘ دی جا رہی ہے جس سے نہ صرف جمہوری قدریں پامال ہو رہی ہیں بلکہ قومی یک جہتی بھی پارہ پارہ ہونے کا خدشہ ہے۔ اس وقت ہمارے پیشِ نظر اسی طبقے کی ایک رپورٹ ہے جس میں نصابِ تعلیم اور نصابی کتابوں (اردو ، انگلش ، سوشل سٹڈیز اور سوکس )کو ہدفِ تنقید بنایا گیاہے۔ The Subtle Subversion کے عنوان سے یہ رپورٹ Sustainable Development Policy Institute نے پیش کی ہے ، جسے ہم آئندہ صفحات میں SDPI کہیں گے ۔ Subtle Subversion کے ۱۴۰صفحات گیارہ ابواب اور تین ضمیموں پر مشتمل ہیں، جنھیں مختلف اشخاص نے لکھا ہے۔ آغاز میں چار صفحات کا خلاصہ بھی الگ سے دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مرتبین جناب اے ایچ نیر اوراحمد سلیم ہیں۔ بہتر ہو گا کہ تمام ابواب کا الگ الگ سرسری جائزہ لینے سے قبل ان نکات کو دیکھ لیا جائے جو اس رپورٹ میں ’’مکرر‘‘ وارد ہوئے ہیں۔ 
کہا گیا ہے کہ ایک ’’ترقی پسند ، اعتدال پسند اور جمہوری پاکستان ‘‘ہمارا مقصد ہے ،یہ مقصد اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب نظامِ تعلیم اس سے ہم آہنگ ہو۔ مزید یہ کہ بچوں میں مذکورہ مقصد کی تفہیم اور اس کی قدرو منزلت اجاگر کرنے کے ذریعے سے ہی پاکستان مطلوبہ ڈگر پر چل سکتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق نصابِ تعلیم اور نصابی کتابیں پاکستان کے ترقی پسند، اعتدال پسند اور جمہوری ہونے میں بڑی رکاوٹ ہیں، اس لیے تمام ٹیکسٹ بک بورڈز اور وفاقی وزارتِ تعلیم کے نصابی ونگ کا بوریا بستر لپیٹ دیا جانا چاہیے۔ مقامِ حیرت ہے کہ اس رپورٹ میں جابجا فوجی آمروں پر تنقید ملتی ہے اور تعلیمی خامیوں کو بھی ان سے نتھی کیا گیا ہے لیکن رپورٹ کا آغاز جناب جنرل پرویز مشرف کے ۱۴۔ اگست ۲۰۰۲کے ’’حکیمانہ خطاب‘‘ سے ہوتا ہے ۔ اگر ہم یہ نکتہ اٹھائیں گے کہ (SDPI) کے کرتا دھرتا افراد نے جنرل موصوف کی ’’نوازشات‘‘ سمیٹنے کی کامیاب کوشش کی ہے (۱) تو ہم پر الزام دھرا جائے گا کہ ہم ان پر الزام عائد کر رہے ہیں اور ثبوت کے طور پر یہی کہا جائے گا کہ ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ جنرل صاحب کے ’’خطبہ مبارک‘‘ کے تذکرے کے فوراً بعد موصوف کی ’’کوتاہ بینی‘‘ کی نشاندہی بھی کر دی گئی ہے، یعنی یہ کہ جنرل صاحب نے فرقہ واریت، انتہا پسندی، دہشت گردی اور ultra-islamist عناصر کا ذکر تو کر دیا لیکن یہ غور نہیں فرمایا کہ یہ قباحتیں کیونکر معاشرے میں رچ بس گئیں؟ رپورٹ کے مرتبین کے مطابق اس کی وجہ محض ملاؤں کے مدارس نہیں ہیں بلکہ مدارس تو کسی شمار میں ہی نہیں، اصل ’’فساد کی جڑ‘‘ حکومتی سرپرستی میں چلنے والے تعلیمی اداروں کا نصاب اور ٹیکسٹ بک بورڈزہیں۔ ہماری رائے میں ملک کے سابقہ فوجی آمروں پر کڑی تنقید کے باوجود اور جنرل پرویز مشرف پر Suggestive criticism کے با وصف اس رپورٹ کا مطالعہ یہی تاثر دیتا ہے کہ رائے عامہ میں مطلوبہ تبدیلی پیدا کرنے کے لیے زمینی حقائق پر مبنی جمہوری، عوامی اور معاشرتی عوامل کو اختیار کرنے کے بجائے ایک فوجی آمر کی خوشنودی حاصل کر کے اپنی رائے اور تجاویز کو ملک کی اکثریتی آبادی پرجیسے تیسے ٹھونس دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ( ایسا ایک حد تک ہو بھی چکا ہے ) پرانے زمانے میں گھروں میں ایک ’’چور دروازہ‘‘ رکھا جاتا تھا تا کہ کسی ہنگامی حالت میں اسے استعمال کیا جا سکے۔ غالباً یہی رویہ ہے جس کے تحت اکیسویں صدی میں رہنے والے لوگ، اور وہ بھی ایسے جو اپنے تئیں ’’جدید ترین‘‘ ہیں، پالیسی سازی کے لیے چور دروازے اختیار کرنے کے متمنی اور دلدادہ ہیں۔ 
اس رپورٹ میں جس طرح غیر مسلم اقلیتوں کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے بھی بہتوں کے علم میں اضافہ ہوگا۔ تاثر یہ دیا گیا ہے کہ غیر مسلم پاکستان میں خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں (۲) جو شخص پاکستان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا، وہ رپورٹ کے مطالعے کے بعد یہی خیال کرے گا کہ پاکستان میں مذہبی اعتبار سے بڑی ورائٹی ہے اورایک اکثریتی طبقہ دیگر مذا ہب والوں کو زبردستی اپنے مذہب کی تعلیم دے رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقلیتوں کے ذکر کے ضمن میں(ص ۱۶ پر ) دستورِ پاکستان ۱۹۷۳ کے آرٹیکل ۳۶ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے ۔ ہمیں نہ تو اقلیتوں کے حقوق کی بات اٹھانے پر اعتراض ہے اور نہ ہی دستور کا حوالہ دینے پر۔ ہم تو فقط یہ نکتہ بیان کریں گے کہ SDPI کی اس رپورٹ میں پاکستان کو ’’اسلامی ریاست‘‘ کہنے پر تنقید کیوں کی گئی ہے؟ کیا پاکستان کے ساتھ ’’اسلامی‘‘ کا لفظ دستورِ پاکستان نے نہیں لگایا؟ کیا کچھ لوگ ایسے ہی اسے اسلامی کہتے پھرتے ہیں؟ معترضین نے غالباً دستور کا پہلا آرٹیکل تو پڑھا ہو گا (تبھی تو آرٹیکل ۳۶ تک جا پہنچے) ، جس کے مطابق پاکستان ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ قرار پاتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ دستورِ پاکستان کے آرٹیکلز کو اپنے موقف میں تقویت دینے کے لیے استعمال کرنے والے اسی دستور کے پہلے آرٹیکل سے چشم پوشی کا مظاہرہ کیوں کررہے ہیں؟ ہمارے خیال میں اس رپورٹ کو پیش کرنے والے پاکستان کو نہ تو اسلامی دیکھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی جمہوریہ بلکہ شاید وہ پاکستان میں دستوری نظام ہی نہیں چاہتے۔ دستورِ پاکستان کے اسلامی ہونے کے باوجود انھیں ’’اسلامی‘‘ قابلِ قبول نہیں ، اور دستورِ پاکستان کے ’’جمہوری‘‘ ہونے کے باوجودوہ ایک فوجی آمر سے قربت کی پینگیں بڑھانے کی کوشش میں ہیں تاکہ ان کے موقف میں ’’سرکاری وزن‘‘ شامل ہو جائے۔ (خیال رہے کہ کوئی ملک اسی وقت جمہوریہ کہلاتا ہے جب اس کا سربراہ ’’منتخب‘‘ ہو) یہ اپروچ ان کے ’’ماڈرن ‘‘ہونے کوخوب بے نقاب کر رہی ہے۔ 
SDPI کی اس رپورٹ میں بہت زور دے کر یہ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ اسلام اور پاکستانی نیشنل ازم کو لازمی درسی کتب میں ’’مترادف‘‘ معنوں میں استعمال کیا جاتاہے، جس سے غیر مسلم پاکستانی تحفظات کا شکار ہو رہے ہیں۔ اگرچہ اس نکتے کے ڈانڈے ’’اسلامی ریاست‘‘ والے نکتے سے جا ملتے ہیں اور اس رپورٹ میں بات کو اسی انداز میں لیا گیا ہے (اور حقیقتاًبات ہے بھی یہی) لیکن ہمارا رجحان اس سے متفق ہونے کے باوجود’’اپروچ‘‘ کے اعتبار سے مختلف ہے۔ ہماری رائے میں ’’امہ‘‘ کے تصور کے بموجب دنیا میں ایک وقت میں ’’ایک اسلامی ریاست‘‘ قائم کی جاسکتی ہے (خلافت کاتصور بھی یہی ہے ) اب اگر پاکستان کو اسلامی ریاست ’’تسلیم‘‘ کر لیا جائے تو اس کا مطلب سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ دیگر مسلم اقتدار کے حامل علاقے محض پاکستان کی توسیع ہیں اور بس۔ سوال یہ ہے کہ کیا دیگر علاقے پاکستان کی اس ’’توسیعی حیثیت ‘‘کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کو تیار ہیں ؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ اس وقت کیا فقط پاکستان ہی اسلامی ریاست ہے؟آخر ’’اسلامی‘‘ کہلانے والی دیگر ریاستیں بھی تو موجود ہیں، ان کا کیا کیا جائے؟ ہماری رائے میں تو سب سے بڑا سوال، جس کا جواب آج کی عالمگیریت کی فضا میں دیا جانا اشد ضروری ہے، یہ ہے کہ کیا اسلامی ریاست کی ہےئتِ ترکیبی وہی ہے جو ہمارے ذہنوں میں اس وقت موجود ہے ؟شاید او آئی سی(OIC) کسی وقت اتنی فعال ہوجائے کہ اسلامی ریاست (خلافت) کی ذمہ داریاں سنبھال لے، تب موجودہ اسلامی ریاستوں کی حیثیت ’’مسلم اکثریتی و مسلم اتھارٹی کے حامل ‘‘ علاقوں کی ہو گی (جیسا کہ وفاقی نظام میں ریاست ایک ہوتی ہے ، لیکن صوبوں کی داخلی خود مختاری اور شناخت بھی قائم رہتی ہے۔ یوں سمجھیے کہ ایک خلیفہ کے تحت مختلف سلاطین) ہمارا خیال ہے کہ اس وقت عالمگیریت کے دباؤ کی وجہ سے ریاستی نظام جس طرح proliferation کا شکار ہے ، مذکورہ امر کا واقع ہو جانا ناممکن نہیں ہو گا ۔ (۳) بہرحال The Subtle Subversion نامی رپورٹ پیش کرنے والوں سے گزارش ہے کہ اگر انھیں حقیقتاً پاکستان کا اسلامی ریاست کہلواناچبھتا ہے اور انھیں پاکستانی نیشنل ازم اور اسلام مترادف معلوم ہوتے ہیں، تو انھیں دوا اور دعا کرنی چاہیے کہ ’’امہ‘‘ کا تصور جلد از جلد متشکل ہو جائے۔اس طرح ان کے تحفظات(ہماری محولہ بالا رائے کے بموجب) خود بخود ختم ہو جائیں گے۔
SDPI کی اس رپورٹ میں ’’نظریہ پاکستان ‘‘ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا گیا ہے۔ جہاں تک نظریہ پاکستان کے ’’نظریہ اسلام‘‘ ہونے کا تعلق ہے ، اس کی بابت اسلامی ریاست کی بحث کے دوران بین السطور بات ہو چکی۔ SDPI کے صاحبانِ استدلال کو تحریکِ پاکستان کے سیاق و سباق میں اس نظریے کی ’’تاریخی حیثیت‘‘ پر شبہ ہے ۔ ان کے مطابق تحریکِ پاکستان کے ایام کے دوران نظریہ پاکستان کی ’’اصطلاح‘‘ کبھی استعمال نہیں ہوئی۔ یہ سراسر من گھڑت اصطلاح ہے۔ ہماری رائے میں اگر یہ اصطلاح تحریکِ پاکستان کے دوران میں استعمال نہیں ہوئی اور بعد میں اسے متعارف کروایا گیا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مختلف قومیں، تہذیبیں اور معاشرے حالات و واقعات کے تحت اور فکری ارتقا کرتے ہوئے گوناگوں اصطلاحات متعارف کراتے رہتے ہیں اور یہی عمل ان کے زندہ ہونے کا ثبوت ہو تا ہے۔ لیکن انصاف کا تقاضا ہے کہ اس رپورٹ کے اس نکتے سے اتفاق کیا جائے جس کے مطابق وطنِ عزیز میں تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے اور طلبہ و طالبات کو State oriented history ذہن نشین کروائی جا رہی ہے۔ خاص طور پر تحریکِ پاکستان کی تاریخ اچھی خاصی بگاڑ دی گئی ہے کیونکہ نظریہ پاکستان کی تاریخی حیثیت (تحریکِ پاکستان کے سیاق و سباق میں) مسلمہ نہیں ہے تو آخر کیوں اسے زبردستی تاریخ کے اس مخصوص دور کا حصہ بنایا جائے؟ خاص طور پر اسے جناح ؒ سے منسوب کر کے حقائق سے روگردانی کیوں کی جائے؟ جناحؒ کی اسلامیت کا مظہر ان کی بہت سی تقاریر ہیں۔ ان کا براہ راست حوالہ دیا جا سکتا ہے اور دیا بھی جاتا ہے۔ اربابِ بست و کشاد کو اس بابت سوچ بچار کرنی چاہیے۔ اسی طرح برصغیر پاکستان و ہند کی تاریخ کا بیشتر حصہ جو ہندوؤں اور مسلمانوں کی ’’مشترکہ تاریخ‘‘ شمار ہوتا ہے، اس سے نہ صرف ،صرفِ نظر کیا جا رہا ہے بلکہ الٹا ہندوؤں اور مسلمانوں کو متحارب اور متصادم دکھانے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے، اور اصل متحارب گروہ یعنی انگریز سامراج پر سیر حاصل بحث سرے سے کی ہی نہیں جاتی۔ نتیجے کے طور پر نوجوان نسل کے سامنے تاریخ کی اصل تصویر نہیں آتی اور اس کے ذہن میں محض ’’ہندو مخالفت‘‘ نقش ہو جاتی ہے۔ (۴) ہماری رائے میں اس امر کی واقعتا ضرورت ہے کہ تاریخ کو وسیع تر تناظر میں پڑھا جائے۔ بلاشبہ آج کی دنیا کی صحیح تفہیم مغربی سامراجیت کے تنقیدی مطالعے کے بغیر ممکن نہیں اور نہ ہی ایسے وسیع تناظر کے بغیر ہمارے طلبہ و طالبات میں وہ بالغ نظری پیدا ہو سکتی ہے جس کے ہم سب متمنی ہیں ۔ 
اس رپورٹ میں بجا طور پر کہا گیا ہے کہ اس خطے (جنوبی ایشیا)کی تاریخ کے ذکر کے بغیر محض ۱۸۵۷ کی جنگِ آزادی سے شروع ہو کر حال تک کی تاریخ پڑھانے سے(اور وہ بھی مسخ شدہ تاریخ )، اس خطے میں پر امن بقائے باہمی اور ہم آہنگی کے زریں اصول پروان نہیں چڑھ سکتے۔ تحریکِ پاکستان کے ضمن میں درست نشاندہی کی گئی ہے کہ کانگرس کو ہندو جماعت اور مسلم لیگ کو مسلمانوں کی جماعت قرار دے کر دیگر جماعتوں کا ذکر بالکل گول کر دیا گیا ہے، حالانکہ ان جماعتوں (مجلسِ احرارِ اسلام ، جمعیت علمائے ہند وغیرہ) کا برصغیر کی سیاست میں کافی فعال اور اہم کردار تھا۔ انڈین نیشنل کانگرس کو جس طرح رگیدا جا رہا ہے، اس کی ایک مثال تو یہ ہے کہ اس کے قیام کا مقصد ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ کانگرس ہندوؤں کو سیاسی اعتبارسے منظم کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ (۵) ہماری رائے میں بلاشبہ ایسے اندازو اطوار تاریخ کو بگاڑنے اور تنگ نظری کو فروغ دینے والے ہیں ۔ان کی حوصلہ شکنی ضروری معلوم ہوتی ہے ۔ 
SDPI کی زیر بحث رپورٹ میں تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے مسلم فاتحین کا تذکرہ بھی تنقیدی لب و لہجے میں کیا گیا ہے۔اگر توازن کو ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے تو یہ تسلیم کیے ہی بنتی ہے کہ SDPI کے دلائل میں خاصا وزن ہے۔ اس بارے میں یقیناًدو آرا نہیں ہو سکتیں کہ تاریخ ’’فتوحات‘‘ کے تذکرے کانام نہیں، اس میں معاشرتی ، معاشی ، نفسیاتی ، ثقافتی ،عسکری اور دیگر عوامل کا جائزہ نہایت ضروری اور ناگزیر ہوتا ہے۔ ہماری نظر میں یہ مقامِ افسوس ہے کہ تاریخ کو ایک نہایت موثر مضمون کی سطح پر لا کھڑا کرنے والے مسلمانوں کے ہاں ہی تاریخ نویسی میں پرانے اور لگے بندھے اسلوب رائج ہوگئے ہیں۔اس پر طرہ یہ کہ نئی نسل کو اس قسم کی غیر تجزیاتی اور موضوعی تاریخ پڑھائی جا رہی ہے۔ غوروفکر اور فعالیت کے فقدان کا یہ رجحان یقیناًہمارے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ 
اب ہم تمام ابواب کے ان ضروری نکات کو سلسلہ وار بیان کریں گے جن کا ذکراوپر مجموعی جائزے میں نہیں ہو سکا۔ 
پہلا باب تعارفی ہے اور اس کے سات صفحات ہیں۔ اس میں تعلیمی پالیسیوں کی بابت گوہر افشانی کی گئی ہے کہ مختلف ادوار میں بظاہر نظری تبدیلیوں کے باوجود (تعلیم ۵۸ء سے پہلے ’’ سماجی خدمت ‘‘قرار پا کر ، ایوب کے دور میں ’’ترقیاتی ضرورت‘‘ سے بہرہ مند ہو کر ۷۷ء تک بھٹو کے عہد میں’’ بنیادی حق‘‘کے لقب سے سرفراز ہوئی ) تمام پالیسیوں کے پس منظر میں ’’اسلام‘‘ جھانکتا رہا ، لیکن ضیاء الحق کے دور میں تعلیمی پالیسی کے گرد اسلامی غلاف باقاعدہ لپیٹ دیا گیا۔ ہم اس بابت یہی گزارش کریں گے کہ اس ملک کے قیام کا پس منظر اور اس کی غالب اکثریت کی حامل مسلم آبادی تعلیمی پالیسی پر اسی طرح اثر انداز ہوتے رہیں گے۔ صرف ایک بات دیکھنے کے قابل ہے کہ کہیں ایسی پالیسی بھارت مخالفت میں ’’ردِ عمل‘‘ پر تو مبنی نہیں؟ کیونکہ برصغیر میں ہمارا تاریخی پس منظر، ۱۹۴۷ء کے بعد ہمارے تقریباً ہر قول و فعل پر اثر انداز ہوتا رہا ہے۔ اسی باب میں یہ نکتہ بالکل صحیح اٹھایا گیا ہے کہ پاکستان میں سول اور ملٹری بیوروکریٹس چھائے رہے ہیں (اور تا حال چھائے ہوئے ہیں ) ،جس کی وجہ سے پالیسی سازی میں ’’وسیع مشاورت‘‘ کی بجائے ڈرائینگ روم عنصر موجود رہا۔ ہم یہی عرض کریں گے کہ سرخ فیتے کی غلط کاریوں کے قصے بھلا کسے ازبر نہیں؟تعلیم کے شعبے میں وہ شخص جسے وزیرِ تعلیم کہا جاتا ہے ، بے چارہ ان ’’باریک بینوں ‘‘ کے سامنے کچھ ایسے بھیگی بلی بنا ہوتا ہے کہ ’’زیرِ تعلیم‘‘ دکھائی پڑتا ہے۔ اسی طرح ہمیں SDPI کے اس نکتے سے بھی اتفاق ہے کہ اکثر اوقات نصاب میں محض جزوی اور معمولی سی ترامیم کر کے نئی نصابی کتابیں چھاپ دی جاتی ہیں ،جس سے والدین پر اضافی بوجھ پڑتا ہے ۔ 
اس تعارفی باب میں ہی ایک نکتہ بصورتِ اعتراض یوں اٹھایا گیا ہے کہ پاکستان میں پرائمری تعلیم پر اعلیٰ تعلیم کو ترجیح دی گئی ۔ بظاہر یہ اعتراض (بالخصوص آج کے حالات کے تناظر میں ) درست معلوم ہوتا ہے ، لیکن ہمارے اس پر کچھ تحفظات ہیں۔ ہماری نظر میں ’’اعلیٰ تعلیم‘‘ کو ترجیح دینے کی پالیسی وقت کی ضرورت کے عین مطابق تھی ۔ پرائمری تعلیم ہمیں مختلف شعبوں میں ایسے ماہرین دینے سے قاصر تھی جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر کے قوم کو بین الاقوامی برادری میں باعزت اور پر وقار مقام دلا سکتے۔ ہم تو یہی خیال کرتے ہیں کہ پاکستانی قوم اس وقت پرائمری تعلیم پر پوری توجہ دینے کے قابل بھی اس لیے ہوئی ہے کہ اعلیٰ تعلیم کو ترجیح دینے کی پالیسی کے باعث کسی نہ کسی درجے میں حاصل ہونے والی خود کفالت نے ’’تعلیم سب کے لیے‘‘ کے نعرے کو متشکل کرنے کی امید بندھائی ہے۔ اس لیے SDPI کا یہ اعتراض بے جا معلوم ہوتا ہے ۔ 
اب ہم دوسرے باب کی طرف آتے ہیں جسے اے ایچ نیر نے لکھا ہے۔ یہ باب پچپن (۵۵) صفحات پر مشتمل ہے ۔ جناب اے ایچ نیر نے تقریباً پورے باب میں اسلام کی بابت بہت زیادہ ’’حساسیّت‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے نصاب اور ٹیکسٹ بک بورڈ کی کسی ویب سائٹ پر Search Engine میں لفظ ’’اسلام‘‘ ٹائپ کردیا اور پھر جو کچھ سامنے آیا، جیسے تیسے ’’اندیشہ ہائے دور دراز‘‘ کے مصداق بہت ہی موضوعی انداز میں اس باب میں ’’بصورتِ اعتراضات‘‘ منتقل کر دیا۔ ایسی منفی اور یک رخی اپروچ کے باعث آں جناب کے دلائل کی اہمیت ’’ہوائی فائرنگ‘‘ کی سی ہو جاتی ہے۔ اس صورتِ حال کے باوجود ہم نے نیر صاحب کے چند نکات کو نہ صرف اوپر کے مجموعی جائزے میں جگہ دی ہے بلکہ ہماری یہ کوشش ہے کہ یہاں بھی دیگر نکات کو پرکھ لیا جائے ۔ Subtle Subversion کے صفحہ نمبر ۱۰ پر نیّر صاحب نے ایک اقتباس کا حوالہ دے کر اپنی علمی وجاہت کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ امر پاکستان کی نصابی دستاویزات میں تکرار کی حد تک موجود ہے۔ اقتباس ملاحظہ کیجئے: 
In the teaching material, no concept of separation between the worldly and the religious be given; rather all the material be presented from the Islamic point of view. 
’’تعلیمی مواد میں دین ودنیا کی تفریق کا کوئی تصور نہ دیا جائے۔ اس کے بجائے تمام مواد کو اسلامی نقطہ نگاہ سے پیش کیا جائے۔‘‘
ہم لمبی چوڑی بحث میں پڑے بغیر فقط یہ عرض کیے دیتے ہیں کہ اگر دنیاوی اور مذہبی امور کو خالصتاً اس طرح بھی تقسیم کر دیا جائے جیسا کہ ہمارے معترض چاہتے ہیں تو بھی دنیاوی معاملہ ’’دین‘‘ کی کیٹگری میں ہی آئے گا۔(۶) ایسی صورت میں نیر صاحب کیا کریں گے؟ اب ہم ان کی ’’ضیافتِ طبع ‘‘ کی خاطراپنے تصورِ دین کو تو بدلنے سے رہے۔ 
جناب اے ایچ نیرکو درسی کتابوں میں اسلامی تاریخ کے واقعات اور شخصیات کے تذکرے سے بھی ’’ذہنی بد ہضمی ‘‘ہوئی ہے۔جہاں کہیں قرآن مجید کا ذکر آتا ہے ، انھیں کھٹے ڈکار آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ شاید ان کے اور ان کے رفقا کے ہاں اسلامی تاریخ ’’تاریخ‘‘ نہیں سمجھی جاتی ، اور نہ ہی مسلم شخصیات ’’شخصیات‘‘ شمار ہوتی ہیں۔نجانے تاریخ اور شخصیات کا ان کے ہاں کیا پیمانہ ہے؟ اگر سیکولر حوالے سے بھی دیکھا جائے تو نصاب میں ظاہر ہے (مذہب سے قطع نظر ) انسانی تاریخ اور انسانی شخصیات کو بھی شامل کیا جائے گا اور جنھیں نصاب پڑھایا جا رہا ہے، انھی کی ایسی تاریخ اورایسی شخصیات کو نصابی کتب میں ترجیحاً جگہ دی جائے گی جن میں تکریمِ انسانیت ، مساوات، اخوت، ایثار اور عدل وغیرہ جیسی جملہ خصوصیات کی خوشبو رچی بسی ہو۔ پھر نصاب کے مخاطبین میں سے غالب اکثریتی گروہ کو قدرتی طور پر اس حوالے سے فوقیت بھی حاصل رہے گی۔ بہرحال ! اس رپورٹ کے بین السطور ہمارے معترض کی افتادِ طبع مذہب بیزار معلوم ہوتی ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم دیگر مذاہب کے بارے میں بھی معلومات شامل کرنے کی تجویز دے کر ایک معقول حل ڈھونڈ لیں گے لیکن موصوف کو تو نفسِ مذہب پر ہی اعتراض ہے۔ (۷) ہم یہاں طوالت کے خوف سے مذہب اور لا مذہبیت کی روایتی بحث نہیں چھیڑ سکتے، صرف یہی کہنے پر اکتفا کریں گے کہ جناب! اس وقت پوری دنیا میں مذہب کا احیا ہو رہا ہے ، مختلف فورموں پر ’’خدا کی واپسی ‘‘ کے عنوان سے بحث و نظر کو فروغ مل رہا ہے ، پھر کیا ہم ایسی عالمگیر فضا میں (جس کا ذکر اس رپورٹ میں شدو مد سے کیا گیا ہے کہ عالمی حالات و واقعات نظروں سے اوجھل نہیں ہونے چاہییں)، باقی دنیا کے مجموعی رجحان سے مکمل کٹ کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا لیں؟ کیا ہم پاکستان کی مستقبل کی نسل کو ’’ڈیڑھ اینٹ کی مسجد‘‘ میں رکھنے کے خواہشمند ہیں؟ 
قرآن مجید کے شاملِ نصاب ہونے کی توجیہ میں شاید یہ نکتہ کافی ہو گا کہ قرآن مجید کا مخاطب ’’انسان‘‘ بھی ہے نہ کہ صرف مومن۔ اس لیے سیکولر نقطہ نظر سے بھی قرآن مجید کی ان آیات کی نصاب میں شمولیت پر، جن میں مخاطب انسان ہے، کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ آخر انسانوں کے بچوں کو ’’اخلاقیات‘‘ کی کچھ نہ کچھ تعلیم دی جانی ضروری ہے یا نہیں ؟ ہمارا موقف یہ ہے کہ قرآن مجید کے اخلاقی احکام آفاقی نوعیت کے ہیں،مثلاً ’’جس نے ایک انسان کو قتل کیا، اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔‘‘ لہٰذا لازمی درسی کتب میں ایسی آیات کی شمولیت تو رواداری، تحمل اور عدل و احسان وغیرہ کے پھلنے پھولنے کی ضمانت کے مترادف ہے۔ ہماری رائے میں اس پر بحث کی ضرورت ہے کہ کس عمر اور کس سطح کے بچوں کو کون سی آیاتِ مبارکہ پڑھائی جانی چاہئیں۔ خیال رہے کہ SDPI نے اعتراض یہ کیا ہے کہ اسلامیات لازمی کے علاوہ، جو مسلمان بچوں کے لیے مخصوص ہے، دیگر لازمی درسی کتب میں قرآن مجید کیونکر شامل ہے؟ جہاں تک جہاد اور شہادت سے متعلق اسلامی ذخیرے پر اس اعتراض کا تعلق ہے کہ اسے کیوں درسی کتب میں شامل کیا گیا کہ اس کے اثرات کے تحت معاشرے میں جنگجویانہ فطرت پنپ رہی ہے، ہم یہی گزارش کریں گے کہ دیگر معاشروں کا ہمارے معاشرے سے موازنہ کر لیجیے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اگر معاشرے میں اس وقت موجود کسی ایسے منفی رویے کو بطور مثال پیش کیا جائے تو ہمارا یہی موقف ہو گا کہ اس وقت عالمی حالات نارمل نہیں ہیں، مسلمانوں کو ہر طرف سے گھیرا جا رہا ہے۔ ایسے میں افراط و تفریط کا شکار ہو جانا اچنبھے کی بات نہیں۔ پھر یہ بھی تو ہے کہ ہماری شرح خواندگی بہت کم ہے جس کا یہی مطلب ہے کہ (ا) زیادہ تر غیر خواندہ طبقہ افراط و تفریط کا شکار ہوا ہے اور (ب) خواندہ طبقے کی بہت قلیل تعدادبھی خارجی جبر سے متاثر ہوئی ہے۔ لہٰذا جہاد اور شہادت کے ذخیرے کے وہ اثرات ہر گز معاشرے میں موجود نہیں جن کا ڈھنڈورا پیٹنے کی اس رپورٹ میں کوشش کی گئی ہے۔
نیر صاحب نے اردو اور سماجی علوم کی لازمی درسی کتب کا باقاعدہ حوالہ دے کر یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ لازمی مضامین تو بلا تفریق مذہب سب کو پڑھنے ہوتے ہیں، پھر کیوں ان کتب میں اسلامی اسلامی مواد جمع کیا گیا ہے؟ بادی النظر میں ہمارے محترم کی بات میں وزن نظر آتا ہے، لیکن اس سلسلے میں نہایت اہم نکتہ جو نیر صاحب کے پیشِ نظرنہیں رہا، یہ ہے کہ ہر زبان کا ایک خاص تاریخی پس منظر ہوتا ہے۔ اردو اگرچہ برصغیر کے لوگوں کی مشترکہ زبان ہے، اس کے باوجود اس حقیقت سے انکار محال ہے کہ مسلمانوں کے فکری، معاشرتی اور ثقافتی اثرات اس زبان پر بہت زیادہ ہیں۔ لسانیات سے تھوڑی سی واقفیت رکھنے والا شخص بھی یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ کسی زبان کو سیکھنے کے دوران اس سے وابستہ اس کا فکری و تہذیبی پس منظر بھی خود بخود سیکھنے والے کو منتقل ہوجاتا ہے۔ زبان، محض زبان کبھی نہیں ہوسکتی۔ ہماری رائے میں یہی صورتِ حال اردو اور دیگر ایسی کتابوں کی بابت سچ ہے جو اردو زبان میں پڑھائی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں محض محاوروں کو دیکھ لیجیے۔ مثلاً ملا کی دوڑ مسجد تک، دوملاؤں میں مرغی حرام، وغیرہ۔ اب اگر اردو زبان کے طالب علم، سیکولر انداز میں بھی ان محاوروں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو انھیں معلوم ہو جائے گا کہ ’’ملا‘‘ کیا ہوتا ہے ؟ ’’مسجد‘‘ کیا ہے؟ اور ان محاوروں کی معنویت سے آشنائی کے بعد انھیں ملاؤں کی ’’عملی بے عملی‘‘ کا بھی ادراک ہو جائے گا۔ یوں محض زبان دانی کے عمل کے دوران ہی انھیں اسلام کے بارے میں اچھی خاصی معلومات مل جائیں گی۔ ہماری رائے میں اردو ہماری قومی زبان ہے، اسی زبان کے توسط سے ہم اس تفریق اور دوری کو ختم کر سکتے ہیں جس کے لیے SDPI نے ’’لطیف تخریب‘‘ نامی یہ رپورٹ مرتب کی ہے۔ لہٰذا نیر صاحب اور دیگر صاحبان کو زبان کے حوالے سے مذکورہ نوع کے پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ 
جہاں تک معاشرتی علوم میں اسلامی مواد کا تعلق ہے، ایک تو یہی زبان والی بات ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کیا اسلامی مواد کسی صورت بھی ’’معلوماتی ‘‘ نہیں کہلواسکتا؟ پاکستان میں آبادی کے تناسب کے مطابق طالب علموں کی اکثریت تو مسلم ہوتی ہے، اس لیے ان کا تو کوئی مسئلہ نہیں۔ ہر جماعت میں بیٹھے ہوئے ’’اکا دکا‘‘ غیر مسلم پاکستانی، اسلامی معاشرتی مواد کو بطور ’’معلومات‘‘ پڑھ لیں تو قومی یک جہتی کو مہمیز ملے گی نہ کہ انتشار، کیونکہ ایک بہت محدود اقلیت، بہت بڑی اور غالب اکثریت کے معاشرتی رجحانات جان کر، اس کے ساتھ صحت منداور ٹھوس مکالمے کے لیے تیار ہوسکے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ معاشرتی علوم کی درسی کتب میں محض اسلامی مواد نہیں ہے بلکہ دنیاوی معلومات بھی اس میں شامل ہیں۔ اگرچہ یہ دنیاوی معلومات بھی ’’دین‘‘ میں شمار ہونے کے باعث ہمارے لیے اسلامی ہوں گی، جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا۔ ہمارے معترضین انھیں دنیاوی میں شمار کرتے رہیں ، ان کی مرضی ، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔
نیر صاحب نے اپنے اسی انتہا پسندانہ زاویہ نگاہ کے باعث بعض ایسے نکتہ ہائے اعتراض بھی اٹھائے ہیں جن کی معقولیت میں غالباً سیکولر فکر رکھنے والے اہل علم کو بھی شبہ ہوگا۔ مثلاً انھیں اعتراض ہے کہ ’’اساتذہ کا احترام ‘‘ ایک ایسی کہانی ہے جو عباسی خلفا کے گرد گھومتی ہے ۔ اسی طرح انھیں صحت سے متعلقہ ایک سبق میں غیر صحت مند بات یہ نظر آئی ہے کہ اس میں اسلامی تاریخ کے اس واقعہ کا ذکر ہے جس کے مطابق ایک طبیب مدینہ میں آتا ہے اور مریضوں کے نہ آنے پر جب اسے حیرت ہوتی ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ اس بستی کے باسی صرف اسی وقت کھاتے ہیں جب انھیں بھوک لگی ہواور سیر ہونے سے پہلے کھانا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ نیر صاحب دنیا کوآخر کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟اساتذہ کا احترام ایک آفاقی قدر ہے۔ خلفا کی مثال دینے کا مقصد یہی ہے کہ اعلیٰ اتھارٹی بھی اساتذہ کے احترام کو عین ادب خیال کرتی ہے، اس لیے تمام طبقات کے لوگوں کو استاد کا احترام کرنا چاہیے۔ ہماری رائے یہی ہے کہ عباسی خلفا کے اس نوعیت کے تذکرے کو ’’اسلامی‘‘ قرار دینے کے بجائے ’’انسانی‘‘ ہی سمجھا جائے تو بہتر ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اس واقعہ کو اپنے نصاب میں شامل کر سکتا ہے۔ اسی طرح طبیب والا واقعہ اور دیگر کئی شاملِ نصاب واقعات ہیں ۔ خیال رہے، اسلامی تاریخ سے مثالیں لینے کی بابت پچھلے صفحات میں بھی بات ہو چکی ہے۔ ہم نیر صاحب سے گزارش کریں گے کہ بہت بڑی اکثریت کے حق پر ڈاکہ ڈال کر نہایت محدود اقلیت کے حقوق کی بابت سوچ سوچ کر ہلکان ہونا اپنی جگہ ، انھیں کم از کم اس ’’اعتدال پسندی‘‘ کا تھوڑا بہت مظاہرہ تو خود بھی کرنا چاہیے جو ان کے مقاصد میں سے ایک ہے۔
جہاں تک تحریکِ پاکستان کی تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی بابت SDPIکے موقف کا تعلق ہے،انصاف کی بات ہے کہ اس سے متفق ہوئے بغیر چارہ نہیں ۔درسی کتب میں انگریزوں کی کاسہ لیسی مکمل طور پر ہندوؤں کے سر تھوپ دی گئی ہے۔اور مسلما ن نو سو چوہے کھا کر بھی ’’حج‘‘ کے سفر پر گامزن دکھائے جاتے ہیں۔ایسے حاجی بننے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ۱۹۴۷ء میں تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات میں ’’فسادی عناصر‘‘ صرف ہندو ہی خیال کیے جاتے ہیں، مسلم فسادی عناصر کا ذکر گول کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح ہندو تہذیب اور کلچر کی صرف منفی تصویر نے درسی کتب میں جگہ پائی ہے، جیسے ان میں کوئی خوبی سرے سے موجود ہی نہ ہو۔ ہماری رائے میں ایسی ’’اپروچ‘‘ نہ صرف قابلِ گرفت ہے بلکہ اسے ایڈریس کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ 
The Subtle Subversion کا تیسرا باب گیارہ صفحات پر مشتمل اور احمد سلیم صاحب کا تحریر کردہ ہے۔ اس میں نصابی کتب کی تاریخی غلطیوں سے تعرض کیا گیا ہے ۔ سلیم صاحب کا کہنا ہے کہ پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک میں تاریخ کو ایک دوسرے کے خلاف پراپیگنڈے کے ’’آلہ‘‘ کے طور استعمال کیا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے تاریخی حقائق کو بڑے کھلے ڈلے انداز میں مسخ کرنے کی روش اپنائی گئی۔ تحریکِ پاکستان پر قلم اٹھانے والے معروف مورخ کے کے عزیز کے حوالے سے جناب احمد سلیم کا کہنا ہے کہ انھوں نے مطالعہ پاکستان اور تاریخ کی ۶۶ کتب کا پوسٹ مارٹم کر کے ثابت کیا ہے کہ کس حد تک تاریخ نویسی میں مبالغے سے کام لیا جا رہاہے ، مغالطے کو فرغ مل رہا ہے اور حقائق کو بگاڑا جا رہا ہے ۔ 
اس باب میں یہ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی سالوں میں صورتِ حال چنداں ایسی نہیں تھی۔ محمد بن قاسم پر بھی تنقید موجود تھی، گاندھی پر پھبتیاں کسنے کے بجائے اس کی ان خدمات کا ذکر کیا جاتا تھا جو اس نے قتل و غارت کے وقت مسلمانوں کو بچانے کے لیے کیں۔ لیکن ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد (بھارت اور مشرقی پاکستان کے ہندو اساتذہ کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر ،یعنی دیگر وجوہات سے صرفِ نظر کر کے محض جزوی عناصر کو کلیدی بنا کر) دوسرے کو برائی کا محور سمجھنے کی روش پنپنی شروع ہوئی اور ضیاء الحق کے دور میں پہنچ کر یہ روش پختہ راستہ بن گئی۔اور تاریخ کے طالب علم فقط اسی راستے پر چل پھر سکتے تھے۔ سلیم صاحب نے ایک قابلِ بحث ، پتے کی بات (بطور حوالہ) کی ہے کہ ضیاء الحق کی اسلامائزیشن نے ضیاء کے لیے وہی کام کیا جو ایوب خان کے قومی ترقی کے نظریے اور بھٹو کے سوشل ازم نے بالترتیب دونوں کے لیے کیا ۔ یعنی وقت کے تقاضوں کے مطابق محض ’’ظاہری صورت‘‘ میں تبدیلی کر لی گئی۔ 
اس باب میں A Unique View Of Pakistan کے عنوان سے تقریباً دو صفحات کی ایک فصل ہے۔ یہ واقعی خاصی دلچسپ ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ اس قسم کا مواد میٹرک کی سطح کی درسی کتب میں شامل کیا گیا ہے۔ تخیل کی ایسی پروازیں غیر نصابی کتب میں ہی جچتی ہیں کہ ایسی پروازیں ٹھوس دلائل کے بغیر اور حقائق کے منافی ہوتی ہیں۔ اس فصل میں دیے گئے اقتباسات کے مطابق نصابی کتب کے ’’فاضل مصنفین‘‘ نے ہم سب کے علم میں اضافے کی خاطر نکتہ طرازی کی ہے کہ موجودہ پاکستان تاریخ کے ہر دور میں باقی ہندوستان سے ’’الگ شناخت‘‘ کا حامل رہا۔ فرمایا گیا ہے کہ اس پاکستان نے (مسلم دورِ حکومت میں ) باقی ماندہ ہندوستان پر حکمرانی کی، وغیرہ وغیرہ۔ہم احمد سلیم صاحب سے مکمل متفق ہیں کہ الف لیلہ کی ایسی کہانیوں کو ’’تاریخ ‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔
جہاں تک ۱۹۳۷ء کی کانگرسی وزارتوں کے منفی ہتھکنڈوں کا تعلق ہے ، تاریخی حولے سے ان پر بعض رپورٹس بھی موجود ہیں ، اس لیے ہم سلیم صاحب کی اس بات سے کلی متفق نہیں ہو سکتے کہ اس ضمن میں تاریخی حقائق سے مکمل روگردانی کی گئی ہے۔ قرار دادِ مقاصد پر ان کا اعتراض بھی بے جا ہے، کیونکہ اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے تمام نوعیت کے اعتراضات کا تسلی بخش جواب دے دیا تھا۔ البتہ اس نکتے سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ۱۹۵۵ء میں تشکیل پانے والے ’’وحدت مغربی پاکستان‘‘ کے تجربے کو تجزیاتی انداز میں نہیں لیا جاتا اور نہ ہی اس بات کا تذکرہ ضروری سمجھا جاتا ہے کہ ون یونٹ کے قیام سے صوبائی اور علاقائی حقوق کو غصب کیا گیا اور کثرت کو زبردستی وحدت میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی۔ سلیم صاحب کی طرح ہمارے لیے بھی یہ ایک ’’انکشاف‘‘ ہے کہ ۱۹۵۶ء کا دستور کبھی عمل میں نہ آ سکا۔ (خیا ل رہے کہ یہ انکشاف درسی کتاب میں کیا گیا ہے) اسی طرح ۱۹۷۷ء کے مارشل لا کا ذمہ دار حکومت اور اپوزیشن کو ٹھہرایا گیا ہے اور ضیاء الحق ’’پوتّر‘‘ ہو کر سامنے آئے ہیں۔ 
زیرِ بحث رپورٹ کا چوتھا باب بارہ صفحات پر مشتمل ہے اور یہ اے ایچ نیر اور احمد سلیم کی مشترکہ کاوش ہے۔ یہاں یہ درست نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ پاکستان کی ۵۵ سالہ تاریخ میں سے ۳۰ سال ملٹری نے براہ راست حکومت کی، اس کے علاوہ باقی ادوار میں بھی پسِ پردہ ملٹری ہی طاقت اور فیصلہ سازی کا محور رہی لہٰذا تعلیمی نصاب پر ملٹری کے اثرات سے مفر ممکن نہیں۔ ہماری رائے میں بلاشبہ اس بات کے معروضی تجزیے کے لیے صحت مند بحث مباحثہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ 
چونکہ اے ایچ نیر صاحب بھی اس باب کے ایک مصنف ہیں، اس لیے ان کا ’’طریقہ تحقیق‘‘ بھی اس باب میں در آیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے موصوف نے اس با ر Search Engine میں ا لفاظ ’’جہاداور شہادت‘‘ ٹائپ کر دیے، اور سامنے آنے والے تما م مواد کو الزامی صورت میں یہاں منتقل کر دیا۔ ہمارے معترضین کو راشد منہاس شہید، لانس نائک محمد محفوط شہید، میرا وطن(ایک نظم) وغیرہ کا شاملِ نصاب ہونا کافی کھٹک رہا ہے۔ اور تو اور، انھیں اس بات پر بھی رنجش ہے کہ ملک کے دفاع کو شہری کا اولین فرض کیوں کہا گیا، دفاعی اخراجات اور جدید ہتھیاروں کی تحصیل کا ’’جواز‘‘ کیوں پیش کیا گیا؟ اسی طرح معترضین کے مطابق ایف اے کی سطح پر(۶۰۰ نمبروں کا) درج ذیل مضامین کا گروپ ، ہمارے جنگجویانہ رجحانات کا آئینہ دار ہے :
(۱) وار (۲) ملٹری ہسٹری (۳) اکنامکس آف وار (۴) ملٹری جیوگرافی (۵)ڈیفنس آف پاکستان (۶)اسپیشل ملٹری سٹڈیز
ہمارا خیال ہے کہ یہ اعتراضات انتہا پسندانہ اور reactionary رویے کے مظہر ہیں۔ 
The Subtle Subversion کا پانچ صفحات پر مشتمل پانچواں باب جناب ڈاکٹر خورشید حسنین کی عمدہ کاوش ہے ۔ اس باب میں نہ صرف معروضیت جھلک رہی ہے بلکہ اس کی اپروچ صاحبِ تحریر کے وسیع المطالعہ ہونے پر دال ہے۔ یہ پورا باب ’الشریعہ‘ کے زیر نظر شمارے میں ’’قومی نصاب تعلیم کے فکری ونظریاتی خلا‘‘ کے زیر عنوان شامل اشاعت ہے۔ اس کے جن نکات سے ہمیں اختلاف ہے، ان کا ذکر اب تک کی سطور میں کہیں نہ کہیں ہو چکا ہے ۔ 
جناب محمد پرویز کے تحریر کردہ چھٹے باب میں نصابی سیاق و سباق میں تدریسی مسائل کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس کے صفحات پانچ ہیں۔ پرویز صاحب نے بجا کہا ہے کہ جو بچے پہلی کلاس میں داخل ہوتے ہیں، ان کی متنوع مادری زبانوں کے پیشِ نظر ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ صحیح لہجے میں اردو بولیں، بچوں کے ساتھ زیادتی ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اردو کی تدریس میں شروعات میں الفاظ کی بجائے کریکٹرز(علامتیں، حروف)، تجویز کیے گئے ہیں ، جو درست نہیں، کیونکہ کریکٹرز بچوں کے لیے بے معنی ہوتے ہیں، جبکہ الفاظ کسی ٹھوس یا محسوس ہو سکنے والی شے کا حوالہ دینے کے باعث بچوں کے لیے دلچسپی کا سامان ہوتے ہیں۔ پرویز صاحب نے ایک اعتراض یہ بھی کیا ہے کہ نصابی دستاویز میں دانستہ طور پر ’’مدرسہ اور مسجد‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، حالانکہ پاکستانی بچوں کی اکثریت سکولوں میں پڑھتی ہے مدارس میں نہیں۔ اگرچہ سکول کے ترجمے کے طور پر اردو میں ’’مدرسہ‘‘ کا لفظ مستعمل ہے لیکن ثقافتی اعتبار سے یہ ایسے اداروں سے نتھی ہوگیا ہے جو خالصتاً مذہبی ہیں ۔ دوسری طرف انگریزی لفظ اسکول اب اردو میں عام استعمال ہورہا ہے اور غیر مذہبی تعلیمی اداروں کے لیے مستعمل ہے۔ ہم یہی عرض کریں گے کہ اگر پرویز صاحب کی تسلی یوں ہوتی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ۔ 
کلاس دوم کے نصاب کی بابت ہمارے ممدوح کا کہنا ہے کہ اس میں بچے کے متعلق ’’ترقیاتی حساسیت‘‘ کی کمی جھلکتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نصاب کا لازمہ ’’ترتیبی پیش قدمی‘‘ بھی کم ہے۔ اسی طرح ان کا یہ بھی موقف ہے کہ تحریری مواد کی ’’نقل‘‘ بھی غیر مناسب ہے کہ اس سے بچے کا ’’ذہنی بانکپن ‘‘ راکھ ہو کر رہ جاتا ہے۔ نقل سے بچے کے ’’ہاتھ اور ذہن کی ہم آہنگی‘‘ بھی شعلگی سے ہمکنار نہیں ہوتی۔ سائنس کی بات کرتے ہوئے پرویز صاحب نے بجا فرمایا ہے کہ بچوں کے لیے سائنس ، نظریات اور زبانی مواد کو یاد کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ ایسے مواقع دینے کے نام سے عبارت ہے جن سے بچوں میں کھوج کا جذبہ انگڑائیاں لیتا ہے، کوئی چیز دریافت کر لینے سے حاصل ہونے والا لطف چٹکیاں بھرتا ہے اور تحقیق و تجسس سے شرابور ہونے کا تجربہ دستک دیتا ہے۔ ہم پرویز صاحب کی ہاں میں ہاں ملانے کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں؟ کلاس دوم کے بچوں کی بات کرتے ہوئے ان کا یہ بھی موقف ہے کہ حب الوطنی اور اسلامی اخوت جیسے ’’نظری موضوعات‘‘ کافی بھاری ہیں، اس عمر کے بچوں کوٹھوس اور محسوس ہو سکنے والی اشیا کے متعلق ہی پڑھایا جانا چاہیے۔ ہماری رائے میں موصوف کا یہ نکتہ با وزن ہونے کے باوجود بحث و مباحثہ کا مقتضی ہے۔ کلاس سوم کے نصاب پر نظر دوڑاتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ کام کی عظمت، ہمدردی، سچائی، سادگی وغیرہ جیسی بنیادی اخلاقی تعلیمات کو کاغذی بنائے بغیر یکجا کرنا قابلِ تعریف ہے۔ کلاس چہارم اور پنجم کا ذکر کرتے ہوئے ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ چونکہ نصابی کام کرنے والے تقریباً تمام ماہرین اصل میں ’’ماہرِ مضمون ‘‘ ہوتے ہیں ، اس لیے وہ بچوں اور ان کی تعلیم کی بجائے اپنے مضمون کے ’’زیادہ وفادار ‘‘ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کی تدریس بچوں یا تعلیم کے گرد نہیں گھومتی،بلکہ کسی نہ کسی مضمون کے ہاں ہی اس کا پڑاؤ ہوتا ہے۔ پرویز صاحب کی یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ اردو سے محبت کا ’’تقاضا‘‘ نہیں کیا جا سکتا (محبت تقاضا نہیں کرتی)، اس لیے اردو سے محبت اسی صورت میں پنپ سکتی ہے جب اسے محبت کے ساتھ اور دلچسپی پیدا کرنے والے طریقے سے پڑھایا اور سکھایا جائے۔ 
SDPI کی اس ریسرچ رپورٹ کا ساتواں باب نو صفحات پر مشتمل ہے اور اسے محترمہ آمنہ اور نیلم حسین ضبطِ تحریر میں لائی ہیں۔ اس میں بنیادی طور پر عورتوں کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی کا تذکرہ ہے جو نصابی کتب میں روا رکھی جا رہی ہے۔ ہمیں داد دینی پڑتی ہے کہ اپنی بات کو تقویت دینے کے لیے نہایت ہنر مندی سے اکثریتی غریب آبادی کی محرومیوں کو بھی اپنے مسئلے کا حصہ بنا یا گیا ہے :
"......those in position of power.......are predominantly upper class and male, only upper class males should be allowed to lay claims(a) to a superior intellect and (b) to the positions they hold. All those who fall outside the existing class ,caste and gender boundaries that ensure their privileges, do so not because of lack of opportunity or poverty or a host of other social and economic problems,but because they lack the capacity to be anything other than poor, working class--or female." 
بلاشبہ مذکورہ نکتہ زوردار اور اپیل کرنے والا ہے۔ اسی طرح اس اعتراض میں بھی وزن ہے کہ ورکنگ کلاس کی بابت ’’طے ‘‘ کر لیا گیا ہے کہ وہ ٹھوس، مشینی اور ہاتھوں سے سر انجام پانے والے کام مستقلاً سنبھالے ۔دونوں خواتین کے مطابق،اس کا مطلب سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ کچھ لوگوں میں ’’فطری‘‘ طور پر زیادہ ٹیلنٹ ہوتا ہے اور وہ ذہانت والے ،تخلیقی اور مجرد کام کرنے کے زیادہ قابل ہوتے ہیں۔ہم ایک طرف تو ایسی طبقاتی تقسیم پر خواتین کی تنقید سے متفق ہیں، اور دوسری طرف ہمارے ذہن میں افلاطون کا ’’نظریہ انصاف‘‘ گھوم رہا ہے جس میں اس نے بھی اسی قسم کی تقسیم کر رکھی ہے اور اسے عین انصاف قرار دیا ہے۔ 
اس باب میں خواتین کے چادر اوڑھنے اوران کے لیے معقول لباس پر زور دینے کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہوم اکنامکس کالجز کا قیام بھی اس لیے ہدفِ تنقید ٹھہرا ہے کہ اس سے خواتین کے لیے ’’مخصوص ‘‘ شعبوں میں جانے کے راستے وا کیے گئے تاکہ مردوں کی برتری قائم رہے۔ حیرت ہے کہ اسی باب میں تجاویز دیتے وقت یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ mankind کی بجائے humankind اور مردوں عورتوں کے لیے عالمی سطح پر مستعملhe کی بجائے he, she کا استعمال کیا جائے ۔ اسی طرح chairman کی جگہ chairperson اور Mrs کی جگہ Ms کو رواج دیا جائے، کیونکہ جس طرح مردوں کے لیے Mr مستعمل ہے، چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا نہ ہوں، اسی طرح Ms تمام عورتوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ، چاہے شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ۔ہمیں ان ’’باریکیوں‘‘ میں جانے پر اعتراض نہیں ہے، فقط یہ گزارش کریں گے کہ ایک طرف اپنی ’’نسائیت‘‘ کا اظہار اس حد تک کیا جا رہا ہے کہ عالمی سطح پر مستعمل الفاظ بدلنے کی بات کی گئی ہے اور دوسری طرف جب ان کی ’’نسائیت‘‘ یا یوں کہہ لیجیے ان کی ’’شناخت‘‘ کے لیے ہوم اکنامکس کالجز قائم کیے جائیں تو انھیں اس پر اعتراض ہے۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ کیا She کے لیے الگ کالجز نہیں ہونے چاہییں؟ 
درسی کتب میں خواتین کے تذکرے پر تبصرہ کرتے ہوئے نکتہ طرازی کچھ یوں کی گئی ہے کہ صرف ان خواتین یعنی مس فاطمہ جناح اور بیگم محمد علی کو نصاب میں جگہ دی گئی ہے جن کی امتیازی حیثیت کسی مرد کے سبب قائم ہوئی۔ پھر ان خواتین کی بھی ’’انفرادی‘‘ خصوصیات کو اجاگر نہیں کیا گیا۔اسی طرح نشان دہی کی گئی ہے کہ اسباق میں لڑکی کو گھر کے کام کاج کرتے دکھایا جاتا ہے اور ماں کے کردار کو بھی اس طرح پیش کیا گیا ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ماں کا احترام اور درجہ خاندان کی دیکھ بھال، گھر کی صفائی ستھرائی اور کھانا پکانا کے سبب ہے۔ رسولِ پاک ﷺ کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آپ ﷺ جھاڑو دینے، کپڑے دھونے جیسے کاموں کو عظمت کے منافی نہیں سمجھتے تھے تو پھر مردوں کو خواتین کا ہاتھ بٹانے کے لیے ابھاراکیوں نہیں جاتا؟ ہماری رائے میں اس حوالے سے عمومی معاشرتی رویے پر نظر ثانی کی واقعتا ضرورت ہے۔ (۸)
محترمہ آمنہ اور نیلم نے ایک اعتراض یہ کیا ہے کہ اسباق میں ’’ناموں کے انتخاب ‘‘ سے بھی ایک خاص تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے ، مثلاً یہ Mary ہے جسے تیراکی آتی ہے نہ کہ کوئی جمیلہ یا شکیلہ۔ اسی طرح ایئر ہوسٹس کو مسز براؤن کا نام دیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مسلم ناموں سے یہ تاثر دینے کے لیے جان بوجھ کر احتراز برتا گیا ہے کہ مسلم خواتین ایسے کام نہیں کر سکتیں اور نہ ہی انھیں ایسے کام کرنے چاہییں۔ اسی طرح مستقبل کے خواب بنتے لڑکوں کو دکھایا جاتا ہے۔کیا لڑکیوں کے خواب نہیں ہوتے ؟ اسباق کی ترتیب سے بھی ایک خاص نفسیاتی فضا قائم ہوتی ہے ۔ ’’گمشدہ بیگ‘‘ نامی ایک کہانی میں ایک مرد ہی کا بیگ رکشے میں گم ہوتا ہے، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ خواتین ’’سفر‘‘ نہیں کر سکتیں۔ اس سے اگلی کہانی ’’سر پرائز وزٹ‘‘ میں خواتین کو گھر کے اندر بھی ’’غیر فعال ‘‘ دکھایا گیا ہے ، وغیرہ۔ اسی باب میں کام کرنے والی خواتین کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہا گیا ہے کہ خواتین کے ’’دوہرے دن ‘‘Double Day پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ انھیں تو جاب وغیرہ کے ساتھ ساتھ گھر آ کر دیگر کام بھی نمٹانے ہوتے ہیں جبکہ مرد حضرات کا ورکنگ ڈے گھر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے اور وہ لمبی تان کر سوتے ہیں ۔ اسی طرح بہادری کے اخلاقی پہلو کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ محترمہ آمنہ اور نیلم کے مطابق لڑکوں کو یہ بات ذہن نشین کرانے کی ضرورت ہے کہ بہادری ’’مسل پاور ‘‘ کا ہی نام نہیں، بلکہ اختلاف کرنے والوں کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کرنا بھی دلیری ہے۔ ہمارا خیال ہے مذکورہ تمام امور پر بحث مباحثہ ہو نا چاہیے اور سیمینارز ، ورکشاپس وغیرہ کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔ 
SDPI کی زیرِ نظر رپورٹ کا آٹھواں باب گیارہ صفحات کا ہے ۔ اسے سید جعفر احمد نے سپردِ قلم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تعلیم کو بنیادی حق کے طور پر پاکستان کی دستاویزات میں بہت کم جگہ ملی ہے ، حتیٰ کہ ۱۹۷۳ء کے دستورِ پاکستان کے’’ بنیادی حقوق‘‘ کے باب میں بھی تعلیم کا ذکر نہیں ملتا ، اگرچہ’’ پالیسی اصول‘‘ کے باب میں تلافی کی کوشش کی گئی ہے۔ہمارے خیال میں صرف یہی بات اس امر کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ تعلیم کبھی بھی ہماری ’’ترجیح ‘‘ نہیں رہی ، جس کی وجہ سے اس وقت بھی ہماری شرح خواندگی شرمناک حد تک کم ہے۔ 
اس باب میں انصاف پر مبنی ایک بات یہ کی گئی ہے کہ تعلیمی اداروں سے عسکریت کا خاتمہ ، معاشرے کو demilitarise کیے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ بلاشبہ معاشرتی رویے ، تعلیمی اداروں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ احمد صاحب نے اعتراض کیا ہے کہ نصاب میں بنیادی حقوق کو ’’باقاعدہ‘‘ موضوع نہیں بنایا گیا۔ اب یہ استاد کی ذمہ داری تھی کہ وہ تدریسی عمل کے دوران طالب علموں کی اس حوالے سے کچھ نہ کچھ تربیت کرتا ، لیکن چونکہ ہمارے معاشرے کا استاد صرف اور صرف ’’نصاب ‘‘ پر انحصار کرتا ہے اس لیے وہ مطلوب کردار ادا نہیں کر سکا، بلکہ الٹا ’’ڈکٹیٹر ‘‘ بن کر طلبہ کو ڈیل کرتا ہے۔ احمد صاحب کو یہ بھی اعتراض ہے کہ اخلاقی اسباق کے شاملِ نصاب ہونے کے باوجود سماجی برائیوں کا تذکرہ نہیں کیا جاتا، مثلاً کاروکاری، عدمِ مساوات، بچوں سے مشقت لینا ، بیگار ، اور وٹہ سٹہ کی شادیاں وغیرہ۔ ہماری رائے میں نہ صرف بنیادی حقوق کو باقاعدہ موضوع بنا کر شاملِ نصاب کرنے کی ضرورت ہے بلکہ سماجی برائیوں سے نفرت پیدا کرنے اور ان کی بیخ کنی کے لیے ان کا ذکر نصاب میں لازماً ہونا چاہیے۔ ہمارے ممدوح نے ایک نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ نصابی اسباق میں جہاں جہاں ممکن ہے ’’دستورِ پاکستان ‘‘ کے آرٹیکلز کا حوالہ کیوں نہیں دیا جاتا؟ (بجا اعتراض ہے ) پھر خود ہی جواب دیا ہے کہ چونکہ پاکستان میں دستور ’’بے چارہ ‘‘ رہا ہے یعنی کبھی معطل اور کبھی سرے سے ہی غائب، اس لیے نصاب تیار کرنے والے یہ خیال کرتے ہیں کہ دستور کا حوالہ اصل میں ’’بے چارگی‘‘ کا حوالہ دینے والی بات ہے۔ہم اس بات سے پوری طرح متفق ہیں ، البتہ اس بابت جی ایچ کیوسے بھی ’’فرمودات‘‘ لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ 
زیرِ بحث رپورٹ کے نویں باب میں چھٹی سے دہم تک، اردو کی تدریس پر بات کی گئی ہے۔ طارق رحمان کے تحریر کردہ اس باب کے تین صفحات ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ کشمیر سمیت کسی بھی حساس معاملے پر اگر حکومت ’’لچک‘‘ کا مظاہرہ کرنا بھی چاہے تواسے عملی طور پر دشواری کا سامنا کرپڑتا ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے طارق صاحب نے نصاب کو ہی ہدفِ تنقید بنایا ہے ، کہ نصاب یک رخی سوچ اور لگے بندھے طریقوں کو پروان چڑھا رہا ہے۔ نتیجے کے طور پر جب بھی روٹین سے ہٹ کر کوئی بات ہوتی ہے تو گویا بھونچال آ جاتا ہے۔ اس کے بعد طارق صاحب نے methodology and rationale کے عنوان سے مختصراً خامہ فرسائی کی ہے ۔ 
دسواں باب چار صفحات کا ہے ۔ اس میں چھٹی سے دہم تک معاشرتی علوم کی تدریس کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کی لکھاری ہاجرہ احمد کے مطابق ، او لیول اور اے لیول کے طالب علم ’’روشن خیالی ‘‘ سے مستفید ہونے کے باعث خوش قسمت ہیں، جبکہ دیگر طالب علموں پر انھیں ’’ترس‘‘ آرہا ہے ۔یقین کیجیے ہمیں ’’روشن خیالی ‘‘ سے کوئی بیر نہیں، بلکہ ہم تو سمجھتے ہیں کہ ’’خیال‘‘ ہوتا ہی روشن ہے ، البتہ خیال کی definition ضروری ہو جاتی ہے، ہر اوٹ پٹانگ بات کو ’’خیال ‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ محترمہ کے مطابق مذاہبِ عالم کا تقابلی جائزہ طلبا کے سامنے رکھا جانا چاہیے۔ یہ اچھی تجویز ہے لیکن کیا کریں، جناب اے ایچ نیر کو ’’نفسِ مذہب‘‘ پر ہی اعتراض ہے ۔ اسی طرح محترمہ کے مطابق قرونِ وسطیٰ کی تاریخ (جاگیردارانہ نظام ) وغیرہ بھی طلبا کے علم میں آنا ضروری ہے۔ صنعتی انقلاب ، سامراجیت، دو عالمی جنگیں اور ۱۹۴۵ء کے بعد کی دنیا وغیرہ بھی نصاب کا حصہ ہونی چاہییں۔ محترمہ کا کہنا ہے کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کا ذکر اگرچہ نصاب میں شامل ہیں لیکن ان تباہ کاریوں کو اس طرح پیش نہیں کیا گیا جس سے مطلوب نتائج حاصل ہو سکیں۔ ہماری رائے میں مذکورہ اسباق پر نظر ثانی کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ خلائی مہمات، حیاتیاتی انجینئرنگ، توانائی کے ذرائع ، ماحول اور ایٹمی ہتھیاروغیرہ جیسے موضوعات کو نصاب میں جگہ دینے کی تجویز سے ہم پوری طرح متفق ہیں ۔ 
The Subtle Subversion کے گیارہویں اور آخری باب میں محترمہ زرینہ سلامت نے قلم اٹھایا ہے ۔ اس باب کے چار صفحات ہیں ۔ جنگوں کی انسانیت سوز بربریت کی جان کاری،امن سے وابستہ خوشحالی اور زندگی کی قدروقیمت کو طالب علموں کے ذہن میں راسخ کرنے کی خاطر ، Peace Studies کی تجویز دی گئی ہے ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے’’مذہب‘‘ سے مدد لینے کوبھی در خور اعتنا سمجھا گیا ہے۔ بیسویں صدی کی سامراجیت اور اشتراکیت کے درمیان ہونے والی جنگوں کو بھی مجوزہ مضمون میں موضوع بنانے کی بات اٹھانے کے ساتھ ساتھ نیوکلےئر، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں پر گفتگو کو ضروری سمجھا گیا ہے ۔ محترمہ کے مطابق فرقہ وارانہ تشدد کو بھی اس مضمون میں جگہ دی جانی چاہیے۔ ہمیں اس مجوزہ مضمون کی اہمیت سے انکار نہیں۔ موجودہ عالمی حالات کے سیاق و سباق میں اس کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے ، البتہ ہم یہ گزارش ضرور کریں گے کہ ا س باب کی ایک ایک کاپی بش اور بلےئر کو لازماً بھیجی جانی چاہیے، ان کی مسلسل بڑھتی ہوئی درندگی سے عالمی امن کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ ابو غریب جیل میں ’’مہذب‘‘دنیا کے باسیوں نے ’’وحشی‘‘ دنیا کے انسانوں کے ساتھ جو سلوک کیا، اس کے پیش نظر Peace Studies کا مضمون مغربی دنیا کے لیے زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ دنیا بھر کی ایسی این جی اوز جو انسانیت اور عالمی امن کی داعی ہیں، اس مضمون کے مغربیوں کے ہاں لازمی قرار دیے جانے کے لیے فعال کردار ادا کریں گی ۔
بات ختم کرتے ہوئے ہم SDPI کی اس کاوش کو اس اعتبار سے سراہتے ہیں کہ اس کے ذریعے نصاب سے متعلق بہت سی جینوئن خامیاں اور کوتاہیاں منظرِ عام پر آئیں۔ اس رپورٹ کے ایسے بے شمار نکات ہیں جن پر ہمارے کچھ تحفظات ہیں۔ طوالت کے خوف سے ہم نے ان نکات پر فرداً فرداً بات نہیں کی ، لیکن کچھ نہ کچھ اظہار ضرور کر دیا ہے۔ اس اظہار سے بننے والے خاکے سے پوری تصویر کا ادراک کرنا شاید زیادہ دشوار نہیں ہو گا۔ ایسی رپورٹس اور تحقیق کو ہم بطور ’’رائے ‘‘ دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ اگر چور دروازوں سے رائے کو ’’حکومتی پالیسی‘‘ بنوانے کی مذموم کوششیں نہ کی جائیں تو بھلا ایسے ’’مکالمے اور مشاورت‘‘ کے فوائد سے کسے انکار ہو سکتا ہے؟

حواشی

(۱) تنظیمِ اساتذہ پاکستان نے نصاب تعلیم ۲۰۰۴ء پر ایک قرطاس ابیض شائع کیا ہے ۔ اس کے مطابق فیصل مسجد ، طارق بن زیاد اور شہادتِ حسینؓ کے اسباق خارج کر دئیے گئے ہیں ۔ اسی طرح اسوہء کامل ﷺ، شکوہ، جوابِ شکوہ بھی نصاب میں موجود نہیں رہے ۔ یہ فہرست کافی طویل ہے۔
(۲) ص ۹ پر، اے ایچ نیر رقم طراز ہیں :
Besides being multi-lingual and multi-ethnic, Pakistan is a multi-religion society. Non-Muslims are a sizable part of the society. 
ذرا sizable part پر غور فرمائیے- ہمارے علم کے مطابق عیسائی سب سے بڑی اقلیت ہیں ، جو کہ کل آبادی کا 1.5 فیصد ہیں ۔ اگر اسے sizable قرار دیا جا سکتا ہے تو پھر بھارتی مسلمانوں کو تو ہم ’’اکثریتی آبادی ‘‘ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا فیصدی تناسب خاصا بہتر ہے۔ 
(۳)اگر Regional integration (علاقائی اتحاد) کے رجحان کو دیکھیں تو صورتِ حال خاصی دلچسپ ہو جاتی ہے ۔ مستقبل میں مسائل کی نوعیت اور انھیں ایڈریس کرنے کا فورم ’’قومی یا ریاستی‘‘ نہیں ہو گا بلکہ ’’علاقائی‘‘ ہوگا ۔ اس صورت میں نیشنل ازم کی نئی تعریف کرنی پڑے گی اور نتیجے کے طور پر اسلام کی حقانیت کے نئے پہلو اجاگر ہوں گے ۔ 
(۴) SDPI کی اس رپورٹ میں ہندوؤں کی منفی تصویر پیش کرنے پر کافی تنقید کی گئی ہے۔ اگرچہ بعض مقامات پر مبالغے سے کام لیا گیا ہے ، لیکن رپورٹ کے موقف سے مکمل اختلاف ممکن نہیں ہے۔ 
(۵) اس رپورٹ کے ص۲۲ پر، پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی آٹھویں جماعت کی معاشرتی علوم کے حولے سے درج ہے کہ ’’دسمبر ۱۸۸۵ء میں ایک انگریز مسٹر ہیوم نے ایک سیاسی جماعت، انڈین نیشنل کانگرس کے نام سے بنائی ، جس کا مقصد ہندوؤں کو سیاسی اعتبار سے منظم کرناتھا‘‘ یہ یقیناًقابلِ گرفت سنگین غلطی ہے جس سے یہ بھی ثابت کرنے کی کاوش بھی جھلک رہی ہے کہ ’’انگریز ہندو گٹھ جوڑ‘‘ تھا اور صرف مسلمان ہی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے ۔ 
(۶) اس کے لیے دیکھیے الشریعہ کے زیر نظر شمارے میں ہمارا مضمون بعنوان ’’دین اسلام کی معاشرتی ترویج میں آرٹ کی اہمیت‘‘ نیز ’الشریعہ‘ دسمبر ۲۰۰۳ء (ص۴۱، ۴۲) میں مضمون بعنوان ’’کیا علاقائی کلچر اور دین میں بعد ہے ؟
(۷)اس رپورٹ کے ص۱۴ پر مختلف ٹیکسٹ بک بورڈز کی سماجی علوم کی کتب کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ دیکھیے اسلام کی مذہبی شخصیات کو یہاں سمویا گیا ہے۔ حضرت آدم، حضرت ابراہیم ،حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ ، اور حضرت محمد علیہم السلام۔ ہمیں خوشی ہے کہ صاحبِ مضمون نے اسلام کی ’’ناسخ حیثیت‘‘ تسلیم کرتے ہوئے مذکورہ تمام شخصیات کو ’’اسلامی شخصیات‘‘ قرار دیا ہے ۔ اسی قسم کا مواد ص۱۵اور دیگر صفحات پر بھی ہے ۔ ص۳۵ پر Climate آب و ہوا کے نام سے ایک باب پر اس لیے تنقید کی گئی ہے کہ اللہ کا شکر ادا کیا گیا ہے ۔ 
(۸) دیکھیے ماہنامہ الشریعہ، نومبر ۲۰۰۳ء میں ابو عمار زاہدالراشدی کا مضمون ، بعنوان ’’خاتون مفتیوں کے پینل کا قیام‘‘ ص ۱ تا ۵۔

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’درس قرآن‘‘

برصغیر کی نامور علمی ودینی شخصیت حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کے منتخب دروس قرآن کریم کو ان کے فرزند حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی مدظلہ نے نئی ترتیب اور نظر ثانی کے ساتھ پیش کیا ہے جو قرآن کریم کی مختلف سورتوں کے ۵۷ دروس پر مشتمل ہے اور فہم قرآن کریم کا ذوق رکھنے والوں کے لیے گراں قدر تحفہ ہے۔
۶۲۸ صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب الفرقان بک ڈپو، نظیر آباد، لکھنؤ ۱۸، انڈیا نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۲۰۰ روپے ہے۔

ادارہ برائے تعلیم وتحقیق اسلام آباد کے رسائل

مذکورہ بالا ادارہ محترم جناب جاوید احمد غامدی کے حلقہ فکر سے تعلق رکھنے والے دانش وروں کا ادارہ ہے جس کے منتظم محترم خورشید احمد ندیم ہیں۔ مختلف دینی اور علمی موضوعات پر ان کا ایک مستقل نقطہ نظر اور اسلوب فکر ہے جس کا اظہار ان کے مضامین کی صورت میں سامنے آتا رہتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ان کے ہر نتیجہ فکر سے اتفاق کیا جائے اور ہم بھی جہاں ضرورت محسوس کرتے ہیں، ان کے فکر واسلوب سے بلاتامل اختلاف کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ مختلف پیش آمدہ دینی وملی مسائل پر دیگر مکاتب فکر کی طرح ان کے نقطہ نظر سے بھی آگاہی حاصل کی جائے اور علمی بحث ومباحثہ اور مکالمہ کی صورت میں بحث وتمحیص کے سلسلے کو آگے بڑھایا جائے۔
اس وقت اس ادارہ کی مطبوعات میں سے مندرجہ ذیل رسائل ہمارے پیش نظر ہیں:

’’مسلم تحریک نسواں ‘‘

اس میں محترمہ حیفاء جواد نے امریکی مسلمان خاتون دانش ور محترمہ امینہ ودود صاحبہ کی کتاب ’’قرآن اور عورت‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے ان خواتین کے موقف کی ترجمانی کی ہے جو اسلامی تعلیمات کے دائرے میں رہتے ہوئے جدید معاشرتی مسائل کا حل چاہتی ہیں۔ اسے خورشید احمد ندیم صاحب نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔

’’حدود، حدود آرڈی ننس اور خواتین‘‘

ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب نے حدود آرڈی ننس پر ہونے والے اعتراضات اور اس میں ترامیم کی مجوزہ تجاویز پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے جس سے اتفاق ضروری نہیں لیکن اس موضوع سے دل چسپی رکھنے والے حضرات کے لیے اس کا مطالعہ ضروری ہے۔ یہ مقالہ اردو اور انگلش دو زبانوں میں الگ الگ شائع کیا گیا ہے۔

’’قانون ولایت اور مسلم خواتین‘‘

ملائشیا کی مسلم خواتین کی تنظیم ’’سسٹرز ان اسلام‘‘ کی طرف سے شائع کردہ اس تحریر میں خواتین کے حق ولایت وحضانت کے حوالے سے شرعی نقطہ نظر کی وضاحت کی گئی ہے اور اس کے ساتھ ملائشیا میں مروجہ قانون حضانت وولایت کا بھی تعارف کرایا گیا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ محترمہ لبنیٰ نازلی کے قلم سے ہے۔

’’عورت، سماج اور اسلام‘‘

یہ بھی ’’سسٹرز ان اسلام‘‘ کی طرف سے شائع کردہ مختلف تحریروں کا مجموعہ ہے جس میں مرد اور عورت کی مساوات، خاندانی منصوبہ بندی اور تعدد ازدواج جیسے مسائل پر اظہار خیال کیا گیا ہے اور ڈاکٹر محمد فاروق خان اور محترمہ لبنیٰ نازلی نے اس کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔
’’خاندان، معاشرہ اور مسلمان خواتین‘‘ : یہ مذکورہ عنوان پر معروف عرب سکالر ڈاکٹر فتحی عثمان صاحب کے ایک مقالہ کا ترجمہ ہے جو ڈاکٹر محمد فاروق خان کے قلم سے ہے۔

’’مولانا عبید اللہ سندھی اور تنظیم فکر ولی اللہی‘‘

جنوبی ایشیا کے نامور مسلم مفکر، انقلابی راہ نما اور دینی رہبر حضرت مولانا عبید اللہ سندھی قدس اللہ سرہ العزیز کے بارے میں بعض حلقوں کی طرف سے، جن میں تنظیم فکر ولی اللہی کے کچھ حضرات بھی پیش پیش ہیں، یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ مولانا سندھیؒ کا دینی فکر اور سیاسی واقتصادی موقف جمہور علما سے مختلف اور اشتراکیت کے قریب تھا۔ مولانا عبد الحق خان بشیر نے اس مسئلہ کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور انتہائی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ اس بات کو واضح کیا ہے کہ مولانا سندھی کی شخصیت وکردار کی جو تصویر اس انداز سے پیش کی جا رہی ہے، وہ درست نہیں ہے کیونکہ مولانا سندھیؒ بنیادی طور پر شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے مشن اور تحریک کے نمائندہ تھے اور ان کا فکر وموقف وہی ہے جو حضرت شیخ الہند اور ان کی جماعت کا ہے۔
۳۱۲ صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب حق چار یار اکیڈمی، مدرسہ حیات النبی، محلہ حیات النبی، گجرات نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۱۵۰ روپے ہے۔

’’صلیبی دہشت گردی اور عالم اسلام‘‘

عالم اسلام میں جہاد کے احیا کی حالیہ جدوجہد میں دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کا کردار کسی سے مخفی نہیں ہے اور شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق رحمہ اللہ تعالیٰ کے فکر وکردار کو اس میں اساسی حیثیت حاصل ہے۔ حضرت شیخ الحدیث کے فرزند وجانشین حضرت مولانا سمیع الحق اس مشن اور جدوجہد کا پرچم پوری استقامت اور حوصلے کے ساتھ تھامے ہوئے ہیں اور مختلف محاذوں پر اس سلسلے میں اہل حق کے موقف کی بے لاگ ترجمانی کر رہے ہیں۔ہمارے فاضل دوست مولانا عبد القیوم حقانی نے اس سلسلے میں عالمی پریس کے مختلف نمائندوں کو دیے گئے مولانا سمیع الحق کے انٹرویوز کو مرتب کر کے پیش کیا ہے جس میں موجودہ عالمی تناظر میں دینی حلقوں، جہادی قوتوں اور علماے حق کے موقف وکردار کی بھرپور وضاحت موجود ہے۔ 
۵۰۰ صفحات پر مشتمل یہ خوب صورت مجلد کتاب القاسم اکیڈمی، خالق آباد، ضلع نوشہرہ صوبہ سرحد نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۲۴۰ روپے ہے۔

’’بیس علماے حق‘‘

مولانا حافظ اکبر شاہ بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اکابر علماے حق کی خدمات وشخصیات کے تعارف کا خصوصی ذوق بخشا ہے اور وہ اس حوالے سے مسلسل مصروف عمل رہتے یں۔ زیر نظر کتاب میں انھوں نے شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا سید مرتضیٰ حسن چاند پوری، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا مفتی محمد حسن، مولانا سید بدر عالم میرٹھی، مولانا خیر محمد جالندھری، مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا سید محمد یوسف بنوری، مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا قاری محمد طیب، مولانا شمس الحق افغانی، مولانا محمد مالک کاندھلوی، علامہ محمد شریف کشمیری، مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی، مولانا محمد منظور نعمانی، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی، مولانا مفتی عبد الشکور ترمذی اور مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی کے حالات زندگی اور دینی وعلمی خدمات کو مرتب انداز میں پیش کیا ہے۔
۶۸۰ صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب مکتبہ رحمانیہ، اقرا سنٹر، غزنی سٹریٹ، اردو بازار لاہور نے شائع کی ہے اور قیمت درج نہیں۔

’’تحریک پاکستان کے عظیم مجاہدین‘‘

یہ بھی مولانا حافظ محمد اکبر شاہ بخاری آف جام پور کی تصنیف ہے اور اس میں تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے تاریخی پس منظر میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور ان کے خانوادہ، حضرت حاجی شریعت اللہ، حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، حضرت مولانا عبید اللہ سندھی، حضرت مولانا مفتی کفایت الہ دہلوی، حضرت مولانا احمد علی لاہوری، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری، حضرت مولانا اطہر علی سلہٹی اور دیگر اکابر علماے کرام کے حالات زندگی اور دینی وعلمی خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ 
ساڑھے آٹھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب طیب اکیڈمی، بیرون بوہڑ گیٹ، ملتان نے شائع کی ہے اور قیمت درج نہیں ہے۔

’’عصر حاضر میں اجتہاد اور اس کی عملی صورتیں‘‘

شیخ زاید اسلامک سنٹر پنجاب یونی ورسٹی لاہور میں مندرجہ بالا عنوان پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس میں پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی، پروفیسر ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی، ڈاکٹر طاہر منصوری اور ابو عمار زاہد الراشدی کی طرف سے پیش کیے جانے والے مقالات کو زیر نظر کتابچہ کی صورت میں شیخ زاید سنٹر جامعہ پنجاب لاہور نے شائع کیا ہے۔
۹۶ صفحات کے اس کتابچہ کی قیمت ۸۰ روپے ہے۔

’’ماہنامہ ترجمان القرآن ‘‘ (سید مودودیؒ نمبر)

ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ لاہور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے صد سالہ یوم ولادت کی مناسبت سے ایک خصوصی اشاعت گزشتہ سال پیش کر چکا ہے۔ زیر نظر شمارہ (مئی ۲۰۰۴) اسی سلسلے کی دوسری کڑی ہے جس میں مولانا کے رفقا اور ان سے علمی وفکری وابستگی رکھنے والے اہل علم اور اصحاب قلم نے ان کی شخصیت، افکار و تعلیمات اور معاصر اسلامی دنیا پر ان کی جدوجہد کے اثرات کے حوالے سے اپنے تاثرات قلم بند کیے ہیں۔ مولانا کی شخصیت اور افکار سے دل چسپی رکھنے والے حضرات کے لیے یہ شمارہ معلومات کا ایک جامع اور بھرپور ذخیرہ ہے۔
ساڑھے پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس خصوصی اشاعت کی قیمت ۸۰ روپے ہے اور اسے ادارہ ترجمان القرآن، ۶۔اے، ذیل دار پارک، اچھرہ لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

’’مفہوم القرآن ‘‘ (جلد اول)

پسرور ضلع سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے بزرگ استاد اور ادیب وشاعر جناب عطا قاضی صاحب قرآن کریم کے ترجمہ کو اردو نظم کا جامہ پہنا رہے ہیں اور سورۂ فاتحہ سے سورۂ توبہ کے اختتام تک ان کی یہ کاوش جلد اول کے طور پر شائع ہوئی ہے۔ قرآن کریم کی آیات کے سلسلہ وار نثری ترجمہ کے ساتھ ساتھ ان کا منظوم ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔
ساڑھے آٹھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب ادبی سبھا، ریلوے روڈ، پسرور نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۲۵۰ روپے ہے۔

’’علماے دیوبند کا عقیدۂ حیات النبی ﷺ‘‘

مولانا عبد الحق خان بشیر نے جناب سرور کائنات ﷺ کی حیات فی القبر کے بارے میں علماے دیوبند کے عقیدہ کی وضاحت کی ہے اور اس سلسلے میں مولانا عطاء اللہ بندیالوی کے ایک کتابچہ میں پیش کیے گئے شبہات اور مغالطوں کا مدلل جواب دیا ہے۔
۱۲۸ صفحات کی اس مجلد کتاب کی قیمت ۶۰ روپے ہے اور اسے حق چار یار اکیڈمی، محلہ حیات النبی، گجرات سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

’’اذان قبر کا تحقیقی جائزہ‘‘

نامور بزرگ اور ممتاز عالم دین حضرت مولانا محمد منظور نعمانی نے ایک صاحب کے استفسار پر ’’اذان قبر‘‘ کے بدعت ہونے کو واضح کیا اور اس سلسلے میں مختلف شبہات اور دلائل کا جواب دیتے ہوئے بدعت کی حقیقت اور اس کے اثرات کی نشان دہی فرمائی۔ ۸۰ صفحات کا یہ رسالہ انجمن ارشاد المسلمین، ۱۴۔ بہاول پور روڈ مزنگ لاہور نے شائع کیا ہے اور قیمت درج نہیں۔

’’شرح دیباچہ مثنوی مولانا روم‘‘

سلسلہ نقشبندیہ کے نامور بزرگ حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمہ اللہ تعالیٰ نے مولانا جلال الدین رومیؒ کی شہرۂ آفاق مثنوی کے دیباچہ کی تشریح لکھی تھی۔ محترم نذیر رانجھا صاحب نے اس کا اردو ترجمہ کیا ہے اور جمعیۃ پبلی کیشنز، نزد مسجد پائلٹ سکول، وحدت روڈ، لاہور نے اسے شائع کیا ہے۔
پونے دو سو صفحات کی اس مجلد کتاب کی قیمت ۱۱۰ روپے ہے۔

’’طہارت کے جدید مسائل اور ان کا حل‘‘

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی کے خلیفہ مجاز حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل میمن مدظلہ کے فرزند مولانا محمد ابراہیم میمن نے، جو دار العلوم مدنیہ بفلو نیو یارک امریکہ میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، طہارت کے سلسلے میں آج کل عام طور پر پیش آنے والے مسائل کا قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں حل پیش کیا ہے اور اس کے ساتھ تمہید کے طور پر حجیت حدیث پر ایک معلوماتی بحث بھی شامل کر دی ہے۔
۳۳۰ صفحات کی یہ مجلد کتاب جمعیۃ پبلی کیشنز، مسجد پائلٹ سکول، وحدت روڈ لاہور نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۱۵۰ روپے ہے۔

’’آخری صلیبی جنگ‘‘ (حصہ چہارم)

ہمارے بزرگ فاضل دوست جناب عبد الرشید ارشد آف جوہر آباد اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغربی استعمار کی موجودہ عالمی کشمکش کے مقاصد اور اہداف کے بے نقاب کرنے میں مسلسل سرگرم ہیں اور ’’آخری صلیبی جنگ‘‘ کے عنوان سے ان کے معلوماتی اور فکر انگیز مضامین کا یہ چوتھا مجموعہ شائع ہوا ہے۔ 
۲۷۲ صفحات کی یہ کتاب النور ٹرسٹ، جوہر پریس بلڈنگ، جوہر آباد ضلع خوشاب نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۱۰۰ روپے ہے۔

’’سجدہ ہر ہر گام کیا‘‘

جناب حفیظ الرحمن خان نے اپنے سفرنامہ حج وزیارات مقدسہ کو عقیدت ومحبت کے ساتھ قلم بند کیا ہے اور سفر مقدس کی واردات وکیفیات کو دل نشین انداز میں بیان کیا ہے۔
ڈیڑھ سو سے زائد صفحات کی یہ مجلد کتاب بک ہوم، بک سٹریٹ، ۴۶ مزنگ روڈ لاہور نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۱۴۰ روپے ہے۔

’’امداد المدرسین‘‘

شیخ الحدیث حضرت مولانا نذیر احمد صاحب دامت برکاتہم جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں مدرسین کی تربیت کے لیے خصوصی کورس کا اہتمام فرماتے ہیں۔ اس میں ان کے چند خطابات کو اس رسالہ میں تحریری صورت میں پیش کیا گیا ہے جو دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے بہت مفید ہے اور اس میں حضرت مدظلہ نے اپنے بہت سے تدریسی تجربات کا نچوڑ پیش کیا ہے۔

الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام تعلیمی و مطالعاتی دورہ

ادارہ

الشریعہ اکادمی کی جانب سے ۱۸ مارچ ۲۰۰۴ء کو اکادمی کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے سیالکوٹ کے ایک تعلیمی ومطالعاتی دورے کا اہتمام کیا گیا۔ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی اور دیگر اساتذہ اس سفر میں طلبہ کے ہمراہ تھے۔ جامعہ فاروقیہ، چوک امام صاحب کے استاد مولانا حماد انذر قاسمی صاحب نے میزبان اور رہبر کی خدمات انجام دیں اور ان کی رہنمائی میں وفد نے جامعہ فاروقیہ، سیرت سٹڈی سنٹر اور علامہ اقبال مرحوم کی آبائی رہائش کے علاوہ ایک لیدر فیکٹری اور ہیڈ مرالہ کا بھی دورہ کیا۔ سیالکوٹ کینٹ میں واقع سیرت سٹڈی سنٹر کے دورے کے موقع پر وفد نے سنٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر عبد الجبار شیخ سے بھی ملاقات کی اور لائبریری کے قیام اور اس کی ترتیب وانتظام سے متعلق ان سے معلومات حاصل کیں۔ وفد کو سنٹر میں جاری مختلف تعلیمی اور تربیتی سرگرمیوں سے بھی آگاہ کیا گیا۔ وفد نے چمڑے کی مصنوعات کے حوالے سے سیالکوٹ شہر کی شہرت میں خاص دلچسپی لی اور ایک لیدر فیکٹری کا دورہ کر کے چمڑے کے دستانوں، جیکٹوں اور دیگر مصنوعات کی تیاری کے مختلف مراحل کا جائزہ لیا۔ شاعر مشرق علامہ اقبال مرحوم کی جائے ولادت اور ہیڈ مرالہ برج کا دورہ کرنے کے بعد وفد واپس گوجرانوالہ شہر پہنچا جہاں اس نے گلشن اقبال پارک میں انعقاد پذیر صنعتی نمائش میں گوجرانوالہ میں تیار ہونے والی مختلف مصنوعات کے اسٹال دیکھے۔ 

عربی لینگویج کورس کی تکمیل

الشریعہ اکادمی کی طرف سے دینی مدارس کے طلبہ کے لیے مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں عربی بول چال کے ایک سہ ماہی کورس (جنوری۔اپریل ۲۰۰۴ء) کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مدارس کے طلبہ نے شرکت کی۔ یہ کلاس مغرب کی نماز کے بعد ہوتی رہی اور اس میں طلبہ کو گریمر کے ضروری قواعد کے ساتھ بول چال کی مشق کرائی۔ اکادمی میں عربی کے استاذ الشیخ حبیب النجار اور ان کے معاون مولانا محمد عامر انور نے اس میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے۔ کورس کے اختتام پر ۱۸۔ اپریل کو مغرب کے بعد الشریعہ اکادمی میں ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی جس کی صدارت ناظم یونین کونسل جناب جمال حسن خان منج نے کی اور اس میں کورس میں کامیابی حاصل کرنے والے ۳۵ طلبہ کو سرٹیفکیٹ دیے گئے۔ مہمان خصوصی شاعر اسلام الحاج سید سلمان گیلانی نے اپنے مخصوص انداز میں حمد باری تعالیٰ اور نعت رسول مقبول ﷺ پیش کر کے حاضرین کو محظوظ کیا۔ اس موقع پر اکادمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر حافظ محمد عمار خان ناصر نے شرکا کو بتایا کہ اکادمی کے زیر اہتمام دینی مدارس کے طلبہ کے لیے اسی نوعیت کا ایک انگلش لینگویج کورس بھی جاری ہے۔

فہم دین کورس کی پہلی کلاس کا اختتام

الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام اس سال کے آغاز سے عوام الناس کے لیے ضروریات دین کی تعلیم پر مبنی سہ ماہی ’’فہم دین کورس‘‘ کا اجرا کیا گیا جس کی پہلی کلاس ۱۱۔ مئی کو مکمل ہوئی۔ کورس میں تدریس کے فرائض اکادمی کے ناظم مولانا محمد یوسف اور ان کے معاون مولانا محمد احسن ندیم نے انجام دیے اور اس میں شرکا کو تجوید کے قواعد کے مطابق ناظرہ قرآن مجید، مسنون دعاؤں اور روز مرہ زندگی سے متعلق ضروری احکام ومسائل کی تعلیم دی گئی۔ کلاس کے اختتام کے موقع پر ۱۱۔ مئی کو ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں خطیب اسلام مولانا عبد الکریم ندیم تشریف لائے اور حصول علم کی اہمیت اور اس کے فضائل پر جامع اور موثر گفتگو کی۔ تقریب میں کورس مکمل کرنے والے شرکا کو اسناد اور نمایاں کارکردگی دکھانے والے حضرات کو انعامات تقسیم کیے گئے۔

الشریعہ اکادمی کی لائبریری کے لیے ہدیہ کتب

ادارہ

گورنمنٹ ڈگری کالج قلعہ دیدار سنگھ میں شعبہ اسلامیات کے استاذ اور ماہنامہ الشریعہ کی مجلس ادارت کے رکن جناب پروفیسر محمد اکرم ورک نے الشریعہ اکادمی کی لائبریری کے لیے درج ذیل کتب کا ہدیہ عنایت کیا:

۱۔ سیرۃ المصطفیٰ (۳ جلدیں)
مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ 

۲۔ توہین رسالت کی سزا
پروفیسر حبیب اللہ چشتی

۳۔ صحابہ کرام کا اسلوب دعوت وتبلیغ
پروفیسر محمد اکرم ورک

۴۔ تہذیب وتمدن پر اسلام کے اثرات واحسانات
۵۔ مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش
۶۔ مغرب سے کچھ صاف صاف باتیں
۷۔ عالم عربی کا المیہ
۸۔ دعوت وتبلیغ کا معجزانہ اسلوب
۹۔ مطالعہ قرآن کے اصول ومبادی
سید ابو الحسن علی ندویؒ 

۱۰۔ تحقیق کا فن
گیان چندر

۱۱۔ تاریخ وفلسفہ سائنس
۱۲۔ املا ورموز اوقاف کے مسائل (روداد سیمینار)
۱۳۔ اردو املا ورموز اوقاف (منتخب مقالات)
۱۴۔ اردو رسم الخط کے بنیادی مباحث
مقتدرہ قومی زبان

۱۵۔ توریث آدم
چارلس ڈارون

حضرت داؤد علیہ السلام اور حج بیت اللہ کی آرزو

ادارہ

’’اے لشکروں کے خداوند!
تیرے مسکن کیا ہی دلکش ہیں!
میری جان خداوند کی بارگاہوں کی مشتاق ہے بلکہ گداز ہو چلی۔
میرا دل اور جسم زندہ خدا کے لیے خوشی سے للکارتے ہیں۔
اے لشکروں کے خداوند! اے میرے بادشاہ اور میرے خدا!
تیرے مذبحوں کے پاس گوریا نے اپنا آشیانہ اور ابابیل نے اپنے لیے گھونسلا بنا لیا
جہاں وہ اپنے بچوں کو رکھے۔
مبارک ہیں وہ جو تیرے گھر میں رہتے ہیں۔
وہ سدا تیری تعریف کریں گے۔ (سلاہ)
مبارک ہے وہ آدمی جس کی قوت تجھ سے ہے۔
جس کے دل میں صیون کی شاہراہیں ہیں۔
وہ وادی بکہ سے گزر کر اسے چشموں کی جگہ بنا لیتے ہیں۔
بلکہ پہلی بارش اسے برکتوں سے معمور کر دیتی ہے۔
وہ طاقت پر طاقت پاتے ہیں۔
ان میں سے ہر ایک صیون میں خدا کے حضور حاضر ہوتا ہے۔
اے خداوند لشکروں کے خدا! میری دعا سن۔
اے یعقوب کے خدا! کان لگا۔ (سلاہ)
اے خدا! ہماری سپر! دیکھ
اور اپنے ممسوح کے چہرہ پر نظر کر۔
کیونکہ تیری بارگاہوں میں ایک دن ہزار سے بہتر ہے۔
میں اپنے خدا کے گھر کا دربان ہونا
شرارت کے خیموں سے میں بسنے سے زیادہ پسند کروں گا۔
کیونکہ خداوند خدا آفتاب اور سپر ہے۔
خداوند فضل اور جلال بخشے گا۔
وہ راست رو سے کوئی نعمت باز نہ رکھے گا۔
اے لشکروں کے خداوند!
مبارک ہے وہ آدمی جس کا توکل تجھ پر ہے۔‘‘
(زبور ۸۴)

جولائی ۲۰۰۴ء

جدید معاشرے میں مذہبی طبقات کا کردارمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دعوت اسلام میں ’اعلیٰ کردار‘ کے اثراتپروفیسر محمد اکرم ورک
ایک مثالی معلم کی کہانی، ایک شاگرد کی زبانیڈاکٹر محمد اکرم ندوی
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایتمولانا محمد یوسف
مسئلہ فلسطین یہودی مذہبی پیشوا کی نظر میںمولانا حبیب نجار
مکاتیبادارہ
تعارف و تبصرہادارہ

جدید معاشرے میں مذہبی طبقات کا کردار

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(ہمدرد یونیورسٹی دہلی کے شعبہ اسلامیات کے رکن ڈاکٹر یوگندر سکند کی طرف سے ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر کے نام ارسال کردہ سوال نامہ کے جوابات۔)

سوال نمبر ۱: آپ اپنے خاندانی پس منظر اور تعلیمی قابلیت کے بارے میں ضروری معلومات سے آگاہ کرنا پسند کریں گے؟
جواب: میری ولادت ۲۸ اکتوبر ۱۹۴۸ء کو گکھڑ ضلع گوجرانوالہ میں ہوئی۔ میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دار العلوم دیوبند کے فاضل ہیں، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے ممتاز تلامذہ میں سے ہیں، کم وبیش ساٹھ سال تک تدریسی خدمات سرانجام دی ہیں، مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے شیخ الحدیث رہے ہیں، دیوبندی مسلک کے علمی ترجمان سمجھے جاتے ہیں اور کم وبیش پچاس کے لگ بھگ کتابوں کے مصنف ہیں۔ بحمد اللہ حیات ہیں اور اس وقت ان کی عمر ہجری اعتبار سے ۹۳ برس ہے۔
میں نے ابتدائی تعلیم حفظ قرآن کریم اور صرف ونحو گھر میں والد محترم اور دیگر اساتذہ سے حاصل کی۔ ۱۹۶۲ء سے ۱۹۶۹ء تک مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں درس نظامی کی تعلیم پائی۔ ۱۹۷۰ء میں دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی۔ تب سے مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں خطابت کے فرائض سرانجام دے رہا ہوں۔
تدریس کا شغل بھی مسلسل جاری ہے۔ پہلے مدرسہ انوار العلوم مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں تدریسی خدمات سرانجام دیتا رہا ہوں اور چند برسوں سے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں صدر مدرس اور ناظم تعلیمات کی ذمہ داریاں میرے سپرد ہیں۔
سوال نمبر ۲: اپنے دینی کام اور معاشرتی مصروفیات، خاص طور پر اپنے تعلیمی ادارے اور جریدے کے حوالے سے کچھ تفصیل بتائیں۔
جواب: سیاسی طور پر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان سے وابستہ ہوں۔ کم وبیش پچیس برس تک صوبائی اور مرکزی سطح پر مختلف عہدوں پر متحرک کردار ادا کیا ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمود کے رفیق کار اور اسسٹنٹ کے طور پر سالہا سال خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا ہے۔ اب ایک عام کارکن کے طور پر جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ شریک ہوں جبکہ انتخابی سیاست سے ہٹ کر فکری اور علمی حوالہ سے اسلامائزیشن کے کام کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل کے طور پر کام کر رہا ہوں جس کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی آف کراچی ہیں۔ ۱۹۸۹ء سے ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ میری ادارت میں شائع ہو رہا ہے جو اسلام اور ملت اسلامیہ کو درپیش معروضی مسائل کے حوالے سے اپنی بساط کے مطابق خدمت کر رہا ہے۔ میرے بڑے فرزند حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ، جو مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل اور اب اس میں مدرس ہیں اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے انگلش ہیں، اس میں میرے معاون ہیں۔ گوجرانوالہ میں الشریعہ اکادمی کے نام سے ایک الگ تعلیمی ادارہ ہم نے قائم کر رکھا ہے جس میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کے امتزاج کا تجربہ کر رہے ہیں اور اس میں مختلف کورسز ہر سال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ روزنامہ پاکستان لاہور میں ’’نوائے قلم‘‘ کے عنوان سے اور روزنامہ اسلام لاہور میں ’’نوائے حق‘‘ کے نام سے ہفتہ وار کالم لکھتا ہوں جو حالات حاضرہ کے حوالے سے ہوتے ہیں۔ www.alsharia.org کے عنوان سے ہماری اپنی ویب سائٹ کام کر رہی ہے جبکہ روزنامہ پاکستان کے کالم ویب سائٹ www.dailypak.com پر پڑھے جا سکتے ہیں۔
سوال نمبر ۳:  پاکستانی مدارس کے نظام تعلیم کی اصلاح کے بارے میں خود علما کے حلقے میں داخلی طور پر بھی ایک آواز موجود ہے اور پاکستانی حکومت کے علاوہ مغربی حکومتوں بالخصوص امریکہ کی طرف سے بھی اس قسم کے مطالبات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب:  پاکستان کے دینی مدارس کے نظام ونصاب میں اصلاح کے حوالہ سے ہم ایک عرصہ سے خود سرگرم عمل ہیں اور اس سلسلہ میں میرے بیسیوں مضامین مختلف جرائد واخبارات میں شائع ہو چکے ہیں۔ اس حوالہ سے ہمارا اصولی موقف یہ ہے کہ دینی مدارس کے موجودہ ڈھانچے اور نیٹ ورک کو قائم رہنا چاہیے اور ان کی آزادی وخود مختاری کا تحفظ ہونا چاہیے۔ البتہ دینی مدارس کو عصری تقاضوں کے پیش نظر اپنے نصاب اور تعلیمی طریق کار میں ایسی تبدیلیاں لانی چاہییں کہ ان کے فضلا آج کے گلوبل ماحول میں وقت کے حالات، ضروریات ، تقاضوں اور چیلنجز کو سمجھتے ہوئے آج کی زبان اور اسلوب میں دین کی نمائندگی کر سکیں۔ 
سوال نمبر ۴: موجودہ دینی تعلیمی نظام کی خوبیوں اور خامیوں پر آپ کیا تبصرہ کریں گے؟
جواب:  موجودہ دینی تعلیمی نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ طالب علم ذہنی، فکری، تہذیبی اور اعتقادی طور پر اپنے ماضی اور اسلاف سے وابستہ رہتا ہے مگر سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ آج کے حالات، تقاضوں اور مستقبل کی ضروریات کے ادراک سے محروم ہو جاتا ہے۔
سوال نمبر ۵: کیا آپ کو بھارت کے دینی مدارس کے کچھ ایسے مثبت پہلو دکھائی دیتے ہیں جن کی پیروی پاکستانی دینی مدارس کو بھی کرنی چاہیے؟
جواب:  ہمارے خیال میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے دینی مدارس کا ماحول، اہداف، طریق کار اور اسلوب کم وبیش یکساں ہے اور تمام خوبیوں اور خامیوں میں وہ برابر کے شریک ہیں۔ البتہ بھارت میں ندوۃ العلماء کی طرز پر جو کام ہو رہا ہے، پاکستان میں وہ کام اس سطح پر نہیں ہو رہا۔ اس کی اپنی افادیت اور ضرورت ہے اور پاکستان میں بھی اس طرز کے ادارے قائم ہونے چاہییں۔ خود ہم نے اب سے دس بارہ برس قبل گوجرانوالہ میں شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے نام سے جو پروجیکٹ شروع کیا تھا، اس میں ہمارے پیش نظر ندوۃ العلماء ہی تھا مگر کام کرنے والے دوستوں میں باہمی انڈر سٹینڈنگ قائم نہ رہنے کی وجہ سے ہم اپنے مقصد میں کام یاب نہ ہو سکے۔ اب وہاں شاہ ولی اللہ کیڈٹ کالج کام کر رہا ہے اور میڈیکل کالج کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ راقم الحروف اب بھی اس کا ٹرسٹی ہے مگر عملی طور پر متحرک نہیں ہے۔
سوال نمبر ۶: دینی مدارس نے مختلف مسالک کے مابین اتحاد اور مکالمہ یا کشمکش یا تصادم کے فروغ میں کیا کردار ادا کیا ہے؟
سوال نمبر ۷:  آپ کے خیال میں ایک مسلک کے پیروکاروں کا دوسرے مسلک کی ترجمانی اور اس کے پیروکاروں کے ساتھ تعلق کے حوالے سے کیا رویہ ہے اور مسلکی مقابلہ بازی کے فروغ میں اس رویے کا کتنا حصہ ہے؟
سوال نمبر ۸: پاکستان میں عوام اور بالخصوص علما کے مابین مسلکی تصادم کی فضا کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟
سوال نمبر ۹:  پاکستان کے مختلف مسالک خاص طور پر شیعہ سنی، دیوبندی بریلوی اور اہل حدیث حنفی مسلکو ں کے مابین سنجیدہ، تعمیری اور مثبت مکالمہ کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششوں کی کچھ تفصیلات بتائیں۔
جواب:  مسلکی حوالہ سے مدارس کی موجودہ فضا تسلی بخش نہیں ہے اور جس طرح جذباتی اور مناظرانہ انداز میں طلبہ کی ایک دوسرے کے خلاف ذہن سازی کی جاتی ہے، وہ نقصان دہ ہے۔ اس کے بجائے ہر مسلک کے مدارس کو یہ چاہیے کہ وہ اپنے طلبہ کو اپنے مسلک اور اس کے دلائل سے ضرور متعارف کرائیں اور ان کی ذہن سازی بھی کریں مگر یہ مثبت طور پر بریفنگ کے انداز میں ہو اور دوسرے مسالک کے معروضی تعارف کے ساتھ اپنے فضلا کو منطق اور استدلال کی زبان میں گفتگو کی تربیت دیں۔ مسلکی تفریق بالکل ختم تو نہیں ہو سکتی لیکن اگر برداشت کا ماحول پیدا کیا جائے اور جذباتی انداز کے بجائے استدلال اور افہام وتفہیم کا اسلوب اختیار کیا جائے تو ا س کے نقصانات میں خاصی کمی آ سکتی ہے۔
سوال نمبر ۱۰: سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک سے آنے والے پیسے نے بین المسلکی تعلقات کو کس حوالے سے متاثر کیا ہے؟
جواب:  سعودی عرب اور بعض دیگر عرب ریاستوں سے مختلف مسلم ممالک میں جو رقوم تقسیم ہوتی رہی ہیں، ان میں مسلکی ترجیحات کا دخل زیادہ چلا آ رہا ہے اور اس کے نقصانات بھی واضح ہیں۔ اس سے باہمی منافرت بڑھی ہے اور خود سعودی حکومت کے بارے میں ذہنوں میں تحفظات نے جنم لیا ہے۔
سوال نمبر ۱۱:  بعض پاکستانی حلقے مثلاً سپاہ صحابہ شیعہ کو کافر اور دشمن اسلام قرار دیتے ہیں۔ کیا آپ اس سے متفق ہیں؟ ہاں یا نہیں کی صورت میں آپ کی رائے کے وجوہ کیا ہیں؟ اگر آپ اس سے متفق نہیں تو اس نقطہ نظر کی تردید کے لیے آپ نے کیا کردار ادا کیا ہے؟
جواب:  ہم نے سپاہ صحابہؓ کے شدت پسندانہ طریق کار سے ہمیشہ اختلاف کیا ہے اور مختلف مضامین میں اس کے اظہار کے ساتھ ساتھ اس کے راہ نماؤں مثلاً مولانا حق نواز جھنگوی، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی اور مولانا محمد اعظم طارق کے ساتھ براہ راست گفتگو میں بھی انھیں اپنے موقف سے آگاہ کیا ہے۔ ہم جمہور علماء اہل سنت کے اس موقف سے متفق ہیں کہ جو شیعہ تحریف قرآن کریم کا قائل ہے، اکابر صحابہ کرام کی تکفیر کرتا ہے اور حضرت عائشہؓ پر قذف کرتا ہے، وہ مسلمان نہیں ہے نیز ہم امت کی چودہ سو سالہ تاریخ کے مختلف ادوار میں شیعہ کے سیاسی کردار کے حوالے سے بھی ذہنی تحفظات رکھتے ہیں لیکن اس کی بنیاد پر ان کے خلاف کافر کافر کی مہم، تشدد کے ساتھ ان کو دبانے اور کشیدگی کا ماحول پیدا کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ہمارا اس حوالہ سے موقف یہ ہے کہ عقائد اور تاریخی کردار کے حوالہ سے باہمی فرق اور فاصلہ کو قائم رکھتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور استدلال ومنطق کے ساتھ اپنا موقف پیش کرنے کا راستہ ہی صحیح اور قرین عقل ہے اور اس حوالہ سے ہمیں امت مسلمہ کے اجتماعی رویہ سے انحراف نہیں کرنا چاہیے۔
سوال نمبر ۱۲:  عام طور پر علما اور مدارس تمام غیر مسلموں کو اسلام کا دشمن سمجھتے ہیں۔ کیا آپ اس تصور سے متفق ہیں؟ بین المذاہب مکالمہ کے فروغ اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے میں مدارس کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ خالصتاً تبلیغی اور دعوتی کوششوں کے علاوہ کیا آپ ایسی مثالیں بتا سکتے ہیں کہ پاکستانی مدارس نے بین المذاہب مکالمہ کے فروغ میں کوئی متحرک کردار ادا کیا ہو؟
جواب:  تمام غیر مسلموں کو دشمن قرار دے کر ان کے خلاف محاذ آرائی کی سوچ درست نہیں ہے اور حکمت عملی کے تقاضوں کے بھی منافی ہے۔ دنیا کی غیر مسلم آبادی کا ایک بڑا حصہ اسلام کی دعوت اور پیغام سننے کے لیے تیار ہے مگر ہم اس طرف متوجہ نہیں ہیں۔ غیر مسلموں کے بہت سے حلقے مسلمانوں کی موجودہ صورت حال میں ان سے ہمدردی رکھتے ہیں اور استعمار دشمنی میں ان کے ساتھ شریک ہیں مگر ہمارا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہے جبکہ اسلام سے دشمنی رکھنے والے اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا اہتمام کرنے والے غیر مسلموں کا تناسب بہت کم ہے لیکن چونکہ سیاست، معیشت، تہذیب وثقافت اور ذرائع ابلاغ پر ان کا کنٹرول ہے، اس لیے ہر طرف وہی دکھائی دیتے ہیں۔ مسلم اہل دانش کو اس صورت حال کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے اور ’’کفر دون کفر‘‘ (Lesser Evil) کے اصول پر دنیاے کفر کے بارے میں اپنی ترجیحات نئے سرے سے طے کرنی چاہییں۔
اس سلسلہ میں سب سے پہلے فکری بیداری اور ذہنی تربیت کا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ علماء کرام، اساتذہ، دانش وروں اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے حضرات تک رسائی کی ضرورت ہے اور میرے خیال میں ہمدرد یونیورسٹی اس کے لیے زیادہ بہتر خدمت سرانجام دے سکتی ہے۔ اگر اس سمت میں ہمدرد یونیورسٹی یا اس جیسا کوئی اور مسلم ادارہ مثبت پیش رفت کرے تو اسے میرے جیسے سینکڑوں بلکہ ہزاروں ایسے افراد عالم اسلام میں بکھرے ہوئے ملیں گے جو اس رخ پر سوچتے ہیں مگر کوئی فورم اور مواقع نہ ہونے کی وجہ سے اپنی حسرتوں کا خود اپنے ہاتھوں گلا گھونٹنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

انا للہ وانا الیہ راجعون

گزشتہ دو ماہ کے عرصے میں بعض بزرگ شخصیات، احباب اور متعلقین دنیا سے رخصت ہو گئے:
  • تبلیغی جماعت کے بزرگ رہنما مولانا مفتی زین العابدین ؒ ۔
  • ملک کے نامور عالم دین مولانا مفتی نظام الدین شامزئیؒ ۔
  • شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز صفدر کے داماد حافظ محمد شفیق صاحب کے بڑے بھائی جناب محمد ادریس ؒ ۔
  • جناب شبیر احمد خان میواتی اور مولانا محمد داؤد خان میواتی کی والدہ محترمہ۔
  • جناب علامہ محمد احمد لدھیانوی کی بھانجی اور پروفیسر میاں انعام الرحمن کی پھوپھی زاد ہمشیرہ۔
  • مدیر ’الشریعہ‘ حافظ محمد عمار خان ناصر کے ہم جماعت اور عزیز دوست جناب ضیاء اللہؒ ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان سب مرحومین کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور پس ماندگان کو صبر وحوصلہ کے ساتھ ان کی جدائی کا غم سہنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین (ادارہ)

دعوت اسلام میں ’اعلیٰ کردار‘ کے اثرات

پروفیسر محمد اکرم ورک

دعوت و تبلیغ کا طریقہ کار خواہ کتنا عمدہ ہو، اس وقت تک بے کار اور غیر مؤثر ہے جب تک اس کو مبلغ وداعی کی بلند کرداری، عالی ظرفی اور اخلاقی قوت کا تحفظ حاصل نہ ہو۔انسانی فطرت ہے کہ مدعو پہلے داعی کا کردار اور اس کی شخصیت کا مشاہدہ کرتاہے۔ اگر داعی کی شخصیت غیر معتبر اور کردار داغدار ہے تو دعوت وتبلیغ میں اثر پیدا ہی نہیں ہوسکتا ۔اور اگر داعی کی شخصیت اوصافِ حمیدہ کی حامل ہو اور کردار کی پاکیزگی کا پیکر ہوتو دعوت میں خودبخود تاثیر ومقناطیسی قوت پیدا ہوتی ہے۔
مخاطب کی تعمیرِ سیرت اور تشکیلِ ذات کے لیے سب سے اعلیٰ نمونہ خود مبلغ وداعی کا ذاتی کردار اور اخلاق ہے۔جس چیز کی وہ دعوت دے رہا ہے ،کیا وہ خود بھی اس پرعمل پیرا ہے؟ کیا اس کے قول وفعل میں تضاد تو نہیں؟کیا وہ خود بھی اس دعوت کے رنگ میں رنگا ہوا ہے؟یہ وہ چیزیں ہیں جن کو مخاطب اور مدعو سب سے پہلے دیکھتا ہے ۔اس لیے ضروری ہے کہ داعی کی سیرت ایسی پاکیزہ اور جاذبِ نظر ہو کہ لوگ خودبخود اس کی طرف کھنچے چلے آئیں ۔دراصل داعی کاذاتی کردار ہی مدعو کے ذہنی رویوں کوتبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔صحابہ کرامؓکی کامیاب دعوتی زندگی کامطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوگا کہ ان کی دعوتی کامیابیوں کے پیچھے ان کی عظیم شخصیات ،بلند کردار اور اخلاق کریمانہ کی مضبوط ومستحکم فصیل کھڑی تھی۔صحابہ کرامؓکی زندگی سب لوگوں کے لیے کھلی کتاب کی طرح تھی،جس کی تحریر کاہر حرف پاکیزہ،روشن،اور نمایاں تھا۔ہر شخص صحابہؓ کے بے داغ اخلاق وکردار،امانت ودیانت اور عالی ظرفی کا معترف تھا،گویا صحابہ کرامؓانسانی کردار کااعلیٰ ترین نمونہ تھے۔انہوں نے جس دعوت کی طرف لوگوں کوبلایا پہلے اس پر عمل کرکے دکھایا۔ ایک بار حضرت صفوانؓ بن امیہ ایک بڑے برتن میں کھانا لائے اور حضرت عمرؓ کے سامنے رکھ دیا۔انہوں نے فقیروں اور غلاموں کو بلایا اور سب کو اپنے ساتھ کھانا کھلانے کے بعد فرمایا:
لحا اللّٰہ قوما یرغبون عن ارقاءھم ان یأکلوا معھم ۱ ؂
’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر لعنت کرے جن کو غلاموں کے ساتھ کھانا کھانے میں عار محسوس ہوتی ہے‘‘
ایک دفعہ حضرت ابوذر غفاریؓ کی خدمت میں کسی نے دوچادریں پیش کیں۔انہوں نے ایک کا ازار بنا لیا اور دوسری اپنے غلام کو دے دی ۔گھر سے نکلے تو لوگوں نے کہا کہ اگر آپ دونوں چادریں خود استعمال کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ فرمایا:سچ ہے ، لیکن میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے:
أطعموھم مماتأکلون وألبسو ھم مما تلبسون۲ ؂
’’جو تم خود کھاتے اور پہنتے ہو، وہی اپنے غلاموں کو بھی کھلاؤ اور پہناؤ‘‘
ایک مرتبہ حضرت عبادہ بن ولید، حضرت ابوالیسر کعبؓ بن عمرو سے حدیث سننے کے لیے آئے۔ دیکھاکہ خود ایک چادر اور معافر کی بنی ہوئی لنگی پہنے ہوئے ہیں اور غلام کا بھی یہی لباس ہے۔عبادہ نے عرض کی : عمِ محترم!بہتر ہو کہ ایک جوڑا مکمل کر لیجیے۔ یا تو آپؓان کی معافری لے لیں اور اپنی چادر ان کو دے دیں، یا اپنی معافری دے دیں اور ان سے چادر لے لیں۔ حضرت ابوالیسرؓ نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور دعا دی۔ پھر فرمایا: رسول اللہﷺ کا حکم ہے کہ جوتم پہنو، غلاموں کو پہناؤ اور جو تم کھاؤ، ان کو کھلاؤ۔ ۳ ؂
عرب معاشرے میں غلاموں کے بارے میں جو نفرت پائی جاتی تھی، صحابہ کرامؓنے اپنے عمل سے اس کی سختی سے بیخ کنی کی اور غلاموں کومعاشرے میں باعزت مقام دلوایا۔ صحابہ کرامؓاس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ ان کا کردار دوسرے لوگوں کے لیے حجت اور دلیل ہے، اس لیے وہ غیر شرعی امور کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تھے، بلکہ بعض صحابہ تو ان امور میں بھی رسول اللہﷺ کی اتباع کرنا ضروری خیال کرتے تھے جن میں ان کو مکلف نہیں بنایا گیا تھا۔
عبداللہ بن قیس بن مخرمہؓایک دفعہ مسجد بنی عمرو بن عوف میں نوافل کی ادائیگی کے بعد اپنے خچر پر سوار ہوکر واپس لوٹ رہے تھے کہ راستے میں عبداللہ بن عمرؓسے ملاقات ہوگئی جو پیدل اسی طرف جارہے تھے۔انہیں پیدل دیکھ کر وہ خچر سے نیچے اتر آئے اور کہنے لگے:چچا جان!آپ سوار ہوجائیے۔تو انہوں نے جواب دیا :اے بھتیجے!اگر میں سوار ہونا چاہتا تو میرے پاس بھی سواری موجود تھی، لیکن میں نے رسول اللہﷺ کو اس مسجد کی طرف نماز کے لیے پیدل ہی جاتے دیکھا ،تو مجھے اسی طرح پیدل جانا پسند ہے جیساکہ میں نے رسول اللہﷺ کو پیدل جاتے دیکھا ہے ۔چنانچہ پھر وہ پیدل ہی مسجد کی طرف روانہ ہوگئے۔۴ ؂
صحابہ کرامؓکے اس جذبۂ اطاعت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شرعی امور میں ان کی فرمانبرداری کاعالم کیا ہوگا۔ حضرت جثامہؓ ابن مساحق کو حضرت عمرؓنے قاصد بنا کر ہرقل کے دربار میں بھیجا ۔خود بیان کرتے ہیں کہ میں وہاں جاکر ایک چیز پر بیٹھ گیا ۔مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ میرے نیچے کیاچیز ہے؟ یکایک مجھے معلوم ہوا کہ میرے نیچے سونے کی ایک کرسی ہے۔چنانچہ جب میں نے اسے دیکھا تو میں فوراً اس سے اتر پڑا۔ ہرقل مسکرایا اور اس نے کہا، تم اس کرسی سے کیوں اتر پڑے؟ یہ تو محض تمہار ی عظمت کے لیے بچھائی گئی تھی۔میں نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ آپﷺ اس قسم کی چیز پر بیٹھنے سے منع فرماتے تھے۔۵ ؂
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت ابو طلحہ انصاریؓکی عیادت کے لیے ان کے ہاں گئے۔ سہل بن حنیفؓ بھی وہاں موجود تھے۔ حضرت ابو طلحہؓ نے ایک آدمی کو بلا کر کہا کہ میرے نیچے سے گدے کو نکال دو۔سہل بن حنیفؓ نے کہا کہ اسے کیوں نکلواتے ہو؟فرمایا:اس میں تصویریں ہیں اور ان کے بارے میں رسول اللہﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے، وہ تمہیں معلوم ہے۔سہل نے کہا:کیا رسول اللہﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ ماسوائے ان تصویروں کے جو کپڑے میں نقش ہوں؟ فرمایا:کیوں نہیں؟ لیکن میری دلی خوشی یہی ہے۔۶ ؂
حضرت عبداللہ بن عباسؓ ایک سفر میں تھے، اسی حالت میں اپنے بھائی قثم بن عباسؓ کے انتقال کی خبر سنی۔پہلے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا، پھر راستے سے ہٹ کر دو رکعت نمازپڑھی۔نماز سے فارغ ہوکر اونٹ پر سوار ہوئے اور یہ آیت کریمہ پڑھی:
وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ وَإِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ إِلَّاعَلَی الْخَاشِعِیْنَ (البقرہ،۲:۴۵)
’’صبر اور نماز سے مدد طلب کرو بے شک یہ بھاری ہے سوائے ان لوگوں کے جواللہ سے ڈرنے والے ہیں‘‘۷ ؂
رسول اللہﷺنے شوہر کے علاوہ دوسرے عزیزوں کی وفات پر سوگ کے لیے صرف تین دن مقرر فرمائے ہیں۔ صحابیاتؓ نے اس حکمِ رسولﷺ پر بڑی شدت سے عمل کیا۔زینبؓ بنت جحش کے بھائی کا انتقال ہو اتو چوتھے دن کچھ عورتیں ملنے آئیں ،انہوں نے ان کے سامنے خوشبولگائی اور فرمایا:
واللّٰہ مالی بالطیب من حاجۃ غیرانی سمعت رسول اللّٰہﷺ یقول:لایحل لامراۃ تؤمن باللّٰہ والیوم الاخر ان تحدّ علی میت فوق ثلاث لیال الا علٰی زوج ،اربعۃ اشھر وعشراً ۸ ؂
’’مجھے خوشبو کی ضرورت نہ تھی لیکن میں نے رسو ل اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کسی عورت کے لیے، جو اللہ اور روزِ قیامت پر یقین رکھتی ہے، جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ سوگ منائے سوائے شوہر کے، کہ اس پر چار ماہ اور دس دن کا سوگ ہے‘‘
اسی طرح حضرت ام حبیبہؓکے والد ابوسفیان انتقال فرما گئے تو انھوں نے تین روز کے بعد تیل لگایا اور خوشبو ملی اور فرمایا:مجھے خوشبو کی ضرورت نہ تھی مگر میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
’’کسی عورت کے لیے جائز نہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے مگراپنے خاوند کا، جس کا سوگ چارماہ دس دن ہے‘‘۹ ؂
ام عطیہ ؓ کا ایک بیٹا کسی جنگ میں شریک تھا۔بیمار ہوکر بصرہ میںآیا۔ حضرت ام عطیہؓ کو خبر ہوئی تو بڑی تیزی سے مدینہ سے بصرہ آئیں لیکن ان کے پہنچنے سے ایک دن قبل اس کا انتقال ہوچکا تھا۔یہاں آکر انہوں نے بنو خلف کے قصر میں بودوباش اختیار کرلی اور پھر بصرہ سے کہیں نہ گئیں۔تیسرے دن خوشبو منگا کر ملی اور کہا کہ شوہر کے علاوہ اور کسی کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے ہمیں منع کیا گیا ہے۔۱۰؂
نافع مولیٰ ابن عمرؓکا بیان ہے کہ ابن عمرؓنے بانسری کی آواز سنی تو اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور راستے سے ہٹ کر چلنے لگے اور پوچھا:اے نافع کیا تجھے آواز سنائی دے رہی ہے؟ میں کہتا:ہاں،پس آپؓچلتے رہے حتیٰ کہ میں نے کہا کہ اب آواز نہیں آرہی۔ پھرآپؓنے انگلیاں کانوں سے نکال لیں اور اپنی سواری کو راستے پر چلانے لگے اور پھر فرمایا:
رأیت رسول اللّٰہﷺوسمع صوت زمارۃ راع فصنع مثل ھذا ۱۱؂
’’میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ نے ایک چرواہے کی بانسری کی آواز سن کر ایسا ہی کیا تھا‘‘
صدیقِ اکبرؓکے ایک غلام نے ان کو کھانے کی کوئی چیز لاکر دی ،جب آپؓکھاچکے تو غلام نے پوچھا: آپؓجانتے ہیں کہ وہ کیا شے تھی؟پوچھا: کیاتھی؟اس نے کہا: میں جاہلیت میں کہانت کاکام کرتا تھا ۔یہ شے اسی کا معاوضہ تھی۔حضرت صدیقِ اکبرؓنے سنا تو فوراً قے کردی اور پیٹ میں جوکچھ تھا وہ نکال باہر پھینکا۔۱۲؂
ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓکا کردار کتنا جاندار تھااور وہ دینی معاملات میں شرعی امور کا کس قدر خیال رکھنے والے تھے۔قول وفعل کی اسی مطابقت کی وجہ سے لوگ ان کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ 

کردار کی تاثیر

شطا جومصر کا ایک بہت بڑا رئیس تھا،مسلمانوں کی اخلاقی حالت کا چرچا سن کر اسلام کا گرویدہ ہوگیااور دوہزار آدمیوں کے ساتھ اسلام قبول کرلیا ۔تاریخ مقریزی میں ہے:
فخرج شطا فی الفین من اصحابہ والحق بالمسلمین وقد کان قبل ذالک یحب الخیر ویمیل الی ما یسمعہ من سیرۃ اہل الاسلام ۱۳؂
’’شطا دوہزار آدمیوں کے ساتھ نکلا اور مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوگیا ۔وہ پہلے بھی نیکی کے کاموں سے محبت رکھتا تھا اور مسلمانوں کے محاسن اخلاق کو سن کر ان کی طرف مائل تھا‘‘
صحابہ کرامؓاسلام کی چلتی پھرتی تصویر تھے اور انہوں نے اسلام کو اپنی ذات پر نافذ کرکے اسلامی تعلیمات کے اندر ایک ایسی کشش پیدا کردی تھی کہ لوگ اسلام کے دامن میں پناہ لینے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے تھے۔صحابہ کرامؓکے محاسنِ اخلاق میں مساوات ایک ایسا وصف تھا جو خود قلوب واذہان کو اپنی طرف مائل کرتا تھا،بالخصوص جب اسلام کے اصول مساوات اور مسلمانوں کی مساویانہ طرزِ معاشرت کا ایرانیوں کی ناہموار طرزِ معاشرت سے مقابلہ ہوتا تھاتو یہ وصف خصوصیت کے ساتھ نمایاں ہوجاتا تھا اورحق پسند لوگ خود بخود اسلام کی طرف مائل ہوجاتے تھے۔چنانچہ ایک بار زہرہ نے رستم سے دورانِ گفتگو اسلام کے جومحاسن بتائے، ان میں سے ایک یہ تھا:
اخراج العباد من عبادۃ العباد الی عبادۃ اللّٰہ تعالیٰ
’’بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کراللہ کی غلامی میں داخل کرنا اسلام کا اصلی مقصد ہے‘‘
رستم نے یہ سن کر کہا کہ ایرانیوں نے تو ارد شیر کے زمانے سے طبقہ سافلہ کے پیشے متعین کردیے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر وہ اس دائرے سے نکلے تو شرفا کے حریف بن جائیں گے۔رفیل ابتدا ہی سے اس گفتگو کو سن رہا تھا۔ اس پر اس کا یہ اثر ہوا کہ جب رستم چلا گیا تو اس نے فوراً اسلام قبول کرلیا۔۱۴؂
ہر مقدمہ میں گواہ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن صحابہ کرامؓکو ان کی دیانت نے اس سے مستثنیٰ کردیا تھا۔حضرت سعیدؓ بن زید بن عمرو بن نفیل پر ایک عورت نے غصب کا دعویٰ کیا۔انہوں نے کہا’’میں نے رسو ل اللہﷺ سے یہ سناہے کہ جو شخص بلا استحقاق کسی کی ایک بالشت بھر زمین لے گا، اللہ زمین کے ساتوں طبق اس کے گلے کا طوق بنا دے گا۔میں نے اس کی زمین کا کوئی حصہ نہیں لیا۔‘‘ مقدمہ مروان کی عدالت میں تھا،اس نے کہا اب میں آپؓسے گواہ نہیں مانگتا۔۱۵؂
امرا وسلاطین تو پھر بھی مسلمان تھے، صحابہ کرامؓکے حسنِ اخلاق کے سب سے زیادہ اثرات غیر مسلموں پر پڑے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ زارِمکہ کو چھوڑ کر نکلے تو راہ میں ابن الدغنہ مل گیاجو عرب میں’’سیدالقارۃ‘‘کے خطاب سے ممتاز تھا۔اس نے پوچھا :کہاں جاتے ہو؟ بولے: مجھے میری قوم نے نکال دیا ہے۔اب سیاحت کرکے خدا کی عبادت کروں گا۔اس نے کہا : تم جیسا شخص نہ وطن سے نکل سکتا ہے نہ نکالا جا سکتا ہے۔تم غریبوں کے لیے مال پیدا کرتے ہو،صلہ رحمی کرتے ہو۔ قوم کی دیت وتاوان کا بوجھ اٹھا تے ہو۔مہمان نوازی کرتے ہو۔ مصائب قومی میں اعانت کرتے ہو۔میں تمہارا ضامن ہوں۔چلو اور اپنے ملک میں خدا کی پرستش کرو۔چنانچہ وہ پلٹے اور چند شرائط کے ساتھ کفار نے ان کو عبادت گزاری کی اجازت دے دی۔۱۶؂
حضرت نعیمؓ بن عبداللہ النحام نہایت فیاض صحابی تھے اور قبیلہ بنو عدی کی بیواؤں اور یتیموں کی پرورش کرتے تھے۔کفارپران کی اس نیکی کا یہ اثر تھا کہ جب انہوں نے ہجرت کا ارادہ کیا تو تمام کفار نے روک لیا اور کہا کہ جو مذہب چاہو اختیار کرو۔ اگر کوئی تم سے تعرض کرے گا تو سب سے پہلے ہماری جان تم پر قربان ہوگی۔۱۷؂
صحابہ کرامؓچونکہ اسلام کی چلتی پھرتی تصویر تھے اس لیے لوگ ان کی سیرت وکردار سے متاثر ہوکر بھی مائل بہ اسلام ہوتے تھے۔صحابہ کرامؓکواپنے علم اور کردارکی بنا پر معاشرے میں تقدس کا جو درجہ حاصل تھا، اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے ہر جگہ اسلام کے پیغام کو عام کیا اور عہدِ صحابہؓ میں ہر طرف اسلام ہی کا چرچاہونے لگا۔ہر قسم کے نتائج سے بے پروا ہوکر صحابہ کرامؓنے ہمیشہ حق کی تائید کی جس سے نہ صرف وقت کے حکمرانوں کو اپنے رویے میں تبدیلی کرنا پڑی بلکہ اس طرح کی آزاد تنقید سے صحابہ کرامؓنے اسلام کو بھی ہر طرح کی تحریف سے محفوظ رکھا۔ عہدِ صحابہؓمیں اسلام کو جو ترقی اور عروج حاصل ہوا،اس کا بنیادی سبب بجا طور پرصحابہ کرامؓکی حق پسندی اور بلند کرداری کو قرار دیاجاسکتا ہے۔ 

حوالہ جات

۱ ؂ الادب المفرد، ح:۲۰۱،ص:۶۰
۲ ؂ ابن سعد،تذکرہ ابوذرؓ ، ۴/۲۳۷
۳ ؂ صحیح مسلم،۲/۴۵۰
۴ ؂ المسند،مسند عبداللہ بن عمرؓ،ح:۵۹۶۳، ۲/۲۶۸
۵ ؂ اسد الغابہ،تذکرہ جثامہؓ ابن مساحق،۱/۲۷۳
۶ ؂ الموطّأ، ۷۸۵،ص:۵۹۲
۷ ؂ اسدالغابہ،تذکرہ قثم بن عباسؓ،۴/۱۹۷-۱۹۸
۸ ؂ صحیح البخاری، ح:۵۳۳۵،ص:۹۵۳
۹ ؂ نفس المصدر،ح:۵۳۳۴،ص:۹۵۳ 
۱۰ ؂ نفس المصدر،ح:۱۲۷۹،ص:۲۰۴
۱۱ ؂ المسند،مسند عبداللہ بن عمرؓ،ح:۴۵۲۱، ۲/۷۱
۱۲ ؂ صحیح البخاری ،ح:۳۸۴۲،ص:۶۴۴
۱۳ ؂ مقریزی، ’’امتاع الاسماع‘‘،۱/۲۲۶
۱۴ ؂ بلاذری ،’’فتوح البلدان‘‘:ص۲۷۴
۱۵ ؂ صحیح مسلم،۴۱۳۴،ص:۷۰۴
۱۶ ؂ صحیح البخاری ،،ح:۲۲۹۷،ص:۳۶۷
۱۷ ؂ اسد الغابہ،تذکرہ نعیمؓ بن عبداللہ النحام،۵/۳۳

