جنوری ۲۰۰۳ء
ڈاکٹر محمد حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا سانحہ ارتحال
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ممتاز محقق، دانش ور اور مصنف ڈاکٹر محمد حمید اللہ گزشتہ دنوں فلوریڈا (امریکا) میں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا علمی تعلق جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن سے تھا، حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی کے تلامذہ میں سے تھے اور جامعہ عثمانیہ کے علمی وتحقیقی کاموں میں ایک عرصہ تک شریک رہے۔ حیدر آباد پر بھارت کے قبضہ کے بعد پاکستان آ گئے اور پھر یہاں سے فرانس کے دار الحکومت پیرس چلے گئے جہاں انہوں نے طویل عرصہ تک اسلام کی دعوت واشاعت کے حوالہ سے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ فرانسیسی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا اور بے شمار لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرایا۔ بہت سے فرانسیسی باشندوں نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ وہ بنیادی طور پر تعلیم وتحقیق کی دنیا کے آدمی تھے اور انہوں نے ساری زندگی لکھنے پڑھنے کے ماحول میں گزار دی۔ فقیر منش اور قناعت پسند بزرگ تھے، کتاب زندگی بھر ان کی ساتھی رہی اور کتاب ہی کی خدمت میں وہ آخر دم تک مصروف رہے۔
وفات کے وقت ان کی عمر ۸۸ برس کے لگ بھگ تھی۔ راقم الحروف کے نام ایک مکتوب میں، جو ماہنامہ الشریعہ (فروری ۹۱ء) میں شائع ہو چکا ہے، انہوں نے لکھا تھا کہ ان کی ولادت محرم الحرام ۱۳۳۶ھ میں ہوئی تھی۔ ان کی متعدد علمی وتحقیقی تصانیف ہیں جن سے اہل علم ایک عرصہ سے استفادہ کر رہے ہیں اور ان کی بعض تصانیف متعدد یونیورسٹیوں کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔ انہوں نے سیرت نبوی کے سیاسی پہلوؤں اور اسلام کے اجتماعی نظام کے حوالے سے نمایاں علمی خدمات سرانجام دیں۔ رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی اور دور نبوت کے سیاسی وثائق کے حوالے سے ان کا علمی کام اہل علم کے لیے گراں قدر تحفہ ہے اور انہوں نے ’’صحیفہ ہمام بن منبہ‘‘ کی تلاش وتحقیق اور طباعت کا اہتمام کر کے منکرین حدیث کے اس اعتراض کا عملی جواب دیا کہ صحابہ کرامؓ کے دور میں احادیث کی جمع وترتیب کا کام نہیں ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے پاکستان میں اسلامی قوانین کی ترتیب وتدوین کے حوالہ سے بھی مختلف اوقات میں خدمات سرانجام دیں۔ سیرت نبوی کے مختلف عنوانات پر بہاول پور اسلامی یونیورسٹی میں ان کے خطبات نے بہت مقبولیت حاصل کی جو ’’خطبات بہاول پور‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے ہیں اور ’’رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی‘‘ کے عنوان سے ان کی محققانہ تصنیف کو بھی اہل علم کے ہاں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ہر وسیع المطالعہ محقق کی طرح وہ بھی مختلف مسائل پر جداگانہ رائے رکھتے تھے اور ان کے تفردات کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے لیکن اپنی رائے پر اڑنے اور ہر حال میں اس کا دفاع کرنے کے بجائے وہ غلطی ظاہر ہونے پر اسے تسلیم کرتے تھے اور اپنی رائے سے رجوع میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
مغربی دانش وروں کی طرف سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کیے جانے والے اعتراضات میں ایک یہ بھی ہے کہ جب قرآن کریم میں چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کی صریحاً ممانعت آ گئی اور اس کے مطابق جناب نبی اکرم ﷺ نے متعدد صحابہ کرام کو، جن کی چار سے زیادہ بیویاں تھیں، حکم دیا کہ وہ زائد بیویوں کو الگ کر دیں تو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیک وقت نو بیویاں کیوں رکھیں اور قرآنی ضابطہ کے مطابق ان میں سے چار سے زائد بیویوں کو الگ کیوں نہیں کردیا؟ اس کے جواب میں جمہور علما یہ کہتے ہیں کہ یہ جناب نبی اکرم ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے اور نبی اکرم ﷺ کو اس کی خاص اجازت دی گئی تھی۔ اس کی بہت سی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ باقی صحابہ کرام نے چار سے زائد جن بیویوں کو اپنی زوجیت سے الگ کیا، ان کے تو دوسری جگہ نکاح ہو گئے اور وہ نئے گھرو ں میں آباد ہو گئیں لیکن جناب نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے کسی کے ساتھ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی امتی کا نکاح قرآن کریم کی رو سے جائز نہیں اس لیے اگر آنحضرت ﷺ بھی چار سے زیادہ بیویوں کو الگ کر دیتے تو وہ بے سہارا ہو جاتیں اور ان کا کوئی ٹھکانہ باقی نہ رہتا جو امت کی ماؤں کے حوالہ سے بہت سنگین بات ہوتی اس لیے اللہ تعالیٰ نے جناب نبی اکرم ﷺ کو تمام بیویاں اپنے نکاح میں باقی رکھنے کی بطور خاص اجازت دے دی۔
مگر ڈاکٹر حمید اللہ نے ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد کے سہ ماہی عربی مجلہ ’’الدراسات الاسلامیۃ‘‘ کے محرم تا ربیع الاول ۱۴۱۰ھ کے شمارے میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں یہ موقف اختیار کیا کہ جناب نبی اکرم ﷺ نے قرآن کریم کے مذکورہ حکم کے بعد حقوق زوجیت کے ساتھ تو صرف چار بیویوں کو باقی رکھا اور پانچ بیویوں کو ’’اعزازی بیویوں‘‘ کی حیثیت دے دی جو جناب نبی اکرم ﷺ کی بیویاں تو سمجھی جاتی تھیں مگر انہیں ’’حقوق زوجیت‘‘ حاصل نہیں تھے۔ اس طرح ڈاکٹر صاحب مرحوم نے مغربی دانش وروں کے اعتراض کا اپنے طور پر جواب دینے کی کوشش کی۔
ہم نے ماہنامہ ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ میں اس پر گرفت کی اور اکتوبر ۹۰ء کے شمارے میں پروفیسر عبد الرحیم ریحانی کا مضمون شائع کیا جس میں انہوں نے ڈاکٹر صاحب مرحوم کے اس موقف کی دلائل کے ساتھ تردید کی۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے اس کے جواب میں ہمیں مضمون بھجوایا جس میں انہوں نے اپنے موقف کو دہراتے ہوئے اس کے حق میں دلائل دیے۔ ہم نے وہ مضمون دسمبر ۹۰ء کے شمارے میں شائع کر دیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ ہمیں ڈاکٹر صاحب کے موقف اور دلائل پر اطمینان نہیں ہے اور ہم اس کا علمی وتحقیقی جواب دیں گے۔ اس دوران ماہنامہ’’صدائے اسلام‘‘ پشاور نے بھی ڈاکٹر صاحب کے موقف پر گرفت کی جس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے ’’صدائے اسلام‘‘ کے مدیر محترم کے نام مکتوب میں اپنے موقف سے رجوع کر لیا اور فرمایا کہ میں نے صرف اہل مغرب کے ایک اعتراض کا جواب دینے کی کوشش کی تھی، اگر جمہور علماکو اس سے اتفاق نہیں ہے تو مجھے بھی اپنے موقف پر اصرار نہیں اور میں اس پر معذرت خواہ ہوں۔ ہم نے ڈاکٹر صاحب مرحوم کا یہ مکتوب ’’صدائے اسلام‘‘ کے حوالے سے ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ کے مارچ ۱۹۹۱ء کے شمارے میں شائع کیا اور ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کی حق پرستی اور فراخ دلی کا اعتراف کرتے ہوئے اس بحث کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ تفردات ہر صاحب علم اور محقق کا حق ہے۔ جو بھی مطالعہ کرے گا، تحقیق کرے گا اور کسی مسئلہ پرمتنوع علمی مواد کو سامنے رکھ کر اپنی رائے قائم کرے گا، اس کی رائے کسی نہ کسی مسئلہ پر باقی علما سے مختلف ہو جائے گی۔ یہ فطری بات ہے البتہ اہل علم کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی انفرادی رائے کو دوسروں پرمسلط کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور کسی مرحلہ پر اپنی رائے کی غلطی ان پر واضح ہو جائے تو وہ ا سے رجوع میں بھی کوئی حجاب محسوس نہیں کرتے۔یہ بات محترم ڈاکٹر حمید اللہ صاحب میں بھی ہم نے دیکھی ہے جو ان کے خلوص، للہیت اور قبول حق کے جذبہ کی علامت ہے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے عمر بھر علمی وتحقیقی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا اور ایک دنیا نے ان سے استفادہ کیا ہے۔ ہم خود ان کے خوشہ چینوں اور ان کی تحقیقات سے استفادہ کرنے والوں میں شامل ہیں اس لیے مجھے ان کی وفات پر ذاتی طور پر یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے میرے کسی شفیق استاذ کا انتقال ہو گیا ہے۔ ایک عالم، محقق، دانش ور اور صاحب فضل وکمال شخصیت کی موت پراپنے دلی جذبات کے اظہار کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
ڈاکٹر حمید اللہ کی وفات بلا شبہ پورے عالم اسلام کے لیے صدمہ کا باعث ہے اور علمی دنیا کا ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی علمی ودینی خدمات کو قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین
صحابہ کرامؓ کا اسلوب دعوت (۲)
پروفیسر محمد اکرم ورک
مصعب بن عمیر کا اہلِ مدینہ کے لیے بطور مبلغ تقرر
۱۱ نبویؐ میں بیعتِ عقبہ اولیٰ کے بعد اہلِ مدینہ نے ایک تربیت یافتہ معلم کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا:
ابعث الینا رجلا یفقھنا فی الدین ویقرئنا القرآن (۴۷)
’’(یارسول اللہ ﷺ) ہمارے ساتھ کسی ایسے آدمی کو بھیجیں جو ہمیں دین سکھائے اور قرآن پڑھائے‘‘
چنانچہ ابنِ اسحاق کی روایت ہے:
فلما انصرف عنہ القوم، بعث رسول اللّٰہ ﷺ معھم مصعبؓ بن عمیر وأمرہ ان یقرۂم القرآن، ویعلمہم الاسلام، ویفقہم فی الدین (۴۸)
’’جب انصار بیعت کے بعد واپس پلٹے تو رسول اللہﷺ نے ان کے ساتھ مصعبؓ بن عمیر کو روانہ فرمایا اور ان کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو قرآن پڑھائیں، اسلام کی تعلیم دیں اور دین کی بصیرت اور صحیح سمجھ پیدا کریں‘‘
سرزمین مدینہ کو دارالہجرت کا شرف حاصل ہونے والا تھا اور یہ ایسی سرزمین تھی جسے جلد ہی مرکزِ اسلام بننا تھا اس لیے ضرورت اس امر کی تھی کہ مدینہ کی سرزمین میں دعوت کا کام منظم انداز میں کیاجائے تاکہ ہجرت عامہ سے سرزمینِ مدینہ ہر لحاظ سے مسلمانوں کے لیے ایک محفوظ اور مضبوط پناہ گاہ کاکام دے سکے۔چنانچہ جب انصار مدینہ نے ایک معلم ہمراہ بھیجنے کی درخواست کی تو رسول اللہ ﷺ کی نگاہِ انتخاب حضرت مصعبؓ بن عمیر پر پڑی جو ہجرت حبشہ کے کٹھن مراحل سے گزرکر کندن بن چکے تھے اور رسول اللہ ﷺ کے ان جاں نثاروں میں سے تھے جو اسلام کی خاطر ہر مصیبت کا سامنا بڑی خندہ پیشانی سے کرنے کاحوصلہ رکھتے تھے۔نیز رسول اکرم ﷺ کو ان کے متعلق یہ اعتماد بھی تھا کہ وہ دعوت کے ہر اسلوب سے واقفیت رکھنے والوں میں سے ہیں اورمخاطب کو متاثر کرنے کا ہر ڈھنگ جانتے ہیں ۔
پروفیسر ٹی۔ڈبلیو۔آرنلڈ لکھتے ہیں:
’’یہ نوجوان مومنین اولین میں سے تھے اور ابھی ابھی حبشہ سے واپس آئے تھے ،اس وجہ سے ان کو بہت کچھ تجربہ حاصل تھا۔انہوں نے اعدائے دین کے ہاتھوں جو ظلم وستم برداشت کیے تھے،اس سے ان میں نہ صرف متانت اور سنجیدگی پید اہوگئی تھی بلکہ انہوں نے یہ بھی سیکھ لیا تھا کہ ظلم وتعدی کا کس طرح مقابلہ کرنا چاہیے اور ان لوگوں کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرنا چاہیے جو اسلام کی تعلیم کو سمجھے بغیر اسے مطعون کرتے ہیں۔لہٰذا رسول اکرمﷺ نے کامل بھروسے کے ساتھ نومسلموں کی تعلیم وتربیت اور یثرب کی سرزمین میں نخل اسلام کی آبیاری کا مشکل کام مصعبؓ بن عمیر کے سپردفرمادیا‘‘۔(۴۹)
پروفیسر یٰسین مظہر صدیقی حضرت مصعبؓ بن عمیر کے تقرر کی حکمت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’کبار صحابہؓ اور سابقین اولین میں سے حضرت مصعبؓ بن عمیر عبدری کا انتخاب ظاہر ہے کہ ان کی سبقتِ اسلام اور شخصی وجاہت کے سبب نہیں ہوا تھا ۔وہ یقیناًسابق صحابی تھے اور انہوں نے اسلام کے لیے بڑی قربانیاں دی تھیں۔لیکن ان سے کہیں زیادہ سبقت اور قربانی کا شرف رکھنے والے صحابہ موجود تھے۔ان کا انتخاب محض اس بنا پر کیاگیا تھا کہ وہ مجموعی اعتبارسے اس منصبِ گرامی کے لیے موزوں ترین تھے۔وہ پاسداران کعبہ کے خاندان کے ایک متمول خانوادہ عبدالدار کے فرد ہونے کے علاوہ اسلام کے وفادار وجاں نثار،ثابت قدم اور ٹھنڈے مزاج کے شخص تھے جو اسلام کا پیکرِ دلنواز ہونے کا دعویٰ کرسکتے تھے ۔ان کی یہی مجموعی صفاتِ حمیدہ تھیں جنہوں نے ایک مختصر عرصہ میں اسلام کے قدم مدینہ منورہ میں مضبوطی سے جما کر ہجرت کی راہ ہموار کردی‘‘ (۵۰)
مصعبؓ بن عمیر کی دعوتی سرگرمیاں اور اسلوبِ دعوت
حضرت مصعبؓ بن عمیر مدینہ پہنچ کر حضرت اسعدؓ بن زرارہ کے مکان پر فروکش ہوگئے اور گھرگھر پھر کر تعلیمِ قرآن اور اشاعتِ اسلام کی خدمت انجام دینے لگے۔ اس طرح رفتہ رفتہ جب کلمہ گو لوگوں کی ایک جماعت پیدا ہوگئی تو نماز اور تلاوت قرآن کے لیے ان کو کبھی حضرت اسعدؓ بن زرارہ کے مکان پر اور کبھی بنی ظفر کے ہاں جمع کیا کرتے۔ایک روز مصعبؓ بن عمیر حسبِ معمول بنی ظفر کے ہاں چند مسلمانوں کو تعلیم دے رہے تھے کہ قبیلہ بنی عبدالا شہل کے سردار سعد بن معاذنے اپنے رفیق اسیدبن حضیر سے کہا کہ اس داعیٔ اسلام کو اپنے محلہ سے نکال دو جو یہاں آکر ہمارے ضعیف الاعتقاد لوگوں کو گمراہ کرتاہے۔اگر اسعدؓ بن زرارہ سے مجھ کو رشتہ داری کاتعلق نہ ہوتا (سعدؓ بن معاذ حضرت اسعدؓ بن زرارہ کے خالہ زاد بھائی تھے)تو میں تم کو اس کی تکلیف نہ دیتا ۔یہ سن کر اسیدؓ بن حضیر نے نیز ہ اٹھایا اور حضرت مصعبؓ بن عمیراور اسعدؓ بن زرارہ کے پاس آکر ان کو خوب گالیاں دیں اور پھر انتہائی درشت لہجہ میں کہا:
’’تمہیں یہاں آنے کی کیسے جرأت ہوئی ؟ تم ہمارے کمزور اورضعیف الاعتقاد لوگوں کو گمراہ کرتے ہو۔ اگر تم کو اپنی جانیں عزیز ہیں تو یہاں سے چلے جاؤ‘‘۔
اس قدر ناروا اور درشت گفتگو کے باوجود حضرت مصعبؓ بن عمیر نے بڑی نرمی سے فرمایا:
’’آپ تشریف تورکھیں اور ہماری بات سنیں ۔اگر کوئی بات معقول اور آپ کی مرضی کے مطابق ہو تو قبول کرلیجیے گا اور اگر ہماری بات آپ کو پسند نہ آئے تو ہم خود یہاں سے چلے جائیں گے‘‘۔
اسیدؓبن حضیر نے کہا:تم نے انصاف کی بات کی ہے۔اس کے بعد انہوں نے اپنا نیزہ زمین میں گاڑ دیا اور ان کی بات کو غور سے سننے لگے۔ چنانچہ حضرت مصعبؓ بن عمیر نے قرآن مجید کی چند آیات تلاوت کیں اور پھر اسلام کے عقائد ومحاسن کو اس خوبی کے ساتھ بیان فرمایا کہ تھوڑی ہی دیر میں اسید بن حضیر کا دل نورِ ایمان سے چمک اٹھا اور بے تاب ہوکر کہنے لگے! کیسا اچھا مذہب ہے اور کیسی بہتر ہدایت ہے۔ اس مذہب میں داخل ہونے کا کیا طریقہ ہے؟ حضرت مصعبؓ نے فرمایا:
’’غسل کیجیے،پاک صاف ہوجائیے، کپڑے بھی پاک صاف کرلیجیے اور اس کے بعد حق کی گواہی دیجیے اور نماز ادا کیجیے‘‘۔
چنانچہ اسیدؓ کھڑے ہوگئے، غسل کیا ،کپڑے پاک کیے،کلمہ توحید پڑھا اور پھر دو رکعت نماز پڑھ کر کہنے لگے میرے پیچھے ایک شخص ہے، اگر اس نے بھی تمہاری پیروی کرلی تو اس کے بعد اس کی قوم سے کوئی فرد اسلام سے باہر نہ رہے گا۔میں ابھی اس کو تمہارے پاس بھیجتا ہوں،وہ سعد بن معاذ ہے۔پھر اپنا نیزہ لیا اور سعد اور ان کی قوم کی جانب واپس گئے ۔ وہ لوگ اپنی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے ۔جب سعد بن معاذ نے انہیں آتے دیکھا تو کہا! میں اللہ کی قسم کھا تا ہوں کہ اسیدؓ جس حالت میں گیا تھا، اس سے بالکل جدا حالت میں واپس آرہا ہے۔جب وہ آکر مجلس میں کھڑے ہوگئے تو سعدنے پوچھا : تم نے کیاکیا؟ انہوں نے کہا: ان دونوں سے گفتگو کی۔واللہ مجھے ان دونوں سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا اور میں نے انہیں منع بھی کردیا ہے اور دونوں نے اقرار کیا ہے کہ جیسا تم پسند کرو، ہم ویسا ہی کریں گے۔البتہ مجھے خبر ملی ہے کہ بنی حارثہ ،اسعدؓ بن زرارہ کوقتل کرکے تمہیں ذلیل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ تمہارا خالہ زاد بھائی ہے۔چنانچہ سعد بن معاذ غصے سے بھرے ہوئے بڑی تیزی سے اٹھے کہ کہیں بنی حارثہ ان کوواقعتا قتل ہی نہ کردیں، پھر ان کے ہاتھ سے نیزہ لیا اور تیزی سے ان دونوں کی طرف گئے۔ سعد بن معاذ نے دیکھا کہ وہاں حالات بالکل ٹھیک ہیں تو وہ سمجھ گئے کہ اسیدؓنے یہ حیلہ فقط اس لیے کیا ہے تاکہ مجھے ان لوگوں کی باتیں سنوائی جائیں۔چنانچہ انہوں نے جاتے ہی ان کوگالیاں دینا شروع کردیں اور اسعدؓ بن زرارہ سے کہا:
’’اے ابوامامہؓ،سنو!اگر تمہارے اور میرے درمیان رشتہ داری نہ ہوتی تو تمہیں یہ جرأت قطعاً نہ ہوتی کہ تم ہمارے محلہ میں آکر ایسی باتیں کرتے جنہیں ہم ناپسند کرتے ہیں‘‘۔
حضرت مصعبؓ بن عمیرنے ان کی گفتگو اور گالی گلوچ کو بڑے تحمل کے ساتھ سنا اور بڑی نرمی سے کہا:کیا آپ تشریف رکھ کر ہماری کچھ بات بھی سنیں گے؟اگر کوئی بات آپ کی مرضی کے مطابق ہو اور آپ کو پسند آئے تو اسے قبول کرلیجیے گا اور اگر اسے ناپسند کریں تو ناپسندیدہ بات کو آپ سے دور کردیاجائے گا۔سعد بن معاذ نے کہا:تم نے انصاف کی بات کہی۔اس کے بعد اپنا نیزہ گاڑ کر ان کے پاس بیٹھ گئے۔ پھر حضرت مصعبؓ بن عمیرنے ان کے سامنے اسلام پیش کیا اور ان کو قرآن پڑھ کر سنایا اور اسلام کا نقشہ کچھ اس انداز میں پیش کیا کہ وہ فوراً ہی مسلمان ہوگئے اور جوش میں بھرے ہوئے اپنے قبیلہ اور قوم کی طرف آئے۔حضرت اسیدؓ بن حضیربھی ان کے ساتھ ہوگئے۔
جب ان کی قوم بنی عبدالا شہل نے انہیں آتے دیکھا تو کہنے لگے:اللہ کی قسم سعدؓ بن معاذبالکل مختلف انداز میں تمہاری طرف لوٹ رہے ہیں ۔جب وہ قوم کے پاس آکر کھڑے ہوگئے تو کہا: اے بنی عبدالاشہل!تم اپنے درمیان مجھے کیاسمجھتے ہو؟انہوں نے کہا،آپ ہمارے سردار ،ہم سب سے زیادہ خویش پرور،بہترین رائے والے اور بڑی عقل والے ہیں۔ انہوں نے کہا،تو تمہارے مردوں اور عورتوں سے بات کرنامجھ پر حرام ہے جب تک تم لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺپر ایمان نہ لاؤ اور پھر شام ہونے سے پہلے پہلے قبیلہ بنی عبدالاشہل نے حضرت سعدؓ بن معاذ کے زیرِ اثر اسلام قبول کرلیا۔ (۵۱)
حضرت مصعبؓ بن عمیرکا رسول اللہﷺ سے مسلسل رابطہ تھا اور آپؓ نبوی ہدایت کے مطابق ہی تبلیغِ دین کا فریضہ انجام دیتے تھے۔چنانچہ ایک دن ان کو رسول اللہ ﷺ کا خط موصول ہوا کہ وہ یہود کے ہفتہ وار اجتماع کے مقابلے میں جمعہ کے دن زوال کے بعد مسلمانوں کو جمع کریں اور ان کو دو رکعت نماز پڑھائیں:
امابعد! فانظر الیوم الذی تجھر فیہ الیھود بالزبور لسبتہم، فاجمعوا نساء کم وابناء کم فاذا مال النھار عن شطرہ عندالزوال من یوم الجمعۃ فتقرّبوا الی اللّٰہ برکعتین (۵۲)
حضرت مصعبؓ بن عمیر کو رسول اللہ ﷺ نے ۱۱ نبوی میں بیعتِ عقبہ اولیٰ کے بعد اہلِ مدینہ کے ہمراہ دعوت وتبلیغ کے لیے روانہ فرمایا۔حضرت مصعبؓ بن عمیرمدینہ میں کم وبیش ایک سال تک مقیم رہے اوراگلے سال ۱۲نبوی میں بیعتِ عقبہ ثانیہ کے موقع پر بہتّرانصار صحابہ کے ہمراہ مکہ واپس لوٹ آئے۔اس دوران آپؓ نے مدینہ میں دعوت وتبلیغ کاکام اتنے احسن انداز میں کیاکہ اوس وخزرج کے اکثر لوگوں نے اسلام قبول کرلیااور ہر طرف اسلام اور رسول اللہ ﷺ کا ذکر ہونے لگا۔مختصر وقت میں دعوت کے میدان میں اتنی بڑی اور اہم کامیابی کی بڑی وجہ وہ اسلوبِ دعوت ہے جس کی بنا پر آپ نے اہلِ مدینہ کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ذیل کی سطور میں آپؓکے اسلوبِ دعوت کے اہم نکات کا اختصار کے ساتھ ذکر کیاجارہاہے۔
۱۔حضرت مصعبؓ بن عمیر اسلام کی دعوت لے کر خود کوچہ کوچہ اور گلی گلی گئے اور یہ انتظار نہیں فرمایا کہ لوگ خود چل کر ان کے پاس آئیں بلکہ آپ ؓ مختلف محلوں میں تشریف لے جاتے اور لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچاتے۔
۲۔آپؓنے دعوت وتبلیغ کاکام محض اللہ ورسول ﷺ کی رضا کی خاطر کیا ۔آپؓ کے اس خلوص اور للہیت کی بنا پر بھی لوگ متاثر ہوکر حلقہ بگو ش اسلام ہوتے۔
۳۔ حضرت مصعبؓ بن عمیر کے طریق دعوت کی ایک اہم خصوصیت دعوت بالقرآن بھی ہے ۔جیسا کہ آپؓنے اسیدؓ بن حضیر او ر سعدؓ بن معاذکے سامنے قرآن کی تلاوت فرمائی تو دو نوں حضرات قرآن کی تعلیمات اور اس کے اسلوبِ بیان سے متاثر ہوکراسلام لے آئے۔اسیدؓ بن حضیرنے قرآن سنا تو بول اٹھے،کیسا اچھا مذہب ہے اور کیسی بہتر ہدایت ہے۔
۴۔ اگرمخاطب سے ایسے انداز میں بات کی جائے جو براہِ راست دل اور عقل کو متاثر کرنے والی ہو تو داعی کے لیے اپنا کام کرنا آسان ہوجاتا ہے ۔ جیسا کہ حضرت مصعبؓ بن عمیر نے اسیدؓ بن حضیراور سعدؓ بن معاذ کی دھمکیوں اور گالیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بڑی معقول اور متاثر کرنے والی بات کہی، یعنی ان سے فرمایا:آپ تشریف رکھیں اور ہماری بات سنیں، اگر کوئی بات معقول اور آپ کی پسند کے مطابق ہوتو قبول کرلیجیے گا اور اگر ہماری بات آپ کو پسند نہ آئے تو ہم خود یہاں سے چلے جائیں گے‘‘۔ آپؓنے اس انداز سے درحقیقت اپنے مخاطبین کی عقل اور دل کومتاثر کرنے میں کامیابی حاصل کرلی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کی عملی زندگی میں قوتِ محرکہ اس کا دل اور عقل ہی ہے ۔لہٰذا اگر داعی دل اور عقل کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوجائے تو وہ یقینی طور پر اپنے مخاطب کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرنے میں کامیاب ہوجاتاہے۔چنانچہ جب حضرت مصعبؓ بن عمیرنے یہ بات کہی تو دونوں سرداروں کا ایک ہی جواب تھا: ’’تم نے انصاف کی بات کہی ہے‘‘۔چنانچہ اس کے بعد دونوں وہاں سے اسلام قبول کرکے ہی اٹھے۔
۵۔ حضرت مصعبؓ بن عمیر نے دعوت وتبلیغ میں نرمی اور تحمل مزاجی کے اسلوب کو اختیار فرمایا جس کی بناء پر اسیدؓ بن حضیراور سعدؓ بن معاذ جیسے درشت مزاج لوگوں کو بھی حلقہ بگو ش اسلام کرنے میں کامیابی حاصل کرلی اور اس کے نتیجہ میں بالآخر سعدؓ بن معاذ نے اپنے پورے قبیلے کو بھی مسلمان بنا لیا۔
قبل از ہجرت مدینہ میں نقباء اور انصار صحابہ کرامؓ کی دعوتی سرگرمیاں
دعوت وتبلیغ کے حوالے سے مکی اور مدنی دور ایک دوسرے سے مربوط نظر آتے ہیں ۔مکی دور کے آخری ایام میں کفار مکہ کی طرف سے مخالفت اور عداوت اس قدر بڑھ گئی کہ اب آپﷺ اور آپ کے صحابہ کے لیے مکہ مکرمہ میں رہنا اور دعوت وتبلیغ کے کام کو جاری رکھنا ناممکن ہوگیا۔علاوہ ازیں تیرہ سالہ مکی دورسے حاصل شدہ کامیابیوں کوکسی منطقی انجام سے ہمکنار کرنے کے لیے اسلام کو ایک مرکز کی اشد ضرورت تھی جہاں مسلمان اسلام کو ایک ضابطۂ حیات کے طور پر اپنا سکیں۔
انصار میں اسلام کی ابتدا
اس کی بظاہر یہ صورت پیدا ہوئی کہ ۱۰ نبوی کے موسم حج میں جب رسول اللہﷺ مختلف قبیلوں کی خیمہ گاہوں پر دعوت وتبلیغ کی غرض سے تشریف لے جارہے تھے تو آپﷺ کا گزر یثر ب (مدینہ)سے آئے ہوئے بنوخزرج کے چھ خوش نصیب افراد پر بھی ہوا۔آپﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی، قرآن سنایا اور انہیں ایمان لانے کے فوائد سے آگاہ کیا۔ان لوگوں نے یثرب کے یہود سے نبی آخر الزماں ﷺکے متعلق سن رکھا تھا،اس لیے انہوں نے دیکھتے ہی آپﷺ کو پہچان لیا اور ایمان لے آئے۔اس وفد میں اسعدؓ بن زرارہ،عوفؓ بن الحارث،رافعؓبن مالک بن عجلان،قطبہؓبن عامر، عقبہؓ بن عامر اور جابرؓ بن عبداللہ بن رباب تھے۔ (۵۳)
قبولِ اسلام کے بعد ان لوگوں نے رسول اللہﷺ سے اس وعدہ کے ساتھ اجازت لی کہ اگلے سال پھر اسی موسم میں اسی مقام پرملیں گے،نیز آپ ﷺ کی دعوت کو آگے پہنچائیں گے۔ابنِ ہشام کا بیان ہے:
فلما قدموا المدینہ الی قومہم ذکروا لھم رسول اللّٰہ ﷺ ودعوہم الی الاسلام حتی فشا فیھم ،فلم یبق دار من دور الانصار الا وفیھا ذکر من رسول اللّٰہﷺ (۵۴)
’’جب یہ لوگ اپنی قوم کے پاس مدینہ پہنچے ،تو ان سے رسول اللہﷺ کا تذکرہ کیااور انہیں اسلام کی دعوت دی،یہاں تک کہ ان میں بھی اسلام پھیل گیا اور انصار کے گھروں میں سے کوئی گھر ایسا نہ رہا،جس میں رسول اللہ ﷺکا تذکرہ نہ ہورہا ہو‘‘۔
بیعتِ عقبہ اولیٰ (۱۱ نبوی)
آئندہ سال یہ لوگ حسبِ وعدہ مزید چھ افراد معاذؓ بن حارث بن رفاعہ،ذکوانؓ بن قیس ،عبادہؓ بن صامت،یزیدؓ بن ثعلبہ،عباسؓ بن فضلہ اور عویمؓ بن ساعدہ کے ساتھ آئے۔ رات کے وقت رسول اللہﷺ سے ملاقات کی اور آپﷺ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کی۔حضرت عبادہؓ بن صامت کا بیان ہے:
کنت فیمن حضرالعقبۃ الاولیٰ، وکنا اثنی عشر رجلا، فبایعنا رسول اللّٰہ ﷺ علی بیعۃ النساء علی ان لا نشرک باللہ شیئا ،ولا نسرق، ولانزنی، ولا نقتل اولادنا، ولا نأتی ببھتان نفتریہ بین ایدینا وارجلنا،ولا نعصیہ فی معروف، فان وفیتم فلکم الجنۃ، وان غشیتم من ذالک شیئا فأمرکم الی اللّٰہ ان شاء عذبکم وان شاء غفرلکم (۵۵)
’’میں ان لوگوں میں سے تھا جو بیعتِ عقبہ اولیٰ کے موقع پر حاضر تھے۔ ہم بارہ آدمی تھے۔ہم نے رسول اللہ ﷺ سے عورتوں جیسی بیعت کی، یہ کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے،چوری نہ کریں گے،زنا نہ کریں گے،اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گے، جھوٹا الزام نہیں لگائیں گے،اور آپ ﷺ کی نیکی کے کاموں میں مخالفت اور نافرمانی نہ کریں گے۔پھر آپﷺ نے فرمایا: اگر تم نے اس عہد کوپورا کیا تو تمہارے لیے جنت ہے اوراگر تم نے بددیانتی کی تو تمہارا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ چاہے تو تمہیں سزادے اور چاہے تو معاف فرما دے‘‘۔
ابنِ اسحاق کا بیان ہے کہ جب یہ لوگ وہاں سے واپس ہوئے تو رسول اللہﷺ نے ان کے ساتھ مصعبؓ بن عمیر کو بھیجا اور انہیں حکم دیا ’’ان لوگوں کو قرآن پڑھائیں،اسلام کی تعلیم دیں اور ان میں دین کی سمجھ پیدا کریں۔اسی لیے مصعبؓ بن عمیر کانام’’مقرئ المدینۃ‘ ‘پڑگیا تھا‘‘۔ (۵۶)
ابنِ قیم کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے مصعبؓ بن عمیر کے ساتھ ایک دوسرے صحابی حضرت عبداللہؓ بن ام مکتوم کو بھی بھیجا۔ یہ دونوں ابوامامہ اسعدؓ بن زرارہ کے ہاں ٹھہرے۔لوگوں کی کثیر تعداد نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ۔اسیدؓ بن حضیر اور سعدؓ بن معاذ بھی اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھے (۵۷) چنانچہ سعدؓ بن معاذ کے اثر سے بنی عبد الاشہل اور اسیدؓ بن حضیر کے اثر سے تمام قبیلہ اوس نے اسلام قبول کرلیا۔
حضرت براءؓ بن عازب کابیان ہے:
اول من قدم علینا مصعبؓ بن عمیر وابن ام مکتومؓ وکانوایقرؤن الناس۔ (۵۸)
’’سب سے اول جو ہمارے پاس آئے وہ مصعبؓ بن عمیر اور ابن ام مکتومؓ تھے۔ یہ دونوں لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیتے تھے‘‘
جب مدینہ میں اسلا م پوری طرح پھیل گیا تو حضرت مصعبؓ بن عمیر واپس مکہ تشریف لے آئے۔
بیعتِ عقبہ ثا نیہ (۱۲ نبوی)
اگلے سال بہتّرانصاری مسلمان موسم حج میں مکہ آئے اوررسول اللہﷺ سے بمقام عقبہ چھپ کر ملاقا ت کی۔آپﷺنے اس گروہ میں سے بارہ افرادکا بطو رنقیب انتخاب فرمایاجن کے نام خو د انصار نے پیش کیے تھے۔ان میں نو کا تعلق قبیلہ خزرج سے اور تین کا تعلق قبیلہ اوس سے تھا ۔ناموں کی تفصیل یہ ہے:قبیلہ خزرج سے اسعدؓ بن زرارہ، سعدؓ بن ربیع،عبداللہؓ بن رواحہ، رافعؓ بن مالک ،براءؓ بن معرور، عبداللہؓ بن عمرو بن حرام،عبادہؓ بن الصامت،سعدؓ بن عبادہ، المنذرؓ بن عمروبن خنیس۔ اور قبیلہ اوس سے اسیدؓ بن حضیر ،سعدؓ بن خثیمہ، رفاعہؓ بن عبدالمنذر1(۵۹)
رسول اللہ ﷺ نے نقباء کو مقرر کرتے وقت اپنے قبائل میں ان کے اثرورسوخ اور مقام ومرتبہ کو پیشِ نظر رکھا۔ اس کے علاوہ یہ افراد اپنے ذاتی خصائل اور تقدم ایمانی کی وجہ سے بھی یقینی طور پر اس ذمہ داری کے اہل تھے۔حضرت جابرؓ بن عبداللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیعت عقبہ ثانیہ میں انصار کے نمائندہ افراد سے یہ عہد لیا:
تبا یعونی علی السمع والطاعۃ فی النشاط والکسل ، وعلی النفقۃ فی العسر والیسر، و علی الامر بالمعروف والنھی عن المنکر، وعلی ان تقولوا فی اللّٰہ لا تأخذکم فیہ لومۃ لائم، وعلی ان تنصرونی اذا قدمت یثرب، فتمنعونی مما تمنعون منہ انفسکم وازواجکم وابنائکم ولکم الجنۃ۔ (۶۰)
’’تم چستی اور سستی ہرحال میں میری بات سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کرو،اور تنگی اور خوشحالی میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے پر ،اور نیکی کاحکم کرنے اور برائی سے منع کرنے پر،اور اس بات پر کہ حق بات کہنے میں کسی ملامت کرنے والے کی پروا نہ کروگے،اور اس بات پر کہ جب میں یثرب آؤں تو تم میری مدد کروگے اورتم میری ان تمام چیزوں سے حفاظت کرو گے جن سے تم اپنی جانوں، بیویوں اور اولا د کی حفاظت کرتے ہو۔ اس کے بدلے میں تمہارے لیے جنت ہے‘‘۔
رسول اللہ ﷺنے ان تمام پر حضرت اسعدؓ بن زرارہ کو، جو قبیلہ خزرج کی شاخ بنو نجار سے تھے،’’نقیب النقباء‘‘2 مقرر فرمایا۔ (۶۱)
جہاں تک ان نقباء کے فرائض کا تعلق ہے، رسول اللہﷺ نے بیعتِ عقبہ ثانیہ کے موقع پر نقیبوں کوان کے فرائض سے اس طرح آگاہ فرمایا:
انتم علی قومکم بما فیھم کفلاء ککفالۃ الحواریین لعیسیٰ بن مریم، وانا کفیل علی قومی ، قالوا: نعم (۶۲)
’’تم اپنی قوم کے معاملات کے اس طرح ذمہ دار ہو جس طرح عیسیٰ بن مریم کے حواری ذمہ دار تھے۔ اور میں بھی اپنی قوم کا ذمہ دار ہوں۔ لوگوں نے اقرار کیا کہ ٹھیک ہے‘‘۔
ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کے معاشرتی اور سیاسی معاملا ت کی ذمہ داریاں ان نقیبوں کو سونپی گئی تھیں۔لیکن سب سے اہم فریضہ جو یہ نقباء انجام دیتے تھے،وہ تربیت اورتہذیب نفس کافریضہ تھا۔یہ لوگ اپنے حلقہ اثر میں لوگوں کی اخلاقی تربیت اور تزکیۂ نفس کے لیے بھر پور جدوجہد کرتے تھے۔حضرت عبداللہؓ بن رواحہ،جو ان بارہ نقیبوں میں سے ہی ایک تھے، کی تربیتی مجلس مؤرخین کے ہاں ’’مجالس ایمان‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت ابو درداءؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہؓ بن رواحہ کے انداز تربیت کو کبھی نہیں بھول سکتا ۔وہ جب مجھ سے ملتے تو بہت شفقت کے ساتھ میرے شانہ پر ہاتھ رکھ کر فرماتے:
یا عویمرؓ! اجلس فلنؤمن ساعۃ فنذکراللّٰہ ماشاء ثم یقول :یا عویمرؓ! ھذہ مجالس الایمان (۶۳)
’’میرے عزیز عویمرؓ! آؤ تھوڑی دیر بیٹھ کر ایمان تازہ کریں،پس ہم اللہ کا ذکر کرتے پھر وہ فرماتے: اے عویمرؓ !یہ ایمان کی مجالس ہیں‘‘۔
حضرت اسعد بن زرارہ نے اپنے آپ کو دعوت وتبلیغ کے لیے وقف کردیا۔ انہوں نے مدینہ منورہ میں اشاعتِ اسلام اور دعوت وارشاد کاکام بڑی جدوجہد ،انتہائی خلوص اور جذبہ کے ساتھ کیا ،انہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ مدینہ منورہ میں اسلام بہت تیزی کے ساتھ پھیل گیا ۔ابن ہشام کی روایت ہے کہ مدینہ میں جمعہ کا اہتمام بھی انہیں کے زیرنگرانی تھا اور وہی اس کے بانیوں میں سے تھے۔ (۶۴)
رافعؓ بن مالک بن عجلان بیعتِ عقبہ اولیٰ وثانیہ میں شامل تھے ۔یہ ہجرت کرکے رسول اللہﷺ کے پاس مکہ ہی میں رہتے تھے یہ پہلے شخص تھے جو مدینہ میں سورہ یوسف لے کر آئے۔ جب سورہ طہٰ نازل ہوئی تو انہوں نے اس سورت کو لکھااور مدینہ لے آئے اور پھر بنی زریق کو اس کی تعلیم دی۔ (۶۵)
ابنِ اثیر انصار کی ہمہ گیر اور بھر پور دعوتی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فلما قدموا المدینۃ ذکروا لقومہم الاسلام ودعوہم الیہ ففشا فیہم فلم تبق دار من دورالانصار الا وفیھا ذکر من رسول اللّٰہﷺ۔ (۶۶)
’’جب وہ واپس مدینہ پلٹے تو اپنی قوم سے اسلام کا تذکرہ کیا اور ان کو اسلام کی طرف بلایاپس ان میں اسلام اس طرح پھیل گیا کہ انصار کے گھرانوں میں سے کوئی ایسا گھر نہ تھا جس میں رسول اللہ ﷺکاذکر خیر نہ ہو‘‘۔
بیعتِ عقبہ سے پلٹنے والے انصارِ مدینہ نے دعوت کے کام کو بڑی عمدگی سے انجام دیا چنانچہ ان کی ہمہ گیر کوششوں کاہی یہ نتیجہ تھا کہ بہت جلد مدینہ کے ہر گھر میں رسول اللہﷺ کا ذکرِ خیر ہونے لگا۔ نقباء انصار اور دیگر مسلمانوں نے بھی فروغِ دعوت میں بھرپور حصہ لیا۔لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لیے حالات کے مطابق مختلف اسالیب دعوت اختیار کیے۔
ابن ہشام نے حضرت معاذؓبن عمرو،جو کہ خودبیعتِ عقبہ میں شامل تھے ،کی دعوتی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ ذکر کیاہے۔ حضرت معاذؓ بن عمرو کے والد عمرو بن الجموح بنو سلمہ کے سردار تھے اور بت پرستی کے مرض میں مبتلا تھے۔عرب میں چونکہ شرک کااصلی مظہر بت ہی تھے، اس لیے صحابہ کرامؓنے قبولِ اسلام کے بعد سب سے پہلے راہِ توحید سے اسی سنگ گراں کو دور کیا۔
عرب میں دستور تھا کہ سردارانِ قبائل خاص اپنے لیے بت بناتے تھے اور ان کو گھروں میں رکھتے تھے چنانچہ اسی روایت کے مطابق عمرو بن الجموح نے لکڑی کاایک بت بنواکر گھر میں رکھا ہواتھا۔جب نوجوانانِ بنو سلمہ یعنی حضرت معاذؓبن جبل اورمعاذؓ بن عمروبن الجموح نے اسلام قبو ل کیا تو ان دونوں حضرات نے فیصلہ کیا کہ ایسا اندازاختیار کیاجائے کہ نہ صرف عمروؓ بن الجموح بلکہ تمام لوگوں پر بتوں کی بے بسی اور کمزوری عیاں ہوجائے۔ چنانچہ یہ لوگ را ت کے وقت خفیہ طو رپر آئے اور اس بت کواٹھا کر بنی سلمہ کے ایسے گڑھے میں پھینک آئے جس میں لوگ گندگی وغیرہ پھینکتے تھے۔ عمرو بن الجموح صبح اٹھے،بت کو وہاں نہ پایا تو اس کی تلاش میں نکلے۔ اسے گندگی کے ایک ڈھیر پر پایا تو دھوکراور پاک صاف کرکے خوشبو لگاکر یہ کہتے ہوئے اس کو اسی جگہ پررکھ دیا کہ واللہ! اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کس نے تجھ سے ایسا کیا ہے تو میں اسے ضرور ذلیل کروں گا۔جب رات کااندھیرا چھاگیا تو ان پرجوش نوجوانوں نے بت کے ساتھ وہی سلوک دوبارہ کیا۔اسی طرح جب یہ واقعہ پے درپے ہوا تو ایک دن عمرو بن الجموح نے بت کے گلے میں تلوار لٹکادی اور کہا: واللہ! میں نہیں جانتا کہ کون تجھ سے یہ معاملہ کررہا ہے اور تو بھی اسے دیکھ رہا ہے،اگر تجھ میں طاقت ہے تو خو د اپنی حفاظت کرلے ۔یہ تلوار بھی تیرے ساتھ ہے۔
رات کو یہ لوگ حسبِ معمول آئے اور بت کو تلوار سمیت ایک مردہ کتے کے ساتھ باندھ کر گندگی کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ صبح عمرو بن الجموح نے بت کو اس بری حالت میں دیکھا،اور ان کی قوم کے وہ لوگ جو مسلمان ہوچکے تھے، انہوں نے بھی ان کو سمجھایا،ان پرحقیقت آشکاراہوگئی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سبب انہوں نے اسلام قبو ل کرلیا۔ (۶۷) پھر بت کی بے بسی پر اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اظہارِتشکر کے طور پر چند اشعار کہے جن کو ابنِ ہشام نے نقل کیاہے۔3
حوالہ جات
(۴۷) الوثائق السیاسیۃ،ص:۱۰
(۴۸) ابن ہشام،العقبۃ الاولیٰ ومصعبؓ بن عمیر۲/۴۷۔۴۸
(۴۹) آرنلڈ،ٹی،ڈبلیو، ’’دعوتِ اسلام‘‘،ص:۲۷،محکمہ اوقاف،حکومتِ پنجاب،لاہور،۱۹۷۲ء
(۵۰) یٰسین مظہر صدیقی،پروفیسر،’’عہد نبوی کانظامِ حکومت‘‘ص:۹۴،الفیصل ناشران وتاجرانِ کتب اردو بازار
لاہور،۱۹۹۵ء
(۵۱) ابنِ ہشام،اول جمعۃ اقیمت بالمدینۃ، ۲/۴۹۔۵۰ اسد الغابہ،تذکرہ مصعبؓ بن عمیر،۴/۳۶۹
(۵۲) السہیلی،ابوالقاسم عبدالرحمن بن عبداللہ’’الروض الانف‘‘ فصل فی تجمیع اصحاب رسول اللہ ﷺ الجمعۃ...۱/۲۷۰
(۵۳) ابن ہشام،بد أ اسلام الانصار، ۲/۴۲۔۴۳ زاد المعاد ،۳/۴۵
(۵۴) ابنِ ہشام،بدأاسلام الانصار، ۲/۴۴
(۵۵) المسند ،حدیث عبادہؓ بن صامت،ح:۲۲۲۴۸،۶/۴۴۱ ایضاً........ح:۲۲۱۹۴،۶/۴۳۱۔۴۳۲
(۵۶) ابن ہشام،العقبۃ الاولیٰ ومصعبؓ بن عمیر،۲/۴۸
(۵۷) زاد المعاد، ۳/۴۷ اسد الغابہ،تذکرہ مصعبؓ بن عمیر،۴/۳۶۹
(۵۸) صحیح بخاری ، کتاب مناقب الانصار،باب مقد م النبی واصحا بہ المدینۃ ،ح:۳۹۲۵،ص:۶۶۲
ایضاً،کتاب التفسیر،سورۃ سبح اسم ربک الاعلیٰ،ح:۴۹۴۱، ص:۸۸۲۔
المسند،حدیث البراءؓ بن عازب، ح:۱۸۰۴۱، ۵/۳۶۰
(۵۹) ابن ہشام،امر العقبۃالثانیۃ،۲/۵۶۔۵۷
(۶۰) المسند ،مسند جابرؓ بن عبداللہ ، ح :۱۴۲۴۳، ۴/۹۲۷
(۶۱) ابنِ سعد ،ذکر النقباء الاثنی عشر رجلاً....۳/۶۰۳
(۶۲) البدایہ ، ۳/ ۱۶۲۔ ابن سعد ،ذکر العقبۃ الاخرۃ، ۱/۲۲۳
(۶۳) اسد الغابہ ، تذکرہ عبداللہؓ بن رواحہ ، ۳/ ۱۵۷
(۶۴) ابن ہشام ، اول جمعہ اقیمت بالمدینۃ ، ۲/۴۸
(۶۵) اسد الغابہ ، تذکرہ رافعؓ بن مالک بن عجلان ، ۲/ ۱۵۷
(۶۶) اسد الغابہ ، تذکرہ رافعؓ بن مالک بن عجلان ، ۲/ ۱۵۷۔ زادالمعاد،۳/۴۵
(۶۷) ابن ہشام ، قصہ عمروؓ بن الجموح ، ۲/ ۶۵۔ ۶۶
حواشی
- ابنِ سعدکی روایت میں رفاعہؓ بن عبدالمنذر کے بجائے ابوالہیثمؓ بن تیہان کا نام ملتا ہے۔ (ابنِ سعد ،ذکر العقبۃ الاولیٰ، ۱/۲۲۰)
- صاحب تاج العروس نے نقیب کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :
’’النقیب
شاھد القوم و راس ھم یفتش احوالھم و یعرفھا۔۔۔۔۔۔وقیل النقیب الرئیس
الاکبر‘‘ ( الزبیدی ،محمد بن محمد الحسینی ،’’تاج العروس‘‘ ، فصل النون من
الباب الباء ، ’’نقب ‘‘ ۱/ ۴۹۲،دارالفکر، بیروت)
’’نقیب قوم کا
شاہد و سردار ہوتاہے ۔اس لیے وہ قوم کے حالات کی چھان بین کرتاہے اور ان کے
حالات سے حکومت کو با خبر رکھتاہے ۔۔۔۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نقیب بڑا
سردار ہو تا ہے۔‘‘
نقیب کی مزید وضاحت کرتے ہو ئے لکھتے ہیں :
’’وانما قیل للنقیب نقیب لا نہ یعلم دخلےۃ امر القوم ویعرف منا قبھم و ھو الطریق الی معرفۃ امور ھم‘‘ (ایضاً)
’’نقیب
کو نقیب اس لیے کہا جاتاہے کیونکہ وہ قوم کے اندرونی حالات سے آگاہ
ہوتاہے۔ ان کی خوبیوں اور صلاحیتوں سے (حکومت ) کو متعارف کراتاہے اور
قوموں کے حالات کو سمجھنے کا یہی طریقہ ہے ‘‘
نقباء کا ذکر ہمیں
سابقہ اقوام میں بھی ملتاہے ۔قرآن حکیم نے بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ کے
عہدمیں نقیبوں کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ لَقَدْ اَخَذَ اللّٰہُ مِےْثَاقَ بَنِیٓ اِسْرَآءِیْلَ وَ بَعَثْنَا مِنْھُمُ اثْنَیْ عَشَرَنَقِےْبًا ( المائدہ ، ۵:۱۲)
’’اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے ان میں بارہ نقیب مقرر کیے ‘‘
واللّٰہ لو کنت الٰھا لم تکن
انت و کلب وسط بئر فی قرن
اف لملقاک الٰھا مستدن
الاٰن فتشناک عن سوء الغبن
الحمد للّٰہ العلی ذی المنن
الواھب الرزاق دیان الدین
ھوالذی انقذنی من قبل ان
اکون فی ظلمۃ قبر مرتھن
’’اللہ
کی قسم تو معبود ہو تا تو ایک گڑھے میں کتے کے ساتھ نہ پڑا رہتا ۔ باوجود
معبود ہونے کے تیرے اس طرح پڑے رہنے پر تف ہے اب تیر ے متعلق رائے کی
بدترین غلطی آشکاراہو گئی ہے ۔ ساری تعریف تو اللہ کے لیے ہے جو احسانات
والا ، صاحب عطا،روزی دینے والا اور دین داروں کو جز اء دینے والا ہے ۔ وہی
ذات ہے جس نے قبر کے اندھیرے میں پھنسنے سے پہلے ہی مجھے (کفرو شرک سے)بچا
لیا ۔‘‘ (ابن ہشام ،قصہ عمروؓ بن الجموح ۲/ ۶۶۔۶۷)
(جاری)
دینی مدارس میں اصلاح کی مساعی: اصل توجہ طلب پہلو
حبیب الرحمن اعظمی
مدارس اسلامیہ کے ذریعہ برصغیر بالخصوص ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کی بقا وترقی کا جو محیر العقول کام ماضی قریب میں انجام پایا، وہ تاریخ کا ایک حیرت انگیز باب ہے۔ عالم اسباب میں اس کی صورت یہ ہوئی کہ ان مدارس نے مسلسل ملت اسلامیہ کو ایسے افراد اور رجال کار عطا کیے جو اپنی اپنی جگہ ایک ایک امت سے کم نہ تھے۔ ان نابغہ روزگار علما نے زندگی کے ہر میدان میں بھرپور کارگزاری کا مظاہرہ کیا، اخلاص وایثار کے ساتھ مسلمانوں کی دینی، ملی، سیاسی اور سماجی ضرورتوں کو پورا کیا اور پچھلی صدی کے زبردست سیاسی وتہذیبی طوفان کے درمیان سے برصغیر کے مسلمانوں کا سفینہ پوری احتیاط اور دانش مندی سے نکال کر لے گئے۔ فجزاہم اللہ عنا وعن سائر المسلمین
مسلمانوں کے مردم ساز اداروں کی اس تاریخی خدمت کو جس قدر بھی خراج تحسین پیش کیا جائے، ]کم ہے[ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عرصہ دراز سے مردم سازی کا یہ کام توقع کے مطابق پورا نہیں ہو رہا ہے اور امت مدارس کی کثرت کے باوجود ان دینی وملی فوائد سے بڑی حد تک محروم ہے جو اس کو ماضی میں مدارس کی قلت کے باوصف مہیا رہے ہیں۔ ملت کے ہوش مند اس غم ناک صورت حال سے تشویش محسوس کر رہے ہیں اور اپنے اپنے نقطہ نظر سے ان خامیوں اور کمزوریوں پر غور اور ان کی تلافی کی راہیں تلاش کر رہے ہیں جن کے سبب یہ سانحہ پیش آ رہا ہے۔
ایک نقطہ نظر کا حاصل یہ ہے کہ نصاب تعلیم ان ضرورتوں کو پورا نہیں کر رہا ہے جنہیں عصر حاضر اپنے جلو میں لے کر آیا ہے اور اس سے وہ ذہن سازی نہیں ہو پاتی جو عصر حاضر کے چیلنج کا جواب بن سکے اس لیے اس نقطہ نظر والوں کی تمام ذہنی توانائیاں نصاب تعلیم میں ترمیم وتبدیل، حذف واضافہ پر صرف ہو رہی ہیں۔
کوئی کہتا ہے کہ اساتذہ میں جوہر علم منتقل کرنے کی وہ صلاحیت باقی نہیں ہے جو ماضی میں موجود تھی۔ ان میں کردار کا وہ مقناطیس نہیں جو افراد کو اپنی طرف جذب کر لے۔ ان کے دلوں میں حسن نیت اور اخلاص کی وہ لو نہیں ہے جس سے دوسرا چراغ روشن ہو سکے۔
کسی کے نزدیک اس صورت حال کا سرچشمہ خود طلبہ کی کمزوریاں ہیں۔ ان میں طلب صادق نہیں جو منزل کی رہنمائی کے لیے ضروری ہے۔ وہ ذوق تشنگی نایاب ہے جو آب حیات کی طرح گامزن کر دے۔ وہ جذبہ اخلاص نہیں جو علم کی خاطر شمع کی طرح پگھلنے کی کیفیت پیدا کرتا رہے۔
ایک جماعت کے نقطہ نظر کے مطابق اس صورت حال کی ذمہ داری مدارس اسلامیہ کے ماحول پر عائد ہوتی ہے کہ مدارس میں وہ ماحول باقی نہیں رہا جو خوش گوار موسم کی طرح غنچوں میں زندگی اور شادابی کی روح پھونکتا رہتا ہے اور بہاریں خود سمٹ کر ان کا جزو حیات بن جایا کرتی تھیں۔
یہ تمام اسباب وعوامل یقیناًکسی نہ کسی درجہ میں موجود ہیں جن سے انکار کی گنجائش نہیں ہے لیکن اسی کے ساتھ واقعہ یہ ہے کہ یہ مرض کی صحیح ومکمل تشخیص نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ کردار اور شخصیت سازی کی وہ سعی ومحنت باقی نہیں رہی جو حضرات اکابر کا طرۂ امتیاز رہی ہے۔ موجودہ انحطاط کی سب سے بڑی وجہ ہی یہ ہے کہ افراد سازی کی مہم سے غفلت برتی جا رہی ہے۔ عرصہ دراز سے فضلاء مدارس کو ان کی صلاحیت وحیثیت کے مطابق مشغلے نہیں دیے جا رہے ہیں بلکہ ہر نوعمر فاضل کو خلاء بسیط میں اس طرح آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے جس کو کنٹرول کرنے والی کوئی طاقت موجود نہیں ہوتی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خلا میں گردش کرتا ہوا کسی ایسی سمت نکل جاتا ہے جہاں اس کی تمام علمی وفکری توانائیاں ضائع ہو جاتی ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ حضرات اکابر ہر سال کے فضلا پر گہری نظر رکھتے تھے اور ان کو حسب صلاحیت تدریسی، تصنیفی، ملی اور سماجی خدمات پر مامور فرما دیتے تھے۔ اس طرح صالح اور کارآمد عناصر کی تربیت کا کام انجام پاتا رہتا تھا۔ حضرت شیخ الہند اور حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی رحمہما اللہ کے طریق تربیت کو اس کی نظیر میں پیش کیا جا سکتا ہے کہ ان دونوں بزرگوں نے کس کس طرح افراد کی تربیت کی اور فضلا کی صلاحیتوں کو صحیح سمت دینے کے لیے کس طرح ان پر نظر رکھی۔
اب صورت حال یہ ہے کہ مدارس دینیہ کی سرزمین پر جو نہال تازہ لگتا ہے، یا تو جامعہ طبیہ وغیرہ میں اس کا قلم لگا دیا جاتا ہے یا معاشی استحکام کی طمع اس کو ہندوستان کے عصری اداروں اور عرب کے جامعات وغیرہ میں کھینچ لے جاتی ہے اور ہمارے یہاں پیدا ہونے والا ایک ایک جوہر قابل اپنی صلاحیتوں کو دوسرے میدانوں میں منتقل کر دیتا ہے اور ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔
بہتر ہوگا کہ مدارس کے ذمہ دار اکابر ماضی کے صرف بیس سال کا تفصیلی چارٹ تیار کرائیں اور یہ دیکھیں کہ مدارس سے نکلنے والے جم غفیر میں جوہر قابل کتنے تھے؟ پھر یہ کہ ان میں کتنے فضلا جامعہ طبیہ کی نذر ہو گئے، کتنوں نے اپنا سفینہ جدید تعلیم کے طوفان میں ڈال دیا اور کتنے عرب جامعات وغیرہ کی طرف پرواز کر گئے اور کتنے ایسے ہیں جو ہندوستان کے مسلمانوں کی علمی، دینی، ملی خدمت کا کام انجام دے رہے ہیں؟ پھر یہ کہ جو خدمت بخت واتفاق سے ان کے سپرد ہو گئی ہے، کیا وہ ان کی صلاحیتوں کا صحیح استعمال ہے؟ نیز ہندوستان کے مسلمانوں کی خدمت میں مصروف فضلا واقعتا یہ کام خدمت سمجھ کر انجام دے رہے ہیں یا ایسی مجبوریاں آ گئیں کہ وہ زندگی کا رخ اور نہج تبدیل نہ کر سکے؟
ہمیں یقین ہے کہ اس طویل مدت میں معدودے چند فضلا ہی امت کے ہاتھ آئے ہوں گے اور وہ بھی ایسی جگہوں پر اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر رہے ہوں گے جو ان کے لیے موزوں نہیں۔ بس یہی ایک سب سے بڑی وجہ ہے کہ امت ان مدارس کے صحیح فائدے سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔
اس اندوہ ناک صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مردم سازی کی مہم بڑے اہتمام سے شروع کر دی جائے۔ مدارس دینیہ سے فارغ ہونے والے باصلاحیت نوجوانوں کا انتخاب، پھر ان کی صلاحیت کے مطابق کاموں کی تفویض اور نگرانی ہی دراصل اس صورت حال کو ختم کر سکتی ہے، ورنہ اگر نصاب تعلیم، اساتذہ اور طلبہ کی خامیاں اور مدارس کا ماحول ہی پیش نظر رہا اور اصلاح کا سارا زور بس اسی جانب صرف کیا جاتا رہا تو اس سے صورت حال میں کسی خاطر خواہ بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ کتنا اچھا ہو کہ مدارس کے ذمہ دار بالخصوص بڑے مدارس کے ارباب حل وعقد اس طرف توجہ دیں اور امت کے اجڑے ہوئے گلستاں میں پھر وہی بہاریں خیمہ زن ہو جائیں جن کی کمی محسوس کی جا رہی ہے۔
(بشکریہ ماہنامہ ’’دار العلوم‘‘ دیوبند)
خواب جو بکھر گیا! ’طالبان‘ کی شکست کے اسباب وعوامل کا ایک جائزہ
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی
اس دنیا میں کامیابی اور ناکامی کے اصول وقوانین ہر کسی کے لیے یکساں ہیں۔ مومنین کو کامیابی حاصل کرنا ہو، تب اور غیر مومنین اس کے خواہاں ہوں، تب۔ دونوں کو انہیں قواعد کی راہ سے گزرنا ہوگا جو اس عالم کے خالق نے متعین فرما دیے ہیں اور تجربات کی روشنی میں وہ ہر دانا وبینا پر واضح ہو چکے ہیں۔ خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی بعثت اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس ارادے اور اعلان کے ساتھ ہوئی کہ آپ کے ذریعہ دین حق کا بول بالا دنیا میں کیا جائے گا اور کفار ومشرکین خواہ کتنا ہی زور مخالفت میں لگائیں، اللہ کا یہ ارادہ پورا ہی ہو کر رہے گا۔ (ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون ۔ سورۃ الصف) لیکن سیرت طیبہ کا مطالعہ صاف طور پر بتاتا ہے کہ حضرت حق کا یہ مبارک ارادہ بھی ان تمام اسبابی مراحل سے گزر کر ہی تکمیل کو پہنچا جو اسبابی مراحل اس دنیا میں انجام پانے والے کاموں کی تقدیر بنا دیے گئے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی حیات طیبہ کے وہ ۲۳ سال جو اس مشن کے لیے جدوجہد میں صرف ہوئے، ان میں جو مشقتوں اور آزمائشوں کا ایک سلسلہ ہے جس کا تار کہیں ٹوٹتا نظر نہیں آتا، وہ نتیجہ دنیا کے اسی اسبابی قانون ہی کا تو تھا ورنہ کام اللہ تعالیٰ کا اپنا تھا اور وہ جو چاہتے، سب اختیار میں تھا۔
کفر واسلام کی اس کشمکش کے سلسلے میں اہل ایمان کا ذہن اس بے لاگ قانون وسنت الٰہی کی بابت بالکل صاف رکھنے کے لیے غزوۂ احد کے موقع پر جبکہ مسلمان ایک ناگہانی آفت شکست سے دوچار ہو گئے تھے، اس قانون کی یاد دہانی کراتے ہوئے فرمایا گیا تھا کہ اس باب میں تم میں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔ وتلک الایام نداولہا بین الناس (یہ ہار جیت کی باری ان چیزوں میں سے ہے جس کی ہم لوگوں کے بیچ لوٹ پھیر کرتے رہتے ہیں۔ آل عمران ۳: ۱۴۰) یعنی اپنے ایمانی امتیاز کے باوجود تم بھی اسی طرح منجملہ ’’الناس‘‘ ہو جیسے تمہارے مقابل۔ اور ’’الناس‘‘ کے لیے ہمارا قانون عام یہی ہے۔ ہاں آخرت کے اعتبار سے بھرپور فرق ہے کہ ترجون من اللہ ما لا یرجون (تمہیں اس چیز کی امیدواری کا حق ہے جس کے وہ (دوسرے لوگ) امیدوار نہیں ہو سکتے۔ النساء ۴:۱۰۴)
علاوہ اس کے کہ یہ قانون وسنت الٰہی ہے ہی عام، اس میں اگر اہل اسلام کے لیے کوئی استثنائی صورت پیدا کر دی جاتی اور کلمہ اسلام کا غلبہ معجزانہ طور پر ہوتا تو پھر ایمان لانے والوں کا ایمان پوری طرح ایمان بالغیب کہاں رہتا؟ جب کہ ایمان کی تو جان ہی وہ ہے! بالفاظ دیگر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہرگز نہیں چاہا کہ لوگ آزادانہ اختیار کے بجائے کسی دباؤ میں ایمان لاویں ورنہ وہ فرماتے ہیں کہ ان نشا ننزل علیہم من السماء آیۃ فظلت اعناقہم لہا خاضعین (ہمارے لیے تو ذرا بھی مشکل نہ تھا کہ آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتار دیں کہ اس کے آگے ان کی گردنیں جھکی ہی رہ جائیں۔ الشعراء ۲۶: ۴) سورہ شعراء کی یہ آیت آنحضرت ﷺ کو بایں الفاظ خطاب کرتے ہوئے نازل ہوئی ہے کہ لعلک باخع نفسک ان لا یکونوا مومنین (لگتا ہے کہ تم اس غم میں جان ہی دے ڈالو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے! ۲۶: ۳) نیز ایک اور بھی ایسی ہی بڑی مصلحت استثنائی صورت پیدا نہ کرنے میں یہ تھی کہ یہ پودا پھر آپ کے بعد (معاذ اللہ) زیادہ دن تک ہرا نہیں رہ سکتا تھا اس لیے کہ ساتھیوں کی کوئی تربیت ہی اس کی خاطر جدوجہد کی نہ ہو سکی ہوتی۔ اسی کو سورۂ محمد میں کفار کی چیرہ دستیوں کے مقابلے میں جنگ آزمائی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا ولو یشاء اللہ لانتصر منہم ولکن لیبلو بعضکم ببعض (اللہ اگر چاہتا تو خود ہی ان سے انتقام لے لیتا، لیکن (اس کے بجائے تمہیں نپٹنے کا یہ حکم اس لیے دیا) تاکہ ایک کو دوسرے سے آزمائے۔ آیت ۵) پس اس قانون عام کے تحت ہر قسم کی جدوجہد لازم ہونے سے اصحاب کرام کے دلوں میں دین نے وہ جڑ پکڑی کہ نظام عالم بدل ڈالا اور زمانے میں اسی جدوجہد کے لیے جذبے کی امنگ قیامت تک کے لیے چھوڑ گئے۔ رضی اللہ عنہم
الغرض، اس دنیا میں مقاصد کی کام یابی کے لیے جو عام اصول وقانون ہیں، وہ سب کے لیے یکساں ہیں اور ان اصول وقوانین میں صرف محنت ومشقت اور جانبازی وجاں سپاری ہی نہیں، حالات او ر ماحول کا مطالعہ بھی ہے۔ ان کے ناموافق عنصر کو اپنے حق میں ڈھالنے یا ان کے بیچ میں سے اپنی راہ نکالنے کے لیے حکمت وتدبر بھی ہے اور ناگزیر صورتوں میں سمجھوتہ بھی۔ آنحضرت ﷺ کی سیرت پاک میں ہمیں ان سب چیزوں کی مثالیں ملتی ہیں۔ دعوت حق کی راہ میں شبانہ روز جدوجہد اور مخالفتوں اور اذیتوں کا تحمل، یہ تو تیرہ سالہ مکی زندگی کی وہ مسلسل کہانی ہے جس سے ہر دین آشنا مسلمان کم وبیش واقف ہے۔ البتہ اس دردناک کہانی کا ایک پہلو ایسا ضرور ہے کہ کم ہی ذکر میں آتا ہے۔ مناسب ہے کہ اس کی طرف اشارہ یہاں ہی کر دیا جائے۔ یہ وہ پہلو ہے جو طائف کی الم ناک کہانی کے بعد سامنے آتا ہے۔ طائف کی طرف آپ نے اس وقت رخ کیا تھا جب چچا ابو طالب انتقال فرما گئے اور مکہ والوں کے لیے کوئی روک اب آپ پر دست درازی سے نہ رہی۔ پر طائف کی سیہ بختی نے آپ کو لہولہان کر کے مکہ ہی میں لوٹ جانے پر مجبور کیا۔ یہاں سے آنحضرت ﷺ کا سارا زور حج کے لیے آنے والے عرب قبائل کی طرف متوجہ ہوا۔ آپ ایک ایک کے خیمے پر تشریف لے جاتے، دین حق کی دعوت پیش کرتے اور اس کے قبول میں ظاہر ہے بڑا پس وپیش سامنے آتا ہوگا۔ تب آپ صرف اس بات کے بھی طالب ہوتے کہ کوئی قبیلہ آپ کو اسی طرح کی اپنی حفاظت میں اپنے ساتھ لے جائے جیسی حفاظت آپ کو خواجہ ابو طالب کی سرپرستی میں حاصل تھی تاکہ آپ دعوت کا کام کر سکیں۔ اللہ اکبر! اللہ کا محبوب نبی اللہ کے دین کی دعوت جاری رکھ سکنے کے لیے بالکل اسی طرح غیر اللہ کی حفاظت کا طلبگار بنایا جا رہا ہے جیسے کسی دنیوی مشن کے لیے صاحب مشن کو اگر ضرورت ہوگی تو وہ یہ کرے گا۔ لیکن حضور رسالت مآب سے اگر یہ عملی نمونہ قائم نہ کرایا گیا ہوتا تو بعد والوں کو دین کے لیے ذات کو مٹانے کا حوصلہ کہاں سے ملتا؟ اللہم صل علی عبدک ونبیک صلوۃ وسلاما دائمین متلازمین الی یوم الدین۔
مکہ کے اس تیرہ سالہ دور کے بعد مدنی زندگی آئی اور کفار مکہ کے سراپا ظلم وجبر کے ماحول سے نجات پا کر آزادی کی فضا میں سانس لینا میسر آیا تو یہاں اس آزادی کے تحفظ کے لیے جہاں تلوار اٹھانا ناگزیر ہوا، وہاں حکمت وتدبر کے تقاضوں سے وہ تمام سیاسی اقدامات بھی ہوئے جو اس دنیا میں مخالفوں سے نپٹنے اور مخالفتوں کو توڑنے کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے یہود مدینہ سے یکجہتی کا معاہدہ کیا۔ پھر ایک وقت آیا تو مشرکین مکہ کے ساتھ صلح حدیبیہ کی وہ دستاویز لکھی گئی کہ ایک سیدنا ابوبکر صدیق کے علاوہ کسی مسلمان کے حلق سے نہیں اتر رہی تھی۔ صلح کی اکثر شرطیں وہ تھیں جن میں کفار کا ہاتھ اوپر اور مسلمانوں کا نیچے نظر آتا تھا مثلاً مسلمان جو کہ عمرہ کی نیت سے گئے تھے اور چھ برس سے اس کے لیے ترسے ہوئے تھے، انہیں بغیر عمرہ کیے عین مکہ کی اس سرحد سے واپس جانا تھا۔ مکہ میں جو مظلوم مسلمان اپنے کافر خاندان کے ہاتھوں میں قید پڑے تھے، وہ اگر کسی طرح موقع پا کر مدینہ کو نکل جائیں تو مکہ والوں کے مطالبے پرانہیں واپس کیے جانے کی بھی شرط تھی جبکہ مدینہ سے خدا نخواستہ کوئی مرتد ہو کر یا مزید کوئی اور جرم بھی کر کے مکہ کو بھاگ آئے تو اس کی واپسی کے مطالبے کا حق مسلمانوں کے لیے نہیں تھا۔ اور آخری درجہ کی بات یہ کہ ابھی دستاویز لکھی ہی جا رہی تھی یعنی معاہدہ ابھی ہو انہیں تھا کہ ایک نوجوان مظلوم مسلمان کسی طرح اپنی ہتھکڑیوں بیڑیوں میں گرتا پڑتا حدیبیہ میں آپہنچا کہ مسلمان اسے اس عذاب سے نجات دلا دیں۔ موقع پر مسلمان اس پوزیشن میں تھے کہ نوجوان کو اپنی حفاظت میں لے سکتے تھے مگر فریق ثانی بضد ہوا کہ اسے آپ اپنی تحویل میں نہیں لے سکتے ہیں ورنہ معاہدہ نہیں ہوگا۔ یہ قطعی بے جا ضد بھی قبول کی گئی تاکہ معاہدے کی تکمیل میں رکاوٹ نہ پڑے حالانکہ وہ نوجوان فریاد کرتا تھا کہ ہائے یہ کیا ستم ہے، مجھے ان بھیڑیوں کے ہاتھ میں واپس دیا جا رہا ہے۔ یہ اس قدر دب کر کی جانے والی مصالحت اگر نتیجے کے اعتبار سے ’فتح مبین‘ ثابت ہوئی، جیسا کہ قرآن پاک نے مسلمانوں کی بے چینی اور بد دلی کو دور کرنے کے لیے فوراً ہی اس کے ’’فتح مبین‘‘ ہونے کا مژدہ سنا دیا تھا، مگر ظاہری طور پر تو یہ ویسی ہی دب کر کی جانے والی صلح تھی جیسی نظر آ رہی تھی۔ البتہ ہوش وخرد کی زبان میں ایک سیاسی دور اندیشی اور تدبر کے ماتحت اختیار کی جانے والی محض ایک وقتی پسپائی تھی۔
یہ ہجرت مدینہ کے چھٹے سال کی بات ہے۔ اس سے ایک سال پہلے (ہجری ۵ میں) قریش مکہ اور خیبر کے یہود نے دوسرے مشرک عرب قبائل کو ملا کر مدینہ پر چڑھائی کی۔ اس واقعہ کو غزوہ احزاب اور غزوہ خندق کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ احزاب کے لفظ سے اشارہ ہے دشمن کے مختلف گروہوں پر مشتمل ہونے اور خندق کا لفظ ان کے مقابلے کی دفاعی تدبیر کو بتاتا ہے جو کہ مدینے میں ان کے داخلے کو مشکل بنانے کے لیے ایک خندق کھود کر اختیار کی گئی تھی۔ یہ عرب بھر کے تمام دشمنوں کی ایک ساتھ ہو کر بڑی شدید یلغار تھی۔ دس بارہ ہزار کی جمعیت تھی جس نے مدینے پر چڑھ کر اسلام کی جڑیں کھود ڈالنے کی ٹھانی تھی اور اس کے چڑھ آنے سے مسلمان اس درجے کی آزمائش میں مختلف پہلوؤں سے مبتلا ہوئے تھے کہ قرآن پاک نے اس سے نجات دلانے کا ذکر کرتے ہوئے ان الفاظ میں اس کا نقشہ کھینچا ہے:
اذ جاء وکم من فوقکم ومن اسفل منکم واذ زاغت الابصار وبلغت القلوب الحناجر وتظنون باللہ الظنونا ہنالک ابتلی المومنون وزلزلوا زلزالا شدیدا (الاحزاب ۳۳: ۱۰، ۱۱)
’’اور وہ وقت یاد کرو جب آئے وہ تمہارے اوپر کی سمت سے بھی اور نیچے سے بھی، اور جب آنکھیں (مارے دہشت کے) پھٹیں اور کلیجے آگئے منہ کو۔ اور گمان تمہیں آنے لگے تھے طرح طرح کے، اللہ کے حق میں۔ یہ وقت تھا کہ مومن ہلا ڈالے گئے تھے بری طرح۔‘‘
خندق کی تدبیر نے دشمن کو اندر آجانے سے تو روک دیا لیکن وہ آسانی سے واپس جانے کو بھی کیسے آمادہ ہو سکتا تھا؟ تقریباً مہینہ بھر محاصرہ رہا، اور ساتھ ہی پشت کی طرف سے یہودی قبیلے بنی قریظہ کی طرف سے بد عہدی کا خطرہ بھی نمودار ہو گیا تھا۔ پس اس مہینہ بھر کے طویل عرصے میں مسلمانوں کو اپنی قلت تعداد، پھر سخت سرد موسم، نیز معاشی تنگ حالی کے ساتھ ہمہ وقت پہرہ چوکی کی مشقت نے اس حال کو پہنچا دیا تھا جس کا حوالہ قرآن پاک نے مذکورہ بالا آیت میں دیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا شفیق ومہربان دل اپنے وفادار ساتھیوں کی اس حالت سے جتنا بھی پریشان ہوتا، کم تھا۔ آپ نے یہ اندازہ کرتے ہوئے کہ دشمن بھی لاحاصل محاصرہ کی طوالت سے تنگ آرہا ہوگا، ان کے تین میں سے ایک اس گروہ کو توڑنے کی تدبیر کا ارادہ فرمایا جس کے بارے میں سوچا جا سکتا تھا کہ اس کی شرکت کا اصل محرک اسلام دشمنی نہیں بلکہ مال غنیمت ہونا چاہیے چنانچہ آپ نے اس پیشکش کے ساتھ اس سے سلسلہ جنبانی کی کہ وہ اگر باقی دو گروہوں کا ساتھ چھوڑ جائے تو مدینے کی کھجوروں کی فصل کا ایک تہائی اس کے عوض میں اس کو دیا جا سکتا ہے۔ یہ گروہ قبیلہ بنو غطفان تھا۔ حضور ﷺ کا اندازہ صحیح نکلا۔ یہ راضی ہونے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے انصار مدینہ کے سرداروں کو مشورہ کے لیے طلب فرمایا اس لیے کہ مال تو انہیں کاتھا مگر یہ پیش کش جس کے لیے اللہ کے حبیب ﷺ نے اپنے آپ کو راضی کرنے میں حرج نہیں سمجھا، اس پر آپ کے غلام ان سرداروں کا جواب کیا تھا؟ عرض کیا یا رسول اللہ، اگر آپ کو یہ بات پسند ہے تو سر آنکھوں پر اور اس سے بڑھ کر اگر حکم الٰہی ہے تو پوچھنا ہی کیا؟ لیکن اگر یہ کچھ نہیں بلکہ آپ محض ہماری خاطر اس حد پہ جانا قبول فرما رہے ہیں تو یا رسول اللہ، آج تو ہم آپ کی غلامی کی عزت کے تاج دار ہیں، کل جب کہ ہم انہیں بنو غطفان کی طرح بتوں کے پجاری تھے، ایسی بات کاتو یہ اس زمانے میں بھی خواب نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ہمارا مال یہ مہمان بن کے کھا سکتے تھے یا پھر خریدار بن کے۔ انصاری سرداروں کے اس جواب پر یہ تجویز قدرتی طور پر داخل دفتر ہو گئی اس لیے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: میں نے یہ بات صرف تم لوگوں کی پریشانی دور کرنے کے لیے سوچی تھی ورنہ مجھے نہ ذاتی طور پر یہ پسند ہو سکتی تھی نہ ہی اللہ کا کوئی حکم تھا۔
الغرض جو بات سرور عالم ﷺ کے غلام ازراہ غیرت سوچ نہیں سکتے تھے، اسے آپ ازراہ سیاست کر گزرنے کی گنجائش ایسے غیرت مند فداکاروں کی موجودگی میں بھی پاتے تھے جیسا کہ یہی صلح حدیبیہ میں بھی ہوا۔ حالانکہ وہی آپ تھے کہ مکہ کی بے نوایانہ ومظلومانہ زندگی تھی،خواجہ ابو طالب کا سایہ بھی سر سے اٹھ چکا تھا۔ حج میں آنے والے قبائل کے خیموں پر اس مقصد سے گشت فرماتے کہ کوئی آپ کا اور آپ کی اسلامی دعوت کا محافظ بن جانا قبول کر لے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے لیکن کسی نے اگر اس کی قیمت میں سوائے احسان مندی کے کوئی دنیاوی وعدہ مانگا تو شدید حاجت مندی کے اس حال میں بھی صاف انکار فرما دیا اس لیے کہ یہ معاملہ جذبہ احسان وخلوص کا طالب تھا، سودے بازوں سے بات نہیں بن سکتی تھی۔ ہاں، جہاں موقع حریفوں کے ساتھ سیاست کے تقاضے برتنے کا آیا، وہاں اگر حالات کا تقاضا پیچھے ہٹنے اور دب جانے کا ہے، تو آپ ﷺ کو ایسا کرنے سے کبھی یہ خیال مانع ہوتا ہوا نہیں ملتا کہ آپ تو فرستادۂ خدا ہیں، اور دنیا کو کہہ سنایا جا چکا ہے کہ آپ کے ذریعہ کلمہ حق کو غالب ہونا ہے اور کفر کو نامراد وخوار، پس دبنا اور ہٹنا حریف ہی کو ہوگا۔
حریفوں کے ساتھ معاملت میں سیاست کے تقاضوں اور احوال وظروف کی رعایت میں یہ واقعہ بھی جس کا ہمارے یہاں کافی تذکرہ ہوتا رہتا ہے، بھول جانے کا نہیں ہے کہ ایک غزوہ (غزوہ بن المصطلق) میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ جو لشکر تھا، ا س کے دو افراد ( ایک مہاجر اور ایک انصاری) میں شیطان کی فتنہ انگیزی سے ایک ناخوش گوار صورت پیدا ہو گئی تو رئیس المنافقین عبد اللہ ابن ابی نے چاہا کہ اس موقع کو انصار ومہاجرین کے درمیان مکمل فتنے میں بدل ڈالے۔ اس نے انصار کو بھڑکانے کے لیے کہا کہ یہ ہمارا اپنا قصور ہے کہ یہ مکہ سے آئے ہوئے ہمارے سر چڑھ گئے ہیں، لیکن اب برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ’’اب جو عزت والا ہے، وہ ذلت والوں کو مدینہ سے نکال باہر کرے گا۔‘‘ ایک انصاری نوجوان نے یہ کلمہ کفر حضور ﷺ کو پہنچایا تاکہ آپ اس فتنہ انگیزی کا مناسب سدباب کریں۔ حضرت عمر فاروق کو علم ہوا، اذن چاہی کہ اس واجب القتل کو قتل کریں۔ سرکار دو عالم نے فرمایا: لوگ کہیں گے ’’محمد اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کر تا ہے۔‘‘ دنیا کیا کہے گی؟ اس کو بھی ملحوظ رکھنے کی اس سے بڑی اور کون سی مثال سیرت میں تلاش کرنے کو رہ جاتی ہے؟ ابن ابی کی طرف منسوب کی گئی یہ بات وہ تھی جس کو قرآن پاک نے بھی نہایت پر غیظ انداز میں بیان فرمایا۔ (سورۃ المنافقون ۶۳: ۸) مگر اللہ کے رسول ﷺ نے اہل ایمان کا غیظ ٹھنڈا کیا کہ اسلام کی مصلحت اس غیظ کو پی جانے ہی میں تھی! اور یہ ایک دن کی غیظ نوشی تھوڑا ہی تھی، مدینہ کے پورے دس سالہ عرصہ میں ان منافقین کی پیہم شرارتوں کے باوجود انہیں برداشت ہی کرنے کا حوصلہ دکھایا گیا۔
مختصر یہ کہ اللہ نے اپنے رسول ﷺ کے لیے بھی اس سے چارہ نہیں رکھا کہ وہ اپنی رسالت کا مشن پورا کرنے کے لیے عالم اسباب کے وہ تمام طریقے عمل میں لائیں جو اس عالم کے اصول وقوانین کی رو سے کسی بھی مقصد ومدعا کی تکمیل کے لیے معروف ہیں اور اللہ کی خصوصی مدد کی امید بھی اسی طرز عمل کے پردے میں رکھیں۔ بدر میں مدد آئی تو وہی سب کچھ کرنے کے بعد جو بندے کے بس میں تھا۔ اور غزوہ خندق میں مدد آئی تو وہ بھی لگ بھگ ایک مہینہ تمام پاپڑ بیلنے کے بعد۔
آمدم بر سر مطلب۔ ۸/ اکتوبر ۲۰۰۱ء (مطابق ۲۰ رجب ۱۴۲۲ھ) کو جب امریکہ نے طالبان کی حکومت ختم کرنے کے لیے افغانستان پر حملے کا آغاز کیا تو اس کے بھی روس ہی کی طرح خوار ہو کر نکلنے کا خواب دیکھنے والے بے گنتی لوگوں میں ایک یہ راقم الحروف بھی تھا حالانکہ یہ ان میں سے نہ تھا جو طالبان کے طرز حکومت سے پوری طرح راضی ہوں۔ پھر بھی ایک طرف ایک جہاد پیشہ لوگوں کی اسلامی حکومت اور دوسری طرف بظاہر بالکل ایک بے جواز حملہ۔ اس لیے اس خواب کا پوری طرح جواز نظر آرہا تھا مگر جب رمضان مبارک کا اختتام ہوتے ہوتے یہ خواب بالکل الٹا ہو کر سامنے آیا تو اس جھٹکے سے ذہن کو تلاش ہوئی کہ خواب دیکھنے میں غلطی کیا تھی؟ اسی تلاش سے خیالات کا یہ سلسلہ ذہن میں قائم ہوا جو اوپر کی سطروں میں رقم ہوئے اور اس کے بعد ذہن جس نتیجہ پرمطمئن ہوا، وہ یہ تھا کہ غلطی اسی قسم کی تھی جس قسم کی خام خیالیوں کے ماتحت بنی اسرائیل نے خود کو (قرآن پاک کے بیان کے مطابق) اللہ کے ’ابناء واحباء‘ ٹھیرا لیا تھا اور زعم باندھ لیا تھا کہ ہمیں تو نار جہنم مشکل سے چھوئے گی۔ ہمیں قرآن پاک کی یہ آیتیں اور سیرت پاک کے یہ اوراق تو یاد نہیں رہے ہیں جن کی طرف اوپر کی سطروں میں کچھ اشارات کیے گئے ہیں۔ اس کے بجائے جو یاد رہ گیا، وہ حضرت علی مرتضیٰ، خالد بن ولید، عمرو بن العاص، طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی (رضی اللہ عنہم) کے نعرہائے اللہ اکبر، ان کی شمشیروں کی چمک دمک اور قدم چومتی ہوئی فتوحات ہیں۔ ہمارے ذہنوں میں بس گیا ہے کہ اس نعرۂ ایمانی کے سامنے کفر کو بس سرنگوں ہی ہونا ہوگا اور یہ ایسا جما ہے کہ صدیوں سے ’ترشی‘ کی پیہم خوراکیں بدقسمتی ہمیں دے رہی ہیں مگر اس کے جماؤ میں فرق نہیں آتا۔ جب بھی کسی نئی آزمائش کے بادل جمع ہوتے ہیں،ہمارے ذہنوں میں شعر رقصاں ہو جاتا ہے:
آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے
کیا کسی کوپھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟
اور جب نتیجہ امتحان میں ’فیل‘ ہونے کا نکلتا ہے تو زبان پر آئے نہ آئے، دلوں میں ضرور علامہ اقبال (غفر اللہ لہ) والے شکووں کا گزر شروع ہو جاتا ہے:
خندہ زن کفر ہے، احساس تجھے ہے کہ نہیں؟
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں؟
آئے عشاق، گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
خدا معلوم کتنوں کے دلوں سے نکل کر زبان پر بھی ایسی بات افغانستان کے اس المیہ پر آگئی ہو۔ متعین طور سے دو ایسے شکووں کی روایت تو ایسے ثقہ اور نہایت معروف ذی علم راوی سے براہ راست سننے میں آئی کہ شبہے کی گنجائش نہیں اور ان دو متعین روایتوں کے علاوہ ہمارے اسلامی رسائل وجرائد میں اس سانحہ پر لکھے گئے مضامین سے تو صاف شہادت مل رہی ہے کہ اس موقع پر مایوسی نے عام مسلمانوں کے ایمان کو ایسی سخت آزمائش میں ڈال دیا ہے کہ ان کی مایوسی دور کرنے کے لیے ضروری سمجھا جا رہا ہے کہ کوئی بھی ممکن طریقہ بچا کے نہ رکھا جائے۔ اس پس منظر میں مناسب معلوم ہوا ہے کہ اپنی ذاتی مایوسی دور کرنے والی جو باتیں ذہن میں آئیں، انہیں اپنے ہی تک محدود رکھنے کے بجائے دوسروں تک پہنچ جانے دیا جائے، شاید کچھ دلوں کے لیے اس میں تسلی کا زیادہ سامان ہو اور آئندہ ایسی مایوسیوں سے بچانے کا ذریعہ بھی بن جائے۔ اپنے ذہن کی باتوں کا حاصل، جیسا کہ اوپر آ چکا، یہ تھا کہ غلطی خود خواب اور خواب دیکھنے ہی کی تھی۔ کیوں یہ خواب غلط تھا کہ ان شاء اللہ امریکہ بھی افغانستان سے ایسے ہی رسوا ہو کر نکلے گا جیسی رسوائی سے نکلنا روس کے حصے میں آیا تھا؟ کیوں نہیں یہ خواب دیکھنا صحیح تھا؟
اولاً اس لیے کہ روسی یلغار اور امریکی یلغار کے حالات میں زمین وآسمان کا فرق تھا۔ روسی یلغار کے موقع پر پاکستان تو فوراً ہی پشت پر آکھڑا ہوا تھا، پھر امریکہ بھی اپنی روس دشمنی میں موقع سے فائدہ اٹھانے کوبھرپور کمک لے کے آپہنچا۔ سعودی عرب اور امارات وغیرہ نے مالی مدد کا محاذ سنبھالا جبکہ اس دفعہ پاکستان نے ناتا ہی نہیں توڑ لیا، وہ حملہ آور امریکہ کا خیمہ بردار بن گیا۔ پھر ان دونوں کارخ دیکھ کر عربوں نے بھی سلام کر لیا۔ شمالی اتحاد کے نام سے آستین میں ایک سانپ پہلے ہی سے پلا بیٹھا تھا جسے برابر میں لگے ہوئے ایران علیٰ ہذا تاجکستان جیسی سابق روسی ریاستوں ہی کی حمایت حاصل نہیں تھی، بھارت کی حمایت بھی تھی اور یورپ کی حمایت بھی۔ پس عالم اسباب کے حالات تو یہ سمجھنے کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ طالبان اس دفعہ کا وار سنبھال پائیں گے۔ قرآن پاک کی رو سے بھی اہل ایمان مقابل کی جس زیادہ سے زیادہ بڑی قوت پر غلبہ کی توقع رکھ سکتے تھے، وہ دس گنی قوت تھی۔ فرمایا گیا کہ بیس ہوں گے تو دو سو (۲۰۰) پر اور سو ہوں گے تو ہزار پر غالب آ جائیں گے۔ اور پھر بعد میں اس تناسب کو بھی گھٹا کر ایک اور ۱۰ کے تقابل کو ایک اور ۲ سے بدل دیا گیا۔ (سورۃ الانفال ۶: ۶۵، ۶۶) جبکہ یہاں تو دونوں قوتوں میں تناسب کا فرق سیکڑوں نہیں، ہزاروں میں ٹھہر رہا تھا۔
ثانیاً پاکستان گورنمنٹ نے افغانستان کے معاملے میں امریکہ کے آگے جس طرح بے چوں چرا سر جھکایا، ہم اسے صحیح کہیں یا غلط، مگر وہ اس بات کا صاف سگنل تھا کہ اٹلانٹک کے پار سے آتا ہوا طوفان کچھ بہت ہی غیر معمولی ہے۔ پاکستان میں کوئی سی بھی حکومت رہی ہو، حالات کچھ بھی رہے ہوں، روس سے آزاد کرائے گئے افغانستان کا ساتھ چھوڑنے کی گنجائش وہاں (سوائے مسٹر نواز شریف کے بالکل آخری چند دنوں کے) کبھی نہیں سوچی جا سکی اور ایک فوجی حکومت (جنرل ضیا کی حکومت) کے ہاتھوں بنا کردہ اس پالیسی کے تسلسل میں اصل ہاتھ بھی پاکستانی فوج ہی کا رہا تھا، چنانچہ جنرل مشرف کے آتے ہی پالیسی میں تبدیلی کی وہ بساط لپٹ گئی جس کا آغاز نواز شریف امریکہ کے دباؤ میں کرنے لگ گئے تھے اور یہ بساط ۱۱ ستمبر تک اس کے باوجود علیٰ حالہ لپٹی رہی کہ مشرف حکومت کو طالبان سے اس طرح کی شکایات بھی چل رہی تھیں کہ ان کے یہاں ایسے افراد کوپناہ مل رہی ہے جو پاکستان میں برپا فرقہ وارانہ قتل وغارت میں مبینہ طور پر ملوث ہیں۔ دوستانہ وبرادرانہ پالیسی کا یہ تسلسل پاکستانی حکومتوں کی کوئی خالصتاً للہ فی اللہ مہربانی نہیں تھی کہ اگر پڑنے لگے تو بلا دقت اس سے دست بردار ہو جائیں، اس سے ان کی سلامتی اور دفاع جیسا اہم مفاد وابستہ تھا۔ ان کو ہندوستان سے جنگ میں یہ تجربہ ہوا تھا کہ ہندوستان سے زور آزمائی کے لیے ان کا ’آنگن‘ بہت چھوٹا ہے، افغانستان سے برادرانہ تعلق میں خاص کر طالبان جیسی ٹھیٹھ مذہبی حکومت وہاں موجود ہونے میں پھر سے کوئی وقت پڑنے پر اپنے ’آنگن‘ کو بھرپور وسعت میسر آ جائے گی۔ یہی راز تھا کہ مشرف حکومت پہلے دن سے کھلے سیکولر رجحان کا اظہار کرنے کے باوجود افغانستان کے ساتھ تعلق میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت سے ذرا بھی پیچھے نظر نہ آتی تھی۔ افغانستان سے تعلق کی اس نوعیت میں مشرف حکومت کا آن واحد میں اس تعلق کو پس پشت ڈالنے پہ راضی ہو جانا، اور اپنی ایٹمی ’طاقت‘ وغیرہ کو بھی یکسر بھول جانا، یہ سمجھانے کے لیے سو فی صد کافی ہونا ہی چاہیے تھا کہ طالبان حکومت کو نشانہ بنا کر آتا ہوا طوفان یقیناًایسا ہے کہ اللہ ہی اس حکومت کی خیر کرے۔ بے نظیر یا نواز شریف حکومت میں یہ صورت پیش آتی تو یہ گمان بھی آسان تھا کہ بزدلی میں سپر ڈال دی ہوگی مگر یہاں تو برسر حکومت وہ جنرل تھا جو ابھی ذرا پہلے کارگل جیسی خطرناک مہم جوئی کر چکا تھا۔ الغرض ایسی کھلی علامت قیامت سامنے آجانے پر بھی اگر ہم نے خواب دیکھا کہ غلبہ ان شاء اللہ طالبان ہی کو ملے گا تو یہ محض خوش عقیدگی کے سوا اور کیا تھا؟ اور غلطی اس میں خود اپنے سوا اور کس کی تھی؟ دعا بے شک کرنی تھی، بھروسہ بھی رکھنا تھا کہ اللہ چاہے تو خلاف قیاس وگمان ہو سکتا ہے مگر خطرہ دل میں حالات کے مطابق رکھنا تھا کہ مبادا دل ناصبور شکوہ سنجی کا گنہگار ہو جائے۔
ثالثاً اس لیے کہ طالبان، جہاں تک معلومات میسر تھیں، سچے جذبہ جہاد سے سرشار تھے، مخلص اہل ایمان تھے ، اللہ کے کلمہ حق کی بلندی ان کا منتہائے آرزو تھا، مگر میسر معلومات ہی کی روشنی میں یہ صاف نظر آتا تھا کہ وہ اللہ کی دی ہوئی ان خصوصیات ہی کو اپنی بقا اور مزید پیش رفت کی مکمل ضمانت سمجھتے، اور اس چیز کو کوئی خاص اہمیت نہیں دینے کو تیار تھے کہ زمانہ ان کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے، ان کے کس فعل وفیصلے کو کس نظر سے دیکھتا ہے اور اس پر کیا رد عمل ظاہر کرتا ہے؟ طالبان ’اصحاب حال‘ ہو سکتے تھے جن کے یہاں خوب وناخوب کا پیمانہ ہی الگ ہوتا ہے مگر ہم کو تو سوچنا تھا کہ زمانہ میں، اور وہ بھی ایسی چوطرفہ مخالفت کے زمانے میں جیسی کہ طالبان کو درپیش تھی، اس طرح جینے اور مخالف طاقتوں سے عہدہ برآ ہونے کی کوئی مثال کہیں ملتی بھی ہے کہ ا س سب کے ساتھ بھی ہم فتح طالبان کا خواب دیکھیں؟ زمانہ کے رخ کو خاطر میں نہ لانے اور احوال وظروف کی پروا سے بالاتر رہنے کی کوئی مثال تو ہمیں رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بھی نہیں ملی جب کہ آپ بھیجے گئے تھے تو نوشتہ فتح وظفر ہاتھ میں تھا۔ ہاں فتح وظفر نہیں، شہادت مطلوب ہو تو دوسری بات ہے اور تاریخ اسلام میں اس کی مثال ہمیں غزوہ موتہ (۸ ھ) میں ملتی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے تین ہزار کا ایک لشکر حضرت زید بن حارثہ کی سرکردگی میں سرحد شام کی طرف روانہ فرمایا تھا۔ لشکر کو وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ دشمن بظاہر آگاہ ہو گیا تھا اور اس نے اتنی غیر معمولی تیاری کر رکھی تھی کہ طرفین کاکوئی مقابلہ نہیں۔ حضرت زید کی رائے ہوئی کہ آنحضرت ﷺ کو اطلاع کی جائے اور پھر آپ کے حسب ہدایت قدم اٹھایا جائے مگر حضرت عبد اللہ بن رواحہ جن کو حضور ﷺ نے بشرط ضرورت تیسرے نمبر پر کمانڈر نامزد فرمایا تھا، انہوں نے اصرار فرمایا کہ نہیں، ہم تو فتح کے لیے نہیں شہادت کے لیے لڑتے ہیں، ہمیں بنام خدا اپنا فریضہ انجام دینا چاہیے۔ اور اس تقریر سے شوق شہادت نے غلبہ حاصل کر لیا، چنانچہ شہادت ہی حصے میں آئی اور چوتھے نمبر پر جب کمان حضرت خالد بن ولید کو ملی تو آپ بڑی حکمت سے باقی ماندہ لشکر کو بچا کے مدینہ واپس لائے۔
طالبان کے اس ’اصحاب حال‘ جیسے رویے میں یوں تو وہ ہی باتیں آتی ہیں جن کو ان کے تمام فہمیدہ ہمدرد نفاذ شریعت میں غیر ضروری عجلت وشدت کا مظہر پاتے تھے اور جس سے نچلے اہل کاروں کے ہاتھوں ایسے واقعات تک ظہور میں آئے کہ ایک پاکستانی ٹیم میچ کھیلنے ان کے یہاں گئی اور یہ لڑکے اپنے معمول کے مطابق نیکر پہنے فیلڈ میں اترے تو اس پر یہ مہمان قابل گرفت قرار پا گئے اور سزا میں ان کے سر مونڈ دیے گئے۔ طالبان حکومت کو اس کے لیے بعد میں معذرت بھی کرنا پڑی لیکن اس سلسلے کے جس اقدام نے دنیا کی پروا کرنے نہ کرنے کے پہلو سے آخری درجے کی مثال قائم کی، وہ گوتم بدھ کے مجسموں کو توڑنا تھا۔ ان کے خلاف بدترین پروپیگنڈا تو نفاذ شریعت والے بعض اقدامات کی بنیاد پر پہلے ہی حقوق انسانی کے حوالے سے چل رہا تھا، اس اقدام نے پراپیگنڈے کی اس آگ پر تیل کا کام کر دیا۔ یہ وہ کام تھا کہ حالات کے پیش نظر خود راقم الحروف کی سمجھ میں، اس کے باوجود نہیں آ رہا تھا کہ محترم اور معتبر علما کے فتوے اس کی حمایت میں چھپ رہے تھے۔ امریکہ کے لیے طالبان کے باضابطہ نمائندہ (سید رحمت اللہ ہاشمی) کے بیان کے مطابق اس اقدام کی وجہ یہ تھی کہ ’’اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو اور سویڈن کی ایک غیر سرکاری تنظیم کا ایک وفد اس منصوبے کے ساتھ افغانستان آیا کہ ان مجسموں کے چہروں میں جو کچھ ٹوٹ پھوٹ گردش ایام سے آ گئی ہے، اسے درست کر دیا جائے۔ اس پر افغان علماء کونسل نے کہا کہ آپ اس کام پر رقم خرچ کرنے کے بجائے ہمارے ان بچوں کی جان بچانے میں صرف کریں جو (اقوام متحدہ کی عائد کردہ پابندیوں کی بنا پر) مناسب دواؤں اور غذاؤں کی کم یابی سے ہلاک ہو رہے ہیں، لیکن وفد کو اپنے منصوبے ہی پر اصرار رہا تو ان سے کہا گیا کہ آپ کو اگر ہمارے بچوں کو بچانے کی فکر نہیں تو پھر ہم بھی ان مجسموں کو ختم ہی کیے دیتے ہیں۔‘‘ سید رحمت اللہ ہاشمی کا یہ بیان الفرقان کے صفحات (جولائی ۲۰۰۱ء) میں بھی چھپ چکا ہے یعنی یہ مجسمہ شکنی کا اقدام صرف ایک غصے کا اقدام تھا اور وہ ایسے مخالف حالات میں کہ دنیا نے بحکم اقوام متحدہ حقہ پانی بند کر رکھا تھا۔ اس اقدام نے دنیا پر کیا اثر ڈالا؟ اور گھات لگائے ہوئے دشمن نے اس سے کس قدر فائدہ اٹھایا؟ یہ اب کوئی ڈھکی چھپی کہانی نہیں ہے لیکن اس کے حق میں دیے جانے والے فتووں کی اشاعت نے بتایا کہ اس اقدام کا منفی اثر صرف غیر دنیا ہی پر نہیں پڑا، مسلم دنیا پر بھی ا س نے اس قدر مخالفانہ اثر چھوڑا کہ اس کے ازالے کی کوشش میں فتووں کی ضرورت پیش آگئی۔
فتوے تو ظاہر ہے کہ مسلم دنیا ہی میں کام آ سکنے والی چیز تھی، غیر دنیا کے لیے تو ان کے کوئی معنی نہ تھے۔ الغرض عالمی مخالفت کے ماحول کو زیادہ سے زیادہ طاقت پہنچانے والے اس رویے کے ساتھ بھلا کیسے یہ خواب دیکھنا معقول ہوتا کہ اس دفعہ کے حملہ آور کے ساتھ بھی افغانستان میں وہی ان شاء اللہ ہوگا جو روس کے ساتھ ہوا تھا؟ مگر کیا ہی لطیفہ ہے کہ جب حملہ ہوا تو استعجاب واعتراض کی یہ ساری منطق اپنے ذہن سے غائب ہو گئی اور معجزاتی فتح کی امید اس کی جگہ پر آبسی۔ وجہ بظاہر صرف وہی کہ ’’آساں نہیں مٹانا نام ونشاں ہمارا‘‘ والے ذہن کا جو ایک مبالغہ آمیز اور مغالطہ انگیز سانچہ ہمارے یہاں بنا ہوا ہے، وہ تھوڑا یا بہت لکھ پڑھ لینے کے باوجود بھی کم ہی بدلتا ہے اور یقین ہے کہ یہ سانچہ اگر اس قدر عام اور مضبوط نہ ہوتا تو کم از کم وقت کے خاص حالات میں اس مجسمہ شکنی کی حمایت کے فتوے ہمارے سامنے نہ آتے۔ اس سانحے کی عمومیت اور مضبوطی پر ۱۹۴۸ء کی بات یا دآ رہی ہے۔ حکومت ہند نے ریاست حیدر آباد کے خلاف ’’پولیس ایکشن‘‘ کے نام سے فوجی کارروائی کی۔ مسلم ریاست تھی، قدرتی طور پر مسلمان اس کارروائی سے خوش نہیں ہو سکتے تھے۔ میں اپنی نوعمری کے ان دنوں میں اتفاق سے ایک بڑی صاحب علم ومطالعہ شخصیت کی خدمت میں ٹھیرا ہوا تھا۔ دنیا اور اس سے باخبری والے علم ومطالعہ کے ساتھ بھی اس ایکشن پر میں نے ان کا بے تکلف تاثر یہ دیکھا کہ ریاست کو شکست دینا آسان نہیں ہے اور اسی زعم میں ریاست کی رضاکار تحریک نے حکومت ہند کو اس ایکشن تک لا کے ریاست کو اس تباہی سے دوچار کرایا کہ الامان الحفیظ!
چالیس سال کی عمر،جو قرآن پاک کی رو سے بھی شعوری پختگی کو پہنچ جانے کی عمر ہے، میرے والد ماجد اپنی عمر کے اس مرحلے کو پہنچے تو میری باشعور عمر کا اچھی طرح آغاز ہو چکا تھا۔ والد ماجد کے اس مرحلہ عمر تک پہنچنے سے کئی سال پہلے کی وہ بات ہے کہ انہوں نے جماعت اسلامی (برائے حکومت الٰہیہ) کی تاسیس میں پرجوش حصہ لیا اور یہ خود ان کے بقول اس رومانیت پسندی کا نتیجہ تھا جو تحریک خلافت کے پیدا کردہ فکری ماحول سے طبیعت میں بس گئی تھی (اور اس کی وجہ سے یہ حقیقت نظر سے اوجھل ہو رہی تھی کہ ہندوستان ۷۵ فی صد غیر مسلم اکثریت کا ملک ہے) جماعت سے رشتہ جلد ہی ٹوٹ جانے کے اسباب پیدا ہو جانے پر جن عملی میدانوں میں انہوں نے اپنی زندگی صرف کی، ان سب میں ان کا نقطہ نظر عملیت پسندانہ رہا اور جوں جوں عمر بڑھتی گئی، یہ طرز فکر مضبوط تر ہوتا گیا۔ اشخاص کی خصوصیات پڑھنے والے جن اصحاب کو بھی ان سے اچھے رابطے کا اتفاق ہوا، انہوں نے ہمیشہ ان کی اس عملیت پسندی کو نوٹ کیا۔ میری باشعور عمر کے ۳۵ سال پوری طرح ان کے عین زیر سایہ گزرے اور میں ان کی عملیت پسندی اور رومانویت سے دوری (یعنی ’’کیا ہونا چاہیے‘‘ کے بجائے ’’کیا ہو سکتا ہے‘‘ کا طرز فکر) دیکھتا اور اس سے اثر لیتا رہا (حتیٰ کہ بعض وقت میں نے خود کو ان سے بھی زیادہ عملیت پسند جانا) پھر یہ ۳۵ سال گزار کر اس مبارک سایہ سے دوری ہوئی تو اس مغربی دنیا میں بسنا ہو گیا جہاں عملیت ہی عملیت ہے، رومانویت کا کوئی خانہ نہیں اور اب یہاں اس بسیرے کو بھی ۲۵ سال ہو رہے ہیں مگر طالبان کی اسلامی حکومت پر، جو کہ مادی اعتبار سے تو کمزور تھی ہی، زمانے کے معیار سے فکری بلوغ وتوانائی کے حصول کے لیے بھی اسے ابھی وقت درکار تھا، جب امریکی دیو کی جارحیت مسلط ہوئی تو، جیسا کہ اوپر پڑھا جا چکا ہے، محض اس حکومت کی مخلصانہ اسلامیت کا تاثر یہ اعتماد دینے کو کافی ہو گیا کہ جارح ان شاء اللہ ذلیل ہوگا حالانکہ حالات اور اسباب کو ان کی واجبی اہمیت دینے والے عملی نقطہ نظر سے اس موقع پر بس دعا کی جا سکتی تھی کہ اللہ غیب سے حفاظت کی کوئی صورت پیدا فرما دے ورنہ مقابلہ تو کوئی تھا ہی نہیں۔ میرا احساس ہے کہ افغانستان کا یہ المیہ، جس کے لیے شیخ سعدی کا یہ مصرعہ برحق ہے کہ ع، آسماں را حق بود گر خوں ببارد بر زمیں، اس کی زیادہ ذمہ داری اسلامی حکومت کے ساتھ وابستہ اسی رومانوی طرز فکر پر، جس کے ہم سب ہی کم وبیش اسیر ہیں، جاتی ہے کہ اگر اسلام کے ساتھ خلوص ہے تو یہ بس اس حکومت کے تحفظ کی کامل ضمانت ہے اور پھر ’الاقرب فالاقرب‘ کے اصول پر یہ ذمہ داری طالبان سے ہمدردی رکھنے والے افغانستان سے باہر کے ان تمام اہل علم دین کی اسی اسیری پر ہے جو کہ طالبان سے رابطے کی سہولت اور ان کا کم وبیش اعتماد رکھتے تھے۔
طالبان سے رابطے کی سہولت اور ان کا کم وبیش اعتماد رکھنے والے باہر کے علما ہمارے علماء پاکستان تھے۔ ا ن میں سے کئی ایک حضرات کے بارے میں کامل اطمینان سے یہ کہنا صحیح معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس وقت کی دنیا کے حالات کوجاننے اور سمجھنے کے لیے اس سے بدرجہا زیادہ بہتر پوزیشن میں تھے جیسی پوزیشن طالبان رہنماؤں کو حاصل تھی۔ ان غریبوں کو تو اول اپنے بے پناہ قسم کے اندرونی مسائل ہی سے فرصت نہ تھی جو پہلے دس برس میں روسی جارحیت پیدا کر گئی تھی اور پھر مجاہدین کمانڈروں کی آپس کی خون ریزی نے جو اضافہ ان میں کیا، نیز ان کے ملک میں نہ ایسے ذرائع معلومات تھے نہ علمی اور ذہنی سطح میں ترقی کے لیے درکار وہ سہولتیں انہیں حاصل تھیں جن سے اہالیان پاکستان بہرہ ور تھے۔ اس بہتر پوزیشن کی بنا پر ہمارے علماء پاکستان سے ان نیک دل طالبان کو وہ رہنمائی مل سکتی تھی جس کے نتیجے میں سانحہ شاید ٹل جاتا ۔ وہ اپنی حکمرانی میں جیسا طرز عمل اپنے ایمانی خلوص اور اپنی صالح قومی روایات کا تقاضا جان کر اختیار کیے ہوئے تھے، اگر معاصر دنیا کے حالات ومزاج سے پوری طرح واقف ہوتے تو ان کا ذہن دوسری طرح کام کرتا۔ اس معاملے میں رہنمائی کی مدد ان کو جن لوگوں سے ملنا تھی، وہ علماء پاکستان تھا جن کی دینی، علمی یا سیاسی منزلت کے طالبان قائل تھے اور ان سے روابط رکھتے تھے۔ (۱) مگر کیسے اپنے رنج والم کا اظہار کیا جائے کہ، جہاں تک علم ہے، ہر ممکن مدد ان کو دینے والے ہمارے علماء کرام سے جو واحد مدد انہیں نہ ملی وہ یہی ایک مدد تھی اور اس کا جو سبب صاف نظر آتا تھا، وہ یہی تھا کہ احساسات کی جو رومانوی کیفیت میرے جیسوں پر ہزاروں یا سیکڑوں میل کی دوری میں اس مرحلے پر طاری ہوئی جب حملے کے نقارے پر چوٹ پڑ گئی، ان بزرگوں پر یہ کیفیت شاید اسی لمحے سے طاری ہو گئی تھی جب طالبان کا جھنڈا کابل پر لہرا گیا اور پھر بڑھتے بڑھتے وہ اپنے نفاذ شریعت کے اعلان کے ساتھ ملک کے۹۵ فیصد علاقے پر حاکم ہو گئے۔ یقیناًیہ ان لوگوں کے لیے جن کے اسلاف حضرت سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید کے خوابوں کی تعبیر کے لیے تمنائیں لیے دنیا سے گزرتے گئے تھے، وہ لمحہ تھا کہ اگر سارا عالم ہی اسلام کے زیر نگیں آیا دکھائی دے گیا ہو تو بعید نہیں۔ ایسے لمحات تو شادی مرگ کا باعث بن جاتے ہیں مگر شکایت اس کی ہے کہ اس لمحے کو برسوں پر محیط ہونے دیا گیا۔ طالبان کا طرز نفاذ شریعت، ان کے اخلاص اور ان کی فدائیت کی پوری تعظیم وتوقیر کے ساتھ بلاشبہ اس کا محتاج تھا کہ اہل علم انہیں صحیح راہ (راہ اعتدال) بتائیں۔ ان کا طرز صاف بتا رہا تھا کہ وہ واقعی صرف ’طالبان‘ ہیں، انہیں کاملان وپختہ کاران کی رہنمائی درکار ہے۔
راقم کے زمانہ دیوبند کے استاذ مرحوم حضرت مولانا عبد الحق صاحب (اطاب اللہ ثراہ) کا قائم کردہ دار العلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک، صوبہ سرحد طالبان کا زبردست حامی ومددگار ادارہ تھا۔ اس کا ماہنامہ ’الحق ‘ ہر ماہ ان کے بارے میں پرجوش تحریروں اور اطلاعات سے بھرا ہوا ملتا تھا۔ جی چاہتا تھا کہ ادارہ کے موجودہ سربراہ استاد زادہ محترم مولانا سمیع الحق صاحب کو لکھوں کہ ان لوگوں کو آپ کی حامیانہ سرپرستی کے ساتھ استادانہ ومصلحانہ سرپرستی کی بھی ضرورت ہے، ورنہ اس مبارک پودے کی عمر نظر نہیں آتی، مگر ان کے ماہنامہ میں حمایت کے لیے جوش وجذبہ کی کیفیت وہ ہوتی تھی جسے دیکھ کر کچھ لکھنے کی ہمت نہ پڑتی تھی، لیکن آج سے کوئی دو سال قبل ایک شمارہ جو آیا تو اس کے اداریہ کا عنوان تھا ’’خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے‘‘ ! یہ خطاب طالبان سے تھا اور ’گلہ‘ وہی سب کچھ تھا جس کے بارے میں دماغ پریشان ہوتا تھا کہ الٰہی! ایک خالص اسلامی حکومت کی داغ بیل صدیوں کی دعاؤں اور آرزوؤں کے بعد ایک ایسے زمانے میں پڑی ہے کہ غیر تو غیر، اپنوں میں بھاری تعداد ایسوں کی ہو چکی ہے جو اس کے تصور کی مزاحمت میں غیروں سے بھی کچھ آگے ہی ہیں،ایسی مخالف دنیا میں، جب کہ طاقت کے خزانے بھی ہماری شامت اعمال سے انہیں اغیار کے ہاتھوں میں آ گئے ہیں، اگر اس نوخیز حکومت کے کھیون ہاروں کو اپنے پاکیزہ جذبات کے ساتھ زمانہ فہمی کی طرف توجہ نہ ہوئی اور نفاذ شریعت میں دینی حکمت کا باب ان پہ نہ کھلا تو ڈر ہے کہ یہ کلی کہیں بن کھلے ہی مرجھا نہ جائے۔ ’الحق‘ کے اس اداریے سے دل کو ایک گونہ اطمینان ہوا کہ وہاں بھی یہ بات محسوس کی جا رہی ہے کہ طالبان نے اگرچہ افغانستان کو امن وامان کی نایاب دولت دے کر بہت نام کمایا ہے، مخالف بھی مجبور ہیں کہ اعتراف کریں، ان کی سادہ زندگی اور بلا استثنا مساوات بھی دنیا سے اپنا کلمہ پڑھوا رہی ہے، پھر بھی نفاذ شریعت کے معاملے میں ان کی ترجیحات اور شدت پسندی اصولاً ہی قابل اصلاح نہیں بلکہ ان کے وجود کے لیے خطرناک بھی ہے۔ مگر افسوس کہ بات ا س ایک تحریر پر ہی اس طرح ختم ہو گئی کہ جیسے یہ صاحب تحریر نوجوان (صاحب زادہ مولانا سمیع الحق صاحب) کی ایک نوعمرانہ سبقت قلم ہو۔ مزید کسی طرح کی کوئی دل چسپی یا سرگرمی اس رخ پر پھر دیکھنے میں نہ آئی حالانکہ اس کی توقع اس لیے بھی کی جانی چاہیے تھی کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کی جو جدوجہد عرصہ دراز سے یہ حضرات کرتے آ رہے تھے، خود اس کی مصلحت بھی اس بات کا تقاضا کرتی تھی۔ پاکستان میں نفاذ شریعت یا قیام نظام اسلام کے نام سے جاری جدوجہد کو جن مشکلات کا سامنا تھا، ان میں نئے تعلیم یافتہ طبقے کی ایک خاصی تعداد کا، جو کہ مقتدر طبقوں میں اثر ونفوذ رکھتی تھی، یہ ذہن یا اندیشہ تھا کہ اس نظام کے تحت وہ پرانی فقہ رائج کر دی جائے گی جو آج کے بالکل بدلے ہوئے حالات میں من وعن موزوں نہیں ہو سکتی۔ طالبان کی سرگرم حمایت کرتے ہوئے ان کے نفاذی طرز عمل میں اصلاح کے لیے کوشش نہ کرنا اس اندیشے یا پراپیگنڈے کو مضبوط کرنے کے ہم معنی تھا۔
چند ہی مہینے اس پر گزرے ہوں گے۔ ۲۰۰۱ء کا آغاز ہوا اور اس کے ساتھ ہی بدھ مجسمے توڑے جانے کا اعلان گونجا اور پھر جب اعلان پر عمل ہونے گا اور دنیا بھر میں ہاہاکار مچی، خود پاکستانی حکومت اور دوسرے مسلم ممالک نے چاہا کہ اس پر نظر ثانی ہو تو دوسری طرف سے اعلان کی شرعی حمایت میں علما کے فتوے آئے۔ کس مسلمان کو کوئی دل چسپی ان مجسموں سے ہو سکتی تھی، بس یہی سوچ کر کہ یہ مجسموں کا معاملہ ایسا نہیں کہ اس پر اگر کسی بزرگ کو اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کیا جائے تو ان کے دل میں وسوسہ آئے کہ یورپ میں رہ کر مولوی صاحب بھی شاید کچھ اپ ٹو ڈیٹ ہو گئے ہیں، ایک ایسے محترم کی خدمت میں جن کی شخصیت اس وقت پاکستانی علماء دیوبند میں نہایت موقر بھی ہے، وہ طالبان کے حامی اور سرپرست بزرگوں میں بھی ہیں اور چند ہی مہینے پہلے لندن میں ان سے مل کر یہ تاثر بھی لیا جا چکا تھا کہ وہ نہ صرف میرے ساتھ نہایت خلیق بلکہ طبعاً بھی منکسر مزاج کے ہیں، میں نے طالبان کے اس فعل کی حمایت میں فتووں کے مسئلے پر اپنے خیالات ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کو میں نے لکھا کہ کیا آپ اس کے روادار ہوں گے کہ یہ فتوے جو مصلحت وقت کے علاوہ شرعاً بھی میری ناقص سمجھ میں بالکل نہیں آ رہے ہیں، ان کے بارے میں اپنانقطہ نظر آپ سے عرض کروں؟ میں نہیں جانتا کہ عریضہ نہیں پہنچا یا جواب مجھے نہیں پہنچا یا جواب کسی وجہ سے دیا ہی نہیں گیا، بہرحال طالبان نے ہمارے علما کی پوری حمایت کے ساتھ ان مجسموں کے بارے میں اپنا اعلان پورا کر دیا جس پر پیدا ہونے والے عالمی رد عمل کے بعد، جیسا کہ اوپر لکھا گیا، یہ خواب دیکھنا ہی اپنی ناقص سمجھ کے مطابق غلط تھا کہ اس دفعہ امریکہ افغانستان سے اسی طرح ذلیل ہو کر نکلے گا جس طرح روس اپنی باری پرنکلا تھا۔
میں نہیں سمجھتا کہ ہمارے علماء پاکستان کا جو رویہ طالبان کے اس طرز حکومت کے سلسلے میں رہا، جو کہ اس حکومت کے ساتھ مکمل ہم دردی اور محترم علما کے لیے کامل شعور واجب الاحترامی کے باوجود اپنی سمجھ میں کسی طرح نہ آ پاتا تھا، اس کی کوئی اور توجیہ سوائے اس کے کیا کی جا سکتی ہے جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا تھا کہ یہ حکومت ان حضرات کے لیے ایک عام اسلامی حکومت نہیں، بلکہ اس مقدس خواب کی تعبیر تھی جو تقریباً دو صدی قبل بالاکوٹ کے میدان میں بکھر گیا تھا اور ان کے (اور ہمارے) اسلاف کی نسلوں پر نسلیں اس کی تعبیر کے لیے سراپا جہدوعمل اور دعا وآرزو بنی گزرتی رہی تھیں۔ ان حضرات کا جو مزاج دان ہے، وہ سمجھ سکتا ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھوں یہ کارنامہ انجام پایا، وہ ان کے دلوں اور ان کی نگاہوں میں کیا کچھ نہ ہو گئے ہوں گے ورنہ ان باتوں کی کیا توجیہ آخر ہم کریں گے کہ مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی کی شہادت کا سانحہ پیش آتا ہے، وہ جماعت کے اساطین میں ہیں، پوری جماعت ہی مشرق سے مغرب تک نہیں ہل جاتی، فوجی سربراہ مملکت پاکستان جنرل پرویز مشرف تک تعزیت کے لیے گھر پر آتے ہیں، ملا محمد عمر صاحب امیر المومنین (یقیناًکسی معقول وجہ سے) صرف تعزیتی پیغام پر اکتفا کرتے ہیں مگر ان کا محض پیغام تعزیت ہم لوگوں کی نگاہ میں کیا غیر معمولی درجہ پاتا ہے؟ تقریباً ایک سال کے بعد جب کہ انہدام مجسمہ جات کا واقعہ پیش آ چکا ہے، علما کا ایک وفد اسی سلسلے میں اظہار یک جہتی کے لیے افغانستان جاتا ہے تو اس دورہ کی رپورٹ (مرتبہ مفتی محمد جمیل خان صاحب، شائع شدہ روزنامہ جنگ ۲۵ اپریل ۲۰۰۱ء) کے مطابق، یہ وفد امیر المومنین سے ملاقات میں سب سے پہلے اس سال پرانے پیغام تعزیت پر اظہار تشکر کرتا ہے۔ کیا فی الواقع یہ پیغام تعزیت اسی اہمیت کا مستحق تھا؟ اسی طرح طالبان کی حمایت کے لیے کراچی سے ہمارے ایک بڑے عالم کی سرپرستی میں جاری کیا جانے والا اخبار ’ضرب مومن‘ ملا محمد عمر صاحب کے دست راست ملا محمد ربانی کے انتقال پر تعزیتی مضمون شائع کرتا ہے تو ملا صاحب (حفظہ اللہ) کے چند تاثراتی کلمات نقل کر کے لکھتا ہے ’’یہ الفاظ کسی عام شخص کے نہیں بلکہ اس امیر المومنین کے تعزیتی کلمات ہیں جس کے نام، کارناموں اور کردار پر روس اور امریکہ سمیت پورا عالم کفر لرزہ بر اندام ......‘‘ ذرا غور کیجیے کہ وہ جس نے امت کو چودہ سو برس پرانی یہ بات آج تک بھولنے نہیں دی کہ مسلمانوں کا واقعی امیر المومنین بالکل ایک عام آدمی ہوتا ہے، اگرچہ وہ فاتح روم وایران ہو جائے، وہ ہمارے علماء کرام کے سوا اور کون تھا؟ مگر امیر المومنین ملا محمد عمر کے معاملے میں وہ خود ہی اس بات کو بھولے جا رہے ہیں کہ اس امیر المومنین کو بھی بالکل ایک عام آدمی ہونا اور شمار کیا جانا چاہیے، خاص کر جب کہ اس کی تو ایک اہم شہرت ہی سادگی اور بے امتیازی کی ہے۔
ہمارے جیسوں کے خوابوں کا نقصان تو ایک مایوسی اور بد مزگی کی شکل میں زیادہ تر ہمیں تک رہنا تھا، لیکن علماء پاکستان کے رویہ کو خود طالبان کی قسمت پر بھی، ان کے اپنے عمل اور طرز عمل کے ساتھ اثر انداز ہونا تھا کیونکہ وہ طالبان کا اعتماد نیز ان کے ہاں بزرگانہ حیثیت رکھتے تھے۔ طالبان کی ہمت کو تو آفریں ہے کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کو مہمان کہہ کے، اپنی روایات کے مطابق، اس قول کی آن کو اپنی جان جانے تک نباہنے کا بیڑا جو بل کلنٹن کے دور کی میزائل باری کے وقت سے اٹھایا تو جارج بش کا ۱۱/ستمبر کے بعد کا الٹی میٹم بھی ان کو اس سے پیچھے نہ ہٹا سکا لیکن کیا اسی طرح کی داد کا استحقاق ہمیں اپنے محترم علما کے لیے بھی اس پر ماننا ہوگا کہ انہوں نے بھی اپنے اس رویہ سے طالبان کے اس انداز فکر کی ہمت ہی بڑھائی؟ بے ادبی کی معافی چاہتے ہوئے، اپنی ناقص رائے میں اس رویہ کو داد وستائش کا حق دار نہیں مانا جا سکتا ہے۔ طالبان کا رویہ رومانوی مروت ومردانگی کے اعتبار سے بے شک لائق صد ستائش تھا مگر عملی دنیا کے تقاضوں کے اعتبار سے ہرگز قابل تائید وہمت افزائی نہ تھا، اور یہ وہ پہلو تھا جس کو سمجھنے اور اہمیت دینے کی توقع بجا طور پر ان علماء واجب الاحترام سے کی جا سکتی تھی جن میں ایسے بھی تھے جو برس ہا برس سے پاکستانی سیاست کا حصہ تھے اور ہیں۔ کیا سیاست کی دنیا میں ایسے بے لچک رومانوی رویوں کے ساتھ زندگی ممکن ہے؟ ہرگز بھی نہیں ہے، اور طالبان کو جو قضیہ اسامہ کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ درپیش تھا، وہ خالصتاً ایک سیاسی ہی قضیہ تو تھا۔ اول تو معزز مہمان ہی کو توجہ دلائی جا سکتی تھی کہ جہاں میزبان اس درجہ شرافت کا ثبوت دینے کو آمادہ ہو، وہاں مہمان کا بھی تو کچھ فرض بنتا ہے کہ اسے مخمصے سے نکلنے میں مدد دے۔ اور نہیں تو طالبان اور ملا محمد عمر ہی سے کہنا فرض بنتا تھا کہ وہ امیر المومنین کہلانے کے بعد صرف افغان روایت کے پاسبان ہی نہیں رہتے ہیں، انہیں پوری ملت اسلامیہ کی مصلحت اور سود وزیاں کی ذمہ داری کے انداز سے سوچنا ہوگا، اور اس انداز نظر کا اولین تقاضا ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ کا تحفظ ہے نہ کہ کسی فرد کا، وہ چاہے اسامہ ہوں چاہے خود ملا عمر ہی ہوں، اور نہ ہی کسی روایت کا، وہ کیسی ہی مقدس کیوں نہ ہو! مگر کیسے کہا جائے، اور نہیں تو کیسے رہا جائے، کہ جو ہمہ وقت سیاست کی دنیا میں رہ رہے تھے، انہیں نے طالبان کے روایت پرستانہ رویے کی سب سے بڑھ کر ہمت افزائی اس حد تک کی کہ خود فریق بن کر امریکہ کو وارننگ دے ڈالی کہ اگر افغانستان پر دست درازی ہوئی تو امریکنوں کی بھی پاکستان میں خیر نہیں ہے! حالانکہ وہ کیونکر نہ جانتے ہوں گے کہ ان کے پاس اس دھمکی کو جامہ پہنانے کا کوئی وسیلہ نہیں، اور کسی طرح سے وہ کچھ کرنا اگر چاہیں گے بھی تو ان کی حکومت فی الفور انہیں بند کر دے گی، پھر امریکہ کو بھلا کیا ڈر ہو سکتا تھا؟ معلوم ہوا کہ ہم موجودہ سیاست کی دنیا کے کوچہ میں رہ بھی رہے ہوں، ہمیں دنیا کو جاننے کا اور اس کے مقابلہ میں اپنے آپ کو ناپنے کا موقع بھی مل رہا ہو، مگر جب بات طاقت کفر سے ٹکراؤ کی آجاتی ہے تو ہم اپنی اس وقت کی قابل رحم حالت کو بھول کر، صدیوں پہلے کی اسی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں جب ہمارا ستارہ عروج پر تھا اور ہماری للکار سے ایوانوں میں زلزلے آ جاتے تھے۔ اس دنیا میں آج تک کوئی بھی اپنی شرائط پر نہیں جی سکا ہے، کہیں نہ کہیں سمجھوتہ کرنا ہوتا ہے۔ قرآن پاک مسلمانوں سے صف آرا کفار سے موالات کو منافی ایمان بتاتا ہے، مگر ساتھ ہی بقدر ضرورت کی اجازت بھی دے دینا ضروری سمجھتا ہے۔ (الا ان تتقوا منہم تقاۃ۔ آل عمران ۲۸) ’’مگر یہ کہ ان کے شر سے بچاؤ چاہ رہے ہو‘‘ ہم اس کو اپنی زبان میں سیاست کہتے ہیں۔ اللہ کا کرم کہ اس نے اس کو دینی مسند سے بھی مستند کر دیا۔ اہل علم سے مخفی نہیں ہو سکتا کہ یہ اس طرح کی واحد مثال نہیں۔ اسی طرح سیرت نبوی کے صفحات میں بھی کمی نہیں ہے۔
معاملے کے سیاسی پہلو کی بات آئی ہے تو واقعہ یہ ہے کہ اس سلسلے کی سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر ذمہ داری حکومت پاکستان پر آتی ہے۔ اسے کم از کم صدر کلنٹن کے دور کی میزائل باری کے وقت سے ضرور اچھی طرح معلوم ہو گیا ہوگا کہ عالم عرب میں امریکہ کی خرمستیوں سے مشتعل اسامہ بن لادن امریکہ کے سلسلے میں ایسے عزائم رکھتے ہیں کہ امریکہ ان کو بہت اہمیت دے نہ دے، وہ ان عزائم کو کسی اقدام کا بہانہ بنا سکتا ہے، اور یہ بات تو وہ خوب ہی جانتی تھی کہ پاکستان کی آزادی بس وہیں تک ہے جہاں تک امریکہ کی رضامندی ہے۔ پس افغان حکومت کے ساتھ اپنے خصوصی تعلق کی مصلحت میں اس کا فوری اقدام ہونا تھا کہ اسامہ کے مسئلے کو حل کر لیا جائے، مگر اس طرح کی کوئی کوشش علم میں بالکل نہیں آئی یہاں تک کہ پانی سر سے اونچا ہو گیا اور ۱۱ ستمبر کے سانحہ کو (صحیح یا غلط طور پر) اسامہ کے نام ڈال کر طالبان کو الٹی میٹم دے دیا گیا اور مشرف صاحب سے پوچھ لیا گیا کہ طالبان اور اسامہ کے ساتھ ہیں یا ہمارے ساتھ؟ اس کے بعد بے شک زبردست دوڑ دھوپ شروع ہوئی مگر الٹی میٹم کے بعد اولاً افغانی فطرت اور اس پرمزید طالبانی اسلامیت سے کوئی ایسا مصالحتی فارمولا منوانا جس میں صاف طور پر جھک جانا آتا ہو، بالفرض ممکن تھا تو وہ پاکستانی علما کے متحدہ دباؤ سے! ورنہ کوئی صورت بظاہر نہ تھی، اور علماء کا رویہ ہم دیکھ ہی چکے ہیں کہ شاید ان کے لیے بھی یہاں غیرت کا سوال اہم تر ہو گیا۔
بلکہ علامات تو اس طرح کی ہیں کہ جیسے ہمارے محترم علما کی نظر میں اسامہ بن لادن کا دینی مرتبہ ملا محمد عمر صاحب سے کچھ خاص کم نہ تھا۔ اسامہ بھی وہاں اسلامی ہیرو ہی کا رتبہ پائے ہوئے تھے۔ اس کی ایک وجہ جہاں یہ ہو سکتی تھی کہ جہاد افغانستان میں ان کا بھی بڑا کردار تھا، پھر جب طالبان کے دور میں تعمیر نو کے کاموں کا کچھ سلسلہ شروع ہوا تو اس میں وہ اپنی دولت سے بھی شریک ہوئے اور تعمیری انجینئرنگ میں مہارت سے بھی۔ مزید اور بہت اہم وجہ ان کا یہ مخالف امریکہ جذبہ بھی ضرور تھا کہ علماء دیوبند اس کی خصوصی قدر کیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ انہیں مغرب دشمنی کی میراث اپنے اکابر سے ملی تھی، اور یہ وہ شے تھی کہ جہاں بھی نظر آ جائے، مبالغے کی زبان میں، وہ اسے بے اختیار ’سجدہ‘ کریں۔ الغرض اسامہ کے معاملے میں ہمارے علما کو اس وجہ سے بھی کسی ایسے فارمولے کی بات میں مددگار ہونے سے معذور ہی ہونا چاہیے جس کا مطلب ایسے جیالے مجاہد کو تنہا چھوڑ دینا ہو۔
علما تو علما، جہاد تو وہ چیز ہے کہ اس کے نام پر ایک عام سے مسلمان کا دل بھی دھڑکنے لگتا ہے اور اللہ کرے وہ دن کبھی نہ آئے جب مسلمان کا دل اس جذبے کا حامل نہ رہے کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’جس مومن نے کبھی جہاد میں حصہ لیا اور نہ کبھی اس کا دل اس جذبے سے دھڑکا، اس کی موت ایک درجے میں حالت نفاق کی موت ہوگی‘‘ اور یہ بات اس لیے ہونی چاہیے کہ جہاد فی سبیل اللہ کے صلے میں آخرت کے جس اجر وانعام کی بشارتیں دی گئی ہیں اور مجاہدین کے لیے جن مراتب عالیہ کا اعلان کیا گیا ہے، یہ وہ چیزیں ہیں کہ مومن کو ان پر مرنا چاہیے، پس جو ان پر مرنے کی آرزو نہیں رکھتا، وہ خود ہی سمجھے کہ کیسا مومن ہے! مگر جس طرح یہ بات حق ہے، اسی طرح ہم اس سامنے کی حقیقت سے کس طرح آنکھ بند کرنے کا جواز پا سکتے ہیں کہ آج نماز بے شک ہے، مگر وہ نماز خال خال ہی کہیں ہے جو اللہ کو مطلوب ہے اور جس کے فضائل آئے ہیں۔ یہی حال روزوں کا ہے، یہی حج کا اور یہی زکوٰۃ کا۔ اگر ان خالص عبادات کا یہ حال ہو گیا ہے کہ اپنی اصلیت پر نہ رہ سکیں تو جہاد ہی کے لیے کہاں سے گارنٹی مل سکتی ہے کہ یہ سو فی صدی آج بھی وہی ہو جس کا مرتبہ اور جس کے فضائل ہمیں قرآن وحدیث میں ملتے ہیں؟ جب کہ جہاد عبادات محضہ کے زمرہ کی چیز بھی نہیں! ہمارے سامنے اسامہ بن لادن کے جہادی تخیل کی جو تصویر اپنے علما ہی کے ذرائع سے آئی ہے، اسے دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ ایک طرف ہمارا وہ موروثی مغرب دشمن ذہن اور دوسری طرف جہاد افغانستان میں اسامہ کا ناقابل فراموش کردار، ان دونوں سے تاثر کے غلبہ نے، جو بالکل فطری تھا، ہمارے علماء واجب الاحترام کے لیے اس بات پر توجہ آسان نہ رکھی کہ اسامہ جس جہاد کے علم بردار تھے، وہ کہاں تک اہل علم کی تائید وستائش کاحق دار تھا؟ ورنہ اگر مسئلہ کو واقعی اس نظر سے دیکھا جاتا تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اسامہ کے جذبات اور قربانیوں کی پوری قدر دانی کے باوجود ان کے خاص جہادی مشن کو لائق تائید نہیں مانا جا سکتا تھا۔ جس جہادی مہم میں اس قوت کا کوئی توازن بمقابلہ حریف نہ ہو جس قوت کے لیے قرآن کہتا ہے اعدوا لہم مااستطعتم من قوۃ اور یہ اس طرح کی کوئی دفاعی مہم نہ ہو جس طرح کی مہم روس نے افغانیوں پر تھوپ دی تھی، تو اس کی تائید کا سوال کیونکر پیدا ہو سکتا ہے؟ ہرچند کہ یہ مہم عربی واسلامی دنیا میں امریکن خرمستیوں سے مشتعل ہونے والے مومنانہ جذبات کا نتیجہ ہو مگر اس سے اس کی حقیقت ایک خود کشی کے اقدام سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی تھی؟ اور خود کشی بھی فرد واحد کی نہیں، کل ملت افغان کی! اور اس صورت حال میں ان کے جذبات کی پوری قدر وعزت کے باوجود ہمارے محترم علماء پاکستان کا پورا اور باصرار وزن نہ صرف افغان علماء کونسل کے اس فیصلے ہی میں پڑنا تھا کہ شیخ اسامہ سے کہا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے افغانستان چھوڑ دیں، بلکہ اس سے بھی آگے اور شیخ اسامہ سے کھلی اپیل کی جانی تھی کہ امارت اسلامیہ افغانستان ہی کی سلامتی کا خطرہ نہیں، کل ملت اسلامیہ اور بالخصوص پاکستان کی عزت وآبرو بچانے کی خاطر وہ خود کو جبار وقت کے حوالے کردیں اور اپنے لیے حدیبیہ کے حضرت ابوجندل کا کردار قبول کر لیں اس لیے کہ بیچ کی کوئی راہ نہ تھی۔ یا یہ ہونا تھا اور یا افغانستان پر وہ حملہ جس کے تیور جانچ کر پوری اسلامی دنیا نے دم سادھ لیا! اسے کاش کہ اسامہ خود سے جرات کا ثبوت دے کر اسلامی تاریخ میں وہ نام پالیتے کہ اسلامی دنیا میں ان کے جو مخالف بھی تھے، وہ بھی تحسین وستائش کے سوا اور دوسری بات کے روادار نہ رہ پاتے۔
شیخ اسامہ کے جہادی تخیل کی تصویر کے لیے اپنے علما کے ذرائع کا جو حوالہ دیا گیا ہے، اس کااشارہ خاص طور پر دار العلوم حقانیہ (اکوڑہ خٹک) کے ماہنامہ ’الحق‘ کے خاص نمبر (نومبر ۲۰۰۱ء) کی طرف ہے، جس نے موصوف کا خصوصی پیغام شائع کیا ہے۔ یہ پیغام از اول تا آخر پوری امت کے لیے دعوت وتلقین جہاد ہے۔ اسے دیکھ لینے پر یہ حقیقت صاف سامنے آتی ہے کہ جذبات سے بھرے اس داعی کی علمی سطح ایسی نہ تھی کہ وہ بذات خود جہاد اسلامی کی تحریک کا آغاز کر دیتے۔ زیادہ کی ان صفحات میں گنجائش نہیں، اور ضرورت بھی اس ایک مثال سے زیادہ کی غالباً نہ ہوگی کہ مشہور حدیث: امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا کا حوالہ دے کر موصوف لکھتے ہیں، ’’لہٰذا دعوت الی اللہ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو اللہ کی طرف بلائیں ۔ اگر غیر مسلم ہماری دعوت کو قبول کر لیں تو وہ ہمارے بھائی ہیں، بصورت دیگر جہاد فرض ہو جاتا ہے۔‘‘ (صفحہ ۱۲) اس میں صحیح مسلم کی ایک حدیث بھی (اس نامکمل صورت میں) استعمال کی گئی تھی کہ ’’جو (مسلمان) اس حالت میں مرا کہ بیعت امام کا قلادہ اس کی گردن میں نہیں ہے، وہ گویا جاہلیت کی موت مرا‘‘ یہ کم علم تو ’ضرب مومن‘ (کراچی) میں اس قسم کے استدلال والے پیغام کی اشاعت دیکھ کر حیران ہی رہ گیا تھا، (لا تقربوا الصلوۃ .....والا وہ ادھورا استدلال ہے جو برطانیہ میں ایک گروہ، جس کے آگے پیچھے کا کچھ پتہ یہاں کسی کو نہیں ہے، قیام خلافت کی فرضیت کے لیے سنایا کرتا ہے) اور یہ دیکھ کر تو کچھ کہنے کا یارا ہی نہ تھا کہ ملا محمد عمر کی امارت کی طرف دعوت دینے کا اصل مقصد دنیائے کفر بالخصوص سامراجیوں کے خلاف جہاد مسلح جہاد تھا۔ بے مہار امریکہ اسی عنوان سے طالبان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے کہ اسامہ بن لادن تمہارے زیر سایہ ہمارے خلاف جہاد کا منصوبہ باندھے ہے، اور اسامہ اس کے لیے ثبوت فراہم کر رہے ہیں۔ یا للعجب!
الغرض اسامہ اپنے جذبات اور قربانیوں کے اعتبار سے یقیناًاعلیٰ قدر ومنزلت کے لائق تھے مگر علمی معاملات میں تو وہ محتاج تھے کہ علما ان کی رہنمائی کریں۔ مگر قسمت کا کچھ نہیں کیا جا سکتا کہ معاملہ الٹا ہو گیا، اور ان کا یہ مرتبہ مان لیا گیا کہ وہ علماء کانفرنس کے نام ’پیغام‘ جاری کریں۔
پشاور کانفرنس میں دار العلوم دیوبند سے بھی ایک بڑا وفد شریک ہوا تھا۔ ان حضرات نے یقیناًاس ’پیغام‘ کو قابل اعتنا نہیں پایا، ورنہ یہ بات زور وشور سے سامنے آتی اور اس عدم اعتنا سے ان کے رد عمل کا خاموش اظہار ہو جاتا تھا مگر کیا اچھا ہوتا کہ وہ اس موقع پر اپنی مسلم اور موقر حیثیت کا استعمال کرتے ہوئے امارت اور جہاد کے بارے میں اس علمی حقیقت کو بھی واشگاف فرما دیتے جو سرزمین پاکستان پر جذبات کے ہجوم وہیجان میں مستور ہو رہی تھی۔ ان حضرات سے بہتر کون اپنے پاکستانی ہم منصبوں کو یہ یاد دلانے والا ہو سکتا تھا کہ اپنے اکابر نے ۱۸۵۷ء میں شاملی کے میدان میں بڑے اعتماد سے انگریزوں کے خلاف قدم رکھا مگر اس پہلے ہی تجربے میں ان پر یہ حقیقت کھلی کہ حریف کی طاقت اور ان کی طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں ہے تو انہوں نے دانش مندی کی روایت اپناتے ہوئے کہ ’’جاہا سپر باید انداختن‘‘ فوراً میدان جنگ بدلنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں دار العلوم دیوبند اور اس کی تحریک وجود میں آئی۔ پھر پچاس ساٹھ سال کے بعد اگرچہ اکابر کی دوسری نسل نے دوبارہ اسی مسلح جدوجہد کا منصوبہ ایک دوسرے انداز سے عمل میں لانے کو بنایا مگر جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، انہیں جیسے ہی اسبابی پہلو سے اس کی کام یابی کی راہ بند نظر آئی اور دیکھا کہ عالم اسلام کمزوری کے اس درجے کو پہنچ چکا ہے کہ یورپین سامراج سے اب اسلحہ کی لڑائی جیتی نہیں جا سکتی، اب صبر سے کام لیتے ہوئے بے اسلحہ کی لڑائی ہی وہ واحد راہ ہے جس سے وقت کوبدلا جا سکتا ہے، تب سے انہوں نے اور ان کے اخلاف نے پورے شرح صدر کے ساتھ یہی راہ عمل اپنائی حتیٰ کہ ہندوستان آزاد ہوا۔ اور آج گو عالم اسلام کہنے کو آزاد ہے، اس میں ایک مملکت پاکستان کا اضافہ بھی ہو گیا ہے، اس کے پاس نیو کلیر اسلحہ بھی ہیں، مگر کون ہے جو کہہ سکے کہ ’فی الواقع‘ آزاد اور کافی طاقتور ہیں؟ اے کاش کہ اکابر وفد دیوبند نے اس ضرورت کی طرف توجہ کو وقت پایا ہوتا اور ان کے ہم قبیلہ علماء پاکستان طالبان اور اسامہ بن لادن کے سلسلے میں عین دیوبندی روایت ہی کے نام سے جس راہ پر کامل عزم واعتقاد کے ساتھ گامزن تھے، اس کے بارے میں انہیں ضرورت محسوس ہوتی کہ پھر سے غور کریں۔ اور چھوڑیے ’دیوبندی روایت‘ کے سوال کوبھی، جہاد جو اپنی اصل میں ذلت سے اٹھاتا اور عزت سے سرفراز کرتا تھا، کیا ہوا ہے کہ آج وہ عزت بخشنے کے بجائے ذلت ونکبت کی منزلیں طے کرا رہا ہے؟ کیسے نہیں ضرورت ہے کہ اس سوال پر غور کیا جائے؟
راقم آثم کے لیے یہ بات محض خوش بختی کی ہوگی کہ یہ خیالات جو ان صفحات میں پیش کیے گئے، انہیں کسی بڑے پیمانے پر قبولیت یا قابل توجہ ہونے کی حیثیت حاصل ہو جائے۔ افغانی سانحہ کے سلسلے میں اب تک جاری جتنا بھی اپنے لوگوں نے لکھا ہے، یہ اس کے بیچ میں ایک اجنبی سی آواز ہے وللناس فی ما یعشقون مذاہب کی رو سے کوئی مضائقہ اس میں نہ ہونا چاہیے۔ پھر بھی بے حد تامل رہا کہ روک کے رکھا جائے، یا ہرچہ بادا باد سے راہ دی جائے اور آج تک قدر ومحبت سے نوازنے والے کِتوں ہی کے شکوہ شکایت کا خطرہ مول لیا جائے؟ آفتاب عمر اب لب بام ہے، یہ خطرہ مول لینا آسان نہ تھا اس لیے اتنی دیر لگی کہ مجلس نوحہ وماتم برخواست ہونے کو آ رہی ہے اور اسی لیے ان خیالات کو بطور ایک مضمون شائع ہونے کے لیے نہ کہ ’الفرقان‘ کا اداریہ بننے کے لیے لکھا تھا تاکہ کسی محب ومہربان کو شکوہ ہو تو میری ذات سے ہو نہ کہ ادارہ الفرقان سے، مگر عزیز مرتبین الفرقان نے اسے ادارتی صفحات ہی میں جگہ دینا پسند کر لیا۔ میری خواہش اس کے باوجود یہ ہے کہ ان گزارشات کو میری ذاتی رائے کے طور پر پڑھا جائے۔ میں نے حتی الامکان سوچ وچار کے بعد ان خیالات کا اظہار اپنا ایسا ملی فریضہ سمجھا ہے کہ اگر اسے ادا نہ کروں تو اپنے ضمیر کی گنہگاری کا بوجھ لیے ضرور دنیا سے جاؤں گا۔ امارت طالبان کے سقوط کا حادثہ، پے در پے حادثوں کے بعد، اس قدر کرب ناک ہے کہ اور ایسے کسی حادثے کے لیے اب طاقت برداشت نظر نہیں آتی اور ہر ایسے حادثے پر دل ودماغ سوچتے سوچتے اس نتیجہ پر پختہ ہو گئے ہیں کہ قصور دشمنوں کا جو ہوتا ہے، وہ ہوتا ہے، اپنی بھی خام خیالیوں اور جذباتیت کا حصہ اس میں کم نہیں ہوتا حتیٰ کہ بنی بنائی باتیں بگڑ جاتی ہیں۔ یاد کیجیے، مصر میں صدر ناصر آئے، ان کے متنازعہ دینی خیالات سے قطع نظر عرب دنیا کو ایک نئی زندگی ملتی نظر آئی، مگر جذباتیت کی رو نے جب ارد گرد کے حقائق نظر انداز کرا دیے تو چند دن کے اندر اندر بات کیا سے کیا ہو گئی اور انہیں ماننا پڑا۔ قذافی آئے، انہوں نے بھی اس سے کچھ سبق نہ لیا حتیٰ کہ امریکہ وبرطانیہ کی دراز دستی کا ذاتی تجربہ کر لیا، تب بات ان کی بھی سمجھ میں آئی۔ اے کاش کہ اب یہ تجربات بند ہو جائیں۔
(بشکریہ ماہنامہ ’الفرقان‘ لکھنو)
(۱) اس مدد کی طالبان کو کتنی ضرورت تھی، اس کا اندازہ کرنے کے لیے اس بیان کا حوالہ بالکل کافی ہونا چاہیے جو بدھ مجسموں کے انہدام کے سلسلے میں ان کے نمائندہ برائے امریکہ، سید رحمت اللہ ہاشمی، کے حوالے سے اوپر درج ہو چکا ہے۔ یہ بیان سید صاحب نے جنوبی کیلیفورنیا کی ایک یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے دیا تھا۔ وضاحتی بیان دینے کے بعد انہوں نے حاضرین سے سوال بھی کیا تھا کہ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ اگر آپ ان مسائل کا شکار ہوتے تو آپ خود کیا کرتے؟ گویا ہاشمی صاحب کے خیال میں ان کے اس استدلال سے مغربی دنیا مطمئن ہو سکتی تھی کہ ہاں افغانوں نے جو کیا غلط نہیں کیا۔ بیرونی اور خاص کر مغربی دنیا سے ناواقفیت کے لیے اس سے بڑھ کر اور کون سا ثبوت چاہیے؟
’’ایڈز‘‘ کے اسباب اور احتیاطی تدابیر
حکیم محمد عمران مغل
ایڈز کیا ہے؟
لفظ ’’ایڈز‘‘ دراصل انگریزی زبان کے چار حروف کا مجموعہ ہے۔ A سے مرادAcquired (شکار ہونا)، I سے مراد Immune (مدافعتی نظام)، D سے مراد Deficiency (کمی) اور Sسے مراد Syndrome (بیماریوں کا مجموعہ) ہے۔ ایڈز سے مراد مدافعتی نظام میں کمزوری کی وجہ سے کئی بیماریوں کا شکار ہونا ہے۔ انسانی مدافعتی نظام کا بڑا حصہ خون میں سفید خلیے (lymphocytes) ہیں۔ یہ سفید خلیے باہر سے آنے والے جراثیم (وائرس، بیکٹریا) کو ہلاک کر کے جسم کو بیماریوں سے بچاتے ہیں۔ ایڈز کی صورت میں وائرس ان کو ہلاک کرتا ہے جس سے مدافعتی نظام کمزور ہو جاتا ہے اور کئی بیماریاں بیک وقت حملہ آور ہو جاتی ہیں۔
تاریخی پس منظر
ایڈز ایک نئی بیماری ہے۔ عام طور پر اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ ایڈز پھیلانے والا وائرس سب سے پہلے افریقہ میں ظاہر ہوا کیونکہ افریقہ میں بندر کاگوشت کھایا جاتا ہے جس میں یہ وائرس موجود ہوتا ہے۔ یہ وائرس بعد میں امریکہ اور یورپ میں پھیل گیا۔ امریکہ میں یہ وائرس غالباً ۱۹۵۰ء میں داخل ہوا۔ ۱۹۶۹ء میں ایک پندرہ سالہ لڑکا اس کا پہلا شکار ہوا اور Skin lesions (جلد پر دھبے) میں مبتلا ہو کر مر گیا۔ ڈاکٹر اس مرض کو نہ سمجھ سکے اور اس کی جلد کو محفوظ کر لیا گیا۔ حال ہی میں ان جلدی بافتوں (Tissues) کامعاینہ کیا گیا جس سے ایڈز کے وائرس کی موجودگی پائی گئی۔ ۱۹۵۹ء میں ۴۹ سالہ Hitian نیو یارک میں ایک قسم کے نمونیا سے ہلاک ہوا۔ اب اس کی موت کو ایڈز سے منسلک کیا جاتا ہے۔
برطانوی سائنس دانوں نے مانچسٹر سی مین (Manchester Seaman) جو ۱۹۵۹ء میں ہلاک ہوا، کے ٹشوز (بافتوں) سے ایڈز کا پتہ چلایا۔ اس مرض کا نام ایڈز ۱۹۸۲ء میں رکھا گیا اور ۱۹۸۳۔۸۴ء میں اس کا سبب وائرس HIV (Human Immuno Deficiency Virus)میں دریافت ہوا۔
ایڈز کا سبب
ایڈز کا سبب ایک قسم کا وائرس ہوتا ہے جسے HIVکہتے ہیں۔ وائرس بہت چھوٹے جاندار ہیں جو الیکٹران مائیکرو سکوپ کے نیچے دکھائی دیتے ہیں۔ وائرس کا لفظی مطلب ’’زہر‘‘ ہوتا ہے۔
HIV کا جینیاتی مادہ (Genetical Material) آر این اے پر مشتمل ہوتا ہے۔ جب وائرس خون کے سفید جرثوموں(T. lymphocytes) میں داخل ہوتا ہے تو RNA سے DNA بنایا جاتا ہے۔ یہ ڈی این اے سفید جرثوموں کے کروموسوم میں داخل ہو کر اسے یرغمال بنا لیتا ہے اور اپنے لیے نیا RNA اور پروٹین کوٹ بنواتا ہے۔ اس طرح کئی وائرس ایک وقت میں سفید خون کے خلیوں سے ابھار کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں اور خون کے نئے سفید خلیوں پر حملہ کر دیتے ہیں جن سے سفید خلیوں کی تعداد میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔
HIV-I انفیکشن کے تین مرحلے ہوتے ہیں:
(۱) کیٹگری اے: اس مرحلے پر خون کے سفید خلیوں کی تعداد ۵۰۰ فی مکعب ملی میٹر یا اس سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس سٹیج پر عموماً لوگوں میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں مگر ایک سے دو فیصد لوگوں میں بخار، کپکپی، درد swollen lymphnodes اور خارش کے دھبے ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ علامات بعد میں ختم ہو جاتی ہیں لیکن انفیکشن جاری رہتا ہے۔اس اسٹیج پر جسم کو بیماریوں کے خلاف قائم رہنے کے لیے ہر دن ایک سے دو بلین (کروڑ) نئے سفید خلیے پیدا کرنا پڑتے ہیں۔
(۲) کیٹگری بی : انفیکشن کے کئی ماہ سے کئی سال بعد مریض آہستہ آہستہ کیٹگری بی تک پہنچ جاتا ہے۔ جسم میں سفید خلیوں کی تعداد ۲۰۰ سے ۴۹۹ فی مکعب ملی میٹر تک رہ جاتی ہے۔ گردن، پیٹ اور بغلوں میں lymphnodes سوج جاتے ہیں جو تین یا تین سے زیادہ مہینوں تک رہتے ہیں۔ دوسری علامات میں سخت تھکاوٹ (Fatigue)، مسلسل بخار، اکثر رات کو پسینہ آنا، مسلسل کھانسی جو تمباکو نوشی سے نہ ہو، سردی، زکام، اور مسلسل پیچش (Persistant Diarrhea) شامل ہیں۔ ممکن ہے دماغ میں خرابی سے یادداشت گم ہو جائے اور سوچنے کی کمی، پہچان کی نا اہلی اور ڈپریشن جیسی علامات ظاہر ہوں۔
(۳) کیٹگری سی : اس مرحلے پر سفید خلیوں کی تعداد ۲۰۰ فی مکعب ملی میٹر سے کم ہو جاتی ہے۔ لمف نوڈز ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں۔ مسلسل پیچش اور کھانسی کی وجہ سے وزن میں کمی اور کمزوری ظاہر ہوتی ہے۔ کئی دوسری بیماریاں جیسے پھیپھڑوں کا نمونیا، ٹی بی، پٹھوں یا دماغ کے خلیوں کو تباہ کرنے والی بیماری (Toxoplasmic encephalitus)، بلڈ کینسر (Koposi's Sarcoma) وغیرہ حملہ آور ہوتی ہیں۔ مریض ایڈز سے کم اور ان بیماریوں سے زیادہ ہلاک ہوتا ہے۔ ان بیماریوں کے خلاف ادویات استعمال کرنے سے مریض کچھ مہینوں تک نارمل رہتا ہے لیکن آخر کار وزن کی کمی، مسلسل تھکاوٹ اور بیک وقت کئی بیماریوں کے حملے کی وجہ سے مریض کو بار بار ہسپتال لے کر جانا پڑتا ہے۔ دو سے چار سال میں مریض کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
احتیاطی تدابیر
ابھی تک ایڈز لاعلاج مرض ہے لیکن دو قسم کی مشہور ادویات ہیں جن میں AZT شامل ہے۔ ایڈز سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر کا اختیار کرنا بہت ضروری ہے:
۱۔ غلط جنسی رویے اور نشہ ایڈز کا بڑا سبب ہے، ان سے باز رہنا چاہیے۔
۲۔ مریض کو خون لگانے سے پہلے یقین کر لیا جائے کہ یہ HIV سے پاک ہے۔
۳۔ نئی سرنج کا استعمال کرنا چاہیے۔
(ماخذ: Human Biology, 5th edition, Mader S.S, McGraw Hill )
الشریعہ اکادمی کے تعلیمی سال کا آغاز
حافظ محمد یوسف
۱۹ دسمبر ۲۰۰۲ء جمعرات کو ایک خصوصی تقریب کے انعقاد کے ساتھ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے اس سال کے تعلیمی پروگرام کا آغاز ہو گیا ہے۔ تقریب میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی دامت برکاتہم نے ضعف وعلالت کے باوجود شرکت فرمائی۔ دونوں بزرگوں نے تقریب سے خطاب کیا، ظہر کی نماز اکادمی میں ادا کی اور اکادمی کے تعلیمی پروگرام پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی کام یابی کے لیے دعا فرمائی۔ تقریب میں گوجرانوالہ اور گرد ونواح سے دو سو کے لگ بھگ علماء کرام اور دینی کارکنوں نے شرکت کی جن میں جامعہ محمدیہ اہل حدیث کے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحمید ہزاروی، جامعہ اسلامیہ کامونکی کے مہتمم مولانا عبد الرؤف فاروقی، جامعہ صدیقیہ مجاہد آباد گوجرانوالہ کے مہتمم مولانا قاضی عطاء اللہ، جمعیۃ علماء اسلام کے راہ نما علامہ محمد احمد لدھیانوی، جمعیۃ اہل سنت کے راہ نما مولانا حافظ گلزار احمد آزاد اور پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری جمیل الرحمن اختر بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے بھی تقریب میں شرکت فرمانا تھی اور وہ سفر کے پہلے مرحلے میں سرگودھا پہنچ چکے تھے مگر اچانک کراچی سے ان کی خوش دامن محترمہ کے انتقال کی اطلاع موصول ہوئی اور وہ اپنا سفر منسوخ کر کے کراچی واپس چلے گئے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نوجوان علما کو تلقین کی کہ وہ انگریزی زبان سیکھیں اور دعوت وتعلیم کے جدید اسلوب سے واقفیت حاصل کریں تاکہ وہ آج کے دور میں لوگوں تک اسلامی تعلیمات کو صحیح طور پر پہنچا سکیں۔ انہوں نے اپنے ربع صدی قبل کے دورۂ برطانیہ کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس موقع پر انہیں بعض انگریز دانش وروں سے گفتگو کا موقع ملا اور یہ احساس ہوا کہ اگر میں انگریزی زبان سے واقف ہوتا اور ترجمان کا سہارا نہ لینا پڑتا تو اسلام کی بات زیادہ بہتر انداز میں غیر مسلموں تک پہنچا سکتا تھا۔
حضرت شیخ الحدیث مدظلہ نے کہا کہ قرآن کریم میں ایک چیونٹی کا ذکر ہے جس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر کو آتا دیکھ کر اپنی دیگر چیونٹی ساتھیوں سے کہا تھا کہ وہ اپنے بلوں میں گھس جائیں تاکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر بے خبری میں انہیں پاؤں تلے کچل نہ ڈالے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ساتھیوں اور قوم کے تحفظ کا شعور اللہ تعالیٰ نے چیونٹیوں کو بھی عطا فرمایا ہے اس لیے ہمیں اپنے اپنے حال میں مست نہیں رہنا چاہیے بلکہ ملک وملت کے تحفظ اور ترقی کی فکر بھی کرنی چاہیے۔
حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی مدظلہ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ دینی مدارس کا اصل مقصد اسلامی علوم کی حفاظت وترویج اور معاشرہ کی دینی راہ نمائی کے لیے افراد کار تیار کرنا ہے اور اکابر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دینی مدارس تمام تر مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود اپنا مشن جاری رکھیں گے۔ انہوں نے نوجوان علما کو تلقین کی کہ وہ محنت کے ساتھ تعلیم حاصل کریں اور اپنے عظیم اکابر واسلاف کے نقش قدم کی پیروی کریں۔
الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے تقریب کے شرکا کی تقریب میں تشریف آوری پر شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں اس سال کے تعلیمی پروگرام سے آگاہ کیا اور کام یابی کے لیے تعاون اور دعا کی درخواست کی۔
مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں تعلیمی سال کا آغاز
۲۳ دسمبر ۲۰۰۳ء بروز پیر صبح نو بجے ایک بابرکت محفل میں بانی مدرسہ حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی دامت برکاتہم کے افتتاحی خطاب اور دعا کے ساتھ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں نئے تعلیمی سال کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے۔ تقریب میں اساتذہ اور طلبا کے علاوہ شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مولانا صوفی عبد الحمید سواتی نے اپنے خطاب میں تعلیم وتعلم کی اہمیت، آداب اور اس حوالے سے اساتذہ وطلبا کی ذمہ داریوں کی وضاحت کی اور محنت، لگن اور خلوص کے ساتھ تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھنے اور اسے ترقی دینے کی نصیحت کی۔
افتتاحی تقریب کے بعد اساتذہ کے ایک اجلاس میں اسباق کی تقسیم اور دیگر تعلیمی وانتظامی امور سے متعلق فیصلے کیے گئے۔ اجلاس میں طے پایا کہ مدرسہ کے صدر مدرس مولانا زاہد الراشدی اس سال دورۂ حدیث کے طلبہ کو اسلامی احکام کے ساتھ بین الاقوامی قوانین کے ساتھ موازنہ، تاریخ اسلام اور تقابل ادیان کے حوالے سے اضافی لیکچرز بھی دیں گے۔
حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی کی دعا کے ساتھ یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا۔
تعارف و تبصرہ
ادارہ
’’شرح شمائل ترمذی‘‘
جناب نبی اکرم ﷺ کے اخلاق وفضائل پر امام محمد بن عیسیٰ ترمذیؒ کی کتاب صدیوں سے اہل علم کے ہاں متداول چلی آ رہی ہے اور اس کی مختلف زبانوں میں متعدد شروح لکھی گئی ہیں۔ جامعہ ابو ہریرہؓ خالق آباد ضلع نوشہرہ صوبہ سرحد کے مہتمم مولانا عبد القیوم حقانی نے اردو میں اس کی شرح لکھی ہے اور متعدد شروح کے افادات کو اپنے مخصوص انداز میں یک جا کر دیا ہے۔
اس کی پہلی جلد اس وقت ہمارے سامنے ہے جو ۶۳۸ صفحات پر مشتمل اور مضبوط جلد کے ساتھ مزین ہے۔ قیمت درج نہیں ہے اور القاسم اکیڈمی، جامعہ ابو ہریرہ، خالق آباد، نوشہرہ سے طلب کی جا سکتی ہے۔
’’امام ابو حنیفہؒ : حیات، فکر اور خدمات‘‘
ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد نے اکتوبر ۹۸ء کے دوران اسلام آباد میں امام اعظم حضرت امام ابو حنیفہؒ کی حیات، فکر اور خدمات پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں ممتاز ارباب علم ودانش نے امام اعظمؒ کی علمی ودینی خدمات پر روشنی ڈالی اور تحقیقی مقالات پیش کیے۔ ان میں سے اردو کے منتخب مقالات کو مذکورہ بالا عنوان کے ساتھ جناب محمد طاہر منصوری اور جناب عبد الحئی ابڑو نے کتابی شکل میں مرتب کیا ہے اور ادارۂ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی طرف سے اسے شائع کیا گیا ہے۔
پونے تین سو صفحات کی یہ خوب صورت کتاب مذکورہ بالا ایڈریس سے طلب کی جا سکتی ہے۔
’’قرآن اور علم جدید‘‘
معروف کشمیری دانش ور ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم کے بارے میں حضرت مولانا عبد الماجد دریابادیؒ نے لکھا تھا کہ:
’’۱۹۵۵ء میں کراچی میں ملاقات ہوئی اور مل کر جی بڑا خوش ہوا کہ کم سے کم ایک آدمی تو ذہنی اور دماغی قویٰ میں فرنگیوں کا ہم پلہ موجود ہے، اقبال کے بعد سہی، جو اقبال کے کام اور پیغام کو دنیا تک پہنچا سکتا ہے اور اقبال ہی کی زبان اور لہجے میں گفتگو کر سکتا ہے۔‘‘
سندھ کے ممتاز محقق حافظ محمد موسیٰ بھٹو نے ’’قرآن اور علم جدید‘‘ کے موضوع پر ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم کی ضخیم کتاب کی تلخیص پیش کی ہے جو اہل علم بالخصوص نوجوان علما کے لیے بلاشبہ ایک گراں قدر تحفہ ہے۔
صفحات: ۲۷۲، قیمت: ۱۰۰ روپے، ملنے کا پتہ: سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ، بی /۴۰۰، یونٹ نمبر ۴، لطیف آباد، حیدر آباد
فتنہ انکار حدیث پر ’’محدث‘‘ کی اشاعت خاص
ماہنامہ ’’محدث‘‘ لاہور ایک علمی ودینی جریدہ ہے جو ہمارے محترم اور بزرگ دوست مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی کی زیر ادارت ایک عرصہ سے علمی محاذ پر مصروف کار ہے اور علمی وفکری فتنوں سے امت کو خبردار کرتے رہنا اس کا خصوصی مشن ہے۔ فتنہ انکار حدیث پر ’’محدث‘‘ کی خصوصی اشاعت اس وقت ہمارے سامنے ہے جس میں دور حاضر میں انکار حدیث کے پس منظر اور اس کے دینی وملی مضرات ونقصانات پر مختلف علمی مقالات کی صورت میں روشنی ڈالی گئی ہے اور اس کے ساتھ ملک کے دیگر دینی جرائد میں اس حوالے سے شائع ہونے والے مقالات ومضامین کا ایک جامع اشاریہ بھی شامل کیا گیا ہے جو تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے بہت فائدہ کی چیز ہے۔
۲۸۰ صفحات پر مشتمل اس اشاعت خاص کی الگ قیمت درج نہیں ہے اور اسے دفتر ماہنامہ ’’محدث‘ 99/J ماڈل ٹاؤن لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’مفتی محمد یوسف صاحب کے ’’علمی جائزہ‘‘ کا علمی محاسبہ‘‘
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے بعض افکار ونظریات پر علماء اہل سنت کی طرف سے گرفت کی گئی کہ انہوں نے متعدد مسائل میں جمہور علماء اہل سنت سے الگ راہ اختیار کی ہے تو اکوڑہ خٹک کے مولانا مفتی محمد یوسف نے ’’مولانا مودودی پر اعتراضات کا علمی جائزہ‘‘ کے عنوان سے مولانا مودودی کے دفاع میں قلم اٹھایا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ علماء اہل سنت کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات درست نہیں ہیں۔ اس کے جواب میں وکیل صحابہؓ حضرت مولانا قاضی مظہر حسین دامت برکاتہم نے مذکورہ بالا عنوان کے تحت اپنی کتاب میں دلائل کے ساتھ واضح کیا ہے کہ مودودی صاحب کے بارے میں اکابر علماء اہل سنت کے اعتراضات واشکالات درست ہیں اور مفتی محمد یوسف صاحب ان میں سے کسی کو علمی بنیاد پر رد نہیں کر سکے۔
سوا چار سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس مجلد کتاب کی قیمت ایک سو بیس روپے ہے اور اسے تحریک خدام اہل سنت والجماعۃ چکوال نے شائع کیا ہے۔
’’جب پنجاب اسمبلی نے ربوہ کا نام چناب نگر رکھا‘‘
قیام پاکستان کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کے خاندان اور قادیانی گروہ کی قیادت نے مشرقی پنجاب سے ترک وطن کر کے پاکستان میں اپنا ہیڈ کوارٹر قائم کیا اور چنیوٹ کے قریب دریائے چناب کے کنارے پر پنجاب کے انگریز گورنر سے کوڑیوں کے بھاؤ زمین لیز پر حاصل کر کے نیا شہر بسایا تو اس کا نام جان بوجھ کر فریب کاری کے لیے ربوہ رکھا اس لیے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ ہے کہ وہ ’’مسیح بن مریم‘‘ ہے اور ربوہ کا لفظ قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے حوالے سے مذکور ہے۔ قادیانیوں کی اس فریب کاری کے خلاف سب سے پہلے مولانا منظور احمد چنیوٹی نے آواز بلند کی جس کی تمام دینی حلقوں نے تائید کی اور مولانا چنیوٹی نے مسلسل محنت اور تگ ودو کے بعد بالآخر پنجاب اسمبلی سے ربوہ کا نام تبدیل کرانے کا فیصلہ کرا لیا۔ زیر نظر کتاب میں مولانا چنیوٹی نے اس جدوجہد کی مرحلہ وار تفصیل بیان کی ہے اور متعلقہ ضروری دستاویزات کو اس کے ساتھ شامل کر دیا ہے۔
دو سو کے لگ بھگ صفحات کی اس مجلد کتاب کی قیمت ۹۰ روپے ہے اور اسے ادارہ مرکزیہ دعوت وارشاد چنیوٹ ضلع جھنگ نے شائع کیا ہے۔
’’جمال یوسف‘‘
مولانا عبد القیوم حقانی نے محدث عصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کی حیات وخدمات کا بڑے خوب صورت اور باذوق انداز میں تذکرہ کیا ہے اور حضرت بنوریؒ کے حوالے سے ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ہے جس پر وہ بجا طور پر شکریہ کے مستحق ہیں۔
صفحات: ۳۰۴، خوب صورت جلد وٹائٹل، قیمت درج نہیں ہے اور القاسم اکیڈمی جامعہ ابو ہریرہؓ، خالق آباد، ضلع نوشہرہ کی طرف سے یہ کتاب شائع کی گئی ہے۔
’’نماز تراویح اور مذاہب اہل حدیث‘‘
اس کتابچہ میں مولانا عبد الحق خان بشیر نے نماز تراویح کے حوالے سے اہل حدیث کے مختلف مذاہب کا جائزہ لیا ہے اور ٹھوس دلائل اور حوالوں کے ساتھ جمہور اہل سنت کے موقف کی وضاحت کی ہے۔
صفحات: ۱۵۲، قیمت: ۴۸ روپے، ملنے کا پتہ: حق چاریار اکیڈمی، مدرسہ حیات النبی، محلہ حیات النبی، گجرات
’’اکابر علماء دیوبند کا عقیدۂ حیات النبی‘‘
مولانا حافظ عبد الحق خان بشیر نے اس کتابچہ میں حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی حیات فی القبور کے بارے میں علماء دیوبند کے مسلک کی باحوالہ وضاحت کی ہے اور مولانا عطاء اللہ بندیالوی کے ایک رسالہ کا جواب دیا ہے جس میں انہوں نے حیات انبیاء علیہم السلام کے بارے میں علماء دیوبند سے مختلف موقف پیش کیا ہے۔
صفحات:۸۰، قیمت: ۲۴ روپے۔ یہ رسالہ بھی مذکورہ بالا پتہ سے منگوایا جا سکتا ہے۔
’’فلسفہ ارکان اسلامی‘‘
جلال پور بھٹیاں ضلع حافظ آباد کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا قاضی غلام نبی اصغرؒ نے ۱۹۳۵ء نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے احکام اور فلسفہ پر الگ الگ کتابچے تحریر کیے تھے جو ان کے فرزند جناب عبد الرشید ارشد نے مذکورہ بالا عنوان کے تحت یک جا شائع کر دیے ہیں۔
صفحات: ۱۱۰ روپے، قیمت : ۳۲ روپے، ملنے کا پتہ: مکتبہ رشیدیہ، ۲۵ لوئر مال، لاہور
’’فیض النحو اردو شرح نحو میر‘‘
نحومیر معروف درسی کتاب ہے۔ مولانا حافظ محمد رمضان اویسی نے اردو میں سوال وجواب کے انداز میں اس کی شرح لکھی ہے جو بچوں کو نحو کے مسائل یاد کرانے کے لیے بہت مفید ہے۔
صفحات : ۱۲۵، قیمت : ۵۰ روپے، ملنے کاپتہ: النظامیہ کتاب گھر، وائی بلاک، پیپلز کالونی، گوجرانوالہ
"A PILLAR OF ISLAM"
حافظ محمد اسلم رشیدی صاحب جامعہ رشیدیہ ساہیوال سے فیض یافتہ ہیں، ایک عرصہ سے مانچسٹر میں مقیم ہیں اور وہاں کے ماحول میں بچوں کو قرآن کریم حفظ وناظرہ کی تعلیم دینے کا خصوصی تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے برطانیہ کے ماحول اور ضروریات کو سامنے رکھ کر نورانی قاعدہ کی طرز پر ابتدائی قاعدہ ترتیب دیا ہے اور اس کے ضروری امور کو آسان انگریزی میں واضح کیا ہے۔ انگریزی خواں بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دینے کے لیے یہ قاعدہ بہت مفید ہے۔ اسے ادارہ اشاعت الاسلام پوسٹ بکس نمبر ۳۶، مانچسٹر ۱۶، برطانیہ نے شائع کیا ہے اور پاکستان میں یہ قاعدہ ناظم مدرسہ تجوید الفرقان، منظور کالونی، ساہیوال سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
فروری ۲۰۰۳ء
پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
۲۱ جنوری ۲۰۰۳ء کو ہمدرد سنٹر لٹن روڈ لاہور میں ’’مجلس فکر و نظر‘‘ کے زیر اہتمام ’’پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار منعقد ہوا جس کی صدارت ’’الشریعۃ‘‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی نے کی۔ سیمینار میں جسٹس (ر) عبد الحفیظ چیمہ‘ حکیم محمود احمد سرو سہارنپوری‘ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ‘ پروفیسر عبد الجبار شاکر‘ ڈاکٹر محمود الحسن عارف‘ جناب کے ایم اعظم اور پروفیسر ڈاکٹر محمدامین نے مختلف متعلقہ عنوانات پر مقالات پیش کیے اور متحدہ مجلس عمل کے مرکزی راہ نما حافظ حسین احمد ایم این اے اور صوبہ سرحد کے راہ نما پروفیسر محمد ابراہیم نے مہمانان خصوصی کی حیثیت سے نفاذ اسلام کے لیے متحدہ مجلس عمل کی پالیسی اور پروگرام نیز اس حوالہ سے صوبہ سرحد اور بلوچستان کی تازہ ترین صورت حال پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
اس موقع پر مولانا زاہد الراشدی کی طرف سے پیش کیا جانے والا مضمون ذیل میں شائع کیا جا رہا ہے جبکہ سیمینار کے دیگر مقالات اور ضروری تفصیلات ’’الشریعۃ‘‘ کی آئندہ اشاعت میں قارئین کی خدمت میں پیش کی جائیں گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ (ادارہ)
نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ وأصحابہ وأتباعہ أجمعین۔
نفاذ اسلام کی جدوجہد کے ایک نظریاتی کارکن کی حیثیت سے مجھے یہ معلوم کر کے بے حد خوشی ہوئی ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی علوم کی تعلیم و تدریس سے متعلق اساتذہ نے اگست ۲۰۰۰ء سے ’’مجلس فکر و نظر‘‘ کے نام سے ایک علمی فورم قائم کر رکھا ہے جس میں عصری مسائل پر اسلامی تناظر میں غور کیا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان بننے کے بعد سے اب تک نفاذ اسلام کے علمی و فکری تقاضوں اور عصری مسائل کے اسلامی تناظر میں تجزیہ و حل کے لیے غیر سرکاری سطح پر کوئی اجتماعی کام منظم نہیں ہو سکا اور اگرچہ اس حوالہ سے شخصی حوالوں سے اچھا خاصا کام سامنے آیا ہے مگر شخصی فکر اور عقیدت کے دائروں میں محدود ہونے کی وجہ سے قوم کی اجتماعی زندگی میں اس کے خاطر خواہ ثمرات مرتب نہیں ہو سکے اور نفاذ اسلام کے محاذ پر علمی و فکری ہوم ورک کا خلا بدستور ارباب علم و دانش کو کھٹک رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ جس طرح قیام پاکستان کے فوراً بعد تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام نے ۲۲ دستوری نکات مرتب کر کے نفاذ اسلام کے حوالہ سے اجتماعی علمی سوچ اور فکر کا عملی مظاہرہ کیا تھا، اس کا تسلسل قائم رہتا اور اسی جذبہ اور شعور کے ساتھ عصری مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ نفاذ اسلام کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور مشکلات سے نمٹنے کی علمی جدوجہد کی جاتی لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا اور ہماری نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط قومی زندگی میں علماء کرام کے مذکورہ ۲۲ متفقہ دستوری نکات کے بعد اگر کوئی اجتماعی علمی کاوش نظر آتی ہے تو وہ ۷۳ء کے دستور میں اسلامی دفعات کی شمولیت‘ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے‘ صدر ضیاء الحق مرحوم کے دور میں وفاقی شرعی عدالت کے قیام‘ حدود آرڈیننس کے نفاذ اور اس نوعیت کے دیگر چند اقدامات تک محدود ہے یا اس سلسلہ میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اور وفاقی شرعی عدالت کے متعدد فیصلوں کا حوالہ دیا جا سکتا ہے مگر جب ہم نفاذ اسلام کے سلسلہ میں عالمی سطح پر پائے جانے والے ہمہ گیر شکوک و شبہات اور مختلف عالمی حلقوں کی تشویش و اضطراب کے تناظر میں نفاذ اسلام کی اصل علمی و فکری ضروریات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ کام قطعی طور پر ناکافی دکھائی دیتا ہے۔ بالخصوص جدید علمی و فکری چیلنجز کے پس منظر میں اجتماعی علمی و فکری جدوجہد کا خلا پوری شدت کے ساتھ اپنے وجود کا احساس دلاتا رہتا ہے۔
میری ایک عرصہ سے یہ کوشش اور خواہش رہی ہے کہ قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کی تعلیم و تدریس کے ساتھ گہرا تعلق رکھنے والے علما اور جدید علوم و فنون بالخصوص قانونی نظام سے تعلق رکھنے والے ارباب دانش کے مشترکہ علمی فورم تشکیل پائیں اور امام اعظم ابوحنیفہؒ کے طرز اجتہاد کا احیا کرتے ہوئے مسائل کے تجزیہ و تحلیل اور حل کے لیے مشاورتی طریق کار کا راستہ اختیار کیا جائے لیکن متعدد مواقع پر اس کے لیے آواز اٹھانے اور متعلقہ حضرات کو توجہ کے باوجود پیش رفت کی کوئی صورت دکھائی نہیں دی۔ اس پس منظر میں ’’مجلس فکر و نظر‘‘ کے قیام پر مجھے جس قدر خوشی ہو سکتی ہے، اسے الفاظ میں بیان کرنا مجھے مشکل محسوس ہو رہا ہے تاہم اس میں یہ کمی میرے خیال میں ابھی تک موجود ہے کہ دینی مدارس کے سینئر اساتذہ اور قانونی شعبہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین سے استفادہ کی شاید ضرورت محسوس نہیں کی گئی یا ان سے رابطہ کا کوئی قابل عمل طریقہ طے نہیں پا سکا۔ لیکن اس حوالہ سے اپنے احساسات و تاثرات کے اظہار پر خود کو مجبور پا رہا ہوں اور اس پر ’’مجلس فکر و نظر‘‘ سے معذرت خواہ ہوں ۔
جہاں تک پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات پر گفتگو کا تعلق ہے، اس سلسلہ میں سب سے پہلے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اب تک ہونے والے کام پر ایک نظر ڈال لی جائے تو آئندہ ترجیحات پر غور ہمارے لیے آسان ہو جائے گا۔
- ملک کے دستور کی بنیاد ’’قرارداد مقاصد‘‘ پر ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت مطلقہ کو تسلیم کر کے قرآن وسنت کی حدود میں رہتے ہوئے عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعہ ملک کا نظام چلانے کی ضمانت دی گئی ہے۔ اسی حوالہ سے یہ ملک ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کہلاتا ہے اور اسی بنیاد پر پاکستان کو ایک نظریاتی اسلامی ریاست کا مقام حاصل ہے۔
- دستور میں اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دیا گیا ہے۔
- قرآن و سنت کے منافی قوانین نافذ نہ کیے جانے اور تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کا دستوری وعدہ کیا گیا ہے۔
- مروجہ قوانین کی اسلامی حیثیت کے تعین کے لیے وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے دو دستوری ادارے کام کر رہے ہیں۔
- اسلامی نظریاتی کونسل ملک کے تمام مروجہ قوانین کا جائزہ لے کر انہیں قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایک جامع رپورٹ پیش کر چکی ہے۔
- وفاقی شرعی عدالت نے متعدد قوانین کے بارے میں واضح فیصلے صادر کر رکھے ہیں۔
- قومی اسمبلی اور سینٹ آف پاکستان مختلف مواقع پر قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لا قرار دینے کا بل الگ الگ طور پر منظور کر چکی ہیں ۔
مگر اس سب کچھ کے باوجود نفاذ اسلام کی دلّی ابھی بہت دور ہے اور اس کے قریب آنے کا سردست کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک کا موجودہ نظام جن طبقات کی گرفت میں ہے اور جو گروہ پاکستان کے مروجہ سسٹم کا کنٹرول پوری قوت کے ساتھ اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں، ان میں سے کوئی طبقہ بھی نفاذ اسلام کے لیے سنجیدہ نہیں ہے اور وہ اسے قوم کو بہلانے کے لیے ایک کھلونے سے زیادہ کوئی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس طبقہ میں سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ساتھ جاگیردار اور اعلیٰ مراعات یافتہ گروہ بھی شامل ہیں اور انہیں پاکستان میں نفاذ اسلام کا ہر قیمت پر راستہ روکنے کے لیے عالمی استعمار اور ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے۔ اس لیے میرے نزدیک نفاذ اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والی جماعتوں اور طبقات کی ترجیحات میں سب سے پہلے اس بات کو اہمیت حاصل ہونی چاہیے کہ مروجہ نظام کی حفاظت کے لوکل اور ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کے قائم کردہ حصار اور ریڈ لائن کو کیسے توڑا جائے؟ کیونکہ اس حصار کو توڑے بغیر اور مروجہ نو آبادیاتی نظام کا خاتمہ کیے بغیر نفاذ اسلام کا کوئی سنجیدہ قدم آگے نہیں بڑھ سکتا اور نہ ہی نظام میں تبدیلی کی کوئی کوشش کامیاب ہو سکتی ہے۔
اس کے بعد تاریخ اسلام سے دو تین مواقع کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جب چند نیک دل حکمرانوں کو بگڑے ہوئے نظام کی اصلاح کا موقع ملا اور انہوں نے اس بگڑے ہوئے نظام کی اصلاح کے لیے پوری دیانت داری کے ساتھ پیش رفت کی۔ ہو سکتا ہے ان کے اقدامات اور طرز عمل سے ہمارے لیے راہ نمائی کا کوئی راستہ نکل آئے۔
پہلے نمبر پر حضرت عمر بن عبد العزیزؒ ہیں جنہوں نے پہلی صدی ہجری کے اختتام پر خلافت کی ذمہ داری قبول کی جبکہ ملکی نظام میں خاصا بگاڑ آچکا تھا۔ عوامی حاکمیت کی بجائے حکمران طبقہ وجود میں آگیا تھا۔ وی آئی پی کلچر نے مسلمان سوسائٹی میں اپنی جگہ بنا لی تھی اور قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ کا یہ عالم تھا کہ بعض مؤرخین کے بقول بیت المال یعنی قومی خزانے کے اسی فی صد اموال اور اثاثے شاہی خاندان اور مراعات یافتہ طبقوں کی تحویل میں تھے۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے برسر اقتدار آنے کے بعد اس صورت حال کی اصلاح کے لیے جو اقدامات کیے، ان کی فہرست طویل ہے لیکن ان میں چند اہم اقدامات یہ ہیں :
- قومی خزانے کی رقوم اور اثاثوں کی واپسی کا آغاز اپنی ذات اور گھر سے کیا اور پھر کسی رو رعایت کے بغیر تمام متعلقہ لوگوں سے قومی خزانے کی رقوم اور اثاثے سختی کے ساتھ واپس لے لیے۔
- سابق حکمرانوں نے رعایا پر جو ناجائز ٹیکس عائد کر رکھے تھے، وہ ختم کر دیے اور عام لوگوں کو سرکاری عمال کی لوٹ کھسوٹ سے نجات دلائی۔
- وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کیا اور پروٹوکول اور پرسٹیج کے ضابطے ختم کر دیے۔
- خود بھی عام لوگوں جیسی سادہ زندگی اور رہن سہن اختیار کیا اور دوسرے سرکاری حکام کو بھی عام لوگوں جیسے معیار زندگی کی طرف واپس آنے پر مجبور کیا۔
- قانون کی عملداری بحال کی اور سرکاری عمال کو پابند کیا کہ وہ کسی شخصیت‘ طبقہ یا خاندان کی پروا کیے بغیر قرآن و سنت کے مطابق تمام امور کے فیصلے کریں۔
چھٹی صدی ہجری میں ایک نیک دل حکمران سلطان نور الدین زنگیؒ نے شام کی حکومت کا کنٹرول حاصل کیا تو اسے بھی ایک بگڑے ہوئے نظام کا سامنا تھا اور اس نے اصلاح احوال کے لیے جو طریقے اختیار کیے، ان میں سے چندایک کا مؤرخین اس طرح ذکر کرتے ہیں:
- جزیہ اور خراج کے سوا تمام ٹیکس منسوخ کر دیے۔
- عام ضرورت کی تمام اشیا کو چونگی اور ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔
- منکرات و فواحش اور بدکاری و بے حیائی کے خاتمہ کے لیے سخت گیر پالیسی اختیار کی۔
- سرکاری خرچ پر مفت شفا خانہ قائم کیا۔
- دمشق میں علم حدیث کی تعلیم کے لیے مستقل مدرسہ قائم کیا جو عالم اسلام کا پہلا ’’سرکاری دار الحدیث‘‘ کہلاتا ہے اور جس کے شیخ الحدیث معروف محدث حافظ ابن عساکرؒ تھے۔
- خراسان کے معروف ریاضی دان قطب الدین نیشا پوریؒ کو دمشق میں بلوا کر بڑی درسگاہ قائم کی۔
بارہویں صدی ہجری کے دوران جب ہندوستان میں مغل بادشاہت کا چراغ بتدریج گل ہو رہا تھا، جنوبی ہند کی ریاست میسور میں سلطان ٹیپوؒ نے اقتدار سنبھالا تو اسے ایک زوال پذیر معاشرے سے سابقہ درپیش تھا اور وہ جنوبی ایشیا میں برطانوی استعمار کے تیزی سے بڑھتے ہوئے قدموں کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہا تھا۔ اس نے میسور کی سلطنت خداداد کو ایک خوشحال اور مستحکم اسلامی ریاست بنانے کی ہر ممکن کوشش کی‘ تجارت و زراعت کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ دفاع اور اسلحہ سازی کی طرف خصوصی توجہ دی اور جہاز سازی کے میدان میں پیش رفت کر کے عسکری قوت میں فرنگی استعمار کے بالمقابل آنے کا عزم کیا۔ مؤرخین کہتے ہیں کہ اگر ٹیپو شہیدؒ کو اس کی خواہش کے مطابق ترکی کی خلافت عثمانیہ کی سرپرستی حاصل ہو جاتی اور میسور کی پڑوسی مسلم ریاستیں اس کے مقابلہ میں فرنگی حکمرانوں کا ساتھ نہ دیتیں تو سلطان ٹیپوؒ کی حکمت عملی اور عزم میں اتنی قوت تھی کہ وہ جنوبی ایشیا کے ایک بڑے حصے کو برطانوی استعمار کے نو آبادیاتی تسلط سے آزاد رکھنے میں کامیاب ہو جاتا۔ مگر خلافت عثمانیہ اور ریاست حیدر آباد دونوں نے اس مرد غیور کا ساتھ دینے اور اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنے کے بجائے انگریزوں کا ساتھ دینے کو ترجیح دی جس کی وجہ سے نہ صرف سلطان ٹیپوؒ کو جام شہادت نوش کرنا پڑا بلکہ جنوبی ایشیا کی یہ اسلامی ریاست بھی تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہوگئی۔
ہمیں پاکستان میں اس سے کہیں زیادہ سنگین صورت حال درپیش ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ اور سلطان نور الدین زنگیؒ کے سامنے ایک بگڑے ہوئے نظام کی اصلاح کا مشن تھا جو انہوں نے اپنے خلوص‘ دیانت اور کردار کی بدولت پورا کر دکھایا جبکہ سلطان ٹیپوؒ کے سامنے اپنی سلطنت کی آزادی کو بچانے اور جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے مستقبل کا سوال تھا جسے وہ حل نہ کر سکا مگر اپنی جان کا نذرانہ دے کر اس نے مسلمانوں کو اپنی آزادی‘ خود مختاری اور اسلامی تشخص کے تحفظ کی جدوجہد کا راستہ بتا دیا۔ ہمارے سامنے یہ دونوں چیلنج ہیں اور پہلے سے کہیں زیادہ سنگین اور خوفناک شکل میں ہیں۔ اس لیے پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کرنے والوں کو حضرت عمر بن عبد العزیزؒ ‘ سلطان نور الدین زنگیؒ اور سلطان ٹیپو شہیدؒ کے کردار‘ عزم اور حوصلہ و استقامت سے راہ نمائی حاصل کرنا ہوگی اور محض ’’روایتی سیاسی عمل‘‘ پر قناعت کرنے کی بجائے ایک ملی و دینی مشن کے طور پر اس کے طریق کار اور ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔
آخر میں صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت کے حوالہ سے بھی کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ وہ یہ کہ نہ صرف پاکستان کے عوام بلکہ دنیا بھر کی دینی تحریکات اور دینی کارکنوں کی نظریں ان پر لگی ہوئی ہیں اور افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت کے جبری خاتمہ نے دنیا بھر کے دینی کارکنوں کے دلوں پر جو زخم لگائے ہیں‘ وہ صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی کامیابی کو اپنے زخموں پر مرہم کی طرح محسوس کر رہے ہیں۔ میں اس سلسلہ میں اپنے ذاتی مشاہدہ کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ ء کے انتخابات کے موقع پر میں لندن میں تھا۔ انتخابات کے نتائج سامنے آنے پر کم از کم چھ مختلف ملکوں کے مسلم دانش وروں نے مجھ سے رابطہ قائم کیا اور مبارک باد دیتے ہوئے اپنے جذبہ اور خلوص کے مطابق صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی متوقع حکومت کو کامیاب بنانے کے لیے بہت سے مشورے دیے۔ انہیں یہ غلط فہمی تھی کہ شاید متحدہ مجلس عمل میں مجھے بھی ایسی حیثیت حاصل ہے کہ میں اس کی قیادت کو پالیسی اور ترجیحات کے معاملہ میں کوئی مشورہ دے سکتا ہوں اور اسی وجہ سے وہ مجھے مفید مشوروں سے نواز رہے تھے جبکہ میں اس بات پر خوش تھا کہ متحدہ مجلس عمل کو صرف پاکستان کے دین دار عوام ہی نہیں بلکہ مختلف ملکوں کے مسلمان دانش ور بھی اپنی جماعت سمجھ رہے ہیں اور اس سے توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ ان سب دوستوں کے مشوروں کا خلاصہ یہ تھا کہ:
- متحدہ مجلس عمل کو صوبہ سرحد میں ایک مثالی عوامی اور اسلامی حکومت کا عملی نقشہ پیش کرنا چاہیے۔
- عوامی مسائل کے حل اور مشکلات کے خاتمہ کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
- سماجی انصاف اور معاشرتی عدل کی فراہمی کو اولیت دینی چاہیے۔
- پروٹوکول‘ پرسٹیج اور وی آئی پی کلچر کے عذاب سے لوگوں کو نجات دلانا چاہیے۔
- صوبائی وزراء کو قناعت‘ سادگی اور قانون کی یکساں عملداری کا اپنی ذاتی زندگی میں نمونہ بننا چاہیے۔
- نا انصافی‘ رشوت‘ بد عنوانی اور سرخ فیتہ کی لعنت کے خاتمہ کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔
- عام لوگوں میں اپنی مدد آپ کے تحت سماجی کاموں کا شعور بیدار کرنا چاہیے اور ہر لحاظ سے دوسرے صوبوں اور دوسری سیاسی جماعتوں کے وزرا سے متحدہ مجلس عمل کے وزرا کو الگ اور ممتاز نظر آنا چاہیے تاکہ وہ نہ صرف اپنے صوبہ میں عوام کو عدل و انصاف کا صحیح ماحول فراہم کر سکیں بلکہ ان کا کردار اور حکومتی طرز عمل ملک کے دوسرے صوبوں کے عوام کے لیے بھی باعث کشش ہو اور پورے پاکستان کے عوام عملاً یہ محسوس کریں کہ ان کی فلاح و بہبود اور بہتر مستقبل اسلامی نظام اور دینی قیادت ہی سے وابستہ ہے۔
ان مشوروں کے ساتھ میں اپنی طرف سے سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت کے لیے ایک مشورہ کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ اسلامائزیشن کا بہت سا کام اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی شکل میں موجود ہے۔ صرف آئین کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لے کر صوبائی اختیارات کی حدود واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کام کے بعد صوبائی اختیارات سے تعلق رکھنے والی اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو چھانٹ لیجیے اور متعلقہ ماہرین کی مشاورت سے ترجیحات طے کر کے صوبائی اسمبلی کے ذریعہ ان کے بارے میں قانون سازی کا آغاز کر دیجیے کہ اس وقت آپ کے بس میں عملاً صرف یہی ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ جب اپنے بس اور اختیار کا کام آپ کر گزریں گے تو اگلی پیش رفت کی راہیں بھی اللہ تعالیٰ ضرور کھول دیں گے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔
مکی عہد نبوت کے اہم دعوتی وتبلیغی مراکز
پروفیسر محمد اکرم ورک
قبل از ہجرت مکہ مکرمہ میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے کوئی متعین تبلیغی ودعوتی مرکز نہ تھاجہاں رہ کر وہ اطمینان اور سکون کے ساتھ اپنی دعوتی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ۔ درحقیقت مکی دور میں خود رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس ہی متحرک درس گاہ تھی۔سفروحضر، دن اور رات ہر حال اور ہر مقام میں آپﷺ ہی کی ذات دعوت وتبلیغ کا منبع تھی۔صحابہ کرامؓ عام طو ر پر چھپ کر ہی قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے تاہم کفار مکہ کی ستم رانیوں کے باوجود رسول اللہ ﷺ کے علاوہ حضرت ابوبکرؓ ،خبابؓ بن الارت ،مصعبؓ بن عمیر اور دیگر صحابہ کرامؓ قرآن مجید کی تعلیم اور اشاعت میں مصروف رہے۔مکی دور کے ایسے مقامات اور حلقہ جات کو دعوت وتبلیغ کے مراکز سے تعبیر کیاجاسکتاہے جہاں حالات کی نزاکت اور ضرورت کے مطابق کسی نہ کسی انداز میں قرآن مجید کی تعلیم دی جاتی تھی یا قرآن کی تلاوت کی جاتی تھی۔ذیل کی سطور میں مکی دور کے چند دعوتی وتبلیغی مراکز کا مختصر تعارف پیش کیاجاتا ہے، جہاں پر صحابہ کرامؓنے کسی نہ کسی حیثیت میں فریضۂ دعوت انجام دیا۔
مسجد ابی بکرؓ
مکی دور میں دعوت وتبلیغ کا اولین مرکز حضرت صدیقِ اکبرؓ کی وہ مسجد تھی جو آپؓ نے اپنے گھر کے صحن میں بنا رکھی تھی۔ابتدا میں یہ ایک کھلی جگہ تھی جس میںآپؓ قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور نماز پڑھا کرتے تھے۔عام طور پرآپؓ بلند آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو کفار ومشرکین مکہ کے بچے اور عورتیں ان کے گر دجمع ہوکر قرآن سنتے، جس سے ان کا دل خود بخود اسلام کی طرف مائل ہوتا۔یہ صورت حال مشرکینِ مکہ کو بھلا کب گوارا تھی ،چنانچہ انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کو سخت اذیت میں مبتلا کیا جس کی وجہ سے آپؓ نے مکہ سے ہجرت کاارادہ کرلیا۔مگر راستے میں قبیلۂ قارہ کے رئیس ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی۔اس نے پوچھا اے ابوبکرؓکدھر کا ارادہ ہے؟ آپؓ نے فرمایاکہ میری قوم نے مجھے ہجرت پر مجبور کردیا ہے، اب دنیا کی سیر کروں گااور کسی گوشہ میں اطمینان سے اپنے رب کی عبادت کروں گا،مگر ابن الدغنہ یہ کہہ کرآپ کو واپس لے آیاکہ آپؓجیسے باکردار شخص کو ہجرت پر مجبور نہیں کیاجاسکتا اور پھر حضرت صدیقِ اکبرؓ کے لیے اپنی پناہ کا اعلان کیا۔ ابوبکرؓ واپس تشریف لے آئے اور گھر کے صحن میں باقاعدہ مسجد بنالی۔ صحیح بخاری میں ہے:
ثم بدأ لابی بکرؓ فابتنی مسجدا بفناء دارہ وبرز فکان یصلی فیہ ویقرء القرآن۔ (۱)
’’پھر ابوبکرؓ نے اپنے مکان کے باہر صحن میں ایک مسجد بنائی،اور اس میں نماز اور قرآن پڑھتے تھے‘‘۔
مسجد ابی بکرؓ میں نہ کوئی مستقل معلم مقرر تھا اور نہ کوئی باقاعدہ طالب علم تھا۔البتہ یہ مسجد تلاوتِ قرآن اور اشاعتِ قرآن کے لیے مکی دور کی اولین درس گاہ اور تبلیغی مرکز قراردی جاسکتی ہے جہاں پر کفار مکہ کے بچے بچیاں اور عورتیں قرآن کے آفاقی پیغام کو لحنِ صدیقیؓ میں سنتے تھے اور مائل بہ اسلام ہوتے تھے۔ چنانچہ ابن اسحاق حضرت عائشہؓ کی سند سے روایت کرتے ہیں:
وکان رجلا رقیقا،اذا قرأ القرآن استبکی، فیقف علیہ الصبیان والعبید والنساء، یعجبون لما یرون من ھیئتہ، فمشی رجال من قریش الی ابن الدغنۃ، فقالوا:یا ابن الدغنۃ! انک لم تجر ھذا الرجل لیؤذینا ! انہ رجل اذا صلی وقرأ ما جاء بہ محمدﷺ یرق ویبکی، وکانت لہ ھیئتہ ونحو،فنحن نتخوّف علی صبیاننا ونسا ئنا و ضعفتنا ان یفتنھم، فأتہ،فمرہ ان یدخل بیتہ فلیصنع فیہ ماشاء۔
’’حضرت ابوبکرؓ رقیق القلب انسان تھے،جب قرآن پڑھتے تو روتے ،اس وجہ سے آپؓ کے پاس لڑکے،غلام اور عورتیں کھڑی ہوجاتیں،اور آپؓکی اس ہیئت کو پسند کرتے ،قریش کے چند لوگ ابن الدغنہ کے پاس گئے اور اس سے کہا:اے ابنِ الدغنہ!تونے اس شخص کو اس لیے تو پناہ نہیں دی تھی کہ وہ ہمیں تکلیف پہنچائے۔ وہ ایسا شخص ہے کہ جب نمازمیں وہ کلام پڑھتا ہے جو محمدﷺ لایا ہے تو اس کا دل بھر آتا ہے اوروہ روتا ہے۔اس کی ایک خاص ہیئت اور طریقہ ہے جس کی وجہ سے ہمیں بچوں،عورتوں اور دیگر لوگوں کے متعلق خوف ہے کہ کہیں یہ انہیں فتنے میں نہ ڈال دے اس لیے تو اس کے پاس جااور حکم دے کہ وہ اپنے گھر کے اندر رہے اور اس میں جو چاہے کرے‘‘۔
چنانچہ ابن الدغنہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آیا اور کہا کہ یا تو آپؓ اس طریقے سے باز آجائیں یا میر ی پناہ مجھے واپس لوٹا دیں۔حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:میں نے تیری پناہ تجھے واپس کردی۔میرے لیے اللہ کی پناہ کافی ہے۔ (۲)
بیت فاطمہ بنتِ خطابؓ
حضرت فاطمہ بنتِ خطابؓ ،حضرت عمر بن خطابؓ کی بہن ہیں جنہوں نے ابتدائی دور میں ہی اپنے خاوند سعیدؓ بن زیدسمیت اسلام قبول کرلیا۔یہ دونوں میاں بیوی اپنے گھر میں ہی حضرت خبابؓ بن الارت سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کیاکرتے تھے۔حضرت عمرؓ ایک دن اسلام لانے سے پہلے گلے میں تلوار حمائل کیے رسول اللہﷺ کے قتل کے ارادے سے نکلے، لیکن راستے میں اپنی بہن اور بہنوئی کے مسلمان ہونے کی خبر ملی تو انتہائی غصے کی حالت میں تلوار ہاتھ میں لے کر ان کے مکان پر پہنچے تو ان کو قرآن کی تلاوت اور تعلیم میں مشغول پایا۔ابنِ اسحاق کی روایت ہے:
وعندھما خبابؓ بن الارت معہ صحیفۃ فیھا: ’’طٰہٰ ‘‘یقرء ھما ایاھا۔ (۳)
’’ان دونوں کے پاس خبابؓ بن الارت تھے جن کے پاس ایک صحیفہ تھا جس میں سورہ طہٰ لکھی ہوئی تھی جو وہ ان دونوں کو پڑھا رہے تھے‘‘
سیرتِ حلبیہ میں حضرت عمرؓ کی زبانی منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے میرے بہنوئی کے یہاں دو مسلمانوں کے کھانے کا انتظام کیاتھا،ایک خباب بن الارتؓ اور دوسرے کانام مجھے یاد نہیں۔ خباب بن الارتؓ میری بہن اور بہنوئی کے پاس آتے جاتے تھے اور ان کو قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے۔(۴)
اس سلسلہ میں حضرت عمرؓ کایہ بیان ہے :
وکان القوم جلوسا یقرء ون صحیفۃ معہم۔ (۵)
’’اور ایک جماعت بیٹھ کر صحیفہ پڑھ رہی تھی جوان کے پاس موجود تھا‘‘
بیتِ فاطمہ بنتِ خطابؓ کو مکی دور میں قرآن مجید کی تعلیم اور اشاعت کا مرکز کہاجاسکتا ہے جہاں کم ازکم دو طالب علم اور ایک معلم تھا۔اور اگر حضرت عمرؓ کے بیان میں لفظ’’قوم‘‘کا اعتبار کیا جائے تو یقینی طور پریہاں قرآن پڑھنے والی ایک پوری جماعت کا پتہ چلتاہے۔
دارِ ارقمؓ
حضرت ارقم بن ابی الارقمؓ (*۱) السابقون الاولون یعنی بالکل ابتدائی دور میں اسلام لانے والوں میں سے ہیں۔ آپؓ کے بیٹے عثمان بن ارقم ،جو ثقہ محدث ہیں،کہاکرتے تھے:
انا ابن سبع الاسلام، اسلم ابی سابع سبعۃ۔ (۶)
’’میں(عثمان)ایک ایسی ہستی کافرزند ہوں جنہیں اسلام میں ساتواں درجہ حاصل ہے،میرے والد اسلام قبول کرنے والے ساتویںآدمی ہیں‘‘۔
حافظ ابنِ حجر نے بھی الاصابہ میں ابن سعد کے قول کوہی اختیار کیا ہے تاہم ابن الاثیر کے مطابق حضرت ارقمؓ کاقبول اسلام میں دسواں یابارہواں نمبر ہے۔(۷)
البتہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت ارقمؓ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ابتدائی دور میں ہی اسلام قبول کرلیاتھا۔
وکانت دارہ علی الصفاء۔ (۸)
’’مکہ میں ان کا مکان کو ہ صفا کے اوپر تھا‘‘۔
دارِ ارقم (*۲)کے نام سے شہرت حاصل کرنے والے اس مکان کو اسلامی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ مکان ’’دارالاسلام‘‘کے متبرک لقب سے بھی یادکیا جاتا ہے۔(۹)
مشرکینِ مکہ جب اسلام کے پھیلاؤ کو کسی طرح بھی نہ روک سکے تو انہوں نے کمزور ضعفاء اسلام پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کو بیت اللہ میں آزادانہ نماز ادا کرنے سے روکتے،ذکر الٰہی اور تلاوتِ قرآن میں خلل انداز ہوتے ،دست درازی کرتے اور اکثر ان کارویہ انتہائی گستاخانہ ہوتاتھا۔حالات اس قدر نازک ہوچکے تھے کہ مسلمانوں کے لیے گوشوں اور گھاٹیوں تک میں محفوظ اور آزادانہ طور پر عبادت اور نماز کا ادا کرنا ممکن نہ تھا۔ ابن اسحاق کا بیان ہے:
’’ایک دفعہ مسلمان مکہ کی ایک گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ مشرکین کے ایک گروہ نے انہیں دیکھ لیا اوران کو سخت سست کہنا شروع کیا۔بات بڑھتے بڑھتے لڑائی تک پہنچ گئی اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے ایک شخص کو اونٹ کی ہڈی کھینچ ماری جس سے اس کا سر پھٹ گیا۔ یہ پہلا خون تھا جو اسلام کے بارے میں بہایا گیا۔(۱۰)
یہ وہ سنگین حالات تھے جن میں رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کو لے کر دارِارقم میں پناہ گزیں ہوگئے تاکہ مسلمان پورے انہماک سے اپنے رب کے حضور اپنی جبین نیاز کو جھکاسکیں،چنانچہ جلد ہی دارِارقم اسلا م اور دعوتی سرگرمیوں کامرکز بن گیاجہاں پر نہ صرف لوگوں کودائرۂ اسلام میں داخل کیا جاتا تھا بلکہ ان کی مناسب تعلیم وتربیت اور تزکیۂ نفس بھی کیاجاتا تھا ۔ ابنِ سعد کی روایت ہے:
کان النبیﷺ یسکن فیھا فی اول الاسلام وفیھا یدعو الناس الی الاسلام فاسلم فیھا قوم کثیر۔ (۱۱)
’’رسول اللہﷺ ابتدائے اسلام میں اس مکان میں رہتے تھے،لوگوں کواسلام کی دعوت دیتے تھے اور بہت سے لوگوں نے یہاں اسلام قبول کیا‘‘۔
ابنِ جریر طبری بھی مکی عہد نبوت میں دارِ ارقم کو دعوتی سرگرمیوں کا مرکز قرار دیتے ہیں جہاں پر کثیر لوگوں نے اسلام قبول کیاچنانچہ حضرت ارقمؓ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وکانت دارہ علی الصفا، وھی الدار التی کان النبیﷺ یکون فیھا فی اول الاسلام وفیھا دعا الناس الی الاسلام فاسلم فیھا قوم کثیر۔ (۱۲)
’’حضرت ارقمؓ کا گھر کوہ صفا پرواقع تھا ۔ آغازِ اسلام میں رسول اللہ ﷺاسی گھر میں رہا کرتے تھے۔ یہیں آپﷺ لوگوں کو دعوتِ اسلام دیا کرتے تھے اور یہاں پر بہت سے لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے‘‘
ابنِ عبد البر اپنی شہرہ آفاق کتاب’’الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب‘‘میں حضرت ارقمؓ کے تذکرہ میں لکھتے ہیں:
وفی دارالارقمؓ بن ابی الارقم ھٰذا کان النبیﷺ مستخفیا من قریش بمکۃ یدعوالناس فیھا الی الاسلام فی اول الاسلام حتیٰ خرج عنھا،وکانت دارہ بمکۃ علی الصفا فاسلم فیھا جماعۃ کثیرۃ۔ (۱۳)
’’یہ ارقم بن ابی ارقمؓ وہی ہیں جن کے گھر میں رسول اللہﷺ مکہ مکرمہ میں قریش سے پوشیدہ مقیم رہتے تھے۔کھل کرسامنے آنے سے قبل اسلام میں آپ ﷺیہاں پر لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے تھے۔حضرت ارقمؓ کا یہ مکان مکہ میں کوہ صفا پر واقع تھا،چنانچہ یہاں پر بہت بڑی جماعت نے اسلام قبول کیا‘‘
داارِ ارقم کے مرکزِ اسلام بننے کے بعد دعوت وتبلیغ کاکام اب قدرے اطمینان کے ساتھ مشرکین کی نظروں سے اوجھل انجام پانے لگا۔دعوتِ اسلام کایہ وہ مرحلہ ہے جس میں مکہ مکرمہ کے بے کس ،زیردست اور غلام اس نئی تحریک میں اپنی دنیاوآخرت کی نجات تصور کرتے ہوئے داخل ہوتے ہیں۔ابنِ الاثیر نے حضرت عمار بن یاسرؓاورصہیب رومیؓکے قبولِ اسلام کے متعلق ایک بڑا دلچسپ واقعہ تحریر کیا ہے۔
ایک دن یہ دونوں حضرات چھپتے چھپاتے اور دبے پاؤں دارِ ارقم کے دروازہ پر اکٹھے ہوجاتے ہیں،حیرت واستعجاب سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں پھر گفتگو کا رازدارانہ اندازشروع ہوجاتاہے۔عمار بن یاسرؓ خود بیان کرتے ہیں:
’’میں نے صہیبؓ سے پوچھاتم یہاں کیوں کھڑے ہو؟صہیبؓ نے کہا!تم کیوں کھڑے ہو؟ میں نے کہا!میں چاہتا ہوں کہ محمدﷺ کے پاس جاؤں اور ان کی باتیں سنوں،صہیبؓ نے کہا!میں بھی تو یہی چاہتا ہوں‘‘
چنانچہ یہ دونوں حضرات اکٹھے ہی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اوراسلام قبول کرلیا۔ ان بزرگوں کا اسلام تیس سے کچھ زائد آدمیوں کے بعد ہوا۔(۱۴)
دارِ ارقم نہ صرف ضعفاء اسلام کی جائے پناہ تھی بلکہ یہاں صحابہ کرامؓ کی تعلیم وتربیت کے ساتھ اجتماعی طور پر عبادات،ذکراللہ اور دعاؤں کا سلسلہ ہمہ وقت جاری رہتا تھا۔اس میں وہ دعا خصوصیت سے قابلِ ذکرہے جو رسول اللہﷺ نے عمر بن خطابؓ اور (ابوجہل)عمرو بن ہشام میں سے کسی ایک کے قبولِ اسلام کے لیے مانگی تھی۔ابنِ اسحاق کی روایت ہے کہ ایک دن حضرت عمرؓ(معاذ اللہ)رسول اللہﷺ کو قتل کرنے کے ارادے سے روانہ ہوئے۔ راستہ میں اپنی بہن فاطمہ بنتِ خطابؓ کے گھر سورہ طٰہٰ کی تلاوت سنی تو کایا ہی پلٹ گئی ، ان کو مائل بہ اسلام دیکھ کر حضرت خبابؓ بن الارت نے انہیں خوشخبری کے انداز میں بتایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دارِ ارقم میں یہ دعا کرتے سناہے:
اللّٰھم اید الاسلام بابی الحکم بن ہشام او بعمر بن الخطاب۔ (۱۵)
’’اے اللہ!ابوالحکم بن ہشام یا عمر بن خطابؓ سے اسلام کی تائید فرما‘‘
چنانچہ حضرت عمرؓ یہاں سے سیدھے دارِ ارقم پہنچے اور اسلام قبول کرلیا۔
دارِ ارقم ’’دارالاسلام‘‘ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لئے’’دارالشوریٰ‘‘بھی تھا۔پہلی اور دوسری ہجرت حبشہ جیسے اہم معاملات بھی اسی جگہ باہمی مشاورت ہی سے انجام پائے۔ابنِ ہشام کے الفاظ اس مجلس مشاورت کی صاف غمازی کررہے ہیں:
قال لھم لو خرجتم الی ارض الحبشۃ فان بھاملکا لایظلم عندہ احد، وھی ارض صدق،حتی یجعل اللّٰہ لکم فرجا مما انتم فیہ۔ (۱۶)
’’رسول اللہﷺ نے صحابہ کرامؓسے فرمایا! اگر تم سرزمینِ حبشہ کی طرف نکل جاؤ تو وہاں ایک بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا۔ وہ سچائی کی سرزمین ہے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس مشکل سے نجات دلادے جس میں تم گرفتار ہو‘‘
ان الفاظ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ خطاب صحابہ کرامؓکے کسی اجتماع سے ہی ہو گا جو دارِ ارقم میں انعقاد پذیر ہوگا۔اسی طرح ایک روز رسول اللہﷺکے صحابہؓ جمع ہوئے اور باہمی مشاورت سے طے کیا کہ قریش نے قرآن کو اپنے سامنے بلند آواز سے پڑھتے ہوئے کبھی نہیں سنا لہٰذا کوئی ایسا شخص ہو جو یہ فریضہ انجام دے۔چنانچہ حضرت عبداللہؓ بن مسعودنے یہ ذمہ داری قبول کی اور قریش کو ان کی مجلس میں جاکر قرآن کی طرف دعوت دی۔(۱۷)
اگرچہ یہ تفصیل معلوم نہیں ہوسکی کہ صحابہ کرامؓ کی یہ مجلس مشاورت کہاں پر منعقد ہوئی تاہم گمان یہی ہے کہ یہ مجلس مشاورت دارِ ارقم ہی میں قائم ہوئی ہوگی، کیونکہ اس کے علاوہ صحابہ کا اجتماع کسی اور جگہ پر مشکل تھا۔
ابتدائی دور کے تذکرہ نگار اور مؤرخین رسول اللہﷺ کے دارِ ارقم میں فروکش ہونے کو اتنا اہم اور انقلابی واقعہ تصور کرتے ہیں کہ واقعاتِ سیرت وتذکرۂ صحابہ میں یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ یہ واقعہ دارِ ارقم میں داخل ہونے سے قبل کاہے اور یہ اس کے بعدکا ہے۔ گویا جس طرح عام الفیل اور حلف الفضول جیسے واقعات کے حوالے سے اہلِ مکہ اپنی معاصر تاریخ کے واقعات کا تعین کرتے تھے، مسلمان مؤرخین بھی مکی عہد نبوت میں سیرت وتاریخ اسلام کے واقعات کا تذکرہ اور اندراج بھی ہادئ اسلام ﷺکے دارِ ارقم میں فروکش ہونے کے حوالے سے کرتے ہیں۔ مثلاًمؤرخ ابن الاثیر نے مسعودؓ بن ربیعہ، عامرؓبن فہیرہ،معمرؓ بن حارث وغیرہ کے تراجم (تذکروں)میں تصریح کی ہے کہ یہ لوگ رسول اللہﷺ کے دارِ ارقم میں منتقل ہونے سے قبل مسلمان ہوچکے تھے۔اسی طرح مصعبؓ بن عمیر،صہیبؓ بن سنان، طلیبؓ بن عمیر، عماربن یاسرؓ، عمر فاروقؓ وغیرہ کے تذکروں میں ابن الاثیر نے تصریح کی ہے کہ یہ لوگ دارِ ارقم میں جاکر اسلام کی دولت سے مالامال ہوئے تھے۔ (۱۸)
ابنِ سعد نے مہاجرین مکہ میں سے اولین وسابقین اسلام کے قبول دینِ حق کو دومرحلوں میں تقسیم کیاہے اور یہ واضح کیا ہے کہ وہ حضرات کون کون تھے جو دارِ ارقم کو دعوتِ دین کا مرکز بنانے کے بعد حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ابنِ سعدنے مندرجہ ذیل صحابہ کرامؓکے تذکروں میں یہ بات خصوصیت سے ذکر کی ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے دار ارقم میں تشریف فرماہونے سے قبل اسلام قبول کرچکے تھے: حضرت خدیجہؓ،ابوبکرؓ،عثمان غنیؓ،علی المرتضیؓ،زیدؓ بن حارثہ،عبیدہؓ بن حارث،ابو حذیفہؓ بن عتبہ،عبداللہؓ بن جحش ،عبدالرحمنؓ بن عوف،عبداللہؓ بن مسعود،خبابؓ بن الارت،مسعودؓ بن ربیع،واقدؓ بن عبداللہ،عامرؓ بن فہیرہ،ابوسلمہؓ بن اسد،سعیدؓ بن زید،عامرؓ بن ربیعہ،خنیسؓ بن حذافہ،عبداللہؓ بن مظعون اور حاطبؓ بن عمرو۔اسی طرح ابن سعدنے ان بزرگوں کی بھی نشاندہی ضروری سمجھی ہے جو دارارقم کے اندر آکر رسول اللہﷺ کے دستِ مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ان صحابہ کرامؓمیں حضرت صہیبؓ،عمار بن یاسرؓ،مصعبؓ بن عمیر،عمر بن خطابؓ،عاقلؓ بن ابی بکر249عامرؓ بن ابی بکر،ایاسؓ بن ابی بکراورخالدؓ بن ابی بکرشامل ہیں۔(۱۹)
ابن سعد کے اس طرزِ ترتیب سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک دارِ ارقم کو دینِ حق کی دعوتی وتبلیغی سرگرمیوں کا مرکزو محور بنانے کا واقعہ ایک ایسانقطۂ تغیر ہے جس نے دنیا کی بے مثال اور انقلابی اسلامی تحریک کو ایک نیا رخ عطاکرنے میں ایک محفوظ پناہ گاہ اور بے مثال تربیت گاہ کاکام دیا۔اس بات پرتمام مؤرخین اور محققین کا اتفاق ہے کہ رسول اللہﷺ حضرت عمرفاروقؓکے قبولِ اسلام تک دارِ ارقم میں ہی مقیم رہے۔جبکہ بعض روایات کے مطابق حضرت عمرؓ نے نبوت کے چھٹے سال میں اسلام قبول کیا تھا۔ البتہ مؤرخین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ رسول اللہﷺ دارِارقم میں کب فروکش ہوئے اور کتنا عرصہ دارِارقم مسلمانوں کی پناہ گاہ کاکام دیتا رہا۔اگرچہ بعض مؤرخین نے دارِ ارقم میں قیام کی مدت کے حوالے سے چھ ماہ اور ایک ماہ کے اقوال بھی نقل کیے ہیں(۲۰) لیکن اگر ماخذ کا تفصیلی جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دارِ ارقم میں رسول اللہﷺ کا قیام کافی مدت تک رہا ۔ اگرچہ اس مدت کا تعین تو مشکل ہے اور یہ بتانا بھی ممکن نہیں کہ رسول اللہﷺ کب دارِ ارقم میں پناہ گزین ہوئے تاہم مؤرخین کے بعض نامکمل اشارات سے ہم اس مدت کا اندازہ ضرور کرسکتے ہیں مثلاً ابن الاثیر حضرت عمرؓکے قبولِ اسلام کے واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’عمر بن خطاب تلوار لٹکائے گھر سے نکلے۔ ان کا ارادہ (معاذ اللہ)رسول اللہﷺکو قتل کرنے کاتھا۔مسلما ن بھی آپﷺ کے ساتھ دارِارقم میں جمع تھے ،جو کوہِ صفا کے پاس تھا۔اس وقت آنحضرت ﷺ ان مسلمانوں میں سے تقریباً چالیس مردوزن کے ساتھ وہاں پناہ گزین تھے جو ہجرت حبشہ کے لیے نہیں نکلے تھے۔‘‘ (۲۱)
