2002

جنوری ۲۰۰۲ء

جہادی تحریکات اور ان کا مستقبلمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مغربی طاقتیں اور پاکستان کی سلامتیپروفیسر میاں انعام الرحمن
ملتِ اسلامیہ اور موجودہ عالمی صورتِ حالادارہ
امریکی صدر ٹرومین اور سعودی فرماں روا شاہ عبد العزیز کی تاریخی خط وکتابتادارہ
جنوبی ایشیا کے حوالے سے یہودی منصوبہ بندیاسرار عالم
اسلامی تحریکیں اور مغربی بلاکپروفیسر میاں انعام الرحمن
عصرِ حاضر میں اسلام کی تعبیر و تشریح ۔ مولانا منصوری کے ارشادات پر ایک نظرعرفان الہی
مولانا سید مظفر حسین ندویؒپروفیسر محمد یعقوب شاہق
سیدنا عمرؓ اور قتلِ منافق کا واقعہ ۔ مولانا حافظ مہر محمدکا مکتوبِ گرامیادارہ
حکومت اور دینی مدارس ۔ دینی مدارس کے بارے میں ایک سرکاری رپورٹادارہ

جہادی تحریکات اور ان کا مستقبل

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(لاہور کے ایک دینی حلقے کی طرف سے ’’الشریعہ‘‘ کے رئیس التحریر کو چند سوالات موصول ہوئے جن کے جوابات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ ادارہ)

 

سوال :۱۱ ستمبر کے حملے کے بعد جو حالات پیش آئے ہیں، ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ 

جواب : ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن میں پنٹاگون کی عمارت سے جہاز ٹکرانے کے جو واقعات ہوئے ہیں، ان کے بارے میں حتمی طور پرکچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کس نے کیے ہیں اور خود مغربی ایجنسیاں بھی اس سلسلے میں مختلف امکانات کا اظہار کر رہی ہیں لیکن چونکہ امریکہ ایک عرصہ سے معروف عرب مجاہد اسامہ بن لادن اور عالم اسلام کی مسلح جہادی تحریکات کے خلاف کارروائی کا پروگرام بنا رہا تھا اور خود اسامہ بن لادن کی تنظیم ’’القاعدہ‘‘ کی طرف سے امریکی مراکز اور تنصیبات کو نشانہ بنانے کے اعلانات بھی موجود تھے اس لیے امریکہ نے ان حملوں کا ملزم اسامہ بن لادن کو ٹھہرانے اور افغانستان کی طالبان حکومت سے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کا فوری مطالبہ کر دیا اور اقوام متحدہ اور ورلڈ میڈیا کے ذریعے سے وہ دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش میں لگ گیا کہ ان حملوں کی ذمہ داری اسامہ بن لادن پر ہی عائد ہوتی ہے۔ 

جہاں تک ان حملوں کا تعلق ہے، دنیا کے ہر باشعور شخص نے ان کی مذمت کی اور ان میں ضائع ہونے والی ہزاروں بے گناہ جانونں کے نقصان پر افسوس اور ہم دردی کا اظہار کیا ہے لیکن امریکہ نے ا س پر جس رد عمل کا اظہار کیا اور اس رد عمل پر اپنے آئندہ اقدامات کی بنیاد رکھی، اس کے بارے میں واضح تاثر یہ تھا کہ اس رد عمل کی بنیاد حوصلہ وتدبر پر نہیں بلکہ غصے اور انتقام پر ہے اور عام طور پر یہ محسوس ہونے لگا کہ امریکہ بہر صورت فوری انتقامی کارروائی کرنے اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ’’جہادی تحریکات‘‘ کو کچل دینے پر تل گیا ہے اور اس کے بعد ہونے والے مسلسل اقدامات نے اس عمومی تاثر واحساس کی تصدیق کر دی ہے۔

جہاں تک الشیخ اسامہ بن لادن اور افغانستان کی طالبان حکومت کے موقف کا تعلق ہے، ان کے طریقہ کار اور ترجیحات سے اختلاف کی گنجائش کے باوجود اصولی طور پر ان کا موقف درست تھا اور امریکہ کا موقف اس کے مقابلے میں کمزور اور بے وزن تھا اسی لیے امریکہ نے کارروائی میں عجلت سے کام لیا تاکہ ۱۱ ستمبر کے واقعات کے نتیجے میں اسے عالمی سطح پر جو ہم دردی حاصل ہوئی ہے، ا س کے ٹھنڈا پڑ جانے سے قبل وہ سب کچھ کر دیا جائے جس کے لیے امریکی دماغ اور ادارے کئی سال سے منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اسامہ بن لادن روس کے خلاف ’’جہاد افغانستان‘‘ میں عملاً شریک تھے اور امریکہ بھی اس جہاد کا سب سے بڑا سپورٹر تھا اسی لیے اس دور میں مغربی ذرائع ابلاغ اور خود امریکی ادارے انہیں ایک ’’عظیم مجاہد‘‘ کے طور پر پیش کرتے رہے اور جہاد افغانستان کے خاتمے کے بعد اسامہ بن لادن ایک ہیرو کے طو رپر اپنے وطن واپس جا چکے تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ خود ان کے اپنے ملک سعودی عرب اور اس کے ساتھ پورے عرب خطے کو امریکہ کے ہاتھوں وہی صورت حال درپیش ہے جو جہاد افغانستان سے قبل افغانستان کو روس کے ہاتھوں درپیش تھی تو ان کے لیے اس صورتِ حال کو قبول کرنا ممکن نہ رہا۔ انہوں نے دیکھا کہ خلیج عرب میں امریکی فوجیں مسلسل بیٹھی ہیں جس کی وجہ سے عرب ممالک کی آزادی اور خود مختاری ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔ عرب ممالک کی دولت اور تیل کا بے دردی کے ساتھ استحصال کیا جا رہا ہے، عرب عوام کو انسانی، شہری اور شرعی حقوق حاصل نہیں ہے اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا کوئی موقع بھی میسر نہیں ہے جبکہ فلسطین کے خلاف اسرائیل کی جارحیت اور تشدد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور فلسطینی عوام پر ان کی اپنی زمین تنگ کر دی گئی ہے تو انہوں نے صدائے احتجاج بلند کی اور مطالبہ کیا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجیں خلیج عرب سے نکل جائیں لیکن چونکہ ان کے ملک میں اس قسم کی بات کہنے اور کوئی سیاسی مہم چلانے کی کوئی گنجائش نہیں تھی اس لیے انہیں مجبوراً اس رخ پر آنا پڑا کہ وہ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کریں اور خلیج عرب سے امریکی فوجوں کی واپسی کے لیے اسی قسم کی جدوجہد منظم کریں جس طرح کی جدوجہد کا تجربہ افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی کے لیے اس سے قبل ہو چکا تھا اور وہ خود اس میں شریک رہے تھے۔

اسامہ بن لادن کے طریق کار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس بات سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ان کا موقف اور مطالبہ اصولی طور پر درست تھا اور اس بات سے اختلاف کرنا بھی ممکن نہیں ہے کہ سعودی عرب اور خلیج عرب کے دیگر ممالک میں سیاسی جدوجہد کے راستے مکمل طور پر مسدود ہونے کی وجہ سے اسامہ بن لادن اور ان کے رفقا کے لیے اپنے جذبات اور موقف کے اظہار کے لیے صرف ایک راستہ باقی رہ گیا تھا جسے تشدد کا راستہ کہا جاتا ہے اور جس پر اسامہ بن لادن کو مطعون کیا جاتا ہے لیکن طعن وتشنیع کرنے والے اس معروضی تناظر سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں کہ ان حالات میں ان کے لیے اس کے سوا کوئی اور راستہ اختیار کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔

اسامہ بن لادن کا خیال تھا کہ وہ جہاد افغانستان میں ٹریننگ لینے والے دنیا بھر کے مجاہدین کو ایک نظم اور پروگرام میں منسلک کریں گے اور اس طرح ایک ایسا مزاحمتی گروپ وجود میں آجائے گا جو عالم اسلام کے مختلف حصوں میں ہونے والے جبر وتشدد کے خلاف ’’پریشر گروپ‘‘ کا کام کرے گا اور شاید وہ اس کے ذریعے سے اسرائیلی جارحیت کے سامنے کوئی رکاوٹ کھڑی کرنے اور خلیج عرب میں امریکی فوجوں کے خلاف اس حد تک دباؤ منظم کرنے میں کام یاب ہو جائیں جو امریکہ کو خلیج عرب میں اپنی فوجوں کی موجودگی کے تسلسل پر نظر ثانی کے لیے مجبور کر سکے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے سوڈان کو اپنی سرگرمیوں کامرکز بنایا لیکن امریکی دباؤ کی وجہ سے سوڈان کی حکومت کے لیے اسامہ بن لادن کا وجود برداشت کرنا ممکن نہ رہا چنانچہ وہ سوڈان چھوڑ کر افغانستان آ گئے جہاں طالبان کی حکومت قائم ہو چکی تھی اور وہ ایک نظریاتی اسلامی ریاست کے قیام اور امریکہ کے تسلط سے عالم اسلام بالخصوص خلیج عرب کی آزادی کے حوالے سے اسامہ بن لادن کے موقف سے متفق تھی۔ ان کے ساتھ وہ ہزاروں عرب مجاہد بھی افغانستان آ گئے جو جہاد افغانستان میں شریک تھے اور اسلامی جذبات سے سرشار ہونے کی وجہ سے اپنے اپنے ملکوں میں واپس جانے کی صورت میں حکومتوں کی طرف سے انتقامی کارروائیوں اور ریاستی جبر کا نشانہ بننے کے خطرات سے دوچار تھے۔

طالبان حکومت نے نہ صرف انہیں پناہ دی بلکہ موقف اور جذبات کی ہم آہنگی اور دینی حمیت میں شراکت کی وجہ سے دونوں میں ایسے تعلقات کار بھی قائم ہو گئے کہ انہیں ایک ہی منزل کے مسافر سمجھا جانے لگا۔ اس کے باوجود طالبان حکومت نے ۱۱ ستمبر کے واقعات کے بعد یک طرفہ موقف اختیار نہیں کیا بلکہ ان واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر ثبوت فراہم کر دیے جائیں تو وہ اسامہ بن لادن کو حوالے کر دینے کے مطالبے پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں یا کسی ایسے بین الاقوامی فورم کے حوالے بھی کر سکتے ہیں جو غیر جانب دار ہو مگر امریکہ نے رعونت اور ہٹ دھرمی کے ساتھ ان کے اس جائز موقف کو مسترد کر دیا اور اپنے الزامات کو ہی قطعی ثبوت قرار دیتے ہوئے افغانستان پر حملہ کا اعلان کر دیا جس کے ذریعے سے امریکہ نے وہ دونوں مقاصد حاصل کر لیے جو اس نے پہلے سے طے کر رکھے تھے اور ۱۱ ستمبر کے واقعات ان کے لیے محض بہانہ ثابت ہوئے۔

سوال : افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت کا خاتمہ ہوا ہے۔ اسے آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

جواب : طالبان حکومت قائم ہوتے ہی مجھے یہ خدشہ محسوس ہونے لگا تھا اور میں نے کئی مضامین میں اس کا اظہار بھی کیا کہ اس حکومت کو برداشت کرنا نہ صرف یہ کہ امریکہ کے لیے ممکن نہیں ہے بلکہ وہ مسلمان حکومتیں بھی اسے اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہیں جو اپنے ملکوں میں اسلامی نظام کے نفاذ کی تحریکات کا سامنا کر رہی ہیں کیونکہ طالبان حکومت کی کامیابی کا واضح مطلب یہ ہوتا کہ مسلمان ملکوں میں اسلامی نظام کے نفاذ کی تحریکات کو تقویت حاصل ہوتی اور ایک کام یاب حکومت کی صورت میں عملی آئیڈیل بھی مل جاتا۔ اس لیے امریکہ اور کفر کی دیگر طاقتوں کے ساتھ ان مسلم حکومتوں کا اتحاد ایک فطری بات تھی اور ان سب نے مل کر ایک ایسی حکومت کو ختم کر دیا ہے جو اپنی کام یابی کی صورت میں دونوں کے لیے خطرہ بن سکتی تھی۔ خطرہ اس معنی میں نہیں کہ وہ کوئی بہت بڑی قوت ہوتی بلکہ اس معنی میں کہ موجودہ عالمی سسٹم سے ہٹ کر اور اس سے بغاوت کر کے ایک الگ نظریہ اور فلسفہ کے تحت بننے والی کسی حکومت کی کام یابی سے ان تمام قوتوں اور عناصر کو بغاوت کا راستہ مل جاتا جو موجودہ عالمی سسٹم سے مطمئن نہیں ہیں اور ا س سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ اسی لیے اسے بہت بڑ اخطرہ سمجھا گیا اور اسے ختم کرنے پر دنیا کی سب حکومتیں اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود متفق ہو گئیں۔

امریکہ اور اس کی زیر قیادت عالمی استعمار کو عالم اسلام سے کوئی فوجی، سیاسی یا معاشی خطرہ نہیں ہے اور نہ مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان ہی ہے بلکہ فوجی، سیاسی اور معاشی طور پر پور اعالم اسلام امریکہ کے شکنجے میں پوری طرح جکڑا ہوا ہے مگر مغربی تہذیب وثقافت اور فلسفہ ونظام کے مقابلے میں اگر کسی فلسفہ ونظام اور تہذیب وثقافت میں کھڑا ہونے کی قوت وصلاحیت موجود ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادی اسلامی تحریکات کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہیں اور بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اس فلسفہ ونظام اور تہذیب وثقافت کو اگر دنیا کے کسی خطے میں ایک ریاستی سسٹم کے طور پر قدم جمانے کا موقع مل گیا تو وہ موجودہ عالمی نظام اور مغربی فلسفہ وثقافت کے لیے حقیقی خطرہ بن سکتا ہے اسی وجہ سے موجودہ عالمی سسٹم کے ارباب حل وعقد نے قطعی طور پر یہ بات طے کر رکھی ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں کوئی ایسی مسلمان حکومت وجود میں نہ آنے پائے جو موجودہ عالمی سسٹم اور بین الاقوامی نیٹ ورک سے ہٹ کر ہو یا دوسرے لفظوں میں اقوام متحدہ کی بالادستی قبول کرنے کے بجائے وہ اپنا کوئی الگ ایجنڈا رکھتی ہو۔ افغانستان میں طالبان کی اسلامی نظریاتی حکومت کو تسلیم نہ کرنے اور اب اسے فوجی طاقت کے زور پر ختم کر دینے کا بھی یہی پس منظر ہے البتہ طالبان حکومت کے خاتمے پر انتہائی افسوس اور صدمہ کے باوجود کسی حد تک یہ بات اطمینان بخش ہے کہ طالبان حکومت کا خاتمہ فلسفہ ونظام اور تہذیب وثقافت میں مغرب کی بالادستی کے حوالے سے نہیں ہوا بلکہ محض مادی طاقت، جبر وتشدد اور عسکری قوت کے زور پر اسے ہٹایا گیا ہے۔ فکر وفلسفہ اور نظام وثقافت اگر زندہ ہوں تو عسکری ناکامیاں زیادہ دیر تک ان کا راستہ نہیں روک سکتیں اور وہ کسی نہ کسی طرح سے اپنے اظہاراور پیش قدمی کے راستے نکال لیا کرتے ہیں۔

سوال :مستقبل میں افغانستان کی صورت حال کیا ہوگی؟

جواب : میرے خیال میں امریکی اتحاد کی پشت پناہی سے قائم ہونے والی حکومت افغانستان میں امن قائم کرنے میں کام یاب نہیں ہوگی اور افغانستان کے سب قبائل کو مطمئن کرنا اس کے بس میں نہیں ہوگا۔ یہ صرف اسلام اور ایمان کی قوت تھی جس نے قبائلی تعصبات اور علاقائی امتیازات کو دبارکھا تھا۔ اس کا پردہ ہٹ جانے کے بعد اب تمام معاملات قبائل اور علاقائیت کے حوالے سے طے پائیں گے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان عصبیتوں میں اضافہ ہوگا جبکہ مغربی قوتوں کا مفاد بھی اسی میں ہوگا کہ یہ عصبیتیں بڑھیں اور اختلافات وتفرقہ کا ماحول قائم رہے تاکہ وہ اس کی آڑ میں افغانستان پر اپنا کنٹرول زیادہ دیر تک قائم رکھ سکیں اور وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کر سکیں۔

دوسری طرف طالبان تحریک نے میدان جنگ سے پسپائی اختیار کی ہے، ذہنی طور پر شکست اور دست برداری قبول نہیں کی اور ان کی افرادی قوت بڑی حد تک محفوظ ہے اس لیے وہ کچھ وقت گزرنے کے بعد دوبارہ منظم ہوں گے اور مزاحمت کا راستہ اختیار کریں گے جس کی حمایت وتعاون کرنا اس خطے کی ان تمام قوتوں کی مجبوری بن جائے گا جو امریکہ کی یہاں مستقل موجودگی کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔ وقتی لشکر کشی میں امریکی اقدامات کا ساتھ دینا اور بات ہے اور اس خطے میں امریکہ کی مستقل فوجی موجودگی کو قبول کرنا اس سے بالکل مختلف امر ہے اس لیے اس کا فائدہ ہر اس قوت کو ہوگا جو افغانستان میں امریکی اتحاد کی فوجوں کی مستقل یا زیادہ دیر تک موجودگی کے خلاف مزاحمت کا راستہ اختیار کرے گی۔ میرا اندازہ ہے کہ طالبان کی یہ مزاحمتی تحریک دوبارہ منظم ہونے میں ایک سال اور اپنے ہدف تک پہنچنے میں پانچ چھ سال کا عرصہ لے سکتی ہے اور افغان قوم کے مزاج، روایات اور تاریخی تسلسل کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے اس کی کام یابی میں شک اور تردد کی کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی۔

سوال :القاعدہ اور طالبان کو نشانہ بنا کر امت مسلمہ پر جو ظلم کیا گیا ہے، اس میں اسلامی ممالک کی کیا ذمہ داری ہے؟

جواب : میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ موجودہ مسلم حکومتیں عالمی نظام اور اقوام متحدہ کے نیٹ ورک کا حصہ ہیں، وہ ا س سے بغاوت اور انحراف کا سوچ بھی نہیں سکتیں اس لیے ان سے کسی ذمہ داری کی ادائیگی بلکہ کسی بھی درجے میں کسی خیر کی توقع کرنا ہی فضول ہے۔ اسلامی تحریکات کو مسلم عوام سے اپنا رشتہ استوار کرنا ہوگا اور انہی کے اعتماد اور تعاون سے اپنے کام کو آگے بڑھانا ہوگا۔ اس کے سوا ان کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے۔

سوال :مستقبل میں مجاہدین کو کس طرح کا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے؟ بالخصوص اب جبکہ پاکستان میں بھی مجاہدین کے خلاف عملی کارروائی ہونے کی توقع ہے؟

جواب : میں اصولی طور پر تشدد کے حق میں نہیں ہوں اور پر امن سیاسی جدوجہد کا قائل ہوں، اسی وجہ سے جہاں سیاسی جدوجہد کے راستے کھلے ہوں، وہاں کسی قسم کی پر تشدد تحریک کو جائز نہیں سمجھتا اور پاکستان میں بھی نفاذ اسلام کی جدوجہد کے لیے تشدد اور عسکریت کا راستہ اختیار کرنا میرے نزدیک درست طرز عمل نہیں ہے البتہ جہاں عالمی جبر یا ریاستی تشدد کی فضا موجود ہو اور اس کے خلاف رائے عامہ کو منظم کرنے، اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے اور سیاسی دباؤ ڈالنے کے تمام راستے مسدود ہوں، وہاں احتجاج کرنے اورکلمہ حق بلند کرنے والوں کی طرف سے تشدد کا راستہ اختیار کرنے کو ان کی مجبوری سمجھتا ہوں اور مجبوری ہی کے درجے میں ان کی حمایت کو دینی حمیت کا تقاضا تصور کرتا ہوں۔ اسی طرح جن غیر مسلم ممالک میں مسلم اکثریت کے خطے اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، ان کی جدوجہد میرے نزدیک جہاد ہے۔ اس پس منظر میں ’’جہادی تحریکات‘‘ کے لیے یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ مل بیٹھ کر اپنی پالیسی اور طریق کار کا ازسر نو جائزہ لیں، اپنی غلطیوں کی نشان دہی کریں، ترجیحات پر نظر ثانی کریں اور اہل علم ودانش کو اعتماد میں لے کر اپنا آئندہ طرز عمل طے کریں۔