ایک مثالی معلم کی کہانی، ایک شاگرد کی زبانی

ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

آج اساتذہ اور مربین کی کمی نہیں۔ مدرسین اور معلمین کی ہر طرف بہتات ہے، مگر ماہر فن استاذ، کامیاب مدرس، حاذق معلم، اور قابل تقلید واتباع مربی کا وجود عنقا ہے۔ جس مثالی معلم ومربی کا تذکرہ ان سطور میں مقصود ہے، اسے عنقا پر بھی یک گونہ ترجیح وفوقیت ہے۔ عنقا چار دانگ عالم میں مشہور ہے اور ہر طرف اس کا چرچا ہے۔ میں جس مایہ ناز استاذ اور مفخرۂ معلمین کی کہانی سنانے جا رہا ہوں، وہ نام اور شہرت سے بے پروا ہے، گم نامی اس کا سرمایہ حیات اور گوشہ خمول اس کی عافیت گاہ ہے۔
استاذ محترم مولانا سید محمد واضح رشید ندوی ۱ ؂ سے میں نے کئی سال باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے اور مدتوں استفادہ کیا ہے۔ دار العلوم ندوۃ العلماء سے جدائی کو تیرہ سال ہو گئے ہیں لیکن آج بھی میرا دل مولانا کی محبت وعقیدت سے اسی طرح لبریز ہے۔ مولانا کی مجالس کی یاد ہمہ وقت ستاتی رہتی ہے۔ مادر علمی میں گزارے ہوئے وہ لمحات یاد آتے ہیں جب کلاس روم میں ہم مولانا کے درس سے مستفید ہوتے یا ’’الرائد‘‘ کے دفتر میں مولانا کی گفتگو اور تبصروں سے لطف اندوز ہوتے بلکہ اس سے زیادہ وہ گھڑیاں ستاتی ہیں جب ہم مولانا کی خاموشی اور سکوت سے فیض یاب ہوتے۔ ۲؂ مولانا کی ہر ادا، نشست وبرخاست، سکوت ونطق تعلیم وتربیت کے دروس واسباق ہیں۔ ماضی کی یہ یاد کس قدر ناخن بدل ثابت ہو رہی ہے:
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
علم وحکمت، دانش وآگہی اور ادب وصحافت مولانا کی دلچسپی کا سامان ہیں۔ مولانا کی اٹھان ہی ایسی ہے کہ لکھنا پڑھنا زندگی کا ایک ضروری مشغلہ بن گیا ہے۔ بچپن سے علم وادب کی قدر اور زندگی کی تمام دوسری قدروں پر اس کی فوقیت کا احساس مولانا کے ریشہ ریشہ میں پیوست ہے۔ مولانا کے شجرہ میں دونوں طرف علم وحکمت اور روحانیت ومعرفت رہی ہے اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ آپ سلالہ عظام اور زبدۂ کرام ہیں اور آپ کے دونوں شجرے برگ وبار ہیں شاخ حسنی وعلوی، فرع محمدی اور اصل اسماعیلی وابراہیمی کے:
اصل وفرعے را کہ بینی حاصل یک مایہ اند
آفتاب وپرتوش از بم جدا نتواں گرفت
عربی زبان وادب مولانا کا خاص موضوع ہے۔ درس وتدریس اور صحافت شغل شاغل ہے۔ آپ کا علم وفضل رشک اقران وامثال ہے۔ تحریر رواں اور ادیبانہ ہے۔ زبان میں بے ساختگی اور برجستگی ہے۔ اسلوب میں بیک وقت ایک ٹھہری ہوئی سنجیدگی اور سنبھلی ہوئی شوخی باہم ملی جلی پائی جاتی ہے۔ یہ اسلوب ایسا ہے کہ نازک سے نازک فکری، اجتماعی اور سیاسی مسائل پر بھی شگفتگی اور دل آویزی مولانا کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ میں نے مولانا کی اکثر تحریریں پڑھی ہیں اور جب بھی کوئی نئی تحریر ملتی ہے، پڑھے بغیر نہیں رہتا۔ یہ صرف میرا ہی حال نہیں، بلکہ مولانا کی تحریروں سے دلچسپی لینے، لطف اندوز ہونے اور فائدہ اٹھانے میں بہت سے لوگ میرے شریک ہیں۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی تحریروں میں کیسی بے پناہ کشش ہوتی ہے۔ ادب مولانا کی زندگی کا کوئی تفریحی مشغلہ نہیں بلکہ اسے ایک فطری اور مقدس منصب سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔ اپنی عربی دانی کو کمائی یا دنیاوی عز وجاہ کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ علم وہنر ہی مولانا کی زندگی ہے: ع نہ ستایش کی تمنا نہ صلہ کی پروا
میں جب ندوہ میں تھا، طلب علم کی ایک لگن تھی اور پڑھنے لکھنے اور مطالعہ کرنے کی فکر تھی۔ مادر علمی کا ہر استاد خوبیوں کا مجموعہ اور ہنروں کا گلدستہ تھا اور ہر طالب علم کو علم وہنر کا شوق تھا اور دن رات لکھنے پڑھنے کا ذوق۔
وہ لطف لب آب کہاں سے لاؤں؟
وہ دور مئے ناب کہاں سے لاؤں؟
ممکن ہے یہ اسباب بہم ہوں لیکن
وہ دوست، وہ احباب کہاں سے لاؤں؟
مولانا شہباز اصلاحی مرحوم اور مولانا واضح صاحب کی علمی وادبی مجلسوں اور صحبتوں سے سیری نہیں ہوتی تھی۔ مولانا شہباز مرحوم ندوہ کے احاطہ میں رہتے تھے اور میرے ہاسٹل (رواق اطہر، تیسری منزل) کے نگران بھی تھے جس کی وجہ سے مولانا کی طویل صحبت ہر وقت میسر آتی لیکن مولانا واضح صاحب سے استفادہ کا موقع صرف کلاس روم میں، یا اگر کوئی گھنٹی خالی ہوتی تو ’’الرائد‘‘ کے دفتر میں ملتا۔ مولانا سے استفادہ کی عجب دھن سوار رہتی۔ مولانا کی صحبت سے اس قدر فیض حاصل ہوتا کہ بیٹھ کر اٹھنے کو جی نہ چاہتا اور نہ ہی وقت گزر جانے کا احساس ہوتا۔ ان مجالس سے دل میں ایک ابھار، ایک حوصلہ اور ایک ابتہاج پیدا ہوتا:
بہت لگتا ہے جی صحبت میں ان کی
وہ اپنی ذات میں اک انجمن ہیں
یہ مقالہ مولانا کے کارناموں اور مآثر کی تفصیل بیان کرنے کے لیے نہیں ہے، نہ ہی اس تحریر میں آپ کی تصنیفات ومقالات کا علمی وادبی تجزیہ مقصود ہے۔ یہ مضمون مولانا کی تعلیم وتربیت کے اسالیب اور نمونوں پر روشنی ڈالنے کی ایک معمولی کوشش ہے۔ تربیت وتعلیم کے تمام جوانب کا جائزہ آسان نہیں۔ یہاں صرف ان پہلوؤں کو پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں جنھوں نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا۔ نیت یہ ہے کہ معلمین واساتذہ ان مثالوں کی پیروی کریں۔

ہمہ گیری وفراخ دلی

مولانا کی اہم خصوصیت علم کی وسعت وگہرائی ہے۔ آپ نے اپنا مطالعہ کبھی کسی ایک فکر وخیال یا ایک تہذیب وتمدن تک محدود نہیں رکھا۔ آپ کی فطرت ہے کہ کہاں سے یا کس سے کیا چیز لیں اور کیا چھوڑ دیں۔ خذ ما صفا ودع ما کدرکی حکمت آپ کے طرز عمل سے عبارت ہے۔ تعصب وگروہ بندی یا تنگ نظری کا یہاں گزر نہیں۔ فکر اسلامی کی تشریح کرتے وقت مولانا مودودیؒ ، سید قطب شہیدؒ ، محمد مبارکؒ ، مالک بن نبیؒ اور عالم اسلام کے دوسرے مفکرین کے خیالات اسی دلچسپی اور تفصیل سے پیش کرتے جس طرح مخدوم معظم مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی فکری اساسوں کا جائزہ لیتے۔ عصر حاضر کے ادبا کا تعارف کراتے، ان کی آرا وخیالات پر تنقید کرتے، طٰہٰ حسین کے فکری انحراف، احمد امین وغیرہ کی فکری مرعوبیت کا تذکرہ کرتے لیکن انصاف کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ جاتا۔ طٰہٰ حسین کی ’’علیٰ ہامش السیرۃ‘‘، ’الایام‘‘ اور ’’حدیث الاربعاء‘‘ وغیرہ، مصطفی لطفی منفلوطی کی ’’نظرات‘‘ و ’’عبرات‘‘ اور احمد امین کی ’’فجر الاسلام‘‘، ’’ضحی الاسلام‘‘، ’’ظہر الاسلام‘‘ اور مجموعہ مقالات ’’فیض الخاطر‘‘ ہم لوگوں نے مولانا ہی کے مشورہ سے پڑھیں۔ مولانا کی تربیت ورہنمائی کا یہ اثر رہا کہ طٰہٰ حسین کے انحراف یا احمد امین وغیرہ کی مرعوبیت کا ہم طلبہ نے کبھی کوئی اثر نہیں لیا۔ مولانا کے مزاج وکردار کی اس ہمہ گیری، فراخ دلی اور حقیقت آشنائی کی مثال بہت کم ملے گی۔

علمی وادبی نفع رسانی

مولانا کے درس کی اہم خصوصیت افادہ ونفع رسانی ہے۔ مولانا کے ہر درس میں عقل ودماغ کو نئے مواد ملتے، ہر مجلس میں علم وادب کی نئی معلومات حاصل ہوتیں، اور ہر صحبت میں اخلاقی وروحانی تربیت کا نیا سامان بہم ہوتا۔ نہ کہیں تکرار ممل، نہ ہی علم وادب کی سطح سے فروتر کوئی گفتگو، اور نہ اخلاقی وشایستگی سے دور کوئی تبصرہ ہوتا۔ میں نے استاذ مرحوم مولانا ابو العرفان ندوی سے ایک بار استفسار کیا کہ کیا وجہ ہے کہ ندوہ کے قدیم طلبہ اور فارغین جب یہاں آتے ہیں، آپ کا اس قدر احترام کرتے ہیں اور اتنی عقیدت ومحبت سے آپ سے ملاقات کرتے ہیں۔ مولانا نے فرمایا، اس کے دو اسباب ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب میں درس دیتا ہوں تو طلبہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ کچھ اخذ کر رہے ہیں اور نئی چیزیں سیکھ رہے ہیں۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ جب انتظامی امور میرے ذمہ تھے، میں نے نا انصافی اور انتقام سے احتیاط برتی۔ اگر کوئی طالب علم کسی ناجائز غرض سے میرے پاس آتا، اس پر ناراض ہوتا اور اسے کوئی سزا دیتا، اور کچھ دیر کے بعد اگر وہی طالب علم کسی جائز کام کے لیے آتا تو میں اس کا کام کر دیتا اور اپنی پچھلی ناراضی کو اس کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا ذریعہ نہ بناتا۔ یہی طرز عمل ہے استاذ محترم مولانا محمد واضح رشید ندوی کا۔ میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ مولانا کا درس نئے نئے علمی وادبی فوائد پر مشتمل ہوتا ہے۔

زبان واسلوب کی اصلاح

زبان واسلوب کی اصلاح پر مولانا کو غیر معمولی قدرت حاصل ہے۔ عا لمیت کے آخری سال میں ہمارا ’’تعبیر‘‘ یعنی عربی انشا پردازی وتحریر کا مضمون مولانا کے ذمے تھا۔ اس ایک سال میں عربی ترجمہ وتحریر کی جو مشق ہوئی، اسے میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ مولانا ہمارے ترجموں اور مضامین کی اصلاح فرماتے، زبان واسلوب درست کرتے، زبان کی نزاکتوں کو واشگاف کرتے، الفاظ وتراکیب کے نکات ودقائق سمجھاتے، فکر اسلامی کے مختلف مکاتب ومدارس سے روشناس کراتے، اور عالمی مسائل پر بصیرت افروز تبصرے فرماتے۔ مولانا کے طریقہ اصلاح کا مجھ پر بڑا اثر ہے۔ بعد میں جب ’’الرائد‘‘ کے لیے کوئی ترجمہ کرتا تو مولانا کی اصلاح سے مستفید ہوتا۔
’’الرائد‘‘ میں شائع ہونے والے مضامین وترجمے جن طلبہ یا اہل علم کے ہوتے ہیں، انھیں کے نام سے شائع ہوتے ہیں مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ ان میں مولانا کا کتنا اہم حصہ ہوتا ہے۔ مولانا بہت محنت اور سلیقہ سے ترجموں اور مضامین پر نظر ثانی کرتے ہیں۔ نہایت دیدہ ریزی سے ان کو درست کرتے ہیں۔ اہل علم وادب پر مخفی نہیں کہ مفہوم کو برقرار رکھ کر دوسروں کی تحریروں کی اصلاح کرنا اور ان کی زبان کو درست کرنا ہر کسی کا کام نہیں۔ ’’الرائد‘‘ میں اشاعت کے لیے جو ترجمے یا مقالے آتے ہیں، ان میں سے اکثر غلطیوں کا انبار اور ژولیدہ بیانی کا طومار ہوتے ہیں۔ مولانا ہی ان کو اشاعت کے قابل بناتے ہیں۔ مولانا کی اہم خوبی یہ ہے کہ ہر ایک کا احترام کرتے ہیں اور غلطی کو غلطی سمجھتے ہیں۔ کسی شخص کی غلطی کو خواہ مخواہ اہمیت دے کر رائی کا پہاڑ نہیں بناتے بلکہ معمولی اور ناقابل التفات سمجھ کر اسے درست کر دیتے ہیں۔ سالوں مولانا کے قریب رہنے کا موقع ملا ہے لیکن کبھی مولانا کی زبان سے یہ نہیں سنا کہ فلاں کے مضمون میں اس قدر غلطیاں تھیں یا فلاں مضمون یا ترجمہ کی میں نے اصلاح کی ہے۔
اس حقیقت کے اظہار میں کوئی تردد نہیں کہ دار العلوم ندوۃ العلماء کے فارغین کی نئی نسل میں جو لوگ بھی عربی زبان میں کچھ لکھنا جانتے ہیں، وہ بڑی حد تک ممنون ہیں مولانا کی تربیت کے۔ میں جب بھی عربی میں کوئی چیز لکھتا ہوں، اسے مولانا ہی کا فیض سمجھتا ہوں اور دل چاہتا ہے کہ اپنے ہر نقش کو ابن طباطبا کے اس شعر کے ساتھ مولانا کے نام معنون کروں:
لا تنکرن اہداء نا لک منطقا
منک استفدنا حسنہ ونظامہ
فاللہ عز وجل یشکر فعل من
یتلو علیہ وحیہ وکلامہ

ہمت افزائی اور قدر دانی

مولانا کی تربیت کا اہم پہلو طلبہ کی ہمت افزائی اور قدر دانی ہے۔ مولانا کو دیکھا ہے کہ پابندی کے ساتھ اردو، عربی اور انگریزی جرائد ومجلات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ایک صحافی کی حیثیت سے مولانا کی یہ پیشہ ورانہ ذمہ داری بھی ہے۔ اس مطالعہ سے ایک طرف مولانا کی زبان واسلوب ہمیشہ جدید اور معاصر رہتی ہے۔ دوسری طرف انگریزی اور اردو اخبارات میں جو چیزیں اس لائق ہوتیں کہ انھیں ’’الرائد‘‘ میں شائع کریں، ان پر نشان لگا کر رکھ لیتے اور ہم طلبہ کے حوالے کرتے کہ ان کا ترجمہ کریں۔ ہم ان کا ترجمہ کرتے، پھر مولانا کی اصلاح کے بعد وہ ترجمے ہمارے ناموں سے شائع ہوتے۔ ’’الرائد‘‘ میں اشاعت ہی ہم لوگوں کی بڑی ہمت افزائی ہوتی۔ اس پر مستزاد یہ کہ مولانا ہماری تعریف بھی فرماتے۔ مولانا کے توصیفی الفاظ بھی بہت جچے تلے ہوتے۔ مولانا کے تعریفی کلمات مشابہ نظر آتے ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے کلمات تعدیل وتوثیق کے۔ الفاظ کم، معانی زیادہ۔

بدگمانی سے پرہیز

مولانا کے یہاں بدگمانی کا نام ونشان نہیں۔ مولانا نے ایک بار مجھے یہ واقعہ سنایا کہ ندوہ کے ابتدائی زمانہ تدریس میں تخصص ادب عربی (ایم اے) کی ایک گھنٹی آپ کے ذمہ تھی۔ اس کلاس میں ایک طالب جو ممتاز تھے، آپ سے جلد ہی مانوس ہو گئے۔ ایک بار آپ کلاس روم میں پڑھانے کے لیے تشریف لے گئے تو تمام طلبہ ہنس رہے تھے۔ اس ہنسی میں یہ طالب علم بھی شریک تھے۔ آپ کو شبہ ہوا کہ یہ لوگ آپ کی کسی بات پر ہنس رہے ہیں اور اس سے آپ کو کچھ تکلیف بھی ہوئی۔ آپ نے درس شروع کیا۔ اثنائے درس میں بھی ان لوگوں نے ہنسنا شروع کر دیا۔ آپ کو ان طلبہ کے طرز عمل سے بڑی پریشانی ہوئی۔ درس ختم ہونے کے بعد آپ نے ان طالب علم سے جو آپ سے مانوس تھے، اس ہنسنے کی وجہ دریافت کی۔ انھوں نے عرض کیا کہ مولانا، ہم آپ پر ہنسنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ بات یہ تھی کہ آپ کی گھنٹی سے پہلے ہم اپنے ایک ساتھی سے مذاق کر رہے تھے اور اس کی کسی بات پر ہنس رہے تھے کہ اسی دوران آپ تشریف لے آئے اور آپ نے ہمیں ہنستے ہوئے دیکھا۔ آپ کے درس کے دوران اسی طرح کی بات آ گئی جس کی وجہ سے ہم اپنے ساتھی پر ہنس رہے تھے۔ بے ساختہ ہمیں پھر ہنسی آ گئی۔ مولانا نے یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد مجھ سے فرمایا کہ اس کے بعد میں نے طے کر لیا کہ کسی سے بدگمانی نہیں کروں گا۔ اور حق یہ ہے کہ مولانا نے اپنے اس عہد کو جس طرح نبھایا ہے، اس کی نظیر بمشکل کہیں ملے گی۔ میں نے ندوہ کے طویل دوران قیام میں مولانا کو کبھی بدگمان ہوتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی سے مولانا کے متعلق اس طرح کی کوئی بات سنی۔

فضول سے اجتناب

مولانا کے اوقات مشغول ہیں۔ آپ فضول گوئی اور مجلس آرائی سے پاک ہیں۔ یا پڑھنے پڑھانے اور استفادہ وافادہ کی مشغولیت، یا پھر تحریر ومقالہ نویسی اور دوسروں کے مضامین وترجموں کی اصلاح ودرستی سے مطلب۔ دوسروں کی عیب جوئی تو بہت دور کی بات ہے، آپ کے یہاں ان مباح امور کی بھی گنجایش نہیں جو نہ دنیا میں سود مند اور نہ ہی آخرت میں کارآمد۔ علم وعبادت میں آپ کے اوقات اس طرح مصروف ہیں کہ خاطر مجموع اور حضور قلب میں کنج نشینوں اور گوشہ گزینوں سے بھی سبقت لے گئے ہیں۔

مثالی زندگی

ماہرین تعلیم وتربیت متفق ہیں کہ تعلیم وتربیت کے باب میں سب سے موثر چیز اسوہ حسنہ اور عملی مثال ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ اس کی سب سے جامع اور مکمل مثال ہے۔ قرآن نے ایک طرف آپ کے حسن اخلاق کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے: ’’اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘ اور دوسری طرف آپ کے اسوہ کے اتباع کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے: ’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ‘‘۔
مولانا اس اسوہ نبوی کا بہترین نمونہ ہیں۔ آپ کی زندگی مثالی ہے۔ نماز واذکار کے پابند ہیں۔ زہد وتقویٰ شعار ہے۔ تواضع وانکسار مزاج پر غالب ہے۔ کم آمیزی وکم گوئی طبیعت ثانیہ ہے۔ عیب جوئی کا گزر نہیں۔ ریا کاری اور نام ونمود سے کوسوں دور، بلکہ اگر تصنع وبناوٹ کرنا بھی چاہیں تو بن نہ آئے۔ جبلت میں اخلاق حسنہ رچے بسے ہیں۔ حلم ومروت کا کچھ بیان نہیں۔ بغض وحسد کا نام ونشان نہیں۔ ’’سینہ چوں آئینہ‘‘ کی تصویر ہیں اور ’’ما ہذا بشرا ان ہذا الا ملک کریم‘‘ کی تفسیر۔
پیکر آرائے ازل صورت زیبائے ترا
نقش می بست وبم از ذوق تماشا می کرد
اس تواضع وانکسار اور مجموعہ اخلاق حسنہ کے باوجود طلبہ پر آپ کا رعب ہے اور لوگ آپ کی تعظیم واحترام پر مجبور۔ ع ہیبت حق است ایں از خلق نیست
آپ کا طور ہی جدا ہے اور رنگ ڈھنگ ہی نرالا ہے۔ آپ کے یہ انفرادی اوصاف ماحول سے اس قدر مختلف ہیں کہ آپ ہر طبقہ اور ہر گروہ میں اجنبی معلوم ہوتے ہیں۔ صحیح معنوں میں غریب در وطن کی مثال ہیں:
نہیں گفتار ہی عالم سے نرالی اس کی
طرز رفتار الگ، بندش دستار جدا
یہی نہیں بلکہ مجاہدے کے ساتھ آپ نے تمام ناموافق ماحول اور مخالف قوتوں اور کششوں کے مقابلہ میں اپنی اصلی فطرت اور سا لمیت قائم رکھی۔ آپ کی مثالی زندگی مصداق ہے شوقی مرحوم کے اس مصرع کی۔ ع کاد المعلم ان یکون رسولا۔ خوف طوالت سے اسی قدر پر اکتفا کرتا ہوں۔
اس قد کشیدہ کی جو شرح کروں، کم ہے
اک مصرع موزوں میں سو بیت کا مطلب تھا
ما شئت قل فیہ فانت مصدق
والفضل یقضی والمحاسن تشہد

حواشی

(۱) مجھے اندازہ ہے کہ استاذ محترم کو میرا یہ مضمون پسند نہیں آئے گا، اسی وجہ سے اس تحریر میں مجھے بہت ہی پس و پیش رہا ہے۔ تردد اور لیت و لعل کے بعد اس جذبہ سے یہ تحریر پیش کرنے کی جرأت کر رہا ہوں کہ اس سے مجھ جیسے نئے اساتذہ و معلمین کو مہمیز ملے گی اور اس اسوہ کی روشنی میں تدریس و تعلیم کی دشوار گزار وادی طے کرنے میں آسانی ہوگی۔ استاد محترم کی خدمت میں معذرت کے ساتھ عرض ہے:

برا مانیے مت مرے دیکھنے سے

تمہیں حق نے ایسا بنایا تو دیکھا

آں روز کہ مہ شدی نمی دانستی

کانگشت نمائے عالم خوابی شد

(۲) اس پر استاذ مرحوم مولانا شہباز اصلاحی کی زبانی سنا یہ واقعہ یاد آگیا کہ ایک بار حضرت مولانا علیہ الرحمۃ کی مجلس میں کسی نے سوال کیا کہ حضرت! اگر کوئی عارف کامل مل جائے تو اس سے کیا پوچھیں؟ حضرت مولانا نے فرمایا کہ اس کے سامنے خاموشی سے بیٹھیں۔ اس میں شک نہیں کہ اہل علم و فضل اور ارباب معرفت و کمال کی خاموشی و سکوت ان کے نطق و گویائی سے کم اہمیت کی حامل نہیں۔ 

اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت

مولانا محمد یوسف

ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے جون ۲۰۰۴ء کے شمارے میں پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب کے مضمون ’’دین اسلام کی معاشرتی ترویج میں آرٹ کی اہمیت‘‘ کے توسط سے ان کے تازہ ترین افکار سے آشنائی ہوئی۔ موصوف نے اپنے مضمون میں آرٹ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے علما کے معاشرتی کردار کے حوالے سے یہ شکوہ کیا ہے کہ علما انسانی شعور کو ایڈریس کرنے کے بجائے جذباتی فضا قائم کر کے لوگوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔ غالباً اسی جذباتی فضا کا اثر ہے کہ خود میاں صاحب نے اس فضا کو ختم کرنے کے لیے جو انداز تحریر اختیار کیا ہے، وہ بھی شعور انسانی کو کم اور جذبات کو زیادہ اپیل کرنے والا ہے۔ ان کی تحریر میں سے ’’شعور‘‘ کو اپیل کرنے والا ایک نمونہ ذرا ملاحظہ فرمائیے:
’’راقم کو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ مذہبی طبقے کے فن خطابت کا فنی جائزہ یہی مترشح کرتا ہے کہ ان کا دینی ادراک ’’ابلیسیت زدہ‘‘ ہے۔‘‘ 
موصوف نے اپنے مضمون میں کوہ صفا پر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مشہور خطبہ کا ذکر کیا ہے جس میں سراسر ’’شعور انسانی‘‘ کو مخاطب بنایا گیا تھا۔ موصوف اگر کچھ دیر کے لیے ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ اپنی اس تحریر کا موازنہ رسالت مآب ﷺ کے خطبے سے کریں گے تو نہ صرف دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا بلکہ موصوف کو اس حقیقت کا بھی علم ہو جائے گا کہ ان کے حصے میں دودھ کتنا آیا ہے اور پانی کتنا۔ موصوف کے زعم میں ان کا مخاطب طبقہ جس جذباتی فضا میں کھڑا ہے، خود انھوں نے بھی ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونے کی کوشش کی ہے لیکن اس نمایاں فرق کے ساتھ کہ ؂
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامہِ سیاہ میں ہے
۱۔ موصوف نے اپنے مضمون میں ’عالم‘ اور ’ماہر فقہ‘ (فقیہ) میں فرق واضح کرتے ہوئے دور حاضر کے علما کو ’ماہرین فقہ‘ قرار دیا ہے۔ موصوف رقم طراز ہیں:
’’ہمارے ہاں دین کی غلط تعبیر کی مانند ’عالم‘ کی تعریف بھی غلط کی گئی ہے۔ آج جنھیں ’علما‘ کہا جاتا ہے، وہ دراصل ’ماہرین فقہ‘ کہلائے جانے کے زیادہ مستحق ہیں۔‘‘
موصوف کی اس بات کو علم فقہ کی تعریف اور اس کے مبادی ومتعلقات سے عدم واقفیت اور ناآشنائی کا نتیجہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر عالم، فقیہ نہیں ہو سکتا۔ ایک فقیہ دینی مسائل میں ایک عالم سے زیادہ تحقیق رکھتا ہے۔ چونکہ ایک فقیہ کا منصب نصوص سے براہ راست احکام کا استنباط کرنا ہے جبکہ ہر عالم ایسا نہیں کر سکتا، اس لیے جو فقیہ ہوگا، وہ عالم بھی ہوگا لیکن ہر عالم، فقیہ نہیں ہو سکتا۔ ہماری معلومات کی حد تک امت مسلمہ میں کوئی فقیہ ایسا نہیں گزرا جو عالم نہ ہو۔ مدینہ منورہ کے مشہور فقہاء سبعہ سب کے سب جید علماء دین تھے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ’فقیہ‘ کی تعریف ملاحظہ ہو۔ امام اللغۃ زمخشری لکھتے ہیں: 
’’الفقیہ العالم الذی یشق الاحکام ویفتش عن حقائقہا ویفتح ما استغلق منہا‘‘ 
’’فقیہ اس عالم کو کہتے ہیں جو احکام شریعت کو واضح کرے، ان کے حقائق کا سراغ لگائے اور مغلق اور پیچیدہ مسائل کو حل کرے۔‘‘ (الفائق)
علم فقہ کی درج بالا تعریف سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ فقیہ، عالم ہی کو کہتے ہیں لیکن ہر عالم کو نہیں بلکہ اس عالم کو جو احکام شریعت کو واضح کرتے ہوئے مغلق اور پیچیدہ مسائل کو حل کرتا ہے۔ چنانچہ ’فقیہ‘ اور ’عالم‘ میں میاں صاحب کا قائم کردہ فرق ان دلائل کی روشنی میں درست نہیں، بلکہ اس سے ایک عجیب تضاد بیانی وجود میں آتی ہے، کیونکہ میاں صاحب ایک طرف فقہی، جہادی اور تبلیغی تینوں گروہوں کو اجتہادی روح سے عاری قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف دور حاضر کے ہر عالم کو ’فقیہ‘ کا منصب بھی عطا فرما رہے ہیں۔
۲۔ موصوف اس پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس ضمن میں مزید یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’فقہ‘ کو ’دین‘ اور ’فقیہ‘ کو ’عالم‘ تسلیم کرنے سے مسلم ذہن نے ہمیشہ انکار کیا ہے۔ اپنے اس موقف کو ثابت کرنے کے لیے موصوف نے ایک ’’لا جواب‘‘ دلیل پیش کی ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
’’راقم کا اشارہ اردو شاعری میں استعمال ہونے والی مشہور ترکیب ’فقیہ شہر‘ کی جانب ہے۔ کیا کوئی ایسا شعر بھی ہے جس میں ’فقیہ شہر‘ کو نرمی سے اور بغیر طنز کے مخاطب کیا گیا ہو؟‘‘
موصوف نے اپنے موقف کے حق میں اردو شاعری کی ایک ترکیب بطور دلیل پیش کی اور پھر خود ہی منصف کا فریضہ انجام دیتے ہوئے اسے ’’مسلم ذہن‘‘ قرار دیا جو کہ استدلال کا ایک بالکل نرالا انداز ہے۔ شعرا رومانوی اور تصوراتی دنیا کے بادشاہ ہوتے ہیں۔ جو شاعر جتنی دور کی کوڑی لائے اور جس قدر ناممکن العمل بات کرے، اسے اتنا ہی بڑا فنکار سمجھا جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُہُمُ الغَاوُوْنَ O اَلَمْ تَرَ اَنَّہُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّھِیْمُوْنَ O وَاَنَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لاَ یَفْعَلُوْنَ O اِلاَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا (الشعراء: ۲۲۴۔۲۲۶)
’’شاعروں کی اتباع گمراہ ہی کیا کرتے ہیں۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہ (خیالات کی) ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں، اور وہ باتیں کرتے ہیں جن پر عمل نہیں کرتے؟ ماسوا ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور جو اللہ تعالیٰ کو بکثرت یاد کرتے رہے۔‘‘
درج بالا آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے شعرا کا مقام اور مرتبہ متعین کرتے ہوئے نفس اور خواہشات کے پجاری شعرا اور ان کے متبعین کی مذمت جبکہ اہل ایمان، صالح اور ذاکر شعرا کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’شاعر کا کلام ایک انسان کا کلام ہے۔ اس میں خطا کا احتمال ہے۔ چنانچہ جو بات حق ہو، اسے لے لو اور جو باطل ہو، اسے چھوڑ دو۔‘‘ چنانچہ کسی شعر میں بیان ہونے والے کسی خیال یا ترکیب کو اس اصول کی روشنی میں پرکھ کر ہی اس کے حق یا باطل ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا کسی شعری ترکیب کو قرآن وحدیث کے مقابلے میں دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے؟ اگر نہیں اور یقیناًنہیں تو میاں صاحب اس ترکیب کو بنیاد بنا کر ’فقہ‘ یا ’فقیہ شہر‘ کو طنز کا نشانہ کیوں بنانا چاہتے ہیں؟
میاں صاحب نے اپنی تحریر میں جس ’’آرٹ‘‘ کا ذکر کیا ہے، اسی آرٹ کو قرآن حکیم میں علم فقہ کے نا م سے موسوم کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ملاحظہ فرمائیے:
وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا (البقرہ: ۲۶۹)
’’جس کو حکمت عطا کی گئی، اس کو خیر کثیر عطا کی گئی۔‘‘
امت مسلمہ کے بیشتر مفسرین کی رائے کے مطابق درج بالا ارشاد خداوندی میں ’حکمت‘ سے مراد ’علم فقہ‘ ہے جبکہ میاں صاحب نے ’حکمت‘ اور اس کے مترادف الفاظ کے لیے ’’آرٹ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ نہ جانے موصوف اپنے موقف کو ’’مسلم ذہن‘‘ کیوں قرار دیتے ہیں حالانکہ نہ صرف رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ’فقیہ‘ کے مقام اور مرتبہ سے مسلم ذہن کو آگاہ فرمایا بلکہ مسلم ذہن نے بھی ہمیشہ اس مقام کو قبول کیا ہے۔ بطور نمونہ چند احادیث ملاحظہ فرمائیے:
فقیہ واحد اشد علی الشیطان من الف عابد (سنن الترمذی، کتاب العلم، حدیث ۲۶۰۵)
’’ایک فقیہ، شیطان پر ہزار عبادت گزاروں سے زیادہ بھاری ہے۔‘‘
من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین (صحیح البخاری، کتاب العلم، حدیث ۶۹)
’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں، اس کو دین کی سمجھ عطا فرما دیتے ہیں۔‘‘
اس تفصیل کی روشنی میں قارئین پر واضح ہو چکا ہوگا کہ شاعری کی ایک ترکیب کو بنیاد بنا کر فقہ یا فقیہ کو طنز کا نشانہ بنانے میں کتنا وزن ہے۔
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
۳۔ علم فقہ سے متعلق موصوف اپنے خیالات کا مزید اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’فقہ کو دین کے متوازی کھڑا کرنے اور اسی کو دین قرار دینے سے معاشرتی بگاڑ آج جن جہتوں پر پنپ رہا ہے، وہ کسی وقت بھی ان امکانات کو چٹ کر سکتا ہے جو ٹمٹماتے چراغوں کی مانند اب بھی ہمارے باطن میں روشنیاں بکھیر رہے ہیں۔‘‘
راقم الحروف موصوف کا یہ موقف سمجھنے سے قاصر ہے۔ آخر علم فقہ کو کس طرح دین کے متوازی کھڑا کیا جا سکتا ہے جبکہ علم فقہ قرآن وحدیث سے مستنبط مسائل کے مجموعہ کا نام ہے؟ قرآن کریم میں ’فقہ‘ کی بنیاد درج ذیل ارشاد ربانی ہے:
فَلَوْ لاَ نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ (براء ۃ: ۱۲۲)
’’پھر ایسا کیوں نہ ہوا کہ مومنوں کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکل آئی ہوتی تاکہ دین میں فہم وبصیرت حاصل کرے۔‘‘
اسی فہم وبصیرت کو ’علم فقہ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ قرآن وسنت میں غور وفکر کی وسعت ’فقہ‘ کہلاتی ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ نے ’’تفقہ فی الدین‘‘ کے مفہوم میں درج ذیل باتوں کو بھی شامل کیا ہے:
۱۔ آفات نفسانی کی باریکیوں کی پہچان، ۲۔ ان چیزوں کی پہچان جو عمل کو فاسد بنا دینے والی ہیں، ۳۔ راہ آخرت کا علم، ۴۔ اخروی نعمتوں کی طرف غایت درجہ رجحان، ۵۔ دنیا کو حقیر سمجھنے کے ساتھ اس پر قابو پانے کی طاقت، ۶۔ دل پر خوف الٰہی کا غلبہ۔ (احیاء العلوم)
احادیث مبارکہ سے بھی ’فقہ‘ کے مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ ایک موقع پر رسالت مآب ﷺ نے صحابہ کرام کو نصیحت فرمائی:
ان الناس لکم تبع وان رجالا یاتونکم من اقطار الارضین یتفقہون فی الدین فاذا اتوکم فاستوصوا بہم خیرا (سنن الترمذی، کتاب العلم، حدیث ۲۵۷۴)
’’لوگ دین کے معاملے میں تمھارے پیروکار ہیں۔ اور بہت سے لوگ زمین کے اطراف سے تمھارے پاس دین کا فہم حاصل کرنے آئیں گے۔ جب وہ آئیں تو ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ یہ میری نصیحت ہے۔‘‘
درج بالا دلائل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فقہ اسلامی کی بنیاد قرآن وحدیث میں موجود ہے اس لیے اس کو دین کے متوازی تصور کرنا کسی طرح بھی قرین انصاف نہیں۔ جس علم کی بنیاد قرآن حکیم میں موجود ہو، اس کو دین کے متوازی کیسے کھڑا کیا جا سکتا ہے؟ البتہ ممکن ہے کہ میاں صاحب فروعی اختلافات اور ان کے حوالے سے پائے جانے والے شدت پسندانہ رویے کو ’فقہ‘ سمجھ بیٹھے ہوں۔ اس ضمن میں ان کی طرف سے کوئی وضاحت آنے کے بعد ہی ہم کوئی گفتگو کر سکتے ہیں۔
۴۔ اسی مضمون میں موصوف نے ’السلام علیکم‘ کہنے کی سنت مبارکہ کے متعلق بھی ایک مخصوص اور منفرد نقطہ نظر کا اظہار کیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’جس طرح ’السلام علیکم‘ کی ریت غیر مذہبی طبقے نے ڈالی ہے، اسی طرح اجتماعیت کی اس روح کا ادراک بھی (جو کہیں نظر آتا ہے) اسی طبقے نے دیا ہے۔‘‘
نہ جانے موصوف نے کس اصول کے تحت ایک مذہبی شعار کو غیر مذہبی طبقے کی طرف منسوب کر دیا، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ’سلام‘ کی رسم کے آغاز سے متعلق حدیث مبارک ملاحظہ فرمائیے:
عن ابی ہریرۃ عن النبی ﷺ قال خلق اللہ آدم وطولہ ستون ذراعا ثم قال اذہب فسلم علی اولئک من الملائکۃ فاستمع ما یحیونک تحیتک وتحیۃ ذریتک فقال السلام علیکم فقالوا السلام علیک ورحمۃ اللہ فزادوہ ورحمۃ اللہ۔ (صحیح البخاری، کتاب احادیث الانبیاء، حدیث ۳۰۷۹)
’’حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور ان کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا تھا۔ فرمایا، جاؤ اور فرشتوں کی اس جماعت کو سلام کرو اور جو وہ جواب دیں، اس کو سنو۔ وہی تیرے اور تیری اولاد کے لیے ’سلام‘ کرنے کا طریقہ ہوگا۔ حضرت آدم نے کہا، السلام علیکم تو فرشتوں نے جواب دیا، السلام علیک ورحمۃ اللہ۔ انھوں نے جواب میں ورحمۃ اللہ کا اضافہ کیا۔‘‘
درج بالا حدیث مبارک سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ السلام علیکم کی سنت مبارکہ کا آغاز سیدنا آدم سے ہوا اور آج تک امت مسلمہ میں جاری ہے۔ میاں صاحب وضاحت فرمائیں کہ کیا حضرت آدم کا تعلق بھی غیر مذہبی طبقے سے تھا؟ اول تو مذہبی اور غیر مذہبی کی تفریق ہی درست نہیں کیونکہ ہر مسلمان بنیادی طور پر مذہبی ہوتا ہے۔ ممکن ہے میاں صاحب اس تفریق کا ذمہ دار بھی مذہبی طبقہ کو ٹھہرائیں۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ میاں صاحب اتنے بھولے بھالے اور سادہ لوح کیوں بن گئے کہ ایک غلط تفریق کو بخوشی قبول فرما رہے ہیں؟ موصوف کے بقول دینی طبقے کا ادراک تو ’’ابلیسیت زدہ‘‘ ہے۔ آخر موصوف کے صاف ستھرے دینی ادراک پر اس کا پرتو کیسے پڑ گیا؟ لطافت کا آخر کثافت سے کیا میل ہے؟
یہ بھی ممکن ہے کہ میاں صاحب سلام کی ریت کے بارے میں اپنے موقف کی یوں تاویل کریں کہ ان کی گفتگو سلام کی رسم کے آغاز سے نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں اس ریت پر عمل کرنے اور اس کو فروغ دینے سے متعلق تھی۔ میاں صاحب کی اس ممکنہ تاویل کی حقیقت کو پرکھنے کے لیے راقم الحروف چند عملی مشاہدات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنا چاہتا ہے تاکہ حقیقت حال واضح ہو سکے۔
راقم نے عصری تعلیم کے حصول کے لیے کچھ عرصہ عصری تعلیمی اداروں میں اور دینی تعلیم کے حصول کے لیے کچھ عرصہ دینی تعلیمی اداروں میں گزارا ہے۔ اس ضمن میں دو تین واقعات بطور مثال عرض کرنا چاہوں گا۔
راقم الحروف جب چھٹی جماعت میں داخل ہوا اور انگریزی کے استاد سبق پڑھانے کے لیے تشریف لائے تو انھوں نے اپنی گفتگو کا آغاز ان کلمات سے کیا: ’’عزیز طلبہ! یہ بات آپ کے لیے باعث خوشی ہوگی کہ آپ پرائمری سے مڈل حصے میں ترقی کر چکے ہیں۔ چھٹی جماعت میں آپ کو ایک نیا مضمون، ’انگریزی‘ پڑھایا جائے گا۔ آپ اپنے ماحول میں انگریزی کو عام کریں اور صبح گھر سے سکول آتے ہوئے صبح کا سلام انگریزی زبان میں Good Morning (صبح بخیر) کہہ کر کیا کریں۔‘‘ ایک طالب علم بولا کہ سر! ہمارے والدین انگریزی سے ناواقف ہیں۔ استاد محترم طالب علم کی بات سن کر مسکرائے اور ایک لطیفہ سنایا، جو یوں ہے کہ ایک بچے کو انگریزی کے استاد نے کہا کہ عزیزم، صبح جب گھر سے سکول آتے ہو تو صبح کا سلام انگریزی زبان میں کیا کرو۔ ہدایت کے مطابق بچہ جب گھر سے سکول کے لیے روانہ ہونے لگا تو انگریزی سے ناآشنا سیدھی سادھی والدہ کو ’Good Morning‘ (گڈ مارننگ) کہا۔ ماں حیرت سے بچے کا منہ تکتی رہ گئی۔ بچہ تو سلام کر کے گھر سے نکل گیا لیکن حیرت زدہ ماں نے اپنے بھائی یعنی بچے کے ماموں سے کہا: ’’میرا پتر اج گڑ منگدا منگدا سکول ٹر گیا اے‘‘ (میرا بیٹا آج گڑ مانگتا مانگتا سکول چلا گیا ہے)
کیا فرماتے ہیں محترم میاں صاحب بیچ اس مسئلے کے کہ کیا ’السلام علیکم‘ کے الفاظ چھوڑ کر Good Morning, Good Evening, Good Night وغیرہ کی ریت بھی مذہبی طبقے نے ہی ڈالی ہے؟ ان سے فقط یہی عرض کی جا سکتی ہے کہ ’’اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت‘‘۔
ایک دوسرا واقعہ ملاحظہ فرمائیے۔ راقم کچھ عرصہ قبل ایک نجی کام کے سلسلے میں گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ میں شعبہ انگریزی کے صدر سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ موصوف ایک خوش طبع اور ملنسار آدمی ہیں۔ میں نے حاضری کا مدعا بیان کیا تو اٹھ کر میرے ساتھ چل پڑے۔ ہم دائیں طرف چل رہے تھے اور راستے میں طلبہ کے مختلف گروپ کھڑے گفتگو میں مصروف تھے۔ طلبہ اس بات کا خیال کیے بغیر کہ معزز استاد تشریف لا رہے ہیں، گفتگو میں مصروف رہے۔ سلام تو درکنار، گزرنے کے لیے ہمیں راستہ بنا کر کبھی دائیں سے بائیں اور کبھی بائیں سے دائیں چلنا پڑتا تھا۔ میں نے عرض کی، سر! طلبہ کا یہ رویہ مناسب نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس تعلیمی ادارے میں ہزاروں طلبہ زیر تعلیم ہیں اور سب طلبہ ہر ایک استاد کو نہیں جانتے۔ میں نے عرض کی کہ اول تو سلام کے لیے جان پہچان کی ضرورت نہیں۔ دوسرے آپ کی شخصیت اور عمر سے ہر دیکھنے والے کو اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ ادارے کے استاد ہیں۔ اس پر وہ بولے کہ بھائی، ہمارے کالجوں اور دینی مدارس میں تربیت کے حوالے سے بہت فرق ہے۔ سلام کرنے کی روایت جس طرح دینی مدارس میں موجود ہے، اس طرح عصری تعلیمی اداروں میں بہت کم ہے۔
یہ عصری تعلیم کے ایک مستند ادارے کے ایک فاضل استاد کا اعتراف ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس حوالے سے مذہبی طبقے کے ہاں دکھائی دینے والے عمومی منظر کا بھی ذکر کر دیا جائے۔ راقم الحروف نے ملک کی معروف دینی درسگاہ مدرسہ نصرۃ العلوم میں داخلہ لیا اور ایک سال کے تعلیمی عرصہ کے دوران میں روزانہ اس بات کا عملی مشاہدہ کیا کہ ہمارے استاد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ جب قرآن حکیم کی تفسیر اور بخاری شریف کا سبق پڑھانے کے لیے تشریف لاتے تو طلبہ ابھی تقریباً پچیس فٹ کے فاصلے پر منتظر ہوتے کہ استاد محترم قریب تشریف لائیں اور ہم سلام عرض کریں کہ استاد محترم پچیس فٹ کے فاصلے سے السلام علیکم کے الفاظ ادا فرما کر سلام کرنے میں سبقت لے جاتے۔ میں نے استاد محترم سے کئی بار خود سنا کہ ’’ہمارے شیخ حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ سلام کی سنت میں ہمیشہ سبقت فرمایا کرتے تھے۔‘‘ سلام کی سنت میں سبقت کرنے کی اسی عادت مبارکہ کا مشاہدہ راقم نے استاد محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید صاحب سواتی مدظلہ کے ہاں بھی کیا۔ اب دیکھیے، محترم میاں صاحب اپنے اس موقف کی کیا توجیہ کرتے ہیں کہ سلام کی ریت مذہبی طبقے نے نہیں بلکہ غیر مذہبی طبقے نے ڈالی ہے۔
۵۔ میاں صاحب اجتہاد کے متعلق علما اور مذہبی طبقے کے کردار سے بھی مطمئن نہیں، چنانچہ اپنا موقف انتہائی جذباتی انداز میں یوں بیان کرتے ہیں:
’’ہمارا مذہبی طبقہ آرٹ سے بے بہرہ ہے، اس لیے نہ صرف وہ خود اجتہادی روح سے بیگانہ ہو کر اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے بلکہ ساتھ ساتھ عوام کو شعور دینے سے بھی قاصر ہے ۔ فقہی، جہادی اور تبلیغی، تینوں گروہ اجتہاد سے عاری ہیں۔‘‘
مذہبی طبقے پر موصوف کی عائد کردہ اس ’فرد جرم‘ کا جائزہ لینے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اجتہاد کے معنی اور مفہوم کی وضاحت کر دی جائے۔ اجتہاد کے معنی یہ ہیں کہ قرآن وحدیث سے کسی شرعی حکم کے استنباط کے لیے غور وفکر کی پوری قوت صرف کر دی جائے۔ اس کی دو صورتیں ہیں:ایک، قرآن وحدیث کے منصوص مسائل کی تعبیر وتشریح اور دوسری، منصوص مسائل پر قیاس کرتے ہوئے غیر منصوص مسائل کے احکام کا استخراج۔ 
اب آئیے اجتہاد کے حوالے سے مذہبی طبقے کے کردار کی طرف۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے راقم کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جدید پیش آمدہ غیر منصوص مسائل کے حل کے لیے جید اور مستند علماء کرام کو انفرادی طور پر نہیں بلکہ اجتماعی طور پر اجتہادی کوششیں بروئے کار لانی چاہییں۔ اس بات کا اعتراف کرنے میں ہمیں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ اس حوالے سے مذہبی طبقوں کی کارکردگی ادھوری اور ناقص ہے۔ آج بالفرض حکومت وریاست اور معاشرے کے تمام امور کی باگ ڈور مذہبی طبقے کو سونپ دی جائے تو ان کا علمی وفکری ہوم ورک اس درجے کا نہیں کہ دنوں، ہفتوں یا مہینوں میں صورت حال کو بدل ڈالیں۔ بہت سے معاملات اور امور تشنہ تحقیق ہیں اور ان پر پوری طرح سے غور وفکر کیے بغیر کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا۔ فقہا کا فرض صرف یہ نہیں کہ وہ ناجائز اور حرام باتوں کی نشان دہی کر دیں بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ اس کے متبادل جائز راستے تجویز کریں۔ قرآن حکیم نے حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مصر کے بادشاہ نے جب ان سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی تو یوسف علیہ السلام نے خواب کی تعبیر بعد میں بتلائی جبکہ خواب میں جس آئندہ قحط کی اطلاع دی گئی تھی، اس کے سدباب کا طریقہ پہلے بتایا۔ چنانچہ فرمایا:
تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِیْنَ دَاَباً فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْہُ فِیْ سُنْبُلِہٖ اِلاَّ قَلِیْلاً مِّمَّا تَاْکُلُوْنَ۔ (یوسف: ۴۷)
’’تم سات سال تک مسلسل فصل کاشت کرو گے۔ اس دوران میں تم جو فصل کاٹو، اس کے دانوں کو خوشوں کے اندر ہی رہنے دو، سوائے اس تھوڑی سی مقدار کے جو تمھاری خوراک بنے۔‘‘
مذہبی طبقے میں اجتہاد کے حوالے سے یہ خامی موجود ہے، تاہم وہ اجتہادی روح سے بیگانہ نہیں بلکہ اہل علم میں اجتہادی روح پوری طرح بیدار ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اجتہاد کا کام اجتماعی طور پر منظم طریقے سے انجام نہیں پا رہا، ورنہ جہاں تک جدید پیش آمدہ مسائل کے حوالے سے اجتہاد کے عمل کا تعلق ہے، وہ پوری طرح جاری وساری ہے۔ اس وجہ سے راقم میاں صاحب کے اس موقف کو کہ مذہبی طبقہ اجتہادی روح سے بیگانہ ہو کر اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے اور عوام کو شعور دینے سے قاصر ہے، مبنی بر انصاف نہیں سمجھتا۔ اگر میاں صاحب کو کچھ مسائل کا سامنا ہے تو ان کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ خود ’مجتہد‘ کے منصب سے استعفا دے دیں۔ ان کے اجتہاد کے نمونے گاہے گاہے سامنے آتے رہتے ہیں۔ ایک دن اجتہاد کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ مسواک کا مقصد بھی دانتوں کی صفائی ہے اور ٹوتھ برش کا مقصد بھی یہی ہے، اس لیے برش سے دانت صاف کر لیے جائیں تو مسواک کی سنت ادا ہو جاتی ہے۔ 
اجتہاد کا منصب ہر حال میں اہل فن تک محدود رہے گا۔ ایسا نہیں کہ جس کا جی چاہے، اٹھے اور اجتہاد کرنا شروع کر دے۔ غیر ماہر فن کے اجتہاد کے نتیجے میں دین بازیچہ اطفال بن جائے گا اور اس کے بے شمار نمونے ہمارے سامنے ہیں۔ چند روز قبل راقم کا ایک ضروری کام کے سلسلے میں اسلام آباد جانا ہوا۔ ایک مسجد میں مغرب کی نماز ادا کی۔ نماز کے بعد ایک ڈاکٹر صاحب نے قرآن حکیم کا درس دینا شروع کر دیا۔ راقم بھی قرآن کریم کا ایک نسخہ لے کر سامعین میں جا بیٹھا۔ موصوف نے درس شروع کیا تو یہ جان کر بے حد دکھ ہوا کہ موصوف نہ صرف ناظرہ قرآن مجید غلط پڑھ رہے تھے بلکہ ترجمے میں بھی واضح غلطیاں کر رہے تھے۔ قرآن حکیم ہی وہ مظلوم کتاب ہے کہ جو شخص اس کی درست تلاوت تک نہیں کر سکتا، وہ اردو کی کچھ تفاسیر کا مطالعہ کر کے خود کو مفسر قرآن سمجھنے لگتا ہے اور I Think کے فتنے میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بہرحال، درس کے دوران میں ڈاکٹر صاحب نے اجتہاد کے متعلق اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ غیر منصوص مسائل میں اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے اور ساتھ ہی ایک اجتہاد کر کے بھی دکھا دیا۔ کہنے لگے کہ قرآن حکیم میں صرف چار چیزوں کی حرمت بیان ہوئی ہے، یعنی مردار، دم مسفوح، خنزیر کا گوشت اور ایسا جانور جس کو ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ ان کے علاوہ باقی چیزیں جن کا ذکر قرآن مجید میں نہیں، ان کے متعلق ہم اجتہاد کریں گے، چنانچہ ان کے علاوہ باقی کوئی بھی چیز حرام نہیں ہو سکتی، زیادہ سے زیادہ مکروہ ہوگی۔ درس میں شریک ایک صاحب نے سوال کیا کہ گدھے کے گوشت کا کیا حکم ہے؟ ڈاکٹر صاحب بولے کہ چونکہ اس کا ذکر قرآن مجید میں نہیں، اس لیے یہ بھی مکروہ ہے۔ راقم اول تو آداب مجلس کی وجہ سے خاموش رہا، لیکن بالآخر بولنا پڑا۔ میں نے عرض کی کہ محترم، گدھے کا گوشت مکروہ نہیں بلکہ صریحاً حرام ہے۔ رہا یہ سوال کہ اس کا ذکر قرآن کریم میں نہیں تو عرض یہ ہے کہ قرآن مجید میں تمام حرام چیزوں کا ذکر نہیں کیا گیا۔ کچھ کا ذکر قرآن میں ہے جبکہ کچھ کا ذکر احادیث میں کیا گیا ہے جن میں گدھا بھی شامل ہے۔ غزوۂ خیبر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے گھریلو گدھے کے گوشت کو صراحتاً حرام قرار دیا تھا۔ (صحیح البخاری، کتاب المغازی، ۳۸۷۷)
مذہبی طبقے کا دینی ادراک اسی طرز فکر کے حامل احباب کو ’’ابلیسیت زدہ‘‘ دکھائی دیتا ہے، لیکن خود ان کے دینی ادراک کا عالم کیا ہے، اس کی ایک جھلک مذکورہ واقعے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ 
راقم الحروف محترم میاں انعام الرحمن صاحب کا بے حد قدر دان ہے ، تاہم موصوف کے بعض ذہنی افکار اور نقطہ ہائے نظر سے اختلاف کا حق ضرور رکھتا ہے۔ درج بالا سطور میں راقم نے میاں صاحب کے بعض خیالات کے ساتھ دوستانہ اختلاف کی جسارت کی ہے اور مجھے امید ہے کہ موصوف اپنے موقف کے دفاع میں تاویلات سے کام لینے اور مذہبی طبقے کے خلاف ’’ابلیسیت زدہ‘‘ ہونے اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے جذباتی طعنوں کا سہارا لینے کے بجائے جواب میں افہام وتفہیم پر مبنی اور شعور کو ایڈریس کرنے والا انداز تحریر اختیار کریں گے۔ 

مسئلہ فلسطین یہودی مذہبی پیشوا کی نظر میں

مولانا حبیب نجار

گزشتہ دنوں رابطۃ العالم الاسلامی کے اخبار ’’العالم الاسلامی‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے ارض فلسطین اور مسجد اقصیٰ کے بارے میں ایک یہودی مذہبی پیشوا یسرائیل ڈیوڈ کا انٹرویو نظر سے گزرا تو ماہنامہ الشریعہ ستمبر/اکتوبر ۲۰۰۳ء میں مولانا محمد عمار خان ناصر کی تحریر بعنوان ’’مسجد اقصیٰ، یہود اور امت مسلمہ‘‘ ذہن میں گھومنے لگی۔ مولانا موصوف کے اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارض فلسطین اور مسجد اقصیٰ وراثت کے طور پر یہو دکو عطا ہوئی، اس لیے ان کا مسجد اقصیٰ اور ارض فلسطین پر قانونی واخلاقی حق ہے۔ مولانا کے اس مضمون پر تنقیدی تبصرے سامنے آئے جو الشریعہ دسمبر ۲۰۰۳ء میں شائع ہوئے۔ ان تحریروں میں سے ایک تحریر بعنوان ’’مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق دار کون؟‘‘ الشریعہ اکادمی کے ناظم مولانا محمد یوسف صاحب کی لکھی ہوئی تھی جس میں انھوں نے مسجد اقصیٰ کی تولیت کے حوالے سے قرآن وحدیث سے ٹھوس دلائل پیش کیے اور ایک اصولی نکتہ واضح کیا کہ مساجد کی تولیت کا حق خاندان کی بنیاد پر نہیں بلکہ نظریہ کی بنیاد پر ہے۔ تاہم مولانا عمار خان صاحب نے ماہنامہ الشریعہ اپریل/مئی ۲۰۰۴ء میں مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق مسلمانوں کے لیے تسلیم کرتے ہوئے احاطہ ہیکل کا اپنے خیال کے مطابق ایک معقول حل پیش کیا۔ راقم نے مناسب سمجھا کہ اسرائیلی ریاست اور مسجد اقصیٰ کے متعلق ایک یہودی مذہبی پیشوا کے بیانات کو بھی قارئین ’الشریعہ‘ کے سامنے لایا جائے تاکہ معاملے کی حقیقت مزید کھل کر سامنے آ جائے، کیونکہ عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ ’الفضل ما شہدت بہ الاعداء‘ اور ’صاحب البیت ادری بما فیہ‘۔ یسرائیل ڈیوڈ کے خیالات حسب ذیل ہیں:
یہودی مذہبی پیشوا یسرائیل ڈیوڈ فائس نے نیو یارک میں لبنان کے اخبار ’’المستقبل‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیلی ریاست کو غیر شرعی اور غیر قانونی قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ دین یہود میں قومیت کا تصور موجود نہیں، اس لیے یہودی ریاست کا قیام تورات کی تعلیمات کے خلاف ہونے کی وجہ سے درست نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’صہیونیت‘‘ کے نام سے فلسطین میں یہودیوں کی نو آبادی قائم کرنے کی تحریک کو صرف سو سال ہوئے ہیں جبکہ تورات کی تعلیمات چار ہزار سال سے چلی آ رہی ہیں۔ یہودیت، دینی تعلیمات کا مجموعہ ہے جبکہ صہیونی تحریک اس دینی مفہوم کو بدنام کر رہی ہے۔ صہیونی تحریک کا یہودی مذہب کو اس طرح استعمال کرنا تورات کی تعلیمات کے منافی اور ان کے پاگل پن کی کھلی دلیل ہے۔ 
انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی تحریک کے قیام سے قبل یہود سرزمین عرب میں امن وسکون کے ساتھ رہ رہے تھے اور ارض فلسطین کے بارے میں ان کا کسی قسم کا کوئی مطالبہ نہیں تھا۔ صہیونی تحریک نے یہودیوں کو فلسطین کی طرف ہجرت پر آمادہ کرنے کے لیے خود بھی ان کا قتل عام کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ صہیونی تحریک نے عرب ممالک خصوصاً عراق میں یہودیوں کا قتل عام کیا اور بم دھماکے کروائے تاکہ یہودی فلسطین کی طرف ہجرت پر مجبور ہو جائیں۔ اسی طرح جرمنی میں صہیونی تحریک اور نازیوں کے مابین یہودیوں کے قتل عام کا باقاعدہ معاہدہ طے پایا۔ 
انھوں نے مسئلہ فلسطین کے حل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسرائیل کو بطور ریاست ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ رہا سرزمین فلسطین میں یہودیوں کے قیام کا معاملہ تو یہ عوامی نمائندوں کی صوابدید پر منحصر ہے۔ ارض فلسطین میں رہنا صرف فلسطینیوں کا حق ہے اور گزشتہ سالوں میں صہیونی تحریک نے جو نقصانات کیے ہیں، فلسطینیوں کو ان کا ہرجانہ ملنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ عربوں اور یہودیوں کے مابین یہ نزاع پر امن اور منصفانہ طریقے سے حل ہونی چاہیے تاکہ خون ریزی کا سلسلہ رک سکے۔ مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی کی موجودگی کے صہیونی دعویٰ کو غلط قرار دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس جگہ پر مسلمانوں کا حق ہے۔ تورات کے حکم کے مطابق یہودیوں کو اس مقام کی ملکیت کا حق تو کجا، ان کا اس میں داخلہ بھی ممنوع ہے۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترم المقام حضرت مولانا المعظم دام مجدہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عرصہ دراز ہوا، نہ ملاقات ہوئی اور نہ ہی کوئی رابطہ۔ باغ کانفرنس میں ملاقات کی توقع تھی بلکہ ساتھیوں کو میں نے عرض کی تھی کہ اجلاس کا اعلامیہ آپ کے مشورہ سے تیار ہو مگر آپ کانفرنس میں تشریف نہ لا سکے۔ البتہ حضرت شیخ الحدیث صاحب دامت برکاتہم کی تشریف ہمارے لیے بڑی خوشی کا باعث ہوئی اور ان سے ملاقات کا شرف پا کر دل کو بڑا سکون ملا۔ اللہ تعالیٰ ان کی زندگی میں برکت عطا فرمائے۔
’’بین الاقوامی منشور‘‘ کی کاپی اور اس پر آپ کا تبصرہ دیکھا ہے۔ آپ کا تجزیہ اور اسلامی نقطہ نگاہ سے اس کی دفعات پر تبصرہ بڑا وقیع ہے مگر سوال یہ ہے، اسلامی دفعات کے تعارض سے صرف نظر بھی کریں تو انسانی نقطہ نگاہ سے جو دفعات رکھی گئی ہیں، کیا اس وقت فلسطین، عراق، افغانستان اور کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے، ان دفعات کے مطابق ہے؟ اگر نہیں تو اقوام متحدہ نے امریکہ کا کیا بگاڑ لیا جو ان دفعات کی دھجیاں بکھیر رہا ہے اور جوتے کی نوک پر بھی ان دفعات کو نہیں رکھتا؟ ایسے میں اس منشور کو زیر بحث لانا ہی ضیاع وقت ہے۔ بس قانون تو ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا چل رہا ہے۔ ہمارے مسلمان حکمران تو اپنی حکمرانی کے تحفظ کے لیے اسلامی دفعات کے خلاف اقدامات پر اعتراض کیا کرتے جبکہ اس منشور کو ان کی تائید بھی حاصل ہے۔ ان کو یہ غیرت بھی نہیں آتی کہ مسلمانوں کے ساتھ کس قدر انسانیت سوز سلوک کیا جا رہا ہے جس پر احتجاج کرنے سے قاصر ہیں۔
والسلام۔ آپ کا مخلص
(شیخ الحدیث مولانا) محمد یوسف
(دار العلوم تعلیم القرآن، پلندری، آزاد کشمیر)
۲۰۰۴/۵/۲۳
(۲)
محترم المقام ذو المجد والاحترام حضرت العلام مولانا زاہد الراشدی صاحب زید مجدہم
السلام علیکم وعلیٰ من لدیکم
مزاج گرامی بخیر۔ اللہ آپ کو سدا خوش رکھے اور آپ کی قومی وملی خدمات کو قبول ومنظور فرمائے۔ آمین ثم آمین بحرمت سید المرسلین۔
آج مورخہ یکم ربیع الثانی ۱۴۲۵ھ/۲۱ مئی ۲۰۰۴ کو بذریعہ ڈاک جریدہ ’’نوائے شریعت‘‘ اور ایک خط ملا۔ ما لہ وما علیہ پر مطلع ہو کر بڑی خوشی ہوئی۔ اس میں شک نہیں کہ میڈیا پر یہودیوں کا قبضہ ہے اور تجارت ومعیشت پر اقوا م متحدہ کا کنٹرول ہے اس لیے انھی دونوں شعبوں میں عالم اسلام پستی اور تنزل کے شکار ہیں۔
نازک حالات کے تقاضوں کے مطابق اقوام متحدہ کی تاسیس، غرض وغایت، کردار اور منفی خدمات کو منظر عام پر لانا اور یہودیوں کی خباثت وشرارت کو اجاگر کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ مسلمانان عالم ہر معاملہ میں اقوام متحدہ کے دروازے کھٹکھٹانے کے بجائے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی تیاری اور کوشش کریں۔ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے آج تک ایسی کوئی قرارداد پاس نہیں کی جس سے مسلمانوں کا فائدہ ہوتا ہو۔ ایسی صورت حال میں جریدہ ’’نوائے شریعت‘‘ کا اجرا واشاعت امید کی کرن ہے۔ امید ہے کہ اس میں حالات حاضرہ پر مضامین شائع ہوں گے۔
تازہ شمارے میں شامل اشاعت مضامین، انسانی حقوق کا عالمی منشور اور انسانی حقوق کا چارٹر نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس قسم کے مضامین ہمارے دینی جریدوں میں بھی شائع ہونے چاہییں۔ اللہ آپ کی محنت کو قبول فرمائے۔ امید ہے کہ ہر شمارہ ارسال فرما کر شکریہ کا موقع دیں گے۔
محترم! آپ کے زیر ادارت نکلنے والا موقر جریدہ ’’الشریعہ‘‘ پابندی سے مل رہا ہے اور تبادلہ میں ’’حق نوائے احتشام‘‘ بھی ارسال کیا جا رہا ہے۔ ’’الشریعہ‘‘ شمارہ اپریل/مئی ۲۰۰۴ء میں مسجد اقصیٰ کے حوالے سے محترم جناب محمد عمار ناصر صاحب کا طویل مقالہ اور آپ کا اداریہ من وعن پڑھا اور تنقیدی نظر سے مطالعہ کیا۔ مجھے اس مقالہ کے متعدد مقامات ودلائل پر اعتراضات وتحفظات ہیں۔ فی نفسہٖ مقالہ معیاری اور علمی ہے۔ شروع میں ارادہ تھا کہ اس پر لکھوں، لیکن حدیث ’من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ‘ اس میں حائل بن گئی۔ یہ ایسا ہے جیسا کہ آج کل ماہنامہ ’’اشراق‘‘ میں موسیقی کی حلت پر مضامین شائع کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت امریکہ بھیڑیا بن کر عالم اسلام کو تہس نہس کر رہا ہے اور اسلام کی بیخ کنی کرنے میں ہر حربہ استعمال کر رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں جہاد کی تیاری کے علاوہ ذلت ونکبت سے بچنے کا کوئی اور طریقہ نظر نہیں آتا۔ ؂
زور بازو آزما شکوہ نہ کر صیاد سے
آج تک کوئی قفس ٹوٹا نہیں فریاد سے
معذرت کے ساتھ مضمون ختم کرتا ہوں۔
اخوکم فی اللہ
(مولانا) محمد صدیق ارکانی
(استاد) جامعہ احتشامیہ، جیکب لائن، کرا چی
۳ ربیع الثانی ۱۴۲۵ھ/۲۳ مئی ۲۰۰۴ء
(۳)
۱۷/۵
گرامی قدر مولانا زاہد الراشدی صاحب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ مزاج گرامی؟
یورپین/مغرب کے تصور حقوق انسانی پر آپ کا مضمون اور ’توجہ دلاؤ نوٹس‘ ملا۔ شکریہ۔ موضوع کی اہمیت سے انکار ممکن ہی نہیں۔ جو کام ہاتھ میں ہیں، ان سے فارغ ہونے کے بعد، ان شاء اللہ، کچھ لکھنے کی کوشش کروں گا۔
کیا پاکستان کے دینی عناصر ایسے ہی ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ کام کرتے رہیں گے کہ کبھی نصاب کا مسئلہ سامنے آ گیا تو دو چار اجلاس کر لیے، کبھی توہین رسالت کا موضوع اٹھا تو کچھ دن شور کر لیا؟ دینی سیاسی عناصر کا عدم اتحاد تو سمجھ میں آتا ہے، کیا غیر سیاسی دینی عناصر کو چند مشترکہ/متفق علیہ نکات پر جمع نہیں کیا جا سکتا تاکہ پلاننگ کے ساتھ کچھ دینی کام ہو سکے؟
مخلص
(ڈاکٹر) محمد امین
(سینئر ایڈیٹر اردو انسائیکلو پیڈیا آف اسلام)
جامعہ پنجاب، لاہور
(۴) 
۶/اپریل ۲۰۰۴ء
برادرم محترم
السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ
امید ہے آپ بخیر ہوں گے۔ آپ کا خط اور مضمون ملے بہت دن ہو گئے۔ پچھلے عرصے میں میری مصروفیت کچھ ایسی غیر معمولی رہی کہ بروقت جواب نہ دے سکا۔
آپ کا مضمون میں نے دیکھا۔ آپ کی دیگر تحریروں کی طرح یہ بھی ایک وقیع تحریر ہے۔ عصری سیاسی حوالوں سے، میں اس میں کسی بڑی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور میرا خیال ہے کہ یہ آپ کے سابقہ مضامین پر تنقید کا شافی جواب ہے۔
مجھے بہت خوشی ہوگی اگر آپ ORE کے پروگراموں میں شریک ہوں اور اس کے مقاصد کو آگے بڑھانے میں آپ کی صلاحیتیں کام آئیں۔
ہم نے گزشتہ دنوں جو چند کتابچے شائع کیے ہیں، وہ ارسال کر رہا ہوں۔ اس کو ہم نے دو عنوانات کے تحت تقسیم کیا ہے۔ ایک تراجم ہیں جنھیں ’’معاصر اسلامی فکر‘‘ کا ذیلی عنوان دیا گیا ہے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ دیگر مسلمان حلقوں میں ہونے والے کام سے آگاہی ہو۔ اس کے ساتھ جو چیزیں ہم اپنے مسائل کے حوالے سے شائع کریں گے، انھیں ’’مسلم معاشرے کی تشکیل نو‘‘ کا عنوان دیا ہے۔
ان کتابچوں کے بارے میں اپنی رائے ضرور دیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ کے ذہن میں کوئی تجویز ہو جس پر ہم مشترکہ طور پر کام کر سکتے ہیں تو مجھے اس کے بارے میں جان کر خوشی ہوگی۔ مولانا زاہد الراشدی صاحب کی خدمت میں میرا سلام پہنچا دیں۔
والسلام۔ آپ کا بھائی
خورشید احمد ندیم
(چیئرمین ادارہ برائے تعلیم وتحقیق
مکان 1، گلی 30، G-6-1/3، اسلام آباد)

(۵)

باسمہ

۸ مئی ۲۰۰۴ء
محترم ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں فلسطین سے متعلق آپ کے مضامین پڑھ کر محترم ڈاکٹر اسرار احمد نے کتاب ’’مسلمان امتوں کا ماضی، حال اور مستقبل‘‘ بھجوائی ہے۔ امید ہے آپ کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگی۔ نیز ان کی طرف سے سلام عرض ہے۔
والسلام
سردار اعوان
(معتمد ذاتی)
(۶)
بگرامی خدمت محترم علامہ زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مزاج گرامی؟
اسلامی تعلیمات واقدار کو جامع انداز میں متعارف کرانے کے لیے آپ کی مساعی جمیلہ لائق صد تحسین ہیں۔ اسلام کے خلاف مغرب کی منظم منصوبہ بندی اور خود اسلامیان پاکستان کی کج روی نے جو صورت حال پیدا کر دی ہے، اس کا لازمی تقاضا ہے کہ ملت کے دردمند اور حساس حلقے مل بیٹھ کر دین کی ترویج اور اپنے مستقبل کے تحفظ کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کریں۔ بالخصوص پاکستان کے مخصوص حالات کے تناظر میں گروہی اختلافات کی خلیج کو پاٹ کر باہمی رواداری کے فروغ کی ضرورت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اس سلسلہ میں آپ کی مثبت کاوشیں بہترین کردار ادا کر سکتی ہیں۔
اسلامی مدارس کے بارے میں موجودہ حکومت کی منفی پالیسیوں اور ان سے منسلک افراد کے بارے میں پیدا کی گئی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے آپ نے مدارس کی اہمیت اور ضرورت اور ان کے کردار کے بارے میں اپنے موقف کو جس جاندار انداز میں پیش کیا ہے، اس پر سارے حلقے آپ کے ممنون ہیں۔
چند ماہ قبل آپ نے ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں میرے والد گرامی ضیاء الامت حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ کے اسلوب دعوت کے بارے میں ایک جامع مقالہ شائع فرمایا۔ اس اقدام نے ہمارے جملہ حلقوں میں آپ کی قدر ومنزلت میں اضافہ کیا ہے۔ 
آپ کا تازہ مکتوب اور اس کے ساتھ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے بارے میں چارٹر پر آپ کی تجزیاتی رپورٹ موصول ہوئی۔ مجھے آپ کے پروگرام سے مکمل اتفاق ہے۔ اہل اسلام کو اس جانب توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم نے اپنے احباب کی مجلس مشاورت میں فیصلہ کیا ہے کہ ادارہ ضیاء المصنفین کی وساطت سے ان موضوعات پر تحقیقی کاوشیں منظر عام پر لائی جائیں۔ ان شاء اللہ اس کی عملی صورت آپ بہت جلد ملاحظہ فرمائیں گے۔ 
میری دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے خلوص نیت کے مطابق اجر جزیل عطا فرمائے اور آپ کی کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ طٰہٰ ویٰسین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
والسلام۔مخلص
(صاحبزادہ پیر) امین الحسنات شاہ
سجادہ نشین بھیرہ شریف 
(۷)
گرامی قدر نگران مطبوعات ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خاکسار آپ کے شائع کردہ علمی مجلہ کا ایک نہایت ادنیٰ قاری ہے لیکن گزشتہ چند اشاعتوں سے مضامین کچھ مبہم اور پراسرار رمزیت کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں۔ مثلاً مسجد اقصیٰ یا پھر حکومت کی جانب سے موجودہ تعلیمی اصلاحات وغیرہ کی بابت۔ وہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا کہ
ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق 
ہسپانیہ پر کیوں نہیں حق اہل عرب کا
حضرت اکبر الٰہ آبادی ابھی تک ہمارے علما کی دست برد سے خاصے محفوظ چلے آ رہے ہیں۔ آپ نے بھی اسی قسم کی تعلیمی اصلاحات جو کہ لارڈ میکالے نے فرمائی تھیں، اس پر ہی کہا تھا کہ
نئی تہذیب میں بھی مذہبی تعلیم شامل ہے
مگر یونہی کہ گویا آب زم زم مے میں داخل ہے
نہ صرف لارڈ میکالے کے نظام پر مکمل تحقیقی وتجزیاتی کتاب بلکہ حالیہ تعلیمی اصلاحات کے نام پر منحوس تثلیث یعنی ہنود، یہود ونصاریٰ کے ایجنڈے پر عمل درآمد جو کہ واضح طور پر Jewish Protocols پر عمل درآمد کا حصہ ہے، اس کا مکمل ترجمہ تحقیقی وتنقیدی حواشی کے ساتھ شائع کرنا آپ جیسے علمی ومذہبی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح آپ مختلف اہم موضوعات پر قسط وار شائع شدہ مضامین کو ’ترجمان القرآن‘ لاہور والوں کی طرح ’منشورات‘ کی طرز پر کتابچوں کی صورت میں علیحدہ بھی یکجا شائع کر سکتے ہیں۔ اس طرح کتابچے موثر رہتے ہیں اور افادہ بھی سہل طرح سے کیا جا سکتا ہے۔
جاوید احمد غامدی اینڈ کمپنی کے کتابچے پشاور جمرود روڈ سے بھی شائع ہوتے ہیں۔ ان سے دین اور دیگر امور میں غلط تاثر پیدا ہوتا ہے۔ میرے پاس کچھ کتابچے ہیں۔ ان سے محض اختلاف ہی نہیں، ان پر نکیر کرنی چاہیے۔ یہ قرآن وحدیث کو اپنے باطل خیالات پر منطبق کرتے ہیں۔ یہ بھی اب NGOs کی طرح کام کر رہے ہیں۔ افغان جنگ اور اس پر ان لوگوں کے خیالات ڈھکے چھپے نہیں۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے ٹھیٹھ مذہبی ادارے اور افراد وتنظیمیں بھی اب افغان اور طالبان کو فراموش کر کے حزب اقتدار واختلاف کے کھیل میں مگن ہیں۔ دیکھیں طالبان واسامہ کی صورت میں علامہ اقبال کے اس شعر نے کیسے حقیقت کا روپ دھارا تھا۔ آپ نے فرمایا تھا کہ
قدرت کے اصولوں کی کرتا ہے نگہبانی
یا مرد کہستانی یا بندۂ صحرائی
کل کے ہیرو آج کے باغی اور آج کے ہیرو کل کیا ہوں گے؟ ارد گرد ماحول، حالات وواقعات اور روز افزوں اتار چڑھاؤ کو دیکھ کر ہی یہ شعر زبان پر آ جاتا ہے کہ
اے خدا قبر کے مردوں سے نہیں میری مراد
چلتے پھرتے ہیں جو مردے انھیں زندہ کر دے
آمین یا رب العالمین
تنویر احمد بٹ
کراچی
(۸)
محترم المقام مولانا عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ماہنامہ ’الشریعہ‘ گاہے گاہے چونکا دینے والی تحریریں شائع کرنے کا اعزاز رکھتا ہے۔ جون ۲۰۰۴ء کے شمارے میں ’’دین اسلام کی معاشرتی ترویج میں آرٹ کی اہمیت‘‘ کے زیر عنوان پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب کا مضمون اسی قبیل کا ہے جس میں مذہبی طبقات کے خلاف ’’آرٹ‘‘ سے بے بہرہ ہونے کی فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ مجھے اس مضمون کے متعدد نکات سے اختلاف ہے۔
سب سے پہلے تو ’عالم‘ اور ’فقیہ‘ کے مابین میاں صاحب نے جو فرق قائم کیا ہے، وہ نہ صرف خود ساختہ بلکہ حقیقت کے برعکس ہے۔ دینی اصطلاح میں ’فقیہ‘ اس عالم کو کہتے ہیں جو احکام کے اسرار ورموز کی تہہ تک پہنچنے اور مغلق اور پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے کی اہلیت رکھتا ہو۔ ایک ’فقیہ‘ علم وفہم کے لحاظ سے ایک ’عالم‘ سے بلند تر درجے پر فائز ہوتا ہے۔ یعنی ہر فقیہ کے لیے عالم ہونا ضروری ہے جبکہ ہر عالم کے لیے فقیہ ہونا ضروری نہیں، لیکن میاں صاحب نے اس نسبت کو بالکل الٹ کر یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہر عالم، فقیہ ہوتا ہے، لیکن ہر فقیہ، عالم نہیں ہوتا۔
میاں صاحب نے اس بات پر بھی اعتراض کیا ہے کہ دینی جرائد کے سرورق پر کسی مخصوص ادارے یا مکتب فکر کے ’’ترجمان‘‘ ہونے کا اعلان کیوں کیا جاتا ہے۔ گزارش یہ ہے کہ میاں صاحب تو تعلیم یافتہ اور شعور کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ہیں، وسیع المطالعہ ہونے کی بنا پر کھرے کھوٹے کو پہچاننے میں مہارت رکھتے ہیں، اور تحریر کو ایک نظر دیکھ کر جاہلوں کے برخلاف، جو اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں، اس کے مصدر تک پہنچ جاتے ہیں، لیکن مسئلہ تو ان سادہ لوح قارئین کا ہے جو تحریر کو پڑھنے کے بعد بھی اس کے اصل مقصد کو سمجھ نہیں پاتے اور کھرے کھوٹے کی پہچان نہیں کر سکتے۔ لہٰذا رسالے کے سرورق پر یہ لکھ دینا کہ یہ فلاں طرز فکر کا ترجمان ہے، عین حکمت ہے۔ اس سے ایک عام قاری سرورق ہی کو دیکھ کر جان جاتا ہے کہ یہ رسالہ اس کی ذہنی اور فکری تعمیر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔
اسی طرح موصوف کے نزدیک مذہبی حلقوں کے موضوعات، مواد، الفاظ کا چناؤ اور اپروچ اس بات کی چغلی کھاتے ہیں کہ ان کا دینی ادراک گھن گرج، چیخ پکار، لفظی مباحث، جگت بازی، جذبات اور فروعی مسائل کے گرد گھومتا ہے لہٰذا مذہبی طبقے کا ادراک ’’ابلیسیت زدہ‘‘ ہو چکا ہے۔ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتی کہ میاں صاحب، اور مذہبی حلقوں کی اصلاح کا بیڑا اٹھانے والے ان جیسے دوسرے مخلصین ومصلحین کا دینی ادراک اگر ’’ابلیسیت زدہ‘‘ نہیں تو نا پختہ اور تعلیم وتربیت کا محتاج ضرور ہے۔ اب اگر مذہبی حلقوں کا دینی ادراک ’’ابلیسیت زدہ‘‘ اور غیر مذہبی حلقوں کا دینی ادراک نامکمل اور خام ہے تو پھر دین کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے کس کی بات کو معتبر سمجھا جائے؟
نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
محمد احسن ندیم
(معاون ناظم)
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ
(۹)
۱۵ مئی ۲۰۰۴/۲۴ ربیع الاول ۱۴۲۵
بخدمت گرامی قدر مخدومی حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب مدظلہ العالی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
سب سے پہلے تو ’’اشاریہ معارف القرآن‘‘ پر دوبارہ تقریظ تحریر فرمانے کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دیں۔ آمین
آپ کا مرسلہ ’’نوائے شریعت‘‘ کا خصوصی شمارہ ملا۔ یاد فرمائی کا شکریہ۔ آپ کا تجزیہ پڑھنے سے یہ دکھ پھر تازہ ہو گیا کہ ہمارے اہل علم وفضل جس رخ پر کام کر رہے ہیں، بس اسی تک محدود ہیں۔ دائیں بائیں دیکھنے کو تیار نہیں۔ عوام الناس کی فکری تربیت، لچھے دار تقریروں سے ہٹ کر، بہت کم خطبا کرتے ہیں۔ جو عالم جس خصوصی شعبہ میں کام کر رہا ہے، اس کا علم اسی تک محدود ہے۔ دوسرے دینی شعبوں میں اس کی معلومات انتہائی افسوس ناک حد تک کم ہوتی ہیں۔ خطبا نے بھی موضوع طے کر رکھے ہیں۔ کوئی سیرت النبی ﷺ کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ کوئی خطیب بریلویت، کوئی خطیب رافضیت کے رد کے حوالہ سے مشہور ہے۔ ان خطبا کو عوام الناس کی عمومی دینی حالت اور معاشرتی خرابیوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ بقول شخصے اردو گا کر پڑھنا، قرآن مجید ترنم سے پڑھنا منتہاے خطابت ہے۔
حضرت والا! ایک خطیب صاحب نے ہزاروں کے مجمع میں خطاب فرمایا: ’’لوگ کہتے ہیں غربت ہے۔ ہمارے پاس تو بکرے روسٹ ہو کر آ جاتے ہیں۔ ہمیں تو غربت نظر نہیں آتی۔ معلوم نہیں غربت کہاں ہے‘‘ ایک معروف سکالر اس وقت جلسہ گاہ کے باہر احقر کے پاس بیٹھے تھے۔ ہم دونوں سر پکڑ کر اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر رہ گئے۔ ہمارے حالات یہ ہیں اور شکوہ ہوتا ہے لوگوں کی ناقدری کا۔ خطبا کی تقریروں میں مقصد کی بات بہت کم ہوتی ہے، ادھر ادھر کی باتیں تقریروں میں زیادہ ہوتی ہیں۔
پاکستان میں تمام مسالک کے دس ہزار سے زائد مدرسے ہیں لیکن ا س کے باوجود پاکستان میں بہائیت، عیسائیت، پرویزیت وغیرہ روز افزوں ہے۔ وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ اصلاح عقائد واصلاح معاشرہ کی فکر بہت کم ہے۔ مدرسہ میں اتفاقاً پہنچ جانے والے طلبا کی تربیت اور ان کے خور ونوش کے انتظامات کی فکر زیادہ ہے۔
حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے تصنیفی کام بھی کیا، ملازمت بھی کی، مدرسہ بھی بنایا جو کہ دار العلوم دیوبند کے نام سے عالمی سطح پر معروف ہے، ہندوؤں اور عیسائیوں کے ساتھ مناظرے بھی کیے، جہاد بالسیف بھی کیا۔ وہ سب کام کر سکتے ہیں اور ہم ان کے نام لیوا، ان کی طرف نسبت کر کے ’قاسمی‘ کہلانے والے کچھ نہیں کر سکتے۔ بقول شخصے جب ہمارے ذاتی مفادات پر زد پڑتی ہے تو فوراً چلاتے ہیں کہ اسلام خطرے میں ہے۔ جب تک ہمارے ذاتی مفادات متاثر نہ ہوں، اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
ہمارے پچاس فی صد مدارس کے پاس ماشاء اللہ اتنے وسائل ہیں کہ اگر ان کے منتظم ومہتمم صاحبان چاہیں تو تحریری وتقریری طور پر فرق باطلہ کے ابطال اور اصلاح معاشرہ کا (اسلامی حکمت عملی کے ساتھ) کام کرنے کے لیے مستقل شعبہ قائم کر سکتے ہیں۔ اس میں موزوں صلاحیت رکھنے والے علما وخطبا کا تقرر کیا جا سکتا ہے۔ زیادہ نہ سہی، ایک دو ہی سہی۔ لیکن بے حسی کا علاج کون کرے؟
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
آپ نے اپنے مضمون میں جن تین مرحلوں کا ذکر کیا ہے، ان میں سے پہلے مرحلے کی آپ خود ہی ابتدا کر چکے ہیں۔ دوسرے مرحلے کے لیے وسیع مطالعہ اور تحقیقی بنیادوں پر تالیفات کی ضرورت ہے۔ احقر نے جو حالات پہلے اجمالاً ذکر کیے ہیں، ان کی بنیاد پر مایوسی طاری ہوتی ہے۔ احقر ایک سرپھرا شخص ہے لیکن بہت سی مجبوریاں آڑے ہیں۔ فی الحال اس بوجھ کو اٹھانے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ احقر کی طرح اور بھی کئی حضرات درد دل رکھنے کے باوجود مجبور ہوں گے۔ تاہم معاشی ومعاشرتی آزادی رکھنے والے علماء کرام کی بھی کمی نہیں ہے، بشرطیکہ ضرورت محسوس فرمائیں تو۔
احقر کو یاد پڑتا ہے کہ ایک دفعہ آپ کو رابطہ عالم اسلامی کے انسانی حقوق نمبر سے رابطہ کا مرتب کردہ انسانی حقوق کا چارٹر دیا تھا بلکہ غالباً اس کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا جو کہ ’الشریعہ‘ کے ایک خاص نمبر میں شائع ہوا۔ آپ دو چار اہل علم سے انفرادی واجتماعی مشاورت فرما لیں اور رابطہ کے مرتب کردہ ’’انسانی حقوق کے چارٹر‘‘ میں جس ترمیم واضافہ کی ضرورت ہو، وہ کر کے ممتاز دینی اداروں سے تائیدی دستخط کرا لیں۔ پھر اس کو انٹر نیٹ پر اور دیگر طریقوں سے مشتہر فرمائیں۔
آپ کی وساطت سے علماء کرام کی خدمت میں عرض ہے کہ ہر شعبہ میں کام کرنا اور جہاں جو فتنہ اٹھے، مکمل تیاری کے ساتھ اس کا رد کرنا نبی کریم ﷺ کی سنت مبارک ہے۔ مولانا قاسم نانوتویؒ کا طریق کار بھی یہی رہا ہے۔ اسپیشلائزیشن (تخصص) کا دور ہونے کا جواز اپنی جگہ، لیکن معاشرتی ودینی فتنوں سے صرف نظر کرنے کی کیا اسلام اجازت دیتا ہے؟
تلخ نوائی کی معذرت کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں۔
والسلام۔ آپ کا نیاز مند
(مولانا) مشتاق احمد 
جامعہ عربیہ۔ چنیوٹ
(۱۰)
۱۴ مئی ۲۰۰۴ء/۲۳ ربیع المنور ۲۵ھ
مکرمی حضرت زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ الحمد للہ علیٰ کل حال
۱۔ اپریل کے اواخر میں بعض کتابیں بذریعہ پارسل روانہ کی تھیں۔ مل گئی ہوں گی۔
۲۔ ہندوستان سے ایک تحقیقی استفسار آیا ہے ابن عربیؒ کی کوئی تصنیف بعنوان ’’التنزلات الموصلیہ‘‘ کے بارے میں (موصل۔ عراق کا شہر) میرے پاس موجود ومیسر تذکروں میں ایسی کوئی تصنیف مذکور نہیں۔ کیا آپ کے علم میں ایسی کسی کتاب کا وجود ہے؟ اصل عربی میں ہو یا امکاناً اگر اردو ترجمہ ہوا ہو۔ آپ کے ہاں یا آپ کے علم کی حد تک پاکستان کی کسی لائبریری میں؟ اگر بہ آسانی آپ کو اس کا علم ہو سکے تو میری عدم حاضری مستقر کے باوجود برخوردار عاصم قادری سلمہ کو میرے گھر کے پتے پر مطلع فرما دیجیے۔ وہ تعاقب کر لیں گے۔ فجزاکم اللہ۔ میں نے بھی یہاں مختلف سمات میں صحرائی اذانیں دے رکھی ہیں۔
۳۔ اپریل/مئی کا ’الشریعہ‘ مل گیا، دو روز قبل۔ وقت پر شدید بلکہ ناگفتہ بہ دباؤ کے باوجود آپ کا ’کلمہ حق‘ بہرحال پڑھ لیا۔ نہ معلوم کیوں ذہن کے غار حرا میں یہ آواز گونجتی رہی کہ کیا یہ حکم خداوندی اسی قسم کے ائمۃ الجہال کے حق میں تو نہ اتری تھی جن سے آپ مخاطب ہیں: واذا خاطبہم الجاہلون قالوا سلاما۔ واذا مروا باللغو مرواکراما۔ صدیوں سے ان حضرات کے نزدیک تحقیق کا تلفظ تحقیر وتضحیک بلکہ بعض اوقات توبیخ ہو جاتا ہے۔ ہمارے بڑے سائیں سبحانہ تو ایسی پیاری باتیں کرتے ہیں کہ شاکرا لانعمہ سجدہ ریز ہو جاتا ہوں۔ یہ بات ان شکست خوردہ گروہ کے لیے ہی تو آئی ہوگی نا کہ ’ام عندہم خزائن رحمت ربک العزیز الوہاب۔ ام لہم ملک السماوات والارض فلیرتقوا فی الاسباب‘؟ نہیں بلکہ ان کا یہ رویہ اس لیے ہے کہ ’جند ما ہنالک مہزوم من الاحزاب۔ فتعالی اللہ الملک الحقً۔ حضرت! آپ اس قوم، کم نظر، بے ہنر وکم کوشوں کی قوم پر بہ ایں ہمہ اللہ کا انعام ہیں۔ المنۃ للہ ولہ الحمد۔ ایک بار ہلکے سے یہ آیت تو ورد کر لیجیے۔ ’لعلک باخع نفسک علی آثارہم‘۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے۔ آمین
فقط
سید عماد الدین قادری
کراچی
(۱۱)
مکرمی ومحترمی جناب ابو عمار زاہد الراشدی صاحب 
السلام علیکم
عرض ہے کہ عام مذہبی جرائد (میری معلومات کی حد تک) پڑھنے سے قاری کو شعور وآگہی میں کوئی مدد نہیں ملتی اس لیے کہ ان کی سوچ اپنی مسلکی تنگنائے سے اوپر اٹھتی ہی نہیں، جس کا اعتراف آپ نے ’الشریعہ‘ جون ۲۰۰۴ء کے ادارے میں کیا۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ ماہنامہ ’الشریعہ‘ دن بدن خرد افروزی کی طرف مائل ہوتا چلا جا رہا ہے اور تقلید کی کینچلی اتار کر حقیقت دین روشناس کرانے کی جدوجہد میں مصروف ہے، جیسا کہ عزیزم عمار خان ناصر کے مسجد اقصیٰ کے متعلق مقالہ (الشریعہ، ستمبر/اکتوبر ۲۰۰۳ء، اپریل/مئی ۲۰۰۴ء) سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ ایک بڑی پیش رفت اور جرات ہے جو ’الشریعہ‘ نے کر دکھائی۔ میں آپ کی اور آپ کے صاحبزادے عمار خان ناصر اور پروفیسر انعام الرحمن کی جرات کو سلام پیش کرتا ہوں۔
ایک حسن اتفاق سے آپ کا غائبانہ تعارف ہوا اور اسی حسن اتفاق کے نتیجے میں میری الٹی سیدھی تحریر نے ’الشریعہ‘ میں شائع ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اب کے پھر میں نے عزیزم عمار خان ناصر کی پیروی میں مسجد اقصیٰ اور سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت کے متعلق کچھ دوسرے لوگوں کا نقطہ نظر ارسال کیا ہے اور عزیزم عمار خان ناصر صاحب کو اپنے انداز میں خراج تحسین پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ چونکہ میں لکھاری نہیں ہوں، محض ایک کم علم سا قاری ہوں، اس لیے میں تحریر کے آداب ورموز سے ناواقف ہوں۔ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنے خیالات کو ضبط تحریر میں لانے کی کوشش کرتا ہوں جس کی وجہ سے شاید میری تحریر معیار ادب پر پوری نہ اترتی ہو۔ اس کے لیے معذرت خواہ ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ میری اس فرو گزاشت کو نظر انداز فرماتے ہوئے اسے ’الشریعہ‘ کی کسی قریبی اشاعت میں جگہ عطا فرما کر ممنون فرمائیں گے۔
آپ تقریباً ایک سال سے زائد عرصہ سے مجھ ناچیز پر شفقت فرما رہے ہیں۔ ماہنامہ ’الشریعہ‘ باقاعدگی سے مل رہا ہے۔ اس کے لیے میں آپ کا ممنون احسان ہوں۔ اب کے مجھ میں آپ کا مزید بار احسان اٹھانے کی ہمت نہیں رہی، اس لیے ماہنامہ ’الشریعہ‘ کی دین سے متعلق شعور وآگہی کی جدوجہد میں شرکت کی غرض سے حقیر سا حصہ (دو سال کا زر مبادلہ بذریعہ منی آرڈر) ارسال خدمت ہے۔ امید ہے کہ آپ قبول فرمائیں گے۔ آپ کی صحت اور درازی عمر کا متمنی
نیاز آگیں
آفتاب عروج
(۱۲) 
۲۲ مئی ۲۰۰۴
محترم جناب گرامی قدر حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم۔ مزاج شریف
آپ کے ارسال کردہ سار ے مضامین ’بیداری‘ کی ضرورت ہیں۔ شاید کچھ مضامین وقتی نوعیت کے ہیں ورنہ بیشتر مضامین تقریباً مستقل نوعیت کے ہیں۔ اس بار ’بیداری‘ کے شمارے کے لیے دو مضامین کمپوزنگ کرا لیے تھے لیکن مواد کی زیادتی کی وجہ سے ایک مضمون کو موخر کر دیا۔ آپ کے یہ مضامین سندھی زبان میں بھی ترجمہ کر کے ’بیداری‘ سندھی میں دے رہے ہیں۔ آئندہ بھی اگر شائع ہونے والے مضامین کی فوٹو کاپی ارسال فرمائیں تو یہ عاجز ازحد ممنون ہوگا۔
دوسری خاص گزارش یہ ہے کہ بھارت میں ’الفرقان‘ کے مرتب حضرت مولانا یحییٰ نعمانی صاحب علما کے لیے ایک ایسا کورس شروع کرنا چاہ رہے ہیں جس سے ان کے اندر کسی حد تک یہ صلاحیت پیدا ہو سکے کہ وہ دور جدید کے علمی، فکری اور نظریاتی چیلنج کو سمجھ سکیں۔ اس سلسلے میں مشاورت کے لیے مولانا کا خط آیا ہے۔ اس عاجز نے انھیں لکھا ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان میں حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کا تجربہ سب سے زیادہ ہے اور وہ اس سلسلہ میں کافی عرصہ سے کوشاں بھی ہیں۔ آپ کی خدمت میں حضرت مولانا کا خط جو بیداری کے جون کے شمارے میں چھپ رہا ہے، کمپوزنگ شدہ ارسال خدمت ہے۔ اگر وقت نکال کر اس سلسلہ میں حضرت مولانا کی تفصیل سے اپنے تجربات کی روشنی میں رہنمائی فرما سکیں تو ازحد احسان ہوگا۔ حضرت مولانا کو آپ کے خط کا انتظار ہوگا۔ میں نے لکھا ہے کہ اس سلسلے میں اس عاجز کی ناتجربہ کاری کے پیش نظر ان شاء اللہ حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب آپ کو تفصیلی خط تحریر فرمائیں گے۔
میرا علاج چل رہا ہے۔ الحمد للہ فائدہ ہے لیکن فائدہ کی رفتار سست ہے۔ خصوصی دعا کی التجا ہے۔
اس ماہ کا ’الشریعہ‘ مل چکا ہے۔ آپ کے ادارتی نوٹ سے یہ عاجز سو فی صد متفق ہے۔ خدا کرے ’بیداری‘ کا شمارہ مل گیا ہو۔
خدا کرے مزاج بخیر ہوں۔
والسلام۔ احقر
محمد موسیٰ بھٹو
(ایڈیٹر ماہنامہ ’بیداری‘)
۴۰۰/بی ، لطیف آباد یونٹ ۴، حیدر آباد)
(۱۳)
باسمہ سبحانہ
محترمی حضرت مولانا محمد یحییٰ نعمانی صاحب زیدت مکارمکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مزاج گرامی؟
مولانا محمد موسیٰ بھٹو آف حیدر آباد کے ذریعے سے آپ کی ایک تحریر موصول ہوئی اور ان کا پیغام ملا کہ میں اس سلسلے میں آنجناب کو اپنے خیالات وتاثرات سے آگاہ کروں۔ 
حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی سے میری پرانی نیاز مندی ہے۔ کم وبیش ہر سال ایک آدھ مرتبہ ان کی خدمت میں حاضری، ملاقات اور مختلف امور پر استفادے کا موقع مل جاتا ہے۔ مولانا سجاد نعمانی صاحب کے ساتھ بھی ایک سفر میں مولانا محمد عیسیٰ منصوری کی معرفت رفاقت رہی ہے۔ آپ کی زیارت کا موقع ابھی تک نہیں مل سکا، البتہ آپ کی تحریریں بسا اوقات نظر سے گزرتی رہتی ہیں اور خوشی ہوتی ہے کہ اس صحراکی آبلہ پائی میں ہم تنہا نہیں ہیں۔
ہمارے بزرگوں نے اپنے مدارس کے فضلا کو حکمت عملی کے تحت ایک دائرے میں محدود رکھنے کی شعوری کوشش کی تھی تاکہ دینی مدارس، مساجد اور مکاتب کا نظام قائم رہے اور اسے ضرورت کے مطابق رجال کار ملتے رہیں مگر ہم نے اسے ہی سب کچھ قرار دے لیا ہے اور اس دائرے سے باہر کسی ضرورت، تقاضے اور پکار کی طرف توجہ دینے کے لیے ہم تیار نہیں ہیں جبکہ وقت بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھتا جا رہا ہے اور ہم وقت کی لگام کھینچنے کی ناکام کوشش میں اس کے ساتھ بری طرح گھسٹ رہے ہیں۔
اس وقت ہم عجیب مخمصے اور صورت حال سے دوچار ہیں۔ ایک طرف تحفظات اور خدشات وخطرات کے وہ تمام دائرے بدستور موجود ہیں جن کی وجہ سے ہمارے بزرگوں نے اپنے گرد ایک دائرہ کھینچ کر خود کو اس کے اندر محصور کر لیا تھا اور دوسری طرف وقت کی تیز رفتاری اور عالمی سطح پر فکر وفلسفہ اور تہذیب وثقافت کی ہمہ جہت کشمکش، توڑ پھوڑ، ایڈجسٹمنٹ اور تشکیل نو کے مختلف اور متنوع مراحل ومظاہر نے ہمارے سامنے ایسے سنگین مسائل اور چیلنجز کھڑے کر دیے ہیں کہ ان سے صرف نظر کرنا ملی ضروریات سے انحراف اور ایمانی تقاضوں سے دست برداری کے مترادف محسوس ہونے لگا ہے۔
میری ایک عرصہ سے یہ سوچ چلی آ رہی ہے کہ درس نظامی کے موجودہ سسٹم کو نہ چھیڑا جائے، اسے اسی طرح چلنے دیا جائے اور اس میں داخلی اصلاحات کے ذریعے سے بہتری کی کوششیں جاری رکھی جائیں لیکن کچھ اصحاب فکر اس سے ہٹ کر وقت کی ضروریات کی طرف توجہ دیں اور ان کی تکمیل کے لیے ایک الگ تعلیمی نظام کا تجربہ کیا جائے۔ جہاں تک میرے علم میں ہے، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش تینوں جگہ انفرادی طور پر اس کے تجربات ہو رہے ہیں اور اس رخ پر کام کرنے والے اداروں کی تعداد سینکڑوں میں ہے لیکن ان کے درمیان رابطہ ومشاورت کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ اگر اس خلا کو پر کیا جا سکے تو موجودہ کام کی افادیت دوچند ہو سکتی ہے اور اس میں مزید بہتری اور پیش رفت کے امکانات بھی بڑھ سکتے ہیں۔
اسی سلسلے کا ایک مرحلہ درس نظامی کے فضلا کے لیے خصوصی کورسز کے اہتمام کا ہے تاکہ آج کے فکری تقاضوں کے ساتھ ان کا رشتہ جوڑا جا سکے۔ یہ کام بھی مختلف مقامات پر ہو رہا ہے اور تخصصات کے نام پر درس نظامی کے فضلا کو مختلف علوم وفنون کے خصوصی مطالعہ کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم نے بھی الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں گزشتہ سال ایک تجربہ کا آغاز کیا ہے۔ درس نظامی کے فضلا کی ایک کلاس کو ہم نے مندرجہ ذیل مضامین کی تیاری کرانے کی کوشش کی ہے:
  • حجۃ اللہ البالغہ کے منتخب ابواب (مقدمہ، ارتفاقات اور اسباب اختلاف صحابہ وفقہا)
  • اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر (اسلامی احکام کے تقابلی مطالعہ کے ساتھ)
  • مقارنۃ الادیان (یہودیت، مسیحیت، ہندو مت، بدھ مت، مجوسیت اور سکھ مت کا تعارفی مطالعہ)
  • تاریخ (عمومی تاریخ، تاریخ اسلام اور معاصر تاریخی حالات)
  • سیاسیات، نفسیات اور معاشیات کا تعارفی مطالعہ
  • معاصر علمی وفکری بحثوں کا تعارف
  • انگریزی، عربی اور کمپیوٹر ٹریننگ
یہ ایک سالہ کورس تھا جس کی افادیت ہم پڑھانے والوں کے علاوہ پڑھنے والوں نے بھی بہت زیادہ محسوس کی ہے اور اب ہمارے پاس اس سلسلے کی دوسری کلاس ہے۔ ہم اس کے بارے میں ابھی پوری طرح مطمئن نہیں ہیں۔ بہت سے ضروری امور ہم اس میں شامل نہیں کر پائے اور بہت سے شامل امور کی تکمیل ہمارے بس میں نہیں رہی لیکن مجموعی طور پر یہ تجربہ مفید رہا۔ یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ آپ بھی اس رخ پر سوچ رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور حسب استطاعت مشاورت کے درجہ کے تعاون کے لیے ہم ہر وقت حاضر ہیں۔
میں نے اس سے متعلقہ امور پر بیسیوں مضامین میں گزارشات پیش کی ہیں جن میں سے بہت سے مضامین ہماری ویب سائٹ www.alsharia.org پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہم اس سلسلے میں آنجناب سے بھی راہ نمائی اور مشاورت کے خواست گار ہیں۔ امید ہے کہ ہمارا باہمی رابطہ قائم رہے گا اور ہم اس کارخیر کو بہتر سے بہتر انداز میں آگے بڑھانے میں ایک دوسرے سے موثر تعاون کر سکیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
آپ کے ارسال کردہ دو مضامین موصول ہو چکے ہیں۔ ان میں سے ’بذل المجہود‘ کے تعارف پر مبنی آپ کا مقالہ تو پاکستان کے بعض جرائد میں شائع ہو چکا ہے، البتہ ’’سیرت نبوی کے مطالعے کی اہمیت‘‘ کے زیر عنوان مقالہ ’الشریعہ‘ کی کسی قریبی اشاعت میں شامل اشاعت کر لیا جائے گا۔ ان شاء اللہ۔ آپ کی طرف سے قلمی تعاون کا یہ سلسلہ امید ہے کہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔
احباب ورفقا سے سلام مسنون
شکریہ! والسلام
ابو عمار زاہد الراشدی
خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ
(۸/ جون ۲۰۰۴ء)

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’تجلیات سیرت‘‘

مصنف: ڈاکٹر حافظ محمد ثانی
ناشر: فضلی سنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ، اردو بازار، کراچی
قیمت: /-۲۰۰ روپے 
سیرت رسولِ عربی ﷺ پر منثور اور منظوم نذرانہ عقیدت پیش کرنے کا لامتناہی سلسلہ صدیوں سے جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا، بلکہ فرمان الٰہی کے مطابق ہر آنے والے دور میں آپ کا ذکر خیر مزید بڑھتا جائے گا۔
چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شان رفعنا لک ذکرک دیکھے
جس طرح رسول اللہ ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب محفوظ ومامون ہے، اسی طرح آپ کی سیرت اور زندگی کے جملہ افعال واعمال بھی محفوظ ہیں۔ اس لحاظ سے ہادیان عالم میں محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت اپنی جامعیت، اکملیت، تاریخیت اور محفوظیت میں منفرد اور امتیازی شان کی حامل ہے۔ کوئی بھی سلیم الفطرت انسان جب آپ کی سیرت کے جملہ پہلوؤں پر نظر ڈالتا ہے تو وہ آپ کی عظمت کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
دین اسلام میں رسول اللہ ﷺ کی حیثیت وہی ہے جو جسم میں روح کی ہے۔ جس طرح سورج سے اس کی شعاعوں کو جدا کرنا ممکن نہیں، اسی طرح رسول اکرم ﷺ کے مقام ومرتبہ کو تسلیم کیے بغیر اسلام کا تصور محال ہے۔ آپ دین اسلام کا مرکز ومحور ہیں۔ بقول اقبالؒ 
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دین ہمہ او ست
گر باو نرسیدی تمام بو لہبی است
یہود ونصاریٰ اور ہندو قوم اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ مسلمان بحیثیت قوم اپنے زوال کے منطقی انجام سے صرف اسی وقت دوچار ہوں گے جب ان کے دلوں سے محمد عربی ﷺ کی محبت نکال دی جائے، چنانچہ گیارہویں صدی عیسوی سے منظم انداز میں شروع ہونے والی تحریک استشراق کا سب سے اہم ٹارگٹ ہی یہ ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں محمد ﷺ کی سیرت وکردار کے بارے میں تشکیک اور شبہات کے بیج بوئے جائیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے احترام رسول نکل جائے، کیونکہ محبت اور احترام کے بغیر اطاعت کا تصور محال ہے اور اس طرح اسلام خود بخود اپنی حقیقت کھو بیٹھے گا۔ اقبال نے فرنگی کی اس سازش کو بروقت بھانپتے ہوئے اسے ان الفاظ میں بے نقاب کیا:
یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز ویمن سے نکال دو
مستشرقین کا اول مقصد یہ تھا کہ عیسائی رائے عامہ کو اسلام سے ’’محفوظ‘‘ رکھا جائے اور مسلمانوں کو اگر عیسائی بنانا ممکن نہ بھی ہو تو ان کو کم از کم مسلمان نہ رہنے دیا جائے۔ چنانچہ مستشرقین کے اس گمراہ کن اور منظم پروپیگنڈا کا اثر تھا کہ یورپ میں ایک مدت تک عوام الناس میں یہ تصور رہا کہ ’’محمد‘‘ ایک بت ہے (معاذ اللہ) جس کی مسلمان پوجا کرتے ہیں۔ بعد کے مستشرقین نے اگر متقدمین کے منفی اور غلط پروپیگنڈا پر شرمندگی کا اظہار کیا تو اس کی وجہ فقط یہ ہے کہ علمی ترقی کے اس دور میں محمد ﷺ کے متعلق اس قسم کی فرضی داستانیں اور الزام تراشیاں اسلام کے مقابلے میں خود ان کی تحریک کے لیے زیادہ نقصان کا باعث ہو سکتی تھیں، اس لیے ان لوگوں نے فقط تحریک استشراق کے بارے میں منفی تاثرات سے بچنے کے لیے غیر علمی خیالات کی تردید کی اور اپنے آپ کو منصف مزاج محقق ثابت کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے بعض پہلوؤں کی دل کھول کر تعریف کی۔ تاہم انصاف کے آئینے میں حقائق کو پوری طرح سے دیکھنے کی توفیق ان کو بھی نہ ہوئی۔ ان کا مقصد تو صرف یہ تھا کہ اس طریقے سے مسلمانوں کی حمایت حاصل کی جائے اور اپنے رویے میں معمولی تبدیلی سے انھوں نے یہ مقصد حاصل کر لیا۔ منٹگمری واٹ اور تھامس کارلائل جیسے لوگوں نے اسلام کے متعلق چند کلمات خیر لکھ دیے تو مسلمانوں کے بڑے بڑے ادیبوں اور مصنفوں نے دل کھول کر ان کی تعریف کی اور انھیں منصف مزاج اور غیر جانب دار محقق کے خطابات سے نوازا، حالانکہ انھی لوگوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام کی سیرت پر بھرپور حملے بھی کیے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مستشرقین کی تحقیقات کو پوری احتیاط سے لیا جائے۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں ان کے چند کلمات خیر کی وجہ سے ان کی جملہ زہر آلود تحقیقات کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔تاہم اس میں شک نہیں کہ ذہنی بیداری کے اس دور میں بعض مستشرقین نے مثبت باتیں بھی کی ہیں اور وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کی عظمت کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں۔ 
زیر نظر کتاب ’’تجلیات سیرت‘‘ میں مستشرقین کی جن کتب سے استفادہ کیا گیا ہے، وہ اکثر اسی نوعیت کی ہیں۔ مصنف نے بڑی محنت اور جانفشانی سے ایسے مستشرقین کے بیانات کو اکٹھا کیا ہے جو اسلام اور پیغمبر اسلام کے محاسن سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور پھر اپنی تحقیقات میں اس کا برملا اعتراف اور اظہار بھی کیا۔ کسی نظریے کے مخالف کا اس کی عظمت کو تسلیم کرنا معمولی بات نہیں۔ عربی مقولہ ہے: ’الفضل ما شہدت بہ الاعداء‘۔ یعنی حقیقی فضیلت وہ ہے جس کی دشمن بھی گواہی دیں۔
فاضل مصنف نے ایسے تمام بیانات کو بڑی تحقیق کے بعد یکجا کر دیا ہے اور مخالفین کی زبان سے اسلام اور پیغمبر اسلام کی عظمت کو بڑے خوب صورت اسلوب میں قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ 
کتاب کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس دور میں اسلام اور پیغمبر اسلام پر جس قدر بھی اعتراضات مستشرقین کی طرف سے عام طور پر کیے جاتے ہیں، تقریباً ان سب کا بڑی عمدگی سے جواب دیا گیا ہے۔ سید محمد قطب شہیدؒ کی کتاب ’’شبہات حول الاسلام‘‘ کی طرح یہ کتاب بھی جدید تعلیم یافتہ طبقے اور مغربی علوم سے مرعوب نوجوانوں کے لیے بڑی مفید کاوش ہے۔ اگر کتاب کا عربی، انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں میں ترجمہ ممکن ہو تو امید افزا نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔
کتاب کے آخری باب میں مصنف نے ہندو اور سکھ شعرا کا نعتیہ کلام بھی جمع کیا ہے۔ بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں ہندو اور سکھ شعرا کے نذرانہ عقیدت پر مشتمل ۵۵ نعتوں کے اس مجموعہ نے جہاں کتاب کو دوسری کتب سیرت کے مقابلے میں امتیاز بخشا ہے، وہاں اس سے ذات مصطفی کے ساتھ خود مصنف کی والہانہ محبت اور عقیدت کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ 
’’تجلیات سیرت‘‘ کو یقینی طور پر کتب سیرت میں ایک گراں قدر اضافہ قرار دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر آئندہ ایڈیشن میں حسب ذیل تجاویز کو مد نظر رکھا جائے تو کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہو جائے گا:
۱۔ حوالہ جات کو فٹ نوٹ میں درج کیا جائے۔
۲۔ بہت سے مقامات پر حوالہ جات ناقص ہیں، انھیں مکمل کیا جائے۔
۳۔ بعض اقتباسات کو مصنف کی طرف منسوب کرنے پر اکتفا کی گئی ہے اور کتاب کا نام درج نہیں کیا گیا۔ اس نقص کی تلافی ہونی چاہیے۔
۴۔ بعض مقامات پر ثانوی مصادر سے حوالہ جات نقل کیے گئے ہیں حالانکہ اصل کتب تک بھی رسائی ہو سکتی تھی۔
۵۔ ہندو اور سکھ شعرا کی نعتیں ان کے جن مجموعہ ہائے کلام سے لی گئی ہیں، اگر ان کا حوالہ بھی درج کر دیا جائے تو بہتر ہوگا۔
(پروفیسر محمد اکرم ورک)

حکیم الامت اکیڈمی مانچسٹر کے رسائل

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی کے خلیفہ مجاز الحاج ابراہیم یوسف باوا رنگونی اور ان کے لائق فرزند مولانا حافظ محمد اقبال رنگونی ادارہ اشاعت الاسلام گلاسٹر اور حکیم الامت اکیڈمی مانچسٹر (برطانیہ) کی طرف سے مختلف دینی موضوعات پر مفید اور معلوماتی کتابچے شائع کرتے رہتے ہیں اور برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کے عقائد کی اصلاح اور دینی اصلاح کے لیے مسلسل مصروف کار رہتے ہیں۔ اس وقت ان کے مندرجہ ذیل رسائل ہمارے پیش نظر ہیں:

’’مجموعہ قرآنی اعمال‘‘

اس میں قرآن کریم کی دعاؤں اور روحانی اعمال کا ایک مجموعہ پیش کیا گیا ہے۔

’’رمضان کے روزے‘‘

اس میں روزے کی فرضیت، فضیلت اور مسائل کا عام فہم انداز میں ذکر کیا گیا ہے۔

’’صحاح ستہ‘‘

اس میں خلفاے راشدین کے علاوہ عشرہ مبشرہ میں شامل چھ بزرگوں کے حالات زندگی اور فضائل ومناقب کا تذکرہ ہے۔

’’حضرت امیر معاویہ‘‘

سیدنا حضرت امیر معاویہ کے بارے میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی مختلف تحریرات وملفوظات کو مرتب انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

’’امام اعظم ابو حنیفہ‘‘ 

حضرت امام ابو حنیفہؒ کی شخصیت اور علمی مقام کے بارے میں امام عبد الوہاب شعرانی کے ارشادات کو حافظ محمد اقبال رنگونی نے خوب صورت انداز میں مرتب کیا ہے۔

’’ماتم نہ کیجیے‘‘

اس میں ماتم کے بارے میں قرآن وسنت اور ائمہ اہل بیت کے ارشادات کی روشنی میں شرعی مسئلہ کی وضاحت کی گئی ہے۔

’’تذکرۂ محمود‘‘

برما کے بزرگ عالم دین اور مفتی اعظم حصرت مولانا مفتی محمود داؤد ہاشم یوسف کے حالات زندگی اور علمی ودینی خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
پاکستان میں یہ تمام رسالے مکتبہ الفاروق، ۱۹۔ سلطان پورہ روڈ لاہور سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
(ادارہ)

اگست ۲۰۰۴ء

دینی مدارس میں تحقیق و تصنیف کی صورت حالمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
تاریخ فلسطین کی دو اہم دستاویزاتڈاکٹر رضی الدین سید
سیرت نبوی کے مطالعے کی اہمیت اور اس کی نگارش کا طریقہ و منہاجمولانا محمد یحیی نعمانی
شیعہ سنی تعلقات اور متوازن رویہ ۔ ایک شیعہ عالم کے خیالاتڈاکٹر یوگندر سکند
مکاتیبادارہ
شوق سفر تا حشرپروفیسر میاں انعام الرحمن
اخبار و آثارادارہ
تعارف و تبصرہادارہ

دینی مدارس میں تحقیق و تصنیف کی صورت حال

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۲۱ جولائی ۲۰۰۴ء کو شیخ زاید اسلامک سنٹر ، پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ’’دینی مدارس میں تحقیق وصحافت‘‘  کے موضوع پر جناب ڈاکٹر رفیق احمد کی زیر صدارت منعقدہ سیمینار میں پڑھا گیا۔)

نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔
’’عصر حاضر میں دینی مدارس کے طریق تحقیق وتالیف کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ کے عنوان پر گفتگو سے قبل معاشرے میں دینی مدارس کے دائرۂ کار، اہداف اور طرز عمل کے بارے میں مجموعی صورت حال پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے کیونکہ اسے سامنے رکھ کر ہی ہم دینی مدارس کے ’’طریق تحقیق وتالیف‘‘ کا بہتر انداز میں جائزہ لے سکیں گے۔ 
دینی مدارس کا موجودہ نظام دور غلامی کی پیداوار ہے۔ جب جنوبی ایشیا میں برطانوی استعمار نے تسلط جما کر صدیوں سے چلے آنے والے سیاسی، معاشی، عسکری، تعلیمی، دفتری اور قانونی نظام کو تلپٹ کر کے رکھ دیا اور معاشرتی وثقافتی نظام کی بیخ کنی کے لیے پیش رفت کا آغاز کیا تو تعلیمی، دینی، ثقافتی اور فکری محاذ سے دل چسپی رکھنے والے چند مخلصین نے اس سیلاب کے سامنے بند باندھنے کا فیصلہ کیا اور دینی تعلیم، اسلامی ثقافت، مذہبی معاشرت اور مشرقی اقدار کے تحفظ کے لیے رضاکارانہ بنیاد پر دینی مدارس کے قیام کا سلسلہ شروع کیا اور یہ ضرورت چونکہ ہمہ گیر اور ملی نوعیت کی تھی، اس لیے اس کار خیر کا سلسلہ پھیلتے پھیلتے جنوبی ایشیا کے طول وعرض تک وسعت پذیر ہو گیا۔
ان مدارس کی بنیاد تحفظات پر تھی اور ان کے اہم اہداف یہ تھے کہ مسلمانوں کا عقیدہ وایمان سلامت رہے، اسلامی معاشرتی اقدار کے ساتھ ان کا تعلق قائم رہے، قرآن وسنت اور دیگر متعلقہ علوم کی تعلیم وتدریس کا سلسلہ قائم رہے، مساجد ومکاتب آباد رہیں اور انھیں امامت وخطابت، تدریس وافتا اور دعوت واصلاح کے ضروری کاموں کے لیے رجال کار فراہم ہوتے رہیں اور اسلامی عقائد وتہذیب کے خلاف سامنے آنے والی کوششوں کا مقابلہ ہوتا رہے۔ دینی مدارس کی اب تک کی جدوجہد تحفظات کے اسی دائرے میں مذکورہ بالا مقاصد کے گرد گھومتی ہے اور جن خطرات وخدشات اور مخالفانہ اقدامات وتحریکات کو سامنے رکھتے ہوئے ان سے تحفظ اور دفاع کے لیے یہ نظام قائم کیا گیا تھا، وہ تمام تر خدشات وخطرات اور مخالفانہ اقدامات وتحریکات چونکہ نہ صرف بدستور موجود ہیں بلکہ ان کی گیرائی، گہرائی اور اثر اندازی میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے، اس لیے مدارس دینیہ کے اہل حل وعقد ابھی تک تحفظ ودفاع کے ماحول میں ہیں اور وہ اپنے گرد خود اپنے کھینچے ہوئے دفاعی اور تحفظاتی حصار کے دائرے کو کراس کرنے کا ’’رسک‘‘ نہیں لے رہے اور بادی النظر میں ان کی یہ حکمت عملی معروضی حالات کے تقاضوں سے کافی حد تک ہم آہنگ نظر آتی ہے۔
اس پس منظر میں دینی مدارس میں آج کے دور میں ہونے والے تحقیقی اور تصنیفی کام کا جائزہ لیا جائے تو اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا نقشہ کچھ اس طرح بنتا ہے۔

مثبت پہلو

  • روز مرہ پیش آنے والے مسائل پر عوام کی راہ نمائی کے لیے فتویٰ نویسی کا کام تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور سینکڑوں مدارس میں مستقل طور پر دار الافتاء قائم ہیں جن سے لاکھوں مسلمان رجوع کرتے ہیں اور متعلقہ مسائل میں راہ نمائی حاصل کرتے ہیں۔
  • اردو اور دیگر زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم اور تفاسیر، احادیث نبویہ اور فقہ کی مختلف کتابوں کی شروح لکھی جا رہی ہیں اور مختلف مکاتب فکر کی طرف سے سینکڑوں ضخیم کتابیں اس سلسلے میں سامنے آ چکی ہیں۔
  • عقائد، عبادات، اخلاقیات، معاملات، معاشرت اور دیگر ضروریات پر دینی مدارس کے اساتذہ اور متعلقین کی تصانیف کو شمار کیا جائے تو ان کی تعداد کو ہزاروں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
  • دینی مدارس کی طرف سے دینی، اصلاحی اور تحقیقی جرائد کی اشاعت کی روایت شروع سے قائم ہے اور جنوبی ایشیا کے مجموعی ماحول کو سامنے رکھ کر دینی مدارس کے جرائد کی تعداد کا اندازہ کیا جائے تو وہ یقیناًسینکڑوں سے متجاوز ہوگی۔ ان جرائد میں اپنے اپنے مسلک اور مکاتب فکر کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ عام طور پر پیش آمدہ مسائل میں مسلمانوں کی راہ نمائی، تاریخی واقعات، بزرگان اسلام کا تعارف، جدید مسائل پر بحث اور فقہی مذاہب اور فکری مکاتب فکر کے مابین مناظرانہ اور مجادلانہ بحث وتمحیص کا سلسلہ بھی موجود ہوتا ہے۔
  • کچھ عرصہ سے جدید فکری وعلمی مسائل پر اجتماعی بحث وتمحیص اور تحقیق ومطالعہ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ دیوبندی مکتب فکر میں اس وقت بھارت میں مولانا مجاہد الاسلام قاسمیؒ کی قائم کردہ فقہ اکیڈمی، دار العلوم کراچی کے تحقیقاتی علمی کام اور المرکز الاسلامی بنوں کی علمی مجالس، بریلوی مکتب فکر میں دار العلوم امجدیہ کراچی، جامعہ غوثیہ بھیرہ اور جامعہ نعیمیہ لاہور، جماعت اسلامی کے مرکز علوم اسلامیہ منصورہ لاہور جبکہ اہل حدیث مکتب فکر میں مجلس التحقیق الاسلامی ماڈل ٹاؤن لاہور کی علمی مساعی کو اس سلسلے میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے۔ شیعہ مکتب فکر کا بھی اس جگہ مجھے ذکر کرنا چاہیے لیکن ان کے مدارس کے کام سے زیادہ واقف نہ ہونے کی وجہ سے سردست ایسا نہیں کر پا رہا۔
  • قومی اخبارات میں مختلف مسائل کے حوالے سے دینی مدارس کے اساتذہ اور متعلقین کے مضامین کی اشاعت کا رجحان ترقی پذیر ہے اور اردو اخبارات میں شائع ہونے والے دینی مدارس کے متعلقین کے مضامین کا تناسب اگرچہ ضرورت سے بہت کم مگر پہلے سے بہتر ہے ۔
  • مختلف دینی مدارس میں تخصصات کے شعبے قائم ہیں جن میں درس نظامی کے فضلا کو متعین عنوانات پر مطالعہ کرایا جاتا ہے، تحقیق وتالیف کی تربیت دی جاتی ہے، ان سے مقالات لکھوائے جاتے ہیں اور ان کی تحقیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
  • دینی مدارس کے سینکڑوں فضلا نے اب تک ملک اور بیرون ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات تحریر کیے ہیں جو اگرچہ ان یونیورسٹیوں کے نظم کے تحت اور ان کی نگرانی میں لکھے گئے ہیں لیکن ان کی اصل اساس دینی مدارس کی تعلیم وتربیت پر ہی ہے۔
  • دینی مدارس سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے مکاتیب اور خطوط بھی ہزاروں لوگوں کی تعلیم وتربیت اور فکری وروحانی اصلاح کا ذریعہ بنے ہیں اور بیسیوں شخصیات کے مکاتیب وخطوط اب تک کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں۔
  • بعض بڑے مدارس نے انٹر نیٹ کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اپنی ویب سائٹس قائم کر رکھی ہیں جن کی تعداد بیسیوں میں ہے اور وہ اپنے اپنے دائرے میں محدود سطح پر ہی سہی مگر مصروف کار ہیں۔ ان ویب سائٹس کے ذریعے سے جامعات کا تعارف کرایا جاتا ہے، اپنے اپنے مسلک کی ترجمانی کی جاتی ہے، اور اس کے ساتھ پیش آمدہ مسائل پر عوام کی راہ نمائی کے لیے خطبات وتقاریر، مضامین ومقالات اور سوالات کے جوابات کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔
یہ تو وہ چند پہلو ہیں جنھیں تحقیق وتالیف کے میدان میں دینی مدارس کی مثبت کارکردگی کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور جو کسی حد تک یہ اطمینان دلاتے ہیں کہ دینی مدارس تحقیق وتالیف کے تقاضوں اور اہمیت سے بالکل غافل نہیں ہیں بلکہ اپنے اپنے ذوق، ماحول، فکری دائرے اور تربیتی پس منظر کے مطابق اس شعبہ میں بھی بہرحال مصروف عمل ہیں۔

منفی پہلو

اب ہم تصویر کے دوسرے رخ کی طرف آتے ہیں جسے تحقیق وتالیف کے میدان میں دینی مدارس کی کارکردگی کے منفی پہلو سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً
  • دینی مدارس میں تحقیق ومطالعہ کے حوالے سے مسلکی وابستگی اور شخصی عقیدت کو ترجیحات میں فیصلہ کن اولیت حاصل ہے، زیادہ تر وقت اور زور انھی دو ترجیحات میں صرف ہو جاتا ہے اور ترجیحات کے ان کے بعد کے مراحل کے لیے اکثر اوقات وقت اور صلاحیت، دونوں میں کوئی گنجایش باقی نہیں رہ جاتی۔
  • فقہی اور مسلکی مباحث کے حوالے سے باہمی مناظرہ ومباحثہ میں افہام وتفہیم اور تطبیق ومفاہمت کے بجائے ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کا ذوق غالب ہوتا ہے اور اس کے لیے طعن وتشنیع اور تحقیر وتمسخر کی زبان استعمال کرنے سے بھی بسا اوقات گریز نہیں کیا جاتا۔
  • تحقیق ومطالعہ کا جدید اسلوب، طریق کار، ذرائع اور بین الاقوامی سطح کے علمی وتحقیقی اداروں کے کام اور طرز سے استفادہ دینی مدارس کے نزدیک ابھی تک شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی وجہ صرف بین الاقوامی زبانوں سے ناواقفیت نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ ذہنی اور نفسیاتی کیفیت بھی اس کا باعث ہے کہ ہمیں دنیا کے دیگر تمام حلقوں پر علمی اور فکری برتری حاصل ہے اور ہمیں کسی دوسرے حلقہ کے علمی کام سے واقف ہونے اور اس سے استفادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
  • دینی مدارس میں عالم اسلام کے علمی حلقوں کی تحقیقات، دوسرے مسالک کے علمی کام اور غیر روایتی علمی مراکز کی تحقیقی مساعی سے استفادہ کو اپنی نفسیاتی برتری کے منافی تصور کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ بعد اور فاصلہ قائم رکھنے کو بھی تحفظاتی حکمت عملی کا ایک ناگزیر حصہ بنا لیا گیا ہے۔
  • بڑے مدارس کو دیکھتے ہوئے بھیڑ چال کے معاشرتی مزاج کے باعث اب جگہ جگہ دار الافتاء قائم ہو رہے ہیں اور ان کا دائرہ ضرورت سے زیادہ پھیلتا جا رہا ہے جس سے فتویٰ کی اہمیت اور معیار، دونوں متاثر ہو رہے ہیں۔
  • اجتماعی اور قومی مسائل میں بھی تحقیق ومطالعہ اور علمی رائے کے اظہار کے لیے مسلکی دائرے میں پابند رہنے کو ضروری سمجھا جاتا ہے اور ایسی روایت ابھی جڑ نہیں پکڑ سکی کہ کسی اہم قومی مسئلہ پر مختلف مکاتب فکر کے ذمہ دار علماء کرام مل بیٹھیں، مشترکہ طور پر مطالعہ وتحقیق کا اہتمام کریں اور باہمی مشاورت کے ساتھ اجتماعی رائے کا اظہار کریں۔ اس سلسلے میں ۳۱ علماء کرام کے ۲۲ دستوری نکات اور عقیدۂ ختم نبوت وناموس رسالت ﷺ کے ناگزیر تقاضوں پر اتفاق کے سوا غیر سرکاری اور پرائیویٹ سطح پر کوئی اہم کام گزشتہ نصف صدی کے دوران میں ہماری دینی تاریخ کا حصہ نہیں بن سکا۔
  • دینی مدارس میں تحقیق وتالیف کے ذوق اور صلاحیت کی آبیاری کے لیے کوئی اجتماعی اور ادارتی نظم موجود نہیں ہے۔ یہ کام زیادہ تر شخصی رجحان اور ذوق کا رہین منت ہوتا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی، سرپرستی اور نگرانی بھی شخصی طور پر ہی ہوتی ہے۔
  • دینی مدارس میں لائبریریوں کا نظام ناگفتہ بہ ہے۔ گنتی کے چند مدارس کے علاوہ اکثر مدارس میں یا تو لائبریریاں موجود نہیں ہیں، اور اگر موجود ہیں تو ان میں ضرورت کی اہم کتابیں، بالخصوص مختلف موضوعات پر حوالہ کی کتابیں میسر نہیں ہیں۔ کتابوں کے انتخاب میں شخصی اور مسلکی ذوق کا غلبہ ہوتا ہے اور اگر کسی مدرسہ کی لائبریری میں کچھ کتابیں پائی جاتی ہیں تو ضرورت، وقت اور سہولت کے مطابق اساتذہ وطلبہ کی ان تک رسائی نہیں ہوتی۔
  • انسانی سوسائٹی کا معاشرتی ارتقا، تاریخ، نفسیات، پبلک ڈیلنگ، سیاسیات، معاشیات، تہذیب وثقافت اور دیگر عمرانی علوم نہ صرف دینی مدارس کی تدریس، تحقیق اور مطالعہ سے خارج ہیں بلکہ ان کی اہمیت وضرورت کا احساس بھی ابھی تک اجاگر نہیں ہو سکا جبکہ خود دینی مدارس کے مقصد قیام اور ان کے مذکورہ بالا اہداف کے حوالے سے یہ علوم انتہائی ضروری ہیں۔
  • زبانوں کا مسئلہ دینی مدارس میں سب سے زیادہ ناگفتہ بہ ہے۔ انگریزی اور دیگر بین الاقوامی زبانوں کی بات تو رہی ایک طرف، عربی زبان بھی صرف کتاب فہمی تک محدود رہتی ہے اور دینی مدارس میں سالہا سال تک پڑھائی جانے والی اس زبان میں فی البدیہہ گفتگو، خطاب اور مضمون نویسی کی صلاحیت سے فضلا کی غالب اکثریت محروم ہوتی ہے اور اس سے بھی زیادہ مظلومیت کا سامنا اردو کو کرنا پڑتا ہے کہ وہ بطور زبان نہیں پڑھائی جاتی اور زبان کی اصلاح، جدید اسلوب سے شناسائی، محاوروں، ضرب الامثال اور اشعار کے برمحل استعمال کی تربیت اور سلاست وشستگی کا ذوق بیدار کرنے کا کوئی نظم اور اہتمام موجود نہیں ہے۔ بالخصوص مروجہ صحافتی زبان اور اسلوب تو سرے سے دینی مدارس کے ماحول میں اجنبی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اچھی خاصی علمی صلاحیت رکھنے والے اساتذہ اور طلبہ بھی سادہ اردو میں مافی الضمیر کے اظہار کے لیے دو تین صفحات کا مختصر مضمون لکھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔

اصلاح احوال کی تجاویز

اس وقت دینی مدارس میں ہونے والے تحقیقی اور تصنیفی کام کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا ایک سرسری جائزہ لینے کے بعد اصلاح احوال کے لیے کچھ گزارشات پیش کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو ذہنی اور فکری برتری کے نفسیاتی ماحول کی ہے جس نے دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے گرد رکاوٹوں کی بہت سی بلند وبالا دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں۔ ہمیں اس ماحول سے نکلنا ہوگا اور حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے سوا اور لوگ بھی اس دنیا میں رہتے ہیں اور وہ بھی عقل اور علم تک رسائی کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔ ان کی رائے سے اختلاف ہمارا حق ہے لیکن ان کے وجود سے اختلاف کا ہمیں حق حاصل نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں دینی مدارس کو تین سطح کے علمی کاموں تک رسائی کو اپنے اہداف و مقاصد میں ضرور شامل کرنا چاہیے اور ان کے طریق کار سے استفادہ کرنا چاہیے:
۱۔ بین الاقوامی سطح پر وہ مسلم اور غیر مسلم علمی وتحقیقاتی ادارے جو دینی مدارس کی دل چسپی کے موضوعات پر کام کر رہے ہیں اور ان کی علمی کاوشیں مختلف حولاوں سے سامنے آ رہی ہیں۔
۲۔ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کے علمی ادارے اور تحقیقاتی مراکز جو ان موضوعات پر کام میں مصروف ہیں۔
۳۔ دوسرے مسالک اور مکاتب فکر کی علمی تحقیقات اور مساعی جو جدید پیش آمدہ مسائل پر علمی جدوجہد کر رہے ہیں۔
دوسرے نمبر پر ہم یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس کے مختلف وفاقوں کو الگ الگ طور پر اور پھر مشترکہ فورم پر اجتماعی حیثیت سے بھی اس صورت حال کا جائزہ لینا چاہیے اور خود احتسابی کے جذبہ کے ساتھ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی وضع کرنی چاہیے جن کے باعث آج ہمارے دینی مدارس علوم دینیہ میں گہرا رسوخ رکھنے کے باوجود تحقیقی وتصنیفی میدان میں معاصر اداروں سے بہت پیچھے دکھائی دے رہے ہیں۔
تیسرے نمبر پر ہماری گزارش اس حوالے سے ہے کہ دینی مدارس کی قیادت کو آج کے اس خوفناک چیلنج کا ادراک واحساس کرنا چاہیے جو عالمی تہذیبی کشمکش کے حوالے سے مسلم امہ کو درپیش ہے اور جس میں انسانی حقوق اور گلوبلائزیشن کے عنوان سے مسلمانوں کے عقائد وافکار، تہذیب وثقافت، خاندانی نظام، معاشرتی اقدار اور مسلم ممالک کے اسلامی تشخص کو پامال کر دینے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔ اس کشمکش کے علمی، اعتقادی اور ثقافتی پہلوؤں کو اجاگر کرنا، فکر وفلسفہ اور علم وتحقیق کے جدید ہتھیاروں کے ساتھ اس یلغار کا سامنا کرنا اور مسلمانوں کو اس سیلاب بلا سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کے گرد تعلیم وتربیت، دعوت واصلاح اور فکری بیداری کا حصار قائم کرنا اپنے اہداف ومقاصد کے حوالے سے دینی مدارس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور انھیں اس اہم ترین ذمہ داری سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔

تاریخ فلسطین کی دو اہم دستاویزات

ڈاکٹر رضی الدین سید

جنگ عظیم اول کے دوران برطانویوں کو اس بات کا پہلے سے اندازہ تھا کہ خلافت عثمانیہ کے تحت عرب باشندے عثمانی ترک حکمرانوں سے تنگ آ چکے ہیں، اس لیے ۱۹۱۵ء میں ہینری میک موہن نے (جو اس وقت قاہرہ میں برطانیہ کی طرف سے ہائی کمشنر تھا) عربی ہاشمی لیڈر شریف حسین کو خط لکھا کہ وہ عثمانی اقتدار کے خلاف بغاوت کا راستہ اختیار کرے۔ (مغرب اپنے سفیروں کو اسلامی مملکتوں کے عدم استحکام کے خلاف کس طرح استعمال کرتا ہے، یہ واقعہ اس کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے) جواب میں شریف حسین نے برطانیہ سے وعدہ کر لیا کہ اگر وہ میک موہن کی مرضی کے مطابق بغاوت کا راستہ اختیار کرے تو برطانیہ اسے مالی اور سیاسی، دونوں لحاظ سے تعاون دے گا۔ ہاشمی لیڈر شریف حسین نے اس خط میں برطانیہ پر یہ بات بالکل واضح کر دی تھی کہ جب تک برطانیہ یہ ذمہ داری نہ لے لے کہ ترکی حکومت کے تحت موجودہ تمام عرب ریاستیں آخر کار آزاد کر دی جائیں گی، اس وقت تک اسے کسی دوسری عرب قیادت کی مدد حاصل نہیں ہو سکے گی۔ اس نے واضح طور پر لکھا تھا کہ وہ محض ’’آقاؤں‘‘ کی تبدیلی کی خاطر بغاوت کا راستہ اختیار نہیں کرے گا، جب تک کہ عربوں کو فی الواقع آزادی نہ دے دی جائے۔ شریف حسین نے میک موہن کو وضاحت در وضاحت کے لیے کئی خطوط لکھے تھے۔ غالباً اسے برطانوی مزاج کا پہلے سے اندازہ تھا۔
۱۶۔۱۹۱۵ء میں ان دونوں اہم شخصیات کے درمیان خط وکتابت کا جو باہمی تبادلہ ہوا، اسے تاریخی طور پر ’’میک موہن /حسین خط وکتابت‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ برطانیہ نے یقین دہانی کرائی کہ اگر حسین نے عثمانیوں کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کیا تو برطانیہ خلافت عثمانیہ کے تحت موجودہ تمام عرب علاقوں میں آزاد حکومتیں قائم کر دے گا۔
۵ جون ۱۹۱۶ء کو حسین نے عربوں کی آزادی کا اعلان کیا اور ترک عثمانیوں کے خلاف بغاوت شروع کر دی۔ اس بغاوت میں فلسطین اور شام کے عرب بھی حصہ دار بن گئے۔ اس دوران برطانویوں نے عرب علاقے میں ایک ذہین شخص ٹی ای لارنس کو روانہ کیا تاکہ وہ خلافت عثمانیہ کے خلاف خود مسلمانوں کا روپ دھار کر عربوں میں بغاوت کے جذبات پیدا کر دے۔ یہ شخص بعد میں ’’لارنس آف عریبیا‘‘ کہلایا۔
برطانوی افواج کے ساتھ شامل ہو کر عرب قافلے شریف حسین اور اس کے بیٹوں (عبد اللہ اور فیصل) کی قیادت میں فلسطین اور شام میں داخل ہو گئے جس کے بعد عثمانی قیادت دست بردار ہو گئی اور اس نے جزائر مڈ روس پر اتحادیوں کے ساتھ جنگ بندی کا ایک معاہدہ (Armistice) کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ خلافت عثمانیہ کا زوال مسلم تاریخ کا ایک بہت دردناک باب ہے۔ ترکوں کی خلافت کے نتیجے میں اس وقت مسلمان دنیا میں ’’جسد واحد‘‘ کی شکل اختیار کر چکے تھے اور ساری دنیا میں ایک ہی سبز ہلالی پرچم لہراتا اور ایک ہی خلیفہ کے احکام رائج ہوتے تھے۔ دنیا میں تاریخی طور پر تین بڑے امپائر یاد کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے دو عیسائی امپائرز تھیں یعنی رومن امپائر اور برٹش امپائر، جبکہ تیسری بڑی حکومت ’’اوٹومین امپائر‘‘ (خلافت عثمانیہ) کے نام سے پہچانی جاتی تھی جو خوش قسمتی سے خود مسلمانوں کی تھی۔ اس وقت یہ اوٹومین امپائر دنیا کے تین بر اعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ تک پھیلی ہوئی تھی اور دنیا کے کئی بڑے سمندر اس کے اپنے قبضے میں تھے۔ سازشوں کے نتیجے میں مغرب نے مسلمانوں کے اس اتحادکو، تعصبات کوا بھار ابھار کر توڑ دیا اور اس وسیع وعریض سلطنت کے اندر سے پچاس پچاس لاکھ اور ایک ایک کروڑ کے چھوٹے چھوٹے راجواڑے نما کئی ممالک برآمد کر دیے جس کے بعد سے مسلمان مزید تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کل جو علاقے عثمانیہ کے تحت محض صوبے تھے، وہ آج باقاعدہ مملکت کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ تاہم برطانیہ کا مذکورہ وعدہ ادھورا ہی رہا اور اس نے عربوں کو مکمل خود مختاری نہ دی بلکہ ان علاقوں پر خود اس نے اور فرانس نے مل جل کر قبضہ کر لیا۔
’’میک موہن/ حسین خط وکتابت‘‘ کے علاوہ عربوں کی آزادی اور مسئلہ فلسطین کو مزید سمجھنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ایک اور اہم تاریخی دستاویز ’’کنگ کرین کمیشن رپورٹ‘‘ کا مطالعہ بھی کیا جائے۔ یہ وہ رپورٹ ہے جو امریکیوں اور برطانویوں کے بہت سے جھوٹ کا راز فاش کرتی ہے۔ ۱۸۔۱۹۱۷ء میں جب جنگ عظیم اول ختم ہوئی تو عرب علاقوں کے بارے میں صہیونیوں، برطانویوں، فرانسیسیوں اور عربوں کے متضاد دعووں پر کوئی بھی مفاہمت نہ ہو سکی، چنانچہ ۱۹۱۹ء میں اس وقت کے امریکی صدر وڈ رو ولسن نے خلافت عثمانیہ کے سابق عرب صوبوں میں ایک ’’کنگ کرین کمیشن‘‘ روانہ کیا تاکہ ان صوبوں کے لوگوں سے جنگ عظیم کے بعد کسی تصفیے کی خاطر معاملات پر پہنچنے کے لیے ان کی خواہشات معلوم کی جائیں۔ کنگ کرین کمیشن نے بہت سارے جائزوں اور ملاقاتوں کے بعد اپنی حکومت کو ایک رپورٹ پیش کی جس میں نہایت واضح طور پر کہا گیا تھا کہ:
  • فلسطین کے نوے فی صد باشندے غیر یہودی (یعنی مسلم اور عیسائی) ہیں اور وہ فلسطین کے اندر ایک یہودی ریاست کے قیام کے سخت مخالف ہیں۔
  • اس کے باوجود اگر فلسطین یہودیوں کے حوالے کیا گیا تو صہیونیوں کی خواہش ہے کہ وہ ارض فلسطین سے تمام غیر یہودیوں (یعنی عربوں) کو نکال باہر کریں گے۔
  • فلسطین کی صہیونی ریاست کے قیام سے فلسطینیوں کے حق خود مختاری کی خلاف ورزی ہوگی۔
  • صہیونیوں کو چاہیے کہ وہ فلسطینی باشندوں کی خواہشوں کا احترام کریں اور اپنی یہودی ریاست کے قیام کے لیے کوئی اور سرزمین تلاش کریں۔
کنگ کرین کمیشن کی یہ رپورٹ بہت جانفشانی، بہت ساری ملاقاتوں کے بعد اور انتہائی دیانت دارانہ طور پر تیار کی گئی تھی جس میں علاقے کے لیے ایک بہت منصفانہ حل تجویز کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ کمیشن امریکا نے خود سرکاری طور پر قائم کیا تھا۔ تاہم اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے صہیونی بے انتہا ناراض ہوئے۔ اسرائیل کی تاریخ بیان کرتے وقت برطانیہ اور امریکا بد قسمتی سے آج اس اہم سرکاری رپورٹ کا ذکر ہی نہیں کرتے۔ یہ رپورٹ بہت سے غلط واقعات کے خلاف واضح ثبوت تھی یعنی 
  • صہیونیوں کو معلوم تھا کہ وہ لوگوں کی تمناؤں کے برخلاف کام کر رہے ہیں۔
  • عرب فلسطینی آج جس حق کا مطالبہ کر رہے ہیں، امریکا نے کنگ کرین کمیشن رپورٹ کے ذریعے کل خود اس کے جائز ہونے کی تصدیق کی تھی۔
رپورٹ سے چند مزید اقتباسات:
  • یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن کے مطالبے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خود فلسطین کو یہودی مملکت قرار دے دیا جائے۔
  • اس طرح کی کوئی یہودی ریاست اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک کہ فلسطین میں موجود غیر یہودی (عرب) آبادی کی مذہبی وشہری آبادیوں کو بری طرح پامال نہ کیا جائے۔
  • اگر اصول یہ ہے کہ حکم رانی قائم کی جائے تو اس میں فیصلہ کن حیثیت فلسطینیوں کی رائے کی ہونی چاہیے، یعنی یہ کہ وہ فلسطین کا کیا مستقبل طے کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا یاد رکھنا چاہیے کہ فلسطین کی غیر یہودی (عرب) آبادی کا دس میں سے نو حصہ صہیونیوں کے اس سارے منصوبے کا شدید مخالف ہے۔ اس طرح کا ذہن رکھنے والی کسی قوم پر یہودیوں کی لاتعداد ہجرت کو مسلط کرنا اور اس پر اپنی زمین سے دست برداری کی خاطر معاشی وسماجی دباؤ ڈالنا اوپر درج کیے گئے اصولوں اور کسی قوم کے حق آزادی کی بد ترین خلاف ورزی ہوگی، اگرچہ ان ساری کارروائیوں کو قانونی الفاظ کے جامے ہی میں کیوں نہ ڈھال دیا جائے۔
  • کمیشن نے جس برطانوی افسر سے بھی رابطہ کیا، اس نے یہی بتایا کہ صہیونی منصوبہ سوائے طاقت کے اور کسی طرح تکمیل نہیں پا سکتا۔ یہ چیز بذات خود صہیونی منصوبے کی شدید ترین نا انصافی کو نمایاں کرتی ہے۔
  • یہودی نمائندوں کے ساتھ کمیشن کانفرنسوں میں یہ حقیقت بار بار ابھر کے سامنے آئی کہ فلسطین میں صہیونی غیر یہودی (عرب) آبادی کا مکمل صفایا چاہتے ہیں۔
  • صہیونی نمائندوں کی جانب سے اٹھایا گیا یہ بنیادی دعویٰ کہ دو ہزار سالہ گزشتہ آباد کاری کی بنیاد پر وہ فلسطین پر اپنا ’’حق‘‘ رکھتے ہیں، کسی بھی لحاظ سے قابل توجہ نہیں ہے۔
  • کنگ کرین کمیشن رپورٹ کے ان الفاظ سے سچائی بالکل واضح ہو رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عربوں کے ساتھ برطانیہ، فرانس، روس، امریکا اور اقوام متحدہ سب نے سراسر جھوٹ بولا تھا۔ وہ انھیں ’’آزادی‘‘ کی مسلسل آس دلا کر ان پر تاقیامت بربادی مسلط کرتے رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تاریخ اسرائیل سے صحیح واقفیت حاصل کرنے کے لیے ان دو اہم دستاویزات ’’میک موہن۔ حسین خط وکتابت‘‘ اور ’’کنگ کرین کمیشن رپورٹ‘‘ کا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے جن سے امریکا وبرطانیہ کی مسلم دشمنی اور ان کا یہودیوں کی جانب جھکاؤ واضح طور پر محسوس ہوتا ہے۔
(بشکریہ جنگ سنڈے میگزین، ۱۸ جولائی ۲۰۰۴ء)

سیرت نبوی کے مطالعے کی اہمیت اور اس کی نگارش کا طریقہ و منہاج

مولانا محمد یحیی نعمانی

سیرت نبوی کے مطالعے کی اہمیت کے بیان میں اس سے زیادہ اور کسی بات کی ضرورت نہیں ہے کہ اس میں انسانی افراد اور جماعتوں کے لیے وہ کامل اور سد ا بہار نمونہ ہے جس کو اسی لیے تیار کیا گیا تھاکہ فرزندان آدم ہر حال میں اس سے اپنے لیے رہنمائی اور ہدایت کی روشنی حاصل کریں، خاص طور پر اہل ایمان کے لیے ا سکا ہر پہلو لائق اقتدا، اور واجب اتباع ہے۔
اللہ کی قدرت اور نبوت محمدی کا اعجاز دیکھئے کہ محمد رسول اللہ کی نبو ت کے ۲۳؍سال کے مختصر عرصہ میں ذات نبوی علی صاحبہا السلام پر ان سارے حالات وکیفیات کا گذر ہوگیا جن سے قیامت تک کسی انسان کا سامنا ہوسکتا ہے۔ فتح وشکست، غربت وامیری، شاہی وگدائی، خوشی ومسرت، غم واندوہ ،اقبال وادبار، عزت وبے عزتی، غلبہ ومغلوبیت ، سفر وحضر، تجارت ومزدوری، شادی وغمی ۔۔۔غرض وہ کون سی حالت ہے جو آپ پر نہ آئی ہو اور اس سلسلے میں آپ کا سنہرا نمونہ نہ ملتا ہو۔ آپ باپ بھی بنے شوہر بھی بنے،آپ نے رشتہ داریاں بھی کیں، تعلقات قائم کئے اور محبور ا توڑے بھی، آپ نے معاہدے کیے، آپ کو دھوکہ بھی دیا گیا اور آپ کے اوپر چھوٹے الزام بھی لگائے گئے، آپ کو نفاق کے موذی مرض کا سامنا کرنا پڑا اور آپ کو ایسے وفادار دوست بھی ملے جنہوں نے مہر ووفا کے بے نظیر نقوش صفحۂ تاریخ پر ثبت کیے۔۔۔ایک عاشق رسول نے اس جامعیت کو یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے:
’’عجب دربار!! سلاطین کہتے ہیں: شاہی دربار تھاکہ فوج تھی، علم تھا، پولیس تھی، جلاد تھے، محتسب تھے، گورنر تھے، کلکٹر تھے، منصف تھے، ضبط تھا، قانون تھا۔ مولوی کہتے ہیں: مدرسہ تھا کہ درس تھا، وعظ، افتاتھا، قضا تھا، تصنیف تھی، تالیف تھی، محراب تھی، منبر تھا۔ صوفی کہتے ہیں:خانقاہ تھی کہ دعا تھی، جھاڑ تھا، پھونک تھا، ورد تھا، وظیفہ تھا، شغل تھا،۔۔۔ (چلہ) تھا، گریہ تھا ، بکا تھا، حال تھا، کشف تھا، کرامت تھی، فقر تھا، فاقہ تھا، زہد تھا، قناعت تھی، ۔۔۔مگر سچ یہ ہے کہ وہ سب کچھ تھا، کیوں کہ وہ سب کے لیے آیا تھا، آئندہ جس کو چلنا تھا، جہاں کہیں چلنا تھا، جس زمانہ میں چلنا تھا اسی کی روشنی میں چلنا تھا۔‘‘ (النبی الخاتم ص: ۱۰۱)

نبوت: انسانیت کی بنیادی ضروت

سیرت رسول کے مطالعے اور اس کی نگارش کا سب سے بنیادی اصول یہ ہے کہ اس کے ہر فقرے اور ہر مرحلے پر یہ بات ظاہر ہو کہ یہ ایک نبیِ ہادی ﷺ کی سیرت ہے، اس مطالعے میں ہر وقت یہ شعور تازہ رہنا چاہئے کہ انسانیت کو نبوت کی کتنی اور کیونکر ضرورت ہے؟۔
انسان کے پاس جو حواس ہیں اور علم کے جو ذرائع ہیں وہ اس کو یہ نہیں بتلاسکتے کہ اس کو کس نے پیدا کیا ہے؟ وہ کیسا ہے؟ اس کی صفات کیا ہیں ؟اس کا اپنی مخلوق سے کس قسم کار شتہ ہے؟ انسان کا اس کائنات میں کیامقام ہے؟ اس کا مقصد تخلیق کیا ہے؟ اس عالمِ زندگی کا کیا انجام ہے؟۔۔۔ اللہ کا نبی اللہ کی طرف سے براہ راست ان سارے سوالوں کے جواب لے کر آتا ہے۔۔۔۔ انسانوں کو اندر فتنہ وفساد کی جو فطری خرابیاں رکھی گئی ہیں، اور جو انسانی زندگی کو لگاتار مبتلا ئے آزمائش رکھتی ہیں، اخلاق کو تباہ کرتی ،آبادیوں کو اجاڑتی، تمدنوں کے فساد کا باعث ہوتی اور نفرت وہوس کی آگ بھڑکاتی ہیں، ان خرابیوں کی اصلاح کا صحیح اور کامیاب طریقہ اس علم ویقین کے ذریعہ ہے اور اس نسخے سے ہی ممکن ہے جو انبیاء علیہم السلام لے کر آتے ہیں۔
سیرت کے مطالعے اور اس کی نگارش کے وقت نبوت اور کار نبوت کی اہمیت اور انسانیت کی اس کے سامنے محتاجی کا اعلان ہونا چاہئے، سیرت کو اس طور پر دیکھا جائے اور پیش کیا جائے کہ وہ اس عالم گیر فساد کا تریاق ہے جس نے انسان کو خدا کی رحمت سے دور اور گمراہی کی تاریکیوں میں بھٹکا رکھا ہے۔ یہ بھی پیش نظر آتا رہے کہ کس طرح سارے علم وہنر کی ترقیوں اور وسائل کی بہتات کے باوجود معاصر دنیا کی عقلیں عالمی جاہلیتِ عظمیٰ کے علاج ،اور اس کے فساد کے انسداد میں ناکام ثابت ہورہی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ وہ اس پر متفکر نہیں، مگر اس کے باوجو وہ جاہلیت کی یلغار کے سامنے ایک ایک کرکے مورچے ہار رہی ہیں، اور ایک ایک کرکے ظلم وفساد کو اخلاقی جواز عطا کرتی جارہی ہیں۔

اصلاح کی شاہ کلید

سیرت نبوی کا ایک اہم باب یہ بھی ہونا چاہئے کہ انسانی بگاڑ کے علاج کی وہ کون سی شاہ کلید تھی جو رسول اکرم ﷺ نے استعمال؟جس سے سارے عقد ے کھلتے چلے گئے۔
انبیاء علیہم السلام انسان کے علم وارادے کو شر سے موڑ کرخیر کی طرف لگاتے ہیں۔ وہ اس میں بھلائی کی محبت اور طلب پیدا کر تے ہیں۔ اپنی جماعت کے اندر وہ یہ احساس پیدا کردیتے ہیں کہ دنیا میں بھلائی اور نیکی کو فروغ دینا انکا فرض منصبی ہے۔انسان کے اندر غیر معمولی صلاحیتیں ہیں، مگر ہوس وطمع اور شیطان ان کو صرف ظلم وشر اور نفسانیت کی طرف لے کر چلتے ہیں، یہ انبیاء کا کارنامہ ہوتا ہے کہ وہ انسانوں کے اندر خدا طلبی کا وہ ذوق پیدا کرتے ہیں کہ ان کے لیے بھلائی کے راستے کی مشکلات آسان ہی نہیں لذیذ ہوجاتی ہیں، سیرت نبوی کا یہ عظیم ترین کارنامہ ہے اس کے بغیر ہم کسی بھی مطالعے کو مکمل نہیں کہہ سکتے۔

نبی کا پیغام ودعوت

سیرت نبوی کو محض روایتی تاریخی پس منظر میں دیکھنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو واقعات وحوادث کا بیان سمجھ لیا جاتا ہے، جس میں خوش عقیدگی کے روغن کا اضافہ ہوتا ہے، جس کے نتیجہ میں بقول بعض معاصر علماء کے وہ ’واقعات کی کھتونی ‘بن کر رہ گئی ہے، حالانکہ نبی کی سیرت کی اصل اہمیت اس کی ہدایت ورہنمائی اور اس پیغام کی وجہ سے ہوتی ہے، جس کے لیے وہ اللہ کی طرف سے مبعوث ہوتا ہے، اسی کو وہ اپنی زندگی کا مشن بلکہ اوڑھنا بچھونا بنالیتا ہے، اسی کا فروغ اس کا مقصدِ زندگی ہوتا ہے، سیر ت کے مطالعے کے وقت فوکس اور توجہ اگر اس مشن اور پیغام سے ہٹی اور وہ کہیں پس منظر میں چلا گیا تو رسول اللہ ﷺ کی سیرت کا مطالعہ تاریخ کی ورق گردانی بن کر رہ جائے گا، محمدرسول اللہ کے سیرت نگار کو حیات طیبہ کو اس طرح پیش کرنا چاہئے کہ اس کا سب سے نمایاں اور اہم عنصر ’’رسالت ونبوت‘‘ اور اس کی دعوت وپیغام کے تمام پہلو بھی اپنی عظمت ورعنائی اور معجزانہ شان کے ساتھ سامنے آجائیں۔

اسوۂ حسنہ

رسول اکرمؐ بحیثیت رسول، اللہ کے دین اور اس کے پیغام کے مبلغ بھی ہیں، اور انسانوں کے لیے کامل اور حسین ترین نمونہ بھی، آپ کی ذات اپنے اخلاق وصفات، مزاج وکردار، عادات ومعاملات، تمناؤں اور جذبات ہر چیز میں عملی نمونہ ہے، آپ کی شب روزکی زندگی کے بغیر اور آپ کے اعمال واخلاق کے بغیر بحیثیت رسول آپ کی سیرت نامکمل ہی رہے گی۔
یہ ایک عجیب واقعہ ہے کہ ہماری روایتی سیرت نگاری میں آپ کے خِلقی اوصاف کے بیان پر جو توجہ ہوتی ہے آپ کے اسوہ کے بیان پر اس سے بہت کم توجہ ہوتی ہے،دوسری طرف صحابہ کرامؓ کی حقیقت بینی اور بلندیِ ذوق ملاحظہ ہو کہ روایات کے ذخیرہ میں آپ کے دین اور پیغام اور اسوۂ حسنہ پر بلا مبالغہ ہزارہا ہزار روایات ہیں اور آپ کی خِلقی کیفیت پر روایات گنتی کی چند۔۔۔۔ سیرت نگاری نے اخیر زمانوں میں کافی ترقی کی ہے ، اور اب اسوۂ حسنہ سیرت کا ایک اہم جز بنتا جارہا ہے، مگر اس کو ابھی مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔

نبوی مزاج کی خصوصیات

انبیاء علیہم السلام اللہ کی طرف سے جو دین لے کر آتے ہیں وہ محض خشک الفاظ کے سانچوں میں ڈھلا ہوا نہیں آتا، ایسا نہیں ہوتا کہ ان کو صرف واجبات وفرائض اور اوامر ونواہی کی ایک فہرست دے دی جائے، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کو کتاب وشریعت کے الفاظ کے ساتھ اس کی روح ومزاج کیفیات واحساسات، اور جذبات کی آئینہ دار زندگی کے ساتھ بھیجتے ہیں، یہ زندگی خود ان انبیاء کی ہوتی ہے، جو اس دین و شریعت کی اتنی صاف اور مفصل تشریح کرتی ہے کہ ان کا ہر پہلو اس کے آئینے میں مجلّیٰ ہوجاتا ہے۔
سیدنا محمد رسول اللہ کی زندگی نبوی مزاج کا آئینہ اور ان جذبات وکیفیات کا مجموعہ ہے جوبراہ راست نبوت کا خاص مقصود ہیں۔ اللہ تعالی نے جس طرح آخری دین کے اوامر ونواہی کو بحفاظت ہم تک پہونچایا ہے اسی طرح اس نے ان کیفیات کو بھی ہم تک بحفاظت پہونچایا ہے۔رسول اکرم ؐ کی زندگی پر ان کیفیات کا رنگ اس طرح چھایا ہوا تھا، کہ اگر سیرت نگار نے یا سیرت کا مطالعہ کرنے والے نے اس رنگ کو چھوڑ دیا تو سیرت کے صحیح خد وخال اور اس کی اسپرٹ اور روح سامنے نہیں آسکتے اور نہ مطالعۂ سیرت کا اصل مقصود پورا ہو سکتا ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کیفیات کے جلی عناوین ہیں: خدا طلبی و تعلق مع اللہ، اللہ سے محبت اور اسکا خوف، اس پر توکل یقین، عشق وسرافگندگی،خدا مستی وبے خودی، عبودیت وتذلل، آخرت کا استحضار ویقین،زہد واستغنا، مخلوق خدا پر شفقت ورحمت، دلسزی ودردمندی،دین پر عزیمت و استقامت، اسکی راہ میں جدو جہد وجانبازی۔۔۔۔
شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ ذات نبویکی یہ ربانی کیفیات سیرت نگاری کی بہت سی کو ششوں میں واضح طور پر نظر نہیں آتیں۔ اسکا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سیرت کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے رسول اللہ ؐ کی سیرت کسی دوسریقومی مصلح وقائد کی سیرت سے زیادہ مختلف نہیں رہتی، وہ اس سے متأثر ہوسکتا ہے، عقیدت کا اظہار بھی کر سکتا ہے،مگر اس کے دل میں وہ ایمان پیدا نہیں ہو سکتا جو مطالعۂ سیرت کا گوہرِ مقسود ہے۔

تعبیرات واصطلاحات کی نزاکتیں

انسانی عقل وخرد اپنے ماحول اور تجربات کی روشنی میں پیغام رسانی کے لیے نئی نئی تعبیرات واصطلاحات اختیار کرتی ہیں۔ یہ اصطلاحات جس ماحول میں پیدا ہوتی ہیں اور پروان چڑھتی ہیں اپنے ساتھ وہ انکے اثرات جرور رکھتی ہیں۔کسی طرح وہ اپنے پس منظر سے آزاد نہیں ہوسکتیں۔انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے زمانوں میں اور ان سے پہلے دنیا میں مختلف اصلاحی اور فکری تحریکیں قائم ہو چکی تھیں، الگ الگ قسم کے اخلاقی اور الٰہیاتی فلسفے تھے، جنہوں نے اپنے اپنے زمانوں میں سکّہ جمایا تھا، مگر قرآن مجید کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انہوں نے اپنے دین کے حقائق کی تشریح اور اپنی دعوت کے لیے ان اصطلاحات اور تعبیرات کو مستعار لینا اور ان سے کام چلانا کبھی گوارہ نہیں کیا۔ اس کے بجائے ان کو اپنی پیغام رسانی کے لیے نہایت سادہ اورحقائق پر مبنی الگ اصطلاھات اور منفرد تعبیرات اللہ کی طرف سے دی گئی تھیں۔
آں حضرت ؐ سے پہلے تحریف شدہ یہودیت و نصرانیت کے علاوہ حکمت وفلسفہ یونان وہند اور فارس ومصر وروما پر چھائے ہوے تھے،ہر ذہین آدمی ان سے متأثر ضرور تھا۔ مگر نبوت محمدی نے انسانی زندگی کی پیچیدہ گتھیوں کے کھولنے اورانسان کے لیے صحیح اور متوازن طرز زندگی کی تشریح میں ایمان، احسان، تزکیہ، عبادت، تقوی ، خشیت، آخرت ، رسالت، نبوت ، وحی ، علم، عدل، انصاف، مواسات وہمدردی اوراخلاق جیسی اصطلاحات استعمال کیں۔
رسول اللہؐ کی سیرت اور آپ کے پیغام کی تشریح کے لیے نہ قدیم فلسفی واجتماعی اصطلاحات موزوں تھیں اور نہ عصر حاضر کے ازموں اور سیاسی و اجتماعی تحریکوں کی اصطلاحات۔ ماضی قریب اور معاصر لٹریچر میں سیرت نبوی کے سلسلے میں جمہوریت، اشتراکیت اور سوشلزم وغیرہ کی اصطلاحات بعض لوگوں نے فراخ دلی کے ساتھ استعمال کی ہیں۔ہر کچھ دنوں کے بعد کوئی نیا ازم، یا فلسفہ دنیا پر فیشن کی طرح چھا جاتا ہے، پھرجب وہ مسائل کو حل کرنے کے بجائے انتشار و عدم توازن اور انفرادی و اجتماعی مسائل کو مزید بڑھا کر رخصت ہوتا ہے تو کوئی نیا ازم دنیا پر مسلط کر دیا جاتا ہے،اور اسکا یسا پرو پیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ دنیا کے سارے مسائل کا حل اسی میں نظر آنے لگتا ہے۔ اس فضا سے ہم بھی متأثر ہو جاتے ہیں، کسی کو رسو ل اللہ ؐ کی دعوت میں جمہوریت کی صدا سنائی دینے لگتی ہے، تو کوئی اسکو ایک موزوں اشتراکی تحریک کہنے لگتا ہے، کوئی سوشلسٹ اصطلاحات میں رسول اللہ کی اقتصادی اصلاحات بیان کرتا ہے، تو کوئی آں حضرت ؐ کے پیغام کو اشرافیہ کے اقتدار اور ملوکیت کے خلاف قومی بغاوت کا نام دیتا ہے، یہاں تک کہ بعض مستند علماء بھی جو سیرت کا اس کے اصل تناظر میں مطالعہ کرتے ہیں آں حضرتؐ کو جمہوری لیڈر اور آپ کی اصلاحات کو جمہوری یا سوشلسٹ اصلاحات کہہ جاتے ہیں۔
انصاف کی بات یہ ہے کہ ان تعبیرات کا پیرہن، نبوی پیغام کے لیے قطعاناموزوں ہے، انبیاء علیہم السلام اللہ کی طرف سے ’دین‘ لے کر آتے ہیں۔ ان کا کام انداز وتبشیر ہوتا ہے، ہدایت وتزکیہ ان کا طریقہ کار اور انسانوں کو اپنے خدا سے جوڑنا اور اس کی رحمتوں سے فیضیاب کرانا ان کا مشن ہوتا ہے، ان کا پیغام نہ کسی فاسد تمدن کاردعمل ہوتا ہے، اور نہ کسی ظالم اقتصادی وسیاسی نظام کے خلاف عوامی جذبے کا اظہار، وہ صرف وحی ونبوت کا نتیجہ ہوتا ہے، اور اس کے لیے یہی تعبیرات زیادہ صحیح اور موزوں ہیں۔
حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ کے سیرت طیبہ کے بیان اور آپ کے پیغام کی تعبیر وتشریح میں نہایت احتیاط کرنی چاہیے، اور اس کے لیے وہی اصطلاحات وتعبیرات باقی رکھنی چاہییں جو خود آپؐ نے اپنی احادیث میں اور آپ کو سب سے زیادہ جاننے اور سمجھے والے صحابہ کرام نے استعمال کی ہیں، نیز سیرت طیبہ کے بیان کا جو عمومی رنگ اور فضا ہو وہ اسی رنگ اور فضا سے بالکل ہم آہنگ ہونی چاہیے جس کا قرآن اور حدیث رسول کا گہرا مطالعہ کرنے والا مشاہدہ کرتا ہے۔

قدیم سرمایۂ سیرت پر ایک نظر

جامع اور متوازن سیرت نگاری اور تجزیاتی مطالعے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے پاس سیرت پر جو مواد موجود ہے اس کی نوعیت پر نظر ہو، یہ بھی معلوم ہو کہ کسی عہد میں اس فن کی داغ بیل پڑی؟ وہ کس ماحول میں تیار ہوا؟ جس زمانے میں وہ پروان چڑھا اس کے رجحانات کیا تھے؟ یہ بھی تفصیل سے معلوم ہو کہ اس سرمایے کے اپنے مآخذ کیا ہیں؟ ان کی استنادی حیثیت اور مرتبہ کیا ہے؟ اور اس کی جانچ پر کھ کے کیا اصول ہیں؟۔
جہاں تک سیرت کے مآخذ کی درجہ بندی اور ان کے تاریخی وروایتی استناد کا تعلق ہے، یہ ایک طویل موضوع ہے۔ ہمارے ہندوستانی مؤلفین میں علامہ شبلی اور ان کے بعد کے کئی محققین نے اپنی کتب سیرت کے مقدموں میں اس پر تفصیل سے بحث کی ہے، بہت کم ہی ضروری مباحث ایسے ہیں جو ان کے یہاں نہیں ملتے، لہذا اس سر مایے سے متعلق کچھ متفرق ضروری باتیں عرض کی جارہی ہیں۔
۱۔ یہ بات خاص طور پر قابل لحاظ ہے کہ اولین سیرت نگاروں نے وسیع معنی میں سیرت طیبہ کے تمام پہلوؤں کا احاطہ اپنا مقصود نہیں بنایا تھا، ان کی توجہ کا اصل مرکز یہ چند پہلو تھے۔: (۱) رسول اکرم کی قبل بعثت زندگی خاص طورپر خاندانی پس منظر، ولادت، ورضاعت، وغیرہ۔ (۲) بعثت کے بعد کے اہم واقعات وحوادث، خاص طور پر مکی معاشرے کی سیاسی صورت حال (۳) مدنی عہد میں خاص طور پر غزوات وسرایا اور سیاسی آویزشیں، اس صورت حال کا اندازہ کرنے کے لیے صرف اس بات پر غور کرنا کافی ہوگا کہ فن سیرت کا نام ’’علم السیرۃ‘‘ کے بجائے ’’علم المغازی‘‘ رکھا گیا، شاید بلکہ غالبا اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان حضرات نے ان پہلووں کو خاص طور پر محفوظ کرنا چاہا جن کو محدثین کرام اپنے موضوع بحث سے کسی حد تک خارج سمھتے تھے۔ اس لیے کہ انہوں نے اپنے جمع وتدوین اور بحث وتحقیق کے دائرے میں صرف آں حضرت کے تشریعی ارشادات، احکام وقضایا، مواعظ وخطبات اور سنن وفرائض کی ادائیگی کے طریقے اور حقائق دین وایمان سے متعلق روایات کو ہی رکھا تھا۔
ابن اسحاق دوسری صدی میں اپنی مغازی ترتیب دے چکے تھے، موسی بن عقبہ بھی ان کے ہم عصر تھے، انہوں نے اس فن کی طرح جن بنیادوں پر ڈالی وہ اسی پر قائم رہا، ابن سعد اور طبری جیسے مورخین نے بھی عہد نبوی کی تاریخ کے لیے ان ہی بنیادوں کو استعمال کیا، ابن قیم کی زاد المعاد اور چند دوسری کو ششوں کے استثناء کے ساتھ فن سیرت جدید دور (یعنی چودھویں صدی ہجری) سے پہلے ان خطوط پر ہی اپنا سفر طے کرتا رہا، محدثین کے حلقے نے اس پر شمائل اور دلائل نبوت کا اضافہ بھی کیا۔
۲۔ سیرت وتاریخ اسلام کی روایات جس زمانے میں جمع وتدوین کے مرحلوں سے گذر کر کتابی اور مرتب علمی انداز میں محفوظ کی جانے لگیں، یہ وہ زمانہ ہے جب امویوں کی شمشیر خار اشگاف نے چہار دانگ عالم میں تہلکہ مچا رکھا ہے، اور غلبہ و اظہار دین کا خدائی وعدہ پور اہوچکا ہے۔ اس فضا کا اثر تھا یا روایتی تاریخ نویسی کا قدیم انداز کہ سیرت نگاری پر ’’مغازی‘‘ کی فضا چھا گئی، اگر آپ سیر وتاریخ کے مآخذ دیکھیں اور حدیث وسنت کے ذخیروں سے اسلام کے روحانی اصلاحی اوراخلاقی کارناموں کو جمع نہ کریں تو یہ رسول اللہ کی نہایت نامکمل سیرت ہوگی، جس میں آپ ایک تحریک کے بانی، ایک فاتح،یا ایک مصلح اور فرمانروا زیادہ نظر آئیں گے، ایک نبی وصاحب وحی اور مکمل بشری نمونہ کی تصویر کم بنے گی، آپ کو پورا عہد مدنی غزوات کے ارد گرد طواف کرتا نظر آئے گا، او رعہد مکی کی اتنی کم تفصیلات ملیں گی کہ بے اختیار تاریخی مآخذ کی تنگ دامانی کا شکوہ کرنے کو دل چاہے گا۔
فن سیرت کے قدیم مآخذ پر ’’مغازی‘‘ کی چھائی ہوئی فضا کو اور اس عہد کے عمومی ماحول کو سامنے ضرور رکھنا چاہئے، اور کوشش کرنی چاہیے کہ اصل واقعہ اور اس ماحول کے زیر اثر کی گئی اس کی تشریح وتوضیح جو راوی اور مورّخ خود کرتا ہے دونوں کے درمیان فر ق کیا جائے۔
۳۔ فن حدیث اورفن سیرت کی روایات کے درمیان ایک اہم فرق بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے، علماء اسلام نے حدیث کو براہ راست دین کا حصہ اور وحی ربانی سمجھ کر جمع کیا، اور اس کے لیے وہی احتیاط برتی جو اس کا حق تھی ۔ احتیاط کے پیش نظر ایک ایک روایت کو الگ الگ بیان کیا، ان کے درمیان تاریخی یافنی ترتیب وتسلسل قائم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی، بیان میں کم ازکم اپنے فہم وفکر کو اثر انداز ہونے کا موقعہ دیا، جو راوی نے خود سنا وہ بیان کیا، اپنی طرف سے اسباب وعلل کے بیان سے پرہیز کیا۔ پھر اس فن کے ناقدوں نے اس کو دسیوں کسوٹیوں پر پرکھا، داخلی وخارجی ذرائع استعمال کیے، اصل واقعے کے بیان میں کہیں کسی سے کوئی تسامح ہوا تو اس کو بھی پکڑا، راوی نے کہیں تشریح وتوضیح کے طور پر اپنی طرف سے کوئی بات شامل کردی تھی (جس کو محدثین کی اصطلاح مین ادراج کہتے ہیں) تو اس کو مختلف روایات کے مطالعے کے ذریعہ اس کو بھی الگ کیا۔۔۔۔۔۔۔ اس کے برخلاف سیرت و تاریخ کی روایات میں ایسا نہیں ہوسکا، ابتدائی سیرت نگاروں نے تاریخی تسلسل کو باقی رکھنے کے لیے الگ الگ روایات کو باہم ملایا بھی، اپنے قیاس سے اس کی تفسیر اور اسباب ومحرکات بھی بیان کیے۔ ظاہر بات ہے علماء اسلام کے نزدیک تاریخی واقعات کی وہ اہمیت نہیں تھی جو ان کی شریعت اور دینی واجبات کی تھی، اس لیے اس سرمایہ کو فن حدیث کے ’’صرّافوں‘‘ نے اپنے سخت معیاروں پر جانچا بھی نہیں، یہاں تک کہ وہ روایات واخبار جو محدثین کی کتابوں میں تاریخ وسیرت سے متعلق موجود ہیں، خود محدثین نے ان کی اس طرح جانچ پرکھ نہیں کی ہے جس طرح وہ احکام شریعت کی روایات کی کیا کرتے تھے۔ ہمارے سرمایۂ حدیث میں احکام کی روایات پر ناقدین حدیث نے نقد وتحقیق کے اصول زیادہ سختی سے برتے اور باریک بینی سے استعمال کیے ہیں، دیگر روایات میں انہوں نے اتنی باریک بینی سے کام نہیں لیا، اس لیے یہ بات ظاہر ہے کہ دونوں کا درجہ ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔
۴۔ مسلمانوں نے روایات حدیث وتاریخ کی تنقید کے لیے جو منفرد نظام ایجا د کیا وہ بجا طور پر ان کی علمی تاریخ کا ایک درّبے بہا اور قابل صد فخر کارنامہ ہے، جس سے ممکنہ حد تک کسی تاریخی روایت کی جانچ کی جاسکتی ہے، اور اس کے قابل اعتماد ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ عام طور پر یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ سیرت نبوی کی روایات کی جانچ ان اصولوں پر نہیں کی جاسکتی۔ عموما اس کی وجہ یہ خیال کی جاتی ہے کہ یہ اصول نہایت سخت ہیں، اور ان کی معقولیت وافادیت فن حدیث میں اس لیے تھی کہ اس پر عقائد وایمانیات اور حلال وحرام کا دار ومدار تھا، سیرت نبوی تو محض تاریخی واقعات وحوادث کے قسم کی چیز ہے، اس لیے اس کی روایات کو اتنے سخت اصولوں پر کسنے کی ضرورت نہیں۔
لیکن اگر آپ غور کریں تو آپ کو صورت حال اس سے مختلف نظر آئے گی، سیرت نبوی کا تعلق براہ راست ہمارے مرکز ایمان یعنی رسول اللہ کی ذات سے ہے، سیرت ہمارے لیے گویا وہی مقام رکھتی ہے جو ابتدائے اسلام کے لوگوں کے لیے ذات نبوی کا تھا، سیرت پوری کی پوری دین ہے،اس میں کمزور روایتیں قدم قدم پر ہماری عقیدت کا امتحان لیں گی۔
ہاں!جو راویتیں خالص تاریخی نوعیت کی ہیں تو ان کو واقعات کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے اور اس عہد کی تصویر کو مکمل کرنے کے لیے ضرور استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ یہ روایتیں اسلام کے ان اصولوں سے کسی درجہ میں بھی نہ ٹکرائیں جو قرآن اور قوی ترین روایتوں سے ثابت ہوتے ہیں، ان روایتوں کا لازمی طور پر اس معجزانہ حد تک کے پاکیزہ کردار اور اعلیٰ اخلاق کے مطابق ہونا بھی ضروری ہے جس کا رسول اسلام حامل تھا اور جس کی یقینی گواہی صحیح کتب حدیث کا ایک ایک صفحہ دیتا ہے۔
۵۔ شاید یہ خیال بھی زیادہ صحیح نہیں کہ کتب حدیث کے ذخیزہ میں سیرت نبوی اور عہد نبوی کے تاریخی پہلووں سے متعلق روایات بہت کم ہیں، واقعہ یہ ہے کہ حدیث کی کتابوں میں عہد نبوی کے تاریخی پہلووں سے متعلق بہت مواد ملتا ہے، اور بسا اوقات تو اس کی نوعیت بڑی اہم اور غیر معمولی ہوتی ہے، کبھی کبھی ان میں ایسے پہلو ریکارڈ ہوجاتے ہیں جن کا کوئی سراغ تاریخ وسیر کی کتابیں نہیں دیتیں۔ یہ روایتیں حدیث کی تمام کتابوں میں بکھری ہوتی ہیں، ان کو جمع کرنا ایک لمبا کام ضرورہے۔ مگر اب لوگ کرنے لگے ہیں۔عربی اور اردو میں دو الگ محققین نے بخاری ومسلم کی ان روایات کو جمع کیا ہے جو تاریخی نقطہ نظر سے سیرت نبوی سے متعلق ہیں۔ مسند احمد کی فقہی ترتیب ’’الفتح الربانی‘‘ کی تیرہویں اور بیسویں، اکیسویں اور بائیسویں جلد میں سیرت سے متعلق نہایت وافر سرمایہ موجود ہے۔ سیرت کے معروف ماہر اور مورّخ ڈاکٹر اکرم ضیا ء عمری کے زیر نگرانی متعدد محققوں نے سیرت کے الگ الگ عہدوں اور ابواب سے متعلق حدیث وتاریخ کی روایات جمع کی ہیں، اور ان کی محدثین کے اصول کے مطابق جانچ کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ یہ کام جامعہ اسلامیہ (مدینہ منورہ) کے پی ایچ ڈی اور ایم اے کے مقالات کی شکل میں تقریبا مکمل ہوچکا ہے،۔کچھ چیزیں طبع ہوچکی ہیں اور کچھ منتظر طباعت ہیں۔

عہد جاہلی

رسول اللہ کی بعثت سے پہلے کازمانہ جاہلی کہلاتا ہے، سیرت نبوی کے پس منظر کے طور پر یہ زمانہ بھی زیر بحث آتا ہے، خاص طور پر عربوں کی ماقبل اسلام تہذیب ومعاشرت دل چسپی کا موضوع بنتے ہیں۔۔۔۔۔۔بعثت محمدی سے پہلے عربوں کی زندگی کورے کاغذ کی طرح تھی، قبائلی زندگی جو تمدن کے نقش ونگار اور تکلفات سے پاک تھی۔ عربوں کے علاوہ دنیا کی مختلف قوموں نے تمدن وتہذیب اور مذاہب وادیان کی وادیوں میں مختلف راہیں نکالی تھیں۔ مختلف قوموں نے فلسفہ وحکمت اور تمدن وحکومت کے پر رعب نقوش قائم کیے تھے، بہت سی منظم حکومتیں قائم تھیں، علم کی مسندیں آراستہ اور فنون کی بزمیں سجی ہوئی تھیں، مگر سب کا قبلہ غلط تھا اور شر کے رخ پر تھا، اور سب کا سب قرآن کے الفاظ میں’’بر وبحر کے عالمی فساد‘‘ کا مصداق تھا۔
عرب دنیا سے الگ اپنی صحرائی بدویانہ زندگی میں مست تھے۔ مگر یہ تصور غلط ہے کہ وہ اسلام سے پہلے محض فساد وظلم کا مجموعہ اور خیر ونیکی سے عاری تھے، شاید رسول اللہ کے کارنامے کی عظمت بیان کرنے کی نیت سے غالبا بے شعوری طو رپر اکثر یہی تصور قائم کرلیا جاتا ہے۔
عرب بے پڑھ لکھے تھے، تمدن کی رنگینیوں سے دور، اور فلسفے کی موشگافیوں سے ناواقف تھے، ان کو اپنے امی ہونے کا اور کتاب شریعت سے تہی دامن ہونے کا اعتراف تھا۔ مگر ان کی اس کمی نے ان کو فطرت سے قریب اور نفسیاتی واخلاقی پیچیدگیوں سے محفوظ رکھاتھا۔ وہ مشرک تھے، مگر ان کے اندر دین ابراہیمی کے باقی ماندہ اثرات تھے۔ ان میں بلا کی اخلاقی خوبیاں تھیں، سچائی اور وفاداری میں فرد، عزم وخودداری میں یکتا، اور سادگی وشہامت اور غیرت وہمت ان کی قومی صفات تھیں۔
ان کی یہ خوبیاں ہی تھیں جن کی وجہ سے ان کا اس نبوت کے لیے انتخاب عمل میں آیا جس کی مخاطب پوری انسانی برادری تھی۔ آپؐ سے پہلے انبیاء ؑ اپنی اپنی قوموں میں آتے تھے، اس لیے کسی قوم میں نبی آنا عام حالات میں اس بات کی علامت نہیں ہوتا تھا کہ وہ قوم دوسری قوموں سے بہتر ہے۔مگر آں حضرتؐ کی بعثت عالمی تھی، اور آپؐ کے پیغام کو عربوں (بنی اسماعیل) کے واسطے سے پوری انسانیت تک پہنچنا تھا، اور وہی آپ کے دین کے سارے عالم کے لیے معلّم قرار پائے تھے۔اس لیے بنی اسماعیل کا اس عظیم کام کے لیے انتخاب خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کچھ خاص امتیازی صفات کے حامل تھے۔
خود رسول اللہ نے اس کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: اللہ نے حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد میں سے بنی اسماعیل کا اور ان میں سے بنو کنانہ کا اور ان میں سے قریش کا انتخاب فرمایا، پھر ان میں سے بنی ہاشم اور میرا انتخاب فرمایا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ نے مجھے مخلوق کی بہتر جماعت میں پیدا فرمایا، پھر اس جماعت کے بہتر قبیلے میں مجھے رکھا۔۔۔ (سنن ترمذی باب فضل النبیؐ)۔
ایک معاصر سیرت نگار کو عربوں کی ان خوبیوں کو ان کی جاہلی تاریخ وادب کے خزانوں سے نکال کر لانا چاہیے، اور اس بات کا ثبوت پیش کرنا چاہیے کہ کیوں عرب اس امانت کے لیے زیادہ موزوں تھے۔

زمانۂ قبل بعثت

رسول اکرم ؐ کی ولادت اور رضاعت کے زمانے کے بہت سے محیر العقول واقعات سیرت کی کتابوں میں روایت کیے جاتے ہیں، اگر یہ قابل اعتماد ذرائع سے اور صحیح روایات سے ثابت ہوں تو بسر وچشم قبول کیے جائیں۔ مگران کی بہت بڑی اکثریت بلکہ سوائے چند کے تمام نہایت کمزور اور بے اصل قسم کی روایتیں ہیں۔ بہت سے لوگ یہ کہہ کر ان کو قبول کرلیتے ہیں کہ فضائل ومعجزات کے باب میں ضعیف روایتیں قبول کرلی جاتی ہیں۔ مگر یہ کم علم محسوس کرتا ہے کہ ان روایتوں کی حیثیت محض ’’ضعیف‘‘ روایات کی نہیں ہے، بلکہ اکثر روایتیں نہایت کمزور اور ’’واہی‘‘ قسم کی ہیں، اور محدثین کے جس اصول کا حوالہ دیا گیا ہے، وہ اتنی کمزور روایات یا ’’واہی وموضوع‘‘ روایات کے لیے نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حدیث کی عام معتبر کتابوں میں یہ روایات نہیں لی گئی ہیں۔ بلکہ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ان روایات کا اکثر حصہ ایسا ہے کہ اس کو اگر کوئی متقدمین کے عہد میں یہ کہہ کر روایت کرنے لگتا کہ میں تو سند بیان کر رہا ہوں لوگ راویوں کو جان کر خود ان کے بارے میں فیصلہ کرلیں گے، تو محدثین اس کو ہی ساقط الاعتبار یا کمزور قرار دے دیتے ۔ اسی لیے حدیث کی عام کتابوں میں ان روایتوں سے احتیاط برتی گئی ہے۔
بعض معاصراور ماضی قریب کے علماء نے یہ بات کہی ہے کہ حضور اکرم ؐ کی ولادت کے اور بچپن کے حالات ومعجزات اس لیے صحیح روایات میں ریکارڈ نہیں ہوسکے ،کہ مسلمانوں کی علمی بزم تو عہد مدنی کے آخری نصف میں آراستہ ہونی شروع ہوئی، ماقبل ولادت اور بچپن کے معجزات کو دیکھنے والے اس دور میں بہت کم بچے تھے، یہ بات تو حقیقت سے قریب تر ہے، مگر اسی سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر صحابہ کرام نے ان واقعات کو بیان کیا ہے (چاہے انہوں نے ان معجزات وواقعات کو خود دیکھا ہو، یا کسی اور اسے سنا ہو)بہر حال اگر صحابہ نے ان کو روایت کیا ہے تو یہ صرف نہایت کمزور راویوں کے یہاں کیوں ملتے ہیں، معتبر راوی ان کو روایت کیوں نہیں کرتے؟؟ اور اگر صحابہ کرام نے ان کو روایت کیا ہی نہیں ہے تو یہ کمزور راویوں کے پاس کہاں سے پہنچے؟؟۔
ایک اہم اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اگر یہ محیر العقول واقعات دینی اعتبار سے سیرت رسول کا ایک مفید وضروری عنصر ہوتے تو اللہ کی تقدیر میں یہ ضروری ہوتا کہ یہ قابل اعتماد ذریعے سے ہم تک پہنچتے، اس لیے کہ نبی آخر الزماں کی زندگی کا کوئی ایسا گوشہ جس کا تعلق آپ کی نبوت ورسالت سے ہو اور جس سے سیرت کے نبوی پہلو کو تقویت ملتی ہو وہ مکمل طور پر بے اصل روایات میں ہی پایا جائے، ایسا بہت بعید معلوم ہوتا ہے۔
بہر حال!کمزور روایتوں میں پائے جانے والے محیر العقول واقعات کے بکثرت بیان سے سیرت طیبہ پرایک دیو مالائی رنگ چھانے لگتا ہے، جو دین اور اس کی دعوت کے لیے مضر ہے۔ ہاں ما قبل ولادت اور بچپن اور جوانی کے جو معجزات اور آیات و دلائل معتبر روایوں اور قابل اعتماد ذرائع سے آئے ہیں ان کا بیان ضروری ہے۔
آں حضرتؐ نے بعثت سے پہلے ایک نہایت اعلی کردار کی شریفانہ زندگی گذاری تھی، مکی معاشرے میں آپ کا کردار واخلاق مسلم تھا، قرآن نے بھی مخالفین کو آپؐ کی بعثت سے پہلی زندگی کے حوالے سے غور وفکر کی دعوت دی تھی۔ ہمارے سیرت وحدیث کے سرمایے میں ایسی روایات موجود ہیں جو آپؐ کی امانت سچائی، راست بازی، عدل، ہمدردی وغم خواری، مکہ میں آپ کی معتبر شخصیت اور اعلیٰ درجہ کی روحانیت وخدا پرستی کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ یہ روایتیں سیرت نگار کا قیمتی سرمایہ ہیں۔

مکی عہد

جس طرح کسی بارعب وپر شکوہ وشوکت قلعے کی مضبوطی کا دار ومدار اس کی بنیاد پر ہوتا ہے، جو زمین میں چھپی ہوتی ہے، اسی طرح اسلام کے عظیم الشان قلعہ کا جو مرعوب کن منظر عہد مدنی میں نظرآتا ہے، اس کی مضبوطی کا راز عہد مکی میں چھپا ہوا ہے۔ سطحیت کے ساتھ کیا گیا مطالعہ ان عظمتوں کا راز حنین وتبوک کے میدانوں اور طائف واوطاس کی وادیوں میں دکھائے گا مگر نگاہ حقیقت بیں اور تحلیل وتجزیہ کے ساتھ کیا گیا مطالعہ اس کی جڑیں مکی عہد کی پر سوز دعوت، حکیمانہ تربیت، مؤ منانہ صبر واستقلال، اور مدبرانہ حکمت عملی میں ڈھونڈیں گے۔
مدنی عہد کی طرح مکی عہد کا اتنا مفصل ریکارڈ ہمارے حدیث وسیر کی دفتروں میں نہیں ہے، اس کے تاریخی اور سماجی اسباب بھی تھے، اس لیے یہاں ہم کو زیادہ گہرے تجزیے اور استنباط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے لیے اس عہد کی اہمیت اس اعتبار سے بڑھی ہوئی ہے کہ یہ دور سیرت نبوی کے اس وقت کا شاہد ہے جب مسلمان کمزور اور مغلوب تھے اور ایک غیر مسلم اقتدار کے تحت رہتے تھے، دعوت اسلامی کے راستے میں رکاوٹیں سخت اور بے شمار تھیں۔ پھر چند سالوں کے بعد ہی مدینہ کے افق سے اسلام کے غلبہ کا سورج طلوع ہوتا ہے، صدیوں تک اس کو زوال نہیں ہوتا، اسی روشن اور پُر بہاردن میں فکر اسلامی پروان چڑھتا ہے، مسلمان اپنے انفرادی اور اجتماعی رویّے طے کرتے ہیں، اپنی شریعت وقانون کے ضابطے متعین کرتے ہیں، ان کا پورا ذہنی سانچہ اسی غلبہ وعافیت کے دور میں تیار ہوتا ہے۔ تاآنکہ ۱۲؍صدیوں بعد یہ سورج غروب ہوتا ہے، اور اسی اندھیرے کی رات شروع ہوتی ہے جس میں رسول اللہ نے اپنے سفر کا مکہ سے آغاز کیا تھا۔
اب ایک مرتبہ پھر امت کو اسی طرح کی حکمت علمی اور دعوتی تدریج کا راستہ ڈھونڈنا ہے جس پر رسول اللہ نے مکی عہد میں اور مدینہ کے ابتدائی عہد میں سفر کیا تھا، جس میں اصولوں پر عزیمت کے ساتھ جمنے کا بھی سبق ہے، کفر وایمان کی واضح حد بندی بھی ہے، اور بھرپور حکمت عملی کے ساتھ مخالف ماحول میں اپنے لیے گنجائش پید اکرنے اور رکاوٹوں کے بیچ سے راستہ نکالنے کی تدبیریں بھی۔
ایک طرف تو آپ کفر سے اسی طرح براء ت کا اظہار کرتے ہیں جس طرح سورۂ ’’الکافرون‘‘ میں آپؐ کو حکم دیا گیا تھا، دوسری طرف آپؐ بنو ہاشم سے خاص طور پر اور بنو عبد مناف کے خاندان سے عمومی طورپر نہیں اور کمزور مسلمانوں کی حفاظت میں مدد بھی لے رہے ہیں۔ مکہ کی قبائلی زندگی میں جو رسم ورواج اور عرف ہیں آپؐ اس کو بھی استعمال کررہے ہیں۔ مدینہ میں مشرک عناصر ور یہودی قبائل پر مشتمل ایک مشترک دستوری مملکت بھی تشکیل دے رہے ہیں جو قریشی خطرے کا مقابلہ متحد ہوکر کرے گی۔۔۔۔مکی زندگی میں آپ کو لچک اور صلابت کے حدود بھی ملیں گے اور عزیمت ورخصت کے اصول بھی، اور ان کے علاوہ ایسے بہت سے رہنما اصول ملتے چلے جائیں گے جو عہد حاضر میں ہمارے طرز عمل کی شرعی بنیاد ہوں گے۔
عہد مکی کے مطالعے میں اس دور کی دعوت کے عناصر کی تلاش ایک اہم موضوع بحث ہے، اس کے متعلق قرآن مجید میں بہت اہم مواد موجود ہے، جو اس پوری فضا کی نہایت مکمل اور مفصل تصویر کشی کرتا ہے جس میں اسلامی دعوت اپنا سفر طے کررہی تھی۔ قرآن مجید اس دور کی دعوت کے بنیادی عناصر بھی بیان کرتا ہے، اس وقت اس کے کیا دلائل دیے جارہے تھے؟ کس قسم کے اعتراضات اور شبہات پیش آرہے تھے؟ اس کو بھی واضح کرتا ہے، نیز اس کے بیانات کے بین السطور اور سلوٹوں میں یہ بھی پڑھا جاسکتا ہے کہ اس مخالفت بھری فضا کے کیا نفسیاتی اثرات اہل ایمان پر پڑتے تھے۔
عہدمکی کے مطالعے کے دوران رسول اللہ کے حکیمانہ طرز عمل کا گہرا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے، جس میں یہ پتہ لگانے کی کوشش کی جائے کہ آپؐ اس کثیر رخی مخالفت کا سامنا کس طرح کررہے تھے؟ کن شخصیتوں اور جماعتوں کو اللہ تعالٰی  نے آپ کے لیے ڈھال بنادیا تھا ؟ آپ کا ان شخصیتوں اور جماعتوں سے کس قسم کا رابطہ رہتا تھا؟۔
عہد مکی کا یک اہم باب ہجرت حبشہ ہے، ہجرت حبشہ کے دعوتی اور سیاسی پہلووں کو خاص طور پر اہمیت دینی چاہیے، یہ بات خاص طورپر نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ جنوبی اور مشرقی عرب کے قبائل فارسی حکومت کی سیاسی سرپرستی کے تحت تھے، اہل مکہ (اور اہل مدینہ) کے بھی کسری کے دربار سے تعلقات تھے، خود کسریٰ بھی ان علاقوں کے لوگوں کو اپنا محکوم جانتا تھا، اسی لیے جب اس کے پاس رسول اللہ کا خط پہنچا تو اس نے آمرانہ تکبر سے کہا: ’’یکتب الیّ ھذا وھو عبدی‘‘ (میرا غلام ہوکر مجھ سے اس طرح خطاب؟) اور اسی لیے اس نے اپنے یمن کے گورنر کو لکھا کہ وہ مدینہ دو آدمی (صرف دو) بھیج کر آنحضرت ؐ کو گرفتار کرواکر مدائن بھیج دے۔۔۔ اس پس منظر میں دیکھیے کہ رسول اللہ ؐ نے صحابۂ کرام کو حبشہ کی حکومت کے پاس بھیجا جو ایران کی ساسانی حکومت کی عالمی حریف سلطنت روما کے تابع اور اس کی ہم مذہب (عیسائی) تھی۔
حبشہ میں مسلمان ایک غیر مسلم حکومت کے ماتحت رہنے لگے ،جوان کو ان کی ذاتی زندگی میں مذہبی آزادی بھی دیتی تھی ،اور ان کی حفاظت بھی کرتی تھی، صحابہ کرام نے بھی اس حکومت سے وفاداری اور خیر خواہی کا ثبوت اس حد تک دیاکہ اس کے لیے اپنی فوجی خدمات تک پیش کیں۔۔۔۔ حبشہ میں مسلمانوں کا رویہ اور طرز عمل ہمارے سامنے حکمت عملی کے اہم دروازے کھولتا ہے، اسی طرح حضرت جعفرؓ کی نجاشی کے دربار میں کی گئی تقریر اسلامی دعوت وسیاست کا ایک شاہکار ہے۔
اہل علم وفکر کے لیے ایک سوال یہ بھی غور طلب ہے کہ وہ کون سی مصلحت تھی کہ جس کی خاطر مہاجرین حبشہ کو رسول اللہ نے امن وحفاظت اور آزادی کا وطن میسر ہونے کے بعدبھی اس وقت تک نہیں بلایا جب تک صلح حدیبیہ نہیں ہوگئی، یہ لوگ صلح حدیبیہ کے بعد جب عرب میں کوئی بڑی مخالفت نہیں رہ گئی تھی وہاں سے واپس ہوے اور فتح خیبر کے بعد آں حضرتؐ سے ملے۔
مکی دعوت کا ایک اہم باب موسم حج اور اس کے علاوہ رسول اللہ کی قبائل کے وفود سے ملاقات بھی ہے، جس میں آپ ان کو اسلام کی بھی دعوت دیتے تھے اور اپنے لیے پناہ اور حفاظت کی بھی فرمائش کرتے تھے۔
اس عہد کے مطالعے کا ایک اہم موضوع یہ ہے کہ مکہ والوں کی اور عام طورپر سارے عرب کی مخالفت کے کیا اسباب تھے؟ وہ اسلام دشمنی اور اس کار استہ روکنے کے لیے کیا کیا وسائل استعمال کرتے تھے؟ اسی طرح ایک نہایت اہم سوال جو بہت سے دلچسپ حقائق کو سامنے لائیگا، یہ ہے کہ کیا اہل مکہ اورقریش کے لیے کچھ ایسی اخلاقی رکاوٹیں یا قبائلی وخاندانی بندشیں تھیں جو عام طورپر ان کی مخالفت کو ایک حد سے آگے بڑھنے نہیں دیتی تھیں؟ راقم سطور کی نظر میں علامہ شبلی نعمانی وہ پہلے سیرت نگار ہیں جنہوں نے کسی حد تک یہ پتہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ قریش اور اہل مکہ اپنی مخالفت اور محاذ آرائی میں ان آخری حدوں تک کیون نہیں جاتے تھے جہاں تک جانے سے روکنے والی بظاہر کوئی مادی وجہ نہیں تھی؟راقم سطور کی ناقص نظر میں اس کا سبب آپسی قرابت داری اور خاندانی رشتوں کا پاس اور لحاظ تھا، جو عربوں کا قومی مزاج تھا، حتی کہ اگر بعض بدبخت اس مخالفت میں ان حدوں سے نکلنے کی کوشش کرنا چاہتے تھے تو بھی ان کو روکا جاتا تھا۔ رسول اللہ مکہ کے مخالفانہ اور خطرناک ماحول میں ایک طرف تو نہایت ثابت قدمی کے ساتھ اپنی دعوت پر جمے ہوئے تھے، دوسری طر ف آپ اپنی دعوت کی اور اپنے حامیوں کی حفاظت کے لیے مکی معاشرے کے اجتماعی نظام کو بھی استعمال کرتے تھے اور اس کے خیر کے پہلووں کی قدر کرتے تھے۔

عہد مدنی

ہجرت کا واقعہ غیر معمولی حد تک اہم اور سبق آموز ہے، اگر چہ آپ ؐ سے ابتداء نبوت میں ہی اس بات کا واضح خدائی وعدہ کرلیا گیا تھا کہ آپ کو اپنے مخالفوں پر واضح برتری حاصل ہوگی، اور آپ کا نبوی مشن مکمل ہوکر رہے گا، مگراس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان ساری احتیاطوں کا اور اپنی حدتک ان سارے وسائل کے اختیار کرنے کا حکم دیا جن سے اس عالم اسباب میں مخالفتوں کا مقابلہ کیا جاتا ہے، اور خطروں سے بچا جاتا ہے۔ ہجرت کے موقعے پر اگر چہ یہ یقین ہے کہ ’’ان اللہ معنا‘‘ اللہ ہمارے ساتھ ہے، اور اس کا آپ حضرت ابوبکرؓ کو اطمینان بھی دلاتے ہیں کہ ہم کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، مگر اس کے باوجود آپ چھُپتے بھی ہیں اور بھاگتے بھی ہیں، اور ساری احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرتے ہیں۔
سیرت نبوی کے تجزیاتی مطالعے میں یہ بات بھی غور وطلب ہے کہ مدینہ اور اہل مدینہ میں وہ کون سی خاص بات تھی جو اس کے خداوندی انتخاب کا سبب بنی؟ یہ جستجو مدینہ کی نسبۃََ کافی محفوظ جغرافیائی پوزیشن (۱) ،آپ ؐ کا مدینہ میں نانیہالی رشتہ (۲)، مدینہ کے عرب قبائل کا سادہ ونرم مزاج اور خوئے وفا، جیسے اسباب تک پہنچائے گی۔ اس کے علاوہ ایک تاریخی سبب بھی سامنے آتا ہے جس کی طرف امت کی ذہین ترین خاتون ام المومنین حضرت عائشہ کی عقل رسا پہنچی ہے۔ اوس وخزرج کے درمیان کئی دہائیوں سے جنگوں کا جو طویل سلسلہ چلا آتا تھا، اس نے ان کو کسی نجات دہندہ کے استبقال کے لیے ذہنی طور پر تیار کردیا تھا، وہ نجات دہندہ اسلام ثابت ہوا (صحیح بخاری)۔
مدینہ منورہ میں منافقین کے مسئلہ سے کس طرح نمٹاگیا، نیز منافقین اور ان کے طریقۂ واردات کا مطالعہ بھی ایک اہم موضوع ہے۔
رسول اللہ جب مدینہ منورہ پہنچے تھے تو مہاجرین کی حیثیت ایک کمزور پناہ گزیں گروہ کی تھی، انصار کبھی کوئی بڑی طاقت نہیں تھے، مدینہ میں مشرک خاندانوں کے علاوہ یہودیوں کی ایک بڑی طاقت بھی تھی جو الگ الگ قبائل میں منقسم اور اپنا دفاعی نظام رکھتے تھے، سارا عرب قریش کا پیرو اور ان کی مذہبی قیادت کا معترف تھا، آپؐ نے مدینہ پہنچ کر ایک کثیر معاشرتی اور مختلف سماجی اور فوجی طاقتوں پر مشتمل ایک ریاست کی تشکیل کی، جس میں مذہبی گروہوں اور قبائلی اکائیوں کے درمیان باہمی اعتماد، آزادی اورمساوات پر مبنی تعاون ودفاع کا نظام قائم ہوا، پھر اطراف کے مشرک قبائل سے دفاعی معاہدے کیے گئے، جس میں کچھ نے حمایت کے معاہدے کیے، کچھ نے اطلاع رسانی کے، اور کچھ نے کسی حملے کی صورت میں غیر جانبدار رہنے کے۔ آپ نے مدینہ پہونچنے کے بعد تقریبا ڈیڑھ سال انہی مہموں میں اور ان مقاصد کی تگ ودو میں بسر کیا، اس سلسلے میں غزوۂ بدر سے پہلے کے سرایا اور مہمات کے مقاصد کی کھوج اور ان کی دریافت نہایت ضروری کام ہے، پتہ چلا نا چاہیے کہ ان میں کیا مقاصد حاصل کیے گئے۔
یہ دور بڑی اہمیت کا حامل ہے، اس میں کمزور مسلم ممالک کے لیے نبوی حکمت عملی کی روشنی ہے۔غزوات نبوی کے اسباب اور پس منظر سے متعلق مزید تحقیق کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔اسلام کے عادلانہ قوانین کی روشنی میں اور صحیح روایات کی روشنی میں ان کا مطالعہ کیا جانا چاہیے، مدینہ میں جو اسلامی ریاست قائم ہوئی اس کی تنظیمات، شعبہ جات، اور طریق کار سے متعلق کام ابھی عام نہیں ہوئے ہیں، معاصر مورخین نے اس طرف توجہ کی ہے، ضرورت عمومی مطالعے کی ہے۔
سیرت نبوی کا ایک نہایت اہم موضوع وہ اخلاقی اور روحانی انقلاب ہے جو آپ ؐ کے ذریعہ دنیا میں آیا، جس کے بارہ میں ہر واقف کار دوست ودشمن کی شہادت ہے کہ دنیا میں کبھی اس سے زیادہ روح پرور بہارِ اخلاق وایمان نہیں آئی۔ سچی خدا پرستی ، عدل وانصاف، اور انسانوں کی محبت ونفع رسانی میں اس نسل کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی جس کو محمد رسول اللہؐ نے تیار کیا تھا۔ یہ سیرت محمدی کا سب سے بڑا کارنامہ اور سب سے بڑا معجزہ ہے۔

حواشی

۱۔مدینہ کے مشرق ومغرب کی جانب ’’حرے‘‘ یعنی ناقابل عبور نوکیلے پتھر تھے، جنوبی طرف گھنے نخلستان، شمال مغرب میں ’’سلع‘‘ نامی پہاڑی اور شمال میں احد کا پہاڑ، اس طرح مدینہ تقریبا ۳چوتھائی گھرا ہوا تھا۔
۲۔عربوں میں بھانجے اور نواسے کار شتہ بڑی حمیت اور غیرت کا ہوتا تھا، بسا اوقات کوئی مظلوم اپنے نانیہالی رشتہ داروں کی مدد سے ہی خطروں کا مقابلہ کرتا تھا، ان کی قبائلی غیرت کے لیے یہ رشتہ اتنا حساس ہوتا تھا کہ وہ عام طور پر اپنا جان مال قربان کرکے بھی اس رشتہ کا پاس رکھتے تھے۔

شیعہ سنی تعلقات اور متوازن رویہ ۔ ایک شیعہ عالم کے خیالات

ڈاکٹر یوگندر سکند

مولانا کلب صادق انڈیا کے ممتاز اثنا عشری شیعہ راہنما ہیں۔ ان کا تعلق لکھنو کے ایک ایسے علمی خانوادے سے ہے جس نے ماضی میں کئی علما پیدا کیے۔ ایک ممتاز عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کر چکے ہیں۔ طلبہ اور طالبات کے لیے ایسے تعلیمی ادارے قائم کر کے جن میں اسلامی کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی دی جاتی ہے، انھوں نے معاصر انڈیا میں علما کے لیے ایک نیا لائحہ عمل متعین کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ وہ ہندو مسلم مکالمہ کے ساتھ ساتھ شیعہ سنی اتحاد کے بھی کھلم کھلا داعی ہیں۔
شیعہ سنی تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کی ضرورت جناب کلب صادق کی تقریر وتحریر کے بنیادی موضوعات میں سے ہے۔ دوسرے بہت سے شیعہ علما کے برعکس، کلب صادق ماہ محرم میں امام حسین کی شہادت کی یاد میں منعقد ہونے والی مجالس کے موقع پر شیعہ سنی تعلقات میں بہتری کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔ ایسا بالخصوص ان متعدد مجالس میں ہوا جو انھوں نے پاکستان میں منعقد کیں، جہاں شیعہ سنی تشدد پسندی نے انتہائی خطرناک صورت اختیار کر لی ہے۔ ان کی مجلسوں میں بالعموم شیعہ اور سنی، دونوں طرح کے حاضرین شریک ہوتے ہیں۔ ان کے لیکچر وعظ وتبلیغ کے محدود مفہوم کے مطابق مخصوص شیعی نظریات کے ترجمان نہیں ہوتے۔ وہ قرآن پاک اور رسول اللہ ﷺ کی ان احادیث کا بار بار حوالہ دے کر، جو شیعہ اور سنی علما کے مابین متفقہ ہیں، معاصر حالات پر ان کا انطباق کرتے ہیں۔
کلب صادق نے انڈیا، پاکستان اور شمالی امریکہ میں مختلف مقامات پر جو متعدد مجالس منعقد کیں، ان میں سے بہت سی انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں اور یہ مضمون انھی پر مبنی ہے۔ کلب صادق بار بار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مجالس کے دو بنیادی مقصد ہیں: ایک، سامعین کو معلومات بہم پہنچانا اور دوسرے، ان کی اصلاح کرنا۔ دوسرے لفظوں میں مجالس کا مقصد ایک تو اسلام کی صحیح تعلیمات کو لوگوں تک منتقل کرنا ہے اور دوسرا ان کے مطابق لوگوں کے عقائد اور اعمال کی اصلاح کرنا۔ کلب صادق کی مجالس عام طور پر معاصر اہمیت رکھنے والے موضوعات سے بحث کرتی ہیں، مثلاً شیعہ سنی کشمکش، ہندو مسلم تصادم، جدید تعلیم اور عورتوں کے حقوق وغیرہ۔ ان مجالس کا آغاز بلا امتیاز کسی مخصوص مسئلے سے متعلق قرآن مجید کی کسی آیت سے ہوتا ہے جس کی بعد میں تشریح کی جاتی ہے اور زیر بحث مسئلے کے ساتھ اس کا تعلق واضح کیا جاتا ہے۔ مجلس کا بڑا حصہ اس حصے پر مشتمل ہوتا ہے۔ دوسرے بہت سے شیعہ علما کی مجالس کے بر عکس، امام حسین اور اہل بیت کی مظلومیت کا تذکرہ کلب صادق کی مجالس کا محض ایک جزوی حصہ ہوتا ہے، اور بالعموم لیکچر کے کل وقت کے نصف حصے سے بھی خاصا کم وقت اس میں صرف ہوتا ہے۔
شیعہ سنی اتحاد کے حوالے سے کلب صادق کا پیغام، جیسا کہ ان کی مجالس میں بیان ہوتا ہے، قرآن سے ماخوذ دلائل پر مبنی ہے۔ وہ شعوری طور پر شیعہ اور سنی مکاتب کے مابین اعتقادی اختلافات کے ذکر سے گریز کرتے ہیں اور اس کے بجائے مسلمانوں کے اتحاد پر زور دینے کے لیے بار بار قرآن مجید کا حوالہ دیتے ہیں۔ ایک مجلس میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ شیعہ اور سنی ۹۷ فی صد عقائد میں باہم متفق ہیں اور ان متفق علیہ عقائد پر ہی مسلمان مکاتب فکر کے باہمی افہام وتفہیم اور برداشت (Ecumenism) کی بنیاد رکھی جانی چاہیے۔ وہ استدلال کرتے ہیں کہ وہ تمام لوگ جو ایک خدا، حضرت محمد ﷺ اور قرآن مجید پر یقین رکھتے ہیں، اور جو ایک ہی کلمہ شہادت (لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ) زبان سے ادا کرتے ہیں، انھیں دیگر اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے مسلمان شمار کرنا چاہیے۔ وہ شیعہ اور سنی مکاتب کے مابین اور اسی طرح ہر ایک گروہ کے اندر پائے جانے والے ذیلی فرقوں کے مابین موجود اختلافات کی نفی نہیں کرتے لیکن انھیں اصرار ہے کہ یہ اختلافات نسبتاً غیر اہم ہیں اس لیے ان اختلافات کے باوجود انھیں ایک دوسرے کو مسلمان تسلیم کرنا چاہیے۔ وہ اپنے سامعین کو یاد دلاتے ہیں کہ سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور دوسرے مختلف القاب جو مختلف معاصر گروہوں نے اختیار کر رکھے ہیں، قرآن مجید میں مذکور نہیں۔ اس میں تو بس ’سچے اہل ایمان‘ کو ’مسلم‘ تسلیم کیا گیا ہے۔ چنانچہ ان کی رائے میں مسلمانوں کو، مختلف فرقوں کے ساتھ وابستگی کے باوجود، ایک دوسرے کو لازماً مسلمان تسلیم کرنا چاہیے۔
کلب صادق کی مجالس میں قرآن مجید کی ان مکرر تاکیدات کا حوالہ، بالخصوص شیعہ سنی کشمکش کے تناظر میں، اکثر دیا جاتا ہے جن میں اہل ایمان کو متحد رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ کلب صادق قرآن کے حوالہ سے کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے مابین پھوٹ ڈالنا اور تصادم پیدا کرنا شرک جیسے کبیرہ گناہ کے برابر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شرک، کفر سے بھی بدتر ہے اور وہ واحد گناہ ہے جسے اللہ تعالیٰ معاف نہیں کریں گے۔ ان کے نزدیک قرآن مجید کے اس ارشاد کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ امت کے مابین تقسیم کے نتیجے میں مسلمان محض ایسے انسانوں کی اتباع کرنے لگ جاتے ہیں جو اسلام کے مستند ترجمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور راہنمائی کا مصدر وماخذ بن کر قرآن کی جگہ خود سنبھال لیتے ہیں۔ بالفاظ دیگر فرقہ واریت کے نتیجے میں خدا کی جگہ انسان سنبھال لیتے ہیں جو کہ شرک کی ایک صورت ہے۔ چنانچہ ان کا استدلال یہ ہے کہ مختلف فرقوں کے وہ راہنما جو دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں، حقیقتاً ’شرک‘ کے مرتکب ہیں، جو کہ کفر سے بھی کہیں بدتر جرم ہے۔
کلب صادق کی نظر میں شیعہ سنی کشمکش حقیقت میں ایک سیاسی مسئلہ ہے نہ کہ مذہبی۔ ان کا اصرار ہے کہ شیعہ اور سنیوں کی اکثریت عملاً ایک دوسرے کو مسلمان تصور کرتی اور پرامن بقائے باہم پر یقین رکھتی ہے۔ دوسری طرف شیعہ سنی منافرت کو بھڑکانے میں امت کے دو دشمنوں، یعنی امریکا اور ملاؤں کے گہرے مفادات وابستہ ہیں۔ وہ تہذیبوں کے تصادم کے حوالے سے سموئیل ہنٹنگٹن کے مشہور نظریے کے حوالہ دیتے ہیں جس کا دعویٰ ہے کہ اقوام مغرب کے تسلط کو آج اسلام کی صورت میں ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے اور اس کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر باہمی تقسیمات کو فروغ دیا اور فرقہ وارانہ کشمکش کو بھڑکایا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں کا کردار بھی، جنھیں وہ حقارتاً ’’ملا‘‘ کہتے ہیں، اگر اس سے زیادہ نہیں تو اس کے برابر مجرمانہ ضرور ہے۔ وہ ’علما‘ اور ’ملا‘ کے مابین واضح فرق قائم کرتے ہیں۔ وہ اس پر زور دیتے ہیں کہ حقیقی ’علما‘ بے حد تعظیم کے مستحق ہیں کیونکہ وہ اسلام کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ لیکن انھیں اصرار ہے کہ ’’ملا‘‘ محض نیم پختہ مولوی ہوتے ہیں جو ہر وقت دنیا کے حقیر مفادات کی خاطر اپنے ضمیر اور دین ومذہب کا سودا کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ایسے ’’ملا‘‘ اسلام کی پوری تاریخ میں موجود رہے ہیں اور ان کا آغاز یزید جیسے جابر حکمران کے دربار کے چیف جسٹس سے ہوا تھا جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس نے یزید کے کہنے پر امام حسین کے قتل کے حق میں ایک فتویٰ جاری کیا جس پر اسے بیش بہا انعام واکرام سے نوازا گیا۔
اس قسم کے بے ضمیر ملا شیعہ اور سنی، دونوں گروہوں میں ملتے ہیں۔ دوسرے تمام مسلمان گروہوں کو کافر قرار دینے اور ان کے خلاف تشدد کو بھڑکانے میں ان کا گہرا مفاد پوشیدہ ہوتا ہے کیونکہ صرف اس صورت میں وہ اسلام کے حقیقی ترجمان ہونے کے اپنے دعوے کو تسلیم کروا سکتے ہیں۔ وہ جتنا زیادہ چیخیں چلائیں گے اور دوسرے مسلمان گروہوں کے خلاف جس قدر زیادہ پرتشدد حملے کریں گے، اتنی ہی حمایت انھیں میسر آتی چلی جائے گی اور اس کے نتیجے میں ان کی طاقت اور دولت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ ان کا کاروبار عام مسلمانوں کی جہالت کی وجہ سے ترقی پاتا ہے کیونکہ عوام کو حقیقی دنیا اور اسلامی تعلیمات سے انجان رکھنے میں ہی ان کی بقا کا راز مضمر ہے۔ چنانچہ کلب صادق کے نزدیک علم ایک فوری اور خاص ضرورت ہے، خاص طور پر شیعہ سنی اتحاد کو پروان چڑھانے کے لیے۔ یوں لکھنو میں ان کے زیر انتظام چلنے والے ادارے یونٹی کالج میں شیعہ اور سنی دونوں طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ .......
کلب صادق شیعہ اور اہل سنت کے مابین اہم اعتقادی اختلافات کی موجودگی کی نفی نہیں کرتے، نہ ہی وہ شیعہ فہم اسلام کے ساتھ اپنی وابستگی کا انکار کرتے ہیں، اگرچہ بعض نکات پر ان کی رائے روایتی شیعہ علما سے مختلف دکھائی دیتی ہے۔ ان کی رائے یہ ہے کہ تمام مسلمان گروہ اپنے اپنے طریقے پر اسلام کو سمجھنے کا حق رکھتے ہیں لیکن وہ اس پر اصرار کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ دوسرے نقطہ ہائے نظر کے بارے میں رواداری بھی پائی جانی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک حقیقی عالم وہ ہے جو اپنے فہم کے ساتھ وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے اظہار کے لیے پرامن مکالمے اور علمی انداز کو اختیار کرتا ہے، نہ کہ دوسروں کے خلاف تشدد کی آگ بھڑکانے یا ان کے بارے میں تکفیری فتوے جاری کرنے کا۔ یہ ’’ملاؤں‘‘ کا طریقہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چونکہ ملاؤں نے جان بوجھ کر مختلف مسلمانوں گروہوں کے مابین ایک دیوار کھڑی کر رکھی ہے، اس لیے شیعہ اور سنی، دونوں کے ہاں ایک دوسرے کے بارے میں انتہائی مسخ شدہ تصورات رائج ہیں۔ وہ مختلف فرقوں کے علما سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ذاتی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ رکھیں کیونکہ صرف اس طریقے سے باہمی غلط فہمیوں کا ازالہ ممکن ہے۔ تاہم شیعہ سنی مکالمہ صرف علما کی سطح تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ کلب صادق تو یہاں تک کہتے ہیں کہ شیعہ اور سنی مسلمانوں کے لیے اور پھر سنی مسلمانوں کے اندر دیوبندی، اہل حدیث اور بریلوی مکاتب فکر کے لیے الگ الگ مسجدوں کا نظام بھی ختم ہونا چاہیے اور تمام مسلمانوں کو مل کر مشترک مساجد میں نماز ادا کرنی چاہیے۔ اس سے مختلف گروہوں کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملنے کا موقع ملے گا اور اس کے نتیجے میں غلط تصورات اور شکوک وشبہات کے ازالے میں خاصی مدد ملے گی۔ 
کلب صادق اپنے پاکستانی سامعین کے سامنے انڈیا کے مسلمانوں کی مثال پیش کر کے انھیں اس کی پیروی کی اکثر تلقین کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے برخلاف، انڈیا میں شیعہ سنی کشمکش بالکل عنقا ہے، تاہم وہ یہ بات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس میں اس حقیقت کو بھی خاصا دخل ہے کہ انڈیا میں مسلمان اقلیت ہیں اور انھیں جارحانہ مسلم دشمن ہندتوا کی طرف سے خطرے کا سامنا ہے۔ وہ انڈیا کے متعدد سنی علما کے ساتھ اپنے قریبی ذاتی تعلقات کا حوالہ دیتے ہیں اور انھیں سنی حلقوں میں جو احترام حاصل ہے، اس کی بھی بات کرتے ہیں۔ یہ کوئی خالی خولی بڑھک نہیں، کیونکہ کلب صادق کو حقیقتاً انڈیا کے سنی راہنماؤں میں ایک باعزت مقام حاصل ہے جس کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ کئی سال تک سنی اکثریت کے حامل آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر انڈیا میں ایسا ہو سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان یا دنیا کے کسی اور ملک میں شیعہ سنی اس طریقے پر نہ چل سکیں۔ 
(islaminterfaith.org)

مکاتیب

ادارہ

(۱)
مکرمی جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب حفظکم اللہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ORE کی مطبوعہ چند کتب کی شکل میں آپ کا بھیجا ہوا ہدیہ موصول ہوا۔ آپ کی اس نوازش کا بہت بہت شکریہ۔ ان میں بعض کتب سے استفادہ بھی کیا۔ حدود آرڈیننس کے بارے میں کتابچے کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ اس کی بیشتر آرا تو ضرورت سے زیادہ جدت پسندی معلوم ہوئیں، البتہ زنا بالجبر، متضررہ عورت پر حد قذف جاری کرنے میں جلد بازی اور عورت کی گواہی کے بعض پہلو واقعی سنجیدہ غور وفکر کے متقاضی معلوم ہوتے ہیں۔ راقم الحروف کا اداریہ بھی چند ماہ پہلے ’’الصیانہ‘‘ میں اس موضوع پر چھپ چکا ہے۔
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ نے دینی جرائد میں ایک مستحسن روایت قائم کی ہے کہ وہ ہر نقطہ نظر اس کے دلائل کے ساتھ اپنے قارئین کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ اللہ کرے ہمارے بعض حلقوں میں غیر منصوص مسائل میں بھی دوسرے کا نقطہ نظر نہ سننے بلکہ جلدی سے اس کی نیت پر حملہ آور ہونے کا جو رجحان پایا جاتا ہے، اس کا ’الشریعہ‘ کے اس طرز عمل سے کچھ علاج ہو جائے۔ البتہ ایک بات محسوس ہوتی ہے کہ احقر کے ناقص خیال میں ’’الشریعہ‘‘ محض ایک علمی وتحقیقی مجلہ نہیں ہے بلکہ دعوتی جریدہ بھی ہے۔ ایک خالص علمی وتحقیقی رسالے کا کام محققین کے نتائج بحث قارئین تک پہنچانا ہوتا ہے۔ ان پر مرتب ہونے والے اثرات سے انھیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ جبکہ ایک مشن رکھنے والے دعوتی رسالے یا کسی بھی داعی کو اپنی کہی ہوئی بات اور کیے ہوئے عمل- خواہ وہ بذات خود کتنا ہی صحیح ہو- پر مرتب ہونے والے اثرات کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔ صحیح بخاری شریف کا باب ’’باب من ترک الاختیار الخ‘‘ تو ضرور جناب کے مدنظر ہوگا۔ امید ہے کہ ’’الشریعہ‘‘ میں چھپنے والے مضامین کا اس نقطہ نظر سے بھی جائزہ لیا جاتا ہوگا۔ مجھ جیسے کا آپ جیسے فرد اور گھرانے کو مشورہ دینا تو ’’حکمت بلقمان آموختن‘‘ والی بات ہوگی۔ مسجد اقصیٰ والے مسئلے میں بھی جناب نے جس نقطہ نظر کو دیانت داری سے درست اور برحق سمجھا، بڑی وضاحت کے ساتھ علمی اور تحقیقی انداز میں اسے بیان فرما دیا۔ میرا اندازہ ہے کہ اس موضوع پر مزید بحث نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہوگا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ’’الشریعہ‘‘ کی آواز کو دو بعد المشرقین لیکن ملت کا درد رکھنے والے حلقوں میں یکساں مقبول بنا کر اس سے پل کا کام لے لے۔
بندہ دعاؤں کا بہت محتاج ہے۔
والسلام
(مولانا مفتی) محمد زاہد
جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد
۱/۵/۱۴۲۵ھ
(۲) 
محترم عمار صاحب
السلام علیکم
مجھے آپ کے جریدے کی جانب سے جون کا شمارہ اور سابقہ کچھ شمارے موصول ہوئے۔ میں آپ کا نہایت ممنون ہوں۔ جواب دینے میں تاخیر کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ امید ہے آپ درگزر کریں گے۔
آپ نے جون کے شمارے میں میرا مضمون ترجمہ کر کے شائع کیا ہے، ’’قومی نصاب تعلیم کے فکری اور نظریاتی خلا‘‘۔ نہایت بامحاورہ اور خوب صورت ترجمہ ہے۔ میں خود بھی ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ ایک دفعہ پھر میری طرف سے شکریہ۔
SDPI رپورٹ پر پروفیسر انعام الرحمن صاحب کا تبصرہ پڑھا۔ اختلاف کا حق محفوظ رکھتے ہوئے میں یہ کہوں گا کہ آپ لوگوں کا رویہ صحت مندانہ اور صاحبان فہم کے شایان شان ہے۔ ہمارے نظریات اپنی جگہ، لیکن معروضی انداز میں ایک دوسرے کے خیالات پر تبصرہ Intellectual discourse کی بنیاد ہے۔
میں آپ کی اور آپ کے جریدے کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں۔
احقر
(ڈاکٹر) خورشید حسنین
شعبہ طبیعیات۔ قائد اعظم یونیورسٹی
اسلام آباد
(۳)
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
محترمی مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بہت عرصہ سے چند گزارشات آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا تھا، بوجوہ ایسا نہ کر سکا۔ جولائی ۲۰۰۴ء کا ’الشریعہ‘ دیکھا تو بلا اختیار یہ سطور لکھنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہوں۔ ’الشریعہ‘ کا تازہ شمارہ کسی حد تک ان فکری فرو گزاشتوں کا ’کفارہ‘ کہا جا سکتا ہے جن کا ارتکاب عزیزی عمار خان گزشتہ چند ماہ سے کسی ضمیر کی خلش کے بغیر حد درجہ جوش وخروش کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔ مولانا حبیب نجار نے یہودی مذہبی پیشوا اسرائیل ڈیوڈ کے مسئلہ فلسطین کے متعلق خیالات کو عربی اخبار ’المستقبل‘ سے نقل کر کے قابل تعریف کام کیا ہے۔ حق بات یہ ہے کہ ڈیوڈ اسرائیل پہلے یہودی ربی نہیں ہیں جنہوں نے مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمان کے صہیونی دعویٰ کو غلط قرار دیا ہے۔ تورات کی تعلیمات کے سچے پیروکار یہودی عالموں کی ایک کثیر تعداد یہی رائے رکھتی ہے مگر عمار ناصر جیسے تازہ واردان بساط قلم ان کی نگارشات سے یکسر بے بہرہ ہیں اور اپنی اس لاعلمی کو امت مسلمہ کے عادلانہ موقف کی تردید کے لیے بنیاد وجواز ٹھہرانے میں انہیں نہ اسلامی حمیت باز رکھ سکتی ہے اور نہ ہی تحقیق ودانش کے خود ساختہ بلند دعوے !!
مجھے معلوم نہیں ہے کہ عزیزی عمار ناصر نے فلسطین اور بیت المقدس پر یہودیوں کا حق ’ثابت‘ کرنے کے لیے جس قلمی جدوجہد کا مظاہرہ کیا، اس کے پس پشت کسی ’علمی ذہنیت‘ کے طفلانہ اظہار کا وقتی جوش کار فرما تھا یا پھر وہ غیر شعوری طور پر ایک گروہ کے عزائم کی تکمیل کے لیے آلہ کار بننے پر آمادہ ہوئے۔ دلوں کے حال تو خدا جانتا ہے مگر ان کے مضامین ہر اس مسلمان کی دل آزاری کا باعث بنے ہیں جو امت مسلمہ کا ذرہ سا درد بھی اپنے اندر رکھتا ہے۔ یہ بات بے حد قابل افسوس ہے کہ آپ نے صاحبزادہ موصوف کے شر انگیز خیالات کی حوصلہ شکنی کی بجائے الٹا تائید فرما کر اس کی پیٹھ ٹھونکنا ہی مناسب سمجھا۔ آپ نے اپنے ایک اداریے میں عمار ناصر کے مضامین پر کی جانے والی تنقید کو محض ’طعن وتشنیع‘ کہہ کر صاحبزادے کی ناپختہ تحقیق کو بلند پایہ علمیت کا رنگ چڑھانے کی پدرانہ کاوش بھی فرمائی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس ’طعن وتشنیع‘ کی ترکیب کا روئے نگارش راقم کی ان معروضات کی طرف تھا جو ’محدث‘ میں شائع ہوئیں۔ کاش کہ آپ جان سکتے کہ آپ کے متعلق قائم کردہ حسن ظن کو آپ کی ان تحریروں سے کس قدر نقصان پہنچا ہے۔ تحریک ختم نبوت سے وابستہ ایک عالم دین نے اس کے بعد آپ کا تذکرہ جن الفاظ میں فرمایا، اس کو اسلامی اخلاقیات بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتی!!
مولانا محترم! عمار ناصر نے اپنے طویل مضامین میں زیادہ تر ان حوالہ جات اور خیالات کو جگہ دی ہے جو صہیونی تحریک کے پھیلائے ہوئے ہیں۔ موصوف حقیقی یہودیت اور صہیونیت کے درمیان تاریخی فرق کا ادراک کرنے سے قاصر معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے طویل مقالہ میں فری میسن تحریک کا عدم تذکرہ بھی ان کی یہودی تاریخ کے محض صہیونی رخ سے آگاہی کا پول کھولتا ہے۔
مجھے معلوم نہیں ہے کہ عمار ناصر کی انگریزی زبان سمجھنے کی استعداد کس قدر ہے، مگر اس فرنگی زبان میں فری میسن تحریک اور صہیونی فریب کاریوں کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے جس کے سرسری مطالعہ ہی سے مسئلہ فلسطین کے تاریخی وسیاسی پس منظر کے بارے میں جانا جا سکتا ہے۔ کسی مسئلے کے متعلق من چاہے یک طرفہ اعداد وشمار کا انبار لگا کر اسے ’علمی تحقیق‘ کا نام دیا جا سکے تو مجھے بھی عمار ناصر کے مضامین کو ’علمی تحقیق‘ ماننے میں تامل نہ ہوگا۔
محترمی! یہودی ربی ڈیوڈ کے یہ الفاظ ’’اس جگہ پر مسلمانوں کا حق ہے۔ تورات کے حکم کے مطابق یہودیوں کو اس مقام کی ملکیت کا حق تو کجا، ان کا اس میں داخلہ بھی ممنوع ہے۔‘‘ (الشریعہ) آپ کے لیے چشم کشا نہیں ہیں؟ عمار ناصر نے اپنے غلط موقف کی تائید میں جو خون پسینہ بہایا ہے، اس سے یہ توقع کرنا تو شاید عبث ہوگا کہ وہ اپنے علمی پندار سے ذرا اوپر اٹھ کر فراخ دلی سے اپنے موقف سے رجوع کرے، مگر آپ نے جس انداز میں اس کے موقف کی تائید کی، اس سے دست بردار ہونا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ میری طرح بہت سے افراد جو آپ کی علمی سرگرمیوں کے معترف رہتے ہیں، آپ کا تازہ موقف سننے کے لیے بے تابانہ اشتیاق رکھتے ہیں۔
میری یہ تلخ معروضات ’الشریعہ‘ کے عالمانہ صفحات پر جگہ پانے کی شاید مستحق نہ سمجھی جائیں اور نہ ہی میں اس ضمن میں درخواست کرنا مناسب سمجھتا ہوں، البتہ اتنی سی خواہش ضرور ہے کہ آپ کے دل میں اگر یہ کچھ جگہ پا سکیں تو ممنون کرم ہوں گا۔
والسلام
فقط، خیر اندیش
محمد عطاء اللہ صدیقی
۹۹/جے، ماڈل ٹاؤن، لاہور
(۴)
محترم ومکرم جناب عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم!
مسجد اقصیٰ کے متعلق آپ کی علمی تحقیق کو سلام پیش کرتا ہوں۔ گوجرانوالہ پیپلز کالونی میں میری رشتہ داری ہے، اس لیے گاہے گاہے گوجرانوالہ شہر آنا جانا رہتا ہے۔ اب کے جب بھی میں گوجرانوالہ گیا تو آپ کے نیاز حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔
سورہ اسرا کی پہلی آیت بے حد اہمیت کی حامل ہے لیکن بدقسمتی سے اس پر روایات کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ میری درخواست ہے کہ اس پر بھی تحقیق فرما کر ان پردوں کو ہٹائیں، جیسا کہ آپ نے مسجد اقصیٰ کے متعلق کی ہے۔ قرآن کریم کے موجودہ تراجم ایک ہی طرح کے ہیں، جن سے میرے جیسے کم علم کو ماسوائے عقیدت وعجز کے کچھ پلے نہیں پڑتا۔ ایک ترجمہ وتفسیر خواجہ احمد الدین امرتسری صاحب کا بھی ہے۔ وہ دوسرے علماء کرام سے مختلف ہے لیکن اس میں بھی مجھ کم علم کی دانست میں تاویل سے زیادہ کام لیا گیا ہے۔ ممکن ہے درست ہی ہو۔ یقیناًآپ بھی اس ترجمہ سے واقف ہوں گے۔ اس میں انہوں نے ’اقصا المدینۃ‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ صحیح ہیں یا غلط، ان پر بھی آپ ہی روشنی ڈال سکیں گے۔ جن آیات قرآنی کا انہوں نے اس میں حوالہ دیا ہے، وہ کوشش کے باوجود تلاش نہیں کر سکا۔ شاید حوالہ غلط چھپ گیا ہو۔ یقیناًآپ بھی اس ترجمہ سے واقف ہوں گے، لیکن احتیاطاً اس کی فوٹو کاپی ارسال خدمت ہے۔
میں نے ایک دوست کے پاس دس بارہ صفحات پر مشتمل مختصر سا ایک کتابچہ (تقریبا 5X7 سائز کا) دیکھا تھا۔ اس میں اسی سورہ اسرا کی پہلی آیت کے متعلق مضمون تھا، جس میں اگر میں بھول نہیں گیا تو گجرات کے مشہور ومعروف عالم انور علی شاہ صاحب کے حوالے سے لکھا تھا کہ کسی زمانے میں مدینہ منورہ کا نام ’اقصیٰ‘ بھی رہا ہے۔ یہ بھی ایک تاریخی بات ہے۔ اس پر بھی آپ ہی تحقیق کر سکتے ہیں۔ میں نے وہ کتابچہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس دوست نے کتابچہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ البتہ ناشر کا پتہ میں نے نوٹ کر لیا تھا جو کہ منڈی بہاؤ الدین کے کسی بک ڈپو کی طرف سے شائع ہوا تھا۔ میں اس کتابچہ کی تلاش میں منڈی بہاؤ الدین گیا اور متعلقہ بک ڈپو کو تلاش کرتا رہا لیکن افسوس کہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔ 
اس کتابچہ میں بھی اس سورہ اسرا کی پہلی آیت کو نبی کریم ﷺ کی مکہ مکرمہ (بیت الحرام) سے رات کے وقت اقصیٰ المدینہ کی طرف ہجرت بتائی گئی تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے برکتیں اور نشانیاں رکھی تھیں۔ وہ نشانیاں اور برکتیں درج ذیل ہیں جو کہ تصوراتی نہیں، حقیقی ہیں:
۱۔ مکہ مکرمہ سے رات کے وقت مدینے کے لیے ہجرت۔
۲۔ اسی ہجرت کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ اور ان کے صحابہ رضوان اللہ علیہم ودیگر تمام مہاجرین کو پروانہ جنت عطا فرمایا (برکتیں)۔
۳۔ وہاں (مدینہ منورہ) پہنچنے کے بعد کفار ومشرکین سے خوفناک وخون ریز تصادمات (قدرت کی نشانیاں)۔
۴۔ فتح مکہ ایک عظیم واقعہ (برکتیں)۔
۵۔ آخر الامر دین اسلام کا تمکن وغلبہ اور اللہ کی کبریائی قائم ہوئی۔ مدینہ منورہ اسلامی حکومت کا دار الخلافہ بنا (برکتیں)۔
۶۔ نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں ہی اسلامی مملکت کا دائرہ اختیار دس لاکھ مربع میل تک پھیل چکا تھا۔ (جس کے ارد گرد برکتیں)
اب میں سورہ اسرا کی پہلی آیت کا ترجمہ پیش کرتا ہوں:
’’وہ ذات پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام (یعنی کعبہ) سے مسجد اقصیٰ، جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں، لے گیا تاکہ اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائے۔ بے شک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‘‘
یہ ایک مروجہ عام ترجمہ (فتح محمد جالندھری) ہے۔ اس پر اگر تھوڑی سی توجہ اور غور کیا جائے تو اس میں وہ سب کچھ موجود ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے جس کا ترتیب کے ساتھ میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ مسجد اقصیٰ سے متعلق آپ کی تحقیق کے بعد سورہ اسرا کی پہلی آیت کی تعبیر وتشریح یہی بنتی ہے۔ 
مسجد اقصیٰ سے متعلق آپ کی اس تحقیق کے سامنے آنے کے بعد معاً میرے پردۂ خیال میں وہ کتابچہ اور اس کا مضمون سامنے آ گیا۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اسے محترم عمار خان ناصر صاحب کی خدمت میں پیش کر دیا جائے تاکہ وہ بذات خود اور دیگر علماء کرام بھی اس پر غور وفکر کر سکیں۔
نیاز آگیں
آفتاب عروج
(۵)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مکرمی آفتاب عروج صاحب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
مزاج گرامی؟
آپ کا مکتوب ملا۔ شکریہ
سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں مذکور ’المسجد الاقصیٰ‘ کے مصداق سے متعلق آپ کے استفسار کے جواب میں عرض ہے کہ مجھے اس باب میں کوئی شبہہ نہیں کہ اس سے بیت المقدس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی تعمیر کردہ مسجد ہی مراد ہے۔ جن لوگوں نے محض اس کے لغوی معنی یعنی ’’دور کی مسجد‘‘ کو ملحوظ رکھتے ہوئے مکہ مکرمہ سے دور واقع کسی اور مسجد کو اس کے مصداق کے طور پر متعین کرنے کی کوشش کی ہے، انھوں نے آیت کے سباق کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے۔ واقعہ اسرا سے گفتگو کا آغاز کر کے اللہ تعالیٰ نے اسی سلسلہ بیان کو آگے بڑھاتے ہوئے بنی اسرائیل کو تورات جیسی نعمت عطا کرنے اور پھر اس سے روگردانی کی پاداش میں ان پر مسلط کی جانے والی دو تاریخی تباہیوں کا ذکر کیا ہے۔ اسی ضمن میں آیت ۷ میں ہیکل سلیمانی کی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے ’ولیدخلوا المسجد‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ عربی زبان کے قاعدے کے مطابق اگر ایک مسلسل اور مربوط کلام میں ایک ہی لفظ دو مقامات پر معرفہ کی صورت میں استعمال ہوا ہو تو دونوں جگہ اس کا مصداق لازمی طور پر ایک ہی ہوتا ہے۔ اس اصول کی رو سے پہلی آیت میں ’المسجد الاقصی‘ اور ساتویں آیت میں ’ولیدخلوا المسجد‘ کا مصداق کسی طرح سے بھی الگ الگ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 
جہاں تک سورۂ بنی اسرائیل کے موضوع اور مضامین کے ساتھ اس ’ابتدائیہ‘ کے تعلق کا سوال ہے، تو وہ بالکل واضح ہے۔ سورہ میں مشرکین مکہ اور یہود دونوں کو مشترک طور پر مخاطب بنایا گیا ہے اور اس ابتدائیہ میں دونوں کو ان کے انجام کی تصویر دکھا دی گئی ہے۔ یہود کو سابق سورہ، النحل کی آیت ۹۴ میں یہ وارننگ دی گئی تھی کہ اگر وہ دین حق کے خلاف اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو سرزمین عرب میں ان کو ایک عرصے سے باعزت اور پرامن زندگی گزارنے کا جو موقع میسر ہے، وہ ان سے چھین لیا جائے گا۔ (فتزل قدم بعد ثبوتہا وتذوقوا السوء بما صددتم عن سبیل اللہ) اسی دھمکی کو سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں زیادہ واضح صورت میں اور تاریخی شواہد کی تائید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کے محاسبہ کی یہی تفصیل بعینہ مشرکین کے لیے بھی سبق آموز ہے، کیونکہ اس میں یہ صاف اشارہ موجود ہے کہ جس طرح تورات سے انحراف اور بے دینی کے نتیجے میں بنی اسرائیل کو ہیکل سلیمانی کی تولیت سے محروم کیا گیا، مشرکین بنی اسمٰعیل سے بھی مسجد حرام کی تولیت کا حق عنقریب بالکل اسی طرح چھین لیا جائے گا۔
باقی رہا خواجہ احمد الدین صاحب کا یہ استدلال کہ چونکہ سورۂ بنی اسرائیل کے نزول کے وقت حضرت سلیمان علیہ السلام کی مسجد موجود نہیں تھی، اس لیے وہ اس کا مصداق نہیں ہو سکتی تو اس کی غلطی میں اپنے مضمون (الشریعہ، اپریل/مئی ۲۰۰۴ء) میں واضح کر چکا ہوں۔ ’مسجد‘ دراصل عمارت کو نہیں بلکہ اس قطعہ زمین کو کہتے ہیں جسے عبادت گاہ کے طور پر مخصوص کر دیا جائے۔ عمارت ایک اضافی اور ثانوی چیز ہے۔ اگر کسی وقت عمارت قائم نہ رہے تو بھی مسجد کی حیثیت سے اس قطعہ زمین کا تقدس اور احکام برقرار رہتے ہیں۔ 
امید ہے کہ یہ وضاحت باعث تشفی ہوگی۔ 
عمار ناصر
۱۸ جولائی ۲۰۰۴ء
(۶)
بخدمت جناب مکرمی علامہ زاہد الراشدی صاحب دامت برکاتہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مزاج گرامی؟
اسلامی تعلیمات واخلاقیات کو خوب صورت انداز میں امت مسلمہ میں متعارف فرمانے کے لیے آنجناب کی کاوشیں لائق صد تحسین ہیں۔ 
ماہنامہ ’الشریعہ‘ جون ۲۰۰۴ء کے شمارے میں پروفیسر میاں انعام الرحمن کا مضمون ’’دین اسلام کی معاشرتی ترویج میں آرٹ کی اہمیت‘‘ شائع ہوا تھا۔ موصوف نے اپنے مضمون میں علماء کرام پر تنقید اور خود کو مجتہد ثابت کرنے کے لیے جو کچھ تحریر کیا تھا، قارئین سے مخفی نہیں۔ مطالعہ کرنے کے بعد دل میں اس کا جواب تحریر کرنے کا پرجوش داعیہ تھا لیکن بعض نامساعد حالات اور مصروفیات کی وجہ سے تاخیر ہو گئی۔ اگلے شمارے میں جب مولانا محمد یوسف صاحب دامت برکاتہم کا مکمل ومدلل جواب آیا تو دل ٹھنڈا ہو گیا۔ جناب نے جس طریق سے مجتہد صاحب کا جواب لکھا ہے، لائق صد تحسین بلکہ ہزار تحسین ہے۔ اللہ موصوف کی زندگی میں مزید برکت عطا فرمائے۔
مجھے میاں صاحب سے تو شکوہ ہے ہی کہ اس نے علماء کرام کی عزت اپنے بے بنیاد خیالات کے باعث تمام مسلمانوں کے سامنے لوٹی، لیکن مدیر ماہنامہ ’الشریعہ‘ سے بھی شکوہ ہے کہ آپ نے اس طرح علماء کرام کے دشمن اور بزعم خود مجتہد کا مضمون اپنے رسالے میں کس لیے شائع کیا۔ اس میں کون سا سرخاب کا پر لگا ہوا ہے کہ اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا؟ بہرحال میں مولانا محمد یوسف صاحب دامت برکاتہم کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ آپ نے علماء کرام کی نمائندگی کرتے ہوئے مجتہد صاحب کے اجتہاد کا جواب دیا اور مدیر ماہنامہ سے امید رکھتا ہوں کہ آئندہ ایسے بیانات ومضامین شائع کرنے سے گریز فرماویں۔ 
اللہ تعالیٰ علماء کرام کی عزت کو برقرار رکھے۔ آمین
(نوٹ) خط کو مکاتیب ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں ضرور شائع کریں۔ شکریہ
والسلام۔ خیر اندیش
عبد الودود نعمانی
۱۲ جولائی ۲۰۰۴ء

شوق سفر تا حشر

پروفیسر میاں انعام الرحمن

(سید افضل حسین مرحوم کے مجموعہ کلام ’’منزل آوارگاں‘‘ کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا۔)

سید افضل حسین مرحوم سے ناچیز کی براہ راست تو کوئی شناسائی نہیں لیکن ان کے فرزند سید وقار افضل سے نیاز مندی کے توسط سے مرحوم کی شخصیت سے واقفیت کا سلسلہ ضرور شروع ہوا ہے۔ جناب وقار افضل کی وضع داری اور ان کی گفتگو کاربط وضبط ہمیں کافی حد تک ان کے پدر محترم کا خاکہ فراہم کر دیتا ہے کہ بیٹا ایسا ہے تو مرحوم خود کیسے ہوں گے، لیکن ’’منزل آوارگاں‘‘کے منظر عام پر آنے سے ان کے شخصی خاکے کو تکمیل رنگ تو ملا ہی ہے، ہم جیسوں کے لیے بھی یقیناآسانی پیدا ہوگئی ہے۔ 
اس شعری مجموعے کا خالق شخص بلاشبہ ایسی نفسیات کا حامل ہے جس کے ہاں روایات اور تہذیبی اقدار ہر شے پر فوقیت رکھتی ہیں۔ سرسری مطالعے سے ہی کسی بھی قاری کو جہاں غزل کی کلاسیکل روایت سے سابقہ پڑتا ہے، وہاں تشبیہات، استعارے اور علامات کا فارسی پس منظر ان کی روایت پسندی پر مہر تصدیق ثبت کرنے آن موجود ہوتا ہے۔ سید افضل مرحوم نے لفظ ’شوق‘ کثرت سے استعمال کیاہے۔ ’شوق نگاہ‘ سے ’شوق سفر‘ تک اس لفظ کی جتنی معنوی پرتیں ہیں، انہوں نے کمال شوق سے انہیں کھولنے کی خوبصورت کاوش کی ہے۔ لفظ شوق سے بھی ازخود کلاسیکل روایت سے نبھاؤ کا سبھاؤ جھلکتا ہے۔ طوالت سے بچنے کی خاطر شعروں کا حوالہ دینے کے بجائے چند تراکیب کے تذکرے پر اکتفاشاید کافی ہو گا: لمحہ شوق، کاروبار شوق ، شوق دل، شوق سفر، مکتوب شوق، چراغ شوق، داستان شوق، منتہائے شوق، شوق سحر، عرض شوق، شوق گل، شوق وصل وغیرہ۔ اس کے ساتھ اگر معنوی اعتبار سے مشتق الفاظ و تراکیب کو بھی شامل کر لیا جائے تو یقیناً’عرض شوق‘ ’داستان شوق‘ میں ڈھل جائے گی کہ :
پھیلے تو تا ابد ہے جو سمٹے تو اک نظر
لمبی ہے عرض شوق بڑی مختصر بھی ہے
سید افضل حسین مرحوم کا شوق سفر اس اعتبار سے منفرد کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے دوران سفر اردگرد کے حالات سے آنکھیں بند نہیں کیں۔ عموماً ہوتا یہی ہے کہ انسان اپنی توجہ اپنے مقصود پر مرکوز رکھتا ہے لیکن ہمارے شاعر نے بڑے خوبصورت پیرایے میں ان لوگوں کو وکالت کی ہے جو تاریک راہوں میں مارے گئے ؂
نشان منزل مقصود ہیں نہ یوں دیکھو
سبک خرامو حقارت سے رہ نشینوں کو
تاریخی اور معاشرتی تناظرمیں تجزیہ کرنے سے اس شعر کی معنویت مزید واضح ہو جاتی ہے کہ زندگی کی دوڑ میں ناکام یا پیچھے رہ جانے والے لوگوں کی ناکامی سے ہی سبق سیکھ کر دانا لوگ آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اگر یہ رہ نشین نہ ہوں تو شاید نہیں بلکہ یقیناًسبک خراموں میں سے بعض کا نصیب رہ نشینی ٹھہرتا۔ مذکورہ شعر میں بائیو سوشل حوالے سے Survival of the Fittest پر نقدو گرفت بھی جھلکتی ہے۔
’منزل آوارگاں‘ کا خالق اگرچہ اعلیٰ شاعرانہ احساس رکھتا ہے لیکن معروضی جبر بھی اس کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں رہا کہ زندگی میں جو ہونا چاہیے، اپنی جگہ لیکن جو کچھ ہور ہا ہے اور ہوتا آیا ہے، اس سے نگاہیں نہیں چرائی جاسکتیں۔ اس حقیقت کے ادراک کے ساتھ ہمارا شاعر ایک طرف تو ہمیں فقط آم کھانے کو کہتا ہے اور دوسری طرف نہایت دھیمے لیکن تیکھے لہجے میں انہی رہ نشینوں کا نئے انداز میں ذکر کر دیتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے :
محفوظ کر نگاہوں کو گل ہائے تازہ سے
شاداب کس کے خوں سے ہوا گلستاں نہ پوچھ
’نہ پوچھ‘ کی ردیف نے معنویت کے ساتھ ساتھ شعریت کو بھی بے کراں کر دیا ہے۔ 
ایک غزل کا مقطع سید افضل حسین مرحوم کے تبحر علمی اور بھرپور تنقیدی شعور کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے ؂
خوشی میں ڈھلنا کمال غم والم افضل
ہیں نالے خام جونغمات میں بدلتے نہیں
کہ کمال انتہا ہے اور کسی بھی چیز کی انتہا سے خود اس کی نفی ہو جاتی ہے مثلاً روشنی کی انتہا میں آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، کچھ نظر نہیں آتا۔ اسی طرح رنج واندوہ اور غم والم کی انتہا خوشی وسرمستی ہی ہو سکتی ہے۔ یہاں ہمارے شاعر نے نکتہ دانی کا مظاہرہ تو کیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ شاعری کی اس سطح پر بھی چوٹ کی ہے جس میں نغمگی ڈھونڈے نہیں ملتی۔ سید افضل کے نزدیک ایسی شاعری جذبات وخیالات کی سطحیت اور کچے پن پر دلالت کرتی ہے۔ اس غزل کا دوسرا شعر بھی قابل غور ہے کہ اس کے بین السطور سخن سرائی کے نئے امکانات جھلملا رہے ہیں ؂
لحاظ حسن کہ غارت گران گلشن بھی
گلوں کو توڑتے ہیں شاخوں سے مسلتے نہیں
ہمارے شاعر نے ایک مقام پر عُشاّق کی نفسیاتی کیفیت بڑی خوبی سے عیاں کی ہے۔ ایسا شخص جس نے کوچہ عشق میں قدم نہ رکھا ہو یا بہت کم مسافت طے کی ہو، وہ ایسے کہہ سکتا ہے کہ ع
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
لیکن ایسے احباب جو حسن وعشق کے معرکوں میں شریک رہے ہوں یا انہوں نے بہت گہرائی سے ان معرکوں کو پرکھا ہو، وہ سیّد افضل حسین کی آواز میں تائیدی آواز شامل کریں گے کہ ؂
ہم تڑپیں ہجرِ یار میں، وہ ہجرِ غیر میں
آخر کسی مقام پہ قسمت تو مل گئی
’’منزل آوارگاں‘‘ کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے کے لیے مزید کئی صفحات درکار ہوں گے۔ بیان کردہ چند سطریں بمشکل اشارہ کر پائی ہیں۔ لیکن یہ رائے دینا ہرگز مشکل نہیں کہ ’’منزل آوارگاں‘‘ اُردو ادب میں اس اعتبار سے گراں قدر اضافہ ہے کہ اس میں روایت کے رچاؤ کے ساتھ ساتھ جدید معاشرتی ونفسیاتی کیفیات کو سمویا گیا ہے۔ اس امتزاجی عمل کے دوران سیّد افضل حسین مرحوم نے نغمگی اور شعریت پر حرف نہیں آنے دیا۔ یہی اس مجموعے کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ تنوع کے باوجود یہ بات کہنا چنداں مشکل نہیں کہ سید افضل حسین کی شاعری کا بنیادی حوالہ ’’شوق‘‘ہی ہے جو بہت معتبر بھی ہے ؂
کیا حاجتِ درا تھی ہمیں راہِ یار میں
شوقِ سفر تا حشر جگانے کو کم تھا کیا؟

اخبار و آثار

ادارہ

ایشیا کے دینی مدارس پر ایک ورکشاپ

سال رواں کے ماہ مئی کے آخری ہفتے میں نیدر لینڈز کے ’’انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار دی سٹڈی آف اسلام ان دی ماڈرن ورلڈ‘‘ (ISIM) نے برلن کے ادارے ’’زینٹرم ماڈرنر اورینٹ‘‘ (ZMO) کے تعاون سے ’’ایشیا کے مدارس: مابین الممالک روابط اور حقیقی یا فرضی سیاسی کردار‘‘ کے عنوان پر ایک دو روزہ ورک شاپ منعقد کی۔ ورک شاپ میں پیش کیے جانے والے ۹ مقالات میں ’’دہشت گردی‘‘ کے حوالے سے جاری بحث کے تناظر میں ایشیا کے مختلف ملکوں میں موجود مدارس کا جائزہ لیا گیا۔ ان میں سے پانچ مقالات کا موضوع جنوبی ایشیا کے مدارس تھے، جو کہ دنیا میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی کا حامل خطہ ہے۔ امریکہ میں ملٹن کینز کی اوپن یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب عادل مہدی نے بھارت کے مدارس اور دہشت گردی کے بارے میں گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے برعکس، جہاں چند مخصوص مدرسے دہشت گردی میں ملوث ہیں، بھارت کے کسی ایک مدرسے کا بھی دہشت گردی کی کارروائیوں سے کوئی واسطہ نہیں۔ بہت سے مدارس نے بھارت کی جدوجہد آزادی میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ پھر بھی بھارتی حکومت اور ذرائع ابلاغ مدارس کو قوم دشمن قرار دے کر انھیں بدنام کرنے کی مہم مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عادل مہدی نے ’’طالبان‘‘ کے ساتھ دیوبند کے تعلق پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ دونوں کا وژن مشترک تھا، لیکن حکمت عملی کے معاملے میں یہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ انھوں نے اس نکتے پر زور دیا کہ طالبان کے برسر اقتدار آنے کی وجہ ان کی دیوبندی آئیڈیالوجی کم اور دوسرے سیاسی عوامل زیادہ تھے، جن میں طالبان کو پاکستان، سعودیہ عرب اور امریکہ کی طرف سے ملنے والی سپورٹ بھی شامل ہے۔
ZMO کے Dietrich Reetz نے ۱۹۸۲ء میں مدرسہ دیوبند میں پیدا ہونے والی تفریق کے بعد اس میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر گفتگو کی۔ دیوبندی مدارس کے بارے میں پائے جانے والے اس عام خیال کی کہ وہ تبدیلی کے خلاف ہیں، تردید کرتے ہوئے انھوں نے ان تبدیلیوں کا ذکر کیا جو دار العلوم دیوبند نے حال ہی میں اپنے نظام میں کی ہیں اور جن میں شعبہ انگریزی اور شعبہ کمپیوٹر کا قیام شامل ہے۔ دوسرے گروہوں کے ساتھ دیوبندی تعلقات کے بارے میں Reetz نے کہا کہ دیوبندی علما کو غیر مسلم گروہوں کی بہ نسبت دوسرے مسلمان گروہوں کے مقابلے سے زیادہ دلچسپی رہی ہے۔ انھوں نے ان کوششوں کا بھی ذکر کیا جو بعض دیوبندی حضرات ہندوؤں کے ساتھ مکالمے کے حوالے سے کر رہے ہیں۔
بھارت میں لڑکیوں کے مدارس کے حوالے سے حال ہی میں ایک تبدیلی آئی ہے۔ ISIM کے ماریک ونکل مین (Mareike Winkelmann) نے دہلی میں لڑکیوں کے لیے قائم ایک دیوبندی مدرسے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایسی مفت تعلیم فراہم کر کے جو ثقافتی لحاظ سے بھی موزوں ہے، اس طر ح کے مدارس غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں میں خواندگی کے فروغ میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگرچہ اس کا نصاب مرد وزن کے تعلقات کے حوالے سے قدامت پسندانہ ہے، لیکن یہ مدرسہ مسلمان لڑکیوں کے لیے عملی سرگرمیوں کے نئے میدان بھی فراہم کر رہا ہے جس میں دنیا کی سب سے بڑی مسلمان تحریک تبلیغی جماعت میں شرکت بھی شامل ہے۔ 
فارش نور کا مقالہ کراچی کے دو مدرسوں میں زیر تعلیم ایک درجن انڈونیشی اور ملائشی طلبہ کے موضوع پر تھا جنھیں حال ہی میں دہشت گرد گروہوں کے ساتھ تعلقات کے الزام میں واپس ان کے ملک بھجوا دیا گیا جہاں انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ فارش نور نے کہا کہ ان حکومتوں کی طرف سے، جنھوں نے تمام مسلمان تحریکوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے حکومت مخالف تنظیموں کو دبانے میں امریکہ کے ساتھ تعاون کیا، ان طلبہ کو منصفانہ عدالتی کارروائی کی سہولت فراہم نہیں کی گئی۔ اس معاملے کو امریکہ اور اس کی اتحادی حکومتوں کے مابین پائے جانے والے پیچیدہ تعلقات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے کیونکہ ان دونوں کے لیے مدارس کو ’’دہشت گردی کے گڑھ‘‘ قرار دینے کا نعرہ داخلی مخالفت کو دبانے کے لیے ایک ہتھیار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ بد قسمتی سے آج مدارس کی اصلاح کے معاملے کو دہشت گردی کے مقابلے کے مسئلے کے ساتھ نتھی کر دیا گیا ہے۔
یوگندر سکند کے مقالے میں ان کوششوں پر توجہ مرکوز کی گئی جو بھارت کے علما اور مسلم رہنما مدارس کے نصاب میں جدید مضامین کے شامل کیے جانے، غیر مفید مضامین اور کتابوں کے اخراج اور طریقہ تدریس کی اصلاح کے حوالے سے کر رہے ہیں۔ 
لیڈن کے انسٹی ٹیوٹ فار ایشین سٹڈیز کے نور ہادی حسن نے انڈونیشیا کے سلفی یا وہابی مدارس پر گفتگو کی۔ انھوں نے انڈونیشیا میں سلفی مدارس کے ارتقا اور شافعی علما، صوفیا اور ’’بے عمل‘‘ مسلمانوں کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت کا جائزہ پیش کیا۔ انھوں نے بتایا کہ کچھ سلفی مدارس کو سعودی حکومت کی طرف سے فراخ دلانہ امداد مل رہی ہے اور اس کا تعلق، امریکی منشا اور مفادات کے عین مطابق، سعودی حکومت کے اس وسیع تر مقصد سے ہے کہ انقلاب ایران کے بعد مسلمان ملکوں میں شہنشاہیت کے خلاف پیدا ہونے والے رجحانات کا مقابلہ کرنے کے لیے قدامت پرستی، جمود اور لفظ پرستی پر مبنی (Literalist) اسلام کو فروغ دیا جائے۔ انھوں نے بتایا کہ انڈونیشیا کے کچھ سلفی مدارس دہشت گرد تنظیم ’’لشکر جہاد‘‘ کے ساتھ وابستہ اور ۲۰۰۲ء میں ہونے والے بالی بم دھماکوں میں ملوث تھے جس کے بعد ان میں سے کچھ پر حکومت انڈونیشیا نے پابندی عائد کر دی۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعہ کے بعد سعودی حکومت کی طرف سے انڈونیشیا کے مدارس کو ملنے والی مالی سپورٹ نمایاں طور پر کم ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں سلفی حلقہ بحران سے دوچار ہو گیا ہے۔
Martin van Bruinessen کے مقالے میں انڈونیشیا میں اسلامی اقامتی سکولوں (pesantren) کے سسٹم پر توجہ مرکو ز کی گئی۔ انھوں نے بتایا کہ اگرچہ ان میں سے بعض مدارس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ جنگ جو ہیں، لیکن اکثریت کے بارے میں یہ بات درست نہیں۔ ان مدارس میں شدت پسندی کے رجحان کو ایک وسیع تر سیاسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے اور یہ حقیقت میں انڈونیشی حکومت کی طرف سے اپوزیشن پارٹیوں کو دبانے کی پالیسی کا رد عمل ہے۔
چین میں اسلامی تعلیم کے موضوع پر اپنے مقالے میں ابو ظبی کی زاید یونیورسٹی کے جیکی آرمیجو (Jakied Armijo)نے وسیع تر مذہبی آزادی کے ماحول میں پورے ملک میں مدارس کے پھیلاؤ کا جائزہ لیا۔ ان میں سے کچھ جز وقتی سکول ہیں جو اپنے طلبہ کو بیک وقت دوسرے باقاعدہ سکولوں اور کالجوں میں بھی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ سنکیانگ کے استثنا کے ساتھ، چین کے باقی علاقوں میں مدارس، حکومت مخالف پراپیگنڈا کا مرکز نہیں ہیں۔ انھوں نے ایسے متعدد چینی مسلمانوں کا حوالہ دیا جنھوں نے ایران یا عرب ممالک میں تعلیم پائی ہے اور بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے بعد چین میں اسلامی تعلیمی ادارے قائم کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔
جرمنی کی یونیورسٹی آف بوچم کی کرسٹین ہنر (Christine Hunner) نے آزر بائیجان میں اسلامی مدارس پر گفتگو کی۔ انھوں نے بتایا کہ اگرچہ اسلام اس خطے کے لوگوں کی شناخت کا ایک لازمی حصہ ہے، لیکن کئی دہائیوں تک جاری رہنے والے روسی تسلط کے باعث بہت کم لوگ اسلام کے بارے میں مستند معلومات رکھتے ہیں۔ انھوں نے اسلامی معلومات کو منتقل کرنے کے بعض نئے ذرائع اور طریقوں کا بھی تذکرہ کیا، جن میں یونیورسٹی آف باکو میں قائم ہونے والی نئی ’’تھیولاجیکل فیکلٹی‘‘ اور باکو ہی میں قائم ہونے والی ’’اسلام یونیورسٹی‘‘ شامل ہیں، جس میں شیعہ اور سنی مشترکہ طور پر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ انھوں نے ترکی حکومت کی ان کوششوں کے ممکنہ مضمرات پر بھی روشنی ڈالی جو وہ شیعہ اکثریت کے اس ملک میں ترکی کی طرز کے اسلامی پروگراموں کو فروغ دینے کے حوالے سے کر رہی ہے۔ 
ورک شاپ کے شرکا کا مجموعی تاثر یہ دکھائی دے رہا تھا کہ تمام یا بیشتر مدارس کو دہشت گردی کے گڑھ قرار دینے کا تصور بے بنیاد ہے، اگرچہ انھوں نے یہ بات بھی واضح کی کہ بعض ممالک میں کچھ مخصوص مدارس کو جنگ جو یا دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اس بات پر بھی ایک عمومی اتفاق رائے پایا گیا کہ مختلف ملکوں کے مدارس کے مابین علمی وفکری اور مالی حوالے سے عرصہ دراز سے روابط قائم ہیں اور چند مدارس کے سوا، دوسرے ممالک کے مدارس سے روابط رکھنے والے ان مدارس کا دہشت گردی سے کوئی واسطہ نہیں۔ بعض شرکا نے اس پر زور دیا کہ کچھ مدارس میں جنگ جویانہ رجحانات کے مظہر کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ یہ کم از کم جزوی طور پر ریاستی دہشت گردی اور مغربی بالخصوص امریکی تسلط کا رد عمل ہیں۔ گمراہ کن اور بے بنیاد طور پر پھیلے ہوئے خیالات کے ازالے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے شرکا نے اس نکتے کو اجاگر کیا کہ مختلف ملکوں کے مدارس اور ان کے باہمی روابط کے بارے میں حقائق پر مبنی مزید تحقیق اور مطالعہ کی ضرورت ابھی موجود ہے۔ 
(ISIM Newsletter, June 2004)

مولانا چنیوٹی ؒ اور مولانا نذیر احمدؒ کی یاد میں تعزیتی نشست

سفیر ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی اور شیخ الحدیث حضرت مولانا نذیر احمد آف فیصل آباد کی وفات پر ۱۷ جولائی کو الشریعہ اکادمی میں ایک تعزیتی نشست مولانا زاہد الراشدی کی زیر صدارت منعقد ہوئی جس میں مولانا محمد الیاس چنیوٹی مہمان خصوصی تھے جبکہ پاکستان شریعت کونسل کے راہ نماؤں مولانا قاری جمیل الرحمن اختر اور مولانا محمد نواز بلوچ کے علاوہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے راہ نما سید احمد حسین زید نے بھی خطاب کیا۔ 
مقررین نے حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی کی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے زندگی بھر عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیت کے تعاقب کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں اور پورے جذبہ وخلوص کے ساتھ اس محاذ پر مسلمانوں کی جرات مندانہ قیادت کرتے رہے ہیں۔ وہ انتہائی جفاکش، بے باک اور ان تھک راہ نما تھے جن کا کوئی بدل اس شعبہ میں اب دکھائی نہیں دیتا۔
مقررین نے کہا کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا نذیر احمد کی ساری زندگی تعلیم وتدریس کے ماحول میں گزری اور انھوں نے ہزاروں علماء کرام اورطلبہ کو تعلیم وتربیت دے کر دین کی خدمت کے لیے تیار کیا جو ان کا مسلسل صدقہ جاریہ رہے گا۔ اجلاس میں دونوں بزرگوں کی مغفرت اور بلندئ درجات کے لیے دعا کی گئی اور ان کے دینی وعلمی مشن کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔

مولانا زاہد الراشدی کا دورۂ امریکہ

’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی نے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں شش ماہی امتحان کی تعطیلات کے دوران میں دار الہدیٰ (سپرنگ فیلڈ۔ ورجینیا۔ امریکہ ) کی دعوت پر امریکہ کے مختلف شہروں کا دو ہفتے کا دورہ کیا اور ۱۹ جون سے ۲ جولائی تک واشنگٹن، نیو یارک، میری لینڈ، ورجینیا، لانگ آئی لینڈ اور دیگر علاقوں میں ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ دینی اجتماعات سے خطاب کیا۔ انھوں نے دار الہدیٰ میں مسلسل نو روز تک قرآن فہمی کے ضروری تقاضوں پر لیکچر دیے اور ۲ جولائی کو مکی مسجد بروک لین نیو یارک میں جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب کیا۔ انھوں نے واشنگٹن میں پی ایچ ڈی کے لیے پاکستان سے جانے والے سینئر طلبہ کے ایک گروپ کی طرف سے دیے گئے ظہرانے میں شرکت کی اور ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے مغربی ممالک میں آنے والے طلبہ کو اس بات کا بطور خاص خیال رکھنا چاہیے کہ جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے وہ عالم اسلام اور اپنے ممالک کی ضروریات کو کس طرح پورا کر سکتے ہیں اور اس شعبہ میں پائے جا نے والے خلا کو کس طرح کم کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے پی ایچ ڈی کے طلبہ پر زور دیا کہ وہ اپنے مضامین میں زیادہ سے زیادہ مہارت حاصل کریں اور اس کے ساتھ ساتھ قرآن وسنت اور اسلامی اقدار کے ساتھ اپنی شعوری وابستگی کو مضبوط بنائیں۔ مولانا زاہد الراشدی ۴ جولائی کو گوجرانوالہ واپس پہنچ کر اپنی مصروفیات میں مشغول ہو گئے ہیں۔

الشریعہ اکادمی میں مولانا عبد الرؤف ملک کی تشریف آوری

متحدہ علما کونسل پاکستان کے سیکرٹری جنرل اور آسٹریلیا مسجد لاہور کے خطیب مولانا عبد الرؤف ملک ۱۹ جون کو الشریعہ اکادمی میں تشریف لائے اور اساتذہ وطلبہ کے ساتھ ایک نشست میں شرکت کی۔ اس موقع پر انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ علماء کرام کو فکری وثقافتی محاذ پر آج کے دور کے چیلنج اور تقاضوں کو سمجھنے کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ انھوں نے الشریعہ اکادمی کی سرگرمیوں پر مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ اس قسم کی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔

مولانا محمد فیروز خان کی اہلیہ کا انتقال

میرپور آزاد کشمیر کے ضلع مفتی مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی کی ہمشیرہ، بھمبر کے تحصیل قاضی مولانا محمد اویس خان ایوبی کی پھوپھی اور مولانا محمد فیروز خان مہتمم دار العلوم مدنیہ ڈسکہ کی اہلیہ محترمہ گزشتہ ہفتہ قضاے الٰہی سے انتقال کر گئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ گزشتہ چار ماہ سے گردوں کے عارضے میں مبتلا تھیں۔ نماز جنازہ دار العلوم مدنیہ کی عید گاہ میں ادا کی گئی جس میں عوام، علما اور طلباکی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ میر پور میں متعدد شخصیات نے ضلع مفتی میر پور سے تعزیت کی اور مرحومہ کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’شرح شمائل ترمذی‘‘ (جلد دوم)

زیر نظر کتاب جناب نبی اکرم ﷺ کی سنن وشمائل پر امام ترمذیؒ کی معروف کتاب کی اردو میں شرح کا دوسرا حصہ ہے جو ممتاز صاحب علم مولانا عبد القیوم حقانی کے قلم سے ہے اور اس میں جناب نبی اکرم ﷺ کی مبارک عادات وشمائل کی دل نشیں انداز میں وضاحت کی گئی ہے۔
چھ سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب القاسم اکیڈمی، جامعہ ابو ہریرہ، خالق آباد، نوشہرہ، صوبہ سرحد نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت درج نہیں ہے۔

’’صحابہ کرام کا اسلوب دعوت وتبلیغ‘‘

ہمارے فاضل رفیق کار پروفیسر محمد اکرم ورک کے اس تحقیقی مقالہ کے بیشتر حصے ’الشریعہ‘ میں قارئین کی نظر سے گزر چکے ہیں۔ یہ مقالہ کتابی صورت میں مکتبہ جمال کرم لاہور نے شائع کیا ہے۔ 
ساڑھے تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس مجلد کتاب کی قیمت ۱۳۵ روپے ہے اور اسے الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، کنگنی والا گوجرانوالہ سے بھی طلب کیا جا سکتا ہے۔

’’مشاہیر اراکان برما اور برمی حکومت کے دل خراش مظالم‘‘

جامعہ احتشامیہ جیکب لائن کراچی کے استاذ مولانا حافظ محمد صدیق نے، جو اراکان برما سے تعلق رکھتے ہیں، اس خطے کے مظلوم مسلمانوں کی حالت زار کی تفصیل بیان کی ہے اور برمی حکومت کے مظالم کو بے نقاب کیا ہے۔ برما کے مسلمانوں کی مظلومیت اور بے بسی سے آگاہی کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔
پونے چار سو صفحات کی یہ ضخیم معلوماتی کتاب مصنف سے مندرجہ بالا پتہ پر طلب کی جا سکتی ہے۔