ابن الاثیر کے اس قول سے واضح ہوتاہے:
۱۔ حضرت عمرؓنے ہجرتِ حبشہ کے بعد اسلام قبول کیاجبکہ ابنِ قیم نے تصریح کی ہے کہ پہلی ہجرت حبشہ ماہ رجب ۵نبوی میں پیش آئی۔ (۲۲)
۲۔ دارِ ارقم میں صرف وہ مسلمان پناہ گزین ہوئے تھے جو کسی وجہ سے حبشہ کی طرف ہجرت نہ کرسکے۔لہٰذا ان باقی ماندہ مسلمانوں کی تعداد تقریباًچالیس تھی نہ کہ اس وقت تک اسلام قبول کرنے والوں کی کل تعداد ہی چالیس تھی۔
پہلی اور دوسری ہجرت حبشہ کا فیصلہ دارِارقم ہی میں باہمی مشاورت سے ہوا تھا۔ اس لحاظ سے اگر حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام اور ہجرتِ حبشہ کے درمیانی عرصہ کو شمار کیا جائے تو وہ بھی ایک سال سے زائد ہی بنتا ہے۔جبکہ یہ بدیہی بات ہے کہ رسول اللہﷺ ہجرتِ حبشہ سے کافی پہلے دارِ ارقم میں پناہ گزیں ہوچکے تھے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی ایک دو سالوں میں ہی رسول اللہﷺ دارِا رقم میں مقیم ہو گئے تھے۔ مثلاً ابن الاثیرحضرت عمار بن یاسرؓ کا یہ بیان نقل کرتے ہیں:
’’میں نے رسول اللہﷺکو (اپنے اسلام لانے کے بعد)دیکھاتو آپ ﷺکے ساتھ صرف پانچ غلام،عورتیں اور ابوبکر صدیقؓ تھے‘‘۔ (۲۳)
مجاہد کا بیان ہے کہ حضرت عمار بن یاسرؓ ابتدا میں اسلام قبول کرنے والے سات آدمیوں میں سے ایک تھے۔ (۲۴) جبکہ اس بات پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے دارِا رقم میں جاکر اسلام قبول کیا (۲۵) اس صور ت میں تو رسول اللہﷺ کا ابتدائے اسلام ہی میں دارِ ارقم میں قیام پذیر ہونا ثابت ہوتا ہے۔
اسی طرح حضرت حمزہؓ نے کب اسلام قبول کیا؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں،بعض نے کہاہے کہ اعلانِ نبوت کے پانچویں سال اور بعض نے اعلانِ نبوت کے چھٹے سال ۔لیکن علماء محققین کی تحقیق یہ ہے کہ آپؓ اعلانِ نبوت کے دوسرے سال مشرف بہ اسلام ہوئے۔چنانچہ علامہ ابن حجر جو فن رجال کے امام ہیں،تحریر فرماتے ہیں:
واسلم فی السنۃ الثانیۃ من البعثۃ ولازم نصر رسول اللّٰہﷺ وھاجر معہ۔ (۲۶)
’’آپؓ بعثت کے دوسرے سال ایمان لائے اور ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کی مدد کرتے رہے اور آپ ﷺ کے ساتھ ہی ہجرت کی‘‘
اگرچہ ابن حجر نے ۶نبوی کا قول بھی نقل کیا ہے لیکن ’’قیل‘‘کے ساتھ جو ضعف پر دلالت کرتا ہے۔علامہ ابن الاثیر لکھتے ہیں:
اسلم فی السنۃ الثانیۃ من المبعث۔ (۲۷)
’’آپ بعثت کے دوسرے سال ایمان لائے‘‘ (*۳)
حضرت عمرؓ نے حضرت حمزہؓکے مسلمان ہونے کے صرف تین دن بعد اسلام قبول کیا اور علماء محققین کی یہ رائے بھی بیان کی گئی ہے کہ صحیح قول کے مطابق حضرت حمزہؓ نبوت کے دوسرے سال مشرف بہ اسلام ہوئے۔اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حضرت عمرؓنے نبوت کے دوسرے سال حضرت حمزہؓکے تین دن بعد رسول اللہ ﷺکے دستِ مبارک پر اسلام کی بیعت کی۔ اس قول کی مزید تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اکثر علما کی یہ رائے ہے کہ آپؓ سے پہلے انتالیس مرد مسلمان ہوچکے تھے۔آپؓکے مسلمان ہونے سے چالیس کا عدد پورا ہوا۔حضرت عمرؓکا بیان ہے :
لقد رایتنی وما اسلم مع رسول اللّٰہ ﷺ الا تسعۃ وثلاثون وکمّلتھم اربعین۔ (۲۸)
’’میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺکے ساتھ صرف انتالیس آدمی اسلام لاچکے ہیں اور میں نے ایمان لاکرچالیس کا عدد مکمل کیا‘‘
حاصلِ بحث یہ ہے کہ اگر محققین کے اس قول کا اعتبار کیا جائے کہ حضرت حمزہؓاور عمرؓ نے نبوت کے دوسرے سال ہی اسلام قبول کرلیا تھا تو یہ حقیقت مزید واضح ہوجاتی ہے کہ رسول اللہﷺ بہت ابتدا ہی میں دارارقم کو اپنی دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بناچکے تھے کیونکہ اس بات پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ ان دونوں حضرات نے دارِ ارقم میں ہی جاکر اسلام قبول کیاتھا۔
مؤرخین اسلام اور سیرت نگاروں کی مذکورہ بالا تصریحات سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے :
۱۔ رسول اللہﷺ یہاں آنے والے طالبانِ حق کو دعوتِ اسلام دیتے تھے اور جویہاں آیا فیض ہدایت پاکر ہی نکلا۔
۲۔ دارِ ارقم اہلِ اسلام کے لیے اطمینان قلب اور سکون کا مرکز تھا،بالخصوص نادار،ستائے ہوئے اور مجبور ومقہور اور غلام یہاں آکر پناہ لیتے تھے۔
۳۔ یہاں پر ذکر اللہ اور وعظ وتذکیر کا فریضہ بھی مسلسل انجام پاتا تھا ،رسول اللہﷺ اپنے جاں نثاروں کے ساتھ اجتماعی دعائیں بھی فرماتے تھے۔حضرت خبابؓ کے بیان سے تو یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ محسنِ انسانیت یہاں راتوں کو بھی بندگانِ خداکی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور التجائیں فرماتے تھے۔
۴۔ اس مکان میں مبلغینِ اسلام کی کارکردگی کاجائزہ لیاجاتا تھا ،تبلیغ کے آئندہ منصوبے بنتے تھے اور خود مبلغین کی تربیت کا کٹھن کام بھی انجام پاتا تھا۔ دارِارقم کے تربیت یافتہ معلمین میں سے حضرت ابوبکرؓ،خبابؓ بن الارت،عبداللہؓ بن مسعودؓ اور مصعبؓ بن عمیرخاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
۵۔ دارِ ارقم مسلمانوں کے لیے دارالاسلام ہونے کے ساتھ ساتھ’’دارالشوریٰ‘‘بھی تھاجس میں باہمی مشاورت سے آئندہ تبلیغ کے منصوبے بنتے تھے۔ ہجرت حبشہ کا فیصلہ بھی باہمی مشورہ سے یہیں پر طے ہوا،اور اس جگہ کو تاریخ اسلام میں وہی مقام حاصل تھا جو قریش کے ہاں دارالندوہ کو حاصل تھا۔
۶۔ دارِ ارقم میں رسول اللہﷺ کا پناہ گزین ہونا ایک تاریخ ساز مرحلہ تھا اور یہ بھی حلف الفضول ،حرب الفجار اور عام الفیل جیسا مہتم با لشان واقعہ تھا۔ جس طرح کفار مکہ اپنی معاصر تاریخ کا تعین ان واقعات سے کرتے تھے، اسی طرح مسلمان مؤرخین بھی مکی عہد نبوت میں پیش آنے والے واقعات کا تعین دارِ ارقم میں رسول اللہﷺ کے داخل ہونے سے قبل اور بعد کے حوالے سے کرتے ہیں۔
۷۔ حضرت ارقمؓ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے بہت ابتدا ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا اس لیے بہت ممکن ہے کہ انہوں نے بہت ابتدا ہی میں اپنے مکان کو تبلیغی سرگرمیوں کے لیے وقف کردیا ہواور آپﷺابتدائی سالوں میں ہی دارارقم کو اپنی دعوتی سرگرمیوں کامرکز بناچکے ہوں۔
۸۔ مؤرخین کے مختلف بیانات کی روشنی میں کہاجاسکتا ہے کہ دارارقم میں رسول اللہﷺ کے قیام کی مدت ایک سال سے بہرحال زائد تھی۔
۹۔ کفار مکہ مسلمانوں کے دارِ ارقم میں پناہ گزین ہونے سے پوری طرح واقف تھے۔ * تاہم دارارقم کی اندرونی سرگرمیوں اور منصوبہ بندیوں سے وہ قطعاًناواقف تھے۔
شعبِ ابی طالب
کفارمکہ کویہ خوش فہمی تھی کہ وہ اپنے وحشیانہ جبر وتشدد سے اسلام کی اس تحریک کوموت کی نیند سلادیں گے، لیکن جب ان کی تمام مساعی اور تدبیروں کے باوجود اسلام کا دائرہ پھیلتا ہی چلا گیا اور انہوں نے دیکھا کہ حضرت حمزہؓ اور عمرؓ جیسے لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا اور نجاشی کے دربار میں بھی ان کے سفیروں کو ذلت آمیز ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے تو اس چوٹ نے کفارِ مکہ کو مزید حواس باختہ کردیا، چنانچہ ان لوگوں نے طویل غوروخوض کے بعد متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ رسول اللہﷺ اور ان کے خاندان کو محصور کرکے تباہ کردیاجائے، چنانچہ تمام قبائل نے ایک معاہدہ کیاکہ کوئی شخص خاندانِ بنی ہاشم سے قربت کرے گانہ ان کے ہاتھ خریدوفروخت کرے گااورنہ ہی ان کے پاس کھانے پینے کا سامان جانے دے گا۔یہ معاہدہ لکھ کر کعبۃ اللہ کے دروازے پر آویزاں کردیاگیا۔(۲۹)
حضرت ابوطالب مجبو ر ہوکر رسول اللہ ﷺ اور تمام خاندانِ بنی ہاشم سمیت شعبِ ابی طالب میں محرم۷ نبوی میں محصور ہوگئے۔رسو ل اللہ ﷺ نے اپنے خاندان سمیت اس حصار میں تین سال بسر کیے۔ایام حج میں چونکہ تمام لوگوں کو امن تھا اس لیے حج کے موسم میں رسول اللہ ﷺ شعبِ ابی طالب سے باہر نکل کر مختلف قبائل عرب کو دعوت دیتے جبکہ باقی اوقات میں آپ ﷺ اسی گھاٹی میں مسلمانوں کی تربیت فرماتے۔شعبِ ابی طالب میں خاندانِ بنی ہاشم کے علاوہ صحابہ کرامؓ کی موجودگی کے اشارات بھی ملتے ہیں۔امام سُہَیْلِی نے سعد بن ابی وقاصؓ کا بیان نقل کیا ہے جوؓ خود بھی محصورین میں شامل تھے۔ وہ فرماتے ہیں:
لقد جعت حتی انی وطئت ذات لیلۃ علی شئ رطب ووضعتہ فی فمی وبلعتہ وما ادری ما ھو الی الان۔ (۳۰)
’’میں ایک دن از حد بھوکا تھا۔ رات کو اندھیرے میں میرا پاؤں کسی گیلی چیز پر آگیا میں نے اسے اٹھا کر منہ میں ڈالا اور نگل لیا۔مجھے اتنی ہوش بھی نہ تھی کہ میں پتہ کرتا کہ وہ کیا چیز ہے اور اب تک مجھے اس کے بارے میں کوئی علم نہیں‘‘۔
اسی طرح حضرت عتبہ بن غزوانؓ نے ایک دفعہ خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:
فلقد رأیتنی سابع سبعۃ مع رسول اللّٰہ ﷺ مالنا طعام نأکلہ الا ورق الشجر،حتی قرحت أشداقنا۔ (۳۱)
’’میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ساتواں مسلمان تھااور ہمارے پاس کھانے کے لیے درختوں کے پتوں کے سوا کچھ نہ تھا،حتیٰ کہ ہماری باچھیں زخمی ہوگئیں‘‘۔
یہ اور اسی نوعیت کی وہ تمام حدیثیں جن میں صحابہؓ کی زبان سے مذکورہے کہ ہم گھاس اور پتیاں کھاکر گزر بسر کرتے تھے، یہ اسی زمانہ کا واقعہ ہے ۔ اس نوع کی احادیث سے جہاں محصوری کے اس دور میں صحابہ کراأؓ کی مشکلات کا پتہ چلتاہے، وہاں شعبِ ابی طالب میں صحابہ کرامؓ کی موجودگی کا بھی واضح طور پر اشارہ ملتا ہے۔محصوری کے اس دور میں جس قدر وحی نازل ہوئی، یقیناًشعبِ ابی طالب میں رسول اللہ ﷺنے صحابہ کرامؓ کو اس کی تعلیم دی ہوگی اور یہاں صحابہ کرامؓ بھی دینی امور پر تبادلۂ خیال کرتے ہوں گے ۔اس لحاظ سے شعبِ ابی طالب کو بھی مکی عہد نبوت کا ایک دعوتی مرکز قرار دیا جاسکتا ہے جہاں رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ عرصہ تین سال تک تعلیم وتعلم اور دعوت وتبلیغ میں مشغول رہے۔
حواشی
(*۱) حضرت ارقمؓ کا تعلق قبیلہ بنو مخزوم سے تھا ۔کنیت ابو عبداللہؓ اور سلسلۂ نسب اس طرح ہے: ارقمؓ بن (ابی الارقم)عبد مناف بن (ابی جندب)اسد بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم ( الاستیعاب ،تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم،۱/۱۳۱)
حضرت ارقمؓ کی والدہ ،کا نام تماضر بنت خدیم تھا جو قبیلہ بنو سہم بن عمرو بن ہصیص سے تعلق رکھتی تھیں۔( ایضاً، اسد الغابہ،تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم،۱/۶۰،المستدرک، تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم،۳/۵۰۲)
حضرت ارقمؓ کا قبیلہ بنو مخزوم قریش مکہ کے سرکردہ اوربااثر قبائل میں سرفہرست تھا اس قبیلے کے جد امجد مخزوم بن یقظہ کاسلسلہ نسب تیسری پشت میں رسول اللہ ﷺ کے سلسلہ نسب سے جاملتاہے۔یقظہ مرہ بن کعب کا بیٹا تھا اور سرتاجِ قریش قصی (جو ہاشم بن عبد مناف کا باپ تھا)کاباپ کلاب بن مرہ بن کعب کا ہی بیٹا تھا۔(ابن حزم،ابومحمد علی احمد بن سعید،’’جمہرۃ انساب العرب‘‘،ص:۱۴۱،دارالمعارف،قاہرہ)
رسول اللہ ﷺ کے والد گرامی عبداللہ بن عبدالمطلب کی والدہ ماجدہ فاطمہ (بنت عمرو بن عائذبن عمران بن مخزوم بن یقظہ بن مرہ)کا تعلق بھی بنو مخزوم ہی سے تھا۔( جمہرۃ الانساب،ص:۱۴۱،۱۵)
حضرت ارقمؓ امیر معاویہؓ کے عہد حکومت میں ۵۵ھ اور ایک روایت کے مطابق ۵۳ھ میں اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ اس وقت ان کی عمر تراسی یا پچاسی برس تھی۔آپ کی وصیت کے مطابق سعدؓ بن ابی وقاص نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔(اسد الغابہ،تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم، ۱/۶۰)
امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری کا قول ہے:وکان الارقم من آخر اہل بدر وفاۃ ’’حضرت ارقم ؓ بدری صحابہ میں سے سب سے آخر میں فوت ہوئے‘‘۔( المستدرک ،تذکرہ ارقم ؓ بن ابی االارقم،۳/۵۰۲)
حضرت ارقمؓ نے وقف علی الاولاد کے طور پر اپنے گھر کو فی سبیل اللہ وقف کردیا تھا ۔حضرت ارقمؓنے اپنے گھر کو وقف فی سبیل قرار دینے سے متعلق جو نوشتہ تحریر کیا تھا امام حاکم نے وہ عبارت نقل کی ہے وہ عبارت یہ تھی۔
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ ھٰذا ما قضٰی الارقمؓ فی ربعۃ ما حاز الصفا انھا صدقۃ بمکانھا من الحرم لا تباع ولا تورث شھد ہشام بن العاص ومولیٰ ہشام بن العاص۔
’’یہ وہ فیصلہ ہے جو ار قم ؓ نے اپنی حویلی کے متعلق دیا جو کہ کوہ صفا کے ساتھ واقع ہے ۔حرم پاک کے قریب ہونے کے باعث یہ حویلی مثل حرم محترم قرار دی جاتی ہے ۔نہ یہ فروخت ہو گی نہ وراثت میں دی جائے گی۔اس پر ہشام بن عاص اور مولیٰ ہشام بن عاص گواہ ہیں ۔‘‘(المستدرک،تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم،۳/۵۰۳)
(*۲) لفظ ’’دار‘‘عموماً بڑے گھروں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔’’بیت ‘‘یا’’منزل‘‘بھی اگرچہ عربی الفاظ ہیں مگر ان کی حیثیت ’’دار‘‘سے کم تر ہے۔دار سے مراد ایسا مکان یا رہائش گا ہ ہے جس کی چار دیواری بالکل محفوظ ہو۔جس میں خواب گاہیں،صحن اور کمرے ہوں۔(تاج العروس،فصل الباء من باب التاء،۱/۵۲۹)
ابن منظور نے ’’لسان العرب‘‘میں ابن جنی کا قول نقل کیا ہے کہ جہاں لوگ محفوظ اور آزادانہ گزر بسر کرسکتے ہوں،اسے ’’دار‘‘ کہتے ہیں۔ (ابنِ منظور، جمال الدین محمد بن مکرم ،’’لسان العرب‘‘،دار،۴/۲۹۸ ،نشر ادب الحوزہ،قم،ایران، ۱۴۰۵ھ)
(*۳) پیر محمد کرم شاہ الازہری نے بڑے مضبوط دلائل سے ثابت کیا ہے کہ حضرت حمزہؓ نبوت کے دوسرے ہی سال مشرف بہ اسلام ہوچکے تھے۔ملاحظہ ہو، محمد کرم شاہ الازہری،پیر،’’ ضیاء النبی‘‘ ، ۲/۲۵۶۔۲۵۸،ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور،۲۰۰۰ء
* تمام رؤساء قریش رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کی جائے پناہ سے واقف تھے ۔اسی لیے جب حضرت عمرؓ رسول اللہ ﷺ ارادۂ قتل سے نکلے تو وہ سیدھے دارارقم کی طرف ہی جارہے تھے، البتہ بعد میں رخ تبدیل کر کے اپنی بہن کے ہاں چلے گئے ۔ (ابن ہشام ، اسلام عمر بن الخطابؓ ، ۱/۳۸۱) اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی ابو جہل کے ساتھ مڈبھیڑکا مشہور واقعہ ، جس کے نتیجہ میں حضرت حمزہؓ نے اسلام قبول کیا ، بھی کوہ صفا یعنی دار ارقم کے بالکل قریب ہی پیش آیا تھا ۔یقیناابوجہل آپ ﷺ کی قیام گاہ سے بھی واقف ہو گا۔ (ایضاً ،اسلام حمزہؓ ،۱/۳۲۸) ویسے بھی مکہ جیسے کم آبادی والے شہر میں تیس چالیس افراد کا کسی جگہ آتے جاتے رہنا ایسی بات نہ تھی جو اہل مکہ سے پوشیدہ رہ سکتی۔
حوالہ جات
(۱) صحیح البخاری،کتاب الکفالۃ،باب جوار ابی بکر الصدیقؓ فی عہد النبیﷺ وعقدہ ،ح:۲۲۹۷،ص:۳۶۷۔ ایضاً،کتاب الصلوٰۃ،باب المسجد فی الطریق.ح:۴۷۶، ایضاً، کتاب مناقب الانصار،باب ہجرۃ النبی واصحابہ الی المدینۃ، ح:۳۹۰۵،
(۲) ابنِ ہشام،دخول ابی بکرؓ فی جوار ابن الدغنہ ورد جوارہ علیہ،۱/۴۱۱
(۳) ابنِ ہشام،اسلام عمر بن الخطابؓ۱/۳۸۲
(۴) السیرۃ الحلبیۃ،۲/۱۳
(۵) السمہودی،نورالدین علی بن احمد،’’السیرۃ الحلبیۃ‘‘ ،۲/۱۳،دارالنفائس،الریاض،
(۶) المستدرک،تذکرہ ارقم بن ابی الارقم،۳/۵۰۲
(۷) اسد الغابہ ، تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم ، ۱/ ۶۰
(۸) المستدرک ،تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم ،۳/۵۰۲
(۹) ابن سعد ،تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم،۳/۲۴۳
(۱۰) ابن ہشام ، مباداۃ رسول اللہﷺقومہ،وماکان منھم،۱/۲۶۳
(۱۱) ابن سعد ،تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم ۳/۲۴۲۔ المستدرک،تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم،۳/۵۰۲
(۱۲) الطبری،محمد بن جریر،’’تاریخ الامم و الملوک‘‘ ،۳/۲۳۰،المطبعۃ الحسینیۃ،
(۱۳) ابنِ عبدالبر،’’الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب‘‘، تذکرہ ارقم ؓ بن ابی الارقم ، ۱/۱۳۱،دارالجلیل،بیروت،۱۹۹۲ء
(۱۴) اسد الغابہ ، تذکرہ عمار بن یاسرؓ ، ۴/ ۴۴
(۱۵) ابن ہشام ، اسلام عمر بن الخطابؓ ، ۱/۳۸۳۔ الکامل فی التاریخ ، ۲/ ۵۸
(۱۶) ابن ہشام ،ذکر الحجرۃالاولی الی ارض الحبشہ ، ۱/۳۵۸
(۱۷) ایضاً، اول من جہر بالقرآن ، ۱/۳۵۱
(۱۸) تفصیل کے لیے ’’اسد الغابہ‘‘ میں ان صحابہ کرامؓ کے تراجم ملاحظہ کیجئے ۔
(۱۹) ابن سعد ، ۳/۱۱۵، ۲۷۳،۴۲۵
(۲۰) حلےۃ الاولیاء ، ۱/۹۲ا۔۱۹۵
(۲۱) الکامل فی التاریخ ، ۲/۵۸
(۲۲) زادا لمعاد ، ۲/۱۰۰۔تاریخ الامم والملوک ، ۱/۹۵
(۲۳) اسد الغابہ ، تذکرہ عمار بن یاسرؓ ، ۴/۴۴
(۲۴) ایضاً
(۲۵) ایضاً
(۲۶) الاصابہ ، تذکرہ حمزہؓ بن عبدالمطلب ، ۱/ ۳۵۴
(۲۷) اسد الغابہ ، تذکرہ حمزہؓ بن عبدالمطلب ، ۲/۴۶
(۲۸) ابنِ حجر،ابوالحسن ،احمد بن علی’’فتح الباری‘‘ کتاب فضائل الصحابہ ، مناقب عمربن الخطابؓ ، ۷/۴۸،دارالمعرفۃ،بیروت
(۲۹) ابن ہشام ، خبر الصحیفۃ ، ۱/۳۸۸
(۳۰) الروض الانف ، حدیث نقض الصحیفۃ ، ۱/۲۳۲ ۔ حلیۃ الاولیاء،تذکرہ سعدؓ بن ابی وقاص ،۱/۱۳۵-۱۳۶
(۳۱) المسند، حدیث عتبہؓ بن غزوان ، ح:۲۰۰۸۶، ۶/۵۲۔ الاستیعاب ، تذکرہ عتبہؓ بن غزوان ، ۳/۱۰۲۶۔ حلیۃ الاولیاء،تذکرہ سعدؓ بن ابی وقاص،۱/۱۳۶
مسلم امہ کو درپیش فکری مسائل
ڈاکٹر محمد امین
مسلم امہ کو درپیش فکری مسائل کے حوالے سے ’’الشریعہ‘‘ نے کئی اصحاب علم کے رشحات فکر شائع کیے۔ ان میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب نے تو فکری مسائل کی ایک فہرست تیار کر دی ہے اور ان جہات کی نشاندہی کی ہے جن میں مزید کام کی ضرورت ہے اور دیگر افراد نے کسی ایک آدھ فکری پہلو پر تجزیاتی گفتگو کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صدیقی صاحب کا جامع مقالہ ان کی فطانت‘ وسعت نظر اور اسلامی امور پر گہری دسترس کا غماز ہے۔ تاہم ان کے مقالے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ در اصل ان مسائل کی نشاندہی کر رہے ہیں جن پر ان کے نزدیک جدید اسلامی تحریکوں کے فضلا کو کام کرنا چاہیے۔ (اور مقالہ اردو میں ہونے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے پیش نظر بر صغیر پاک و ہند کی اسلامی تحریک کے اہل علم ہوں) تناظر کی اس تنگی کی وجہ سے انہوں نے ایک مخصوص زاویہ نگاہ سے امور کو دیکھا ہے اور بعض چیزیں جو اسلام اور عصری تناظر دونوں لحاظ سے اہم ہیں‘ ان کی توجہ سے محروم رہی ہیں۔ ہم زیادہ تر انہی کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ اس لحاظ سے ہمارے اٹھائے ہوئے نکات تکمیلی نوعیت کے ہیں اور موضوع پر جامعیت سے لکھنا ہمارے پیش نظر نہیں ہے۔
تعلیم و تزکیہ
ان میں اہم ترین تعلیم و تزکیہ ہیں۔ انسانوں کو بدلنے کے لیے اس سے بہتر ہتھیار آج تک ایجاد نہیں ہوئے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اپنے آخری پیغمبر کو لوگوں کو بدلنے کا جو فارمولا دیا، وہ انہی دو نکات پر مشتمل تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ وضاحت بھی فرما دی کہ پہلے پیغمبروں کا طریق کار بھی یہی تھا۔ گویا انسانی معاشرے میں پائیدار صالح تبدیلی لانے کے لیے یہ ایک مستقل فارمولا ہے لیکن کئی فکری اسباب کی بنا پر جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں‘ کئی اہل علم خصوصاً جدید اسلامی تحریکوں نے ان دو نکات کو کما حقہ اہمیت نہیں دی حالانکہ امام مالکؒ نے بہت پہلے متنبہ کر دیا تھا کہ جن اصولوں پر چل کر اس امت کی ابتدا میں اصلاح ہوئی تھی‘ انہی اصولوں پر عمل سے اس کے آخر کی بھی اصلاح ہو سکے گی۔ اور یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ مسلمان توپ و تفنگ کی لڑائی ہارنے سے پہلے کلاس روم‘ خانقاہ اور تجربہ گاہ میں لڑی جانے والی لڑائی ہار چکے تھے اور یہ سمجھنے کے لیے بہت زیادہ دانش کی ضرورت نہیں کہ مستقبل میں اگر انہیں دشمن سے جنگ جیتنا ہے تو اس کے لیے میدان جنگ سے پہلے کلاس روم‘ خانقاہ اور تجربہ گاہ کی جنگ جیتنا ہوگی۔ اس تناظر میں تعلیم کے حوالے سے ہمارے قابل غور اہم فکری مسائل یہ ہیں :
اساس تعلیم
قرآن کی رو سے تعلیم کی اساس کتاب و حکمت یا دوسرے لفظوں میں قرآن و سنت ہیں۔ اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کے تصور علم کے مطابق ان کے ہاں علم کا منبع ان کا مخصوص ورلڈ ویو یعنی تصور الٰہ و انسان وکائنات (شرعی اصطلاح میں توحید و معاد و رسالت) ہے۔ گویا علم کی بنیاد وحی الٰہی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام عقلی علوم کے خلاف ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کا زبردست موید ہے اور استقرائی طریق کار‘ تحقیق و جستجو اور فکری حریت پر اکساتا ہے۔ البتہ وہ یہ ضرور چاہتا ہے کہ عقلی علوم وحی کے تابع رہیں تاکہ ایک یکسو مسلم شخصیت پروان چڑھے جو اپنی ساری ترقیوں اور ترک تازیوں کے باوجود توحید کے کھونٹے سے بندھی رہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج مسلم تعلیم کا یہی حال ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو کیا ہم اس کے لیے فکر مند ہیں؟ کیا ہم اس کے لیے کوشاں ہیں؟ کیا ہم نے اس کے لیے موزوں علمی‘ فکری اور تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں؟
تقلید مغرب
مغرب نے سائنس و ٹیکنا لوجی اور ترقی کے دیگر معروضی عوامل پر عمل کر کے دنیاوی خوش حالی تو حاصل کر لی ہے لیکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ اس کا تصور علم الحاد پر مبنی ہے۔ چنانچہ سیکولر ازم ‘ ہیومنزم‘لبرلزم وغیرہ کی بنیاد پر اور وحی کی رہنمائی کو رد کرتے ہوئے محض حواس اور تجربے کی اساس پر جو علم اس ترقی یافتہ مغرب نے پیدا کیا ہے، وہ اصولاً انکار خدا اور انکار آخرت پر مبنی ہے خواہ وہ سماجی علوم ہوں یا سائنسی۔ مسلم ممالک پر قبضہ کرنے کے بعد مغربی طاقتوں نے مسلمانوں کے نظام تعلیم کو ختم کر دیا اور اپنا نظام تعلیم بجبر نافذ کر دیا۔ آزادی کے بعد مسلم ممالک میں زمام اقتدار اکثر انہی لوگوں کے ہاتھ میں آئی جو مغرب پرست یا کم سے کم مغرب سے مرعوب تھے۔ چنانچہ انہوں نے مغربی علوم کی پیروی ہی کو ترقی کی اساس اور انسانیت کی معراج جانا۔ حالانکہ بنیادی ضرورت اس بات کی تھی‘ اور ہے‘ کہ اسلامی تصور علم کی بنیاد پر سارے علوم کو نئے سرے سے مدون کیا جائے، نئے نصابات تیار کیے جائیں اور ساری کتابیں نئے سرے سے لکھی جائیں۔ یہ کرنے کا بہت بڑا کام ہے جو مسلم نشاۃ ثانیہ کے لیے بالکل نا گزیر ہے لیکن کیا ہمیں اس کی اہمیت کا احساس ہے؟ ظاہر ہے جب تک ہم اپنے پورے نصاب تعلیم کی تشکیل نو اسلامی اصولوں پر نہیں کریں گے اور تعلیم میں مغربی فکر کی تقلید کرتے رہیں گے تو اس وقت تک ہم اسلام زندہ باد کے نعرے لگانے کے باوجود ذہنی و فکری بلکہ عملی طور پر غلام نسلیں ہی پیدا کرتے رہیں گے۔
تعلیمی ثنویت
نظام تعلیم کی اسلامی تشکیل جدید کی بہت سی جہتیں ہیں۔ ہم یہاں مزید دو تین اہم پہلوؤں کا ذکر کریں گے جن میں سر فہرست تعلیمی ثنویت کا خاتمہ ہے جو مسلم ممالک میں عموماً اور برصغیر میں خصوصاً اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہاں جب انگریز نے مسلمانوں کا نظام تعلیم ختم کر دیا تو علما نے یہی غنیمت سمجھا کہ وہ مسجدوں کے امام اور خطیب تیار کرنے کے لیے دینی مدرسے قائم کر لیں تاکہ مسلم عوام اپنی ذاتی زندگی اور مذہبی اور معاشرتی رسوم میں ہی اسلام پر عمل جاری رکھ سکیں۔ دوسری طرف جدید لوگوں نے انگریزی زبان اور دیگر مغربی علوم سیکھنے پر توجہ مرکوز کی تا کہ مسلمان دنیوی ترقی کے لحاظ سے پیچھے نہ رہ جائیں، گو ان کی یہ کوشش مغرب کی اندھی تقلید کے رجحان پر منتج ہوئی۔ پہلی سوچ کا نمائندہ تعلیمی ادارہ دیوبند اور دوسری کا علی گڑھ تھا۔ بد قسمتی سے پاکستان بننے کے بعد بھی اس صورت حال کو حکمرانوں نے بدلنے کی کوشش کی نہ علما نے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ دو تعلیمی دھارے اب بھی متوازی بہے چلے جا رہے ہیں۔ ایک مسٹر پیدا کر رہا ہے اور دوسرا مولوی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دونوں تعلیمی دھاروں کو قریب لایا جائے۔ جدید تعلیم میں دینی علوم کا معتد بہ حصہ ہونا چاہیے اور خود جدید علوم کو بھی اسلامی تناظر اور اسلوب میں از سر نو مدون کیا جانا چاہیے۔ دوسری طرف دینی تعلیم میں جدید سماجی و سائنسی علوم کا تعارفی مطالعہ شامل کیا جانا چاہیے۔ خود دینی علوم کا نصاب بھی نظر ثانی کامحتاج ہے۔ اس میں تدریس قرآن کا حصہ بہت کم ہے۔ حدیث کا تحقیقی مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ فقہ و اصول فقہ میں تقابلی مطالعہ ہونا چاہیے۔ عربی سکھانے کے جدید طریقے استعمال کیے جانے چاہئیں تاکہ طلبہ نہ صرف عربی سمجھ سکیں بلکہ لکھ اور بول بھی سکیں۔ وغیرہ وغیرہ ۔
فقدان تربیت
قرآن کی رو سے تعلیم کا مقصد ہی تزکیہ ہے۔ تزکیہ سے مراد نفس کی ایسی تربیت کہ انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت آسان ہو جائے۔ کسی بھی ملک کے نظام تعلیم کا بنیادی ہدف یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسے افراد تیار کرے جو ان اصولوں کے مطابق زندگی بسر کریں جن میں وہ معاشرہ یقین رکھتا ہے تاکہ وہ اس معاشرے کے مفید اور کامیاب رکن بن سکیں۔ اس طرح ایک مسلم ملک کے نظام تعلیم کا بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ ایسے افراد تیار کرے جو اچھے اور با عمل مسلمان ہوں۔ ہمارا نظام تعلیم ایسے افراد تیار نہیں کر رہا کیونکہ یہ اسلامی ہے ہی نہیں۔ یہ تو مغربی تصور تعلیم کی اندھی تقلید پر مبنی ہے جو مغربی معاشرے کے لیے کامیاب افراد تیار کرتا ہے۔ یوں ہمارے سکولوں‘ کالجوں میں اسلامی تربیت کا تصور ہی موجود نہیں۔ یہی حال دینی مدارس کا ہے‘ البتہ وہاں تربیت کے مسائل ذرا دوسری نوعیت کے ہیں۔ ایک تعلیمی ادارے میں اسلامی تربیت کیسے کی جائے؟ یہ آج کا اہم ترین سوال ہے جس کا جواب مسلم ماہرین و مفکرین پر قرض ہے۔ یہاں ضمناً یہ عرض کرنا بے جا نہ ہوگا کہ ماضی میں مسلمانوں نے اصلاح نفس کے لیے تصوف نامی ادارہ قائم کیا جس میں مرور زمانہ سے بہت سی غیر اسلامی باتیں شامل ہوگئیں لیکن فنی طور پر اصلاح نفس کے حوالے سے اس ادارے کے محققین کے ہاں اب بھی کام کی بہت سی چیزیں مل جاتی ہیں بشرطیکہ انہیں عصری تناظر میں خالص قرآن وسنت کے مطابق ڈھال لیا جائے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو فن تزکیہ کی تجدید یا تربیت کی اسلامی تشکیل نو ایک بہت بڑا علمی و فکری چیلنج ہے۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ ایک تعلیمی ادارے میں اسلامی تربیت کی کئی جہات ہیں۔ نصاب کے علاوہ اس میں استاد کا کردار بہت اہم ہے لیکن ہمارے اساتذہ کو یہ سکھایا ہی نہیں جاتا کہ انہیں خود اچھا مسلمان کیسے بننا ہے اور طلبہ کو اچھا مسلمان کیسے بنانا ہے؟ لہٰذا تربیت اساتذہ کے منہج کی تبدیلی بھی مطلوب ہے۔ پھر تعلیمی ادارے کا ماحول کیسے بدلا جائے؟ تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کا اس میں کیا کردار ہو؟ یہ ساری باتیں غور طلب ہیں۔
کم شرح تعلیم
پاکستان اور اکثر مسلم ممالک میں شرح تعلیم بہت کم ہے لیکن یہ صرف انتظامی معاملہ نہیں۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے پس پردہ معاشی مسئلہ ہے کیونکہ غریب والدین بچوں کو اس لیے نہیں پڑھاتے کہ وہ انہیں کسب رزق میں لگا لیتے ہیں اور ان کی فیس ادا نہیں کر سکتے۔ حکومت کہتی ہے کہ اس کے پاس زیادہ بجٹ نہیں۔ پاکستان کی مثال لیں جس کے پاس غیر ملکی قرضوں اور سود کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کے بعد ترقیاتی کاموں کے لیے دس پندرہ فیصد سے زیادہ بجٹ نہیں بچتا لیکن اگر آپ اس معاشی مسئلے کے حقیقی اسباب تلاش کریں تو وہ فکری نظر آئیں گے، اگرچہ بہت دور جا کر۔ دیکھئے ! پاکستان کو منصوبہ بندی سے قرضوں کی دلدل میں کس نے جھونکا؟ پاکستان کو کشمیر میں کس نے الجھایا کہ وہ اتنی بڑی فوج رکھنے پر مجبور ہو جائے؟ پاکستان کو کس نے اجازت نہیں دی کہ وہ مسجد کو تعلیم کا مرکز بنا کر تعلیم عام کر دے؟ ان سب سوالوں کا ایک ہی جواب ہے کہ مغرب نے۔ اور مغرب نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟ تاکہ پاکستان (اور اسی طرح سے دیگر مسلم ممالک) اپنے مسائل کی دلدل میں پھنسے رہیں‘ معاشی طور پر کمزور رہیں‘ تعلیمی طور پر کمزور رہیں مبادا کہیں وہ طاقتور نہ ہو جائیں، اسلامی فکر و تہذیب کہیں ابھر کر سامنے نہ آجائے اور مغرب کے لیے چیلنج نہ بن جائے۔
تزکیہ
قرآن حکیم سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں تعلیم کا اصل مقصد تزکیۂ نفس ہے اور تعلیم محض اس کا ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ تزکیہ نفس سے مراد‘ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا‘ نفس انسانی کی ایسی اور اس طرح تربیت ہے جس کے نتیجے میں وہ اللہ کی نا فرمانی سے بچ جائے اور اس کے احکام پر بہترین طریقے سے عمل کرنے لگے۔ ظاہر ہے کہ یہ عین دین ہے بلکہ اصل دین اور مغز دین ہے اور اللہ نے سارا دین اسی لیے نازل کیا ہے اور پیغمبر اسی لیے مبعوث فرمائے ہیں کہ انسانوں کا تزکیہ کر سکیں۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی احکام کے مطابق اور ان کی روشنی میں اپنے مخاطبین کا بہترین تزکیہ کیا اور ایسے افراد تیار کیے جن کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ بعد میں جب اخلاقی اور معاشرتی بگاڑ بڑھنے لگا تو مسلمانوں میں ایک اصلاحی تحریک تزکیۂ نفس کے لیے چلی جسے تصوف کہا جانے لگا۔ پھر مرور ایام سے اس تحریک میں بہت سی غیر اسلامی باتیں شامل ہوگئیں۔ اب گڑبڑ یہ ہوئی کہ عصر حاضر میں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے لیے جو تحریک اٹھی، اس کے بہت سے قائدین نے رد عمل کے جوش میں نہ صرف تصوف کو رد کر دیا بلکہ تزکیہ و تربیت کو بھی درخور اعتنا نہ جانا۔ یہ ایک عظیم فروگزاشت ہے جس کے ہولناک نتائج نکلے ہیں بلکہ ہماری نگاہوں میں جدید اسلامی تحریکوں کی ناکامی کا ایک بڑا سبب یہی امر ہے۔ اگر وہ محض تصوف کے غیر اسلامی پہلوؤں کی مذمت کرتے تو یہ بجا ہوتا لیکن جس طرح ہم پورے ذخیرہ حدیث کو یہ کہہ کر دریا برد نہیں کر سکتے کہ جعل سازوں نے بہت سی حدیثیں گھڑ لی ہیں اور ضعیف اور منکر روایتیں صحیح احادیث میں ملا دی ہیں‘ اسی طرح تصوف میں غیر اسلامی امور کی آمیزش سے ڈر کر تزکیہ و تربیت کے ادارے کو بالکل ہی خیرباد نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں ! یہ ضرور ہے کہ اس کی تجدید ہونی چاہیے، اس میں حق کو باطل سے الگ کر نا چاہیے‘ بدعات اور غیر اسلامی رسوم و رواج کی نشاندہی اور مذمت ہونی چاہیے۔ لیکن ساتھ ہی امت کے بہترین لوگوں نے اپنی عمریں صرف کر کے اپنے علم و تجربہ کی بنیاد پر تزکیہ و تربیت کے جو اصول و ضوابط وضع کیے ہیں (اور جن میں کوئی بات غیر اسلامی نہیں) انہیں نکھار کر سامنے لانا چاہیے اور ان پر عمل کرنا چاہیے لیکن معاف کیجئے گا کتنے لوگ یہ کام کر رہے ہیں؟ اور کتنے ادارے اس کام کے لیے وقف ہیں؟
مغرب اور مغربی تہذیب
اسلام زندگی کے سارے مسائل کے بارے میں احکام دیتا ہے اور ان کے نفاذ اور غلبے کا متقاضی ہے لیکن مسلمان اس وقت مغلوب ہیں (جس کی ایک بڑی وجہ اسلامی احکام پر ان کا عمل نہ کرنا ہے) دوسری طرف مغرب اور اس کی فکر و تہذیب اس وقت غالب ہے اور اس کی اساس خدا اور آخرت کے انکار پر ہے۔ مزید یہ کہ مغرب اپنی فکری‘ معاشی‘ سیاسی اور حربی قوت کے بل پر اپنے آپ کو غالب رکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے کہ مسلم فکر و تہذیب ابھر کر سامنے نہ آئے اور اس کے غلبے کا امکان پیدا نہ ہو۔ اس امر کا ادراک اور اس کا تجزیہ و تدارک خود ایک بہت بڑا فکری و عملی مسئلہ ہے لیکن اس وقت ہم جس امر کی طرف توجہ دلا رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ مغربی فکر و تہذیب مسلم مفکرین و مصلحین پر بہت شدت سے اثر انداز ہوئی ہے اور ان کی فکر پر اس کے اثرات کا مطالعہ ایک وسیع موضوع ہے۔ ہم یہاں اس وقت صرف دو باتوں کی طرف اشارہ کریں گے :
مرعوبیت و انفعالیت
دور زوال میں ایک بالغ نظر مسلم عالم کا سرمایہ فکری استقلال ہونا چاہیے یعنی وہ فکری طور پر پسپا نہ ہو‘ غیر مسلم افکار کو قبول نہ کرے اور ان سے متاثر نہ ہو بلکہ اپنی فکر پر جما رہے‘ اس کی مدافعت و مزاحمت کرے بلکہ حسب موقع ہجومی انداز اختیار کرے اور اسلامی فکر کی صداقت و عظمت ثابت کرے اور حریف تہذیب کی فکری و عملی خامیوں کو نمایاں کرے۔ بدقسمتی سے اکثر مسلم مفکرین و مصلحین نے فکری استقلال کا ثبوت نہیں دیا اور کسی نہ کسی درجے میں مغرب کی فکر سے متاثر یا اس کے رد عمل کا شکار ہوگئے۔ مصر کی سلفیت (مفتی محمد عبدہ اور رشید رضا وغیرہ) برصغیر کی نیچریت(سر سید اور امیر علی وغیرہ) قادیانیت اور فتنہ انکار سنت (چکڑالوی‘ پرویز‘ امین احسن اصلاحی وغیرہ) اس کی چند مثالیں ہیں۔ جدید اسلامی تحریکوں کا دین کو نظام ‘ تحریک اور حکومت الٰہیہ کہنا نفاذ دین کی خاطر سیاسی جدوجہد کو عین دین قرار دینا‘ فرد کے تزکیہ نفس کو اہمیت نہ دینا اور عملی زندگی میں مغربی جمہوریت کے سیاسی نظام میں حصہ لے کر اس کا ایک حصہ بن جانا‘ تحریکی تعلیمی اداروں کا انگلش میڈیم اپنانا اور آکسفورڈ و کیمبرج کا نصاب پڑھانا‘ کاروبار میں سود کو قبول کرلینا‘ معاشرت میں مغربی لباس کو اختیار کرنا‘ حجاب کو خیرباد کہنا وغیرہ یہ سب فکری اور تہذیبی پسپائی کے مظاہر ہیں۔ یہ اسلامی قوتوں کی فکری استقامت کا حال ہے‘ جہاں تک عام مسلمان کا تعلق ہے (جن میں حکمران اور مقتدر طبقے سر فہرست ہیں) تو وہ علی الاعلان کہتے ہیں کہ عصر حاضر میں ترقی اور خوشحالی صرف مغرب کی پیروی ہی کی مرہون منت ہے ۔
مغرب سے اخذ و استفادہ کی حدود و شروط
ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم مغرب سے کیا لے سکتے ہیں اور کیا نہیں؟ اس میں بھی لوگ افراط و تفریط سے کام لیتے ہیں۔ کچھ لوگ مغرب سے نفرت اور اس کے الحاد کی وجہ سے اسے کلیتاً رد کر دیتے ہیں اور بعض مغرب سے سب کچھ لے لینا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں نقطۂ اعتدال کی تلاش ضروری ہے کہ جن شعبوں میں اسلام نے تفصیلی اور ناقابل تغیر احکام نہیں دیے بلکہ صرف اصولی رہنمائی دی ہے‘ وہاں انسانی تجربے کے طور پر بعض چیزیں مغرب سے ضروری تغیر کے ساتھ لی جا سکتی ہیں۔
جدید اسلامی تحریکیں
جدید اسلامی تحریکیں امت کا قیمتی سرمایہ ہیں اور وہ دین اور مسلمانوں کی عظیم خدمت انجام دے رہی ہیں۔ تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ ساٹھ ستر برس کی جدوجہد کے باوجود انہیں کہیں بھی بڑی کامیابی کیوں حاصل نہیں ہوئی‘ نہ عامی سطح پر اور نہ سیاسی میدان میں۔ اگرچہ ان تحریکوں کے پاس بہت سے ٹھوس عذر بھی ہیں اور بعض میدانوں میں کامیابیاں بھی‘ تاہم ان تحریکوں کے غور کے لیے بہت سے سوالات بھی ہیں۔ مثلاً:
- کیا یہ موقف کہ اسلامی عناصر مسلم حکمرانوں کے اقتدار کے براہ راست حریف بن کر سامنے آئیں‘ قابل نظر ثانی تو نہیں؟
- کیا ان اسلامی تحریکوں نے استعجال سے کام تو نہیں لیا کہ معاشرے کو ہم نوا بنائے بغیر تھوڑی تنظیمی قوت کے بل پر بزن کا بگل بجا دیا‘ جس نے دشمنوں کو مشتعل اور چوکنا کر دیا اور نتیجتاً قیادت اور کارکنوں کو بلا جواز اور بے نتیجہ قربانیاں دینا پڑیں؟
- اجتماعی تبدیلی اہم بھی ہے اور مطلوب بھی لیکن اس کا انحصار فرد کی تبدیلی پر ہوتا ہے۔ کیا ان تحریکوں نے فرد کے دل و دماغ اور کردار کی تبدیلی کو اپنی کوششوں کا ہدف بنایا ہے؟
- کیا روایتی دینی قوتوں کو ساتھ نہ ملا کر حکمت عملی کی غلطی تو نہیں کی گئی؟
- کیا دین کی جامعیت کے نام پر صرف سیاسی جدوجہد کو مکمل دین بنا کر پیش کرنے کا یہ نقصان تو نہیں ہوا کہ مسلم معاشرے نے اسے قبول نہیں کیا؟
- کیا دین کو صرف ایک دنیوی نظام کے طور پر پیش کر کے آخرت پر ترکیز کرنے والے دین کے ساتھ ناانصافی تو نہیں کی گئی؟
- کیا مغرب کے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی اصولوں کو قبول کر کے ان میں حصہ لے کر فکری پسپائی تو اختیار نہیں کی گئی؟ وغیرہ وغیرہ۔
مسلم نشاۃ ثانیہ
- مسلم نشاۃ ثانیہ کی حکمت عملی اور لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟ یہودی اگر اپنے غلبے کے لیے صدیوں پہلے پروٹوکول تیار کر سکتے ہیں اور مغرب میں جگہ جگہ تھنک ٹینک کھل سکتے ہیں تو کیا ہم مسلمان فکری طور پر بالکل ہی بانجھ ہوگئے ہیں کہ اپنے مستقبل کے لیے نہیں سوچ سکتے؟ کیا ہمارے ہاں امت کی سطح پر ایک بھی ’’امہ سٹڈی سنٹر‘‘ اور ’’انسٹی ٹیوٹ برائے مطالعۂ مغرب‘‘ قائم نہیں ہو سکتا؟
- اتنی ہزیمت اور رسوائی کے باوجود مسلمانوں کے متحد نہ ہونے کے اسباب کیا ہیں؟ اور ان اسباب کا تدارک کیسے کیا جا سکتا ہے؟
- اجتماعی سطح پر مسلم قیادت کا کردار آج تک مصالحانہ یا زیادہ سے زیادہ مدافعانہ و مزاحمانہ رہا ہے‘ کیوں نہ اس کو جارحانہ بنا دیا جائے؟ معاف کیجئے گا اس سے مقصود دہشت گردی کی کارروائیاں کرنا نہیں بلکہ فکری اور نفسیاتی طور پر جارحانہ رویہ اختیار کرنا ہے۔
- اسلامی کانفرنس تنظیم کی ناکامی کے بعد کیا مسلم نشاۃ ثانیہ کے لیے ایک نئے اور فعال ادارے کی ضرورت نہیں؟ یہ ادارہ کون قائم کرے گا؟
روایتی دینی قوتیں
- وہ کون سے عوامل ہیں جنہوں نے روایتی دینی قوتوں اور جدید اسلامی تحریکوں کو قریب نہیں آنے دیا؟ نیز ان کے تقارب کے کیا اصول و مظاہر ہونے چاہئیں؟ (مدیر الشریعہ نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے)
- دینی قوتوں کے ہاں اصلاح کے داخلی اور خارجی عوامل کو کیسے موثر اور فعال بنایا جا سکتا ہے؟
سیاسی حکمت عملی
- مسلم حکمرانوں کو کیسے پر امن طور پر اسلامی تبدیلی قبول کرنے پر راغب کیا جا سکتا ہے؟
- مسلم حکمرانوں اور عوام میں بعد اور دوری کو کیسے پاٹا جائے؟
- مسلم حکمرانوں کی اصلاح کے لیے دینی عناصر کی دعوتی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟
- مسلم حکمرانوں کو دین دشمن بین الاقوامی قوتوں کے شکنجے سے کیسے نکالا جائے؟
اجتہاد اور دین کی تعبیر و تشریح
گو فنی لحاظ سے اجتہاد اور دین کی تعبیر و تشریح میں فرق ہے لیکن اس فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو اجتہاد میں مانع اور دین کی تعبیر و تشریح میں غیر متوازن اسلوب کو جنم دیتے ہیں؟
- کیا تقلید کی روش پر اصرار اور پہلے مجتہدین کے کام کو حرف آخر سمجھنا اور فقہ کو شریعت بنا لینا؟
- کیا مسلک پرستی اور فرقہ واریت یعنی ہر مسلک کا اپنے تعلیمی ادارے الگ بنا لینا اور اسی عصبیت کی بنیاد پر دینی اور سیاسی جماعتیں قائم کر لینا؟
- کیا قرآن و سنت کو عملاً دین کا ماخذ اور فیصلہ کن اتھارٹی نہ ماننا؟
- کیا فکری حریت کو قبول نہ کرنا اور اسے پروان نہ چڑھانا؟
- کیا بعض لوگوں کا مغرب سے متاثر ہو کر دین کو بازیچۂ اطفال بنا لینا یا کم از کم دین کی تشریح و تعبیر مغرب سے مرعوب ذہن کے ساتھ کرنا؟ (کیا مہاتیر محمد کا موقف اور خورشید احمد ندیم صاحب کے اٹھائے گئے نکات اسی کا مظہر نہیں؟)
در اصل ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے، وہ تجدید اور تجمد کے درمیان راہ اعتدال کی تلاش اور اس پر عمل ہے۔ اگر کچھ لوگ عصری تقاضوں کے نام پر مغرب سے مرعوب ذہن کے ساتھ تجدد اختیار کر لیں اور دین کی حقیقی سپرٹ کو ضائع کر دیں اور دوسری طرف روایتی دینی ذہن کے مالک لوگ فکری استقلال کے نام پر اجتہادی سپرٹ اور فکری حریت کو ترک کر کے تجمد اختیار کر لیں تو ان دونوں نقطہ ہائے نظر کے درمیان بعد پیدا ہو جانا فطری ہے (یہی وہ فرق ہے جو ارشاد احمد حقانی صاحب کو مہاتیر محمد اور ان کے اسلام پسند گورنر کے درمیان نظر آتا ہے) اس کا حل یہی ہے کہ ایک ایسی فکری اور علمی فضا کو پروان چڑھایا جائے جو تجدد اور تجمد کی انتہاؤں کو ترک کر کے راہ اعتدال پر چلنے کا رویہ پختہ کرے۔ ظاہر ہے اس فضا کو پیدا کرنے میں وقت تو لگے گا لیکن اگر اس کے لیے شعوری کوششیں کی جائیں اور موزوں علمی و فکری ادارے قائم کر کے صحیح سمت میں پیش رفت جاری رکھی جائے تو اس میدان میں پیش قدمی ناممکن نہیں۔
دعوت و اصلاح
دعوت کے دو بڑے پہلو ہیں : ایک مسلم معاشرے کے لیے دعوت اور دوسرے غیر مسلموں کے لیے۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ اس انتہائی اہم کام کو‘ جو امت مسلمہ کے وجود‘ اس کی بقا‘ استحکام اور تسلسل کے لیے بالکل ناگزیر ہے‘ انتہائی غیر مربوط اور غیر سائنسی انداز میں انجام دیا جا رہا ہے اور وہ اسی وجہ سے ناکامی کی حد تک بے نتیجہ ہے۔
ہماری حالت یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں کار دعوت و اصلاح کے لیے ہمارے دینی عناصر کے سامنے کوئی واضح‘ مربوط اور متفقہ پالیسی نہیں ہے۔ ہم نے کئی برس پیشتر لاہور میں ایک طالب علمانہ کوشش کی اور دینی جماعتوں کو ایک سلسلۂ ورکشاپ میں بلایا جس میں ہمارے پیش نظر یہ تھا کہ باہم مل کر پاکستانی عوام و خواص کے لیے ایک متفقہ دعوتی پالیسی تیار کی جائے۔ اس میں کئی حضرات تشریف بھی لائے لیکن وہ اپنی اپنی تنگنائے سے نکل کر اس بحر کی غواصی کرنے پر تیار نہیں ہوئے۔ ضرورت ہے ایسے افراد اور اداروں کی جو اہل دین کے متفرق عناصر کو جمع کر کے مسلم معاشرے کے لیے سائنسی بنیادوں پر ایک مربوط‘ واضح اور متفقہ دعوتی پالیسی طے کریں جس پر وقتاً فوقتاً نظر ثانی بھی ہوتی رہے۔
غیر مسلموں کے لیے مسلمان تنظیمیں اور ادارے جو دعوتی کام کر رہے ہیں وہ بھی ناکافی‘ غیر مربوط اور غیر سائنسی انداز میں کیا جا رہا ہے۔ دعوتی لحاظ سے ہمارا بڑا ہدف امریکہ‘ یورپ‘ افریقہ اور وسط ایشیائی ممالک ہیں۔ کیا ہمارے ہاں دعوت کے ایسے کافی ادارے موجود ہیں جہاں غیر ملکی زبانیں سکھائی جاتی ہوں اور جہاں غیر مسلم ممالک کی فکر‘ تہذیب اور کلچر کا تفصیلی مطالعہ کروایا جاتا ہو؟ جہاں ان مذکورہ خطوں کی زبان میں اور ان کے ماحول اور معیار کے مطابق دعوتی لٹریچر تیار کیا جاتا ہو اور داعی تیار کیے جاتے ہوں؟ ہمارے علم کی حد تک ان سوالوں کا جواب ہاں میں دینا ممکن نہیں۔ تو کیا ہم سب کا فرض نہیں کہ اس کام کی فکر کریں اور اس کے لیے مقدور بھر حرکت میں آئیں؟
یہ بھی یاد رہے کہ غیر مسلموں میں دعوت کا ہدف قلوب و اذہان کو فتح کر کے اسلام پھیلانا ہوتا ہے اور مسلم معاشرے میں دعوت کا مقصد اصلاح ہوتا ہے تا کہ مسلمان واقعی اچھے مسلمان بن جائیں اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلامی احکام کے مطابق بسر کرنے لگیں۔
جہاد
جہاد کا مسئلہ بھی ہمارے غور و فکر کا محتاج ہے۔ طاقتور مغرب اپنی باطل فکر و تہذیب کی بالادستی اور کسی متبادل فکر وتہذیب کو سر نہ اٹھانے دینے کی غرض سے جس مسلم ملک کو چاہتا ہے، تاراج کر دیتا ہے اور جس مسلم حکمران کو چاہتا ہے، جان و اقتدار سے محروم کر دیتا ہے۔ اس فضا نے فکری استقلال سے محروم بعض مسلم اہل علم کو جہاد کے خلاف کمزور اور ہوچ پوچ آرا قائم کرنے پر آمادہ کیا جس کا ایک بڑا مظہر قادیانیت ہے۔ (آج کل ہندوستان میں مولانا وحید الدین خان اور پاکستان میں جاوید غامدی صاحب کا موقف بھی اسی قبیل سے ہے)
اسلام میں جہاد کا معروف تصور یہ ہے کہ جو عناصر اپنی قوت کے بل پر انسانوں پر انسانوں کی خدائی قائم رکھنے پر مصر ہوں اور انسانوں پر ایک خدا کی خدائی قائم کرنے میں مزاحم ہوں‘ ان کی قوت بزور توڑ دی جائے۔ ان معنوں میں مسلمان امت جہاد پر قادر ہی نہیں۔ وہ اتنی ناتواں اور خوار و زبوں ہے کہ اقدام کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ وہ بیچاری تو اپنی مدافعت پر بھی قادر نہیں اور چند سر پھرے اور اہل عزیمت ہیں جو مدافعت میں اپنی جانوں کانذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ اب یہ بزر جمہر چاہتے ہیں کہ مسلمان مدافعت بھی نہ کریں بلکہ مغرب کی فکری‘ حربی‘ سیاسی اور معاشی برتری کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں اور ہاتھ جوڑ کر کہیں کہ صاحب جی ! ہم تو لیٹے ہوئے ہیں‘ جتنا چاہے مار لو‘ ہم اف بھی نہیں کریں گے اور کھڑا ہونے کی کوشش بھی نہیں کریں گے۔
البتہ یہاں ایک گنجلک اور ہے‘ اور وہ یہ کہ بعض جہادی عناصر دعوت اور جہاد کے فرق کو نہیں سمجھتے جس کی حقیقت یہ ہے کہ جہاد اہل کفر کے خلاف ہوتا ہے اور مسلم معاشرے میں اصلاحی کام دعوت کے ذریعے ہونا چاہیے لیکن بعض نافہم لوگ جہاد کی تربیت کو مسلم معاشرے پر لاگو کرنے کا سوچتے ہیں اور اسے اسلامی انقلاب کا نام دیتے ہیں۔ ظاہر ہے اس طرح اسلام تو نافذ نہیں ہوتا اور نہیں ہو سکتا البتہ وہ اپنی کج فکری کی وجہ سے ضرور دار و رسن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یوں جہاد کے حوالے سے بہت سے سوالات تسلی بخش جوابات کے محتاج ہیں۔ مثلاً کیا جہاد دہشت گردی ہے؟ کیا مغرب کی مزاحمت خلاف شریعت و خلاف مصلحت امت ہے؟ کیا مغرب کی مزاحمت واجب شرعی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
یہ چند امور تھے جن کا ذکر ہم مسلم امہ کو درپیش اہم فکری مسائل کے حوالے سے کرنا چاہتے تھے۔ یقیناًان میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے اور ان سے اختلاف بھی۔
ڈاکٹر شیر محمد زمان کا مکتوب
ڈاکٹر ایس ایم زمان
مکرم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب دام لطفکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الشریعہ (شمارہ نومبر ۲۰۰۲ء) کے صفحہ ۷ پر چوکھٹے میں ڈاکٹر کریمر کا ایک اقتباس دیا گیا ہے جس کا ماقبل اور ما بعد کے مضامین سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ آپ سے محبت اور نیاز کا جو رشتہ ہے، اس کے پیش نظر خیال ہوا کہ اس اقتباس پر مبسوط تبصرہ اس وقت ممکن تو نہیں تو کم از کم اپنے فوری رد عمل کا نہایت اختصار سے اظہار کردوں۔ اقتباس کو دیکھنے کے بعد قارئین کے ذہن میں تصوف کے بارے میں منفی تاثر پیدا ہوتا ہے حالانکہ اطراف و اکناف عالم میں ابلاغ واشاعت اسلام میں صوفیا کا کردار ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ اسلامی علوم و فنون میں کوئی علم یا فن رطب و یابس سے خالی نہیں حتیٰ کہ حدیث و تفسیر میں بھی صواب و ناصواب کی آمیزش ہوگئی ہے۔ تفسیری ادب میں غیر اسلامی افکار در آئے ہیں تو حدیث میں وضع حدیث کے فتنے نے فساد پیدا کیا ہے اور محدثین کرام کو ’’موضوعات‘‘ پر مستقل کتابیں تالیف کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ظاہر ہے کہ تصوف کا وسیع ادب بھی اس سے مبرا نہیں۔ مگر تصوف کے بارے میں بلا سیاق و سباق ایک ایسا اقتباس نقل کرنے کو جس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ ایک عیسائی فاضل تصوف کو عیسائی مبلغین کی کامیابی کا ایک ذریعہ تصور کرتا ہے‘ تصوف کے بارے میں ایک منفی تاثر پیدا کرنے کی کوشش کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔
تصوف میں مرور قرون کے ساتھ اور مختلف بلاد و اقالیم کے مقامی اثرات کے تحت بعض غیر اسلامی عناصر بھی داخل ہوتے رہے مگر اس سے صوفیا کے عظیم و تقدس مآب گروہ کی خدمات پر کوئی حرف نہیں آتا۔ علما و اکابر دیوبند کی عظیم شخصیتوں میں بھی تصوف ان کی سیرت کا شاندار اور تابناک پہلو رہا ہے۔
ناچیز کی ناقص رائے میں اس اقتباس کے ساتھ ادارہ الشریعہ کی طرف سے مختصر مگر شافی تبصرہ کسی بھی منفی تاثر کو زائل کرنے کے لیے مناسب ہوتا۔ تلافی مافات کسی آئندہ شمارے میں بھی ممکن ہے۔ الشریعہ کا بلند علمی معیار اس کا مقتضی ہے۔ شاید اس بارے میں آپ زیادہ احتیاط مناسب خیال فرمائیں۔
تحیات و تمنیات صالحہ کے ساتھ ۔
والسلام ، نیاز کیش ‘ ایس ایم زمان
ڈاکٹر عبد الخالق کا مکتوب
ڈاکٹر عبد الخالق
محترم و مکرمی مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی
آپ سے تعارف خاصا پرانا ہے۔ آپ کی تحریر اور تقریر کی صلاحیت کا معترف بھی ہوں اور مداح بھی۔ ندائے خلافت کے تازہ شمارہ نمبر ۱ مؤرخہ ۸ جنوری ۲۰۰۳ء میں آپ کے مضمون ’’قصور وار کون؟‘‘ نے اتنا متاثر کیا کہ آپ سے تحریری رابطہ کرنے پر مجبور ہوگیا۔ حالانکہ میں تحریر کا کافی ’’چور‘‘ واقع ہوا ہوں۔ ٹیلی فون پریا بالمشافہ ملاقات مجھے آسان محسوس ہوتی‘ بہ نسبت تحریر کے۔
مولانا ! آپ نے آج کے جدید علوم کے علمبردار طبقہ کو بہت ہی مدلل اور مؤثر جواب دیا ہے اور باوجود اس کے کہ میں نہ عالم دین ہوں اور نہ کسی روایتی مدرسے سے تعلیم یافتہ بلکہ علم کے نام پر زیادہ تر ان ’’نام نہاد جدید تعلیمی اداروں‘‘ ہی سے استفادہ کیا ہے جن پر آپ نے تنقیدکی ہے، اس کے باوجود مجھے آپ کی تحریر پسند آئی ہے۔
لیکن مولانا ! آپ سے کچھ ’’آپس کی بات‘‘ کرنے کو بھی دل چاہتا ہے۔
میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ آپ کی یہ تحریر جدید علوم کے علمبردار طبقے پر ’’ایک الزامی جواب‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ جیسے بقول علامہ اقبال
کہا اقبال نے شیخ حرم سے تہہ محراب مسجد سو گیا کون؟
ندا مسجد کی دیواروں سے آئی فرنگی بت کدے میں کھو گیا کون؟
یہ بات درست ہے کہ جدید علوم کے نام پر اتنے وسائل خرچ کرنے (جن میں سب سے زیادہ حکومتی وسائل ہی خرچ ہوتے ہیں) کے باوجود ہم ٹیکنالوجی کے میدان میں اتنے پیچھے کیوں ہیں؟ اور آپ نے اس پر جدید علوم کے علمبرداروں اور مسلمان حکومتوں اور مسلمان حکمرانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور اس کے مقابلے میں دینی علوم کے علمبرداروں نے باوجود وسائل کی کمی اور نا مساعد حالات کے قرآن و حدیث کے علم کا سلسلہ جاری رکھا اور آج نہ کسی خطیب کی کمی ہے اور نہ حافظ قرآن کی۔
مولانا ! آپ نے جدید ٹیکنالوجی میں مہارت کے مقابلے میں عام دینی تعلیم کا حوالہ دے دیا۔ جدید تعلیم میں مہارت کے مقابلے میں تو دینی علوم میں مہارت کی مثال پیش کی جانی چاہیے تھی۔ جہاں تک عام مروجہ تعلیم کا تعلق ہے، اس کے ذریعے مروجہ حکومتی نظام چلانے والے کارندوں کی ضرورت ہے جو بحسن و خوبی پوری ہو رہی ہے۔ جہاں تک عام ٹیکنیکل علم و مہارت کا تعلق ہے، اس میں تو کہیں کوئی کمی نہیں ہے۔ ہاں البتہ جہاں تک جدید ٹیکنالوجی اور اس میں تحقیق اور ایجادات اور اس میں مہارت کا تعلق ہے، قریباً تمام ہی مسلمان ممالک اس میں ’’پھسڈی‘‘ ہیں۔ صرف ایک استثنا ہے کہ پاکستان نے کم از کم ایٹمی ٹیکنالوجی میں تو وہ ترقی کی ہے جس کا اعتراف ہمارا دشمن اور مغرب بھی کرنے پر مجبور ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ یہ مہارت بھی ہمیں اللہ تعالیٰ نے خالصتاً معجزانہ انداز میں عطا فرمادی ہے، بغیر کسی باقاعدہ منصوبہ بندی اور علم و تحقیق میں عمومی ترقی کے۔ اب آئیے دینی علم کی طرف۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عام دینی علوم کی ترویج کا سلسلہ جاری رہا ہے لیکن جدید ٹیکنالوجی میں مہارت کے مقابلے میں دینی حلقوں نے کون سا کارنامہ سر انجام دیا ہے؟ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق دین کو کس نے اور کہاں پیش کیا ہے؟
بعض خود ساختہ شرائط کے ساتھ اجتہاد کا دروازہ ہم نے بند کر رکھا ہے۔ طبقہ علما میں کوئی ایسی قیادت ابھر کر آئی ہے جس نے واقعتا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا ہو؟ پوری امت مسلمہ ’’ایک امام‘‘ سے محروم ہے۔ بلکہ برا نہ مانیے، اس عام دینی علم نے جہاں خطیب اور حافظ فراہم کیے ہیں، وہیں بدترین قسم کی فرقہ بندی اور فرقہ پرستی بھی اسی طبقے سے ابھری ہے اور دین کے غلط تصورات کو بنیاد بنا کر تخریب کاری اور دہشت گردی کی ترویج کا باعث بھی یہی طبقہ بنا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ تمام طبقات ایسے نہیں ہیں لیکن جو ہیں، ان کا بھی تعلق تو اسی طبقے سے ہے نا۔
میں تو محسوس کرتا ہوں کہ
ہم الزام ان کو دیتے ہیں قصور اپنا نکل آیا
۵۶ کے قریب مسلمان ملکوں میں کہیں بھی طبقہ علما نے دین کو بطور نظام زندگی برپا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ دور جدید میں اسلامی فلاحی ریاست کے قیام‘ کہ جس کے ذریعے ہم اسلام کے زریں اصولوں اخوت و مساوات اور عدل و قسط کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرتے‘ میں ہم ناکام رہے ہیں۔ (ایران میں اسلامی نظام کے نام پر جو کچھ ہوا، اس میں معاشرتی سطح پر تو تبدیلی آئی لیکن معاشی سطح پر سود اور جاگیرداری نظام جاری ہے اور سیاسی سطح پر قرآن و سنت کی بجائے ’’رہبر‘‘ کی بالادستی کا طوق بھی موجود ہے۔ گویا فلاحی ریاست کا تصور وہاں بھی عنقا ہے۔) بلکہ افسوس تو یہ ہے کہ اس کی اہمیت کا احساس بھی ہمارے طبقہ علما کے بیشتر حصے میں موجود نہیں ہے۔ الا ما شاء اللہ۔ اگر ہم اپنے معاملات میں خود مختار ہوتے تو یہ جدید ٹیکنالوجی بھی ہمارے ہاتھ میں ہوتی اور اسے ہم اپنی مرضی سے استعمال کرتے۔ کجا یہ کہ ہم خود اغیار کے زیر تسلط ہیں۔ کرنے کا اصل کام تو دینی حلقوں نے بھی نہیں کیا۔
بری الذمہ کوئی بھی نہیں ! ہم سب ’’قصور وار‘‘ ہیں۔
والسلام، ڈاکٹر عبد الخالق
ناظم نشر و اشاعت تنظیم اسلامی
۹ جنوری ۲۰۰۳ء
گلوبلائزیشن: چند اہم پہلو
پروفیسر میاں انعام الرحمن
تکنیکی ترقی اور ای کامرس سے گلوبل رجحانات کو مسلسل تقویت مل رہی ہے۔ اگرچہ اس وقت بھی لوگوں کی اکثریت اپنی اپنی ریاستوں سے گہری وابستگی رکھتی ہے لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ قومی ریاست روایتی طاقت کی حامل نہیں رہی۔ اس وقت اس کی جیسی صورت سامنے آ رہی ہے، اسے Post-sovereign nation state سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ اکیسویں صدی کی گلوبل دنیا میں قومی ریاست کا زیادہ سے زیادہ کردار Night-watching state کا ہی ہوگا۔
کارل مارکس اور فریڈرک اینگلس نے ۱۸۴۸ء میں ہی گلوبلائزیشن کی نشان دہی ان الفاظ میں کر دی تھی کہ
In place of old local and national seclusion and self-sufficiency, we have intercourse in every direction .......
لیکن یقیناًان دونوں کے لیے گلوبلائزیشن کے اس تناسب کا تصور کرنا بھی محال تھا جس سے آج پوری دنیا دوچار ہے۔ اس وقت چالیس ہزار کے لگ بھگ Transnational Corporations کراس بارڈر معیشت کو فروغ دے رہی ہیں۔ ان میں سے سرفہرست چار سو کارپوریشنیں گلوبل پرائیویٹ سیکٹر کے ٹوٹل آؤٹ پٹ کا تقریباً نصف سنبھالے ہوئے ہیں۔ اشیا اور خدمات (Goods & Services) میں عالمی تجارت تقریباً سات کھرب ڈالر سالانہ ہے اور یہ عالمی تجارت، قومی معیشتوں کے مجموعے سے تقریباً تین گنا زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی کرنسی کی مارکیٹوں میں بھی انتہائی تیزی سے بڑھاوا دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ۱۹۷۳ ء میں قومی سرحدوں کے پار روزانہ بیس بلین ڈالرز حرکت کرتے تھے۔ ۱۹۸۶ ء میں ۲۰۷ بلین ڈالرز، ۱۹۹۲ ء میں ۸۲۰ بلین ڈالرز اور ۱۹۹۸ ء میں ۵ء۱ ٹرلین ڈالرز سے بھی اوپر۔
مذکورہ اعداد وشمار اور جائزے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ گلوبلائزیشن کے دو نمایاں پہلو ہیں ۱۔ قومی ر یاست کاخاتمہ، ۲۔ مارکیٹ کی بنیاد پر کراس بارڈر معیشت کا فروغ۔ صاف بات تو یہ ہے کہ اس دوسرے پہلو کی بدولت ہی قومی ریاست خاتمے کے قریب پہنچی ہے۔ یوں سمجھیے کہ گلوبلائزیشن اہل مغرب کا آخری انقلابی پراجیکٹ اور ان کے معاشی وسیاسی نظاموں کی ’’ثابت شدہ اعتباریت‘‘ کا حتمی پھیلاؤ ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مارکسسٹ اکانومی کی طرح مارکیٹ اکانومی بھی بے دین ہے، فرد کی نفی کرتی ہے اور انسان کو پیداواری اور صرف کرنے والے کی حیثیت سے دیکھتی ہے۔ دونوں میں مذہب کو پرانی اور فرسودہ چیز سمجھا جاتا ہے جو ’’انفرادی‘‘ ہو سکتا ہے اور ’’اجتماعی طاقت‘‘ سے محروم ہو کرآخر کار میدان سیاست سے ہمیشہ کے لیے رخصتی ہی جس کا نصیب ٹھہرے گی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مارکیٹ بنیادوں پر قائم متنوع علاقائی تقاضوں کو بھی ہڑپ کیا جا رہا ہے۔
آدم سمتھ نے Self-interest اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کی خواہش کو ’’خوشحالی اور ڈومیسٹک امن‘‘ کی علامت قرار دیا تھا۔ یعنی لوگوں کو آگے بڑھنے کی حرص دینا بہت آسان ہے بجائے یہ کہ جذبات کی مناسب management کی جائے۔ مغرب میں مذہبی فکر کے انخلا اور مذکورہ مادی و افادی فلسفیانہ رجحانات نے ہی مارکیٹ لبرل ازم کی بنیادیں استوار کیں اور زندگی کے ہر شعبے کے لیے Economic Mode of Thinking کو رائج کر دیا۔ مغرب کے معاشی خبط کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ وہاں ’’مہذب اور نارمل لائف‘‘ کا شعور آمدنی کی اونچی سطح کے گرد گھومتا ہے۔ وہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ کس طرح اپنا وقت ’’مارکیٹ اور بے مارکیٹ‘‘ سرگرمیوں میں صرف کرتے ہیں۔ ایک مغربی تجزیہ نگار کے مطابق:
"Profit not religion, is the spirit of this spiritless world where one must overwork in order to live."
یعنی ایک طرح سے مارکیٹ لبرل ازم کے نام پر انسانیت کو روندا جا رہا ہے حالانکہ ایسے لبرل ازم میں ’’لبرٹی‘‘ نام کو بھی نہیں۔ اس طرح مارکیٹ لبرل ازم کی تھیوری مارکیٹ تھیوری کے قریب پہنچ جاتی ہے کہ اس کے ذریعے دیگر معاشرتی قدروں اور اداروں کی ساخت اور نوعیت کا تعین ہوگا۔ حالانکہ "A society of free work, of enterprise and of participation" کے مقولے کا تقاضا ہے کہ مارکیٹ کو معاشرتی اور ثقافتی قوتیں کنٹرول کریں اور اس کی ساخت اور نوعیت کا تعین کریں لیکن گلوبلائزیشن (جو کہ مارکیٹ بنیادوں پر ہو رہی ہے) میں یہ عنصر مفقود ہے اور برملا کہا جا رہا ہے کہ مارکیٹ لبرل ازم کی موجودہ تعریف کے سوا اور کوئی طریقہ یا نظریہ ’’جدیدیت‘‘ پر پورا نہیں اترتا اور جلد یا بدیر دنیا کے تمام معاشرے ’’یکساں اقدار و نظریات‘‘ کے حامل ہو جائیں گے۔ اس تناظر میں قومی ریاستیں مجبور ہو رہی ہیں کہ Market-Friendly پالیسیاں تشکیل دیں اگرچہ عوام کے مفادات متاثر بھی ہوتے ہوں۔ یورو زون ممالک کو ہی دیکھ لیجئے (جو ترقی یافتہ اور طاقتور ہیں) ان کی مالیاتی پالیسی کا کنٹرول اب یورپین سنٹرل بنک کے ہاتھوں میں ہے۔ اس طرح ان ممالک کے قومی سنٹرل بینکوں کی بیوروکریسی کا کردار ثانوی حیثیت کا رہ گیا ہے، اگرچہ ان ممالک نے گلوبلائزیشن کو ’’ایڈریس‘‘ کرنے کے لیے ہی ’’یوروزون‘‘ تشکیل دیا ہے اور ان کی کارکردگی تسلی بخش ہے۔
موجودہ گلوبل دنیا کے لیے ماہرین سیاسیات فی الحال چار متبادل گورننس ماڈلز پر بحث کر رہے ہیں :
۱۔ (Adam Smith Revisited) اس نظریے کے مطابق ریاست اور دوسرے سیاسی اداروں کو چاہیے کہ جس حد تک ممکن ہو ’’مارکیٹ‘‘ کو کم سے کم ڈسٹرب کریں اور Trust the market کے اصول پر پالیسیاں مرتب کریں۔
۲۔ دوسرے ماڈل کو Fragmentation کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے مطابق ریاستیں آخر کار اپنے ’’قومی کردار‘‘ کی طرف لوٹ جائیں گی۔ گلوبلائزیشن کامیاب نہیں ہوگی کیونکہ معاشی‘ سیاسی اور ثقافتی بنیادوں پر انتشار پوری دنیا میں جڑ پکڑ لے گا۔
۳۔ تیسرے ماڈل کو Pax Americana کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق دنیا میں موجود تشتت اور انتشار پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ (USA) کے ذریعے قابو پا لیا جائے گا۔ مسائل اور مشکلات کا حل ’’امریکی لیڈرشپ کے تحت امریکی انداز‘‘ میں ممکن ہو سکے گا۔
۴۔ آخری متبادل ماڈل Global Coordinationہے۔ اس ماڈل میں ریاستیں‘ علاقائی ادارے اور بین الحکومتی تنظیمیں اپنا اپنا کردار ادا کریں گی۔ اس نظام میں قومی حکومتیں نہ صرف برقرار رہیں گی بلکہ ریجنل گورننس انسٹی ٹیوشنز اور اقوام متحدہ کی رفاقت میں کام کریں گی۔
مذکورہ چاروں نظریات میں سے کوئی بھی اپنی گرفت اتنی مضبوط نہیں کر سکا کہ باقی تینوں خارج از بحث قرار پائیں، البتہ پہلا اور تیسرا ماڈل چھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔
گلوبلائزیشن اور جمہوری رویہ
اکیسویں صدی کے عالمی نظام میں گلوبلائزیشن کے در آنے سے جمہوری رویے کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔ سرسری جائزہ لینے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اب ووٹر کے ’’ووٹ‘‘ کی زیادہ اہمیت نہیں رہی۔ ووٹر جانتا ہے کہ اس کا ووٹ ‘ موجودہ پیچیدہ اور گلوبلائزڈ دنیا میں ’’انقلابی کردار‘‘ ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں ریڈیکل تحریکات کی جو لہر نظر آرہی ہے، شاید اس کا ایک سبب ووٹر کی ’’بے توقیری‘‘ بھی ہے۔ جمہوری رویے کو زیادہ نقصان Superiority of the market over the state کے نظریے نے پہنچایا ہے۔ قومی ریاستوں میں اگرچہ شہریوں کو مفید جمہوری حقوق میسر رہیں گے لیکن معاشی امور میں ان کی حیثیت پرکاہ کی بھی نہیں ہوگی۔ اگرچہ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ قومی ریاستیں دولت کو احسن طریقے سے تقسیم نہیں کر سکیں اس لیے دنیا کی اکثریتی آبادی غربت کا شکار ہے‘ گلوبلائزیشن کے عمل سے اور قومی ریاستوں کے کمزور ہونے سے دنیا کی اکثریتی آبادی ’’خوشحال‘‘ ہو جائے گی۔ لیکن واقعاتی شہادت ان ماہرین کی منطق کے خلاف ہے کیوں کہ گلوبلائزیشن سے امیر اور غریب کی ’’آمدنی کا فرق‘‘ تیزی سے بڑھ رہا ہے اور عالمی سطح پر عوام کے احتجاج سے عالمی منڈی کے کرتا دھرتا پالیسی سازوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی کیونکہ انہیں کون سا ووٹ لینے ہوتے ہیں۔
مارکیٹ بنیادوں پر گلوبلائزیشن کے مسلسل پھیلاؤ سے جمہوریت کی پسپائی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ عوام اور ووٹرز سیاسی کی بجائے سماجی اداروں کے ذریعے اپنی آواز کو موثر کریں۔ اس سلسلے میں غیر حکومتی تنظیموں کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے۔ اب یہ انہی تنظیموں کا کام ہے کہ عالمی رجحانات کے مضمرات کو بھانپتے ہوئے شہریوں کو بحیثیت Consumers متحرک اور منضبط کریں کیونکہ فقط Consumers ہی مارکیٹ اکانومی کے فرعونوں کے لیے موسیٰ ؑ ثابت ہو سکتے ہیں۔ کسی ملٹی نیشنل کمپنی کی پراڈکٹ کے Worldwide consumers انضباط اور ڈسپلن کے تحت ’’یکساں پالیسیاں‘‘ اختیار کر کے متعلقہ کمپنی کا ’’دماغ‘‘ ٹھکانے پر لا سکتے ہیں۔ اس سے یہ نکتہ مترشح ہوتا ہے کہ گلوبلائزیشن کے غیر جمہوری اور غیر انسانی رویے کو کنٹرول کرنے کے لیے ہر قوم کے شہریوں کا ’’ماوراے سرحد‘‘ باہمی رابطہ اشد ضروری ہے۔
آج کی قومی حکومتیں Supranational Associations کی طاقت کے سامنے بے بس ہیں اور آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک‘ نیٹو‘ یورپی کمیشن وغیرہ فیصلہ سازی عموماً ’’بند دروازوں‘‘ کے پیچھے کرتے ہیں۔ ان کے ’’جواب دہ‘‘ ہونے کا سوچنا بھی محال ہے کہ مذکورہ ایجنسیوں کی تشکیل میں قومی ریاست کے ’’شہریوں‘‘ کا کوئی کردار نہیں۔ لہٰذا شہریوں کی رضامندی اور نارضامندی سے ان کی پالیسیاں ’’متاثر‘‘ نہیں ہوتیں۔ ان عوامل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی بعض سنجیدہ تجزیہ نگار Cosmopolitan Modes of Democracy کی بات کر رہے ہیں کہ
۱۔ اقوام متحدہ کی فیصلہ سازی کی اہلیت میں اضافہ کیا جائے۔
۲۔ جنرل اسمبلی کے کردار کو موثر کیا جائے۔
۳۔ سلامتی کونسل سے ویٹو پاور ختم کی جائے۔
۴۔ مسلمہ انسانی حقوق کا تحفظ اور دفاع کیا جائے۔
۵۔ ریجنل اور گلوبل پارلیمنٹس کی داغ بیل ڈالی جائے۔
۶۔ عالمی اداروں کی ہر سطح پر علیحدگی اختیارات(Separation of Powers) کو متعارف کرایا جائے تاکہ اختیارات کے ارتکاز سے آمرانہ رجحانات نہ پنپ سکیں۔
گلوبلائزیشن اور وفاقیت
جن ممالک میں جمہوری اور وفاقی نظام ہے، وہ سیاسی حوالے سے بھی گلوبلائزیشن سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ مثلاً ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں میساچوسٹس (وفاقی اکائی) نے برما پر تجارتی پابندی عائد کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح کیلی فورنیا اور نیویارک سٹی نے دو سوئس بینکوں پر پابندی لگا دی تاوقتیکہ معاملات طے نہ پا گئے۔ حالات کا یہ رخ دیکھتے ہوئے واشنگٹن (وفاقی حکومت) نے واویلا کیا کہ ایسے رجحانات سے ہماری خارجہ پالیسی متاثر ہو رہی ہے۔ اسی طرح کینیڈا (جو ایک وفاقی ریاست ہے) میں بھی اٹاوہ (وفاقی حکومت) اور کیوبک (وفاقی اکائی) میں اختلافات سامنے آئے۔
گلوبلائزیشن وفاقی ریاستوں پر کیسے اثر انداز ہو رہی ہے، اس کا اندازہ اس امر سے بھی ہو جاتا ہے کہ ۱۹۷۰ ء میں بین الاقوامی تجارتی اکھاڑے میں صرف چار امریکی ریاستوں (وفاقی اکائیوں) کے دفاتر تھے۔ اب تقریباً چالیس پینتالیس ریاستوں (وفاقی اکائیوں) کے تقریباً تیس (۳۰) ممالک میں ۱۸۰ سے بھی زائد دفاتر ہیں۔ کینیڈا کے صوبے اس اعتبار سے زیادہ فعال ہیں۔ جرمن Londer (وفاقی اکائی) اور سوئس Canton (وفاقی اکائی) کے ساتھ ساتھ آسٹریلوی ریاستیں (وفاقی اکائیاں) بھی بین الاقوامی سرگرمیوں میں کافی فعال ہیں۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ بعض وحدانی ممالک (فرانس‘ جاپان) کی ذیلی حکومتیں بھی بین الاقوامی سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وحدانی ممالک کی اکثریت بھی جلد یا بدیر اپنے آپ کو وفاقی سانچے میں ڈھال لے گی۔ برطانیہ میں بھی (جو کہ ایک وحدانی ملک ہے) Devolution Act عمل میں آچکا ہے۔ اسی طرح بلجیم جو ۱۸۳۰ء میں عالمی طاقتوں کے درمیان بطورBuffer State وحدانی ملک کی صورت میں نمودار ہوا‘ نئی ضروریات کے تحت پر امن تبدیلی سے گزر کر وفاقی ملک بن گیا۔ ان مثالوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ باور کرایا جائے کہ گلوبلائزیشن سے اگر ایک طرف قومی سرحدیں بے معنی ہو رہی ہیں تو دوسری طرف مقامی رجحانات بھی فروغ پا رہے ہیں۔ وحدانی ممالک کو وفاقی انداز اپنانا پڑ رہا ہے اور وفاقی ممالک اپنی اکائیوں کو مزید اختیارات دے رہے ہیں۔ ہماری رائے میں سوویت یونین‘ چیکوسلواکیہ اور یوگوسلاویہ میں ’’وفاقی نظام‘‘ اس لیے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا کیونکہ اس میں ’’وفاقی رجحانات‘‘ کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا گیا تھا۔ حالانکہ عالمی رجحان یہ تھا کہ وحدانی ممالک بھی ’’مقامی رجحانات‘‘ کو نرمی سے ایڈریس کر رہے تھے اور نئی ضروریات کے مطابق خود کو ڈھال رہے تھے۔
مذکورہ تمام گفتگو کو پیش نظر رکھیں تو درج ذیل نکات اخذ ہوتے ہیں :
۱۔ گلوبلائزیشن تیزی سے نہ صرف قدم بڑھا رہی ہے بلکہ جما بھی رہی ہے اور چند کمپنیاں‘ کارپوریشنیں عالمی معیشت کو کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں آرہی ہیں۔
۲۔ قومی ریاستوں میں ’’مرکزیت‘‘ ختم ہو رہی ہے اور مقامی عناصر کو فروغ مل رہا ہے۔ مرکزیت ختم ہونے سے ریاستیں گلوبلائزیشن پر ’’چیک‘‘ نہیں رکھ سکتیں۔ رہے مقامی عناصر‘ تو وہ چونکہ الگ الگ ہیں اس لیے ان کی آواز اتنی موثر نہیں ہو سکتی کہ گلوبلائزیشن پر اس کے اثرات مرتب ہو سکیں۔ مثلاً صوبہ پنجاب کی ’’عالمی تجارت‘‘ میں آخر کیا حیثیت ہو سکتی ہے؟
۳۔ درج بالا دو نکات سے مترشح ہوتا ہے کہ گلوبلائزیشن ’’آمرانہ اور وحدانی‘‘ انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ یعنی اس میں Unity تو موجود ہے لیکن خطرہ ہے کہDiversity نہ ہونے کے برابر ہوگی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گلوبلائزیشن میں بھی مقامی رجحانات کو جگہ دی جائے ورنہ یہ اپنی موت آپ اسی طرح سے مر جائے گی جس طرح سوویت یونین‘ چیکو سلواکیہ اور یوگوسلاویہ کے آمرانہ اور نام نہاد وفاقی (حقیقت میں انتہائی وحدانی) نظام مقامی رجحانات کو شامل نہ کرنے کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوگئے۔ یعنی گلوبلائزیشن کو Federalize کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس طرح عالمی سطح پر Unity in Diversity دیکھنے کو مل سکے گی۔
سوال یہ ہے کہ گلوبلائزیشن میں ’’وفاقی عنصر‘‘ کیسے شامل کیا جا سکتا ہے جبکہ قومی ریاستیں بے بس اور مقامی حکومتیں گلوبلائزیشن کے سامنے بے حیثیت ہیں؟ ہماری رائے میں علاقائی اتحاد (Regional Integration) کے ذریعے گلوبلائزیشن کو Federalize کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً یورپی یونین کو ہم Federating Voice کہہ سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی ریاستیں باہمی اختلافات کو پس پشت رکھتے ہوئے علاقائی اتحاد کو فروغ دیں۔ ویسے بھی آنے والے زمانے میں قومی سرحدیں ’’بے معنی ‘‘ ہونے سے ’’باہمی اختلافات‘‘ بھی بے معنی ہو جائیں گے تو کیوں نہ مستقبل کو بھانپتے ہوئے بروقت ہی گلوبلائزیشن کو لگام دی جائے اس سے پہلے کہ اس میں ’’وحدانی عنصر‘‘ بہت مضبوط اور پائدار ہو جائے۔
اس وقت یورپی یونین کے ساتھ ساتھ آسیان اور نیفٹا بھی فعال ہو رہی ہیں۔ یعنی یورپی یونین کی Federating Voice نے دنیا کے دوسرے خطوں کو بھی مہمیز کیا ہے۔ دنیا کی تشکیل نو (Restructuring) کے اس عبوری دور میں ایسا رجحان خوش آئند ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جنوبی ایشیا کے عوام کی قسمت میں غربت‘ افلاس‘ پسماندگی مستقل طور پر لکھ دیے گئے ہیں؟ ہمارا اشارہ ’’سارک‘‘ کی طرف ہے۔ سارک کی موجودہ ساکھ اور ماضی کی کارکردگی کا جائزہ لینے سے کم از کم ’’اندازہ‘‘ تو یہی ہوتا ہے کہ گلوبل دنیا میں ’’سارک‘‘ بطور Federating Voice شمار نہیں ہوگی۔ گلوبلائزیشن اور علاقائی اتحادات کی سیاست میں جنوبی ایشیا کے خطے کی وہی حیثیت ہوگی جو کسی وفاقی ملک میں کسی کمزور وفاقی اکائی کی ہوتی ہے۔
اس امر کی شدید ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ ایشیا کے دو خطوں (جنوبی ایشیا‘ وسطی ایشیا) کی علاقائی تنظیموں کو زیادہ منظم اور زیادہ فعال کیاجائے۔ سارک کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے ’’ایکو‘‘ بھی اہمیت کی حامل علاقائی تنظیم ہے ۔ اگرچہ اس امر کا غالب امکان موجود ہے کہ وسطی ایشیا میں امریکہ کی فوجی موجودگی اس تنظیم کی فعالیت میں رکاوٹ کا باعث ہے لیکن پھر بھی علاقے کے مختلف ممالک اور اقوام کو تدبر و فراست سے مستقبل کی پلاننگ کرنی ہوگی تاکہ وسطی ایشیا کا خطہ بھی گلوبلائزیشن کے نظام میں Federating Voice بن کر اپنے عوام کے مفادات کا تحفظ کر سکے۔ وطن عزیز جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے سنگم پر ہونے کے ناطے زیادہ اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ جاندار اور موثر کردار ادا کرنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنے ’’داخلی ڈھانچے‘‘ کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ دستور پسندی کو رواج دینے کے ساتھ ساتھ وفاقی اکائیوں کے اختیارات میں نہ صرف اضافہ کرنا ہوگا بلکہ انہیں اس قدر با اعتماد بنانا ہوگا کہ وہ بھی دیگر ممالک کی وفاقی اکائیوں کی مانند‘ عالمی تجارتی اکھاڑے میں اتر سکیں۔
عالمی منڈی میں زراعت کی صورت حال
اس وقت دنیا میں زرعی مارکیٹوں پر ترقی یافتہ ممالک کے ایک چھوٹے سے گروپ کا قبضہ ہے۔ اکثر ترقی پذیر ممالک کے لیے برآمدی مارکیٹ شمال کے انہی چند ممالک پر مشتمل ہے۔ مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی امریکہ کے ترقی پذیر ممالک کے لیے یورپی یونین سب سے بڑی زرعی برآمدی مارکیٹ ہے۔ وسطی اور جنوبی امریکہ کے ساتھ ساتھ ایشیا کے کچھ ممالک کے لیے امریکہ اور کینیڈا سب سے بڑی مارکیٹیں ہیں جبکہ جاپان اور کوریا ہم سایہ ممالک کے لیے سب سے بڑی مارکیٹیں ہیں۔ اس طرح اندازہ ہوتا ہے کہ زرعی مارکیٹ تک پہنچ کے اعتبار سے تاریخی روابط، جغرافیائی قربت کے علاوہ Regional Integration Arrangement کا کردار کلیدی ہو چکا ہے۔ چالیس ترقی پذیر ممالک کی زرعی برآمدات کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی برآمدات میں بنیادی اضافہ یورپی یونین، شمالی امریکہ، جاپان، کوریا اور EFTA کی Agricultural Liberalization کا نتیجہ ہے۔ تقریباً ستائیس ممالک کی زرعی برآمدات میں پچاس فی صد کے لگ بھگ اضافہ یورپی یونین کی زرعی Liberalization کی وجہ سے ہوا ہے۔ اسی طرح چین اور تھائی لینڈ کی زرعی برآمدات میں پچاس فی صد اضافہ جاپانی اور کورین زرعی Liberalization کے سبب ممکن ہو سکا ہے۔ مذکورہ تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے شمال کے تمام ممالک کے بجائے چند ممالک بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی اکثریت کے لیے یورپی یونین کی زرعی مارکیٹ کا زیادہ کھلا ہونا ان کے مشترکہ مفاد کے تحت آتا ہے جبکہ جاپانی، کورین اور امریکہ کی مارکیٹوں سے ایشیا اور مغربی کرے میں واقع ترقی پذیر ممال کا نسبتاً چھوٹا گروپ فوائد حاصل کر سکتا ہے۔
جاپان اور کوریا کی زرعی برآمدی پالیسیوں کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ جاپانی اور کورین مارکیٹوں کا سکیل امریکی اور یورپی یونین کی مارکیٹوں کے اعتبار سے اضافی ہے۔ اس وقت دنیا میں گندم کی برآمد میں ترقی پذیر ممالک کا شیئر صرف پندرہ فی صد ہے۔ پندرہ فی صد میں بھی آدھے سے زیادہ حصہ ارجنٹائن کا ہے۔ اگرچہ جاپان اور کوریا کا گندم کی درآمد میں حصہ گیارہ فی صد ہے لیکن یہ دونوں ممالک اپنی گندم کی کل درآمد میں سے صرف تین فی صد ترقی پذیر ممالک سے حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ دونوں مالک گوشت اور گوشت کی مصنوعات کی عالمی تجارت کا ستائیس فی صد سے زیادہ درآمد کرتے ہیں اور ان درآمدات کا صرف سترہ فی صد ترقی پذیر ممالک سے آتا ہے۔
اگرچہ عالمی زرعی مارکیٹوں میں Liberalization سے ترقی پذیر ممالک کو برآمد کے زیادہ مواقع ملیں گے لیکن گوشت اور دیگر زرعی اجناس کے درآمد کنندگان کے طور پر ان ممالک میں خوراک کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھنے کا خطرہ موجود ہے۔ خوراک درآمد کرنے والے ممالک کی اکثریت کم ترقی یافتہ اور غریب ہے لہٰذا وہاں Agricultural Liberalization سے خوراک کی درآمدات کی قیمتوں میں اضافہ ہونے سے نہ صرف فلاح عامہ کے کام متاثر ہوں گے بلکہ یہ ممالک کسی انسانی المیے کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ چالیس ترقی پذیر ممالک کے ایک گروپ میں تیس ممالک گندم درآمد کرنے والے ہیں جبکہ ان میں سے صرف چار ممالک ایسے ہیں جو گندم اور دوسری زرعی اجناس (چاول کے علاوہ) برآمد کرتے ہیں۔ اکثر ترقی پذیر ممالک کی زرعی درآمدات کا بیس فی صد سے زیادہ گوشت اور غلے پرمشتمل ہوتا ہے۔
چونکہ خوراک کے تحفظ کی کوئی متعین تعریف، جو ہر اعتبار سے قابل قبول ہو، نہیں کی جا سکی اس لیے Cluster method استعمال کرتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ستر سے زیادہ ترقی پذیر ممالک خوراک کے اعتبار سے غیر محفوظ کے درجے میں آتے ہیں۔ ان ممالک کی درآمدات میں غلے اور گوشت کا زیادہ حصہ ہوتا ہے۔ غلے اور لائیو سٹاک کی حفاظت جاپان، کوریا، یورپین یونین اور EFTA میں بھی کافی زیادہ ہوتی ہے لہٰذا ان مصنوعات میں تجارت کو دوسری زرعی اجناس کی بہ نسبت زیادہ درآمدی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ لہٰذا لبرلائزیشن کے نتیجے میں ان اجناس کی قیمتیں دوسری اجناس (مثلاً سبزیاں، پھل وغیرہ) کی نسبت بہت زیادہ ہو جائے گی۔ ایک اندازے کے مطابق اگر تمام قسم کی ڈومیسٹک سپورٹ اور بارڈر پروٹیکشن وغیرہ زراعت کے شعبے میں ختم کر دی جائے تو عالمی سطح پر غلے اور لائیو سٹاک پراڈکٹ کی قیمتیں بالترتیب کم از کم دس فی صد اور پچیس فی صد بڑھ جائیں گی۔ اس کے مضمرات میں اکثر ترقی پذیر ممال کے لیے خوراک کی درآمدی قیمت میں بے پناہ اضافہ بھی شامل ہوگا۔
کچھ افریقی ممالک چند اجناس کی برآمد پربہت زیادہ انحصار کرتے ہیں مثلاً تمباکو، کافی وغیرہ۔ ان ممالک کے لیے برآمد کے زیادہ مواقع حاصل کرنا ایک زیادہ لبرلائزڈ عالمی مارکیٹ میں ممکن نہیں ہوگا۔ ان ممالک کے لیے ضروری ہوگا کہ اپنی تجارتی ساخت کو diversifyکریں۔
گلوبلائزیشن اور قوموں کا باہمی تجارتی انحصار
عالمی سیاست کے نظریہ سازوں میں یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ ’’کیا معاشی اعتبار سے باہمی انحصار جنگ کے امکانات کو کم کر تا ہے یا زیادہ‘‘ جاپان‘ چین اور مغربی یورپ کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت نے اس سوال کو کافی اہم بنا دیا ہے۔ گیارہ ستمبر کے تاریخی واقعہ کے بعد (اس واقعہ کی وجوہات اور نتائج کو دیکھتے ہوئے) ’’معاشی باہمی انحصار اور جنگ‘‘ قابل توجہ موضوع بن گیا ہے کہ عالمی سیاست کا لبرل مکتبہ فکر معاشی باہمی انحصار کو ایسا عنصر قرار دیتا ہے جس کے سبب جنگ کے امکانات کم سے کم ہو جاتے ہیں کہ جارحیت کا متبادل ’’تجارتی اقدار‘‘ میں ڈھونڈ لیا جاتا ہے۔ لہٰذا جس حد تک ’’باہمی انحصار‘‘ کو فروغ حاصل ہوگا‘ عالمی امن اسی قدر دیرپا ثابت ہوگا۔ اس نقطہ نظر کو حقیقت پسند مکتبہ فکر قابل قبول نہیں گردانتا۔ حقیقت پسندوں کے مطابق باہمی انحصار سے جنگ کے امکانات بڑھتے ہیں، کم نہیں ہوتے کہ باہمی انحصار کا مطلب Vulnerability ہے جس سے ریاستوں کو جارحیت کے لیے پیش قدمی کا ’’محرک‘‘ مل جاتا ہے تاکہ ضروری اشیا اور معدنیات وغیرہ تک ’’مسلسل رسائی‘‘ کو یقینی بنایا جائے جن پر ریاست کی طاقت اور بقا کا دارومدار ہوتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی قوم یا اقوام کا کوئی گروہ گلوبلائزیشن کی آڑ میں خام مال‘ تیل‘ معدنیات وغیرہ تک اپنی مسلسل رسائی کو یقینی بنانا چاہتا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے درج بالا گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے‘ اگر ہم جنگ عظیم اول کا پس منظر دیکھیں تو لبرل مکتبہ فکر کی تہی دامنی سامنے آجاتی ہے۔ کیونکہ اس وقت مغربی طاقتوں کے درمیان تجارت غیر معمولی سطح پر پہنچ چکی تھی لیکن یہ باہمی تجارت انہیں جنگ کرنے سے نہیں روک سکی ۔ بلکہ اس زیادہ باہمی انحصار کے بعد یہ جنگ وقوع پذیر ہوئی کیونکہ پچھلے تیس سالوں سے باہمی تجارت کی شرح بہت بڑھ چکی تھی۔ ۱۹۲۰ء سے ۱۹۴۰ ء تک کا عرصہ لبرل مکتبہ فکر کو سپورٹ کرتا نظر آتا ہے۔ Protectionism کی خندق کے باعث باہمی انحصار کو زوال آیا تو بین الاقوامی تناؤ اتنی بڑھ گیا کہ دنیا جنگ پر آمادہ ہوگئی، اگرچہ اس وقت بھی دو جارحیت پسند ریاستیں (جرمنی اور جاپان) خام مال کے لیے دوسری ریاستوں بشمول طاقتور ریاستوں پر کافی زیادہ انحصار کر رہی تھیں۔ لہٰذا حقیقت پسند بھی سچے معلوم ہوتے ہیں کہ ناگزیر اشیا تک ’’لازمی رسائی‘‘ کے لیے کشمکش بڑھ جاتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بیس کی دہائی میں جرمنی اور جاپان دوسری ریاستوں پر زیادہ انحصار کر رہے تھے لیکن انہوں نے جنگ تیس کے عشرے کے اختتام پر چھیڑی جبکہ ان کا انحصار (دوسری ریاستوں پر) کافی حد تک کم ہو چکا تھا۔
بعض تجزیہ نگاروں نے لبرل اور حقیقت پسند مکاتب فکر کی مذکورہ ’’اضافیت‘‘ کو (Theory of Trade Expectations) کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نظریے کے مطابق ایک نیا (Variable) متعارف کروایا گیا ہے جسے (Expectations of Future Trade) کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے مطابق یہ دیکھا جاتا ہے کہ اگر ریاست جنگ کرنے کا فیصلہ کرلے تو تجارتی آپشن کی مجموعی قدر پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ لہٰذا باہمی انحصار اس وقت امن کی نشوونما کرے گا اگر ریاستوں کو یقین ہو کہ تجارتی شرح‘ مستقبل بعید تک کافی بلند رہے گی۔ اگر بہت زیادہ انحصار کرنے والی ریاستوں کو اندازہ ہو جائے کہ مستقبل میں تجارتی شرح بہت زیادہ گھٹ جانے کے امکانات موجود ہیں تو یقیناًحقیقت پسندوں کے نظریے کے مطابق ایسی ریاستیں جنگ شروع کرنے سے نہیں چوکیں گی کہ انہیں اس معاشی دولت کے کھونے کا خوف لاحق ہوگا جو ان کی طویل المیعاد سلامتی کی پشتیبان ہے۔ ۱۴- ۱۹۱۳ ء میں اعلیٰ باہمی انحصار کے باوجود مستقبل بعید میں ’’متوقع کٹوتی‘‘ کو بھانپتے ہوئے ہی شاید جرمن قائدین نے پہلی جنگ عظیم چھیڑ دی تاکہ خام مال اور مارکیٹوں تک ’’طویل المیعاد رسائی‘‘ ممکن ہو سکے۔
اس وقت وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی جارحانہ کارروائیوں کا جواز مذکورہ خطوط پر تلاش کیا جا سکتا ہے کہ گلوبلائزیشن کے فروغ کے ساتھ ہی امریکی لیڈر شپ اپنی معیشت پر ’’میکرو اثرات‘‘ کی بابت تحفظات کا شکار ہو چکی ہے۔ کیونکہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کے اتار چڑھاؤ سے امریکی معیشت پر بالواسطہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ریاستوں کے مابین تجارتی شرح میں ’’درآمدی جنس‘‘ کی نوعیت کو اہم حیثیت حاصل ہے کہ کسی درآمد کی جانے والی جنس کی ’’کٹوتی‘‘ پر ریاستی قوت اور خوشحالی کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جاپان‘ یورپ اور شمالی امریکہ کی معیشت کا Capital Infrastructure (ٹرانسپورٹیشن سسٹم‘ فیکٹریاں‘ مشینیں وغیرہ) خام مال اور تیل کے بغیر کام نہیں کر سکتا۔ اس طرح تجارت میں تعطل سے ان ممالک کو بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔ اگرچہ خام مال اور تیل رکھنے والے ممالک کا انحصار بھی ان اشیا کے ’’برآمد‘‘ کرنے پر ہے لیکن اس حوالے سے یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی ریاست کے لیے (درآمد و برآمد کے حوالے سے) متبادل انتظام کی سہولت کس قدر ہے۔ یعنی ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ درآمد کنندگان خام مال اور تیل کہیں اور سے حاصل کر سکتے ہیں یا نہیں۔ اسی طرح برآمد کنندگان خام مال اور تیل کہیں اور بھی کھپا سکتے ہیں یا نہیں۔ دنیا بھر میں صنعت کے مسلسل فروغ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں برآمد کنندگان کا پلڑا لازماً بھاری ہوگا کہ انہیں ’’سپلائی‘‘ کرنے کے لیے ’’آپشن‘‘ میسر ہوگا۔ اس لیے ترقی یافتہ ممالک کی یہ کوشش ہے کہ ترقی پذیر دنیا میں ’’صنعت حرفت‘‘ تیزی سے فروغ نہ پا سکے تاکہ برآمد کنندگان متوقع متبادل سے محروم ہو جائیں۔ پچھلے چند سالوں سے وطن عزیز میں صرف ’’واپڈا‘‘ کے ہاتھوں ہی صنعت کا جو ’’حشر نشر‘‘ ہوا ہے، اس کا ایک سبب مذکورہ نکتے میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک اور زاویے سے ہم عالمی رجحانات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد‘ مشرقی ایشیا اور مغربی یورپ میں امریکی فوجوں کی موجودگی کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔ جواز پیدا کرنے کے لیے ہی امریکہ نے ’’بدمعاش ریاست‘‘ اور دہشت گردی کی نئی اصطلاحیں متعارف کرائیں۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ دنیا کے ہر اہم خطے میں بد معاش ریاستیں پیدا کرتا رہے اور ان ریاستوں سے تحفظ کی خاطر متعلقہ خطوں میں اپنی فوجی موجودگی کا جواز پیدا کرتا رہے کہ امریکہ کی غیر موجودگی میں بد معاش ریاست والے خطے کی ’’دیگر ریاستیں‘‘ اپنے تحفظ کی خاطر ’’ملٹری ایڈوینچر‘‘ کی طرف مائل نہ ہو سکیں۔ خیال رہے کہ کسی ریاست کو اتنی حد تک ہی بد معاش بنایا جاتا ہے کہ بعد میں اپنی دھاک بٹھانے کی خاطر اس کی خاطر خواہ ’’ٹھکائی‘‘ بھی کی جا سکے تاکہ دیگر ممالک امریکہ کی بے محابا ملٹری قوت اور اس کی فراہم کردہ ’’سکیورٹی‘‘ سے مطمئن رہیں۔ اس پالیسی کو (Adult Supervision) کا ’’معتبر‘‘ نام دیا گیا ہے۔ اس سے بہرحال اتنا واضح اندازہ ہو جاتا ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ گلوبلائزیشن کے عہد میں کوئی اور قوم یا اقوام کا گروہ امریکہ کی مانند پوری دنیا میں مغربی حوالے سے نقل و حرکت کر کے ’’دخل در معقولات‘‘ کا سبب بنے۔
امریکہ اینڈ کمپنی کو یہ اندیشہ بھی ہے کہ ایشیا میں قومیت پرستی کو تحریک مل سکتی ہے جس سے پورا خطہ Nuclearized ہو سکتا ہے۔ مثلاً شمالی کوریا‘ جنوبی کوریا یا مستقبل کے متوقع متحدہ کوریا کی نیوکلیرائزیشن سے جاپان، اور جاپان سے خائف ہو کر چین، اور چین سے خائف ہو کر بھارت اور تائیوان، اور بھارت سے خائف ہو کر پاکستان Aggressive Nuclearization کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں روس بھی خاموش نہیں بیٹھے گا۔ خیال رہے یہی (Chain) الٹی بھی چل سکتی ہے۔ بہرحال ہر دو صورتوں میں قومیت پرستی کو مزید پشت پناہی ملے گی جس سے گلوبلائزیشن کا عمل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتا ہے اور یہی امر‘ امریکی مفادات کے منافی ہے کہ امریکہ نے تو سرد جنگ کے دنوں سے ہی ’’کیپیٹل ازم پر مبنی گلوبلائزیشن‘‘ کے خواب بنے ہوئے تھے۔
Adult Supervision کے تحت امریکی پالیسی کا دوسرا پہلو یہ ہوگا کہ مشرقی ایشیا میں Japanese- led closed economic block نہ بن سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود امریکہ نے ہی جنگ عظیم دوئم کے بعد‘ جنوبی کوریا اور تائیوان کی پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہوئے جاپانی سرمایہ کاری اور تجارت کے لیے دونوں ممالک کے دروازے کھلوادیے تاکہ جاپان ’’ایشیا کی ورکشاپ‘‘ بن سکے۔ اس پالیسی کا پس منظر ۱۹۰۰ ء سے ۱۹۴۵ ء تک اس ملک کی پولیٹیکل اکانومی تھی۔ شمالی اور مشرقی ایشیا میں جاپان کی رسائی ’’خام مال اور مارکیٹ‘‘ تک کافی زیادہ تھی۔ جنگ کے بعد امریکہ کی ذمہ داری بن گئی کہ جاپانیوں کو ’’ملٹری ایڈوینچر‘‘ کی طرف مائل ہونے سے بچانے کے لیے اس کے لیے ’’خام مال اور مارکیٹ‘‘ کا مناسب بندوبست کرے۔ امریکہ کے مشہور ڈپلومیٹ اور مورخ جارج کپتان نے بہت پہلے نشاندہی کر دی تھی کہ جاپان اس امریکی بندوبست کے طفیل ہی مستقبل میں ’’معاشی بلاک‘‘ تشکیل دے سکتا ہے جس میں امریکی اثرات ’’زیرو‘‘ ہوں گے لہٰذا ضروری ہوگا کہ اس ’’خام مال اور مارکیٹ‘‘ پر قبضہ کیا جائے جس پر جاپان کا انحصار ہے۔ اندازہ یہی ہوتا ہے کہ مشرقی ایشیا اور مغربی یورپ کو متوقع حریف خیال کرتے ہوئے امریکہ کی کوشش ہے کہ ہر دو خطے جس خام مال پر انحصار کر رہے ہیں‘ اس خام مال کو ’’اپنے‘‘ قبضے میں لے لیا جائے۔ لہٰذا Expectations of Future Trade کی تھیوری کافی حد تک موجودہ عالمی حالات پر لاگو ہوتی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ گلوبلائزیشن سے جنگ کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے۔
اختتامی کلمات
یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ گلوبلائزیشن سے ’’فرار‘‘ ممکن نہیں اور یہ کہ دنیا کی ترقی کا غالب رجحان بھی اسی سمت میں ہے‘ ہمیں چاہیے کہ معروضی انداز میں اس کا Structure بدلنے کی کوشش کریں۔ گلوبلائزیشن کے لیے کوئی ’’تصوری ڈھانچہ‘‘ تشکیل دیں‘ جس کے مطابق اس میں نام نہاد مارکیٹ لبرل ازم کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ ’’مضبوط عدل‘‘ بھی معتبر جگہ پا سکے۔ گلوبل فیصلہ سازی میں ایسے معاشروں اور اقوام کو بھی معقول اور موثر طور پر شریک کیا جائے جن کا مارکیٹ اعتبار سے وزن کم ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دنیا کے درمیان Socialization کی بھی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے ورنہ موجودہ صورت حال میں تو ترقی یافتہ دنیا کا پلڑا کافی بھاری ہے۔ آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک اور عالمی اقتصادی تنظیم کے انتظامی ڈھانچوں اور فیصلہ سازی کے شعبوں میں امیر ممالک کا تناسب غریب ممالک سے بہت زیادہ ہے ۔ اندریں صورت یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا مغربی ممالک جمہوری رویے کو ’’قومی ریاست‘‘ تک محدود سمجھتے ہیں کہ ماوراے ریاست اداروں پر یہ رویہ لاگو نہیں ہو سکتا؟ اہل مغرب کا (Proud of Flesh) کا مظہر رویہ اور اس پر اصرار دیکھ کر شیکسپیئر کے ڈرامے ’’مرچنٹ آف وینس‘‘ کے یہ الفاظ یاد آجاتے ہیں:
".......... take then thy hand,
take then thy pound of flesh
but in the cutting of it --- shed not
one drop of Christian blood."
سوال یہ ہے کہ گلوبلائزیشن کے عمل میں Global Ethics کیوں نہیں سما سکتی؟ اس وقت اگرچہ گلوبل سوشل تحریکات مثلاً ایمنسٹی انٹرنیشنل اور گرین پیس وغیرہ گلوبلائزیشن کے ’’یک رخے‘‘ انداز کو دھچکا لگا رہی ہیں لیکن ان کی آواز اتنی موثر نہیں ہو سکی۔ گلوبل خطرات جیسا کہ ماحولیاتی آلودگی‘ ایڈز‘ کیمیائی ہتھیاروں کا پھیلاؤ اور دہشت گردی وغیرہ سے‘ گلوبلائزیشن کے ’’غیر معاشی عناصر‘‘ پر توجہ دینے کی ضرورت بہت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ گلوبلائزیشن کی سمت سفر ’’قدرتی‘‘ ہے لیکن ملٹی نیشنل کمپنیاں اسے ’’ہائی جیک‘‘ کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ یہ کمپنیاں ایک ملک سے سرمایہ نکال کر اور دوسرے ملک میں سرمایہ لگا کر ’’ہلچل‘‘ مچا سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں مشرقی ایشیا میں ’’کرنسی کے بحران‘‘ کی مثال دی جا سکتی ہے۔ اندریں صورت Global Ethics کا اثر و نفوذ بہت ضروری ہو جاتا ہے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ گلوبلائزیشن اصل میں ’’اسلامی قدر‘‘ ہے لیکن بنیادی انسانی حقوق اور انسان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل جیسے اقدامات کی طرح اہل مغرب نے یہ اسلامی قدر بھی اپنے آپ سے منسوب کر لی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ فروعی مسائل میں الجھنے کی بجائے اسلام کے ’’عالمی پروگرام‘‘ پر بحث و نظر کو فروغ دیں۔ مارکیٹ اکانومی کے غیر انسانی پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کے متوازی ’’اسلامی پروگرام‘‘ پیش کریں۔ خطرہ ہے کہ دنیا بھر میں عوامی سطح پر گلوبلائزیشن کے خلاف رد عمل سے‘ کہیں اسلام کی عالمگیریت بھی ہدف تنقید نہ ٹھہرے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
تعارف و تبصرہ
ادارہ
(نوٹ: تعارف کتب کے لیے کتاب کی دو جلدیں موصول ہونا ضروری ہے)
’’قصیدہ بردہ شریف‘‘
جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و منقبت میں امام محمد شرف الدین البوصیریؒ کے ’’قصیدہ بردہ‘‘ کو جو قبولیت عامہ نصیب ہوئی ہے‘ اس سے سب اہل علم آگاہ ہیں۔ ہمارے فاضل دوست سید سبط الحسن ضیغم نے، جن کے مضامین روزنامہ نوائے وقت میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہتے ہیں‘ قصیدہ بردہ شریف کو اردو‘ پنجابی‘ فارسی اور انگریزی زبانوں میں ملا عبد الرحمن جامیؒ ‘ سید وارث شاہؒ ‘ فیاض الدین چشتیؒ ‘ مفتی عبد الرزاقؒ اور حافظ برخوردارؒ جیسے نامور اصحاب علم و قلم کے نو تراجم کے ساتھ عمدہ اور معیاری کتابت و طباعت کے ذریعہ خوبصورت اور دلکش انداز میں شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے جو ایک قابل قدر علمی و ادبی خدمت ہونے کے ساتھ ساتھ بارگاہ رسالتؐ کے ساتھ بے پایاں عقیدت ومحبت کا بھی آئینہ دار ہے۔
پیکجز لمیٹڈ کوٹ لکھپت لاہور نے اسے شائع کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے اور بڑے سائز کے ۲۶۸ صفحات پر مشتمل اس خوبصورت اور بابرکت مجموعہ کا ہدیہ چار سو روپے ہے۔
’’فتاویٰ مفتی محمود ‘‘ (جلد سوم)
مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی نگرانی میں جامعہ قاسم العلوم ملتان کے دارالافتاء سے جاری کیے جانے والے فتاویٰ کو جمعیۃ پبلی کیشنز لاہور نے شائع کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جو ایک بڑی علمی خدمت ہے۔ فتاویٰ کی دو جلدیں اس سے قبل بھی شائع ہو چکی ہیں اور تیسری جلد اس وقت ہمارے سامنے ہے جو کتاب الجنائز‘ کتاب الزکوٰۃ ‘ کتاب الصوم اور کتاب الحج کے ضروری مسائل پر مشتمل ہے۔
پونے چھ سو کے لگ بھگ صفحات‘ عمدہ کمپوزنگ و طباعت‘ مضبوط جلد‘ قیمت دو سو روپے۔
ملنے کا پتہ : جمعیۃ پبلی کیشنز، جامع مسجد پائلٹ سکول، وحدت روڈ‘ لاہور
’’دینی مدارس میں تعلیم: کیفیت ‘ مسائل‘ امکانات‘‘
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اور عالمی ادارہ فکر اسلامی نے جنوبی ایشیا میں آزاد دینی مدارس کے قیام کے پس منظر‘ خدمات و کردار‘ نصاب و نظام‘ طریق کار اور ان کے بارے میں مختلف حلقوں کے تاثرات بالخصوص دینی مدارس کے خلاف عالمی استعمار کی مہم کے حوالہ سے وسیع تر مطالعہ و تجزیہ کا اہتمام کیا ہے اور جناب سلیم منصور خالد نے اس مطالعہ و تجزیہ کے نتائج کو خوبصورت اور جامع انداز میں مرتب کر کے اسے اہل علم کے لیے گراں قدر تحفے کی صورت میں پیش کر دیا ہے جو دینی مدارس کے بارے میں ذہنوں میں پیدا ہونے والے اور عالمی میڈیا کی طرف سے اٹھائے جانے والے کم و بیش تمام اہم سوالات کا احاطہ کرتا ہے۔
پونے پانچ سو صفحات پر مشتمل اس معیاری کتاب کی قیمت تین سو روپے ہے اور اسے بک ٹریڈرز، نصر چیمبرز، مرکز ایف سیون، اسلام آباد سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’خطبات جالندھریؒ ‘‘
تحریک ختم نبوت کے عظیم راہ نما حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کو اللہ تعالیٰ نے جہد و عمل کی بے پناہ قوت و توفیق کے ساتھ ساتھ گفتگو اور استدلال کے منفرد اسلوب سے بھی نوازا تھا اور ان کے خطبات دینی مواد ومعلومات کا بھی بہت بڑا ذخیرہ ہوتے تھے۔ مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی نے ’’خطبات ختم نبوت‘‘ کی پانچویں جلد کے طور پر حضرت مولانا جالندھریؒ کے متعدد خطبات کو مرتب کر دیا ہے جو توحید باری تعالیٰ‘ سیرت نبویؐ ‘ عقیدہ ختم نبوت‘ حجیت حدیث‘ معراج النبیؐ‘ اتباع سنت‘ تصوف‘ اسلام اور کمیونزم اور دفاع پاکستان کی اہمیت جیسے اہم عنوانات پر انہوں نے وقتاً فوقتاً ارشاد فرمائے تھے۔
صفحات ۴۱۲، کتابت و طباعت معیاری‘ خوبصورت جلد و ٹائٹل‘ قیمت دو سو روپے۔
ملنے کا پتہ: عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘ حضوری باغ روڈ، ملتان۔
’’تحقیق الایمان‘‘
بلوچستان کے بزرگ عالم دین شیخ الحدیث حضرت مولانا قاضی عبد القادرؒ نے علم حدیث سے تعلق رکھنے والے اہم ابواب ایمان‘ تقدیر اور فضائل صحابہؓ کے حوالہ سے ایک مختصر رسالہ تحریر فرمایا تھا جو علم حدیث کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے افادیت کا حامل ہے۔
چالیس کے لگ بھگ صفحات کا یہ علمی رسالہ مکتبہ رشیدیہ، سرکی روڈ، کوئٹہ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’تاریخ المسجد الحرام‘‘
جامع مسجد خضراء، سمن آباد، لاہور کے خطیب مولانا عبد الرؤف فاروقی نے مسجد حرام کی تعمیر کی مرحلہ وار تاریخ اور اس کے مختلف ادوار کے بارے میں ضروری معلومات کو جامع انداز میں مرتب کیا ہے اور اس کے ساتھ حج اور عمرہ کے ضروری مسائل بھی شامل کر دیے ہیں۔
تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس مجلد کتاب کی قیمت ایک سو بیس روپے ہے اور اسے مندرجہ ذیل پتہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے: حافظ محمد اسامہ ،جامعہ اسلامیہ ٹرسٹ، جی ٹی روڈ کامونکی، ضلع گوجرانوالہ۔
’’عہد ساز قیادت‘‘
ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور کے سابق مدیر اور اپنے دور کے معروف دانش ور ڈاکٹر احمد حسین کمال مرحوم نے جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی تاریخ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۳ء تک مرتب کی تھی جو ان کی زندگی میں شائع ہوئی تھی اور کافی عرصہ سے ناپید تھی جبکہ جمعیۃ علماء اسلام کے سیاسی مزاج اور مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور مجاہد اسلام حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کی سیاسی جدوجہد کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ہر کارکن کے لیے ضروری ہے۔ جمعیۃ پبلی کیشنز، جامع مسجد پائلٹ سکول، وحدت روڈ، لاہور نے اسے دوبارہ شائع کیا ہے اور سوا دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ایک سو بیس روپے ہے۔
’’طریقۂ تعلیم‘‘
جمعیۃ علماء ہند کے نامور راہ نما اور مؤرخ حضرت مولانا سید محمد میاں رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کتابچہ میں طریقۂ تعلیم پر قلم اٹھایا ہے اور اپنے مخصوص انداز میں تعلیم کی اہمیت اور اس کے طریق کار کے بارے میں اہم معلومات و ہدایات تحریر فرمادی ہیں‘ جو اساتذہ و مدرسین کے لیے بطور خاص مفید ہیں۔
صفحات ۱۴۰ ‘ قیمت ۶۰ روپے ہے اور یہ بھی جمعیۃ پبلی کیشنز کے پتہ سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
’’دور حاضر کے سیاسی و اقتصادی مسائل‘‘
حکومت و سیاست‘ اقتصاد و معیشت‘ جمہوریت‘ ملوکیت‘ قانون سازی اور بیت المال جیسے اہم عنوانات پر حضرت مولانا سید محمد میاںؒ کے علمی اور فکر انگیز مضامین کو جمعیۃ پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے اور دینی سیاست کے محاذ پر کام کرنے والے علما اور کارکنوں کے لیے اس کا مطالعہ ضروری ہے۔
دو سو اڑتیس صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ایک سو بیس روپے ہے۔
’’عالمی طاغوتی کھیل میں مکر و فریب کا راج‘‘
معروف دانش ور اور تجزیہ نگار کموڈور (ر) طارق مجید نے عالمی صہیونی تحریک کے عزائم‘ پس منظر اور مکر و دجل پر مشتمل طریق کار کو اس کتابچہ میں بے نقاب کیا ہے اور جنوبی ایشیا میں پاکستان کے خلاف بھارتی جنگی عزائم کے پیچھے کار فرما صہیونی مقاصد پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے تجزیہ و تبصرہ کے تمام پہلوؤں سے اتفاق ضروری نہیں ہے لیکن ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد کی عالمی صورت حال کو سمجھنے کے لیے اس کتابچہ کا مطالعہ مفید ہوگا۔
صفحات ۱۵۲ ‘ قیمت ۷۵ روپے‘ ملنے کا پتہ: الفیصل ناشران و تاجران کتب، اردو بازار، لاہور۔
’’آفتاب محمدیؐ بجواب شمع محمدیؐ‘‘
فقہ حنفی کے مختلف مسائل کے بارے میں اہل حدیث عالم دین مولانا محمد جونا گڑھیؒ کی تنقیدی کتاب ’’شمع محمدیؐ‘‘ کے جواب میں پیر سید مشتاق علی نے قلم اٹھایا ہے اور دلائل کے ساتھ واضح کیا ہے کہ فقہ حنفی پر ’’شمع محمدی‘‘ میں کیے گئے اعتراضات بے وزن اور معاندانہ ہیں۔
صفحات ۳۰۴ ‘ ملنے کا پتہ: عبد المتین اکیڈمی، گلی ۸، گوبند گڑھ، گوجرانوالہ۔
’’حقائق الفقہ بجواب حقیقۃ الفقہ‘‘
پیر سید مشتاق علی شاہ کی یہ کتاب بھی فقہ حنفی کے دفاع میں ہے اور اس میں مولانا محمد یوسف جے پوریؒ کی مشہور کتاب ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ میں فقہ حنفی پر کیے جانے والے سینکڑوں اعتراضات کا مدلل جواب دیا گیا ہے۔
صفحات ۵۱۰ اور ملنے کا پتہ : مکتبہ فاروقیہ، گلی ۸، گوبند گڑھ‘ گوجرانوالہ۔
مارچ ۲۰۰۳ء
امریکی استعمار، عالم اسلام اور بائیں بازو کی جدوجہد
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
گزشتہ ہفتے کے دوران دنیا کے مختلف ملکوں کے سینکڑوں شہروں میں عراق پر امریکہ کے ممکنہ حملہ کے خلاف عوامی مظاہرے ہوئے اور اسے وسائل پر قبضے کا جنون قرار دیتے ہوئے دنیا کے کروڑوں انسانوں نے امریکی عزائم کی مذمت کی۔ بادی النظر میں ان مظاہروں کا اہتمام زیادہ تر ان حلقوں کی طرف سے کیا گیا ہے جنہیں بائیں بازو کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے اور جو امریکہ اور سوویت یونین کے خلاف ’’سرد جنگ‘‘ کے عنوان سے گزشتہ پون صدی کے دوران بپا ہونے والی کشمکش میں سوویت یونین کے حلیف یا ہم خیال تصور کیے جاتے رہے ہیں۔ ان مظاہروں سے محسوس ہوتا ہے کہ سوویت یونین کی شکست وریخت کے صدمہ سے سنبھل کر اب دنیا بھر میں بایاں بازو پھر سے منظم ہونے جا رہا ہے اور عالمی سطح پر امریکہ کے خلاف فکری اور سیاسی محاذ میں اس نے سبقت بھی حاصل کر لی ہے۔
گزشتہ سال افغانستان پر امریکہ کی طرف سے مسلط کی جانے والی جنگ کے خلاف بھی مختلف شہروں میں عوامی مظاہرے ہوئے تھے اور عوام کی بڑی تعداد نے امریکی عزائم اور پروگرام کے خلاف جذبات کا اظہار کیا تھا۔ لندن میں ہونے والے ایک بڑے عوامی مظاہرے میں راقم الحروف بھی شریک تھا بلکہ اس مظاہرے میں شرکت کے لیے مسلمان تنظیموں کو آمادہ کرنے کی مہم میں بھی شامل تھا۔ یہ ۱۱ ستمبر کے سانحہ سے صرف دو تین ہفتے بعد کی بات ہے۔ اس وقت امریکی دھمکیوں اور مغربی میڈیا کے کردار کش طرز عمل کی وجہ سے عام مسلمانوں پر سراسیمگی کی کیفیت طاری تھی جبکہ بعض دینی حلقوں کو یہ اشکال تھا کہ اس مظاہرے میں بہت سی غیر اسلامی حرکات ہوں گی، نیم عریاں عورتیں ہوں گی، ڈانس اور گانا ہوگا اس لیے ہم اس میں شامل نہیں ہو سکتے۔ ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری اور راقم الحروف نے مظاہرہ سے قبل بہت سی مسلمان تنظیموں سے رابطہ قائم کیا اور ان سے گزارش کی کہ اس مظاہرے میں مسلمانوں کی شرکت ضروری ہے، انہیں اعتماد اور حوصلے کے ساتھ میدان میں آنا چاہیے اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے جذبات اور موقف کے اظہار کے لیے جو موقع ملے، اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ میں نے دوستوں سے یہ بھی عرض کیا کہ وہ یوں سمجھیں کہ عکاظ کے میلے میں جا رہے ہیں جہاں تمام خرافات اور منکرات کے باوجود جناب نبی اکرم ﷺ اپنی دعوت پیش کرنے کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ برطانوی مسلمانوں کے مختلف راہ نماؤں نے بھی اس مظاہرہ میں مسلمانوں کی شرکت کے لیے کوشش کی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس مظاہرہ میں شریک ہوئی۔ اس مظاہرہ میں مجھے بائیں بازو کی بعض تنظیموں کے بینرز، پمفلٹس اور نعرے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا اور اندازہ ہوا کہ اس عوامی ریلی کو منظم کرنے کے لیے بائیں بازو کی تنظیموں نے خاصی محنت کی ہے۔
اس سال ابھی چند روز قبل لندن میں جو مظاہرہ ہوا ہے، اس کے بارے میں اخباری رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گزشتہ سال کے مظاہرے سے دوگنا بڑا تھا اور اس کو منظم کرنے میں بائیں بازو کے عناصر پیش پیش تھے۔ ویسے عراق پر امریکی حملے کے تیزی سے بڑھتے ہوئے امکانات کے خلاف میدان میں آنا بائیں بازو کا حق بھی تھا کہ عراق کے صدر صدام حسین جو امریکی پروگرام کا سب سے بڑا ہدف ہیں، معروف طور پر بائیں بازو سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور جس ’’بعث پارٹی‘‘ کی وہ نمائندگی کرتے ہیں، وہ عرب قومیت کی علم بردار اور بائیں بازو کے رجحانات کی حامل ہے۔ اس حوالے سے ان کی حمایت میں بائیں بازو کو ضرور سیاسی میدان میں آنا چاہیے تھا، چنانچہ بائیں بازو نے یہ حق ادا کر دیا ہے اور لگتا ہے کہ بائیں بازو کی اس عالمگیر منظم سیاسی مہم کی وجہ سے امریکہ کی پریشانیوں میں اس قدر اضافہ ضرور ہو گیا ہے کہ اسے عالمی فورم پر تنہائی کا کچھ کچھ احساس ہونے لگا ہے۔ یہ تنہائی اسے عراق پر حملہ کرنے سے باز رکھ سکتی ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر ہمارے لیے یہ بات زیادہ اہم اور قابل توجہ ہے کہ دنیا بھرمیں بائیں بازو نے پھر سے منظم ہونے کی طرف پیش رفت کی ہے اور اس کا عملی مظاہرہ بھی دنیا کے سامنے کام یابی کے ساتھ کر دیا ہے۔
بائیں بازو کی اس جدوجہد میں اس کی طرف سے جاری کردہ ’’منشور‘‘ میں جو موقف اختیار کیا گیا ہے، وہ اس کے روایتی تناظر میں معاشی مفادات کی کشمکش کے حوالے سے ہے اور ’’منشور‘‘ کا کہنا ہے کہ امریکہ کی یہ جنگ نہ مذہب کے لیے ہے، نہ اس کا تہذیب سے کوئی تعلق ہے اور نہ انسانی حقوق اور انسانیت کے تقاضوں ہی سے اسے کوئی نسبت ہے۔ یہ سیدھی سادی معاشی مفادات کی جنگ ہے اور امریکہ ایک عالمی استعمار اور سامراج کا کردار ادا کرتے ہوئے عراق پر حملے کے ذریعے تیل کے چشموں کا کنٹرول براہ راست حاصل کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ کو نہ عراق کے عوام کے حقوق سے کوئی دل چسپی ہے اور نہ عراق کی مختلف قومیتوں کی مظلومیت اس کا مسئلہ ہے۔ وہ ان باتوں کو صرف بہانے اور عنوان کے طور پر استعمال کر رہا ہے جبکہ اس کا مسئلہ صرف اور صرف تیل ہے۔
بائیں بازو کی جاری کرد ہ تفصیلات کے مطابق ’’ڈیلی مرر‘‘ نے ۲۹ جنوری ۲۰۰۳ء کی اشاعت میں بتایا ہے کہ اقوام متحدہ کی ہیلتھ آرگنائزیشن نے عراق پر امریکہ کے ممکنہ اور مجوزہ حملہ کی صورت میں ہونے والے نقصانات کا جو اندازہ لگایا ہے، وہ یہ ہے کہ امریکی بمباری سے براہ راست مرنے والوں کے علاوہ پانچ لاکھ افراد کو فوری علاج کی ضرورت ہوگی جو بالواسطہ زخمی ہوں گے، پچاس لاکھ افراد قحط کا شکار ہوں گے، وبائیں لاکھوں افراد کو لپیٹ میں لے لیں گی، نو لاکھ افراد ہجرت پر مجبور ہوں گے، ستر فی صد آبادی پینے کے پانی سے محروم ہو جائے گی، ڈیموں کی تباہی سے جنوبی عراق اکہتر ارب کیوبک پانی میں ڈوب جائے گا اور تیل کے کنووں کو آگ لگنے سے جنگ کے بعد چالیس ارب ڈالر کا نقصان ہوگا۔
اقوام متحدہ کے شعبہ صحت کی یہ رپورٹ یقیناًامریکی حکمرانوں کی نظر سے گزری ہوگی اور انہیں یہ رپورٹ پڑھنے کی ضرورت بھی کیا ہے کہ خود وہ جو کچھ کرنے جا رہے ہیں، اس کے نتائج ونقصانات کا انہیں سب سے بہتر اندازہ بلکہ علم ہے، لیکن اس سب کچھ کے باوجود امریکہ عراق پر حملے پر تلا بیٹھا ہے اور وہ عالمی رائے عامہ کے شدید احتجاج کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے عراق پر حملہ کی دھمکیوں اور تیاریوں کے سلسلے میں اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے۔
امریکہ کے معاشی عزائم اور وسائل پر قبضہ کرنے کے جنون کے حوالے سے ہمیں بائیں بازو کے اس موقف سے اختلاف نہیں ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ نہ صرف عراق پر ممکنہ حملے بلکہ افغانستان پر گزشتہ سال سے جاری فوج کشی کے مقاصد میں بھی تیل، گیس اور ذخائر کے وسائل پر قبضہ کرنے اور عالمی معیشت پر فیصلہ کن کنٹرول کی مہم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے لیکن ہم اس سارے قضیے کو صرف اس دائرہ میں محدود نہیں سمجھتے اور ہمارا موقف یہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا اور اس کی سرحدوں میں توسیع کے لیے راہ ہموار کرنے کی غرض سے خلیجی ممالک کی پہلی سرحدات کو توڑ پھوڑ کا شکار بنانا بھی امریکی عزائم کا حصہ ہے۔ اسرائیل کا قضیہ خالصتاً مذہبی اور نسلی ہے۔ یہودی اپنے مذہبی عقائد اور پروگرام کی تکمیل کے لیے ’’بیت المقدس‘‘ پر قبضہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور نسلی برتری کے زعم میں عربوں پر حکمرانی کا ’’مزعومہ حق‘‘ استعمال کرنا چاہتے ہیں جبکہ اس مہم میں انہیں امریکہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اور اسرائیل نے اب تک جو کچھ بھی کیا ہے، وہ امریکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا ہے ورنہ اس کے لیے اپنے وجود کو قائم رکھنا بھی مشکل تھا۔ پھر عرب ممالک بالخصوص خلیج کے ممالک میں شخصی آمریتوں اور خاندانی بادشاہتوں کو تحفظ فراہم کر کے اس خطہ کے کروڑوں عوام کو انسانی اور شہری حقوق سے مسلسل محروم رکھنے میں بھی امریکہ کا یہ خوف کارفرما ہے کہ سیاسی آزادیوں اور شہری حقوق کی بحالی سے ان ممالک میں اسلامی رجحانات کے حامل عناصر کو آگے آنے کا موقع ملے گا جو عالم اسلام کو نظریاتی مرکز اور قیادت فراہم کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
اس کے علاوہ عالمی سطح پر اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کے مغربی فلسفہ کے حوالے سے اسلامی احکام وقوانین کی مخالفت اور ان کے خلاف مکروہ اور معاندانہ پراپیگنڈا بھی امریکی مہم کا حصہ ہے جس کے بارے میں امریکی قیادت کے ذمہ دار حضرات کئی بار اظہار خیال کر چکے ہیں، اس لیے ہم پورے شعور اور شرح صدر کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان، عراق اور دیگر مسلم ممالک کے خلاف امریکی عزائم اور یلغار صرف اور صرف معاشی مفادات کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس میں مذاہب کے درمیان کشمکش اور مغربی تہذیب کو زبردستی مسلط کرنے کی مہم بھی بنیادی اسباب کے طور پر پوری طرح کار فرما ہیں اور ان سے صرف نظر کرنا معروضی حقائق سے آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہے۔
تاہم اس نظری اور فکری اختلاف کے باوجود ہمیں امریکی سامراج کے خلاف بائیں بازو کی اس عالمی مہم سے اختلاف نہیں ہے اور موجودہ حالات میں اسے بروقت اور ضروری سمجھتے ہوئے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہمیں محترم قاضی حسین احمد صاحب امیر جماعت اسلامی پاکستان کے اس موقف سے اتفاق نہیں ہے کہ:
’’ہمیں دیکھنا ہوگا کہ یورپ میں مظاہرے امریکہ اور برطانیہ کی پالیسی تبدیل کرانے کے لیے ہیں یا مسلمانوں کا رد عمل کم کرنے کے لیے ہیں، وہ مسلمانوں کا رد عمل ان مظاہروں کے ذریعہ اس لیے بھی کم کرنا چاہتے ہیں کہ مسلم رد عمل زیادہ تلخ اور پر تشدد ہوگا۔‘‘ (بحوالہ روزنامہ جنگ لاہور، ۱۷ فروری ۲۰۰۳ء)
دنیا میں اگر مسلم رد عمل کہیں نظر آ رہا ہوتا تو شاید ہم بھی یہی کچھ کہتے لیکن بد قسمتی سے عالم اسلام میں اس حوالہ سے جو ’’سکوت مرگ‘‘ طاری ہے، اس کو کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے ہمارے لیے محترم قاضی صاحب کے اس ارشاد کی تائید کرنا ممکن نہیں ہے۔ مسلم دنیا میں حکمرانوں کے کیمپ کا یہ حال ہے کہ جنرل پرویز مشرف، حسنی مبارک، خلیفہ بن حماد، اور عبد اللہ گل سمیت بہت سے مسلم حکمران اس بات پر کھلم کھلا بے بسی کا اظہار کر چکے ہیں کہ اس جنگ کو روکنا ہمارے بس میں نہیں ہے بلکہ ہم امریکہ کا ساتھ دینے سے انکار کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ اسلامی سربراہ کانفرنس کی تنظیم او آئی سی کی حالت یہ ہے کہ وہ اس نازک ترین وقت میں سربراہی اجلاس تو کجا، وزارتی اور سفارتی سطح پر بھی اس مسئلے کے حوالے سے باہمی مشاورت اور کسی موقف کے اظہار کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتی بلکہ گزشتہ روز اسلام آباد کی ایک محفل میں ہم نے عرض کیا کہ او آئی سی کا سربراہی اجلاس طلب کرنے کی مہم چلانی چاہیے تو ایک صاحب علم ودانش بزرگ نے یہ کہہ کر ہمیں ٹوک دیا کہ مولانا، خدا کے لیے اسے رہنے دیجیے کیونکہ مسلم حکمران اگر کسی جگہ اکٹھے ہو گئے تو بھی وہ عراق کے بجائے امریکہ ہی کی حمایت میں کوئی نہ کوئی قرارداد منظور کر کے اپنے اپنے ملکوں کو واپس سدھار جائیں گے۔
دینی کیمپ کا منظر یہ ہے کہ حج کے موقع پر سعودی عرب کے مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل شیخ نے اپنے خطبہ حج میں یہ کہہ کر ضرور مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے کہ:
’’اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کو اقتصادی طور پر اپنا غلام رکھنا چاہتی ہیں۔ یہ قوتیں اسلامی ممالک کی منڈیوں پر اپنا تصرف اور قبضہ چاہتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ مسلمان مجبور رہیں اور اپنی اقتصادی ضرورتوں کے لیے صرف انہی کی طرف دیکھیں۔ رب ذو الجلال نے مسلمانوں کو ہر طرح کے مادی وسائل اور قیمتی ذخائر سے مالامال کیا ہے۔ مسلمان ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنی اقتصادیات کی طرف توجہ دیں، اپنے فیصلے خود کریں، معاشی طور پرخود کفیل ہونے کی کوشش کریں، دنیا کو بتائیں کہ ہم آزاد اور خود مختار ہیں، ہم اپنے معاشی پروگرام خود مرتب کریں گے اور کسی کی محکومی اور غلامی قبول نہیں کریں گے۔ اس مقصد کے لیے عالم اسلام کو متحد ویک جان ہونا پڑے گا، اتحاد واتفاق کے بغیر امت مسلمہ کی معاشی، سماجی اور فطری آزادی محال ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اپنی آوازیں ایک کی جائیں، کندھے کندھوں سے ملائے جائیں، ایک دوسرے سے تعاون کیا جائے، ایک دوسرے کی مدد کی جائے، نظم وضبط کے ساتھ یک دلی اور یک جہتی کے ساتھ مشترکہ آواز اٹھائی جائے۔‘‘ (بحوالہ روزنامہ نوائے وقت لاہور، ۱۵ فروری ۲۰۰۳ء)
لیکن شیخ محترم کا یہ حقیقت پسندانہ خطبہ صرف ان کے ارشاد اور حجاج کرام کے سماع تک محدود رہا ہے۔ رابطہ عالم اسلامی، موتمر عالم اسلامی اور لیبیا کی جمعیۃ الدعوۃ الاسلامیۃ جیسی عالمی تنظیموں میں سے کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس ارشاد کو کسی جدوجہد کی بنیاد بنائیں یا معالی الشیخ عبد العزیز آل شیخ نے مسلمانوں کے جذبات کی جو ترجمانی کی ہے، اسے ایک منظم مہم کی شکل دے سکیں حتیٰ کہ حج کے موقع پر اسی منٰی کے میدان میں مسلم ممالک سے آئے ہوئے ہزاروں سرکردہ علماء کرام اور دینی راہ نماؤں کے درمیان بھی اس حوالے سے کسی مشاورت ورابطہ کی کسی درجے میں کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
مسلم ممالک کی دینی تنظیمات وعلمی مراکز اپنے اپنے دائرۂ فکر وعمل پر قناعت کیے ہوئے ہیں اور انہیں عالم اسلام کی مجموعی صورت حال کے حوالے سے کسی اجتماعی کاوش اور مشترکہ جدوجہد کی ضرورت کی طرف توجہ دلانا اب وقت ضائع کرنے بلکہ بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف سمجھا جانے لگا ہے۔
لے دے کے چند جہادی تحریکات اور کچھ سرپھرے نوجوان ہیں جو عالم اسلام کے مختلف محاذوں پر جانیں ہتھیلی پر رکھے امریکی استعمار کی آہنی دیوار کے ساتھ سر ٹکرانے میں مصروف ہیں اور صرف انہیں دیکھ کر کچھ احساس ہوتا ہے کہ شاید ملت اسلامیہ کے جسم میں تھوڑی سی حرارت باقی ہے لیکن ان کی یہ حرکت بھی ہمارے اکثر وبیشتر دانش وروں کو ہضم نہیں ہو پا رہی اور آج کی دنیا سے عقل ودانش کی سند حاصل کرنے کے لیے ان سے لاتعلقی کے اعلان کو ضروری قرار دیا جا رہا ہے۔
تاریخ کے عمل اور تسلسل میں خلا قانون فطرت کے خلاف ہے۔ امریکی استعمار کی طوفانی جارحیت کے رد عمل میں کسی نہ کسی کو تو آگے آنا ہی تھا۔ اگر اسلامی تحریکات اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں اور انہوں نے اپنا چانس ضائع کرنے میں عافیت سمجھی ہے تو جس نے اس خلا کو پر کرنے کا ’’رسک‘‘ لے لیا ہے، اس کی جرات وجسارت کو یہ کہہ کر رد نہیں کیا جانا چاہیے کہ ہم اگر یہ کرتے تو زیادہ سخت انداز میں کرتے یا ہمارے سخت رد عمل کو نرم کرنے کے لیے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔
ہمارے نزدیک تمام تحفظات کے باوجود بائیں بازو کی یہ عالمی مہم وقت کی ضرورت اور بسا غنیمت ہے جس سے ہمیں سبق لینا چاہیے، راہ نمائی حاصل کرنی چاہیے اور تعاون واشتراک عمل کے امکانات تلاش کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ مسئلہ اصل میں ہمارا ہے، ان کا نہیں۔
مکی عہد نبوت میں مدینہ کے اہم دعوتی و تبلیغی مراکز
پروفیسر محمد اکرم ورک
بیعتِ عقبہ اولیٰ کے بعد مدینہ منورہ میں اسلام انتہائی سرعت کے ساتھ پھیلا۔بالخصوص حضرت مصعبؓ بن عمیرکے خوبصورت اور دلکش اسلوبِ دعوت کی بدولت انصار کے دونوں قبائل اوس وخزرج کے عوام اور اعیان واشراف جوق درجوق اسلام میں داخل ہونے لگے اور ہجرت عامہ سے دوسال قبل ہی وہاں مساجد کی تعمیر اور قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہوچکا تھا۔ حضرت جابرؓ کابیان ہے :
لقد لبثنا بالمدینۃ قبل أن یقدم علینا رسول اللّٰہ ﷺ سنتین، نعمر المساجد ونقیم الصلوٰۃ۔ (۱)
’’ہمارے یہاں رسول اللہﷺ کی تشریف آوری سے دوسال پہلے ہی ہم لو گ مدینہ میں مساجد کی تعمیر اور نماز کی ادائیگی میں مشغول تھے‘‘۔
اس دوسالہ درمیانی مدت میں تعمیر شدہ مساجد میں نماز کی امامت کرانے والے صحابہ کرامؓ ہی معلم کی خدمات بھی انجام دیتے تھے۔اسی دوران مدینہ منورہ میں تین مستقل درس گاہیں بھی قائم ہوچکی تھیں اور ان میں باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری تھا۔چونکہ اس وقت تک صرف نماز ہی فرض ہوئی تھی اس لیے قرآن مجید کے ساتھ عموماً نماز کے احکام ومسائل اور مکارمِ اخلاق کی تعلیم دی جاتی تھی۔یہ تینوں درس گاہیں اس طرح اہل مدینہ کی دینی ضروریات کو اس انداز میں پورا کررہی تھیں کہ شہر مدینہ اور اس کے انتہائی کناروں اور آس پاس کے مسلمان آسانی سے وہاں تعلیم حاصل کرسکتے تھے۔
پہلی درسگاہ قلبِ شہر میں مسجدِ بنی زریق تھی۔دوسری درسگاہ مدینہ کے جنوب میں تھوڑے فاصلے پرِ قبا میں تھی اور تیسری درس گاہ مدینہ کے شمال میں کچھ فاصلے پر ’’نقیع النحصمات‘‘نامی علاقے میں تھی۔ ان تین مستقل تعلیمی مراکز کے علاوہ انصار کے مختلف قبائل اور آبادیوں میں قرآن اور دینی احکام کی تعلیم جاری تھی اور ان کے معلم ومنتظم انصار کے رؤسا اور بااثر حضرات تھے ۔مکہ مکرمہ میں ضعفا ومساکین نے سب سے پہلے دعوتِ اسلام پر لبیک کہا اور سردارانِ قریش کے مظالم اور جبروتشدد کانشانہ بنے۔جبکہ مدینہ منورہ کے مسلمانوں کامعاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ یہاں سب سے پہلے سردارانِ قبائل نے برضا ورغبت اسلام قبول کیا اور دعوتی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیا۔بالخصوص قرآن مجید کی اشاعت اور تعلیم کامعقول انتظام کیا۔قبل از ہجرت مدینہ میں جو درس گاہیں تعلیم قرآن کا مرکز تھیں، ان کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے:
درس گاہِ مسجد بن زریق
مدینہ منورہ میں تعلیم قرآن کا اولین مرکز اور درس گاہ مسجد بنی زریق تھی۔ ابنِ قیمؒ لکھتے ہیں:
فاول مسجد قرئ فیہ القرآن بالمدینہ مسجد بنی زریق (۲)
’’مدینہ میں سب سے پہلے جس مسجدمیں قرآن پڑھا گیا، وہ مسجد بنی زریق ہے‘‘۔
اس درس گاہ کے معلم حضرت را فع ؓ بن مالک زرقی قبیلہ خزرج کی شاخ بنی زریق سے تھے۔ بیعتِ عقبہ اولیٰ کے موقع پر مسلمان ہوئے اور دس سال کی مدت میں جس قدر قرآن نازل ہوا تھا، رسول اللہﷺ نے ان کو عنایت فرمایاجس میں سورہ یوسف بھی شامل تھی۔ اپنے قبیلے کے نقیب اور رئیس تھے۔ انہوں نے مدینہ واپس آنے کے بعد ہی اپنے قبیلے کے مسلمانوں کو قرآن کی تعلیم پر آمادہ کیا اور آبادی میں ایک بلند جگہ (چبوترے)پر تعلیم دینی شروع کی۔مدینہ میں سب سے پہلے سورہ یوسف کی تعلیم حضرت رافعؓ ہی نے دی تھی۔جب مکہ میں سورۃ طٰہٰ نازل ہوئی تو انہوں نے اسے لکھا اور مدینہ لے آئے اور بنی زریق کو اس کی تعلیم دی اور یہاں کے پہلے معلم ومقری یہی تھے۔ بعد میں اسی چبوترہ پر مسجد بنی زریق کی تعمیر ہوئی جو قلب شہر میں مصلی (مسجدغمامہ) کے قریب جنوب میں واقع تھی۔رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لانے کے بعد حضرت رافعؓ کی تعلیمی ودینی خدمات اور ان کی سلامتی طبع کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ (۳) اس درس گاہ کے استاد اور اکثر شاگرد قبیلۂ خزرج کی شاخ بنی زریق کے مسلمان تھے۔
قبا کی درس گاہ
دوسری درس گاہ مدینہ کے جنوب میں تھوڑے فاصلے پرمقامِ قبا میں تھی،جہاں بعد میں مسجد کی تعمیر ہوئی۔بیعت عقبہ کے بعد بہت سے صحابہ کرامؓ جن میں ضعفاء اسلام کی اکثریت تھی، مکہ سے ہجرت کرکے مقامِ قبا میں آنے لگے اور قلیل مدت میں ان کی اچھی خاصی تعدا د ہوگئی۔ ان میں حضرت سالمؓ مولیٰ ابی حذیفہؓ قرآن کے سب سے بڑے عالم تھے، وہی ان حضرات کو تعلیم دیتے تھے اور امامت بھی کراتے تھے۔یہ تعلیمی سلسلہ رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری تک جاری تھا۔عبدالرحمنؓ بن غنم کا بیان ہے:
حدثنی عشرۃ من اصحاب رسول اللّٰہ ﷺ قالوا:کنا نتدارس العلم فی مسجد قبا اذ خرج علینا رسول اللّٰہ ﷺ، فقال: تعلّموا ماشئتم ان تعلّموا فلن یأجرکم اللّٰہ حتی تعملوا۔ (۴)
’’رسول اللہﷺ کے کئی صحابہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ہم لوگ مسجد قبا میں علم دین پڑھتے پڑھاتے تھے۔اسی حالت میں رسول اللہ ﷺ ہمار ے پاس آئے اور فرمایا تم لوگ جو چاہو پڑھو،جب تک عمل نہیں کرو گے، اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو اجروثواب نہیں دے گا‘‘۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قبا کے مہاجرین میں متعدد حضرات قرآن کے عالم ومعلم تھے۔ان میں حضرت سالمؓ مولیٰ ابی حذیفہؓ سب سے زیادہ علم رکھتے تھے اور وہی امامت کے ساتھ تدریسی خدمت میں بھی نمایا ں تھے۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ کابیان ہے:
لما قدم المہاجرون الاولون العصبۃ، موضع بقباء، قبل مقدم رسول اللّٰہﷺکان سالمؓ مولٰی ابی حذیفہؓ یؤم المہاجرین الاولین فی مسجد قباء وکان اکثرھم قرآنا۔ (۵)
’’رسول اللہﷺ کے آنے سے پہلے مہاجرین اولین کی جماعت جب عصبہ آئی،جو قبا کی ایک جگہ ہے ،مسجدِ قبا میں ان لوگوں کی امامت سالمؓ مولیٰ ابی حذیفہؓ کرتے تھے،وہ ان میں قرآن کے سب سے بڑے عالم تھے‘‘۔
حضرت سالمؓ جنگِ یمامہ میں مہاجرین کے علمبردار تھے،بعض لوگوں کو ان کی قیادت میں کلام ہوا تو انہوں نے کہا:
بئس حامل القرآن انا (یعنی ان فررت)
اگر میں جنگ سے فرار ہوا توبرا حاملِ قرآن ہوں گا۔
اور غزوہ کرتے رہے یہاں تک کہ ان کا دایاں ہاتھ کٹ گیاتو جھنڈا بائیں ہاتھ میں لے لیا اور وہ بھی زخمی ہوگیا تو بغل میں لے لیا اور جب زخمی ہوکر گرگئے تو اپنے آقا حضرت ابوحذیفہؓ کا حال دریافت کیا۔ جب معلوم ہوا کہ وہ شہید ہوگئے ہیں تو کہا کہ مجھے ان ہی کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ حضرت ابوحذیفہؓ نے سالمؓ کو اپنا بیٹا بنالیاتھا۔(۶)
ان تصریحات سے حضرت سالمؓ کے علم وفضل اور قرآن میں ان کے امتیاز کا بخوبی اندازہ کیاجاسکتاہے اور یہ کہ وہی قبا کی درسگاہ میں تعلیمی اور تدریسی خدمات انجام دیتے تھے۔رسول اللہﷺنے صحابہ کرام کو قرآن کے جن چار علما اور قاریوں سے قرآن پڑھنے کی تاکید فرمائی، ان میں سے ایک حضرت سالمؓ مولیٰ ابی حذیفہؓ بھی تھے۔(*۱)
یہاں حضرت ابو خیثمہ سعد بن خیثمہ اویسیؓ کامکان گویا مدرسہ قبا کے طلبہ کے لیے دارالاقامہ تھا ۔وہ اپنے قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے نقیب ورئیس تھے،بیعتِ عقبہ کے موقع پر اسلام لائے،مجرد تھے اور ان کا مکان خالی تھا،اس لیے اس میں ایسے مہاجرین قیام کرتے جو اپنے بال بچوں کو مکہ مکرمہ چھوڑ کر آئے تھے یا جن کی آل اولاد نہیں تھی۔اس وجہ سے ان کے مکان کو ’’بیت العزاب‘‘ یعنی کنواروں کا گھر کہاجاتا تھا۔رسو ل اللہﷺ ہجرت کے وقت قبا میں حضرت کلثوم بن ہدمؓ کے مکان میں فروکش تھے۔ اسی کے قریب حضرت سعد بن خیثمہؓ کا گھر تھا،رسول اللہﷺ وقتاً فوقتاً وہاں تشریف لے جاتے اور مہاجرین کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ یہ مکان مسجدِ قبا سے متصل جنوبی سمت میں تھا اور یہیں دار کلثوم بن ہدمؓ بھی تھا۔(۷)
گویا اس درس گاہ کے استاد اور شاگرد دونوں مہاجرینِ اولین تھے تاہم مقامی مسلمان بھی اس میں شامل ہوتے تھے۔
درس گاہ نقیع الخصمات
تیسری درس گاہ مدینہ کے شمال میں تقریباً ایک میل دور حضرت اسعدؓ بن زرارہ کے مکان میں تھی جو حرہ بنی بیاضہ میں واقع تھا۔یہ آبادی بنو سلمہ کی بستی کے بعد ’’نقیع الخصمات‘‘نامی علاقے میں تھی۔یہ درس گاہ اپنے محلِ وقوع کے اعتبارسے پرکشش ہونے کے ساتھ اپنی جامعیت اور اپنی افادیت میں دونوں مذکورہ درس گاہوں سے مختلف اور ممتاز تھی۔ بیعتِ عقبہ میں انصار کے دونوں قبائل اوس اور خزرج کے رؤسا نے قبولِ اسلام کے بعد بارگاہِ رسالت ﷺ میں عرض کیا کہ مدینہ میں قرآن اور دین کی تعلیم کے لیے کوئی معلم بھیجا جائے تو ان کے اصرار پر آپ ﷺ نے حضرت مصعبؓ بن عمیر کو روانہ فرمایا۔
ابنِ اسحاق کی روایت کے مطابق بیعتِ عقبہ اولیٰ کے بعد ہی رسول اللہﷺ نے حضرت مصعبؓ بن عمیر کو انصار کے ساتھ مدینہ روانہ فرمایا:
فلما انصرف عنہ القوم بعث رسول اللّٰہ ﷺ معھم مصعبؓ بن عمیر وأمرہ ان یقرءھم القرآن ویعلّمھم الاسلام، ویفقّھھم فی الدّین فکان یسمی المقرئ بالمدینۃ معصبؓ، وکان منزلہ علی اسعدؓ بن زرارۃ بن عدس ابی امامۃؓ۔ (۸)
’’جب انصار بیعت کرکے لوٹنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ مصعبؓ بن عمیرکو روانہ فرمایا اور ان کو حکم دیا کہ وہاں لوگوں کو قرآن پڑھائیں، اسلام کی تعلیم دیں اور ان میں دین کی بصیر ت اور صحیح سمجھ پیدا کریں۔چنانچہ حضرت مصعبؓ مدینہ میں ’’معلمِ مدینہ‘‘کے لقب سے مشہور تھے اور ان کا قیام حضرت ابو امامہ اسعدؓ بن زرارہ کے مکان پر تھا‘‘۔
حضرت مصعبؓ بن عمیر ابتدائی دور میں اسلام لائے۔نازونعمت میں پلے ہوئے تھے۔ جب ان کے مسلمان ہونے کی خبر خاندان والوں کو ہوئی تو انہوں نے سخت سزا دے کر مکان کے اندر بند کردیامگر حضرت مصعب بن عمیرؓ کسی طرح نکل کر مہاجرینِ حبشہ میں شامل ہوگئے۔ (۹) بعد میں جب قریش کے اسلام قبول کرنے کی افوہ پھیلی تو آپؓ مکہ واپس آئے اور پھرمدینہ کی طرف ہجرت کی۔(۱۰)
حضرت اسعدؓ بن زرارہ خزرجی نجاری بیعتِ عقبہ اولیٰ میں اسلام لانے والوں میں سے تھے۔اپنے قبیلے کے نقیب تھے،ایک روایت کے مطابق وہ’’ نقیب النقباء ‘‘بھی تھے۔ابن اسحاق کی روایت کے مطابق ان کا انتقال 1ھ میں اس وقت ہوا جب کہ مسجدِ نبوی کی تعمیر جاری تھی۔قبیلۂ بنو نجار کے لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ہمارے لیے کسی نقیب کو مقرر فرمادیں ۔آپﷺ نے فرمایا:
انتم اخوالی وانا بما فیکم وانا نقیبکم۔ (۱۱)
’’تم لوگ رشتے میں میرے ماموں ہو۔ میں ان امور کی اصلاح کے لیے موجود ہوں جو تمہارے درمیان رونما ہوں اور میں تمہارا نقیب ہوں‘‘۔
ایک قول کے مطابق حضرت اسعدؓ بن زرارہ بیعتِ عقبہ اولیٰ سے قبل ہی مکہ جاکر مسلمان ہوگئے تھے، گویا وہ انصار مدینہ میں پہلے مسلمان تھے۔ (۱۲) یہ دونوں حضرات قرآن کی تعلیم اور اسلام کی اشاعت میں ایک دوسرے کے شریک تھے۔حضرت مصعبؓ بن عمیر قرآن کی تعلیم کے ساتھ اوس اور خزرج دونوں قبائل کی امامت بھی کرتے تھے اور جب ایک سال کے بعد بیعتِ عقبہ ثانیہ کے موقع پر اہلِ مدینہ کو لے کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو ان کا لقب ’’مقرئ المدینہ‘‘یعنی معلمِ مدینہ مشہور ہوچکا تھا۔ (۱۳)
حضرت اسعدؓبن زرارہ نے جمعہ کی فرضیت سے پہلے ہی مدینہ میں نماز جمعہ کااہتمام فرمایا۔نمازِ جمعہ کا اجتماع بنی بیاضہ کی جگہ ’’نقیع الخصمات‘‘میں ہوتا تھا۔ (۱۴)گویانقیع الخصمات کی یہ درس گاہ صرف قرآنی مکتب اور مدرسہ ہی نہیں تھی بلکہ ہجرت سے پہلے مدینہ میں اسلامی مرکز کی حیثیت رکھتی تھی۔حضرت مصعبؓ بن عمیر اوس وخزرج کے اس مشترکہ اجتماع کی امامت کیاکرتے تھے۔(۱۵) اسی لیے نماز جمعہ کے قیام کی نسبت بعض روایتوں میں ان کی طرف کی گئی ہے۔ (۱۶)
اگرچہ رسول اللہﷺ نے حضرت مصعبؓ بن عمیرکے ہمراہ ابن ام مکتومؓ کو بھی مدینہ روانہ فرمایا تھا لیکن چونکہ حضرت مصعبؓ بن عمیرکو خاص طور پر تعلیم کے لیے بھیجا تھا اس لیے اس درس گاہ کی تعلیمی سرگرمیوں میں ابن امِ مکتومؓ کا تذکرہ نہیں آتا۔ ویسے بھی ابن امِ مکتومؓ نابینا ہونے کی وجہ سے محدود پیمانے پر ہی تبلیغی ودعوتی خدمات سرانجام دے سکتے تھے۔
’’نقیع الخصمات‘‘کی اس درس گاہ اور اسلامی مرکز کی وجہ سے مدینہ کے یہودیوں کے دینی وعلمی مرکز’’بیت المدراس‘‘کی حیثیت کم ہوگئی جہاں جمع ہوکر یہودِ مدینہ درس وتدریس ،تعلیم وتربیت اور دعا خوانی کے ذریعہ اپنی مذہبی سرگرمیاں جاری رکھتے تھے۔
اوس وخزرج یہودیوں سے بے نیاز ہوکر اپنے علمی ودینی مرکزسے وابستہ ہوگئے۔اسلام سے قبل اوس وخزرج میں پڑھنے لکھنے کا رواج بہت کم تھا اور اس معاملہ میں وہ یہودیوں کے محتاج تھے۔البتہ چند لوگ لکھنا جانتے تھے ۔ان میں رافع ؓ بن مالک زرقی،زیدؓ بن ثابت ،اسیدؓ بن حضیر،سعدؓبن عبادہ،ابیؓ بن کعب وغیرہ تھے۔ان میں سے اکثر نے ہجرت سے پہلے ہی اسلام قبول کرلیا اور وہ اب بڑی سرگرمی سے مسلمانوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کررہے تھے۔’’نقیع الخصمات‘‘کے مرکز سے ان کا خصوصی رابطہ تھا۔اس زمانے میں مدینہ منورہ کے مختلف علاقوں اور قبائل میں تدریسی وتعلیمی مجالس برپا رہتی تھیں۔خاص طور پر بنو نجار،بنو عبدالاشہل ،بنوظفر ،بنو عمرو بن عوف،بنو سالم وغیرہ کی مساجد میں علمی مجالس کا انتظام تھااور عبادہؓ بن صامت،عتبہؓ بن مالک،معاذؓ بن جبل ،عمرؓ بن سلمہ،اسیدؓ بن حضیراور مالکؓ بن مویرت ان کے امام ومعلم تھے۔ (* ۲)
نصابِ تعلیم
ان درس گاہوں کے نصابِ تعلیم کے حوالے سے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس وقت تک عبادات میں صرف نماز فرض ہوئی تھی لہٰذا یہاں پر زیادہ تر نماز کے احکام ومسائل، قرآن اور اخلاقیات کی تعلیم دی جاتی تھی اور اسی طرح وہ اخلاقیات جن پر بیعتِ عقبہ میں رسول اللہ ﷺ نے انصار کے مردوخواتین سب کو بیعت کیاتھا،کی تعلیم دی جاتی تھی۔ عبادۃؓ بن صامت اس بیعت کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
بایعنا رسول اللّٰہﷺ لیلۃ العقبۃ الاولٰی علی ان لا نشرک باللّٰہ شیءًا، ولا نسرق، ولا نزنی، ولا نقتل اولادنا، ولا نأتی ببھتان نفتریہ من بین ایدینا وارجلنا، ولا نعصیہ فی معروف۔ (۱۷)
’’ہم نے بیعت عقبہ اولیٰ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی بیعت اس چیز پر کی کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہیں کریں گے ،نہ چوری کریں گے ،نہ زنا کریں گے، نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گے ،نہ کسی پر بہتان لگائیں گے اور نہ رسول اللہ ﷺ کی معروف میں نافرمانی کریں گے‘‘۔
چنانچہ ان درس گاہوں میں قرآن کی تعلیم کے ساتھ انہی اخلاقی امور کی تعلیم وتربیت دی جاتی تھی۔رسول اللہﷺ نے جس وقت حضرت مصعبؓ بن عمیر کو اہل مدینہ کے ساتھ روانہ فرمایا تو ان کویہ حکم دیا تھا:
ان یقرء ھم القرآن، ویعلّمہم الاسلام، ویفقّھہم فی الدین۔ (۱۸)
’’ان کو قرآن پڑھائیں،اسلام کی تعلیم دیں،اور ان میں دین کی سمجھ پیدا کریں‘‘
اس مدت میں جس قدر قرآن نازل ہوچکا تھا، ان درس گاہوں میں اس کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی اور عام طور پر آیات و سور زبانی یاد کرائی جاتی تھیں۔انصارنے بیعتِ عقبہ میں جن باتوں کااقرار کیاتھا، ان پر عمل کی تلقین وتاکید کی جاتی تھی۔چنانچہ اس درس گاہ کے ایک طالب علم حضرت براءؓ بن عازب کا بیان ہے :
فما قدم حتی قرأت (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلیٰ) فی سور من المفصّل۔ (۱۹)
’’رسول اللہﷺ کی تشریف آوری سے پہلے ہی میں نے سورۃ الاعلیٰ سمیت ’’طوال مفصل‘‘(*۳) کی کئی سورتیں یاد کرلی تھیں‘‘۔
رسول اللہ ﷺجب مدینہ تشریف لائے تو انصار نے حضرت زیدؓ بن ثابت کو بڑے فخر سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیااور عرض کیا:
یارسول اللّٰہﷺ! ھذا غلام من بنی النجار معہ مما انزل اللّٰہ علیک بضع عشرۃ سورۃ، فأعجب ذالک النبیﷺ۔ (۲۰)
’’اے اللہ کے رسولﷺ!اس لڑکے کا تعلق بنو النجار سے ہے۔ جوکلام آپﷺ پر نازل ہوا ہے، اس کو اس میں سے دس سے زائد سورتیں یاد ہیں۔رسول اللہ ﷺنے یہ سن کر خوشی کا اظہار فرمایا‘‘۔
یہ درس گاہیں دن رات،صبح وشام کی قید سے آزاد تھیں اور ہر شخص ہر وقت ان سے استفادہ کرسکتاتھا۔
حواشی
(*۱) عن عبداللّٰہؓ بن عمرو قال سمعت النبی ﷺ یقول: ’’استقرء وا القران من اربعۃ: من ابن مسعودؓ وسالمؓ مولیٰ ابی حذیفۃؓ و ابیّؓ و معاذؓ بن جبل‘‘ (صحیح البخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، مناقب سالمؓ مولیٰ ابی حذیفہؓ ،ح:۳۷۵۸، ص:۳۲۔ ایضاً، کتاب المناقب، باب مناقب معاذؓ بن جبل، ح:۳۸۰۶، ص:۶۳۹۔ المسند، مسندعبداللہؓ بن عمرو، ح :۶۴۸۷، ۲/۳۴۸)
(*۲) ان معلومات کے لیے دیکھیے طبقات ابن سعد،سیرت ابنِ ہشام،سیرتِ حلبیہ،وفاء الوفا او رروض الانف وغیرہ
(*۳) قرآن مجید کی ساتویں منزل یعنی سورۃ الحجرات سے سورۃ الناس تک کی سورتوں کو ’’مفصّل ‘‘کہتے ہیں ۔
حوالہ جات
(۱) وفا ء الوفا ، ۱/۲۵۰
(۲) زاد المعاد ، ۱/۱۰۰
(۳) اسد الغابہ ، تذکرہ رافع ؓ بن مالک ، ۲/۱۵۷۔ فتوح البلدان ، ص:۴۵۹
(۴) جامع بیان العلم ، باب جامع القول فی العمل بالعلم، ۲/۶
(۵) صحیح البخاری ، کتاب الاذان ، باب امامۃ العبدوالمولیٰ، ح :۶۹۲، ص:۱۱۳۔ ایضاً، کتاب الاحکام ، باب استقضاء الموالی واستعمالھم ، ح :۷۱۷۵، ص:۱۲۳۶۔ الاصابہ ، تذکرہ سالمؓ مولیٰ ابی حذیفہؓ ، ۲ / ۷
(۶) الاصابہ ، تذکرہ سالمؓ مولیٰ ابی حذیفہؓ ، ۲/۷۔ اسد الغابہ ، تذکرہ سالمؓ مولیٰ ابی حذیفہؓ ، ۲/۲۴۶
(۷) ابن ہشام ، حجرۃ الرسول ﷺ ، ۲/ ۱۰۶۔۱۰۷
(۸) ابن ہشام ، العقبۃ الاولیٰ و مصعبؓ بن عمیر ، ۲/ ۴۷۔۴۸
(۹)ایضاً ، ذکر الہجرۃ الاولیٰ الیٰ ارض الحبشہ ، ۱/۳۶۲
(۱۰) ایضاً، ذکر من عاد من ارض الحبشۃ لما بلغہم اسلام اہل مکہ ، ۱/۴۰۳
(۱۱) ابن ہشام ، المواخاۃ بین المہاجرین والانصار ، ۲/ ۱۲۱
(۱۲) اسد الغابہ ، تذکرہ اسعدؓ بن زرارہ، ۱/ ۷۱
(۱۳) ابن ہشام ، العقبۃ الاولیٰ ومصعبؓ بن عمیر ، ۲/ ۴۸
(۱۴) کنز العمال ، فضائل ابو امامہؓ ، ۱۳/ ۶۱۰
(۱۵) ابنِ ہشام،العقبۃ الاولیٰ ومعصبؓ بن عمیر،۲/۴۸
(۱۶) ابنِ ہشام،اول جمعۃ اقیمت بالمدینۃ،۲/۴۸
(۱۷) ابن ہشام ، العقبۃ الاولیٰ و مصعبؓ بن عمیر ، ۲/۴۷۔ المسند ، حدیث عبادہؓ بن صامت ، ح:۲۲۲۴۸،۶/۴۴۱
(۱۸) ابن ہشام ، العقبۃ الاولیٰ و مصعبؓ بن عمیر ، ۲/۴۷
(۱۹) صحیح البخاری ، کتاب مناقب الانصار ، باب مقدم النبی ﷺ و اصحابہ المدینۃ ، ح :۳۹۲۵، ص:۶۶۲۔ ایضاً، کتاب التفسیر ، سورۃ سبح اسم ربک الا علٰی، ح : ۴۹۴۱، ص :۸۸۲۔ المسند، حدیث البراءؓ بن عازب ، ح :۱۸۰۴۱، ۵/ ۳۶۰
(۲۰) المسند ، حدیث زیدؓ بن ثابت ، ح :۲۱۱۰۸، ۶/ ۲۳۸
نفاذ اسلام میں نظام تعلیم کا کردار
ڈاکٹر محمد امین
(۲۱ جنوری ۲۰۰۳ء کو ہمدرد سنٹر لاہور میں مجلس فکر ونظر کے زیر اہتمام ’’پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار کے لیے لکھا گیا۔)
پیشتر اس کے کہ ہم صلب موضوع کو زیر بحث لائیں، دو ضروری باتیں بطور تمہید کہنا چاہتے ہیں۔ ایک کا تعلق پاکستان میں نفاذ اسلام کے حوالے سے دینی عناصر کی غلط فہمی سے ہے اور دوسری کا ان کی خوش فہمی سے۔ غلط فہمی اس بات کی کہ ایک طویل عرصے تک پاکستان کے دینی عناصر یہ سمجھتے رہے ہیں اور عوام کو بھی یہ باور کراتے رہے ہیں کہ پاکستان میں نفاذ اسلام کا مطلب ہے اسلامی قانون کا اجرا یعنی جب پاکستان کا قانون، اسلام کے مطابق بن جائے گا تو گویا شریعت نافذ ہو جائے گی۔ چنانچہ دینی عناصر کے مشورے سے صدر ضیاء الحق نے ۱۹۷۹ء میں حدود کے قوانین پاکستان میں نافذ کر دیے۔ اس موقع پر بڑا جشن منایا گیا اور دینی عناصر ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے پھرتے تھے کہ الحمد للہ، پاکستان میں اسلام نافذ ہو گیا ہے لیکن آج اس خوش فہمی کے غبارے سے بڑی حد تک ہوا نکل چکی ہے کیونکہ ۲۳ سال گزرنے کے باوجود آج تک کسی چور کا ہاتھ نہیں کٹا، کوئی زانی سنگسار نہیں ہوا اور کسی ڈاکو کے پاؤں نہیں کٹے۔ گویا ایک بھی حد عملاً نافذ نہیں ہوئی لہٰذا چند قانون پاس کر کے یہ اعلان کرنا کہ ہم چوبیس گھنٹے میں اسلام نافذ کر دیں گے یا دو ماہ میں اسلام نافذ کر دیں گے، مضحکہ خیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قانون پاس کر دینے سے اسلام نافذ نہیں ہو جاتا لہٰذا اگر صوبہ سرحد میں سارے قوانین بھی اسلام کے مطابق تبدیل کر دیے جائیں یا اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو بھی قانونی سانچے میں ڈھال دیا جائے تو اس کے باوجود وہاں اسلام نافذ نہیں ہو جائے گا بلکہ اسلام اس وقت نافذ ہوگا جب وہاں کے عوام دل وجان سے اسلامی تعلیمات اور قوانین پر عمل شروع کر دیں گے اور جب وہاں کی پولیس اور بیوروکریسی خوش دلی اور اخلاص سے خود اسلامی قوانین پر عمل کرے گی اور دوسروں سے کرائے گی۔
دوسری بات کا تعلق خوش فہمی سے ہے اور اس سے ہمارا مقصود یہ ہے کہ اگر ہمارے دینی عناصر یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے پاکستانی عوام کی دینی تربیت کی ہے اور لوگ اب دل سے اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں اور اسی لیے انہوں نے ہمیں ووٹ دیے ہیں اور ہمیں انتخابات میں کام یاب کروایا ہے تو یہ محض ان کی خوش فہمی ہے، حقیقت نہیں ہے۔ حقیقت صرف اتنی ہے کہ دینی جماعتوں کو ان علاقوں سے ووٹ ملے ہیں جو افغانستان سے ملحق ہیں، جنہوں نے افغانستان میں امریکی مظالم کا مشاہدہ کیا ہے اور جو خود بھی وہاں کی تباہی سے متاثر ہوئے ہیں، جن کے اعزہ واقارب وہاں ہیں اور جنہوں نے بالواسطہ اور بلاواسطہ افغان جہاد میں حصہ لیا ہے۔ ہماری بات کا ثبوت یہ ہے کہ صوبہ سرحد کے لوگ افغانستان کے حالات سے زیادہ متاثر ہوئے لہٰذا انہوں نے غالب اکثریت سے دینی جماعتوں کو ووٹ دیے۔ صوبہ بلوچستان اس سے جزواً متاثر ہوا لہٰذا علما کو وہاں جزوی کام یابی ہوئی اور سندھ وپنجاب افغان صورت حال سے کم متاثر ہوئے لہٰذا دینی عناصر کو وہاں سے ووٹ بھی نہیں ملے۔ اگر دینی عناصر کو ان کے دینی کام کی وجہ سے ووٹ ملے ہوتے تو انہیں پنجاب اور سندھ کے شہری علاقوں سے زیادہ ووٹ ملتے جہاں ان کا کام نسبتاً زیادہ ہے لیکن انہیں ووٹ امریکہ کی مخالفت اور افغان فیکٹر کی وجہ سے ملے لہٰذا صرف سرحد وبلوچستان سے ملے۔ ہمارے کہنے کا مدعا یہ ہے کہ دینی عناصر کے اس خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی گنجائش نہیں ہے کہ انہوں نے عوام کی دینی تعلیم وتربیت کا کام سرانجام دے لیا ہے اور اب مستقبل کا راستہ صاف ہو گیا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ابھی انہوں نے یہ ہمالہ سر کرنا ہے، سرحد اور بلوچستان میں بھی تاکہ انہیں نفاذ اسلام کی کوششوں میں صدق دلانہ تعاون میسر آسکے اور پنجاب وسندھ میں بھی تاکہ وہاں سے انہیں مستقبل میں حمایت میسر آ سکے۔
ہمارے نزدیک تعلیم وتربیت کے ذریعے عوامی ذہن سازی کا یہ کام انتہائی اہمیت رکھتا ہے اور کرنے کا اصل کام یہی ہے کیونکہ سید بادشاہ کا قافلہ اپنے تمام تر اخلاص، اخلاق اور عزیمت کے باوجود یہاں کی وادیوں میں اس لیے کھو گیا تھا کہ انہیں نفاذ شریعت کے لیے عوام وخواص کا صدق دلانہ تعاون میسر نہ آ سکا تھا (اگرچہ تحریک مجاہدین کی بظاہر ناکامی کے دوسرے بھی کئی عوامل ہیں جن سے انکار ممکن نہیں) ہم ایک دفعہ مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ملفوظات پڑھ رہے تھے تو وہاں ہم نے یہ واقعہ پڑھا کہ ان کی ایک مجلس میں اسلامی حکومت کی باتیں ہو رہی تھیں۔ مولانا نے کہا کہ اگر مجھے حکومت مل جائے تو میں دس سال اصلاح کا کام کروں گا۔ مطلب یہ کہ حکومت ملتے ہی حدود وتعزیرات سے ابتدا نہیں کروں گا بلکہ پہلے ایک لمبے عرصے تک اصلاحی کوششوں سے لوگوں کے دل ودماغ کو بدلنے کی سعی کروں گا تاکہ وہ خوش دلی سے اسلامی تعلیمات پر عمل کریں اور کوڑے مارنے اور ہاتھ کاٹنے کی نوبت ہی نہ آئے۔
اسی قسم کا ایک تازہ واقعہ بھی سنیے۔ چند سال پیشتر جب ہم بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی شریعہ اکیڈمی میں پڑھاتے تھے تو ایک دفعہ ہم لوگوں نے پاکستان کے سابق چیف جسٹس جناب افضل ظلہ صاحب کو لیکچر کے لیے مدعو کیا۔ ان کے لیکچر کے بعد سوال وجواب کی نشست میں ہم نے ان سے پوچھا کہ جب وہ چیف جسٹس تھے تو قصاص ودیت کا قانون سپریم کورٹ میں تقریباً ۹ سال پڑا رہا لیکن انہوں نے اس کی اپیل نہیں لگائی، تو اس کی کیا وجہ تھی؟ جسٹس صاحب نے کہا کہ میں ایمان داری سے یہ سمجھتا تھا کہ ہمارا معاشرہ اس کے لیے ابھی تیار نہیں ہے۔ چنانچہ دیکھ لیجیے کہ جوں ہی قصاص ودیت کا قانون نافذ ہوا تو ڈرائیوروں نے ہڑتال کر دی اور اس کے بعد بھی حدود کے قوانین نے پولیس کا رشوت کا ریٹ ہی بڑھایا ہے، حدود عملاً نتیجہ خیز طریقے سے نافذ تو نہیں ہو سکیں۔
تو ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ محض قانون بنا دینے سے اسلام نافذ نہیں ہو جاتا جب تک کہ معاشرے کے مختلف طبقے عملاً خوش دلی سے اس پر عمل کرنے کے لیے تیار نہ ہوں اور اسی سے تعلیم وتربیت کی اہمیت واضح ہوتی ہے کیونکہ لوگوں کے ذہن اور دل بدلنے کا سب سے بڑا ذریعہ، تعلیم ہی ہے۔
یہ بات کہ لوگوں کے دل ودماغ کو بدلنے کا سب سے موثر ذریعہ تعلیم وتربیت ہے، اگرچہ عقل ومنطق پر مبنی ہے اور عام فہم بھی ہے لیکن چونکہ ہمارے مخاطب علما بھی ہیں اس لیے ہم عرض کرتے ہیں کہ ہماری بات سو فی صد قرآن وسنت پر مبنی ہے چنانچہ قرآن حکیم میں کئی جگہ آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی اصلاح اور تبدیلی کا جو طریق کار ہدایت فرمایا تھا، وہ دو نکات پرمبنی تھا یعنی تعلیم کتاب وحکمت اور تزکیہ، چنانچہ سورہ آل عمران میں فرمایا:
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیہم رسولا من انفسہم یتلوا علیہم آیاتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین۔ (۳ ۔ ۱۶۴)
’’یقیناًاللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول کو مبعوث کیا جو انہیں اللہ کی آیات پڑھ کرسناتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اور بے شک اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘
اور دوسری جگہ فرمایا کہ پہلے انبیا کو بھی یہی طریقہ بتایا گیا تھا چنانچہ سورۃ الاعلیٰ میں ہے:
قد افلح من تزکی O وذکر اسم ربہ فصلی O بل تؤثرون الحیاۃ الدنیا O والآخرۃ خیر وابقی O ان ہذا لفی الصحف الاولی O صحف ابراہیم وموسیٰ (۸۷ ۔ ۱۴۔۱۹)
’’یقیناًوہ شخص کام یاب ہے جس نے پاکیزگی اختیار کر لی اور اپنے رب کے نام کو یاد کیا پھر نماز پڑھی۔ بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت کی زندگی بہتر اور پائیدار ہے۔ یہی بات پہلے صحیفوں میں بھی ہے، ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔‘‘
اب دیکھیے کہ تعلیم کتاب وحکمت اور تزکیہ کیا ہے؟ یہ وہی چیز ہے جسے آج کل کی اصطلاح میں ہم تعلیم وتربیت یا تطہیر فکر وتعمیر سیرت کہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ پر امن طریقے سے ترغیب کے ذریعے، تعلیم کے ذریعے لوگوں کے دل ودماغ کو بدلو، ان کی فکری تطہیر کرو تاکہ ان کے نفوس کا ایسا تزکیہ اور تربیت ہو کہ وہ خوش دلی سے، اپنی مرضی سے شریعت حقہ پر عمل کرنے لگیں، اللہ کی اطاعت ان کے لیے سہل ہو جائے، شریعت طبیعت بن جائے بلکہ اللہ کی شریعت پر عمل ان کی خواہش اور مطالبہ وتقاضا بن جائے۔ یہ ہے صحیح تعلیم وتربیت کی اہمیت۔
اب یہ دیکھیے کہ نفاذ اسلام اس کے سوا کیا ہے کہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں اسلامی تعلیمات پر عمل کریں۔ اگر ہم اچھے، سچے اور باعمل مسلمان ہوں تو ریاست کا کام آسان ہو جاتا ہے کہ وہ ریاستی مشینری کے ذریعے ان احکام پر عمل درآمد کروا دے جن پرمسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں عمل ہونا چاہیے لیکن مسئلہ تو یہی ہے کہ ہم اچھے اور باعمل مسلمان نہیں ہیں لہٰذا ریاست کا کام صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ اسلامی قوانین اسمبلی میں پاس کر دے بلکہ اس سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ لوگوں کے دل ودماغ اور فکر وعمل کو بدلا جائے تاکہ وہ اچھے اور باعمل مسلمان بن جائیں۔ اسی لیے ہمارا یہ کہنا ہے کہ نفاذ اسلام کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ تعلیم کتاب وحکمت اور تزکیہ کے ذریعے عامۃ المسلمین کے فکر وعمل کوبدلا جائے تاکہ وہ دلی رضامندی سے اسلامی تعلیمات پر خود عمل کریں اور حکومت سے بھی تعاون کریں۔
نفاذ اسلام میں تعلیم کتاب وحکمت اور تزکیے کی اہمیت وضرورت واضح کرنے کے بعد آئیے اب یہ دیکھیں کہ اس وقت ہمارے معاشرے میں مروج نظام تعلیم وتربیت کا کیا حال ہے اور کیسے اسے اسلامی تقاضوں کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے اور اس میں ایک اسلامی حکومت کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟ لیکن اس سے بھی پہلے یہ دیکھیے کہ ہمارے ہاں تعلیم ہے کہاں؟ حکومت پاکستان کی شائع کردہ مردم شماری ۱۹۹۸ء کے اعداد وشمار کے مطابق صوبہ سرحد کی ۸۳ فی صد آبادی دیہی ہے اور وہاں شرح خواندگی ۳۱ فی صد ہے جس میں عورتوں کی شرح خواندگی صرف ۱۴ فی صد ہے۔ ظاہر ہے یہ صورت حال افسوس ناک ہی نہیں شرم ناک بھی ہے۔ لہٰذا موجودہ تعلیم کی کوالٹی بہتر بنانے کا سوچتے ہوئے پہلے اس کی موجودگی کو یقینی بنانا ہوگا۔ اس کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ خواندگی میں اضافے کے لیے زیادہ بجٹ مختص کیا جائے، وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے لیے کمیونٹی کو متحرک کیا جائے۔ ہمارا کوئی گاؤں محلہ ایسا نہیں جہاں مسجد نہ ہو، جہاں پڑھا لکھا امام مسجد نہ ہو اور کوئی ریٹائرڈ استاد یا فوجی اور سول ملازم نہ ہو لہٰذا اگر کمیونٹی کو متحرک کیا جائے اور انہیں قائل کیا جائے کہ تعلیم حاصل کرنا نہ صرف ہماری دنیاوی ضرورت ہے بلکہ یہ حکم خدا ورسول بھی ہے تو حکومتی مدد کے بغیر ہر گاؤں میں مسجد کو چھوٹے بچوں کی تعلیم کا مرکز بنایا جا سکتا ہے اور اس کے علاوہ بھی مقامی بچوں بچیوں کے لیے الگ الگ سکول قائم کیا جا سکتا ہے۔ ان مکتب سکولوں کا نصاب ایسا ہونا چاہیے کہ قرآن حکیم اور اسلامیات کی تعلیم اس کا حصہ ہو اور انہیں الگ سے قرآن پڑھنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
جہاں تک ہمارے معاشرے میں مروج دینی نظام تعلیم (درس نظامی) کا تعلق ہے، ہم دینی علوم کا طالب علم ہونے اور علما کا انتہائی احترام کرنے کے باوجود، معذرت کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ وہ فوری نظر ثانی کا محتاج ہے اور سنجیدہ علما اس بات کو تسلیم بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ ’’مجلس فکر ونظر‘‘ نے دو اڑھائی سال کی محنت کے بعد اور اہل سنت کے چاروں وفاقوں کے ذمہ دار علما کے ساتھ طویل نشستوں کے بعد موجودہ دینی نصاب میں تبدیلی کے لیے متفقہ سفارشات تیار کی ہیں اور انہیں متبادل نصاب بھی تیار کر کے دیا ہے جسے فی الفور نافذ کیا جا سکتا ہے۔ سرحد کی حکومت کو وہاں کے دینی مدارس کے علما پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے جو باہمی مشاورت سے خود درس نظامی میں تبدیلیاں تجویز کرے اور ان پر عمل درآمد کروائے۔
ہماری مجلس نے جو تبدیلیاں تجویز کی ہیں، وہ یہ ہیں: قرآن حکیم پر مزید ترکیز، بخاری ومسلم کا تحقیقی مطالعہ، فقہ واصول فقہ کا تقابلی مطالعہ، عربی زبان کی اس طرح تدریس کہ بولنے اور لکھنے کی مہارتیں بھی حاصل ہوں، نیز سیرت النبی، اسلامی تاریخ، تقابل ادیان، گمراہ مذاہب، اسلام اور عصری مسائل جیسے مضامین بھی پڑھائے جانے چاہییں۔ اس کے علاوہ انگریزی زبان، جدید سماجی وسائنسی علوم اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا تعارفی مطالعہ بھی درس نظامی کا حصہ ہونا چاہیے۔ دینی علوم کا اسلوب تدریس غیر فرقہ وارانہ ہونا چاہیے اور دینی مدارس کے اساتذہ کی تربیت کا اہتمام ہونا چاہیے۔ سرحد کی حکومت کودینی مدارس کے اساتذہ کی تربیت کی کم از کم ایک اکیڈمی تو فوراً کھول دینا چاہیے۔
یہ تو دینی تعلیم کی بات تھی جس کی اہمیت مسلمہ ہے لیکن ہم علما سے عرض کرتے ہیں کہ جدید تعلیم کی اہمیت اس سے زیادہ ہی ہے، کم نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ علما دینی مدارس میں کتنے طلبہ کی تعلیم وتربیت کا انتظام کرتے ہیں؟ زیادہ سے زیادہ لاکھ دو لاکھ، لیکن دوسری طرف جدید تعلیم کا یہ حال ہے کہ اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق پچھلے سال پاکستان کے پرائمری سکولوں میں داخلہ لینے والے بچوں کی تعداد دو کروڑ تھی۔ اب کیا ان کروڑوں بچوں کی اسلامی تعلیم وتربیت علما کی ذمہ داری نہیں؟ کیا علما ان کی اسلامی تعلیم وتربیت سے غفلت برت کر اپنے دینی فرائض سے عہدہ برآ ہونے کا اطمینان رکھ سکتے ہیں؟
اب یہ ایک تلخ لیکن ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ہمارا جدید تعلیم کا سارا ڈھانچہ مغربی نظام تعلیم کی نقالی پر مبنی ہے۔ اس کی فکری اساس سے لے کر تنظیمی مدارج اور عملی مظاہر تک سب مغربی تہذیب اور اس کی فکر پر استوار ہیں۔ دینی عناصر کے مطالبے پر اس میں بعض اسلامی مظاہر کی دخ اندوزی ضرور کی گئی ہے جس نے اسے مزید غیر نافع اور غیر موثر بنا دیا ہے کیونکہ کفر میں اگر بعض خوبیاں ہیں تو اس کا سکہ تو چل سکتا ہے لیکن منافقت کی کشتی کبھی پار نہیں لگتی۔ وہ ہمیشہ بیچ منجدھار کے ڈوبتی ہے اسی لیے ہمارا جدید تعلیمی نظام پاکستانی بچوں کو یکسو اور کام یاب مسلم شخصیت میں ڈھالنے کی بجائے انہیں نظریاتی انتشار اور اخلاقی انارکی میں مبتلا کر رہا ہے اور یہی ہمارا سب سے بڑا نقصان ہے کیونکہ جس معاشرے میں انسان سازی کا کام معاشرے کے عقائد کے مطابق نہ ہو رہا ہو، اس کے مستقبل کی تباہی یقینی ہوتی ہے اور وہ قومیں مٹ جاتی ہیں جو یہ بھول جاتی ہیں کہ قوموں کے عروج وزوال کی جنگ کلاس روم میں لڑی جاتی ہے۔
یہ نشست چونکہ کسی تفصیلی تجزیے کی متحمل نہیں ہو سکتی، اس لیے ہم اختصار کے ساتھ ان اقدامات کا ذکر کرتے ہیں جو ہمارے موجودہ نظام تعلیم کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے کے لیے ناگزیر ہیں۔
- ہماری سب سے بنیادی ضرورت یہ ہے کہ ہم علم کو اسلامائز کریں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دینیات کا کورس بڑھا دیا جائے یا مغربی علوم کی کتابوں میں خدا ورسول کے ناموں کا اضافہ کر دیا جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سارے علوم کو اسلامی تناظر میں مدون کیا جائے۔ یاد رہے کہ مسلمانوں کا ایک منفرد تصور علم ہے جو مغرب سے بالکل متضاد ہے۔ اس تصور علم کی بنیاد وحی اور اسلام کے مخصوص ورلڈ ویو یعنی تصور انسان وکائنات پر ہے اور یہ ہر قسم کے سماعی اور مشاہداتی علوم کو اپنے جلو میں لے کر چلتا ہے لیکن وحی کی سیادت میں۔ اس تصور علم کے مطابق جب علوم کی تدوین ہوگی اور اس کے مطابق جو نصابات تیار ہوں گے، وہ ان شاء اللہ یکسو مسلم شخصیت کو جنم دیں گے۔
- تعلیمی ثنویت کو ختم کیا جائے۔ دینی تعلیم الگ اور جدید تعلیم الگ کا تصور لازماً سیکولرزم کو فروغ دیتا ہے اور اسلام اس سیکولرزم کامخالف ہے لہٰذا نظام تعلیم میں وحدت ہونی چاہیے اور دینی تعلیم کو ایک تخصص کے طور پر اس کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جدید تعلیم اس طرح دی جائے کہ دینی علوم اس کا حصہ ہوں اور وہ اپنے مواد اور اسلوب میں بھی دینی بنیاد رکھتی ہو اور دینی تعلیم اس طرح دی جائے کہ عصری علوم اس کا حصہ ہوں۔
- تزکیہ وتربیت کے اسلامی تصور کا احیا کیا جائے۔ تعلیم صرف تدریس اور حصول علم کا نام نہیں بلکہ اس کا لازمی نتیجہ سیرت وکردار کی صورت میں نکلنا چاہیے۔ اس کے لیے مغربی طرز کی ہم نصابی سرگرمیاں کافی نہیں بلکہ جس طرح اسلام کااپنا تصور علم ہے، اسی طرح اس کا اپنا ایک مخصوص تصور تربیت (تزکیہ) بھی ہے لہٰذا اسلامی تربیت کو تعلیم کا لازمی جزو ہونا چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں اسلامی تربیت کا منہاج اور لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟ یہ آج کے اسلامی مفکرین اور ماہرین اسلامی تعلیم کے سامنے بہت بڑا سوال ہے جس پر تحقیق وتجربات کی ضرورت ہے۔ راقم نے اپنی بساط کی حد تک اپنی کتاب ’’تعلیمی ادارے اور کردار سازی‘‘ میں تعلیمی اداروں میں اسلامی تربیت کے طریق کار کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
تربیت طلبہ کے علاوہ تربیت اساتذہ کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے کیونکہ جب تک استاد کی صحیح تربیت نہ ہوگی، وہ اپنے طلبہ کی صحیح تربیت کیسے کرے گا؟ اور وہ ادارے جو ہم نے تربیت اساتذہ کے لیے قائم کر رکھے ہیں، ان میں فنی تربیت کا انتظام تو جیسا کیسا بھی ہو، موجود رہتا ہے لیکن نظریاتی تربیت کا وہاں کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ نہ انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ خود اچھا مسلمان کیسے بنتے ہیں اور طلبہ کو اچھا مسلمان کیسے بناتے ہیں۔ - تعلیم کا معیار نہایت اونچا ہونا چاہیے اور یہ محض کوئی دنیاوی بات نہیں (اسلام میں ویسے بھی دنیا دین سے الگ نہیں) بلکہ اسلام ہر بات میں ’’احسان‘‘ کا تصور پیش کرتا ہے۔ احسان کا مطلب یہ ہے کہ جو کام بھی کیا جائے، وہ اپنی بہترین صورت میں کیا جائے۔ یہی انگریزی لفظ Excellence کا مفہوم ہے۔ گویا اسلام کی رو سے تعلیم میں بھی ہر سطح پر ایکسی لینس مطلوب ہے۔
- نظام تعلیم ایسا ہونا چاہیے کہ وہ مسلم معاشرے کی ساری دنیوی ضرورتیں بھی بطریق احسن پوری کرے یعنی ہر قسم کی ٹیکنیکل اور سائنسی تعلیم اسلامی نظام تعلیم کا جزو ہے۔ الحمد للہ کہ اسلامی معاشرہ پچھلے چودہ سو سال سے بلا انقطاع قائم ہے۔ سائنس وٹیکنالوجی کی تعلیم ماضی میں بھی ہمارے نظام تعلیم کا حصہ تھی اور آج بھی ہونی چاہیے بلکہ جس طرح ماضی میں ہم سائنس وٹیکنالوجی میں دوسری دنیا سے آگے تھے، آج بھی ہمیں ان میں دوسری دنیا سے آگے ہونا چاہیے اور ہمارا نظام تعلیم ایسا اعلیٰ اور شاندار ہونا چاہیے کہ وہ ہمیں اس ترقی کی ضمانت دے۔
- بچیوں کی تعلیم کو اہمیت دی جائے کیونکہ ایک ماں کو پڑھانے کا مطلب ہے سارے خاندان کو تعلیم یافتہ بنانا۔ نیز مخلوط تعلیم ختم کر کے بچیوں کے الگ تعلیمی ادارے بنائے جائیں، ان کے لیے الگ خصوصی نصاب تیار کیا جائے اور ان کے شعبے میں مردوں کا عمل دخل بند کیا جائے۔
اسلامی نظام تعلیم کے حوالے سے یہ چند ضروری باتیں تھیں لیکن ان کی نوعیت نظریاتی تھی۔ اب ہم انتہائی اختصار کے ساتھ ان چند عملی اقدامات کا ذکر کرتے ہیں جو حکومت سرحد کو اسلامی نظام تعلیم کے حوالے سے کرنے چاہییں:
- ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے مغربی فکر وتہذیب کی بالادستی ختم ہو۔ مثلاً انگریزی ذریعہ تعلیم پر پابندی لگا دی جائے اور اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔ انگریزی کو اختیاری مضمون بنا دیا جائے۔ ہاں یونیورسٹی میں بزنس اورسائنسی مضامین کی تدریس انگریزی میں ہو تو کوئی ہرج نہیں۔ سکولوں میں انگریزی لباس پر بھی پابندی لگا دی جائے۔ آخر کب تک ہم اپنے بچوں کو غلام بننے کی ٹریننگ دیتے رہیں گے؟ اسی طرح دفتری زبان اردو ہونی چاہیے اور مقابلے کے امتحان بھی اردو میں ہونے چاہییں۔
- علوم کی اسلامائزیشن کے لیے ایک کمیشن بنایا جائے جو مستقل بنیادوں پر کام کرتا رہے۔ اس کمیشن کے کام کی روشنی میں ہر تعلیمی سطح کے نصابات ازسرنو مدون کر کے رائج کیے جائیں۔
- تعلیمی اداروں میں اسلامی نظام تربیت جاری کیا جائے۔ اساتذہ کے ٹریننگ کالجوں کانصاب اور اسلوب بدلا جائے۔
- میٹرک تک تعلیم مفت اور لازمی کی جائے۔ کالج یونیورسٹی کی تعلیم کو سستا کیا جائے۔ مسجد کو ابتدائی تعلیم کا مرکز بنایا جائے۔ پشاور میں ایک خواتین یونیورسٹی بنائی جائے اور مخلوط تعلیم ختم کر کے مزید خواتین کالج کھولے جائیں۔
- تعلیم سے طبقہ واریت ختم کی جائے۔ پرائیویٹ سکولوں کی نگرانی کی جائے اور انہیں اسلامی نصاب وتربیت اور کم فیسوں کا پابند بنایا جائے۔
- معیار تعلیم بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ خصوصاً بزنس، سائنس اور ٹیکنالوجی میں اعلیٰ ترین معیار کے حصول کو ممکن بنایا جائے۔
- دینی نصاب تعلیم میں اصلاح کے لیے علما کی کمیٹی بنائی جائے اور دینی مدارس کے اساتذہ کی تربیت کے لیے اکیڈمی کھولی جائے۔
یہ چند تجاویز ہیں جن پر اگر اخلاص اور محنت سے عمل کیا جائے تو ان شاء اللہ ہمارا نظام تعلیم صحیح راہ اختیار کر لے گا اور ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو اسلام کے مطابق ڈھالنے میں ممد ومعاون ثابت ہوگا، ان شاء اللہ۔ تاہم ان سے فوری نتائج کی توقع نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ تعلیمی انقلاب خاموش انقلاب ہوتا ہے۔ یہ دیر سے آتا ہے لیکن دیرپا ہوتا ہے۔
نظام حکومت کی اصلاح کے چند اہم پہلو
جسٹس (ر) عبد الحفیظ چیمہ
(۲۱ جنوری ۲۰۰۳ء کو ہمدرد سنٹر لاہور میں مجلس فکر ونظر کے زیر اہتمام ’’پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں پیش کیا گیا۔)
معزز ومحترم حاضرین
آج جس موضوع پر ہم غور وفکر (Deliberations) کرنے چلے ہیں، وہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آئیں، کچھ زمینی حقائق کا ذکر ضروری ہے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے لیے بڑا نازک اور کڑا وقت ہے۔ دنیا کی واحد سپر پاور نے باقاعدہ ایک سوچے سمجھے اور طویل منصوبے کے تحت مسلمانوں کو کچل کر ان کے وسائل دولت بالخصوص تیل پر ہاتھ صاف کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ اس پروگرام کے رو بہ عمل لانے میں وہ مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو سب سے بڑی رکاوٹ تصور کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک پلان کے تحت افغان حکومت کے خلاف ایک زور دار پراپیگنڈا مہم چلائی گئی اور یہ کہا گیا کہ افغانستان دہشت گردوں کا گڑھ ہے۔ برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے تو صاف صاف کہہ دیا کہ افغانستان کو اس لیے سبق سکھانا ضروری ہو گیا ہے کہ انہوں نے تمام عالم اسلام کے لیے جہادی ٹریننگ کے مراکز کھول رکھے ہیں۔ افغانستان کو اس طرح ایک زبردست اور وسیع (Massive) پراپیگنڈا کے تحت فساد کی جڑ مشہور کیا گیا۔ اس سے قبل مغربی قوتوں نے الجزائر کی اسلامی جماعتوں پر، جو کہ جمہوری اور جائز (Valid) طریقے سے اقتدار حاصل کرنے والی تھیں، جعلی الزامات لگا کر فوج کو ان کے سامنے لا کھڑا کیا اور الجزائر میں ایک لامتناہی قتل وغارت کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ چنانچہ مسلمان ملکوں میں اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ ایسے حکمرانوں کو آگے لایاجائے جو احیاے اسلام کو روکیں اور مغرب کے ایجنڈے کو آگے لائیں۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ ہمارے حکمران بالعموم اسلام اور اسلامی نظام کی تضحیک وتحقیر میں اہل مغرب سے دو ہاتھ آگے ہیں۔ غیرت نام کی کوئی چیز ان میں نہیں ہے۔
یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ الجزائر میں فتنہ وفساد برپا کرنے کے بعد افغانستان کی اسلامی حکومت کی تباہی وبربادی پوری طرح امریکہ اور اہل مغرب کے ایجنڈے پر تھی اور ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء والے واقعہ کا اس سے تعلق نہ تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ۱۱ ستمبر کے چند دن بعد ہمارے سابق سیکرٹری خارجہ جناب نیاز اے نائیک کا بیان اخبارات میں جلی سرخیوں سے چھپا تھا کہ اس واقعہ سے کچھ پہلے برلن میں مغربی ممالک کی ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں جناب نائیک بھی موجود تھے۔ اس میٹنگ میں افغانستان پرحملہ کر کے طالبان حکومت کو ہٹانے (Unseat) کا پروگرام سامنے آیا تھا۔ چنانچہ یہ کہنا کہ افغانستان پر ۱۱ ستمبر کے واقعات کی وجہ سے قیامت برپا کی گئی، درست نہیں ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ طالبان کومشق ستم بنانے میں تیزی آ گئی۔ تمام مسلمان ممالک بشمول افغانستان اور اسامہ بن لادن نے واضح طور پر اعلان کیا کہ ان کا ۱۱ ۔ستمبر کے واقعات میں عمل دخل نہیں۔
دوسری طرف امریکہ اور برطانیہ میں یہ تسلیم کیا گیا کہ ان کے پاس نام زد ملزمان پر مقدمہ چلانے (Prosecution) کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے اور اب تو مغربی دنیا میں اور بذات خود امریکہ میں یہ گمان بڑے زور سے جڑ پکڑ رہا ہے کہ یہ امریکی ایجنسیوں کا کام ہے جس پر یہودیوں کا بالعموم کنٹرول ہے۔ فرانس میں ایک مستند کتاب اس موضوع پر شائع ہوئی ہے جس میں امریکی موقف کی پرزور تردید کی گئی ہے اور اسے امریکی ایجنسیوں کا ہی کارنامہ قرار دیا گیا ہے۔ دوسری طرف ہماری حکومت مسلسل یہ اعلان کیے جا رہی تھی کہ ان کو اسامہ اور افغانیوں کے ملوث ہونے (Involvement) کے ثبوت مل چکے ہیں۔ چنانچہ بعد میں Logistic Support اور جو جو سپورٹ ہم نے ان کو دل وجان سے پیش کی، وہ آپ کے سامنے ہے۔ جب مسٹر کولن پاول کا فون ہمارے ’صاحب‘ کو آیا تو انہوں نے اپنے رفقاے کار کے مشورہ کے بغیر ہی امریکیوں کی توقع کے برخلاف بہت زیادہ تعاون کی پیش کش کر دی اور اس مشورہ نہ کرنے کے عمل کی توجیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بقول نپولین : ’’بعض اوقات قریبی احباب سے بھی مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور خود ہی فیصلہ کر دینا چاہیے۔‘‘ حالانکہ قرآن حکیم جناب نبی آخر الزمان ﷺ کو ، جن کا اللہ تبارک وتعالیٰ سے براہ راست رابطہ تھا، حکم دیتا ہے کہ:
وشاورہم فی الامر۔ (آل عمران)
’’ان سے امور میں مشورہ کر لیا کریں۔‘‘
وامرہم شوریٰ بینہم۔ (الجاثیہ)
’’باہمی مشورے سے ہی نظام مملکت چلایا جائے۔‘‘
چنانچہ اس وقت ۵۶ مسلمان ملکوں کی حالت انتہائی قابل رحم ہے۔ ان مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کا عمل اپنے عوام کی آرا سے بالکل مختلف ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اپنے لیڈروں سے سخت بے زار ہیں اور وہ ان سے بے زار۔
نعشوں کو تم نہ جانچو، لوگوں سے مل کے دیکھو
کیا چیز جی رہی ہے، کیا چیز مر رہی ہے
کچھ عرصہ قبل میں نے انگلینڈ میں ایک جلسہ میں شرکت کی جس میں مقرر یہ کہہ رہا تھا کہ ۵۶ مسلم ممالک ۴۶ صفر ہیں اور ان میں ایک ملک ایٹمی صفر (Nuclear Zero)ہے۔ ان سے زیادہ وقیع اور طاقتور تو مشرقی تیمور ہے۔ اس وقت تمام مسلمان ممالک، بے بسی اور بے چارگی کی تصویر بنے ہوئے ہیں اور اپنی اپنی تباہی وبربادی کی باری (Turn) کا انتظار کر رہے ہیں۔ افغانستان کے بعد اب عراق، پھر ایران، پاکستان، سعودیہ اور نہ جانے کس کی باری کب آتی ہے۔
ہمہ آہوان صحرا سر خود نہادہ بر کف
بخیال آنکہ گاہے بشکار خواہی آمد
مختصراً اب صورت حال یہ ہے کہ امریکہ ایک بد مست ہاتھی کی طرح ساری مسلم دنیا کو تہس نہس کرنے پر تلا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ ری پبلکن پارٹی جو اس وقت برسر اقتدار ہے، اس کا Symbol (نشان) بھی ہاتھی ہے جبکہ ڈیمو کریٹس کا نشان گدھا ہے۔
امریکہ اور اس کے حلیفوں کا عالم اسلام میں مداخلت کا حال یہ ہے کہ وہ بڑے دھڑلے سے کہہ رہے ہیں کہ دینی مدارس کو بند کرو اور اس میں سے قرآن کی وہ آیات جو جہاد کی تعلیم دیتی ہیں، وہ سب نکالو۔ تعلیمی نظام کو ازسر نو Restructure کیا جائے اور اس میں ان کے کہنے کے مطابق اصلاحات اور تبدیلیاں لائی جائیں۔ عربی مدارس کو جو کہ غریب اور نادار طلبہ کو مفت تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کے طعام وقیام کے بھی ذمہ دار ہوتے ہیں، ان کو مغرب دہشت گردی کی نرسریاں کہتا ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکہ کے ایک پادری جیری فال نے جناب رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بڑی دیدہ دلیری سے (نقل کفر کفر نہ باشد) خاکم بدہن دہشت گرد کہا۔ جارج بش نے اردن کے شاہ عبد اللہ کو ریسیو کرنے کے بعد کہا کہ Islam is a false religion (اسلام ایک جھوٹا مذہب ہے) اس سارے پس منظر میں ہماری حکومت کا حال یہ ہے کہ وہ مغرب کے وفادار کارندے کے طور پر کام کر رہی ہے اور بار بار یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ ۵۸۔ ٹو بی ہمار یاختیار میں ہے اور کسی بھی حکومت کو کسی بھی وقت ڈس مس کر سکتے ہیں۔ اس صورت حال میں ان سے کوئی بعید نہیں کہ آقاؤں سے اپنے انعام کی خاطر یہ کام کر ہی گزریں۔ لہٰذا صوبہ سرحد کی حکومت کے لیے مناسب یہ ہوگا کہ Go Slow کی پالیسی اختیار کی جائے لیکن عملی طور پر ایسے اقدام کیے جائیں کہ ان کے دور رس اثرات ملک میں محسوس کیے جائیں اور یہ حکومت اپنے حسن عمل سے پسندیدہ حکومت قرار پائے۔
اولین ترجیح: معاشی مسائل
جنرل ضیاء الحق مرحوم کے زمانے میں اسلام آباد سیکرٹیریٹ میں برطانیہ کی ایک خاتون، جو کہ اسلامی قوانین کا مطالعہ کر رہی تھی، مجھ سے ملنے آئی تو اس نے کہا: ’’چونکہ یہاں اسلام نافذ ہو گیا ہے اس لیے میں اس کے اثرات کا مطالعہ کرنے آئی ہوں۔‘‘ میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کو کس بات سے اندازہ ہوا کہ یہاں اسلام نافذ ہو چکا ہے؟ اس نے جواب دیا:
"Since punishment in the shape of flogging has been imposed in respect of certain offences, therefore I believe that Islam has been enforced."