میرے نزدیک جن باتوں نے جہادی تحریکات کو نقصان پہنچایا ہے، ان میں چند اہم امور یہ ہیں:

۱۔ اصل اہداف سے ہٹ کر جذباتی نعرہ بازی مثلاً دہلی کے لال قلعہ پر جھنڈا لہرانے، پاکستان میں طالبان کی طرز پر انقلاب لانے اور مغربی ملکوں کے مراکز کو نشانہ بنانے کی باتیں جنہوں نے ان سب قوتوں کو نہ صرف چوکنا کیا بلکہ متحدبھی کر دیا۔

۲۔ ایجنسیوں کے ساتھ ضرورت سے زیادہ اختلاط اور اس اختلاط میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی درپردہ کوششیں جن کی وجہ سے پالیسی سازی اور فیصلوں کی قوت بتدریج جہادی تحریکات کی لیڈرشپ کے ہاتھوں سے نکلتی چلی گئی۔

۳۔ باہمی مشاورت، تعلقات کار اور انڈر سٹینڈنگ کے ضروری اہتمام سے گریز۔

۴۔ ملک کے داخلی معاملات بالخصوص فرقہ وارانہ امور میں شعوری یا غیر شعوری طور پر ملوث ہونا۔

۵۔ اور اہل علم ودانش سے صرف تعاون اور سرپرستی کے حصول پر قناعت کرتے ہوئے ان سے راہ نمائی اور مشاورت کی ضرورت محسوس نہ کرنا۔

یہ اور اس قسم کی دیگر کئی باتیں ہیں جنہوں نے جہادی تحریکات کو نقصان پہنچایا اور ان کے مخالف عناصر کو اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا ہے اس لیے جہادی تحریکات کو اپنی پالیسیوں اور طریق کار کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے اور اہل علم ودانش کی راہ نمائی میں لائحہ عمل اور ترجیحات کا پھر سے تعین کرنا چاہیے۔

سوال :حال ہی میں انڈین پارلیمنٹ پر فدائی حملہ ہوا ہے، اس کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

جواب : یہ حملہ جس نے بھی کیا ہے، اس نے انڈیا کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کارروائی کی راہ ہموار کرے اور امریکہ کو جہادی تحریکوں کے خلاف دباؤ بڑھانے میں اس سے سہولت حاصل ہوئی ہے۔ اس پس منظر میں مجھے یہ حملہ کسی بین الاقوامی پلان کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔

سوال :مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے مسئلے میں امریکہ کیا اب سنجیدگی سے غور کرے گا؟ میری مراد اس سے اقوام متحدہ ہے۔

جواب :فلسطین اور کشمیر دونوں جگہ امریکہ کی دل چسپی یا اقوام متحدہ کی تھوڑی بہت حرکت کا بنیادی سبب مزاحمتی تحریک اور مجاہدین کا کسی نہ کسی حد تک دباؤ ہے۔ یہ دباؤ موجود رہا تو شاید اقوام متحدہ اور امریکہ کسی درجے میں ان مسائل کے حل میں دل چسپی لیں اور اگر یہ دباؤ ختم ہو گیا یا جیسا کہ خود امریکہ کا پروگرام ہے کہ مجاہدین کے اس دباؤ کو بزور بازو ختم کر دیا جائے تو اس کے بعد حالات کے نارمل ہو جانے پر امریکہ، اقوام متحدہ یا دیگر مغربی قوتوں کے لیے کوئی درد سر باقی نہیں رہے گا کہ وہ ان مسائل کے حل میں دل چسپی لیں اور پھر عربوں اور پاکستان کو آزادی اور اطمینان کی فضا میں اقتصادی اور معاشی ترقی کا موقع بھی فراہم کریں۔ یہ سب باتیں امریکہ کے اپنے مفادات کے خلاف ہیں اس لیے اس سے یا اقوام متحدہ سے اس سلسلے میں کسی مثبت کردار کی توقع ایک خوش فہمی اور خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں ہوگی۔

مغربی طاقتیں اور پاکستان کی سلامتی

پروفیسر میاں انعام الرحمن

مغربی طاقتوں کے موجودہ رویے کی بنیاد دوسری جنگ عظیم کے دوران میں ایٹم بم کے استعمال میں ٹریس کی جا سکتی ہے۔ بہ نظر غائر معلوم ہو جاتا ہے کہ ان طاقتوں کا مقصد دنیا میں امن کا قیام اور لوگوں کی عمومی خوش حالی نہیں بلکہ طاقت کے بل بوتے پر اپنی برتری قائم کرنا ہے۔ایٹم بم کی تباہی کے پیش نظر چاہیے تو یہ تھا کہ اس کی روک تھام اور خاتمے کے لیے موثر اقدامات کیے جاتے لیکن مغربی طاقتوں نے اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر اس کو ایک موثر ہتھیار کے طور پر اپنا لیا۔ اس طرح بعد از جنگ کا عہد ایٹمی دوڑ کا عہد بن گیا۔ اس ایٹمی دوڑ کے جنگ جویانہ اثرات فلموں کے ذریعے سے پورے مغربی معاشرے میں سرایت کر گئے۔ اگر تحلیل نفسی کا کوئی سنجیدہ ماہر غیر جانب دارانہ اور معروضی انداز سے مغربی معاشرے کا تجزیہ کرے تو اس پر اس ’’مہذب‘‘ معاشرے کی حقیقت بہت جلد عیاں ہو جائے گی۔

قوت وطاقت کے بل بوتے پر اپنی برتری کے اظہار کی تازہ ترین کاوش وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں کی جا رہی ہے۔ بد امنی اور باہمی منافرت کے گڑھ افغانستان میں طالبان نے کم از کم امن وامان قائم کر لیا تھا۔ مخصوص صورتِ حال میں کسی بھی نوخیز حکومت کے لیے یہ بہت کریڈٹ کی بات تھی۔ ترقی وخوش حالی کے اقدامات امن وامان سے مشروط اور اس کے بعد کی بات تھے۔ اس اعتبار سے ترجیحات کے تعین میں طالبان نے کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ لیکن یہی ان کی غلطی بھی ہے۔ بھلا ایٹمی دوڑ کے خالقوں کو امن وامان کیسے راس آ سکتا تھا اور پھر ایسا امن وامان جو وسیع ہوتے ہوئے‘ ان کی قوت وطاقت پر استوار برتری کے لیے چیلنج بھی بن سکتا تھا۔ اپنی مخصوص تخریبی نفسیات کی وجہ سے مغربی طاقتیں افغانستان پر چڑھ دوڑیں اور ان کے معاشرے کی اکثریت نے ان کے اس اقدام کی حمایت وتصدیق کرنے میں دیر نہیں لگائی کیونکہ مخصوص تربیت کی وجہ سے مغربی معاشرہ امن کا خواہاں نہیں ہو سکتا۔ ان کی تہذیب اور شائستگی دوسروں کی لوٹ مار اور حق تلفی سے مشروط ہے۔ مغربی طاقتوں نے طالبان کے افغانستان میں مداخلت کر کے کچھ اس طرح کی گھمبیر صورتِ حال پیدا کی ہے جس سے وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں امن وامان اور تحفظ وسلامتی کا مسئلہ سنگین تر ہو گیا ہے۔ اس کا مختصر سا جائزہ درج ذیل ہے:

۱۔ طالبان حکومت کو مغربی طاقتوں نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ اگر تسلیم نہ کرنے کی وجہ چار پانچ سال پہلے بھی موجود تھی تو پھر اسی وقت طالبان حکومت کو ختم کرنے کے اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ آخر اتنے سال چھوٹ دینے کی کوئی وجہ تو ہوگی۔ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ مغربی طاقتیں چاہتی تھیں کہ طالبان افغانستان پر کنٹرول کر لیں اور کچھ پر پرزے بھی نکال لیں تاکہ ان کی ٹھکائی کے بہانے یہاں آنے کا موقع مل سکے۔ اگر بہت شروع میں طالبان حکومت کے خلاف کارروائی کی جاتی تو اس کا دائرہ کار بہت مختصر ہوتا اور مغربی طاقتوں کے مخصوص مفادات پورے نہ ہوتے۔

۲۔ اب افغانستان کو ’’دوسرا کشمیر‘‘بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان کے لیے جتنی اہمیت کشمیر کی ہے‘ اتنی ہی اہمیت افغانستان کی بھی ہے:

(i) کشمیر میں بھارتی فوج ہے جبکہ افغانستان میں امریکی وبرطانوی فوج یا کم از کم پسِ پردہ کنٹرول انہی کا ہوگا۔

(ii) کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور وہ پاکستان سے الحاق چاہتے تھے لیکن اس وقت کشمیر میں کم از کم تین گروپ موجود ہیں: ۱۔ پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی‘ ۲۔ بھارت کے ساتھ الحاق کے حامی اور ۳۔ خود مختار کشمیر کے حامی۔ اسی طرح طالبان کا افغانستان پاکستان کا مکمل حامی تھا لیکن اس وقت تین گروہ ابھر رہے ہیں اور جنہیں ابھارنے کی بھرپور کوششیں ہو رہی ہیں‘ اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ بہرحال جس طرح کشمیر میں مصنوعی انداز سے گروہ پیدا کیے گئے ہیں‘ اسی انداز سے افغانستان میں قبائلی عصبیت کو ہوا دی جا رہی ہے۔

۳۔ پاک بھارت جنگوں کے دوران میں شاہِ ایران نے افغانستان کو کسی بھی قسم کی چھیڑ خانی سے باز رکھا تھا۔ اب افغانستان میں طالبان طرز کی دوست حکومت موجود نہیں۔ پھر طالبان حکومت پاکستان اور ایران کے مابین وجہ نزاع بھی رہی ہے جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات اونچ نیچ کا شکار ہوئے۔ایران اب بھی سابقہ تجربے کی بنا پر تحفظات کا شکار ہوگا لہذا اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ ایران‘ پاک بھارت کشیدگی کے دوران شاہِ ایران کے عہد والا کردار ادا نہ کرے۔ اسی بات سے ایک اور نکتہ سامنے آتا ہے کہ مغربی طاقتوں کا طالبان حکومت کو چار پانچ سال تک ڈھیل دینے میں ایک مقصد یہ بھی تھا کہ پاکستان ایران تعلقات کشیدہ ہوں تاکہ پاک بھارت کشمکش کے دوران میں افغان بارڈر پر دباؤ بڑھاتے ہوئے مشرقی بارڈر پر پاکستان کو کسی کمپرومائز پر مجبور کیا جا سکے۔

۴۔ پھر خارجی محاذ پر ایسے دباؤ سے پاکستان داخلی اعتبار سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگا اور واقعتاً ایسا ہی ہے۔ قوم میں شدید قسم کا احساسِ بے چارگی پایا جا رہا ہے۔ صرف چین امید کی ایک کرن ہے اور وہ بھی اس لیے کہ پاکستان اس کی اسٹرٹیجک ضرورت ہے۔

۵۔ کشمیر میں تین موثر گروہوں کی موجودگی اور افغانستان میں کثیر نسلی حکومت کے قیام سے پاکستان بھی معاشرتی گروہ بندیوں کا شکار ہو سکتا ہے جس سے داخلی ٹوٹ پھوٹ اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی۔

۶۔ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے پاکستان کو درپیش سنگین حالات کے اثرات دونوں خطوں پرمرتب ہوں گے جس سے بے یقینی اور عدم تحفظ کا احساس پھیلے گا۔

ان نکات کے پیش نظر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مغربی طاقتوں کا ٹارگٹ پاکستان کی سلامتی اور وحدت کو پارہ پارہ کرنا ہے۔ کشمیر پر پاکستان کو کسی مصنوعی حل پر کمپرومائز کے لیے مجبور کیا جا سکتا ہے۔ یہ حل بہت سارے مسائل کو جنم دے گا۔ اس طرح مسئلہ کشمیر حل ہونے کے باوجود سنگین نوعیت کے مسائل بدستور موجود رہیں گے۔ ان کا اظہار معاشرتی گروہ بندیوں کی صورت میں ہوگا۔ افغان بحران کی وجہ سے ہمارا معاشرہ پہلے ہی تقسیم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ کشمیر کا کوئی بھی مصنوعی حل مزید تقسیم در تقسیم کا باعث ثابت ہوگا۔ پاکستان کی سیاسی وجغرافیائی وحدت شاید کسی علاقائی طاقت کے مفاد میں ہو اور وہ اس وحدت کی بقا کے لیے پاکستان کی پشت پر موجود بھی رہے لیکن پاکستان کی سماجی وحدت اس علاقائی طاقت کے لیے بھی ایک خطرہ ہے لہذا سماجی وحدت کا شیرازہ بکھیرنے میں یہ علاقائی طاقت‘ مغربی طاقتوں کی ممد ومعاون ثابت ہوگی۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ مغربی طاقتیں فلسطین کی طرز پر مزید پیچیدگیوں کا حامل کوئی حل مسلط کر سکتی ہیں جس سے مشرقِ وسطیٰ کی طرح‘ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا مستقل غیر یقینی کیفیت کا شکار رہیں گے۔ اب تک اختیار کی گئی پالیسیوں کے تناظر میں‘ مغربی طاقتیں اس غیر یقینی کی کیفیت اور عدم تحفظ کے احساس کے پھیلاؤ کے لیے کام کرتی نظر آ رہی ہیں۔ ان کے ماضی کے کردار کے پیش نظر یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

ملتِ اسلامیہ اور موجودہ عالمی صورتِ حال

ادارہ

(۲۰۔۲۱ دسمبر ۲۰۰۱ء  کو کراچی میں ’’جنگ گروپ آف نیو زپیپرز‘‘ کے زیر اہتمام ’’دہشت گردی، عالم اسلام کو درپیش ایک نیا چیلنج‘‘ کے عنوان سے دو روزہ سیمینار ہوا جس میں عالم اسلام کے ممتاز دانش وروں نے اس موضوع پر اظہار خیال کیا۔ قارئین کی سہولت کے لیے اس سیمینار کے چند اہم خطابات کا خلاصہ اور اعلامیہ روزنامہ جنگ کی رپورٹنگ کی مدد سے پیش کیا جا رہا ہے۔ ملک بھر کے علماء کرام، اہل دانش اور دینی وسیاسی راہ نماؤں سے ہماری گزارش ہے کہ ان کا سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے۔ غور طلب نکات پر کھلے دل ودماغ کے ساتھ بحث وتمحیص کا اہتمام کیا جائے اور تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں امت مسلمہ کی صحیح سمت میں فکری وعلمی راہ نمائی کے خطوط متعین کرنے میں پیش رفت کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ادارہ)

 جناب محمود شام کا خطبہ استقبالیہ

خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے جنگ کے گروپ ایڈیٹر محمود شام نے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ گیارہ ستمبر کو رونما ہونے والے واقعات اور اس کے بعد دنیا کے مختلف حصوں میں ہونے والی تبدیلیوں، بالخصوص افغانستان پر امریکہ کی مسلسل خوف ناک بمباری، طالبان کی طرف سے پہلے آخری دم تک لڑنے کا عزم، پھر مزار شریف، کابل وغیرہ سے اچانک انخلا نے دنیا بھر میں ہر عمر کے مسلمانوں کے ذہنوں میں مختلف سوالات پیدا کیے ہیں۔ پاکستان اس وقت فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے۔ فرنٹ لائن اسٹیٹ ہونا ایک اعزاز بھی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ ۱۱ستمبر کے بعد مختلف ممالک کے صدور، وزرائے اعظم، وزرائے خارجہ پاکستان کے دورے کر رہے ہیں۔ صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کو بجا طور پر صاحب عصر بھی کہا گیا۔ انہیں امریکی صدر نے خصوصی عشائیہ دیا۔ پاکستان کے اقتصادی مسائل حل کرنے کے لیے امریکا سمیت ہر ملک نے وعدے بھی کیے، عملی اقدامات بھی کیے۔ فرٹ لائن اسٹیٹ ہونا آزمائش بھی ہے۔ جب بھی افغانستان کا یہ بحران گزر گیا تو تمام ممالک اپنے معمول میں مصروف ہو جائیں گے، پاکستان اپنے مسائل کے سامنے پھر تنہا کھڑا ہوگا۔ افغانستان کا بحران پاکستان میں بھی داخل ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ہم دیوار ہم سایے ہیں۔ جنگ گروپ نے فرنٹ لائن اسٹیٹ کے سب سے بڑے اخباری گروپ ہونے کے حوالے سے اپنا فرض سمجھا کہ وہ دنیا بھر میں رابطے کر کے ایسے اسکالرز کو فرنٹ لائن اسٹیٹ میں اظہار خیال کی دعوت دے جو اسلامی تعلیمات اور جدید علوم میں امتزاج کے قائل ہیں، جو دنیائے اسلام اور مغرب کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ 

۱۱ ستمبر کے واقعات کے بعد عالم اسلام کو یقیناًایک نیا چیلنج درپیش ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے امریکا، جرمنی، برطانیہ، جہاں جہاں بھی گرفتاریاں ہوئی ہیں، صرف مسلمان نوجوانوں کی ہوئی ہیں۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف مسلمان ہی دہشت گرد ہیں؟ مسلمان امریکا سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ کیا یہ دو تہذیبوں کا تصادم ہے؟ کیا یہ اسلام کو بدنام کرنے اور مسخ کرنے کی سازش تو نہیں ہے۔ مسلمان نوجوان خود ہتھیار اٹھانے پر کیوں مجبور ہو رہا ہے؟ مسلمان حکومتیں کیا اپنا کردار ادا نہیں کر رہی ہیں؟ کیا مسلمان ملکوں میں سول سوسائٹی ہے؟ کیا مسلمان ملکوں میں جمہوری آزادیاں ہیں؟ یہ اور بہت سے دوسرے سوالات ہیں جن کا جواب آپ کو یقیناًیہ محترم اورمعزز اسکالرز دیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ دو روزہ سیمینار عالم اسلام میں بیداری کی نئی لہر پیدا کرنے کے لیے ایک نقطہ آغاز ہوگا۔ 

میں جنگ گروپ کی طرف سے تمام مسلمان اسکالرز، مسلمان ملکوں کے تعلیمی اداروں، مسلمان ملکوں کی حکومتوں، مسلمان ملکوں کے اخباری اداروں کو یہ پیشکش کرتا ہوں کہ وہ اپنی معلومات، تفصیلات ہمیں بھجوائیں، ہم انہیں محفوظ بھی کریں گے، دنیا تک پہنچائیں گے۔ ہم تمام مسلم اور غیر مسلم اسکالرز کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ حالات حاضرہ پر اپنے خیالات ہمیں بھجوائیں، ہم اسے اردو، انگریزی دونوں زبانوں میں شائع کریں گے۔ جنگ گروپ عالم اسلام اور مغرب کے درمیان ایک پل، ایک رابطے کا منصب ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ۱۱ ستمبر کے بعد شروع ہونے والی جنگ ایک طویل جنگ ہے جو برسوں نہیں‘ صدیوں جاری رہ سکتی ہے۔ ہم سب کو اس کے لیے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے۔ ایک جامع حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ یہ سیمینار ایک نقطہ آغاز ہے۔ اس میں مقالات پیش کرنے والے اس جنگ کا ہراول دستہ ہیں۔

وزیر داخلہ جناب معین الدین حیدر

وفاقی وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے کہا کہ موجودہ حکومت پاکستان کو ایک معتدل، ترقی پسند اسلامی ریاست بنانے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی اسلام کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہم چند قاعدہ پڑھ لینے والے جاہلوں کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور دے سکتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم پاکستان کے بنیادی مسائل کا تدارک کریں اور اقتصادی طور پر ملک کو مستحکم بنائیں۔ خود کو مضبوط بنا کر ہی چیلنجوں کامقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

۱۱ ستمبر کے بعد ایک نئی دنیا نے جنم لیا ہے بالخصوص مسلم ممالک اور مسلمانوں کے لیے نئے چیلنج سامنے آئے ہیں۔ مغربی طاقتوں نے ایک اتحاد تشکیل دیا ہے۔ ایک خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ مستقبل کا ہدف مسلم ممالک ہو سکتے ہیں۔ ان حالات نے کئی سوالات کو بھی جنم دیا ہے کہ اس صورت حال میں مسلم ممالک کو کیا کرنا چاہیے؟ مغربی طاقتیں کہہ رہی ہیں کہ یہ جنگ اسلام کے خلاف نہیں ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق کھلتے جا رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ اسلامی ممالک کس طرح ان چیلنجوں کا سامنا کریں گے؟اس کے لیے ہمیں اپنی عوام کو تعلیم اور شعور دینا ہوگا، تحقیق کرنا ہوگی، جدید ٹیکنالوجی اور معلومات حاصل کرنا ہوں گی، اسلامی ممالک میں پاپولر حکومتیں بنانا ہوں گی اور جہاں تک ممکن ہو، تنازعات اور جنگوں سے اجتناب کرنا ہوگا اور خود کو مستحکم کرنا ہوگا کیونکہ کمزور ممالک یا قومیں کسی بھی چیلنج کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ پہلے ہمیں اپنے ممالک کے ہاؤسز کو ’’ان آرڈر‘‘ لانا ہوگا۔ جب ہم خود ’’ان آرڈر‘‘ ہوں گے تو چیلنجوں کا مقابلہ کر سکیں گے۔ 