’’تجزیہ قادیانیت‘‘

ہمارے فاضل دوست اور ماہنامہ الہلال مانچسٹر کے مدیر مولانا حافظ محمد اقبال رنگونی نے قادیانی نبوت اور مرزا غلام احمد قادیانی کے اخلاق وعادات کا جائزہ لیا ہے اور مستند حوالوں سے قادیانیت کے فریب کا پردہ چاک کیا ہے۔
سوا دو سو سے زائد صفحات کی یہ کتاب جناب عبد الرحمن باوا نے ختم نبوت اکیڈمی لندن سے شائع کی ہے اور پاکستان میں اسے مکتبہ حکیم الامت، ۳۔ ایف ۳/۲، ناظم آباد نمبر ۳، کراچی ۱۸ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

’’لمحہ لمحہ پھسلتے قدم‘‘

بزرگ دانش ور جناب عبد الرشید ارشد آف جوہر آباد نے اپنے متعدد مضامین میں پاکستان کے نظام تعلیم کو سیکولر بنانے کی کوششوں کا جائزہ لیا ہے اور اس سلسلے میں مغرب کی خواہشات کو بے نقاب کیا ہے۔ اس میں دیگر بعض اہم عنوانات بھی ان کے معلوماتی مضامین میں شامل ہیں۔
پونے دو سو کے لگ بھگ صفحات کی اس کتاب کی قیمت ۷۵ روپے ہے اور اسے النور ٹرسٹ، جوہر پریس بلڈنگ، جوہر آباد سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

’’مکتوبات افغانی‘‘

بزرگ عالم دین حضرت مولانا قاضی عبد الکریم صاحب مدظلہ آف کلاچی کے نام شیخ التفسیر حضرت مولانا علامہ شمس الحق افغانی کے مکاتیب کو مولانا عبد القیوم حقانی نے کتابی شکل میں مرتب کیا ہے جن میں علامہ افغانی نے اپنے مخصوص انداز میں مختلف مسائل کی وضاحت کی ہے۔
دو سو سے زائد صفحات کی یہ مجلد کتاب القاسم اکیڈمی، خالق آباد، نوشہرہ سے طلب کی جا سکتی ہے۔ 

’’رنگ برنگی بیاض گڑنگی‘‘

مدرسہ نصرۃ العلوم کے فاضل مولانا قاضی محمد اسرائیل گڑنگی نے اپنی بیاض میں مختلف حوالوں سے درج کردہ معلومات کو کتابی شکل میں شائع کیا ہے جو متنوع واقعات اور معلومات پر مشتمل ہے۔
صفحات: ۱۵۸۔ قیمت: ۷۰ روپے۔ ملنے کا پتہ: مکتبہ انوار مدینہ، جامع مسجد صدیق اکبر، محلہ صدیق آباد (اپر چنئی) مانسہرہ۔

ستمبر ۲۰۰۴ء

جہاد، مستشرقین اور مغربی دنیامولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ضعیف اور موضوع احادیث کا فتنہڈاکٹر یوسف القرضاوی
سفیر ختم نبوت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒمولانا مشتاق احمد
ڈارفر کا قضیہ اور عرب لیگ کا کردارادارہ
آئیے! اپنا کتبہ خود لکھیںپروفیسر میاں انعام الرحمن
مکاتیبادارہ
یوم آزادی کے موقع پر الشریعہ اکادمی میں تقریبادارہ

جہاد، مستشرقین اور مغربی دنیا

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۵۔ اگست کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں ایک سیمینار تھا جو مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی کے ادارے میں ’’ندوۃ الشباب الاسلامی العالمی‘‘ سعودی عرب کے تعاون سے منعقد کیا گیا۔ حافظ عبد الرحمن مدنی اہل حدیث علماے کرام میں ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا روپڑی خاندان سے تعلق ہے اور وہ روایتی مسلکی دائرے پر اکتفا کرنے کے بجائے وسیع تر ملی مفاد کے ماحول میں کام کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا ادارہ ’’مجلس التحقیق الاسلامی‘‘ اور ماہوار جریدہ ’’محدث‘‘ نوجوان علما میں آج کے معروضی مسائل پر غور وتحقیق کا ذوق بیدار کرنے اور دینی حلقوں کو ان کی طرف توجہ دلانے کی سعی میں مصروف ہیں، جبکہ ’’ندوۃ الشباب الاسلامی‘‘ ریاض کی طرف سے ڈاکٹر قاری محمد انور اس پروگرام کے لیے تشریف لائے ہوئے ہیں۔
مجھے ان دونوں حضرات نے اس سیمینار میں ’’جہاد‘‘ کے بارے میں گفتگو کی دعوت دی اور جہاد کے حوالے سے پھیلائے جانے والے شکوک وشبہات پر کچھ گزارشات پیش کر نے کے لیے کہا جو میرا دل پسند موضوع ہے۔ اس لیے سیمینار میں حاضر ہو گیا اور جب ہال میں پہنچا تو پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے صدر پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر مستشرقین کے طریق واردات کو اپنی گفتگو میں بے نقاب کر رہے تھے۔ حافظ محمود اختر میرے بچپن کے ساتھی ہیں۔ ہم دونوں نے قرآن کریم ایک ہی استاد سے حفظ کیا ہے۔ ہمارے استاد محترم حافظ قاری محمد انور ایک عرصہ تک گکھڑ میں پڑھاتے رہے ہیں اور اب کم وبیش بیس سال سے مدینہ منورہ میں تحفیظ القرآن کے ایک مدرسے میں قرآن کریم کی تعلیم دے رہے ہیں۔ کبھی کبھار مدینہ منورہ میں حاضری کے موقع پر انہیں مسجد نبوی ﷺ میں شاگردوں سے منزل سنتے دیکھتا ہوں تو رشک وافتخار کی ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ حافظ محمود اختر صاحب کی گفتگو میں مستشرقین کی فکری جدوجہد اور طریق واردات کی باتیں سن کر میرے ذہن میں بھی یہ داعیہ پیدا ہوا کہ جہاد پر کیے جانے والے اعتراضات کا مستشرقین کے حوالے سے ہی جائزہ لے لیا جائے، ورنہ سیمینار کے منتظمین کی طرف سے مجھے کہا گیا تھا کہ میں جہاد کے بارے میں مرزا غلام احمد قادیانی اور بعض دیگر شخصیات کے موقف کا جائزہ لوں جو جہاد کو آج کے دور میں منسوخ قرار دے رہے ہیں یا اس کے بارے میں معذرت خواہانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اس میں طرح طرح کی تاویلات پیش کر رہے ہیں۔ مگر میں نے اپنی گفتگو کی تمہید میں عرض کیا کہ جہاں اصل فریق سامنے ہو اور اس سے براہ راست بات کرنا ممکن ہو تو پھر نمائندوں سے گفتگو کرنا مجھے اچھا نہیں لگتا، اس لیے میں اصل فریق یعنی مستشرقین کو سامنے رکھ کر بات کروں گا۔ میں ابھی گفتگو کے ابتدائی مراحل میں ہی تھا کہ بزرگ اہل حدیث عالم دین مولانا محمد یحییٰ عزیز میر محمدی تشریف لائے اور مجھے بتایا گیا کہ وقت کم ہے اور انھوں نے بھی خطاب کرنا ہے، لہٰذا میں نے بڑے اختصار کے ساتھ کچھ معروضات پیش کیں، جن کا خلاصہ قارئین کی معلومات کے لیے اصلاح شدہ صورت میں چند ضروری اضافوں کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔
جہاد کی فرضیت اسلام کے جاری کردہ احکام میں سے نہیں ہے بلکہ کلمہ حق کی سربلندی اور انسانی سوسائٹی پر آسمانی تعلیمات کی بالادستی کے لیے جہاد اس سے قبل بھی ہوتا رہا ہے اور قرآن کریم نے اس جہاد کے مختلف مراحل کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ جہاد کا تذکرہ بائبل میں بھی موجود ہے، چنانچہ کتاب استثنا ۱۰:۲۰ میں جہاد کا حکم اس طرح بیان کیا گیا ہے:
’’جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدیک پہنچے تو پہلے اسے صلح کا پیغام دینا، اگر وہ تجھ کو صلح کا جوا ب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لیے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باج گزار بن کر تیری خدمت کریں اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو تو اس کا محاصرہ کرنا اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضے میں کر دے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کر ڈالنا، لیکن عورتوں اور بال بچوں کو اور چوپایوں اور اس شہر کے سب مال کو اپنے لیے رکھ لینا۔‘‘
اس کے ساتھ ہی جناب نبی اکرم ﷺ کی اس ہدایت کو بھی دیکھ لیا جائے جو انہوں نے اپنے متعدد کمانڈروں کو جہاد کے لیے بھیجتے وقت دی ہے کہ جب تم دشمن کے سامنے جاؤ تو پہلے اسلام قبول کرنے کی دعوت دو، اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو ہمارے بھائی ہیں اور اگر وہ یہ دعوت قبول نہ کریں تو جزیہ دے کر اسلام کی بالادستی قبول کر لیں۔ اس صورت میں انہیں جان ومال اور آبرو کا تحفظ حاصل ہوگا، اپنے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مذہب پر عمل کرنے، اس کی تعلیم دینے اور اپنی عبادت گاہوں کو قائم وآباد رکھنے کا حق حاصل ہوگا اور مسلمان ان کی جان ومال کے تحفظ کے ضامن ہوں گے۔ اور اگر وہ اس کو بھی قبول نہ کریں تو پھر ان سے جنگ کرو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاد کا مقصد کافروں کو زبردستی اسلام قبول کرانا نہیں بلکہ انہیں اس بات پر آمادہ کرنا ہے کہ وہ بے شک اپنے مذہب پر قائم رہیں، اس پر آزادی کے ساتھ عمل کریں اور اپنے دائرے میں اس کی تعلیم بھی دیں، لیکن انسانی سوسائٹی پر ’’آسمانی تعلیمات‘‘ کی بالادستی اور فروغ میں رکاوٹ نہ بنیں اور ان کے مقابل نہ ہوں، کیونکہ آسمانی تعلیمات کا یہ حق ہے کہ ان کا انسانی آبادی میں کسی روک ٹوک کے بغیر فروغ ہو اور ان کی دعوت وتعلیم کی راہ میں کوئی مزاحم نہ ہو۔ البتہ بائبل کی تعلیمات اور حضور نبی اکرم ﷺ کی ہدایات میں چند فرق ضرور موجود ہیں جن کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
صلح کی صورت میں بائبل کا حکم یہ ہے کہ مقامی آبادی باج گزار بن کر فاتحین کی خدمت کرے جبکہ نبی اکرم ﷺ کے ارشاد کی رو سے انہیں صرف ’’جزیہ‘‘ دینا ہوگا اور انہیں اس کے عوض جان ومال کا تحفظ، مذہبی آزادی اور دیگر تمام شہری حقوق حاصل ہوں گے اور انہیں غلام نہیں بنایا جائے گا۔
فتح کی صورت میں بائبل نے دشمن کے تمام مردوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے مگر اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے۔ اسی طرح شہر کے سارے مال کو غنیمت بنانے کا حکم بائبل میں تو موجود ہے جبکہ اسلام میں غنیمت صرف وہی ہے جو میدان جنگ میں حاصل ہو۔ شہروں کی لوٹ مار کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ لیکن ان باتوں سے قطع نظر بائبل کا حوالہ دینے سے میری غرض یہ ہے کہ جہا دکا حکم اسلام کا کوئی امتیازی حکم نہیں ہے بلکہ یہ سابقہ آسمانی مذاہب کے احکام کا تسلسل ہے جسے اسلام نے بھی باقی اور اس پر پہلے سے بہتر انداز میں عمل جاری رکھا ہے۔
مذہب کے لیے تلوار اٹھانے اور قوت استعمال کرنے کا یہ حکم مسیحیوں اور مسلمانوں میں موجود رہا ہے۔ مسیحیوں نے اسے لوگوں کو زبردستی اپنے مذہب میں لانے کے لیے صدیوں تک استعمال کیا ہے جیساکہ سپین میں مسلمانوں کو زبردستی عیسائی بنانے اور یورپ کے مختلف ملکوں میں یہودیوں کو ان کے مذہب سے دست بردار کرانے کے لیے لاکھوں افراد کا قتل عام تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے، مگر مسلمانوں نے اسلام قبول کرانے کے لیے کبھی تلوار کا استعمال نہیں کیا اور کسی سے اسلحہ کی نوک پر کلمہ نہیں پڑھایا۔ البتہ اسلام کی دعوت وتبلیغ اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کی راہ میں مزاحمت کرنے والوں سے ضرور جنگ کی ہے اور اسی کا نام جہاد ہے جو قیامت تک جاری رہے گا۔
اس صورت حال میں تبدیلی اس وقت آئی جب یورپ نے اپنے مذہب کے جمود، مذہبی قیادت کی تنگ نظری اور چرچ کی ظالمانہ روش سے بے بس ہو کر مذہب سے بغاوت کر دی اور سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے مذہب کو بے دخل کر دیا۔ انہوں نے مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دیا اور سوسائٹی کے ساتھ اس کے تعلق کو منقطع کر دیا تو اس کے باعث ان کے نزدیک مذہب کے لیے ہتھیار اٹھانا ممنوع قرار پایا اور ’’مقدس جنگ‘‘ کا تصور ان کے ہاں ختم ہو گیا، مگر انہوں نے سوسائٹی کی فکری بنیاد کے طور پر جس چیز کو مذہب کے متبادل کا درجہ دیا، ا س کے لیے طاقت اور ہتھیار کے استعمال کا جواز ان کے ہاں نہ صرف موجود ہے بلکہ اس میں روز بروز ترقی اور پیش رفت ہو رہی ہے۔
مغرب نے سوسائٹی کی بنیاد نیشنلزم، سولائزیشن اور تہذیب وثقافت کو قرار دیا جو مذہب کا متبادل ہیں اور قوم و ملک اور سولائزیشن کے لیے طاقت کے استعمال کو نہ صرف مغرب نے جائز قرار دے رکھا ہے بلکہ کئی بار اس کا خوف ناک مظاہرہ بھی کر چکا ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنے قوانین میں نیشنلزم کی بنیاد پر سرحدوں کو جائز قرار دے کر ایک دوسرے کے خلاف طاقت کے استعمال سے روکا ہے مگر کسی ایک طرف سے طاقت کے استعمال کی صورت میں دوسرے کو دفاع میں ہتھیار اٹھانے کا حق دیا ہے، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھی یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ (۱) امن کو لاحق خطرہ (۲) امن وامان کو توڑنے اور (۳) ظلم وتعدی کے کسی واقعہ کی صورت میں وہ کسی بھی ملک پر پابندیاں عائد کر سکتی ہے اور اگر ان پابندیوں سے کام نہ چلے تو سلامتی کونسل کو فوج کشی کا حق بھی حاصل ہے۔ یہ فوج کشی سلامتی کونسل کا حق ہے اور سلامتی کونسل کی پوزیشن یہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی نمائندہ کہلاتی ہے لیکن پانچ ملکوں کے ویٹو پاور کے حق نے اسے عملاً صرف پانچ ملکوں کی اجارہ داری کی علامت بنا دیا ہے۔ چنانچہ اقوام متحدہ کی اجازت سے امریکہ نے افغانستان کے خلاف جو فوج کشی کی اور عراق پر امریکی اتحاد کا پہلا حملہ بھی سلامتی کونسل کی اجازت سے ہوا تھا، ان حملوں کے جواز کے بارے میں مغربی لیڈروں نے جو کچھ کہا، وہ تاریخ کے ریکارڈ میں ثبت ہو چکا ہے۔ ان میں سے صرف دو باتوں پر غور کر لیجیے۔ ایک یہ کہ افغانستان اور عراق اقوام متحدہ کے طے کردہ نظام سے بغاوت کر رہے ہیں اور اس کی پابندیوں سے انحراف کے مرتکب ہوئے ہیں اور دوسرا یہ کہ جمہوریت اور سولائزیشن کے تحفظ کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔ سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا نظام اور مغرب کی سولائزیشن دنیا بھر سے خود کو منوانے کے لیے طاقت کا وحشیانہ استعمال کر رہی ہے، یہ ورلڈ سسٹم اور مغربی سولائزیشن دونو ںیک طرفہ اور جانب دارانہ ہیں جن کی تشکیل اور کنٹرول میں مسلمانوں کو کوئی قابل ذکر حیثیت حاصل نہیں ہے، کیا اس نظام اور ثقافت کے فروغ اور تسلط کے لیے طاقت کا استعمال فکر اور عقیدے کے لیے طاقت کا استعمال نہیں ہے؟ فرق صرف تعبیر کا ہے۔ ہم سے مذہب کے لیے قوت کا استعمال ترک کرنے کا مطالبہ کرنے والا مغرب خود مذہب کے اس متبادل کے لیے طاقت کا اندھا دھند استعمال کر رہا ہے جسے اس نے سوسائٹی کی فکری بنیاد کے طور پر مذہب سے دست برداری کے بعد اختیار کر رکھا ہے مگر ہم سے مغرب کا تقاضا کیا ہے؟ اس کی ایک جھلک یورپین مستشرق اینڈرسن کی اس گفتگو میں دیکھی جا سکتی ہے جس کا ذکر عرب دنیا کے معروف عالم دین اور دانش ور استاذ وہبہ زحیلی نے اپنے ایک مقالے میں کیا ہے اور جس میں اینڈرسن نے مسلمانوں کو نصیحت کی ہے کہ وہ جہاد کو اسلامی احکام کی فہرست سے نکال دیں اس لیے کہ جہاد آج کے عالمی نظام اور بین الاقوامی اداروں کے قوانین وضوابط سے ہم آہنگ نہیں ہے اور فکر وعقیدے کو طاقت کے زور سے فروغ دینے کا وسیلہ ہے جو حریت اور عقلی ارتقا کے عالمی ماحول کے منافی ہے۔ لیکن جس عالمی نظام اور عقلی ارتقا کو مغرب نے مذہب کے لیے طاقت کے استعمال سے روکنے کا باعث قرار دیا ہے، وہ دونوں آج پوری طرح بے نقاب ہو چکے ہیں، جبکہ اقوام متحدہ نے افغانستان، عراق اور دوسرے متعدد ممالک پر امریکہ کی فوج کشی کو جواز کی سند دے کر ان کی اخلاقی حیثیت ختم کر دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مغرب اپنے اس عقیدے سے منحرف ہو گیا ہے کہ طاقت کا استعمال صرف دفاع کے لیے ہو سکتا ہے، فکر وعقیدے کے لیے ہتھیار کا استعمال ناجائز ہے۔ یہ صرف نظری بات ہے اور خوشنما فکری دھوکہ ہے جبکہ امریکہ کے دفاع کے لیے سات سمندر پار پیشگی فوجی حملوں اور سولائزیشن کے تحفظ کے لیے عسکری قوت کے بے محابا استعمال نے اس کو صرف ایک کھوکھلے نعرے کی حیثیت دے دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی میں یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مغرب نے اسلام کے اس فلسفے کو عملاً تسلیم کر لیا ہے کہ قوت کا استعمال صرف دفاع کے لیے نہیں ہوتا بلکہ کسی عقیدے اور تہذیب کی بالادستی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے بھی طاقت کا استعمال ناگزیر ہو جایا کرتا ہے۔ میرے نزدیک یہ آج کے دور میں اسلام کی اخلاقی فتح ہے۔
اب میں آتا ہوں اس بات کی طرف کہ ہمارے بعض حلقوں میں اسلام کے نام پر جہاد کے بارے میں گزشتہ ڈیڑھ صدی کے دوران جو فکری تبدیلی رونما ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ جب مغرب نے مذہب کے معاشرتی کردار سے دست بردار ہو کر مذہب کے لیے تلوار اٹھانے کو ممنوع قرار دے دیا تو ہمارے بعض دانش وروں کے ذہنوں میں بھی یہ خیال پیدا ہوا۔ مرزا غلام احمد قادیانی طرز کے بعض لوگوں نے جہاد کو سرے سے منسوخ قرار دینے میں ہی عافیت سمجھی، لیکن ذہنی طور پر اس مقام پر نہ پہنچنے والے بعض دانش وروں نے جہاد کے احکام اور فرضیت میں ایسی تاویلات کو ضروری قرار دیا جن سے جہاد کے تصور کو مغرب کے جدید فکر کے زیادہ سے زیادہ قریب لایا جا سکے اور مغرب کو مطمئن کیا جا سکے کہ ہم بھی مذہب کے لیے تلوار اٹھانے کے حق میں نہیں ہیں۔ میں ا س سلسلے میں سب کو ایک درجے میں نہیں سمجھتا، اس لیے کہ بہت سے حضرات مرعوبیت کا شکار ہوئے اور شعوری طور پر ان کی کوشش رہی کہ جہاد کے حکم کو اسلامی تعلیمات کی فہرست سے نکال دیا جائے مگر بعض ایسے حضرات بھی ہیں جو لاشعوری طور پر اس فریب کا شکار ہیں اور بڑے خلوص کے ساتھ اسلام کی تصویر کو آج کے عالمی منظر میں درست اور قابل قبول بنانے کے لیے جہاد کو ایسے انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں کہ اس سے مغرب کو تعرض نہ ہو، لیکن میراخیال ہے کہ اب اس تکلف کی ضرورت نہیں رہی۔ مغرب نے صرف دفاع کے لیے طاقت کے استعمال کے نام نہاد فلسفے کا بھانڈا خود ہی بیچ چوراہے میں پھوڑ دیا ہے، اس لیے ہمیں کسی معذرت خواہی کی ضرورت نہیں ہے اور بحمد اللہ ہم نے کبھی اس معذرت خواہی کی ضرورت نہیں سمجھی کیونکہ جس طرح مغرب اپنی سولائزیشن کے فروغ اور اپنے قائم کردہ یک طرفہ ورلڈ سسٹم کے تحفظ کے لیے خود اپنے لیے طاقت کے پیشگی استعمال کا حق مانگتا ہے، اسی طرح اسلام کا بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے سسٹم کو سوسائٹی میں بروئے کار لانے اور اپنے عقیدہ وثقافت کے فروغ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرے۔ 
باقی رہی ورلڈ سسٹم اور مغربی سولائزیشن کی بات تو ہم کسی جھجھک کے بغیر یہ کہہ دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ یک طرفہ، جانب دارانہ، استحصالی، ظالمانہ اور اسلام کی بنیادی تعلیمات کے منافی ہے اور ہمارے لیے کسی سطح پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔ جو لوگ اس پر ایمان لا چکے ہیں اور اسے جائز اور حق تصور کرتے ہیں، وہ اس کا دفاع کریں اور اس کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے اسلامی احکام میں تاویلات کا شوق بھی پورا کرتے رہیں، مگر ہم اسے یکسر مسترد کرتے ہیں۔ عالم اسلام کے دینی حلقوں اور علمی مراکز سے ہماری ہمیشہ یہ گزارش رہی ہے کہ وہ موجودہ ورلڈ سسٹم، اقوام متحدہ کے نظام اور مغربی سولائزیشن کے بارے میں اپنا موقف اجتماعی طور پر سامنے لائیں اور متفقہ طور پر مغرب پر واضح کر دیں کہ یہ سسٹم اور سولائزیشن دونوں ہمارے لیے ناقابل قبول ہیں اور ہم ان کی خاطر اسلامی تعلیمات اور احکام وقوانین میں کسی رد وبدل اور تاویل کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ضعیف اور موضوع احادیث کا فتنہ

ڈاکٹر یوسف القرضاوی

داعی کے لیے ضروری ہے کہ موضوع ہی نہیں بلکہ ضعیف اور منکر حدیثوں سے بھی اپنے کو دور رکھے۔ علماے امت نے موضوع حدیثوں کی روایت سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔ جواز کی صرف ایک صورت ہے جبکہ اس کا مقصد لوگوں کو ان کے خلاف آگاہی دینا ہو اور وہ ساتھ ہی صاف صاف بتاتا جائے کہ یہ روایت ’موضوع‘ ہے تاکہ اس کو پڑھنے اور سننے والے اپنے کو اس سے بچا کر رکھیں۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ موضوع حدیث کی روایت حرام ہے اگر آدمی کو اس کا پتہ ہے، قطع نظر اس سے کہ اس کا مضمون کیا ہے۔ وہ احکام سے متعلق ہے یا واقعات اور قصص سے یا ترغیب وترہیب وغیرہ سے۔ اس کے جواز کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ روایت بیان کرنے کے ساتھ ہی وہ اس کے موضوع ہونے کی وضاحت کر دے اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کی صحیح حدیث ہے جس کی روایت امام مسلم نے حضرت سمرۃ بن جندب سے کی ہے۔ آپ نے فرمایا:
من حدث عنی بحدیث یری انہ کذب فہو احد الکاذبین۔
’’جو شخص میرے حوالہ سے کوئی حدیث بیان کرے جو صاف دکھائی دیتی ہو کہ جھوٹ ہے تو جھوٹوں میں وہ بھی ایک جھوٹا ہے۔‘‘
علماے امت میں بہت سے لوگوں نے خاص انہی احادیث کو اپنا موضوع بنایا۔ انہوں نے ان کی کمزوریوں کو بے نقاب کیا اور ان کے باطل اجزا کی ایک ایک کرکے نشان دہی کی اور واضعین حدیث اور حدیث کے چشمہ صافی میں اپنی طرف سے کھوٹ کی آمیزش کرنے والوں کی ناپاک حرکتوں کا انہوں نے بالکل پردہ چاک کر کے رکھ دیا۔ حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ سے کسی شخص نے سوال کیا کہ (آپ لوگوں کے بعد) ان موضوع حدیثوں سے کون عہدہ برآ ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ’’ان سے نمٹنے کے لیے ان شاء اللہ ہر دور میں کچھ قد آور لوگ زندہ رہیں گے۔‘‘ اسی طرح علامہ ابن جوزیؒ فرماتے ہیں: ’’گمراہی پھیلانے والوں نے جب یہ دیکھا کہ قرآن کے اندر کسی قسم کی ترمیم وتحریف پر ان کا بس نہیں چلتا ہے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں اپنی طرف سے اضافے کرنے شروع کر دیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فتنے کا مقابلہ کرنے کے لیے امت کے اندر ایسے علما پیدا کیے جو حدیث پاک کے دفاع کے لیے سینہ سپر ہو گئے اور انہوں نے صحیح احادیث کو غلط حدیثوں سے بالکل چھانٹ کر الگ کر دیا۔ اور امید ہے کہ ان شاء اللہ کوئی زمانہ ایسے لوگوں سے خالی نہیں رہے گا۔ یہ ضرور ہے کہ اس زمانے میں یہ جنس گراں بہا بہت کم یاب ہو گئی ہے۔ ہزاروں لاکھوں میں دو چار لوگ بھی اس کام کے بمشکل ہی نکل سکیں گے۔ غالباً حال وہ ہو گیا ہے جس کی طرف شاعر نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے:
وقد کانوا اذا عدوا قلیلا 
فقد صاروا اعز من القلیل
’’تعداد تو ان کی پہلے بھی کم ہی تھی لیکن اب تو وہ کہیں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔‘‘
ابن جوزی کا انتقال ۵۹۷ھ میں ہوا ہے۔ بھلا جب چھٹی صدی ہجری کے سلسلے میں ان کا یہ تاثرتھا تو آج اگر وہ ہمارے زمانے کو دیکھتے تو پتہ نہیں ان کے تاثرات کیا ہوتے؟
بہرحال اس میں دو رائیں نہیں کہ ضعیف اور موضوع احادیث نے اسلامی ثقافت کے چشمہ صافی کو بہت کچھ گدلا کیا ہے۔ اسلامی ثقافت کے مختلف اجزا میں انہیں نفوذ حاصل ہوا جس کے اثرات تفسیر وتصوف اور فضائل کی مختلف کتابوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ فقہ واحکام کی کتابیں بھی ان کی آمیزش سے نہ محفوظ رہ سکیں۔ یہی نہیں بلکہ حدیث کے بہت سے متداول مجموعے بھی اپنے آپ کو ان کی زد سے بچانے میں کام یاب نہ ہو سکے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اور لوگوں کو تو چھوڑیے، بہت سے وہ لوگ جو اپنے کو دین کا داعی کہتے ہیں، ان کے اوپر بھی یہ چیز اثر انداز ہوئے بغیر نہ رہی، خاص طور پر ان میں وہ لوگ جن کے اندر قومیت ووطنیت کے جراثیم پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں اس طرح کی حدیثوں سے استشہاد کرنا ان حضرات کا عام معمول ہے اس لیے کہ ان کے اندر اعجوبہ پن اور مبالغہ آمیزی کے وہ مضامین ہوتے ہیں جن سے عوامی ذوق کو تسکین ملتی ہے اور عجائب پسند طبیعتوں کو ایک طرح کی راحت نصیب ہوتی ہے۔ جمعہ کا خطیب ہو یا مسجد میں درس دینے والا یا وہ عالم دین جس کے ذمہ ریڈیو پر حدیثیں سنانے کی خدمت سپرد ہے، آپ ا ن میں سے کسی کو سن لیں۔ یہ جب کوئی حدیث بیان کریں گے، اس کا تعلق مردود ومنکر احادیث کے ذخیرہ سے ہوگا بلکہ اکثر وبیشتر رسائل اور مجلات کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی ایسی حدیثیں سامنے آتی ہیں جو خلاف عقل ہونے کے علاوہ نقل صحیح سے متصادم اور شریعت کے مسلمہ اصولوں سے ہٹی ہوئی ہوتی ہیں اور رسائل ہی پر کیا موقوف، بہت سے معاصرین کی تصنیفات بھی ان کی زد سے محفوظ نہیں ہیں۔ اگر یہ حدیثیں موضوع نہ ہوں تو ان میں کمزوری کے ایسے بے شمار پہلو ہوتے ہیں جو انہیں پایہ اعتبار سے گرا دیتے ہیں۔
عام طور پر ان حضرات کی بناے استدلال یہ چلتا ہوا خیال ہے کہ ترغیب وترہیب، فضائل اور واقعات وقصص وغیرہ کے باب میں ضعیف اور کمزور سے کمزور حدیثوں کا نقل کرنا جائز ہے۔ یہاں ہم اس رائج خیال کے سلسلے میں چند باتوں کی نشان دہی ضروری سمجھتے ہیں:
۱۔ پہلی چیز تو یہ کہ یہ کوئی ایسی رائے نہیں جس پر پوری امت کا اتفاق ہو۔ بہت سے بلند پایہ علما کسی باب میں ضعیف اور بے اصل حدیثوں سے استدلال کو روا نہیں رکھتے، خواہ بات فضائل کی ہو یا کسی اور سلسلے کی۔ یحییٰ بن معین اور ائمہ حدیث کی ایک بڑی جماعت کی یہی رائے ہے۔ امام بخاریؒ کا مسلک بھی اس کے سوا دوسرا نہیں ہو سکتا جبکہ حدیث کے قبول کرنے کے سلسلے میں انہوں نے انتہائی کڑی شرطیں عائد کی ہیں۔ امام مسلم کو بھی اس کے علاوہ کسی دوسری صف میں نہیں رکھا جا سکتا اس لیے کہ انہوں نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں ضعیف اور منکر حدیثوں کی روایت کرنے والوں پر بڑی سخت تنقید کی ہے کہ یہ بدقسمت صحیح حدیثوں کی روایت کرنے کے بجائے اس نامبارک کام میں کیوں لگ گئے۔ یہی خیال قاضی ابوبکر بن عربی کا بھی ہے جو اپنے زمانے میں مالکیہ کے سرخیل تھے۔ابو شامہ جو اپنے زمانے میں شوافع کے سرخیل تھے، وہ بھی اسی خیال کے حامی ہیں۔ علامہ ابن حزم اور دوسرے بہت سے علماے ظاہر کا بھی یہی مسلک ہے۔
۲۔ دوسری بات یہ کہ جب صحیح اور حسن حدیثوں کا خود اتنا بڑا ذخیرہ موجود ہے جو لوگوں کی تعلیم وتذکیر کے لیے بالکل کافی ہے تو پھر انہیں چھوڑ کر کمزور اور بے سند حدیثوں کا رخ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جب اللہ نے ہمیں اعلیٰ وارفع چیز دے رکھی ہے تو پھر گھٹیا اور بے وزن چیزوں کے لیے طبیعت میں اضطراب کیوں رہے؟ دین واخلاق کا کوئی مسئلہ نہیں نہ فکر ونظر کا کوئی ایسا دائرہ پایا جاتا ہے جس کے لیے صحیح اور حسن احادیث کے ذخیرے میں کافی وافی مواد موجود نہ ہو لیکن ہمتیں ایسی گھٹیں اور مذاق اس قدر بگڑ گیا ہے اور تحقیق وتفتیش کی زحمت اٹھائے بغیر بس جو چیز ہاتھ میں آ جائے، اسے لے لینے کا رجحان ایسا بڑھ گیا ہے کہ لوگ ضعیف اور بے اصل حدیثوں کے نقل کرنے میں کوئی تکلف محسوس نہیں کرتے اور بے تکان ان کے حوالوں پر حوالے دیے چلے جاتے ہیں۔
۳۔ تیسری چیز دھیان دینے کی یہ ہے کہ ضعیف اور کمزور حدیثوں کو جزم کے صیغے سے نبی ﷺ کی طرف منسوب کرنا صحیح نہیں۔ علامہ سیوطیؒ تدریب شرح تقریب میں فرماتے ہیں:
’’جب تم کسی ضعیف روایت کو بغیر سند کے بیان کرنا چاہو تو یہ نہ کہو کہ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح فرمایا ہے۔ قال رسول اللہ ﷺ کذا۔ اسی طرح جزم کا کوئی اور صیغہ بھی استعمال نہ کرو بلکہ اس طرح کہو: آپ سے یہ مروی ہے۔ روی عنہ کذا۔ یا ہم تک آپ سے یہ بات پہنچی ہے۔ بلغنا عنہ کذا۔ یا یہ کہ آپ سے یہ بات آئی ہے۔ ورد عنہ۔ یا یہ کہ آپ سے یہ بات نقل کی گئی ہے۔ جاء او نقل عنہ۔ یا اسی کے مانند دوسرے اور صیغے جو اپنے اندر بجائے جزم کے، احتمال کا معنی رکھتے ہیں مثلاً یہ کہ بعض لوگ اس طرح روایت کرتے ہیں۔ روی بعضہم۔‘‘
پس یہ جو خطیبوں اور واعظوں نے عادت بنا لی ہے کہ کمزور اور ضعیف سے ضعیف حدیثوں کے سلسلے میں بھی اس سے کم ان کی زبان سے کوئی بات نکلتی ہی نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا ہے، قال رسول اللہ ﷺ، یہ طریقہ بالکل غلط ہے اور اسے بلا تاخیر ترک کیا جانا چاہیے۔ 
۴۔ چوتھی بات یہ کہ جن علماے امت نے ترغیب وترہیب وغیرہ کے باب میں ضعیف اور کمزور روایتوں پر عمل کی اجازت دی ہے، انہوں نے اس دروازے کو چوپٹ نہیں کھول دیا ہے بلکہ اس کے لیے کچھ شرطیں لگائی ہیں۔ یہ شرطیں تین ہیں:
اول یہ کہ وہ حدیث بہت زیادہ ضعیف نہ ہو۔
دوم یہ کہ وہ کسی اصل شرعی کے ذیل میں آتی ہو جس پر قرآن اور صحیح احادیث کی روشنی میں عمل کرنا ثابت ہو۔
سوم یہ کہ اس پر عمل کرتے ہوئے نبی ﷺ سے اس کے ثابت ہونے کا اعتقاد نہ رکھا جائے بلکہ یہ خیال رکھتے ہوئے عمل کیا جائے کہ معاملہ صرف احتیاط کا ہے۔
اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہے کہ علماے امت نے کسی قید اور شرط کے بغیر کمزور اور ضعیف حدیثوں کے دروازے کو چوپٹ نہیں کھول دیا ہے بلکہ اس کے لیے انہوں نے کچھ شرطیں عائد کی ہیں جن میں مذکورہ بالا تین شرطوں کے علاوہ ایک دوسری بنیادی شرط بھی شامل ہے کہ حدیث فضائل اور ترغیب وترہیب وغیرہ کے ذیل سے ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب نہ ہوتا ہو۔
ہماری رائے میں مذکورہ بالا شرطوں کے ساتھ دو مزید شرطوں کا اضافہ کیا جانا چاہیے:
اول یہ کہ حدیث مبالغہ آمیز اور گھبرا دینے والے مواد پر مشتمل نہ ہو جسے عقل کسی طرح باور کرتی ہے نہ شریعت سے اس کی کسی صورت تائید ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کی زبان کا غرابت سے پاک اور اہل عرب کے معروف انداز بیان سے ہم آہنگ ہونا بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ائمہ حدیث نے موضوع حدیث کا پتہ لگانے کے لیے راوی کے علاوہ روایت کے داخلی شواہد کو کافی اہمیت دی ہے۔ روایت کے انہی داخلی شواہد میں سے ایک چیز جو موضوع احادیث کا پتہ لگانے کے سلسلے میں بھی دلیل راہ کا کام دیتی ہے، یہ ہے کہ روایت ایسے مواد پر مشتمل ہو جو سرتاسر عقل کے خلاف ہو اور کسی صورت سے اس کی توجیہ ممکن نہ ہو۔ اسی سے ملتی ہوئی بات یہ ہے کہ اس کا مضمون تجربہ ومشاہدہ سے کھلے طو رپرمتصادم ہو یا پھر یہ کہ وہ قرآن وسنت کے صریح اورقطعی نصوص سے ٹکراتی ہو یا اجماع امت کے خلاف پڑتی ہو۔ واضح رہے کہ ان تمام صورتوں میں یہ بات اسی وقت کہی جا سکے گی جبکہ دو باتوں میں کسی طرح تطبیق ممکن نہ ہو۔ کسی صورت سے تطبیق ہو سکے اور تعارض رفع ہو جائے تو پھر یہ بات نہیں رہ جائے گی۔ علاوہ ازیں وہ حدیث بھی قابل قبول نہیں قرار پائے گی جو متعلق تو ہو کسی مہتم بالشان امر سے جسے عوام کے بڑے مجمع کے سامنے بیان کیا جانا ضروری ہو لیکن اس کو نقل کرنے والا تنہا ایک آدمی ہو۔ موضوع حدیث کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ ایک چھوٹے معاملے پر بہت بڑی وعید سنائی گئی ہو یا کسی معمولی کام پر بہت بڑے اجر کی بشارت دی گئی ہو۔ واعظ اور قصہ گو حضرات کے یہاں عام طور پر ہمیں اسی قبیل کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔
افسوس ہے کہ ہمارے زمانے میں حدیث سے اشتغال رکھنے والے بہت سے لوگ بھی ترغیب وترہیب اور اس ذیل کے دیگر موضوعات کے سلسلے میں روایتوں کو نقل کرتے ہوئے ان اصولوں کا خاطر خواہ لحاظ نہیں رکھتے۔ گزشتہ ادوار میں تو یہ بات کسی حد تک چل جاتی تھی لیکن ہمارے زمانے میں ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کا جو رجحان پیدا ہو گیا ہے، اس کے پیش نظر اس طرح کی مبالغہ آمیز چیزیں لوگوں کے لیے قابل قبول قرار نہیں پاتیں اور آسانی کے ساتھ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتی ہیں بلکہ یہ بات بھی چنداں تعجب انگیز نہ ہوگی کہ حقائق سے دور اس طرح کی بے اصل حدیثوں کے سننے کے نتیجے میں بہت سے لوگ نفس دین کے سلسلے ہی میں شک وتردد کا شکار ہو جائیں اور اس پر اعتراضات کی بوچھاڑ شروع کر دیں۔
اہل عرب کے معروف اندا زبیان سے ہٹی ہوئی اور زبان وادب کے پہلو سے استغراب کی حامل روایتوں کی مثال جنہیں ذوق سلیم کسی طرح قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں، وہ حدیثیں پیش کرتی ہیں جو مثلاً دراج ابی السمح جیسے قصہ گویوں سے قرآن کریم کے بعض الفاظ کی تشریح وتفسیر کے سلسلے میں مذکور ہیں جبکہ زبان ولغت کی روشنی میں ان کا مفہوم بالکل واضح ہے لیکن روایتوں کی صورت میں وہ ان کی ایسی تشریحات پیش کرتا ہے جو غرابت کا شکار اور لفظ کے لغوی مفہوم سے ایسی دور ہیں کہ اس سے زیادہ دوری کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔
مثال کے طور پر یہی دراج ابو الہیثم سے اور وہ ابو سعید سے رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرتے ہوئے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ ’’ویل‘‘ (جبکہ قرآن میں یہ لفظ متعدد بار آیا ہے) جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس میں کافر چالیس برس تک مسلسل گرتا چلا جائے گا تب کہیں جا کر وہ اس کی تہ تک پہنچ پائے گا۔‘‘ یہ روایت احمد اور ترمذی نے نقل کی ہے، البتہ ترمذی میں چالیس کے بجائے ستر سال (سبعین خریفا) کے الفاظ ہیں۔ حالانکہ ہر شخص کو معلوم ہے، لفظ ’’ویل‘‘ ہلاکت اور بربادی کے لیے بولا جاتا ہے۔ اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد ہمیشہ سے یہ لفظ اس معنی کے لیے مشہور ومعروف چلا آتا ہے۔
اسی کے مانند وہ روایت بھی ہے جسے طبرانی اور بیہقی حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے واسطہ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول: ’فسوف یلقون غیا‘ کے سلسلے میں لفظ ’غی‘ کی تشریح میں نقل کرتے ہیں کہ یہ جہنم کی ایک وادی کا نام ہے یا یہ کہ جہنم میں ایک دریا اس نام سے موسوم ہے۔ حالانکہ ’غی‘ کے معنی سرکشی کے معروف ہیں اور آیت کریمہ کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ کافر اپنی سرکشی کے انجام سے دوچار ہوں گے۔
اسی طرح بیہقی وغیرہ اللہ تعالیٰ کے اس قول ’وجعلنا بینہم موبقا‘ کے سلسلے میں حضرت انس کے واسطے سے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ یہ خون اور پیپ کی ایک وادی کا نام ہے جبکہ ’’موبق‘‘ کے معنی صاف جائے ہلاکت کے ہیں۔ آیت کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ ’’ہم ان کے بیچ ایک جائے ہلاکت لاکھڑی کریں گے‘‘۔
اس سے بھی زیادہ عجیب وغریب ابن ابی الدنیا کی روایت ہے جسے وہ شفی بن مانع کے واسطے سے نقل کرتے ہیں کہ جہنم میں ایک وادی ہے جس کا نام ’’اثام ہے‘‘ جو سانپوں اور بچھوؤں سے بھری ہوئی ہے وغیرہ۔ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول ’ومن یفعل ذلک یلق اثاما‘ سے یہی وادی مراد ہے۔ حالانکہ آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے گناہ کے انجام سے دوچار ہوں گے۔ ’اثام‘ کے معنی گناہ عربی زبان کا ہر طالب علم جانتا ہے۔
ہمارے محدثین کی طرف سے اس طرح کی روایتوں کو سند قبول عطا کرنے کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ حافظ منذری جیسے ناقد حدیث نے بھی ان تمام روایتوں کو اپنی کتاب ’الترغیب والترہیب‘ میں جگہ دے دی ہے۔
۲۔ حدیث کے قابل قبول قرار دیے جانے کے سلسلے میں دوسری شرط جس کا اضافہ ہم ضروری خیال کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ کمزور حدیث اپنے سے صحیح تر احادیث سے ٹکراتی نہ ہو۔ اس کی مثال میں ان کمزور حدیثوں کو پیش کیا جا سکتا ہے جو حضرت عبد الرحمن بن عوف کے سلسلے میں مروی ہیں کہ ’’وہ دنیا میں اپنی مال داری کے سبب جنت میں گھٹنوں کے بل داخل ہوں گے۔‘‘
اس طرح کی احادیث کے سلسلے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ کسی اصل شرعی سے ٹکراتی نہیں ہیں بلکہ یہ دین کے اس مسلمہ اصول کے تحت ہیں کہ انسان کو مال کے فتنہ سے ڈر کر رہنا چاہیے اور بڑھی ہوئی مال داری اپنے ساتھ جو سرکشی اور نافرمانی لے کر آتی ہے، اس کے پیش نظر اس سے دامن کش ہی رہنا مناسب ہے۔ لیکن یہاں صورت یہ ہے کہ مذکورہ حدیث ان بے شمار صحیح حدیثوں سے ٹکراتی ہے جن میں حضرت عبد الرحمن بن عوف کو عشرہ مبشرہ میں شامل قرار دیا گیا ہے۔ دیگر مستند واقعات اور وہ مشہور ومستفیض روایات مزید برآں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آں موصوف کا شمار اسلامی جماعت کے اعلیٰ ترین لوگوں میں سے تھا اور دین داری اور تقویٰ کے لحاظ سے وہ گنے چنے لوگوں میں شامل تھے۔ دراصل آپ کی ذات گرامی غنی شاکر یعنی شکر وسپاس کے پیکر مال دار کا ایک جیتا جاگتا نمونہ تھی (دین میں جس کے مقام ومرتبہ سے ہر شخص واقف ہے) حضور پاک ﷺ نے داعی اجل کو لبیک کہا دریں حالیکہ وہ آپ سے پوری طرح راضی اور خوش تھے۔ اسی طرح لسان حق ترجمان حضرت عمر نے اپنے انتقال سے چند دن پہلے اگلے خلیفہ کے انتخاب کے لیے جن چھ حضرات پر مشتمل شوریٰ کمیٹی تشکیل دی تھی، اس میں آپ کا نام نامی بھی شامل تھا، اس امتیازی حیثیت کے ساتھ کہ اگر جانبین سے رائیں مساوی ہوں تو ترجیحی ووٹ کا حق آں جناب کو حاصل ہوگا۔ اسی لیے حافظ منذری نے الترغیب والترہیب میں کہا ہے کہ اگرچہ مختلف طریقوں سے، جن میں صحابہ کرام کی ایک جماعت بھی شامل ہے، یہ بات نقل کی گئی ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف جنت میں گھٹنوں کے بل داخل ہوں گے اور اس کی وجہ (دنیا میں) ان کی بڑھی ہوئی مال داری ہوگی، لیکن اس کا بہتر سے بہتر کوئی ایک بھی طریق روایت ایسا نہیں جس پر کچھ نہ کچھ کلام نہ ہو اور ان مختلف طریقوں میں ایک بھی نہیں جو تنہا ’حسن‘ کے درجہ تک پہنچتا ہو۔ اگر وہ مال دار تھے تو ان کی یہ مال داری رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد گرامی کا مصداق تھی کہ ’نعم المال الصالح للرجل الصالح‘ (یعنی خدا ترس اور نیک طینت انسان کے لیے مال کیا ہی بہترین چیز ہے) پھر سوال یہ ہے کہ اس مال داری کے سبب آں جنا ب کے درجات آخرت میں کم کیوں ہوں؟ نیز یہ کہ امت کے تمام مال دارو ں میں صرف آں موصوف ہی کے ساتھ یہ روش اپنائے جانے کی کیا وجہ ہے جبکہ کسی اور مال دار کے سلسلے میں ہمیں اس طرح کی کوئی چیز نہیں ملتی۔ البتہ یہ بات صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ اس امت کے فقرا، اغنیا کے مقابلے میں جنت میں پہلے داخل ہوں گے۔ لیکن یہ بات علی الاطلاق تما م مال داروں کے لیے ہے، کسی ایک شخص کے لیے اسے خاص کر لینا صحیح نہیں ہو سکتا ہے۔ (الترغیب والترہیب ۵/۳۰۸۔ طبع السعادۃ)

داعیان حق کے یہاں ضعیف اور موضوع روایات کس طرح راہ پا لیتی ہیں؟

عام طور پر داعیان حق کے یہاں ضعیف اور غیر معتبر روایات اس لیے راہ پا لیتی ہیں کہ ان کا تمام تر انحصار حدیث کے ان مجموعوں پر ہوتا ہے جن میں حدیثوں کی چھان پھٹک اور ان کی تحقیق وتفتیش کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا ہے۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ اکثر وبیشتر ان میں اس کا بھی ذکر نہیں ہوتا کہ حدیث کی تخریج کس امام حدیث نے کی ہے حالانکہ اگر یہ چیز معلوم بھی ہو ، جب بھی صرف اتنی سی بات کسی حدیث پر اعتماد کرنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتی اس لیے کہ اکثر مولفین حدیث نے اپنی کتابوں میں اس کا اہتمام نہیں کیا ہے کہ وہ صرف صحیح اور حسن حدیثیں ہی بیان کریں گے۔
چنانچہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو آپ دیکھیں گے کہ وہ وعظ وتذکیر، تصوف اور تفسیر وغیرہ کی کتابوں سے بے تکلف حدیثیں نقل کرتے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی حدیث کی صحت اور اس پر اعتماد کرنے کے لیے حدیث کے نام سے کسی کتاب میں صرف اس کے اندراج کو کافی سمجھتے ہیں حالانکہ کسی حدیث کے قابل اعتماد ہونے کے لیے کم سے کم یہ بات ہے کہ حدیث کے مقبول ہونے کا جو کم تر سے کم تر معیار ہے، وہ اس پر پوری اترتی ہو۔ بہرحال جو لوگ وعظ وتذکیر کے مجموعوں کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں، ان کو میرا مشورہ ہے کہ وہ صرف ان کے اعتماد پر کبھی کسی حدیث کی روایت نہ کریں اس لیے کہ ان میں رطب ویابس ہر طرح کی روایتیں بھری پڑی ہیں۔ احادیث وآثار کا معاملہ ہو یا قصص وواقعات کا، کسی چیز کے سلسلے میں ان کے اندر ادنیٰ درجے میں بھی تحقیق وتفتیش کا اہتمام نہیں کیا گیا ہے۔ دلیل صرف یہ ہے کہ ان سے کوئی حکم شرعی تو وابستہ نہیں ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ وعظ وتذکیر کے فن کی خاصیت ہی کچھ ایسی ہے۔ چنانچہ حدیث کے عام مولفین کو چھوڑیے، جب ناقدین حدیث بھی اس موضوع کو ہاتھ لگاتے ہیں تو وہ بھی ڈھیل اور سہل انگاری کو راہ دیے بغیر نہیں رہتے اور بسا اوقات تو بات اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اسے سوائے کوتاہی اور عدم توجہ کے کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ یہاں تک کہ علامہ ابن جوزی جیسا ناقد حدیث بھی، جس نے اس موضوع پر ’الموضوعات‘ اور ’العلل المتناہیہ‘ جیسی کتابیں لکھی ہیں، یہی ابن جوزی جب وعظ وتذکیر کے میدان میں قدم رکھتے ہیں اور ’ذم الہویٰ‘ نامی کتاب تصنیف کرتے ہیں تو ان کے ناقدانہ تعقل پر واعظانہ جذبہ غالب آ جاتا ہے اور وہ بڑی حد تک سہل انگاری سے کام لینے لگتے ہیں۔ یہی حال حافظ ذہبی کا ہے کہ وہ اپنی واعظانہ تصنیف ’الکبائر‘ میں حدیثوں کے انتخاب کے سلسلے میں بالکل ڈھیلے نظر آتے ہیں۔
جو لوگ تفسیر کی کتابوں سے کسی حدیث کو نقل یا بیان کرنا چاہیں، ان کو میرا مشورہ ہے کہ ابن کثیر کی طرف رجوع کریں اس لیے کہ یہ مفسر کے ساتھ بلند پایہ حافظ حدیث بھی ہیں اور روایتوں کے سلسلے میں نقد وجرح کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب میں جو حدیث بھی نقل کرتے ہیں، اس کے سلسلے میں بالعموم یہ رائے دے دیتے ہیں کہ یہ روایت قابل اعتماد ہے اور اس میں یہ ضعف پایا جاتا ہے۔
اسی طرح تصوف کی نمائندہ غزالی کی ’احیاء العلوم‘ سے جو شخص کوئی روایت نقل یا بیان کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ حافظ عراقی نے اس کی حدیثوں کی جو تخریج کی ہے، اس کی طرف رجوع کرے۔ یہ تخریج ’احیا‘ کے ساتھ ہی چھپی ہوئی ہے۔ جو شخص اصل کتاب کا مطالعہ کرنا چاہے، اس کے لیے بھی اس تخریج کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے چہ جائیکہ وہ شخص جو اس سے کسی حدیث کو نقل یا بیان کرنا چاہے کہ اس کے لیے تو اس کی ضرورت بدرجہ اولیٰ ہے۔ اس کے بغیر کچھ پتہ نہیں چل سکتا کہ غزالی جو حدیث بیان کر رہے ہیں، وہ کس پائے کی ہے۔
جو شخص حافظ منذری کی الترغیب والترہیب کے حوالہ سے کوئی حدیث بیان کرے، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے مقدمہ کا ضرور مطالعہ کرے جس میں انہوں نے اپنی کتاب میں بیان کردہ حدیثوں کی نوعیت سے بحث کی ہے اور ان اصطلاحوں کی وضاحت کی ہے جنہیں وہ کسی حدیث کے قوی یا ضعیف ہونے کے سلسلے میں استعمال کرتے ہیں۔ نیز یہ کہ وہ قوی یا ضعیف ہے تو اس کا یہ قوت یا ضعف کس درجے کا ہے تاکہ وہ بہت زیادہ کمزور حدیثوں کو نقل کرنے سے محفوظ رہے۔ مصنف کی اصطلاح سے واقف نہ ہونے کی صورت میں وہ کسی حدیث کے ساتھ صرف اس پر ’حسن‘ یا ’صحیح‘ لکھا ہوا دیکھ کر اسے بے کھٹکے بھروسے کے قابل تصور کر لے گا حالانکہ مصنف کی منشا اس سے مختلف ہوتی ہے۔
اسی طرح جو شخص سیوطی کی ’الجامع الصغیر‘ سے کوئی حدیث نقل یا بیان کرنا چاہے، اس کے لیے میرا مشورہ ہے کہ اسے اس کے علاوہ مناوی کی مطول شرح ’فیض القدیر‘ یا اس کے اختصار ’التیسیر‘ کی طرف ضرور مراجعت کر لینی چاہیے۔ سیوطی نے حدیثوں پر ’صحیح‘، ’حسن‘ اور ’ضعیف‘ کے لیے ص ، ح اور ض کی جو علامتیں بنا دی ہیں، صرف ان علامات پر اکتفا نہ کرے اس لیے کہ نقل وطباعت کی اغلاط سے ان میں بڑا ہیر پھیر ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ ’الجامع الصغیر‘ کی ان شرحوں کا اس لیے بھی دیکھنا ضروری ہے کہ شارح نے اصل کتاب پر جو گرفتیں کی ہیں اور ان کی جن خامیوں کی نشان دہی کی ہے، ان سے فائدہ نہ اٹھانا یقیناًمحرومی کی بات ہوگی۔ ہمارے زمانہ کے عظیم محدث علامہ محمد ناصر الدین البانی نے ’الجامع الصغیر‘ اور اس پر مصنف کا بعد کا اضافہ جو ’الفتح الکبیر‘ کے نام سے ہے، ان کی صحیح حدیثوں کو ضعیف حدیثوں سے چھانٹ کر الگ کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ان کی یہ عظیم کاوش کئی جلدوں میں مطبوعہ صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ کوئی شک نہیں کہ موصوف نے اس کام کا حق ادا کر کے خدمت حدیث کا عظیم کارنامہ انجام دیا ہے جس سے واقعہ یہ ہے کہ حدیث کا کوئی طالب علم بے نیاز نہیں ہو سکتا۔
اس کے علاوہ حدیث کی ایک دوسرے طرز کی کتابیں ہیں جن سے بھی بہرحال استفادہ کیا جانا چاہیے۔ یہ اپنے فن کی بعض مشہور کتابوں کی احادیث کی تخریج ہیں جن کے مصنفین نے اپنی روایت کردہ حدیثوں کی تخریج کا اہتمام خود نہیں کیا ہے۔ مثال کے طور پر تفسیر کی مشہور کتاب ’الکشاف‘ کی حدیثوں کی تخرج حافظ ابن حجر کی طرف سے، تصوف کی نمائندہ ’احیاء العلوم‘ کی روایت کردہ احادیث کی تخریج حافظ عراقی کی طرف سے یا کتب فقہ مثلاً ہدایہ کی احادیث کی تخریج حافظ زیلعی کی طرف سے، یا اسی طرح ’الاختیار‘ کی حدیثوں کی تخریج جو علامہ محمد قاسم کی کاوش کا نتیجہ ہے، یا مثلاً ’الرافعی الکبیر‘ کی حدیثوں پر نقد ونظر حافظ ابن حجر کی طرف سے جس کا نام ’تلخیص الحبیر‘ معروف ہے۔
اسی طرح حدیث کی ایک دوسری نوعیت کی کتابیں ہیں جن کا موضوع وہ مشہور اور پھیلی ہوئی احادیث ہیں جو ہر شخص کی زبان زد ہیں۔ ان میں اس بات کی تفصیل ہوتی ہے کہ حدیث کس امام کی تخریج کردہ ہے، نیز یہ کہ وہ صحیح ہے یا حسن یا کہیں اور ضعیف اور موضوع تو نہیں ہے۔ اس نوع کی کتابوں میں حافظ سخاوی کی ’المقاصد الحسنہ‘ سرفہرست ہے۔ یہی موضوع ابن ربیع شیبانی کی ’تمییز الطیب من الخبیث فی ما یدور علی السنۃ الناس من الحدیث‘ اور عجلونی کی ’کشف الخفاء ومزیل الالباس فی ما اشتہر من الحدیث علیٰ السنۃ الناس‘ کا بھی ہے جیسا کہ ان کے ناموں ہی سے ظاہر ہے۔ البتہ موخر الذکر زیادہ جامع اور موضوع پر حاوی ہے۔ اس کی ترتیب حروف تہجی کے اعتبار سے ہے۔
ان کے علاوہ کتابوں کا ایک اور سلسلہ ہے جس سے حدیث کا کوئی طالب علم بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ ہماری مراد کتب موضوعات سے ہے جن میں بے سروپا اور حضور پاک ﷺ کی طرف منسوب من گھڑت حدیثوں کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ علامہ ابن جوزی کی ’الموضوعات‘ ا س سلسلے میں سرفہرست ہے۔ اسی طرح علامہ سیوطی کی ’اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ‘ نیز انہی کی ’تحذیر الخواص من اکاذیب القصاص‘ ، علامہ ابن قیم کی ’المنار المنیف فی الصحیح والضعیف‘، ملا علی قاری کی ’الموضوعات الکبریٰ‘ نیز ان کی ’الموضوعات الصغریٰ‘ جس کا دوسرا نام ’المصنوع فی معرفۃ الموضوع‘ بھی ہے۔ ابن عراق کی ’تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ من الاحادیث الشنیعۃ الموضوعۃ‘، شوکانی کی ’الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ‘، علامہ عبد الحئی لکھنوی کی ’الاسرار المرفوعۃ‘ اور محدث عصر محمد ناصر الدین الالبانی کی ’الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ واثرہا فی الامۃ‘ وغیرہ بھی اس موضوع سے متعلق ہیں۔ حدیث کے ہر طالب علم کے لیے ان کا مطالعہ ازبس ضروری ہے۔

سفیر ختم نبوت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ

مولانا مشتاق احمد

نام ونسب 

مولانا موصو ف چنیوٹ میں راجپوت خاندان کے ایک فرد حاجی احمد بخش ولد قادر بخش کے ہاں۳۱دسمبر ۱۹۳۱ء کو پیدا ہوئے ۔ آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کے والدین نے خواب میں دیکھا کہ ان کے سامنے سے روشنی پھوٹ رہی ہے جس سے گرد وپیش کا علاقہ منور ہورہا ہے۔ آپ کے والد محترم نے قریبی مسجد کے اما م صاحب کے سامنے خواب بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایسا بیٹا عطا فرمائیں گے جو دین اسلام کی خدمت کرے گا اور بکثرت لوگ اس سے استفادہ کریں گے۔ امام مسجد کی یہ تعبیر جس طرح پوری ہوئی، محتاج بیان نہیں ۔مولانا چنیوٹی کے آبا واجداد میں سے رائے گل محمد نے سب سے پہلے ساتویں صدی ہجر ی میں اسلام قبول کیا ۔

تعلیم وتربیت 

چار سال کی عمر میں آپ کو قر یبی مسجد میں حافظ گلزار احمد مرحوم کے پاس ناظرہ قرآن مجید پڑھنے کے لیے داخل کرایا گیا۔ ناظرہ قرآن پڑھنے کے بعد آپ نے اسلامیہ ہائی سکول چنیوٹ میں چھٹی جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ نامساعد گھریلو حالات کی وجہ سے آپ کو سکول سے ہٹالیا گیا۔ اس کے بعد کچھ مدت تک والد صاحب کے ساتھ کام میں ان کا ہاتھ بٹاتے رہے ۔
اللہ تعالیٰ نے چونکہ آگے چل کر آپ سے دین اسلام کا کام لینا تھا، اس لیے چنیوٹ کے معروف عالم دین (احقر کے رشتہ کے دادا جا ن ) حضر ت مولانا دوست محمد ساقی فاضل دارالعلو م دیوبند کی توجہ مولانا چنیوٹی کی طرف مبذول کرادی۔ وہ روزانہ آکرآپ کو بھی تر غیب دیتے رہتے اور آپ کے والد صاحب محترم حاجی اللہ بخش صاحب کی توجہ بھی اس طرح مبذول کراتے رہتے۔ نتیجتاً آپ ۱۹۴۰ء میں مدرسہ آفتاب العلوم محلہ گڑھا چنیوٹ میں داخل ہو گئے۔ وہاں آپ نے مولاناحبیب اللہ سیالکوٹی، مولانامحمد اسلم حیات گجراتی، مولاناغلام محمد گوجرانوالہ اور مولانا دوست محمد ساقی جیسے فضلاے دیو بند سے کسب فیض کیا۔ قیا م پاکستان کے وقت ناموافق حالات کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا اور اپنے ماموں محمداکرم صاحب کے ساتھ پنسار کی دکان پربیٹھنے لگے۔ پھر مولانا ساقی کے ہمت دلانے پر دوبارہ تعلیم شروع کی اور ان کے ساتھ چنیوٹ کے قریبی گاؤں چک ساہمبل میں چلے گئے، جہاں مولانا ساقی صاحب وہاں کے باشندوں کی دعوت پر ان دنوں درس نظامی کی تدریسی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔یہا ں آپ نے کم و بیش چار پانچ سال تعلیم حاصل کی۔
۱۹۵۱ء میں آپ دورۂ حدیث کے لیے جامعہ خیر المدارس ملتان میں داخل ہوئے مگر بعض وجوہ کی بنا پر وہا ں سے دارالعلوم اسلامیہ ٹنڈواللہ یار (سندھ ) چلے گئے۔ وہاں آپ نے حضر ت مولانا عبدالرحما ن کیمبل پوری، حضر ت مولانا بدر عالم میر ٹھی، حضرت مولانا سید یوسف بنوری اور مولانااشفاق الرحمان کاندھلوی رحمہم اللہ تعالیٰ جیسے یکتائے روزگار اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا۔ دورہ حدیث سے فراغت حاصل کرنے کے بعد ایک سال مزید ٹھہر کر حضر ت مولاناعبد الرشید نعمانی سے مقدمہ ابن الصلاح، مولانا بنوری سے انشاء عربی اور مولانا عبد الرحمان کامل پوری سے علم میراث کی تعلیم حاصل کی۔ حضرت مولانا مفتی عبدالستار صاحب خیرالمدارس ملتان دورۂ حدیث میں آپ کے ہم جماعت تھے۔ علم تفسیر کے لیے حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی اورشیخ القر آن حضرت مولاناغلام اللہ خانؒ سے مراجعت کی۔ فن مناظرہ میں کمال حصل کرنے کے لیے دفترتنظیم اہل سنت ملتان میں حضرت مولانا دوست محمد قریشیؒ ، مولانا سید نورالحسن شاہ بخاری ؒ اورحضرت علامہ عبدالستارتونسوی سے رد رافضیت کے مو ضوع پر تربیت حاصل کی۔
مولاناچنیوٹی مرحومؒ اپنے اساتذہ کرام کاانتہائی ادب واحترام کرتے تھے۔ مولانا ساقی مرحوم طبیعتاً سخت مزاج تھے اورجوانی کے زمانے میں طلبا کو سخت سزا دیا کرتے تھے۔ (بعد ازاں احقر کے تعلیمی زمانے میں نسبتاً کچھ تحمل پیدا ہو گیاتھا ) مولانا چنیوٹی نے کبھی آج کل کے طلبا کی طرح مدرسہ بدلنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ مولانا چنیوٹی کے بر عکس ان کے دو سا تھی گستاخانہ رویہ اختیار کرتے تھے۔ ایک تومولانا ساقی صاحب کے سامنے ہی زیر لب بڑبڑاتا رہتاتھا، جبکہ دوسراڈنڈا پکڑ لیتا اور باقاعدہ مزاحمت کرتاتھا ۔ ان دونوں کوعلم نافع نصیب نہ ہوسکا۔ امامت وخطابت سے آگے نہ بڑھ سکے بلکہ امامت بھی باقاعدگی سے نہ کر سکے۔ ’باادب بانصیب‘ کے مقولہ کے مطابق مولاناچنیوٹی صاحب کو استاذ محترم کے سامنے باادب رہنے کا جوصلہ ملا، وہ سب کے سامنے ہے۔
تعلیمی دور سے گزرنے کے بعد بھی جب کہ مولانا پنجاب اسمبلی کے ممبر اور دینی ودنیاوی وجاہت کے مالک تھے، آپ کے بااد ب ہونے کا یہ منظر بارہا دیکھا کہ مولانا ساقی صاحب چنیوٹی صاحب کے دفتر میں تشریف لاتے تو ابھی و ہ دفتر سے باہر ہوتے کہ آپ تمام مصروفیت چھوڑکرفوراً کھڑے ہو جاتے۔ ادب و احترام سے بات سنتے اور ان کے تشریف لے جانے کے بعد بیٹھتے تھے ۔

تعلیمی خدمات

۱۹۵۲ ء میں آپ تعلیم سے فارغ ہوئے تو مدرسہ دارالہدیٰ چوکیرہ میں تدریسی فرائض سرانجام دینے لگے۔ سنن ابی داؤد سمیت اعلیٰ درجات کی کتابیں پڑھاتے رہے۔ چوکیرہ ہی میں مولانا غلا م محمدصاحب آف عنایت پور بھٹیاں (چنیوٹ) نے آپ سے تعلیم حاصل کی اور اپنے علاقے میں میں قادیانیوں کو لوہے کے چنے چبوائے۔ پچاس سے زیادہ قادیانی مولاناغلام محمد کے ہاتھ تائب ہوچکے ہیں ۔
مناظراسلام حضرت مولانا سید احمد شاہ چوکیروی سے آپ کو خصوصی تعلق تھا۔ وہ بھی آپ پر بہت شفقت فرماتے تھے۔ حضرت شاہ صاحب کے مشورہ سے آپ چوکیرہ چھوڑ کر جامعہ عربیہ چنیوٹ میں بطور صدر مدرس تشریف لائے۔ جامعہ عربیہ ۱۹۵۴ء میں استاذالقرا قاری مشتاق احمد صاحب قدس سر ہ نے چنیو ٹ کی شیخ برادری کے تعاون سے قائم کیا تھا۔ انہیں تن تنہا مدرسہ کا نظم چلانے میں دقت پیش آرہی تھی۔ مولانا چنیوٹی نے قاری صاحب کے اعتما د اور مشورہ سے مدرسہ کا تعلیمی نظام سنبھالا اور شب وروز سخت محنت کرکے اسے اس بلند ی پر لے گئے کہ عوامی وحکومتی سطح پر معتبر بنادیا اور پورے ملک سے طلبہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے لگے۔ تقریباًتیس پینتیس برس تک یہ معمول رہا کہ شہر میں گھر ہونے کے باوجود پورا ہفتہ مدرسہ میں رہتے تھے اور جمعرات کی شا م کو تشریف لے جاتے تھے اور جمعہ کی شام کو پھر واپس آجاتے تھے اور جانچ پڑتال کرتے کہ جمعرات کو چھٹی لے کر گھر جا نے والے طلبہ میں سے کون واپس آیا ہے اور کون نہیں آیا، فجر کی نماز کس نے پڑھی اور کس نے سستی کی۔ سستی کرنے والوں کو خود سزا دیتے تھے ۔
بہت عرصہ معمول رہا کہ عشا کے بعد صَرف پڑھنے والے طلبہ کو بلالیتے اور ان سے صیغے نکلوایا کرتے تھے۔ اگردو تین دن کے لیے تبلیغی سفر درپیش ہوتا تو جس وقت واپس آتے، خود طلبہ کوبلاتے اور سبق پڑھاتے تھے۔ ان سے بارہا سنا کہ میں سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور راولپنڈی جیسے دور دراز شہروں میں تقریریں کرنے جاتا تھا اور تقریر کے فوراًبعد واپس چل پڑتا اور صبح آکر اسباق پڑھاتا تھا۔ جامعہ عربیہ کے ایک استاذمولانا نذر محمدصاحب حیران ہوکر کہا کرتے کہ معلوم نہیں تو انسان ہے یا جن ہے۔
آپ کو صرف ونحو اور علم میراث میں خصوصی مہارت حاصل تھی۔ آپ سے کئی بار سنا کہ لوگ مجھے رد قادیانیت کا ماہر سمجھتے ہیں حالانکہ اس زیادہ مجھے میراث میں دسترس حاصل ہے ۔ جامعہ عربیہ میں باضابطہ مفتی متعین نہ تھا۔ علاقہ کے لوگ مولانا مرحوم سے مسائل پوچھنے کے لیے رجوع کرتے اور آپ زبانی اور تحریری طور پر لوگوں کی رہنمائی کیا کرتے تھے۔ اس طر ح آپ نے سینکڑوں فتاوی تحریری طور پر جاری کیے ۔
جامع مسجد صدیق اکبر محلہ گڑھا چنیوٹ میں آپ نے بحیثیت خطیب تقریباًچالیس سال فرائض سرانجام دیے۔قرآن وحدیث کی روشنی میں خالص علمی تقریر کرتے تھے جو کہ روایتی خطیبوں کے حشو و زوائد سے پاک اور دلائل سے مزین ہوتی تھی۔ خطابت کا کبھی آپ نے معاوضہ وصول نہیں کیا۔ علاوہ ازیں دن میں دو بار فجراور عشا کے بعد درس قرآن دینے کا برسوں معمول رہا ۔
قادیانی جامعہ احمدیہ چناب نگر میں فاضل عربی کا کورس کرایا جاتا تھا اور قادیانی لڑکے اور لڑکیاں سرکاری اداروں میں بطور اوٹی ٹیچر تقرری کروا کر مسلمان طلبہ اور طالبات کی گمراہی کا سبب بنتے تھے۔ اس وقت دینی اداروں میں فاضل عربی کرانے کا رواج نہ تھا۔ مولانا چنیوٹی نے قادیانیوں کے توڑ کے لیے جامعہ عربیہ میں فاضل عربی کا اہتمام کیا ۔طلبہ یہاں سے پڑھ کر بطور اوٹی ٹیچر وپروفیسر سکولو ں اور کالجوں میں جانے لگے اور اس طرح قادیانیت کی تبلیغ کا راستہ بند ہوا۔
مدرسہ اشرف المدارس محلہ گڑھا چنیوٹ اور مدرسہ اشرف العلوم محلہ ترکھانہ چنیوٹ مدتوں آپ کے زیر انتظام رہے، بلکہ اشرف المدارس تو اب بھی ادارہ مرکزیہ دعوت وارشاد چنیوٹ کے زیر انتظام ہے۔ علاوہ ازیں تین اور شاخیں بھی ادارہ کے تحت چل رہی ہیں جن سے سینکڑوں طلبہ مستفید ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں۔

تحفظ ختم نبوت کے میدان میں

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان کے دفتر میں انہی دنوں حضرت امیرشیریعت کی زیر سرپرستی علماء کرام کے لیے دارالمبلغین قائم کیا گیا جس میں فاتح قادیا ن حضر ت مولانا محمد حیا ت ؒ تربیت دے رہے تھے۔ آپ چناب نگر کے پڑوس میں رہنے کی وجہ سے فتنہ قادیانیت کی اہمیت سے کما حقہ واقف تھے اس لیے آپ نے دارالمبلغین کے سہ ماہی کورس میں داخلہ لیا اور علماء کرام کی ایک جماعت کے ساتھ مل کر مولانا محمد حیات ؒ سے کما حقہ استفادہ کیا اور اصل قادیانی کتب سے آگاہی حاصل کی۔ اس کورس میں معروف مناظر مولانا عبدالرحیم اشعر بھی آپ کے ساتھ شریک تھے ۔
فاتح قادیان نے مولانا چنیوٹی ؒ کے دل ودماغ میں قادیانیت سے نفرت اور تحفظ ختم نبوت سے محبت کے جو شعلے بھر دیے تھے، وہ تازیست اپنی گرمی دکھاتے رہے۔۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں شریک ہوئے اور چھ ماہ تک قید رہے ۔اس کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو فتنہ قادیانیت کی سر کوبی کے لیے وقف کردیا۔ عملی زندگی میں قدم رکھا تو اپنے استاذ محترم مولانا محمدحیا ت ؒ سے قادیانیت کے تعاقب اور ختم نبو ت کے تحفظ کا عہد کیااور اس عہد کو نبھانے میں تن من دھن کی کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ ان کامنشورتھا :
نہ کرو غم، ضرورت پڑی تو ہم دیں گے 
لہوکا تیل چراغوں میں جلانے کے لیے 
انہوں نے اپنے اس منشور کی تکمیل کے لیے تازیست سر دھڑ کی بازی لگائے رکھی۔ جب ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا تو دینی خدمت کے کسی اور عنو ان کی کشش انہیں اپنے راستہ سے ہٹا نہ سکی ۔ تحفظ ختم نبو ت کی اہمیت مولانا چنیوٹی مرحوم ایک مثال سے واضح کیا کرتے تھے۔ وہ یہ کہ ایک شخص کے چار بیٹے ہیں۔ ایک بہت سی دولت کما کر لے آتا ہے۔ دوسرا باپ کے لیے کھانے پینے کا انتظا م کرتا ہے۔ تیسرا باپ کا بدن دباتا ہے اور اس کی صحت وآرام کا خیا ل رکھتا ہے۔ چوتھا باپ کے دشمن کو قتل کرتا ہے۔ باپ چاروں بیٹو ں سے راضی تو ہے لیکن زیادہ خوش اس بیٹے سے ہوگاجس نے اس کے دشمن کو قتل کیا ہے۔ فرماتے تھے کہ قادیانی نبی کریم ﷺکے دشمن ہیں۔ آپ کی ختم نبوت کی چادر کو اتار کر اسے مرزاقادیانی کو پہنانا چاہتے ہیں۔ دیگر باطل فرقوں کا رد کرنا اپنی جگہ اہم اور ضروری ہے لیکن ان موضوعات کا نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کے ساتھ بلاواسطہ تعلق نہیں۔رد قادیانیت کا کام ایسا کام ہے جو براہ راست نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس سے تعلق رکھتا ہے۔یہ کا م اگر خلو ص سے کیاجائے تو حضور ﷺکی خوشنودی کا بہترین اور موثر ذریعہ ہے۔ مولانا مرحوم کا ختم نبوت سے عشق ان کو بے چین رکھتا تھا۔ اپنے اس مشن کی خاطر انہوں نے برطانیہ ،امریکہ ،جرمنی، بیلجیم، اسپین، ناروے، جنو بی افریقہ، سعودی عرب، متحد ہ عرب امارات، یمن، مصر، بھارت،بنگلہ دیش وغیر ہ بیسیو ں ممالک کے سفر کیے۔
عملی زند گی کا آغاز مناظروں سے کیا۔ قادیانیو ں کے رئیس المبلغین والمناظرین قاضی نذیر قادیانی سے بیسیوں مناظرے کیے۔ اس پر مولانا کا ایسارعب طاری ہوا کہ وہ مولانا سے مناظرہ کر تے ہوئے گھبراتا تھا اور بسا اوقات مید ان چھوڑ کر بھاگ جاتا تھا۔ قادیانی ۵۰ء کے عشرہ میں پروپیگنڈا کیا کرتے کہ مرزاقادیانی نے علما کو دعوت مباہلہ دی تھی لیکن کوئی مولوی اور پیر مقابلہ میں نہ آیا۔مولانا چنیوٹی ؒ نے ان کے اس پروپیگنڈے کے توڑ کے لیے مرزا محمود کو دعوت مباہلہ دی۔ اس نے کچھ شرائط پیش کیں جو کہ مولانا نے پوری کردیں۔ دریائے چناب کے دو پلو ں کی درمیانی جگہ مقام مباہلہ کے طور پر متعین ہوئی لیکن وہ تاریخ اور مقام متعین کرنے کے باجود میدان میں نہ آیا۔ اس کے مرنے کے بعد مولانا چنیوٹی مرزاناصر، مرزاطاہر اور مرزامسرور کو دعوت مباہلہ دیتے رہے لیکن وہ تاریخی حقیقت پوری ہوکر رہی جو مولانا ظفر علی خان نے بیان کی:
وہ بھاگتے ہیں اس طرح مباہلہ کے نام سے 
فرار ہوا کفر جیسے بیت الحرام سے 
مولانا چنیوٹی مرزامحمود سے مباہلہ کی یاد میں ہر سال فتح مباہلہ کانفرنس منعقد کیا کرتے تھے۔ اس میں قادیانی سربراہوں کو دعوت مباہلہ ہوئے یہ تاریخی الفاظ کہتے تھے: ’’قادیانی سربراہ موکد بعذاب قسم اٹھائیں کہ مرزاقادیانی نے اور خود انھو ں نے کبھی شراب پی ہے، نہ زنا کیا ہے، اور نہ لواطت میں کبھی فاعل اور مفعول بنے۔ ان کے با لمقابل میں موکد بعذاب قسم اٹھاتا ہوں کہ میں ویسے تو بہت گنہگار ہوں لیکن ان چاروں مذکورہ عیوب سے پاک ہوں۔‘‘ مولانا فرماتے تھے کہ ویمبلے ہال لندن میں منعقدہ ختم نبوت کانفرنس میں تقریرکرتے ہوئے باوضو قرآن مجیدہاتھ میں لے کر جب میں نے قسم اٹھائی تو ہال چیخوں سے گونج اٹھا۔
جیسا کہ عرض کیا گیا، مولانا چنیوٹی کو رد قادیانیت سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔ یہ جنون انہیں چین سے نہ بیٹھنے دیتا تھا۔ عرصہ چالیس سال سے ۱۰ شعبان سے ۲۵ شعبان تک علما، وکلا، پروفیسرحضرات اور عام پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے کورس کرانے کا معمول رہا جس میں وہ اپنا درد دل اور اپنے تجربات ان تک منتقل کر تے رہے۔ علاوہ ازیں جامعہ اشرفیہ لاہور،دفتر تنظیم اہل سنت ملتان، جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن سمیت ملک کے اہم اداروں میں بھی تربیتی کورسز کا سلسلہ جاری رہا۔ ۱۹۹۱ء میں ہندوستان میں قادیانیوں کی ریشہ دوانیاں پھیلنے لگیں تو دارالعلوم دیوبند کے مہتمم صاحب نے ایک تربیتی کیمپ لگایا۔ ملک بھر کے ہزاروں علما کومولانا چنیوٹی صاحب نے تربیت دی ۔ مولانا چنیوٹی سے تربیت پا کر انڈیا کے علما نے قادیانیت کے تعاقب کا حق ادا کر دیا اور آج وہاں قادیانیت محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
مولانا چنیوٹی کویہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ او ردیگر سعودی اداروں میں آپ نے ہزاروں طلبا کو تربیت دی۔ ان طلبا میں ایک روایت کے مطابق یحیےٰ ابوبکر بھی شامل تھے جو کہ بعد میں گیمبیاکے صدر بنے اور انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر ان کی املاک ضبط کر لیں۔ 
اردو میں کہتے ہیں: ’’ جادو وہ جو سر چڑھ بو لے‘‘۔ بالفاظ دیگر عربی کی ضرب المثل ہے: ’الفضل ما شہدت بہ الاعداء‘۔ پنجابی والے کہتے ہیں، حسن وہ ہوتا ہے جس کا سوکن بھی اعتراف کرے۔ مولانا چنیوٹی ؒ کی رد قادیا نیت کے محاذ پر خدمات کا اعتراف مرزا طاہر کو بھی کرنا پڑا۔ اس نے قادیانی چینل پر تقریر کرتے ہوئے مولانا چنیوٹی کو ’اشد اعداء نا‘ (ہماراسب سے بڑ ا دشمن) کا خطاب دیا ۔
قادیانی مسلمانوں کا روپ دھارکر حصول روزگار کے لیے عرب ممالک خصو صاً سعودی عرب کا رخ کرتے تھے اور وہاں اپنی ارتدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ مولانا چنیوٹی ؒ نے اس قسم کے سینکڑوں قادیانیوں کو سعودی عرب سے نکلوایا۔ مولانا چنیوٹی ؒ کی ان خدمات سے متاثر ہو کر معروف صحافی وادیب،مجاہد ختم نبوت آغا شورش کشمیر ی مرحوم نے آپ کو ’’سفیر ختم نبوت‘‘ کا لقب دیا ۔
آپ کا ایک اہم ترین کارنامہ ربوہ شہرکے نام کی تبدیلی ہے۔ قادیانی ہمیشہ دھوکہ دیتے تھے کہ قرآن مجید میں جس ’’ربوہ‘‘ کا ذکر آیا ہے، اس سے مراد ربوہ شہر ہے ۔مولانا چنیوٹی ؒ اسمبلی میں کوشش کرتے رہے اور ممبران وسپیکر کو قائل کرتے رہے لیکن اسپیکر نہ مانتا تھا، تو مولاناچنیوٹی نے سابق صدر جناب رفیق تارڑ صاحب سے وقت لیا اور ان سے بات کرتے ہوئے رو پڑے اور کہا، صدر صاحب! خدا کے لیے آپ تعاون کریں۔ میر ی کوئی نہیں مانتا۔صدر صاحب کی سرزنش پر اسپیکر اسمبلی نے قرارداد پیش کرنے کی اجازت دی اور تمام ممبران کے اتفاق سے ربوہ کا نام بدل دیاگیا۔ اس طرح قادیانی مکروفریب کا ایک دروازہ بند ہوا۔ اسی طرح آپ نے صدر ضیاء الحق مرحوم سے ملاقات کی اور ان کو مرزا محمود کی تصنیف ’’تفسیر صغیر‘‘ میں درج تحریفات کے نمونے دکھائے تو مولانا کی تحریک پر صدر ضیاء نے تفسیر صغیر پر پابند ی کے احکامات جاری کیے۔
مولانا چنیوٹیؒ کی قوت حافظہ کمال درجہ کی تھی۔آخری عمر تک اس میں کوئی فرق نہیں آیا ۔آپ کی آخری دور کی تقاریر سن کر حیرانی ہوتی تھی کہ’’ ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی ‘‘۔
صدر ایوب کے زمانہ میں شیخ محمد شلتوت جو جامعہ ازہر کا شیخ تھا، اس نے فتوی دیا کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اور قادیانی اس فتویٰ کی بڑی اشاعت کررہے تھے۔ مولانا چنیوٹیِ ؒ نے محد ث کبیر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری ؒ کے مشورہ پر ائمہ حرمین اورمفتی اعظم سعودیہ شیخ ابن باز سے فتاویٰ حاصل کیے اور اس کے بعد اس پر بلاامتیاز مسلک پاکستان، ہندوستان ،بنگلہ دیش کے ہزاروں علماء کرا م کے تائید ی دستخط کرائے (سوائے مولانا مودود ی کے کہ انہوں نے دستخط کرنے سے انکار کیا۔ مولانامودودی کے انکار کے گواہ مولانا عبد المالک آج بھی منصورہ لاہور میں موجود ہیں) اس فتویٰ میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کے رفع ونزول کوثابت کیا گیا تھا۔ مولانا نے ان فتاویٰ کے حصول کے لیے جو جدوجہد کی، وہ آپ کے سوانح عمری کا ایک مستقل باب ہے۔ اب ان فتاویٰ کا مجموعہ ’’فتاویٰ حیات مسیح ‘‘ کے نام سے ادارہ مرکز یہ دعوت وارشاد سے دستیاب ہے ۔
مرزا محمود کی تحریر کردہ ’’تفسیر صغیر‘‘ انتہائی مختصر ہونے کے باوجود تحریفات کا ایک نادرنمونہ ہے ۔ جگہ جگہ غیر محسوس انداز میں تلبیسات وتحریفات بھر دی گئی ہیں۔ استاذ محترم مولانا چنیوٹی ؒ کے پراصرارحکم پر احقر نے ان تلبیسات وتحریفات کا تنقیدی جائزہ لکھا۔ ترجمہ قرآن مجید میں درج تحریفات کا جائز ہ مکمل ہوچکا ہے۔ استاذ مرحوم نے لفظ بلفظ پڑھا اور اپنی تصدیق سے نوازا۔ ’’تفسیر صغیر‘‘ کے حواشی پر نقد ونظر کا کام ابھی تشنہ تکمیل ہے۔ بیس پارے مکمل ہوچکے ہیں۔ دس باقی ہیں۔ کاش یہ کا م آپ کی زندگی میں مکمل ہوجاتا اور آپ کی آنکھیں مزیدٹھنڈی ہوتیں ۔بہرحال ’’وہی ہوتا ہے جو منظورخدا ہوتاہے‘‘۔ 
’’ رد قادیانیت کے زریں اصول‘‘ استاذمرحوم کی زندگی بھر کی تحقیقات کا بے مثال مجموعہ ہے جو کہ بار بار چھپ کر عوام وخواص سے خراج تحسین وصول کررہا ہے ۔ آپکی بعض دیگر تالیفات کا مختصر تعارف درج ذیل ہے : 
(۱) ’القادیانی ومعتقداتہ‘ ۔ یہ عربی زبان میں قادیانی عقائد پر مختصر اور جامع ومانع رسالہ ہے جو کہ مسجد نبویﷺمیں لکھا گیا۔
(۲) ’’قادیانی اور اس کے عقائد‘‘۔ یہ ’القادیانی ومعتقداتہ‘ کا اردو ترجمہ ہے جو کہ آپ کے بھائی مولانا محمد ایوب صاحب نے لکھا۔
(۳) Al Qadyani and His Faith ۔ ’القادیانی ومعتقداتہ‘ کا انگریزی ترجمہ ہے۔
(۴) ’’انگریزی نبی‘‘۔اس رسالہ میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مرزا قادیانی انگریز کا خود کاشتہ پودا تھا ۔
(۵) ’’علماء کنونشن سے خطاب‘‘ ۔ یہ صدر ضیاء الحق کے طلب کردہ علما ومشائخ کنونشن سے آپ کے خطا ب کا متن ہے۔ 
(۶) دورہ افریقہ 
(۷) مناظرہ نائیجیر یا
(۸) ’’تصویر کے دو رخ ‘‘ ۔ یہ مرزا کے تضادات پر مشتمل مختصر رسالہ ہے ۔
(۹) The Double Dealer ۔ ’’تصویر کے دو رخ‘‘ کا انگریزی ترجمہ ۔
(۱۰) ’’اور وہ اس کو ما ں نہ بناسکے‘‘ اس رسالے میں محمد ی بیگم والی پیش گوئی پر بحث کی گئی ہے۔
(۱۱) ’’مرزاطاہر کی بوکھلاہٹ‘‘۔مرزاطاہر نے مولانا چنیوٹی سمیت بہت سے علماء کرام کو دعوت مباہلہ دی تھی۔ مولانا ؒ نے دعوت قبول کرلی تو مرزا طاہر آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔ اس رسالہ میں یہ تما م روئیداد تحریر کی گئی ہے۔
(۱۲) ’’پندرہ روزہ کورس‘‘ ۔آپ ہمیشہ ۱۰سے ۲۵شعبان تک اپنے ادارہ میں کورس کراتے تھے۔ اس کا اجمالی نصاب اس رسالے میں درج ہے جس کی آپ دوران کورس تشریح کرتے تھے۔
(۱۳) ’’حصول الامانی فی الرد علیٰ تلبیس القادیانی‘‘۔ پندرہ روزہ کورس کے نصاب کا عربی ترجمہ ہے جو کہ مولانا سید نور الحسن شاہ صاحب بخاری مرحوم کے فرزند مولانا فداء الرحمان بخاری (کینیڈا )، صاحبزادہ مولانا الیاس صاحب، راقم الحروف و بعض دیگر احباب کی مشترکہ کاوش ہے۔
(۱۴) Africa Speaks the Truth۔ ’’دورہ افریقہ‘‘ کاانگریزی ترجمہ ہے۔ 
(۱۵) ’’برطانیہ میں مراسلت‘‘۔ لند ن میں قادیانیوں سے مباہلہ کے لیے آپ کی خط وکتابت ہوئی کی رودادہے۔
(۱۶) ’’الحقائق الاصلیہ‘‘۔ یہ قادیانیوں کے رسالہ ’’لمحہ فکریہ‘‘ کاجواب ہے ۔
(۱۷)’’فتویٰ حیات مسیح ‘‘۔اس کا مفصل ذکر گزر چکا ہے۔
(۱۸)’’مباہلہ کا چیلنج منظور ہے‘‘
(۱۹) ’’مناظرہ ناروے‘‘
(۲۰) ’’لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا‘‘
(۲۱) ’’ملت اسلامیہ کے خلاف قادیانی سازشیں‘‘
(۲۲) ’’خسوف وکسوف‘‘۔قادیانی اخبار ’الفضلؒ انٹر نیشنل لندن کے خسوف وکسوف نمبر کا جواب۔
(۲۳) ’’ربوہ سے چناب نگر تک‘‘۔ربوہ کے نام کی تبدیلی کے لیے جو کوششیں کی گئیں، اس کتاب میں ان کا تفصیلی ذکر ہے ۔
قاد یانی مبلغین کے توڑ کے لیے اور رد قادیانیت کے کام کو منظم کرنے کے لیے آپ نے ۱۹۷۰ء میں ادارہ مرکزیہ دعوت وارشاد چنیوٹ میں قائم کیا۔ ادارہ کی طرف سے بلامبالغہ لاکھوں پمفلٹ اب تک مفت تقسیم کیے جاچکے ہیں ۔
آپ نے واشنگٹن امریکہ میں بھی ادارہ مرکزیہ دعوت وارشاد کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس میں آپ کے خصوصی شاگرد مولانا حکیم محمد رفیق صاحب کا م کررہے ہیں۔
رد قادیانیت کے کام کو مزید پھیلانے کے لیے ۱۹۹۱ء میں انٹرنیشنل ختم نبوت یونیورسٹی قائم کی گئی جس کا سنگ بنیادرابطہ عالم اسلامی کے سیکر ٹر ی جنرل الشیخ عبداللہ عمر نصیف نے رکھا ،تاہم عارضی عمارت میں حفظ وناظرہ کی کلاسیں جاری ہیں۔ اس کے علاوہ پند رہ روزہ سالانہ تربیتی کورسز کا سلسلہ عرصہ چالیس سال چنیوٹ میں جاری رہا۔ اس کے علاوہ مولانامرحوم مختلف دینی اداروں میں یہی کورس پڑھاتے تھے۔ اس کے باجو د آپ تشنگی محسوس فرماتے تھے۔ اس تشنگی کے ازالہ کے لیے مفکر اسلام علامہ خالد محمود صاحب کی مشاورت سے علماء کرام کے لیے دوسالہ تربیتی کورس کا اہتمام کیا جس میں ان کو تقابلی مطالعہ کرایا جاتا ہے۔ احقر اس شعبہ میں بھی پانچ چھ سا ل سے مصروف کا ر ہے ۔پندرہ سے زائد فضلاے کرام یہ کورس مکمل کرچکے ہیں۔ 
احقر راقم الحروف کو مولانا چنیوٹی سے خاص تعلق تھا ۔ وہ احقر کے رشتہ کے داداجان مولانا دوست محمد ساقی مرحوم کے خاص شا گرد تھے اور احقر ان کا خصوصی شاگرد ہے۔ اس دو طرفہ تعلق کی وجہ سے ہمیشہ استاذمحترم سے انتہائی محبت وعقیدت رہی۔محبت و عقیدت کی اس شمع کو حوادثات زمانہ بجھانہ سکے۔ تحدیث نعمت کے طو ر عرض ہے کہ استاذ مکرم مولانا منظور احمد چنیوٹی کو اس عاجز پر ہمیشہ اعتماد رہا ہے ۔ وہ اپنے پاس آنے والے بہت سے خطوط کے جوابات لکھنے کی ذمہ داری اس عاجز پر ڈالا کر تے تھے۔ الحمدللہ ان کے اعتماد پر پورااترتا رہا ۔ احقر کی کئی تصانیف پر استاذمحترم کی تصدیقات درج ہیں۔ احقر کو آپ کے ساتھ ایک اور دس کی نسبت بھی نہیں ہے۔ کہاں ان کی پر مشقت زندگی اور علمی اور عملی کمالات اور کہاں ایک گوشہ نشیں مسکین طبع شخص۔تاہم آپ نے کئی دفعہ اس امر کا بر ملا اظہار کیاکہ مولوی مشتاق کا مطالعہ مجھ سے زیادہ ہے۔ظاہرہے کہ یہ آپ کی خورد نوازی ہے، ورنہ من آنم کہ من دانم ۔
مرزا طاہر احمد نے ۱۰جون ۱۹۸۸ء کو دنیا بھر کے مسلمانوں کو مباہلہ کی دعوت دی۔ اس دعو ت کو مختلف زبانوں میں شائع کر کے پوری دنیا میں تقسیم کیا گیا۔ مرزا طاہر کی اس دعوت مباہلہ کو علماء کرام نے مرزاقادیانی کے اس عہد کے منافی قرار دیا جوکہ مرزا قادیانی نے ۲۴فروری ۱۸۹۹ء کو ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی عدالت میں تحریری طور پر کیا تھا کہ میں اور میر ے پیروکار آئند ہ کے لیے مسلمانوں کو دعوت مباہلہ نہیں دیں گے ۔
مولانا چنیوٹی ؒ نے ۱۹۵۶ء میں مرزا طاہر کے والد مرزا محمود کو دعوت مباہلہ دی تھی لیکن اس نے راہ فرار اختیار کی تھی۔اس کے مرنے کے بعد مرزاناصر اور مرزا طاہر نے بھی دعوت مباہلہ قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔ اس انکار کے بعد مرزا طاہر کا پوری دنیا کے مسلمانوں کو خصوصاًعلماء کرام کو دعوت مباہلہ دینا ایک فضول حرکت تھی ۔لیکن اتمام حجت کی خاطر دیگر علما کی طرح مولانا چنیوٹی ؒ نے بھی دعوت مباہلہ قبول کرلی اور اپنے شائع کردہ بیان میں چالیس دن کی مہلت دی کہ چالیس دن کے اندر مرزا طاہر مباہلہ کی تاریخ،مقام اور وقت کا اعلان کرے، ورنہ اس کی شکست تصورکی جائے گی ۔مولانا چنیوٹی نے ۲۵ اگست کو مرزا طاہر کے نام یہ پیغام بذریعہ ڈاک ارسال کیا اورروزنامہ جنگ لاہور میں۱۵ستمبر ۱۹۸۸ء کو یہ پیغام شائع ہوا۔ 
مرزاطاہر نے بو کھلاکر ۲۵نومبر ۸۸ء کوتقریر کی اور کہا کہ اگلے سال ۱۵ ستمبر تک مولانا چنیوٹی مباہلہ کے نتیجہ میں ہلاک ہو جاہیں گے۔ مولاناچنیوٹی نے ۱۳۔ اگست ۱۹۸۹ء کو ویمبلے ہال لندن میں تقریر کرتے ہوئے مرزاطاہر کو دوبارہ دعوت مباہلہ دی اور اس کی ہلاکت والی دھمکی کو قبول کیا۔ یکم اکتوبر ۱۹۸۹ء کو ویمبلے ہال لندن میں پانچویں سالانہ ختم نبوت میں جب مولانا چنیوٹی تقریر کے لیے اٹھے تو مرزاطاہرکے معتمد خاص اور اسکے لندن ہیڈکوارٹرکے شعبہ عربی کے ڈائریکٹرحسن محمودعودہ صاحب اگلی صف سے اٹھ کر سٹیج پر آگئے اور مولانا چنیوٹی اور مولاناعبد الحفیظ مکی صاحب کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہو کر قادیانیت سے تو بہ کر نے اور اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا اور کہا: ’انا اول ثمرۃھذاالمباہلۃ‘۔
مولاناچنیوٹی کے خلاف یہ پیش گوئی مرزا طاہر کو مہنگی پڑی اور اسے ذلت نصیب ہوئی ۔
(۱) ۲۳مارچ۱۹۸۹ء کو قادیانی اپنا صدسالہ جشن نہ منا سکے ۔
(۲) دسمبر ۱۹۸۹ء میں چناب نگر میں جلسہ نہ کر سکے۔ 
(۳) ربوہ میں کئی قادیانی بہائی ہوگئے۔ 
(۴) کھاریاں، سرگودھاوغیرہ کئی علاقوں میں قادیانیت کاصفایا ہو گیا۔
(۵) مرزاطاہر کے معتمدخاص حسن محمود عودہ نے اسلام قبول کر لیا ۔
اس کے بر عکس اللہ تعالی نے مولاناچنیوٹی پر کئی انعامات کیے:
(۱)وہ صوبائی اسمبلی پنجاب کے دوبارہ ممبر منتخب ہوئے۔
(۲)رابطہ عالم اسلامی کی دعوت پر حج کر نے کی سعادت حاصل کی ۔
(۳)مصر میں شیخ جامعہ الازہر سے ملاقات کی اور ان کو قادیانی سازشوں سے آگاہ کیا۔ 
(۴)لندن میں ۱۳۔ اگست ۱۹۸۹ء کو ایک دفعہ پھرمرزاطاہر کو للکارا لیکن اسے سامنے آنے کی جرات نہ ہوئی۔
(۵) ۲۹۔ اگست ۱۹۸۸ کو اللہ تعالیٰ نے مولاناچنیوٹی صاحب کو پہلا پوتا عطا فرمایا جس کا نام انہوں نے ضیاء الحق رکھا۔ 
مرزا طاہر احمد نے ۱۳۔اگست ۱۹۹۵ ء کو بیان دیا کہ مولاناچنیوٹی مختلف حیلے بہانے کر کے مباہلہ سے فرار حاصل کر نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’’جھوٹے کو اس کے گھرتک پہنچاناچاہیے‘‘ کی مشہورضرب المثل پر عمل کر تے ہوے مو لانا چنیوٹی نے مرزا طاہر احمد کوایک بار پھردعوت دی کہ وہ ۵۔ اگست ۱۹۹۵ء کو مباہلہ کے لیے ہائیڈپارک لندن آجائے۔یہ دعوت ۴۔اگست ۹۵ء کو روزنامہ جنگ لندن میں شائع ہوئی۔ مولاناعبدالحفیظ مکی،مولاناضیاء القاسمی ،علامہ خالد محمود صاحب،میاں اجمل قادری صاحب اور دیگر علما سمیت مولاناچنیوٹی ۵۔ اگست کو دوپہربارہ بجے سے دو بجے تک انتظارکر تے رہے لیکن مرزا طاہر مقابلے میں نہ آسکا ۔
مولانا چنیوٹی مرحوم کی جواں ہمتی،سخت کوشی اور تحفظ ختم نبوت سے عشق کے بے شمار واقعات ہیں جن میں سے دو واقعات یاد آرہے ہیں جو کہ آپ سے ہی بار بار سنے ہیں۔ انہی کی زبانی ہی ملاحظہ فرمائیں :
(۱) کو ٹلی آزادکشمیر سے بریلوی مکتبہ فکر کے ایک صاحب (احقرکونام یاد نہیں رہا)کا خط آیا کہ قادیانی یہاں گمراہی پھیلارہے ہیں، آپ تشریف لائیں ۔ میں نے کتابوں کا بکس اٹھایا اور چل پڑا۔ میزبان کے ہاں پہنچا اور جلسہ عام کا اعلان ہوگیا ۔ میں نے ۹بجے سے ۲بجے تک تقریر کی تو لوگوں نے رات کو بھی تقریر کا مطالبہ کیا۔ میں نے منظوری دے دی۔ چنانچہ رات عشا کے بعد بھی میں واحد مقرر تھا اور رات کے ڈیڑھ بجے تک تقریر کی۔ اس وقت دوران تقریر پچاس سے زائد سوالات کی پرچیاں جمع ہوگئیں۔ تقریر ختم کرنے کے بعد پہلی پرچی اٹھائی تو میزبان ہاتھ جوڑکر کھڑا ہوگیا کہ آپ اپنے اوپر بھی رحم کھائیں اور ان لوگو ں پر بھی جو صبح سے اب تک آپ کے ساتھ ہیں۔ اس پر دوسرے دن ۹بجے کا وقت مقرر ہوا۔ ہزاروں لوگ پھر جمع ہوگئے اور اس اجتما ع میں تین چار گھنٹے صرف کرکے ان بیسیوں سوالات کا جواب دیا۔ 
(۲)بنگلہ دیش کے دور ہ پر گیا۔ وہا ں صبح سے بارہ بجے تک ایک مدرسہ میں اور ظہر سے عصر تک دوسرے مدرسہ میں تربیتی کورس کراتا تھا۔ عصر کے بعد تبلیغی مرکز میں تقریر اور عشا کے بعد دو تین گھنٹے جلسہ عام سے خطاب ۔یہ پند رہ،بیس دن مسلسل معمول رہا۔ جوانی کا زمانہ تھا ،صحت اچھی تھی ،تھکتا نہ تھا۔واضح رہے کہ یہ دونوں واقعات آپ کی عمر کے سن ساٹھ کے عشرہ کے ہیں ۔ 
ان واقعات کی عملی تصدیق اپنی آنکھوں سے دیکھی کہ پیرانہ سالی اور جسمانی عوارض کے باجود انتقال سے ڈیڑھ دو ماہ پہلے تک دور دراز اسفار کا معمول برقرار رہا ۔ سفر کرنے سے کبھی نہ تھکتے تھے۔ آپ کے عوارض اور مصروفیا ت کو دیکھ کر ڈاکٹر بھی حیران پریشان ہوتے رہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم حیران ہیں کہ مولانا ان عوارض کے ساتھ کیسے زندہ ہیں ؟

مولانا چنیوٹی تحفظ ناموس صحابہؓ کے میدان

مولانا چنیوٹی نے چونکہ حضرت علامہ دوست محمد قریشی اور علامہ عبدالستار صاحب تونسوی مدظلہ سے تربیت حاصل کی تھی اورحضرت مولانا سید احمد شاہ صاحب چوکیروی قدس سرہ سے بھی استفادہ کرتے رہے، اس لیے آپ کوتحفظ ناموس صحابہؓپر مکمل دسترس حاصل تھی۔ تازیست حضرات خلفائے راشدینؓ ،حضرات حسنینؓ ،حضرت امیر معاویہؓ کے فضائل ومناقب اور مخالفین کے ان پر اعتراضات کے جوابات پر مبنی تقریریں کرتے رہے۔ آپ کو یہ شرف حاصل رہا ہے کہ آج سے چالیس سال پہلے خطبہ جمعہ میں خلفائے راشدینؓ اور اہل بیت کے اسماء گرامی کے ساتھ ساتھ حضرت امیر معاویہؓکا نام بھی لیتے تھے۔
یہ وہ دور تھا کہ جہالت کی وجہ سے بہت سے سنی حضرات بھی حضرت امیر معاویہؓ کے بارے میں ذہن صاف نہ رکھتے تھے اور مولانا مرحوم پراعتراض کرتے تھے۔مولانا چنیوٹی سپاہ صحابہؓ سے ہمدردی تورکھتے تھے لیکن ان کے مخصوص نعروں کے عام جلسوں میں لگائے جانے سے متفق نہ تھے۔ جامعہ عربیہ چنیوٹ کی مسجد میں سالانہ ردمرزائیت کورس کی اختتامی تقریب منعقد ہو ئی۔ شہید ناموس صحابہ مولانااعظم طارق مرحوم مہمان خصوصی تھے۔ مولانااعظم طارق کی تقریر سے پہلے کسی نے ’’کافر کافر شیعہ کافر‘‘ کے نعرے لگائے تو مولانا چنیوٹی نے برملا ڈانٹا کہ تم اچھل اچھل کر نعرے لگانے والے توجلسہ کے بعد اپنے گھر وں کو چلے جا ؤ گے ۔ یہ غریب( مولانااعظم طارق) جیل چلاجا ئے گا۔ ان کوجیل سے باہربھی رہنے دو ۔ کیا انہیں جیل بھیجنا چاہتے ہو ؟مولانا اعظم طارق مرحوم عجیب تاثرات کے ساتھ مولانا چنیوٹی کو دیکھتے رہے لیکن اپنی تقریر میں بھی کو ئی تبصرہ نہ کیا۔
مولوی محمد اسماعیل گوجروی (شیعہ)کے ساتھ آپ نے چار مناظرے کیے ۔ تاج الدین حیدری کے ساتھ گکھڑمنڈی میں مناظرہ کیا۔دوبئی میں آپ نے شیعہ حضرات کے آٹھ سوالات کے جوابات دیتے ہوے تاریخی تقریر کی جس پر شیعہ نے قاتلانہ حملہ کیا۔پاکستان میں بھی دو تین حملے کیے گئے تاہم مولانا چنیوٹی محفوظ رہے ۔
تحفظ ناموس صحابہؓکے موضوع پر آپ کی تقریریں ہمارے فاضل دوست مولانا بلال احمد صاحب اور مولانا محبوب احمدصاحب مرتب کر رہے ہیں جو کہ ظاہر ہے ایک اہم علمی تحفہ ثابت ہو گا۔ 

مولاناچنیوٹی کی حق گوئی 

مولانا چنیوٹی بے باکی اور حق گوئی میں علمائے دیوبندکے صحیح وار ث تھے۔ انہیں بجا طور پر ترجمان علماء دیوبند کہا جاسکتا تھا۔ جمعہ کی تقریر میں آخری دس پندرہ منٹ حالات حاضرہ،مقامی سیاستدانوں اور جاگیرداروں کے مظالم پر تنقیدی جائزہ لیا کرتے تھے۔ کبھی قادیانیت کو للکار رہے ہیں، کبھی وڈیروں اور جاگیرداروں کے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلندکر رہے، کبھی حکومت وقت ااور بیو رو کریسی پر تنقید فرما رہے ہیں، کبھی پر ویزیت کا پو سٹ مارٹم ہو رہا ہے ، کبھی شرک وبدعت اور رسومات محرم کے خلاف نبرد آزما ہیں ۔ غر ض ساری عمر ایک چومکھی لڑائی لڑتے رہے ۔ ایک سابق وزیر اعظم کی بیوی کے سابق امریکی صدر فورڈکے ساتھ رقص کرنے کی تصویر اخبار میں شائع ہوئی تو مولانا چنیوٹی نے ایک مقام پر اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوے فر مایا کہ بے غیرتی میں خنزیر سب سے بڑھ کر ہے۔ ہمارے وزیر اعظم کو بھی غیرت نہیں آئی۔یہ وزیراعظم ہے کہ خنزیر اعظم ہے۔مقدمہ بنا ۔آپ گرفتار ہوئے۔ بہاولپور میں ریاستی جبر کی انتہا کر دی گئی۔ قید تنہائی، ہتھکڑیاں، بیڑی، بازاری لوگوں کے ہاتھوں ایذا رسانی کے مراحل سے گزرنا پڑا۔ کوئی جج ضمانت لینے کو تیار نہ تھا۔ آخر لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے ضمانت لی ۔
واقعہ تو یہ ہے کہ مقامی افسران ،اعلیٰ افسران ،قادیانی ڈیرے دار اور باطل گروہ سب کے سب آپ سے لر زہ بر اندام رہتے تھے۔ حق گوئی کی وجہ سے آپ کو بار بار قید وبند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا ۔مولانا چنیوٹی کی قید وبند کا مکمل ریکارڈتو محفوظ نہیں رہ سکا، تاہم جو ریکارڈ دستیاب ہوا، اس کے مطابق آپ کی قید وبند کی تفصیل درج ذیل ہے : 
  • ۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں ۶ ماہ ڈسٹرکٹ جیل جھنگ اور بورسٹل جیل لاہور میں قید رہے۔
  • ۹۶۰ء میں تین ماہ تک ڈسٹرکٹ جیل جھنگ میں قید رہے۔
  • ۱۹۷۱ء میں یحییٰ خان کے مارشل لا کے دور میں ایک سال منٹگمری جیل میں قید رہے۔
  • ۱۹۷۲ء میں قادیانیوں کو کافر کہنے کے جرم میں شیخوپورہ میں قید رہے۔
  • ۹۷۳ء میں قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں کو آشکار کر نے پر ایک ماہ ڈسٹرکٹ جیل جھنگ میں قید رہے۔
  • ۹۷۴ء میں حکمرانوں کے غیر اخلاقی کریکٹر پر تنقید کر کے جرم میں بہاولپور میں قید رہے۔
  • مسجدصدیق اکبر چنیوٹ میں سید عطاء المحسن شاہ بخاری کی تقریر کرانے کے جرم میں سنٹر ل جیل فیصل آباد میں ایک ماہ کے لیے نظر بند کر دیے گئے۔
  • ۹۷۷ء میں قادیانیت کے خلاف تقریر کر نے پر سیالکوٹ میں گرفتار ہوئے۔
  • تحریک نظام مصطفیﷺکے سلسلہ میں ۳ماہ سنٹرل جیل و کیمپ جیل لاہور میں قید رہے۔
  • ۹۷۴ء کے تاریخی فیصلہ کی تا ئید پر پرانے مقدمہ میں ایک ماہ کے لیے ڈسٹرکٹ جیل جھنگ میں قید رہے۔
  • ۹۸۵ء میں ساہیوال میں قادیانیوں کی دہشت گردی سے شہید ہونے والے مسلمانوں کے جنازہ میں شرکت سے روکنے کے لیے گرفتار کرلیے گئے۔
  • ۹۹۷ء میں منڈی بہاؤ الدین میں محرم الحرام کی فضیلت پر بیان کرتے ہوئے گرفتار ہوئے۔
  • ۹۹۵ء تک آپ کے خلاف زبان بندی کے ۱۵۰ احکام جاری ہوئے۔

علالت وانتقال

زندگی بھر کی طویل جدو جہد کے بعد مولانا چنیوٹی سن رسیدہ ہونے کی اس منزل کی جانب بڑھ رہے تھے جہاں انسان آرام کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور پر سکون زندگی گزارناچاہتاہے ۔ مولاناچنیوٹی نے ایک ابتدائی قدم تو اٹھایا کہ بیرون ملک ایک رفیق سفر کی ضرورت محسوس کر تے تھے لیکن عمر رسیدگی،بیماری ،اعصابی تھکاوٹ کے باوجود عشق مصطفی ﷺکی حرارت نے انہیں چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ کوئی بیماری اور رکاوٹ ان کے قدموں کی زنجیرنہ بن سکی۔پندرہ روزہ تربیتی کورس میں احقر نے بار ہا یہ منظر دیکھا کہ احقر نوجوا ن ا ور مجموعی طور پر صحت مند ہونے کے باوجود ایک نشست میں ڈیڑھ دو گھنٹے سے زائد نہ پڑھا سکتا تھا لیکن آپ نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے تھے کہ ضعف وپیری کے باوجود تین چار گھنٹے پڑھانا آخر دم تک معمول رہا۔ تھکاوٹ اور بیماری کا سامعین کو احساس تک نہ ہوتا تھا ۔قوت حافظہ اور آواز کی گونج آخر تک قائم رہی :
ایں کار از تو آید ومرداں چنیں کنند 
اپنی وفات سے تین چار ماہ پہلے لالیاں کے قریب کسی گاؤں میں تقریر کرنے گئے، وہاں قادیانی بھی رہتے تھے۔ اس وجہ سے پولیس والے بھی آئے ہوئے تھے ۔احقر کو تخصص کے ایک طالب علم نے بتایا کہ آپ پو لیس کو دیکھ کربڑے غصہ میں کہنے لگے کہ میرے جسم میں اتنا دم خم ہے کہ میں ہتھکڑیاں اب بھی بر داشت کر سکتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے اپنے دونوں بازو فضامیں لہرائے۔ گردوں کی خرابی، دل کی بڑھوتری اور شوگر سمیت پانچ چھ امراض لا حق تھے لیکن وفات سے ایک ماہ پہلے تک تبلیغی اسفارجاری رہے۔ 
احرار مسجد چناب نگر میں بارہ ربیع الاول ۱۴۲۵ھ کے سالانہ اجتماع سے خطاب کر تے ہوئے احراری زعما خصوصاً محترم عبداللطیف چیمہ صاحب کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا، اب میری دو آرزوئیں رہ گئی ہیں۔مجھے اپنی موت قریب محسوس ہو رہی ہے۔میں آپ حضرات کو وصیت کر تا ہوں کہ ان دونوں کا موں کی طرف جماعتی سطح پر توجہ فر مائیں اور ان کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں :
(۱)قادیانی اوقاف کا سر کا ری تحویل میں جانا۔
(۲)شناختی کارڈمیں مذہب کے خانے کا اضافہ ۔
آپ نے صرف احراری زعما کو ہی وصیت کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مجلس عمل کے ارکان پارلیمنٹ کو خطوط لکھ کر، فون اور ملاقاتیں کر کے توجہ دلاتے رہے۔ اسی مقصد کے لیے قائد حزب اختلاف مولانافضل الرحمان صاحب سے ملا قات کی حسرت لے کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔ کئی ماہ کی کوشش کے باوجود ملاقات نہ ہو سکی ۔ 
شریف خاندان کے قائم کر دہ شریف میڈیکل سٹی میں تین ہفتے زیر علاج رہے ۔لیکن ’’الٹی ہو گئیں سب تدبیریں‘‘ اور ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق آخر وہ وقت آپہنچا جس سے نہ کوئی نبی بچا ہے اور نہ ہی ولی ۔ ۲۷ جون کو ذکر الٰہی کر تے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے اور ’’عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا‘‘۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔ جنازہ ۲۷ جون کو جامعہ اشرفیہ لاہور میں ہوا جو ان کی وصیت کے مطابق ولی کامل ،حضرت مولانا سید نفیس حسین شاہ صاحب دام مجدہ نے پڑھایا۔ ۵۰ ہزار سے زیادہ کا مجمع تھا۔ جب ۲۷ کی شام کو آپ کی میت چنیوٹ پہنچی تو چنیوٹ سے کئی کلومیٹر دور پانچ چھ ہزار سے زائد افراد سواریوں پر اور پیدل استقبال کے لیے مو جود تھے۔ ۲۸ جون کی صبح چنیوٹ شہر کا ہر شہری گورنمنٹ اسلامیہ کالج چنیوٹ کی طرف رواں دواں تھا۔ پورے ملک سے ہزاروں فر زندان تو حید جنازہ میں شرکت کے لیے پہنچے ۔ اسلامیہ کالج اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود تنگ ثابت ہوا۔ فیصل آباد روڈ اور لاہور روڈ پر کئی فرلانگ تک صفیں تھیں :
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے 
جنازہ میں ملک بھر سے علماء کرام ،مشائخ عظام ،حفاظ وقرا اور عوام الناس نے شرکت کی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زائد کا اجتماع تھا۔ جنازہ دیکھ کر مخالف مذہب وپارٹی سے تعلق رکھنے والے ایم این اے نے کہا کہ ہماری تو اب آنکھیں کھلی ہیں۔ اب پتا چلا ہے کہ مولانا چنیوٹی کیا تھے۔ افسوس کہ چنیوٹ کے عوام نے ان کی قدر نہ کی۔ آپ کا جنازہ حضرت سید علاء الدین شاہ صاحب قدس سرہ کے اجل خلیفہ حضرت حافظ ناصر الدین خاکوانی مدظلہ نے پڑھایا اور آپ کو جامعہ عربیہ کے پڑوس میں واقع قبرستان پیر حافظ یعقوب میں دفن کیا گیا جہاں آپ کی قبر پر روزانہ بے شمار لوگ فاتحہ پڑھنے آرہے ہیں ۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے 
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے 
آپ کے انتقال کے بعد علماء کرام ، عوام الناس، ارباب مدارس اور ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے افراد اورادارے، سب اپنے آپ کوتہی دامن محسوس کر رہے ہیں۔ ’’اک شجر سایہ دارتھا نہ رہا‘‘۔ بالفاظ دیگر
جب سے اس نے شہر کو چھوڑاہر رستہ ویران ہوا
میرا کیا ہے، سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا
مولا نا چنیو ٹی کو اللہ تعالیٰ نے چار بیٹوں اور چار بیٹیوں سے نوازا۔ بیٹوں کے نام یہ ہیں: مولانا محمد الیاس صاحب، مولانا محمد ادریس صاحب، مولانا محمدثناء اللہ صاحب، مولانا محمدبدر عالم صاحب۔چاروں صاحبزادے حافظ قرآن اورعالم دین ہیں۔ مولانا محمد الیاس صاحب بالخصوص اچھا علمی ذوق اورقادیانی تعاقب کا دردرکھتے ہیں۔ اللہم زدفزد۔ آمین

ڈارفر کا قضیہ اور عرب لیگ کا کردار

ادارہ

عرب لیگ سوڈان میں انسانی بحران کے خاتمے کے لیے کوئی مضبوط موقف اختیار کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس سے اس امر کے بارے میں سنجیدہ شکوک وشبہات پیدا ہو گئے ہیں کہ عرب ممالک اپنے علاقائی مسائل کو ازخود حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 
ایجپشن آرگنائزیشن فار ہیومن رائٹس کے سیکرٹری جنرل حافظ ابو سعدا نے کہا ہے کہ ’’عرب جنجاوید ملیشیا کو جو ڈارفر میں عام شہریوں کو قتل کر رہی ہیں، روکنے کے لیے عرب حکومتوں کو سنجیدہ قدم اٹھانا چاہیے۔ یہ ایک ایسا بحران ہے جو سنجیدہ مداخلت کا تقاضا کرتا ہے اور اگر عربوں میں اسے روکنے کی اہلیت نہیں ہے تو انھیں بیرونی امداد قبول کر لینی چاہیے۔‘‘
اقوام متحدہ نے ڈارفر میں جاری تصادم کو اس وقت دنیا کا سنگین ترین انسانی بحران قرار دیا ہے۔ اندازہ ہے کہ فروری ۲۰۰۳ء میں جب سے حکومتی حمایت کے تحت جنجاوید ملیشیا نے ڈارفر میں باغی گروپوں کے خلاف حملے کرنے شروع کیے ہیں، اس وقت سے پچاس ہزار آدمی قتل اور بارہ لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ 
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۱۵۵۶ میں، جو ۳۰ جولائی کو منظور کی گئی، سوڈانی حکومت کو جنجاوید ملیشیا کو غیر مسلح کرنے اور امن وامان کو بحال کرنے کے لیے ۳۰ دن دیے گئے تھے۔ بصورت دیگر اس پر غیر متعین سفارتی اور اقتصادی پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ فوجی مداخلت بھی خارج از امکان نہیں۔
حافظ ابو سعدا نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی مداخلت ضروری تھی کیونکہ ۲۲ رکنی عرب لیگ اپنے ایک رکن ملک سوڈان کے خلاف فوجی یا اقتصادی دباؤ ڈالنے کے معاملے میں ہچکچا رہی تھی۔ انہوں نے انٹر پریس نیوز سروس کو بتایا کہ ’’عرب لیگ عرب حکومتوں کے مفادات کے لیے کام کرتی ہے نہ کہ عرب عوام کے۔ ہم اس سے پہلے عراق میں بھی یہ دیکھ چکے ہیں اور اب سوڈان میں بھی یہی کچھ دیکھ رہے ہیں‘‘ ۔ 
اس ماہ قاہرہ میں اکٹھے ہونے والے عرب لیگ کے وزراے خارجہ نے سوڈان کے خلاف کسی قسم کی پابندیاں عائد کرنے کی مخالفت کی۔ انہوں نے سوڈانی حکومت اور باغیوں کے مابین جنگ بندی کی نگرانی کے لیے مبصرین بھیجنے پر تو اتفاق کیا لیکن ’’علاقے میں جبری فوجی مداخلت کی کسی بھی دھمکی‘‘ کو سختی سے مسترد کر دیا۔ 
ابو ظبی کے امارات سنٹر فار سٹریٹیجک سٹڈیز اینڈ ریسرچ کے سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر جہاد عودہ کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر ۱۵۵۶ کو مسترد کر کے عرب لیگ نے دوسرے مسائل پر ’’اپنی اخلاقی ساکھ کھو دی ہے۔ عرب ممالک ہمیشہ اس بات پر اسرائیل کی مذمت کرتے ہیں کہ اس نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسترد کیا ہے اور اس کی فوج ان اسرائیلی آباد کاروں کے ساتھ تعاون کرتی ہے جو زمینوں کے جائز فلسطینی مالکوں سے ان کی زمینیں چھین لینا چاہتے ہیں۔ لیکن اب بعینہ یہی کچھ سوڈان کے معاملے میں ہو رہا ہے۔‘‘
عرب ملیشیا نے گزشتہ ایک سال میں جتنے مسلمانوں کو قتل کیا ہے، ان کی تعداد ستمبر ۲۰۰۰ میں شروع ہونے والے فلسطینی انتفاضہ کے بعد اسرائیلی گولیوں سے مرنے والے فلسطینیوں سے زیادہ ہے۔ سیاہ فام افریقی مسلمانوں کے خلاف جبر وتشدد کے معاملے میں عربوں کی خاموشی کے نتیجے میں نوبت نسل پرستی اور نسل کشی کے الزام تک پہنچ چکی ہے۔
جہاد عودہ کا کہنا ہے کہ عرب لیگ کی ہچکچاہٹ کے پیچھے نسل پرستی کا عامل بھی کارفرما ہو سکتا ہے لیکن زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ تنظیم کے باہمی اختلافات (ڈارفر میں امن کے خواہاں) گنتی کے چند عرب ممالک اور این جی اوز کی کوششوں پر پانی پھیر رہے ہیں۔ لیگ کے ارکان کے باہمی اختلافات نے گزشتہ سالوں میں اس کو مفلوج کیے رکھا ہے اور بہت سے امور پر ایک متفقہ موقف اختیار کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے ہیں۔
عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عمرو موسیٰ ۲۰۰۱ء میں اپنامنصب سنبھالنے کے بعد مسلسل اصلاح کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ یا تو عرب لیگ ’’مضبوط بن جائے اور یا سرے سے ختم کر دی جائے۔‘‘
جہاد عودہ نے انسٹھ سال پرانی عرب لیگ کو ’’کمزور اور بکھری ہوئی‘‘ قرار دیا اور بین الاقوامی سطح پر کوئی اہم کردار ادا کرنے کے حوالے سے اس کی صلاحیت پر شک وشبہے کا اظہار کیا۔ ’’عرب ممالک ایسا کردار ادا کرنے کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ اس قابل نہیں ہیں۔ ذرا دیکھیں کہ ڈارفر کے مسئلے پر حقیقی پہل کس نے کی ہے؟ مغرب نے۔ عربوں سے اس معاملے میں تاخیر ہو گئی ہے، وہ ہچکچا رہے ہیں بلکہ حقائق کو سمجھنے سے بھی عاری ہیں۔‘‘
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عرب حکومتیں سوڈانی حکومت پر دباؤ ڈالنے سے اس لیے بھی گھبرا رہی ہیں کہ اس کے نتیجے میں خود ان کی پوزیشن کمزور ہو جائے گی۔ قاہرہ کے سنٹر فار ڈیولپنگ کنٹری سٹڈیز کے ڈائریکٹر مصطفی کامل السید اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’خود بعض عرب حکومتوں کے ہاں اقلیتوں کے مسائل پائے جاتے ہیں اس لیے وہ بین الاقوامی مداخلت کو پسند نہیں کرتیں‘‘۔ ’’وہ ڈارفر میں بین الاقوامی تعاون کی تو خواہاں ہیں لیکن اقوام متحدہ کی طرف سے کوئی حل مسلط کیے جانے کے حق میں بالکل نہیں۔‘‘
مصر کے سیاسی تجزیہ نگار حسن ابو طالب کو یقین ہے کہ اندرونی خامیوں کے باوجود عرب لیگ اس معاملے سے نبٹنے کی اہل ہے۔ ’’اگر عرب لیگ اس معاملے میں بالکل کنارہ کش ہو جائے تو اس سے معاملات زیادہ خراب ہو جائیں گے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ سوڈانی حکومت مغربی امداد کی پیش کش کے بار ے میں تو شک وشبہے کا شکار تھی لیکن ساتھی عرب ممالک کی پیش کش کے بارے میں اس نے زیادہ تحفظات کا اظہار نہیں کیا۔
سعودی عرب نے ڈارفر میں لڑائی سے بھاگنے والے پناہ گزینوں کے لیے ۷ء۱۰ ملین ڈالر کی انسانی امداد کا وعدہ کیا ہے جبکہ شام، کویت اور مصر فضا کے ذریعے سے خوراک پہنچانے اور طبی امداد فراہم کرنے کے سلسلے کا آغاز کر چکے ہیں۔ سوڈانی حکومت نے عرب حکومتوں اور افریقی یونین کی اس پیش کش کا خیر مقدم کیا ہے کہ وہ حکومت اور باغی گروپوں کے مابین اپریل ۲۰۰۴ء میں طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے کی نگرانی کے لیے مبصر بھیجیں گے۔ دونوں بلاکوں نے ان مبصرین کی حفاظت کے لیے فوجی بھی بھیجے ہیں لیکن سوڈان کا اصرار ہے کہ صرف اس کے اپنے فوجی امن وامان کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری انجام دیں گے۔
مغربی مبصرین نے عرب حکومتوں پر سوڈان کی حمایت کرنے کا الزام عائد کیا ہے لیکن ابو طالب کا کہنا ہے کہ سوڈانی حکومت کے تعاون سے کام کرنا ایک پر امن حل کے حصول کے لیے لازم ہے۔ ’’بحران کے حل کے لیے آپ کو سوڈانی حکومت کے ساتھ ڈیل کو ایک ذریعے کے طور پر استعمال کرنا ہے‘‘۔ ’’ہمیں ان کی مدد کرنی ہے نہ کہ سزا دینی ہے کیونکہ اگر ہم حکومت کو سزا دیتے ہیں تو اس کی زد میں وہاں کے غریب عوام بھی آئیں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ مغربی میڈیا پیچیدہ پس منظر کی تہہ میں جائے بغیر ڈارفر کی صورت حال کے بارے میں رائے قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ڈارفر میں حالیہ لڑائی کی وجہ مبینہ طور پر وہ پرانا جھگڑا ہے جو سوڈانی صدر جنرل عمر البشیر اور جیل میں بند اپوزیشن اسلامی لیڈر حسن الترابی کے مابین چل رہا ہے۔ انہوں نے ترابی کے حامیوں پر الزام عائد کیا کہ عمر البشیر کی حکومت پر بین الاقوامی دباؤ کو بڑھانے کے لیے انہوں نے ڈارفر میں عرصے سے سلگتی ہوئی کشمکش کو دانستہ بھڑکایا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے کہ جنجاوید ملیشیا سے تو ہتھیار واپس لے لیں جبکہ ڈارفر کے باغی ابھی مسلح ہوں۔ اس سے مزید خون خرابہ ہوگا۔‘‘
(بشکریہ روزنامہ ڈان، ۲۲ اگست ۲۰۰۴ء)

آئیے! اپنا کتبہ خود لکھیں

پروفیسر میاں انعام الرحمن

تمدنی زندگی کی گہما گہمی میں ہمارے پاس سوچ بچار کے لیے عموماً وقت نہیں ہوتا ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ویسے بھی غور و فکر کے تقریباً سبھی راستے مسدود کر دیے ہیں ۔ آخر معلومات کے سیلاب میں بہنے والوں کو توقف و ٹھہراؤ کی فرصت کہاں ! جدید عہد کی یہی بربریت ہے۔ ہر شخص کے پاس معلومات کا ڈھیر ہے اور تقریباً ہر شخص بے شعور ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا معلومات ، شعور و آگہی کا بدل ہو سکتی ہیں ؟ مثلاً لوگ جانتے ہیں کہ امریکی صدر کے لیے کم از کم ۳۵ سال کا ہونا ضروری ہے اور پاکستان میں ۱۹۷۳ کے دستور کے تحت صدر کی کم از کم عمر ۴۵ سال ہے۔ اسے ہم معلومات کے زمرے میں شمار کریں گے ، لیکن جب کوئی شخص یہ جاننے کی کوشش کرے کہ دونوں ممالک میں یہ عمریں کیوں رکھی گئی ہیں اور ان میں یہ تفاوت کیوں ہے تو آگہی کا آغاز ہوجاتا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ اس آغاز کے لیے تیار نہیں ہوتے بلکہ ’’ریکارڈر‘‘ رہنے پر قانع ہو جاتے ہیں۔ جب معلومات کا بہاؤ تسلسل اور تیزی سے جاری ہو تو ایسا ہونا حیرت انگیز نہیں ہے۔ اگر ہم اس بات کے خواہاں ہیں کہ معاشرے میں اور تمدنی زندگی میں شعور وآگہی کو فروغ ملے تو ایک معلومات سے دوسری معلومات تک ’’وقفہ‘‘ دینا ہو گا تاکہ پہلی معلومات کے تمام پہلو ، شیڈز اوراس کی ممکنہ جہتیں سامنے آسکیں اور معلومات رکھنے والا ادراک و آگہی کا حامل ہو سکے ۔ اگر یہ ’’وقفہ‘‘ نہیں ہو گا تو ایک ہیجان جنم لے گا، معلومات کا ہیجان ، جس کا کوئی مقصد نہیں، کوئی محور نہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی تالاب میں پتھر مسلسل پھینکتے جائیں تو لہریں مرتعش رہیں گی لیکن مسلسل چھناکے کی آوازوں اور تالاب میں ابتری کے سوا آپ کے ہاتھ آخر کیا آئے گا؟ اگر یہی عمل آپ ذرا وقفے وقفے سے کرتے جائیں تو ایک پتھر پھینکنے سے چھناکے کی جو آواز ابھرے گی، ہوسکتا ہے وہ آپ کے لیے ’’آوازِ دوست‘‘ ثابت ہو (از کجا می آید ایں آوازِ دوست) اسی طرح جو بلبلے سطح آب پر رقصاں ہوں گے اور ایک لہر اٹکھیلیاں کرتی ہوئی جس ناز سے دوسری لہر کو بیدار کرتی محسوس ہوگی، چراغ سے چراغ جلنے کے مثل، تو ہوسکتا ہے زندگی کی معنویت، اس کی وسعت اور اس کے تفہم کے حوالے سے چند پوشیدہ گوشے آپ پر آشکار ہو جائیں ۔ لیکن مسلسل تجربے اور معلومات کا طوفان ہیجان انگیز ہی ہوسکتا ہے جس کی کوئی جزئیات نہیں ، حالانکہ زندگی تو حرف حرف جمع لفظ اور قطرہ قطرہ جمع قلزم کی مانند ہے ۔ 
آپ اعتراض کر سکتے ہیں کہ ایک مرتبہ حاصل کی ہوئی ’’آگہی‘‘ تمدنی زندگی کے گرداب کا شکار ہو سکتی ہے ۔ میرا خیال ہے، آپ آگہی ’’کھو‘‘ نہیں سکتے اگر آپ کے حواس ٹھیک کام کر رہے ہوں ۔ مثلاً جب آپ موٹر سائیکل چلانا سیکھتے ہیں تو باقاعدہ پورے شعور کے ساتھ ہینڈل پر گرفت کرتے ہیں، بریک اور گےئر کا استعمال کرتے ہیں وغیرہ، لیکن کچھ عرصہ کے بعد آپ یہی عمل ’’خود کار‘‘ انداز میں کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ آپ نے ڈرائیونگ کا تفہم کھو دیا ہے، بلکہ ہوتا یہ ہے کہ وہ تفہم آپ کی ذات اور ادراک کا حصہ بن چکا ہوتا ہے، لہٰذا ہر وقت آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔یہی بات زندگی کے دوسرے پہلوؤں کی بابت بھی سچ ہے ۔ آپ ایک بار آگہی کے حامل ہوجائیں، یہ آپ سے کبھی دور نہیں ہوگی، حتیٰ کہ تمدنی زندگی کی تیز رفتاری بھی ’’فصیلِ آگہی‘‘ میں دراڑیں نہیں ڈال سکے گی (شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بااخلاق وہ ہے جو ’’روز مرہ زندگی ‘‘ میں بااخلاق ہو، ایسا نہیں کہ کبھی کبھاراوکھے سوکھے اخلاق کا مظاہرہ کر دیا) لیکن آگہی پانے کے لیے آپ کو وقت دینا ہو گا ، اپنے آپ کو ، پوری یکسوئی کے ساتھ۔ 
قارئینِ کرام ! تمدنی زندگی کے ہنگاموں سے بچتے بچاتے، اپنے آپ کو وقت دینے کے لیے ، حق و صداقت اور زندگی کی حقیقت پانے کے لیے اگر ہم ’’شہرِ خاموشاں‘‘ میں داخل ہوجائیں تو اپنی بساط کا فوراً احساس ہوجاتا ہے۔ ہر طرف قبریں ہی قبریں، ان انسانوں کی جو کبھی میری اور آپ کی طرح اسیرِ حیات تھے اور آج دنیا کے ہنگاموں سے بے نیاز موت کی قید میں خاموش پڑے ہیں ۔ اول تو یہ منظر ہی آفاقی آگہی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے ، لیکن اگر آپ اس منظر کے طلسم میں ڈوبتے نہیں تو آپ کی نظریں ’’کتبوں ‘‘ سے دوچار ہوں گی ۔ یہ کتبے اور ان پر کندہ عبارتیں آپ کی زندگی کو نئی راہ بخش سکتی ہیں۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا ،یہ نئی راہ ان کے نصیب میں بھی ہوتی جن کی قبروں پر یہ کتبے آویزاں ہیں۔ ایسا اسی صورت میں ہوسکتا تھاکہ وہ لوگ بھی جوہانس کیپلر (۱۶ ویں ۱۷ ویں صدی کا ماہرِ فلکیات) کی طرح اپنی زندگی میں ہی اپنا کتبہ خود لکھوا لیتے۔ (یہ مضمون کیپلر کے اس عمل اور کتبے کی عبارت سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے اس لیے اسی کی نذر ہے)۔ کیپلر کا کتبہ تھا :
’’میں نے آسمانوں کی پیمائش کی۔ اب میں سایوں کو ناپتا ہوں۔ میرا ذہن آسمان کو چھوتا تھا اور جسم زمین پر محوِ خواب ہے ‘‘
اس کتبے کی معنویت اپنی جگہ ، اصل بات یہ ہے کہ کیپلر کی شخصیت اور اس کے شخصی اثرات اس عبارت سے ہم آہنگ تھے ۔ کیا ہماری بستی کے قریب شہرِ خموشاں میں موجود کتبوں کی عبارتیں ، ان شخصیات اور ان کے اثرات سے ہم آہنگ ہیں ؟ اگر آپ غیر جانبدار ہیں تو جواب ’’نفی ‘‘ میں دیں گے ۔ اگر آپ جانبداری سے کام لیتے ہوئے ’’ہاں ‘‘ میں جواب دینا بھی چاہیں تو ان کے اثرات کی حامل موجودہ معاشرتی ابتری ،آپ کے ہاں کو ’’مشکوک ‘‘ ٹھہرانے کو کافی ہوگی ۔ 
بہر حال ! مذکورہ صورت کا الزام مرحومین کو نہیں دیا جا سکتا کیونکہ انھوں نے اپنے کتبے خود نہیں لکھوائے تھے بلکہ ان کے انتقال کے بعد ان کے ورثا نے لکھوائے ہیں ۔ ’لا الہ الا للہ محمد رسول اللہ‘ سے لے کر ’انا للہ و انا الیہ راجعون‘ تک ، زندگی کی بنیاد، جواز، حقیقت اور آدرش کی حامل عبارتیں آپ کو کتبوں پر ملیں گی۔ یقین جانیے اگر کسی اور عہد کا انسان پھرتا پھراتا اچانک ادھر آ نکلے اور کتبوں کی عبارتوں کو مکمل ادراک سے پڑھ سکے تو وہ ہمارے عہد کی بابت (کائناتی سچ کو گرفت میں لینے کے حوالے سے) انگشت بدنداں رہ جائے ۔ ’انا للہ و انا الیہ راجعون‘ فرد کا نہیں ، آدمیت کا کتبہ ہے۔ نوعِ انسانی کا کتبہ ، تمام زمانوں پر محیط ،تما م مقاموں پر حاوی۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہم لوگ بلا ادراک اور بغیر آگہی کے اس آیتِ کریمہ کو کتبے پر تحریر کروا لیتے ہیں۔ اگر مکمل شعور اور آگہی سے یہ عمل کیا جائے تو کیا موجودہ معاشرتی ابتری قائم رہ سکتی ہے ؟ اگر ہم جوہانس کیپلر کی مانند اپنا کتبہ خود لکھیں جو ہماری شخصیت سے ہم آہنگ ہو تو لا محالہ ہم خود کو ،سب سے پہلے اس آیتِ کریمہ کی تفہیم اور ادراک پر آمادہ کریں گے جس کے اثرات ہماری اپنی ذات پراور معاشرے پر بہت مثبت مرتب ہوں گے ۔ لیکن ہم تو ا لفاظ کی حرمت ’’پامال‘‘ کرنے پر تلے ہوئے اور الفاظ کو ’’کھوکھلا‘‘ کرنے کے لیے ادھار کھائے بیٹھے ہیں ۔ جلسے جلوسوں سے لے کر کسی بھی فنکشن میں چلے جائیں ، آپ کومقررین چیختے چلاتے نظر آئیں گے، بھاری بھرکم فصیح و بلیغ الفاظ استعمال کرتے ہوئے۔ اور سامعین اونگھتے دکھائی دیں گے ، کیونکہ نہ تو بولنے والے کو الفاظ کی حرمت کی پاسداری ہے اور نہ سننے والے کو کہ دونوں بے شعور ہیں ۔یہ عجیب امر ہے کہ ہمارے خطیب اور مقررین (خاص طور پر مذہبی ) اپنی شعلہ فشاں تقاریر کا اختتام ’’وما علینا الا البلاغ ‘‘ پر کرتے ہیں۔لطف کی بات یہ ہے کہ اس آیتِ مبارکہ پر اپنے ’’تاریخی خطاب ‘‘کے اختتام سے ذرا قبل تک ان کا رویہ اپنے زاویہ نگاہ کو ’’ٹھونسنے ‘‘ والا ہوتا ہے۔ ’وما علینا الا البلاغ‘ تو محض اتمامِ حجت کے لیے یا عادتاً کہہ دیا جاتا ہے۔ یہ عادت کچھ ایسے ہی ہے جیسے دیہاتی لوگ گھر سے بھینس کو کھولتے ہیں تو وہ عادت کے تحت سیدھی ’’ڈیرے یا مربے ‘‘ جا پہنچتی ہے۔اگرچہ راستے میں موقع پا کر ’’منہ ماری ‘‘ بھی کر جاتی ہے۔ 
’الا البلاغ‘ کی اصل روح سے یہ دوری اور اس کی انتہائی منفی توجیہ صرف ہمارے ہاں ہی عملی صورت میں نہیں ہے بلکہ اکثر ممالک کے قانون ساز اداروں، فیصلہ سازی کی کمیٹیوں اور اقوامِ متحدہ کے بڑے بڑے اداروں میں یہی منظر ’’سرِ منظر ‘‘ ہوتا ہے، (خیال رہے کہ الاالبلاغ کو کم از کم نظری سطح پر ہر قوم میں پذیرائی حاصل ہے) اس سے بڑھ کربھلا لفظ کی بے توقیری اور بے وقعتی کیا ہو گی؟ خاص طور پر اس تناظر میں کہ انسان ’’حیوانِ ناطق ‘‘ ہے ۔ لیکن ’ از دل خیزد بر دل ریزد، کے مصداق ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو لفظ کی حرمت و تقدس کے پاسبان بنے ہوئے ہیں ۔ ایسے ہی کسی شخص سے کچھ سننے کے بعد میں نے اپنی کیفیت ان الفاظ میں قلم بند کی تھی : ’’زندگی ! لفظ کے لمس سے شناسائی ہے ‘‘۔ میرا دعویٰ ہے اس فقرے کے کیف سے میں اب بھی لطف اٹھاتا ہوں اور ذاتی طور پر ان مقررین اور مصنفین کا تہہِ دل سے ممنون ہوں جو حالاتِ حاضرہ سے لے کر زندگی کے دیگر پہلوؤں کی تفہیم کے ضمن میں پیش قدمی کا موجب بنے۔ شاید ممنونیت اور اظہارِ تشکر بھی ان کے اثرات کا نتیجہ ہے (ورنہ کون ممنون ہوتا ہے)
بہر حال ، ہمیں بولتے اور لکھتے وقت بلکہ ہر معاشرتی عمل سے پہلے ’’با شعور ‘‘ ہونا چاہیے ۔ جٹکے انداز سے کلمہ طیبہ پڑھنے سے یا فصاحت و بلاغت کے دریا بہا نے سے معلومات، آگہی کے زمرے میں نہیں آجاتیں ۔ دھڑا دھڑ پریس کانفرنسیں اور لمبی لمبی تقاریر کرنے کے بجائے اگر ہمارے قائدین اپنی ذات کی انتہائی اکائیوں کے ساتھ لفظ کی حرمت ملحوظ رکھتے ہوئے صرف ’’ایک فقرہ ‘‘ بول دیں یا لکھ دیں تو شاید بہتری کی امید بندھ جائے ۔ بے عملی اور منافقت کے گھناؤنے سرکل کو توڑنے کے لیے ہمیں لفظ کو اس کے معانی لوٹانے ہوں گے ، ہمیں اپنا کتبہ خود لکھنا ہو گا ، شعور و آگہی کو معاشرتی عمل میں ڈھالنا ہو گا۔ میرا خیال ہے کہ مولانا منظور احمد چنیوٹی مرحوم نے اپنا کتبہ خود لکھ رکھا تھا (باقاعدہ نہ سہی بے قاعدہ ہی سہی) وہ کتبہ تھا ، ’’رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: انا خاتم النبیین لا نبی بعدی ‘‘۔ ذرا مولانا کی شخصیت اور ان کے اثرات پر کم از کم سرسری نظر ہی دوڑائیے اور بتائیے ،کیا وہ ان کے کتبے سے ہم آہنگ نہیں ہے ؟ میری رائے میں اس وقت تمام مسلمان ’’قائدین ‘‘ کو درج ذیل کتبے کی اشد ضرورت ہے:
’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو ‘‘۔ 