’’چونکہ چند مخصوص جرائم پر کوڑے لگانے کی سزا یہاں نافذ کر دی گئی ہے، اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ یہاں اسلام کا نفاذ ہو گیا ہے۔‘‘
اس نظریہ کی نفی کرنا مقصود نہیں ہے کہ یہ اسلامی قانون کا ایک پہلو بلکہ بہت اہم پہلو ہے لیکن یہ سب کچھ نہیں۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ جرائم کی اسلامی سزائیں معاشرے کی درستی اور امن بحال کرنے کے لیے ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن میں بڑے ادب سے گزارش کروں گا کہ بشروا ولا تنفروا اور یسروا ولا تعسروا کے اصول کو سامنے رکھ کر قانون سازی کی جائے۔ اس سلسلے میں ایک قانون دان (Jurist) نے فرمایا:
’’لوگ بڑا غضب کرتے ہیں کہ اسلام کے پروگرام کی ساری تفصیل چھوڑ کر اس کی سخت سزاؤں پر گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔ اسلام پہلے لوگوں میں ایمان پیدا کرتا ہے، پھر اخلاق پاکیزہ بناتا ہے، پھر تمام تدابیر سے ایک ایسی مضبوط رائے عام تعمیر کرتا ہے جس میں بھلائیاں پھلیں پھولیں اور برائیاں پنپ نہ سکیں۔ پھر معاشی، سیاسی ایسا نظام قائم کرتا ہے جس میں بدی کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہو جائے۔ وہ ان تمام دروازوں کو بند کر دیتا ہے جن سے فواحش اور جرائم نشوونما پاتے ہیں۔ اس کے بعد ڈنڈا وہ آخری چیز ہے جس سے ایک پاک معاشرے میں سر اٹھانے والی ناپاکی کا قلع قمع کیا جاتا ہے۔ اب اس سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے کہ ایسے برحق نظام کو بدنام کرنے کے لیے آخری چیز کو پہلی چیز قرار دیتا ہے اور بیچ کی سب چیزوں کو نگل جاتا ہے۔‘‘
سب سے اہم مسئلہ جو بڑی اہمیت کا حامل ہے، وہ لوگوں کے معاشی مسائل ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے اصول ریاست انسانیت کی فلاح وبہبود کے ضامن ہیں:
کس نہ باشد در جہاں محتاج کس
نکتہ شرع مبیں ایں است وبس
بڑے بڑے مسائل جن کو اولین ترجیح دینی چاہیے، وہ یہ ہیں:
۱۔ بے روزگاری
۲۔ مہنگائی
۳۔ سرکاری عملہ کی کرپشن اور عوام سے بد سلوکی، بالخصوص پولیس کی زیادتی
۴۔ سرحد کے حوالے سے محکمہ جنگلات کی کرپشن
۵۔ سمگلنگ اور کار چوری
ان تمام امور کے بارے میں قومی اخبارات میں شکایات بالعموم چھپتی رہتی ہیں۔ صوبے میں چور، ڈاکو، سمگلر، نشئی اور دیگر مجرم دندناتے پھرتے ہیں۔ پچھلے پچاس برس میں صوبہ سرحد سمگلنگ کامرکز رہا جس سے سارا پاکستان متاثر ہوا۔ سمگلر، قانون اور قانون نافذ کرنے والوں کو اپنے حقیر نمبردار اور تابع سمجھتے ہیں۔ صوبہ سرحد گاڑیوں کے غیر قانونی کاروبار اور کار چوروں کا مرکز ہے۔ پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں سے جب کاریں یا ویگنیں اٹھائی جاتی ہیں تو وہ گھنٹوں کے اندر پشاور، مردان کے راستے سے غیر علاقے خصوصاً باڑہ یا باجوڑ ایجنسی میں پہنچائی جاتی ہیں۔ جس کی کار چوری ہوتی ہے، اسے رقعہ مل جاتا ہے کہ پولیس سے رابطہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، ہمارے ساتھ فلاں حجرے میں بات کرو۔ چند لاکھ دے کر گاڑی واپس مل جائے گی۔ صوبہ کی پولیس کو ان ڈاکوؤں اور چوروں کاپورا علم ہے مگر یہ کاروبار چل رہا ہے اور پولیس کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
فاٹا اور صوبہ سرحد منشیات اور غیر ملکی سامان کی تجارت کاعرصے سے مرکز ہے۔ وقتاً فوقتاً چند بوریوں کو تشہیر کے لیے آگ لگائی جاتی ہے لیکن اس کاروبار کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے۔
بے روزگاری ایک بنیادی مسئلہ ہے جس کے بڑے بھیانک نتائج نکل رہے ہیں۔ ڈاکے، چوریاں اور دیگر جرائم کی ایک بڑی وجہ بے روزگاری ہے۔ صوبہ میں ۴۳۰ صنعتی یونٹس بند پڑے ہیں۔ مرکز سے مل کر ان کو دوبارہ چالو کرنے کی ضررت ہے۔ گدون امازئی میں کافی یونٹ کام کر رہے تھے۔ اب وہاں صرف چند ایک صنعتی یونٹ کام کر رہے ہیں۔ اس کی بحالی کی اشد ضرورت ہے۔ فاٹا میں جو انڈسٹریز تھیں، ان کو بحال کیا جائے۔ ماربلز انڈسٹریز کی طرف توجہ دے کر ان کے مسائل کو حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ماربل Extraction کے بعد کٹنگ وغیرہ کے سارے مراحل صوبہ سرحد میں ہی طے ہونے چاہییں تاکہ یہاں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ روزگار میسر آ سکے۔
تعلیم وتربیت
انگریزی تعلیم کو نصاب تعلیم سے نکالنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ انگریزی کو مسلمان کیا جائے اور برطانوی مسلمان سکولوں کی طرز پر کورسز ترتیب دیے جائیں۔
دینی مدارس پر توجہ دی جائے۔ دینی علوم کے ساتھ سائنسی اور جدید علوم پڑھائے جائیں تاکہ اسلام کی آفاقیت اور فوقیت ان کے ذہنوں پر نقش کی جا سکے۔ ایک برطانوی رسالے نے ایم ایم اے کی حکومت سے یہ مطالبہ کیا ہے:
(1) Ensure Good Governance.
(2) Win back sovereignty and independence of Pakistan.
یعنی عوام دوست طرز حکومت کو یقینی بنایا جائے اور پاکستان کی خود مختاری اور آزادی کو بازیاب کیا جائے۔
ٹی وی میں جو وقت اب علاقائی پروگرام میں مل سکتا ہے، اس میں پشتو اور اردو میں اس امر کا اہتمام کیا جائے کہ لوگوں کو اخلاق، شرافت، دیانت، ایمان داری جو کہ امت مسلمہ کا طرۂ امتیاز رہا ہے، اس کا خوب صورت انداز میں درس دیا جائے۔ لوگوں میں Civility اور معاشرتی ذمہ داریوں کا احساس Civic Sense) (پیدا کیا جائے۔ اگر ہو سکے تو ایک دو پیریڈ بچوں کے سکول کورسز کی دہرائی کے لیے بھی مختص کر دیے جائیں۔ اس سے بچوں کو ٹیوشن پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
علامہ اقبال جاپان کی ترقی کا راز بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جاپان نے ۱۹۰۰ء میں ملک میں صنعتی سکولوں کے جال بچھا دیے تھے جس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ صنعتی تعلیم کے ادارے ہر جگہ کھولے جائیں۔
قوت مغرب نہ از چنگ ورباب
نے زرقص دختران بے حجاب
نے ز سحر ساحران لالہ رو است
نے ز عریاں ساق ونے از قطع مو است
قوت افرنگ از علم وفن است
از ہمیں آتش چراغش روشن است
عدلیہ
میں اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بذات خود ایک ایمان دار آدمی ہو اور وہ یہ چاہے کہ صوبائی عدلیہ میں کرپشن نہ ہو تو کوئی سول جج، مجسٹریٹ، ایڈیشنل سیشن جج یا سیشن جج رشوت لینے کی جرات نہیں کر سکتا۔ اس سلسلے میں مجلس عمل کو بڑا چوکنا رہنا ہوگا اور چیف جسٹس سے رابطے کے بعد ان کو زمینی حقائق سے آگاہ کرتے رہنا ہوگا۔ اگر صحیح رپورٹوں کی بنا پر چند کرپٹ سول جج یا مجسٹریٹ یا دیگر سرکاری افسر سروس سے نکالے جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ باقیوں کے کان کھڑے ہو جائیں گے اور وہ ڈر کر کام کریں گے۔ اسی طرح ایک ضلع کا سیشن جج اور ڈی سی او ایمان دار ہو اور وہ یہ چاہے کہ اس کے زیر اثر افسران میں سے کرپشن ختم کی جائے تو اس کے لیے کوئی عمل مانع نہیں ہے۔ کیا متحدہ مجلس عمل کی گورنمنٹ صوبے میں آٹھ یا دس ایمان دار اور باصلاحیت سیشن جج بھی نہیں ڈھونڈ سکتی؟ اگر اس سلسلے میں ایک سنجیدہ کاوش کر لی جائے تو آپ دیکھیں گے کہ لوگ آپ سے انتہائی مطمئن اور خوش ہو جائیں گے۔ یاد رہے کہ قانونی ضابطے ایک کرپٹ آدمی کو بے ایمانی کرنے سے نہیں روک سکتے لہٰذا زور اس امر پر دینا چاہیے کہ اختیارات کا استعمال کرنے والا شخص (Man behind the gun) صحیح کردار کاحامل ہو۔
جج یا مجسٹریٹ صاحبان کے لیے عدالتی کارروائی شروع کرنے سے پہلے ایک حلف مقرر کیا جانا چاہیے جیسا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ ۱۹۹۷ء کی دفعہ ۱۶ کے تحت ہر جج پر لازم ہے کہ وہ ہر مقدمہ کی کارروائی شروع کرنے سے قبل یہ حلف لے کہ ایمان داری، راست بازی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہوئے مقدمے کا فیصلہ کرنے کا پابند ہے۔ غیر مسلموں کے سلسلے میں حلف یہ ہوگا کہ وہ ایمان داری اور راست بازی کے ساتھ اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ اگرچہ ہمارے معاشرے میں بہت سی خرابیاں واقع ہو چکی ہیں لیکن پھر بھی ایک گیا گزرا مسلمان جج بھی اس حلف کے بعد بہت احتیاط برتے گا۔
ہماری بے مقصد تعلیم کے باعث افسران میں احساس ذمہ داری اور اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہی کا احساس یا تو ہے ہی نہیں یا بہت کم ہے جس کی وجہ سے ان کے فرائض کی سرانجام دہی میں بے شمار کوتاہیاں ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک عمدہ ٹریننگ کا اہتمام بہت ضروری ہے جس میں افسران کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ وہ ایک بڑی نازک ذمہ داری کے حامل ہیں جس میں احتساب بڑا سخت ہے۔ عدلیہ کے بارے میں جج صاحبان کو اس عہدے کی نزاکت اور شدید جواب دہی کے متعلق آیات قرآنی اور احادیث نبوی سے روشناس کرایا جائے اور انہیں اس بات کا احساس دلایا جائے کہ عدل اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور عدل ایک فرض کے ساتھ ساتھ عبادت بھی ہے۔ اچھی ٹریننگ کے اثرات بہت دور رس اور عمدہ نکلتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت سرحد کے پاس جناب عبد اللہ صاحب سابق چیف سیکرٹری سرحد جیسا ذمہ دار اور دیانت دار افسر موجود ہے جن کی خدمات سے بھرپور استفادہ کیا جانا چاہیے۔ اگر نئی جوڈیشل اکیڈمی قائم کرنے پر خرچ زیادہ اٹھتا ہو تو پہلے سے قائم شدہ ادارے سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ نیپا (Nipa) پشاور میں جناب عبد اللہ پہلے ہی ایک عرصہ تک یہی فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔
سول ججز : ماتحت عدلیہ کا انتخاب بہت حد تک آپ کے پاس ہے۔ آپ کا پبلک سروس کمیشن ان کا امتحان لیتا ہے۔ اچھے بیج سے اچھی فصل پیدا ہوتی ہے۔ انصاف کی فراہمی کا شعبہ بھی اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ یہ سب سے پہلی اور بنیادی عدالت ہے جس سے عوام کو بالعموم واسطہ پڑتا ہے لہٰذا اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ برطانوی چیف جسٹس لارڈ سنگ سے کسی نے پوچھا کہ اچھے جج کی کیا تعریف ہے؟ اس نے جواب دیا:
"A judge should be honest. He should be hardworking. He should understand men and matters and if knows little bit of law that would be blessing over blessings."
’’جج کو ایمان دار اور محنتی ہونا چاہیے۔ اس میں انسانوں کوجانچنے کی صلاحیت اور معاملات کی سوجھ بوجھ ہونی چاہیے، اور اگر اس کے ساتھ اسے قانون کی شد بد بھی ہو تو یہ سونے پر سہاگہ ہے۔‘‘
آپ کو علم ہے کہ تقریباً ۹۰ فی صد مقدمات انہی عدالتوں میں ہوتے ہیں لہٰذا سول جج صاحبان کے انتخاب پر ایک اچھی حکومت کو پوری توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ حضرت عمرؓ کی کوشش یہ ہوتی کہ قاضی صاحبان صاحب اثر اور صاحب ثروت لوگوں سے لیں اور اس پر مزید یہ خیال رکھتے کہ قاضی عمدہ کردار کا حامل ہو۔ ایسے حضرات اپنی دنیوی خواہشات کا جلد شکار نہ ہوتے تھے۔
بفرض محال اگر کسی صورت ایسے مشکوک کردار کے لوگ کسی طرح سروس میں گھس گئے تو انہیں کنفرم نہ کیا جائے اور نکال باہر کیا جائے۔ جیسا کہ خاردار جھاڑیوں کی تراش خراش ضروری ہوتی ہے، اسی طرح شریف سوسائٹی کو ایسے ناہنجار لوگوں کو نکال باہر کرنا چاہیے۔
ایڈیشنل سیشن جج صاحبان: اگرچہ ان کے انتخاب کا تمام تر پروسس ہائی کورٹ کے ہاتھوں ہوتا ہے لیکن چونکہ تقرری گورنمنٹ کرتی ہے لہٰذا عدالت عالیہ کی مشاورت سے اعلیٰ کردار کے حامل لوگوں کو اس سروس میں لانے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ موجودہ طریق کار میں کردار کی تفتیش وتحقیق کم ہی ہوتی ہے اور ہر قسم کے لوگ امتحان پاس کر کے اس اعلیٰ پائے کی سروس میں آ گھستے ہیں۔ ایمان دار اور محنتی ججز کو بروقت ترقی ملنی چاہیے اور غیر ضروری تاخیر سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ہائی کورٹ ججز کی تقرری میں بے احتیاطی ملکی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے، اس میں بہت سی احتیاط کی ضرورت ہے۔
اگرچہ چیف جسٹس ججز کی تقرری کو Initiate کرتے ہیں لیکن وزیر اعلیٰ کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے لہٰذا وزیر اعلیٰ پورے زور سے غلط تقرریوں کی مخالفت کر کے اس عہدہ عالیہ کو غلط قسم کے لوگوں سے بچا سکتے ہیں۔
تعزیرات پاکستان کی دفعات ۱۸۲ اور ۲۱۱ کا صحیح اور فوری استعمال بہت سے جرائم کو روکنے میں ممد ثابت ہو سکتا ہے۔
اس وقت پروسس بڑا طویل اور صبر آزما ہے۔ جج کو یہ اختیار دے دینا چاہیے کہ اگر وہ مقدمہ بد نیتی پر دائر کردہ پائے تو ملزموں کو بری کرتے ہوئے غلط اطلاع اور غلط الزام لگانے کو اسی وقت سزا دے دے۔
احتساب کا ایک عمدہ نظام قائم ہونا چاہیے جو اوپر سے شروع ہو کر نیچے آئے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اگر ایک چیف جسٹس دیانت دار ہے اور وہ اس بات پر کمربستہ ہے کہ صوبے کی عدلیہ میں کرپشن نہ ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ کرپشن رک نہ سکے۔ اسی طرح اگر ایک چیف سیکرٹری ایمان دار ہے اور اس بات کے لیے مصمم ارادہ رکھتا ہے کہ کرپشن روکی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس پر قابو نہ پا سکے۔ جب تک احتساب کا نظام کڑا نہیں ہوگا، اس وقت تک افسروں کی صحیح نگہداشت نہیں ہو سکے گی اور عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
صوبائی محتسب ایک ایسے شخص کو مقرر کیا جانا چاہیے جسے دینی علوم کے علاوہ جدید علوم پربھی دسترس حاصل ہو اور وہ عام لوگوں کو ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل میں ریلیف دے سکیں۔
صوبے میں سیشن کورٹ اور اس کے ماتحت عدالتوں کے علاوہ بے شمار عدالتیں قائم ہیں۔ اس سے بھی لوگوں کو انتہائی پریشانی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر انٹی کرپشن کورٹ، سروس ٹربیونل، لیبر کورٹ، انسداد دہشت گردی عدالت وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کو ختم کر کے عام عدالتوں کو، جو کہ سیشن جج کے ماتحت ہوتی ہیں، یا سیشن جج صاحبان کو یہ اختیارات تفویض کر دینے چاہییں۔ اس سے لوگوں کے مقدمات کی سماعت بہت جلد ہو سکے گی اور اس تنوع کے باعث جو پریشانیاں عوام کو ہوتی ہیں، ان سے بچا جا سکے گا۔
اس وقت عدلیہ کے متعلق عدم اعتماد کی جو فضا ملک بھر میں پائی جاتی ہے، وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ عدلیہ کی انتظامیہ سے علیحدگی کے بعد اگرچہ انتظامیہ کے اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن اگر صوبائی حکومت خلوص دل سے کچھ کرنا چاہے تو ضرور کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں پہلی گزارش یہ ہوگی کہ جناب اکرم درانی صاحب چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کے ہاں جا کر بذات خود ملاقات کریں اور ان سے اپنے پروگرام اور منشور پر عمل درآمد کے سلسلے میں مدد طلب کریں۔ اس کے بعد چیف جسٹس صاحب اور سینئر جج صاحبان کو اپنے ہاں مدعو کرتے رہا کریں۔ چونکہ درانی صاحب خود وکیل ہیں اس لیے وہ لازماً اس کی افادیت سے پوری طرح آگاہ ہوں گے۔
دینی مسائل میں رہنمائی کے لیے علما کا بورڈ
ایک ایسا ادارہ قائم کیا جائے جس میں صوبہ سرحد اور دوسرے صوبوں کے نامور علما، پروفیسرز اور قانون دان شامل ہوں جو کہ عملی کردار کے حامل ہوں اور ان کے تبحر علمی کا ہر کہ ومہ قائل ہو، تاکہ وہ دقیق امور میں سرکار کی رہنمائی کر سکیں۔ سعودی عرب میں ایسا ہی ایک ادارہ ہیءۃ کبار العلماء کے نام سے قائم ہے۔ یہ ادارہ وقتاً فوقتاً گورنمنٹ اور صوبائی اسمبلی کی رہنمائی کرتا رہے۔ جب تک ایسا ادارہ سرحد حکومت قائم نہیں کر پاتی، اس وقت تک اسلامی نظریاتی کونسل سے استفادہ کرے۔
وفود کی تشکیل
اب تک ایم ایم اے نے جو مثالی کردار پیش کیا ہے اور جس طرح اتحاد کو قائم رکھا ہے، اس سے عوام کی امیدوں کے چراغ روشن ہو گئے ہیں اور بیورو کریسی بھی ان شاء اللہ اس سے بہت متاثر ہوگی۔ بیرونی ممالک میں پاکستان کا امیج بہت خراب ہے اور ہمارے کیس کو کسی نے اچھی طرح سے پیش نہیں کیا اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ بیرونی ممالک خصوصاً اسلامی ممالک کا دورہ کر کے پاکستانی عوام کے جذبات سے ان کو آگاہ کیا جائے۔ امریکہ اور تمام عیسائی دنیا کو یہ بتایا جائے کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔ انہیں بتایا جائے کہ جب ایرانیوں کے ہاتھوں عیسائیوں کو شکست ہوئی تو سورۂ روم میں فرمایا گیا کہ یہ شکست عارضی ہے اور چند سال بعد عیسائی، دشمن کے مقابلے میں کام یاب ہوں گے جس سے مسلمان خوش ہو جائیں گے۔
ہمیں ان سے صرف یہ گلہ ہے کہ بلاجواز مسلمانوں کے خلاف ہوا کھڑا کر کے ان کو بدنام کیا جا رہا ہے حالانکہ دنیا میں وہ یہودیوں، ہندوؤں اور روسیوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں اور اہل کلیسا ان کی ناجائز مدد کر کے مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھا رہے ہیں۔
’’قرب قیامت کی پیش گوئیاں‘‘ ۔ حافظ عبد الرحمن صاحب مدنی کے نام مکتوب
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مجلس التحقیق الاسلامی، ۹۹ جے ماڈل ٹاؤن لاہور کے زیر اہتمام ۲۶ جنوری ۲۰۰۳ء کو ’’قرب قیامت کی پیش گوئیوں‘‘ کے موضوع پر ایک علمی مذاکرے کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر ’’الشریعہ‘‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی کا جو مکتوب حاضرین مجلس کو پڑھ کر سنایا گیا، اسے ذیل میں شائع کیا جا رہا ہے۔ (مدیر)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بگرامی خدمت مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب زید مکارمکم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! مزاج گرامی؟
۲۶ جنوری ۲۰۰۳ء کے مذاکرہ میں شرکت کے لیے دعوت نامہ موصول ہوا۔ یاد فرمائی کا تہ دل سے شکریہ۔ میں ۲۶ جنوری کو نماز ظہر اور اس کے بعد ایک پروگرام کا وعدہ لاہور میں ہی ایک اور جگہ پہلے سے کر چکا ہوں اس لیے مذاکرہ میں شرکت میرے لیے مشکل ہوگی جس پر معذرت خواہ ہوں۔ عزیزم حافظ محمدعمار خان ناصر سلمہ مذاکرہ میں شرکت کے لیے حاضر ہو رہا ہے، اس سے مجھے ضروری تفصیلات معلوم ہو جائیں گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
جس مسئلہ پرمذاکرہ کا انعقاد ہو رہا ہے، اس کے تمام پہلوؤں پر کچھ عرض کرنا تو سردست مشکل ہے البتہ ایک دو اصولی باتوں کے حوالے سے مختصراً گزارش کر رہا ہوں کہ:
قرآن کریم یا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کا اپنے دور کے واقعات پر اطلاق یا انہیں مستقبل کے حوالہ کر کے ان کے وقوع کا انتظار خود حضرات صحابہ کرام کے دور میں بھی مختلف فیہ رہا ہے۔ سورۃ الدخان میں ’’دخان‘‘ اور ’’البطشۃ الکبریٰ‘‘ کی پیش گوئیوں کا حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ اپنے دور کے حالات پر اطلاق کرتے ہیں اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ انہیں قیامت کی نشانیوں میں شمار کر کے اپنے دور میں ان کے وقوع کی بات قبول نہیں کرتے۔ اس سے اصولاً یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پیش گوئیوں کے بارے میں تعبیر وتاویل کا دامن اس قدر تنگ نہیں ہے اور اہل علم کے لیے اس کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔
اصل الجھن ہمارے ہاں یہ رہی ہے کہ ہر دور میں اس نوعیت کی پیش گوئیوں کو اپنے دور کے احوال وظروف کے دائرے میں رہ کر سمجھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ وہی بات اب بھی ہو رہی ہے جبکہ مستقبل کا افق بہت وسیع ہے مثلاً امام مہدی کے ظہور کی روایات کا اطلاق بعض اہل علم نے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ پر بھی کرنے کی کوشش کی تھی اور یہ اس لیے ہوا تھا کہ ایسا کرنے والوں کے سامنے صرف اس دور کا تناظر تھا جبکہ مستقبل کے قیامت تک کے تناظر اور امکانات کو بھی سامنے رکھا جائے تو تاویل وتعبیر میں اس قدر آگے جانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ احادیث نبویہ علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کا ظاہری مفہوم سرے سے اس میں تحلیل ہو کر رہ جائے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ذہنوں کے لیے پریشانی کا باعث بن جاتا ہے کہ پیش گوئی کا ظاہری حالات میں پورا ہونا ممکن نظر نہیں آتا تو اسے عقلی طور پر قابل قبول بنانے کے لیے تاویل کا سہارا لینا مناسب سمجھا جاتا ہے جو ایک غیر ضروری محنت ہے کیونکہ مستقبل کے امکانات کا دائرہ حال کے امکانات سے کہیں زیادہ وسیع اور مختلف ہوتا ہے ۔ مثلاً یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ اور اس میں یہود کی ابتدائی کام یابیوں کا جن روایات میں تذکرہ ملتا ہے، آج سے ایک صدی قبل کے احوال وظروف میں اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا لیکن آج اس کا وقوع بھی ہو چکا ہے۔
اس لیے میرا اپنا ذوق تو یہی ہے کہ پیش گوئیوں کو ان کے اصل مفہوم میں ہی سمجھنے کی کوشش کی جائے اور اپنے دور کے حالات پر ان کا ہر حال میں اطلاق کرنے یا ان کے بظاہر ممکن نہ ہونے کو حتمی سمجھنے کے بجائے مستقبل کے پردۂ غیب میں مستور امکانات کے حوالے کر دیا جائے، البتہ اس باب میں اہل علم کے بحث ومباحثہ اور تاویل وتعبیر کے حق سے انکار نہ کیا جائے۔ بحث ومباحثہ اور تعبیر وتاویل کا یہ عمل گزشتہ چودہ صدیوں سے جاری ہے اور اب اس پر قدغن لگانے کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ اس کی ضرورت ہی ہے۔
مذاکرہ کے شرکا سے سلام مسنون عرض ہے۔ شکریہ
والسلام
ابو عمار زاہد الراشدی
اسمبلیوں میں ’اسلام‘ کی نمائندگی
قاضی عبد الحلیم حقانی
’الشریعہ‘ گوجرانوالہ وہ واحد پرچہ ہے جس کا میں باقاعدہ خریدار ہوں ورنہ عام مولویوں کی طرح میرا بھی دینی پرچوں کے معاملے میں مفت خوری کا ذوق ہے جو واقعۃً کسی طرح بھی درست نہیں کہ دین کے پرچے جب دین کے نام پر کھانے والے کمانے والے نہ خریدیں تو کون خریدے؟ ہاں ’الشریعہ‘ کا میں بھی آسانی سے خریدار نہیں بن سکا۔ ’الشریعہ‘ کے مدیر اعلیٰ کا بعض ضروری تحفظات کے ساتھ ابتدا سے میں مداح اور قائل ہوں۔ شاید اس کا اثر ہو کہ ایک دفعہ ’الشریعہ‘ کے مدیر اعلیٰ زاہد الراشدی صاحب نے خواب میں مجھے بے تکلفی سے کہا کہ نکالو صد روپیہ ’الشریعہ‘ کے چندہ کا۔ اتفاق سے دو چار روز کے بعد لاہور کے کسی شان دار ہوٹل میں (کسی مسجد مدرسہ میں نہیں) اسلامی نظام کے دعوے داروں کی اعلیٰ تقریب میں (جب کہ میں تقریب میں مدعو نہیں تھا، کسی اور کام سے لاہور گیا ہوا تھا) مولانا زاہد الراشدی صاحب سے آمنا سامنا ہوا تو میں نے سو روپیہ کا سرخ نوٹ نکال کر مولانا کو تھماتے ہوئے کہا کہ ’’لے لو ’الشریعہ‘ کا چندہ جس کا آپ نے خواب میں آرڈر دیا تھا۔‘‘
یہ کافی زمانہ پہلے کی بات ہے۔ بہرحال اس وقت سے ’الشریعہ‘ مطالعہ میں ہے اور جب چندہ کے ختم ہونے کی اطلاع آتی ہے تو میں اب خواب دیکھے بغیر بھی تجدید وفا کر لیتا ہوں۔
’الشریعہ‘ اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کی دوسری تحریرات اور راشدی صاحب سے ملنے والوں کی گفتگو سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ راشدی صاحب تسلسل کے ساتھ مختلف پیرایوں سے یہ بات دہرایا کرتے تھے (جب کہ بعض باتیں مثلاً کفر واسلام کے اختلاط کی بات تسلسل سے دہرانے کے وہ روادار نہیں) کہ کاش جمعیتیں ( ف س ) کا اتفاق ہو جاتا تو اسمبلیوں میں علما کی معقول نمائندگی ہو جاتی۔ حق تعالیٰ نے راشدی صاحب کی اس خواہش کو ایسے پورا کر دیا کہ صرف ف س کا اتحاد نہیں ہوا بلکہ ایک دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگانے والوں، مشرک مشرک کی پھبتی کسنے والوں، امام اعظم ابو حنیفہؒ پر غلاظتوں کے انبار ڈالنے والوں، ایک دوسرے سے آئینوں میں تصادم رکھنے والوں، ایک دوسرے پر غیر ملکی چوہے چوہے کے آوازے کسنے والوں نے اتحاد کی برکت سے مکالموں کی وہ تمام دستاویزات جس میں یہ تمام باتیں ریکارڈ پر ہیں، خس وخاشاک کی طرح بہا دیں اور تمام فرقے ماشاء اللہ ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے باہم شیر وشکر ہو گئے۔ والحمد للہ
ہمیں بے حد خوشی ہے کہ حق تعالیٰ نے راشدی صاحب کی خواہش کو پورا فرما دیا اور تمام اسمبلیوں میں مولوی کی معقول اور بھرپور نمائندگی ہو گئی اور شاید کسی مولوی کے حاشیہ خیال میں بھی نہ ہو کہ مولانا سید شمس الحق افغانیؒ ، مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ ، مولانا عبد الحق صاحبؒ شیخ الحدیث حقانیہ، مولانا خیر محمد صاحب جالندھریؒ اور مولانا قاضی عبد الکریم صاحب آف کلاچی جیسے درویش صفت علماء دین کے ہاتھوں سے جھونپڑیوں میں (ہم دوش فلک دفاتر میں نہیں) قائم ہونے والے ادارہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی برکت سے آج چٹائیوں پر پڑھنے والا مولوی اپنے آپ کو گریجویٹ مولوی کہہ کر فخر بھی محسوس کر رہا ہے اور اسی وفاق کی برکت سے یہ مولوی آج ملک کی اسمبلیوں میں معقول نمائندگی کر رہا ہے۔
’الشریعہ‘ کے ایک ادنیٰ قاری کی حیثیت سے کیا مدیر ’الشریعہ‘ مجھے یہ حق دیں گے کہ جہاں وہ اپنی بات تسلسل کے ساتھ امت تک پہنچاتے رہے کہ اتحاد سے مولوی کی معقول نمائندگی ہو جاوے گی، کیا وہ میری یہ بات قارئین ’الشریعہ‘ تک پہنچانے میں مدد دے سکیں گے کہ اسمبلیوں میں مولوی کی معقول نمائندگی تو ہو گئی، کیا اب اسلام کی بھی معقول نمائندگی ہو سکے گی اور اسمبلیوں میں کسی مولوی کی یہ تقریر بھی سنی جا سکے گی کہ:
۱۔ پارلیمنٹ پر اسلام کی بالادستی کا قانون پاس ہونا چاہیے۔
۲۔ کلیدی عہدوں سے غیر مسلموں اور کفر کا ناجائز قبضہ ختم ہونا چاہیے۔
۳۔ خیار ناس، خیار امت اصحاب رسول اللہ ﷺ کی عزت کے تحفظ کا موثر قانون بننا چاہیے۔
۴۔ کفریہ عقائد رکھنے والوں کو اقلیت قرار دینا چاہیے۔
آہ! حضرت مولانا عبید الرحمنؒ
مفتی محمد جمیل خان
حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوری رحمۃ اللہ علیہ کے سب سے بڑے صاحب زادے، پاکستان اور انگلینڈ کی معروف ترین شخصیت اور ظلمت کدہ برطانیہ کی ہر دینی تحریک کے پشتی بان اور سرزمین بہبودی کے علمی خانوادہ کے سرپرست اعلیٰ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اجل اور حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوری رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین حضرت مولانا عبید الرحمن مختصر علالت کے بعد اپنے آبائی وطن بہبودی میں بروز بدھ ۲۲ جنوری ۲۰۰۳ء کو فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اللہ تعالیٰ اپنی برگزیدہ ہستیوں کے ساتھ عجیب معاملہ فرماتے ہیں۔ آپ کے سب سے چھوٹے بھائی امام اہل سنت مولانا مفتی احمد الرحمن اس شان سے رخصت ہوئے کہ عشا کی نماز پڑھتے ہیں، مشکوٰۃ شریف کی آخری حدیث کا درس جامعہ بنوریہ میں دیتے ہیں اور گھر آ کر اس شان بان سے رخصت ہوتے ہیں کہ چہرہ وجوہ یومئذ ناضرۃ اور ضاحکۃ مستبشرۃ کا مشاہدہ کراتا ہے اور ہمارے ممدوح مولانا عبید الرحمن اس شان سے رخصت ہوتے ہیں کہ فجر کی نماز ادا فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی یاد میں محو ہو جاتے ہیں۔ زبان پر فجر کے بعد کے معمولات جاری ہوتے ہیں کہ محبوب حقیقی کی طرف سے بلاوا آجاتا ہے۔ زندگی بھر کوئی نماز قضا ہونے کی ندامت اور حسرت سے باری تعالیٰ نے محفوظ رکھا تو مرض الموت میں اپنے مقرب ومحبوب بندے کو کس طرح باری تعالیٰ اس ندامت اور حسرت کے ساتھ اپنے پاس بلا سکتا تھا۔
بعض شخصیات اس آن بان سے رخصت ہوتی ہیں کہ اہل علم ودین اپنے آپ کو یتیم اور بے سہارا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ مدارس اور دینی کاموں سے متعلق لوگ بے آسرا سے ہو جاتے ہیں۔ حضرت مولانا عبید الرحمن صاحب ظلمت کدہ انگلستان میں تپتی دھوپ میں ایک سایہ دار شجر اور شدید سردی میں ایک گرم مکان کی مانند اہل دین کو فیض یاب کرتے نظر آتے تھے۔ پوری زندگی علماء کرام اور اہل دین کی خدمت میں گزاری۔ انگلینڈ جانے والوں کی طرح پاؤنڈوں کو مطمح نظر نہیں بنایا۔ فقیری کے باوجود غنی دل کے ساتھ مہمان نوازی اور سخاوت ان کاطرۂ امتیاز تھی اور مسلمانوں کی حالت زار پر ان کی کڑھن قابل رشک اور مسلمانوں کے حقوق کی طلبی اور ان کی اصلاح کے لیے موج زن جذبات قابل تحسین تھے۔ دن رات کی تمیز کیے بغیر خدمت اہل دین سے ان کی زندگی عبارت تھی۔ تواضع وانکسار ان کی زینت اور اللہ پر یقین وتوکل ان کا ہتھیار تھا۔ مشکل گھڑیوں اور صبر آزما حالات میں وہ ساتھ دینے والی عظیم شخصیت تھے۔ ذاتی نفع ونقصان سے بالاتر دین کی بالادستی اور علماء کرام کے احترام ووقار کے لیے وہ زندگی بھر کوشاں رہے۔ ان کا گھر سیاسی اختلافات ومفادات سے بالاتر ہو کر علما کے لیے مہمان خانہ تھا۔ میزبانی کا ذوق وشوق ان کی بدولت گھر کے ایک ایک فرد کے رگ وریشہ میں پیوست ہو گیا تھا۔ چوبیس گھنٹے کے کسی لمحہ میں بھی کوئی مہمان اس گھر سے سیر ہوئے بغیر واپس لوٹنے کے تصور سے عاری تھا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، جمعیت علماء اسلام، جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن، وفاق المدارس العربیۃ پاکستان، سپاہ صحابہ، مجاہدین کی تمام تنظیمیں اور پاکستان کی اکثرخانقاہیں اورمدارس کے منتظمین اور علما ہی نہیں، متعلقین کے لیے بھی اس گھر کی حیثیت اپنے گھر کی سی تھی۔ مولانا مفتی محمود، علامہ سید محمد یوسف بنوری، حضرت مولانا سید محمد اسعد مدنی، حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب، مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق، مولانا عزیز الرحمن جالندھری، مولانا محمد اکرم طوفانی اور دیگر بڑے بڑے علماء کرام سے لے کر ہم جیسے ناکارہ لوگوں کے لیے آپ اور آپ کا گھرانہ چشم براہ رہتا تھا۔ شہید اسلام مولانا محمد یوسف لدھیانوی کے آتے جاتے کسی نہ کسی طرح یہ گھر میزبانی کا شرف حاصل کر لیتا ہے۔ شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ کے کچے گھر کی طرح مولانا عبید الرحمن صاحب کے گھر کی حیثیت بھی جنکشن کی تھی جہاں ہر طبقہ فکر کے اہل علم کا گزرے بغیر چارہ نہیں تھا۔
حضرت مولانا عبید الرحمن صاحب ۱۹۳۲ء میں سہارنپور کے جس مبارک اور پاکیزہ ماحول میں پیدا ہوئے، اس وقت مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور کی مسند حدیث پر حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری جیسی عظیم المرتبت ہستی رونق افروز تھی اور مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا محمد زکریا کاندھلوی، مولانا محمد الیاس رحمہم اللہ تعالیٰ جیسی نورانی شخصیات تدریس اور سرپرستی میں مصروف تھیں۔ ان ہستیوں کی دعاؤں اور صحبت میں آپ کا بچپن گزرا۔ قاری سعید الرحمن صاحب کے مطابق حفظ قرآن کے لیے بسم اللہ کا آغاز ان بزرگوں کی دعاؤں سے ہوا۔ حفظ کی تکمیل مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور میں کی ہی تھی کہ والد محترم حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوریؒ نے ابتدائی تعلیم اور تربیت کے لیے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خلیفہ حضرت مولانا ابرار الحق کے پاس ہردوئی بھیج دیا۔ ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ درس نظامی کی متوسط کتابوں کی تعلیم کے لیے مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور آئے اور ابھی تعلیم کے مراحل طے نہیں ہوئے تھے کہ قیام پاکستان کا عمل پیش آ گیا اور ہندوستان سے مسلمانوں کی ہجرت اور فسادات کے اندوہ ناک واقعات پیش آئے اور لاکھوں مسلمانوں کے کشت وخون کی ہولی نے ایک ایسی خلیج اور نفرت کی دیوار کھڑی کی کہ آج پچاس سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود نفرتوں میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ اس لیے مظاہر العلوم سہارنپور کی تدریس کے لیے واپس جانا حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوری کے لیے ممکن نہ رہا اس لیے مولانا عبید الرحمن صاحب اپنا تعلیمی سلسلہ بزرگوں کی نگرانی میں پورا نہ کر سکے۔ کچھ عرصہ اپنے آبائی علاقہ بہبودی کے اطراف میں علماء کرام سے کتابیں پڑھتے رہے، بعد ازاں حضرت مولانا خیر محمد جالندھری کی زیر نگرانی جامعہ خیر المدارس ملتان میں، جو کہ اس وقت دیوبندی مدارس میں ممتاز حیثیت کا حامل تھا، تعلیم کا منقطع سلسلہ بحال کیا۔
اسی دوران مولانا احتشام الحق تھانوی کی دعوت پر جب حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوری، حضرت مولانا محمد یوسف بنوری اور دیگر بڑے بڑے بزرگ دار العلوم ٹنڈو الٰہ یار میں تدریس کے لیے جمع ہوئے تو مولانا عبید الرحمن، قاری سعید الرحمن کو بھی تعلیم کے لیے اپنے ساتھ اس مدرسہ میں لے آئے اور مولانا سید محمد یوسف بنوری کی نگرانی میں ۱۹۵۴ء میں حدیث کی تکمیل کر کے دستار فضیلت اور سند حدیث حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ اپنے علاقہ میں علمی خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں جب علامہ سید محمد یوسف بنوری نے کراچی میں ’’مدرسہ عربیہ اسلامیہ‘‘ کے نام سے ایک جدید طرز پر تعلیمی ادارہ قائم کیا ( جو اب الحمد للہ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن اور اس کی سترہ شاخوں کی شکل میں مولانا سید محمد یوسف بنوری، مفتی احمد الرحمن، مولانا محمد یوسف لدھیانوی، ڈاکٹر حبیب اللہ مختار، مولانا سید مصباح اللہ شاہ، سید محمد بنوری، مولانا بدیع الزمان رحمہم اللہ کا صدقہ جاریہ ہے) تو مولانا بنوری کے حکم پر ۱۹۵۵ء میں اس مدرسہ میں تدریس کا آغاز کیا۔ کئی سال مولانا بنوری کی زیر نگرانی خدمات انجام دیتے رہے۔ بعد ازاں مولانا عبد الرحمن کامل پوری کی علالت کی وجہ سے بہبودی واپس آ گئے اور وہیں مدرسہ میں تعلیمی سلسلہ کے ساتھ والد محترم کی خدمت اور تیمارداری میں مصروف ہو گئے۔
حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوری کے حکم پر مولانا عبید الرحمن اور قاری سعید الرحمن نے جامعہ اسلامیہ کے نام سے پنڈی میں مدرسہ کا آغاز کیا تو اس میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد والد محترم کی اجازت سے ظلمت کدہ انگلستان میں دینی رہنمائی کے لیے ۱۹۵۶ء میں تشریف لے گئے۔ اس وقت انگلستان میں مسلمانوں کی حالت زار بہت ہی مخدوش تھی۔ مساجد نہ ہونے کے برابر تھیں، لوگ گھروں میں نمازیں ادا کرتے تھے، حلال گوشت کا تصور تک نہیں تھا، پردہ اور اسلامی لباس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا،مسلمانوں کو کسی قسم کے حقوق حاصل نہیں تھے۔ لوگ انفرادی طور پر دینی امور کی انجام دہی کی خفیہ طور پر کوشش کرتے۔ اس صورت حال میں مولانا عبید الرحمن نے مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کا عزم اور علماء کرام اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا ارادہ کیا۔ حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ کی تربیت کی وجہ سے جرات وبہادری اور دینی حمیت آپ کی رگ رگ میں پیوست تھی اور علمی خاندان کی وجہ سے خدمت دین آپ کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ آپ نے شیفیلڈ کو مرکز بنایا اور محنت ومزدوری کے ذریعہ مسلمانوں کے لیے حلال رزق کا بندوبست کیا اور اعزازی طور پر رضاکارانہ انداز میں خدمت دین شروع کی۔ دار العلوم ڈیوز بری میں تدریسی عمل کے ساتھ علماء کرام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور ’’جمعیت علماء برطانیہ‘‘ کے نام سے ایک مذہبی پلیٹ فارم قائم کیا جس کی وجہ سے علماء کرام اجتماعی کام کی طرف متوجہ ہوئے اور مسلمانوں کو مربوط زندگی گزارنے کے لیے ایک مرکز مل گیا۔ علماء کرام کے اس پلیٹ فارم سے سب سے پہلے مساجد اور مکاتب قرآن قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کے ساتھ مسلمانوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ حلال اشیا کی تجارت کی طرف متوجہ ہوں۔ حکومت سے بات چیت کی گئی اور آخر کار حکومت نے مسلم ذبیحہ کی اجازت دی۔ سکولوں میں مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کے لیے وقت حاصل کیا گیا اور علماء کرام کو اس خدمت کے لیے مقرر کیا گیا۔ کالجوں، یونیورسٹیوں کے ساتھ جیلوں میں بھی اسلامی تعلیم کے لیے وقت حاصل کیا گیا۔ عید کی نمازوں کے لیے کھلی جگہیں حاصل کی گئیں اور مختلف شہروں میں دینی پروگرام شروع کیے گئے۔ دعوت وتبلیغ کو مربوط کرنے کے ساتھ پاکستان بھر سے علماء کرام مولانا سید محمد یوسف بنوری، مولانا مفتی محمود، مولانا احتشام الحق تھانوی، ہندوستان سے مولانا ابو الحسن علی ندوی اورمولانا سید اسعد مدنی وغیرہ کو بلوا کر مسلمانوں کے مشترکہ اجتماعات کیے گئے۔ مسلمانوں کے عائلی اور معاشرتی مسائل حل کرنے کے لیے ’’مجلس قضا‘‘ کے نام سے علماء کرام کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور حکومت سے فیصلہ کرایا گیا کہ مسلمانوں کے عائلی مسائل ان کے مذہب کی بنیاد پر حل کیے جائیں گے۔
۱۹۸۴ء میں جب قادیانیوں کے لیے امتناع قادیانیت آرڈی ننس جاری کیا گیا اور مرزا طاہر پاکستان سے فرار ہو کر لندن چلا گیا اور وہاں قادیانیت کا مرکز بنا کر مسلمانوں کو گمراہ کرنے اور قادیانی بنانے کی مہم شروع کی تو مولانا عبید الرحمنؒ اور مولانا محمد یوسف متالا اور دیگر علماء کرام کی کوششوں اور جمعیت علماء برطانیہ، حزب العلما کے تعاون سے ’’ختم نبوت کانفرنس‘‘ کے انعقاد کافیصلہ کیا گیا اور ۱۹۸۶ء میں پہلی ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی اور اس کے بعد ان کی مشاورت سے انگلینڈ میں ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ قائم کی گئی۔ اس دوران مکی مسجد اور ان کا مکان مرکز کی حیثیت سے خدمات انجام دیتا رہا۔ حضرت مولانا خواجہ خان محمد زید مجدہم، مفتی احمد الرحمن، مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی کوششو ں اور مولانا عبید الرحمن، مولانا محمد یوسف متالا، مولانا مفتی محمد اسلم، مولانا مفتی مقبول احمد اور دیگر علماء کرام کی محنتوں سے لندن میں دفتر ختم نبوت ۳۵۔ سٹاک ویل گرین میں قائم کیا گیا اور مولانا منظور احمدالحسینی، حاجی عبد الرحمن یعقوب باوا کا مبلغ کی حیثیت سے تقرر کیا گیا۔ مولانا عبید الرحمن ختم نبوت کے سرپرست اور نائب صدر مقرر ہوئے اور اس کے بعد ہر سال اس ماہ میں ختم نبوت کانفرنس بھی منعقد ہوتی رہی۔ وفات تک آپ ختم نبوت کے اس عہدہ جلیلہ، عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیت کی تردید میں مصروف عمل رہے۔
جمعیت علماء برطانیہ اور ختم نبوت کی خدمات کے ساتھ آپ نے شیفیلڈ اور انگلینڈ میں مساجد اور مدارس کے قیام کے لیے بہت زیادہ جدوجہد کی۔ شیفیلڈ میں کئی مساجد قائم ہوئیں، لڑکیوں کے لیے اسکول اور مدرسہ قائم کیا گیا۔ غرض انگلینڈ کی ہر دینی خدمت اور تحریک میں آپ کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہے۔ انگلینڈ کے ساتھ آپ پاکستان کے حالات سے لاتعلق نہیں ہوئے بلکہ جمعیت علماء اسلام اور دینی مدارس کے ساتھ اپنا مضبوط رشتہ برقرار رکھا اور ان کی ترقی کے لیے بھرپور تعاون کرتے رہے۔ انتخابی معرکہ ہو یا کسی مدرسہ کا قیام، جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن، جامعہ اسلامیہ راول پنڈی اور بہبودی کا مدرسہ، ان کی ترقی میں آپ بھرپور تعاون کرتے رہے۔ جہاد افغانستان، کشمیر، چیچنیا، فلسطین میں شریک مجاہدین کی بھرپور امداد کرتے رہے۔
گزشتہ ایک سال سے جگر کے عارضہ میں مبتلا تھے۔ ڈاکٹروں نے ڈائی لائسز تجویز کیا مگر اللہ تعالیٰ پر توکل اور قوت ارادی کے بل بوتے پر بیماری کا مقابلہ کرتے رہے اور ڈائی لائسز نہیں کرایا۔ آخر کار یہی بیماری آپ کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کا خاندان اور آپ کی علمی میراث آپ کے لیے صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور بعد میں آنے والے آپ کی پر عزم زندگی سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔
’’پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات‘‘ ۔ ’مجلس فکر و نظر‘ کے زیر اہتمام ہمدرد سنٹر لاہور میں سیمینار
ادارہ
پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی علوم کے اساتذہ کی طرف سے قائم کردہ’مجلس فکر ونظر‘ نے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت سازی کے تناظر میں ۲۱ جنوری ۲۰۰۳ء کو ہمدرد سنٹر لاہور میں ’’پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار کے انعقاد کا اہتمام کیا جس میں ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی کا پیش کردہ مقالہ گزشتہ شمارے میں شائع کیا جا چکا ہے۔ اس سیمینار کے لیے ڈاکٹر محمد امین صاحب اور جسٹس (ر) عبد الحفیظ صاحب چیمہ کے تحریر کردہ مقالہ جات زیر نظر شمارے میں شامل اشاعت ہیں جبکہ ڈاکٹر محمود الحسن عارف اور کے ایم اعظم صاحب کے مقالات آئندہ شمارے میں شائع کیے جائیں گے۔ مذکورہ اصحاب فکر کے علاوہ حکیم سرو سہارن پوری، ڈاکٹر مغیث الدین شیخ، پروفیسر عبد الجبار شاکر، پروفیسر محمد ابراہیم اور حافظ حسین احمد نے اپنے خیالات کا اظہار فی البدیہ کیا۔ ’مجلس فکر ونظر‘ کی طرف سے ان حضرات کے خیالات کا خلاصہ مرتب کر کے ہمیں بھیجا گیا ہے جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (مدیر)
حکیم سرو سہارن پوری
تحریک اسلامی کے امیر حکیم محمود احمد صاحب سرو سہارن پوری نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ :
- متحدہ مجلس عمل کو جو کام یابی ملی ہے، وہ بنیادی طور پر ان کے اتحاد کا نتیجہ ہے لہٰذا انہیں تحمل، برداشت اور رواداری سے کام لینا چاہیے اور ہر قیمت پر اپنے اتحاد کوبرقرار رکھنا چاہیے۔ اس سے قبل تحریک پاکستان میں جو کام یابی حاصل ہوئی، وہ بھی علما کے اتحاد کا نتیجہ تھی اور دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث سب مسالک کے علما نے اس تحریک کا ساتھ دیا تھا۔ اب بھی اگر دینی عناصر متحد رہے تو دوسرے صوبوں میں بھی ان شاء اللہ کام یابی مل سکتی ہے۔ اتحاد کی فضا کو برقرار رکھنے کے لیے دینی مدارس میں تدریس ایسی ہونی چاہیے کہ دوسرے مسالک کو غلط
- اور گمراہ ثابت نہ کیا جائے، تاکہ علما میں اخوت ومحبت کو فروغ حاصل ہو اور اختلافات کا دائرہ نہ پھیلے۔
- عوامی ذہن سازی کے لیے دعوت کو بنیاد بنایا جائے لیکن اس ضمن میں گفتار سے زیادہ کردار کی اہمیت ہے لہٰذا عملی نمونہ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
- سرحد میں نفاذ اسلام کی حکمت کے ساتھ منصوبہ بندی کی جائے۔ اس کے لیے ہم بھی ہر ممکن اور غیر مشروط تعاون کریں گے اور عوام بھی ساتھ دیں گے۔
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ
جامعہ پنجاب میں شعبہ صحافت کے سینئر استاد ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کی گفتگو کے مرکزی نکات یہ تھے:
- دینی عناصر نے میڈیا کو اہمیت نہیں دی اور اسے ہمیشہ غیر شریفانہ کام سمجھا ہے اس لیے الیکٹرانک میڈیا اور انگلش پریس میں خصوصاً اسلامی اثرات بالکل نہیں ہیں اور وہ ایسے لوگوں کے قبضے میں ہیں جنہیں اسلام اور پاکستان سے بہت کم دل چسپی ہے۔ دینی اہداف سے دل چسپی رکھنے والوں کو اپنے بچے یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں بھجوانے چاہییں اور انہیں میڈیا میں اپنا مستقبل بنانے کی ترغیب دینی چاہیے۔
- ایسی فلمیں اور ڈرامے بنانے چاہییں جو اسلامی تصورات کو ذہنوں میں راسخ کریں۔
- ایک ایسا ریسرچ سنٹر بنانا چاہیے جس میں موجودہ میڈیا پروگراموں کو سائنسی بنیادوں پر جانچا جائے اور ان کے نقصانات کا جائزہ لیا جائے اور پھر ان کے تدارک کی کوشش کی جائے۔ ایسا سنٹر اس وقت سارے ملک میں ایک بھی نہیں ہے۔ جو پروگرام پشاور میں مقامی طور پر تیار ہوتے ہیں، ان کو فوراً زیر نگرانی لے کر ان کا قبلہ درست کرنا چاہیے۔
- مسجد کا منبر ایک بڑی ابلاغی قوت ثابت ہو سکتا ہے بشرطیکہ اسے باشعور اور منظم طریقے سے استعمال کیا جائے۔
- ایم ایم اے کے موقف خصوصاً سرحد میں نفاذ اسلام کے حوالے سے لوگوں میں بہت کنفیوژن ہے اس لیے ایم ایم اے کو بیرون ملک اور اندرون ملک وفود بھیجنے چاہییں جو غلط فہمیوں کو دور کریں، ان کے نقطہ نظر کو پروموٹ کریں اور صحیح حقائق لوگوں کو بتائیں۔
پروفیسر عبد الجبار شاکر
بیت الحکمۃ لاہور کے ڈائریکٹر پروفیسر عبد الجبار شاکر نے اپنی مختصر گفتگو میں کہا کہ:
- نفاذ اسلام میں عصری تقاضوں کو پیش نظر رکھا جائے۔
- تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات لوگوں تک پہنچائی جائیں۔
- باہمی اتحاد کے لیے شعوری کوششیں کی جائیں مثلاً فرقہ وارانہ اختلافات پر کتابوں، پمفلٹوں اور اشتہاروں پر پابندی لگائی جائے۔
پروفیسر محمد ابراہیم
متحدہ مجلس عمل صوبہ سرحد کے رہنما پروفیسر محمد ابراہیم صاحب نے درج ذیل خیالات کا اظہار کیا:
- ہمارے سامنے فلاحی اسلامی ریاست کا تصور ہے لہٰذا ڈرنے کی ضرورت نہیں کہ ہم نفاذ اسلام کی ابتدا ہاتھ کاٹنے اور کوڑے مارنے سے کریں گے، لیکن جان ومال کے تحفظ اور امن وامان کی بحالی کے لیے حدود وقصاص کے نفاذ کی اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں اس لیے ان کے خلاف پراپیگنڈا بند ہونا چاہیے۔
- ہمیں احساس ہے کہ ہماری کام یابی اتحاد کا نتیجہ ہے اس لیے ہم ان شاء اللہ ہر قیمت پر اتحاد کو برقرار رکھیں گے۔
- ہم سادگی کو رواج دے رہے ہیں اور غیر ضروری پروٹوکول ختم کر رہے ہیں تاکہ عوام کو ہم تک پہنچنے میں مشکل پیش نہ آئے۔
- طالبان اچھے لوگ تھے لیکن وہ ہمارے لیے ماڈل نہیں ہیں۔ ہمارے لیے ماڈل صرف اور صرف نبی اکرم ﷺ کا اسوۂ حسنہ ہے۔
- ہم خواتین کالج اور خواتین یونیورسٹیاں بنائیں گے تاکہ جو بچیاں مخلوط ماحول میں تعلیم جاری نہیں رکھ سکتیں، وہ بھی تعلیم حاصل کر سکیں۔
- نفاذ اسلام کے لیے پشاور میں سینئر منسٹر کی کوٹھی میں ایک ریسرچ سنٹر بنا دیا گیا ہے اور ہم سب کام ان شاء اللہ تدبر اور حکمت سے کریں گے۔
حافظ حسین احمد
متحدہ مجلس عمل کے مرکزی راہنما اور ممبر قومی اسمبلی حافظ حسین احمد نے اپنے تفصیلی خطاب میں کہا کہ:
- نفاذ اسلام کے لیے ان شاء اللہ ہم پوری کوشش کریں گے لیکن لوگوں کو غالباً ہماری مشکلات کا پوری طرح اندازہ نہیں ہے۔ مرکزی حکومت ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہی بلکہ اس کا رویہ مزاحمانہ ہے۔ آئین میں صوبوں کو جو حقوق دیے گئے ہیں، وہ بھی صوبوں کو حاصل نہیں بلکہ صوبوں کے اختیارات سے متعلق آئین کی کئی شقیں اس وقت بھی معطل ہیں۔ سینٹ میں بھی حکومت نے ہوشیاری دکھائی ہے۔ بظاہر صوبوں میں مساوات دکھائی جاتی ہے لیکن فاٹا کے ارکان اور فیڈرل ایریا کے ارکان ہمیشہ حکومت کے قبضے میں ہوتے ہیں۔ہم صوبوں کے لیے اختیارات کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، اسی لیے ہماری کوشش ہے کہ جمالی حکومت مضبوط ہو کیونکہ جب تک وفاقی حکومت بے اختیار ہے، صوبوں کے پاس حقوق کہاں سے آئیں گے؟ لوکل گورنمنٹ کے ادارے کو صوبوں کے بالمقابل لاکھڑا کیا گیا ہے اور انہیں ایل ایف او کے ذریعے سے اس طرح براہ راست مرکز کے تحت کر دیا گیا ہے کہ اب صوبے صدر مملکت کی رضا مندی کے بغیر لوکل گورنمنٹ کے اداروں سے کوئی کام نہیں لے سکتے۔ ان سب امور کے پیش نظر ہماری کوشش ہے کہ صدر وردی اتاریں، نیشنل سکیورٹی کونسل ختم ہو اور اقتدار حقیقتاً مرکز میں سیاسی حکومت کو ملے۔
- ہمیں اتحاد کی قدروقیمت کا احساس ہے اور ہم ان شاء اللہ اسے برقرار رکھیں گے لیکن اختلافات سے گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ اختلافات تو ایک پارٹی کے اندر بھی ہوتے ہیں۔ ہمارا اتحاد دوسرے اتحادوں سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ عام طور پر منفی مقاصد کے لیے مثلاً کسی حکومت کو ہٹانے کے لیے اتحاد بنائے جاتے ہیں جو مقصد حاصل ہونے کے بعد ٹوٹ جاتے ہیں۔ ہمارے اتحاد کی ابتدا ہی حقیقتاً انتخابات جیتنے کے بعد ہوئی۔ یہ مشکل ترین بات ہے لیکن ہم ان شاء اللہ اس کو برقرار رکھیں گے۔
- ہم مجلس فکر ونظر کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس طرح کے سیمینار پشاور اور کوئٹہ میں بھی رکھے تاکہ ہمارے وزرا اس میں شریک ہو کر استفادہ کر سکیں۔
پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس / امریکی حملہ اور جامعہ ازہر کا فتویٰ / فاضل عربی کا نصاب
ادارہ
پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی کونسل کا اجلاس
پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی کونسل کا اجلاس ۱۶ فروری ۲۰۰۳ء کو جامع مسجد سلمان فارسی اسلام آباد میں پاکستان شریعت کونسل کے سربراہ مولانا فداء الرحمن درخواستی کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں مولانا زاہد الراشدی، مولانا عبد الرشید انصاری، مولانا عبد الخالق، مولانا محمد رمضان علوی، مولانا صلاح الدین فاروقی، مولانا قاری میاں محمد نقش بندی، مولانا مفتی سیف الدین، مولانا اکرام الحق صدیقی، احمد یعقوب چودھری، پروفیسر ڈاکٹر احمد خان، ڈاکٹر مسعود احمد اور دیگر حضرات نے شرکت کی۔
اجلاس میں مولانا مفتی سیف الدین نے شمالی علاقہ جات کے زلزلہ زدہ علاقوں کی تازہ ترین صورت حال سے شرکا کو آگاہ کیا اور ایک قرارداد کے ذریعہ مرکزی کونسل نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ شمالی علاقہ جات کی انتظامیہ مبینہ طور پر مذہبی تعصب کی وجہ سے متاثرہ علاقوں کی طرف ضروری توجہ نہیں دے رہی اور نہ صرف یہ کہ متاثرہ علاقوں سے عوام کی منتقلی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے بلکہ غریب عوام کے لیے باہر سے جانے والی امداد بھی مستحق لوگوں تک نہیں پہنچ رہی۔ قرارداد میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ خود امدادی سرگرمیوں کو کنٹرول کرے اور صدر اور وزیر اعظم فوری طور پر متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی غفلت ہزاروں خاندانوں کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔
پاکستان شریعت کونسل نے پاکستان کے بزرگ دینی وسیاسی رہنما اور جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے سابق امیر حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ماہنامہ انوار القرآن کراچی کے ضخیم نمبر کی اشاعت پر مسرت واطمینان کا اظہار کیا اور طے پایا کہ اس خصوصی اشاعت کی رونمائی کے لیے پریس کلب راول پنڈی میں ۵ مارچ بدھ کو ایک باوقار تقریب منعقد کی جائے گی جس میں دیگر راہ نماؤں کے علاوہ مولانا فضل الرحمن، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا سمیع الحق، راجہ محمد ظفر الحق، قاضی حسین احمد، مولانا محمد اعظم طارق، پروفیسر ساجد میر اور صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ محمد اکرم خان درانی کو بطور خاص شرکت وخطاب کی دعوت دی جائے گی۔ اس تقریب کے انتظامات کے لیے مولانا عبد الخالق، مولانا محمد رمضان علوی، احمد یعقوب چودھری، مولانا میاں محمد نقش بندی، ڈاکٹر احمد خان اعوان، شفیق الرحمن اور شاہد خان پر مشتمل انتظامیہ کمیٹی قائم کی گئی ہے۔
اجلاس میں عالم اسلام کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا گیا اور عراق پر امریکہ کے مجوزہ حملہ کے خلاف عالمی رائے عامہ کے منظم رد عمل پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ایک قرارداد میں کہا گیا کہ عالمی رائے عامہ کے رد عمل سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ خلیج میں تیل کے چشموں پر قبضے کے لیے عراق کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، امریکہ تمام بین الاقوامی اصول وضوابط کو پامال کرتے ہوئے عراق پر حملہ کر کے تیل کے چشموں پر قبضہ کرنے پر تل گیا ہے اور اس کی یہ ہٹ دھرمی پوری دنیا پر پوری طرح واضح ہو گئی ہے۔ قرارداد میں مسلم ممالک کی سربراہی تنظیم او آئی سی کے حالیہ کردار اور خاموشی کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ او آئی سی امریکہ کی حاشیہ برداری کی پالیسی پرنظر ثانی کرے اور عالم اسلام کے خلاف امریکہ کے معاندانہ عزائم کی روک تھام کے لیے جرات مندانہ موقف اور لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ عالم اسلام کی موجودہ صورت حال اور امریکہ کے معاندانہ کردار کے حوالہ سے پاکستان شریعت کونسل کی طرف سے ایک جامع عرض داشت اسلام آباد میں مسلم ممالک کے سفرا کو پیش کی جائے گی اور پاکستان شریعت کونسل کا وفد مسلم ممالک کے سفرا کے علاوہ پاکستان کے وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی اور پارلیمنٹ کے ارکان سے بھی ملاقات کرے گی۔ ان شاء اللہ العزیز
اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ افغانستان کے چیف جسٹس مولوی فضل ہادی شنواری کی طرف سے ملک میں کیبل نیٹ ورک اور فحاشی کے دیگر مراکز پر پابندی لگانے کے فیصلہ کا خیر مقدم کیا گیا اور پاکستان کی حکومت اور عدالت عظمیٰ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بھی افغانستان کی سپریم کورٹ کی طرح اسلامی تہذیب وثقافت کے تحفظ اور مغرب کی بے حیا اور عریاں ثقافت کی روک تھام کے لیے ٹھوس طرز عمل اختیار کریں اور پاکستان کی نظریاتی حیثیت اور تہذیبی تشخص کے تحفظ کے لیے کردار ادا کریں۔
اجلاس میں ایک اور قرارداد کے ذریعہ حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ملک میں سودی نظام کے خاتمہ کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں اور عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل سے ملک کو نجات دلانے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔
اجلاس میں متحدہ مجلس عمل کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے صوبہ سرحد میں اکرم درانی کی حکومت کی طرف سے اسلامی قوانین کے نفاذ کے عزائم اور اعلانات کاخیر مقدم کیا گیا اور اس سلسلے میں پاکستان شریعت کونسل کی طرف سے مکمل حمایت وتعاون کا یقین دلایا گیا۔
اجلاس میں بسنت اور ویلنٹائن ڈے کے نام پر بے حیائی اور رقص وسرود کے فروغ کی سرکاری پالیسی کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایک قرارداد میں کہا گیا کہ حکومتی طبقے ملک میں مغربی اور ہندو ثقافت کی ترویج کے لیے سرکاری وسائل استعمال کر کے پاکستان کے بنیادی نظریہ اور دستور کے تقاضوں سے انحراف کر رہے ہیں جس کا تمام محب وطن حلقوں کو نوٹس لینا چاہیے۔
اجلاس میں کشمیر، افغانستان، فلسطین، چیچنیا اور دنیا کے مختلف حصوں میں عالمی استعمار کے خلاف جنگ لڑنے والے مجاہدین کے ساتھ مکمل یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے ایک قرارداد کے ذریعہ ان کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا گیا۔
عراق پر امریکی حملہ اور جامعہ ازہر کا فتویٰ
مصر اور عالم عرب میں الازہر یونیورسٹی کے فتویٰ نے ایک تہلکہ مچا دیا ہے۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے فتویٰ کمیٹی کے سربراہ شیخ علی ابو الحسن کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔ مصر کے علاوہ دیگر عرب ملکوں کے علما اور دانش وروں میں بھی ایک ہل چل مچی ہوئی ہے۔ عالمی صہیونیت کے علم بردار شیخ پر الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے امریکی فوجیوں کے قتل کا فتویٰ دیا ہے جس سے ڈیڑھ لاکھ امریکی فوج کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا ہے جو اس وقت مشرق وسطیٰ میں عراق پر حملے کے لیے جمع ہے۔
شیخ کا کہنا ہے کہ صہیونی ان کے فتوے کو غلط رنگ میں پیش کر رہے ہیں چنانچہ لندن اور جدہ سے شائع ہونے والے ویکلی ’’المجلہ‘‘ کے نمائندے عوض الغنام اور احمد الخطیب نے مفتی الازہر اور فتویٰ کمیٹی کے سربراہ شیخ علی ابو الحسن کا انٹرویو لیا اور ان سے اصل حقیقت دریافت کی جس کی تفصیل یہ ہے:
سب سے پہلے یہ سوال کیا گیا کہ آپ کا اصل فتویٰ کیا تھا؟ شیخ علی نے بتایا کہ عالمی صہیونیت مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر جائز اور ناجائز حربہ استعمال کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ میرے فتوے کو بھی توڑ مروڑ کر غلط معنی پہنائے گئے ہیں۔ ہم نے کہا تھا کہ اگر عراق پر حملہ کسی جارحیت کے جواب میں ہوا یا کسی حق دار کو اس کا حق دلانے کے لیے ہوا تو یہ انصاف کی بات ہوگی اور شرعاً یہ جائز ہوگا۔ اگر امریکہ عراق پر حملہ اس لیے کرتا ہے کہ وہ ایک مسلمان ملک ہے اور وہ اس پر قبضہ کر کے دولت لوٹنا چاہتا ہے تو پھر امریکی فوجیوں کا خون مباح ہے اور ان سے لڑنا اور قتل کرنا جہاد ہوگا۔ یہاں امریکی ہونے کی وجہ سے کسی کے قتل کا فتویٰ نہیں ہے بلکہ ایک کمزور مسلمان قوم کے خلاف جارحیت کرنے والوں کے خون کو مباح قرار دیا گیا ہے۔
’’آپ ہی نے ۱۹۹۰ء میں فتویٰ دیا تھا کہ ’’ڈیزرٹ سٹارم‘‘ میں امریکی فوج کا ساتھ دینا جائز ہے مگر اب آپ اس کے خلاف فتویٰ دے رہے ہیں تو یہ تناقض نہیں ہے؟‘‘ اس سوال پر شیخ علی ابو الحسن نے کہا کہ اس وقت عراق نے اپنے برادر ملک کویت کے خلاف جارحیت کی تھی۔ امریکہ عراق کو اس سرکشی کی سزا دے کر کویت کے مسلمانوں کو ان کا حق دلا رہا تھا اور یہ ازروئے قرآن جائز ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں مفتی الازہر نے کہا کہ عراق کو غیر مسلح کرنا تو ایک بہانہ ہے۔ دراصل بش نے عالم اسلام کے خلاف صلیبی جنگ شروع کر رکھی ہے جو افغانستان سے ہوتے ہوئے اب عراق تک آن پہنچی ہے اور اگر عالمی صہیونیت کے مفاد میں لڑی جانے والی یہ صلیبی جنگ یہاں نہ رکی تو کل یمن کی باری، پھر کسی اور مسلمان ملک کی۔
اس سوال کے جواب میں کہ بش نے معذرت کے ساتھ کروسیڈ کے الفاظ واپس لے لیے تھے، شیخ نے کہا کہ جارج بش ایک طاقت ور ملک کے سربراہ ہیں، جلدی میں سچ ان کی زبان پر آ گیا۔ قرآن کہتا ہے: ’’نفرت اور بغض ان کی زبانوں پر آ گیا ہے، مگر جو کچھ ابھی ان کے سینوں میں بھرا ہے، وہ اس سے بھی بڑا ہے۔‘‘ امریکی اور اسرائیل کے صہیونی تو اسلام کو سب سے بڑا خطرہ کہتے ہیں۔
اس سوال پر کہ امریکی فوج کے ساتھ کوئی سپاہی اپنے ملک کے حکم پرعراق کے خلاف لڑتا ہے تو جائز ہوگا؟ شیخ نے کہا کہ ہمارا وطن دین اسلام ہے۔ ہم اپنی اسلامی سرزمین کا دفاع تو ضرور کریں گے مگر مسلمان کا وطن تو سارا جہاں ہے، وہ تو صرف حق اور سچ کا ساتھ دیتا ہے۔
شیخ سے پوچھا گیا کہ آپ کے اس فتوے پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا ہے، آپ کے ملک کی سیاسی قیادت آپ سے ناراض نہیں ہوئی؟ تو انہوں نے کہا کہ مصر کی سیاسی قیادت حقائق سے آگاہ ہے۔ پھر شیخ الازہربھی تو فرما چکے ہیں کہ عراق کے خلاف مدد ناجائز ہے۔ سب کو علم ہے کہ عالم اسلام اپنی تاریخ کے مشکل ترین مرحلے سے گزر رہا ہے۔ اسرائیل کے پاس بھی تو بڑی تباہی کا اسلحہ ہول ناک مقدار میں موجود ہے مگر بش کو صرف مسلمانوں کا اسلحہ نظر آتا ہے۔
امریکہ بھی تو ۱۱ ستمبر کی دہشت گردی کے نتیجے میں اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اس سوال کے جواب میں الازہر یونیورسٹی کی فتویٰ کمیٹی کے سربراہ نے کہا کہ جارج بش نے بغیر تحقیق کے ہی اسامہ بن لادن کو ملزم ٹھہرایا۔ پھر اس ایک فرد کو سزا دینے کے لیے لاکھوں افغانیوں کو موت کی نیند سلا دیا اور اب باقی اسلامی ملکوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ انصاف نہیں، ظلم ہے۔ ایک فرد کی وجہ سے پوری اسلامی دنیا کو سزا دیان صرف یہودیوں کی خواہش ہے جو کبھی پوری نہیں ہوگی۔
پوچھا گیا کہ آپ نے تو یہودیوں کا خون بھی مباح قرار دیا ہے تو شیخ علی نے جواب دیا کہ یہودی اہل کتاب ہیں، جن کا تحفظ اور ان سے نیکی کے لیے تعاون ہمارا ایمان ہے۔ بات دراصل عالمی صہیونیت کی ہے۔ صہیونیوں نے اسلام کو اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے بدنام کر کے مسلمانوں کے خلاف دنیا میں زہر پھیلا رکھا ہے۔ ہمارا فتویٰ صہیونیوں کی اس عداوت، نفرت اور انتقام کے خلاف ہے۔ ہم نے صرف ان کے خون کو مباح قرار دیا ہے۔ انہوں نے ہی دنیا کے امن کو داؤ پر لگا رکھا ہے۔
( رپورٹ: ڈاکٹر ظہور احمد اظہر۔ بہ شکریہ روزنامہ ’’خبریں‘‘ لاہور)
فاضل عربی کا نصاب اور ’پاکستان عربی سوسائٹی‘ کی تجاویز
عربی زبان کے ممتاز ادیب اور پاکستان عربی سوسائٹی کے صدر مولانا محمد بشیر نے انٹر بورڈز کمیٹی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فاضل عربی کے ڈیڑھ سو سالہ پرانے نصاب تعلیم کو تبدیل کر کے اسے نئے حالات اور تقاضوں کے مطابق اس طرح ترتیب دے کہ اسے پڑھنے والے طلبہ اور طالبات عربی زبان اور شرعی علوم کے بنیادی اور ضروری فنون سے واقعتاً آگاہ ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ فاضل عربی کا نصاب متحدہ ہندوستان میں برطانوی دور حکومت میں اس پس منظر میں مرتب کیا گیا تھا کہ اس کا مطالعہ اور تیاری ایسے طلبہ کرتے تھے جو اس وقت کے دینی مدارس میں پانچ یا چھ سال تک علوم اسلامیہ اور عربی زبان کے جملہ فنون کی باقاعدہ تعلیم حاصل کر چکے ہوتے تھے اس لیے اس وقت کے نوجوان علما مدارس سے فراغت کے بعد نئی تیاری کر کے یہ امتحان دیا کرتے تھے جبکہ فاضل عربی کی سند علما کی سب سے بڑی ڈگری شمار ہوتی تھی اس لیے ماضی میں ہمارے کئی اکابر علما کے پاس اپنی دینی درس گاہ کی سند کے علاوہ حکومت سے منظور شدہ صرف یہی سند ہوتی تھی جس کی بنیاد پر وہ اونچے اونچے مناصب پر تعینات ہوتے چلے آ رہے تھے۔ بعد میں مختلف اسباب کی بنا پر اس نصاب کے حاملین کا معیار بتدریج گرتا رہا اور اب اسے پڑھنے اور اس کا امتحان پاس کرنے والے کا معیار گرتے گرتے زیرو تک پہنچ چکا ہے۔ اب یہ بات سب جانتے ہیں کہ وہ صرف ایسے خلاصوں اور گائیڈوں کو دیکھ کر ہی امتحان کی تیاری کرتے ہیں جو نہایت فرسودہ اور طرح طرح کی اغلاط سے پر ہوتے ہیں اور اصل کتابوں کو کوئی پڑھتا ہے نہ دیکھتا ہے۔ یہ افسوس ناک صورت حال ہمارے دینی تصورات اور دینی علوم سے محبت کے یکسر منافی ہے۔
ان حالات میں پاکستان عربی سوسائٹی نے فاضل عربی کے نصاب تعلیم اور امتحان کی اصلاح وترقی کے لیے ماہرین تعلیم، علماء کرام اور عربی معلمین پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کر دی ہے جو نیا نصاب مرتب کرکے اسے متعلقہ بورڈ سے منظور کرائے گی۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ انٹر بورڈز کمیٹی اس بارے میں اپنے فرائض کو ادا کرتے ہوئے اس اہم کورس کی جلد اصلاح کرے گی۔انہوں نے اس موضوع سے دل چسپی رکھنے والے علما اور اساتذہ سے درخواست کی ہے کہ وہ اس بارے میں کمیٹی کی راہ نمائی کریں اور اپنی تجاویز اور آرا کو مرتب کر کے کمیٹی کو ارسال کریں۔ عربی سوسائٹی کے صدر نے اعلان کیا ہے کہ وہ ان شاء اللہ تعالیٰ اس کورس کی تمام نصابی اور معاون کتابوں کو ایک سال کے اندر پوری صحت کے ساتھ اور نہایت خوب صورت طباعت میں شائع کرنے کا اہتمام کریں گے۔
اس سلسلے میں مزید معلومات کے لیے پاکستانی عربی سوسائٹی، 96 آئی اینڈ ٹی سنٹر، جی نائن ون اسلام آباد سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ فون : 2253733
تعارف و تبصرہ
ادارہ
ماہنامہ انوار القرآن کا ’’حافظ الحدیث نمبر‘‘
حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی قدس اللہ سرہ العزیز کی علمی ودینی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کی جدوجہد اور تعلیمات وافکار سے نئی نسل کو روشناس کرانے کے لیے جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن نارتھ کراچی کے ترجمان ماہنامہ انوار القرآن نے ’’حافظ الحدیث نمبر‘‘ کے عنوان سے ایک خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا ہے جس میں ملک کے نامور علماء کرام اور اصحاب قلم کی نگارشات کے علاوہ حضرت درخواستی کے حالات زندگی اور ان کے ارشادات وفرمودات کا بھی ایک اہم حصہ شامل ہے۔ ہمارے فاضل دوست مولانا عبد الرشید انصاری نے حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی کی نگرانی میں اس نمبر کی تیاری اور اسے ایک جامع اشاعت بنانے میں جو محنت کی ہے، وہ قابل داد ہے اور حضرت درخواستی کے معتقدین ومتوسلین کی ایک دیرینہ خواہش کافی حد تک اس سے پوری ہو گئی ہے۔
سات سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ ضخیم نمبر خوب صورت ٹائٹل اور مضبوط جلد کے ساتھ مزین ہے اور طباعت وکمپوزنگ کے ساتھ ساتھ کاغذ بھی عمدہ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کی قیمت ۳۰۰ روپے ہے اور جامعہ انوار القرآن، آدم ٹاؤن، 11-C-1 نارتھ کراچی کے دفتر سے اسے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’وقفۃ مع اللامذہبیۃ فی شبہ القارۃ الہندیۃ‘‘
بھارت کے ممتاز عالم دین مولانا محمد ابوبکر غازی پوری نے علماء دیوبند کے بارے میں عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب میں غیر مقلدین کی طرف سے پھیلائی گئی غلط فہمیوں کے پس منظر میں علماء دیوبند کے عقائد کی وضاحت کے ساتھ اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ اس بات کا باحوالہ تذکرہ کیا ہے کہ غیر مقلدین کی طرف سے اکابر علماء دیوبند کے خلاف جو الزامات عائد کیے جاتے ہیں، خود غیر مقلدین کے اکابر علما بھی انہی امور کے قائل اور ان پر عامل چلے آ رہے ہیں اور ان کا سعودی عرب کی اس سلفی تحریک کے ساتھ کوئی فکری یا عملی تعلق نہیں ہے جو نجد کے نامور مصلح الشیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ تعالیٰ نے شروع کی تھی۔
کتاب عربی میں ہے اور عرب علما کے لیے ہی لکھی گئی ہے۔ اڑھائی سو سے زائد صفحات کی یہ مجلد کتاب مکتبہ فاروقیہ پوسٹ بکس ۱۱۰۲۰ شاہ فیصل کالونی نمبر ۴ کراچی نے شائع کی ہے۔
’’پادریوں کے کرتوت‘‘
جناب محمد متین خالد ایک صاحب مطالعہ اور باہمت نوجوان ہیں جو قادیانیوں اور بعض مسیحی اداروں کی اسلام دشمن سرگرمیوں کے تعاقب میں ایک عرصہ سے سرگرم عمل ہیں۔ قرآن کریم نے مسیحیت کے بارے میں فرمایا ہے کہ رہبانیت اور ترک دنیا کا طریقہ خود انہوں نے اپنے لیے اختیار کیا تھا لیکن وہ اس کی رعایت نہ رکھ سکے۔ اس کا سب سے بڑا مظہر مسیحی چرچ کے وہ مذہبی پیشوا ہیں جن کے لیے شادی تو شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہے اور نن کے نام پر بے شمار لڑکیوں کو بھی شادی کے حق سے محروم کر کے تقدس کے نام پر تجرد کی زندگی اختیار کرنے پر آمادہ کیا جاتا ہے لیکن تقدس کی آڑ میں ان چرچوں میں جو گل کھلائے جاتے ہیں، وہ مذہبی تاریخ کا ایک شرم ناک باب ہیں اور صدیوں سے اس کی داستانیں زبان زد عوام ہیں۔
جناب محمد متین خالد نے پادری صاحبان کی جنسی زندگی اور وارداتوں کے بارے میں مختلف اصحاب قلم اور محققین کی نگارشات کو مرتب انداز میں پیش کیا ہے اور خود بھی بعض مضامین میں اس سلسلے میں معلوماتی مواد کا اضافہ کیا ہے۔
ساڑھے پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب خوب صورت ٹائٹل اور عمدہ طباعت سے مزین ہے جس کی قیمت ۲۵۰ روپے ہے اور اسے علم وعرفان پبلشرز ۳۴/بی ارو بازار سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’ایشیا کا مقدمہ‘‘
ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد دور حاضر کے مسلم حکمرانوں میں اس لحاظ سے خصوصی امتیاز کے حامل ہیں کہ وہ نہ صرف عالمی استعمار کے عزائم اور اسلام وعالم اسلام کے خلاف مغرب کی سازشوں سے بخوبی آگاہ ہیں بلکہ وقتاً فوقتاً جرات کے ساتھ ان کے بارے میں اظہار خیال بھی کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ قبل ’’ایشیا کامقدمہ‘‘ کے عنوان سے اپنی کتاب میں ایشیا کے خلاف مغربی ملکوں کے استعماری عزائم اور طریق کار کو بے نقاب کیا تھا۔ خواہش تھی کہ اس کتاب کا اردو ترجمہ ہو جائے تو ہم جیسے لوگ بھی اس سے استفادہ کر سکیں۔
جمہوری پبلی کیشنز، ۹/ الشجر بلڈنگ، نیلا گنبد لاہور نے یہ ترجمہ پیش کیا ہے جو جناب نعیم قادر کی کاوش کا نتیجہ ہے اور جناب فرخ سہیل گوئندی نے اس کا پیش لفظ تحریر کیا ہے۔ ایک سو تیس صفحات کی اس مجلد کتاب کی قیمت ڈیڑھ سو روپے ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے ہر دینی اور سیاسی کارکن کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ازحد ضروری ہے۔
ایام حج وزیارت مدینہ کی یاد میں
سید سلمان گیلانی
کس منہ سے کروں شکر ادا تیرا خدایا
اک بندۂ ناچیز کو گھر اپنا دکھایا
واللہ اس اعزاز کے قابل میں کہاں تھا
یہ فضل ہے تیرا کہ مجھے تو نے بلایا
جس گھر کے ترے پاک نبی نے لیے پھیرے
صد شکر کہ تو نے مجھے گرد اس کے پھرایا
لگتا نہ تھا دل اور کسی ذکر میں میرا
لبیک کا نغمہ مجھے اس طرح سے بھایا
مزدلفہ وعرفات ومنیٰ وصفا مروہ
ہر جا تری رحمت نے گلے مجھ کو لگایا
ہوتی رہی بارش تری رحمت کی بھی چھم چھم
مجھ کو بھی بہت میری ندامت نے رلایا
محشر میں بھی رکھ لینا بھرم اپنے کرم سے
جیسے میرے عیبوں کو ہے دنیا میں چھپایا
محشر میں بھی کوثر کا مجھے جام عطا ہو
جیسے یہاں پانی مجھے زم زم کا پلایا
جیسے یہاں سایہ ترے کعبے کا ملا ہے
محشر میں بھی حاصل ہو ترے عرش کا سایا
مت پوچھیے مکے میں جو گزرے مرے ایام
ہر آن نیا کیف نیا لطف اٹھایا
مکے سے مدینے کے سفر کو جو میں نکلا
بے نام سا اک خوف تھا دل پر مرے چھایا
ہمت نہیں پاتا تھا کروں سامنا ان کا
ہر پل تو بغیر ان کی اطاعت کے گنوایا
وہ تو کہو یاد ان کا کرم آ گیا مجھ کو
ہر رنج والم دل سے لگا اس نے مٹایا
رفتار تھی اس شوق کی پھر دیکھنے والی
خود سے بھی قدم دو قدم آگے اسے پایا
ہونٹوں پہ درودوں کے مچلنے لگے نغمے
جب دور سے ہی گنبد خضرا نظر آیا
کچھ عرض زباں سے تو وہاں کرنا ہے مشکل
حال اپنا بس اشکوں کی زبانی ہی سنایا
جتنا بھی کروں ناز مقدر پہ وہ کم ہے
سرکار نے اپنا مجھے مہمان بنایا
سلمان مرے دل میں جو کعبے کے ہیں جلوے
آنکھوں میں مری گنبد خضرا ہے سمایا
اپریل ۲۰۰۳ء
دور جدید میں اجتہاد کی ضرورت اور دائرۂ کار
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
(۱۸ مارچ ۲۰۰۳ء کو شیخ زاید اسلامک سنٹر، پنجاب یونیورسٹی، لاہور میں ’’اجتہاد‘‘ کے موضوع پر منعقد ہونے والے سیمینار میں پڑھا گیا۔)
نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم وعلی آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔ اما بعد۔
شیخ زاید اسلامک سنٹر جامعہ پنجاب کی ڈائریکٹر محترمہ ڈاکٹر شوکت جمیلہ صاحبہ کا شکر گزار ہوں کہ آج کی اس محفل میں حاضری اور اظہار خیال کا موقع فراہم کیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دیں اور ہمیں مقصد کی باتیں کہنے اور سننے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین
اجتہاد کا مفہوم اور اس کی ضرورت
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کہ جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ہیں اور ان کے ساتھ ہی آسمان سے نازل ہونے والی وحی کا سلسلہ مکمل ہو گیا ہے، اب قیامت تک کوئی نبی نہیں پیدا ہوگا اور نہ ہی کوئی وحی نازل ہوگی اور اس کے ساتھ اس عقیدہ کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ قیامت تک نسل انسانی کی ہدایت، راہ نمائی، فلاح اور نجات قرآن کریم اور جناب نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات میں منحصر ہے تو منطقی طور پر یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ زمانہ اور وقت تو ایک جگہ اور ایک کیفیت پر ٹھہرنے والی چیز نہیں ہے، اس میں مسلسل تغیر رونما ہوتا رہتا ہے، انسانی سوسائٹی تغیر اور ارتقا کے مراحل سے پیہم گزر رہی ہے اور دنیا کے احوال وظروف میں تبدیلیاں انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، پھر اس مسلسل اور پیہم تغیر پذیر دنیا اور سوسائٹی میں نئے احوال وظروف سے عہدہ برآ ہونے کے لیے انسانی معاشرہ کی راہ نمائی کا نظام کیا ہے؟ اور سلسلہ وحی مکمل ہو جانے کے بعد قیامت تک آنے والے انسانوں کا آسمانی تعلیمات کے ساتھ رشتہ کیسے قائم رہے گا؟ مغرب نے تو یہ کہہ کر اس سارے قضیے سے پیچھا چھڑا لیا ہے کہ انسانی سوسائٹی اب بالغ ہو گئی ہے اور اپنا برا بھلا خود سمجھنے لگی ہے اس لیے اسے آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی ڈکٹیشن کی سرے سے ضرورت ہی نہیں رہی، اب اس کے فیصلے خود اس کے ہاتھ میں ہیں۔ انسانی سوسائٹی کی اکثریت جو چاہے اور انسان کی اجتماعی عقل وخرد جو سمجھے، وہی حرف آخر ہے اور اسے مزید کسی نگرانی اور چیک کی حاجت نہیں ہے لیکن مسلمانوں کے لیے یہ بات کہنا اور اسے قبول کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ انسانی سوسائٹی کسی مرحلہ میں بھی آسمانی تعلیمات سے بے نیاز نہیں رہ سکتی اور انسانی معاشرہ کو شخصی، طبقاتی یا اجتماعی طور پر کبھی بھی یہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا کہ وہ وحی الٰہی سے لا تعلق ہو کر اپنے فیصلوں میں غیر مشروط طور پر آزاد ہو اس لیے قیامت تک انسانی سوسائٹی کی راہ نمائی کے لیے آسمانی تعلیمات کا تسلسل ضروری ہے۔
قرآن کریم اور جناب نبی اکرم ﷺ کی سنت وتعلیمات دونوں تاریخ کے ریکارڈ پر محفوظ حالت میں موجود ہیں اور دنیا بھر میں شب وروز ان کی تعلیم وتدریس اور تبلیغ واشاعت کا سلسلہ جاری ہے لیکن ظاہر ہے کہ ان میں انسانی زندگی کو قیامت تک پیش آنے والے حالات ومسائل کی تفصیلات موجود نہیں ہیں اور نہ ہی موجود ہو سکتی ہیں اس لیے اسلام نے بعد میں رونما ہونے والے حالات وواقعات اور مشکلات ومسائل کے حوالہ سے انسانی معاشرہ کو قرآن وسنت کے دائرہ کا پابند رکھتے ہوئے جزئیات وفروعات میں حالات ومواقع کی مناسبت سے قرآن وسنت کی اصولی راہ نمائی کی روشنی میں عقل وقیاس کے ساتھ فیصلے کرنے کا اختیار دے دیا ہے اور اسی اختیار کو شریعت کی اصطلاح میں ’’اجتہاد‘‘ کہتے ہیں۔
جن مسائل میں قرآن وسنت کی واضح راہ نمائی موجود نہیں ہے، ان میں قرآن وسنت کی روشنی میں رائے اور اجتہاد کے ساتھ فیصلہ کرنے کا یہ عمل صحابہ کرامؓ میں خود جناب نبی اکرم ﷺ کے دور میں بھی جاری تھا۔ احادیث کے ذخیرے میں بیسیوں ایسے واقعات ملتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ میں سے کسی کو کوئی معاملہ درپیش ہوا، قرآن کریم کا کوئی واضح حکم سامنے نہیں تھا، جناب نبی اکرم ﷺ تک فوری رسائی بھی ممکن نہیں تھی تو متعلقہ حضرات نے اپنی رائے سے ایک فیصلہ کر لیا اور اس پر عمل کر گزرے۔ بعد میں جناب نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں بات پیش کی گئی تو آنحضرت ﷺ نے یہ تو کیا کہ کسی کے عمل کی توثیق کر کے اسے سند جواز عطا فرما دی اور کسی کے عمل کو خطا قرار دے دیا لیکن کبھی بھی نبی اکرم ﷺ نے اس ’’اختیار‘‘ کی نفی نہیں فرمائی کہ قرآن وسنت کی واضح راہ نمائی موجود نہ ہونے کی صورت میں وہ اپنی رائے اور اجتہاد سے فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔
اس حوالے سے حضرت معاذ بن جبلؓ کی مشہور روایت کی ترتیب بھی یہی ہے کہ انہیں یمن کا عامل وقاضی بناتے ہوئے نبی اکرم ﷺ نے پوچھا کہ کسی مسئلہ میں قرآن کریم اور سنت نبوی سے راہ نمائی نہ ملی تو وہ کیا کریں گے؟ انہوں نے فرمایا کہ اجتہد برایی، میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا تو جناب نبی اکرم ﷺ نے ان کے اس جواب پر خوشی کا اظہار کر کے اس بات کی توثیق وتصدیق فرما دی۔
عمل اجتہاد کا تاریخی ارتقا
جناب نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد صحابہ کرامؓ کے پورے دور میں اسی اصول کے مطابق نئے پیش آمدہ مسائل کے فیصلے ہوتے رہے اور اس کے لیے باقاعدہ اصول وضوابط طے کرنے کا کام بھی انہی کے دور میں شروع ہو گیا جیسا کہ حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اور بعض دیگر اکابر صحابہ کرامؓ کے متعدد ارشادات سے اس کی نشان دہی ہوتی ہے۔ صحابہ کرامؓ چونکہ براہ راست چشمہ نبوت سے فیض یاب تھے اور جناب نبی اکرم ﷺ کے مزاج اور سنت کو اچھی طرح سمجھتے تھے اس لیے اجتہاد کے حوالہ سے کسی واضح درجہ بندی، اصول وضوابط اور دائرہ کار کے تعین کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں کی گئی البتہ بعد کے ادوار میں ’’اجتہاد‘‘ کے اس عمل کو ہرکس وناکس کی جولان گاہ بننے سے بچانے کے لیے یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اس کے اصول وقوانین طے کیے جائیں، دائرہ کار کی وضاحت کی جائے، درجہ بندی اور ترجیحات کا تعین کیا جائے اور اہلیت وصلاحیت کا معیار بھی طے کر لیا جائے تاکہ قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح اور نئے پیش آمدہ مسائل کے شرعی حل کا یہ مقدس عمل بازیچہ اطفال بننے کے بجائے صحیح رخ پر منظم ہو اور امت کی فکری وعملی راہ نمائی کا موثر ذریعہ ثابت ہو، چنانچہ بیسیوں مجتہدین اور ائمہ کرامؒ نے اس کے لیے انفرادی واجتماعی محنت کی اور کم وبیش تین سو برس تک عالم اسلام کے مختلف حصوں اور امت کے مختلف گروہوں میں جاری رہنے والے متنوع علمی مباحث کے نتیجے میں وہ منظم فقہی مکاتب فکر وجود میں آئے جنہیں آج حنفی، مالکی، شافعی ، حنبلی اور دوسرے عنوانات کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے اور جو بعد کی صدیوں میں کم وبیش ساری امت کو اپنے دائروں میں سمیٹتے چلے آ رہے ہیں۔
البتہ یہ فرق ضرور سامنے آیا کہ ابتدائی صدیوں میں اجتہاد کا عمل ان فقہی مکاتب فکر کی طرز کے متعین اصول وضوابط کے دائروں کا پابند نہیں تھا اور آزادانہ اجتہاد کے ذریعہ مجتہدین اپنے اپنے علاقوں میں امت کی راہ نمائی کا فریضہ سرانجام دیتے تھے مگر ان فقہی مکاتب فکر کے منظم ہونے کے بعد اجتہاد کے اصول وضوابط طے کرنے کا کام جاری نہ رہا اور انہی کے واضح کردہ اصول وقوانین کی پابندی کرتے ہوئے عملی دائروں میں اجتہاد کا سلسلہ بدستور چلتا رہا۔ یہ ایک فطری عمل ہے کہ کسی بھی علم کے بنیادی اصول وضوابط کے تعین کا ایک خاص وقت ہوتا ہے، یہ وہی وقت ہوتا ہے جب وہ تشکیل وتدوین کے مراحل سے گزر رہا ہو۔ اور جب وہ تشکیل وتدوین کے ایک خاص مرحلہ تک پہنچتا ہے تو بنیادی اصول وضوابط کے وضع کرنے کا عمل ضرورت پوری ہو جانے کی وجہ سے خود بخود رک جاتا ہے اور اس کے بعد اس علم نے ہمیشہ انہی بنیادی اصولوں کے دائرے میں آگے بڑھنا ہوتا ہے جو اس کے لیے ابتدا میں طے کر دیے جاتے ہیں۔ ان اصول کے دائرہ میں اس علم کا ارتقا جاری رہتا ہے لیکن اس کے بنیادی اصولوں کو نہ کبھی چیلنج کیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں جامد قرار دے کر تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر علم صرف کو سامنے رکھا جا سکتا ہے کہ اس کے اصول اور بنیادی قوانین انسانوں نے ہی وضع کیے ہیں اور ماضی، مضارع، فاعل، امر، نہی اور ظرف وغیرہ کے صیغوں کی تشکیل اور دیگر ضوابط ایک دور میں صرف کے اماموں نے طے کیے ہیں، ان میں جزوی ترمیمات وتوضیحات ہر دور میں ہوتی رہی ہیں لیکن بنیادی قواعد کا ڈھانچہ وہی چلا آ رہا ہے جو اس کے ابتدائی ائمہ نے طے کر دیا تھا۔ اسے نہ تو کسی بھی دور میں چیلنج کرنے کا کوئی جواز ہے اور نہ ہی یہ سوال اٹھانا عقل مندی کی بات ہوگی کہ ڈیڑھ ہزار سال قبل کے لوگوں کو قواعد وضوابط بنانے کا حق تھا تو آج کے ترقی یافتہ دور میں یہ حق ہمیں کیوں حاصل نہیں ہے؟ ہم ان قواعد وضوابط میں اضافہ کر سکتے ہیں، ان کی ضرورت کے مطابق نئی تشریحات کر سکتے ہیں لیکن اس کے بنیادی ڈھانچہ کی نفی نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس کی نسبت تبدیل کر سکتے ہیں کہ یہ اعزاز تقدیر وتاریخ میں جن کے لیے طے تھا، ان کو مل چکا ہے اور اب قیامت تک ان سے یہ کریڈٹ چھینا نہیں جا سکتا۔
علماء، دور جدید اور اجتہاد
آج کل عام طور پر ایک بات تسلسل کے ساتھ کہی جا رہی ہے کہ علماء کرام نے ’’اجتہاد‘‘ کا دروازہ بند کر دیا ہے اور جمود کو امت پر مسلسل مسلط کر رکھا ہے جس کی وجہ سے امت پر ترقی کے دروازے مسدود ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اس مرحلہ پر اس سوال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے لیا جائے تو مناسب بات ہوگی۔
جہاں تک اجتہاد کے بنیادی اصول وضوابط کے تعین کی بات ہے، اس کا دروازہ تو ابتدائی تین صدیوں کے بعد سے اس لحاظ سے بند ہے کہ اس کے بعد اجتہاد کا عمل انہی دائروں میں ہوتا آ رہا ہے جو مسلمہ فقہی مکاتب فکر نے طے کر دیے تھے اور یہ دروازہ کسی کے بند کرنے سے بند نہیں ہوا بلکہ ضرورت پوری ہو جانے کے بعد فطری طور پر خود بخود بند ہو گیا ہے جیسا کہ کسی بھی علم کا فطری پراسیس ہوتا ہے، البتہ مسلمہ فقہی مکاتب فکر کے متعین کردہ اصولوں کے دائرہ میں اجتہاد کا معاملہ قدرے تفصیل طلب ہے۔ ہمارے خیال میں جو فقہ جس دور میں بھی کسی اسلامی مملکت کا قانون رہی ہے، اس میں وقت کی رفتار اور ضرورت کے مطابق اجتہاد کا عمل بھی جاری رہا ہے۔ اس اجتہاد میں نئے پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ پرانے فقہی فتاویٰ پر نظر ثانی کا عمل بھی شامل ہے۔ خلافت عثمانیہ اور جنوبی ایشیا کی مغل حکومت دونوں کا قانون فقہ حنفی پر مبنی تھا۔ خلافت عثمانیہ میں ’’مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ کی تدوین اور مغل حکومت میں ’’فتاویٰ عالم گیری‘‘ کی ترتیب کے کام پر نظر ڈال لیجیے، آپ کو سابقہ فقہی فتاویٰ پر نظر ثانی اور نئے مسائل کے حل کی اجتہادی کاوشیں دونوں جگہ یکساں دکھائی دیں گی۔ موجودہ دور میں سعودی عرب میں حنبلی فقہ کی عمل داری ہے، آپ اس کا جائزہ لیں گے تو سعودی قضاۃ کے فیصلوں میں آپ کو حنبلی فقہ اب سے دو سو برس قبل کی جزئیات کی شکل میں نہیں بلکہ آج کی ضروریات اور تقاضوں کے حوالے سے جدید اجتہادات کی روشنی میں آگے بڑھتی نظر آئے گی۔ اسی طرح اہل تشیع نے ایران میں فقہ جعفری کو ملکی قانون کا درجہ دیا ہے تو یقیناًانہوں نے صدیوں پہلی کتابیں اٹھا کر انہیں عدالتی قانون کی حیثیت نہیں دے دی بلکہ آج کے حالات اور تقاضوں کے مطابق انہیں جدید اجتہادات کے ساتھ جدید قانونی زبان اور اصطلاحات کے ذریعہ نافذ العمل بنایا ہے۔
یہ فقہی مذاہب کے اس کردار کی بات ہے جو انہوں نے مختلف ممالک میں سرکاری مذاہب کے طور پر ادا کیا ہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ اس سے ہٹ کر پرائیویٹ سیکٹر میں دیکھ لیجیے۔ ہمارے ہاں جنوبی ایشیا میں مغل اقتدار کے خاتمہ کے بعد اجتہاد اور افتا کا یہ عمل عدالت اور سرکار کے دائرہ سے نکل کر عوامی حلقوں میں آ گیا تھا۔ اس خطے میں گزشتہ دو صدیوں کے دوران سینکڑوں دار الافتا قائم ہوئے ہیں جو اب بھی کام کر رہے ہیں اور ان میں سے بیسیوں کو علمی وعوامی حلقوں میں اس درجہ کا اعتماد حاصل ہے کہ دینی معاملات میں ان کی بات کو حرف آخر سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے بلا مبالغہ لاکھوں فتاویٰ جاری کیے ہیں جو کئی ضخیم کتابوں کی صورت میں مارکیٹ میں موجود ہیں۔ اگر اہل علم کی کوئی ٹیم اس کام کے لیے مقرر کی جائے کہ وہ ان فتاویٰ کا جائزہ لے کر یہ تجزیہ کرے کہ ان میں کتنے فتوے ایسے ہیں جن میں ان مفتیان کرام نے اجتہادی صلاحیت سے کام لیتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں جدید مسائل کے نئے حل پیش کیے ہیں تو ہمارے محتاط اندازے کے مطابق ان کا تناسب مجموعی فتاویٰ کے بیس فی صد سے کسی طرح کم نہیں ہوگا۔ آپ ان کے فتاویٰ سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اس بات سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ انہوں نے نئے مسائل کا سامنا کیا، ان کے حل کے لیے اجتہاد کا عمل اختیار کیا اور جدید مسائل میں مسلمانوں کی راہ نمائی کی ہے۔
ہم تھوڑا سا اور آگے بڑھ کر ایک دو حوالے اور دینا چاہیں گے۔ ایک یہ کہ پاکستان بننے کے بعد جب یہ سوال اٹھا کہ اسلامی نظام کا نفاذ کس مذہبی فرقہ کی تشریحات کے مطابق ہوگا تو تمام مذہبی مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام جمع ہوئے۔ علامہ سید سلیما ن ندویؒ کی سربراہی میں انہوں نے ۲۲ متفقہ دستوری نکات طے کر کے واضح کر دیا کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے حوالہ سے مذہبی مکاتب فکر میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ان دستوری نکات کو مذہبی مکاتب فکر کے اتحاد اور اتفاق کے مظہر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ یہ بات درست ہے، لیکن ہمارے نزدیک تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام کے ۲۲ متفقہ دستوری نکات اتحاد امت کا مظہر ہونے کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے کہیں زیادہ اہم اور حساس ملی معاملات میں اجتہادی عمل کے آئینہ دار بھی ہیں۔ ان میں سے ایک ایک نکتہ اجتہادی عمل کی عکاسی کرتا ہے اور ان سرکردہ علماء کرام کی اجتہادی صلاحیتوں کی علامت ہے۔ مثال کے طور پر ان علماء کرام نے متفقہ طور پر طے کیا کہ ایک اسلامی ریاست میں حکومت کی تشکیل عوام کے ووٹوں سے ہوگی اور منتخب قیادت ہی ملک پر حکمرانی کی اہل ہوگی۔ ہمارے خیال میں یہ اتنا بڑا اجتہادی فیصلہ ہے جسے خلافت عثمانیہ اور مغل حکومت کے صدیوں سے چلے آنے والے خاندانی سیاسی ڈھانچوں کے تناظر میں گزشتہ صدی کے دوران علماء کرام کا سب سے بڑا اجتہادی فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس ضمن میں ایک اور بات پر غور کر لیا جائے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد علماء کرام نے ۲۲ دستوری نکات میں وحدانی طرز حکومت کو ملک کے لیے موزوں قرار دیا تھا لیکن جب ۷۳ء کے دستور کی تشکیل کے دوران انہوں نے حالات کا تقاضا دیکھا تو وحدانی طرز حکومت کے بجائے وفاقی پارلیمانی نظام کی طرف منتقل ہوتے ہوئے کوئی سوال اور اشکال کھڑا نہیں کیا بلکہ اسلام کو ملک کا ریاستی مذہب قرار دلواتے ہوئے وفاقی پارلیمانی نظام کو اس کے سسٹم کے طور پر قبول کر لیا۔ اسے اگر اجتہادی عمل تسلیم نہ کیا جائے تو یہ نہ صرف ان علماء کرام کے ساتھ ناانصافی ہوگی بلکہ خود اجتہاد کے مفہوم ومعنی سے بھی ناواقفیت کا اظہار ہوگا۔
تھوڑا سا اور آگے بڑھیں تو ایک اور منظر آپ کے سامنے آپ کی توجہ کا طلب گار ہے اور وہ ۷۳ء کے دستور کے تحت قائم ہونے والی اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ ہے جو اس نے ملکی قوانین کا جائزہ لے کر قرآن وسنت کی روشنی میں ان میں ضروری ترامیم کے لیے مرتب کی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ملکی قوانین کا جائزہ لیا ہے، ان پر نظر ثانی کی ہے، قرآن وسنت کے اصولوں کو دیکھا ہے، حالات کے تقاضوں اور ضروریات کو جانچا ہے اور ملکی اور عالمی سطح پر سرکردہ ارباب دانش کی مشاورت سے تمام مروجہ قوانین کے حوالے سے اپنی سفارشات ترتیب دی ہیں۔ میرا ملک بھر کے اہل دانش سے سوال ہے کہ کیا یہ اجتہادی عمل نہیں ہے؟ اس اجتہادی عمل کو تو علماء کرام نے صرف اپنے دائرہ تک محدود رکھنے پر بھی اصرار نہیں کیا۔ اس میں نہ صرف جدید قانون اور دیگر مختلف شعبوں کے ماہرین شامل چلے آ رہے ہیں بلکہ اس کی سربراہی بھی کبھی روایتی حلقہ کے کسی عالم دین کے پاس نہیں رہی۔ اس میں ہر مکتب فکر کے سرکردہ اور معتمد علماء کرام مختلف اوقات میں شریک رہے ہیں۔ علماء کرام نے پوری دل جمعی اور شرح صدر کے ساتھ اس اجتہادی عمل کو آگے بڑھایا ہے اور آج اس کونسل کی سفارشات کو ملک میں بطور قانون نافذ کرانے کے لیے بھی سب سے زیادہ علماء کرام کی جماعتیں سرگرم عمل ہیں اس لیے یہ کہنا کہ عملی اجتہاد کا دروازہ صدیوں سے مکمل طور پر بند چلا آ رہا ہے اور علماء کرام نے کسی دور میں بھی کسی درجہ کے اجتہاد سے کام نہیں لیا، تاریخی حقائق اور تسلسل کے منافی ہے۔
ہماری ان معروضات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کچھ ہونا چاہیے تھا اور بدلتے ہوئے حالات جن امور کا تقاضا کرتے ہیں، وہ سب کچھ ہو رہا ہے اور علماء کرام اور دینی حلقے ہر قسم کے اعتراض اور سوال سے بری الذمہ ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے اور خود ہمیں اس سلسلے میں بہت سے اشکالات ہیں جن کا تذکرہ ہم اس کے بعد کرنا چاہتے ہیں لیکن اس سے قبل اتنی بات ضرور عرض کرنا چاہتے ہیں کہ کسی بھی طبقہ کے کردار کی کلی نفی کرتے ہوئے اگر آپ اس سے اپنی شکایات پر بات کرنا چاہیں گے تو آپ کی جائز شکایات بھی قابل توجہ نہیں سمجھی جائیں گی۔ اس لیے صحیح طریق کار یہ ہے کہ جتنا کام ہو رہا ہے، اس کا اعتراف کیا جائے اور کام کرنے والوں کو اس کا کریڈٹ دیا جائے۔ اس کے بعد جو کام نہیں ہو رہا، اس کی نشان دہی کرتے ہوئے اس کی طرف توجہ دلائی جائے اور اسے رو بہ عمل لانے کے لیے قابل قبول تجاویز دی جائیں۔
دینی حلقوں کے لیے چند توجہ طلب پہلو
اس کے بعد ہم ان ضروریات اور تقاضوں کی طرف آتے ہیں جو آج کے روز افزوں تغیر پذیر حالات میں اجتہاد کے حوالے سے علماء کرام اور دینی حلقوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ہمارے علمی مراکز اور دینی ادارے اپنی ترجیحات اور دائرہ کار سے ہٹ کر کوئی بات سننے کو تیار دکھائی نہیں دیتے۔
- پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے دینی مراکز اور علمی اداروں نے اپنی علمی سرگرمیوں کو روز مرہ ضروریات کے دائرے میں محدود کر رکھا ہے اور وہ بھی اپنے الگ الگ ماحول میں جس سے ان کے کام کی افادیت اور تاثیر یقیناًمجروح ہو رہی ہے۔ انہیں جس بات کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور جس کے لیے ان پر دباؤ ہوتا ہے، اس کے لیے وہ کچھ نہ کچھ کر گزرتے ہیں لیکن خود اپنی ذمہ داری پر ملی ضروریات کا جائزہ لینے اور امکانات کی بنیاد پر مسائل کے تعین اور ان کے حل کا کوئی نظام کسی مکتب فکر کے کسی علمی ادارے کے پاس موجود نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں ’’فقہ تقدیری‘‘کا وہ عظیم الشان علمی کام جو کسی دور میں ہمارے فقہا اور ائمہ کا طرۂ امتیاز ہوتا تھا، وہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
- ملی ضروریات کے حوالے سے اجتماعی علمی کاوش پرائیویٹ سیکٹر میں ۳۱ علماء کرام کے ۲۲ دستوری نکات کے بعد اب تک تعطل کا شکار ہے اور یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پارلیمنٹ، وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سرکاری فورم پر دینی وملی مقاصد کے لیے مشترکہ علمی خدمات سرانجام دینے والے علماء کرام کو غیر سرکاری سطح پر انہی مقاصد کے لیے مل بیٹھنے اور دینی وعلمی مسائل مشترکہ طور پر طے کرنے میں حجاب کیوں ہے؟
- قرآن وسنت کی نئی تعبیر وتشریح اور جدید فقہ اسلامی کی تدوین کے نعرہ سے تو ہمیں اتفاق نہیں ہے کہ اس سے چودہ سو سالہ اجماعی تعامل سے کٹ جانے کا تصور اجاگر ہوتا ہے مگر فقہ اسلامی پر اجتماعی نظر ثانی کو ہم وقت کی ناگزیر ضرورت سمجھتے ہیں۔ اسی طرح کی ضرورت جس طرح سلطان اورنگ زیب عالم گیرؒ کے دور میں محسوس کی گئی تھی اور جس کے نتیجے میں فتاویٰ عالم گیری وجود میں آیا تھا۔ اگر گیارہویں صدی ہجری میں فقہ کے سابقہ ذخیرہ پر نظر ثانی اور اس وقت کے جدید مسائل کے حل کے لیے مشترکہ علمی کاوش فقہی تسلسل کے منافی نہیں تھی تو آج بھی اس کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ چونکہ آج کوئی اورنگ زیب عالم گیرؒ طرز کا مسلم حکمران موجود نہیں جو نظام شریعت کے نفاذ کو اپنی ذمہ داری محسوس کرے، اس لیے یہ دینی اداروں اور علمی مراکز کے ذمہ امت کا قرض ہے کہ وہ کوئی ایسا اجتماعی نظام وضع کریں کہ قدیم فقہی ذخیرہ پر موجودہ حالات کی روشنی میں نظر ثانی کر کے عرف وعادات، تعامل اور دیگر احوال وظروف کے تغیر کی وجہ سے جن مسائل کی ازسرنو وضاحت ضروری ہے، اسے سرانجام دینے کی کوئی معقول اور قابل قبول صورت نکل آئے۔
- اجتہاد کے لیے علمی ماخذ یعنی قرآن وسنت اور ان سے متعلقہ علوم کی مہارت کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جن حالات اور محل پر اس کا اطلاق کیا جانا ہے، اس سے بھی کماحقہ واقفیت حاصل کی جائے یعنی اجتہاد کے ماخذ اور محل دونوں سے یکساں آگاہی اجتہاد کے عمل کے صحیح ہونے کا ناگزیر تقاضا ہے مگر ہمارے دینی اداروں میں دوسرے پہلو کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال عرض کروں گا کہ ایک دینی مدرسہ کے دار الافتا میں مفتی صاحب ایک استفتا پر غور کر رہے تھے جو بینک کے کسی معاملہ کے حوالے سے تھا۔ میں بھی اتفاق سے وہاں موجود تھا۔ انہوں نے اس پر مجھ سے رائے چاہی۔ میں نے استفتا دیکھ کر کہا کہ میں بینکنگ کے سسٹم سے واقف نہیں ہوں اور اس کے جس شعبہ کے بارے میں یہ مسئلہ پوچھا گیا ہے، مجھے اس کے مبادیات کا علم بھی نہیں ہے اس لیے میں اس کے بارے میں کوئی رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ باتیں تو میں بھی نہیں جانتا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر آپ فتویٰ کیسے دیں گے؟ وہ میرے اس سوال پر پریشان تو ہوئے لیکن میرا خیال ہے کہ فتویٰ انہوں نے کوئی نہ کوئی ضرور صادر کر دیا ہوگا۔
- بد قسمتی سے ہم نے ایک بات کم وبیش حتمی سمجھ رکھی ہے کہ ہمارے روایتی حلقوں سے ہٹ کر کوئی بھی شخص یا ادارہ کوئی علمی یا دینی بات کرتا ہے تو وہ یقیناًگمراہی پھیلاتا ہے اور ہم نے اسے بہرحال مخالف کیمپ میں ہی دھکیلنا ہے۔ اگر تو ہم نئے پیش آمدہ مسائل پر غور وخوض اور ان کے حل کے لیے کوئی مربوط نظام رکھتے ہیں اور کوئی بھی مسئلہ پیش آنے پر خود کار نظام کی طرح ہمارا کوئی نہ کوئی حلقہ یا مرکز اس پر غور وفکر اور بحث وتمحیص کے لیے سرگرم عمل ہو جاتا ہے تو پھر کسی حد تک یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس سسٹم سے ہٹ کر بات کرنے والے کی حوصلہ شکنی کی جائے لیکن کسی بھی مسئلہ پر ہمارے ہاں اس وقت تحریک ہوتی ہے جب دو چار حلقوں سے بات آ چکتی ہے اور ہم کوئی خطرہ محسوس کرتے ہیں تو دفاعی ضروریات کے تحت متحرک ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارا سارا عمل دفاع اور تحفظات کے گرد گھومنے لگتا ہے اور اصل کرنے کا کام اسی میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ انتہائی پریشان کن صورت حال ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ہمیں اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے، غیر روایتی علمی حلقوں کے حوالے سے ترجیحات قائم کرنی چاہییں اور جہاں افہام وتفہیم سے کام لینا ممکن ہو، اسے موہوم گمراہی کی نذر کر دینے کے بجائے قابل قبول غیر روایتی حلقوں سے استفادہ کی صورتیں نکالنی چاہییں۔
- میں ایک متصلب اور شعوری حنفی ہوں اور اپنے دائرۂ کار میں اپنے فقہی اصولوں کی پابندی ضروری سمجھتا ہوں لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کرنا بھی میرے لیے مشکل ہے کہ جس طرح گلوبلائزیشن کے بڑھتے ہوئے عمل نے مختلف ادیان کے حوالے سے مشترکہ عالمی سوسائٹی کی تشکیل کی راہ ہموار کر دی ہے، اسی طرح مسلم ممالک کے درمیان آبادی کے روز افزوں تبادلہ نے فقہی مذاہب کے حوالے سے بھی مشترکہ سوسائٹیاں قائم کر دی ہیں اور دنیا کے مختلف حصوں میں سینکڑوں جگہ ایسا ماحول موجود ہے جہاں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور ظاہری مکاتب فکر کے حضرات مشترکہ طور پر رہتے ہیں، اکٹھے نمازیں پڑھتے ہیں اور مل جل کر دینی تقاضے پورے کرتے ہیں۔ انہیں فقہی اختلافات کے حوالہ سے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کیسے چلنا ہے؟ اس کی وضاحت آج کی ایک مستقل ضرورت ہے۔ ہمارے فقہا نے اس کی حدود بیان کی ہیں لیکن ہماری اس طرف توجہ نہیں ہے جس سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ دینی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مذکورہ بالا دونوں حوالوں یعنی مختلف ادیان ومذاہب اور داخلی فقہی مکاتب فکر کے پس منظر میں اس ضرورت کا احساس کریں اور اس کو پورا کرنے کے لیے کردار ادا کریں۔
- اجتہاد کے حوالے سے جو کام اس وقت ہمارے خیال میں سب سے زیادہ ضروری ہے، بد قسمتی سے وہی سب سے زیادہ نظر انداز ہو رہا ہے اور وہ ہے اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے وہ فیصلے اور ضوابط جنہیں بین الاقوامی قوانین کا درجہ حاصل ہے اور جن کی بنیاد پر متعدد اسلامی احکام وقوانین کی عالمی سطح پر نہ صرف مخالفت ہو رہی ہے بلکہ عالمی ادارے مسلم حکومتوں پر ان اسلامی احکام قوانین کی مخالفت میں مسلسل دباؤ ڈالتے رہتے ہیں مگر ان بین الاقوامی قوانین کے بارے میں ہمارے علمی حلقوں اور دینی اداروں کا کوئی مشترکہ موقف ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح ہمارے ۳۱ سرکردہ علماء کرام نے ۲۲ دستوری نکات طے کیے تھے، اسی طرز پر اقوام متحدہ کے چارٹر اور دیگر بین الاقوامی قوانین کا جائزہ لے کر قابل اعتراض حصوں کی نشان دہی کی جائے اور دلائل کے ساتھ قانونی زبان میں اس سلسلہ میں اسلامی موقف کی وضاحت کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کا متبادل چارٹر بھی پیش کیا جائے۔
- ہمارے ہاں دینی مراکز اور علمی اداروں میں مقامی ضروریات کے حوالے سے محدود مقاصد کے لیے رجال کار کی تیاری تو ہو رہی ہے مثلا امام، خطیب، مدرس، مفتی، قاری وغیرہ۔ اگرچہ اس میں بھی بہت سے امور قابل توجہ ہیں لیکن پھر بھی بنیادی کام بحمد اللہ تعالیٰ ہو رہا ہے مگر اجتماعی نظام کو سمجھنے اور اس کے مسائل پر رائے دینے نیز عالمی ماحول کے ادراک اور فلسفہ وتہذیب کی بین الاقوامی کشمکش سے واقفیت اور اس پر منطق واستدلال کے جدید اسلوب میں اظہار خیال کے لیے رجال کار کی تیاری کا کام سرے سے مفقود ہے اور بین الاقوامی مسائل پر علمی ودینی نقطہ نظر سے موقف کے اظہار کے لیے بھی کوئی فورم موجود نہیں ہے۔
- ایک بات اور قابل توجہ ہے کہ ہمارے علمی ودینی حلقوں کا موجودہ اور مروجہ طرز گفتگو اور استدلال کا اسلوب خود ہمارے داخلی ماحول کے لیے تو کسی حد تک قابل اطمینان ہو سکتا ہے لیکن جدید علمی حلقوں خاص طور پر مغربی فکر وفلسفہ کے حاملین اور ان کے متاثرین سے مکالمہ کے لیے وہ قطعی طور پر اجنبی ہے جس کی وجہ سے ہم علمی ودینی مسائل پر ایک معقول اور جائز موقف کا بھی صحیح طور پر اظہار نہیں کر پاتے۔ اس کے ساتھ ابلاغ کے جدید ذرائع تک رسائی اور ان کے استعمال کی صورت حال کو بھی شامل کر لیا جائے تو معاملہ اور زیادہ پریشان کن ہو جاتا ہے۔
ان گزارشات کے بعد ہم آخر میں خلاصہ کلام کے طور پر یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ ہمارے نزدیک اصل ضرورت ا س حوالے سے اس امر کی ہے کہ ۲۲ دستوری نکات والے ۳۱ علماء کرام کی طرز اورسطح پر غیر سرکاری طور پر ایک فورم وجود میں آئے جو متعلقہ ضروری امور کا جائزہ لے اور آج کی ضروریات اور تقاضوں کی تکمیل کے لیے کوئی قابل عمل نظام کار طے کرے۔ ہمارے خیال میں دینی مدارس کے پانچوں وفاق جو تمام دینی مکاتب فکر کی نمائندگی کرتے ہیں اور جن کا ایک مشترکہ رابطہ بورڈ بھی موجود ہے، اس کام کے آغاز کے لیے بہترین فورم ثابت ہو سکتا ہے بشرطیکہ ان وفاقوں کے ذمہ دار بزرگ ان ضروریات کو محسوس کریں اور ان کی تکمیل کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔
مجھے احساس ہے کہ میں نے موضوع کی مناسبت سے کوئی مربوط علمی گفتگو کرنے کے بجائے ا س کے حوالے سے اپنے جذبات واحساسات کو ہی آپ حضرات کے سامنے پیش کر دیا ہے جن میں بہت سی باتیں شاید غیر متعلق محسوس ہوں مگر امید ہے کہ آپ سب بزرگ میری اس فروگزاشت سے درگزر کرتے ہوئے ایک کارکن کے جذبات واحساسات پر مناسب توجہ دیں گے اور دعا بھی فرمائیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سلسلہ میں صحیح سمت میں پیش رفت کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
مذہبی القابات کا شرعی اور اخلاقی جواز
پروفیسر محمد اکرم ورک
دین اسلام سادگی،خلوص نیت اور للہیت کوبڑی اہمیت دیتاہے ،جبکہ نمودو نمائش کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اعمال کی بنیاد خلوص نیت پر رکھی ہے جو یقینی طور پر باطنی کیفیت کا نام ہے۔ اس لیے اسلام کی نظر میں ظاہر اور باطن میں تضاد ناقابل قبول ہے ورنہ سارے اعمال ضائع چلے جائیں گے۔ دینی اور مذہبی خدمات کی انجام دہی میں خلوص نیت کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے، کیونکہ دینی خدمات کا صلہ اللہ تعالی کے سواکسی سے طلب نہیں کیاجاسکتا۔حضرات انبیاء کرام کی سیرت کا یہ مشترکہ پہلو قرآن مجید جگہ جگہ بیان کرتاہے کہ:
وما اسالکم علیہ من اجر ان اجری الا علی رب العالمین۔ (الشعراء )
’’اور میں تم سے اس انذار کے بدلے میں کسی اجر کا طلب گار نہیں ہوں۔ میرا اجر تو صرف اللہ کے ذمے ہے جو جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘
اگر مخاطب کو یقین ہو کہ داعی سچاہے ،اس کی دعوت حق ہے اور دعوت کو پیش کر نے میں اس کے پیش نظر کسی دنیوی مفاد یا مذہبی تقدس کا حصول نہیں تو اس کی دعوت کااثر بڑھ جاتاہے۔ نہ صرف لوگ کھچے چلے آتے ہیں بلکہ اس کی دعوت کے سحرمیں پوری طرح مبتلا ہوجاتے ہیں اور داعی کے لیے دعوت کے بیج کی تخم ریزی آسان ہو جاتی ہے۔
بدقسمتی سے دور حاضر میں دعوت وتبلیغ کا فر یضہ انجام دینے والے اکثر حضرات کے قول وفعل میں للہیت اور خلوص نیت کا وہ رنگ نظر نہیں آتا جو حضرات انبیاء کر ام اور رسول اللہ کے صحابہ کی سیرت کا نمایاں پہلو ہے۔ داعیان اسلام کی اکثریت اپنی دعوتی کا وشوں پر اسی دنیا میں ا جر و ثواب کی طلب گار ہے اور ان کی ادنیٰ ترین طلب نمودونمائش اور مذ ہبی تقد س کے حصول کی خواہش ہے۔ چنانچہ علماء کرام کا اپنے لیے ایسے اسما والقاب کو پسند کرنا جن سے مذ ہبی تقدس کی جھلک نظرآتی ہے، اس حقیقت کی منہ بولتی تصویر ہے۔ اب علماء کرام کی مجالس اس قسم کے القابات سے گونجتی ہو ئی نظر آتی ہیں: محی الدین، محی السنہ، نجم الاسلام، شمس الاسلام، ذکی الدین، شمس العلماء، جامع علوم عقلیہ ونقلیہ، واقف اشارات صوفیہ ،شمس الہدایت وغیرہ۔ یہ اور اس نوع کے دیگر القاب اس کثرت سے معروف ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ مولوی، مولانا، صوفی، حاجی کے الفاظ بھی کچھ اسی نوعیت کے ہیں کیونکہ ان کے استعمال میں بھی کسی نہ کسی حدتک مذ ہبی تقدس کی جھلک پائی جاتی ہے ،یہ ایک الگ بات ہے کہ کثرت استعمال سے ان کے اصلی معانی بڑی حدتک گھس چکے ہیں اور ان کا چلن اب طبقا تی تعارف کی علامت سے زیادہ نہیں رہا۔
مذہبی القابات کی اس بدعت نے جس دور میں رواج پکڑناشروع کیا، علماء حق نے اس کے خلاف بھرپور آوازبلند کی۔ انہیں میں سے ایک مقتدر ہستی علامہ ابن الحاجؒ ہیں جنہوں نے اپنی مشہور کتاب المدخلکی پہلی جلد میں اس موضوع پربڑی تفصیل سے بحث کی ہے۔ اس بحث میں انہوں نے تقدس، پاکیزگی اور نمودونمائش کے حامل اسماء والقاب کی شرعی حیثیت کا بڑا عمد ہ تنقیدی جائزہ لیاہے۔ راقم الحروف نے ذیل کی سطور میں زیادہ تر انہیں کے خیالات سے خوشہ چینی کی ہے۔
القابات کا تاریخی آغاز و ارتقا
علامہ ابن الحاج ان القاب واسماء کے مروج ہو نے کے اسباب بیان کر تے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب ترک خلافت عباسیہ پر چھا گئے توانہوں نے خلیفہ کو تو عباسی خاندان ہی سے رہنے دیا لیکن حکومت کی باگ ڈور مختلف ترک سرداروں نے خود سنبھال لی۔ خلیفہ کی طرف سے ان سرداروں کو ان کے مقام ومرتبے کے لحاظ سے مختلف قسم کے القاب مثلاً شمس الدولہ ،ناصر الدولہ ،نجم الدولہ وغیرہ سے نواز ا گیا۔حکمران طبقہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے یہ اسماء و القاب عظمت و فخر کا نشان سمجھے جا نے لگے جس کی وجہ سے عامۃ الناس بھی ان القاب میں کشش محسوس کرنے لگے لیکن حکومت میں عمل دخل نہ ہونے کی وجہ سے ان کے لیے ان القاب کا حاصل کرنا ممکن نہ تھا۔ اس کی تلافی انہوں نے مذ ہب کے راستے سے کی یعنی شمس الدولہ نہ سہی تو شمس الدین سہی، چنانچہ اکثر لوگوں نے اپنی اولاد کے لیے اس قسم کے نام رکھنے شروع کر دیے لیکن اس زمانے میں چونکہ ان اسماء والقاب کی خاصی و قعت تھی، اس لیے حکومت نے اس پر پابندی عائد کردی چنانچہ جو کوئی اپنی اولاد کو ان ناموں سے موسوم کرناچاہتا، اس کے لیے مقررہ فیس کی ادائیگی کے بعد سرکاری اجازت حاصل کرنا ضروری تھا۔ لیکن بعد کے دور میں جب ترک خلافت عباسیہ کے تمام سیاہ وسفید کے مالک بن گئے تو ان کے لیے ان القابات میں کوئی کشش باقی نہ رہی کیونکہ حکومت اب ان کے گھر کی لونڈی بن چکی تھی۔ اس لیے اب وہ بھی اسلام کے نام کی عظمت کی طرف متوجہ ہوئے اور انھیں اب شمس الدولہ کی بجائے شمس الدین وغیرہ جیسے القابات میں زیادہ وقار اور عزت محسوس ہونے لگی۔ پھر ان القاب نے اس قدر رواج پایا کہ جہلا تک اپنے بچوں کو انہی ناموں سے موسوم کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ یہ معاملہ اس حد تک بڑھ گیا کہ علماء دین بھی ا ن اسماء والقاب سے پوری طرح مانوس ہو گئے اور انہیں اس بدعت پر عمل کر نے میں کوئی قباحت محسوس نہ ہوئی۔
علماء ربانیین کا ردعمل
تاہم علماء حق سلف صالحین نے تقدس اور پاکیزگی کا تاثردینے والے ان اسماء والقاب کی شدید مخالفت کی۔ اس حوالے سے امام نووی کا ردعمل خاص طور پر قابل ذکرہے۔ اہل علم امام نووی کے علمی مقام ومرتبہ سے بخوبی آگاہ ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ خدمت دین کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ آپ کی انہیں دینی خدمات کی وجہ سے جب آپ کے معاصرین نے آپ کو ’’محی الدین‘‘ کے لقب سے پکاراتو آپ نے سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
انی لا اجعل احدا فی حل ممن یسمینی بمحی الدین۔ (المدخل لابن الحاج)
’’جوکوئی مجھے محی الدین کے لقب سے پکارے گا، میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گا۔‘‘
ٖٖظاہر ہے کہ آپ کا یہ اظہار ناراضی فقط اس وجہ سے تھا کہ اس سے شرعی تقدس کی جھلک نظر آتی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے بعد کے دور میں علماء کی مجالس اسی قسم کے مختلف اسماء والقاب سے گونجنے لگیں۔ علماء کرام اور مذہبی راہنماؤں میں اس رسم بد کے بدعت ہونے کا احساس تک باقی نہ رہا چنانچہ متاخرین نے بزرگان دین اور علماء کرام کو اسے زایداسماء والقاب سے یاد کرنا شروع کردیا جن کی انہوں نے اپنی زندگی میں سخت مخالفت کی تھی جبکہ ہمارے دور میں تویہ بد عت اپنے پورے عروج پر ہے۔ شاید ہی کو ئی عالم ،پیر اور چھوٹا بڑا اہل نا اہل اس کی زد سے محفوظ رہا ہو ، بلکہ اب تو معاملہ اس حد تک پہنچ چکاہے کہ اگر ان مذہبی راہنماؤں کو ان اسماء والقاب کے بغیر پکاراجائے تو وہ سخت پریشان ہوجاتے ہیں اوربعض اوقات ایسا ’’گستاخ‘‘ اور ’’بے ادب‘‘ ان کی شد ید نفرت کا شکار بھی بن جاتا ہے۔ اس لیے مذہبی راہنماؤں کے ’’قہروغضب‘‘ سے محفوظ رہنے کے لیے عام طور پر ان کا تعارف انہی اسماء والقاب سے کروایا جاتاہے جن کو وہ پسند کرتے ہیں اور ان سے مانوس ہیں۔
مسئلہ کی شرعی اور اخلاقی حیثیت
قرآن وسنت کے مطالعہ سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ کسی انسان کے لیے جائزنہیں کہ وہ اپنی پاکیزگی کا اعلان کرے ،اس کا تصوردے یا ایسے اسماء والقاب کو، جن سے مذ ہبی تقدس کا رنگ جھلکتا ہو، اپنے حق میں بیان کر نے والے کی حوصلہ افزائی کر ے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فلا تزکوا انفسکم ھو اعلم بمن اتقی۔ (النجم)
’’پس تم اپنی پاکیزگی آپ بیان نہ کرو ،وہ پر ہیزگاروں کو خوب جا نتاہے ۔‘‘
الم تر الی الذین یزکون انفسھم بل اللہ یزکی من یشاء۔ ( النساء)
’’کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھاجو اپنی پاکیزگی اور ستائش خود کر تے ہیں؟ بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے پاکیزہ کرتاہے ۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
لا تزکوا علی اللہ احدا ولکن قولوا اخالہ کذا واظنہ کذا۔
’’کسی کو اس پاکیزگی کا مستحق قرارنہ دو جواسے صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاہوسکتی ہے بلکہ ایسے شخص کے بارے صرف یہ کہو کہ میرا خیال ہے کہ وہ ایسا ہے اور میرا گمان ہے کہ وہ ایسا ہے ۔‘‘
ان مذہبی اسماء والقاب کی دو صورتیں ہیں: ایک حقیقی اور دوسری غیر حقیقی ۔حقیقی صورت تو یہ ہے کہ ملقب بہ میں واقعتا وہ صفات موجود ہوں جیسے ’’محی الدین‘‘ کہ وہ واقعی دین اسلام کو زندہ کر نے والاہو ۔اور غیرحقیقی صورت یہ ہے کہ ملقب بہ میں ان صفات کاشائبہ تک نہ ہو جن صفات سے اس کو موسوم کیا گیا ہے۔ مذکورہ بالابحث کا تعلق حقیقی القاب سے ہے یعنی ان اسماء و القاب سے وابستہ صفات ،کسی حد تک ملقب بہ شخصیت میں پائی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود شر یعت اسے سخت نا پسند کرتی ہے ۔لیکن ہمارے ہاں تو معاملہ اس حد سے گزر کر غیر حقیقی اسماء والقاب تک جا پہنچا ہے لہٰذا عام طور پر جس شخص کے نام کے ساتھ ایسے اسماء والقاب کا اضافہ کیا جا تا ہے، اس میں ان صفا ت کا پا یا جا نا تو کجا، ان کی جھلک تک موجود نہیں ہو تی۔ ایسا طرز عمل یقینی طور پر دوہرا جرم ہے ،ایک القاب کی بد عت کی برائی اور دواسرجھوٹ کا ارتکاب ،کیونکہ قرآن وسنت میں جھوٹے پر لعنت کی گئی ہے۔
بدقسمتی سے دور حاضر میں اسماء والقاب کا غیر حقیقی استعمال عام ہو چکا ہے، حالا نکہ شریعت اسلامیہ نے اس معاملہ کو ناپسند کیا ہے۔ نیز کثرت استعمال سے یہ اسماء والقاب بھی اب اپنی حقیقی قدر وقیمت کھوچکے ہیں ۔اگر ان اسماء والقاب کا استعمال جائزاور ضروری ہوتا تو امت محمد یہ میں اس کے سب سے زیادہ حقدار صحابہ کرام تھے کیونکہ ان کے شمس الہدایہ، انصار الدین ،ظلمت میں روشنی ہو نے اور اللہ تعالیٰ کے ان سے راضی ہونے کی شہادت خود قرآن نے دی ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بد عت کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اس سلسلہ میں چند تجاویزقابل توجہ ہو سکتی ہیں:
- علماء دین کو اگر کو ئی درس کی مجلس کے علاوہ ایسے اسماء والقاب سے پکارے تو وہ اس کا بالکل جواب نہ دیں۔ اس طرح وہ حقیقی نام سے پکارنے پر مجبور ہوں گے۔
- اگر کوئی شخص ایسے اسماء و القاب سے پکارے تو اس کو نرمی سے سمجھایاجائے کہ یہ بدعت ہے اور شریعت کی نظرمیں یہ امرناپسندیدہ ہے۔
- دینی مدارس میں طلبہ کی اس نہج پر تربیت کی جائے کہ وہ عوامی سطح پراس بدعت کے قلع قمع کی مہم چلائیں جس سے یہ بدعت یقینی طور پرختم ہوجائے گی۔
- عوامی سطح پر لوگوں میں بامعنی اور بامقصد نام کی اہمیت اجاگر کی جائے اورلوگوں میں یہ شعور بیدار کیا جائے کہ وہ بچوں کے ایسے نام رکھیں جو ان کے خاندانی اور نسلی اوصاف سے مطابقت رکھتے ہوں کیو نکہ اچھے نام کے بھی بچے کی شخصیت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
- لوگوں میں شرعی اور غیر شرعی ناموں کا شعور پیداکیا جائے اور اسلامی تاریخ میں اہمیت رکھنے والے ناموں سے آگاہ کیا جائے تاکہ ابتدا سے ہی لوگ اپنے بچوں کے ایسے نام رکھنے سے اجتناب کریں جن سے خواہ مخواہ تقدس کا اظہار ہوتا ہو۔
اسلامی حکومت سرحد: پس چہ باید کرد
کے ایم اعظم
(درج ذیل مقالہ ۲۱ جنوری ۲۰۰۳ء کو ہمدرد سنٹر لاہور میں مجلس فکر ونظر کے زیر اہتمام ’’پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں پڑھا گیا۔ مقالے کا ابتدائی حصہ موضوع سے براہ راست متعلق نہ ہونے کی بنا پر شامل اشاعت نہیں کیا جا رہا۔ مدیر)
ملک کے پژمردہ پس منظر میں حالیہ انتخابات میں اسلامی جماعتوں کی غیر معمولی کام یابی امید کی ایک کرن لے کر آئی ہے مگر کئی ایک زعمانے اس شک کا بھی اظہار کیاہے کہ یہ کا میابی اسلامی نقطہ نگاہ سے شاید خاطر خواہ نتائج پر منتج نہ ہوگی۔ معاشرتی طور پر پاکستان کے مسائل نہایت گھمبیرہیں۔ان کا کوئی حل بنیادی اور سٹرکچرل تبدیلیوں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ بہرحال اس یاد داشت کا مقصد ایک ایسے قابل عمل پروگرام کی تشکیل ہے جس پر فوری طور پر عمل پذیر ہوکر اسلامی حکومت سرحد سرخرو ہوسکتی ہے۔ مجھے تو اس میں بھی مشیت الٰہی نظر آرہی ہے کہ ایک مکمل اسلامی حکومت صرف صوبہ سرحد میں ہی تشکیل پذیر ہوئی ہے ،کیونکہ صوبہ سرحد میں اسلامی نظام کے قیام میں دوسرے صوبوں کی نسبت کم مشکلات پیش آئیں گی۔ اس کی بڑی وجہ وہاں کا قبائلی نظام اخلاق ومعاشرت ہے۔ حکومت سرحد کو میرامشورہ یہ ہے کہ فی الحال صرف چارمحاذوں پر اپنی توجہ مرکوز کرے اور وہ ہیں: عدل وانصاف ،تعلیم، احتساب اور معیشت۔
۱۔ نظام تعلیم
ہمارامرکزی مسئلہ انسان سازی کا ہے اور یہ دقت طلب اور صبرآزما کام ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنی منزل کا غیر مبہم شعور ہونا چاہیے تاکہ اس کے حصول کے لیے جس قسم کے انسان ہمیں درکارہوں ،اسی قسم کا نظام تعلیم ہم تشکیل دے سکیں۔ پاکستان کو اس وقت ایسے کارکنوں کی ضرورت ہے جو توحیداور اتباع رسولﷺمیں اولوالعزم ہوں اور جن کا جذبہ ایمانی اقداراورافکار کی حدودسے گزرکر کر دارکا حصہ بن گیاہو۔ وہ ایسے رجال ہوں جو دنیاکی دونو ں بڑی طاقتوں، خوف اور طمع پر توحید الٰہی کی ضرب کا ری لگاچکے ہوں اوران کی تیغ برہنہ کے پیچھے جذبہ ایمانی، فراست دینی، تعلق باللہ، حب رسولﷺ، بلندی فکراور جوش عمل کا ایک حسین امتزاج ہو۔ مزید براں ان کے دلوں میں یہ یقین کامل گھر کر چکا ہوکہ سب سے بڑی حکمت اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس سے سچی محبت ہے۔ ہر پاکستانی کو بھی اس کا شعور ہوناچاہیے کہ پاکستان کواسلام کا مضبوط قلعہ تبھی بنایاجاسکتاہے جبکہ ہم میں سے ہر ایک بجائے خود اس کا ایک چھوٹا ساقلعہ بن جائے۔جب تک ہمارانظام تعلیم باکردار ،حق گو اور انسان دوست افراد پیدا نہیں کرے گا،جمہوریت کی روایت ہمارے معاشر ہ میں جڑنہ پکڑسکے گی۔ہمارابنیادی مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی، معاشرتی اور دینی ادارے ایسے روشن ضمیر،درخشاں جبیں اور دلکش مسلما ن پیدانہیں کر پارہے جن کو دیکھنے کی آرزواور تمناہم میں سے ہر کو ئی اپنے دل میں لیے ہوئے ہے۔ مدارس ،مساجد اور خانقاہیں تو موجود ہیں مگران میں فکر ودانش اور وجدان کی شمعیں گل ہوچکی ہیں۔انسان سازی میں ہماراالمیہ یہ ہے کہ جو منکسر مزاج ہے ، وہ کمزور ہے اور جو طاقتور ہے، وہ ظالم ہے ۔ جو صاحب علم ہے، وہ صاحب کردار نہیں اورجو صاحب کردار ہے، وہ صاحب حکمت نہیں۔جو صاحب ایمان ہے ،وہ صاحب عمل نہیں اور جو صاحب عمل ہے ،وہ بے ایمان ہے۔موجودہ نا قص نظام تعلیم کے تحت سوفیصد خواندگی سے بھی ہمارے ہاں جمہوری روایت قائم نہ ہوگی بلکہ وہ ایسے لوگ ہی پیداکر ے گاجن کا مطمح حیات دولت کمانے کے لیے سیاسی قوت حاصل کر نا ہوگایاپھر سیاسی قوت حاصل کر کے دولت کمانا۔
ہمارے نظام تعلیم کا مقصد ایسے انسان پیدا کر نا ہوناچاہیے جو ماضی سے پر جو ش تعلق کو قائم رکھتے ہوئے معاشر ہ کو مستقبل کی طرف لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔یقیناًوہ ایسے افراد نہیں ہونے چاہییں جن کا مستقبل ان کے ماضی میں ہو۔ مزید وہ ایسے انسان ہوں جن میں اپنے زمینی حالات کا صحیح ادراک کرکے کارگرحکمت عملی بنانے کی صلاحیت ہو۔ ہماری دینی تعلیم کا مقصد ان مذہبی رسم ورواج سے آزادی ہوناچاہیے جنہوں نے انسان کے فکروعمل کو اپناقیدی بنایا ہوا ہے۔ مسلمانوں کے نظام تعلیم کے خدوخال کی نشاندہی اللہ جل جلالہ نے رسول اکرم ﷺکو تفویض کیے گئے چار فرائض کے ذریعے کر دی ہے اور یہ ہیں: تلاوت، تزکیہ نفس، کتاب کی تعلیم اور حکمت کا سکھانا۔ (البقرہ)
ہمارے نظام تعلیم کا ہدف کر دار سازی کے علاوہ اپنے تلامذہ میں صلاحیت اور حوصلہ پیداکر کے استعماری تہذیب اور اس کی عریاں ثقافت کے سامنے بند باندھنا ہونا چاہیے۔ ہمارے موجو دہ تعلیمی ادارے انسان سازی میں ناکا م رہ گئے ہیں۔ تاریخ عالم ہمیں یہ بتاتی ہے کہ تاریخ سازی میں صرف صاحب کردارلوگوں ہی نے رول اداکیاہے ۔منافقوں کا اس میں کوئی رول نہیں ہے ۔اگر پاکستان کو اس کے انحطاط سے نکالناچاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ایک مثبت پروگرام (تعلیم وتربیت اور میڈیا)کے تحت پاکستانیوں کو منافقت کی دلدل سے نکالیں ۔ہمیں یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ منافقت سے نجات حاصل کیے بغیر ہماری کوئی بھی جدوجہد کا میابی سے ہمکنارنہ ہوگی ۔
منافقت کانصاب پڑھ کر محبتوں کی کتاب لکھنا
بڑاکٹھن ہے خزاں کے ماتھے پر داستان گلاب لکھنا
۲۔ عدل وانصاف
اقتصادی اورمعاشرتی سرگرمیاں صرف قانونی، اقتصادی اور معاشرتی عدل وانصاف کے ڈھانچے میں جاری وساری رہ سکتی ہیں۔ جب تک کسی معاشرے میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی، اس وقت تک معاشر ے کے ارکا ن کو یہ اطمینان نصیب نہیں ہوتاکہ ان کی محنت اور مشقت کا صلہ انہیں کسی رکا ٹ اوردشواری کے بغیرملتارہے گا۔ایسی یقین دہانی اور اطمینان کے بغیر معاشرے کا کو ئی شخص بھی اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کارلانے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ تاریخ عالم اس امرکی واضح طور پر شہادت دیتی ہے کہ دو نظام دنیامیں کبھی نہیں چل سکتے ۔ایک وہ اقتصادی نظام جس میں سرمایہ کا ری کی صلاحیت اور گنجائش موجودنہ ہو اور دوسرا وہ سیاسی نظام جس میں جبر وتشد اور ظلم وستم کا رفرما ہو، اور جس کا رخ عوام کی فلاح وبہود اور مسرت وخوش حالی کی طرف نہ ہو۔
۳۔ احتساب
ہر وہ معاشر ہ اور سیاسی نظام جو انقلابی خصوصیات کا حامل ہواور جامدنہ ہو، اس میں اصلاح اور تنزل کے ہر دو رجحانات بیک وقت موجود ہوتے ہیں ۔ ان رجحانات کی اصلی وجہ اندرونی اور بیرونی یاباطنی اور خارجی دونوں ہوسکتی ہیں ۔ایک کمزور نظام ،جیساکہ ہماراموجودہ نظام ہے ،اورجس کی بنیاد نوآبادیاتی ورثے پررکھی گئی ہے گزشتہ نصف صدی سے تنزل اور تباہی وبربادی کے اثرات تیزی سے قبول کررہاہے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلاہے کہ یہ نظام فرسودہ ہونے کی وجہ سے جان کنی کے عالم میں ہے ۔
انقلابی اورحر کی نظام ہر آنے والے چیلنج کاموثرمقابلہ کرتاہے اوراس احتساب کی بدولت مزید طاقت حاصل کر کے زندہ وقائم رہتا ہے لیکن اس کے برعکس پیش آنے والے ہر چیلنج کا متحد ،منظم اور مستحکم ہوکرمقابلہ کر نے کی بجائے ہماری قوم کا ردعمل ہمیشہ منقسم ،منتشر اور کمزور رہا ہے۔ ہماری قوم کا امتیازی وصف یہ ہے کہ ہم مشکل اور خرابی کی ذمہ داری ایک دوسرے پرڈال کر خود بچ نکلنے کی کوشش کر تے ہیں۔ بات یہ نہیں کہ ہم میں دوسری قوموں کے مقابلے میں برے افراد کی تعداد زیادہ ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اچھے لوگ،اتنے اچھے نہیں جتنا انہیں ہوناچاہیے تھا اور درحقیقت یہی وہ لوگ ہیں جو بحران اور پیش آنے والے چیلنج کے موقع پر کھڑے ہوکر اور ڈٹ کر مقابلہ نہیں کر تے۔ حکومت سرحد کو چاہیے کہ مثبت اورقومی نظام احتساب قائم کر کے لوگوں پر یہ عیاں کر دے کہ اب ظلم اور برائی کر کے ان کے لیے بچ نکلنے کی کوئی راہ نہ ہوگی ۔ نیز حکومت سرحد کو چاہیے کہ تمام اموال فاضلہ بحق سرکارضبط کر کے اپنی مالی پوزیشن مضبوط کر لے ۔
۴۔ معیشت
پاکستان میں اب تک اسلامی نظام معیشت پر اتناکام ہوچکاہے کہ اسلامی اقتصادی ماڈل کے خدوخال پوری طرح عیاں ہوگئے ہیں۔حکومت سرحدکو چاہیے کہ وفاقی حکومت (وزارت مالیات اور وزارت مذہبی امور)اور اسٹیٹ بنک کی ساری رپورٹیں اور یادد اشتیں حاصل کر لے۔بہر حال ان کو میرا مشورہ یہ ہے کہ چونکہ موجودہ معاشی اور معاشرتی حالات میں اسلامی اقتصادی ماڈل کی تمام شرائط پوری نہ ہوسکیں گی، اس لیے وہ ابھی غیر سودی نظام کے قیام کی دلدل میں نہ پھنسے بلکہ اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لیے اقدام کرے تاکہ عوام کو ان کی اصلاحات سے براہ راست فائدہ پہنچ سکے۔
کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی
اس اسلامی فلاحی نظام کے قیام کے سلسلہ میں میری تدابیر اور تجویزات یہ ہیں:
۱۔ ماضی اور مستقبل کے ان تمام قرضوں پر جو غریب طبقات نے بنیادی ضروریات زندگی کے لیے حاصل کیے ہوں یا لیے جائیں مثلاً مکان ،صحت اور تعلیم ،سودمعاف کر دیاجائے۔
۲۔ دیانت داری پر مبنی کا روبار کی تشہیر کی جائے اور سٹہ بازی کی روک تھام کے ذریعے سرمایہ کا ری مارکیٹ کو مستحکم کیاجائے ۔
۳۔ سادہ زندگی بسر کر نے کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ٹھاٹھ باٹھ پر مبنی شاہانہ اخراجات کا خاتمہ کیاجائے ۔
۴۔ رشوت ستانی اور بدعنوانی کا خاتمہ کر کے ہمارے تعلیمی نظام کو بین الاقومی معیار کے مطابق لایاجائے۔
۵۔ مسکین اور بے کس لوگوں کے لیے انصاف کو یقینی بنایاجائے کیونکہ عدل وانصاف کے بغیر کوئی معیشت ترقی نہیں کر سکتی۔
۶۔ اعلیٰ سطح پر جاری کر پشن، رشوت اور بدعنوانی کا فوری طور پر خاتمہ کیاجائے ۔ہمیں یہ جان لیناچاہیے کہ کرپشن کا مطلب صرف رشوت نہیں ہوتابلکہ سرکا ری عہدہ پر فائزہوتے ہوئے اپنے عہدہ کا ناجائزاستعمال نیز خود غر ضی پر مبنی طاقت کا استعمال اور ہر قسم کے نامناسب اور ناموزوں طریقے کرپشن کی ذیل میں آتے ہیں ۔
۷۔ تمام سرکا ری اداروں سے سیاست کااثر ورسوخ اور عمل دخل یکسر ختم کیاجائے اور انہیں اس قابل بنایاجائے کہ وہ تمام بھرتیاں، تبادلے اور تعیناتیاں صرف قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر کر یں ۔
۸ ۔ تمام افرادکے لیے روزگار کا انتظام کیاجا ئے اور اس سلسلے میں روزگار کے لیے دس لاکھ تک مالیت کے قرضے بغیر سود ائمہ مساجد کی اخلاقی ضمانت پر دیے جائیں ۔
۹۔ سب لوگوں کو رہائش فراہم کی جا ئے،کم آمدنی والے لوگوں کو رہائش دی جائے جبکہ درمیانے درجہ کی آمدنی والے لوگوں کو آسان قسطوں پرمکانات خرید نے کی سہولیات دی جائیں ۔
۱۰۔ سب لوگوں کو صاف، تازہ اور مصفا پانی پینے کے لیے فراہم کیا جائے۔ نیز نکاسی آب کا بہترین بندوبست کیاجائے۔
۱۱۔ تمام افراد کے لیے مناسب اور موزوں لیکن مفت صحت کی خدمات مہیاکی جائیں۔
۱۲ ۔ میٹرک کی سطح تک مفت لازمی تعلیم فراہم کی جائے اورمیٹرک سے اوپرکے درجوں میں قابلیت کی بنیاد پر مفت اور رضاکا رانہ تعلیم کا انتظام کیاجائے ۔
۱۳۔ تمام غریبوں اور مفلسوں کے لیے سوشل سکیورٹی کی خدمات کا اجرا کیا جائے۔ مزید براں بے روزگاروں اور معذور افراد کو بھی یہ سہولتیں مہیاکی جا ئیں۔
۱۴۔ مناسب مزدوری، معاوضوں ،تنخواہوں اور پنشن کا بندوبست کیاجا ئے ۔
۱۵۔ دولت کے غیر قانونی ارتکا زاور پیداواری وسائل پر ناجائز ملکیتوں کا بالکل خاتمہ کر دیاجائے ۔اس طرح پاکستان کے تمام شہریوں کے لیے اللہ تعالی کی جانب سے عطا کیے گئے رزق پر تمام غیر قانونی قبضے ختم ہو جا ئیں گے۔
۱۶۔ معاشر ے سے ہر قسم کے ظلم وجبر ،جو رواستبداد اور زیادتی واستحصال کا خاتمہ کر دیاجائے اور اسلام کے عطاکیے گئے اصولوں یعنی عدل واحسان کے ذریعے معاشرتی توازن قائم کیاجائے ۔
نفاذ اسلام ۔کیوں اور کیسے؟
ڈاکٹر محمود الحسن عارف
(۲۱ جنوری ۲۰۰۳ء کو ہمدرد سنٹر لاہور میں مجلس فکر ونظر کے زیر اہتمام ’’پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار کے لیے لکھا گیا۔)
اس وقت جب کہ دنیا میں ایک طرف تو اسلام کے مخالفین ہیں جو یہ پرو پیگنڈا کر رہے ہیں کہ اسلام سے دنیا کے امن کو خطرہ لاحق ہے او ر ودسری طرف اسلام کے وہ نادان دوست ہیں جوکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام دنیا کے جدید چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس لیے نفاذ اسلام کے متعلق بڑے حزم واحتیاط کی ضرورت ہے۔ ایک بھی غلط اٹھاہواقدم منزل کو کوسوں دور کر سکتاہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ ایک ایسے دور میں جب زندگی کا ہر ایک شعبہ ہی تو جہ اور اصلاح کا طالب ہے ،نفاذ اسلام کی ابتدا کیسے اور کہاں سے کی جا ئے ؟ اس سلسلے میں مناسب ہوگاکہ ہم سیرت طیبہ کے ان پاکیزہ اصولوں سے رہنمائی حاصل کریں ،جن سے ہر دور میں لوگو ں کو رہنمائی ملتی ر ہی ہے۔
نبی اکرم ﷺ جب بھی اپنے مبلغ کو کسی علاقے میں دین کی تبلیغ کے لیے بھیجتے تو دوباتوں کی خصوصی طور پر تاکید فرماتے جن کی تفصیل درج ذیل ہے ۔
۱۔ تدریج کا اصول
نبی اکرم ﷺ نے جب حضرت معاذبن جبل کو یمن کے علاقے میں مبلغ اور حاکم بناکر بھیجا تو خصوصی طور پر اس بات کی تاکید فرمائی کہ وہ وہاں جاکر تدریج کے اصول کا خیال رکھیں۔ خود نبی اکرمﷺ کا اپنااصول مبارک بھی یہی تھا،جیساکہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ نے بیان فرمایاہے۔ تدریج کے اصول کا مطلب یہ ہے کہ احکام اسلام کو پہنچانے یا ان کے نفاذ میں حکمت کا خیال رکھاجائے ،جو قرآن مجید کی حکمت آمیز تعلیمات کا نتیجہ ہے ۔
۲۔ اصول تبشیر
قرآن مجید نے احکام اسلام کی خصوصیت بیان کر تے ہوئے یہ وضاحت کی ہے کہ : یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر (اللہ تعالی تمہارے لیے آسانی چاہتاہے ،تنگی نہیں چاہتا )علاوہ ازیں نبی اکرمﷺایسے موقعوں پر صحابہ کرام کو بطور خاص یہ نصیحت فرماتے کہ تم لوگوں کو بشارتیں دینا، انہیں دین سے برگشتہ نہ کرنا ،ان کے لیے آسانی پیدا کرنا، تنگی پیدا نہ کرنا جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ اس کے دین رحمت ہونے کا تصور لوگوں کے سامنے کچھ اس طرح واضح کیاجا ئے کہ لوگ برضاورغبت اس کا سایہ قبول کر یں اوراس کے لیے کوئی سختی یاتشد د اختیار نہ کیا جائے۔
دوسری طرف جب ہم اپنے ملک اور اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو یوں محسوس ہوتاہے کہ آج کا انسان سر سے پاؤں تک مختلف قسم کی زیادیتوں، مظالم اور جبرواستحصال کا شکار ہے اور اسے کورٹ کچہری سے لے کر ہسپتال اور زمینوں کی دیکھ بھال تک ہر ایک سطح پر طرح طرح کی زیادتی اور ظلم کا نشانہ بنایاجارہا ہے ،لہٰذا اگر نفاذ اسلام کی ابتدا اسی چھوٹی سطح سے کی جا ئے تواس سے عوام کو بھی ریلیف ملے گا اورنفاذ اسلام کی بنیادیں بھی مستحکم ہوں گی۔
اس نکتے کی مزید تشریح اور وضاحت اس طرح ہے کہ اسلامی نظام لوگوں کو دوطرح کی سہولیات عطاکرتاہے:
۱۔ظلم اور جبر کے نظام کا کاتمہ
۲۔لوگوں کی ضروریات کی کفالت
ہم جانتے ہیں کہ اگرچہ یہ اسلام کا مرکزی ہدف ہے، موجودہ حالا ت میں لوگوں کی ضروریات اور کفالت کے پروگرام پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے اس لیے ابتدا نکتہ اول یعنی ظلم اور جبر کے نظام کے خاتمہ سے کی جائے ۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسلامی نظام کی سوفیصد کا میابی اوراس کی برکات سے مکمل طور پر استفادہ کے لیے ضروری ہے کہ نفاذ اسلام کر نے والی چھوٹی اور بڑی تمام بیوروکریسی اسلامی نظام کے متعلق پوری طرح آگہی رکھتی اور اس کے تحت مکمل طور پر تربیت یافتہ ہو،جیساکہ ایک سینئر بیوروکر یٹ نے گفتگوکے دوارن میں واضح کیاکہ اس کے بغیر کوئی نظام بھی کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔ بہرحال موجودہ سیٹ اپ میں رہتے ہوئے اس پر حسب ذیل طریقے سے عمل درآمدکیاجاسکتاہے ۔ ابتدائی اقدام کے طور پر نفاذ اسلام کی ابتدا رفع الظلم یعنی لوگوں سے ظلم اور زیادتی کے نظام کے ازالہ سے کی جائے اور اس کے لیے بیوروکر یسی کی اصلاح یاان پر نقد ومعائنے کا نظام سخت کر نا ہوگا۔موجودہ حکومت کا ہدف گڈگو رننس ہے جس کا مطلب ایک اچھی حکومت ہے جبکہ اسلامی نظام کا ہدف بھی گڈگورننس ہی ہے اور ذیل میں جوتجاویزدی جاری ہیں، ان کا مقصد بھی یہی ہے کہ ایک اچھانظام حکومت تشکیل دیاجائے۔
۱۔ تھانے سے متعلقہ مسائل
عوام کا ایک بہت بڑاطبقہ تھانے اورکورٹ کچہری کے مسائل سے سخت پریشان ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ لوگو ں کی پوری پوری زندگیاں اپنے حقوق کے حصول کے لیے گزرجاتی ہیں مگر انہیں ان کا حق نہیں ملتا، اس لیے نفاذ اسلام کی ابتدا تھانے کی اصلاح سے کی جائے تو بہت مناسب ہوگا۔
اس وقت حکومت پاکستان نے بھی تھانے کی اصلاح کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں، لیکن ان سے عوام کوکوئی ریلیف نہیں ملا بلکہ عوام کو پریشان کرنے کے لیے زیادہ محاذ کھل گئے ہیں اس لیے تھانے کی اصلاح بنیادی نقطہ آغازہے اس لیے درج ذیل اقدامات کیے جائیں ۔
۱۔ حکومت اپنے وسائل میں رہتے ہوئے پولیس کی تنخواہ پر نظر ثانی کر ے اورانہیں تنخواہ اور مراعات کی مدمیں اتنی رقم دی جائے کہ وہ اوسط درجہ سے اپنا گزارہ کر سکیں اور وقتاً فوقتاً اس پر نظر ثانی کی جاتی رہے ۔
۲۔ہر ایک تھانے میں (یازون کی سطح پر )اگرممکن ہوتو کسی مفتی یاعالم دین کا تقر رکیا جا ئے جو روزانہ تھانے میں کچھ گھنٹے گزارے اور تھانے /تھانوں کے تمام معاملات پر نظر رکھے اور جہاں ضروری ہو، مداخلت کر ے اور بلاتفریق ہر شخص کو امن وانصاف مہیا کر نے کو یقینی بنائے اور تھانے کی سطح سے رشوت کلچر کا خاتمہ کر ے۔
۳۔ بروقت ایف آئی آر کے اندراج کو ممکن بنایاجائے۔ اس وقت بڑے سے بڑا نقصان ہوجانے کے باوجود تھانے میں ایف آئی آر کا اندراج کوئی آسان کام نہیں ہے ،اس کے لیے رشوت،چھوٹی بڑی سفارشیں ،حتیٰ کہ بعض اوقات ہائی کورٹ تک کی طرف بھی رجوع کرنا پڑتاہے ۔ اس مسئلے میں عوام کو سہولت مہیا کرنا ان کا بنیادی حق ہے۔
۴۔تھانے میں تفتیش کے طریقے اور اندازکو بدلنے کی ضرورت ہے۔ تھانیدار بہت مشکوک لوگوں کو پکڑاکر لے آتاہے، ان کی چھترول کی جاتی ہے اور ان میں سے کسی ایک کو منوالیاجا تاہے۔ اس کے بجائے خالص سائنسی اور فنی بنیادوں پر مقدمات کی تفتیش کی جائے اور بے گناہوں کو تھانے کے ظلم اور زیادتی سے بچایا جائے ۔
۵۔خواتین سے متعلقہ معاملات کی تفتیش کے لیے مکمل طور پر خواتین کے باپردہ سنٹر قائم کیے جائیں ،جن کے اندراج مقدمہ اور تفتیش کا اپنانظام ہواور خواتین ونگ مکمل طور پر مردوں کے ونگ سے الگ ہواور یہ براہ راست آئی جی کے واسطے سے وزیراعلیٰ کے ماتحت ہو۔اس وقت ہماری چھوٹی اور بڑی عدالتیں جرائم کا سدباب کر نے کے بجائے جرائم کی پرورش اور نرسنگ کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ اگر کو ئی شخص محض شبے میںیا کسی چھوٹے سے چھوٹے جرم میں پکڑاجاتاہے تو وہ ان کورٹ کچہریوں کے چکر میں مکمل طور پر ایک عادی مجرم بن کرنکلتاہے، لہٰذا اس بات کی ضرورت ہے کہ عدالتی نظام کی اصلاح کا ایک جامع اور مربوط نظام اختیار کیاجائے۔ اس سلسلے میں چندتجاویزحسب ذیل ہیں :
۲۔ کورٹ اور کچہری سے متعلقہ مسائل
(الف)چھوٹی اور بڑی عدالتوں میں منصفف کی کرسی پر تقر ر کے لیے اچھے خاندانوں سے اہل اور موزوں افرادکا تقرر کیاجائے اوران کی اخلاقی شہرت کوبھی پیش نظر رکھاجائے۔
(ب)اگر کسی جج یامجسٹریت کے متعلق پتہ چلے کہ وہ رشوت لیتاہے تو اسے فوری پر معزول کردیاجائے بشرطیکہ الزام درست ثابت ہو۔
(ج)چونکہ انصاف مہیا کر نا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے اور انگریزہمیں جو نظام دے گیاہے، اس میں انصاف خریدا جاتاہے،انصاف ملتانہیں ہے اس لیے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے درج ذیل امور پر توجہ کی جائے:
۱۔عدالتوں میں مقدمہ دائر کر نے کے لیے فیس وغیر ہ کے نظام کو مکمل طور پر ختم کردیاجائے۔ انصاف کے حصول کے لیے فیس لینا، خواہ وہ کورٹ فیس ہی کے ضمن میں ہو، ناانصافی کے زمرے میں آتاہے ۔
۲۔البتہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ کسی شخص نے مدعی علیہ پر نا جائزمقدمہ کیا تھا تو عدالت اس سے جرمانہ کے طور پر رقم وصول کر سکتی ہے ۔
(د)مقدمات کا بروقت فیصلہ کر نے کے لیے مرکزی حکومت سے مل کر کوئی نظام وضع کیا جائے اور مقدمے کے مطابق فیصلہ صادر کر نے کا ایک ٹائم ٹیبل مقر ر کر دیاجائے۔ اس وقت عام طور پر مقد مات کے تصفیہ کے لیے کوئی ٹائم ٹیبل مقرر نہیں ہے۔ عدالت دونوں فریقوں کوپیشیاں ڈال ڈال کر تھکادیتی ہے اور فیصلہ اس وقت صادر کر تی ہے جب ان میں سے کوئی ایک تھک ہار جاتاہے۔ اس نظام کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے ۔
(ھ)جو غریب اورمفلس لوگ مقدمات کی پیروی کر نے لیے وکلا کی خدمات حاصل نہیں کرسکتے، اگر ان کا مسئلہ صحیح ہے تو حکومت انہیں مفت وکلا کی خدمات فراہم کر ے۔ اس سلسلے میں وکلا سے فی مقدمہ کے حساب سے فیس طے کی جاسکتی ہے ۔
(و)عدالتی نظام کو درست بنیادوں پر چلانے کے لیے ایسے دینی اور جدید قانون کے ماہرین پر مشتمل ایک شکایات سیل یا دیوان المظالم قائم کیاجائے جہاں تمام مقدمات اور ان کی قانونی کارروائی کی اگر ممکن ہوتو روزانہ ،ورنہ ہفتہ وار یاماہانہ بنیادوں پر رپورٹ وصول کی جائے تاکہ مقدمات کی پیش رفت سے حکومت آگاہ رہے اور اس سلسلے میں مناسب اقدامات اٹھاسکے۔
(ز) جو غریب اور بے کس لوگ قبضہ گروپوں سے اپنی جائداد کا قبضہ نہیں لے سکتے ،انہیں ان کی جائیدادوں کا قبضہ دلانے اور ان کی حفاظت کا مناسب بندوبست کیا جائے۔
(ح)عدالت میں آنے والے گواہوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے ،جس کے لیے ماہرین کے مشورے سے کوئی بھی نظام وضع کیا جاسکتاہے ۔
علاوہ ازیں مختلف علاقوں میں جرگہ کی طرزپر ’’پنچ‘‘ یا ’’حکم‘‘ عدالتوں کا عوامی سطح پر تقرر کیاجائے اور چھوٹے چھوٹے مقدمات کے تصفیہ کے لیے ان عدالتوں کو اختیار دیاجائے۔ اس سلسلے میں صوبہ سرحد اور بلوچستان کی جرگے سے متعلق مقامی روایات سے استفادہ ضروری ہے۔
۳۔ صیغہ مال
تیسراصیغہ یاشعبہ جہاں لوگوں پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں، صیغہ مال ہے۔ عوام پٹواری اور تحصیلدار وغیر ہ کے ہاتھوں سخت پریشان رہتے ہیں۔ اس صیغے کی مکمل اصلاح کے لیے بھی دینی تعلیم یافتہ اورصاحب اخلاق افراد پر مشتمل اچھی بیورو کر یسی کی تقرری بے حد ضروری ہے ۔ مناسب ہوگا کہ حکومت ان کی تنخواہوں پر بھی نظرثانی کر ے اور انہیں ان کی ضرویات کے مطابق اتنی تنخواہیں اداکرے کہ وہ اوسط درجے کی زندگی گزارسکیں۔
اس صیغے کی اصلاح کے لیے حسب ذیل اقدامات کی ضرورت ہے :
۱۔پٹواری /تحصیلدار کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے علاقے کے لوگوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرے اور اس سلسلے میں لوگوں سے دھونس اوردھاندلی سے جو رقوم ،جنس اور غلہ وغیرہ وصول کیاجاتاہے، اس کاسدباب کیا جائے۔
۲۔لوگوں کی اپنی جائیدادوں کی خرید وفروخت کے وقت محکمہ کی طرف سے جو ناجائز طور پر تنگ کیا جاتا ہے، اس کا مداواکیا جائے ۔
۳۔ آبیانے، عشر اور زرعی ٹیکس کے تعین اور اس کی وصولی کے نظام کی اصلاح کی جائے اور اس سلسلے میں جوافراط وتفریط دیکھنے میں آرہا ہے، اس کا خاتمہ کیا جا ئے۔
۴۔دیہا تی آبادی کے لیے نہروں، چشموں اور دوسر ے ذرائع آب رسانی سے لوگوں کے نفع کو یقینی بنایا جائے اور اس سلسلے میں ہونے والی زیادیتوں کا خاتمہ کیا جا ئے ۔
۵۔حکومت شہری آبادی سے جائید اد ٹیکس کے نام پر جو ٹیکس وصول کر رہی ہے، اس پر نظرثانی کی جائے اور جائیداد کے حجم کی مناسبت سے ٹیکس لا گو کیا جائے۔
۶۔حکومت کا شت کاروں کو زرعی ادویات، بیج اور ٹریکٹر وغیر ہ کی خریداری کے لیے بلاسود قرضے جاری کرے اور جن لوگوں نے اس سے پہلے قرضے لے رکھے ہیں، ان پر بھی سود معاف کیا جائے ۔
۷۔بے گھر لوگوں کے لیے بلاسود قرضے دیے جائیں اور ان کی واپسی کے لیے آسان اقساط کی رعایت دی جائے ۔
۸۔بے روزگار نواجونوں کو ذاتی کا روبار کے لیے شراکت کے اصول پر یاقرض حسنہ کے طور پر قرضے دیے جائیں اور چھوٹے کاروبار چلانے کے لیے حکومت ہر طرح کی فنی اور تکنیکی سہولتیں مہیا کر ے ۔
۴۔ دوسرے شعبہ جات
۱۔ان کے علاوہ دوسر ے محکمہ جات مثلا واپڈا،سوئی گیس اور پانی وغیر ہ کے دفاتر میں عوام کے ساتھ جوزیادتیاں روارکھی جاتی ہیں، ان کے ازالے کے لیے ہر محکمہ میں ایک موثر شکایات سیل قائم کیا جائے اوروہاں جوشکایات موصول ہوں، ان کا موثر طور پر ازالہ کیا جائے ۔بجلی، پانی اور گیس کے کنکشن کے حصول کوآسان بنایاجائے اور یہ محکمے عوام کو جو ناجائزطور پر تنگ کر نے کے لیے تاخیری حر بے اختیار کر تے ہیں ،ان کا ازالہ کیا جائے اوران کو صحیح معنوں میں عوام کا خادم بنایا جائے ۔
۲۔بنکوں میں بل جمع کرانے کے لیے کوئی ایسانظام وضع کیا جائے کہ دفتری اوقات میں تمام بنک اور دفتری اوقات کے بعد منتخب بنک تمام یوٹیلٹی بل وصول کر نے کے پابند ہوں تاکہ عوام کو کچھ ریلیف ملے اوروہ بنکوں میں آسانی سے ااپنے بل جمع کراسکیں ۔
۵۔ بلدیاتی شعبہ جات
بلدیاتی شعبہ جات کا بھی عوام کے ساتھ بڑاگہراتعلق ہے۔ الجزائر اور ترکی میں اسلام پسند جماعتوں نے سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور لوگوں کی بلدیاتی سطح پر اس طرح خدمت کی کہ انتخابات میں انہیں ملکی سطح پر واضح کامیابی ملی ،اس لیے اس سطح پر عوا م کی خدمت کو موثر بنانے کے لیے درج ذیل اقدامات کی ضرورت ہے :
۱۔تمام بلدیاتی اداروں کو اس بات کا پا بند کیا جا ئے کہ وہ علاقے میں ترقیاتی اور صفائی کے کا م کروانے کے لیے میرٹ پر کام کر یں گے۔ الاحق فالاحق کے اصول پر کام کو موثر بنانے کے لیے صوبائی حکومت کوئی موزوں اور مخصوص نظام وضع کر سکتی ہے جس میں انسپکشن (معائنے )اور نگرانی وغیر ہ کے طریقوں کا عمل وغیر ہ شامل ہے ۔
۲۔بلدیاتی سطح پر ہونے والے تر قیاتی کاموں سے رشوت خوری کا مکمل طور خاتمہ کردیاجائے ۔
۳۔عوام کی شکایات کے ازالے کے لیے ہر ایک سطح پر شکایات سیل یا دارالمظالم کا قیام عمل میں لایاجائے ۔
۶۔ تعلیمی شعبہ
۱۔ دوسرے شعبوں کی طرح تعلیمی شعبے کی اصلا ح کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لیے ملک میں جاری دوعملی کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والے غیر ملکی سکولوں کو ملکی نصاب تعلیم کا پابند بنایا جائے اور سرکاری تعلیمی اداروں کی تعلیم کے نظام کو بہتر بنایاجائے ۔
۲۔ملک میں رائج العمل دو عملی کا ہر سطح پر خاتمہ کیا جائے۔ حکومت دینی اداروں کی بھی سرپر ستی کر ے ،اور ان کے نظام تعلیم میں موجوہ دورکے لیے ضروری مضامین کو شامل کر ے اوران ڈگریوں کوہر سطح پر تسلیم کیا جائے ۔
۳۔سکولوں اور کالجو ں میں نصاب تعلیم پر بھی نظرثانی کی جائے اوردینی تعلیم کا خاطرخواہ حصہ اس میں شامل کیا جائے۔
۴۔میٹرک تک حکومت تعلیم مفت دینے کا اعلان کر چکی ہے۔ بالائی سطح پر بھی حکومت طالب علموں کو وظائف دے تاکہ غربا کے بچے بھی اعلیٰ تعلیم حا صل کر سکیں ۔
۷۔ ہسپتال اور دوسرے رفاہی ادارے
۱۔ اسی طرح ہسپتالوں کے نظام پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عام طور پر ہسپتالوں میں اول توعملہ ہی موجود نہیں ہوتااور اگر عملہ موجود ہوتو ادویات دستیاب نہیں ہوتیں، اور غریب اورنادارلوگ ہروقت علاج معالجہ کی سہولت مہیانہ ہونے کی بناپر زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ اگر کسی غریب شخص کاعلاج مہنگاہو تو حکومت زکوٰۃ فنڈسے اس کے علاج معالجے کی سہولیات مہیاکر سکتی ہے ۔
۲۔دیہی علاقوں میں موجود ہسپتالوں میں موزوں عملہ متعین کیا جا ئے اور اگر ایم بی بی ایس ڈاکٹر دستیاب نہ ہوں تو طب یونانی کے کسی ماہر کی تقرری کر دی جائے تاکہ علاقے کے لوگ علاج معالجے کی سہولتوں سے فائدہ اٹھاسکیں ۔
۸۔ احتساب کا موثر نظام
۱۔گڈ گورننس کو موثر بنانے کے لیے ہرسطح پر انسپکشن (معائنے )اور احتساب کا نظام قائم کیا جائے۔ یہ نظام اس نوع کا ہوکہ لوگوں کو واقعی یہ نظر آئے کہ ملک میں یاصوبے میں انصاف ہورہا ہے۔ اس سلسلے میں سخت ترین سزاؤں کا نفاذ موثر بنایا جائے ۔
۲۔ احتساب کے ادارے میں اچھی شہرت اور اچھے اخلاق کے حامل لوگوں کا تقر ر کیا جائے ،جو بلاتفریق سب کے لیے ایک ہی موثر نظام جاری کریں ۔
اختتام
یہ صرف چندایک شعبوں کی نشان دہی ہے۔ اسلامی نظام دنیاکے لیے باعث رحمت ہے۔ اگر حکومت ابتدائی مرحلے میں لوگوں کوظلم وزیادتی سے چھٹکارا دلاسکے اورانہیں ان کے مسائل میں کوئی ریلیف دلاسکے تو یہ بہت بڑاکا رنامہ ہوگااور نفاذ اسلام کے اگلے مرحلے کے لیے راہ ہموار ہوگی ۔
دعوت و تربیت اور تعمیر سیرت کی اہمیت
حکیم سید محمود احمد سرور سہارنپوری
(۲۱ جنوری ۲۰۰۳ء کو ہمدرد سنٹر لاہور میں مجلس فکر ونظر کے زیر اہتمام ’’پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں خطاب۔)
الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین وخاتم النبیین وعلی آلہ واصحابہ اجمعین۔
محترم صدر! میرے بزرگو اور بھائیو!