مسلم دنیا کا کوئی ڈائنامک فورم نہیں ہے جہاں مل بیٹھ کر اپنے مسائل کا تجزیہ کر سکیں، ان کا حل تلاش کر سکیں اور اس پر عمل کر سکیں یا اسلامی ممالک کا مقدمہ موثر اور ٹھوس انداز میں دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ جبکہ جی ایٹ جیسے ادارے اکثر ملتے ہیں، فیصلہ کرتے ہیں اور پھر دوسرے دن سے ہی ان پر عمل شروع ہو جاتا ہے۔ یہ محض ڈی بیٹنگ سوسائٹیز نہیں ہیں۔ 

اسلامی ممالک کے میڈیا کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات کا احاطہ کرتے ہوئے معین حیدر نے کہا کہ اس کے لیے وسیع سرمایے کی ضرورت ہے تاہم بنیادی بات تعلیم کی ہے۔ اگر ہمارے پاس تعلیم ہوگی تو مختلف سطح پر منفی پروپیگنڈے کا موثر جواب دے سکیں گے۔ 

پاکستان مسلم اور غیر مسلم ممالک سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہے اور ہمارا ایسے ممالک کے ساتھ تعاون بھی جاری ہے جس کی بڑی مثال عوامی جمہوریہ چین ہے۔ پاکستان کو ایک معتدل، اسلامی ترقی پسند ملک بننے کے اقدامات موجودہ حکومت نے ۱۱ ستمبر سے قبل ہی شروع کر دیے تھے۔ اگست کے مہینے میں دو جماعتوں کو، جن پر مسلح ہونے کا الزام تھا، ان پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ شہریوں سے اسلحہ واپس لیا جا رہا ہے، مساجد میں جہاد کے نام سے چندہ لیا جاتا ہے اور پتہ نہیں کہاں چلا جاتا ہے۔ اس کو روکا جا رہا ہے۔

ہم مدرسوں کے خلاف نہیں ہیں مگر ہماری کوشش ہے کہ مدرسے اپنا وہ تاریخی کردار ادا کریں جو ماضی میں ہوا کرتا تھا جہاں سے اہل علم ودانش پیدا ہوتے تھے۔ اس مقصد کے لیے ہم مشاورت کے ساتھ ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن سے مدرسے اپنی سابقہ حیثیتوں میں بحال ہو جائیں۔ 

افغانستان میں جو کچھ ہوا، پاکستان نے بہت پہلے انہیں آگاہ کیا تھا، مشورہ دیا تھا۔ پاکستان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ پڑوسی ملک کے معاملات میں شریک ہو۔ ہم نے واضح کر دیا تھا کہ افغانستان میں جو کچھ ہوگا، وہ خود ا سے نمٹیں گے۔ جب بدھا کے بتوں کو توڑا جا رہا تھا، اس وقت بھی مشورہ دیا گیا تھا کہ پوری دنیا کو اپنا دشمن نہ بنائیں، انہیں ناراض نہ کریں۔ اس وقت صرف دو مسلم ممالک ایک چھوٹی سی امداد افغانستان کو دیتے تھے جبکہ افغانستان کو بیشتر امداد غیر مسلم ممالک سے ملتی تھی۔ ملا محمد عمر خود ساختہ امیر المومنین بن گئے، ان کی حمایت کس طرح کی جا سکتی تھی؟ 

پاکستان میں مختلف سطحوں سے اصلاحات کی جا رہی ہیں جن میں پولیس اصلاحات بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہی فیصلے کرے گی۔

وزیر مذہبی امور ڈاکٹر محمود احمد غازی

وفاقی وزیر زکوٰۃ وعشر اور مذہبی امور ڈاکٹر محمود احمد غازی نے کہا کہ انسانی حقوق کی پامالی، عدم مساوات اور ناانصافیوں کے خلاف شدید رد عمل نے دہشت گردی کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر ان ناانصافیوں اور عدم مساوات کو دور کرنے کی صورت میں ہی دہشت گردی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور ہمیں اپنے رویے اور پالیسیوں کا جائزہ لینا ہوگا۔ جہاد پر تنقید کی جا رہی ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جہاد ہی کے ذریعے سے اسلام کے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے مسلمانوں نے اپنا مقام حاصل کیا ہے۔

دہشت گردی کی مذمت کی جانی چاہیے اور ۱۱ ستمبر کے واقعے کی پوری دنیا اور ہر طبقے نے مذمت کی لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کی صحیح طور پر تشریح ہونی چاہیے کیونکہ کشمیر اور فلسطین میں آزادی کے لیے چلائی جانے والی تحریکوں کو دہشت گردی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ پاکستان کو گزشتہ برسوں میں کئی طرح کی دہشت گردیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس کا مقابلہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں مساوی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے لیکن سلامتی کونسل میں ویٹو پاور خود مساوی حقوق کے منافی ہے اور یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ یہ ویٹو پاور اسلام اور اسلامی ممالک کے خلاف ہی استعمال کی گئی۔ 

جدیدیت میں مغرب کی تقلید کرنے کے بجائے مغرب کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی اپنی ضروریات، تقاضوں اور حالات کے مطابق رائج کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاد ہی کے ذریعے سے سب سے پہلے حق کی جنگ لڑی گئی۔ جہاد برائیوں کے خلاف برسرپیکار ہونے اور اس کے خلاف جدوجہد کا نام ہے۔ اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو دور کرنے کے لیے جدوجہد کا نام مجاہدہ، ناخواندگی کے خاتمے کے خلاف جدوجہد کا نام جہاد ہے۔ جہاد کو کسی بھی دور میں اسلام کا نفاذ پھیلانے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔

پروفیسر ڈاکٹر فاروق حسن

پروفیسر ڈاکٹر فاروق حسن نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر بین الاقوامی اتحاد کی حالیہ مہم کا مقصد ٹون ٹاورز آف اسلام سعودی عرب اور پاکستان کو گرانا ہے اور بھارت بھی اس سازش میں شریک ہے اور اس کی طرف سے سب سے پہلے پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ بھارت اس موقع سے فائدہ اٹھا کر پاکستان پر حملہ بھی کر سکتا ہے۔ ہمارے قریب سمندر میں تین طیارہ بردار جہاز، ۵۰۰ جدید ترین جنگی طیارے، ۴۲ ہزار امریکی کمانڈو اور فوجی اور انٹی ٹنل بلاسٹک بم سمیت جدید ترین ہتھیار کیا صرف ایک اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے ہماری سرحدوں کے قریب اور اندر لائے گئے ہیں؟ کیا سبھی ملکوں کی افواج کو انفرادی مجرم پکڑنے کے لیے استعمال کیا گیا؟ انٹی ٹنل بلاسٹک بم تاجکستان میں نیو کلیر ٹنلز کو توڑنے کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے نیو کلیئر ٹنلز کو توڑنے کے لیے لائے گئے ہیں۔

امریکا اور مغربی ممالک دہشت گردی کے خلاف مہم کو مسلمانوں اور عالم اسلام کے خلاف چلا رہے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عالم اسلام کی سب سے بری تنظیم او آئی سی ہے جس کے رکن ممالک کی تعدد ۵۷ اور مبصرین کی تعداد ۳ ہے۔ اس طرح یہ کل ۶۰ ممالک ہوتے ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادی بھی کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ امریکا کے نزدیک دنیا میں دہشت گرد صرف مسلمان ممالک ہیں۔ ہمیں اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ المیہ یہ ہے کہ ان ۶۰ ممالک میں سے کسی ایک ملک نے اس پر امریکا سے احتجاج نہیں کیا اور یہ تک پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ ان ۶۰ ممالک میں کون سے ملک شامل ہیں؟ او آئی سی کی کارکردگی بھی نہایت مایوس کن رہی ہے۔ اس کے ۱۱ ستمبر کے بعد اب تک صرف دو اجلاس ہوئے۔ ایک اجلا س افغانستان پر بمباری کے دو دن بعد ہوا جس میں نیو یارک اور واشنگٹن پر دہشت گردی کی مذمت کی گئی۔ افغانستان پر بمباری کا کوئی ذکر یا مذمت نہیں کی گئی۔ دوسرا اجلاس وزرائے خارجہ کا ۱۰ دن پہلے ہوا جس میں افغانستان پر حملے یا دہشت گردی کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ ان حالات کو دیکھا جائے تو بہت ہول آتا ہے۔

افغانستان پر حملے اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کے خلاف پورے ۶۰ مسلمان ممالک میں سے صرف سعودی عرب اور ملائشیا نے آواز اٹھائی۔ سعودی عرب نے پرنس عبد اللہ بیس کو دینے سے انکار کیا جو اس علاقے میں جدید ترین بیس تھی۔ اس طرح ولی عہد شہزادہ عبد اللہ نے شاہ فیصل کی یاد تازہ کر دی۔ ملائشیا وہ واحد ملک تھا جس نے بڑے حوصلے کے ساتھ یہ بات کہی کہ اقوام متحدہ نے افغانستان پر حملے کی قرارداد منظور نہیں کی اور یہ حملہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ میں گزشتہ ۵۰ برس سے دہشت گردی کی تعریف متعین تھی اور استصواب رائے اور حقوق کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو دہشت گردی میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔

امریکہ میں دہشت گردی کے بارے میں بیورو آف کاؤنٹر ٹیررازم کے نام سے ایک محکمہ ہے جس کے تحت ۵ اکتوبر کو دہشت گرد تنظیموں کی جو فہرست جاری ہوی، اس میں پاکستان دہشت گرد ممالک میں شامل ہونے سے بال بال بچاجبکہ سالانہ رپورٹ میں ایک اور طرح سے اس کا نام شامل ہے۔اس میں ۲۶ دہشت گرد تنظیموں کے نام تھے جبکہ ایک ماہ بعد نومبر میں دہشت گرد اداروں کی جو فہرست جاری کی گئی، ان کی تعداد بڑھ کر ۳۶ ہو گئی، اس میں ۵ پاکستانی تنظیمیں شامل تھیں۔ ہم نے اس پر نہ صرف احتجاج نہیں کیا بلکہ امریکا کے ایک اشارے پر ان سب کے خلا ف کارروائی بھی کر ڈالی حالانکہ ہم ان کے اتحادی تھے۔ اس طرح امریکا نے اپنی فہرست میں ۵ دہشت گرد تنظیموں کے نام شامل کرکے نشان دہی کر دی ہے کہ یہ لوگ غلط کام کر رہے ہیں۔ وہ جب چاہیں گے، ان کے خلاف کارروائی بھی کر ڈالیں گے۔ 

جنیوا کنونشن ۴۹ اور پروٹوکول ۷۵ اور ۷۷ کے مطابق کسی جنگی قیدی سے ا س کے عہدے اور نام پوچھنے کے سوا کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جا سکتی لیکن افغانستان میں نہ صرف کھلم کھلا پوچھ گچھ ہو رہی ہے بلکہ ۱۴ جنگی قیدیوں کو وہ اپنے بحری جہازوں پر بھی لے گئے ہیں۔ کیا کسی نے کبھی احتجاج کیا؟ 

جنیوا کنونشن کے تحت جو لوگ جنگ میں سرنڈر کریں، ان کو قابض فوجوں کے حوالے کیا جانا چاہیے۔ افغانستان کے جنگی قیدیوں کو امریکا اور بھارت کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ کیا کسی مسلمان ملک یا حکمرانوں نے اس پر احتجاج کیا؟ پاکستانی افغانستان گئے تھے، وہاں شہید ہو گئے یا گرفتار ہو گئے۔ ہماری حکومت نے ان کی لاشیں تک لینے سے انکار کر دیا۔ امریکا اپنے ایک امریکی طالبان کو بچانے کے لیے قانون اور قاعدے بدل رہا ہے۔ ہمارا تو حال یہ ہے کہ ۱۱ ستمبر کے بعد امریکا میں ۴ سو پاکستانی گرفتار ہیں۔ ان کے حق میں حکومت کی طرف سے کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ میں نے اپنی خدمات ان پاکستانیوں کے لیے پیش کر دی ہیں۔

اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب ۷ کے آرٹیکل ۶۰ سے ۶۹ میں کسی ملک میں قیام امن کے لیے فوج کی تعیناتی کے بارے میں قوانین ہیں جن کے تحت غیر جانب دار ممالک سے امن فوج تعینات کی جائے گی لیکن افغانستان میں جو امن فوج لائی جا رہی ہے، ا س کی سربراہی برطانیہ کے جنرل میکال کریں گے جو غیر جانب دار ملک نہیں بلکہ افغانستان پر حملہ آور فوج کا اتحادی ہے۔ 

اسی طرح اس سوال کا بھی ابھی تک کوئی جواب نہیں مل سکا کہ افغانستان پر مسلط کی جانے والی جنگ کا جواز کیا ہے؟ کیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی کسی قرارداد میں افغانستان پر حملہ تجویز کیا تھا؟ انہوں نے اس سلسلے میں وہ قرارداد پڑھ کر سنائی اور کہا کہ اس قراداد میں افغانستان پر حملہ کرنے کا کوئی ذکر تک موجود نہیں ہے۔ شرم کی بات ہے کہ کسی نے بھی سوائے ملائشیا کے امریکا اور اس کے اتحادیوں سے یہ تک نہیں پوچھا کہ تم کس قانون کے تحت یہ حملہ کر رہے ہو؟ افغانستان پر حملہ کرنے والی فوج اقوام متحدہ کی نہیں بلکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی فوج ہے۔ یہ سوال پاکستان بھی اٹھا سکتا تھا۔ مانا کہ پاکستان پر دباؤ بہت تھا مگر وہ اگر قانونی سوال اٹھاتا تو جواب بھی ملتا۔ ہم یہ سارے سوال قانونی طور پر پوچھ سکتے تھے۔

ہماری خارجہ پالیسی کا بھی عجیب عالم ہے کہ ہم ایک ایک اور دو دو دنوں میں اپنی پالیسی بدل دیتے ہیں اور ہمیں طویل المیعاد اور قلیل المیعاد پالیسیوں کا علم نہیں ہوتا۔ جنرل پرویز مشرف نے ۱۰ نومبر کو اقوام متحدہ سے خطاب کیا اور کہا کہ شمالی اتحاد کو کابل پر قبضہ نہ کرنے دیا جائے۔ بش نے مشترکہ پریس کانفرنس میں اس کی توثیق کر دی کہ وہ کابل میں داخل نہیں ہوں گے مگر ۲۴ گھنٹے بعد شمالی اتحاد والے کابل پر قابض ہو گئے۔ لندن میں ہمارے وزیر خارجہ عبد الستار نے بیان دیا کہ شمالی اتحاد والوں کو لگام دی جائے اور جب وہ قابض ہو گئے تو ان کے حق میں بیان دے دیا۔ ایک ملک میں اتنی جلدی خارجہ پالیسی بدلنے کی کوئی دوسری مثال مشکل ہی سے ملے گی۔ 

حالت یہ کہ بم ہمارے پاکستانی علاقوں تک میں گرتے رہے ہیں لیکن ہم نے اس پر بھی کبھی احتجاج نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ پورا عالم اسلام سخت خطرے میں ہے اس لیے اگر ہم آواز اٹھانا نہیں چاہتے، ہمارے سروں پر موجود خطرے کو محسوس نہیں کرتے، اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کو نہیں سمجھتے تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے اور ہمیں امریکا کی ۵۳ ویں یا ۵۴ویں ریاست بننے پر کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہیے اور عملاً امریکا کی قیادت ایسا ہی کر رہی ہے۔ امریکی وزیر دفاع رمز فیلڈ نے کہا ہے کہ ہم واپس نہیں جائیں گے۔

سیمینار کی طرف سے جاری کردہ ’’کراچی ڈیکلریشن‘‘

جنگ گروپ آف نیوز پیپرز کے زیر اہتمام ہونے والے دو روزہ سیمینار میں اسکالرز، محققین کے پیش کردہ مقالات، پاکستان بھر سے ارسال کردہ عوام کے سوالات، سیمینار کے دوران ہونے والے سوال وجواب کی روشنی میں وقت کا یہ تقاضا سامنے آتا ہے کہ عالم اسلام کا یہ فرض ہے کہ وہ تیزی سے بدلتی دنیا، انسانی سوچ کی پیش رفت، عالمی معاشی نظام میں اتار چڑھاؤ، بین الاقوامی سیاسی علاقائی تعلقات، جدید سائنسی اور فکری معاملات کا آزادانہ اور خود مختارانہ تنقیدی تجزیہ جاری رکھے۔ سیمینار میں ہونے والے مباحثے کے نتیجے میں یہ حقیقت بھی بار بار اپنا وجود منواتی رہی ہے کہ اسلامی ملکوں کی تنظیم (او آئی سی) کو پہلے سے زیادہ فعال اور پہلے سے زیادہ منظم ہونا چاہیے اور اس کے تمام رکن ممالک کے ساتھ باہمی مذاکرات کے نتیجے میں اس کو یورپین یونین کی طرح مسلمان ملکوں کی یونین کہا جانا چاہیے جو حکومتی شراکت، آزادی اور انسانی حقوق کی مظہر ہو۔ 

۱۱ ستمبر کو نیو یارک میں فنانس ٹریڈ سنٹر، واشنگٹن میں پینٹاگون پر طیارے ٹکرانے سے ہونے والی دہشت گردی کو قابل مذمت اقدام قرار دیتے ہوئے سیمینار کے شرکااور سامعین نے کھلے الفاظ میں کہا کہ اسلامی تعلیمات اور تہذیب میں ایسے وحشیانہ اقدامات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کسی بھی مسلمان کو ایسے عمل میں ملوث نہیں ہونا چاہیے جس سے بے گناہ عام شہریوں کی جان اور مال کو خطرہ لاحق ہو۔ 

سیمینار کے شرکا اور سامعین دو روزہ اظہاریوں اور مباحثوں کے بعد اس نتیجے پر بھی پہنچے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں جس طرح جدید ترین جنگی ہتھیار استعمال کیے، شہری ٹھکانوں پر حملے کیے، بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا، یہ بھی قابل مذمت ہے۔ دہشت گردی کا جنگی طاقت کے ذریعے سے خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ اس سے دہشت گردی کے مزید رجحانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ دنیا میں امن وامان، اقتصادی معاملات، بین الاقوامی تعلقات کے نازک امور کو طے کرتے وقت صرف طاقت کی زبان استعمال نہ کرے بلکہ ہر ملک، ہر قوم کے مسائل اور حالات کے اس کے مذہب، تمدن اور مخصوص حالات کے تناظر میں جائزہ لیا جائے، پھر ان کے حل کا لائحہ عمل طے کیا جائے۔ مغربی ممالک ہر مسئلے کو صرف اپنے تمدن اور ماحول کی روشنی میں حل کرنے کا فیصلہ نہ کریں۔

یہ سیمینار تمام مسلمان ملکوں اور حکومتوں پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنے ہاں نوجوان ذہنوں میں جنم لینے والے تمام سوالات کا جواب دینے کا اہتمام کریں۔ ان کی سوچوں کو طاقت سے نہ دبائیں، ان کی الجھنوں کو دور کرنے کے لیے عام مباحثوں کا ماحول فراہم کریں، تقریر وتحریر اور اجتماع کی آزادی، ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ یہ سیمینار تمام مسلمان ملکوں سے اپیل کرتا ہے کہ و ہ اپنے ہاں تعلیم کو زیادہ سے زیادہ عام کریں۔ ہر شہری بلا امتیاز مذہب اور جنس لازمی طور پر ابتدائی تعلیم ضرور حاصل کرے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان اور رسول اکرم ﷺ کے ارشادات بھی تعلیم کے حصول کو لازمی قرار دیتے ہیں۔ یہ سیمینار تمام مسلمان ملکوں سے یہ بھی اپیل کرتا ہے کہ روزگار کے حصول، علاج معالجے کی بنیادی سہولتوں اور زندگی کی بنیادی ضروریات، پینے کا صاف پانی، شفاف ماحولیات کی فراہمی میں اپنا بنیادی کردار ذمہ داری سے ادا کرے۔ اس کے علاوہ ان وجوہ اور اسباب کا بھی جائزہ لیا جائے جن کے نتیجے میں دہشت گردی کا ارتکاب کیا جاتا ہے اور ان تنازعات کو حل کیا جائے جن کی وجہ سے عالمی امن کو سخت خطرہ ہے۔