مکاتیب

ادارہ

(۱)
مکرمی محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم۔ امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
ماہنامہ ’الشریعہ‘ کا قاری ہونے کے ناطے مجھے یہ لکھنے میں عار نہیں کہ یہ ماہنامہ اپنے نوجوان، توانا فکر کے حامل لکھاریوں کی بدولت قارئین کے لیے ہمیشہ Food for thought فراہم کرتا ہے، خاص کر میاں انعام الرحمن کا قلم ’’فکر اسلامی کی تشکیل جدید‘‘ کے حوالے سے نیک نیتی سے کوشاں ہے۔ ان کے افکار ، خیالات، اسلوب تحریر سے اختلاف واتفاق پڑھنے والوں کا حق ہے مگر نوجوانی میں ان کا جذبہ صادق اور سعی مسلسل دعوت فکر ضرور دیتی ہے۔ ماہ جون کے شمارے میں ان کا مضمون ’’دین اسلام کی معاشرتی ترویج میں آرٹ کی اہمیت‘‘ اور جولائی کے شمارے میں ان کی فکر کے محاسبے پر مبنی تحریریں ہی ہیں جن پر میں انعام الرحمن کو مبارک باد دینا چاہتا ہوں۔ فکری جمود کے تالاب میں ان کے افکار تازہ کے پھینکے پتھروں سے اٹھنے والی لہریں ہی ان کی کامیابی کا بڑا ثبوت ہیں۔ شہرت یافتہ مورخ ٹائن بی کے خیال میں رسپانس حقیقی چیلنج ہی کو ملتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملت اسلامیہ کی تاریخ کے باطن میں علمی تقاضا پوشیدہ ہے جسے پورا کیے بغیر اس کے وجود اور اس کی حرکت تاریخ کو سمجھنا مشکل ہے۔ تہذیبوں کی تشکیل اور تعمیر میں ان کی جمالیات کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ فی زمانہ آرٹ کے متعلق ایک مصنوعی آفاقیت کا تصور رواج پا گیا ہے۔ جن معاشروں میں اس تصور خاص سے مطابقت رکھنے والی فنی ہیئتیں موجود ہیں، ان پر جمال کشی کا ٹھپہ فوراً لگا دیا جاتا ہے حالانکہ انسان کی تہذیبی فعلیت کی کلی حیثیت کو سمجھنے کے لیے اس امر کا ادراک لازم ہے کہ تہذیب تلافی کے نظام پر اپنی بنیاد رکھتی ہے۔ کمال، کامیابی یا برتری اسی تہذیب کا مقدر ہے جو ادنیٰ ترین درجوں کو قربان کرکے، ان پر زور کم کر کے اعلیٰ ترین عناصر میں فائق ہو۔
روح عصر کا تقاضا ہے کہ ایک نیا فکری نظام جنم لے جس کی جڑیں اسلام کی روایتی فکر میں پیوست ہوں اور جو حقیقی روح اسلام سے کسب نمو کرتی ہو۔ ایسا فکری نظام ابھی تشکیلی دور میں ہے۔ میرے دوست میاں انعام الرحمن کے خیالات کسی درجے میں اسی نظام کی تلاش سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ تلاش خود اسلامی تاریخ کے باطن اور اسلامی تہذیب کے جہان امکان سے پھوٹی ہے۔ ایسے اصولوں اور فکر کا تنقیدی جائزہ وتحقیقی مکالمہ اور مطالعہ ناگزیر ہے جن کے زیر اثر تجدید ملت کا یہ عمل سامنے آ رہا ہے۔ اس میں تہذیب اسلامی کے کثرت آشنا مناظر بھی شامل ہیں اور ادب وآرٹ کے وہ دبستان بھی جنھوں نے صدیوں کے سفر میں اس امت کی نفسیاتی ساخت کی شہادت بھی دی ہے اور جمال کے مظاہر کے ذریعے حقیقت کو اس کے شعور کا حصہ بنا دیا ہے، اسی نے ’’امت خیر‘‘ سے وابستہ آرزوؤں کو زندہ رکھا ہے، پروان چڑھایا ہے۔ یہ آرزو ہی ہمارے حال کی عظیم قوت اور مستقبل کے لیے بے مثال محرک عمل ہے۔ T.B Irving نے اپنی کتاب "Islam Resurgent" میں شاید اس لیے لکھا تھا کہ ’’اسلام کا ایک بہت عظیم پہلو وہ آفاقی اپیل ہے جو صدیوں کے دائرے میں پوری دنیا کی مختلف النوع اقوام کے لیے ظاہر ہوئی ہے۔ اس مذہب کے باطن میں کوئی ایسا عنصر ہے جس کو ہم وضاحت سے مشخص نہیں کر سکتے لیکن جس نے اسے عرب دنیا سے باہر قابل قبول بنایا ہے۔‘‘
پروفیسر انعام الرحمن بجا طور پر شعور نبوت کی راہبری کے طالب ہیں جو تاریخ اسلام میں عباسی دور کی خطابت محض کے غلبے سے پہلے ہی کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ انعام الرحمن کے خیال میں انسان اگر حسن پسند بن جائے تو وہ لازماً حقیقی حسن کو ظاہری رنگا رنگی کی بجائے اس وحدت میں دیکھے گا جہاں تمام رنگ بغل گیر ہوتے ہیں۔ جی ہاں، شوآن (Schuon) نے کہیں کہا تھا کہ حسن کے عناصر بصری ہوں یا صوتی، سکونی ہوں یا حرکی، سب سے پہلے حقیقی ہوتے ہیں اور ان کی لذت اسی ’’حقیقت‘‘ سے مستعار ہوتی ہے۔
آخر میں یہی لکھنا ہے کہ میاں صاحب اسلوب تحریر میں روایت پسندوں پر ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھیں۔ اصلاح کی کاوش اعتدال پر مبنی ہو تو جلدی کامیاب ہوتی ہے۔ لکھنے کے عمل میں بلندئ فکر آپ کو مبارک ہو، مگر مشہور ادیب محمد حسن عسکری کا ایک قول آپ کی نذر کہ بین السطور آپ سمجھ جائیں گے۔ عسکری کا کہنا ہے ’’جدید مغربی ناول نگار زندگی میں خیر کے عنصر کی موجودگی کا انکار تو نہیں کرتے لیکن مطالعہ صرف بدی کا کرتے ہیں۔‘‘
والسلام
پروفیسر شیخ عبد الرشید
شعبہ سیاسیات۔ گورنمنٹ زمیندار کالج
بھمبر روڈ ۔ گجرات
24/7/2004
(۲)
مخدوم گرامی قدر حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب مدظلہ العالی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
’الشریعہ‘ میں جس فراخ دلی کے ساتھ قارئین کی خط وکتابت شامل کی جاتی ہے، اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ خصوصاً منکرین حدیث کو اہمیت دینا اور ان کے خطوط شائع کرنا، آپ کے خاندانی پس منظر اور علمی وجاہت کو سامنے رکھتے ہوئے ازحد افسوس ناک ہے۔ پرویزی مکتبہ فکر کے یہ لکھاری بعد میں ’الشریعہ‘ میں شائع شدہ خطوط کو اپنی تائید میں استعمال کر سکتے ہیں اور یقیناًکریں گے۔ جو لوگ قرآن وحدیث کو بازیچہ اطفال بنانے سے باز نہیں آتے، ان کے سامنے آپ اور آپ کا جریدہ کیا چیز ہیں؟ ازراہ کرم اس فراخ دلی کی حدود مقرر کیجیے، ورنہ بعض قارئین کی آرا غلط فہمی کی بنیاد پر منفی رخ بھی اختیار کر سکتی ہیں جو کہ کسی بھی لحاظ سے مفید ثابت نہ ہوگا۔
مسجد اقصیٰ کے حوالے سے بحث بھی جدت پسندی کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس بحث کا علمی وعملی فائدہ کیاہے؟ کم از کم احقر کی سمجھ میں نہیں آ سکا۔ بجائے اس کے کہ مولانا عمار صاحب اپنے دفاع میں مضمون کی تیسری قسط لکھیں، اس بحث کو بند کردیں تو بہتر ہوگا۔
استاذ مکرم مولانا چنیوٹی قدس سرہ کے حوالے سے تحریر کردہ تفصیلی مضمون کے بعض پیراگراف حذف کرنا بہتر ہے۔ ان کی نشان دہی علیحدہ کاغذ پر کر رہا ہوں۔ وہ محترم مولانا عمار خان ناصر صاحب کے حوالے کر دیں تاکہ وہ کمپوزنگ کرتے وقت حذف کر سکیں۔ 
والسلام۔ دعاگو ودعا جو
(مولانا) مشتاق احمد
استاذ جامعہ عربیہ چنیوٹ
۴۔ اگست ۲۰۰۴ء
(۳)
مکرم ومحترم گرامی قدر عالی جناب حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب زید مجدکم
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ
سلام اللہ ورحمتہ وبرکاتہ علیکم وعلیٰ من لدیکم وعلیٰ جمیع المسلمین الموحدین این ما کانوا ومن کانوا۔
محترم! بندہ عفا اللہ عنہ آن محترم کے علمی خاندان کا قدر دان، عقیدت مند بلکہ نیاز مند ہے۔ آن محترم کے والد محترم گرامی قدر مدظلہ العالی کے علمی دنیا پر عظیم احسانات ہیں۔ آپ بھی ماشاء اللہ ’الولد سر لابیہ‘ کے عین مطابق دینی علوم کی اشاعت میں اخلاص کے ساتھ مساعی جمیلہ میں مصروف زندگی گزار رہے ہیں۔ الحمد للہ علیٰ ذلک۔ اللہم زد فزد۔ اللہ تعالیٰ آن محترم کو مزید اخلاص وللہیت کے جذبہ صادق سے صحیح دین اسلام کی اشاعت کی توفیق بخشیں۔ ع ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد۔
محترم! اس اعتراف حقیقت کے ساتھ صمیم قلب سے تھوڑا سا گلہ بھی نوٹ کر لیجیے۔ جناب عالی! نہ جانے کیوں آپ نے سبائیت جیسے عظیم اور قدیم فتنے کی ناجائز آبیاری بلکہ وکالت شروع کر دی ہے جبکہ سبائی بروزن مرزائی، دونوں ہیں حقیقی بھائی بھائی۔ وائے افسوس آپ شیعوں کے کفر وضلالت کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے کی اپنے قارئین کو گویا ہدایت دے رہے ہیں تو خدا نخواستہ پھر آں محترم کا یہی پیدا کردہ نرم گوشہ ترقی کرتے ہوئے مرزائیت کے لیے سازگار کیفیت پیدا کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔ 
محترم! الشریعہ کے مسلسل دو شماروں یعنی جولائی اور اگست میں سبائیت کے لیے فضا سازگار بنائی جا رہی ہے۔ ماہ جولائی ۲۰۰۴ء کے شمارے میں آنجناب نے کلمہ حق یعنی اداریے میں شیعوں سے متعلق جو کچھ رقم فرمایا ہے، اسے ملاحظہ کر کے اہل حق کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ پھر اس کو مزید تقویت دینے کے لیے سرنامہ پر بھی اسے مرقوم کیا ہے۔ اسے کوئی اور صاحب یوں بھی زیادہ روشن خیالی سے لکھ سکتا ہے کہ ’’ہم مرزائیوں کے خلاف کافر کافر کی مہم، تشدد کے ساتھ ان کو دبانے اور کشیدگی کا ماحول پیدا کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ہمارا اس حوالہ سے موقف یہ ہے ........‘‘ تو پھر آپ اس کے منہ میں کس طرح لگام دے سکتے ہیں جبکہ خود اپنی منطق آپ کے خلاف صغریٰ کبریٰ تیار کر کے یہی حد اوسط نکالے گی جو کہ آپ نے شیعوں کے بارے میں نکالی ہے۔ اللہ اکبر! پھر اگست کے شمارے میں تو اس سے بھی بڑھ کر ترقی کرتے ہوئے ’’شیعہ سنی تعلقات اور متوازن رویہ‘‘ میں ڈاکٹر یوگندر سکند نے جو کچھ رقم کیا ہے، خدا جانے آپ نے اسے پہلے ملاحظہ بھی فرمایا ہے یا ایسے ہی اشاعت کے لیے دے دیا ہے۔ آپ کے والد محترم مخدوم العلماء مدظلہ العالی اور عم محترم نے بھی اسے ضرور ملاحظہ فرمایا ہوگا۔ اس کے بارے میں ان مقدس علماء حق کی رائے کیا ہے، جبکہ ماہنامہ ’الشریعہ‘ ان ہر دو حضرات کی زیر سرپرستی شائع ہوتا ہے۔ نہ جانے یہ ڈاکٹر یوگندر سکند کس زمرے کا فرد ہے جس کا نام ہی ہمارے لیے تعجب انگیز ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس صاحب نے شیعوں کے اس مصنوعی دین کا مطالعہ ہی نہیں کیا بلکہ یوگندر صاحب شیعہ مسلک کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔ براہ کرم اس خطرناک شیعہ نواز کو محقق اسلام حضرت مولانا محمد منظور نعمانی نور اللہ مرقدہ کی زندگی کی آخری تصنیف لطیف جو آپ نے سبائیوں کی تصنیفات کی روشنی میں لکھی ہے اور شیعہ عقائد کے کفر پر تمام علما کے دستخط لیے تھے، ضرور موصوف کو مطالعہ کی سفارش فرمائیں اور اس کتاب کے مطالعہ کے بعد پھر موصوف کی رائے معلوم کیجیے۔ محترم! خدارا آپ شیعیت کی کافرانہ تقیہ کی دلدل میں ہرگز نہ پھنس جائیے۔ اہل اسلام کے نزدیک شیعہ متفقہ طور پر کافر ہے۔ پھر شیعہ سے شیعہ نواز زیادہ خطرناک ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائیں۔ 
میں مخالف نہیں، آپ کا خادم ہوں۔ براہ کرم اس مکتوب کو مکتوبات میں ضرور شائع فرما کر ممنون فرمائیں۔ شکریہ
حافظ ارشاد احمد دیوبندی
ظاہر پیر۔ ضلع رحیم یار خان
7/8/2004
(۴)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترمی مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خیریت طرفین نیک مطلوب۔
آپ نے اپنے کالم میں (پاکستان، ۲۷ جولائی) جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ان کو پڑھ کر اتنی خوشی ہوئی کہ بلا تاخیر آپ کو ہدیہ تبریک پیش کرنے کے لیے حاضر ہو گیا۔ 
دینی طبقات میں رواداری کو فروغ دینا اس وقت بہت بڑی خدمت اور ضرورت ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جس کسی کو مذہب سے تھوڑا بہت لگاؤ ہو جاتا ہے، اس کا پہلا کام دوسرے مسلک اور مذہب سے متعلق آدمی سے نفرت کا اظہار کرنا بن جاتا ہے۔ اہل مسجد آپس میں لڑ رہے ہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں مذہب سے لا تعلق لوگ آپس میں ہم آہنگی سے رہتے ہیں۔ مذہبی اداروں کے طلبہ کے اندر، مذہبی رسائل میں اور دینی مجالس میں اس فکر، رویے اور طرز زندگی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جس کا مظاہرہ آپ نے اپنے کالم میں کیا ہے۔ دیوبندی ہو کر، جمعیت علماء اسلام سے منسلک ہو کر جماعت اسلامی کے ادارے میں جانا اور ان کا آپ ایسے مخالف فکر کے آدمی کو اپنے ہاں بلانا یقیناًخوش آیند ہے۔
آپ اپنے موقر رسالے (الشریعہ) میں ہمیشہ اس طرز فکر کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو مزید بڑھایا جائے۔ ایک دوسرے کی بات کو سننے کا حوصلہ پیدا کیا جانا چاہیے۔ اپنی بات کو دلائل کے زور پر منوانے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ دوسرے کی بات پر تنقید کرنے سے قبل اس کے دلائل کا بخوبی جائزہ لینا چاہیے۔
جس رویے کا ذکر آپ نے کیا ہے، کاش یہ رویہ آپ کے مقتدیوں میں بھی پیدا ہو جائے۔ آپ سے گزارش ہے کہ اپنے ہم منصب علما سے بار بار یہی گزارش کریں کہ وہ خود بھی اور اپنے مقتدیوں کو بھی اسی طرز عمل کے مظاہرے کا پابند بنائیں۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔
(ڈاکٹر) خالد عاربی
حسن پورہ۔ کولیاں روڈ۔ ڈنگہ
(۵)
محترم محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم
آپ اور مدیر اشراق مبارک باد کے مستحق ہیں کہ آپ حضرات نے ہیکل سلیمانی اور مسجد اقصیٰ کے متعلق اس دور میں کلمہ حق بلند کیا، جب حق کی آواز بلند کرنے والا ہر شخص ’’یہود کا ایجنٹ‘‘ قرار پاتا ہے، اور پھر ایسا شخص نہ صرف مباح الدم قرار پاتا ہے بلکہ اس کے خلاف جہاد بالسیف سب سے بڑا مذہبی فریضہ قرار پاتا ہے۔ خدا آپ کی سعی کو قبول کرے اور آج کے تمام مدعیان اسلام کو آپ ہی کی طرح حق کو دین اور دلیل کی کسوٹی پر پرکھ کر قبول کرنے اور باطل کو اسی پر پرکھ کر رد کرنے کی توفیق دے۔
آپ کے مضامین سے چند سوالات میرے ذہن میں پیدا ہوئے ہیں۔ امید ہے کہ ان کے متعلق اپنی رائے سے آگاہ کریں گے:
۱۔ ہمارا اور بنی اسرائیل کا دین وہی اللہ کا بھیجا ہوا دین اسلام ہے۔ اگر کچھ فرق ہے تو تقاضائے حکمت کے تحت، شریعت میں کہیں کہیں کچھ اختلاف ہے۔ ان کی شریعت کی بعض سختیاں، بنی اسرائیل کی کج روی اور کج بحثی کی وجہ سے بطور سزا ان پر عاید کی گئیں۔ اللہ کی آخری شریعت میں خدا نے یہ سختیاں منسوخ کر دیں۔ اسی طرح بعض سنن، بنی اسرائیل کی بجائے بنی اسماعیل کے برقرار رکھے گئے، مثلاً ہفتہ کی بجائے جمعہ کا تقدس۔ سوال یہ ہے کہ ہیکل کی مقدس چٹان اگر بنی اسرائیل کی دینی روایت میں مقدس تھی تو ہماری شریعت میں کیوں ایسا نہیں، جبکہ اس چٹان کی اس مقدس حیثیت کو ہماری شریعت کی کسی نص نے منسوخ نہیں کیا؟ بلکہ اس کے برعکس یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے قرآن نے ہیکل اور اس سے منسوب تمام اشیا کو شعائر میں سے قرار دیا ہو۔ چنانچہ شب معراج کے رؤیا کے متعلق قرآن فرماتا ہے۔ (ترجمہ):
’’پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے دور کی مسجد (یعنی ہیکل سلیمانی) جس کے گردا گرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ دکھائیں اسے اپنی نشانیاں۔‘‘
اس آیت میں موجود الفاظ ’’اپنی نشانیاں‘‘ سے مراد کیا، دیگر نشانیوں کے علاوہ، ہیکل سلیمانی اور اس کے ملحقہ دیگر شعائر نہیں ہو سکتے؟ اگر ایسا مان لیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ محمدی شریعت، بنی اسرائیلی شریعت کے ان شعائر کو sanctity عطا کر رہی ہے۔
یہاں یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ بنی اسرائیل کی شریعت کے شعائر کو محمدی شریعت کے شعائر قرار دینے سے میرا مقصد یہ ہے کہ مسلمان ان پر اپنا حق تولیت جمائیں، بلکہ یہ ہے کہ وہ ان کو اپنے ان بھائیوں سے share کریں جو ہماری ہی طرح خود بھی دین ابراہیم پر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، یعنی یہود اور مسیحی۔
۲۔ صخرہ کے قریب سیدنا عمر یا دیگر صحابہ کے نماز نہ پڑھنے سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ وہ شریعت محمدی میں شعیرہ نہیں ہے۔ چٹان کے قریب نماز نہ پڑھنے کی دیگر حکمتیں بھی ہو سکتی ہیں، مثلاً اس کی حیثیت قبلہ کے تصور کو مٹانا۔ ہیکل اور اس سے ملحق شعائر کی حیثیتِ قبلہ کو نص قرآنی نے منسوخ کر دیا ہے، مگر ان کے شعائر ہونے کی حیثیت کو قرآن نے رؤیائے شب معراج کا تذکرہ کر کے reinforce کیا ہے۔
۳۔ امام ابن تیمیہؒ کی یہ رائے کہ ’’اس (صخرہ) کی تعظیم کا طریقہ یہود کی مشابہت اختیار کرنے کے زمرے میں آتا ہے‘‘ میری ناچیز رائے میں نظر ثانی کے قابل ہے۔ امام صاحب کے علمی مقام اور مرتبہ کو پیش نظر رکھا جائے تو مجھ ناچیز کو ان سے، ظاہر ہے وہ نسبت بھی نہیں جو قطرہ کو سمندر سے ہوتی ہے، مگر ان کی رائے پر تبصرہ نہ کرنا ان کے اپنے اسوہ کو ترک کرنے کے مترادف ہے۔ اس لیے یہ عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ صخرہ کی تعظیم کیا صرف یہود سے مشابہت ہے؟ کیا یہ بے شمار انبیائے بنی اسرائیل کی، ان کے جاں نثار ساتھیوں اور زمانہ قدیم کے ان گنت سچے مسلمانوں کی مشابہت بھی نہیں؟ پھر یہود کی مشابہت اگر کوئی جرم ہے تو آنحضرت ﷺ دسویں محرم کا روزہ کیوں رکھتے تھے؟ کیا ایسا کرتے ہوئے وہ بنی اسرائیل کی شریعت کا اتباع نہیں کرتے تھے؟ امام صاحب فرماتے ہیں ’’ہماری شریعت میں جیسے ہفتے کے دن کے بارے میں کوئی حکم نہیں، اس طرح صخرہ کے حوالے سے بھی کوئی خصوصی حکم باقی نہیں رہا۔‘‘ ہفتہ کا حکم تو بنی اسماعیل کی سنت پر عمل کرنے سے حضور ﷺ نے منسوخ کر دیا، مگر صخرہ کے شعیرہ ہونے کا حکم آخر کس نص سے منسوخ ہوا؟ مزید یہ کہ رؤیائے شب معراج میں جہاں آپ کو ہیکل دکھایا گیا، وہاں ہیکل کا Holy of holies یعنی صخرہ جو ہیکل کا اصل یا دل تھا، کیوں دکھانے سے رہ گیا؟ اور کچھ نہیں تو کم از کم یہ اس کا حصہ تو تھا ہی۔
۴۔ مسجد عبد الملک (یا مسجد عمر) اس احاطے میں تعمیر کی گئی ہے جس پر اصلاً یہود کا حق ہے، اس لیے اگر وہ اسے گرانا چاہیں تو کیا ہمیں اس پر کشت وخون کرنا چاہیے؟ پھر یہ مسجد ایک عام مسجد ہے۔ جو مسجد مسلمانوں کی تیسری مقدس مسجد ہے اور جس کی زیارت کے لیے سفر جائز ہے، وہ تو ہیکل سلیمانی ہے۔ اسی کے متعلق حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں مانگی جانے والی دعا کو شرف قبولیت بخشا جاتا ہے۔ تو پھر کیا ہمیں اس کی تعمیر یہود پر چھوڑ رکھنی چاہیے، یا اس شرف کو خود حاصل کرنے میں پہل کرنی چاہیے۔ کیوں نہ ہم ہیکل خود حضرت سلیمان کے نقشہ پر تعمیر کر دیں؟ اور اگر یہود کے لیے یہ قابل قبول نہ ہو تو آخر ہم قبہ صخرہ کے مقدس حصے میں داخل ہونے کی سعادت سے محروم کیوں رہیں؟ احاطہ ہیکل یہود کے حوالے کرنے کے بعد ہم مسجد عبد الملک تک کیوں محدود رہیں؟ ہم کیوں نہ ان سے درخواست کریں کہ وہ ہیکل میں اپنے طریقہ سے عبادت کریں اور ہمیں اپنے طریقے سے کرنے دیں۔ ہیکل کو اس دنیا میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ دنیا کے تین عظیم مذاہب یعنی یہودیت، مسیحیت اور اسلام کے پیروکاروں کے لیے انتہائی مقدس ہے۔ یہ عالم انسانیت میں محبت، امن، رواداری، خدا ترسی اور حضرت ابراہیم کے پیروکاروں کے مذاہب کی مشترکہ دعوتی اساس کا مرکز بن سکتا تھا۔ مگر افسوس، دین ابراہیمی کے درست ترین version کے حامل ہونے کے دعویٰ داروں نے اسے نفرت، عدم برداشت اور قتل وغارت کا مرکز بنا دیا۔
والسلام
محمد عزیر بھور
(۶)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مکرمی محمد عزیر بھور صاحب 
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
مزاج گرامی؟
آپ کا عنایت نامہ ملا۔ بے حد شکریہ
مسجد اقصیٰ سے متعلق میرے نقطہ نظر کے حوالے سے آپ نے جو استفسارات کیے ہیں، ان کے بارے میں میری گزارشات حسب ذیل ہیں:
۱۔ صخرۂ بیت المقدس کے تقدس اور اس کی حرمت وعظمت کے بارے میں آپ کے ارشاد سے مجھے پوری طرح اتفاق ہے۔ یہ یقیناًایک محترم اور مقدس پتھر ہے اور اس کی حرمت کو اسی طرح ملحوظ رکھا جانا چاہیے جیسا کہ پورے احاطہ ہیکل کی حرمت وتقدس کو۔ ہمارے فقہا جہاں نبی ﷺ کے واضح ارشادات کی بنا پر رفع حاجت کے وقت مسجد حرام کی طرف رخ کر کے بیٹھنے کو ممنوع قرار دیتے ہیں، وہاں صخرہ کے استقبال واستدبار سے گریز کو بھی مستحب مانتے ہیں۔ اسی طرح ’تغلیظ الیمین بالمکان‘ یعنی قسم کو موکد بنانے کے لیے کسی مقدس مقام میں حلف لینے کے مسئلے میں بھی ان کے ہاں بیت اللہ اور مسجد نبوی کے ساتھ ساتھ صخرۂ بیت المقدس کا ذکر ملتا ہے۔ تاہم اس ضمن میں دو باتیں ملحوظ رہنی چاہییں۔ ایک تو وہی جس کا آپ نے ذکر کیا ہے، یعنی یہ کہ کسی چیز کی حرمت وتقدس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی تولیت کے حقدار بھی لازماً مسلمان ہیں۔ اور دوسری یہ کہ مسلمانوں کے لیے صخرہ کی عظمت وحرمت محض اعتقادی اور اصولی نوعیت کی ہے۔ اس سے تجاوز کرتے ہوئے اس کی رسمی (Ritualistic) تعظیم کا کوئی طریقہ (مثلاً صخرہ کا طواف یا عبادت کی نیت سے اس کو چھونا یا اہتمام سے اس کے قریب نماز پڑھنا وغیرہ) صاحب شریعت سے کسی ثبوت کے بغیر اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ امام ابن تیمیہ بھی، جہاں تک میں ان کی رائے پر غور کر سکا ہوں، اسی رسمی تعظیم کو یہود کی مشابہت قرار دیتے ہیں۔ ہاں، اگر وہ اس کی اعتقادی اور اصولی حرمت کی بھی، فی الواقع، بالکلیہ نفی کرتے ہوں تو پھر، البتہ، ان کی رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ 
۲۔ آپ کی یہ رائے کہ مسلمان ازخود ہیکل سلیمانی کو تعمیر کرکے پورے احاطہ ہیکل کو مسلمانوں اور یہود کی مشترکہ عبادت گاہ کی حیثیت دے دیں، غالباً مثالیت پسندانہ (Idealistic) ہے۔ اگر ایسا کرنے میں کوئی حقیقی نظری یا عملی رکاوٹ نہ ہوتی تو آپ کی بات قابل غور تھی، لیکن صورت حال یہ ہے کہ جانبین کے متعصبانہ عملی رویے سے قطع نظر، یہودی فقہ کی رو سے کسی غیر یہودی کا ہیکل کی اصل عمارت میں داخلہ ہی سرے سے ممنوع ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ ان کے مذہبی علما اس فقہی شرط سے دست بردار ہو کر آپ کی تجویز کو قبول کرنے کے لیے رضامند ہوں گے۔ اگر آپ غور کریں تو مسئلے کا عملی حل اس کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا جس کا میں نے اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے۔ آپ کا بتایا ہوا طریقہ اگر مطلوب یا افادیت کے ساتھ قابل عمل ہوتا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس کو چھوڑ کر مسلمانوں کے لیے مسجد کا ایک کونہ مخصوص کر دینے کا طریقہ اختیار نہ فرماتے۔
اگر مزید کوئی بات وضاحت طلب ہو تو میں اس کے لیے حاضر ہوں۔ 
عمار ناصر
۲۹ جولائی ۲۰۰۴ء
(۷)
محترمی عمار ناصر صاحب
السلام علیکم
امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ آپ کا عنایت نامہ ملا جس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔
چونکہ یہودی فقہ میں اس بات کی اجازت نہیں کہ غیر یہودی ہیکل کی عمارت میں داخل ہو سکے، اس لیے ظاہر ہے ہم اصل مسجد اقصیٰ کی عمارت نہ تو تعمیر کرنے کی سعادت حاصل کر سکتے ہیں، نہ اس میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد وہی تجویز قابل عمل رہ جاتی ہے جو آپ نے پیش کی ہے۔ صورت حال کی وضاحت کے بعد مجھے آپ کی رائے سے پورا اتفاق ہے۔
خاکسار
محمد عزیر بھور
mubhaur@hotmail.com

یوم آزادی کے موقع پر الشریعہ اکادمی میں تقریب

ادارہ

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام ۱۴۔ اگست ۲۰۰۴ء بروز ہفتہ وطن عزیز پاکستان کے ۵۸ ویں یوم آزادی کے موقع پر ایک پروقار تقریب منعقد کی گئی۔ پروگرام کے مہمان خصوصی الشیخ حبیب النجار تھے جبکہ نقابت کے فرائض تین سالہ خصوصی کورس کے سال اول کے طالب علم حافظ ابو تراب نے انجام دیے۔ پروگرام کا آغاز حافظ محمد کاشف قیصر نے تلاوت کلام پاک سے کیا، جبکہ مولانا مطیع الرحمن نے رسول مقبول ﷺ کی خدمت میں ہدیہ نعت پیش کیا۔ اس کے بعد حافظ اسجد محمود نے قومی ترانہ پیش کیا اور تمام شرکا نے ان کے ساتھ کھڑے ہو کر قومی ترانہ پڑھا۔
بعد ازاں طلبا کے دو گروپوں نے سیرت مصطفی ﷺ اور تحریک پاکستان کے بارے میں کوئز پروگراموں میں نہایت دلچسپی سے حصہ لیا۔ ایک گروپ نے سیرت مصطفی کوئز پروگرام میں جبکہ دوسرے گروپ نے تحریک پاکستان کوئز پروگرام میں کامیابی حاصل کی۔ دونوں گروپوں کے طلبا کو انعامات دیے گئے۔
کوئز پروگرام کے بعد طلبا نے یوم آزادی کے حوالے سے مختلف عنوانات پر خوب صورت انداز میں اپنے مافی الضمیر کا اظہار کیا اور تحریک آزادی کے مجاہدین اور کارکنوں کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔
تقریب کے آخر میں مجموعی کارکردگی پر ایک سالہ خصوصی تربیتی کورس (برائے فضلا) کے ہونہار طالب علم مولانا مطیع الرحمن کو خصوصی انعام دیا گیا۔
پروگرام کے اختتام پر تمام شرکا نے وطن عزیز کی سا لمیت اور بقا اور اسلامی نظام کے عملی نفاذ کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی۔

اکتوبر ۲۰۰۴ء

موجودہ صورتحال میں اہل علم ودانش کی ذمہ داریمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
تحریکِ استشراق اور اس کے اہداف و مقاصدحافظ محمد سمیع اللہ فراز
امت مسلمہ کو درپیش چند فکری مسائلحافظ سید عزیز الرحمن
متشددانہ فتویٰ نویسی : اصلاح احوال کی ضرورتادارہ
حجیت حدیث اور اسلامی حدود کے حوالے سے ایک بحثچوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
مکاتیبادارہ
بین المذاہب کانفرنس برائے عالمی امن و عدل اجتماعیپروفیسر حافظ منیر احمد
بین المذاہب کانفرنس : چند تاثراتپروفیسر میاں انعام الرحمن

موجودہ صورتحال میں اہل علم ودانش کی ذمہ داری

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

رابطہ عالم اسلامی کی سالانہ کانفرنس ۱۸ سے ۲۰ ستمبر تک مکہ مکرمہ میں منعقدہوئی۔ پہلے سے علم ہوتا تو اس میں بطور مبصر یا اخبار نویس تھوڑی دیر کے لیے حاضری کی کوئی صورت نکالنے کی کوشش کرتا اس لیے کہ ۱۸ ستمبر کو میں جدہ میں تھا، لیکن ۱۹ ستمبر کو جب میں سعودی عرب میں ایک ہفتہ گزار کر لندن کے لیے روانہ ہو رہا تھا تو اخبارات میں اس کانفرنس کے آغاز کی خبر پڑھی۔ یہ کانفرنس ہر سال ہوتی ہے اور اس میں دنیا بھر سے رابطہ کے ارکان اور مدعوین شرکت کرتے ہیں۔ رابطہ عالم اسلامی مسلمانوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم ہے، اس حوالہ سے کہ اس کی سرگرمیاں پورے عالم اسلام تک پھیلی ہوئی ہیں اور بالخصوص غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کی دینی، تعلیمی اور رفاہی سرگرمیوں میں تعاون اور راہ نمائی کرتی ہے۔ ہیڈ کوارٹر مکہ مکرمہ میں ہے اور سعودی حکومت کی سرپرستی میں اس کی سرگرمیاں انجام پاتی ہیں، اگرچہ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کی اس طرح کی کوئی عالمی تنظیم ایسی ہو جو حکومتی اثرات سے آزاد رہ کر اہل علم ودانش کی آزادانہ راہ نمائی میں دینی، علمی وفکری راہ نمائی کا فریضہ سرانجام دے۔ عرب دنیا کے معروف دانش ور اور عالم دین الشیخ ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اس کے لیے کوشش بھی کی تھی اور لندن میں ایک بڑی بین الاقوامی کانفرنس بھی منعقد کی تھی مگر بوجوہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ چند سال قبل ورلڈ اسلامک فورم نے بھی اس سمت توجہ دی تھی اور مولانا محمد عیسیٰ منصوری، مولانا مفتی برکت اللہ اور راقم الحروف نے مختلف ممالک کے علماء کرام اور دانش وروں سے رابطے کر کے لندن میں دس بارہ ملکوں کے ارباب علم ودانش کے مشاورتی اجتماع کا اہتمام کیا تھا لیکن اس کے لیے وقت، ٹیم اور وسائل کی جو فراوانی ضروری ہے، اس کا حصول ہمارے بس کی بات نہیں تھی اس لیے ہم نے بھی یہ بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا۔
ایسے میں رابطہ عالم اسلامی اور موتمر عالم اسلامی جیسی تنظیموں یا اداروں کا وجود غنیمت نظر آتا ہے کہ کچھ ارباب فکر ودانش کو سال میں ایک دو بار بیٹھنے اور باہمی تبادلہ خیالات کا موقع مل جاتا ہے اور سعودی حکومت کی ترجیحات کے مطابق ہی سہی، عالم اسلام بالخصوص غیر مسلم اکثریت کے ممالک میں مسلمان اداروں کو اپنی تعلیمی، رفاہی اور دینی سرگرمیوں کے لیے تعاون اور سرپرستی حاصل ہو جاتی ہے۔
رابطہ عالم اسلامی کی اس سالانہ کانفرنس کا آغاز حسب معمول سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فہد کے پیغام سے ہوا جو گورنر مکہ مکرمہ شاہزادہ عبد المجید نے پڑھ کر سنایا اور جس میں انھوں نے عالم اسلام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کی تلقین کرتے ہوئے مسلم ممالک کے بیشتر حکمرانوں کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم میں پوری طرح شریک ہیں۔ روزنامہ ’’اردو نیوز‘‘ جدہ کی رپورٹ کے مطابق شاہ فہد نے اس پیغام میں کہا ہے کہ:
’’اسلام کے متعلق غلط تصور ہی کے باعث بعض نوجوان امت مسلمہ کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں اور تشدد کے راستے پر چل رہے ہیں۔ سعودی عرب نے تشدد اور اس کے پیروکاروں کے خلاف شاندار موقف اختیار کیا ہے اور مملکت کی قیادت نے اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور والیان ریاست کی سرتابی کرنے والوں کے خلاف کتاب وسنت کے مطابق موقف اپنایا ہے اور واضح کیا ہے کہ تشدد کے راستے پر چلنے والے شیطان کے فریب میں آکر امت کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں۔‘‘
یہ موقف صرف شاہ فہد کا نہیں بلکہ موجودہ مسلم حکمرانوں کی اکثریت کا ہے جو امریکہ، اسرائیل، روس اور بھارت کی جارحیت اور ریاستی جبر کے خلاف نبرد آزما مجاہدین کی جدوجہد کو اپنے خلاف قرار دیتے ہوئے ان کی کردار کشی اور انھیں کچلنے میں مصروف ہیں، حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ عالم اسلام کی جہادی تحریکوں کا اصل ہدف امریکہ وغیرہ کی استعماری پالیسیاں ہیں۔ جہادی تحریکوں کے طرز عمل اور ہتھیار بکف ہونے کی روش سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کا ہدف اصلاً مسلم حکومتیں نہیں ہیں۔ وہ عالم اسلام میں امریکی استعمار کی مداخلت اور روز افزوں جبر وظلم کے خلاف رد عمل میں ہتھیار بکف ہوئے ہیں اور اپنا پورا وزن ان کے مخالف کیمپ میں ڈال دینے والی مسلم حکومتیں بھی فطری طور پر ان کی سرگرمیوں کا ہدف بن رہی ہیں۔
ہمارے خیال میں اگر مسلم حکومتیں ان جہادی تحریکات کے بارے میں امریکی بولی بولنے اور انھیں ریاستی جبر کا نشانہ بنانے کے بجائے صرف یہ اعتماد دلا دیں کہ عالم اسلام کی آزادی، مسلم ممالک کی خود مختاری اور اسلامی اقدار کی سربلندی کے بارے میں وہ ان کے موقف کو اصولی طور پر درست سمجھتے ہوئے ان کے ہتھیار بکف ہونے کے طریق کار کو غلط قرار دیتی ہیں اور اگر وہ ہتھیار ڈال دیں تو وہ ان کے اصولی موقف کی حمایت اور ترجمانی کرنے کے لیے تیار ہیں تو بہت سی جہادی تحریکوں کو ہتھیار ڈالنے اور اپنی جدوجہد کو پرامن طریقہ سے آگے بڑھانے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے لیکن مسلم حکومتیں ملت اسلامیہ کے جذبات کی ترجمانی کے لیے تیار نہ ہوں اور عالم اسلام کے خلاف بڑھتی ہوئی استعماری یلغار کو روکنے کے لیے کسی ٹھوس منصوبہ بندی پر بھی آمادہ نہ ہوں بلکہ صرف ہتھیار اٹھانے والوں کو کوس کر اور انھیں ریاستی جبر کا نشانہ بنا کر یہ سمجھ لیں وہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو رہی ہیں تو یہ نہ صرف مسلم امہ کے ساتھ ظلم ونا انصافی ہے اور خود کو فریب میں رکھنا ہے بلکہ مسلم امہ اور ممالک کے مستقبل کے حوالہ سے بھی انتہائی خطرناک بات ہے کیونکہ آزادی، خود مختاری اور اسلامی اقدار کے تحفظ کے بارے میں امت مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی اور نمائندگی کا اہتمام نہیں ہوگا تو رد عمل، تشدد اور اشتعال میں مزید اضافہ ہوگا اور ہتھیار اٹھانے والوں کی تعداد میں کمی کے بجائے ان کی تعداد اور سرگرمیاں بڑھتی چلی جائیں گی جو موجودہ مسلم حکومتوں کے لیے بھی خطرات میں اضافہ کا باعث بنیں گی۔
ہم ہتھیار اٹھانے کی پالیسی کی حمایت نہیں کر رہے۔ خود ہمارا موقف بھی یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ہتھیار بکف ہونے کے بجائے حالات میں تبدیلی اور اصلاح کے لیے پرامن جدوجہد کا راستہ ہی صحیح راستہ ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اگر باہمی اتحاد، ربط ومشاورت، علم وحکمت اور فہم ودانش کی بنیاد پر عالم اسلام کی آزادی، مسلم ممالک کی خود مختاری اور اسلامی اقدار کے تحفظ کے لیے مربوط اور منظم جدوجہد کی جائے تو استعماری قوتوں کو مسلم ممالک میں مداخلت سے باز رکھا جا سکتا ہے اور ان کی یلغار کا رخ موڑا جا سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہم ہتھیار اٹھانے والوں کی مجبوری کو بھی سمجھتے ہیں اور ان کے اضطرار کے اسباب پر نظر رکھتے ہیں اس لیے ہم ان کے طریق کار کی مبینہ غلطی کو اسلام اور ملت اسلامیہ سے سرتابی اور انحراف قرار دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ہمیں اس وقت تعجب ہوتا ہے اور ہماری حیرت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے جب بہت سے مسلم حکمرا ن اپنی حکومتوں اور پالیسیوں کے دفاع میں اسلام کا حوالہ دیتے ہیں اور قرآن وسنت کا نام لیتے ہیں، کیونکہ یہ احکام تو انھیں یاد رہتے ہیں کہ کسی مسلمان حکومت کے خلاف بغاوت او ر خروج کی شرائط کیا ہیں اور مسلم حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کی شرعی پوزیشن کیا ہے، لیکن خود ا ن حکمرانوں کے لیے قرآن وسنت میں جو احکام وقوانین موجود ہیں اور جن پر عمل داری کا اہتمام مسلم حکمران کی حیثیت سے ان کی بنیادی ذمہ داری ہے، ان میں سے کوئی بھی ان کے حافظہ اور یادداشت میں محفوظ نہیں ہے حالانکہ اگر بات کتاب وسنت کی ہو اور ہمارے مسلم حکمران اپنی حکومتی اور ریاستی پالیسیوں میں قرآن وسنت کی ہدایات کا لحاظ کرنے لگیں تو سرے سے یہ مسائل ہی پیدا نہ ہوں اور کسی کے لیے اسلام کے نام پر ہتھیار اٹھانے کی کوئی گنجایش ہی باقی نہ رہے۔
ہتھیار اٹھانے والے غلط ہیں یا صحیح، مگر ان کے پاس اپنے اس عمل کے جواز کی ایک ہی دلیل ہے کہ مسلم ممالک میں قرآن وسنت کے احکام کی عمل داری کا اہتمام نہیں ہے، مغرب کا فلسفہ ونظام اس خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم معاشروں میں در اندازی کر رہا ہے اور مسلم حکومتوں اور ممالک کے داخلی معاملات میں استعماری قوتوں کی مسلسل اور ہمہ گیر مداخلت نے مسلم ممالک کی آزادی اور خود مختاری کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ اگر مسلم حکمران اپنے اپنے ملکوں میں قرآن وسنت کی عمل داری کا اہتمام کر کے اور اپنی آزادی اور خود مختاری کو بیرونی مداخلت سے محفوظ کر کے ان مبینہ دہشت گردوں سے جواز کا یہ ہتھیار چھین لیں تو دوسرے ہتھیار خود بخود ان کے ہاتھوں سے گر جائیں گے اور ان میں وہ ہتھیار اٹھانے کی سکت ہی باقی نہیں رہے گی۔
رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبد اللہ المحسن الترکی نے بھی مذکورہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس عنوان پر گفتگو کی ہے مگر ان کا تجزیہ قدرے مختلف ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ:
’’اسلام کا بین الاقوامی ثقافتی حل پیش نہ کرنے اور اس سلسلہ میں اصحاب علم وفکر کے پس وپیش والے مسلک نے منحرف فہم، برخود غلط فکر رکھنے والوں، خود ساختہ دینی داعیوں اور کوتاہ اندیشوں کو اپنے افکار وخیالات پھیلانے اور انتشار واضطراب پیدا کرنے کا موقع مہیا کر دیا اور اسی رویے نے دیگر افراد کو خوارج کا طریقہ کار اپنا کر تشدد کے راستے پر چلنے کی راہ ہموار کی۔‘‘
ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر عبد اللہ محسن ترکی کا یہ تجزیہ زیادہ حقیقت پسندانہ ہے کیونکہ اس میں صرف الزام عائد کرنے کے بجائے اسباب پر بحث کی گئی ہے اور رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل نے مسلم معاشرہ میں اسلام کے حوالے سے ملت اسلامیہ کے اجتماعی موقف سے ہٹ کر انفرادی طور پر پیش کیے جانے والے خیالات اور تشدد کی تحریکات کا ذکر کرتے ہوئے ان دونوں کا بڑا سبب مسلم علماء کرام اور دانش وروں کی بے حسی اور بے توجہی کو قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بدلتے ہوئے عالمی حالات اور تہذیبی چیلنجز کو مسلم علما اور دانش وروں کی طرف سے نظر انداز کیے جانے اور روایتی دینی حلقوں کے اپنی اپنی کھال میں مست رہنے کا نتیجہ ہے کہ آج ہم اس فکری انتشار اور خلفشار کا شکار ہیں۔
ہمیں اس بات سے اتفاق ہے اور ان صفحات میں کئی بار ہم عرض کر چکے ہیں کہ مسلم دنیا کے علمی مراکز اور دینی اداروں نے اپنے اپنے ماحول پر قناعت کر کے عالمی حالات اور جدید علمی وفکری چیلنجز سے آنکھیں بند کرنے کی جو روش اختیار کر رکھی ہے، وہ نہ صرف نقصان دہ بلکہ تباہ کن ہے اور اس کے جو تلخ ثمرات ونتائج سامنے آ رہے ہیں، ان کی تلافی وقت گزر جانے پر ممکن نہیں رہے گی۔ خدا کرے کہ علماء کرام، دینی ادارے او رعلمی مراکز اپنی اس ذمہ داری کا صحیح طور پر بروقت احساس کر سکیں کیونکہ ملت اسلامیہ کی صحیح فکری راہ نمائی کا اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ آمین یا رب العالمین۔

تحریکِ استشراق اور اس کے اہداف و مقاصد

حافظ محمد سمیع اللہ فراز

حافظ محمد سمیع اللہ فراز (ا یم فل علومِ اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی لاہور؛ مدرس مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ، ریسرچ آفیسر سیرت سٹڈی سنٹر سیالکوٹ)
محمد فیروز الدین شاہ کھگہ (ا یم فل علومِ اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی لاہور، نسٹرکٹر فار اسلامک سٹڈیز اِن نیشنل یونیورسٹی (Fast) لاہور کیمپس)

استشراق (Orientalism) کی اصطلاح قدیم عربی لغات میں مفقود ہے اور موجودہ مفہوم میں بھی عربوں میں کبھی اس کا استعمال نہیں رہا، بلکہ یہ لفظ غیرمسلم مفکرین کا وضع کردہ ہے جس کے لیے عربی میں ’استشراق ‘کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ لفظ "Orient" بمعنی مشرق اور "Orientalism" کا معنی شرق شناسی یا مشرقی علوم وفنون اور ادب میں مہارت حاصل کرنے کے ہیں۔ مستشرق (استشرق کے فعل سے اسمِ فاعل) سے مراد ایک ایسا شخص ہے جو بتکلف مشرقی بنتا ہو (۱)۔ مستشرق ایک ایسے غیر مشرقی عالم کو کہتے ہیں جو مشرقی علوم، ادب اور معاشرت وغیرہ میں دلچسپی رکھتا ہو، تاہم’ زلفو مدینہ‘ کے دیے گئے معانی اور لفظ کے عام استعمال کی روشنی میں مستشرق کے مفہوم کی مزید تحدید بھی ہو سکتی ہے جس کے پیشِ نظرمستشرق مغرب کے ایک ایسے عالم کوکہا جاتا ہے جو اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی معاشرت اور اسلامی زبانوں میں دلچسپی رکھتا ہو(۲)۔
ایڈورڈ سعید (Edward Said) نے استشراق کو یورپین تہذیب وثقافت کا جزوِ لا ینفک قرار دیا ہے جو اس کے افراد کے تخیلات ،نظریات اور دیگر تمام پہلوؤں پر کسی نہ کسی طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کے نزدیک استشراق کی تعریف میں زیادہ وسعت پائی جاتی ہے ۔ وہ اس کی وضاحت ان الفاظ میں کرتا ہے :
"Anyone who teaches, writes about, or researches the orient--and this applies weather the person is an anthropologist, sociologist, historian or philologist--either in its specific or its general aspects, is an orientalist, and what he or she says or does is orientalism."(3)
یعنی مسلمانوں کی تہذیب وثقافت کے کسی بھی شعبہ سے متعلق تحقیق کرنے والے کو مستشرق کہا جائے گا۔ ڈاکٹر احمد عبد الحمید غراب نے اپنی کتاب ’’رؤیۃ اسلامیۃ للاستشراق‘‘میں استشراق کی متعدد تعریفات ذکر کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ مغربی ممالک کے استعماری فکر کے حامل سکالرز،اپنی نسلی برتری کے نظریہ کی بنیاد پر مشرق پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے اس کی تاریخ ،تہذیب،ادیان،زبانوں،سیاسی اور اجتماعی نظاموں ،ذخائرِ دولت اور امکانات کاجو تحقیقی مطالعہ غیرجانبدارانہ تحقیق کے عنوان سے کرتے ہیں اسے استشراق کہا جاتا ہے۔(۴)
استشراق کی ذکر کردہ تعریفات کا حاصل یہ ہے کہ مغربی اہلِ کتاب ،مسیحی مغرب کی ’اسلامی مشرق‘ پر نسلی اورثقافتی برتری کے زعم کی بنیادپر مسلمانوں پر اہلِ مغرب کا تسلط قائم کرنے اور مسلمانوں کو اسلام کے بارے میں گمراہی اور شک میں مبتلا کرنے اور اسلام کو مسخ شدہ صورت میں پیش کرنے کی غرض سے مسلمانوں کے عقیدہ، ثقافت، شریعت، تاریخ،نظام اور وسائل وامکانات کا جو مطالعہ غیرجانبدارانہ تحقیق کے دعوی کے ساتھ کرتے ہیں، اسے استشراق کہا جاتا ہے۔(۵)
’استشراقیت‘ کی جس قدر بھی تعریفات ذکر کی گئی ہیں، ان سب میں مشرقی علوم کا درک حاصل کرنے کی قید لگائی گئی ہے لیکن ہمارے خیال میں تحریکِ استشراق اور مستشرقین کی تحدید جغرافیائی اعتبار سے نہیں ہو سکتی کیونکہ مستشرقین کا اصل ہدف اسلام اور اس کی تعلیمات ہیں، خواہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں۔ اسی مفہوم کو دورِ جدید کے اکثر محققین علما نے اختیار کیا ہے ۔ چنانچہ ڈاکٹر ابراہیم الفیومی لکھتے ہیں کہ’’ مشرق سے مراد جغرافیائی مفہوم نہیں بلکہ اس سے مراد زمین کے وہ خطے ہیں جن پر اسلام کو فروغ حاصل ہوا، خواہ وہ بلادِ مشرق سے خارج ہوں‘‘(۶) البتہ دیگر تعریفات اس لحاظ سے درست قرار دی جا سکتی ہیں کہ اسلام اور اس کی تعلیمات کا اصل مرکز مشرق ہی ہے اور یہیں سے اسلامی تہذیب وثقافت نے جنم لیا۔ 
تحریکِ استشراق کے آغاز کی تاریخ ،درحقیقت دینِ اسلام کے وجود کے ساتھ ہی وقوع پذیر ہو گئی تھی تاہم "Orientalism"کی اصطلاح یورپین زبانوں میں اٹھارویں اور انیسویں صدی میں رائج ہوئی۔تحریک استشراق کے آغاز کے متعلق ہمیں متعدد آرا ملتی ہیں۔ بعض محققین کی رائے میں اس کا آغاز نویں صدی عیسوی میں ہواجب ’اہلِ مالقہ‘ نے اسلامی ثقافت کو داغ دار کرنے کے لیے کلام ،ادب اوراحکامی کتب کا مطالعہ کرنا شروع کیا اور اس سلسلہ میں اچھا خاصا زرِ نقد صرف کیا(۷)۔ دوسری رائے کے مطابق اس تحریک کی ابتدا دسویں صدی میں اس وقت ہوئی جب ایک فرانسیسی ’جریردی ‘اور’الیاک ‘(1003-940)’اشبیلیہ‘ اور’ قرطبہ‘ کی جامعات میں علومِ اسلامیہ پر دسترس حاصل کرنے کے بعد 999ء سے 1003ء تک پاپائے روم کے عہدہ پر متعین رہا(۸)۔ بعض محققین کے نزدیک تحریکِ استشراق کا باقاعدہ آغاز تیرہویں صدی عیسوی میں ہوا جب الفونس دہم نے 1269ء میں’ مریسلیا ‘ میں تقابلِ ادیان کے حوالے سے ایک ادارہ ابوبکر رقوطی کے زیرِ نگرانی قائم کیا۔ اسی ادارے میں قرآن کا ہسپانوی زبان میں ترجمہ کیاگیا،اسی عہد میں فریڈرک دوم(شاہِ سسلی)نے بھی اسلامی موضوعات پر مشتمل کتب کے تراجم کرائے اور ان کو یورپ کے تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں بھیجا(۹)۔
آنحضورﷺکے معاصر یہودونصاریٰ کی مخالفت کے بعد سب سے پہلے جس نے اسلام کے خلاف اس تحریک کا آغاز کیا، وہ ساتویں صدی عیسوی کا ایک پادری جان(John)تھا جس نے آنحضورﷺکے بارے میں طرح طرح کی جھوٹی باتیں گھڑیں اور لوگوں میں مشہور کر دیں تاکہ آپ ﷺکی سیرت وشخصیت ایک دیومالائی کردار سے زیادہ دکھائی نہ دے۔’ جان آف دمشق‘ کی یہی خرافات مستقبل کے استشراقی علما کا ماخذومصدربن گئیں۔ اس نے حضرت زینب بنت جحشؓ اور زید بن حارثہؓکے واقعہ کو ایک افسانہ بنا دیا،یہی افسانے یورپ میں کلاسیکل موضوعات بن گئے اور آج تک مستشرقین کے محبوب موضوعات ہیں۔ جان آف دمشق کے بعد عیسائی دنیا کے بیسیوں عیسائی اور یہودی علما نے قرآنِ کریم اور آنحضورﷺکی ذاتِ گرامی کو کئی سو سال تک موضوع بنائے رکھا اورایسے ایسے حیرت انگیز افسانے تراشے جن کا حقیقت کے ساتھ دور کابھی واسطہ نہ تھا۔ ان ادوار میں زیادہ زور اس بات پر صرف کیاگیا کہ آپﷺاُمّی نہیں بلکہ بہت پڑھے لکھے شخص تھے، تورات اور انجیل سے اکتساب کر کے آپﷺنے قرآنی عبارتیں تیار کیں۔بہت بڑے جادوگر ہونے کے ساتھ ساتھ آپﷺ (العیاذباللہ)حددرجہ ظالم، سفاک اور جنسی طور پر پراگندہ شخصیت کے حامل تھے۔ فرانسیسی مستشرق کاراڈی فوکس(Carra de Vaux)نے آنحضورﷺکی ذاتِ گرامی کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’محمد ایک لمبے عرصے کے لیے بلادِ مغرب میں نہایت بری شہرت کے حامل رہے اورشاید ہی کوئی اخلاقی برائی اور خرافات ایسی ہو جو آپ کی جانب منسوب نہ کی گئی ہو‘‘۔تعجب کی بات یہ ہے کہ اسلام کی آمد سے کم و بیش سات آٹھ سوسال بعد تک مغربی ممالک میں اسلام کے خلاف نفرت ناکافی اور ادھوری معلومات کی بنیاد پر ہی پنپتی رہی۔ مثال کے طور پرگیارہویں صدی عیسوی کے آواخر میں Song of Rolandجو پہلی صلیبی جنگوں کے دوران ہی وضع کیاگیا اور بہت مشہور ہوا،اسی طرح کی بیہودہ باتوں پر مشتمل تھا(۱۰)۔ 
مستشرقین کے علمی مصادر ،اس تحریک کے آغاز اور اہداف ومقاصد کے متعلق قطعاً خاموش ہیں ۔غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح مستشرقین اپنے مقاصد کو پوشیدہ رکھنے کی حکمتِ عملی پر کاربند ہیں اسی طرح وہ اپنے نام کی بھی تشہیر نہیں چاہتے ۔ یہ تحریک صدیوں مصروفِ عمل رہی لیکن اس تحریک کا کوئی باضابطہ نام نہ تھا۔ آربری کہتا ہے کہ ’’Orientalistکا لفظ پہلی مرتبہ 1630ء میں مشرقی یایونانی کلیسا کے ایک پادری کے لیے استعمال ہوا‘‘۔روڈنسن کہتا ہے کہ’’ Orientalismیعنی استشراق کا لفظ انگریزی زبان میں1779ء میں داخل ہوااورفرانس کے کلاسیکی لغت میں اس کا اندارج 1838ء میں ہواحالانکہ عملی طور پر تحریکِ استشراق اس سے کئی صدیاں پہلے وجود میں آچکی تھی اور پورے زوروشور سے مصروفِ عمل تھی‘‘(۱۱)۔
تحریکِ استشراق کے معرضِ وجود میں آنے کا سب سے بنیادی محرک دینی تھالیکن اس کے ساتھ ساتھ سیاسی اور اقتصادی محرکات بھی کسی نہ کسی طریقہ سے شامل رہے ہیں۔مولانا ابو الحسن علی ندوی نے اس کے چار محرکات کا تذکرہ کیا ہے :
۱۔ استشراق کا سب سے بڑا مقصد مذہبِ عیسوی کی اشاعت وتبلیغ اور اسلام کی ایسی تصویر پیش کرنا ہے کہ مسیحیت کی برتری اور ترجیح خود بخود ثابت ہو اور نئی نسل کیلئے مسیحیت میں کشش پید اہو۔
۲۔دینی محرک کے علاوہ سیاسی عنصر بھی قابلِ غور ہے جس کا مرکزی نقطہ مشرق میں مغربی حکومتوں اوراقتدارکے ہراول دستہ (Pioneer) کی موجودگی اورمغربی حکومتوں کو علمی کمک اوررسد پہنچانا ہے۔نیزان مشرقی اقوام وممالک کے رسم ورواج ،طبیعت ومزاج، طریقِ ماندوبود اورزبان وادب بلکہ جذبات ونفسیات کے متعلق صحیح اورتفصیلی معلومات باہم پہنچاناہے(۱۲)۔
۳۔ استشراق کا اہم محرک اقتصادی طور پرمضبوط ہونا ہے۔متعدد مغربی لوگ اس فکر کی ترویج میں اپنا کردار ادا کرکے مشرقیات اوراسلامیات کی کتابیں تحریر کرتے ہیں جن کی یورپ اور ایشیا میں بہت بڑی منڈی ہے۔ اس ذریعہ سے وہ ناشرین سے ایک پیشہ وَر مستشرق کی حیثیت سے بہت سے مالی فوائد حاصل کرتے ہیں(۱۳)۔
۴۔ ان مقاصد کے علاوہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض فضلا مشرقیات واسلامیات کو اپنے علمی ذوق وشغف کے ماتحت بھی اختیار کرتے ہیں اور اس کے لیے دیدہ ریزی،دماغ سوزی اور جفاکشی سے کام لیتے ہیں جس کی داد نہ دینا ایک اخلاقی کوتاہی اورعلمی ناانصافی ہے۔ ان کی مساعی سے بہت سے مشرقی واسلامی علمی جواہرات ونوادر پردۂِ خفا سے نکل کر منصہ شہود پر آئے۔متعدد اعلیٰ اسلامی مآخذ اور تاریخی وثائق ان کی محنت وہمت سے پہلی مرتبہ شائع ہوئے۔اس علمی اعتراف کے باوجود مستشرقین عمومی طور پر اہلِ علم کا وہ بدقسمت اوربے توفیق گروہ ہے جس نے قرآن وحدیث ، سیرتِ نبوی،فقہِ اسلامی اور اخلاق وتصوف کے سمند ر میں بار بار غوطے لگائے اوربالکل خشک دامن اورتہی دست واپس آیا بلکہ اس کا عناد ،اسلام سے دوری اورحق کے انکار کا جذبہ اوربڑھ گیا۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک نتائج ہمیشہ مقاصد کے تابع ہوتے ہیں(۱۴)۔
مستشرقین اسلامی علوم میں تحقیق کے دوران اپنے اساسی مقاصد کو قطعاً نظرانداز نہیں کرتے ،وہ اسلامی ثقافت وتاریخ کو اس کے مقامِ رفیع سے گرانے ،عیب دار کرنے اور اس کی اصل صورت اورحقیقت کو دھندلا کرنے میں اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہیں تاکہ یورپ میں عیسائی معاشرہ اسلامی تعلیمات سے متاثر نہ ہونے پائے۔ مستشرقین کے پیش نظر جہاں یورپ میں دخولِ اسلام کی شرح میں اضافہ اورمسیحی معاشرے کے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر اس کوقبول کرنے کے متعلق خوف وہراس اورخدشات کے بادل سایہ فگن ہیں، وہاں چند اہم اورمرکزی اہداف بھی ہیں جن کو سمجھنے کے بعد ہم یہ رائے قائم کرنے میں بالکل حق بجانب ہوں گے کہ مستشرقین اس نام نہاد تحقیق کے پردہ میں اسلام اور اہلِ اسلام میں فتنہ وفساد اورفکری وذہنی انتشار پیدا کرنے کے درپے ہیں۔ ساتھ ہی ہم پر اہلِ استشراق کے قرآن اوراس کی قراء ات کے متعلق کیے گئے اعتراضات کی حقیقت بھی واضح ہوگی جن کا علمی زاویوں سے دور کا بھی تعلق نہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مستشرقین اسلام میں طعن اورعیوب تلاش کرنے اوراس کے حقائق کی تحریف کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں تاکہ وہ مسیحی دنیا کو یقین دلا سکیں کہ اسلام ایک منتشر، متنازعہ اورجامد دین ہے ۔ اس میں لچک(Flexibility)نہیں اور نہ ہی یہ تہذیبِ حاضر اورتقاضوں کا ساتھ دے سکتا ہے ۔ انہی عنوانات سے وہ مسلمانوں کے قلوب وعقائد پر بھی دستک دیتے ہیں اورمتعدد شکوک وشبہات پیدا کر کے ان کے دلوں میں مغربی تہذیب کی فوقیت اوردیگر پہلوؤں سے اپنے مذہبی، مشنری اورسیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے فضا کو سازگار کرتے ہیں۔ غرض مستشرقین اسلام کی تعلیمات اورنبی پاک ﷺکی ذات میں دشمنی کی روح پیدا کر کے تجربات کرتے ہیں اور اسلام کو اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ گویا یہ ایک ایسا جامد دین ہے جو زمانہ کے ارتقائی مدارج کا ساتھ دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا(۱۵)۔
اسلام کے متعلق اوہام اورتشکیک پیدا کرنا مستشرقین کے اہم مقاصد میں سے ہے اور وہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے مختلف اقدامات کرتے ہیں ۔متعدد مستشرقین کی ابحاث اسی نظریہ کانتیجہ معلوم ہوتی ہیں۔اس حوالہ سے ان کے چند نکات عام طور پر مروج ومشہور ہیں۔مثلاً اسلامی تعلیمات میں وقت کے تقاضوں کے مطابق اصلاح اورجد ت کی ضرورت ہے اور روایت پسندی،رجعت پسندی اوردقیانوسیت پرمبنی تعلیمات کو ترک کرنا پڑے گا۔اس سلسلہ میں وہ مغرب کے علمی اورسائنٹیفک انداز کو اپنانے کی ترغیب دیتے ہیں۔مستشرقین اسلام میں ایک ایسے اجتہاد کا تصور دیتے ہیں جو کتاب وسنت اوراجماعِ امت سے بالکل بے نیاز ہے ۔حدیث اورسنت کو عقلی دلائل کے ذریعہ غیر ضروری قرار دیا گیا ہے ۔اس صورتِ حال میں ظاہر ہے کہ دین کا جو نقشہ سنت کو خارج کر کے معرضِ وجود میں آئے گا، اس میں قرآن کو ذاتی اغراض کی خاطر من مانے معانی پہنائے جا سکیں گے(۱۶)۔
مولانا شمس الحق افغانی اس سلسلہ میں لکھتے ہیں:
’’اب مستشرقین نے اسی نصب العین (تشکیک)کی تکمیل کے لیے حربی اورسیاسی میدانوں کو ناکافی سمجھ کر علمی میدان میں قدم رکھااوراستشراق کے اسلحہ سے مسلح ہوکر مسلمانوں کے یقین کو کمزور کرنے اور تشکیک کا زہر پھیلانے کے لیے اسلامی تحقیق کے نام سے لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرکے تصانیف لکھنی شروع کیں تاکہ اپنے مقصد میں اس راہ سے کامیاب ہو سکیں‘‘۔(۱۷)
اسلامی شریعت کے قوانین کو بھی مستشرقین نے بڑی غیر واقعی نظر سے دیکھا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ ائمہ مجتہدین پر نقد کی غرض سے جدید دور کے مغرب پرست اورمغرب سے مرعوب افراد کو بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ وہ مسلمانوں کو دین اسلام کے قوانین میں سختی اور غیر معقول زاویوں کی نشان دہی کرواتے ہیں اوراس پس منظر میں وہ یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ اسلام کے ان وضعی قوانین کو تبدیل کیا جائے جن میں دراصل امت کے لیے خیر اوربھلائی پوشیدہ ہے(۱۸)۔
سنتِ نبویہ کی صورت کودھندلا کرنے کی کوشش میں بھی کئی وسائل استعمال کیے گئے ہیں ۔ اس سلسلہ میں گولڈزیہر اور’ شاخت‘ اس قبیلہ کے زعما میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے سنت کے حوالے سے شبہات اٹھائے اوران کے بعد متعدد مستشرقین نے اس کو اپنا موضوعِ بحث بنایالیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ سب انہی کے خوشہ چین تھے۔ احادیث پر شبہات کے ضمن میں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ گولڈ زیہر اورشاخت نے مصادرِ اسلامیہ کو سامنے رکھنے کی بجائے ’کتاب الاغانی‘،کتاب الحیوان اورقصے کہانیوں کی کتب کو احادیث کا مصدر مقرر کیا ہے اورشاید یہود ونصاریٰ اس سے بڑھ کر کچھ کر بھی نہ سکتے تھے۔ یہ مقام اِن شبہات کے بیان کرنے کا نہیں البتہ یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس ضمن میں ان کا ہدف صرف مسلمانوں کے ذہنوں میں جھوٹے اقوال وخیالات سے انتشار پیدا کرنا ہے، وگرنہ یہ اعتراضات حقائق ودلائل اوربراہین سے بالکلیہ عاری ہیں ۔
نبی کریمﷺکی شخصیت بھی ہمیشہ سے ہی کفار اوراعداءِ اسلام کی تنقید کا ہدف رہی ہے۔ ان کے بقول اللہ کے رسول ﷺبحیرہ راہب سے جب ملے توکچھ عرصہ ان سے دینی تعلیمات سیکھتے رہے۔دوسرا بنیادی اعتراض آپ کی شخصیت کے حوالے سے تعدد ازدواج کا ہے ۔ اس قضیہ کو بھی وہ آپ کی شخصیت میں طعن کا ذریعہ بناتے ہیں اوردین میں تشکیک پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں(۱۹)۔
اسلامی تاریخ کی تحریف میں بھی مستشرقین نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے اورجس سطح تک اس کی ثقافت اوربنیادوں کو حقیقی انداز سے بدل کر پیش کر سکتے تھے، اس میں انھوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تاریخِ اسلامی کی مبادیات اور ا س کے متعلق غلط معلومات کو پھیلا کر وہ دراصل یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ انسانی تہذیب کی تاریخ میں اسلام کا کوئی کردار نہیں(۲۰)۔
حقیقت یہ ہے کہ مستشرقین کافی عرصہ سے اس مقصد کے حصول کے لیے تگ ودو کر رہے ہیں اوراسلام کے روشن زاویوں کودھندلا کرنے کے درپے ہیں تاکہ وہ بنیاد جو جمہورمسلمان علما نے قائم کی ہے، اس کو گرا دیا جائے اور اسلامی تاریخ کی ایک نئی بے معنی شکل پیدا کی جائے(۲۱)۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ امتِ مسلمہ عموماً اور علماءِ دین خصوصاً، مستشرقین اورملحدین ومتجددین کے ساتھ اس علمی محاربہ میں اپنے زاویۂ نگاہ کو وسعت دیتے ہوئے خالص علمی وتحقیقی رسوخ حاصل کریں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ضمن میں سب سے بنیادی ذمہ داری مدارسِ عربیہ کی ہے کہ وہ مدارس میں بنیادی اسلامی مصادر کے تعارف کے ساتھ ساتھ’’ تحریکِ استشراق‘‘ کا تفصیلی مطالعہ اور جدید اصولِ تحقیق وتصنیف بھی شاملِ نصاب کریں کیونکہ مدارس کے طلبہ ، علومِ دینیہ کی قربت کی وجہ سے، تحریکِ استشراق کا مضبوط سدِ باب کرنے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کے اعتراف میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ مدارسِ دینیہ سے فارغ التحصیل طلبہ،تمام تر صلاحیتوں کے باوجود، مغرب سے اٹھنے والی کسی قسم کی شورش وتحریک کا جواب دینا تو کجا ،اس کے تعارف سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ ہمارے خیال میں،اولاًمدارسِ عربیہ کا نصاب تشکیل دینے والے ذی قدر علما اورثانیاً مدارس کے اکابر اساتذہ کو اس اہم حقیقت پر فوراً عمل درآمد کرتے ہوئے کم از کم آخری تین درجات (عالیہ،موقوف اوردورۂِ حدیث) کے طلبہ کے لیے ’’الاستشراق‘‘ کو لازمی قرار دینا چاہئے تاکہ ہم اسلامی اقدار کے حقیقی محافظ ثابت ہوسکیں۔ 

حواشی

(۱) شرف الدین اصلاحی، مستشرقین ،استشراق اوراسلام،ص۴۸تا۵۰،معارف دارالمصنفین اعظم گڑھ،۱۹۸۶ء
(۲) محمد یوسف رامپوری، تحریک استشراق،ص۳۴و۳۵،مجلہ دارالعلوم دیوبند،مارچ ۱۹۸۸ء___استشراق کے لغوی واصطلاحی مفہوم کی تفصیل کے لیے ڈاکٹر اکرم چوہدری کا مقالہ ’’استشراق ‘‘(۵۶۵و۵۶۶)ملاحظہ ہو۔
(۳) Edward Said, Orientalism: a Brief Definition, p.1, New York, Vintage, 1979
(۴) ڈاکٹر احمد عبد الحمید غراب، رویۃ اسلامیۃ للاستشراق،ص۷و۸، دارالاصالۃ للثقافۃ والنشر والاعلام الریاض،۱۹۸۸ء
(۵) نفس المصدر:ص۹
(۶) ڈاکٹر محمد ابراہیم الفیومی،الاستشراق رسالۃ الاستعمار،ص۱۴۴،دارالفکر العربی قاہرہ مصر، ۱۹۹۳ء
(۷) ڈاکٹر محمد احمد دیاب، اضواء علی الاستشراق والمستشرقین،ص۱۳،دارالمنار قاہرۃ مصر، ۱۹۹۹ء
(۸) مرجعِ سابق
(۹) نفس المصدر:ص۱۴
(۱۰) ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری،استشراق،ص۵۶۷،اردو دائرۂ معارفِ اسلامیہ،لاہور
(۱۱) پیر کرم شاہ الازہری،ضیاء النبی ؑ ،۶؍۱۲۰،مکتبہ ضیاء الاسلام، لاہور
(۱۲) مولاناسلمان شمسی ندوی،اسلام اور مستشرقین(ضمیمہ :ص۱۲ملخصاً)،الندوی ابوالحسن سید، الاسلامیات بین کتابات المستشرقین والباحثین المسلمین، ترجمہ اردو: فیروزالدین شاہ و حافظ سمیع اللہ فراز، تحت اشراف: ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری،جامعہ پنجاب لاہور،۲۰۰۳ء
(۱۳) نفس المصدر:ص۱۳
(۱۴) نفس المصدر:ص۱۴
(۱۵) علی حسنی الخربوطلی، المستشرقون،ص۸۳۔۔۔و۔۔۔عمرفروخ، التبشیر والاستعمارفی البلاد العربیۃ، ص۲۴و۲۵، مکتبۃ العصریۃ صیداء، بیروت،ط۴، ۱۳۹۰ھ
(۱۶) مولانا سلمان شمسی ندوی،اسلام اور مستشرقین(ضمیمہ :ص۲۲ملخصاً)
(۱۷) مولانا شمس الحق افغانی،علوم القرآن، ص۱۲۰،مکتبہ اشرفیہ لاہور
(۱۸) حسین محمدمحمد، الاتجاہات الوطنیۃ فی الادب المعاصر، ۱؍۵۹،موسسۃ الرسالۃ بیروت، س۔ن۔
(۱۹) حکیم محمد طاہر، السنۃ فی مواجہۃ الاباطیل، ۳۸؍۳۹۰، منشورات دعوۃ الحق، رابطۃ العالم الاسلامی مکہ، ۱۴۰۲ھ
(۲۰) انور الجندی، المستشرقون والسیرۃ النبویۃ، ص۹۷، مجلۃ البحث الاسلامی ، العدد الخاص عن الاستشراق، رمضان ۱۴۰۲ھ۔۔۔
مزید ملاحظہ ہو:ڈاکٹر عبد الستار فتح اللہ ، الغزوالفکری والتیارات المعادیۃللاسلام، ص۲۶، مکتبۃ المعارف الریاض،ط۲، ۱۳۹۹ھ
(۲۱) محمد غزالی، دفاع عن العقیدۃ والشریعۃ ضد مطاعن المستشرقین،ص۱۳و۱۴، دارالکتب الحدیثۃ مصر، ط۳، ۱۳۸۴ھ

امت مسلمہ کو درپیش چند فکری مسائل

حافظ سید عزیز الرحمن

امت مسلمہ آج جن مسائل سے دوچار ہے، ان سے کون ذی شعور شخص ناواقف ہوگا؟ اس حوالے سے جذبات، تاثرات، تحریریں اور پھر مذاکرات اور کانفرنسوں کے ذریعے تجاویز اور آرا وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہتی ہیں، لیکن یہ صورت حال جس قدر گھمبیر، پیچ در پیچ الجھاؤ سے دوچار اور ہمہ جہت قسم کی ہے، اس اعتبار سے شاید غور وفکر کا حق ابھی تک ادا نہیں ہو سکا جس کا قرض اس امت کے ذمہ باقی ہے اور معاملے کی نوعیت کے پیش نظر ان امور کے بارے میں مزید غور وفکر ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری اور فوری ضرورت ہے۔
یہ امور اپنی اہمیت کے پیش نظر اور موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہم ان کے بارے میں باہم مل کر مشترکہ موقف دنیا کے سامنے پیش کریں۔ راقم کی دانست میں ان امور پر اہل دانش کے درمیان صحیح اور خالص اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مکالمہ فوری ضرورت ہے اور اس کے لیے رسمی کانفرنسیں اور سیمینار قطعاً ناکافی ہوں گے کیونکہ تجربہ بتاتا ہے کہ اس طرح کے اجتماعات میں سنجیدہ موضوعات پر طویل بحثیں تو ہو جاتی ہیں مگر انھیں نکات کی شکل دینا اور حتمی نتائج مرتب کرنا ’کارے دارد‘ کا مصداق ہوتا ہے۔ اس لیے سنجیدہ اور چنیدہ اہل علم اور دانش وروں کا، خواہ ابتدائی سطح پر اور محدود پیمانے پر ہی ہو، مل بیٹھ کر ان امور پر غور کرنا اور پھر مشترکہ رائے کا اظہار ضروری ہے جس کے لیے کوئی بھی قابل عمل صورت متعین کی جا سکتی ہے۔
راقم سردست ان امور کی ایک اجمالی فہرست پیش کر رہا ہے جو ہم سے فوری غور وفکر کے متقاضی ہیں۔ یہ سطور ارتجالاً لکھی جا رہی ہیں۔ پھر راقم کی حیثیت ایک مبتدی کی ہے۔ اس بنا پر ان عنوانات وتفاصیل میں ہر طرح کا حک واضافہ عین ممکن ہے۔ ان سطور کی حیثیت محض ایک پتھر کی ہے جو خاموش جھیل میں ارتعاش پیدا کرنے کے لیے پھینکا جاتا ہے۔
۱۔ دہشت گردی کی متفقہ تعریف:  آج امت مسلمہ کا سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی ہے۔ وہ دو جانبوں سے اس مسئلے سے نبرد آزما ہے۔ ایک جانب تو وہ ریاستی دہشت گردی ہے جس سے مسلم علاقوں کے مکین دوچار ہیں۔ دوسری جانب مغرب کے تصورات کے تحت خود ان کے اندر دہشت گردوں کی تلاش جاری ہے۔ اس باب میں ہماری جانب سے بارہا یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ دہشت گردی کی تعریف کیا ہے؟ یہ سوال بجائے خود درست ہے لیکن اس سوال کے مخاطب صرف اقوام مغرب نہیں، خود ہم بھی ہیں۔ اس محاذ کے ایک فریق کی حیثیت سے ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ دہشت گردی کی متفقہ تعریف متعین کریں جو اس کے تمام لوازم اور جزئیات ومتعلقات کا احاطہ کرے اور اس کی حدود وقیود کو واضح کرے تاکہ ہمیں اس سے متعلق تمام سوالات کے جواب حاصل ہو سکیں۔ مثلاً فلسطین، کشمیر، چیچنیا وغیرہ میں مسلم گروہوں کی جانب سے کی جانے والی مسلح جدوجہد کی اسلامی حیثیت کیا ہے؟ کیا ریاستی چھتری کے بغیر جہاد کا تصور اسلامی شریعت میں موجود ہے؟ گوریلا جنگ کی حدود کیا ہیں؟ ورلڈ ٹریڈ سنٹر جیسے واقعات دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں؟ وغیرہ۔
۲۔ جہاد کی ضرورت واہمیت اور متفقہ تعریف:  یہ اصلاً پہلے نکتے ہی کا ایک حصہ ہے اور اس کی ضرورت، حدود وقیود اور شرائط وآداب پر مشترکہ رائے کا اظہار آج ہمارے لیے ناگزیر ہے۔
۳۔ خود کش حملے: اس بارے میں امت مسلمہ میں تین طرح کی آرا پائی جاتی ہیں اور عقلاً بھی تین ہی طرح کی آرا ممکن ہیں: ۱۔ مطلق جواز، ۲۔ مطلق انکار اور ۳۔ مشروط جواز۔ صحیح صورت حال کیا ہے؟ یہ سوال ہماری توجہ کا طالب ہے۔
۴۔ غیر مسلموں سے تعلقات:  یہ سوال ہر دور میں مسلم علما کے سامنے رہا ہے لیکن عصر حاضر کی سیاسی ومعاشرتی صورت حال میں ہمیں اس کی حدود اور معنویت پر ازسرنو غور کرنا ہوگا۔ اس باب میں کچھ کام ہوا ہے لیکن تفصیلی غور وفکر ابھی باقی ہے۔
۵۔ اس کے ساتھ یہ سوال بھی اہمیت رکھتا ہے کہ مکالمہ بین المذاہب جس کا آج کل کافی چرچا ہے اور نجی وحکومتی سطح پر کئی اطراف سے کوششیں بھی جاری ہیں، کس بنیاد پر ہونا چاہیے؟ وہ کون سے نکات ہیں جن پر ہم دوسرے مذاہب سے تعاون بھی کر سکتے ہیں اور اپنے اپنے عقیدے پر قائم رہتے ہوئے ان سے رابطہ بھی استوار کر سکتے ہیں۔
۶۔ مسلم ممالک میں آج کل عجیب صورت حال ہے۔ اکثر ممالک میں عوام کی بڑی تعداد اپنی حکومتوں کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتی۔ سو انھیں کیا کرنا چاہیے؟ کیا وہ اپنی رائے پر قائم رہیں؟ اپنی رائے سے حکومت کو مطلع کرنے کے لیے انھیں کون سے طریقے اختیار کرنے کی اجازت ہے؟
۷۔ اسی کے ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے جس پر امت عرصے سے غور وفکر کرتی چلی آ رہی ہے کہ حکومتوں کی تبدیلی کا کون کون سا راستہ شریعت میں بتایا گیا ہے؟ خصوصاً ایسے حالات میں جب کہ عوام کی ایک معتد بہ تعداد اس عمل کو ضروری سمجھتی ہو؟
۸۔ نیز یہ کہ ان حالات میں حکومتوں سے عوام الناس کن حدود کے اندر تعاون کر سکتے ہیں اور کن کن امور پر ان کے لیے حکومتی پالیسی سے اتفاق ضروری ہے؟
۹۔ آج یہ بات بھی زور دے کر کہی جا رہی ہے کہ اس وقت جو صورت حال ہے، وہ تہذیبی یلغار کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ لیکن ثقافت اور تہذیب، یہ دونوں الفاظ خود مغرب کے ہاں پیچیدہ اصطلاحات کے گورکھ دھندے میں الجھے ہوئے ہیں اور ان کی متفقہ تعریف جس میں ان میں سے ہر ایک کی حدود وقیود کو واضح کیا گیا ہو، ان کے ہاں بھی موجود نہیں۔ لیکن جب ہم کہتے ہیں کہ ہم تہذیبی کشمکش سے دوچار ہیں تو ہم پر یہ بھی لازم ہے کہ تہذیب وتمدن اور ثقافت اور کلچر کی تعریف اور حدود وقیود کو واضح کریں۔اور جب ہم اسلامی ثقافت کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو ہمارے لیے ناگزیر ہو جاتا ہے کہ اس کی حدود کی نشان دہی کریں اور واضح کریں کہ کون کون سی اشیا اس میں شامل ہیں، کون کون سی اس کے معارض ہیں اور کون کون سی چیزیں اس دائرے سے خارج ہیں۔
یہ تمام امور امت مسلمہ میں فکری انتشار اور ذہنی خلجان کا باعث بن رہے ہیں۔ نتیجتاً من چاہی تعبیروں اور جذبات کی سیاہی سے لکھے جانے والی تحریروں کی بہتات ہے مگر صحیح اسلامی فکر کی روشنی میں کی جانے والی مدلل گفتگو کا فقدان ہے۔پوری دل سوزی کے ساتھ راقم اہل علم سے درخواست کرتا ہے کہ ان امور پر امت مسلمہ کی راہ نمائی فرمائی جائے اور اپنے غور وفکر کے نتائج سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری صحیح راہنمائی فرمائے، آمین۔

متشددانہ فتویٰ نویسی : اصلاح احوال کی ضرورت

ادارہ

(۱)

از دار الافتاء دار العلوم اسلامیہ چار سدہ:

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ اکثر لوگ قمیص میں کالر لگواتے ہیں۔ سنا ہے کہ یہ کالر نصاریٰ کے ساتھ مشابہت ہے۔ کیا یہ واقعی ممنوع ہے؟

الجواب بعون الملک الوہاب:

بے شک کالر لگانا مشابہت بالنصاریٰ میں داخل ہے اور ناجائز ہے۔ (امداد الاحکام ج ۴ ص ۲۳۵)
(ماہنامہ ’النصیحۃ‘ ۔ دار العلوم اسلامیہ چارسدہ، اگست ۲۰۰۴، ص ۳۴)

(۲)
محترم ڈین کلیہ مطالعات اسلامیہ وشرقیہ، پشاور یونیورسٹی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
پروفیسر عبد اللہ سے آپ کی دانش گاہ کے افتاء سیل کے بارے میں معلوم ہوا تو میں نے سوچا کہ درج ذیل مسئلے کے بارے میں آپ کے سیل کی رائے حاصل کروں۔ دار العلوم اسلامیہ، چارسدہ (صوبہ سرحد) کے ماہنامہ ’النصیحۃ‘ کے شمارہ اگست ۲۰۰۴ء/رجب ۱۴۲۵ میں صفحہ ۳۴ پر شائع شدہ ایک فتویٰ کی عکسی نقل منسلک کر رہا ہوں۔ حضرت مولانا احمد مجتبیٰ صاحب نے فتویٰ دیا ہے کہ قمیص میں کالر لگانا مشابہت بالنصاریٰ میں داخل ہے اور ناجائز ہے۔ اس فتویٰ کے لیے انہوں نے کسی آیت قرآنی، حدیث نبوی ﷺ یا فقہی اصول کا ذکر نہیں کیا اور محض ایک کتاب ’امداد الاحکام‘ کا سہارا لیا ہے، جس کے بارے میں یہ تک نہیں بتایا کہ یہ کس کی تصنیف ہے، کب شائع ہوئی ہے، کہاں سے شائع ہوئی ہے۔
میں نے کئی علما سے اس فتویٰ کے بارے میں بات کی، لیکن وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکے یا دینا نہیں چاہتے تھے۔ اسی قسم کے غیر محتاط فتووں کی وجہ سے لوگ علما سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اسی قسم کے فتووں نے عیسائی عوام اور ان کے دینی طبقے کے درمیان بعد پیدا کیا اور یہ صورت حال عیسائی دنیا میں سیکولر ازم (مذہب اور اجتماعیات کی علیحدگی) کا باعث بنی۔ فتویٰ دینا کوئی آسان کام نہیں۔ مفتی صاحبان کے لیے اسلامی احکام کی ارتقائی تشکیل اور زمانے کے حالات سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ مولانا احمد مجبتیٰ کو چاہیے تھا کہ وہ لباس کی تاریخ سے واقفیت حاصل کرتے اور اس کے بعد اس مسئلے میں فتویٰ دیتے۔ مجھے مندرجہ ذیل نکات پر آپ کی رہنمائی مطلوب ہے:
۱۔ کیا رسول اللہ ﷺ نے غیر مسلموں کی طرف سے تحفتاً آیا ہوا لباس زیب تن نہیں فرمایا؟
۲۔ تشبہ بالنصاریٰ/ بالکفار کی حدود کیا ہیں؟
۳۔ کن امور میں تشبہ حرام ہے اور کن میں جائز؟
۴۔ کیا عادی امور میں بھی تشبہ ممنوع ہے یا اس کا تعلق ان معاملات اور امور سے ہے جو عبادت یا دین کے کسی اور پہلو سے متعلق ہوں؟
۵۔ کیا اسلام نے خالص اسی لباس کو لازمی قرار دیا ہے جو رسول اللہ ﷺ زیب تن فرمایا کرتے تھے، یا اس میں اسلام نے محض کچھ اصول مقرر فرمائے ہیں (مثلاً ستر، حیا کا تحفظ، موسم سے بچاؤ) اور اس کا طرز مختلف علاقوں کے رواج اور روایات پر چھوڑ دیا ہے؟
۶۔ قمیص شلوار تو خالص پشتونوں کا لباس ہے جس کی مختلف صورتیں ہزارہا سال سے ان کے ہاں مروج ہیں۔ (مثلاً بلوچستان کے پشتونوں کا طرز الگ ہے جبکہ خیبر والوں کا الگ) ان کے لباس کا یہ طرز کسی تشبہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اختراعی اور طبع زاد ہے۔ کیا اس پر تشبہ بالکفار کا اطلاق کیا جا سکتا ہے؟
۷۔ اگر اس قسم کے فتووں کا سلسلہ جاری رہا تو کیا کل یہ فتویٰ نہیں دیا جا سکتا کہ ٹیلی فون پر بات کرنا، جہاز میں سفر، جوتوں کے بجائے بوٹ پہننا، چٹائی کے بجائے میز کرسی پربیٹھ کر کام کرنا، الغرض یہ تمام کام تشبہ بالکفار ہیں؟
خدارا ان علما سے بات کریں اور ان کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ وہ اسلام کی حقیقی روح کا فہم حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ان کے ہاں جزوی مسئلوں پر زیادہ زور ہے، مثلاً قراء ۃ خلف الامام، نماز میں ٹخنوں کا ظاہر کرنا، رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے حیاتی ومماتی تصورات، قراء ۃ بالسر والجہر کی بحث، دعاء بعد السنن اور قضاء عمری جیسے مسائل۔ اسلام اور مسلمانوں کے آج کے مسائل بالکل مختلف ہیں۔ قوم ان سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ اکیسویں صدی کے مسائل کا ادراک کریں اور مسلمانوں کی وسیع تر رہنمائی کے لیے آگے بڑھیں۔ انہیں سیرت رسول اللہ ﷺ کا فہم حاصل کرنا چاہیے اور امام ابو حنیفہؒ کی وسعت فکر سے استفادہ کرنا چاہیے۔
دینی مدارس کے علما کو چاہیے کہ وہ فتویٰ دینے کے لیے کچھ اصولوں اور ضوابط کا تعین کریں اور ہر عالم کو فتویٰ دینے کا حق نہ دیں۔ شیعہ مکتب فکر میں ہر عالم فتویٰ دینے کا اہل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں اس قسم کی شوریدہ فکری کے مظاہرے کم ملتے ہیں۔ ہمارے علما آج کے جدید ذہن کے فکری مسائل سے اپنے آپ کو آگاہ رکھنا ضروری نہیں سمجھتے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں کے درمیان ایک خاص قسم کا بعد پیدا ہو رہا ہے۔ اس بعد کو ختم کرنے کے لیے علما کو پہل کرنی چاہیے اور اس پہل کے لیے ان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ماضی کے خول سے نکالیں۔ یہی آج کے عصر کا تقاضا ہے۔ کاش! آج کوئی شاہ ولی اللہ، کوئی مولانا عبید اللہ سندھی، کوئی مولانا محمود الحسن، کوئی مولانا مفتی محمود بن کر نئے حالات سے آگاہی حاصل کر لے۔
اخوکم فی الاسلام
(مولوی) عبد العالی، ایم اے
ماشو گگر، پشاور

(۳)
06-9-2004
واجب الاحترام حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پشاور یونیورسٹی کے کلیہ مطالعات اسلامیہ وشرقیہ کے افتاء سیل کے مرابط کی حیثیت سے حضرت مولانا عبد العالی کا خط منسلک کر رہا ہوں۔ اس خط میں انہوں نے ایک اہم مسئلے کی طرف ہماری توجہ مبذول فرمائی ہے۔ اپنے افتاء سیل کے سامنے صورت مسئلہ رکھنے کے بجائے میں نے مناسب سمجھا کہ آپ کی وقیع رائے حاصل کر لوں۔
اگر آپ کا جواب ۲۰ ستمبر ۲۰۰۴ تک موصول ہو جائے تو میں بے حد شکر گزار ہوں گا، کیونکہ انہی دنوں ہم اپنے افتاء سیل کا اجلاس بلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
بے حد احترامات کے ساتھ
ڈاکٹر قبلہ ایاز
(پروفیسر مطالعات سیرت/ڈین کلیہ علوم اسلامیہ وشرقیہ
شیخ زاید اسلامک سنٹر کیمپس، پشاور یونیورسٹی)

(۴)
باسمہ سبحانہ
محترمی ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
مزاج گرامی؟
نوازش نامہ موصول ہوا۔ مجھے مولانا عبد العالی صاحب کی رائے سے اصولی طور پر اتفاق ہے مگر میرے نزدیک فتویٰ کے غیر ضروری استعمال کو روکنے کے لیے فتویٰ ہی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہ فکری اور علمی مباحثہ کی باتیں ہیں اور انہیں اسی دائرہ میں رہنا چاہیے۔ میرے خیال میں کالر اور ٹائی کا تعلق مذہب یا اس کی علامات سے نہیں بلکہ موسمی ضروریات سے ہے۔ سرد علاقوں کے لوگ گلے کو بند رکھنے کے لیے ٹائی کا استعمال کرتے ہیں اور کالر اس کی ضروریات میں سے ہے۔ لباس کے بارے میں قرآن کریم نے ۱۔ زینت، ۲۔ ستر، اور ۳۔ موسمی ضروریات کو اس کے مقاصد میں شمار کیا ہے اور فقہاء کرام نے کفار کی مذہبی علامات وشعائر کے ساتھ مشابہت کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ ان حدود کے اندر کوئی سا لباس ہو، اسے ممنوع قرار نہیں دیا جانا چاہیے اور اس حوالہ سے کوئی فیصلہ کرتے وقت علاقائی اور موسمی تقاضوں کا لحاظ رکھنا چاہیے۔
احباب سے سلام مسنون۔شکریہ! 
والسلام
ابو عمار زاہد الراشدی
۱۲ /۹/ ۲۰۰۴

(۵)
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے متعلق کہ میں نے لاہور کی مختلف مساجد میں ایسی صفیں دیکھی ہیں جن میں قدموں کی جگہ اسم محمد ﷺ دیکھنے میں آتا ہے۔ ان صفوں پر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ نیز علم ہونے کی بنا پر ان صفوں کا بنانا اور ان کی خرید وفروخت کا کیا حکم ہے؟

الجواب باسم الملک الوہاب:

ایک مخصوص لادین، بد مذہب گروپ اس سلسلے میں آج کل بہت سرگرم عمل ہے۔ کبھی جوتوں کے تلوے اور کبھی کپڑوں پر پرنٹ اور اب صفوں پر قدموں کی جگہ پر آیات، اسماء حسنیٰ، اسماء النبی وغیرہ پرنٹ کرنے کی مکروہ جرات کرتا رہتا ہے۔ عوام اور بالخصوص علماء کرام پر لازم ہے کہ ان کو روکا جائے۔ سوال میں دیا گیا نقشہ جامعہ اشرفیہ کے علماء کرام ومفتیان عظام نے بغور دیکھا ہے تو سب نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ دیا کہ یہ واضح طور پر اسم ’’محمد‘‘ ﷺ پڑھا جا رہا ہے، لہٰذا یہ صفیں بنانے والے، ڈیزائن کرنے والے توہین رسالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ لہٰذا ایسی صفوں پر نماز پڑھنا اور ان کی خرید وفروخت سب ناجائز اور حرام ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان صفوں سے مکمل طور پر احتراز کریں۔ البتہ جو حضرات لاعلمی میں ایسی صفوں پر نماز پڑھ چکے ہیں یا ان کی خرید وفروخت کر چکے ہیں، وہ گنہگار نہیں ہیں اور نہ ہی ان پر پڑھی ہوئی نمازوں کا اعادہ لازم ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
(مفتی) عبد الخالق عفی عنہ
دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور

(۶)
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ

الجواب ہو المصوب:

پلاسٹک کی صفوں کو ہم نے بغور دیکھا ہے۔ ان صفوں میں کوئی بھی ایسا ڈیزائن نہیں ہے جو کہ لفظ ’’محمد‘‘ بنتا ہو۔ لہٰذا ایسی صفوں پر نماز ادا کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ نیز ایسی صفوں کی خرید وفروخت بھی جائز ہے۔ وہم نہ کیا جائے۔ فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
(مفتی) محمود الحسن طیب عفا اللہ عنہ
مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ

(۷)
یہ جدت پسندی اور بہتر سے بہتر کی تلاش کا دور ہے اور اس میں روز مرہ کے اعتبار سے اتنا تنوع پیدا ہو رہا ہے کہ ایک چیز دنیا کے ایک کونے سے نکلتی ہے تو دوسرے کونے میں اس کا چرچا شروع ہو جاتا ہے۔ اوپر سے مقابلہ اور کمپٹیشن نے ہر ایک کو دوسرے پر سبقت اور پیش قدمی کی دعوت دی ہوئی ہے، اس لیے بعض اوقات زیب وزینت اور فیشن کے لیے تنوع در تنوع اور بہتر سے بہتر کی تلاش کے نتیجے میں کچھ کا کچھ بن جاتا ہے اور پھر لوگ اپنی دینی نفسیات کے مطابق رسی کو سانپ اور بھیڑ کو بھیڑیا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
چند سال پہلے ایک صاحب اپنے گھر سے زنانہ سوٹ لے کر حاضر ہوئے اور کپڑا میرے سامنے رکھ کر فرمایا، اس کو چیک فرما لیں۔ میں نے دیکھنے کے بعد کہا، مجھے تو اس میں بظاہر کوئی خرابی اور عیب نظر نہیں آ رہا۔ آپ فرمائیے، آپ کا مطلب کیا ہے؟ وہ صاحب فرماتے ہیں کہ آپ اچھی طرح غور سے دیکھ کر چیک کریں۔ میں نے دوبارہ کپڑے کو کھول کر دیکھا تو وہ کسی خاتون کا سلا ہوا سوٹ تھا۔ میں نے کہا کہ یہ کسی خاتون کا سلا ہوا سوٹ معلوم ہو رہا ہے اور بس۔ اس سے زیادہ مجھے اس کے بارے میں مزید معلومات نہیں۔ وہ صاحب فرماتے ہیں کہ آپ دراصل میری بات پوری طرح نہیں سمجھ سکے۔ میرا مقصد یہ ہے کہ آپ اس کپڑے پر پڑھ کر دیکھیں کہ کیا لکھا ہوا ہے؟ میں نے کہا کہ اردو، عربی جس قابل مجھے آتی ہے، اس زبان میں تو مجھے لکھا ہوا کچھ نظر نہیں آ رہا۔ البتہ اگر آپ ان دونوں زبانوں کو مجھ سے زیادہ جانتے ہوں یا کسی اور زبان میں کچھ لکھا ہوا ہو تو آپ ہی بتلا دیجیے۔ مجھے تو اس میں مختلف قسم کے پھول، بوٹے اور ڈیزائن نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے کپڑا اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ یہ دیکھیے، اس پر دراصل ’’محمد‘‘ لکھا ہوا ہے۔ یہ اس طرح کر کے ’’میم‘‘ ہے، اور یہاں سے اس طرح کو ’’ح‘‘ ہے اور یہ یہاں ’’میم‘‘ ہے اور یہ اس طرح سے ’’دال‘‘ ہے۔ اور اس طرح پورا لفظ ’’محمد‘‘ ہوا۔ میں نے کہا کہ یہ تو آپ کی طرف سے زبردستی کا بنایا ہوا لفظ ’’محمد‘‘ ہے۔ حقیقت میں تو اس طرح نہیں ہے کیونکہ اگر یہ حقیقت میں محمد لکھا ہوا ہوتا تو مجھے ضرور سمجھ اور نظر آجاتا کیونکہ اس لفظ سے ہمیں آپ سے زیادہ واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ بچپن اور طالب علمی کے زمانے سے ہم کتابوں میں یہ لفظ پڑھتے اور دیکھتے آئے ہیں اور کاپیوں وغیرہ میں بھی لکھتے رہے ہیں۔ اگر یہ حقیقت میں محمد لکھا ہوا ہوتا تو پہلی نظر میں سمجھ آ جاتا۔ میں نے ان صاحب سے سوال کیا کہ آپ نے خود یہ لفظ اس میں پڑھا ہے یا کسی نے آپ کو اس طرح پڑھایا ہے؟ کہتے ہیں کہ میں نے خود تو نہیں پڑھا بلکہ مجھے اس طرف میری اہلیہ صاحبہ نے متوجہ کیا اور ان کی توجہ بھی اس طرف اس لیے ہوئی کہ آج کل اخبارات میں کپڑے میں ’’اللہ، محمد‘‘ وغیرہ چھپنے کی خبریں آ رہی ہیں۔ اس سے پہلے انہیں بھی اس طرف توجہ نہیں تھی اور مدت سے یہ کپڑا استعمال ہو رہا تھا۔ میں نے ان کو سمجھایا کہ یہ سب نفسیاتی مسئلہ ہے۔ ممکن ہے کہ کسی خاص کپڑے میں ایسی کوئی چیز چھاپی گئی ہو لیکن بہرحال آپ کے اس کپڑے میں یہ چیز نہیں ہے اور اگر واقعہ میں اس کپڑے میں ایسی کوئی چیز لکھی ہوئی ہوتی تو آپ کو یا آپ کی اہلیہ کو خود ہی یہ بات معلوم ہو جاتی جبکہ آپ کے گھر میں یہ کپڑا مدت دراز سے استعمال ہو رہا ہے اور آپ ماشاء اللہ پڑھے لکھے لوگ ہیں۔
ایک زمانے میں لاہور کی کسی جوتا ساز فیکٹری کے جوتے کی خاص قسم اور ورائٹی کے بارے میں اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ جوتے کے تلوے میں لفظ ’’اللہ‘‘ چھاپ کر اللہ تعالیٰ کی توہین کی گئی ہے۔ اس وقت ہزاروں، لاکھوں افراد نے اپنے اپنے ذہن سے اپنے جوتوں کے تلووں میں لفظ ’’اللہ‘‘ کا تصور قائم کر کے قیمتی قیمتی جوتوں کو ناکارہ بنا دیا تھا۔ اسی زمانے میں میرا ایک صاحب کے گھر جانا ہوا۔ وہاں جانے کے بعد صاحب خانہ کے ایک برخوردار نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کو ایک چیز دکھاتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ برخوردار اپنے کمرے کی الماری کے اوپر سے بڑے احترام اور حفاظت سے رکھے ہوئے جوتوں کے تلوے اٹھا کر لائے جن کو اوپر سے کاٹ کر استعمال سے ناکارہ بنا دیا گیا تھا اور یہ تلوے بڑے قیمتی اور تقریباً نئے محسوس ہو رہے تھے اور جس الماری کے اوپر انہوں نے حفاظت سے یہ جوتے کے تلوے رکھے ہوئے تھے، اس الماری کے اندر دینی کتب اور قرآن مجید کے نسخے بھی تھے اور یہ تلوے ان کے بھی اوپر والے حصے پر بے ادبی اور بے احترامی سے بچانے کے لیے رکھے گئے تھے۔ میں نے جب ان جوتوں کے تلووں کو غور سے دیکھا تو ان میں اللہ کا لفظ واضح طور پر نظر نہیں آ رہا تھا۔ البتہ ایک پھول کا ڈیزائن کچھ لفظ ’’اللہ‘‘ کے مشابہ ضرور معلوم ہو رہا تھا اور وہ بھی اسی وقت محسوس ہوتا تھا جبکہ لفظ ’’اللہ‘‘ کے تصور کو ذہن میں قائم کر کے اسی پر اس کومنطبق کرنے کی کوشش کی جائے۔ مجھے یہ ماجرا دیکھ کر تعجب ہوا اور میں نے ان سے عرض کیا کہ یہ لفظ ’’اللہ‘‘ تو لکھا اور چھپا ہوا نہیں ہے بلکہ ایک پھول بوٹا ہے جس کے بارے میں آپ نے لفظ اللہ کا تصور قائم کر لیا ہے اور شرعاً آپ کا ان جوتوں کو پہننا اور استعمال کرنا تو گناہ نہیں تھا لیکن ان کو ناکارہ بنا کر مال کو ضائع کرنا گناہ تھا اور پھر ان جوتے کے تلووں کو دینی کتب اور قرآن مجید کے اوپر رکھ کر آپ نے جو پورے قرآن مجید کی بے ادبی کی ہے، جس میں ہزاروں مرتبہ لفظ اللہ استعمال ہوا ہے، آپ کو اس کا ذرا بھی خیال نہیں۔ یہ گفتگو سن کر ان برخوردار کی آنکھیں کھلیں اور اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
چند دن پہلے کسی مسجد کی انتظامیہ کے چند حضرات تشریف لائے اور اپنی مسجد کے قالینوں کی یہ داستان سنائی کہ ہم نے بہت مشکل اور محنت سے چندہ کر کے بڑے قیمتی قالین مسجد میں بچھانے اور نماز پڑھنے کے لیے خریدے تھے لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان میں کتے اور بلی کی شکل کی کوئی تصویر بنی ہوئی ہے جبکہ کچھ لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ پھول بوٹے ہیں، کسی جاندار چیز کی تصویر نہیں ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے مسجد سے لایا ہوا قالین کا ٹکڑا دکھایا جس میں کسی بھی جاندار چیز کی تصویر نہیں تھی۔ بس ایک واہمہ تھا جو کسی نے اپنے ذہن سے قائم کر کے اور گھڑ کر دوسروں کو تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔ جو لوگ کمزور نفسیات کے مالک تھے، انہوں نے ہاں میں ہاں ملا لی تھی اور جو لوگ مضبوط نفسیات اور خود اعتمادی کے مالک تھے، وہ ان کی اس بات سے اختلاف کرتے تھے۔
ایک مسجد میں بڑی قیمتی ٹائلیں لگوا کر مسجد کو مزین کیا گیا تھا لیکن بعض لوگوں نے یہ شور ڈال دیا تھا کہ ٹائلوں کے ڈیزائن میں کتے کی شبیہ بنی ہوئی ہے لہٰذا فی الفور تمام ٹائلوں کو اکھاڑ کر مسجد کو تصویروں کی لعنت سے پاک اور نماز کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ جب میں نے ساتھ میں لائی ہوئی ٹائل کے نمونے کا معاینہ کیا تو اس میں کچھ بھی نہ تھا، سوائے ایک سایہ کے اور وہ بھی خوب صورتی پیدا کرنے کے لیے ایک ڈیزائن تیار کیا گیاتھا۔ ان لوگوں کو بڑی مشکل سے مطمئن کر کے لاکھوں روپیہ ضائع ہونے سے بچایا گیا لیکن بعض انتظامیہ کے لوگ اس پرمصر تھے کہ اگر وہ شک وشبہ اور لوگوں کو تشویش سے بچانے کے لیے ان کو اکھاڑ کر دوسری ٹائلیں لگا دیں اور ان کو ضائع کر دیں تو یہ زیادہ بہتر اور تقوے کا تقاضا ہوگا لیکن جب ان کو یہ بتایا گیا کہ اس طرح کرنے کے نتیجے میں انہیں چندہ دینے والوں کو تاوان اور ہرجانہ دینے کا اپنی جیب سے انتظام کرنا پڑے گا، تب ان کی تسلی ہوئی اور طبیعت صاف ہوئی۔
ایک مولوی صاحب جو ایک دینی تنظیم کے ذمہ دار تھے، جمعہ کے دن مسجد میں غالباً عصر کی نماز کے وقت تشریف لائے اور نماز کے بعد مجھے ایک طرف لے جا کر کہنے لگے کہ آج آپ کی ایک اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلانی ہے تاکہ آپ لوگوں کو آگاہ کریں اور اس مسئلہ کی لوگوں میں تبلیغ کریں۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنی جیب سے سگریٹ کا ایک پیکٹ نکالا جس میں مختلف کمپنیوں کی سگریٹ جمع کر رکھی تھی اور ایک ایک کر کے سگریٹ کے پیچھے والے حصہ یعنی فلٹر کے پیلے رنگ کے کاغذ کو مجھے دکھانا شروع کیا جس میں کچھ سفید سفید نشانات تھے، کہ ان کو غور سے دیکھیں، ہر سگریٹ کے پیچھے چھوٹا سا ’’محمد‘‘ لکھا ہوا ہے۔ میں نے ہر چند غور سے دیکھا مگر مجھے ان میں سے کسی ایک سگریٹ میں بھی کچھ نظر نہ آیا، سوائے سفید سفید نشانوں کے۔ جب میں نے ان کی بات سے اختلاف کیا تو انہوں نے بتلایا کہ اس بات پر تو آج جمعہ کی نماز کے بعد فلاں جگہ احتجاج کیا گیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس قسم کی سگریٹ کو فوراً ضبط کیا جائے اور آیندہ کے لیے یہ بے حرمتی کا سلسلہ بند کیا جائے۔ میں نے ان کو بتلایا کہ یہ سب فضول اور خواہ مخواہ کی باتیں ہیں۔ اولاً تو سگریٹ نوشی جتنا گناہ ہے، اس شبیہ میں اتنی بھی خرابی نہیں اور آپ کے احتجاج اور شور مچانے سے لوگ سگریٹ نوشی چھوڑیں گے نہیں اور آپ کے اس چرچا کرنے سے پھر وہ سمجھتے بوجھتے ہوئے بھی اس میں مبتلا رہیں گے اور پھر گناہگار نہ ہوتے ہوئے بھی گنہگار ہوں گے۔ دوسرے کسی کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ ایسی حرکت کر کے اپنی مصنوعات کی طرف سے مسلمانوں کو متنفر کرے؟
بعض لوگ خواہ مخواہ کسی لکھائی کے بارے میں کہا کرتے ہیں کہ اس کو اگر الٹا کر کے پڑھا جائے، مثلاً کوکا کولا کو الٹا پڑھیں تو فلاں لفظ بن جاتا ہے۔ حالانکہ اس طرح الٹا پڑھنے سے تو بے شمار الفاظ جن کا مفہوم صحیح ہے، وہ بھی غلط بن سکتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ تحریر کے کچھ اصول وقواعد ہوا کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ہی الفاظ اور تحریر کو کوئی حکم دیا جا سکتا ہے۔ ہر قسم کے نقش ونگار پر اپنے ذہن سے کسی لفظ کے بارے میں کوئی تصور قائم کر لینا صحیح نہیں۔ البتہ اگر کسی چیز میں واقعی کوئی مبارک کلمہ کی تحریر موجود ہو تو اس کا حکم علیحدہ ہوگا، لیکن بلاوجہ اور خواہ مخواہ کا شور ڈال کر لوگوں کو تشویش میں مبتلا کرنا اور صریح اور حرام چیزوں سے لوگوں کو بچانے کی فکر کرنے کے بجائے ان مہمل چیزوں پر اپنی صلاحیتوں کو خرچ کرنا کسی طرح بھی عقل مندی نہیں۔
(تحریر: مولانا مفتی محمد رضوان۔ بشکریہ ماہنامہ ’’التبلیغ‘‘ راول پنڈی، ستمبر ۲۰۰۴)

حجیت حدیث اور اسلامی حدود کے حوالے سے ایک بحث

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

مکرمی جناب مدیر ماہنامہ ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ
سلام مسنون!
آپ کی جانب سے قاری ہونے کا اعزاز بحال فرمانے پر شکر گزار ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ میرا یہ اعزاز آپ کے کرم ہی سے باقی رہ سکتا ہے۔
مسجد اقصیٰ کے قضیے کے بارے میں سلسلہ مضامین میری دلچسپی سے باہر ہے۔ اس کے باوجود میں نے اسے پوری دلچسپی سے پڑھا ہے۔ اس پر آنے والے تبصرے اور جوابات بھی شوق سے دیکھ رہا ہوں۔ یہ سب کچھ کافی ذہن کشا ہے۔ خوشی کا باعث یہ بات ہے کہ عزیزم محمد عمار خان صاحب کے اسلوب بیان میں علمی سطح، شائستگی، شستگی، دقت نظر، جدید وقدیم کا امتزاج ایسی خوبیاں ہیں کہ اگر مبالغے کی تہمت کا خطرہ نہ ہو تو آج کے دور میں معجزہ کہوں گا۔ بہرحال میں اپنی خوشی کا برملا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔
کسی شمارے میں یہ ذکر ہوا ہے کہ ۱۹۷۰ء کے زمانے میں ملکیت کے مسئلہ پر ایک مضمون تحریر فرمایا تھا جس پر بعض حلقوں نے کافی کچھ لکھا تھا۔ براہ کرم اگر ممکن ہو تو میرے استفادہ کے لیے اس مضمون کی تلاش اور فراہمی کی زحمت فرمائی جائے۔
دینی جماعتوں میں اپنے اپنے مسلک پر شدت کے باوجود میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ اس میں گہرائی اور گیرائی مجروح ہو رہی ہے۔ میرا تعلق جماعت اسلامی سے رہا ہے۔ آج جماعت والے جانیں یا نہ جانیں، آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ حدیث وسنت کی حیثیت کے بارے میں مولانا مودودی مرحومؒ نے جس شدت سے مناظرہ فرمایا، وہ ان کی اپنی حیات کا واحد مناظرہ تھا لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ جب سے جماعت میں کچرا داخل ہونا شروع ہوا ہے، یوں لگتا ہے کہ انکار حدیث کے نقطہ نظر کو لے کر آنے والے بھی جماعت کی صفوں میں گھس گئے ہیں اور قیادت ایسے گمراہ لوگوں کو اپنی طاقت بنانے کا پورا موقع دینے لگی ہے۔
اس سلسلہ میں، میں اپنے دو محترم ساتھیوں ، جو کہ جماعت کے وکلا فورم پر مقتدر اور موثر ہیں، کے طرز عمل کے بارے میں فورم کی قرارداد کا متن ارسال کر رہا ہوں۔ یہ قرارداد مورخہ ۲۹ جولائی ۲۰۰۴ء کو اسلامک لائرز موومنٹ کے باقاعدہ اجلاس میں اتفاق رائے سے منظور کی گئی ہے۔ میرے نزدیک یہ قرارداد قارئین کے لیے قابل توجہ ہے۔ اس کا پہلا حصہ حدیث وسنت کی صحت اور اسلامی حدود کے بارے میں ہمارے اپنے دوستوں کی انتہائی دل خراش سطح پر مہم سے متعلق ہے اور جماعت کے بالائی نظم کے لیے خاص طور پر قابل توجہ ہے۔ آپ کے ادارے کو اس سلسلہ میں واسطہ اس لیے بنا رہا ہوں کہ بات محدود سطح تک رہے اور اہل جماعت توجہ فرمائیں اور گمراہی کے فروغ پر فائز ارکان جماعت کی تفہیم کا فوری انتظام ہو سکے۔
آخر میں تازہ شمارے پر کچھ کہے بغیر بات پوری نہیں ہو سکے گی۔ پورا شمارہ بہت شاندار ہے، خاص طور پر سیرت پر مضمون بہت پسند آیا۔ اس میں فکری ندرت اور تخلیقی رجحان بہت قابل قدر ہیں، اسے بطور سلسلہ اختیار کیا جائے تو واقعتا بڑی خدمت ہوگی۔ والسلام
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
گوجرانوالہ

باجلاس اسلامک لائرز موومنٹ گوجرانوالہ

چوہدری محمد یوسف (سائل) بنام چوہدری محمد سلیم چہل وغیرہ (مسؤل علیہم)
درخواست مورخہ ۰۴-۱-۲۴ نسبت مہم وتبلیغ بر خلاف قوانین حدود وحجیت حدیث رسول
مجوزہ قرارداد بطور فیصلہ درخواست
جناب صدر! بطور فیصلہ درج ذیل قرارداد تجویز کی جاتی ہے:
۱) مورخہ ۲۴ جنوری ۰۴ء کی درخواست میں شکایت کی گئی کہ اسلامک لائرز موومنٹ گوجرانوالہ کے سابق صدر جناب سلیم محمود چہل اور موجودہ صدر جناب محمد سلیم کھوکھر نے مختلف عدالتوں میں حدود کے قوانین کے نصاب حرز، تزکیۃ الشہود اور رجم کی دفعات کو تحریک کا نام استعمال کرتے ہوئے چیلنج کیا اور اس کے لیے جس نقطہ نظر کو بنیاد بنایا، وہ مسلمان کے بنیادی عقیدے کے منافی ہے۔ مزید برآں درخواستوں میں جو پیرایہ بیان اختیار کیا گیا ہے، وہ فنی اور اخلاقی لحاظ سے غیر معیاری ہے۔ شکایت سے پہلے سائل نے ایک خط کے ذریعے تحریک کے صدر (جناب محمد سلیم کھوکھر) کو صورت حال کی جانب متوجہ کیا۔ خط کا جواب نہ پا کر موجودہ شکایت پیش کی گئی۔ استدعا میں کہا گیا کہ:
’’موجودہ صدر جناب محمد سلیم کھوکھر اور محترم چہل صاحب کا طرز عمل جماعت اور تحریک کے دستور میں رکن کے لیے درج عقیدے کے خلاف کھلم کھلا تبلیغ کے مترادف ہے۔‘‘
مورخہ ۰۴-۳-۴ کو شکایت اجلاس میں پیش ہوئی۔ شکایت پر کارروائی کے دوران مسؤل علیہم اور بعض ساتھیوں کا طرز عمل خصوصی توجہ کا محتاج ہے۔ اس کے لیے الگ سے بحث کی جائے گی۔ البتہ یہاں اتنا ذکر کافی ہے کہ موجودہ صدر جناب محمد سلیم کھوکھر صاحب نے مورخہ ۰۴-۶-۱۰ کو اجلاس میں رجوع کرتے ہوئے چہل صاحب کی تحریروں کو لغو، لاحاصل اور بیہودہ قرار دے کر ان سے اپنی لاتعلقی کا اعلان کیا۔ اس بنا پر محترم کھوکھر صاحب کے خلاف کارروائی اپنے انجام کو پہنچی۔ جبکہ جناب سلیم محمود چہل صاحب نے کارروائی میں ایک عرصہ شرکت کے بعد احتجاجاً استعفا دیا اور کارروائی میں شرکت سے گریز اختیار کیا۔ اجلاس نے ایک کمیٹی کے ذریعے محترم چہل صاحب کو اجلاس میں واپس لانے کی کوششوں کے بعد ان کو تحریری نوٹس کے ذریعے کارروائی میں حصہ لینے کی درخواست کی۔ نوٹس کے بعد بھی چہل صاحب تشریف نہ لائے جس پر ان کے خلاف ان کی غیر حاضری میں کارروائی کی تکمیل کا فیصلہ مورخہ ۰۴-۷-۱ کے اجلاس میں کیا گیا۔
۲) شکایت کے ساتھ شامل دستاویزات میں مسؤل علیہم کی دو تحریریں اہم ہیں:
درخواست مورخہ ۰۳-۸-۳ روبرو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج گوجرانولہ نسبت قانون سرقہ
درخواست روبرو عدالت عالیہ لاہور نسبت قانون رجم
شکایت زیر بحث کے مطابق مندرجہ بالا ہر دو درخواستوں پر مسؤل علیہم نے دستخط کیے اور ان کی عدالتوں میں پیروی کی۔ فنی عذرات کے تحت عدالتوں میں پذیرائی میں ناکامی کے بعد مسؤل علیہم نے درخواستوں کی وکلا اور عام لوگوں میں تقسیم جاری رکھی۔
۳) مسؤل علیہم کی تحریروں سے جو نقطہ نظر سامنے آتا ہے، وہ اس طرح ہے:
سرقہ کے قانون کے بارے میں درخواست میں لکھا گیا:
’’قرآن کا دعویٰ بابت اکمل وکامل سورۂ مائدہ کی آیات پر بھی برابر کا لاگو ہے اور کسی بندے کو یہ جسارت نہیں دی جا سکتی کہ وہ سورۂ مائدہ کے روشن وواضح احکام میں کوئی اضافہ، استثنا، ترمیم، تخفیف کی مجال کرے۔....... لوگو! ...... تمہارے درمیان ایک چیز .... چھوڑے جاتا ہوں...... وہ اللہ کی کتاب ہے۔‘‘ (صفحہ نمبر ۳ کا آخری پیرا گراف، رجم سے متعلق درخواست صفحہ نمبر ۹، ساتویں سطر)
رجم سے متعلق درخواست کے صفحہ نمبر ۱۱ پر لکھا گیا:
’’رحمت للعالمین پر یہ اتہام لگانا کہ انہوں نے منافی قرآن سزا (رجم) صادر فرمائی، ایک غیر محتاط بیان ہے، خواہ کتنی ہی متواتر المعنی حدیثوں میں کیوں نہ ہو۔ کسی مسلمان کو زیب نہیں کہ وہ خلق عظیم پر فائز بزرگ ترین ہستی پر سنی سنائی روایت کے ذریعے منسوب کرے۔‘‘
اسی طرح کتاب اللہ کو کافی قرار دیتے ہوئے رجم سے متعلق احادیث کی حجیت سے انکار کو بنیاد بنایا گیا اور سرقہ سے متعلق نصاب اور حرز کی دفعات کو بھی قرآن میں نہ پا کر چیلنج کیا گیا۔ حرز اور نصاب کی نسبت احادیث کا عربی متن اور اردو ترجمہ سائل نے اپنی شکایت میں حوالوں کے ساتھ درج کیا۔ شکایت کی نقول مسؤل علیہم اور تمام ممبران کو مہیا کی گئیں۔ شکایت کا متعلقہ حصہ یہاں درج کیا جاتا ہے:
عن عائشۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لا تقطع ید السارق فی ربع دینار فصاعدا (سنن ابو داؤد، کتاب الحدود، باب فی ما یقطع السارق، ۴۲)
’’حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چور کا ہاتھ ایک چوتھائی دینار یا زیادہ مالیت کی چوری پر کاٹا جائے۔‘‘
لا قطع فی ثمر معلق ولا فی حریسۃ جبل فاذا اواہ المراح او الجرین فالقطع فی ما یبلغ ثمن المجن (الموطا، ۱۵۷۳)
’’میوہ درخت پر لٹکتا ہو یا بکری پہاڑ پر چرتی ہو اور کوئی اسے چرا لے جائے تو اس میں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔ ہاں اگر وہ کھلیان میں آ جائے یا وہ باڑے میں پہنچ جائے تو ہاتھ کاٹا جائے، بشرطیکہ اس کی قیمت ڈھال کی قیمت کے برابر ہو۔‘‘
۴) کارروائی کے دوران محترم چہل صاحب نے اپنے نقطہ نظر کے دفاع میں یہ کہا کہ وہ احادیث پر ایمان رکھتے ہیں اور انہوں نے کئی مواقع پر احادیث کے حوالے پیش کیے ہیں، لیکن انہوں نے متنازعہ تحریروں کے بارے میں رجوع کیا اور نہ ہی ان کی کوئی وضاحت پیش کی۔ محترم چہل صاحب کی دونوں تحریروں کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بات بہت واضح ہے کہ وہ قرآن سے باہر، ہر چیز کو قرآن میں اضافہ وترمیم خیال کرتے ہوئے قابل لحاظ نہیں سمجھتے۔ اسی لیے وہ رجم، نصاب اور حرز کی دفعات کو منافی قرآن قرار دیتے ہیں۔ سرقہ سے متعلق درخواست کا صفحہ نمبر ۳ اور رجم سے متعلق درخواست کا صفحہ نمبر ۷ قابل ملاحظہ ہے۔ متعلقہ حصہ درج ذیل ہے:
’’اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں۔‘‘
’’تمہارے رب کی کتاب سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے، کوئی اس کے فرامین کو بدلنے والا نہیں۔‘‘
’’اے محمد کہہ دو میں اس کتاب کو اپنی طرف سے بدلنے کا حق نہیں رکھتا۔ میں تو صرف اس وحی کا اتباع کرتا ہوں جو میری طرف اتاری جاتی ہے۔‘‘
اس طرح جناب چہل صاحب کا نقطہ نظر سخت ذہنی مغالطے کا نتیجہ ہے۔ جماعت اسلامی اور اسلامک لائرز موومنٹ کے دستور میں رکن کے لیے درج عقیدے کے منافی ہے۔ انہوں نے اس کا تواتر کے ساتھ ابلاغ کیا ہے۔ بحث کے دوران انہوں نے اس پر اصرار کیا ہے اور بعد ازاں احتجاج کی آڑ میں جواب دہی سے گریز کیا، جس کے پیش نظر ان کے خلاف یک طرفہ فیصلہ کرنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہ چھوڑا۔
۵) یہاں یہ بھی عرض کر دینا ضروری ہے کہ حرز اور نصاب کے بارے میں چہل صاحب کے ارشادات حیرانی کا باعث ہیں۔ چوری کی بنیادی تعریف میں یہ دونوں چیزیں شامل ہیں۔ ہاتھ کاٹنے کی سزا سے قطع نظر تعزیر کے لیے بھی دونوں چیزوں کا اثبات لازم ہوگا۔ ایسی چیز جو مالیاتی قدر سے کم ہو، اس میں تو تعزیر بھی عائد نہیں کی جا سکتی۔ چہل صاحب کا نقطہ نظر اس پہلو سے تو قانون کی مبادیات سے انحراف کے مترادف ہے۔
اسلامک لائرز موومنٹ کا یہ موقف واضح ہے کہ حرز، نصاب، تزکیۃ الشہود اور رجم کی دفعات سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی ہیں اور ان کو قرآن کے منافی قرار دینا کسی طرح درست نہیں۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ سرقہ کی تعریف قرآن حکیم میں موجود نہیں۔ اس کی تعریف احادیث کی روشنی میں علماے قانون کا کام ہے۔ یہی کچھ کر کے ان قوانین کے مسودے مرتب کیے گئے۔ اس کے لیے سعودی حکومت کے اس وقت کے مشیر اور اخوان المسلمون کے سابق رہنما اور سابق وزیر اعظم شام ڈاکٹر معروف دوالیبی کی خدمات کا ہمیں اعتراف ہے۔ جناب چہل صاحب نے ان مسودات قانون پر جو کچھ بھی کہا ہے اور جس انداز سے کہا ہے، وہ ان کی ذاتی سوچ تو ہو سکتی ہے مگر اس کی کوئی علمی بنیاد موجود نہیں۔ ہمارے ممبر کے طور پر اور ہمارے نام کے تحت ان کا اس بارے میں ابلاغ عام موومنٹ کی حیثیت کو مجروح کرنے کا باعث ہوا ہے۔ دینی مباحث پر کوئی پابندی نہیں مگر بحث کی حدود اور اصول متعین ہیں۔ ان سے تجاوز کی کوئی گنجایش نہیں۔ احادیث ،سند، تعبیر واطلاق کے لیے اصول حدیث کا لحاظ رکھنا لازم ہے۔ اسی طرح قرآن کے آسان اور مبین ہوتے ہوئے اس کی تفہیم وتشریح کے لیے لغت، تفسیر اور حدیث لازم ہیں۔ اب اگر چہل صاحب کا یہ خیال ہو جیسا کہ انہوں نے برسراجلاس یہ کہا کہ انہوں نے ایک آیت کو سمجھنے کے لیے باون انگریزی ڈرامے پڑھے ہیں، پھر اسی اجلاس میں انہوں نے تفہیم القرآن سنائے جانے کے خلاف احتجاج کیا اور سننے سے انکار کر دیا، اس طرح یہ واضح ہے کہ ان کے مطالعے کا شوق بے کراں ہونے کے باوجود ٹھوس علمی بنیاد سے خالی ہے۔ ہماری یہ حسرت ہے کہ ان کا شوق ٹھوس علمی بنیاد حاصل کر لیتا۔ کاش اس مکالمے کو شخصی کے بجائے علمی سطح پر چلنے دیا جاتا تو شاید اس سلسلہ میں فورم کوئی اچھی صورت پیدا کرنے میں اپنا حصہ ڈالتا۔
۶) سائل نے یہ شکایت بھی کی کہ چہل صاحب نے اپنا نقطہ نظر جس پیرایہ بیان میں پیش کیا ہے، و ہ فنی لحاظ سے ناقص اور اخلاقی طور پر فروتر ہے۔ اس پہلو سے جب دونوں تحریروں کو دیکھا جائے تو بہت افسوس ہوتا ہے کہ ایک پڑھا لکھا شخص، قرآن اور اقبال کے حوالوں سے بات کرنے والا، اپنا نقطہ نظر پیش کرنے میں ایسا غیر علمی انداز تحریر اختیار کرے۔ حوالہ کی خاطر ان کے چند جملوں کا ذکر کافی ہے۔ حرز، نصاب اور تزکیۃ الشہود کو چور نواز زنجیریں، دین وشریعت کے مطالعے میں عمریں کھپا دینے والوں پر بو لہبی کے مارے ہوئے فقہا، مادر زاد اندھے، قرآن کے نور سے نابلد، گدھے کی پیٹھ پر کتابوں کی کہاوت کا مصداق قرار دیں۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے معاون خصوصی ملک غلام علی، مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم کے صاحبزادہ مولانا تقی عثمانی اور پیر کرم شاہ کو جانے پہچانے روایتی اسلام کے ایک فرقے کے ترجمان قرار دیں۔ ان جملوں پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں۔ ہمارے منشا کو واضح کرنے کے لیے ان کا ذکر ہی کافی ہے۔
................