میں اسے اپنے لیے بڑی سعادت سمجھتا ہوں کہ اہل علم اور اہل فکر ودانش کے اس اجتماع میں مجھے ’’دعوت اور تربیت‘‘ کے عنوان سے آپ کے سامنے خیالات کے اظہار کا موقع نصیب ہو رہا ہے۔ بات شروع کرنے سے پہلے میں محترم حافظ حسین احمد اور محترم پروفیسر محمد ابراہیم کو مبارک باد دیتا ہوں کہ اللہ نے جنہیں نصف صدی کے بعد یہ توفیق بخشی کہ وہ پاکستان میں اسلام کے نفاذ کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے متحدہ مجلس عمل کو یہ توفیق نصیب فرمائی کہ آج ایک صوبے میں بغیر کسی کے تعاون کے اسے مکمل حکومت بنانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ یہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔
اس برصغیر میں تقریباً ڈیڑھ پونے دو سو سال سے اسلام کے نفاذ کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ آپ ان پر نظر ڈالیں گے تو آپ کو ان کوششوں کے اخلاص، ان کے ایثار، ان کے زہد وتقویٰ اور ان کی کوششوں میں کوئی کمی اور کجی دکھائی نہیں دے گی لیکن یہ کوششیں کام یابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکیں۔ سچی بات یہ ہے کہ مقصود اسلام کے نظام کا نفاذ ہے، وہ کسی اور کے ہاتھوں سے ہو یا آپ کے ہاتھوں سے۔ ہمارا محبوب اسلام ہے۔ اس سلسلے میں ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے بھی اسلام نافذ کرنے کا موقع مہیا کر دے، ہم اس کے دست وبازو بن جائیں۔ ہم اس کو قوت فراہم کریں۔ ہم اس کی حمایت کریں اور جو کچھ بھی اس کے لیے کر سکتے ہوں، کریں۔ بغیر اس لالچ وخواہش کے کہ اس میں ہمیں کچھ حصہ ملے، ہمارا نام آئے، ہمیں کوئی اعزاز ملے، کوئی عہدہ نصیب ہو۔ ہمیں اپنے اس کام کو چونکہ خدا کو راضی کرنے کے لیے کرنا ہے اور جو اجر بھی لینا ہے، وہ اللہ ہی سے لینا ہے لہٰذا جب تک اس جذبے کے تحت ملت اسلامیہ پاکستان اپنے فرائض کو ادا کرنے کی طرف متوجہ نہیں ہوگی، یہ کوشش کام یابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتی۔
جو لوگ اسلامی نظام کے نفا ذ کے اس اعزاز کے حامل ہیں، انہیں تعجیل اور افتراق سے بھی بچنا ہوگا اور اپنے اندر کی انانیت کو بھی کنٹرول کرنا ہوگا۔ پاکستان اسلام کے نفاذ کے لیے ہی بنا تھا۔ لوگ جتنے چاہے مغالطے دیں کہ مذہبی قوتوں نے اس کی مخالفت کی تھی مگر درحقیقت راس کماری سے لے کر پشاور تک سارے علمائے حق پاکستان کے حق میں تھے۔ چاہے کسی نے جلسے جلوسوں میں حصہ لیا یا نہیں لیا۔ میں آپ کو یاد دلا دوں۔ مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا عبد الحامد بدایونی، مولانا داؤد غزنوی، مولانا خیر محمد ملتانی، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد انصاری، یہ سارے کون تھے؟ یہ سارے علما تھے، یہ سب تحریک پاکستان کے موید تھے۔ یہ سب علما بغیر کسی وزارت کے لالچ کے پاکستان کے لیے کام کرنے والے تھے۔ یہ ایک ٹیم تھی۔ آپ نے دیکھا کہ ایک ایسی انہونی ہو گئی جس کے لیے مخالفین پاکستان یہ کہتے تھے کہ یہ دیوانے کا خواب ہے، پاکستان نہیں بنے گا۔ لیکن پاکستان بن گیا۔ بن گیا تو مخالفین کہنے لگے کہ پاکستان نہیں چلے گا اور یہ چل گیا، چل رہا ہے، الحمد للہ۔ ان شاء اللہ یہ چلتا رہے گا۔
یہ بات میں نے اس لیے عرض کی کہ وہ ایک اتحاد تھا ساری ملت اسلامیہ برصغیر کا جس نے پاکستان اس لیے بنایا کہ وہ یہاں اسلام نافذ کرے گی، اسلامی نظام زندگی کے مطابق اپنی زندگی بسر کرے گی۔ آپ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا نعرہ اچھی طرح جانتے ہیں لیکن پاکستان بن جانے کے بعد اسے بنانے والوں نے سمجھا کہ اب ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے ہیں۔ چند بزرگوں کے اس دنیا سے پردہ کر جانے کے بعد ہم کمر کھول کر بیٹھ گئے۔ ہم نے اس کی نگرانی نہیں کی۔ بیج ڈالنے کے بعد، کھیت پوری طرح تیار کر لینے کے بعد اسے تیار کرنے والے، بنانے والے اگر اس کی نگرانی نہیں کرتے تو پھر وہ پھل حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ وہ ٹیم اس لیے ناکام ہو گئی کہ اس نے اگلے مرحلے کے لیے کام نہیں کیا تھا۔ پھر دوبارہ ہمارا اتحاد ہوا۔ کہایہ جاتا تھا کہ کون سا اسلام؟ شیعہ کا اسلام، سنی کا اسلام، بریلوی کا اسلام، دیوبندی کا اسلام، کس کا اسلام؟ تو علما نے متحد ہو کر یہ ۳۱ نکات مقرر کر کے اس بات کا اظہار کر دیا کہ یہ اسلام ہے۔ ان علما میں تمام مکاتب فکر کے نمائندے تھے۔ ان علما نے یہ طے کر دیا کہ یہ اسلام ہے یعنی حاکمیت اللہ کی، قانون کتاب وسنت کا۔ اگر کوئی قانون کتاب وسنت کے خلاف ہے تو وہ تبدیل کر دیا جائے گا اور آئندہ قوانین کتاب وسنت کے مطابق بنائے جائیں گے، ان کے خلاف نہیں بنائے جائیں گے۔
قرارداد مقاصد کی صورت میں یہ اسلام کا بنیادی کام ہوا تھا اور یہ علما کے اتحاد ہی کا نتیجہ تھا۔ مجھے ایک بات یہ بھی کہنی ہے کہ اسلامی تحریکوں نے گزشتہ عرصے میں جو کچھ بھی کام یابی حاصل کی، اس کا کیا ہوا؟ ایران میں اسلام کے نام پر انقلاب آیا تو ہم نے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ اس انقلاب کے خلاف کتابیں لکھی جانے لگیں۔ اس موقع پر ایک غلطی انقلاب لانے والوں نے بھی کی۔ ایک جگہ اسے مستحکم کیے بغیر انہوں نے کہا کہ ہم اس انقلاب کو برآمد کریں گے۔ پھر کہیں انقلاب آیا تو کہا گیا کہ یہ دیوبندیوں کا انقلاب ہے۔ اگر اسلام کو اس طرح تقسیم کیا جاتا رہا تو پھر اسلام کبھی نہیں آئے گا اس لیے کہ کہیں یہ حنبلیوں کا ہوگا، کہیں شافعیوں کا ہوگا، کہیں مالکیوں کا ہوگا، کہیں حنفیوں کا ہوگا، کہیں اہل حدیثوں کا ہوگا اور کہیں شیعوں کا ہوگا۔ پھر کہا جائے گا کہ یہ کوئی اسلام نہیں ہے۔ اسلام اللہ کی کتاب کا نام ہے۔ اسلام محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت کا نام ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب تک چھوٹے چھوٹے اختلافات سے گریز نہ کیا جائے، اس وقت تک اتحاد کی فضا قائم نہیں ہوگی۔ ہمارا دشمن اسی دروازے سے داخل ہوتا ہے۔
یہ بات یاد رکھیے کہ سب سے پہلا کام اس اتحاد کو قائم رکھنا ہے اور تمام قسم کی سازشوں سے اسے بچانا ہے جن کے نتیجے میں ہمارے سابقہ ادوار کے اتحاد ناکام ہوتے رہے۔ آپ کو فرقہ واریت سے بھی بچنا ہے۔ ذاتی انا اور لیڈر شپ کے اس جنون کو اپنے اندر سے نکالنا ہے جس نے ماضی میں ہمیں ناکام کیا۔ آپ جب تاریخ کا تجزیہ کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ لوگوں نے صرف اور صرف اپنی ذات، اپنی لیڈر شپ، اپنی خواہش، اپنی نسل، اپنی جماعت، اپنی برادری اور اپنی لسانیت کے لیے سارے کا سارا نظام داؤ پر لگا دیا۔ اللہ نے آپ کو یہ اعزاز عطا کیا ہے کہ آپ تاریخ کا سنہری باب رقم کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اب یہ جواب آپ کے ذمے ہے کہ اسلام لوگوں کو کیا دیتا ہے؟ اسلام لوگوں کے مسائل کس طرح حل کرتا ہے؟ اس کام کا آغاز نفاذ تعزیر سے نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا آغاز فلاحی مملکت کے قیام سے ہونا چاہیے۔ فلاحی مملکت کا تصور اسلام ہی نے دیا ہے۔ نبی ﷺ کا یہ کہنا کہ جو تم میں سے قرضہ چھوڑ کر مرے، وہ میں دوں گا اور جو مال چھوڑ کر مرے، وہ اس کے بچوں کا ہے، یہ وہ فلاحی مملکت کا تصور ہے کہ جو کچھ تم نے چھوڑا، وہ تمہارا۔ جو تم پر باقی ہے، وہ ہم دیں گے۔ تمہاری ضرورتیں ہم پوری کریں گے۔ ظاہر ہے آپ آج اس پوزیشن میں تو نہیں ہیں کہ لوگوں کو بے روزگاری الاؤنس دیں۔ آپ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ہر آدمی کی ضرورتوں کو پورا کر سکیں لیکن بہتری کا آغاز بہرحال ہونا چاہیے۔ اور اس کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ جو لوگ ذمہ دار بنا دیے گئے ہیں، وہ اپنے معیار زندگی کو سابقہ معیار زندگی سے بڑھنے نہ دیں۔ اگر ان کے پاس اپنی ذاتی گاڑی ہے تو وہ سرکاری گاڑی استعمال نہ کریں۔ اگر ان کے پاس اپنی ذاتی رہائش گاہ موجود ہے تو وہ سرکاری رہائش گاہ نہ لیں۔ آپ غیر پیداواری اخراجات کم کر سکتے ہیں۔ اس راستے میں آپ کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ یہ وہ سرمایہ ہوگا جس سے آپ عوامی فائدے کے کام کر سکتے ہیں۔ یہاں انصاف بکتا ہے، چاہے وہ کسی بھی صورت میں بکتا ہو۔ اس خرابی کے خاتمے کے لیے آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ اسلام آیا تو ہمیں یہ یہ فائدہ ملا۔ عدلیہ کے نظام میں ایسی دور رس تبدیلیاں کریں کہ جن کے ذریعے فوری اور سستا انصاف ملے۔ قانون ہر شخص کے لیے ایک ہو۔ ٹریفک کے اشارے کی خلاف ورزی پر میری گاڑی کا چالان ہوتا ہے تو اشارے کی خلاف ورزی پر وزیر صاحب کی گاڑی کا بھی چالان ہونا چاہیے۔ اس کام میں کوئی لمبا چوڑا سرمایہ خرچ نہیں ہوتا۔ اس میں صرف انتظامیہ پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
اگر کسی شخص کی سمجھ میں یہ بات آ جائے کہ اسلام آنے کے نتیجے میں اسے، اس کے بچوں کو، اس کی نسلوں کو یہ یہ فوائدملیں گے تو وہ اپنی ضرورتیں کاٹ کر بھی آپ کا ساتھ دے گا، جس طرح آپ کو ووٹ دینے والوں نے ووٹ دیے ہیں۔ ورنہ یہاں الیکشن لڑتے ہوئے آپ کو پچاس برس ہو گئے۔ آپ کا ووٹ بینک نہیں بڑھا۔ جے یو آئی نے ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں تیرہ لاکھ ووٹ لیے، جے یوپی نے تیرہ لاکھ آٹھ ہزار اور جماعت اسلامی نے نو لاکھ آٹھ سو ووٹ لیے۔ مجموعی طور پر یہ سارے ووٹ پینتیس لاکھ بنتے ہیں۔ اب آپ کو تینتیس لاکھ ووٹ ملے ہیں لیکن قوم نے تینتیس لاکھ ووٹ دے کر آپ کو اس مقام تک پہنچا دیا ہے کہ ایک صوبے میں آپ نے مکمل حکومت بنا لی۔ یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ وہاں کے لوگوں کو یقین آ گیا کہ آپ اکٹھے ہو گئے ہیں اور آپ ہی ان کے مسائل حل کریں گے کیونکہ دوسرے ان کے مسائل حل نہیں کر سکتے۔
تعمیر سیرت کے مرحلے میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ رہنما آدمی کو نمونے کا آدمی بننا پڑے گا۔ جو لوگ یہ علم لے کر اٹھے ہیں کہ ہم اسلامی نظام لائیں گے، ان کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ اسمبلی کو اٹھا کر مسجد میں لے آیا جائے۔ یہ کام آپ وہیں کیجیے۔ وہاں آپ اس بات کا انتظام کیجیے کہ جو لوگ آپ کے ماتحت کام کرنے والے ہیں، انہیں نظر آئے کہ آپ خود غلط کام نہیں کرتے اس لیے نیچے بھی کسی کو غلط کام نہیں کر نے دیں گے۔ مجھ سے پہلے ایک محترم بھائی یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر چیف جسٹس انصاف کرنا چاہے تو اس کے ماتحت جج اس بات پر مجبور ہیں کہ انصاف کریں۔ اوپر کے درجے پر فائز لوگوں کو سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنی پڑے گی تاکہ نیچے والوں کی اصلاح ہو سکے۔
نظا م تعلیم کی طرف توجہ دیجیے کیونکہ آپ صوبہ سرحد میں مرکزی حکومت کی امداد اور تائید کے بغیر اسے چلا سکتے ہیں۔ نظام تعلیم کی اصلاح کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کیجیے۔ درمیان کی جو دیوار ہے، اسے دور کر دیجیے کہ جو دین کا علم جانتا ہے، اس کے پاس دنیا کے علم کی کمی ہے اور جو دنیا کا علم جانتا ہے، اسے دین کا پتہ ہی نہیں۔ یہ آپ صوبہ سرحد میں کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے کوئی مشکل نہیں۔
اسلام نافذ کرنے کے سلسلے میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس ملک کے رہنے والے بے عمل تو ہو سکتے ہیں لیکن یہ اسلام سے جو قلبی وابستگی رکھتے ہیں، اس میں کوئی کمی نہیں۔ آپ دیکھیں کہ جب تحریک ختم نبوت چلتی ہے تو اس میں جان دینے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جو بے عمل ہیں۔ سیرت سازی کے لیے آدمی کو خود نمونہ بننا پڑتا ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ اپنے نظام کا خود نمونہ ہیں۔ وہ نعرہ ہیں نہ دعویٰ بلکہ نمونہ ہیں۔ پھر ایک بات اور میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کو مسلمان سمجھ کر آپ اپنے ساتھ لے کر چلیں گے تو یہ آپ کے دست وبازو بنیں گے۔ آپ کی قوت بڑھے گی۔ اللہ نے آپ کو سرحد اور بلوچستان میں طاقت دی۔ یہ طاقت وہاں سے آگے بڑھے گی۔ اگر آپ نے لوگوں کو مسلمان سمجھ کر ساتھ ملانے کی کوشش نہ کی تو یہ یاد رکھیے کہ آپ کا مخالف بہت چالاک ہے۔
آپ محاذ آرائی کے ہر عمل سے گریز کیجیے۔ کسی کو برانگیختہ کرنے یا اشتعال دلانے کی ضرورت نہیں۔ آپ کو کوئی چار باتیں کہہ دیتا ہے تو آپ خاموشی سے سن لیجیے اور اس لیے سن لیجیے کہ آپ مثبت طور پر اسلامی نظام کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں، محاذ آرائی کر کے اپنے راستے کو تنگ کرنا نہیں چاہتے۔ جو قوتیں اسلام کو ناکام کرنا چاہتی ہیں، وہ آپ کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گی اس لیے اشتعال دلانے سے بھی بچیے اور اشتعال میں آنے سے بھی بچیے۔ یہ ہماری دردمندانہ اور مخلصانہ گزارش ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس طریقے سے ان بد نتائج سے بچا جا سکتا ہے جن میں آپ کو آلودہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برصغیر سے اور سارے عالم اسلام سے جو سامراجی نظام گیا اور نوآبادیاتی سسٹم ختم ہوا، وہ دوسری جنگ عظیم کے حالات کا جبر تھا کہ فرانس، پرتگال، برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک اپنی نوآبادیات کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ اب نوآبادیاتی نظام کا دوسرا منصوبہ شروع ہوا ہے۔ دوسرے انداز سے، دوسرے نام سے، اور یاد رکھیے کہ ان کے منصوبے ہمارے منصوبوں کی طرح دو سالہ، چار سالہ اور پانچ سالہ منصوبے نہیں ہوتے۔ اب نوآبادیاتی نظام کا جو منصوبہ ہے، وہ سارے ترقی پذیر ممالک پر لاگو کر کے ان کے سارے ذرائع کو، سارے وسائل کو اس طرح قبضے میں لے لینے کا ہے کہ تیل مسلمانوں کا ہو، فائدہ ان کو پہنچے۔ گیس مسلمانوں کاہو، فائدہ ان کو پہنچے۔ کانیں مسلمانوں کی ہوں، فائدہ وہ اٹھائیں۔ اسی غرض کے لیے یہ سارے کا سارا جال بچھایا گیا ہے۔ کیسی عجیب وغریب صورت حال ہے کہ مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل لگا دیا گیا ہے اور ۵۹ اسلامی ممالک ایسے خاموش ہیں کہ کسی طرف سے یہ آواز تک نہیں آتی کہ ہم دہشت گرد نہیں ہیں۔ ۵۹ ممالک اس طرح متحد ہیں کہ ان کی کوئی پوزیشن نہیں۔ تاریخ میں آج تک ایسا مرحلہ نہیں آیا تھا کہ کسی اتحاد کی کوئی پوزیشن ہی نہ ہو۔
میں ایک بار پھر یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جذباتیت سے اس ساری صورت حال کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایک مرحلہ آتا ہے جب جذباتی فضا آدمی کو اس حال تک پہنچا دیتی ہے کہ اسے اپنے ہی موقف سے دست بردار ہونا پڑتا ہے۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ ابھی ہم اس مرحلے پر نہیں ہیں کہ ہمیں اپنے ہی موقف سے دست بردار ہونا پڑے۔
ذرائع ابلاغ کو اس حد تک کنٹرول کیا جائے کہ وہ اسلامی معاملات کو اسلام ہی کے نقطہ نظر سے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ صوبہ سرحد میں ریڈیو اور ٹی وی کے جو اوقات خاص آپ کے لیے ہیں، ان سے بھرپور فائدہ اٹھائیے اور اسلامی کلچر کو فروغ دیجیے۔ ہم ہر حال میں ان شاء اللہ آپ کا دست وبازو بننے کے لیے تیار ہیں۔ ہمارا آپ سے کسی قسم کا کوئی مطالبہ ہے نہ ہم آپ سے کسی ستائش کی تمنا رکھتے ہیں۔ ہم نے انتخابات میں بھی آپ کے کہے بغیر آپ کا ساتھ دیا اور ان شاء اللہ آئندہ بھی آپ کا ساتھ دیں گے۔ اس کا اجر ہم نے اللہ سے لینا ہے۔ جب ہم سے سوال ہوگا کہ تم نے اللہ کے دین کے لیے کیا کیا تھا تو ہم کہہ دیں گے کہ اے اللہ! آپ نے ان لوگوں کو دین کے نفاذ کا اختیار دیا تھا، ہم ان کے جوتوں کی گرد جھاڑنے کے لیے ان کے ساتھ تھے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ دل سے آپ کے ساتھ ہیں۔ اپنی قوتوں سے آپ کے ساتھ ہیں۔ جن کے پاس کچھ نہیں، ان کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو درست طور پر کام کرنے کی توفیق نصیب فرمائیے۔ آمین
امریکہ ۔ ہمارا دوست یا دشمن؟
ڈاکٹر محمد فاروق خان
(جذباتیت اور سطح بینی کی جس کیفیت نے اس وقت امت مسلمہ کی پوری ذہانت کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، اس کے مظاہر میں سے ایک بہت نمایاں مظہر یہ ہے کہ ہمارے ہاں مخالف رائے، بالخصوص فریق مخالف کے موقف کو اس کے حقیقی تناظر میں سمجھنے اور معروضی انداز میں اس کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت مفقود ہو چکی ہے ۔ یہ طرز فکر ہمارے بیشتر مسائل کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی اصلاح اس وقت امت مسلمہ کی سب سے بڑی فکری ضرورت بن چکی ہے۔ ذیل میں دانش سرا پاکستان کے صدر ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کی ایک تحریر شائع کی جا رہی ہے جس میں انہوں نے عالم اسلام کے حوالے سے امریکہ کے کردار کا معروضی انداز میں جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے تجزیے سے یقیناًاختلاف کیا جا سکتا ہے اور ہم اس اہم موضوع پر اہل دانش کی سنجیدہ تحریروں کو خوش آمدید کہیں گے۔ مدیر)
عالم اسلام کے اندر اس وقت اس سوال پر بڑی بحث ہو رہی ہے کہ آیا امریکہ پورے عالم اسلام اور بذات خود مذہب اسلام کو دشمن کی نظر سے دیکھتا ہے یا وہ درحقیقت عالم اسلام کا دوست ہے ۔یا پھر یہ کہ وہ عالم اسلام کا نہ دوست ہے نہ دشمن ، بلکہ وہ عالم اسلام کے ہر ملک سے علیحدہ علیحدہ محض تعلقات کار رکھنا چاہتا ہے ۔
جو مکتب فکر یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ پورے عالم اسلام اور بذات خود مذہب اسلام کا دشمن ہے ،ا س کی دلیل یہ ہے کہ امریکہ دراصل اسی استعماری اور سامراجی قو ت کا تسلسل ہے جس نے مسلمانوں کے ساتھ صلیبی جنگیں چھیڑیں اور جو بعد میں یورپی نوآبادیاتی طاقتوں کی شکل میں ایشیا اور پھر افریقہ پر قابض ہوئی ۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ پچھلے پچاس برس سے اسرائیل کی مسلسل اور غیر متزلزل حمایت کر رہا ہے ۔امریکہ نے ۱۹۹۰ء میں خلیجی جنگ کے بعد تمام خلیجی ملکوں اور سعودی عر ب میں اپنے فوجی اڈے قائم کرلیے ۔ ’’القاعدہ‘‘ کے بہانے سے اس نے طالبان کی حکومت ختم کر دی اور اب عراق کے درپے ہے۔ اس کے بعد اغلباً ایران اور پھر پاکستان کی باری ہے ۔
دوستی کی بات کرنے والا مکتب فکر درج بالا دلائل کو غلط سمجھتا ہے ۔ اس کے خیال میں صلیبی جنگوں سے پہلے او ر صلیبی جنگوں کے بعد ایک لمبے عرصے تک مسلم ملکوں اور یورپی طاقتوں میں دوستی بھی رہی ہے ۔اس دوران میں خود عیسائی یورپی ملکوں میں بھی آپس میں بڑی خون ریز لڑائیاں ہوئی ہیں ۔اس کے بعد افریقہ اور ایشیا پر یورپی قبضہ دراصل ٹیکنالوجی کی قوت کا مظہر تھا ۔اس میں بھی عیسائی یورپی طاقتیں آپس میں کبھی متحد نہیں رہیں ،بلکہ انگریزوں، فرانسیسیوں، پرتگیزیوں اور ولندیزیوں کے درمیان اس دوران میں بڑی جنگیں ہوئی ہیں ۔پہلی اور دوسری جنگ عظیم بھی اصلاً یورپی عیسائی طاقتوں کی آپس کی لڑائی تھی جس میں دونوں طرف سے کروڑوں لوگ ہلاک ہوئے ۔آج امریکہ عالم اسلام کے غریب ممالک کو سب سے زیادہ امداد دینے والا ملک ہے ،خصوصاً پاکستان کی ترقی کی ایک ایک اینٹ امریکی امداد کی مرہون منت ہے ۔امر یکہ نے مسلمان ممالک کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچایا ، سوائے ان مواقع کے کہ جب کسی نے خود آگے بڑھ کر امریکی مفادات یا امریکہ پر براہ راست حملہ کر دیا ہو ۔دو یورپی مسلمان ملکوں یعنی بوسنیا اور کوسووو کی آزادی دراصل امریکہ ہی کی مرہون منت ہے ۔
ورکنگ ریلیشن شپ یا تعلقاتِ کار والے مکتب فکر کے خیال میں بین الاقوامی تعلقات میں نہ مستقل دوستی چلتی ہے ،نہ مستقل دشمنی ، بلکہ ہر ملک اپنے وقتی مفادات کی خاطر دوسروں سے تعلقات کار رکھتا ہے ۔امریکہ کی اصل دلچسپی اس خواہش سے ہے کہ اس کے سپر پاور ہونے کی حیثیت برقرار رہے اور اس کے مفادات کو کوئی نقصان نہ پہنچے ۔اس کی پچھلی تمام تاریخ اس امر کی گواہ رہی ہے کہ اس نے دوسرے ملکوں سے تعلقات ہمیشہ اسی وجہ سے اور یا پھر اپنی اندرونی سیاست کی وجہ سے رکھے ہیں اور اس میں ا س نے مذہب ،رنگ اور نسل کا خیال کم ہی رکھا ہے۔ پچھلے پچاس برس میں اس کا سب سے بڑا دشمن کمیونزم رہا ہے جس کا علم بردار سفید فام عیسائی روس اور مشرقی یورپ تھا۔ تیس چالیس برس پہلے عراق، شام ،لیبیا ،ایران اور کئی دوسرے ممالک میں امریکہ مخالف انقلاب آئے ، مگر امریکہ نے ان پر حملہ نہیں کیا ، اس لیے کہ یہ حملے اس کو بہت مہنگے پڑتے ۔ کئی بدھسٹ ممالک مثلاً جاپان ،جنوبی کوریا ،تائیوان اور تھائی لینڈ سے اس کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔زمبابوے اور جنوبی افریقہ میں اس نے سفید فام نسلی امتیاز پر مبنی حکومتوں کو ختم کرنے اور افریقی اکثریت کی حکومت کو قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ایسے جھگڑے جن میں ایک فریق عیسائیوں پر مشتمل تھا ، مثلاً اریٹریا اور صومالیہ کی آویزش ،جنوبی سوڈان کی لڑائی اور بیافرا کے مسئلے پر اس نے عیسائیوں کا ساتھ نہیں دیا ۔افریقہ کے غریب ترین عیسائی ممالک کی امداد میں امریکہ نے کوئی خاص گرم جوشی نہیں دکھائی ۔اس کے برعکس اس نے کئی مسلمان ممالک مثلاً انڈونیشیا ،بنگلہ دیش ،سعودی عرب ،کویت ،ترکی اور مراکش وغیرہ سے قریبی تعلق رکھا ہے ۔
درج بالا تینوں نقطہ ہاے نظر کے دلائل میں وزن موجود ہے۔مناسب ہے کہ ان میں سے بعض امور پر خصوصی توجہ دی جائے خصوصاً ان مسائل پر جن کا تعلق موجودہ حالات سے ہے ،تفصیل سے روشنی ڈالی جائے ۔
مسلمانوں اور عیسائیوں کی تاریخی کشمکش
امریکی اقدامات کے تجزیے میں یہ نکتہ بھی باربار آتا ہے کہ یہ دراصل عالم اسلام اور عیسائی دنیا کے درمیان تاریخی کشمکش کی ایک کڑی ہے ۔اس لیے ضروری ہے کہ چودہ سو سال کی تاریخ پر ہماری نظر رہے۔
مسلمانوں نے اپنے ابتدائی چھ سو برس میں جتنا علاقہ فتح کیا ،سوائے اندلس ،بھارت اورفلسطین کے ،کم و بیش باقی تمام علاقہ اب بھی عالم اسلام میں شامل ہے ۔اندلس کی حکومت کے خاتمے کی اصل وجہ آپس کی خانہ جنگی تھی۔ اس کے برعکس برصغیر پر جن مسلمان حکمرانوں نے قبضہ کیا ، انھیں یہاں اسلام کی دعوت پھیلانے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی ۔البتہ ارض فلسطین خصوصاً یروشلم ہمیشہ سے کشمکش کا مرکز رہا ہے ۔یروشلم پر مسلمانوں نے ۶۴۰ء میں قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے بعد ۱۰۹۶ء یعنی اگلے ساڑھے چار سو بر س سے بھی زیادہ عرصہ اس پر مسلمانوں کا قبضہ رہا ۔اس کے بعد ایک سوبرس تک اس علاقے پر عیسائی طاقتوں کا قبضہ رہا۔ ۱۰۹۶ء سے لے کر ۱۲۷۱ء تک یعنی کم و بیش دوسو برس میں مسلم طاقتوں اور عیسائی طاقتوں کے درمیان آٹھ بڑی لڑائیاں لڑی گئیں جن میں پہلے عیسائی طاقتوں اور بعد میں مسلم طاقتوں کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد اگلے سات سو برس مزید اس پر مسلمانوں کا قبضہ رہا ۔حتیٰ کہ جب عثمانی سلطنت نے پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کا ساتھ دیا تو برطانیہ نے جرمنی کے ساتھ ساتھ عثمانی مملکت کو بھی شکست دیتے ہوئے اس کے زیر قبضہ تمام عرب علاقوں بشمول فلسطین و یروشلم پر قبضہ کر لیا ۔اگلے تیس برس تک یہاں انگریزوں کا قبضہ رہا ۔ان کے جانے پر فلسطین کا آدھا حصہ اسرائیل اور آدھا حصہ اردن کے قبضے میں آگیا ۔بیت المقدس اردن کے قبضے میں رہا حتیٰ کہ ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے اس پر قبضہ کر لیا پچھلے پینتیس برس سے یروشلم اسرائیل کے قبضے میں ہے۔
گویا ارض فلسطین کے متعلق تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہاں پچھلی ایک صدی سے ہلال و صلیب اور ہلال و ڈیو ڈسٹار کی کشمکش جاری ہے ۔تاہم باقی عالم اسلام پر یہ بات صادق نہیں آتی۔اس بحث کے بعد یہ ضروری ہے کہ ان حالیہ اہم ترین مسائل کا تجزیہ کیا جائے جہاں امریکہ کے مقابل مسلمان قوتیں صف آرا ہیں ۔
ا۔ طالبان اور القاعدہ
اس ضمن میں امریکہ مخا لف نقطۂ نظر کے دلائل درج ذیل ہیں:
- ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ القاعدہ کا کام نہیں ہے ۔اس حملے کی منصوبہ بندی ،فنی مہارت اور اس پر عمل درآمد کے لیے جو ٹیکنالوجی چاہیے وہ القاعدہ کے بس کی بات نہیں ہے ۔اس لیے امریکہ کا یہ الزام بے بنیاد ہے
- اس حملے سے سب سے زیادہ فائدہ یہودیوں کو پہنچا ہے ۔نیز ۱۱ ستمبر کے دن ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں کام کرنے والے چار ہزار یہودی غیر حاضر تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حملہ یہودیوں نے کیا ہے اور یہودیوں کو اس کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا ۔
- ملاعمر نے یہ پیش کش کی تھی کہ بن لادن پر افغانستان میں مقدمہ چلایا جائے ، مگر اسے یک سر نظر انداز کر دیا گیا۔
- افغانستان پر امریکی بم باری کے نتیجے میں تقریباً تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے اور سیکڑوں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ یہ بڑا ظلم اور سفاکی تھی ۔
- امریکہ کی نظر وسط ایشیا کے تیل پر ہے جس کے لیے اس نے افغانستا ن کو فتح کیا ۔باقی تو محض بہانے ہیں۔
ان دلائل کے جواب میں امریکیوں کا نقطۂ نظریہ ہے:- پوری دنیا میں القاعدہ ہی واحد ایسی آرگنائزیشن ہے جس نے امریکہ کے خلاف باقاعدہ تحریری طورپر پہلے ۱۹۹۶ء میں اور پھر ۲۳ فروری ۱۹۹۸ کو اعلان جنگ کیا تھا ۔کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر حملے کے مجرم گرفتار ہو کر اعتراف جرم بھی کرچکے ہیں اور ان کو سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں۔ ان سب نے القاعدہ سے تعلق کا اعتراف کیا ہے۔ ۱۱ ستمبر کے تمام ۱۹ ہائی جیکروں کی شناخت ہو چکی ہے۔وہ سب عرب تھے اور القاعدہ کے کارکن تھے ۔اس کام کی تربیت انھوں نے امریکہ ہی میں امریکہ کی اندرونی آزادیوں کی بدولت حاصل کی تھی ۔بن لادن اور القاعدہ کے دوسرے ذمہ داروں نے کئی وڈیو اور آڈیوٹیپس میں اس حملے کا اعتراف کیا ہے ۔اس کے بعد بھی دنیا میں کئی حملے ہوئے ہیں مثلاً بالی انڈونیشیا والا دھماکا ۔ان سب میں القاعدہ ہی کے کار کنوں کو پکڑ ا گیا ہے ۔ہم یہ چاہتے تھے کہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں پر امریکہ یا اقوام متحدہ کے کسی ادارے کے تحت مقدمہ چلایا جائے ۔
- یہودیوں کے ملوث ہونے والی بات محض افسانہ تھا جس کا کوئی ثبوت ہی نہیں ۔ممکن ہے کہ اس دن کچھ یہودی غیر حاضر ہوں ، مگر اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان کے ایک اہم مذہبی تہوار یوم کپور کا دن تھا ، اس حملے میں اسرائیل کے ۴۹ شہری بھی ہلاک ہوئے تھے جو سب کے سب یہودی تھے ۔ یہودیوں کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا ۔ویسے بھی احمقانہ ایکشن کا فائدہ مخالف کو پہنچتا ہے ۔اس لیے یہ کوئی دلیل نہیں بنتی ۔امریکہ پہلے بھی اسرائیل کا حامی تھا اور اب بھی ہے ۔
- طالبان انتظامیہ کے تحت بن لادن پر مقدمہ چلانا محض ایک مذاق ہوتا، اس لیے کہ کئی برس سے بن لادن ان کا فنانسر اور طالبان اس کے پشتی بان تھے ۔
- ہمارے اندازے کے مطابق امریکی بم باری سے پانچ ہزار کے لگ بھگ عام افراد ہلاک ہوئے ۔اگرچہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا تاہم اس طرح کا نقصان کسی بھی جنگ کا ناگزیر حصہ ہو تا ہے ۔
- اگر وسط ایشیا کی تیل کی پائپ لائنوں پر قبضہ ہمارا بنیادی مقصد ہو تا تو ہم ۱۹۸۸ ء میں افغانستان میں اپنی دلچسپی کیوں ختم کرتے ؟ دوبارہ افغانستان کو اپنے کنٹرول میں لانے کے لیے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی جیسا ڈرامہ کرنے کی کیاضرورت تھی؟یہ سب کچھ تو اس کے بغیر بھی ہم کر سکتے تھے ۔
تبصرہ
کئی سوال ایسے ہیں جن کا جواب کسی بھی فریق کے پاس نہیں ہے ۔یہ بات معلوم ہے کہ بن لادن کو اصل غصہ سعودی سرزمین میں امریکی افواج کی موجودگی پر تھا ۔امریکیوں کے لیے یہاں سے اپنی افواج نکال کر کہیں اور تعینات کرنے میں کیا مشکل تھی اور انھوں نے ایسا کیوں نہیں کیا ؟اسی طرح امریکہ کے پاس اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں کہ اس نے دہشت گردی کی بنیادی وجوہات ختم کرنے کے لیے کیا کیا ہے؟دوسری طرف طالبان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کے باوجود انھوں نے مسلسل بن لادن کو کیوں پناہ دی ۔اور پھر یہ کہ انھوں نے اپنے ملک اور حکومت کو امریکہ سے بچانے کی خاطر بن لادن کو امریکہ کے حوالے کر نے سے انکار کیوں کیا ۔امریکہ مجبور ہوتا کہ بن لادن پر بہترین منصفانہ طریقے سے مقدمہ چلائے ۔بن لادن اسی مقدمے کو اپنے موقف کے لیے بڑی خوب صورتی سے استعمال کر سکتا تھا ۔اور اگر اسے اس مقدمے میں بڑی سے بڑی سزا بھی ہو جاتی تو کم از کم امریکہ کو افغانستان پر حملے کا بہانہ تو نہ ملتا ۔
اس معاملے میں پاکستان کے کردار پر تبصرہ بھی ناگزیر ہے ۔یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ تک پاکستان پوری طرح طالبا ن کا حامی تھا ۔اس کی پالیسی میں اچانک تبدیلی کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے ،مگر یہ بات ناقابل فہم ہے کہ اس وقت کی فوجی حکومت نے امریکہ کو لاجسٹک مدد کیوں فراہم کی اور کئی ہوائی اڈے کیوں ان کے حوالے کیے؟ وہ اس معاملے میں بآسانی معذرت کر سکتا تھا ۔اگرچہ اس سے امریکہ کا طالبان انتظامیہ پر حملہ زیادہ سے زیادہ کچھ مشکلات کاشکار ہو جاتا ، مگر پاکستان ایک غلط اقدام سے تو بچ جاتا ۔
ب۔ مسئلۂ فلسطین
اگر یہ کہا جائے کہ عالم اسلا م میں امریکہ کی منفی تصویر کا اصل سبب یہی مسئلہ ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہو گا۔ اس مسئلے میں امریکی مخالف نقطۂ نظر کے دلائل حسب ذیل ہیں:
- اسرائیلی ریاست کی تخلیق برطانیہ کا ایک بڑا ظلم تھا اور اس ریاست کی مسلسل تعمیر اور حمایت امریکہ کی ایک بڑی بے انصافی ہے ۔مشرق وسطیٰ کی اب تک تمام خوں ریزی کی اصلاً ذمہ داری ان دونوں پر عائد ہو تی ہے ۔
- امریکہ نے ہر معاملے میں اسرئیل کی اندھا دھند حمایت کی ہے ۔اسرائیل کے صر یحاً ناجائز اقدامات پر بھی امریکہ نے کچھ نہیں کیا ۔کئی دفعہ ایسا بھی ہو ا ہے کہ اقوام متحدہ اور دوسرے بین الاقوامی فورموں پر امریکہ اور اسرائیل ایک طرف تھے اور باقی سار ی دنیا دوسری طرف ۔
- اسرائیل امریکی امداد کے سہارے زندہ ہے ۔اس کے باوجود امریکہ نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کبھی اسرائیل پر حقیقی دباؤ نہیں ڈالا۔ اگر امریکہ چاہے تو مختصر عرصے میں مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو سکتا ہے ۔
دوسری طرف امریکیوں کے دلائل درج ذیل ہیں:- اسرائیل کے قیام میں برطانیہ کی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ سلطنت عثمانیہ کی غلطیوں اور خود عربوں کی عملی مدد کا بھی بڑا کردار ہے ۔اگر سلطنت عثمانیہ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کا ساتھ نہ دیتی تو برطانیہ اس پر کبھی حملہ نہ کرتا اور اگر سرزمین عرب کا ہاشمی خاندان انگریزوں کی مدد نہ کرتا تو وہ کبھی فلسطین پر قابض نہیں ہو سکتے تھے ۔اور اگر مصر و مراکش اپنے ہاں کے یہودیوں کو اسرائیل جانے کی اجازت نہ دیتے تو اسرائیل کی آبادی نہیں بڑھ سکتی تھی۔
- اسرائیل کی مسلسل عملی حمایت امریکہ کے علاوہ روس،چین ،بھارت اور بہت سے دوسرے ملکوں نے بھی کی ہے۔
- امریکہ کی یہودی کمیونٹی (تعداد:۵۲ لاکھ )انتہائی منظم ،مال دار اور باصلاحیت ہے ۔اسرائیل کی حمایت میں یہ کمیونٹی مکمل متحد ہے ۔کوئی امریکی حکومت اس کمیونٹی کی مخالفت مول لینے کا تصور بھی نہیں کرسکتی ۔اس لیے یہ ہر امریکی حکومت کی سیاسی مجبوری ہے کہ وہ اسرائیل کی حمایت کرے۔اس کے برعکس امریکی مسلمان اور امریکی عرب بالکل غیر منظم اور بیسیوں متحارب تنظیموں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ان کے درمیان اتحاد عمل اور فکری ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ اس لیے امریکی سیاست پر ان کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔
- خود عالم عرب بھی فلسطین کے معاملے میں بالکل غیر متحد اور تضادات کا شکار ہے ۔۱۹۶۷ء تک آدھا فلسطین اردن اور آدھا مصر کے قبضے میں تھا۔ مگر ان دونوں ممالک نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں فلسطینی ریاست نہیں بننے دی ۔ اگر یہ دونوں ممالک اپنے ہاں فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لے آتے تو ہم فوراً اس کو تسلیم کر لیتے۔
- عالم عرب نے اقوام متحدہ کی متعدد قرار دادیں تسلیم نہ کرکے بے بصیرتی کا ثبوت دیا ۔اگر ۱۹۴۸ء کی قرار دادمان لی جاتی تو اسرائیل آج کی نسبت ایک تہائی ہو تا اور اسی وقت فلسطینی ریاست بھی بن جاتی۔
- فلسطینیوں نے ۲۰۰۰ء کے کیمپ ڈیوڈ مذاکرات میں صدر کلنٹن کا پیش کردہ حل نہ مان کر بڑی غلطی کی جس کے مطابق مغربی کنارے کا دو تہائی حصہ، آدھا یروشلم بشمول مسجد اقصیٰ اور پورا غزہ فلسطینی ریاست میں شامل ہو جاتا۔ اسرائیل نے اس کو مان لیا تھا ۔
- مشرق وسطیٰ میں اسرائیل واحد جمہوری ریاست ہے ۔یہ آمریت کے سمندر میں جمہوریت کا جزیرہ ہے، اس لیے ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔
تبصرہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل امریکی امداد کے سہارے زندہ ہے ۔اس کے بجٹ کا دس پندرہ فی صد حصہ امریکی حکومت کی امداد اوردس پندرہ فی صد حصہ امریکی یہودی تنظیموں کی امداد پر مشتمل ہو تا ہے۔ اگر ۱۹۷۳ء میں امریکہ اسرائیل کی مدد کو نہ پہنچتا تو مصر اس کو شکست دے چکا تھا۔ دراصل امریکہ اپنی اندرونی سیاست کی مجبوری کی وجہ سے فلسطین کے معاملے میں دہرے معیا ر سے کام لے رہا ہے ۔فلسطین کے معاملے میں عالم عرب کی غلطیاں اور تضادات اپنی جگہ پر ،مگر ان کو وجہ جواز بنا کر امریکہ اپنی غلطیوں سے مبرا نہیں ہو سکتا۔
اسرائیل اپنے عرب شہریوں سے جو سلوک کرتا ہے ،وہ عملاً دوسرے درجے کے شہریوں والا سلوک ہے ۔ یہ واحد ملک ہے جہاں مذہب ،کلچر اور نسل ایک ہے اور اسے ایک ہی رکھنے پر اصرار کیا جاتا ہے تاکہ یہ ملک ہمیشہ ایک خالص یہودی ملک رہے ۔ایسا ملک دکھاوے کے لیے تو جمہوریت کا ڈراما رچا سکتا ہے ، مگر حقیقت میں کبھی جمہوری ملک نہیں بن سکتا ۔اگر ساری دنیا کے یہودی اسرائیل چلے جائیں (جو کہ ناممکن ہے ، اس لیے کہ خود اس ریاست کی بقا اور اس کو مسلسل مدد دینے کی خاطر آدھے سے زیادہ یہودیوں کا اس ملک سے باہر رہنا ضروری ہے)تب بھی یہ ایک چھوٹا سا ملک ہی رہے گا اور اس کی توسیع پسندانہ پالیسیاں بالآخر اسے نقصان پہنچا کر رہیں گی ۔
امریکہ جس طرح اسرائیل کی اندھا دھند حمایت کر رہا ہے ، یہ اس کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے ۔امریکہ کو علم ہے کہ اسرائیل کے پاس جوہری اسلحہ موجود ہے اور وہ اس کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بھی واقف ہے ۔اس کے باوجود اسرائیل کے ہر نقصان اور اس کے بجٹ کے ہر خسارے کوامریکہ پورا کر تا ہے ۔امریکی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ امریکہ میں اسرائیلی نواز یہودی لابی کے دباؤ کی وجہ سے ہوتا ہے ۔تاہم یہ سب کچھ سراسر نا انصافی ہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو اس کا ردعمل بھی یقیناًجاری رہے گا ۔
فلسطینیوں کی طرف سے ا نتفادہ کی دوسری پر تشدد تحریک اور خود کش حملے ،جو ستمبر ۲۰۰۰ سے جاری ہیں ،یقیناًدرست حکمت عملی کے آئینہ دار نہیں ہیں ۔ صبر کے ساتھ حل کا انتظار خود فلسطینیوں کے مفاد میں ہے،خواہ اس میں جتنی بھی مدت لگے۔ تاہم اس دنیا میں زیادہ تر حکمت و دانش کا اصول نہیں ، بلکہ عمل اور رد عمل کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے جس کی زد ہر ایک پر پڑتی ہے۔
ج۔ مسئلۂ عراق
طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد بش انتظامیہ نے صدام حسین کو اپنا ٹارگٹ بنا لیا ہے ۔امریکہ کی انتہائی خواہش ہے کہ وہ جلد از جلد عراق پر حملہ کرکے صدام انتظامیہ کی حکومت ختم کرکے وہاں اپنی پسند کی حکومت بنالے ۔ اس مسئلے پر امریکی نقطۂ نظر در ج ذیل ہے:
- عراق کے پاس کیمیائی ، حیاتیاتی اور وسیع تباہی پھیلانے والے دوسرے ہتھیار موجود ہیں جنھیں اس نے اپنے باشندوں کے خلاف بھی استعمال کیا ہے اور ایران کے ساتھ جنگ میں بھی استعمال کیا ہے ۔صدام ایک غیر ذمہ دار آمر ہے ۔ماضی میں اس نے کویت پر بھی قبضہ کر لیا تھا ۔یہ خدشہ ہے کہ وہ مزید ہتھیا رتیا ر کر کے انھیں عالمی امن کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے ۔چنانچہ اس مقصد کے لیے اس پر گرفت کرنی چاہیے اور اس کی حکومت ختم کرنی چاہیے۔
اس مسئلے پر امریکی مخالف نقطۂ نظر درج ذیل ہے:
- دراصل امریکہ عراقی تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا چاہتا ہے جس کے لیے وہ بہانے تراش رہا ہے ۔ورنہ عراق نے کردوں کا قتل عام ۱۹۸۸ء میں کیا تھا۔ اب اس کا بدلہ لینے کا کیا موقع ہے ۔اسی طرح عراق نے کویت پر قبضہ ۱۹۹۰ء میں کیا تھا ۔اگر صدام برائی کی جڑ ہے تو اسے حکمرانی سے اتارنے کا صحیح وقت وہ تھا نہ کہ اب۔
- امر یکہ کا عراق پر حملہ مسلمانوں کے اندر ایک بڑے رد عمل کو جنم دے گا ۔کون نہیں جانتا کہ اسرائیل کے پاس کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیا ر تو کیا ایٹمی ہتھیار بھی موجود ہیں۔امریکہ نے اس کا نوٹس کیوں نہیں لیا ۔خود امریکہ کے پاس بھی یہ ہتھیا ر موجود ہیں ۔پہلے وہ اپنے ہتھیاروں کو کیوں تلف نہیں کر لیتا؟
- طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد عراق پر امریکی حملے سے پوری دنیا میں یہ تاثر پختہ ہو جائے گا کہ امریکہ کے پاس ہر مسئلے کا علاج جنگ ہے۔ یوں امریکہ کو دنیا ایک عالمی دہشت گرد کے روپ میں دیکھنے لگے گی۔یہ خوف و دہشت کی فضا سارے عالم اور بدر جہ آخر خود امریکہ کے لیے نقصان دہ ہے۔
تبصرہ
یہ بات واضح ہے کہ امریکہ ہر قیمت پر صدام کی حکمرانی کو ختم کر نا چاہتا ہے، مگر اس کے لیے وہ اقوام متحدہ سے اخلاقی جواز ملنے کی خواہش رکھتا ہے ۔ابھی تک صدام نے (طالبان کے برعکس )اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے سامنے سر تسلیم خم کرکے امریکی حملے سے اپنے آپ کو بچایا ہو ا ہے ۔راقم الحروف کے نزدیک تیل والی تھیوری کمزور ہے اور اس میں کئی جھول ہیں۔ امریکہ کو تیل کی کمی کا مسئلہ نہ آج درپیش ہے ،نہ مستقبل میں ایسا کوئی امکان نظر آتا ہے۔ دراصل امریکہ کا خیال ہے کہ دہشت گردی انھی مسلمان ملکوں میں پروان چڑھتی ہے جہاں آمریت ہے ۔چونکہ تمام عرب ملکوں میں آمریت ہے ، اس لیے اس کو ختم کرکے یہاں جمہوریت آنی چاہیے۔جمہوری عمل کی ابتدا اگر عراق سے ہو جائے تو بہت جلد تمام عالم عرب اپنے آپ کو جمہوریت قبول کرنے پر مجبور پائے گا ۔امریکہ کا یہ نقطۂ نظر نہایت کمزور ہے ، بلکہ اس بات کا خدشہ ہے کہ ایسے حملے کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ عراق ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا ، بلکہ عالم عرب کے اندرمزید ردعمل جنم لے گا اور بعید نہیں کہ وہا ں کے آمر مزید مضبوط ہو جائیں ۔
یہ قوی امکان موجود ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ کی قرار داد کا انتظار کیے بغیر عراق پر کسی بہانے سے حملہ کر دے ۔ اگر اس نے ایسا کیا تو عالم اسلام کے اندر امریکی مخالف جذبات جائز طور پراپنی انتہا کو پہنچ جائیں گے ۔ممکن ہے کہ اس حملے میں بھی امریکہ کو وقتی کامیابی مل جائے ، لیکن بدرجۂ آخر یہ اس کے لیے بہت گھاٹے کا سودا ثابت ہو گا ۔البتہ اگر اس ضمن میں اقوام متحدہ کی طرف سے عراق کے خلاف متفقہ قرارداد آجاتی ہے تو پھر صورت حال مختلف ہوگی ۔
د۔ پاکستان کی امر یکہ سے شکایت
اہل پاکستان امریکہ سے بڑی شکا یات رکھتے ہیں ۔اس ضمن میں پاکستانی دانش وروں کا نقطۂ نظر در ج ذیل ہے:
- پاکستان نے بالکل ابتدا ہی سے اپنے آپ کو امریکی کیمپ کا حصہ بنا لیا تھا ۔اس کے باوجود امریکہ نے کبھی پاکستا ن کی حقیقی مدد نہیں کی ۔کشمیر کے مسئلے پر اس نے پاکستا ن کی کوئی مدد نہیں کی ۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں اس نے بھار ت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے بھی فاضل پرزوں پر پابندی لگا کر ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ، اس لیے کہ امریکی اسلحہ تو صرف پاکستا ن کے پاس تھا ۔۱۹۷۱ء کی جنگ میں امریکہ نے بنگلہ دیش کی تخلیق رکوانے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا ۔اسی طرح جب افغانستان سے روسی افواج چلی گئیں تو امریکہ نے بعد کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ہمیں تنہا چھوڑ کر اس خطے میں اپنی دلچسپی ختم کر دی۔
اس کے مقابلے میں امریکی نقطۂ نظر د رج ذیل ہے:
- پاکستان برضا ورغبت اور اپنے فیصلے سے مغربی کیمپ کے قریب آیا تھا ۔ہم نے اسے خوش آمدید کہنے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اسے یہ بتایا ہے کہ بھارت بھی بہت بڑا اور اہم ملک ہے ۔ہمارے اور اس کے درمیان بہت سی اقدار و روا یات مشترک ہیں۔اس لیے ہم بھارت سے بھی لازماً قریبی تعلقات رکھیں گے ۔
- مسئلۂ کشمیر کے ضمن میں ہم نے اقوام متحدہ میں ہمیشہ پاکستانی موقف کی حمایت کی ہے ۔ہمارے نزدیک یہ ایک متنازع علاقہ ہے جس کا آخری فیصلہ باہمی گفت وشنید اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت ہی کے ذریعے سے ممکن ہے۔ تاہم یہ مسئلہ پر امن طریقہ سے حل ہو نا چاہیے۔ہم نے ہمیشہ پاکستان سے کہا ہے کہ اس مسئلے پر پاک بھارت جنگ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہو گی ۔
- پاکستان کو ہم نے تمام اسلحہ اس شرط کے ساتھ دیا تھا کہ اسے صرف کمیونسٹ خطرے کے خلاف دفاعی طور پر استعمال کیا جائے گا ۔جب ہمیں معلوم ہوا کہ ۱۹۶۵ء میں یہ اسلحہ بھارت کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے تو ہم نے اس کے فاضل پرزوں کی فراہمی پر پابندی لگا دی ۔پاکستان نے یہ جنگ ہمارے مشورے سے شروع نہیں کی تھی
- بنگلہ دیش کا قیام پاکستان کی اپنی غلطیوں ،کوتاہیوں اور سیاسی عدم توا زن کا نتیجہ تھا ۔وہاں کے ۹۴ فی صد عوام اپنے لیے علیحدہ ملک چاہتے تھے۔ بحیثیت ایک جمہوری ملک کے ہم اس سے کیسے نظریں چراسکتے تھے۔ البتہ جب ہمیں معلوم ہوا کہ بنگلہ دیش کے بعد اندر اگاندھی اب مغربی پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا فیصلہ کر چکی ہیں تو ہمارے ہی دباؤ پر وہ اس ارادے سے باز آئیں ۔
- ہم نے کبھی اس بات کو نہیں چھپایا کہ افغانستان میں ہماری دلچسپی صرف روسی افواج کے نکلنے تک محدود ہے۔افغان مجاہد تنظیمیں پاکستان کے زیر اثر تھیں اور پاکستان نے ہی انہیں تخلیق کیا تھا ۔اگر یہ سب تنظیمیں آپس میں لڑنے لگیں اور پاکستا ن ان کی خانہ جنگی پر قابو نہ پاسکا یا اس میں فریق بن گیا تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔
- مثبت طور پر ہم نے پاکستان کی دوستی کی پوری قدر کی ہے ۔پاکستان ان چار ممالک میں شامل ہے جنھیں پچھلے پچاس برس میں سب سے زیادہ امریکی امداد ملی ہے۔ پاکستان کا ہر اہم پروجیکٹ براہ راست یا بلواسطہ امریکی امداد یا قرضے ہی کا مرہون منت ہے ۔پاکستان کو امریکہ کی طرف سے مہیا کردہ قرضے اکثر و بیشتر صرف ایک فیصد برائے نام سود پر دیے گئے ہیں۔ اربوں ڈالر کی ناقابل واپسی امداد اس کے علاوہ ہے۔
تبصرہ
ہم پاکستانی ایک جذباتی قوم ہیں جو بین الاقوامی تعلقات میں ’’کاروبار ‘‘پر نہیں ، بلکہ لوافیئرپر یقین رکھتے ہیں، اس لیے ہم ہمیشہ امریکہ سے وہ توقعات وابستہ کر لیتے ہیں جن کے پورا کرنے کا امریکہ نے کبھی کہا نہیں ہو تا ۔ہمار ا خیال ہوتا ہے کہ شاید امریکی انتظامیہ ہر وقت پاکستان ہی کے بارے میں سوچتی رہتی ہے اور امریکی صدر صبح سویرے اٹھ کر سب سے پہلے پاکستان کے اردو اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں ۔اسی لیے تو ہر اردو اخبار میں روزانہ امریکہ پر لعن طعن کے دو تین جذباتی مضامین لازماً موجود ہوتے ہیں جن میں امریکی انتظامیہ کو ’’زریں اور قیمتی ‘‘مشوروں سے بھی نوازا گیا ہو تا ہے تاکہ وہ ان پر عمل کر کے بھارت سے لڑ کر کشمیر کو آزاد ی دلوا کر پاکستا ن کو پلیٹ میں پیش کر کے اپنی عاقبت سنوار لے۔ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور مغرب ہر وقت ہمارے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہر صدر ،وزیر اعظم ،چیف آ ف اسٹاف حتیٰ کہ وزیر خارجہ کا نام بھی وائٹ ہاؤس سے منظور ہو کر آتا ہے۔ ہر تبدیلی اور انقلاب کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہوتا ہے ۔اور وہ فرد جس دن امریکہ کی نظر ا لتفات سے محروم ہو جائے ،اسی دن وہ اقتدار سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔
جب تک ہم’’ محبت‘‘، ’’ردعمل‘‘ اور’’ سازش کی تھیوری‘‘والی نفسیات سے چھٹکارا پا کر بین الاقوامی تعلقات کو ایک کاروبار کی شکل میں نہیں دیکھیں گے تب تک امریکہ سے ہمارے گلے شکوے جاری رہیں گے ۔جس دن ہم یہ عزم کر لیں کہ ہم اپنے مسائل خود حل کریں گے، امریکہ سے تعلقات کار یقیناًرکھیں گے ، مگر اس پر کلی انحصار نہیں کریں گے ، وہی ہماری فریادی و احتجاجی ذہنیت کا آخری دن اور قومی وقار کا پہلا دن ہو گا ۔
ر۔ دہشت گردی کے متعلق مختلف موقف
اگرچہ دہشت گردی کی کوئی متفقہ تعریف ابھی تک متعین نہیں کی جا سکی، تاہم امریکہ کی نظر میں ہر وہ مسلح عمل دہشت گردی ہے جو کسی غیر حکومتی مسلح تنظیم کی طرف سے عام لوگوں کے خلا ف ہو ۔گویا اگر کوئی مقامی پرائیویٹ مسلح تنظیم اپنے کسی مقصد کے لیے خا لصتاً فوجی تنصیبات پر حملے کرتی ہے تو وہ دہشت گردی نہیں ۔اسی لیے اس کے نزدیک کشمیر میں بر سر پیکار ’’حزب المجاہدین‘‘ دہشت گرد تنظیم نہیں ، اس لیے کہ وہ صرف مسلح افواج پر حملے کرتی ہے اور اس میں غیر مقامی لوگ نہیں ۔اس کے برعکس اس کے خیال میں ’’لشکر طیبہ‘‘ دہشت گرد تنظیم ہے ، اس لیے کہ اس میں سرحد پار سے لوگ بھرتی ہو تے ہیں اور وہ غیر مسلح لوگوں کو بھی ٹارگٹ بناتی ہے۔چنانچہ اسی معیار کے تحت امریکہ نے بہت سی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا ہو ا ہے ۔ان میں کچھ غیر مسلم عیسائی اور نسلی تنظیمیں بھی شامل ہیں، تاہم ان کی بڑی اکثریت القاعدہ جیسی مسلمان تنظیموں پر مشتمل ہے ۔خود یہ تنظیمیں اپنے آپ کو دہشت گرد کہلانے سے انکار کرتی ہیں۔ان کے خیال میں وہ بہت اچھے مقاصد کے لیے مسلح جدو جہد کر رہی ہیں اور اس جدوجہد کا ایک راستہ غاصب ملک کے بظاہر عام باشندوں کا قتل بھی ہے تاکہ اس ملک کو جھنجھوڑا جا سکے ۔یہ تنظیمیں اپنے بہت سے کارکنوں کو خود کش حملوں کے لیے بھی تیار کرتی ہیں تا کہ دشمن کے ٹارگٹ پر زیادہ سے زیادہ تباہی کا مقصد حاصل کیا جاسکے ۔اس خود کشی کو وہ اعلیٰ ترین قربانی گر دانتی ہیں۔ کئی ممالک ان تنظیموں کے موقف سے جزوی طور پر اتفاق کرتے ہیں۔ مثلاً پاکستان مقبوضہ کشمیر کے اندر مسلح تنظیموں کو اصلاً آزادی کی تحریکیں سمجھتا ہے ۔اسی طرح اکثر عرب ممالک ’’حماس‘‘ جیسی مسلح تنظیموں اور ان کے خود کش حملوں کو صحیح سمجھتے ہیں ۔اگرچہ ان کے خیال میں حکمت عملی کے طور پر غیر فوجی مقامات پر حملے آج کے حالا ت میں مناسب نہیں ہیں۔
امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ان تنظیموں کو جڑ سے اکھاڑ کر رہیں گے اور ان کے کسی مطالبے کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کریں گے ۔دوسری طرف ان تنظیموں کا فیصلہ ہے کہ وہ آخر دم تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی ۔اس صورت حال میں ہمار ے سامنے تین سوالات آتے ہیں ۔ایک یہ کہ کیا مسلح تنظیموں سے مقابلہ کرنے کا امریکی طریقہ صحیح ہے ؟دوسرا یہ کہ کیا ان تنظیموں کے غیر مسلح لوگوں پر حملے اور خود کش جتھوں کی تیاری ایک صحیح طرز عمل ہے ؟تیسرا یہ کہ اگر امریکہ اور ان تنظیموں ، دونوں کی رائے صحیح نہیں ہے تو پھر صحیح طرز عمل کیا ہے ؟
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب تک ان تنظیموں کے قیام کے پیچھے اصل وجوہات و محرکات کا تجزیہ کرکے ان کا حل نہیں لایا جائے گا ، تب تک ان کی سرگرمیاں کسی نہ کسی شکل میں جاری رہیں گی ۔ممکن ہے امریکہ موجودہ لہر پر قابو پالے ، مگر ان تنظیموں کی راکھ سے نئی نئی کونپلیں پھوٹیں گی ۔عالم اسلام کے اندر ان تنظیموں کے نمو پانے کی اصل وجوہات غربت، غیرجمہوری حکومتیں اور اسرائیل کا ظلم و ستم ہیں۔امریکہ کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ مسئلۂ فلسطین کے ایک معقول اور قابل عمل حل (جو آج کے حالات میں پورے غزہ ،اور عرب اردن بشمول مشرقی یروشلم و بیت المقدس پر مشتمل فلسطینی ریاست کا قیام ہے) کو پیش کر کے پہلے اس پر امریکی یہودیوں سے اتفاق رائے حاصل کرے اور پھر اپنی سفارت کاری سے کام لے کر اس پر اسرائیل کو قائل کرے۔اگر امریکہ عالم اسلام کے اندر اپنے انتہائی منفی امیج کو کچھ بھی بہتر کر ناچاہتا ہے تو اسے ایسا کرنا پڑ ے گا۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ مسلح تنظیمیں خواہ کتنے ہی اعلیٰ مقاصد اور خلوص کے ساتھ اپنی جدوجہد کررہی ہو ں ، تاہم تاریخ کا بھی یہ فیصلہ ہے اور انسانی ضمیر بھی اس پر شا ہد ہے کہ غیر مسلح لوگوں کو مارنے کا فعل غلط ہے ۔اس سے دوسری قوم میں انتقام اور رد عمل پیدا ہو تا ہے ۔جذباتیت پروان چڑھتی ہے۔گفتگو اور مکالمہ ممکن نہیں رہتا ۔تاریخ اس پر شا ہد ہے کہ پر امن ،مظلومانہ ،عدم تشدد اورقومی اتحاد پر مبنی جد و جہد ہمیشہ کامیاب رہی ہے ۔جب کہ متشدد اور متفرق جد وجہد اکثر و بیشتر ناکامی سے دوچار ہوئی ہے ۔آج اہل فلسطین اور اہل کشمیر ، دونوں بیسیوں سیاسی اور مسلح تنظیموں میں بٹے ہوئے ہیں ۔بھلا ایسی جدوجہد کیسے کامیاب ہو سکتی ہے ؟آج اگر اہل فلسطین اور اہل کشمیر ایک سیاسی تنظیم کے تحت منظم ہو جائیں۔اپنی علیحدہ علیحدہ بیسیوں شناختیں ختم کر د یں او رخالصتاً پر امن جد و جہد شروع کر دیں توچند سال کے اندر اندر بغیر کسی بیرونی مدد کے کامیاب ہو سکتے ہیں ۔مسلح تنظیموں کی حرکت ان کی آزادی کو دور تو کر سکتی ہے ،قریب نہیں لا سکتی ۔
اسی طرح خود کش جتھے تر تیب دینے کا نقصان بھی اسی قوم کو ہو تا ہے ۔خود کشی کے لیے وہی فرد تیار ہو تا ہے جو انتہائی پرعزم، باصلاحیت اور قربانی کے جذبے سے سرشار ہو ، جب کہ ان حملوں میں مرنے والے مخالف قوم کے لوگ تو بس عام افراد ہوتے ہیں جو اتفاق سے لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ جب قوم کے باصلاحیت اور پر عزم نوجوان ان حملوں میں کام آجائیں تو اوسط درجے کے لوگ ہی پیچھے بچتے ہیں ۔جاپان نے بھی دوسر ی جنگ عظیم میں اپنے پائلٹوں کو دشمن کے بحری جہازوں سے ٹکر ا کر ایسا ہی غلط فیصلہ کیا تھا جس کے نتیجے میں اس کے پاس پائلٹوں کی شدید قلت ہو گئی تھی۔ چنانچہ یہ بھی کوئی صحیح حکمت عملی نہیں ہے۔
تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ امریکہ سے مطلوب رویے کی بات تو ہم نے محض بر سبیل تذکرہ کی۔ امریکہ بھلا ہماری بات کیوں مانے گا ۔ہمار ا اصلی مقصد تو اپنی قوم اور اپنی امت کو حکمت و تدبیر کا راستہ سمجھا نا ہے ۔ایسا راستہ جس پر چل کر وہ حالیہ مصیبت سے نکل جائیں اور ایک بہتر مستقبل کی طرف گامزن ہو جائیں۔
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کے مکاتیب گرامی
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی
(۱)
بسم اللہ
لندن / ۹ جنوری ۲۰۰۳ء
مولانائے محترم زید مجدہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
الشریعہ کے دو شمارے کل موصول ہوئے ہیں۔ آپ نے خصوصی ترسیل سے بڑی عنایت کی۔ کوئی حرج نہ تھا عام ذریعہ ترسیل سے آ جاتے۔ بہرحال آپ کی عنایت ہے۔ ان مضامین کی اشاعت (خاص طور سے ’’خواب‘‘ کی) یوں تو آپ نے اصلاً افادیت اور ضرورت ہی محسوس کر کے کی ہوگی مگر میں اولاً تو معاملے کے اس پہلو کی بنا پر ممنون ہوں کہ میری اپنی خواہش تھی کہ پاکستان میں اس کی اشاعت ہو۔ ثانیاً یہ کہ آپ کی ایک طرح سے تائید کا وزن بھی اس ’’خطرناک‘‘ مضمون کو مل گیا جس کی وجہ سے اخوان پاکستان اس پر زیادہ توازن کے ساتھ غور کر سکیں گے۔
مجھے اب تک نہیں معلوم ہو سکا کہ الفرقان اور الشریعہ میں تبادلہ کا رشتہ قائم ہوا کہ نہیں۔ میں نے بہرحال کوئی دو ہفتہ قبل لکھ دیا ہے کہ اگر تبادلہ نہیں ہے تو شروع ہو جانا چاہیے۔ اگر تبادلہ ہے تو آپ نے دسمبر کے الفرقان میں ہمارے مولانا برہان الدین سنبھلی کا نہایت سخت مضمون اس ’’بکھرے خواب‘‘ کے بارے میں پڑھ لیا ہوگا، ورنہ میں بھجواؤں۔
مولوی عیسیٰ صاحب کو میں نے کل ہی فون پر اطلاع دی تھی۔ وہ ان شماروں کے لیے آنا بھی چاہتے تھے مگر ایسی برف باری ان کے نکلنے سے ایک گھنٹہ پیشتر شروع ہوئی کہ راستے سے لوٹے۔ مولانا جہانگیری صاحب کا رقعہ آج ان کی خدمت میں پیش کر دیا گیا ہے۔
میں نے ابھی تک دونوں شماروں کی صرف زیارت کی ہے۔ پڑھ کچھ نہیں سکا ہوں۔ اپنی ’’محفل قرآن‘‘ کی قسط میں لگا ہوا تھا۔ سب اخبار بھی مشکل سے پڑھ پا رہا ہوں۔ اب دماغ زیادہ دیر کام کا تحمل نہیں کرتا اس لیے مضمون کی تکمیل کا عرصہ بڑھتا رہتا ہے۔ سست نگار میں ہمیشہ سے تھا۔
والسلام
عتیق الرحمن
(۲)
بسم اللہ
لندن / ۱۷ مارچ ۲۰۰۳ء
مولانائے محترم زیدت معالیہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آج الشریعہ فروری ومارچ کے شمارے ملے ہیں۔ میں گزشتہ ہفتہ ایک آپریشن کرا کے فارغ بیٹھا ہوا ہوں، اس لیے ڈاک خصوصی دلچسپی کا باعث ہے۔ پھر یہ دونوں شمارے تو یوں بھی کئی ایسے مضامین لیے ہوئے ہیں کہ دلچسپی سے پڑھے جائیں۔ یہ ڈاکٹر محمد امین صاحب کون ہیں؟ ان کا تعارف آپ نے نہیں کرایا۔ اس سے پہلے ان کو پڑھنا یاد نہیں۔ ذہن اور قلم دونوں بہت زور دار نظر آئے۔ اور چیمہ صاحب کے مضمون نے صوبہ سرحد کے بالکل نئے پہلوؤں سے آشنا کرایا۔ ایسے میں نفاذ اسلام کے ارادوں کی اللہ ہی مدد کرے۔ وہو علیٰ کل شئی قدیر
کیسا قدیر ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے صدر امریکہ کی ناک رگڑوا دی۔ اور وہ کہ کل تک یو این او جس کی لونڈی کہلا رہی تھی،یہاں دھونس، دھمکی، رشوت ولالچ وخوشامد کسی بھی طریقہ سے اس قابل نہوا کہ روس اور فرانس کے مقابلے میں کھڑا رہ جائے۔ اور اب وہ عراق پر تمام تر برہنگی کی حالت ہی میں حملہ کر سکے گا۔ سیکورٹی کونسل کی چادر چھن گئی ہے۔
یہ سطریں بے ساختہ آج کی خبروں کا نتیجہ ہیں، ورنہ الشریعہ کی رسید کے بعد یہ عرض کرنا تھا کہ آخر جنوری میں ایک مضمون ڈاکٹر حمید اللہ صاحب پر بھیجا تھا۔ معلوم ہوتا ہے پہنچانہیں۔ آپ نے حمید اللہ نمبر کا اعلان کیا ہے، اس کے لیے دوبارہ بھیج دیتا مگر آخری تاریخ ۱۰ مارچ دی گئی ہے جبکہ آج ۱۷ ہے۔ بہرحال اس کا انتظار رہے گا۔ وقت کا اعلان آپ نے نہیں فرمایا۔
والسلام
نیاز مند
عتیق الرحمن
تعارف و تبصرہ
ادارہ
’’انوار القرآن‘‘ ۔ (قرآن کریم کی تفسیری لغات)
مولانا عبد الرحمن فاضل دیوبند نے قرآن کریم کے بیشتر الفاظ کی لغوی تشریح اور لفظی ماہیت کی بڑی محنت کے ساتھ وضاحت کی ہے اور زیادہ تر استفادہ امام راغبؒ اصبہانی اور قاضی بیضاویؒ سے کیا ہے جو مدرسین اور طلبہ کے لیے بطور خاص بہت مفید ہے۔
صفحات چھ سو سے زائد، مضبوط جلد، خوب صورت ٹائٹل، قیمت تین سو پچاس روپے، ملنے کا پتہ: سنگت پبلی کیشنز، ۲۵ سی، لوئر مال، لاہور
’’تصویر بڑی صاف ہے سبھی جان گئے‘‘
معروف اہل حدیث عالم مولانا ارشاد الحق اثری نے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کی تصنیفات پر نقد کرتے ہوئے ایک کتاب شائع کی تھی جس کا جواب حضرت شیخ مدظلہ کے فرزند مولانا حافظ عبد القدوس قارن نے دیا۔ مولانا اثری نے اس کا جواب شائع کیا اور مولانا حافظ عبد القدوس قارن نے اب اس کے جواب میں قلم اٹھایا ہے اور دلائل کے ساتھ واضح کیا ہے کہ حضرت شیخ الحدیث مدظلہ پر مولانا اثری کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات بے وزن ہیں۔
صفحات ۲۹۶، مجلد، قیمت ۷۵ روپے، ملنے کا پتہ: عمر اکادمی، نزد گھنٹہ گھر، گوجرانوالہ
’’خطبات جمیل‘‘
تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے معروف مبلغ وداعی مولانا طارق جمیل کے خطبات ومواعظ کو بحمد اللہ تعالیٰ قبولیت عامہ حاصل ہے اور بہت سے لوگوں نے اس سے استفادہ کیا ہے۔ ہمارے عزیز ساتھی حافظ نعمان شمس سلمہ نے ان خطبات کو مرتب کر کے شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے اور اب تک اس کی دو جلدیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ پہلی جلد مختلف عنوانات پر دس مواعظ پر مشتمل ہے جبکہ دوسری جلد میں خواتین کے بارے میں دس خطبات کو یکجا کیا گیا ہے۔
کتابت وطباعت معیاری ہے اور کتاب مضبوط جلد اور خوب صورت ٹائٹل کے ساتھ مزین ہے۔ قیمت درج نہیں اور یہ خطبات نعمان اکیڈیمی، مکی مسجد، ڈیوڑھا پھاٹک، گوجرانوالہ سے طلب کیے جا سکتے ہیں۔
’’فتنہ دجال اکبر‘‘
بھارت کے معروف دانش ور جناب اسرار عالم دور جدید کے فتنوں بالخصوص دجال اور دجالیت کے بارے میں ایک عرصہ سے مسلسل لکھ رہے ہیں اور ان کے مقالات ومضامین ان کے بعض تفردات واجتہادات کے باوجود معلومات ومواد سے بہرہ ور ہوتے ہیں اور ان میں فتنوں سے بچاؤ کے لیے دعوت فکر ہوتی ہے۔ زیر نظر مقالہ میں دجال اکبر کے فتنہ کے خدوخال واضح کرتے ہوئے اس سے بچاؤ کی تدابیر پر بحث کی گئی ہے۔ مقالہ کے تمام امور سے اتفاق ضروری نہیں لیکن اہل علم کے لیے بہرحال یہ ایک معلوماتی اور مفید مقالہ ہے۔
صفحات ۸۰، قیمت ۲۰ روپے، ناشر: دار العلم، نئی دہلی
’’نور الابصار مجموعہ چہل حدیث‘‘
مانسہرہ ہزارہ کے نوجوان عالم دین مولانا قاضی محمد اسرائیل گڑنگی نے حضرت ملا عبد الرحمن جامیؒ ،حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ ، حضرت مولانا قطب الدینؒ ، حضرت مولانا عنایت احمد کاکورویؒ اور حضرت مولانا محمد حسین مقبرؒ جیسے اکابر کی مرتب کردہ چہل احادیث کو اس مجموعہ میں یکجا کر کے شائع کیا ہے جو اس حوالے سے ایک بڑا علمی ذخیرہ ہے مگر کتاب وطباعت کا معیار اس علمی مواد سے مطابقت نہیں رکھتا۔
صفحات ۱۱۲، قیمت ۴۰ روپے، ملنے کا پتہ: مکتبہ انوار مدینہ، مسجد صدیق اکبر، محلہ صدیق آباد، اپر چنئی، مانسہرہ
’’سیدنا امیر معاویہؓ‘‘
قاضی محمد اسرائیل صاحب گڑنگی نے سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیرت ومناقب پر مختلف بزرگوں کے اقوال وارشادات کو مرتب کیاہے اور ان کی بارگاہ میں اپنے جذبات عقیدت پیش کیے ہیں۔
صفحات ۴۰، قیمت پندرہ روپے، یہ کتابچہ بھی مندرجہ بالا پتہ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
ماہنامہ ’’خیر البشر‘‘ لاہور
خواجہ حفیظ اللہ ایڈووکیٹ یہ جریدہ شائع کر رہے ہیں جو امت مسلمہ کے اجتماعی مسائل کے حوالے سے مفید مضامین پر مشتمل ہوتا ہے۔
سالانہ زر خریداری ایک سو بیس روپے، رابطہ دفتر: مکان ۱۳، گلی ۱۳۴، شاہ دین سکیم، اچھرہ، لاہور
’’الحطۃ فی تراجم الصحاح الستۃ‘‘
مولانا حافظ محمد اقبال رنگونی نے جناب نبی اکرم ﷺ کے چھ جلیل القدر صحابہ کرام حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ، حضرت ابو عبیدہ عامر بن الجراحؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت سعید بن زیدؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ اور حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ کے حالات زندگی اور فضائل ومناقب کو خوب صورت پیرایے میں مرتب کیا ہے۔
صفحات ۹۶، کتابت وطباعت عمدہ، پاکستان میں ملنے کا پتہ: مکتبہ الفاروق، ۱۹ سلطان پورہ روڈ، لاہور ۳۹
’’امام اعظم ابو حنیفہ‘‘
امام اعظم حضرت امام ابو حنیفہؒ کی شان ومنقبت میں امت کے جن بیسیوں جلیل القدر علماء کرام نے قلم اٹھایا ہے، ان میں حضرت امام عبد الوہاب شعرانیؒ بھی ہیں۔ مولانا حافظ محمد اقبال رنگونی نے امام شعرانی کے ارشادات میں سے ایک مجموعہ مرتب کر کے پیش کیا ہے اور اس میں مزید تحقیقات کا بھی اضافہ کیا ہے۔
۱۰۰ سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ بھی مندرجہ بالا پتہ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’تذکرہ وسوانح الحاج مولانا محمد احمدؒ‘‘
ماضی قریب کے بزرگوں میں کراچی کے ایک بزرگ مولانا محمد احمدؒ گزرے ہیں جنہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ قرآنی معارف کی اشاعت اور لوگوں کی اصلاح وتربیت میں بسر کیا ہے اور بے شمار لوگوں نے ان سے استفادہ کیا ہے۔ ہمارے فاضل دوست مولانا عبد القیوم حقانی نے ان کے حالات زندگی اور دینی خدمات کو اس مجموعہ میں پیش کیا ہے۔
پونے دو سو صفحات کی یہ مجلد کتاب القاسم اکیڈمی، جامعہ ابو ہریرہؓ، خالق آباد ضلع نوشہرہ سے طلب کی جا سکتی ہے۔
’’منزل آوارگاں‘‘
معروف شاعر سید افضل حسین شاہ صاحب مرحوم کا مجموعہ کلام ان کے فرزند سید وقار افضل صاحب نے مرتب کر کے شائع کیا ہے جس میں اردو وفارسی غزلیات اور اردو منظومات کے علاوہ حمد باری تعالیٰ اور جناب نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں نعتیہ خراج عقیدت بھی شامل ہے۔
صفحات ۱۹۲، مجلد، قیمت دو سو روپے، ناشر: اظہار سنز، ۱۹/ اردو بازار، لاہور۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
ادارہ
- کرک صوبہ سرحد کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا شہید احمدؒ گزشتہ روز طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ جمعیۃ علماء اسلام کے سرگرم راہ نماؤں میں سے تھے اور قومی اسمبلی کے رکن رہے ہیں جبکہ حالیہ الیکشن میں ان کی سیٹ پر ان کے فرزند مولانا شاہ عبد العزیز قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔
- پسرور ضلع سیالکوٹ کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا رشید احمد قادریؒ گزشتہ روز اچانک حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ مرشد العلما حضرت مولانا مفتی شبیر احمد پسروری قدس اللہ سرہ العزیز کے فرزند وجانشین اور حق گو عالم دین تھے۔ جمعیۃ علماء اسلام کے پلیٹ فارم پر متعدد دینی تحریکات میں سرگرم کردار ادا کیا اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔
- مردان کے بزرگ عالم دین مولانا گوہر رحمانؒ گزشتہ دنوں طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا تعلق جمعیۃ اشاعت التوحید والسنۃ سے تھا اور دینی تحریکات میں سرگرم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
- ’’الشریعہ‘‘ کی مجلس ادارت کے رکن جناب شبیر احمد خان میواتی اور مولانا محمد داؤد خان مدرس مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ کے بڑے بھائی حافظ محمد صدیق خان گزشتہ دنوں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم نہایت صالح انسان تھے۔
- جمعیۃ شبان اہل سنت گوجرانوالہ کے سیکرٹری جنرل حافظ عبد الرشید قادری کی والدہ محترمہ گزشتہ روز انتقال کر گئیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ انتہائی خدا ترس اور طہارت گزار خاتون تھیں۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مرحومین کو جوار رحمت میں جگہ دیں، حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین (ادارہ)
عراق پر امریکی حملہ اور عرب لیگ کا موقف
ادارہ
عرب لیگ نے عراق پر امریکی اتحادی فوجوں کے حملے کو جارحیت سے تعبیر کرتے ہوئے اس حملے کی شدید مذمت کی ہے اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس جنگ سے لا تعلقی کا اعلان کرے۔ گزشتہ روز قاہرہ میں ہونے والے عرب لیگ کے وزراے خارجہ کے اجلاس میں قرارداد منظور کی گئی جس میں تمام عرب وزراے خارجہ نے متفقہ طور پر عراق پر امریکی حملے کو جارحیت سے تعبیر کیا اور مطالبہ کیا کہ امریکی اتحادی فوجیں فوراً عراق سے نکل جائیں۔ قرارداد میں سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا گیا۔
عرب وزراے خارجہ کے اجلاس کے بعد عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عمر موسیٰ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کے لیے اقوام متحدہ کے حکام سے غیر رسمی تبادلہ خیال ہو چکا ہے اور شام سے بھی بات ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ایک عرب ملک پر حملہ کیا اور یہ حملہ تمام عرب ممالک کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ شرم الشیخ میں کیے گئے پہلے عرب لیگ کے اجلاس میں ہر قسم کی جنگ کی مذمت کی گئی تھی۔ عرب لیگ کی پالیسی ہے کہ افسر سے لے کر صدر تک سب مل کر امریکہ کی طرف سے جنگ کے خلاف ڈٹ گئے ہیں۔ عرب لیگ نے کہا کہ عراق پر حملہ کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس حملے سے معصوم عراقیوں کو نقصان پہنچے گا۔ شہریوں کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ عرب لیگ افغان جنگ کے خلاف بھی تھی اور عراق جنگ کے خلاف بھی ہے۔
عرب لیگ نے عراق کے خلاف امریکی واتحادی کارروائی کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے فوری طور پر جنگ بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ پیر کو عرب لیگ کے وزراے خارجہ کے اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس مصر کے دار الحکومت قاہرہ میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں مصر، شام اور اردن کے وزراے خارجہ نے کھل کر امریکی واتحادی کارروائی کی مخالفت کی اور کہا کہ عراق کے خلاف امریکی کارروائی سے علاقے میں نفرت کے ابھار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ سے عرب عوام کو تشویش لاحق ہے۔ اجلاس کے اختتام پر جاری اعلامیہ میں عراق کے خلاف کارروائی کو بین الاقوامی قوانین کے خلاف قرار دیتے ہوئے فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ شرکا نے ہر اس کوشش کی مخالفت کا عزم ظاہر کیا جس سے عراق کی خود مختاری اور سالمیت کو خطرہ لاحق ہو۔ اجلاس میں ۲۲ ممالک کے وزراے خارجہ نے شرکت کی۔ عراقی وزیر خارجہ اجلاس میں شرکت کے لیے شام کے راستے قاہرہ پہنچے تھے۔
(روزنامہ اوصاف اسلام آباد/ ۲۵ مارچ ۲۰۰۳ء)
مئی و جون ۲۰۰۳ء
’’برصغیر میں مطالعہ حدیث‘‘ کے عنوان پر سیمینار
محمد عمار خان ناصر
ادارۂ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد نے ’’برصغیر میں مطالعہ حدیث‘‘ کے عنوان پر ۲۱، ۲۲ اپریل ۲۰۰۳ء کو دوروزہ علمی سیمینار کا اہتمام کیا جس کے لیے ادارۂ تحقیقات اسلامی کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کی سربراہی میں ان کے رفقا کی ٹیم خاص طور پر ڈاکٹر سفیراختر اور ڈاکٹر سہیل حسن نے خاصی محنت کی۔ سیمینار کی پانچ نشستیں فیصل مسجد اسلام آباد کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوئیں جن میں حدیث نبوی علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کے مختلف پہلوؤں پر بیسیوں مقالات پیش کیے گئے اور ان پر سوال جواب اور بحث ومباحثہ کا بھی اہتمام کیا گیا۔ مقالہ نگار حضرات میں مولانا اسحاق بھٹی، حافظ صلاح الدین یوسف، ڈاکٹر انعام الحق کوثر، ڈاکٹر محمد امین، مولاناعبدالحلیم چشتی، ڈاکٹر محمد عبیداللہ، ڈاکٹر محمد سعد صدیقی، ڈاکٹر صلاح الدین ثانی، جناب خالد مسعود، ڈاکٹر ممتاز بھٹو، مولانا سعید مجتبیٰ سعیدی اور دیگر فضلا شامل ہیں۔
سیمینار کی اختتامی نشست علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی جس کی صدارت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سید الطاف حسین نے کی جبکہ ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہدالراشدی اس نشست کے مہمان خصوصی تھے۔ اس نشست سے ان دونوں حضرات کے علاوہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر فضیلۃا لدکتور السیدحسن محمود الشافعی، پروفیسر ڈاکٹر احمد الغزالی، پروفیسر ڈاکٹر سفیر اختر، پروفیسر ڈاکٹر سہیل حسن، پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق، پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی اور پروفیسر ڈاکٹر محمدباقر خاکوانی نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر مولانا زاہدالراشد ی اور ڈاکٹر سیدالطاف حسین کی علمی خدمات کے اعتراف کے طور پرادارۂ تحقیقات اسلامی کی طرف سے انہیں خصوصی شیلڈز دینے کا اعلان کیاگیا جو فضیلہ الدکتور حسن محمود الشافعی نے دونوں حضرات کو پیش کیں۔
مولانا راشدی نے اس نشست میں ’’خدمات حدیث کے حوالے سے موجودہ کام اور مستقبل کی ضرورتوں کا جائزہ ‘‘ کے عنوان پر ایک تحریری مقالہ پڑھا جسے سیمینار کے منتظمین اور شرکا کی طرف سے بطور خاص سراہا گیا۔ ہمارا ارادہ تھا کہ اس مقالہ کو ’الشریعہ‘ کے زیر نظر شمارے میں شائع کیا جائے اور جناب رئیس التحریر نے روزنامہ ’اوصاف‘ میں اپنے ایک کالم میں اس کا ذکر بھی کیا تھا، تاہم ادارۂ تحقیقات اسلامی کے ڈائریکٹر جنرل جناب ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری صاحب کے درج ذیل مکتوب کے پیش نظر اس ارادے پر عمل ممکن نہیں ہو سکا:
مورخہ : ۲۸/ اپریل ۲۰۰۳ء
محترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
سلام مسنون
گرامی نامہ موجب سرفرازی ہوا۔ خط تو ہمیں لکھنا چاہیے تھا کہ آپ نے ہم پر پے در پے نوازشیں فرمائیں، لیکن الٹا آپ ہمیں شکریہ کا خط لکھ کر شرمندہ فرما رہے ہیں۔ ہم سب کا احساس یہ ہے کہ آپ کے خطبہ نے سیمینار کی معنویت اور افادیت کو بہت بڑھا دیا ہے۔ ہم سب حقیقتاً آپ کے بے حد مشکور ہیں۔ نیز ہماری یہ بھی خواہش ہے کہ آپ گاہے گاہے ہماری سرپرستی اور رہنمائی فرماتے رہا کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علم وبصیرت کو زیادہ سے زیادہ نافع بنائے۔
لیکن اس سلسلے میں ایک دو معروضات بھی پیش کرنی ہیں، اور وہ یہ کہ ہم اس طرح کا جو بھی سیمینار کرتے ہیں، ان میں پڑھے جانے والے مقالات (یا ان مقالات کے انتخاب) کو کتابی شکل میں شائع کر دیتے ہیں۔ اس سیمینار کے سلسلے میں بھی ہمارا یہی ارادہ ہے، لہٰذا گزارش ہے کہ جناب والا کتاب کی اشاعت سے قبل اس کے استعمال کو محدود پیمانے پر ہی رکھیں اور اپنے مجلہ میں اسے شائع نہ فرمائیں۔
مکرر شکریہ اور تحیت وسلام کے ساتھ
آپ کا مخلص
ظفر اسحق انصاری
مدنی عہد نبوت میں تعلیم و تبلیغ کا نظام
پروفیسر محمد اکرم ورک
مدینہ منورہ آمد کے بعد رسول اللہ ﷺ نے سب سے پہلے جو کام کیا وہ مسجدِ نبوی ؐ کی تعمیر تھی۔ مسجدِ نبوی کے ایک گوشے میں ایک سائبان اور چبوترہ (صفہ) بنایا گیاجس پر وہ مہاجرین صحابہ کرامؓ مدینہ منورہ آکر رہنے لگے تھے جو نہ تو کچھ کاروبار کرتے تھے اور نہ ان کے پاس رہنے کو گھر تھا۔ مکہ مکرمہ اور دیگر علاقوں سے دین متین کی تعلیمات حاصل کرنے کے لیے آنے والے صحابہ کرام بھی یہاں قیام کرتے تھے ۔گویا صفہ ان غریب اور نادار صحابہ کرام کی جائے پناہ تھی جنہوں نے اپنی زندگی تعلیمِ دین ،تبلیغِ اسلام ،جہاد اور دوسری اسلامی خدمات کے لیے وقف کر رکھی تھی۔
مدنی عہد نبوت میں مذہبی تعلیم وتربیت کے دو طریقے تھے ۔ ایک غیر مستقل، جس میں مختلف قبائل کے آدمی مدینہ آکر چند دن قیام کرتے اور ضروری مسائل سیکھ کرواپس چلے جاتے اور اپنے اپنے قبائل کو جاکر تعلیم دیتے۔ ضروری مسائل کی تعلیم کے بعد رسول اللہﷺ انہیں ان کے قبائل میں واپس بھیج دیتے ،چنانچہ مالکؓ بن الحویرث کو بیس دن کی تعلیم کے بعد حکم دیا:
اِرجعوا الی أھلیکم فعلّموھم ومروھم وصلواکما رأیتمونی أصلی ،واذا حضرت الصلوٰۃفلیؤذّن لکم احد کم ثم لیؤمکم اکبر کم۔ (۱)
’’تم اپنے خاندان میں واپس جاؤ اور ان میں رہ کر ان کو امور شریعت کی تعلیم دو اور جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح پڑھانا، اور جب نماز کا وقت آئے تو تم میں سے کوئی اذان دے، پھر تم میں سے سب سے زیادہ پڑھالکھا امامت کرائے‘‘۔
اسی طرح وفد عبد القیس نے رسول اللہ ﷺ کے دست اقدس پر اسلام کی بیعت کی تو آپ ﷺ نے ان کو ادائے خمس ، نماز ، روزہ اور زکوٰۃ وغیر ہ کی تعلیمات دیں اور پھر فرمایا :
احفظوہ واخبروہ من وراء کم۔ (۲)
’’ان باتوں کو یاد کر لو اور جاکر دوسروں کو بھی بتا دو۔‘‘
دوسرا طریقہ مستقل تعلیم وتربیت کا تھا اور اس کے لیے صفہ کی درس گاہ مخصوص تھی۔ اس میں وہ لوگ تعلیم حاصل کرتے تھے جو علائق دنیوی سے بے نیاز تھے اور انھوں نے اپنے آپ کو دینی تعلیم وتربیت اور عبادت و ریاضت کے لیے وقف کررکھا تھا۔مسجد نبوی کی اس درس گاہ کے دوحلقے تھے، ایک درس وتعلیم کاحلقہ اور دوسرا ذکر وفکر اور عبادت وریاضت کا۔حضرت عبداللہؓ بن عمر وفرماتے ہیں:
خرج رسول اللّٰہ ﷺذات یوم من بعض حجرہ،فدخل المسجد، فاذا ھو بحلقتین احدھما یقرؤن القرآن ویدعون اللّٰہ، والاخریٰ یتعلّمون ویعلّمون، فقال النبی ﷺکل علی خیر، ھؤلآء یقرءون القرآن ویدعون اللّٰہ، فان شاء اعطاھم وان شاء منعھم، وھولاء یتعلّمون و یعلّمون، وانما بعثت معلما، فجلس معھم۔ (۳)
’’ایک روز رسول اللہ ﷺاپنے کاشانۂ اقدس سے باہر تشریف لائے تو مسجد میں دو حلقے دیکھے۔ ایک حلقہ کے لوگ تلاوت ودعا میں مصروف تھے اور دوسرے حلقے کے لوگ تعلیم وتعلم میں، آپ ﷺ نے دونوں کی تحسین فرمائی اور فرمایا: دونوں بھلائی پر ہیں۔ یہ لوگ قرآن پڑھتے ہیں اور اللہ سے دعا مانگتے ہیں ،اگر چاہے تو ان کو عطا فرمائے اور اگر چاہے تو روک لے،اوریہ لوگ سیکھتے ہیں اور سکھاتے ہیں۔( پھر آپ ﷺیہ فرماتے ہوئے کہ) ’’میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘حلقہ ء درس وتعلیم میں جاکر بیٹھ گئے‘‘
اصحابِ صفہ کے لیے اساتذہ کا تقرر
اصحابِ صفہ کے معلمِ اول تو خود رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس تھی۔چنانچہ حضرت انسؓ سے روایت ہے:
اقبل ابو طلحۃؓ یوما فاذا النبیﷺ قائم یقرئ اصحاب الصفۃ علی بطنہ فصیل من حجر یقیم بہ صلبہ من الجوع۔ (۴)
’’ایک دن حضرت ابو طلحہؓ آئے تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺاصحابِ صفہ کو کھڑے قرآن پڑھا رہے ہیں،آپؐ نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر کا ٹکڑا باندھاہوا تھا تاکہ کمرسیدھی ہوجائے‘‘۔
رسول اللہ ﷺ جب تعلیم ونصیحت سے فارغ ہوکر تشریف لے جاتے تو حضرت عبداللہؓ بن رواحہؓ حلقہ میں بیٹھ کر تعلیم کے سلسلہ کو اسی طرح جاری رکھتے ۔پھر جب رسول اللہﷺ دوبارہ تشریف لاتے تو لوگ خاموش ہوجاتے۔ آپ ﷺ تشریف فرما ہونے کے بعد فرماتے کہ اسی عمل میں مشغول رہیں اور اس کو جاری رکھیں۔ کبھی کبھارحضرت معاذؓ بن جبل بھی تعلیمی حلقہ سنبھا ل لیتے تھے۔(۵)
رسول اللہ ﷺکے علاوہ کئی مستقل معلمین بھی اصحابِ صفہ کی تعلیم وتربیت پر متعین تھے۔حضرت عبادہؓ بن صامت کا بیان ہے:
علّمت ناسا من أھل الصفۃ القرآن والکتاب فاھدیٰ الیّ رجل منھم قوساً۔ (۶)
’’میں نے اصحاب صفہ میں سے چند لوگوں کو قرآن مجید پڑھایا اور لکھنے کی تعلیم دی تو ان میں سے ایک شخص نے مجھے ہدیہ میں ایک کمان دی‘‘۔
اسی طرح حضرت عبداللہؓ بن سعید بن العاص جو خوشخط تھے اور زمانۂ جاہلیت میں بھی کاتب کی حیثیت سے مشہور تھے، اصحابِ صفہ کو لکھنا سکھاتے تھے۔(۷)
اوقاتِ تعلیم
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نمازِ فجر ادا فرمالیتے تو ہم لوگ آپ ﷺ کے پاس بیٹھ جاتے اور ہم میں سے کوئی آپ سے قرآن کے بارے میں سوال کرتا، کوئی فرائض کے بارے میں دریافت کرتا اور کوئی خواب کی تعبیر معلوم کرتا تھا۔(۸)
سماک بن حرب نے حضرت جابرؓ بن سمرہ سے پوچھا :کیا آپ رسول اللہ ﷺکی محفل میں بیٹھا کرتے تھے ؟ تو انھوں نے کہا:ہاں،میں بہت زیادہ آپﷺ کی مجلس میں شریک رہا کرتا تھا۔ جب تک آفتاب طلوع نہیں ہوتا تھا آپ ﷺ مصلیٰ پر رہتے تھے ،اور طلوع آفتاب کے بعد اٹھ کر مجلس میں تشریف لاتے تھے،اور مجلس کے درمیان صحابہ زمانۂ جاہلیت کے واقعات بیان کرکے ہنستے تھے اور آپﷺ مسکرادیتے تھے۔
اصحابِ صفہ انتہائی نادار اور مفلس تھے اس لیے ان میں سے بعض لوگ دن میں شیریں پانی بھرلاتے،جنگل سے لکڑیاں چن کر لاتے اور ان کو بیچ کر جو آمدنی ہوتی، اس سے اپنے مصارف پورے کرتے تھے۔ (۹)
اس مصروفیت کی وجہ سے ان میں سے بعض حضرات کو دن میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا، اس بنا پر ان کی تعلیم کا وقت رات کو مقرر کیا گیا تھا۔حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ سترکے قریب اصحاب صفہ رات کے وقت تعلیم حاصل کرتے تھے۔
فکانوا اذا جنّھم اللیل انطلقوا الی معلم لھم بالمدینہ، فیدرّسون اللیل حتٰی یصبحوا۔ (۱۰)
’’جب رات ہوجاتی تھی تو یہ لوگ مدینہ میں ایک معلم کے پاس جاتے اوررات بھر پڑھتے حتیٰ کہ صبح ہو جاتی۔‘‘
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جگہ مسجدِ نبوی سے ہٹ کر کوئی اور جگہ تھی جہاں اصحابِ صفہ رات کے وقت تعلیم حاصل کرتے تھے۔ گویا اصحابِ صفہ کا سارا وقت درس وتدریس ہی میں بسر ہوتا تھا۔ابن المسیبؓ نے حضرت ابو ہریرہؓ کا یہ بیان نقل کیا ہے:
یقولون: ان ابا ھریرۃؓ قد اکثر، واللّٰہ الموعد ویقولون مابال المہاجرین والانصار لا یتحدّثون مثل احادیثہ؟ وسأخبرکم عن ذالک: إن إخوانی من الانصار کان یشغلھم عمل ارضھم، واما إخوانی من المہاجرین کان یشغلھم الصفق بالاسواق، وکنت الزم رسول اللّٰہﷺ علی ملء بطنی، فاشھد اذا غابوا، واحفظ اذا نسوا، (۱۱)
’’لوگ کہتے ہیں کہ ابو ہریرہؓ کثرت سے حدیثیں بیان کرتا ہے۔ اللہ ہی ہمارا اور تمہارا محاسبہ کرنے والا ہے۔اور لوگ کہتے ہیں کیا وجہ ہے کہ انصار ومہاجرین ابوہریرہؓ کی طرح کثرت سے حدیثیں بیان نہیں کرتے؟میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ہمارے مہاجر بھائی بازاروں میں اپنے کاروبار میں لگے رہتے تھے اور انصاری بھائی اپنی زمین کی دیکھ بھال میں مصروف رہتے تھے۔ میں محتاج آدمی تھا ، میرا سار ا وقت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گزرتا تھا،پس جس وقت یہ موجود نہ ہوتے تھے میں موجو د رہتا تھا اور جن چیزوں کو وہ بھلا دیتے تھے میں محفوظ کرلیتا تھا‘‘۔
حضرت ابو ہریرہ‘ؓ جو خود بھی اصحابِ صفہ میں سے تھے، ان کا یہ بیان گویا اصحابِ صفہ کا ترجمان ہے۔ یہ سب لوگ درس گاہِ نبوت میں سب سے زیادہ حاضر رہنے والے تھے۔ حضرتِ ابو ہریرہ ؓ کے اس بیان کی تصدیق خود حضرت عمرؓؓ کے اس بیان سے ہوتی ہے:
کنت انا وجار لی من الانصار فی بنی امیۃ بن زید، وھی من عوالی المدینۃ، وکنا نتناوب النزول علی رسول اللّٰہ ﷺ، ینزل یوما وانزل یوما، فاذا نزلت جئتہ بخبر ذالک الیوم من الوحی وغیرہ، واذا نزل فعل مثل ذالک۔ (۱۲)
’’میں اورعوالی مدینہ میں قبیلہ امیہ بن زید کا ایک انصاری پڑوسی ہم دونوں باری باری رسول اللہ ﷺ کے یہاں جاتے تھے، ایک دن وہ جاتے اور ایک دن میں جاتا ، جب میں جاتا تو اس دن کی وحی وغیرہ کی خبر لاتا اورجس دن وہ جاتے وہ بھی اسی طرح کرتے‘‘۔
طریقۂ تعلیم
ابتدا میں مجلس میں طلبہ کے بیٹھنے کا کوئی خاص انتظام اور طریقہ نہ تھا،جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے حلقے بنا کر بیٹھ جاتے تھے۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺنے باقاعدہ ایک حلقہ بنوایااور سب لوگ ایک ساتھ بیٹھنے لگے۔ جابرؓ بن سمرہ کا بیان ہے:
دخل رسول اللّٰہ ﷺالمسجد وھم حلق فقال ﷺ: مالی اراکم عزین۔ (۱۳)
’’رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے جہاں صحابہ کرامؓ کے جدا جدا حلقے تھے،آپﷺ نے فرمایاکہ کیا بات ہے تم لوگ جداجدا ہو (یعنی ایک ساتھ بیٹھو)‘‘
رسول اللہ ﷺ اپنے تمام حاضرین مجلس کو اس طرح تعلیم دیتے تھے کہ عالم،جاہل،شہری ، بدوی، عربی، عجمی بوڑھے،بچے،جوان پوری طرح فیض اٹھاتے تھے اور آپﷺ کی ہر بات سامعین کے دل میں اتر جاتی تھی۔حضرت انسؓ کا بیان ہے:
انہ کان اذا تکلم بکلمۃ اعادھا ثلاثا حتّٰی تفھم عنہ، واذا أتی علی قوم فسلم علیھم ثلاثا۔ (۱۴)
’’رسول اللہ ﷺجب کوئی حدیث بیان کرتے تو اس کو تین بار کہتے تھے تاکہ سمجھ لی جائے اور جب کسی جماعت کے پاس جاتے تو ان کو تین بار سلام کرتے تھے‘‘
ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہؓ ،جومسجد نبوی کی اس درس گاہ کے معلم تھے ،حضرت عائشہؓ کے حجرہ کے قریب اہلِ مجلس کے سامنے جلدی جلدی حدیثیں بیان کرنے لگے۔ اس وقت ام المومنین حضرت عائشہؓ نماز میں مصروف تھیں۔جب آپؓ نماز سے فارغ ہوئیں تو ابو ہریرہؓ مجلس ختم کرکے جاچکے تھے ۔چنانچہ آپؓ نے عروہ بن زبیرؓ سے فرمایا کہ ابو ہریرہؓ مل جاتے تو میں ان کے جلدی جلدی حدیث بیان کر نے پرنکیر کرتی، اس کے بعد فرمایا:
ان رسول اللّٰہﷺ لم یکن یسرد الحدیث سردکم۔ (۱۵)
’’رسول اللہﷺ تم لوگوں کی طرح حدیث جلدجلد اور مسلسل بیان نہیں فرماتے تھے‘‘۔
دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں:
ان رسول اللّٰہ ﷺ لیحدّث الحدیث لو شاء العادّ ان یحصیہ أحصاہ۔ (۱۶)
’’رسول اللہ ﷺاس طرح حدیث بیان کرتے تھے کہ اگر شمار کرنے والا چاہتا تو شمار کرلیتا‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کا طریقہ تعلیم یہ تھا کہ آپ بات ٹھہر ٹھہر کر اس انداز میں کہتے کہ سننے والوں کے دل میں بیٹھ جائے،یاد کرنے والے یاد کرلیں اور لکھنے والے لکھ لیں۔نرم کلامی ،شیریں بیانی اور اندازِ تعلیم کے اسی اسلوب کی بدولت بدوی لوگ بھی آپ ﷺپر فدا ہوجاتے تھے۔ حضرت معاویہؓ بن حکم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رسول اللہ ﷺ کی امامت میں نماز پڑھ رہا تھا ،مجھ سے خلافِ نماز کوئی حرکت سرزد ہوگئی ،جس کی وجہ سے تمام نمازی مجھ سے بگڑ گئے اور گھورگھور کر میری طرف دیکھنے لگے، لیکن خود معلمِ انسانیت کا رویہ اور طریقہ تعلیم کیاتھا؟ صحابی کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
فبأبی ھو وامی، مارأیت معلّما قبلہ ولا بعدہ احسن تعلیما منہ، فواللّٰہ ما کھر نی ولا ضربنی، ولا شتمنی، قال ﷺ: ان ھذہ الصلوۃ لا یصلح فیھا شیء من کلام الناس، انما ھو التسبیح، والتکبیر وقرأۃ القرآن۔ (۱۷)
’’میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں،میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ سے بہتر معلم نہیں دیکھا۔خدا کی قسم نہ مجھے جھڑکا،نہ مارا اور نہ ہی سخت سست کہا ،بلکہ فرمایا نماز میں انسانی کلام اچھا نہیں ہے ۔اس میں صرف تسبیح،تکبیر اور قرآن پڑھنا ہے‘‘۔
اصحابِ صفہ میں درس وتدریس کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ ایک شخص قرآن مجید پڑھتا جاتا اور دوسرے لوگ سنتے جاتے۔ حضرت ابو سعید خدریؓکابیان ہے کہ میں ضعفاء مہاجرین کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ان میں سے بعض لوگ عریانیت کے خوف سے ایک دوسرے سے مل کر بیٹھے تھے اور ایک قاری ہم لوگوں کو قرآن پڑھارہا تھا۔اس حال میں رسول اللہﷺ آکر ہمارے پاس کھڑے ہوگئے۔ آپﷺکو دیکھ کر قاری خاموش ہوگیا۔ آپﷺ نے سلام کر کے پوچھا کہ تم لوگ کیا کررہے ہو؟ہم نے کہا یا رسول اللہﷺ ایک قاری قرآن پڑھ رہا ہے اور ہم سن رہے ہیں۔ہمارا جواب سن کر رسول اللہﷺ نے فرمایا:
الحمد للّٰہ الذی جعل من امتی من امرت ان أصبر نفسی معھم۔
’’اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں ایسے لوگوں کو پیدا کیا ہے جن کے ساتھ مجھے بیٹھنے کا حکم ہے‘‘۔
یہ کہہ کر آپ ﷺ ہمارے بیچ میں بیٹھ گئے تاکہ آپﷺ ہم لوگوں کے سامنے رہیں،پھرہاتھ سے اشارہ کیا کہ اس طرح بیٹھو، اور حاضرین مجلس اس طرح حلقہ بنا کر بیٹھ گئے کہ سب کا چہرہ آپ ﷺ کی طرف ہوگیا۔اور آپ ﷺ نے فرمایا: اے فقراء مہاجرین! تم کو بشارت ہو قیامت کے دن نورتام کی ، تم لوگ مالداروں سے آدھ دن پہلے جنت میں داخل ہوگے، اور یہ (دنیوی حساب سے)پانچ سو سال ہے۔(۱۸)
اصحابِ صفہ کی دعوتی سرگرمیاں
ویسے تو ہر مسلمان ہی داعی اور مبلغ ہے اور دعوت وتبلیغ ہی اس امت کا وہ خصوصی وصف ہے جس کی بدولت اس کو’’خیر الامم‘‘کے لقب سے ملقب کیا گیا۔ (۱۹) اسلامی معاشرہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دعوتِ دین کے لیے ایک ایسی جماعت تیار کرے جو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے اپنی زندگیوں کووقف کردے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃ’‘ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر۔ (آل عمران، ۳:۱۰۴)
’’تم میں ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائے، نیکی کا حکم کرے اور برائی سے منع کرے‘‘۔
چنانچہ ہجرت مدینہ کے فوراً بعد رسول اللہ ﷺنے مسجد نبوی میں ایک باقاعدہ درسگاہ قائم فرمائی، تاکہ مبلغین کی ایک تربیت یافتہ جماعت تیار کی جائے۔اصحابِ صفہ کی صورت میں جب یہ جماعت تیار ہوگئی تو آپﷺ نے ان اصحاب کو ،جو اپنے علم و فضل کی وجہ سے ’’قراء ‘‘ کہلاتے تھے،(۲۰) مختلف دعوتی وتبلیغی مہمات پر روانہ فرمایا۔
رجیع کی مہم:
صفر ۴ھ میں قبائل عضل وقارہ کے چند آدمی رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور بارگاہِ رسالت میں درخواست کی کہ آپ اپنے رفقا میں سے کچھ آدمیوں کو ہمارے ساتھ روانہ کردیجیے تاکہ وہ لوگوں میں دین کی سمجھ پیداکریں،قرآن پڑھائیں اور شریعت اسلامیہ کی تعلیم دیں ۔رسول اللہ ﷺنے اصحابِ صفہ میں سے مندرجہ ذیل چھ (*۱) افراد منتخب کیے:مرثدؓ بن ابی مرثد غنوی، خالدؓ بن بکیرلیثی،عاصمؓ بن ثابت ،خبیبؓ بن عدی،زیدؓ بن دثنہ،عبداللہؓ بن طارق، اور مبلّغین کی اس جماعت کا امیر مرثدؓ بن ابی مرثد کو مقرر فرمایا۔
جب یہ لوگ رجیع،جو مکہ اور عسفان کے درمیان ایک جگہ ہے ،پہنچے تو قبیلہ عضل اور قارہ کے لوگوں نے مسلمانوں سے غداری کی اور قبیلہ ہذیل کو مدد کے لیے پکارا،چنانچہ ان لوگوں نے حضرت خبیبؓ بن عدی اور زیدؓ بن دثنہ کو پناہ کا دھوکہ دے کر گرفتار کرلیا، جبکہ باقی صحابہ کو شہید کردیاگیا۔زیدؓ بن دثنہ اور خبیبؓ بن عدی کو بھی ان لوگوں نے بعد میں مکہ لے جاکر فروخت کردیا، چنانچہ زیدؓ بن دثنہ کو صفوان بن امیہ نے اپنے باپ امیہ بن خلف کے عوض قتل کرنے کے لیے خرید لیا ،جبکہ خبیبؓ کو حجیر بن ابو اہاب تمیمی نے خرید کر قتل کردیا۔(۲۱)
بئر معونہ کی مہم:
صفر ۴ھ میں نجد کے ایک قبیلے عامربن صعصعہ کے ایک رئیس ابوالبراء عامر بن مالک کوآپ ﷺنے اسلام کی دعوت دی ،وہ نہ اسلام لایا اورنہ اس نے تردید کی بلکہ کہنے لگا!اے محمد! اگر آپﷺ اپنے رفقا میں سے کچھ لوگوں کو اہلِ نجد کے ہاں بھیج دیں اور وہ وہاں آپ ﷺ کا پیغام پہنچاکر انہیں اسلام کی دعوت دیں تو مجھے امید ہے کہ اہلِ نجد آپ کے پیغام پر ضرور لبیک کہیں گے۔رسول اللہﷺ نے جواب دیا:مجھے اپنے آدمیوں کے متعلق اہلِ نجد سے خوف ہے۔ ابوبراء نے کہا:میں اس کاضامن ہوں، اس لیے آپ ان کو روانہ فرمادیجئے۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے منذرؓ بن عمروکی قیادت میں ستر صحابہ ،جو سب کے سب درسگاہِ صفہ کے تربیت یافتہ تھے، اس کے ساتھ بھیج دیے ۔(۲۲)
ابنِ ہشام اور ابن اثیر کی روایت کے مطابق یہ جماعت چالیس صحابہ پر مشتمل تھی ۔یہ سب لوگ بئر معونہ پہنچ گئے، جو بنو سلیم کے قریب ایک جگہ تھی۔ وہاں سے اپنی جماعت کے ایک آدمی حرامؓ بن ملحا ن کو رسول اللہﷺ کا خط دے کر قبیلے کے سردار عامر بن طفیل کی طرف بھیجا، لیکن اس نے خط پڑھنے سے قبل ہی قاصد کوقتل کردیا اور بنو سلیم کے ہمراہ بئر معونہ روانہ ہوا اور باقی مسلمانوں کو بھی قتل کردیا۔(۲۳)
سطور بالا کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے دعوتی وتبلیغی مقاصد کے لیے ایک ایسی جماعت کی تیاری کو ضروری خیال کیا جس کو دعوتی مشن اپنی جان سے بھی عزیز تھا۔ رجیع اور بئر معونہ کی دعوتی مہمات میں انتہائی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور رسول اللہ ﷺ کو ان واقعات کا انتہائی رنج ہوا۔ اس لیے بعد کے دور میں خالصتاً تبلیغی مہمات بھی حفاظتی نقطۂ نظر سے مسلح کرکے بھیجی گئیں۔
درس گاہِ صفہ کے تربیت یافتہ معلمین ومبلغین کی دعوتی سرگرمیاں اس کے بعد بھی جاری رہیں۔آپﷺان لوگوں کو مختلف جہادی مہمات میں افواج کے ہمراہ بطور مبلغ روانہ فرماتے ،اس کے علاوہ قبائل عرب کی طرف سے آنے والے وفود کی تعلیم وتربیت کے لیے بھی آپ اصحابِ صفہ سے مدد لیتے تھے۔
قریش مکہ کو چونکہ مذہبی سیادت حاصل تھی، اس لیے عرب میں ان کا ادب واحترام کیاجاتا تھا اور تمام عرب مذہبی معاملات میں ان کو اپنا مقتدا اور پیشوا سمجھتے تھے۔ کفرو اسلام اور حق وباطل کی جو آویزش جاری تھی، اس میں قبائل عرب قریش کی طرف دیکھ رہے تھے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے ۔بالآخر جب مکہ فتح ہوگیا اور قریش سب کے سب مسلمان ہوگئے تو اب قبائل عرب کے لیے بھی اسلام کے حق میں فیصلہ کرنا آسان ہوگیا۔ ابنِ حجر لکھتے ہیں:
ان مکۃ لما فتحت بادرت العرب باسلامھم فکان کل قبیلۃ ترسل کبراء ھا یسلّموا ویتعلّمو ویرجعوا الی قومھم فیدعوھم الی الاسلام۔ (۲۴)
’’فتح مکہ کے بعد تما م عرب نے اسلام کی طرف نہایت تیزی سے قدم بڑھایا۔ ہر قبیلہ اپنے سرداروں کو بھیجتا تھاکہ جاکر اسلام لائیں اور دین کی تعلیم حاصل کریں، واپس آئیں تو اپنی قوم کو دعوتِ اسلام دیں‘‘۔
فتح مکہ کے بعد تقریباً ایک سال کے عرصہ میں تمام قبائلِ عرب نے اپنے منتخب افراد کو وفود کی صورت میں مدینہ طیبہ بھیجا تاکہ وہ پوری قوم اور قبیلہ کی طرف سے اسلام کی بیعت کریں ۔فتح مکہ سے قبل رسول اللہ ﷺکی حکمتِ عملی یہ تھی کہ جو قبیلہ اور قوم بھی اسلام قبول کرے، اسے مدینہ آکر مستقل رہنے پر آمادہ کیا جائے۔اس کی بظاہر حکمت یہ معلو م ہوتی ہے کہ ایک تو لوگ دارالہجرت میں آکر دین کی تعلیم حاصل کریں اور مزید یہ کہ دفاعی نقطہ نظر سے بھی مدینہ میں مسلمانوں کی تعداد اور طاقت میں اضافہ ہو۔ چنانچہ فتح مکہ سے قبل رسول اللہ ﷺ جو دعوتی مہمات روانہ فرماتے تھے، ان کو یہی نصیحت کی جاتی تھی کہ لوگوں کو دین کی دعوت دیں۔ اگر وہ قبول کرلیں تو ان کو مدینہ کی طرف ہجرت کی دعوت دیں ۔حضرت بریدہؓ کا بیان ہے:
کان رسول اللّٰہﷺ اذا بعث امیرا علی سریۃ او جیش اوصاہ بتقوی اللّٰہ فی خاصۃ نفسہ وبمن معہ من المسلمین خیرا، وقال ﷺ! ’’اذا لقیت عدوک من المشرکین فادعھم الی احدی ثلاث خصال فایتھا اجابوک الیھا فاقبل منھم وکف عنھم ،ادعھم الی الاسلام ،فان اجابوا فاقبل منہم وکف عنہم ،ثم ادعھم الی التحول من دارھم الی دارالمہاجرین وأعلمھم انھم ان فعلوا ذالک ان لہم ما للمہاجرین وان علیہم ما علی المہاجرین، فان ابوا واختاروا دارہم فأعلمھم انھم یکونون کأعراب المسلمین یجری علیہم حکم اللّٰہ الذی کان یجری علی المؤمنین ولا یکون لہم فی الفئ والغنیمۃ نصیب إلا ان یجاھدوا مع المسلمین،فان ھم ابوا فادعہم الی اعطاء الجزیۃ فان اجابوا فاقبل منہم وکف عنہم، فان ابوا فاستعن باللّٰہ وقاتلہم۔ (۲۵)
’’رسول اللہ ﷺجب کسی کو کسی جماعت یا لشکر کا امیر بنا کر روانہ فرماتے تو اس کو خاص اپنی ذات کے بارے میں اللہ سے ڈرنے کا حکم دیتے اور جو مسلمان اس کے ساتھ ہیں، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیتے اور یہ فرماتے: جب تمہارا مشرک دشمنوں سے سامنا ہو تو ان کو تین باتوں میں سے ایک کی دعوت دینا۔ان باتوں میں سے جو بات بھی وہ مان لیں، تم اسے ان سے قبول کرلینا اور ان سے جنگ نہ کرنا۔ پہلے ان کو اسلام کی دعوت دو، اگر وہ اسے منظور کرلیں تو تم ان سے اسے قبول کرلو اور ان سے رک جاؤ،پھر تم ان کو اپنا علاقہ چھوڑ کر دارالمہاجرین (مدینہ منورہ)کی طرف ہجرت کرنے کی دعوت دو اور انہیں یہ بتلادو کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کو وہ تمام منافع ملیں گے جومہاجرین کو ملتے ہیں اور ان پر وہ تما م ذمہ داریاں ہوں گی جو مہاجرین پر ہیں اور اگر وہ اسے نہ مانیں اور اپنے علاقے میں رہنے کوہی ترجیح دیں توانہیں بتلادو کہ وہ دیہاتی مسلمانوں کی طرح ہوں گے اور اللہ کے احکام جو تمام مسلمانوں کے ذمہ ہیں، وہ ان کے ذمہ ہوں گے ۔ انہیں فے اور مالِ غنیمت میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ہاں اگر مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے تو حصہ ملے گا۔اگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کردیں تو انہیں جزیہ دینے کی دعوت دو اگر وہ اسے مان لیں تو تم اسے قبو ل کرلو اور ان سے جنگ نہ کرو اور اگر وہ اسے بھی نہ مانیں تو اللہ سے مدد طلب کرتے ہوئے ان سے جنگ کرو‘‘۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کے بعد ابتدائی سالوں میں رسول اللہ ﷺکی حکمتِ عملی یہ تھی کہ نو مسلم قبائل اور افراد کو مدینہ کی طرف ہجرت کی ترغیب دی جائے، لیکن فتح مکہ کی صورت میں جب اسلام کو نئی قوت وشوکت نصیب ہوئی تو رسول اللہ ﷺنے اپنی حکمتِ عملی تبدیل فرمائی اور واضح طور پر اعلان فرمادیاگیا:
لا ہجرۃ بعد فتح مکۃ۔ (۲۶)
’’فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے‘‘۔
اب آپ ﷺکا طریقہ کار یہ تھاکہ جو لوگ بھی انفرادی طور پر یاوفود کی صورت میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپﷺ ان کو خود تعلیم ارشاد فرماتے اور بعض اوقات انصار ومہاجرین صحابہ کو حکم دیتے کہ وہ ان لوگوں کو قرآن وسنت کی تعلیم دیں اور جب وہ لوگ دین کے بنیادی امور کا علم حاصل کرلیتے تو آپِﷺ ان وفود کو،جو عام طور پر رؤساے قبائل پر مشتمل ہو تے تھے ، واپس اپنے قبائل میں جانے کا حکم دیتے اور ان کو حکم ہوتا تھا کہ وہ جو کچھ سیکھ چکے ہیں وہ اپنے دوسرے لوگو ں کو سکھائیں۔(۲۷)
امام بخاری ؒ نے ایک جگہ’’ وصاہ النبی ﷺوفود العرب ان یبلغوا من وراۂم‘‘(۲۸)کے عنوان سے ایک باب قائم کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺاور صحابہ کرامؓ سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس کو آگے دوسروں تک پہنچانا ان وفود کاسب سے اہم فریضہ تھا۔نیزبعض علاقوں کی طرف آپ ﷺنے دعوتی مہمات روانہ فرمائیں اور مبلغین کو تلقین کی کہ اگر وہ لوگ اطاعت کا اظہار کریں تو ان کو قرآن وسنت کی تعلیم دیں اور ان کو کہیں کہ وہ وفد بن کر مدینہ آئیں اور براہِ راست رسول اللہ ﷺسے فیضیاب ہوں۔(۲۹)
چنانچہ ۹ ھ میں اس کثرت سے وفود آئے اس لیے مورخین نے اس سال کو ’’ عام الوفود‘‘کا نام دے دیا۔ان وفود میں سے بعض سینکڑوں افراد پر بھی مشتمل تھے (*۲) اور بعض محض ایک،دو اور تین افراد پر۔ان وفود کی تعداد میں بھی کافی اختلاف ہے تاہم یہاں ان میں سے ان چند وفود اور قبائلی رؤسا کا ذکر کیا جارہا ہے جن کا کردار دعوت وتبلیغ کے حوالے سے اہمیت کاحامل ہے۔
قبائلی رؤسا کی تعلیم وتربیت کاانتظام
اصحابِ صفہ کی منظم اور مستقل تبلیغی جماعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے اس چیز کی حوصلہ افزائی فرمائی کہ ہر قبیلہ اور جماعت میں سے کچھ ایسے لوگ موجود رہیں جو تعلیم وارشاد اور دعوت وتبلیغ کے فریضہ کو انجام دیتے رہیں۔اسی بنا پر قرآن مجید میں یہ حکم نازل ہوا:
وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْفَۃٍ مِّنْہُمْ طَآءِفَۃ’‘ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِ رُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْہِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ۔ (التوبہ ، ۹:۱۲۲)
’’اور سب مسلمان تو سفر کرکے (مدینہ)نہیں آ سکتے تو ہر قبیلہ سے ایک جماعت کیوں نہیں آتی کہ وہ دین کی سوجھ بوجھ حاصل کریں ،تاکہ جب وہ واپس جائیں تو اپنی قوم کو ڈرائیں ،شاید وہ بری باتوں سے بچ جائیں ‘‘
چنانچہ بعض قبائل نے تو خود ہی اپنے نمائندہ افراد کو مدینہ بھیجااور بعض قبائل مثلاً بنو حارث بن کعب اور ہمدان وغیرہ کو خود آپﷺنے پیغام بھیجا کہ وہ اپنے وفودبھیجیں۔چنانچہ اس کے بعد عرب کے تقریباً ہر قبیلہ نے اپنے وفود بارگاہِ رسالت ؐمیں بھیجے تاکہ وہ دین کافہم حاصل کریں اور واپس آکر خود ان کو اس کی تعلیم دیں۔تفسیر خازن میں ابنِ عباسؓ کا قول مروی ہے:
کان ینطلق من کل حی من العرب عصابۃ فیأتون النبیﷺ فیسأ لونہ عما یریدون من امر دینہم ویتفقّہون فی دینہم۔ (۳۰)
’’عرب کے ہر قبیلے کا ایک گروہ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے مذہبی امور دریافت کرتا اور دین کا فہم حاصل کرتا‘‘۔
آنے والے وفود اور قبائل عرب کے نمائندہ افراد کی ایسی تعلیم وتربیت کہ وہ واپس جاکر دعوت وتبلیغ کاکام کماحقہ کرسکیں،بڑی اہم ذمہ داری تھی جس کو رسول اللہ ﷺ نے انصار ومہاجرین اور اصحابِ صفہ کی مدد سے عمدہ طریقہ سے انجام دیا، چنانچہ آپ ﷺوفود عرب میں آنے والے قبائلی عمائدین کی خود تعلیم وتربیت فرماتے اور بعض اوقات انصار ومہاجرین کو حکم ہوتا کہ معزز مہمانوں کے قیام وطعام کاانتظام کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو قرآن وسنت سکھائیں۔ حضرت عبادہ بن صامتؓ کابیان ہے:
کان رسول اللّٰہ ﷺ یشغل، فاذا قدم رجل مہاجر علی رسول اللّٰہ ﷺ دفعہ الی رجل منا یعلمہ القرآن۔ (۳۱)
’’کوئی شخص جب ہجرت کرکے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپﷺ اس کو تعلیمِ قرآن کے لیے ہم میں سے کسی کے سپرد کردیتے‘‘۔
چنانچہ حضرت وردانؓ طائف سے آئے تو رسول اللہ ﷺنے ان کو ابانؓ بن سعید کے حوالے کیا کہ ان کے مصارف کا بار اٹھائیں اور ان کو قرآن مجید کی تعلیم دیں۔ (۳۲)
انصارِ مدینہ باہر سے آنے والے حضرات کی مہمان نوازی کے ساتھ اس لگن اور دلسوزی سے ان کو قرآن مجید کی تعلیم دیتے تھے کہ وہ لوگ تشکر کے جذبات کے ساتھ واپس جاتے تھے۔چنانچہ وفد عبدالقیس آیا تو اس اعتراف کے ساتھ واپس گیا:
خیر اخوان، ألانوا فراشنا، وأطابوا مطعمنا، وباتوا واصبحوا یعلّمونا کتاب ربنا وسنۃ نبینا۔ (۳۳)
’’یہ ہمارے بہترین بھائی ہیں۔ انہوں نے ہمیں نرم بستر مہیا کیے، اچھا کھانا کھلایا اور دن رات ہمیں اللہ کی کتاب اور پیغمبر ﷺ کی سنت کی تعلیم دیتے رہے۔‘‘
آنے والی سطور میں ان چند قبائلی رؤسا اور مبلغین کا ذکر کیا جارہا ہے جنہو ں نے رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ سے تعلیم وتربیت حاصل کرنے کے بعد اپنے اپنے قبائل میں دعوت کا فریضہ انجام دیا۔
عمیرؓ بن وہب کی قریشِ مکہ کو دعوت
عمیرؓ بن وہب قریش کے ممتا زسرداروں میں سے ایک تھے ۔یہ ابتدائے اسلام میں اسلام کے شدید ترین دشمنوں میں سے ایک تھے۔ ان کا بیٹا وہب بن عمیر غزوہ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہوا تو انہوں نے اپنے بیٹے کو چھڑوانے کے بہانے رسول اللہﷺ کو مدینہ میں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ۔اس سازش کا سوائے صفوان بن امیہ کے کسی کو علم نہ تھا، جوخود اس منصوبے میں شریک تھے۔لیکن مدینہ پہنچ کر جب وہ اس ارادے سے مسجدِ نبوی میں داخل ہوئے تو رسول اللہ ﷺنے ان کو بذریعہ وحی صفوان بن امیہ کے ساتھ تیار کردہ سازش سے آگاہ کردیااب عمیرپر حقیقتِ حال واضح ہوچکی تھی۔ اس لیے انہوں نے فوراً اسلام قبول کرلیااور آپ ﷺسے عرض کی:
فائذن لی یارسول اللّٰہﷺ فألحق بقریش فادعوہم الی اللّٰہ والی الاسلام لعل اللّٰہ ان یھدیھم۔ (۳۴)
’’یا رسول اللہ ﷺمیں چاہتا ہوں کہ آپ ﷺ مجھے اجازت دیں کہ میں مکہ جاکر اہلِ مکہ کو اللہ اور اسلام کی طرف دعوت دوں۔امید ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے گا‘‘۔
ابن الاثیر کا بیان ہے کہ حضرت عمیرؓ مکہ میں مسلسل اسلام کی صدا بلند کرتے رہے۔چنانچہ صفوانؓ بن امیہ سمیت متعدد لوگوں نے آپ کی ترغیب سے ہی اسلام قبول کیا۔(۳۵)
حضرت ضحاکؓ بن سفیان کی بنو کلاب کو دعوتِ اسلام
حضرت ضحاک کی کوششوں سے بنو کلاب کا پورا قبیلہ اسلام لے آیا۔ ۹ ھ میں اس قبیلہ کا ایک وفد رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے اسلام لانے کی اطلاع دی اور آپﷺ کو بتایا:ضحاک بن سفیان نے ہمارے درمیان کتاب اور آپ ﷺ کی سنت کے مطابق عمل کیا اور ہمیں آپِﷺ کی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ہم نے اسے قبول کرلیا۔(۳۶)
ابو امامہؓ باہلی کی اپنی قوم باہلہ کو دعوتِ اسلام
ابو امامہؓ باہلی نے اسلام قبول کیا تو رسول اللہﷺ نے ان کو ان کی اپنی قوم کی طرف ہی مبلغ بنا کر بھیجا تاکہ وہ ان کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرائیں۔قوم نے جب ان کو دیکھا تو خوش ہوکر کہا :صدیؓ بن عجلان(ابو امامہؓ کانام ہے)کو خوش آمدیدہو۔ اور کہنے لگے کہ ہمیں خبر پہنچی ہے کہ تم بے دین ہوکر اس آدمی (رسول اللہﷺ)کی طرف مائل ہوگئے ہو۔انہوں نے جواب دیا :نہیں بلکہ میں تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف مائل ہوگیا ہوں اور مجھے اللہ اور رسول ﷺنے تمہارے پاس بھیجا ہے تاکہ میں تم پر اسلام اور اس کے احکام پیش کروں۔
چنانچہ اس کے بعد ابوامامہؓ ان کو اسلام کی دعوت دینے لگے، لیکن قوم نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیااور ان پر بڑی سختی کی۔ابو امامہؓ نے بڑی استقامت کا مظاہرہ کیا۔بالآخران کی دعوت وتبلیغ کے نتیجہ میں پوری قوم مسلمان ہو گئی۔ (۳۷)
حضرت ابو امامہؓ نے اس کے بعد دعوتِ دین کو اپنی زندگی کامشن بنالیاجہاں دوچار لوگوں کو دیکھتے ان تک اسلام کا پیغام ضرور پہنچاتے ۔مسلم بن عامر کا بیان ہے:’’جب ہم ابوامامہؓ کے پاس بیٹھتے تو وہ ہم کو احادیث سناتے اور کہتے ان کو سنو، سمجھو اور جو سنتے ہو اس کو دوسروں تک پہنچاؤ‘‘ (۳۸)
سلمان بن حبیب محاربی بیان کرتے ہیں : میں حمص کی مسجد میں گیا، دیکھا کہ مکحول ؒ اور ابن زیاد زکریا دونوں بیٹھے ہوئے ہیں۔مکحول ؒ نے کہا کہ اس وقت دل چاہتا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺکے صحابی حضرت ابوامامہؓ باہلی کے حضور چلتے ،ان کی کچھ خدمت کرتے اور ان سے کچھ حدیثیں سنتے۔سلمان کہتے ہیں:ہم لوگ اٹھے اور ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہم لوگوں نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا اس کے بعد فرمایا:تمہارا میرے پاس آنا تمہارے لیے باعثِ رحمت بھی ہے اور تمہارے اوپر حجت بھی،(یعنی اگر تم حدیث کی خلاف ورزی کروگے)میں نے رسول اللہﷺ کو اس امت کے حق میں جھوٹ اور تعصب سے زیادہ اور کسی چیز کا خوف کرتے ہوئے نہیں دیکھا، آگاہ رہو جھوٹ اور تعصب سے بچوپھرفرمایا:
الا وانہ أمرنا ان نبلّغکم ذالک عنہ ألا وقد فعلنا فأبلغوا عنا ما قد بلّغناکم۔ (۳۹)
’’آگاہ رہو رسول اللہ ﷺنے ہمیں حکم دیا تھا کہ ہم یہ باتیں تم تک پہنچادیں۔آگاہ رہو ہم نے پہنچادیں ،لہذا اب تم ان باتوں کو جو ہم سے تم نے سنیں ہیں دوسروں تک پہنچادینا۔‘‘
حضرت عمروؓ بن مرہ جہنی کی اپنی قوم کے لیے دعوت
حضرت عمروؓ بن مرہ جہنینے رسول اللہ ﷺکی بعثت کی خبرسنی تو خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکراسلام قبول کرلیااور قرآن مجید کی تعلیم حضرت معاذ بن جبلؓ سے حاصل کی(۴۰) پھر بارگاہِ رسالت میں عرض کیا:یارسول اللہﷺ آپ مجھے میری قوم میں بھیج دیں ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر بھی میرے ذریعہ فضل فرمادے جیسے آپﷺکے ذریعہ سے مجھ پرفرمایا ۔چنانچہ رسول اللہﷺنے ان کو ان کی قوم میں دعوتِ اسلام کی اجازت مرحمت فرمائی، انہوں نے قوم کوان الفاظ میں اسلام کی طرف بلایا:
یا معشر جہینۃ ! انی رسول رسول اللّٰہﷺ الیکم ادعوکم الی الاسلام واٰمر کم بحق الدماء وصلۃ الارحام، وعبادۃ اللّٰہ وحدہ، ورفض الاصنام وبحج البیت، وصام شھر رمضان شھر من اثنی عشر شھرا، فمن اجاب فلہ الجنۃ ومن عصی فلہ النار۔ (۴۱)
’’اے قبیلہ جہینہ! میں تمہاری طرف اللہ کے رسول کاقاصد ہوں اور تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں،اور میں اس بات کا حکم دیتا ہوں کہ تم خون کی حفاظت کرو،صلہ رحمی کرو،ایک اللہ کی عبادت کرو،بتوں کو چھوڑ دو،بیت اللہ کا حج کرو اور بارہ مہینوں میں سے رمضان کے روزے رکھو۔جو مان لے گا اس کے لیے جنت ہے اور جس نے نافرمانی کی اس کے لیے جہنم کی آگ ہے‘‘۔
حضرت عمروؓ بن مرہ کی مسلسل دعوت اور کوشش سے ان کی قوم نے اسلام قبول کرلیاتو وہ اپنی قوم کو لے کر بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے، رسول اللہ ﷺ نے ان کا استقبال فرمایا، ان کو درازئ عمر کی دعا دی اور ان کی قوم کے لیے ایک تحریر لکھ کر دی۔ (۴۲)
رفاعہ ؓ بن زید جزامی کی اپنی قوم کے لیے بطور مبلغ تقرری
خیبر سے قبل صلح حدیبیہ کے موقع پر رفاعہؓ بن زیدجزامی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرلیا۔رسول اللہ ﷺنے انہیں ایک تحریر ان کی قوم کے لیے لکھ دی اور ان کو اپنی قوم کی طرف مبلغ بنا کر روانہ فرمایا۔ اس خط میں تحریر تھا:
ھذا کتاب من محمد رسول اللّٰہﷺ لرفاعۃؓ بن زید، انی بعثتہ الی قومہ عامۃ، ومن دخل فیھم، یدعوہم الی اللّٰہ والی رسولہ، فمن اقبل منہم ففی حزب اللّٰہ وحزب رسولہ۔ (۴۳)
’’یہ محمد رسول اللہ کی جانب سے رفاعہ بن زید کے لیے تحریر ہے کہ میں نے انہیں ان کی عام قوم کی طرف اور ان لوگوں کی طرف جوان کی قوم میں داخل ہوں، بھیجا ہے،رفاعہ ان سب کو اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف دعوت دیں گے ،جوان کی دعوت کو قبول کرے گا ،اللہ اور اس کے رسول کی جماعت میں شمار ہوگا۔‘‘
پھر جب رفاعہ بن زید اپنی قوم میں پہنچے تو قوم نے ان کی آواز پر لبیک کہا اور اسلام قبول کرلیا۔(۴۴)
عروہؓ بن مسعود کی ثقیف کو دعوت /عثمانؓ بن ابی العاص کا بطور امیر تقرر
ابن اسحاق کی روایت ہے کہ ماہ رمضان ۹ ھ میں جب رسول اللہﷺ غزوہ تبوک سے واپس تشریف لارہے تھے عروہؓ بن مسعود ثقفی نے آپﷺ کی خدمت میں حاضرہوکر اسلام قبول کرلیااور عرض کیا کہ مجھے اپنی قوم میں جانے کی اجازت دی جائے تاکہ میں ان کو اسلام کی طرف بلاؤں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہیں ایسا نہ ہو کہ ثقیف تمہیں قتل کرڈالیں ۔عروہؓ نے عرض کیا:یا رسول اللہﷺ ! میں ان کے نزدیک باکرہ عورتوں سے بھی زیادہ محبوب ہوں۔
چنانچہ وہ اس امید پر کہ قوم ان کی مخالفت نہیں کرے گی بڑے جذبے کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے اسلام کی دعوت کے لیے روانہ ہوئے ۔جب وہ اپنے مکان کے بالاخانے پرنمودار ہوئے ،قوم کو اسلام کی طرف بلایا اور ان پر اپنا دین ظاہر کیا تو انہوں نے ہر طرف سے ان پر تیروں کا مینہ برسادیا جس سے آپؓ شہید ہوگئے لیکن حضرت عروہؓ بن مسعود ثقفی کی یہ قربانی رائیگاں نہ گئی، جلد ہی قوم کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔چھ افراد پر مشتمل ایک وفد بارگاہِ رسالت ؐمیں حاضر ہوا اور اسلام قبول کرلیااور مدینہ میں ٹھہر کر اسلام کی تعلیمات سے فیض یاب ہونے لگے۔ جب یہ لوگ واپس جانے لگے تو رسول اللہ ﷺنے ان کے لیے ایک تحریر لکھ دی اور عثمان بن ابی العاص کو ان کا امیر مقرر کیا ۔
ابن ہشام نے ا ن کے تقرر کی یہ حکمت بیان کی ہے:ان لوگوں میں انہیں اسلام کو ٹھیک طور پر سمجھنے اور قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کا سب سے زیادہ شوق تھااور حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی یہ کہتے ہوئے ان کے تقرر کی سفارش کی:
یارسول اللّٰہﷺ! انی قدرأیت ھذا الغلام منھم من احر صھم علی التفقہ فی الاسلام، وتعلم القرآن۔ (۴۵)
’’یارسول اللہ ﷺ !میں اس لڑکے کو ان لوگوں میں تفقہ فی الدین ،مسائل دینی اور قرآن سیکھنے کا سب سے زیادہ حریص پاتا ہوں‘‘۔
وفد بنو تمیم
بنو تمیم کا وفد بڑی شان وشوکت سے ۹ھ میں مدینہ آیا۔ وفد میں قبیلہ کے تقریباً تمام بڑے رؤسا مثلاً اقرع بن حابس، عمروبن اہتم ،نعیم بن یزید، قیس بن حارث ،عطا رد بن حاجب زبر قان بن بدر اور عیینہ بن حصن وغیرہ شامل تھے۔ یہ لوگ اپنے خطیب اور شاعر ساتھ لے کر آئے تھے۔ابن عبدالبر لکھتے ہیں:
کان فی وفد تمیم سبعون او ثمانون رجلا ثم اسلمواالقوم وبقوا بالمدینۃ مدۃ یتعلمون القرآن والدین۔ (۴۶)
’’قبیلہ بنو تمیم کے ستر یا اسی افراد وفد کی صورت میں حاضر ہوکر اسلام لائے اور مدینہ میں ایک مدت تک دین اسلام اور قرآن کی تعلیم حاصل کرتے رہے‘‘۔
اسی وفد کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیتِ مقدسہ نازل فرمائی تھی:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَا دُوْنَکَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرَاتِ اَکْثَرُھُمْ لَایَعْقِلُوْنَ۔ (الحجرات ۴۹:۴)
’’وہ لوگ جوآپ ﷺ کو حجروں کے عقب سے پکارتے ہیں ان میں سے بیشتر ناسمجھ ہیں‘‘۔
جب رسول اللہﷺ تشریف لائے تو انہوں نے کہا ! اے محمدﷺ !ہم تمہارے پاس مفاخرہ کرنے کے لیے آئے ہیں ۔اس لیے ہمارے شاعر اور خطیب کو اجازت دو‘‘چنانچہ بنو تمیم کی طرف سے عطارد بن حاجب نے تقریر کی اور رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے ثابتؓ بن قیس نے اس کا جواب دیا۔ اسی طرح زبرقان بن بدر نے فخریہ اشعار پڑھے تو ابنِ اسحاق کے بقول رسول اللہﷺ نے حسانؓ بن ثابت کو بلوا بھیجا تو انہوں نے ان کا جواب دیا۔دوطرفہ مفاخرہ کے بعد اقرع بن حابس یہ کہتے ہوئے کھڑے ہوگئے:
’’باپ کی قسم! یہ آدمی (نبی کریمﷺ)وہ ہیں جن کو توفیق الہٰی حاصل ہے، ان کا خطیب ہمارے خطیب سے بہترہے ،ان کاشاعر ہمارے شاعر سے بہتر ہے اور ان کے الفاظ ہمارے الفاظ سے شیریں ہیں۔‘‘
پھر بنو تمیم کے وفد کے تمام افراد اسلام لے آئے، رسول اللہ ﷺنے انہیں بہترین انعامات سے نوازا۔(۴۷)
ضمامؓ بن ثعلبہ کی بنوسعد بن بکر کو دعوتِ اسلام
ابنِ اسحاق کا بیان ہے کہ بنو سعد بن بکرنے ضمامؓ بن ثعلبہ کو بارگاہِ رسالت میں اپنا نمائندہ بناکر بھیجا تاکہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھ کر آئیں۔ضمام بڑے جری انسان تھے، چنانچہ یہ مسجدِ نبوی میں داخل ہوئے اور پوچھا: ایکم ابن عبدالمطلب؟ (تم میں عبدالمطلب کا بیٹا کون ہے؟) رسول اللہﷺنے جواب دیا! ’’انا ابنِ عبدالمطلب‘‘۔(میں عبدالمطلب کابیٹا ہوں)۔پھر ضمامؓ بن ثعلبہ نے اسلام کے متعلق کئی سوال کیے، جن کو ابنِ ہشام اور دوسرے مؤرخین نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔مطمئن ہونے کے بعد انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور کہا!
فانی اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدا رسول اللّٰہﷺ وسأودّی ھذہ الفرائض واجتنب ما نہیتنی عنہ، ثم لا ازید ولا انقص۔ (۴۸)
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ خدائے واحد کے سوا کوئی معبو دنہیں ۔اور اقرار کرتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں،اور میں یہ فرائض ادا کرتا رہوں گا اور جن چیزوں سے آپ ﷺنے منع فرمایا ان سے پرہیز کروں گا،پھر میں نہ زیادتی کروں گا اور نہ کمی کروں گا‘‘۔
پھر اپنے اونٹ پر بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔جب اپنی قوم میں پہنچے تو پوری قوم ان کے پاس جمع ہوگئی چنانچہ انہوں نے قوم سے جوپہلی بات کہی وہ یہ تھی:
بئست اللات والعزی! قالوا: مہ یاضمام! اتق البرص، اتق الجذام، اتق الجنون! قال: ویلکم! انھما واللّٰہ لا یضران ولاینفعان، ان اللّٰہ قد بعث رسولا وانزل علیہ کتابا استنقذکم بہ مما کنتم فیہ، وانی اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ وان محمدا عبدہ ورسولہ، وقد جئتکم من عندہ بما امر کم بہ، ومانھا کم عنہ۔ (۴۹)
’’لات وعزی کتنے برے ہیں،اس پر قوم نے کہا: ضمام!ٹھہرو،ٹھہرو!برص میں مبتلاہونے سے ڈرو، جذام میں مبتلا ہونے سے ڈرواور جنون سے ڈرو۔ ضمام نے جواب دیا !تمہارا براہو،خدا کی قسم ! یہ دونوں نہ نقصان پہنچاسکتے ہیں نہ نفع پہنچاسکتے ہیں۔بے شک اللہ نے ایک رسول بھیجا ہے اور اس پر ایک کتا ب نازل کی ہے جس کے ذریعے سے رسول اللہﷺنے تمہیں اس گمراہی سے نکالاہے جس میں تم پڑے ہوئے تھے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ خدائے واحد کے سوا کوئی اور معبودنہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمدﷺ اللہ کے بند ے اور رسول ہیں اور میں تمہارے پاس ان کی طرف سے وہ لایا ہوں جس کا انہوں نے تمہیں حکم دیا ہے اور وہ لایا ہوں جس سے انہوں نے تمہیں منع کیا ہے‘‘۔
راوی (ابنِ عباس) کا بیان ہے کہ شام ہونے سے قبل ہی اس قبیلے کے ہرمردوعورت نے اسلام قبول کرلیا۔
اکثمؓ بن صیفی کی اپنی قوم کو دعوتِ اسلام
حضرت اکثمؓ کو ظہورِ اسلام کی خبر ہوئی تو د وآدمیوں کو رسول اللہ کی خدمت میں بھیجا کہ تحقیقِ حال کریں وہ دونوں خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تو آپﷺنے ان کو یہ آیت سنائی:
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبیٰ وَیَنْھیٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلََّکُمْ تَذَکََّرُوْنَ۔ (النحل ، ۱۶:۹۰)
’’بے شک اللہ تعالیٰ عدل،احسان اور قرابت داروں کو دینے کاحکم کرتا ہے اور فحاشی،برائی اور ظلم سے منع کرتا ہے۔خدا تم کو نصیحت کرتا ہے شاید تم سمجھو اور سوچو‘‘۔
ان لوگوں نے جاکر ان سے یہ واقعہ بیان کیا تو انہوں نے تمام قوم کی طرف خطاب کرکے کہا:
یا قوم! أراہ یأمر بمکارم الاخلاق وینھیٰ عن ملائمھا فکونوا فی ھذا الأمر رؤسا ولاتکونوا ادنابا وکونوا فیہ اولا ولا تکونوا فیہ آخر۔
’’اے میری قوم یہ پیغمبر مکارمِ اخلاق کاحکم دیتا ہے ۔ اور ذمائم اخلاق سے روکتا ہے تم لوگ قبول اسلام میں دم نہ بنو ،سر بنو، مقدم بنو،مؤخر نہ ہو‘‘۔
اس کے بعد تادمِ مرگ اس کوشش میں مصروف رہے،انتقال ہوا تو اہلِ عیال کوتقویٰ اور صلہ رحمی کی وصیت کی۔(۵۰)
حضرت زیادؓ بن حارث کی اپنی قوم کو بذریعہ خط دعوتِ اسلام
حضرت زیادؓ بن حارث صدائی فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام پر آپﷺسے بیعت ہوا۔مجھے پتہ چلاکہ حضورﷺنے ایک لشکر میری قوم کی طرف بھیجا ہے۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ آپﷺ لشکر واپس بلالیں،میں اس بات کی ذمہ داری لیتا ہوں کہ میری قوم مسلمان بھی ہوجائے گی اور آپﷺ کی اطاعت بھی کرے گی۔آپﷺنے فرمایا تم جاؤ اور اس لشکر کو واپس بلالاؤ۔میں نے کہا یارسول اللہﷺ میری سواری تھکی ہوئی ہے۔حضورﷺنے ایک آدمی کو بھیج کر لشکر واپس بلوالیا۔میں نے اپنی قوم کو خط لکھا ۔ وہ مسلمان ہوگئے اور ان کا ایک وفد یہ خبرلے کر حضور کی خدمت میں آیا آپﷺنے مجھ سے فرمایا:
یا اخاصداء! ’’انک لمطاع فی قومک‘‘ فقلت: ’’بل اللّٰہ ھذا ھم للاسلام فقالﷺ: افلا اؤمّرک علیھم؟‘‘ قلت! بلی یارسول اللّٰہﷺ! قال: فکتب لی کتابا امّرنی۔ (۵۱)
’’اے صدائی بھائی!واقعی تمہار ی قوم تمہاری بات مانتی ہے ۔میں نے کہا (اس میں میرا کمال نہیں) بلکہ اللہ نے ان کو اسلام کی ہدایت دی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں ان کا امیر نہ بنادوں؟میں نے کہا بنادیںیارسول اللہ!چنانچہ حضور ﷺ نے میری امارت کے بارے مجھے ایک خط لکھ کر دیا۔‘‘
فروہ ؓ بن مسیک کی اپنی قوم کو دعوتِ اسلام
فروہؓ بن مسیک ۱۰ھ میں خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرلیا۔فروہ کا قبیلہ مراد سے تعلق تھا۔قبولِ اسلام کے بعد عرض کیا یارسول اللہ ﷺ مجھے اجازت ہوتو اپنی قوم کے اہلِ اسلام کو ساتھ لے کر اپنی قوم کے کافروں سے قتال کروں،رسول اللہﷺنے ان کو اجازت دے دی ۔ جب یہ چلے تو رسول اللہﷺنے ایک آدمی بھیج کر ان کو بلوالیااور فرمایا:
ادع القوم فمن اسلم منھم فاقبل منہ ومن لم یسلم فلا تعجل حتی احدثا لیک۔ (۵۲)
’’تم اپنی قوم کو اسلام کی ترغیب دینا ،جو شخص اسلام لے آئے اس کا اسلام قبول کرلینااور جو انکار کرے اس کے بارے میں توقف کرنا یہاں تک کہ میں تم کو کوئی حکم بھیجوں‘‘
ابوثعلبہؓ خشنی کی اپنی قوم کو دعوتِ اسلام
حضرت ابو ثعلبہؓ جر ثوم بن ناشب خشنیکاتعلق قبیلہ قضاعہ کی شاخ خشین سے تھا۔ یہ حدیبیہ اور بیعتِ رضوان میں شریک تھے۔ رسول اللہ ﷺنے ابو ثعلبہؓ کو ان کے اپنے قبیلہ کی طرف ہی مبلغ بنا کر بھیجا چنانچہ حضرت ابو ثعلبہؓ کی کوششوں سے ان کا پورا قبیلہ رسول اللہ کی زندگی ہی میں اسلام لے آیا۔(۵۳) ابنِ عبدالبر کا بیان ہے:
وارسلہ رسول اللّٰہ ﷺالی قومہ فاسلموا۔ (۵۴)
’’رسول اللہ ﷺ نے ان کو ان کی قوم کی طرف دعوت اسلام کے لیے بھیجا پس ان کی قوم نے ان کی دعوت پر اسلام قبول کر لیا۔‘‘
عامرؓ بن شہر کی قبیلہ ہمدان کو دعوتِ اسلام
عامرؓ بن شہر ایک زمانہ تک بادشاہوں کی صحبت میں رہ چکے تھے اور اپنے قبیلے کے قابل ترین فرد تھے۔ جب رسول اللہﷺ کی بعثت کی خبر ان کے قبیلہ ہمدان کوملی تو قبیلہ والوں نے ان سے کہا کہ تم اس شخص (یعنی رسول اللہﷺ)کے پاس جاؤ اور جس چیز کو تم ہمارے لیے اچھا سمجھوگے اس کو ہم کریں گے اور جس کو برا سمجھو گے اس کونہ کریں گے۔چنانچہ عامرؓ بن شہر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور دین اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئے۔پھر اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے اور ان لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دی تو کئی لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ۔ (۵۵)
حارثؓ بن ضرارکی اپنی قوم کو دعوتِ اسلام
حضرت حارثؓ بن ضرار نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا تو رسول اللہ ﷺنے ان کو عقائد اسلام اور زکوٰۃ کی تعلیم دی۔اس کے بعد انہوں نے عرض کیا:یارسول اللہ ﷺآپ ﷺمجھے اجازت دیں کہ میں اپنی قوم کی طرف لوٹ جاؤں تاکہ ان کو اسلام اور اداءِ زکوٰۃ کی دعوت دوں۔چنانچہ رسول اللہﷺکی اجازت سے حضرت حارثؓ بن ضرار واپس اپنی قوم میں آگئے اور ان کو اسلام کی طرف بلایا تو قوم نے ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کرلیا ۔حضرت حارثؓ زکوٰۃ اکٹھی کرکے خود مدینہ حاضر ہوئے۔ (۵۶)
عمروؓ بن حسان کی اپنی قوم کو دعوتِ اسلام
حضرت عمروؓ بن حسان نے اپنی قوم کو اسلام کی طرف بلایا تو تمام لوگ مسلمان ہوگئے۔ چنانچہ وہ بارگاہِ رسا لت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہﷺ میں نے اپنے پیچھے کسی شخص کو نہیں چھوڑا جس سے میں نے اسلام پر بیعت نہ لے لی ہو اور وہ آپ ﷺپر ایمان نہ لایا ہو سوائے قبیلہ کے خاندان بنی جون کی ایک ضعیفہ یعنی میری والدہ کے،رسول اللہ ﷺنے فرمایا:ارفق بھا (ان کے ساتھ نرمی کرو)۔ (۵۷)
قیسؓ بن نشیہ کی بنی سلیم کو دعوتِ اسلام
حضرت قیس بن نشیہؓ قبولِ اسلام کے بعد اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے اور ان کو اسلام کی طرف بلاتے ہوئے فرمایا:
یابنی سیلم! سمعت ترجمۃ الروم وفارس واشعار العرب والکھان ومقاول حمیر وماکلام محمدؐ یشبہ شیئًا من کلامھم فاطیعونی فی محمد فانکم اخوالہ۔ (۵۸)
’’اے بنو سلیم! میں نے روم وفارس کے تراجم اور عرب، کہان اور حمیر کے بہادروں کے اشعار سنے ہیں لیکن محمدﷺ کا کلام ان سب سے الگ ہے، پس محمد کے معاملے میں میری اطاعت کرو،کیونکہ تم ان کے ماموں ہو‘‘۔
ابنِ اثیر کی روایت کے مطابق حضرت قیس بن غزیہؓ نے بھی اپنی قوم کو اسلام کی طرف بلایا تھا۔ (۵۹)
مالکؓ بن احمر کی اہلِ فدک کو دعوتِ اسلام
جب رسول اللہﷺ تبوک کے مقام پر تشریف لائے تو مالکؓ بن احمر بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوکر اسلام لے آئے اور عرض کیا کہ انہیں تبلیغِ دین کے بارے میں ایک اجازت لکھ دیں جس کے ذریعہ وہ اپنی قوم کو اسلام کی طرف بلائیں ،چنانچہ رسول اللہﷺ نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر ان کو تحریر لکھ دی۔ (۶۰)
محیصہؓ بن مسعودکی اپنی قوم کو دعوتِ اسلام
حضرت محیصہؓ بن مسعود کورسول اللہﷺ نے اہلِ فدک کے پاس ارشاد وہدایت کے لیے روانہ فرمایا، محیصہؓ بن مسعودجوان کے بڑے بھائی تھے وہ ان ہی کی کوششوں سے مسلمان ہوئے۔ (۶۱)
مسعودؓ بن وائل کی بنی سلیم کو دعوتِ اسلام
حضرت مسعودؓ بن وائل مشرف بہ اسلام ہوئے تو درخواست کی:
یارسول اللّٰہ ﷺ! انی احب ان تبعث الی قومی رجلا یدعوھم الی الاسلام۔
’’یارسول اللہ ﷺ! آپؐ میری قوم کی طرف کسی آدمی کو روانہ کریں جو ان میں اسلام کی تبلیغ کرے‘‘۔
رسول اللہﷺنے انہیں ایک فرمان لکھ کر دیا اور ان کو حکم دیا کہ وہ خود اپنے قبیلے میں دعوت کاکام کریں۔ (۶۲)
عبداللہؓ بن عوسجہ کی قبیلہ حارثہ بن عمروکو دعوتِ اسلام
حضرت عبداللہؓ بن عوسجہ البجلی کو رسول اللہ ﷺنے اپنا خط دے کر قبیلہ حارثہ بن عمرو بن قریط کے پاس تبلیغ وہدایت کے لیے بھیجا،چنانچہ انہوں نے ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دی ،لیکن یہ لوگ اسلام سے محروم رہے۔ (۶۳)
قیسؓ بن یزید کی اپنی قوم کو دعوتِ اسلام
اسی طرح ابن اثیر قیسؓ بن یزید کے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے بھی اپنی قوم کواسلام کی دعوت دی:’’فدعا قومہ الی الاسلام فاسلموا‘‘ (۶۴)
عمروؓ بن حزم کا بنو حارث بن کعب کی طرف بطور مبلغ تقرر
ربیع الاول ۱۰ھ میں رسول اللہﷺ نے خالدؓبن ولید کو بنو حارث بن کعب کے پاس نجران دعوت وتبلیغ کی خاطر روانہ فرمایا ۔ بنو حارث نے اسلام قبول کرلیا ،تو خالد بن ولید نے بذریعہ خط کامیابی کی اطلاع بارگاہِ رسالت میں بھیجی تو رسول اللہ ﷺنے جوابی خط میں ان کو ہدایت کی کہ وہ اپنے ساتھ بنو حارث کا وفد لے کر واپس آجائیں ،چنانچہ حضرت خالدؓ بنو حارث کے وفد سمیت مدینہ حاضر ہوگئے۔ چشمہء نبوت سے براہِ راست فیض یاب ہونے کے بعد جب یہ وفد واپس جانے لگا تو آپﷺنے بنوحارث بن کعب پر قیسؓ بن حصن کو امیر مقرر فرمایا اور ان لوگوں کے جانے کے بعد آپﷺنے عمروؓ بن حزم کو ان کی طرف روانہ فرمایا۔ان کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ ان سے صدقات وغیرہ وصول کریں ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ تبلیغ دین کی ذمہ داری بھی ان کے سپرد تھی۔ ابن ہشام لکھتے ہیں:
وقد کان رسول اللّٰہﷺ قد بعث الیہم بعد ان ولی وفدھم عمروؓ بن حزم، لیفقّھھم فی الدین، ویعلّمھم السنۃ ومعالم الاسلام۔ (۶۵)
’’رسول اللہﷺنے عمروؓ بن حزم کو بنو حارث بن کعب کی طرف بھیجا تاکہ وہاں جاکر ان میں دین کا فہم پیدا کریں اور انہیں سنتِ رسول ﷺاور اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرائیں‘‘۔
رسول اللہﷺنے معاذؓ بن جبل کو یمن کے ایک حصہ کا عامل اور قاضی بنا کر بھیجا تو ان کو یہ ہدایت فرمائی کہ وہ لوگوں میں اسلامی شعور پیدا کریں اور ان کو قرآن کی تعلیم دیں ۔ابنِ عبدالبر لکھتے ہیں:
بعثہ رسول اللّٰہﷺ قاضیا الی الجند من الیمن یعلّم الناس القرآن وشرائع الاسلام۔ (۶۶)
’’رسول اللہ ﷺنے ان کو یمن کے ایک حصہ کا قاضی مقرر فرماکر بھیجا کہ وہاں کے لوگوں کو قرآن مجید اور احکامِ دین کی تعلیم دیں‘‘۔
خلاصۂ بحث
قبائل عرب میں کوئی قبیلہ ایسا نہیں جس کو رسول اللہﷺنے براہِ راست اللہ تعالیٰ کا پیغام نہ سنایا ہو۔ بالخصوص مکی عہدِ نبوت میں جب قبائل عرب ایامِ حج میں مکہ آتے تو آپﷺایک ایک قبیلہ اور خاندان کے پاس خود جاکر ان کو اسلام کی دعوت پیش فرماتے ،تاہم وہ لوگ جن کو آپؐ ﷺبراہِ راست دعوتِ اسلام نہ دے سکے آپﷺنے ان کی طرف اپنے صحابہؓ کو بطور مبلغ روانہ فرمایا۔
مدنی عہدِ نبوت میں آپﷺنے کثرت کے ساتھ قبائل عرب کی طرف دعوتی وتبلیغی مہمات روانہ فرمائیں اور صحابہ کرامؓ کو دعوتِ اسلام کی ذمہ داری سونپی۔اگرچہ ہرقبیلہ کی طرف بھیجے جانے والے مبلیغین اور ان کی سرگرمیو ں کا ہمیں تفصیلی ذکر نہیں ملتا تاہم مدنی دور میں جس تیزی سے اسلام پھیلا وہ بذاتِ خود آپﷺ کے ان گم نام مبلغین کی انتھک کوششوں کا منہ بولتا ثبوت ہے جن کے بارے میں ماخذ یا تو بالکل خاموش ہے یا ان کے بارے میں چند اشارے اور منتشر معلومات ملتی ہیں، ایسے ہی ایک گمنام مبلغ کے بارے میں حضرت احنفؓ بن قیس کے اس بیان سے پتہ چلتا ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’میں حضرت عثمانؓ کے زمانے میں بیت اللہ کا طواف کررہاتھا کہ اتنے میں بنو لیث کے ایک آدمی نے میرا ہاتھ پکڑکر کہا میں تم کو ایک خوشخبری نہ سنادوں؟ میں نے کہا ضرور۔اس نے کہا کیاتمہیں یا دہے کہ مجھے رسول اللہﷺنے تمہاری قوم کے پاس بھیجا تھا ۔میں ان پر اسلام کوپیش کرنے لگا اور ان کو اسلام کی دعوت دینے لگا تو تم نے کہاتھا کہ تم ہمیں بھلائی کی دعوت دے رہے ہواور بھلی با ت کا حکم کررہے ہواور وہ (رسول اللہﷺ)بھلائی کی دعوت دے رہے ہیں۔ رسول اللہﷺکو جب تمہاری بات پہنچی تو آپﷺنے فرمایا: اللّٰھم! اغفر للاحنفؓ ’’اے اللہ! احنفؓ کی مغفرت فرما‘‘۔ حضرت احنفؓ فرمایاکرتے تھے کہ میرے پاس ایسا کوئی عمل نہیں ہے جس پر مجھے رسول اللہﷺ کی اس دعا سے زیادہ امید ہو۔‘‘ (۶۷)
اسی نوعیت کا ایک واقعہ عبد خیرؓ ابنِ یزید بیان کرتے ہیں:
’’میں ملکِ یمن میں تھا وہاں لوگوں کے پاس رسول اللہﷺ کا خط پہنچا جس میں لوگوں کو اسلام کی دعوت دی گئی تھی۔ اس وقت میرے والد کہیں باہرگئے ہوئے تھے اور میر ی عمر ابھی کم تھی، جب میرے والد واپس آئے تو میری والدہ سے کہا کہ دیگ کو کتوں کے سامنے بہادو اس لیے کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں، پس اس وقت میں اسلام لے آیا۔ دیگ کے بہانے کاحکم اس لیے دیاتھا کہ اس میں مردار پکا ہواتھا‘‘۔(۶۸)
بنو لیث سے تعلق رکھنے والے یہ مبلغ صحابی کون تھے؟ جن کو رسول اللہﷺنے حضرت احنفؓ بن قیس کی قوم میں دعوت وتبلیغ کے لیے بھیجا تھا اس بارے میں ہمارے پاس کوئی ذریعہ معلومات نہیں ہے ۔ اسی طرح ملک یمن میں رسول اللہ ﷺ کا دعوتی خط لے کر جانے والے صحابی کون تھے؟جن کی سرگرمیوں کااشارہ حضرت عبد خیرؓ بن یزید کے بیان سے ملتا ہے ۔تاہم اس قسم کی روایا ت سے یہ رائے ضرور قائم کی جاسکتی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے بلا تخصیص تما م قبائل عرب کی طرف صحابہ کرامؓ کودعوت و تبلیغ کے لیے روانہ فرمایا،اگرچہ ان کی دعوتی سرگرمیوں کے بارے میں کتب سیروتاریخ خاموش ہیں۔
اسی طرح وفود عرب بھی مدنی دور میں دعوت وتبلیغ کا انتہائی موثر ذریعہ ثابت ہوئے ۔وفود عرب ،جو عام طور پرقبائلی رؤسا اور سردارانِ قوم پر مشتمل ہوتے تھے،کو رسول اللہ ﷺ مناسب تعلیم وتربیت کے ساتھ ان کے اپنے ہی قبائل میں دعوت وتبلیغ کے لیے بھیج دیتے۔ رسول اللہ ﷺکی یہ حکمتِ عملی انتہائی کامیاب رہی اور اس کے نتائج انتہائی حوصلہ افزا رہے۔
عرب کے مخصوص قبائلی اور معاشرتی ماحول میں جہاں سردارِ قوم کا مذہب ہی پورے قبیلے اور خاندان کامذہب اور دین ہوتا تھا ،نومسلم سرداروں نے اشاعتِ اسلام میں اہم کردار ادا کیا، چنانچہ قبائلی رؤسا کو اپنے قبائل میں جو شخصی اثرورسوخ اور وجاہت حاصل تھی اس کی بناء پر کثیر لوگوں نے اسلام قبول کیا اور بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ فردِ واحد کی دعوت پر پورے قبیلے نے اسلام قبول کرلیا،چنانچہ حضرت سعدؓ بن معاذ،ابوثعلبہؓ،زیادؓ بن حارث ،ضمامؓ بن ثعلبہ کی دعوت پر ان کے پورے قبیلے نے اسلام قبول کرلیا۔اسی طرح حضرت ضمادؓ ازدی نے قبولِ اسلام کے بعد اپنی قوم کی طرف سے بھی اسلام کی بیعت کی۔
حواشی
(*۱) امام بخاری نے ان اصحاب کی تعداد دس بیان کی ہے ۔(صحیح البخاری ، کتاب المغازی ، باب غزوۃالرجیع ، ح:۴۰۸۶) امام سہیلی نے بھی دس کے قول کو ہی ترجیح دی ہے جن میں سے چھ مہاجر اور چار انصار صحابہ تھے ۔ (الروض الانف ، ذکر یوم الرجیع ،۲/۱۶۷) جب کہ ابن الاثیر نے ان مبلغین کی تعداد چھ بیان کی ہے ۔(اسد الغابہ ، تذکرہ عبداللہؓ بن طارق ، ۵/۲۵۸)
(*۲) وفد بنی تمیم ستر یا اسی افراد پر مشتمل تھا (الاستیعاب ، تذکرہ عمر وؓ بن اہتم ، ۳/۱۱۶۳) جبکہ وفد بجیلہ میں شامل افراد کی تعدا د ایک سو پچاس بیان کی جاتی ہے۔ (ابن سعد ، ۱/۳۴۷)
حوالہ جات
(۱) صحیح البخاری، کتاب الادب ،باب رحمۃ الناس والبھائم ،ح:۶۰۰۸،ص:۱۰۵۱۔ ایضاً،کتاب الاذان،باب الاذان للمسافرین.....ح:۶۳۱،ص:۱۰۴۔ صحیح مسلم ،کتاب المساجد،باب من احق بالامامۃ؟ح:۱۵۳۵،ص:۲۷۲۔ سننِ نسائی ، کتاب الاذان ،باب اجتزاء المرء باذان غیرہ فی الحضر،ح:۶۳۶،ص:۸۸
(۲) صحیح البخاری ، کتاب العلم ، باب تحریص النبی ﷺ وفد عبدالقیس علی ان یحفظو االایمان .............ح:۸۷، ص:۲۰۔ ایضاً،کتاب الایمان،باب اداء الخمس من الایمان ، ح:۵۳،ص:۱۳
(۳) سنن ابن ماجہ ، المقدمہ ، باب فضل العلماء و الحث الی طلب العلم ، ح:۲۲۹،ص:۳۵۔ سنن الدارمی ، المقدمہ ، باب فی فضل العلم والعالم ، ح :۳۵۵، ۱/۱۰۵
(۴) ابو نعیم الاصفہانی،’’حلےۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء‘‘ ، ذکر اہل الصفۃ،۱/۴۱۹،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،۱۹۹۷ء
(۵) کتانی ، عبدالحء، علامہ ، ’’نظام الحکومۃ النبوےۃ‘‘، (مترجم ، مولانا معظم الحق )ص:۳۲۷
(۶) سنن ابی داؤد ، کتاب البیوع ، باب کسب المعلم ، ح :۳۴۱۶، ص:۴۹۵۔المسند ،حدیث عبادہؓ بن صامت ح:۲۲۱۸۱، ۶/۴۲۹
(۷) اسد الغابہ ، تذکرہ عبداللہؓ بن سعید بن العاص ، ۳/ ۱۷۵۔الاستیعاب ، تذکرہ عبداللہؓ بن العاص،۳/۳۹۰
(۸) جمع الفوائد ،کتاب العلم، ۱/۴۸
(۹) المسند ، حدیث جابرؓ بن سمرہ،ح :۲۰۲۳۳۳، ۶/۹۵۔۹۶
(۱۰) المسند، مسند انسؓ بن مالک ،ح :۱۱۹۹۴، ۳/۵۹۸
(۱۱) صحیح مسلم ،کتاب فضائل الصحابہ ، باب فضائل ابی ہریرہؓ ، ح :۲۴۹۲، ص:۱۰۹۷۔ صحیح البخاری ، کتاب العلم ، باب حفظ العلم ، ح:۱۱۸، ص:۲۵
(۱۲) صحیح البخاری ، کتاب العلم ، باب التناوب فی العلم ، ح:۸۹، ص:۲۱
(۱۳) سنن ابی داؤد ، کتاب الادب ، باب فی التحلق، ح:۴۸۲۳، ص:۶۸۲
(۱۴) صحیح البخاری ، کتاب العلم ،باب من اعاد الحدیث ثلاثا لیفہم عنہ ، ح:۹۵،ص:۲۲
(۱۵) سنن ابی داؤد ،کتاب العلم ، باب فی سرد الحدیث ،ح:۳۶۵۵،ص:۵۲۴
(۱۶) ایضاً
(۱۷) صحیح مسلم ، کتاب المساجد ، باب تحریم الکلام فی الصلوۃ ، ح:۱۱۹۹،ص:۲۱۸
(۱۸) سنن ابی داؤد ، کتاب العلم ، باب فی القصص ، ح :۳۶۶۶،ص:۵۲۶
(۱۹) آل عمران ، ۳:۱۱۰
(۲۰) صحیح مسلم ، کتاب الامارۃ ، باب ثبوت الجنۃ للشہید، ح:۴۹۱۷، ص:۸۵۱۔ المسند ، مسند انسؓ بن مالک ، ح:۱۱۹۹۴، ۳/۵۹۸
(۲۱) ابن ہشام ، ذکر یوم الرجیع ، ۳/۱۸۷۔۳۰۳، تاریخ الامم والملوک ، ۳/۲۹-۳۱(واقعات ۴ھ)
(۲۲) صحیح مسلم ، کتاب الامارۃ ، باب ثبوت الجنۃ للشہید، ح:۴۹۱۷، ص:۸۵۱
(۲۳) ابن ہشام ، حدیث بئرمعونۃ ، ۳/۲۰۴۔۲۱۰۔ اسد الغابہ ، تذکرہ منذرؓ بن عمرو، ۴/۴۱۸
(۲۴) فتح الباری ، ۱۰/۲۵۲
(۲۵) سنن ابی داؤد ، کتاب الجہاد ، باب فی دعاء المشرکین ، ح:۲۶۱۲، ص:۳۷۷۔ سنن ابن ماجہ ، ابواب الجہاد ، باب وصےۃ الامام ، ح:۲۸۵۸، ص:۴۱۲۔ المسند ، حدیث بریدہؓ الاسلمی ، ح:۲۲۵۲۱، ۶/۴۹۲
(۲۶) المسند ، مسند صفوانؓ بن امیہ ، ح:۱۴۸۸۲، ۴/۴۰۱
(۲۷) صحیح البخاری ، کتاب الادب ، باب رحمۃ الناس وا لبہائم ، ح:۶۰۰۸، ص:۱۰۵۱
(۲۸) صحیح البخاری ، کتاب التمنی ، ص:۱۲۵۰
(۲۹) ابن ہشام ، اسلام بنی الحارث بن کعب ........... ۴/۲۴۹
(۳۰) تفسیر خازن ، تفسیر سورۃ التوبہ، آیت ما کان المؤمنون لینفروا..........۲/۴۲۱
(۳۱) المسند ،حدیث عبادہؓ بن صامت ، ح :۲۲۲۶۰، ۶/۴۴۳
(۳۲) الاصابہ ، تذکرہ وردانؓ جدالفرات ، ۳/۲۳۳
(۳۳) المسند ، حدیث و فد عبدالقیس ، ح:۱۵۱۳۱ ، ۴/۴۵۲۔ ایضاً،ح:۱۷۳۷۶، ۵/۲۳۵
(۳۴) الاصابہ ، تذکرہ عمیرؓ بن وہب ، ۴/۱۵۰
(۳۵) اسدالغابہ ، تذکرہ عمیرؓ بن وہب ، ۴/۱۵۰
(۳۶) ابن سعد ، وفدِ کلاب،۱/۳۰۰
(۳۷) المستدرک ، ذکر ابی امامۃؓ الباہلی ، ۳/۶۴۱۔الاصابۃ ، تذکرہ صدیؓ بن عجلان ، ۲/۱۸۲
(۳۸) سنن الدارمی،المقدمہ ،باب البلاغ عن رسول اللہ ﷺوتعلیم السنن،ح:۵۵۰،۱ /۱۴۳
(۳۹) اسد الغابہ ، تذکرہ صدیؓ بن عجلان ، ۳/۱۶۔۱۷
(۴۰) الاصابہ ، ۵/۱۲
(۴۱) البدایۃ،۵/۱۲۔ کنزالعمال،۷/۶۴
(۴۲) البداےۃ ، ۵/۱۲۔ کنز العمال، ۷/۶۴
(۴۳) ابن ہشام ، قدوم رفاعۃؓ بن زیدجزامی ، ۴/۲۵۲۔اسدالغابہ،تذکرہ رفاعۃؓ بن زید،۲/۱۸۱
(۴۴) ایضاً
(۴۵) ابن ہشام ، امر وفد ثقیف و اسلامھا............ ۴/۹۴۔ تاریخ الامم و الملوک ، ۳/۱۴۱ ( واقعات ۹ھ)
(۴۶) الاستیعاب ، تذکرہ عمر وؓ بن اہتم ، ۳/۱۱۶۴
(۴۷) ابن ہشام ، قدوم وفد بنی تمیم، ۴/۲۲۱
(۴۸) ابن ہشام ، قدوم ، ضمامؓ بن ثعلبۃ وافداًعن بنی سعد بن بکر ، ۴ /۲۲۹ ۔ المسند ، مسند عبداللہ بن عباسؓ ، ح:۲۲۵۴، ۱/۴۱۴۔ صحیح البخاری ، کتاب العلم ، باب القرأۃوالعرض علی المحدث ، ح:۶۳،ص:۱۵۔ الموطأ کتاب قصر الصلوۃ فی السفر ، ح :۱۹۷،ص:۱۳۰
(۴۹) ابن ہشام ، قدوم ضمامؓ بن ثعلبہ وافد اًبنی سعد بن بکر ،۴/۲۲۹۔ المسند مسند عبداللہ بن عباسؓ ، ح:۲۳۷۶، ۱/۴۳۷۔ اسد الغابہ ، تذکرہ ضمامؓ بن ثعلبہ، ۳/۴۳۔المستدرک ، رجوع ضمامؓ بن ثعلبہ علی قومہ ، ۳/۵۴
(۵۰) اسد الغابہ تذکرہ اکثمؓ بن صیفی ، ۱/۱۱۲
(۵۱) الاصابہ، تذکرہ زیادؓ بن حارث ، ۱/۵۵۷۔ البدایہ ، ۵/۸۳
(۵۲) اسد الغابہ ، تذکرہ فروہؓ ابن مسیک ، ۴/۱۸۱
(۵۳) اسد الغابہ ، تذکرہ جرثومؓ بن ناشب ، ۱/۲۷۷
(۵۴) الاستیعاب، تذکرہ ابو ثعلبہؓ الخشنی ، ۴/۱۶۱۸
(۵۵) اسد الغابہ ، تذکرہ عامرؓ بن شہر ہمدانی ، ۳/۸۳
(۵۶) ایضاً، تذکرہ حارثؓ بن ضرار ، ۱/ ۳۳۴
(۵۷) ایضاً، تذکرہ سنبر الابراشیؓ ، ۲/۳۶۰
(۵۸) ایضاً، تذکرہ قیسؓ بن نشیہ ، ۴/۲۲۸
(۵۹) اسد الغابہ ، تذکرہ قیسؓ بن غزیہ ، ۴/۲۲۳
(۶۰) ایضاً، تذکرہ مالکؓ بن احمر ، ۴/۳۷۱
(۶۱) ایضاً، تذکرہ محیصہؓ بن مسعود ،۴/۳۳۴
(۶۲) ایضاً، مسعودؓ بن وائل ، ۴/۳۶۰
(۶۳) ایضاً ، تذکرہ عبداللہؓ بن عوسجہ ،۳/۲۳۹
(۶۴) ایضاً، تذکرہ قیسؓ بن یزید، ۴/۲۲۹
(۶۵) ابن ہشام ، اسلام بنی الحارث بن کعب ، ۴/۲۵۰۔ تاریخ الامم و الملوک ، ۳/۱۵۷(واقعات ۱۰ھ)
(۶۶) الاستیعاب ، تذکرہ معا ذ بن جبل
(۶۷) اسد الغابہ ، تذکرہ احنفؓ بن قیس، ۱ / ۵۵۔ الاصابہ ، تذکرہ احنفؓ بن قیس ، ۱/۱۰۰۔ المستدرک، ذکر احنفؓ بن قیس ، ۳/۶۱۴
(۶۸) اسد الغابہ ، تذکرہ عبد خیرؓ ابن یزید ، ۳/۲۷۷
دینی مدارس کے معاشرتی کردار کے حوالہ سے ایک مکالمہ
ادارہ
(ہماری خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی موضوع پر گفتگو ہو تو اس کے تمام اہم پہلو قارئین کے سامنے آجائیں تاکہ انہیں رائے قائم کرنے میں آسانی ہو۔ گزشتہ دنوں ملک کے معروف کالم نگار اور دانش ور جناب عطاء الحق قاسمی نے دینی مدارس کے حوالے سے ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی کی ایک تقریر کے اہم اقتباسات روزنامہ جنگ میں اپنے کالم ’روزن دیوار‘ میں شائع کیے تو اس پر بحث کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ اس سلسلہ کے مضامین اور خطوط کو یکجا طور پر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے جن کے آخر میں ان میں اٹھائے گئے اہم نکات پر مولانا زاہد الراشدی کا تبصرہ بھی شامل ہے ۔ مدیر)
ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا
(عطاء الحق قاسمی )
ہمارے ذہنوں میں مولوی کا تصور وہی ہے جو آدھی رات کو مسجد کے چیختے چنگھاڑتے لاؤڈ سپیکروں کے ذریعے ہم تک پہنچاہے یا سیاسی مولویوں کی دو عملی ہمارے ذہنوں میں مولوی کا امیج مسخ کرنے کا باعث بنی ہے لیکن میں ’’مولویوں‘‘ میں اٹھتا بیٹھتا ہوں۔ ان کے مثبت اور منفی پہلو دونوں میرے ذہن میں ہیں۔ وہ جو صحیح معنوں میں مولوی ہیں، ان کا وژن بہت وسیع ہے۔ مسٹر حضرات ان کی جہتوں سے واقف ہی نہیں ہیں۔ ان کا طرز استدلال بڑے بڑے بزرجمہروں کا منہ بند کرنے والا ہوتا ہے ۔ہمارے مسٹر حضرات مولوی پر جہاں اور بہت سے اعتراضات کرتے ہیں، وہاں وہ بہت عرصے سے مولوی کو مسلم امہ کے ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جانے کا ذمہ دار بھی ٹھہراتے ہیں اور ہم لوگ ان کی بات پر یقین کرتے چلے جاتے ہیں۔
مجھے گزشتہ روز ڈاک میں مولانا زاہد الراشدی کی شائع شدہ ایک تحریر ملی جو انہوں نے مدرسہ اسلامیہ محمودیہ سرگودھا کے سالانہ اجتماع کے موقع پر کی تھی۔ اس میں مولانا نے دیگر الزامات کے علاوہ اس الزام کا جواب بھی دیا ہے جو مولوی حضرات پر مسلمانوں کے ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جانے کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ مجھے مولانا کی بات میں وزن محسوس ہوا ہے اور یوں صورتحال
ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا
والی لگتی ہے۔ مولانا کی تقریر سے ایک طویل اقتباس درج ذیل ہے:
’’سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے آج ہم دنیا میں اپنے جائز مقام سے محروم ہیں اور ہمارے مصائب وآلام کی ایک بڑی وجہ یہ ہے۔ صرف ایک مثال سے بات سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ نے آج سے پون صدی یا ایک صدی قبل ہم مسلمانوں کو بہت بڑی دولت سے نوازا۔ خلیج میں تیل کی دولت دی۔ یہ ہمارا ادبار کا دور تھا، زوال کا دور تھا مگر اس دور میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے وقت کی سب سے بڑی دولت عطا فرمائی لیکن ہماری حالت یہ تھی کہ ہم تیل زمین سے نکالنے کی صلاحیت سے محروم تھے، چشمے کھودنے کی تکنیک سے بے بہرہ تھے، تیل نکال کر اسے ریفائن کرنے کی صلاحیت سے ہم کورے تھے اور تیل کو ریفائن کرنے کے بعد دنیا کی مارکیٹ میں بیچنے کے لیے مارکیٹنگ کی صلاحیت بھی ہم میں موجود نہیں تھی جس کی وجہ سے ہم مغربی ماہرین کو بلانے پر مجبور ہوئے۔ مغربی ماہرین آئے، پھر مغربی کمپنیاں آئیں، ان کے بعد بینک آئے، پھر سیاست کار آئے اور ان کے ساتھ مغرب کی فوجیں بھی آ گئیں جو آج تیل کے چشموں کا گھیرا ڈالے بیٹھی ہیں۔
ذرا خیال کیجیے کہ تیل ہمارا، چشمے ہمارے، کنویں ہمارے، زمین ہماری لیکن ان پر قبضہ کس کا ہے؟ اور کس وجہ سے ہے؟ یہ ہماری نااہلی تھی کہ ہم تیل نکالنے، صاف کرنے اور عالمی مارکیٹ میں اسے بیچنے کی صلاحیت سے محروم تھے جس کی وجہ سے مغرب سے ماہرین آئے اور آج ماہرین، کمپنیاں، بینک اور پھر فوجیں خلیج میں تسلط قائم کیے ہوئے ہیں۔ اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ تیل نکالنے، صاف کرنے اور مارکیٹنگ کی صلاحیت آج بھی ہم میں موجود نہیں ہے اور مغرب کے ارادے یہ ہیں کہ ابھی امریکی وزارت دفاع پینٹاگون میں یہ دھمکی دی گئی ہے کہ اگر سعودی عرب نے امریکی احکامات کی من وعن تابع داری نہ کی تو اس کے تیل کے چشموں پر قبضہ کر لیا جائے گا اور مغربی ملکوں میں اس کے اثاثے اور مغربی بینکوں میں اس کے اکاؤنٹس ضبط کر لیے جائیں گے۔
اس لیے ہمیں اس کی تکلیف زیادہ ہے اور ہم اس کا درد زیادہ محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟ اس پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کرنا چاہیے اور میں ہر اس شخص کو جس کے دل میں انصاف کی ایک رتی بھی موجود ہے اور ضمیر نام کی کوئی چیز وہ اپنے پاس رکھتا ہے، دعوت دیتا ہوں کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ اس بات کا جائزہ لے کہ امت کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں محرومی کا ذمہ دار کون ہے؟
میں تاریخ کے حوالے سے بات کروں گا۔ جب ۱۸۵۷ء کے بعد انگریز حکمرانوں نے ہمارا پورا نظام تلپٹ کر دیا تھا، دینی مدارس ختم کر دیے تھے، نظام تعلیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا اور ہر چیز الٹ پلٹ کر رکھ دی تھی تب دو طبقے سامنے آئے تھے اور انہوں نے ملت کو سہارا دیا تھا۔ دونوں نے الگ الگ شعبوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ علماء کرام نے قرآن وسنت کی تعلیم کو باقی رکھنے کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی اور اسلامی ثقافت اور تہذیب کے تحفظ کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے عوام سے تعاون کے لیے رجوع کیا، چندے مانگے، گھر گھر دستک دے کر روٹیاں مانگیں، زکوٰۃ وصدقہ کے لیے دست سوال دراز کیا اور سرکاری تعاون سے بے نیاز ہو کر عوامی تعاون کے ساتھ قرآن وسنت کی تعلیم کو باقی رکھنے اور اسلامی تہذیب وثقافت کے آثار کو بچانے کے لیے کردار ادا کیا۔ انہوں نے ایک ایک دروازے پر دستک دی، سر پر چنگیر رکھ کر گھر گھر سے روٹیاں مانگیں، ہاں ہاں میں نے خود روٹیاں مانگی ہیں، اور مجھے اس پر فخر ہے۔ میں نے اپنی طالب علمی کے دور میں گوجرانوالہ کے کئی محلوں میں سر پر چھابہ رکھ کر روٹیاں مانگی ہیں۔ ہم نے اپنی عزت نفس کی پروا نہیں کی، طعنے سنے ہیں، بے عزتی برداشت کی ہے لیکن قرآن وسنت کی تعلیم کو باقی رکھا ہے جس کی گواہی آج دشمن بھی دے رہا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایک اور طبقہ سامنے آیا جس نے قوم کو جدید علوم سے بہرہ ور کرنے کی ذمہ داری قبول کی، سائنس اور ٹیکنالوجی پڑھانے کا وعدہ کیا، انگریزی اور جدید زبانوں کی تعلیم اپنے ذمے لی۔ انہیں اس کام کے لیے ریاستی مشینری کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی اور انہوں نے قومی خزانے کے کھربوں روپے خرچ کر ڈالے۔ انہیں سرکاری وسائل میسر تھے، ریاستی پشت پناہی حاصل تھی لیکن وہ قوم کو سائنس اور ٹیکنالوجی میں آج کی قوموں کے برابر نہ لا سکے اور آج اپنی ناکامی کی ذمہ داری مولوی کے سرتھوپ کر اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں آج کی اجتماعی دانش سے سوال کرتا ہوں کہ وہ انصاف سے کام لے اور یہ فیصلہ کرے کہ نااہل کون ثابت ہوا اور اپنی ذمہ داری کس نے پوری نہیں کی؟ آج اگر ملک کے کسی گوشے میں دینی تعلیم کا انتظام نہیں ہے، قرآن وسنت کی راہ نمائی لوگوں کو میسر نہیں ہے اور اسلام کی آواز نہیں لگ رہی تو ہم مجرم ہیں لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی میں دوسری قوموں سے پیچھے رہنے کی ذمہ داری ہم پر نہ ڈالیے۔ یہ نا انصافی ہے، اس کے بارے میں ان سے پوچھیے جنہوں نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی اور اس کے لیے سرکاری خزانے کے کھربوں روپے اب تک انہوں نے خرچ کر ڈالے ہیں۔
میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کو مساجد میں نماز پڑھانے کے لیے امام میسر ہیں؟ قرآن کریم کی تعلیم کے لیے قاری مل رہے ہیں؟ رمضان میں قرآن سنانے کے لیے حافظ مل جاتے ہیں؟ جمعہ پڑھانے کے لیے خطیب موجود ہیں؟ مسئلہ بتانے والے مفتی صاحبان کی کمی تو نہیں؟ دینی راہ نمائی دینے کے لیے علماء کرام سے ملک کا کوئی گوشہ خالی تو نہیں؟ اس سے اگلی بات کہ میدان جنگ میں کفر کے خلاف صف آرا ہونے والے مجاہدین بھی ان مدارس سے آپ کو مل رہے ہیں یا نہیں؟ اگر یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو دینی مدارس پر اعتراض کس بات کا ہے؟
حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی آج ہی ایک محفل میں فرما رہے تھے کہ انہوں نے وفاقی وزرا سے کہا کہ سرکاری نصاب تعلیم اور نظام کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ میں کہتا ہوں کہ قومی کمیشن قائم کیجیے اور ہمیں اور سرکاری تعلیم کے ذمہ داروں کو اس کے سامنے پیش کیجیے۔ ساری حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔‘‘
(روزنامہ جنگ ۲۷ دسمبر ۲۰۰۲ء)
مولانا زاہدالراشدی کے جواب میں!
( عطاء الحق قاسمی )
کسی بھی لکھاری کے لیے اس کے قارئین کے خطوط بہت اہم ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ کالم میں شائع بھی ہوں لیکن ان سے مسئلے کو سمجھنے میں مدد ضرور ملتی ہے۔ گزشتہ دنوں میرا ایک کالم ’’ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا جو دینی مدرسوں اور انگریزی تعلیم کے حوالے سے مولانا زاہدالراشدی کی ایک تقریر کے حوالے سے تھا۔ مجھے مولانا کی بات میں بہت وزن محسوس ہوا تھا چنانچہ میں نے ان کے نقطہ نظر کی تائید کی۔ مجھے اس کالم پر پاکستان کے مختلف شہروں سے تائیدی ٹیلیفون موصول ہوئے تاہم ٹورنٹو (کینیڈا ) سے ایک قاری انصر رضا نے مجھے اپنا موقف بذریعہ فیکس (042-7513234) ارسال کیا جو مولانا زاہدالراشدی کے نقطۂ نظر سے مختلف ہے۔ چونکہ انصر رضا صاحب نے بھی اپنی بات سلیقے سے اور دلیل سے کی ہے، سو ان کا موقف اور اس حوالے سے میری معروضات درج ذیل ہیں:
جناب عطاء الحق قاسمی صاحب
السلام علیکم
جناب زاہدالراشدی صاحب کے جس اقتباس میں آپ کو وزن محسوس ہورہا ہے اور جس سے آپ بظاہر متاثر ہیں، وہ خود فریبی اور تاریخی حقائق کو مسخ کرکے بلکہ یکسر چھپا کر اپنی پاکی داماں کی حکایت کو بڑھانے کی ایک کوشش ہے۔ اس میں ایک غلط بیانی یہ کی گئی ہے کہ انگریزوں نے دینی مدارس ختم کر دیے تھے۔ میں انگریزوں کا حامی نہیں ہوں لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مدرسہ دیوبنداور دارلعلوم ندوہ انگریزوں کے دور میں ان کی سرپرستی میں بنے۔ دارالعلوم ندوہ کا سنگ بنیاد یوپی کے لفٹیننٹ گورنر نے رکھا تھا لہٰذا انگریزوں پر یہ الزام کہ انہوں نے دینی مدارس ختم کر دیے تھے، نظام تعلیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا اور ہر چیز الٹ پلٹ کر رکھ دی تھی، بالکل غلط ہے۔ کلکتہ اور دہلی کے فورٹ ولیم کالج میں ہندوستانی علوم پر ریسرچ اور علما کو ’شمس العلما‘ کے خطابات سے ان کی عزت وتوقیر بڑھانا اس بات کا ثبوت ہے کہ انگریزوں نے نظام تعلیم کو ترقی دی۔
دوسری بات یہ ہے کہ دینی اور دنیاوی علوم کی تقسیم اسلام میں کہاں جائز ہے کہ علما اس پر راضی ہو گئے کہ ہم صرف دینی علوم پڑھیں گے اور باقی لوگ دنیاوی علوم حاصل کریں؟ ماضی کے مشہور مسلمان مفکرین اور سائنس دان دونوں علوم میں دسترس رکھتے تھے۔ یہ عجیب بات ہے کہ اقتدار کا مسئلہ ہوتو سیاست دین سے الگ نہیں ہوسکتی لیکن علم سیکھنے کی بات ہو تو مشکل علوم کا بوجھ عامۃ الناس کے کندھے پر ڈال کر خود حلووں پر راضی ہو جائیں۔
جس دوسرے طبقے نے یہ نام نہاد ذمہ داری قبول کی تھی، ان کی راہ میں ان علما نے کتنے روڑے اٹکائے اور کفر کے فتووں سے کیسی کیسی گولہ باری کی، کون نہیں جانتا؟ مشہور ترین مثال سر سید احمد خان کی ہے جنہوں نے مسلمانوں کو جدید علوم سے روشناس کرانے کی ٹھانی اور بدترین ظلم کا نشانہ بنے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ علمائے دین کا بنیادی کام نیکی کی دعوت اور برائی سے بچنے کی تلقین کرنا ہے۔ انہیں نوید اور و عید دونوں سنانا ہیں لیکن ہوا یہ کہ وہ لوگوں پر صرف آگ برسانے لگے۔ اگر آپ ان کے عقائد اور قرآن وسنت کی من مانی تشریح سے متفق ہیں تو آپ پکے مومن ہیں، چاہے آپ رشوت خور ہوں، ذخیرہ اندوز ہوں، مزارعوں اور ماتحتوں پر ظلم کرنے والے ہوں، دھاندلی اور دھونس سے الیکشن جیتنے والے ہوں۔ لیکن اگر آپ ان کے مفہوم دین سے متفق نہیں تو آپ قطعی طور پر زندیق اور فاسق ہیں، چاہے آپ پنج وقتہ نمازی ہوں، حقوق اللہ اور حقوق العباد کا حتی الوسع خیال رکھتے ہوں۔ قول وفعل کے اس تضاد اور اقتدار کی ہوس نے عوام کو ان علما سے متنفر کر دیااور یوں ایسی مسلمان امت وجود میں آئی جسے خدا ہی ملا نہ وصال صنم ، نہ وہ دین کی رہی اور نہ دنیا کی۔ اس صورت حال کی ساری ذمہ داری علماے دین پر ہے جنہوں نے ایک طرف تو عوام کی اصلاح و تربیت سے منہ موڑ لیا اور قرآنی معارف سے نہ خود آگاہ ہوئے نہ دوسروں کو اس کا شوق دلایا اور دوسری طرف دنیاوی علوم کو بیکار کہہ کر حوصلہ شکنی کی۔
والسلام۔ انصر رضا، ٹورنٹو، کینیڈا
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ایک انگریز گورنر نے دارالعلوم ندوہ کا سنگ بنیاد رکھا تھا لہٰذا ثابت ہوا کہ انگریز دینی تعلیم کے پروموٹر تھے تو یہ بات حقائق سے لگا نہیں کھاتی۔ آج اگر صدر بش واشنگٹن کے اسلامی مرکز میں جوتے اتار کر اندر داخل ہوتے ہیں اور وہاں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا سادہ لوحی ہو گی کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں۔ اسی طرح انصر رضا صاحب نے مشرقی علوم کے اداروں کی سرپرستی کے حوالے سے جو نتائج اخذ کیے ہیں، وہ بھی محل نظر ہیں۔ سمجھدار محکوم قوم کی نفسیات سے مکمل آگاہی اور یوں اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے لیے ایسے ادارے قائم کیا ہی کرتے ہیں۔ یہ ادارے مقامی زبانوں پر دسترس حاصل کرنے کے لیے بھی قائم کیے جاتے ہیں چنانچہ امریکہ میں بھی ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ سرپرستی میں اس نوع کے ادارے قائم ہیں اور اس نوع کے ایک ادارے کے نصاب میں راقم الحروف کی تصنیفات بھی شامل ہیں۔ نیز جن علما کو شمس العلما وغیرہ کے خطابات دیے گئے، وہ دینی تعلیم کے حوالے سے نہیں تھے۔ ان میں سے ایک ’’شمس العلماء‘‘ (مولانا محمد حسین آزاد) ایک اسلامی ملک میں باقاعدہ انگریزوں کے جاسوس تھے۔
البتہ دینی تعلیم اور انگریزی تعلیم کے حوالے سے انصررضا صاحب نے جو دوسرے نکات اٹھائے ہیں، وہ واقعی قابل توجہ ہیں۔ ان کا جواب مولانا زاہدالراشدی پر واجب ہے۔ یہ جواب اگر اتنا ہی مختصر ہوا جتنا انصررضا صاحب کا خط ہے تو ان شاء اللہ انہی کالموں میں شائع ہو گا!