یہ سمینار مسلمان ملکوں پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنی یونیورسٹیوں کے درمیان ایسے انتظامات کریں کہ طلبہ اور اساتذہ کے باضابطہ تبادلے ہوں۔ اہم واقعات اور موضوعات پر ان یونیورسٹیوں میں سیمینارز، ورک شاپس اور کانفرنسیں منعقد ہونی چاہییں۔ مسلمان اسکالرز اور محققین کی آپس میں ملاقاتیں اور تبادلہ خیال عالم اسلام میں اجتماعی طور پر اتفاق رائے کو جنم دے سکتا ہے۔ یہ سیمینار مسلمان ملکوں کے اخباری اداروں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ آپس میں خبروں، مضامین، رپورٹوں ، ملاقات اور تصاویر کے تبادلے کا اہتمام کریں تاکہ دنیا بھر میں مسلمان ایک دوسرے کے سیاسی ، سماجی، معاشی اور علمی حالات سے باخبررہیں۔ یہ سیمینار علماء کرام اور دینی مدارس کے مہتمم حضرات سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے نصاب میں جدید ترین علوم، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی تازہ ترین تبدیلیوں کو بھی شامل کریں۔ ان مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ اور طالبات کی اگر حالات حاضرہ پر گہری نظر ہو تو وہ یقیناًاپنے اپنے معاشرے میں ایک فعال اور ذمہ دارانہ کردار ادا کر سکیں گے۔

امریکی صدر ٹرومین اور سعودی فرماں روا شاہ عبد العزیز کی تاریخی خط وکتابت

ادارہ

(مالیر کوٹلہ بھارت کے دینی جریدہ ماہنامہ ’’دار السلام‘‘ نے نومبر ۲۰۰۱ء کے شمارے میں مملکت سعودی عرب کے بانی شاہ عبد العزیز آل سعود کے نام امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین کے ۱۰ فروری ۱۹۴۸ء کے تحریر کردہ ایک خط اور ملک عبد العزیز آل سعود کی طرف سے اس کے جواب کا اردو ترجمہ شائع کیا ہے۔ اس سے قارئین بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ افغانستان، کشمیر، فلسطین کے حوالے سے امریکہ جو کردار اب ادا کر رہا ہے، وہ کسی حادثہ کا نتیجہ نہیں بلکہ بہت پہلے سے طے شدہ پالیسی اور پروگرام کا ایک تسلسل ہے اور اس امر کا بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ ہمارے مسلم حکمران امریکہ کے ان عزائم اور پروگرام کے بخوبی واقف ہونے کے باوجود ابھی تک زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کر پائے اور انہوں نے عالم اسلام کے وسائل اور دولت امریکہ کے قدموں پر ڈھیر کر کے ذاتی، خاندانی اور طبقاتی سطح پر مفادات حاصل کرنے کے سوا عالم اسلام اور ملت اسلامیہ کے مفاد کے لیے کسی مشترکہ منصوبہ بندی اور پیش رفت کی آج تک ضرورت محسوس نہیں کی۔ ادارہ)

 

صدر ٹرومین کی جانب سے شاہ عبد العزیز کے نام خط

حضور جلالت ملک عبد العزیز آل سعود، فرماں روائے مملکت سعودی عرب

قابل قدر بادشاہ!

جیسا کہ آپ بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے ملک باہمی طور پر ایسی دیرینہ محبت اور مودت کے تعلقات میں مربوط ہیں جس کی بنیاد عدل وانصاف، آزادی، عالمی سطح پر امن وسلامتی کے قیام کی رغبت اور ساری انسانیت کی بھلائی پر قائم ہے، نیز ہماری باہمی اقتصادی مصلحتوں نے ان تعلقات کو اس وقت مزید مضبوط اور گہرا بنا دیا جب آپ نے اپنے ملک سعودی عرب میں دریافت کیے جانے والے تیل کے کنووں سے تیل نکالنے کا معاہدہ ہمارے ملک کی کمپنیوں سے کیا۔ اس طرح ہمیں وہاں تیل نکالنے والے وسیع وعریض پلانٹ قائم کرنے کے مواقع دست یاب ہوئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اب ہمارے تعلقات اس قدر مضبوط ہو چکے ہیں کہ دونوں میں کسی ایک ملک میں ہونے والے ہر خوشگوار وناخوشگوار واقعہ کی صدائے بازگشت دوسرے ملک میں سنائی دیتی ہے۔ ویسے بھی ہمارے نزدیک مشرق وسطیٰ میں امن وسلامتی کا قیام نہایت اہم حیثیت رکھتا ہے۔ اس علاقے سے آپ کا ملک دینی، تاریخی اور لسانی بنیادوں پر جڑا ہوا ہے۔ اس علاقے کے تمام ملکوں کو عرب لیگ جیسے ادارے نے باہم مربوط کر رکھا ہے۔ چونکہ عرب لیگ اور ساری عرب قوم کے دلوں میں آپ کے ملک کا ایک اونچا مقام ہے لہذا میں نے یہ مناسب سمجھا کہ عالمی سلامتی اور ایک ستائی ہوئی مظلوم قوم کے نام پر آپ سے مدد طلب کروں تاکہ آپ مقدس سرزمین پر اس کے باشندوں، عرب اور یہود کے درمیان برپا خانہ جنگ کو روکنے میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کر سکیں اور عرب قوم کو اپنے ہم وطن یہودیوں کے ساتھ مصالحت پر آمادہ کر لیں۔ ہٹلر کے دور میں یہودیوں نے جو عذاب جھیلے، کیا وہ ان کے لیے کافی نہیں کہ اب بھی وہ ستائے جاتے ہیں؟ آپ ہرگز نہیں چاہیں گے کہ یہودی اب بھی عذاب وتکلیف میں گرفتار رہیں چہ جائیکہ آپ ان عربوں کا ساتھ دیں جو اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرارداد (جو ارض مقدس کو دونوں قوموں کے درمیان تقسیم کرنے سے متعلق ہے) کو کھلم کھلا چیلنج کر رہے ہیں۔ عربوں کا یہ انداز اقوام متحدہ میں شامل تمام ملکوں کے خلاف جس میں سرفہرست آپ کا ملک آتا ہے، سرکشی اور زیادتی کے مترادف ہے۔

جس بات کا مجھے ڈر ہے، وہ یہ کہ کہیں مختلف ممالک متحدہ طور پر ان بغاوت کرنے والوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرنے پر درست کرنے کے لیے ان پر فوج کشی نہ کر دیں جس سے آپ کی قوم کی ہزاروں جانوں کے تلف ہو جانے کا خدشہ ہے۔ یقیناًیہ امر ہمارے لیے بھی اور آپ کے لیے بھی باعث رنج وتکلیف ہوگا۔ میں اس امر کو بھی آپ سے مخفی رکھنا نہیں چاہتا کہ اگر حالات اسی طرح رہے تو یہ چیز ہمارے خوشگوار تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے جس سے ہمارے مشترکہ مفادات بڑے نقصان سے دوچار ہو سکتے ہیں کیونکہ امریکہ قوم مظلوم یہودیوں کے لیے اپنے اندر عطف وکرم کا شدید جذبہ رکھتی ہے۔ ان یہودیوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو جوں کا توں قبول کر لیا ہے جبکہ یہ قرارداد ان کے تمام مطالب کی تکمیل بھی نہیں کر رہی لہذا عرب قوم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کریں اور یہودی قوم سے اس معاملے میں پیچھے رہ جائیں۔

جلالۃ الملک! تاریخ آپ کا انتظار کر رہی ہے تاکہ آپ کا نام اس انداز میں رقم کیاجائے کہ شاہ عبد العزیز وہ بادشاہ ہے جنہوں نے اپنی حکمت اور اثر ورسوخ کے ذریعے سے اراضی مقدسہ میں امن وسلامتی کو قائم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ لہذا اپنی قوم کے لوگوں کو عالمی بائیکاٹ کی تکالیف سے بچا لیجیے اور مجبور ومظلوم اسرائیلی قوم کو سکھ کا سانس لینے کا موقع فراہم کیجیے۔ 

میری جانب سے سلام، نیک تمنائیں اور پیشگی پرخلوص شکریہ

آپ کا مخلص

ہیری ٹرومین

ملک عبد العزیز آل سعود کی جانب سے جواب

شاہی محل، ریاض

۱۰ ربیع الثانی ۱۳۶۷ھ

عزت مآب جناب ہیری ٹرومین، صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ

معزز صدر!

آپ کا۱۰ فروری کو تحریر کردہ مکتوب موصول ہوا۔ آپ نے میرے متعلق محبت اور الفت کے جو جملے اپنے خط میں تحریر کیے ہیں، ان پر میں آپ کا شکر گزار ہوں مگر اس بات کی صراحت بھی ضروری سمجھتا ہوں (کیونکہ صراحت اور کھری بات کرنا ہمارے آداب میں شامل ہے) کہ جوں جوں میں آپ کے خط کی عبارت سنتا رہا، اسی طرح میری حیرت اور استعجاب میں اضافہ ہوتا رہا کہ آپ نے کس طرح یہودی قوم کے باطل کو حق ثابت کرنے کی کوشش میں مجھ جیسے عربی بادشاہ کے بارے میں یوں بد گمانی کر لی جس کی اسلام اور عرب کے ساتھ وابستگی اور اخلاص کو آپ اچھی طرح جانتے ہیں اور آپ نے یہ تصور کر لیا کہ میں اپنی قوم کے حق کے مقابلے میں یہودیوں کے ساتھ ان کے باطل پر تعاون کروں گا۔ ہمارے دلوں میں فلسطین کا ایک مقام ہے۔ اس کی وضاحت میں ایک مثال کے ذریعے سے کروں گا۔

اگر کوئی ملک آپ کی کسی اسٹیٹ پر قبضہ کر لے اور اس کے دروازے دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والوں کے لیے کھول دے تاکہ وہ اس کو اپنا ملک بنا کر اس میں مقیم ہو جائیں اور جب امریکی عوام اس جبری قبضے کو ختم کرنے کی غرض سے اٹھ کھڑے ہوں اور ہم آپ سے دوستی اور سلامتی کے نام پر اس معاملہ میں مدد کے خواہاں ہو جائیں اور کہیں کہ امریکی قوم کے نزدیک آ پ اپنے مقام اور اثر ورسوخ کو استعمال کر کے امریکی قوم کو غیر ملکیوں کے ساتھ مقابلہ سے روکیں تاکہ یہ اجنبی قوم اپنا ملک قائم کر سکے اس طرح تاریخ بھی آپ صدر ٹرومین کو اپنے روشن صفحات میں امریکہ میں اپنی حکمت اور نفوذ کے ذریعے سے امن قائم کرنے والا کہے، اس وقت آپ کے دل میں ہمارے اس مطالبہ کا کیا رد عمل ہوگا؟

جناب صدر! عرب قوم میں میرے جس مقام ومرتبہ کا ذکر آپ نے کیا ہے، مجھے وہ مقام محض عرب اور اسلام سے شدید دلی وابستگی کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے۔ لہذا آپ مجھ سے ایسی بات کا مطالبہ کیسے کر سکتے ہیں جو کسی ذمہ دار عرب کے لیے ناممکن ہے اور پھر فلسطین میں جاری جنگ کوئی داخلی جنگ نہیں جیسا کہ آپ کا خیال ہے بلکہ یہ اس کے اصل حق دار عرب قوم اور ان صہیونی جنگ جوؤں کے درمیان جاری لڑائی ہے جو فلسطینیوں کی چاہت کے علی الرغم عالمی سلامتی کے قیام کا دعویٰ کرنے والے چند ایک ملکوں کی مدد سے اپنا قبضہ جمانے کی کوشش میں ہیں۔ نیز فلسطین کو تقسیم کرنے کی منظور کردہ قرارداد جس کو مختلف ملکوں سے منظور کروانے میں آپ کا رول نمایاں رہا ہے، محض ظلم وناانصافی پر مبنی ایسی قرارداد ہے جس کو ابتدا ہی سے تمام عرب ملکوں نے نیز ان ملکوں نے بھی رد کر دیا جو حق کا ساتھ دے رہے ہیں لہذا حالیہ نتائج کے ذمہ دار عرب نہیں جس پر آپ ہمیں محتاط رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

میں اپنے ان مسلمان بھائیوں کے لیے انتہائی محبت اور شفقت کے جذبات رکھتا ہوں جو فلسطین میں صہیونی حملہ آوروں کے خلاف اپنے وطن کا دفاع کرتے ہوئے نذرانہ شہادت پیش کر رہے ہیں کیونکہ ہم عرب لوگ اس کو ایسا شرف سمجھتے ہیں جو ہمارے لیے قابل فخر ہے۔ ہم کسی بھی قیمت پر ان فلسطینی بھائیوں کی تائید سے دست بردار نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ صہیونی حملہ آوروں کے خوابوں کو چکنا چور نہ کر دیں۔ جہاں تک آپ نے باہمی اقتصادی مصلحتوں کا ذکر کیا ہے جن سے میرا اور آپ کا ملک جڑا ہوا ہے، تو یاد رکھیے کہ یہ اقتصادی مفادات میرے نزدیک پرِ کاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ میں ان اقتصادی مفادات کو قربان کر سکتا ہوں مگر مجھے یہ منظور نہیں کہ اس کے بدلے میں فلسطین کی ایک بالشت زمین بھی مجرم یہودیوں کے ہاتھوں فروخت کر دوں۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر گواہ ہے کہ میں تیل کے ان کنووں کو بند کر سکتا ہوں۔ تیل کے یہ کنویں اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں ہیں جو اس نے آج ہم پر جاری فرمائی ہیں لہذا ہم ان کو کبھی عذاب الٰہی میں تبدیل نہیں کرنا چاہتے۔ میں نے اس سے قبل کئی دفعہ ساری دنیا پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ میں اپنے تمام بیٹوں سمیت فلسطین کے لیے لڑنے مرنے پر تیار ہوں۔ پھر اس کے باوجود میرے لیے تیل کے یہ کنویں میری اپنی جان اور میری اولاد سے کیسے عزیز تر ہو سکتے ہیں؟ 

قرآن مجید کہ جس پر ہمارا ایمان ہے، جو ہماری زندگی ہے اور جس پر ہم اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں، اس کتاب نے تورات اور انجیل کی طرح یہود قوم پر لعنت کی ہے۔ یہی قرآن مجید ہم پر اس امر کو فرض قرار دیتا ہے کہ ہم اپنی جانوں اور مالوں کے ذریعے سے اس مقدس سرزمین کو یہودی دخل اندازی اور تسلط سے روکیں جس میں کوئی اور راستہ نہیں۔ اگر امریکی عیسائیوں اور ان کے دیگر حواریوں کے دینی عقیدہ کا تقاضا یہ ہے کہ وہ یہودیوں کو ان کے ناپاک قدموں کے ذریعے سے مقدس سرزمین کو ناپاک کرنے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں تو ہمارے دل بھی آج اس ایمان سے معمور ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس سرزمین کو یہودیوں سے پاک وصاف کریں۔ 

جس قسم کے الفت اور محبت اور جانب دارانہ تعلقات آپ کی حکومت نے یہودیوں سے استوار کیے ہیں اور اس کے مقابلے میں عرب کے ساتھ جس طرح آپ نے اپنی دشمنی کا اظہار کیا ہے، یہی ایک بات کافی ہے کہ ہم آ پ کے ساتھ خیر سگالی کے تعلقات کو منقطع کر دیتے، امریکی کمپنیوں کے ہمارے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں کو منسوخ قرار دے دیتے لیکن ہم نے اس لیے جلد بازی سے کام لینا مناسب نہیں سمجھا کہ ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ آپ کا ملک فلسطین کے موقف پر نظر ثانی کرے گا اور واضح باطل کی تائید سے کنارہ کش ہو کر واضح حق کا ساتھ دے گا۔ہم اس معاملہ میں آپ پر کوئی دباؤ ڈالنا نہیں چاہتے، نہ اس کے لیے تجارتی تعلقات کو ذریعہ بنانا چاہتے ہیں کیونکہ ہم عربی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حق کو بذریعہ حق غالب کیا جائے نہ کہ ان یہودیوں کی طرح جو رشوت دے کر مختلف ملکوں کو اپنی تائید پر ابھارنے کی کوشش میں ہیں۔ مگر اس کے باوجود جب ہمیں اس بات کا یقین ہو جائے کہ حق کو کیوں پامال کیا جا رہا ہے تو ہم اس کے تحفظ کے لیے ہر وہ وسیلہ اختیار کریں گے جو اس میں موثر ثابت ہوگا۔ خصوصاً عرب لیگ قومیت اور اس کے حقوق کی حفاظت کے لیے جو تجویز بھی منظور کرے گی، ہم اس کی تائید میں ہوں گے۔

یقیناًیہ بات میرے لیے باعث مسرت ہے کہ جو امریکی ہمارے ملک میں مقیم ہیں، وہ ہمارے مہمان ہیں۔ جب تک وہ ہماری سرزمین میں ہیں، انہیں ہماری جانب سے کوئی شکایت یا تکلیف نہیں ہوگی۔ آپ اس بات کا اطمینان رکھیں۔ سب سے زیادہ اگر ان کو کوئی تکلیف پہنچ سکتی ہے تو یہی کہ ہمارے ملک میں ان کے قیام کی مدت کو مختصر کر کے پوری عزت واکرام کے ساتھ ان کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے ان کے ملک امریکہ واپس بھجوا دیں۔

اخیر میں صاحب صدر! میں آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ جن تجارتی اشیا کی بنیاد پر ہمارے مابین اقتصادی تعلقات قائم ہیں، یہ وہ مال ہے کہ دنیا کی مارکیٹ میں ا س کے فروخت کرنے والے بہت کم ہیں لیکن اس کے خریدنے والے بہت زیادہ۔

صاحب صدر! میری نیک تمنائیں اور آداب قبول فرمائیں۔

مخلص عبد العزیز آل سعود

ملک المملکۃ العربیۃ السعودیۃ

جنوبی ایشیا کے حوالے سے یہودی منصوبہ بندی

اسرار عالم

(بھارت کے ممتاز مسلم دانش ور جناب اسرار عالم نے یہ مضمون دو سال قبل اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے دورۂ جنوبی ایشیا کے پس منظر میں تحریر کیا تھا۔ ادارہ)

 عالم اسلام کے بہتیرے حکمرانوں کی سالوسی‘ خاموشی یا مجبوری کے ساتھ حاشیہ برداری کے باوجود پوری امت اور بطور خاص عامۃ المسلمین میں بڑھتے ہوئے دینی رجحان‘ شعور‘ جاں سپاری اور مغرب سے نفرت نے یہودیوں کومزید برافروختہ اور انہیں مزید غیر انسانی طور پر کچلنے کی طرف مائل کر دیا ہے۔ یہودی قوت کی یہی حواس باختگی جو مختلف پردوں میں مختلف بہانوں یا تدبیروں سے اور مختلف ہاتھوں کے ذریعے سے تقریباً تمام ہی براعظموں میں مسلمانوں کے قتل عام‘ نسل کشی ‘ دربدری‘ عصمت دری‘ بائیکاٹ‘ اذیت دہی اور بے عزتی کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے۔ یہودی ان ساری تدبیروں کے باوجود امت کے عزم میں لچک کے آثا ردور دور تک نہیں پا رہے ہیں۔

اپنے تمام حربوں‘ تدبیروں اور دھمکیوں کے باوجود وہ اس میں ناکام ہو گئے ہیں کہ کسی مسلم ملک کو جوہری طاقت ہرگز بننے نہ دیں گے۔ اس ناکامی نے انہیں یکایک ایک ایسے خطرے کے اندیشے میں مبتلا کر دیا ہے جس کا نتیجہ یہ بھی برآمد ہو سکتا ہے کہ بیسویں صدی میں کی گئی ان کی ساری کوششیں صفر ہو کر رہ جائیں۔ چنانچہ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے ایک خطرناک فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ وہی فیصلہ ہے جس کی تعمیل کے پہلے مرحلے کے لیے صدر امریکہ نے جنوبی ایشیا کا سفر کرنا ضروری سمجھا۔

لیکن جنوب ایشیا کا ہی سفر کیوں؟ اس کے دو اسباب نظر آتے ہیں:

۱۔ یہودیوں کا یہ احساس کہ ساری دنیا میں اسلامی بیداری کا مرکز فی الوقت جنوب ایشیا ہے۔