۸) اوپر درج تفصیلی جائزے کے بعد تجویز دی جاتی ہے کہ یہ قرار دیا جائے کہ محترم چہل صاحب نے واقعتا مسلمان کے بنیادی عقیدے کے خلاف تحریری وزبانی تبلیغ کر کے نہ صرف اپنے حلف رکنیت کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ حدود کے قوانین کے بارے میں بے بنیاد غلط فہمیاں پھیلانے کی کوششیں کی ہیں۔ کارروائی کے دوران جناب چہل صاحب اور جناب محمد سلیم کھوکھر صاحب نے جو طرز عمل اختیار کیا ہے، وہ نظم کی شدید خلاف ورزی ہے۔ ان حالات میں چہل صاحب کی رکنیت فوری طور پر معطل کر کے ان کے اخراج کی سفارش کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح چمن رشید صاحب کے استعفے کے بعد اور پہلے کے طرز عمل کے پیش نظر ان کے استعفے کی منظوری کی سفارش کر دینا ہی مناسب خیال کیا جاتا ہے۔ محمد سلیم کھوکھر صاحب کے طرز عمل کی تفصیلات اوپر درج کر دی گئی ہیں۔ ان کے رجوع کے پیش نظر، ان کے طرز عمل پر کوئی رائے دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ مزید برآں محترم جناب چوہدری سلیم محمود چہل صاحب کو قرارداد ہذا کی نقل فراہم کی جائے، ان کے لیے ایک ماہ کا موقع ہوگا کہ وہ ہماری قرارداد پر غور کر کے اپنے نقطہ نظر کو قرارداد کی روشنی میں تبدیل کر لیں، بصورت دیگر موجودہ قرارداد اخراج کی سفارش کی حد تک موثر ہو جائے گی۔
۹) جناب سلیم محمود چہل صاحب جماعت اسلامی کے رکن ہیں۔ ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس صورت حال سے نظم جماعت کو متوجہ کریں۔
۱۰) اس ساری صورت حال میں یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ ہمارے ہاں دوستوں کی ذہنی اور علمی سطح کو کافی زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ تنظیم کے لیے لازم ہے کہ اس کا اہتمام کرے۔ خاص طور پر حدیث رسول کی صحت، جمع وتدوین، حدود کے قوانین اور دین کے بنیادی اصولوں کے لحاظ سے ممبران کے لیے استفادے کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔
۱۱) اسلامی حدود پہلے ہی بعض سرکاری حلقوں کی جانب سے نشانہ پر ہیں۔ ہمارے اپنے ساتھیوں کی جانب سے ان پر چاند ماری سے ہماری تنظیم کی حیثیت مجروح ہوئی ہے۔ اس کی تلافی کے لیے مناسب اقدامات کرنے لازم ہیں۔
(مرتبہ وپیش کردہ: چوہدری محمد یوسف)

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترم جناب ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم
ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کا اگست ۲۰۰۴ء کا شمارہ وصول ہوا۔ بے حد شکریہ
آپ کا اداریہ ’’کلمہ حق‘‘ بے حد پسند آیا۔ دینی مدارس کے علمی وتحقیقی کام کو اجاگر کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں دور حاضر کے مسلمان معاشروں کے لیے ان مدارس نے جو مثبت کردار ادا کیا ہے، وہ بھی تجزیاتی مطالعے کا متقاضی ہے۔ مدارس نے بعض خدشات کے تحت ’’حفاظت دین‘‘ کی جو پالیسی اختیار کی تھی، اب بہت سے مدارس اس دور سے باہر نکل رہے ہیں۔ ضرورت ہے ان کی اس جدوجہد سے لوگوں کو روشناس کرایا جائے۔ بے حد خوشی ہوئی کہ آپ نے اپنے مقالے میں ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ ممکن ہو تو اس مقالے کو روزنامہ اخبارات میں بھی اشاعت کے لیے بھجوائیں۔
کبھی گوجرانوالہ آنا ہوا تو آپ سے شرف ملاقات کی کوشش بھی کروں گا۔
والسلام۔نیاز مند
محمد خالد مسعود
(چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان)

(۲)
مکرمی ومحترمی مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں نے اپنے گزشتہ خط میں جس تلخ نوائی کا اظہار کیا تھا، اس کا بنیادی مقصود آپ کو اپنے ان جذبات کے متعلق ذاتی طور پر آگاہ کرنا تھا جو میں حافظ عمار ناصر کے مذکورہ مقالہ کے متعلق محسوس کرتا ہوں، اسی لیے عام قارئین کی طرح خط کے آخر میں، میں نے اس کی اشاعت کی درخواست ہرگز نہیں کی تھی اور میں بجا طور پر یہ خیال کرتا تھا کہ کسی حد تک سخت تنقید پر مبنی اس خط کو قابل اشاعت نہیں سمجھا جائے گا۔ مگر اگست ۲۰۰۴ء کے ’الشریعہ‘ میں اس خط کو مدیر صاحب کی قینچی کے معمولی زخم کے بغیر من وعن شائع شدہ دیکھ کر مجھے جس قدر خوشگوار حیرت ہوئی، اس کا اظہار نہ کرنا بھی بخل کے مترادف سمجھتا ہوں۔ مجھے معلوم نہیں ہے کہ میں اسے آپ کی صحافیانہ وسعت ظرفی کے علاوہ آخر اور کیا نام دوں؟
مولانا محترم! مجھے آپ کی علمی رفاقت کا دعویٰ تو ہرگز نہیں ہے، البتہ اگر میں یہ کہوں کہ کچھ عرصہ تک مجھے آپ سے ’ہم کاری‘ کا شرف ضرور حاصل رہا تو شاید یہ بات حقیقت سے بعید نہ ہوگی۔ اسلامک ہیومن رائٹس فورم کے پلیٹ فارم پر مغرب کے انسانی ونسوانی حقوق کے ملحدانہ تصور سے لے کر قانون توہین رسالت کے تحفظ اور رد قادیانیت جیسے بہت سے موضوعات ہیں جن پر اس پلیٹ فارم پر ہونے والی مشترکہ جدوجہد میں راقم بھی آپ جیسے اہل علم حضرات کے ساتھ شریک کار رہا ہے۔ اس پس منظر کو سامنے رکھ کر جب سوچتا ہوں تو اسے محض اپنی بدقسمتی سمجھتا ہوں کہ مجھے ’مسجد اقصیٰ‘ کے متعلق ’الشریعہ‘ میں شائع ہونے والے مضامین پر اس شدت سے تنقید کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کاش کہ ہم فلسطین اور مسجد اقصیٰ کی تولیت اور حق ملکیت کے متعلق بھی وہ فکری اشتراک قائم رکھ سکتے جس کا اظہار دیگر متعدد موضوعات میں شامل حال رہا ہے۔
مولانا صاحب، مجھے یہ جان کر افسوس ہوا ہے کہ عزیزی حافظ عمار ناصر نے اپنے طویل مقالہ کو کتابی شکل میں شائع بھی کرا دیا ہے۔ کاش کہ وہ ایسا نہ کر پاتے۔ مجھے معلوم نہیں ہے کہ اس کتاب کی اشاعت سے ان کے علمی سفر کو کس قدر مہمیز ملے گی، مگر میں ایک بات یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس سے اس مشن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا جس کے لیے آپ نے زندگی بھر کاوش فرمائی ہے۔ مسجد اقصیٰ اور مسئلہ فلسطین جیسے امت مسلمہ کے حساس معاملات کے متعلق اس طرح کے متنازع فیہ اور قابل اعتراض مواد کی آپ جیسے علمی خانوادے کی طرف سے ایسی بے باکانہ اشاعت ہر اعتبار سے قابل افسوس ہے۔
مولانا محترم! ’الشریعہ‘ آپ کی ادارت میں شائع ہونے والا ایک علمی مجلہ ہے۔ اس میں شائع کیے جانے والے مضامین کے انتخاب کا آپ کو پورا حق ہے۔ مجھ جیسا کوئی بھی مضمون نگار ’الشریعہ‘ میں اپنے مضمون کی اشاعت کو اپنا حق قرار نہیں دے سکتا۔ اس کے باوجود بھی میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ ماہنامہ ’محدث‘ میں حافظ عمار ناصر کے مقالہ پر میری جو مفصل تنقید شائع ہوئی تھی، اسے آپ اگر ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں شائع فرما دیتے تو ’الشریعہ‘ کے قارئین کو شاید تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کا موقع بھی مل جاتا۔ اگرچہ حافظ عمار ناصر نے اپنی جانب سے میری چند معروضات کے متعلق نام لیے بغیر اپنی طرف سے وضاحتیں پیش کر دی تھیں، مگر یہ ’وضاحتیں‘ قاری کے ذہن میں اس تاثر کے ابلاغ کے لیے قطعی طور پر ناکافی ہیں جو ہم پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس موضوع پر کتاب شائع کرنے سے قبل اگر یہ مضمون ’الشریعہ‘ میں شائع کر دیا جاتا تو اس موضوع کے متعلق قارئین کو دونوں پہلو دیکھنے کا موقع میسر آجاتا اور شاید اس سے کسی حد تک توازن بھی قائم رہتا۔ اسی طرح ’میک موہن/حسین خط وکتابت‘ اور کنگ کرین کمیشن کی سفارشات جن کا تذکرہ الشریعہ کے اگست کے شمارے میں ڈاکٹر رضی الدین سید نے کیا ہے، کے متعلق تفصیلات کی اشاعت بھی ضروری تھی۔
مکرمی! ’دینی مدارس میں تحقیق وتصنیف کی صورت حال‘ کے عنوان سے ’الشریعہ‘ کا اداریہ بے حد فکر انگیز ہے۔ مجھے آپ کے تجزیہ سے مکمل اتفاق ہے۔ البتہ اس معاملے کے ایک پہلو پر آپ روشنی ڈالتے تو مناسب تھا۔ وہ یہ ہے کہ ہمارے دینی مدارس کو جس طرح کا مواد (Stuff) مل رہا ہے، اس سے کسی بلند پایہ تحقیق کی توقع رکھنا عبث ہے۔ دیوبند کے ابتدائی مدرسہ کو اگر اس طرح کا ہی مواد ملتا تو اس سے شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ ، مولانا اشرف علی تھانویؒ ، سید حسین احمد مدنیؒ ، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور مولانا انور شاہ کشمیریؒ جیسے نابغہ روزگار کا نکلنا شاید ممکن نہ ہوتا۔
میرا جی چاہتا ہے کہ میں ’الشریعہ‘ کے مضامین کے متعلق تفصیل سے اظہار خیال کروں، مگر اس کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔ آج صرف شیعہ عالم جناب کلب صادق کے خیالات پر مبنی مضمون پر مختصر تبصرہ پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ موصوف نے ’علما‘ اور ’ملا‘ کی جو خود ساختہ تعریف فرمائی ہے، وہ قابل عمل نہیں ہے۔ شیعہ سنی اتحاد کے متعلق ان کے نظریات قابل تعریف ہیں، مگر انہیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جب تک اثنا عشری شیعہ حضرات ملا باقر صدر جیسے متعصب شیعہ علما کے خیالات سے براء ت کا اظہار نہیں کرتے، اس وقت تک شیعہ سنی اتحاد کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔ اگر اہل تشیع خلفاے راشدین کے متعلق محض ’تفضیل‘ تک محدود رہتے اور ’تسبیب‘ سے باز رہتے تو شیعہ اور سنی فرقوں کے درمیان اختلاف کی وہ صورتیں کبھی رونما نہ ہوتیں جو آج ہم دیکھتے ہیں۔ اس رائے کے باوجود شیعہ سنی فسادات کے خاتمہ کے لیے کی جانے والی ہر کوشش کو قابل تعریف سمجھتا ہوں۔
حافظ عمار ناصر ابھی اہل شباب میں سے ہیں، مگر ان کی رائے سے شدید اختلاف کرنے کے باوجود ان کے اسلوب نگارش اور قلمی جمال کی تعریف بادل نخواستہ بھی کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ خدا کرے ان کا قلم امت کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی بجائے ان کی مرہم کاری کا ذریعہ بنے۔ انہوں نے اب تک اپنی خداداد تصنیفی استعداد کا جن موضوعات کے لیے استعمال کیا ہے، اسے نعمت خداداد کا کوئی اچھا مصرف کہنا ذرا مشکل ہے۔
آخر میں، میں آپ کی خدمت میں چار سدہ سے شائع ہونے والے ایک مجلہ کے مدیر صاحب کا خط ارسال کر رہا ہوں جو اس نے ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں میرا خط پڑھ کر مجھے تحریر کیا ہے۔ میری ان صاحب سے ذاتی شناسائی ہے اور نہ میں نے ان کے میگزین کے اس شمارے کے علاوہ کچھ دیکھا ہے جو انہوں نے مجھے ارسال کیا ہے۔ نجانے کتنے ایسے صاحبان علم ہیں جن کے خیالات آپ تک نہیں پہنچ پاتے۔
والسلام
دعاؤں کاطالب
محمد عطاء اللہ صدیقی
۹۹۔جے، ماڈل ٹاؤن، لاہور

(۳)
محترم جناب محمد عطاء اللہ صدیقی صاحب
السلام علیکم
امید ہے بخیریت وعافیت ہوں گے۔
’الشریعہ‘ کے گزشتہ ایک شمارہ میں مولانا عمار ناصر کا بے سروپا دلائل پر مبنی مسجد اقصیٰ کی تاریخ کا مقابلہ پڑھا جس میں مسجد اقصیٰ کو اسرائیل کی جھولی میں پھینکنے کے لیے عمار خان ناصر کے قلم نے خوب زور لگایا تھا جس پر کچھ لکھنے کا خیال تھا مگر دار العلوم کے شش ماہی امتحانات اور دیگر مصروفیات کی وجہ سے تاخیر ہوتی جا رہی تھی کہ گزشتہ شمارہ الشریعہ میں حقیقت پر مبنی آپ کا مدلل تنقیدی جواب پڑھا۔ دل خوشی سے لبریز ہوا کہ حق لکھنے والوں کی کمی نہیں، ورنہ عمار خان کی داد کے لیے بہت سے خطوط الشریعہ کے صفحات پر نظروں سے گزرے۔ آپ کی بے باک لکھائی اور حق وصداقت پر مبنی تحریر سے سخت متاثر ہوا، اس لیے آپ سے رابطہ کر کے اپنے دار العلوم کا رسالہ جاری کیا۔ امید ہے قبول فرمائیں گے۔
’مصباح الاسلام‘ آپ کا اپنا پرچہ ہے۔ آپ اس کے لیے مضامین ارسال کرتے رہیں تو یہ ہمارے لیے بڑا اعزاز ہوگا۔ علاوہ ازیں رسالہ پڑھنے کے بعد مفید آرا اور تاثرات پر مبنی تحریر روانہ کریں تاکہ اہل ادارت کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔واجرکم علی اللہ
دعاؤں میں یاد رکھیں۔
والسلام
سید عنایت اللہ شاہ ہاشمی
مدیر اعلیٰ مصباح الاسلام چارسدہ

(۴)
18-08-2004
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بگرامی خدمت محترم علامہ زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مزاج گرامی؟
جس درد مندی کے ساتھ آپ اسلامی تعلیمات، عقائد واقدار کے تحفظ اور فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں، وہ لائق صد احترام ہے۔ آپ کے مضامین شمارہ جون، جولائی ۲۰۰۴ء پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ’’اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور ہمارے دینی مراکز کی ذمہ داری‘‘ میں آپ نے انتہائی جامع اور خوب صورت انداز میں دینی مدارس کو بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح ’’جدید معاشرے میں مذہبی طبقات کے کردار‘‘ میں بھی آپ نے مذہبی تنظیموں کے انتہا پسندانہ، فرقہ وارانہ اور شدت پسندانہ رجحانات کی مذمت کر کے اعلیٰ خدمت انجام دی ہے۔
شمارہ جون ۲۰۰۴ء میں محترم پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب کے دونوں مضامین بھی اعلیٰ تحقیقی کاوش کا خوب صورت نمونہ ہیں۔ اپنے مضمون ’’SDPI کی رپورٹ کا ایک جائزہ‘‘ میں محترم پروفیسر صاحب نے مکمل غیر جانب داری برتتے ہوئے نہایت مدلل اور خوب صورت انداز میں مذکورہ رپورٹ کے مثبت اور منفی پہلو اجاگر کیے ہیں۔ ’’دین اسلام کی معاشرتی ترویج میں آرٹ کی اہمیت‘‘ لکھ کر پروفیسر صاحب نے فکر وعمل اور شعور وآگہی کے ایسے در وا کرنے کی کوشش کی ہے جس سے ہمارا ’’مذہبی طبقہ‘‘ ناآشنا ہے۔ جس طرح جھوٹ کو بنیادی قباحت قرار دے کر انہوں نے اس کے سماجی، معاشرتی اثرات کو واضح کیا ہے، کیا ہمارا مذہبی طبقہ اس کا ادراک رکھتا ہے؟امت کو تقسیم کر کے ٹولیوں میں بانٹنے اور کافر کافر کی مہم میں ایک دوسرے کی گردن کاٹنے کی اپروچ (Approach) کو جس طرح ہمارے مذہبی طبقے نے رائج کر رکھا ہے، اس سوچ وانداز فکر کو واضح کرنے کے لیے کیا پروفیسر صاحب ’’ابلیسیت زدہ‘‘ دینی ادراک کا لفظ استعمال کر کے کچھ غلط کہہ گئے ہیں؟ اسلام کے ’اجتماعیت‘ کے تصور کی نفی کرنے والے کیا اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ کے بلاشرکت غیرے مستحق نہیں ہیں؟ ہمارے مذہبی سکالرز کب تک اپنی بد صورتی کا الزام آئینے کو دیتے رہیں گے؟ 
تحریر اور تقریر میں ہمیں وہ انداز اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو عامۃ الناس کے شعور تک رسائی حاصل کرے، نہ کہ محض جذباتی بلیک میلنگ کے ذریعے مخصوص مفادات مقصود ہوں۔ مگر ہمارا مذہبی طبقہ مکمل سنجیدگی کے ساتھ اس حقیقت کو سمجھتا ہے کہ معاشرے کو باہمی اتحاد اور اخوت ومساوات کا درس دینے سے ان کے انتہائی ذاتی مفادات پر ضرب آتی ہے۔ اس لیے کون سی امت اور کیسا اتحاد؟ کیا ہمارا مذہبی طبقہ دل پر ہاتھ رکھ کر بتا سکتا ہے کہ اس نے دین اسلام کے ذریعے امت کو جوڑنے کا کتنا کام کیا ہے؟ کیا وہ اجتماعیت کے تصور کی نشوونما کا دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں ہے؟
محترم پروفیسر صاحب خود بھی ایک اعلیٰ علمی وادبی اور مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ علماے حق کی ان کوششوں اور خدمات کے بھی معترف ہیں جو وہ برصغیر پاک وہند میں دین اسلام کی اشاعت اور فروغ کے لیے انجام دے چکے ہیں یا دے رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب اور دوسرے بہت سے اہل شعور کا مخاطب وہ مخصوص گروہ ہیں جو اسلام کے نام پر ذاتی خواہشات اور مفادات کا مکروہ دھندا کر رہے ہیں، جن کا وجود فرقہ پرستی، تعصب، باہمی نفرت اور عدم مساوات سے قائم ہے۔
مولانا محمد یوسف اور جناب محمد احسن ندیم اپنے تنقیدی مضامین میں پروفیسر صاحب کے انتہائی جامع اور مدلل مقالے کا مکمل احاطہ کرنے سے قاصر رہے۔ البتہ ’فقیہ اور عالم‘ کی وضاحت مفصل ہے۔ وہ ’فقیہ اور عالم‘ کی رائج اور عام فہم تشریح کے بجائے ان الفاظ کے لغوی اور لفظی معنوں میں الجھ کر باقی ماندہ مضمون کی افادیت کو نظر انداز کر گئے۔ مولانا محمد یوسف نے گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کے ایک واقعہ کو بنیاد بنا کر اس کو سبھی علمی اداروں کے اخلاقی زوال کا نام دینے کی سعی لاحاصل کی ہے۔ اس میں وہ کالج اور مدرسہ کا باہم تقابل کرتے نظر آتے ہیں، حالانکہ پروفیسر صاحب کے مضمون میں اشارۃً بھی ایسا رویہ نظر نہیں آتا۔
اسی مضمون میں ایک جگہ پر مولانا محمد یوسف نے نہایت بے باکی سے مذہبی طبقہ کی کمزوریوں کو تسلیم بھی کیا ہے۔ مولانا صاحب ’’اجتہاد‘‘ کے حوالے سے فرماتے ہیں:
’’اس بات کا اعتراف کرنے میں ہمیں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ ا س حوالے سے مذہبی طبقوں کی کارکردگی ادھوری اور ناقص ہے۔ آج بالفرض حکومت وریاست اور معاشرے کے تمام امور کی باگ ڈور مذہبی طبقے کو سونپ دی جائے تو ان کا علمی وفکری ہوم ورک اس درجے کا نہیں کہ دنوں، ہفتوں یا مہینوں میں صورت حال کو بدل ڈالیں۔‘‘
مولانا صاحب کا یہ اعتراف حقیقت دراصل پروفیسر صاحب کے مضمون کا خلاصہ ہے۔ پروفیسر انعام الرحمن صاحب نے اسلام کی ترویج کے لیے آرٹ کے حوالے سے جن نکات کی نشان دہی کی ہے، اہل فکر کو ان نکات پر سنجیدہ بحث کا آغاز کرنا چاہیے تاکہ تحقیق ورہنمائی کے چند مزید غنچے کھل سکیں۔
والسلام۔ مخلص
خالد منظور راجہ
گجرات

(۵)
محترم مولانا عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مزاج گرامی؟
فضلاے درس نظامی کے لیے ایک سالہ کورس کی اختتامی تقریب میں شرکت کے لیے آپ کا ارسال کردہ دعوت نامہ موصول ہوا۔ یاد آوری کا شکریہ، لیکن میں بعض وجوہ سے تقریب میں شامل نہ ہو سکا جس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ ان شاء اللہ کسی دوسرے موقع پر آپ حضرات سے ملاقات کے لیے حاضر ہو جاؤں گا۔
ماہنامہ ’الشریعہ‘ باقاعدگی سے موصول ہوتا ہے۔ تازہ شمارے میں جہاد کے حوالے سے استاذ گرامی کا اور ’’آئیے اپنا کتبہ خود لکھیں‘‘ کے زیر عنوان پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب کا مضمون بہت پسند آیا۔ میاں صاحب نے معاشرتی اور تمدنی زندگی میں شعور وآگہی کے فروغ اور ضرورت پر جو رائے اور تاثرات بیان کیے ہیں، وہ نہایت قابل قدر اور لائق احترام ہیں اور موثر انداز میں قارئین کو شعور وآگہی کی وادی میں داخل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ استاذ گرامی مولانا زاہد الراشدی نے اپنے مضمون میں مغربی دنیا اور اس کے ہم نواؤں کی طرف سے جہاد پر کیے جانے والے اعتراضات کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے اور انہی کے اپنے فکر وفلسفہ کی روشنی میں جواب دیا ہے کہ جب آپ اپنی فکر اور تہذیب وثقافت کے فروغ کے لیے طاقت کے استعمال کو جائز مانتے ہیں اور اس کا عملی مظاہرہ بھی کر رہے ہیں تو اسلامی فکر وتہذیب کی بالادستی کے لیے جہاد پر آپ کا اعتراض بے جا ہے۔ 
میری طرف سے تمام حضرات کی خدمت میں سلام اور دعا کی درخواست ہے۔
(مولانا) عبد الحمید 
چار سدہ
14/09/04

(۶)
محترم جناب مدیر صاحب ماہنامہ ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم! آپ کے موقر رسالہ کے جون ۲۰۰۴ کے شمارے میں پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب کا مضمون ’’دین اسلام کی معاشرتی ترویج میں آرٹ کی اہمیت‘‘ شائع ہوا ہے۔ ’الشریعہ‘ جیسے دینی اور علمی وفکری جریدے میں اس مضمون کا شائع ہونا ایک لمحہ فکریہ ہے۔ افسوس در افسوس کہ مضمون نگار کے نزدیک مسلمان علما اور خاص طور پر فقہا ابلیسیت زدہ ہو چکے ہیں۔ ان کا دینی ادراک کو اس خطاب سے مرصع کرنا، مساجد کی اساس کو بھی اسی زمرہ میں شمار کرنا اور تصور خاتمیت کو عجیب انداز سے فقہ کے متصادم ٹھہرانا یہ سب کچھ اس بات کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہر فن کا ماہر سمجھتے ہیں، حالانکہ ایں خیال است ومحال است وجنوں۔ مسلمان ہو کر اور علما سے وابستہ ہو کر اور خاص کر شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت فیوضہم اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی صاحب دامت برکاتہم جیسے بزرگوں کی سرپرستی میں شائع ہونے والے رسالے میں اس طرح کا مضمون لکھنا جس میں ۱۴ سو سالہ تاریخ اور مذہبی روایت کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی گئی ہو، بہت ہی شنیع فعل ہے۔ ایسے رسالہ میں اس طرح کے مضمون کا شائع ہونا ہی نہایت تعجب خیز ہے۔ باقی اللہ تعالیٰ سمجھ بوجھ عطا فرمائے اور اکابر سے صحیح سمت پر تعلق استوار رکھنے کی توفیق اور اہل علم وفقہ کی قدر دانی نصیب فرمائے۔ آمین
دعا جو۔ بندہ محمد رفیق غفرلہ
مدرس مدینۃ العلوم ،مقام حیات ،سرگودھا

بین المذاہب کانفرنس برائے عالمی امن و عدل اجتماعی

پروفیسر حافظ منیر احمد

جون ۲۰۰۴ میں اوسلو (ناروے) میں پہلی بین المذاہب کانفرنس منعقد ہوئی جس میں گورنمنٹ آف ناروے اور نارویجن چرچ کی دعوت پر مولانا محمد حنیف جالندھری (جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان) کی قیادت میں پاکستان کے مقتدر مسیحی ومسلم مذہبی راہنماؤں کے ایک وفد نے شرکت کی۔ وفد کے دیگر ارکان میں مولانا مفتی منیب الرحمن (چیئرمین مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی)، مولانا فضل الرحیم (نائب مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور)، مولانا ریاض حسین نجفی (نائب صدر وفاق المدارس الشیعہ پاکستان)، بشپ سموئیل عزرایاہ، مولانا عبد المالک (ایم این اے)، مولانا عبید اللہ خالد، محمد سعید اختر اور ڈاکٹر مانو رمل شاہ شامل تھے۔
اس کانفرنس کا مقصد مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان امن اور ہم آہنگی کی فضا کا فروغ تھا اور اس حوالے سے یہ کانفرنس امید کی ایک کرن ثابت ہوئی۔ کانفرنس کے ایجنڈے میں دنیا میں امن اور مذہبی ہم آہنگی کا فروغ، تشدد کا خاتمہ، جنگ اور دہشت گردی سے نجات، تحمل وبردباری اور انسانیت کا احیا جیسے موضوعات شامل تھے۔ کانفرنس میں موضوع سے متعلق مختلف مسائل پر بحث مباحثہ ہوا اور ایسے اقدامات پر غور وفکر کیا گیا جن سے دنیا میں امن اور ترقی کا دور دوبارہ شروع ہو سکے۔ ناروے کی حکومت، چرچ آف ناروے اور ناروے کی مقامی مسلم کمیونٹی نے مذہبی گروہوں کے درمیان اتحاد ویگانگت کی فضا پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کانفرنس میں مقررین نے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے قائدین سے گزارش کی کہ وہ انسانی معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی اور امن کے فروغ کے لیے مشترکہ طور پر کوشش کریں اور اس ضمن میں نمایاں کردار ادا کریں۔ کانفرنس کے شرکا کی طرف سے مشترکہ طور پر جاری کردہ اعلامیہ میں پوری دنیا کی اقوام سے اپیل کی گئی کہ وہ ایک دوسرے کی مذہبی آزادیوں میں عدم مداخلت کی پالیسی اختیار کریں۔ نیز اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ مختلف مذاہب کے لوگ دنیا کو امن اور انسانی عظمت کا گہوارہ بنائیں گے اور مختلف ثقافتوں کے تصادم کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ علاوہ ازیں اس بات پر زور دیا گیا کہ اس معاملے میں بنیادی کردار مذہب کا ہونا چاہیے کیونکہ ہر مذہب امن کا داعی ہے۔
’’اعلان اوسلو‘‘ کے تحت پاکستان میں بھی ورلڈ کونسل آف ریلیجنز برائے عالمی امن وعدل اجتماعی کے زیر اہتمام ۱۶ ستمبر ۲۰۰۴ء کو نیشنل لائبریری ہال اسلام آباد میں پہلی بین المذاہب کانفرنس کے انعقاد عمل میں لایا گیا۔
کانفرنس کی پہلی نشست کی صدارت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر جناب جنرل پرویز مشرف نے کی۔ کانفرنس کے داعی مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا جس میں انہوں نے کہا کہ آج کا دن ایک تاریخی دن ہے جس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے پاکستانی راہنماؤں کے علاوہ بہت سے غیر ملکی مندوبین بھی اس فورم پر اکٹھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ کانفرنس اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے کہ مذہب فساد کی وجہ نہیں بلکہ امن کا ضامن ہے۔ انھوں نے کانفرنس کے انعقاد کے مقاصد کو واضح کرتے ہوئے امن ومحبت کے فروغ کے لیے اپنی اور اپنے رفقا کی جانب سے کوششوں کو تیز تر کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے مدارس کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے افراد معاشرے کی اصلاح کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دین اور مذہب کا دہشت گردی سے کوئی واسطہ نہیں اور ہم سب مل کر دہشت گردی کے خلاف کام کریں گے۔ انہوں نے اعلان اوسلو میں کیے جانے والے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم پوری دنیا کو امن وسکون کا گہوارہ بنانے اور انتقام اور نفرت کی فضا کو ختم کرنے کے لیے اپنی بساط بھر کوشش کریں گے۔
بشپ آف رائے ونڈ جناب سیموئیل عزرایاہ نے مختلف مذاہب بالخصوص مسلمانوں اور مسیحیوں کے مابین تعلقات کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں مختلف مذاہب کے لوگ نہ بستے ہوں کیونکہ دنیا ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام الہامی مذاہب پیار اور محبت کا درس دیتے ہیں اور اس حوالے سے آج معاشرے میں امن اور انصاف کا بول بالا کرنے کے لیے اہل مذہب کا کردار نہایت اہمیت کا حامل بن جاتا ہے۔ انہوں نے کانفرنس کے انعقاد کے لیے مولانا محمد حنیف جالندھری اور ان کے ساتھیوں کی کوششوں کی تعریف کی۔
وفاق المدارس الشیعہ کے راہنما الحاج جناب ریاض حسین نجفی نے کہا کہ دوسرے مذاہب کے بارے میں قرآن کی پالیسی امن کی پالیسی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن مجید میں مسیحیوں کو مسلمانوں کے سب سے زیادہ قریب اور ان کا ہمدرد بتایا گیا ہے اور اس کی وجہ کے طور پر ان کے تین اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ عالم ہیں، دوسرے یہ کہ وہ عبادت گزار ہیں، اور تیسرے یہ کہ وہ تکبر نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ بین المذاہب مکالمے کے بانی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنھوں نے چودہ سو سال پہلے اس روایت کی بنیاد ڈالی۔
بشپ آف پشاور جناب ڈاکٹر مانو رمل شاہ نے کہا کہ مساوات اور یکسانیت کا پیغام اسلام اور مسیحیت کا مشترکہ پیغام ہے اور اسی وجہ سے ان دونوں مذاہب کو جنوبی ایشیا کے ماحول میں قدم جمانے کا موقع ملا۔ انہوں نے کہا کہ انسانیت کو بچانے کے لیے اسے خدا کی قربت کا پیغام دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ تشدد انسانیت کے خلاف جبکہ دوسروں کے لیے جینا ہی اصل انسانیت ہے۔
جسٹس (ریٹائرڈ) مولانا محمد تقی عثمانی نے Islamic Vision of Peace (اسلام کا تصور امن) کے زیر عنوان اپنے تحریری مقالے کا خلاصہ حاضرین کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے کانفرنس کے انعقاد پر منتظمین کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے کے حوالے سے یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ آپس میں ایک دوسرے سے ملتے وقت ’السلام علیکم‘ اور ’وعلیکم السلام‘ کے الفاظ سے ایک دوسرے کو سلامتی اور امن کی دعا دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ بعض غیر ذمہ دار حلقوں کی جانب سے جہالت یا تعصب کی بنا پر مسلمانوں کی غلط تصویر کشی کی جا رہی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جبر وتشدد کے خلاف اور قیام امن کے لیے کیے جانے والے تاریخی معاہدے ’’حلف الفضول‘‘ میں شریک ہوئے تھے اور آپ نے اس کے بارے میں فرمایا تھا کہ اگر اس جیسے اور معاہدے ہوں تو ان میں بھی شرکت کروں گا۔ اسلام تو مکالمہ اور امن معاہدوں کا داعی ہے اور اپنے ماننے والوں کو تلقین کرتا ہے کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں کیونکہ اس کے بارے میں ان سے باز پرس ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے مذاہب کے ساتھ انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے تعاون کرنا اسلامی تعلیمات کا ایک اہم اصول ہے جس کو قرآن مجید نے ’وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان‘ (نیکی اور تقویٰ کے کاموں پر ایک دوسرے سے تعاون کرو لیکن گناہ اور زیادتی کے کاموں پر تعاون نہ کرو) کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام برداشت اور رواداری کا درس دیتا ہے اور آج ’’حلف الفضول‘‘ کی طرح کے معاہدوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاد اسلام کا ایک لازمی فریضہ ہے لیکن اسلام کا تصور جہاد یورپ کے جنگی نقطہ نظر سے یکسر مختلف ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسلام نے جنگی طریقوں اور قوانین میں بہت سی اصلاحات متعارف کروائیں۔ مثلاً اسلام سے پہلے لاشوں کو مسخ کرنے، عبادت گاہوں کو مسمار کرنے، مذہبی راہنماؤں اور عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے اور فصلوں اور کھیتوں کو اجاڑنے کا طریقہ رائج تھا، لیکن اسلام نے سختی سے ان باتوں سے ممانعت کر دی اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لشکر اسامہ کو روانہ کرتے وقت انھیں ان باتوں کی سختی سے تلقین کی۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے اور انسانیت کو امن کا پیغام دینے کے لیے ہمیں جہالت اور غربت کو دور کرنا ہوگا، لوگوں کو ان کے حقوق دینا ہوں گے اور جبر وتشدد کی پالیسی کو ترک کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کے بغیر کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا، اس لیے بڑی اقوام پس ماندہ اقوام کا استحصال بند کر دیں۔ اس کے بغیر دہشت گردی کے خاتمے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی۔
مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ آج دنیا میں انسانیت کو اپنے حقیر مقاصد کے لیے نشانہ بنانے والے لوگ ہر جگہ موجود ہیں لیکن ان کی کارروائیوں کو کسی خاص مذہب سے منسوب کرنا درست نہیں۔ انھوں نے کہا کہ جس طرح اوکلا ہاما بم دھماکوں اور آئر لینڈ اور سری لنکا کے خود کش حملوں کا ذمہ داری مسیحی یا ہندو مذہب کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا، اسی طرح گیارہ ستمبر کے واقعات کے ذمہ داروں کو بھی اسلام کے ساتھ نتھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تمام لوگ انسانیت کے یکساں دشمن ہیں۔ مذہب تو بھٹکی ہوئی اور تباہی کے راستے پر گامزن انسانیت کو فلاح وکامرانی کی منزل سے آشنا کرتا ہے اور آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے، عدالت ظالم کا قانونی ہتھیار بننے کے بجائے مظلوم کی جائے پناہ ثابت ہوں اور انسان دوسرے انسانوں سے نفرت کرنے کے بجائے ان سے پیار کریں تو ہمیں مذہب کی طرف واپس آنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ آج تمام الہامی مذاہب کے ماننے والوں کو ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر انسانیت کو ظلم، کرب، بے انصافی، محرومی، بے بسی اور بے توقیری کے عذاب سے نجات دلانے کے لیے مشترکہ طور پر جدوجہد کرنے کا عزم کرنا ہوگا۔
حکومت ناروے کے نمائندے جناب تورے بیان بورے نے وزیر اعظم ناروے کا پیغام کانفرنس میں پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ آج تمام مذاہب کو برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے موثر حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ کسی بھی مذہب کی تعلیمات کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ پیغام میں چرچ آف ناروے اور پاکستان کے مذہبی راہ نماؤں کی کوششوں کو سراہا گیا اور یہ توقع ظاہر کی گئی کہ اعلان اوسلو کی طرح اعلان اسلام آباد بھی انسانیت کے لیے امن اور اخوت کا پیغام پھیلانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے صدارتی خطاب میں اس کانفرنس کے انعقاد کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ مختلف مذاہب کے مابین مکالمے کے لیے ایک ایسے فورم کی تشکیل بے حد مثبت قدم ہے جہاں سب لوگ اپنے تنازعات اور مسائل پر اظہار خیال کرسکیں۔ انھوں نے چرچ آف ناروے، حکومت ناروے اور عالمی کونسل برائے مذاہب کے منتظمین کی مساعی کو اس حوالے سے ایک اہم پیش رفت قرار دیا۔ جنرل مشرف نے دنیا میں پائے جانے والے اضطراب اور بے چینی کی اصل وجوہات کو تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ انھوں نے کہا کہ آج دنیا کو تہذیب، امن اور قوموں کے باہمی تنازعات کے حوالے سے مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت دنیا میں دو غلط فہمیاں فروغ پا رہی ہیں۔ مغرب یہ سمجھ رہا ہے کہ اسلام عسکریت پسندی، دہشت گردی اور تشدد کا مذہب ہے حالانکہ یہ مفروضہ بالکل غلط ہے۔ اسی طرح عالم اسلام میں یہ سوچ موجود ہے کہ مغرب کی طرف سے اسلام کو بطور ایک مذہب کے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ دونوں تصورات غلط فہمی پر مبنی ہیں اور بے چینی اور اضطراب کی اصل وجہ اسلام نہیں بلکہ سیاسی اور معاشی محرومی ہے۔ چونکہ بیشتر سیاسی تنازعات میں دوسرا فریق مسلمان ہیں جن میں سے کچھ لوگ تشدد کے غلط راستے پر چل پڑے ہیں، اس لیے مسلمانوں کے بارے میں عمومی طور پر ایک منفی فضا پیدا ہو گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام امن، انصاف، برابری، تحمل، برداشت اور دوسروں کے حقوق کا تحفظ کرنے والا مذہب ہے اور دہشت گردی، خود کش حملے اور انتہا پسندی قطعی طور پر غیر اسلامی افعال ہیں۔ صدر نے کہا کہ اگرچہ پاکستان میں ایک طرف بنیاد پرستی اور قدامت پسندی اور دوسری طرف ضرورت سے زیادہ جدت پسندی کی دو انتہائیں موجود ہیں لیکن یہاں کے لوگوں کی بہت بڑی اکثریت مذہبی ہے لیکن اس کے ساتھ وہ اعتدال پسند اور ترقی پسند ہے۔ صدر نے کہا کہ بعض انتہا پسند مذہبی گروہوں نے سپاہ اور لشکر اور جیش کے ناموں سے تنظیمیں بنا رکھی تھیں اور وہ اپنے خیالات زبردستی لوگوں پر ٹھونسنا چاہتے تھے جو کہ بالکل ناقابل قبول ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی ایک ہی سپاہ، ایک ہی جیش اور ایک ہی لشکر ہے جو کہ پاکستان کی مسلح افواج ہیں۔ اس کے علاوہ ہم کسی دوسری سپاہ یا جیش کا وجود برداشت نہیں کریں گے۔
صدر نے او آئی سی کی تنظیم نو کے عمل کو تیز کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ مسلم ممالک کو اقتصادی اور سماجی طور پر ترقی کرنا ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس وقت مسلمانوں کے سیاسی تنازعات کو حل کرانے کی طاقت اور صلاحیت صرف امریکہ کے پاس ہے جو دنیا کی واحد سپر پاور ہے اور جب ہم عدل اور انصاف کی بات کرتے ہیں تو ہمیں افغانستان اور عراق وغیرہ میں امریکہ کے منفی کردار پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ امریکہ نے ہی بوسنیا اور کوسوو کے مسلمانوں کو مسیحی سربوں کے ظلم وستم سے بچایا تھا۔ دینی مدارس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ پہلے میں بھی ان مدارس کے بار ے میں بہت سے خدشات کا شکار تھا مگر مدارس کے لوگوں سے ملنے کے بعد میرے ذہن میں تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ دینی مدارس ہمارے ملک کی سب سے بڑی این جی او ہیں جو لاکھوں طلبہ کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مدارس اپنے آپ کو صرف مذہبی تعلیم تک محدود رکھنے کے بجائے جدید تعلیم کو بھی نصاب کا حصہ بنائیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ دینی مدارس کو مین سٹریم میں لانے کے لیے ان کے باصلاحیت طلبہ کو سکالر شپس دی جائیں گی تا کہ وہ مختلف شعبوں میں آگے بڑھیں اور ملک وقوم کی خدمت انجام دیں۔ اسی طرح مختلف سطحوں پر کھیلوں کے مقابلوں میں بھی مدارس کے طلبہ کو شریک کرنے کے لیے ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ 
صدر نے کہا کہ دنیا کے تمام ممالک کے مذاہب اور ثقافتوں کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ بین المذاہب مکالمہ کا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے اور عالمی کونسل برائے مذاہب کو چاہیے کہ وہ اپنے دائرۂ کار کو وسیع تر کرے اورانسانی معاشرے کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے اپنا کردار مزید سرگرمی سے ادا کرے۔
کانفرنس کی دوسری اور اختتامی نشست کی صدارت گورنر پنجاب لیفٹننٹ (ر) جنرل خالد مقبول نے کی جبکہ مہمان خصوصی وفاقی وزیر مذہبی امور جناب اعجاز الحق تھے۔ اس نشست سے خطاب کرتے ہوئے روزنامہ وفاق کے ایڈیٹر جناب مصطفی صادق نے مولانا محمد حنیف جالندھری اور مولانا فضل الرحیم کی صلاحیتوں اور کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا اور ان سے وابستہ نیک توقعات کا اظہار کیا۔
دار العلوم کراچی کے مہتمم مولانا مفتی رفیع عثمانی نے کہا کہ مذاہب عالم کے مابین نقطہ اتحاد اللہ پر ایمان ہے اور مذہب کا راستہ انسان کو کائنات کے خالق ومالک سے ملاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تمام مذاہب کو مل کر انسانیت کو اس ظلم اور نا انصافی سے نجات دلانے کی کوشش کرنی چاہیے جس سے آج ہم دوچار ہیں۔
شیعہ راہنما علامہ سید رضی جعفری نے کہا کہ مسلمانوں اور مسیحیوں کے مابین اسلام کے ابتدائی زمانے سے ہی اچھے تعلقات کی مثالیں موجود ہیں اور مسلمانوں نے مکہ کے کفار کے ظلم وستم سے بچنے کے لیے پہلی ہجرت حبشہ ہی کی طرف کی تھی جہاں کے نیک دل مسیحی بادشاہ نے انھیں پناہ اور تحفظ فراہم کیا۔
گورنر پنجاب جناب خالد مقبول نے اپنی تقریر میں کہا کہ اسلام اور قرآن تمام آسمانی مذاہب کے تسلسل کی تائید وتصدیق کرتا ہے ۔ اسلام انسانی عظمت پر یقین رکھتا ہے اور جو انسان عظمت آدمیت پر یقین نہیں رکھتا، اس کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اسلام کی روشن خیالی کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ حضرت عمرؓ کے دور میں مسیحیوں کی نئی عبادت گاہیں تعمیر ہوئیں اور عباسیوں کے عہد میں چار سو نئے چرچ بنے۔ انھوں نے کہا کہ کسی زمانے میں مسلمان فلکیات، طب، کیمیا اور طبیعیات کے میدانوں میں دنیا کی قیادت کرتے تھے جبکہ آج ہمارے پاس اسلاف کی روایات کی پامالی کے علاوہ کچھ نہیں اور اسی وجہ سے ہم دنیا کی قوموں سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ سائنسی علوم میں پس ماندگی ہمارے بیشتر مسائل کی جڑ ہے۔ انھوں نے کہا کہ بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد ایک اچھی پیش رفت ہے جس کے لیے دینی مدارس کی قیادت مبارک باد کی مستحق ہے۔ 
کانفرنس کی اختتامی نشست میں پشاور یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف سوشیالوجی کی سربراہ ڈاکٹر سائرہ صفدر اور مولانا غلام دستگیر افغانی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کانفرنس کے آخر میں وفاقی وزیر مذہبی امور جناب اعجاز الحق نے عالمی کونسل برائے مذاہب کو اس بات کی یقین دہائی کرائی کہ مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے سلسلے میں حکومت کی طرف سے ان کی ہر کوشش کا خیر مقدم کیا جائے گا اور دینی مدارس کے بارے میں کوئی ایسی پالیسی نہیں بنائی جائے گی جس سے تمام مکاتب فکر کے وفاق مطمئن نہ ہوں۔ 
عالمی کونسل برائے مذاہب کی طرف سے اس موقع پر ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
  • ہم عالمی کونسل برائے مذاہب کے فورم سے ہر مذہب، ہر عقیدے، ہر قوم اور ہر معاشرے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ امن اور انصاف کے فروغ کے لیے کام کریں اور اس سلسلے میں اپنے تمام وسائل بروئے کار لائیں۔
  • ہم معصوم لوگوں، خصوصاً بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہیں۔
  • انسانوں پر ظلم وستم بند ہونا چاہیے اور پوری دنیا میں قیدیوں کے ساتھ جو غیر انسانی اور غیر اخلاقی سلوک ہو رہا ہے، اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
  • ہم حکومتوں اور ہر قسم کی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مذہبی عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کو حملوں کا نشانہ نہ بنائیں۔
  • ہمیں انسانی فلاح وبہبود کی خاطر منشیات، جہالت اور غربت کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔
  • ہمیں تمام اقلیتوں کا احترام کرنا ہوگا اور ان کو مساوی حقوق دینے ہوں گے۔

بین المذاہب کانفرنس : چند تاثرات

پروفیسر میاں انعام الرحمن

اس وقت کی دنیا میں بدامنی اور نا انصافی کا چال چلن ہے اور مختلف مفاداتی گروہ اپنے منفی مقاصد کے حصول کے لیے تشدد ، جبر اور ظلم و ستم کی راہ اپناتے ہوئے ان مقا صد کے گرد الہیاتی تقدس کا لبادہ لپیٹ رہے ہیں۔ اکیسویں صدی کی دنیا میں مذہب کے نام پر تشدد اور ظلم وستم کے بڑھتے ہوئے اسی رجحان کو بھانپتے ہوئے مذہبی حلقوں نے مذہب کی اصل ا سپرٹ کے فروغ کے لیے باہمی تعاون کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس سلسلے میں قاری محمد حنیف جالندھری اور بشپ آف رائے ونڈ کی کاوشوں سے ۱۶ ستمبر ۲۰۰۴ء کو نیشنل لائبریری اسلام آباد میں بین المذاہب کانفرنس برائے امن و عدل اجتماعی منعقد ہوئی ، جس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ۳۰۰ کے لگ بھگ ملکی و غیر ملکی مندوبین نے شرکت کی۔ کانفرنس کے پہلے سیشن کی صدارت جناب جنرل پرویز مشرف اور دوسرے سیشن کی صدارت جناب خالد مقبول گورنر پنجاب نے کی ۔ مختلف ممالک کے سفرا اور وفاقی کابینہ کے ممبران سمیت چےئرمین سینٹ اور ایم این اے حضرات کی کثیر تعداد بھی اس کانفرنس میں موجود تھی ۔ 
مختلف مذاہب کے نمائندہ مقررین نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے بین المذاہب تعاون کی گنجائش اور ضرورت پر روشنی ڈالی ۔ جنرل پرویز مشرف نے صدارتی خطبے میں بحیثیت مسلمان اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ان کا یہ کہنا بجا تھا کہ مسلمانوں کی طرف سے عملی صورت میں اسلام کی ترجمانی کافی منفی ہے ، جس سے غیر مسلموں کو انگلی اٹھانے کا موقع مل رہا ہے ۔ جنرل صاحب کا یہ فرمانا کہ پاکستان میں فقط ایک سپاہ ، ایک جیش اورایک لشکر ہے اور اس کا نام مسلح افواج ہے اگرچہ اپنی جگہ درست ہے ، لیکن ایک تو ایسی بات کرنے کا یہ مناسب موقع نہیں تھا۔ دوسرا جنرل صاحب کو یاد ہو کہ نہ یاد ہو، کبھی حکومتِ پاکستان بھی مذکورہ تنظیموں سے ’’آشنا ‘‘ تھی۔ عالمی سیاست کے موجودہ دباؤ اور مستقبلِ دیدہ کے تقاضوں کے پیشِ نظر بلاشبہ اسلامی ابلاغ کی عسکری جہت پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ہماری رائے میں ایسی نظر ثانی مکالمے کی فضا میں ہونی چاہیے اور عسکری نوعیت کے حامل مختلف گروہوں کو مناسب اور محفوظ راستہ بھی ملنا چاہیے ۔ 
گورنر پنجاب جناب خالد مقبول کا صدارتی خطبہ منفرد اور اچھا خاصا علمی تھا۔ انھوں نے اسلامی تاریخ سے مثالیں دے کر حاضرین پر واضح کیا کہ اسلام نے ہمیشہ دیگر مذاہب کی تکریم کی ہے اور انھیں ہر ممکن حد تک اپنے ماحول میں جگہ دی ہے۔
اس کانفرنس میں اگرچہ متعین نتائج کے حصول پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی تاہم اسےِ آغاز کار کی حیثیت سے لیتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اس کے توسط سے ان شاء اللہ بین المذاہب تعاون کے در وا ہوں گے ۔ ہم اس کانفرنس کے حوالے سے چند باتیں گوش گزار کرنا چاہیں گے ۔ 
پہلی بات تو یہ ہے کہ پوری کانفرنس کے دوران میں کسی بھی مقرر نے بد امنی اور نا انصافی کی ’’اصل وجوہات‘‘ پر روشنی نہیں ڈالی ۔ ایک طرح سے یہ تسلیم کرلیا گیا کہ مذہب بدامنی، انتشار اور نا انصافی کا سبب ہے ، لہٰذا مذہبی حلقوں کو اصلاحِ احوال کی کوشش کرنی چاہیے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ناانصافی اور بدامنی ایک خاص نظام کی اقدار ہیں ، اور وہ نظام سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ ان منفی اقدار کو بلا خوفِ تردید سرمایہ دارانہ ذہنیت کی اقدار کہا جا سکتا ہے۔ سوویت یونین کے انہدام سے قبل ، شمالی امریکہ اور مغربی یورپ نے سوشلزم کے خطرے کے باعث طوعاً وکرہاً فلاحی ریاست کے تصور کے تحت بعض ایسے اقدامات کیے جس سے مارکیٹ اکانومی کی منفیت پوری طرح کھل کر سامنے نہ آ سکی ۔ بیسویں صدی کے نوے کے عشرے سے مارکیٹ اکانومی پر ’’سوشلسٹ چیک ‘‘ ختم ہو گیا اور نتیجے کے طور پر اس نظامِ معیشت نے اپنی فلاسفی کے عین مطابق خود غرضی اور انفرادیت پسندانہ طور اطوار کو بڑھاوا دے کر قومی اور بین الاقوامی سطح پر دولت کا ارتکاز پیدا کر دیا۔ دولت کے حصول اور پیداواری قوتوں پر کنٹرول کے لیے اس خود غرضانہ رویے نے ہی ناانصافی اور بد امنی جیسی انتہائی منفی اقدار کو جنم دیا ، جن کے سامنے آج کی دنیا کی گھگھی بندھی ہوئی ہے۔ 
دوسری بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے مقتدر حلقے مذہب پر یقین نہیں رکھتے ، لیکن عوام میں مذہب کے حوالے سے بڑھتی ہوئی دلچسپی اور مذہب کے عمومی فروغ کو بھانپتے ہوئے یہ حلقے مذہب کو بطور ’’ آلہ اور ہتھیار ‘‘ استعمال کر رہے ہیں، اس لیے جہاں کہیں مذہب کے نام پر گڑ بڑ ہوتی ہے، وہاں یہ دیکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ کہیں اس کے پیچھے کوئی ’’مفاداتی گروہ ‘‘ تو کام نہیں کر رہا؟اس وقت مذہب کے نام پر اپنی خواہشات کی نمود ونمایش ہو رہی ہے ورنہ مذہبی اقدار تو بہت اعلیٰ و ارفع ہیں۔ ہماری رائے میں میڈیا اورِ پراپیگنڈا کے دوسرے ذرائع جس طرح سرمایہ داروں کو راہ دکھانے کی بجائے ان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، اسی طرح مذہب بھی اپنا خود مختارانہ کردار ادا کرنے کی بجائے مارکیٹ اکانومی کے دیوتا کی خدمت میں مگن ہے ۔ لہٰذا یہ مخصوص مقتدر سرمایہ دار حلقے ہیں جو دنیا میں بدامنی اور ناانصافی کا باعث ہیں، نہ کہ مذہب یا اس سے وابستہ اقدار۔ اندریں صورت واضح ہو جاتا ہے کہ امن اور انصاف کا بول بالا کرنے کے لیے مذہب کو سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل سے نکلنا ہو گا۔ ہماری رائے میں اکیسویں صدی میں تہذیبی تصادم کی بجائے اصل تصادم سرمایہ دارانہ نظام کے علم برداروں اور مذہبی اقدار کی سر بلندی کے لیے کوشاں افراد اور گروہوں کے مابین ہو گا کہ دنیا کے ہر مذہب کی اقدار خود غرضی ، لالچ اورذاتی نفع کے لیے اجتماعی نفع کو قربان کرنے جیسی اقدار کے مقابل کھڑی ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ بعض مذہبی عناصر بھی دانستہ اور نادانستہ ، تشدد اور نا انصافی کا باعث بن رہے ہیں لیکن اس سلسلے میں مذہب کو الزام نہیں دیا جا سکتا کہ یہ فقط چند افراد ہیں جو لاعلمی میں مذہب کی ایسی تعبیر و تشریح کر رہے ہیں جس کا نفسِ مذہب اور مذہبیت کی اصل سپرٹ سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ۔ مذہب پر اتھارٹی کی حیثیت رکھنے والے اہل علم ایسے افراد کا کما حقہ محاسبہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں ۔ 
چوتھی بات یہ ہے کہ دنیا میں رائج الحادی تصورات کو بھی جانچنے کی ضرورت ہے ۔ مذہب کے نام پر ہونے والے تشدد کو مذہبی تصورات کے صحیح ادراک کے ذریعے روکا جا سکتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ایسے تشدد اور ظلم وستم کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے جس نے الحادی تصورات سے جنم لیا ہو ؟ زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ خدا کے نہ ماننے والوں کو لادینی اخلاقیات کا ’’ واسطہ ‘‘ دیا جائے، لیکن لا دینی اخلاقیات ’’ تصورِ آخرت ‘‘ کی حامل نہ ہونے کے سبب کسی فرد یا گروہ کو کوئی مضبوط اور پائیدار ’’اخلاقی محرک ‘‘ دینے سے یکسر قاصر ہے ۔ اس طرح معلوم ہوا کہ غیر مذہبی تشدد اپنی نوعیت اور پھیلاؤ کے اعتبار سے مذہبی تشدد کی نسبت زیادہ خطرناک ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ امن اور انصاف کے قیام کے لیے مذہب کے عمومی فروغ کو ممکن بنایا جائے ۔ 
اس امید کے ساتھ ہم بات ختم کرتے ہیں کہ مذہبی قوتیں اپنے اصل کردار کا ادراک جلد از جلد حاصل کر لیں گی اور سوشل ازم کے خلا کو پر کرتے ہوئے سرمایہ دارا نہ نظامِ معیشت کو کھل کھیلنے کا موقع نہیں دیں گی کہ ان کے اسی کردار سے دنیا میں امن اور انصاف کا بول بولا ہو سکتا ہے۔

نومبر ۲۰۰۴ء

شیعہ سنی کشیدگی: فریقین ہوش کے ناخن لیںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
علامہ اقبال کا نظریہ شعر و ادبپروفیسر محمد یونس میو
یورپی یونین میں ترکی کی رکنیت کا مسئلہپروفیسر میاں انعام الرحمن
سنی شیعہ کشیدگی کا مسئلہادارہ
’’برہمن‘‘ کی پختہ زناری بھی دیکھمولانا عتیق الرحمن سنبھلی
مجید امجد کی دو نظمیںپروفیسر طارق محمود طارق
ورلڈ اسلامک فورم کا سالانہ اجلاسادارہ
الشریعہ اکادمی کی لائبریری کے لیے عطیہ کتبادارہ
تعارف و تبصرہادارہ

شیعہ سنی کشیدگی: فریقین ہوش کے ناخن لیں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(یہ تحریر صادق گنجی قتل کیس کے ملزم شیخ حق نواز کو پھانسی کی سزا ملنے کے بعد مارچ ۲۰۰۱ء میں لکھی گئی تھی۔ حالیہ واقعات کے تناظر میں اسے معمولی ترمیم کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

لاہور، سیالکوٹ اور ملتان میں فرقہ وارانہ تشدد کے جو نئے الم ناک واقعات رونما ہوئے ہیں اور بیسیوں بے گناہ شہریوں کی افسوس ناک ہلاکت پر منتج ہوئے ہیں، انھوں نے اس سوال کی شدت اور سنگینی میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے کہ آخر اس عمل کو کب اور کہاں بریک لگے گی؟ ہم ایک بار پھر اپنی مساجد میں دروازے بند کر کے سنگینوں کے سائے میں نمازیں ادا کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ا س سے شاید دونوں طرف کے کچھ جذباتی اور انتہا پسند نوجوانوں کے جذبات کو تھوڑی بہت تسکین ملتی ہو یا اس خونی کھیل کو جاری رکھنے کے خواہش مند حلقوں کے مقاصد کچھ آگے بڑھتے ہوں مگر دین، قوم اور ملک کے لیے یہ سب کچھ انتہائی تباہ کن ہے اور اس کی تباہ کاری کی صلاحیت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
سنی شیعہ مسلح کشمکش میں بیرونی عوامل کی کارفرمائی سے انکار نہیں اور ہم اس کی کئی بار اپنی معروضات میں نشان دہی کر چکے ہیں، لیکن بنیادی طور پر یہ مسئلہ اہل سنت اور اہل تشیع کی محاذ آرائی کا ہے اور خارجی عوامل کے لیے بھی آلہ کار اور ایندھن کا کام ہر دو طرف کے جذباتی نوجوان سرانجام دیتے ہیں۔ اس لیے دیگر عوامل ومحرکات سے سردست صرف نظر کرتے ہوئے اہل سنت اور اہل تشیع کے رہنماؤں، بالخصوص جذباتی نوجوانوں سے دو گزارشات کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ خدا کرے کہ کسی دل میں یہ بات اتر جائے اور اس خونی عمل کے کسی جگہ رکنے کی کوئی صورت پیدا ہو جائے۔
پہلی بات بخاری شریف کی اس روایت کے حوالہ سے ہے جو ’’کتاب الادب‘‘ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے منقول ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ بڑے بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی دے اور برا بھلا کہے۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! کوئی شخص اپنے ماں باپ کو کیسے گالی دے سکتا ہے؟ جناب نبی اکرم نے فرمایا کہ اس نے دوسرے کے ماں اور باپ کو گالی دی اور اس نے جواب میں اس کے باپ یا ماں کو گالی دی تو گویا اس نے اپنے ماں باپ کو خود گالی دی۔ یعنی جناب نبی اکرم ﷺ کے ارشاد کے مطابق اپنے ماں باپ کے لیے گالی کا سبب اور واسطہ بننے والا شخص خود ان کو گالی دینے کا مرتکب قرار پائے گا۔ کم وبیش اسی نوعیت کی بات سورۃ الانعام کی آیت ۱۰۸ میں قرآن کریم نے بھی ارشاد فرمائی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ تم دوسروں کے جھوٹے خداؤں کو برا بھلا نہ کہو، اس لیے کہ وہ جواب میں تمھارے سچے خداؤں کو برا بھلا کہیں گے اور اس کا سبب تم خود بنو گے۔ اس لیے ’’مرغی پہلے یا انڈا‘‘ کی طرح اس بحث میں پڑے بغیر کہ اس باہمی قتل وغارت کا آغاز کس نے کیا تھا، ہم اہل سنت اور اہل تشیع، دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے جذباتی اور انتہا پسند نوجوانوں کو اس نکتہ پر غور کی دعوت دینا چاہتے ہیں کہ تھوڑی دیر کے لیے سنجیدگی اور ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ اس بات کا جائزہ لے لیں کہ دونوں طرف کے جو بڑے بڑے بزرگ اور سرکردہ قائدین اس الم ناک قتل وغارت کی نذر ہو چکے ہیں، کہیں وہ سبب اور واسطہ کے درجے میں خود ہی اپنے بزرگوں کے قاتل تو قرار نہیں پاتے؟ میں تو جتنا اس مسئلہ کی گہرائی میں جاتا ہوں، دل ودماغ کے لرزہ میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور اسی احساس کے تحت یہ گزارش بھی کر رہا ہوں۔
دوسری گزارش جناب نبی اکرم ﷺ کی ایک عملی سنت کے حوالہ سے کرنا چاہتا ہوں۔ عرب قبائل میں انتقام در انتقام کا سلسلہ اسی طرح چلا آ رہا تھا جیسے اب سنی اور شیعہ روزانہ انتقامی جذبہ کے تحت اندھا دھند قتل ہو رہے ہیں۔ جناب نبی اکرم نے ا س سلسلہ کو بریک لگانے کے لیے حجۃ الوداع کے موقع پر اعلان فرمایا کہ گزشتہ قتلوں کے انتقام کا سلسلہ ختم کر کے نئے سرے سے پرامن زندگی کا آغاز کرو اور گزشتہ قتلوں اور ان کے انتقام کو بھول جاؤ۔ جناب نبی اکرم ﷺ نے اس کا صرف زبانی اعلان نہیں کیا بلکہ عملی طور پر بھی اس کا اظہار فرمایا کہ اپنے چچا زاد بھائی ربیعہ بن الحارث بن عبد المطلب کے معصوم بیٹے ایاس کا قتل معاف کرنے کا اسی مجلس میں اعلان فرما دیا اور اپنے اعلان پر عمل درآمد کا آغاز گھر سے کر دیا۔ ایاس، ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کا بیٹا تھا اور بنو سعد میں پرورش پا رہا تھا کہ بنو ہذیل نے اسے قتل کر دیا۔ اس کا انتقام قبائلی روایات کے مطابق بنو عبد المطلب کے ذمہ تھا۔ متعدد لوگوں کے دلوں میں اس انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی اور وہ یقیناًکسی موقع کے انتظار میں ہوں گے کہ جناب نبی اکرم ﷺ نے بنو عبد المطلب کی طرف سے اپنے اس معصوم بچے کا خون معاف کرنے کا اعلان فرما کر نہ صرف یہ کہ انتقام در انتقام کے اس بظاہر ختم نہ ہونے والے سلسلے کو روک دیا بلکہ باقی لوگوں کے لیے بھی ایک عملی نمونہ پیش کر دیا اور یہ اسی کی برکت تھی کہ پشت در پشت خونریزی کے عادی اور خوگر عرب قبائل کو امن اور باہمی اعتماد کی منزل گم گشتہ مل گئی۔
آج بھی امن کا راستہ یہی ہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے سرکردہ اکابر سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس مکروہ عمل کو بریک لگانے کے لیے سنت نبوی کی روشنی میں کوئی فارمولا طے کریں اور اس پر اپنے جذباتی نوجوانوں کو پابند کریں یا بصورت دیگر امن کا دشمن بن جانے والوں سے لا تعلقی اور براء ت کا اعلان کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ جو فریق بھی اس سمت میں پہل کرے گا، وہ جناب نبی اکرم کی سنت مبارکہ کا دامن تھامنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم کے لیے بھی امن وسلامتی کا پیغام بر ثابت ہوگا لیکن اس کے لیے پاکستان کے امن اور قومی وحدت کو سبوتاژ کرنے کے خواہش مند عناصر کو ’’کراس‘‘ کرنے کا حوصلہ درکار ہے۔ خدا کرے کہ سنی شیعہ قائدین اس حوصلہ کا بروقت اظہار کر سکیں۔ آمین ثم آمین

علامہ اقبال کا نظریہ شعر و ادب

پروفیسر محمد یونس میو

علامہ اقبال کے نظریہ شعر کا جائزہ لینے سے قبل اس بنیادی اور اصولی بحث سے اعراض ممکن نہیں کہ آخر شعر وادب کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟ یہی وہ چیز ہے جس کی بنیاد پر کسی فنی شاہکار اور فن پارے کی عظمت کا تعین کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بحث اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ خود انسان۔ ۱ ؂ انسان کی ابتدائی اور قدیم ترین زندگی میں، جسے پتھروں کا زمانہ کہا جاتا ہے، فن برائے فن کی جھلک نظر آتی ہے۔ ۲ ؂ فن میں مقصدیت کا عمل دخل بھی کوئی نیا اور جدید نہیں ہے۔ یہ اپنی قدامت کے لحاظ سے قدیم یونان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس نے اٹھارویں صدی عیسوی میں ’’فن برائے فن‘‘ ۳؂ یا ’’فن برائے زندگی‘‘ کے نام سے جمالیاتی تنقید میں معرکہ آرا مسئلے کی صورت اختیار کر لی اور آج تک متنازع فیہ ہے۔ ۴؂ فن برائے فن کے داعیوں ۵؂ کا کہنا یہ ہے کہ حسن فن کا خاصہ ہے، حسن بذاتہ ایک ایسی قدر ہے جو مطلق بھی ہے اور ہر قدر سے اعلیٰ اور برتر بھی۔ باقی تمام اقدار مثلاً صداقت اور خیر یا تو حسن کے ماتحت ہیں یا بالکل غیر متعلق۔ اس قدر اعلیٰ ہونے کی بنا پر فن کا وجود بذاتہ مقصود بن جاتا ہے۔ زندگی کی وسعتوں میں اس کی اپنی حدود ہیں اور یہ اپنے مقام پر آزاد اور مکمل ہے۔ نہ اس کی کوئی منزل مقصود ہے اور نہ یہ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اس کا کام صرف اس قدر ہے کہ فن کار کو حسن محض کے ادراک سے ہم کنار اور کیفیت اہتزاز سے دوچار کرے۔ یہ مقصد خود فن ہی میں داخل ہے اور اس وقت حاصل ہو جاتا ہے جب فن تخلیق پذیر ہو۔ فن کی اپنی قدر کے علاوہ کسی اور مقصد مثلاً اخلاق، تعلیم، روپیہ پیسہ یا شہرت وغیرہ کو اس کے متعلق گرداننا دراصل اس کی اپنی قدر کی نفی ہے۔ یہ مقاصد فن کی قدر وقیمت کو گرا دیتے ہیں، اس میں اضافہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ 
گوتیر (Goutir) کا قول ہے کہ ہم فن کی آزادی کے قائل ہیں۔ ہمارے نزدیک فن بذات خود ایک مقصد ہے نہ کہ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ۔ وہ فن کار جو فن کے بجائے کسی اور مقصد کی تلاش میں ہو، فن کار ہی نہیں۔ ایک اور جگہ اس نے کہا ہے کہ ’’جب کوئی شے مفید بن جاتی ہے تو حسین نہیں رہتی۔‘‘ آسکر وائلڈ کے نزدیک تخلیق کی اولین شرط یہ ہے کہ نقاد اس بات کو خوب جان لے کہ فن اور اخلاق کی حدود ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ ہیں۔ ۶؂ ڈاکٹر عبد الحکیم خلیفہ نے اپنے مقالہ ’’فنون لطیفہ‘‘ میں فرائڈ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’فن لطیف کا کام دل کش نفسیاتی دھوکہ پیدا کرنا ہے۔ شاعری ہو یا مصوری، ڈراما نویسی ہو یا ناول نگاری، ان سب کا مقصد زندگی کے تلخ حقائق سے گریز ہے۔‘‘ ۷؂ سید انور شاہ کشمیریؒ نے اپنے مخصوص انداز میں یہی بات یوں کہی ہے: ’’شعر میں ایک تو شاعری ہوتی ہے، دوسرے جھوٹ اور تیسرے مبالغہ۔ شاعری میں تخیل اور خیال آفرینی ہوتی ہے یعنی حقیقت شے کے آس پاس آنا اور خود اس کو ظاہر نہ کرنا جس کا مقصد اچنبھے میں ڈالنا ہوتا ہے۔‘‘ ۸؂ پروفیسر حسن شاہ نواز زیدی نے لکھا ہے کہ فن کا اپنا ہی ایک معیار ہے جو اخلاقیات کی قید میں نہیں آ سکتا۔ وہ ایک مفکر کا قول نقل کرتے ہیں کہ ’’شاعری کے لیے حقیقت اور صداقت ضروری نہیں ہے بلکہ شاعری اور آرٹ مبالغے کے جتنا قریب ہوں گے، اتنا ہی پر اثر ہوں گے۔‘‘ ۹؂ 
’’فن برائے فن‘‘ سے ملتی جلتی ایک اور تحریک ’’ہیئت برائے ہیئت‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے حامیوں کے نزدیک فن کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ بات کہی کیسے جائے گی۔ باقی رہی یہ بات کہ کیا کہا گیا ہے تو ان کے نزدیک یہ کوئی اہم شے نہیں۔ جو بات آپ کہتے ہیں، وہ اچھی ہو یا بری، سچ ہو یا جھوٹ، صحیح ہو یا نادرست، فن کی قدر وقیمت پر کسی طرح اثر انداز نہیں ہوتی کیونکہ اس کا انحصار تو اس ہیئت پر ہے جس میں فن کو وجود ملا ہے اور تمام جمالیاتی خصائص اس سے وابستہ ہیں۔ اس صورت میں ’فن برائے فن‘ کا کلیہ ’ہیئت برائے ہیئت‘ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ۱۰؂ اس لحاظ سے ’فن برائے فن‘ اور ’ہیئت برائے ہیئت‘ ایک ہی تحریک کے دو نام ہیں۔ 
اس تحریک کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں فن کو زندگی سے بالا وبرتر مقام دیا گیا ہے اور اس کے داعیوں نے فن کے مافیہ (Content) کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے۔ ۱۱؂ ظاہر ہے کہ اس حیثیت میں ادب کوئی مفید چیز نہیں ہو سکتا۔ اس کے بالمقابل ایک دوسرا نظریہ ’’فن برائے زندگی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ حضرات فن برائے فن کے مخالف اور فن کے مافیہ پر بہت زور دیتے ہیں۔ مولانا عبد السلام ندوی فرماتے ہیں کہ ’’فن برائے فن کوئی چیز نہیں ہے۔ اصل چیز فن برائے زندگی ہے۔‘‘ ۱۲؂ علامہ اقبال اسی نظریہ کے داعی اور مبلغ ہیں۔ ڈاکٹر خلیفہ فرماتے ہیں: ’’فن برائے فن ایک بے ہودہ نظریہ ہے۔ علامہ اقبال نہ علم برائے علم کے قائل تھے نہ فن برائے فن کے۔‘‘ ۱۳؂ آپ کے ہاں زندگی اور فن کا نہایت گہرا تعلق ہے۔ ان کے نظریہ فن کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ فن زندگی کا خادم ہے۔ ۱۴؂ 
ا س تحریک کا باوا آدم افلاطون کو بتایا جاتا ہے۔ ۱۵؂ اقبال مابعد الطبیعیاتی نقطہ نظر میں افلاطون کے سخت مخالف ہیں، ۱۵؂ لیکن فن کے سلسلے میں اسی کے پیروکار ہیں۔ دونوں کے نزدیک فن کا ایک ہی مقصد ہے۔ ۱۶؂ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقبال افلاطون سے زیادہ حالیؒ سے متاثر ہوئے ہیں۔ نقاد کہتا ہے: ’’حالی حیات انگیز شاعری میں اقبال کا پیش رو ہے اور اس کا بھی امکان ہے کہ اگر حالی نے شاعری کا رخ نہ بدل دیا ہوتا تو شاید اقبال کا بھی ظہور نہ ہوتا۔ اقبال میں حالی کا درد ملت موجود ہے اور اس کی حکیمانہ نظر حالی سے زیادہ وسیع اور گہری ہے۔‘‘ ۱۷؂ شیخ عبد القادر نے دیباچہ بانگ درا میں لکھا ہے کہ ’’ہندوستان کی علمی دنیا میں جتنے نامور اس زمانے میں موجود تھے، مثلاً مولانا شبلی مرحوم، مولانا حالی مرحوم، اکبر مرحوم، سب سے اقبال کی ملاقات اور خط وکتابت تھی ۱۸؂ اور ان کے اثرات اقبال کے کلام پر اور اقبال کا اثر ان کی طبائع پر پڑتا رہا۔‘‘ ۱۹؂ یہی بات شیخ عبد القادر نے غالب کے بارے میں فرمائی ہے بلکہ اس ضمن میں تو وہ یہاں تک لکھ گئے ہیں کہ ’’اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو ضرور کہتا کہ غالب کی روح نے دوبارہ اقبال کا نام پایا۔‘‘ ۲۰؂ 
علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں غالب کی حکمت کا اعتراف بھی کیا ہے۔ ۲۱؂ یہ سچ ہے کہ اقبال نے افلاطون، شبلی، حالی اور غالب سے استفادہ کیا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انھوں نے اپنے نظریہ ادب وشعر کی بنیاد قرآن وحدیث کی تعلیمات پر رکھی ہے، چنانچہ آپ نے ۱۹۱۷ء میں ’’جناب رسالت مآب کا ادبی تبصرہ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا جس میں دو عربی شاعروں کے موازنہ وتقابل سے فنون لطیفہ اور خصوصاً شاعری کے بارے میں اپنا نظریہ بڑی وضاحت سے بیان کر دیا۔ اس تحریر سے ایک اقتباس ہم اس مضمون کے آخر میں نقل کریں گے۔
علامہ اقبال نے انجمن ادبی کابل کے سپاس نامہ ۲۲؂ کے جواب میں فرمایا تھا:
’’شاعر قوم کی زندگی کی بنیاد کو آباد بھی کر سکتا ہے اور برباد بھی۔ اس ملک کے شعرا پر لازم ہے کہ وہ نوجوان قوم کے سچے رہنما بنیں۔ زندگی کی عظمت اور بزرگی کے بجائے موت کو بڑھا چڑھا کر نہ دکھائیں کیونکہ جب آرٹ موت کا نقشہ کھینچتا ہے اور اس کو بڑھا چڑھا کر دکھاتا ہے، اس وقت وہ سخت خوفناک اور برباد کن ہو جاتا ہے۔‘‘۲۳؂
آپ نے اسی موقع پر فرمایا کہ :
’’شاعر اپنے تخیل سے قوموں کی زندگی میں نئی روح پھونکتا ہے۔ قومیں شعرا کی دست گیری سے پیدا ہوتی ہیں اور اہل سیاست کی پامردی سے نشوونما پاکر مر جاتی ہیں۔ پس مری خواہش یہ ہے کہ افغانستان کے شعرا اور انشا پرداز اپنے ہم عصروں میں ایسی روح پھونکیں جس سے وہ اپنے آپ کو پہچان سکیں۔‘‘ ۲۴؂
کسی قوم کے ادیب، شاعر اور فن کار اس کی زندگی میں جو مثبت یا منفی کردار ادا کرتے ہیں، اس کو جس شدت سے اقبال نے محسوس کیا، شاید ہی کسی اور نے کیا ہو۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا:
’’کسی قوم کی معنوی صحت زیادہ تر اس روح کی نوعیت پرمنحصر ہے جو اس کے اندر اس کے شعرا اور صاحبان فن پیدا کرتے ہیں ....... کسی اہل ہنر کا مائل بہ انحطاط ضمیر اور تصور ایک قوم کے لیے اٹیلا ۲۵؂ اور چنگیز کے لشکروں سے زیادہ تباہ کن ہو سکتا ہے۔‘‘ ۲۶؂
سرسری نظر میں یہ بات کچھ عجیب سی لگتی ہے کہ ادیب اور شاعر اپنی شکست خوردہ ذہنیت اور مردہ ضمیری کے ساتھ اپنی قوم کے لیے چنگیز خان اور اٹیلا سے زیادہ تباہ کن کیسے ثابت ہو تا ہے۔ اس کا جواب فکر اقبال ہی سے یوں دیا جا سکتا ہے کہ عمدہ اور لطیف شاعر کی مثال ساحر اور جادوگر کی سی ہے: ۲۷؂
جمیل تر ہیں گل ولالہ فیض سے اس کے
نگاہ شاعر رنگیں نوا میں ہے جادو
وہ اپنی شاعری سے قوم کو سحر زدہ کر دیتا ہے۔ اس کے دماغ سے سوچنے سمجھنے کی قوت مفقود اور اس کے اعضا وجوارح قوت عمل سے محروم ہو جاتے ہیں اور قوم بے یقینی کا شکار ہو جاتی ہے جو غلامی سے بھی بد تر بتائی جاتی ہے: ۲۸؂
یقیں مثل خلیل آتش نشینی
یقین اللہ مستی خود گزینی
سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار
غلامی سے بدتر ہے بے یقینی
علامہ اقبال نے ’مثنوی اسرار خودی‘ لکھی تو اس میں افلاطون اور حافظ شیرازیؒ پر سخت تنقید کی۔ یہ دراصل اسی نقطہ نظر کی وضاحت تھی کہ شاعری کیسی ہونی چاہیے اور کیسی نہیں۔ اقبال کو حافظ کی شاعرانہ عظمت سے انکار نہیں تھا۔ وہ تو اسے بلند پایہ شاعر سمجھتے تھے۔ ۲۹؂ ان کو اختلاف اس کیفیت سے تھا جس کو وہ اپنے پڑھنے والے کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اقبال کی نگاہ میں حافظؒ اپنے شیریں فن کے ذریعے موت کی دعوت دیتے ہیں، ایسی موت جس کے لیے چنگیز خان اور اٹیلا کا مرہون منت بھی نہیں ہونا پڑتا۔ اقبال کے نزدیک شاعری کا ایک معیار ہے جو فنی اعتبار سے نہیں ہے۔ ضروری نہیں کہ شاعری صنائع بدائع کے محاسن سے مزین ہو، ۳۰؂ بلکہ اصل چیز یہ ہے کہ شاعر کے اشعار اغراض زندگی میں کس قدر ممد ومعاون ہیں۔ اقبال اپنے مضمون ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’فردی اور ملی اعتبار سے کسی شاعر کی قدروقیمت کا اندازہ کرنے کے لیے کوئی معیار ہونا چاہیے۔ میرے نزدیک وہ معیار یہ ہے کہ اگر کسی شاعر کے اشعار اغراض زندگی میں ممد ہیں تو وہ اچھا شاعر ہیں اور اگر اس کے اشعار زندگی کے منافی ہیں یا زندگی کی قوت کو کمزور اور پست کرنے کا میلان رکھتے ہیں تو وہ شاعر خصوصاً قومی اعتبارات سے مضرت رساں ہے۔ ہر شاعر کم وبیش گردوپیش کی اشیا، عقائد، خیالات ومقاصد کو حسین وجمیل بنا کر دکھانے کی قابلیت رکھتا ہے اور شاعری نام ہی اس کا ہے کہ اشیا ومقاصد کو اصلیت سے حسین تر بنا کر دکھایا جائے تاکہ اوروں کو ان اشیا ومقاصد کی طرف توجہ ہو اور قلوب ان کی طرف کھنچ آئیں۔ ان معنوں میں ہر شاعر جادوگر ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کسی کا جادو کم چلتا ہے، کسی کا زیادہ۔ خواجہ حافظ اس اعتبار سے سب سے بڑے ساحر ہیں۔ مگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ وہ کون سے مقصد یا حالت یا خیال کو محبوب بناتے ہیں۔ وہ ایسی کیفیت کو محبوب بناتے ہیں جو اغراض زندگی کے منافی ہے بلکہ زندگی کے لیے مضر ہے۔ جو حالت خواجہ صاحب اپنے پڑھنے والے کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں، وہ حالت افراد واقوام کے لیے جو اس زمان ومکان کی دنیا میں رہتے ہیں، نہایت ہی خطرناک ہے۔ حافظ کی دعوت موت کی طرف ہے جس کو وہ اپنے کمال فن سے شیریں کر دیتے ہیں تاکہ مرنے والے کو اپنے دکھ کا احساس نہ ہو۔‘‘ ۳۱؂
اورنگ زیب عالمگیر نے، جو بڑا متشرع بادشاہ تھا، حکم دیا کہ اتنی مدت تک تمام طوائفیں نکاح کر لیں ورنہ کشتی میں بھر کر تمام کو دریا برد کر دیا جائے۔ جب تعمیل حکم میں ایک دن باقی رہ گیا تو ایک طوائف جو شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی کے پاس آئی تھی، آخری سلام کے لیے حاضر ہوئی اور سارا ماجرا سنایا۔ شیخ نے کہا کہ تم حافظ شیرازی کا یہ شعر یاد کر لو: ۳۲؂
در کوئے نیک نامی ما را گزر نہ دادند
گر تو نمے پسندی تغییر کن قضا را
اور کل جب تمھیں دریا کی طرف لے چلیں تو بآواز بلند اس شعر کو پڑھتی جاؤ۔ ان طوائفوں نے اس کو یاد کر لیا اور جب روانہ ہوئیں تو یاس کی حالت میں نہایت خوش الحانی سے بڑے درد انگیز لہجے میں اس شعر کو پڑھنا شروع کر دیا۔ جس جس نے سنا، دل تھام کر رہ گیا۔ جب بادشاہ کے کانوں میں آواز پہنچی تو بے قرار ہو گیا۔ ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ حکم دیا، سب کو چھوڑ دو۔ ۳۳؂ 
اس واقعے سے کلام حافظ کی تاثیر کا اندازہ فرمائیں۔ کیا ان معنوں میں حافظ کو ساحر کہنا کوئی بے جا بات تھی؟ یہ حافظ کا حسن کلام نہیں ہے بلکہ اقبال اس کو حافظ کا قبح قرار دیتے ہیں۔ ۳۴؂ اس لیے کہ اقبال کے خیال میں اس شعر میں حافظ نے مسئلہ تقدیر کی غلط اور حیات کش تعبیر کی ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ:
’’مسئلہ تقدیر کی ایسی غلط مگر دل آویز تعبیر سے حافظ کی شاعرانہ جادوگری نے ایک متشرع اور نیک نیت بادشاہ کو، جو آئین حقہ شرعیہ اسلامیہ کی حکومت قائم کرنے اور زانیات کا خاتمہ کر کے اسلامی سوسائٹی کے دامن کو بدنما داغ سے پاک کرنے میں کوشاں تھا، قلبی اعتبار سے اس قدر ناتواں کر دیا کہ اسے قوانین اسلامیہ کی تعمیل کرانے کی ہمت نہ رہی۔‘‘ ۳۵؂
اقبال نے شعر عجم کی جو تنقید فرمائی ہے، اس کا پس منظر حافظ شیرازی کی شاعرانہ جادوگری ہے۔ اقبال نے بار بار اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ بعض عجمی تصورات اور افکار نے اسلام کے چشمے کو گدلا کر کے رکھ دیا ہے۔ اقبال نے ایران کافرستان میں حرم کی بنیاد رکھی اور صرف ان ایرانی شعرا کے کلام کو اہمیت دی جو شعر وتصوف کی صحت مند تحریکات کے علمبردار تھے۔ ۳۶؂ اقبال نے رومی کو اپنا مرشد بنایا لیکن حافظ شیرازی کو ساحر اور جادوگر کہا اور اس سے بہرحال گریز کی تلقین کی: ۳۷؂
بے نیاز از محفل حافظ گزر
الحذر از گوسفنداں الحذر
ضرب کلیم میں ’’شاعر‘‘ اور ’’شعر العجم‘‘ کے عنوان سے دو نظموں میں انھی خیالات کا اعادہ کیا ہے۔ یہاں آپ نے ’’عجمی لے‘‘ ۳۸؂ اور ’’شعر العجم‘‘ کی باقاعدہ اصطلاحیں استعمال کی ہیں اور اس سے اجتناب کی وجہ بھی بیان کر دی ہے: ۳۹؂
تاثیر غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم
اچھی نہیں اس قوم کے حق میں ’’عجمی لے‘‘ 
اسی طرح شعر العجم کی طرب ناکی اور دل آویزی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے افسردگی اور بے یقینی پیدا ہوتی ہے جس سے انسانی خودی کی موت واقع ہو جاتی ہے: ۴۰؂
ہے شعر عجم گرچہ طرب ناک ودل آویز
اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز
افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستاں
بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز
یہاں مختصراً یہ جان لینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ’خودی‘ سے کیا مراد ہے اور اس کا نظریہ فن سے کیا تعلق ہے؟ ’خودی‘ فکر اقبال کا مرکزی نکتہ ہے ۴۱؂ جس سے مراد نفس یا تعین ذات ہے۔ ۴۲؂ کبھی یہ راز درون حیات ہے اور کبھی بیدارئ کائنات۔ ۴۳؂ یہ ایک خاموش قوت ہے جو عمل کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ زندگی کا نظم اور انسانی شخصیت کی پائیداری اس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اقبال خودی کو قوت، حرکت اور جہد مسلسل سے تعبیر کرتے ہیں۔ جب یہ خودی اپنے ذوق وشوق کا اظہار کرتی ہے تو زمین وآسمان کو خاطر میں نہیں لاتی۔ ۴۴؂ اقبال فرماتے ہیں، خودی وہ شراب ہے جس سے قوموں کا فہم تیز ہوتا ہے، جو تنکے کو چھو کر پہاڑ بنا دیتی ہے، جو لومڑی کو شیر، خاک کو ثریا اور قطرے کو سمندر بنا دیتی ہے۔ یہ وہ غیرت ہے جو ممولے اور چکور کو باز سے آمادۂ پیکار کرتی ہے۔ ۴۵؂ اقبال نے خودی کے مفہوم میں بے انتہا وسعت پیدا کر دی ہے لیکن تمام مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ خودی سے اقبال کی خودی ذوق عمل اور قوت تسخیر ہے اور اس کامقصد فقط اتنا ہے کہ انسان اور خاص طور پر مسلمان غفلت اور تن آسانی کی روش کو چھوڑ کر سخت کوشی اور خطر پسندی کا راستہ اختیار کریں۔ فنون لطیفہ سے اقبال اسی خودی کی تعمیر کا کام لینا چاہتے ہیں۔ اسی خودی کا نام اسرار زندگی ہے۔ دیباچہ مرقع چغتائی میں فرماتے ہیں:
’’مجھے جو کچھ کہنا ہے، اس کا حاصل بس اس قدر ہے کہ میں سارے فنون لطیفہ کو زندگی اور خودی کے تابع سمجھتا ہوں۔‘‘ ۴۶؂
یہی بات اقبال نے ان اشعار میں بیان فرمائی ہے: ۴۷؂
سرود وشعر وسیاست، کتاب ودین وہنر
گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ
اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات
نہ کر سکیں تو سراپا فسوں وافسانہ
ضرب کلیم میں ’’فنون لطیفہ‘‘ کے نام سے ایک نظم موجود ہے۔ اس کے ایک جملہ ’’مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے‘‘ ۴۸؂ میں تمام فنون لطیفہ کا مقصد بیان کر دیا ہے۔ ایک اور نظم میں شعر کا مقصد ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ۴۹؂
وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے
یا نغمہ جرس ہے یا بانگ اسرافیل
پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے اس شعر کی شرح میں لکھا ہے کہ ’’شاعری میں یا تو پاکیزہ خیالات بیان ہوتے ہیں جن کی بدولت قوم میں نیکی کی طرف میلان پیدا ہوتا ہے یا پھر اس میں عمل صالح کی ترغیب ہوتی ہے جس کی بدولت قوم میں جہاد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔‘‘ ۵۰؂
اقبال نے اپنے خطوط میں بھی اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی ہے کہ شاعری بذات خود کوئی مقصد نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد عالم اسلام اور خاص طور پر مسلمانان ہند میں بیداری پیدا کرنا ہے۔ آپ نے ۳ ستمبر ۱۹۱۷ کو مولانا گرامی کے نام ایک خط میں لکھا: 
’’میرا مقصد کچھ شاعری نہیں ہے بلکہ غایت یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں وہ احساس ملیہ پیدا ہو جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا خاصہ تھا۔ اس قسم کے اشعار لکھنے کی غرض عبادت ہے نہ شہرت ہے۔ کیا عجب ہے کہ نبی کریم کو مری یہ کوشش پسند آجائے اور ان کا استحسان میرے لیے ذریعہ نجات ہو جائے۔‘‘ ۵۱؂
۱۰ اکتوبر ۱۹۱۹ء کو سید سلیمان ندویؒ کے نام ایک مکتوب میں ارقام فرماتے ہیں:
’’شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کے کبھی میرا مطمح نظر نہیں رہا کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے وقت نہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو۔ بس اس بات کو مد نظر رکھ کر جن خیالات کو مفید سمجھتا ہوں، ان کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘ ۵۲؂
اقبال کے ان خطوط سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ شاعری بذات خود کوئی مقصد نہ تھی۔ یہ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ اور پردہ تھی: ۵۳؂
پردۂ تو از نوائے شاعری است
آنچہ گوئی ماورائے شاعری است
اس پردہ میں آپ نے ملت اسلامیہ کو بیداری اور جانبازی کا پیغام دیا ہے۔ ایک یورپی نقاد نے خوب کہا ہے کہ اقبال کا کلام ایک پیغام کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ۵۴؂ 
"Muhammad Iqbal's work is nothing but a message."
اور یہ پیغام خودی اور زندگی کے نام ہے، لہٰذا شعر ہو یا آرٹ کا کوئی اور شعبہ، اقبال کے ہاں اس کی قبولیت کا معیار زندگی اور خودی ہی ہے۔ ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا:
’’آرٹ زندگی کے ماتحت ہے۔ ہر چیز کو انسانی زندگی کے لیے وقف ہونا چاہیے۔ اس لیے ہر وہ آرٹ جو زندگی کے لیے مفید ہو، اچھا اور جائز ہے اور جو زندگی کے خلاف ہو، جو انسانوں کی ہمتوں کو پست اور ان کے جذبات عالیہ کو مردہ کرنے والا ہے، قابل نفرت وپرہیز ہے۔ اس کی ترویج حکومت کی جانب سے ممنوع قرار دی جانی چاہیے۔‘‘ ۵۵؂
علامہ اقبال کی ان وضاحتوں کے بعد مزید کسی شرح کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ زندگی کا شاعر ہے، حرکت وجہد کا پیام بر ہے، طاقت وقوت کا مبلغ ہے، افکار وخیالات میں پاکیزگی کا طرف دار اور علم بردار ہے۔ لہٰذا جو ادب بھی، خواہ وہ شعر ہو، موسیقی ہو، مصوری ہو، سنگ تراشی ہو، کوئی ڈراما یا تمثیل ہو، الغرض فنون لطیفہ کی کوئی بھی قسم ہو، اس کا مقصد زندگی کی صحت مند قدروں کی آب یاری ہونا چاہیے۔ اس میں ہمت اور ذوق عمل کا پیغام ہونا ضروری ہے، ورنہ وہ قابل قبول نہیں ہے۔ اقبال اپنی نظموں ’’شعر عجم‘‘ اور ’’ہنر وران ہند‘‘ میں مصوری، تمثیل وموسیقی وغیرہ سے نفرت کا اظہار اسی وقت کرتے ہیں جب وہ منفی اقدار کے فروغ کا سبب بنتے ہیں۔ وہ فنون لطیفہ کی طاقت کا بھرپور ادراک رکھتے تھے، اسی لیے ان کے مثبت اور تعمیری کردار پر زور دیتے تھے۔ فرماتے ہیں، ’’میرا عقیدہ ہے کہ آرٹ یعنی ادبیات یا شاعری یا مصوری یا موسیقی یا معماری ہر ایک زندگی کی معاون اور خدمت گار ہے۔‘‘ ۵۶؂
اس بحث کو اقبال کے مضمون ’’جناب رسالت مآب کا ادبی تبصرہ‘‘ پر ختم کیا جاتا ہے جس سے یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال کس قسم کی شاعری کے حامی اور کس قسم کی شاعری کے مخالف ہیں:
’’یہ وہ عقدہ ہے جس کو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے وجدان نے اس طرح حل کیا ہے۔ امرؤ القیس نے اسلام سے چالیس سال پہلے کا زمانہ پایا ہے۔ روایت ہمیں بتاتی ہے کہ جناب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نسبت ایک موقع پر حسب ذیل رائے ظاہر فرمائی ہے: اشعر الشعراء وقائدہم الی النار۔ یعنی وہ شاعروں کا سردار تو ہے ہی لیکن جہنم کے مرحلے میں ان سب کا سپہ سالار بھی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امرؤ القیس کی شاعری میں وہ کون سی باتیں ہیں جنھوں نے حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ رائے ظاہر کروائی۔ امرؤ القیس کے دیوان پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں شراب ارغوانی کے دور، عشق وحسن کی ہوش ربا داستانوں اور جاں گداز جذبوں، آندھیوں سے اڑی ہوئی بستیوں کے کھنڈروں کے مرثیوں، سنسان ریتلے ویرانوں کے دل ہلا دینے والے منظروں کی تصویریں نظر آتی ہیں اور یہی عرب کے دور جاہلیت کی کل تخلیقی کائنات ہے۔ امرؤ القیس قوت ارادی کو جنبش میں لانے کی بجائے اپنے سامعین کے تخیل پر جادو کے ڈورے ڈالتا ہے اور ان میں بجائے ہوشیاری کے بے خودی کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حکیمانہ تنقید میں فنون لطیفہ کے اس اہم اصول کی توضیح فرمائی ہے کہ صنائع بدائع کے محاسن اور انسانی زندگی کے محاسن کچھ ضروری نہیں کہ یہ دونوں ایک ہی ہوں۔ ممکن ہے کہ شاعر بہت شعر کہے لیکن وہ شعر پڑھنے والے کو اعلیٰ علیین کی سیر کرانے کی بجائے اسفل السافلین کا تماشا دکھا دے۔ شاعری دراصل ساحری ہے اور اس شاعر پر حیف ہے جو قومی زندگی کی مشکلات وامتحانات میں دل فریبی کی شان پیدا کرنے کے بجائے وہ فرسودگی وانحطاط کو صحت اور قوت کی تصویر بنا کر دکھا دے اور اس طور پر اپنی قوم کو ہلاکت کی طرف لے جائے۔ اس کا تو فرض ہے کہ قدرت کی لازوال دولتوں میں سے زندگی اور قوت کا جو حصہ اسے دکھایا گیا ہے، اس میں اوروں کو بھی شریک کرے، نہ یہ کہ اٹھائی گیرہ بن کر جو رہی سہی پونجی ان کے پاس ہے، اس کو بھی ہتھیا لے۔‘‘ ۵۷؂

حوالہ جات

۱؂ پروفیسر حسن شاہ نواز زیدی، ’’اقبال کا نظریہ فن‘‘، مجلہ ’’اقبالیات‘‘ اردو، اقبال اکادمی لاہور، جلد ۳۱، شمارہ ۲۔۴، جولائی ۹۰ تا جنوری ۹۱، ص ۲۰۶
۲؂ ایضاً، ص ۲۰۵
۳؂ ڈاکٹر نصیر احمد ناصر، ’’اقبال اور جمالیات‘‘، اقبال اکادمی لاہور، طبع دوم ۱۹۸۱ء، حصہ دوم، باب ۱۱، ص ۲۹۹
۴؂ وکٹر پیوگو نے ’’آرٹ برائے آرٹ‘‘ کی اصطلاح کے متعلق لکھا ہے کہ سب سے پہلے اس نے اس کو استعمال کیا، لیکن یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ شاید اس کو یہ علم نہ تھا کہ اس سے قبل یہی الفاظ وکٹر کوزین نے اپنے ایک لیکچر میں استعمال کیے گئے۔ ’’آرٹ مذہب واخلاق کی خدمت کے لیے ہے اور نہ اس کا مقصد مسرت وافادہ ہے ...... مذہب، مذہب کی خاطر ہونا چاہیے، اخلاق، اخلاق کی خاطر اور آرٹ، آرٹ کی خاطر۔ نیکی اور پاک بازی کے راستے سے افادہ اور جمال تک پہنچ نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح جمال کا مقصد افادہ یا نیکی یا پاک بازی نہیں ہے۔ جمال کا راستہ جمال ہی کی طرف رہبری کر سکتا ہے۔‘‘ (ڈاکٹر یوسف حسین خان، ’’آرٹ اور اقبال‘‘، مشمولہ اقبال کا تنقیدی مطالعہ، مرتبہ پروفیسر اے جی نیازی، عشرت پبلشنگ ہاؤس، لاہور، بار اول، مارچ ۱۹۶۵، ص ۱۲۷، ۱۲۸)
۵؂ فرانس میں فلوبیر (Flaubert)، گوئی اے (Gautier) اور بودلیئر (Baudelair)، امریکہ میں اڈگر ایلن پو (Edger Ellen Poe) اور انگلستان میں آسکر وائلڈ نے فن برائے فن کی تحریک کو پروان چڑھایا۔ انگلستان میں والٹر پیٹر (Walter Peter) کو فن برائے فن کا عظیم نمائندہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ (سید جابر علی، اقبال کا فنی ارتقا، بزم اقبال لاہور، طبع اول، جولائی ۱۹۷۸، ص ۱۹۲)
۶؂ میاں محمد شریف، ’’اقبال کا نظریہ فن‘‘، مشمولہ فلسفہ اقبال، مترجمہ سجاد رضوی، مرتبہ بزم اقبال لاہور، طبع دوم، مارچ ۱۹۸۴، باب ۲، ص ۴۴، ۴۵
۷؂ ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، ’’فکر اقبال‘‘، بزم اقبال لاہور، طبع ہفتم جولائی ۱۹۹۰، باب ۱۶، ص ۴۳۱
۸؂ سید انور شاہ کشمیری، ’’ملفوظات‘‘، مرتبہ مولانا سید احمد رضا بجنوری، اشرف اکیڈمی لاہور، سن ندارد، ص ۵۱
۹؂ ’’اقبال کا نظریہ فن‘‘، اقبالیات، جلد ۳۱ شمارہ ۲ تا ۴، جولائی ۹۰ تا جنوری ۹۱، ص ۲۰۸
۱۰؂ ’’فلسفہ اقبال‘‘، ص ۴۶
۱۱؂ ایضاً، ص ۴۸
۱۲؂ مولانا عبد السلام ندوی، ’’اقبال کامل‘‘، عشرت پبلشنگ ہاؤس، لاہور، سن ندارد، ص ۳۷۲
۱۳؂ ’’فکر اقبال‘‘، ص ۴۲۲
۱۴؂ پروفیسر اشرف انصاری، ’’اقبال کا نظریہ فن‘‘، مشمولہ اقبالیات راوی، مرتبہ ڈاکٹر صدیق جاوید، الفیصل ناشران لاہور، جولائی ۱۹۸۹، ص ۲۵۸
۱۵؂ علامہ اقبال نے ’اسرار خودی‘ میں افلاطون پر سخت تنقید فرمائی ہے۔ اس کو قدیم زمانے کا راہب اور مسلک گوسفندی کا پیرو کہا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ اس کا جام خواب آور ہے، وہ زندگی کی نفی کرتا ہے، وہ انسان کے لباس میں گوسفند ہے، اس کا کام باسی تھا، اس کی مستی سے قومیں زہر آلود ہو گئیں، سو گئیں اور ذوق عمل سے محروم ہو گئیں۔ (علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، اشاعت پنجم مئی ۱۹۸۵، صفحات ۳۲ تا ۳۴)
۱۶؂ ’’فلسفہ اقبال‘‘، ص ۵۷
۱۷؂ ’’فکر اقبال‘‘، ص ۴۲۰
۱۸؂ علامہ اقبال نے فروری ۱۸۹۹ سے دسمبر ۱۹۳۴ تک جو خطوط مرقوم فرمائے، ان میں مولانا شبلی کے نام صرف ایک خط ہے جو ۱۲ جنوری ۱۹۱۲ کو لاہور سے لکھا گیا ہے۔ البتہ سید سلیمان ندوی کے نام خطوط میں مولانا شبلی کا ذکر خوب کرتے ہیں۔ لاہور سے ایک خط محررہ ۲۸ اپریل ۱۹۱۸ء میں لکھتے ہیں ’’مولانا شبلی رحمہ اللہ کے بعد آپ استاذ الکل ہیں‘‘۔ (کلیات مکاتیب اقبال، مرتبہ سید مظفر حسین برنی، اردو اکادمی دہلی، اشاعت چہارم ۱۹۹۳ء، ص ۷۰۵)
اسی طرح بعض دیگر ارباب علم کے نام اپنے خطوط میں شبلی کے علاوہ حالی اور اکبر وغیرہ کا نام نہایت عقیدت واحترام سے کیا ہے۔ مثلاً شاعر مدراس کے نام ایک خط میں حالی اور شبلی کو قادر الکلام بزرگوں میں شمار کیا ہے اور ان سے داد حاصل کرنے کو بڑے فخر کی بات بتایا ہے۔ (مکتوب بنام شاعر مدراس محررہ ۲۹ اگست ۱۹۰۸، کلیات مکاتیب اقبال، جلد اول، ص ۱۵۰)
مولانا الطاف حسین حالیؒ (۱۸۳۷۔۱۹۱۴) کے نام علامہ اقبال نے فروری ۱۸۹۹ سے حالی کی وفات تک کوئی خط نہیں لکھا۔ پھر ۱۹۱۴ میں حالی فوت ہی ہو گئے تھے، البتہ اپنے خطوط میں حالی کا تذکرہ ضرور کیا ہے۔
اکبر الٰہ آبادی کے نام آپ کے درجنوں خطوط ہیں۔ ان تمام کے مضامین ’اسرار ورموز‘ کی اشاعت، ترتیب اور مشمولات کے بارے میں ہیں۔ خواجہ حسن نظامی کے حافظ کے بارے میں فکری تنازعہ کا ذکر ان خطوط کا حصہ ہے۔ ان تمام مکتوبات کا عرصہ تحریر ۱۹۱۱ سے ۱۹۱۸ تک ہے۔ (دیکھیے کلیات مکاتیب اقبال،جلد اول)
۱۹؂ شیخ عبد القادر، دیباچہ بانگ درا، مشمولہ ’’نذر اقبال‘‘، (سر عبد القادر کے مضامین، مقالات، مقدمات اور مکاتیب کا مجموعہ) مرتبہ محمد حنیف شاہد، بزم اقبال لاہور، طبع اول اگست ۱۹۷۲، ص ۴۲، ۴۲
۲۰؂ ایضاً ص ۳۷، ۳۸
۲۱؂ دیکھیے کلیات اقبال (فارسی) ص ۷۱۵
۲۲؂ یہ اکتوبر، نومبر ۱۹۳۳ کا ذکر ہے جب نادر خان شاہ افغانستان نے علامہ اقبال، سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود (وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) کو افغان یونیورسٹی کابل کے نصاب کے سلسلے میں دعوت دی۔ اس موقع پر انجمن ادبی کابل نے ان حضرات کو اپنے ہاں مدعو کیا۔ اس موقع پر سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کے علاوہ علامہ اقبال نے انجمن کے سپاس نامہ کا جواب دیتے ہوئے ایک تقریر فرمائی۔ یہ اقتباسات اسی تقریر کا حصہ ہیں۔ دیکھیے، ’’مقالات اقبال‘‘، میں کابل میں ایک تقریر، ص ۲۵۹۔ نیز دیکھیے حق نواز کا مرتبہ ’’سفرنامہ اقبال‘‘، اقبال صدی پبلی کیشنز، دہلی، اشاعت اول، ۱۹۷۷، سفر افغانستان ۱۹۳۳۔ مزید دیکھیے، ’’حیات اقبال کے چند مخفی گوشے‘‘، مرتبہ محمد حمزہ فاروقی، ادارۂ تحقیقات پاکستان، دانش گاہ پنجاب لاہور، طبع اول مارچ ۱۹۸۸، باب سیر افغان ۱۹۳۳، صفحات ۲۰۰ تا ۲۱۲
۲۳؂ کابل میں ایک تقریر، ’’مقالات اقبال‘‘، ص ۲۵۹
۲۴؂ ایضاً، ص ۲۶۰
۲۵؂ Attila of Etzel ، ۴۰۶۔۴۵۳، ہن حملہ آوروں کا سردار تھا جو اپنے آپ کو خدائی قہر کہتا تھا اور اس بات پر فخر کرتا تھا کہ جدھر سے اس کا گزر ہو جائے، وہاں گھاس بھی نہیں اگتی۔ سلطنت روما کے دور انحطاط میں یورپ پر (۴۳۲۔۴۵۳) عفریت کی طرح مسلط رہا۔ مشرقی اور مغربی روم کی حکومتوں کو تاخت وتاراج اور جرمنی و اطالیہ وغیرہ کے علاقوں کو تباہ وبرباد کیا۔ (اردو انسائیکلو پیڈیا، ص ۱۶۱)
۲۶؂ دیباچہ مرقع چغتائی، در ’’مضامین اقبال‘‘، مرتبہ تصدق حسین تاج، حیدر آباد دکن، ۱۳۶۲، ص ۱۹۷
۲۷؂ کلیات اقبال ص ۳۰۵۔ نیز اقبال کا مضمون ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘، مشمولہ مقالات اقبال، ص ۲۰۷
۲۸؂ کلیات اقبال اردو، ص ۳۷۳
۲۹؂ دیکھیے اقبال کا مضمون ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘، مشمولہ ’’مقالات اقبال‘‘، ص ۲۰۶
۳۰؂ ’’جناب رسالت مآب کا ادبی تبصرہ‘‘، مشمولہ مقالات اقبال، ص ۲۳۰
۳۱؂ ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘، مشمولہ ’’مقالات اقبال‘‘، ص ۲۰۷
۳۲؂ حافظ شیرازی کا یہ شعر دیوان حافظ میں ملاحظہ ہو۔ دیوان حافظ، مقبول اکیڈمی لاہور، سن ندارد، ص ۳۳
۳۳؂ ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘، مشمولہ ’’مقالات اقبال‘‘، ص ۲۰۹، ۲۱۰
۳۴؂ و۳۵؂ ایضاً ص ۲۱۰
۳۶؂ سید عابد علی عابد، ’’شعر اقبال‘‘، بزم اقبال لاہور، ستمبر ۱۹۹۳، ص ۱۸۴
۳۷؂ اقبال کا یہ شعر ان اشعار کا تتمہ ہے جو آپ نے اسرار خودی کی اولین اشاعت ۱۹۱۵ میں حافظ پر لکھے تھے اور بعد ازاں یہ تمام اشعار حذف کر دیے تھے۔ مثنوی کا یہ اولین نسخہ ہے جو حکیم محمد صاحب چشتی نظامی نے یونین سٹیم پریس لاہور سے ۵۰۰ کی تعداد میں شائع کی تھی۔ یہ نسخہ اقبال اکادمی لاہور میں محفوظ ہے۔
۳۸؂ سید عابد علی عابد ’’عجمی لے‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’شعر کوئی کی ایک خاص روش ہے جسے اقبال ’’عجمی لے‘‘ کہتے ہیں۔ ’’لے‘‘ اس سلسلے میں بڑا ہی پر اسرار لفظ ہے اور جب تک اس کا صحیح مفہوم متعین نہ ہو، ’’عجمی لے‘‘ کی دلالتیں واضح نہیں ہو سکتیں۔ ’’عجمی لے‘‘ یا عجمی شعر گوئی سے کیسا اسلوب شعر گوئی ملحوظ ہے، اس کا جواب اقبال اسرار خودی میں دے چکے ہیں۔ انھوں نے حافظ کو ’’عجمی لے‘‘ کا نمائندہ شاعر سمجھا تھا کہ بڑے دل کش اور دل فریب پیرایے میں نرم ونازک الفاظ کو لوری دے کر پڑھنے والے کو موت کی نیند سلاتا ہے۔ یہ موت ذہنی ہے اور ذوق عمل کے فقدان سے عبارت ہے۔‘‘ (شعر اقبال، ص ۱۸۷)
۳۹؂ کلیات اقبال (اردو) ص ۵۸۹
۴۰؂ ایضاً ص ۵۹۰
۴۱؂ ڈاکٹر نصیر احمد ناصر، ’’اقبال اور جمالیات‘‘، اقبال اکادمی، پاکستان لاہور، طبع دوم ۱۹۸۱، ص ۱۵
۴۲؂ محمد اقبال، دیباچہ مثنوی اسرار خودی، اشاعت اول ۱۹۱۵، مشمولہ مقالات اقبال، ص ۱۹۹
۴۳؂ ’’کلیات اقبال‘‘ (اردو) ص ۴۱۹
۴۴؂ خودی کی ان تمام تعبیرات کے لیے دیکھیے مثنوی اسرار خودی کا باب ’’اصل نظام عالم از خودی است وتسلسل حیات‘‘
۴۵؂ تمہید اسرار خودی، کلیات اقبال (فارسی) ص ۸
۴۶؂ دیباچہ مرقع چغتائی، در مضامین اقبال، ص ۱۹۷
۴۷؂ کلیات اقبال (اردو) ص ۵۶۲
۴۸؂ ایضاً، ص ۵۸۰
۴۹؂ ایضاً، ص ۵۹۰
۵۰؂ یوسف سلیم چشتی، ’’شرح ضرب کلیم‘‘، عشرت پبلشنگ ہاؤس لاہور، سن ندارد، ص ۳۲۵
۵۱؂ سید مظفر حسین برنی (مرتب) کلیات مکاتیب اقبال، اردو اکادمی دہلی، اشاعت چہارم، جلد اول، ص ۶۵۷
۵۲؂ ایضاً، اشاعت دوم ۱۹۹۳، جلد دوم، ص ۱۳۷
۵۳؂ کلیات اقبال (فارسی) ص ۷۵۵
۵۴؂ ایڈورڈ میک کارتھی، ’’اقبال بحیثیت شاعر‘‘، اقبال ریویو (انگریزی) مجلہ اقبال اکادمی کراچی، جلد ۲، شمارہ ۳۰، اکتوبر ۱۹۶۱، ص ۱۸
۵۵؂ ملفوظات محمود نظامی، ص ۱۴۵
۵۶؂ دیکھیے اقبال کی ’’کابل میں ایک تقریر ۱۹۲۳‘‘ مشمولہ مقالات اقبال، ص ۲۵۹
۵۷؂ دیکھیے اقبال کا مضمون ’’جناب رسالت مآب کا ادبی تبصرہ‘‘، مشمولہ مقالات اقبال ص ۲۲۹، ۲۳۰

یورپی یونین میں ترکی کی رکنیت کا مسئلہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

۱۹۵۲ میں چھ ریاستوں ( بیلجیم، فرانس ، جرمنی ، اٹلی، لکسمبرگ اور نیدر لینڈ) سے جنم لینے والی یورپی یونین، ۱۹۷۳ میں پہلی توسیع ( ڈنمارک، آئر لینڈ، یو ۔کے)، ۱۹۸۱ میں دوسری توسیع (یونان)، ۱۹۸۶ میں تیسری توسیع (پرتگال ، سپین)، ۱۹۹۵ میں چوتھی توسیع (آسٹریا ، فن لینڈ اور سویڈن)، اور ۲۰۰۴ میں پانچویں توسیع (قبرص، چیک ری پبلک، اسٹونیا ، ہنگری، لیٹویا ، لیتھونیا، مالٹا ، پولینڈ، سلوویکیا اور سلووینیا) سے گزر کر ۲۰۰۷ میں چھٹی توسیع (بلغاریہ ، رومانیہ) سے ہمکنار ہوگی کہ بلغاریہ اور رومانیہ سے رکنیت کی بابت مذاکرات (Accession negotiations) ۲۰۰۰ سے شروع ہو چکے ہیں۔ ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ترکی بھی پچھلے کئی عشروں سے یورپی یونین کی رکنیت کا خواہاں ہے۔ دسمبر ۲۰۰۴ میں یورپین کونسل (جس میں ممبر ممالک کے سربراہان شریک ہوتے ہیں) ، ترکی کی رکنیت سے متعلق ’’مذاکرات ‘‘کی بابت فیصلہ کر ے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ’’ہاں ‘‘ کی صورت میں بھی ترکی کورکنیت کے لیے برسوں انتظار کرنا پڑے گا ( جیسا کہ بلغاریہ اور رومانیہ ۲۰۰۰ سے منتظر ہیں اور ۲۰۰۷ میں انھیں رکنیت ملنے کی امید ہے ) یورپی یونین کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق ترکی ۲۰۱۰، ۲۰۱۵ یا ۲۰۲۵ تک ہی رکنیت حاصل کر سکے گا ، وہ بھی اس صورت میں کہ بیچ میں کوئی ’’ناگہانی‘‘ افتاد نہ آن پڑے ۔ 
یورپی یونین کی رکنیت کے لیے ترکی کی کوششوں کا آغاز ۱۹۶۳ کے معاہدے سے ہوتا ہے جسے عموماً معاہدہ انقرہ کہا جا تا ہے اور جو جمہوریہ ترکی اور یورپین اکنامک کمیونٹی (EEC) کے درمیان ہو ا تھا۔ اس معاہدے کے توسط سے تین مراحل میں ایک CUSTOMS UNION کی داغ بیل ڈالی گئی۔ ۱۹۶۳ سے لے کر ۱۹۷۰ تک کے پہلے مرحلے میں ترکی کی درآمدات میں EEC کا حصہ ۲۹ فیصد سے بڑھ کر ۴۲ فیصد تک ہو گیا ۔ آج کی یورپی یونین ، ترکی کی مجموعی بیرونی تجارت (Foreign trade)کی ۵۰ فیصد کی نمائندگی کرتی ہے ۔ نومبر ۱۹۷۰ کے دوسرے پروٹوکول نے مجوزہ CUSTOMS UNION کی تکمیل کی تفصیلات اگلے ۱۲ سے ۲۲ برسوں کے لیے طے کر دیں۔تیسرے پروٹوکول میں طے پایا کہ EEC ترکی سے اپنی درآمدات کے لیے کس طرح ٹیرف اور دیگر مقداری رکاوٹیں ختم کرے گی (ٹیکسٹا ئل سمیت چند مستثنیات کے ساتھ) اسی طرح ترکی بھی کیسے جوابی اقدامات کرے گا۔ ۱۲ ستمبر ۱۹۸۰ کی فوجی بغاوت کے سبب سے یورپی یونین اور ترکی کے تعلقات چند برسوں کے لیے منجمد ہو گئے ۔ ۱۹۸۷ میں یورپی یونین کی ’’ فل ممبر شپ‘‘ کے لیے ترکی کی درخواست سے تعلقات کو نئی جہت ملی۔ ۱۹۹۰ میں یورپی یونین نے ترکی کی رکنیت کی ’’اہلیت‘‘ کی تصدیق کر دی، تاہم اس نے ترکی کی درخواست پر مکمل غور و فکر ’’زیادہ سازگار ماحول‘‘ کے ظہور تک ملتوی کر دیا۔ اس وقت کمیشن نے تعاون کے پیکیجcooperation package کا وعدہ کیا لیکن یونان کے اعتراض کی وجہ سے اسے موقوف کر دیا گیا ۔جون ۱۹۹۳ میں کوپن ہیگن یورپی کونسل نے رکنیت کے لیے مشہور و معروف ’’کوپن ہیگن معیار۱۹۹۳ ‘‘(Copenhagen criteria1993) تشکیل دیا جس کے مطابق یورپی یونین کی ممبر ریاستوں کے لیے ضروری ہے کہ ان کے ہاں مکمل جمہوریت ہو، عدلیہ آزاد ہو ، اقلیتوں کے حقوق کا پورا تحفظ ہوتا ہو ، قانون کی حکمرانی ہو ، تشدد کا خاتمہ اور انسانی حقوق کی مکمل حفاظت ہوتی ہو ۔ مضبوط مارکیٹ اکانومی ہو ، اور معیشت پر ریاستی اجارہ داری کا خاتمہ ہو ۔ یورپی یونین یہ بھی تقاضا کرتی ہے کہ ریاستی قوانین (مالیاتی پالیسیوں سمیت) یونین کے قوانین سے موافق و ہم آہنگ ہوں ۔ 
یہ بھانپتے ہوئے کہ فل ممبر شپ کی درخواست ’’طاقِ نسیا ں ‘‘ میں رکھ دی گئی ہے، ترکی نے مختصرالمدت فائدہ اٹھانے کی غرض سے CUSTOMS UNION کی تکمیل کی کوششیں کیں۔ ۱۹۹۴ میں دونوں فریقوں کے درمیان کسٹمزیونین بات چیت کا آغاز ہوا جو مارچ ۱۹۹۵ میں مکمل ہو گئی۔ ۳۱ دسمبر ۱۹۹۵ سے ترکی اور یورپی یونین کے درمیان صنعتی اور processed زرعی اشیا کے لیے کسٹمز یونین موثر قرار پائی ۔کسٹمز یونین پر دستخط کرنے کے ساتھ ہی ترکی نے یورپی یونین کی تمام مصنوعات پر درآمدی چارجز اور ڈیوٹیاں ختم کر دیں ۔ ترکی نے مزید برآں وعدہ کیا کہ وہ پانچ برس کے اندر ان ’’تیسرے ممالک‘‘ کی صنعتی مصنوعات پر سے بھی درآمدی ٹیرف ختم کر دے گا جو یورپی یونین کے ساتھ تجارت کرتے ہیں۔ اگرچہ بنیادی زرعی اشیا ابتدائی ایگری منٹ میں شامل نہیں تھیں لیکن بعد میں یکم جنوری ۱۹۹۸ میں ان اشیا کے لیے preferential trade regime کو اپنا لیا گیا ۔ 
اپریل ۱۹۹۷ کی ایسوسی ایشن کونسل میں ترکی کی رکنیت کی اہلیت کو دوبارہ تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ عندیہ دیا گیا کہ یورپی یونین اور ترکی کے تعلقات کا انحصار کئی عوامل پر ہے جیسا کہ یونان ، قبرص ، انسانی حقوق وغیرہ ۔یورپی کمیشن نے اپنی رپورٹ ’’ ایجنڈا۲۰۰۰‘‘ میں ترکی کو ’’توسیعی عمل‘‘ سے خارج قرار دیا جس سے ترک رائے عامہ میں اضطراب پیدا ہوا اور ترکی کی رکنیت کی اہلیت کو تسلیم کرنے اور اسی سانس میں اسے توسیعی عمل سے خارج قرار دینے کو ’’تضاد ‘‘ پر محمول کیا گیا ۔ 
دسمبر ۱۹۹۹ میں منعقد ہونے والی Helsinki European Council میں ایک بڑی پیش رفت ہوئی۔ Helsinki میں ترکی کو بغیر کسی پیشگی شرط کے دوسری امیدوار ریاستوں کی مساوی حیثیت میں سرکاری طور پر ’’امیدوار ریاست‘‘ تسلیم کر لیا گیا ۔ مارچ ۲۰۰۱ میں یورپی یونین نے Accession partnership for Turkey کو قبول کر لیا ۔ 
دسمبر ۲۰۰۲ کی کوپن ہیگن سربراہی کانفرنس میں یورپی یونین نے تاریخی فیصلہ دیا جس کے مطابق یکم مئی ۲۰۰۴ سے دس امیدوار ریاستوں نے اس کا ممبر بن جانا تھا۔ ترکوں کو اس توسیعی عمل سے اپنے اخراج پر یقیناًبہت دکھ ہوا ۔ بہر حال کوپن ہیگن سربراہی اجلاس نے اعادہ کیا کہ اگر دسمبر ۲۰۰۴ میں منعقد ہونے والی یورپی کونسل نے ترکی کو ’’کوپن ہیگن معیار‘‘ پر پورا پایا تو یورپی یونین بلا تاخیر رکنیت کے لیے مذاکرات کا راستہ کھول دے گی ۔ 
ترکی نے کوپن ہیگن معیار پر پورا اترنے کے لیے کئی اقدامات کیے :
۱۔ انسانی حقوق میں بہتری ، قانون کی حکمرانی میں مضبوطی اور جمہوری اداروں کی از سرِ نو تشکیل کے لیے دستور میں ترامیم کی گئیں ۔ ترک پارلیمنٹ نے جنوری ۲۰۰۲ میں نیا سول کوڈ اختیار کیا جس کے مطابق درج ذیل شعبوں میں بہتری آئی :
ا۔ انجمن سازی میں آزادی اور اجلاس کا حق 
ب۔ مرد عورت کی مساوات
ج۔ بچوں کا تحفظ
مذکورہ اصلاحات کے بعد ۲۰۰۲ میں تین قانونی پیکیج آئے ۔ پہلے پیکیج کے مطابق دانشوروں کو ان کے خیالات کے اظہار کے سبب گرفتار اور سزا دینے کے عمل کا خاتمہ کیا جانا تھا ۔ دوسرے پیکیج میں غور و فکر کے آزادانہ اظہار، پریس کی آزادی، انجمن سازی کی آزادی اور پر امن اجتماعات کے دائرے کو مزید بڑھانا مطلوب تھا۔ تیسرے پیکیج کو ترک تاریخ کا ’’سنگِ میل ‘‘ قرار دیا گیا کیونکہ اس کے مطابق :
ا۔ سزائے موت کا خاتمہ کر دیا گیا،
ب۔ انفرادی ثقافتی حقوق پر سے پابندیاں اٹھا لی گئیں ،
ج۔ انسانی حقوق کی یورپی عدالت کے فیصلوں کی روشنی میں مقدمے کی دوبارہ سماعت (retrial) ممکن ہو گئی، جس سے پریس اور اظہار کی آزادی کی قانونی ضمانتوں کو بھی مضبوطی حاصل ہو گئی ۔
د۔ انجمن سازی اور پر امن اجتماع پر پابندیوں کو سہل کیا گیا ،
ر۔ ترکی کی اقلیتوں کے، اپنی کمیونٹی فاؤنڈیشنز کے لیے حقِ جائیداد کو یقینی بنایا گیا ۔
نومبر ۲۰۰۲ میں منعقد ہونے والے الیکشن کے فوراً بعد دسمبر ۲۰۰۲ میں ہی AKP کی نئی حکومت نے نئے قانونی پیکیج متعارف کرائے ۔ پہلے پیکیج کے مطابق ، جسے کوپن ہیگن پیکیج کہا جاتا ہے :
ا۔ ان سرکاری افسروں کے خلاف مقدمہ اور قانونی کارروائی میں حائل رکاوٹوں کو دور کر دیا گیا ، جن پر ایذا رسانی اور بد سلوکی کے الزامات ہوتے تھے ۔
ب۔ ترک حکومت نے بد سلوکی اور ایذارسانی سے متعلق ’’مکمل عدمِ برداشت‘‘(Zero Tolerance) کا اعلان کیا اور اس کے مطابق عمل کرتے ہوئے سرکاری افسروں کو تبدیل بھی کر دیا ۔
اصلاحات کے دوسرے پیکیج نے انسانی حقوق کی یورپی عدالت کے فیصلوں کی بنیاد پرمقدمے کی دوبارہ سماعت سے متعلق سکوپ کو مزید وسعت دے دی ۔
۱۴ جنوری ۲۰۰۴ کو ترک پارلیمنٹ نے ۲۴ بین الاقوامی معاہدات کی منظوری دی ، جن پر ترکی پہلے دستخط کر چکا تھا۔ ان میں ایک کرپشن سے متعلق بھی ہے اور سزائے موت کے خاتمے کے متعلق بھی، حتیٰ کہ جنگی اور ہنگامی کیفیت میں بھی سزائے موت پر پابندی لگا دی گئی۔ 
یورپی یونین کی فل ممبر شپ کے حصول کے لیے ترکوں کے اقدامات کی ’’داستانِ عشق‘‘ کے بعد آئیے، سرسری طور پر دیکھتے ہیں کہ ان کے مقصد کی راہ میں کیا رکاوٹیں حائل ہیں ۔
غالباََ یہ فرانس کے سابق صدر Valery Giseard D' Estaing ہیں جنھوں نے ترک رکنیت کے خلاف پہلا پتھر یہ کہہ کر پھینکا کہ ’’انقرہ مختلف ثقافت ، مختلف اپروچ اور مختلف اندازِ زندگی کا حامل ہے ‘‘ اور یہ کہ ترکی کا ’’دارالخلافہ یورپ میں نہیں، اس کی ۹۵ فیصد آبادی یورپ سے باہر رہتی ہے، یہ یورپی ملک نہیں ہے ‘‘۔سابق جرمن چانسلر ہیلمٹ کوہل نے بھی سابق فرانسیسی صدر کی ہاں میں ہاں ملائی ، اس کے باوجود کہ ان کے بیٹے نے ایک ترک خاتون سے ہی شادی کی ہے۔ جرمنی کی اپوزیشن لیڈر Angela Merkel نے اپنی پارٹی Christian Democratic Union کی نمائندگی کرتے ہوئے صاف صاف کہا ہے کہ ترکی کی شمولیت سے یورپی یونین بے محابا پھیلاؤoverstretch کا شکار ہو کر اپنی موت آپ مر جائے گی۔ Angela Markel کا موقف ہے کہ ترکی کو فل ممبرشپ کی بجائے زیادہ سے زیادہ ایک مراعات یافتہ رکن Privileged Member کی حیثیت دی جائے ۔ پھر ویٹی کن کے Doctrinal Head کا رڈینل جوزف نے بھی اس ’’کارِ خیر‘‘ میں حصہ ڈالنا مناسب سمجھا اور بیان داغا کہ ترکی کی کوئی’’ مسیحی جڑیں‘‘ نہیں ہیں، اسے یورپی یونین کی طرف دیکھنے کی بجائے جنوب میں مسلم عرب بلاک کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ ترکی کی حمایت میں آنے والے امریکی موقف کو یہ کہہ کر دھتکارا جا رہا ہے کہ امریکہ کے نزدیک یورپی یونین کو تباہ کرنے کا یہی یقینی طریقہ ہے۔ 
ترکی کی رکنیت کے خلاف سب سے سخت آواز فرانس سے آرہی ہے، لیکن فرانس میں بھی مقتدر طبقے کے ہاں اس معاملے میں یک سوئی موجود نہیں ۔ صدر شیراک نرم گوشہ رکھتے ہیں ( ان کے مطابق ترکی ۱۰ سے ۱۵ سال کے بعد ممبر بن سکتا ہے ) تو وزیر اعظم Jean Pierre Raffarin مخالفت میں سرگرم ہیں۔ وزیر خارجہ Dominique de Villepin حمایتی ہیں تو دوسری طرف وزیرِ خزانہ Nicolas Sarkozy مخالف ہیں ۔ سوشلسٹ لیڈر Francois Hollande ، مئیر آف پیرس Bertrand Delanoe اور سابق وزیرِ اعظم Lionel Jospin حمایت میں ہیں لیکن ایک اور سابق وزیرِ اعظم Laurent Fabius اور سابق وزیرِ انصاف Robert Bodinter خلاف ہیں ۔ فرانس کے وزیرِ اعظم Jean Pierre Raffarin نے وال سٹریٹ جرنل کو انٹر ویو میں یہاں تک کہہ دیا کہ ’’کیا ہم اسلام کے دریا کو سیکولر ازم کے دھارے میں شامل کرنا چاہتے ہیں؟‘‘ Do we want the river of Islam to enter the riverbed of secularism? (ہماری رائے میں فرانسیسی وزیرِ اعظم کی riverbed of secularism سے مراد درحقیقت riverbed of Christianity ہے ) ترکی کی رکنیت کے دیگر مخالفین کے نکات سے موافقت کے باوجود فرانس کی مخالفت کی ایک بڑی انفرادی وجہ’’ ترکی کا اینگلو سیکسن رویہ‘‘ بھی ہے ۔ترکی کی حمایت میں اٹھنے والی امریکی اور برطانوی آواز کوفرانسیسی اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ مستقبل میں ترکی کے اہم کردار کو بھانپتے ہوئے فرانسیسی فکر مند ہیں کہ ترکی کی شمولیت سے مستقبل کا یورپ فرانسیسی تصورات کے زیادہ قریب نہیں رہے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایک سروے کے مطابق فرانس کے عوام کی بھی صرف ۱۶ فیصد ہی ترک رکنیت کی حامی ہے ۔
ترک رکنیت کے مخالف اس کی بڑی آبادی سے بھی خوف زدہ ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ تقریباً ۷۰ ملین افرادبے روزگاری وغیرہ کے سبب یورپ کا رخ کریں گے ،اس طرح یورپ میں ہر طرف ترک ہی ترک نظر آئیں گے۔ بعض مخالفین یہ نکتہ پیش کرتے ہیں کہ وہی ترکی جو ماضی میں عسکری قوت کے بل بوتے پر یورپ کو فتح نہیں کر سکا ، اب آبادی بم سے یورپ کو ہڑپ کر لے گا۔ یوں اکیسویں صدی کے تین بڑے مظاہر ہوں گے ، (۱) امریکہ واحد سپر پاور ، (۲) چین کی ابھرتی ہوئی معیشت ، (۳) ترکوں کے ہاتھوں یورپ کی اسلامائزیشن۔ اعداد وشمار کے مطابق یورپی یونین میں نئے شامل ہونے والے دس ممالک کی مشترکہ آبادی سے بھی ترکی کی آبادی زیادہ ہے اور ۲۰۱۵ تک اس کی آبادی جرمنی سے بھی بڑھ جائے گی جو آبادی کے لحاظ سے یورپی یونین کا سب سے بڑا ملک ہے ، پھر برسلز میں انتخابات کے موقع پر ترکی کے ووٹ سب سے زیادہ ہوں گے اور یورپی پارلیمنٹ میں یہ سب سے بڑا قومی بلاک ہو گا ۔ اس نقطہ نظر کو تقویت اس تاریخی فکر سے ملتی ہے کہ تہذیبیں دنیا کے نقشے سے اچانک غائب نہیں ہوتیں بلکہ یہ دیگر زیادہ جارح ، زیادہ طاقتور اور زیادہ بھوکی تہذیبیں ہوتی ہیں جو ان کی جگہ لے لیتی ہیں ۔ اکیسویں صدی میں مسلم تہذیب کروٹ لے رہی ہے ۔ ہو سکتا ہے پوری مسلم دنیا میں برپا موجودہ تبدیلی کی شدت پسندانہ لہر مطلوب مقاصد حاصل نہ کر سکے لیکن وہ کم از کم مسلم بیداری کی نشاندہی ضرور کر رہی ہے ۔ اس وقت یورپی یونین کی ۵ فیصدآبادی مسلم ہے (تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ ) اور مورخ Bernard Lewis بتا رہا ہے کہ اس صدی کے اختتام تک یورپ کی اکثریت مسلمان ہو گی ۔ اس وقت فرانس میں ۱۶ سے ۲۴ سال کی عمر کے افراد کا ۱۵ فیصد، برسلز میں ۲۵ سال سے کم عمر افراد کا ایک چوتھائی ، مارسیلیز کی آبادی کا ۲۵ فیصد اور مالمو سویڈن کی آبادی کا ۲۰ فیصد مسلمان ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا اندازہ ہے کہ اگلے پچاس سالوں میں یورپ کے آبائی لوگ ۱۰۰ ملین یا اس سے بھی زیادہ تخفیف کا شکار ہو جائیں گے، جبکہ یورپ کی مسلم آبادی کافی زرخیز واقع ہوئی ہے اور یہ ۲۰۱۵ تک دوگنی ہو جائے گی۔کسی تہذیب یا معاشرے کے جاری و ساری رہنے کے لیے کم از کم شرح پیدایش فی خاتون 2.1 بچے ہیں، جبکہ یورپ کی شرح پیدایش 1.5 ہے اور اس میں مسلسل کمی ہو رہی ہے ۔ 
بہر حال ترکی کے ’’آبادی بم ‘‘ کے گوناگوں خطرات کے باعث یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ اس معاملے میں مستقل بنیادوں پر تحفظاتی اقدامات Permanent Safeguard Measures کیے جائیں ، یعنی رکنیت کے باوجود ترک آبادی کویورپی یونین میں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہ دی جائے ۔ اس تجویز کو یہ کہہ کر رد کیا جا رہا ہے کہ اس سے قبل یورپی یونین کی کسی بھی توسیع میں کسی بھی نوعیت کی پابندیاں ’’عارضی‘‘ رہی ہیں۔ پھر یہ کہ ترکوں سے امتیازی سلوک کوان کے ’’اسلامی پس منظر ‘‘ سے بھی منسلک کیا جا سکتا ہے ، جس سے یورپی یونین کی سیکولر اور غیر مذہبی حیثیت پر حرف آئے گا۔اس تعطل کی کیفیت اور مایوس کن صورتِ حال میں توسیعی کمشنر Verheugen کی ایک جرمن جریدے Der Spiegel سے بات چیت ترکوں کے لیے آس اور امید کا پیغام لائی ہے۔ Verheugen نے کہا ہے کہ یورپ کو ترکی کی ضرورت پڑے گی کیونکہ اس کی آبادی گھٹ رہی ہے ، ہم ایک روز ترکوں کی آمد پر خوش ہوں گے ۔ کیا فرق پڑتا ہے اگر صحیح لوگ آ رہے ہوں؟ کہا جاتا ہے کہ Verheugen نے دوسرے کمشنروں کو قائل کر لیا ہے ، صرف ڈچ کمشنر Frits Bolkestein مخالفت پر کمر بستہ ہے اور منہ پھاڑ کر کہہ رہا ہے کہ یورپی یونین میں ترکی کے داخلے کا مطلب یہ ہے کہ ۱۶۸۳ کی جدوجہد بے کا رتھی جب ترکی کو ویانا سے پیچھے ہٹا دیا گیا تھا۔ ہمیں حیرت ہے کہ ڈچ کمشنر ماضی سے سیکھنے کی بجائے ماضی میں رہنا چاہتا ہے (یہ مرض اصل میں مسلمانوں کو لاحق ہے ) Frits ایک مغالطے کا شکار ہے جیسا کہ یہ فرض کرنا کہ قرونِ وسطیٰ کے لوگ اپنی نگاہوں میں بھی قرونِ وسطیٰ ہی کے تھے۔ ہم طوالت سے گریز کرتے ہوئے فقط اتنا کہیں گے کہ کوئی فلسفہ، تاریخ کے بے نشان راستے کا پتا نہیں بتا سکتا۔ جو لوگ خلوص اور فہم و بصیرت سے تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں ، تاریخ انھیں فلسفہ ضرور سکھا دیتی ہے۔ شاید Frits کو فلسفہ سکھانے سے تاریخ بھی عاجز آگئی ہے، اسی لیے اس نے عجیب و غریب شوشہ چھوڑا ہے ۔
ترک رکنیت کی مخالفت کی ایک اور وجہ اس کی کمزور معاشی حالت ہے ۔ اگر ایک طرف اس کی آبادی جرمنی سے بھی بڑھتی نظر آ رہی ہے تو دوسری طرف اس کی فی کس آمدنی پولینڈ کی نصف سے ذرا زیادہ ہے ۔ یہ سنگین صورتِ حال ہے ۔ معاشی سرگرمیوں میں ریاستی اجارہ داری ، افراطِ زر کی بڑھتی ہوئی شرح ، کرپٹ سرکاری افسروں اور بے روزگار نوجوانوں کے ساتھ سوائے مسائل پیدا کرنے کے ترکی یورپی یونین کے کس کام آ سکتا ہے؟ ترکی کے لیے تسلی بخش بات یہ ہے کہ Organization for Economic Cooperation and Development (OECD) نے، جو تیس ممالک پر مشتمل ایک تنظیم ہے، اپنی رپورٹ میں ۲۰۰۰۔ ۲۰۰۱ کے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے ترک اصلاحات کو شاندار قرار دیا ہے ۔ OECD کے صدر Doland J. Johnston کے مطابق انقرہ کی معاشی کارکردگی ’’نہایت عمدہ‘‘ قرار دی جا سکتی ہے ۔Johnston نے مزید کہا کہ ترکی کا ممبر بننا ، ترکی اور یورپی یونین دونوں کے مفاد میں ہے ۔ اس تعریف و توصیف کے باوجود OECD کی رپورٹ کے مطابق انقرہ کو اخراجات پر کنٹرول ، پبلک سروسز میں بہتری ، نج کاری میں تیزی اور ٹیکس کلچر میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ ملک میں پھیلی ہوئی بہت بڑی بلیک مارکیٹ کو لگام دینی ہو گی۔ ان اقدامات سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھے گا ، افراطِ زر میں کمی ہوگی اور ترکی طویل المدتی معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا ۔ ترکی کے وزیرِ اعظم طیب اردگان نے OECD کے ممبر ممالک کے سفرا سے ملاقات میں یورپی یونین کی رکنیت کے سلسلے میں ترکی کے کیس کی سفارش کی ۔ خیال رہے کہ OECD کے ممبران میں سے ۱۹ ممالک یورپی یونین کے بھی ممبر ہیں ۔(یورپی یونین کے اس وقت کل ۲۵ ممبرز ہیں ) ترک خیال کر رہے ہیں کہ رکنیت ملنے سے ترکی میں یورپی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کا سیلاب آ جائے گا جس سے ترکی کے وسائل سے زیادہ بہتر طور پر فائدہ اٹھایا جا سکے گا اور معاشی ترقی کے لیے درکار مخصوص رویہ بھی پروان چڑھے گا۔
یورپی یونین اور ترکی کے معاشی تعلقات کی نوعیت پر ترکی کے اندر سے بھی آوازبلند ہو رہی ہے ۔ بعض ترک حلقوں کا کہنا ہے کہ اکتوبر میں یورپی کمیشن سے ملنے والے گرین سگنل کے باوجود اور دسمبر میں رکنیت کے لیے مذاکرات کی راہ کھلنے کی چاہے توقع ہو ، پھر بھی ’’ٹیرف یونین ‘‘ پر نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ مکمل رکنیت ملنے میں اور اس سے مفاد لینے میں برس ہا برس لگ جائیں گے۔ ان حلقوں کے مطابق ٹیرف یونین ایک سامراجی معاہدہ ہے جس کے مطابق انقرہ ، برسلز کے فیصلوں پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ ٹیرف یونین سے ترکی ، یورپی مصنوعات کا درآمدی ملک بن چکا ہے۔ ٹیرف یونین کے قواعد کے مطابق ترکی کو اپنی زرعی مصنوعات ، یورپ برآمد کرنے کی اجازت نہیں ۔ اس طرح ٹیرف یونین صرف یورپ کے مفاد میں ہے کہ ترکی کا برآمدی خسارہ بھی ۲۰ بلین ڈالرز تک پہنچ گیا ہے ۔یہ حلقے یورپ سے تعلقات کے مخالف نہیں ، بلکہ صرف قومی مفاد میں برابری کی سطح پر ہی تجارتی تعلقات چاہتے ہیں۔ 
ترک رکنیت کی مخالفت کے دیگر اسباب میںAgean Sea ، قبرص کا مسئلہ اوریورپی سلامتی کے امور وغیرہ شامل ہیں ۔ ترکی ۱۹۵۲ سے نیٹو کا ممبر ہے اور امریکہ کے بعد نیٹو میں اس کی سب سے بڑی فوج ہے ۔ ترکی کی سرحدیں جن ممالک سے ملتی ہیں، انھیں اسلامی ریڈیکل ازم کی cockpit کہا جاتا ہے ۔ یہ ترقی نہ کر سکنے والے کمزور ممالک ہیں جہاں امریکہ موجود ہے اور موجود رہے گا اور پھر اسرائیلی پالیسیاں بھی مغرب کی مخالفت کو بھڑکانے کو ہر دم تشکیل پاتی رہیں گی۔ ترکی کی رکنیت سے یورپی یونین مشرقِ وسطیٰ کے بحرانی خطے میں خواہ مخواہ الجھ جائے گی ۔ اس صورتِ حال کے باوجود مشترکہ خارجہ اور سلامتی پالیسی کے لیے یورپی یونین کے ہائی کمشنر Javier Solana نے ترکی کی رکنیت کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی کی شمولیت کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان میں بنیادی وجہ یورپی سلامتی ہے۔ Javier کے مطابق مشرقِ وسطیٰ کے بحران اور عالمی دہشت گردی سے ڈانواں ڈول دنیا میں ترکی کی ایک خاص جغرافیائی تزویراتی پوزیشن ہے ۔ ترکی کے وسائل ، جغرافیے اور جدیدیت کے توسط سے اسلامی دنیا پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے جس سے یورپ کی سلامتی میں اضافہ ہو گا ۔ 