(روزنامہ جنگ ، ۶ جنوری ۲۰۰۳ء)
تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
(عطاء الحق قاسمی)
میرے ایک کالم میں دینی مدارس کے حوالے سے مولانا ابوعمار زاہدالراشدی صاحب کا نقطہ نظر شائع ہوا تھا اور اس کے بعد ایک قاری انصر رضا صاحب کا ایک تنقیدی خط بھی کالم میں شائع کیا گیا۔ اس کے بعد اس موضوع کی حمایت اور مخالفت میں بے شمار خطوط موصول ہوئے اور ظاہر ہے ان سب کی اشاعت ممکن نہ تھی چنانچہ میں نے یہ سلسلہ وہیں روک دیا۔ قاری کے تنقیدی خط کا جواب مولانا زاہدالراشدی نے دفتر کے پتہ پر ارسال کیا جو مجھے نہ مل سکا۔ اب انہوں نے دوبارہ یہ زحمت کی ہے جس کی وجہ سے یہ خط تاخیر سے شائع ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں میرا ذاتی موقف یہ ہے کہ دینی تعلیم دینے والے اور دنیاوی تعلیم دینے والے دونوں طبقے صرف ’’ضروری صورت‘‘ کے عالم اور دانشور پیدا کر سکے ہیں۔ دینی مدرسوں سے کوئی رازیؒ اور کوئی غزالیؒ ابھر کر سامنے نہیں آیا اور دنیاوی مدرسے ہمیں کوئی آئن سٹائن، کوئی نیوٹن نہیں دے سکے۔دونوں نے بس ’’غریبی دعوے‘‘ والا کام کیا ہے۔ باقی رہی تنگ نظری کی بات، تو اپنے رویوں کے حوالے سے ’’ملّا‘‘ دونوں طرف موجود ہیں۔ ایک طرف دین کے نام پر شٹل کاک برقعے کو لازمی قرار دینے والے بھی ہمارے درمیان ہیں اور دوسری طرف سیکولرازم اور روشن خیالی کے نام پر ترکی میں خواتین کے سکارف اوڑھنے پر بھی پابندی۔ یعنی ’’تیرے آزادبندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا‘‘ والی صورتحال ہے۔ بہرحال مولانا راشدی کا خط ملاحظہ فرمائیں:
’’برادر محترم عطاء الحق قاسمی صاحب
آپ کے کالم میں محترم انصر رضا آف ٹورنٹو کا خط پڑھا۔ آپ کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے ہمارا نقطہ نظر جنگ کے ذریعہ ایک وسیع دائرے تک پہنچایااور انصر رضا صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس پر ناقدانہ نظر ڈال کر بہت سے قارئین کو میری معروضات دوبارہ پڑھنے اور مجھے کچھ مزید باتوں کی وضاحت کا موقع فراہم کیا۔
انگریزوں کی طرف سے دینی مدارس کی سرپرستی کے حوالہ سے آپ کا موقف درست ہے مگر اس میں اتنا اضافہ ضروری سمجھتا ہوں کہ جارج ڈبلیو بش صرف جوتے اتار کر مساجد میں نہیں جارہے بلکہ اخباری رپورٹوں کے مطابق امریکی حکومت نے پاکستان کے دینی مدارس کی ترقی، تعمیر اور اصلاح کے لیے ایک خطیر رقم بھی مختص کر رکھی ہے اور اس رقم کا مصرف مہیا کرنے کے لیے ہوم ورک جاری ہے۔ اسے اگر انصر رضا صاحب دینی تعلیم کی سرپرستی سمجھتے ہیں تو انہیں مبارک ہو۔ ہم دینی مدارس والے اس مہربانی کے متحمل نہیں ہیں۔
جہاں تک دیوبند کے مدرسہ کی انگریزوں کی طرف سے سرپرستی کا سوال ہے، ڈیڑھ سوسالہ تاریخ میں دیوبند کے مدرسے اور مکتب فکرکاتاریخی استعمار دشمن کردار اس کی وضاحت کے لیے کافی ہے اور کسی منصف مزاج شخص کے لیے اس سے زیادہ کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ انصر رضا صاحب کی خدمت میں یہ سوال ضرور پیش کرنا چاہوں گا کہ اگر ان کے بقول انگریزوں نے دینی مدارس کو ختم کرنے اور ان کے نظام کو تلپٹ کر دینے کے بجائے ان کی سرپرستی کی تھی تو ۱۸۵۷ء سے پہلے جو تعلیمی نظام اور نصاب پورے برصغیرمیں رائج کیا تھا، اسے ختم کرکے اس کی جگہ نئے تعلیمی نظام کو کس نے نافذ کیاتھا؟ اگر انصر رضا صاحب نظام تعلیم کی اس تبدیلی کے محرکات اور اہم مراحل سے آگاہ کر سکیں تو ان کا ہم پر بہت کر م ہوگا۔
باقی رہی یہ بات کہ دینی مدارس نے صرف دینی تعلیم پر اکتفا کیوں کیا اور دینی علوم اور دنیاوی علوم کی تقسیم کیوں کی تھی، اس کے بارے میں عرض ہے کہ دینی علوم کے وارثین نے کبھی دین ودنیا کی تقسیم نہیں کی اور نہ ہی وہ اسے جائز سمجھتے ہیں۔ ہاں اس دور کے معروضی حالات میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ ہم اپنے غریبی دعوے کے ساتھ اتنا کام ہی کرسکتے ہیں اور وہ انہوں نے بحمداللہ پورا کر دکھایا۔ یہ تقسیم علوم کا نہیں بلکہ تقسیم کار کا مسئلہ ہے اور اگر غصہ تھوک کر میری گزشتہ کالم کی معروضات پر سنجیدگی سے ایک نظر پھر ڈال لیں تومجھے یقین ہے کہ خود انصر رضا صاحب محترم کے ذہن میں بھی یہ اشکال باقی نہیں رہے گا۔
انصر رضا صاحب نے سرسید احمد خان مرحوم کے کام میں رکاوٹ ڈالنے اور ان کی دینی تعبیرات کی مخالفت کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سلسلے میں میر ی استدعا ہے کہ سرسید احمد خان مرحوم نے قرآن وسنت کی جس نئی تعبیر وتشریح کی داغ بیل ڈالی تھی، اس کی صرف علما نے مخالفت نہیں کی بلکہ انہیں خود سرسید مرحوم کے رفقا مولانا الطاف حسین حالی مرحوم، شبلی نعمانی مرحوم اور ان کے دیگر معاصرین مثلاً اکبر الٰہ آبادی مرحوم نے بھی قبول نہیں کیا تھا اور ان تعبیرات وتشریحات سے کھلے بندوں براء ت کا اظہار ضروری سمجھا تھا اور اس سے بڑھ کر سر سیداحمد خان مرحوم کے شاگردوں میں سے بھی کسی نے دین کی اس تعبیر وتشریح کو اختیار نہیں کیا تھا۔ اگر سرسید احمد خان مرحوم کے کسی ساتھی یا شاگرد کا نام انصررضا صاحب کو معلوم ہو کہ اس نے سرسید احمد خان کی دینی تعبیرات کو اختیار کیا تھا اور انہیں آگے بڑھانے میں دلچسپی لی تھی تو وہ اس کی نشاندہی فرما دیں۔ میں اس پر ان کا بے حد شکرگزار ہوں گا۔عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس سلسلہ میں سرسیدکی مخالفت کے الزام کا نزلہ عضوضعیف مولوی پر ہی کیوں گرتا ہے اور ان تعبیرات کو رد کردینے والے دیگر حضرات انصر رضا صاحب جیسے دوستوں کو کیوں یاد نہیں رہتے؟
اس سلسلے میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ علماے کرام نے انگریزی تعلیم کی مخالفت کی تھی۔یہ بات بھی قطعی بے بنیاد اور خلاف واقعہ ہے۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا دور ۱۸۵۷ء سے بہت پہلے کا ہے اور ان کے فتاویٰ عزیزی میں آج بھی یہ فتویٰ موجود ہے جس میں انہوں نے انگریزی زبان سیکھنے کو جائز قرار دیا تھا جبکہ مولانا رشید احمد گنگوہی سرسید احمد خان مرحوم کے معاصرین میں سے ہیں بلکہ یہ دونوں بزرگ ایک ہی استاد مولانا مملوک علی نانوتوی کے شاگرد ہیں اور مولانا گنگوہی کے فتاویٰ رشیدیہ میں بھی فتویٰ موجود ہے کہ انگریزی زبان کو بطور زبان سیکھنے میں کوئی شرعی قباحت نہیں اور یہ جائز ہے۔
انصر رضا صاحب اگر اس دور کے حالات کا مطالعہ رکھتے ہیں تو یہ بات بھی یقیناًان کے علم میں ہوگی کہ سرسید احمد خان مرحوم نے جب علی گڑھ میں کالج قائم کیا توا س کے شعبہ دینیات کے پہلے سربراہ مولانا عبداللہ انصاری تھے جو بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی کے داماد تھے اور انہیں خصوصی فرمائش پر علی گڑھ بھیجا گیا تھا۔ انہی مولانا عبداللہ انصاری کے فرزند مولانا محمد میاں انصاری ہیں جنہوں نے راجہ مہندر پرتاب، پروفیسر برکت اللہ بھوپالی اور مولانا عبیداللہ سندھی کے ساتھ مل کر آزادی ہند کے لیے جاپان، جرمنی اور خلافت عثمانیہ کے ساتھ رابطے کرکے آزاد ہند گورنمنٹ کی بنیاد رکھی تھی اور جلاوطنی کی حالت میں کابل میں ان کا انتقال ہوگیا تھا۔
ان حالات میں بھی اگر انصر رضا صاحب کو یہی نظر آتا ہے کہ علما نے سرسید احمد مرحوم کے کام میں روڑے اٹکائے تھے، انگریزی تعلیم کی مخالفت کی تھی، خودانگریز کی سرپرستی میں مدرسے چلائے تھے اور وہی ساری قوم کی سب خرابیوں کے ذمہ دار ہیں تو ہم فقیر لوگ ان کے لیے دعاے صحت ہی کر سکتے ہیں۔
میں ایک بار پھر آپ کا شکر گزار ہوں لیکن کالم کی تنگ دامنی کے شکوہ کے ساتھ کہ بہت سی اور ضروری باتیں بھی اس خط میں شامل کرنا چاہتا تھا مگر.......‘‘
ڈاکٹر عبد الخالق صاحب کا مکتوب گرامی
محترم و مکرمی مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی
آپ سے تعارف خاصا پرانا ہے۔ آپ کی تحریر اور تقریر کی صلاحیت کا معترف بھی ہوں اور مداح بھی۔ ندائے خلافت کے تازہ شمارہ نمبر ۱ مؤرخہ ۸ جنوری ۲۰۰۳ ء میں آپ کے مضمون ’’قصور وار کون؟‘‘ نے اتنا متاثر کیا کہ آپ سے تحریری رابطہ کرنے پر مجبور ہوگیا۔ حالانکہ میں تحریر کا کافی ’’چور‘‘ واقع ہوا ہوں۔ ٹیلی فون پریا بالمشافہ ملاقات مجھے آسان محسوس ہوتی‘ بہ نسبت تحریر کے۔
مولانا ! آپ نے آج کے جدید علوم کے علمبردار طبقہ کو بہت ہی مدلل اور مؤثر جواب دیا ہے اور باوجود اس کے کہ میں نہ عالم دین ہوں اور نہ کسی روایتی مدرسے سے تعلیم یافتہ بلکہ علم کے نام پر زیادہ تر ان ’’نام نہاد جدید تعلیمی اداروں‘‘ ہی سے استفادہ کیا ہے جن پر آپ نے تنقیدکی ہے، اس کے باوجود مجھے آپ کی تحریر پسند آئی ہے۔
لیکن مولانا ! آپ سے کچھ ’’آپس کی بات‘‘ کرنے کو بھی دل چاہتا ہے۔
میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ آپ کی یہ تحریر جدید علوم کے علمبردار طبقے پر ’’ایک الزامی جواب‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ جیسے بقول علامہ اقبال
کہا اقبال نے شیخ حرم سے تہہ محراب مسجد سو گیا کون؟
ندا مسجد کی دیواروں سے آئی فرنگی بت کدے میں کھو گیا کون؟
یہ بات درست ہے کہ جدید علوم کے نام پر اتنے وسائل خرچ کرنے (جن میں سب سے زیادہ حکومتی وسائل ہی خرچ ہوتے ہیں) کے باوجود ہم ٹیکنالوجی کے میدان میں اتنے پیچھے کیوں ہیں؟ اور آپ نے اس پر جدید علوم کے علمبرداروں اور مسلمان حکومتوں اور مسلمان حکمرانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور اس کے مقابلے میں دینی علوم کے علمبرداروں نے باوجود وسائل کی کمی اور نا مساعد حالات کے قرآن و حدیث کے علم کا سلسلہ جاری رکھا اور آج نہ کسی خطیب کی کمی ہے اور نہ حافظ قرآن کی۔
مولانا ! آپ نے جدید ٹیکنالوجی میں مہارت کے مقابلے میں عام دینی تعلیم کا حوالہ دے دیا۔ جدید تعلیم میں مہارت کے مقابلے میں تو دینی علوم میں مہارت کی مثال پیش کی جانی چاہیے تھی۔ جہاں تک عام مروجہ تعلیم کا تعلق ہے، اس کے ذریعے مروجہ حکومتی نظام چلانے والے کارندوں کی ضرورت ہے جو بحسن و خوبی پوری ہو رہی ہے۔ جہاں تک عام ٹیکنیکل علم و مہارت کا تعلق ہے، اس میں تو کہیں کوئی کمی نہیں ہے۔ ہاں البتہ جہاں تک جدید ٹیکنالوجی اور اس میں تحقیق اور ایجادات اور اس میں مہارت کا تعلق ہے، قریباً تمام ہی مسلمان ممالک اس میں ’’پھسڈی‘‘ ہیں۔ صرف ایک استثنا ہے کہ پاکستان نے کم از کم ایٹمی ٹیکنالوجی میں تو وہ ترقی کی ہے جس کا اعتراف ہمارا دشمن اور مغرب بھی کرنے پر مجبور ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ یہ مہارت بھی ہمیں اللہ تعالیٰ نے خالصتاً معجزانہ انداز میں عطا فرمادی ہے، بغیر کسی باقاعدہ منصوبہ بندی اور علم و تحقیق میں عمومی ترقی کے۔ اب آئیے دینی علم کی طرف۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عام دینی علوم کی ترویج کا سلسلہ جاری رہا ہے لیکن جدید ٹیکنالوجی میں مہارت کے مقابلے میں دینی حلقوں نے کون سا کارنامہ سر انجام دیا ہے؟ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق دین کو کس نے اور کہاں پیش کیا ہے؟
بعض خود ساختہ شرائط کے ساتھ اجتہاد کا دروازہ ہم نے بند کر رکھا ہے۔ طبقہ علما میں کوئی ایسی قیادت ابھر کر آئی ہے جس نے واقعتا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا ہو؟ پوری امت مسلمہ ’’ایک امام‘‘ سے محروم ہے۔ بلکہ برا نہ مانیے، اس عام دینی علم نے جہاں خطیب اور حافظ فراہم کیے ہیں، وہیں بدترین قسم کی فرقہ بندی اور فرقہ پرستی بھی اسی طبقے سے ابھری ہے اور دین کے غلط تصورات کو بنیاد بنا کر تخریب کاری اور دہشت گردی کی ترویج کا باعث بھی یہی طبقہ بنا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ تمام طبقات ایسے نہیں ہیں لیکن جو ہیں، ان کا بھی تعلق تو اسی طبقے سے ہے نا۔
میں تو محسوس کرتا ہوں کہ : ع ہم الزام ان کو دیتے ہیں قصور اپنا نکل آیا
۵۶ کے قریب مسلمان ملکوں میں کہیں بھی طبقہ علما نے دین کو بطور نظام زندگی برپا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ دور جدید میں اسلامی فلاحی ریاست کے قیام‘ کہ جس کے ذریعے ہم اسلام کے زریں اصولوں اخوت و مساوات اور عدل و قسط کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرتے‘ میں ہم ناکام رہے ہیں۔ (ایران میں اسلامی نظام کے نام پر جو کچھ ہوا، اس میں معاشرتی سطح پر تو تبدیلی آئی لیکن معاشی سطح پر سود اور جاگیرداری نظام جاری ہے اور سیاسی سطح پر قرآن و سنت کی بجائے ’’رہبر‘‘ کی بالادستی کا طوق بھی موجود ہے۔ گویا فلاحی ریاست کا تصور وہاں بھی عنقا ہے۔) بلکہ افسوس تو یہ ہے کہ اس کی اہمیت کا احساس بھی ہمارے طبقہ علما کے بیشتر حصے میں موجود نہیں ہے۔ الا ما شاء اللہ۔ اگر ہم اپنے معاملات میں خود مختار ہوتے تو یہ جدید ٹیکنالوجی بھی ہمارے ہاتھ میں ہوتی اور اسے ہم اپنی مرضی سے استعمال کرتے۔ کجا یہ کہ ہم خود اغیار کے زیر تسلط ہیں۔ کرنے کا اصل کام تو دینی حلقوں نے بھی نہیں کیا۔
بری الذمہ کوئی بھی نہیں ! ہم سب ’’قصور وار‘‘ ہیں۔
والسلام، ڈاکٹر عبد الخالق
ناظم نشر و اشاعت تنظیم اسلامی
۹ جنوری ۲۰۰۳ء
جناب آفتا ب عروج کا مکتوب گرامی
۱۵ مارچ ۲۰۰۳ء
مکرم ومحترم جناب ابو عمار مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم
امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ قاسمی صاحب سے رابطہ کے بعد آپ کا ڈاک کا پتہ دستیاب ہوا۔ انہی کی حوصلہ افزائی سے حاضر خدمت ہو رہا ہوں۔ عرض حال یہ کہ یہ دور دلیل وبرہان، حقائق وواقعات کا دور ہے۔ جذباتیت، اشتعال انگیز تقاریر وبیانات سے حقائق تبدیل نہیں ہوا کرتے۔ دوسروں کو الزام دینے کی بجائے ہمیں اپنی اصلاح کے لیے اپنی غلطیوں، فروگزاشتوں کا کھلے دل کے ساتھ اعتراف کر لینا چاہیے۔ اس کے بعد گزشتہ غلطیوں سے اجتناب کے عہد صمیم کے بعد نہایت خلوص دل کے ساتھ صراط مستقیم پر سفر زندگی کا آغاز کرکے ہی ہم اپنی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کو حاصل کر سکتے ہیں ۔
مسلم امہ، اگر کہیں ہے، تو اس کا جاہ وجلال، اقتدار وتمکنت کیوں چھن گیا؟ اس تالے کی کلید کہاں کھو گئی؟ اس کا کھوج لگانے کی اشد ضرورت ہے ۔ اسباب زوال امہ تو بے شمار ہیں لیکن سردست ہمیں فوری طور پر درج ذیل اقدامات سے آغاز کرنا ہوگا۔ ۱۔ ہمیں مسٹر اور ملا کی تخصیص ختم کردینی چاہیے، ۲۔ دنیوی اور دنیاوی تعلیم کے خانے ختم کرنا ہوں گے، ۳۔ فرقہ واریت کی غیر اسلامی آہنی دیواریں مسمار کرنا ہوں گی، ۴۔ہمیں مکالمہ وبرداشت کے بند دروازے کھولنا ہوں گے۔ جیسا کہ آپ نے ایک نکتہ اٹھایا ہے، اس طرح آپ جیسے دوسرے ہمدرد دین ملت اصحاب کو بھی موقع دیا جانا چاہیے تاکہ وہ بھی اپنی بات دوسروں تک پہنچا سکیں۔ اس طرح ہم اپنے مستقبل کی راہ کا تعین کرنے میں کامیا ب ہو سکتے ہیں۔ میر ی رائے ہے کہ اس مسئلہ کو مملکتی سطح پر زیر بحث لانے کے لیے آپ کی سربراہی میں ایک ادارہ جس کا نام بھی میں تجویز کیے دیتا ہوں، ’’ادارہ مکالمہ وبرداشت بین المسلمین‘‘، تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
دوران تحریر اگر کسی مقام پرسوء ادبی کا مرتکب ہوا ہوں تو اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
آپ کی دعاؤں کا طلب گار
آفتاب عروج
ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا؟
(آفتاب عروج)
مورخہ ۲۷ دسمبر۲۰۰۲ء آپ کا کالم ’’ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا‘‘ اس کالم میں آپ مولانا زاہدالراشدی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ صحیح مولوی کا وژن بہت وسیع اور اس کا طرز استدلال بڑے بڑے بزرجمہروں کا منہ بند کرنے والا ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پہلے آپ اپنی اس دلیل کے حق میں کسی ایک مولوی کی وسیع النظری اور اس کے طرز استدلال کی کوئی ایک مثال بیان کرتے۔ اس کے بعد آپ زاہدالراشدی کی ہم نوائی کرتے تو بات جچتی اور سمجھ میں آتی۔ لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ کیا مصلحت تھی؟ کیوں نہیں کیا؟
میں نے آپ کے اور مولانا زاہدالراشدی کے نقطہ نظر کو تاریخی اور قرآنی حوالہ سے رد کیا ہے۔ اس پر آپ اور مولانا زاہدالراشدی صاحب کو ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کرنا چاہیے۔ میں آپ کو اور مولانا زاہدالراشدی اور ہر اس شخص کو جس کے دل میں انصاف کی ایک رتی بھی موجود ہے اور ضمیر نام کی کوئی چیز وہ اپنے پاس رکھتا ہے، دعوت دیتا ہوں کہ آپ سنجیدگی سے اس بات کا جائزہ لیں کہ امت کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں محرومی کا ذمہ دار کون ہے؟ میرے ان دلائل کی تردید آپ کے اور مولانا زاہدالراشدی کے ذمہ ہے۔ میں منتظر رہوں گا۔
گزشتہ صدی میں ایک شخصیت ہو گزری ہے جنہیں ہم علامہ اقبالؒ کہتے ہیں۔ انہوں نے بھی مولوی کے متعلق اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے
مکتب و ملاو اسرار کتاب
کور مادر زاد ونور آفتاب
تاریخ کی چند کتب اس ناچیز کے بھی زیرمطالعہ رہی ہیں۔ مسلم امّہ کی معلوم تاریخ میں دنیا کے کسی بھی خطے میں مولوی کو اسلامی انقلاب برپا کرتے نہیں دیکھا۔ آپکی یہ دلیل درست نہیں کہ صحیح مولوی کا استدلال بڑے بڑے بزرجمہروں کا منہ بند کرنے والا ہوتا ہے۔ قاسمی صاحب! مولوی کا علم قولی و نقلی ہوتا ہے۔ دلیل و برہان، تحقیق و جستجو، جدت واختراع، روشن خیالی اس کے نصاب میں شامل نہیں۔
زاہدالراشدی صاحب کا ۱۸۵۷ء سے دو طبقات کا مفروضہ تاریخ سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔ مسلم امّہ میں جتنے بھی سائنس داں ہو گزرے ہیں، ان میں کوئی بھی مولوی نہ تھا اور نہ ہی ان میں کوئی انگریزی جانتا تھا ۔ لیکن انہوں نے تا حیات تحقیق و جستجو کے قرآنی حکم کو اپنا فریضہ زندگی سمجھ کر جاری رکھا۔ مصر فتح ہوا تو ہمارے سائنس داں منجنیق اور نیپام میزائل تیار کر چکے تھے۔ تمام عیسائی حکومتیں متحد ہو کر بھی مسلمانوں کی یلغار کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ یہ تمام محققین و سائنس داں آخری عباسی خلیفہ معتصم کے دور تک کے ہیں۔تیرھویں صدی عیسوی کے بعد مسلم امہ کا سائنسی اور تحقیقی آفتاب علم غروب ہونا شروع ہو گیا اور چودھویں صدی عیسوی تک بالکل ختم ہوگیا۔ اس کے بعد کی سات آٹھ صدیاں مولانا زاہدالراشدی صاحب کہاں رہے اور کیا کرتے رہے جبکہ برصغیر میں سیاسی طاقت بھی آپ کے ہاتھ میں تھی ؟
لے گئے تثلیث کے فرزند میراث خلیل
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں صاحبان علم دانش کو کائنات پر غور وفکر کرنے کی دعوت دی ہے۔میں حیران ہوں کہ مولانا زاہدالراشدی صاحب دوسروں کو الزام دینے کی بجائے اس دعوت قرآنی سے استفادہ کر لیتے تو انہیں اپنی ذمہ داری سے فرار کا راستہ اختیار نہ کرناپڑتا۔ قاسمی صاحب کی ہم نوائی بڑی معنی خیز ہے۔ اس ضمن میں قرآن کریم میں بیسیوں آیات موجود ہیں لیکن کوئی پڑھے اور تدبر کرے تو۔ ایک دو آیات درج ذیل ہیں:
’’اور اس کے نشانات اور تصرفات میں سے آسمان اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا جدا جدا ہونا۔ اہل دانش کے لیے ان باتوں میں بہت نشانیاں ہیں جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے خدا کو یاد کرتے اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے اور کہتے ہیں کہ پروردگار تو نے اس مخلوق کو بے فائدہ پیدا نہیں کیا۔ تو پاک ہے۔ تو قیامت کے دن ہمیں دوزخ سے بچائیو۔ (۳:۱۹۱، ۱۹۲)
اس آیت کے الفاظ ’’دوزخ سے بچائیو‘‘ کی یہی صورت تھی کہ مولانازاہد الراشدی مندرجہ قرآنی ہدایات پر عمل کرتے اور عقل ودانش کو کام میں لاکر تسخیر کائنات کے علوم میں مہارت حاصل کرکے زندہ قوموں میں شمار ہوتے تو آج انہیں اس فریب میں مبتلا نہ ہونا پڑتا کہ ہم ملک میں قرآن سنت کی راہنمائی دے رہے ہیں۔
کائنات میں جو کچھ بھی موجود ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس سے استفادہ کرنا نہ کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ زندگی کی دوڑ میں جو انسان، گروہ یا قوم اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے آپ کو قانون خداوندی اور قانون فطرت کے ساتھ ہم آہنگ کر لیتے ہیں، وہی لوگ اللہ کی نعمتوں، سرفرازیوں، شادابیوں کے حق دار ٹھہرائے جاتے ہیں اور دنیا کی امامت انہیں کے حصے میں آتی ہے۔ بخشیش کی جنت خدا کسی کو بھی نہیں دیتا۔
’’خدا کافروں کو مومنوں پر ہرگز غلبہ نہیں دے گا۔‘‘ (۱۴/۱۴۱)
’’دیکھو بے دل نہ ہونا اور نہ کسی طرح کا غم کرنا۔ اگر تم مومن صادق ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔‘‘ (۳/۱۳۹)
اللہ تعالیٰ نے کافروں پر غلبہ کے لیے مومن صادق کی شرط عائد کردی ہے اور اس میں دیگر احکامات کے ساتھ ۳۰/۳۲ اور ۳/۱۹۱،۱۹۲ کی شرط بھی شامل ہے ۔
جیسا کہ گزشتہ سطورمیں عرض کیا جا چکاہے، لگ بھگ تیرھویں صدی عیسوی میں مسلم امہ کا سائنسی اور تحقیقی ز وال شروع ہو چکا تھا اور اس سائنسی تحقیقی علم کی شمع مغرب کی طرف منتقل ہو چکی تھی۔ بغداد جو اس وقت مسلم امہ کا دارالخلافہ تھا، مناظروں، مناقشوں اور نظری بحثوں کا اکھاڑا بن چکا تھا۔عسکری قوت ختم ہوچکی تھی۔ پھر چنگیز خان آئے، ہلاکو خاں آئے ،بڑی لمبی دردناک داستان ہے اور پھر آخر میں وہ آئے جو ہم سے ہماری میراث لے گئے۔ پھر انہوں نے بھی وہی کچھ کیا جو چنگیز خاں اور ہلاکو خاں نے کیا تھا۔ یہ ان کا حق تھا جو انہوں نے حاصل کر لیا۔ اب امریکہ اپنا حق وصول کر رہا ہے تو اب مولانا زاہدالراشدی صاحب فریاد کناں ہیں اور انصاف کی بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔
اب ہم آتے ہیں ۱۸۵۷ء کی طرف کیونکہ مولانا زاہدالراشدی صاحب نے اپنا سوال ۱۸۵۷ء سے ہی اٹھایا ہے۔ جب ۱۸۵۷ء میں روایتی سیاسی و مذہبی قیادت ناکام ہو گئی تو مسلمانوں میں شدید اضطراب، خوف، بے دلی و سراسیمگی پیدا ہو چکی تھی۔ ان حالات میں مسلم قوم کے دردمند غیرروایتی اہل علم و دانش مل بیٹھے اور پیش پا حالات پر غوروفکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ موجودہ حالات میں عسکری قوت سے آزادی کا حصول ممکن نہیں، لہٰذا ہمیں اپنی حکمت عملی میں واضح اور نمایاں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ حصول آزادی کی موجودہ کوشش کچھ عرصہ کے لیے موخر کرنا پڑے گی اور جس ہتھیار سے انگریزوں نے ہمیں غلام بنایا ہے، اسی ہتھیار سے ہمیں بھی لیس ہونا پڑے گا۔ یعنی انگریزی زبان و دانش اور سائنسی علوم پر دسترس و آگہی۔ مزید یہ کہ اسلام کی تعبیر کو بھی بدلتے زمانے کے ساتھ متحد وہم آہنگ کرنا ہو گا۔ ان احباب علم ودانش نے علی گڑھ کے مقام سے اس علمی تحریک کا آغاز کر دیا اور متذکرہ مقاصد کے حصول کی خاطر مختلف مقامات پر اسکول و کالج اور سائنٹفک سوسائٹیز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ گویا یہ شعور و آگہی میں انقلاب برپا کرنے کی ابتدا تھی۔اس تمام سوچ اور فکرو حکمت عملی کی منصوبہ سازی کے روح رواں سر سیّد احمد خاںؒ تھے۔
یہ ہے وہ مقام جہاں روایتی سیاسی و مذہبی قیادت اور سر سیّد احمد خاں کی فکروحکمت عملی میں تضاد کی خلیج پیدا ہو گئی جسے مولانا زاہدالراشدی صاحب انتہائی سادگی سے دو طبقات پر محمول کر بیٹھے جو واقعتا غلط ہے۔ شکست خوردہ روایتی سیاسی و مذہبی قیادت نے کبھی بھی اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کیا اور وہ حصول آزادی کے اپنے فرسودہ طریق کار پر نہ صرف بضد رہے بلکہ اسے مبنی برحق سمجھتے رہے۔ اس کا ثبوت تحریک خلافت اور ریشمی رومال ایسی تحریکیں ہیں جو ۱۹۱۵ء تک چلتی رہیں۔
تحریک علی گڑھ اور روایتی سیاسی و مذہبی قیادت میں جو فکری و عملی تضاد تھا، اب شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آ گیا جس کے نتیجہ میں سر سیّد احمد خانؒ کو کافر، ملحد، زندیق، بے دین، نیچری کے فتووں کی شکل میں گالیاں دی گئیں۔ ان کی تضحیک کی گئی۔ دیوبند کی بنیاد اسی نفرت اور تضاد فکر کا نتیجہ تھی۔ وہ نفرت مولانا زاہدالراشدی کی شکل میں آج بھی موجود ہے۔ پاکستان بن جانے کے بعد بھی پاکستان میں دیوبند کے سرخیل مولانا مفتی محمود اور ان کے خلف الرشید مولانا فضل الرحمن اب بھی پاکستان کو گالی دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ لیکن ان کی دین سے بے خبری کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کے تمام علما اور مفتی صاحبان مل کر بھی نہیں بتا سکتے کہ ’مسلم‘ کسے کہتے ہیں۔
پاکستان کا وجود روایتی سیاسی ومذہبی قیادت کی ناکامی اور تحریک علی گڑھ کی کامیابی کا ثمر ہے جس نے غیر روایتی اور غیرمذہبی لیکن بنیادی اسلامی نظریے کی حامل قیادت علامہ محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح جیسی عظیم لیڈر شپ قوم کو عطا کی جنہوں نے محض اپنی سیاسی بصیرت اور حکمت عملی سے وہ بازی جیت لی جو روایتی مسلمان حکمران اور علما ہار چکے تھے، اور غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالا۔ ناممکن کو ممکن بنا دیا اور مولانا زاہدالراشدی کی شدید مخالفت کے باوجود پاکستان حاصل کر لیا۔
آج ماشاء اللہ پاکستان پچپن برس کا ہوچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق پچپن برس پچپن دن شمار ہوتے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک پچپن سال میں وجود میں نہیں آئے اور نہ پچپن سال میں سائنس اور ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرسکے۔ قوموں کے عروج وزوال صدیوں پر محیط ہوتے ہیں اور بے شمار ریاضتوں اور قربانیوں کے بعد ترقی حاصل ہوتی ہے۔
یہ جدید علوم پر دسترس رکھنے والوں ہی کا کمال ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے اور جدید میزائل ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل کر چکا ہے۔ جب پاکستان بنا تو ہمارے پاس ایک بندوق تک نہ تھی ، فوج نہیں تھی، ائر فورس نہیں تھی، نیوی نہیں تھی، حتیٰ کہ پاکستان بن جانے کے بعد جو انتظامیہ ہمارے حصے میں آئی، انہیں تنخواہ دینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ اب ہم روایتی اسلحہ میں نہ صرف خودکفالت حاصل کر چکے ہیں بلکہ برآمد بھی کررہے ہیں۔ہمارے پاس اسٹیل ملز ہیں۔ ہماری بہادر افواج ہیں۔ ائرفورس ہے جو اپنا لوہا منوا چکی ہے۔ نیوی ہے۔ ہماری سول ائر لائن ہے۔ہماری صنعت ہے۔ انڈسڑی ہے۔ہمارے کالج ہیں، یونیورسٹیاں ہیں، میڈیکل کالج ہیں جہاں ہم اپنے طالب علموں کو جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے علم سے آراستہ کر رہے ہیں۔ ہماری یونیورسٹیوں اور کالجوں سے تحصیل علم کے بعد ملک میں اور بیرون ملک ہمارے نوجوان ڈاکٹر، انجینئر اور سائنس دان اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ یہ اس کا ثبوت ہے کہ جدید علوم سے آراستہ ماہرین نے جو ذمہ داریاں قبول کی تھیں، وہ بحسن وخوبی پوری کررہے ہیں لیکن صدیوں کا خلا پچپن دن میں پورا ہونا قانون خداوندی کے خلاف ہے۔ پاکستان پائندہ باد۔
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
خطوط ومضامین میں اٹھائے گئے اہم نکات پر ایک نظر
(ابو عمار زاہد الراشدی)
محترم عطاء الحق قاسمی صاحب ، محترم انصر رضا صاحب، محترم ڈاکٹر عبدالخالق صاحب اور محترم آفتاب عروج صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس بحث میں حصہ لیا اور ایک اہم ملی اور قومی مسئلہ پر اپنے خیالات و ارشادات کے ساتھ ہماری راہنمائی فرمائی۔ ان میں سے بہت سے اہم امور پر گزشتہ گزارشات میں ضروری بات ہو چکی ہے البتہ کچھ نکات پر اظہار خیال کی گنجائش موجود ہے جن کے بارے میں چند معروضات پیش کی جا رہی ہیں۔
محترم عطاء الحق قاسمی سے صرف یہ شکایت ہے کہ انہوں نے غریبی دعویٰ میں دونوں طبقات کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا ہے حالانکہ ایک طرف عصری نظام تعلیم کی پشت پر پوری ریاستی مشینری اور وسائل چلے آرہے ہیں اور دوسری طرف دینی مدارس کا سارا نظام زکوٰۃ وصدقات، چرم ہائے قربانی اور عوامی چندہ پر چلتا ہے۔ اس کے باوجود یہ دونوں غریبی دعوے میں محترم قاسمی کی نظر میں برابر ہیں تو ----------
ڈاکٹر عبدالخالق صاحب نے فرمایا ہے کہ دینی مدارس نے عام دینی تعلیم تو دی ہے مگر ماہرین پیدا نہیں کیے۔ میرا خیال ہے کہ علامہ سید محمد انورشاہ کشمیریؒ ، مولانا مناظر احسن گیلانیؒ ، مولانا سید سلیمان ندویؒ ، مولانا عبیداللہ سندھیؒ ، مولانا حسین احمد مدنیؒ ، مولانا اشرف علی تھانویؒ ، مولانا حمید الدین فراہیؒ ، مفتی کفایت اللہ دہلویؒ ، مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ ، مولانا غلام محمد گھوٹویؒ ، پیرسیدمہر علی شاہ گولڑویؒ بلکہ غیر روایتی حلقوں کے حوالہ سے مولانا شبلی نعمانیؒ ، مولانا ابوالکلام آزادؒ ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، مولانا امین احسن اصلاحیؒ اور ان جیسے بیسیوں شہرۂ آفاق علما انہی دینی مدارس کی پیداوار ہیں جن کی علمی مہارت اور خدمات کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے ۔ اگر ڈاکٹر محترم کی معلومات اس سے مختلف ہوں تو ہم ان کے اظہار کا خیرمقدم کریں گے۔
آفتاب عروج صاحب نے میری اس گزارش کو رد کیا ہے کہ۱۸۵۷ء کے بعد قوم تعلیمی اور فکری حوالہ سے دوطبقات میں تقسیم ہوگئی تھی۔ وہ فرماتے ہیں :’’زاہدالراشدی صاحب کا ۱۸۵۷ء سے دوطبقات کا مفروضہ تاریخ سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔‘‘ مگر اسی مضمون میں وہ یہ فرماتے ہیں کہ : ’’روایتی سیاسی ومذہبی قیادت اور سر سیداحمد خان کی فکروحکمت عملی میں تضاد کی خلیج پیدا ہوگئی۔‘‘ اور پھر وہ اپنے مکتوب گرامی میں یہ مشورہ بھی دے رہے ہیں کہ ’’ہمیں مسڑ اور ملا کی تخصیص ختم کر دینی چاہیے۔‘‘ میرا خیال ہے کہ ا س کے بعد مجھے اپنا موقف دہرانے اور اس کی مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔
آفتا ب عروج صاحب نے فرمایا ہے کہ عباسی خلیفہ معتصم باللہ تک مسلمانوں میں سائنسی ترقی اور تحقیق وریسرچ میں پیش رفت کا دور تھا، اس کے بعد زوال کا آغاز ہو گیا۔ انہیں شکایت ہے کہ مولوی اس سے قبل بھی سائنس دانوں کی صف میں نظر نہیں آتا اور اس کے بعد بھی سائنسی ترقی اور تحقیق وریسرچ میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ درست ہے اور مجھے اس سے اتفاق ہے لیکن سوال یہ ہے کہ سائنسی ترقی اور اس کے لیے تحقیق وریسرچ مولوی کے فرائض میں کب شامل تھی اور اس نے کب اس ذمہ داری کو قبول کیا تھا؟ یہ قطعی طور پر غیر منطقی بات ہے۔ ہر قوم میں تقسیم کار ہوتی ہے۔ ہر طبقہ اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے اور پوری ملی جدوجہد میں مجموعی طورپر شریک سمجھا جاتا ہے۔ ہم تو زوال کا شکار ہیں اس لیے ایک دوسرے پر اس کی ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ جن اقوام نے سائنس میں ترقی کی ہے اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں بالادستی کے باعث وہ ہماری قسمت کی مالک بھی بن بیٹھی ہیں، ان میں بھی سائنس کے شعبے میں صرف سائنس دانوں نے ہی کام کیا ہے۔ اب کوئی شخص یہ کہے کہ برطانیہ میں جتنے سائنس دان گزرے ہیں یا موجود ہیں، ان میں ایک بھی جسٹس نہیں ہے اس لیے برطانیہ کے ججوں کا سائنسی ترقی میں کوئی کردار نہیں ہے تو آفتاب عروج صاحب ہی فرمائیں کہ وہ اس کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے۔
اصل قصہ صرف یہ ہے کہ ہمارے مہربانوں نے تاریخ میں یہ پڑھ رکھا ہے کہ یورپ میں جب سائنسی ترقی اور تحقیق وریسرچ کا دور شروع ہوا تو عیسائیوں کی مذہبی قیادت نے اس کی مخالفت کی۔ سائنس دانوں کو گمراہ قرار دیا گیا، ان پر فتوے لگائے گئے اور ان میں سے بہت سوں کو گردن زدنی قرار دے دیا گیا۔ ہمارے مہربان دوستوں نے معروضی حقائق کا جائزہ لیے بغیر مسلمانوں کے مولوی کوبھی عیسائیوں کے پادری پر قیاس کر لیا ہے اور لٹھ لے کر اس کے پیچھے دوڑ پڑے ہیں حالانکہ مولوی غریب نے کبھی سائنس اور اس میں تحقیق وریسرچ کی مخالفت نہیں کی اورا س کے ثبوت میں دور جانے کی بجائے صرف ایک بات پر غور کر لیا جائے تو بات واضح ہوجائے گی کہ ماضی قریب میں پاکستان کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کو ضروری قرار دینے اور عالم اسلام کو ایٹمی قوت کے حصول پر ابھارنے میں مختلف حلقوں کی طرف سے اٹھنے والی آوازوں میں سے سب سے بلند آواز مولوی کی تھی اور اس قوت کے تحفظ وبقا کے لیے بھی سب سے زیادہ بلند آہنگی کے ساتھ مولوی ہی آواز اٹھا رہا ہے۔
آفتاب عروج صاحب نے مولوی کے ذمہ اس الزام کو دہرانا بھی ضروری سمجھا ہے کہ اس کی مخالفت کے باوجود پاکستان قائم ہوگیا، اس لیے مولوی نے شکست کھائی ہے اور اسے ہمیشہ کے لیے علمی میدان سے آؤٹ ہو جانا چاہیے مگر یہ الزام باربار دہرانے والے دیگر حضرات کی طرح انہوں نے بھی یہ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں فرمائی کہ پاکستان کے قیام وحصول میں علامہ اقبال اور قائداعظم کی جدوجہد کو جو کامیابی حاصل ہوئی تھی، اس میں بھی مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شبیراحمد عثمانی، مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالحامد پیر آف مانکی شریف اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی جیسے بڑے بڑے مولوی ان کے ساتھ شریک تھے اور اس تاریخی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اگر یہ مولوی تحریک پاکستان کا ہراول دستہ نہ بنتے تو تحریک پاکستان کے عملی نتائج قطعی مختلف ہوتے۔
آفتاب عروج صاحب نے مجھ غریب پر بھی کرم فرمائی کی ہے کہ مولانا زاہدالراشدی کی شدید مخالفت کے باوجود پاکستان بن گیا۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میری تاریخ ولادت ۲۸ / اکتوبر ۱۹۴۸ء ہے اور جب قیام پاکستان کی حمایت ومخالفت کی برصغیر کے طول وعرض میں معرکہ آرائی ہورہی تھی تو دنیائے وجود میں اس وقت میرا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا۔
ان گزارشات کے بعد ایک اصولی بات کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں جس کا حوالہ محترم ڈاکٹر عبدالخالق صاحب اور محترم آفتاب عروج صاحب دونوں نے دیا ہے کہ غلطیاں ہر طرف سے ہوئی ہیں اور کوئی بھی ان سے مبرا نہیں ہے۔ یہ بات سو فیصد درست ہے۔ ہمیں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے اعتراف میں کبھی حجاب نہیں رہا ۔ الشریعہ اور اس کے علاوہ روزنامہ پاکستان، روزنامہ اوصاف اور روزنامہ اسلام میں شائع ہونے والے میرے مضامین کے قارئین گواہ ہیں کہ اپنے حلقہ اور طبقہ کی غلطیوں کی نشاندہی، اعتراف اور اصلاح احوال کی تجاویز سامنے لانے میں ہم نے حتی الوسع گریز نہیں کیاا لبتہ یہ بات عرض کرنا ضروری ہے کہ ناکردہ گناہ ہمارے سر نہ تھوپے جائیں اور کسی بھی حوالہ سے ہمارے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے قبل ہم سے ہمارا موقف ضرور معلوم کرلیا جائے ۔ یہ بات قرین انصاف نہیں ہے کہ ہمارے معترضین ہمارا موقف وکردار بھی خود طے کریں، اس پر گواہی بھی اپنی ڈال دیں اور پھر منصف کا منصب سنبھال کر فیصلہ بھی خود ہی صادر فرما دیں۔ ہم اس طرح گردن زدنی قرار پانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ باقی رہی بات مکالمہ اور گفت وشنید کی تواس کے لیے ہم ہر وقت حاضر ہیں۔ اس کے لیے کوئی الگ فورم قائم کرنے کی ضرورت نہیں۔ مسائل پر اس طرح کھلے دل کے ساتھ مختلف دانش وروں کا اظہار خیال ہی اس کام کے لیے سب سے موزوں فورم ہے۔ ’الشریعہ‘ اس کے لیے اس سے قبل بھی ہمیشہ حاضر رہا ہے اور اب بھی یہ خدمت سرانجام دیتے ہوئے اسے خوشی محسوس ہوگی۔
برصغیر کی مذہبی فکر کا ایک تنقیدی جائزہ
الطاف احمد اعظمی
(مسلم افکار وتحریکات پر مثبت اور بامقصد تنقید خود ان تحریکات کی بہتری، ترقی اور اصلاح کے لیے ناگزیر ہے۔ تنقیدی عمل کے اس رجحان کو فروغ دینے کی غرض سے ’الشریعہ‘ میں اس نوعیت کی تحریریں وقتاً فوقتاً شائع کی جاتی رہتی ہیں۔ زیر نظر تحریر میں، جو دراصل جناب الطاف احمد اعظمی کی کتاب ’’احیاے امت اور دینی تحریکیں‘‘ کا مقدمہ ہے، مصنف نے برصغیر کی بعض اہم فکری تحریکات اور شخصیات پر اپنی تنقید کا خلاصہ پیش کیا ہے۔ ان کے نتائج فکر اور اسلوب تنقید سے اختلاف کا حق محفوظ رکھتے ہوئے اسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)
قوموں کے زوال کے مختلف اسباب ہیں۔ان میں سے دو سبب ایسے ہیں جو تقریباََ ہر قوم کے زوال میں کارفرما ملتے ہیں۔ ایک سبب تو عقلی قوت کا اضمحلال ہے جس کے نتیجے میں وہ قوم نہ صرف حکومت کرنے کی اہلیت سے عاری ہو جاتی ہے بلکہ اس میں با صلاحیت افراد کی پیدائش کا سلسلہ بھی بتدریج بند ہو جاتا ہے۔ اس قحط الرجال کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قوم کی زمام اختیار نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے جو قومی معاملات کو رفتہ رفتہ اس حد تک خراب کر دیتے ہیں کہ ان کی اصلاح ناممکن ہو جاتی ہے۔
زوال کا دوسرا اہم سبب اخلاقی قوت کا ضعف ہے۔ جب کسی قوم میں عقلی انحطاط کے ساتھ اخلاقی ضعف بھی آجاتا ہے تو اس کے اصحاب اقتدار میں بہت سے اخلاقی معائب رونما ہوتے ہیں۔ مثلاََ وہ سخت کوشی اور جاں فروشی کے مقابلے میں تعیّش کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں، اور اسراف، نمودونمائش اور بے جا فخروغرور کا مظاہرہ ان کی زندگی کے معمولات میں داخل ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے ہی بھائی بندوں پر ظلم کرتے ہیں لیکن دشمن کے مقابلے میں بزدلی دکھاتے ہیں۔ خیانت، عہدشکنی، وعدہ خلانی، خوشامد، دروغ گوئی، خودستائی اور حبِّ جاہ ومال میں ان کا ہر فرد دوسرے سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ عجلت و بے صبری اور یاوہ گوئی ان کا قومی مزاج بن جاتا ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتے جھگڑتے اور ایک دوسرے کے درپے آزار ہوتے ہیں۔ قوم کے اربابِ حل و عقد کی اقتدا کی وجہ سے یہ سب خرابیاں امتداد زمانہ کے ساتھ عوام کے اندر بھی سرایت کر جاتی ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب پوری قوم اخلاقی اعتبار سے مکمل طور پر مفلوج ہو جاتی ہے۔
جب کوئی قوم عقلی اور اخلاقی زوال کے اس مقام تک پہنچ جاتی ہے تو پھر خدا کا عالم گیر قانونِ عدل حرکت میں آتا ہے اور اس ناکارہ قوم کے ہاتھ سے ملک و اقتدار لے کر کسی دوسری با صلاحیت اور آزمودہ قوم کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی دو سورتوں میں اس قانون تغیر کا ذکر آیا ہے۔ سورہ انفال آیت ۵۲ میں فرمایا گیا ہے:
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُ مَغَیِّرًا نِعْمَۃً اَنْعَمَھَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْ ا مَا بِاَنْفُسِہِمْ وَ اَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعُٗ عَلِیْمُٗ۔
’’ یہ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ اس انعام کو جو وہ کسی قوم پر کرتا ہے، اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اس چیز کو نہ بدل ڈالے جس کا تعلق خود اس سے ہے۔ اور بے شک اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘
سورہ رعد آیت ۱۱ میں ارشاد ہوا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُغَیِّرُمَابِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ۔
’’اللہ کسی قوم کے ساتھ اپنا معاملہ اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی روش میں تبدیلی نہ کرے۔‘‘
ہندوستان میں مسلمانوں کا سیاسی زوال خدا کے اس قانون عدل کے مطابق وقوع میں آیا۔ آخری دور کے مغل حکمرانوں کے حالات زندگی اور ان کے طرزِ حکومت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسلم قوم عقلی اور اخلاقی اعتبار سے پستی کی آخری حد تک پہنچ چکی تھی اور اس کا زوال یقینی تھا۔ چنانچہ ۱۸۰۶ء میں انگریزوں نے دلی کا تخت اقتدار مسلمانوں سے چھین لیا اور وہ مکمل طور پر مغلوب و محکوم بن گئے۔
اس سیاسی مغلوبیت نے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کو، جو پہلے ہی مائل بہ انتشار تھی، مزید پراگندہ کیا اور مسلمانوں میں من حیث القوم شکست خوردگی کا احساس قوی ہو گیا۔ اس نازک صورت حال کے پیش نظر قومی رہنماؤں اور مذہبی علما نے اصلاح احوال کے لیے غوروفکر شروع کیا۔ کسی نے اس خیال کا اظہار کیا کہ مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کا انتظام نہایت ضروری ہے ورنہ مغربی تہذیب کی یلغار سے مسلم نوجوانوں کے ایمان و اخلاق کی حفاظت مشکل ہو گی۔ کسی نے کہا کہ مسلمان جب تک جدید علوم و فنون کی تحصیل کی طرف مائل نہ ہوں گے، ان کی دنیوی ترقی اور قومی عروج ممکن نہیں ہے۔ مذہبی علما کا خیال تھا کہ مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ساری خرابیوں کی وجہ جو ان کے سیاسی زوال کا پیش خیمہ بنیں، دراصل صحیح اسلامی فکروعمل کا فقدان ہے۔ مسلمان جب تک قرآن کی تعلیم اور نبی ﷺ کی سنّت کو مشعلِ راہ نہیں بنائیں گے، احیاے اُمّت کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو گا۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ہمہ گیر اسلامی تحریک اٹھے جس کی زیر قیادت تمام مسلمان مجتمع ہوں۔ اس آخری خیال کے زیر اثر مسلمانوں میں یکے بعد دیگرے تین جماعتیں، جمعیۃ العلما، تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی وجود میںآئیں۔
جماعت اسلامی
مسلمانوں میں علمی سطح پر جو جماعت سب سے زیادہ فعال ہے، وہ جماعت اسلامی ہے۔ ہر تحریک خواہ وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی، اپنی فطرت کے لحاظ سے انقلاب انگیز ہوتی ہے۔ اس سے انسانی معاشرہ میں حرکت و ہلچل کا پیدا ہونا لازمی ہے،اس لیے کہ وہ معاشرے کی ہیئت ترکیبی کو بدلنے کا عزم لے کر کھڑی ہوتی ہے اور اس میں مروّج افکار وخیالات پر تنقید کر کے اس کی اصلاح و تہذیب کو اپنا لازمی فرض خیال کرتی ہے ۔ مختصر یہ کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا تقریباََ ہرگوشہ اس کی نظری اور عملی ترک تازی کی زد میں ہوتا ہے۔
جو لوگ معاشرے میں کسی تبدیلی کے خلاف ہوتے ہیں اور اپنے مزعومہ افکار و اعمال کو درست سمجھتے ہیں اور ان میں کسی نوع کی تبدیلی کو خلافِ دین و ایمان جانتے ہیں، وہ پوری قوت سے تحریک کا راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہر طرح اس کی مزاحمت کرتے ہیں۔ بایں طور سماج کے ان دو مختلف الخیال طبقات کے درمیان کشمکش اور محاذ آرائی کا آغاز ہوتا ہے۔ اگر تحریک مثبت اور تعمیری عناصر پر مشتمل ہوتی ہے تو وہ بہت جلد مخالفین پر غالب آ کر کامیابی سے ہم کنار ہوتی ہے اور اگر اس میں تعمیری عناصر کی جگہ منفی اور تخریبی عناصر زیادہ طاقتور ہوتے ہیں تو تمام شورانگیزی اور نعرہ بازی کے باوجود آخرالامر اس کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اس کا وجود ختم ہوجاتا ہے۔ کبھی اس کے برخلاف بھی ہوتا ہے یعنی تحریک کا وجود کسی نہ کسی درجے میں باقی رہتا ہے لیکن اس کے اندر سے حرکت و عمل کی صلاحیت مسلوب ہو جاتی ہے اور وہ ایک جسد بے روح بن جاتی ہے۔ یہ معاملہ اس وقت پیش آتا ہے جب تحریک کے مثبت اور منفی پہلوؤں میں سے کوئی ایک پہلو اتنا قوی نہیں ہوتا کہ وہ دوسرے پہلو پر غالب آجائے۔ قرآن مجید کے الفاظ میں ’’خلطوا عملاً صالحاً وآخرسیئاً‘‘ جیسا معاملہ ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے جماعت اسلامی کے ساتھ یہی دوسری صورت پیش آئی۔ جماعت اب بھی قائم ہے اور ہندوستان کے علاوہ بعض دوسرے ملکوں میں بھی بعض مذہبی جماعتیں اس نام سے کام کر رہی ہیں لیکن اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ جماعت اسلامی بحیثیت ایک مثبت تحریک کے تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ اس کے پاس نظری سطح پر اب صرف ’’حکومتِ الٰہیہ ‘‘ کا وہ نظریہ رہ گیا ہے جو مولانا سیّد ابو الا علیٰ مودودیؒ کے مذہبی لٹریچر کا جزو غالب ہے۔ اس کو مختصراََ یوں سمجھ لیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کائنات خلقت کا حاکم و آمر ہے اور اسی کے حکم و فرمان کے مطابق ارض و سما کا تکوینی نظام چل رہا ہے، اسی طرح وہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی اور تمدنی زندگی کا بھی حاکم علی الاطلاق ہے۔ لہٰذا جو لوگ اس نظریہ پر ایمان رکھتے ہیں، ان کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ اس زمین پر اللہ کی حکومت قائم کرنے کی ہر ممکن سعی کریں تاکہ یہاں اس کا قانون شرعی نافذ ہو۔ اس نظریہ کا نام مولانا مودودیؒ کی مخصوص اصطلاح میں ’حکومت الٰہیہ‘ ہے چنانچہ مولانا کے نزدیک ’’ اسلام ایک انقلابی نظریہ و مسلک ہے جو تمام دنیا کے اجتماعی نظم (Social order) کو بدل کر اپنے نظریہ و مسلک کے مطابق تعمیر کرنا چاہتا ہے۔‘‘
اس نظریے میں دو بڑی خرابیاں ہیں جو اوپر کی عبارت سے بالکل واضح ہیں۔ ایک خرابی تو یہ خیال ہے کہ حکومتِ الٰہیہ قائم کرنا مسلمانوں کا دینی فرض ہے اور دوسری خرابی اسلام کے خارجی پہلو کا اس کے داخلی پہلو پر غلبہ ہے یعنی تعلق مع اللہ اور تزکیہ نفس کے مرحلے سے گزرے بغیر اسلام کے اجتماعی نظام کے قیام کی دعوت دینا۔
اسلام کا آغاز کس طرح ہوا اور وہ کن مراحل سے گزر کر کامیابی کی منزل تک پہنچا، یہ محض کوئی نظری داستان نہیں بلکہ تاریخ عالم کا ایک منضبط عملی واقعہ ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی پوری زندگی، کیا انفرادی اور کیا اجتماعی، اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ مکمل طور پر محفوظ ہے۔ کیا آپ ﷺ نے اپنی دعوت کا آغاز اسلام کے سیاسی و عمرانی تصوّرات کی تبلیغ سے کیا؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہو گا۔ آپ ﷺ نے اپنی دعوت کا آغاز توحید کی تعلیم سے کیا جو دین اسلام کی روح اور اس کا مغز ہے۔اس کا اوّل بھی توحید اور آخر بھی توحید ہے۔ باقی چیزیں اسی شجرہ طیّبہ کے برگ و بار ہیں۔
اسلامی نظام میں توحید کی وہ حیثیت ہے جو عمارت میں بنیاد کو اور جسم میں روح کو حاصل ہے۔ اسلامی نظام کے سارے اجزا اس مرکز کے گرد ٹھیک اس طرح گھومتے اور اس سے کسب فیض کرتے ہیں جس طرح نظام شمسی میں تمام سیارے سورج کے گرد گھومتے اور اس سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ اسلام کے سیاسی و عمرانی نظریات کی حیثیت توحید کے توابع کی ہے، اس سے علیٰحدہ ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ کسی معاشرہ میں ان نظریات کا ظہوروشیوع اسی وقت ممکن ہے جب نظریہ توحید کو سماج پر فکری اور عملی بالادستی حاصل ہو۔ اس لیے توحید کی اقامت سے پہلے ان نظریات کی اقامت کی سعی ریت پر محل بنانے کے مترادف ہے۔
جماعت اسلامی نے اپنے نصب العین میں ملک و اقتدار کے حصول کو جو بنیادی حیثیت دی ہے، وہ اس کی ایک بڑی فکری خطا ہے۔ اس باب میں قرآن مجید کی تعلیم بالکل واضح ہے اور اس میں کسی طرح کا کوئی ابہام نہیں ہے، قصورفہم کی بات دوسری ہے۔ قرآن مجید کے بیان کے مطابق اہل ایمان کو زمینی غلبہ و اقتدار اس وقت عطاکیا جاتا ہے جب وہ بحیثیت مجموعی ایمان اور عمل صالح کے اوصاف سے متصّف ہوں۔ (سورہ نور۔۵۵) گویا حکومت و اقتدار ایمان اور عمل صالح کے نتائج و ثمرات ہیں نہ کہ مقصود و مطلوب جیسا کہ جماعت اسلامی کا خیال ہے۔
اس نقطۂ نظر کے مطابق مسلمانوں کا دینی و ملّت نصب العین یہ قرار پاتا ہے کہ وہ پہلے اپنے آپ کو ایمان اور عمل صالح کے قالب میں ڈھالیں اور پھر دوسروں کو اس کی دعوت دیں۔ اس راہ میں ہر طرح کی جدوجہد مطلوب ہے اور اس جدوجہد کو اس وقت تک جاری رکھنا ہو گا جب تک کہ اہل ایمان کی ایک ایسی جماعت تیار نہ ہو جائے جس کا ایک ایک فرد اپنے اخلاق و کردار اور اہلیت کے اعتبار سے مثالی ہو ۔ اس معیار مطلوب تک پہنچ جانے کے بعد اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو تمکّن فی الارض عطا کرے گا اور اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صالحین کی موجودگی میں زمام حکومت غیر صالحین کے ہاتھ میں نہیں دی جاتی ہے بشرطیکہ صالحین فی الواقع صالحین ہوں، محض شکل و صورت کے صالحین نہ ہوں۔ غیر صالحین کے غلبہ کے معنی یہ ہیں کہ صالحین کی کوئی جماعت موجود نہیں ہے۔
اگر بالفرض عدم صالحیت کے باوجود مسلمانوں کو کہیں حکومت مل بھی جائے تو وہ صرف نام کی اسلامی حکومت ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام جس نوع کا نظام عدل اجتماعی قائم کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام کے قائم کرنے والے لوگ خود اپنی زندگی میں عدل و قسط پر قائم ہوں اور حبّ جاہ و مال سے بے نیاز ہو چکے ہوں۔ ظاہر ہے کہ افراد معاشرہ میں یہ اوصاف محض تقریر و تحریر سے ہرگز پیدا نہ ہوں گے۔ اس کے لیے تعلیم و تربیت کے ایک طویل مرحلہ سے گزرنا ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مدت نصف صدی ہو یا اس سے بھی زیادہ۔
تعلیم و تربیت کے اس مرحلہ میں جس نکتہ پر سب سے زیادہ توجہ مطلوب ہو گی، وہ ایمان باللہ اور اس کے تقاضے ہیں۔ جب تک اللہ تعالیٰ سے صحیح تعلق قائم نہ ہو گا اور اس کی سچی معرفت حاصل نہ ہو گی، اس وقت تک ایک مسلمان کے اندر وہ اوصاف و کمالات پیدا نہیں ہو سکتے جو عدل اجتماعی کے اسلامی نظام کے قیام کے لیے لازمی ہیں۔ حکومت تو بڑی چیز ہے، معمولی ادارے بھی بے کردار اور نا اہل افراد کے ذریعہ نہیں چلائے جا سکتے ہیں۔ذرا سوچیں، اللہ تعالیٰ اپنی زمین پر ایسے لوگوں کو اقتدار کا مالک کس طرح بنا سکتا ہے جو بے کردار ہوں اور ذہنی اعتبار سے ناکارہ بھی۔ یہی وجہ کہ جب دنیا کے کسی خطّے میں حقیقی اہل ایمان کا کوئی گروہ موجود نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ زمین پر اس قوم یا جماعت کو اقتدار عطاکرتا ہے جس میں حکومت کرنے کی اہلیت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے اصل چیز جس پر مسلمانوں کو من حیث القوم زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ تعمیر سیرت اور تکمیل لیاقت ہے نہ کہ مجرد اسلام کا نظری تعارف جس پر ا ب تک جماعت اسلامی کی ساری توجہ مرکوز رہی ہے۔
اگر ارباب جماعت نے اسلام کو علمی و نظری سطح پر ایک عمدہ نظریہ حیات کی حیثیت سے نہایت مدلل طور پر ثابت بھی کر دیاتو اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ کچھ لوگ اسلام کی علمی فضیلت کے قائل ہو جائیں لیکن ان کا حلقہ بگوش اسلام ہونا ممکن نہیں ہے۔ کوئی بھی نظریہ ہو، جب تک وہ عمل کے قالب میں ڈھل کر دنیا کے سامنے نہیں آتا، اس کو قبول عام حاصل نہیں ہوتا ۔اسلام کی ابتدائی تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے۔ جزیرۃالعرب میں اسلام کو جو بے مثال کامیابی ملی، اس کی وجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کا پختہ ایمان اور حسن کردار تھا نہ کہ زور خطابت اور حسن تحریر۔
جماعت اسلامی سے وابستہ اہل علم کا جو طبقہ ہے، اس کی ایک بڑی تعداد نے اسلام کو محض ایک علمی مشغلہ کا درجہ دے رکھا ہے۔ ان کا اسلام کتابوں، سیمیناروں اور مجالس مذاکرہ سے باہر کہیں نظر نہیں آتا۔ یہ ایک طرح کی ذہنی تفریح ہے جس کے یہ لوگ عادی ہوچکے ہیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے فکر کے ساتھ ذکر بھی ضروری ہے (آل عمران ۱۹۱) اور ذہن کی تابناکی کے ساتھ قلب وروح کی تابندگی بھی ناگزیر ہے۔ دنیا کے سامنے اسلامی نظام حیات کی بات کرنے سے زیادہ مقدم امر یہ ہے کہ خود افراد جماعت کی زندگیوں، ان کے گھروں میں اسلامی تعلیمات کا چراغ روشن ہو۔ ان کے کردار واعمال کو دیکھ کر اہل جہاں کو معلوم ہو کہ اسلام ایک فرد کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو بایں طور سنوارتا اور نکھارتا ہے۔ آپ علوم وفنون کو ضرور مسلمان بنائیں لیکن اس سے پہلے زندگی کی تاریک راہوں میں حسن عمل کی ایک شمع تو روشن کر دیں۔
تبلیغی جماعت
دین کی ایک تعبیروہ ہے جس کا ابھی اوپر ذکر ہوا یعنی جماعت اسلامی کی تعبیر دین، اور دوسری تعبیر وہ ہے جسے تبلیغی جماعت نے پیش کیا ہے۔ یہ تعبیر دین ہر اعتبار سے اول الذکر تعبیر سے مختلف ہے، ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی۔ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس کا تعلق علما کے اس گروہ سے تھا جو خانقاہی نظام سے منسلک تھے چنانچہ ابتدا میں وہ بھی اسی گروہ سے وابستہ ہوگئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے سہارنپور کے معروف عربی مدرسہ میں کچھ دنوں تک درس وتدریس کا کام بھی انجام دیا۔ لیکن انہوں نے بہت جلد محسوس کر لیا کہ خدمت اسلام کے یہ دونوں طریقے گو کہ بعض اعتبار سے مفید ہیں لیکن اس سے عام مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے اور مسلم سماج کی اصلاح ان کے ذریعہ ممکن نہیں ہے۔ اس خیال کے تحت انہوں نے تبلیغی جماعت قائم کی۔
چونکہ اس کا مقصد عام مسلمانوں کی اصلاح تھا، اس لیے اس کی دعوت کو دین کے چند بنیادی امور مثلاً کلمہ کی اصلاح اور قیام نماز وغیرہ تک محدود رکھا گیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس کو کل اسلام سمجھتے تھے۔ انہوں نے صاف طور پر کہا ہے کہ یہ امور دین کی الف ،ب، ت ہیں اور ان سے گزر کر اسلام کے دوسرے اصول واعمال تک تدریجاً پہنچنا ہے اور اس جدوجہد کی آخری منزل ’’سیاست نامہ‘‘ ہے۔ انہوں نے مولانا مودودی کے برخلاف طاقت وحکومت کے حصول کو اصل مطلوب ومندوب کی حیثیت نہیں دی بلکہ اس کو ایمان اور عمل صالح کا خدائی انعام قرار دیا۔
راقم کے نزدیک مولانا محمد الیاس کی دعوت بعض نقائص کے باوجود اصولی اعتبار سے بالکل درست اور قرآن وسنت کے مطابق تھی لیکن اس مرد مومن کے انتقال کے بعد تبلیغی جماعت مولانا محمد زکریا صاحب کے زیر اثر آگئی اور یہیں سے اس جماعت میں فکری اور عملی انحراف شروع ہوا۔ جس دعوت کو بانی جماعت نے دین کی الف ،ب،ت کہا تھا، اس کو کل دین قرار دے دیا گیااور آج تبلیغی جماعت اسی راہ میں گامزن ہے۔
اس سے بڑا ستم یہ ہوا کہ دین کے بعض بنیادی امور میں افراط وتفریط کے رجحان کو جس کا آغاز بانی جماعت کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا، فروغ ملا اور وہ کافی پختہ ہوگیا مثلاً ایمان وعمل میں تفریق اور نماز اور زکوٰۃ میں تفریق وغیرہ ۔ پہلی تفریق نے انہیں کردار سازی سے غافل کیا اور دوسری تفریق نے بندگان خدا کی خدمت کے تصور سے بے گانہ بنایا۔ اس کے علاوہ تو کل کے غیرقرآنی تصور کا بھی اس جماعت میں رواج ہے۔ اور اس سے بڑھ کر پیر پرستی کی بیماری ہے جس میں اس جماعت کے خاص وعام سب مبتلا ہیں۔
اس جماعت کی فکری رہنما تبلیغی نصاب (فضائل اعمال ) نامی کتاب ہے جس میں بے شمار موضوع اور ضعیف روایتیں اور بے سروپا حکایتیں بھری ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجود اس کتاب کو اہل تبلیغ میں وہ ہردلعزیزی حاصل ہے کہ اس کی کوئی دوسری نظیر تاریخ امت میں کم از کم مجھے نہیں ملی۔ اس مقبولیت کی وجہ مولف کتاب سے اہل تبلیغ کی اندھی عقیدت ہے جو پیری مریدی کا لازمی نتیجہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب امت مسلمہ کے حق میں ایک بہت بڑا فتنہ ہے لیکن افسوس کہ مسلمان اس حقیقت کے ادراک سے اب تک قاصر ہیں ۔
تبلیغی جماعت کو عوام میں جو مقبولیت حاصل ہے، اس دیکھ کر بہت سے لوگ یہ گمان رکھتے ہیں کہ وہ بالکلیہ حق پر ہے۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ عوام میں تبلیغی جماعت کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عام مسلمانوں کی جو ذہنی اور فکری سطح ہے، وہ جماعت کی ذہنی اور فکری سطح سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ اس کے علاوہ عبادت کے چند اعمال ورسوم کی ظاہری پیروی کو کل دین کی حیثیت دے دی گئی ہے جس کی وجہ سے عام مسلمان بآسانی اس سے وابستہ ہو جاتے ہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اعمال واخلاق کی جن خرابیوں میں غیر تبلیغی مسلمان مبتلا ہیں، انہی خرابیوں میں تبلیغی جماعت کے افراد بھی مستثنیات سے قطع نظر ملوث نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے۔ جب ذکرلسانی، درود شریف، تبلیغی گشت، نصاب خوانی اور نوافل کا اہتمام کرنے والوں کے لیے جنت میں ہزاروں محل کی تعمیر کا مژدہ سنایا جا رہا ہو تو پھر کسی مسلمان کو کیا پڑی کہ وہ اعمال صالحہ کی گھاٹی عبور کرنے کی مشقت اٹھائے؟ تعمیر سیرت سے مکمل طور پر بے اعتنائی کی وجہ سے تبلیغی جماعت کی افادیت اس کے وسیع حلقہ اثر کے باوجود بہت تھوڑی ہے اور اس سے پیدا ہونے والی مضرت کہیں زیادہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ تبلیغی جماعت نے ظاہری مذہبیت اوراس میں غلو اور شخصیت پرستی کے علاوہ مسلمانوں کو اور کچھ نہیں دیا اور نہ آیندہ وہ کچھ دے سکتی ہے۔ جس جماعت کی فکری رہنما تبلیغی نصاب (فضائل اعمال ) جیسی کتاب ہو، اس میں خیروصلاح کی توقع زمین شور سے روئیدگی کی توقع کے ہم معنی ہے۔
جمعیۃ العلما
جمعیۃ العلما کا وجود ملک کے مخصوص سیاسی حالات کا مرہون منت ہے۔ اس کا سیاسی نصب العین ملک کی مکمل آزادی اور مذہبی نصب العین اسلام کے انفرادی واجتماعی احکام کی تنفیذ تھا۔ ملک کی آزادی کے بعد اس کا سیاسی نصب العین خود بخود ختم ہوگیا اور مذہبی نصب العین بھی تبدیل ہوگیا۔اب یہ ایک نیم سیاسی نیم مذہبی جماعت ہے اور مسلمانوں کے ایک مخصوص طبقہ کی نمایندگی کرتی ہے۔ ابتدا میں اس جماعت کی قیادت بلند قامت علما کے ہاتھ میں تھی۔ مولانا مفتی محمد کفایت اللہ ،مولانا حسین احمد مدنی، اور مولانا حفظ الرحمن جیسے صاحب نظر اور معاملہ فہم علما اس جماعت کے قائد رہ چکے ہیں۔ ان علما کی وفات کے بعد رفتہ رفتہ ذاتی اغراض ومفاد رکھنے والوں نے اس جماعت پر غلبہ حاصل کر لیا۔ اس وقت یہ جماعت خود غرضوں کے ہجوم میں تین حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ اس کے سب سے بڑے حصے پر جو جمعیۃ العلما ہند کے نام سے موسوم ہے، ایک فرد واحد کا تسلّط ہے۔
دوسری جماعتوں کی طرح جمعیۃ العلما کے لوگ بھی اکابر پرستی کے روگ میں مبتلا ہیں۔ مریدوں کا ایک حلقہ جو ہندوستان کے ایک بڑے عالم دین اور شیخ طریقت نے قائم کیا تھا، اب بھی اس جماعت کی ہم نوائی کے لیے موجود ہے۔ بہت سے مکاتب و مدارس اس کے علاوہ ہیں جن کے اکثر فارغین اس کی حمایت کرتے ہیں اور اس کی وجہ، تلخ نوائی معاف، محض اکابر پرستی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس جماعت کے پاس حقیقی معنی میں اب نہ کوئی دینی لائحہ عمل ہے اور نہ کوئی مثبت اصلاحی و سماجی پروگرام۔ گاہے گاہے کانفرنسوں کا انعقاد اور ان میں تجاویز کی منظوری، یہی اس کا کل جماعتی سرمایہ ہے۔
نظری طور پر اب یہ سیاسی جماعت نہیں ہے لیکن عملاً کاروبار سیاست جاری ہے۔ آزادی کے بعد مولانا ابوالکلام آزادؒ نے لکھنؤ میں مسلمانوں کے اصحاب الرائے کی جو کانفرنس منعقد کی، اس میں دیگر امور کے علاوہ یہ بھی طے پایا کہ مسلمانوں کی تمام سیاسی جماعتیں تحلیل کر دی جائیں۔ اس فیصلہ کے مطابق جمعیۃ العلما کا سیاسی وجود ختم ہو گیا۔ اس کے ذمہ داروں نے اعلان کیا کہ اب جمعیۃ العلما کا دائرہ کار مسلمانوں کے مذہبی اور تعلیمی امور تک محدود رہے گا۔ لیکن عملاًاس نے اس فیصلے کی پابندی نہیں کی اور برابر الیکشن کے موقع پر کانگریس کی حمایت میں سرگرمی دکھائی اور اب تک یہ سلسلہ حمایت جاری ہے۔ حد یہ ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کے بعد بھی ارباب جمعیۃ نے نظر ثانی کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ان دنوں حمایت کی لے کچھ مدھم ضرور ہوئی ہے لیکن اس کی وجہ خود کانگریس کی بے التفاتی ہے۔
جمعیۃ العلما کا تعارف نامکمل رہے گا اگر یہاں مولانا آزاد کا ذکر نہ کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جمعیۃ العلما کی مذہبی اور سیاسی فکر کی تشکیل میں مولانا آزاد کی فکر کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ متحدہ قومیت کا مسئلہ ہو یا جنگ آزادی میں مسلمانوں کی شرکت اور کانگریس کی حمایت کا معاملہ، جمعیۃ العلما نے مولانا کے نقوش قدم کی پیروی کی ہے اور انہی کے چشمہ فکر سے اپنے جام و ساغر بھرے ہیں۔ آج بھی ایسے مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے جو مولانا آزاد کی جادو بیانی و قلم نگاری کے طلسم کے اسیر ہیں۔ ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ کو آج بھی بہت سے لوگ شوق سے پڑھتے اور ان سے گرمی فکر حاصل کرتے ہیں۔ اس سے ہمارے قومی مزاج کا اظہار ہوتا ہے جو بڑی حد تک جذباتی اور شاعرانہ ہے ۔
جہاں تک مولانا آزاد کی شخصیت اور ان کے علم وفضل کا معاملہ ہے، وہ قابل احترام ہے
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا کی فکر اور ان کے اسلوب نگارش نے ملت اسلامیہ کو بے اندازہ نقصان پہنچایا ہے۔ ادنیٰ سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا استعمال جس طرح گاندھی جی نے کیا، اسی طرح مولانا آزاد نے بھی کیا۔ گاندھی جی تو خیر سے ایک دنیوی سیاست دان تھے اور انہوں نے فقیری کا لباس بھی اسی غرض سے پہنا تھا لیکن مولانا آزاد سیاست دان کے ساتھ ایک بڑے عالم بھی تھے ۔ ان کو زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ کاروبار سیاست کی گرمیِ بازار کے لیے مذہب اسلام کا جاو بے جا استعمال کریں۔ہندوؤں میں ایک سے ایک بڑا سیاسی لیڈر گزرا ہے اور ان میں مذہبی لوگ بھی شامل تھے، مثلاََ ونو با بھاوے، راج گوپال آچاریہ، آچاریہ کرپلانی اور ڈاکٹر رادھا کرشنن وغیرہ، لیکن ان میں سے ایک لیڈر نے بھی سیاسی مقاصد کے لیے اپنے مذہبی لٹریچر کا استعمال نہیں کیا۔ کسی نے کیا تو اسلام کے اس بطل جلیل نے۔
مولانا آزاد نے اپنی تحریروں میں جس کثرت سے قرآنی آیات اوراحادیث نبویہ کو اپنے سیاسی افکار کے اثبات میں بطور دلیل و ثبوت پیش کیا ہے، اس کا عشر عشیر بھی کسی دوسرے عالم کے یہاں نہیں ملے گا۔ متحدہ قومیت کی تائید میں سیرت نبوی سے مولانا کا استشہاد نہایت درجہ مغالطہ انگیز ہے۔ تفصیل آپ کو کتاب میں ملے گی۔ ترکی خلافت، مسلم یونیورسٹی اور جنگ آزادی میں مسلمانوں کی شرکت جیسے مسائل میں بھی مولانا آزاد نے غیر محتاط روش اختیار کی ہے اور قرآن کی آیات کو بلالحاظِ موقع و محل اپنے خیالات کی تائید میں پیش کیا ہے۔
مولانا آزاد کی تحریروں سے مسلمانوں کو دوسرا بڑا نقصان یہ پہنچا کہ ان کی جذباتیت اور اشتعال پذیری میں، جو متعدد اسباب سے ان کا ملّی مزاج بن چکا ہے، اضافہ ہوا اور اس کی لے آگے چل کر بہت تیز ہو گئی۔ عہدِ فرنگی میں مسلمانوں کے اس قومی مزاج کو برانگیختہ کرنے میں ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ ‘‘ کا حصّہ سب سے زیادہ ہے۔ صفحات کے صفحات الٹ جائیں، ہر جگہ مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے والا خطابی اسلوب ملے گا۔ بعد کے بہت سے اہل قلم نے جذبات نگاری میں انہی کا اتباع کیا ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں نے، جو دراصل مولانا آزاد کے مذہبی افکار کی صدائے بازگشت ہے، جذباتی اور خطابی طرز نگارش کو مزید مستحکم بنایا۔ اگرچہ انہوں نے مولاناآزاد کے برخلاف عربی اور فارسی کے ثقیل اور نامانوس الفاظ کے استعمال سے احتراز کیا ہے اور زبان بھی نسبتاََ سلیس اور شستہ ہے لیکن افکار و خیالات کی جو تندی، گرمی اورتلاطم خیزی مولانا آزاد کی تحریروں میں ہے، وہی گرمی اور تموّج مولانا مودودی کی تحریروں میں بھی موجود ہے۔
مولانا آزاد سے جو فکری خطائیں سرزد ہوئیں، اس کا ایک بڑا سبب ان کا جذبہ انانیت تھا۔ اردوکے انانیتی ادب میں مولانا کی تحریروں کو نمایاں مقام حاصل ہے اور وہ اس بزم خود آرائی کے صدر نشین ہیں۔ ان کی انفرادیت پسندی اور اناپرستی نے ہر جگہ اس بات کی کوشش کی ہے کہ ایک نئی راہ نکالے اور ایک نیا طرز رفتار وگفتار وضع کرے۔ اس غیر معتدل روش نے ان کو کبھی اس بات کا موقع نہیں دیا کہ وہ اپنی فکر کی کجی سے باخبر ہوتے۔قرآن مجید کی تفسیر میں بھی خودنمائی کے اثرات پورے طور پر موجود ہیں۔ تفسیری جدت طرازی کے شوق میں انہوں نے بعض فکری اعتزالات ( وحدت ادیان وغیرہ ) کی داغ بیل ڈالی۔ اللہ تعالیٰ ان کی خطا ؤں سے درگزر فرمائے۔
علامہ محمد اقبالؒ
مولانا ابوالکلام آزادؒ اور مولانا مودودیؒ کے بعد جس بڑی شخصیت کے خیالات نے برّصغیر کے مسلمانوں کے ذہن و فکر کو کافی متاثر کیا، وہ علامہ اقبال ہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ اسلامی شاعر ہیں اور ان کا کلام خالص اسلامی تعلیمات کا آئینہ دار ہے۔ بعض اصحاب علم کا خیال ہے کہ ان کی شاعری قرآنی بصائر و معارف کا گنجینہ ہے۔ مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’ مغربی تعلیم و تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا مسلمان تھا، اس کے منجھدار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایا گیا۔ اس کی گہرائیوں میں جتنا اترتا گیا، اتنا ہی زیادہ مسلمان ہوتا گیا یہاں تک کہ اس کی تہ میں جب پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہو چکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی نہیں رہا۔ وہ جو کچھ سوچتا، قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا، جو کچھ دیکھتا تھا قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا۔‘‘
یہ ایک سطحی رائے ہے اور اس میں صریح مبالغہ ہے۔ اس امر میں کوئی اختلاف نہیں کہ اقبال ایک بڑے شاعر تھے اور غالب کے علاوہ کوئی دوسرا اردو شاعر ان سے لگّا نہیں کھاتا ، اور یہ بھی صحیح ہے کہ وہ مسلم قوم کے حدی خواں تھے لیکن یہ کہنا کہ ان کے کلام میں قرآنی فکر سموئی ہوئی ہے، صحیح نہیں۔ ان کے کلام میں اسلامی فکر کے ساتھ دوسرے افکار کی آمیزش بالکل واضح ہے۔
یہ بات معلوم ہے کہ اقبال شروع سے تصوف کے دلدادہ تھے۔ ’’اسرار خودی‘‘ کے زمانہ تصنیف میں انہوں نے تصوف کے بعض پہلوؤں مثلاََترک عمل اور نفی خودی وغیرہ پر تنقید کی لیکن بہت جلد وہ دوبارہ تصوف بالخصوص اس کے بنیادی خیال ’’وحدۃ الوجود‘‘ کے حامی ہو گئے اور اخیر تک اس حمایت کا سلسلہ جاری رہا۔ اس معاملے میں دوسرے صوفی شعرا کی طرح اقبال نے بھی حد درجہ بے احتیاطی کا مظاہرہ کیا ہے یہاں تک کہ بعض اشعار میں اس غیر محتاط روش کا ڈانڈا کفروشرک سے مل گیا ہے۔ اس قسم کے اشعار ان کی اکثر شعری تخلیقات بالخصوص ان کے فارسی کلام مثلاََ گلشنِ راز جدید، پیام مشرق، جاوید نامہ اور ارمغان حجاز میں بکثرت موجود ہیں۔ اقبال نے اپنی مشہور نثری تالیف ’’اسلامی الٰہیات کی تشکیل جدید‘‘ میں بھی اسلامی افکار و عقاید کا جائزہ وجودی نقطہ نظرسے لیا ہے اور منصور حلاج کے دعوائے اناالحق کی تائید و حمایت کی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ قرآن مجید کی متعدد آیات کا مفہوم بھی انہوں نے اسی غیر قرآنی فکر کی روشنی میں متعین کیا ہے اور متعدد فاش غلطیاں ان سے سرزد ہوئی ہیں۔جو قارئین اس موضوع سے دلچسپی رکھتے ہوں، وہ راقم کا رسالہ ’علامہ اقبال اور وحدۃ الوجود‘ ملا حظہ فرمائیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے مزاج کو جذباتی اور شاعرانہ یا دوسرے لفظوں میں فلک پیما اور آفاقی بنانے میں مولانا آزاد اور مولانا مودودی کی تحریروں کے ساتھ اقبال کا کلام بھی برابر کا شریک و سہیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام تحریر و تقریر دونوں میں کثرت سے نقل کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ وہ مسلمانوں کی جذباتی آسودگی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
اصلاح امت کا صحیح منہج
گذشتہ صفحات میں ہم نے تین اہم جماعتوں اور بعض معروف اکابر شخصیات کا جو فکری تعارف کرایا ہے، اس سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ ان علما اور مفکرین نے دین اسلام کی جو تشریح و تعبیر کی ہے، اس میں قرآنی فکر کا حصّہ بہت کم ہے اور افراط و تفریط کا رجحان اس میں غالب ہے۔
دین کی تشریح و توضیح کی بنیاد دو چیزوں پر ہے، ایک قرآن مجید اور دوسرے اسوۂ رسول یعنی سنّت۔ قرآن کی بنیادی فکر توحید ہے اور اسی مستحکم بنیاد پر عبادات، اخلاق اور معاملات کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ اس بنیاد کی کمزوری کا مطلب پوری عمارت کی کمزوری ہے۔ توحید کی روح جیسا کہ پہلے بیان ہوا، غیر اللہ کی طاقت کی مکمل نفی اور دل سے اس بات پر یقین رکھنا ہے کہ ہر طرح کا نفع و ضرر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے برخلاف خیال کرنا شرک ہے۔ تینوں جماعتوں کے لٹریچر میں توحید کے اس اساسی پہلو کی طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے۔
توحید کے بعد نماز اور زکوٰۃجیسے دو بڑے ارکان دین کا درجہ ہے۔ یہ دراصل توحید کی عملی صورتیں ہیں۔ یہ دونوں عبادتیں اپنا اپنا ایک علیحدہ نظام رکھتی ہیں۔ ان نظامات کی صحیح تشکیل و تکمیل پر مسلم قوم کے انفرادی اور اجتماعی معاملات کی درستی کا مدار ہے۔ بدقسمتی سے زیر بحث تینوں جماعتوں نے ان عبادات کو مسلمانوں کے نظم و اجتماع کی بنیاد قرار نہیں دیا ہے۔ صلوٰۃ کا نظام کسی نہ کسی شکل میں ضرور قائم ہے لیکن اس کی روح و غایت سے مقتدی اور امام دونوں کے ذہن خالی ہیں۔ نماز مسلمانوں کی دینی اور دنیوی اجتماعیت کی ضامن ہے۔ اس کے نظام کے ایک ایک جز سے اس کی شہادت ملتی ہے۔ دراصل یہ امامت صغریٰ ہے جو امامت کبریٰ یعنی خلافت و امارت تک پہنچنے کا زینہ ہے۔ یہاں میں مولانا قاری محمد طیّب صاحب کے الفاظ مستعار لوں گا۔ لکھتے ہیں:
’’سب سے بڑی نظیر نماز کی جماعت ہے جس کا نام امامت صغریٰ ہے جو کلیۃً امامت کبریٰ یعنی امارت و خلافت پر منطبق ہے۔ وہاں اگر امام اور امیر ہے تو یہاں بھی امام ہے۔ وہاں اگر جہاد میں ہر نقل و حرکت پر نعرۂ تکبیر ہے تو یہاں بھی ہے۔ وہاں اگر امام کے حق میں سمع و طاعت فرض ہے تو یہاں بھی ہے۔ وہاں اگر مجاہدین کی صفیں مرتب اور سیدھی ہونی ضروری ہیں، تو یہاں بھی یہی ہے۔ وہاں اگر میمنہ اور میسرہ ہے تو یہاں بھی ہے۔ وہاں اگر صفوں میں شگاف آجانا ناکامی کی علامت ہے تو یہاں بھی ہے۔‘‘
غور کریں کہ کتنے نمازیوں کی نظر امامت صغریٰ اور امامت کبریٰ کے اس تعلق پر ہے؟ نمازیوں کو جانے دیں، علما اور اماموں سے استفسار کر لیں کہ ان میں سے کتنے لوگ نماز کے اس حکیمانہ پہلو سے واقف ہیں؟
یہ حال تو نظام صلوٰۃ کا ہے ۔ نظام زکوٰۃ کا حال اس سے کہیں زیادہ افسوسناک ہے۔ یہ نظام جو مسلمانوں کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کا ایک بڑا ذریعہ تھا، سرے سے موجود نہیں ہے۔ اس بے نظمی کا نتیجہ ہے کہ اربوں کی رقم جو مسلمان اپنے تمام تر دینی انحطاط اور معاشی ابتری کے باوجود ہر سال مختلف شکلوں میں مہیا کرتا ہے، ضائع ہو جاتی ہے اور اس ضیاع میں عربی مدارس کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔
مذکورہ دونوں نظاموں کا تزکیہ نفس یعنی اخلاق و معاملات کی تہذیب و تزئین سے گہرا تعلق ہے۔ ان نظاموں کی خستہ حالی اور پراگندگی سے مسلمانوں کے اخلاق اور معاملات بھی حد درجہ خراب و خستہ ہیں۔ ملت اسلامیہ کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ اسلامی عبادات کا رشتہ اعتصام باللہ، تعمیر اخلاق، تطہیر نفس اور تشکیل اجتماعیت سے جوڑنے کے بجائے محض ثواب کے تصور سے جوڑ دیا گیا ہے اور انجام کار نمازیں پڑھنے اور کسی درجہ میں مال خرچ کرنے کے باوجود نہ تو مسلمانوں کے اخلاق بلند ہوتے ہیں اور نہ ان کے نفس کے عیوب دور ہوتے ہیں اور نہ ہی ان میں اجتماعی شعور پیدا ہوتا ہے۔ تصور عبادت کی اس خامی نے مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
حیرت تو یہ ہے کہ اسوۂ رسول اور سیرت صحابہ کی موجودگی میں عبادت کے اس سطحی تصور نے مسلمانوں میں قبول عام حاصل کر لیا ہے۔ ہر مسلمان اپنے ہادی برحق ﷺ اور آپ کے سچے اصحاب کی زندگیوں کو جو حدیث و سیر کے صفحات میں محفوظ ہیں، دیکھ کر بآسانی معلوم کر سکتا ہے کہ ان کے اخلاق و معاملات کیا تھے اور ان کی عبادات نے ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو کس طرح سنوارا کہ وہ خیر امت بن گئے۔ ان میں کسی طرح کا کوئی مذہبی اختلاف نہ تھا۔ نظری اور عملی ،دونوں اعتبار سے وہ امت واحدہ تھے، سب مل اللہ کی رسّی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے ہوئے تھے۔ لیکن آج مسلمانوں کی مذہبی اور ملّی زندگی اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان میں مذہبی اختلافات کی وجہ سے اتحاد عمل کا فقدان ہے، اور مختلف جماعتوں میں بٹ جانے کی وجہ سے قومی شیرازہ منتشر ہے۔
اس سے بڑا ستم یہ ہے کہ مختلف جماعتوں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے مسلمانوں میں فرقہ بندی کی ذہنیت اور عصبیت پیدا ہو گئی ہے۔ اس سے پہلے مسلکی اورفقہی عصبیت نے مسلمانوں کے قومی نظم و اجتماع کو درہم برہم کیا تھا اور اب جماعت سازی کی مصیبت نے ان کو مختلف خانوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ مجھے یہاں یہ کہنے کی اجازت دیں کہ مسلمانوں کی مختلف مذہبی جماعتیں دراصل ان کے مذہبی فرقے ہیں، اور ان کا سواد اعظم انہی فرقوں میں بٹا ہوا ہے اور ایک دوسرے کی تنقیص و تکذیب میں مصروف ہے۔ یہ بات کہ یہ جماعتیں مذہبی فرقے ہیں، حدیث ذیل سے ثابت ہے:
’’ حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں شر کے بارے میں، اس ڈر سے کہ کہیں یہ شر میرے اندر نہ آ جائے۔ چنانچہ میں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول، ہم لوگ جاہلیت اور شر کی حالت میں تھے کہ اللہ تعالیٰ یہ خیر ہمارے پاس لایا۔ کیا اس خیر کے بعد دوبارہ شر کا ظہور ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا، ہاں دوبارہ شرآئے گا۔ میں نے کہا اس شر کے بعد دوبارہ خیر آئے گا؟ فرمایا، ہاں آئے گا مگر اس میں گدلاپن ہو گا۔ میں نے پوچھا یہ گدلا پن کیا ہے؟ فرمایا، ایسے لوگ آئیں گے جو میری سنّت کے خلاف قوم کی رہنمائی کریں گے۔ تم ان میں اچھے کام بھی دیکھو گے اور برے کام بھی۔ میں نے کہا، اس نوع کے خیر کے بعد پھر شر آئے گا؟ فرمایا، ہاں۔ ایسا شر آئے گا کہ جہنّم کے دروازوں پر بلانے والے بیٹھے ہوں گے اور جو لوگ ان کی دعوت قبول کریں گے، وہ ان کو جہنّم میں پھینک دیں گے۔ میں نے کہا، ان کی کچھ صفات بیان فرمائیں۔ فرمایا، وہ ہماری قوم میں سے ہوں گے اور ہماری زبان بولیں گے۔ میں نے کہا ، اگر یہ زمانہ میں نے پا لیا تو آپ اس بارے میں مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا، مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ وابستہ رہو۔ میں نے کہا ، اگر مسلمانوں کی جماعت نہ ہو اور ان کا کوئی امام بھی نہ ہو تو ایسی حالت میں کیا کروں؟ فرمایا، ان سارے فرقوں سے الگ ہو جاؤ اگرچہ تم کو کسی درخت کی جڑ کو دانتوں سے پکڑنا پڑے اور اسی حالت میں تم کو موت آ جائے۔‘‘ ( دیکھیں بخاری ، کتاب الفتن ۔ مسلم، کتاب الامارہ )
مذکورہ حدیث میں جماعۃ المسلمین اور امام المسلمین کے نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کا نظم اجتماعی ختم ہو جائے، یعنی ان کی حکومت باقی نہ رہے۔ اس صورت میں مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ فرقہ بندی اور جماعت سازی سے بچیں۔ اس ہدایت کی حکمت بالکل واضح ہے۔ اگر ایک بار ملّت اسلامیہ مختلف فرقوں اور جماعتوں میں تقسیم ہو گئی تو پھر اس کی دوبارہ قومی شیرازہ بندی نہایت مشکل ہو گی کیونکہ ہر فرقہ اور ہر جماعت اپنے علیحدہ مذہبی تشخص اور اپنی مخصوص تعبیر دین پر مصر ہو گی جیسا کہ موجودہ صورت حال سے بالکل واضح ہے۔ آج کوئی دینی جماعت بھی امت واحدہ بننے کی غرض سے اپنے وجود کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
دین میں اختلاف اور فرقہ بندی کبھی یہود و نصاریٰ کی خصوصیات تھیں۔ چنانچہ مسلمانوں کو خبردار کیا گیاہے کہ وہ یہو دو نصاریٰ کی پیروی میں دین کے اندر اختلاف و تفرقہ سے گریز کریں۔ فرمایا گیا ہے:
ولا تکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا من بعد ماجاء ھم البینات۔ ( آل عمران: ۱۰۵)
’’ان لوگوں کی طرح نہ بنو جنھوں نے روشن اور واضح دلائل آنے کے بعد (دین میں) تفرقہ و اختلاف پیدا کیا۔‘‘
یہودیوں اور عیسائیوں دونوں کے علما اور درویشوں نے دین کے نام پر متعدد فرقے اور جماعتیں بنا لی تھیں اور ہر جماعت کا خیال تھا کہ حق پر صرف اس کا فرقہ ہے۔ قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے:
ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا لست منھم فی شیئ انما امرھم الی اللہ ثم ینبئھم بماکانوا یفعلون۔ (انعام: ۱۵۹)
’’بے شک جنہوں (یہودی اور عیسائی ) نے اپنے دین میں تفریق کی اور فرقہ فرقہ ہو گئے ( اے نبی) ان سے تمہارا کوئی تعلق نہیں، ان کا معاملہ اللہ کے پاس ہے، وہ ان کو بتا دے گا جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہے :
الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا کل حزب بما لدیھم فرحون۔ (سورہ روم: ۳۲)
’’ ان لوگوں کی طرح نہ بنو جنھوں نے اپنے دین میں تفریق کی اور فرقہ فرقہ ہو گئے ( اور اب ان کا حال یہ ہے کہ)ہر جماعت کے پاس جو کچھ ہے، وہ اسی میں مگن ہے۔‘‘
قرآن حکیم کی ان واضح ہدایات کے باوجود مقام گریہ و ماتم ہے کہ ملت اسلامیہ کے علما اور دینی رہنماؤں نے کسی اندیشہ سودو زیاں کے بغیر دین میں تفرقہ و اختلاف کی صورتیں نکالیں اور پوری ملّت کو متعدد فرقوں اور جماعتوں میں بانٹ دیا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ فہم دین میں علما کے درمیان کبھی اختلاف واقع نہ ہو گا۔ انسانوں میں فہم و استعداد کا اختلاف ایک فطری امر ہے، اس لیے تفاصیل دین میں اختلاف کا ہونا مستبعد نہیں ہے۔ جزئیات میں اختلاف پہلے بھی ہوا ہے اور آیندہ بھی ہو گا، لیکن مہمات دین میں اختلاف جائز نہیں ہے۔ اور اگر قصور فہم سے اختلاف ہو جائے تو اس صورت میں ہم کو تعلیم دی گئی ہے کہ ہم معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لے جائیں۔ فرمایا گیا ہے:
یا ایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واُولی الامر منکم فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ والرسول ان کنتم تومنون باللہ والیوم الاٰخر ذلک خیر و احسن تاویلا۔ (النساء: ۵۹)
’’ اے ایمان والو! تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور تم میں جو لوگ صاحب امر ہیں ان کی بھی، پھر اگر کسی معاملے میں تم میں اور صاحب امر میں اختلاف ہو جائے تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کے حوالے کر دیا کرو، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو ۔ یہ ایک اچھا طریقہ ہے اور صحیح فیصلہ تک پہنچنے میں نہایت عمدہ بھی۔‘‘
لیکن ہمارا عمل اس آیت کے خلاف ہے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ زیر بحث جماعتوں کے قائدین نے کبھی کوئی ایسی مجلس اس غرض کے لیے تشکیل دی ہو کہ وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کی روشنی میں ان کے باہمی اختلافات کا تصفیہ کرے؟ وہ کبھی ایسی کوئی مجلس تشکیل نہیں دیں گے کیونکہ ملّت کے تفرقہ میں ان کا مفاد مضمر ہے۔
اس حقیقت کو جس قدر جلد تسلیم کر لیا جائے، اتنا ہی ملّت کے حق میں مفید ہے کہ مذکورہ تینوں جماعتیں مسلمانوں کی صحیح راہنمائی سے قاصر ہیں۔ آج اُمّت جن فکری اور عملی امراض میں مبتلا ہے، اس کا نسخہ شفا ان کے پاس موجود نہیں ہے بلکہ یہ جماعتیں غیر شعوری طور پر مسلمانوں کے امراض کہنہ کو مستحکم بنا رہی ہیں۔ شخصیت پرستی میں برابر اضافہ ہو رہا ہے، جزئیات دین میں بحث و اختلاف ہمارا محبوب ملّی و دینی مشغلہ ہے، کردار سازی کی طرف مطلق توجہ نہیں ہے۔ قومیں قول سے نہیں، کردار اور ذہنی علو سے بنتی اور ترقی کرتی ہیں۔ جماعتی عصبیت کا ہر طرف چلن ہے، انسانی تصانیف سے حبّ و شغف اس درجہ بڑھ گیا ہے کہ اللہ کی کتاب مہجور ہو چکی ہے اور ایک نبی کی زبان سے فریاد کناں ہے:
یا ربّ انَ قومی اتّخذوا ھذا القرآن مھجوراََ۔ (فرقان: ۲۰)
’’ اے رب میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔‘‘
ایسا نہیں ہے کہ قرآن کی تلاوت موقوف ہو گئی ہے اور مجالس و مدارس میں قرآن کی آیات نہیں پڑھی جاتی ہیں۔ تلاوت قرآن کا سلسلہ بھی چل رہا ہے اور درس و تلقین کی مجلسیں بھی منعقد ہوتی رہتی ہیں لیکن قرآن کی دعوت سے عملاً منہ موڑ لیا گیا ہے۔ اس کا انقلاب آفریں پیغام تاویل و تحریف کے انبار کے نیچے دب کر نظروں سے اوجھل ہو چکا ہے۔ نہ کہیں توحید خالص ہے اور نہ کہیں حسن عمل۔ اسلام کے نام پر ہر طرف صرف تقریرو تحریر کی گرم بازاری ہے۔ ہمارا اصلی مرض تضاد قول و فعل ہے۔
یاد رکھیں، اس ملک میں نہ مال و زر کی کمی ہے اور نہ علم کی۔ اگر کسی چیز کی فی الواقع قلّت ہے تو وہ حسن کردار اور اخلاص ہے۔ مسلمانوں کے اندر اس جوہر گراں مایہ کی سب قوموں سے زیا دہ کمی ہے۔ مستقبل کا ہندوستان ایک صاحب کردار قوم کا منتظر ہے۔ اگر یہ جماعتیں خواب گراں سے نہ جاگیں اور نظری مباحث اور قولی وعظ و تلقین سے آگے بڑھ کر حسن عمل کا نمونہ نہ بنیں تو قرعہ فال کسی اور قوم کے حق میں نکلے گا۔ اس وقت مسلمانوں کے لیے کف افسوس ملنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوگا۔
قارئین کے خطوط
ادارہ
(۱)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترم جناب مدیر صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
الشریعہ اپریل ۲۰۰۳ء کے شمارہ میں ’حالات وواقعات‘ کے عنوان کے تحت جناب محمد فاروق خان صاحب نے لکھا کہ:
’’اور پھر یہ کہ انہوں (طالبان) نے اپنے ملک اور حکومت کو امریکہ سے بچانے کی خاطر بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کیوں کیا؟ امریکہ مجبور ہوتا کہ بن لادن پر بہترین منصفانہ طریقہ سے مقدمہ چلائے۔بن لادن اسی مقدمہ کو اپنے موقف کے لیے بڑی خوبصورتی سے استعمال کر سکتا تھا۔ اگر اس کو اس مقدمہ میں بڑی سے بڑی سزا بھی ہو جاتی تو کم از کم امریکہ کو افغانستان پر حملے کا بہانہ تو نہ ملتا۔‘‘
ہم اس بارے میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ امریکہ کو کسی ملک پر حملہ کرنے کے لیے بہانوں کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ عراق کی مثال آپ کے سامنے ہے کہ پہلے امریکہ کا کہنا تھا، عراق کے پاس خطرناک ہتھیار ہیں اس لیے ہم عراق کو غیر مسلح کرنا چاہتے ہیں۔ جب عراق نے اس بات سے انکار کیا تو امریکہ نے معائنہ کاروں کو بھیجنے کا اعلان کیا مگر عراق نے معائنہ کاروں کو اپنے ملک میں چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ اس بات کو بہانہ بنا کر امریکہ نے حملہ کرنے کا اعلان کر دیا یعنی امریکا کا کہنا تھا، چونکہ عراق اسلحہ انسپکٹروں کو نہیں چھوڑ رہا اس لیے عراق پر حملہ ضروری ہے۔ پھر اچانک عراق نے معائنہ کاروں کو عراق آنے کی دعوت دے دی۔ جب معائنہ کاروں نے عراق کا چپہ چپہ چھان مارا مگر کچھ نہ ملاتو امریکہ نے کہا، عراق نے ہتھیار وں کو غائب کر دیا ہے، وہ خود ظاہر کرے۔ اسی طرح الصمود میزائل جلداز جلد تباہ کرے ورنہ حملہ کردیں گے۔ اب امریکہ نے الصمود میزائل تباہ کرنے کے ساتھ حملہ مشروط کر دیا۔ جب عراق نے میزائل تباہ کرنے شروع کیے تو پھر امریکہ نے اس بات کو چھوڑ کر دوسرا بہانہ بنا لیا کہ ہم عراقی عوام کو صدام سے آزادی دلوانا چاہتے ہیں۔ آپ نے دیکھ لیا ہوگا کہ امریکہ ایک کے بعد ایک بہانہ بناتا ہے۔
اور آپ کا یہ کہنا کہ بن لادن کو امریکہ کے حوالہ کرنے سے حملہ رک سکتا تھا، صحیح نہیں کیونکہ ملاعمر نے کہا تھا: اگر دنیا کا کوئی ملک مجھے اس بات کا یقین دلا دے کہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے امریکہ حملہ نہیں کرے گا تو میں آج ہی بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہوں مگر اس وقت دنیا کے کسی ملک نے اس بات کی یقین دہانی نہ کرائی۔
اگر ملا عمر بن لادن کو امریکہ کے حوالے کر دیتے تو امریکہ کسی اور بات کو بہانہ بنا کر حملہ کر دیتا۔ بہانے امریکہ کے پاس بہت ہیں ۔اور پھر بن لادن کو انصاف ملنے کی بات بھی غلط ہے۔ ایمل کانسی، یوسف رمزی کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ کیا کوئی ایسی مثال ہے کہ امریکہ جس کو دہشت گرد کہتا ہو، اس کو امریکہ سے انصاف مل کر رہائی ملی ہو؟
ڈاکٹر عبدالوہاب علوی، اسلام آباد
(۲)
قابل صد احترام حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
بعد از خیریت جانبین آپ سے بصد احترام کچھ سوالات پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ آپ ان کا جواب اپنے ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں دیں گے۔
میرا سوال یہ ہے کہ طالبان کا اسلام کیسا تھا؟ اور کیا یہ اسلام پاکستان میں نافذ نہیں ہو سکتا؟ ان سوالات کی ضرورت اس لیے آن پڑی کہ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے الیکشن میں غیر متوقع اور شاندار کامیابی کے بعد مجلس عمل کے رہنماؤں نے اپنے بیانات میں مسلسل اس بات کی یاد ہانی (ملکی اور غیر ملکی میڈیا اور افراد کو) کو کرائی کہ پاکستان میں طالبان والا نظام نہیں چلے گا۔ بعض اوقات تو دبے لفظوں میں احتجاج بھی کیا گیا کہ ہمیں طالبان سے نتھی نہ کیا جائے کیونکہ وہ لوگ بندوق کے زور پر آئے تھے اور ہم ووٹ کے ذریعے آئے ہیں لہٰذا ہم یہاں پر اسمبلی کے ذریعے اسلام لے کر آئیں گے اور اس کی ابتدا صوبہ سرحد سے ہوگی۔
اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اس حکومتی مشینری اور خاص طور پر پولیس اور عدلیہ میں جب وہی پرانے لوگ ہوں گے تو اسلامی قوانین پر عمل درآمد کون کرائے گا؟ خدشہ تو یہ ہے کہ مجلس عمل کی حکومت اگر صوبہ سرحد میں عوام کی توقعات پر پوری نہ اتری تو آئندہ کوئی بھی اسلام کے نام لیواؤں پر اعتماد نہیں کرے گا۔
محترمی! آپ کے علم میں بھی یہ ہو گا کہ افغانستان کے طالبان کا تعارف ہمیں ان علماء کرام نے ہی کرایا تھا کیونکہ جب بھی وہاں کا دورہ کر کے ہمارے دینی رہنما واپس تشریف لاتے تو افغانستان کی اسلامی حکومت کا اپنے بیانات اور تقریروں میں ایسا ایمان افروز منظر پیش کرتے کہ دل سے یہی دعا نکلتی کہ خدایا یہاں پر بھی کوئی امیرالمومنین ملاعمر مجاہد جیسا حکمران بھیج دے۔ اب جب کہ ان خوابوں کی تعبیر کا وقت آیا تو یہ حضرات اپنے آپ کو طالبان سے بالکل ہی لاتعلق ظاہر کرنے لگ گئے ہیں حالانکہ ان کی کامیابی میں زیادہ حصہ خون شہدائے افغانستان کا بھی ہے۔ اگر طالبان والا اسلام یہاں نہیں آ سکتا تو پھر خدانخواستہ خدانخواستہ ہم خمینی کے انقلاب کی دعا مانگیں؟
امید ہے کہ آپ ان سوالات کا جواب اپنی اولین فرصت میں دیں گے۔ براہ مہربانی صرف یہ لکھ کر تسلی نہ دیں کہ اسلام نافذکرنے کے لیے کمیٹیاں اپنا کام کر رہی ہیں، تھوڑا انتظار کر لیں۔ حالانکہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات بھی موجود ہیں اور ضرب مومن اخبار کے صفحات بھی گواہ ہیں جس میں کچھ سال پہلے یہ خبر چھپی تھی کہ اسلامی حکومت افغانستان نے مولانا فضل الرحمٰن صاحب کو اسلامی قوانین کا مسودہ بھیجنے کی درخواست کی تھی۔ شاید اس مسودے کی کوئی کاپی یہاں پر موجود ہو۔
تحریر میں کوئی گستاخی محسوس کریں تو براہ مہربانی درگزر فرمائیں۔
ناچیز۔ سعداللہ
اسلامیہ کالونی، ڈیرہ اسمٰعیل خان
نظام جیل خانہ جات پر ایک نظر اور اصلاح کی چند تدابیر وتجاویز
الحاج میاں محمد رفیق
(شاہ ولی اللہ یونیورسٹی پروجیکٹ گوجرانوالہ کے سربراہ الحاج میاں محمد رفیق درد دل سے بہرہ ور بزرگ ہیں اور شہر کے سرکردہ معززین میں شمار ہوتے ہیں۔ انہیں گزشتہ دنوں پاکستانی جیلوں کے نظام اور حالات کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لینے کا موقع ملا اور انہوں نے اپنے تاثرات ومشاہدات کے ساتھ ساتھ اصلاح احوال کے لیے مفید تجاویز مندرجہ ذیل مضمون کی صورت میں پیش کی ہیں جو متعلقہ حکام کی خصوصی توجہ کی مستحق ہیں ۔ مدیر)
انسانی زندگی کا اصل تقاضا تو یہ ہے کہ وہ امن وعافیت سے گزرے، صلاح وفلاح غالب ہوں اور نیکیاں رواج پائیں لیکن کیا کیا جائے انسان کے شرور نفسی کا کہ وہ موقع بموقع بے لگام ہوتے ہیں اور امن وسلامتی کو تباہ کر دیتے ہیں۔ جرم وسزا کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔ جب سے انسان نے شعور کی آنکھ کھولی، جزاوسزا کا دنیوی تصور بھی پیدا ہوگیا۔ اچھے کام پر انعام سے نوازا جانے لگا اور برے کاموں پر سزا دی جانے لگی۔
اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دوررسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی بعض جرائم پر مختلف لوگوں کو سزا ئیں دی گئیں۔ انسانی سرشت کی انہیں کمزوریوں کی بنا پر قرآن نے حدود مقرر کیے اور تعزیرات کا نظام قائم کیا گیا۔ خلفائے راشدین کے دور فرخ فال میں حضرت عمر فاروق کے عہد خلافت میں بعض بڑی انقلابی اصلاحات کی گئیں ۔ فوجداری اور پولیس کے فرائض کے ساتھ بعض صحابہ کو خصوصی اختیارات دیے گئے۔حضرت عمرفاروق نے حضرت قدامہ بن مظعون اور حضرت ابوہریرہ کو بحرین میں تحصیل مال گزاری کے لیے بھیجا تو حضرت ابوہریرہ کو صاحب الاحداث (Police Officer) بنایا اورانہیں خصوصی اختیارات دیے۔ مثلاً دکاندار ناپ تول میں دھوکہ نہ دیں، کوئی سٹرک پر مکان نہ بنائے، جانوروں پر زیادہ بوجھ نہ لادا جائے،خلاف ورزی کرنے والوں پر کڑی نگاہ رکھ کر انہیں سزا دی جائے۔
تاہم فاروق اعظم کے دور سے پہلے جیل خانہ کا رواج نہ تھا۔ سب سے پہلے حضرت فاروق اعظم نے مکہ معظمہ میں صفوان بن امیہ کے گھر کو جیل میں تبدیل کیا۔ ۴ہزار درہم میں حکومتی سطح پر خرید کر اسے قید خانے کی صورت دے دی۔ بعدازاں مختلف اضلاع میں بھی District Jailsتعمیر کروائیں جہاں مجرموں کو رکھا جاتا تھا۔ قاضی شریح قاضی القضاۃ ہوئے توفوجداری ہی نہیں، دیوانی مقدمات کے لیے بھی مجرموں کو جیل بھیج دیا جاتا۔ اس دور میں جلاوطنی کی سزا کا بھی رواج تھا۔ ابو محجن ثقفی کو آپ نے ایک جزیرہ میں بھیج دیا ۔
عثمان غنی کے دور میں یہ پریکٹس جاری رہی چنانچہ ابوذرغفاری اپنے انقلابی خیالات اور حکومت مخالف اظہارات کی وجہ سے ربذہ میں نظربند کردیے گئے۔ بعدازاں جیل خانہ جات کا باقاعدہ رواج ہوگیااور ہر دور میں ملزموں کو عدالتی فیصلے سے پہلے اور عدالتی فیصلے کے بعد جیلوں میں رکھا جانے لگا۔ آج دنیا بھر میں پولیس اور عدلیہ سے الگ محکمہ جیل خانہ جات کا م کر رہے ہیں جنہیں پولیس اور عدالتوں کا تعاون حاصل ہے تاہم یہ امر بڑا تکلیف دہ ہے کہ سزا کی سنگینی اور کرختگی اپنی جگہ لیکن بہت سے بے گناہ لوگ بھی جیلوں میں پڑے سڑ رہے ہوتے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ کئی کئی سال کی سزا بھگت کرمعلوم ہوتا ہے کہ ملزم بے گناہ تھا اور کئی ملزم تو جیل کے ناسازگار ماحول میں ذوق جرم پال کر باہر نکلتے ہیں اور اچھے بھلے شریف شہری جیل کی ہوا کھانے کے بعد مجرم بن جاتے ہیں۔ اس کا ایک بہت بڑا سبب جیل کے اندر کی دنیا کے مسموم اور خطرناک حد تک جرائم کو جنم دینے والے حالات ہیں۔ پاکستان کی جیلوں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں بھی جرم افزودگی اور جرائم کوشی کے رجحانات میں اضافے کے بین آثار نظر آتے ہیں۔ ع بڑھتا ہے ذوق جرم یہاں اور سزا کے بعد
ان سطور میں سرسری طور پر بعض کوتاہیوں، خرابیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کی جارہی ہے جن کا ازالہ بے حد ضروری ہے:
۱۔گزشتہ چند سالوں سے دنیا بھر بالخصوص مغربی دنیا میں نشہ کی عادت زیادہ ہو رہی ہے۔پاکستان بھی اس لعنت کی زد میں ہے۔ باوجودیکہ حکومت نے محکمہ انسداد منشیات (Narcotic Board) قائم کرکے لوگوں کو اس عادت بد سے باز رکھنے کے کئی طرح سے انتظامات کیے ہیں، نشہ بازوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے جس کا ایک بڑا سبب نشہ آور چیزوں کا سہل الحصول ہونا ہے۔ منشیات کے عادی مجرموں کو بالعموم جیل بھیج دیا جاتا ہے درآنحالیکہ یہ بات عقل ودانش کے خلاف ہے۔ نشہ بازی کی علت بیماری ہے۔ ایسے لوگوں کو بیمار سمجھ کر ان کے عام ہسپتالوں میں خصوصی وارڈ قائم کیے جائیں اور بڑے شہروں میں باقاعدہ نشہ بازوں کے لیے ہسپتال قائم کیے جائیں۔ جیل ان کا ٹھکانہ نہیں ہونا چاہیے۔ جب یہ لوگ جیل میں آتے ہیں تو دوسرے کچے پکے ذہن کے قیدیوں کوبھی بری طرح سے متاثر کرتے ہیں۔ نتیجتاً منشیات کا حصول جیل میں باہر کی نسبت آسان ہوجاتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ کسی نشہ باز کواس خام خیالی سے جیل میں بھیجا گیا کہ وہ اس عادت بد سے چھٹکارا پالے گامگر ہوا یوں کہ اس نے اس علت کو جیل میں بھی جاری رکھا۔ دوسرے کئی قیدی بھی اس کے روگی ہوگئے۔ بجائے فائدے کے الٹا نقصان ہوا۔
۲۔ بالعموم ہر طرح کے ملزموں کو قبل از عدالتی کارروائی بھی جیل میں رکھا جاتا ہے جن میں ہر عمر کے لوگ ہوتے ہیں۔ بچے بھی، جوان بھی، اور بوڑھے بھی۔ بالکل کچی عمر کے بچے جن کے حصول تعلیم اور کھیل کود کے دن ہوتے ہیں، جیلوں میں جاکر مکاریاں، دغابازیاں، جرم کوشیاں اور بدکردار یاں سیکھ جاتے ہیں۔ دوسری طرف نہایت سن رسیدہ بھی جیلوں میں ٹھونس دیے جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو قبر کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ انہیں قبل از وقت ہی موت کے منہ میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ طرح طرح کی بیماریوں کو سینے سے لگائے وہ جیل کی تاریک کوٹھڑیوں میں پڑے سڑتے رہتے ہیں۔
تجویز: ۱۴ سال کی عمر سے کم اور ۷۰ سال کی عمر سے زیادہ معمولی جرائم کے قیدیوں کو رہا کر دیا جائے۔ اگر جرائم سنگین نوعیت کے ہوں تو ان کی اصلاح احوال کے لیے مختلف پروگرام مرتب کرکے ان سے مثبت اور تعمیری کام لیا جائے۔ بڑے بوڑھوں سے تعلیم وتربیت کا کام لے کر اور بچوں کو تعلیم وتربیت دے کر انہیں باور کرایا جائے کہ ابھی ان کی عمر پڑی ہے۔ انہیں شریفانہ زندگی گزارنے کی تیاری کرنا چاہیے۔
۳۔ مثل مشہور ہے کہ بیکار سے بیگار بھلی۔ انگریزی میں کہتے ہیںAn idle man,s mind is devil,s workshopجیلوں میں ایک طرف تو قیدیوں کو ان کے مستقبل کے خدشات سوہان روح ہوتے ہیں، دوسری طرف وہ تعمیری مقاصد اور مثبت عنصر نہ ہونے کی وجہ سے آمادہ جرم رہتے ہیں۔ ہر قیدی کی انتہائی خواہش ہوتی ہے کہ اسے جلدازجلد رہائی مل جائے۔ تاہم اگر جیلوں میں تعمیری منصوبے شروع کر دیے جائیں تو قیدیوں کی توجہ بہت حد تک جرائم کوشی کی جانب سے ہٹ کر شریفانہ رویوں کو اپنانے کی طرف مبذول ہوسکتی ہے۔
تجویز: جیسا کہ کچھ عرصہ پہلے منصوبہ تھا، ممکن ہے اب بھی ان خطوط پر سوچا جارہا ہو۔ جیلوں میں فیکٹریاں لگائی جائیں جس سے قیدیوں کی نفسیاتی کیفیات میں شخصی تبدیلیاں آنے کے روشن امکانات بھی ہیں اور ملکی معیشت میں بھی ان کا ایک کردار ہوگا۔اچھے مل مالکان اور فیکٹری اونرز سے اس ضمن میں تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے۔
۴۔ جیل خانہ جات بالعموم عدالتوں سے ہٹ کر فاصلے پر ہوتے ہیں۔ جیل کے اندر کی دنیا باہر کی دنیا سے بالکل ہی مختلف ہوتی ہے۔ وہاں کا ماحول، وہاں کی فضا باہر کی آزاد فضا اور گہماگہمی اور پررونق فضا سے یکسر جدا ہوتی ہے۔ عدالتوں کے دور ہونے کی وجہ سے جیل حکام کو اسیروں کو عدالتوں میں پیش کرنے کے لیے خاصا اہتمام پڑتا ہے۔ مقید اور زنجیربپا قیدیوں کو عدالتوں تک لے جانے میں کئی قباحتیں ہیں۔ سکیورٹی کے انتظامات، خطرناک قیدیوں کے مفرور ہوجانے کے امکانات،جیسا کہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے، اور پھر عدالت تک لے جانے میں کئی دوسرے کیس میں دلچسپی رکھنے والوں کی دراندازی کے اندیشے، ان سب چیزوں کا ازالہ کیا جانا چاہیے۔
تجویز: جیلوں کی چاردیواریوں میں بعض خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں جس سے لانے لے جانے کے اخراجات کی بچت کے علاوہ بہت سی انتظامی اور حفاظتی تدابیر سے نجات مل جائے گی۔
۵۔ قیدیوں کا ایک مسئلہ فراہمی خوراک بھی ہے۔ ایک متمدن ملک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسیروں کوبھوکا نہ مارے۔ قید بہر صورت قید ہے۔ اس کی معاشرے سے کٹ جانے کی اذیت کچھ کم نہیں، چہ جائیکہ قید میں پڑے ہوئے افراد کو خوراک کی کمی کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کیا جائے۔ حکومت کی جانب سے جو خوراک مقرر کی گئی ہے، اس کے معیار کی بھی ضمانت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی مقدار لائق تحسین ہے۔ ان دنوں فی قیدی روزانہ خوراک کا خرچہ 13.75روپے ہے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اتنی قلیل رقم میں دو وقت کا کھانا کس طرح مہیا کیا جاسکتا ہے۔ آج کل کے مہنگا ئی کے دور میں اتنی معمولی رقم مختص کرنا ناقابل فہم ہے۔مزید برآں فی قیدی علاج معالجے کے لیے یومیہ 00.75پیسے رکھے گئے ہیں جو کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ کم خوراک، ناقص غذا اور گھٹن اور پریشانیوں کے ماحول میں قیدیوں کا بیمار ہو جانا یقینی ہو جاتا ہے جس کے لیے حکومت کو اصلاح احوال کرنی چاہیے۔ دواؤں کی قیمتوں کے پیش نظر 75پیسے بالکل ہی نا کافی ہیں ۔
تجویز: فی قیدی یومیہ خوراک کا خرچہ50 روپے کیا جائے اور علاج کے لیے 75پیسے سے بڑھا کر 5روپے کیا جانا مناسب ہے۔
۶۔ قیدیوں کے لیے ایک طرف تو کھانے کا معیار کمتر بلکہ ناقص ہے، دوسرے وہ طریق کار جس کے ذریعے قیدیوں کو کھانا مہیا کیا جاتا ہے، وہ بھی ناقص ہی نہیں، کئی طرح کی بے ضابطگیوں کا شکار ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس سے بدعنوانیوں کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اجازت نہ ہونے کے باوجود بعض قیدی گھر سے کھانا منگواتے ہیں۔ بعض جیل کے اندر ہی اپنا کھانا خود پکاتے ہیں۔ یوں کھانے کے طریقے کو تین حصوں میں بانٹ رکھا ہے : -i گھر سے کھانا مہیا ہونا، -ii جیل کی چاردیواری کے اندر ہی قیدیوں کا انفرادی سطح پر کھانا خود تیار کرنا، -iii جیل حکام کی طرف سے کھانا مہیا ہونا۔
اب جو قیدی پہلی اور دوسری شق پر عمل کر رہے ہوتے ہیں، ان میں سے گھر سے کھانا منگوانے والوں کا پورا کھانا قیدی تک نہیں پہنچتا۔ تیسری شق پر عمل پیرا ہونے سے ایک طرف تو کھانا ناقص ہوتا ہے، دوسری طرف پہلی دو شقوں یعنی گھر سے کھانا منگوانے اور خود تیار کرنے والوں کو بھی اس میں شمار کیا جاتا ہے جو ایک بے ضابطگی ہے۔ یوں وہ معمولی رقم جو اسیروں کے کھانے کے لیے مخصوص ہوتی ہے، اس میں خورد برد ہو جاتی ہے۔
تجویز: جو قیدی گھر سے کھانا منگوانا چاہیں یا جیل میں ہی اپنا کھانا خود تیار کرنا چاہیں، ان کو اس کی اجازت دے دی جائے اور ان کے لیے مختص رقم حساب کتاب کے بعد واپس خزانے میں جمع کرئی جائے یا ایسا بندوبست کیا جائے کہ ایسے قیدیوں کو جیل سے مہیا کیے گئے کھانے سے مستثنیٰ قرار دے کر ان کے لیے اس مد میں رقم حاصل نہ کی جائے۔
۷۔ قیدیوں کی اکثریت تو ان پڑھ یا نیم خواندہ لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے تاہم ایک خاصی تعداد خواندہ یا تعلیم یافتہ لوگوں کی بھی ہوتی ہے مگر یہ لوگ جیل کے قوانین سے قطعاً نابلد ہوتے ہیں۔ ان قواعد وضوابط کا جاننا ہر قیدی کے لیے ضروری ہے تاکہ وہ ان پر عمل پیرا ہوسکیں۔
تجویز: جیل کے اہم قواعد وضوابط بورڈوں پر لکھ جیل کے مختلف حصوں میں آویزاں کیے جائیں ۔
۸۔ جیل میں مریضوں کی عمومی حالت تو ویسے ہی کچھ اچھی نہیں ہوتی تاہم ٹی بی کے مریض تو مرنے سے پہلے ہی زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔ ضروری ہے کہ ان کی خصوصی دیکھ بھال کی جائے۔ چونکہ یہ علاج مسلسل بھی ہے اور مہنگا بھی، اس میں ذرا سی کوتاہی مریض کے مرض میں ایک طویل تسلسل پیدا کر دیتی ہے، ایک دن اگر دواکا ناغہ ہو جائے تو پچھلے کئی دن کا علاج اکارت جاتا ہے، اس لیے اس مد میں علاج کی مناسب سہولتیں بہم پہنچایا جانا بے حد ضروری ہے۔
تجویز: یا تو ٹی بی کے مریض کے علاج کے لیے موجودہ 75 پیسے کی بجائے 100روپے فی مریض دواؤں کے لیے فنڈ مہیا کیا جائے یا پھر انہیں ہسپتال میں داخل کرا دیا جائے۔ نیز ان مریضوں کے لیے عام کھانا ان کے مرض کے ازالے میں کچھ ممد ثابت نہیں ہوتا، اس لیے ایسے مریضوں کو ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق کھانا مہیا کیا جائے۔
۹۔ قیدیوں میں عورتیں بھی ہوتی ہیں اور پھر ان میں حاملہ عورتیں بھی ہوتی ہیں۔ ایسا نہ ہونے پائے کہ ایک فرد کو قیدوبند میں رکھ کر ایک دوسرے فرد کی جان بھی خطرے میں پڑ جائے۔ حاملہ کے پیٹ کے بچے کا تو کوئی قصور نہیں۔ ایسی عورتوں کے ساتھ جیل کی مدت میں نرمی کا سلوک ہونا چاہیے۔
تجویز: ایسی عورتوں کو ایام زچگی سے دو ماہ پہلے اوردوماہ بعد تک رہائی دی جائے ۔
۱۰۔ بالعموم دیکھا گیا ہے کہ جیلوں میں موسم کی شدت سے بچنے کے لیے مناسب انتظامات نہیں ہوتے اور قیدیوں کو محض تحقیر آمیز رویہ رکھتے ہوئے اس قابل بھی نہیں سمجھا جاتا کہ وہ بھی انسانی ضروریات سے بے نیا ز نہیں۔ وہ قیدی تو ہیں لیکن بہر صورت انسان ہیں، وقتی طور پر اگر ان کا جرم ثابت بھی ہوگیا ہے تو بالکل انسانیت ان سے چھن نہیں گئی۔ زحمت قیدوبند ہی کیا کم ہے کہ مزید ان پر ستم توڑے جائیں اور انہیں زندگی کی ضروریات ہی سے محروم رکھا جائے۔
تجویز: مناسب بندوبست کرکے قیدیوں کو موسم کی شدت سے بچایا جائے۔ گرمیوں میں پنکھوں کا ہونا بے حد ضروری ہے۔
۱۱۔ جیلوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ اسیروں کی کثرت اور جگہ کی قلت ہے۔ جہاں پانچ قیدیوں کی گنجائش ہے، دس پندرہ تک بھی قیدی بند کر دیے جاتے ہیں ۔
تجویز: بقدر گنجائش قیدیوں کو جیلوں میں رکھا جائے۔ مزید برآں سکیورٹی کا مناسب بندوبست کرکے برآمدوں کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مزید بیرکس کا تعمیر کیا جانا بھی ازحد ضروری ہے۔
۱۲۔ بالعموم قیدیوں کے کمروں میں بند کرنے کے اوقات غیرمتبدل رہتے ہیں اور اگر ان میں قدرے تبدیلی بھی کی جاتی ہے تو بھی قیدیوں کو اذیت ناک حد تک موسمی شدت کو سہنا پڑتا ہے۔ مثلاً گرمیوں کے موسم میں پانچ بجے ہی قیدیوں کو کمروں میں بند کر دینا شدت موسم کی وجہ سے ان کے لیے سخت باعث تکلیف ہوتا ہے کیونکہ پھر انہیں دن کا باقی حصہ اور رات بھر اندر ہی رہنا پڑتا ہے۔
تجویز: موسمی تغیرات کے ساتھ ساتھ قیدیوں کو بیرکوں میں بند کرنے کے اوقات میں مناسب تبدیلیاں لائی جائیں ۔
۱۳۔ بالعموم امیر لوگ کسی نہ کسی طرح ضمانت کروا کر جیل سے باہر آجاتے ہیں اور غریب بے چارے معمولی جرائم پر بھی کئی کئی سال جیلوں میں پڑے رہتے ہیں۔ ضمانت میں جج حضرات کو صوابدیدی اختیار ہوتا ہے، وہ چاہیں تو ضمانت قبول کریں، چاہیں تو مسترد کرد یں۔ یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ جیل حکام کے پاس روبکاری کے لیے مناسب بندوبست نہیں ہوتا جس سے قیدیوں کے راہ فرار اختیار کر لینے کی بھی کئی سبیلیں نکل آتی ہیں۔
تجویز: (i) ضمانت میں جج حضرات کا صوابدیدی اختیار ختم کردیا جائے اور نوعیت جرم کے مطابق ضمانت یا عدم ضمانت کا قانون وضع کیا جائے ۔ نیز ہر ضابطہ تعزیرات کی ہر دفعہ پر ضمانت کے لیے ایک مخصوص وقت کا تعین کر دیا جائے۔ (ii) جیل سے عدالت تک یا تو نہایت بہترین انتظام کے ساتھ قیدیوں کو لایا جائے یا پھر، جیسا کہ قبل ازیں بتایا جا چکا، جیل کے اندر ہی عدالتی نظام قائم کیا جائے۔
۱۴۔عموماً دیکھا گیا ہے کہ ملزم کئی کئی سال جیلوں میں پڑے رہتے ہیں، پھر کہیں جاکر ان کی بے گناہی ثابت ہونے پر انہیں بری کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے جیل میں عرصہ دراز گزارنے پر قیدی یا تو اپنی تعمیری صلاحیتیں بالکل برباد کرکے ناکارہ ہو جاتا ہے یا پھر واقعی مجرم بن کر نکلتا ہے۔
تجویز: جب تک کوئی شخص واقعی مجرم ثابت نہ ہو جائے، اسے قید میں نہ رکھا جائے۔ اس کے لیے ماہرین کوئی دوسرے طریقے سوچیں جس سے اچھا خاصا بھلا مانس انسان بدمعاش اور مجرم نہ بن سکے۔
۱۵۔ فوجداری مقدمات قائم کرنے سے پہلے F.I.Rایک مستند اور قومی دستاویز ہوتی ہے۔ کسی قتل کے بعد مقتول کے وارث عموماً F.I.Rمیں ہر اس شخص کا نام شامل کروادیتے ہیں جن سے ان کی دشمنی ہوتی ہے اور اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ قاتل تو مفرور ہو جاتا ہے مگر اس کے لواحقین اور رشتے دار گرفتار کر لیے جاتے ہیں اور انہیں جیل میں بند کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی واردات ہوتی ہے تو اصل مجرم راہ فرار اختیار کر کے روپوش ہو جاتے ہیں۔ پولیس کا ایک تفتیشی حربہ یہ بھی ہے کہ اصل مجرموں تک رسائی حاصل نہ کر سکنے کی صورت میں اس کے عزیزواقارب اور رشتہ داروں کو پکڑ کر لے جاتی ہے حالانکہ وہ بالکل بے قصور ہوتے ہیں۔ ان کی بے وجہ اہانت کی جاتی ہے اور انہیں حبس بے جا میں رکھا جاتا ہے۔ جیبیں الگ بھر لی جاتی ہیں اور بے قصوروں کو الگ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
یہ بڑی ناانصافی اور زیادتی ہے کہ عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کو ذلیل و رسوا کیا جائے جبکہ ان کا اس سانحے میں کوئی قصور بھی نہ ہو اور عین ممکن ہے کہ قاتل پر ان میں سے کسی کا بس بھی نہ چلتا ہو (اور ایسا بالعموم ہوتا ہے) مگر یہ بے گناہ دھر لیے جاتے ہیں اور قیدوبند کی صعوبتیں سہنے لگتے ہیں۔
تجویز: F.I.R تحریر کرتے وقت کم از کم دو معتبر گواہوں کی شہادت کو کافی سمجھ کر F.I.R میں نام درج کیے جائیں اور قاتل کے رشتے داروں کو بلاوجہ اسیری کی اذیت نہ پہنچائی جائے۔ نیز پورے وسائل تفتیش کو استعمال کرکے اصل مجرموں تک رسائی کی جائے۔ رشتے داروں کو، جو اکثر حالات میں بے گناہ ہوتے ہیں، بلاوجہ نہ دھر لیا جائے۔
۱۶۔ عدالتوں میں جج صاحبان اکثر مقدمات میں اُلجھ کر رہ جاتے ہیں۔ صحیح فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے کیونکہ انہیں اپنی عدالت ہی میں بیٹھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ دونوں طرف سے گواہ مع وکلا پیش ہوتے ہیں۔ ایسے مواقع پر جج صاحبان کے پیش نظر دو ہی صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک، مجرم سزا سے بچ جاتا ہے۔ دو، بے گناہ کو سزا مل جاتی ہے۔
تجویز: جب فیصلہ کرنا مشکل ہو اور دونوں طرف سے برابر کے شواہد ہوں تو ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے پہلا موقف اختیار کرنا زیادہ قرین قیاس ہوگا۔
۱۷۔ دوسرے حکومتی اداروں کی طرح جیل خانہ جات بھی کلی طور پر حکومتی تحویل میں ہوتے ہیں۔ عامۃ الناس، متاثرہ افراد یا باشعور طبقے کے افراد کو ان کے انتظام و انصرام میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔
تجویز: انتظام و انصرام تو کلی طور پر حکومت کے ہاتھ میں رہے مگر ہر شہر میں جیلوں سے متعلق ایک مجلس مشاورت ہو جو ایک طرف تو محکمے کو مفید مشورے دے، دوسری طرف مالی معاونت بھی کرے۔ اس معاونت کے لیے پرائیویٹ سیکٹر سے وسائل مہیا کیے جائیں تا کہ اسیروں کی بہبود کا اہتمام ہو سکے۔
۱۸۔ حوالاتی قیدی، جو ابھی ملزم ہوتے ہیں اور ان کا جرم ثابت نہیں ہوتا، جب جیل میں آتے ہیں تو ایک عجیب ہراس انگیز فضا پیدا کرنے کے لیے اُنہیں علی الصبح قطار اندر قطار کھڑا کر دیا یابٹھا دیا جاتا ہے۔ دو تین گھنٹوں کے بعد ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بغرض ملاحظہ آتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ کھڑی پولیس سے ساٹھ ستر فیصد حوالاتی ملزموں کو چھتر مرواتے ہیں۔ ان کی صوابدید پر بے وجہ کسی کو دو، کسی کو چار، اور کسی کو اس سے زیادہ چھترول ہوتی ہے۔ اس کے بعد قیدیوں کو بیرکوں میں جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔
تجویز: اس قسم کی خوفناک اور دہشت انگیز سزاؤں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ جب تک الزام ثابت نہ ہو جائے، کسی قیدی کو زدوکوب کرنا اخلاقاً کسی طرح درست نہیں۔ قانوناً بھی اس طرح کی Exercises کا امتناع ہونا چاہیے۔
۱۹۔ جب قیدی جیل میں داخل ہوتے ہیں تو ان کی جامہ تلاشی لی جاتی ہے۔ کسی کے پاس نقدی ؍رقم ہو تو تقریباًآدھی تو اس سے عملہ چھین لیتا ہے اور مجبور قیدی ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنا دہشت ووحشت کے زیراثر خاموش رہتا ہے۔
تجویز: قیدیوں کے پاس رقم کی کوئی حد ہونی چاہیے جس کی تفصیل بورڈ پر آویزاں ہو۔ زائد رقم وارثوں کو لوٹا دی جانی چاہیے۔
۲۰۔ کئی قیدیوں کے لیے گھر سے کھانا آتا ہے۔جیل کا عملہ اس پر نگاہ رکھتا ہے اور اس میں سے قیدی تک پہنچتے پہنچتے اکثر کھانا چوری ہو جاتا ہے۔
تجویز: ۱۔ گھر سے کھانا لانے کی اجازت ہی نہ دی جائے۔ قیدیوں کے لیے جیل ہی میں کھانے کا بندوبست کیا جائے اور کھانے کی رقم بڑھائی جائے۔ ۲۔ اگر محکمے کے لیے یہ ناممکن ہو تو پھر راستے کی دستبرد سے بچنے کے لیے قیدی تک کھانا براہ راست پہنچانے کا مناسب بندوبست ہونا چاہیے۔
۲۱۔ سال رواں میں گورنر صاحب نے اسیروں کی بہبود کے لیے بیس کروڑ روپے خرچ کرنے کا وعدہ کیا ہے مگر کسی صوبائی یا مرکزی بجٹ میں اس کے لیے رقم مختص نہیں کی گئی۔
تجویز: جیلوں کی تعداد اتنی ہے کہ ۲۰ کروڑ روپے کی رقم ازحد ناکافی ہے۔ جیلوں کی اصلاح و فلاح اور قیدیوں کی بہتری کے لیے صوبائی یا مرکزی بجٹ میں خاطر خواہ رقم مختص ہونی چاہیے۔
۲۲۔ قیدیوں کی رہائی کے وقت جیل کا عملہ ان سے پیسے وصول کرتا ہے۔ قیدی بے چارے زنداں سے بچ نکلنے پر خواہی نخواہی کچھ نہ کچھ دے دلا دیتے ہیں۔
تجویز: اس قبیح اور غلط پریکٹس کو یکسر ختم کیا جانا چاہیے۔
۲۳۔ ایسے قیدی جن کو عمر قید کی سزا ہوتی ہے، وہ سالہاسال تک اپنی بیویوں سے دور رہتے ہیں۔ اس میں ان کی بیویوں کا تو کوئی قصور نہیں ہوتا، یوں ان کو بھی خاوند کے ساتھ دوہری سزا بھگتنا پڑتی ہے۔
(ا) بالعموم معاشرے کے دستور کے مطابق گھر میں کمانے والا کوئی فرد نہیں ہوتا جس سے ان کی مالی حیثیت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جاتی ہے اور بے شمار سماجی، ازدواجی ،خانگی اور اخلاقی برائیوں میں ملوّث ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
(ب) ایسی عورتیں حقوق زوجیت سے محروم ہو جاتی ہیں اور نتیجے کے طور پر نہایت خوفناک قسم کی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں۔
تجویز: (ا) جیلوں میں فیکٹریاں لگائی جائیں اور ان قیدیوں سے کام لے کر اس آمدنی کا کچھ حصہ ان کے بیوی بچوں کی کفالت کے لیے استعمال کیا جائے۔ (ب) جیلوں میں چھوٹی چھوٹی اقامت گاہیں بنا ئی جائیں جن میں زندگی کے کچھ لمحات میاں بیوی اکٹھے رہ سکیں۔
۲۴۔ قیدیوں کی اسیری کی زندگی بڑی بے کیف ہو جاتی ہے اور وہ سراسیمگی کے عالم میں شب وروز گزار کر نفسیاتی اور معاشرتی کمیوں کے شدید احساس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
تجویز: عیدین، شب برات، ۱۴/ اگست، یوم قائداعظم،یوم اقبال اور ان جیسے دوسرے اسلامی و قومی دنوں کے موقع پر ان کے لیے محافل و مجالس کا اہتمام کیا جائے اور اچھے کھانے اور مشروبات فراہم کیے جائیں۔
۲۵۔ قیدیوں کی ملاقات کرنے والے تو آخر سزا کے مستحق نہیں، ان کے بیٹھنے بٹھانے کے لیے کوئی معقول انتظام نہیں ہوتا۔ اُنہیں گھنٹوں دھوپ ہی میں کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ وہ خود کو ایک جبر مسلسل اور گھٹن کے ماحول میں محسوس کرتے ہیں۔
تجویز: ملاقاتیوں کے لیے طریق کار آسان بنایا جائے اور ان کے لیے جیل سے باہر بیٹھنے اُٹھنے کی سہولتیں مہیا کی جائیں۔
۲۶۔ نماز پنج گانہ کی سب قیدیوں کو مسجد میں پڑھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔مسجد یں تو عام جیلوں میں بنائی گئی ہیں مگر سب قیدیوں کو نماز باجماعت کی سہولت میسر نہیں۔
تجویز: قیدیوں کو اسلامی تعلیم کے ساتھ ساتھ مسجد میں نماز باجماعت کا موقع فراہم کیا جائے جس سے ان کی بے شمار ذہنی آلودگیاں اور فکری خرابیاں ختم ہو جانے کے روشن امکانات ہیں۔ وہ نماز باجماعت کے جسمانی و روحانی فوائد حاصل کر کے ممکن ہے کہ جیل کی زندگی کے بعد اچھے شہریوں کی حیثیت سے آبرومندانہ زندگی گزار سکیں۔
۲۷۔ نگرانی میں ڈھیل جیلوں کا معمول بن چکا ہے اور صورت حال اس حد تک بگڑی ہوئی ہے کہ جیلوں میں منشیات فروخت ہوتی ہیں اور بعض خبروں کے مطابق بعض جیلوں کے اندر منشیات تیار بھی ہوتی ہیں۔
تجویز: جیلوں میں اگر ایک طرف اصلاح احوال کی کوشش ضروری ہے تو دوسری طرف کڑی نگرانی بھی بے حد ضروری ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ اس پہلو میں ارباب بست و کشاد خصوصی دلچسپی لیں۔
۲۸۔ ملاقات کے دن کے لیے عوامی رحجانات اور آسانیوں کو مدنظر نہیں رکھاجاتا۔
تجویز: اتوار کا دن عام ہفتہ وار تعطیل کا دن ہوتا ہے۔ اگر اتوار کا دن ملاقات کے لیے مختص کر لیا جائے تو اکثر ملاقاتی اس چھٹی کے دن سے فائدہ اٹھا کر اپنے قیدی عزیزوں سے ملاقات کر سکتے ہیں۔
۲۹۔ جیل کے اندر خاص طور پر حوالاتی قیدی سارا دن بیکار بیٹھے گپیں ہانکتے رہتے ہیں۔
تجویز: کسی قیدی کو بیکار نہ بٹھایا جائے۔ کوئی پڑھ رہا ہو، کوئی پڑھا رہا ہو۔ جیل میں فیکٹریاں قائم کر کے ان سے کام لیا جائے۔ ایک اسکیم یہ بھی ہے کہ جیل سے باہر فیکٹری مالکان سے ضمانت لے کر contract کر لیا جائے کہ دن کو فیکٹری مالکان قیدی کو اپنی فیکٹری میں لے جائیں اور شام کو قیدی ہر روز واپس آجائیں اور یہ معاوضہ ان کی فلاح وبہبود پر خرچ کیا جائے۔
۳۰۔ جیل کے اندر کئی قیدی ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی سزا تو کاٹ چکے ہوتے ہیں لیکن جرمانہ ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے کئی کئی سال جیل میں پڑے رہتے ہیں۔
تجویز: اس کے لیے قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے کہ ایک آدمی پر اگر ایک لاکھ جرمانہ ہے تو ادا نہ کرسکنے کی صورت میں اس کو مزید کتنا عرصہ قید کی سزا برداشت کرنا ہو گی یا عدالتوں کو پابند کیا جائے کہ جرمانہ ادا نہ کر سکنے کی صورت میں مزید ایک سال یا پانچ سال قید میں رہنا ہوگا۔ دوسری صورت آسان ہے کہ اگر قیدی کسی فیکٹری کی ضمانت لا دے تو اس کو رہا کر دیا جائے اور اس ضمانت کو قانونی شکل دے دی جائے کہ وہ ایک عرصہ میں یہ رقم ادا کرنے کا قانونی طور پر پابند ہو جائے ۔
’’اسلام کا مالیاتی نظام‘‘ کے موضوع پر وفاقی دارالحکومت میں سیمینار
پروفیسر حافظ منیر احمد
۵ مارچ ۲۰۰۳ء کو جامعہ المرکز اسلامی بنوں صوبہ سرحد کے رئیس مولانا سیّد نصیب علی شاہ ایم۔این۔اے نے جامع مسجد دارالسلام G-6/2 اسلام آباد میں دو روزہ ’’اسلام آباد فقہی سیمینار‘‘ بعنوان ’’اسلام کا مالیاتی نظام‘‘ کا اہتمام کیا جس میں ملک کے طول و عرض سے اس شعبہ سے وابستہ افراد کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی اور دور جدید میں پیش آمدہ مختلف موضوعات پر مدارس دینیہ سے تعلق رکھنے والے اہل علم اور جامعات سے وابستہ پروفیسر و ڈاکٹر حضرات نے مقالہ جات پیش کیے۔
فقہی سیمینار کا افتتاحی اجلاس مولانا مفتی نظام الدین شامزئی کی صدارت میں منعقد ہوا۔ مولانا سیّد نصیب علی شاہ ایم۔این۔اے نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا جس میں انہوں نے علما ، دانشوران ملت، اساتذہ مدارس، کالجز وجامعات، تاجر حضرات، ڈاکٹر صاحبان اور صحافی حضرات کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے علم اور تحقیق کے جذبہ کے تحت اس سیمینار میں شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ اسلام ایک ہمہ گیر نظام زندگی اور انسانیت کی رہنمائی کے لیے آخری منشورِ حیات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ معاشرہ میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے نئے افق پیدا کیے ہیں۔ دنیا ایک چھوٹا سا گاؤں یعنی Globel village بن گئی ہے۔ معاشی اور اقتصادی امور میں نئی ترقیات نے نئے مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔ جو لوگ اسلام پر چلنا چاہتے ہیں اور شریعت کو اپنی تجارت،معاشرت اور زندگی کے دوسرے میدانوں میں معیار ہدایت قرار دے کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں، ان کے سامنے ایسے سینکڑوں سوالات پیدا ہو رہے ہیں جن کے بارے میں وہ علماے کرام اور اصحاب افتا کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان سے رہنمائی کے طالب ہیں۔ دوسری طرف ایسی جامع شخصیات کا فقدان ہو گیا ہے جو علم و تحقیق کی بنیاد پر ان مسائل کو حل کر سکیں اور جن کا فتویٰ مسلّم طور پر مسلم معاشرے میں قابل قبول ہو۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس سلسلہ میں اجتماعی فکر کی بنیاد ڈالی جائے اور علما و اصحابِ دانش باہمی تبادلہ خیال کے ذریعے ان مسائل کا ایسا حل نکالیں جو اصول شرع سے ہم آہنگ اور فکری شذوذ سے پاک ہو۔ یہی وہ مقصد تھا جس کے لیے اپریل ۱۹۹۶ء میں پہلی بنوں فقہی کانفرنس، اکتوبر ۱۹۹۸ء میں دوسری بنوں فقہی کانفرنس اور ستمبر ۲۰۰۱ء میں ایبٹ آباد فقہی سیمینار کا انعقاد عمل میں لایا گیا اور اسلام آباد فقہی سیمینار اُسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔
سیمینار کی پہلی نشست میں جن اہل علم نے اپنے مقالہ جات پیش کیے، ان میں جناب ڈاکٹر علی اصغر چشتی پروفیسر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد نے ’’بلا سود بنکاری میں دشواریاں اور ان کا حل‘‘، مولانا مفتی غلام قادر نعمانی نے ’’قسطوں پر خریدوفروخت کی شرعی حیثیت‘‘، مولانا مفتی تاج زریں مہتمم دارالعلوم عربیہ شیرگڑھ نے ’’موجودہ کرنسی نوٹ ثمن عرفی ہے یا سند حوالہ‘‘ اور مولانا مفتی محمد طاہر مسعود مہتمم مدرسہ مفتاح العلوم سرگودھا نے ’’حصص کی خریدوفروخت‘‘ کے موضوع پر مقالات پڑھے جبکہ جناب ڈاکٹر سیّد طاہر پروفیسر اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد نے ’’اسلام کے مالیاتی نظام کا خاکہ‘‘ پیش کیا اور اس سلسلہ میں درپیش ان رکاوٹوں کا بطور خاص ذکر کیا جو کہ ملک کے مالیاتی نظام کو سود سے پاک نہیں ہونے دے رہیں۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ ہمارا تمام اقتصادی ڈھانچہ آئی۔ایم۔ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے کنٹرول میں ہے، اس لیے ہماری تمام کاوشیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں حالانکہ اسلامی اقتصادیات کا سارا ڈھانچہ ہمارے پاس موجود ہے۔پاکستان کے بہت سے ادارے جن میں کراچی ، لاہور اور اسلام آباد کے ادارے قابل ذکر ہیں، بہت سا کام کر چکے ہیں مگر عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کے سامنے بے بس ہیں۔
سیمینار کی دوسری نشست کی صدارت انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے کلیۃ اللغۃ العربیہ کے پروفیسر جناب ڈاکٹر فیضان الرحمان صاحب نے کی۔ اس نشست میں متحدہ مجلس عمل کے سیکرٹری جنرل اور جمعیۃ علماے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان نے پاکستان کے معاشی اور اقتصادی نظام کے حوالے سے ایک اہم مقالہ پڑھا جس میں انہوں نے تفصیل کے ساتھ بتایا کہ ہمارے اقتصادی ڈھانچہ پر چند متعین اداروں مثلاً آئی۔ایم۔ایف، ورلڈ بنک، ایشیائی ترقیاتی بنک اور دیگر مالیاتی اداروں کا مکمل کنٹرول ہے۔ کسی قوم کو غلام بنانے کے لیے سب سے پہلے اس کی اعلٰی ترین سیاست پر قبضہ کیا جاتا ہے اور آج ہمارے ہاں یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان کے نظام کے خلاف بات کی جائے تو پھر وزیراعظم باہر سے بھیج دیا جاتا ہے جو شکل سے تو پاکستانی ہوتا ہے لیکن مقاصد عالمی استعمار کے پورے کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے تینوں اہم شعبے یعنی اقتصادیات، خارجہ امور اور عسکری امور ان کے کنٹرول میں ہیں جبکہ اقتصادی شعبہ میں تمام تقرریاں آئی۔ایم۔ایف کی منظوری سے ہوتی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آئی۔ایم۔ایف کے کنٹرول سے پہلے ہماری سالانہ ترقی گیارہ فیصد تھی مگر جب سے ہم نے ان اداروں کی غلامی اختیار کی ہے، ہماری سالانہ ترقی دو فیصد رہ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سامراجی استعمار بڑی مکاری اور چالاکی سے ہمیں یرغمال بنانے میں مصروف ہے مگر ہمیں بڑی ہوش مندی سے کام کرنا ہے۔ گردوپیش کے حالات و واقعات سے ہمیں باخبر رہنا ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ کلہاڑا مار کر تمام اداروں سے تعلقات منقطع کر لیے جائیں۔ہم نے دنیا کے ساتھ چلنا ہے مگر سامراجی قوتیں ہمارے سماج کے ساتھ وابستہ نظام ہمیں دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس انقلابی اور عسکری قوت نہیں ہے لیکن ایک ووٹ کی قوت ہے۔ ہمارے اوپر ہمارے اپنوں کا، وفاق کا اور بین الاقوامی اداروں کا دباؤ ہے۔ متحدہ مجلس عمل ان شاء اللہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے عوام کے حقوق کی جنگ لڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ضرورت کے مطابق خرچ کرتے ہیں نہ کہ خواہشات کے مطابق۔
بنک آف خیبر کے نمائندے جناب عبدالحسیب نے کہا کہ خیبر بنک بنیادی طور پر صوبہ سرحد کی ترقی کے لیے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صوبہ سرحد میں ہماری تین ترجیحات ہیں: (۱) نفاذشریعت (۲) مفت تعلیم اور (۳) بلا سود بنکاری۔ ہمیں جو ٹاسک دیا گیا ہے، ہم ان شاء اللہ اسے نئے مالی سال کے اختتام سے پہلے مکمل کر دیں گے۔ یہ تین ماہ کا ٹارگٹ ہے اور یہ سارا کام سٹیٹ بنک آف پاکستان کی منظوری سے ہو رہا ہے۔ ہم صوبہ سرحد میں فی برانچ پانچ کروڑ روپے کے حصص رکھ کر چار برانچوں میں بلاسود اسلامی بنکاری کا نظام لا رہے ہیں۔ اس ڈھانچے میں صوبہ سرحد میں تین برانچیں اور کراچی میں ایک برانچ قائم کریں گے اور سٹیٹ بنک کے حوالہ سے ان برانچوں پر ایک ڈائریکٹر الشریعہ نگران ہوگا جو کسی بھی مرحلہ پر اسلامی معیشت سے متصادم کسی بھی شق کو حذف کرنے کا مکمل اختیار رکھتا ہوگا۔
کانفرنس کی تیسری نشست میں مولانا مفتی غلام الرحمان چیئرمین نظام شریعت کونسل صوبہ سرحد نے ’’نظام شریعت کے لیے اقدامات‘‘ کے حوالہ سے تفصیلی مقالہ پیش کیا اور کہا کہ ہم نے ایک ٹاسک فورس بنا لی ہے اور اس کے ساتھ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے نفاذ شریعت کے لیے بھی ٹھوس لائحہ عمل مرتب کر لیا ہے جس کے لیے ہمیں تین ماہ کا ٹارگٹ دیا گیا ہے اور ہم ان شاء اللہ یہ کام مقررہ وقت میں کر کے سُرخرو ہوں گے۔ اس نشست میں مولانا محمد رحیم حقانی نمائندہ برائے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ صوبہ سرحد نے بھی اپنا مقالہ پیش کیا جس میں صوبائی سطح پر ہونے والے معاملات کو بطور تفصیل سے بیان کیا گیا۔
سیمینار کی دوسرے دن کی نشستوں میں مجلس عمل کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈرحافظ حسین احمد اور سابق وفاقی مذہبی امور جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی نے خطاب کیا۔ حافظ حسین احمد نے کہا کہ ہم القاعدہ نہیں بلکہ باقاعدہ اس اسمبلی میں آئے ہیں۔ تمام دنیا کی اقتصادیات پر یہودیوں کا قبضہ ہے اور یہ بات عالم اسلام کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ مجلس عمل کی دینی جماعتوں کے اتحاد کا اعلامیہ میں نے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ متحدہ مجلس عمل آئین کے آرٹیکل نمبر ۲۳۰ کے تحت قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو پیش کرے گی اور ملک میں ان کے نفاذ کے لیے عملی جدوجہدکرے گی۔ پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی نے کہا کہ ہمارے ملک کا بااثر طبقہ شریعت کے احکام سے بے خبر ہے۔ بلاسود بنکاری کا نظام مسلمانوں کے اجتماعی وجود کی ضمانت ہے۔ بلکہ جس طرح یورپ نے اپنا ایک سکہ یورو رائج کیا ہے، ہمیں بھی مہاتیر محمد کی یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ مسلمان اپنی اجتماعی اقتصادیات کے لیے سونے کے سکے کو اپنے معاشی نظام میں رائج کریں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین ساز اداروں نے چھ دفعہ سود کے خاتمہ کا اعلان کیا مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ سود سے پاک بنکاری نظام پاکستان کے مسلمانوں کی آرزو ہے۔ آج بنکوں کی معاشی پالیسیوں اور جدید بین الاقوامی تجارت کے ذریعے مسلمانوں کو غلامی کے شکنجے میں جکڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے علما سے کہا کہ وہ آگے آئیں اور خانقاہوں سے نکل کر اپنا اجتماعی کردار ادا کریں۔ انہوں نے مولانا سید نصیب علی شاہ کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ رائے عامہ بیدار کرنے کے لیے اس جیسے مزید فقہی سیمینار ہونے چاہییں۔
کانفرنس کی اختتامی نشست میں ڈاکٹر قبلہ ایاز نے قراردادیں پڑھ کر سنائیں جن میں کہا گیا کہ پاکستا ن میں بلا سود کام کرنے والوں سے تعاون کیا جائے اور پوری دنیا میں جاری تحریکوں کو دہشت گرد اور بنیاد پرست کہہ کر بدنام کرنے سے گریز کیا جائے۔ فقہی سیمینار کا اختتام مولانا مفتی نظام الدین شامزئی کی دعا پر ہوا۔
الشریعہ اکادمی میں ماہانہ فکری نشست
۱۰ / اپریل ۲۰۰۲ء کو الشریعہ اکادمی کنگنی والا گوجرانوالہ میں ’دینی مدارس میں عربی زبان کی تدریس کا منہج‘ کے موضوع پر ایک علمی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں عربی زبان کے معروف ماہر تعلیم مولانا محمد بشیر سیالکوٹی نے اساتذہ وطلبہ سے خطاب کیا۔ مولانا نے اپنی گفتگو میں کہا کہ دنیا کی کسی بھی زبان کو مکمل طور پر سیکھنے کے لیے اس کو بولنے، سننے، پڑھنے اور لکھنے کی چار مہارتوں کا حاصل کرنا ضروری ہے جبکہ دینی مدارس میں عربی کی تعلیم اس حوالے سے بالکل ناقص ہے کیونکہ اس میں بولنے، سننے اور لکھنے کی تو سرے سے مشق ہی نہیں ہوتی جبکہ پڑھنے کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے۔ اس کے اسباب کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دینی مدارس میں عربی زبان کے قواعد اور لسانیات کے دقیق نکات ازبر کرانے پر تو بہت توجہ دی جاتی ہے لیکن ان قواعد کے عملی استعمال اور اجرا کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا جاتا۔ اسی طرح اس نصاب میں عربی پڑھنے کے لیے جس مواد کا انتخاب کیا گیا ہے، وہ دور قدیم کا اعلیٰ عربی ادب ہے جبکہ جدید نظم ونثر اور محاورات سے روشناس کرانے کے لیے کوئی کتاب شامل نصاب نہیں۔ مولانا نے مختلف عملی مثالوں سے اس نکتے کو واضح کیا کہ مواد کی تسہیل، مناسب درجہ بندی، زبان کے عملی استعمال اور جدید لسانی ذخیرہ کے حوالے سے عربی زبان کا موجودہ نصاب اور طریق تعلیم بالکل فرسودہ ہے اور اس کی اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے تجویز پیش کی کہ الشریعہ اکادمی میں عربی زبان کے اساتذہ کے لیے تربیتی کورسز کا اہتمام کیا جائے اور اس میں تعلیم اللغۃ کے جدید اسالیب کے ماہرین سے استفادہ کیا جائے۔
تعارف و تبصرہ
ادارہ
’’معارف اسلامی‘‘ (علمی وتحقیقی مجلہ)
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے کلیہ علوم عربی وعلوم اسلامیہ کی طرف سے ’’معارف اسلامی‘‘ کے نام سے ششماہی معیاری تحقیقی وعلمی مجلہ شائع کیا جاتا ہے جس کا جولائی تا دسمبر ۲۰۰۲ء کا شمارہ اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ اڑھائی سو سے زائد صفحات کا یہ ضخیم مجلہ اردو اور عربی میں مختلف عنوانات پر گراں قدر علمی مقالات پرمشتمل ہے جو مدیر مسؤل جناب ڈاکٹر علی اصغر چشتی اور ان کے رفقا کے حسن ذوق کا آئینہ دار ہے۔ اس کی قیمت ۱۰۰ روپے ہے۔
’’اسلامی زندگی‘‘
جمعیۃ علماء ہند کے نامور راہ نما اور مورخ مولانا سید محمد میاں قدس سرہ العزیز کے مختلف دینی اور معاشرتی مسائل پر مضامین کا مجموعہ مندرجہ بالا عنوان سے جمعیۃ پبلی کیشنز، مسجد پائلٹ سکول، وحدت روڈ لاہور نے شائع کیا ہے۔ صفحات ۱۴۲، معیاری طباعت، خوبصورت ٹائٹل، قیمت ۶۰روپے
’’اسلام اور بنیادی انسانی حقوق‘‘
دعوہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آبادکے ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد علوی نے انسانی حقوق کے حوالہ سے موجودہ عالمی مہم کا جائزہ لیا ہے اور اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ صفحات ۳۲، قیمت بیس روپے۔
’’حیلے اور بہانے‘‘
عام طور پر ہماری معاشرتی زندگی میں اسلامی احکام وتعلیمات پر عمل سے گریز کے لیے جو حیلے بہانے تراشے جاتے ہیں، حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری ؒ نے ان کا تفصیل کے ساتھ تذکرہ کیا ہے اور شرعی احکام کی وضاحت کی ہے ۔ صفحات ۱۲۰،کمپوزنگ وطباعت عمدہ، ملنے کا پتہ: مبین ٹرسٹ، پوسٹ بکس 470، اسلام آباد
’’حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی‘‘
حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدری ہمارے ملک کے نامور طبیبوں اور دانش وروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے متعدد ملی تحریکات میں سرگرم کردار ادا کیا۔ محترم ڈاکٹر انور سدید نے حکیم صاحب مرحوم کے حالات زندگی اور فکروجدوجہد کو اس کتاب میں خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ صفحات ۲۵۰، قیمت ۱۲۰روپے، ناشر: حق پبلی کیشنز، 2-Aسید پلازہ چیٹرجی روڈ، اردوبازار لاہور ۔
’’راز سخن‘‘
پسرور کے معروف استاد جناب قاضی عطاء اللہ نے قرآن کریم کا اردو میں منظوم ترجمہ ومفہوم پیش کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس کا پارۂ عم اس وقت ہمارے سامنے ہے جو ’’راز سخن‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ صفحات ۹۰، قیمت ۶۰روپے، ناشر: ادبی سبھا، ریلوے روڈ، پسرور
’’فضائل دعا‘‘ (جلد اول)
برطانیہ کے معروف بزرگ الحاج ابراہیم یوسف باوا رنگونی مختلف تبلیغی واصلاحی موضوعات پر وقتاً فوقتاً عام فہم تالیفات پیش کرتے رہتے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں انہوں نے دعا کی فضیلت واہمیت اور اس کے آداب وشرائط کے علاوہ اہم علمی نکات اور واقعات پر مبنی قابل قدر مواد یکجا کر دیا ہے۔ صفحات ۴۲۰، کتابت وطباعت عمدہ، پاکستان میں ملنے کاپتہ:حافظ عبد الرحیم میاں، ۱۱۱/ ایف ۳۔۲، ناظم آباد نمبر ۳، کراچی ۱۸
’’مستورات کی تبلیغی جماعت‘‘
تبلیغی جماعت کے جو بعض اقدامات اہل علم کے ہاں زیر بحث ہیں، ان میں سے ایک مستورات کی تبلیغی جماعت کا مسئلہ بھی ہے۔ اس کے جواز اور عدم جواز کے بارے میں معاصر اہل علم میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ جناب ابراہیم یوسف باوا اس کے عدم جواز کے قائل ہیں اور زیر نظر کتابچے میں انہوں نے اس موضوع پر اپنے نقطہ نظر کے حق میں دلائل اور اہل علم کی آرا وفتاویٰ کو جمع کیا ہے۔ صفحات۸۸، عمدہ طباعت وکتابت، ناشر:ادارہ اشاعت الاسلام، P.O. Box 36, Manchester M16 7AN (UK)
قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق جلانے کا مسئلہ
ادارہ
(گرجاکھ گوجرانوالہ میں قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق جلانے والے افراد کے خلاف توہین قرآن کے جرم کے تحت مقدمہ درج ہونے پر ایک قومی اخبار کے استفسار کا جواب)
قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق کو بے حرمتی سے بچانے کے لیے جلانا جائز ہے یا نہیں؟ اس پر ہمارے مفتیان کرامؒ میں اختلاف چلا آ رہا ہے۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء میں مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ سے یہ مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ:
’’محفوظ مقام میں دفن کر دینا بھی جائز ہے لیکن جلا دینا آج کل زیادہ بہتر ہے کیونکہ ایسا محفوظ مقام دستیاب ہونا مشکل ہے کہ وہاں آدمی یا جانور نہ پہنچ سکیں اور حضرت عثمانؓ کا مصاحف کو جلانا اس کے جواز کی دلیل ہے۔‘‘ (کفایت المفتی جلد ۱ صفحہ ۱۱۹)
جبکہ حضرت مولانا مفتی رشیداحمد لدھیانویؒ نے دارالعلوم کراچی کے مفتی کی حیثیت سے رجب ۱۳۷۲ھ میں اسی سوال پر یہ فتوٰی جاری کیا کہ:
’’قرآن کریم کے ناقابل انتفاع اوراق کو جاری پانی میں ڈال دیا جائے یا کہیں محفوظ جگہ پر دفن کر دیا جائے۔ جلانا جائز نہیں۔‘‘ (احسن الفتاویٰ جلد ۱، صفحہ ۱۶۴)
اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق کو بے حرمتی سے بچانے کے لیے کون سی صورت زیادہ بہتر ہے؟ جس مفتی صاحب نے جو صورت زیادہ بہتر سمجھی ہے، اس کے مطابق فتویٰ دے دیا ہے اور یہ اجتہادی مسئلہ ہے جس میں حالات کی مناسبت سے کوئی بھی صورت اختیار کی جا سکتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے قرآن کریم کے اوراق کو بے حرمتی سے بچانے کے لیے جلایا ہے تو کیا اس پر توہین قرآن کا الزام عائد ہو گا اور کیا وہ اس کی سزا کا مستحق ہے؟ یہ بات بہرحال محلِ نظر ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر اوراق جلانے والے کے بارے میں تحقیق سے یہ بات واضح ہو جائے کہ اس نے یہ کارروائی توہین کے ارادے سے نہیں بلکہ اوراق مقدس کو بے حرمتی سے بچانے کے لیے کی ہے تو اس پر توہین قرآن کا الزام عائد کرنا درست نہیں ہو گا، البتہ عرف کے حوالہ سے وہ بے احتیاطی کا مرتکب ضرور ہے اور اسے اسی مناسبت سے کچھ سزا بھی دی جا سکتی ہے۔
جولائی ۲۰۰۳ء
امریکہ کا حالیہ سفر اور چند تاثرات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مجھے گزشتہ ماہ کے دوران دو ہفتے کے لیے امریکہ جانے کا موقع ملا۔ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں اس سال سہ ماہی اور شش ماہی امتحان یکجا کر دیے گئے اور سال کے درمیان میں ایک ہی امتحان رکھا گیا جس کے بعد دو ہفتے کی چھٹیاں کر دی گئیں۔ میرے پاس امریکہ کا ویزا موجود تھا اس لیے میں نے اس سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ ۱۰ مئی ۲۰۰۳ء کو لاہور سے پی آئی اے کے ذریعے روانہ ہوا اور اسی روز ہیتھرو سے یونائیٹڈ ایئر کے ذریعے شام کو واشنگٹن جا پہنچا۔ اس سے قبل ۱۹۸۷ء سے ۱۹۹۰ء تک چار پانچ دفعہ امریکہ جا چکا ہوں اور امریکہ کے بہت سے شہروں میں مہینوں گھوما پھرا ہوں۔ اس کے بعد ویزے کی کوشش کرتا رہا مگر ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا حتیٰ کہ مئی ۲۰۰۱ء میں مجھے پانچ سال کے لیے ملٹی پل ویزا مل گیا مگر اس کے بعد ۱۱ ستمبر کے سانحہ کے باعث حالات میں ایسی تبدیلی آئی کہ خواہش کے باوجود امریکہ کا سفر نہ کر سکا اور اب تقریباً تیرہ سال کے بعد امریکہ کے مختصر سے مطالعاتی دورے کا موقع مل گیا۔
واشنگٹن میٹرو پولیٹن کے علاقے میں ڈمفریز کے مقام پر میرے ہم زلف محمد یونس صاحب سالہا سال سے بچوں سمیت قیام پذیر ہیں۔ ان کے ہاں قیام رہا جبکہ اس کے قریب سپرنگ فیلڈ میں دار الہدیٰ نامی ایک دینی مرکز میری دینی سرگرمیوں کا محور تھا۔ پیر طریقت حضرت مولانا حافظ غلام حبیب نقشبندی رحمہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ مجاز مولانا عبد الحمید اصغر اس مرکز کے منتظم ہیں۔ ان کا تعلق پاکستان سے ہے۔ انجینئر ہیں اور انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں استاذ رہے ہیں۔ ایک عرصہ سے واشنگٹن میں قیام پذیر ہیں۔ پہلے الیگزینڈریا کے علاقے میں کرایے کے مکان میں دینی مرکز قائم کر کے کام کر رہے تھے، اب سپرنگ فیلڈ میں ایک بلڈنگ خرید کر وہاں ۱۹۹۴ء سے مصروف کار ہیں۔ جامع مسجد ہے، اس کے ساتھ مقامی بچوں اور بچیوں کے لیے سکول ہے اور قرآن کریم اور عربی کی تعلیم کا بھی نظم ہے۔ میں نے واشنگٹن کے قیام کے دوران میں دونوں جمعے وہیں پڑھائے اور جتنے دن رہا، مغرب کے بعد سیرت النبی ﷺ پر بیان ہوتا رہا۔
اس دوران میں دو روز کے لیے نیو یارک اور ایک روز کے لیے بفیلو جانے کا موقع ملا۔ نیو یارک کے کوئینز کے علاقے میں بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے علماء کرام نے مولانا مفتی روح الامین کی قیادت میں ’’دار العلوم نیو یارک‘‘ کے نام سے دینی درس گاہ قائم کر رکھی ہے۔ وہاں ایک عوامی تقریب میں شرکت ہوئی اور بہت سے پرانے دوستوں سے ملاقات ہو ئی۔ اس موقع پر یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ دار العلوم میں درس نظامی کے نصاب کی باقاعدہ تعلیم ہوتی ہے اور اس سال حفظ کے شعبہ میں گیارہ بچوں نے قرآن کریم حفظ مکمل کیا ہے۔ دوسرے روز بروک لین کی مکی مسجد میں مغرب کے بعد درس ہوا اور مسجد کے خطیب حافظ محمد صابر صاحب کے گھر میں سرکردہ دوستوں سے ملاقات اور تبادلہ خیالات کی ایک نشست ہوئی۔
میرے ایک پرانے دوست اور جمعیۃ علماء اسلام کے سابق مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا عبد الرزاق عزیز کچھ عرصہ سے نیو یارک کے علاقہ لانگ آئی لینڈ میں ایک دینی مرکز سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان کے ہاں حاضری ہوئی اور انہوں نے جزیرے کی خوب سیر کرائی۔
بفیلو نیاگرا آبشار کے قریب امریکہ کا سرحدی شہر ہے جہاں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی کے خلیفہ مجاز محترم ڈاکٹر محمد اسماعیل میمن صاحب نے دار العلوم مدنیہ کے نام سے ایک بڑا دینی مرکز قائم کر رکھا ہے۔ طالبات کا شعبہ ہے جہاں ایک سو کے لگ بھگ طالبات ہاسٹل میں رہتی ہیں اور درس نظامی کے ساتھ ساتھ سکول کی مروجہ تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ دورۂ حدیث بھی ہوتا ہے۔ طلبہ کے ہاسٹل میں سو کے لگ بھگ طلبہ رہتے ہیں اور شعبہ حفظ اور درس نظامی کے ابتدائی درجات کی تعلیم ہوتی ہے۔ ایک بڑا چرچ خرید کر انہوں نے اس میں حضرت شیخ کے نام پر ’’مسجد زکریا‘‘ بنائی تھی جو ۱۱ ستمبر کے سانحہ کے بعد نذر آتش کر دی گئی اور اب اس کی دوبار ہ تعمیر ہو رہی ہے۔ جوہر آباد خوشاب سے تعلق رکھنے والے ہمارے پرانے دوست جناب محمد اشرف صاحب کے ہمراہ بفیلو جانے اور ڈاکٹر میمن صاحب کے اداروں اور کام کو دیکھنے کا موقع ملا اور بہت خوشی ہوئی کہ ۱۱ ستمبر کے سانحہ کے بعد رونما ہونے والے واقعات اور تبدیلیاں اہل دین کے کام اور عزم کو متاثر نہیں کر سکیں اور اگرچہ اس سانحہ کے اثرات سے امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کا کوئی طبقہ محفوظ نہیں رہا لیکن مشکلات ومصائب میں اضافے کے باوجود اہل دین کا سفر جاری ہے اور دعوت وتبلیغ کے ساتھ ساتھ تعلیم واصلاح کے شعبوں میں ان کا کام نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں بحمد اللہ تعالیٰ مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکہ کے تیرہ سال قبل کے اسفار میں اپنے ایجنڈے کے دو پہلوؤں پر میں نے کام شروع کیا تھا جو ادھورا رہ گیا تھا۔ اسی کو آگے بڑھانے کے لیے بار بار امریکہ جانے کی کوشش کرتا رہا اور اب بھی وہاں جانے کے مقاصد میں ایک اہم مقصد اس ایجنڈے میں پیش رفت کے امکانات کا جائزہ لینا تھا مگر بات امکانات کا جائزہ لینے تک محدود رہی اور دو ہفتے کی ملاقاتوں اور حالات کے مطالعہ کے بعد صرف اس قدر اطمینان حاصل کر سکا کہ پیش رفت کے امکانات بالکل معدوم نہیں ہوئے اور اگر تھوڑی سی محنت ہو جائے تو اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوئی نہ کوئی صورت ضرور نکل آئے گی۔ ان میں سے ایک بات تو یہ تھی کہ غالباً ۱۹۸۹ء میں امریکی ریاست اٹلانٹا کے ایک اہم مسیحی مذہبی راہ نما سے ملاقات کر کے میں نے ان سے گزارش کی تھی کہ آسمانی تعلیمات سے بے زاری اور وحی الٰہی کی راہ نمائی سے دست برداری کے موجودہ عالمی ماحول میں خاندانی نظام، شراب وسود، رقص وسرود، ہم جنس پرستی اور دیگر بہت سے حوالوں سے جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف اسلامی تعلیمات سے متصادم نہیں ہے بلکہ بائبل کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے اور انسانی سوسائٹی کو آسمانی تعلیمات سے انحراف کے اس عالمی رجحان سے نکالنے کی کوشش کرنا مسلم علما کے ساتھ ساتھ مسیحیت کے مذہبی راہ نماؤں کی بھی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے میری اس گزارش سے اتفاق کیا تھا اور ہم دونوں نے آئندہ تبادلہ خیالات جاری رکھنے کا ایک دوسرے سے وعدہ کیا تھا مگر اس کے بعد اس کی نوبت نہ آ سکی۔ میری خواہش اور کوشش ایک عرصہ سے چلی آ رہی ہے کہ مسیحیت کے سنجیدہ راہ نماؤں کے ساتھ اس رخ پر بات کی جائے اور انسانی سوسائٹی کو آسمانی تعلیمات کی طرف رجوع پر آمادہ کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی کوئی صورت نکالی جائے۔ برطانیہ کے بعض مسیحی مذہبی راہ نماؤں سے بھی اس مسئلہ پر میری گفتگو ہوئی ہے اور میں نے انہیں بھی اس معاملہ میں فکر مند پایا ہے۔ میری خواہش تو پاکستان کے مسیحی پادری صاحبان سے بات چیت کی بھی ہے مگر وہ این جی اوز کے جال میں اس بری طرح سے جکڑے ہوئے ہیں کہ ان میں سے کسی کے قریب جانے سے خود اپنے جکڑے جانے کا ڈر محسوس ہونے لگتا ہے۔ اس بارمیں چاہتا تھا کہ کسی سنجیدہ مسیحی راہ نما سے ملاقات ہو اور اس سلسلے میں ان سے گفتگو ہو مگر حالات کے تناؤ میں ابھی اس قدر کمی نہیں ہوئی کہ اس خواہش کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا اس لیے اسے کسی اگلے سفر کے لیے موخر کرنا ہی قرین مصلحت قرار پایا۔
دوسری بات یہ بھی ہے کہ امریکی دستور میں یہودیوں نے مسلسل محنت کے بعد اپنے لیے ایک سہولت حاصل کر رکھی ہے کہ وہ ایک خاص طریقہ کار کے تحت خاندانی قوانین اور مالیاتی معاملات میں اپنی کمیونٹی کے لیے الگ عدالتی نظام قائم کر سکتے ہیں جو ان کے مذہبی قوانین کے مطابق فیصلے کرنے کا مجاز ہے اور اس کے فیصلوں کا سپریم کورٹ تک میں احترام کیا جاتا ہے۔ یہ سسٹم چونکہ مذہبی اقلیتوں کے عنوان سے ہے، اس لیے مسلمان بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن الجھن یہ ہے کہ ایک تو امریکی مسلمانوں کی اکثریت اس دستوری سہولت اور حق سے بے خبر ہے اور دوسرے یہ کہ مسلم کمیونٹی میں اس قدر ہم آہنگی اور اشتراک کار نہیں ہے کہ وہ کوئی مشترکہ نظام اور طریق کار اس سلسلے میں طے کر سکیں۔
گزشتہ اسفار کے دوران میں، میں نے متعدد اجتماعات میں یہ مسئلہ اٹھایا تھا اور بہت سے مسلم راہ نماؤں نے میری اس گزارش سے اتفاق کیا تھا کہ امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کو اس دستوری حق اور سہولت سے محروم نہیں رہنا چاہیے اور اسے بروے کار لانے کے لیے مشترکہ اور سنجیدہ محنت کا آغاز ہونا چاہیے۔ حالیہ سفر میں ا س مسئلہ پر مولانا عبد الحمید اصغر سے تفصیلی بات ہوئی۔ انہیں اس سلسلے میں باخبر اور فکر مند پایا اور آئندہ کسی سفر کے موقع پر ان کے ساتھ اس حوالے سے پیش رفت کے پروگرام کا ہلکا پھلکا سا نقشہ بھی طے ہوا۔
بہرحال ان سرگرمیوں اور اس قسم کے جذبات کے ساتھ ۲۴ مئی کو واشنگٹن سے واپسی ہوئی۔ ۲۵ مئی کو لندن پہنچا، حسب معمول ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے اہم احباب کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کر رکھا تھا۔ ملاقات ہوئی، مختلف مسائل پر تبادلہ خیالات ہوا۔ اس کے بعد برمنگھم، نوٹنگھم، مانچسٹر اور برنلے جانے کا بھی اتفاق ہوا۔ بہت سے دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور کم وبیش چار دن برطانیہ میں گزارنے کے بعد پروگرام کے مطابق ۲۹ مئی کو گوجرانوالہ واپس پہنچ گیا۔
نبوی سفرا کی دعوتی سرگرمیاں
پروفیسر محمد اکرم ورک
اسلام تمام انسانیت کا دین ہے جس کے مخاطب پوری دنیا کے انسان ہیں۔ رسول اللہ ﷺسے پہلے جتنے بھی انبیا ورسل اس دنیا میں تشریف لائے، ان کی رسالت خاص تھی اور ان کی نبوت اپنی قوم اور قبیلے تک محدود تھی۔ اس کی دلیل تحریف شدہ بائبل کے اندر اب بھی موجود ہے۔ مثلاً ایک عورت نے جب حضرت مسیح ؑ سے برکت چاہی تو آپؑ نے فرمایا:
’’میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا کسی اور کے پاس نہیں بھیجا گیا‘‘۔(۱)
اسی طرح حضرت عیسیٰ ؑ نے جب بارہ نقیب مقرر فرمائے اور ان کو مختلف علاقوں کی طرف دعوت وتبلیغ کے لیے روانہ فرمایا تو بطور خاص ان کو تلقین فرمائی:
’’غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا‘‘۔(۲)
یہ امتیاز صرف رسالتِ محمدی ﷺ کوہی حاصل ہے کہ آپ کی بعثت روے زمین کی ہر قوم اور ہر جنس کے لیے ہوئی۔ قرآن مجید اور کتب احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔ (۳) چنانچہ صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہﷺ کو کچھ اطمینان نصیب ہوا اور مشرکین مکہ سے محاذ آرائی کا سلسلہ وقتی طور پر بند ہوگیا تو آپﷺنے اسلام کی آفاقی دعوت کو اطراف واکنافِ عالم میں پھیلانے کافیصلہ کیا۔ ایک دن رسول اکرمﷺ اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے، صحابہ کرامؓ جمع تھے۔ آپﷺ نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا:
’’انی بعثت رحمۃ وکافّۃ فأدوا عنی یرحمکم اللّٰہ ولا تختلفوا علیّ کاختلاف الحواریین علی عیسیٰ بن مریم قالوا: ’’یارسول اللّٰہﷺ وکیف کان اختلافھم‘‘قالﷺ:’’دعا الی مثل مادعوتکم الیہ فاما من قرب بہ فأحب وسلم وأما من بعد بہ فکرہ وأبیٰ، فشکا ذالک منھم عیسیٰ الی اللّٰہ فاصبحوا من لیلتھم تلک وکل رجل منھم یتکلم بلغۃ القوم الذین بعث الیھم فقال عیسیٰ ؑ ھذا امر قد عزم اللّٰہ لکم علیہ فامضوا(۴)
’’میں تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجاگیا ہوں۔ تم میر ی دعوت کوتمام دنیامیں پھیلاؤ اور میرے بارے میں ایسا اختلاف نہ کرو جیسا کہ حواریوں نے عیسیٰ ؑ بن مریم کے بارے میں کیاتھا ۔صحابہؓ نے عرض کیا: انہوں نے کیا اختلاف کیا تھا؟آپ نے فرمایا: عیسیٰ ؑ نے ان کو وہی دعوت دی تھی جو میں نے تم کو دی ہے۔ جوقریب تھے، انہوں نے اس دعوت کو پسند کرکے قبول کرلیا اور جو دور تھے، انہوں نے ناپسند کیا اور اسے مسترد کردیا۔ عیسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے شکایت کی(اس کی سزا ان کویہ ملی کہ)اس رات سے ان میں ہر شخص صرف وہ زبان بولنے لگا جس کے پاس وہ دعوتِ دین کے لیے بھیجاگیا تھا ۔اس پر عیسیٰ ؑ نے فرمایا: اب تو اللہ یہی فیصلہ تمہارے متعلق کرچکا ہے،اسی پرعمل کرو‘‘۔
ابنِ سعد کی روایت ہے : صبح ہوئی تو رسول اللہﷺ کے سفرا ان لوگوں کی زبان بولنے لگے جن کی طرف انہیں بھیجا گیا۔ (۵) یہ معجزاتی واقعہ حضرت مسیح کے حواریوں کے ساتھ پیش آیا ہو یارسول اللہ ﷺ کے سفرا کے ساتھ یا دونوں ہی کی اللہ تعالیٰ نے غیب سے اس سلسلہ میں مدد کی ہو، اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ کسی سے اس کی زبان میں خطاب کیاجائے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے دوسری زبانیں سیکھنے کی ترغیب دی اور صحابہ کرامؓ نے یہ زبانیں سیکھیں۔
بہرحال رسول اللہ ﷺنے حکمِ باری تعالیٰ: ’’یَااَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ‘‘(۶) (اے رسول ﷺجو تمہارے رب کی طرف سے تجھ پر نازل کیاگیا ہے، اس کو پہنچادو) کی تکمیل کرتے ہوئے مختلف سفرا کو خطوط دے کر شاہانِ عالم کے پاس بھیجا، تاکہ وہ ان کو اللہ تعالیٰ کے آخری دین کی طرف بلائیں۔ اس مقصد کے لیے آپﷺنے وسیع دینی معلومات اور سفارت کاری کاتجربہ رکھنے والے افراد کا انتخاب فرمایا۔نبوی پیغامات اور دعوتی خطوط کامطلوبہ افراد تک پہنچانا اگرچہ بذاتِ خود ایک دعوتی وتبلیغی عمل ہے اور اگر اس حوالے سے مآخذ کا مطالعہ کیاجائے تو نبوی سفرا کی تعداد کسی طرح بھی چالیس سے کم نہیں بنتی، تاہم سطورِ ذیل میں صرف ان سفرا کا ذکر کیا جارہاہے جنہوں نے رسول اللہﷺ کے پیغامات اور دعوتی خطوط سے ہٹ کر اپنے قول وفعل اور عمل سے بھی لوگوں کو متاثر کیا اور اسلام کی طرف بلایا۔
عمروؓ بن امیۃ الضمری/ رسول اللہﷺکا گرامی نامہ شاہِ حبش کے نام
محرم ۷ ھ میں رسول اللہﷺنے شاہِ حبش کے نام ایک دعوتی مکتوب ارسال فرمایا ۔بارگاہِ رسالت کے سفیر عمروؓ بن امیہ الضمری جب شاہِ حبش کے دربار میں پہنچے تومکتوب گرامی نجاشی کی خدمت میں پیش کیا اور حسبِ ذیل اثر انگیز تقریر کی:
’’شاہِ ذی جاہ! میرے ذمہ حق کی تبلیغ ہے اور آپ کے ذمہ حق کی سماعت۔کچھ عرصے سے ہم پر آپ کی شفقت ومحبت کا یہ حال ہے کہ گویا آپ اور ہم ایک ہی ہیں۔ ہمیں آپ کی ذات پر اس قدر اطمینان ہے کہ ہم آپ کو کسی طرح اپنی جماعت سے علیحدہ نہیں سمجھتے ۔ حضرت آدمؑ کی ولادت ہماری طرف سے آپ پر حجت قطعی ہے۔ جس قدرت کے کرشمہ ساز ہاتھوں نے حضرت آدم ؑ کو بغیر والدین کے پیدا کردیا، اسی نے حضرت عیسیٰ ؑ کوبغیر باپ کے بطنِ مادر سے پیدا کیا ہے۔ ہمارے اور آپ کے درمیان انجیل سب سے بڑی شہادت ہے۔ اسی نبی رحمت ﷺکی پیروی میں خیروبرکت کاورود اور فضیلت وبزرگی کا حصول ہے۔
شاہِ عالی جاہ! اگرآپ نے محمد رسول اللہﷺ کا اتباع نہ کیا تو اس نبی امی کا انکار آپ کے لیے وبالِ جان ہوگا جس طرح عیسیٰ ؑ کا انکار یہود کے حق میں وبالِ جان ثابت ہوا۔ میری طرح رسول اللہﷺ کی جانب سے بعض دیگر اشخاص مختلف بادشاہوں کے پاس دعوتِ اسلام کے لیے قاصد بناکر بھیجے گئے ہیں مگر سرورِ عالمﷺ کو جو امید آپ کی ذات سے ہے، دوسروں سے نہیں۔آپ سے اس بارے میں پورا اطمینان ہے کہ آپ اپنے اور خدا کے درمیان اپنی گزشتہ نیکی اور آئندہ کے اجر وثواب کا خیال رکھیں گے‘‘۔
کچھ عرصہ قبل حضرت جعفر طیار‘ؓ کی معجز بیانی سے نجاشی اسلام کی دعوت سے واقف ہوچکا تھا۔ نبوی قاصد کی اس پُراثر تقریر نے اس کے سینے میں اسلام کو راسخ کردیا، چنانچہ نجاشی ان سے مخاطب ہوکر بولا:عمروؓ! بخدا میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ خدا کے وہی برگزیدہ رسول ہیں جن کی آمد کا ہم اور یہود انتظار کررہے تھے۔نجاشی تختِ شاہی سے نیچے اتر آیا، اور نامۂ مبارک کو ہاتھ میں لے کر تعظیماً آنکھوں سے لگایا۔ (۷)
دحیہ کلبیؓ /رسول اللہﷺ کا گرامی نامہ قیصر روم کے نام
قیصر روم کو گرامی نامہ پہنچانے کے لیے دحیہؓ بن خلیفہ کلبی کاانتخاب ہوا۔حضرت دحیہؓ نے ہرقل کورسول اللہﷺ کایہ دعوتی خط اس وقت پیش کیا جب وہ ایرانیوں کو فیصلہ کن شکست دینے کے بعد اظہارِ تشکر کے طورپر بیت المقدس آیا ہوا تھا۔ اگرچہ ہرقل پر اسلام کی حقانیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکی تھی ،تاہم حکومت اور بادشاہت کے لالچ نے اس کو اسلام سے محروم رکھا۔ لیکن حضرت دحیہؓ کی دعوت پر اسقف ضغا طرنے اسلام قبول کرلیااور رومیوں کے سامنے، جو گرجے میں جمع تھے، اپنے اسلام کا اظہار کرنے کے بعد ان کو بھی اسلام کی دعوت دی ،لیکن انہوں نے ان کو حملہ کرکے شہید کردیا۔ اس افسوس ناک واقعہ کے بعد حضرت دحیہؓ قیصر کی طرف سے ملنے والے تحائف کے ہمراہ واپس تشریف لے آئے۔ (۸)
حاطبؓ بن ابی بلتعہ /مقوقس شاہِ مصر کے نام مکتوبِ گرامی
بارگاہِ رسالت سے مصر کی سفارت کے لیے حاطبؓ بن ابی بلتعہ مامور ہوئے ۔وہ مسافت طے کرتے ہوئے اسکندریہ پہنچے اور مقوقسِ مصر* کے سامنے مکتوب گرامی پیش کیا ۔ابن الاثیر کی روایت ہے کہ مقوقس نے حضرت حاطب کو اپنے پاس بلوایااور ان کے درمیان حسبِ ذیل مکالمہ ہوا:
مقوقس : اخبرنی عن صاحبک ألیس ھو نبیاً ؟
’’مجھ سے اپنے صاحب کے بارے میں بیان کرو، کیا وہ نبی نہیں ہیں؟‘‘
حاطبؓ: بلی! ھو رسول اللّٰہ ﷺ۔
’’ہاں! بیشک وہ اللہ کے رسول ﷺہیں۔‘‘
مقوقس: فمالہ لم یدع علی قومہ حیث اخرجوہ من بلدتہ؟
’’پھر انہوں نے اپنی قوم پر بددعا کیوں نہیں کی جب ان کی قوم نے ان کوان کے شہر سے نکالا؟‘‘
حاطبؓ: فعیسی ابن مریم! أتشھد انہ رسول اللّٰہ ﷺفمالہ حیث اراد قومہ صلبہ لم یدع علیھم حتی رفعہ اللّٰہ؟
’’عیسیٰ بن مریم کی نسبت تو آپ خود کہتے ہیں کہ وہ خدا کے رسول تھے ۔پھر جب ان کوان کی قوم نے سولی دینے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کیوں نہ انہیں بد دعادی، یہاں تک کہ ان کو اللہ نے آسمان پر اٹھا لیا؟‘‘
مقوقس: احسنت ! انت حکیم جاء من عند حکیم
’’تم نے اچھا جواب دیا۔ تم ایک دانا آدمی ہو اور ایک دانا آدمی کے پاس سے آئے ہو۔‘‘ (۹)
ابن قیمؒ نے اس کے علاوہ مقوقس اور حاطبؓبن ابی بلتعہ کے درمیان ہونے والے ایک اور مکالمہ کابھی ذکر کیاہے۔ حاطبؓ جب مقوقس کے دربار میں پہنچے تو حسبِ ذیل مکالمہ ہوا:
حاطبؓ: ’’(اس زمین پر )تم سے پہلے ایک شخص (فرعون )گزرا ہے جو اپنے آپ کو رب اعلیٰ سمجھتا تھا۔ اللہ نے اسے آخر واول کے لیے عبرت بنادیا۔پہلے تواس کے ذریعہ لوگوں سے انتقام لیا، پھر خود اس کو انتقام کانشانہ بنایا لہٰذا دوسروں سے عبرت پکڑو،ایسا نہ ہوکہ دوسرے تم سے عبرت پکڑیں‘‘۔
مقوقس: ’’ہمارا ایک دین ہے جسے ہم چھوڑ نہیں سکتے جب تک کہ اس سے بہتر دین نہ مل جائے‘‘۔
حاطبؓ: ’’ہم تمہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے تمام ماسوا(ادیان )کے بدلے کافی بنادیاہے۔ دیکھو!اسی نبی ؐ نے لوگوں کو(اسلام کی) دعوت دی تو اس کے خلاف قریش سب سے زیادہ سخت ثابت ہوئے،یہود نے سب سے بڑھ کر دشمنی کی اور نصاریٰ سب سے زیادہ قریب رہے۔میری عمر کی قسم! جس طرح موسیٰؑ نے عیسیٰ کے لیے بشارت دی تھی ،اسی طرح حضرت عیسیٰ ؑ نے محمد ﷺکے لیے بشارت دی ہے، اور ہم تمہیں قرآن مجید کی دعوت اسی طرح دیتے ہیں جیسے تم اہلِ تورات کوانجیل کی دعوت دیتے ہو۔جونبی جس قوم کو پاجاتا ہے، وہ قوم اس کی امت ہوجاتی ہے اور اس پرلازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس نبی کی اطاعت کرے،اور تم نے اس نبی کا عہد پالیا ہے،اور پھر ہم تمہیں دینِ مسیح سے روکتے نہیں ہیں بلکہ ہم تو اسی کاحکم دیتے ہیں‘‘۔
مقوقس: ’’میں نے اس نبیﷺ کے معاملہ پر غو رکیاتو میں نے دیکھا کہ وہ کسی ناپسندیدہ بات کا حکم نہیں دیتے اور کسی پسندیدہ بات سے منع نہیں کرتے۔وہ نہ گمراہ جادو گر ہیں نہ جھوٹے کاہن،بلکہ میں دیکھتاہوں کہ ان کے ساتھ نبوت کی یہ نشانی ہے کہ وہ پوشیدہ کو نکالتے ہیں اورسرگوشی کی خبر دیتے ہیں۔ میں مزید غورکروں گا‘‘۔ (۱۰)
عبداللہؓ بن حذافہ سہمی/نامۂ رسولﷺشاہِ فارس کے نام
رسول اللہﷺکے قاصد عبداللہؓ بن حذافہ سہمی جب فارس پہنچے تو انہوں نے آپﷺ کا دعوتی مکتوب شاہِ فارس خسرو پرویز کے سامنے پیش کیا۔ (۱۱) شاہِ فارس رسول اللہﷺ کے نامہ مبارک کے آزادانہ لہجے،اس کے بے باکانہ ایجاز اور صاف گویانہ انداز کو دیکھ کر دنگ رہ گیا،پھر طیش میں آکر نبویؐ مکتوب کو چاک کردیا اور غضبناک لہجے میں گرج کر بولا:
یکتب الی ھذا وھو عبدی (۱۲)
ہمارے غلام کی یہ جرأ ت کہ ہمارے نام اس طرح خط لکھا؟
یزید بن ابی حبیب کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کو اس حرکت کا علم ہوا تو فرمایا:
’’اسی طرح اس کی حکومت کے پرزے پرزے ہوجائیں گے‘‘۔
پھر کسریٰ نے والئ یمن باذان کو لکھا کہ اس شخص کو گرفتار کرکے میرے پاس لایاجائے۔(۱۳)
رسول اللہ ﷺکے سفیرحضرت عبداللہؓ بن حذافہ یہ ساری صورتحال دیکھ رہے تھے چنانچہ وہ نہایت تحمل،متانت اور سنجیدگی کے ساتھ اہلِ دربار سے یوں مخاطب ہوئے:
’’اے اہلِ فارس! عرصۂ دراز سے تمہاری زندگی ایسی جہالت میں گزر رہی ہے کہ نہ تمہار ے پاس خدا کی کتاب ہے اور نہ کوئی اللہ کا رسول تمہارے یہاں مبعوث ہوا ہے۔ جس سلطنت پر تمہیں گھمنڈ ہے، وہ خدا کی زمین کا بہت مختصر ٹکڑا ہے۔ دنیا میں اس سے کہیں زیادہ بڑی بڑی حکومتیں موجود ہیں‘‘۔
اور پھر بادشاہ سے مخاطب ہوکر کہا!
’’آپ سے پہلے بہت سے بادشاہ گزرے ہیں،ان میں سے جس نے آخرت کو اپنا منتہائے مقصود سمجھا، وہ دنیا سے اپنا حصہ لے کر بامراد گیا اور جس نے دنیا کو مقصود بنایا، اس نے آخرت کے اجر کو ضائع کردیا۔افسوس کہ میں نجات وفلاح کے جس پیغام کولے کر آیا ہوں ،آپ نے اسے حقارت سے دیکھا ،حالانکہ آپ کومعلوم ہے کہ یہ پیغام ایسی جگہ سے آیا ہے جس کاخوف آپ کے دل میں موجود ہے۔ یاد رہے کہ حق کی آواز آپ کی تحقیر سے دب نہیں سکتی،،۔(۱۴)
حضرت عبداللہ بن حذافہؓ اہلِ دربار کو یہ تنبیہ کرکے دربارسے چلے آئے۔
شجاع ؓ بن وہب الاسدی /رئیس دمشق کے نام گرامی نامہ
شام کے مشہور اور تاریخی شہر دمشق پر حارث غسانی حکمران تھا۔دمشق کی سفارت شجاع ؓ بن وہب الاسدی کے سپردہوئی ۔شجاع ؓ نے یہ خط منذر کو پڑھ کر سنایا۔ اس نے نہ صرف قبول اسلام سے انکار کردیا بلکہ رسول اللہ ﷺسے مقابلہ کرنے کا بھی اعلان کیا اور آخر موتہ اور تبوک وغیرہ کی لڑائیاں پیش آئیں۔ (۱۵)
ابنِ سعد کی روایت ہے کہ جب شجاع ؓ بن وہبؓ رسول اللہﷺ کا خط لے کر دمشق پہنچے تو معلوم ہوا کہ قیصر روم بیت المقدس کی زیارت کے لیے جارہا ہے اس لیے حارث غسانی اس کے انتظام وانصرام میں مصروف ہے،چنانچہ ان فارغ اوقات میں شجاع ؓ بن وہب نے اہلِ دربار میں دعوت کے کام کو جاری رکھا اور بالآ خر ان کی کوششوں سے حارث غسانی کے ایک درباری نے اسلام قبول کرلیا۔(۱۶)
علاءؓ بن الحضرمی/منذر بن ساویٰ کے نام مکتوبِ گرامی
رسول اللہ ﷺنے ایک دعوتی خط منذر بن ساویٰ حاکم بحرین کی طرف روانہ فرمایا۔سفارت کی ذمہ داری علاءؓ بن الحضرمی نے ادا کی۔چنانچہ خود منذر اور اس کی رعایا میں سے بھی کثیر لوگوں نے اسلام قبول کرلیااور بارگاہِ رسالت میں خراج بھیجا۔ ابنِ حبیب کی روایت ہے کہ مدینہ میں سب سے پہلے حاکم بحرین ہی نے خراج بھیجا تھا۔(۱۷)
عمروؓ بن العاص /شاہ عمان کے نام خط
رسول اللہ ﷺنے ایک خط شاہِ عمان جیفر اور اس کے بھائی عبد کے نام لکھا ۔ان دونوں کے والد کانام جلندی تھا۔ ایلچی کی حیثیت سے عمروؓ بن العاص کا انتخاب عمل میں آیا ،چنانچہ انہوں نے عمان پہنچ کر دونوں بھائیوں کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔(۱۸)
ابنِ قیم نے عمروؓ بن العاص اور عبد بن جلندی کے درمیان ہو نے والا ایک مکالمہ بھی نقل کیاہے، جس سے عمروؓ بن العاص کی ان دعوتی کوششوں کا حال معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے کس طرح بڑی کامیابی سے ان دونوں بھائیوں کو اسلام کاقائل کرلیا، چنانچہ جب عمرؤؓوہاں پہنچے تو پہلے عبد سے ملے جو زیادہ دوراندیش اور نرم خو تھا اور پھر دونوں کے درمیان حسبِ ذیل مکالمہ ہوا:
عبد: ’’تم کس بات کی دعوت دیتے ہو؟‘‘
عمروؓ: ’’ہم ایک اللہ کی طرف بلاتے ہیں ،جوتنہا ہے ،جس کا کوئی شریک نہیں اور ہم کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ جس کی پوجا کی جاتی ہے، اسے چھوڑ دو اور یہ گواہی دو کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں‘‘۔
عبد: ’’اے عمروؓ!تم اپنی قوم کے سردار کے بیٹے ہو۔ بتاؤ ،تمہارے والد نے کیاکیا؟کیونکہ ہمارے لیے اس کا طرزِ عمل لائق اتباع ہوگا‘‘۔
عمروؓ: ’’وہ محمد ﷺ پر ایمان لائے بغیر وفات پاگئے،لیکن مجھے حسرت ہے کہ کاش انہوں نے اسلام قبول کرلیاہوتااور آپﷺ کی تصدیق کی ہوتی۔میں خود بھی انہیں کی رائے پر تھا لیکن اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت دے دی‘‘۔
عبد: ’’اچھا مجھے بتاؤ وہ کس بات کا حکم دیتے ہیں اور کس چیز سے منع کرتے ہیں؟ ‘‘
عمروؓ: ’’اللہ عز وجل کی اطاعت کاحکم دیتے ہیں اور اس کی نافرمانی سے منع کرتے ہیں۔نیکی ،صلہ رحمی کاحکم دیتے ہیں۔ ظلم وزیادتی ،زناکاری،شراب نوشی اور پتھر ،بت اور صلیب کی عبادت سے منع کرتے ہیں‘‘۔
عبد: ’’یہ کتنی اچھی بات ہے جس کی طرف بلاتے ہیں‘‘۔
بالآخر دونوں بھائیوں عبد اور جیفر نے اسلام قبول کرلیا۔ (۱۹)
خلاصۂ بحث
نبویؐ سفرا کی ان دعوتی سرگرمیوں کے نتیجہ میں رسول اللہﷺ کا پیغام روے زمین کے بیشتر حکمرانوں اور بادشاہوں تک پہنچ گیا۔ رسول اللہ ﷺکے دعوتی خطوط اور صحابہ کرامؓ کی سفارت کاری کے نتیجہ میں کوئی ایمان لایا تو کسی نے کفر اختیار کیا،لیکن اتنا ضرور ہوا کہ کفر کرنے والوں کی توجہ بھی اسلام کی طرف مبذول ہوگئی اور ان کے نزدیک رسول اللہ ﷺکا دین او رآپﷺکانام ایک جانی پہچانی چیز بن گئی۔صحابہ کرامؓ نے شاہانِ عالم کو دعوت دیتے وقت جو اسلوب اختیار کیا، اس کی چند جھلکیاں مذکورہ سطور میں دیکھی جاسکتی ہیں۔مثلاً :
۱۔ رسول اللہ ﷺکی بعثت عام ہے اور آپ کی دعوت ہر قوم ،زمانے اور نسل کے لوگوں کے لیے ہے۔
۲۔ داعی اگر مخاطب کے منصب اور مقام ومرتبہ کا پوری طرح لحاظ کرتے ہوئے دعوت کا فریضہ انجام دے تو ایسی دعوت زیادہ موثر ہوگی اور مخاطب داعی کی بات کوزیادہ توجہ اور انہماک سے سنے گا۔ نبویؐ سفرا کا مخاطب کو’’اے بادشاہ‘‘ اور ’’شاہِ ذی جاہ‘‘وغیرہ کے الفاظ سے مخاطب کرنا اسی اسلوبِ دعوت کی طرف اشارہ ہے۔
۳۔ دعوت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ مخاطب سے بحث ومباحثہ سے حتی الامکان احتراز کیا جائے، لیکن اگر مخاطب بحث پر ہی مصر ہو تو داعی کا فرض ہے کہ وہ دورانِ گفتگو شائستگی کے دامن کو ہاتھ سے نہ جانے دے ۔لہجے کی شائستگی اور دلیل کے ساتھ بات کرنا ایسا اسلوب دعوت ہے جس سے نہ صرف مخاطب کو لاجواب کیاجاسکتاہے بلکہ اس کو اعترافِ حقیقت پر بھی مجبور کیا جاسکتاہے، جیسا کہ حضرت حاطبؓ نے مقوقس شاہ مصر کو مضبوط دلائل سے لاجواب کردیا تو مقوقس نے حضرت حاطبؓ اور ان کی دعوت کو ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا:
انت حکیم جاء من عند حکیم
تم دانا ہو اور ایک دانا کے پاس سے آئے ہو۔
۴۔ داعی کافرض ہے کہ دعوت اور مخاطب کے عقائد وافکار کے درمیان قدر مشترک تلاش کرے اور ان کی درست باتوں کو دعوت کی بنیاد بنائے۔ اگر اس اسلوبِ دعوت کو اختیار کیا جائے تو مخاطب کو دعوت سے مانوس کرنے میں مدد ملتی ہے اور مخاطب سمجھتاہے کہ جو دعوت اس کو پیش کی جارہی ہے، وہ کوئی نئی چیزنہیں ہے اور نہ ہی اس سے کسی اجنبی چیز کو مان لینے کا مطالبہ کیاجارہا ہے۔ حضرت حاطبؓ کامقوقس کو یہ کہنا:’’ہم تمہیں دین مسیح سے روکتے نہیں بلکہ ہم تو اسی کا حکم دیتے ہیں‘‘ اس اسلوبِ دعوت کی ایک عمدہ مثال ہے۔
حواشی
* مقوقس اگر چہ دولتِ ایمان سے محروم رہا، تاہم اس نے رسول اللہ ﷺ کے خط اور آپ کے قا صد کا احترام کیا اور آپ ﷺکی بارگاہ میں کچھ تحائف بھیجے جن میں دو لڑکیاں ، ماریہؓ اور سیرینؓ جو حقیقی بہنیں تھیں ، بطور تحفہ بھیجیں ۔ماریہؓ اور سیرینؓ نے راستے میں ہی حضرت حاطبؓ کی تعلیم و تلقین سے اسلام قبول کر لیا۔حضرت ماریہؓ حرم نبوی ﷺ میں داخل ہوئیں۔رسول اللہ ﷺ کے صاحبزادے ابراہیمؓ ان ہی کے بطن سے پیداہوئے ۔جب کہ سیرینؓ کو رسول اللہﷺنے حضرت حسانؓ بن ثابت کو ہبہ کر دیا۔ (اسد الغابہ ،تذکرہ حاطبؓ بن ابی بلتعہ ، ۱/۳۶۲۔ زاد المعاد ، ۳/۶۹۲۔ ابن سعد ، ۱/۲۶۱)
حوالہ جات
(۱)کتاب مقدس ، متی ، ۱۵:۳۵
(۲) ایضاًمتی ، ۱۰:۶
(۳) ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ (التوبہ ، ۹:۳۳) اس موضوع پر چند مزید آیات ملاحظہ ہوں :الفتح ، ۴۸:۲۸۔ النساء ، ۴:۷۹۔ سبا ،۳۴، ۲۸۔ الانبیاء ، ۲:۱۰۷۔ الاعراف ، ۷:۱۵۷
اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :’’وکان النبی یبعث الی قومہ خاصۃ وبعثت الی الناس عامۃ‘‘ (صحیح البخاری ، کتاب التیمم ، باب قولہ تعالیٰ :فلم تجدواماءً ،ح:۳۳۵، ص :۵۸۔ ایضاً ، کتاب الصلوۃ ، باب قول النبی ﷺ :جعلت لی الارض مسجداًو طھوراً، ح :۴۳۸، ص:۷۶)
(۴)ابن ہشام ،خروج رسل رسول اللہﷺالی الملوک ،۴/۲۶۲۔ تاریخ الامم والملوک ، ۳/۸۵
(۵) ابن سعد ،ذکر بعثہ رسول اللہﷺ،الرسل بکتبہ، ۱/۲۵۸
(۶) المائدہ،۵:۶۷
(۷) ابن سعد ، ذکربعثہ رسول اللہﷺ الرسل بکتبہ ۱/۲۵۸۔زاد المعاد ، ۳/۶۹۸۔۶۹۰
(۸) تاریخ الامم والملوک ، ۳/۸۸( واقعات،۶ھ) اسد الغابہ ، تذکرہ ضغاطر ، ۳/۴۱
(۹) اسد الغابہ ، تذکرہ حاطبؓ بن ابی بلتعہ، ۱/۳۶۲
(۱۰) زاد المعاد ، ۳/۶۹۱-۶۹۲
(۱۱) تاریخ الامم والملوک ، ۳/۹۰(واقعات۶ھ)
(۱۲) تاریخ الامم والملوک ، ۳/ ۹۰ (واقعات،۶ھ)
(۱۳) ایضاً
(۱۴) الروض الانف ، ۲/۲۵۳
(۱۵) تاریخ الامم والملوک ،۳/۸۸ (واقعات۶ھ)
(۱۶) ابن سعد ، ذکر بعثہ رسول اللہ ﷺ الرسل بکتبہ۱/۲۶۱
(۱۷) ابن حبیب ، (م ۲۴۵ھ)محمد ، ’’کتاب المحبر ‘‘، نشرالکتب الاسلامیہ ،ص:۷۷
(۱۸) کتاب المحبر ،ص:۷۷
(۱۹) زادالمعاد ، ۳/۶۹۳-۶۹۵
اسلامی ریاست کے خارجہ تعلقات کی اساس ۔ فقہی نظریات کا ایک تقابلی جائزہ
جنید احمد ہاشمی
غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ اسلامی ریاست کے تعلقات کے احکام پر مشتمل مواد کو ہمارے فقہی لٹریچر میں ’’سِیَر‘‘ کے عنوان کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ جدید اصطلاح میں اسے ’’الفقہ الدولی‘‘ یا اسلامی قانون بین الاقوام (International Law) کہا جاتا ہے۔ غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ اسلامی ریاست کے تعلقات کی بنیاد امن ہے یا جنگ؟ آئندہ سطور میں اس سوال کا جواب ’’سیر‘‘ یا اسلامی قانون بین الاقوام کے جدید رجحانات کے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
پہلا نقطہ نظر
جمہور فقہا نے، جن میں احناف کو امتیازی حیثیت حاصل ہے، غیر مسلموں کے ساتھ اسلامی ریاست کے تعلقات کی بنیاد جنگ کو ٹھہرایا ہے۔ اس اصول کو علامہ سرخسی نے یوں بیان فرمایا ہے: ’الاصل فی علاقات المسلمین بالکفار الحرب‘ یعنی غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات میں اصل کی حیثیت جنگ کو حاصل ہے۔ اسی بنا پر انہوں نے دنیا کی دو قطبی تقسیم کی ہے: ۱۔ دار الاسلام، ۲۔ دار الحرب *
غیر مسلم ریاستوں سے تعلقات کے حوالے سے دنیا کی دوسری تقسیم شوافع اور ان کے ہم خیال فقہاے کرام کی ہے جو دنیا کی تقسیم میں ’دار العہد‘ یا ’دار الصلح‘ کا اضافہ کرتے ہیں تاہم ان کے نزدیک بھی یہ حصہ در اصل دار الاسلام ہی کے ماتحت ہے۔
حق یہ ہے کہ فقہاے اسلام کی یہ تقسم حالات کی پیداوار ہے۔ یہ فقہی اجتہاد کا وہ زمانہ تھا جب اسلامی ریاست کو غیر مسلموں کی طرف سے ہمہ وقتی جنگ درپیش تھی اور امن اس میں ایک عارضی کیفیت کا درجہ رکھتا تھا۔ بقول ڈاکٹر وہبہ زحیلی، یہ کوئی منصوص تقسیم نہیں ہے بلکہ فقہاے کرام کے اس اجتہاد کا نتیجہ ہے جو انہوں نے حالات کے تناظر میں کیا تھا۔ ان حضرات نے حکمت عملی کے پیش نظر اور مسلمانوں کو متحرک رکھنے کی نیت سے جب غور کیا تو محسوس کیا کہ جنگ مسلسل چلی آ رہی ہے اور امن ایک عارضی کیفیت ہے۔ جنگ کو اصل قرار دینے کی وجہ ان حضرات کے نزدیک یہ تھی کہ مسلمان تو بلاجواز جنگ کے قائل ہی نہیں اور جنگ ہمیشہ غیر مسلموں ہی کی طرف سے مسلط کی جاتی رہی ہے اس لیے یہی اصل ہے۔ چنانچہ ان فقہاے کرام کے ہاں وہ تمام آیات منسوخ قرار پائیں جن میں غیر مسلموں سے حسن سلوک، معافی، غیر جانب داری، صلح، صبر وتحمل اور طریقہ حسنیٰ کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ ان حضرات نے سورۃ التوبہ کی آیت ۳۶: ’وَقَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَافَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَافَّۃً‘ (اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں) یا آیت ۲۹: ’قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ‘ (اہل کتاب میں سے ان سے لڑو جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ روز آخرت پر) کو ناسخ ٹھہرایا ہے۔ اس ضمن کی ایک مثال ملاحظہ ہو۔ سورہ ممتحنہ کی آیت کریمہ ہے:
لاَ یَنْہَاکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْآ اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ O (آیت ۸)
جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلاوطن نہیں کیا، ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تو انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
جصاص فرماتے ہیں کہ اسے سورۂ براء ۃ کی آیت ۵: ’فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ‘ (مشرکین کو جہاں کہیں بھی پاؤ، قتل کر ڈالو) نے منسوخ کر دیا ہے۔
اسی طرح سورۂ حشر کی آیت ۲ : ’ہُوَ الَّذِیْ اَخْرَجَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتَابِ مِنْ دِیَارِہِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ‘ (وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافروں کو تمہاری پہلی ہی فوج کشی کے نتیجے میں ان کے گھروں سے نکال دیا) کے تحت جصاصؒ نے یہود بنی نضیر سے نبی اکرم کی مصالحت کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھا ہے:
’’ہمارے نزدیک (مصالحت کا) یہ حکم منسوخ ہے ..... نسخ کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے ساتھ اس وقت تک لڑتے رہنے کا حکم دیا ہے جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں یا جزیہ ادا کرنا قبول نہ کر لیں۔‘‘
ان حضرات کے نزدیک غیر مسلموں سے دائمی صلح کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں۔ غرض ان فقہانے اصول نسخ کا مبالغہ آمیز استعمال کیا۔ قرآن کے جنگی احکام کے فہم میں تطبیقی طریق اختیار کرنے کے بجائے طریق نسخ استعمال کیا۔ آیت سیف سے ۱۴۰ آیات کو منسوخ قرار دے دیا۔ جہاد کی جارحانہ نوعیت پر زور دیا۔ جزیہ کو کفر کی سزا بلکہ کفر کا معاوضہ قرار دیا۔ پھر زمانہ تقلید کی تعبیر وتشریح نے جلتی پر تیل کا کام کیا جس سے اقوام عالم میں اسلام سے متعلق بہت سی غلط فہمیوں نے جنم لیا۔
ان فقہا کا نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ جہاد وقتال دراصل دعوت اسلام کا ایک ذریعہ ہے اور اسلامی دعوت کے دو ہی طریقے ہیں: زبان سے دعوت اور شمشیر وسناں سے دعوت۔ کسی کو وعظ وارشاد اور دعوت بالقول ہو جائے، وہ اسے تسلیم نہ کرے تو چاہے وہ پر امن رہے اور دعوت حق کے مقابلے میں رکاوٹ نہ بھی بنے، تب بھی اس کے لیے دعوت بالسیف اور قتال واجب ہو جاتے ہیں۔ دعوت کا یہ محدود مفہوم عملاً امت میں کسی نے بھی نہیں سمجھا نہ یہ قرآن کریم کے طریق دعوت ہی سے موافق ہے جس کی طرف قرآن نے اسلام کی نشر واشاعت کے سلسلے میں رہنمائی کی ہے۔ قرآن نے دعوت کو حجت وبرہان، منطق وعقل سے مزین کر کے پیش کرنے کا حکم دیا ہے:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ (النحل ۱۲۵)
اے پیغمبر! لوگوں کو دانش اور اچھی نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ اور بہت ہی اچھے طریق سے ان کے ساتھ مجادلہ کرو۔
قرآن نے اکراہ اور جبر کو بطور وسیلہ اختیار کرنے کو حرام ٹھہرایا ہے:
لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ (البقرہ ۲۵۶)
دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں۔ ہدایت (صاف طور پر ظاہر اور) گمراہی سے الگ ہو چکی ہے۔
کیونکہ دین کی اساس ایمان قلبی اور اختیار واطاعت پر ہے۔ نیز پیغمبر کامنصب داروغہ کا نہیں بلکہ مذکر کا ہے:
فَذَکِّرْ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌO لَّسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ O(الغاشیۃ ۲۱، ۲۲)
آپ نصیحت کر دیا کیجیے۔ آپ تو صرف نصیحت ہی کرنے والے ہیں۔ آپ ان پر کچھ مسلط تو نہیں ہیں۔
چنانچہ دعوت دین کے اس محدود تصور کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ قرآن کے نفی اکراہ کے تصور کے خلاف اور ایمان قلبی کی معنویت کو فراموش کرنے کے مترادف ہے۔
دوسرا نقطہ نظر
فقہاے کرام کا ایک گروہ اس نقطہ نظر کا حامل ہے کہ جنگ ایک عارضی کیفیت ہے کہ جب تک اس کے اسباب رہیں گے، جنگ رہے گی اور اسباب ختم ہونے پر یہ ختم ہو جائے گی۔ نیز غیر مسلموں سے تعلقات کی اصل صلح وامن ہے اور غیر مسلموں سے دوستانہ تعلقات قائم ہو سکتے ہیں اور غیر مخالفین یا غیر محارب اقوام کے ساتھ پر امن بقاے باہمی کی بات قرار پا سکتی ہے۔ فقہاے کرام میں اس نقطہ نظر کے حاملین امام ثوریؒ اور امام اوزاعیؒ وغیرہ ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ رائے روح شریعت اسلام سے قریب تر اور جدید بین الاقوامی حالات کے پیش نظر معتدل اور صائب ہے۔ دور جدید کے بین الاقوامی نظام کے تحت مختلف اقوام کے درمیان مسلسل مخاصمت، اور تنازعات کے تصفیہ کے لیے جنگ کو بطور مستقل وسیلہ کے قبول کرنا انتہائی خطرناک ہے۔ ذیل میں موخر الذکر رائے کے حق میں دلائل ذکر کیے جاتے ہیں:
قرآن کریم
اسلام میں جنگ ایک وسیلہ ہے اسلامی دعوت کی تکمیل اور اس کے لیے اسباب فراہم کرنے کا۔ اگر دعوت کے اسباب موجود ہیں اور ان میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، مسلمانوں پر کہیں بھی مظالم نہیں ہو رہے اور وہ دنیا میں ہر جگہ اپنے دین کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے میں آزاد ہیں تو اس صورت میں جنگ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ قرآن کریم کے جنگی احکامات کا استقصا کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات کی بنیاد امن وسلامتی کو ٹھہراتا ہے، جنگ کو نہیں۔ قرآن میں ہے:
وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ (الانفال ۶۱)
اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہو جاؤ اور خدا پر بھروسہ رکھو۔
قرآن نے امن عالم کی بنیاد رکھی ہے اور اس کی جملہ تعلیمات میں امن وسلامتی کے پیغامات ہیں۔ عالمی امن کی بنیاد اور سرچشمہ قرآن کریم کی یہ آیت ہے:
یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَافَّۃً وَلاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ O (البقرہ ۲۰۸)
اے ایمان والو، اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ وہ تو تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔
نیز فرمایا:
وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰی اِلَیْکُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیْرۃٌ (النساء ۹۴)
اور جو تمہاری طرف سلام سے تقدیم کرے، اسے فوراً نہ کہہ دو کہ تو مومن نہیں ہے۔ اگر تم دنیوی فائدہ چاہتے ہو تو اللہ کے پاس تمہارے لیے بہت سی غنیمتیں ہیں۔
غیر مسلموں سے تعلقات کی اصل ’امن‘ ہے۔ سورۂ محمد کی آیت ۴ : ’حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَہَا‘ (تا آنکہ فریق مخالف لڑائی ترک کرکے ہتھیار رکھ دے) سے بھی اس کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ اسلام میں جنگ دراصل ایک ضرورت ہے۔ قرآن کریم میں قتال کی جتنی آیات آئی ہیں، وہ ظلم وتعدی کے سیاق میں آئی ہیں۔ سب سے پہلی آیت جس میں ۲ ہجری میں جنگ کی اجازت دی گئی، یہ ہے:
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا (الحج ۳۹)
جن مسلمانوں سے لڑائی کی جاتی ہے، ان کو اجازت ہے کہ وہ بھی لڑیں کیونکہ ان پر ظلم ہو رہا ہے۔
اس آیت میں واضح طور پر یہ قرار دیا گیا ہے کہ جنگ مسلمانوں کے اموال وانفس اور دیار واوطان کے خلاف دشمن کی جارحیت کے بعد لازم ٹھہرائی گئی ہے یا مظلوموں کی اعانت کے لیے، کیونکہ ظاہر ہے کہ دفاع ہر انسان اور معاشرے اور قوم کا حق ہے۔ قرآن کریم نے اس مسئلے میں دوسری جگہ ان الفاظ میں رہنمائی کی ہے:
وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُوْا (البقرہ ۱۹۰)
اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں، تم بھی اللہ کی راہ میں ان سے لڑو ، لیکن زیادتی نہ کرو۔
آیت کریمہ سے خالص دفاعی جنگ کا ثبوت ملتا ہے۔اسی سیاق میں ایک آیت کریمہ ہے:
فَاِنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ (البقرہ ۱۹۴)
اگر دشمن تمہارے خلاف زیادتی کرے تو تم جواب میں ویسی ہی زیادتی اس کے خلاف کر سکتے ہو جیسی اس نے تمہارے خلاف کی ہے۔
اقدامی جہاد عملاً سیرت النبی ﷺ اور تاریخ اسلامی کے اوراق سے ثابت ہے لیکن اسی قدر کہ جب دشمن کی طرف سے جارحیت کا قصد ہو تو دفاع کے لیے پیش قدمی کی جائے۔ اس کی تفصیل آئندہ سطور میں آئے گی۔
جنگ کی مشروعیت کا ایک اور سبب یہ ہے کہ فتنہ کی سرکوبی ہو، دعوت حق کے مقابلے میں کھڑی کی گئی رکاوٹوں کا انسداد ہو اور مسلمانوں کے عقیدہ کو متاثر کرنے والے مفسدات کا ازالہ ہو۔ قرآن نے اسے یوں بیان فرمایا ہے:
وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ (البقرہ ۱۹۳)
تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فساد نابود ہوجائے اور ملک میں دین خدا ہی کے لیے ہو جائے۔
تاہم قرآن اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے:
فَاِنِ انْتَہَوْا فَلاَ عُدْوَانَ اِلاَّ عَلَی الظَّالِمِیْنَ O
اور اگر وہ فساد سے باز آ جائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنی چاہیے۔
قرآن کریم نے غیر محارب کفار اور محارب دشمن میں سے ان لوگوں کے بارے میں جو مسلمانوں کے معاملے میں اعتزال اور غیر جانبداری کا رویہ اختیار کریں، واضح طور پر ہدایت فرمائی ہے:
فَاِنِ اعْتَزَلُوْکُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ وَاَلْقَوْا اِلَیْکُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ عَلَیْہِمْ سَبِیْلاً O (النساء ۹۰)
اگر وہ تم سے جنگ کرنے سے کنارہ کشی اختیار کریں اور تم سے نہ لڑیں اور تمہاری طرف صلح وآشتی کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ نے تمہارے لیے ان پر دست درازی کی کوئی سبیل نہیں رکھی ہے۔
آیت کریمہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جن قوموں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات ’محاربہ‘ کے رہے ہوں، ان سے بھی ایک مرحلہ ایسا پیش آ سکتا ہے کہ محاربہ کرنے والے محاربہ سے الگ ہو جائیں اور واقعی ایک ایسا تعلق قائم ہو جائے جس کو پرامن تعلقات کے دور کی ابتدا کہا جا سکے۔
قرآن نے کہیں بھی کفر کو وجہ جنگ کے طور پر بیان نہیں کیا نہ قرآن ہر ا س قوم سے جو مسلمان نہیں، مستقل جنگی رویہ رکھنے کا حکم دیتا ہے بلکہ ان کے سلسلے میں پر امن بقائے باہمی کا اصول اور انسانیت دوستی کی تعلیم دیتا ہے:
لاَ یَنْہَاکُمُ اللّٰہُ عَنِ الََّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْآ اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ O (آیت ۸)
جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلاوطن نہیں کیا، ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تو انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
قرآن میں جہاد کا حکم اصلاً مقاتلین کے مقابلے میں دیا گیا ہے: ’وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُم‘ْ (اور تم اللہ کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑائی کرتے ہیں۔ البقرہ: ۱۹۰) یہ آیت جارح دشمن سے جنگ وجدال اور مقابلہ کو واجب ٹھہراتی ہے تاکہ ان کی دشمنی کا خاتمہ کیا جائے اور ان کے فتورکا ازالہ ممکن ہو۔ وہ دعوت حق کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہ کر سکیں اور دین اسلام سربلند ہو۔
جن آیات میں مطلق طور پر جنگ کا حکم دیا گیا ہے، مثلاً: ’وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْہُمْ‘ (ان کو جہاں پاؤ، قتل کر ڈالو۔ البقرہ :۱۹۱) وہ بنیادی طور پر صرف اسلام دشمن مشرکین کے لیے تھا۔ مفسرین کے نزدیک یہ آیت عرب مشرکین کی بابت حکم بیان کرتی ہے جس کی وجہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ اس قوم سے جزیہ، صلح، غلامی وغیرہ کی کوئی صورت قبول نہیں کی جاتی جو نبی کی براہ راست مخاطب ہو چنانچہ ان کے لیے صرف اسلام یا تلوار کا انتخاب کرنا تھا۔
آیت کریمہ: ’مَالَکُمْ لاَ تُقَاتِلُوْنَ‘کی تفسیر میں علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں:
’’جہاد کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ کمزور اور پسے ہوئے مسلمانوں کو ان کافروں اور مشرکوں کے پنجہء استبداد سے چھڑایا جائے جو ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھاتے اور ان کو ان کے دین سے انحراف پر مجبور کرتے ہیں چنانچہ جہاد فرض کیا گیا تاکہ دین کو غالب کیا جائے اور مظلوموں کی اعانت کی جائے۔‘‘
قرآن نے جہاں ہمہ وقت مستعد رہنے اور مادی ترقی اور جہد مسلسل کی تعلیم دی ہے تو وہ اس لیے نہیں کہ اس سے ساری دنیا کو فتح کیا جائے یا انہیں اسلحے کے زور سے مسلمان کیا جائے یا جملہ اقوام عالم پر غلبہ پالیا جائے بلکہ اس لیے کہ کوئی انہیں کمزور سمجھ کر مہم جوئی کرنے کی جرات نہ کرے اور مسلمان کمزور قوم نہ رہیں۔
غرض قرآن کریم نے جہاد کو ایک ضرورت، ایک وسیلہ اور ذریعہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ وسیلے کو مقصد بنانا قرآنی تعلیمات کے علاوہ عقل عام اور منطق سلیم کے بھی منافی ہے۔
احادیث وسیرت رسول ﷺ
احادیث رسول مسلم ریاست کے غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات میں ’’حالت امن‘‘ کے اصل ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
لا تتمنوا لقاء العدو وسلوا اللہ العافیۃ (صحیح البخاری، الجہاد والسیر، ۲۷۴۴)
دشمن سے مڈبھیڑ کی ازخود تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت ہی کی دعا کرو۔
جناب رسول اللہ ﷺ نے قتال کی حیثیت اور غایت کو عدل،حق اور دعوت اسلام کے دائرہ میں متعین کر دیا ہے:
من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ہی العلیا فہو فی سبیل اللہ (صحیح البخاری، الجہاد والسیر، ۲۵۹۹)
(قبیلے، رنگ و نسل اور علاقائی مقاصد کے لیے جنگ کرنے والے کے برعکس) اللہ کے راستے کا مجاہد صرف وہ ہے جو صرف اور صرف اللہ کے کلمے کی بلندی کی خاطر جنگ کرے۔
جہاد اسلام کا امتیازی وصف اور قول رسول ﷺ کی بدولت عمارت اسلام کا سب سے اونچا کنگرا ہے۔ (سنن الترمذی، الایمان، ۲۵۴۱) جہاد قیامت تک جاری وساری رہے گا۔ اس کو کسی ظالم کا ظلم ختم کر سکتا ہے اور نہ کسی عادل کا عدل۔ (سنن ابی داؤد، الجہاد، ۲۱۷۰) مگر یہاں دو نکات قابل غور ہیں: ایک یہ کہ اسلامی لٹریچر میں جہاد ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے جس کا اطلاق قتال کے علاوہ جدوجہد کے دیگر طریقوں پر بھی ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس مضمون کی احادیث میں ’جہاد‘ بمعنی سعی وجہد کی اہمیت کا بیان مقصود ہے جو ’قتال‘ کی مخصوص صورت صرف اس حالت میں اختیار کرے گا جب اس کے اسباب یعنی جارحیت، ظلم، افساد عقیدہ وغیرہ پائے جائیں گے۔
اس ضمن میں حدیث رسول ﷺ : ’امرت ان اقاتل الناس حتی یشھدوا ان لا الہ الا اللہ‘ (مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کرتا رہوں جب تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار نہ کر لیں) (صحیح البخاری، الایمان، ۲۴) سے استدلال کرتے ہوئے غیر مسلم اقوام سے تعلقات کی اصل بنیاد جنگ کو نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ اس کی بابت علما کا اجماع ہے کہ اس سے بطور خاص مشرکین عرب ہی مراد ہیں۔
اسلام نے جنگ کی اجازت اشاعت اسلام کے تقریباً پندرہ سال گزر جانے کے بعد دی یعنی ۲ ہجری میں۔ ان پندرہ سالوں میں کوئی ایسی آیت نازل نہیں ہوئی جس میں جنگ کی ترغیب دی گئی ہو۔ رسول اکرم ﷺ مکہ مکرمہ میں تیرہ برس غیر مسلموں سے تعلقات کے اعتبار سے حالت امن میں رہے۔ مدینہ میں بھی دعوت حق کا آغاز حالت امن ہی میں ہوا مگر جب مشرکین نے جارحیت کی تو یہ حالت امن، حالت جنگ میں تبدیل ہو گئی کہ اب اسلامی مملکت اور مسلمانوں کا دفاع ناگزیر ہو گیا تھا۔
نبی اکرم ﷺ نے قریباً ۲۷ غزوات لڑے اور ان کے علاوہ کئی سرایا بھی بھیجے۔ غزوات نبوی اور سرایا کا تاریخی منظر نامہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ غزوات وسرایا اذیت، تعذیب، دشمنی، مسلمانوں کو ان کے دیار واوطان سے نکالے جانے، ان کو ان کے دین سے منحرف کرنے کی مساعی، دین حق کی اشاعت میں رکاوٹ، ضرب وشتم اور ظلم وتعدی جیسے اسباب کی بنا پر وقوع پذیر ہوئے تھے یا پھر دشمن کے ارادۂ جارحیت کے ازالہ کی خاطر۔ کوئی راستہ ان سے چھٹکارے کا نہیں تھا ورنہ حضور اکرم ﷺ حالت امن کو برقرار رکھتے اور دست شفقت تلوار نہ اٹھاتا کیونکہ آپ کو جب بھی موقع ملا کہ بغیر تلوار اٹھائے اسلام کے مقاصد حاصل کیے جاسکیں، آپ نے جنگ سے گریز کیا اور خون بہائے بغیر اپنا مقصد پورا کیا۔
صدر اول کی جنگی تاریخ گواہ ہے کہ بدر، احد، خندق، یوم الرجیع اور بئر معونہ کے واقعات دشمن کی جارحیت کے مسببات تھے۔ جارحیت کا یہ سلسلہ حدیبیہ کا تاریخی معاہدہ طے پا جانے کے بعد بھی جاری رہا۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ:
- قبیلہ ہوازن، بنو ثقیف اور دوسرے قبائل کے ساتھ جارحیت کے لیے بڑھا تو آپ نے ان سے جنگ کی۔
- ہجرت کے بعد یہود نے معاہدہ توڑا۔ بنو قینقاع کو بدر میں مسلمانوں کی فتح ہضم نہ ہوئی۔ انہوں نے بغاوت اور حسد کی بنا پر رئیس المنافقین ابن ابی سے محالفت کر لی، ایک مسلم خاتون کی بے حرمتی کی اور اس کے محافظ مسلمان کو قتل کیا اور پھر یہ بد تمیزی اور بے عقلی بھی کہ رسول اکرم ﷺ کو یوں مخاطب کیا: ’لا یغرنک انک
- لقیت قوما لا علم لہم بالحرب‘ (آپ کو ناتجربہ کار لوگوں سے جنگ جیتنا دھوکے میں مبتلا نہ کر دے۔ ہم سے جنگ کریں گے تو پتہ چلے گا کہ مردوں سے جنگ کرنا کیا ہوتا ہے) پھر باقاعدہ نقض عہد کر کے قلعہ بند ہو گئے۔ اس پر نبی اکرم ﷺ نے ان کا محاصرہ کیا اور پھر انہیں مدینہ سے نکال دیا گیا۔
- بنو نضیر نے رسول اللہ ﷺ کے قتل کا ارادہ کیا۔ آپ کو وحی الٰہی سے خبر ہو گئی۔ ان کے قلعوں کا محاصرہ ہوا اور بالآخر انہیں مدینہ سے نکالا گیا۔
- بنو قریظہ کو قرآن نے ان کی بد عہدی اور نقض عہد کی بنا پر گندا اور شریر کہا ہے۔ غزوۂ خندق میں انہوں نے مشرکین مکہ سے محالفت کی اور بدر میں بھی انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ان کی اعانت کی۔ ان کے نقض عہد کی بنا پر انہیں قتل کیا گیا۔
- یہود خیبر سے جنگ کی بنا بھی ان کا نقض عہد ہی تھی۔
- روم وفارس سے صحابہ کرام کی جنگیں بھی ان کی طرف سے ’’حالت امن‘‘ کو متاثر کرنے کی بنا پر لڑی گئیں۔ یہ دونوں اسلام کے پیغام کو ٹھکراتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف جارحیت کے مرتکب ہوئے۔ کسرائے ایران نے تو نبی اکرم ﷺ کے مکتوب گرامی کو چاک کیا اور یمن کے گورنر باذان کے توسط سے آپ ﷺ کی گرفتاری کے لیے دو آدمیوں کو روانہ کیا۔
یہ تمام فتوحات اور معرکے عدوان (جارحانہ روش)، طغیان (استبداد)، فساد (کرپشن) اور اسراف (تجاوز عن الحد) کے خلاف برپا ہوئے اور پھر جب دشمن کی طرف سے صلح، جزیہ، اطاعت یا غیر جانبداری کی صورت نظر آئی تو ’’جنگ‘‘ ختم ہو گئی اور حالت امن نے قرار پکڑ لیا کیونکہ اسلام میں جنگ انتقام اور کسی کی ذاتی خواہش کی تکمیل کا نام نہیں:
وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا (المائدہ ۲)
اور ایک گروہ نے جو تمہیں مسجد حرام سے روکا تھا، تو یہ بات تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر (ناروا) زیادتی کرنے لگو۔
اور نہ توسیع پسند کے جذبہ کی تسکین، استعماری نظام کے قیام یا اقوام عالم کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے:
تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لاَ یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلاَ فَسَادًا وَّالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَO (القصص ۸۳)
یہ عالم آخرت تو ہم انہیں لوگوں کے لیے خاص کر دیتے ہیں جو زمین پر نہ بڑا بننا چاہتے ہیں نہ فساد کرنا۔ اور نیک انجام تو پرہیزگاروں ہی کا ہے۔
اس بات کو دوسرے مقام پر قرآن نے یوں بیان کیاہے:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنَّاہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَآتَوُا الزَّکوٰۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ (الحج ۴۱)
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیک کام کا حکم دیں گے اور برے کاموں سے منع کریں گے۔
اور نہ ہی اسلام میں جنگ کا مقصد زمین پر غلبہ پانا، اپنے اقتدار کی توسیع، اثر ونفوذ کا لالچ یا قوم یا جنبہ کے اقتدار کی خاطر ساری دنیا کو اپنے قبضہ میں کرنا ہے:
وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَہَا مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْکَاثاً تَتَّخِذُوْنَ اَیْمَانَکُمْ دَخَلاً بَیْنَکُمْ اَنْ تَکُوْنَ اُمَّۃٌ ہِیَ اَرْبٰی مِنْ اُمَّۃٍ (النحل ۹۲)
تمہاری حالت اس عورت کی سی نہ ہو جائے جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا کہ تم اپنے قسموں (معاہدات) کو آپس میں فساد ڈالنے کا ذریعہ بنانے لگو محض اس وجہ سے کہ ایک گروہ دوسرے سے (کثرت وثروت میں) بڑھ جائے۔
فقہا کی آرا
احناف کے ہاں یہ بات بطور اصول سمجھی گئی ہے: ’الآدمی معصوم لیتمکن من حمل اعباء التکلیف واباحۃ القتل عارض سمح بہ لدفع شرہ‘ کہ ’’انسان معصوم الدم ہوتا ہے تاکہ وہ امور تکلیفیہ سے عہدہ برآ ہو سکے۔ رہا اس کا مباح الدم ہونا تو وہ دلیل عارض کی بنا پر ہے تاکہ اس کے شر کا ازالہ ممکن ہو۔‘‘
فقہا کے ہاں یہ بات ثابت ہے کہ جنگ کی وجہ جارحیت کا ازالہ ہے نہ کہ مذہب کا اختلاف۔ وہ کہتے ہیں کہ کفر بحیثیت کفر وجہ جنگ نہیں: ’الکفر من حیث ہو کفر لیس علۃ لقتالہم‘۔ اگر کفر جنگ وقتال کو جائز کرنے والی شے ہوتی تو جزیہ لینے کا حکم نہ دیا جاتا کیونکہ جزیہ کی صورت میں ان کا کفر پر باقی رہنا لازم آتا ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’لا ینبغی لمسلم ان یہریق دمہ الا فی حق ولا یہریق دما الا بحق‘۔ ’’کسی مسلمان کا حق بجز کسی ایسی (شرعی) وجہ کے حلال نہیں ہے جو اسے مباح الدم بناتی ہو۔‘‘
حنابلہ فرماتے ہیں : ’الاصل فی الدماء الحظر الا بیقین الاباحۃ‘ ۔ ’’انسانی جان میں اصل ممانعت ہے سوائے اس کے کہ کسی وجہ سے اس کے قتل کی اباحت کا یقین ہو جائے۔‘‘
ابن ہمام حنفیؒ نے البقرہ کی آیت ۳۶ : ’وَقَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَافَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَافَّۃً‘ (اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں) کے تحت لکھا ہے: ’فافاد ان قتالنا المامور بہ جزاء لقتالہم ومسبب عنہ‘۔ یعنی ’’آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں جنگ کا حکم ان کے جنگ کرنے کے مقابلے کے طور پر دیا گیا ہے اور ان کا جنگ کرنا ہی ہمارے جنگ کرنے کا سبب ہے۔‘‘
البقرہ کی آیت ۱۹۳ : ’وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ‘ (ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ کی سرکوبی ہو جائے) کے تحت لکھتے ہیں: ’ان لا تکون فتنۃ منہم للمسلمین عن دینہم بالاکراہ بالضرب والقتل‘۔ یعنی ’’ان کا مسلمانوں کو ان کے دین کے معاملے میں مارپیٹ اور قتل وظلم کے ساتھ پریشان کرنے کا انسداد ہو جائے۔‘‘ گویا جنگ صرف مخصوص اسباب کی موجودگی تک باقی رہتی ہے۔
ابن ہمام حنفیؒ نے یہ بھی بتایا ہے: ’المقصود من القتال ہو اخلاء العالم من الفساد‘۔ ’’قتال کا مقصود زمین سے فساد کا خاتمہ کرنا ہے۔‘‘
ابن قیمؒ نے فرمایا: ’وفرض القتال علی المسلمین لمن قاتلہم دون من لم یقاتلہم‘۔ ’’مسلمانوں پر قتال ان لوگوں کے خلاف فرض کیا گیا ہے جو ان سے لڑتے ہیں نہ کہ ان کے خلاف جو ان سے نہیں لڑتے۔‘‘
احناف کے امام سرخسیؒ نے جنگ کا مقصود یہ بیان فرمایا ہے: ’والمقصود ان یامن المسلمون ویتمکنوا من القیام بمصالح دینہم ودنیاہم‘ یعنی ’’جہاد کا ہدف اور مقصود یہ ہے کہ مسلمانوں کو امن وسکون میسر ہو اور وہ اپنے دینی اور دنیاوی مقاصد کی تکمیل امن کے ساتھ کر سکیں۔‘‘
گویا جہاد ان مقاصد کے حصول کے لیے ہے کہ مسلمان اور ان کے ہم وطن لوگ امن وامان سے رہ سکیں، مسلمانوں کے دینی مقاصد پورے ہو رہے ہوں اور ان کے دنیوی مصالح کی تکمیل ہو رہی ہو۔ اگر یہ مقاصد جنگ کی نوبت آئے بغیر ہی پورے ہو جائیں تو جنگ کرنا ناجائز ہے۔
مغنی المحتاج میں ہے: ’وجوب الجہاد وجوب الوسائل لا المقاصد واما قتل الکفار فلیس بمقصود حتی لو امکن الہدایۃ باقامۃ الدلیل بغیر جہاد کان اولی من الجہاد‘ یعنی ’’جہاد کا وجوب دراصل وسائل کی نوعیت کا ہے، مقاصد کی نوعیت کا نہیں۔ رہا کفار کا قتل کرنا تو وہ بھی مقصود نہیں چنانچہ اگر ہدایت جہاد کے بغیر محض اقامت دلیل ہی سے ممکن ہو تو یہ بات جنگ کی نسبت خوب تر ہے۔‘‘
فقہا کے ان اقوال کی روشنی میں مسلم اور غیر مسلم سلطنتوں کے مابین تعلقات کی اساس کے طور پر جنگ کا ایک عارضی کیفیت ہونا اور حالت امن کا مستقل حالت ہونا الم نشرح ہو جاتا ہے۔
مذکورہ دلائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلم ریاست کے غیر مسلم ریاستوں سے تعلقات کی بنیاد امن ہے چنانچہ جنگ صرف اس صورت میں جائز ہوگی جب دشمن کی جارحیت کا سامنا ہو، مسلم مبلغین کو تبلیغ دین سے روکا جائے یا مسلمانوں اور اسلام کی حرمت پر زد پڑتی ہو تو اس صورت میں جان ومال اور عقیدہ کے تحفظ کے لیے جنگ ایک ضرورت ہوگی۔
حرف آخر
تعلقات بین الاقوام کا اسلامی نظریہ اور فلسفہ عصر حاضر کے لیے موزوں واحد فلسفہ امن ہے۔ حق یہ ہے کہ صرف اسی طرح کا فلسفہ اور انداز فکر انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب اور باہم مربوط کر سکتا ہے اور اقوام عالم کے مذہبی، ثقافتی، عمرانی اور اقتصادی تنوعات اور امتیازات کو تسلیم کرتے ہوئے مقاصد، اقدار، فلاح اور مفاہمت کے وسیع اور مشترک انسانی دائرے تشکیل دے سکتا ہے۔ امت مسلمہ کا فرض ہے کہ وہ اسوۂ رسول ﷺ کی روشنی میں اپنے دشمنوں کی تعداد کم سے کم کرے اور قوموں کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی صلح اور امن وسلامتی کے تعلقات کے ذریعے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے۔ لفظ ’اسلام‘ کا مادہ ہی سلامتی اور امن کا معنی دیتا ہے۔ ’مسلم‘ بھی سلامتی اور امن پھیلانے والے کو کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کا شعار (Slogan)اور شناخت بھی امن وسلامتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ’سلام‘ ہیں، پیغمبر اسلام پیغمبرامن وسلام ہیں اور حیات انسانی امن کے ساتھ ہی پھل پھول سکتی ہے۔
مراجع و مآخذ
۱۔ابوبکر الجصاص: احکام القرآن،
۲۔ قرطبی: الجامع لاحکام القرآن،
۳۔ وہبہ زحیلی: آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی،
۴۔ ایضاً: العلاقات الدولیۃ فی الاسلام،
۵۔ سید رمضان البوطی: الجہاد فی الاسلام،
۶۔ ابن رشد: بدایۃ المجتہد،
۷۔ السرخسی: المبسوط،
۸۔ ایضاً: شرح السیر الکبیر،
۹۔ النووی: مغنی المحتاج،
۱۰۔ عبد الحمید احمد ابو سلیمان: اسلا م اور بین الاقوامی تصورات،
۱۱۔ د۔ محمد حمید اللہ: خطبات بہاولپور،
۱۲۔ د۔ محمود احمد غازی: خطبات بہاول پور،
۱۳۔ مجید خدوری:
Islamic Law of Nation، ۱۴۔ راغب الاصفہانی: مفردات القرآن،
۱۵۔ اشرف علی تھانوی: بیان القرآن
حواشی
* فقہاے سلف جب دار الحرب اور دار الاسلام کا ذکر کرتے ہیں تو ان کا مقصود دراصل اعتقادی یا نظریاتی تصورات کی تفریق کی نشان دہی کرنا ہوتا ہے یا مسلم دائرہ حکومت، دائرۂ اختیار کی عمل داری کی حدود متعین کرنا ہوتا ہے۔ اس تقسیم کے پس منظر میں اسلام کی بالادستی کا وہ تصور بہرکیف نہ تھا جو موجودہ جہادی تحریکوں کا بالعموم ہے جس کے پیش نظر ساری غیر مسلم دنیا کو دشمن گردانا جاتا ہے، ہر غیر مسلم سے برسرپیکار رہنا ’’مذہبی فریضہ‘‘ ہے اور دنیا کی ان ساری اقوام کے لیے جو مسلمان نہیں، حق بقا اور علاقائی اقتدار اعلیٰ کا کوئی تصور نہیں۔
گلوبلائزیشن: عہد جدید کا چیلنج
پروفیسر میاں انعام الرحمن
تاریخ کا ہر عہد تاریخ ساز رہا ہے۔ مورخین نے اپنے اپنے انداز میں ہر عہد کا جائزہ لیا ہے ،جس سے اختلاف ہونے کے باوجود یکسر رد کرنے کا ذمہ دار بننے کوشایدکوئی بھی تیار نہ ہو۔ تاریخی دھارے کی تشریح اور تاریخی عمل کی وضاحت کے ضمن میں بعض مورخین نے واحد عنصرپر زور دیا ہے،مثلاََ مالتھس نے آبادی کی، اسمتھ نے منڈیوں کی، ویبر نے طاقت کی اور مارکس نے طبقات کی بطور واحد عنصر کے نشان دہی کی۔ اسی طرح ۱۹۵۷ء میں Karl Wittfogelنے ایشیا ئیhydraulic despotism کی تھیوری پیش کی کہ پانی کے ذخائر پر مرکزی کنٹرول کی ضرورت نے استبداد کو جنم دیا ہے۔ مذکورہ نظریات کی یک رخی کے باوجود ان کی افادیت اور اہمیت سے مفر ممکن نہیں، لیکن ان سے کلی اتفاق بھی نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخی تشریح کے ایسے یک رخے پن کی بدولت ہی اس سے انحراف کی روایت نے جنم لیا کہ اس میں بہت سے پہلوؤں سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے، ایسے پہلو جن کے بغیر حقیقی تاریخی اثرات کا تسلی بخش احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت بھی تاریخ کے دھارے پر کنٹرول رکھنے کے دعوے دار موجودہ عشرے کو عبوری خیال کرتے ہوئے زمانے کے رخ کو اپنی من پسند تشریح کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔یہ دعوے دار گلوبلائزیشن کو محض مارکیٹ اکانومی کی توسیع سمجھتے ہیں اس لیے ان کے استحصالی ہتھکنڈے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ دعوے دار تاریخی دھارے کے کلی عنصر (macro element) پر نظریں جما کر جزوی عنصر (micro element) سے صرفِ نظر کیے ہوئے ہیں۔ بہرحال ،یہ تسلیم کیے ہی بنتی ہے کہ بیسویں صدی کی ہنگامہ خیزی اور دوعالمگیر جنگوں کے بعد اکیسویں صدی اپنے جلو میں انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں لے کر آئی ہے۔ گلوبلائزیشن کی اجتماعی جہات سے لے کر مقامی ثقافتوں کی انفرادیت پسندی تک گوناگوں پہلو اجاگر ہو رہے ہیں۔یہ مختلف الجہات تبدیلیاں جہاں مسائل پیدا کر رہی ہیں، وہاں بہت سے ایسے امکانی دھارے بھی انہی تبدیلیوں کی کوکھ سے پھوٹ رہے ہیں جو بنی نوع انسان کے روشن مستقبل کی شاید واحد امید ہیں۔
تاریخ سے استشہاد کرتے ہوئے اس امر کو بطور حقیقت تسلیم کر لینا چاہیے کہ تبدیلی اور ارتقا کی موجودہ روش اور نوعیت نہ صرف فطری ہے بلکہ فطری ہونے کے ناتے انسانیت کا عمومی مفادبھی اسی کے ساتھ منسلک ہے۔ اس وقت دنیا بھرمیں کم از کم چار گروہ اپنے اپنے انداز میں گلوبلائزیشن کے حوالے سے حکمت عملی وضع کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں: ۱۔مسلم، ۲۔غیر مسلم، ۳۔امیر اقوام وطبقات، ۴۔غریب اور پسماندہ اقوام وطبقات۔
۱۔ جہاں تک مسلم گروہ کا تعلق ہے، نظری اعتبار سے طاقتور ہونے کے باوجود اس کا تفہیم وابلاغ کا انداز (presentation) عصری تقاضوں سے لگا نہیں کھاتا،جس کے باعث اس کی بابت الٹا تحفظات جنم لے رہے ہیں۔ مسلم گروہ کی بنیادی و محوری خا می اس کا ان چند اصولوں اور قواعد سے مستقلاً وابستہ ہو جانا ہے جو اس کے اسلاف نے اپنے عہد کے تقاضوں کے پیشِ نظر تشکیل دیے تھے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم گروہ ان اصولوں پر عہدِنبوی اور خلافتِ راشدہ سے ماخوذ ہونے کاجو لیبل لگاتا ہے، حالانکہ مذکورہ مآخذ اپنی اصل کے لحاظ سے، بشرطیکہ ان کی طرف کھلے دل ودماغ سے رجوع کیا جائے، عہدِ جدید کے تقاضوں اور مسائل سے عہدہ برآ ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔ راقم یہاں صرف ایک پہلو کی طرف اشارہ کرنا مناسب سمجھتا ہے کہ طوالت گراں ہو سکتی ہے۔
گلوبلائزیشن کی اجتماعیت و وحدت اور مقامی ثقافتوں کی انفرادیت پسندی کے باہم متضاد تقاضوں کا لحاظ رکھنے کے حوالے سے اسلام کا تصورِہجرت اوراس میں مضمر امکانی پہلو، نہایت انقلاب انگیزثابت ہو سکتے ہیں۔ طالبانائزیشن جیسے جمود کے بجائے عہد نبوی میں زمانہ بعد از ہجرت کا عملی حالات کو ملحوظ رکھنے کا رویہ زیادہ سود مند اور پائیدار ہو گا۔لہٰذا اسلام کے تصورِہجرت کومعروضی اور تجزیاتی انداز سے دیکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ اس کی نظری وسعت کئی امکانی پہلوؤں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ خیال رہے ،عہدِ نبو یﷺ کے واقعات محض واقعات نہیں ہیں،بلکہ اصول وقواعد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ممکنات کو بھی محیط ہیں۔
ہجرت کو کم از کم دو سطحوں پر دیکھا جا سکتا ہے :
i۔ خا لصتاً نظری، یعنی انسانی تاریخ میں ہجرت کے تسلسل کے اعتبار سے کہ مقامیّت کی نفی ہر دور میں موجود رہی ہے۔ انسان نے بطور ایک آپشن کے ہجرت کو ہمیشہ پیش نظر رکھا ہے۔ ہجرت اپنی اصل میں پسپائی کے بجائے دستبرداری کا رویہ ہے، لہٰذا تاریخ میں جس کسی گروہ یا شخص نے یہ رویّہ اپنایا، عمومی اعتبار سے اس نے در حقیقت مقامیّت کی انتہا میں مضمر محدودیت سے دستبرداری اختیار کی اور نتیجتاً توسع سے ہمکنار ہوا۔ نفسیاتی اعتبار سے ،انسان کی اپنے سے متعلقہ (self-related) شخصی امور میں بھی ایسے رویے کی نشاندہی ہوتی ہے۔روزمرہ امور میں اگر کوئی شخص بے لچک اور سخت انداز اختیار کرے تو اس سے نہ صرف اسے معاشرے میں پریشانی اٹھانی پڑتی ہے،بلکہ اسی سے اس کے شخصی ارتقا کی نوعیت اور سطح کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ ایک خاص زاویے سے دیکھنے سے ہجرت، مصلحت پرستی کے بجائے عزیمت کا راستہ معلوم ہوتی ہے کہ انسان کسی مقام پرمصلحتاً ٹھہرنے ،سمجھوتہ کرنے کے بجائے عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہجرت کو ترجیح دیتا ہے۔ ہر قسم کی بد صورتی سے، چاہے وہ بری اقدار ہوں یا جنگ ،استحصال،بھوک ،غربت اور جبر ہو، صحت مندانہ فرار اختیارکرتا ہے اور زندگی میں زندگی کا حقیقی رنگ بھرنے کے لیے کمرِہمت باندھ لیتا ہے۔
ii۔ واقعاتی اعتبار سے،یعنی عہدِنبوی ﷺسے استشہاد کرتے ہوئے۔ اس سلسلے میں معاشرتی جبر، ہم نسل،ہم وطن اور مشترکہ ثقافت رکھنے والے گروہ کے منفی رویہ کی نوعیت اور اس کے وقوع پذیر ہونے میں شخصی و گروہی نفسیات کا معروضی و تجزیاتی مطالعہ خاصا مفید ہو سکتا ہے۔
عہدِنبویﷺ سے استشہاد کے ضمن میں ہجرت کی تزویراتی اہمیت (strategic importance) پر بحث ونظر کا فروغ ،عہدِ جدید کے تقاضوں کے عین مطابق ہو گا۔ہجرتِ مدینہ کے فوراً بعدپیش آمدہ مسائل اور ان کی بابت ثقافتی اعتبار سے دو مختلف گروہوں کا طرزِعمل اس اعتبار سے یقیناًلائقِ مطالعہ ہے کہ اسی قسم کے حالات کامسلمانوں کو اپنے معاشرے میں داخلی اعتبار سے مختلف سطحوں پر آج بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔لہٰذا مہاجرین اور انصار کا باہمی تعامل(Inter-acion)جسے ’مواخات‘ کا نام دیا گیا،ثقافتی اعتبار سے دو مختلف گروہوں کے طرزِعمل کے طور پر معروضی تجزیے کا متقاضی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان میں موجود ثقافتی رنگا رنگی کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ہم لوگوں نے اسلامی ثقافت کے نام پر مقامی ثقافت کی نفی کرنے کو دینی غیرت کا تقاضا سمجھ رکھا ہے،جس سے اسلام کی بابت، کمیونسٹ طرز پر تنوع دشمن اور جبریہ تصور جنم لے رہا ہے۔ حالانکہ کسی بھی ثقافت کوچھوٹی سطح پر دیکھنے سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جغرافیائی حوالے سے ہر دس میل کے فاصلے پر بدلی ہوئی ہے۔ مثلاً گوجرانوالہ شہر کی پنجابی اس کے دیہی علاقوں سے بہت مختلف ہے اور دیہی علاقوں کی زبان بھی آپس میں یکساں نہیں ہے۔موجودہ عہد کی ترقی کی رفتار اور ترقی کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے ہمیں ذرا صبر سے کام لینا چاہیے کہ محض چند عشرے عبوری نوعیت کے ہیں،آنے والے وقت میں یہ امور جن کی بابت ہم آج بہت حساس ہیں، اضافی شمار ہوں گے اور تاریخی دھارا ہمیں خودبخود اضافیت پسندبنا دے گا۔
راقم کی رائے میں ہجرتِ مدینہ کے بعد کم از کم تین گروہوں کے درمیان معاشرتی،معاشی اور ثقافتی تعلقات کی نوعیت، جدید عہد کے گلوبل کردار کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ شہری آبادی اور علاقوں میں اضافے کے رجحان (Urbanization)کی تفہیم کے لیے بھی نہایت کارآمد ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ میثاقِ مدینہ کی نو عیت علامتی بھی ہے کہ اس وقت کا دور تاریخی اعتبار سے زرعی تھا اور آج کا دور صنعتی مرحلہ طے کر کے انفارمیشن سٹیج میں داخل ہو چکا ہے۔ اس وقت مسلم گروہ کے سامنے ایک سنجیدہ مسئلہ Urbanizationکی صورت میں موجود ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اس کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اکیسویں صدی میں اس رجحان میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ دنیا بھر میں urbanization ہو رہی ہے۔ ۹۰ء کے عشرے کے اختتام پر ۴۳فیصد انسانی آبادی شہروں میں رہتی تھی اور شہری آبادی میں اضافے کی شرح ۲فیصد سالانہ تھی۔شمالی امریکہ،یورپ اور جاپان میں تقریباً ۷۷ فیصد آبادی urbanizedہو چکی تھی،جبکہ ایشیا اور افریقہ میں یہ شرح ۳۵فیصد تھی ۔ صورتِ حال بظاہر خوش کن دکھائی دیتی ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہurbanization سے سماجی پیچیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ دیہی زندگی کے مقابلے میں شہری زندگی کے روایتی مسائل کی موجودگی کے علاوہ globalisationسے دنیا کے بڑے بڑے شہروں مثلاًلندن، ٹوکیو،ممبئی،کراچی وغیرہ میں سماجی،معاشی اور ثقافتی اعتبار سے مسائل کی پیچیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔صورتِ حال کچھ اس طرح سے ہے کہ urbanization کی گلوبل نوعیت کی وجہ سے مذکورہ بڑے بڑے شہر منی گلوب بن چکے ہیں۔ جس طرح عالمی سطح پر معاشی، معاشرتی اور ثقافتی کھینچا تانی جاری ہے،اسی طرح ان منی گلوبز میں بھی یہ رجحان جڑ پکڑ رہا ہے کیونکہ ان میں بھی لسانی، نسلی، سماجی ، ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے تنوع اور گوناگونی دیکھنے کو ملتی ہے۔ راقم کی رائے میں بین السطور واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام کاتصورِ ہجرت اور مدینۃالنبی ﷺ میں اس کی عملی شکل (applied form) گلوب اور منی گلوبز کے پیدا کردہ مسائل سے نمٹنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ مدینۃالنبیﷺ منی گلوب کی سب سے پہلی مثال ہے۔
۲۔ جہاں تک غیر مسلم گروہ کا تعلق ہے، راقم کی رائے میں اس کی بابت پراپیگنڈا زیادہ ہے ورنہ دکھائی تو یہی دیتا ہے کہ بطور گروہ ،یہ گروہ اس طرح مربوط و متحد نہیں ہے جس طرح کا تصورہمارے ہاں کے مذہبی طبقے اور عوام الناس میں پایا جاتا ہے۔یوں سمجھیے کہ جو صورتِ حال نام نہاد مسلم گروہ کی ہے کہ یہ محض نظری طور پر موجود ہے، اس کا عملی ا ظہار کہیں بھی نہیں ملتا ،غیر مسلم گروہ بھی ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار ہے،بلکہ بنظرِغائر دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غیر مسلم گروہ میں عوامی سطح پر مسلمانوں سے الگ گروہ ہونے کا تصور نہیں ملتا۔ اندریں صورت ،مسلم گروہ معاشرتی و ثقافتی سطح پر غیر مسلم کے ساتھ تعامل (inter-action) کے لیے بغیر تحفظات کے پیش قدمی کر سکتا ہے۔
۳۔ امیر اقوام و طبقات کا گروہ اس وقت زمینی حقیقت کے طور پر دنیا کے سامنے منہ پھاڑے کھڑا ہے۔اکیسویں صدی کے آغاز میں ہی اس استحصالی گروہ نے منفی ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کر دیے ہیں تاکہ اپنا مستقبل محفوظ کر سکے۔اس گروہ کی تحلیلِ نفسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ گروہ نہ صرف بالغ نظر نہیں ہے بلکہ داخلی اعتبار سے انتہائی خوف زدہ ہے۔ اس گروہ کے خوف کا اندازہ گیارہ ستمبر کے واقعہ کے بعد اس کی عجیب و غریب پا لیسیوں سے ہو جاتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اسی گروہ نے بذاتِ خود لوگوں میں شعور وآگہی پیدا کرنے اور اسے فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ علاوہ ازیں بیسویں صدی میں، اسی گروہ کے ایسے لوگ جو فطرتِ سلیم رکھتے تھے،اپنے گروہ سے منسلک رہنے کے باوجود حق بات کہنے سے نہیں چوکتے تھے، جس کی ایک مثال حالیہ دور میں نوم چومسکی ہے۔ اوراب یہ گروہ ،با شعور لوگوں سے حماقت کی توقع باندھے ہوئے ہے کہ دنیا بھر کے لوگ اسے عقلِ کل تسلیم کرتے ہوئے اس کی ہر بات پر ’’یس باس‘‘ کا تعظیمانہ لب ولہجہ اختیار کریں۔
راقم کی رائے میں اس گروہ کی تاریخ اس کی ارتقائی ترقی کی داستان ہے اور یہ ترقی اسی انداز سے جاری بھی رہ سکتی ہے اگر یہ گروہ اپنے ماضی جیسی بصیرت کو زمانہ حال کی پالیسیوں میں جگہ دینے کے لیے تیار ہو جائے،جس کی امید اگرچہ بہت کم ہے۔یہ گروہ ایک دور میں ہماری مانند دوسروں پر انحصار کرنے والا(dependent) تھا۔فطری طورپر اس کی خواہش تھی کہ جلد از جلد خود مختار (independent)ہو جائے جس طرح ہم چاہتے ہیں۔ راقم کی رائے میں dependent سے independentکی جانب سفر نہ صرف ارتقائی ہے بلکہ عین فطری بھی ہے، کہ ہر فرد اور ہر ادارہ، چاہے وہ سیاسی ہو یا سماجی،غرض اس کی نوعیت کوئی بھی ہو، انحصار کرنے کے بجائے خودمختار ہونا چاہتا ہے۔ ہم لوگ یہ عمل روزانہ معاشرتی سطح پر دیکھتے ہیں کہ کوئی فرد آہستہ آہستہ اپنے قدموں پر کھڑا ہو جاتا ہے۔یہیں پر ایک نکتہ نہایت اہم ہے کہ یہی فرد اگر خودمختارانہ اندازواطوار سے چمٹ جاتا ہے تو نہ صرف اس کی ترقی کا عمل رک جاتا ہے بلکہ ہر دم خطرہ موجود رہتا ہے کہ اس کا حد سے بڑھا ہوا خود مختارانہ رویہ اسے مجموعی معاشرتی دھارے سے الگ کر کے کہیں اسے دوبارہ dependent نہ بنا دے اور ایسا ہو بھی جاتا ہے۔
dependent سےindependentبننے کے بعد ہر فرد کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اگلے ارتقائی مرحلے کے لیے تیار ہو جائے جسے باہمی انحصار کا مرحلہ (inter-dependent stage)کہا جا سکتا ہے۔اگر ہم ذرا گہرائی سے دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ کامیاب ترین افراد اور ادارے وہی ہوتے ہیں جواس مرحلے کو فراخ دلی سے قبول کر لیتے ہیں،لیکن بہت سے افراد اور ادارے ایسے بھی ہوتے ہیں جو ’باہمی انحصار‘ کو محض ’انحصار‘ کے مترادف سمجھ لیتے ہیں۔ ایسے افراداور ادارے نفسیاتی اور ذہنی اعتبار سے بیمار ہی قرار دیے جا سکتے ہیں۔ بالکل یہی صورتِ حال امیر اقوام وطبقات کی ہے۔خودمختاری کے مرحلے کے بعد ،ارتقا کے اگلے مرحلے یعنیinter-dependence کو ان کے ہاں dependenceسے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ شمالی امریکہ اور برطانیہ کی حالیہ پالیسیاں (تیل کے لیے جنگ وغیرہ) راقم کے موقف پر دال ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ inter-dependenceمیں مضمر افادیت کے احاطے کے لیے بالغ نظری درکار ہے اور یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر فرد یا ہر قوم خودمختاری کے مرحلے کے بعد لازماً بالغ نظری کا مظاہرہ کرے۔ یہاں اس امر کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ بیسویں صدی کے پہلے ربع میں امریکی صدر وڈروولسن نے inter-dependenceمیں مضمر افادیت کا ادراک کر لیا تھا لیکن امریکی معاشرے کی مجموعی دانش اسے قبول کرنے کو ،دوسرے ربع میں ہی تیار ہوئی، وہ بھی غالباََ اپنی سوچ کے تحت نہیں بلکہ عالمی سیاست کے مخصوص ماحول کی وجہ سے۔ اب عالمی ماحول بدلنے سے ’’اپنی سوچ‘‘ نے باقاعدہ جگہ پا لی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ بالغ نظری کیوں مفقود ہے ؟ راقم کی رائے میں اس کی بنیادی وجہ نفسیاتی نوعیت کی ہے۔اگر کوئی فرد ایسے مرحلے پر پہنچنے کے بعد بھی اسے قبول کرنے یا سمجھنے سے انکاری ہے تو اس کا مطلب ہے وہ کسی خوف کا شکار ہے۔ ظاہر ہے یہ خوف بظاہر تو معاشرتی یا خارجی ہی سمجھا جائے گالیکن حقیقت میںیہ خوف اس کے اندر کی پیداوار یعنی داخلی ہے۔ ایسے فرد کو ’کرداری مریض‘ قرار دیا جاتا ہے۔ عموماً اس کا علاج بھی ممکن نہیں ہوتا کہ خاص عمر کے بعد عادات پختہ ہو چکی ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اوائل عمر میں ہی شخصی ارتقا کی نہج ایسی اختیار کی جائے کہ بعد میں inter-dependenceکو نفسیاتی وذہنی تحفظات کا شکار ہو کرdependence نہ سمجھا جا سکے۔
یوں سمجھیے کہ ایسے انسان یا گروہ کو رویے کے اعتبار سے ہجرت کی اشد ضرورت ہوتی ہے لیکن ہجرت بطور ایک قدر کے اہلِ مغرب کے پاس موجود نہیں ہے ،لہٰذا ان کی ذہنی نشوونما کے جاری رہنے کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے۔ تاریخی تناظر کی روشنی میں بھی یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ چو نکہ یہ گروہ macro-historyسے (دانستہ یا غیر دانستہ)متاثر ہو کر ایک ہی عامل یعنی گلوبلائزیشن کی اپنی وضع کردہ تعریف کو ہی حتمی سمجھے ہوئے ہے اور مقامی ثقافتوں اور رجحانات کے علاوہ تاریخی عمل میں پوشیدہ نادیدہ قوتوں کوپرِ کاہ کی حیثیت بھی دینے کو تیار نہیں کہ(Anything can influence anything) اس لیے تاریخی دھارے کے جبر کا شکار ہو جانا اس گروہ کا نصیب بن سکتا ہے۔
۴۔ جہاں تک چوتھے گروہ یعنی غریب اور پسماندہ اقوام وطبقات کا تعلق ہے، وہ غالب اکثریت میں بطور مظلوم دنیا بھر میں موجود ہے،اگرچہ اب کسی حد تک ہاتھ پاؤں مارتا دکھائی دے رہا ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں تبدیلی کی لہر اس گروہ کے لیے خوش آئند قرار نہیں دی جا سکتی ، کیونکہ تبدیلی لانے میں اس گروہ کا کردار بہت فعال نہیں ہے۔ بھوک، غربت، جبرواستحصال، قومی بے کرداری اور عوامی سطح پر کرپشن اس کے مستقبل کی بابت تاریک تصویر ہی پیش کرتے ہیں۔ اس گروہ کا سب سے بڑا مسئلہ ذہنی پسماندگی ہے کہ اس کے شعور وآگہی کے سوتے ،مذکورہ بالا تیسرے گروہ کے سر چشموں سے پھوٹے ہیں، اس لیے یہ گروہ ذہنی لحاظ سے مکمل طور پر خود کفیل نہیں ہو سکا۔ پروفیسر طارق محمود طارق کی معتبر رائے کے مطابق یہ گروہ self-orientedنہیں بلکہ اپنے رویوں اور کردار میں other-orientedہے کہ یہ گروہ اپنے مخصوص عمرانی احوال کی اساس اور اس سے جنم لینے والی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے محترز ہے ۔راقم کی ناقص رائے میں یہ گروہ ایک خاص قسم کے پراپیگنڈا کا شکار ہو کر اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا رہا ہے۔ پراپیگنڈا یہ ہے کہ میڈیا آج کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ بے شک آج کے دور میں میڈیا کی طاقت سے انکار ممکن نہیں، لیکن یہ بھی انتہا پسندی ہے کہ فقط میڈیا کو ہی قبلہ و کعبہ قرار دیا جائے اور دیگر عوامل سے مجرمانہ چشم پوشی کی جائے۔ اس گروہ کے لیے یہ المیہ ہو گا کہ میڈیا کی چکاچوند کی طرف اپنے بہترین دماغوں کو کھپا دے اور طویل المیعاد، ٹھوس اوربالغ نظری پر مشتمل منصوبہ بندی سے محترز رہے۔ جیسا کہ ابتدائی سطروں میں ذکر ہوا، تاریخی عمل میں اگرچہ کوئی واحد عنصر کلیدی ہو سکتا ہے لیکن تاریخی عمل اپنے اظہار میں جزئیات کے علاوہ بعض پوشیدہ عناصر کو بھی شریک رکھتا ہے، لہٰذا میڈیا کو اگر کلیدی عنصر تسلیم کر لیا جائے تو بھی جزئیات اور پوشیدہ عناصر سے چشم پوشی نہایت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
حاصلِ بحث
درج بالا بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ:
۱۔تاریخی اعتبار سے ہم لوگ تبدیلی ) (transformation کے دور سے گزر رہے ہیں۔زرعی وصنعتی ادوار کے بعد اب انفارمیشن عہد ہمارے مقابل ہے۔جہاں تک اہلِ مغرب کا تعلق ہے، ان کی پچھلی چند صدیوں کی تاریخ ان کی فعالیت کی مظہر ہے اور اسی فعالیت کے طفیل ،ان کے حالات کی پیداوار،ان کی خواہشات پر مبنی پہلے یورپی،پھر عالمی نظام نے جنم لیا۔ایک چینی مورخ Wong کے مطابق:
Western social theory has generally analyzed only that created by the twin processes of European State formation and Capitalism. Western states and economies have histories that matter to the formation of the modern world. Other parts of the globe, according to the research strategies employed in most social science research, had no histories of comparable significance before western contacts began to transform them.