۲۔ جنوبی ایشیا کی ایک قوم کے ایک طبقے کا یہ باور کرا دینا کہ وہ قوم اور یہودی اینگلو سیکسن انتظام قدرتی حلیف ہیں اور امریکہ کا اس پر شرح صدر ہو جانا۔

ایک جانب امریکہ اور جاپان کے مابین اس پر اتفاق کے باوجود کہ دونوں اپنے اختلافات کو مزید ہوا نہیں دیں گے (مئی ۴‘ ۲۰۰۰ء) یہ بات یقینی ہو چکی ہے کہ اب ان دونوں کے اختلافات یعنی جنگ عظیم دوم کے بعد یہودی قوم کا قائم کردہ امریکہ‘ برطانیہ‘ سلامتی کونسل‘ آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک انتظام کی روشنی میں جاپان امریکہ تعلقات Point of no return تک پہنچ گئے ہیں۔ دوسری جانب ۱۹۸۹ء سے جاری ہلمٹ کول طوفان کو ہرچند کہ اس طرح روک دیا گیا ہے کہ خود ہلمٹ کول کو صدارت سے الگ کر دیا گیا اور ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے لیکن ان سب کے باوجود یورپ میں ان کا لایا گیا اتحاد کا طوفان اب بھی پوری شدت سے آگے بڑھ رہا ہے جس کا نتیجہ اہل یورپ کا کوسوو آپریشن میں ناٹو کا بے دلی سے ساتھ دینا اور کسی درجے میں امریکی‘ برطانوی فوجوں سے عدم تعاون کرنا ہے۔

باشندگان برصغیر کے لیے بالعموم اور باشندگان ہند کے لیے بالخصوص سن ۲۰۰۰عیسوی کی شروعات بظاہر نہایت روشن اور امید افزا اور بباطن سخت تاریک اور بدترین معلوم ہوتی ہیں۔ اگر صدر کلنٹن کے اس دورے کے مضمرات مخصوص رخ پر گئے اور اس کے عواقب اسی طرح سامنے آئے جو اس طرح کے قدرتی تحالف کا منطقی نتیجہ ہے تو یہ ایک ایسی ہول ناک صورت ہوگی جس کی نظیر اس خطے کی تین ہزار سالہ تاریخ میں کوئی دوسری نہیں ملے گی۔

صدر امریکہ کلنٹن کا دورہ ظاہر ہے طرفین کے اتفاق کا نتیجہ ہوگا یعنی اس بات پر اتفاق کا کہ دونوں اپنی اپنی جگہ محسوس کرنے لگے کہ ان کے مخصوص مقاصد کی تکمیل اس تحالف میں ممکن ہے۔ ا س صورت میں یہ بالکل جداگانہ بات ہے کہ دونوں کے مقاصد الگ الگ ہوں۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں کے مقاصد ایک ہی ہوں یا ایک ہی بات کے دو الگ الگ پہلو۔ ایسی صورت میں طرفین کا یہ تصوراتی اتفاق بلا روک ٹوک عملی اتفاق میں بدل جائے گا اور بہت اہم امور میں گہرائی تک جا سکتا ہے۔کلنٹن نے مارچ ۲۰۰۰ء میں بھارت کا دورہ کیا اور انہوں نے بھارتی جنتا پارٹی کی قیادت والی حکومت کے ساتھ بہت سے میدانوں میں متفقہ اقدامات کے لیے معاہدے اور مفاہمت کیے جن میں سب سے اہم بات امریکہ کی بعض شرائط کے ساتھ ہندوستان کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لیے آمادگی ہے۔

اس کے معاً بعد اپریل میں برطانوی وزیر خارجہ کک کا دورۂ ہند ہوا اور انہوں نے بھی انہیں شرائط کے ساتھ ہندوستان کی سلامتی کونسل کی رکنیت کے استحقاق کی حمایت کی۔ اپریل کے وسط میں بھارت کے صدر کا دورۂ فرانس اور اس کے معاً بعد فرانس کے دو وفود کی بھارت آمد ہوئی۔ اس میں سب سے ابھری ہوئی بات بعض شرائط کے ساتھ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لیے بھارتی استحقاق کی فرانس کے ذریعے حمایت ہے۔ بھارت جیسے ایشیائی ملک کا سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننا اہل ایشیا کے لیے خوشی اور اطمینان کی بات ہے لیکن کل تک مغرب کا بھارت کو رکنیت سے محروم رکھنا اور آج حمایت کرنا تشویش کا باعث ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ کہیں عالمی استعماری قوتیں بھارت کی موجودہ حکومت کے مخصوص رجحانات کا اپنے استعماری مقاصد کے لیے استحصال کرنا تو نہیں چاہتیں؟ اگر ایسا ہے تو لازماً اس کا نقصان صرف اور صرف بھارت کو ہوگا۔ تشویش کی دوسری بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر یہ اتفاق اور تحالف ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بھارت کی اندرونی صورت حال بعض پہلوؤں سے اتنی سنگین ہو چکی ہے کہ جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ شاید ۱۹۴۶ء اور ۱۹۴۷ء میں بھی صورت حال اتنی سنگین نہیں تھی۔ بابری مسجد کا انہدام‘ ٹاڈا میں ہزاروں مسلمانوں کی گرفتاری اور مہینوں بلکہ سالوں دستور کی موجودگی میں بلا مقدمہ قید وبند اور اذیت‘ قانون اور حکومت کے بعض بے قابو حلقوں کا فاشسٹ عناصر کی کھلی حمایت اور ان کے لیے قانونی چھتری کی فراہمی‘ پورے ملک میں مسلمانوں کو برسرزمین خوف زدہ کرنا‘ مسلم معیشت کے خلاف درپردہ اور علانیہ عملی اقدامات‘ دستور کی ترمیم کی کارروائی کا آغاز‘ مذہبی تعمیرات بل کے ذریعے سے ہر طرح کے مذہبی‘ ثقافتی اور تہذیبی اداروں اور سرگرمیوں اور تشخصات کا خاتمہ کرنے کی کوشش‘ مخصوص علاقوں اور زمینوں سے مسلمانوں کی جبری بے دخلی‘ تمام دینی‘ ثقافتی اور تہذیبی سرگرمیوں کو غیر ذمہ دارانہ طور پر دہشت گردی قرار دینا‘ تمام دینی‘ ثقافتی اور تہذیبی مقامات کو دہشت گردی کے اڈے قرار دینا‘ مسلمانوں کا انتظامیہ‘ مقننہ اور عدلیہ سے اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے دستوری چارہ جوئی کے حق کا صرف کاغذ پر باقی رہ جانا‘ پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے معتد بہ حصہ کو فاشی جذبات سے بھر دیا جانا اور فوج کے بعض طبقات کا اس سے اچھوتا نہ رہ جانا‘ بیوروکریسی کے بہت بڑے طبقے کا انہیں سرگرمیوں میں متحرک ہو جانا ایک ایسی صورت حال کو جنم دے رہا ہے جس کے عواقب کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

اس مخصوص صورت حال میں مشہور ماہر حکمت عملی اور قومی سلامتی کونسل کے رکن کے سبرمینیم (K. Subrahmanyam) کا یہ اظہار خیال بہت معنی خیز ہے کہ

’’بین الاقوامی دہشت گردی‘ مذہبی انتہا پسندی اور منشیات کے لین دین کو قابو میں لانا اس اتفاق کا بنیادی جزو ہے (جو بھارت اور امریکہ کے مابین ہے)‘‘

ہرچند کہ یہ بات بے حد حیرانی کی ہے کہ ہندوستان کے سب سے بڑے فکری گروہ آر ایس ایس کی ہندوستان کے تعلق سے عالمی پالیسی امریکہ کی عالمی پالیسی کے بالکل علی الرغم اور اس سے متصادم ہے۔ آر ایس ایس ایک نظریاتی گروہ ہے اور سبرا مینیم کی تلقین خالصتاً ابن الوقتی اور موقع پرستی کے اصول پر قائم ہے۔ ہر چند کہ سبرامینیم نے اپنے فلسفے کو عملیت (Pragmatism) کا لبادہ اوڑھایا ہے لیکن وہ اپنی اس عملیت کی پیش کش میں یہ بتانے سے قاصر رہے کہ اگر ایک بار بھارت اس عملیت کا سہارا لے کر اپنی ریاستی اصولیت سے ہٹ جائے اور کچھ دنوں کے بعد اسے یہ اندازہ ہو کہ امریکہ بھارت اور اپنے مفادات کے توازن کے ساتھ تکمیل سے زیادہ صرف اپنے مفادات کی تکمیل چاہتا ہے اور اسے بھارتی مفادات سے کوئی خاص غرض نہیں تو پھر بھارت اس صورت حال سے اپنے کو کیونکر نکال پائے گا اور اس کی عملیت کیا ہوگی؟ اور یہ خطرہ اس صورت میں اور بھی عیاں ہوتا نظر آتا ہے کہ وہ خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ صرف اس کا مسئلہ نہیں جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے:

’’امریکہ بھارت کے بازار میں دلچسپی رکھتا ہے ٹھیک اسی طرح جیسے ہر ملک کسی دوسرے ملک کے بازار میں دلچسپی رکھتا ہے۔ بھارت کو چاہییے کہ وہ امریکہ کے بازار میں بھارتی سوفٹ ویئر اور ہنر مندی کے امکانات کے دروازے وا کرے‘‘۔

بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ: 

’’اس بنیادی مفروضے میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ دنیا میں اپنے سپر پاور کے مقام کو دوامی بنائے رکھنا‘ اپنے شہریوں کو سب سے زیادہ فی کس آمدنی دینا اور تمام بڑے تدبیری‘ معاشی‘ تکنیکی اور عالمی ماحولیاتی فیصلوں میں غالب فیصلہ کن حیثیت میں رہنا چاہتا ہے۔‘‘

ظاہر ہے کہ اس صورت میں بھارت کے لیے اس غار میں داخل ہونا جتنا خوش نما اور آسان ہوگا‘ اختلاف کی صورت میں اس غار سے نکلنا اتنا ہی بھیانک اور مشکل۔ لیکن اب جبکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی جنتا پارٹی حکومت نے اس سمت میں جانے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو سبرامینیم کے الفاظ میں بھارت اور امریکہ کے متفقہ مقاصد اس خطے میں اقلیتوں کے لیے بے حد تشویش ناک ثابت ہوں گے۔ حالات کے اس رخ پر چلے جانے کے بعد وزیر داخلہ ایڈوانی کا بیان مزید تشویش ناک مضمرات کا حامل سمجھا جاتا ہے کہ اب بھارت پر بیرونی خطرے اور اس کے اندرونی خطروں میں فرق باقی نہیں رہ گیا ہے۔ اب ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ یہ خطہ ایک ہزار سال کے اجتماعی امن کے بعد پھر قتل عام اور بڑے پیمانے پر عوامی بے دخلی (Mass exodus) کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کا تلخ تجربہ بھارت کی تاریخ نے بطور خاص دوسری صدی عیسوی اور نویں صدی عیسوی کے مابین کیا تھا۔ لیکن اس سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی اس خطے کے تعلق سے پالیسی میں اچانک تبدیلی اور ان کی جانب سے بھارت کے انتخاب کا اصل سبب کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ

۱۔ یہودی قوت یہ محسوس کر چکی ہے کہ اب اس کی اور عالم اسلام کی کشمکش ناگزیر ہو کر عالمی جنگ کی صورت اختیار کرنے جا رہی ہے۔

۲۔ یا یہ کہ وہ اب اس کا فیصلہ کر چکے ہیں کہ عالم اسلام کو کچل دینے میں مزید تاخیر ان کے عالمی منصوبے کو ہی درہم برہم کر کے رکھ دے گی لہذا ایسا اقدم ناگزیر ہوگیا ہے۔ لیکن وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ایسا قدم ایک عالمی جنگ پر منتج ہوگا۔

۳۔ یا یہ ہے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کو ڈھانے اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو اور پورے جزیرۃ العرب پر قبضہ کر لینے کو مزید ٹالنا خطرناک ہوگا لہذا اس آپریشن کے کرنے کا وقت گزرتا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ایسا آپریشن ایک عالمی جنگ پر منتج ہوگا۔

۴۔ کیا وہ اس نتیجے تک پہنچ گئے ہیں کہ ایک عالمی جنگ کی صورت میں جرمنی اور جاپان نہ صرف یہ کہ ان کا ساتھ نہیں دیں گے بلکہ ممکن ہے کہ مخالفانہ رول ادا کریں اور اس صورت میں سلامتی کونسل میں ان کی رکنیت ہول ناک نتائج پیدا کرے گی؟

۵۔ کیا وہ اس نتیجے تک پہنچ گئے ہیں کہ جنگ عظیم دوم کے بعد انہوں نے جرمنی اور جاپان کی عزت نفس کو جس طرح پامال کیا ہے‘ اس کے سبب کسی بحرانی صورت میں ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

۶۔ کیا ا س کا سبب عالم اسلام سے ہونے والی عالمی جنگ کی مخصوص حکمت عملی ہے؟ یہ بات واضح ہے کہ ایسی آئندہ جنگ کی تین خصوصیات ہوں گی:

(i) ایک جانب سے اعلیٰ فنی جنگی مشینری کی حرکت (High-tech war machinary mobilisation) اور دوسری جانب سے ادنیٰ اور متوسط جنگی مشینری کی حرکت (Low and medium-tech war machinary mobilisation) 

(ii) بے حد وحساب خام مال کی کھپت (High consumption of raw material)

(iii) غیر معمولی اور بے شمار انسانی جانوں کا تلف ہونا (War of over-kill)

ظاہر ہے اس صورت حال میں کئی باتیں قابل ذکر ہوں گی۔

(i) یہودیوں کا موت سے بے حد ڈرنا جبکہ ایک عام اندازے کے مطابق ایک ایسی عالمی جنگ کے چھڑنے کی صورت میں اب ۳۰ سے ۵۰ کروڑ لوگوں کے مرنے یا زخمی ہونے کا اندیشہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ۵۰ کروڑ کے کلی زیاں میں اگر یہودیوں اور مسلمانوں کی اموات کا تناسب ۱۰۰:۱ بھی ہو جب بھی یہودیت ۵۰ لاکھ اموار کو برداشت نہیں کر سکے گی۔

(ii)اس صورت میں اس کے لیے جرمنی اور جاپان بے کار ہیں۔ وہ ان کے لیے اتنی جانوں کی قربانی دینے کی صلاحیت سے قاصر ہیں۔

(iii) یورپ کا کوئی ملک شاید کسی ایسی جنگ کے لیے تیار نہ ہو مثلاً روس اور مشرقی یورپ کے ممالک۔

(iv)جنگ عظیم اول اور دوم کے سابقہ ریکارڈ کی بنیاد پر وہ یہ قیاس کرنے میں حق بجانب ہیں کہ بھارت ان کے لیے اتنی جانوں کی قربانی دے سکتا ہے۔ خود اس ملک کی اندرونی صورت حال میں ایک طبقے کے لیے یہ تاریخی حکمت عملی دور رس نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔

(v) انسانی وسائل کے ساتھ ساتھ کسی ایسی جنگ میں خام مال اور اب اس Globalised دنیا میں Industrial Base بھی ناگزیر ہیں۔ جرمنی تو خر کسی حد تک ورنہ جاپان تو خام مال کے تناظر میں بالکل بے کار ہے۔ بھارت ہر دو اعتبار سے مالا مال ہے۔

(vi) جرمنی اور جاپان دونوں یہودیوں کے علاقہ دشمنی کی باہری سرحدوں پر واقع ہیں اور کسی ایسی جنگ میں ان کا تعاون موثر نہیں ہوگا۔ اس کے برخلاف یہودیوں کے نقطہ نظر سے بھارت باہری سرحدوں (Peripheral) پر ہونے کے بجائے عالم اسلام کے وسط میں واقع ہے جو ہر اعتبار سے Mobility اور Strike کے لیے موزوں ہے۔ یہودیوں اور امریکہ کو اس سے چنداں غرض نہیں کہ اس صورت میں بھارت کو کتنے نقصانات کا سامنا ہوگا اس لیے کہ صرف اپنے مفادات کو سامنے رکھنا ان کی تاریخ رہی ہے۔

(vii) کسی ایسی متوقع جنگ میں بیلسٹک میزائلوں کا رول سب سے زیادہ ہوگا۔ ایسی صورت میں بین بر اعظمی بیلسٹک میزائل کا رول بہت کم نظر آتا ہے۔ خاص طور پر اس صورت میں کہ ان کے وار ہیڈز جوہری ہوں اور روایتی ہیڈز کے ساتھ بین بر اعظمی میزائلوں کے استعمال کی کوئی گنجائش نہیں‘ نہ مالی اعتبار سے اور نہ جنگی اعتبار سے۔ لہذا اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ درمیانے اور چھوٹے درجے کے بیلسٹک میزائل ہی زیادہ تر استعمال کیے جائیں۔ اس صورت میں واقعی علاقہ جنگ (Real war theatre) کا معاملہ یہودیوں کے لیے سنگین ہوگا خاص طور پر اس لیے کہ ان کے دماغوں میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی یاد ابھی محو نہیں ہوئی ہے چنانچہ اس تناظر میں بھی بھارت ان کے لیے نہایت موزوں علاقہ ہے جہاں وہ اپنے مفادات کی جنگ بھارتی سرزمین پرلڑنا چاہتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر یہودیوں کو بھارت کی آمادگی بھی مل جائے تو یہ ہر صورت سے جرمنی اور جاپان کے مقابلے میں زیادہ مفید ہوگی۔

کیا مسٹر کلنٹن کا دورہ دراصل اس سلسلے کا آغاز ہے جس کا منطقی نتیجہ غزوہ ہند ہو سکتا ہے؟ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگ ظہور دجال سے معاً قبل کسی نزدیکی عہد میں ہوگی۔ یہ جنگ بے حد خوں آشام ہوگی جس میں جان اور اسباب کا بے حد زیاں ہوگا۔ جس کی شروعات مقامی اہل ایمان پر غیر انسانی مظالم‘ ان کی بے بسی اور ان کی داد رسی کے حوالے سے ہوگی۔ عین ممکن ہے کہ حالات کے وقوع پذیر ہونے کا وہ آخری سلسلہ جس کی آخری کڑی ظہور دجال اور پھر قتل دجال ہے‘ اس کا آغاز غزوہ ہند سے ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا سبب جنوب ایشیا میں مسلمانوں کا قتل عام اور ان کا کلی صفایا کر دینے کے اقدامات ہوں جس کے آثار بد قسمتی سے پوری طرح نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔

امریکہ اور برطانیہ کے اس فیصلے کے تناظر میں ان کے مقاصد کو اس طرح ملخص کیا جا سکتا ہے:

۱۔ جنوب ایشیا میں مسلمانوں کو نہتا کرنا

۲۔ یہودیوں کے نقطہ نظر سے جنوب ایشیا میں نام نہاد اسلامی لہر کو روکنے کے لیے اسلامی سرگرمیوں‘ تشخصات اور ثقافت کا خاتمہ کرنا۔ اس صورت میں اس ایجنڈے کی طرف پیش رفت جس کے تحت پورے جنوبی ایشیا کو اسلامی جذبات وعواطف سے پاک کرنا اور بھارت میں مسلمانوں کو بہرصورت de-islamise کرنا یا انہیں Liquidation کی حد تک  Marginaliseکر دینا ناگزیر ہے۔ اگر حکمت عملی کی بنا یہی ہے اور ایسا نہیں لگتا کہ اس کے سوا کوئی اور بات یہودیوں کو منظور ہوگی تو اس صورت حال میں یہ وہ انقلابی تبدیلی ہے جو لازماً تاریخی رخ اختیار کرے گی اور پھر صورت حال ہر ایک کے قابو سے باہر ہو جائے گی۔

اسلامی تحریکیں اور مغربی بلاک

پروفیسر میاں انعام الرحمن

بیسویں صدی کے آخری دو عشرے اس لحاظ سے بہت اہمیت کے حامل ہیں کہ اس دوران میں عالمی سیاست کے رجحانات میں بنیادی تبدیلیاں واقع ہوئیں ۔ کمیونزم کی توسیع اور گرم پانیوں تک رسائی کے لیے سوویت یونین کی افغانستا ن میں مداخلت، سوویت یونین کی شکست وریخت، کشمیر کی تحریک آزادی میں شدت، اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حل کے لیے مغربی طاقتوں کی نام نہاد کوششیں، یوگوسلاویہ کا زوال اور بوسنیا کے مسلمانوں پر شرم ناک ظلم وستم۔ اگر ہم درج بالا امور کو ذہن میں رکھیں تو تبدیلی کی نہج اس طرح ترتیب پاتی ہے:

۱۔ سرد جنگ کا خاتمہ اور امریکہ کا یک قطبی طاقت کے طور پر ابھرنا،

۲۔ نئی مسلم ریاستوں کا ظہور،

۳۔ اسلامی تحریکوں کا اس زعم میں مبتلا ہونا کہ نئی ریاستیں ان کی مجاہدانہ سرگرمیوں کا نتیجہ ہیں،

۴۔ ا س زعم کی وجہ سے کشمیر کی تحریک آزادی میں تشدد کا در آنا،

۵۔ اسی زعم کا ایک خاص پہلو افغانستان کی ’’مثالی‘‘ امارت اسلامیہ کی صورت میں سامنے آیا اور اسلام کی تعبیر وتشریح اور اظہار میں عصری تقاضوں کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ یہ سمجھا گیا کہ اگر اتنی بڑی ایمپائر کو صرف ’’مجاہدانہ‘‘ سرگرمیوں سے گرایا جا سکتا ہے تو ظاہر ہے کہ زندگی کے باقی اموربھی پرانے طور طریقوں اور تشریحات سے انجام دیے جا سکتے ہیں۔

۶۔ اسلامی تحریکوں کا اپنی بساط سے بڑ ھ کو خود کو پیش کرنا۔ اس قسم کے دعوے کرنا کہ اکیسویں صدی اسلام کی صدی ہے، ہم نے سوویت یونین کو شکست دی ہے، کمیونزم کو شکست دی ہے، اب ہم مغربی دنیا سے بھی مقابلہ کرنے کو تیار ہیں، سرمایہ دارانہ نظام کی شکست وریخت ہمارے ہی ہاتھوں ہوگی وغیرہ وغیرہ۔

۷۔ مغرب کا اسلام کو ایک خطرے کے طور پر بھانپ لینا۔

اگر ہم ان نکات کو سامنے رکھیں تو مسلمانوں کی ’’سادگی‘‘ اس طرح ظاہر ہوگی کہ

۱۔ سوویت یونین کی شکست وریخت صرف ’’مجاہدانہ‘‘ سرگرمیوں کا نتیجہ نہیں تھی۔ اس جنگ کے دوران میں ایک بہت بڑا اور طاقت ور بلاک ان کی پشت پر تھا۔ اس بلاک کے اپنے مخصوص مقاصد تھے جن کے حصول کے لیے مسلمان اور اسلامی نظریہ کو استعمال کیا گیا۔

۲۔ خیال رہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کمیونزم کی توسیع بہت سرعت سے ہوئی جس سے شمالی امریکہ اور برطانیہ شدید خدشات کا شکار ہو گئے۔ اگر ہم دوسری جنگ عظیم کے وقت کی دنیا پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ تقریباً سارا یورپ سوائے برطانیہ کے، آمرانہ نظام کو اپنائے ہوئے تھا۔ جمہوریت صرف برطانیہ اور شمالی امریکہ تک محدود تھی۔ اس طرح جنگ سے پہلے بھی ان دو ملکوں کے لیے چیلنج موجود تھا جو جنگ کے بعد کمیونزم کی توسیع کی صورت میں موجود رہا۔ جنگ سے پہلے ان دونوں ملکوں نے جمہوریت کو بچائے رکھا۔ اب جنگ کے بعد جمہوریت کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کو بچانا بھی مقصود تھا۔ کمیونزم جس تیزی سے پھیل رہا تھا اور جتنا ڈسپلن اور تنظیم کمیونسٹوں میں موجود تھی، اس سے دونوں ممالک ہائی الرٹ ہو گئے اور نتیجے کے طور پر کمیونزم کی توڑ پھوڑ کے لیے زیادہ تیزی، ڈسپلن اور تنظیم سے کام کرنے لگے۔ اس سے ایک نکتہ سامنے آتا ہے کہ کمیونزم کا عروج اور پھیلاؤ اس کے زوال کا سبب بنا کیونکہ اسی بنا پر مقابل بلاک ہائی الرٹ ہو گیا اور Backlash effect (جوابی حملے) کے مصداق کمیونزم کی روک تھام کے لیے انتہائی اقدامات کیے گئے۔ مسلمان اور اسلامی نظریہ بھی انہی اقدامات کا ایک حصہ تھے۔

۳۔ اس Backlash effect کے اثر شمالی امریکہ اور برطانیہ تو اپنے مقاصد میں کام یاب ہو گئے۔ جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کو بچا لیا گیا لیکن بزعم خویش مسلمان بھی اپنے مقاصد میں کام یاب ہو گئے۔ نئی مسلم ریاستوں کا ظہور ہوا۔ یورپ کے قلب میں ایک مسلم ریاست بن گئی۔ جہاد کے ثمرات کی وجہ سے ’’جہاد‘‘ کو مزید تقویت پہنچی۔ کشمیر، فلسطین وغیرہ میں اسلامی تحریکیں شدت اختیار کر گئیں۔ افغانستان کے نوے فی صد حصے پر اسلامی حکومت قائم ہو گئی۔ پاکستان کو موقع مل گیا کہ افغان سرحد سے بے فکر ہو کر کشمیر پر اپنی توجہ مبذول رکھ سکے تاکہ جہاد کا ایک اور ’’ثمر‘‘ سامنے آ سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ریاستوں سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کی پلاننگ کرے کہ معاشی قوت بننے کا نادر موقع آپہنچا ہے وغیرہ۔

۴۔ اپنے مقاصد میں کام یابی کے حوالے سے ہم ایک بنیادی بات بھول گئے کہ یہ کام یابی صرف ہماری قربانیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس میں ٹیکنالوجی اور سرمایہ غیروں کا تھا۔ اس طرح اپنی استعداد کا غلط اندازہ لگاتے ہوئے ہم نے اپنا دائرہ کار وسیع کر لیا جس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔

۵۔ سوویت یونین اور کمیونزم کی شکست وریخت کو اپنی کام یابی گردانتے ہوئے اسلامی تحریکوں نے اپنی پروجیکشن اور تشہیر شروع کر دی، اپنا دائرہ کار بھی بڑھا لیا حالانکہ پہلے ان کی پشت پر کوئی موجود تھا جو ان میں موجود ’’کمی‘‘ کو پورا کر رہا تھا۔ اب جبکہ وہ پشت پر موجود نہیں رہا، اسلامی تحریکیں خود کو اسی طرح طاقت ور اور فعال خیال کر رہی ہیں۔ اس طاقت اور فعالیت کے ساتھ جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے، کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

۶۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی تحریکوں کو موجودہ صورتِ حال کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟ میرے خیال میں یہ وہی Backlash effect ہے جو شمالی امریکہ اور برطانیہ نے سوویت یونین کی روک تھام کے لیے اختیار کیا تھا۔ اسلامی تحریکوں کی پروجیکشن اور بڑھکیں اس Backlash effect کا سبب بنی ہیں۔ ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اسلامی تحریکوں کا پھیلاؤ اور احیا ہی ان کے زوال کا سبب بن رہا ہے۔ مغربی بلاک ہائی الرٹ ہو گیا ہے کیونکہ ہماری توسیع اور پلاننگ بغیر بنیاد کے تھی یعنی ہم نے دائرہ کار بڑھاتے ہوئے اپنی استعداد کا غلط اندازہ لگایا لیکن دائرہ کار مغربیوں کے Backlash effect کا سبب بن گیا۔ مغربی بلاک دائرہ کار کی وجہ سے ہماری طاقت اگر پچاس فی صد خیال کرتا ہے تو حقیقتاً ہماری طاقت دس فی صد ہے کیونکہ ہم نے مصنوعی انداز سے اپنا دائرہ کار پھیلا رکھا تھا حالانکہ اس کی استعداد نہیں تھی۔ اسی وجہ سے Backlash effect کے اثرات ہمارے لیے زیادہ شدید ثابت ہوں گے۔ اگر ہم سوویت یونین سے تقابلی جائزہ لیں تو شمالی امریکہ اور برطانیہ پچاس کی دہائی میں ہی ہائی الرٹ ہو چکے تھے۔ اس کی وجہ سینیٹر میکارتھی تھا۔ بہرحال سوویت یونین اتنا سخت جان ثابت ہوا کہ نہ صرف Backlash effect کے باوجود کئی عشرے سہار گیا بلکہ شمالی امریکہ اور برطانیہ کے لیے دردِ سر بنا رہا کیونکہ کمیونزم کا پھیلاؤ اور پروجیکشن اتنی مصنوعی نہیں تھی اور اس میں استعداد بھی موجود تھی۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمانوں اور اسلامی تحریکوں میں اتنی استعداد موجود ہے کہ وہ مغربی بلاک کے اس Backlash effect کو عشروں تک سہار سکیں؟ معروضی اور تجزیاتی جائزہ جواب نفی میں دیتا ہے۔

یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مغربی بلاک کے توسیع پسندانہ عزائم کے مقابلے میں بھی Backlash effect ممکن ہے؟ میرا خیال ہے نہیں کیونکہ سوویت یونین کے خلاف شمالی امریکہ اور برطانیہ ایسا اظہار کر سکتے تھے کہ ٹیکنالوجی اور اسٹریٹجی کے اعتبار سے دونوں ممالک سوویت یونین سے برتر تھے۔ اسی طرح ان کا Backlash effect مسلمانوں اور اسلامی تحریکوں کے حوالے سے بھی موثر ہے لیکن مسلمان اور اسلامی تحریکیں ایسا اظہار کرنے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں ہیں کیونکہ Backlash effect کے موثر ہونے کے تقاضے بھی ہیں اور ان تقاضوں کو پورا کرنے کی استعداد فی الحال ہم میں موجود نہیں۔

عصرِ حاضر میں اسلام کی تعبیر و تشریح ۔ مولانا منصوری کے ارشادات پر ایک نظر

عرفان الہی

مولانا محمد عیسیٰ منصوری کے مضمون ’’عصر حاضر میں اسلام کی تعبیر وتشریح‘‘ نے فکر وخیال کو مہمیز لگا دی۔ مدت سے جاری سست رفتار غور وفکر نے جلد ہی نتائج کو آئینہ خیال میں مشکل کر دیا۔ اس موضوع پر اپنے ناقص مطالعہ وفکر کے نتائج حسب ارشاد پیش خدمت ہیں جن میں کوئی بھی صحیح اضافہ وترمیم دل وجان سے قابل قبول ہوگا۔

جہاں تک مولانا منصوری کے اس ارشاد کا تعلق ہے کہ دعوت دین میں عقائد کی دعوت کو مقدم کیا جائے تو مجھے اس سے اتفاق ہے۔ یہی انبیاء کا نہج ہے۔ ا س میں مسلم مبلغین ومفکرین سے جو کوتاہی ہوئی یا ہو رہی ہے، ظاہر ہے۔ اسلام دلوں پر حکمرانی کرنے آیا ہے نہ کہ محض جسموں پر۔ البتہ دوسرے انبیاء علیہم السلام کے علاوہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سیرت میں دعوتِ دین کا کچھ مختلف انداز بھی سامنے آتا ہے ۔

مولانا منصوری کی یہ بات کہ اہل مغرب جو موجودہ اندازِ دعوت دین کی وجہ سے جس میں سیاسی پہلو غالب ہو، پہلے مرحلے پر ہی ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں اور انداز دعوت کے بدل جانے سے زیادہ کھلے اور ٹھنڈے دل سے اسلام کی دعوت کو سن سکیں گے، اس سے مجھے مکمل اتفاق نہیں۔ انفرادی سطح پر جزوی طور پر یہ بات درست ہو سکتی ہے مگر اجتماعی سطح پر ہرگز نہیں۔

قرآن مجید جو ابدی حقائق کی کتاب اور دعوتِ دین کا اصل ماخذ ومعلم ہے، ہمیں بتاتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام جب فرعون کے پاس تشریف لے گئے تو آپ کے کندھوں پر دہری ذمہ داری تھی:

۱۔ بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات دلانے کی جدوجہد

۲۔ فرعون اور اس کی قوم کو دعوتِ دین۔

فرعون کے دربار میں موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو اپنا اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کا تعارف بطور رسول خدا کرانے کے بعد جو پہلی بات فرمائی، وہ بنی اسرائیل کی رہائی کی بات تھی اور دوسری بات دعوت تھی۔

فَاْتِیَاہُ فَقُوْلاَ اِنَّا رَسُوْلاَ رَبِّکَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ وَلاَ تُعَذِّبْہُمْ قَدْ جِءْنَاکَ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ وَالسَّلاَمُ عَلیٰ مَنِ اتَّبَعَ الْہُدیٰ (طٰہٰ)

’’اس (فرعون) کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم آپ کے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دیجیے اور انہیں عذاب نہ کیجیے۔ ہم آپ کے پاس آپ کے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آئے ہیں اور جو ہدایت کی بات مانے، اس پر سلامتی ہو۔‘‘

اس کے بعد ہی موسیٰ علیہ السلام فرعون کو مفصل دعوت دیتے ہیں۔اس دعوت اور فرعون کے رد عمل کو ملاحظہ فرمائیے:

’’فرعون نے کہا کہ تمام جہانوں کا مالک کیا؟

(موسیٰ علیہ السلام نے) کہا کہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں میں ہے، سب کا مالک بشرطیکہ تم لوگوں کو یقین ہو۔

(فرعون نے اپنے ہالی موالی سے) کہا کہ کیا تم سنتے نہیں؟

موسیٰ بولے، تمہارا اور تمبارے باپ دادا کا مالک۔

فرعون نے کہا، یہ پیغمبر جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے، باؤلا ہے۔

موسیٰ نے کہا، مشرق اور مغرب اور جو کچھ ان دونوں میں ہے، سب کا مالک بشرطیکہ تم سمجھو۔

فرعون نے کہا، اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تمہیں مقید کر دوں گا۔

موسیٰ نے کہا، خواہ میں آپ کے پاس روشن چیز (یعنی معجزہ) لاؤں؟

فرعون نے کہا، اگر سچے ہو تو اسے لاؤ۔

پس انہوں نے اپنی لاٹھی ڈالی تو وہ اسی وقت صریح اژدہا بن گئی اور اپنا ہاتھ نکالا تو اسی دم سفید براق نظر آنے لگا۔

فرعون نے اپنے گرد کے سرداروں سے کہا، یہ کامل الفن جادوگر ہے۔ چاہتا ہے کہ تم کو اپنے جادو کے زور سے تمہارے ملک سے نکال دے۔ تو تمہاری کیا رائے ہے؟ (الشعراء)‘‘

اس ساری گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کا معاملہ کسی اور وقت کے لیے اٹھا نہیں رکھا بلکہ اصل دعوت پر بھی مقدم فرمایا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی دعوت توحید کو نہایت وضاحت اور سادگی سے پیش کیا جس سے کوئی اور پہلو نکالنا ممکن نہیں تھا مگر فرعون نے ان پر حکومت واقتدار کے حصول کی تہمت لگا دی تاکہ قوم فرعون بدک کر موسیٰ علیہ السلام کی دعوت سے کان لپیٹ لے اور ذہنی تناؤ کی کیفیت میں آجائے۔

موسیٰ علیہ السلام کی خواہش اور دعوت اس لیے تھی کہ

ھَلْ لَّکَ اِلیٰ اَنْ تَزَکیّٰ وَاَھْدِیَکَ اِلیٰ رَبِّکَ فَتَخْشیٰ (النازعات)

’’کیا تو چاہتا ہے کہ پاک ہو جائے اور میں تجھے تیرے پروردگار کا رستہ بتاؤ ں کہ تجھ کو خوف پیدا ہو؟

مگر فرعون کی حکمرانی کی چھٹی حس اس میں اپنے لیے خطرے کی بو محسوس کرنے لگی اور اس کا خدشہ کچھ غلط بھی نہ تھا۔ قرآن پاک ہی ہمیں بتاتا ہے کہ فرعون اور اس کی قوم جب اپنی نافرمانی کے ہاتھوں غرق ہو گئے تو بنی اسرائیل ہی وارث قرار پائے:

فَاَخْرَجْنَاھُمْ مِّنْ جَنَّاتٍ وَّعُیُوْنٍ وَّکُنُوْزٍ وَّمَقَامٍ کَرِیْمٍ کَذَالِکَ وَاَوْرَثْنَاھَا بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ (الشعراء)

’’تو ہم نے ان کو باغوں اور چشموں سے نکال دیا اور خزانوں اور باعزت مکانات سے ۔ (ان کے ساتھ ہم نے) اس طرح (کیا) اور ان چیزوں کا وارث بنی اسرائیل کو کر دیا۔‘‘

اہل مغرب اس وقت صرف ہماری دعوت کے مخاطب ہی نہیں، تنقید کے مورد بھی ہیں۔ وہ بالواسطہ اور بلا واسطہ اہل اسلام کے عظیم اور ناقابل تلافی نقصانات کے ذمہ دار ہیں۔ ہم دعوت دین کے وقت بھی اپنی قوم کو موسیٰ علیہ السلام کے اسوہ کی روشنی میں نظر انداز نہیں کر سکتے۔ مظلوم کی حمایت اگر سیاست کا جزو ہے تو اسے دعوت دین سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

اہل مغرب اس وقت معنوی طور پر تقریباً پوری دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ ہم خواہ کتنی ہی سادگی سے دعوت دیں، اہل مغرب کو اسلام کے روپ میں اپنے اقتدار کے لیے ایک خطرہ لازماً محسوس ہوگا۔ وہ اسی ذہنی تناؤ کا شکار ہوں گا جس کا شکار فرعون ہوا تھا کیونکہ اہل سیاست کی ذہنیت ایک ہی ہوتی ہے۔

دوسری مثال تاریخ رسالت سے ہمیں ملتی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے قیصر روم کو دعوتی خط لکھا تو اس نے یہ تبصرہ کیا:

’’اگر یہ نبی سچا ہے تو ایک دن میرا پایہ تخت اس کے قدموں کے نیچے ہوگا۔‘‘

رسول اللہ ﷺ کا خط ایک دعوتی خط تھا مگر اس حکمران کو بھی اس میں اپنے اقتدار کے لیے خطرہ محسوس ہوا اور یہ خدشہ بھی بے جانہ تھا۔ کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ اسلام خود کو دوسری حکومتوں کے لیے خطرہ کے طور پر پیش کرتا ہے مگر دوسری حکومتیں اس کو بہرحال اپنے لیے خطرہ گردانتی ہیں۔

مولانا منصوری نے اہل مغرب کے جس ذہنی تناؤ کا ذکر فرمایا ہے، وہ غالباً دعوت دینے والوں کے غلط انداز دعوت کی بنا پر ہوگا مگر صحیح انداز دعوت کے باوجود اس سے مکمل طور پر نجات ممکن ہوگی۔ ہاں صرف اس صورت میں اس ذہنی تناؤ کے رد عمل سے بچنا ممکن ہو سکتا ہے جب ہم اسلام کو محض انفرادی سطح تک ہی متعارف کرائیں اور اس کے نظام اجتماعی کی ہوا بھی نہ لگنے دیں مگر یہ اسلام کے ساتھ نادان دوستی ہوگی جس سے اس کا حقیقی چہرہ مسخ ہو جائے گا۔

آخر میں ایک یورپی نو مسلم محمد اسد کی کتاب Road to Makkah سے ایک اقتباس نقل کرتا ہوں جو معاملہ کی بہترین وضاحت پیش کرتا ہے:

’’جب اہل مغر ب کسی دوسرے مذہب یا تہذیب مثلاً ہندو مت یا بدھ مت کے بار ے میں بات کرتے ہیں تو وہ ان مذاہب اور اپنے تہذیبی نظریات کے بنیادی اختلافات سے ہمیشہ آگاہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے یا ان مذاہب اور تہذیبوں کے نظریات کی تعریف بھی کر دیتے ہیں لیکن یہ بات ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آتی کہ وہ ان کو اپنی تہذیب کے نعم البدل کے طور پر اپنا لیں کیونکہ وہ پہلے ہی سے اس کے ناممکن ہونے کا یقین کیے ہوتے ہیں۔ وہ ان اجنبی تہذیبوں کی حوصلہ افزائی متانت اور اکثر ہم دردی سے کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ اسلام کے بارے میں بات کرتے ہیں جو ان کے لیے ہندو مت اور بدھ مت کے فلسفوں جیسا اجنبی نہیں تو مغربی متانت ایک جذباتی قسم کے تعصب میں بدل جاتی ہے۔ بعض اوقات اس پر میں حیران ہوتا ہوں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی اقدار مغرب کے روحانی اور معاشرتی اقدار سے اس قدر قریب ہیں کہ انہوں نے اسلام کو مغربی نظریات کے نعم البدل کے طور پر ایک پوشیدہ چیلنج بنا دیا ہے۔‘‘