حاصلِ بحث 

بات سمیٹتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یورپی یونین میں ترکی کی رکنیت کے حوالے سے تین آپشن موجود ہیں :
ا ۔ رکن بنا لیا جائے ، ب۔ رکن نہ بنایا جائے ، ج۔ سپیشل رکن بنایا جائے ۔
اگر ترکی کو رکن بنانے کا عندیہ دے دیا جاتا ہے تو: 
(۱) اس کی فرانس اور جرمنی کے ساتھ چپقلش سی موجود رہے گی کہ فرانس کا تصورِ یورپ اور جرمنی کی بڑی آبادی والی ریاست کی حیثیت متاثر ہوگی ۔
(۲) روس، چین اور ایران سے اس کے تعلقات متوازن نہیں رہیں گے ۔ 
(۳) ترکی میں امریکی مفادات اور اثرات کے سبب سے یورپی یونین میں ترکی کو ’’امریکہ کے آلے ‘‘ کے طور پر لیا جائے گا ۔ خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ سے ترکی کی ہمسائیگی اور اس خطے میں امریکی مصروفیات ، ترکی کے کردار کو خود مختار نہیں رہنے دیں گی۔ 
(۴) رکنیت کے حصول کے لیے ترکی کو اپنے ثقافتی اثاثے کی قربانی دینی ہو گی جو یقیناًبہت بھاری قیمت ہے۔ خیال رہے، رکنیت کا مسئلہ ترکی کی محض خارجہ پالیسی کا حصہ نہیں، بلکہ اس کے لیے داخلی محاذ پر بھی انتہائی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کرنی ہوں گی ۔ 
(۵) ترکی کی مزید مغرب زدگی سے مسلم انتہا پسند مزید انتہا پسندی کی طرف مائل ہو جائیں گے جس سے خود ترکی اور یورپی یونین خطرات میں گھرے رہیں گے ۔ مزید یہ کہ باقی مسلم دنیا تنہائی کا شکار ہو جائے گی ۔ 
(۶) مغرب زدہ قوانین اور یورپی لوگوں سے آزادانہ اختلاط کے باوجود ترکوں میں اسلامیت موجود رہے گی جس کا اظہار سماجی سطح پر ہوتا رہے گا ۔ اس سے یورپی یونین کے اندر کشمکش جنم لے گی ۔ 
(۷) ترکی کے راستے سے جمہوریت، انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی وغیرہ جیسے نظریات مشرقِ وسطیٰ میں پھل پھول سکیں گے۔ 
(۸) ترکی کو اسی ہزار صفحات پر مشتمل یورپی قوانین کو اختیار کرنا ہو گا ۔ ترکی کے مسلم تہذیبی پس منظر میں یہ عمل آسان نہیں ہو گا ۔ 
اگر ترکی کو ممبر نہیں بنایا جاتا اور صاف انکار کر دیا جاتا ہے تو : 
(۱) یورپی یونین کو مسیحی کلب قرار دیا جائے گا۔ہنٹنگٹن کا تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ سچ ثابت ہو گا ۔ 
(۲) ترکی کے اندر مسلم ریڈیکل ازم کی تند و تیز لہر آئے گی جس کے منفی اثرات یورپی یونین پر لازماً مرتب ہوں گے ۔ 
(۳) ترکی کا پورا جھکاؤ روس، چین اور ایران وغیرہ کی طرف ہو جائے گا۔
(۴) مشرقِ وسطیٰ کے راستے سے آمرانہ ، جابرانہ، جانبدارانہ ، تعصب اور تنگ نظری پر مبنی کلچر ترکی پہنچے گا اور اس کے ابھرتے ہوئے جمہوری اور مارکیٹ اکانومی پر مبنی سفر کی راہ میں حائل ہو جائے گا۔ ایسا بدلا ہوا اور مزید بدلتا ہوا ترکی یورپی یونین کو بھی کچوکے لگاتا رہے گا۔ 
(۵) خود یورپی یونین کے اندر ’’ترک دشمن‘‘ نفسیات کو ہوا ملے گی، کیونکہ ترکی کو یونین سے مکمل باہر رکھنے والا گروہ ترکی کو باہر کر دینے کے سبب یورپی یونین کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہو گا اور یہ گروہ ترکوں کے اسلامی ماضی کو خوفناک طریقے سے لوگوں کے اذہان میں ڈالنے سے باز نہیں آئے گا۔ 
(۶) یورپی یونین کی داخلی وحدت تیزی سے پروان چڑھے گی، کیونکہ اس کی دہلیز پر صدیوں پرانا دشمن زخم خوردگی کی حالت میں ہوگا۔ یہ صورتِ حال یورپی یونین میں جرمنی جیسی بڑی ریاستوں کے مفاد میں ہو گی ۔ 
اگر ترکی کو فل ممبر کی بجائے سپیشل یا privileged ممبر بنایا جائے تو :
(۱) ترکی ، یورپی یونین اور روس، چین، ایران وغیرہ کے ساتھ بیک وقت متوازن تعلقات قائم کرنے کی پوزیشن میں ہو گا ۔ 
(۲) ترکی کی حیثیت مشرقِ وسطیٰ کے بحرانی خطے اور ترقی یافتہ یورپی یونین کے درمیان ’’بفر ریاست‘‘ کی ہو گی ۔ ہر دو خطوں کے مختلف النوع اثرات ’’ترک چلمن‘‘ سے چھن چھن کر ایک دوسرے پر مرتب ہوں گے ۔ 
(۳) جرمنی اور بالخصوص فرانس سے بھی ترک تعلقات دوستانہ ہوں گے کیونکہ فرانس کے تحفظات فل ممبرشپ کے حوالے سے ہیں ۔
(۴) یورپی یونین کے ممبر ممالک میں ’’ ترک دشمن تاریخی فضا‘‘ میں بتدریج کمی آئے گی ۔اس دوران میں ترکی سے تحفظات کی موجودگی کے پیشِ نظر یورپی یونین میں داخلی وحدت بھی آئے گی۔ اس کے بعد ایک طرف ترک دشمنی میں نمایاں کمی آئے گی اور دوسری طرف یورپ کے داخلی وحدت سے ہمکنار ہونے کے سبب سے ترکی کی فل ممبرشپ ممکن ہوسکے گی۔ اس وقت تک ترکی مشرقِ وسطیٰ اور یورپی یونین کے اثرات کو ہر دو خطوں میں ’’امتزاجی ‘‘ اعتبار سے متعارف کروا چکا ہوگا۔ خیال رہے کہ یونین کی جانب سے رکنیت سے مکمل انکار یا مکمل ہاں کی صورت میں ’’ترک دشمنی ‘‘ کی چنگاری کو ہوا ملنے کے زیادہ امکانات ہیں ہیں۔
(۵) اگر ترکی کو ممبرشپ دینے سے یکسر انکار کر دیا جاتا ہے تو اسے اس انداز میں بھی دیکھنا چاہیے کہ یورپ اپنی قوم کے سامنے کوئی ’’چیلنج‘‘ رکھنا چاہتا ہے کہ اقوام کی زندگی چیلنجز کی عدم موجودگی میں سست روی میں ڈھل جاتی ہے ۔ لیکن چیلنج اتنا ہی ہونا چاہیے جسے قوم سہار بھی سکے ۔ ہماری رائے میں مسلم دشمنی یا ترک مسلم تہذیب کو یورپی اقوام کے سامنے بطور چیلنج رکھنا ، یورپ کے لیے خسارے کا سودہ ہو گا ۔ اگر ترکی کو ’’سپیشل ممبر‘‘ بنا دیا جاتا ہے تو یہی چیلنج تخفیفی حالت میں موجود ملے گا جو یورپ کے لیے سود مند سودا ہے ۔ 
(۵) ترکی کے اندر اور باہر مسلم انتہا پسند اور اعتدال پسنددونوں گروہ مطمئن رہیں گے ۔ انتہاپسند اس عمل کو مکمل مغرب زدگی سے پرہیز پر محمول کریں گے اور اعتدال پسندوں کے نزدیک یہ قدم مستقبل کے لیے سنگِ میل شمار ہو گا۔
(۶) ترکی اس پوزیشن میں ہو گا کہ اپنے ثقافتی اثاثے کی کم سے کم قربانی دے کریورپی یونین سے زیادہ زیادہ فوائد حاصل کرے کیونکہ ترکوں کو فل ممبرشپ نہ دینے کے باعث یورپی یونین ان کے (اسلامی نوعیت کے ) داخلی نظام کو بدلنے کے لیے بے جا اصرار کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے گی ۔ اس طرح ترکوں کو نہ صرف زنا کاری جیسے معاملات میں پسپائی اختیار نہیں کرنی پڑے گی بلکہ اس کے خاندانی نظام جیسے تہذ یبی ادارے بھی قائم رہیں گے۔ 
اختتامی کلمات کی طرف بڑھتے ہوئے ہم یہی گزارش کریں گے کہ ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت کے لیے اتنی ’’فریفتگی‘‘ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے کہ وہ ہر دم وضاحتوں کے کٹہرے میں کھڑا نظر آئے ۔اس وقت زناکاری کے معاملے نے جس طرح سر اٹھایا ہے ، اسے دیکھ کر ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ اٹلی کی رکنیت کے بعد بھی وہاں طلاق غیر قانونی رہی اور اسی طرح آئر لینڈ میں بھی اسقاطِ حمل ۱۹۹۲ تک غیر قانونی تھا۔ پھر ترکی پر رکنیت سے قبل ہی اتنا پریشر کیوں ؟ کیا یہ ترکوں کی فریفتگی کے اثراتِ بد تو نہیں؟ ہم ترک وزیرِ اعظم طیب اردگان سے گزارش کریں گے کہ جس طرح محض قانونی ڈھانچے سے مطلوب معاشرہ تشکیل نہیں دیا جا سکتا (شاید اسی لیے یورپی یونین نے کہا ہے کہ ترکی کے داخلی نظام میں تبدیلی کے حوالے سے صرف ’’قانونی پہلوؤں ‘‘ کو ہی نہیں دیکھا جائے گا بلکہ ان کی’’ عملی صورت‘‘ کو پرکھا جائے گا کہ مطلوب مقاصد حاصل ہوئے ہیں یا نہیں؟) اسی طرح قانون بدلنے سے کو ئی معاشرتی یا تہذیبی ڈھانچہ بھی تبدیل نہیں ہو سکتا۔ اس کی مثال نہ صرف سابق سوویت یونین میں مسلم تہذیبی ورثے کی بقا ہے بلکہ خود ترکی کی تاریخ گواہ ہے کہ ترک مسلم تہذیب کا چراغ، مصطفی کمال کی جدیدیت اور سیکولر ازم کی پھونکوں سے نہیں بجھ سکا۔ اب بھلا یورپی پھونکیں اس کا کیا بگاڑ لیں گی ؟ 
۱۹۹۸ میں جناب اردگان کو ایک نظم لکھنے کی پاداش میں دس ماہ کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا تھا۔ وہ شاعر قائد کسی حد تک صاحبِ ایمان ہی ہو گا جس کی شاعر ی کا محبوب ، صنم خانے کا کوئی ’’بت خود آرا وخود بیں ‘‘ نہیں بلکہ عبادت خانہ خدائے وحدہ لا شریک، مسجد ہے ۔ جناب اردگان نے نظم میں کہا تھاکہ ’’ مساجد ہماری بیرکیں ، مینار ہماری سنگینیں ، گنبد ہمارے ہیلمٹ اور توحید پرست ہمارے سپاہی ہیں ‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا دل گداختہ شاعر راہنما بھی اگر ترک مسلم تہذیب کی خلقی صلاحیت کو فروغ دینے کی بجائے وضاحتوں کے کٹہرے میں کھڑا ہے تو پھر اس تہذیب کو ’’تاریک راہوں ‘‘ میں مارے جانے سے کون بچا سکتا ہے؟ 

سنی شیعہ کشیدگی کا مسئلہ

ادارہ

(۱)
وقت کی یہ ستم ظریفی بھی دیدنی ہے کہ جب مذہب کے نام پر مذہبی روح کو کچلا جا رہا تھا اور مذہب ہی کے نام پر اللہ کی زمین پر انسانی خون بہ رہا تھا ، اس وقت اسلام نے انسان کو اس کا بھولا ہوا سبق یا د دلایا اور فرمایا کہ انسان اپنی فکر اور عمل میں آزاد ہے۔ اس کے سامنے نیکی اور برائی کی دونوں راہیں کھلی ہیں۔ اپنی مر ضی سے جس راہ کو اختیار کر نا چاہے ،کر سکتا ہے۔ مسلم مفکرین نے مزید کہا کہ کائنات میں قدم قدم پرپھیلے ہوئے خدائی کاموں کا مشاہدہ و مطالعہ ایک مقدس کام ہے۔ یہ مطالعہ، یہ غور وفکر ایسی ذات گرامی کا پتہ دیتا ہے جواس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ اس سے رشتہ جوڑے بغیر انسانی روح کو قرارنہیں ملے گا۔
تا ریخ مذہب میں اسلام نے فکری آزادی جو اعلان کیا تھا،اس پر مغرب میں بہت کچھ لکھا گیا، لیکن بیسویں صدی میں برصغیر کے معروف مارکسی انقلابی دانشور ایم این ،رائے (M.N .Roy) نے اپنی کتاب The Historical Role of Islam میں ایک نئے انداز سے لکھا : ’’آخری بڑے مذاہب میں اسلام عظیم ترین مذہب تھا ۔چنا چہ اس نے تمام مذاہب کی بنیادوں کو ڈ ھادیا ۔ اس کا یہ عمل اس کی تاریخی عظمت کی روح ہے۔‘‘
اسلام اور عربی تعلیمات کا مرکز وہی تاریخی سر زمین ہے جہاں پر پرانی مصری ،اشوری، یہودی ،ایرانی ،اور یونانی تہذیبیں اٹھیں ،ٹکرائیں اور زوال پزیر ہوئیں۔ پہلی تہذیبوں کا مثبت نتیجہ یہ تھا کہ انھوں نے عرب کلچر کے خدوخال بنانے میں حصہ لیا اور محمد ﷺکے عظیم نظریہ تو حید نے ان پرانی قوموں کے مذہبی اصولوں کو اپنا لیا۔
مسلم دنیا کی فکری اورعملی کامیابیوں کے بعد مسلم معاشرے پر زوال آیا۔ایسا کیوں ہوا؟ اس پر لکھتے ہوئے M.N.Roy نے لکھا : ’’جب آزادی فکر کا، جس کی اجازت صحرائی لوگوں کو سادہ عقیدے (اسلام)نے دی تھی، ٹکراؤمسلمانوں کے ارباب اقتدار کی دنیاوی دلچسپیوں سے ہواتو قرطبہ کے والی نے مذہبی رہنماوں کے اصرار پر ایک فرمان جاری کیا جس میں دوزخ کی آگ کے حوالے سے مذہبی بنیادوں پر ملحدانہ خیالات کی مذمت کی گئی۔ اسلام کی مقدس ترین تعلیم کی مذمت دراصل انسانی ترقی کے تنزل کی ابتداتھی۔‘‘
سپین میں آزادی فکر کے نام لیواعربوں کے ساتھ دین ودانش کے دشمنوں نے جو سلوک کیا ، تاریخ آج تک اس کے ماتم سے فارغ نہیں ہو سکی۔
یہ دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ہے کہ اہل پاکستان کی اکثرت (شیعہ سنی) جو تو حید و رسالت کے مضبوط رشتوں میں منسلک ہے اور اسلام کی عظیم فکری اور روحانی روایات کی وارث، ابھی تک پوری طرح سے مذہبی فرقہ واریت سے نجات حاصل نہ کر سکی۔ گزشتہ مئی میں کراچی میں جو ہولناک فسادات ہوئے ہیں، اس نے بتادیا ہے کہ ہم اخلاقی طور پر کس مقام پر کھڑے ہیں۔ صد افسوس ہم نے بڑی بے رحمی سے اپنی شاندار مذہبی اور روحانی روا ت کوبحیرہ عرب میں غرق کر دیا ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ہم نے نہ صرف اپنے ہی بھائیوں کا خون اللہ کے گھرمیں بہایابلکہ سڑکوں پرچلنے والے عام لوگ بھی فرقہ واریت کی آگ میں جلے۔ ان کی کاریں یا دکانیں جلادی گئیں۔ کیا کوئی مذہبی ،اخلاقی اورسیاسی ضابطہ ہمیں اس بھیانک رویے کی اجازت دیتا ہے؟ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جدید دور اپنے جلو میں نئی صحت مند روایات لایا ہے۔ افسوس نہ تو ہم اپنی کلاسیکل فکری اور روحانی روایات کا تحفظ کر سکے اور نہ ہی جدید صحت مند روایات کا ساتھ دے سکے ۔ میر نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ 
دیدنی ہے شکستگی دل کی
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے 
عہد حاضرمیں دونوں جماعتوں کے اہل علم نے برابر کوشش کی ہے کہ مسلمانوں کے دونوں تاریخی گروہ ایک دوسرے سے قریب تر آئیں۔ چنانچہ شیخ عبدالکریم الزنجانی النجفی نے ۱۹۶۱ء میں اپنی کتاب ( الوحدۃ الاسلامیہ والتقریب بین مذاہب المسلمین) نجف سے شائع کی۔ اس کتاب میں تفصیل سے بتایا ہے کہ امام زنجانی نجفی نے سنی شیعہ اتحاد کے لیے قاہرہ میں شیخ مصطفی المراغی اور شیخ محمود شلتوت سے کامیاب ملاقاتیں کیں اور دمشق کی اموی مسجد میں حضرت السجاد علی ابن الحسین زین العابدین سے صدیوں بعد امام نجفی اسلامی اور شیعہ تاریخ میں عہد حاضر کے پہلے آدمی ہیں جنھوں نے مسجد اموی کے منبر پر کھڑے ہو کر دنیائے اسلام کے مسلمانوں کو مخاطب کیا۔ یہ رسالہ آج بھی طہران سے شائع ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ چند سال پہلے شیخ الازہر مرحوم شیخ شلتوت نے تین طلاقوں کے بارے میں فتویٰ دیتے ہوے لکھا ہے کہ ہم اس مسئلہ میں فقہ جعفریہ کے مسلک پر فتویٰ دیتے ہیں۔ 
قرآن مجید نے اہل صفا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ’’اللہ کے بندے تو وہ ہیں جو زمیں پر وقار سے چلتے ہیں اور جب بے وقوف لوگ ان سے نادانی کی بات کرتے ہیں تو ’’(تم پر)سلامتی ہو‘‘سے جواب دیتے ہیں۔‘‘ (الفرقان ۶۲۔۶۳) آنحضرت ﷺسے خطاب کر تے ہوے قرآن نے فرمایا: ’’آپ اپنے پر وردگار کی راہ کی طرف لوگوں کو بلاؤ تو اس طرح کہ حکمت کی با تیں بیان کرو اور پندو نصیحت کرو اور مخالفوں سے بحث کرو تو (وہ بھی ) ایسے طریقہ پر کہ حسن وخوبی کا طریقہ ہو۔‘‘ اگر ہمیں کشاکش روزگا ر اورباہمی نفرت سے فرصت مل جائے تو نہایت ہی صبر وتحمل سے اپنی گھات میں بیٹھ کر اپنی ’انا‘ کا تماشہ ضرور دیکھنا چاہیے۔ شاید اس وقت ہمیں پتاچلے کہ ہماری انا کن کن بیما ریوں کا شکار ہے۔ ان بیماریوں میں نفرت اور تشدد ایسی بیماریاں ہیں جو ہماری تباہی اور رسوائی کا سبب بنی ہیں۔ رسول کریم ﷺکا ارشاد ہے، ’’خدایا! گواہ رہنا۔ سب بندے بھائی بھائی ہیں۔‘‘ ایک دوسری حدیث میں آپ ﷺنے فرمایا، ’’تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ اللہ کی نگاہ میں عزیز تر وہی ہے جواس کے کنبے کے لیے سب سے زیادہ بھلائی کرتا ہے۔‘‘ ایسی پاکیزہ تعلیمات رکھتے ہوئے یہ ہماری بد بختی ہے کہ ہم نہ صرف پوری انسانی سوسائٹی سے بلکہ اپنے مسلمان بھائیوں سے بھی بر سرپیکار ہیں۔ سعدی نے ٹھیک کہا ہے کہ اہل صفانے تو اپنے حسن عمل سے دشمنوں کے دل جیتے ہیں اور ہمارا حال یہ ہے کہ اپنے دوستوں کو بھی دشمن بنالیا ہے۔ 
شنیدم کہ مردان راہ خدا
دل دشمناں ہم نہ کردند تنگ
ترا کے میسر شود ایں مقام 
کہ با دوستانت خلاف است وجنگ 
بے شبہ ان فسادات نے ہمارے اخلاقی اورسماجی نظام کے چہرے سے نقاب کو الٹ دیا ہے۔حالاں کہ دونوں عظیم گروہ، شیعہ اور سنی، خدا کی توحید اور رسول اکرم ﷺکی آخری نبوت پر دل کی گہرائیوں سے یقین رکھتے ہیں، لیکن علم کلام اور فقہ کی اختلافی جزئیات نے ہماری ساری فکری، اخلاقی اورروحانی صلاحیتوں کو جذب کر لیا ہے اور صبر وتحمل اور عفو وکرم کی ساری تعلیمات جو قرآن اور اسوہ رسول ﷺسے ہمیں ورثے میں ملی تھیں، ہم نے ان کو غرق دریا کر دیا۔ اناللہ واناالیہ راجعون ۔ اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے علم الکلام کی عینک اتار کر قرآن مجید اور سیرت رسول ﷺکو پڑھیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ یہ ملکوتی نغمہ ہمارے فکر ونظر کی جلااورقلب وروح کی تسکین کے لیے اپنے پاس کیاکیا سامان رکھتا ہے۔ پکتھال نے سچ کہا تھا کہ قرآن مجید کی ایک ایسی سمفنی (symphony) ہے جس پر انسانی آنکھ کے آنسو گرتے ہیں اور سننے والا جذب ومستی سے سرشار ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اہل علم نے، خواہ ان کا تعلق اہل سنت سے ہے یا اہل تشیع سے، ہمیشہ حق کا ساتھ دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب بیسویں صدی کی پہلی چوتھائی میں ایک شیعہ اسکالر مولانا مرتضیٰ نے ’معراج العقول‘ جیسی کتاب لکھی تو ابوالکلام آزاد نے لکھا، ’’فریقانہ نزاعات اور تقلید نے ہمتوں کو پست کر دیا ہے اور کسی شخص کو راہ حقیقت میں قدم رکھنے کی جرات نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ صاحب معراج العقول کو جزائے خیر دے جنھوں اس راہ میں قدم رکھا اور اجتہاد واستقلال فکرکے ساتھ اپنی سیاحت تحقیق ختم کی۔‘‘ ابوالکلام نے مزید لکھا، ’’میں نے کبھی سنیوں کی کسی بات کو محض اس لیے اچھا نہیں کہا کہ وہ سنی ہیں اور شیعہ کی کسی سچائی سے انکار صرف اس لیے نہیں کیا کہ وہ شیعہ ہیں۔ حق وصداقت کی طہارت جماعت بندی کی گندگی سے آلودہ نہیں ہو سکتی۔‘‘ (البلاغ، ۱۸فروری ۱۹۱۶ء، ص۱۱۸)
مولانا نے ’معراج العقول‘ کے مصنف کے علم وفضل کا اعتراف کر تے ہوے لکھا، ’’بہاؤ الدین عاملی کے بعد معراج العقول کے مصنف پہلے صاحب علم ہیں جو مجتہدانہ بصیرت رکھتے ہیں ۔‘‘
خاکسار یہاں دوسرے واقعہ کو بھی بیان کرنا وقت کی ضرورت سمجھتا ہے۔ مرحوم پروفیسر اطہر علی ،علی گڑھ یونیورسٹی سے آسٹریلیاکی یو نیورسٹی میں چلے گئے تھے جہاں انھوں نے پرو فیسر بھاشم سے مل کر ہندوستان کی تاریخ پر لکھا ہے۔ انھوں نے یو پی میں جدوجہد آزادی سے متعلق تاریخی دستاویزا ت مرتب کی ہیں جسے یوپی حکومت نے شائع کیا ہے۔ ان دستاویزات میں ان علماء کرام کا بھی ذکر ہے جنھوں نے تحریک آزادی ہند میں حصہ لیا تھا۔ وہ گرمیوں میں آسٹریلیا آیا کرتے تھے۔ ان سے ۱۹۶۷ء اور ۱۹۶۸ء میں لندن یو نیو رسٹی کی طلبہ یونین میں ملاقاتیں رہتیں ۔ ایک دفعہ انھوں نے مجھ سے کہا کہ جب ۱۹۳۵ء میں یوپی میں کانگرس حکومت تھی اور پنڈت پنتھ وزیر اعلیٰ، اس وقت لکھنو میں شیعہ سنی تعلقات کشیدہ تھے اور دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف جلوس نکال رہے تھے جس پر UP حکومت نے پابندی لگادی تھی۔ جب لکھنو کے سنی مسلمانوں نے مدح صحابہ کے سلسلے میں جلوس نکالنے کی اجازت مانگی تو حکومت نے اس سلسلے میں مولانا ابوالکلام سے رجوع کیا تو مولانا نے اپنے ایک خط بنام وزیر اعلیٰ میں لکھا کہ وہ اہل سنت کو مدح صحابہ سے متعلق جلوس نکالنے کی اجازت نہ دے۔ جب لکھنوی مسلمانوں کو اس بات کا پتہ چلا تو ان کا ایک وفد ابوالکلام سے کلکتہ میں ملا۔ مولانا نے اپنے مخصوص انداز میں کہا، میرے بھائیو! وقت کی نزاکت سمجھو۔ شیعہ سنی موجودہ نزاع مسلمانوں کے قومی مفاد میں نہیں۔ پروفیسر موصوف نے خاکسار سے کہا کہ انھوں نے یہ فائل خود پڑھی ہے ۔
صحیح بات وہی ہے جو علامہ سید انور شاہ کشمیری کہا کرتے تھے کہ دو مذہب کے دو شریف آدمی آپس میں مل کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن ایک ہی مذہب کے دو پست نظر نام لیوا ایک جگہ مل کر بیٹھ نھیں سکتے۔ خاکسار کو یقین ہے کہ مسلمانوں کے اہل نظر (شیعہ ہوں یا سنی) اگر ذرا متحرک ہو جائیں تو اس مسئلہ کا حل ڈھونڈسکتے ہیں۔ شیعہ حضرات میں خاکسارایسے اہل نظر کو جانتا ہے جو دونوں فریقوں کے ہاں معزز ومحترم مانے جاتے ہیں۔ کیا کوئی مرحوم پروفیسر کرار حسین یا ڈاکٹر حسین محمد جعفری کے علم وفراست اور تاریخی بصیرت سے انکار کر سکتا ہے؟ اس پایہ کے اور بھی کئی اہل علم ہیں جو کراچی کی صدائے دردناک کا شدت سے احساس رکھتے ہیں اور ہماری آستینوں میں چھپے ہوے نفرت وتشدد کے خنجر سے نجات بھی دلا سکتے ہیں۔ فہل من مدکر؟ 
(تحریر: ڈاکٹر رشید احمد جالندھری۔ بشکریہ سہ ماہی ’’المعارف‘‘ لاہور ) 

(۲)
صرف میں ہی نہیں، اس ملک کا ہر باشعور آدمی جانتا ہے کہ اس سارے عمل کا کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے۔ ملک بھر سے گنتی کے چند علما کو جمع کر کے یہ گمان کرنا کہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا ہو جائے گی اور مذہب کے نام پر تشدد کی لہر دم توڑ دے گی، ایک ایسی سادگی ہے جس کے نتیجے کے بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان علما میں کوئی ایک آدھ ہی ایسا تھا جو اس سارے معاملے میں حکومت کا اصل مخاطب ہو سکتا ہو۔ جناب اعجاز الحق اور ان کے جملہ رفقاے کار کے فہم وفراست کے باب میں ہم زیادہ توقعات وابستہ نہ کریں تو بھی ایک ایسی بات کی توقع تو ضرور کی جانی چاہیے کہ جس کا تعلق عمومی شعور (Common sense) کے ساتھ ہے۔
اس سارے معاملے میں چند باتیں سمجھنے کی ہیں، شرط یہ ہے کہ کوئی اس کی خواہش رکھتا ہو۔
۱۔ مذہب میں تشدد کا تعلق دو امور سے ہے۔ ایک داخلی اور دوسرا خارجی۔ اس ملک میں شیعہ اور سنی اختلاف میں تشدد کا عنصر ۱۹۸۰ء کی دہائی میں داخل ہوا۔ دونوں طرف کے ایک آدھ اقلیتی گروہوں نے یہ راستہ اپنایا اور اپنی شدت آمیز (Aggressive) حکمت عملی سے اپنے اپنے فرقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہمارے پڑوس میں واقع مذہبی تشخص رکھنے والی ریاستوں نے حسب توفیق اس میں اپنا حصہ ڈالا اور یوں یہ شعلے بے قابو ہو گئے۔ قوم جانتی ہے اور حکومت بھی کہ یہ کون لوگ ہیں۔ ان کی بعض سرگرمیاں خفیہ ہو سکتی ہیں لیکن ان کی تنظیم اور ان کا پیغام علانیہ ہے۔ جب تک حکومت ان سے کوئی معاملہ نہیں کرتی اور ان گروہوں کو دوسرے مذہبی طبقات سے الگ کر کے نہیں دیکھتی، یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔
خارجی پہلو امریکی رویہ ہے جس نے بہت سے مسلمانوں میں یہ سوچ پیدا کی ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتا ہے اور جارحیت سے نمٹنے کا ’جہاد‘ یعنی قتال کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ خود کش حملوں کی روایت کا ماخذ یہی تصور دین ہے۔ حکومت جانتی ہے اور عوام بھی کہ کون لوگ اس نقطہ نظر کے حامل ہیں۔ اس معاملے سے نمٹنے کے لیے ایک علمی کاوش کی ضرورت ہے جو اس خیال کی مذہبی غلطی واضح کرے، اور ایک ضرورت سماجی ہے جو اس کے متبادل فکر کا ابلاغ عام کرے۔ اس کے لیے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ایک بھرپور مہم چلانا ہوگی۔ اس کے ساتھ بعض اقدامات وہ ہیں جو حکومتیں لا اینڈ آرڈر کو برقرار رکھنے کے لیے اٹھاتی ہیں۔
۲۔ جن حضرات سے خود کش حملوں کے خلاف فتوے لیے جا رہے ہیں، ان کے معتقدین پہلے ہی اس کو درست نہیں سمجھتے اور وہ لوگ ا ن کے فتوے کو درخور اعتنا سمجھنے کے لیے تیار نہیں جو اس نقطہ نظر کے حامل ہیں۔ نتیجتاً یہ فتوے تحصیل حاصل ہیں اور ان کے نتیجے میں حالات میں کوئی جوہری تبدیلی واقع ہونے والی نہیں۔
۳۔ جو لوگ اس سارے معاملے میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں، ان کے بارے میں حکومت کا رویہ بہت حیرت انگیز اور غیر منطقی رہا ہے۔ ایک طرف محض شک کی بنا پر بغیر کسی ثبوت کے اپنے تئیں ان کو مجرم قرار دے دیا گیا۔ اسلام آباد میں غازی عبد الرشید کی گرفتاری اور پھر اسی مکتب فکر کے بعض مذہبی اداروں پر چھاپے اسی طرز عمل کا شاخسانہ ہے۔ یہ بے بصیرتی پر مبنی (Ill-conceived) ایسا رویہ ہے کہ خود حکومت کو اس سے رجوع کرنا پڑا۔ وزیر اطلاعات نے چند روز پہلے ارشاد فرمایا کہ ان کا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ طرز عمل ملک میں اکثر مقامات پر روا رکھا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں حکومت کے حصے میں طعن وتشنیع آتی ہے، کاش وزارت مذہبی امور کو اس کا ادراک ہوتا۔
دوسری طرف ان لوگوں سے مکمل لاتعلقی کا مظاہرہ کیا گیا۔ حکومت نے ان کے ساتھ کبھی سنجیدہ مکالمہ نہیں کیا اور انھیں اس سارے معاملے میں شریک مشاورت نہیں کیا۔ اس کا مظاہرہ ہم اس میٹنگ میں دیکھ سکتے ہیں جو اس کالم کی بنیاد ہے۔ یہ ہمارے ہاں وزارتوں اور سرکاری اداروں کا عمومی طرز عمل ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں ان لوگوں سے کوئی رابطہ نہیں کرتے جو فی الواقع اس شعبے میں اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کے پیش نظر ہمیشہ بعض دوسرے عوامل رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسلامی نظریاتی کونسل کی اگر آپ تاریخ اٹھائیں تو ڈاکٹر ایس ایم زمان یا ڈاکٹر خالد مسعود جیسی چند مستثنیات کے علاوہ اس کے اراکین کا انتخاب علم وفضل کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے محرکات کبھی شخصی ہوتے ہیں اور کبھی سیاسی۔ آپ پاکستان ٹیلی ویژن کے مذہبی پروگرام دیکھیں۔ آدمی حیرت سے سوچتا ہے کہ اس ملک میں یہی مذہبی عالم باقی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرز عمل کے بعد وہی کچھ ہوتا ہے جو ہو رہا ہے۔
میں اس سے بڑھ کر یہ کہتا ہوں کہ اس ملک میں مجلس عمل کو ساتھ لیے بغیر آپ کوئی مذہبی مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔ متحدہ مجلس عمل کا ایک تشخص سیاسی ہے اور ایک مذہبی۔ میرا خیال ہے کہ اگر اس فرق کو ملحوظ رکھا جائے اور حکومت مذہبی معاملات میں ان کو اعتماد میں لے تو ان مسائل کا بہتر حل نکل سکتا ہے۔ جناب قاضی حسین احمد نے چینی انجینئروں کے اغوا اور ان کے مارے جانے پر اپنے صدمے کا اظہار کیا ہے اور اس سارے عمل سے گویا اپنی لا تعلقی کا اظہار کیا ہے۔ حکومت اگر مذہبی تشدد کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد کو ہم نوا بنا سکتی تو یہ اس کی بڑی کامیابی ہوتی اور معاشرے پر اس کے اثرات بھی ہوتے۔ مولانا فضل الرحمن نے شیعہ سنی کشیدگی کم کرانے میں بہت اہم اور غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ کالعدم سپاہ صحابہ، جمعیت علماے اسلام سے متعلق لوگوں کی تنظیم ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنوں کی گالیاں کھائیں لیکن اس طرز عمل کی کبھی حمایت نہیں کی اور بہت کامیابی کے ساتھ دیوبندی مکتب فکر کو اس سارے عمل سے دور رکھا۔ میرے نزدیک اگر اس معاملے میں حالات میں کوئی بہتری آئی تھی تو اس کا کریڈٹ انھیں جاتا ہے۔ جماعت اسلامی کے بارے میں تو یہ واضح ہی ہے کہ وہ ایسی گروہ بندی پر یقین ہی نہیں رکھتی۔ حکومت اگر ان لوگوں کو نظر انداز کر کے یہ خیال کرتی ہے کہ گنتی کے چند علما خود کش حملوں کے خلاف ’’فتوے‘‘ دیں گے اور حالات سنور جائیں گے تو یہ بصیرت کا کوئی اچھا مظاہرہ نہیں۔ اس حوالے سے یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ حکومتوں کے کہنے پر دیے جانے والے فتوے اگر درست ہوں تو بھی معاشرے میں کبھی قبولیت عام حاصل نہیں کر سکتے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو عباسی خلفا خلق قرآن کے مسئلے پر اپنی بات منوا لیتے۔ تاریخ آج صرف امام احمد بن حنبل کو جانتی ہے جنھوں نے حکومتی فتوے کو نہیں مانا۔ وہ ہزاروں علما جنھوں نے حکومت کے کہنے پر قرآن کو مخلوق کہا، آج ایک بھولی بسری داستان ہیں۔
مذہب، سچ یہ ہے کہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے، اگر اس کے سیاسی اور سماجی اثرات بھی معاشرے پربہت گہرے ہوں۔ یہ بات یہاں سیکولر ازم کی بات کرنے والوں کی سمجھ میں آ سکی ہے اور نہ حکومت کرنے والوں کی۔ اس کا وہی نتیجہ نکلتا ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ یہ مسئلہ اگر اتنا سادہ ہوتا کہ آرمی ہاؤس کی ایک چھوٹی سی مسجد میں چند علما کو ایک ساتھ نماز پڑھا دینے سے حل ہو جاتا تو شاید یہ سرزمین اس سیارے پر جنت کا ایک ٹکڑا ہوتی۔
(خورشید احمد ندیم۔ روزنامہ جنگ لاہور۔ ۱۸ اکتوبر ۲۰۰۴)

’’برہمن‘‘ کی پختہ زناری بھی دیکھ

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

بش اور بلیر اینڈ کمپنی کو ’’برابر کی چوٹ‘‘ کا اب تک کوئی نہ مل رہا تھا۔ یہ کمی بالآخر عراق میں فلوجہ کے ابو مصعب الزرقاوی نے پچھلے دنوں پوری کی۔ مگر افسوس کہ یہ کمی جس مقابلہ میں پوری ہوئی، اس میں بھی جیت کمپنی کی ہوئی۔ زرقاوی برابر رہ کر بھی ہار گئے۔ برابر وہ اس معنی میں رہے کہ مسٹر بلیر نے اگر ان کے مطالبہ پر جھکنے سے انکار کیا اور شدید اندرونی دباؤ کے باوجود انکار پر قائم رہے تو زرقاوی نے بھی ہر طرف سے آنے والی اپیلوں کے دباؤ کا اسی ’’ثابت قدمی‘‘ سے مقابلہ کیا اور اپنا قول کہ ’’عراقی عورتوں کو امریکن جیلوں سے نکلواؤ ورنہ تمھارا آدمی، کینتھ بِگلے (Kenneth Bigley) جو ہمارے ہاتھ میں ہے، قتل کر دیا جائے گا‘‘ پورا کر دکھایا۔ مگر زرقاوی برابری ثابت کر کے بھی اس لیے ہارے کہ انھوں نے جو کیا، وہ نہایت افسوس ناک عمل تھا۔ ان کے ہاتھ میں جو انگریز انجینئر تھا، اس کا انھوں نے کوئی گناہ نہیں بتایا تھا۔ بلیر اور بش کے گناہوں کے عوض ان کے ایک بے گناہ ہم قوم کا قتل سراسر گناہ تھا۔ اس نے اسلام اور مسلمانوں کو بد نام کیے جانے کی اس مہم کو تقویت بھی پہنچائی جس کے بادل اٹھا کر افغانستان اور عراق پر چڑھائی کی راہ نکالی گئی تھی۔ اور بلیر اس کے برعکس جیتے ہوئے یوں نظر آئے کہ یہ ان کے لیے ایک سخت آزمایش کا موقع تھا اور اس موقع پر زرقاوی کی مانگ کے جواب میں جو فیصلہ انھوں نے کیا، وہ گویا تلوار کی دھار پہ چلنا تھا مگر ان کے منصب کا تقاضا یہی تھا۔ ملک اور پارٹی کا وقار اس سے وابستہ تھا۔ سخت حالات میں منصب کے تقاضوں سے وفاداری نہ چھوڑنا بڑائی دینے والی بات ہے۔
اس قصہ کے دن ستمبر کے آخری ہفتہ کے وہ دن تھے کہ مسٹر بلیر کی لیبر پارٹی کی سالانہ کانفرنس کا آغاز ہونے جا رہا تھا اور اس کانفرنس میں پارٹی کے ان لوگوں کی بھاری تعداد کا سامنا بلیر کو کرنا تھا جو عراق پر چڑھائی کے معاملے میں پہلے دن سے بلیر پالیسی کے مخالف تھے اور اب حالات وشواہد نے بلیر کو تمام تر غلط اور ان کو صحیح تر ثابت کر دیا تھا۔ ایسے میں ایک برطانوی شہری کی جان کا معاملہ، جو بلیر پالیسی ہی کا نتیجہ تھا، ایک بڑی جذباتی فضا جنگ مخالف لوگوں کے حق میں پیدا کر دینے والا معاملہ تھا۔ ان کے سوا بِگلے کا خاندان بھی جہاں زرقاوی سے رحم کی اپیلیں کر رہا تھا، وہاں اپنے وزیر اعظم پر بھی یہ جان بچانے کے لیے دباؤ ڈالنے کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑ رہا تھا۔ ٹی وی کیمرے ان کو پورا تعاون دے رہے تھے۔ بِگلے کی بوڑھی ضعیف ماں روتی ہوئی بیٹے کی رہائی مانگتی اسکرین پر دکھائی جا رہی تھی۔ ایسے سخت دباؤ کے ماحول میں ایک جمہوری حکمران کے لیے آسان نہ تھا کہ وہ اپنے فیصلہ پر آخر تک قائم رہ جائے۔ بلیر نے یہ کمزوری دکھانے سے انکا رکر کے یقیناًپالا جیت لیا۔ عراق پر امریکی فوج کشی میں ان کی شرکت کتنی ہی قابل مذمت ہو، وہ ایک دوسری بات ہے۔یہاں اس سے ایک بالکل الگ مسئلہ کی گفتگو ہے۔ یہ بحیثیت لیڈر ایک خاص کردار کا مسئلہ ہے۔ ٹونی بلیر نے ثابت کیا کہ وہ اس کردار کے معاملہ میں پوری طرح قابل اعتماد ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک شہری کی جان کھو کر آئندہ کے لیے ایسی مزید آزمایش کا راستہ بھی بند کر دیا اور ملک کا وقار بھی بچا لیا۔
اس آزمایشی منظر سے نظر بے اختیار اپنے یہاں کے اس منظر کی طرف جاتی اور اداس ہوتی ہے جس میں قائدانہ کردار کی یہ صلابت واستقامت نہیں ملتی۔ امریکی برطانوی سامراجیت نے جب ۲۰۰۱ء میں افغانستان کا رخ کیا تو پڑوسی پاکستان میں جن لوگوں نے خود اس کے مقابلہ کا عزم ظاہر کیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس معاملہ میں ساتھ دینے کے لیے پکارا، وہ حالات کی سختی سے رفتہ رفتہ اس قدر بدلے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ جیسے وہ لوگ کوئی اور تھے جنھوں نے اس وقت وہ باتیں کی تھیں۔ امریکہ اور برطانیہ نے افغانستان پر قناعت نہ کر کے عراق کو بھی روند ڈالا ہے مگر ان کا یہ فاصلہ بڑھانے والا عمل الٹا فاصلوں کو کالعدم کرنے والا ثابت ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ۲۰۰۱ء میں جس افغانستان پر یہ لوگ عذاب بن کر نازل ہوئے تھے، وہ طالبان کا افغانستان تھا۔ ’’طالبان‘‘ کا لفظ آپ سے آپ بھی ’’مدرسہ‘‘ سے ان کے رشتہ کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ پھر مدرسے خود بھی آگے بڑھ بڑھ کر اپنا رشتہ دکھا رہے تھے۔ طالبان سے فارغ ہوتے ہی امریکہ اور اس کے ساتھ ساتھ کم وبیش تمام مغربی ممالک نے ضروری جان لیا کہ ’’طالبان‘‘ سے آئندہ کے لیے اطمینان حاصل کرنے کو پاکستان (بلکہ دنیا بھر) کے مدارس کی ’’اصلاح‘‘ لازم ہے، ورنہ یہ ’’نرسری‘‘ اگر باقی رہی تو ’’سرپھرے‘‘ پھر ضرور نکلتے رہیں گے۔ اس سلسلہ میں ان کی یہ مرکزی سوچ کوئی راز نہیں کہ وہ یہاں کے دینی تعلیم کے نظام کو اس ’’اعتدال پسند‘‘ (Moderate) اسلام کی تعلیم کے نظام سے بدلا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں جس کے فارغین کو ان کے اس تصور زندگی سے ہم آہنگی میں کوئی دقت محسوس نہ ہو جسے وہ ڈیماکریسی اور لبرٹی وغیرہ کی اصطلاحات سے ادا کرتے ہیں۔
اس صورت حال میں توقع کی جاتی تھی کہ طالبان کو بچالینا اگرچہ پاکستان کے دینی قائدین کے بس کی بات نہ تھی اور یوں وہ ایک ملک بھی الگ تھا، مگر یہ جو خود پاکستان کے مدارس نشانہ پر رکھے جا رہے ہیں، ان کو تو وہ اپنے جیتے جی مغربی ’’اصلاحات‘‘ کا شکار ہرگز نہ ہونے دیں گے۔ مگر ہم ایک حیرت زدگی کے عالم میں خبریں پڑھتے ہیں کہ مغربی ممالک کے سفارت کار ہمارے مدرسوں میں گھوم پھر رہے ہیں اور نظام تعلیم کی جدید کاری کے لیے ہمہ جہت تعاون کی پیش کشیں ان کی زبانوں پر ہیں۔ دل پوچھتا ہے، کیا ان لوگوں کے لیے کسی بھی درجہ میں ہمارے ہمت افزا رویہ کا کوئی جوڑ افغانستان پر بمباری کے وقت ہمارے جذبات اور رویہ سے لگایا جا سکتا ہے؟ کسی کو اگر ان کی ڈپلومیٹک زبان کے جادو سے کوئی دھوکہ ان کے مقاصد وعزائم کے بارے میں ہو گیا ہو تو مسٹر بلیر کی اسی کانفرنس کی تقریر پڑھ لینی چاہیے جس کا ذکر اوپر آیا۔
اس کانفرنس پر عراق کا مسئلہ چھایا رہا تھا اور جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا، اس مسئلہ پر مسٹر بلیر کو خود اپنی پارٹی میں پہلے دن سے سخت مخالفت کا سامنا ہے۔ اس کانفرنس کا موقع بظاہر ان کے لیے اس سلسلہ کی آزمایشوں کا آخری اور سخت ترین موقع تھا مگر تمام سابقہ موقعوں کی طرح وہ اس بار بھی پار ہوجانے کی صلاحیت کا ثبوت دے گئے، یا کہیے کہ قسمت ساتھ دے گئی۔ برطانوی صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کے اندازوں اور ذرائع کے مطابق مسٹر بلیر کو اس کانفرنس کے لیے تقریر کی تیاری میں بذات خود بہت محنت کرنا پڑی تھی اور کیس جس قدر کمزور تھا اور جیتنا بہرحال تھا، تو اس کے لیے ضرور ایسا ہوا ہوگا۔ اس تقریر میں یوں تو اور بھی بہت کچھ تھا مگر اصلاً جو چیز محنت طلب تھی، وہ عراق پر جا پڑنے کا جواز ان سب باتوں کے باوجود بتانا جنھوں نے جواز کے لیے بنائے گئے سرے کیس کی بخیہ ادھیڑ ڈالی ہے۔ نیز اس تقاضا کو رد کرنا کہ اب جو ناسازگار حالات وہاں پر ہیں، ان کی بنا پر وہاں سے نکل آنا چاہیے، نکل آنے کے تقاضا کو رد کرتے ہوئے جو کچھ موصوف نے کہا، اس میں پاکستانی مدرسوں کا بھی صراحتاً ذکر خیر ہے اور اس طور پر کہ ابھی عراق سے نکل آنے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے، یہ جو عراق میں اور جہاں تہاں دہشت گردی سر اٹھائے ہوئے ہے اور ہماری مہم کا اصل ہد ف وہی ہے، اس کے تو سرچشموں تک ہمیں پہنچنا اور تباہ کرنا ہے۔ اور ان سرچشموں میں سے ایک ہیں پاکستان کے مدرسے۔ لیجیے، تقریر کا یہ متعلقہ حصہ یہاں پڑھ لیجیے:
There are two views of what is happening in the world today. One view is that what is happening is not qualitatively different from the terrorism we have always lived with ..... We try not to provoke them and hope in time they will wither. 
The other view is that this is a wholly new phenomenon. Worldwide terrorism is based on a perversion of the true, peaceful and honourable faith of Islam; that its roots are in the madrassas of Pakistan, the extreme form of Wahabi doctrine of Saudi Arabia, in the former training camps of al-Qaedah in Afghanistan. If you take this view, the only path to take is to confront the terrorism, remove its roots and branches and at all costs stop its acquiring the weapons to kill on a massive scale. (The Times, 30 Sep 2004)
’’آج جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے، اس کے بارے میں دو نقطہ نظر ہیں۔ ایک یہ کہ یہ دہشت گردی کوئی نئی نرالی چیز نہیں۔ یہ ہوتی ہی آئی ہے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں کہ ان لوگوں کو چھیڑا جائے۔ یہ خود ہی ختم ہو جائیں گے۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ ایک بالکل نرالا ظہور ہے۔ یہ عالمگیر نوعیت کی دہشت گردی ایک سچے، پر امن اور معزز دین، اسلام کی تحریف پر مبنی ہے اور اس کی جڑیں ہیں پاکستان کے مدرسوں میں، سعودی وہابیت کی انتہا پسندانہ شکل میں اور القاعدہ کے سابق افغانی ٹریننگ کیمپوں میں۔ اس نقطہ نظر کو قبول کیا جاتا ہے تو پھر واحد راہ عمل یہ ہے کہ اس دہشت گردی سے ٹکرایا جائے، اس کی جڑوں اور شاخوں سب کا صفایا کیا جائے اور کسی بھی قیمت پر یہ نوبت نہ آنے دی جائے کہ اس کے ہاتھ میں وسیع پیمانہ پر مار دھاڑ کے ہتھیار آ جائیں۔‘‘
کیا اس اقتباس کو پڑھ کر بھی کوئی شبہ رہنا چاہیے کہ یہ جو ہمارے مدارس کے لیے مغرب کی چھاتیوں میں ایک دم سے ’’دودھ اتر آیا‘‘ ہے، اس کا اصل مقصد کیا ہے؟ بش اور بلیر جو اس مہم کے پیشوا ہیں، ان میں سے بلیر صاف بتا رہے ہیں کہ وہ مدرسوں کی موجودہ تعلیم کو برداشت نہیں کر سکتے۔ اس کو انھیں، بزعم خود اسی طرح جڑ سے اکھاڑ دینا ہے جس طرح افغانستان سے القاعدہ کے ٹریننگ کیمپ صاف کر کے ’’سابق‘‘ بنا دیے گئے۔
ہمیں تو یہی سمجھنا مشکل ہو رہا تھا کہ جنرل پرویز صاحب نے حکومت سنبھالنے کے بعد سے جو مدارس کی ’’اصلاح‘‘ کا علم اٹھایا تو ہمارے اہل مدارس اپنے رویہ سے یہ ظاہر کرنے کے باوجود کہ وہ اس سے خطرہ محسوس کرتے ہیں، جنرل صاحب سے کبھی یہ کیوں نہ پوچھ سکے کہ دستور پاکستان کی کون سی شق حکومت کو مجاز بناتی ہے کہ ان آزاد دینی مدارس کے نصاب تعلیم میں کچھ اپنی منشا داخل کریں؟ ہم نے اس خیال کے ماتحت دستور پاکستان کی ورق گردانی بھی کی، ہمیں تو کوئی ایسی شق دکھائی نہ دی۔ یہاں کے نصاب تعلیم میں کوئی چیز ایسی داخل ہو جو دستور کی رو سے ناروا ہو تو حکومت اس کو بے شک کہے کہ اصلاح کی جائے۔ مگر اس کے ماسوا تو صرف ایک عام شہری والے حق سے بس رائے زنی جائز ہو سکتی ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ لیکن اب اس پر مزید جو یہ مغربی سفارت کاروں کے ساتھ معاملہ دیکھنے میں آ رہا ہے، وہ تو یہ تاثر دیتا ہے کہ دل شاید ’’ناتواں‘‘ تھا جو مقابلہ میں دم توڑ گیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اندیشہ گزر رہا تھا کہ اس میں کہیں دخل القاعدہ کی طرف منسوب ابو مصعب زرقاوی جیسے جیالوں کا طرز عمل نہ ہو جس کے حوالہ سے اسلام اور اسلامی تعلیمات کے اداروں کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ کہیں اس پراپیگنڈے کے دباؤ میں تو یہ دینی قیادت نہیں آ گئی؟ خاص کر ایسے حالات میں کہ اندر خود اپنی حکومت بھی وہی ایجنڈا لیے ہوئے چل رہی ہے، لیکن ابو مصعب زرقاوی جیسے لوگ تو تمام تر جناب بش اور بلیر کی اس سفاکی کا رد عمل ہیں جس کی گواہ افغانستان اور عراق کی سرزمین ہے اور جس پر خود امریکہ اور برطانیہ کے لاکھوں لوگ اپنے صدر اور وزیر اعظم کو لعنت کناں اور شرمسار ہیں۔ امریکی صدر بش اپنی عالمی سطح کی ذمہ دارانہ حیثیت کے باوجود اگر دو تین ہزار امریکنوں کی موت پر اس قدر آپے سے باہر ہو سکتے ہیں کہ مفلوک الحال افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر بھی تسکین نہ پائیں تو عراق پر توڑی گئی ایسی قیامت سے جس کے لیے بہانہ بھی بغیر جعل سازی کے میسر نہ تھا، زرقاوی جیسے نوجوانوں کا عربوں میں نکل آنا اسے کیوں کر بجز رد عمل ماننے کے ہم سے کوئی تیار ہو سکتا ہے؟ مگر افسوس کہ ایک خبر ہمارے اندیشہ کو عین واقعہ اور حقیقت بتانے والی سامنے آ کر رہی ہے اور مسٹر بش اور بلیر کی اپنے ایک انتہائی شرمناک موقف پر ڈھٹائی کے ہم معنی مضبوطی کے مقابلہ میں اپنوں کی لچک کا منظر دیکھ کر علامہ اقبال کا یہ نوحہ یاد آگیا ہے:
دیکھ مسجد میں شکست رشتہءِ تسبیح شیخ
بتکدہ میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ
یہ خبر اسلام آباد میں ۱۶ ستمبر کو منعقدہ ’’پہلی بین المذاہب کانفرنس‘‘ کے حوالہ سے ہے جو ماہنامہ ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ (پاکستان) شمارہ اکتوبر ۲۰۰۴ء میں تفصیل سے نقل ہوئی ہے۔ اس کانفرنس کے داعی وفاق المدارس کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد حنیف جالندھری تھے۔ مولانا کے استقبالیہ خطبہ کا جو اقتباس خبرمیں دیا گیا ہے، اس کے یہ دو تین جملے ہمارے موضوع گفتگو سے تعلق رکھتے ہیں:
’’انھوں نے مدارس کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے افراد معاشرہ کی اصلاح کا اہم ذریعہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دین ومذہب کا دہشت گردی سے کوئی واسطہ نہیں اور ہم سب مل کر دہشت گردی کے خلاف کام کریں گے۔‘‘
عام حالات میں ان جملوں کا ہر لفظ مکمل تائید کا مستحق ہے، مگر اس وقت امریکہ اور برطانیہ (یعنی بش اور بلیر) نے دہشت گردی کی اصطلاح کو مبہم رکھ کر اور باوجود دنیا کے اصرار کے اس کے مفہوم کا تعین یو این او میں بھی نہ ہونے دے کر، جو ستم اس اصطلاح کی آڑ میں اپنی سامراجیت کا مقابلہ کرنے والوں پر ہر طرف سے توڑ رکھا ہے، اس کے بعد اس مبہم ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف مزاحمت کا عہد کرنے کے لیے (خاکم بدہن) امریکہ اور برطانیہ کی پراپیگنڈا طاقت کے آگے سپر ڈال دینے کے سوا دوسری تعبیر سمجھ میں نہیں آتی۔
اس گفتگو میں روئے سخن اگرچہ خاص پاکستان کی طرف ہو گیا ہے جس کی وجہ مخفی نہ ہونی چاہیے، مگر پڑوسی ہندوستان کے اہل مدارس کے بارے میں بھی جو کچھ اسی طرح کی خبریں آنے لگی ہیں تو جو پاکستان والوں پر صادق آئے گا، وہ بعینہ ان پر بھی۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ ہمارے مدارس کے نصاب تعلیم میں تبدیلیوں کا جو سوال اٹھا ہے، یہ لکھنے والا اصولاً اس کی تائید میں ہے۔ خود اس نے مدرسہ میں پڑھا اور احسان مند ہے، مگر روز بروز شدت سے محسوس کرتا ہے کہ اس نے جو وہاں پڑھا، زمانہ کی دینی ضرورت کے لحاظ سے وہ کم تھا۔ مگر یہ تبدیلی اسلام کو مغربی تصور کے مطابق ’’ماڈرن‘‘ بنانے کے نقطہ نظر سے آئے، اس سے اللہ کی پناہ!

مجید امجد کی دو نظمیں

پروفیسر طارق محمود طارق

مجید امجد (1914...1974) کی شاعری کا صرف ایک مجموعہ (شبِ رفتہ) ان کی زندگی میں شائع ہو سکا۔ اس میں پندرہ غزلیں اور بیشتر نظمیں ہیں ۔ مجید امجد کے ہاں روایتی شعرا کی سی لفظی گھن گرج موجود نہیں۔ سخت بات کہتے ہوئے بھی ان کا لہجہ بہت دھیما رہتا ہے ۔ درخت ، مجید کی شاعری کا بنیادی استعارہ ہے جو شہر کی کلیت میں انسانی زندگی کی انتہائی مثبت قدروں کا حامل ہے اور اس کی موجودگی افراط و تفریط کے جدید عہد میں ’’قطب نما‘‘ کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے ۔ درخت سے وابستہ حیاتیاتی اثبات (Biological Assertion) کو جب مجید امجد معاشرتی سطح پر منطبق کرنے آ تے ہیں تو سانس کی ڈوری برقرار رکھنے کی کوشش میں ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے کروڑوں نفوس ان سے کہلوا لیتے ہیں :
وہی اک فکر اس کو بھی ،مجھے بھی
کہ آنے والی شب کیسے کٹے گی 
مجید امجد نے جب شاعری کی دنیا میں قدم رکھاتھا ، اس وقت برصغیر میں شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کا رنگِ سخن ہی ’’طرزِ فغاں‘‘ قرار پا چکا تھا ۔مجید امجد نے اس اقبالی فضا میں بھی اپنی حساسیت کی ندرت قائم رکھی ۔ اپنی نظم ’’حرفِ اول‘‘ کے آخری بند میں کہتے ہیں :
بیس برس کی کاوشِ پیہم 
سوچتے دن اور جاگتی راتیں 
ان کا حاصل
اک یہی اظہار کی حسرت
ادب کے سنجیدہ ناقدین مجید امجد کے ان سوچتے دنوں اور جاگتی راتوں تک رسائی ’’شبِ رفتہ ‘‘ کے توسط سے پاتے ہیں اور اظہار کی حسرت کھنگالتے رہتے ہیں ۔ پروفیسر طارق محمود طارق کا شمار بھی ایسے ناقدین میں ہوتا ہے ۔ پروفیسر صاحب نے ان سطور میں اپنے ممدوح کی دو نظموں پر مختصراً لیکن بہت ہی معتبر انداز سے قلم اٹھایا ہے ۔ یوں سمجھیے کہ ان نظموں کی معنویت اجاگر کر کے طارق صاحب نے مجید امجد کی بنیادی فکر کے بے کراں پہلوؤں کو گرفت میں لینے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ (پروفیسر میاں انعام الرحمن)]

توسیع شہر 

نظم کا عنوان ’توسیع شہر‘ معکوس معنی رکھتا ہے ، یعنی بظاہر یہ شہر کی توسیع ہے مگر در حقیقت ہم زندگی کے معانی کو محدود کر رہے ہیں اور زندگی کی طرف ہمارا نقطہ نظر کشادگی اور وسعت کا حامل ہونے کی بجائے ، ماضی کی نسبت محدود تر ہے ۔ مجید امجد کہتے ہیں کہ وہ درخت جو نہر کے کنارے بیس برس سے سایہ کناں تھے ، اب انھیں کاٹا جا رہا ہے ۔ درخت کاٹنے والوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ یہ درخت کتنے پر سایہ ، کتنے ہرے بھرے اور کتنے خوبصورت تھے ۔ انھیں صرف اس قیمت سے سروکار ہے جو ان درختوں کی فروخت سے انھیں حاصل ہوگی ۔ یہ درخت جن کی سانس کا ہر جھونکا ایک طلسم تھا اور اس گاتی نہر کے قریب اور لہلہاتے کھیتوں کی سرحد پر جو بانکے پہریداروں کی طرح کھڑے تھے ۔ 
درخت اس طرزِ زندگی کا حوالہ ہے جس میں زندگی اور فطرت کے حسن سے سچی وابستگی میسر تھی اور زندگی کی ترجیحات مادی نہیں تھیں بلکہ روحانی تھیں ۔ آج کا انسان فطرت کے حسن سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔ وہ درختوں کی خوبصورتی محسوس نہیں کر سکتا ، بلکہ درختوں کو کاٹ کر ان کی جگہ سڑکیں اور عمارتیں تعمیر کر رہا ہے ۔ شہر کی یہ توسیع اس طرزِ زندگی اور طرزِ احساس کے خاتمے کا نتیجہ ہے ، جو فطرت کے خوبصورت مظاہر کے ساتھ وابستگی پر مبنی تھا۔ شہر کی یہ توسیع اس بد صورت طرزِ زندگی کی توسیع ہے جو مصنوعی پن اور مادی ترجیحات پر مبنی ہے۔ 
مجید امجد کہتے ہیں کہ اگر درختوں کا حسن بے معنی ہے تو پھر شاعر کا شعر اور فنکار کا فن بھی بے معنی اور بے مصرف ہے ۔ زندگی کے دیگر مظاہر کی طرح درخت بھی ہمارے احساسِ حسن کی تسکین کرتے ہیں ۔ وہ لوگ جو حسنِ فطرت سے وابستگی کھو چکے ہیں ، کچھ عجب نہیں کہ فنونِ لطیفہ بھی ان کے لیے بے معنی اور بے مصرف ہو کر رہ جائیں اور شاعر کی سوچ ’’لہکتی ہوئی ڈال‘‘ بھی ان کے قاتل تیشوں کی زد میں آجائے ۔ 
اس مقتل میں صرف اک میری سوچ لہکتی ڈال 
مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک اے آدم کی آل 

پیش رو

اس یخ کدہ یقین غم میں
دیکھو یہ شگفتہ دل شگوفے 
ماحول نہ کائنا ت ان کی
اک نازِ نمو حیات ان کی
مجید امجد کا بنیادی نقطہ نظر یہ ہے کہ اپنے وسیع تر مفہوم میں زندگی جبروالم سے عبارت ہے ۔ مگر اس کائناتی جبر کے سامنے زندگی کو خوبصورتی اور رجائیت کے اسباب بھی میسر ہیں ۔ زندگی ’’یخ کدہ یقین غم ‘‘ ہے یعنی زندگی کامجموعی اور dominant پہلو زندگی کی سنگین اور بے رحم واقعیت اور اس کا یاس و الم کا پہلو ہے ، مگر الم کی یہ شدت انسانی زندگی کی خوشیوں اور خوبصورتیوں کو اور زیادہ گراں قدر بنا دیتی ہے ۔ الم کے وسیع تر منظر کے سامنے یہ فرصتِ نشاط ہمارے لیے زندگی سے وابستگی کا سامان ہے ۔ کائناتی حوالے سے انسانی زندگی ٹھٹھرا دینے والا الم ہے مگر انسانی زندگی کی گزراں اور بے ثبات خوشیاں ہمارے لیے نشاطِ آئندہ کی نوید بھی بنتی ہیں اور ہمارے لیے امید اور حوصلگی کا سامان بھی رکھتی ہیں ۔ 
زندگی کے عرصہ الم کی بے برگ مسافتوں میں ( خزاں زدگی میں ) اور چاروں طرف پھیلی ہوئی پت جھڑ میں ایک شاخ پر کچھ پھول کھل رہے ہیں ۔ یہ پھول بہار کی آمد کا اعلان کر رہے ہیں ۔ ان کی دسترس میں نہ ماحول ہے اور نہ کائنات ۔ (ماحول نہ کائنات ان کی )، یعنی ماحول اور کائنات کے عوامل ان کی دسترس اور ان کی بساط سے ماوراء ہیں ۔ زندگی کا وسیع تر منظر اور مہ و سال کی گردشیں ان کے وجود سے بے نیاز اسی طرح برپا رہیں گی ۔ زندگی کی لا متناہیت کے سامنے ان پھولوں کی ’’حیات یک لمحہ‘‘ کچھ حقیقت نہیں رکھتی ۔ انسانی زندگی کی گزراں اور لمحاتی خوشیاں، جبروالم کی دائمی واقعیت کے سامنے بے بساط ہیں ۔ ان کی بساط صرف ’’اک ناز نمو‘‘ ایک لمحہ گزراں ہے ۔ 
یہ پھول جو فصل بہار کے پیش رو ہیں ، لمحہ بھر کھل کر مرجھا جائیں گے ۔ مگر ان کی راکھ سے پھولوں بھری صبح نو کے سائے طلوع ہوں گے ۔ بہارو خزاں کا حوالہ انسانی خوشیوں اور غموں کا حوالہ ہے ۔ عہدِ خزاں روبہ اختتام ہے ۔ کچھ ’’زود شگفت شوخ کلیاں ‘‘ کھل کر بہار کی آمد کا اعلان کر رہی ہیں ۔ ان کلیوں کی حیات دو لمحہ اس حوالے سے بے حد اہم اور با معنی ہے کہ ان کے بعد چمن کی تقدیر خزاں نہیں بلکہ بہار ہے ۔ گویا یہ پھول جنہیں ایک مہلتِ مختصر میسر ہے ، ایک نئے موسم اور ایک نئے عہد کا اشارہ ہیں ۔ 
تاریخی حوالے سے انسانی تاریخ کے ہر عہد اور ہر انقلاب کا نقطہ آغاز ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی حیثیت ایک عہد کے نقیب کی ہوتی ہے ۔ وہ ایک نئے عہد کی آمد کی خبر دیتے ہیں ، خواہ یہ عہد اپنی بھر پور شکل میں اور اپنے تمام تر مقتضیات کے ساتھ ان کے بعد ہی برپا ہو ۔ 

ورلڈ اسلامک فورم کا سالانہ اجلاس

ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کی تشکیل نو کا فیصلہ کیا گیا ہے اور آئندہ تین سال کے لیے مولانا محمد عیسیٰ منصوری کو فورم کا چیئرمین اور مولانا زاہد الراشدی کو سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا ہے جبکہ لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کا باقاعدہ مرکز قائم کرنے اور فورم کی سرگرمیوں کو مختلف ممالک تک وسیع کرنے کا پروگرام طے کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ ورلڈ اسلامک فورم کی مرکزی کونسل کے سالانہ اجلاس میں کیا گیا جو ۹ اکتوبر ۲۰۰۴ء کو ابراہیم کمیونٹی کالج لندن میں مولانا محمد عیسیٰ منصوری کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں مولانا زاہد الراشدی، مولانا مفتی برکت اللہ، مولانا محمد عمران خان جہانگیری، مولانا عبد الحلیم ندوی، مولانا سہیل باوا، الحاج غلام قادر، محمد اعظم، مولانا محمد سلمان آف ڈھاکہ، مولانا نجم العالم، مولانا مشفق الدین، غلام جعفر، مولانا محمد اکرم ندوی، مسرور احمد اور محمد اشرف نے شرکت کی۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری کے ہمراہ مولانا زاہد الراشدی، مولانا مشفق الدین اور مولانا محمد فاروق ملا نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا اور ڈھاکہ میں ورلڈ اسلامک فورم کے تعاون سے قائم ہونے والی ’’سید ابو الحسن علی ندوی اکیڈمی‘‘ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے علاوہ مختلف شہروں میں دینی اجتماعات سے خطاب کیا۔
مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے پاکستان، بھارت، امریکہ اور متحدہ عرب امارات میں مختلف اجتماعات سے خطاب کیا جبکہ مولانا زاہد الراشدی نے متحدہ عرب امارات، برطانیہ، سعودی عرب اور امریکہ کے مختلف شہروں میں دینی اجلاسوں میں شرکت کی اور متعدد علمی وفکری اجتماعات سے خطاب کیا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے کہا کہ ورلڈ اسلامک فورم کا قیام عملی اور فکری جدوجہد کے لیے عمل میں لایا گیا تھا اور ہم اپنی بساط کے مطابق اس محاذ پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اسلام کے بارے میں دنیا میں جو منفی پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، اس کے ازالہ کے لیے اور اسلام کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے لانے کے لیے جس علمی اور فکری محنت کی ضرورت ہے، اس کی طرف دینی حلقوں اور علماء کرام کو توجہ دلانے اور متحرک کرنے کے لیے فکری بیداری کی سعی کرنا ورلڈ اسلامک فورم کا سب سے بڑا ہدف ہے۔ ہم پر امن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اور جبر وتشدد کی کسی بھی شکل کو دین کی دعوت کے لیے جائز نہیں سمجھتے اور تعلیم اور میڈیا کے وسائل اور ذرائع کو ہی اس جدوجہد کا سب سے مناسب اور موثر ذریعہ سمجھتے ہیں۔
مولانا زاہد الراشدی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مغرب کے ذرائع ابلاغ، لابیاں اور بین الاقوامی ادارے اسلام کے مختلف احکام کے بارے میں جو شکوک وشبہات پھیلا رہے ہیں اور اسلام کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس کی علمی وفکری سطح پر سامنا کرنے کی ضرورت ہے اور عالم اسلام بالخصوص مغربی ممالک کے دینی مراکز کو اس طرف توجہ دینی چاہیے کیونکہ علمی وفکری اشکالات وشبہات کا جواب علمی وفکری زبان میں ہی دیا جا سکتا ہے اور یہ علماء کرام اور دانش وروں کی ذمہ داری ہے۔ 
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ لندن میں ’’دار المعارف الاسلامیۃ‘‘ کے نام سے ورلڈ اسلامک فورم کا مستقل مرکز قائم کیا جائے گا جس میں مسجد، مکتب اور اکیڈمی کا نظام قائم ہوگا اور علماء کرام اور دینی کارکنوں کے لیے خصوصی تربیتی کورسز کا اہتمام کیا جائے گا۔
اجلاس کے بعد ورلڈ اسلامک فورم کے نومنتخب سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم مختلف ممالک میں دینی حلقوں اور علماء کرام سے رابطے قائم کریں گے اور اہم مقامات پر علمی وفکری سیمینارز کا اہتمام کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ آج کی سب سے بڑی دینی ضرورت یہ ہے کہ مغرب کی ثقافتی یلغار کا ادراک حاصل کیا جائے اور انسانی حقوق کے عنوان سے اسلامی احکام وقوانین پر جو اعتراضات کیے جا رہے ہیں، ان کے اسباب وعوامل کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے کر سنت نبوی اور خلافت راشدہ کی بنیاد پر اسلامی تعلیمات کو آج کی زبان واسلوب میں دنیا کے سامنے لایا جائے۔ انھوں نے کہا کہ علماء کرام کو جدید ذرائع اور اسلوب سے استفادہ کرنا چاہیے اور دینی مدارس میں بین الاقوامی زبانوں اور حالات حاضرہ کے بارے میں جدید ترین معلومات سے طلبہ کو روشناس کرانے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

خصوصی تربیتی کورس کی تکمیل

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام فضلاے درس نظامی کے لیے خصوصی تربیتی کورس برائے سال ۲۰۰۴ پایہ تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔ جنوری سے ستمبر ۲۰۰۴ تک جاری رہنے والے اس کورس کے دوران شرکا کو حجۃ اللہ البالغہ کے منتخب ابواب، تاریخ اسلام، تقابل ادیان، سیاسیات، معاشیات، حالات حاضرہ، اسلامی احکام وجدید قوانین کے تقابلی مطالعہ اور انگریزی وعربی زبانوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تحریر وتصنیف کی تربیت دی گئی۔ کورس کے اختتام پر ۱۱ ستمبر بروز ہفتہ کو اکادمی میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس سے خطاب کرتے ہوئے اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے دور جدید کے علمی وفکری تقاضوں اور اس حوالے سے علما پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کی وضاحت کی۔ اس موقع پر کورس کے شرکا میں اسناد اور انعامات تقسیم کیے گئے۔ شرکا کے نام حسب ذیل ہیں:
مولانا محمد طاہر اقبال (بھکر)، مولانا مطیع الرحمن (بھکر)، مولانا محمد زمان (شیخوپورہ)، مولانا محمد عارف (بالاکوٹ)، مولانا عبد القیوم (بھکر)

فکری نشست کا انعقاد

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ۷ ستمبر ۲۰۰۴ بعد از نماز عصر ختم نبوت کے موضوع پر ایک فکری نشست کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کا آغاز مولانا مطیع الرحمان نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ اکادمی کے ناظم مولانا محمد یوسف، پروفیسر میاں انعام الرحمن اور دیگر مقررین نے تحریک ختم نبوت میں علما کے شاندار کردار کا ذکر کیا اور ۱۹۵۳ کی تحریک کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا۔ مقررین نے ۷ ستمبر ۱۹۷۴ کے دن کو، جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے رائے عامہ کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے پیروکاروں کو متفقہ طور پر غیر مسلم قرار دیا، پاکستان کی تاریخ کا ایک یادگار دن قرار دیا۔ تقریب میں سفیر ختم نبوت مولانا منظور احمد چنیوٹی کی یادگار خدمات کا بھی تذکرہ کیا گیا۔ مہمان خصوصی الشیخ حبیب النجار کے مختصر بیان اور دعا پر تقریب اختتام کو پہنچی۔

مدرسہ نصرۃ العلوم کے شرکاء دورہ حدیث کی آمد

۷ ستمبر ۲۰۰۴ کو مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں سال رواں کے شرکاء دورۂ حدیث نے الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کی دعوت پر اکادمی کا دورہ کیا اور اکادمی کی طرف سے اپنے اعزاز میں دی جانے والے ٹی پارٹی میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ کے استاذ حدیث مولانا محمد داؤد صاحب بطور مہمان خصوصی تشریف لائے اور طلبہ کو اپنے مختصر اور موثر خطاب سے نوازا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر مولانا محمد عمار ناصر نے اکادمی کے مقاصد اور پروگراموں کا مختصر تعارف پیش کیا، جبکہ اکادمی کے ناظم مولانا محمد یوسف نے طلبہ اور دیگر مہمانوں کی تشریف آوری پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ 

عربی لینگویج کورس کا انعقاد

الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ۱۱ شوال تا ۱۰ رمضان المبارک ۱۴۲۵ھ دینی مدارس کے طلبہ واساتذہ کے لیے ایک ۳۰ روزہ عربی لینگویج کورس کا اہتمام کیا گیا جس سے ایک درجن کے قریب شرکا مستفید ہوئے۔ کورس کے دوران میں شرکا کو عربی بول چال کی مشق کرانے کے علاوہ روز مرہ محاوروں اور جدید عربی اصطلاحات سے واقفیت بہم پہنچائی گئی۔ شرکا کی خواہش پر انھیں ابتدائی انگریزی زبان کی تعلیم بھی دی گئی۔ کورس میں تعلیم وتدریس کے فرائض مولانا محمد عامر انور، مولانا عمار ناصر، پروفیسر مولانا سعید اللہ اور جناب محمد تنویر نے انجام دیے۔ شرکا کے لیے مختلف علمی وفکری موضوعات پر محاضرات کا بھی اہتمام کیا گیا۔ مقررین میں پروفیسر میاں انعام الرحمن، پروفیسر محمد اکرم ورک، مولانا محمد یوسف، مولانا عمار ناصر، پروفیسر مولانا سعید اللہ اور چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ شامل تھے۔ کورس کے اختتام پر ۲۵ اکتوبر ۲۰۰۴ کو شرکا کے اعزاز میں افطار پارٹی دی گئی جس میں اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی، جناب عثمان عمر ہاشمی، چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ اور اکادمی کے دیگر رفقا شریک ہوئے۔ اس موقع پر شرکا کو اسناد اور انعامات بھی تقسیم کیے گئے۔

الشریعہ اکادمی کی لائبریری کے لیے عطیہ کتب

ادارہ

کراچی سے ہمارے ایک نہایت مشفق اور کرم فرما بزرگ، جنھوں نے اپنا نام ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دی، الشریعہ اکادمی کی لائبریری کے لیے وقتاً فوقتاً کتب عنایت فرماتے رہتے ہیں۔ ان کی طرف سے درج ذیل کتب موصول ہو چکی ہیں۔ ہم اس کرم فرمائی پر ان کے بے حد شکر گزار ہیں۔ 

اقبال کا سائنسی منہاج فکر
پروفیسر تقی خان
اقبال اکیڈمی حیدر آباد (انڈیا)
۲۰۰۲

ہندی اردو لغت
راجہ راجیسور راؤ اصغر
مقتدرہ قومی زبان پاکستان
۱۹۹۸

فرہنگ سیرت
سید فضل الرحمن
زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی
۲۰۰۳

تذکرہ قاریان ہند
مرزا بسم اللہ بیگ
میر محمد کتب خانہ کراچی

قرآن، سائنس اور ٹیکنالوجی
شفیع حیدر دانش صدیقی
دار الاشاعت کراچی
۲۰۰۴

بعثت نبوی کی پیشین گوئیاں
ڈاکٹر حقانی میاں قادری
دار الکتاب لاہور
۲۰۰۴

ارض مکدر
شفیع حیدر دانش
دانش کدہ کراچی
۱۹۹۹

قرآن اور ماحولیات
پروفیسر اے آر ظفر
اسلامک ہرٹیج فاؤنڈیشن حیدر آباد (انڈیا) 
۲۰۰۳

حساس ادارے
سید احمد ارشاد ترمذی
فکشن ہاؤس لاہور
۲۰۰۴

عروج وزوال کا قانون اور پاکستان
ریحان احمد یوسفی
دار التذکیر لاہور
۲۰۰۳

کربلا کی حقیقت
ڈاکٹر شبیر احمد ایم ڈی
گلیکسی پبلی کیشنز۔ فلوریڈا۔ امریکہ

چچا سام کیا چاہتا ہے؟
نوم چومسکی/اسلم خواجہ 
شہرزاد کراچی
۲۰۰۲

دہشت گردی کی ثقافت
نوم چومسکی/سید کاشف رضا شہرزاد کراچی
۲۰۰۳

محسن انسانیت اور انسانی حقوق
ڈاکٹر حافظ محمد ثانی
دار الاشاعت کراچی
۱۹۹۹

قرآن، سائنس اور تہذیب
ڈاکٹر حقانی میاں قادری
دار الاشاعت کراچی
۱۹۹۹

قرآن اور عالم نباتات
شفیع حیدر صدیقی 
دانش کدہ کراچی
۲۰۰۲

قرآن اور اقلیم حیوان
شفیع حیدر صدیقی
دانش کدہ کراچی
۲۰۰۳

ماہنامہ فاران (سیرت نمبر)
ایڈیٹر: ماہر القادری
جنوری ۱۹۵۶

Antizion
مرتب: ولیم گرم سٹیڈ
دی نون ٹائیڈ پریس امریکہ
۱۹۷۶

Shaping the Future
رابرٹ ڈکسن کرین
ٹیپسٹری پریس میسا چوسٹس امریکہ
۱۹۹۷

World Bibliography of Translations of the Meanings of the Holy Quran, (Printed Translations 1515-1980), Ishat Binark/Halit Eren, Istanbul 1986

World Bibliography of Translations of the Meanings of the Holy Quran, In Manuscript Form, (Part 1), Mustafa Nejat Sefercioglu, Istanbul 2000

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’قادیانیوں سے تعلقات کی شرعی حیثیت‘‘

بیسویں صدی کے آغاز میں پنجاب میں احمدی تحریک کا ظہور ہوا اور مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت اور مہدویت کے دعوے سامنے آئے تو مولانا عبید اللہ سندھی طبقہ علما میں غالباً واحد فرد تھے جنھوں نے اس تحریک کا تجزیہ سماجی سائنس کے اصولوں کی روشنی میں کرنے کی کوشش کی ۔ ان کی رائے یہ تھی کہ اس تحریک کے فروغ کا سبب عقائد اسلام کی دیدہ ودانستہ تحریف یا مسلمات سے انحراف کا کوئی شعوری فیصلہ نہیں ہے بلکہ من جملہ دیگر اسباب کے پنجاب میں پیر پرستی کی مضبوط روایت اور ایک خاص سماجی صورت حال کو اس کے اصل سبب کی حیثیت حاصل ہے۔ چونکہ پنجاب کے متوسط طبقات میں انگریزی حکومت کے نظام کے تحت سرکاری ملازمتوں میں جانے کی شدید خواہش موجود تھی اور مرزا صاحب نے انگریز دشمنی کی عمومی فضا میں وحی والہام کی سند پر انگریزی حکومت کے ساتھ تعاون کو ایک مذہبی فریضہ قرار دیا تھا، اس لیے ایک نفسیاتی ضرورت کے تحت، نہ کہ شعوری اعتقادی انحراف کے باعث، عوام اس تحریک کے ساتھ وابستہ ہونا شروع ہو گئے۔ مولانا کا خیال یہ تھا کہ اس تحریک کو ایک اعتقادی مسئلے کا رنگ دینا حکمت عملی کے لحاظ سے درست نہیں۔ وہ فرماتے تھے کہ ’’احمدیت ایک سماجی مظہر (Phenomenon) ہے۔ تحریک ختم نبوت جیسی تحریکیں نہ پہلے اس کا کچھ بگاڑ سکی ہیں اور نہ آئندہ بگاڑ سکیں گی، بلکہ ان سے اتحاد وربط اور قوت وصلابت پیدا ہوگی جیسا کہ اب تک ہوا ہے۔ احمدیت اور اس قسم کی دوسری علیحدگی پسند، رجعت پرست اور استعمار دوست مذہبی تحریکوں سے ایک ترقی پسند سماج اور سیکولر اور سوشلسٹ سیاسی نظام ہی کامیابی سے عہدہ برآ ہو سکے گا۔ اعتقادی ہتھیاروں سے یہ لڑائی نہیں لڑی جا سکتی۔‘‘ (افادات وملفوظات، مرتبہ پروفیسر محمد سرور، ص ۴۱۳، ۴۱۴)
تاہم حلقہ علما میں بالعموم اس کے مخالف نقطہ نظر کو پذیرائی حاصل ہوئی اور قادیانیت کو انگریز کا خود کاشتہ پودا باور کرتے ہوئے اس فرقہ نوزائیدہ کی تکفیر کی گئی۔ علما کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں عالم اسلام کے بیشتر ممالک میں قانونی طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے، لیکن علما ہنوز مطمئن نہیں ہیں اور نظری طور پر یہ رائے رکھنے کے ساتھ ساتھ کہ قادیانی، فقہی حکم کے مطابق عام سطح کے کافر نہیں بلکہ ’زندیق‘ اور واجب القتل ہیں، اس بات کے بھی خواہش مند ہیں کہ سماجی سطح پر قادیانیوں کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے اور ان کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات روا نہ رکھے جائیں۔ زیر نظر کتابچہ میں اسی نقطہ نظر کی ترجمانی پر مبنی تحریریں شامل کی گئی ہیں جو مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مولانا مشتاق احمد اور طاہر عبد الرزاق کے قلم سے نکلی ہیں۔ 
ایک موقف کے ابلاغ کے پہلو سے تو کتابچے کا پیغام واضح ہے، تاہم ایک سوچنے سمجھنے والے قاری کے ذہن میں اس موقف کے حوالے سے جو نہایت بنیادی سوالات پیدا ہو سکتے ہیں، ان سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔ مثلاً کتابچے کا بنیادی دعویٰ یہ ہے کہ:’’یہود ونصاریٰ اور ان کی مثل کافروں کے ساتھ اسلام نے جس نرمی، حسن اخلاق، ہمدردی وغم خواری اور کاروباری معاملات کی اجازت دی ہے، قادیانی اس کے مستحق نہیں ہیں۔ ....... عام کافر سے صرف دلی دوستی کی ممانعت ہے اور دنیوی معاملات میں اشتراک جائز ہے، لیکن قادیانیوں سے تو دنیوی معاملات میں بھی اشتراک جائز نہیں ہے‘‘، (ص ۱۳) تاہم اس ’فرق‘ پر قرآن وسنت کے نصوص سے کوئی دلیل نہیں دی گئی۔ جو آیات واحادیث دلیل کے طور پر نقل کی گئی ہیں، ان میں، کسی امتیاز کے بغیر، مطلقاً غیر مسلموں سے دوستی قائم کرنے کی ممانعت کا ذکر ہے۔
ص ۲ پر اس موقف کے حق میں یوں استدلال کیا گیا ہے کہ ’’ہر قادیانی اپنی آمدنی سے ایک معقول اور مقرر حصہ جماعت کے اشاعتی اور تبلیغی پروگرام کے لیے وقف کرتا ہے۔ اب جو مسلمان ان سے کاروبار کرے گا، ان سے کوئی چیز بنوائے گا یا خریدے گا تو اس کفر کی اشاعت میں اس مسلمان کا بھی حصہ ہو جائے گا جس کا گناہ ہونا بڑا واضح ہے‘‘، لیکن اس اشکال سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا کہ اس صورت میں امت مسلمہ کے لیے تمام غیر مسلم ممالک یا گروہوں سے تجارتی معاملات کم وبیش ناممکن قرار پائیں گے، اس لیے کہ دنیا کے ہر غیر مسلم ملک یا گروہ کے وسائل کا کچھ نہ کچھ حصہ لازماً ایسے کاموں پر خرچ ہوتا ہے جو اسلامی احکام کی رو سے جواز کے دائرے میں نہیں آتے۔
اسی طرح ص ۳۳ پر قادیانیت کا قلع قمع کرنے کے لیے یہ تجویز دی گئی ہے کہ اگر اہل اسلام یہ فیصلہ کر لیں کہ وہ کسی قادیانی دکاندار سے سودا سلف نہیں لیں گے، کسی قادیانی تاجر کو اپنی ایسوسی ایشن کا ممبر نہیں بنائیں گے، دفتروں، سکولوں اور کالجوں میں اور ہر معاشرتی سطح پر قادیانیوں کا مکمل بائیکاٹ کریں گے تو ’’آپ دیکھیں گے کہ قادیانیت صرف چند ہفتوں میں دم توڑ جائے گی، ہزاروں قادیانیوں کو اپنے جرم کا احساس ہوگا اور یہ احساس انھیں حقیقت سوچنے پر مجبور کرے گا۔‘‘ قطع نظر اس سوال سے کہ ’’حقیقت سوچنے پر مجبور کرنے‘‘ کا یہ انداز حکمت دین کے مسلمات کے کس حد تک مطابق ہے، مذکورہ مفروضے کو اس درجے میں حتمی اور قطعی خیال کر لیا گیا ہے کہ کسی دوسرے احتمال کو زیربحث لانے کی سرے سے ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ نتیجے کے طور پر یہ سوال تشنہ جواب ہی رہ جاتا ہے کہ اگر اس رویے سے قادیانیوں تک حق کا پیغام پہنچنے کے امکانات بالکل مسدود ہو جائیں تو ایسی صورت میں تبلیغ حق کا فریضہ کیسے انجام دیا جائے گا؟ 
کتابچے میں، غالباً سنجیدہ تحریروں کی کمی کی تلافی کے لیے، جذباتی نوعیت کے مواد کو بھی جگہ دینا پسند کیا گیا ہے۔ قادیانیت کے خلاف عمومی طور پر تنفر کی جو فضا پائی جاتی ہے، اس میں علمی وفکری سوالات اور حکمت عملی سے متعلق امور پر سنجیدہ بحث کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی اور ناقص اور تیسرے درجے کے استدلالات کو بھی ہاتھوں ہاتھ لے لیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہم امید کرتے ہیں کہ آئندہ ایڈیشن میں مذکورہ علمی نقائص کے ازالے کی طرف توجہ دی جائے گی۔ 
۴۸ صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ ادارہ مرکزیہ دعوت وارشاد چنیوٹ نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت درج نہیں۔
(عمار ناصر)

’’پیغام اسلام اقوام عالم کے نام‘‘

الہامی اور غیر الہامی ادیان میں اسلام کو یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ اس نے اپنے عالمگیر ہونے کا واضح طور پر اعلان کیا ہے: قل یا ایہا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شاہان عالم کے نام دعوتی خطوط روانہ فرمانا اس حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ اسلام کا پیغام پوری دنیا کے لیے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ نے صحابہ کرام کو مختلف زبانیں سیکھنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اہل کتاب کے علما سے گفتگو اور خط وکتابت میں سہولت کے لیے آپ نے حضرت زید بن ثابت کو عبرانی زبان سیکھنے کا حکم دیا۔ ابن ہشام کی روایت کے مطابق آپ کے وہ تمام سفرا جنھیں آپ نے شاہان عالم کی طرف خطوط دے کر روانہ کیا، ان قوموں کی زبانوں سے واقف تھے۔
عصر حاضر میں اقوام عالم میں اسلام کی دعوت وتبلیغ کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کو پوری انسانیت کے دین کے طور پر پیش کیا جائے۔ اہل مغرب کی طرف سے اسلام پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں، ان کا دلائل اور انسانی عقل کی روشنی میں بہتر انداز میں جواب دیا جائے۔ علاوہ ازیں مغربی فکر وفلسفہ کے منفی پہلوؤں پر مدلل اور مثبت تنقید کے بغیر اہل مغرب تک اسلام کا پیغام پہنچانا ناممکن ہے۔ 
زیر تبصرہ کتاب، جو مولانا ضیاء الرحمن فاروقی علیہ الرحمۃ کی تصنیف ہے، ا س لحاظ سے ایک عمدہ کوشش ہے کہ اس میں مصنف مرحوم نے، جو خود بھی مغربی ممالک میں دعوت دین کا کام کرتے رہے ہیں، اہل مغرب کی طرف سے اسلام پر کیے جانے والے عمومی اعتراضات کا عمدگی سے جواب دیا ہے۔ یہ کتاب عام قارئین کے علاوہ ان مبلغین کے لیے بھی مفید ہے جن کو دوسری اقوام میں دعوت کے کام کا موقع ملتا رہتا ہے۔ اگر اس کتاب کو دیگر زبانوں بالخصوص انگریزی میں بھی ترجمہ کروا کر شائع کیا جائے تو اس کا افادہ زیادہ عام ہوگا۔ 
اشاعت المعارف، ریلوے روڈ، فیصل آباد نے اس کتاب کو شائع کیا ہے اور اس کی قیمت ۲۰۰ روپے ہے۔
(محمد اکرم ورک)

دسمبر ۲۰۰۴ء

سنی شیعہ کشیدگی ۔ چند اہم معروضاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
شیعہ سنی مسئلہ مولانا دریابادیؒ کی نظر میںمحمد موسی بھٹو
اسلام، عالم اسلام اور مغربڈاکٹر عبد اللہ احمد البداوی
جناب احمد البداوی کے خطاب کا ایک جائزہپروفیسر میاں انعام الرحمن
مکاتیبادارہ
تعارف و تبصرہادارہ

سنی شیعہ کشیدگی ۔ چند اہم معروضات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سنی شیعہ تنازع کے حوالے سے ’الشریعہ‘ میں وقتاً فوقتاً ہم اظہار خیال کرتے رہتے ہیں اور اس بارے میں قارئین ہمارے عقیدہ، جذبات اور طرز عمل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ چند ماہ قبل ہم نے ہمدرد یونیورسٹی دہلی سے آمدہ ایک سوال پر اس سلسلے میں اپنے اسی موقف کو اختصار کے ساتھ دہرا دیا جس کا اظہار اس سے قبل مختلف مضامین میں کیا جا چکا ہے تو اس پر کالعدم سپاہ صحابہ کے ترجمان ماہنامہ ’’خلافت راشدہ‘‘ فیصل آباد نے ستمبر ۲۰۰۴ کے شمارے میں غصے اور ناراضی کا اظہار کیا ہے اور والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کے ایک فتویٰ کے حوالے سے اپنے قارئین کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ہم نے جو کچھ لکھا ہے، وہ حضرت موصوف کے فتویٰ سے انحراف ہے اور ’الشریعہ‘ نے ان کے موقف سے ہٹ کر کوئی راہ اختیار کر لی ہے۔ اگر حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کا حوالہ نہ ہوتا تو شاید ہم اس پر تبصرہ کی ضرورت محسوس نہ کرتے، لیکن چونکہ ’’خلافت راشدہ‘‘ کے فاضل مضمون نگار نے اپنے غیظ وغضب کے اظہار کے لیے اس فتویٰ کو آڑ بنایا ہے، اس لیے چند امور کی وضاحت ہم ضروری سمجھتے ہیں۔
کالعدم سپاہ صحابہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ :
’’مولانا زاہد الراشدی جید عالم دین، عظیم اسلامی سکالر، معروف کالم نگار اور ایک مذہبی رسالہ ماہ نامہ ’الشریعہ‘ کے ایڈیٹر ہیں۔ ان کے والد محترم حضرت شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر بہت بڑی علمی شخصیت اور عظیم عالم دین ہیں۔ انھوں نے ۱۲ مارچ ۱۹۸۶ کو شیعہ کے بارے میں درج ذیل فتویٰ جاری کیا تھا:
’’الجواب ہو المصوب: شیعہ اپنے کفریہ عقائد کی وجہ سے اسلام سے خارج ہیں جن میں تین باتیں اصولی ہیں:
۱۔ قرآن کریم ان کے نزدیک اصلی شکل میں نہیں۔
۲۔ ان کے نزدیک جمہور حضرات صحابہ کرام (العیاذ باللہ) کافر ہیں۔
۳۔ ان کے نزدیک ائمہ معصوم ہیں، حالانکہ معصوم ہونا صرف حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا خاصہ ہے۔ گویا ان کے نزدیک ہر امام نبی ہے۔ نعوذ باللہ من الخرافات۔
لہٰذا شیعہ کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں، اور ان کے تقیہ سے قطعاً متاثر نہیں ہو نا چاہیے۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واحکم۔
ابو الزاہد محمد سرفراز 
شیخ الحدیث مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ
یکم رجب ۱۴۰۶ ہجری ۔ ۱۲ مارچ ۱۹۸۶‘‘
محترم مولانا زاہد الراشدی مدظلہ کے والد محترم کا تفصیلی فتویٰ آپ نے ملاحظہ فرما لیا ہے۔ اب محترم مولانا زاہد الراشدی کا اپنا طرز عمل بھی ملاحظہ فرمائیں کہ ہمدرد یونیورسٹی دہلی کے شعبہ اسلامیات کے رکن شیعہ مذہب کے پیروکار ڈاکٹر یوگندر سکند نے ایک تحریری انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو محترم مولانا زاہد الراشدی نے اپنے زیر ادارت شائع ہونے والے ماہنامہ الشریعہ جولائی ۲۰۰۴ میں شائع کیا ہے۔ اس انٹرویو میں شیعہ انٹرویو نگار مذکور نے سوال نمبر ۱۱ کیا ہے کہ ’’بعض پاکستانی حلقے مثلاً سپاہ صحابہ شیعہ کو کافر اور دشمن اسلام قرار دیتے ہیں۔ کیا آپ اس سے متفق ہیں؟ ہاں یا نہیں کی صورت میں آپ کی رائے کے وجوہ کیا ہیں؟ اگر آپ اس سے متفق نہیں تو اس نقطہ نظر کی تردید کے لیے آپ نے کیا کردار ادا کیا ہے؟‘‘
اب محترم مولانا زاہد الراشدی مدظلہ کی طرف سے جواب ملاحظہ فرمائیں:
’’ہم نے سپاہ صحابہؓ کے شدت پسندانہ طریق کار سے ہمیشہ اختلاف کیا ہے اور مختلف مضامین میں اس کے اظہار کے ساتھ ساتھ اس کے راہ نماؤں مثلاً مولانا حق نواز جھنگوی، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی اور مولانا محمد اعظم طارق کے ساتھ براہ راست گفتگو میں بھی انھیں اپنے موقف سے آگاہ کیا ہے۔ ہم جمہور علماء اہل سنت کے اس موقف سے متفق ہیں کہ جو شیعہ تحریف قرآن کریم کا قائل ہے، اکابر صحابہ کرام کی تکفیر کرتا ہے اور حضرت عائشہؓ پر قذف کرتا ہے، وہ مسلمان نہیں ہے ۔نیز ہم امت کی چودہ سو سالہ تاریخ کے مختلف ادوار میں شیعہ کے سیاسی کردار کے حوالے سے بھی ذہنی تحفظات رکھتے ہیں، لیکن اس کی بنیاد پر ان کے خلاف کافر کافر کی مہم، تشدد کے ساتھ ان کو دبانے اور کشیدگی کا ماحول پیدا کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ہمارا اس حوالہ سے موقف یہ ہے کہ عقائد اور تاریخی کردار کے حوالہ سے باہمی فرق اور فاصلہ کو قائم رکھتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور استدلال ومنطق کے ساتھ اپنا موقف پیش کرنے کا راستہ ہی صحیح اور قرین عقل ہے اور اس حوالہ سے ہمیں امت مسلمہ کے اجتماعی رویہ سے انحراف نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
آپ نے دیکھا کہ مسؤل کا سوال کتنا واضح اور صاف تھا، لیکن حضرت مولانا زاہد الراشدی مدظلہ نے جواب کو انتہائی پیچیدہ بنا کر پیش کیا جس سے یہ تاثر صاف نکلتا ہے کہ سپاہ صحابہ والے شیعہ کو غلط کافر کہتے ہیں۔ نعوذ باللہ۔ سوال کرنے والے نے پوچھا کہ سپاہ صحابہ والے شیعہ کو کافر اور دشمن اسلام قرار دیتے ہیں۔ ہاں یا نہیں کی صورت میں جواب دیں اور اس کی وجہ بیان فرما دیں۔ کاش مولانا زاہد الراشدی مدظلہ اس سوال کے جواب میں اپنے والد محترم کا فتویٰ ہی نقل کر دیتے جس میں انہوں نے واضح انداز میں نہ صرف شیعہ کو خارج از اسلام قرار دیا بلکہ ان کے کفر کی تین وجوہات بھی درج کر دی ہیں اور آخر میں پھر لکھا ہے کہ شیعہ کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے اور ان کے تقیہ سے قطعاً متاثر نہیں ہونا چاہیے۔
ماہنامہ الشریعہ کے اگلے ماہ اگست کے شمارے میں اسی پروفیسر ڈاکٹر یوگندر سکند نے شیعہ سنی تعلقات کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے شیعہ کے خلاف فتویٰ دینے والے علماء حق کو شرک کا مرتکب ہونے، ان کے فتویٰ کو کفر اختیار کرنے سے بھی بڑا جرم قرار دیا ہے۔ محترم جناب مولانا زاہد الراشدی سے دردمندانہ درخواست ہے کہ خدارا خود کو غیر جانب دار اور مذہبی سکالر ثابت کرنے کے لیے شیعہ کی سازشوں کا شکار ہو کر سپاہ صحابہ کے قائدین اور ہزاروں کارکنان کی قربانیوں اور اپنے اسلاف کے فتاویٰ جات کو خاک میں ملانے کی کوشش نہ کریں۔‘‘
قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ’’خلافت راشدہ‘‘ کی اس تحریر کو ایک بار پھر پڑھ لیں اور پھر ہماری درج ذیل معروضات پر توجہ فرمائیں:
  • مضمون نگار کو شکایت ہے کہ سوال میں شیعہ کے کافر ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں دریافت کیا گیا ہے، مگر ہم نے جواب میں بات کو لمبا کر دیا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بات نہیں ہے، اس لیے کہ سوال میں صرف شیعہ کے کافر ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں نہیں پوچھا گیا بلکہ یہ سوال سپاہ صحابہ کا نام لے کر اس کے حوالے سے کیا گیا ہے، اس لیے یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری تھی کہ جہاں اصل مسئلہ پر اپنا موقف عرض کریں، وہاں اس مسئلہ کے پس منظر میں سپاہ صحابہ کے طرز عمل کے بارے میں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کر دیں اور ہم نے وہی کیا ہے۔
  • مضمون نگار نے یہ تاثر دینا چاہا ہے کہ ہم شیعہ کے بارے میں اکابر علماء اہل سنت کے فتویٰ سے اختلاف کر رہے ہیں جو کہ غلط ہے، کیونکہ جس تحریر میں سپاہ صحابہ کے طرز عمل سے اختلاف کیا گیا ہے، اسی میں فتویٰ کی تائید بھی موجود ہے۔ البتہ ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ تکفیر کرتے ہوئے اس کی وجوہ کا حوالہ بھی دیا جائے اور یہ کہہ کر تکفیر کی جائے کہ جو شیعہ قرآن کریم کی تحریف کا قائل ہے، اکابر صحابہ کرام کی تکفیر کرتا ہے، حضرت عائشہ پر نعوذ باللہ قذف کرتا ہے، ائمہ کو انبیاء کرام کی طرح معصوم مانتا ہے یا دین کی اور کسی ضروری بات کا انکار کرتا ہے، وہ مسلمان نہیں ہے اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ یہ صراحت اس لیے ضروری ہے کہ شیعہ کہلانے والے بعض فرقے اور افراد ایسے موجود ہیں جن کا یہ عقیدہ نہیں ہے اور اگر کوئی شخص ان عقائد سے لاتعلقی کا اعلان کرتا ہے اور اس کا عمل بھی اس لا تعلقی کی تائید کرتا ہے تو محض شیعہ کہلانے کی وجہ سے اس کی تکفیر کا کوئی جواز نہیں ہے۔ مثلاً زیدی فرقہ شیعہ کہلاتا ہے مگر اس کے یہ عقائد نہیں ہیں۔ یمن میں ایسے زیدیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو زیدی شیعہ کہلاتے ہیں مگر ان کے عقائد اہل سنت والے ہیں حتیٰ کہ یمن کے نامور سنی عالم قاضی شوکانی کا شمار بھی زیدیوں میں کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ایران کے دستور میں زیدیوں کو صراحتاً اہل سنت کے فقہی مذاہب حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی کے ساتھ شمار کیا گیا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں نور بخشی شیعوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن کے عقائد اثنا عشریوں سے مختلف ہیں۔ ان کے عقائد کا الگ طور پر جائزہ لیے بغیر انھیں اثنا عشریوں کے ساتھ ایک ہی فتویٰ میں شمار کر لینا ان کے ساتھ زیادتی کی بات ہوگی اور افتا کے مسلمہ اصولوں کے بھی منافی ہوگا۔ اس لیے ہمارے نزدیک بات وہی صحیح ہے جو ہمارے اکابر کہتے آ رہے ہیں کہ مذکورہ بالا عقائد یا ان میں سے کوئی ایک عقیدہ بھی رکھنے والے شیعہ دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور ان کے کفر میں کوئی شک نہیں ہے۔
  • ہم نے اختلاف اکابر علماء کرام کے فتویٰ سے نہیں، بلکہ کالعدم سپاہ صحابہ کے طرز عمل اور طریق کار سے کیا ہے اور اب نہیں، شروع سے ہم یہ اختلاف کرتے آ رہے ہیں جس پر ہمارے بہت سے سابقہ مضامین گواہ ہیں، بلکہ سپاہ صحابہ کے قائدین کے ساتھ گفتگو میں بھی ہم نے اس کا برملا اظہار کیا ہے اور سپاہ صحابہ کے شدت پسندانہ طرز عمل کو ہم نے ہمیشہ غلط اور نقصان دہ قرار دیا ہے۔ یہ بالکل ایک الگ مسئلہ ہے اور اسے فتویٰ سے ہٹ کر ایک مستقل مسئلہ کے طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ کافر ہونا یا نہ ہونا الگ سوال ہے اور کافروں کے ساتھ تعلقات اور معاملات کا تعین اس سے بالکل مختلف امر ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کافروں کے ساتھ یکساں معاملہ نہیں کیا تھا۔ مشرکین عرب کے ساتھ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل اور تھا، اہل کتاب کے ساتھ معاملات کی نوعیت اس سے مختلف تھی اور مدینہ منورہ میں مسلمانوں کے درمیان رہنے والے منافقین کے ساتھ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل ان دونوں سے بالکل الگ تھا۔ ان منافقین کے کفرکی گواہی قرآن کریم نے دی ہے اور ان کے کفر میں کسی شک وشبہہ کی گنجایش نہیں ہے حتیٰ کہ ان کا جنازہ پڑھانے اور ان کے لیے دعاے مغفرت کرنے سے بھی قرآن کریم نے روک دیا تھا، لیکن ان کے ساتھ شدت اختیار کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ مختلف معاملات میں مسلمانوں کے ساتھ شریک رہتے تھے، مسلمانوں کو نہ ان کے معاشرتی بائیکاٹ کا حکم دیا گیا اور نہ ہی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مسلم سوسائٹی سے الگ کیا، حتیٰ کہ بعض غیور مسلمانوں نے بعض منافقین کو قتل کرنے کی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع کر دیا اور فرمایا، اس سے دنیا میں غلط تاثر پھیلے گا اور لوگ کہیں گے کہ محمد اپنے کلمہ گو ساتھیوں کو بھی قتل کر دیتے ہیں۔
  • شدت پسندی کے طرز عمل سے اختلاف کر کے ہم کوئی نیا موقف اختیار نہیں کر رہے، بلکہ ہمارے بزرگوں کا موقف بھی یہی ہے جس کی ایک جھلک شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کے اس مکتوب گرامی میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے جو انھوں نے آج سے بارہ سال قبل سپاہ صحابہ کے ارکان کے نام لکھا تھا اور جسے گوجرانوالہ کے معروف عالم دین مولانا محمد ایوب صفدر (مہتمم مدرسہ فیضان سرفراز ، پلی نوشہرہ سانسی، جناح روڈ، گوجرانوالہ) نے ہزاروں کی تعداد میں چھپوا کر تقسیم کیا تھا۔ وہ مکتوب گرامی درج ذیل ہے:

’’باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
۱۷؍رجب ۱۴۱۲ھ/۲۳؍جنوری ۱۹۹۲ء
من ابی الزاہد 
الی محترم المقام حضرت مولانا صاحب دام مجدہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! مزاج سامی!
گزارش ہے کہ سپاہ صحابہ کے حضرات نے ایران کی طاغوتی طاقت کے بل بوتے اور شہ پر ناچنے والی رافضیت کا پاکستان میں جو دروازہ بند کیا ہے، وہ نہ صرف یہ کہ وقت کی اہم ضرورت ہے بلکہ دینی لحاظ سے بھی فرض کفایہ ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ حضرات کی اس مبارک کوشش کو کامیاب کرے اور دن دگنی رات چگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
اگر بار خاطر نہ ہو تو چند ضروری باتیں عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں:
۱۔ جو ذہن آپ حضرات نے نوجوانوں کا بنایا ہے یا بنائیں گے، وہی وہ اپنائیں گے، کیونکہ اکثریت ان کی علم دین نہیں رکھتی اور اکابر کو بھی نہیں دیکھا۔ جو آپ ان کو بتائیں گے، اسی کو وہ حرف آخر سمجھیں گے اور تن، من، دھن کی بازی لگائیں گے۔ واللہ الموفق
۲۔ نوجوان جذباتی ہوتے ہیں اور جذبات میں بہت کچھ کر اور کہہ جاتے ہیں۔ شدت اور سختی سے کبھی مسائل حل نہیں ہوئے اور نہ قوت اور طاقت سے کسی فرد یا نظریہ کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ صدر صدام حسین کی ضد اور نادانی کی وجہ سے تیس سے زائد طاقت ور حکومتیں بھی اسے ختم نہ کر سکیں اور وہ ابھی تک جیتا جاگتا ہے۔ اس لیے گزارش ہے کہ نوجوانوں کو قولاً اور فعلاً شدت اختیار کرنے سے سختی کے ساتھ روکیں۔ رافضیوں کے کفر میں تو شک ہی نہیں، مگر در ودیوار پر کافر کافر لکھنے اور نعرہ بازی سے بجائے فائدہ کے نقصان ہوگا۔ عیاں را چہ بیاں۔
۳۔ ممکن ہے بعض جذباتی اور سطحی اذہان میری اس تحریر سے یہ اخذ کریں کہ میں بک گیا ہوں یا دب گیا ہوں تو یہ نظریہ درست نہ ہوگا۔ بفضلہ تعالیٰ یہ گناہ گار انتہائی غربت اور جوانی کے زمانے میں بھی نہ بکا ہے نہ دبا۔ اب اسی (۸۰) سال کی عمر میں قبر کے پاس پہنچ کر کیسے بک یا دب سکتا ہے؟
۴۔ کافی عرصہ ہوا ہے، حضرت مولانا عطاء المنعم شاہ صاحب دام مجدہم نے حضرت امیر معاویہؓ کے سرکاری طورپر یوم منانے کی تحریک شروع کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ میں نے ان کو مفصل خط لکھا تھا کہ آپ کے والد مرحوم امیر شریعت تو بدعات کو مٹانے کے لیے لٹھ لیے پھرتے تھے، آپ اس بدعت کو کیسے جاری کرتے ہیں؟ میرے خیال میں میرا عریضہ ضرور موثر ثابت ہوا اور اس کے بعد ان کا کوئی بیان اس بدعت کی ایجاد کرنے کا میرے علم میں نہیں ہے۔
۵۔ آپ حضرات کی طرف سے زور وشور کے ساتھ حضرات خلفاء راشدین کے ایام سرکاری طور پر منوانے کا مطالبہ آتا ہے۔ آپ جن اکابر کے دامن سے وابستہ ہیں، ان کی تاریخ دیکھ لیجیے۔ کبھی ایسی بدعات کے ایجاد کا تصور بھی انھیں نہیں آیا۔ عوام تو نہیں جانتے، مگر آپ تو علما ہیں، وسیع مطالعہ کے مالک ہیں۔ اس کارروائی کے بدعت ہونے کے بارے میں آپ حضرات کے سامنے کتابوں کے حوالے پیش کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ ولا ریب فیہ
۶۔ آپ حضرات کا مطالبہ صرف اور صرف خلافت راشدہ کا نظام قائم کرنے کا ہونا چاہیے جو حکمران طبقہ اور سرمایہ داروں کے لیے پیام موت ہے۔ ایام منوانے کی بدعت کے پیچھے ہرگز نہ پڑیں۔ خلافت راشدہ کے نظام کے نافذ کرنے کے مطالبہ میں عند اللہ تعالیٰ بھی آپ سرخرو ہوں گے اور عوام کا تعاون بھی حاصل رہے گا۔
۷۔ اگر بادل نخواستہ آپ کے ایام منانے کی کوئی کوشش منظور کر لی گئی تو حکمران طبقہ بھی اور عوام بھی یہ باور کریں گے کہ ان کو اب خاموش رہنا چاہیے، ان کا مطالبہ پورا ہو گیا ہے۔ اس سے آپ کے اصل مقصد پر زد پڑے گی۔ بھٹو صاحب نے جمعہ کے دن چھٹی کرنے پر کہہ دیا تھا کہ لو، اب اسلام نافذ ہو گیا ہے۔
۸۔ بعض غالی قسم کے اہل بدعت اس کارروائی کے خلاف سخت پراپیگنڈا کر رہے ہیں کہ دیوبندی دن منائیں تو بدعت نہ ہو اور بریلوی منائیں تو بدعت ہو جائے۔ ان کا یہ اعتراض بالکل درست ہے۔ ماہ جنوری ۱۹۹۲ء کا رضائے مصطفی ضرور بہ ضرور دیکھیں۔ وما علینا الا البلاغ
والسلام
ابو الزاہد محمد سرفراز
از گکھڑ‘‘
اس اختلاف کی ایک اور جھلک سفیر ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ تعالیٰ کے رفیق خاص مولانا مشتاق احمد کے مضمون کے اس اقتباس میں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے جو انھوں نے مولانا چنیوٹی کے حالات زندگی پر تحریر کیا ہے اور جو ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے ستمبر ۲۰۰۴ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ مولانا مشتاق احمد اس مضمون میں لکھتے ہیں :
’’مولانا چنیوٹی سپاہ صحابہؓ سے ہمدردی تورکھتے تھے لیکن ان کے مخصوص نعروں کے عام جلسوں میں لگائے جانے سے متفق نہ تھے۔ جامعہ عربیہ چنیوٹ کی مسجد میں سالانہ ردمرزائیت کورس کی اختتامی تقریب منعقد ہو ئی۔ شہید ناموس صحابہ مولانااعظم طارق مرحوم مہمان خصوصی تھے۔ مولانااعظم طارق کی تقریر سے پہلے کسی نے ’’کافر کافر شیعہ کافر‘‘ کے نعرے لگائے تو مولانا چنیوٹی نے برملا ڈانٹا کہ تم اچھل اچھل کر نعرے لگانے والے توجلسہ کے بعد اپنے گھر وں کو چلے جا ؤ گے ۔ یہ غریب( مولانااعظم طارق) جیل چلاجا ئے گا۔ ان کوجیل سے باہربھی رہنے دو ۔ کیا انہیں جیل بھیجنا چاہتے ہو ؟مولانا اعظم طارق مرحوم عجیب تاثرات کے ساتھ مولانا چنیوٹی کو دیکھتے رہے لیکن اپنی تقریر میں بھی کو ئی تبصرہ نہ کیا۔‘‘
’خلافت راشدہ‘ کے فاضل مضمون نگار اور ان کے ہم نواؤں سے گزارش ہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ کے طرز عمل کے ساتھ ہمارا اختلاف بھی وہی ہے جو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم، سفیر ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ تعالیٰ اور دیگر بہت سے سرکردہ اور سنجیدہ علماء کرام کا ہے۔ اس پر سیخ پا ہونے کے بجائے کالعدم سپاہ صحابہ کی قیادت کو اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے اور اپنے طرز عمل اور طریق کار پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ شیعہ جارحیت کے خلاف اہل سنت کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کا آغاز سپاہ صحابہ نے نہیں کیا، بلکہ اس سے قبل پاکستان میں حضرت مولانا عبد الستار تونسوی مدظلہ، حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ ، حضرت مولانا سید نور الحسن شاہ بخاریؒ ، حضرت مولانا دوست محمد قریشیؒ ، حضرت مولانا احمد شاہ چوکیرویؒ ، حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ اور دیگر سرکردہ علماء کرام نے نصف صدی تک اس جدوجہد کی قیادت اور راہ نمائی ہے، البتہ کالعدم سپاہ صحابہ نے اس میں شدت پسندی کا اضافہ کیا ہے اور تشدد کا ماحول پیدا کیا ہے، مگر اب وقت آ گیا ہے کہ اس شدت پسندی کے نفع ونقصان کا جائزہ لے لیا جائے اور پیچھے مڑ کر دیکھ لیا جائے کہ اس طرز عمل سے ہم نے کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے؟
ہم اس میں کالعدم سپاہ صحابہ کو تنہا قصور وار نہیں سمجھتے، بلکہ ہمارے نزدیک اس شدت پسندی کا بیج انقلاب ایران کے بعد اس کی سرپرستی میں کالعدم تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے پاکستان میں فقہ جعفریہ کے جداگانہ نفاذ کا مطالبہ اور اسلام آباد کے وفاقی سیکرٹریٹ کا محاصرہ کر کے بویا تھا۔ سپاہ صحابہ اس کے رد عمل میں وجود میں آئی، لیکن اس رد عمل میں اس قدر آگے نکل گئی کہ نفع ونقصان کا توازن قائم رکھنا یاد نہ رہا اور پیچھے ہٹنے کے راستے بھی بند نظر آنے لگے۔ ہمارا مشورہ اب بھی صرف یہ ہے کہ پیچھے مڑ کر دیکھ لیا جائے، سود وزیاں کا حساب کر لیا جائے اور ان اکابر واسلاف کے طریقے پر واپس آنے کی راہیں تلاش کر لی جائیں جو ہم سے زیادہ متصلب سنی تھے، اہل سنت کے عقائد کے ساتھ ہم سے زیادہ وابستگی اور وفاداری رکھتے تھے، لیکن اس کے ساتھ ملی اور قومی مقاصد کا شعور بھی رکھتے تھے اور توازن کا دامن ہمیشہ تھامے رکھتے تھے۔ اسی میں سلامتی ہے، یہی صحیح راہ عمل ہے اور اسی میں اہل سنت کے عقائد، حقوق اور مفادات کا تحفظ بھی ہے۔

شیعہ سنی مسئلہ مولانا دریابادیؒ کی نظر میں

محمد موسی بھٹو

’’صدق جدید‘‘ میں مولانا عبد الماجد صاحبؒ نے مسلم امت کے مسائل پر جس بصیرت اور خون جگر سے لکھا ہے، ضرورت ہے کہ ’’صدق جدید‘‘ کے سارے فائلوں کو کھنگال کر مولانا کے اس قیمتی مواد اور ان کے پیش کردہ نکات کو قوم کے سامنے لایا جائے۔ امت میں بڑھتا ہوا مسلکی اختلاف اور اس اختلاف کی وجہ سے افتراق وانتشار اور وقت اور صلاحیتوں کا ایک دوسرے کی قوت کو کمزور کرنے میں استعمال ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے اور اس وقت کا بنیادی مسئلہ بھی۔ دین کے وسیع دائرے میں رہتے ہوئے فقہی، کلامی اور اجتہادی مسائل میں اختلاف رحمت کا باعث ہونا چاہیے۔ اختلاف کا آغاز، اس کے ارتقا، پس منظر، اختلاف کے حدود، آداب، دائرہ کار، اختلاف کو تشدد کی صورت دینے کے اسباب، امت میں یک جہتی کو فروغ دینے کی تجاویز، افتراق نے ماضی میں امت کو جو صدمات پہنچائے، ان کی تفصیل، غرض کہ اس موضوع کے بیشتر پہلوؤں پر مولانا نے لکھا ہے اور اتنا عمدہ اور بصیرت افروز لکھا ہے کہ ہر ایک صاحب علم ان نکات کو پڑھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مولانا کی کچھ تحریریں پیش خدمت ہیں:

اختلاف کی نوعیت 

’’شیعہ سنی کے نام نہاد جھگڑے کے سلسلے میں یہ کہنا چاہیے کہ امیر المومنین حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ کا اختلاف ہے، لیکن ذرا خلوے ذہن سے سوچیے کہ یہ کوئی دین وعقیدہ کے اختلاف کا مسئلہ تھا؟ کسی رسالت ونبوت میں کچھ ایرادات اٹھ کھڑے ہوئے تھے؟ کیا حقانیت وجامعیت قرآن سے متعلق کوئی رائیں ٹکرا رہی تھیں؟ کیا استقبال قبلہ زیر بحث آ گیا تھا؟ عبادات میں سے کسی کی فرضیت ووجوب پر مناظرہ شروع ہو گیا تھا؟ کوئی بھی شے اس قبیل کی تھی؟ آگے چلیے۔ امیر معاویہؓ نے بھی یہ دعویٰ کب پیش کیا تھا کہ میں شخصاً علیؓ سے افضل، اعلیٰ اور اشرف ہوں؟ گفتگو کا سارا خلاصہ یہ تھا کہ ایک فریق کے خیال میں خلیفۃ الرسول سے کچھ انتظامی غلطیاں اور سیاسی کوتاہیاں واقع ہو گئی تھیں۔ مثلاً یہ کہ انھیں قاتلان حضرت عثمانؓ سے قصاص فوراً لینا چاہیے تھا۔ تو فرمائیے کہ اسباب مخالفت تو تمام تر سیاسی، تدبیری وملکی وانتظامی تھے۔ دین وعقیدہ کی گھٹیاں کیسے پڑ گئیں اور کفر وایمان کی پیوند کاریاں اس میں کیسے راہ پا گئیں؟
اس سے بھی اوپر چلیے۔ خلیفہ اول ابوبکرؓ اور خلیفہ راشد علیؓ کے درمیان اختلاف کیا کوئی دینی واعتقادی تھا؟ یہ کسی اور اسلام کے قائل تھے اور وہ کسی اور کے؟ یا ایک دوسرے کے کمالات کے، فضائل کے، مناقب کے منکر تھے؟ کیا نعوذ باللہ دونوں ایک دوسرے کے نزدیک بدراہ وبدکردار تھے؟گفتگو صرف یہ چھڑی تھی کہ بہ حیثیت حکمران کون بہتر ہوگا اور شرفاے عرب کی اکثریت کس شخصیت کی طرف زیادہ آسانی سے کھنچے گی۔ پھر وہی سوال تمام تر ذاتی مقبولیت ومرجعیت کا۔ حرب عقائد کی کڑیاں اور لڑیاں جو بعد کو زلف مسلسل بنتی چلی گئیں، خدا کے لیے سوچیے کہ ابتدا میں کہاں تھیں؟ دین کی خدمت اب کاہے میں ہے؟ ان الجھنوں کو سلجھانے میں، پیچیدگیوں کا حل نکالنے میں یا اس کے برعکس الجھنوں کو اور بڑھانے اور ان گتھیوں کو مزید پیچیدہ کرنے میں؟ کاش وہی سادگی آج پھر نمودار ہو جاتی اور یہ شدید نفاق وشقاق مٹ مٹا کر بات صرف اسی سادہ اختلاف رائے کی رہ جاتی۔‘‘ (صدق جدید ۳۱ نومبر ۱۹۶۹)
سید حسین نصر اس وقت عالم اسلامی کی ایک معروف علمی شخصیت ہیں اور مسلک امامیہ اثنا عشریہ رکھتے ہیں۔ تہران یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور کچھ دن بیروت کی امریکی یونیورسٹی میں بھی بہ حیثیت استاد کام کر چکے ہیں۔ مستشرقین کی طویل صحبت ورفاقت کے بعد خود بھی ایک مستشرق فاضل بن گئے ہیں اور مستشرقین کے علمی رسالوں میں مقالے لکھتے رہتے ہیں اور مقالوں کا موضوع اسلام کی نصرت وحمایت میں مستشرقین کے خلاف دفاع ہی رہتا ہے۔
انگریزی میں کئی کتابوں کے مصنف ہیں، مثلاً:
(۱) سائنس اور تہذیب اسلام میں (Science and Civilization in Islam)
(۲) اسلامیات (Islamic Studies)
(۳) تین حکماء اسلام (Three Muslim Sages)
(۴) فرنچ زبان میں ’’تاریخ فلسفہ اسلام‘‘ پر ایک کتاب کی تصنیف میں شرکت، فرنچ مستشرق کورین (Corin) کے ساتھ۔
اور جوابی محاذ پر وہ کام کر رہے ہیں جس کا کوئی اندازہ بھی ہمارے ہاں کے مولوی صاحبان کو نہیں۔ تازہ ترین کتاب ’’اسلام کے تصورات وحقائق‘‘ (Ideals and Realities of Islam) حال میں دیکھنے میں آئی۔ ضخامت ۱۸۴ صفحہ، پبلشر George Allen & Unwin، میوزیم اسٹریٹ، لندن۔ قیمت ۲۸ شلنگ۔ کتاب انگریزی میں بسم اللہ سے شروع ہوتی ہے اور ۴، ساڑھے چار صفحہ کے مقدمہ کے بعد چھ بابوں میں تقسیم ہے۔
پہلا باب: اسلام آخری دین بھی ہے اور سب سے ابتدائی دین بھی۔ اس کے عمومی وخصوصی خط وخال۔
دوسرا باب: قرآن، خدائی کلام اور علم وعمل کا مبدا ومبتدا۔
تیسرا باب: نبی اور احادیث نبوی کا آخری نبی اور آفاقی انسان۔
چوتھا باب: شریعت یا خدائی قانون، معاشری اور انسانی معیار عمل۔
پانچواں باب: طریقت، طریق روحانیت اور اس کے قرآنی ماخذ۔
چھٹا باب: سنیت اور شیعیت، اثنا عشریت اور اسمٰعیلیت۔
اصلاً یہ چند لکچر تھے جو بیروت کی امریکی یونیورسٹی میں سرآغا خان کے سرمایہ سے دیے گئے تھے۔ نظر ثانی کے بعد انھیں کو کتابی شکل دے دی گئی۔ مصنف کا دعویٰ کہیں بھی اسلام کا جدید ’’ایڈیشن‘‘ یا ’’ماڈرن‘‘ اسلام پیش کرنے کا نہیں۔ وہ کہتے ہیں، میں تو وہی پرانا (Orthodox) اسلام پیش کر رہا ہوں جو ۱۴ سو سال سے چلا آ رہا ہے۔ صرف میرا انداز بیان بیسویں صدی کا ہے۔ ہر باب کے مضمون ومفہوم کا ایک موٹا اور ہلکا سا اندازہ تو محض عنوان ہی سے ہو گیا ہوگا۔ مصنف نے بڑی حد تک اپنے اس دعوے کو نباہ دیا ہے کہ ’’تجدد‘‘ ان کی کتاب میں کم سے کم ہے۔ زیادہ تر اعادہ وتکرار انھیں پرانی باتوں کا ہے، البتہ انداز بیان نیا اور زبان اسی بیسیویں صدی کی۔ نہ کہیں تعدد ازواج کے نام سے شرم ومعذرت، نہ کہیں فرنگ کے دعواے مساوات مرد وزن کی تائید اور نہ کہیں صوفیہ کے طریق ذکر وفکر سے عار وفرار۔ شروع سے آخر تک زور بجائے عقل واجتہاد کے نقل واتباع احکام پر، توحید وایمان پر۔
کتاب کا دلچسپ ترین باب اس کا آخری باب ہے جہاں مصنف نے تعارف سنیت کے ساتھ شیعیت (اور اس کی دونوں شاخوں) کا کرایا ہے۔ باب بھر میں ذکر نہ باغ فدک کا، نہ زیاد وابن زیاد کے مظالم کے تذکرے، نہ شیعیت کا یہ تعارف کہ وہ سنیت کی حریف اور اس کے خلاف کوئی باغیانہ تحریک ہے، بلکہ یہ کہ ’’سرچشمہ‘‘ اسلام (یعنی قرآن وحدیث) کے دو بڑے دھارے شروع ہی سے چلے آ رہے۔ ایک وہ جو صحابہ کی اکثریت یا جمہور کے ذریعے سے ہم تک پہنچا ہے اور یہی اہل سنت کا مسلک ہے، اور دوسرا وہ چھوٹا دھارا جس کو علیؓ اور یاران علیؓ (سلمان فارسیؓ، ابوذرؓ ومقدادؓ) سنبھالے رہے تھے اور اس اقلیتی دھارے کو شیعیت کہتے ہیں۔ اصلی وبنیادی اختلاف کسی عقیدہ کا نہیں، فرق جو کچھ پڑا ہے، وہ انھیں مشترک بنیادی عقائد کی تعبیر وتشریح میں پڑا ہے اور قرآن وسنت کی اسی اختلاف تعبیر نے امامت، عصمت ائمہ وغیرہ چند اہم اختلافات اور پیدا کر دیے جنھیں بعد کو اصل کی سی اہمیت دے دی گئی۔ اور حقیقت میں سب کا ماخذ ومخرج قرآن اور اس کے برابر سنت رسول تھے۔ اس نظریہ کے خطا وصواب سے یہاں بحث نہیں۔ محض اس کی ندرت کے لحاظ سے یہاں اسے پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ نظریہ اگر کہیں شیعوں میں مقبول ہو گیا تو آگے چل کر کثرت سے شیعہ (سید امیر علی مرحوم کی طرح) شیعہ سے بڑھ کر معتزلی نظر آنے لگیں گے اور فریقین کی کتب مناظرہ کے ذخیرہ عظیم پر یکسر پانی پھر جائے گا۔ صفحہ اول پر جو عقائد کی تشریح ہوئی ہے، اس میں شیعی علم کلام کے ڈانڈے معتزلی علم کلام سے کثرت سے مل جل گئے ہیں۔ (۲۲ مارچ ۱۹۶۸)