’’مغرب کے معاشرتی نظریے نے بالعموم انہی چند مخصوص پہلوؤں پر اپنے تجزیے کا مدار رکھا ہے جو یورپی ریاستوں کی تشکیل اور سرمایہ داری کے ارتقا کے عمل کے نتیجے میں وجود میں آئے۔ مغربی ممالک اور معیشتیں ایسی تاریخ کی حامل ہیں جن کا موجودہ دور کی تشکیل سے گہرا تعلق ہے۔ معاشرتی علوم کے زیادہ تر میدانوں میں اختیار کی جانے والی ریسرچ اسٹریٹجی کے مطابق، دنیا کے باقی حصے اس دور سے پہلے کوئی قابل موازنہ اہمیت ہی نہیں رکھتے تھے جب کہ مغرب کے ساتھ تعلق کے نتیجے میں ان میں تبدیلیاں رونما شروع ہوئیں۔‘‘
ہم Wongکی بات کو بڑھاتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ اگر برصغیر میں انگریز وارد نہ ہوتے تو اس خطے کا عالمی سیاست میں کردار صفر ہوتا۔ مغربیوں سے روابط کے توسط سے ہی یہ خطہ تبدیلی کی لہر کا نہ صرف ادراک کر سکابلکہ اس لہر کو اپنے مجموعی احوال میں سمونے کی بھی کوشش کرنے لگا۔ مسلم دنیا کے حوالے سے بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسے بھی نئی روشنی سے متعارف کرانے میں اہلِ مغرب کا کردار کلیدی ہے اگرچہ اس کے متوازی استحصالی عنصر بھی بہت نمایاں ہے۔ یہاں ایک نکتے کا بیان ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مجموعی عالمی ماحول کی تشکیلِ نو اورtransformationکے عمل میں مسلم دنیا کا کردار قابلِ ستائش نہیں ہے لیکن یہ اپنے تئیں بہت اہم بنی ہوئی ہے، اور پدرم سلطان بود کی زندہ مثال ہے۔مختلف علوم وفنون میں متقدمین کے کارناموں کا پرچار زوروشور سے ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اہلِ مغرب کو بڑے فخریہ انداز میں جتایا جاتا ہے کہ ان کی ترقی کی عمارت درحقیقت مسلم نیوپرکھڑی ہے۔اس وقت مسلم دنیا کو سنجیدگی سے دیکھنا ہو گا کہ عہدِجدید کی transformationمیں اس کا کردار کیا ہو سکتا ہے؟راقم کی نظر میں،اس کے معروضی تجزیے کے لیے یورپی روابط کے اثرات کا کما حقہ مطالعہ نہایت ضروری ہے،لہٰذا سردست عالمی سیاست میں قائدانہ کردار ڈھونڈنے کے بجائے داخلی محاذ پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بے بصیرتی پر مبنی سطحی اقدامات کے بجائے دور رس اور دیرپا اقدامات کیے جا سکیں ۔
۲۔منی گلوبس کی مکمل تفہیم اوران سے منسلک متوقع مسائل پر گرفت حاصل کرنے کے لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم وہ نکتہ تلاش کریں جب دنیا کا پہلا منی گلوب ارتقائی منازل طے کرنے کے بجائے انحطاط وزوال کا شکار ہو گیااور دنیا کو گلوبل کردار پانے کے لیے کئی صدیاں انتظار کرنا پڑا۔ راقم کا اشارہ اموی اور عباسی ثقافت کی شدید تفریق اور ہر دو ثقافتوں کی Self-Assertion کی طرف ہے،جس کے باعث مدینۃالنبیﷺ ،اپنی طرز پر مزید منی گلوبس کے لیے راہ ہموار نہ کر سکا۔اس سلسلے میں اس عہد کے معاشی امور وتعلقات کو (شہری،علاقائی اور عالمی سطح پر)بے لاگ دیکھنا ہو گاکہ ان کے اندر ایسی خصوصیات ہوں گی جن کے سبب ایک معکوس عمل شروع ہو گیا اور وہ عمل ابھی تک کسی نہ کسی صورت میں مسلم دنیا کے اندر جاری وساری ہے۔ معاشی تعلقات کے علاوہ مزید جملہ امور توجہ کے متقاضی ہیں، مثلاًاس عہد کے تخلیق کاروں کاعمومی رویہ اور رجحانِ طبع، تخلیق کاروں کے ساتھ معاشرے اور حکمرانوں کا سلوک، ایجادات کی نوعیت اور معاشرتی ومعاشی اقدار پر، بالخصوص ان کا رخ متعین کرنے کے حوالے سے ایجادات کے اثرات ۔ یہ طریقہ تحقیق ہماری بہتر راہنمائی کر سکتا ہے،کہ مذکورہ عوامل ہی تبدیلی اورtransformationکی ساخت وہےئت کو انگیخت کرتے ہیں۔ چونکہ ہماری تبدیلی کا رخ مثبت نہیں رہا تھااور transformation کے عمل پر ہماری گرفت نہ ہونے کے برابرتھی، اس لیے وہ ثقافتی بحران پیدا ہوا جس نے ہماری صفوں میں تشتت و انتشار بھر دیااور ’سقوطِ بغداد‘ سے ’سقوطِ بغداد‘ تک کی المیاتی تاریخ نے جنم لیا۔ ایک سقوط سے دوسرے سقوط تک کے درمیانی عرصے میں ایک دو نہیں ،کئی صدیاں حائل ہیں لیکن یہ صدیاں ایک تاریخی نظریےSelf-similarity at many scales کو خاص زاویے سے دیکھنے کادرس دیتی ہیں اور بس۔
بحث کے اس مقام پر Thomas Hughesکی مشہور کتاب Electrification in Western Society Networks of Power کا حوالہ دینا ناگزیر معلوم ہوتا ہے۔اس کے مطابق۱۸۸۰ء کے عشرے سے اہم سائنسی دریافتوں اور ایجادات سے یہ امکان پیدا ہوا کہ Thomas EdisonاورElmer Spragueجیسے سسٹمز بلڈرز کی تخلیق کردہ پیچیدہ آرگنائزیشنز کے ذریعے،کہ وہ ان تکنیکی مسائل کو حل کرنے کی پوزیشن میں تھے جوتکنیکی امکانات کے کامیاب نفاذ کا راستہ روکے کھڑے تھے، بجلی کو قوت اور روشنی کے لیے استعمال میں لایاجائے ۔ Thomas Hughesنے ایک اور دلچسپ نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے،وہ ہے: Social implementation of the technology and pace of adoption اس نے لندن، پیرس اور شکاگو میں پاور اسٹیشنزاور پاور گرڈز کے پھیلاؤکا ذکر کرتے ہوئے متعلقہ سیاسی نظاموں (عدالتی،انتظامی وغیرہ) کے کردار پر روشنی ڈالی ہے کہ تکنیکی ترقی کا سماجی سطح پر اثر ونفوذ عموماًغیر تکنیکی عناصر کے توسط سے تیزی سے ہوتا ہے۔
راقم کی رائے میں مسلم دنیا اور تیسری دنیا میں موجود غیر تکنیکی عناصر نے مجموعی طور پر منفی کردار ادا کیا ہے۔دنیا کے پہلے منی گلوب کے ظہور کے بعد ، گلوبل خصوصیات کی بڑے پیمانے پر معاشرتی ترویج بوجوہ ممکن نہ ہو سکی جس کا خمیازہ نہ صرف مسلم دنیا بھگت رہی ہے بلکہ تیسری دنیا کے لاچارومظلوم عوام بھی اس کے شکنجے میں ہیں۔ عہدِجدید ایک مرتبہ پھر چیلنج بن کر ہمارے سامنے موجود ہے کہ کیا ہم Self-oriented ہو کر گلوبلائزیشن کے چیلنج کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ عمومی معاشرتی سطح پر اس کی تنفیذ کر سکیں گے؟
سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم میں سرسید کا مبینہ حصہ
ضیاء الدین لاہوری
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے موجودہ شمارے میں دینی مدارس کے معاشرتی کردار کے حوالے سے کی جانے والی ایک بحث کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ بات جناب عطاء الحق قاسمی کے کالم میں منقول مولانا زاہد الراشدی کے بیان سے شروع ہوتی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلمانان عالم کے پیچھے رہ جانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ جوابی بحث کرنے والوں نے اس موضوع کو صرف برصغیر تک محدود کر دیا اور سرسید احمد خان کو خواہ مخواہ بیچ میں لاکھڑا کیا کہ انہوں نے ’’مسلمانوں کو جدید علوم سے روشناس کرنے کی ٹھانی اور (علما کی جانب سے) بدترین ظلم کا نشانہ بنے۔‘‘ گویا کہ اگر یہ ’’ظلم‘‘ نہ ہوتا تو دنیا کے مسلمان اپنا جائز مقام ضروری طور پر حاصل کر لیتے اور مصائب وآلام کے اس دور سے نہ گزرتے جس سے دوچار ہیں۔
’’مظلوم سرسید‘‘ کے بارے میں یہ مسلک رکھنے والوں کا ارشاد سر آنکھوں پر کہ یہ ان کا قصور نہیں کیونکہ ہمارے تعلیمی نصاب اور ذرائع ابلاغ میں سرسید کے متعلق یہی کچھ بتایا جاتا ہے اور اس بات کی وضاحت نہیں کی جاتی کہ ان کی مبینہ تعلیمی جدوجہد کے پیچھے کیا جذبہ کارفرما تھا اور یہ کہ ان کی نظر میں جدید علوم کی تخصیص کیا تھی۔ کیا انہوں نے اپنے قائم کردہ مدرسۃ العلوم کے نصاب میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے مضامین شامل کیے؟ تحقیق کیجیے تو معلوم ہو کہ سرسید آخر دم تک ٹیکنیکل تعلیم تک کے مخالف رہے۔ ان کے مدرسے کا آغاز ۱۸۷۵ء میں ہوا اور اس کے بائیس برس بعد بھی یعنی اپنے انتقال سے چند ماہ پیشتر تک وہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ ’’بڑی ضرورت ہندوستان میں اعلیٰ درجے کی دماغی تعلیم کی اور اخلاقی اور سوشل حالت کی درستی کی ہے۔‘‘ (۱) ان کے مبینہ جدید علوم وفنون کا حدود اربعہ یہی کچھ تھا کیونکہ کالج کے قیام میں جو مقاصد کارفرما تھے، وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم سے قطعاً پورا نہ ہو سکتے تھے بلکہ ’’اعلیٰ درجے کی دماغی تعلیم‘‘ ہی کے ذریعے ممکن تھے۔ وہ مقاصد کیا تھے؟ اس کا پتہ ہمیں نصابی دانش وروں یا ذرائع ابلاغ کے تصوراتی تخلیق کاروں کے بجائے سرسید اور ان کے رفقا کے اصل بیانات اور تحریروں میں ملے گا جن کا ذکر ہمارے تعلیمی نصاب اور ذرائع ابلاغ میں ممنوع ہے۔
کالج کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر وائسرائے کو جو سپاس نامہ پیش کیا گیا، اس میں ’’بانیان کالج کی نگاہ میں نمایاں مقاصد‘‘ کے ضمن میں بتایا گیا ہے کہ اس کا ایک اہم مقصد ’’ہندوستان کے مسلمانوں کو سلطنت انگریزی کی لائق وکارآمد رعایا بنانا ہے۔‘‘ (۲)
کالج کے ٹرسٹیوں نے ایک موقع پر یہ اعلان کیا کہ ’’من جملہ کالج کے مقاصد اہم کے یہ مقصد نہایت اہم ہے کہ یہاں کے طلبہ کے دلوں میں حکومت برطانیہ کی برکات کا سچا اعتراف اور انگلش کیرکٹر کا نقش پیدا ہو۔‘‘ (۳)
سرسید نے اپنے ایک خطاب میں بیان کیا کہ ’’اس کالج کا بڑا مقصود یہ ہے کہ مسلمانوں اور انگریزوں میں اتحاد ہو۔‘‘ (۴)
ایک اور موقع پر انہوں نے کہا کہ ’’میرا سب سے بڑا مقصد کالج کے قائم کرنے سے یہ ہے، مسلمانوں میں اور انگریزوں میں دوستانہ راہ ورسم پیدا ہو اور آپس کا تعصب اور نفرت دور ہو۔‘‘ (۵)
یہ مقصد وقتی نہیں تھا۔ سرسید عمر بھر اسی دھن میں مگن رہے۔ ان کے عظیم رفیق کار اور سوانح نگار الطاف حسین حالی لکھتے ہیں:
’’ان کے مقصد محمدن کالج قائم کرنے سے صرف یہی نہ تھا کہ مسلمانوں کی اولاد اس میں تعلیم پائے بلکہ سب سے بڑا مقصد، جو ۵۷ء سے لے کر آخر دم تک ان کے پیش نظر رہا، یہ تھا کہ مسلمانوں اور انگریزوں میں یک جہتی، میل جول اور اتحاد کو ترقی ہو۔‘‘ (۶)
پھر اس مقصد کو محض الفاظ تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ اس کی باقاعدہ تربیت دی جاتی رہی۔ طلبہ کے لیے بورڈنگ ہاؤس میں رہائش اسی وجہ سے ضروری قرار دی گئی تھی اور یہ جگہ ان کے لیے تجربہ گاہ کی حیثیت رکھتی تھی۔ مولانا حالی بیان کرتے ہیں:
’’شریفانہ اور باقاعدہ اطاعت وفرمانبرداری، جو ہر قوم کا اور خاص کر محکوم قوم کا زیور ہے، اس کی عادت ڈلوانے اور مشق کرانے کے جو ذریعے اس بورڈنگ ہاؤس میں موجود ہیں، ظاہراً ہندوستان کے کسی انسٹی ٹیوشن میں موجود نہیں ہیں۔‘‘ (۷)
سرسید کے دست راست نواب محسن الملک اس کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں:
’’ایک بورڈر جب مدرسۃ العلوم کی چار دیواری میں قدم رکھتا ہے، اپنے تئیں نئی آب وہوا اور ایک نئی زندگی میں پاتا ہے اور اپنے گرد وپیش کی تمام چیزوں میں زندہ دلی اور شگفتگی اور حرکت اور جوش دیکھتا ہے۔ اس کے کانوں میں ہر طرف سے محبت، ہمدردی اور گورنمنٹ کی سچی خیر خواہی کی آوازیں آتی ہیں۔‘‘ (۸)
سرسید نے جو بیج بویا، اس کی توصیف بیان کرتے ہوئے مولانا حالی لکھتے ہیں:
’’وہ اپنی قوم میں وفاداری، اخلاص اور اطاعت کے ہمیشہ کے لیے بیج بو گیا ہے۔ وہ ان کی آئندہ نسلوں کے لیے ایک ایسا بار آور درخت لگا گیا ہے جس کا پھل انگلش نیشن کی محنت اور انگلش گورنمنٹ کی وفاداری وفرمانبرداری ہے۔‘‘ (۹)
اسی مفہوم کو نواب محسن الملک نے ان الفاظ میں بیان کیا:
’’اس کا بیج تو بویا سرسید نے، اب جبکہ یہ پھلے پھولے گا اور اس میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو تہذیب، شائستگی، علمی قابلیت اور گورنمنٹ کی وفادار رعایا ہونے کی حیثیت سے آپ اپنی مثال ہوں گے تو اس وقت گورنمنٹ انگریزی کی برکتوں اور آزادی کی بشارت دیتے پھریں گے۔‘‘ (۱۰)
درج بالا حقائق کو جان کر بھی اگر کوئی یہ کہے کہ سرسید کی تعلیمی جدوجہد کے پیچھے ان کا مقصد مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرانا تھا تو اسے حسن ظن ہی کہا جا سکتا ہے۔ چلیے، ایک لمحے کے لیے یہ تصور کر لیتے ہیں کہ برصغیر کے علما نے سرسید پر واقعی ’’ظلم‘‘ کیا اور ان کی تعلیمی کاوشوں کو ملیا میٹ کرنا چاہا تو کیا وہ اس میں کام یاب ہوئے؟ قطعاً نہیں۔ ان کے جاری کردہ سکول نے پہلے کالج کی سطح تک ترقی کی اور پھر ایک عظیم الشان یونیورسٹی کی صورت اختیار کر گیا۔ ہزاروں مسلمان طلبہ اس سے فیض یاب ہوئے۔ انہوں نے کسی مولوی کے کہنے پر وہاں دی جانے والی تعلیم سے منہ نہیں موڑا۔ اس کے باوجود برصغیر کے مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ گئے۔ کیا دنیا کے دیگر اسلامی ممالک کے سرسید بھی اپنے اپنے ہاں کے مولویوں کے ’’بدترین ظلم‘‘ کا نشانہ بنے جو وہ ملک بھی ترقی کی منازل طے نہ کر سکا؟ ترکی کے بارے میں کیا رائے ہے کہ وہاں سرسید سے ہزار گنا ترقی پسند مصطفی کمال اور عصمت انونو جیسے افراد حکمران ہوئے جنہوں نے مولویوں کی پیداوار کا قلع قمع کر کے اپنے ملک کو الف سے یا تک یورپین بنا دیا۔ وہاں کے مسلمانوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں کس قدر ترقی کی اور اپنی قوم کو کون سا جائز مقام دلا دیا جو ہم آج تک نہیں حاصل کر پائے؟
حوالہ جات
(۱) سرسید کے آخری مضامین، مطبوعہ لاہور، ۱۸۹۸ء، ص ۱۴۱
(۲) بحوالہ دی لائف اینڈ ورک آف سرسید، مولفہ گراہم، مطبوعہ لندن، ۱۹۰۹ء، ص ۱۷۹
(۳) بحوالہ تذکرہ وقار، محمد امین زبیری، مطبوعہ آگرہ، ۱۹۳۸ء، ص ۲۱۲
(۴) روئیداد محمدن ایجوکیشنل کانفرنس اجلاس نہم، مطبوعہ آگرہ، ۱۸۹۵ء، ص ۱۷۰
(۵) مکمل مجموعہ لکچرز واسپیچز سرسید، مطبوعہ لاہور، ۱۹۰۰ء، ص ۴۳۰
(۶) حیات جاوید، الطاف حسین حالی، مطبوعہ کانپور، ۱۹۰۱ء، حصہ اول، ص ۲۹۲
(۷) ایضاً، حصہ دوم، ص ۹۲
(۸) مجموعہ لکچرز واسپیچز محسن الملک، مطبوعہ لاہور ۱۹۰۴ء، ص ۴۰۶
(۹) مقالات حالی، حصہ دوم، مطبوعہ دہلی، ۱۹۳۶ء، ص ۴۸
(۱۰) مجموعہ لکچرز واسپیچز محسن الملک، محولہ بالا، ص ۴۸۶
علما کا معاشرتی و مذہبی کردار - احمد اشرف صاحب کا مکتوب
احمد اشرف
محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم
عطاء الحق قاسمی صاحب نے اپنے کالم ’’ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا‘‘ میں آپ کے ایک خطاب کا اقتباس دیا جس پر چند حضرات نے موافقت اور مخالفت میں تبصرہ کیا جو ماہنامہ الشریعہ مئی / جون ۲۰۰۳ء میں چھپا۔
آپ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ جب ۱۸۵۷ء کے بعد انگریز حکمرانوں نے ہمارا پورا نظام تلپٹ کر دیا تھا، تب دو طبقے سامنے آئے تھے۔ علماء کرام نے قرآن وسنت کو باقی رکھنے کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی اور دوسرے طبقہ نے قوم کو جدید علوم سے بہرہ ور کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔ آپ نے نتیجہ یہ نکالا کہ علما نے اپنی ذمہ داری قبول کی اور اس کو نبھایا لیکن دوسرے طبقہ نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔
بات چونکہ ۱۸۵۷ء سے شروع ہوتی ہے لہٰذا پہلے تو ہندو، مسلمانوں نے مل کر انگریز کو ہندوستان سے نکالا اور ساتھ ہی ساتھ ہندوستان اور پاکستان دو ملک وجود میں آئے۔ دوسرے طبقے نے اپنی ذمہ داری یوں پوری کی کہ وہ ہندوؤں سے کسی طور پر پیچھے نہیں رہا یہاں تک کہ ایٹم بم کے معاملہ میں ایک طرح سے ہندو سے بڑھ گیا اور پھر ہندوؤں کا ایٹم بم ایک مسلمان عبد الکلام کا ممنون ہے۔ اب یہ مغربی ممالک اور امریکہ سے پیچھے رہے، اس کے کئی اسباب ہیں۔
جس رخ پر آپ نے بات کی، اس پر یقیناًعلما کام یاب رہے لیکن ناکام یاب اس طرح ہوئے کہ اول تو امت کو متحد نہ رکھ سکے۔ یہ فرقے در فرقے میں تحلیل ہوتی رہی۔ دوم ایسے ایسے عقیدے فراہم ہوئے کہ دین خالص کا حلیہ ہی بگڑ گیا۔ چند مثالیں حاضر خدمت ہیں:
۱۔ قرآن میں ہے:
’’ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے، سوائے اللہ کی ذات کے۔‘‘ (القصص ۸۸)
’’پھر اس (زندگی) کے بعد تمہیں موت آ کر رہے گی اور اس کے بعد قیامت کے دن تم پھر اٹھائے جاؤ گے۔‘‘ (المومنون ۱۵، ۱۶)
’’اب ان سب مرنے والوں کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک۔‘‘ (المومنون ۱۰۰)
’’آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔‘‘ (الزمر ۲۰)
’’ہمیشگی تو ہم نے تم سے پہلے بھی کسی انسان کے لیے نہیں رکھی ہے۔ اگر تم مر گئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیں گے؟ ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔‘‘ (الانبیاء ۳۴، ۳۵)
’’محمد اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں۔ ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ پس اگر یہ مر جائیں یا شہید کر دیے جائیں ، کیا تم الٹے پیروں پھر جاؤ گے؟‘‘ (آل عمران ۱۴۴)
آیات مندرجہ بالا سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہر انسان کو بلا کسی استثنا کے مرنا ہے لیکن سنیوں (بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث) کا عقیدہ ہے کہ نبی زندہ ہیں۔ چنانچہ بہشتی زیور میں مولانا اشرف علی تھانوی، جو حکیم الامت کہلاتے ہیں، اس ادب کا حال بیان کرتے ہیں جو رسول کی قبر کے پاس کھڑے ہو کر کرنا چاہیے کیونکہ نبی زندہ ہیں اور درود وسلام خود سنتے ہیں۔ کیا یہ سب مشرک نہیں ہیں؟ قرآن کے بالکل خلاف۔
۲۔ سورۂ اخلاص میں کہا گیا ہے: ’’کہو کہ اللہ ایک ہے۔ نہ کسی کا باپ نہ کسی کا بیٹا‘‘ لیکن عقیدہ یہ ہے کہ اللہ نور ہے اور اس نے اپنے نور کے ایک حصے سے محمد ﷺ کو پیدا کیا اور ایک اور حصے سے پوری کائنات۔ ڈاکٹر بلگرامی جو وائس چانسلر رہ چکے ہیں، قرآن کا ترجمہ اور تفسیر لکھی ہے، سیرت النبی میں یہی عقیدہ بیان فرماتے ہیں۔ بزرگوں کی نیاز کے موقع پر زور زور سے کہا جاتا ہے: ’’نور من نور اللہ‘‘ یہ ایک قسم کا وحدت الوجود کا عقیدہ ہے جس کی حیثیت شاعرانہ تخیل پر ہے، اسلام کے بالکل خلاف۔ اللہ کی ذات الگ اور باقی سب اس کی مخلوقات۔ یہ شرک بالذات ہے۔
۳۔ قرآن میں ہے کہ ’’ہر نفس کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا۔‘‘ (آل عمران ۲۵) لیکن عمل یہ ہے کہ اپنی کمائی ہوئی نیکی جس کو چاہے ارسال کر دے۔ رؤسا حج بدل کراتے ہیں۔ بس یہ کسر رہ گئی کہ پیسے دے کر نماز پڑھوا لی جائے اور روزے رکھوا لیے جائیں اور ثواب خود لے لیں یا کسی اور کو ارسال کر دیں۔
۴۔ البقرہ ۱۶۳میں مذکور ہے کہ : ’’اللہ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ ہے کہ مردار نہ کھاؤ، خون اور سور کے گوشت سے پرہیز کرو اور کوئی ایسی چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔‘‘
لیکن عمل یہ ہے کہ بزرگوں کی نذر کے معاملے میں نام ان کا لیا جاتا ہے اور اللہ کا بھی اور اس کو حرام سمجھنے کے بجائے تبرک سمجھ کر کھایا جاتا ہے۔
ان باتوں کا نتیجہ ہے کہ ایک نیا اسلام ظہور میں ہے اور ہمارے علما اس پر خاموش ہیں کیونکہ اس گمراہی سے نپٹنا آسان نہیں ہے۔
والسلام
احمد اشرف
IV G 3/6 Nazimabad, Karachi 79600
قومی سیمینار بیاد سید خورشید احمد گیلانیؒ
پروفیسر حافظ منیر احمد
۶ جون کی گرم ترین سہ پہر کو کونسل آف نیشنل افیئرز آف پاکستان نے الحمرا ہال نمبر ۲ میں ’قومی سیمینار بیاد صاحبزادہ سید خورشید احمد گیلانی‘ کے نام سے ایک کام یاب تعزیتی نشست کا اہتمام کیا۔ تقریب کے صدر علامہ شاہ احمد نورانی صدر متحدہ مجلس عمل جبکہ مہمان خصوصی جناب مجید نظامی مدیر اعلیٰ نوائے وقت تھے۔ سیمینار حقیقتاً ایک قومی سیمینار کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ صرف سید خورشید احمد گیلانی کی حق گوئی تھی جس کی ترجمانی ا س سیمینار سے ہو رہی تھی۔ اظہار خیال کرنے والوں میں ایم ایم اے کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر حافظ حسین احمد ، سابق سپیکر قومی اسمبلی ونائب صدر پاکستان پیپلز پارٹی سید یوسف رضا گیلانی، مسلم لیگ ن کے سید ظفر علی شاہ، ممبر قومی اسمبلی جناب فرید احمد پراچہ، روزنامہ پاکستان کے مدیر جناب مجیب الرحمن شامی، انجینئر سلیم اللہ، صوبائی وزیر جناب ڈاکٹر شفیق چوہدری، ممتاز ادیب اور بیورو کریٹ سید شوکت علی شاہ، ڈاکٹر اجمل نیازی اور مرحوم کے بھائی جناب ارشاد احمد عارف شامل تھے۔
کونسل آف نیشنل افیئرز آف پاکستان کے صدر جناب غلام مصطفی خان میرانی نے سیمینار کی غرض وغایت اور تمہیدی کلمات سے نشست کا آغاز کیا۔
روزنامہ پاکستان کے مدیر جناب مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ آغا شورش کشمیری کے بعد علامہ احسان الٰہی ظہیر بلا کے خطیب تھے۔ ان کے بعد اس سفر کو جناب خورشید احمد گیلانی نے طے کیا۔ وہ خطابت اور قلم دونوں کے دھنی تھے۔ ان کی زندگی کا ایک مقصد تھا جس کے حصول کے لیے وہ ماہی بے تاب تھے۔ وہ فرقہ واریت سے دور تھے، جبھی تو ہر مکتبہ فکر ان کو اپنا تصور کرتا تھا۔ مختلف فرقوں کے درمیان وہ ایک پل کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ مجلس عمل کے قیام کے پیچھے ان کی سوچ موجود ہے کیونکہ وہ ایسا اتحاد چاہتے تھے جس میں تمام فرقے اکٹھے ہو جائیں۔ انہوں نے بے شمار نوجوانوں کو حوصلہ دیا۔ جناب مجیب الرحمن شامی نے مزید کہا کہ پاکستانی معاشرہ اب بھی اس قابل ہے کہ بندہ اپنے آپ کو منوا سکتا ہے۔ آج کے دور میں جناب خورشید احمد گیلانی بہت یاد آتے ہیں کیونکہ وہ اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی تھے۔
ممتاز کالم نگار پروفیسر محمد اجمل نیازی نے کہا کہ سید خورشید احمد گیلانی نے ہمیشہ پڑھنے اور سننے کا پیغام دیا۔ وہ ایک مذہبی انسان تھے لیکن بہت معتدل۔ انہوں نے ہمیشہ قلم کی آبرو کو بلند رکھا۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں علماے حق اپنے اسلاف کی روایات کو ملٹری الائنس کے سامنے زندہ وجاوید رکھے ہوئے ہیں۔ خورشید گیلانی بھی اسی قبیلے کے ایک فرد تھے اور وہ ہمیشہ حق کے لیے اور غلبہ دین کے لیے لڑتے رہے۔
انجینئر سلیم اللہ نے کہا کہ تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ کے پانچ نکات کو تحریری شکل دینے کی سعادت جناب مرحوم کے حصے میں آئی۔ وہ اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی اور اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔
ممتاز ادیب سید شوکت علی شاہ نے کہا کہ یہ نشست حقیقی معنوں میں ایسی نشست ہے جس میں ہمیں یہ تجدید عہد کرنا ہے کہ زندگی کو ایک خاص مقصد کے تحت گزاریں۔ خورشید گیلانی مرحوم نے بھی زندگی کا ایک مقصد بنا رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں شکار پور، ڈی جی خان، حافظ آباد جہاں بھی بطور ڈپٹی کمشنر رہا، مجھے خورشید گیلانی کی رفاقت ملتی رہی۔ انہوں نے کہا کہ قومیں زبان کے بغیر گونگی ہوتی ہیں۔ اگرچہ اردو ہماری قومی زبان ہے لیکن اب بھی اسے تین صوبوں یہ حیثیت حاصل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ خورشید گیلانی نے اسلاف کی روایات کی ہمیشہ ترجمانی کی۔ انہوں نے صحافت کو ایک نئی سمت جبکہ اردو زبان کو نئے اسلوب عطا کیے۔
ممبر قومی اسمبلی جناب فرید احمد پراچہ نے کہا کہ خورشید گیلانی مرحوم ۱۹۷۵ء میں لاہور آئے۔ وہ والد مرحوم کی اکیڈمی کے پہلے طالب علم تھے۔ وہ خورشید جہاں تاب تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اتحاد ملت اور اسلام کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ آج ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے ضمیر فروشی میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ آج بھی رہبری کے بھیس میں رہزنی ہوتی ہے لیکن علماے حق آج بھی اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق چل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خورشید گیلانی امام احمد بن حنبل کے قبیلے کے ایک فرد تھے۔
صوبائی وزیر ایکسائز جناب ڈاکٹر محمد شفیق چوہدری نے کہا کہ مرحوم ایک صاحب بصیرت اور انقلابی شخص تھے۔ ان کے الفاظ میں امت مسلمہ کا درد اور امت کے لیے کرب ہوتا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی ذات کی نفی کی۔ نصب العین ان کی زندگی کا خاصہ تھا۔ وہ جہاں بیٹھتے، جس محفل کو رونق بخشتے، وہاں اتحاد امت کی بات کرتے۔
سابق وفاقی وزیر قانون وپارلیمانی امور سید ظفر علی شاہ نے کہا کہ آج ملک کے اندر قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ تینوں شعبے اپنے فرائض سے پہلو تہی کیے ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ نامکمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں ان کالم نگاہوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے استعمار کے خلاف حریت پسندوں کاساتھ دیا اور یہ اعزاز نوائے وقت کے حصے میں آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ او آئی سی جیسا ادارہ مردہ پڑا ہے۔ امریکی جارحیت افغانستان سے شروع ہو کر عراق تک پہنچی اور اب ایران، عراق سرحد پر پاسپورٹ چیک کر رہی ہے۔
ڈپٹی پارلیمانی لیڈر متحدہ مجلس عمل جناب حافظ حسین احمد نے کہا کہ میں چاغی سے لاہور سید خورشید احمد گیلانی کو خراج عقیدت پیش کرنے آیا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان پڑھ ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے لیکن ہمیں فخر ہے کہ ہمارے نبی ﷺ کو بھی امی ہونے کا طعنہ دیا گیا مگر ہم ابو جہل جیسے ان پڑھ نہیں۔ خورشید احمد گیلانی نے ہمیشہ آمروں کے کرتوتوں کو قلم بند کیا۔ آج کے دور میں پہلے قلم کو قلم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو تو سر کو قلم کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ اہل لاہور مجھ سے بہت سی باتیں سنانے کو کہہ رہے ہیں لیکن میں صرف یہ کہوں گا کہ ہم نے آئین کی بحالی کی قسم کھا رکھی ہے۔ ہم ایسی کوئی بات نہیں کریں گے جو آئین سے ماورا ہو۔ انہوں نے کہا کہ چاکری ان کو مبارک ہو۔ ایم ایم اے قوم کو اعتماد میں لے گی اور ان کو چاکری کرنے کے لیے پانچ ارب ڈالر ملے ہیں لیکن ہم امریکہ کے ٹکڑوں پر نہیں پل رہے۔ پانچ ارب ڈالر کے عوض ہمارے متفقہ آئین کی اسلامی دفعات کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔ فیڈرل شریعت کورٹ، اسلامی نظریاتی کونسل، ۷۳ء کے آئین کی اسلامی دفعات کو بلڈوز کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن ہم قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اس ملک کے جغرافیائی اور نظریاتی تحفظ کے لیے لڑتے رہیں گے۔
قومی اسمبلی کے سابق سپیکر سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ آج معاشرے میں حق کے ساتھ چلنا اور حق لکھنا بہت دشوار ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج اس ملک کا سب سے بڑا لمیہ یہ ہے کہ ملک کا سب سے بڑا ادارہ پارلیمنٹ نامکمل ہے کیونکہ آئین کی پاس داری نہیں کی جا رہی۔ اس صورت حال میں بیدار مغز لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کروانا ہوگی۔
سید خورشید احمد گیلانی کے برادر محترم جناب ارشاد احمد عارف نے کہا کہ جاگیرداری اور فوج کا تعلق بڑا گہرا ہوتا ہے۔ جاگیرداروں کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے۔ ہمیں جاگیرداری کے چنگل سے نکل کر حق کے ساتھ چلنا ہوگا، تبھی ملک کا اسلامی تشخص بحال ہوگا۔ اتحاد، انقلاب اور اجتہاد یہی سید خورشید احمد کے اہداف تھے۔
صدر مجلس علامہ شاہ احمد نورانی نے کہا کہ خورشید مرحوم بڑے صاف گو، ملنسار اور شفقت کرنے والے انسان تھے۔ اگرچہ وہ ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی تحریریں آج بھی زندہ ہیں اور صدقہ جاریہ ہیں۔ ان کے الفاظ میں بے ساختہ روانی اور ان کی تحریر میں بلا کی جاذبیت ہے اور ہر سطر سے عشق رسول ﷺ کا جذبہ ٹپکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسان جب دنیا سے چلا جاتا ہے تو اعمال منقطع ہو جاتے ہیں لیکن تین چیزیں بطور صدقہ جاریہ باقی رہتی ہیں جن میں سے ایک علم نافع ہے اور آج گیلانی صاحب مرحوم کی تحریریں یقیناًہماری اصلاح کے لیے ایک سرمایہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایم ایم اے کی تشکیل کے پیچھے گیلانی صاحب جیسے صاحب بصیرت لوگوں کی جہد مسلسل کارفرما ہے۔ انہوں نے دعا کی کہ اللہ ہمیں اتحاد نصیب فرمائے اور خورشید گیلانی جیسے قلم کار ہمارے اندر پیدا کرتا رہے، جو ہمیشہ حق کے لیے لکھیں، حق کے لیے بولیں اور حق کے لیے لڑیں۔ انہی جیسے صاحب کردار لوگوں کو آج قوم کی رہنمائی کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔
تعارف و تبصرہ
ادارہ
’’میزان‘‘
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جسٹس محترم وجیہ الدین احمد ان محترم جج صاحبان میں شامل ہیں جنہوں نے سودی قوانین کے خاتمہ کے بارے میں تاریخی فیصلہ دیا تھا اور وہ ان بااصول ججوں میں سے ہیں جنہوں نے پی سی او کے تحت نیا حلف اٹھانے سے اس لیے انکار کر دیا تھا کہ وہ دستور پاکستان کے تحت حلف اٹھانے کے بعد اس سے متصادم کوئی اور حلف نہیں اٹھا سکتے۔ جسٹس صاحب موصوف نے مختلف تقاریر، بیانات اور انٹرویوز میں دونوں حوالوں سے اپنے موقف کی تفصیل سے وضاحت کی ہے اور اس کے ساتھ پاکستان کی دستوری تاریخ کے بعض اہم حصوں کی بھی نقاب کشائی کی ہے۔
مولانا عبد الرشید انصاری نے ادارہ نور علیٰ نور کے تحت ان تقاریر، بیانات اور انٹرویوز کا ایک جامع انتخاب ’’میزان‘‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ نفاذ اسلام کی جدوجہد سے شعوری تعلق رکھنے والے علماء کرام، ارباب سیاست اور کارکنوں کے لیے اس کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے۔
قیمت:۲۰۰ روپے۔ ملنے کا پتہ: پاکستان لا ہاؤس، پاکستان چوک، کراچی۔
’’ضرورت رسالت‘‘ او ر ’’تحفہ پاکستان‘‘
شیخ الحدیث حضرت مولانا سلطان محمود رحمہ اللہ تعالیٰ آف کٹھیالہ شیخاں ہمارے بزرگ علماء کرام میں سے تھے۔ انہوں نے ایک عرصہ تک مدرسہ عالیہ فتح پوری دہلی میں صدر مدرس کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیے۔ منقولات اور معقولات میں ید طولیٰ رکھتے تھے اور مشکل سے مشکل مسائل کو عام فہم انداز میں پیش کرنا ان کا خصوصی ذوق تھا۔ انہوں نے اس دور میں مختلف دینی موضوعات پر رسائل تحریر فرمائے جن سے علماء کرام اور جدید تعلیم یافتہ حضرات دونوں نے استفادہ کیا۔ اب ان کے پوتے مولانا قاری اسد اللہ (فاضل مدرسہ نصرۃ العلوم) نے ان رسائل کی دوبارہ طباعت کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ان میں سے ’’ضرورت رسالت‘‘ اور ’’تحفہ پاکستان‘‘ کے نام سے دو رسالے اس وقت ہمارے سامنے ہیں۔
اول الذکر میں رسالت کی ضرورت، انبیاء کرام علیہم السلام کی بشریت، معجزات اور دیگر ضروری امور کی وضاحت کی گئی ہے۔ ایک سو بار ہ صفحات پر مشتمل اس کتابچہ کی قیمت پچاس روپے ہے۔ جبکہ ’’تحفہ پاکستان‘‘ میں اسلامی سیاست کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور چونسٹھ صفحات کے اس کتابچہ پر اس کی قیمت ۶۵ روپے درج ہے۔ یہ دونوں کتابچے مدرسہ خادم علوم نبوت، کٹھیالہ شیخاں، ضلع گجرات سے طلب کیا جا سکتے ہیں۔
’’معجم اصطلاحات حدیث‘‘
ادارۂ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، فیصل مسجد، اسلام آباد کے شعبہ علوم القرآن والحدیث کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سہیل حسن صاحب نے حدیث نبوی علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کے حوالہ سے علم حدیث کے وسیع اور متنوع ذخیرہ میں استعمال ہونے والی سینکڑوں اصطلاحات کو حروف تہجی کی ترتیب اور مفید وضاحت کے ساتھ یکجا کر دیا ہے جو علم حدیث کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے بطور خاص ایک گراں قدر تحفہ ہے۔
۴۲۴ صفحات پر مشتمل یہ کتاب عمدہ کتابت وطباعت سے مزین ہے اور اس کی قیمت ۳۲۵ روپے ہے۔
’’اسلام اور عصر حاضر کے مسائل وحل‘‘
پروفیسر عبد الماجد صاحب نے عصر حاضر کے متعدد فکری وتہذیبی مسائل کا مختلف مقالات میں اسلامی نقطہ نظر سے جائزہ لیا ہے۔ ان میں سے بعض مقالات وہ ہیں جو اہم کانفرنسوں میں پڑھے گئے اور ان پر مقتدر شخصیات کی طرف سے ایوارڈ بھی دیے گئے۔ ہمارے خیال میں جدید تعلیم یافتہ حضرات کے لیے یہ بطور خاص افادیت کی حامل ہے اور نوجوانوں کی فکری تربیت کے نصاب میں شامل کیے جانے کے لائق ہے۔
مقالات کا یہ مجموعہ ہزارہ سوسائٹی فار سائنس ریلیجن ڈائیلاگ مانسہرہ نے شائع کیا ہے اور ۲۷۰ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ۱۰۰ روپے ہے۔
’’خطبات شورش‘‘
مجاہد تحریک آزادی اور مجاہد تحریک ختم نبوت آغا شورش کاشمیری مرحوم کا شمار برصغیر کے چوٹی کے خطبا میں ہوتا ہے۔ ملت اسلامیہ میں آزادی کی روح بیدار کرنے اور عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں آغا شورش کاشمیری مرحوم کی تحریر وتقریر دونوں کا بہت نمایاں حصہ ہے۔
شیخ حبیب الرحمن بٹالوی نے آغا صاحب مرحوم کے بعض اہم خطبات اور ان کے بارے میں مختلف اصحاب دانش کے تاثرات کا خوبصورت انتخاب پیش کیاہے جو ہر باذوق شخص کے لیے تحفہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
۳۳۶ صفحات کی اس مجلد کتاب کی قیمت دو سو روپے ہے اور اسے مکتبہ احرار، 69/C، حسین سٹریٹ، نیو مسلم ٹاؤن، لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ ‘‘
مفتی محمود اکیڈمی کراچی نے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کی حیات وخدمات پر ایک سیمینار منعقد کیا جس میں ممتاز علماء کرام اور اہل دانش نے مقالات وخطبات کے ذریعہ حضرت مرحوم کی ملی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا۔ ہمارے فاضل دوست جناب محمد فاروق قریشی نے ان مقالات وخطبات کو کتابی صورت میں جمع کر دیا ہے، اس میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کے بعض اہم مکتوبات کا اضافہ کیا ہے، اور حضرت مرحوم کی چند نادر تحریریں بھی شامل کر دی ہیں۔
۲۱۶ صفحات کی اس مجلد کتاب کی قیمت ۱۳۰ روپے ہے اور اسے جمعیۃ پبلی کیشنز، مسجد پائلٹ سکول، وحدت روڈ لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’حجیت حدیث‘‘
حجیت حدیث پر معروف محدث الشیخ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ تعالیٰ کے رسالہ کا حافظ عبد الرشید اظہر صاحب نے اردو میں ترجمہ کیا ہے جس میں حدیث وسنت کی حجیت واہمیت پر مفید بحث کے ساتھ تقلید کے جواز اور عدم جواز کی بحث کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ اس سے ہٹ کر حجیت حدیث کے حوالے سے یہ رسالہ خاصا معلوماتی ہے۔
۸۸ صفحات پر مشتمل یہ رسالہ مجلس التحقیق الاسلامی، 99/J، ماڈل ٹاؤن، لاہور نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت ۹ روپے درج ہے۔
’’زیارۃ القبور‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے ایک سوال کے جواب میں قبروں کے حوالے سے مختلف شرعی احکام کی وضاحت کی ہے اور قبروں پر ہونے والی رسوم وبدعات کی اپنے مخصوص انداز میں تردید کی ہے۔ اس میں توسل بالذات کے بارے میں ان کا مخصوص مسلک بھی شامل ہے۔ اس کا اردو ترجمہ المکتبۃ السلفیۃ شیش محل روڈ لاہور نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت درج نہیں ہے۔
’’ذبح کرنے کا طریقہ اسلام اور سائنس کی روشنی میں‘‘
ڈاکٹر شفیق الرحمن صاحب نے جانور کو ذبح کرنے کے اسلامی طریقے کی شرعی اور سائنسی اصولوں کی روشنی میں وضاحت کی ہے اور اس سے متعلقہ مسائل کو عام فہم انداز میں پیش کیا ہے۔
۲۰ صفحات کا یہ رسالہ مجلس التحقیق الاسلامی، 99/J، ماڈل ٹاؤن لاہور نے شائع کیا ہے۔
’’دعوت وتبلیغ کی چھ صفات پر منتخب آیات‘‘
تبلیغی جماعت کے مبلغین عام طور پر اپنی گفتگو کا دائرہ ۱۔ کلمہ طیبہ، ۲۔ نماز، ۳۔ علم وذکر، ۴۔ اکرام مسلم، ۵۔ اخلاص نیت اور ۶۔ دعوت وتبلیغ کے چھ نکات تک محدود رکھتے ہیں۔ مولانا حافظ مومن خان عثمانی فاضل مدرسہ نصرۃ العلوم نے ان نکات کے حوالے سے قرآن کریم کی آیات کا ایک جامع انتخاب کیا ہے اور ترجمہ کے ساتھ ساتھ مختلف تفاسیر سے ان کی وضاحت بھی درج کر دی ہے۔
دو سو چالیس صفحات پرمشتمل اس مجلد کتاب کی قیمت ۹۰ روپے ہے اور اسے دار الکتاب، عزیز مارکیٹ، اردو بازار لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’روئیداد اسلام آباد فقہی سیمینار‘‘
المرکز الاسلامی بنوں کے تحت مولانا سید نصیب علی شاہ ایم این اے کی نگرانی میں ۱۵، ۱۶ مارچ ۲۰۰۳ء کو جامع مسجد دار السلام اسلام آباد میں ’’اسلام کا مالیاتی نظام‘‘ کے عنوان پر علمی سیمینار منعقد ہوا جس میں عنوان سے متعلقہ بہت سے اہم پہلوؤں پر فاضل علما اور اہل دانش نے مقالات پیش کیے۔ اس کی روداد المرکز الاسلامی ڈیرہ روڈ بنوں کی طرف سے شائع کی گئی ہے اور مختلف مقالات وخطابات کے اہم نکات بھی اس میں شامل کر دیے گئے ہیں۔
۲۴ صفحات کی رپورٹ مندرجہ بالا ایڈریس سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
چند معلوماتی اور مفید رسائل
جناب محمد عطاء اللہ صدیقی ہمارے ملک کے معروف صاحب قلم ہیں جو وقتاً فوقتاً مختلف موضوعات پر اخبارات وجرائد میں معلوماتی مضامین لکھتے ہیں اور خاص طور پر مغرب کی فکری اور تہذیبی یلغار کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘، ’’نور جہاں فتور جہاں‘‘، ’’بسنت‘‘ اور ’’پنجابی کانفرنس‘‘ کے بارے میں ان کے مضامین کو الگ الگ رسالوں کی صورت میں اسلامک ہیومن رائٹس فورم، 99/J، ماڈل ٹاؤن، لاہور نے شائع کیا ہے۔
’’سرکار کے قدموں میں ‘‘
معروف نعت گو شاعر سید صبیح الدین رحمانی کے حمد باری تعالیٰ اور نعت رسول مقبول ﷺ پر مشتمل کلام کا ایک مختصر اور خوب صورت انتخاب بزم غوثیہ نعت انٹر نیشنل جامع مسجد غوثیہ اے ایریا ملیر کالا بورڈ کراچی نے شائع کیا ہے۔
۳۲ صفحات کے اس جیبی سائز کے کتابچہ کی قیمت دس روپے ہے۔
ادارہ اشاعت الاسلام مانچسٹر کی مطبوعات
ادارہ اشاعت الاسلام مانچسٹر محترم الحاج ابراہیم یوسف باوا کی سرپرستی اور ان کے لائق فرزند مولانا حافظ محمد اقبال رنگونی کی ادارت میں تعلیمی، اصلاحی اور اشاعتی محاذ پر گراں قدر دینی خدمات سرانجام دے رہا ہے اور اس کی مختلف مطبوعات اب تک سامنے آ چکی ہیں۔ ان میں سے چند کا ایک تعارف درج ذیل ہے:
- ’’فضائل عید‘‘: اس میں الحاج ابراہیم یوسف باوا نے عید کے فضائل واحکام کا ذکر کیا ہے۔
- ’’پچاس قرآنی اعمال‘‘: مختلف امراض کے روحانی علاج کے حوالے سے پچاس قرآنی دعاؤں اور اعمال کا مجموعہ الحاج ابراہیم یوسف باوا نے مرتب کیا ہے۔
- ’’دین وایمان کی دو باتیں‘‘: رسول اللہ ﷺ کے جن ارشادات میں دو دو باتوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان کا ایک خوب صورت انتخاب الحاج ابراہیم یوسف باوا نے پیش کیا ہے۔
- ’’معارف طیب‘‘: حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ کے ارشادات وفرمودات میں سے چند اہم امور کا انتخاب حافظ محمد اقبال رنگونی نے کیا ہے جن میں عیسائی دنیا کے نام ایک اہم پیغام بھی شامل ہے۔
- ’’حضرت امیر معاویہؓ‘‘: امیر المومنین حضرت امیر معاویہؓ کے بارے میں اہل سنت کے عقائد کی روشنی میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ارشادات میں سے اہم باتوں کا انتخاب حافظ محمد اقبال رنگونی نے پیش کیا ہے۔
- ’’فضائل واعمال رمضان المبارک‘‘: الحاج ابراہیم یوسف باوا کے قلم سے رمضان المبارک کے فضائل اور اعمال کا ایک مختصر انتخاب شائع کیا گیا ہے۔
خوب صورت ٹائٹل اور عمدہ کتابت وطباعت سے مزین یہ کتابچے مندرجہ ذیل پتہ سے طلب کیے جا سکتے ہیں:
IDARA ISHA'AT-UL-ISLAM, P.O. Box 36, Manchester, M16 7AN (UK)
اگست ۲۰۰۳ء
موجودہ صورتحال اور علما کی ذمہ داری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
۱۰ جولائی ۲۰۰۳ء کو جامع مسجد مکرم اہل حدیث ماڈل ٹاؤن گوجرانوالہ میں جماعت الدعوۃ پاکستان کے زیر اہتمام ’’علماء کنونشن‘‘ منعقد ہوا جس میں مختلف مکاتب فکر کے علماے کرام اور دینی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی جبکہ جماعت الدعوۃ پاکستان کے سربراہ پروفیسر حافظ محمد سعید جماعت اسلامی پنجاب کے امیر حافظ محمد ادریس، مرکزی جمعیۃ اہل حدیث پنجاب کے امیر مولانا محمد اعظم، مسجد مکرم کے خطیب مولانا اسعد محمود سلفی اور دیگر علماے کرام کے علاوہ پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے بھی خصوصی دعوت پر کنونشن سے خطاب کیا۔ ان کے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
بعد الحمد والصلوۃ! سب سے پہلے جماعت الدعوۃ پاکستان کا شکر گزار ہوں کہ اس محفل میں حاضری، آپ سے حضرات سے کچھ گزارشات پیش کرنے اور بہت سے علماے کرام کی گفتگو سننے کا موقع فراہم کیا۔ اللہ تعالیٰ جزاے خیر سے نوازیں اور ہم سب کو کچھ مقصد کی باتیں کہنے، سننے اور ان پر عمل کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین
یہ محفل علماے کرام کی ہے اور موجودہ حالات میں ان کی ذمہ داریوں پر گفتگو اس کنونشن اک خصوصی موضوع ہے۔ جہاں تک علماے کرام کے حوالہ سے موجودہ صورت حال کا تعلق ہے، مجھے ’’چومکھی لڑائی‘‘ کا محاورہ یاد آرہا ہے جس میں انسان کو آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، چاروں طرف سے دشمنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سب سے بیک وقت لڑنا پڑتا ہے لیکن اس وقت دنیا میں اہل دین کو اور اسلام کی نمائندگی کرنے والوں کو جن محاذوں کا سامنا ہے اور جن جن مورچوں پر لڑنا پڑ رہا ہے، اسے دیکھ کر اس محاورے کا دامن تنگ نظر آتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ شاید اسے ڈبل کر کے بھی درپیش منظر کی پوری طرح عکاسی نہ کی جا سکے۔ مگر میں ان میں سے چند اہم محاذوں اور مورچوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جن پر اس وقت دنیاے اسلام کے اہل دین کو محاذ آرائی درپیش ہے۔
پہلا مورچہ تو عالمی سطح کا ہے کہ عالمی قوتوں نے یہ بات طے کر رکھی ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں اہل دین کو اقتدار اور قوت میں آنے سے ہر قیمت پر روکنا ہے اور یہ باقاعدہ ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ ہے۔ آپ حضرات کے علم میں ہوگا کہ پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی خلافت عثمانیہ بھی جرمنی کے ساتھ تھی اور جرمنی کی شکست کی وجہ سے وہ بھی شکست سے دوچار ہو گئی تھی۔ خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے ایک طرف ترکوں کو ’’ترک نیشنل ازم‘‘ کے نام پر عربوں کے خلاف ابھارا گیا تھا اور دوسری طرف عربوں کو ان کی برتری کا احساس دلا کر ’’عرب قومیت‘‘ کا پرچم ان کے ہاتھ میں تھما دیا گیا تھا۔ مکہ مکرمہ میں خلافت عثمانیہ کے گورنر شریف حسین کو عرب خالفت کالالچ دے کر ترکی کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا گیا تھا جس کی بغاوت کے بعد عرب علاقے ترکی کی دسترس سے نکل گئے تھے۔ فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا تھا۔ عراق اور اردون پر شریف مکہ کے ایک ایک بیٹے کو بادشاہ بنا کر حجاز پر آل سعود کا قبضہ کرا دیا گیا تھا۔ اس دوران جنگ عظیم میں شکست کے بعد جب قسطنطنیہ یعنی استنبول پر برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجوں نے قبضہ کر لیا تو ترکوں کو ترکی کی حکومت کے حوالے کرنے کے لیے اتحادیوں کی بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ترکی کے قوم پرست لیڈروں کو اس شرط پر ترکی کا حکمران تسلیم کیا گیا کہ وہ:
- ترکی کی حدود تک محدود رہیں گے۔
- خلافت کو ختم کر دیں گے۔
- ملک میں نافذ اسلامی قوانین منسوخ کر دیں گے۔
- اور اس بات کی ضمانت دیں گے کہ آئندہ کبھی اسلامی قوانین نافذ نہیں کیے جائیں گے اور نہ ہی خلافت بحال کی جائے گی۔
مصطفی کمال اتاترک اور دیگر ترک قوم پرست لیڈروں نے ان شرائط کو قبول کر کے ترکی کا اقتدار سنبھالا اور ان شرائط پر عمل بھی کیا۔ آج بھی یہی صورت حال درپیش ہے اور مغربی ممالک اپنی ان شرائط پر مضبوطی سے قائم ہیں۔ ہمارے پڑوس افغانستان میں طالبان کی حکومت کا تیا پانچہ اسی جرم میں کیا گیا ہے کہ انہوں نے اسلامی قوانین نافذ کر دیے تھے اور خلافت کے قیام کی طرف پیش رفت کر رہے تھے، اس لیے ہمارا سب سے بڑا محاذ یہ عالمی گٹھ جوڑ ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں اسلامی نظریاتی ریاست کے قیام میں اصل رکاوٹ ہے۔ اس محاذ سے عالم اسلام کی رائے عامہ کو آگاہ کرتے ہوئے عام مسلمانوں کو بیدار کرنا اور اس گٹھ جوڑ کے خلاف منظم کرنا علماے کرام کی ذمہ داری ہے۔ یہ کام انہوں نے ہی کرنا ہے۔ اور کوئی یہ کام نہیں کرے گا اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی سے کوئی توقع رکھنی چاہیے۔
ہمارا دوسرا محاذ داخلی ہے اور ہمارے حکمران طبقے اور مغربی کی تہذیب وترقی سے مرعوب حلقے ہم سے یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ اسلام کی کوئی ایسی نئی تعبیر وتشریح کی جائے جس میں اسلام کا پرچم بھی ہاتھ میں رہے، مغرب بھی ہم سے ناراض نہ ہو اور ہماری عیاشی، مفادات اور موجودہ زندگی کے طور طریقوں پر بھی کوئی اثر نہ پڑے۔ سود کی حرمت کی بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس کے بغیر ہماری تجارت نہیں چل سکتی، شراب کی بات کریں تو کہا جاتا ہے کہ یہ دقیانوسی باتیں ہیں، ناچ گانے اور عریانی وفحاشی کی مخالفت کریں تو کلچر اور تہذیب کا سوال سامنے آ جاتا ہے اور نماز روزے کی پابندی کی طرف توجہ دلائیں تو زندگی کی مصروفیات کا بہانہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ اب ایسا اسلام جس میں نماز کی پابندی ضروری نہ ہو، سود کو نہ چھیڑا جائے، شراب پر کوئی پابندی نہ ہو، اور ناچ گانے کے فروغ میں بھی کوئی رکاوٹ نہ ہو، ہماری سابق تاریخ میں تو اس کی کوئی مثال نہیں ملتی لیکن اب اسے ’’روشن خیال اسلام‘‘ کے عنوان سے پیش کیا جا رہا ہے اور مطالبہ یہ کیا جاتا ہے کہ اسلام کی سابقہ تعبیرات کو ترک کر کے اس ’’روشن خیالی اور ترقی پسندی‘‘ کو اپنا لیا جائے۔
میں اس کے جواب میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اس قسم کے اسلام کا مطالبہ طائف والوں نے کیا تھا جس کا ذکر مولانا سید سلیمان ندویؒ نے ’’سیرت النبی‘‘ میں قبیلہ ثقیف کے قبول اسلام کے تذکرہ میں کیا ہے کہ بنو ثقیف کا وفد جناب نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں مدینہ منورہ آیا اور گزارش کی کہ ہم طائف والے اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں لیکن ہماری چند شرائط ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہم شراب نہیں چھوڑ سکیں گے اس لیے کہ ہمارے ہاں انگور کثرت سے پیدا ہوتا ہے اور ہماری معیشت کا زیادہ تر دارومدار اسی پر ہے اس لیے شراب بنانا اور بیچنا ہماری معاشی مجبوری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم سود سے بھی دست بردار نہیں ہوں گے اس لیے کہ دوسری اقوام اور قبائل کے ساتھ ہماری تجارت سود کی بنیاد پر ہوتی ہے اور سود کو ختم کر دینے سے ہماری تجارت ٹھپ ہو کر رہ جائے گی۔ تیسری بات یہ کہ زنا کو چھوڑنا ہمارے لیے مشکل ہوگا اس لیے ہمارے ہاں شادیاں دیر سے کرنے کا رواج ہے اور زنا کے بغیر ہمارے جوانوں کا گزارہ نہیں ہوتا اور چوتھی بات یہ ہے کہ ہم پانچ وقت نماز کی پابندی بھی نہیں کر سکیں گے۔ ہماری ان شرائط کو منظور کر کے آپ ہمیں مسلمان بنانا چاہیں تو ہم سارے طائف والے کلمہ پڑھنے کے لیے تیار ہیں۔ سیرت النبی میں مذکور ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ نے یہ چاروں شرائط مسترد کر دیں اور بالآخر اہل طائف نے غیر مشروط طور پر اسی طرح مکمل اسلام قبول کیا جس طرح باقی اقوام نے کیا تھا۔ لیکن آج بھی ہمارے سامنے پھر ’’مشروط اسلام‘‘ کا مطالبہ کھڑا کر دیا گیا ہے اور شرطیں بی کم وبیش وہی ہیں جو طائف والوں کی تھیں اس لیے علماے کرام کی یہ ذمہ داریہے کہ وہ عام مسلمانوں کو اس صورت حال سے آگاہ کریں اور انہیں یہ بات دلائل سے اور سیرت نبوی کی روشنی میں سمجھائیں کہ اسلام وہی ہے جو جناب نبی اکرم ﷺ نے پیش فرمایا تھا او امت چودہ سو سال سے اس پر عمل کرتی آ رہی ہے۔ اس میں کوئی کمی بیشی قبول نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی اسلام کے حصے بخرے کیے جا سکتے ہیں۔ اسلام جب بھی نافذ ہوگا یا جسے بھی اسلام قبول کرنا ہوگا، پورے کا پورا قبول کرنا ہوگا اور اسلام کے کیے ایک صریح حکم کا انکار بھی پورے اسلام کا انکار متصور ہوگا۔
ہمارا تیسرا محاذ میڈیا اور ذرائع ابلاغ کا محاذ ہے جس نے پوری دنیا کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ایک طرف اسلامی احکام وعقائد اور قوانین کے خلاف پروپیگنڈا ہوتا ہے اور اسلامی قوانین پر اعتراضات ہوتے ہیں، دوسری طرف دینی قوتوں اور اسلامی تحریکات کی کردار کشی کی مہم جاری ہے اور انہیں دشت گرد اور بنیاد پرست قرار دے کر ان کے خلاف پوری دنیا میں نفرت کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے اور تیسری طرف بے حیائی، ناچ گانا، عریانی اور سفلی خواہشات کو ابھار کر نئی نسل کو اخلاقی طور پر تباہ کیا جا رہا ہے۔ میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی اس یلغار کا سامنا بھی اہل دین نے ہی کرنا ہے اور یہ بھی علماء کرام اور دینی مراکز کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات اور مختلف اسلامی احکام وروایات کے بارے میں پھیلائے جانے والے شکوک وشبہات کا آج کی زبان اور اسلوب میں جواب دینا اور لوگوں کو مطمئن کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اسی طرح اسلامی تحریکات کی کردار کشی کی مہم کا مقابلہ کرنا اور عام مسلمانوں بالخصوص نئی نسل کو قرآن وسنت کی تعلیمات سے آراستہ کرتے ہوئے مغربی تہذیب کے اثرات سے بچانے کی کوشش کرنا بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے۔
حضرات محترم! آج کے ماحول میں ہمیں کون کون سے چیلنج درپیش ہیں اور کن کن محاذوں کا سامنا ہے، اس کے بارے میں بہت کچھ کہنے کی ضرورت اور گنجائش ہے لیکن سردست ان چند امور پر اکتفا کرتے ہوئے آخر میں علماے کرام اور دینی کارکنوں سے تین گزارشات کرنا چاہتا ہوں:
- دینی جدوجہد سے لاتعلق نہ رہیں کیونکہ اس دور میں اس ماحول میں دین کی جدوجہد سے کلیۃً لا تعلق رہنے میں مجھے ایمان کا خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ جس شعبے میں آپ آسانی سے کام کر سکتے ہیں، وہاں کام کریں لیکن کچھ نہ کچھ ضرور کریں۔ عملی جہاد میں حصہ لے سکتے ہیں تو بڑی سعادت کی بات ہے ورنہ زبان وقلم کے جہاد میں شریک ہوں، مال خرچ کر سکتے ہیں تو مال خرچ کریں، میڈیا کے محاذ پر کام کی صلاحیت رکھتے ہیں تو اس میں حصہ لیں، لابنگ کر سکتے ہیں تو یہ بھی ایک اہم شعبہ ہے، ذہن سازی اور فکری تربیت میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں تو اس میں حصہ ڈالیں۔ جو آپ کر سکتے ہیں، وہی کریں لیکن دینی جدوجہد میں خاموش تماشائی نہ بنیں، لا تعلق نہ رہیں اور کنارہ کشی کسی صورت میں اختیار نہ کریں کیونکہ یہ ایمان کے بھی خلاف ہے اور دینی غیرت کے بھی منافی ہے۔
- جو شخص دین کے جس شعبے میں اور دینی جدوجہد کے جس محاذ پر کام کر رہا ہے، اسے کام کرنے دیں، اس کی مخالفت نہ کریں، حوصلہ شکنی نہ کریں اور اس کے کام کی نفی نہ کریں۔ کمزوریاں برداشت کریں اور اچھائیوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ اسی سے قوت پیدا ہوگی اور باہمی اعتماد پیدا ہوگا۔
- میری تیسری اور آخری گزارش ہے کہ علماے کرام اور دینی حلقے جہاں جہاں کام کر رہے ہیں، آپس میں رابطہ اور مشاورت کا ماحول بنائیں، ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں، باہمی میل جول بڑھائیں اور ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کریں۔ میں ایک کارکن کے طور پر اپنے تجربے کی بنیاد پر عرض کرتا ہوں کہ جتنا کام ہم اپنی اپنی جگہ کر رہے ہیں، وہ بھی کم نہیں ہے۔ اگر ہم باہمی مشاورت اور تقسیم کار کے ساتھ اسی کام کو صحیح طریقے سے منظم اور مربوط کر لیں تو ہمارے موجودہ کام کی افادیت میں دس گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔
میں ایک بار پھر محترم پروفیسر حافظ محمد سعید صاحب اور جماعت الدعوۃ پاکستان کے دیگر ذمہ دار حضرات کا شکر گزار ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت ہمیں دینی جدوجہد میں اپنا کردار صحیح طریقہ سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
پاک بھارت اتحاد کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کے خیالات
پروفیسر میاں انعام الرحمن
۲۲ جولائی ۲۰۰۳ء کے اخبارات کی شہ سرخیوں میں مولانا فضل الرحمن کا یہ بیان شائع ہوا کہ پاک بھارت گول میز کانفرنس منعقد ہونی چاہیے جو اس امر کا جائزہ لے کہ آیا دونوں ممالک دوبارہ ایک ہونا چاہتے ہیں یا نہیں۔ مولانا نے اس سلسلے میں مشرقی اور مغربی جرمنی کی مثال دی جو نصف صدی کے بعد دوبارہ متحد ہو چکے ہیں۔
ہماری رائے میں جرمنی کی مثال کا اطلاق پاک بھارت اتحاد پر نہیں ہو سکتا کیونکہ جرمنی کی تقسیم خالصتاً اتحادی قوتوں کی پیدا کردہ تھی، جنہیں اندیشہ تھا کہ متحدہ جرمنی دوبارہ طاقت پکڑ کر ان کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ تقسیم ہند کا معاملہ اس سے خاصا مختلف ہے کہ اس تقسیم میں بنیادی کردار داخلی قوتوں کا تھا۔ ہمارا اشارہ ہندو مسلم اختلافات کی طرف ہے جو اب بھی قائم ہیں، لہٰذا یہ بات کہنے کی حد تک تو آسان ہے لیکن دونوں ممالک کے مابین اختلافات کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے عملاً ایسے کسی اتحاد کی طرف قدم بڑھانا جوے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس اتحاد کی کوئی صورت اگر پیدا ہوئی تو اس کی نوعیت وہ نہیں ہوگی جو مولانا کے ذہن میں ہے بلکہ یہ اتحاد غالباً اسٹیٹ سسٹم کے پھیلاؤ (proliferation) سے جڑ پکڑے گا۔ اس سلسلے میں یہ نکتہ مزید ذہن میں رہے کہ پاکستان کے ریاستی نظام کا پھیلاؤ کم از کم دو جہتوں کو محیط ہوگا۔ ایک تو، علاقائی تقاضوں کے پیش نظر، خطے کے اندر، مثال کے طور پر سارک اور ایکو وغیرہ کی فعالیت میں اضافے کی شکل میں، اور دوسرا اپنے اسلامی تشخص کی بقا اور اس کے مقصود پھیلاؤ کے پیش نظر عالمی سطح پر، مثلاً او آئی سی کے حق میں ریاستی اختیارات سے ممکنہ حد تک دست برداری کی صورت میں۔ چنانچہ صرف پاک بھارت اتحاد تاریخی تناظر، موجودہ عالمی ماحول اور ہمارے عزائم کے ساتھ زیادہ لگا نہیں کھاتا۔ اس ضمن میں موجودہ عالمی تناظر کے حوالے سے بعض تفصیلات زیر نظر شمارے میں ’’سماجی تبدیلی کے نئے افق‘‘ کے زیر عنوان ہماری تحریر میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
صحابہ کرامؓ کے اسلوب دعوت میں انسانی نفسیات کا لحاظ (۱)
پروفیسر محمد اکرم ورک
دعوت و تبلیغ ایک مقدس فریضہ اور کارِ انبیا ہے اور انسانی نفسیات اور فہم وشعور سے اس کا گہرا تعلق ہے۔ انسان کی عملی زندگی میں قوتِ محرکہ اس کا دل اور دماغ ہے۔ اگر داعی مخاطب کے دل ودماغ کو اور اس کے فہم وشعور کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوجائے تو پھر باقی کام آسان ہوجاتا ہے۔ اس لیے دعوت سے بھی پہلے داعی کے لیے اس اسلوب کا تعین ہے کہ مخاطب کے فہم وشعور میں یہ بات کس پیرایے میں پیش کرکے بٹھائی جائے اور اس حوالے سے انسانی نفسیات کے کس پہلو کو پیش نظر رکھا جائے؟ نفسیات دعوت وتبلیغ کا ہی موضوع اور فن ہے۔ مبلغ کا کام انسان سازی ہے اور اس کام میں اس کا علم اور حکمت دونوں استعمال ہوتے ہیں۔ دعوت وتبلیغ میں انسانی نفسیات کی کس قدر اہمیت ہے اور داعی کا ماہر نفسیات ہونا کتنا ضروری ہے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں:
’’جس طرح ایک بیج کے نشوونما پانے کے لیے تنہا بیج کی صلاحیتوں ہی پر نظر نہیں رکھنی پڑتی، بلکہ زمین کی آمادگی ومستعدی اور فصل وموسم کی سازگاری وموافقت کا بھی لحاظ رکھنا پڑتا ہے، اسی طرح کلمۂ حق کی دعوت میں مجرد حق کی فطری صلاحیتوں پر ہی اعتماد نہیں کرلینا چاہیے، بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جن لوگوں کے سامنے وہ حق پیش کیا جارہا ہے، دعوت کے وقت نفسیاتی نقطۂ نظر سے ان کی حالت کیا ہے۔ زمینوں کی طرح روحوں اور دلوں کے بھی موسم ہوتے ہیں اور ایک داعی کا فرض ہے کہ ان موسموں سے اچھی طرح واقف ہو ۔جس طرح ایک دہقان زمین کی فصلوں اور موسموں کو پہچانتا ہے اور اسی وقت کوئی بیج ڈالتاہے جب موسم سازگار ہو۔ جو لوگ اس اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں، خواہ اپنی سادگی اور بھولے پن کی وجہ سے، یا اس خیال سے کہ حق اپنی ذاتی کشش سے خودبخود دلوں میں جگہ پیدا کرلے گا، اس کے لیے کسی اہتمام کی ضرورت نہیں ہے، وہ اپنی اس غلطی کی سزا اپنی دعوت کی ناکامی کی شکل میں پاتے ہیں اور ان کی نیک نیتی ان کی اس بے تدبیری اور غفلت کے نتائج سے ان کو بچا نہیں سکتی،جو مخاطب کی نفسیات کی رعایت کے باب میں ان سے صادر ہوتی ہے۔ (۱)
اس سیاق وسباق میں کہا جاسکتا ہے کہ اصل قوتِ محرکہ داعی کی شخصیت ہے۔ وہ جتنا خودمتحرک ہوگا، دوسروں کو بھی اسی نسبت سے متحرک کرسکے گا اور وہ جس قدر تربیت یافتہ ہوگا، اسی قدر دوسرے افراد کے لیے بہترین مربی کا کردار ادا کرسکے گا۔ علم نفسیات سے واقفیت کی صورت میں داعی شریعت کے بہت سے احکام کو زیادہ بہتر طور پر پرکھنے اور ان کی حکمتوں کا کماحقہ اندازہ لگانے میں کامیاب ہوسکے گا جس کے نتیجے میں اس کے ایمان میں دن بدن اضافہ ہوتا جائے گا اور جب خود اسے شرح صدر ہوگا تو دوسرے لوگوں کے سامنے وہ اس کی بہتر دعوت پیش کرسکے گا۔ اگر داعی کو نفسیات کے اس فن سے مناسبت پیدا ہوجائے تو جن افراد اور جماعتوں کو اس نے مخاطب بنانا اور ان تک اپنی دعوت پہنچانی ہے، اس کے ذریعے اسے ان کی نفسیات اور جذبات ومیلانات کو سمجھنے میں بڑی مدد ملے گی۔ مخاطب کے اوپر اثرانداز ہونے اور اس کے اندر اپنی بات کے لیے آمادگی پیدا کرنے کے سلسلے میں کن تدابیر کے اپنانے اور کن امور کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے، اسے کیوں کر تیار کیا جائے، کس طرح اس کے اندر نیکی اور بھلائی کے لیے جذبات کو ابھارا جائے اور بدی اور برائی کے محرکات سے اسے دور رکھا اور بچانے کی کوشش کی جائے؟ یہ تمام امور انسانی نفسیات کے جاننے ہی سے حاصل ہوسکتے ہیں۔
اگر داعی لوگوں کی نفسیات، ذوق، مزاج اور ان کے جذبات ومیلانا ت کی رعایت نہ کرسکے تو اس چیز کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں کہ لوگ اس کی باتوں کو سنیں اور ان پر توجہ دیں۔ بلکہ اکثروبیشتر تو ایسا ہوگا کہ وہ ان کے اندر کوئی دلچسپی اور شوق پیدا کیے بغیر انھیں اکتاہٹ اور بیزاری کا شکار بنادے گا اور لوگ اس کے قریب ہونے کی بجائے دور رہنے کو زیادہ پسند کریں گے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو تاکید فرمائی:
یسّروا ولا تعسّروا، وبشّروا ولا تنفّروا (۲)
آسانیاں پیدا کرو اور لوگوں کے لیے مشکلیں کھڑی نہ کرو۔ انھیں خوشخبری سناؤ (کہ دین کے قریب آئیں اور اپنی کسی بات یا طرزِ عمل سے) دین سے متنفر نہ کرو۔
اس فرمان نبوی ؐکی یہی معنویت ہے کہ مخاطب کے سامنے بات اس طور پر رکھی جائے کہ اس کے اندر اس دعوت کی طرف رغبت اور میلان پیدا ہو اور اسے دین سے بیزار اور متنفر نہ کیا جائے۔ الغرض انسانی نفسیات کی رعایت کے بغیر دعوت کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ صحابہ کرامؓ کی دعوت کی مقبولیت کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ انھوں نے ہمیشہ دعوت و تبلیغ میں انسانی نفسیات کا بھرپور خیال رکھا۔ زیر نظر سطور میں صحابہ کرامؓ کی سیرت سے اس کی چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں۔
انسانی طبائع کا لحاظ/وقفہ
صحیح بات بھی اگر مسلسل اور بغیر کسی وقفہ کے کہی جائے تو طبیعت اسے معمولی سمجھ کر حقیقی اثر قبول نہیں کرتی، اس لیے دعوت کا کام بغیر کسی وقفہ کے کیے چلے جانا کہ لوگ اس کو معمول کی کارروائی سمجھنے لگیں، درست طریقہ نہیں ہے۔ اس لیے داعی کا انسانی نفسیات کا عالم ہونا بھی ضروری ہے تاکہ وہ بروقت اندازہ لگا سکے کہ کہیں مخاطب پر اکتاہٹ تو طاری نہیں ہوچکی۔کیونکہ دعوت جب ذہنی اور روحانی آسودگی کا باعث نہ بنے گی تو غیر مؤثر ہو جائے گی ۔ داعی کیلئے ضروری ہے کہ وہ دعوت کے اوقات کو بے ہنگم نہ ہونے دے بلکہ لوگوں کی طلب اور شوق کو برقرار رکھنے کے لیے دعوت کا کام وقفے وقفے سے کرے، اور اس وقت بیان کرے جب لوگوں کی خواہش ہو اور ان کی طبائع دعوت کو قبول کرنے کیلئے تیار ہوں ۔ صحابہ کرامؓ بھی اس وجہ سے کہ کہیں لوگ اکتانہ جائیں ، لوگوں کے اشتیاق کے باوجود وقفہ کیا کرتے تھے۔ ابو وائلؓ روایت کرتے ہیں :
کان عبداﷲؓ یذکّر الناس فی کل خمیس فقال لہ رجل : یا ابا عبدالرحمٰنؓ لودِدتُّ انک ذکّر تنا کل یومِ ‘‘ قال : اما انہ یمنعنی من ذالک انی اکرہ ان اُملّکُم وانّی اتخوّلکم بالموعظۃ کما کان النبیﷺ یتخوّلنا بھا مخافۃ السآمۃ علینا (۳)
عبد اللہ بن مسعود لوگوں کو ہر جمعرات کو وعظ سنایا کرتے تھے۔ایک شخص نے ان سے کہا: اے ابو عبدالرحمٰنؓ !میری خواہش ہے کہ آپ روزانہ وعظ کیا کریں ، تو انھوں نے فرمایا : میں ایسا اس وجہ سے نہیں کرتا کہ کہیں تم پر بوجھ نہ بن جاؤں ۔ میں بھی اسی طرح ناغہ کر کے تمہیں نصیحت سناتا ہوں ۔ جس طرح رسول اﷲ ﷺ ہم کو نصیحت سنایا کرتے تھے کہ ہم بیزار نہ ہو جائیں ۔
ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کے گھر کے سامنے وعظ سننے کے لیے لوگوں کا ہجوم تھا، یزید بن معاویہ نخعی نے ان کو خبر دی اور لوگوں کی خواہش سے آگاہ کیا ،لیکن وہ کافی دیر کے بعد گھر سے برآمد ہوئے اور فرمایا:
اِ نہ لیذکر لی مکانکم فما اَتیکم کراھیۃ أن املکم لقد کان رسول اﷲﷺ یتخوّ لنا بالموعظۃ فی الأیام کراھیۃ السآمۃ علینا(۴)
مجھے خبر تھی کہ آپ لوگ دیر سے میر اانتظار کر رہے ہیں ، لیکن میں اس خوف سے باہر نہیں آیا کہ کثرت وعظ آپ لوگوں کو تھکا نہ دے ، رسول اﷲﷺ ہم لوگوں کی تکلیف کے خیال سے کئی کئی دن کا وقفہ کرکے وعظ فرمایا کرتے تھے۔
چنانچہ صحابہ کرامؓ نے دعوت و تبلیغ میں انسانی نفسیات کے اس پہلو کا ہمیشہ لحاظ کیا۔ صحابہ کرامؓ اس اسلوبِ دعوت کی اہمیت اور اس کی تاثیر سے پوری طرح آگاہ تھے، اس لیے انھوں نے دوسروں کو بھی تلقین کی ۔ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے اپنے نامور شاگرد عکرمہؒ کو دعوت و تبلیغ میں اس اسلوب کے اختیار کرنے کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا:
حدّث الناس کلّ جمعۃ مرّۃ، فاِن أبیتَ فمرّتین، فان اکثرت فثلاث مرّات، ولاتملَّ الناس ھذا القرآنَ فلا ألفینّکَ تأتی القوم وھم فی حدیث من حدیثھم فتقصُّ علیھم فتقطعُ علیھم حدیثھم فتملَّھم ، ولٰکن أنصت فاذا أمروکَ فحدِّثھم وھم یشتھونہُ (۵)
لوگوں سے ہفتہ میں ایک بار وعظ کرو ، اگر یہ قبول نہیں تو دوبار اور زیادہ سے زیادہ ہفتہ میں تین بار وعظ کرو اور لوگوں کو اس قرآن سے اکتانہ دو۔ میں تمھیں اس حال میں نہ دیکھوں کہ تم کسی جماعت کے پاس اس حال میں جاؤ کہ وہ اپنے کاموں میں سے کسی کام میں مشغول ہوں، تم ان کی بات کو قطع کر کے اپنا وعظ شروع کر دو، اس طرح تم ان کو اکتا دو گے ، بلکہ تمھیں چاہئے کہ خاموش رہو اور جب لوگ فرمائش کریں اور وہ خواہش سے سنیں ۔
ابن ابی السائبؓ تابعی ،مدینہ کے واعظ تھے۔ پیشہ ور واعظین کی طرح یہ بھی گرمی مجلس کے لیے نہایت مسجعّ دعائیں بنا بنا کر پڑھا کرتے تھے اور اپنے تقدس کے اظہار کے لیے موقع بے موقع ہر وقت وعظ کے لیے آمادہ رہتے تھے ۔حضرت عائشہؓ نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا : تم مجھ سے تین باتوں کا عہد کرو، ورنہ میں بزور تم سے باز پرس کروں گی ۔ عرض کیا : اے ام المؤمنینؓ! وہ کیا ہیں ؟ آپؓ نے فرمایا :
اجتنب السجع من الدعاء ، فان رسول اﷲﷺ و اصحابہ کانوا لا یفعلون ذالک ، وقص علی الناس فی کل جمعۃ مرۃ، فان ابیت فثنتین، فان ابیت فثلاثاً ،فلا تملّ الناس ھٰذا الکتاب، ولا ألفینک تأ تی القوم وھم فی حدیث من حدیثھم فتقطع علیھم حدیثھم ولکن اترکھم فاذا جرؤک علیہ و أ مروک بہ فحدثھم(۶)
’’ دعاؤں میں عبارتیں مسجع نہ کرو کہ رسول اﷲﷺ اور آپ ﷺکے اصحاب ایسا نہیں کرتے تھے۔ ہفتہ میں صرف ایک دن وعظ کیا کرو ، اگر یہ منظور نہیں تو دو دن اور اگر اس سے بھی زیادہ چاہو تو تین دن۔ لوگوں کو اﷲ کی کتاب سے اکتا نہ دو ، ایسانہ کرو کہ لوگ جہاں بیٹھے ہوں آکر بیٹھ جاؤ اور قطع کلام کرکے اپنا وعظ شروع کر دو ۔ بلکہ جب ان کی خواہش ہو اور وہ درخواست کریں تب کہو‘‘
عمومی وضاحت پر اکتفا کرنا/ مخاطب کی عزت نفس کا خیال کرنا
اگر داعی غلطی کرنے والے کو براہ راست مخاطب کرنے کی بجائے اشارے کنایے میں اس کی غلطی کو واضح کرتا ہے تو اس صورت میں غلطی کرنے والے کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی ،نیز وضاحت کے اس عمومی انداز سے مخاطب کی طرف سے کسی قسم کے منفی ردعمل کا بھی کوئی خطرہ نہیں رہتا اور شیطان اس کے انتقامی جذبات کو ہوا دے کر انتقام کی طرف مائل نہیں کر سکتا۔ ویسے بھی اس اسلوب سے مخاطب کے دل میں داعی کی قدر و منزلت بڑھ جاتی ہے اور وہ اس کی بات کو زیادہ توجہ اور انہماک کے ساتھ سنتا ہے۔
دعوت کا یہ اسلوب اس وقت مؤثر ہوتا ہے جب مخاطب کی غلطی عام لوگوں سے پوشیدہ ہو، لیکن اگر اکثر لوگوں کو اس کا علم ہو، اور اسے معلوم ہو کہ اکثر لوگ یہ بات جانتے ہیں ، تو اس صورت میں دعوت و تبلیغ کا یہ اسلوب سخت زجر و توبیخ کا حامل اور غلطی کرنے والے کے لیے رسوائی کا باعث بن جاتا ہے ۔ اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ اس کو براہ راست سرزنش کر دی جائے اور یہ اسلوب اختیار نہ کیا جائے ۔ اگر بات بھلائی اور خیر خواہی کے جذبے سے کی جائے تو یہ ایسا انداز تربیت ہے کہ جس سے غلطی کرنے والے کو بھی فائدہ ہوتا ہے اور عام لوگوں کو بھی ، بشرطیکہ اسے استعمال کرتے ہوئے حکمت سے کام لیا جائے۔ صحابہ کرامؓ نے دعوت و تبلیغ میں بارہا اس اسلوب کو اختیار کیا اور غلطی کرنے والے کو براہِ راست مخاطب کرنے کی بجائے عمومی وضاحت پر اکتفا کیا ،تاکہ مخاطب کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اور اس کی اصلاح بھی ہو جائے ۔ اس اسلوب دعوت کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
ایک دفعہ حضرت علیؓ نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا ، بعد میں پانی کا ایک برتن طلب کیا، اس سے وضو کرنے کے بعد باقی ماندہ پانی کھڑے ہو کر نوش فرمایا اور پھر فرمایا: مجھے پتہ چلا ہے کہ تم میں سے ایک شخص کھڑا ہو کر پانی پینے کو مکروہ جانتا ہے، حالانکہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو ایسے ہی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (۷)
بیت اﷲ اگرچہ مکہ مکرمہ میں ہے لیکن حضرت عمر فاروقؓ نے محسوس فرمایا کہ خود اہل مکہ میں وہ ذوق و شوق مفقود ہو رہا ہے جو بیرونی زائرین کیلئے نمونہ ہوناچاہیے۔ یقیناًیہ خرابی چند لوگوں کے عمل سے ظاہر ہوئی ہو گی، لیکن حضرت عمر فاروقؓ نے کسی مخصوص فرد کی بجائے تمام اہل مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
یا اھل مکۃ ! ما شا نُ النّا سِ یأتُو نَ شعثاً و انتم مدّھنون؟ اھلُّوا، اذا رأیتم الھلال(۸)
اے اہل مکہ ! کیا بات ہے کہ لوگ جب تمھارے پاس آتے ہیں تو ان کے بال بکھرے ہوئے ہوتے ہیں اور تم تیل لگاتے ہو؟ تم چاند دیکھ کر احرام باندھ لیا کرو۔
ابو نہیک اور عبد اللہ بن حنظلہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ ایک لشکر میں حضرت سلمان فارسیؓ کے ساتھ تھے۔ ایک عرب نے کسی شخص کو بہت زیادہ مارا پیٹا ۔ اس شخص نے حضرت سلمان فارسیؓ کے پاس شکایت کی اس پر آپؓ نے کسی فرد واحد کو سرزنش کرنے کی بجائے تمام عربوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
یا معشر العرب ! الم تکونوا شرالناس دینا، وشرالناس داراً ، وشرالناس عیشا؟ فاعزّکم اﷲ واعطاکم اﷲ أتریدون ان تاخذوا الناس بعزۃ اﷲ ؟ واﷲ لتنتھنَّ او لیأخذنّ اﷲ مافی ایدیکم فلیعطینہ غیرکم(۹)
اے اہل عرب! کیا تم مذہب کے اعتبار سے برے لوگ نہ تھے؟ گھر بار کے لحاظ سے برے نہ تھے؟ اور زندگی کے لحاظ سے بد تر ین نہ تھے ۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے تمھیں (اسلام کے ذریعے ) عزت عطا فرمائی اور نعمتیں بخشیں۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تم لوگوں سے اﷲکے دئیے ہوئے شرفِ انسانی کو چھین لو ؟ اﷲ کی قسم! تم ایسی حرکتوں سے باز آجاؤ ورنہ اﷲ وہ سب کچھ تم سے واپس لے لے گا جو تمھارے پاس ہے اور اسے غیروں کو عطا کر دے گا۔
ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ کو قریش کے چند لوگوں کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ نرد کھیلتے ہیں تو آپؓ نے ان کی تنبیہ کے لیے عمومی اصلاح اور وضاحت پر ہی اکتفا فرمایا ،چنانچہ آپؓ نے اہل مکہ کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
’’ اے اہل مکہ! مجھے قریش کے بعض لوگوں کی یہ شکایت پہنچی ہے کہ وہ ایک کھلونے سے کھیلتے ہیں جسے نرد شیر(پانسہ) کہتے ہیں ، اور یہ بہت مشکل چیز ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ خمر اور میسر، اور میں قسم کھاتا ہوں کہ جو کوئی شخص پانسہ کھیلے اور میرے پاس لایا جائے تو میں اسے اس کے بال اور چمڑے پر سزا دوں گا اور جو اس کو لائے گا اسے مجرم کے بدن کی سب چیز یں دے دوں گا‘‘ (۱۰)
ایک دفعہ حضرت عقبہؓ بن عامر گورنر مصر نے مغرب کی نماز میں تاخیر کر دی ۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ ان کی طرف گئے اور ان کو مخاطب کر کے فرمایا: اے عقبہؓ! یہ کیسی نماز ہے؟ کہنے لگے کہ ایک کام کی وجہ سے تاخیر ہو گئی ۔ چونکہ عقبہؓ خود بھی صحابی رسول ﷺ تھے اور گورنر مصر تھے اس لیے حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے ان کے مقام اور مرتبے کا لحاظ رکھتے ہوئے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:
أما واﷲما بی الا ان یظن الناس انک رأیت رسول اﷲﷺ یصنع ھٰذا ، أما سمعت رسول اﷲﷺ یقول : لاتزال أمتی بخیر او علی الفطرۃ مالم یؤخروا المغرب الی أن تشتبک النجوم(۱۱)
اور اﷲ کی قسم ! مجھے یقین ہے لوگ گمان کریں گے کہ آپ نے رسول اﷲ ﷺکو ایسا ہی کرتے دیکھا ہو گا جبکہ میں نے رسول اﷲﷺ کو فرماتے سنا ہے، میری امت ہمیشہ بھلائی پر رہے گی یا فطرت پر رہے گی جب تک وہ مغرب کو اتنا مؤخر نہ کرنے لگیں کہ ستارے خوب نمایاں ہو جائیں ۔
اس قسم کی اور بھی مثالیں سیرتِ صحابہ میں ملتی ہیں جن میں مشترک چیز یہ ہے کہ غلطی کرنے والے کو شرمندہ نہ کیا جائے۔ غلطی کرنے والے کو براہِ راست مخاطب نہ کرنے اور اشارہ سے اس کی غلطی واضح کرنے کے اس اسلوب میں بہت سے فوائد ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
- غلطی کرنے والے کی طرف سے منفی رد عمل کا خطرہ نہیں ہوتا اس طرح شیطان اس کے انتقامی جذبات کو ہوا دے کر انتقام کی طرف مائل نہیں کر سکتا۔
- اس اسلوبِ دعوت کا قلبِ انسانی پر گہرا اثر ہوتا ہے اور انسان فوراً اپنی اصلاح کرلیتا ہے۔
- اس سے غلطی کرنے والے کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے غلطی کرنے والے کے دل میں داعی اور نصیحت کرنے والے کی قدر و منزلت اور محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔
- دعوت کا یہ اسلوب اسی وقت مؤثر ہوتا ہے جب مخاطب کی غلطی عام لوگوں سے پوشیدہ ہو، لیکن اگر لوگوں کو اس کا علم ہو تو اس صورت میں اس کو براہ راست تنبیہ کر دینا زیادہ بہتر ہے، کیونکہ اگر سب کے سامنے اس کو تنبیہ کی جائے گی تو یہ سب کے سامنے اس کی رسوائی کا باعث بن جائے گی اور اس صورت میں اس کی طرف سے کسی قسم کا منفی ردِ عمل بھی ممکن ہے۔
مناسب طلب/ آمادگی کا ہونا
مناسب طلب اور ذہنی آمادگی کے بغیر دنیا کا کوئی کام بھی انسان خوش اسلوبی اور کامیابی سے انجام نہیں دے سکتا ۔دعوت و تبلیغ کے لیے بھی ذہنی آمادگی اولین شرط ہے۔ جب کوئی شخص کسی مسئلہ کو جاننے کی خواہش کرے، اس کے بارے میں سوال کرے ، اور اس کا دل اس کی طرف متوجہ ہو ، اس وقت مسئلہ بتانے سے اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے اور زیادہ پختگی سے ذہن نشین ہو جاتا ہے ۔ اس کے برعکس اگر سوال کیے بغیر اور جذبۂ شوق کو ابھارے بغیر معلومات دی جائیں تو اس قدر فائدہ حاصل نہیں ہوتا ۔ اس لیے کارِ دعوت میں مشغول ہر شخص کو مخاطب کی ذہنی آمادگی کا لحاظ رکھنا چاہیے، تاکہ اس کی دعوت مؤثر ہو ۔صحابہ کرامؓ کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جب تک مخاطب کی ذہنی آمادگی اور خلوص نیت کا جائزہ نہ لے لیتے اس وقت تک اس کو دعوت نہ دیتے تھے۔
قیس بن کثیر سے روایت ہے کہ حضرت ابو الدرداءؓ دمشق میں تھے کہ ان کے پاس ایک شخص مدینہ سے حاضر ہوا ، آپؓ نے اس سے پوچھا : اے بھائی ! کس مقصد کیلئے آئے ؟ اس نے کہا : میں آپؓ سے صرف حدیث رسول ﷺسننے حاضر ہوا ہوں ، تو فرمایا : کسی اور حاجت یا تجارت کی غرض سے تو نہیں آئے ؟ تو اس نے کہا :
ما جئتُ الاّ فی طلب ھذا الحدیثِ
میں تو صرف طلب حدیث کیلئے آپؓ کے پاس آیا ہوں
چنانچہ جب حضرت ابوالدرداءؓ نے اس کے خلوص کو اچھی طرح پرکھ لیا اور حدیثِ رسول ﷺ کی طلب میں اس کو پوری طرح آمادہ پایا تو اس کے سامنے حدیث بیان کی۔ (۱۲)
حارث بن معاویہ الکندی کا بیان ہے کہ وہ حضرت عمرؓ کی خدمت میں سوار ہو کر آئے، چنانچہ جب وہ مدینہ میں داخل ہوئے تو حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا کہ آپ کس وجہ سے آئے ہیں ؟ بولے : تاکہ آپ سے تین چیزوں کے بارے میں سوال کروں ۔ فرمایا : وہ تین چیزیں کیا ہیں ؟ بولے:
ربما کنت أنا والمرأۃ فی بناء ضیق فتحضر الصلٰوۃ فان صلیت انا وھی کانت بحذا ئی ، وان صلیت خلفی خرجت من البناء ‘‘ فقال عمرؓ ’’ تستر بینک وبینھا بثوب ثم تصلی بحذائک ان شئت ، وعن الرکعتین بعد العصر ، فقال : نھانی عنھما رسول اﷲﷺ ، قال : وعن القصص فانھم أرادونی علی القصص فقال : ما شئت(۱۳)
’’ بسا اوقات میں اور میری بیوی ایک تنگ مکان میں ہوتے ہیں کہ نماز کا وقت آجاتا ہے ، اگر میں نماز پڑھوں تو وہ میرے سامنے ہوتی ہے اور اگر میں تھوڑا پیچھے ہو کر نماز پڑھوں تو وہ مکان سے باہر نکل جاتی ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا : تو اپنے اور اس کے درمیان ایک کپڑے سے پردہ کر لے پھر تم اپنے سامنے والے حصہ میں اگر چاہو تو نماز پڑھ لو۔ اور جہاں تک عصر کے بعد دو رکعتوں کا سوال ہے تو رسول اﷲ ﷺنے مجھے اس سے منع فرمایا ہے ۔ حارث الکندی نے کہا کہ لوگ مجھ سے وعظ گوئی کا مطالبہ کرتے ہیں حضرت عمرؓ نے فرمایا : جو تمہاری مرضی ہو‘‘۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید جس قدر جلدی پڑھ کر ختم کر لیں اسی قدر زیادہ ثواب ملے گا۔ ایک شخص حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : اے ام المؤمنین ! لوگ ایک شب میں قرآن دو دو ، تین تین بار پڑھ لیتے ہیں؟ فرمایا : ان کا پڑھنا اور نہ پڑھنا دونوں برابر ہیں ۔ رسول اﷲﷺ تمام رات نماز میں کھڑے رہتے تھے لیکن سورہ بقرہ ، آل عمران اور نساء سے آگے نہیں بڑھتے تھے (گویا انھیں تین سورتوں تک پہنچتے پہنچتے رات آخر ہو جاتی تھی) جب کسی بشارت کی آیت پر پہنچتے تو خدا سے دعا مانگتے اور جب کسی وعید کی آیت پر پہنچتے تو پناہ مانگتے۔(۱۴)
حوالہ جات
(۱) اصلاحی ،امین احسن،’’دعوت دین اور اس کا طریق کار‘‘: ص: ۱۳۳،فاران فاؤنڈیشن،لاہور
(۲) صحیح البخاری، کتاب العلم، باب ما کان النبیﷺ یتخولھم بالموعظۃ الحسنۃ..... ح: ۶۹، ص:۱۷۔ صحیح البخاری، کتاب الادب، با ب قول النبیﷺ: یسّروا ولاتعسّروا، ح: ۶۱۲۵، ص:۱۰۶۷
(۳) صحیح البخاری،کتاب العلم،باب من جعل لاھل العلم ایاماً معلومۃ،ح:۷۰، ص: ۱۷۔ ایضاً،کتاب الدعوات،باب الموعظۃ ساعۃ بعدساعۃ،ح:۶۴۱۱،ص:۱۱۱۳۔ صحیح مسلم،کتاب صفۃ المنافقین واحکامھم،باب الاقتصاد ،فی الموعظۃ ،ح:۷۱۲۷،ص:۱۲۲۷
(۴) المسند، مسند عبد اللہ بن مسعود، ح: ۴۰۳۱ ،۳۵۷۱ ، ۱/۶۲۳۔ صحیح البخاری،کتاب االدعوات،باب الموعظۃ ساعۃ بعد ساعۃ،ح:۶۴۱۱،ص:۱۱۱۳
(۵) المسند، حدیث السیدۃ عائشہؓ، ح،۲۵۲۹۲، ۷/۳۱۰
(۶) صحیح البخاری،کتاب الدعوات، ما یکرہ من السجع فی الدعا، حؒ ۶۳۳۷،ص۱۱۰۲
(۷) المسند،مسند علیؓ بن ابی طالب، ح:۷۹۹،۱/۱۶۴
(۸) الموطا،کتاب الحج،باب ہلال مکۃ ومن بھا من غیرھم،ح:۳۸۱،ص:۲۳۰
(۹) حلیۃ الاولیاء ،تذکرہ سلمان الفارسیؓ،۱/۲۶۰
(۱۰) الادب المفرد، باب الادب و اخراج الذین یلعبون بالنرد......ح:۱۲۷۵،ص:۳۲۸
(۱۱) المسند،حدیث ابی ایوب انصاریؓ،ح:۲۳۰۷۰ ۶؍۵۸۶
(۱۲) جامع الترمذی، ابواب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، ح:۲۶۸۲،ص:۲۰۹۔ المسند،حدیث ابی الدرداءؓ،ح:۲۱۲۰۸،۶/۲۵۴
(۱۳) المسند، مسند عمر بن الخطابؓ،ح:۱۱۲ ، ۱/۳۲
(۱۴) المسند، حدیث السیدۃ عائشہؓ، ح: ۲۴۳۵۴، ۷/۱۷۱
(جاری)
سماجی تبدیلی کے نئے افق اور امت مسلمہ
پروفیسر میاں انعام الرحمن
(مذہبی حلقوں میں دعوت دین، معاشرے کی اصلاح وتربیت اور اہل مذہب کے معاشرتی کردار کا تصور ایک مخصوص طریقے پر چند ظاہری ’واجبات‘ کی ادائیگی تک محدود ہو چکا ہے۔ معاشرہ کیا ہے؟ اس کے اجزاے ترکیبی اور اس میں کارفرما مختلف قوتیں کون سی ہیں؟ بالخصوص دور جدید میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر اذہان وافکار کا رخ متعین کرنے میں کن عوامل کو بنیادی حیثیت حاصل ہے؟ اور کسی مخصوص معاشرے میں فکری اور عملی تبدیلی لانے کے لیے حکمت عملی کن اصولوں پر مبنی ہونی چاہیے؟ یہ اور اس نوعیت کے دیگر سوالات ہمارے غور وفکر کے دائرے سے بالکل خارج ہیں۔ امت مسلمہ کی منصبی ذمہ داری ہونے کے تعلق سے یہ موضوع جس قدر اہمیت کا حامل ہے، اسی قدر تشنہءِ بحث ہے۔ زیر نظر تحریر میں پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب نے اس حوالے سے اپنے نتائج فکر پیش کیے ہیں اور ہم اس توقع کے ساتھ اسے شائع کر رہے ہیں کہ اہل علم اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے خیالات سے ہمیں مستفید فرمائیں گے۔ مدیر)
اپنے ظہور کے بعد سے انسانی معاشرہ نوع بہ نوع تبدیلیوں سے ہمکنار ہوتا چلا آ رہا ہے۔اکیسو یں صدی میں یہ تبدیلیاں رفتار اور نوعیت کے اعتبار سے منفرد کہی جا سکتی ہیں۔اس وقت انسانی آبادی کی بہتات اور اس سے جنم لیتے مختلف النوع مسائل جہاں فکر انگیز ہیں، وہاں تبدیلی کی لہر کو انگیخت کرنے میں بھی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ افراطِ آبادی اور کرپشن سے لے کر توانائی اور پانی کے بحران تک بڑے بڑے مسائل ایسے ہیں جن پر دنیا بھر میں بحث ومباحثہ جاری ہے کہ ان پر کیونکر قابو پایا جا سکتا ہے۔ موجودہ عہد میں عالمی سطح پر جہاں تک نظامات (Systems) کا تعلق ہے، ان کی تشکیلِ نو اور تبدیلی کو کلی (Macro) اور جزوی (Micro) دو سطحوں پر پھیلا کر دیکھا جا سکتا ہے۔
جزوی تبدیلی کے تحت دنیا بھر میں ’’مقامی حکومتِ خود اختیاری‘‘ کی تشکیلِ نو ہو رہی ہے، جیسا کہ مشرف حکومت کے تحت پاکستان میں بھی یہی عمل دیکھنے میں آیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرا عنصرلا مرکزیت (Decentralization) ہے کہ ریاستی سطح پر مرکزی حکو متیں ، اختیارات کو نچلی سطح (Gross Root Level)تک منتقل کررہی ہیں۔ یہ رجحان صرف وفاقی ریاستوں میں ہی نہیں جہاں صوبائی حکو متوں کی ’’دستوری‘‘ حیثیت ہوتی ہے،بلکہ وحدانی ممالک بھی تیزی سے اس طرف مائل ہو رہے ہیں ۔اگر ہم آبادی کی بہتات اور دیگر جدید مسائل کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی افادیت کے ساتھ نتھی کر کے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ’’ضلعی نظام‘‘ ہی در حقیقت لامرکزیت کا محور و مصدرہے۔ مرکزی حکو متوں کو لا محالہ اس نظام کو در پیش چیلنجوں او ر تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے با اختیار بنانا ہو گا۔درپیش تقاضوں کی وضاحت کے ضمن میں فقط یہی بیان کافی ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے اور نائن الیون کے واقعہ کے بعد دفاع اور سلامتی کے لیے ریاستی ذمہ داریاں بہت زیادہ بدل گئی ہیں، لہٰذا مرکزی حکومتوں کو ترجیحات میں مجبوراً اتھل پتھل کر نے کے ساتھ ساتھ بنیادی نوعیت کی (Structural Changes)کرنی پڑ رہی ہیں۔ خیال رہے کہ افراطِ آبادی نے ہی ’’براہ راست‘‘ کی جگہ ’ ’نمائندہ جہوریت‘‘ کے لیے راہ ہموار کی تھی، اسی طرح اب لا مرکزیت اور ضلعی نظام کے لیے آبادی کی بہتات نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
کلی تبدیلی کے حوالے سے نمایاں رجحان گلوبلائزیشن کا ہے جس کے اثرات کے تحت ریاستی شان و شوکت گہنا گئی ہے۔ ورلڈ بینک ،آئی ایم ایف ،ڈبلیو ٹی او ،اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اس عمل کو تیز کر رہی ہیں ۔عالمی سطح پرتبدیلی لانے کے اعتبار سے دوسرا عنصر ’’علاقائی اتحاد‘ ‘ (Regional Integration)ہے۔ یورپی یونین، آسیان، سارک، ایکو، عرب لیگ، اور افریقہ وامریکہ کی علاقائی تنظیمیں اس عنصر کے پھلنے پھولنے اور اس کی افادیت پر دال ہیں۔ موجودہ عالمی حالات ظاہر کر رہے ہیں کہ مذکورہ اتحادات، گلوبلائزیشن کا رخ اورکردار متعین کرنے میں بنیادی اور محوری اہمیت اختیار کر جائیں گے۔
عالمی نظام کی تشکیلِ نو اور تبدیلی کے کلی اور جزوی تصور کے بعد اس امر کا احساس ہو جاتاہے کہ عہدِ جدید میں ریاست کا کردار (Middle Man)کا ہو گا یا (Buffer Zone) کا، کہ ریاست کو ایک طرح سے فلٹریشن کرنی ہو گی اور وہ بھی ریاستی قوت کے بجائے سماجی عوامل کے ذریعے سے۔لہٰذا ’’وچولے کے کردار‘ ‘ کو ذمہ دارانہ انداز سے پورا کرنے کے لیے ریا ست کوطریقہ ہائے کار (Methods) میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں (Structural Changes) لا کر اپنی مجموعی نفسیات تبدیل کرنا ہو گی، کہ آخرکار یہ ریاست ہی ہے جسے اپنے اختیارات سے دستبردار ہونا ہے، اس کی صورت چاہے ا ختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ہو یا کسی علاقائی اتحاد میں شمولیت کو’فعال‘ بنانا۔
مذکورہ بحث سے یہ مطلب ہر گز اخذ نہیں کرنا چاہیے کہ ریاست کا اقتدارِاعلیٰ (داخلی اور خارجی)آخری دموں پر ہے ۔(خیال رہے یہاں اقتدارِ اعلیٰ سے مراد مغربی تصورِ اقتدارِ اعلیٰ نہیں ، بلکہ صرف سپریم اتھارٹی کا ذکر مقصود ہے۔اب اہلِ مغرب کو بھی اسلامی تصورِ اقتدارِ اعلیٰ کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ اس کی مزید تفصیل آئندہ سطور میں آئے گی) راقم کی رائے میں تو ریاست کا کردار مزید اہم ہو گیا ہے کہ اب اسے قوت و طاقت کے بجائے ذمہ دارانہ انداز سے اپنا نیا کردار تسلیم کرنا ہو گا تا کہ اس کے شہری نئے عالمی نظام کے مرکزی دھارے (Main Stream) سے باہر نہ ہونے پائیں۔ اس وقت عالمی نظام کی تشکیلِ نو اور تبدیلی کے کلی اور جزوی عناصر کی افادیت و اہمیت کے ’’اضافی‘ ‘ پہلوؤں پر نظر رکھنا ریاستی ترجیح ہونی چاہیے کہ اسی اضافیت میں ضلعی سے صوبائی، صوبائی سے قومی، قومی سے علاقائی اور علاقائی سے عالمی ربط و تعامل کے امکانات مضمر ہیں، اور انھی امکانات کے توسط سے عالمی نظام کی مثبت تشکیلِ نو ممکن ہو سکے گی۔اس ضمن میں یورپی ریاستوں کی کار کردگی مثالی قرار دی جا سکتی ہے کہ ان کے ہاں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے ساتھ ساتھ علاقائی اتحاد کو فعال بنانے کے اعتبار سے پہلوتہی نہیں برتی گئی۔
بحث کے اس مقام پر ایک نہایت اہم نکتے کی صراحت ضروری ہے اور اسی نکتے کو زیر نظر تحریر کے بنیادی محور کی حیثیت حاصل ہے، کہ قاعدہ وقانون اور آئین و دستور کی بیساکھیاں ’’قربت‘‘ کی پینگیں بڑھانے میں ممدو معاون ہونے کے باجود ’’بیساکھیاں‘‘ ہی ہوتی ہیں، اگر ان کے پسِ پشت ’’سماجی منظوری‘‘ موجود نہ ہو۔اقوام و ملل کی تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی ایسا قانون، دستور یا نظام کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکا جو مروجہ روایات و رواجات سے ہٹ کر تشکیل دیا گیا ہو۔ مثلاً امریکہ میں شراب پر دستوری ترمیم کے ذریعے سے پابندی لگائی گئی، لیکن سماجی منظوری نہ ہونے کے سبب یہ ناکامی سے دوچار ہوئی اور دوبارہ دستوری ترمیم کے ذریعے سے یہ پابندی ختم کر دی گئی کہ غالباً اس کی خلاف ورزی سے دیگر ایسے قوانین کی بابت بھی قانون شکنی کا رجحان جڑ پکڑ سکتا تھا جن کے پیچھے سماجی منظوری موجود تھی۔ (یہاں یہ ذہن میں رہے کہ عہد رسالت میں بھی شراب پر فوری پابندی عائد نہیں کی گئی تھی) اس نکتے کے بیان کے بعد اب غور طلب بات یہ ہے کہ یورپ میں، جہاں ’’قوم پرستی‘‘ عروج پر تھی اورجہاں توازنِ طاقت جیسے حیلوں بہانوں کے ذریعے قتل و غارت کا بازار گرم رہا، وہاں مفاہمت ، اشتراک اور باہمی تعاون کی درخشندہ مثال قائم کی جا رہی ہے۔ راقم کی نظر میں یورپی یونین کے علاقائی اتحاد کے پسِ پشت سماجی منظوری تسلی بخش حد تک موجود ہے، یعنی یہ اتحاد محض چندمدبروں، دانشوروں اورپالیسی سازوں کی دماغی اپج (Brain Child) نہیں، بلکہ یورپی عوام نے قومیت کے راسخ تصور سے ماورا ہو کر اسے (ا س وقت) عملی جامہ پہنایا ہے۔ یہاں اس بات کا بیان ضروری معلوم ہو تاہے کہ مذکورہ سماجی منظوری کے حصول کے لیے عملی پیش رفت دوسری جنگِ عظیم کے فوراً بعد شروع کر دی گئی تھی (مثلاً ۱۹۴۸ء کا برسلز ٹریٹی جسے (WEU) یعنی ویسٹرن یورپین یونین کہا جاتا ہے ، ۱۹۴۹ء کی کونسل آف یورپ اور ۷۰ء کے عشرے کی (OSCE) یعنی Organization for Security and Co-operation in Europe وغیرہ ) لہٰذانیشنل ازم کے بے مروتی پر مبنی متعصبانہ اور سخت انتظامی گرفت کے نظام (Administrative Command System)کی جگہ قومی خود آگاہی وخود شناسی (National Self-awareness)کو متعارف کروایا گیا، یعنی نیشنل ازم میں ’ازم‘ کو دیس نکالا دے دیا گیااور قومی خود آگہی کے توسط سے دوسری اقوام کے وجود اور حق بقا کو تسلیم کرنے کی نئی راہ تراشی گئی جو نئی منزلوں کی طرف لے جانے والی ہے۔ راقم کی نظر میںیورپی یونین کے آغاز اور ارتقا کی مخصوص نوعیت اس کے بطور کثیر قومی ریاست (Multinational State) ابھرنے پر دال ہے ، کہ ثقافتی وتاریخی افتراق اور قومی روایات کو دبانے کے بجائے سماجی تعامل کے ذریعے سے انہیں ’’ہم آہنگ‘‘ کیا جا رہا ہے۔ یہاں بدیہی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس تبدیلی کے وقوع پذیر ہونے میں کون سے عوامل و محرکات بنیادی قرار دیے جا سکتے ہیں؟ طوالت سے بچنے کی خاطر ان کی محض نشان دہی کا فی ہو گی:
۱۔داخلی سلامتی، یعنی امن و امان کی مخدوش صورتِ حال اور دہشت گردی کی کارروائیاں، مثلاً نائن الیون سے پہلے امریکہ میں ۳۵۰۰۰ سے ۴۰۰۰۰ تک ہوائی جہاز پرواز اور لینڈ کرتے تھے اور تقریباً ۲ ملین مسافر اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے تھے، تو کیا روزانہ ۲ ملین لوگوں کو چیک کرنا ممکن ہے؟ لہٰذا زمینی حقیقت کی روشنی میں اس کا عملی اور پائیدار حل نکالنا ضروری ہے کہ دہشت گردی کی نوعیت تبدیل ہو سکتی ہے،جیسا کہ گیارہ ستمبر کے واقعے کے متعلق کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ اندریں صورت اقوام باہمی روابط کو پختہ کر رہی ہیں۔
۲۔ شہری آبادی اور علاقوں میں اضافے کا رجحان،
۳۔ماحولیاتی آلودگی،
۴۔منشیات کا مسئلہ،
۵۔ملٹی نیشنل کمپنیاں،
۶۔انٹر نیٹ اور ذرائع ابلاغ کے عالمی چینلز۔
مذکورہ عوامل پر بحث سے قطع نظر اس بات کا جائزہ لینا انتہائی ضروری ہے کہ منظم نظاماتی تشکیلِ نو کے وقوع پذیر ہونے میں درکار وسیع سماجی تبدیلی کے نا گزیر لوازمات کون سے ہیں کہ سماجی رویے میں تبدیلی کے بغیر تشکیلِ نو کا عمل بار آور نہیں ہو سکتا۔ راقم کی رائے میں یہ لوازمات کم از کم سات ہیں:
۱۔آفاقی شعور،
۲۔تہذیبی و ثقافتی تنوع میں ’’اضافیت‘‘ کی تلاش،
۳۔میڈیا اور لٹریچر،
۴۔تعلیمی منصوبہ بندی میں سماجی تبدیلی پر ترکیز (Focus) کرنا ،
۵۔ کھیلوں اور تفریحی سرگرمیوں کا کردار،
۶۔منظم گروہ بندیاں،
۷۔سپانسر شپ کی متوازن تقسیم۔
(۱) جہاں تک آفاقی شعور کا معاملہ ہے، یہ لوازمات میں سے انتہائی بنیادی ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس کے وقوع پذیر ہونے میں بھی مذکورہ بالا لوازمات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن چند بنیادی تقاضوں کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، مثلاً:
- تاریخی اعتبار سے، کہ مطالعہ تاریخ کو درست اور غیرجانبدارانہ روش پر پروان چڑھایا جائے۔ تاریخی واقعات سے جذباتی وابستگی کے بجائے ان سے اصول اخذ کیے جائیں ۔راقم کو یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اگر یورپی اقوام آج اپنے تاریخی واقعات کو جذباتی انداز میں اپنے سماجی رویوں میں سمونا شروع کر دیں تو واپس اٹھارویں صدی میں پہنچ جائیں گی۔
- سماجی اعتبار سے ، کہ رواداری ، عدمِ تشدد ، برداشت اور مواخات کو فروغ دیا جائے، ان صفات کی اسی طرح تشہیر کی جائے جیسا کہ انسانی حقوق، بہبودِ آبادی اور چائلڈ لیبر وغیرہ کی ، کی جاتی ہے۔
- انفرادی اعتبار سے، کہ’میں‘ کی نفی کرتے ہوئے ’میں‘ کی شناخت حاصل کی جائے، جیسا کہ اوپر کی سطور میں نیشنل ازم کی بابت ذکر ہوا۔اب ریاست کے روایتی کردار کے بدلے جانے سے فرد کو بھی بحیثیت شہری تبدیلی کے عمل سے گزرنا ہو گا۔ اس ضمن میں اسے ریاست سے متعلق اپنی توقعات اور مطالبات کی نوعیت پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔
(۲) تہذیب و ثقافت کا معاملہ خاصا گھمبیر اور پیچیدہ ہے کہ یہ انفرادی سے زیادہ اجتماعی ہے اور اجتماعی یا گروہی نفسیات کو جدوجہد کا ہدف بنانا جان جوکھوں کا کام ہے ۔ کسی بھی گروہ کی نفسیات اس بچے سے بہت مماثلت رکھتی ہے جو نامعلوم عفریت کے خوف سے اندھیرے میں جانے سے ڈرتا ہے ۔راقم کی ناقص رائے میں مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کا ایک دوسرے کی بابت رویہ اسی قسم کا ہے۔ مثلاً مشرق کو اہلِ مغرب خاصے طویل عرصے تک ’’پراسرار‘‘ خیال کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح مغرب کے متعلق اہل مشرق کی یہ ’’طے شدہ‘‘ رائے بلکہ فیصلہ ہے کہ ان کی تہذیب و ثقافت ، بے حیائی اور گمراہی کی نیو پر قائم ہے اور پاکیزگی اور ثواب پر مستقل اجارہ داری خیر سے صرف مشرق کا حق ہے۔ اس انتہا پسندی سے بچنے کی خاطر ’نامعلوم‘ میں چھلانگ لگانی پڑے گی، جس سے ہماری گروہی نفسیات ابھی تک پہلوتہی برت رہی ہے۔ تہذیب و ثقافت کی ’’حیات بخش‘‘ آگ میں، نامعلوم کی حیثیت ایک طرح سے ایندھن کی ہے کہ اسی کے طفیل تہذیب و ثقافت ’’متحرک قوت‘‘ کے روپ میں معاشرتی سطح پر تخلیقی عمل جاری رکھتے ہیں۔ مذکورہ عمل کے بغیر کسی بھی گروہ کی تہذیبی و ثقافتی زندگی مردہ ہو جاتی ہے۔ جس طرح آگ کے کمزور پڑنے پر اگر فوراً ایندھن نہ جھونکا جائے تو بعد میں چاہے کتنا ہی ایندھن ڈالا جائے، آگ روشن نہیں ہو تی، حالانکہ ایندھن میں جلنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے لیکن خود آگ میں ایندھن کو جلانے کی قوت باقی نہیں رہتی ۔ اسی طرح تہذیب و ثقافت کو اگر بر وقت نامعلوم سے’ آشنا ‘نہ کیا جائے تو بعد کی کثیر کاوشیں بھی رائیگاں جاتی ہیں ۔ یہاں راقم یہ کہنے سے محترز نہیں کہ نامعلوم کی قبولیت ، اضافیت پسندی کے بغیر ممکن ہی نہیں ، لہٰذا ہر تہذیب اور ہر ثقافت کو زندہ رہنے کے لیے ’’طرز کہن پہ اڑنا‘‘ کے رویے کو خیر باد کہنا ہو گا ۔
(۳) سماجی تبدیلی کے لیے درکار لوازمات میں میڈیا کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔میڈیا کے حوالے سے ایک بات بہت اہم ہے کہ کاروباری مفادات کو پورا کرنے والی تفریح (Commercial Entertainment) کے بجائے سماجی عملیت (Civic Activism) کو مرکزی حیثیت دی جائے۔ اس زمینی حقیقت کے باوجودکہ عالمی معاشرہ مجموعی طور پر صارفین کا معاشرہ ہے نہ کہ شہریوں کا، اور یہ کہ سماجی شعبے کے بجائے مارکیٹیں ہی بیشتر سماجی ایشوز کی نوعیت واہمیت کو متعین کرتی ہیں، یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ میڈیا کا کام، مروج رجحانات کے تسلسل میں مداخلت کرنا بھی ہے۔اس سلسلے میں جنوبی افریقہ کے ایک پروگرام کا حوالہ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ وہاں (Soul City Multimedia Project) کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا گیا جس کے تحت پیشہ ور سکرین رائٹرز اور پبلک ہیلتھ کے پیشہ ور ماہرین کے اشتراک سے مختلف پروگرام پیش کیے گئے ،مثلاً سگریٹ نوشی، بچوں کا استحصال اور ایڈز وغیرہ کے متعلق ڈرامے دکھائے گئے ۔ اس کے ساتھ ساتھ آٹھ زبانوں میں ریڈیو پروگرام اور اخبارات میں فیچر کالم وغیرہ کا بھی اہتمام کیا گیا اور مقبولِ عام مزاحیہ کتب کو ڈاکٹروں کے آفس ، کمیونٹی سینٹرز میں رکھا گیا۔ اس تمام عمل کی بدولت صحت عامہ کے متعلق تربیت میں ’’اختراعی رجحانات‘ ‘ کو زبردست پذیرائی ملی۔اس تجربے کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے سماجی تبدیلی کے لیے مربوط ومنضبط پروگرام تشکیل دیے جا سکتے ہیں، مثلاً:
۱۔مہاجرین کی زندگی پر فلمیں اور ڈرامے،
۲۔مختلف برادریوں کے درمیان شادی وغیرہ سے متعلق ناول، افسانے، شاعری کے فن پارے اور ٹی وی، سینما پر ان کی کوریج ،
۳۔ ورکنگ لائف اور بڑھتی عمر کے مسائل جیسے موضوعات پر طبع آزمائی،
۴۔انٹر نیٹ چیٹ رومز کو منظم کرنااور انھیں مستقبل کے ایک نئے معاشرتی ادارے کے طور پر قبول کرنا۔
(۴) وسیع پیمانے پر سماجی تبدیلی لانے کے لیے تعلیمی منصوبہ بندی میں فراخ دلی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں لگے بندھے اور جامد تصورات ہی کو دہرائے چلے جانے کے بجائے آرا وافکار میں تنوع (Pluralism of Views) اور اختلاف رائے کو فروغ دینے کی حیثیت کلیدی ہے ، تاکہ دنیا کی بابت دبے د بے اظہار کے بجائے خیالات کا تنوع سامنے آ سکے۔ اس لازمے سے عمدہ طریقے سے عہدہ برآ ہونے کے لیے مذکورہ بالا میڈیا پروگرامز کو بھی تعلیمی منصوبہ بندی کا حصہ بنانا ہو گااور تعلیم کے روایتی کردار کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے نصاب میں عصری موضوعات کو اجاگر کرنا ہو گا۔
(۵) سماجی تبدیلی میں کھیلوں کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ باکسر محمد علی کلے سے لے کر جنوبی افریقہ کے ہنسی کرونیے، انڈیا کے اظہرالدین، انگلینڈ کے ناصر حسین اور ڈیوڈ بیکھم، پاکستان کے عمران خان اور یوسف یوحناتک ایسے بہت سے سپورٹس مین ہیں جو معاشرتی رویے کی عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا رخ بھی متعین کر سکتے ہیں ۔ پچھلے دنوں انگلش فٹ بالر ڈیوڈ بیکھم اس حوالے سے موضوع سخن بنا رہا کہ وہ سپین کے ایک کلب کو جائن کر رہا ہے۔ غالباً انگریزوں نے خود کو یہ کہہ کر تسلی دی ہو گی کہ سپین بھی یورپ کا حصہ ہے، وہی سپین جس کے ساتھ انگلینڈ کی کئی جنگیں ہوئیں۔ اگرچہ اب بھی کئی قوم پرست ہوں گے لیکن ان کی آواز زوردار نہیں رہی ۔ اسی طرح پاکستان میں عمران خان نے ایک نئے سماجی رویے کو جنم دیا تھا ۔ شوکت خانم ہسپتال کی مہم کو مزید مختلف جہتوں میں پھیلایا جاتا تو پندرہ بیس برسوں میں ایک صحت مند مواخاتی رویہ تشکیل پا سکتا تھا۔ نسلی اور مذہبی بنیادوں پر معاشرے کی تقسیم اور تعصب کے حوالے سے محمد علی کلے اور محمد اظہرالدین ’’کیس سٹڈی‘ ‘ کے موضوع قرار دیے جا سکتے ہیں۔محمد علی کلے معاشرے میں نسل پرستی کے خلاف احتجاج کے اعتبار سے عدم تشدد کے رویے کی علامت ہے۔ اس کے احتجاج نے امریکی معاشرے پر ان مٹ نقوش چھوڑ نے کے ساتھ ساتھ نئے معاشرتی رویے کو بھی مہمیز کیا ہے۔ جنوبی افریقہ کے آنجہانی ہنسی کرونیے کا کردار اس اعتبار سے قابلِ تحسین رہا کہ اس نے غلطی کا اعتراف کرلیااور عوامی سطح پر کرپشن کے خلاف اعترافی رویے کی طرح ڈالی۔ اب وہاں مختلف اداروں اور انجمنوں کا کام ہے کہ سماجی تبدیلی کے لیے اس اعتراف کو مثبت انداز میں اجاگر کریں۔ مختصراًیہی کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ سپورٹس میں عمومی رویہ برداشت اور عدمِ تشدد کی سپرٹ پر مبنی ہوتا ہے، لہٰذا سپورٹس مین کی مقبولیت کو سماجی تبدیلی کی راہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، کہ اپنے گروہ کی جیت کی لگن کے ساتھ ساتھ برداشت اور مروت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں کو تسلیم کرنے کی روایت کو فروغ دیا جائے۔
(۶) منظم گروہ بندی کی افادیت کے متعلق دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ درکار سماجی تبدیلی کے لیے اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔کسی بھی اچھی سوچ کو محض انفرادی لحاظ سے منضبط نہیں کیا جا سکتا کہ فرد کی توانائی اور اس کے کام کرنے کی اہلیت مختصر ہوتی ہے جبکہ سماجی تبدیلی کے لیے ایک مسلسل اور طویل عمل انتہائی ناگزیر ہے مثلاً میڈیا کی جدید خطوط پر تنظیم، اور پھر تنظیم کے لیے میڈیا کا جدید طرز پر استعمال کوئی گروہ ہی بہتر طور پر کر سکتا ہے ۔ اسی طرح انٹر نیٹ چیٹ رومز کو منظم گروہی انداز میں استعمال کرنے سے سماجی تبدیلی کے عمل کو بہتر اور تیز کیا جا سکتا ہے۔
(۷) انگریزی کا مقولہ ہے : Who holds purse,holds power کہ جس کے پاس پیسہ ہے` وہی طاقت و اختیار رکھتا ہے۔راقم کی نظر میں سپورٹس اور میڈیا سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ سپانسر شپ کے لیے واضح اور متوازن پالیسی تشکیل دی جائے ۔ میڈیا کی صارف رخی پالیسی (Consumer Oriented Policy) کی تحدید کے لیے قانون سازوں کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس سلسلے میں دیگر شعبوں کی مانند ’’کوٹہ سسٹم‘ ‘ متعارف کروایا جا سکتا ہے کہ معاشرتی حوالے سے ترتیب دیے جانے والے موضوعات بھی اپنی جگہ پاتے ہوئے سماجی تبدیلی کے عمل کو فروغ دے سکیں۔ اسی طرح فلاحی ادارے، سپورٹس اور علمی جرائد بھی متوازن سپانسر شپ سے فیض یاب ہو سکتے ہیں۔ شہریوں میں سماجی تبدیلی کی اہمیت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے جہاں سیمینارز، ورکشاپس اور فورمز وغیرہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، وہاں ان کے انعقاد اور فعال ہونے کے لیے سپانسر شپ کی اہمیت سے بھی مفر ممکن نہیں۔
مسلم امہ اور سماجی تبدیلی
اب تک کی بحث میں راقم نے مسلم امہ کا ذکر نہیں کیا کہ اس سے گفتگو خاصی طویل ہو سکتی تھی۔ اب مذکورہ بالا گفتگو کے تناظر میں اس حوالے سے چند نتائج فکر پیش کیے جا رہے ہیں:
سب سے پہلے تو اسلامی تصورِ اقتدارِ اعلیٰ کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ رائج اور متوقع عالمی رجحان میں اس کی حیثیت مرکزی قرار دی جا سکتی ہے ۔ نام نہاد جمہوری لبادے کے باوجودعالمی سطح پر حقیقی ’’انسانیت‘‘ کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ اقوام کے اندر اور اقوام کے مابین بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو مغربی اقتدارِ اعلیٰ کے باوصف خوب کھل کھیل رہے ہیں،کیونکہ مغربی تصور کے مطابق اقتدارِ اعلیٰ ’انسانی‘ ہے اس لیے نفسیاتی اعتبار سے ہر فرد ، گروہ اور قوم کی کوشش ہے کہ اس منصب پر فائز ہو جائے ،لیکن اس وقت ٹیکنالوجی کا جبر مختلف اقوام کو ایک لڑی میں پرونے پر مصر ہے۔ اندریں صورت مسابقت کا رویہ عصری تقاضوں سے لگا نہیں کھاتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مغربی تصورِ اقتدارِ اعلیٰ کی عمارت سیکولر ازم پر کھڑی ہے کہ ریاستی معاملات میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ارد گرد کی دنیا سے فرد کا تعلق ان اثرات سے پاک صاف رہ سکتا ہے جو اس کی ذات کے اندر خدا سے تعلق کے سبب جنم لیتے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ مغرب میں رائج اعلیٰ انسانی اقدار کا پس منظر ہمیں الہامی عقائد تک لے جاتا ہے، چاہے فرد کا احترام ہو یا انسانوں کی مساوات کی بات ہو۔اب مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے جبر نے اہلِ مغرب کو جس مقام پر لا کھڑا کیا ہے، وہاں ان کا مذہبی پس منظر ان کی راہنمائی سے قاصر نظر آتا ہے کہ عالمگیریت سے پہلے مذہب کو ذاتی معاملے کی سطح تک رکھ کر کام چل سکتا تھا، لیکن اب یہ ممکن نہیں رہا۔ انسانی ترقی کے مغربی معیار کی بقا کے لیے بھی رائج مغربی اقدار کے پس منظر کی مانند اب پھر الہامی عقائد سے راہنمائی کی ضرورت ہے۔ اسلامی نظام کی عالمگیریت کے سبب ، اس کی عالمگیریت کا مذہبی پس منظر ( کہ خدا ہی مقتدرِ اعلیٰ ہے) مطلوبہ الہامی عقیدے کی ضرورت پوری کرتا ہے، لہٰذا عالمی نظام کی تشکیلِ نو کے لیے درکار سماجی تبدیلی میں اسلامی تصورِ اقتدارِ اعلیٰ کی ترویج کلیدی ہو جاتی ہے۔
آئیے اب مسلم معاشرے کا الہامی عقائد کے اثرات کے حوالے سے سرسری جائزہ لیں۔زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، صرف اسی بات کو لے لیں کہ ٹیکنالوجی فقط اتنی ہی اچھی ہو تی ہے جتنی کہ اس معاشرے کی اقدار جو ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاتا ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مسلم آبادی غالب اکثریت میں ہے۔ یہاں معاشرے کے ہاتھوں بیچاری ٹیکنالوجی کا جو حشر ہوتا ہے، بیان سے باہر ہے۔ میاں نواز شریف کے دور میں پبلک ٹیلی فون بوتھس کا جال بچھا دیا گیا تھا لیکن اب یہ بوتھ خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔اسی طرح اگر سڑکیں بننے کے کچھ عرصے کے بعد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں تو یقین کیجئے کہ اس میں ٹیکنالوجی قصوروار نہیں ہے ۔ انٹر نیٹ کیبل ٹی وی اور دیگر معاملات میں بھی ایسا ہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کے قلعے میں بھی ایسی مخدوش صورت حال کیوں ہے ؟ راقم کی ناقص رائے میں اس کی بنیادی وجہ مذہب سے دوری نہیں بلکہ مذہب کا محض ایک جذباتی قدر بن کر رہ جانا ہے۔اسی سبب سے ہمارا ایک بنیادی ادارہ یعنی مسجد معاشرتی کردار ادا نہیں کر سکا۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ معاشرتی کردار ادا کرنے کے لیے وسیع المشرب ہونا پڑتا ہے ۔ تو کیا مسجد بطور معاشرتی ادارے کے وسیع المشرب نہیں ہے؟ کیا اس کی یہی خاصیت ہے ؟ (علماے کرام کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا ہو گا )راقم کی نظر میں مسجد اپنی اصل میں وسیع المشرب ادارہ ہے لیکن اس کا معاشرتی کردار فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ ہمارے معاشرے میں سماجی تبدیلی اس وقت تک خواب رہے گی جب تک فرقہ وارانہ رویہ تبدیل نہیں ہوجاتا۔ اس سلسلے میں معروضی و خارجی جبر ہی پرخار راستے کو تراش خراش کر ہموار کر سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر معاشرتی اداروں کے توسط سے باہر سے دباؤ ڈال کر فرقہ واریت کے عفریت کو نکیل ڈالی جائے ،مثلاً پبلک واکس کا اہتمام کیا جائے، سیمینارز اور ورکشاپس کاانعقاد کیا جائے، تعلیمی نصاب میں مسجد کے معاشرتی کردار کو اجاگر کیا جائے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں میڈیا سے بھر پور مدد لی جائے۔ ریڈیو پر مسجد اور دین کے معاشرتی کردار کے متعلق معلوماتی اور دلچسپ پروگرام نشر کیے جائیں اور پیشہ ور سکرین رائٹرز کے فن سے بھی استفادہ کیا جائے۔ مثال کے طور پر امجد اسلام امجد ، آخر فرقہ وارانہ مسائل اور ان کے سماجی تبدیلی میں رکاوٹ بننے کو موضوع کیوں نہیں بنا سکتے؟
فرقہ واریت و دیگر معاشرتی رویوں کے منفی ہونے میں بنیادی کردار، تاریخی واقعات سے جذباتی وابستگی میں پوشیدہ ہے۔ سیاسی جماعتوں کے جیالے متوالے ہوں یا سول ملٹری کشمکش ہو، ان کے رویے کے منفی پن کی اصل جذباتیت کے گرد ہی گھومتی ہے۔ راقم کی رائے میں یہ ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہے کہ بالمشافہہ ملاقات میں مذکورہ فریقوں میں سے کوئی تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرے۔ فکروعمل کی ایسی متعصبانہ یک رخی میں دراڑ ڈالنے کے لیے چیٹ رومز سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ باقاعدہ آمنے سامنے نہ ہونے کے باعث دوسرے کی بات پر منفی قسم کی چیخ پکار ممکن نہیں رہے گی اور سمجھنے سمجھانے کے لیے کثیر امکانات موجود رہیں گے۔ متنازعہ تاریخی واقعات پر رواداری اور مروت کے ماحول میں بات چیت کو آگے بڑھانے کے لیے چیٹ رومز کی افادیت مزید بڑھ جاتی ہے، مثلاً محمود غزنوی، اورنگ زیب، اکبر وغیرہ کی پالیسیوں کے متعلق بھارتی معاشرے میں بہت انتہا پسندانہ رویہ پایا جاتا ہے۔ یہ رویہ مذکورہ عمل سے کافی حد تک معتدل ہو سکتا ہے۔دیگر تاریخی واقعات بھی جو ناگفتنی کے زمرے میں آتے ہیں، چیٹ رومز کے پلیٹ فارم سے ’گفتنی‘ کا رتبہ پا سکتے ہیں۔ یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ فی الحال چیٹ رومز کا زیادہ استعمال منفی اور سوقیانہ ہو رہا ہے، راقم الحروف پر امید ہونے کے ناتے تجرباتی طور پر ایک معتبر چیٹ روم منظم کرنے کی کوشش میں ہے۔ دلچسپی رکھنے والے حضرات اپنی تجاویز سمیت inaam1970@yahoo.com پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
حاصلِ بحث
اس بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ جدید عہد کی تشکیلِ نو کے لیے درکار سماجی تبدیلی کے لیے پیش رفت جاری و ساری ہے۔ جذباتیت سے ہٹ کر دیکھنے سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یورپ ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے ، کیونکہ وہاں کا مجموعی سماجی رویہ زندگی کے فطری ارتقا کے شانہ بشانہ پروان چڑھ رہا ہے۔ اگر بات کو غلط انداز سے نہ لیا جائے تو ’’اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے‘‘ کے مقبولِ عام جملے کے حوالے سے راقم کو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ’حیات‘ آگے نکل گئی ہے جبکہ ’ضابطہ‘ پیچھے رہ گیا ہے۔ ماتھے پر بل ڈالنے کی ضرورت نہیں ، اس فقرے کا مطلب یہی ہے کہ اسلام کو پیش کرنے والوں نے عصری تقاضوں سے پہلو تہی کرتے ہوئے اسلام کے اجتہادی پہلو کو طاقِ نسیاں میں رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی ممالک ابھی تک داخلی اعتبار سے قومیت کے بحران سے گزر رہے ہیں۔ (مشرقی پاکستان آخر کیوں علیحدہ ہوا؟) منظم گروہ بندی (قومیت)کے بعد ہی یہ مرحلہ آتا ہے کہ ’ماوراے قومیت اتحاد‘ میں بلا خوف شمولیت اختیار کی جائے کہ منظم گروہ ہی ماوراے قومیت اتحاد میں شامل کسی دوسرے گروہ کو ’آمر‘ بننے سے روک سکتا ہے۔ چونکہ اسلامی ممالک میں ایسی داخلی تنظیم کے فقدان کے باعث ہی یورپی اقوام نے ان پر تسلط و غلبہ کی راہ پائی تھی، اس لیے اب یہ ممالک حقیقت میں ’’تحفظات‘ ‘ کا شکار ہیں کہ کسی ایسے ماوراے قومیت اتحاد میں شمولیت سے، جو خاصا فعال ہو، ان کے مفادات متاثر ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے او آئی سی، ایکو، عرب لیگ وغیرہ میں ’’اتھارٹی‘‘ نظر نہیں آتی۔ لہٰذا اب یہ انتہائی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے قومی سطح پر لا مرکزیت کو،جیسا کہ بنگالیوں کا مطالبہ تھا، فروغ دے کر جزوی عنصر کو ہدف بنایا جائے۔ اس کے بعد ہی علاقائی اتحادات اور گلوبلائزیشن (کلی عنصر)کی طرف فعال انداز میں بڑھا جا سکتا ہے۔ لا مرکزیت کا حقیقی فروغ سماجی رویے میں تبدیلی کا متقاضی ہے اور اس کے لیے ہمیں لا محالہ دین کے معاشرتی کردار کی طرف رجوع کرنا ہو گا کہ ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر مذہبی ہے۔ اگر ہمارے ہاں دین کا معاشرتی کردار موجود ہوتا تو مشرقی پاکستان بھی شاید ہم سے جدا نہ ہوتاکہ ہر نوعیت کے (سیاسی، فوجی، معاشرتی) فرقہ وارانہ رویے نے ہی دونوں یونٹوں کو ایک دوسرے سے خوف میں مبتلا کررکھا تھا۔
کشمیر کی سیاسی بیداری میں علمائے دیوبند کا کردار
پروفیسر محمد یونس میو
برصغیر پاک وہند میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے جو فکری، علمی، اصلاحی، عملی اور سیاسی تحریکیں اٹھتی رہی ہیں، ان کے پس منظر میں کسی نہ کسی طرح حضرت مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ، سرسید احمد خان، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا انور شاہ کشمیری، مولانا احمد رضا خان، سید ابو الاعلیٰ مودودی اور علامہ محمد اقبال کی فکر کارفرما رہی۔ ہر مذہب کے پیروکار اپنا اپنا حصہ ادا کرتے ہیں۔ لیکن جو جامعیت دیوبند کے اہل علم میں ہے، وہ کسی دوسری جگہ نہیں۔ قرآن وحدیث، فقہ وتصوف، سیرت وتاریخ، تقلید واجتہاد، فکر ونظر، نقل واقتباس، معرفت وحکمت، درس وتدریس، تعلیم وتعلم، دعوت وجہاد، جاں بازی وسر فروشی، حسن خلق اور ایک خاص نقش حریت اور آزادی کی جو تڑپ علماے دیوبند میں نظر آتی ہے، اس پر گزشتہ صدی کی تاریخ شہادت دے رہی ہے۔ تحریک آزادی کشمیر بھی اس تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔
کشمیر میں مسلمانوں نے پانچ سو سال حکومت کی جن میں مقامی حکمرانوں سلطان صدر الدین (رنچن)، سلطان شمس الدین (شاہ میر)، سلطان زین العابدین (بڈ شاہ)، مرزا حیدر کے علاوہ مغلوں کا ۱۶۷ سالہ دور (۱۵۸۶۔۱۷۵۲) اور افغانوں کا ۶۷ سالہ دور (۱۷۵۲۔۱۸۱۹) بھی شامل ہے۔ ۱۸۱۹ء میں رنجیت سنگھ نے کشمیر پر قبضہ کیا۔ سکھوں نے کشمیر میں تقریباً تیس سال حکومت کی۔ یہ دور ظلم وتشدد اور جبر واستبداد کا تاریک ترین دور تھا۔ سکھوں نے مغلوں کے ہاتھوں جو شکستیں کھائی تھیں، ان کا بدلہ انہوں نے بے بس اور مجبور مسلمان کشمیریوں سے لیا۔ ان کی نظر میں مسلمانوں کی اہمیت جانوروں سے زیادہ نہ تھی حتیٰ کہ ایک مسلمان کو قتل کرنے کی سزا کسی سکھ کو صرف ۲۰ روپے جرمانہ تھی۔ معاشی استحصال عام تھا، مذہبی آزادی سلب کر لی گئی تھی اور مسلمان نماز باجماعت بھی ادا نہیں کر سکتے تھے۔ رنجیت سنگھ کے زمانے میں جموں کے ایک ڈوگرا خاندان کے تین بھائیوں دھیان سنگھ، گلاب سنگھ اور سچیت سنگھ نے خالصہ دربار کی ملازمت حاصل کی۔ یاد رہے یہ ڈوگرے سکھ نہیں بلکہ سخت متعصب ہندو تھے۔ یہ وادی کشمیر کے باشندے بھی نہیں بلکہ کشمیر کی ملحقہ پہاڑیوں کی ایک راجپوت قوم ہیں۔ ان تینوں بھائیوں نے بڑی وفاداری سے خدمات سرانجام دیں جس پر گلاب سنگھ کو جموں، دھیان سنگھ کو بھمبر اور پونچھ اور سچیت سنگھ کو رام نگر کی سرداری عطا ہوئی۔ بعد ازاں گلاب سنگھ کو ’راجہ‘ کا خطاب دے کر جموں کا صوبیدار بنا دیا گیا۔ رنجیت سنگھ کی موت (۱۸۳۹ء) کے بعد گلاب سنگھ نے انگریزوں سے سازباز کی جس کی وجہ سے سبراؤں کی لڑائی میں سکھوں کو شکست فاش ہوئی اور فروری ۱۸۴۶ء میں لاہور پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ ۹ مارچ ۱۸۴۶ء کو معاہدۂ لاہور پر دستخط ہوئے جس کی رو سے سکھوں پر ڈیڑھ کروڑ روپیہ تاوان جنگ عائد کیا گیا۔ پچاس لاکھ نقد ادا کیے گئے اور بقیہ ایک کروڑ کے عوض انگریزوں نے بیاس، سندھ، ہزارہ اور کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ ۱۶ مارچ ۱۸۴۶ء کو انگریزوں اور گلاب سنگھ کے درمیان معاہدۂ امرتسر طے پایا جس کے نتیجے میں گلاب سنگھ اور اس کی نرینہ اولاد پچھتر لاکھ روپیہ نانک شاہی (موجودہ پچاس لاکھ روپے) کے عوض کشمیر جنت نظیر کے مالک بن گئے۔ اسی بدنام زمانہ بیع نامہ کے بارے میں علامہ محمد اقبال نے کہا تھا:
دہقاں وکشت وجوے وخیاباں فروختند
قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند
ڈوگروں نے کشمیر میں ۱۰۱ سال (۱۸۴۶۔۱۹۴۷ء) حکومت کی۔ گلاب سنگھ کے بعد اس کے بیٹے اور پوتوں رنبیر سنگھ، پرتاب سنگھ، امر سنگھ اور ہری سنگھ وغیرہ نے حکومت کی۔ اس دور کے بارے میں معروف صحافی، دانش ور پنڈت پریم ناتھ ہزاز کہتے ہیں کہ’’کشمیر میں ڈوگرا حکومت سے مراد ہے ہندوؤں کا راج۔ مسلمانوں سے ہمیشہ نا انصافی ہوئی۔ ان کو ذبیحہ کی اجازت نہ تھی۔یہ کسی قسم کا اسلحہ نہیں رکھ سکتے تھے۔ یہ باغی تھے اور ان کے سروں کی قیمت پانچ روپے مقرر تھی۔ ان کی کھالیں کھینچ کر ان میں بھوسہ بھر دیا جاتا۔ سینکڑوں دیہاتیوں میں کوئی مسلمان ایسا نہیں تھا جو اپنا نام لکھ سکے یا ایک درجن بھیڑوں کو گن سکے۔ مسلمان کاشت کار ایک بھوکا ننگا فقیر نظر آتا تھا نہ کہ وہ شخص جس کی محنت سے حکمرانوں کا خزانہ بھرا رہتا ہے۔‘‘ آخر برسوں کی غلامی کے بعد گراں خواب کشمیری مسلمانوں نے انگڑائی لی اور جنگ عظیم اول کے بعد ظلم وستم کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں۔ ۱۸۷۵ء کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان میں دار العلوم دیوبند جیسی ہمہ جہت درس گاہیں قائم ہوئیں تو کشمیر کے بہت سے نوجوان دیوبند آئے۔ یہاں انہوں نے تعلیم کے ساتھ تحریک خلافت، تحریک ترک موالات، تحریک ہجرت جیسی تحریکوں سے سیاسی شعور اور تربیت حاصل کی۔ بعد ازاں انہی لوگوں نے کشمیر میں تعلیمی اور سیاسی تحریکیں برپا کیں۔
میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ پہلے قابل ذکر دینی وسیاسی رہنما تھے جو مولانا سید میرک شاہ اندرابی کے ہمراہ ۱۹۱۳ء میں دیوبند آئے۔ یہاں آپ کو مولانا محمود الحسن بانی تحریک ریشمی رومال، مولانا سید انور شاہ کشمیری، مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا اعزاز علی جیسے اکابرین سے استفادہ کا موقع ملا۔ دار العلوم سے فراغت (۱۹۲۱ء) اور واپسی پر آپ میر واعظ مقرر ہوئے۔ اسی حیثیت سے آپ ’’انجمن نصرت الاسلام سری نگر‘‘ کے صدر بھی بنے۔ آپ کو سرسید کشمیر بھی کہا جا سکتا ہے۔ آپ نے سری نگر میں اورئنٹل کالج کے نام سے ایک دینی درس گاہ قائم کی۔ کشمیر کے پس ماندہ مسلمانوں کی آواز کو موثر بنانے کے لیے ’’الاسلام‘‘ اور ’’رہنما‘‘ نامی اخبار نکالے۔ ۱۹۲۵ء میں خلافت کمیٹی قائم کی۔ یہ تحریک آزادی کشمیر کی پہلی باقاعدہ سیاسی تنظیم تھی۔ جولائی ۱۹۳۱ء کے ہنگاموں میں آپ نے رہنما کردار ادا کیا۔ ۱۹۴۴ء میں جب قائد اعظم محمد علی جناح کشمیر تشریف لائے تو آپ نے درگجن کے مقام پر ان کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کیا اور ان کے اعزاز میں اپنی قیام گاہ پر دعوت دی جو تحریک آزادی کشمیر کا ایک باب ہے۔ آپ ہی کی صدارت میں آزاد کشمیر کا ابتدائی خاکہ مرتب کیا گیا جو ۲۷ جون ۱۹۴۶ء کو باقاعدہ منظور کر لیا گیا۔ آپ نے ۱۵۔ اگست ۱۹۴۷ء کو مسلم پارک سری نگر میں ایک لاکھ کشمیریوں کی موجودگی میں اپنے صدارتی خطبہ میں پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا اور مہاراجہ ہری سنگھ سے مطالبہ کیا کہ وہ ریاست کا الحاق کشمیری مسلمانوں کی خواہشات کے مطابق پاکستان کے ساتھ کرے۔
آپ کے بعد آپ کے ساتھیوں نے تحریک کو جاری رکھا جن میں ایک بڑا نام مولانا محمد عبد اللہ کفل گڑھی کا ہے۔ آپ نے مولانا عالم دین فاضل دیوبند سے تعلیم حاصل کی۔ کشمیر میں سیاسی بیداری کے لیے آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ آپ نے ڈوگرا حکومت کے ظلم واستبداد کے خلاف ایک رضا کار تنظیم بنائی اور اس کو مسلح تربیت دی جس کی وجہ سے کشمیر کے حریت پسند عوام جہاد بالسیف کی طرف مائل ہوئے۔ دسمبر ۱۹۳۵ء میں جب ہاڑی گہل (باغ) میں سکھوں نے ایک مسجد کو شہید کیا تو آپ نے زبردست احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ مسجد دوبارہ تعمیر کی جائے اور حکومت اس بے حرمتی کے لیے معافی مانگے۔ مولانا کے دونوں مطالبے منظور کیے گئے۔ ۱۹۳۷ء میں ڈوگروں نے خالصہ اراضیات کی حد بندی کے بہانے مسلمانوں کی اراضی پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا تو آپ نے باغ سے ایک عظیم الشان جلوس کی قیادت کی۔ آخر کار حکومت کو یہ منصوبہ ترک کرنا پڑا۔
۱۹۳۷ء میں ڈاکٹر رام سنگھ نے پونچھ میں قرآن کی بے حرمتی کی تو مولانا عبد اللہ کفل گڑھی بیس ہزار کا جلوس لے کر پیدل پونچھ پہنچے۔ پلندری سے آپ کے چھوٹے بھائی مفتی امیر عالم بھی ایک جلوس کی قیادت کرتے ہوئے پونچھ آئے۔ آخر کار حکومت نے شیخ عبد اللہ، بخشی غلام محمد وغیرہ کے ذریعے مولانا سے مذاکرات کیے اور ڈاکٹر رام سنگھ کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ آپ کی سیاسی سرگرمیوں سے پریشان ہو گیا اور اس نے آپ کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ آپ کو گرفتار کر لیا گیا لیکن عوامی دباؤ کے پیش نظر رہا کر دیا گیا۔
آپ کے بعد آپ کے بھائی مفتی امیر عالم نے تحریک کو آگے بڑھایا۔ آپ نے اکابر علماے دیوبند سے تعلیم حاصل کی۔ آپ ۱۹۳۵ء میں وطن واپس آئے اور آتے ہی دار العلوم پلندری کا اہتمام سنبھال لیا۔ ڈاکٹر رام سنگھ کے خلاف تحریک میں آپ کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے۔ کشمیری حقوق کے لیے آپ نے خان عبد القیوم خان اور وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ملاقاتیں کیں۔ آپ نے جہاد پر بہت زور دیا اور مجاہدین کے اسلحہ جمع کرنے کے لیے پورے کشمیر کا دورہ کیا۔ اگست ۱۹۴۷ء کے جہاد میں حصہ لیا۔ معرکہ ہاڑی گہل میں آپ کے بھائی نور عالم خان اور آپ کے قریبی عزیز محمد عظیم خان شہید ہوئے۔ جب جمعیۃ علماے اسلام کشمیر قائم ہوئی تو آپ کو اس کا ناظم اعلیٰ مقرر کیا گیا۔
تحریک آزادی کشمیر کے بانیوں میں ایک نام مولانا محمد یوسف خان کا بھی ہے۔ آپ ۱۹۲۰ء میں قصبہ منگ (پلندری) میں پیدا ہوئے۔ یہ قصبہ اپنی مجاہدانہ روایات اور دینی امتیازات کے لیے ریاست جموں وکشمیر میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ آپ نے جموں وکشمیر میں دار العلوم دیوبند کی علمی، دینی اور تحریکی روایت کو آگے بڑھایا۔ دیوبند میں آپ نے مولانا محمود الحسن دیوبندی، مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا شبیر احمد عثمانی کا زمانہ پایا۔ آپ کے ساتھیوں میں مفتی عبد المتین، مفتی عبد المجید قاسمی اور مولانا سرفراز خان صفدر خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مولانا یوسف خان ۱۹۴۳ء میں دار العلوم دیوبند سے فارغ ہوئے اور آپ نے قصبہ منگ سے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ آپ نے قصبہ کے نمبردار زمان علی کی شہادت کے خلاف عدالت کے فیصلے کے خلاف تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
’’چشم فلک نے اس ظلم کی کبھی مثال نہ دیکھی ہوگی کہ گائے ذبح کرنے پر سات سال قید با مشقت کی سزا دی جائے اور ایک انسان کو دن دہاڑے قتل کرنے پر صرف تین سال سزا دی جائے۔ ہمیں اس ڈوگرا راج سے عدل وانصاف کی قطعاً کوئی توقع نہیں ہو سکتی جو گائے کا پیشاب پی کر جوان ہوا ہے لہٰذا آپ لوگ سر پر کفن باندھ کر اٹھ کھڑے ہوں۔ اب ہم اس غلامی کا جوا اتار کر ہی دم لیں گے۔ اس کے سوا اب ہمارے سامنے کوئی راستہ نہیں ہے۔‘‘
اس تقریر کے جرم میں آپ کو تین ماہ قید بامشقت سنا کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ ۱۹۴۷ء کی جنگ آزادی میں آپ نے بھرپور حصہ لیا اور منگ سے چڑی کوٹ تک کے محاذوں پر داد شجاعت دیتے رہے۔ جنگ کے بعد متاثرین کے لیے بیت المال قائم کیا۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لا کمیشن کے ممبر رہے۔ کشمیر میں قانون سازی میں مرکزی کردار ادا کیا اور آپ کا تیار کردہ مسودہ قانون من وعن تسلیم کر لیا گیا۔ آپ پلندری کے مقبول ترین رہنما اور عوامی لیڈر تھے۔ آپ نے ۱۹۷۵ء کے انتخاب میں سندھن قوم کے معروف رہنما اور باباے پونچھ کرنل محمد خان کے فرزند کرنل نقی خان کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی۔ آپ جمعیۃ العلما آزاد کشمیر کے ناظم اعلیٰ اور صدر بھی رہے۔ آپ دار العلوم پلندری کے مہتمم اور شیخ الحدیث بھی ہیں۔ آپ کو ستمبر ۱۹۸۲ء میں ایک ہزار علما کی موجودگی میں ’’امیر شریعت‘‘ کا خطاب دیا گیا۔
یہاں صرف چار علماے کشمیر کا ذکر ممکن ہو سکا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ موضوع ایک ضخیم کتاب کا متقاضی ہے۔ تاہم یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آخر میں ان علماکے اسماے گرامی بیان کر دیے جائیں جنہوں نے کشمیر کی تحریک آزادی میں فکری اور عملی حصہ لیا اور اب بھی لے رہے ہیں۔ ان میں سے چند ایک نام یہ ہیں:
- مولانا محمد امیر الزمان خان کشمیری (بانڈیاں، باغ)
- مفتی عبد الحمید قاسمی (پونچھ)
- مولانا سید ثناء اللہ شاہ صاحب (سرسیداں، باغ)
- مولانا عبد الغنی (گاؤں جھڑ، تحصیل باغ)
- مولانا غلام مصطفی شاہ مسعودی (لوات، اٹھمقام) آپ مولانا سید انور شاہ کشمیری کے خواہر زاد تھے۔ آپ نے دار العلوم دیوبند کے بعد قاہرہ یونیورسٹی مصر سے بھی سند فراغت حاصل کی۔
- مولانا خاقان صاحب مظفر آبادی (کیاں شریف، اٹھمقام) اور محمد شریف کشمیری پاکستان کے معروف دار العلوم خیر المدارس ملتان میں صدر مدرس بھی رہے۔
- مولانا محمد اسماعیل مسعودی۔ آپ نے مولانا سید انور شاہ کشمیری، مولانا قاری محمد طیب قاسمی، مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مفتی محمد شفیع اور مولانا شمس الحق افغانی جیسے اکابر علما سے استفادہ کیا۔
- مولانا حافظ عبد اللہ (پنیالی، باغ) آپ مولانا احمد علی لاہوری اور مولانا عبد اللہ درخواستی سے متعلق رہے۔
- مفتی عبد الکریم (کوٹ قندو خان، باغ) تحریک ختم نبوت میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کشمیر آئے تو آپ نے بھی ان کے ساتھ تقریریں کیں۔ آپ نے مہاراجہ کے ظلم وستم کے خلاف کھلم کھلا بغاوت کا اعلان کیا۔
- مولانا محمد قاسم خان (راولا کوٹ) نے مسلمانان پونچھ کی سیاسی بیداری، سماجی بہبود اور دینی قدروں کی ترویج میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ آپ مولانا اشرف علی تھانوی کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔ ان کی معروف کتاب ’’بہشتی زیور‘‘ کو ہر گھر کا زیور قرار دیتے تھے۔
- مولانا غلام حیدر (پھلیاں، پلندری) شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے شاگرد اور علامہ شبیر احمد عثمانی کے ہم جماعت تھے۔ پونچھ کی سیاسی بیداری کے علاوہ آپ کی دینی، سماجی خدمات بے مثال ہیں۔
- مولانا عبد الرحمن (ٹاٹ، تحصیل حویلی) آپ نے علامہ انور شاہ کشمیری سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی۔ ریاضی کے ماہر تصور کیے جاتے تھے۔ مولانا غلام اللہ خان کی تحریک سے متاثر تھے۔ مولانا مرزائیوں کے خلاف ایک خاص مزاج رکھتے تھے۔
- مولانا عبد الحمید خان (نیپالی، باغ) آپ نے دار العلوم دیوبند اور مظاہر العلوم سہارن پور سے تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۴۷ء کی جنگ آزادی میں اوڑی محاذ پر مجاہدین کے ساتھ جہاد کیا۔ رفاہی اسکیموں اور مفاد عامہ کے منصوبوں میں آپ خاص طور پر دلچسپی لیتے تھے۔
- مولانا محمد زمان خان صاحب نیپالی باغ میں پیدا ہوئے۔ آپ کو علم وعمل اور زہد واتقا کی بنا پر علمی قیادت کی فضیلت اور روحانی سیادت کی عظمت حاصل رہی ہے۔ تحریک آزادی کشمیر میں مولانا محمد عبد اللہ کفل گڑھی کے قریبی معاون رہے۔
- مولانا قاضی عبد الرحمن (ڈھل قاضیاں، باغ) آپ نے برصغیر کی عظیم درس گاہ مظاہر العلوم سہارنپور میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا (مصنف فضائل اعمال وصدقات وغیرہ) اور مولانا عبد الرحمن سے فیض حاصل کیا۔ قرآن کی تفسیر مولانا غلام اللہ خان صاحب سے پڑھی۔ تحریک آزادی میں دیگر رفقا کی طرح فکری وعملی کام کیا۔ اپنے دور کی ملی، دینی اور سیاسی تحریک میں بھی حصہ لیتے تھے۔
- مولانا عبد العزیز تھوراڑوی ۱۹۴۱ء میں دیوبند گئے اور ۱۹۴۴ء میں سند فراغت حاصل کی۔ دینی، تبلیغی اور اصلاحی کاموں سے آغاز کیا۔ ۱۹۴۷ء میں پونچھ کی جامع مسجد میں وزیر اعظم پونچھ ’’بھیم سین‘‘ کی موجودگی میں سیرت النبی کے موضوع پر تقریر کی۔ بھیم سین نے آپ کو دفتر میں بلا کر کہا کہ ’’مولانا آپ کا اسٹیج اس قدر آزاد ہے جس قدر کسی کمیونسٹ ملک میں بھی نہیں ہوتا۔‘‘ اس پر مولانا نے جواب دیا: ’’ہماری ماؤں نے ہمیں آزاد جنا ہے، غلام نہیں۔‘‘ قصبہ منگ میں جولائی ۱۹۴۷ء میں آپ نے ہزاروں لوگوں کو قرآن کے نیچے سے گزار کر جہاد کی بیعت لی۔ آپ کا شمار تحریک آزادی کشمیر کے بانیوں میں ہوتا ہے۔
- مولانا محمد بخش ۱۹۰۵ء موضع جولی چیڑ تحصیل باغ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنے قصبہ میں ایک مسجد اور مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ آپ قرآن کی تعلیم دیتے اور رسوم وبدعات سے بچنے کی تلقین کرتے۔ یہ مولانا محمد بخش ہی تھے جنہوں نے اگست ۱۹۴۷ء کے معرکہ میں دشمن پر پہلی گولی چلائی اور ’مجاہد اول‘ کا خطاب پایا۔
- مولانا عالم دین کشمیری کفل گڑھی تحصیل باغ میں پیدا ہوئے۔ شیخ الہند سے دورۂ حدیث کی سند لی۔ مولانا سید انور شاہ کشمیری نے آپ کے بارے میں کہا تھا کہ ’’عالم دین میرا علمی ساتھی تھا۔ وہ علم کا پہاڑ تھا۔ شاید لوگوں نے ان کی قدر ومنزلت کو نہ پہچانا ہو۔‘‘
- مولانا میر عالم کا تعلق راولا کوٹ سے تھا۔ آپ سردار محمد ابراہیم خان کے برادر اکبر تھے۔ راولا کوٹ کے کالج میں پروفیسر رہے۔ تحریر وتقریر کے ذریعے لوگوں میں دینی اور سیاسی شعور پیدا کیا۔ آپ نے ’’تاریخ آزادی کشمیر‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی جو تحریک آزادی کشمیر کے بارے میں ایک جامع دستاویز تصور کی جاتی ہے۔
- مولانا محمد اسماعیل ۱۹۰۴ء میں کفل گڑھ میں پیدا ہوئے۔ آپ مولانا عبد اللہ اور مفتی امیر عالم کے بھائی تھے۔ مظاہر العلوم سہارنپور سے ۱۹۲۷ء میں سند فراغت حاصل کی۔ آپ نے ایک خطیب کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔ اردو اور پنجابی کے شاعر بھی تھے۔
- مولانا عبد العزیز کا شمار دیوبند کے قدیم فضلا میں ہوتا ہے۔ آپ مولانا احمد علی لاہوری اور مولانا غلام غوث ہزاروی سے متاثر تھے۔ آپ کچھ عرصہ بادشاہی مسجد لاہور کے خطیب بھی رہے۔ تحریک آزادی میں آپ نے بھی حصہ لیا اور لوگوں کو جذبہ جہاد سے سرشار کرتے رہے۔
- مولانا مفتی عبد المتین ۲۰ اپریل ۱۹۲۰ء کو تھب باغ میں پیدا ہوئے۔ دیوبند اور گوجرانوالہ میں اکابر علماے دیوبند سے تعلیم حاصل کی۔ لا کمیشن آزاد کشمیر کے ممبر رہے اور تحصیل باغ کے مفتی بھی۔ آپ نے تحریک آزادی کشمیر کے علاوہ مذہبی معاملات میں بھی رہنمائی کی۔ آپ نے وطن کی آزادی اور لوگوں میں جذبہ جہاد پیدا کرنے کے سلسلے میں جو اقدامات کیے، ان پر پوری قوم ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔
- مولانا فضل کریم مظفر آبادی نے خیر المدارس ملتان سے تعلیم حاصل کی۔ آپ نے تحریر وتقریر کے ذریعے تحریک آزادی میں بھرپور کردار ادا کیا۔
- مولانا نور حسین (تھب، باغ) نے ۱۹۴۴ء میں دار العلوم دیوبند سے سند فراغ حاصل کی۔ آپ مولانا سید حسین احمد مدنی اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی سے متاثر ہیں۔ آپ نے دعوت وتبلیغ کے ذریعے لوگوں میں جذبہ جہاد پیدا کیا۔
- مولانا محمد الیاس موضع سنیاں (ہٹیاں) میں ۱۹۲۹ء میں پیدا ہوئے۔ دورۂ حدیث جامعہ اشرفیہ لاہور سے کیا۔ ۱۹۴۷ء کی جنگ آزادی میں آپ کی عمر ۱۷ سال تھی۔ آپ نے مکمل فوجی ٹریننگ حاصل کی۔ اس کے بعد باضابطہ طور پر اوڑی کے محاذ پر جہاد میں چودہ رفقا کی قیادت کرتے ہوئے شریک جہاد ہوئے۔
- مولانا محمد اسحاق مدنی تاریخ ساز خطہ منگ سے متعلق ہیں۔ دار العلوم پلندری، خیر المدارس ملتان، جامعۃ العلوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی اور بعد ازاں مدینہ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ آپ نے درس قرآن کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ آپ نے آل جموں وکشمیر جمعیۃ العلماء اسلام کے مرکزی رہنما کی حیثیت سے تحریک آزادی کشمیر میں نئی روح پھونک دی۔ مولانا محمد طیب ان کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’مولانا محمد اسحاق خان سے جو واقف ہیں، وہ شہادت دیں گے کہ مولانا عزم واستقلال، اخلاص وایثار، تقویٰ وطہارت، عبادت وریاضت، سخاوت ومروت، خدا پرستی ومردم شناسی، خود داری اور علم دوستی کے پیکر متحرک تھے۔‘‘
- مولانا حیات علی حسینی ۱۸۸۸ء میں رٹہ ڈڈیال میں پیدا ہوئے۔ سہارنپور اور پھر دیوبند میں مولانا خلیل احمد سہارنپوری اور شیخ الہند مولانا محمود الحسن جیسے علما کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا۔ تحریک آزادی میں آپ نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ آپ کے ولولہ انگیز خطبات نے جذبہ آزادی کو مہمیز دی۔ پوٹھ کے مقام پر ساٹھ ہزار کے مجمع میں تاریخ ساز تقریر کی۔ حالات خراب ہوئے تو گرفتار کر لیے گئے۔ تحریر وتقریر کے علاوہ طب میں مہارت حاصل کی۔
- مولانا عبد الرحمن کوٹ قندو خان سے متعلق تھے۔ فاضل دیوبند تھے۔ تحریک آزادی میں اپنے علاقہ میر پور اور کھوئی رٹہ میں ڈوگرا سامراج کے خلاف بڑا کام کیا جس سے لوگ جہاد پر آمادہ ہوئے۔
- مولانا غلام حیدر جنڈالوی موضع جنڈالی، راولاکوٹ کے رہنے والے تھے اور سدھن قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ ڈوگرا حکومت کے خلاف عمر بھر نبرد آزما رہے۔ مولانا عبد اللہ کفل گڑھی کی رفاقت میں پونچھ میں توہین قرآن مجید کے خلاف احتجاج کے سلسلے میں خدمات سرانجام دیں۔ گرفتار ہوئے اور ایک سال کے لیے جلاوطن کر دیا گیا۔ ۱۹۴۰ء میں عدالت راولا کوٹ سے ڈھائی سال قید بامشقت پائی۔ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی اور قرارداد پاکستان کی حمایت اور تائید میں تقریر کی۔ تحریک آزادی کشمیر میں فکری وعملی ہر دو طرح سے حصہ لیا۔ راولا کوٹ کے محاذ پر شرکت، پونچھ محاذ پر آپ نے راشن ذخیرہ کرنے اور آزاد فوج کی رسدی امداد کرنے میں بڑا کام کیا۔ آپ کی کارکردگی سے متاثر ہو کر آزاد کشمیر حکومت نے آپ کو کیپٹن کے عہدے پر تعینات کیا اور آپ باضابطہ کیپٹن کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
- مولانا عبد الرحمن مظفر آبادی کا شمار آزاد کشمیر کے ممتاز اور مجاہد علما میں ہوتا ہے۔ آپ نے درس نظامی کی کتب مولانا عبد المتین سے پڑھیں اور ۱۹۳۱ء کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔
- مولانا محمد سعید مظفر آبادی امروٹی لیپہ (کرناہ، ضلع مظفر آباد) سے تعلق رکھتے تھے۔ ہزارہ اور دیوبند کے مدارس سے تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۴۷ء کی جنگ آزادی میں اپنے علاقہ کے لوگوں کی قیادت کی۔ عوام میں جذبہ جہاد پیدا کرنے کے لیے موثر انداز میں تبلیغ کی جس کی وجہ سے علاقے میں آپ کا احترام پایا جاتا ہے۔
- مفتی محمد اسرائیل کابل سے مظفر آباد آئے۔ ہزارہ اور دیوبند کے مدارس سے تعلیم حاصل کی۔ مولانا انور شاہ کشمیری سے ملاقات رہی۔ آپ کے رفقا میں مولانا محمد یوسف بنوری بہت بڑا نام ہے۔ سند فراغت کے بعد وطن واپس آئے اور عمر بھر تبلیغ دین کا سلسلہ جاری رکھا۔
علاوہ ازیں مولانا شمس الدین، مولانا محمد رفیق، مولانا غلام ربانی، مولانا حافظ عبد الرؤف، مولانا عطاء اللہ، مولانا سرفراز خان، مولانا مفتی نذیر حسین، مولانا خلیل الرحمن، مولانا ہدایت اللہ مظفر آبادی، مولانا محمد عالم، مولانا محمد حسین، مولانا خیر محمد، مولانا محمد یاسین، مولانا عزیز الرحمن، مولانا رحمت اللہ، مولانا عبد الغفور، مولانا محمد دین، مولانا محمد یوسف، مولانا بدر الدین ایسے علماے کرام ہیں جنہوں نے دار العلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارنپور، جامعہ اشرفیہ لاہور، خیر المدارس ملتان، انوار الاسلام مظفر آباد، دار العلوم پلندری اور ضلع ہزارہ کے مدارس سے تعلیم حاصل کی اور پھر اپنے وطن پہنچ کر کشمیر کی سیاسی بیداری، سکھ اور ڈوگرا حکومتوں کے ظلم واستبداد کے خلاف آواز بلند کرنے، عوام کو ان کے مقابل منظم کرنے، ان میں جذبہ جہاد بیدار کرنے کے علاوہ کشمیر کے لوگوں کی علمی ودینی اور مذہبی معاملات میں راہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ تحریک آزادی کشمیر میں ان علماے کرام کو بنیاد کے پتھر کی حیثیت بھی حاصل ہے۔
عقیدۂ حیاۃ النبی اور شرک
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
کراچی
۵۔۷۔۲۰۰۳ء
محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم
ماہنامہ الشریعہ بابت مئی/جون ۲۰۰۳ء میں آپ کے مضمون کا اقتباس جو عطاء الحق قاسمی صاحب نے اپنے کالم میں دیا اور اس پر مخالفت اور موافقت میں مضامین نظر سے گزرے۔ میں آپ کے زور استدلال سے متاثر ہوں۔
میں ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے آپ کے علم سے استفادہ کرنا چاہتا ہوں۔ دار العلوم کراچی،جس کے مہتمم جناب محمد رفیع عثمانی صاحب ہیں، نے مجھے لکھا:
’’آپ ﷺ کے روضہ اطہر پر درود وسلام پڑھنے والے کے لیے جو آداب ذکر کیے گئے ہیں، وہ درست ہیں۔ چنانچہ اہل السنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ آپ ﷺ دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور آپ کو دنیا کی طرح حیات حاصل ہے اور جو شخص آپ کے روضہ اطہر پر حاضر ہو کر درود وسلام پڑھتا ہے، آپ ﷺ اس کو خود سنتے ہیں۔‘‘
گویا حیات النبی کے معاملہ میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، تبلیغی جماعت والے سب متفق ہیں کہ نبی زندہ ہیں۔ لیکن قرآن کی یہ آیت ہے کہ:
۱۔ ’’ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اللہ کی ذات کے۔‘‘ (القصص ۸۵)
۲۔ ’’پھر اس زندگی کے بعد تمہیں موت آ کر رہے گی اور اس کے بعد قیامت کے دن تم پھر اٹھائے جاؤ گے۔‘‘ (المومنون ۱۵۔۱۶)
کوئی یہ نہ سمجھے کہ رسول اس سے مستثنیٰ ہیں۔ فرمایا:
۱۔ ’’آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔‘‘ (الزمر ۳۰)
۲۔ ’’ہمیشگی تو ہم نے تم سے پہلے بھی کسی انسان کے لیے نہیں رکھی ہے۔ اگر تم مر گئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیں گے؟ ہر جاندار کوموت کا مزا چکھنا ہے۔‘‘ (الانبیاء ۳۴۔۳۵)
کیا حیات النبی کا عقیدہ رکھنے والے منکر قرآن اور مشرک نہیں ہیں؟
والسلام
احمد اشرف
جواب
باسمہ سبحانہ
محترمی احمد اشرف صاحب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ مزاج گرامی؟
آپ کا خط موصول ہوا۔ اس سے قبل بھی اسی نوعیت کا خط آپ کی طرف سے موصول ہوا تھا جو ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں شائع کر دیا گیا۔ اس کا شمارہ آپ کو ارسال کیا جا رہا ہے۔ آپ نے چونکہ مسئلہ کو سمجھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، اس لیے چند سطور تحریر کر رہا ہوں، ورنہ میں اس نوعیت کے مسائل میں بحث ومباحثہ کا عادی نہیں ہوں اور نہ ہی بحث برائے بحث کا کوئی فائدہ مرتب ہوتا ہے۔
آپ نے قرآن کریم کی چند آیات کریمہ کا حوالہ دیا ہے اور سوال کیا ہے کہ کیا ان آیات کے اس مفہوم کی روشنی میں جو آپ بیان کر رہے ہیں، حیات النبی ﷺ کا عقیدہ شرک نہیں ہے؟ اس سلسلے میں ایک اصولی گزارش یہ ہے کہ اگر تو قرآن کریم ہم نے براہ راست اپنے فہم اور معلومات کی بنیاد پر سمجھنا ہے تو پھر آپ کے تجزیہ اور استدلال کی کسی حد تک گنجائش نکل سکتی ہے لیکن اگر فہم قرآن کریم کے لیے جناب نبی اکرم ﷺ کے ارشادات اور تشریحات کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے تو پھر ہمیں قرآن کریم کی کسی آیت یا جملے کا مطلب ومفہوم طے کرتے ہوئے جناب نبی اکرم ﷺ کے فرمودات اور توضیحات کے دائرے میں رہنا ہوگا اور وہی مفہوم صحیح قرار پائے گا جو نبی اکرم ﷺ کے ارشادات سے مطابقت رکھتا ہوگا۔
یہاں ایک خوب صورت سا مغالطہ ہمارے ذہنوں سے الجھنے لگتا ہے کہ قرآن کریم کے مفہوم ا ور ارشاد سے ٹکرانے والی کسی حدیث کو ہم قبول کرنے کے پابند نہیں ہیں اور جہاں قرآن کریم اور حدیث مبارکہ میں تعارض ہوگا، وہاں ہم قرآن کریم کو ترجیح دیں گے۔ یہ بات بظاہر بہت خوب صورت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ فلاں آیت اور فلاں حدیث میں تعارض ہے؟ ظاہر بات ہے کہ یہ فیصلہ ہم نے خود کرنا ہے اور اس طرح ایک بار پھر ہم یہ اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں کہ چونکہ ہمیں فلاں آیت اور فلاں حدیث میں تعارض نظر آ رہا ہے، اس لیے ہم اس حدیث کو قبول نہیں کرتے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں یہ اتھارٹی حاصل نہیں ہے کہ ہم قرآن کریم اور حدیث نبوی کے درمیان ’’حکم‘‘ کی حیثیت اختیار کر لیں اور اپنے فہم اور علم کو حتمی قرار دیتے ہوئے فیصلے کرنے لگ جائیں بلکہ فہم قرآن کریم کی صحیح ترتیب یہی ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ نے قرآن کریم کی کسی آیت کا جو مفہوم بیان کیا ہے یا جس مسئلہ میں جو طرز عمل اختیار کیا ہے، اس کی روشنی میں قرآن پاک کو سمجھا جائے اور صحیح سند کے ساتھ جو ارشاد نبوی سامنے آ جائے، اسے ہی فائنل اتھارٹی قرار دیا جائے۔ اس سے ہٹ کر قرآن کریم کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی تو اللہ تعالیٰ کا مقدس کلام ’’بازیچہ اطفال‘‘ بن کر رہ جائے گا اور فکری انتشار کے سوا کچھ بھی ہمارے ہاتھ نہیں آئے گا۔
اس اصولی گزارش کے بعد متعلقہ مسئلہ کے حوالہ سے یہ عرض ہے کہ میں یہ بات نہیں سمجھ سکا کہ حضرات انبیاے کرام علیہم السلام کو قبروں میں زندہ ماننے سے کون سا شرک لازم آتا ہے؟ شرک تو اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات واختیارات میں کسی اور کو شریک سمجھنے کا نام ہے۔ اگر کوئی شخص قبر میں زندہ ہے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی کون سی صفت یا اختیار میں اس کی شرکت ہو جاتی ہے؟ اگر نفس حیات ماننے سے شرک لازم آتا ہے تو اس حیات کا اطلاق ہم سب پر ہوتا ہے، پھر ہم بھی معاذ اللہ، اللہ تعالیٰ کے شریک قرار پاتے ہیں اور اگر موت کے بعد کی زندگی سے یہ مفہوم اخذ کیا جاتا ہے تو شہدا کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ وہ قتل ہو جانے کے بعد نہ صرف زندہ ہیں بلکہ رزق بھی دیے جاتے ہیں تو کیا موت کے بعد انہیں زندہ ماننے سے شرک لازم آ جاتا ہے؟ یا مثلاً بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق جناب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ عام مردہ بھی قبرستان میں آنے جانے والوں کے قدموں کی چاپ سنتا ہے۔ اسی طرح مسلم شریف کی ایک روایت کے مطابق حضرت عمرو بن العاصؓنے وفات سے قبل اپنی وصیت میں تلقین کی کہ انہیں قبر میں دفن کرنے کے بعد احباب اتنی دیر تک ان کی قبر کے پاس رہیں جتنی دیر میں اونٹ کو ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان فرمائی کہ قبر میں سوال وجواب کا مرحلہ یہی ہوتا ہے اور ارد گرد احباب کی موجودگی سے وہ انس اور حوصلہ محسوس کریں گے۔
میں فی الواقع یہ بات نہیں سمجھ پایا کہ ایسا کہنے یا ماننے سے شرک کی کون سی صورت وقوع پذیر ہو جاتی ہے؟
باقی رہی بات اللہ تعالیٰ کے سوا باقی سب کے فنا ہو جانے کی تو میرے بھائی، اسے بھی جناب نبی اکرم ﷺ کے ارشاد کی روشنی میں سمجھیں گے تو مسئلہ حل ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جب قیامت کا صور پھونکا جائے گا تو ہر چیز فنا ہو جائے گی اور ایک اللہ تعالیٰ کی ذات باقی رہ جائے گی۔ اس کیفیت پر ایک زمانہ گزرے گا۔ اس کے بعد پھر کائنات اللہ تعالیٰ کے حکم سے دوبارہ وجود میں آئے گی۔ جہاں تک موت کا تعلق ہے، اسے قرآن کریم نے فنا کے معنی میں ذکر نہیں کیا بلکہ اس کی تردید کی ہے۔ یہ مشرکین کا عقیدہ تھا کہ موت فنا کا نام ہے اور فنا کے گھاٹ اتر جانے کے بعد دوبارہ زندگی کا کوئی امکان نہیں ہے جس کا قرآن کریم نے جابجا رد کیا ہے اور فرمایا ہے کہ موت فنا کا نام نہیں بلکہ اس کے بعد بھی زندگی ہے، قبروں سے دوبارہ اٹھنا ہے، حساب کتاب ہے، اور سزا جزا کے مراحل سے گزرنا ہے بلکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ اصل زندگی وہی ہے جو دائمی ہے اور نہ ختم ہونے والی ہے، اس لیے اگر انسان کے لیے اس ابدی زندگی کو ماننے سے شرک لازم نہیں آتا تو میرے بھائی! قبر کی عارضی زندگی اس کے لیے تسلیم کر لینے میں بھی شرک کا کوئی پہلو موجود نہیں ہے۔
اس کے بعد یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ جو حضرات قبروں میں انبیاے کرام علیہم السلام کی زندگی کے قائل ہیں، اور یہ جمہور امت ہے جو چودہ سو برس سے اس کی قائل چلی آ رہی ہے، وہ اس بات کے ایک لمحہ کے لیے بھی قائل نہیں ہیں کہ حضرات انبیاے کرام علیہم السلام موت سے مستثنیٰ ہیں یا ان پر موت نہیں آئی۔ وہ حضرات انبیاے کرام علیہم السلام پر موت کا ورود اسی طرح مانتے ہیں جیسے شہدا کے لیے مانتے ہیں اور پھر موت کے بعد عالم برزخ میں ان کی اسی طرح کی زندگی کے قائل ہیں جیسے شہدا کے لیے قرآن کریم نے زندگی اور رزق دیے جانے کا ذکر فرمایا ہے۔
یہ زندگی عالم برزخ کی زندگی ہے ، اس دنیا کی زندگی نہیں ہے اور اسے اگر حیات دنیوی کہا جاتا ہے تو صرف اس معنی میں کہ یہ برزخی حیات اس جسم مبارک کے ساتھ قائم ہے جو اس دنیا میں تھا کیونکہ جناب نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاے کرام علیہم السلام کے اجسام مبارکہ کو حرام کر دیا ہے اور انبیاے کرام علیہم السلام کے اجسام دنیویہ فنا نہیں ہوتے بلکہ اسی طرح قائم رہتے ہیں، حتیٰ کہ یہ مسئلہ خود قرآن کریم نے حضرت یونس علیہ السلام کے حوالہ سے ذکر فرمایا ہے کہ اگر وہ تسبیح نہ کرتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام کے جسم مبارک کو تو باقی رہنا ہی تھا، ان کی وجہ سے مچھلی کو بھی قیامت تک حیات مل جاتی۔ اس لیے قرآن کریم کی منشا بھی یہی ہے کہ حضرات انبیاے کرام علیہم السلام کے اجسام مبارکہ قیامت تک محفوظ رہتے ہیں۔ ہاں قیامت کی اجتماعی فنا میں دوسروں کے ساتھ وہ بھی شریک ہوں گے۔
اس لیے حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے آپ کو جو جواب دیا ہے اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے جس ارشاد گرامی کا آپ نے ذکر فرمایا ہے، مجھے میں اس اشکال کی کوئی بات دکھائی نہیں دیتی، اس لیے کہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات بالکل درست ہے اور امت مسلمہ کے جمہور اہل علم چودہ سو برس سے اسی کے قائل چلے آ رہے ہیں۔
امید ہے کہ بات کو سمجھنے کے لیے اتنی گزارشات کافی ہوں گی۔
شکریہ! والسلام
ابو عمار زاہد الراشدی
قارئین کے تنقیدی خطوط
ادارہ
(۱)
الشریعہ جون ۲۰۰۳ء کے شمارے میں ’’برصغیر کی مذہبی فکر کا ایک تنقیدی جائزہ‘‘ کے عنوان سے جناب الطاف احمد اعظمی کی ایک تحریر شائع کی گئی جس میں دور حاضر کی تین بڑی جماعتوں یعنی تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی اور جمعیۃ العلماء ہند میں پائی جانے والی خامیوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ ان میں سے بعض خامیاں اس قدر واضح ہیں کہ ہر ذی شعور فرد کے مشاہدے کا حصہ ہیں اور ان کی کوئی وکالت نہیں کی جا سکتی، البتہ جمعیۃ علماے ہند پر تبصرہ کرتے ہوئے مصنف نے مولانا ابو الکلامؒ کے تذکرہ میں غیر جانبدارانہ رویہ اختیار نہیں کیا اور ان کی طرف ایسی باتوں کا انتساب کیا ہے جن کا حقیقت سے دور کا تعلق بھی نہیں۔
مولانا آزادؒ کی فکر اور ان کے اسلوب نگارش کے بارے میں الطاف اعظمی صاحب کا کہنا ہے کہ اس سے ملت اسلامیہ کو بے حد نقصان پہنچا ہے جبکہ دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ مولانا آزادؒ کی فکر اور اسلوب نگارش پر اس دور کے اکابر علماے کرام نے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ خصوصاً شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مولانا مفتی کفایت اللہ، مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا حفظ الرحمن رحمہم اللہ جیسے صاحب نظر اور معاملہ فہم علما جس شخص پر اعتماد کریں، اس کے بارے میں الطاف اعظمی صاحب کی یک طرفہ رائے کو آنکھیں بند کر کے قبول نہیں کیا جا سکتا۔
مولانا کے ہفتہ وار اخبار ’الہلال‘ کے بارے میں الطاف صاحب کا کہنا ہے کہ اس نے ملت اسلامیہ کو نقصان پہنچایا ہے جبکہ اسی ’الہلال‘ کے بارے میں اسیر مالٹا شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کا قول ہے کہ ’’ہم اپنا سبق بھولے ہوئے تھے، الہلال نے یاد دلایا ہے۔‘‘ اسی طرح حکومت برطانیہ کی طرف سے ’الہلال‘ کی جبری بندش بھی اس بات کی دلیل ہے کہ جناب الطاف صاحب کی رائے جانبدارانہ ہے۔
الطاف اعظمی صاحب نے مولانا پر ایک اور الزام یہ لگایا ہے کہ انہوں نے ادنیٰ سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا استعمال کیا جبکہ اس کے مقابلے میں چند ایک ہندو سیاسی لیڈروں کا نام لے کر انہوں نے کہا ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی سیاسی مقاصد کے لیے اپنا مذہبی لٹریچر استعمال نہیں کیا۔ شاید الطاف صاحب اس بات کو بھول گئے کہ مولانا جس مذہب کو ماننے والے ہیں، اس کے نزدیک دین و دنیا اور مذہب وسیاست کے الگ الگ خانے نہیں ہیں بلکہ وہ زندگی کے تمام دائروں میں کلی راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ مولانا آزاد کی سیاست بھی مذہب ہی کی راہ سے آئی تھی۔ وہ ملک کی آزادی کی جدوجہد میں اس لیے لگے تھے کہ ان کے نزدیک یہ اسلام کی تعلیمات کا تقاضا تھا۔ وہ حکومت وسیاست کا کام ایک مذہبی فریضہ سمجھ کر انجام دیتے تھے۔
جہاں تک مولانا کے سیاسی مقاصد کا تعلق ہے، وہ ادنیٰ تھے یا اعلیٰ؟ اس بات کا فیصلہ وقت کے قاضی نے بہت جلد کر دیا ہے۔ جن لوگوں نے مولانا کی رائے سے اختلاف کر کے ’’اعلیٰ‘ ‘ سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا استعمال کیا تھا، وہ آج آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بن گئے ہیں اور انہوں نے مذہب کا نام لے کر سیدھے سادے مسلمانوں کو غلامی کے گڑھوں میں کچھ اس طرح سے دھکیل دیا ہے کہ اب ان کا اپنے پاؤں پر ازسرنو کھڑا ہونا ناممکن نظر آنے لگا ہے۔
جناب الطاف احمد صاحب نے مولانا کی تفسیر ’ترجمان القرآن‘ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ان کی تفسیر میں خود نمائی کے اثرات پورے طور پر موجود ہیں اور تفسیری جدت طرازی کے شوق میں مولانا نے بعض فکری اعتزالات (وحدت ادیان وغیرہ) کی داغ بیل ڈالی ہے۔‘‘
وحدت ادیان کے بارے میں مولانا آزاد کی رائے کو سمجھنے سے الطاف صاحب قاصر رہے۔ مولانا کے نزدیک وحدت ادیان سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ موجودہ مذاہب عالم کی تعلیمات میں کوئی تضاد نہیں اور یہ موجودہ شکل میں سب کے سب برحق ہیں۔ مولانا تو یہ تصور دینا چاہتے ہیں کہ تمام آسمانی مذاہب کی اصل اور بنیادی تعلیم ایک ہی ہے۔ دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں جس نے خدا پرستی اور انسان دوستی کی دعوت نہ دی ہو۔ مدعیان مذہب کی ظاہر پرستیوں اور خام کاریوں کو مذہب خیال کر کے تضاد پیدا کرنا کج فہمی کی علامت ہے۔ اس تصور کے پیش کرنے میں مولانا آزاد منفرد نہیں ہیں بلکہ فیلسوف اسلام امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے بھی اپنی تعلیمات میں سارے ادیان ومذاہب اور شریعتوں کا اصلاً ایک ہونا ثابت کیا ہے اور ان بنیادی اصولوں کا تعین بھی کیا ہے جو ہر دین کا مقصود حقیقی تھے۔
باقی رہی مولانا کے دیگر علمی تفردات پر نکتہ چینی تو یہ ہمارا اجتماعی مزاج بن گیا ہے کہ خوبیوں کو نظر انداز کر کے خامیوں کو عقاب کی نظر سے چنتے اور صبا کی رفتار سے پکڑتے ہیں۔ شاید الطاف صاحب اس بات کو بھول گئے ہیں کہ افکار ونظریات کا شذوذ ہر محقق اور مجتہد میں پایا جاتا ہے۔ قرون اولیٰ سے لے کر اب تک بے شمار محققین ومجتہدین گزرے ہیں۔ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہے جس کے افکار میں کہیں نہ کہیں تفرد نہ ہو لیکن کسی کے اجتماعی کارناموں کو نظر انداز کر کے اس کے تفردات کو اچھالنا غیر دانش مندانہ اور جانبدارانہ رویہ ہی کہلا سکتا ہے۔
محمد عمر کشمیری
شریک دورۂ حدیث
مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ
(۲)
۴۔۷۔۲۰۰۳
جناب محترم رئیس التحریر صاحب
آداب
’الشریعہ‘ جولائی ۲۰۰۳ء کے شمارے میں آپ کا ’’کلمہ حق‘‘ پڑھا۔ مجھے آپ کے اس خیال سے اتفاق ہے کہ مغربی ومشرقی تہذیب جو رخ اختیار کر چکی ہے یا اختیار کر رہی ہے، مسیحی اور اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے۔ بد قسمتی سے یہ سب کچھ انسانی حقوق اور اس حوالے سے کیڑے مکوڑوں کی طرح روزانہ بننے والی ’’این جی اوز‘‘ (NGOs) کا کیا دھرا ہے۔
مجھے آپ کے اس خیال سے اتفاق نہیں کہ پاکستان کے تمام پادری صاحبان این جی اوز کے جال میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ ہم نے خود کو انسانی حقوق اور این جی اوز کے فتنے سے نہ صرف آزاد رکھا ہوا ہے بلکہ ہماری تو ان کے ساتھ باقاعدہ ’’جنگ‘‘ ہو رہی ہے۔ ہم مسیحیت کی تعلیمات کو ہی نسل انسانی کے لیے بہترین طرز زندگی سمجھتے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دیگر مذاہب کی اخلاقی تعلیمات کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
امید ہے کہ آپ ہمارا نقطہ نظر سمجھ گئے ہوں گے۔ ہم پاکستانی مسیحی ہیں اور ہر قسم کے غیر اخلاقی کام کے خلاف مصروف جنگ رہتے ہیں اور یہ جنگ جاری رکھیں گے۔ آپ کا تعاون یقیناًہمارے لیے بہت مددگار ثابت ہوگا۔
زیادہ سلام
مخلص
میجر (ریٹائرڈ) ٹی ناصر
پریسبٹیرین بشپ آف پاکستان
پی او بکس ۶۷۰۔ گوجرانوالہ
تخصص تدریب المعلمین برائے مدارس دینیہ
ادارہ
(’تحریک اصلاح تعلیم‘ لاہور نے دینی مدارس کے اساتذہ کی تربیت کا ایک پروگرام شروع کر رکھا ہے۔ تحریک کی طرف سے ارسال کردہ اس پروگرام کا تعارف اہل علم خصوصاً ملک بھر کے دینی مدارس کے مہتممین اور مدرسین کی اطلاع کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔ اس پروگرام پر تبصرے، تنقید اور بہتری کی تجاویز کے لیے تحریک اصلاح تعلیم، آسٹریلیا مسجد، نزد ریلوے اسٹیشن، لاہور سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ ادارہ)
ضرورت
جدید تعلیم کے سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ کی تربیت کے لیے حکومت نے سیکڑوں تربیتی ادارے قائم کر رکھے ہیں بلکہ دفاع، بیوروکریسی، انکم ٹیکس، آڈٹ اور حکومت کے ہر محکمے نے اپنے اپنے تربیتی ادارے قائم کر رکھے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کے بڑے تعلیمی ادارے اور سکول سسٹم بھی تربیت اساتذہ کا اہتمام کرتے ہیں لیکن ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں دینی مدارس ہونے کے باوجود ان کے اساتذہ کی تربیت کا کوئی انتظام موجود نہیں۔ اس کی متعدد وجوہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان کے پاس وسائل کی کمی ہے، انہیں حکومت کی سرپرستی بھی حاصل نہیں اور پھر یہ مدارس آپس میں متحد اور منظم بھی نہیں کیونکہ ہر وفاق اپنے اپنے مسلک کی بنیاد پر قائم ہوا ہے اس لیے آج تک کوئی تربیتی ادارہ وجود میں نہیں آ سکا۔ تاہم بعض وفاق اور بڑے مدارس تھوڑی بہت توجہ اب اس طرف مبذول کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد بھی مساجد کے خطبا کی تربیت کا ایک سالانہ پروگرام چلا رہی ہے۔
اہداف
تحریک اصلاح تعلیم نے دینی مدارس کے اساتذہ کی تربیت کا جو پروگرام بنایا ہے، اس کے مندرجہ ذیل اہداف طے کیے ہیں:
۱۔ دینی مدارس کے لیے تربیت یافتہ اساتذہ کی فراہمی
۲۔ دینی مدارس کے موجودہ اساتذہ کی تربیت
۳۔ جدید تعلیمی اداروں کے لیے تربیت یافتہ دینی معلمین کی فراہمی
۴۔ دینی مدارس میں کام کے دوران تربیت مہیا کرنا
۵۔ دینی تعلیم کے دوران باقی رہ گئی تعلیمی خامیوں کو دور کرنا
۶۔ دینی مدارس کے اساتذہ کو جدید علوم سے آگاہ کرنا
ایڈوائزری کونسل
تحریک اصلاح تعلیم پچھلے ڈھائی تین سال سے اہل سنت کے چاروں وفاقوں کے عمائدین کے ساتھ مل کر دینی مدارس کے نظام تعلیم کی اصلاح خصوصاً نصاب کے حوالے سے ایک متفقہ پیکج کی تیاری کے لیے کام کر رہی تھی۔ الحمد للہ اس میں تحریک کو کامیابی ہوئی اور چاروں وفاقوں کے ذمہ دار وثقہ علما نے اس سلسلے میں متفقہ نصابی تجاویز کی منظوری دے دی۔ پھر ان متفقہ تجاویز کی بنیاد پر نیا نصاب بھی تحریک نے تیار کر لیا۔ ]جن اصحاب کو اس موضوع سے دلچسپی ہو، وہ خط لکھ کر تحریک سے متفقہ نصابی تجاویز یا نئے مجوزہ نصاب کی کاپی منگوا سکتے ہیں[ چنانچہ انہی عمائدین سے درخواست کی گئی کہ وہ تحریک کے زیر انتظام دینی مدارس کے لیے تربیت اساتذہ کے اس پروگرام کی بھی سرپرستی فرمائیں چنانچہ مشاورت سے مندرجہ ذیل عمائدین پر مشتمل ایک ایڈوائزری کونسل تشکیل دی گئی:
۱۔ جناب مولانا فضل الرحیم صاحب، نائب مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور ورکن وفاق المدارس العربیہ۔
۲۔ جناب مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب، مہتمم جامعہ نعیمیہ لاہور وناظم اعلیٰ تنظیم المدارس۔
۳۔ جناب مولانا عبد المالک صاحب، شیخ الحدیث مرکز علوم اسلامیہ منصورہ وناظم اعلیٰ رابطۃ المدارس ۔
۴۔ جناب مولانا محمد یونس بٹ صاحب، استاذ جامعہ سلفیہ فیصل آباد وناظم اعلیٰ وفاق المدارس السلفیہ۔
چنانچہ اس پروگرام کی ساری تفصیلات اس ایڈوائزری کمیٹی کے مشورے سے طے کی گئی ہیں اور ان شاء اللہ آئندہ بھی ان سے مشاورت کی بنیاد پر ہی کام کیا جائے گا بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہ پروگرام چاروں وفاقوں کے تعاون سے چلایا جا رہا ہے اور اس وقت جو پروگرام عملاً چل رہا ہے، اس میں بھی الحمد للہ سب مسالک کے اساتذہ وطلبہ موجود ہیں اور شیر وشکر ہو کرتحصیل علم میں مصروف ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تدریب المعلمین کے پروگرام سے قطع نظر مختلف مسالک کے حامل اساتذہ وطلبہ کا اس طرح ایک جگہ مل بیٹھ کر مشترکہ پروگرام میں شریک ہونا بجاے خود ایک مبارک ومطلوب عمل ہے اور اس کے مفید اور تعمیری اثرات ان شاء اللہ مستقبل میں ظاہر ہوں گے۔
اس پروگرام میں داخلے کے لیے ضروری ہوگا کہ طالب علم نے:
۱۔ مندرج ذیل وفاقوں میں سے کسی ایک سے الشہادۃ العالمیۃ کا امتحان کم از کم ۶۰ فیصد نمبر لے کر پاس کیا ہو:
-وفاق المدارس العربیہ - تنظیم المدارس - رابطۃ المدارس الاسلامیۃ - وفاق المدارس السلفیۃ
۲۔ وہ کم از کم میٹرک سیکنڈ ڈویژن پاس ہو۔ جدید تعلیم کی اعلیٰ ڈگری جیسے ایف اے، بی اے، ایم اے قابل ترجیح ہوگی۔
۳۔ وہ جس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوا ہو، اس کے سربراہ یا ایڈوائزری کونسل کے کسی رکن سے حاصل کردہ حسن السیرۃ والسلوک کا سرٹیفکیٹ (تزکیہ) پیش کرے گا۔
۴۔ تحریک کی طرف سے منعقدہ ٹیسٹ اور انٹرویو میں کام یابی۔
متفرق امور
نوعیت:
یہ درس نظامی سے فارغ ہونے والے طلبہ کے لیے تخصص کا پروگرام ہے جس کے نتیجے میں وہ ان شاء اللہ دینی مدارس کے لیے بہتر معلم ثابت ہوں گے۔ جو اساتذہ اس وقت دینی مدارس میں پڑھا رہے ہیں، ان کے لیے مختصر دورانیے کے کورسوں کا الگ سے انتظام کیا جائے گا۔
دورانیہ:
اس کورس کا دورانیہ ایک سال ہوگا۔
ڈگری:
اس کورس کے شرکا چونکہ الشہادۃ العالمیۃ کے حامل ہوں گے جسے حکومت پاکستان ایم اے اسلامیات وعربی کے برابر تسلیم کرتی ہے لہٰذا اس کورس کو بطور ایک پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کے حکومت کی کسی منظور شدہ یونیورسٹی سے الحاق کے ذریعے حکومت سے منظور کروایا جائے گا تاکہ دینی مدارس کے علاوہ محکمہ تعلیم، محکمہ اوقاف اور پرائیویٹ سکولوں میں ان تربیت یافتہ اساتذہ کو ملازمت ملنے میں آسانی ہو۔
فیس:
یہ پروگرام بلا معاوضہ ہے۔
ہوسٹل:
فی الحال ادارے کے پاس ہوسٹل کی سہولت موجود نہیں ہے تاہم لاہور میں چاروں وفاقوں کے بڑے دینی مدارس کے سربراہان سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ وہ عارضی طور پر اپنے وفاقوں کے طلبہ کی رہائش میں مدد دیں۔
تعلیمی سال:
ہر سال شوال میں شروع ہو کر رجب میں ختم ہوا کرے گا۔
اساتذہ:
تدریس کے لیے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے پروفیسرز تشریف لاتے ہیں نیز دینی مدارس کے تجربہ کار ومعتدل مزاج علما سے بھی مدد لی جاتی ہے۔
تعداد:
ادارے کے پاس فی الحال صرف ۳۰ طلبہ کی تدریس کا انتظام ہے۔
طریق تدریس وامتحان:
سالانہ کے بجائے سمسٹر سسٹم، ۱۲ ہفتوں کے تین سمسٹر۔ سمسٹر سسٹم اختیار کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تھوڑے وقت میں زیادہ مضامین پڑھائے جا سکیں۔ تدریس کی بنیاد لیکچرز، منتخب مطالعہ اور اسائنمنٹ۔
تربیت:
تدریس کے علاوہ طلبہ کی تربیت وتزکیہ کا خصوصی اہتمام۔
نصاب:
یہ تخصص اگرچہ تربیت اساتذہ کے حوالے سے ہے اور اسی پر ادارہ زیادہ ترکیز کرتا ہے لیکن مستقبل کے ان اساتذہ کو بحیثیت داعی، عالم دین اور خطیب کے مسلم معاشرے کے لیے زیادہ موثر بنانے کے لیے کچھ ان مضامین کی تدریس کا بھی اضافہ کیا گیا ہے جنہیں پڑھنے کا انہیں دینی مدارس میں یا تو موقع نہیں ملا یا وہ بوجوہ ان پر زیادہ توجہ نہیں دے سکے۔ یوں اس کورس کا نصاب تین طرح کے مضامین پر مشتمل ہے: اساسی مضامین، جدید مضامین اور ضمنی مضامین۔
اساسی مضامین
(الف) لازمی مضامین (۷۰۰ نمبر)
۱۔ طرق تدریس، ۲۔ تعلیمی نفسیات، ۳۔ فلسفہ وتاریخ تعلیم، ۴۔ تربیت طلبہ، ۵۔ تعلیم کی اسلامی تشکیل نو، ۶۔ تعلیمی انتظامیات، ۷۔ تدریس کی عملی تربیت
(ب) اختیاری مضامین (۳۰۰ نمبر)
یہاں دو گروپ بنائے گئے ہیں۔ طلبہ کو ان میں سے کسی ایک کے مضامین پڑھنے ہوں گے:
-i دینی مدارس گروپ۔ مضامین: ۱۔ تدریس عربی، ۲۔ تدریس قرآن وحدیث، ۳۔ تدریس فقہ واصول فقہ
-ii جدید سکول گروپ۔ مضامین: ۱۔ تدریس عربی، ۲۔ تدریس اسلامیات، ۳۔ تدریس اردو
جدید مضامین
۱۔ انگریزی زبان ۲۔ مغرب کے سماجی علوم (جیسے معاشیات، سیاسیات، تعلیم، نفسیات وغیرہ) کا تعارفی مطالعہ، ۳۔ مغرب کے سائنسی علوم (جیسے طبعیات، کیمیا، حیاتیات، فلکیات وغیرہ) کا تعارفی مطالعہ ۴۔ کمپیوٹر ۵۔ اسلام اور عصر حاضر (۲۰۰ نمبر)
ضمنی مضامین
۱۔ عربی (محادثۃ وانشاء) ۲۔ طرق تحقیق ۳۔ دعوت واصلاح (بشمول تقریر وتحریر کی مشق) ۴۔ مطالعہ امت (مختصر تاریخ، جغرافیہ، مسائل وغیرہ بشمول مطالعہ پاکستان) ۵۔ سیرت النبی وتقابل ادیان (۲۰۰ نمبر)
تحریک اصلاح تعلیم
تحریک اصلاح تعلیم ڈاکٹر محمد امین صاحب (سینئر ایڈیٹر ارد و دائرہ معارف اسلامیہ، جامعہ پنجاب) اور ان کے احباب نے لاہور میں ۱۹۸۹ء میں قائم کی۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، اس کے پیش نظر پاکستان کے نظام تعلیم کی اصلاح ہے۔ اول تو ہمارے ہاں تعلیم بہت کم ہے اور جو ہے، اس کا کوئی معیار نہیں۔ اس کی ایک بنیادی خرابی ثنویت ہے یعنی دنیوی (جدید) تعلیم الگ اور دینی تعلیم الگ حالانکہ اسلام میں اس کی گنجائش نہیں۔ پھر جدید تعلیم ہمارے ہاں مغربی فکر وتہذیب کا بھونڈا چربہ ہے اور مغرب کی غلامی سکھاتی ہے۔ دینی تعلیم اس میں برائے نام ہے اور اسلامی تربیت کا یہاں گزر ہی نہیں۔ اسی طرح دینی تعلیم ہمارے ہاں مسلک پرستی پر مبنی ہے، یہاں جدید علوم سے اعتنا نہیں کیا جاتا اور تربیت کی طرف توجہ کم ہے۔ لہٰذا دونوں جگہ نصاب کی تبدیلی، اساتذہ کی تربیت، تربیت طلبہ اور معیار کی بہتری کی سخت ضرورت ہے۔ تحریک پہلے دن سے حسب استطاعت اصلاحی پروگرام پر کاربند ہے اور اخبارات وجرائد میں مضامین، ورکشاپس، سیمینارز، ملاقاتوں اور پمفلٹوں کے ذریعے اپنی سوچ لوگوں تک پہنچاتی رہی ہے۔ ۱۹۹۰ء سے ۱۹۹۳ء کے دوران پہلی سے بارہویں جماعت تک جدید تعلیم کے سارے مضامین کا نصاب اسلامی تناظر میں ازسرنو مدون کیا گیا اور ا س کے مطابق بعض کتب شائع کی گئیں۔ پھر ۲۰۰۰ء تا ۲۰۰۲ء دینی تعلیم کے چاروں وفاقوں کے ساتھ مل کر دینی مدارس کے نصاب کی تبدیلی کے لیے متفقہ تجاویز تیار کی گئیں اور متبادل نصاب تیار کیا گیا اور اب اپریل ۲۰۰۳ء سے دینی مدارس کے اساتذہ کی تربیت کا ایک سالہ پروگرام شروع ہے۔ موجودہ نظام تعلیم کی اصلاح کے ساتھ ساتھ تحریک کے پیش نظر جدید اور دینی تعلیم دونوں کے ہر سطح کے ماڈل تعلیمی اداروں کا قیام بھی ہے تاکہ اصلاحی عمل کو مثبت شکل اختیار کرنے میں آسانی رہے۔
تحریک اصلاح تعلیم ایک آزاد علمی اور اصلاحی تحریک ہے اور حکومت پاکستان یا دوسرے کسی ادارے کی حمایت اور مدد کے بغیر مشکل حالات میں علما کے مشورے اور تعاون سے کام کر رہی ہے۔
الشریعہ اکادمی کی لائبریری کے لیے عطیہ کتب
ادارہ
گوجرانوالہ کی معروف مذہبی وسماجی شخصیت جناب علامہ محمد احمد لدھیانوی نے اپنے والد گرامی حضرت مولانا محمد عبد اللہ لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ کے گراں قدر ذخیرۂ کتب میں سے درج ذیل کتابیں الشریعہ اکادمی کی لائبریری کے لیے عنایت کی ہیں:
۱۔ التفسیر المظہری ( ۱۰ جلدیں)
۲۔ الاتقان فی علوم القرآن
۳۔ مجمع الانہر(۲ جلدیں)
۴۔ زجاجۃ المصابیح (۵ جلدیں)
۵۔ کتاب الحجج للامام محمدؒ
۶۔ مسند الامام الاعظمؒ مع شرح الملا علی القاریؒ
۷۔ الموطا للامام محمدؒ
۸۔ کتاب الآثار للامام ابی یوسفؒ
۹۔ آثار السنن
۱۰۔ نبراس الساری فی اطراف البخاری
۱۱۔ المسوی شرح الموطا (۲ جلدیں)
۱۲۔ معارف السنن شرح جامع الترمذی (۶ جلدیں)
۱۳۔ نصب الرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ (۴ جلدیں)
۱۴۔ فیض الباری شرح البخاری (۴ جلدیں)
الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے اس موقع پر ا ن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ لائبریری کے ذخیرے میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے یہ بات مزید فخر ومسرت کا باعث ہے کہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ لدھیانویؒ جیسے فاضل بزرگ کے زیر تصرف رہنے والی کتب ایک یادگار کے طور پر اکادمی کی لائبریری میں محفوظ رہیں گی اور طلبہ واساتذہ کو ان سے استفادہ کا موقع ملے گا۔
تعارف و تبصرہ
ادارہ
’’کمالات سیرت النبی ﷺ‘‘
پروفیسر عبد الجبار شیخ باذوق اور باہمت اصحاب دانش میں سے ہیں اور سیالکوٹ چھاؤنی میں ’’سیرت سٹڈی سنٹر‘‘ کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے جناب نبی اکرم ﷺ کی سیرت مبارکہ کے فیضان کو عام کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ زیر نظر کتاب سیرت نبوی کے مختلف عنوانات پر ان کے مقالات کا مجموعہ ہے جن میں انہوں نے آج کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے سیرت طیبہ کے حوالہ سے مفید اور معلوماتی گفتگو کی ہے۔
پونے چار سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب مکتبہ سید احمد شہید، اردو بازار لاہور سے طلب کی جا سکتی ہے اور اس کی قیمت ۲۰۰ روپے ہے۔
’’نجم الفتاویٰ‘‘ (جلد دوم)
حضرت مولانا قاضی عبد الکریم مدظلہ آف کلاچی ہمارے ملک کے بزرگ علماے کرام میں سے ہیں جو ایک علمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کا اوڑھنا بچھونا ہی علمی، تدریسی اور اصلاحی خدمات رہا ہے۔ مدرسہ نجم المدارس کلاچی کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے فتاویٰ کے شعبہ میں بھی نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں اور ہزاروں مسائل میں عامۃ المسلمین کی علمی ودینی راہ نمائی کی ہے۔ ان کے فتاویٰ کو ان کے فرزند مولانا قاضی عبد الحلیم حقانی نے مرتب صورت میں پیش کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے جو ایک قابل قدر علمی خدمت ہے۔
نجم الفتاویٰ کی جلد اول کی زیارت کا موقع تو ابھی تک نہیں مل سکا البتہ اس کی دوسری جلد اس وقت ہمارے سامنے ہے جس میں عقائد اور احکام کے حوالہ سے سینکڑوں مسائل کا تذکرہ موجود ہے۔
۵۳۶ صفحات کی اس مجلد کتاب کی قیمت اڑھائی سو روپے ہے اور اسے شعبہ تصنیف وتالیف نجم المدارس کلاچی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’تاریخ وتذکرہ خانقاہ سراجیہ نقشبندیہ مجددیہ‘‘
نقشبندی سلسلہ کی معروف روحانی تربیت گاہ خانقاہ سراجیہ کندیاں ضلع میانوالی ہمارے ملک کے ممتاز روحانی مراکز میں سے ہے جہاں بڑے بڑ ے مشائخ اور علماے کرام حضرت مولانا احمد خانؒ ، حضرت مولانا محمد عبد اللہ لدھیانویؒ ، اور حضرت مولاناخان محمد دامت برکاتہم کی راہ نمائی میں اصلاح وتزکیہ اور سلوک کی منازل طے کرتے آ رہے ہیں۔ محترم محمد نذیر رانجھا نے خانقاہ سراجیہ شریف کی تاریخ اور خدمات کو خوب صورت انداز میں مرتب کیا ہے اور اسے عمدہ کتابت وطباعت کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
ساڑھے پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ ضخیم کتاب جمعیۃ پبلی کیشنز، مسجد پائلٹ سکول، وحدت روڈ، لاہور نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت اڑھائی سو روپے ہے۔
’’حیات ترمذیؒ ‘‘
حضرت مولانا مفتی سید عبد الشکور ترمذیؒ کا شمار ہمارے ملک کے سرکردہ اہل علم اور ممتاز مفتیان کرام میں ہوتا ہے جنہوں نے تھانہ بھون کے بابرکت ماحول میں تعلیم وتربیت حاصل کی اور قیام پاکستان کے بعد ضلع سرگودھا میں ساہیوال کے مقام پر دینی درسگاہ قائم کر کے ساری زندگی ملک بھر کے علماے کرام اور عوام کی علمی ودینی راہ نمائی کرتے رہے۔ ان کے لائق فرزند مولانا سید عبد القدوس ترمذی نے ’’حیات ترمذی‘‘ کے نام سے ان کی سوانح وسیرت اور علمی ودینی خدمات کو زیر نظر ضخیم کتاب کی صورت میں پیش کیا ہے جس میں حضرت مرحوم کے حالات وخدمات کے ساتھ ساتھ ان کے بارے میں ممتاز ارباب علم ودین کے تاثرات بھی شامل ہیں۔
ایک ہزار کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل اس مجلد کتاب پر قیمت درج نہیں اور اسے جامعہ حقانیہ، ساہیوال، ضلع سرگودھا سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
ماہنامہ ’’بیداری‘‘ حیدر آباد
سندھ کے معروف دانش ور جناب محمد موسیٰ بھٹو علمی وفکری محاذ پر ایک عرصہ سے امت مسلمہ کی بیداری اور دور حاضر کے مسائل کی طرف علماے کرام اور دینی حلقوں کو توجہ دلانے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ ان کی ادارت میں ماہنامہ ’’بیداری‘‘ اہتمام سے شائع ہوتا ہے جس میں ممتاز اصحاب قلم کی نگارشات شامل ہوتی ہیں اور عصر حاضر کے ضروری مسائل پر امت کی راہ نمائی اس جریدہ کا خاص موضوع ہے۔
سالانہ زر خریداری ۱۵۰ روپے۔ ملنے کا پتہ : سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ، ۴۰۰/ بی، لطیف آباد ۴، حیدر آباد، سندھ
’’صحیح اسلامی عقیدہ‘‘
مبین ٹرسٹ پوسٹ بکس ۴۷۰ اسلام آباد ۴۴۰۰۰ نے عقائد کے بارے میں سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم حضرت الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ تعالیٰ کے ایک کتابچہ کا اردو ترجمہ معیاری انداز میں شائع کیا ہے جس میں اہل سنت کے عقائد کی وضاحت کی گئی ہے۔
۵۶ صفحات کا یہ خوب صورت کتابچہ ایصال ثواب کی نیت سے مفت تقسیم کیا جا رہا ہے۔
سیاسی کے بجائے معاشرتی انقلاب کی ضرورت
محمد موسی بھٹو
تعلیمی اداروں، سماجی اداروں اور اسلام کے نظریاتی اداروں سے وابستہ وہ باصلاحیت افراد جو سیاست میں دینی جدوجہد کے ذریعہ بہت بڑی تبدیلی کی توقع پر معاشرہ کی سطح پر اپنے حصہ کے کام کو معطل کیے ہوئے ہیں یا اس کام کی افادیت کے قائل نہیں، انہیں اس نکتہ پر ضرور غور وفکر کرنا چاہیے کہ اول تو معاشرہ کی سطح پر تبدیلی کے لیے اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال کے بغیر صحت مند سیاسی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ اگر اس طرح کی تبدیلی واقع بھی ہو جائے تو اس تبدیلی میں ان کا کردار نہ ہونے کی وجہ سے وہ خود تو اس عظیم کام کی سعادت سے محروم ہی رہیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ قوموں کے لیے اصل اور فیصلہ کن چیز ثقافتی انقلاب ہوتا ہے۔ ثقافتی انقلاب ذہن، فکر ونظر، دل، وجدان اور شخصیت میں تبدیلی کا نام ہوتا ہے۔ جب قومیں ثقافتی تبدیلی سے گزرتی ہیں تو ملک کے ہر شعبہ زندگی میں انہیں ایسی قیادت میسر ہو جاتی ہے جو قومی اور ملی مقاصد سے ہم آہنگ ہوتی ہے اور جو سراپا ملی جذبات واحساسات کی حامل ہوتی ہے۔ اس طرح کی قیادت قوم وملت کے مفادات کے منافی اقدامات کرنے کے لیے کسی طرح تیار نہیں ہوتی۔ نیز ثقافتی عمل قوموں میں احتساب کے عمل کو اتنا سخت اور ہمہ جہتی بنا دیتا ہے کہ سیاسی، انتظامی اور تعلیمی قیادت بے ایمانی، ملت فروشی اور دشمن کے مفادات کی سرانجامی کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ مغرب میں ڈیڑھ دو سو برس پہلے جو ثقافتی انقلاب برپا ہوا، اس نے معاشرہ کو قومی مفادات سے ہم آہنگ قیادت فراہم کی جس کی وجہ سے مغربی معاشرے اخلاقی نصب العین اور ثقافتی تبدیلی کے ناقص تصورات کے باوجود اب بھی مسلم معاشروں سے زیادہ مستحکم ہیں۔
معاشرے میں ثقافتی انقلاب برپا کرنے میں تعلیمی، سماجی، تہذیبی اور تربیتی ادارے ہی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ سیاست سے معجزہ نما انقلاب کی توقع رکھ کر جو وقت ضائع ہوا ہے، کاش ملک کے دردمند دینی عناصر میں اس کا شعور اور احساس پیدا ہو جائے اور معاشرہ کی سطح پر صحیح سمت میں بڑے پیمانہ پر کام کی صورت پیدا ہو جائے۔ اسی کام سے ہی معاشرے میں بڑھتے ہوئے اخلاقی زوال، بے ایمانی، غیر ذمہ داری وغیرہ کو روکا جا سکتا ہے۔
ستمبر و اکتوبر ۲۰۰۹ء
عصر حاضر کے چیلنجز اور ہماری ذمہ داریاں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
۲۰ تا ۲۲/ اگست ۲۰۰۳ء کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے گراؤنڈ میں جمعیۃ طلبہ عربیہ پاکستان کے زیر اہتمام دینی مدارس کے طلبہ کا کل پاکستان اجتماع عام ہوا جس میں تمام مکاتب فکر کی طلبہ تنظیموں کے راہ نماؤں، ملک بھر سے ہزاروں طلبہ اور مختلف دینی جماعتوں کے قائدین نے خطاب کیا۔ اجتماع عام کی ایک نشست ’’عصر حاضر کے چیلنجز اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان سے مذاکرہ کی صورت میں تھی جس کی صدارت سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے کی اور اس سے سینیٹر پروفیسر غفور احمد، مولانا قاضی عبد اللطیف اور دیگر ارباب دانش کے خطابات کے علاوہ راقم الحروف کو بھی اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ اس حوالہ سے ذہن میں ترتیب پانے والی گفتگو کا وقت کی قلت کے باعث مذاکرہ میں صرف خلاصہ پیش کیا جا سکا جبکہ اس گفتگو کی قدرے تفصیلی صورت کچھ یوں ہے:
’’عصر حاضر کے چیلنجز اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان سے اس نشست میں گفتگو کے لیے کہا گیا ہے۔ مجھ سے قبل مختلف اصحاب دانش نے ملت اسلامیہ کو درپیش متعدد چیلنجز کا ذکر کیا ہے اور ان پر روشنی ڈالی ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہر طرف چیلنج ہی چیلنج ہیں۔ سیاست، معیشت، معاشرت، تعلیم، تہذیب وثقافت، سائنس، ٹیکنالوجی، اخلاقیات اور فکر وفلسفہ کے میدانوں میں مسلمانوں کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اگر ان کی صرف فہرست بیان کی جائے تو اس کے لیے خاصا وقت درکار ہوگا اور پھر ان کی ترجیحات بھی اپنے اپنے ذوق اور حالات کے مطابق ہر صاحب فکر ودانش کے نزدیک مختلف ہوں گی۔ وقت بہت کم ہے، اس لیے میں اپنی سوچ کے حوالے سے صرف دو تین باتوں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔ ہو سکتا ہے بعض دیگر دوستوں کے نزدیک ان کی زیادہ اہمیت نہ ہو مگر میں انہیں بنیادی حیثیت دیتا ہوں اور دینی مدارس اور ان کے اساتذہ وطلبہ کے مجموعی ماحول کے تناظر میں درپیش چیلنجز میں میرے نزدیک یہ امور سرفہرست ہیں۔
پہلی بات جسے میں ’’بے خبری کا بحران‘‘ سے تعبیر کرتا ہوں، یہ ہے کہ دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کی غالب اکثریت آج کے عالمی حالات اور ماحول دونوں سے بے خبر ہے۔ ہمیں نہ دنیا کے جغرافیے کا علم ہے اور نہ تاریخ کا۔ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ آج کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے، کون کیا کر رہا ہے، کیسے کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟ افراد کی بات نہیں کرتا۔ دوچار فی صد حضرات ضرور اس سے مستثنیٰ ہوں گے لیکن مجموعی صورت حال یہی ہے جو میں نے عرض کی ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال سے صورت حال کا اندازہ کر لیجیے کہ ابھی چند روز قبل تیس چالیس حضرات کی ایک محفل میں، جنہیں آپ علما ہی سمجھ لیجیے، میں کافر اقوام کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات پر گفتگو کر رہا تھا جس کے دوران میں نجران کے عیسائیوں کے ساتھ جناب نبی اکرم ﷺ کے معاہدہ کا تذکرہ بھی ہوا۔ میں نے شرکاے محفل سے سوال کیا کہ نجران کہاں ہے؟ آپ یقین کیجیے کہ شرکا میں سے کوئی صاحب نہ بتا سکے اور بالآخر مجھے ان کو یہ بتانا پڑا کہ یہ جزیرۃ العرب میں ہے اور اس وقت سعودی عرب کا حصہ ہے۔
ہمیں فقہ اور افتا کے اصولوں کی تعلیم وتربیت کے دوران میں عام طور پر یہ بتایا جاتا ہے کہ: من لم یعرف اہل زمانہ فہو جاہل۔ جو شخص اپنے زمانہ کے لوگوں کو نہیں پہچانتا، وہ جاہل ہے۔ لیکن اس کے مفہوم اور عملی تقاضوں کی طرف ہماری توجہ نہیں ہوتی اور عالمی حالات کے تناظر میں ہم میں سے اکثر لوگ زندگی بھر خود اس کا مصداق بنے رہتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ آج ہم جس جنگ اور کشمکش سے دوچار ہیں، اسے آپ جنگ سے تعبیر کر لیں یا کھیل سمجھ لیں لیکن یہ بات طے ہے کہ جنگ اور کھیل دونوں کے کچھ اصول ہوتے ہیں، کچھ قواعد ہوتے ہیں، کچھ طے شدہ طریقے ہوتے ہیں اور کچھ ہتھیار اور آلات ہوتے ہیں جو حالات کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور جن کی پابندی جنگ اور کھیل کے دونوں فریقوں کے لیے لازمی سمجھی جاتی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم فکر وفلسفہ، تہذیب وثقافت، تعلیم وتربیت اور دعوت وابلاغ کے محاذوں پر آج کے طریقہ جنگ سے شناسائی نہیں رکھتے، قواعد اور طریقہ کار کی ہمیں کچھ خبر نہیں ہے، آج کے ہتھیاروں اور آلات سے ہمیں آگاہی حاصل نہیں ہے اور دشمن کی قوت کار، دائرۂ عمل، طریق جنگ اور ہتھیاروں کی نوعیت سے ہم اکثر وبیشتر بے خبر ہوتے ہیں۔
میں دینی مدارس کے ماحول کی بات کر رہا ہوں، اساتذہ وطلبہ کی بات کر رہا ہوں۔ اگر آپ حضرات کو میری بات تلخ لگے تو میں معافی چاہتا ہوں لیکن معذرت کے ساتھ یہ عرض کرنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ میں نے زمانہ سے بے خبری اور دشمن کے ہتھیاروں اور طریق جنگ سے ناواقفیت کی جو بات کی ہے، وہ بالکل درست ہے، اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے اور ہمارے اساتذہ اور طلبہ کی اکثریت اسی حال میں مگن ہے۔ اسے بے خبری کا بحران کہہ لیں، ادراک واحساس کے فقدان سے تعبیر کر لیں یا کمیونیکیشن کے خلا (Communication gap) کا عنوان دے لیں، مگر یہ بحران موجود ہے اور میرے نزدیک دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے آج کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اس بحران سے نجات حاصل کریں، بے خبری کے اس خلا کو پر کریں اور فکر وعقیدہ اور تہذیب وعقیدہ کی یہ جنگ جذباتی اور سطحی نعروں کے ذریعے سے نہیں بلکہ ادراک واحساس، فہم ودانش اور شعور وباخبری کے ہتھیاروں کے ساتھ لڑیں۔
تیسرے نمبر پر میں ایک اور چیلنج اور بحران کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ امریکہ نے پاکستان کے دینی مدارس کی اصلاح کے لیے اربوں روپے دیے ہیں اور یورپی یونین نے خطیر رقم کی بطور امداد پیش کش کر دی ہے۔ یہ روپیہ آپ کے ماحول میں پھیلے گا اور آپ کے تعلیمی نظام ونصاب کو سبوتاژ کرنے کے لیے صرف ہوگا۔ آپ سے آج کی دنیا کو سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ آپ عقیدہ کی تعلیم دیتے ہیں، کمٹ منٹ کی تعلیم دیتے ہیں۔ آپ تعلیم برائے تعلیم کے بجائے تعلیم برائے عقیدہ اور تعلیم برائے دین کے فلسفہ پر عمل کر رہے ہیں اور عقیدہ وثقافت کی صرف تعلیم ہی نہیں دیتے بلکہ آپ حضرات نے اپنے عملی ماحول کو بھی اس کے مطابق ڈھال رکھا ہے۔ عقیدہ وثقافت کے ساتھ بے لچک کمٹ منٹ اور اس کے مطابق معاشرتی ماحول کا تحفظ یہ دونوں باتیں آج کی دنیا کے لیے اجنبی ہیں، ناقابل قبول ہیں بلکہ ناقابل برداشت ہیں۔ امریکہ اور یورپی یونین کی دی ہوئی دولت اسی کمٹ منٹ کو کمزور کرنے کے لیے استعمال ہوگی اور آپ کے دینی اور ثقافتی ماحول کو تبدیل کرنے کے لیے صرف ہوگی۔ وہ یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اصل بات عقیدہ وثقافت اور اس کے مطابق ماحول کی ہے۔ اگر یہ دونوں تبدیل ہو گئے اور ان میں دراڑ ڈالنے میں کام یابی حاصل ہو گئی تو خالی تعلیم باقی رہ جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر اگر دینی مدارس باقی رہیں تو بھی کوئی نقصان نہیں کیونکہ عقیدہ وثقافت کی کمٹ منٹ اور عملی دینی ماحول کے بغیر بننے والا مولوی یورپ کے اس پادری سے مختلف نہیں ہوگا جو صرف تنخواہ کے لیے ڈیوٹی دیتا ہے اور ڈیوٹی کے علاوہ باقی اوقات میں وہ عام سوسائٹی کے ماحول میں اس طرح گھل مل جاتا ہے کہ جیسے مذہب اور اس کی تعلیمات کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
دینی مدارس کے منتظمین، اساتذہ اور طلبہ کو اس بارے میں چوکنا رہنا ہوگا اور اپنے عقیدہ وثقافت اور عملی دینی ماحول کو بچانے کے لیے خود داری، حوصلہ، دینی حمیت اور ایثار وقربانی کے ساتھ اس خطرناک چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا۔ خدا کرے کہ ہم اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر نباہ سکیں۔ آمین یا رب العالمین۔
صحابہ کرام کے اسلوب دعوت میں انسانی نفسیات کا لحاظ (۲)
پروفیسر محمد اکرم ورک
مناسب وقت کا انتظار/موقع کی مناسبت
دعوت دین کے ہر کارکن کو اپنے گردو پیش کا پوری ہوشیاری اور مستعدی سے جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ دعوت کی تخم ریزی کے لیے جیسے ہی کوئی مناسب موقع ہاتھ آئے، وہ بڑی ہوشیاری کے ساتھ اس سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔اس کی بہترین مثال ہمیں حضرت یوسف ؑ کی سیرت میں ملتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
’’ اور ان کے ساتھ دو اور جوان بھی جیل میں داخل ہوئے۔ ان میں سے ایک نے کہا : میں اپنے آپ کو خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں شراب نچوڑ رہا ہوں ، اور دوسرے نے کہا : میں اپنے کو دیکھتا ہوں کہ میں اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں جس میں سے چڑیاں کھا رہی ہیں ۔ آپ ہمیں اس کی تعبیر بتائیے ۔ ہم آپ کو خوب کاروں میں سے سمجھتے ہیں ۔ آپ ؑ نے فرمایا : جو کھانا تمہیں ملتا ہے وہ آئے گا نہیں کہ میں اس کے آنے سے پہلے پہلے تمھیں اس کی تعبیر بتادوں گا ۔یہ اس علم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھایا ہے ۔ میں نے ان لوگوں کے مذہب کو چھوڑا جو اﷲ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت سے یہی لوگ منکر ہیں اور میں نے اپنے بزرگوں ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کے مذہب کی پیروی کی۔ ہمیں حق نہیں کہ ہم کسی چیز کو اﷲ کا شریک ٹھہرائیں۔ یہ اﷲ کا ہم پر اور لوگوں پر فضل ہے لیکن اکثر لوگ شکر گزار نہیں ہوتے ۔ اے میرے جیل کے دونوں ساتھیو! کیا الگ الگ بہت سے رب بہتر ہیں یا اکیلا اﷲ ہی سب پر حاوی و غالب؟ تم اس کے سوا نہیں پوجتے مگر چند ناموں کو جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ چھوڑے ہیں۔ اﷲ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری۔ اختیار اور اقتدار صرف اﷲ ہی کا ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو۔ یہی دین قیّم ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ اے میرے جیل کے دونوں ساتھیو! تم میں سے ایک تو اپنے آقا کو شراب پلانے کی خدمت انجام دے گا ۔رہا دوسرا تو اس کو سولی دی جائے گی ، پھر پرندے اس کے سر کو نوچ نوچ کر کھائیں گے، اس امر کا فیصلہ ہوا جس کے بارے میں تم پوچھ رہے تھے‘‘ (۱)
اس پورے واقعہ میں داعی حق کے لیے جو نقطہ خصوصیت سے قابل ذکر ہے، وہ یہ ہے کہ جب وہ دونوں آدمی محسوس کرتے ہیں کہ اپنے کردار و اوصاف کی بنا پر حضر ت یوسفؑ ہی ایسے فرد ہیں جن کی طرف وہ اپنی غرض کے لیے رجوع کر سکتے ہیں تو حضرت یوسفؑ اس موقع پر یہ نہیں کرتے کہ ان پر اپنی بزرگی کا رعب جمانے کی کوشش کریں ،بلکہ وہ ان کے اس التفات کو غنیمت سمجھتے ہوئے ان کے سامنے فوراً دعوت حق پیش فرماتے ہیں اور اس کے لیے انھوں نے ایسا اسلوب اختیار فرمایا کہ گویا بات سے بات چل نکلی ہے نہ کہ قصداً ایک بات کہنے کے لیے موقع پیدا کیا گیا ہے۔ صحابہ کرامؓ کی سیرت کے تفصیلی مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انھوں نے بھی دعوت و تبلیغ کے لیے بارہا اس اسلوب کو اختیار کیا ۔سیرت صحابہ سے اس کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
حضرت شداد بن اوسؓ ایک مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے ۔ مریض سے پوچھا : کیا حال ہے؟ اس نے کہا : اﷲ کے فضل سے اچھا ہوں ۔ حضرت شدادؓ نے دیکھا کہ زمین ہموار ہے اور مریض بیماری کے باوجود اﷲ کی رضا پر راضی ہے تو فوراً گویا ہوئے :
أبشر بکفارات السیئات وحط الخطایا۔
میں تم کو مرض کے کفارۂ گناہ ہونے کی بشارت سناتا ہوں۔
کیونکہ میں نے رسول اﷲﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں کسی شخص کو آزمائش میں مبتلا کروں اور وہ میری حمد کرے تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو جاتا ہے جیسے اپنی ماں کے پیٹ سے ابھی پیدا ہوا ہو۔ (۲)