(Road to Makkah, page 4-5)


مولانا سید مظفر حسین ندویؒ

پروفیسر محمد یعقوب شاہق

۹ نومبر ۲۰۰۱ء کو آزادی کشمیر کے پہلے امیر المجاہدین اور ممتاز عالم دین مولانا سید مظفر حسین ندوی نے ۷۹ برس کی عمر میں دنیائے فانی کو الوداع کہا۔ مولانا کی وفات سے دور قدیم کے دینی مدارس کے پروردہ اصحاب کی وہ تاب ناک اخلاقی روایت دم توڑ گئی ہے جو اللہ تعالیٰ سے حقیقی تعلق، علم وفضل، تقویٰ، حق گوئی، انکسار، تزکیہ نفس، مصلحتوں سے بے نیاز، بے خوفی اور درویشی پر استوار تھی۔ وہ اتحاد امت کے داعی، شرافت کے پیکر اور اپنے احباب اور عزیزوں کے لیے سراپا شفقت ومحبت تھے۔ انہوں نے زندگی بھر اعلائے کلمۃ الحق کا پرچم اٹھائے رکھا۔

مولانا سید مظفر حسین ندویؒ ضلع باغ کے ایک گاؤں سوہاوہ شریف میں ۱۹۲۳ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گرامی کا نام سید محمد ایوب شاہ اور دادا کا نام سید علی شاہ المعروف پیر سوہاوی تھا۔ سادات گردیزیہ کے اس علمی گھرانے کی شہرت قبل از تقسیم ریاست پونچھ کے طول وعرض میں پھیلی ہوئی تھی اور دور دراز سے لوگ سفر کر کے یہاں اپنی روحانی پیاس بجھانے آتے تھے۔ سید مظفر حسین کی ابتدائی تعلیم کا آغاز گاؤں کے پرائمری اسکول سے ہوا۔ ان کو اس زمانے کے ایک گریجویٹ استاذ ماسٹر خلیل الرحمن سے پڑھنے کاموقع ملا جو ضلع ہزارہ سے تعلق رکھتے تھے۔ قرآن پاک ناظرہ اور ابتدائی دینی علوم کا آغاز سید لقمان شاہ سے کیا اور پھر دس گیارہ سال کی عمر میں ان کے والد محترم نے شیخ نبی بخش نظامی اور ممتاز مورخ محمد دین فوق جو ان دنوں پونچھ شہر میں تھے، کے مشورہ سے دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ برعظیم پاک وہند میں ندوہ میں مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ ندوہ کے اساتذہ میں تھے اور ان کے بڑے بھائی سید محمد علی دار العلوم کے ناظم تھے۔ چنانچہ انہوں نے کشمیر سے آنے والے بچے کو داخلہ دے دیا اور ہاسٹل میں قیام وطعام کا انتظام بھی کر دیا گیا۔ مولانا نے اس ادارہ میں دس برس تک تعلیم حاصل کی اور ۱۹۴۱ء میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد اسی ادارہ میں عربی ادب کے استاذ مقرر ہوئے اور ۱۹۴۶ء تک تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ۱۹۴۶ء میں ان کو ضلع پونچھ ریاست جموں وکشمیر میں تبلیغی مشن پر مامور کیا گیا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب تحریک پاکستان برعظیم کے طول وعرض میں چل رہی تھی اور کشمیر میں آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے پرچم تلے تحریک آزادی اپنے شباب پر تھی۔ چنانچہ آپ بھی تحریک آزادی سے وابستہ ہو گئے۔ ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کو جمعۃ الوداع کے دن سوہاوہ شریف کی مسجد میں آپ نے ایک انقلابی خطاب کیا جس کے نتیجے میں مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت نے آپ کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔ ۲۳ اگست ۱۹۴۷ء کو نیلا بٹ کے مقام پر جس عوامی اجتماع سے سردار عبد القیوم خان نے باغیانہ خطاب کیا تھا، ا س کی صدارت مولانا سید مظفر حسین ندوی نے کی تھی۔ اس وقت وہ نوجوان تھے اور عزم وہمت کے حوالے سے کوہ گراں تھے۔ چنانچہ عوامی تنظیم کے بعد ۲۶ اگست ۱۹۴۷ء کو جو جلوس باغ کی طرف روانہ ہوا، اس میں مولانا شامل تھے۔ یہ جلوس ہڈا ہاڑی کے مقام پر پہنچا جہاں ایک بڑے اجتماع میں ڈوگرہ حکومت کے خلاف اعلان جہاد کیا گیا۔ جلسہ کومنتشر کرنے کی غرض سے ڈوگرہ فوج نے گولی چلا دی اور نصف درجن مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔

اسی دوران میں تحریک آزادی کے لیے مسلمانوں کو مسلح کرنے کی ضرورت کے پیش نظر مولانا نے امیر المجاہدین مولانا فضل الٰہی چمر قندی سے رابطہ کیا اور کثیر تعداد میں رائفلیں حاصل کیں۔ ۳۰ ستمبر ۱۹۴۷ء کو مجاہدین کا ایک قافلہ جس کی قیادت سردار محمد عبد القیوم خان کر رہے تھے، کوہالہ سے چھ میل کے فاصلہ پر ’’باسیاں‘‘ کے مقام پر پہنچا اور وہاں ایک مسجد میں نماز عصر ادا کی۔ بعد از نماز اس بات پر بحث ہوئی کہ شرعی طریقہ پر جہاد کو منظم کرنے کے لیے ایک امیر کے ہاتھ پر بیعت کرنا ضروری ہے چنانچہ مشاورت کے بعد اتفاق رائے سے مولانا سید مظفر حسین ندوی کو امیر المجاہدین منتخب کیا گیا اور مجاہد رہنماؤں جن میں سردار محمد عبد القیوم خان، سید علی اصغر شاہ، محمد سلیم خان(بعد میں میجر)، راجہ محمد صدیق خان (بعد میں کرنل)، محمد سعید خان (بعد میں میجر)، محمد حیات خان (بعد میں کیپٹن) وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں، نے مولانا کے ہاتھ پر جہاد کے لیے بیعت کی۔ بیعت کے الفاظ کو ندوی صاحب نے لکھا اور آج تک یہ تحریر مولانا کے کتب خانہ میں محفوظ ہے۔ اس تحریر کے متن کا خلاصہ یہ ہے:

’’آج ہم اللہ کی راہ میں جہادشروع کر رہے ہیں۔ اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون نافذ کرنے اور کشمیر کے مسلمانوں کو ڈوگرہ حکمرانوں سے نجات دلانا ہمارا نصب العین ہے۔ ہم صرف مقابلہ کرنے والوں سے لڑیں گے۔ عورتوں‘ بچوں‘ بوڑھوں‘ معذوروں اور بیماروں پر یا ہتھیار نہ اٹھانے والوں پر ہم ہتھیار نہیں اٹھائیں گے۔ مال غنیمت کو بیت المال میں جمع کروائیں گے۔‘‘

اس بیعت کے بعد جنگی دستوں کی تنظیم کا کام سردار عبد القیوم خان کے سپرد کر دیا گیا۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء میں باغ شہر فتح ہو گیا اور مفتوحہ علاقوں میں جہادی شوریٰ نے مولانا سید مظفر حسین ندوی کو قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) مقرر کر دیا۔ آپ کے ساتھ کفل گڑھ کے مولانا امیر عالم خان‘ مولانا سید ثناء اللہ شاہ‘ مولانا محمد عبد الغنی‘ مولانا سید نظیر شاہ سوہاوی‘ مولانا عبد الحمید قاسمی عباس پوری کو مختلف شعبوں میں ان کے نائب کے طور پر کام کرنے کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔ مولانا محمد عبد الغنی مرحوم کو باغ بیت المال کا امیر مقرر کیا گیا۔

آزاد حکومت کے قیام کے بعد جب یہ عارضی انتظامیہ ختم ہو گئی تو سردار محمد ابراہیم خان بانی صدر نے مولانا سید مظفر حسین ندوی کو ’’انسپکٹر دینیات سکولز/ کالجز آزاد کشمیر‘‘ مقرر کیا جبکہ دوسرے علماء کرام کو محکمہ افتا میں لگا دیا گیا۔ دو برس کے بعد مولانا کو مظفر آباد ڈگری کالج میں بطور پروفیسر اسلامک اسٹڈیز لگایا گیا اور دو برس کے بعد وہ آزاد کشمیر محکمہ امور دینیہ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور ریٹائرمنٹ تک اسی عہدہ پر کام کرتے رہے۔ مزید برآں وہ پبلک سروس کمیشن آزاد کشمیر کے مستقل ممبر اور اسلامی نظریاتی کونسل آزاد کشمیر کے رکن بھی رہے۔ ۱۹۸۳ء میں وہ ساٹھ برس کی عمر پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔ ۱۹۵۱ء میں جب مفتی اعظم فلسطین جناب سید امین الحسینی پاکستان اور آزاد کشمیر کے دورہ پر آئے تو آپ نے کوآرڈی نیٹر اور مترجم کے فرائض سرانجام دیے۔ 

مولانا نے اپنی تدریسی زندگی کے دوران میں ابتدا سے میٹرک کی سطح تک ’’نور ایمان‘‘ کے نام سے اسلامیات کے مضمون کے لیے ایک سلسلہ کتب تصنیف کیا اور یہ نصاب کئی برس تک آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں میں رائج رہا۔ ’’نور ایمان‘‘ کے اس سلسلے کو کینیا (افریقہ) کے نصاب تعلیم میں بھی جگہ دی گئی۔ مولانا کی آخری تحریر راقم الحروف کی کتاب ’’فیض الغنی‘‘ کا پیش لفظ ہے۔ اس کتاب کا پیش لفظ لکھنے کی درخواست کے ساتھ جب میں ان کے گھر مظفر آباد حاضر ہوا تو وہ علالت کی زندگی گزار رہے تھے لیکن انہوں نے کتاب کا مسودہ رکھ لیا اور دوسرے تیسرے دن ’’پیش لفظ‘‘ لکھ کر حوالے کر دیا۔

مولانا نے بھرپور زندگی گزاری۔ سرکاری ملازمت بھی کی او رمنبر ومحراب سے بھی عمر بھر ان کا تعلق رہا۔ آزاد کشمیر میں جتنے سربراہان حکومت برسراقتدار آئے‘ کم وبیش سب نے مولانا کو بے حد احترام دیا اور ان کی تلخ باتوں سے چشم پوشی اختیار کی۔ مولانا منہ پر کبھی حق بات کہنے سے باز نہ آئے۔ وہ کسی اعلیٰ سطحی اجلاس میں ہوتے یا مسجد کے منبر پر‘ ان کی حق گوئی ضرب المثل بن چکی تھی۔ وہ تصنع‘ بناوٹ اور سخن سازی کے فن سے ناآشنا تھے۔ ان کی زبان خوشامد سے کبھی آلودہ نہیں ہوئی۔

۷ اکتوبر کو جب افغانستان پر امریکی بمبار ہوائی جہازوں نے حملہ کیا تو یہ خبر بجلی بن کر ان پر گری۔ دوہا میں او آئی سی کے وزراء خارجہ کے اجلاس کی روداد دیکھ کر ان کے دل پر چوٹ لگی اور اس کے بعد وہ بہت مختصر بات کرتے تھے۔ ان کے اہل خانہ اور فرزندوں کا بیان ہے کہ قوت گویائی کم ہونے کے باوجود ان کے ہوش وحواس قائم تھے۔ ان کو کاغذ اور قلم دیا گیا تاکہ وہ آخری نصیحت لکھ سکیں۔ انہوں نے مضبوطی سے قلم ہاتھ میں لیا اور آخری الفاظ لکھے جو یہ تھے: ’’امریکہ .....مردہ باد‘‘ اور کچھ لمحات کے بعد ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی:

مقام گریہ ہے اہل قفس کہ فصل بہار 
گلوں کو خاک میں خود ہی ملا کے آئی ہے

سیدنا عمرؓ اور قتلِ منافق کا واقعہ ۔ مولانا حافظ مہر محمدکا مکتوبِ گرامی

ادارہ

عزیزم مولانا عمار ناصر صاحب زید لطفکم

اللہ تعالیٰ آپ کے علم وعمل اور ریسرچ وتحریر میں اضافہ فرمائے۔ آپ کے کئی مضامین واقعی علمی اور بصیرت افروز ہوتے ہیں۔ اللہم زد فزد۔ 

مگر الشریعہ دسمبر ۲۰۰۱ء کے شمارے میں ’سیدنا عمرؓ اور قتلِ منافق کا واقعہ‘ نفی میں پڑھ کر بہت دکھ ہوا۔ ایسے واقعات کچھ راویوں کی بدولت اگرچہ محدثانہ معیار سے صحت کے اعلیٰ درجہ پر نہ بھی ہوں مگر تواتر وشہرت، اصولِ ایمان اور عقائدِ اسلام کے معیار پر ہوں تو ان پر رد وقدح مناسب نہیں۔ اس کی مثال، جیسے میں نے سنا ہے کہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ العالی نے جوانی میں جب ’گلدستہ توحید‘ تصنیف فرمایا تو صحیحین کی روایات کی بنا پر ہادی اعظم ﷺ کے والدین کے ایمان پر بھی بحث کر دی۔ جب حضرت امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے فرمایا: ’’یہ بات کتاب سے خارج کر دو۔ ہمارے ایمان اور سوال وجواب سے اس کا تعلق نہیں۔ اس سے آپ ﷺ مغموم ہوں گے۔‘‘ او کما قال۔ چنانچہ حضرت استاذیم دامت برکاتہم نے ’گلدستہ توحید‘ سے اسے بالکل نکال دیا ہے۔

آپ بھی اور کبھی برادر محترم مولانا آپ کے عم مکرم ایسے منفرد تحقیقی مضامین سے پرہیز کریں جن کو دوسرے فرقے ہتھیار بنا کر ہمارے خلاف استعمال کریں۔ یہ مضمون کسی اور پرچہ میں آپ کے نام کے بغیر ہو تو رافضی کی تنقید ہی سمجھی جائے گی کیونکہ وہ صحابہ کرامؓ کے تحفظ ودفاع میں ہر آیت وحدیث پر تنقید کرتے ہیں۔

میرے پاس وقت نہیں کہ آپ کے مضمون کا مناقشہ کروں۔ سرِ دست تین تفسیروں کا حوالہ سامنے ہے۔ ابن جریر طبری کا ذکر تو آپ بھی کر چکے ہیں۔ تفسیر فخر الدین رازی ج ۱۰، ص ۱۵۷ بیروت میں ہے:

’’مسئلہ دوم: مفسرین نے اصابتہم مصیبۃ کہ ان منافقوں کو مصیبت پہنچی کی تفسیر میں کئی باتیں لکھی ہیں۔ پہلی یہ کہ حضرت عمرؓ کا ان منافقوں کے اس ساتھی کو قتل کرنا جس نے اقرار کیا تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ پر راضی نہیں ہے۔ پس وہ حضور علیہ السلام کے پاس حضرت عمرؓ کے خلاف مقدمہ لے کر آ گئے اور قسم اٹھائی کہ ہمارا مقصد غیر رسول کے پاس جانے سے اصلاح تھی ۔ یہ زجاج کا پسندیدہ ہے۔‘‘

یہی کچھ اس رکوع کے شان نزول میں سب مفسرین نقل کرتے ہیں۔ علماء دیوبند بھی یہی لکھتے ہیں۔ مثلاً مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ ’معارف القرآن‘ میں لکھتے ہیں:

’’چند اہم مسائل: اول یہ کہ وہ شخص مسلمان نہیں جو اپنے ہر جھگڑے اور ہر مقدمے میں رسول کریم ﷺ کے فیصلہ پر مطمئن نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت فاروق اعظمؓ نے اس شخص کو قتل کر ڈالا جو آنحضرت ﷺ کے فیصلے پر راضی نہ ہو اور پھر معاملہ کو حضرت عمر کے پاس لے گیا۔ اس مقتول کے اولیا (منافقین) نے رسول اللہ ﷺ کی عدالت میں حضرت عمرؓ پر دعویٰ کر دیا کہ انہوں نے بلاوجہ ایک مسلمان کو قتل کر دیا۔‘‘ الخ (ج ۲، ص ۴۶۱)

تفسیر مدارک نسفی ج ۱، ص ۳۷۲ بر حاشیہ تفسیر خازن مطبوعہ بیروت میں ہے:

فدخل عمر فاخذ سیفہ فضرب بہ عنق المنافق فقال ھکذا اقضی لمن لم یرض بقضاء اللہ ورسولہ فنزل جبریل علیہ السلام ان عمر فرق بین الحق والباطل فقال رسول اللہ ﷺ انت الفاروق۔

تو حضرت عمرؓ اندر گئے، تلوار لے کر اس منافق کی گردن اڑا دی۔ پھر فرمایا، میرا فیصلہ اس شخص کے حق میں یہی ہے جو کہ خدائے پاک اور حضرت رسول اللہ کے فیصلے کو نہ مانے۔ تب جبریل علیہ السلام نے آکر کہا، حضرت عمرؓ نے حق اور باطل میں فرق کر دیا ہے۔ تو حضور ﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا: آپ ’’فاروق‘‘ ہیں۔

اور لباب التاویل تفسیر خازن ص ۳۷۳ میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ یہ بشر نامی منافق کے بار ے میں اتری جسے حضرت عمرؓ نے قتل کر کے ٹھنڈا کر دیا تھا۔ الخ

آپ اپنی مزید تسلی کے لیے تفسیر عثمانی ص ۱۱۲، تفسیر بیان القرآن تھانویؒ اور معالم العرفان مولانا عبد الحمید سواتی پر مقام ہذا دیکھ لیں۔ پھر اس کا شان نزول -- طاغوت کعب بن اشرف کی طرف جانا، مصیبت کا تعین، آپ ﷺ کے فیصلے سے اعراض -- خود بتا دیں۔

آپ کے تین درایتی اعتراضات کا جواب یہ ہے:

۱۔ منافقوں نے حضرت عمرؓ کے خلاف خوب پراپیگنڈا کیا۔ تفسیر، سیرت اور حدیث کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ تلاش شرط ہے۔

۲۔ حضرت عمرؓ کو مغلوب الغضب کہنا بھی شان ایمان کا اعتراف ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جذبہ توحید سے مغلوب ہو کر حضرت ہارون علیہ السلام کا سر غصہ سے جھنجھوڑا یا جیسے حضرت علی المرتضیٰ نے رد شرک کے غصے میں اپنے ۷۰ حب داروں کو زندہ آگ میں جلا دیا (مشکوٰۃ)جو آپ کو حاجت روا، مشکل کشا، کارساز، عالم الغیب، مختار کل، رب اور خدائی صفات والا کہتے تھے حالانکہ زندہ کو آگ میں جلانے کی صریح ممانعت ہے کہ اللہ کے سوا آگ کا عذاب کوئی نہ دے۔ اور سبائی مشرکوں نے اسی حدیث سے حضرت علیؓ کی ربوبیت پر استدلال کیا اور آگ میں جل گئے۔ جیسے اب بھی یا علی مدد کہہ کر آگے پر چلتے اور جلتے ہیں۔ یا جیسے اب طالبان نے اپنا سب کچھ قربان کر کے امریکہ طاغوت کے آگے سر نہیں جھکایا۔

۳۔ منافق کا قتل خلافِ شرع نہیں۔ ارشاد خداوندی ہے ’’کفار اور منافقین سے جہاد کریں اور ان پر خوب سختی کریں۔’’ گو یہ آپ ﷺ کے شایانِ شان نہ تھا مگر حضرت ابوبکرؓ نے زکوٰۃ کے منکروں، مرتدوں، مسیلمہ کذاب اور بنو حنیفہ سے جنگ کر کے اور حضرت علیؓ نے خوارج سے جنگ کر کے خدا ورسول کا یہ حکم پورا کر دکھایا۔