باہمی منافرت کے سنگین نتائج

’’ابن علقمی معید الدین محمد، آخری خلیفہ مستعصم کے وزیر کا نام ہے۔ یہ ایک شیعہ خاندان سے تھے۔ ان کے ہم مذہب ابن طفلقہ نے ان کے علم وفضل، ان کی خطاطی اور ان کی کتاب دوستی کو سراہا ہے اور ان کے تدبر کی مدح کی ہے، لیکن ان تک کو یہ ماننے پر مجبور ہونا پڑا ہے کہ انھوں نے کافر تاتاریوں کے حملہ بغداد سے قبل ان سے غدارانہ خط وکتابت کر رکھی تھی۔ ابن علقمی کی وفاداری غالباً شیعہ محلہ کرخ کی تاراجی سے ختم ہو گئی تھی۔ ان کی غداری کے حدود کا جائزہ لینا مشکل ہے، تاہم اتنا تو یقینی ہے کہ جب سرداران فوج ہلاکو سے مقابلہ کی رائے دے رہے تھے تو ابن علقمی کا مشورہ نرمی وسازگاری کا تھا۔‘‘
’’ابن علقمی کو گبن نے اپنی تاریخ زوال رومہ میں دغا باز وزیر سے یاد کیا ہے۔ کسی بھی دوسری شخصیت کی غداری پر زیادہ زور دینا اب عبث سی بات ہے۔ کام کی بات یہ ہے کہ یہ دیکھیے کہ اس غداری کی محرک کیا شے ہوئی؟ مال کی طمع؟ جی نہیں۔ غرض زر، زن اور زمین کے عام محرکات میں سے کوئی شے نہیں، بلکہ شیعہ سنی کی باہمی منافرت جس نے ایک طرف سنیوں کو مجبور کیا کہ شہر کی شیعہ آبادی کو تہس نہس کر ڈالیں اور دوسری طرف شیعوں کو کہ وہ جوش انتقام میں آ کر خونخوار دشمنوں سے مل جائیں۔ تو فتنہ کی جڑ تو یہ باہمی منافرت ہوئی۔ اصل ضرورت اسی پر زور لگانے کی ہے۔ بغداد کا شاداب اور لہلہاتا ہوا باغ اسی آندھی کی نذر ہو گیا اور اتنے عظیم حادثہ سے بھی ملت کی آنکھیں نہ کھلیں اور نظر اس زہریلی اور مہلک فضا کی طرف نہ گئی۔ بادشاہ (برائے نام خلیفہ) کی غفلت وعیش پسندی، امیروں کی رنگ رلیاں اور شراب کے دور وغیرہ سب اسی تاریخی ’’زوال بغداد‘‘ میں معین ومعاون ہو ئے، لیکن آگ کی چنگاری اسی فرقہ واریت نے ڈالی اور مخاصمت شیعہ سنی تک محدود نہ تھی، بلکہ خود اہل سنت کے بھی مختلف فرقوں کے درمیان اسی زور وشور سے جاری تھی۔‘‘ (صدق جدید ۲۵ جولائی ۱۹۶۹)
پاکستان کے ایک نیم علمی نیم دینی ماہنامہ میں سرور صاحب جامعی کے سنجیدہ قلم سے:
’’پاکستان میں ہماری اسلامیت میں ہماری قومیت کی بنیاد ہے۔ اب اگر ہمارے ہاں اسلامیت ایک وحدانی شعور نہیں ہے بلکہ وہ عبارت ہے مختلف فرقوں سے جو ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں اور ان میں آپس میں برابر محاربت ومبارزت رہتی ہے تو ذرا اندازہ کیجیے کہ ہم میں قومی وحدت کیسے پید اہوگی اور ہم کیسے یہ محسوس کریں گے کہ ہم ایک ہیں اور ہمارے دکھ سکھ مشترک ہیں۔ آئندہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ خود مسلمانوں کے مذہبی فرقوں کا آپس کا تصادم ہے جو برابر بڑھتا جا رہا ہے اور یہ پاکستان کی ہیئت سیاسی واجتماعی کی وحدت وہم آہنگی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا ہے، بلکہ اگر زیادہ وضاحت سے کام لیا جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ مسلمان فرقوں کا موجودہ باہمی تصادم خود پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اور اس ضمن میں ہم تو یہاں تک کہیں گے کہ اس وقت ہمارے پاس جو مذہبی فرقہ واریت کی فضا ہے، اس کے ہوتے ہوئے خواہ پاکستان میں کتنے ہی کارخانے لگ جائیں اور تعلیم کتنی ہی پھیل جائے، ملک صحیح معنوں میں مضبوط ہوگا نہ متحد۔‘‘
پاکستان میں اس مسئلہ کی اہمیت تو ظاہر ہی ہے، لیکن ہندوستان میں بایں مغلوبی وشکستہ حالی یہ اندرونی مذہبی فرقہ واریت کچھ کم اہم اور کم قابل توجہ نہیں۔ (۹ نومبر ۱۹۶۶)
ایک شیعہ فاضل کی زبان سے، آج سے نصف صدی قبل:
’’متعصب اور خود غرض لوگوں نے ہر دو فریق کے عوام کو لکھنو میں یقین دلایا ہے کہ سنی بہ لحاظ عقیدہ شیعہ کے، اور شیعہ بہ لحاظ عقیدہ سنی کے مسلمان نہیں ہے، یعنی اقرار توحید ورسالت ومعاد وقبلہ وقرآن ایسے عقائد ہیں جن کے باوجود دنیاوی اور اسلامی معاشرت بھی قائم نہ رہنا چاہیے۔ ہر دو فریق نے اس نئی ایجاد سے اپنی قدیم فقہ پر بھی پانی پھیر دیا۔ علم اخلاق کی جو خدمت کی، وہ جدا رہی۔
شیعوں کے مقتدا اور معصوم ائمہ نے نہایت درجہ صلح اور دوستی اور صبر کے ساتھ عام مسلمانوں سے برتاؤ کیا۔ یہ بھی ہر مولوی بلکہ سنیوں کو معلوم ہوگا (کیونکہ عقائد شیخ صدوق میں لکھا ہوا ہے ) کہ قیامت تک احتیاط لازم ہے اور ائمہ معصومین نے حکم دیا ہے کہ سنت جماعت سے بیماروں کی عیادت کرو، ان کے ساتھ نماز پڑھو، عمدہ سلوک اور برتاؤ رکھو اور ایسی کوئی بات نہ کرو کہ وہ ائمہ کے خلاف مشتعل ہوں اور ایسے لوگوں سے سخت نفرت کی جائے جو محبت کے نام سے عداوت بڑھاتے ہیں۔‘‘ (منقول از اودھ پنج، ۲۵ جون ۱۹۰۸)
۱۹۰۸ میں لکھنو میں شیعہ سنیوں کے درمیان سخت تصادم برپا تھا۔ اس وقت یہ تحریر مشہور قومی کارکن اور صاحب علم خواجہ غلام الثقلین بی اے، ایل ایل بی (علیگ) کے قلم سے شائع ہوئی تھی اور اتنا عرصہ گزر جانے پر بھی باسی نہیں ہوئی ہے۔ کلمہ گو، مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا نہ دے۔
خواجہ غلام الثقلین مرحوم (متوفیٰ ۱۹۱۴) کو لوگ اب تو بھول بھال گئے۔ اپنے دور کے اکابرین میں ہوئے ہیں۔ ۱۹۱۱ میں سفر عراق، ایران، شام وغیرہ کیا اور واپسی میں روزنامچہ سیاحت مرتب کر کے تجارتی پریس میرٹھ سے شائع کیا۔ بخارا میں عین عاشورا کے دن ایک خونریز بلوہ شیعہ سنیوں کے درمیان دو ایک سال قبل ہو چکا تھا۔ اس کا ذکر کر کے لکھتے ہیں:
’’بخارا کے افسوس ناک فساد کی بنیاد صرف یہ نکلی کہ عاشورا کے دن وہاں کے شیعہ (جو ایرانی الاصل ہیں) اور منجملہ دو لاکھ آبادی کے ۱۵ ہزار کی تعداد میں ہیں، بازاروں کے اندر ماتم کرتے جا رہے تھے۔ ایک ترکمان طالب علم ان کو دیکھ کر ہنسنے لگا۔ عزا داروں نے اس کے دو تین تھپڑ مارے۔ اس پر دیگر لوگ آئے اور طرفین سے دو دن تک بلوے رہے۔ ڈیڑھ سو آدمی قتل ہو گئے۔ وزیر بخارا جو شیعہ تھا، معزول ہوا اور روس کا تسلط بخارا میں اور بھی زیادہ ہو گیا۔ اکثر مسلمانوں کی جہالت ہے کہ ایک دوسرے کا خون بہانے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتے ہیں جس کی یہ ایک ادنیٰ مثال ہے۔‘‘ (ص ۳۳۸) (۱۸ ستمبر ۱۹۵۹)

رواداری کا کلچر

علامہ مناظر احسن گیلانی کے مقالہ ’’اسلام میں فرقہ بندی کی حقیقت واصلیت‘‘ سے:
’’فرقہ واری رواداری کا یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ جن دنوں میں علامہ شبلی نعمانی مرحوم ’’الفاروق‘‘ لکھ رہے تھے، علی گڑھ کالج کی پروفیسری کی خدمت پر مامور تھے۔ سرسید احمد خان کو اندیشہ ہوا کہ کالج کے ہمدردوں میں جو شیعہ حضرات ہیں، وہ حضرت عمر فاروق کی اس سوانح نگاری سے برا مان جائیں گے۔ انھوں نے ازراہ مصلحت بینی کالج کے ایک بڑے شیعہ ہمدرد ومددگار نواب عماد الملک سید حسین بلگرامی کو مولانا شبلی کے ارادہ سے مطلع کرتے ہوئے اپنا خطرہ بتا دیا کہ اس کتاب سے مجھے سنی شیعہ تفریق کا ڈر ہے اور لکھا کہ میں نے مولانا شبلی کا قلم روک رکھا ہے۔ نواب صاحب مرحوم نے اس کا یہ جواب دیا کہ اسلام نے ایک فاروق پیدا کیا ہے۔ حیف ہے کہ اس کی سوانح عمری نہ لکھی جائے۔ مولوی شبلی کو ’’الفاروق‘‘ سے مت روکیے۔‘‘
مصنف ’الفاروق‘ کے مخلصانہ تعلقات نہ صرف اسی بلگرامی شریف شیعہ خاندان سے آخر تک قائم رہے، بلکہ عزیز لکھنوی اور خواجہ غلام الثقلین اور لکھنو کے اور شیعہ عمائد سے بھی رہے اور مولانا کی عزیز ترین یادگار دار المصنفین (اعظم گڑھ) کی مجلس اعلیٰ کے صدر اپنی زندگی بھر یہی عماد الملک سید حسین بلگرامی رہے اور ان کے بعد ان کے فرزند مہدی یار جنگ بہادر۔ خود علی گڑھ کی تحریک میں سالار جنگ، خلیفہ محمد حسین، سید حسن بلگرامی، سید علی بلگرامی، مرزا عابد علی بیگ اور خواجہ غلام الثقلین کا جو حصہ رہا ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ اور سر آغا خان اور راجہ علی محمد خاں (والی محمود آباد) تو مسلم یونیورسٹی کی روح رواں ہی مدتوں رہے ہیں۔ (۲۵ دسمبر ۱۹۵۹)
ہوش بلگرامی، جو بعد کو نواب ہوش یار جنگ بہادر ہو گئے تھے، ان کی آپ بیتی کا ایک ٹکڑا ماہ نامہ نقوش کے آپ بیتی نمبر سے:
’’خدا ہر ذی روح کاخالق ہے، بلکہ کائنات کی ہر چیز اسی کی مخلوق ہے، مگر اس کی عالمگیر تہذیب (؟توحید) اس امت کے ہاتھوں بدنام ہو رہی ہے جو توحید پرستی کے دعویدار ہونے کے باوجود خود ہی مختلف پرستشوں میں مبتلا ہو گئی ہے اور یہاں تک جراتیں بڑھ گئی ہیں کہ اسلام کا ایک فرقہ ان کو بھی برا بھلا کہنے میں بدنام ہے جن کو اگر وہ خلیفہ نہیں مانتا ہے تو ان کے صحابی ہونے سے تو انکار نہیں ہو سکتا ہے۔ اور اس پر بو العجبی یہ کہ وہ تبرا بازی کو محبت سے تعبیر کرتا ہے اور مدح وقدح کے قضیے کھڑے کر کے مسلمانی طاقت کو کو کمزور کر ہی چکا ہے، علیؓ کی شان میں بھی گستاخی کا محرک ہوتا ہے۔ جس طرح بتوں کو برا کہنے سے خدا کو برا کہلوانے کا حوصلہ پیدا کیا جاتا ہے، اسی طرح خلفاے ثلاثہ کی شان میں بے ادبیاں کر کے علی مرتضیٰ کو بلاوجہ ہدف بنایا جاتا ہے۔ ایسوں کو کون سمجھائے اور اگر سمجھائے بھی تو مذہبی جنون کب سمجھنے دیتا ہے؟ افترا پردازوں کا اجتہاد کب صحیح راستہ اختیار کرنے دیتا ہے؟ علیؓ کی حکیمانہ روش پر اگر ان کے متبع چلتے اور کسی کی مدح نہیں کر سکتے تو قدح بھی نہ کرتے تو یہ وہ راستہ ہوا جس سے دوسروں کے معتقدات کو صدمہ نہ پہنچتا، ان کے جذبات عقیدت نہ بھڑکتے اور انتقامی جذبہ اس حد تک نہ پہنچ جاتا جس سے خدا محفوظ رہا نہ رسول۔‘‘
کسی شیعہ صاحب کی نظر سے اگر یہ نوٹ گزرے تو وہ یہ یاد کر لیں کہ اوپر کی عبارت کسی سنی کے قلم سے نہیں اور نہ ا س سے مقصود کوئی مناظرہ ہے، ایک شیعہ کے قلم سے ہے اور اس سے ان کا مقصود اپنے ہی بھائیوں کی اصلاح اور نصیحت، انھیں کی ہمدردی وہوا خواہی ہے اور یقین ہے کہ اسے اسی نظر سے پڑھا بھی جائے گا۔ اکیلے ہوش بلگرامی ہی نہیں، متعدد شیعہ راقم سطور نے علی گڑھ ، حیدر آباد، لکھنو اور دلی وغیرہ میں ایسے دیکھے ہیں جو عمر فاروق کا نام ’’حضرت عمر‘‘ کہہ کر لیتے اور ہر طرح اہل سنت کے جذبات کا احترام کرتے۔ ایسوں کا وجود جب تک ہے، اتحاد اسلامی کی طرف سے مایوسی کی وجہ موجود نہیں۔‘‘ (۲۴ جولائی ۱۹۶۴)
مولانا ابو الحسن علی ندوی کے تازہ سیاحت نامہ میسور سے:
’’قدیم ریاست میسور کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہاں ہر قصبہ میں بالعموم اور شہروں میں بالخصوص بہت شاندار اور وسیع میونسپل ہال اور بہت خوبصورت، صحت افزا اور خوش وضع گیسٹ ہاؤس (سرکاری مہمان خانہ) اور ریسٹ ہاؤس (سرکاری فرو گاہیں) بنی ہوئی ہیں۔ میں نے شمالی ہند کے بڑے بڑے شہروں اور ضلع کے صدر مقام میں بھی اتنے اچھے انتظامات نہیں دیکھے۔ یہ غالباً سر مرزا اسمٰعیل کے حسن مذاق اور حسن انتظام کا نتیجہ ہے جن کے دور وزارت کی نشانیاں میسور کے چپہ چپہ پر موجود ہیں اور اہل میسور بلا تفریق مذہب وملت ان کا نام عزت سے لیتے ہیں۔‘‘
امین الملک سر مرزا اسماعیل مرحوم کا تعلق فرقہ امامیہ سے تھا۔ مولانا ندوی سلمہ سب کو معلوم ہے کہ موجودہ علماء اہل سنت کے اکابر میں ہیں۔ بات بہ ظاہر معمولی سی ہے، لیکن موجودہ ’’فرقہ وار‘‘ (اور یہی صحیح محل استعمال فرقہ واریت یا Sectarianism کا ہے، نہ کہ وہ مذہبی تعصب Communalism جس کے لیے بالکل غلط اور بے محل یہ لفظ اخباروں نے چلا دیا ہے) کشاکش کی فضا میں یہ صحیح داد مولانا کے قلم سے ادا ہونا ہر طرح مبارک اور بجائے خود قابل داد ہے۔ آج تو شیعیت کا معیار یہ رہ گیا ہے کہ بجائے امیر المومنین حضرت علیؓ سے انتہائی محبت رکھنے کے ہر سنی پر ’’ناصبیت‘‘ کی تہمت رکھ دی جائے اور سنیت کی روایت یہ ہے کہ بجائے شیخین کے نقش قد م پر چلنے کے ہر شیعہ کو رافضیت سے نواز دیا جائے۔ حالانکہ تاریخ کا فتویٰ تو یہ ہے کہ جہاں تک خالص ’’اسلامی‘‘ ثقافت (کلچر) کا تعلق ہے، وہ تو چہارم خلیفہ راشد پر ختم ہو گئی اور اس کے بعد سے جو ملی جلی مخروج اور غیر خالص ’’مسلم‘‘ تہذیب چلی اور آج تک چلی آ رہی ہے، اس میں سواد اعظم کے ساتھ ساتھ شیعہ اقلیت کا حصہ بھی اچھا خاصا شامل ہے۔ امت کی شان میں جو یہ آیا ہے: اشداء علی الکفار رحماء بینہم تو اس کے معنی یہی ہیں کہ یہ لوگ منکرین کے مقابلہ میں تو پتھر کی سی صلابت رکھتے ہیں، لیکن آپس میں ایک دوسرے کی کمزوریوں کے لیے موم کے سے نرم ہیں۔ (۳۰ دسمبر ۱۹۶۶)
اپنا مسلک ہر فرقہ بلکہ ہر مذہب کو اسی نام ولقب سے یاد کرنا ہے جو وہ خود اپنے لیے پسند کرتا ہے، نہ کہ ایسے لفظ سے جو وہ اپنے حق میں ناملائم بلکہ بطور گالی کے سمجھتا ہو۔ اسی اصول کے تحت لفظ ’’رافضی‘‘ کے استعمال سے ہمیشہ اجتناب رہا۔ حال میں لغت عربی خصوصاً الفاظ قرآنی کی مستند لغت کلیات ابی البقاء (متوفیٰ ۱۰۹۵) میں لغت ’رفض‘ پر نظر پڑ گئی اور اس میں یہ درج ملا:
ترجمہ: ’’روافض سے مراد وہ اہل لشکر ہیں جنھوں نے اپنے سردار کا ساتھ چھوڑ دیا۔‘‘
اس کے بعد ذکر اصطلاحی فرقہ رافضہ کا ہے۔
ترجمہ: ’’رافضہ ایسے ہی فرقہ کو کہتے ہیں، اور رافضہ شیعان کوفہ کے ایک فرقہ کا نام ہے۔ ان لوگوں نے زید بن علی (زین العابدین) سے بیعت کی تھی اور زید کا عقیدہ تھا کہ فاضل کے ہوتے ہوئے مفضول کی امامت بھی درست ہے۔ پھر ان لوگوں نے زید سے فرمایش کی کہ خلفاے شیخین سے تبرا کیجیے۔ اس سے آپ نے انکار کیا اور فرمایا کہ وہ دونوں تو میرے جد امجد (رسول اللہ ﷺ) کے وزیر تھے۔ اس پر ان لوگوں نے زید کو چھوڑ دیا اور ان سے علیحدگی اختیار کر لی اور یہی نسبت رافضی کہلاتی ہے۔‘‘
اور یہی روایت اختصار کے ساتھ لغت کی دوسری مستند کتابوں الجمہرۃ (ابن درید) صحاح جوہری، قاموس (فیروز آبادی)، لسان العرب وتاج العروس میں بھی دہرائی گئی ہے، لیکن ابو البقاء کی دینی حیثیت بھی نمایاں ہے، اس لیے پورا حوالہ انھیں کا نقل ہوا۔ روایت اگر صحیح ہے تو ظاہر ہے کہ لفظ رافضی میں بجائے خود کوئی پہلو سب وشتم کا نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ مسلسل غلط محل استعمال سے اس میں ثانوی مفہوم طنز وتشنیع کا بھی پیدا ہو گیا ہے۔ (۱۰ جون ۱۹۶۶)

شیعہ سنی اتحاد کا مطلب

سوال: اسی مقصد کا ایک مضمون کسی ایرانی عالم کی طرف سے بھی آپ کے اخبار میں شائع ہو چکا ہے۔ جناب نے اس مسئلہ پر اپنا خیال مبارک ظاہر نہیں فرمایا کہ یہ اتحاد ممکن بھی ہے یا نہیں؟ سوال یہ ہے کہ اس اتحا د کی نوعیت کیا ہوگی؟ کیا مشترکہ ادارت میں رسالہ شائع ہونے سے قرب حاصل ہو جائے گا؟ کیا شیعہ حضرات تبرا کرنے سے تائب ہو جائیں گے اور کیا سنی حضرات امامت حضرت علی کو جزو ایمان تسلیم کر لیں گے؟ اس کے علاوہ اس تفرقہ کے اجزا اور بھی بہت سے ہیں۔ اگر یہ ممکن ہے یعنی شیعہ حضرات کا تبرا سے تائب ہونا اور امامت حضرت علی کو تسلیم کرنا اور تمام جزوی اختلافات کو نظر انداز کرنا تو علماء حضرات آپ کے مقتدر اخبار میں اور دوسرے مذہبی رسالوں میں اعلان فرمائیں تاکہ عام مسلمانوں کی رہنمائی ہو۔ نیاز مند، عبد الستار خلجی (ناظم آباد نمبر ۳، کراچی)
صدق: جو اتحاد مطلوب ومقصود ہے، اس کے لیے صرف اصل اصول کا اشتراک بالکل کافی ہے۔ فروع بلکہ غیر اہم اصول کی طرف جانے کی ضرورت ہی نہیں۔ انضمام اور چیز ہے (اور اس پر کوئی بھی فرقہ کیوں راضی ہونے لگا) اور اتحاد اور۔ اتحاد کی دعوت تو قرآن مجید نے غیر مسلموں (یہود ونصاریٰ) تک کو دی ہے، یہ کہہ کر کہ توحید کو بطور نقطہ اشتراک قبول کر لو، اور ان کے دوسرے عقیدوں سے کوئی بحث ہی نہیں رکھی اور مدینہ آ کر یہود سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدہ اتحاد قائم ہی کر لیا تھا۔ یہ طے کر لیجیے، اس پر سختی سے جم جائیے تو اتحاد ومصالحت کی صورت بالکل آسان ہو جاتی ہے۔ نقطہ اشتراک واتحاد اقرار شہادتین ہے، یعنی اقرار توحید ورسالت۔ مسئلہ امامت وتفضیل صحابہ وغیرہ گو اپنی جگہ اہم ہیں، لیکن توحید ورسالت کی طرح اور وحدت کلمہ وقبلہ کی طرح بنیادی چیزیں نہیں۔ جزئیات کی طرف جائیے گا تو خود اہل سنت کے ہاں کتنے فرقے، کتنی تفریقیں نکل آئیں گی۔ (۲۹ دسمبر ۱۹۶۷)
الحاج محمد علی سالمین جن کا ایک ادارہ گرینڈ مسلم مشن کے نام سے بمبئی میں تھا جس کا کام زیادہ تر انگریزی میں ہوتا تھا اور جو خود امامیہ عقیدے کے ہیں، ان کا ایک مکتوب ان کے آبائی وطن بحرین (خلیج عرب) سے:
’’بحرین بہت قدیم ہے۔ یہاں کے رہنے والے اکثر عرب ہیں جن میں اثنا عشری ۹۰ فیصدی ہیں۔ باقی دوسرے عرب ممالک کے عرب اور ایرانی تاجر آکر آباد ہو گئے ہیں ...... میں نے ہر ہر جگہ عرب ممالک میں دیکھا کہ لفظ شیعہ سنی بہت مکروہ ہو گیا ہے اور پبلک اس کو گوارا نہیں کرتی۔ محض لفظ مسلم کافی سمجھتے ہیں۔ دونوں میں رشتہ داریاں ہوتی رہتی ہیں۔ مغربیت عربوں پر اثر انداز ہوتی جا رہی ہے اور نسل جدید اسلام سے ناواقف ہوتی جا رہی ہے اور مغربی تہذیب وتمدن کو اپناتی جا رہی ہے۔ کھانا پینا بھی یورپین طریقے سے کھاتے ہیں۔ صرف پرانے اور ادھیڑ عمر کے لوگ عربی کھانا اور عربی تہذیب پر چلتے ہیں ...... بحرین کی حکومت میں شیعہ سنی سب کو ملازمتیں ملتی ہیں، کوئی تفریق نہیں کی جاتی اور نہ تعصب سے کام لیا جاتا ہے۔ سب سے بڑی جگہ ایک شیعہ عرب کو ملی ہے جو مالیات کے سیکرٹری ہیں۔ حاکم خود سنی مسلک کے ہیں، تعصب نام کی کوئی چیز نہیں۔ تمام رعایا ان سے خوش ہے۔‘‘
شیعہ سنی اتحاد سارے کلمہ گو فرقوں کے اتحاد کی طرح وقت کی ایک بڑی ضرورت ہے ۔ اہم ہمیشہ ہی سے تھا، موجودہ مصلحت ملی نے اہم تر بنا دیا ہے۔ اس پہلو سے خبر بڑی خوشگوار ہے، لیکن اس اتحاد کی بنیاد ہمیشہ وحدت امت وحب اسلام ہی پر ہونا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ اس کی بنیاد لامذہبی، اسلام سے کم تعلقی اور دین کی طرف سے بے پروائی پر ہو، جیساکہ اس خبرنامہ کے بعض فقروں سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی عقائد کی طرف سے بے پروا ہو کر سب کے سب ’’صاحب‘‘ کے دین وآئین پر آتے جا رہے ہیں۔ یہ راہ ارتداد کی ہے، اتحاد ملی کی نہیں۔ اتحاد سوچ سمجھ کر شعور کامل کے ساتھ ہو۔ (۷ فروری ۱۹۶۴)
’’اقلیت کی خانہ جنگی‘‘ کے عنوان سے جو شذرہ صدق نمبر ۴۰ میں تحریر فرمایا ہے، ا س نے ایک دیرینہ تمنا کو پھر جگا دیا ہے۔ عرصہ سے یہ تمنا ہے کہ شیعہ سنی اتحاد کے ضمن میں آپ سے ایک مضمون لکھنے کی درخواست کروں۔ وقتاً فوقتاً آپ صدق میں اس جانب اشارہ فرماتے رہتے ہیں، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں فرقوں میں تفرقہ جن بنیادوں پر ہے، اسے عوام کو بتا کر خصوصاً تعلیم یافتہ طبقہ کو روشناس کرا کر پھر اس کے دور کرنے کے سلسلہ میں کوئی آپ کی جیسی اتحاد پسند مقبول الطرفین اور منصف مزاج طبیعت کا مالک عالم دین اپنی تجاویز پیش کرے اور قرآن وحدیث اور واقعات وتواریخ کی روشنی میں ان بنیادوں کی تصحیح وتغلیط کی وضاحت کرے۔ بڑے بڑے پڑھے لکھے یعنی ایم اے، بی اے حضرات کو صحیح طور پر تفرقہ مذکور کی صحیح بنا معلوم نہیں اور بالکل من گھڑت باتوں پر ایک دوسرے سے نفرت رکھتے ہیں۔ میری ناقص رائے تو یہ ہے کہ اگر طرفین کو تفرقہ کا بنیادی فرق بتا کر اس کو دور کرنے کی ترغیب وتبلیغ کی جائے تو ان شاء اللہ معجزۂ اتحاد شیعہ وسنی بہت جلد ظہور پذیر ہو سکتا ہے۔ کاش آپ کو اس تحریک کی ابتدا کرنے کی فرصت وسعادت حاصل ہوجائے، یا آپ کے توسط سے کوئی اور عالم دین یا رہبر قوم اس کی ابتدا کرنے پر آمادہ وکمربستہ ہو جائیں! (عباس غفر اللہ لہ، از اسلام آباد)
صدق: یہ دنیا اگر اتنی حق پسند اور سلیم الفکر ہوتی تو اس درجہ خون ریزی وسفاکی اور شقاوت ہی کی نوبت تاریخ میں کیوں آئی ہوتی! شیعہ سنی اختلاف تو پھر کچھ نہ کچھ اہمیت رکھتا ہے۔ خود سنیوں نے اس سے کہیں ہلکے اور بالکل ہی جزئی وسطحی اختلافات پر دوسرے سنیوں کے گلے کاٹ ڈالنے اور سر توڑ دینے میں تکلف نہیں کیا ہے اور ہر فرقے کے اندر ٹولے ہی نہیں، چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بھی بے شمار قائم ہو چکی ہیں۔ اختلاف اور چیز ہے، اسے تو کوئی انسان دماغوں سے مٹا ہی نہیں سکتا اور تفرقہ، نزاع، تعصب وعیب جوئی دوسری چیز۔ اسلام کی بنیاد تو صرف توحید ورسالت کی تصدیق پر ہے۔ دل میں اگر اسی عقیدہ کا بنیادی اور مرکزی تصور جما ہوا ہے تو دوسرے اختلافات خود بخود ہلکے نظر آنے لگیں گے، لیکن یہی تو نہیں اور ہم آپ ۱۳ سو سال سے (بہ زبان رومی) گرفتار ابوبکر وعلی بن چکے ہیں۔ تعصبات، ایک دوسرے سے متعلق اعتراض، روایات، الزامات واتہامات کی کوئی حد ہی نہیں۔ صدیوں کی جمی ہوئی ضد کی جڑیں اکھاڑ پھینکنا کسی بشر کا کام تو ہے نہیں۔ اللہ میاں کسی کو فوق البشر بنا کربھیج دیں تو بات ہی اور ہے۔ (۱۱ اکتوبر ۱۹۶۸)

تبرا بازی کے جواب میں صحیح رویہ

میں کسی بھی کلمہ گو فرقہ کی تکفیر کا قائل نہیں اور فرقہ شیعہ امامیہ کے افراد کے ساتھ تو میرے تعلقات خصوصیت سے حد یگانگت تک پہنچے ہوئے ہیں۔ لکھنو، دہلی، علی گڑھ، پانی پت، بلگرام، حیدر آباد، پٹنے، بلکہ لاہور، کراچی، ڈھاکے وغیرہ کے پچاسوں بہترین شیعہ افراد سے ربط ضبط نہ صرف قائم رہا ہے بلکہ بعض ملی موضوع پر ان سے اشتراک عمل کی بھی نوبت آ چکی ہے۔ چنانچہ حال ہی میں ، میں نے ایک ممتاز شیعہ فاضل سے درخواست کی کہ شیعہ اہل نظر، اہل قلم نے مسلم ثقافت اور مسلم علوم وفنون (تفسیر، کلام، تاریخ، لغت، صرف، نحو، شعر وادب، فلسفہ، ریاضیات، طبعیات وغیرہ) میں جو خدمات اس ساڑھے بارہ سو سال کی مدت میں انجام دی ہیں، اسی طرح شیعہ اہل سیف واہل سیاست نے فتوحات ملکی وغیرہ کے سلسلے میں جو خدمات انجام دی ہیں، اس سب پر ایک ضخیم ومبسوط رسالہ بلکہ ہو سکے تو کتاب چند جلدوں میں تیار کیجیے اور دنیا پر دکھا دیجیے کہ آپ کے فرقہ کا قدم بھی عام ومشترک خدمات ملت میں کسی سے پیچھے نہیں۔ ان شیعہ کرم فرماؤں کی ایک بڑی تعداد دنیا سے اٹھ گئی، پھر بھی جو باقی رہ گئے ہیں، ماشاء اللہ ایسی کم نہیں، ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی۔ ان کے اخلاص پر مجھے اعتماد وفخر ہے اور کبھی کبھی انہوں نے مجاہدانہ حد تک میرے ساتھ اشتراک عمل کیا ہے۔
اس ذہنیت اور حسن ظن کے پس منظر کے ساتھ میں کانپ کر رہ گیا جب بے شان وگمان بلا کسی ادنیٰ توقع وخیال کے پاکستان کے کسی مذہبی یا مناظرانہ رسالہ میں نہیں، ایک خالص ادبی رسالہ کے دسمبر نمبر میں کسی مولوی صاحب کا نہیں، ایک ٹھیٹھ مسٹر صاحب کا افسانہ تینوں خلفاے راشدین کی ہجو وتبرا سے لبریز اپنی آنکھوں سے پڑھ لیا۔ آنکھوں کو اپنے پر یقین نہ آیا۔ دوبارہ پڑھنے کی کوشش کی اور دل پر جبر کر کے کسی حد تک تو پڑھ ہی لیا۔ مضمون نگار ایم اے پی ایچ ڈی ہیں۔ جوار لکھنو کے رہنے والے ہیں۔ لکھنو یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد تھے۔ کراچی یونیورسٹی میں بھی انگریزی ہی کے ہوں گے، یا شاید اردو کے ہوں۔ اب تک صرف اپنی تنقیدوں اور افسانوں ہی کے لیے مشہور رہے ہیں۔ میرے پرانے ملنے والے ہیں اور تقسیم سے قبل کے۔ میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ان کا قلم اس درجہ سفاک، دل آزار وصبر آزما ثابت ہوگا۔ رسالہ کا نام ’’ساقی‘‘ (کراچی) ہے۔ معلوم ومعروف شاہد احمد مرحوم دہلوی اس کے ایڈیٹر تھے۔ اب پرچہ کے اوپر ضابطہ سے نام ان کی بیوی کا ہے، لیکن ناممکن ہے انھوں نے مضمون کو پڑھنے یا سمجھنے کے بعد درج کیا ہو۔
کسی سنی مسلمان کے لیے ممکن نہیں کہ مضمون پڑھ کر اس کا خون کھول نہ جائے اور شیعوں کی طرف غصہ ونفرت اس میں موجزن نہ ہوجائے۔ مجرم کے جرم کو ہلکا کرنے کے لیے یہ ہرگز کافی نہیں کہ افسانہ بڑے لخلخہ کے ساتھ قدیم افسانوی بندشوں اور تلازموں سے لکھا گیا ہے۔ میں مضمون کے ٹکڑے نقل کر کے خواہ مخواہ زہر کے پھیلانے کا مرتکب نہ ہوں گا اور نہ میں چاہتا ہوں کہ اب تک کسی سنی نے بھی اسے دیکھا ہو۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ صرف شیعہ ہی اسے پڑھیں اور پھر جو کچھ ان کے انصاف میں آئے، وہ سزا اس مجرم کو اپنی عدالت سے دیں اور اس طرح سنیوں کی اشک شوئی کریں۔ خدا نخواستہ یہ توقع نہ پوری ہو تو ظاہر ہے کہ اہل سنت کو چارہ جوئی کا پورا اختیار باقی رہے گا۔
۱۶، ۱۷ برس قبل اسی قسم کا بلکہ اس سے بھی کہیں تلخ وتکلیف دہ تجربہ ایک بے ادب، بے نصیب شاعر کی تحریر سے متعلق ہوا تھا۔ میں نے تحریر کو شائع کر کے فیصلہ صرف شیعہ حضرات ہی پر چھوڑ دیا تھا۔ بحمد اللہ شیعیان لکھنو (خصوصاً خان بہادر مولوی سید مہدی حسن صاحب) نے فوری طور پر کارروائی کی اور بغیر اہل سنت کو درمیان میں لائے خود ہی بدتمیز شیعہ شاعر کو کیفر کردار تک پہنچا دیا۔ (۱۶ فروری ۱۹۶۸)
سوال: میں ہر سال یوم حضرت امیر معاویہؓ مناتا ہوں جس میں مسلمانان عالم کے اماموں اور کاتب وحی کے صرف مناقب بیان کیے جاتے ہیں تاکہ مسلمان اس مدبر کے حالات سے باخبر ہوں۔ ایسا کرنے پر مجھے مطعون کیا جاتا ہے۔ میں اپنے بزرگوں سے سالانہ جلسے پر پیغامات ارسال کرنے کی استدعا کرتا ہوں تو مجھے ڈانٹ ڈپٹ کے خط بھیجے جاتے ہیں، لیکن کچھ بھی ہو، میں مرتے دم تک ایسا کرتا رہوں گا۔ آج آنجناب کے ملاحظہ میں ایک پوسٹر پیش کرتا ہوں جو یہاں کے شیعہ حضرات نے ہر در ودیوار پر لگوایا ہے۔ اب آپ ہی فیصلہ فرمائیں کہ ان حضرات کو سات خون معاف اور ہم اگر فضائل بھی بیان کریں تو گنہگار۔ یہ کیسی منطق اور کیسا انصاف؟ والا جناب سے میری استدعا ہے کہ میرا نام ظاہر فرماتے ہوئے ’’صدق‘‘ میں اس تعلق سے ایک نوٹ تحریر فرمائیں کہ ایسا پوسٹر کیا دوسروں کی دل آزاری کا باعث نہیں ہے۔ (کفش بردار، مرزا جمیل احمد بیگ، ایم اے، ایل ایل بی (علیگ) ایڈووکیٹ، موتی مارکیٹ، حیدر آباد)
صدق: ایسے شر انگیز پوسٹر کے صدق میں شائع ہونے کی توقع ہی آخر کیسے کی جا سکتی تھی؟ اہل سنت کے لیے اتنا اشتعال انگیز، اتنا ہیجان آور! اسے توفوراً ہی صبر ’’جمیل‘‘ سے کام لے کر ردی میں پھینک دینا تھا، جیسا کہ دنیا کی اور بہت سی بیہودہ اور صبر آزما اشتعا ل انگیزیوں کے موقع پر کرنا ہی پڑتا ہے، عقل وشریعت دونوں کے مقتضا سے۔ لیکن یہ بھی دوسری طرف زیادتی ہے کہ ایسی تکلیف دہ صبر آزما حرکتوں کو منسوب حیدر آباد کے کل شیعوں بلکہ ان کی اکثریت کی بابت بھی کیا جائے۔ اس سرزمین پر آخر سالار جنگ اور ان کی اولاد رہ چکی ہے۔ عماد الملک سید حسین بلگرامی، ڈاکٹر سید علی بلگرامی اور بلگرامیوں کا پورا خاندان گزر چکا ہے اور بہت سے حضرات۔ آپ ان کی طرف دیکھیے۔ یہ تو ان کی صرف ایک مختصر سی ٹولی ہے، اور ایسی ٹولیاں کس فرقہ، کس قوم، کس مذہب میں نہیں ہوتیں؟
تدبر اور دور اندیشی کا تقاضا ہے کہ رواداری اور باہمی سازگاری کی ایسی فضا پیدا کی جائے جس میں ایسی آوازیں بالکل دب کر رہ جائیں۔ اپنی ساری توانائی، ہمت اور اثر انھیں مصلحانہ ومصالحانہ کوششوں میں صرف فرمائیے۔ ’’جوابی‘‘ اور ’’انتقامی‘‘ کارروائیاں محض آگ پر تیل چھڑکنے کا کام دیں گی اوران کا منحوس چکر کبھی ختم ہونے پر نہ آئے گا۔ سارا زور صرف متفقہ مسائل پر دیجیے جو بنیادی اور کلیدی مسائل ہیں۔ ایک خدا، ایک رسول، ایک قرآن، ایک کلمہ، ایک قبلہ، اتنی اکٹھی نعمتیں اور کس کو ملی ہیں؟ ان کی ناقدری کفران نعمت کی ایک بدترین شکل ہے۔ بہت سے اعمال بجائے خود مستحب وافضل ہوتے ہیں، لیکن جب ان سے صورت کسی فتنہ کی پیدا ہو جائے اور ترک واجب ان سے لازم آنے لگے تو ان کا ترک بھی عقلاً وشرعاً واجب ہو جاتا ہے۔
اختلافی مسائل جو کچھ بھی ہیں، وہ تمام تر فرعی (مثلاً امامت ومسئلہ ولایت) ان پر باہمی گفتگو ہمیشہ علمی وسنجیدہ انداز میں ہو سکتی ہے اور ان کی بنیاد پر کوئی فساد، ہنگامہ، بلوہ آج تک نہیں ہوا ہے۔ .....بعض تاریخی شخصیتوں کے ٹکراؤ، نزاع واختلاف بڑھانے والے گھسے پٹے ہوئے واقعات کو دہرانے کے بجائے ان حقیقتوں کو اپنی فکر ونظر کے سامنے لاتے رہیے:
(۱) سنی حکمرانوں کے وزیر اعظم اور سپہ سالار کس کثرت سے شیعہ رہا کیے ہیں اور اسی طرح شیعہ رئیسوں کے دیوان اور مینیجر سنی۔ بے شمار مثالیں مل جائیں گی۔
(۲) پختہ وراسخ سنی حکمرانوں کی مائیں اور بیگمات کس کثرت سے شیعہ گزری ہیں۔ سلطان اورنگ زیب کی والدہ کون تھیں؟ اور جہانگیر اور شاہ جہاں کی بیگمات کون؟
(۳) ’’مسلم کلچر‘‘ جس قدر قابل قدر مجموعہ کانام ہے، ا س کے اجزاء ترکیبی میں سے ایک ایک پر غور کیجیے۔ تاریخ، لغت، ادب، کلام، شاعری، طب، معماری، صناعی، منطق، فلسفہ، طبیعیات وغیرہ، ان میں سے ہر ایک کی تشکیل میں فرقہ اکثریت کے ساتھ ساتھ کتنا ہاتھ فرقہ اقلیت کا بھی ہے۔
(۴) ہندوستان میں مسلم کلچر کے اس عظیم ادارہ کی طرف نظر کیجیے جس کا نام مسلم یونیورسٹی ہے کہ شیعہ بھی اس میں کس گرم جوشی کے ساتھ شریک رہے ہیں۔ (۱۳ جون ۱۹۶۹)

اسلام، عالم اسلام اور مغرب

ڈاکٹر عبد اللہ احمد البداوی

(یکم اکتوبر ۲۰۰۴ کو آکسفرڈ کے موڈلن کالج کے ہال میں آکسفرڈ سنٹر فار اسلامک سٹڈیز کے زیر اہتمام ایک تقریب سے ملائشیا کے وزیر اعظم اور اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کے سربراہ ڈاکٹر عبد اللہ احمد بداوی نے مندرجہ ذیل خطاب کیا۔ سنٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فرحان احمد نظامی کی دعوت پر الشریعہ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی نے بھی اس تقریب میں شرکت کی۔ ڈاکٹر بداوی کے خطاب کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے۔ مدیر)

جناب ڈاکٹر فرحان نظامی صاحب،
معزز مہمانان،
خواتین وحضرات!
۱۔ آکسفرڈ سنٹر فار اسلامک سٹڈیز میں خطاب کرنا میرے لیے حقیقتاً بڑے شرف اور اعزاز کی بات ہے اور میں اس نہایت ممتاز پلیٹ فارم سے گفتگو کا موقع فراہم کرنے پر جناب ڈاکٹر فرحان نظامی کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ مجھے امید ہے کہ مسلم دنیا کے مطالعے کے لیے یہ سنٹر ایک اعلیٰ ادارے کے طور پر ترقی کی منزلیں طے رہے گا۔ ملائشیا اس سنٹر کی متنوع سرگرمیوں، بالخصوص مغرب میں وسیع پیمانے پر اسلام کی تفہیم کے حوالے سے اپنا تعاون جاری رکھے گا۔
۲۔ میں آپ کے ساتھ کئی حیثیتوں سے مخاطب ہوں۔ سب سے پہلے تو میں ایک مسلمان ہوں۔ میں ایک مذہبی عالم کا بیٹا ہوں اور میرے دادا بھی ایک عالم تھے۔ بچپن میں، میں شام کے وقت اپنے گاؤں کے قریب ایک انگریزی سکول میں جایا کرتا تھا، جبکہ صبح کے اوقات میں اپنے دادا کے مدرسے میں، جو کہ آج بھی موجود ہے، مذہبی تعلیم پاتا تھا۔ میں اسلام کے بتائے ہوئے راستے پر اپنے امکان کی حد تک پورے یقین اور اخلاص کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتا ہوں۔
۳۔ میں ایک ایسے ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے بھی آپ سے مخاطب ہوں جہاں مختلف مذاہب کے پیروکار بستے ہیں اور ان میں سے مسلمان اکثریت میں ہیں۔ اللہ کے فضل سے آج میرا ملک ایک پرامن، مستحکم اور جمہوری ملک ہے اور ترقی کے راستے پرتیزی سے گامزن ہے۔ مسلمان، بدھ، مسیحی، ہندو اور دیگر تمام مذاہب کے پیروکار امن اور ہم آہنگی کے ماحول میں ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے اور رواداری کی فضا میں رہ رہے ہیں۔ 
۴۔ میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم (او آئی سی) کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی مخاطب ہوں، جو ۴ء۱ بلین آبادی رکھنے والے ۵۷ ممالک پر مشتمل ہے۔ ہماری تعداد مجموعی انسانی آبادی کے پانچ فیصد سے زائد ہے۔ او آئی سی کے چیئرمین کی حیثیت سے یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں ان کے جذبات، دکھ درد اور تمناؤں کی بھی ترجمانی کروں اور ان کا پیغام آپ تک پہنچانے کی کوشش کروں۔
خواتین وحضرات!
۵۔ عالم اسلام اپنے وجود میں آنے کے بعد پندرہ صدیوں سے متنوع چیلنجوں سے دوچار رہا ہے۔ یہودیت اور مسیحیت کی طرح، جن کے ساتھ اسلام کا ایک نسبی رشتہ ہے، اسلام بھی شدید مخالفت کے ماحول میں پیدا ہوا تھا۔ یہ مخالفت پر غلبہ پا کر دنیا کا ایک عظیم مذہب بن گیا، تاہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کے بعد ہی اس کو ہمیشہ کے لیے تشتت وافتراق کا شکار ہونا پڑا۔ مسلم حکومتوں نے جلد ہی بعض ایسی اعلیٰ اور ارفع اقدار کو طاق نسیاں پر رکھ دیا جن کا اسلام علمبردار ہے اور جن کی پابندی ابتدائی حکومتوں نے پورے خلوص کے ساتھ کی۔ جبر واستبداد پر مبنی حکمرانی مسلمانوں کے سیاسی منظر میں آہستہ آہستہ نمایاں ہونا شروع ہو گئی۔
۶۔ تاہم عرب مسلم دنیا نے ۸ ویں سے ۱۱ ویں صدی کے دوران میں تہذیب وثقافت اور علم کی بلندیوں کو چھوا۔ اس نے رومی یونانی تہذیب سے بہت کچھ سیکھ کر اس میں بہت اضافہ کیا، اور اس کو پوری طرح اپنی تہذیب کا حصہ بنا کر اسے یورپ کو منتقل کر دیا۔ عربی زبان شرق اوسط میں ابلاغ کے لیے ایک مشترکہ زبان قرار پائی۔ شرح تعلیم قرون وسطیٰ کے یورپ کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ ہر جگہ مدارس موجود تھے اور یونیورسٹیوں کی بہتات تھی۔ خود تنقیدی اور بحث وجستجو پر مبنی ثقافت نے جڑیں پکڑنا شروع کر دیں۔
۷۔ اگرچہ صلیبی جنگوں نے مسلم دنیا کو ایک عظیم بحران سے دوچار کر دیا، لیکن پھر بھی ایرانی، اندلسی، عثمانی اور مغل قیادت کے تحت اس میں عظیم الشان کامیابیاں حاصل کرنے کی صلاحیت برقرار رہی۔ ا س کے بعد مسلم اقوام یورپ کے نوآبادیاتی نظام کے شکنجے میں آ گئیں اور یہاں کے عوام اپنی خود مختاری اور آزادی سے محروم ہو گئے۔ ان کے وسائل کا استحصال کیا گیا اور انھیں لوٹا گیا۔ فلسطین عربوں سے چھین لیا گیا اور اس کے بہت سے باشندے گھر سے بے گھر ہو کر پناہ گزین بننے پر مجبور ہو گئے۔
۸۔ نوآبادیاتی غلامی سے چھٹکارا پانے کے بعد ہم میں سے بعض ممالک نے تو بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ کچھ ملکوں کے لیے تیل ایک نعمت بن گیا جس نے وہاں کے لوگوں کے لیے ایک ایسے معیار زندگی کے حصول کو ممکن بنا دیا جس کو وہ اس کے بغیر حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ کچھ ممالک نے اپنے ہاں عملیت پسندی پر مبنی سیاسی، معاشی، سماجی اور تعلیمی اصلاحات بھی کیں۔
۹۔ تاہم مسلم دنیا کے بعض حصوں میں نوآبادیاتی دور کے بعد حاصل ہونے والی کامیابیوں کے باوجود، مایوسی پیدا کرنے والے پہلو بھی بہت سے ہیں۔ مسلم دنیا کو درپیش مسائل کا بوجھ بہت عظیم ہے۔ کچھ مسلمان ملک تو شدید طور پر غربت، جہالت اور خوراک کی کمی کے شکار ہیں۔ کچھ جبر واستبداد اور بے انصافی کے حوالے سے نمایاں ہیں۔ عالمی سطح پر مسلمان ممالک ایک ایسی متحد آواز سے محروم ہیں جس پر سنجیدگی سے توجہ دی جاتی ہو۔
۱۰۔ ۵۷ مسلم ممالک میں سے ایک بہت تھوڑی تعداد، یعنی صرف پانچ کے بارے میں یو این ڈی پی نے قرار دیا ہے کہ وہاں اعلیٰ انسانی ترقی ہوئی ہے۔ ۲۴ ممالک متوسط رفتار سے ترقی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہیں، جبکہ بقیہ ۲۸، جو کہ نصف تعداد ہے، سست رفتار ترقی کرنے والوں میں شمار کیے گئے ہیں۔ مسلم دنیا کے صرف پانچ ممالک میں فی کس مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) ۱۰ ہزار امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔ ۳۰ ممالک میں فی کس جی ڈی پی ۱۰۰۰ ڈالر سے کم ہے۔
۱۱۔ اسلام علم کی جستجو پر زور دیتا ہے۔ قرآن کا آغاز ’اقرا‘ (پڑھو) کے حکم سے ہوا، تاہم علم کا حصول ہی وہ میدان ہے جس میں مسلم دنیا کی اکثریت پس ماندہ رہ گئی ہے۔ بیشتر ملکوں میں تعلیمی معیار پست اور ناخواندگی کی شرح بلند ہے جس کا سبب غربت، بد انتظامی، اور وسائل کی نامناسب تخصیص کے علاوہ جنگ اور تصادم ہیں۔ بعض ملکوں میں نصف سے بھی زیادہ بالغ آبادی ناخواندہ ہے۔
۱۲۔ کرپشن مسلم دنیا کا ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے تیارہ کردہ کرپشن پرسیپشن انڈیکس کے مطابق ہماری کارکردگی بے حد پست ہے۔ ۲۰۰۳ میں جن ۱۳۳ ممالک کا سروے کیا گیا، اس کے مطابق کرپشن کے حوالے سے سب سے بہتر ریکارڈ رکھنے والا مسلمان ملک بھی ۲۶ ویں نمبر پر آ سکا ہے۔ چار مسلمان ملکوں کو آخری دس نمبروں میں جگہ ملی ہے۔
خواتین وحضرات!
۱۳۔ میں نے آپ کے سامنے مسلم دنیا کی خستہ حالی کی تصویر پیش کی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے اور اس تلخ حقیقت کو موجودہ عالمی نظام مزید پیچیدہ بنا رہا اور ہمارے مصائب کی سنگینی میں اضافہ کر رہا ہے۔ میں خود تنقیدی کے عمل کا بھی خواہاں ہوں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں انسانی عظمت، قدرتی انصاف، انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی اس شرم ناک پامالی کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا جس کے اثرات مسلم دنیا پر براہ راست پڑے ہیں۔ جی ہاں، ہمیں خود کو بھی مورد الزام ٹھہرانا چاہیے، لیکن اس سے وہ پالیساں بے قصور قرار نہیں پاتیں جو پوری دنیا میں کروڑوں مسلمانوں کو مسلسل جبر، تباہی اور الزام تراشی کا نشانہ بنا رہی ہیں۔
۱۴۔ جبر کی مثالیں تو بہت سی ہیں، لیکن سب سے واضح مثال، جو ہر مسلمان کی گفتگو کا موضوع ہے، فلسطین کی ہے۔ فلسطینیوں سے ان کی سرزمین اعلان بالفر کے ذریعے سے چھین لی گئی جس کے بارے میں بالکل درست طور پر یہ تبصرہ کیا گیا ہے کہ ’’ایک قوم نے دوسری قوم سے وعدہ کیا کہ وہ اسے ایک تیسری قوم کی زمین لے کر دے گی۔‘‘
۱۵۔ جیسا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں سے واضح ہے، دنیا کی اکثریت پر یہ بات واضح ہے کہ فلسطینی ہماری امداد اور تعاون کے حق دار ہیں اور اسرائیل کو اس بات پر مجبور کرنا چاہیے کہ وہ اپنی فوجوں کو ۱۹۶۷ء کی سرحدوں سے پیچھے لے جائے۔ لیکن اس کے برعکس، ہر مسئلے اور ہر استدلال کو بگاڑ کر اسرائیل کے حق میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ قابض کی مدد کی جا رہی اور اسے اسلحہ دیا جا رہا ہے جبکہ فلسطینی اپنی حفاظت کے لیے بھی ہتھیار رکھنے کے حق سے محروم ہیں۔ فلسطینی شہریوں کے خلاف اسرائیل کے دہشت گردانہ اقدامات کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے اور ان کو دفاعی اقدامات کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی سہولت کی خاطر ایک حربہ یہ بھی استعمال کیا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کی تعریف کو قصداً صرف ان کارروائیوں تک محدود رکھا گیا ہے جو نیم حکومتی یا غیر حکومتی گروپ کریں، جبکہ ریاستی کارروائیوں کو اس سے خارج رکھا گیا ہے۔
۱۶۔ مسلم دنیا کے خلاف شدید تعصب کا رویہ صرف فلسطینی مسئلے تک محدود نہیں ہے۔ دنیا کبھی نہیں بھولے گی کہ عراق پر کیا جانے والا حملہ غیر قانونی تھا۔ حملے سے قبل دنیا کو بتایا گیا کہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی صورت میں درپیش خطرے کی وجہ سے حملہ ضروری ہے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک بے بنیاد دلیل تھی۔ (غلطی تسلیم کرنے کے بجائے) آج ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ اس حملے نے دنیا کو پہلے سے زیادہ محفوظ بنا دیا ہے کیونکہ صدام کا تختہ الٹ کر اسے گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اگر خدا کے چاہنے سے کبھی قابل اعتماد جمہوریت، رواں معیشت اور امن وامان قائم ہو گئے تو ممکن ہے عراق کے لوگ صدام سے چھٹکارا دلانے کو قابل تحسین قرار دیں، لیکن یہ مقصد، اچھا ہونے کے باوجود، اس ضمن میں اختیار کیے جانے والے ناجائز ذرائع ووسائل کو سند جواز نہیں بخش سکتا۔
۱۷۔ ایک ملک کو یک طرفہ طور پر کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے کا کیا حق ہے؟ ٹھیک ہے، صدام ایک ظالم اور جابر حکمران تھا لیکن حفظ ماتقدم کے طور پر حملہ کرنے کے فلسفے اور غلبہ حاصل کرنے کے نظریے کے تحت خوف کی جو فضا پیدا کی گئی ہے، وہ بھی اتنی ہی جابرانہ ہے۔ یہ بات نہایت باعث تشویش ہے کیونکہ متعین لائحہ ہائے عمل کی تعیین کے لیے کوئی معروضی معیار موجود نہیں۔ ا س کے بجائے جو کچھ ہمیں نظر آرہا ہے، وہ عالمی سطح پر ایک مخصوص طبقے کے خلاف ایذا رسانی کا رویہ ہے جس کی تکلیف مسلمان ممالک سہہ رہے ہیں۔
۱۸۔ آج ایران کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، کیونکہ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے لیے یورینیم کی افزودگی کا عمل کر رہا ہے، لیکن عالمی برادری کی زبان پر ان ۲۰۰ ایٹمی ہتھیاروں کا ذکر تک نہیں آتا جن کے بارے میں وسیع پیمانے پر یہ مانا جاتا ہے کہ وہ اسرائیل کے ڈیمونا کمپلیکس (Dimona Complex)میں موجود ہیں۔ وہاں کسی تفتیش کے لیے زور نہیں دیا جاتا، نہ پابندیوں کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور اسرائیل پر حملے کا مشورہ دینے کا تو خیر سوال ہی کیا۔
۱۹۔ غیر ذمہ دارانہ اور کھوکھلے دعووں کے ذریعے سے اسلام کو ایک جنگجو مذہب اور مسلمانوں کو علی الاطلاق جنونی دہشت گردوں کے طور پر پیش کرنے کا سلسلہ بھی رکنا چاہیے۔ مسلمانوں کے بارے میں بے بنیاد منفی تصور کا رائج ہونا گیارہ ستمبر کے بعد کی کوئی نئی اور منفرد صورت حال نہیں ہے۔ آج اسلام کو منفی انداز میں پیش کرنے کا رجحان ان مغربی تعصبات کی یاد دلاتا ہے جن کے علمبردار سترہویں اور اٹھارویں صدی میں والٹیئر اور فرانسس بیکن رہے ہیں۔ آج مغرب میں اسلام کے بارے میں رائج تصور انیسویں صدی کے اواخر میں ارنسٹ رینان کے اس تبصرے سے مختلف نہیں ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو ’’یورپ کی مکمل نفی، سائنس کے ساتھ کامل نفرت اور مہذب معاشرے پر جبر پر مبنی ہے۔‘‘
۲۰۔ جب تک یہ کھلے یا ڈھکے چھپے شکوک وشبہات موجود ہیں، کوئی بامعنی مکالمہ نہیں ہو سکتا۔ بعض مغربی قائدین نے قابل تحسین طور پر بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ ان کی جنگ اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ لیکن یہ بات اس لیے ناکافی ہے کہ (مغرب میں) عوامی جذبات کو تحریک دینے کا کام ایک ہیجان پسند مغربی میڈیا کر رہا ہے جو کم وبیش مکمل طور پر انتہا پسندانہ بحث ومباحثہ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ اسلام کو ایک ایسا مذہب فرض کر کے جو اپنی ساخت اور رنگ ڈھنگ کے لحاظ سے کلی طور پر یکساں (Monolithic) ہے، اس کے ساتھ معاملہ کیا جا رہا ہے اور خود مسلم دنیا کے اندر جاری بحث ومباحثہ کی لطیف دلالتوں (Nuances) کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کے مابین آرا کا جو تنوع پایا جاتا ہے، اس کا ذکر بھی سننے میں نہیں آتا اور مسلم معاشروں میں جاری بہت سے ترقی پسندانہ تجربات کی اطلاع بھی (مغربی عوام کو) بہم نہیں پہنچائی جا رہی۔
خواتین وحضرات!
۲۱۔ میں نے مسلم ممالک کی نہایت بنیادی ناکامیوں اور اس عالمی تناظر کا تجزیہ کرنے پر خاصا وقت صرف کیا ہے جس میں اس وقت مسلمان ممالک گھرے ہوئے ہیں۔ اب میں ان مثبت تبدیلیوں کی طرف آنا چاہوں گا جن کے لیے تگ ودو کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عالم اسلام بھی ان مصائب سے چھٹکارا حاصل کر سکے جو ہمیں درپیش ہیں اور مغرب بھی ہمارے ساتھ بالادستی کے بجائے مخلصانہ رویے پر مبنی مکالمے کا آغاز کرنے پر آمادہ ہو سکے۔
۲۲۔ داخلی لحاظ سے دیکھیے تو مسلم دنیا کی سب سے پہلی ترجیح اچھا طرز حکمرانی (Good governance) ہونی چاہیے، کیونکہ یہ ہمارے عوام کے لیے پائیدار امن، استحکام اور خوش حالی حاصل کرنے کا سب سے یقینی ذریعہ ہے۔ اس ضمن میں ہمیں مختلف نظریات اور دنیا بھر میں کیے جانے والے تجربات سے بھی رہنمائی حاصل کرنی چاہیے، لیکن مسلم دنیا کو خود اسلام اور اس کی اپنی بہترین ہدایات سے بھی عظیم رہنمائی مل سکتی ہے۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات کے اندر موجود حکمت ودانش کو دریافت کر سکیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ یہ زمانہ ماضی کی کوئی قدیم اور ناقابل عمل یادگار نہیں، بلکہ جدید ضروریات کے حوالے سے بھی مکمل طورپر قابل عمل ہے۔ 
۲۳۔ اچھے طرز حکمرانی کے بارے میں اسلام کا حکم قرآن مجید میں صریح طور پر مذکور ہے۔ کسی بھی مسلم ملک کی قیادت سنبھالنے والے مسلمان حکمران کو سورۃ النساء کی آیت ۵۸ کی یہ ہدایت یاد دلائی جانی چاہیے کہ ’’اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے اہل لوگوں کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے مابین فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔‘‘
۲۴۔ اچھی اور عوام کے سامنے جواب دہ طرز حکومت کی توضیح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک قانون دہندہ، منتظم، قاضی اور عسکری کمانڈر کی حیثیت سے اپنے طرز عمل سے کی۔ عہد صحابہ کی صدق اور راستی کی نمائندہ مثالیں بھی بہت سبق آموز ہیں، مثلاً خلیفہ اول کی حیثیت سے حضرت ابوبکر کی افتتاحی تقریر جس میں آپ نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیا کہ اگر وہ اپنے فیصلوں میں غلطی کریں تو لوگ ان کی اصلاح کر دیں۔
۲۵۔ صدیوں کے عمل میں تشکیل پانے والے شرعی قوانین بھی ایک ایسی حکومت کے لیے جو اسلامی اصولوں اور اقدار کی علمبردار ہو، باکردار قیادت کو ایک لازمی شرط قرار دیتے ہیں۔ امانت اور اخلاقی ساکھ، انصاف کا جذبہ اور احساس عدل، لوگوں اور بالخصوص غریبوں سے محبت، ان کے دکھ درد کو جاننے کی خواہش، اور اہل علم ودانش کے مشوروں سے استفادہ، یہ اس اچھی حکومت اور قیادت کی خصوصیات ہیں جن کی وضاحت الفارابی، الماوردی، الغزالی اور ابن خلدون جیسے معروف مسلم مفکرین نے کی ہے۔
۲۶۔ اسلام کے اچھے طرز حکمرانی کے تصور میں انصاف خاص طور پر نمایاں ہے، کیونکہ اچھی حکومت کے لیے عدل اتنی بنیادی حیثیت رکھتا ہے ہے کہ قانون کی نظر میں برابری اور قانون کی حکومت جیسے تصورات کو ابتدائی دور کی اسلامی فقہ میں بے حد اہمیت دی گئی۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جدید قانون سے بہت پہلے، اسلامی قانون (مقدمات کے تصفیے کے لیے) مناسب دورانیے کی مرکزیت کو تسلیم کر چکا تھا۔
۲۷۔ قانون کی حکومت اور مناسب دورانیے میں مقدمات کے تصفیے کا تعلق ایک دوسرے بنیادی اسلامی اصول یعنی عدلیہ کی خود مختاری کے ساتھ ہے۔ یہ بے حد اہم بات ہے کہ چودہ سو سال قبل خلیفہ چہارم علی بن ابی طالب نے یہ اعلان کیا کہ قاضیوں کو ہر قسم کے انتظامی دباؤ یا اثرات، خوف یا رعایت، سازش یا بدعنوانی سے بالاتر ہونا چاہیے۔ فی الحقیقت مسلم تاریخ میں متعدد قاضیوں نے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر بھی اپنے منصب کی آزادی کا تحفظ کیا ہے۔
۲۸۔ عدلیہ کی خود مختاری کے ساتھ ساتھ عوامی احتساب کا تصور بھی اسلام کا ایک ناقابل تغیر اصول ہے جس کو بہت سے معاصر مفکرین اخلاقیات پر مبنی حکومت کا بنیادی پتھر قرار دیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے اسوہ کی پیروی میں خلیفہ دوم عمر بن الخطاب نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ (حکومتی مناصب پر فائز افراد کے) شخصی کردار کا ہر وہ پہلو جو عوام کی فلاح وبہبود پر اثر انداز ہوتا ہو، عوامی تفتیش کے دائرۂ کار میں آتا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ کا بیت المال میں موجود ذرا سی دوا کو اپنے علاج کے لیے استعمال کرنے سے پہلے لوگوں سے اجازت طلب کرنا اسی کی ایک درخشندہ مثال ہے۔
۲۹۔ قانون احتساب پر عمل درآمد کی مانند لوگوں کی آرا کا احترام بھی اسلام میں یکساں اہمیت رکھتا ہے۔ خلفاے راشدین نے اپنے خیالات سے ٹکرانے والی آرا کو اہمیت دی اور انھیں قبول کیا۔ ایک فرمان نبوی میں امت کے اندر اختلاف رائے کی تحسین کرتے ہوئے اسے اللہ کی رحمت قرار دیا گیا ہے۔ اس سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ اسلامی تاریخ کے مختلف مرحلوں میں مذہب اور سیاسی امور سے متعلق علما اور عوام کے مختلف طبقات کے اندر صحت مند مباحثے کیونکر ممکن ہوئے۔
۳۰۔ ان باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے آج ہمیں اسلامی فکر کی تجدید اور اصلاح کا کام کرنا ہوگا۔ میرا ہمیشہ سے یہ یقین رہا ہے کہ مسلم دنیا میں بحث ومباحثہ کا ماحول پیدا کر کے ہم نہ صرف اپنی علم ودانش کی روایت میں اضافہ کریں گے بلکہ ان انتہا پسندانہ نظریات کو بھی براہ راست چیلنج کر سکیں گے جو گزشتہ چند سالوں سے اسلام کا نمائندہ سمجھا جا رہا ہے۔ مسلم سیاسی رہنما، اہل علم اور دانش وروں کو اعتدال اور فہم ودانش کی باتوں کو دبانے کے بجاے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ان آوازوں کو آپ جدت پسند اسلام، ترقی پسند اسلام یا لبرل اسلام میں سے کوئی بھی نام دے لیں، مجھے یقین ہے کہ یہ اسلامی فکر کی تجدید میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
۳۱۔ روایتی فکر اور آرا کی اندھی تقلید کر کے اسلام کو زمانہ قدیم کی ایک چیز نہیں بنا دینا چاہیے۔ بے لچک ابہام پرستی، سخت لفظ پرستی پر مبنی عقائد اور ماضی کے مثالی نمونوں کی بازیابی کے تصورات اسلام کو ہر زمانے اور ہر دور کا مذہب ماننے میں، جو کہ اللہ کی منشا اور مقصد ہے، مانع ہیں۔ ہمیں اصلاح اور تجدید کے امکانات کے حوالے سے اپنے ذہن کو کھلا رکھنا چاہیے۔
۳۲۔ اس ضمن میں، میں اس بات پر بار بار زور دے چکا ہوں کہ آج کے زمانے میں کسی عالم یا قانون دان کے اجتہاد کو، جس کا مطلب شریعت کے مآخذ سے کوئی ایسی رائے اخذ کرنا ہے جو ازخود واضح نہیں، آج کے حالات سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ مسلم معاشروں کو جو مسائل آج درپیش ہیں، وہ چھٹی صدی میں موجود نہیں تھے۔ سیاسی ادارے، معاشی نظام اور سماجی ڈھانچے ان سے بالکل مختلف ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم، خلفاے راشدین اور اسلام کے عظیم ائمہ اور فقہا کے زمانے میں پائے جاتے تھے۔ آج لوگ قبائلی اتحادوں کے بجائے قومی ریاستوں کی شکل میں رہتے ہیں۔ عالمی معاشی نظام کی گہرائی اور گیرائی میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے اور اس میں باہم ربط بھی پیدا ہو چکا ہے۔ سائنس انسانی کامیابیوں کے دائرے کو مسلسل وسعت بخش رہی ہے۔ اسلامی فکر کو ان تمام تبدیلیوں سے اجنبی اور غیر متعلق نہیں رہنا چاہیے۔
۳۳۔ معاصر مسلم مفکر یوسف القرضاوی نے اسلامی فکر میں تجدید کی ضرورت کا شدید احساس کیا ہے اور اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ جدید اسلامی تحریکیں خود اپنی ہی صفوں میں میں آزادی فکر کی مخالفت کریں گی اور تجدید کے دروازے کو بند کر کے اپنے آپ کو صرف ایک طرز فکر کا اسیر بنا لیں گی جس میں کسی دوسرے نقطہ نظر کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔
۳۴۔ اجتہاد کو معاصر مسائل سے ہم آہنگ کرنے کے ساتھ ساتھ مقاصد شریعت کے فہم پر بھی ازسر نو توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی قانونی یا علمی فکر اپنے آپ کو محض الٰہی متن کی لفظی پیروی تک محدود نہیں رکھ سکتی۔ شریعت کو محض بے لچک قوانین کا ایک مجموعہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ ایک نظام اقدار بھی ہے جس میں مخصوص قوانین اور ضابطے ان بالاتر اقدار کے صوری مظاہر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
۳۵۔ مقاصد شریعت کا علم بے حد اہم ہے لیکن اسلامی تاریخ میں اکثر اسے نظر انداز کیا گیا۔ حجۃ الاسلام امام غزالی اور شاطبی جیسے مفکرین نے اس علم کی تشکیل اسی طرح کی الجھنوں اور مشکلات کے پیش نظر کی تھی جن سے آج ہم دوچار ہیں، یعنی یہ کہ مسلم فکر کو اپنے دین کے وسیع تر مقاصد کے ساتھ وابستگی اختیار کرنی چاہیے اور بالکل اس کے مانعانہ پہلووں یا بالکل جامد لفظی تعبیرات پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔
۳۶۔ امام غزالی نے شریعت کے جو پانچ مقاصد متعین طور پر بیان کیے ہیں، یعنی زندگی، عقل، عقیدہ، مال اور آبرو کی حفاظت، وہ آج بھی بامعنی ہیں۔ اس کے بعد بعض دیگر مفکرین نے انصاف، انسانی عظمت حتیٰ کہ معاشی ترقی کو بھی اس میں شامل کیا ہے۔ مقاصد کا علم مسلمانوں کو دین کے ایک نسبتاً بنیادی تصور پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد دیتا ہے اور اس کے ذریعے سے ہمیں حدود سے متجاوز لفظ پرستی اور قانونی موشگافیوں سے نجات مل سکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ صرف اسی طریقے سے ہم اپنے دین کی روشنی میں جدید مشکلات کا جواب دے سکتے ہیں۔
۳۷۔ مقاصد شریعت کو سمجھنے اور جدید دور میں اجتہاد کے لیے انھیں ایک بنیاد کے طور پر تسلیم کرنے سے ہم عقلی اور فکری جستجو کی روایت کا چراغ بھی روشن کر سکیں گے جس کے نتیجے میں مسلمانوں میں ایک علمی کلچر کو فروغ حاصل ہوگا۔ مصر کے عظیم مصلح محمد عبدہ نے انیسویں صدی کے آخر میں بالکل بجا طور پر فرمایا کہ ’’قرآن ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم کائنات کے مظاہر اور جہاں تک ممکن ہو، اس کے اجزا کے حوالے سے عقلی استنباط اور علم وفکر پر مبنی تحقیق کا رویہ اپنائیں تاکہ ان چیزوں کے بارے میں یقین کی منزل تک پہنچ سکیں جن کی طرف قرآن رہنمائی کرتا ہے۔ قرآن ہمیں غلامانہ ذہنیت اختیار کرنے سے منع کرتا اور ہمیں انگیخت کرنے کے لیے ان لوگوں کی مثال بطور عبرت پیش کرتا ہے جنھوں نے مکمل اطمینان کے ساتھ اور (علم وعقل سے) بالکل بے نیاز ہو کر اپنے آبا واجداد کی اندھی پیروی کی اور نتیجے کے طور پر اپنے عقائد کو مکمل زوال سے دوچار کرنے کے بعد ایک انسانی گروہ کی حیثیت سے بالکل نابود ہو گئے۔‘‘
۳۸۔ مفتی محمد عبدہ کی اس بات کی بنیاد بآسانی قرآن مجید کی سورہ آل عمران کی آیت ۱۹۰ میں بتائی جا سکتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ’’سنو! زمین وآسمان کی تخلیق میں اور دن اور رات کے آنے جانے میں اہل عقل کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔‘‘
۳۹۔ جن ’اولو الالباب‘ کی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے، ان سے مراد علم وعقل، سائنس، فلسفہ اور ٹیکنالوجی کے حصول میں مصروف لوگ ہیں۔ میرے نزدیک یہ آیت مسلمانوں کو قطعی طور پر یہ حکم دیتی ہے کہ وہ اپنے ذہنوں کو آزاد کریں اور سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی پر مہارت حاصل کریں تاکہ آج کے دور سے بالکل لاتعلق ہوکر نہ رہ ہو جائیں۔
خواتین وحضرات!
۴۰۔ جہاں تک ملایشیا کا تعلق ہے، مجھے یقین ہے کہ ہم نے اعتدال کی درمیانی راہ پر چلنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے قرآن مجید کی سورۂ بقرہ کی آیت ۱۴۳ کے اس حکم پر سختی سے عمل کیا ہے جو کہتی ہے کہ ’’اس طرح ہم نے تمھیں ایک معتدل امت بنایا ہے۔‘‘ یہ اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے لیے یاددہانی ہے کہ وہ اعتدال پر قائم رہیں اور انتہا پسندی سے گریز کریں۔
۴۱۔ یہ بات تسلیم کہ رسوم کی بڑی اہمیت ہے اور قرآن کا لکھا ہوا متن بے حد مقدس ہے، لیکن ہمارا یہ بھی یقین ہے کہ بطور مسلمان ہمیں اپنے دین کی روح اور اس کے اعلیٰ ترین مقاصد کو بھی لازماً سمجھنا چاہیے۔ ہمار یہ بھی اعتقاد ہے کہ محض رسوم پر عمل کرنے سے ہم سچے مسلمان نہیں قرار پا سکتے۔ ہمارے ذمے اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی کامیابی حاصل کرنا لازم ہے، اس لیے ہمیں اس دنیا میں ترقی کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
۴۲۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ہم نے اسلامی تحریکات کو تیزی سے بڑھتا ہوا دیکھا ہے۔ ان میں سے بہت سے گروہ سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کر چکے ہیں اور اپنے اپنے ملکوں کے قانونی وسیاسی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے کام کر رہے ہیں۔ کچھ نے اپنے آپ کو سیاست سے الگ تھلگ رکھا ہے اور اس کے بجائے اپنی توجہ سماجی اور دعوتی کاموں پر مرکوز کر رکھی ہے۔ بد قسمتی میں سے ان میں سے کچھ نے تشدد کی راہ بھی اپنا لی ہے۔
۴۳۔ اپنے ملکوں کے سیاسی فریم ورک کے اندر رہ کر کام کرنے والوں کو اب ’’سیاسی اسلام‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ سیاست میں حصہ تو لیتے ہیں تاہم ان کے پیش نظر ایک ایسا مقصد ہے جو اس نظام سے بہت مختلف بھی ہو سکتا ہے جس کے اندر وہ مصروف عمل ہیں۔
۴۴۔ میرے ملک میں اپوزیشن پان ملائشیا اسلامک پارٹی نے مذہب کو اس حد تک سیاسی مسئلہ بنا دیا ہے کہ وہ اسلام کی اجارہ داری کی دعویدار ہے۔ وہ دیہاتوں کے باسیوں کو یہ کہہ کر اپنے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ کرتے ہیں کہ اگر وہ ان کی جماعت کو ووٹ دیں گے تو انھیں جنت کا ملنا یقینی ہے۔ ان کے بارے میں یہ بات معروف ہے کہ انھوں نے میری جماعت کے ارکان اور حامیوں کو کافر قرار دیا۔
۴۵۔ ۱۹۹۹ کے عام انتخابات میں اسلامک پارٹی نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی حاصل کی۔ ا س کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں اس کی نمائندگی تین گنا ہو گئی اور تیل سے مالا مال ایک صوبے پر اسے کنٹرول حاصل ہو گیا۔ ایک مضبوط اسلام پسند اپوزیشن کو دیکھ کر میری رواداری کو فروغ دینے والی اور ترقی پسند جماعت کے کچھ لوگوں نے سوچا کہ ہمیں اپوزیشن سے بھی بڑھ کر اسلام پسند بننا پڑے گا۔ بلاشبہ یہ ایک خطرناک مزلہ اقدام (Slippery slope) تھا۔ مجھے یقین تھا کہ ملائشیا کے لوگوں کے سیاسی انتخاب کے فیصلے پر مذہب پسندی کا عامل کسی حد تک ضرور اثر انداز ہوتا ہے لیکن ووٹروں کے لیے زیادہ اہمیت اچھے طرز حکومت اور وسیع بنیاد پر معاشی ترقی کو حاصل تھی۔
۴۶۔ جب گزشتہ اکتوبر میں، میں نے حکومت سنبھالی تو میں نے ان شکایات کے ازالے کے لیے جن کی وجہ سے ہم ۱۹۹۹ میں عوامی حمایت سے محروم ہو گئے تھے، عاجزانہ طور پر اصلاحات کا آغاز کیا۔ میں نے کرپشن کے خلاف سخت ایکشن لیا، پولیس فورم کے لیے ایک وسیع اصلاحی پروگرام شروع کرنے کا حکم دیا، اور حکومتی اداروں، مثلاً عدلیہ کے قابل اعتماد اور خود مختار ہونے کی ضرورت پر زور دیا۔ میں نے بجٹ کو متوازن بنانے کا آغاز کیا اور حکومتی اخراجات کا رخ ضرورت مندوں کے لیے معاشرتی اور معاشی پروگراموں کی طرف موڑا۔ میں نے زرعی شعبے کی ترقی کی ضرورت پر زور دیا تاکہ دیہاتی علاقے جن کی اکثریتی آبادی مسلمان ہے، پس ماندہ نہ رہ جائیں۔
۴۷۔ اللہ کے فضل سے ووٹروں نے مثبت جواب دیا۔ میری جماعت آزادی کے بعد سب سے بڑی کامیابی حاصل کر کے حکومت میں واپس آئی اور ہم وہ صوبہ بھی واپس لینے میں کامیاب ہو گئے جو ۱۹۹۹ میں ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ اس طرح ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ ہم اسلام پسندی کے دعوے داروں کو محض یہ دعویٰ کر کے شکست نہیں دے سکتے کہ ’’ہم تم سے زیادہ دین دار ہیں‘‘، بلکہ اس کے لیے لوگوں کے غم وغصے اور جھنجھلاہٹ کی بنیادی وجوہ کو دور کرنا ہوگا۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ جن مسائل کو ہم نے اپنی توجہ کا موضوع بنایا، دوسرے مسلمان ممالک کے مسائل بھی ان سے ملتے جلتے ہیں اور ان مسائل کو حل کر کے ایک جمہوری مقابلے کے ذریعے سے اسلام کے دعوے داروں کو شکست دی جا سکتی ہے۔
۴۸۔ تاہم اس سارے معاملے کا ایک پہلو اسلام سے متعلق بھی تھا۔ اس بات کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج مسلمانوں کے لیے اسلام پر عمل کرنا پہلے سے بڑھ کر لازمی فریضہ بن چکا ہے۔ مسلمان اللہ کے نام پر اور مذہب کی خاطر عمل کرنے کو لازم اور فرض سمجھتے ہیں۔ بد قسمتی سے یہ عظیم فریضے کی عملی ادائیگی کا ظہور بعض ایسے افعال کی صورت میں ہو رہا ہے جن کی اسلام نفی اور مذمت کرتا ہے۔ بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا اور بے ضرر عوام پر بموں سے حملے کرنا ایسے اقدامات ہیں جو گمراہانہ طور پر مذہب کی آڑ لے کر کیے جا رہے ہیں۔
۴۹۔ تاہم اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مذہب کی حکمرانی کس قدر طاقت ور ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ دین پر عمل کے اس جذبے کو ہم ملائشیا میں نیکی، ترقی اور بہتری کے کاموں کی طرف موڑ لیں گے۔ اس اپروچ کو ہم تہذیبی اسلام یا ترقی پسند اسلامی تہذیب کا نام دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسی اپروچ ہے جو شکل وصورت کو نہیں بلکہ روح اور حقیقت کو اہمیت دیتی ہے۔ یہ اپروچ مسلمانوں کو یہ بات سمجھانا چاہتی ہے کہ اسلام ترقی کو فرض قرار دیتا ہے۔ یہ اپروچ جدیدیت سے ہم آہنگ ہے، تاہم اس کی مضبوط بنیاد اسلام کی اعلیٰ اقدار اور ہدایات میں ہے۔ اس کے مطابق دس بنیادی اصول ایسے ہیں جن پر مسلم ممالک کو نمایاں طریقے سے عمل پیرا ہونا چاہیے:
۱۔ اللہ پر ایمان اور اس کا تقویٰ
۲۔ منصفانہ اور قابل اعتماد حکومت
۳۔ آزاد اور خود مختار پولیس
۴۔ علم پر مہارت کے لیے پرجوش تگ ودو
۵۔ متوازن اور جامع معاشی ترقی
۶۔ لوگوں کے لیے بہتر معیار زندگی
۷۔ اقلیتی گروہوں اور خواتین کے حقوق کا تحفظ
۸۔ ثقافتی اور اخلاقی دیانت داری
۹۔ قدرتی وسائل اور ماحول کا تحفظ
۱۰۔ مضبوط دفاعی صلاحیت۔
۵۰۔ ان رہنما اصولوں، نظام حکومت کی بہتری کے لیے ہمارے مسلسل ریکارڈ اور عوام کے سامنے جواب دہی کے تصور سے اعلیٰ وابستگی کے ساتھ، ملایشیا مسلم دنیا میں تجدید، اصلاح اور غالباً نشاۃ ثانیہ کے لیے ایک حقیر سا عملی نمونہ پیش کر سکتا ہے۔ میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ ملایشیا کے پاس مسلم دنیا کو درپیش متنوع مشکلات میں سے ہر ایک کا جواب موجود ہے۔ مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ مختلف ممالک کو اپنے مسائل کے لیے الگ الگ حل درکار ہیں، تاہم مجھے یقین ہے کہ ملائشیا ایک کامیاب اور جدید مسلمان ریاست کا اچھا عملی نمونہ ثابت ہو سکتا ہے۔
خواتین وحضرات!
۵۱۔ ملایشیا، عالم اسلام کی تاریخ کے ایک نہایت اہم موڑ پر او آئی سی کی صدارت کر رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ او آئی سی میں ان مسلم ممالک کی تعداد بڑھ رہی ہے جنھیں مسلم دنیا کی ناکامیوں اور خامیوں کا اعتراف کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ان میں سے کچھ تو ان اصلاحات کو اپنا بھی رہے ہیں جن کا میں نے تذکرہ کیا ہے۔ اچھے طرز حکمرانی اور فکری لحاظ سے زیادہ آزاد اور پرجوش امہ کی تشکیل کے سلسلے میں بھی پیش رفت ہو رہی ہے۔ تاہم عالم اسلام میں کی جانے والی ان کوششوں کی بارآوری کو (مغرب کے رویے سے) الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ مسلم دنیا میں اصلاح کے اقدامات کے ساتھ ساتھ بڑی مغربی طاقتوں کی خارجہ پالیسیوں میں بھی دکھائی دینے والی اور با معنی تبدیلیاں سامنے آنی چاہییں۔
۵۲۔ اگر ان ممالک کی پالیسیاں حسب سابق من مانی اور مغرب کے ’’خیر‘‘ کے مقابلے میں باقی دنیا کو ’’شر‘‘ سمجھنے کی ڈگر پر قائم رہیں گی، جن میں مسلم دنیا کے چند انتہا پسندوں کے متشددانہ موقف کا عکس نظر آتا ہے، تو پھر ہم میں سے اصلاح، تجدید اور ترقی کے خواہاں ناکام رہ جائیں گے۔ اگر مغرب کی اس عمومی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تو اس سے مسلم دنیا میں بھی رویے سخت تر ہو جائیں گے۔ جو لوگ درمیان میں ایک اعتدال پسندانہ موقف اختیار کرنا چاہتے ہیں، انھیں معذرت خواہ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر غدار قرار دیاجائے گا۔ دونوں جانبوں کے انتہا پسند عناصر ہماری تہذیبوں کو مزید دور کر دیں گے اور دونوں کے درمیان نقطہ اتصال کبھی پیدا نہیں ہو سکے گا۔
۵۳۔ مسلم دنیا کو مغرب کی جانب سے محض اس زبانی یقین دہانی کی ضرورت نہیں ہے کہ مغرب کی جنگ اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ اس سلسلے میں مطلوبہ اقدامات کرنے میں پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ سب سے پہلے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کو دہشت گردی کی بنیادی وجوہ، مثلاً مسئلہ فلسطین کو تسلیم کر کے ان کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ مغرب کو اس طاقت ور جذباتی کشش کا احساس کرنا ہوگا جو فلسطین اپنے اندر مسلمانوں کے لیے رکھتا ہے۔ دوسرے نمبر پر اس بدحالی پر توجہ دینا ہوگی جس سے آج دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت دوچار ہے۔ مغرب کی طرف سے عملی اقدام تو درکنار، اس بات کی حقیقی خواہش کا بھی کبھی اظہار نہیں ہوا کہ وہ مسلم دنیا میں تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ اور صلاحیتوں کی تعمیر وتربیت میں دلچسپی رکھتا ہے۔ تیسرے نمبر پر، جیسا کہ میں نے اسی ہفتے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں ذکر کیا ہے، اقوام متحدہ میں بھی تنوع اور اصلاح کے عمل کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ یہ اپنے رکن ممالک کی اکثریت کے نقطہ نظر کی صحیح طور پر نمائندگی کر سکے۔
۵۴۔ تاہم ان امور پر توجہ دینے سے قبل مغرب کو مسلم دنیا کے بارے میں بعض حقائق لو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ میں نے ایک مرتبہ اقوام متحدہ کے ایک سینئر افسر سے اس سلسلے میں گفتگو کی کہ دہشت گردی کی بنیادی وجوہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس افسر نے مجھ سے کہا کہ یہ کوئی زیادہ اہم بات نہیں، کیونکہ گیارہ ستمبر کے ہائی جیکرز زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بالائی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے مسلمان تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ وہ نہ تو غریب تھے اور نہ ان کا تعلق فلسطین سے تھا، اس لیے جہالت وغربت یا فلسطینی ہونے میں سے کوئی بھی عامل ان کے لیے دہشت گردی کا محرک نہیں بنا۔
۵۵۔ مغرب کو مسلم دنیا کے بارے میں جو بات سمجھ لینی چاہیے، وہ یہ ہے کہ او آئی سی کے رکن ممالک کے مابین وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والے اختلافات کے باوجود مسلمان اپنے آپ کو ایک اجتماعی امت تصور کرتے ہیں۔ مغرب کے انفرادیت پسندی کے فلسفے کے برعکس، مسلمان اہل ایمان کا ایک گروہ ہونے کے ناتے باہمی اخوت کا ایک مضبوط تصور رکھتے ہیں ، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے احساسات میں اشتراک پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلمان بھی جو نہ تو غریب ہیں اور نہ ان کا فلسطین سے کوئی تعلق ہے، اس مسئلے کے بارے میں شدید جذبات رکھتے ہیں۔ چنانچہ بنیادی اسباب پر توجہ دیے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکتی۔
۵۶۔ او آئی سی کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے ملایشیا اسی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ساتھ دیتا رہے گا جیسا کہ ہم گیارہ ستمبر کے بعد سے دیتے چلے آ رہے ہیں۔ ہم مسلمانوں کی جانب سے کیے جانے والے دہشت گردانہ اقدامات کی مذمت کریں گے۔ ہم ان لوگوں کا مقابلہ کریں گے جو اسلام کی خاطر لڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن حقیقت میں مسلمان کہلانے کے بھی حقدار نہیں ہیں۔ ہم مسلم دنیا میں اصلاحات کی حوصلہ افزائی کریں گے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملایشیا اپنے وسائل اور اپنی پرخلوص جدوجہد کو اس مقصد کے لیے بھی بھرپور طریقے سے بروے کار لاتا رہے گا کہ آج دنیا جس ڈگر پر چل رہی ہے، اس میں خاطر خواہ تبدیلی آئے۔ تاہم اہم تر بات یہ ہے کہ مغرب میں (آگے بڑھ کر) ہمارے ساتھ درمیان کی جگہ پر ملنے کی خواہش موجود ہو اور وہ اس بات کا ثبوت دے کہ اس کی پالیسیاں بھی ہماری طرف سے کی جانے والی اصلاحات کے پہلو بہ پہلو بدل سکتی ہیں۔
خواتین وحضرات!
۵۷۔ میں نے مشکلات کا بھی ذکر کیا ہے اور اس راہ کی بھی نشان دہی کی ہے جس پر میرے خیال میں مسلم دنیا اور مغرب، دونوں کو چلنا چاہیے۔ بالعموم وزراے اعظم کی تقریریں یہیں ختم ہو جاتی ہیں، تاہم آج میں کچھ مزید کہنا چاہوں گا۔ میں اپنے ملک کی طرف سے اس عمل کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں ایک خاص عزم ظاہر کرنا چاہتا ہوں ، اس لیے میں آپ کا تھوڑا سا وقت مزید لوں گا۔
۵۸۔ او آئی سی کی سربراہی کی باقی ماندہ مدت کے لیے میں اپنی حکومت کی طرف سے تین بنیادی حوالوں سے اپنے عزم کا اظہار کرنا چاہوں گا۔ پہلا یہ کہ ملائشیا کو تنازعات کے تصفیے (Conflict resolution) کے لیے ایک مرکز بنا دیا جائے۔ مسلم دنیا میں اس حوالے سے باقاعدہ طور پر کوئی مناسب کام نہیں ہو رہا۔ اگرچہ میں تہذیبوں کے مابین مکالمے کے لیے جاری کوششوں کاحامی ہوں، لیکن میرا خیال ہے کہ اگر مخاصمت کے دائروں میں حصول امن کی کوششوں اور اعتماد افزا اقدامات کے ساتھ دو تہذیبوں کے مابین اور کسی ایک تہذیب کے اندر مشترک طور پر پائے جانے والے تصورات اور اصولوں کا تعاون بھی شامل حال ہو جائے تو یہ عمل زیادہ با معنی ہو جائے گا۔
۵۹۔ یہ کوشش صرف مسلم دنیا کے مخاصمتی دائروں تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ ترقی پذیر دنیا کے دوسرے ممالک تک بھی اس کو وسیع کرنا چاہیے۔ چونکہ امن دین اسلام کا بنیادی رکن ہے، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں امن کے ساتھ اپنی وابستگی کا ایک باقاعدہ، منظم اور ادارہ جاتی صورت میں اظہار کرنا چاہیے۔ ہم مغرب میں موجود تصفیہ تنازعات کے مراکز سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے ان کے ساتھ قریبی انداز میں کام کریں گے تاکہ ملایشیا کو عالم اسلام اور ترقی پذیر دنیا میں جو عزت واحترام حاصل ہے، اس کو تنازعات کا مستقل اور پائیدار حل تلاش کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
۶۰۔ دوسرے نمبر پر میں چاہوں گا کہ ملائشیا عالم اسلام میں باہمی تجارت اور تبادلہ خدمات کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے معاملے میں پہل کرے۔ اس وقت او آئی سی کے ممالک کے مابین ۸۰۰ بلین ڈالر کی باہمی تجارت ہو رہی ہے جو کہ دنیا کی مجموعی تجارت کا چھ سے سات فیصدی ہے۔ چونکہ تجارت اور سرمایہ کاری کو ترقی کے لازمی اجزا کی حیثیت حاصل ہے، اس لیے ہم ایسے مسلم ممالک کو جن کے پاس بڑی مقدار میں سرمایہ موجود ہے، یہ ترغیب دینے کی کوشش کریں گے کہ وہ عالم اسلام میں نمو کی صلاحیت رکھنے والی منڈیوں میں سرمایہ کاری کریں۔
۶۱۔ ملائشیا بالخصوص حلال مصنوعات اور اسلامی مالیاتی خدمات کے بنیادی دائروں پر توجہ مرکوز کرے گا جن میں ترقی کے عظیم امکانات پوشیدہ ہیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ عالمی سطح پر حلال خوراک کی منڈی سالانہ ۱۵۰ بلین ڈالر کی ہے۔ اگر اس کو بڑھاتے ہوئے پوری دنیا میں بسنے والے ۸ء۱ بلین مسلمان صارفین تک رسائی حاصل کی جائے تو حلال خوراک کی منڈی سالانہ ۵۶۰ بلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
۶۲۔ اسی طرح اسلامی مالیاتی خدمات کا شعبہ بھی ایسا ہے جس میں ترقی کے عظیم الشان امکانات ہیں۔ اس وقت ۲۵۰ بلین ڈالر سے زیادہ کے اثاثے (اسلامی مالیاتی اداروں کے) زیر انتظام ہیں اور مزید ۴۰۰ بلین ڈالر اسلامی مالیاتی اور جائیداد کی سرمایہ کاری میں آ رہے ہیں۔ یہ کوئی معمولی رقم نہیں۔ ہمارا اندازہ ہے کہ اسلامی مالیاتی اسکیمیں سالانہ ۲۰ سے ۳۰ فیصد کے حساب سے ترقی کریں گی۔ بہت سے غیر مسلم افراد اور ادارے بھی اس کے صارفین اور کلائنٹس کے دائرے میں شامل ہو رہے ہیں۔
۶۳۔ تیسرے نمبر پر میں ملائشیا کو اسلام کے حوالے سے ایک نسبتاً کھلے اور تنوع کے حامل مکالمے کے فروغ کے لیے مرکزی کردار ادا کرنے والا ملک بنانا چاہتا ہوں۔ ہماری یونیورسٹیاں اس اہم مکالمے کے فروغ کے لیے، جس کے مسلم دنیا میں جڑ پکڑنے کی ضرورت ہے، پوری دنیا کے اداروں، مثلاً آکسفرڈ سنٹر کے ساتھ مل کر کام کریں گی ۔ جس طرح یہ ضروری ہے کہ مسلمان دوسرے مذاہب کے ساتھ ایک مشترک اساس کو تلاش کریں، اسی طرح ہمیں خود امت کے اندر بھی مکالمہ کے دروازوں کو کھولنا ہوگا۔
۶۴۔ ملائشیا علمی وفکری اصلاح اور تجدید کے عمل کا آغاز کرنے کے لیے پوری دنیا کے اہل علم کو اپنے ہاں بلائے گا۔ یہ کام آسان نہیں ہوگا۔ ممکن ہے ہمیں آغاز میں ان لوگوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑے جو سمجھتے ہیں کہ مذہبی معاملات پر مکالمہ کرنے کا حق ان کے لیے مخصوص ہے۔ اسی سبب سے یہ ضروری ہے کہ مکالمے کے اس عمل میں کسی حلقے کو (نظر انداز کرتے ہوئے اسے) باہر رکھنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اگرچہ میں سمجھتا ہوں کہ ترقی پسند اور جدت پسند مفکرین کو اپنے خیالات کے اظہار کے لیے مواقع اور فضا مہیا کی جانی چاہیے، تاہم میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ یہ عمل خود مسلمانوں کے اندر ان لوگوں کے ساتھ مکالمے کے تناظر میں ہونا چاہیے جو لفظ پرستی اور قدامت پسندانہ رجحانات کے حامل ہیں۔
۶۵۔ مغرب کے وہ مبصرین جنھوں نے مسلم دنیا میں جاری اس بحث کو گہرائی میں جا کر سمجھا ہے، اسے اسلام کے اندر اعتدال پسندوں اور قدامت پرستوں کے مابین ایک ’’جنگ‘‘ کا نام دیا ہے، لیکن میں اسے ایک مباحثہ کہنا پسند کروں گا۔ اسلام کے موضوع پر مکالمے کا حق کس کو حاصل ہے یا کون اسے حاصل کرے، اس سوال پر ’جنگ‘ سے مسلم دنیا کے کسی طبقے کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ ایک بالکل بے فائدہ جھگڑا ہوگا۔ اس کے بجائے ہمیں چاہیے کہ ایک کھلے ماحول میں روایتی دینی تعلیم پانے والے علما اور جدید تعلیم یافتہ اہل علم کو آپس میں میل ملاپ اور گفتگو کا موقع فراہم کریں تاکہ ایک زندہ اور تعمیری بحث ومباحثہ وجود پذیر ہو سکے۔
۶۶۔ یہاں میں اس ذہنی خلیج کی دونوں جانبوں سے تعلق رکھنے والے حضرات سے معذرت کے ساتھ مشہور ایرانی ماہر سماجیات علی شریعتی کی یہ بات نقل کرنا چاہوں گا کہ ’’حادثہ یہ ہے کہ ایک طرف تو ان لوگوں نے جو گزشتہ دو صدیوں سے ہمارے مذہب پر قابض ہیں، اسے اس کی موجود جامد شکل میں تبدیل کر دیا ہے اور دوسری طرف ہمارے روشن خیال لوگ جو دور حاضر اور ہماری موجودہ نسلوں اور زمانے کی ضروریات کو سمجھتے ہیں، مذہب سے ناواقف ہیں۔‘‘
۶۷۔ اگرچہ میں علی شریعتی کے اس تاثر سے مکمل طور پر اتفاق نہیں کرتا، لیکن ان کے جذبات اس لحاظ سے قابل فہم ہیں کہ مسلم دنیا میں جس چیز کی ضرورت ہے، وہ قدیم وجدید ذہنوں کا ملاپ ہے تاکہ مباحثہ اور مکالمہ کی فضا وسعت سے ہم کنار ہو سکے۔ مجھے امید ہے کہ ملائشیا کی سطح پر ہماری اس کوشش کو اس سے ملتے جلتے تجربات کا ایک نیٹ ورک پوری دنیا میں مل جائے گا جس سے اس کے مقاصد کو جہاں تک ممکن ہو سکے، زیادہ سے زیادہ ممالک اور مسلمانوں تک پھیلانے میں مدد ملے گی۔
خواتین وحضرات!
۶۸۔ میں اس امید پر آپ سے اجازت چاہوں گا کہ عظیم مسلم تہذیب کے احیا ساتھ، جو ہمارے مذہب کی تعلیمات کی پوری طرح عکاسی کرے، اسلام کا درخشندہ دور ایک مرتبہ پھر واپس آئے گا ۔ مجھے یہ بھی امید ہے کہ عالم اسلام اور مغرب مل کر موجودہ زمانے کی ہلچل اور افراتفری پر قابو پا سکتے ہیں، اور یہ کہ اپنی پالیسیوں اور اپنے معاشروں میں مطلوبہ تبدیلیاں پیدا کرنے کے لیے ہم مناسب جرات وہمت سے بہرہ مند ہیں۔ آئیے، اب مزید خونی تفریق وامتیاز پر گفتگو کو چھوڑ کر برابر کی سطح کے اتحاد، منصفانہ تجارت اور سائنسی بنیادوں پر باہمی تعاون کی بات کریں۔ قرآن مجید نے خلق خدا کے مابین جس ہمدردی اور تناصر کا ذکر سورہ الحجرات کی آیت ۱۳ میں کیا ہے، میں اس پر اپنی گفتگو ختم کروں گا:
۶۹۔ ’’اے بنی نوع انسان! ہم نے تمھیں مرد اور عورت کے ایک جوڑے سے پیدا کیا اور تمھیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو (اس لیے نہیں کہ ایک دوسرے سے نفرت کرو) بے شک تم میں سے سب سے زیادہ قابل احترام اللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ گناہوں سے بچنے والا ہے۔ بے شک اللہ ہر بات کا علم رکھتا اور ہر چیز سے باخبر ہے۔‘‘
بے حد شکریہ۔

جناب احمد البداوی کے خطاب کا ایک جائزہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

یکم اکتوبر ۲۰۰۴ کو وزیرِ اعظم ملائشیا جناب عبد اللہ احمد بداوی نے میگڈیلن کالج آکسفرڈ یونیورسٹی (برطانیہ ) کے آکسفرڈ مرکز برائے مطالعہ اسلامیات میں خطاب کیا ۔ اس خطاب میں پیش کیے گئے نکات کی عمومی نوعیت شاید ہمارے لیے اس اعتبار سے اہم نہ ہو کہ یہ معمول کی باتیں ہیں اورہمارے ہاں زیرِ بحث آتی رہتی ہیں، لیکن جناب عبداللہ احمد بداوی کی فکر کا اظہار چونکہ ایک ایسے پلیٹ فارم پر ہو رہا تھا جو نہ صرف علومِ حاضرہ کے ایک مستند ادارے کی شاخِ زریں ہے بلکہ اس کی بین الاقوامی اہمیت بھی مسلّم ہے، اس لیے اس خطاب کی نوعیت، عمومیت کے دائرے سے باہر آجاتی ہے۔ 
خطاب کے آغاز میں وزیرِ اعظم ملائشیا اپنی تین حیثیتوں (۱۔ راسخ العقیدہ مسلمان، ۲۔ کثیر المذاہب قوم کا وزیرِ اعظم اور ۳۔ او آئی سی کا چےئر مین) کا ذکر کر کے خطاب کے متوازن اور کثیر الجہات ہونے کا اشارہ کر دیتے ہیں۔ پھر وہ اختصار سے اسلام کے عروج و زوال کی داستان بیان کرتے ہیں ۔ ہماری رائے میں مسلم تاریخ کے درخشندہ پہلوؤں کے بیان میں جناب عبداللہ احمد بداوی نے توازن کا دامن تھامتے ہوئے بھی حالیہ مسلم نفسیات کی نمائندگی کرتے ہوئے ’’عدمِ توازن‘‘ سے کام لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آٹھویں صدی سے لے کر گیارہویں صدی تک مسلم تہذیب و ثقافت بلندیوں تک پہنچ گئی اور شرح خواندگی قرونِ وسطیٰ کے یورپ سے ’’مقابلتاً ‘‘ زیادہ تھی۔ جناب عبداللہ نے یورپ کو ’’جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا‘‘ کہنے سے گریز کر کے توازن قائم رکھا ہے، لیکن شرح خواندگی کے مقابلتاً زیادہ ہونے کو ’’قابلِ فخر ‘‘ انداز سے پیش کر کے عدمِ توازن کی سرحدوں کوبھی چھو لیا ہے۔ ہمارے ایک نہایت محترم بزرگ جناب سید عماد الدین قادری نے چند دن پیشتر ہی اپنے ایک خط میں یہ ذکر کر کے ہماری معلومات میں اضافہ کیا تھا کہ ۳۵۰ ہجری کے لگ بھگ سلطنتِ عباسیہ میں شرح خواندگی صرف ۵فیصد تھی۔ ہماری رائے میں جس تہذیب کا نقطہ آغاز ہی ’’اقرا ‘‘ ہو، کم از کم اس کے دور عروج میں شرح خواندگی دوسری تہذیبوں سے ’’مقابلتاً‘‘ زیادہ ہونے کے بجائے ۱۰۰ فیصد ہونی چاہیے تھی۔ (خیال رہے کہ اس وقت امریکی اور یورپی تہذیب میں شرح خواندگی مسلم تہذیب سے مقابلتاً زیادہ نہیں، بلکہ تقریباً ۱۰۰ فیصد ہے ) ۔
جناب عبداللہ احمد بداوی کا یہ کہنا بجا ہے کہ مسلمانوں کی داخلی خامیوں اور کوتاہیوں پر خود تنقیدی اپنی جگہ، لیکن یہ حقیقت بھی منہ پھاڑے کھڑی ہے کہ مسلمانوں کے انحطاط و زوال کا ایک سبب وہ خارجی پالیسیاں بھی ہیں جن کے ذریعے سے دنیا بھر کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے تفصیل سے بچتے ہوئے فلسطین، عراق اور ایران کو بطور کیس سٹڈی لینے پر اکتفا کیا۔ جناب عبداللہ کے مطابق اسرائیل ’’ریاستی دہشت گردی ‘‘ کا مرتکب ہو رہا ہے اور دنیا ہے کہ دہشت گردی کو محض غیر ریاستی یا نیم ریاستی سیاق و سباق میں دیکھنے پر مصر ہے جس سے اسرائیل کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اسی طرح عراق پر حملے کا جو جواز گھڑا گیا تھا، وہ جھوٹ کا پلندا ثابت ہوا ہے ۔ وزیرِ اعظم ملائشیا نے یہ نکتہ بھی درست اٹھایا ہے کہ اگر صدام ظالم تھا تو اقدامی جنگ بھی اتنی ہی ظالمانہ ہے کہ اس کا کوئی معروضی معیار نہیں اور مسلم دنیا خوامخواہ اقدامیوں کی ہٹ لسٹ پر ہے۔ یہاں برطانوی وزیرِ اعظم جناب ٹونی بلےئر کے ۲۴ ؍اکتوبر ۲۰۰۴ کو لیبر پارٹی سے کیے جانے والے خطاب کا تذکرہ بر محل ہو گا جس میں انھوں نے گوہر افشانی کی ہے کہ عراق، اس سے متصل خطے اور پوری اسلامی دنیا میں جمہوریت، انسانی حقوق کی علمبرداری، آزادانہ معیشت اور امن و امان وغیرہ کے لیے مداخلت اور اقدامی کارروائیاں ضروری ہیں۔ برطانوی وزیرِ اعظم سمیت مغربی دنیا کے دیگر لیڈروں کے ان ’’معقول اور نیک محرکات ‘‘ کا تیا پانچہ جناب عبداللہ احمد بداوی نے یکم اکتوبر کی زیرِ بحث تقریر میں یہ کہہ کر، کر دیا ہے کہ End cannot justify the means ۔ سیاست کی ابجد سے واقف شخص بھی اس فقرے کے پس منظر سے پوری طرح آگاہ ہے کہ یہ ’’میکاولی فکر‘‘ کے محور End justifies the means میں مضمر غیر اخلاقی اور غیر انسانی روش کی مکمل نفی اور ضدپر مبنی ہے۔ بڑی موٹی سی بات ہے ، بھلا اچھے مقاصد برے ذرائع سے کیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں؟ صرف الہٰیاتی اخلاقیات ہی نہیں بلکہ الحادی اخلاقیات بھی اچھے مقاصد کے لیے ’’برے ذرائع‘‘ اپنانے کا درس نہیں دیتی۔ ہماری رائے میں پوری مغربی دنیا کو یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اس وقت اخلاقی اعتبار سے کہاں کھڑی ہے ؟ جبر کے راستے سے جمہوریت کا نفاذ؟ کتنا بڑا تضاد ہے!کیا جمہوریت کی ترویج کے لیے ہی کم از کم ایک لاکھ عراقیوں کو موت کے گھاٹ اتار ا گیا ہے؟ 
جناب عبداللہ بداوی نے یہ بھی درست نشاندہی کی ہے کہ اسلام کی غلط تصویر کشی گیارہ ستمبر کے بعد کے دور کا مظہر نہیں بلکہ اس ’’روشن خیالی‘‘ کا اظہار تو والٹےئر، بیکن اور رینان وغیرہ نے بہت پہلے کرنا شروع کر دیا تھا ۔ ایسے تاریخی پس منظر اور مغربی میڈیا کے موجودہ یک رخے جذباتی پن سے اصلاحِ احوال کی کوشش نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی ، خاص طور پر اس تناظر میں کہ مسلم دنیا کے داخلی تنوع اور ترقی پسندرجحانات کو مکمل نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ 
وزیرِ اعظم ملائشیا نے ’’عمدہ طرز حکمرانی ‘‘ کے تذکرے میں قرآنِ مجید کے آفاقی اصول ، نبی پاکﷺ اور خلفاء راشدین کے طرزِ عمل کی مثالیں دینے کے ساتھ ساتھ فقہا کے استدلالات کا ذکر بھی بر محل اور بڑی خوبصورتی سے کیا ہے۔ عمدہ حکومت کے اسلامی تصور پر بحث کے ضمن میں احتساب اور عدلیہ کی آزادی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب احمد بداوی نے مسلم دنیا کو بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کی ہے۔ 
اسلامی فکر کی تشکیلِ نو کی ضرورت کے حوالے سے جناب عبداللہ بداوی نے کہا کہ روایتی فکر اور رائے کی اندھا دھند تقلید سے اسلام کو غیر متحرک اور جامد نہیں بنا دینا چاہیے ۔ اس سلسلے میں اعتدال اور عقل پسندی پر مبنی نئی آوازوں کو خوش آمدید کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ موجودہ دنیا میں فاصلے سمٹنے اور باہم مربوط نئے سیاسی اور معاشی اداروں کے جنم لینے سے عصری مسلم معاشروں کو درپیش مسائل چھٹی صدی کے مسائل سے کافی مختلف ہو گئے ہیں۔ اس حوالے سے عصری اجتہاد کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے احمد بداوی نے شریعت کے ساتھ ساتھ ’’مقاصدِ شریعت ‘‘ کی طرف بھر پور توجہ دلانے کی کوشش کی ہے اور بجا طور پر امام غزالی ؒ اور شاطبی ؒ جیسے مسلم مفکرین کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کے کام کی نوعیت کو پھیلانے کی بات کی ہے۔ ہم جناب عبداللہ بداوی سے متفق ہیں کہ آج کی دنیا میں بھی مقاصدِ شریعت پر فوکس کرنے کی اشد ضرورت ہے ، لہٰذا عصری اجتہاد کی بنیاد ’’مقاصدِ شریعت ‘‘ ہو نے چاہئیں، کچھ اس طرح کہ عصری اجتہاد : 
(۱) مقاصد کی پیداوار معلوم ہو ۔
(۲) مقاصد کی طرف گامزن کرنے والا ہو ۔
(۳) مقاصد کی حفاظت کرنے والا ہو ۔
ہماری رائے میں تو اس حوالے سے ایک ’’خاص رویے ‘‘ کی آبیاری کی ضرورت ہے جو قانون اور اصول و ضوابط کو خود مقصد سمجھنے کے بجائے انھیں مقاصد کے حصول کا ذریعہ سمجھے ۔ اس وقت ہمارے ہاں علما کے ہاتھ میں ’’فقہی ڈنڈا‘‘ ہے تو بیوروکریسی کے ہاتھوں میں ’’سرخ فیتہ‘‘ اور بے چاری عوام چکی کے ان دو پاٹوں کے درمیان۔ (خیال رہے کہ سرخ فیتہ بھی اسی طرزِ عمل کا نام ہے کہ قانون کی منشا کی بجائے قانونی موشگافیوں اور قواعد و ضوابط کی گتھیوں میں ہی معاملے کو الجھا کر رکھا جائے) شاید اسی لیے ہمیں اونٹ نگلنے اور مچھر چھاننے کے مناظر معاشرے میں کثرت سے نظر آتے ہیں۔ اس سے صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے۔ 
وزیرِ اعظم ملائشیا نے سورۃ بقرہ کی آیت ۱۴۳ کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے اس یقین کا اعادہ کیا ہے کہ یہ آیت درحقیقت مسلمانوں کے لیے ’’الٰہیاتی یاددہانی‘‘ ہے کہ وہ ہمیشہ اعتدال کی راہ اپنائیں اور انتہا پسندی سے گریز کرتے رہیں۔ جناب احمد بداوی نے مسلم تحریکوں کی موجودہ تیز لہر پر تند و تیز تبصرہ کیا ہے کہ ان میں سے بعض مشنری، متشدد اور غیر سیاسی ہیں، لیکن جو تحریکیں سیاسی ہیں، وہ بھی اقتدار میں آکر ایسے عزائم کی تکمیل چاہتی ہیں جو موجودہ سیاسی نظام سے متصادم ہیں۔ جناب احمد بداوی نے اسلامی تحریکوں کی بابت ہمدردی کے دو بول بھی شاید اس لیے نہیں بولے کہ وہ خود سیاست میں ہیں اور ان کی سیاست ’’انتہاپسندی کی مخالفت ‘‘ سے ہی چمکتی ہے کہ انتہاپسند ان کے سیاسی حریف ہیں۔ ہم خود بھی Holier-than-thou (ہم تم سے زیادہ دین دار ہیں) جیسے غیر اسلامی اور غیر انسانی نعرے کے قائل نہیں ہیں۔ ہماری رائے میں اکثر اسلامی تحریکوں کی انتہاپسندی کا محرک بھی یہ نعرہ نہیں بلکہ داخلی سطح پر مسلم حکمرانوں کا طرزِ عمل اور خارجی سطح پر مغربی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں ہیں۔اگر نفسیاتی اعتبار سے دیکھیں تو انتہا پسندی ، مسلم دنیا کا ’’المیہ کردار ‘‘ ہے اور المیہ کردار وہ ہوتا ہے جو اپنی عزت، عصمت اور وقار کے تحفظ کے لیے ضرورت پڑنے پر جان پر بھی کھیل جاتا ہے۔ ایسا کرنا ایک انسانی حق ہے اور یہ حق انسانی زندگی کی بنیادی شرط ہے (حیوانی سطح پر اس کے بغیر بھی جیا جا سکتا ہے ) مشہور فلسفی سپائی نوزا نے کہا تھا کہ’’ انسان کو ہمیشہ ابدیت کے پس منظر میں کام کرنا چاہیے اور ابدیت سے میری مراد وجودِ انسانی ہی ہے ‘‘۔ ہماری رائے یہی ہے کہ موت کے دروازے پر کھڑا انسان درحقیقت ابدیت کے پس منظر کاحامل ہوتا ہے، کیونکہ اگر اسے بہت جلد موت کا منہ دیکھنا ہے تو وہ آخر کیونکر ظاہری سانچوں، روڈمیپوں اور فارمولوں پر اپنی جان کھپائے گا؟ خود کش حملہ آور کبھی بھی اتنا خود غرض اور ذہنی مفعولیت کا شکار نہیں ہو سکتا کہ وہ خارجی جبرکی بنا پر یا محض دنیاوی شہرت کے لیے اپنی جان پر کھیل جائے ۔ وہ یہ انتہائی قدم صرف اس وقت اٹھاتا ہے جب اسے ’’بہت اندر سے ‘‘ چھیڑا گیا ہو۔ ہماری رائے میں یہی وہ صورتِ حال ہے جس سے مسلم دنیا کا ایک بہت بڑا گروہ ’’چھڑ‘‘ گیا ہے ۔ اسی عمل سے مسلم دنیا کی شناخت بار آور ہو رہی ہے اور وہ اپنے اندر چھپے امکانات کو حقیقت کے سانچے میں ڈھال رہی ہے ۔ امر واقعہ یہی ہے کہ انتہا پسندوں کے طفیل ہی :
(۱)مسلم دنیا میں عوامی سطح پر ہلچل برپا ہے۔ 
(۲)مسلم دنیا کے دانشور طبقے میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی ہے جس سے اعتدال پسندی اور روشن خیالی کے امکانات جنم لے رہے ہیں۔
(۳) داخلی محاذ پر مسلم حکمرانوں اور خارجی محاذ پر مغربی طاقتوں کو ’’نہیں ‘‘ کہنے کی انتہاپسندانہ روش نے ہی درحقیقت اعتدال پسندوں کو ہر دو محاذوں پر ’’سندِ قبولیت ‘‘ بخشی ہے۔ ورنہ دوسری صورت میں مسلم حکمران اور مغربی طاقتیں اعتدال پسندوں کو ٹکنے نہ دیتیں اور وہ یوں سہولت سے ’’روشن خیالی ‘‘ کے موتی نہ بکھیر رہے ہوتے ۔ 
(۴) فکرِ اسلامی کا تعلق اپنی تاریخ سے قائم و دائم ہے۔ اگر انتہا پسند نہ ہوتے تو اعتدال پسند ، تاریخ سے تخلیقی رشتہ کٹ جانے کے باعث اسلام کی صحیح تعبیر و تشریح کے بجائے یا تومعذرت خواہانہ تعبیر کر رہے ہوتے یا پھر خود انتہا پسند ہوتے۔ ہماری رائے میں اسلام کی سیکولرائزیشن کی موجودہ کوششیں بھی اس لیے ثمر آور نہیں ہو سکیں کہ اسلام مخالف طاقتیں موجودہ مسلم بیداری کی لہر کا مسلم تاریخ سے ’’نامیاتی تعلق ‘‘ منقطع نہیں کر سکیں۔ اگر ہم اس نامیاتی تعلق میں مضبوطی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو گوئٹے کے یہ شعر اس حوالے سے بہترین راہنمائی کرتے ہیں : 
’’تم نے اپنے بزرگوں سے جو کچھ میراث میں پایا ہے 
اسے اپنانے کے لیے اسے خود حاصل کرو ‘‘ 
(۵) یہ بنیادی سوال پیدا ہو رہا ہے کہ ہم اس روایت کے ساتھ جو ہمیں ورثے میں ملی ہے، کس طرح ایسا تعلق قائم کر سکتے ہیں جس سے ہمیں ’’حریتِ فکر‘ ‘ کی قربانی نہ دینی پڑے۔ آج مسلم دنیا اسی سوال سے نبردآزما ہے ۔ ہماری رائے میں مسلم نشاۃِ ثانیہ بہت حد تک اسی سوال کے جواب سے مشروط ہے۔ 
مسلم دنیا میں انتہا پسندی کی لہر کے مذکورہ بالا مثبت پہلوؤں کے باوجود، بہر حال کچھ تحفظات بھی جنم لیتے ہیں۔ ان تحفظات کی نوعیت جناب عبداللہ احمد بداوی کے بیان کردہ نکات سے کافی مختلف ہے کیونکہ جناب بداوی تو انتہا پسندوں کو سیاسی حریف کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ہماری رائے میں اگر کوئی جاندار شے اپنے امکانات کو بروئے کار لانے میں ناکام رہے تو وہ بیمار پڑ جاتی ہے، جیسے کوئی شخص چلنے پھرنے سے ہاتھ اٹھا لے تو اس کی ٹانگیں اور دیگر جسمانی اعضا کمزور ہو جاتے ہیں اور یہ کمزوری بڑھ کر حرکتِ قلب اور دورانِ خون وغیرہ پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح اگر کوئی شخص یا گروہ اپنی ذات کے امکانات کو بروئے کار نہ لائے تو وہ نفسیاتی طور پر محبوس ہو جاتا ہے ، پھر یہی غیر استعمال شدہ قوتیں اور امکانات جنھیں بادِ مخالف یا اس شخص کی پوشیدہ اندورنی کشمکش نے مفلوج کردیا ہو، جب داخلی دنیا کے نہاں خانوں میں منہ چھپا لیتے ہیں تو وہ شخص یا گروہ ذہنی طور پر بیمار ہو جا تا ہے اور خارجی سطح پر معقول رویہ اختیار کرنے کے بجائے غیر صحت مند ردِ عمل کا اظہار کرتا ہے۔ اگر انتہا پسندوں کی صورتِ حال اسی نوعیت کی ہے تو ان کی کامیابی کی صورت میں اسلام کا ایسا ایڈیشن منظرِ عام پر آ سکتا ہے جس کی عمر (ردِ عملی ہونے کے باعث) بہت کم ہوگی۔ اس ایڈیشن کی ناکامی ، اسلام کی ناکامی سمجھی جائے گی اور بے چارے اعتدال پسند وضاحتیں ہی کرتے رہ جائیں گے۔ اس طرح احیائے ملت اور غلبہ اسلام کا ایک موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ پھر نجانے اور کتنا عرصہ ، مزید انتظار کرنا پڑے ۔ ہوسکتا ہے بعض احباب یہ نکتہ اٹھائیں کہ انتہا پسندی محض وقتی مظہر ہے ، بعد کی صورتِ حال میں یہی لوگ بہتر اور مطلوب طرزِ عمل کا مظاہر ہ کریں گے، لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک جاری و ساری رویے میں ’’یک دم تبدیلی‘‘ کیسے اور کیونکر ممکن ہے؟ بفرضِ محال یہ نکتہ ابھی سے انتہا پسند قائدین کے پیشِ نظر ہے اور وہ ذہنی طور پر اس تبدیلی کے لیے تیار ہیں تو بھی ان کے ’’پیروکاروں ‘‘ کی بابت یہ سوال موجود رہتا ہے ۔ ان کے پیروکار اس تبدیلی کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوں گے۔ ہماری رائے میں آئیڈیل صورت یہی ہو سکتی ہے کہ انتہاپسند باقاعدہ اقتدار میں آنے کی حکمت عملی اختیار کرنے کے بجائے اپنے عوامی پریشر اور روایتی فکری وزن سے اعتدال پسندوں کے لیے’’تحفظات ‘‘ کا باعث بنتے رہیں تاکہ اعتدال پسند، مغربی دباؤ اور جدیدیت کے طلسم کا شکار نہ ہو سکیں اور صحیح ڈگر پر چلتے ہوئے عصری اجتہاد کے ذریعے مقاصدِ شریعت کو پورا کر سکیں۔ ہماری رائے میں ملائشیا میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اگر جناب عبداللہ احمد بداوی کی حکومت اعتدال پسندی سے کام لیتے ہوئے مقاصدِ شریعت کے حصول کی طرف گامزن ہے تو اس کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب ملائشیا کے انتہاپسندوں کا پریشر اور دباؤ بھی ہے۔ جناب بداوی کے زیرِ بحث خطاب کے بین السطور بھی یہ نکتہ جھلملا رہا ہے ۔ 
اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کی تشکیلِ نو سے لے کر تہذیبی اسلام اور قدامت پسندوں اور جدت پسندوں کے درمیان مکالمے کی اہمیت تک، اس خطاب کے اور بھی بہت سے وقیع نکات ہیں جن پر بحث ہو سکتی ہے۔ طوالت کے خوف سے ہم نے محض اچٹتی ہوئی نظر ڈالی ہے۔ پورے خطاب کے شامل اشاعت ہونے کے باعث ہم مزید بحث قارئینِ الشریعہ پر چھوڑتے ہوئے یہ کہنے پر اکتفا کریں گے کہ بحیثیت مجموعی جناب عبداللہ احمد بداوی کے خطاب میں ’’غبارِ خاطر ‘‘ کی نمناکیوں کے ساتھ ساتھ ’’مستقبلِ دیدہ ‘‘ کے مناظر کے نشیب و فراز بھی موجود ہیں جو پڑھنے والے کو یقیناً دعوتِ فکر دیتے ہیں۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
باسمہ سبحانہ
عزیز محترم حافظ حسن مدنی صاحب سلمک اللہ تعالیٰ فی الدارین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
’’محدث‘‘ کا نومبر کا شمارہ نظر سے گزرا۔ بہت خوشی ہوئی۔ قتل غیرت اور دیگر متعلقہ امور پر آپ حضرات نے سیر حاصل بحث کر کے تمام دینی حلقوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا ہے۔ بالخصوص آپ کے مضمون پر مزید مسرت اور اطمینان سے بہرہ ور ہوا۔ اللہ تعالیٰ آپ حضرات کی کاوشوں کو قبول فرمائیں اورنتائج وثمرات سے نوازیں۔ آمین
اس حوالہ سے میں ایک بات کی طرف احباب کو توجہ دلانے کی مسلسل کوشش کر رہا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں علاقائی کلچر اور قبائلی روایات کے حوالے سے عورت پر جو مظالم ہو رہے ہیں، ان کے بارے میں دینی حلقوں کی طرف سے کوئی منظم اور موثر آواز بلند نہ ہونے کی وجہ سے غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرنے والی این جی اوز کو اس خلا سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل رہا ہے او روہ عورتوں کے حقوق کی چیمپئن بن گئی ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ اگر ہمارے دینی حلقوں میں کوئی ادارہ اس طرز پر کام کرے اور عورتوں پر ہونے والی زیادتیوں کی شرعی نقطہ نظر سے نشان دہی کرتے ہوئے ان کے ازالے کے لیے منظم محنت کی کوئی صورت نکالے تو یہ ہتھیار مذکورہ این جی اوز سے چھینا جا سکتا ہے اور ویسے بھی یہ ہماری دینی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
اس کشمکش میں یہ پہلو میرے خیال میں زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور ہمیں اسے اجاگر کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔ امید ہے کہ آپ بھی اس کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوں گے۔
والد بزرگوار اور دیگر حضرات واحباب خصوصاً عطاء اللہ صدیقی صاحب سے سلام مسنون عرض کر دیں۔
شکریہ۔ والسلام
ابو عمار زاہد الراشدی
مرکزی جامع مسجد۔ گوجرانوالہ

(۲)
محترم ایڈیٹر الشریعہ گوجرانوالہ
سلام مسنون۔ مزاج بخیر؟
’الشریعہ‘ میں شامل مضامین بحث ونقد ونظر کے نئے در کھولتے ہیں۔ اس شمارے میں اقبال کے نظریہ شعر وادب پر مضمون اچھی کاوش ہے، لیکن حوالہ جات کی بھرمار سے اسے خواہ مخواہ بوجھل بنایا گیا ہے اور خود مصنف کا نقطہ نظر معلوم کرنے میں رکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔ ۱۶۰ سطروں کے مضمون میں ۵۷ حوالے! اندازہ کیجیے، اس میں مصنف نے کتنے لفظ خود لکھے ہیں؟
والسلام
(پروفیسر) کلیم احسان بٹ
گجرات

(۳)
باسمہ سبحانہ
محترم ومکرم مدیر صاحب مجلہ ’الشریعہ‘
تسلیم وتحیہ۔ امید ہے مزاج عالی بخیر ہوں گے۔
ماہنامہ الشریعہ بابت ماہ نومبر ۲۰۰۴ موصول ہوا۔ عنایت کا شکریہ۔
ہم یہاں ہر روز صبح کی نماز سے قبل درس قرآن دیتے ہیں، لیکن آج آلہ مکبر الصوت پر حضرت رئیس التحریر مدظلہ کا کلمہ حق پڑھ کر سنایا گیا۔ جوں جوں ارشادات عالیہ پڑھے، بس دل میں ایک ہوک سی اٹھتی رہی کہ کاش، یہ جو علماء دیوبند کے مختلف دھڑے بن چکے ہیں، ان میں بھی کوئی اتحاد واخوت پیدا کرا دیتا تو آج پاکستان کی قسمت بدل چکی ہوتی۔ ہم یہ اتحاد مسلکی بنیادوں پر نہیں کہہ رہے، بلکہ ہماری غرض تو ہے تحریک دیوبند کے اتحاد سے جس کے بنیادی نکات ’علماء ہند کا شاندار ماضی‘ نامی کتاب کے ابتدائی باب میں درج ہیں۔ بہرصورت پورا شمارہ مطالعہ کر چکے ہیں اور نوجوانوں کو بار بار پڑھایا جا رہا ہے اور کلمہ حق کی فوٹو سٹیٹ کروا کر تقسیم کرنے کا پروگرام ہے۔
والسلام
محمد سعید اعوان
سرپرست نوجوانان توحید وسنت۔بمقام لالہ چک 
ڈاک خانہ جلال پور جٹاں۔ ضلع گجرات

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’مسلم نشاۃ ثانیہ o اساس اور لائحہ عمل‘‘

ڈاکٹر محمد امین صاحب ہمارے محترم اور فاضل دوست ہیں، پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے سینئر ایڈیٹر ہیں اور ان دانش وروں میں سے ہیں جو مسلم امہ کی موجودہ زبوں حالی کا نہ صرف پوری طرح ادراک رکھتے اور اس پر کڑھتے ہیں بلکہ اصلاح احوال کی تدابیر سوچتے ہیں، ان پر دیگر اصحاب دانش سے مشاورت کا اہتمام کرتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کی صورتیں پیدا کرنے کے لیے بھی کوشاں رہتے ہیں۔
تعلیم وتربیت ان کے خصوصی ذوق کا شعبہ ہے، تعلیم کے دینی اور عصری دونوں قسم کے اداروں کے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم وتربیت کی اصلاح کے لیے مسلسل سرگرم عمل رہتے ہیں۔ خاص طور پر دینی مدارس کے تعلیمی نظام ونصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ممتاز دینی مدارس کے نامور اساتذہ کی مشاورت اور راہ نمائی میں انھوں نے جو ’’ہوم ورک‘‘ کیا ہے، وہ انتہائی قابل قدر ہے اور اس کا خلاصہ ’’ہمارا دینی نظام تعلیم‘‘ کے نام سے ان کی تصنیف کی صورت میں شائع ہو چکا ہے جو دار الاخلاص ۴۹ ریلوے روڈ لاہور نے شائع کی ہے۔ تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب میں انھوں نے دینی مدارس کے تعلیمی نظام ونصاب کے بارے میں مختلف مکاتب فکر کے بڑے تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات، مشترکہ اجلاسوں کی روداد اور متفقہ تجاویز وآرا کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے جس کی تمام تفصیلات وجزئیات کے ساتھ اتفاق ضروری نہیں، لیکن ان کی محنت بہرحال قابل داد ہے اور ہماری رائے میں دینی تعلیم کا کوئی بھی ادارہ چلانے والے حضرات کے لیے اس کا مطالعہ ضروری ہے۔
اس وقت ہمارے سامنے ڈاکٹر صاحب موصوف کی ایک اور تصنیف ہے جس میں انھوں نے مسلم امہ کی موجودہ زبوں حالی اور بے بسی ولاچاری کا جائزہ لیا ہے، اس کے اسباب وعوامل پر بحث کی ہے، عالم اسلام کے حریف، مغرب کے عروج کے اسباب کا تجزیہ کیا ہے، اس کے متوقع زوال کی وجوہ بیان کی ہیں اور ان راستوں کی نشان دہی کی ہے جن پر چل کر ان کے خیال میں امت مسلمہ نہ صرف زبوں حالی کی موجودہ دلدل سے نکل سکتی ہے بلکہ انسانی سوسائٹی میں اپنا کھویا ہوا مقام بھی دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔ انھوں نے امت مسلمہ میں اس حوالہ سے کام کرنے والے اداروں، جماعتوں، مراکز اور حلقوں کی جدوجہد کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کی خوبیوں اور کمزوریوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور اصلاح احوال کے لیے تجاویز دی ہیں۔
دین کے کسی بھی شعبہ میں کام کرنے والوں کے لیے اس کتاب میں دی گئی معلومات اور استدلال وتجزیہ کا مطالعہ بہت مفید ہوگا، بالخصوص باب سوم میں ’’مغرب کے موجودہ عروج اور متوقع زوال‘‘ کے بارے میں جو بحث کی گئی ہے، ہمارے خیال میں اسے دینی مدارس کے منتہی طلبہ کو سبقاً سبقاً پڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے ہاں اس قسم کی بحث وتمحیص اور معلومات کی فراہمی کا سرے سے کوئی ماحول نہیں ہے اور ہمارے طلبہ اور اساتذہ کا اس سے واقف ہونا انتہائی ضروری ہے۔
چار سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز لاہور نے شائع کی ہے، اس کی قیمت دو سو روپے ہے اور اسے کتاب سرائے، فرسٹ فلور، الحمد مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اردو بازار لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ (ابو عمار زاہد الراشدی)

’’ندوہ کا ایک دن‘‘

ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر محمد اکرم ندوی نے، جو آکسفرڈ میں اسلامک سنٹر کے ریسرچ فیلو ہیں ،ندوۃ العلماء لکھنو میں طالب علمی کے دور میں اپنے قیام کے ایک دن کی تفصیلی روداد قلم بند کی ہے جو اپنے عنوان کے حوالے سے ایک طالب علم کی ڈائری ہے، لیکن اس سے ندوہ کا پورا تعلیمی ماحول اور دینی ذوق سامنے آ جاتا ہے اور وہاں کی روز مرہ کی سرگرمیوں سے قاری کو آگاہی ہوتی ہے۔ ایک سو بارہ صفحات کے اس کتابچہ کی قیمت پچاس بھارتی روپے ہے اور اسے ندوی بک ڈپو، ندوۃ العلماء لکھنو نے شائع کیا ہے۔ (راشدی)

’’وضو کا مسنون طریقہ‘‘

وضو کا سنت طریقہ کیا ہے؟ یہ مسئلہ اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین ہمیشہ سے اختلافی رہا ہے اور فریقین کے پاس اپنے اپنے موقف پر دلائل موجود ہیں۔ اختلافی اور فروعی مسائل کی دعوت کو اگر اپنے اپنے حلقہ اثر تک محدود رکھا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر انھیں مناظرانہ تقریروں اور تحریروں کی صورت میں عوام الناس کے سامنے پیش کیا جائے تو لازمی طور پر مذہبی رواداری کی فضا مکدر ہوتی ہے اور اتحاد امت کی کوششوں کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اس لیے بالخصوص موجودہ تناظر میں مناظرانہ اسلوب میں اختلافی مسائل کو زیر بحث لانے سے اجتناب کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
زیر تبصرہ کتابچہ، شیعہ پروفیسر جناب غلام صابر صاحب کی مناظرانہ انداز میں لکھی گئی کتاب ’’وضوء رسول‘‘ کے جواب میں تحریر کیا گیا ہے۔ مذکورہ کتاب میں پروفیسر صاحب نے مبینہ طور پر اہل سنت کے وضو کے طریقہ کو غلط اور اہل تشیع کے طریقہ وضو کو عین سنت رسول ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ مولانا عبد القدوس خان قارن صاحب نے اپنے کتابچہ میں پہلے تو وضو کا مسنون طریقہ مکمل حوالہ جات کے ساتھ بیان کیا ہے اور اس کے بعد پروفیسر صاحب کے دلائل واعتراضات کا ایک ایک کر کے جواب دیا ہے۔ جو احباب اس موضوع پر دلائل کو یکجا دیکھنا چاہتے ہوں، ان کے لیے یہ کتابچہ بے حد معلوماتی اور مفید ہے۔
یہ کتابچہ عمر اکادمی نزد مدرسہ نصرۃ العلوم نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت ۳۰ روپے ہے۔ (محمد اکرم ورک)

’’ماں کی عظمت‘‘

اسلام کے معاشرتی نظام میں خاندان اہم ترین ادارہ ہے۔ خاندان کی شیرازہ بندی میں اسلام والدین کے کردار کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ خاندان کے دیگر افراد کی بہ نسبت اسلام نے ماں کو خصوصی مقام ومرتبہ اور عزت وافتخار سے نوازا ہے لیکن بد قسمتی سے مغرب کی ثقافتی یلغار کے نتیجے میں مسلمان معاشروں میں بھی خاندانی اقدار اور روایات کمزور پڑ رہی ہیں اور نئی نسل بزرگوں، بالخصوص والدین کے عزت واحترام اور حقوق میں کوتاہی کی مرتکب ہو رہی ہے۔
زیر تبصرہ کتاب معاشرتی بگاڑ کے اس دور میں مولانا جمیل احمد بالاکوٹی کی ایک عمدہ کاوش ہے جس میں انھوں نے بالخصوص نوجوان نسل کو یہ بھولا ہوا سبق یاد دلایا ہے کہ دنیوی اور اخروی سعادتیں صرف والدین کے ادب واحترام کی بدولت ہی سمیٹی جا سکتی ہیں۔ کتاب کا مسلسل چھٹا ایڈیشن اس بات کی دلیل ہے کہ عوام الناس نے ان کے پیغام کو سمجھا اور اس کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مولف کی اس اصلاحی کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے اس کتاب کو ذریعہ ہدایت بنائے۔ آمین
کتابچہ کی قیمت ۱۰۰ روپے ہے اور اسے القاسم اکیڈمی، جامعہ ابو ہریرہ برانچ، پوسٹ آفس خالق آباد، نوشہرہ نے شائع کیا ہے۔ (محمد اکرم ورک)

’’فیض الصرف‘‘

زیر تبصرہ کتاب کے مولف حافظ محمد رمضان اویسی درس نظامی، بالخصوص علم صرف وعلم نحو کی تدریس کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ درس نظامی کے طلبہ کی خدمت کے لیے ’’فیض النحو‘‘ کے بعد ’’فیض الصرف‘‘ ان کی طرف سے مفید علمی کاوش ہے۔ یہ اس فن پر ایک مکمل کتاب ہے اور فاضل مولف نے فارسی اور عربی کتب سے استفادہ کرتے ہوئے مواد کو بڑی عمدگی سے ترتیب دیا ہے۔ کتاب کی زبان سادہ اور عام فہم ہے۔ تمام افعال اور مشتقات کی تعریف، نیز ان کے بنانے کے طریقے اور اہم اوزان کی گردانیں بطور نمونہ درج کی گئی ہیں۔ امید ہے کہ یہ کتاب درس نظامی کے طلبہ کے لیے مفید ثابت ہوگی۔ (محمد اکرم ورک)