حضرت طلیبؓ بن عمیر خفیہ دعوت کے مرحلے میں دار ارقم میں ایمان لائے۔ جب دولت ایمان سے مستفیدہو چکے تو اپنی والدہ ارویٰ بنت عبدالمطلب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور رسول اﷲ ﷺکی اتباع اختیار کر لی ہے تو ان کی والدہ کہنے لگیں، اپنے ماموں زاد بھائی کی امداد و اعانت کرنا بڑی اچھی بات اور ایک حق کی ادائیگی ہے۔ اگر ہم عورتوں میں مردوں جیسی طاقت ہوتی تو ہم بھی آپﷺ کی اتباع کرتیں اور ہر مدافعت میں آپ ﷺ کا ساتھ دیتیں۔ (۳)حضرت طلیبؓ بن عمیر نے دیکھا کہ والدہ اسلام کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں اور اسلام کی طرف مائل ہیں تو انھوں نے فوراً کہا:
ایمنعک ان تسلمی و تتبعیہ ، فقد اسلم اخوک حمزۃؓ ؟ فقالت: انتظر ما یصنع أخواتی ، ثم اکون إحداھن قال : فقلت : فانی اسألک باﷲ الا أتیتہ وسلمت علیہ وصدّقتہ ، وشھدت ان لا الہ الا اﷲ ، قالت : فانی اشھد ان لا الہ الا اﷲ ، واشھد ان محمداً رسول اﷲﷺ، ثم کانت تعضد النبیﷺ بلسانھا وتحض ابنھا علی نصر تہ والقیام بامرہ (۴)
آپ کو اسلام لانے اور آپﷺ کا اتباع کرنے سے کیا چیز مانع ہے؟ جبکہ آپ کے بھائی حمزہؓ بھی اسلام لا چکے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا : میں یہ انتظار کر رہی ہوں کہ میری بہنیں کیا کرتی ہیں، میں اپنی بہنوں سے باہر نہیں، حضرت طلیبؓ نے عرض کیا : اماں جان ! میں آپ کو اﷲ کی قسم دیتا ہوں کہ آپ ضرور رسول اﷲ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوں اور آپ کو سلام کریں، آپ کی تصدیق کریں اور اس بات کی گواہی دیں کہ سوائے اﷲ کے کوئی معبود نہیں۔ حضرت ارویؓ نے کہا : میں گواہی دیتی ہوں کہ سوائے اﷲ کے کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اﷲ کے رسول ہیں ۔ اس کے بعد یہ ( اپنے بڑھاپے کے باعث ) رسول اﷲ ﷺکے کام میں اپنی زبان کے ذریعے مدد کرتی تھیں اور اپنے بیٹے کو آپﷺ کی مدد کرنے اور آپ ﷺکے مقاصد کو پورا کرنے پر ابھارا کرتیں تھیں ۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اﷲﷺ کے صحابہ جمع تھے۔ حضرت ابو بکرؓ نے رسول اﷲﷺ سے علی الاعلان دعوتِ اسلام کی اجازت طلب کی ۔ آپﷺ نے منع فرمایا لیکن پھر ابو بکرؓ کے اصرار پر اجازت دے دی ،چنانچہ تمام صحابہ رسول اﷲﷺ کی معیت میں بیت اﷲ میں تشریف لے گئے۔ ابو بکرؓ لوگوں کے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اوراسلام میں وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے لوگوں کو کھلم کھلا اسلام کی دعوت دی ۔چنانچہ مشرکین مکہ ان پر ہر طرف سے ٹوٹ پڑے اور آپؓ کو خوب مارا ،حتیٰ کہ بچنے کی کوئی امید نہ رہی۔ آپؓ کے قبیلہ بنو تیم کے لوگ آپ کو اٹھا کر گھر لے گئے، ہوش آیا تو پہلا سوال یہ تھا : رسول اﷲ ﷺکا کیا حال ہے؟ بتایا گیا کہ حضورﷺ خیریت سے ہیں۔ آپؓ دار ارقم میں حاضر ہوئے اور جب تک رسول اﷲﷺ کو دیکھ نہ لیا، مطمئن نہ ہوئے اور پھر بارگاہ رسالت میں عرض کیا:
یا رسول اﷲﷺ ! ھذہ أمی وأنت مبارک فادع لھا وادعھا الی الاسلام لعل اﷲ ان یستنقذ ھا بک من النار فدعا لھا رسول اﷲﷺ ودعا ھا الی اﷲ فاسلمت (۵)
اے اﷲ کے رسولﷺ ! یہ میری والدہ محترمہ ہیں، آپﷺ ان کے لیے دعا کیجیے اور ان کو اسلام کی طرف بلائیں شاید کہ اﷲ آپ کے ذریعہ سے ان کو جہنم سے بچالے، چنانچہ رسول اﷲﷺ نے ان کے لیے دعا کی اور ان کو اسلام کی دعوت دی تو انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔
حضرت ابو بکرؓ نے جب دیکھا کہ ان کی والدہ پر دن بھر کے واقعات کا ایک خاص اثر ہے اور ان کے دل میں اپنے بیٹے اور اس کے مقاصد کے لیے ہمدردی کے آثار موجود ہیں تو انھوں نے ایک سچے داعی کی طرح موقع مناسب سمجھتے ہوئے اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دی جس کے نتیجہ میں انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔
ایک آدمی نے ابن عباسؓ سے جمعہ کے دن غسل کرنے کے بارے میں سوال کیا کہ کیا یہ واجب ہے؟ ابن عباس نے فرمایا : نہیں جو چاہے، غسل کرے۔ اور پھر فرمایا کہ میں تمھیں بتاتا ہوں کہ غسل جمعہ کی ابتدا کیسے ہوئی۔ دراصل عہد رسالت میں لوگ غریب اور محتاج تھے ، وہ اون کے کپڑے پہنتے تھے، دن بھر کھیتوں میں کام کرنے کی وجہ سے پسینہ آتا، جس سے کپڑوں کی بدبو مزید بڑھ جاتی، جس کی وجہ سے دوسرے مسلمانوں کو تکلیف ہوتی تھی چنانچہ رسول اﷲ ﷺنے لوگوں کو حکم دیا:
یا ایھا الناس ! اذا جئتم الجمعۃ فاغتسلوا، ولیمس احدکم من اطیب طیب ان کان عندہ(۶)
اے لوگو ! جب تم جمعہ کے لیے آؤ تو غسل کر لیا کرو ، اور جس کے پاس خوشبو ہو وہ خوشبو مل لیا کرے۔
ابن عباسؓ اگر چاہتے تو سائل کو صرف یہ کہہ کر رخصت کر سکتے تھے کہ جمعہ کے دن غسل واجب ہے یا نہیں، لیکن انھوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سائل کو غسل جمعہ کے پورے پس منظر اور تفصیل سے آگاہ کر دیا۔
اگرچہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کا ایک مستقل حلقۂ درس موجود تھا تاہم وہ جہاں لوگوں کو جمع دیکھتے یا جہاں موقع کی مناسبت سے کچھ کہنے کی ضرورت ہوتی، فوراً لوگوں کو دین کی طرف متوجہ کرتے ،چنانچہ ایک دفعہ ابو موسیٰ اشعریؓ اصفہان کی مہم سے واپس لوٹ رہے تھے کہ ایک جگہ پڑاؤ کیا ۔ لوگوں کا کافی مجمع تھا۔ موقع مناسب جانتے ہوئے آپ نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: میں تم لوگوں کو ایک حدیث سنانا چاہتا ہوں جو ہم لوگوں کو رسول اﷲ ﷺ نے سنائی تھی۔ لوگوں نے کہا : اﷲ آپؓ پر رحم کرے، ضرور سنائیے ۔ بولے: رسول اﷲ نے فرمایا: قیامت کے قریب ’’ ہرج‘‘ زیادہ ہوگا ۔ لوگوں نے عرض کیا :ہرج کیا ہے؟ فرمایا: قتل اور جھوٹ۔لوگوں نے عرض کیا : اس سے بھی زیادہ قتل ہو گا جتنا ہم لوگ کرتے ہیں ؟ فرمایا اس سے مقصد کفار کا قتل نہیں بلکہ باہمی خونریزی ہے، حتیٰ کہ پڑوسی پڑوسی کو، بھائی بھائی کو، بھتیجا چچا کو اور چچا بھتیجے کو قتل کرے گا ۔ لوگوں نے کہا سبحان اﷲ، کیا عقل و ہوش رکھتے ہوئے؟ فرمایا : عقل و ہوش کہاں ؟ عقل و ہوش تو اس زمانہ میں باقی نہ رہے گا ،حتیٰ کہ آدمی خیال کرے گا کہ وہ کسی حق بات پر ہے لیکن درحقیقت وہ کسی حق بات پر نہ ہو گا‘‘۔ (۷)
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے لوگوں کو یہ خطبہ اس وقت دیا جب وہ لوگ گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ جہاں میدانِ جہاد کی نسبت ان برائیوں میں مبتلا ہونے کے امکانات کئی گنا زیادہ تھے، اس لیے آپؓ نے ایک مناسب موقع پر ضروری تعلیم دینا لازمی سمجھا تاکہ لوگ ان گناہوں میں مبتلا نہ ہوں اور زبانِ رسالت سے نکلنے والی وعید کے مستحق نہ بن جائیں۔
ایک دفعہ حضرت ابو الدرداءؓ دمشق کی جامع مسجد میں، جہاں آپ کا حلقہ درس قائم تھا، اپنے ہاتھ سے شجرکاری کررہے تھے۔ اسی دوران ایک آدمی ان کے پاس سے گزرا۔ آپؓ کو دیکھ کر بڑے تعجب سے کہنے لگا : آپؓ رسول اﷲ ﷺکے صحابی ہو کر ایسا معمولی کام اپنے ہاتھ سے کر رہے ہیں ؟ حضرت ابو الدرداءؓ نے اس کی حیرت زائل کرتے ہوئے فرمایا، میں نے رسول اﷲﷺ کو فرماتے سنا ہے:
من غرس غرساً لم یأکل منہ آدمی ولا خلق من خلق اﷲ الا کان لہ صدقۃ(۸)
جس کسی نے کوئی پودا لگایا اور اس میں سے اگر کسی آدمی یا اﷲ کی مخلوق میں سے کسی مخلوق نے کھایا تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔
حضر ت عائشہؓ موسم حج میں منیٰ میں خیمہ زن تھیں۔ لوگ ملاقات کو آرہے تھے ،چند قریشی نوجوانوں کو دیکھا کہ وہ ہنستے ہوئے آرہے ہیں۔ آپؓ نے ہنسنے کا سبب دریافت کیا تو انھوں نے عرض کیا کہ ایک صاحب خیمہ کی ڈوری میں الجھ کر ایسے گرے کہ ان کی آنکھ چلی جاتی یا گردن ٹوٹ جاتی ، ہم لوگوں کو یہ دیکھ کر بے ساختہ ہنسی آگئی۔ فرمایا: مت ہنسو! میں نے رسول اﷲﷺ کو فرماتے سنا ہے:
ما من مسلم یشاک شو کۃً فما فوقھا، الا کتبت لہ بھا درجۃ ،و محیت عنہ بھا خطیءۃ (۹)
کسی مسلمان کو کانٹا چبھ جائے یا اس سے معمولی مصیبت آئے تو اس کے بدلے میں اﷲ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بڑھادیتا ہے اور ایک گناہ معاف فرما دیتا ہے۔
تالیف قلب
اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کی عملی زندگی میں قوتِ محرکہ اس کا دل ہے، اور اسی کی بدولت انسانی شخصیت انقلاب سے دوچار ہوتی ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
الا وان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وھی القلب (۱۰)
آگاہ رہو کہ بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ جب وہ سنور جاتا ہے تو تمام بدن سنور جاتا ہے۔ اور جب وہ خراب ہوجاتا ہے تو تمام بدن خراب ہوجاتا ہے۔ سنو وہ ٹکڑا دل ہے۔
گویا انسانی جذبات کا مرکز دل ہے اور جب داعی دل کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوگیا تو وہ یقینی طور پر مخاطب کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، چنانچہ رسول اللہﷺ نے اسلام کے کئی شدید ترین دشمنوں کو محض تالیف قلب کی بنا پر حلقہ بگوش اسلام کرلیا۔ *
صحابہ کرامؓ نے بھی کئی لوگوں کو محض تالیف قلب کے اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے مائل بہ اسلام کیا چنانچہ ابوداؤد کی روایت ہے کہ ایک صحابی نے، جو پانی کے ایک چشمے کے مالک تھے، اپنی قوم کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لیے کہا کہ اگر وہ لوگ اسلام قبول کرلیں تو ان کو سو اونٹ دیے جائیں گے۔ چنانچہ قوم ان کی ترغیب اور تالیف قلب سے مسلمان ہوگئی تو انھوں نے ان میں سو اونٹ تقسیم کردیے۔ (۱۱)
مدعو کی تعریف وتحریک/حوصلہ افزائی
دعوت کے ہر کارکن کی حیثیت ایک مہربان استاد اور مربی کی سی ہونی چاہیے۔ داعی کا اپنے مخاطبین سے ایسا رویہ جس میں اپنائیت، محبت اور حوصلہ افزائی کا رنگ نمایاں ہو، دعوت کی کامیابی میں اولین پتھر کا کام دے سکتا ہے۔ بسااوقات مدعو کی تعریف وتوصیف اور مناسب حوصلہ افزائی اس کو داعی کے اس قدر قریب کردیتی ہے کہ اس کے بعد دعوت کا کام آسان ہوجاتا ہے۔ صحابہ کرامؓ نے دعوت وتبلیغ میں اس اسلوب کو بھی استعمال کیا، چنانچہ جب لوگ دوردراز سے صحابہ کرامؓ کی خدمت میں طلبِ علم اور مسائلِ دینیہ کی سوجھ بو جھ حاصل کرنے کے لیے آتے تو وہ نہایت کشادہ دلی اور خند ہ پیشانی سے ان کا خیر مقدم کرتے۔ ابوہارون کا بیان ہے کہ ہم لوگ حضرت ابو سعید الخدریؓ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپؓ یہ کہتے ہوئے ہمارا استقبال کرتے:
مرحباً بوصیۃ رسول اللّٰہﷺ ان النبیﷺ قال: ان الناس لکم تبعَ وان رجالا یأتونکم من اقطار الارض یتفقّہون فی الدین واذا اتوکم فاستوصوابھم خیرًا (۱۲)
خوش آمدید! بے شک رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہارے پاس دنیا کے کونے کونے سے دین سیکھنے کے لیے لوگ آئیں گے، ان کے ساتھ بھلائی کرنا۔
حسن بصری کا بیان ہے کہ ہم لوگ حضرت ابوہریرہؓ کی عیادت کوگئے ،جب لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے ان کا گھر بھر گیا تو انھوں نے خاکساری سے اپنے پاؤں سمیٹ لیے اور فرمایا : ایک دن ہم لوگ رسول اللہﷺؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ لیٹے ہوئے تھے ہم لوگوں کو دیکھا تو اسی طرح پاؤں سمیٹ لیے اور فرمایا:
انہ سیأتیکم اقوام من بعدی یطلبون العلم فرحبوا بھم وحیّوھم وعلّموھم(۱۳)
میرے بعد عنقریب لوگ تمہارے پاس تحصیل علم کے لیے آئیں گے ان کو مرحبا کہنا، سلام کہنا اور علم سکھانا۔
حضرت ابوسعید خدریؓ کے پاس جب نوعمر اور جوان طلبا آتے تو آپؓ ان کو اپنے سے مانوس اور قریب کرنے کے لیے فرماتے:
مرحبا بوصیۃ رسول اللّٰہﷺ! أمرنا رسول اللّٰہﷺ ان نوسع لھم فی المجلس، ونفقّھھُم الحدیث، فانکم خلوفنا والمحدثون بعدنا، وکان مما یقول للحدث: اذا انت لم تفھم الشئَ استفھمنیہ! فانک ان تقوم وقد فھمتہ احب الیّ من ان تقوم ولم تفھمہ(۱۴)
خوش آمدید ہو! ان لوگوں کو جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺنے ہمیں وصیت فرمائی تھی، کہ ہم ان کے لیے مجلس میں گنجائش پیدا کریں اور ان کو حدیث سمجھائیں، کیونکہ آپ لوگ ہی ہمارے بعد ہمارے نائب اور دوسروں کو احادیث سنانے والے ہیں۔ اگر تمہیں کوئی بات سمجھ نہ آئے مجھ سے سمجھ لینا کیونکہ تم سمجھ کر اٹھو، یہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ تم بے سمجھے اٹھ جاؤ۔
ایک دفعہ عبداللہ بن عمروؓ کا حلقہ درس قائم تھا۔ لوگوں کی کثیر تعداد جمع تھی، اتنے میں ایک آدمی مجلس کو چیرتا ہوا آگے بڑھا ،لوگوں نے اس کو روکنا چاہا لیکن آپؓ نے کمال شفقت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: اس کو آنے دو۔ وہ آیا یہاں تک کہ آپؓ کے پاس بیٹھ گیا اور بولا:
أخبرنی لشئ حفظتہ من رسول اللّٰہ ﷺ، فقال: سمعت رسول اللّٰہﷺ یقول: المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ، والمھاجر من ھجر ما نھی اللّٰہ عنہ(۱۵)
رسول اللہﷺ کا کوئی فرمان یاد ہو تو بیان کیجئے۔ فرمایا میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کی ہوئی باتوں کو چھوڑ دے۔
لوگ مختلف مسائل میں ازواجِ مطہرات بالخصوص حضرت عائشہ صدیقہؓ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ بعض مسائل کے پوچھنے میں جھجک اور شرم مانع آتی تھی تو ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سائلین کی حوصلہ افزائی فرماتیں، چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو ایک مسئلہ کے دریافت کرنے میں حیا اور شرم مانع ہوئی تو آپؓ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:
لا تستحی ان تسألنی عما کنت سائلاً عنہ امک التی ولدتک فانما انا امک (۱۶)
تو اس بات کو پوچھنے میں شرم مت کر! جوتو اپنی سگی ماں سے پوچھ سکتا ہے، جس نے تجھے جنا ہے۔ میں بھی تو تیری ماں ہوں۔
دعوت میں ایجاز واختصار
دعوت وتبلیغ کو مؤثر بنانے کے لیے مضامین دعوت کا واضح، دو ٹوک اور مختصر ہونا بھی ایک بہترین اسلوب ہے۔ صحابہ کرامؓ کے دعوتی وتبلیغی خطبات میں فصاحت وبلاغت کے ساتھ ساتھ ایجازو اختصار کی جھلک بڑی نمایاں ہوتی تھی۔ ابو وائل بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمار بن یاسرؓ نے ہمیں فصیح وبلیغ خطبہ دیا۔ لوگوں نے آپ کے بیان کی خوب تعریف کی ،لیکن آپ کا بیان اس قدر مختصر تھا کہ لوگوں نے خواہش کی کہ کاش آپ مزید بیان فرماتے؟ تو آپؓ نے فرمایا:
انی سمعت رسول اللّٰہﷺ یقول: ان طول صلاۃ الرجل وقصر خطبتہ مئنۃ من فقھہ فأطیلوا الصلوۃ واقصروا الخطبۃ (۱۷)
میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے: نماز کو طول دینا اور خطبہ کو مختصر کرنا انسان کی سمجھ کی علامت ہے، پس تم نماز کو لمبا کرو اور خطبہ مختصر دیا کرو۔
صحابہ کرامؓ نے دعوت وتبلیغ میں ایجازواختصار کے اسلوب کو نہ صرف خود اختیار فرمایا بلکہ دوسروں کو بھی تلقین کی کہ وہ وعظ ونصیحت کو مختصر رکھیں۔ ایک دفعہ حجاج بن یوسف ابن عمرؓ کے ہمراہ خطبہ حج کے لیے روانہ ہوا۔ ابن عمرؓ کے صاحبزادے سالم بن عبداللہؓ بھی ساتھ تھے۔ انھوں نے حجاج کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اگر آج تم سنت کو حاصل کرنا چاہتے ہوتو مختصر خطبہ دینا اور نماز جلدی پڑھانا، حجاج بن یوسف ابن عمرؓ کی طرف دیکھنے لگا کہ اس بارے میں وہ کیا فرماتے ہیں، ابن عمرؓ نے یہ بات دیکھی تو فرمایا: سالم نے ٹھیک کہا ہے۔(۱۸)
حضرت عبداللہؓ بن مسعودکا بیان اور خطبہ بڑا مختصر، جامع اور پر اثر ہوتا تھا۔ حضرت ابوالدرداؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺنے خطبہ ارشاد فرمایا پھر آپ کے حکم سے حضرت ابوبکرؓ اور عمرفاروقؓ نے بیان فرمایا اور دونوں حضرات نے اپنے بیان کو مختصر رکھا، ان کے بعد عبداللہؓبن مسعودکو حکم ہوا کہ کچھ بیان کریں۔ حکم کی تعمیل میں کھڑے ہوئے اور حمد وسلام کے بعد فرمایا:
ایھاالناس! ان اللّٰہ ربنا وان الاسلام دیننا وان ھذا نبینا۔ وأوما بیدہ الی النبیﷺ،۔ رضینا مارضی اللّٰہ لنا ورسولہ والسلام علیکم۔
اے لوگو! اللہ ہمارا رب اور اسلام ہمارا دین ہے اور آپﷺ ہمارے نبی ہیں۔ اور اپنے ہاتھ سے رسول اللہﷺ کی طرف اشارہ کیا۔ جس سے اللہ اور اس کے رسولﷺ خوش ہوں اس سے ہم بھی خوش ہیں، اور تم پر سلامتی ہو۔
اس کے بعد عبداللہ بن مسعودؓ بیٹھ گئے۔ رسول اللہ ﷺنے اس مختصر مگر جامع بیان کی بہت تعریف وتحسین فرمائی اور فرمایا: ’’ابن ام عبد نے سچ کہا‘‘۔(۱۹)
مخاطب کی زبان میں گفتگو
ابلاغ اور تفہیم کے لیے زبان ولسان کی اہمیت مسلم ہے۔ دعوت وتبلیغ میں تاثیر اور قوت اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے، جب پیغام کی زبان آسان، نرم اور قابل فہم ہو، اور اگر اس کے ساتھ ساتھ داعی مدعو کی زبان سے بھی واقفیت رکھتا ہوتو دعوت کا کام مزید آسان ہوجاتا ہے ،کیونکہ ہم زبانی سے انسیت میں اضافہ ہوتا ہے، اجنبیت دور ہوتی ہے اور گفتگو کا مقصد آسانی سے سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے۔ خود رسول اللہ ﷺنے اس اسلوب کو اختیار فرمایا ۔عرب اگرچہ عربی زبان ہی بولتے تھے لیکن ان کے مختلف قبائل اور علاقوں میں لہجوں کا اختلاف پایا جاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺکے پاس بہت سے قبائل سے وفود آتے اور اسلام قبول کرتے تو آپﷺان کے ساتھ ان ہی کی زبان اور لہجے میں گفتگو فرماتے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند سے کعب بن عاصم الاشعری کا قول نقل کیا ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو مخصوص لہجے میں بات کرتے سنا:
عن عاصم الاشعریؓ قال: سمعت رسول اللّٰہ ﷺیقول : لیس من امبرامصیام فی امسفر، اراد لیس من البر الصیام فی السفر (۲۰)
اشعریوں کی لغت میں لام کو میم سے تبدیل کرلیا جاتا ہے۔ آپ ﷺنے اپنے لہجہ کو چھوڑ کر مخاطب کے لہجہ کو اختیار فرمایا ۔بلاشبہ اس سے مدعو پر خوشگوار اثر پڑتا ہے اور اپنائیت اور قربت پیدا ہوتی ہے۔ اسی ضرورت کے پیش نظر رسول اللہ ﷺنے حضرت زیدؓ بن ثابت کو سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا، تاکہ یہود سے انھیں کی زبان میں گفتگو کی جاسکے اور انھیں کی زبان میں ان کے خطوط کا جواب دیا جا سکے ۔حضرت زید بن ثابتؓ کا بیان ہے:
فتعلّمت کتابھم مامرت بی خمس عشرۃ لیلۃ حتی حذقتہ، وکنت اقرأ لہ کتبھم اذا کتبوا الیہ، واجیب عنہ اذا کتب(۲۱)
ایک ایرانی عورت حضرت ابوہریرہؓ کی خدمت میں استغاثہ لے کرآئی کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اب مجھ سے میرا بیٹا بھی چھیننا چاہتا ہے اس عورت نے یہ ساری گفتگو فارسی زبان میں کی اور ابوہریرہؓ نے بھی اس سے اسی زبان میں گفتگو کی اور پھر آپؓ نے بچہ عورت کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔(۲۲)
ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ نے دوسری قوموں کی زبانیں صرف اس غرض سے سیکھ رکھی تھیں تاکہ مخاطب سے براہ راست تبادلۂ خیال کرکے اس کے مسائل کا حل کیا جائے۔
صحابہ کرامؓ نے قرآن مجید کے بعض اجزا کا ترجمہ بھی دوسری زبانوں میں کیا تاکہ عربی زبان سے ناواقف لوگ اسلام کی حقیقی روح اور تعلیمات سے محروم نہ رہ جائیں۔ چنانچہ علامہ سرخسی لکھتے ہیں:
روی ان الفرس کتبوا الی سلمانؓ ان یکتب لھم الفاتحۃ بالفارسیۃ، فکانوا یقرؤن ذالک فی الصلوۃ حتٰی لانت السنتھم للعربیۃ (۲۳)
بیان کیا جاتا ہے کہ بعض نومسلم ایرانیوں نے حضرت سلمانؓ کی خدمت میں لکھا کہ ان کے لیے سورۃ الفاتحہ کو فارسی میں نقل کردیا جائے، چنانچہ وہ لوگ (اسی ترجمہ کو) نماز میں پڑھتے تھے یہاں تک کہ وہ عربی سیکھ گئے۔
اسی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور بڑے فقیہہ نے اپنی کتاب ’’النہایۃ حاشیۃ الہدایۃ‘‘ میں مزید تفصیل درج کی ہے کہ حضرت سلمان فارسیؓ نے رسول اللہ ﷺکی اجازت سے یہ کام انجام دیا اور ان کے ترجمے کا ایک جز بھی نقل کیا ہے، ’’بنام خداوند بخشا یندہ مہربان‘‘ (۲۴)یہ بسم اللہ کا ترجمہ ہے۔
شاہانِ عالم کی طرف بھیجے جانے والے نبوی سفراء کامعجزانہ طور پر انھیں قوموں کی زبان میں گفتگو کرنے لگ جانا بھی دعوت وتبلیغ میں زبان کی یکسانیت کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ (۲۵)
حضرت عمر فاروقؓ بھی دعوت وتبلیغ میں زبان وبیان کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ تھے۔ چنانچہ انھوں نے حضرت سلمان فارسیؓ کو محارباتِ عراق وایران کے دوران اسلامی لشکر کا داعی مقرر کیا تھا۔ چنانچہ حضرت سلیمان فارسیؓ نے ہمیشہ بڑی حکمت، دانائی اور دلسوزی کے ساتھ دعوتِ اسلام کا فریضہ انجام دیا اور انھوں نے مقبوضہ علاقوں میں فارسی نژاد ہونے کی وجہ سے نو مسلموں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے میں گرانقدر خدمات انجام دیں۔ موالیوں اور نومسلموں میں انھیں اس قدر مقبولیت حاصل تھی کہ وہ لوگ انھیں اپنا ہیرو اور بطلِ جلیل تصور کرتے تھے۔
حوالہ جات
(۱) سورۃ یوسف ۱۲:۳۶۔۴۱
(۲) المسند، حدیث شدادؓ بن اوس، ح: ۱۶۶۶۹، ۵/۱۰۴
(۳) الاستیعاب، تذکرہ طلیبؓ بن عمیر، ۲/۷۷۲۔۷۷۳
(۴) ایضاً، تذکرہ ارویؓ بن عبدالمطلب، ۴/۱۷۷۸
(۵) اسدالغابہ، تذکرہ ام خیرؓ بنت صخر، ۵/۵۸۰۔الاصابہ، تذکرہ ام الخیرؓبنت صخر، ۴/۴۴۷
(۶) المسند، مسند عبداللہ بن عباسؓ، ح: ۲۴۱۵، ۱/۴۴۳
(۷) المسند، حدیث ابوموسیٰ الاشعریؓ، ح: ۱۹۱۳۹، ۵/۴۵۴
(۸) المسند، حدیث ابودرداءؓ ، ح: ۲۶۹۶۰، ۷/۵۹۸
(۹) صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب ثواب المومن فیما یصیب، ح: ۶۵۶۱، ص: ۱۱۲۷
(۱۰) صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب فضل من استبرأ لدینہ، ح: ۵۲، ص: ۱۲
(۱۱) سنن ابی داؤد، کتاب الخراج، باب فی العرافۃ، ح: ۲۹۳۴، ص: ۴۲۷
* غزوۂ حنین میں ملنے والے مال غنیمت کو رسول اللہﷺ نے روساء مکہ میں ان کی تالیف قلب کی خاطر تقسیم کردیا، چنانچہ مکہ کے کئی سردارروں نے اسی جذبہ سے متاثر ہوکر صدق دل سے اسلام قبول کرلیا، پھر حق کے خلاف ان کی گردنیں کبھی نہ اٹھ سکیں۔ صفوان بن امیہ جو اسلام کے اور خود رسول اللہ ﷺکے شدید ترین دشمن تھے، کہتے ہیں:
واللّٰہ لقد اعطانی رسول اللّٰہﷺ ما اعطانی، وانہ لا بغض الیَّ فما برح یعطینی حتٰی انہ لاحبّ الناس الیّ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی سخا ۂﷺ، ح: ۶۰۲۲، ص: ۱۰۲۲)
’’قسم بخدا رسول اللہ ﷺنے مجھے اتنا دیا جس کی کوئی حد نہیں جبکہ مجھے ان سے سخت بغض تھا۔ آپ ﷺمجھے دیتے رہے یہاں تک کہ آپﷺ مجھے تمام انسانوں سے زیادہ محبوب ہوگئے‘‘۔
ایک دفعہ ایک بدو نے آکر کہا: ان دوپہاڑوں کے درمیان بکریوں کے جتنے ریوڑ ہیں مجھ کو عنایت کردیں۔ آپ ﷺنے وہ سب اس کو عطا فرمادیے۔ یہ فیاضی اور احسان دیکھ کر اس پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے اپنے پورے قبیلے سے جاکر کہا :
یا قوم اسلموا فان محمدا ﷺیعطی عطاء لا یخشی الفاقۃ (ایضاً، ح: ۶۰۲۰، ص: ۱۰۲۱)
’’اے قوم! اسلام قبول کرلو، محمدﷺ اتنا دیتے ہیں کہ ان کو اپنے فقروافلاس کا ڈر ہی نہیں رہتا‘‘
(۱۲) جامع الترمذی، ابواب العلم، باب ماجاء فی الاستیعاء بمن یطلب العلم، ح: ۲۶۵۰، ص: ۶۰۱۔ سنن ابن ماجہ، المقدمہ، باب الوصاۃ بطلبہ العلم، ح: ۲۴۹، ص: ۳۸
(۱۳) سنن ابن ماجہ، المقدمہ، باب الوصاۃ بطلبۃ العلم، ح: ۲۴۸، ص: ۳۸
(۱۴) کنزالعمال، ۵/۲۴۳
(۱۵) المسند، مسند عبداللہ بن عمروؓ، ح:۶۷۶۷، ۲/۳۹۶
(۱۶) صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب نسخ الماء من الماء وجوب الغسل......، ح: ۷۸۵، ص: ۱۵۳
(۱۷) صحیح مسلم، کتاب الجمعۃ، باب تخفیف الصلوۃ والخطبۃ، ح: ۲۰۰۹، ص: ۳۴۸۔۳۴۹۔ المسند ،حدیث عمار بن یاسر، ح:۱۷۸۵۳،۵/۳۲۶
(۱۸) الموطأ ، کتاب الحج، باب الصلوۃ فی البیت وقصر الصلوۃ وتعجیل الخطبہ بعرفۃ، ح: ۴۲۲، ص: ۲۶۶
(۱۹) تذکرۃالحفاظ،تذکرہ عبداللہؓبن مسعود، ۱/۱۵
(۲۰) خطیب بغدادی ، ’’کتاب الکفایۃ فی علم الروایۃ‘‘، ص:۱۸۳، دائرۃ المعارف العثمانےۃ ، حیدر آباد ، دکن، ۱۳۵۷ھ
(۲۱) المسند، حدیث زیدؓ بن ثابت، ح: ۲۱۱۰۸، ۶/۲۳۸، اسدالغابہ، تذکرہ زیدؓ بن ثابت
(۲۲) سنن ابی داؤد، کتاب الطلاق، باب من احق بالولد، ح: ۲۲۷۷، ص: ۳۳۰
(۲۳) سرخسی ، شمس الدین،’’المبسوط‘‘،کتاب الصلٰوۃ ،۱/۳۷، دارالمعرفۃ ،بیروت،۱۹۷۸ء۔ محمد بن حسن الشیبانی،’’کتاب الاصل‘‘ کتاب الصلوۃ،باب افتتاح الصلوٰۃ وما یصنع الامام، ۱/۱۶،دارالمعارف النعمانیۃ ،لاہور،۱۹۸۱ء
(۲۴) حمید اللہ،ڈاکٹر، ’’ صحیفہ ہمام بن منبہّ‘‘، ناشر رشیداللہ یعقوب، کلفٹن، کراچی، ص ۱۹۳، ۱۹۹۸ء
(۲۵) ابن سعد،ذکر بعثۃ رسول اللہﷺالرسل بکتبہ الی الملوک.....۱/۲۵۸
حواشی
* غزوۂ حنین میں ملنے والے مال غنیمت کو رسول اللہﷺ نے روساء مکہ میں ان کی تالیف قلب کی خاطر تقسیم کردیا، چنانچہ مکہ کے کئی سردارروں نے اسی جذبہ سے متاثر ہوکر صدق دل سے اسلام قبول کرلیا، پھر حق کے خلاف ان کی گردنیں کبھی نہ اٹھ سکیں۔ صفوان بن امیہ جو اسلام کے اور خود رسول اللہ ﷺکے شدید ترین دشمن تھے، کہتے ہیں:
واللّٰہ لقد اعطانی رسول اللّٰہﷺ ما اعطانی، وانہ لا بغض الیَّ فما برح یعطینی حتٰی انہ لاحبّ الناس الیّ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی سخا ۂﷺ، ح: ۶۰۲۲، ص: ۱۰۲۲)
’’قسم بخدا رسول اللہ ﷺنے مجھے اتنا دیا جس کی کوئی حد نہیں جبکہ مجھے ان سے سخت بغض تھا۔ آپ ﷺمجھے دیتے رہے یہاں تک کہ آپﷺ مجھے تمام انسانوں سے زیادہ محبوب ہوگئے‘‘۔
ایک دفعہ ایک بدو نے آکر کہا: ان دوپہاڑوں کے درمیان بکریوں کے جتنے ریوڑ ہیں مجھ کو عنایت کردیں۔ آپ ﷺنے وہ سب اس کو عطا فرمادیے۔ یہ فیاضی اور احسان دیکھ کر اس پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے اپنے پورے قبیلے سے جاکر کہا :
یا قوم اسلموا فان محمدا ﷺیعطی عطاء لا یخشی الفاقۃ (ایضاً، ح: ۶۰۲۰، ص: ۱۰۲۱)
’’اے قوم! اسلام قبول کرلو، محمدﷺ اتنا دیتے ہیں کہ ان کو اپنے فقروافلاس کا ڈر ہی نہیں رہتا‘‘
(جاری)
مسجد اقصٰی، یہود اور امت مسلمہ
محمد عمار خان ناصر
نوٹ: اس مضمون کی اردو کمپوزنگ دستیاب نہیں ہے اس لیے فی الوقت اسے یونیکوڈ کی بجائے پرانی ویب سائیٹ کے امیج فارمیٹ میں مہیا کیا جا رہا ہے۔
حواشی
کیا اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے؟
ادارہ
(۱)
علمائے دین کے حضور میں
(جاوید چودھری)
زاہد صاحب میرے دوست ہیں۔ انہوں نے میرے کالم ’’تالاب میں کودنے سے پہلے‘‘ کے جواب میں مجھے پروفیسر ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کے ایک لیکچر کی کاپی بھجوائی۔ پروفیسر صاحب اپریل ۱۹۹۲ء میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی دعوت پر دس روز کے لیے پاکستان تشریف لائے تھے۔ لاہور میں پائنا نے ان کے ایک خطاب کا اہتمام کیا۔ اس محفل میں عام شہریوں کے علاوہ ڈاکٹر اسرار احمد، ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک، ڈاکٹر صفدر محمود، مولانا صلاح الدین، چیف جسٹس انوار الحق، جسٹس محبوب احمد، ایس ایم ظفر، ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر رضاء الحق، پروفیسر جمیلہ شوکت، نذیر نیازی، اسماعیل قریشی، ڈاکٹر امین اللہ دثیر، ممتاز احمد خان، ڈاکٹر اقتدا حسن اور عبد الکریم عابد صاحب جیسے ممتاز عالم، دانش ور اور صحافی بھی موجود تھے۔ خطاب کے آخر میں جب سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک صاحب نے سورہ مائدہ کی آیت: یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصَارٰی اَوْلِیَآءَ پڑھی اور پوچھا: ’’ارشاد خداوندی ہے، یہودیوں کو دوست اور ولی نہ بناؤ۔ اس حکم کے حوالے سے یہ بھی ارشاد فرمائیں، اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں آپ کا خیال کیا ہے؟‘‘ پروفیسر صاحب نے اس سوال کے جواب میں فرمایا: (میں ان کے الفاظ یہاں لفظ بہ لفظ لکھ رہا ہوں) ’’قرآن مجید میں ولی کا لفظ ہے، دوست کا نہیں، ..... جس کا مطلب میرے خیال میں یہ ہے کہ انہیں حاکم کے طور پر قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اب رہی تعلقات قائم کرنے اور تسلیم کرنے کی بات تو یہ کسی قدر پیچیدہ مسئلہ ہے، اس معنی میں کہ اس معاملے کے کئی پہلو پیش نظر رکھنے ہوں گے اور فیصلہ فلسطینی مسلمانوں کی رائے پر ہونا چاہیے کیونکہ بنیادی طور پر یہ مسئلہ اہل فلسطین کا ہے۔ اگر وہ کسی مصلحت کی بنا پر یا کسی دوسرے فائدے کے پیش نظر یا قومی دشمن کی دشمنی کم کرنے کی کوشش کے طور پر اپنے موقف میں کچھ لچک پیدا کریں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ میرا مشورہ اس بارے میں صرف اتنا ہے کہ جو بات ممکن اور قابل حصول ہو، وہ کریں۔ انہونی باتوں کا مطالبہ نہ کریں۔‘‘
پروفیسر ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کا یہ خطاب ان کی رحلت کے بعد ایک معروف اردو ماہنامے کے فروری ۲۰۰۳ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ یہ خطاب ادریس صدیقی کے قلم سے قارئین تک پہنچا۔ ’ولی‘ کی تشریح پر مبنی اقتباس اس کے صفحہ ۲۹ پر درج ہے۔ پروفیسر حمید اللہ صاحب اسلام کے جید عالم، مفکر اور دانش ور تھے۔ انہیں اردو اور انگریزی کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی، فرانسیسی، جرمنی، ہندی اور اطالوی زبانوں پر بھی عبور تھا۔ انہوں نے قرآن مجید کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا، حیات رسول پر ترکی اور فرانسیسی میں کتب لکھیں۔ انہوں نے ایک سو بیس زبانوں میں قرآنی تراجم کی ایک ببلیو گرافی بھی مرتب کی۔ یہ انہی کی تحقیق ہے کہ آج دنیا کو معلوم ہے کہ اردو میں قرآن مجید کے تین سو، انگریزی میں ڈیڑھ سو اور فرانسیسی میں ستر ترجمے شائع ہو چکے ہیں۔ پروفیسر صاحب نے اردو میں ۱۲ اور انگریزی میں ۶ شاندار کتب تحریر کیں۔ ۱۹۴ ممالک میں آباد ایک ارب ۴۵ کروڑ مسلمانوں میں شاید ہی کوئی شخص ہو جو ان کے نام اور کام سے واقف نہ ہو۔ انہیں ۶۱ اسلامی ممالک میں وہ توقیر، وہ عزت حاصل ہے جو ایک جید عالم کو حاصل ہونی چاہیے۔ لہٰذا جب پروفیسر صاحب اپنے خطاب میں ’ولی‘ کو دوست کے بجائے حکمران قرار دیتے ہیں تو پھر سارا ’’سیناریو‘‘ ہی بدل جاتا ہے۔ مجھے اپنی کوتاہ علمی اور کم فہمی کا ادراک ہے۔ میں تو شاید قرآن مجید کے مفاہیم تک کبھی نہ پہنچ پاؤں، لہٰذا میں یہ آیت اور اس آیت میں درج ’’اولیاء‘‘ کے لفظ کو علماے کرام کی بارگاہ میں پیش کرتا ہوں اور ان سے درخواست کرتا ہوں۔ معاملہ بہت ہی حساس اور علمی نوعیت کا ہے کیونکہ صرف ایک لفظ کی تشریح پر نہ صرف آئندہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی جائے گی بلکہ عالم اسلام کے یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ تعلقات بھی طے ہوں گے۔ چنانچہ علماے دین آگے بڑھیں اور قوم کی مشکل آسان فرمائیں۔ ہم سب آپ کی رہنمائی چاہتے ہیں لیکن اتنا یاد رہے پروفیسر ڈاکٹر حمید اللہ صاحب اس پر کیا فرما چکے ہیں۔
معزز قارئین، میں نے کبھی یہ کالم عام بحث اور خطوط کے لیے عام نہیں کیا۔ میری کس تحریر، کس جسارت پر کیا کیا رد عمل ہوا، میں نے کبھی اس کا اظہار تک نہیں کیا۔ میں سمجھتا ہوں، انسان کو پوری ایمان داری سے اپنا فرض ادا کر دینا چاہیے اور اس کے بعد اس کا کیا رد عمل ہوتا ہے، اسے اس سے لاتعلق ہو جانا چاہیے لیکن میں پہلی بار اس کالم میں علماے کرام کو سورۂ مائدہ کی یہود ونصاریٰ والی آیت پر اظہار خیال کی دعوت دیتا ہوں، اس امید کے ساتھ کہ ہمارے وہ علماے کرام جو ایسے قومی معاملات پر ہمیشہ چپ سادھ لیتے ہیں، وہ اس بار ضرور کوئی نہ کوئی واضح اور دوٹوک موقف اختیار کریں گے۔ آخر علماے دین پر بھی اس ملک کو اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا فوج، بیوروکریسی، سیاست دانوں اور عوام پر حاصل ہے۔ اگر ہم سب اس ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں تو اس ملک کی فکری اور مذہبی سرحدوں کی حفاظت علماے کرام کا فرض ہے تو اے علماے دین، فرض نبھانے کا وقت آن پہنچا ہے۔
(روزنامہ جنگ، لاہور۔ ۱۲ جولائی ۲۰۰۳ء)
(۲)
باسمہ سبحانہ
محترمی جاوید چودھری صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مزاج گرامی؟
اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے بارے میں ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ صاحب کے ارشاد کے حوالہ سے آپ کا کالم نظر سے گزرا۔ میری طالب علمانہ رائے میں ڈاکٹر صاحب علیہ الرحمۃ کا ارشاد بالکل بجا ہے کہ قرآن کریم کی جس آیت کریمہ میں یہود ونصاریٰ کے ساتھ ’’ولایت‘‘ کے درجہ کی دوستی سے منع کیا گیا ہے، وہ یہود ونصاریٰ کے ساتھ معمول کے تعلقات میں رکاوٹ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحی ممالک کے ساتھ تعلقات اور معاملات میں ملت اسلامیہ نے کبھی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا اور خلافت راشدہ سے لے کر اب تک مسیحی ملکوں کے ساتھ ہمارے تعلقات اور معاملات برابر چلے آ رہے ہیں، البتہ یہودیوں کی ہزاروں سال بعد تشکیل پانے والی ریاست ’’اسرائیل‘‘ کے ساتھ تعلقات کا مسئلہ قدرے مختلف نوعیت کا ہے اور اس کی وجہ یہ آیت کریمہ نہیں بلکہ اگر اس آیت کریمہ کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی ممانعت میں پیش کیا جائے تو میرے خیال میں یہ خلط مبحث ہوگا اور مسئلہ کو زیادہ الجھا دینے کی صورت ہوگی۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات سے اختلاف کی وجوہ مختلف ہیں۔ مثلاً سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری وہاں کی صدیوں سے چلی آنے والی آبادی یعنی فلسطینیوں کی رضامندی کے ساتھ نہیں ہوئی بلکہ پہلے برطانیہ نے اس خطہ پر ۱۹۱۷ء میں باقاعدہ قبضہ کر کے فوجی طاقت کے بل پر یہودیوں کو فلسطین میں آباد کیا ہے اور اب امریکہ پوری فوجی قوت استعمال کر کے فلسطینیوں کو یہودیوں کی اس جبری آباد کاری کو تسلیم کرنے پر مجبور کر رہا ہے جس پر فلسطینی راضی نہیں ہیں اور یہ دھونس اور جبر کا راستہ ہے جسے دنیا کی کوئی مہذب اور متمدن قوم قبول نہیں کر سکتی۔ میرا خیال ہے کہ جس طرح ہم کشمیر کے بارے میں اصولی موقف رکھتے ہیں کہ بھارتی فوج وہاں سے چلی جائے اور کشمیریوں کو کسی دباؤ کے بغیر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے، اسی طرح فلسطین بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے بارے میں ہمارا اصولی موقف یہ ہونا چاہیے کہ امریکہ اپنی فوجیں اس خطہ سے نکالے اور نہ صرف فلسطین بلکہ خلیج کے دیگر ممالک کو بھی فوجی دباؤ سے آزاد کر کے وہاں کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا آزادانہ موقع فراہم کرے۔ انصاف اور مسلمہ اصولوں کا تقاضا تو بہرحال یہی ہے اور اگر بالادست قوتیں طاقت کے نشے میں اس اصول پر نہیں آتیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے موقف سے دست بردار ہو جائیں اور بے اصولی اور دھونس کو اصول وقانون کے طور پر تسلیم کر لیں۔
پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ایک عملی رکاوٹ بھی ہے جسے دور کیے بغیر اسے تسلیم کرنا قطعی طور پر نا انصافی کی بات ہوگی۔ وہ یہ کہ اسرائیل کی سرحدی حدود اربعہ کیا ہے؟ یہ بات ابھی تک طے نہیں ہو سکی۔ بہت سے عرب ممالک اور فلسطینی عوام کی اکثریت سرے سے فلسطین کی تقسیم کو قبول نہیں کررہی۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جو سرحدات اپنی قراردادوں میں طے کر رکھی ہیں، انہیں اسرائیل تسلیم نہیں کر رہا۔ اسرائیل کی اقوام متحدہ کی طرف سے طے کردہ سرحدات اور ہیں، اس وقت اس کے زیر قبضہ علاقے کی حدود اربعہ اور ہیں، کسی اصول اور قانون کی پروا کیے بغیر پورے فلسطین میں دندناتے پھرنے سے اس کی سرحدوں کا نقشہ بالکل دوسرا دکھائی دیتا ہے اور اسرائیلی حکمرانوں کے عزائم پر مشتمل ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کا جو نقشہ ریکارڈ پر موجود ہے، وہ ان سب سے مختلف ہے۔ اس کے ساتھ اسرائیلی وزیر اعظم شیرون کا یہ اعلان کئی بار سامنے آ چکا ہے کہ وہ فلسطین کی مجوزہ ریاست کو صرف اس شرط پر تسلیم کریں گے کہ اس کی سرحدات کا تعین نہیں ہوگا اور اس کی الگ فوج نہیں ہوگی۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ اسرائیل پورے فلسطین پر حکمرانی کے حق کا اعلان کر رہا ہے اور فلسطینیوں کو سرحدات کے تعین کے ساتھ کوئی چھوٹی سی برائے نام ریاست دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔
اس کے ساتھ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے قبل آپ کو ’’بیت المقدس‘‘ کے بارے میں بھی اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی ہوگی اور اس کی دو ہی صورتیں ہیں کہ یا تو اسرائیل کو بیت المقدس سے دست برداری پر آمادہ کر لیں اور یا خود ’’یو ٹرن‘‘ لے کر ’’بیت المقدس‘‘ سے دست برداری کا فیصلہ کر لیں۔
یہ تینوں رکاوٹیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے، پریکٹیکل ہیں، عملی ہیں اور معروضی ہیں۔ ان کا کوئی باوقار اور قابل عمل حل نکال لیں اور بے شک اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر اسی طرح تسلیم کر لیں جس طرح ہم بہت سے مسیحی ممالک کو تسلیم کرتے آ رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس حوالے سے بات عملی مسائل پر ہونی چاہیے اور معروضی حقائق پر ہونی چاہیے۔ نظری اور علمی مباحث میں الجھا کر اس مسئلہ کو مزید پیچیدہ نہیں بنانا چاہیے۔
شکریہ! والسلام
ابو عمار زاہد الراشدی
ارض فلسطین پر یہود کا حق ۔ صحف سماوی کی تصریحات اور عالم عرب کا حالیہ موقف
محمد عمار خان ناصر
تورات کے بیانات
تورات میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے اہل وعیال سمیت اُور سے نکل کر کنعان کی طرف، جو فلسطین کا قدیم تاریخی نام ہے، ہجرت کرنے کاحکم دیا تو ان سے وعدہ کیا کہ وہ یہ سرزمین ان کی اولاد کو عطا کرے گا:
’’اور خداوند نے ابرام سے کہا کہ تو اپنے وطن اور اپنے ناتے داروں کے بیچ سے اور اپنے باپ کے گھر سے نکل کر اس ملک میں جا جو میں تجھے دکھاؤں گا ۔ اور میں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور برکت دوں گا اور تیرا نام سرفراز کروں گا۔ ....... اور وہ ملک کنعان کو روانہ ہوئے اور ملک کنعان میں آئے۔ اور ابرام اس ملک میں سے گزرتا ہوا مقام سکم میں مورہ کے بلوط تک پہنچا۔ اس وقت ملک میں کنعانی رہتے تھے۔ تب خداوند نے ابرام کو دکھائی دے کر کہا کہ یہی ملک میں تیری نسل کو دوں گا ۔‘‘ (پیدائش ۱۲:۱۔۷)
تورات ہی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس موعودہ سرزمین کے حدود اربعہ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتا دینے کے ساتھ ساتھ اس کے حصول کی الٰہی سکیم بھی ان پر واضح فرما دی تھی:
’’اور اس نے ابرام سے کہا، یقین جان کہ تیری نسل کے لوگ ایسے ملک میں جو ان کا نہیں، پردیسی ہوں گے اور وہاں کے لوگوں کی غلامی کریں گے اور وہ چار سو برس تک ان کو دکھ دیں گے لیکن میں ا س قوم کی عدالت کروں گا جس کی وہ غلامی کریں گے اور بعد میں وہ بڑی دولت لے کر وہاں سے نکل آئیں گے اور تو صحیح سلامت اپنے باپ دادا سے جا ملے گا اور نہایت پیری میں دفن ہوگا اور وہ چوتھی پشت میں یہاں لوٹ آئیں گے کیونکہ اموریوں کے گناہ اب تک پورے نہیں ہوئے۔ .... اسی روز خداوند نے ابرام سے عہد کیا اور فرمایا کہ یہ ملک دریاے مصر سے لے کر اس بڑے دریا یعنی دریاے فرات تک قینیوں اور قنیزیوں اور قدمونیوں اور حتیوں اور فرزیوں اور رفائیم اور اموریوں اور کنعانیوں اور جرجاسیوں اور یبوسیوں سمیت میں نے تیری اولاد کو دیا ہے۔‘‘ (پیدائش ۱۵: ۱۳۔۲۱)
اس وعدے کی یاد دہانی حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کو بھی کرائی گئی۔ ۱ مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام کی بادشاہت کے زمانے میں جب حضرت یعقوب علیہ السلام اپنی ساری اولاد کے ساتھ ہجرت کر کے وہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے وصیت کی کہ انہیں مصر کے بجائے سرزمین کنعان ہی میں دفن کیا جائے۔ ۲ وفات کے وقت انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اس الٰہی وعدے کی یاد ہانی کراتے ہوئے فرمایا:
’’میں تو مرتا ہوں لیکن خدا تمہارے ساتھ ہوگا اور تم کو پھر تمہارے باپ دادا کے ملک میں لے جائے گا۔‘‘ (پیدائش ۴۸: ۲۱)
مصریوں کی غلامی میں کئی صدیاں گزارنے کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل میں مبعوث کیا تو انہیں بھی اس وعدے کی یاد دہانی کرائی۔ ۳ مصر سے خروج کے وقت حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کو خدا کا یہ عہد یاد دلایا۔ ۴ بنی اسرائیل جب بیابان میں مقیم تھے تو خدا تعالیٰ نے انہیں شریعت عطا کی اور وہ منصوبہ بھی ان پر واضح فرمایا جس کے مطابق ارض موعودہ بنی اسرائیل کو عطا کی جانی تھی:
’’میں اپنی ہیبت کو تیرے آگے آگے بھیجوں گا اور میں ان سب لوگوں کو جن کے پاس تو جائے گا، شکست دوں گا اور میں ایسا کروں گا کہ تیرے سب دشمن تیرے آگے اپنی پشت پھیر دیں گے۔ میں تیرے آگے زنبوروں کو بھیجوں گا جو حوی اور کنعانی اور حتی کو تیرے سامنے سے بھگا دیں گے۔ میں ان کو ایک ہی سال میں تیرے آگے سے دور نہیں کروں گا تا نہ ہو کہ زمین ویران ہو جائے اور جنگلی درندے زیادہ ہو کر تجھے ستانے لگیں بلکہ میں تھوڑا تھوڑا کر کے ان کو تیرے سامنے سے دور کرتا رہوں گا جب تک تو شمار میں بڑھ کر ملک کا وارث نہ ہو جائے۔ میں بحر قلزم سے لے کر فلستیوں کے سمندر تک اور بیابان سے لے کر نہر فرات تک تیری حدیں باندھوں گا کیونکہ میں اس ملک کے باشندوں کو تمہارے ہاتھ میں کر دوں گا اور تو ان کو اپنے آگے سے نکال دے گا۔‘‘ (خروج ۲۳: ۲۷۔۳۱)
احکام شریعت کی تشریح اور اجتماعی زندگی کے حدود وقیود کی وضاحت کے بعد موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہو اکہ وہ ارض موعودہ پر قبضے کے لیے بنی اسرائیل کو لے کر روانہ ہوں۔ ۵ موسیٰ علیہ السلام نے خدا کے حکم کے مطابق بنی اسرائیل کے ہر قبیلے میں سے ایک ایک آدمی کو منتخب کیا اور انہیں ملک کنعان کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا۔ چالیس دن کے بعد جب وہ لوٹے تو انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو بتایا کہ :
’’جس ملک میں تو نے ہم کو بھیجا تھا، ہم وہاں گئے اور واقعی دودھ اور شہد اس میں بہتا ہے اور یہ وہاں کا پھل ہے لیکن جولوگ وہاں بسے ہوئے ہیں، وہ زور آور ہیں اور ان کے شہر بڑے بڑے اور فصیل دار ہیں اور ہم نے بنی عناق کو بھی وہاں دیکھا۔ اس ملک کے جنوبی حصہ میں تو عمالیقی آباد ہیں اور حتی اور یبوسی اور اموری پہاڑوں پر رہتے ہیں اور سمندر کے ساحل پر اور یردن کے کنارے کنارے کنعانی بسے ہوئے ہیں۔‘‘ (گنتی ۱۳: ۲۷۔۲۹)
بارہ کے گروہ میں سے کالب اور یشوع کے سوا باقی تمام افراد کنعان میں بسنے والی قوموں کی طاقت اور قوت سے سخت مرعوب تھے اور ان کی اس کیفیت کی وجہ سے بنی اسرائیل بھی من حیث المجموع ہمت ہار گئے اور ارض موعودہ پر حملہ کرنے سے انکار کر دیا:
’’تب کالب نے موسیٰ کے سامنے لوگوں کو چپ کرایا اور کہا کہ چلو ہم ایک دم جا کر اس پر قبضہ کر لیں کیونکہ ہم اس قابل ہیں کہ اس پر تصرف کر لیں۔ لیکن جو اور آدمی اس کے ساتھ گئے تھے، وہ کہنے لگے کہ ہم اس لائق نہیں ہیں کہ ان لوگوں پر حملہ کریں کیونکہ وہ ہم سے زیادہ زور آور ہیں۔ ان آدمیوں نے بنی اسرائیل کو اس ملک کی جسے وہ دیکھنے گئے تھے، بری خبر دی اور یہ کہا کہ وہ ملک جس کا حال دریافت کرنے کو ہم اس میں سے گزرے، ایک ایسا ملک ہے جو اپنے باشندوں کو کھا جاتا ہے اور وہاں جتنے آدمی ہم نے دیکھے، وہ سب بڑے قد آور ہیں اور ہم نے وہاں بنی عناق کو بھی دیکھا جو جبار ہیں اور جباروں کی نسل سے ہیں اور ہم تو اپنی ہی نگاہ میں ایسے تھے جیسے ٹڈے ہوتے ہیں اور ایسے ہی ان کی نگاہ میں تھے۔ تب ساری جماعت زور زور سے چیخنے لگی اور وہ لوگ اس رات روتے ہی رہے اور کل بنی اسرائیل موسیٰ اور ہارون کی شکایت کرنے لگے اور ساری جماعت ان سے کہنے لگی، ہائے کاش ہم مصر ہی میں مر جاتے! یا کاش اس بیابان ہی میں مرتے! خداوند کیوں ہم کو اس ملک میں لے جا کر تلوار سے قتل کرانا چاہتا ہے؟ پھر تو ہماری بیویاں اور بال بچے لوٹ کا مال ٹھہریں گے۔ کیا ہمارے لیے بہتر نہ ہوگا کہ ہم مصر کو واپس چلے جائیں۔ پھر وہ آپس میں کہنے لگے آؤ ہم کسی کو اپنا سردار بنا لیں اور مصر کو لوٹ چلیں۔‘‘ (گنتی ۱۳:۲۷تا۳۳۔ ۱۴: ۱۔۴)
اس پست ہمتی اور بزدلی کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سزا دی کہ :
’’تمہاری لاشیں اسی بیابان میں پڑی رہیں گی اور تمہاری ساری تعداد میں سے یعنی بیس برس سے لے کر اس سے اوپر اوپر کی عمر کے تم سب جتنے گنے گئے اور مجھ پر شکایت کرتے رہے، ان میں سے کوئی اس ملک میں جس کی بابت میں نے قسم کھائی تھی کہ تم کو وہاں بساؤں گا، جانے نہ پائے گا سوا یفنہ کے بیٹے کالب کے اور نون کے بیٹے یشوع کے۔ اور تمہارے بال بچے جن کی بابت تم نے یہ کہا کہ وہ تو لوٹ کا مال ٹھہریں گے، ان کو میں وہاں پہنچاؤں گا اور جس ملک کو تم نے حقیر جانا، وہ اس کی حقیقت پہچانیں گے۔ اور تمہارا حال یہ ہوگا کہ تمہاری لاشیں اسی بیابان میں پڑی رہیں گی۔‘‘ (گنتی ۱۴: ۲۹۔۳۲)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات تک بنی اسرائیل ارض موعود کے ارد گرد بسنے والی مختلف اقوام سے لڑتے اور ان کے علاقوں پر قابض ہوتے رہے۔ وفات سے قبل موسیٰ علیہ السلام نے ارض موعود سے متعلق خدائی احکام وہدایات تفصیل کے ساتھ بنی اسرائیل کو بتا دیے۔ ان میں سے اہم تر درج ذیل ہیں:
۱۔ موعودہ سرزمین کے حدود کی مفصل تعیین:
’’پھر خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ بنی اسرائیل کو حکم کر اور ان کو کہہ دے کہ جب تم ملک کنعان میں داخل ہو (یہ وہی ملک ہے جو تمہاری میراث ہوگا یعنی کنعان کا ملک مع اپنی حدود اربعہ کے) تو تمہاری جنوبی سمت دشت صین سے لے کر ملک ادوم کے کنارے کنارے ہو اور تمہاری جنوبی سرحد دریائے شور کے آخر سے شروع ہو کر مشرق کو جائے۔ وہاں سے تمہاری سرحد عقرابیم کی چڑھائی کے جنوب تک پہنچ کر مڑے اور صین سے ہوتی ہوئی قادس برنیع کے جنوب میں جا کر نکلے اور حصر ادار سے ہو کر عضمون تک پہنچے۔ پھر یہی سرحد عضمون سے ہو کر گھومتی ہوئی مصر کی نہر تک جائے اور سمندر کے ساحل پر ختم ہو۔ اور مغربی سمت میں بڑا سمندر اور اس کا ساحل ہو۔ سو یہی تمہاری مغربی سرحد ٹھہرے۔ اور شمالی سمت میں تم بڑے سمندر سے کوہ ہور تک اپنی حد رکھنا۔ پھر کوہ ہور سے حمات کے مدخل تک تم اس طرح اپنی حد مقرر کرنا کہ وہ صداد سے جا ملے۔ اور وہاں سے ہوتی ہوئی زفرون کو نکل جائے اور حصر عینان پر جا کر ختم ہو۔یہ تمہاری شمالی سرحد ہو۔ اور تم اپنی مشرقی سرحد حصر عینان سے لے کر سفام تک باندھنا اور یہ سرحد سفام سے ربکہ تک جو عین کے مشرق میں ہے، جائے اور وہاں سے نیچے کو اترتی ہوئی کنرت کی جھیل کے مشرقی کنارے تک پہنچے۔ اور پھر یردن کے کنارے کنارے نیچے کو جا کر دریائے شور پر ختم ہو۔ ان حدود کے اندر تمہارا ملک ہوگا۔‘‘ (گنتی ۳۴: ۱۔۱۲)
۲۔ وہاں بسنے والی اقوام کے مکمل اخراج کا حکم:
’’بنی اسرائیل سے یہ کہہ دے کہ جب تم یردن کو عبور کر کے ملک کنعان میں داخل ہو تو تم اس ملک کے سب باشندوں کو وہاں سے نکال دینا اور ان کے شبیہ دار پتھروں کو اور ان کے ڈھالے ہوئے بتوں کو توڑ ڈالنا اور ان کے سب اونچے مقاموں کو مسمار کر دینا اور تم اس ملک پر قبضہ کر کے اس میں بسنا کیونکہ میں نے وہ ملک تم کو دیا ہے کہ تم اس کے مالک بنو.....لیکن اگر تم اس ملک کے باشندوں کو اپنے آگے سے دور نہ کرو تو جن کو تم باقی رہنے دو گے، وہ تمہاری آنکھوں میں خار اور تمہارے پہلوؤں میں کانٹے ہوں گے اور اس ملک میں جہاں تم بسو گے، تم کو دق کریں گے۔ اور آخر کو یوں ہوگا کہ جیسا میں نے ان کے ساتھ کرنے کا ارادہ کیا، ویسا ہی تم سے کروں گا۔‘‘ (گنتی ۳۳: ۵۱۔۵۶)
۳۔ بارہ قبائل میں زمین کی تقسیم کا حکم:
’’اور تم قرعہ ڈال کر اس ملک کو اپنے گھرانوں میں میراث کے طور پر بانٹ لینا۔ جس خاندان میں زیادہ آدمی ہوں، اس کو زیادہ اور جس میں تھوڑے ہوں، اس کو تھوڑی میراث دینا اور جس آدمی کا قرعہ جس جگہ کے لیے نکلے، وہی اس کو حصہ میں ملے۔ تم اپنے آبائی قبائل کے مطابق اپنی اپنی میراث لینا۔‘‘ (گنتی ۳۴:۵۴)
۴۔ وعدے کی مشروط نوعیت کی وضاحت:
’’اور جب تجھ سے بیٹے اور پوتے پیدا ہوں اور تم کو اس ملک میں رہتے ہوئے ایک مدت ہو جائے اور تم بگڑ کر کسی چیز کی شبیہ کی کھودی ہوئی مورت بنا لو اور خداوند اپنے خدا کے حضور شرارت کر کے اسے غصہ دلاؤ تو میں آج کے دن تمہارے برخلاف آسمان اور زمین کو گواہ بناتا ہوں کہ تم اس ملک سے جس پر قبضہ کرنے کو یردن پار جانے پر ہو جلد بالکل فنا ہو جاؤ گے۔ تم وہاں بہت دن رہنے نہ پاؤ گے بلکہ بالکل نابود کر دیے جاؤ گے اور خداوند تم کو قوموں میں تتر بتر کرے گا اور جن قوموں کے درمیان خداوند تم کو پہنچائے گا، ان میں تم تھوڑے سے رہ جاؤ گے۔ اور وہاں تم آدمیوں کے ہاتھ کے بنے ہوئے لکڑی اور پتھر کے دیوتاؤں کی عبادت کرو گے جو نہ دیکھتے نہ سنتے نہ کھاتے نہ سونگھتے ہیں لیکن وہاں بھی اگر تم خداوند اپنے خدا کے طالب ہو تو وہ تجھ کو مل جائے گا بشرطیکہ تو اپنے پورے دل سے اور اپنی ساری جان سے اسے ڈھونڈے۔ جب تو مصیبت میں پڑے گا اور یہ سب باتیں تجھ پر گزریں گی تو آخری دنوں میں تو خداوند اپنے خدا کی طرف پھرے گا اور اس کی مانے گا کیونکہ خداوند تیرا خدا رحیم خدا ہے۔ وہ تجھ کو نہ چھوڑے گا اور نہ ہلاک کرے گا اور نہ اس عہد کو بھولے گا جس کی قسم اس نے تیرے باپ داد سے کھائی۔‘‘ (استثنا ۴:۲۵۔۳۱)
’’اور جب یہ ساری باتیں یعنی برکت اور لعنت جن کو میں نے آج تیرے آگے رکھا ہے، تجھ پر آئیں اور تو ان قوموں کے بیچ جن میں خداوند تیرے خدا نے تجھ کو ہنکا کر پہنچا دیا ہو، ان کو یاد کرے اور تو اور تیری اولاد دونوں خداوند اپنے خدا کی طرف پھریں اور اس کی بات ان سب احکام کے مطابق جو میں آج تجھ کو دیتا ہوں، اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان سے مانیں تو خداوند تیرا خدا تیری اسیری کو پلٹ کر تجھ پر رحم کرے گا اور پھر کر تجھ کو سب قوموں میں سے جن میں خداوند تیرے خدا نے تجھ کو پراگندہ کیا ہو، جمع کرے گا۔ اگر تیرے آوارہ گرد دنیا کے انتہائی حصوں میں بھی ہوں تو وہاں سے بھی خداوند تیرا خدا تجھ کو جمع کر کے لے آئے گا اور خداوند تیرا خدا اسی ملک میں تجھ کو لائے گا جس پر تیرے باپ دادا نے قبضہ کیا تھا اور تو اس کو اپنے قبضہ میں لائے گا۔‘‘ (استثنا ۳۰:۱۔۵)
تورات کے ان بیانات سے واضح ہے کہ:
۱۔ فلسطین کی سرزمین اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو بطور وراثت اور ملکیت عنایت کی تھی۔
۲۔ اس پر قبضے اور اس میں پہلے سے بسنے والی اقوام کے اخراج کے لیے ان کی جنگ حکم الٰہی کے ماتحت تھی۔
۳۔ بد اعمالیوں کے نتیجے میں اس سرزمین سے بنی اسرائیل کی جلا وطنی ان کے تعلق کی تنسیخ کے طور پر نہیں بلکہ تنبیہ وتوبیخ اور اصلاح احوال کا موقع فراہم کرنے کے لیے تھی۔
قرآن مجید کی تصریحات
جہاں تک قرآن مجید کا تعلق ہے، تو وہ صراحتاً ان تمام بیانات کی تصدیق کرتا ہے، چنانچہ اس کی آیات سے حسب ذیل امور بالکل واضح ہیں:
* سرزمین فلسطین بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’وراثت‘ کے طور پر عطا کی گئی تھی اور اس میں ان کا آباد ہونا اللہ کے خاص فضل واحسان کا نتیجہ تھا:
وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَہَا الَّتِیْ بَارَکْنَا فِیْہَا وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ بِمَا صَبَرُوْا (الاعراف، ۱۳۷)
اور ہم نے ان لوگوں کو جو کہ بالکل کمزور سمجھے جاتے تھے، اس سرزمین کے مشرق ومغرب کا وارث بنا دیا جس میں ہم نے برکت رکھی ہے۔ اور تیرے رب کا نیک وعدہ بنی اسرائیل کے حق میں ان کے صبر واستقامت کی وجہ سے پورا ہو گیا۔
وَلَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ وَّرَزَقْنَاہُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ (یونس، ۹۳)
اور ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا رہنے کو دیا اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق عطا کیا۔
* اس سرزمین پر قبضے کے لیے بنی اسرائیل کی جنگیں ’قتال فی سبیل اللہ’ تھیں اور اس سے روگردانی ان کی بزدلی اور حکم عدولی کا مظہر تھی۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے دور میں بنی اسرائیل کو اس حوالے سے جہاد کی جو ترغیب دی، اس کا ذکر قرآن مجید میں ان الفاظ میں ہے :
وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآءَ وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا وَّآتَاکُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِیْنَ O یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَلاَ تَرْتَدُّوْا عَلٰی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خَاسِرِیْنَ O (المائدہ ، ۲۰۔۲۱)
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا، اے میری قوم، اللہ کے اس احسان کو یاد کرو کہ اس نے تم میں سے پیغمبر بنائے اور تمہیں بادشاہ بنا دیا اور تمہیں وہ کچھ دیا جو تمام عالم میں کسی کو نہیں دیا۔ اے میری قوم، اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے نام لکھ دی ہے اور پشت پھیر کر رو گردانی نہ کرو، ایسا نہ ہو کہ پھر نقصان میں جا پڑو۔
جب بنی اسرائیل نے دشمنوں کے ساتھ لڑنے سے انکار کر دیا تو اس بزدلی کی پاداش میں اس سرزمین میں ان کا داخلہ چالیس سال کے لیے موخر کر دیا گیا:
قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْہِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً یَّتِیْہُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَلاَ تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفَاسِقِیْنَ O(المائدہ، ۲۶)
اللہ نے فرمایا کہ اب یہ سرزمین چالیس سال کے لیے ان پر حرام کر دی گئی ہے۔ یہ زمین میں سرگرداں ادھر ادھر پھرتے رہیں گے، اس لیے تم ان فاسقوں کے بارے میں غمگین نہ ہونا۔
یوشع بن نون علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل شہر کو فتح کر کے اس میں داخل تو ہو گئے لیکن اپنی ایمانی واخلاقی کمزوری کے باعث وہاں کی کافر قوموں کو پوری طرح نیست ونابود نہ کر سکے۔ ایک طویل عرصے کی پست ہمتی کے بعد سیدنا سموئیل علیہ السلام کے زمانے میں وہ ارض مقدسہ پر مکمل قبضہ کی غرض سے دوبارہ جہاد کے لیے آمادہ ہوئے اور طالوت اور حضرت داؤد کی قیادت میں انہوں نے فلستی قوم کے ساتھ جنگ کی۔ سورہ بقرہ میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد ہے:
اَلَمْ تَرَ اِلَی الْمَلَاِ مِنْ بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ مِنْ بَعْدِ مُوْسٰی اِذْ قَالُوْا لِنَبِیٍّ لَّہُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ قَالَ ہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ اَلاَّ تُقَاتِلُوْا قَالُوْا وَمَالَنَآ اَلاَّ نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَاَبْنَآءِ نَا فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلاَّ قَلِیْلاً مِّنْہُمْ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِالظَّالِمِیْنَ O (البقرہ، ۲۴۶)
کیا آپ نے موسیٰ کے زمانے کے بعد بنی اسرائیل کی اس جماعت کا حال نہیں دیکھا جب انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ کسی کو ہمارا بادشاہ بنا دیجیے تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ پیغمبر نے کہا کہ ممکن ہے جہاد فرض ہو جانے کے بعد تم جہاد نہ کرو۔ انہوں نے کہا، بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے جبکہ ہم اپنے گھروں سے اجاڑے گئے اور بچوں سے دور کیے گئے ہیں؟ پھر جب ان پر جہاد فرض ہوا تو سوائے چند لوگوں کے باقی سب پھر گئے اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ O فَہَزَمُوْہُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ وَقَتَلَ دَاوُدُ جَالُوْتَ وَآتَاہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَہُ مِمَّا یَشَآءُ وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعَالَمِیْنَ O (البقرہ، ۱۵۰، ۲۵۱)
اور جب ان کا جالوت اور اس کے لشکر سے آمنا سامنا ہوا تو انہوں نے دعا کی کہ یا اللہ، ہمیں صبر اور ثابت قدمی عنایت فرما اور کافر قوم کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہوں نے ان کو شکست دے دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے ان کو بادشاہت اور حکمت اور جتنا چاہا، علم بھی عطا کیا۔ اور اگر اللہ انسانوں (کے فتنہ وفساد) کو انسانوں ہی کے ذریعے سے دور نہ کرے تو زمین فساد سے بھر جائے لیکن اللہ دنیا والوں پر فضل کرنے والا ہے۔
* بنی اسرائیل پر اللہ کے احکام سے روگردانی کی صورت میں تعذیب اور جلا وطنی کا، جبکہ اصلاح احوال کی صورت میں اللہ کی رحمت کے دوبارہ متوجہ ہونے کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا:
وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْہِمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مَنْ یَّسُوْمُہُمْ سُوْءَ الْعَذَابِ اِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ وَاِنَّہُ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ O وَقَطَّعْنَاہُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًا مِنْہُمُ الصَّالِحُوْنَ وَمِنْہُمْ دُوْنَ ذَالِکَ وَبَلَوْنَاہُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّیِّءَاتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ O (الاعراف، ۱۶۷۔۱۶۸)
اور جب تمہارے رب نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ بنی اسرائیل پر قیامت تک ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو سخت عذاب چکھائیں گے۔ بلاشک تیرا جلدی سزا دینے والا ہے اور بے شبہ وہ بڑی مغفرت اور بڑی رحمت والا بھی ہے۔ اور ہم نے ان کو دنیا میں تتر تتر کر دیا۔ ان میں کچھ نیک تھے اور کچھ اس سے مختلف۔ اور ہم ان کو خوش حالی اور بد حالی سے آزماتے رہے تاکہ وہ باز آ جائیں۔
سورہ بنی اسرائیل میں فلسطین سے بنی اسرائیل کی دو مشہور جلا وطنیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا ہے:
عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَہَنَّمَ لِلْکَافِرِیْنَ حَصِیْرًاO (بنی اسرائیل:۴ تا ۸)
توقع ہے کہ تمہارا رب تم پر پھر رحم کرے گا۔ لیکن اگر تم نے دوبارہ یہی رویہ اپنایا تو ہم بھی یہی کچھ کریں گے۔ اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنا رکھا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ دوبارہ یاد دلاتے ہوئے فرمایا:
یٰبَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَوْفُوْا بِعَہْدِیْ اُوْفِ بِعَہْدِکُمْ وَاِیَّایَ فَارْہَبُوْنِO (البقرہ، ۴۰)
اے بنی اسرائیل، میرے ان احسانات کو یاد کرو جو میں نے تم پر کیے اور میرے ساتھ کیا ہوا عہد پورا کرو، میں تمہارے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پورا کروں گا اور بس مجھ ہی سے ڈرو۔
اس ضمن میں قرآن مجید نے یہ بات البتہ واضح فرما دی ہے کہ بنی اسرائیل کو اب قیامت تک پہلے کی طرح آزادی، استقلال اور خود مختاری حاصل نہیں ہوگی بلکہ وہ ہمیشہ سیدنا مسیح علیہ السلام پر ایمان رکھنے والوں کے تابع رہیں گے اور دنیا میں ان کو جب بھی اور جس قدر بھی راحت واطمینان نصیب ہوگا، متبعین مسیح ہی کے زیر سایہ نصیب ہوگا:
اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (آل عمران، ۵۵)
جب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اے عیسیٰ، میں تجھے وفات دوں گا، اور تجھے اپنی جانب اٹھا لوں گا، اور تجھے ان کافروں کے شر سے نجات دوں گا اور تیرے تابع داروں کو قیامت تک تیرا انکار کرنے والوں پر غالب رکھوں گا۔
ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْآ اِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ (آل عمران، ۱۱۲)
ان پر ہر جگہ ذلت کی مار پڑی، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی یا لوگوں کی پناہ میں ہوں۔
امت مسلمہ کا حالیہ موقف
صحف آسمانی کی مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں سرزمین فلسطین کے ساتھ یہود کے مذہبی وتاریخی تعلق اور اس بنیاد پر اس کے ساتھ ان کی قلبی وابستگی کی نوعیت بالکل واضح ہے، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ صہیونی تحریک کے دعووں کے جواب میں امت مسلمہ اب قریب قریب اجتماعی طور پر اس بنیادی حقیقت سے ہی انکار کا راستہ اختیار کر چکی ہے کہ یہود اس سرزمین پر کبھی جائز طور پر قابض ہوئے تھے اور اس کے ساتھ ان کی وابستگی اور اس میں دوبارہ آباد ہونے کی خواہش کو مذہبی یا تاریخی لحاظ سے کوئی جائز بنیاد حاصل ہے۔ یہودی ریاست کے قیام کے لیے صہیونی کوششوں کے جواب میں امت مسلمہ کا استدلال اگر معروضی حالات کی ناموافقت تک محدود رہتا اور یہ کہا جاتا کہ زمینی حقائق کی روشنی میں اس قسم کی کسی ریاست کا قیام موجودہ عرب آبادی کی حق تلفی اور خطے میں سیاسی خلفشار اور کشمکش پیدا کیے بغیر ممکن نہیں تو اس موقف میں مذہبی یا اخلاقی لحاظ سے کوئی قباحت نہیں تھی، لیکن استدلال یہاں تک محدود نہیں رہا بلکہ مسئلے کا حل یہ ڈھونڈا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کے ساتھ ارض مقدس کی وراثت کے خدائی وعدے کو ہی سرے سے لپیٹ دیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ فلسطین تو اصل میں صدیوں سے عربوں کا ملک ہے، یہودی تو درمیان میں محض ایک محدود عرصے کے لیے غاصبانہ طور پر اس پر قابض ہوئے تھے لیکن عربوں نے مزاحمت کر کے ان کو یہاں سے نکال باہر کیا، لہٰذا اس سرزمین پر کسی قسم کے تاریخی یا مذہبی حق کا یہودی دعویٰ ہی سرے سے بے بنیاد اور باطل ہے۔ عرب ممالک سرکاری سطح پر اس وقت یہی موقف اختیار کیے ہوئے ہیں۔ رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل الدکتور عبد اللہ بن صالح العبید نے اس کی ترجمانی یوں کی ہے:
’’تاریخی دستاویزات کی رو سے القدس ایک خالص عربی شہر ہے جس کو تاریخ کے آغاز ہی سے نہایت اہمیت حاصل رہی ہے۔ اس کو کنعانیوں اور یبوسیوں نے آباد کیا تھا جو کہ عرب تھے۔ ...... قدیم تاریخ میں اگر القدس کو دوسری اقوام کے حملوں کا سامنا رہا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی ملکیت کا حق حملہ آوروں کو منتقل ہو گیا۔ یہ شہر قبل از اسلام تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف قوموں کی حرص وطمع کا نشانہ بنا رہا۔ اسرائیلی اس میں بارہویں صدی قبل مسیح میں داخل ہوئے۔ پھر ۵۸۶ ق م میں ایرانی اس پر حملہ آور ہوئے۔ ۳۳۲ میں اسکندر مقدونی نے اس پر قبضہ کر لیا جبکہ ۷۰ء میں یہ رومی عیسائیوں کے زیر تسلط آ گیا۔ لیکن اس کے عرب باسی ہر مرتبہ حملہ آوروں کو نکال باہر کرتے رہے تاکہ یہ شہر ایک خالص عربی شہر ہی رہے۔ ...... اس زمانے میں یہودیوں کا یہ دعویٰ کہ القدس ایک عبرانی شہر ہے، ان تاریخی دستاویزات کو نظر انداز کرنے پر مبنی ہے جو ثابت کرتی ہیں کہ القدس کا ایک شہر کے طور پر ظہور برونزی عہد کے آغاز میں ہوا جب کنعانیوں نے اس کی تعمیر کی۔ اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ آثار قدیمہ کے انکشافات اور تاریخی مآخذ کے مطابق فلسطین میں عربوں کی تاریخ چھ ہزار سال پرانی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں عربوں کا وجود اسرائیلیوں کے حملے سے ۲۶۰۰ سال مقدم ہے۔ اس سے وہ تمام یہودی دعوے خاک میں مل جاتے ہیں جن کے مطابق القدس اور فلسطین یہود کی ملکیت ہیں حالانکہ قدیم تاریخ میں القدس پر یہودیوں کی حکومت مسلسل ۷۰ سال سے زیادہ کبھی نہیں رہی۔‘‘ (ہفت روزہ ’’العالم الاسلامی‘‘، ملف خاص، ۱۵ تا ۲۱ فروری ۱۹۹۹ء، ص ۳)
اس موقف کو بعض جید علماء دین اور مفتیان شرع متین نے بھی پذیرائی بخشی ہے۔ دنیائے عرب کے نامور عالم الشیخ یوسف القرضاوی فرماتے ہیں:
’’اگر ان تمام سالوں کو جمع کیا جائے جو یہودیوں نے حملے کرتے اور تباہی پھیلاتے ہوئے فلسطین میں گزارے تو اتنی مدت بھی نہیں بنے گی جتنی انگریز نے ہندوستان میں یا ہالینڈیوں نے انڈونیشیا میں گزاری۔ اگر اتنی مدت گزارنے پر کسی کو کسی سرزمین پرتاریخی حق حاصل ہو جاتا ہے تو انگریزوں اور ہالینڈیوں کو بھی اس قسم کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ اور اگر غربت کی حالت میں ایک طویل عرصہ کسی علاقے میں گزارنے سے اس زمین پر ملکیت کا حق ثابت ہوتا ہے تو پھر یہودیوں کو چاہیے کہ وہ فلسطین کے بجائے، جس میں ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد نے تقریباً ۲۰۰ سال گزارے اور جہاں وہ دو افراد آئے تھے لیکن ۷۰ افراد نکل کر گئے، مصر کی ملکیت کا مطالبہ کریں جس میں انہوں نے ۴۳۰ سال گزارے۔ ....... یہودیوں کا فلسطین پر تاریخی حق کا دعویٰ بالکل بکواس ہے۔ صحیفوں کی تصریح کے مطابق وہ یہاں محض اجنبیوں کی طرح رہے۔ تو کیا کسی پردیسی یا راہ گیر کو یہ حق ہے کہ وہ اس زمین پر جس نے اس کو ذرا پناہ دے دی یا اس درخت پر جس نے اس کو تھوڑی دیر سایہ فراہم کر دیا، اس وجہ سے ملکیت کا حق جتا دے کہ اس نے گھڑی کی گھڑی وہاں سستا لیا ہے؟ ‘‘ (ہفت روزہ الدعوۃ، الریاض، ۱۱ اپریل ۲۰۰۲ء، ص ۳۶)
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے فیصلے عادلانہ ہوتے ہیں اور جس نے ظلم کو اپنے اوپر اور اپنے بندوں پر حرام قرار دیا ہے، کوئی سرزمین جس پر اس کے مالک جائز طریقے سے مسلسل قابض چلے آ رہے ہوں، ایک ایسے پردیسی گروہ کو عنایت کر دے جو وہاں باہر سے گھس آیا ہو؟ اللہ کا عدل وانصاف کہاں گیا؟ وہ تو انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (ص ۳۹)
عالم اسلام کے اکابر واصاغر اہل علم کے بیانات اور تحریروں میں جابجا اسی کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اقبالؒ نے اسی استدلال کی ترجمانی اپنے مشہور شعر میں یوں کی ہے:
ہے خاک فلسطیں پہ پہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر کیوں نہیں حق اہل عرب کا
ان میں مولانا مودودیؒ کا معاملہ عجیب تر ہے۔ ارض موعودہ سے متعلق قرآن مجید کے نصوص کی تفسیرکرتے ہوئے تو، ظاہر ہے، وہ اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکے، چنانچہ مثلاً سورۂ مائدہ کی آیت ۲۱ کے الفاظ ’الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’اس سے مراد فلسطین کی سرزمین ہے جو حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب کا مسکن رہ چکی تھی۔ بنی اسرائیل جب مصر سے نکل آئے تو اسی سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے نامزد فرمایا اور حکم دیا کہ جا کر اسے فتح کر لو۔‘‘ (تفہیم القرآن ۱/۴۵۹)
سورہ بقرہ کی آیت ۲۴۳ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’یہ لوگ بہت بڑی تعداد میں مصر سے نکلے تھے۔ دشت وبیاباں میں بے خانماں پھر رہے تھے۔ خود ایک ٹھکانے کے لیے بے تاب تھے۔ مگر جب اللہ کے ایما سے حضرت موسیٰ نے ان کو حکم دیا کہ ظالم کنعانیوں کو ارض فلسطین سے نکال دو اور اس علاقے کو فتح کر لو تو انہوں نے بزدلی دکھائی اور آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔‘‘ (۱/۱۸۴)
سورۂ بنی اسرائیل کی آیت ۵ کے تحت فرماتے ہیں:
’’حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد جب بنی اسرائیل فلسطین میں داخل ہوئے تو یہاں مختلف قومیں آباد تھیں۔ حتی، اموری، کنعانی، فرزی، حوی، یبوسی، فلستی وغیرہ۔ ان قوموں میں بدترین قسم کا شرک پایا جاتا تھا۔ ....... توراۃ میں حضرت موسیٰ کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کو جو ہدایات دی گئی تھیں، ان میں صاف صاف کہہ دیا گیا تھا کہ تم ان قوموں کو ہلاک کر کے ان کے قبضے سے فلسطین کی سرزمین چھین لینا اور ان کے ساتھ رہنے بسنے اور ان کی اخلاقی واعتقادی خرابیوں میں مبتلا ہونے سے پرہیز کرنا۔‘‘ (۲/۵۹۶)
لیکن صہیونی تحریک کے دعووں اور عزائم کی تردید کرتے وقت یہ نصوص ان کی نگاہ سے بالکل اوجھل ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
’’بیت المقدس اور فلسطین کے متعلق آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تقریباً تیرہ سو برس قبل مسیح میں بنی اسرائیل اس علاقے میں داخل ہوئے تھے اور دو صدیوں کی مسلسل کشمکش کے بعد بالآخر اس پر قابض ہو گئے تھے۔ وہ اس سرزمین کے اصل باشندے نہیں تھے۔ قدیم باشدے دوسرے لوگ تھے جن کے قبائل اور اقوام کے نام خود بائبل میں تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں اور بائبل ہی کی تصریحات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل نے ان قوموں کا قتل عام کر کے اس سرزمین پر اسی طرح قبضہ کیا تھا جس طرح فرنگیوں نے سرخ ہندیوں (Red Indians) کو فنا کر کے امریکہ پر قبضہ کیا۔ ان کا دعویٰ یہ تھا کہ خدا نے یہ ملک ان کی میراث میں دے دیا ہے اس لیے انہیں حق پہنچتا ہے کہ اس کے اصل باشندوں کو بے دخل کر کے بلکہ ان کی نسل کو مٹا کر اس پر قابض ہو جائیں۔ ......
اس تاریخ سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ:
۱۔ یہودی ابتداء اً نسل کشی (Genocide) کے مرتکب ہو کر فلسطین پرزبردستی قابض ہوئے تھے۔
۲۔ شمالی فلسطین میں صرف چار پانچ سو برس تک وہ آباد رہے۔
۳۔ جنوبی فلسطین میں ان کے قیام کی مدت زیادہ سے زیادہ آٹھ نو سو برس رہی۔ اور
۴۔ عرب شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال سے اور جنوبی فلسطین میں تقریباً دو ہزار سال سے آباد چلے آ رہے ہیں۔
لیکن اس کے باوجود یہودیوں کا آج بھی یہ دعویٰ ہے کہ فلسطین ان کے باپ دادا کی میراث ہے جو خدا نے انہیں عطا فرمائی ہے اور انہیں حق پہنچتا ہے کہ اس میراث کو بزور حاصل کر کے اس علاقے کے قدیم باشندوں کو اسی طرح نکال باہر کریں اور خود ان کی جگہ بس جائیں جس طرح تیرہ سو برس قبل مسیح میں انہوں نے کیا تھا۔‘‘ (سانحہ مسجد اقصیٰ، ص ۳۔۵)
اب ذرا ملاحظہ کیجیے کہ صحف آسمانی کی تصریحات اور امت مسلمہ کے موقف کے مابین ’تفاوت رہ’ کس قدر ہے:
۱۔ صحف آسمانی ارض فلسطین کو خدا کی طرف سے یہود کو عطا کردہ میراث قرار دیتے ہیں جبکہ ہمارے اہل علم ان کو اس سرزمین میں پردیسی اور اجنبی کہتے اور اس میں ان کے قیام کو صدیوں اور سالوں کے پیمانوں سے ناپ کر اس حق کو خرافات قرار دیتے ہیں۔
۲۔ صحف آسمانی اس سرزمین پر قبضے کے لیے بنی اسرائیل کی جنگ کو ’قتال فی سبیل اللہ’ قرار دیتے ہیں جو بنی اسرائیل نے سیدنا موسیٰ، سیدنا یوشع اور سیدنا داؤد علیہم السلام جیسے جلیل القدر انبیا کی زیر قیادت کیا، جبکہ ہمارے اہل علم نے اس ساری جدوجہد کے لیے ’نسل کشی‘ کا عنوان تجویز کیا ہے۔
۳۔ صحف آسمانی فلسطین کے سابق باسیوں یعنی کنعانیوں، فلستیوں اور دیگر اقوام کے وہاں سے اخراج کو ان کے جرائم کی پاداش اور فساد فی الارض کی سزا بتاتے ہیں لیکن ہمارے اہل علم کے لیے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ خدا ایک سرزمین میں جائز طور پر بسنے والی قوم کو نکال کر ایک اجنبی قوم کو وہاں آباد ہونے کا حق کیسے دے سکتا ہے۔
۴۔ صحف آسمانی کے مطابق یہود کی اس سرزمین سے جلا وطنی ان کی بد اعمالی کے نتیجے میں ہے اور اصلاح احوال کی صورت میں ان کی وہاں واپسی کا راستہ کھلا ہوا ہے لیکن ہمارے اہل علم کے نزدیک ان کی واپسی کی کسی حال میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
آج ہمارے مابین اس بات کا تذکرہ تو عام ہے کہ یہود ایک مغضوب علیہ قوم ہیں اور ان کی ذلت ورسوائی ان پر خدا کی طرف سے مسلط کردہ ہے، لیکن ہم اس پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ ان پر اللہ کا غضب اسی طرح کے کتمان حق، مذہبی ونسلی تعصب اور تکذیب آیات اللہ کے نتیجے میں نازل ہوا تھا جس کا مظاہرہ آج بعض معاملات، خاص طور سے یہود سے متعلق معاملات میں امت مسلمہ کر رہی ہے۔ جہاں تک اللہ کی رحمت اور اس کی ناراضی کے قانون کا تعلق ہے، قرآن مجید کی رو سے وہ امت مسلمہ کے لیے بھی وہی ہے جو بنی اسرائیل کے لیے تھا: ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس طرح کا غیر اخلاقی رویہ اختیار کرنے پر بنی اسرائیل پر تو اللہ تعالیٰ کی طرف ذلت ومسکنت مسلط کی جائے لیکن امت مسلمہ کو بدستور عروج اور سرفرازی کے منصب پر فائز رکھا جائے؟
حوالہ جات
۱ پیدائش ۲۶: ۲۔۳ و ۲۸: ۱۳۔
۲ پیدائش ۴۷: ۲۹۔۳۰
۳ خروج ۳:۸۔ ۵: ۴
۴ خروج ۱۳: ۵
۵ خروج ۳۳: ۱
نومبر ۲۰۰۳ء
بھارت میں خواتین کے مسائل کے لیے خاتون مفتیوں کے پینل کا قیام
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے ۵۔ اکتوبر ۲۰۰۳ء کی اشاعت میں حیدرآباد دکن کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وہاں کے ایک دینی ادارے ’’جامعۃ المومنات‘‘ نے تین عالمہ خواتین کو افتا کا کورس کرانے کے بعد فتویٰ نویسی کی تربیت دی ہے اور ان پر مشتمل خواتین مفتیوں کا ایک پینل بنا دیا ہے جو خواتین سے متعلقہ مسائل کو براہ راست سنتی اور ان کے بارے میں شرعی اصولوں کی روشنی میں فتویٰ جاری کرتی ہیں۔ ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے تجزیہ نگار کا خیال ہے کہ یہ جنوبی ایشیا میں پہلی مثال ہے کہ خواتین سے متعلقہ مسائل پر خواتین کو فتویٰ جاری کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگرچہ جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی اہلیہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہؓ خواتین کے مسائل کے حوالے سے فتویٰ دیتی رہی ہیں اور بعد میں بھی امت مسلمہ میں عورتوں کے دینی امور میں رائے دینے کی روایت موجود رہی ہے، لیکن یہ معاملہ غیر رسمی رہا ہے۔ اب ہندوستان میں اس نئی روایت کا آغاز کیا گیا ہے جس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
’’جامعۃ المومنات‘‘ حیدرآباد دکن کے بارے میں رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس میں دو ہزار کے لگ بھگ طالبات دینی تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور اس کے دار الافتاء کے سربراہ مولانا مفتی حسن الدین نے اپنی نگرانی میں بائیس سالہ عالمہ مفتیہ ناظمہ عزیز اور ان کی دو ساتھیوں کو فتویٰ نویسی کے لیے تیار کیا ہے اور اب خواتین ان سے براہ راست رجوع کر کے اپنے مسائل کے بارے میں رہنمائی حاصل کرتی ہیں۔ رپورٹ میں اس پینل کے بعض فتاویٰ کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن میں میک اپ سے متعلقہ مسائل اور عورت کو طلاق ہو جانے کی صورت میں اس کے بچے کی پرورش کی ذمہ داری کے بارے میں سوالات شامل ہیں۔
حیدر آباد دکن کے اس دینی ادارے کے قائم کردہ خواتین مفتیوں کے اس پینل کے بارے میں مزید معلومات تو براہ راست رابطہ کے بعد ہی حاصل ہو سکیں گی، البتہ جتنی بات کا ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے اپنے مخصوص انداز میں ذکر کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’جامعۃ المومنات‘‘ کے اس اقدام کو عالمی سطح پر ایک بڑی تبدیلی کے طور پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات کے تناظر میں یہ ایک اہم اور انقلابی پیش رفت ہے لیکن جہاں تک عورتوں کے تعلیم حاصل کرنے اور دینی امور میں رائے دینے کا تعلق ہے، ہمارا ماضی اس سلسلے میں شاندار روایات کا حامل ہے اور اب سے ایک ہزار سال قبل تک ہمارے ہاں عورتوں کا علمی معیار اس قدر بلند رہا ہے کہ مغرب عورتوں کو آزادی اور مساوات کی منزل سے ہم کنار کرنے کے بلند بانگ دعووں کے باوجود اس کی ہم سری نہیں کر سکتا۔
خلفاے راشدینؓ کے دور میں جناب نبی اکرم ﷺ کی احادیث مبارکہ کی روایت کے حوالے سے جن سات صحابہ کرام کو حدیث نبوی کے سب سے بڑے راوی شمار کیا جاتا ہے، ان میں ایک ام المومنین حضرت عائشہ بھی ہیں جن سے دو ہزار سے زائد احادیث مروی ہیں اور ان سے براہ راست حدیث نبوی ﷺ روایت کرنے والے مرد وخواتین کی تعداد دو سو سے زیادہ ہے۔ وہ صرف روایت ہی نہیں کرتی تھیں بلکہ قرآن وسنت سے مسائل کا استنباط کرتی تھیں، فتویٰ بھی جاری کرتی تھیں، اپنے معاصر مفتیوں کے فتووں سے اختلاف کرتی تھیں اور ان کے فتووں کا تعلق صرف عورتوں کے مسائل سے نہیں ہوتا تھا بلکہ عقائد کی تشریح، عبادات، امت کے اجتماعی معاملات اور دیگر امور بھی ان کے فتاویٰ کا حصہ ہوتے تھے۔ ان سے خلفاے راشدین خود بھی رہنمائی حاصل کرتے تھے اور ان کے فتاویٰ عملاً نافذ ہوا کرتے تھے۔ امام جلال الدین سیوطیؒ نے ایک مستقل کتابچہ میں ان فتاویٰ کا ذکر کیا ہے جن میں ام المومنین حضرت عائشہؓ نے اپنے معاصر مفتیوں اور مجتہدین سے اختلاف کیا ہے اور ان سے مختلف فتاویٰ جاری کیے ہیں۔ ان کے بارے میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ ہم صحابہ کرام کبھی کسی ایسی مشکل میں نہیں پھنسے جس کے بارے میں ام المومنین حضرت عائشہؓ کے پاس ہم نے علم اور رہنمائی نہ پائی ہو۔ حضرت عروہ بن زبیر کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے زمانے میں قرآن وسنت کی تشریح، شعر وادب، تاریخ قبائل عرب، فرائض ومیراث اور طب میں حضرت عائشہؓ سے بڑا کوئی عالم نہیں دیکھا۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ کے علوم کی سب سے بڑی وارث بھی ایک خاتون تھیں جن کا نام عروہ بنت عبد الرحمن ہے۔ یہ مشہور صحابی حضرت اسعد بن زرارہؓ کی پوتی ہیں، بہت ذہین وفطین خاتون تھیں، حضرت عائشہ کے ہاں رہتی تھیں اور ان کی مایہ ناز شاگرد ہونے کے علاوہ ان کے بیشتر معاملات وامور کی ذمہ دار ہوتی تھیں۔ صحابہ کرام کے آخری دور میں جب اس بات کاخطرہ نظر آنے لگا کہ جناب نبی اکرم ﷺ کی زندگی کا براہ راست مشاہدہ کرنے والے اور ان کے ارشادات براہ راست سننے والے حضرات کے دنیا سے رخصت ہوتے چلے جانے کے باعث کہیں سنت واحادیث کا بہت بڑا ذخیرہ ان کے ساتھ ہی نہ چلا جائے تو امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے سرکاری طور پر اس کا اہتمام کیا کہ جناب نبی اکرم ﷺ کی احادیث وسنت کو جمع کر کے محفوظ کیا جائے اور باقاعدہ تحریر میں لاکر ان کی حفاظت کی جائے۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے بہت سے حضرات کی ڈیوٹی لگائی جن میں مدینہ منورہ کے قاضی ابوبکر بن قاسم بھی تھے جو حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن کے بھتیجے تھے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے انہیں اس بات کی بطور خاص ہدایت کی کہ وہ اپنی پھوپھی کے علوم وروایات کو جمع اور محفوظ کرنے کا خصوصی اہتمام کریں کیونکہ وہ ام المومنین حضرت عائشہ کے علوم کی وارث بلکہ حافظہ ہیں۔ ابن حجر عسقلانی کے نزدیک مدینہ منورہ میں اس کام کے لیے قاضی ابوبکر بن قاسم کو مقرر کرنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ وہ حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن کے علوم وروایات کو منضبط کرنے کا کام زیادہ آسانی سے کر سکتے تھے۔ حافظ ابن حجر کا کہنا ہے کہ عمرہ بنت عبد الرحمن صرف احادیث روایت ہی نہیں کرتی تھیں بلکہ لوگ ان سے مسائل بھی دریافت کرتے تھے۔ وہ اپنے قاضی بھتیجے کے عدالتی فیصلوں کی نگرانی کیا کرتی تھیں اور بسا اوقات ان کو ٹوک بھی دیا کرتی تھیں۔
احادیث نبوی کی روایت میں خواتین کا کیا حصہ رہا ہے؟ اس کے بارے میں ہمارے دوست مولانا محمد اکرم ندوی نے، جو آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک سٹڈیز میں تحقیق اور ریسرچ کا کام کر رہے ہیں اور امت کی ان محدثات کے حالات جمع کرنے میں مصروف ہیں جنہوں نے احادیث نبوی باقاعدہ طور پر پڑھی اور پھر پڑھائی ہیں، گزشتہ سال شعبان میں مجھے بتایا کہ وہ اب تک چھ ہزار محدثات کے حالات جمع کر چکے ہیں جو ان کے اندازے کے مطابق دس ضخیم جلدوں میں شائع ہوں گے۔ اسی طرح فقہ وافتا میں بھی متعدد خواتین بلند ترین مقامات تک پہنچی ہیں۔ اس سلسلے میں بطور مثال چھٹی صدی ہجری کی ایک خاتون فقیہہ اور مفتیہ کا تذکرہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا جو فاطمہ فقیہہ کے نام سے معروف ہیں اور فقہ حنفی کی معروف کتاب ’’بدائع الصنائع‘‘ کے مصنف امام ابوبکر کاسانی کی اہلیہ محترمہ ہیں۔ یہ اپنے والد اور خاوند کے ساتھ افتا کے کام میں شریک ہوتی تھیں اور خود بھی فتویٰ دیا کرتی تھیں حتیٰ کہ اس دور کے اہم مسائل پر جو فتاویٰ جاری ہوتے تھے، ان پر ان تینوں کے دستخط ہوا کرتے تھے۔
بعض روایات کے مطابق فاطمہ فقیہہ کی شادی کا واقعہ بھی دلچسپی کا حامل ہے جس کا مختصر تذکرہ علامہ شامی نے کیا ہے اور حضرت مولانا قاری محمد طیب نے اپنے ایک خطبہ میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جو ان کے مطبوعہ ’’خطبات حکیم الاسلام‘‘ میں موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فاطمہ فقیہہ خود بھی بڑی عالمہ تھیں اور ان کے والد بھی اپنے دور کے بہت بڑے عالم وفقیہ تھے۔ فاطمہ انتہائی خوب صورت خاتون تھیں اس لیے ان کے لیے بڑے بڑے خاندانوں کے رشتے آتے تھے لیکن کسی رشتے پر باپ بیٹی کا اتفاق نہیں ہوتا تھا۔ بالآخر فاطمہ فقیہہ نے خود ہی تجویز پیش کی کہ ان سے شادی کے خواہش مند حضرات موجودہ حالات کی روشنی میں فقہ حنفی پر کتاب لکھیں، وہ سب کتابوں کا مطالعہ کریں گی اور جس مصنف کی کتاب انہیں پسند آئے گی، اس سے شادی کر لیں گی۔ حضرت مولانا قاری محمد طیب کے ارشاد کے مطابق اس ’’مقابلہ‘‘ میں سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں، جن میں سے ’’بدائع الصنائع‘‘ کو محترمہ نے پسند کیا اور اس کے مصنف امام ابوبکر کاسانی سے شادی کر لی۔
اس لیے بھارت کے ایک دینی ادارے نے اگر تین عالم خواتین کو افتا کی باقاعدہ تربیت دے کر ان پر مشتمل خاتون مفتیوں کا مستقل پینل بنایا ہے اور خواتین سے اپنے مسائل کے لیے ان سے براہ راست رجوع کرنے کو کہا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی مسلمانوں میں کسی نئی روایت کا اضافہ ہے بلکہ یہ اقدام اپنے شاندار ماضی کی طرف واپس پلٹنے کا عمل ہے جو انتہائی خوش آئند اور اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے دینی حلقوں نے اپنے ماضی کی تاریخ اور اسلاف کی روایات سے آگاہی حاصل کرنے اور ان کی طرف واپس پلٹنے کی ضرورت محسوس کر لی ہے۔ اس موقع پر ہم یہ گزارش کرنے کی ضرورت بھی محسوس کر رہے ہیں کہ ’’عورت‘‘ کے حوالے سے ہماری موجودہ اور مروجہ روایات واقدار کا ایک بڑا حصہ ہمارے علاقائی کلچر سے تعلق رکھتا ہے جسے دین قرار دے کر ان کی ہر حالت میں حفاظت کا تکلف روا رکھا جا رہا ہے۔ اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہم دینی تعلیمات واقدار اور علاقائی کلچر وثقافت کی روایات واقدار کے درمیان فرق کو محسوس کریں اور اس حقیقت کا ادراک حاصل کریں کہ ہر حالت میں تحفظ صرف دینی تعلیمات واقدار کا حق ہے جبکہ کلچر اور ثقافت، حالات اور ضروریات کے تغیر کے ساتھ ساتھ بدلتی رہنے والی چیزیں ہیں۔ یہ امر واقعہ ہے کہ ہم ان دونوں کے درمیان فرق نہیں کر رہے جس سے علاقائی اور عالمی سطح پر بہت سے غیر ضروری مسائل اور ناواجب پیچیدگیاں جنم لے رہی ہیں۔
ان گزارشات کے ساتھ ہم ’’جامعۃ المومنات‘‘ حیدرآباد بھارت کے اس اقدام کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اس کے منتظمین کو ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کے دیگر دینی اداروں سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس اچھی اور ضروری روایت کو آگے بڑھانے میں مثبت اور موثر کردار ادا کریں گے۔
صحابہ کرام کے اسلوب دعوت میں انسانی نفسیات کالحاظ (۳)
پروفیسر محمد اکرم ورک
قصص
مخاطب کو دعوت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے قصوں اور کہانیوں کی زبان میں بات کرنا انسانی نفسیات کا ایک عمدہ اسلوب ہے کیونکہ قصوں اور کہانیوں کے پیرائے میں اگر بات کی جائے تو مخاطب واقعات کا تسلسل جاننے کے لیے ہمہ وقت داعی کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ اس لیے تعلیم و تربیت اور دعوت و تبلیغ میں قصوں اور کہانیوں کا استعمال دور قدیم سے ہی تمام معاشروں میں ایک معروف چیز رہی ہے ،کیونکہ انسان قصہ اور کہانی کی زبان سے جو کچھ سنتا ہے اس سے اثر لیتا ہے ۔ قرآن حکیم نے بھی لوگوں کی اس فطرت کو جانتے ہوئے کہ وہ طبعاً قصص کی جانب مائل ہوتی ہے اور ان سے متاثر ہوتی ہے قصص کو بطور ذریعہ تربیت اختیار کیا ہے۔ قرآن حکیم نے انتہائی اختصار کے ساتھ قصوں کی دعوتی و تربیتی تاثیر کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِھِمْ عِبْرَۃ’‘لِّاُوْلِی الْاَلْبَابِ ( یوسف، ۱۲:۱۱۱)
’’بے شک ان قصوں میں اہل فہم کے لیے بڑی عبرت ہے‘‘
رسول اللہ ﷺکی پیروی کرتے ہوئے صحابہ کرامؓ نے بھی دعوت و تبلیغ میں سابقہ اقوام کے واقعات کو حوالے کے طور پر استعمال کر کے بہت سی باتیں لوگوں کے ذہن نشین کروائیں ۔ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے وعظ فرمایا:
’’ ایک شخص جس کے نامۂ اعمال میں توحید کے سوا اور کوئی نیکی نہ تھی مرنے کے وقت وصیت کی کہ میری لاش کو جلا کر اور چکی میں پیس کر سمندر میں ڈال دینا ۔ لوگوں نے اس کی وصیت پوری کر دی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی روح سے سوال کیا : تو نے اپنی لاش کے ساتھ ایسا کیوں کیا ۔ کہنے لگا : اے اللہ ! تیرے خوف اور ڈر سے ۔ اس جواب پر دریائے رحمت جوش میں آیا اور وہ شخص بخش دیا گیا‘‘۔ (۱)
اس تمثیلی قصے کو بیان کرنے سے عبد اللہ بن مسعود کا مقصود یہ تھا کہ لوگوں کو یہ سمجھایا جائے کہ تمام اعمالِ حسنہ کی روح دراصل خشیتِ الٰہی ہی ہے۔
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ ان کی زوجہ محترمہ فوت ہو گیءں تو محمدؓ بن کعب قرظی تعزیت کے لیے تشریف لائے اور کہا : بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جو فقیہ ،عالم ، عابد اور مجتہد تھا ۔ اسکی ایک بیوی تھی جس کے ساتھ اسے غایت درجہ محبت تھی وہ فوت ہو گئی تو اس آدمی کو بڑا دھچکا لگا اور شدت ملال کے باعث وہ گھر میں بیٹھ گیا ، دروازہ بند کر لیا اور لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا ۔اب اس کے پاس کوئی نہیںآسکتا تھا۔
ایک عورت نے جب یہ بات سنی تو اس کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ مجھے ان سے ایک حاجت ہے جس کے سلسلے میں ان سے میں نے فتویٰ لینا ہے، بالمشافہ پوچھے بغیر بات نہیں بن پڑے گی۔ لوگ تو چلے گئے لیکن وہ عورت دروازے پر جام ہو گئی اور کہا کہ مجھے اس کے سوا چارہ نہیں، کسی نے اس عالم سے کہا کہ یہاں ایک عورت ہے جو آپ سے کوئی فتویٰ لینا چاہتی ہے، وہ چاہتی ہے کہ میں بالمشافہ پوچھوں گی اور لوگ جاچکے ہیں، لیکن وہ دروازہ سے نہیں ٹلتی ۔ کہا کہ اسے اندر آنے دو۔وہ اندر آگئی اور اس نے کہا کہ میں آپ کی خدمت میں ایک مسئلہ دریافت کرنے کی غرض سے حاضر ہوئی ہوں۔ کہا ؛ وہ کیا ہے؟ عورت نے کہا : میں نے اپنی ہمسائی سے کچھ زیور ادھار لیے تھے میں انھیں پہنتی رہی اور مدتوں ادھار دیتی رہی ۔ اب اس گھر والوں نے مجھے پیغام بھیجا ہے کہ زیور انھیں لوٹا دوں تو کیا میں ان کی طرف لوٹا دوں ؟ کہا : اللہ کی قسم ضرور ۔ عورت نے کہا : میرے پاس تو اس زیور کو مدت گذر گئی پھر واپسی کیسی؟ کہا کہ اس صورت میں تو واپس لوٹانے کا اور زیادہ حق ہو گیا کہ اتنی مدت ادھار دیئے رکھا ۔ عورت گویا ہوئی کہ حضور والا ! اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے ،کیا آپ اس چیز پر افسوس کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ادھار دی ، پھر واپس لے لی ، کیا وہ اس کا آپ سے زیادہ حقدار نہیں؟ اس بات نے عالم کی آنکھیں کھول دیں اور اس کی بات سے اللہ تعالیٰ نے اسے فائدہ پہنچایا۔ (۲)
تشبیہہ و تمثیل سے وضاحت
استعارہ ، تشبیہہ اور تمثیل فصیح و بلیغ کلام کا لازمی عنصر ہیں،جو کلام کازیب و زینت اور زیور شمار کئے جاتے ہیں، ان کی وجہ سے مفہوم و معنیٰ قریب الفہم ہو جاتا ہے، نازک تشبیہہ و تمثیل اور لطیف استعارے سے کلام میں جو زور ،قوت اور وسعت پیدا ہوتی ہے وہ کسی اور ذریعہ سے ممکن نہیں ۔ تعلیم و تعلم اور دعوت و تبلیغ میں ہر مکتبہ فکر اور مختلف رجحانات و خیالات کے افراد سے واسطہ پڑتا ہے، جس میں خواندہ و نا خواندہ ، حضروی و بدوی ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں ، چنانچہ داعی کو ہر ایک کی تفہیم کے لیے اس کی ذہنی سطح کے مطابق گفتگو کرنا پڑتی ہے، جس سے وہ بات سمجھ جائے اور پیغام کی طرف متوجہ ہو ۔صحابہ کرامؓ دعوت و تبلیغ اورلوگوں کی تربیت میں اس اسلوب کو اختیار کرتے تھے ۔ امثال اور تشبیہات ان مجرد معانی کے ادراک میں بہت معاون ہوتی ہیں جن کا موجودہ صورت میں سمجھنا دشوار ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ مخفی اور معنوی امور کو محسوسات سے تشبیہہ دے کر سمجھاتے تھے۔
یہ ایسا اسلوبِ دعوت ہے جس میں مشکل ترین بات کو بھی عام فہم چیز کی مثال دے کر آسانی سے سمجھایا جا سکتا ہے۔ قرآن حکیم نے بھی اسی اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے مشکل اور پیچیدہ خیالات کو معمولی چیزوں کے ساتھ تشبیہہ دے کر نہایت عمدگی کے ساتھ سمجھایا ہے ۔ مثلاً قرآن مجید نے کلمۂ طیبہ کی مثال ایک عمدہ اور اعلیٰ نسل کے درخت سے دی ہے ،جس کی جڑیں زمین میں گہری جمی ہوئی ہیں۔ (۳) اسی طرح کلمۂ خبیثہ کی مثال بد ذات درخت سے د ی گئی ہے جو بیکار سمجھ کر زمین سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے۔ (۴)
یہ دعوت کا ایسا اسلوب ہے جس سے معمولی فہم و فراست رکھنے والا انسان بھی مشکل مسائل کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔زید بن اسلم نے عبد اللہ بن ارقمؓ سے کہا : مجھے صدقہ کے اونٹوں میں سے سواری کا ایک اونٹ بتائیے تاکہ میں امیر المؤمنین سے سواری کے لیے مانگ لوں عبد اللہ بن ارقمؓ نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا:
’’کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ ایک موٹا آدمی گرمی کے دنوں میں اپنے تہبند کے نیچے کی جگہ اور چڈّے دھو کر تمھیں دے تو کیا تم وہ پانی پی لو گے؟ ‘‘ زید بن اسلم ناراض ہو کر کہنے لگے : اللہ آپ کو معاف فرمائے ، آپ مجھ سے کتنی نامناسب بات کہہ رہے ہیں ، عبد اللہ بن ارقمؓ نے کہا : صدقہ لوگوں کا میل ہے جس سے وہ اپنے آپ کو دھوتے ہیں‘‘۔ (۵)
اس مثال سے حضرت عبد اللہ بن ارقمؓ کا مقصد مخاطب کے دل میں مالِ زکوٰۃ اور صدقات کے بارے میں نفرت پیدا کرنا تھا ،کیونکہ جو شخص مالِ زکوٰۃ اور صدقات کا حقدار نہ ہو یا اشد ضرورت کے بغیر ہی اس کو حاصل کرنے کا متمنی ہو تو ایسے شخص کے لیے یہ مال گویا گندگی اور قابل نفرت چیز ہے ۔
معد ان بن ابی طلحہ الیعمری کا بیان ہے : ایک دفعہ حضرت ابو الدرداءؓ نے مجھ سے پوچھا : تمھارا مکان کہاں ہے؟ میں نے کہا : حمص کے قریب ایک گاؤں میں ہے ۔ فرمانے لگے میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ جس جگہ اذان اور باجماعت نماز نہ ہوتی ہو وہاں شیطان داخل ہو جاتا ہے اور پھر ان کو تنبیہہ کے انداز میں ارشاد فرمایا:
علیک بالجماعۃ فانما یأکل الذئب القاصیۃ (۶)
’’ تم جماعت کے ساتھ (شہر میں ) نماز پڑھا کرو بے شک بھیڑیا اس بکری کو کھا جاتا ہے جو گلہ سے دور رہتی ہے‘‘
ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’ یا ایھا الناس! اتقوا ھذا الشرک فانہ اخفی من دبیب النمل‘‘ (۷)
’’ اے لوگو ! شرک سے بچو ، بے شک یہ چیونٹی کی چال سے زیادہ غیر محسوس ہے‘‘۔
ایک دفعہ حضرت سلمان فارسیؓ نے حضرت ابو درداءؓ کو خط لکھا تو اس میں علم اور عالم کی عظمت کو تمثیلی اسلوب کے ذریعہ بڑی خوبصورتی سے بیان فرمایا، آپ کے تحریر کردہ خط کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
’’ علم ایک چشمہ ہے جس پر لوگ آتے ہیں اور اس سے نالیاں نکالتے ہیں اور اللہٰ اس سے بہتوں کو فائدہ پہنچاتا ہے لیکن اگر حکمت خاموش ہو تو وہ جسم بے روح ہے ، اگر علم لٹایا نہ جائے تو وہ مدفون خزانہ ہے ۔ عالم کی مثال اس شخص کی سی ہے جو تاریک راستے میں چراغ دکھاتا ہے تاکہ لوگ اس سے روشنی حاصل کریں اور اس کو دعا دیں‘‘ (۸)
سوال و جواب/ باہمی گفتگو
مخاطب کو اپنی دعوت کی طرف متوجہ کرنے اور اس کو ذہن نشین کرانے کے لیے ایک مؤثر ذریعہ اور اسلوب باہمی گفتگو اور بات چیت کا بھی ہے، مکالمانہ انداز اور سوال و جواب کا اسلوب مخاطب کے ذہن و فکر کو متوجہ کرنے میں کافی مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ واعظانہ اسلوبِ دعوت کے مقابلہ میں یہ اسلوب اثر انگیزی میں اس سے کہیں بڑھ کر ہے ،کیونکہ اس صورت میں متکلم اور سامع کے درمیان براہ راست گفتگو ہوتی ہے اور حقائق کو ہلکے پھلکے انداز میں مخاطب کے ذہن میں بٹھا دیا جاتا ہے ۔ فروغِ دعوت کے لیے سوال و جواب اور باہمی گفتگو کا اسلوب بہت مؤثر ہے بالخصوص اگر وہ سوال اور بحث کسی پوشیدہ حقیقت کی نقاب کشائی کے لیے ہو تو اس سے نہ صرف سائل بلکہ دوسرے لوگ بھی گمراہی سے محفوظ ہو جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے مثبت اور تعمیری سوالات کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی اور ان کو پورے علمی اور تحقیقی انداز میں جوابات مرحمت فرمائے۔
عروہ بن زبیر روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے عرض کیا : کیا آپؓ نے غور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’ بے شک صفا اور مروہ، اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے‘‘۔ لہٰذا آدمی پر کچھ نہیں ہے جبکہ وہ دونو ں کا طواف نہ کرے ۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا :ہرگز نہیں ،اگر بات یہی ہوتی جو تم کہہ رہے ہو تو حکم یوں ہوتا۔ ’’ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ لّاَ یطَّوَّفَ بِھِمَا‘‘ یہ آیت انصار کے حق میں نازل ہوئی ہے جو مناۃ کے لیے حج کرتے تھے اور مناۃ نامی بت قدید کے بالمقابل تھا اور وہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے کو برا سمجھتے تھے، جب اسلام آیا تو انھوں نے رسول اللہ ﷺؐسے اس بارے میں پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا: بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کا طواف کرے‘‘۔(۸)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: اے ابو عبدالرحمٰنؓ ! میں نے ایک آدمی کو قرض دیا ہے اور اس سے شرط کی ہے کہ اس سے بہتر چیز لوں گا۔ عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا: یہ تو سو دہے ، کہا : اے ابو عبدالرحمٰنؓ ! آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟ عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا : قرض تین طرح کا ہے ، ایک وہ قرض جو رضائے الٰہی کے لیے ہے، دوسرا وہ کہ دوست کی مدد کی جائے تو یہ دوست کی مدد ہے ، تیسرا وہ ہے کہ پاک مال کے بدلے ناپاک مال لے اور یہ سود ہے ۔ کہا اے ابو عبدالرحمٰنؓ ! آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا : میرے خیال میں دستاویز کو پھاڑ دو ۔ اگر وہ تمھارے جیسی چیز دے تو قبول کر لینا ۔ اگر گھٹا دے تب بھی لے لینا کہ تمھیں اجر ملے گا ۔ اگر تمھاری چیز سے بہتر اپنی خوشی سے دے تو یہ اس نے تمھارا شکریہ ادا کیا اور تمھیں مہلت دینے کا اجر ملے گا۔ (۹)
ابن عباسؓ کی خدمت میں ایک شخص خراسان سے آیا اور عرض کی کہ ہمارا تعلق سرد علاقہ سے ہے۔ اور پھر اس نے شراب کی چند اقسام کا ذکر کیا تو ابن عباسؓ نے فرمایا:
اجتنب ما أسکر من زبیب أو تمر أو ما سوی ذالک ، قال : ما تقول فی نبیذ الجر ؟ قال : نھی رسول اللہ ﷺ عن نبیذ الجر (۱۰)
’’ ہر نشہ آور چیز مثلاً منقہ اور کھجور وغیرہ سے بچو۔ آپؓ مشکیزے کی نبیذ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ تو آپؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺنے (روغنی) مشکیزے میں نبیذ بنانے سے منع کیا ہے‘‘۔
علقمہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے وعظ کرتے ہوئے فرمایا:
’’لعن اللہ الواشمات ، والمتوشمات ، والمتنمصات المتفلحات للحسنِ المغیّرات خلق اللہ‘‘
ام یعقوب نامی ایک عورت کو پتہ چلا تو آپؓ کے پاس آئی اور کہا: مجھے معلوم ہوا کہ آپ نے یہ بات کہی ہے ۔آپؓ نے فرمایا : میں اس پر کیوں لعنت نہ کروں جس پر رسول اللہ ﷺنے کتاب اللہ میں لعنت فرمائی ہے۔ اس نے کہا: میں نے پورا قرآن پڑھا ہے میں نے یہ چیز اس میں نہیں پائی۔ آپؓ نے فرمایا: کیا تم نے قرآن میں یہ پڑھا ہے:
وَمَآ اٰتَا کُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھَاکُمْ عَنْہُ فَا نْتَھُوْا (الحشر،۵۹:۷)
اللہ کے رسول ﷺجو تمھیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔
اس نے کہا : ہا ں ، آپؓ نے فرمایا : بے شک رسول اللہ ﷺنے اس سے منع فرمایا ہے اس نے کہا : میرا گمان ہے کہ آپ کے اہل خانہ ایسا کرتے ہیں ۔آپؓ نے فرمایا : جاؤ اور دیکھو ، وہ عورت گئی اور واپس آکر کہا : وہاں میں نے کچھ نہیں دیکھا ، آپ نے فرمایا : اگر میری بیوی ایسا کرتی تو میں اسے اپنے پاس نہ رہنے دیتا۔ (۱۱)
ابو الطفیل کا بیان ہے کہ میں نے ابن عباسؓ سے کہا : آپ کی قوم کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے رمل کیا ہے اور یہ سنت ہے ۔بولے : انھوں نے سچ کہا اور جھوٹ کہا ، ابو الطفیل نے عرض کیا : انھوں نے سچ کہا اور جھوٹ بھی ، یہ کیسے ؟ ابن عباسؓ نے فرمایا:
قدر مل رسول اللہ ﷺبالبیت ولیس بسنۃ ، قدر مل رسول اللہ ﷺ واصحابہ والمشرکون علی جبل قعیقعان ، فبلغہ انھم یتحدّثون أن بھم ھذلاً ، فأمر بھم أن یرملو ا لیر یھم أن بھم قوۃ (۱۲)
رسول اللہ ﷺنے بیت اللہ کا رمل فرمایا جبکہ یہ سنت نہیں ہے آپﷺ اور آپ ﷺکے اصحاب نے بھی رمل کیا جبکہ مشرک قعیقعان پر تھے ،پس رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہوا کہ وہ باتیں کر رہے ہیں کہ مسلمان کمزور ہو چکے ہیں، پس رسول اللہ ﷺنے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ رمل کریں تاکہ ان کو دکھا یا جا سکے کہ مسلمان طاقتور ہیں۔
سعید بن جبیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمرؓ سے لعان کرنے والے میاں بیوی کے بارے میں سوال کیا کہ کیا ان دونوں کے درمیان تفریق کر دی جائے گی ؟ تو انھوں نے فرمایا : ہاں پھر لعان کی آیات کے شانِ نزول کو بیان فرمایا اور مسئلے کی تمام جزئیات کا تفصیلی جواب دیا۔(۱۳)
غلطی کرنے والے سے تبادلۂ خیال کی کوشش کا یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ اس طرح اس کی عقل پر سے وہ پردہ ہٹ جاتا ہے جو حق کی قبولیت میں رکاوٹ کا باعث ہوتا ہے ۔ چنانچہ آدمی سیدھی راہ قبول کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔
مصر سے ایک آدمی حج کی نیت سے مکہ آیا ۔اس نے بیت اللہ میں ایک جگہ لوگوں کا مجمع دیکھا تو پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟لوگوں نے بتایا یہ قریش کے لوگ ہیں۔ اس نے کہا : ان میں سب سے بزرگ کون ہے؟ لوگوں نے کہا : عبد اللہ بن عمرؓ۔اس نے کہا ؛ اے ابن عمرؓ میں تمھیں بیت اللہ کی عزت کی قسم دے کر پوچھتا ہوں ، کیاتمھیں معلوم ہے کہ عثمانؓ بن عفان یوم احد میں بھاگ گئے تھے؟ ابن عمر نے فرمایا : ہاں ، اس نے کہا : کیا آپؓ کو معلوم ہے کہ وہ غزوہ بدر کے دن بھی غائب تھے؟ آپؓ نے فرمایا : ہاں ، اس نے کہا : آپ کو پتہ ہے کہ وہ بیعت رضوان میں بھی غائب تھے؟ آپؓ نے فرمایا : ہاں ، تو مصری نے کہا : اللہ اکبر۔
ابن عمرؓ نے فرمایا :ذرا ادھر آؤ تاکہ میں ان چیزوں کی حقیقت بیان کر دوں جن کے بارے میں تو نے سوال کیا ہے ، جہاں تک غزوہ احد میں حضرت عثمانؓ کے فرار ہونے کا تعلق ہے ،میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ وہ لغزش معاف کر چکا ہے، اور جہاں تک غزوہ بدر سے غائب ہونے والی بات ہے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی زوجیت میں رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی تھیں اور وہ اس وقت بیمار تھیں ۔اس وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا تھا کہ ان کے لیے بھی بدر میں حاضر ہونے والے آدمی جتنا حصہ اور اجر ہے ۔ بیعت رضوان میں آپؓ اس وجہ سے شامل نہ تھے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے ان کو اہل مکہ کی طرف قاصد بنا کر بھیجا تھا اور بیعت رضوان ان کے جانے کے بعد ہوئی تاہم رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ پر دوسرا ہاتھ رکھ کر ان کی طرف سے بھی بیعت کی تھی اور فرمایا تھا : یہ عثمان کا ہاتھ ہے پھر ابن عمرؓ نے اس کو مطمئن کرنے کے بعد رخصت فرمایا۔(۱۴)
اس اسلوبِ دعوت کے اہم فوائد یہ ہیں:
- مکالمانہ انداز کی اثر انگیزی مسلم ہے اور اس پیرائے میں جو بات بھی کی جائے گی وہ ضرور اثر کرے گی اور تادیر سامع کے دل و دماغ پر اس کے اثرات قائم رہیں گے۔
- سوال و جواب کے اسلوب میں گفتگو کا سلسلہ عام طور پر اس وقت ختم ہوتا ہے جب حقائق مخاطب پر پوری طرح واضح ہو جاتے ہیں اور اس بات کا امکان کم ہی ہوتا ہے کہ گفتگو طرفین کے اطمینان کے بغیر ختم ہو جائے، اس لیے عام طور پر مکالمے کے اختتام پر مخاطب پر حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہوتی ہے۔
- اس اسلوب میں داعی اور مخاطب دونوں کی توجہ اور انہماک پورے عروج پر ہوتا ہے، اس لیے اس کی اثر انگیزی تقریر و تحریر کے مقابلہ میں کہیں بڑھ کر ہے ۔
- مکالمانہ انداز میں داعی کے لیے موقع ہوتا ہے کہ وہ غیر محسوس انداز میں اپنی دعوت کے دائرہ کو پھیلا کر مخاطب کو متاثر کرے۔
حوالہ جات
(۱) المسند، مسند عبداللہؓ بن مسعود، ح: ۳۷۷۶، ۱/۶۵۸
(۲) الموطأ، کتاب الجنائز، باب جامع الحسبۃ فی المصیبۃ، ح:۲۷۳، ص: ۱۶۷ (2) ابراہیم، ۱۴:۲۴
(۳) ابراہیم ۱۴:۲۶
(۴) الموطا، کتاب الصدقۃ، باب ما یکرہ من الصدقۃ، ح: ۹۵۳، ص: ۶۱۳
(۵) المسند، حدیث ابی الدرداءءؓ، ح: ۲۶۹۶۸، ۷/۵۹۹
(۶) المسند، حدیث ابی موسیٰ الاشعریؓ، ح: ۱۹۱۰۹، ۵/۵۴۹
(۷) سنن الدارمی، المقدمۃ، باب البلاغ رسول اللہﷺ وتعلیم السنن، ح: ۵۶۳، ۱/۱۴۵۔۱۴۶
(۸) الموطأ، کتاب الحج، باب جامع السعی، ح: ۴۰۲، ص: ۵۱۔صحیح البخاری، کتاب التفسیر، باب قولہ تعالی: ان الصفا والمروۃ من شعائراللّٰہ، ح: ۴۴۹۵، ص: ۷۶۴
(۹) الموطأ، کتاب البیوع، باب مالایجوز من السلف، ح: ۷۷۴، ص: ۴۲۰
(۱۰) المسند، مسند عبداللہ بن عباسؓ، ح: ۲۰۱۰، ۱/ ۳۷۷
(۱۱) المسند، مسند عبداللہؓ بن مسعود، ح: ۴۱۱۸،۳۹۳۵،۱/۷۱۵
(۱۲) المسند، مسند عبداللہ بن عباسؓ، ح: ۲۰۳۰، ۱/۳۸۰
(۱۳) المسند، مسند عبداللہ بن عمرؓ، ح: ۴۹۸۹، ۲/۱۳۲
(۱۴) المسند، مسند عبداللہ بن عمرؓ، ح: ۵۷۳۷، ۲/۲۳۷
عدالتی مشاہدات اور تاثرات
مولانا قاضی بشیر احمد
راقم حکومت آزاد کشمیر کے شعبہ قضا میں قاضی کے منصب پر فرائض انجام دیتا رہا ہے اور تیس سال کی مدت ملازمت مکمل ہونے پر مورخہ ۱۶/۸/۲۰۰۲ء کو ضلع قاضی کی حیثیت سے ریٹا ئر ہوا ہے۔ راقم کے فرائض کا دائرہ کار فوجداری قوانین پر عمل درآمد تک محد ود رہا ۔ بندہ نے دوران ملازمت بے شمار نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ ان مشاہدات و تاثرات کو اگر پورے طور پر قلم بند کیا جائے تو ایک مستقل کتا ب بن جائے گی لیکن وقت کی قلت کے باعث سردست مندرجہ ذیل سطور پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔
عدل وانصاف کو قائم رکھنا جتنا اہم ہے، اتنا ہی مشکل بھی ہے۔ عدل درحقیقت اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اگر انصاف کاپلڑا کسی ایک جانب جھک جائے تو کائنات کاسارا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ یہ نظام تبھی درست ہوسکتا ہے کہ عدل وانصاف کاپلڑا برابر رہے۔ عدل وانصاف کو قائم رکھنے کی ذمہ داری ہر شخص پر اپنے اپنے اختیا ر اور حدود کے مطابق عائد ہوتی ہے تاہم ان افراد پر یہ ذمہ داری زیادہ عاید ہوتی ہے جو جج ْ ْْْْْْْْْْْیا قاضی کی حیثیت سے کام کرنے پر مامور ہیں۔ ان کے اختیارات در حقیقت لو گو ں کے حقوق ہوتے ہیں اور یہ افراد ان حقو ق کے امین ہوتے ہیں لہٰذا حق کو حقدار تک پہنچانا جج یا قاضی کابنیا دی فریضہ ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان اللہ یأمرکم ان تؤدوا الأمانات الی أھلہا (النساء ۵۸) ’’بے شک اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ اما نتو ں کو ان کے حق داروں کے سپرد کر دو‘‘ اس ارشاد سے یہ معلو م ہوا کہ اگر حق کو حقدار تک نہ پہنچایا گیا تو یہ خیا نت ہوگی ۔
موجودہ نظام عدالت کچھ ایسا ہے کہ انصاف ملنے تک ایک صبر آزما اور طویل زمانہ لگ جاتا ہے اور اتنا مہنگا ہے کہ لوگ اپنی جائیداد کو فروخت کرکے مقدمہ لڑنے پر مجبو ر ہوتے ہیں حتیٰ کہ بعض لوگ عدا لتو ں سے مایوس ہوکر ان کی طرف رخ کرنے کے بجا ئے ظلم سہہ لینے کو تر جیح دیتے ہیں یا پھر بوجھل دل سے راضی نامہ پر گزارا کرتے ہیں ۔ ایسا کیوں ہے؟اس کی یوں توبہت سی وجوہ ہیں لیکن چنداہم نوعیت کی وجوہ ذیل میں بیان کی جا رہی ہیں۔
۱۔پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے جس کا تقاضا یہ تھا کہ پہلے دن سے ہی ملک کے وسائل وذرائع استعمال کرکے ایسے افراد تیار کیے جاتے جو حکومتی، انتظامی اور عدالتی امور میں درج ذیل اصولوں کی پاس داری کی روایت قائم کرتے:
(الف) پاکستان میں حاکمیت خدا کی ہے۔ (ب)ریاست کا قانون قرآن وسنت ہے۔ (ج) جوپچھلے قوانین شریعت سے متصادم ہیں، وہ کالعد م قرار دیے جائیں۔ (د) ریاست اپنے اختیارات کے استعمال میں اسلامی حدود سے تجاوز کرنے کی مجاز نہ ہوگی ۔
مگر نصف صدی گزر نے کے باوجود عملاًایسے افراد تیار نہیں کیے گئے۔ہمارے ملک کی قانون کی درسگاہوں اور کالجوں سے جو طلبہ فارغ ہوکر نکلتے ہیں، وہ اسلامی قوانین سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔ ان کی ذہنیت بھی غیر اسلامی افکار کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہوتی ہے۔ ان کے اندر اخلاقی صفات بھی ویسی ہی پید اہوجاتی ہیں جو مغربی قوانین کے اجرا کے لیے تو موزوں ترین مگر اسلامی قانون کو نافذ کرنے کے لیے غیر موزوں ہوتی ہیں۔ الا ماشاء اللہ
اس خامی کو دور کر نے کے لیے ضروری ہے کہ کالجوں میں داخلے کے لیے عربی زبان سے واقفیت کو لازم قرار دیا جائے۔ اگرچہ اسلامی قوانین سے متعلق کافی ذخیرہ اردو میں منتقل ہوچکا ہے مگر یہ ثانوی نوعیت کا علم ہے۔ عربی زبان کی ضرورت اپنی جگہ پھربھی باقی ہے۔ قانون کے طالب علم کو اصول قانون (Jurisprudence) کے ساتھ ساتھ اصول فقہ، اسلامی فقہ کی تاریخ، بڑے فقہی مذاہب کا مطالعہ اور قرآن و حدیث کا علم متعلقہ ماہر ین علم وفن کی نگرانی میں ضروری ہے تاکہ علمی اعتبار سے موزوں ترین افراد تیار ہوسکیں۔ اس وقت جن افراد کے ہاتھوں میں انصاف کا قلم دان ہے، وہ انہی لا کالجوں کے تعلیم یافتہ ہیں جن میں اکثر وبیشتر کو قرآن حکیم دیکھ کر بھی صحیح پڑھنا نہیں آتا اور نہ ان کو آخرت کے محاسبے کی فکر ہے۔ سائل عدالت کے باہر انصاف ملنے کے انتظار میں ہوتا ہے اور منصف اس کی حالت زار سے بے خبر چائے کی میز پر محو گفتگو ہوتا ہے۔
اسلامی نقطہ نظرسے لا کالج چالاک وکیل، نفس پرست مجسٹر یٹ اور بدکردار جج تیار کرنے کی فیکٹر ی نہیں ہے بلکہ ان کالجوں اور یونیورسٹیوں کا اصل کا م یہ ہے کہ وہ ایسے افراد تیار کریں جو سیرت وکردار کے لحاظ سے بلند ترین لوگ ہوں اور جن کی راست بازی اور عدل وانصاف پر مکمل اعتما د کیا جاسکے مگر اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جج کے منصب پر فائز کرنے کے لیے اس کی پر ہیزگاری اور خداترسی کو نہیں دیکھا جاتا جبکہ شرعاً انصاف فراہم کر نے والے کی سیرت وکردار کو بنیادی معیار کی حیثیت حاصل ہے۔ خلاصہ یہ کہ انصاف کی کرسی پر ایسے افراد کو بٹھایا جانا چاہیے جن کے اندر علمی کمال کے علاوہ عملی کمال بھی نمایاں طور پر موجود ہو۔ جبکہ اس وقت یونیورسٹیوں سے فارغ ہو کر اس منصب پر جو لوگ آتے ہیں، ان کی حالت دینی لحاظ سے قابل رحم ہوتی ہے ۔
۲۔ منصب عد ا لت کے لیے خصو صاً چھا ن پھٹک کر آد می کا ا نتخا ب کیا جا ئے۔ ا س مقصد کے لیے اگر چہ اس وقت ’’پبلک سر و س کمیشن ‘‘ قا ئم ہے مگر وہ کا فی نہیں ہے ۔ اس لیے کہ جیسا کہ ا و پر بیا ن کیا گیا ہے کہ دو کما لا ت کا ہو نا ضر و ر ی ہے یعنی ا یک علمی کما ل اور دوسرا عملی کما ل، لیکن پبلک سر و س کمیشن کے جو ممبر ہیں وہ خو د ا پنی جگہ محل نظر ہیں ۔ اس لیے خصو صاً اس منصب کے ا نتخا ب کے لیے ا یک الگ جو ڈ یشل کمیشن ہو نا چا ہیے جس کے ممبر و ہی لو گ ہو ں جو خو د اچھی شہرت کے حا مل منصف ہو ں یا منصف ر ہ چکے ہو ں۔ و ہ اس منصب کے ا مید و ا ر سے وہی سو ا لا ت پو چھیں جو عدل و ا نصا ف سے متعلق ہو ں جبکہ مو جو دہ پبلک سر وس کمیشن کے ممبر ا ن میں یہ صفا ت مکمل نہیں ہیں اور نہ ہی اس منصب کے متعلقہ سو الا ت پو چھنے کی حد تک محد و د ہیں۔ اس مر حلہ پر میں یہ بھی کہنا منا سب سمجھتا ہو ں کہ خصو صاً ’’منصف ‘‘ کے منصب پر محض میر ٹ اور سیر ت کو بنیا د بنا یا جا ئے جبکہ مو جو دہ دور میں ہر ضلع کا ا لگ کو ٹہ مقر ر ہے لیکن یہ طر ز عمل ا نصا ف کے حصو ل میں ر کا و ٹ ہے اس لیے کہ کو ٹہ کی پا بند ی کی و جہ سے ممکن ہے کہ مو ز و ں ترین آ د می اس منصب پر آ نے سے رہ جا ئے اور اس سے کم درجے کا آ د می اس منصب پر فائز ہو جا ئے ۔ البتہ اگر دونو ں آدمی بر ا بر ہو ں تو کو ٹہ کو تر جیح دی جا سکتی ہے۔ اس چھا ن پھٹک کے بعد اگر لو گ عد ا لت کی کرسی پر بیٹھیں گے تو اس سے حصو ل انصا ف کا سفر بہت سے ا مو ر میں مختصر ہو جا ئے گا ا ور حقدار کو حق ملنے کی قوی امید پید ا ہو گی۔
۳۔ کسی مقد مہ کے یکسو ہو نے تک نظا م تعمیلا ت کو بہت ا ہمیت حا صل ہے جبکہ مو جو دہ تعمیلا ت کا نظا م بہت ہی ناقص ہے جس کی ا صلا ح بہت ضر و ر ی ہے ۔ہر وقت تعمیلا ت نہ ہو نے کی و جہ سے مقد ما ت کے فیصلہ جات میں غیر معمولی تا خیر ہو جا تی ہے خصو صاً اس وقت فو جد ا ر ی میں تعمیلا ت کا نظا م صحیح نہیں ہے۔ یہ کا م پو لیس کے سپرد ہے جو ہر ضلع میں ایس پی کے ماتحت ہو تی ہے۔مطلو بہ آدمی کو کئی با ر سمن بلکہ وا رنٹ کے ذریعہ طلب کیا جا تا ہے اس کے باوجود بروقت تعمیلا ت نہیں ہو پا تیں۔ ایس پی کا اس با ر ے میں عا م طو ر پر یہ عذر ہو تا ہے کہ پو لیس کی نفر ی کم ہے اور کا م اس نسبت سے بہت زیا دہ ہے ۔پو لیس کے ذمہ دیگر بہت سے ا نتظا می نو عیت کے کا م ہو تے ہیں اس لیے تعمیلا ت کے لیے بر و قت پو لیس کے ا فرا د مہیا نہیں ہوتے۔ ا س صورت حال کے پیش نظر تعمیلات کی اصلاح کے لیے یو ں تومتعدد تجاویززیر بحث رہی ہیں جن میں سے میرے نزدیک ایک تجویز موزوں ترین ہے جسکاذکر اس مرحلہ پر کیا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ تعمیلات کا شعبہ ہی الگ ہو جو انتظامی نوعیت کے فرائض انجام دینے سے الگ تھلگ ہو ۔یہ شعبہ براہ راست ہائی کورٹ کے ماتحت ہو اور ماتحت عدالتوں میں تعمیل کرنے والے کانسٹیبل متعلقہ عدالت کے ماتحت ہوں جن کی ترقی، تنزلی ،تبدیلی ،معطلی اور تنخواہ جیسے امور کا اختیار متعلقہ عدالت کو حاصل ہو اور متعلقہ عدالت کی پیروکار سرکاراس کی نگران ہو۔ اب تعمیلات کے علاوہ ان افراد کا کوئی اور کام نہ ہو گااس لیے تعمیلات کی وجہ سے مقدمہ کو یکسو نہ کرنے کی شکایت ختم ہوجائے گی ۔
اس تجویز پر اتفاق بھی ہوا تھا مگر حکومت نے مالی پریشانی کاذکر کرتے ہوئے یہ کام فردا پرٹال دیا۔
۴۔ نظا م و کا لت کی ا ہمیت: نظر ی حیثیت سے نظا م و کا لت کی خو بی سے انکا ر نہیں ہے اس لیے کہ و کیل کا کام یہ ہے کہ وہ عد ا لت کو قا نو ن سمجھنے اور زیر سما عت مقد مہ کے حا لا ت پر منطبق کر نے میں مد د دے۔ا صو لاً یہ ضر و رت ا پنی جگہ مسلّم ہے اور یہ بھی درست ہے کہ ایک مقد مہ میں دو ما ہر ین قا نو ن کی رائیں مختلف ہو سکتی ہیں ۔یہ ہو سکتا ہے کہ ایک کی را ئے میں ا یک فر یق کا مقد مہ مضبو ط ہو تو دوسرے کی را ئے میں دوسرے فر یق کا اور عد ا لت کے لیے صحیح نتیجہ پر پہنچنے میں دونو ں طرف کے دلائل سے مطلع ہو نا یقیناًمفید ہو تا ہے لیکن سو ا ل یہ ہے کہ اس نظر یہ کو عملی جا مہ پہنا نے کی جو صو رت مو جو د ہ طر یقہ وکا لت میں ا ختیا ر کی گئی ہے، کیا فی ا لو ا قع اس سے دونو ں فو ا ئد حا صل ہو تے ہیں؟ اس وقت عملاً صو ر تحا ل یہ ہے کہ و کیل اپنی قا نو نی مہا ر ت کو لے کر قا نو ن کی دوکا ن کھو ل کر گا ہک کے انتظا ر میں بیٹھ جا تا ہے۔ مقدمہ کا جو فر یق اس کو د ما غ کا کر ایہ زیا دہ ادا کرے، اس کا د ما غ اس کے حق میں قا نو نی نکا ت سو چنا شر و ع کر د یتا ہے۔ اس کو اس سے کو ئی غر ض نہیں ہو تی کہ میرا مؤ کل حق پر ہے یا با طل پر۔ وہ صر ف یہ دیکھتا ہے کہ اس نے مجھے فیس دی ہے اور میرا کام اس کی حما یت کرنا ہے۔ اس لیے وہ مقدمہ کی نو ک پلک سنوارکر اس کو قا نو ن کے مطا بق ڈھا لتا ہے، کمزور پہلو ؤں کوچھپا تا ہے اور مو ا فق پہلوؤ ں کو ا بھارتا ہے ، روداد مقد مہ اور شہا د تو ں میں سے چن چن کر صرف وہ چیزیں نکا لتا ہے جو اس کے مؤ کل کی تا ئید میں ہوں۔ گو اہو ں کو توڑنے کی کوشش کر تا ہے تاکہ مقد مہ کے صحیح و ا قعا ت جو اسکے مؤ کل کے خلا ف ہو ں، سا منے نہ آ سکیں یا کم سے کم ہو جا ئیں۔ اس طر یقہ سے عملاً وکیل کا کردار یہ رہ گیا ہے کہ وہ جج کو گمر ا ہ کرنے کی کو شش کرتا ہے۔ اب خواہ حقیقی مجرم چھو ٹ جائے یا کو ئی بے گنا ہ پھنس جائے، وکیل کو اس سے کوئی سروکا ر نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس پیشہِ وکالت نے ہما رے نظا مِ عدالت کو سخت نقصا ن پہنچایا ہے اور اس کا نقصا ن ہما ری پو ری اجتماعی زندگی میں پھیل گیا ہے اور ہما ری سیا ست بھی اس کی وجہ سے گند ی ہو کر رہ گئی ہے۔ ان حا لا ت میں مو جو دہ نظا م وکا لت کی اصلا ح کی سخت تر ین ضر و رت ہے۔ بالفر ض اگر اس کی اصلا ح ممکن نہ ہو تو اس کو بتد ریج ختم کر دینا ہی حصو ل انصا ف کے لیے ضر و ری ہے۔
۵۔ قا نو ن شہا دت ۱۸۷۲ء پر ایک نظر : کسی مقد مہ کو یکسو کر نے کے لیے جن عنا صر کی ضرورت ہوتی ہے، ان میں ایک اہم عنصر شہا دت کا بھی ہے ۔ اس وقت عد ا لتو ں کے اند ر قا نو نِ شہادت وہی ہے جو ۱۸۷۲ء کا مرتب کردہ ہے۔ اسلا می نقطہ نگاہ سے اس کی بہت سی دفعات میں خا میا ں ہیں جن میں سے کچھ کی نشاندہی د رج ذیل سطو ر میں کی جاتی ہے ۔
دفعہ نمبر ۳ میں ’’Evidence‘‘ کی تعریف مانع نہیں۔ اس تعریف کی رو سے تمام دستاویزات کو بھی شہادت کہہ دیا جاتا ہے اور متعلقہ قرائن کو بھی۔ فقہی اعتبار سے یہ تعریف ’’ثبوت‘‘ کی تو ہو سکتی ہے لیکن ’’شہادت‘‘ کسی انسان کے بیان ہی کو کہا جا سکتا ہے، خواہ وہ زبانی ہو یا تحریری۔
"Proved" کی تعریف میں:
"After considering the matter before it"
کے بعد مندرجہ ذیل الفاظ کا اضافہ ہونا چاہیے:
"and observing the requirements of sharia"
دفعہ نمبر ۲۴ میں ہے کہ اگر اعتراف جر م کی تر غیب دی گئی ہو تو ایسا اعترا ف بھی غیرمؤ ثر قرار دیا گیا ہے حا لانکہ محض تر غیب سے اعتراف کا لعد م نہیں ہو نا چاہیے۔ چنانچہ حد یثِ لعا ن میں ’’ اِنَّ عَذَا بَ الدّنْیَا اَعْظَمْ مِنْ عَذَابِ الْاَخِرَہَ ‘‘ کہنا ایک طرح کی ترغیب بھی ہے لہذا اس دفعہ اور دفعہ نمبر ۲۸ سے "Inducement" اور "Promise" کا لفظ نکا ل دینا چا ہیے ۔
دفعہ نمبر۲۹ کی رو سے دھوکے سے حاصل کیا ہوا یا نشے کی حالت میں کیا ہوا اقرار غیر مؤثر نہیں ہوتا۔ شرعاً نشے کی حالت میں کیا گیا اقرار غیر مؤثرہے اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت ماعز ؓ کے بارے میں یہ اطمینان فرمایا کہ انھوں نے شراب تو نہیں پی رکھی ؟البتہ دھوکے سے کیے ہوئے اقرار کا معاملہ قابل غور ہے اور رجحان اس طرف ہوتا ہے کہ ایسا اقرار بھی جرم کاکافی ثبوت نہ ہونا چاہیے ۔
باب نہم دفعہ نمبر ۱۳۸ کی ترتیب شرعاً یوں ہونی چاہیے :
(۱) بیان گواہ (Examination in chief)
(۲) سوالات قاضی(Court question)
(۳) جرح فریق مخالف (Cross examination)
(۴) بیا ن مکر ر منجا نب مشہودلہ(Re-examination)
اس تر تیب کی وجہ یہ ہے کہ مو جو دہ نظا م میں تما م تر سو ا لا ت فر یقین کی طر ف سے ہو تے ہیں۔یہ سو ا لا ت جانبدارانہ ہو تے ہیں اور ہر فر یق اپنے مطلب کی با ت ر یکا ر ڈ پر لا نے کی کو شش کر تا ہے۔ غیر جا نبد ا را نہ سو ا لا ت جس سے حقیقت حا ل و ا ضح ہو ، فر یقین میں سے کوئی نہیں کر تا اور عدالتی سو ا لا ت شا ذ و نا در ہو تے ہیں جس کی وجہ سے بسا ا وقات مقد مہ کے انتہا ئی اہم امو ر پردۂ خفا میں رہ جا تے ہیں ۔ جو ترتیب ا و پر بیا ن کی گئی ہے، اس کے مطا بق پہلے عدا لتی سو ا لا ت کے ذریعے حقیقت حال غیر جا نبد ا ر انہ طو ر پر و ا ضح ہو سکے گی جس کے بعدا گر فر یقین میں سے کو ئی کچھ سوالات کرنا چاہے تو کر سکے گا۔ لیکن گو ا ہ کو گمر اہ کر نے یا عد الت پر غلط ا ثر ڈا لنے کا انسد ا د ہو سکے گا ۔
۶۔ مر و جہ قا نو ن شہا دت مند ر جہ ذیل معا ملا ت میں خا مو ش ہے جبکہ ان ابو ا ب کا قا نو نِ شہا دت میں ہو نا بہت ضر و ری ہے:
(۱) مد عیٰ علیہ کا حلف ، اس کا طریقہ کا ر اور اس کے اثر ا ت
(۲) نکول یعنی مد عیٰ علیہ اگر حلف سے انکا ر کر دے تو مقد مے پر اس کے اثر ا ت
(۳) شہا دت سے ر جو ع اور اس کے اثر ا ت
(۴) اقرار سے رجوع اور اس کے اثرات
اسلا می قا نو نِ شہا دت مرو جہ قا نو نِ شہا دت سے کا فی مختلف ہے لہٰذا ضر ورت اس با ت کی ہے کہ مروجہ قا نو ن شہا دت کو سا منے رکھتے ہو ئے اسلا می قا نو ن شہا دت کو الگ سے مر تب کیا جائے۔
۷۔ مو جودہ نظا م عدالت میں اپیل کے مرحلہ پر اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ غیرمعمولی تاخیر نہ ہو۔ عام طورپر یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ اپیل متعلقہ عدالت میں دائر ہوجاتی ہے جو ایک طویل مدت کے بعداس لیے خارج کی جاتی ہے کہ یہ اپیل قابل رفتار نہیں ہے۔ اس خامی کا ازالہ اس طرح کیا جاسکتا ہے جیسا کہ سعودی عرب اور دیگر بعض اسلامی ریاستوں میں ہے کہ ایک ’’مجلس تمییز‘‘تشکیل دی جائے اور متعلقہ عدالت میں اپیل دائر ہونے سے قبل اپیل اس مجلس کے سامنے پیش کی جائے۔ اگر یہ مجلس اس نتیجے پر پہنچے کہ اپیل دائر کر نے کے قابل ہے تو اس کے بعد متعلقہ عدالت میں سماعت کے لیے دائر کی جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر اپیل دائر ہونے کے قابل نہ ہوگی تو وہیں سے واپس کردی جائے گی اور مزید وقت ضائع نہیں کرنا پڑے گا ۔
عدالتی نظام میں اگر ان خامیوں کا ازالہ ہوجائے تو ان شاء اللہ عد ل وانصاف کے تقاضے بطریق احسن پایہ تکمیل کو پہنچیں گے۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عنایت فرمائیں، آمین۔
بھارت کی مفتی خواتین
جان لین کیسٹر
حیدر آباد، انڈیا۔ گزشتہ ماہ یہاں ایک خاتون نے ایک پریشان کن معاملے پر اسلامی قانون سے راہ نمائی کے لیے مذہبی سکالروں کے ایک پینل سے رجوع کیا۔ بیوٹی ایڈز مثلاً رنگ دار کنٹیکٹ لینز، کاسمیٹکس، نیل پالش، پاؤں پر موم کا لیپ کرنے اور چہرے کے بالوں کو کم کرنے کے لیے کریموں کے استعمال کے بارے میں پیغمبر اسلام کی راہ نمائی کیا ہے؟ سکالرز نے اپنے مذہبی مآخذ سے رجوع کیا اور کچھ دن کے بعد سائلہ کو جواب دیا: بلش اور آئی لائنر کے محدود استعمال کی اجازت ہے، باقی کسی چیز کی نہیں۔ یہ جواب ایک فتویٰ کی صورت میں دیا گیا جس کا مطلب ہے، ایسا مذہبی فیصلہ جو عام مردوں پر مشتمل مسلمان مفتیوں کا کوئی پینل صادر کر تا ہے۔ تاہم مذکورہ فتویٰ کی خاص بات یہ تھی کہ اس کو صادر کرنے والی خواتین تھیں۔
’’چند حدود کے اندر میک اپ کرنا درست ہے‘‘ ان میں سے ایک مفتیہ ناظمہ عزیز نے کہا، جو سیاہ حجاب کے پیچھے روپوش تھی جس نے اس کی بڑی بڑی اور بظاہر میک اپ سے خالی آنکھوں کے سوا اس کے سارے چہرے کو چھپا رکھا تھا۔ ’’لیکن جب آپ کوئی رنگ دار لینز استعمال کرتے ہیں تو گویا آپ اپنے خدوخال کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ اللہ نے جو شکل وصورت آپ کو دی ہے، اس کو تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘
۲۲ سالہ ناظمہ عزیز ایک مفتیہ ہے اور تین خاتون ارکان پر مشتمل ایک نئے قائم کیے جانے والے فتویٰ پینل (دار الافتاء) کی رکن ہے جو نئی دہلی کے جنوب میں ۷۵۰ میل کے فاصلے پر واقع اس شہر میں، جو کبھی ریاست کی راج دھانی تھا، خواتین کے ایک مذہبی مدرسہ میں کام کر رہا ہے ۔ سکول کی انتظامیہ، بھارت کی اخباری رپورٹوں اور بعض اکیڈمک ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں، اور غالباً پوری سنی دنیا میں، یہ اپنی نوعیت کا پہلا پینل ہے ۔ بہرصورت اس میں سابقہ روایت سے بے حد نمایاں انحراف ہے۔ کئی صدیوں سے مسلم خواتین کو اپنے بہت سے مخصوص جنسی امور مثلاً میک اپ اور حیض ونفاس پر مذہبی راہ نمائی حاصل کرنے کے لیے مردوں پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ اب وہ خط یا ای میل کے ذریعے سے ایک سطر لکھ کر اس مدرسے کی مفتیہ کو بھیج سکتی ہیں جو ’’جامعۃ المومنات‘‘ کے نام سے معروف ہے۔
اب تک موصول ہونے والے سوالات میں دوسری چیزوں کے علاوہ گھر سے باہر اونچی ایڑی والے جوتے پہننے، طلاق کے بعد بچے کا خرچ فراہم کرنے کی پدری ذمہ داری اور شادی سے قبل چوڑیاں پہننے جیسے امور کے متعلق پوچھا گیا ہے۔
’’اس سے قبل طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے خاوندوں یا گھر کے کسی آدمی کو اپنا سوال بتاتی تھیں جو ان کے سوال کو مفتی کے پاس لے کر جائے اور وہاں سے جواب لائے۔‘‘ محمد حسن الدین نے کہا جو میں سکول کے دار الافتاء کے رئیس ہیں۔’’لیکن اپنے دل میں وہ مکمل طور پر مطمئن نہیں ہوتی تھی۔ یا تو اس لیے کہ پیغام رسانی کے عمل میں سوال کی اصل صورت باقی نہیں رہتی اور یا ممکناً اس لیے کہ کچھ سوالات ایسے ہوتے ہیں جو وہ پوچھنا چاہتی ہے لیکن نہیں پوچھ سکتی کیونکہ وہ خالصتاً نسوانی مسائل ہیں۔‘‘
ان خواتین مفتیوں نے سماج میں ایک نئی طرح ڈالنے کا آغاز کیا ہے۔ وہ اسلام کی قدامت پسندانہ تعبیر پر یقین رکھتی ہیں، پردے کے قانون کی اس شدت سے پابند ہیں کہ دم گھٹتی گرمی میں بھی کاٹن کے کالے دستانے پہنتی ہیں۔ انہوں نے مذہبی وجوہ سے تصویر کھنچوانے سے انکار کر دیا (اگرچہ حسن الدین نے خوش دلی سے ان کی جگہ تصویر بنوائی) وہ اس پر زور دیتی ہیں کہ ان کا اولین مقصد اسلام کی تبلیغ ہے نہ کہ خواتین کی یک جہتی۔
ناظمہ عزیز نے، جو دوسری مفتیات کی طرح حال ہی میں دو سالہ تربیتی کورس مکمل کر چکی ہے جس کے بعد آدمی اس منصب کی ذمہ داریاں انجام دے سکتا ہے، کہا کہ ’’ہمارے فتاویٰ میں اس بات کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا کہ اس سے خواتین خوش ہوں گی یا ناخوش۔ اصل بات یہ ہے کہ مذہبی مآخذ میں کیا ہدایات درج ہیں۔‘‘
خواتین کے اس کردار کی چند مثالیں ماضی میں ملتی ہیں۔ پیغمبر اسلام کی ازواج میں سے عائشہؓ نے چودہ صدیاں قبل خواتین کے لیے کئی فتاویٰ صادر کیے۔ خواتین مسلم سکالرز غیر رسمی طریقے پر خواتین کو مذہبی راہ نمائی فراہم کرتی چلی آ رہی ہیں اگرچہ ان کی آرا کو اسلامی قانون کا درجہ حاصل نہیں ہو سکا اور مردانہ تفوق کا تصور رکھنے والے مذہبی طبقات نے ان کے اس مقام پر فائز ہونے کی مزاحمت کی ہے۔ مثال کے طور پر مصر میں قاہرہ کے جامعۃ الازہر کی، جو سنی مسلمانوں کی ایک ممتاز درس گاہ ہے، ایک ممتاز خاتون سکالر ۱۹۹۹ء سے ملک کی پہلی خاتون مفتیہ بننے کے لیے مہم چلا رہی ہے۔
یہ بات حیران کن نہیں ہے کہ بھارت نے، محدود پیمانے پر ہی سہی، دینی مسائل پر خواتین کو تعبیروتشریح کا حق دینے میں مثال قائم کر دی ہے۔ انڈیا کی مسلم اقلیت، جس کی تعداد اندازاً تیرہ سے پندرہ کروڑ تک ہے، اپنی اعتدال پسندی کے لیے مشہور ہے۔ ان خدشات کے باوجود کہ بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی مسلمانوں کے مابین بھی انتہا پسند گروہوں میں اشتعال پیدا کر رہی ہے، مسلمانوں نے بالعموم بھارت کی سیکولر جمہوریت سے ہی وابستگی قائم رکھی ہوئی ہے، یا تو اس وجہ سے کہ وہ اس تصور پر فی الواقع یقین رکھتے ہیں اور یا اس لیے کہ اقلیت میں ہونے کے باعث ان کے لیے اور کوئی راستہ ہی موجود نہیں۔
انور معظم، جو عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے ریٹائرڈ سربراہ ہیں، کہتے ہیں کہ ’’آپ کو بھارتی مسلمانوں کا باقی تمام دنیا سے بالکل الگ طریقے سے مطالعہ کرنا ہوگا‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’فتویٰ پینل امکانی طور پر ایک بڑے واقعے کا چھوٹا سا آغاز ہے۔انہوں نے عورتوں کو اپنے مسائل کے حوالے سے قانونی آرا خود قائم کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ ایک بڑا حساس اور نازک مسئلہ ہے۔‘‘
جامعۃ المومنات، جو حیدرآباد کے چند بڑے دینی مدارس میں سے ایک ہے، ۲۰۰۰ طالبات اورنوجوان خواتین کو شہر کے ایک گنجان آباد اور خستہ حال مسلم علاقے کی ایک چار منزلہ غیر معروف عمارت میں روایتی مذہبی تعلیم مہیا کرتا ہے۔اس کی طالبات میں سے ایک ۱۲ سالہ زرینہ بیگم ہے جو دل گرفتہ اور عینک لگائے ہوئے ہے اور پورے قرآن مجید کو زبانی تلاوت کرنے کی صلاحیت نے اسے ’’حافظہ‘‘ کا پرکشش لقب دلوا دیا ہے۔
فخر سے تمتماتے منتظمین اور ایک بیرونی مہمان کے سامنے بے خطا عربی میں قرآن مجید کا ایک حصہ سنانے کے بعد اس نے کہا، ’’یہ بہت اہم ہے کیونکہ اللہ نے قرآن کے ذریعے ہمیں اپنا پیغام بھیجا ہے‘‘ تاہم مدرسے میں بعض جدتیں بھی اختیار کی گئی ہیں۔ مثلاً ایک کمپیوٹر لیب موجود ہے جس میں انٹرنیٹ کے استعمال کی سہولت موجود ہے۔ اسی طرح انگریزی اور ریاضی کی تعلیم بھی مہیا کی جاتی ہے۔ حال ہی میں ایک ویب سائٹ قائم کی گئی ہے اور ۲۱ ستمبر کو خواتین کے دار الافتاء نے اپنا پہلا فتویٰ جاری کیا۔ دار الافتا کے رئیس حسن الدین کو خواتین کے جاری کردہ فتوے کو مسترد کر دینے کا حق حاصل ہے تاہم سکول کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد صرف غلط تعبیر وتشریح کی روک تھام ہے۔
۲۳ سالہ سیدہ عتیقہ طیبہ نے، جو فی الحال چار دوسری خواتین کے ساتھ مفتی کی ذمہ داریاں انجام دینے کے لیے تربیت حاصل کر رہی ہے، کہا کہ ’’لوگوں نے اس بات کو بالکل نظر انداز کیے رکھا کہ خواتین کو متعدد ایسے مسائل درپیش ہوتے ہیں جن کا انہیں حل درکار ہوتا ہے لیکن وہ مردوں کے پاس جانے سے جھجھکتی ہیں۔ یقیناًمیں اپنی والدہ سے بھی وہ سوال پوچھ سکتی ہوں لیکن کیا وہ مجھے ایک عالم دین کی طرح صحیح جواب دے سکتی ہیں؟ ہماری ضرورت تو یہ ہے کہ دین اس معاملے میں کیا کہتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کے لیے ہمیں خاتون مفتیوں کی ضرورت ہے۔‘‘
مفتی خواتین دن میں دو گھنٹے کے لیے اکٹھی ہوتی ہیں اور شہر کی وسیع مسلم آبادی کی طرف سے اب تک انہیں دس سوالات موصو ل ہوئے ہیں، تاہم مدرسے کی انتظامیہ ان تک رسائی کا دائرہ ای میل اور ایک نئی ویب سائٹ کے ذریعے سے، جہاں ان کے جاری کردہ فتاویٰ دیکھے جا سکیں گے، وسیع تر کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ بیوٹی ایڈز کے علاوہ مفتی خواتین نے متعدد دیگر مسئلوں پر بھی فتوے جاری کیے ہیں۔ مثلاً عورت اگر اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے والدین سے ملنے کے لیے جائے تو شوہر سے سفر خرچ وصول کرنے کی حق دار نہیں۔ اسی طرح ماہواری کے ایام میں ناخن تراشنا بہتر نہیں۔ کچھ اور سوالات ابھی ان کے زیر غور ہیں۔ مثلاً اونچی ایڑی والے جوتوں کے مسئلے پر ان کا ذہن واضح نہیں۔ ۲۷ سالہ رضوانہ زرین کہتی ہیں کہ ’’یہ ممنوع تو نہیں ہیں لیکن ہمارے مذہب میں مردوں اور خواتین دونوں کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ عاجزی کے ساتھ چلیں اور چلنے میں تکبر ونخوت کا اظہار نہ کریں۔ اونچی ایڑی والے جوتے پہن کر چلنے میں کچھ نہ کچھ نخوت کا احساس ہوتا ہے۔‘‘ اس سلسلے میں باقاعدہ فتویٰ عنقریب جاری کر دیا جائے گا۔
(واشنگٹن پوسٹ، ۵۔ اکتوبر ۲۰۰۳ء)
مسلم مسیحی تعلقات کی نئی جہتیں
ادارہ
(۱)
کیا عیسائی مسلم اتحاد ممکن ہے؟
(خورشید احمد ندیم، روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور، ۵۔ اپریل ۲۰۰۳ء)
جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہونا ہے، یہ سب نوشتہ دیوار تھا۔ طاقت کے عدم توازن کے بعد، بالخصوص اس وقت جب طاقت اخلاقیات سے بھی عاری ہو، وہی کچھ ہوتا ہے جو ہو رہا ہے۔ معجزے اب نہیں ہوتے۔ دیکھنا صرف یہ تھاکہ عراق کتنے دن مزاحمت کرتا ہے۔ اس کے سوا اس سارے معاملے میں کوئی بات غیر متوقع نہیں تھی۔ یہ حادثہ بلاشبہ معمولی نہیں۔ معلوم نہیں کتنے سال ہمارے ملی وجود سے اس درد کی ٹیسیں اٹھتی رہیں۔ اقبال کا کہنا ہے
خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
اب دیکھنا ہے کہ یہ سحر کیسے اور کب پیدا ہوتی ہے۔
ہر بڑا حادثہ اپنے اندر امکانات بھی بڑے رکھتا ہے۔ بغداد پر صدیاں پہلے بھی ایک بڑا حادثہ گزرا تھا جس کے نتیجے میں کعبے کو صنم خانے سے پاسباں مل گئے تھے۔ آج پھر اسی بغداد کو تاراج کیا جا رہا ہے۔ اس حادثے کی شدت میں کسے کلام ہو سکتاہے، سوال یہ ہے کہ آج ہمارے لیے اس حادثے میں کیا امکان پوشیدہ ہے؟ اس سوال کا جواب تو وہی دے سکتا ہے جو قوموں کے عروج و زوال پر نظر رکھتا اور واقعات کی ترتیب میں سنت الٰہی کو کار فرما دیکھ سکتا ہے۔ علامہ اقبال ہوتے تو ہمارے لیے آسانی تھی کہ وہ یہ فرض کفایہ ادا کرتے ۔ وہ نہیں ہیں تو آدمی سوچتا ہے کہ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کہاں جائے۔ ممکن ہے کوئی کہیں اپنی تنہائی کو آباد کیے بیٹھا ہو جس کے پاس اس سوال کا جواب ہو، لیکن جب تک اس کی غیبت ایک حجاب ہے، ہمیں خود ہی دیکھنا ہو گا کہ اس حادثے میں ہمارے لیے کیا امکان پوشیدہ ہے۔
چند روز پہلے ایک خبر نے مجھے چونکا دیا۔ واقعات جس تناظر میں آگے بڑھ رہے ہیں، یہ خبر بھی بظاہر اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی لیکن مجھے خیال ہو ا کہ اس میں اس امکان کی جھلک ہے، جسے آج ہم نے تلاش کرنا ہے۔ وہ امکان جو قبرستان میں زندگی کی رمق ہے، وہ امکان جو راکھ میں چنگاری ہے۔ خبر یہ ہے کہ بیت اللحم میں عیسائی دنیا کے سب سے متبرک مقام، چرچ آف نیٹیویٹی (Church of Nativity)کے ذمہ داران نے صدر بش، ٹونی بلیئر، رمزفیلڈ اور جیک سٹرا پر اس کلیسا کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عراقی بچوں کے قاتل ہیں اور اس کلیسا میں اپنے ناپاک قدم نہیں رکھ سکتے۔ چرچ آف ٹیٹیویٹی کوئی عام کلیسا نہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جو عیسائی عقیدے میں سیدنا میسح ؑ کی جائے پیدائش ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ چرچ شہنشاہ قسطنطین اور اس کی والدہ ھیلینا نے چوتھی صدی میں تعمیر کرایا تھا، چھٹی صدی میں یو سطنیان نے یہاں ایک عظیم الشان عمارت کھڑی کی۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں کبھی سید نا داؤد بکریاں چرایا کرتے تھے۔ یہیں وہ غار ہے، جہاں بعض لوگوں کے نزدیک سیدنا مسیح ؑ کی پیدا ئش ہوئی ۔انسانی تاریخ کی وہ عظیم الشان شخصیت جو تمام عمر انسانی دکھوں کا مداوا کرتی رہی ہو، جس کی پیدائش ہی ایک معجزہ ہو اور جسے جوانی میں وقت کے ظالم اپنے تئیں مصلوب کر ڈالیں، اس کی جائے پیدائش یقیناًیہ تقدس رکھتی ہے کہ وہاں ایسے وجود داخل نہ ہوں جو گردن گردن انسانی لہو میں ڈوبے ہوں۔ عالم عیسائیت کا یہ اظہار نفرت، میرے نزدیک اپنے اندر وہ امکانات رکھتا ہے ، جس میں یہ جوھر (potential) ہے کہ وہ آنے والے تاریخ کا رخ یکسر بدل دے۔
آج دنیا میں عیسائیوں اور یہودیوں کی جو قربت ہے ،واقعہ یہ ہے کہ کبھی میری سمجھ میں نہیں آسکی۔ آج جسے یہودی عیسائی تہذیب (Juda Christian Civilization ) کا نام دیا جا تا ہے، اس کی منطق بھی ناقابل فہم ہے۔ اہل کلیسا کی یہ سادگی میرے لیے ہمیشہ سوالیہ نشان بن رہی کہ یہودی ان کے وسائل اور سیاسی حیثیت کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے رہے اور وہ بڑی سادگی کے ساتھ فریب کھاتے رہے۔ اسلامی دنیا کے حوالے سے امریکہ کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں دو نقطہ ہائے نظر موجود رہے ہیں، ایک وہ جو تصادم پسند (Confrontation-alists) ہیں اور دوسرے وہ جو مفاہمت پسند (accommodationists) ہیں۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں، صرف یہ تذکرہ کفایت کرتا ہے کہ انڈیک (Indyk)، کرک پیٹررک (Kirkpatrick)، ملر (Miller)، ڈینیل پائیپس اور برنارڈلیوس جیسے لوگ جو مسلمان دنیا کے ساتھ تصادم کے علمبردار ہیں، ان کی اکثریت یہودی ہے۔ آج جو پالیسی کا رفر ما ہے، وہ ان جیسے لوگوں کی فکری اور عملی جد وجہد کا نتیجہ ہے، جس نے امریکہ کو ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا ہے، جس میں اس کی کامیابی ، دراصل اس کی ایک بڑی ناکامی کا پیش خیمہ بننے والی ہے۔ آج امریکہ کی عالمی حیثیت مسلمہ تھی، اسے کہیں سے کوئی چیلنج درپیش نہیں تھا۔ اشتراکی دنیا اس کے زیر اثر تھی اور مسلم دنیا بھی۔ عراق دس مرتبہ بھی کو شش کرتا تو وہ امریکہ کے لیے کوئی چیلنج نہیں بن سکتا تھا۔ آج تو یہ وقت تھا کہ امریکہ اپنے اس غلبے کو تادیر قائم رکھنے کی جد و جہد کرتا، لیکن اسے ایک ایسے راستے پر ڈال دیا گیا ہے، جو اس کے وسائل اور اخلاقی ساکھ دونوں کی تباہی پر منتج ہو گا۔ اخلاقی ساکھ تو ختم ہو چکی۔ اس سے پہلے اگر اس کا تھوڑا بہت لحاظ تھا تو اب آنکھوں کی شرم بھی باقی نہیں رہی۔ یہ بات طے ہے کہ کوئی قوت جب اخلاقی اقدار کو اس بے دردی سے پامال کر تی ہے تو پھر اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ یہ امریکہ کی بدقسمتی ہے کہ ایک ایسے مرحلے پر جب اسے ایک صاحب بصیرت قیادت کی ضرورت تھی، ایک انتہائی غبی شخص ان کا راہنما ہے۔ اس کے اثرات تو نکلیں گے ۔ممکن ہے کہ اس مرحلے میں امریکی قوم اور مغرب کی غالب عیسائی آبادی میں یہ تاثر بھی ابھرے کہ بش اور بلیئر جیسے لوگ اس تہذیب اور مذہب کے لیے بھی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں، جو سیدنا میسح ؑ کے نام سے منسوب ہے جن کا وجود امن اور محبت کی علامت ہے۔
چرچ آف نیٹیویٹی کا فیصلہ، میرا خیال ہے کہ اسی تاثر کا اظہار ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ گذشتہ چند سو سال میں یہودیوں اور عیسائیوں کا جو اتحاد وجود میں آیا ہے، اس میں عیسائی سرا سر خسارے میں رہے ہیں۔یہی بات میرے لیے ناقابل فہم ہے کہ عیسائی کیوں اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کے لیے آمادہ نہیں۔ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے تو اس معاملے میں دونوں کا اختلاف بہت گہرا ہے۔ یہودی حضرت میسح ؑ اور حضرت مریم کے بارے میں جو خیالات رکھتے ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور مزید یہ کہ یہودیوں کے برخلاف مسلمانوں میں حضرت مریم اور حضرت عیسی ؑ کو جو تکریم حاصل ہے ، اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جس نے کبھی قرآن مجید پڑھا ہو۔ جس محبت اور عزت کے ساتھ قرآن مجید ان پاکیزہ ہستیوں کا ذکر کرتا ہے، اس کی نظیر تلاش کرنا محال ہے۔ پھر قرآن جس طرح یہودیوں کے الزامات کا جواب دیتا ہے، شاید عیسائی علم کلام میں بھی اس کی مثال نہ مل سکے۔ اس لیے میرے نزدیک اگر کوئی فطری اتحاد ہو سکتا ہے تو وہ عیسائیوں اور مسلمانوں کا ہے۔ یہی وہ سچائی تھی جس نے نجاشی کو رسالت ماٰب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے وفد کی تکریم پر آمادہ کیا۔ اور شاید یہی وہ بات ہے کہ قرآن نے روم میں عیسائیوں کی فتح کی بشارت دی جس پر مسلمانوں نے خوشی منائی۔ میں نہیں جان سکا کہ آج کس چیز نے عیسائیوں کو یہودیوں سے قریب اور مسلمانوں سے دور کیا۔
بغداد پر امریکی یلغار نے اب یہ امکانات پیدا کر دیے ہیں کہ عیسائی اور مسلمان دنیا اپنے تعلقات پر نظر ثانی کریں اور اس نفسیات سے نکلیں جو صلیبی جنگوں سے منسوب ہیں۔ چرچ آف نیٹیویٹی نے جو پیش قدمی کی ہے، ضرورت ہے کہ اس کا خیر مقدم کیا جائے۔ مسلمانوں کو آگے بڑھ کر عیسائیوں کو،قرآن مجید کے الفاظ میں، اس ’’کلمے‘‘ کی طرف بلانا چاہیے جو آج ہمارے اور ان کے درمیان مشترک ہے۔بغداد کے حادثے نے تہذیبوں کے تصادم، گلوبلائزیشن اور اختتام تاریخ جیسے تصورات کو ڈھا دیا ہے۔ اب ایک نئی دنیا عالم تشکیل میں ہے۔ ہر نئی دنیا ظاہر ہے کہ کسی تصور کے تحت وجود میں آتی ہے۔ اس تصورکی تشکیل ہی وہ امکان ہے جو اس حادثے میں پوشید ہ ہے۔ مسلمان صاحبان فکر آگے بڑھیں اور اس فکری خلا کو پر کریں۔ یہ کام ان سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ تمام قدیم صحیفوں پر ایمان رکھنے والے اور اللہ کے آخری غیر محرف کلام کے وارث ہیں۔ کیا مسلمانوں میں کوئی صاحب فکر ایسا ہے جو ان خطوط پر سوچتا ہو؟ نئی دنیا کے لیے اگر ہم فکر ی بنیادیں فراہم کر سکیں تو یہ بات کل سیاست، تہذیب، معیشت ہر چیز کو بدل دے گی۔یہ ایک نئی دنیا کا خواب ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ ایک تصوراتی بات ہو سکتی ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ کوئی غور کرنے پر آمادہ ہو تو یہ ناممکنات کی دنیا کا معاملہ نہیں۔ نئی دنیا کے خواب بھی کسی بڑے حادثے کے بعد ہی دیکھے جا سکتے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے علامہ اقبال نے مسجد قرطبہ کے آثار میں ایک نیا خواب دیکھا تھا۔
آب روان کبیر ! تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالم نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
(۲)
جرمنی کی کاتھولک کلیسا اور مسلمانوں کے حقوق
جرمنی کی کونسل آف کاتھولک بشپس نے ۲۴۔ ستمبر ۲۰۰۳ء کو منعقد ہونے والے ایک اجلاس کے موقع پر جرمنی کے متعلقہ حکومتی حلقوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جرمنی میں تقریباً تیس لاکھ کی تعداد میں مقیم مسلمانوں کے جائز مطالبات کو تسلیم کریں اور ان کے ساتھ مثبت تعامل کا مظاہرہ کریں۔ کونسل نے اس موقع پر ’’جرمنی میں مسلمان اور مسیحی‘‘ کے عنوان سے دو سو صفحات پر مشتمل ایک دستاویز جاری کی ہے جس میں کاتھولک چرچ کی جانب سے اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ان کے مکمل قانونی اور آئینی حقوق دلوانے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں صرف کرے گی۔ دستاویز میں متعلقہ اہل حل وعقد سے حسب ذیل مطالبات کیے گئے ہیں:
- جرمنی کے سرکاری سکولوں میں مسلمان طلبہ کے نصاب میں اسلامی تعلیمات کا مضمون شامل کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ مسلمان اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھ سکیں۔
- ملازمت کے مقامات، سکولوں اور یونیورسٹیوں میں ان کے لیے ایسے کھانے کا انتظام کیا جائے جو اسلامی شریعت کے اصولوں سے متصادم نہ ہو۔
- مسلمانوں کو مساجد کی تعمیر، نمازوں کے اوقات میں اذان دینے اور اپنے تمام دینی شعائر کی آزادانہ ادائیگی کی اجازت دی جائے۔
- مسلمانوں کو اپنی مذہبی رسوم کے مطابق فوت شدگان کی تدفین اور ان کے لیے الگ قبرستان بنانے کی سہولتیں مہیا کی جائیں۔
کونسل نے مسلمان معلمات کے حجاب پہننے پر عائد پابندی پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا، تاہم انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کاتھولک کلیسا اس معاملے میں ان کی مدد کے لیے کوئی مداخلت نہیں کر سکی۔
دستاویز میں ذمہ دار حلقوں سے کہا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے جائز مطالبات کا کھلے دل سے جائزہ لیں اور مسلمانوں کو اپنے پورے حقوق سے بہرہ ور ہونے دیں تاکہ جرمنی میں مذہبی رواداری کی اقدار اجاگر ہوں جس کے نتیجے میں مسلمان ممالک میں مسیحی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت ملے گی۔ دستاویز میں عرب اور مسلم ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مسیحی اقلیت پر عائد کردہ پابندیوں کو نرم کریں، تاہم دستاویز میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ مسلم ممالک کے رد عمل میں جرمنی کی مسلم آبادی کے ساتھ اس قسم کے طرز عمل کو روا نہیں رکھا جانا چاہیے۔
کونسل آف بشپس کے صدر کارڈینل کارل لیمان نے کہا کہ مسلم مسیحی مکالمہ کو کئی سال گزرنے کے باوجود اسلام کے صحیح تعارف کی کوششیں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پائیں کیونکہ ذرائع ابلاغ کے منفی اور اسلام دشمن کردار کی بدولت جرمن عوام کے ذہنوں میں اسلام کی منفی تصویر راسخ ہو چکی ہے۔ لیمان نے کہا کہ مسلمانوں پوری طرح سے جرمن معاشرے کا حصہ نہیں بن سکے جس کی وجہ یہ ہے کہ بعض انتہا پسند عناصر مذہبی رواداری کے فقدان کی وجہ سے انہیں جرمن معاشرے کا فطری جزو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں مسلمانوں نے متعدد مثبت اقدامات کرنے میں پہل کی ہے لیکن دوسرے فریق کی جانب سے ان کا مثبت جواب نہیں دیا گیا۔
لیمان نے بتایا کہ ان کے ادارے نے مذہبی راہنماؤں، میڈیا کے ماہرین اور ماہرین نفسیات پر مشتمل مختلف کمیٹیاں تشکیل دے رکھی ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں خوف کی فضا کو زائل کیا جائے، اسلام کی زندہ اور حقیقی تصویر پیش کی جائے اور مسلم مسیحی مکالمہ کو فروغ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم مسیحی مکالمہ کا فروغ جرمن کیتھولک چرچ کی اولین ترجیحات میں شامل ہے اور مذکورہ دستاویز اسی ضمن میں شائع کی جانے والی مطبوعات کے اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کا آغاز جرمن کیتھولک چرچ نے ۱۹۸۲ء میں مسلم مسیحی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کیا تھا۔
(www.IslamOnline.net۔ ہفت روزہ ’’العالم الاسلامی‘‘ ۶۔ اکتوبر ۲۰۰۳ء)
(۳)
ہم آہنگی کا ایک خوشگوار تجربہ
(جناکی کریمر،’’کرسچین سائنس مانیٹر‘‘، ۹ ستمبر، ۲۰۰۳ء)
انہیں نہ اردو آتی ہے اور نہ وہ روز مرہ دعاؤں کا مطلب سمجھ سکتے ہیں لیکن ایان پیٹرسن (Ian Paterson) کا یہ کمال ہے کہ انہوں نے کنگ عبد العزیز اسلامک سکول کو تباہ ہونے سے بچا لیا۔ ڈاکٹر پیٹرسن، جو تیس سال تک اعلیٰ طبقے کے ایک مسیحی سکول کے سربراہ رہے، چھ ماہ سے ایک ایسے وقت میں اس مذہبی سکول کے ہیڈ ماسٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ آسٹریلیا کے لوگ اسلامی سکولوں کے بارے میں بہت محتاط اور اپنے درمیان بسنے والے مسلمانوں کے بارے میں بد اعتمادی کا شکار ہیں۔
آسٹریلیا کی مسلم آبادی، جو اگرچہ اب تک امریکہ یا فرانس کی بہ نسبت تعداد میں بہت تھوڑی ہے، آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ مزید مسجدیں اور مذہبی سکول بنانے کی خواہش میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ان منصوبوں کو غیر مسلم آبادی کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے جن کے ذہنوں میں نیو یارک کے گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات اور گزشتہ سال بالی کے بم دھماکے تازہ ہیں۔
ڈاکٹر پیٹرسن نے کہا کہ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں اپنے آپ کو ایک پل یعنی دونوں مذاہب کے پیروکاروں کے مابین بہتر مفاہمت کو فروغ دینے کا ذریعہ سمجھتا ہوں، ‘‘ تاہم ناکس گریمر سکول (Knox Grammar School) میں انہوں نے جو دولت اور اعزاز دیکھا، اس میں اور کنگ عبد العزیز سکول، جو سڈنی کے غریب ترین علاقے میں واقع ہے، کی ناگفتہ بہ صورت حال کے مابین تفاوت بہت زیادہ ہے۔
سکول بورڈ کے ڈائریکٹر اکبر خان نے بتایا کہ’ ’جب وہ شروع شروع میں یہاں آئے تو سکول کی حالت دیکھ کر سخت حیرت زدہ رہ گئے۔ باتھ روم کی ٹائلیں ٹوٹی ہوئی تھیں، ٹائلٹ بالکل ناکارہ تھے، بچوں کے لیے سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں جبکہ گرد وغبار بہت زیادہ تھا، لیکن میں نے ان سے وعدہ کیا کہ ان میں سے زیادہ تر چیزیں چھ ماہ کے اندر اندر ٹھیک کر دی جائیں گی۔ اور ایسا کیا جا چکا ہے۔‘‘
پیٹرسن ۱۹۹۸ء میں، قانون کے مطابق ۶۵ سال کی عمر کو پہنچنے پر، ناکس سے ریٹائر ہوئے تو انہوں نے یشیوا کالج (Yeshiva College)، یعنی ایک قدامت پسند یہودی سکول سے رابطہ کیا جہاں وہ دو سال اس منصب پر فائز رہے۔ جب کنگ عبد العزیز سکول بورڈ نے پیٹرسن سے رابطہ کیا تو اس سے قبل وہ چار سال کے عرصے میں میں چار پرنسپل تبدیل کر چکا تھا، سٹاف کی بار بار تبدیلی کا مسئلہ بھی اسے درپیش تھا اور نظم وضبط بالکل برباد ہو چکا تھا۔
پیٹرسن نے کہا کہ ’’ثقافتی اور مذہبی طور پر میں میری یہاں تعیناتی ناموزوں تھی، لیکن وقت سازگار تھا اور انہیں میری اشد ضرورت تھی‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ جب سے انہوں نے ذمہ داریاں سنبھالی ہیں، سٹاف، طلبہ اور والدین کی طرف سے انہیں خیر سگالی کا پیغام ہی ملا ہے۔ ’’جب میں نے یہاں کام کا آغاز کیا، تو مجھے سب سے زیادہ اچھی بات جو سننے کو ملی، وہ یہ تھی کہ سکول کی کونسل کے ایک رکن نے کہا کہ مسٹر پیٹرسن نے گزشتہ دو سال ایک یہودی سکول میں گزارے ہیں اور اب ان کا خیال ہے کہ اب انہیں ان کے چچا زاد بھائیوں (یعنی مسلمانوں) کے پاس بھی کام کرنا چاہیے۔‘‘ پیٹرسن نے کہا کہ ’’یہ بات مسلمانوں کے حد سے زیادہ تحمل اور رواداری کی دلیل ہے۔‘‘
تاہم کچھ دوسرے لوگوں نے زیادہ رواداری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جس رات آسٹریلین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نے پیٹرسن کے اس سکول کی ملازمت اختیار کرنے پر ایک ٹی وی پروگرام نشر کیا، تو ٹیرا مرا کے اپر مڈل کلاس کے پڑوس میں ان کے گھر کی کھڑکی پر ایک پتھر پھینکا گیا۔ اس کے بعد دھمکی آمیز فون کالیں آئیں جن کے بارے میں انہیں یقین ہے کہ وہ قدامت پرست مسیحیوں کی طرف سے تھیں۔
’’میں بے تکلف کہتا ہوں کہ مجھے سب سے زیادہ مثبت رد عمل جو ملا، وہ سکول، مسلم آبادی اور میرے دوستوں کی جانب سے ہے‘‘۔ حتیٰ کہ جناب مفتی شیخ تاج الدین ہلالی نے بھی، جو آسٹریلیا کے اندازاً تین لاکھ مسلمانوں کے روحانی رہنما ہیں، پیٹرسن کی تقرری کی منظوری دے دی۔ مفتی صاحب کے ترجمان قیصر تراد نے کہا، ’’آئیڈیل صورت حال میں تو ہم ہیڈماسٹر کے طور پر کسی مسلمان ہی کو ترجیح دیتے، لیکن یہ ایک میرٹ پر مبنی نظام ہے اور پیٹرسن اس منصب کے لیے سب سے زیادہ موزوں شخص ثابت ہوئے ہیں اور ہمیں ان کے بارے میں اچھی باتیں ہی سننے کو ملی ہیں۔‘‘
مسٹر خان نے کہا، ’’ہمارے ساتھ کام کے آغاز سے قبل ہم نے اس قسم کی باتیں باہم طے کر لی تھیں کہ لڑکیوں کو سکارف ضرور پہننا ہو گا اور لڑکے نماز لازماً ادا کریں گے اور پیٹرسن نے اس کے جواب میں نہایت اخلاص سے کہا کہ ’’ہم سب اپنے اپنے طریقے پر خدا کی تعظیم ہی کرتے ہیں۔‘‘
پیٹرسن نے خان سے کہا کہ مذہبی تعلیم کی نگرانی کے لیے ایک الگ کمیٹی تشکیل دے دی جائے۔ اس سے ان پر سکول بورڈ کے اعتماد میں اضافہ ہوا جو، پیٹرسن کے اعتراف کے مطابق، ملازمت اختیار کرنے کے بعد پہلے دو ماہ تک ان کی کڑی نگرانی کرتا رہا۔ ’’جب انہیں ایک دفعہ احساس ہو گیا کہ میں سکول کے کلچر کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا تو ان کے انداز میں نرمی آ گئی۔‘‘
ذمہ داری سنبھالنے کے بعد سے پیٹرسن نے کنگ عبد العزیز سکول میں استحکام پیدا کیا اور اس کے نظم وضبط میں اضافہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’مجھے یہاں بڑی اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ کچھ والدین میرے طریقوں کی مخالفت کریں گے لیکن انہوں نے مجھے ہر قسم کی آزادی دے رکھی ہے۔‘‘
خان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں فجی، مصر، پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈیا جیسے ملکوں سے نقل مکانی کر کے آنے والے والدین جو اس سے پہلے بہت پریشان تھے، زیادہ تر پیٹرسن سے بہت خوش ہیں۔
ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے پیٹرسن نماز کے اوقات میں سکول کی مسجد میں بھی جاتے ہیں، عام طور پر ایک کونے میں کھڑے رہتے ہیں تاکہ بچے نظم وضبط قائم رکھیں۔ اس سے کچھ نو عمر طلبہ میں تجسس پیدا ہوا۔ ’’ایک دن پرائمری سکول کے طلبہ میں سے دو میرے پاس آئے اور مجھ سے پوچھا کہ میں مسلمان کیوں نہیں ہو جاتا اور نماز کیوں نہیں پڑھتا۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہم سب اپنا اپنا مذہب رکھتے ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کا لازماً احترام کرنا چاہیے۔ یہ وضاحت کارگر ثابت ہوئی‘‘ پیٹرسن نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ان کا مسیحی ہونا ایک منتظم کی حیثیت سے ذمہ داریاں انجام دینے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔
صرف ایک فرق کے علاوہ، کہ دوسرے سکولوں میں ہفتہ وار ایک گھنٹے کے مقابلے میں اس سکول میں ہفتہ وار چھ گھنٹے مذہبی تعلیم ضروری ہے، باقی نصاب ملک کے غیر مسلم پرائیویٹ سکولوں جیسا ہی ہے۔ پیٹرسن نے بتایا کہ ’’آسٹریلیا اور باقی مغربی ممالک میں ایک بہت بڑی غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ تمام اسلامی سکول دہشت گردی کے اڈے ہیں اور ان سے مذہبی جنونی پیدا ہوتے ہیں، لیکن میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ یہ محض ایک مفروضہ ہے۔‘‘
مسلمان یہ بھی دیکھتے ہیں کہ دوسرے لوگ اتنے کھلے ذہن کے مالک نہیں۔ مصعب لیغا نے، جو وائس آف اسلام ریڈیو کے سربراہ ہیں، بتایا کہ حال ہی میں سڈنی میں دو اسلامی سکولوں کی منظوری کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ ایسا کیوں ہے؟ انہیں یقین ہے کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ حکومت بچوں کو تعلیم کے لیے عام سکولوں میں بھیجنا پسند کرتی ہے۔ اسی طرح چھوٹے چھوٹے کمیونٹی ہال جو عارضی مسجد کا کام دیتے ہیں، انہیں مقامی حکومتی کونسلوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے۔ مسٹر لیغا نے کہا، ’’وہ ہم سے کہتے ہیں، تم لوگ جمعے کے دن بہت شور کرتے ہو، بہت سی گاڑیاں اکٹھی ہو جاتی ہیں، اس سے ہمسایے پریشان ہوتے ہیں‘‘ ۔ حکومت کو شبہ ہے کہ مسلمانوں کے تمام بڑے اجتماع اور اسلامی سکول نفرت اور عدم برداشت کو فروغ دیتے ہیں۔
پیٹرسن اس تعصب کے مقابلے کے لیے دوسرے سکولوں کے بچوں کو اپنے سکول میں آنے اور مسلمان بچوں کے ساتھ ملنے کی دعوت دیتا ہے، جس کے عام طور پر مثبت نتائج نکلتے ہیں۔ ’’مسیحی لڑکے اور لڑکیاں یہ جان کر حیران ہوتے ہیں کہ نصاب زیادہ تر ایک جیسا ہے اور بچے بھی فی الحقیقت ایک ہی جیسے ہیں۔ ان کو سب سے زیادہ جس بات سے الجھن ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں آزادانہ ملاقاتیں نہیں کر سکتے اور لڑکیوں کی شادیاں ان کے ماں باپ کی مرضی سے ہوتی ہیں۔‘‘
وہ بدھ بھکشوؤں اور یہودی ربیوں کو بھی سکول میں دعوت دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے مذہب کے بارے میں طلبہ کو آگاہ کریں، اور سکول بورڈ اس کی مخالفت نہیں کرتا۔ مسٹر تراد، مسیحی اور دیگر مذہبی رہنماؤں کے ساتھ، گزشتہ دو سال سے ملاقاتوں، خطابات اور سیمیناز کے ذریعے سے مختلف مذہبی گروہوں کے باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے مشن میں مصروف ہیں۔
مسلمانوں کے رابطہ پروگرام گیارہ ستمبر کے بعد سے ۵۰ فی صد بڑھ گئے ہیں لیکن سکول کی سطح پر مسلمان اور غیر مسلم طلبہ کے مابین تعامل اور ابلاغ کے فروغ کے لیے زیادہ کوشش نہیں کی گئی۔ تراد نے، جو لبنانی اسلامک اسوسی ایشن کے ڈائریکٹر بھی ہیں، بتایا کہ ’’ہم مختلف مسجدوں میں ’’کھلے دنوں‘‘ (Open days) کا اہتمام کرتے ہیں جس میں بعض دفعہ ۱۰۰ کے قریب مسیحی آتے ہیں اور ہمارے ساتھ رمضان کے روزے کی افطاری کرتے ہیں، لیکن ان لوگوں میں بچے شامل نہیں ہوتے‘‘ ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اگر ایان پیٹرسن اس صورت حال کو کسی طرح سے تبدیل کرنے میں مددگار ہو سکتے ہیں، تو یہ ایک بڑی کام یابی ہوگی۔‘‘
تو کیا پیٹرسن یہ سمجھتے ہیں کہ مذہبی ہم آہنگی کے مستقبل کا دارومدار ان کی کوششوں پر ہے؟
’’زیادہ تر تو مجھے اساتذہ، والدین، اور ضدی قسم کے بچوں کے مسائل کو سنبھالنا ہوتا ہے‘‘ پیٹرسن نے ہنستے ہوئے بتایا۔ ان کی اس بات سے طلبہ بھی متفق ہیں۔ ایک طالب علم عبد اللہ حکیم نے کہا، ’’اب برا رویہ اختیار کرنے پر بچوں کو سکول سے نکال دیا جاتا ہے۔ اب ہمارے لیے معاملات ذرا سخت ہو گئے ہیں۔‘‘
خارجی محاذ پر ایک نظر
ادارہ
پچھلے دنوں جنرل پرویز مشرف نے امریکہ وکینیڈا کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران میں انہوں نے مختلف فورموں پر مختلف امور پر اظہار خیال کیا۔ جنرل پرویز مشرف کے بیان کردہ بعض نکات پر تحفظات کا حق محفوظ رکھتے ہوئے ان کی درج ذیل باتوں سے مکمل اتفاق کرنا پڑتا ہے:
۱۔ کشمیر اور فلسطین میں ریاستی دہشت گردی ہو رہی ہے۔
۲۔ عالمی طاقتیں بھارت کو اسلحے کی سپلائی پر ازسرنو غور کریں کیونکہ اس سپلائی سے روایتی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہونے کا اندیشہ موجود ہے۔
۳۔ اگر بعض مسلم تنظیمیں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث پائی گئی ہیں تو ان کے اس عمل کو بنیاد بنا کر تمام عالم اسلام کو دہشت گرد قرار دینا انتہائی منفی عمل ہے کہ اسلام اور دہشت گردی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
۴۔ ریاستی طاقت کے دو ستون ہوتے ہیں: ۱۔ عسکری، ۲۔ معاشی۔ پاکستان عسکری اعتبار سے ناقابل تسخیر پوزیشن میں ہے اور اللہ کے فضل سے معاشی اعتبار سے ’’ٹیک آف‘‘ کی پوزیشن میں ہے۔ (تاہم یہاں طاقت کے تیسرے ستون یعنی قومی وملی کردار کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے)
۵۔ عراق میں پاکستان اس وقت تک فوج نہیں بھیجے گا جب تک اقوام متحدہ یا او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اس مسئلہ کو ایڈریس نہ کیا جائے۔ اس کے بعد پارلیمنٹ اور پاکستان کے عوام ہی آخری فیصلہ کریں گے۔
جنرل پرویز مشرف کے اس دورے کے بعد او آئی سی کا دسواں سربراہی اجلاس ملائشیا میں منعقد ہوا۔ اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے پانچ سابق وزراے خارجہ نے او آئی سی کے نام ایک خط لکھا۔ جناب آغا شاہی، سردار آصف احمد علی، گوہر ایوب خان، سرتاج عزیز اور عبد الستار نے اپنے خط کے ذریعے اس امر کی نشان دہی کی کہ ’’اقوام متحدہ کی اجازت اور قانونی مینڈیٹ کے بغیر خود مختار اقوام کے خلاف پیشگی حملہ کا نظریہ اور یک طرفہ فوجی کارروائی سرکشی کے مترادف ہے۔‘‘ اس خط کے مندرجات کی اہمیت اپنی جگہ مسلم، لیکن قومی نقطہ نگاہ سے یہ بات ہمارے لیے اس وجہ سے زیادہ اہم ہے کہ ایک تو سب ہمارے وزراے خارجہ ہیں۔ انہوں نے عالم اسلام کے درد کو محسوس کرتے ہوئے اپنے تئیں آواز بلند کی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ وزراے خارجہ مختلف سیاسی جماعتوں سے منسلک رہے ہیں۔ سیاسی اختلافات کے باوجود ملی امور پر خیالات کی یکسانیت سے پاکستان کے خارجہ امور پر وحدت خیال پنپتی دکھائی دیتی ہے جو یقیناًقابل تحسین اور خوش آئند ہے۔
او آئی سی کے اجلاس میں جنرل پرویز مشرف، مہاتیر محمد اور شہزادہ عبد اللہ چھائے ہوئے نظر آئے۔ جنرل پرویز مشرف نے بجا طور پر تہذیبوں کے تصادم کے نظریے کو غلط قرار دیا اور او آئی سی کی تشکیل نو پر مثبت انداز میں زور دیا تاکہ یہ تنظیم زیادہ فعال اور سرگرم ہو سکے۔ جہاں تک جنرل پرویز مشرف کی ’’اعتدال پسند روشن خیالی‘‘ کا ذکر ہے، بظاہر یہ خوب صورت نعرہ ہے، بہتر ہوتا کہ اس کی تعبیر کرتے ہوئے ممکنہ جہتوں کا بھی احاطہ کیا جاتا۔
کانفرنس کے موقع پر ہم روسی صدر پیوٹن کے اس بیان کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں کہ ’’دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اسے کسی خاص مذہب کے ساتھ منسلک نہیں کیا جانا چاہیے‘‘ اس کے ساتھ ساتھ او آئی سی کے رابطہ گروپ برائے کشمیر کے کلمہ حق کی بھی تعریف کرنی پڑتی ہے۔ رابطہ گروپ نے بھارتی فیصلے کی مذمت کی ہے جس کے مطابق بھارت نے کنٹرول لائن پر عالمی مبصرین کی تعیناتی کی پاکستانی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ رابطہ گروپ کے کلمہ حق سے بھارت کو خاطر خواہ شرمندگی اٹھانی پڑی ہے۔
او آئی سی کے اجلاس کے بعد سعودی ولی عہد شہزادہ عبد اللہ بن عبد العزیز پاکستان کے دورے پر تشریف لائے۔ ان کا استقبال پروٹوکول سے ہٹ کر کیا گیا۔ اگرچہ نظر آ رہا تھا کہ اس استقبالیے کے ذریعے میاں نواز شریف کے استقبالیے کو دھندلانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ سرکاری گرم جوشی کے باوجود عوامی سطح پر وہ جوش وخروش سامنے نہیں آ سکا جو میاں صاحب کے دور میں تھا۔ بہرحال پاکستان سعودیہ تعلقات کے تاریخی پس منظر میں ایسا استقبالیہ شہزادہ عبد اللہ کا حق تھا۔ اس وقت بھی دونوں ممالک کی دو طرفہ تجارت کا حجم ایک ارب ڈالر مالیت کے قریب ہے جسے بہت بڑھایا جا سکتا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات عسکری اور مالی شعبوں میں مزید پروان چڑھیں گے۔ ایسے دوروں کے نتائج اسی قسم کے برآمد ہونے چاہییں۔
شہزادہ عبد اللہ کے دورہ کے بعد وزیر اعظم پاکستان جناب ظفر اللہ جمالی نے ایران کا دورہ کیا۔ یہ دورہ عالمی حالات کے تناظر میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ایران پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور اس نے اپنے ایٹمی پروگرام کا معائنہ کرانے پر رضامندی بھی ظاہر کر دی ہے۔ ایران سے تعلقات کے ضمن میں ہمیں بھارتی فیکٹر پیش نظر رکھنا ہوگا کہ پچھلے ایک عشرے میں دونوں ممالک میں تعلقات تیزی سے پروان چڑھے ہیں۔ ایک بات ’’زحمت میں رحمت‘‘ کے مصداق مثبت ہو گئی ہے کہ بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ سے بھارت ایران تعلقات میں ’’توازن‘‘ شامل ہو گیا ہے۔ اسرائیلی عزائم کے پیش نظر ایران کو بھارت سے تعلقات کی نوعیت پرازسرنو غور کرنا پڑے گا۔ عالمی سیاست کی نئی صف بندی میں بھارت، اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ اکٹھے کھڑے ہیں۔ اس اعتبار سے پاکستان کو چین، ایران، روس اور سعودیہ سے تعلقات میں مزید گرم جوشی پیدا کرنی ہوگی۔ پاکستان نے ایران کو یقین دہانی بھی کرا دی ہے کہ وہ بلا خوف وخطر گیس پائپ لائن پاکستانی علاقے میں بچھا سکتا ہے۔ امید ہے ایران پاکستان کی ضمانت کو کافی سمجھے گا۔
(پروفیسر میاں انعام الرحمن)
مسلمان یہودیوں کی حکمت عملی سے سبق سیکھیں
ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے کہا ہے کہ چند لاکھ یہودیوں کا مقابلہ نہ کرنا سوا ارب مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری ہوگی۔ انہوں نے اسلامی دنیا پر زور دیا کہ وہ یہودیوں سے مقابلہ کرنے کے لیے اپنی قوت بازو کے ساتھ ساتھ عقل سے بھی کام لے کیونکہ اس وقت یہودی پوری دنیا پر درپردہ حکمرانی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی ممالک اپنی عسکری طاقت کو مضبوط اور مجتمع کریں، محض مذمتی قراردادوں سے مظلوم مسلمانوں کے دکھوں کا مداوا نہیں ہوگا اور نہ ہی ہماری مذمتوں سے دشمن اپنا وحشیانہ طرز عمل تبدیل کرے گا، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ اپنے دفاع کے لیے جدید علوم اور ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے یہودیوں سے متعلق جو کچھ کہا ہے، حق اور سچ کہا ہے۔ اس سلسلے میں اپنا بیان واپس لینے یا معافی مانگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
انہوں نے ان خیالات کا اظہار ملائشیا کے شہر پتراجایا میں دسویں اسلامی سربراہی کانفرنس سے اپنے افتتاحی تاریخی خطاب اور بعد ازاں اس پر امریکا، اسرائیل اور یورپی یونین کی شدید تنقید پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یورپ نے ایک کروڑ بیس لاکھ یہودیوں میں سے ساٹھ لاکھ یہودیوں کا صفایا کیا لیکن آج بچے کھچے چند لاکھ یہودی پوری دنیا پر درپردہ حکومت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ چند لاکھ یہودی مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکتے بشرطیکہ ہم ان کے مقابلے کے لیے اپنی بھرپور طاقت کے ساتھ ساتھ اپنی عقل سے بھی کام لیں اور جدید ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کریں۔ مہاتیر محمد نے کہا کہ امت مسلمہ کو مذہبی تعلیمات کے ساتھ ساتھ جدید دنیاوی علوم وفنون پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہیے کیونکہ آج اسی وجہ سے مسلمان ممالک اپنے دفاع کے لیے ہتھیار بھی دشمنوں سے لینے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ کو اپنے دفاع کے لیے جدید بم، توپیں، ٹینک اور طیاروں کی تیاری اور اس میں اعلیٰ مہارت ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلاشبہ اسلام کسی خاص دور سے وابستہ نہیں بلکہ ہر دور کے لیے یہ ایک فطری ضابطہ حیات ہے۔ ہمیں اسلامی حدود میں رہتے ہوئے دنیا کے جدید تقاضوں کے مطابق اہم اور بنیادی اقدامات کرنے ہوں گے۔ مہاتیر محمد نے یہودی قوم کی کمزوریوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نخوت اور تکبر نے یہودی قوم کو سوچنے اور سمجھنے سے محروم کر دیا ہے۔ اب انہوں نے فاش غلطیاں کرنا شروع کر دی ہیں۔ وہ مزید غلطیاں کریں گے ، اس لیے ہمیں ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
مصر کی ’’جماعت اسلامی‘‘ کی پالیسی میں تبدیلی
مصری حکومت نے کالعدم الجماعۃ الاسلامیۃ اور اس کی شوریٰ کونسل سے تعلق رکھنے والے مزید ایک ہزار قیدیوں کو حال ہی میں رہا کر دیا ہے۔ شوریٰ کونسل کے رہائی پانے والے ارکان میں کرم زہدی، ناجح ابراہیم، فواد الدوالیبی، علاء الشریف، عاصم عبد المجید، حمدی عبد الرحمن اور ممدوح علی یوسف شامل ہیں۔
جماعت اسلامیہ کے متعدد قائدین کو، جن میں شوریٰ کونسل کے سربراہ کرم زہدی بھی شامل ہیں، ۱۹۸۱ء میں انور سادات کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ۹۰ء کی دہائی میں اسی گروپ نے مصری حکومت کا تختہ الٹ کر اسلامی حکومت کے قیام کے لیے چھ سال پر محیط مہم چلائی تھی ۔ تاہم شوریٰ کونسل کے سربراہ کرم زہدی نے چھ سال قبل ۱۹۹۷ء میں تشدد کا طریقہ ترک کر کے حکومت کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا جس پر جماعت کے اندر پھوٹ پڑ گئی اور گروپ کے تشدد پسند عناصر نے ۱۹۹۷ء میں لکسر کے قصبے میں ۵۸ سیاحوں کو قتل کر دیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مصری حکومت کے اس اقدام سے اسلامی گروپ سیاسی میدان میں متوجہ ہوں گے اور سب سے زیادہ آبادی رکھنے والے اس عرب ملک میں اعتدال پسندوں کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔ تجزیہ نگار ضیاء رشوان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام یہ بتاتا ہے کہ مصری حکومت کو اب یقین ہو گیا ہے کہ جماعت کی طرف سے کسی قسم کے مسائل کھڑے نہیں کیے جائیں گے اور یہ کہ یہ گروپ تشدد کو چھوڑ کر ایک سیاسی گروہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔
شوریٰ کونسل کے چیئرمین کرم زہدی اور دوسرے ارکان نے حال ہی میں اپنے انٹرویوز میں بتایا کہ ان کی جماعت کی متشددانہ سوچ میں تبدیلی آ چکی ہے اور وہ ریاست کے ساتھ مسلح تصادم کا طریقے کو ترک کر دینے کا عزم کر چکے ہیں۔ زہدی نے اپنی جماعت کی طرف سے کیے جانے والے مسلح آپریشنز پر معذرت کی اور کہا کہ وہ متاثرین کو تاوان دینے کے لیے تیار ہیں۔زہدی نے اپنے بیان میں مصر کے صدر انور السادات کے قتل کی بھی مذمت کی اور کہا کہ ان کی جماعت کو یہ اقدام نہیں کرنا چاہیے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے والے ’’باغی‘‘ تھے جنہوں نے انور سادات اور ان کے ساتھ دوسرے افراد کو ’’شہید‘‘ کر دیا۔
۱۹۸۱ء سے ۱۹۹۷ء تک اسلامی گروپوں اور حکومت کے مابین مسلح تصادم کے ضمن میں گرفتار کیے جانے والوں میں سے اب تک سولہ ہزار افراد کو رہا کیا جا چکا ہے، جن میں سے پانچ ہزار افراد کی رہائی ۱۹۹۹ء سے اب تک عمل میں آئی، جبکہ ایک اندازے کے مطابق ابھی مزید دس ہزار افراد سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
مصری وزیر داخلہ حبیب العدلی نے کہا کہ حالیہ رہائیاں مصری حکومت کے طے کردہ اس واضح معیار کے مطابق عمل میں آئی ہیں کہ گرفتار شدگان اپنے طریقہ فکر میں مخلصانہ تبدیلی لے آئیں اور تشدد کا طریقہ ترک کرنے کا عزم کر لیں۔
http://www.arabicnews.com
http://www.rantburg.com)
دینی مدارس میں جدید تعلیم کا مسئلہ
ادارہ
(۱)
دینی مدارس کی سند ۔چند توجہ طلب مسائل
(مولانا مشتاق احمد)
برصغیر میں دینی مدارس کی تاریخ، نصاب اورنتائج پر برسوں سے اہل علم گفتگو کرتے چلے آرہے ہیں۔ دینی مدارس کے متعلق تین قسم کے نقطہ ہائے نظرپائے جاتے ہیں:
ایک گروہ درس نظامی کے چار سو سال پرانے نصاب میں کسی قسم کی تبدیلی کا روادار نہیں ہے۔ ان پر اتنا سخت جمود طاری ہے کہ باید وشاید۔ احقر نے بعض اہل علم کو یہ کہتے سنا کہ الحمدللہ میں نے تین دفعہ شرح جامی پڑھی ہے ۔اس گروہ کا ایک طرز یہ بھی ہے کہ طلبہ کو بعض کتب مثلاًشرح ماءۃ عامل ،کافیہ وغیرہ حفظ کراتے ہیں۔ راقم کو بعض ایسے حافظ طلبہ سے طالب علمی کے دور میں ملنے کااتفاق ہوا ہے۔ تیسیر المنطق ابتدائی طلبہ کے لیے ایک مشکل کتاب ہے اور اس مشکل کے ازالہ کے لیے بہت سی شروح تو لکھ دی گئی ہیں لیکن تیسیر المنطق کی جگہ تسہیل المنطق وغیر ہ کو داخل نصاب کرنا گوارا نہیں کیا گیا۔ اس طبقہ کے جمود کی مثالوں کا احاطہ کرنے لیے ایک الگ مقالہ درکار ہوگا ۔
دوسراگروہ اس قدیم نصا ب میں مناسب تبد یلیاں کر نے کا خو ا ہا ں ہے۔ مخد و م العلما ء محد ث العصر حضر ت مولانا سید محمد یوسف بنو ر ی قد س سرہ تبدیلی نصا ب کے ایک دور میں پر جو ش داعی تھے۔ لیکن وفا ق المد ا رس کے سربراہ ہو نے کے با و جو د ہ وہ یہ تبد یلیا ں نہ لا سکے۔ معلو م نہیں بعد میں ان کی رائے بدل گئی تھی یا وفا ق المد ارس کو اسم با مسمیٰ بنانے کا تقا ضا غا لب آیا اور دینی مد ارس کو انتشار سے بچا نے کے لیے وہ یہ قد م نہ اٹھا سکے۔
تیسرا گروہ سیکو لر ذہن رکھتا ہے اور ان کے پاس دینی مد ا رس کا نا طقہ بند کر نے کے لیے بے شما ر اعتر ا ضا ت ہیں، مثلاً:
۱۔ دینی مدا رس ’’ بنیا د پر ستی ‘‘ اور ’’دہشت گردی ‘‘ کی تعلیم دیتے ہیں ۔
۲۔ مدارس میں عصر ی تعلیم کا ا نتظا م نہیں ہے۔ وہا ں ڈا کٹر ی ، انجینئرنگ وغیرہ کے کو رس نہیں کر ائے جاتے۔
۳۔ مد ارس کا نصا ب یکسر بد ل دینا چا ہیے۔ دنیا چاند پر پہنچ گئی اور مو لو ی صاحبان ہنو ز صد یاں پیچھے ہیں۔
۴۔ یہ مدارس فرقہ و ا ریت پھیلا نے کے مر ا کز ہیں۔ وغیرہ
اس وقت پہلا گروہ بھی ہما را مخا طب نہیں ہے کہ ہم ان کو جمود تو ڑ نے پر قا ئل کر نے لیے د لا ئل دیں۔ تیسر ے گروہ کے دینی مد ارس پر اعترا ضا ت ہما رے نز د یک خلو ص پر مبنی نہیں ہیں۔ زیا دہ تر بیو رو کریٹ اور حکمرا ن اپنی آ ز ا دی کے لیے دینی مد ا رس کو خطرہ سمجھتے ہیں اور ان کے اعترا ضا ت دینی مدارس کو دبا نے کے لیے ہو تے ہیں۔خلو ص رکھنے والے ان معتر ضین میں بہت کم ہیں۔ تا ہم اس بات کا جا ئزہ لینے کی واقعتا ضرورت ہے کہ ان کے اعتراضات کس حد تک جائز ہیں اور ان کا تد ارک کیسے کیا جا سکتا ہے۔
احقر دوسر ے گروہ سے تعلق رکھنے وا لے ا کا بر کی خد مت میں چند گزا رشات پیش کر نا چا ہتا ہے۔ ان سے التماس ہے کہ و ہ ’’ما قا ل ‘‘ پر نظر فر ما ئیں اور ’’ من قال ‘‘ کو نظر اندا ز فر ما دیں۔ الحکمۃ ضا لۃ المو من کا تقا ضا یہی ہے۔
جدید چیلنج کا مقا بلہ اور عصر ی تقا ضو ں کی رعا یت دین اسلام کی بنیادی خصو صیت ہے۔ نبی کریم ﷺ کا خا نہ کعبہ کے طر ز تعمیر کو تبدیل نہ کرنا اس با ت کی وا ضح مثا ل ہے۔ فقہ حنفی میں، جس کے ما ننے والے دنیا میں کر وڑوں کی تعداد میں ہیں، عصری تقا ضو ں کی ر عا یت پر مبنی قوا عد و ضو ابط مو جو د ہیں۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا ’’انا نستعد للبلاء قبل نزولھا فاذا ما وقع عرفنا الد خول فیہ والخر وج منہ۔‘‘ ہم مصیبت آنے سے پہلے اس کے مقابلہ کے لیے تیاری کر لیتے ہیں تاکہ جب وہ پیش آئے تو ہمیں معلو م ہو کہ اب کیا کر نا ہے ۔اور مزید فر ما یا ’’ لولا ھذا لیقی النا س فی الضلا لۃ‘‘ اگر یہ پیشگی تیا ری نہ ہو تو لو گ گم کر دہ راہ ہو جا ئیں۔
دینی مدارس میں عصر ی تقا ضو ں کی رعا یت کر نے کے متعلق مو لانا ر ضو ا ن القا سمی لکھتے ہیں :
’’جد ید چیلنج کے مقا بلہ اور عصری تقاضوں کی رعا یت سے میر ی مراد یہ ہے کہ طا لبانِ مدارس درس گاہو ں کے مضبو ط حصا ر سے باہر کے بعد جن حالا ت سے دو چار ہو ں، وہ ان کے لیے ناما نو س اور اجنبی نہ ہوں اور وہ یہ سوچنے پر مجبو ر نہ ہو جا ئیں کہ انہو ں نے اپنی عمر کا ایک معتد بہ حصّہ ایک ایسے قلعہ میں بند رہ کر گز ارا ہے جس کا باہر کی دنیا سے کو ئی رشتہ نہ تھا بلکہ وہ اس پوزیشن میں ہوں کہ موجودہ تمدن کو، جس کے رگ و پے میں الحاد ودہریت کا خون دوڑ رہا ہے ،جس میں علو م ومعارف کے ذریعہ خالق کائنات سے تعلق جڑنے کے بجائے ٹوٹنے اور قرار کے بجائے فرار کی تعلیم دی جاتی ہے، اسلام اور اخلاقی سانچہ میں ڈھال کر مسلمان بناسکیں۔ اسلام کے پیش کردہ نظام حیات اور اس کے تمام شعبوں پر ان کو گہری بصیر ت حاصل ہو۔ اسلام کے خلاف ہونے والے فکری اور نظریاتی اعتراضات سے بھی وہ نابلد نہ ہوں۔ اس کا مسکت جواب دینے کی بھی صلاحیت رکھتے ہوں اور اس کاجذبہ بھی اور اس پر کامل وقوف بھی۔‘‘ (دینی مدارس اور عصر حاضر صفحہ ۲۱ ،۲۲ بحوالہ برصغیر کے دینی مدارس از مولانا محمد عیسیٰ منصوری ص ۲۳،۲۴)
دینی مدارس کا آٹھ سا لہ نصا ب پڑ ھنے کے با و جو د ایک فا ضل در س نظا می جو مشکلا ت اپنے لیے محسو س کر تا ہے، اس کی چند مثا لیں درج ذیل ہیں :
۱۔ آٹھ سال دینی تعلیم پا نے کے با و جو د وہ فا ضل اتنی استعد اد نہیں ر کھتا کہ ا سلا م کی حقا نیت پر کسی نجی یا عو ا می مجلس میں آدھ پون گھنٹہ سنجیدہ گفتگو کر سکے۔
۲۔ تحر یر کا ملکہ نہ ہو نے کے برابر ہو تا ہے۔ بیشتر د ینی رسا ئل کے متعلق ہما ر ی سو چی سمجھی را ئے یہ ہے کہ ان کو شائع کر نا اور قارئین کا ان کو پڑ ھنا وقت اور و سا ئل کے ضیاع کے سو ا کچھ نہیں ۔اکثر فضلا شستہ اند از تحر یر سے محر و م ہیں۔
۳۔ فضلا تا ر یخ سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ خود مسلما نو ں کی چو دہ سو سالہ تا ر یخ کے متعلق کوئی مستند کتا ب نصا ب میں شا مل نہیں ہے۔
۴۔ ہما رے فضلا انگریزی تو ایک طر ف، عر بی بو لنے اور لکھنے سے بھی قا صر ہیں حا لا نکہ دور جد ید میں دعوت دین کے تقا ضو ں کو پو را کرنے کے لیے انگریزی اور عربی میں مافی الضمیرکے اظہار پر قد رت ضروری ہے۔ اس کے بغیر دین کی وسیع خد مت کا حق ادا نہیں ہو سکتا ۔
اس کے علاوہ دینی مدارس کے نظام کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ اسا تذہ کر ام کو طر یقہ تد ر یس کی تر بیت دینے کا کو ئی منظم طر یقہ کا ر مو جو د نہیں ہے جس کے نتیجہ میں تعلیمی زوال جنم لے رہا ہے۔
آمد م بر سر مطلب! اما م ابو حنیفہ کے فر ما ن کو ایک مر تبہ پھر دہرا لیجیے کہ ’’ مصیبت آنے سے پہلے ہم اس کے مقابلہ کی تیاری کر لیتے ہیں تا کہ جب وہ پیش آئے تو ہمیں معلو م رہے کہ اب کیا کر نا ہے۔‘‘ اس دائرے میں تو ہما رے دینی مدارس کی خدمات کا کوئی انکار نہیں کہ ان کی بد ولت مسا جد کے لیے مؤ ذن ، اما م اور خطیب وا فر بلکہ زائد از ضرورت مقد ار میں میسر ہیں۔ ان عہدوں کے لیے کبھی اشتہار بازی نہیں کر نی پڑی۔ کبھی کسی مسجد میں ایسا و ا قعہ پیش نہیں آیا کہ اما م میسّر نہ ہونے کی وجہ سے دو چا ر وقت نما ز با جما عت نہ ہو سکی ہو۔ لیکن عصر حا ضر کے تقا ضو ں کو پو را کرنے کے لیے کو ئی اجتما عی منصوبہ بندی نہیں ہے۔اس کی واضح مثا ل دینی مدارس کی اسنا د کا بحرا ن ہے۔ ہما ری نا قص رائے کے مطا بق یہ درست ہے کہ یہ بحران حکو متی ا شا روں پر پیدا ہوا او ر اس کا مقصد مجلس عمل کو بلیک میل کرنا ہے۔ یہ بھی در ست ہے کہ ان ا سنا د کے متعلق حکو متی پا لیسیو ں میں و ا ضح تضا د ہے۔ یہ سب درست ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا کبھی دینی مدا رس کے اربا ب بست و کشاد نے یہ سو چا کہ جہا ں ہم خا لص دینی علوم کے علما تیا ر کر رہے ہیں، وہا ں ہم تخصص کے درجہ میں ہر سا ل دو چا ر علما ایسے بھی تیا ر کریں جو قد یم درسی تعلیم کے ساتھ جد ید تعلیم کی مر وجہ اسنا د کے بھی حامل ہوں؟ ایسے لوگ بوقت ضر ورت کام آتے،حکو متی جبر کا بآ سا نی مقا بلہ کر لیتے اور دینی مدارس کی اسنا د کی اہمیت کو جتلانے کے لیے عجیب و غریب قسم کے استدلالات پیش کرنے کی ضر ورت پیش نہ آتی ۔ہر سال جد ید و قد یم تعلیم کا امتزاج ر کھنے والے دو چا ر علماء کرام تیا ر کرنا ، ہما رے دینی مدارس کی بالعموم اور جمعیت علماء اسلا م اور دیگر دینی و سیا سی جما عتو ں کی بالخصو ص ذمہ داری ہے۔
اگر ہما ری دینی سیا سی جماعتیں وا قعتاً قو م ، ملک اور اسلا م کا درد رکھتی ہیں تو ان جما عتو ں کو دور حاضر کے تقاضوں کے مطا بق قیادت تیا ر کر نا ہو گی۔ اس کے لیے اپنی انا نیت اور جاہ پرستی کو قر با ن کر نا ہو گا ۔حکو متی دباؤ کے مؤ ثر مقا بلہ کے لیے یہ اقدام ضر وری ہے۔ ورنہ آئے دن اس طرح کے بحر انو ں کا سامنا کر نا ہو گا۔کہیں ایسا نہ ہو کہ منا سب تیا ری نہ ہو نے کے باعث لبنان، ترکی یا الجزائر جیسے حالا ت پیدا ہو جائیں۔ اگر ایسا ہو ا تو ’’تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستا نو ں میں‘‘ ۔
(۲)
۴۔ اگست ۲۰۰۳ء
جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم
میں روزنامہ اسلام میں آپ کا کالم ’’نوائے حق‘‘ نہایت دلچسپی اور غور سے پڑھتی ہوں۔ ۴/ اگست کے کالم بعنوان ’’دینی خدمات انجام دنے والے عضو بیکار نہیں‘‘ میں جو باتیں آپ نے لکھی ہیں، وہ نہایت غور طلب ہیں۔ اگر آپ برا نہ مانیں تو ایک امر کی طرف آپ کی توجہ معذرت کے ساتھ مبذول کرانا چاہوں گی۔ وہ ہے دینی مدارس کے وفاقوں کی اسناد کا معاملہ جن کے بارے میں پورے ملک میں شک وشبہے کا طوفان کھڑا ہو گیا ہے۔
میں اس سلسلے میں اپنے ذاتی تجربے کے حوالے سے بات کرنا چاہوں گی۔ محض اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے میرے سب سے چھوٹے لڑکے نے کراچی کے ایک بہترین اسکول سے او لیول اور پھر انٹر کرنے کے بعد جامعۃ الرشید میں پورے خاندان کی مخالفت کے باوجود داخلہ لیا ہے اور اب تیسرے سال میں ہے حالانکہ اس کا انٹر کے بعد انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاوئنٹنٹ میں داخلہ ہو گیا تھا۔ اس کے بڑے دونوں بھائی کمپیوٹر سسٹم انجینئر ہیں اور ان کے والد بھی مکینکل انجینئر ہیں اور دونوں بہنیں کانونٹ کی پڑھی ہوئی ہیں مگر صرف اس بچے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے گھرانے پر اپنا خصوصی فضل کیا اور ہم کچھ ٹوٹے پھوٹے ہی سہی، دین کی طرف مائل ہو گئے اور ہمارے دلوں میں دین کے لیے درد پیدا ہو گیا۔ اگرچہ عمل میں ہم کورے ہی ہیں، مگر بزرگوں اور اکابر سے ہمارا خصوصی تعلق ہو گیا ہے۔
باوجود اس کے کہ میرا یہ بچہ مدرسے میں پڑھ رہا ہے، خاندان اور برادری کے لوگ اور ملنے والے مدارس کے عام بچوں کی طرح اس کو جاہل نہیں سمجھتے کیونکہ ایک تو اس نے او لیول کیا ہے، دوسرے انگلش آتی ہے۔ اس لیے اگر آپ بزرگوں کی رائے اس بات کے حق میں ہو اور دینی تعلیم اور تربیت پر کوئی فرق نہ پڑے تو جدید تعلیم یافتہ علما تیار کرنے کے لیے دو نکاتی پروگرام پر عمل کیا جائے:
۱۔ پورے پاکستان کے مدارس کے ذہین بچوں کو پرائیویٹ طور پر میٹرک، انٹر، بی اے اور بی کام وغیرہ کرنے کی ترغیب دی جائے۔ اس طرح دو سے چھ سال کے عرصے میں ہزاروں گریجویٹ علما تیار ہو سکتے ہیں۔ ہماری قومی عادت صرف باتیں کرنے اور شور مچانے کی ہو گئی ہے اور سستی اور غفلت ہمارے اندر سرایت کر گئی ہے۔ اگر ہمیں مغرب اور خود اپنے ملک کے مغرب زدہ ذہنوں کا مقابلہ کرنا ہے تو خاموشی سے اس تعلیمی منصوبے پر عمل کرنا ہوگا۔
۲۔ علما حضرات کے خاندان، برادری اور ملنے والوں میں جو بچے او لیول کر رہے ہیں، وہ چونکہ میٹرک کرنے والے بچوں سے زیادہ ذہین اور مضامین کو جلد جذب کرنے اور سمجھنے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں، ا س لیے ایسے بچوں کو خصوصی طور پر ترغیب دے کر مدارس میں علم دین کے حصول کے لیے آمادہ کرنے کی کوئی خصوصی پالیسی بنائی جائے ۔ چونکہ ان بچوں کی انگلش خاص طور پر معیاری ہوتی ہے، اس لیے یہ مغربی میڈیا کا بہتر مقابلہ کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں میٹرک، انٹر اور بی اے کرنا کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ لاکھوں کی تعداد میں گائیڈز، حل شدہ پرچے، نوٹس، امکانی پرچے ہر شہر کے گلی کوچے میں بک رہے ہیں۔ یہ بھی ایک عام مشاہدہ ہے کہ پاکستان میں طلبہ کی اکثریت، چاہے وہ میٹرک کی ہو یا انٹر اور بی اے کی، امتحان سے صرف ایک یا ڈیڑھ ماہ پہلے کتابیں کھولتی ہے اور کسی نہ کسی طرح رٹ رٹا کر پاس ہو جاتی ہے۔ دینی مدارس کے طلبہ کم از کم اس معیار کی ’’جدید تعلیم‘‘ تو حاصل کر ہی سکتے ہیں۔ تاہم اگر ان اسناد کو حاصل کرنے میں مدارس کے طلبہ کے اصل مقصد یعنی علوم دین کے حصول میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہو تو یقیناًان کا جدید تعلیم سے جاہل رہنا بہتر ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔
اگر کوئی بات ناگوار گزری ہو تو معذرت چاہتی ہوں۔
دعاؤں کی طالب
والدۂ عماد
کراچی
نواب زادہ نصر اللہ خانؒ کا سانحہ ارتحال / مولانا محمد اعظم طارقؒ کی شہادت
ادارہ
ایک فعال سیاسی زندگی گزارنے کے بعد نواب زادہ نصر اللہ خان بھی چل بسے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ برصغیر کی کلاسیکل سیاست کے آخری چراغ تھے۔ اس اعتبار سے ان کا سانحہ ارتحال سیاست کے روایتی اسلوب کی بھی موت ہے۔ نواب زادہ نصر اللہ مرحوم نے مروج انداز سیاست کے برعکس جی ایچ کیو کو کعبہ وقبلہ نہیں بنایا بلکہ سیاسی اختلاف رکھنے والوں کو ’’غدار اور ایجنٹ‘‘ قرار دینے سے بھی ہمیشہ گریز کیا۔ ہماری رائے میں یہ ایسا طرز عمل ہے جس کے فروغ کی اشد ضرورت ہے۔
وطن عزیز کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ نواب زادہ مرحوم نے سیاسی فضا کی آشفتہ سری کے باوجود سیاست کو ہی اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ ان کے کردار کا قابل تعریف پہلو یہ ہے کہ انہوں نے کاروباری سیاست نہیں کی، یعنی سیاست میں کاروباری انداز میں ’’سرمایہ کاری‘‘ نہیں کی، بلکہ انہوں نے ہمیشہ ’’خرچ‘‘ کرنے کی پالیسی ہی اپنائے رکھی۔
جہاں تک جمہوریت کے لیے نواب زادہ مرحوم کی خدمات کا تعلق ہے، ان کا احاطہ کرنے کے لیے وطن عزیز کی پچپن سالہ تاریخ کا تذکرہ کرنا پڑے گا جس کے لیے سینکڑوں صفحات درکار ہیں۔ یہاں اتنا عرض کرنا کافی ہوگا کہ اگر پاکستان کی جمہوری جدوجہد میں سے نواب زادہ مرحوم کا کردار نکال دیا جائے اور اس مفروضے کے تحت تاریخ پاکستان کی جمہوری جہت کا مطالعہ کیا جائے کہ نواب زادہ موجود نہیں ہیں تو صاف عیاں ہو جائے گا کہ اس شخصیت کی عدم موجودگی میں آمریت کو چیلنج کرنے کی روایت قائم ہی نہ ہوتی اور آج یہ سوال ہی پیدا نہ ہوتا کہ ملک میں اقتدار اعلیٰ پارلیمنٹ کو حاصل ہے یا جی ایچ کیو کو۔
نواب زادہ مرحوم کے بعد اب ہم پھر ایک ’’تاریخی موڑ‘‘ پر کھڑے ہیں۔ آنے والے چند سال بتائیں گے کہ آیا ہماری جمہوری جدوجہد کا مرکز ومحور ایک ہی شخصیت تھی۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ایک المیہ ہوگا۔ یہ بات ہم اس لیے عرض کر رہے ہیں کہ ہمارے ہاں ہر کام، خواہ اس کی نوعیت کوئی بھی ہو، شخصیات کے گرد گھومتا ہے۔ نواب زادہ مرحوم کی قد آور شخصیت کی اہمیت اپنی جگہ لیکن یہ بات بہت اہم ہے کہ ان کی جاری کردہ جدوجہد کی نوعیت اداراتی ہے یا شخصی؟ ہمیں بجا طور پر توقع رکھنی چاہیے کہ نواب زادہ مرحوم کے تربیت یافتگان ان کے وسیع آدرش کو پیش نظر رکھیں گے۔
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے رہے ہیں اور شاید آئندہ بھی کرتے رہیں گے کہ نواب زادہ مرحوم نے ہر حکومت کو ’’گرانے‘‘ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ حکومت کے خاتمے پر نئی حکومت بننے کے بعد وہ پھر ’’پرانا عمل‘‘ شروع کر دیتے تھے اور نئی حکومت کو بھی ’’گرا‘‘ کر ہی دم لیتے تھے۔ اس طرح سیاست میں ان کے کردار پر منفی چھاپ غالب نظر آتی ہے۔ بظاہر یہ بات درست معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ جمہوریت کا وجود ہی اپوزیشن کی مرہون منت ہے لہٰذا جمہوری حکومت کی مخالفت کرنے سے خرابی نہیں پیدا ہوتی بلکہ ذمہ داری کا عنصر جنم لیتا ہے۔ ویسے بھی کسی بھی جمہوری حکومت کے تمام اقدامات سے ہر شخص کلی اتفاق نہیں کر سکتا اور یہ اپوزیشن کا ہی پلیٹ فارم ہوتا ہے جہاں سے اختلاف کا باقاعدہ اور مسلسل اظہار کیا جاتا ہے۔ باقی رہی بات آمریت کی مخالفت کی تو اس سلسلے میں نواب زادہ کے کردار پر کوئی معذرت خواہ رویہ اپنانے کی ضرورت نہیں کیونکہ جمہوریت کا بوریا بستر گول کرنے والوں کا اپنا بوریا بستر بھی ہر صورت میں گول ہی ہونا چاہیے۔
بہرحال نواب زادہ مرحوم کے سیاسی قد کاٹھ اور ان کی خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے برملا کہا جا سکتا ہے کہ ان کی وفات نے ایک عظیم خلا پیدا کر دیا ہے۔ اب بھلا
’’وقت سے کون کہے، یار، ذرا آہستہ
گر نہیں وصل تو یہ خواب رفاقت ہی ذرا دیر رہے،
وقفہ خواب کے پابند ہیں
جب تک ہم ہیں !!
یہ جو ٹوٹا تو بکھر جائیں گے سارے منظر
(تیرگی زاد کو سورج سے فنا کی تعلیم)
ہست اور نیست کے مابین اگر
خواب پل نہ رہے
کچھ نہ رہے!
وقت سے کون کہے،
یار، ذرا آہستہ!‘‘
جی ہاں، ہم نواب زادہ مرحوم کو ’’وقفہ خواب‘‘ سے تعبیر کر سکتے ہیں، خوابِ رفاقتِ جمہوریت۔
اگرچہ وطن عزیز میں جمہوریت صحیح معنوں میں کبھی مستحکم نہیں ہو سکی کہ ہر بار اس کلی کو کھلنے سے پہلے ہی مسل دیا گیا اور پھر کہا گیا کہ اس کے تو ’’تخم‘‘ میں ہی خامی ہے، لیکن نواب زادہ مرحوم نے جمہوریت کے تخم پر بے اعتباری کو کبھی پھلنے پھولنے نہ دیا۔ ان کی رحلت کے بعد بھی ہم دوست ملک چین کے اردو شاعر جناب چانگ شیوآن کے الفاظ میں کہہ سکتے ہیں،
خزاں گزیدہ چمن میں بہار باقی ہے
کہ تخمِ گل پہ مرا اعتبار باقی ہے
(پروفیسر میاں انعام الرحمن)
مولانا محمد اعظم طارقؒ کی شہادت
ملت اسلامیہ پاکستان کے راہنما اور قومی اسمبلی کے رکن مولانا محمد اعظم طارقؒ بھی اپنے پیش روؤں کی طرح جامِ شہادت نوش کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے قتل کا سانحہ نہ صرف ان کے خاندان اور ان کی جماعت کے کارکنوں کے لیے ایک عظیم صدمے کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ ملک کے وہ تمام سنجیدہ وفہمیدہ عناصر بھی اس حادثے پر غم زدہ ہیں جو وطن عزیز میں شیعہ سنی کشیدگی، فرقہ وارانہ قتل وغارت اور امن وامان کی صورت حال پر پہلے ہی خون کے آنسو رو رہے ہیں۔
اس سانحے نے شیعہ سنی تعلقات کے حوالے سے مولانا حق نواز جھنگوی شہید اور ان کے جانشینان کی اختیار کردہ پالیسی کے متعلق ان سوالات کی اہمیت کو ایک دفعہ پھر اجاگر کر دیا ہے جن پر غوروفکر کی دعوت خود سنجیدہ دیوبندی حلقے سراً وعلانیۃً آغاز ہی سے دیتے چلے آ رہے ہیں۔ اہل تشیع کی جانب سے امہات المومنین اور اکابر صحابہ کرام کے خلاف نازیبا اور اخلاق سے گری ہوئی زبان کا استعمال ایک حقیقت واقعہ ہے، چنانچہ کالعدم سپاہ صحابہ یا اس کی جانشین ملت اسلامیہ پاکستان نے صحابہ کرام کی عظمت وناموس کے تحفظ کے جس مشن کا علم اٹھایا ہے، اس کے جائز اور مبنی بر حق میں کوئی کلام نہیں ہو سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کے تدارک کے لیے جو حکمت عملی اختیار کی گئی، کیا اس کو وضع کرتے وقت ان آثار ونتائج کا پیشگی جائز ہ لے لیا گیا تھا جو، بہرحال، سامنے آنے تھے؟ اور اگر پیشگی ایسا نہیں کیا جا سکا تو کیا پیش آمدہ حالات وواقعات یہ بتانے کے لیے کافی نہیں کہ یہ حکمت عملی حصول مقصد کے لیے کسی بھی طرح سے مفید نہیں بلکہ الٹا غیر مطلوب نتائج پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے؟
اگرچہ قرائن وشواہد یہ بتاتے ہیں کہ مولانا جھنگوی شہید اور ان کے جانشینوں کو اس متشددانہ حکمت عملی کے منفی اثرات نے اس پر نظر ثانی کرنے اور ایک زیادہ قابل عمل، پرامن اور نتیجہ خیز طریقہ کار اپنانے کے لیے ذہنی طور پر بڑی حد تک آمادہ کر دیا تھا، لیکن تشدد اور نفرت کی آگ ایسی ہے کہ اس کو ایک دفعہ بھڑکا دیا جائے تو پھر یہ آگ لگانے والوں کے بس میں نہیں رہتی بلکہ خود انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ مولانا اعظم طارق شہید کے جانشینوں میں اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت کا احساس کس حد تک پایا جاتا ہے، لیکن اس بات میں کسی شک وشبہے کی گنجائش نہیں کہ اس سوال کا سامنا کرنے ہی میں ان کے مشن کی کامیابی اور قومی وملی مفادات کے تحفظ کا راز پوشیدہ ہے۔
(عمار ناصر)
مولانا عزیز الرحمن ہزارویؒ کا انتقال
ممتاز عالم دین استاذ العلما حضرت مولانا عزیز الرحمن ہزارویؒ گزشتہ دنوں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا مرحوم مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے بالکل ابتدائی زمانے کے فضلا میں سے تھے اور بعد میں ایک عرصہ تک اسی ادارے میں تعلیم وتدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی، مدرسہ نصرۃ العلوم کے استاذ الحدیث مولانا عبد القدوس قارن اور دیگر متعدد اساتذہ وعلما کو ان سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ مولانا مرحوم کافی عرصہ سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔ ان کے دو بھائیوں کی وفات کا صدمہ، جو گزشتہ چند ماہ کے عرصے میں ہی دنیاے فانی سے رخصت ہوئے، ابھی تازہ تھا کہ اعزہ اور رفقا کو ان کی جدائی کا صدمہ بھی سہنا پڑ گیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مولانا مرحوم اور ان کے برادران کی مغفرت فرمائیں، ان کے درجات بلند فرمائیں اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عنایت فرمائیں۔ آمین
ڈاکٹر غلام محمد کو صدمہ
جمعیۃ علماء اسلام (س) پنجاب کے نائب امیر ڈاکٹر غلام محمد کی والدہ محترمہ اور بیٹی گزشتہ دنوں قضاے الٰہی سے انتقال کر گئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ احباب سے ان کی مغفرت اور بلندئ درجات کے لیے دعا کی درخواست ہے۔ ڈاکٹر غلام محمد صاحب نے ان تمام احباب کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے ملک بھر سے بالمشافہہ یا بذریعہ خط ان کے تعزیتی پیغامات بھیجے ہیں۔ (ادارہ)
شبیر احمد خان میواتی کو صدمہ
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کی مجلس ادارت کے رکن شبیر احمد میواتی صاحب کے برادر محترم حافظ محمد یعقوب صاحب گزشتہ دنوں قضاے الٰہی سے وفات پا گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم پر کچھ عرصہ قبل فالج کا حملہ ہوا تھا اور وہ متعدد ہسپتالوں میں زیر علاج رہے، لیکن بیماری آخر جان لیوا ثابت ہوئی۔ قارئین سے مرحوم کے لیے مغفرت اور پس ماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا کی گزارش ہے۔
الشریعہ اکادمی میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ سیمینار
ادارہ
الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ۴ ستمبر ۲۰۰۳ء کو عالم اسلام کے نامور محقق ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ کی یاد میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا۔ تلاوت کلام پاک سے تقریب کے آغاز کے بعد مقررین نے مختصر وقت میں ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور ان کی خدمات کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔
جامعہ اشرفیہ لاہور کے نائب مہتمم اور رابطہ ادب اسلامی پاکستان کے صدر مولانا فضل الرحیم نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے تنہا وہ علمی کام انجام دیا ہے جو عام طور جماعتیں اور انجمنیں ہی کر سکتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے یورپ کے دل میں بیٹھ کر اور فرانس جیسے شہر میں رہتے ہوئے کلمہ حق بلند کیا اور تحقیق وتالیف اور دعوت اسلام کے میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔
اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے چیئرمین ڈاکٹر محمود الحسن عارف نے ڈاکٹر صاحب کے تحقیقی کام کے خصوصی امتیاز پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے تاریخ اسلام کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے مستشرقین کے اعتراضات کا خود ان کی زبان اور اسلوب میں جواب دیا۔
جامعہ پنجاب میں شعبہ علوم اسلامیہ کے صدر حافظ محمود اختر صاحب نے کہا کہ بے شمار علمی مصروفیات کے باوجود ڈاکٹر صاحب اپنے نام لکھے جانے والے ہر خط کو باقاعدہ جواب دیتے تھے اور ان کے نزدیک خط کا جواب دینا گویا ایسا ہی تھا جیسے سلام کا جواب دینا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے خطوط اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ ان کو ایک ضخیم جلد کی صورت میں شائع کیا جا سکتا ہے۔
اشرف لیبارٹریز فیصل آباد کے ڈائریکٹر ڈاکٹر زاہد اشرف اور ماہنامہ التجوید فیصل آباد کے ایڈیٹر ڈاکٹر قاری طاہر محمود نے بھی ڈاکٹر حمید اللہ کی شخصیت کے متعدد پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ ڈاکٹر قاری محمد طاہر نے کہا کہ ڈاکٹر حمید اللہ نے ایک بھرپور علمی انہماک کے ساتھ ایک بامقصد زندگی گزاری اور ان کی زندگی کا یہ پہلو خاص طور پر نوجوان اہل علم اور طلبہ کے لیے قابل تقلید ہے۔
گوجرانوالہ کی معروف علمی وتعلیمی شخصیت پروفیسر غلام رسول عدیم نے ڈاکٹر صاحب کی خدمات کے حوالے سے ایک جامع اور بھرپور خطاب کی تمہید باندھی لیکن وقت کی قلت کے باعث اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔
’’خصوصی تربیتی کورس‘‘ کی تکمیل
ڈاکٹر حمید اللہؒ سیمینار کی مذکورہ تقریب کے دوران میں ہی الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ایک سالہ خصوصی تربیتی کورس ۲۰۰۲ء کی تکمیل کرنے والے فضلا کو کامیابی کی اسناد بھی دی گئیں۔ اکادمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر حافظ محمد عمار خان ناصر نے اختصار کے ساتھ اس کورس کے اغراض و مقاصد اور اس کے مشمولات کا تعارف کرایا، جس کے بعد مولانا فضل الرحیم نے کورس میں شریک ہونے والے پانچ طلبہ کو اسناد اور انعامات تقسیم کیے۔ ان طلبہ کے نام حسب ذیل ہیں:
محمد عامر بن رانا محمد انور (سرگودہا) ، محمد احسن ندیم بن محمد اسماعیل( سرگودہا)، عبد الحمید بن محمد بشیر (چارسدہ)، حسین احمد بن محمود الحسن (وزیرستان)، عبد الحمیدبن حمید اللہ انور (لاہور)
تقریب کے اختتام پر الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے شرکا کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا اور ان سے اکادمی کے پروگراموں کی کامیابی اور بہتری کے لیے دعا کی درخواست کی۔
ایک روزہ تعلیمی ومطالعاتی دورہ
۲۹ ستمبر ۲۰۰۳ء کو الشریعہ اکادمی کے اساتذہ وطلبہ نے تعلیمی ومطالعاتی مقاصد کے تحت لاہور کے مختلف علمی اداروں کا دورہ کیا۔ شرکا نے قومی عجائب گھر، دار الدعوۃ السلفیہ اور مجلس التحقیق الاسلامی کی لائبریریاں دیکھنے کے علاوہ جناب حافظ احمد شاکر، جناب حافظ عبد الرحمن مدنی اور جناب جاوید احمد غامدی کے ساتھ ملاقات کی اور مختلف علمی وفکری مسائل پر ان سے سوالات کیے۔ شرکا نے جامعہ اشرفیہ لاہور کے کمپیوٹر سنٹر کا بھی دورہ کیا جہاں انہیں اس شعبے کے تحت جاری مختلف سرگرمیوں سے متعارف کرایا گیا۔ شرکا نے اس تاثر کا اظہار کیا کہ مختلف مکاتب فکر کے مابین افہام وتفہیم کے فروغ اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو زیادہ بہتر انداز سے سمجھنے کے لیے اس طرح کے مطالعاتی دورے نہایت مفید ہیں اور دینی مدارس کے طلبہ کے لیے ایسی غیر نصابی سرگرمیوں کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔
چالیس روزہ عربی بول چال کورس
الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ۱۶۔ ستمبر تا ۲۵۔ اکتوبر ۲۰۰۳ء دینی مدارس اور سکول وکالج کے طلبہ کے لیے چالیس روزہ عربی بول چال کورس کا اہتمام کیا گیا جس میں الجزائر سے تعلق رکھنے والے عرب استاذ الشیخ حبیب النجار نے تعلیم وتدریس کے فرائض انجام دیے۔ درج ذیل طلبہ نے اس کورس میں شرکت کی اور امتحان میں کام یاب ہو کر سرٹیفکیٹ کے حق دار قرار پائے:
محمد عامر بن رانا محمد انور (سرگودھا)، محمد احسن ندیم بن محمد اسماعیل (سرگودھا)، عبد الحمید بن محمد بشیر (چارسدہ)، محمد شعیب بن اللہ یار (گوجرانوالہ)، حمید الرحمن بن حمید اللہ انور (لاہور)، محمد نعیم اللہ بن محمد اسلم (گوجرانوالہ)، محمد عمران بن محمد عارف (آزاد کشمیر)، محمد ظفر اقبال بن محمد اقبال (گوجرانوالہ)، عرفان علی بن نور علی (فجی آئر لینڈ)، خالد جاوید بن محمد الیاس (گوجرانوالہ)
تعارف و تبصرہ
ادارہ
’’علماء دیوبند اور مطالعہ مسیحیت‘‘
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے کلیہ اصول الدین کے استاذ جناب ڈاکٹر سفیر اختر تاریخ وسیاست کے فاضل محقق ہیں اور برصغیر میں مسلم فکر وتہذیب کا ارتقا اور اور اس کے مختلف علمی وعملی پہلو ان کی دل چسپی کا خاص دائرہ ہے۔ ان کا تالیف کردہ زیر نظر کتابچہ دو اہم مضامین پر مشتمل ہے جن میں برصغیر میں مطالعہ مسیحیت کے حوالے سے علماء دیوبند کی علمی وتحقیقی کاوشوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی گئی ہے۔
’’علماء دیوبند اور مطالعہ مسیحیت’’ کے عنوان سے پہلے مضمون میں مطالعہ مسیحیت کے حوالے سے جہاں واضح اور مخصوص دیوبندی شناخت رکھنے والے بزرگوں، مثلاً مولانا محمد قاسم نانوتوی، حافظ غلام محمد راندیری، مولانا شرف الحق دہلوی، مفتی کفایت اللہ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اور مولانا محمد ادریس کاندھلوی کا تذکرہ کیا گیا ہے، وہاں اکابر دیوبند کے ساتھ تلمذ یا استفادہ کا تعلق رکھنے والے بعض حضرات مثلاً مولانا عبد الحق حقانی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ماضی وحال کے اہل علم کا استقصا تو مولف کے پیش نظر یقیناًنہیں ہے، تاہم اس میدان کی بعض اہم شخصیات مثلاً مولانا عبد الماجد دریابادی اور سید سلیمان ندوی کا نام بآسانی شامل کیا جا سکتا تھا۔ اسی طرح مضمون کا دائرہ تھوڑا سا پھیلا کر حال کے بعض اصحاب قلم، مثلاً مولانا امین صفدر اوکاڑوی ، محمد اسلم رانا اور مولانا عبد اللطیف مسعود کا ذکر، سرسری طور پر ہی سہی، کر دیا جاتا تو بہتر تھا۔
دوسرا مضمون ’’میرٹھ ڈویژن میں مسیحی مشن اور مسلمانوں کا رویہ‘‘ کے زیر عنوان سید محبوب احمد رضوی کا تحریر کردہ ہے جسے فاضل مولف نے اردو کا جامہ پہنایا ہے۔ اس مضمون میں مسیحی مشنریوں کی ان تبلیغی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے جن کے مقابلے کے لیے برصغیر کے اہل علم میں مطالعہ مسیحیت کی تحریک پیدا ہوئی۔ یہ مضمون چونکہ مطالعہ مسیحیت کی اس تحریک کے لیے پس منظر فراہم کرتا ہے، اس لیے ہمارے خیال میں ترتیب کے لحاظ سے اس کو سابقہ مضمون سے پہلے جگہ ملنی چاہیے تھی۔
کتابچہ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ برصغیر کے دوسرے علمی حلقوں کی طرح علماء دیوبند کے ہاں بھی مطالعہ مسیحیت سے اعتنا اصلاً کسی علمی یا تحقیقی غرض سے نہیں بلکہ انگریزی دور اقتدار میں مسیحی مشنریوں کی مساعی کے رد عمل میں پیدا ہوا۔ یہ پس منظر کم از کم تین اہم حوالوں سے ابھی تک اس میدان میں کی جانے والی کاوشوں پر اثر انداز ہو رہا ہے:
ایک یہ کہ علما کی دلچسپی مطالعہ مسیحیت کے حوالے سے بنیادی طور پر مناظرانہ نوعیت کے امور تک محدود ہے اور وسیع تر تاریخی ومذہبی تناظر میں مطالعہ مذاہب کی جدید علمی روایت کو ابھی تک ان کے ہاں پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی۔
دوسری یہ کہ اس محدود مناظرانہ دائرے میں بھی ان کا زیادہ تر انحصار انیسویں صدی کے محققین کے فراہم کردہ مواد اور ذخیرے پر ہے۔ مولانا تقی عثمانی کی ’’عیسائیت کیا ہے؟’’، ڈاکٹر خالد محمود کے مقدمہ ’’کتاب الاستفسار’’ اور اس نوعیت کی چند دیگر تحریروں کے استثنا کے ساتھ اس سارے ذخیرے میں اسلوب یا مواد کے لحاظ سے کوئی جدت تلاش کرنا غالباً ناممکن ہوگا۔
تیسری یہ کہ یہ مساعی دعوت وابلاغ، افہام وتفہیم اور تحقیق وتنقیح کے جذبے کے بجائے بیشتر ’’ابطال باطل‘‘ کے اسلوب اور لہجے میں کی جا رہی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ صرف مسیحی مسلم تعلقات میں حالات وزمانہ کے تغیر اور مسیحی دنیا کے زاویہ فکر میں تبدیلی سے پیدا ہونے والی جہتوں سے طبقہ علما نابلد ہے بلکہ مسلم مسیحی مذہبی تصورات میں اشتراک کے وہ پہلو بھی جن کو قرآن مجید میں نہایت اہتمام کے ساتھ نمایاں کیا گیا ہے، اس فضا میں بالکل اوجھل ہو گئے ہیں۔
توقع کی جانی چاہیے کہ ہمارے اہل علم، بالخصوص فرزندان دیوبند اس صورت حال کے مضمرات پر غور کرنے کی ضرورت محسوس کریں گے۔
۴۰ صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ، جس کی قیمت غالباً سہواً ۵۰ روپے درج کر دی گئی ہے، دار المعارف، لوہسر شرفو، واہ کینٹ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’قواعد ترتیل القرآن فی تشریح جمال القرآن‘‘
قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے صحت تلفظ اور حسن ادائیگی کے لیے جن اصولوں اور قواعد کا لحاظ ضروری ہے، ان سے ’’علم تجوید‘‘ میں بحث کی جاتی ہے۔ مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ کی تصنیف کردہ ’’جمال القرآن‘‘ اسی فن کی ایک معروف اور متداول کتاب ہے جو دینی مدارس کے نصاب میں بھی داخل ہے۔ زیر نظر کتابچہ میں اس کتاب کے مندرجات کی تشریح وتفصیل کے حوالے سے ماضی قریب کے نامور ماہر فن قاری اظہار احمد صاحب تھانویؒ کے افادات کو ان کے تلمیذ رشید قاری مومن شاہ خٹک صاحب نے مرتب کر کے طلبہ واساتذہ کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ کتاب خوب صورت کتابت وطباعت کے ساتھ شائع کی گئی ہے اور علم تجوید سے اشتغال رکھنے والوں کے لیے ایک تحفہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
صفحات: ۱۰۶۔ قیمت درج نہیں۔ ناشر: ایچ ایم اقبال اینڈ سنز، حق سٹریٹ، اردو بازار، لاہور۔
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ ۔ اغراض ومقاصد اور سرگرمیاں
ادارہ
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ ۱۹۸۹ء سے اسلام کی دعوت وتبلیغ، اسلام مخالف لابیوں کی نشان دہی اور ان کی سرگرمیوں کے تعاقب، اسلامی احکام وقوانین پر کیے جانے والے اعتراضات وشبہات کے ازالہ، دینی حلقوں میں باہمی رابطہ ومشاورت کے فروغ اور نوجوان نسل کی فکری وعلمی تربیت وراہ نمائی کے لیے مصروف کار ہے۔ مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے خطیب اور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے صدر مدرس مولانا زاہد الراشدی اکیڈمی کے ڈائریکٹر ہیں جبکہ حافظ محمد عمار خان ناصر (ایم اے انگلش پنجاب یونیورسٹی، مدرس مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ) ڈپٹی ڈائریکٹر اور حافظ محمد یوسف (فاضل مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ) ناظم کے طور پر ان کی معاونت کرتے ہیں۔
گزشتہ چار سال سے جی ٹی روڈ گوجرانوالہ پر کنگنی والا بائی پاس کے قریب سرتاج فین کے عقب میں ہاشمی کالونی میں ایک کنال زمین پر الشریعہ اکادمی کی تین منزلہ عمارت زیر تعمیر ہے جس کا کچھ حصہ مکمل ہونے پر اکادمی کی تعلیمی سرگرمیاں دو سال قبل زیر تعمیر عمارت میں منتقل کر دی گئی ہیں۔
اکادمی کے زیر اہتمام:
- اکتوبر ۱۹۸۹ء سے علمی وفکری جریدہ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ پابندی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے جس میں ملت اسلامیہ کو درپیش مسائل ومشکلات اور جدید علمی وفکری چیلنجز کے حوالہ سے ممتاز اصحاب قلم کی نگارشات شائع ہوتی ہیں۔
- اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کے حالات حاضرہ کے حوالے سے معلوماتی اور فکر انگیز مضامین ہفتہ میں دو بار روزنامہ اسلام کراچی میں ’’نوائے حق‘‘ کے عنوان سے اور روزنامہ پاکستان لاہور میں ’’نوائے قلم‘‘ کے عنوان سے شائع ہوتے ہیں۔ روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے مضامین www.dailypak.com پر کالم کے سیکشن میں پڑھے جا سکتے ہیں۔
- ۲۰۰۲ء میں اردو زبان میں اسلامی ویب سائٹ www.alsharia.org لانچ کی گئی ہے جس پر ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے علاوہ مختلف اہم عنوانات پر منتخب مقالات ومضامین ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
- اکادمی کی زیر تعمیر مسجد میں پانچ وقت نماز باجماعت اور مقامی بچوں اور بچیوں کے لیے ناظرہ قرآن کریم کی کلاسیں باقاعدگی سے جاری ہیں۔
- مقامی طلبہ وطالبات کے لیے عربی گریمر کے ساتھ ترجمہ قرآن کریم اور ضروریات دین کے تعارف پر مبنی تین کلاسیں چل رہی ہیں۔
- دینی مدارس کے طلبہ کے لیے انگریزی زبان اور کمپیوٹر ٹریننگ کے تین تین ماہ کے چار کورس اب تک ہو چکے ہیں اور ہر سال کم از کم دو کورس ہوتے ہیں۔
- ۲۰۰۳ء میں دینی مدارس کے فضلا کے لیے ایک سالہ خصوصی تربیتی کورس کا اہتمام کیا گیا جس میں انہیں بین الاقوامی قوانین کا اسلامی احکام سے تقابلی مطالعہ، نفسیات، معاشیات، اور سیاسیات کا تعارفی مطالعہ، تقابل ادیان ومذاہب، تاریخ، عربی وانگریزی زبانیں، کمپیوٹر ٹریننگ اور مضمون نویسی کی تربیت کے علاوہ امام ولی اللہ دہلوی کی حجۃ اللہ البالغہ کے منتخب ابواب پڑھائے جاتے ہیں۔ اس سال پانچ فضلا نے سال بھر اکادمی میں قیام کر کے اس کورس کی تکمیل کی ہے۔ کورس کے شرکا سے کوئی فیس نہیں لی جاتی اور ان کے قیام وطعام اور تعلیمی اخراجات کی کفالت اکادمی کرتی ہے۔
- دینی مدارس اور سکول وکالج کے اساتذہ کے لیے ۱۶ ۔ستمبر سے ۲۵۔ اکتوبر تک جدید عربی بول چال کے چالیس روزہ خصوصی کورس کا اہتمام کیا گیا۔
- مقامی آبادی کو علاج معالجہ کی سہولت فراہم کرنے کے لیے ’’الشریعہ فری ڈسپنسری‘‘ قائم ہے جو روزانہ شام کے اوقات میں مریضوں کی خدمت انجام دیتی ہے۔
- ای میل کے ذریعے سے کسی دینی وعلمی فکری مسئلہ کے حوالے سے افہام وتفہیم کے لیے الشریعہ اکادمی سے رابطہ کیا جا سکتا ہے مگر مناظرانہ اسلوب اور بحث برائے بحث سے مکمل گریز کی درخواست ہے۔
آئندہ تعلیمی سال کے پروگرام
دسمبر ۲۰۰۳ء میں اکادمی میں دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے ایک مشاورتی وتربیتی ورک شاپ کا اہتمام کیا جا رہا ہے جس میں دینی مدارس میں طریقہ تدریس وتعلیم اور طلبہ کی فکری وذہنی تربیت کے حوالہ سے ضروری امور کا جائزہ لیا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
سال ۲۰۰۴ء کے لیے خصوصی تربیتی کورس کا آغاز جنوری سے ہوگا جبکہ داخلے کی درخواستیں دسمبر میں وصول کی جائیں گی۔
انٹر نیٹ پر Pal Talk پروگرام کے تحت (www.paltalk.com) تقاریر، خطبات اور لیکچرز کی براہ راست نشریات کا اہتمام کر لیا گیا ہے اور رمضان المبارک کے بعد پہلے مرحلہ میں ماہانہ فکری وعلمی نشست کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
آئندہ سال کے دوران میں ضروری دینی وتعلیمات پر مشتمل انٹرنیٹ کورس زیر ترتیب ہے۔ انتظامات مکمل ہونے پر اس کا آغاز کر دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ خالصتاً ایک تعلیمی اور رفاہی ادارہ ہے جس کی کوئی مستقل آمدنی نہیں ہے اور اس کے تمام تر اخراجات اصحاب خیر کے رضاکارانہ تعاون سے پورے ہوتے ہیں۔ اکادمی کے سالانہ تعلیمی اخراجات کا تخمینہ آٹھ لاکھ روپے ہے جبکہ تعمیری اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ اکادمی کے تہہ خانہ اور پہلی منزل کا بنیادی ڈھانچہ تعمیر ہو چکا ہے جبکہ مکمل تیاری کا کام باقی ہے۔ بالخصوص مسجد، لائبریری اور مدرسۃ البنات کی فوری تکمیل ضروری ہے جس کے اخراجات کا اندازہ بارہ لاکھ روپے ہے۔
احباب سے درخواست ہے کہ اس کار خیر میں مندرجہ ذیل صورتوں میں سے کسی صورت میں ہاتھ بٹائیں:
۱۔ پروگرام کی کام یابی اور قبولیت کے لیے بارگاہ ایزدی میں خصوصی دعا فرمائیں۔
۲۔ پروگرام کی کام یابی اور بہتری کے لیے اپنے مفید مشوروں، تجاویز اور راہ نمائی سے نوازیں۔
۳۔ اس میں علمی وفکری تعاون اور اشتراک کی کوئی صورت نکالیں۔
۴۔ خود ذاتی طور پر اور دوسرے اصحاب خیر کو توجہ دلا کر اکادمی کے تعلیمی وتعمیراتی اخراجات میں جتنا ممکن ہو سکے، تعاون کریں۔
۵۔ زیادہ سے زیادہ دوستوں کو الشریعہ ویب سائٹ کا ایڈریس دیں تاکہ وہ ماہنامہ ’’الشریعہ ‘‘ اور دیگر مضامین کا مطالعہ کر سکیں۔
۶۔ لائبریری کے لیے مختلف موضوعات پر کتابیں اور سی ڈیز مہیا کریں۔
۷۔اگر کوئی میگزین یا ویب سائٹ آپ کے زیر اثر ہے تو اس میں اکادمی کا تعارف شائع کرا دیں۔
۸۔ اپنے احباب اور متعلقین کو توجہ دلائیں تاکہ وہ اکادمی کے تعلیمی وتربیتی پروگراموں سے استفادہ کر سکیں۔
۹۔ اسلامی تعلیمات، احکام وقوانین اور تہذیب وثقافت کے حوالہ سے کوئی مخالفانہ سرگرمی، مواد یا پروگرام آپ کے علم میں آئے تو اس سے آگاہ کریں۔
۱۰۔ فضلا کے لیے ایک سالہ خصوصی کورس کے شرکا میں سے کسی کا خرچ اپنے ذمہ لے لیں۔
۱۱۔ الشریعہ فری ڈسپنسری کے لیے نقد عطیات یا دواؤں کی صورت میں تعاون فرمائیں۔
برائے تعاون و ترسیل زر
Alsharia
Current Account # 06820012601403
HBL, G.T. Road Branch
Gujranwala
Swift Code: HABBPKKA682
دسمبر ۲۰۰۳ء
امریکی مسلمانوں کی صورتحال اور مستقبل کی توقعات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اس سال رجب اور شعبان کی تعطیلات امریکہ میں گزارنے کا موقع ملا۔ ۱۸ ستمبر کو میں امریکہ پہنچا اور ۴ نومبر کو وہاں سے واپسی ہوئی۔ دار الہدیٰ، سپرنگ فیلڈ ورجینیا کے ڈائریکٹر مولانا عبد الحمید اصغر کا تقاضا تھا کہ ان تعطیلات میں وہاں حاضری دوں اور دار الہدیٰ میں مختلف موضوعات پر خطابات کے سلسلے میں شریک ہوں۔ اس سے قبل اسی سال مئی کے دوران میں کم وبیش تیرہ سال کے وقفہ کے بعد دو ہفتے کے لیے امریکہ گیا تھا اور اس وقت بھی زیادہ تر قیام دار الہدیٰ میں ہی رہا تھا۔ اسی موقع پر مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کی سالانہ تعطیلات کے دوران دار الہدیٰ میں مختلف عنوانات پر لیکچرز کا ایک پروگرام طے پا گیا تھا۔ اسی کے مطابق یہ سفر ہوا۔ یہ پروگرام کم وبیش ایک ماہ تک جاری رہا اور سیرت نبوی علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کے اہم پہلوؤں پر دس لیکچرز کے علاوہ بخاری شریف کی کتاب العلم اور مسلم شریف کی کتاب الفتن کا درس بھی اس پروگرام میں شامل تھا۔ بہت سے مسلمان بھائی اپنی مصروفیات کے باوجود پابندی کے ساتھ ان پروگراموں میں شریک ہوتے رہے۔ ان کی دلچسپی سے اندازہ ہوتا تھا کہ امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں میں دینی بیداری کا رجحان بڑھ رہا ہے اور قرآن وسنت کی تعلیم حاصل کرنے کا ذوق اضافہ پذیر ہے۔
سپرنگ فیلڈ اگرچہ ریاست ورجینیا کا حصہ ہے لیکن دار الحکومت واشنگٹن ڈی سی کے ساتھ ملحق ہونے کی وجہ سے اسی کا ایک محلہ معلوم ہوتا ہے اور راول پنڈی واسلام آباد کی طرح بسا اوقات یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ درمیان کے جس مقام پر ہم کھڑے ہیں، یہ واشنگٹن کا حصہ ہے یا سپرنگ فیلڈ میں شامل ہے۔
اس کے علاوہ مجھے نیو یارک، لانگ آئی لینڈ، پراوی ڈنس، بوسٹن، برمنگھم، بالٹی مور، لنکاسٹر، بفلو اور دیگر علاقوں میں جانے کا بھی موقع ملا اور مختلف اجتماعات میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ بوسٹن یونیورسٹیوں کا شہر ہے جہاں چند گھنٹوں کے لیے جانے اور چند یونیورسٹیوں کے درمیان گھومنے پھرنے کا اتفاق ہوا۔ آکسفورڈ کی یاد تازہ ہو گئی۔ بوسٹن جانے کا اچانک فیصلہ ہوا تھا اور پہلے سے مجھے وہاں کی صورت حال کا علم نہیں تھا ورنہ زیادہ وقت لے کر جاتا اور یونیورسٹیوں کے ارد گرد گھومنے کے بجائے ان کے اندر جا کر کچھ اصحاب دانش اور طلبہ سے گفتگو کی کوئی صورت نکالتا، اس لیے وہاں سے تشنہ ہی واپس آیا۔ خدا کرے کہ آئندہ یہ تشنگی دور کرنے کا کوئی موقع مل جائے۔
لنکاسٹر کاؤنٹی امریکہ کی ریاست پنسلوینیا میں ہے اور اس میں آمش لوگ کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ جوہر آباد اور سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے دو دوستوں جناب محمد اشرف اور جناب علی ناہن کے ہمراہ وہاں کا چکر لگایا۔ آمشوں کے بارے میں سن رکھا تھا کہ وہ بجلی، فون، گیس اور دیگر سائنسی سہولتیں استعمال نہیں کرتے، دستی آلات سے کھیتی باڑی کرتے ہیں، گھوڑا گاڑی کے ذریعے سے سفر کرتے ہیں اور صدیوں پرانی طرز پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہی دیکھنے کے لیے ہم وہاں گئے تھے۔ انہیں جیسا سنا تھا، ویسا ہی پایا۔ آمش لوگ تین سو برس قبل جرمنی سے امریکہ جا کر آباد ہوئے تھے۔ کٹڑ مذہبی لوگ ہیں، چرچ کی راہ نمائی پر یقین رکھتے ہیں، امریکہ میں رہنے کے باوجود اس کے نظام سیاست میں شریک نہیں ہیں، ووٹ مانگتے ہیں نہ دیتے ہیں، موم بتی اور لالٹین کی روشنی میں رہتے ہیں، فون استعمال نہیں کرتے، مقامی سطح پر تیار کردہ گیس استعمال کر لیتے ہیں، عورتیں گھریلو زندگی بسر کرتی ہیں، مردوں کے لیے سیاہ لباس، ڈاڑھی اور سر پر ہیٹ پہننا لازمی ہے، فوٹو نہیں کھنچواتے اور نہ ہی گھر میں رکھتے ہیں، خچروں کے ذریعے سے کھیتی باڑی کرتے ہیں، گھوڑوں والی بگھی ان کا عام ذریعہ سفر ہے، دستی ہینڈ پمپ اور ہوائی پنکھوں سے چلنے والے نلکے ان کے ہاں پانی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں اور صدیوں پرانی رسموں پر سختی کے ساتھ کاربند ہیں۔ ان کی تعداد امریکہ میں نوے ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے جو بیس ریاستوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ لنکاسٹر کاؤنٹی میں ان کا گاؤں ’’انٹر کورس‘‘ کے نام سے معروف ہے جہاں مختلف علاقوں سے سیاح ان کو دیکھنے آتے ہیں۔
ایک بزرگ آمش سے ہماری ملاقات وگفتگو بھی ہوئی اور ان سے خاصی معلومات حاصل ہوئیں۔ آمشوں کی قیادت کرنے والے چرچ میں جا کر ان کے مذہبی راہ نماؤں سے ملاقات کی خواہش تھی مگر بتایا گیا کہ چرچ میں غیر آمشوں کا داخلہ ممنوع ہے اور پادری صاحبان سے بھی شاید ملاقات نہ ہو سکے۔ آمشوں کے طرز زندگی اور چرچ کی راہ نمائی کا یہ انداز دیکھ کر ذہن ماضی کی طرف مڑ گیا اور دماغ نے اس رخ پر سوچنا شروع کر دیا کہ جس چرچ کا آج کے دور میں یہ حال ہے، وہ تین سو سال قبل کس انداز سے مسیحی سوسائٹی کی قیادت کرتا ہوگا اور پھر تاریخ کے وہ اوراق نگاہ تصور میں باری باری سامنے آنے لگے جن میں بتایا گیا ہے کہ سائنسی تحقیقات اور کائنات کے مشاہدہ کے عمل کو چرچ نے مذہب سے بغاوت اور الحاد وارتداد قرار دے دیا تھا اور ان علوم کا مطالعہ اور تحقیق کرنے والے سائنس دانوں کو باقاعدہ چرچ کی عدالت سے سزائیں دی جاتی تھیں اور پھر مذہب کے معاشرتی کردار سے مغرب کے اجتماعی انحراف وانکار کی وجہ بھی کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگی۔
لنکاسٹر سے واشنگٹن تک واپسی کے سفر میں میرا ذہن انہی سوچوں میں گم رہا اور خیال ہوا کہ یورپ میں مذہب نے سائنسی دور کو مسترد کرنے اور بادشاہ اور جاگیردار کے مظالم کے خلاف عوام کی بغاوت میں عوام کا ساتھ دینے کے بجائے بادشاہ اور جاگیردار کا ساتھی بننے کا جو کردار ادا کیا تھا، یہ اس کا رد عمل ہے کہ یورپ اور مغرب معاشرتی اور اجتماعی معاملات میں مذہب کا کوئی کردار قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور ان کی نظر میں اس حوالہ سے تمام مذاہب برابر ہیں حتیٰ کہ وہ اسلام کو بھی اس زمرہ میں شمار کر رہے ہیں جس کا معاشرتی کردار ہر دور میں اس سے قطعی مختلف رہا ہے اور اندلس میں جس اسلامی معاشرت اور تعلیم وتدریس سے استفادہ کر کے یورپ تہذیب وتمدن کے دور میں داخل ہوا تھا۔
رمضان المبارک کے آٹھ نو روز بھی میں نے وہیں گزارے اور قرآن کریم سے متعلقہ مختلف موضوعات پر نماز فجر اور نماز عشا کے بعد گفتگو کے علاوہ احباب کی خواہش پر تراویح میں تین چار پارے بھی سنائے اور اس طرح تقریباً پونے دو ماہ امریکہ کے دار الحکومت میں قیام کے بعد وطن واپس آ گیا۔
امریکہ میں عام مسلمانوں کی سطح پر جو بات میں نے محسوس کی، وہ یہ ہے کہ دینی بیداری میں اضافہ ہو رہا ہے، مساجد ومدارس کی تعداد اور ان میں حاضری کا تناسب بڑھ رہا ہے، بچوں کو دینی تعلیم وتربیت سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ خود زیادہ سے زیادہ دینی معلومات حاصل کرنے کا شوق بھی ترقی پذیر ہے۔ ایک بات سے اس صورت حال کا اندازہ کر لیں کہ بارہ تیرہ برس قبل جب میں واشنگٹن آتا تھا تو دار الہدیٰ ایک کرائے کے اپارٹمنٹ میں تھا اور نمازوں میں اکا دکا مسلمان دور دراز سے آیا کرتے تھے۔ اب یہ ادارہ ایک وسیع خرید کردہ بلڈنگ میں ہے، مسجد کے لیے ایک بڑا ہال ہے جو تراویح میں فل ہوتا تھا اور رش کی وجہ سے رمضان المبارک کا پہلا جمعہ اس بلڈنگ میں تین بار ادا کرنا پڑا۔
دوسری بات جو میں نے سیاسی حوالہ سے محسوس کی، وہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اس بات کا احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ انہوں نے گزشتہ صدارتی الیکشن میں جارج ڈبلیو بش کی حمایت کر کے غلطی کی ہے اور اب آئندہ صدارتی الیکشن میں وہ اس کی تلافی کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ بہت سے مسلمانوں کا خیال ہے کہ اگر جارج بش کے بجائے ڈیموکریٹک صدر ہوتا تو اگرچہ عالمی پالیسی اس کی بھی یہی ہوتی لیکن عراق اور افغانستان میں اس کا طریق کار یقیناًصدر بش سے مختلف ہوتا اور وہ کچھ نہ ہوتا جو وقوع پذیر ہو چکا ہے۔
بہرحال امریکی مسلمانوں میں دینی اور سیاسی بیداری کا رجحان اور مستقبل کی منصوبہ بندی کی سوچ میں اضافہ میرے لیے خوشی کا باعث بنا اور میں نے بھی وہاں کے مسلمانوں سے یہی عرض کیا کہ انہیں منظم طور پر امریکہ کی قومی سیاست میں دخیل ہونا چاہیے اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے لیے تمام قانونی اور جائز ذرائع استعمال کرنے چاہییں۔ مسلمان اب امریکہ میں تعداد کے لحاظ سے یہودیوں سے کم نہیں رہے اور اگر وہ ہوش مندی اور تدبر کے ساتھ مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکیں تو امریکہ کی قومی زندگی اور سیاست میں یہودیوں جیسا مقام تو شاید حاصل نہ کر سکیں مگر توازن ضرور قائم کر سکتے ہیں اور عالم اسلام کے حوالے سے امریکہ کی منفی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کے لیے یہی توازن اور بیلنس آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
دور جدید میں اسلامی شریعت کا نفاذ کیسے ہو؟
محمد موسی بھٹو
اسلامی شریعت کے نفاذ بالخصوص سزاؤں سے متعلق اس کے قوانین کے اجرا کے سلسلہ میں صحیح نبوی ترتیب کیا ہے؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جو مسلم معاشروں میں اسلامی حلقوں میں ایک عرصہ سے زیر بحث ہے۔ صوبہ سرحد میں شریعت کے نفاذ کے اعلان اور اس کی منظوری کے بعد اس سوال کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ یقیناًاسلامی شریعت کا نفاذ ہر دردمند مسلمان کے دل کی آواز ہے اور اس سے بڑھ کر کسی علاقہ اور صوبہ کی سعادت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کا ریاستی نظام قوانین شریعت پر تشکیل دیا جائے لیکن بالخصوص موجودہ دور میں شریعت کے عملی نفاذ کے سلسلے میں جو دشواریاں پیش آ گئی ہیں، انہیں پیش نظر رکھ کر غور وفکر کے بغیر اس سلسلے میں پیش قدمی کرنا شدید دشوار ہے۔
ایک بڑا مسئلہ جو اس وقت مسلم ممالک اور پاکستان کو درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ وہ معاشی، اقتصادی اور مالیاتی طور پر عالمی اداروں اور عالمی قوتوں کے محتاج ہیں۔ اس معاشی محتاجی کی وجہ سے ان کی جملہ سیاسی، انتظامی، قانونی، تعلیمی، سماجی اور داخلی پالیسیاں عالمی اداروں اور عالمی قوت کی مرضی سے ہی متشکل ہوتی ہیں۔ اس طرح مسلم ممالک بالخصوص پاکستان بظاہر تو آزاد ممالک ہیں لیکن عملاً ان کی حیثیت غلام اور مقبوضہ ریاستوں سے مختلف نہیں۔
دوسرا بڑا مسئلہ جو پاکستان جیسے مسلم ممالک کو درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ پچھلے ۵۵ سال سے نظام تعلیم وتربیت اور میڈیا کے ذریعہ مختلف شعبوں کے ماہرین، صنعت وتجارت اور انتظامیہ، عدلیہ اور تعلیمی اداروں کے حاملین بڑے پیمانہ پر جس ذہن اور مزاج کے تیار کیے گئے ہیں، ان کی اکثریت اسلام کی پابندیاں قبول کرنے کے لیے کسی طرح تیار نہیں۔ وہ سیکولرزم اور آزادی کے دل دادہ ہیں، جس کے تحت عیش وعشرت کے ساتھ زندگی بسر کرنا ہی ان کا مقصود زندگی بن گیا ہے۔ معاشرہ کے ہر شعبہ زندگی کے یہ موثر طبقات نہ صرف یہ کہ اسلامی شریعت کے نفاذ کی راہ میں عملاً تعاون کرنے اور نفاذ اسلام کی تحریک میں معاون بننے کے لیے تیار نہیں، بلکہ وہ اس عظیم اور مقدس مشن کی مزاحمت بھی کریں گے اور اسے ناکام بنانے کی بھی کوشش کریں گے۔ نظام تعلیم اور میڈیا کے ذریعہ تہذیب جدید کے مقلدین تیار کرنے کا جو نتیجہ برآمد ہوا ہے، وہ یہ ہول ناک نتیجہ ہے کہ اپنے ہی لوگ شریعت کی راہ کے مزاحم بن رہے ہیں۔ جہاں سیاسی، معاشی، تعلیمی، صنعتی، تجارتی اور انتظامی قیادت اسلامی شریعت سے بے بہرہ ہو جائے اور سیکولرزم کی حامل ہو جائے تو ظاہر ہے وہاں نفاذ شریعت کا مسئلہ دشوار تر ہو جاتا ہے۔
ایک قابل غور نکتہ یہ ہے کہ جس ریاست میں عالمی سرمایہ دار ریاست کی سرکردگی میں سرمایہ داری کی بدترین لعنت موجود ہو، جس کی وجہ سے عوام کی عظیم اکثریت کی روز مرہ بنیادی ضروریات کی تکمیل تو دور کی بات ، انہیں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہ ہو اور علاج ومعالجہ کی سہولت حاصل نہ ہو، ایسی ریاست میں شریعت کے قوانین کے نفاذ سے پہلے کیا لوگوں کی بنیادی ضرورت کی چیزوں کی فراہمی کا مسئلہ اہم نہیں؟ کیا سزاؤں سے پہلے سزاؤں کے عوامل اور اسباب کا کسی حد تک ازالہ ضروری نہیں؟
تیسرا اہم مسئلہ جو قابل غور ہے، وہ یہ ہے کہ عام آبادی کی بڑی اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہے جو اگرچہ اسلام سے جذباتی تعلق رکھتی ہے لیکن دینی اور اخلاقی اعتبار سے اس کی تربیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ لاکھوں بلکہ کروڑوں افراد ایسے ہیں جنہیں اسلام کے عقائد حتیٰ کہ کلمہ تک پڑھنا نہیں آتا۔ نفاذ اسلام کی تحریک کا ہراول دستہ عوام ہی ہیں لیکن جب عوام کی دینی اور اخلاقی حالت پست ہو، وہ خیر وشر اور دور جدید کے باطل کی نوعیت کو سمجھنے سے قاصر ہوں تو ان کے لیے نفاذ شریعت کی تحریک میں عملاً ساتھ دینا اور مزاحم قوتوں کی مخالفت کر کے اس تحریک کو کام یاب بنانا جتنا دشوار ہو سکتا ہے، وہ ظاہر وباہر ہے۔
ان رکاوٹوں اور مشکلات کے علاوہ چوتھا اہم سوال یہ درپیش ہے کہ اسلامی شریعت کے نفاذ کا نبوی طریق کار اور حکمت عملی کیا ہے؟ کیا ہر قسم کا فاسد معاشرہ شریعت اسلامی کے قوانین کا متحمل ہو سکتا ہے یا نفاذ شریعت سے پہلے معاشرہ کی ایمانی اور اعتقادی حالت کی تبدیلی اور ذہنی، نظریاتی اور اخلاقی انقلاب برپا ہونا ناگزیر ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن پر غور وفکر کرنا بہت ضروری ہے۔ اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ نفاذ شریعت کی تحریک کو ناکامی سے بچایا جا سکے۔
اس سلسلے میں ہم نے کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے ممتاز عالم دین مولانا محمد طاسین صاحبؒ سے تفصیلی تبادلہ خیال کر کے زیر بحث موضوع کے اہم پہلوؤں پر ان کے خیالات معلوم کیے تھے۔ مولانا کے ان خیالات کو ہم نے اپنے ایک مضمون میں مرتب کیا تھا۔ یہ مضمون بارہ تیرہ سال پہلے روزنامہ جنگ کراچی میں شائع ہوا تھا۔
’’ہمارے ہاں نفاذ اسلام کے مختلف تصورات موجود ہیں جو کتاب وسنت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ مثلاً ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ ایک منظم جماعت قائم کر کے انتخابات یا انقلاب کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کیا جائے اور پھر ڈنڈے کے زور سے لوگوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ اسلامی احکام پر عمل پیرا ہوں اور اسلامی قوانین کی پابندی کریں، چاہے عام لوگوں میں عدم اطمینان کی وجہ سے ان احکام وقوانین کا کوئی احترام موجود ہی نہ ہو۔ اسلام کے لیے ہمارے ہاں ایک دوسرا طریق فکر یہ ہے کہ معاشرے میں ایمانی عقائد اور اسلامی اخلاق کی درستی کا تو کوئی پروگرام وانتظام نہیں ہے، لیکن سارا زور چند فقہی احکام پر صرف ہو رہا ہے۔ ایسے فقہی احکام جو معاشرت، معیشت اور سیاست سے تعلق رکھتے ہیں، جو معاشرے میں ایمانی عقائد اور اسلامی اخلاقی تغیر کے بغیر نہ تو صحیح طور پر عمل میں آ سکتے ہیں اور نہ ہی پائیداری کے ساتھ قائم رہ سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں اسلام کے لیے ایک تیسرا طریقہ کار یہ ہے کہ معاشرے سے ان مادی ومعنوی اسباب ومحرکات کو تو دور کرنے کا کوئی قابل عمل اور موثر پروگرام موجود نہیں جو لوگوں کو برائیوں کے ارتکاب پر ابھارتے اور مجبور کرتے ہیں لیکن وعظ ونصیحت کے ذریعہ لوگوں سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ برائیوں کو ترک کر دیں اور ان سے باز آ جائیں، ورنہ وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے اور خود دنیا میں بھی حد یا تعزیر کی سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ اسلام کے لیے چوتھا طریقہ کار یہ ہے کہ نام نہاد مسلمان معاشرے کا معاشی نظام تو سراسر سرمایہ دارانہ نوعیت کا ہے لیکن اس نظام کو اسلامی بنانے کے لیے صرف اس کے بعض اجزا مثلاً بنکاری کے شعبہ میں ردوبدل کر کے باقی نظام کو جوں کا توں قائم وبرقرار رکھنے پر زور ہے۔ یہ طریق کار سراسر غیر اسلامی ہے۔‘‘
مولانا محمد طاسین صاحب جو اسلام کی تعبیر وتشریح اور جدید مسائل کے اسلامی حل کے سلسلے میں ممتاز مقام رکھتے ہیں اور ان موضوعات پر ان کے سینکڑوں مقالے اور مضامین شائع ہو چکے ہیں، ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دین کے نفاذ کے لیے جو حکمت عملی اختیار فرمائی تھی، اس سے واقف ہو کر اسے اپنائے بغیر دین کے لیے جو کام ہوگا، وہ افراط وتفریط سے عبارت ہوگا اور اس طرح کے کام سے معاشرے میں دین اور اہل دین سے دوری کو روکنا دشوار ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ کی حکمت عملی کیا تھی؟ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ ﷺ کو جو معاشرہ ملا، وہ ہر لحاظ سے بگڑا ہوا اور انتہائی فاسد معاشرہ تھا لیکن اصلاح کے بعد وہ ایک ایسا صالح اور عادلانہ معاشرہ بن گیا جس کی مثال تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یہ اس لیے ہوا کہ آپ نے اللہ کی دی ہوئی اس حکمت سے کام لیا جس کا ذکر قرآن میں ’’الحکمۃ‘‘ کی صورت میں موجود ہے۔ آپ ﷺ تزکیہ کے ساتھ ساتھ حکمت کی تعلیم بھی دیتے ہیں اور کتاب کی بھی۔ اصلاح کے کام کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کی حکمت اور طریق کار کو اختیار کرنا ہمارے لیے واجب ہے اور ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ غلبہ دین کے شوق میں آ کر ’’پیغمبرانہ حکمت‘‘ کو نظر انداز کرنا جہاں گناہ کا کام ہے، وہاں اس کے اثرات ونتائج سے بچنا بھی ممکن نہیں۔ اس وقت کا عرب معاشرہ صدیوں سے اعتقادی اور عملی گمراہیوں میں مبتلا تھا۔ توحید کا تصور ختم ہو چکا تھا۔ رسالت کا عقیدہ بھی ذہنوں سے نکل چکا تھا۔ تصور آخرت اور اعمال کی جزا وسزا کا احساس بھی مٹ چکا تھا۔ اسی طرح کی صورت حال اعمال کے سلسلے میں تھی۔ قرآن کے مطالعہ سے رسول اللہ ﷺ کے نفاذ دین کے سلسلے میں جو حکمت نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ عملی زندگی کے بیشتر احکام وقوانین مدنی زندگی کے دس سالہ دور میں رفتہ رفتہ اور بتدریج نازل ہوئے۔ اس میں اس وقت کی جماعت کے حالات کا پورا پورا خیال رکھا گیا۔ ہر قسم کے احکام کا نزول ونفاذ اس وقت ہوا جب اس کے عمل میں آنے اور پائیداری کے ساتھ قائم رہنے کے لیے مناسب وموافق خارجی فضا تیار ہو گئی تاکہ لوگ آسانی کے ساتھ اس پر عمل کر سکیں اور ان قوانین سے بچنے کے لیے چور دروازے تلاش نہ کر سکیں۔ مثلاً سود کے مسئلے کو لیجیے۔ جہاں تک اس کے حرام ہونے کا تعلق ہے تو معاشی ظلم ہونے کی وجہ سے وہ حرام تو شروع سے تھا لیکن اس کی ممانعت کا اعلان ۹ ہجری میں اس وقت ہوا جب اس کے لیے سازگار ذہنی اور خارجی فضا تیار ہو گئی۔ سورہ بقرہ کی جن آیات میں اس کا اعلان ہوا ہے، وہ نزول کے اعتبار سے قرآن مجید کی تقریباً آخری آیات ہیں۔ اسی طرح رسو ل اللہ ﷺ نے اس کا اعلان جس خطبہ حجۃ الوداع میں کیا، ا س کا زمانہ ۱۰ ہجری ہے یعنی یہ اعلان اس وقت ہوا جب ایک طرف ذہنوں میں قرض حسنہ اور انفاق فی سبیل اللہ کا جذبہ عمومی طور پر بیدار ہو گیا۔ دوسری طرف مسلمان معاشی ضرورت کے لحاظ سے خود کفیل ہو گئے اور ان کے لیے یہ اندیشہ باقی نہ رہا کہ اگر یہودیوں نے معاشی بائیکاٹ کر دیا تو مسلمان جماعت اور ان کے مقاصد کو نقصان پہنچے گا۔ تیسری طرف بیت المال کا ایسا ادارہ قائم ہو گیا جس سے ضرورت مندوں کو معاشی طور پر سہارا مل گیا۔ اس کے برعکس اگر سود کے حرام ہونے اور ممانعت کا اعلان مدنی دور کے آغاز میں ہوتا تو اس سے بہت ساری پیچیدگیاں پیدا ہوتیں، مقصد حاصل نہ ہوتا اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا۔ یہی حکمت عملی دوسرے معاملات میں قوانین اور احکام کے نفاذ کے سلسلے میں اختیار کی گئی۔ مقصد یہ ہے کہ لوگ آسانی سے ان قوانین پر عمل کرسکیں۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح اسی حکمت عملی کے ساتھ بتدریج فرمائی، اس لیے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اصلاح کے سلسلے میں جو پیش قدمی ہوئی، وہ مخالفانہ رد عمل کا شکار ہو گئی۔ اسی طرح حکمت نبوی میں ہمیں یہ لطیف عمل بھی نظر آتا ہے کہ جب تک شریعت کے اصل اور حقیقی حکم وقانون کے لیے معاشرے میں سازگار حالات پیدا نہ ہوئے، تب تک عبوری عرصہ کے لیے ایسے وقتی احکام سے کام لیا گیا جو اس عرصہ کے لیے نسبتاً مناسب ہو سکتے تھے، لیکن جوں ہی عبوری دور کی یہ مجبوری ختم ہو گئی، وہ احکام منسوخ ہو گئے۔ مثلاً سود کے قطعی حرام ہونے سے پہلے اس کی بعض بدترین صورتوں سے روکا گیا۔ اسی طرح مزارعت، جو سود سے ملتا جلتا معاملہ تھا، اس کی بعض نزاعی شکلوں سے منع کیا گیا۔ آگے چل کر اس کی ہر شکل کو ممنوع قرار دیا گیا۔ شراب کی حرمت کے بارے میں بھی ایسا ہی ہوا۔
نفاذ شریعت اور اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا یہ حکیمانہ طریق کار اور طرز عمل ایک ایسی عظیم سنت ہے جس پر مسلم زعما اور اصلاح کے علم برداروں کو گام زن ہونا چاہیے۔ بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح کے لیے شرعی قوانین کی تحریک چلانے اور انقلاب کی بات کرنے کی بجائے یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ معاشرے میں شریعت کے نفاذ اور پائیداری کے ساتھ اس کے قائم رہنے کے لیے ذہنی اور خارجی طور پر فضا موجود ہے یا نہیں۔ اگر اس طرح کی فضا موجود نہیں ہے تو قوانین کے انطباق اور نفاذ کے عمل کو اس وقت تک موخر رکھنا چاہیے جب تک اس کے لیے سازگار حالات پیدا نہ ہو جائیں۔ نیز عبوری عرصہ کے لیے ایسے قوانین تیار کیے جائیں جو ان حالات میں قابل عمل اور قابل قبول ہوں اور جن پر عمل کرنے سے حالات میں نسبتاً بہتری پیدا ہو سکتی ہو۔ عبوری قوانین یا قانون کی صحت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ قابل عمل بھی ہو یعنی اس پر عمل کرنے سے داخلی طور پر شدید مخالفانہ رد عمل کا اندیشہ نہ ہو۔ نیز وہ قانون ایسا بھی ہو جس پر عمل کرنے سے حالات میں کچھ نہ کچھ تبدیلی وبہتری پیدا ہو۔ اگر عبوری عرصہ کے لیے اس قانون یا قوانین میں مذکورہ دونوں خوبیوں میں ایک بھی خوبی موجود نہ ہو تو وہ غلط ہو جاتے ہیں۔
قوانین کے نفاذ کی یہ صورت اس معاشرے کے لیے ہوگی جس نے توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان لا کر طے کر دیا ہو کہ وہ اپنی پوری زندگی اللہ اور اس کے رسول کے ہدایت کردہ احکامات کے مطابق بسر کرے گا۔ ایسا ہی معاشرہ اس بات کا استحقاق رکھتا ہے کہ ا س میں دین کے احکام بتدریج نافذ ہوں۔ اس طرح کے معاشرے کے لیے اسلامی شریعت خیر وبھلائی کو پیش نظر رکھتی ہے اور اسے زندہ اور قائم رہنے کا ڈھنگ سکھاتی ہے۔ ایسے معاشرے کو اسلامی شریعت ایک طرف تو عادلانہ اصول واحکام دیتی ہے جن پر عمل کرنے سے معاشرے کے ہر فرد کے ہر قسم کے حقوق محفوظ ہوں اور افراد معاشرہ کو اپنی فطری صلاحیتوں کو برگ وبار لانے اور ارتقا کے مواقع مہیا ہوں تو دوسری طرف افراد معاشرہ وہ معروف طور طریقے اختیار کریں جو معاشی خود کفالت اور سیاسی خود مختاری کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ تیسری طرف اجتماعی امور ومعاملات میں نظم وضبط قائم رکھنے اور کاروبار زندگی کو باقاعدگی سے چلانے کے لیے عبوری قوانین وضع کیے جائیں۔ ایسے عبوری قوانین جن سے شریعت کے حقیقی ومثالی اصول واحکام کی منزل قریب ہونے میں مدد ملتی ہو۔ چونکہ عبوری قانون سازی کا تعلق معاشرے کے تغیر پذیر حالات سے ہوتا ہے جو کچھ نہ کچھ بدلتے رہتے ہیں، اس لیے عبوری قانون سازی کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے اور نئے نئے عبوری قوانین بنتے رہنے چاہییں۔ چونکہ یہ تغیر پذیر عبوری قوانین کامل عدل پرمبنی نہیں ہوتے جو شریعت کا اصل منشا ہے بلکہ ان میں ظلم وحق تلفی کے اجزا موجود ہوتے ہیں، اس لیے ان قوانین کو پورے اسلامی اور شرعی قوانین تو نہیں کہا جا سکتا لیکن چونکہ یہ شریعت کی حکمت عملی کے مطابق ہوتے ہیں اور ان کو شریعت کی طرف سے سند جواز حاصل ہوتی ہے، اس لیے ان کو نسبتی اور اضافی طور پر اسلامی اور شرعی کہہ سکتے ہیں۔
شریعت کی نفاذ کی یہ ترتیب تو اس معاشرے کے لیے ہے جو اسلام کے نفاذ کے لیے واقعتاً سنجیدہ ہو اور اس پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہے لیکن جو معاشرہ ایمان وعقائد کے اعتبار سے ناپختہ ہو، طرح طرح کی اعتقادی اور اخلاقی بیماریوں میں مبتلا ہو، عملی طور پر بغاوت کی شدید روش پر گام زن ہو، مادیت کی دوڑ میں شریک ہو، اس معاشرے میں اصلاح اور تعمیر افکار وکردار کے ہمہ جہتی منصوبوں کے بجائے نفاذ شریعت کی بات کرنا پیغمبرانہ حکمت عملی کے سراسر منافی ہے۔ اس معاشرہ کا تو بنیادی مسئلہ ہی یہ ہے کہ اسے ذہنی، نظری، فکری اور عملی طور پر اسلام پر چلنے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ جب تک معاشرے کی اکثریت کے ذہنوں میں ایمان وعقائد کی بنیاد پر وسیع وعالمگیر قسم کے اخلاقی جذبات واحساسات پیدا نہ ہوں جس کے زیر اثر لوگ ایک دوسرے کے ساتھ عدل واحسان کی روش اختیار کریں اور معاشی طور پر بہتر نظام متشکل ہو، تب تک اس معاشرے میں کرنے کا اصل کام یہی ہے کہ ایمان وعقیدہ اور اخلاقی زندگی میں تغیر پیدا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کام ہو۔
احکام شریعت کا سارا دار ومدار ایمانی عقائد پر ہے اس لیے کہ شریعت کا تعلق ہی ایسے معاشرے سے ہے جس کی بڑی اکثریت کے اندر ایمانی عقائد اپنی صحیح صورت میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ جس معاشرے میں یہ صورت نہ ہو، اس کے لیے شریعت کی بات ہی بے محل ہو جاتی ہے۔ ایسے معاشرے میں شریعت سے بے اعتنائی اور بے رغبتی کا پایا جانا ایک قدرتی امر ہے۔ ایسے معاشرے کو اسلامی بنانے کے لیے، جیسا عرض کیا گیا، ضروری ہے کہ پہلے اس کے اندر ایمانی عقائد کی بھرپور تبلیغ اور تعلیم ہو، صحیح عقائد پختہ ہوں، اس کے بغیر ذہنی فضا تیار ہی نہیں ہو سکتی، جو شریعت کے قیام کے لیے ضروری ہے۔‘‘
مولانا محمد طاسین صاحب کے یہ خیالات ایسے ہیں جو اسلام اور سیرت نبوی کے گہرے مطالعے اور غور وفکر پر مبنی ہیں۔ ہمارے ہاں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے چلنے والی تحریکوں کے نتائج کے بعد ان خیالات کی اہمیت وافادیت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ کاش کہ مولانا کے ان خیالات کو گروہی اور جماعتی تعصبات سے بالاتر ہو کر پڑھا جائے اور ان کے بصیرت افروز نکات سے استفادہ کیا جائے۔
(بشکریہ ماہنامہ ’’بیداری‘ ‘حیدر آباد)
حدود آرڈیننس : چند تجزیاتی آرا
ادارہ
(ہمارا معاشرہ، بہت سے دوسرے فکری اور عملی سوالات کی طرح، اسلامی قوانین کے حوالے سے بھی انتہا پسندی کا شکار ہے۔ ایک طرف جدید مغربی فلسفہ قانون سے متاثر وہ طبقہ ہے جو اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کے باوجود شرعی قوانین کی افادیت اور ان کے قابل عمل ہونے پر سرے سے یقین ہی نہیں رکھتا اور قرآن وسنت کو بطور ماخذ قانون تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ دوسری طرف مذہبی طبقات ہیں جن کے ہاں اسلامی قوانین کے بارے میں یہ تصور رائج ہے کہ گویا وہ کوئی ’’جادو کی چھڑی‘‘ (Magic Wand) ہیں جن کو معاشرے کی اخلاقی تربیت اور عملی حالات اور پیچیدگیوں کا لحاظ رکھے بغیر محض جیسے تیسے نافذ کر دینے سے مطلوبہ برکات ونتائج حاصل ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی قانون کی تعبیر وتشریح، اس کے نفاذ کی عملی شکل اور اس میں درپیش معروضی مشکلات اور مسائل کے حوالے سے بھی کوئی بحث اگر سامنے آتی ہے تو مذہبی طبقات بالعموم اس میں کوئی مثبت اور تعمیری حصہ لینے کے بجائے ’اسلامائزیشن‘ اور ’سیکولرازم‘ کا غیر متعلق سوال کھڑا کر کے خلط مبحث پیدا کر دیتے ہیں۔ یہ رویہ معاشرتی وقانونی مسائل کے حوالے سے غیر ضروری الجھنیں پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ خود اہل مذہب کے شریعت وقانون کے فہم کے بارے میں بھی بد اعتمادی پید ا کرنے کا باعث بنتا ہے۔
ہماری رائے میں شرعی قوانین کی اہمیت وافادیت کے بے لچک دفاع کے ساتھ ساتھ ان کی تعبیر اور عملی نفاذ کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے آزادانہ بحث وتمحیص کا رویہ ہی مذکورہ دونوں رویوں کے مابین نقطہ اعتدال ہے ۔ ذیل میں حدود آرڈیننس کے بارے میں جاری حالیہ بحث کے تناظر میں چند تجزیاتی آرا شائع کی جا رہی ہیں۔ توقع ہے کہ ان کو سنجیدہ غوروفکر کا مستحق سمجھا جائے گا۔ مدیر)
(۱)
قومی اسمبلی میں ایم ایم اے کی خواتین ارکان اسمبلی نے ویمن کمیشن کی سربراہ جسٹس ماجدہ کی طرف سے حدود آرڈیننس کو ختم کرنے کے مطالبہ پر احتجاج کیا ہے اور کہا ہے کہ شرعی قوانین کی منسوخی کا کوئی قدم برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ویمن کمیشن نے حکومت سے سفارش کی ہے کہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ملک میں نافذ ہونے والے حدود آرڈیننس کو یکسر منسوخ کر دیا جائے کیونکہ یہ آرڈیننس کمیشن کے ارکان کے بقول ملک میں عورتوں کے ساتھ زیادتی اور نا انصافی کا باعث بن رہا ہے اور اس کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے۔
’’حدود‘‘ کی اصطلاح اسلامی شریعت کی ایک مخصوص اصطلاح ہے جس کا اطلاق معاشرتی جرائم کی ان سزاؤں پر ہوتا ہے جو قرآن وسنت میں حتمی طور پر طے شدہ ہیں۔ جرم ثابت ہونے کی صورت میں کسی عدالت کو ان سزاؤں میں کمی بیشی کا اختیار نہیں ہوتا اور عدالت ان سزاؤں کو اسی صورت میں نافذ کرنے کی پابند ہوتی ہے جس طرح قرآن وسنت اور اجماع امت کے ذریعے انہیں بیان کیا گیا ہے۔ یہ صرف چند جرائم کی سزائیں ہیں، ان کے علاوہ باقی جرائم کی سزائیں متعین کرنے کا اسلامی حکومت کو اختیار حاصل ہوتا ہے اور قاضی بھی موقع محل کی مناسبت سے ان سزاؤں میں کمی بیشی یا معافی کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ یہ سزائیں تعزیرات کہلاتی ہیں اور پانچ چھ جرائم کے سوا باقی تمام صورتوں میں اسلام نے حکومت اور عدالت کو سزا دینے یا نہ دینے، سزا میں کمی بیشی کرنے یا اپنے ماحول یا ضرورت کے مطابق سزا کی کوئی شکل طے کرنے کا اختیار دیا ہے، البتہ پانچ یا چھ جرائم ایسے ہیں جن کے عدالت کے نوٹس میں آ جانے اور جرم ثابت ہو جانے کے بعد سزا کو معاف کرنے یا اس میں کمی بیشی کرنے کا اختیار عدالت کے پاس باقی نہیں رہتا اور وہ فقہ اسلامی کی وضاحت کے مطابق درج ذیل ہیں:
۱۔ چوری کی سزا قرآن کریم نے سورۃ المائدہ آیت نمبر ۳۸ کے مطابق یہ طے کی ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے اور متعدد روایات کے مطابق جناب نبی اکرم ﷺ نے خود بھی عملاً یہی سزا دی ہے۔
۲۔ شراب پینا اسلامی شریعت میں حرام ہے اور اس کی سزا صحابہ کرام کے اجماع کی رو سے ۸۰ کوڑے ہے۔
۳۔ کسی پاک دامن مرد یا عورت پر بدکاری کی تہمت لگانا سنگین جرم ہے جسے قذف کہا جاتا ہے اور اس کی سزا قرآن کریم نے سورۃ النور آیت نمبر ۴ کے مطابق ۸۰ کوڑے متعین کی ہے۔
۴۔ زنا کی سزا قرآن کریم اور جناب نبی اکرم ﷺ کی واضح تشریحات کے مطابق دو درجوں میں ہے۔ اگر بدکاری کرنے والا مرد یا عورت شادی شدہ ہے تو اس کی سزا یہ ہے کہ اسے سنگسار کر دیا جائے اور اگر وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک غیر شادی شدہ ہے تو اسے ۱۰۰ کوڑے مارے جائیں گے۔
۵۔ ڈکیتی کی سزا قرآن کریم نے سورۃ المائدہ آیت نمبر ۳۳ میں مختلف صورتوں میں ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کاٹنا، سولی پر لٹکانا یا جلا وطن کرنا بیان کی ہے۔
۶۔ ارتداد یعنی کسی مسلمان کا ایک اسلامی ریاست میں اپنا مذہب چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کرنا بھی اسلامی شریعت کی رو سے قابل دست اندازی پولیس جرم تصور ہوتا ہے اور اس کی سزا خود جناب نبی اکرم ﷺ کے ارشاد مبارک کے مطابق یہ ہے کہ توبہ نہ کرنے کی صورت میں اسے قتل کر دیا جائے۔
قرآن وسنت کی بیان کردہ ان سزاؤں کو حدود کہا جاتا ہے اور جہاں بھی اسلامی نظام کی بات ہوتی ہے، فطری طور پر نفاذ اسلام کے مطالبات میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ معاشرے میں جرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے حدود شرعیہ کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔
ہمارے ہاں ۱۸۵۷ء تک پورے متحدہ ہندوستان میں جو قانونی نظام رائج تھا، اس میں یہ حدود شامل تھیں جو ملکی قانون کی صورت میں نافذ تھیں اور عدالتیں اسی کے مطابق فیصلے دیا کرتی تھیں، مگر ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد جب برطانوی حکومت نے دہلی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی تو ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ کی صورت میں نافذ ان شرعی قوانین کو ختم کر کے برطانوی قوانین کے مطابق قانونی نظام کا ایک نیا ڈھانچہ متحدہ ہندوستان کی عدالتوں میں تعزیرات ہند کے نام سے نافذ کر دیا جو ابھی تک باقی چلا آ رہا ہے اور قیام پاکستان کے بعد اسی کو تعزیرات پاکستان کا نام دے دیا گیا ہے۔
پاکستان بن جانے کے بعد ملک کے دینی حلقوں نے اس بنیاد پر کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے متعدد اعلانات میں واضح کیا تھا کہ پاکستان میں وہی قوانین نافذ ہوں گے جو قرآن وسنت نے بیان کیے ہیں، مسلسل یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ قومی زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح عدالتوں میں بھی اسلامی قوانین کا نفاذ عمل میں لایا جائے اور اسی مطالبہ پر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے اپنے دور حکومت میں ’’حدود آرڈیننس‘‘ کے نام سے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں ان سزاؤں کے نفاذ کا اعلان کر دیا۔ ان سزاؤں کا آج تک عملی نفاذ سامنے نہیں آیا بلکہ چند شرعی قوانین کے نفاذ کے ساتھ ہی ان کے گرد مروجہ قانونی نظام کی بالادستی اور دیگر تحفظات کا ایک ایسا حصار قائم کر دیا گیا ہے کہ کسی جرم پر شرعی سزا کا عملاً نفاذ نہ آج تک ممکن ہو سکا ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس کی کوئی توقع ہے، مگر ان کے باوجود ’’حدود شرعیہ‘‘ کے اس برائے نام نفاذ پر بھی پوری دنیا میں شور بپا ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے حکومت پاکستان پر ان قوانین کی منسوخی کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور ہمارے خیال میں ویمن کمیشن کی مذکورہ سفارش بھی اسی مہم کا حصہ ہے۔
حدود شرعیہ کے سلسلے میں جو اعتراضات کیے جا رہے ہیں، ان میں سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہ قوانین آج کے مروجہ عالمی قانونی نظام سے متصادم ہیں اور اقوام متحدہ کے منشور کی روشنی میں دنیا میں انسانی حقوق کی جو تشریح کی جا رہی ہے، اس کی رو سے معاشرتی جرائم کی یہ سزائیں متشددانہ اور ذہنی وجسمانی اذیت پر مشتمل ہیں، اس لیے انسانی حقوق کے منافی ہیں، حتیٰ کہ بعض معاملات میں صرف سزاؤں کی سختی اور تشدد تک بات محدود نہیں رہتی بلکہ کسی عمل کے جرم ہونے کا تصور وتعین بھی متنازعہ قرار پاتا ہے۔ مثلاً زنا یعنی اپنی جائز بیوی کے سوا کسی اور عورت کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا اسلام کی رو سے سنگین جرم ہے جس کی انتہائی سزا موت ہے مگر اقوام متحدہ کے منشور اور عالمی اداروں کی طرف سے کی گئی اس کی تشریحات کے مطابق کوئی مرد اور عورت نکاح کا تعلق نہ ہونے کے باوجود اگر باہمی رضامندی سے جنسی تعلق قائم کرتے ہیں تو یہ سرے سے جرم ہی نہیں ہے۔ اسی طرح مرد کا مرد کے ساتھ جنسی تعلق اسلام کی رو سے قطعی حرام ہے اور اس کی سنگین سزا بیان کی گئی ہے مگرمروجہ عالمی قانونی نظام کے مطابق یہ کام جرم ہی متصور نہیں ہوتا، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام عالمی خواتین کانفرنس میں قرارداد کے ذریعے دنیا بھر کی حکومتوں سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ملکوں میں ’’متبادل جنسی عمل‘‘ (یعنی لواطت) کو قانونی تحفظ فراہم کریں، جبکہ اکثر وبیشتر مغربی ملکوں میں اس لعنتی عمل کو قانونی تحفظ فراہم کیا جا چکا ہے۔
قوانین کے سخت ہونے یا نہ ہونے کی بحث ایک طرف، مگر یہ حقیقت ہے کہ حدود شرعیہ کے نفاذ پر مغربی فلسفہ وتہذیب اور مروجہ بین الاقوامی قانونی نظام کے پس منظر میں اعتراض کرنا اور کسی مسلمان ملک میں نافذ شدہ اسلامی قوانین کی منسوخی کا مطالبہ کرنا اسلامی تہذیب وثقافت اور مغربی ثقافت ومعاشرت کے درمیان جاری کشمکش میں مغرب کی حمایت اور اس کا ساتھ دینے کے مترادف ہے، اس لیے ویمن کمیشن کی مذکورہ سفارش کو اس تہذیبی کشمکش اور ثقافتی محاذ آرائی کے اس منظر سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور اس کی حمایت یا مخالفت کرنے والوں کو اپنے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ سوچ لینا چاہیے کہ وہ موجودہ عالمی تہذیبی کشمکش کے حوالے سے کس کیمپ میں کھڑے ہیں۔
حدود آرڈیننس کے نفاذ کے حوالے سے جو دوسرا بڑا اعتراض کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ ان کا غلط استعمال ہو رہا ہے اور اعتراض کرنے والوں کے بقول سینکڑوں خواتین غلط الزامات کے تحت جیلوں میں قید ہیں۔ ہمیں اس سے انکار نہیں ہے اور اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی حجاب نہیں ہونا چاہیے کہ ان قوانین کا بہت جگہ غلط استعمال ہو رہا ہے، لیکن یہ صرف ان قوانین کی بات نہیں، ان کے علاوہ باقی قوانین کا بھی یہی حال ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں نافذ اکثر وبیشتر قوانین کا ہر سطح پر غلط استعمال ہو رہا ہے، مگر اس کا تعلق قانون کی ضرورت وافادیت سے نہیں بلکہ معاشرتی رویوں سے ہے اور ان معاشرتی اقدار سے ہے جو دور غلامی میں ہماری صفوں میں گھس آئی تھیں اور اب نیم غلامی کے دور میں مسلسل پروان چڑھ رہی ہیں اور انہوں نے پورے معاشرے کو کرپٹ کر دیا ہے۔
لہٰذا اگر قانون کے غلط استعمال کو دلیل کے طور پر قبول کر لیا جائے تو کوئی قانون اس کی زد سے نہیں بچتا اور اکثر وبیشتر مروجہ قوانین کو باقی رکھنے کا جواز مشکوک ہو جاتا ہے۔ مثلاً قتل ایک سنگین جرم ہے جس کی سزا ہمارے قانون میں موت ہے۔ اگر مذکورہ بنیاد پر ملک میں قتل کے جرم میں درج کیے گئے مقدمات اور ان کے تحت گرفتار شدہ حضرات کا اسی طرح سروے کیا جائے جیسے ہماری این جی اوز حدود آرڈیننس کے مقدمات کا سروے کرتی رہتی ہیں تو قتل کے قوانین کے غلط استعمال اور ان کے ذریعے ہونے والی زیادتیوں اور مظالم کا تناسب اس سے کسی طرح کم نہیں ہوگا جس کا نقشہ حدود آرڈیننس کے مقدمات کے حوالے سے قوم کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے، اس لیے اس مسئلہ کا حل یہ نہیں ہے کہ سرے سے قتل کی سزا کا قانون ہی ختم کر دیا جائے یا قتل کو جرم قرار دینے سے انکار کر دیا جائے، بلکہ اس کا اصل اور صحیح حل یہ ہے کہ قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کی جائیں اور زیادتیوں کی روک تھام کی راہ نکالی جائے۔ کسی قانون کے غلط استعمال کی وجہ سے اس قانون کو ہی ختم کر دینے کے مطالبہ نہ تو مسئلے کا حل ہے اور نہ ہی انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔
(ابو عمار زاہد الراشدی، روزنامہ پاکستان، ۱۴ ستمبر ۲۰۰۳ء)
(۲)
چند روز پہلے حقوق نسواں کے لیے متحرک خواتین نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ایک مظاہرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حدود آرڈیننس عورتوں کے بارے میں ایک امتیازی قانون ہے جسے ختم یا تبدیل ہو نا چاہیے۔ایک آدھ دن کے بعد مذہبی جماعتوں سے وابستہ خواتین نے اس آرڈیننس کے حق میں مظاہرہ کیا۔ ان کی رائے میں اس قانون کاباقی رہنا ضروری ہے کیونکہ یہ اسلامی تعلیمات کا ترجمان ہے۔ ایک دن کے وقفے سے سرحد اسمبلی نے اس قانون کے حق میں ایک قرارداد منظور کی اور اس کی مخالفت کو اسلام دشمنی سے تعبیر کیا۔ اس پر رد عمل ہوا اور سرحد کی بعض سماجی تنظیموں نے سرحد اسمبلی کے خلاف مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا۔
حدود آرڈیننس چند قوانین کا مجموعہ ہے جو ۱۹۸۰ء میں نافذ ہوئے۔ یہ قوانین اسی وقت سے متنازعہ چلے آ رہے ہیں اور یہ دونوں نقطہ ہائے نظر تب سے موجود ہیں۔ وقتاً فوقتاً بعض لوگ اپنی رائے کے اظہار میں بلند آہنگ ہو جاتے ہیں جس سے یہ بحث نئے سرے سے زندہ ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں اختلاف کو بالعموم اخلاقی حدود کا پابند نہیں بنایا جاتا، اس لیے ہر اختلاف اپنے سیاق وسباق سے اوپر اٹھ کر شخصی مخالفت میں ڈھل جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ایمان اور دین سے وابستگی کے بارے میں فتاویٰ جاری ہوتے ہیں، اس لیے اس بات کی ہمیشہ ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ اس نوعیت کے تمام مسائل کو ان کے صحیح پس منظر میں سمجھنے کی سعی کی جائے تاکہ کوئی اختلاف معاشرے میں کسی تقسیم (polarization) کو آگے بڑھانے کے بجائے ہمارے فکری ارتقا کے لیے معاون ثابت ہو۔ میں نے حدود آرڈیننس کے مسئلے کو اس تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ ’حدود‘ اور ’حدود آرڈیننس‘ میں فرق کیا جانا چاہیے۔ ’حدود‘ سے مراد وہ سزائیں ہیں جو بعض جرائم کے لیے شریعت نے متعین کر دیں اور ’حدود آرڈیننس‘ سے مراد وہ قانون ہے جو بعض انسانوں نے اپنے فہم کے مطابق حدود کے نفاذ کے لیے بنایا۔ اس قانون کو کوئی الہامی تقدس حاصل نہیں۔ اس پر تنقید ایمان کا معاملہ نہیں اور نہ ہی اسے شرعی قوانین پر تنقید سمجھنا چاہیے۔ میرا تاثر یہ ہے کہ آج جو لوگ حدود آرڈیننس پر معترض ہیں، ان کی اکثریت کا اختلاف ان لوگوں کے فہم دین سے ہے جنہوں نے یہ قانون بنایا۔ اب اس بات پر کسی کو اسلام دشمن یا اسلام مخالف قرار دینا ایک انتہا پسندی ہے جس کے لیے اللہ کے حضور میں جواب طلبی ہو سکتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ان قوانین میں فی الواقع ایسی باتیں موجود ہیں جو ناقابل فہم ہیں۔ ان باتوں کا تعلق حدود سے نہیں بلکہ ان کے نفاذ کی عملی تدبیر سے ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی فردپر حدود کے تحت کوئی مقدمہ قائم ہوتا ہے اور عدالت میں ثابت نہیں ہوتا تو اس فرد کو تعزیراً سزا دے دی جاتی ہے۔ اب کسی جرم کی دو ہی ممکنہ صورتیں ہیں۔یا تو جرم ثابت ہے یا ثابت نہیں ہے۔ اگر جرم ثابت ہے تو پھر حد کا نفاذ کیوں نہیں اور اگر نہیں ثابت تو تعزیر کس بات کی؟ آخر وہ درمیانی صورت کیا ہے جس کے لیے تعزیر نافذ کی جا رہی ہے؟ مثال کے طور پر ایک شخص کے خلاف چوری کا الزام ہے۔ عدالت کو اس نتیجے تک پہنچنا ہے کہ اس نے چوری کی ہے یا نہیں کی۔ اب عدالت یہ کہتی ہے کہ اس پر چوری ثابت نہیں کیونکہ شہادت اس درجے کی نہیں جو چوری کا مقدمہ ثابت ہونے کے لیے ضروری ہے لیکن چونکہ بعض شواہد موجود ہیں اس لیے اسے تعزیراً سزا دی جا رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چوری سو فی صد ثابت نہیں لیکن اسی یا ستر فی صد ثابت ہے؟ کیا چوری، زنا یا قذف کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جرم اتنے فی صد ہوا اور اتنے فی صد نہیں ہوا؟ یہ ایک ایسی مضحکہ خیز صورت ہے جس کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں۔ نہ نقلی نہ عقلی۔
حدود آرڈیننس کے نفاذ کے بعد شاید ہی کسی پر حد جاری کی گئی ہے لیکن حدود کے تحت مقدمات میں تعزیراً بے شمار لوگوں کو سزائیں دی گئی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس صورت حال پر ہماری عدالتیں، بالخصوص وفاقی شرعی عدالت ، قانون ساز اسمبلی، علما اور دوسرے حضرات غور کریں کہ کیا ایسا نہیں کہ بعض لوگوں کے نقص فہم نے ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے جس کے باعث اللہ کے قوانین بلاوجہ زیر بحث آ گئے ہیں؟
دوسری بات شہادت کے قانون سے متعلق ہے۔ حدود کے بارے میں گواہی کے معیارات کا بیان حدود آرڈیننس میں موجود ہے۔ اس کے بعد ۱۹۸۴ء میں جو قانون شہادت نافذ ہوا، اسے بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ ان قوانین کے تحت حدود کے مقدمات میں عورت کی گواہی سرے سے قابل قبول نہیں اور دیگر مقدمات میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے۔ عورت کی گواہی ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔ ہماری تاریخ میں جہاں عورت کی گواہی کی عدم قبولیت کے واقعات درج ہیں، وہاں یہ بھی موجود ہے کہ بعض ادوار بالخصوص خلافت راشدہ میں حدود کے مقدمات میں عورت کی گواہی قبول کی گئی ہے۔ * اس کے بعض شواہد ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب نے اسلامی نظریاتی کونسل کے نام اپنے خط میں جمع کر دیے ہیں اور ان ہی کی بنیاد پر وہ خود بھی حدود میں عورت کی گواہی کو مصدقہ سمجھتے ہیں، اگرچہ وہ دو عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کے برابر قرار دیتے ہیں۔ تاہم بہت سے علما ایسے بھی ہیں جو مرد اور عورت کی گواہی میں تفریق نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک قرآن مجید کی جس آیت سے استدلال کیا جاتا ہے، وہ استدلال درست نہیں۔ استاذ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی نے اس پر دلائل دیے ہیں کہ قرآن مجید کی یہ آیت دستاویزی شہادت سے متعلق ہے جب گواہوں کا انتخاب انسان خود کرتے ہیں۔ واقعاتی شہادت ایک دوسری چیز ہے اور اس ضمن میں اصل حیثیت عدالت کے اطمینان کو حاصل ہے۔ اگر وہ کسی عورت کی گواہی سے مطمئن ہو جاتی ہے تو محض اس وجہ سے یہ گواہی کم قیمت نہیں ہوگی کہ وہ عورت ہے۔ جاوید صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ قرآن مجید کی یہ آیت ایک معاشرتی ہدایت ہے نہ کہ عدالت سے متعلق کوئی حکم۔ * میرا کہنا یہ ہے کہ عورت کی گواہی کا مسئلہ بھی ایسا نہیں جس پر سب اہل علم متفق ہوں۔ اب ایسے اختلافی مسئلے کو دین اسلام کا بنیادی مسئلہ بنانا بھی اپنی حدود سے تجاوز ہوگا۔ اس پہلو سے دیکھیے تو یہ قانون بہرحال عورتوں کے حوالے سے امتیازی ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ ان قوانین میں زنا بالجبر کا ثبوت عورت کے ذمے ہے۔ اگر وہ یہ ثابت نہیں کر سکتی تو یہ مقدمہ اس کے خلاف زنا کے مقدمے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ بات بھی میری سمجھ میں نہیں آ سکی۔ اگر زنا بالجبر کا مقدمہ ثابت نہیں ہوتا تو اس سے یہ تو ہو سکتا ہے کہ ملزموں کو چھوڑ دیا جائے لیکن عورت کو سزا دینے کا کیا جواز ہے؟ کیا اس کا جرم یہ ہے کہ اس نے وقوعہ سے پہلے چار گواہوں کا اہتمام نہیں کیا جو واقعے کو بہت باریک بینی سے ملاحظہ فرماتے؟
غور کیجیے تو یہ مسئلہ بھی شریعت کا نہیں، ہمارے فہم شریعت کا ہے۔ اب اس کا نتیجہ کیا ہے؟ ہمارے ہاں شریعت کے نام پر گواہی کا جو قانون نافذ ہے، اس کے تحت کسی پر حد جاری ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حدود آرڈیننس کو نافذ ہوئے تئیس برس ہو گئے لیکن آج تک کسی پر، میرے علم کی حد تک، حد نافذ نہیں ہوئی۔ اب اگر کسی عورت کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو اس کے پاس دو راستے ہیں: وہ عدالت کے پاس جائے یا گھر بیٹھی رہے۔ اگر عدالت جاکر وہ اپنا مقدمہ ثابت نہیں کر سکتی تو اسے زنا کی سزا لازماً بھگتنا ہوگی۔ اس خوف کے تحت وہ عدالت سے گریز کرے گی اور گھر میں بیٹھی رہے گی۔ اگر اس حادثے کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو جاتی ہے تو معاشرے میں اس کو جس اذیت سے گزرنا پڑے گا، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے یہ قانون بنا کر مظلوم عورت کی مدد کی یا اوباش مجرموں کی؟ اس قانون کے تحت عورتوں پر جو ظلم ہوا، اس کی ایک طویل داستان ہے۔ اس وقت اس قانون کا سقم پوری طرح نمایاں ہوا جب ایک نابینا لڑکی سفیہ بانو اوباشوں کے ہاتھوں اپنی عزت گنوا بیٹھی جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو گئی۔ اس کی داد رسی یوں ہوئی کہ عدالت نے اسے زنا کے جرم میں تین سال قید بامشقت، پندرہ کوڑوں اور ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ یہ ایسا کھلا ظلم تھا کہ وفاقی شرعی عدالت کو یہ سزا ختم کرنا پڑی۔
چوتھی بات قذف سے متعلق ہے۔ اگرچہ قانون میں یہ بات موجود نہیں لیکن وفاقی شرعی عدالت کے ایک فیصلے سے یہ تاثر قائم ہوا کہ خاوند بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور ثابت نہ کر سکے تو بیوی جواباً خاوند پر قذف کا مقدمہ قائم نہیں کر سکتی۔ جس معاشرے میں خاوند اکثر اس کے مرتکب ہوتے ہوں کہ دوسری شادی یا کسی اور ذمہ داری سے جان چھڑانے کے لیے بیویوں پر اخلاقی الزام عائد کرتے ہوں، وہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا عورت کو اپنی حیثیت عرفی کے دفاع کا قانونی حق نہیں ملنا چاہیے؟
پانچویں بات قید کی سزا سے متعلق ہے جس کا تعلق حدود آرڈیننس کے ساتھ نہیں، تمام قوانین سے ہے۔ قید کی سزا سے ایک عورت بالخصوص اور ایک مرد بالعموم جس اذیت سے گزرتے ہیں، وہ ایک ایسے معاشرتی المیے کو جنم دیتا ہے جس کا اندازہ ہر اس شخص کو ہو سکتا ہے جو انسانی جذبات کو ادنیٰ درجے میں بھی سمجھتا ہے۔ میں اس پر پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ قید کی سزا کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں، اسے ختم کیا جانا چاہیے۔
حدود آرڈیننس پر جو اعتراضات ہوتے ہیں، ان کا زیادہ تعلق قانون کے نفاذ اور ہمارے عدالتی نظام سے ہے۔ اس معاشرے کے ہر طبقے، مذہبی یا غیر مذہبی سے میری درخواست یہ ہے کہ وہ حدود آرڈیننس کو اس تناظر میں دیکھے کہ کیا اس سے معاشرے میں جرائم کم ہوئے ہیں؟ کیا اس میں فی الواقع خواتین کے ساتھ امتیاز اور ظلم روا رکھا گیا ہے؟ اگر جرائم میں کوئی کمی نہیں آئی اور عورتوں پر مظالم بڑھے ہیں تو پھر ہمیں اپنے فہم دین پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ اللہ کے قوانین تو ہیں ہی اس لیے کہ لوگوں کے ساتھ انصاف ہو اور کسی پر ظلم نہ ہو۔
(خورشید ندیم، روزنامہ جنگ ، ۱۶ ستمبر ۲۰۰۳ء)
(۳)
یہ تقریباً تین سال پرانی بات ہے جب حدود آرڈیننس کو ختم کرنے کے خلاف اتنی شدومد سے آوازیں اٹھنا شروع نہیں ہوئی تھیں اور میرے جیسے عام لوگ اس آرڈیننس کی کرامات سے اتنے زیادہ باخبر نہیں تھے۔ انہی دنوں ’’خواتین پر جنسی تشدد‘‘ کے موضوع پر وہ سیمینار مجھے یاد ہے جس کا اہتمام انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے کیا تھا۔ موضوع پر گفتگو سے قبل ایک تھیٹر دکھایا گیا تھا کہ کس طرح ایک لڑکی بعض بااثر لوگوں کے جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہے لیکن گھر والے زنا کے مقدمہ کے خوف اور بدنامی کے ڈر سے اس کی ایف آئی آر درج نہیں کراتے لیکن بدنامی پھر بھی اس کی جھولی میں آن گرتی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ بے قصور ہے، سماج اسے ٹھکرا دیتا ہے، حتیٰ کہ اس کا منگیتر بھی اس سے قطع تعلق کر لیتا ہے۔ یہ تھیٹر دکھانے کے بعد موضوع پر بحث کا آغاز ہوا۔ شرکا جن میں دانش ور اور تقریباً تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے افراد تھے، انہوں نے بحث میں بھرپور حصہ لیاجس میں موضوع کے سماجی، قانونی اور دیگر پہلوؤں پر بحث مباحثہ کے علاوہ ایک سوال یہ بھی اٹھایا گیا کہ کیا جنسی تشدد کا شکار ہونے والی عورت یا لڑکی کی ایف آئی آر درج کرانی چاہیے یا گھر والوں کو معاملہ خاموشی سے دبا دینا چاہیے، جیسا کہ تھیٹر میں دکھایا گیااور جو ہمارے معاشرتی رویے کی ہوبہو عکاسی کر رہا تھا۔ شرکا نے اپنی اپنی سوچ کے مطابق اظہار خیال کیا، جبکہ میری رائے تھی کہ ایسے واقعات کو چھپانا نہیں چاہیے۔ میرا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ لڑکی پر ظلم بھی ہو اور جرم کو چھپا کر ہم اسے احساس جرم میں بھی مبتلا کر دیں؟ میں نے استفسار کیا کہ قتل کو تو جرم سمجھا جاتا ہے جبکہ آبرو ریزی کے واقعہ کو بدنامی کا موجب قرار دے کر اسے جرم کے دائرے سے خارج کر دیا جاتا ہے اور لڑکی کے سماجی مستقبل کی فکر کی جانے لگتی ہے۔ بحث مختلف جہتوں پر چلتی ہوئی بالآخر اختتام پذیر ہوئی، جس کا حاصل کیا رہا؟ یہاں اس کا بیان میرے اصل موضوع سے مطابقت نہیں رکھتا۔ تاہم میری تمام دلیلیں مجھے اس روز بے وزن سی معلوم ہوئیں جب میں نے حال ہی میں کوٹ لکھپت جیل لاہور کا وزٹ کیا۔
۱۶ یا ۱۷ برس کی ریحانہ منظور جیل کی سلاخوں کے پیچھے کھڑی زاروقطار رو رہی تھی۔ دھرم پورہ لاہور کی یہ لڑکی زنا کے کیس میں چند روز قبل (اس اکتوبر کی دس یا گیارہ تاریخ کو) یہاں لائی گئی۔ تقریباً چھ ماہ قبل وہ اپنی بہن کے گھر گئی تھی جہاں اس کے بہنوئی نے اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا اور وہ چپ چاپ گھر چلی آئی۔ شاید وہ عمر بھر لب نہ کھولتی اور اپنی بہن کے گھر کے اجڑنے کے خوف سے اور اپنی بدنامی کے ڈر سے یہ ظلم سہہ جاتی، مگر بد قسمت بچی حاملہ ہوگئی جس کے بعد اس کے لیے صورت حال چھپانا ناممکن ہو گیا۔ والدہ اور بہن کو معلوم ہوا تو انہوں نے معاملہ گھر کے اندر ہی دبانے کی کوشش کی اور ریحانہ کی والدہ نے اپنے داماد الیاس کی منتیں کیں کہ وہ اپنے جرم کا اعتراف کر لے، جس پر الیاس نے بے غیرتی اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ بیٹی کہیں اور منہ کالا کر آئی ہے اور مجھے بدنام کر رہی ہے۔ جب صورت حال کافی بگڑ گئی تو ریحانہ کی ماں نے تھانے میں الیاس کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی۔ (مجھے قوی یقین ہے کہ ریحانہ کی ماں، جو ایک ان پڑھ اور قانون سے بے بہرہ عورت ہے، یہ نہیں جانتی تھی کہ تھانے میں اس کے اور اس کی بیٹی کے ساتھ کیا ہونے والا ہے) تھانے میں زنا کا کیس درج کر لیا گیا اور یوں ریحانہ منظور انصاف حاصل کرنے کے بجائے جیل بھجوا دی گئی۔ ریحانہ نے روتے ہوئے بتایا کہ میڈیکل رپورٹ سے ثابت ہو چکا ہے کہ میرے پیٹ میں حمل الیاس کا ہے، لیکن ہمارے پاس شہادتیں نہیں ہیں اور ہم غریب ہیں۔ یہ کہہ کر ریحانہ نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا: ’’باجی! میں رہا ہو جاؤں گی؟ باجی! میری مدد کریں‘‘ میں اسے روتا ہوا دیکھ کر سکتے میں آگئی۔ ممکن ہے وہ رہا ہو جائے، یا شاید سزا بھی ہو لیکن جب بھی وہ جیل سے گھر آئے گی تو کیا معاشرہ اسے پہلے والی حیثیت میں قبول کر لے گا؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ بے قصور ہے؟
پاکستان میں روزانہ کئی عورتیں اور بچیاں مردوں کی ہوس کا نشانہ بنتی ہیں جن کے صحیح اعداد وشمار حاصل کرنا ناممکن ہے، کیونکہ ۸۰فی صد کیس تو بدنامی اور رسوائی کے خوف اور حدود آرڈیننس سے بچنے کے لیے چھپا لیے جاتے ہیں۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر دو گھنٹے میں ایک عورت جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے، جبکہ ہر آٹھ گھنٹے میں ایک گینگ ریپ ہوتا ہے۔ آپ کو روزانہ اخبار کی ایک خبر ریپ یا گینگ ریپ سے متعلق ضرور ملے گی اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ضیاء الحق کے دور میں جب یہ حدود آرڈیننس اسلامائزیشن کے نام سے متعارف کروایا گیاتو اس کے بعد تو جیسے قانون کے ٹھیکیداروں کے ہاتھ ایک ایسا لائسنس آ گیا جسے انہوں نے رقمیں ہتھیانے اور مفادات حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا اور جو جنسی تشدد کی روک تھام کے بجائے اس میں اضافے کا سبب بنا۔ ۱۹۷۸ء سے لے کر اب تک جنسی تشدد اور گینگ ریپ کا شکار ہونے والی خواتین کے اگر بالکل درست اعداد وشمار اکٹھے کرنا ممکن ہو (ریکارڈ اور غیر ریکارڈ شدہ) تو یہ تعداد بلامبالغہ لاکھوں میں ہوگی، کیونکہ مجرم کو ہمیشہ یہ اطمینان رہا کہ عورت کبھی چار گواہ پیش نہیں کر پائے گی اور زنا کا مرتکب ٹھہرایا جانا کوئی مسئلہ نہیں۔ خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی ایک تنظیم کے مطابق ۸۰ فیصد خواتین زنا کے کیسوں میں بہت بہت عرصہ ٹرائل پر ہی سزا بھگت رہی ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ اس قانون کا کئی اور طرح سے بھی Misuse ہوتا رہا اور ابھی تک ہو رہا ہے۔ کوٹ لکھپت میں ہی میری ملاقات ستوکتلہ واپڈا ٹاؤن لاہور کی ۲۰ سالہ شمائلہ بشیر سے بھی کرائی گئی جو کہ گزشتہ ۸ ماہ سے یہاں پر ہے اور اس کا مقدمہ زیر سماعت ہے۔ اس پر بھی اس کی والدہ نے زنا کا مقدمہ درج کروا رکھا ہے، کیونکہ اس نے گھر سے بھاگ کر اپنی پسند کی شادی کی تھی اور شیخوپورہ میں فاروق انجم کے ساتھ عدالت میں نکاح کیا تھا۔ اس کے پاس نکاح نامہ بھی موجود ہے۔ شمائلہ نے بتایا کہ میری ماں کو اعتراض تھا کہ لڑکا ہماری ذات کا نہیں اور ہم دونوں پر زنا اور چوری کے دو کیس درج کرا دیے۔ فاروق انجم کے گھر والے اس شادی پر رضامند ہیں۔ مدعیوں نے وکیل نہیں کیا، اس لیے مجھے شہادتوں کے لیے بھی نہیں بلایا جاتا، یوں مقدمہ طوالت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یہاں ہمیں یہ آرڈیننس پسند کی شادی پر گھر والوں کے رد عمل کے طور پر Misuse ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔
واضح رہے کہ ان دنوں حدود آرڈیننس پارلیمنٹ سے لے کر وکلا اور ہر طبقہ ہائے فکر میں ایک متنازعہ موضوع بنا ہوا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک عہدیدار اور مجلس عمل حدود آرڈیننس کی حمایت میں کھڑے ہیں، جبکہ قومی کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن سمیت تمام اپوزیشن (ماسوائے مجلس عمل) اسی قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے، جس میں خصوصاً خواتین اور وکلا کی تنظیموں کی طرف سے اسے ختم کرنے کے لیے حکومت پر خاصا دباؤ ہے۔ اسی دباؤ کا نتیجہ تھا کہ سرحد کی زعفران بی بی کی سنگ ساری کی سزا کو عدالت کو معطل کرنا پڑا تھا۔ قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین اس مسئلے پر سب سے آگے ہیں کہ اس آرڈیننس کا فوری خاتمہ کیا جائے، جبکہ اپنے دونوں دور حکومت میں انہوں نے اس معاملے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا تھا۔
شکیلہ دختر انور جو کہ رائے ونڈ لاہور کی رہائشی ہے، وہ بھی اسی جیل میں ہے۔ اس نے بھی ریاض نامی شخص سے مرضی کی شادی کی اور ماں نے اس پر زنا بالرضا کا کیس دائر کر دیا اور یہ سب کچھ بقول شکیلہ کے سوتیلے باپ کے ایما پر کیا گیا ہے۔ اب ماں مقدمہ واپس لینے کے لیے تو تیار ہے مگر ۱۹ ہزار روپے کے عوض ’’جو کہ ہمارے پاس نہیں ہے، کیونکہ ہم بہت غریب ہیں‘‘ شکیلہ نے بتایا۔ اس کا شوہر ریاض بھی کیمپ جیل میں ہے۔ وہ یہاں ایک سال سے ہے۔ ریاض کے گھر والوں نے وکیل کروایا ہے لیکن ابھی اگلی تاریخ کا انتظار ہے۔ ہمارے پاس نکاح نامہ اور سارے ثبوت موجود ہیں۔ یہ کہتے ہوئے شکیلہ کی آنکھیں بھر آئیں۔
حدود کے بے شمار کیسوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس آرڈیننس کا سب سے زیادہ استعمال پسند کی شادی کے جرم میں کیا گیا اور چاروں صوبوں میں ایسے بے شمار کیس سامنے آئے ہیں جن میں پسند کی شادی پر گھر والوں کو اعتراض ہوتا ہے اور وہ انتقام کی آگ میں زنا بالرضا کی ایف آئی آر درج کروا کر خود اپنی بیٹی کے لیے جہنم تیار کر ڈالتے ہیں۔
شکیلہ کے بعد میری ملاقات نازیہ دختر عاشق سے کرائی گئی، جس کی عمر بمشکل ۲۰ سال ہوگی۔ اس کی گود میں ایک نو ماہ کی بچی تھی جس کا نام اس نے آرزو شہزادی رکھا ہے۔ وہ لاہور کینٹ کچہری کی رہنے والی ہے اور اس کے شوہر اشفاق، جو گھر داماد تھا، کے ساتھ ساس کا زمین کے ایک ٹکڑے پر جھگڑا ہو گیا۔ ساس یعنی نازیہ کی ماں کا اور تو کوئی بس نہ چلا، داماد اور بیٹی پر زنا کا کیس دائر کر دیا۔ وہ آٹھ ماہ سے یہاں ہے۔ مقدمہ چل رہا ہے، اس کی ضمانت ہو چکی ہے، لیکن مچلکہ دینے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ ’’باجی! مچلکہ کا بندوبست کر دیں‘‘ اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے مجھ سے درخواست کی۔ اس کی نو ماہ کی بچی حالات کی سنگینی سے بے خبر جیل کی موٹی سلاخوں والی کھڑکی کو بار بار ہاتھ مار رہی تھی، جو آٹھ ماہ سے ماں کے ساتھ جیل میں ہے۔
یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ گھریلو تنازعات میں بھی یہ آرڈیننس کس طرح مدعی کو تحفظ دیتا ہے اور یہ آرڈیننس کس طرح مختلف شکلوں میں عدل وانصاف کی آبرو ریزی کر رہا ہے، ایسے کہ جیسے شیطانوں کے ہاتھوں میں دستی بم ہو، جس نے ہزاروں عورتوں اور ان کے خاندانوں کی عزت وحرمت اور ان کی سماجی حیثیت کے پرخچے اڑا ڈالے۔ ریحانہ، شمائلہ بشیر، شکیلہ، نازیہ دختر عاشق اور ان جیسی سینکڑوں ہزاروں عورتیں پاکستان کی کئی جیلوں میں زنا کے تحت سزائیں کاٹ رہی ہیں جن میں سے اکثر طویل عرصہ سے ٹرائل پر ہی ہیں۔
میری اگلی ملاقاتی نازیہ ممتاز تھی۔ اس کا سابقہ خاوند گلزار اس سے جسم فروشی کرواتا تھا۔ وہ مالی پورہ داتا صاحب لاہور کی رہائشی ہے۔ اس دھندے میں اس کی نند خالدہ بھی ملوث تھی۔ نازیہ نے بالآخر گلزار سے طلاق لے لی اور وہاں سے بھاگ گئی جس کے بعد اس نے ایک مزدور پیشہ شخص سے شادی کر لی۔ پہلے شوہر نے اس پر زنا بالرضا کا مقدمہ درج کروا دیا اور اس سے اس کی بچی بھی چھین لی، جبکہ اس کا بچہ اس کی جیل میں موجودگی کے دوران عدم نگہداشت کے باعث مر گیا۔ نازیہ ممتاز حاملہ ہے۔ ’’باجی! بے میری بچی مجھے واپس دلا دی جائے‘‘ نازیہ ممتاز نے مجھ سے درخواست کی۔
کوٹ لکھپت جیل میں میری ملاقات جتنی بھی قیدی عورتوں سے ہوئی، وہ سب ایک ایک سال یا کچھ مہینوں سے ٹرائل پر ہیں۔ مجھے زنا کے کچھ پرانے کیس بھی درکار تھے۔ معلوم ہوا کہ ایسے زیادہ تر کیس ملتان جیل میں ہیں، جن میں ایک فاطمہ بی بی زوجہ عزیز الرحمن تھی، جس کا ایف آئی آر نمبر 211/95 تھا۔ اسے ۱۱ جون ۱۹۹۶ء کو زنااور چوری کے جرم میں ۵ سال قید، ۲ ہزار روپے جرمانہ اور ۱۰ کوڑوں کی سزا سنانے کے بعد تھانہ ٹبی سٹی سے ملتان جیل بھیج دیا گیا تھا۔
حدود آرڈیننس کے تحت اس وقت بھی ہزاروں خواتین قید با مشقت بھگت رہی ہیں، جن میں سے اکثریت کسی دشمنی، ناچاقی، بدلے یا کسی ایسے ہی تنازعے کی بھینٹ چڑھی ہوں گی۔ حدود آرڈیننس نے معاشرے میں کس قدر بگاڑ پیدا کیا اور عدل وانصاف کے کس طرح سے پرخچے اڑائے، اس کا ایک طویل ریکارڈ ہے۔
موجودہ حالات متقاضی ہیں کہ نہ صرف حدود آرڈیننس کو ختم کیا جائے بلکہ ان جرائم میں قید اور سزا کاٹنے والی عورتوں کو بھی رہا کیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو مزید عورتیں اس کا شکار بنتی چلی جائیں گی اور معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا چلا جائے گا کیونکہ ایسی عورتوں کو معاشرے میں بھی کوئی قبول نہیں کرتا، جس کے بعد ان کے پاس معاشی وسماجی حیثیت سے ایک باعزت زندگی گزارنے کا کوئی حق باقی رہ جاتا ہے؟ تو پھر کیا معاشرے میں مزید بے راہ روی نہیں پھیلے گی؟ کیا مزید گھر برباد نہیں ہوں گے؟ کیا مزید لڑکیوں کا مستقبل تاریکیوں کی نذر نہیں ہوگا؟ کیا دنیا میں اسلام کی رسوائی نہیں ہوگی؟ اور کیا مجرموں کے ہاتھ مزید مضبوط نہیں ہوں گے؟ لیاقت بلوچ کہتے ہیں کہ یہ Divine Law (خدائی قانون) ہے۔ وہ بتائیں کہ اب تک یہ کہاں عدل کے تقاضے پورے کر پایا ہے اور کر رہا ہے، جبکہ اسلام عدل وانصاف پر زور دیتا ہے۔ وہ شخص مومن نہیں جو پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور قریب اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔ (بخاری)
(یاسمین فرخ، روزنامہ پاکستان، ۸ نومبر، ۲۰۰۳ء)
حواشی
* حدود میں عورتوں کی گواہی کے ناقابل قبول ہونے کے موقف کے حق میں واضح اور صریح دلیل کی حیثیت تنہا امام زہریؒ کے اس بیان کو حاصل ہے کہ: مضت السنۃ عن رسول اللہ ﷺ ان لا تجوز شہادۃ النساء فی الحدود ولا فی النکاح ولا فی الطلاق (ابن قدامہ، المغنی، ۷/۸۔ مسئلہ ۵۱۴۲) ’’رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے سنت یہ چلی آ رہی ہے کہ حدود اور نکاح وطلاق کے معاملات میں عورتوں کی گواہی قابل قبول نہیں۔‘‘
لیکن ہماری رائے میں اس قدر اہمیت اور نزاکت کے حامل معاملے میں محض امام زہریؒ کے بیان پر انحصار دو وجوہ سے بے حد کمزور ہے:
ایک یہ کہ یہ روایت امام زہریؒ نے مرسلاً بیان کی ہے اور محدثین کے نزدیک ان کی مراسیل پایہ اعتبار سے ساقط ہیں: ان یحیی بن القطان کان لا یری مراسیل الزہری وقتادۃ شیئا ویقول ہی بمنزلۃ الریح (ابن الہمام، فتح القدیر، ۵/۵۰۳) ’’یحییٰ بن القطان، زہری اور قتادہ کی مراسیل کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ بالکل بے وقعت ہیں۔‘‘ والزہری مراسیلہ ضعیفۃ (شوکانی، نیل الاوطار، ۷/۲۶۴) ’’زہری کی مراسیل ضعیف ہیں۔‘‘
دوسری یہ کہ امام زہریؒ کی آرا میں متعدد ایسی مثالیں ملتی ہیں جن میں وہ کسی چیز کو ’’سنت‘‘ یعنی عہد نبوی اور عہد صحابہ کا معمول بہ طریقہ قرار دیتے ہیں، لیکن دلائل وشواہد اس کے بالکل برخلاف ہوتے ہیں۔ اکابر اہل علم نے اس بنیاد پر بہت سے امور میں امام زہریؒ کے بیانات کو اپنی رائے کا ماخذ بنانے سے گریز کیا ہے۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں:
۱۔ زیر بحث روایت ہی میں امام زہریؒ نے فرمایا ہے کہ نکاح وطلاق کے معاملات میں بھی عورتوں کی گواہی ازروے سنت قابل قبول نہیں، لیکن سیدنا عمرؓ اور سیدنا علیؓ کے علاوہ تابعین میں سے عطا، شریح اور شعبی رحمہم اللہ سے اس کے برعکس فیصلے منقول ہیں، چنانچہ فقہاے احناف نے امام زہری کے اس بیان کو قبول نہیں کیا اور وہ اپنے دلائل کی بنا پر ان امور میں عورتوں کی شہادت کو جائز قرار دیتے ہیں۔ (جصاص، احکام القرآن، ۱/۶۸۵)
۲۔ امام زہریؒ سے قضاء بالیمین والشاہد کے طریقے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ: ما اعرفہ وانہا لبدعۃ واول من قضی بہ معاویۃ (جصاص، احکام القرآن ۱/۷۰۵) ’’میں اس طریقے سے واقف نہیں۔ یہ بدعت ہے۔ سب سے پہلے اس کے مطابق معاویہؓ نے فیصلہ کیا تھا۔‘‘
حالانکہ یہ طریقہ رسول اللہ ﷺ اور خلفاے راشدین سے شہرت کے ساتھ ثابت ہے، چنانچہ خود امام زہریؒ کے جلیل القدر شاگرد امام مالکؒ فرماتے ہیں: مضت السنۃ فی القضاء بالیمین مع الشاہد الواحد (الموطا، کتاب الاقضیۃ) ’’ایک گواہ کے ساتھ قسم کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کا طریقہ رائج اور معمول بہ چلا آ رہا ہے۔‘‘
۳۔ امام زہریؒ فرماتے ہیں: اہل ذمہ کی دیت کے بارے میں روئے زمین پر مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ ان کی دیت رسول اللہ ﷺ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں ایک ہزار دینار تھی، لیکن جب معاویہؓ کا دور حکومت آیا تو انہوں نے مقتول کے ورثا کو پانچ سو دینار دے کر باقی رقم بیت المال میں جمع کرنے کا حکم دے دیا۔ (البیہقی، السنن الکبریٰ، ۸/۱۲۰)
حالانکہ روایات میں رسول اللہ ﷺ اور خلفاے راشدین سے مختلف مقدمات میں اہل ذمہ کی دیت کی مختلف مقداریں منقول ہیں اور اسی بنیاد پر ائمہ فقہا کی آرا بھی اس باب میں مختلف ہیں۔ (جصاص، احکام القرآن، ۲/۲۳۵، ۲۳۷۔ نیل الاوطار، ۷/۷۸، ۷۹) چنانچہ امام زہریؓ کے اس بیان کو کہ سیدنا معاویہؓ سے پہلے اہل ذمہ کی دیت کی ا یک ہی متعین مقدار رائج تھی، اکابر اہل علم نے قبول نہیں کیا۔ امام بیہقی لکھتے ہیں: وقد ردہ الشافعی بکونہ مرسلا وبان الزہری قبح المرسل وان روینا عن عمر وعثمان ما ہو اصح منہ (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۸/۱۰۲) ’’امام زہری کے اس بیان کو امام شافعی نے اس بنیاد پر رد کر دیا ہے کہ یہ مرسل ہے اور زہری کی مراسیل بہت قبیح ہیں۔ نیز حضرت عمر اور حضرت عثمان سے اس کے برعکس فیصلے زیادہ مستند طریقے سے مروی ہیں۔‘‘ شوکانی فرماتے ہیں: وحدیث الزہری مرسل ومراسیلہ قبیحۃ لانہ حافظ کبیر لا یرسل الا لعلۃ (نیل الاوطار، ۷/۸۰) ’’زہری کا قول مرسل ہے اور ان کی مرسل روایتیں بہت قبیح ہیں، کیونکہ وہ ایک بڑے حافظ حدیث ہیں اور ارسال کا طریقہ اسی وقت اختیار کرتے ہیں جب روایت میں کوئی خرابی موجود ہو۔‘‘
۴۔ امام زہریؒ فرماتے ہیں: ان السنۃ للمعتکف ان لا یخرج الا لحاجۃ الانسان ولا یتبع جنازۃ ولا یعود مریضا (سنن الدارقطنی، ۲/۲۰۱) ’’معتکف کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ ناگزیر انسانی ضروریات کے علاوہ مسجد سے نہ نکلے، نہ نماز جنازہ میں شرکت کرے اور نہ کسی مریض کی عیادت کے لیے جائے۔‘‘
حالانکہ معتکف کے لیے مریض کی عیادت اور نماز جنازہ میں شرکت کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ سے کوئی واضح اور قطعی ہدایت منقول نہیں اور اسی وجہ سے اہل علم میں اس حوالے سے اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ سعید بن مسیبؒ ، مجاہدؒ ، امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعیؒ اس کے عدم جواز کے جبکہ سیدنا علیؓ، سفیان ثوریؒ ، حسن بن صالحؒ ،سعید بن جبیرؒ اور ایک روایت کے مطابق امام احمدؒ اس کے جواز کے قائل ہیں۔ (جصاص، احکام القرآن، ۱/۳۴۰، ۳۴۱۔ ابن قدامہ، المغنی، ۳/۷۰)
۵۔ اہل علم کا اس میں اختلاف ہے کہ اگر کوئی کتاب تمام کی تمام اشعار پرمشتمل ہو تو کیا اس کے شروع میں بسم اللہ لکھی جائے گی یا نہیں؟ امام زہریؒ فرماتے ہیں: مضت السنۃ ان لا یکتب فی الشعر بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ ’’سنت یہ چلی آ رہی ہے کہ شعر کے آغاز میں بسم اللہ نہ لکھی جائے۔‘‘ لیکن جمہور فقہا نے ان کے اس بیان کو قبول نہیں کیا اور اشعار کے آغاز میں بسم اللہ لکھنے کو جائز قرار دیا ہے۔ (محمد بن محمد الحطاب، مواہب الجلیل، ۱/۱۱)
۶۔ امام زہریؒ فرماتے ہیں: مضت السنۃ فی زکاۃ الزیتون ان توخذ ۔ ’’سنت یہ چلی آ رہی ہے کہ زیتون کی فصل سے بھی زکاۃ وصول کی جائے۔‘‘ لیکن روایات سے ان کے اس بیان کی تائید نہیں ہوتی، چنانچہ امام بیہقی فرماتے ہیں: وہذا موقوف لا یعلم اشتہارہ ولا یحتج بہ علی الصحیح (نیل الاوطار ۵/۴۳۳) ’’یہ امام زہری کا اپنا بیان ہے حالانکہ زیتون کی زکاۃ وصول کرنا (عہد صحابہ میں) معروف نہیں، اور نہ صحیح رائے کے مطابق اس قول سے استدلال درست ہے۔‘‘
۷۔ نکاح کے بعد خاوند مہر کی ادائیگی سے قبل بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم کر سکتا ہے یا نہیں؟ امام زہریؒ فرماتے ہیں: مضت السنۃ ان لا یدخل بہا حتی یعطیہا شیئا ۔ ’’سنت یہ ہے کہ مہر کا کچھ حصہ دیے بغیر خاوند ایسا نہیں کر سکتا۔‘‘ لیکن متعدد روایات سے اس کے جواز کا ثبوت ملتا ہے اور انہی کی بنا پر سعید بن مسیبؒ ، حسن بصریؒ ، ابراہیم نخعیؒ ، سفیان ثوریؒ اور امام شافعیؒ جیسے ائمہ اس کے جواز کے قائل ہیں۔ (المغنی، ۷/۱۸۸۔ مسئلہ ۵۶۱۱)
* فقہاے احناف سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۸۲ کو، جس میں دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنانے کی ہدایت کی گئی ہے، عدالت اور قضا سے متعلق مانتے اور عدالتی فیصلوں میں مذکورہ نصاب شہادت کی پابندی کو لازم قرار دیتے ہیں۔ (جصاص، احکام القرآن، ۱/۷۰۲) جبکہ دوسرے فقہا کے نزدیک اس آیت میں خطاب چونکہ عدالت سے نہیں بلکہ معاملے کے فریقین سے ہے، اس لیے فصل مقدمات میں اس نصاب کی پابندی لازم نہیں۔ ابن قدامہؒ لکھتے ہیں: ان الآیۃ واردۃ فی التحمل دون الاداء ولہذا قال ان تضل احداہما فتذکر احداہما الاخری والنزاع فی الاداء (المغنی، ۱۰/۱۵۸۔ مسئلہ ۸۳۳۷) ’’آیت کا تعلق کسی معاملے میں گواہ بنانے سے ہے نہ کہ عدالت میں گواہی دینے سے، جس کا قرینہ یہ ہے کہ اس میں کہا گیا ہے کہ (دو عورتوں کو گواہ بنایا جائے) تاکہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد کرا دے۔ جبکہ اختلاف اس میں ہے کہ کیا گواہی کی ادائیگی میں بھی اس طریقے کی پیروی ضروری ہے؟‘‘
موخر الذکر رائے کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے منقول فیصلوں میں کہیں اس بات کا تاثر نہیں ملتا کہ آپ نے آیت میں مذکور نصاب شہادت کے التزام کو ہر حال میں ضروری سمجھا ہو۔ اس کے بجائے آپ نے صورت حال کی نوعیت کے لحاظ سے واقعہ کے ثبوت کا اطمینان حاصل کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے۔ مثلاً:
- بعض مقدمات میں مدعی سے فرمایا کہ اپنے حق میں دو گواہ پیش کرو ورنہ مدعا علیہ سے حلف لے کر اس کو بری الذمہ قرار دیا جائے گا۔ (بخاری، الرہن، ۲۳۳۲)
- بعض مقدمات میں اگر مدعی دو گواہ پیش نہ کر سکا تو ایک گواہ کے ساتھ مدعی سے حلف لے کر اس کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ (صحیح مسلم، الاقضیۃ، ۳۲۳۰۔ سنن ابی داؤد، الاقضیۃ، ۳۱۳۳)
- بعض مقدمات میں یہ قرار دیا کہ اگر مدعی کے پاس ایک ہی گواہ ہے تو مدعا علیہ کے قسم کھانے پر مقدمہ خارج کر دیا جائے گا، لیکن اگر مدعا علیہ قسم کھانے سے انکار کرے تو اس کا انکار دوسرے گواہ کے قائم مقام سمجھا جائے گا اور مدعی کے حق میں فیصلہ کر دیا جائے گا۔ (سنن ابن ماجہ، الطلاق، ۲۰۲۸)
- ایک موقع پر محض ایک شخص کی گواہی پر سلمہ بن الاکوع کے حق میں ’سلب القتیل‘ کا فیصلہ فرمایا۔ (صحیح البخاری، المغازی، ۳۹۷۸) اسی طرح ایک موقع پر صرف ایک اعرابی کی گواہی پر رمضان کا چاند نظر آنے کا اعلان فرما دیا۔ (جامع الترمذی، الصوم، ۶۲۷) ایک دوسرے موقع پر صرف عبد اللہ بن عمرؓ کی گواہی پر آپ نے لوگوں کو رمضان کے روزے رکھنے کا حکم دیا۔ (ابو داؤد، الصوم، ۱۹۹۵)
- رضاعت کے ایک مقدمے میں آپ نے محض دودھ پلانے والی عورت کی گواہی پر ثبوت رضاعت کا فیصلہ فرما دیا۔ (بخاری، العلم، ۸۶) آپ سے پوچھا گیا کہ رضاعت کے ثبوت کے لیے کتنے گواہ کافی ہیں؟ تو فرمایا کہ ایک مرد یا ایک عورت ۔ (مسند احمد، مسند المکثرین من الصحابۃ، ۵۶۱۰)
(مدیر)
مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق دار کون؟
مولانا محمد یوسف
روئے زمین پر سب سے محترم ومقدس مقامات مساجد ہیں۔ جناب نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: احب البلاد الی اللہ مساجدہا ۔ ان مساجد میں سے بعض ایسی ہیں جن کو کسی نہ کسی وجہ سے امتیازی مقام حاصل ہے۔ روئے زمین پر قائم تین مساجد ایسی ہیں جن کی طرف تقرب الٰہی کے حصول کی نیت سے باقاعدہ دور دراز سفر کر کے جانے کی ترغیب خود نبی اکرم ﷺ نے دی ہے۔ ارشاد گرامی ہے: لا تشد الرحال الا الی ثلثۃ مساجد المسجد الحرام والمسجد الاقصیٰ ومسجدی۔
درج بالا حدیث مبارکہ میں مسجد حرام اور مسجد نبوی کے ساتھ ساتھ مسجد اقصیٰ کو بھی مقدس مقام شمار کیا گیا ہے۔ اس کی عظمت نہ صرف مسلمانوں کی نگاہ میں ہے بلکہ یہود ونصاریٰ بھی اس کو مقدس مانتے ہیں۔ جب بھی کوئی مسلمان سورۃ اسرا کی تلاوت کرتا ہے، اس کے قلب میں اس مقام کا تقدس وجلال اثر کیے بغیر نہیں رہتا۔
اس مقدس مسجد کو خداے واحد کی پرستش کے لیے سب سے پہلے حضرت یعقوب نے تعمیر کیا۔ بخاری ومسلم کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو ذر غفاریؓ نے نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ، دنیا میں سب سے پہلی مسجد کون سی ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا، مسجد حرام۔ ابو ذر غفاریؓ نے پھر دریافت کیا کہ اس کے بعد کون سی مسجد عالم وجود میں آئی؟ آپ نے فرمایا، مسجد اقصیٰ۔ ابو ذرؓ نے تیسری مرتبہ سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان مدت کس قدر ہے؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، دونوں کے درمیان چالیس سال کی مدت ہے۔ (بخاری، کتاب الانبیاء)
جس طرح حضرت ابراہیم نے مسجد حرام کی تعمیر کی اور وہ مکہ مکرمہ کی آبادی کا باعث بنی، اسی طرح حضرت یعقوب نے مسجد بیت المقدس کی بنیاد رکھی۔ پھر عرصہ دراز کے بعد حضرت سلیمان کے حکم سے اس مسجد کی جدید تعمیر کی گئی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مسجد اقصیٰ کی عظمت مسلمانوں اور یہود دونوں کے ہاں مسلم ہے تو اس کی تولیت کا حق کس کو ہے؟ اگر خاندانی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق یہود کو حاصل ہے کیونکہ وہ حضرت یعقوب کی اولاد ہیں۔ حضرت یعقوب کے بڑے بیٹے یہودا کی نسبت سے ان کو یہودی کہا جاتا ہے۔ لیکن اگر نظریہ کی بنیاد پر دیکھا جائے تو مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق مسلمانوں کے حصے میں آتا ہے کیونکہ قرآن وحدیث کی رو سے انبیا کے نظریاتی وارث مسلمان ہیں نہ کہ یہود۔ ذیل میں اس موقف کو قرآن کریم کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے۔
یہودی، اور اسی طرح نصاریٰ اور مشرکین، خود کو ملت ابراہیمی کا وارث قرار دیتے تھے۔ یہی دعویٰ مسلمانوں کا تھا۔ قرآن کریم نے یہود ونصاریٰ اور مشرکین کے اس دعوے کی واضح انداز میں تردید کی اور مسلمانوں کو ملت ابراہیمی کا اصلی وارث قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَاکَانَ اِبْرَاہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّلاَ نَصْرَانِیاًّ وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا وَّمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ O اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرَاہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَہٰذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَاللّٰہُ وَلِیُّ الْمُوْمِنِیْنَ O (آل عمران )
’’حضرت ابراہیم نہ تو یہودی تھے نہ عیسائی بلکہ وہ تو ایک موحد مسلم تھے اور ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھے۔ ابراہیم سے نسبت رکھنے کا حق اگر کسی کوپہنچتا ہے تو ان لوگوں کو پہنچتا ہے جنہوں نے ان کی پیروی کی اور اب یہ نبی (حضرت محمد ﷺ) اور ان کے ماننے والے اس نسبت کے زیادہ حق دار ہیں۔ اللہ تعالیٰ صرف انہی کا حامی ومددگار ہے جو ایمان رکھتے ہیں۔‘‘
درج بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا تعلق حضرت ابراہیم کے ساتھ جوڑا ہے۔ یہ تعلق نظریے کی بنیاد پر ہے نہ کہ خاندان کی بنیاد پر۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ انبیا کی تعلیمات کے وارث مسلمان ہیں نہ کہ یہود ونصاریٰ۔ جس طرح مسلمان انبیا کے نظریات کے وارث ہیں، اسی طرح ان کی قائم کردہ عبادت گاہوں کے بھی وارث ہیں۔
بنی اسرائیل حضرت یعقوب کی اولاد ہیں اور اسی بنیاد پر وہ حضرت یعقوب کو یہودی قرار دیتے تھے اور خود کو حضرت یعقوب کا وارث۔ اللہ تعالیٰ نے محض خاندان کی بنیاد پر حضرت یعقوب کے ساتھ یہود کے اس قائم کردہ تعلق کی نفی فرمائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَمْ تْقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْرَاہِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطَ کَانُوْا ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی قُلْ ءَ اَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّٰہُ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہُ مِنَ اللّٰہِ وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ O (البقرہ )
’’یا پھر تمہارا کہنا یہ ہے کہ ابراہیم واسمٰعیل واسحق ویعقوب اور اولاد یعقوب سب کے سب یہودی تھے یا نصرانی تھے؟ کہو تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ تعالیٰ؟ ا س شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جس کے ذمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے۔ تمہاری حرکات سے اللہ تعالیٰ غافل تو نہیں ہیں۔‘‘
اس آیت مبارکہ سے بھی یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ خاندان کی بنیاد پر یہود نے حضرت یعقوب کے ساتھ اور دیگر انبیا کے ساتھ جو تعلق قائم کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کی نفی فرمائی ہے۔ یہود کو مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق معمار اول حضرت یعقوب کے ساتھ نظریاتی تعلق کی وجہ سے ہی دیا جا سکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب کے ساتھ ان کے اس نظریاتی تعلق کی نفی فرما دی جو حق تولیت کی بنیاد ہے تو حق تولیت کی نفی خود بخود ہو گئی کیونکہ انبیا کی وراثت نظریے کی بنیاد پر ہوتی ہے نہ کہ خاندان کی بنیاد پر۔ جس طرح انبیا کے نظریات کے وارث مسلمان ہیں، اس طرح انبیا کی تعمیر کردہ عبادت گاہوں کے وارث بھی مسلمان ہیں۔
حدیث رسول سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انبیا کے ساتھ تعلق اور انبیا کا وارث قرار پانا نظریے کی بنیاد پر ہے نہ کہ خاندان کی بنیاد پر۔ مسلم شریف کی حدیث ہے کہ جب سرکار دو عالم ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہود یوم عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں۔ جب یہود سے یوم عاشورا کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو یہود نے جواب دیا کہ یہ وہ دن ہے کہ جس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ عطا فرمایا، یعنی حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کو نجات دی اور فرعون کو غرق کیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا:
نحن اولی بموسیٰ منکم فامر بصومہ۔
’’ہم تمہاری نسبت موسیٰ کے زیادہ قریب ہیں۔‘‘
پس آپ نے اپنے پیروکاروں کو اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے کس وجہ سے یہ ارشاد فرمایا کہ ہم موسیٰ کے زیادہ قریب ہیں؟ خاندانی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہود کا تعلق حضرت موسیٰ سے زیادہ قریبی ہے کیونکہ حضرت موسیٰ کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے، اس کے باوجود آپ نے یہ ارشاد فرمایا۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضور کے پیش نظر نظریے کی قربت ہے نہ کہ خاندان کی۔ چنانچہ آج بھی مسلمان یوم عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں، البتہ یہود کے ساتھ مشابہت سے بچنے کے لیے سرکار دو عالم کے حکم کے مطابق دس محرم کے ساتھ نو محرم یا گیارہ محرم کا روزہ بھی ملایا جاتا ہے۔
یہودی تو خود کو جن انبیا کا پیروکار کہتے ہیں، ان مقدس انبیا پر نعوذ باللہ ایسے الزامات عائد کرتے ہیں کہ ان کے تصور سے ہی جسم میں جھرجھری پیدا ہو جاتی ہے۔ کیا یہود کا ان انبیا پر ایسے الزامات عائد کرنے کے بعد بھی مسجد اقصیٰ پر تولیت کا کوئی مذہبی یا اخلاقی حق باقی رہ جاتا ہے؟ حضرت سلیمان نے مسجد اقصیٰ کی جدید تعمیر کی۔ یہود نے ان کے والد محترم حضرت داؤد کے پاکیزہ دامن پر ایسا الزام لگایا جس کی توقع کسی بھی شریف آدمی سے نہیں کی جا سکتی۔ کیا حضرت سلیمان نے مسجد اقصیٰ کی جدید تعمیر ایسے ہی لوگوں کی تولیت کے لیے فرمائی تھی؟
اگر بیت المقدس پر یہودیوں کے حق تولیت کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر آج کے مشرکین بھی بیت اللہ پر تولیت کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ چند ماہ قبل ایک ہندو نوجوان کا مقالہ نظروں سے گزرا جس نے اپنا زور تحقیق اس موقف کو ثابت کرنے کے لیے صرف کیا کہ خانہ کعبہ کی تولیت کا حق ہندوؤں کا ہے۔ اس محقق نوجوان نے بخاری شریف کی روشنی میں فتح مکہ کا حوالہ دیتے ہوئے خانہ کعبہ کا نقشہ کھینچا کہ جب مسلمانوں نے مکہ فتح کیا تو وہاں بتوں کی پرستش ہوتی تھی، لوگ دیوتاؤں کے سامنے اپنی حاجات پیش کرتے تھے، صفا اور مروہ پر اساف اور نائلہ نامی بت نصب تھے۔ مگر جب مسلمانوں نے مکہ فتح کیا اور خانہ کعبہ ہمارے آباو اجداد سے چھینا تو مسلمانوں نے ہمارے دیوتاؤں کی بے حرمتی کی اور ہمارے دیوتاؤں کو ہماری عبادت گاہ سے نکال دیا۔ اس وقت سے آج تک خانہ کعبہ مسلمانوں کے قبضے میں چلا آ رہا ہے، لہٰذا اخلاقی طور پر مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خانہ کعبہ پر اپنا ناجائز قبضہ ختم کر کے اس عبادت گاہ کو ہمارے حوالے کریں۔ میرا قارئین سے سوال ہے کہ کیا اس نوجوان ہندو محقق کے اس دعویٰ کو قبول کر لیا جائے گا؟ یقیناًکوئی مسلمان بھی اس دعوے کو قبول کرنے کے لیے کسی صورت بھی تیار نہیں ہو سکتا، کیونکہ معمار کعبہ حضرت ابراہیم نے اس کو خداے واحد کی عبادت کے لیے تعمیر کیا تھا، نہ کہ بتوں اور دیوتاؤں کی پوجا پاٹ کے لیے۔
یہاں ممکن ہے کہ کسی قاری کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ خانہ کعبہ پر مشرکین کے حق تولیت کو تو قرآن کریم نے منسوخ کر دیا ہے لیکن مسجد اقصیٰ پر یہود کے حق تولیت کو منسوخ نہیں کیا لہٰذا قرآن کریم کے حکم کے مطابق مشرکین کے حق تولیت کو تو منسوخ سمجھا جائے گا، لیکن مسجد اقصیٰ پر یہود کے حق تولیت کو منسوخ نہیں سمجھا جائے گا۔
اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہود کو مسجد اقصیٰ کی تولیت مشروط طور پر عطا فرمائی تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰبَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَوْفُوْا بِعَہْدِیْ اُوْفِ بِعَہْدِکُمْ وَاِیَّایَ فاَرْہَبُوْنِ O (البقرہ )
’’اے بنی اسرائیل، میری نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر کیں۔ میرے عہد کو پورا کرو، میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا۔‘‘
مسجد اقصیٰ پر یہود کی تولیت بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت تھی۔ درج بالا آیت میں اس عہد سے مراد احکام الٰہی کو قبول کرنا اور ان پر عمل کرنا ہے۔ لیکن جب یہود نے احکام الٰہی کی نافرمانی کی تو ان کی اس نافرمانی کی وجہ سے بابل کے بادشاہ بخت نصر کو ان پر مسلط کر دیا گیا جس نے یہود کو ارض مقدس سے جلاوطن کر دیا۔ بعد ازاں انبیا نے بنی اسرائیل کو خدا تعالیٰ سے توبہ وتضرع کی تلقین کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف فرما دیا اور ایرانیوں کے عہد میں ارض مقدس کی تولیت دوبارہ ان کو عطا ہوئی لیکن یہود نے احکام الٰہی کی نافرمانی کے سبب مسلط ہونے والے عذاب سے کوئی سبق نہ سیکھا اور اپنی سابقہ روش کو اختیار کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی تو بطور سزا کے ان پر رومیوں اور یونانیوں کو مسلط کیا گیا جنہوں نے یہود کا قتل عام کیا، مسجد اقصیٰ کو جلا دیا اور جلا وطن یہودی ایک بڑی تعداد میں انتہائی مایوسی کے عالم میں ارض مقدس کو چھوڑ کر مدینہ منورہ اور اس کے ارد گرد آکر آباد ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی بعثت کا انتظار کرنے لگے۔ آنحضرت کی بعثت کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو آخری موقع دیا کہ وہ تورات کے حکم کے مطابق اللہ تعالیٰ کے آخری نبی پر ایمان لے آئیں تو اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائیں گے ورنہ اگر یہود نے اپنی سابقہ روش اختیار کی تو ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو ماضی میں ہو چکا ہے کہ ان کی نافرمانی کے باعث مسجد اقصیٰ سے دو مرتبہ ان کی تولیت کو ختم کیا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَہَنَّمَ لِلْکَافِرِیْنَ حَصِیْرًا O (بنی اسرائیل)
’’(اب محمد ﷺ کی بعثت کے بعد) ممکن ہے کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم کرے اور اگر پھر تم نے ویسا ہی کیا تو ہم بھی ویسا ہی کریں گے اور حق کے منکروں کے لیے ہم نے جہنم کا احاطہ بنا رکھا ہے۔‘‘
لیکن یہود نے اللہ تعالیٰ کی اس عطا کردہ مہلت سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا اور اللہ تعالیٰ کے آخری نبی کا نہ صرف انکار کیا بلکہ دشمنی پر اتر آئے۔ نہ صرف مدینہ منورہ اور خیبر سے ان کو جلاوطن کیا گیا بلکہ سیدنا فاروق اعظم کے دور خلافت میں اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس بجائے یہود کے مسلمانوں کو عطا فرمایا۔
امت مسلمہ کے محققین نے جن مختلف دلائل کی بنیاد پر بیت المقدس کی تولیت کا حق امت مسلمہ کے لیے ثابت کیا ہے، ان سب کو اگر ذکر کیا جائے تو مضمون بہت طویل ہو جائے گا۔ لہٰذا بطور مثال کے صرف ایک دلیل کو تحریر کر کے کچھ تبصرہ کیا جاتا ہے۔
سید سلیمان ندویؒ اپنی کتاب ’’سیرۃ النبی‘‘ کی جلد سوم میں ’’قرآن مجید اور معراج‘‘ کے عنوان کے تحت رقم طراز ہیں:
’’آپ کو دونوں قبلوں کی تولیت تفویض ہوئی اور نبی القبلتین کا منصب عطا ہوا۔ یہی نکتہ تھا جس کے سبب سے آنحضرت کو کعبہ اور بیت المقدس دونوں طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا، اسی لیے معراج میں آپ کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے جایا گیا اور مسجد اقصیٰ میں تمام انبیا کی صف میں آپ کو امامت پر مامور کیا گیا تاکہ آج اس مقدس دربار میں اس کا اعلان عام ہو جائے کہ دونوں قبلوں کی تولیت سرکار محمدی کو عطا ہوتی ہے اور نبی القبلتین نامزد ہوتے ہیں۔‘‘
معراج کا مقدس سفر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اظہار اور رسول اللہ ﷺ کا معجزہ ہے۔ مسجد اقصیٰ میں اللہ تعالیٰ نے تمام انبیا کو جمع فرمایا اور رسول اللہ ﷺ کو ان کا امام بنایا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات حکیم ہے اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ مسجد اقصیٰ میں رسول اللہ ﷺ کو انبیا کی امامت پر مامور کرنے کی ایک حکمت یہ ہے کہ انبیاء کرام سے لیے گئے وعدے لَتُوْمِنُنَّ بِہِ وَلَتَنْصُرُنَّہُ (البتہ تم ضرور بضرور اس پر ایمان لاؤ گے اور اس کی مدد کرو گے) کا عملی اقرار ہو جائے اور دوسری یہ حقیقت ثابت ہو جائے کہ بانیان مسجد اقصیٰ کی موجودگی میں آپ کا امامت کے لیے بحکم خداوندی کھڑا ہونا اس بات کی قوی دلیل ہے کہ آپ کی موجودگی میں جس طرح کوئی نبی مصلاے امامت پر نہیں کھڑا ہو سکتا، اسی طرح آپ کی امت کی موجودگی میں کوئی دوسری امت مسجد اقصیٰ کے مصلے پر نہیں کھڑی ہو سکتی۔ اس لیے آپ نے نہ صرف خود نماز پڑھائی بلکہ اپنی امت کو بھی اس میں نماز پڑھنے کی تعلیم وترغیب دی۔ ارشاد نبوی ہے:
بیت المقدس ارض المحشر والمنشر ایتوہ وصلوا فیہ فان صلوۃ فیہ کالف صلوۃ فی غیرہ (کنز العمال)
’’بیت المقدس حشر ونشر کی زمین ہے (قیامت برپا ہونے کا میدان سرزمین مقدس ہوگی) اس سرزمین میں جاؤ اور نماز پڑھو کیونکہ اس میں ایک نماز (مسجد حرام اور مسجد نبوی کے سوا) دیگر مقامات میں ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے۔‘‘
کسی مذہب کے راہنما کا کسی عبادت گاہ میں نماز ادا کرنا اور اپنے متبعین کو اس میں عبادت کی تلقین کرنا اور اس عبادت گاہ میں کی جانے والی عبادت کو ہزار گنا فضیلت والی عبادت قرار دینا اس بات کی قوی دلیل ہے کہ وہ اس کو اپنا حق تصور کرتے ہیں۔ اگر خاندان کی بنیاد پر یہود کو مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق ہوتا تو سرکار دو عالم مسلمانوں کو وہاں نماز پڑھنے کی ترغیب کیوں دیتے؟ کیا آپ نے اپنی پوری حیا ت طیبہ میں کسی بھی یہودی عبادت گاہ میں کوئی نماز پڑھی یا اہل ایمان کو اس کی ترغیب دی؟ اگر آپ نے کسی یہودی عبادت گاہ میں نہ خود نماز پڑھی اور نہ اہل ایمان کو اس کی ترغیب دی تو بیت المقدس میں آپ کے نماز پڑھنے اور اپنے متبعین کو اس میں نماز پڑھنے کی تلقین کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ نے مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں کا حق تصور کرتے ہوئے وہاں نماز پڑھنے کی ترغیب دی۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کو فاروق اعظمؓ کی دو رس نگاہ نے فتح بیت المقدس کے موقع پر بھانپ لیا تھا۔ فتح بیت المقدس کی پوری تفصیلات تاریخ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ہم یہاں صرف ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں جس سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ فاروق اعظمؓ کی نظر میں مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق مسلمانوں کو ہے نہ کہ یہود کو۔
فتح بیت المقدس کے بعد حضرت عمر فاروق رات کے وقت بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ سب سے پہلے مسجد اقصیٰ میں حاضری دی اور محراب داؤد میں دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کی اور پھر صبح کو اسی مقام پر باجماعت نماز فجر ادا کی۔ آپ نے عیسائیوں کے مشہور کنیسہ قیامہ کی بھی سیر کی۔ دوران سیر نماز کا وقت آ گیا۔ بطریق نے جو آپ کے ساتھ تھا، عرض کیا کہ یہیں نماز پڑھ لیجیے مگر آپ نے پیش کش قبول نہ کی اور باہر نکل کر سیڑھیوں پر تنہا نماز ادا کی۔ آپ نے بطریق سے کہا، ’’اگر میں یہاں نماز پڑھ لیتا تو میرے بعد مسلمان اس کنیسہ کو تم سے چھین لیتے کہ یہاں ہمارے خلیفہ نے نماز پڑھی تھی۔‘‘ پھر آپ نے بطریق کو اس مضمون کی ایک تحریر لکھ کر دے دی کہ گرجا کی سیڑھیوں پر بھی جماعت کے ساتھ نماز ادا نہ کی جائے اور نہ اذان دی جائے۔ (تاریخ ملت، جلد اول، ص ۲۷۲)
آخر کیا وجہ ہے کہ فاروق اعظمؓ مسجد اقصیٰ میں دو رکعت تحیۃ المسجد بھی ادا فرماتے ہیں اور نماز فجر بھی باجماعت پڑھتے ہیں لیکن عیسائیوں کے مشہور کنیسہ قیامہ میں نماز کا وقت ہونے کے باوجود اور بطریق کی پیش کش کے باوجود وہاں نماز ادا نہیں فرماتے بلکہ سیڑھیوں پر تنہانماز ادا فرماتے ہیں؟ پھر سیڑھیوں پر تنہا نماز پڑھنے کے بعد یہ مضمون بھی تحریر فرما دیتے ہیں کہ سیڑھیوں پر بھی جماعت کی نہ نماز ادا کی جائے اور نہ اذان دی جائے۔ اگر آپ بیت المقدس پر یہود کی تولیت کا حق تسلیم فرماتے تو کیا وہاں نماز باجماعت ادا فرماتے؟ سیدنا عمرؓ فاروق نے اس طرز عمل سے ا س حقیقت کو عملی طور پر ثابت کیا کہ عیسائیوں اور یہودیوں نے جو مذہبی عبادت گاہیں خود تعمیر کی ہیں، ہمیں ان سے کوئی سروکار نہیں، لیکن جہاں تک مسجد اقصیٰ کا معاملہ ہے، اس کی تولیت کا حق مسلمانوں کو ہے۔ اس مقدس مسجد کو ہرگز یہود کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ محض چند تاریخی واقعات اور تورات کی بعض عبارات کو بنیاد بنا کر اللہ تعالیٰ کی مغضوب وملعون قوم کو مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق ہرگز نہیں دیا جا سکتا۔
’’مسجد اقصیٰ ، یہود اور امت مسلمہ‘‘ ۔ ناقدین کی آرا
ادارہ
(۱)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
- محنت قابل داد ہے، ماشاء اللہ تعالیٰ۔ اللہم زد فزد۔ چشم بد دور
- زبان بعض مقامات پر تلخ اور مناظرانہ رنگ اختیار کر گئی ہے۔ اس حوالے سے پورے مقالہ پر نظر ثانی ضروری ہے۔
- ملل واقوام کے باہمی معاملات صرف اصولی اور نظری حوالے سے نہیں طے پاتے بلکہ تاریخی تعامل اور معروضی حقائق کا بھی ان میں خاصا دخل ہوتا ہے۔ دونوں کو سامنے رکھ کر موقف طے کرنا چاہیے۔
مندرجہ ذیل امور کا ازسرنو جائزہ لینا ضروری ہے:
۱۔ مدینہ منورہ اور خیبر میں یہود کی بستیوں پر قبضہ اور انہیں جلاوطن کرنے کے بعد ان کی تمام عبادت گاہیں ختم ہو گئی ہیں اور ان کی جگہ مسلمانوں کے مکانات اور عبادت گاہیں تعمیر ہوئی ہیں۔ اسی طرح نجران سے عیسائیوں کی جلاوطنی کے بعد ان کی عبادت گاہیں بھی باقی نہیں رہیں۔ پھر اندلس پر مسلمانوں کا قبضہ ختم ہو جانے کے بعد ان کی ہزاروں عبادت گاہوں کی ہیئت بلکہ ملکیت تبدیل ہو گئی ہے۔ اس کے بعد بھارت میں ہزاروں مساجد ہندوؤں اور سکھوں نے قبضہ کر کے اپنے مکانات اور عبادت گاہوں میں انہیں تبدیل کر لیا ہے اور پاکستان میں ہندوؤں اور سکھوں کے سینکڑوں مندر مسلمانوں کے مکانات اور عبادت گاہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ اگر اس مضمون میں اختیار کیے گئے موقف کو بطور اصول تسلیم کر لیا جائے کہ ہیئت کی تبدیلی اور قبضہ وملک کی تحویل کے بعد بھی اور عرصہ دراز گزر جانے کے باوجود سابقہ انتظام وتولیت کا حق قائم رہتا ہے تو مذکورہ بالا تمام مساجد اور عبادت گاہوں کے لیے یہی موقف اختیار کرنا پڑے گا اور یہ دنیا کے کسی بھی قانونی نظام میں قابل قبول بات نہیں ہوگی۔
۲۔ ایک اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کی جو عبادت گاہیں موجود ہیں یا جن کی ہیئت تبدیل نہیں ہوئی، ان کے بارے میں مضمون میں مذکور فقہی جزئیات واحکام بالکل درست ہیں لیکن جن عبادت گاہوں کی ہیئت اور قبضہ وملک دونوں عملاً تبدیل ہو چکے ہیں، ان پر میرے خیال میں مذکورہ فقہی احکام کا اطلاق درست نہیں ہے اور اس صورت کے بارے میں فقہی ابواب وجزئیات کا دوبارہ مطالعہ ضروری ہے۔ آج کے قانون میں بھی ایسے معاملات میں قبضہ وملک کے تسلسل کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
۳۔ کوئی بھی فیصلہ کرنے یا موقف اختیار کرنے سے قبل اس سے پیدا ہونے والے پبلک تاثرات کا جائزہ لینا اور ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ جناب نبی اکرم ﷺ نے بیت اللہ کی تعمیر کو ابراہیمی بنیادوں پر واپس لے جانے کی خواہش کے باوجود اس سے عملاً گریز کیا تھا اور قرآن کریم میں مدینہ منورہ کے منافقین کو صراحتاً کافر اور سازشی قرار دیے جانے کے باوجود ان کے خلاف قتال نہیں کیا تھا۔ ان دونوں فیصلوں کی وجہ خود جناب نبی اکرم ﷺ نے ’’منفی پبلک تاثر‘‘ بتائی ہے۔
۴۔ ظالم ومظلوم کی کشمکش میں اگر مظلوم کی طرف سے رد عمل کے طور پر اپنے دفاع میں کوئی ناروا بات بھی سامنے آجائے تو قرآن کریم نے اسے برداشت کرنے کی تلقین کی ہے، جیسا کہ چھٹے پارے کی پہلی آیت میں اس کی طرف واضح اشارہ موجود ہے۔
(ابو عمار زاہد الراشدی)
(۲)
بسم اللہ
لندن۔ ۲۴ جون ۲۰۰۳ء
مکرمی ومحترمی مولانا راشدی صاحب زید لطفہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
الشریعہ کے دو شمارے اور عزیزم عمار صاحب کا مضمون پرسوں ملا۔ الشریعہ میں اپنے خطوط تو پھر سامنے آ گئے مگر جواب اب بھی نہ ملا۔ مضمون کے بارے میں فرمائش پڑھ کر پہلا سوال ذہن میں یہ آیا کہ اس بار ’’امانت‘‘ کے لیے میرا انتخاب عمار صاحب نے کیوں کر کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ جواب فوراً نہیں پا سکتا تھا۔ پس تعمیل ارشاد میں مضمون اٹھایا۔ سرخی پرنظر پڑھی تو بڑی پریشانی ہوئی کہ پوری کتاب کی کتاب مضمون اور وہی ’’بیت المقدس، یہود اور مسلمان‘‘ کا پامال موضوع۔ یا اللہ! اس کو کیسے پڑھوں؟ مگر چند ہی سطروں کے بعد دماغ سے یہ بوجھ ہٹا۔ شکر ہے، عنوان پائمال سہی، مضمون پائمال نہیں ہے۔ اور پھر جب پڑھنے کے لیے بیٹھا تو خواہش یہ تھی کہ ایک ہی نشست میں ختم کر ڈالوں۔
مولانا، مجھے اس موضوع کی بری طرح پائمالی نے کبھی اس سے دلچسپی نہ ہونے دی۔ اس لیے نہ میرا مطالعہ نہ غور وفکر، مگر جتنی کچھ سمجھ اللہ نے دی ہے، اس کے حساب سے آپ کو مبارک باد دیتا ہوں اس کے انداز تحقیق پر۔ اللہ عمار صاحب کی زندگی میں برکت کرے اور وہ اپنے موضوعات کا ہمیشہ اسی طرح حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن اس کی اشاعت کے بارے میں یہ کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اسرائیل میں اقامہ کا انتظام کر لیں۔ اور تو اور، خود آپ کا قبیلہ علما ہی آپ لوگوں کو نہ چھوڑے گا۔ اور اشاعت بھی کریں تو میری رائے میں یہ ہر لحاظ سے مناسب ہے کہ دوسری (علمی یاجذباتی) رایوں کی تردید کا لہجہ بدلا جائے۔ اہانت اور استخفاف کا عنصر بالکل نکال دیں۔ اس معاملہ میں عمار صاحب آپ کے بالمقابل بالکل دوسرے سرے پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ یہ لہجہ لوگوں کے لیے ایک علمی تحقیق کا وزن محسوس کرنے اور غور کرنے میں بڑی رکاوٹ بن جائے گا۔
حسب حکم مضمون ان شاء اللہ مولانا یعقوب قاسمی کو بھی بھیج دوں گا۔ اور ہاں، برصغیر میں مطالعہ حدیث پر آپ کے مقالے کی ایک کاپی بھی ادھر آ سکے تو خوشی ہوگی۔ نیز اس مئی جون کے شمارے میں ڈاکٹر خالد علوی صاحب کے مقالہ ’’اسلام اور بنیادی حقوق‘‘ کا ذکر ہے۔ نیز شش ماہی مجلہ ’’تعارف اسلامی‘‘ اگر ہو سکے تو یہ بتائیے کہ ان دونوں کے حصول کی کیا صورت ہے؟
ایک اور ضروری بات بھول گیا۔ فلسطین کا مسئلہ آج کل جس مرحلے میں ہے، اس کے پیش نظر اس وقت اس مضمون کی اشاعت کیا مناسب ہوگی؟
والسلام
عتیق الرحمن
بسم اللہ
لندن۔ ۲۶ ستمبر ۲۰۰۳ء
برادر عزیز عمار خان صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مرسلہ پیکٹ موصول ہوا۔ آپ کی تحقیقی صلاحیت کے تو قائل ہو ہی گئے تھے۔ اب جرات کی بھی داد دینی پڑے گی۔ اللہ حفاظت فرمائے۔
مولانا عیسیٰ صاحب کے لیے مرسلہ ’الشریعہ‘ ان کو ڈاک سے بھیج دیا گیا۔ مولانا قاسمی کی کتاب بھی ان شاء اللہ چلی جائے گی۔
والد ماجد مدظلہ سے رابطہ ہو تو میرا بھی سلام کہیے۔ پتہ نہیں واپسی میں لندن بھی آ رہے ہیں یا نہیں؟
الشریعہ کا یہ شمارہ (ایک کاپی) اور بھیج دیں تو ایک صاحب کو دوں۔
والسلام
خیر اندیش
عتیق الرحمن
(۳)
06/8/03
برادر مکرم ومحترم جناب مولانا عمار ناصر صاحب، مدیر الشریعہ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ مسجد اقصیٰ کی شرعی حیثیت کے بارے میں آپ کا فاضلانہ مقالہ بروقت مل گیا تھا۔ میرے لیے اس کے مندرجات کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا تو دشوار ہے، اس لیے کہ میں نے مسجد اقصیٰ کی تاریخ کے بارے میں جو کچھ مطالعہ کیا تھا، اس پر خاصی مدت گزر چکی ہے۔ اب ازسرنو مطالعہ تازہ کرنے کے لیے کتابوں کی ورق گردانی ناگزیر ہے جس کی سردست فرصت نہیں۔ تاہم اگر آپ چاہیں تو علامہ ابن قیم الجوزیہ کی کتاب احکام اہل الذمہ کا مطالعہ فرمائیں جس میں انہوں نے شروط عمریہ پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ میری ناچیز رائے میں شروط عمریہ ہی اس معاملہ میں مسلمانوں کے موقف کی فقہی اور آئینی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔
تاہم یہ غور ضرور کر لیں کہ کیا موجودہ حالات میں یہ بحث اٹھانا مفید ہوگا۔ میرا خیال یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کو اور بے شمار مسائل درپیش ہیں۔ اس صورت حال میں ایک نئی اختلافی بحث کھڑی کر دینا مناسب نہیں۔ علم اور خاص طور پر علم دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہاں ایک بڑا اعزاز ہے، وہاں ایک مقدس امانت بھی ہے۔ اس کو استعمال کرنے میں انتہائی احتیاط اور ذمہ داری سے کام لینا چاہیے۔ اگر ہم میں سے کسی کے علم کا استعمال اس انداز سے ہو کہ امت مسلمہ کو اس کا نقصان یا پاداش برداشت کرنا پڑے تو شاید یہ علم کا بہتر استعمال نہیں۔ مزید مشورہ برادر مکرم جناب مولانا زاہد الراشدی اور اپنے جد محترم سے فرما لیں۔
والسلام
ڈاکٹر محمود احمد غازی
نائب رئیس الجامعہ
(۴)
محترم جناب حافظ محمد عمار خان صاحب وہم نوا
السلام علیکم
امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
آپ کا ماہنامہ الشریعہ موصول ہوا۔ مضامین پڑھ کر مسجد اقصیٰ کے متعلق جمہور علما اور مسلمانوں سے ہٹ کر آپ اور آپ کی ٹیم کی یہود نوازی اور ان کے ساتھ ہمدردی، قرآنی فیصلہ ’’سبحان الذی .... المسجد الاقصیٰ....‘‘ تاریخی اور واقعاتی دلائل اور قبضے ودیگر تمام دلائل کو آپ بیان کر کے بودا قرار دیتے ہیں، لیکن جہاں کہیں یہود کے لیے ادنیٰ سا بہانہ یا دلیل مل جائے یا محرف توراۃ سے کوئی ایک آدھ سطر مل جائے تو آپ کا قلم تند وتیز ہو جاتا ہے۔ ماشاء اللہ مسلمانوں پر آئے دن بڑھنے والے مصائب میں یہ بھی ایک نیا باب ہوگا اور یہودیوں کے لیے آپ جیسے بندے خوب کام آئیں گے اور مسلمانوں کا ناطقہ بند کرنے کے لیے ممد ومعاون ثابت ہوں گے۔ بہرحال نہیں معلوم، ہوشیار اور بعض قابل مسلمانوں کو ایک نئی چیز کا شوشہ چھوڑنے میں کیا لذت آتی ہے؟ اور کیا مقاصد کارفرما ہیں؟ واللہ المستعان
عبد الرحیم
بلتستان، شمالی علاقہ جات
(۵)
گرامی قدر مولانا صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اللہ کرے آپ بصحت وعافیت ہوں اور آپ کا رمضان اچھا گزر رہا ہو۔
۱۔ کچھ عرصہ پہلے شبیر میواتی صاحب نے بتایا کہ آپ شریعہ اکیڈیمی میں میرا لیکچر رکھنا چاہ رہے ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ کچھ تفصیل کا تو پتہ چلے کہ موضوع کیا ہے؟ دورانیہ کتنا ہوگا؟ سامعین کون ہوں گے؟ وغیرہ وغیرہ۔ وہ کچھ تسلی بخش جواب نہ دے سکے تو میں نے کہا کہ مولانا یا ناصر صاحب سے کہیے کہ مجھ سے رابطہ کریں۔ اس کے بعد آپ کے ہاں سے کچھ سننے میں نہیں آیا۔
۲۔ عزیزم عمار ناصر نے مسجد اقصیٰ والا مضمون چھپنے سے پہلے مجھے تبصرے کے لیے بھجوایا تھا۔ میں اس سے پہلے عزیزم کو دو مواقع پر تنقیدی خط لکھ چکا تھا اس لیے بار بار تنقید کو غیرمناسب سمجھ کر خاموشی اختیار کر لی۔ پھر وہ مضمون الشریعہ اور اشراق میں آ گیا تو اب محدث وغیرہ میں اس پر جرح ونقد کا سلسلہ شروع ہے۔
بحث وتحقیق میں اختلاف رائے نہ کوئی بری بات ہے اور نہ ناقابل برداشت لیکن سوال یہ ہے کہ تحقیق کی غایت کیا ہے؟ غامدی صاحب کے حلقہ فکر کی تحقیق کے نتائج سے آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ علانیہ یا شعوری موقف خواہ کچھ ہو، عملاً یہی نظر آتا ہے کہ مغرب کی خواہشات وضروریات کے مطابق اسلام اور مسلم فکر کا حلیہ درست کیا جائے۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ جہاں بھی مغرب سے فکری مرعوبیت ہوگی، انجام یہی ہوگا۔ سرسید سے لے کر قادیانیت اور پرویزیت تک یہی صورت حال نظر آتی ہے اور اسے مہمیز کرتی ہیں قائدین کی نفسیاتی اور مالی ضرورتیں۔ میری طالب علمانہ رائے میں آپ کو یہ مضمون الشریعہ میں نہیں دینا چاہیے تھا۔ الا یہ کہ آپ کو اس کے مندرجات سے اتفاق ہو۔ اگر ایسا نہیں تو آپ خود اس پر نقد کیجیے جیسے پہلے ان لوگوں کے کمزور/ غلط موقف پر کرتے رہے ہیں۔
۳۔ تازہ الشریعہ سے پتہ چلا کہ آپ اگلے ماہ دینی مدارس کے حوالے سے ’’مشاورت‘‘ رکھنا چاہ رہے ہیں۔ اس کے فریم ورک کی سمجھ نہیں آئی۔ دو تین روزہ ورکشاپ/ سیمینار کی جس شکل سے ہم مانوس ہیں، وہ یہ ہے کہ اہل علم سے رابطہ کیا جائے، انہیں موضوعات دیے جائیں، موضوعات کے گروپ بنائے جائیں، ان کے الگ الگ سیشن رکھے جائیں، ہر سیشن سے سفارشات تیار کروائی جائیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ آپ کے اعلان سے پتہ نہیں چلتا کہ کون لوگ آئیں گے اور کن موضوعات پر گفتگو ہوگی اور کس حد تک منضبط ہوگی؟ اگر سنجیدہ استفادے کی کوئی صورت ہو تو آدمی آنے کی ہمت کرے۔
والسلام
مخلص
محمد امین
(سینئر ایڈیٹر اردو دائرہ معارف اسلامیہ لاہور)
(۶)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جناب محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا نام ’’اشراق‘‘ میں آپ کے مضمون ’’مسجد اقصیٰ، یہود اور امت مسلمہ‘‘ کے حوالے سے سامنے آیا۔ آپ نے جو محنت اس مضمون کی ترتیب میں صرف کی ہے، وہ معمولی نہیں ہے۔ اتنے حوالے تاریخ، احادیث اور فقہ سے جمع کرنا بہت وقت طلب کام ہے۔ آپ کے اس مضمون نے بہت سارے مسائل پیدا کر دیے ہیں، دل ودماغ کی دنیا میں ایک ہلچل پیدا کر دی ہے۔ مسئلہ بہت نازک ہے، بہت طویل ۱۳ صدیوں پر مشتمل ہے، اس لیے آپ اس قضیے میں ہم کو شامل کرنا چاہیں تو بات آگے بڑھائیں۔ اگر اپنی رائے جو آپ اخذ کر چکے ہیں، اس پر غور اور نظر ثانی کرنا چاہیں تو۔ ورنہ شاید وقت کا ٹھیک استعمال نہ ہوگا کہ وقت بہت قیمتی ہے۔
اگر ہم کچھ اصولی باتوں کو طے کر لیں تو ہو سکتا ہے کہ بہت دور جانے کی ضرورت نہ پڑے۔
- قرآن وسنت میں اس مقام کو مسجد اقصیٰ کا نام دیا گیا ہے، ہیکل کا نہیں۔ یہ مسجد ، مسجد حرام کے ۴۰ سال بعد بنائی گئی۔ ۴۰ سال کا زمانہ ابراہیم اور اسحاق علیہم السلام کا بنتا ہے جبکہ یہود بعد کی پیداوار ہیں۔ ما کان ابراہیم یہودیا ولا نصرانیا۔ لہٰذا اصل یہ ہے کہ یہ مسجد ہی تھی اور یہ بنی اسرائیل کے لیے تھی جب وہ مسلمان تھے۔ جب وہ مسلمان نہ رہے اور یہودی ہو گئے تو نہ یہ ان کی رہی نہ ان کا اس پر دعویٰ رہا۔ انہوں نے خود اس اعزاز سے دستبرداری اختیار کر لی اور تب سے آج تک انہوں نے دوبارہ اس کی بازیابی کی درخواست اللہ کو نہیں دی۔ قرآن اس پر گواہ ہے۔
مسجد سجدہ گاہ ہے، قیام نماز کا مقام ہے اور مسلمانوں کے علاوہ کسی کے ہاں نماز ہی نہیں۔ فخلف من بعدہم خلف اضاعوا الصلوۃ واتبعوا الشہوات فسوف یلقون غیا (مریم ۵۹) انہوں نے یعنی بنی اسرائیل نے تو نماز کو ضائع کر دیا۔
مسجد پر صرف مسلمانوں کا حق ہے، لہٰذا اگر یہودی مسلمان ہو جائیں تو پھر مسجد اقصیٰ پر ان کا بھی اتنا ہی حق ہوگا جتنا کہ باقی مسلمانوں کا ہے۔ یہی مطلب ہے عسیٰ ربکم ان یرحمکم کا ، یعنی یہ کہ اگر تم دوبارہ مسلمان ہو جاؤ تو۔ صاف ظاہر ہے کہ مسجد سجدہ کرنے والوں کی ہے، مسلمانوں کی ہے، چاہے وہ بنی اسرائیل سے ہوں، بنی اسماعیل سے یا کسی بھی نسل سے۔ ورنہ غیر مسلم رہتے ہوئے یہودی مسجد اقصیٰ پر کوئی حق نہیں جتلا سکتے۔ اور اگر آپ کا نقطہ نظر مان لیا جائے تو پھر یہ صریحاً قرآن سے منہ پھیرنے والی بات ہوگی اور اس کا انجام بڑا ہی بھیانک ہوگا۔ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا اور متاع ایمان بھی لٹ جائے گی۔ اللہ آپ کو اور ہم سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ آمین
- آپ نے اپنی تحریر میں صلیبیوں کے پہلے، دوسرے اور تیسرے حملے اور مظالم کا ذکر نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس ان کے زائرین کے ساتھ مسلمانوں کے ناروا سلوک کا ذکر کیا جو کہ خلاف واقعہ ہے یعنی یہ واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا۔ مسلمانوں اور مجاہدین کا مفتوحین کے ساتھ حسن سلوک خاص کر یہود کے نمائندوں نصاریٰ کے ساتھ غیر معمولی حسن سلوک کا ذکر نہیں کیا۔ اس کے برعکس ایک خلاف واقعہ بات لکھ ڈالی۔
- کیا آپ کے خیال میں ’’اخلاق‘‘ شریعت سے الگ کوئی چیز ہے جس کی آپ نے امت مسلمہ کو نصیحت کی ہے؟
- انہوں نے خود کبھی مسجد اقصیٰ کی بازیابی کا دعویٰ نہیں کیا۔ البتہ وہ مسجد اقصیٰ اور صخرہ کو گرا کر ہیکل بنانے کی بات ضرور کرتے ہیں اور آپ پوری امت کے ڈیڑھ ہزار سالہ موقف ہی نہیں بلکہ اللہ کے فرمان وان المساجد للہ فلا تدعوا مع اللہ احدا، رسول کی امامت انبیا کے مقام، حضرت عمر اور کبار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے موقف اور اس کے وقت کے ذمہ دار بنی اسرائیل (صفرنیوس) کے فیصلہ بلکہ رضامندانہ فیصلہ اور اس کے بعد سے آج تک پوری دنیا کے فیصلہ اور موقف سے انحراف کر رہے ہیں جبکہ ایلیا (بیت المقدس) خلافت عمر کے زمانے میں فتح ہوا، ہاں یہ صلحاً ہی فتح ہوا تھا اور یہ معاہدہ صلح آج تک تحریری صورت میں موجود ہے۔ آپ نے اپنے موقف میں جان ڈالنے کے لیے اس معاہدے کے ان الفاظ کو اپنی تحقیق میں جگہ نہ دی جن میں یہود کا ذکر ہے ’’ولا یسکن بایلیاء معہم احد من الیہود‘‘ تو انحراف کس نے کیا؟ امت مسلمہ نے، یہود نے یا آپ نے؟ یہود نے وہ بات کبھی نہ کہی بلکہ کسی نے نہ کہی جو آپ نے کہی۔ یہود تو اس کے برعکس یہ کہتے ہیں یہ ہماری ارض موعود ہے (مسجد موعود نہیں) بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں ہمارا دعویٰ خیبر پر ہے، مدینہ پر ہے بلکہ وہ کہتے ہیں، عظیم اسرائیل نہر نیل سے فرات تک ہے بلکہ آگے ترکی کا کچھ حصہ بھی شامل ہے۔
کاش کہ آپ قرآن ہی کو پڑھ لیتے۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد پڑھیے کہ وہ یہ کہتے ہیں: نحن ابناؤ اللہ واحباؤہ (المائدہ) بلکہ اس سے آگے آپ یہ بھی پڑھ لیتے: ان اللہ فقیر ونحن اغنیاء (آل عمران) آج کے یہود اخوان القردۃ والخنازیر ہیں۔ کچھ خیال کریں، آپ کن کو مسجد کی تولیت دلانا چاہتے ہیں۔ اللہ کا غضب لے کر لوٹنے والوں سے آپ ’’اخلاق‘‘ سے پیش آنے کو کہتے ہیں؟ اللہ کے دشمنوں کے ساتھ آپ کا یہ رویہ ناقابل فہم ہے۔ آپ نے اپنے ایمان کو بڑے خطرے سے دوچار تو نہیں کر دیا؟ آپ نے غور بھی کیا کہ ایسے ظالموں کو مسجد دے کر آپ کس مقام پر کھڑے ہو گئے اور آپ ان کو مسجد دے کر بھی بہرحال راضی نہ کر سکیں گے۔ یہ خطاب اللہ کے رسول سے ہے۔ آپ ان کی اہوا کی حمایت کر کے کیا پائیں گے اور کیا کھوئیں گے؟ ذرا آیت کا آخری حصہ غور سے پڑھیں۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خیر اندیش
محمد صابر اعوان/ حق نواز تنولی
معراج علی/ ذو الفقار علی
کیا علاقائی کلچر اور دین میں بُعد ہے؟
پروفیسر میاں انعام الرحمن
ماہنامہ الشریعہ کے نومبر ۲۰۰۳ء کے شمارے میں رئیس التحریر جناب ابو عمار زاہد الراشدی کا مضمون بعنوان ’’خاتون مفتیوں کے پینل کا قیام‘‘ شائع ہوا۔ راشدی صاحب کے طرز استدلال اور وسعت بیان کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس مضمون میں انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں جن نکات پر قلم اٹھایا ہے، ان سب سے اتفاق کرنا پڑتا ہے سوائے آخری چند سطور کے۔ یہ سطریں مذکورہ شمارے کے سرورق پر بھی شائع ہوئی ہیں:
’’عورت کے حوالے سے ہماری موجودہ اور مروجہ روایات واقدار کا ایک بڑا حصہ ہمارے علاقائی کلچر سے تعلق رکھتا ہے جسے دین قرار دے کر ان کی ہر حالت میں حفاظت کا تکلف روا رکھا جا رہا ہے۔ اس حقیقت کا ادراک حاصل کرنا اب ضروری ہو گیا ہے کہ ہر حالت میں تحفظ صرف دینی تعلیمات واقدار کا حق ہے جبکہ کلچر اور ثقافت، حالات اور ضروریات کے تغیر کے ساتھ ساتھ بدلتی رہنے والی چیزیں ہیں۔ ‘‘
اس پیراگراف میں جو نکتہ بیان کیا گیا ہے، اس سے مجال انکار نہیں بلکہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ مذہبی طبقے کے نمائندہ افراد نے حالات وواقعات کو صحیح تناظر میں دیکھنے کے ساتھ ساتھ اسے بیان واظہار میں بھی جگہ دینی شروع کر دی ہے۔ خدا کرے کہ یہ سلسلہ چلتا رہے۔ جہاں تک اس سے میرے اختلاف کا تعلق ہے تو وہ شاید بہت ’’نظری‘‘ سا ہے اور ممکن ہے کہ قارئین اسے محض میرے ’’وہم‘‘ پر محمول کریں۔ تاہم اپنی علمی کم مائیگی اور فکری ناپختگی کے باوجود اظہار رائے کی آزادی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے راقم حسب ذیل نکات اٹھانے کی جسارت کرے گا:
۱۔ علاقائی ثقافت، روایات اور اقدار بھی دین کا حصہ ہیں کیونکہ دین ایک ’’کل‘‘ ہے اور اہل ایمان کو دین میں پورے کا پورا ہی داخل ہونا ہے۔
۲۔ اگر علاقائی ثقافت اور روایات واقدار کو دین سے نتھی نہ کیا جائے تو بتائیے باقی بچتا ہی کیا ہے؟ گوشت پوست سے خالی ڈھانچہ اور بس۔
۳۔ راقم کی رائے میں امر واقعہ یہ ہے کہ اسلام کی صحیح سپرٹ اس وقت تک سامنے آ ہی نہیں سکتی جب تک دین ثقافت کی سطح پر آکر معاشرتی زندگی میں رچ بس نہ جائے۔
مذکورہ نکات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہمار اصل مسئلہ دین کی صحیح تعبیر ہے۔ ہم ابھی تک اجتماعی طور پر دین کی صحیح تعبیر سے محروم ہیں۔ غالباً راشدی صاحب کے بیان کردہ نکتہ کی صحیح تعبیر یوں ہوگی کہ علاقائی ثقافت اور روایات واقدار دین کی اس جہت سے متعلق ہیں جو تغیر پذیر ہے اور احوال وظروف کے تقاضوں کے گرد گھومتی ہے۔ ورنہ اگر ثقافت کو دین سے بالکل جدا تسلیم کر لیا جائے تو دین محض عبادات کا نام رہ جائے گا اور ہم نے اسے واقعتاً اور عملاً ایسا ہی بنا کر رکھا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم دین اور ثقافت کو دو مختلف چیزیں شمار کرتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
چونکہ بات چل نکلی ہے، اس لیے لگے ہاتھوں ہم ایک اور نکتہ بیان کرنے کی جسارت کریں گے جس سے مذکورہ بحث مزید واضح ہو جائے گی۔ ہمارے ہاں فلسفہ یونان کے اثرات کے تحت ماضی میں یہ رجحان بھی ابھرا کہ ’’انسان‘‘ ہی سب کچھ ہے۔ چونکہ قرآن مجید کا موضوع انسان ہے، اس لیے ہمارے فلاسفہ نے یونانی تاویلات سے بہرہ مند ہو کر ایک مخصوص طرز فکر کو پروان چڑھایا جس کا منطقی نتیجہ ’’دما دم مست قلندر‘‘ کی صورت میں نکلا۔ یہ طرز فکر دین اسلام کا Introvert (داخل رخی) ایڈیشن تھا۔ اس کے بعد جب اہل مغرب تجرباتی انداز فکر کی بدولت ترقی کے مدارج طے کرنے میں کام یاب ہو گئے تو اقبال نے اپنی مشہور کتاب ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ میں فرمایا کہ قرآن کی روش بنیادی طور پر اختباری ہے۔ قرآن مجید بار بار خارجی مظاہر عالم، چاند، ستاروں، سورج، زمین وآسمان وغیرہ پر غور وفکر کی دعوت دیتا ہے۔ یہ طرز فکر اسلام کا Extrovert (خارج رخی) ایڈیشن ہے۔
راقم کی نظر میں امت مسلمہ کے موجودہ احوال وظروف بتاتے ہیں کہ اس وقت ان دو طرز ہائے فکر میں کشمکش جاری ہے، حالانکہ دین نہ تو مکمل طور پر داخل رخی ہے اور نہ سارے کا سارا خارج رخی۔ دین داخلی اور خارجی عناصر کے ساتھ ساتھ تمام ممکنات پرمحیط ہے، اس لیے اس کے کسی ایک پہلو کو لے کر اسے ہی دین قرار دینا خلاف مصلحت ہونے کے علاوہ خود دین کے جامع تصور کی بھی نفی ہے۔ راقم کی ناقص رائے میں جو لوگ دین کو خارج رخی قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں، ان کی مثال ایسے ہے جیسے وہ کسی اندھے سے توقع رکھیں کہ وہ سورج کو دیکھ سکے گا۔ اسی طرح جو لوگ دین کو داخل رخی قرار دینے پر مصر ہیں، وہ ایسے ہیں جو اپنی بینائی کے بل بوتے پر رات کی تاریکی میں سورج کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ خارج میں سورج کا ہونا بھی ضروری ہے اور دیکھنے والے کی نگاہوں میں بصارت کا ہونا بھی۔
قصہ مختصر، علاقائی ثقافت ہو، روایات واقدار ہوں یا زندگی کا کوئی دوسرا پہلو، اسے ایک وسیع تر مفہوم میں دین سے خارج قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ علاقائی ثقافت کی کوئی آخری حد ہو جہاں سے آگے دین کی سرحد شروع ہو جائے؟ راقم کی رائے میں یہ محض خام خیالی اور دین کے جامع تصور کو کنفیوژ کرنے کے مترادف ہے۔
تعارف و تبصرہ
ادارہ
’’احکام فقہیہ قرآن کریم کی روشنی میں‘‘
جامعہ عربیہ مفتاح العلوم حیدر آباد سندھ کے نائب مہتمم مولانا ڈاکٹر عبد السلام قریشی نے سندھ یونیورسٹی جام شورو میں ڈاکٹریٹ کے لیے مقالہ تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے قرآن کریم کے احکام کو فقہی ترتیب کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ اردو میں احکام قرآن کو سمجھنے کے لیے یہ ایک اچھا مجموعہ ہے جس سے جدید تعلیم یافتہ حضرات زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکتے ہیں۔
چار سو سے زائد صفحات کی مجلد کتاب کی صورت میں یہ مقالہ مکتبہ الولی، بالمقابل ہوم اسٹیڈ ہال، فاطمہ جناح روڈ، پکا قلعہ، حیدر آباد سندھ نے شائع کیا ہے اور اس پر قیمت درج نہیں ہے۔
’’الکتاب المقبول فی صلوٰۃ الرسول ﷺ‘‘
مولانا حکیم محمود احمد ظفر نے اس ضخیم کتاب میں نماز کے مسائل تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں اور اس بات کا بطور خاص اہتمام کیا ہے کہ احناف جس ترتیب اور کیفیت کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں، اس کی تمام تفصیلات اور جزئیات حدیث نبوی سے ثابت ہیں اور احناف کی نماز کو سنت رسول کے خلاف کہنے والے خود سنت وحدیث سے بے خبر ہیں۔ علماء کرام اور ائمہ مساجد کے لیے یہ کتاب خصوصی طور پر لائق مطالعہ واستفادہ ہے۔
ساڑھے سات سو سے زائد صفحات کی یہ مجلد کتاب المکتبۃ الاشرفیہ، جامعہ اشرفیہ، فیروز پور روڈ، لاہور نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت درج نہیں ہے۔
’’قرآن، سائنس اور تہذیب وتمدن‘‘
معروف دانش ور ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری نے اپنی اس ضخیم تصنیف میں اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ قرآن کریم، سائنس اور تہذیب وتمدن کا مخالف نہیں بلکہ کائنات کے مطالعہ وتحقیق اور تسخیر کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور یورپ نے سائنس اور تہذیب وتمدن میں جو پیش رفت کی ہے، اس کی اصل اساس قرآنی تعلیمات اور مسلم دانش وروں کی تحقیقات پر ہے۔
سوا پانچ سو کے لگ بھگ صفحات کی یہ مجلد کتاب دار الاشاعت، اردو بازار، ایم اے جناح روڈ، کراچی نے شائع کی ہے اور قیمت درج نہیں ہے۔
’’فرہنگ سیرت‘‘
معروف روحانی پیشوا حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرزند جناب سید فضل الرحمن کو اللہ تعالیٰ نے اس دور میں سیرت نگاری کا خاص ذوق عطا فرمایا ہے اور وہ سیرت نبوی ﷺ پر ایک علمی وتحقیقی شش ماہی مجلہ کی ادارت کے فرائض سرانجام دینے کے علاوہ سیرت پر ایک جامع کتاب کے مصنف ہیں۔ زیر نظر کتاب میں انہوں نے سیرت نبوی میں مذکور ہونے والی اصطلاحات، اسما اور مقامات وغیرہ کی وضاحت کی ہے جو سیرت نبوی کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے گراں قدر تحفہ ہے۔
سوا تین سو سے زائد صفحات کی یہ مجلد کتاب زوار اکیڈمی پبلی کیشنز، اے، ۴/۱۷ ، ناظم آباد نمبر ۴، کراچی ۱۸نے شائع کی ہے۔
’’پیش گوئیوں کی حقیقت اور دور حاضر میں ان کی تعبیر کا صحیح منہج‘‘
جناب سرور کائنات ﷺ نے قیامت سے قبل رونما ہونے والے متعدد واقعات کی امت کو پیشگی اطلاع دی ہے۔ ہر دور میں علماء امت اپنے زمانے کے حالات کی روشنی میں پیش گوئیوں کے مصداق اور تعبیرات کے بارے میں گفتگو کرتے چلے آئے ہیں۔ حافظ مبشر حسین لاہوری صاحب نے آج کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ان پیش گوئیوں کے حوالہ سے بحث کی ہے اور مختلف تعبیرات کا جائزہ لے کر اپنے نقطہ نظر کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔
پونے چار سو کے لگ بھگ صفحات کی یہ مجلد کتاب نعمانی کتب خانہ، حق سٹریٹ، اردو بازار لاہور نے شائع کی ہے۔
’’قیامت کی نشانیاں صحیح احادیث کی روشنی میں‘‘
یہ بھی حافظ مبشر حسین لاہوری صاحب کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے احادیث نبویہ کی روشنی میں قیامت کی نشانیوں کو ترتیب کے ساتھ بیان کیا ہے اور متعلقہ احادیث کی تخریج وتحقیق بھی کر دی ہے۔
سوا چار سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل یہ کتاب مبشر اکیڈمی لاہور نے شائع کی ہے اور اسے نعمانی کتب خانہ، حق سٹریٹ، اردو بازار، لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’جنات کا پوسٹ مارٹم قرآن وسنت کی روشنی میں‘‘
کہانت، نجوم، رمل، جفر، فال، جادو، جنات، دست شناسی اور عملیات کے حوالے سے استعمال ہونے والی دیگر اصطلاحات، فنون اور ذرائع پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے حافظ مبشر حسین صاحب لاہوری نے قرآن وسنت کی روشنی میں ان کی اصلیت کو واضح کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی قرآن وسنت کی رو سے امراض کے روحانی علاج کے صحیح طریقہ کی بھی وضاحت کی ہے۔
ساڑھے چار سو سے زائد صفحات کی یہ مجلد کتاب بھی نعمانی کتب خانہ نے شائع کی ہے۔
’’اسلام میں تصور جہاد اور دور حاضر میں عمل جہاد‘‘
اس کتاب میں حافظ مبشر حسین صاحب لاہوری نے جہاد کی تاریخ، اس کے احکام اور جہاد کے اسلامی تصور کا جائزہ لیتے ہوئے دور حاضر کی جہادی تحریکات کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کی ہے اور عالم اسلام کی موجودہ صورت حال کا تحقیقی انداز میں تجزیہ کیا ہے۔
پونے پانچ سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب بھی نعمانی کتب خانہ سے طلب کی جا سکتی ہے۔
’’فتنہ جمہوریت‘‘
مولانا حکیم محمود احمد ظفر نے یورپ کے جمہوری نظام اور اسلام کے شورائی نظام میں فرق کو علمی انداز میں واضح کرتے ہوئے اس کتاب میں یہ نقطہ نظر پیش کیا ہے کہ عالم اسلام میں یورپی انداز کی جمہوریت کے نفاذ وترویج کی کوشش ایک فتنہ ہے جس کی اسلامی تعلیمات کی رو سے گنجائش نہیں ہے۔
سوا دو سو سے زائد صفحات کی یہ مجلد کتاب بخاری اکیڈمی، دار بنی ہاشم، مہربان کالونی، ملتان نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ایک سو پچیس روپے ہے۔
’’محسن انسانیت اور انسانی حقوق‘‘
ڈاکٹر حافظ محمد ثانی صاحب نے جناب نبی اکرم ﷺ کے خطبہ حجۃ الوداع کو سامنے رکھتے ہوئے انسانی حقوق کی وضاحت کی ہے اور تاریخی حوالوں کی روشنی میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ ہی انسانی حقوق کے سب سے بڑے علم بردار ہیں اور انسانی حقوق کے بارے میں متوازن اور معتدل موقف وہی ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے۔
پانچ سو سے زائد صفحات کی یہ مجلد کتاب دار الاشاعت، اردو بازار، ایم اے جناح روڈ، کراچی نے شائع کی ہے۔
’’مہر جہاں فروز ‘‘ (نعتیہ کلام)
گوجرانوالہ کے بزرگ استاذ پروفیسر محمد عبد اللہ جمال ادب وشعر کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں اور جناب نبی اکرم ﷺ کی مدح ونعت کے ساتھ انہیں خصوصی شغف ہے۔ زیر نظر کتاب ان کے نعتیہ کلام کا مجموعہ ہے جو بارگاہ رسالت مآب ﷺ کے ساتھ ان کے حسن عقیدت کا آئینہ دار ہے۔
یہ مجلد مجموعہ دو سو چالیس صفحات پر مشتمل ہے، اس کی قیمت دو سو روپے ہے اور اسے جمال پبلشرز، ۲۔ نور باوا گوجرانوالہ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’ماہنامہ ترجمان القرآن ‘‘ (اشاعت خاص بیاد سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ )
جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی ولادت کو ایک سو برس گزرنے پر ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور نے ان کی زندگی، خدمات اور جدوجہد پر ایک خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔ تین سو چونتیس صفحات کی اس ضخیم اشاعت میں جناب قاضی حسین احمد، پروفیسر خورشید احمد اور دیگر ممتاز اہل قلم کی نگارشات شامل ہیں جن میں جماعت اسلامی کے قائدین نے مولانا مودودیؒ کے ساتھ اپنی محبت وعقیدت کے اظہار کے ساتھ ساتھ ان کی جدوجہد کے مختلف پہلوؤں کا بھی احاطہ کیا ہے۔
اس خصوصی شمارہ کی قیمت ۶۰ روپے ہے اور اسے ۵۔اے، ذیل دار پارک، اچھرہ، لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’واقعات حیرت انگیز امام اعظم ابو حنیفہؒ ‘‘
معروف صاحب قلم مولانا عبد القیوم حقانی نے ’’امام اعظم ابو حنیفہؒ کے حیرت انگیز واقعات‘‘ کے نام سے امام اعظمؒ کی حسین یادوں کا ایک گلدستہ پیش کیا ہے جس نے خاصی قبولیت حاصل کی۔ اسی کا فارسی ترجمہ مولانا پائندہ محمد عظیم بدخشانی نے کیا ہے اور القاسم اکیڈمی، جامعہ ابو ہریرہؓ، خالق آباد، ضلع نوشہرہ، صوبہ سرحد نے اسے شائع کیا ہے۔
’’سوانح مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ‘‘
تحریک آزادی کے نامور مجاہد اور تحریک ختم نبوت ونفاذ شریعت کے عظیم داعی حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے حالات زندگی اور خدمات کا مولانا عبد القیوم حقانی نے اس کتاب میں اپنے مخصوص انداز میں تذکرہ کیا ہے اور سوا دو سو سے زائد صفحات کی یہ مجلد کتاب بھی القاسم اکیڈمی نے شائع کی ہے۔
’’مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ ‘‘
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی حیات وخدمات پر مولانا بلال عبد الحی حسنی ندوی کا معلوماتی مقالہ مولانا عبد القیوم حقانی کے پیش لفظ کے ساتھ القاسم اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔
’’معجزات سرور عالم ﷺ‘‘
میجر فتح محمد صاحب نے جناب سرور کائنات ﷺ کے معجزات کا دل نشین انداز میں تذکرہ کیا ہے اور القاسم اکیڈمی، جامعہ ابو ہریرہ، خالق آباد، ضلع نوشہرہ، صوبہ سرحد نے اسے شائع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ ۸۰ صفحات کے اس کتابچہ کی قیمت تیس روپے ہے۔
’’قرآن اور اقلیم حیوان‘‘
انجینئر شفیع حیدر صدیقی صاحب نے اس کتابچہ میں قرآن کریم میں ذکر ہونے والے حیوانات کا دل چسپ انداز میں تذکرہ کیا ہے اور ان کے بارے میں مفید معلومات جمع کر دی ہیں۔
سوا سو سے زائد صفحات کا یہ کتابچہ دانش کدہ ،C-82، گلشن حدید فیز II ، بن قاسم کراچی نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت ۱۵۰ روپے ہے۔
’’سوانح فتحیہ‘‘
شیخ القراء عارف باللہ حضرت مولانا قاری فتح محمد پانی پتی رحمہ اللہ تعالیٰ کے حالات زندگی اور علمی ودینی خدمات پر استاذ القراء قاری محمد طاہر رحیمی صاحب نے قلم اٹھایا ہے اور حضرت شیخ کے حالات وخدمات اور علمی افادات کے ساتھ ساتھ پانی پت کے دیگر ممتاز علماء کرام اور قراء عظام کے بارے میں بھی معلومات کا ایک متنوع ذخیرہ جمع کر دیا ہے۔
ساڑھے چھ سو کے لگ بھگ صفحات کی یہ مجلد کتاب ادارہ کتب طاہریہ، مسجد باب رحمت، مغل آباد ملتان نے شائع کی ہے۔
’’مسئلہ حیات النبی ﷺ پر یادگار خطبات‘‘
مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے نوجوان فاضل اور مولانا حافظ مہر محمد میانوالوی کے فرزند مولانا محمد عمر فاروق صدیقی نے عقیدہ حیات النبی ﷺ کے بارے میں بزرگ علماء کرام کے خطبات کا ایک مجموعہ مرتب کیا ہے۔
سوا چار سو سے زائد صفحات کی اس مجلد کتاب کی قیمت ۱۸۰ روپے ہے اور اسے مکتبہ حنفیہ، بَن حافظ جی، ضلع میانوالی سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’بزم منور‘‘
لندن کے علاقہ بالہم کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب مولانا سید منور حسین سورتی کے افادات کو مولانا عبد القیوم حقانی کی سرپرستی میں مرتب کیا جا رہا ہے اور یہ اس کی پانچویں جلد ہے جس کے مضامین کا زیادہ تر تعلق سیرت نبوی ﷺ سے ہے۔ اس مجلد کتاب کے صفحات ۱۷۴ ہیں اور اسے القاسم اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