والسلام ۔ آپ کا چچا

مہر محمد میانوالوی

حکومت اور دینی مدارس ۔ دینی مدارس کے بارے میں ایک سرکاری رپورٹ

ادارہ

ملک بھر میں تمام دینی اداروں کا مکمل طور پر کریک ڈاؤن ممکن ہے نہ کسی انتظامی ایکشن سے سو فیصد دینی ادارے بند کیے جا سکتے ہیں۔ اس بارے میں صوبوں کے محکمہ داخلہ کے حکام کی طرف سے وفاقی حکومت کو پچھلے دنوں آگاہ کیا گیا ہے کہ اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق ۱۰ لاکھ سے زائد بچے پنجاب‘ سندھ‘ سرحد اور بلوچستان میں قائم مختلف اداروں میں دینی تعلیم وتربیت حاصل کر رہے ہیں جبکہ ان اداروں کی تعداد کئی ہزار ہے جس میں سے ۱۰ فیصد کے قریب ایسے ادارے ہیں جن کے بارے میں مختلف حساس اداروں کے توسط سے حکومت کو یہ اطلاعات مل چکی ہیں کہ ان کے ہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جہاد کی تربیت بھی دی جاتی ہے اور اس حوالے سے انہیں اس میں بطور نوجوان اور مسلمان کے بھرپور حصہ لینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ان دس فیصد میں سے ۷‘ ۸ فیصد اداروں کے پاس ہر قسم کا اسلحہ وغیرہ موجود ہے جس کے بارے میں پولیس اور دیگر اداروں کے پاس مکمل معلومات ہیں۔ ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کو بعض ذمہ دار حلقوں کی طرف سے یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ حکومت بھی مختلف علماء کرام کی خدمات حاصل کر کے سرکاری سرپرستی میں ’’دار العلوم‘‘ کی طرز پر ایک ادارہ قائم کرے جس میں نوجوان نسل کو جدید ترین نصاب کے ساتھ اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا جا سکے۔ اس ادارے کی شاخیں پہلے مرحلے میں چاروں صوبوں اور پھر مختلف اہم مقامات پر قائم کی جائیں۔ ان ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کو یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ کسی بھی غیر ملکی دباؤ پر دینی اداروں کا کریک ڈاؤن شروع کرنے کے بجائے ان کو جدید ترین نصاب تعلیم رائج کرنے پر مجبور کیا جائے۔ ان اداروں کے حالات بہتر بنانے کے لیے حکومت خود اپنے وسائل سے ضروری اقدامات کرے۔ اس کے علاوہ معروف دینی اداروں کو مختلف تعلیمی بورڈز سے منسلک کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنے پر غور کیا جانا چاہیے۔ ان ذرائع کے مطابق اس وقت مختلف دینی اداروں میں ۶۰ فیصد سے ۷۰ فیصد طالب علم وہ ہیں جو کئی وجوہ کی بنا پر بے سہارا ہیں لیکن یہ دینی ادارے ان کی پرورش اور سرپرستی کر رہے ہیں۔ حکومت کو اس سلسلے میں بھی ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے بے سہارا اور یتیم بچوں کو تعلیم وتربیت کے بہتر سے بہتر مواقع فراہم کیے جا سکیں۔

(نوائے وقت‘ ۱۳ دسمبر ۲۰۰۱ء)

دینی مدارس کے وفاقوں کا مشترکہ اعلان

ملک بھر کے تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس کی تعلیمی تنظیمات کے اجلاس میں وفاق المدارس العربیہ کے صدر مولانا سلیم اللہ خان اور ناظم اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ‘ رابطۃ المدارس الاسلامیۃ پاکستان کے ناظم اعلیٰ مولانا عبد المالک اور مولانا فتح محمد مہتمم جامعہ مرکز علوم اسلامیہ منصورہ‘ تنظیم المدارس پاکستان کے صدر مولانا مفتی عبد القیوم ہزاروی اور ناظم اعلیٰ مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی‘ وفاق المدارس الشیعہ کے سیکرٹری جنرل مولانا سید محمدعباس نقوی اور مولانا محمد افضل حیدری‘ وفاق المدارس السلفیہ کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد یونس اور جامعہ اشرفیہ کے نائب مہتمم مولانا حافظ فضل الرحیم نے شرکت کی۔ مرکزی میڈیا سیل کے مطابق اجلاس کی صدارت رابطۃ المدارس الاسلامیۃ پاکستان کے صدر مولانا عبد المالک نے کی۔ ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان‘‘کے رابطہ سیکرٹری مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے دینی مدارس کے خلاف عالمی سازش پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کے خلاف متحدہ جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا اور مدارس کے سلسلے میں سرکاری حلقوں کی جانب سے مجوزہ اقدامات پر تنقید کی۔

اجلاس سے مولانا سلیم اللہ خان‘ مولانا مفتی عبد القیوم ہزاروی‘ مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی‘ مولانا عبد المالک‘ مولانا سید عباس نقوی اور مولانا محمد یونس نے بھی خطاب کیا۔ شرکا نے اس موقف کا اعادہ کیا کہ مدارس اپنے عظیم ماضی کی شاندار روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ہمت واستقامت کے ساتھ دین اسلام کی ترویج اور ملک وملت کی تعمیر میں اپنا سفر جاری رکھیں گے اور اس کی راہ میں ہر قسم کی اندرونی اور بیرونی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مدارس دینیہ کی آزادی وخود مختاری کا ہر قیمت پر دفاع کیا جائے گااور کسی بھی قسم کی حکومتی مداخلت ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔ مختلف حلقوں کی جانب سے مدارس دینیہ پر لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات مخصوص اہداف حاصل کرنے کے لیے غیر ملکی اسلام دشمن قوتوں کے ایجنڈا کا حصہ ہیں جن کو کلی طور پر رد کیا جاتا ہے اور اس لب ولہجہ کی سخت مذمت کی جاتی ہے۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے کیے جانے والے گمراہ کن اور بے بنیادی پراپیگنڈے کے جواب میں حقائق کو واضح کرنے‘ رائے عامہ کو دینی مدارس کی عظمت سے آگاہ کرنے اور دینی اداروں کی گراں قدر خدمات کو اجاگر کرنے کے لیے پورے ملک میں صوبائی دار الحکومتوں میں صوبائی کنونشن اور مرکزی سطح پر اسلام آباد میں تحفظ عظمت مدارس کنونشن منعقد کیے جائیں گے۔ پہلا صوبائی کنونشن جامعہ نعیمیہ لاہور میں ۶ جنوری کو‘ دوسرا صوبائی کنونشن بنوری ٹاؤن کراچی میں ۲۰ جنوری کو‘ تیسرا صوبائی کنونشن جامع مسجد درویش پشاور میں ۳ فروری کو منعقد ہوگا۔ مرکزی کنونشن ۱۰ فروی کو اسلام آباد میں منعقد ہوگا جس میں تمام مکاتب فکر کے ہزاروں مدارس دینیہ کے لاکھوں علماء کرام‘ طلباء اور ملت کے نمائندہ وفود شریک ہوں گے۔ اجلاس میں وہ قراردادیں بھی منظور کی گئیں جن میں مطالبہ کیا گیا کہ مظلوم افغان بھائیوں کی حمایت اور عالمی دہشت گرد امریکہ کے مظالم کے خلاف حالیہ احتجاجی تحریک کے تمام قائدین قاضی حسین احمد‘ مولانا فضل الرحمن‘ لیاقت بلوچ‘ مولانا عطاء المومن بخاری‘ مولانا سمیع الحق اور تمام گرفتار شدگان کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور ملک کے معروف سکالر اور جامعہ نعیمیہ کے مہتمم ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو خطابت کے منصب سے برطرف کرنے کی ناروا کارروائی کو منسوخ کر کے انہیں ان کے عہدے پر فوری طور پر بحال کیا جائے۔ ایک اور متفقہ قرارداد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فوری طور پر وطن عزیز سے غیر ملکی فوجوں کو نکالے اور قومی امور میں واضح طور پر کی جانے والی بیرونی مداخلت کو ختم کرے۔ (روزنامہ اوصاف‘ ۷ دسمبر ۲۰۰۱ء)

حدود آرڈی نینس‘ لاہور ہائی کورٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل

لاہور ہائی کورٹ نے اجتماعی بد اخلاقی کے مجرموں کو موت سے کم سزا نہ دینے سے متعلق قانون کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو حدود آرڈی ننس کی دفعہ ۱۰ (۴) میں ترمیم کا جائزہ لینے کی ہدایت کر دی ہے۔ اس ضمن میں مسٹر جسٹس خواجہ محمد شریف اور مسٹر جسٹس ایم نعیم اللہ شیروانی نے قرار دیا ہے کہ جب قتل جیسے سنگین مقدمات میں مجرم کو عمر قیدکی سزا دی جا سکتی ہے تو اجتماعی بد اخلاقی کے مجرموں کے کم از کم عمر قید کی سزا مقرر کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔ فاضل جج نے قرار دیا کہ ہمیں بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اجتماعی بد اخلاقی کے ایسے مقدمات جن کے مجرم عمر قید کے مستحق ہوتے ہیں‘ ہم ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ قانون انہیں موت سے کم سزا دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ فاضل جج نے اپنے فیصلے کی نقل وفاقی سیکرٹری قانون کو بھجواتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ معاملہ حکومت کے ذمہ داروں کے نوٹس میں لایا جائے تاکہ ترمیم کے ذریعے اجتماعی بد اخلاقی کے مجرموں کے لیے موت کے ساتھ عمر قید کی سزا بھی مقرر کی جا سکے۔ فاضل بنچ نے کہا کہ زیر نظر کیس میں ہم اپیل کنندگان کی سزائے موت کو عمر قید میں بدلنا بھی چاہیں تو ایسا نہیں کر سکتے۔ زیر نظر کیس میں بد اخلاقی کا نشانہ بننے والی کنیز بی بی اور اس کے والدین نے مجرموں کو معاف کر دیا ہے لیکن یہ جرم ناقابل راضی نامہ ہونے کی وجہ سے مجرموں کو نہیں چھوڑا جا سکتا تاہم عدالت ان کے لیے اتنا ضرور کر سکتی تھی کہ ان کی موت کی سزا کو عمر قید میں بدل دیتی لیکن قانون نے عدالت کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ پنڈی بھٹیاں کے ارشاد اور اشرف منظور کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے کنیز بی بی سے اجتماعی بد اخلاقی کے جرم میں موت کی سزا سنائی تھی جس کے خلاف مجرموں نے اپیل دائر کی تھی۔ دوران سماعت اپیل کنندگان کے وکیل نے نکتہ اٹھایا کہ ایک مجرم ارشاد کی عمروقوعہ کے وقت اٹھارہ سال سے کم تھی اور مروجہ قانون کے مطابق ۱۸ سال سے کم عمر نابالغ ملزم کو موت کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ فاضل بنچ نے یہ اعتراض مسترد کر دیا اور قرار دیا کہ ۱۸ سال سے کم عمر کے مجرم کو سزائے موت نہ دینے کا اصول حدود کے مقدمات پر لاگو نہیں ہوتا۔ ایسا کم عمر مجرم جو بد اخلاقی کی صلاحیت رکھتا ہو‘ اسے بالغ تصور کیا جائے گا اور اسے پوری سزا ملے گی۔ فاضل بنچ نے اپیل مسترد کر دی تاہم اپنی آبزرویشنز کے ساتھ فیصلہ کی نقل وزارت قانون کو بھجوا دی ہے۔ (روزنامہ پاکستان‘ ۸ دسمبر ۲۰۰۱ء)

اسلامی نظریاتی کونسل نے قرار دیا ہے کہ شرعی لحاظ سے کسی بھی اتھارٹی کو حدود اللہ معاف کرنے یا ان میں تخفیف کرنے اور ان کو کسی دوسری سزا میں تبدیل کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ اسی طرح قصاص معاف کرنے کا اختیار بھی کسی اتھارٹی کو حاصل نہیں ہے البتہ اولیا یا ان میں سے کوئی قصاص معاف کر سکتا ہے جبکہ تعزیری سزاؤں میں صدر‘ گورنر‘ وفاقی یا صوبائی حکومتیں ایسی سزائیں معاف کرنے یا ان میں کوئی تبدیلی وتخفیف کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔ کونسل نے یہ ریمارکس اپنے حالیہ اجلاس میں ایک شہری کی جانب سے ’’عدالتوں کی جانب سے دی جانے والی سزائیں۔ معاف کرنے کے اختیار پر شرعی نقطہ نظر‘‘ کے زیر عنوان بھیجے جانے والے خط پر تفصیل بحث کے دوران دیے۔ کونسل نے کہا کہ ۱۹۷۳ء کے آئین کے آرٹیکل ۴۵ کے تحت صدر پاکستان کو کسی بھی عدالت‘ ٹربیونل یا دیگر ہیئت مجاز کی دی ہوئی سزا کو معاف کرنے‘ ملتوی کرنے‘ تخفیف کرنے‘ معطل کرنے یا تبدیل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ مجموعہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۴۰۱‘ ۴۰۲ کے تحت صوبائی حکومتوں کو بھی سزا معاف کرنے‘ مہلت دینے یا اسے تبدیل کرنے کا اختیار حاصل ہے البتہ دفعہ ۴۰۱ کی ذیلی شق ۲ میں صوبائی حکومتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ سزا کی معطلی یا تخفیف کے لیے درخواست موصول ہونے کے بعد اس جج سے رائے طلب کرے گی جس نے سزا سنائی ہو۔ اسی طرح پرونان رول ۱۹۷۸ء میں سزا کی تخفیف کے جو قواعد بیان کیے گئے ہیں‘ ان کی رو سے کسی قیدی کے اچھے چال چلن یا بعض امتحانات پاس کرنے کی بنا پر اس کی سزا میں تخفیف کی جا سکتی ہے لہذا عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزا میں جو تبدیلی یا تخفیف کی جاتی ہے‘ وہ ملک کے قانون کے تحت ہی ہوتی ہے۔ کونسل نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۴۰۱‘ ۴۰۲ اور ۴۰۳ الف کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان دفعات میں حکومت کی جانب سے سزاؤں کے تعطل‘ تخفیف اور معافی کے بارے میں احکام درج ہیں مگر شریعت کے مطابق حدود کے بارے میں حکومت اس قسم کے اختیارات استعمال نہیں کر سکتی اور قصاص کی صورت میں صرف ولی مقتول ہی دیت معاف کر سکتا ہے۔ لیکن جہاں حکومت ولی ہو‘ وہاں صلح کرتے ہوئے دیت بھی منظور کر سکتی ہے البتہ تعزیرات کے دیگر معاملات میں حکومت کو سزا کے تعطل اور معافی کے اختیارات حاصل نہیں بشرطیکہ ان سے حقوق العباد متاثر نہ ہوتے ہوں۔ ایسی معافی ان تعزیرات یعنی جرائم موجب تعزیر میں نہیں ہوگی جو حقوق اللہ سے متعلق ہوں جیسے اجنبی عورت کا بوسہ لینا۔ کونسل نے محسوس کیا ہے کہ یہ دفعات شریعت کے ان متذکرہ اصولوں کے مطابق نہیں لہذا کونسل یہ سفارش کرتی ہے کہ ان دفعات میں شریعت کے احکام متذکرہ بالا کی روشنی میں مناسب ترامیم کی جائیں اور شریعت کی رو سے دفعہ ۴۰۲ ب میں بھی مناسب ترمیم کی جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس مسئلے پر مزید رائے کے لیے اسے کونسل کی قانونی کمیٹی کے حوالے کر دیا ہے جو کونسل کے آئندہ اجلاس تک ان دفعات کے حوالے سے شرعی احکام کے مطابق اپنی رپورٹ تیار کر کے پیش کرے گی۔

(روزنامہ نوائے وقت‘ راول پنڈی‘ ۳۰ دسمبر ۲۰۰۱ء)

فروری ۲۰۰۲ء

جمہوریت‘ مسلم ممالک اور امریکہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مسلمانوں کا عالمی کردار کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟مولانا حافظ صلاح الدین یوسف
مسلمانان عالم کے لیے لائحہ عملمولانا محمد عیسی منصوری
عصری تقاضے اور اسلام کی تعبیر وتشریحپروفیسر میاں انعام الرحمن
مدارس دینیہ کے مالیاتی نظام کے بارے میں دار العلوم کراچی کا ایک اہم فتویٰادارہ
پاکستان شریعت کونسل کی صوبائی شوریٰ کا اجلاسادارہ
تعارف و تبصرہادارہ
صدر پاکستان کی خدمت میں ایک ضروری عرض داشتادارہ

جمہوریت‘ مسلم ممالک اور امریکہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امریکہ کے سابق صدر کلنٹن ان دنوں فکری ونظریاتی محاذ پر سرگرم عمل ہیں اور امریکی پالیسیوں کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے مسلسل کردار ادا کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا اور مختلف اجتماعات سے خطاب کرنے کے علاوہ عالم اسلام کی محترم مذہبی شخصیات جامعہ ازہر کے امام اکبر اور حرمین شریفین کے امام محترم سے بھی ملاقات کی اور اس دوران انہوں نے سعودی عرب اور دیگر مسلمان ملکوں کے تعلیمی نظام کو ہدف تنقید بناتے ہوئے تلقین کی کہ وہ تعلیمی نصاب میں تبدیلی کریں اور خا ص طور پر اس میں عقیدہ پر زور دینے کے عنصر پر نظر ثانی کریں۔ جناب کلنٹن نے گزشتہ دنوں نیو یارک میں ایک سیمینار کا اہتمام بھی کیا جس کے انتظامات خود ان کی قائم کردہ ’’کلنٹن پریسڈ نیشنل فاؤنڈیشن‘‘ نے کیے اور ان کے ساتھ اس سلسلے میں نیو یارک یونیورسٹی آف لا اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے مسلم کرسچین سنٹر نے بھی میزبانی کے فرائض میں شرکت کی۔ اس سیمینار میں دو سو کے لگ بھگ اہم مدعوین شریک تھے اور متعدد مسلم دانش وروں نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے امت مسلمہ اور عالم اسلام کے حوالے سے امریکی پالیسیوں پر کڑی نکتہ چینی کی۔ 

سیمینار کے حوالے سے نہ تو ساری تفصیلات اس خبر کا حصہ ہیں جو اس وقت ہمارے سامنے ہے اور نہ سب باتوں پر اس کالم میں تبصرہ ہی کیا جا سکتا ہے البتہ ایک پہلو جو زیادہ قابل توجہ ہے‘ اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ ’’امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن کی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک اجلاس میں مسلم دانش وروں نے امریکہ پر الزام عائد کیا کہ وہ اسرائیل کی یک طرفہ طور پر حمایت کر رہا ہے۔ ان دانش وروں نے امریکہ کو مسلم دنیا میں جمہوریت کو فروغ دینے میں ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا۔ تاہم کلنٹن نے مشرق وسطیٰ کے تعلق سے اپنے نظم ونسق کی پالیسیوں کی مدافعت کی اور مسلم مفکرین کے ان الزامات کو مسترد کر دیا کہ گیارہ ستمبر سے قبل مسلم شدت پسندی کے لیے کلنٹن اور ان کے جانشین کی پالیسیاں ذمہ دار ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ساتھ ہی انہوں نے مباحثہ کے دوران ایڈریل کالج کے پروفیسر مقتدر خان کی اس بات سے اتفاق کیا کہ امریکہ نے مسلم دنیا میں جمہوریت کو فروغ دینے میں کوئی خاص کام نہیں کیا۔‘‘

ہمیں جس نکتہ پر اظہار خیال کرنا ہے‘ وہ یہ ہے کہ ’’مسلم دانش وروں نے امریکہ کو مسلم دنیا میں جمہوریت کو فروغ دینے میں ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا‘‘ جس کے جواب میں کلنٹن صاحب نے کسی حد تک اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے یہ کہا کہ ’’امریکہ نے مسلم دنیا میں جمہوریت کو فروغ دینے میں کوئی خاص کام نہیں کیا‘‘ مگر ہمارا موقف ان دونوں سے مختلف ہے اور پورے شرح صدر کے ساتھ ہماری گزارش یہ ہے کہ امریکہ نے صرف یہ نہیں کہ مسلم دنیا میں جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے کوئی خاص کام نہیں کیا اور وہ مسلم ممالک میں جمہوریت کو فروغ دینے میں ناکامی کا ذمہ دار ہے بلکہ دنیا میں جمہوریت کے فروغ کی راہ میں امریکہ خود سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے اور اس کی حتی الوسع یہ کوشش ہے کہ دنیا کے کسی بھی مسلمان ملک میں جہاں کے عام مسلمان اسلام کے ساتھ کمٹ منٹ رکھتے ہیں اور اپنی اجتماعی زندگی میں اسلامی احکام وقوانین کی عمل داری کے واضح رجحان سے بہرہ ور ہیں‘ وہاں جمہوریت کا راستہ روکا جائے‘ عوام کو حکومتوں اور ان کی پالیسیوں کی تشکیل سے دور رکھا جائے اور دینی رجحانات کی نمائندگی کرنے والے طبقات وعناصر کو رائے عامہ اور پالیسی سازی کے مراکز کے قریب نہ آنے دیا جائے۔

امریکہ کے نزدیک جمہوریت کوئی اصول اور فلسفہ نہیں ہے کہ وہ اسے دنیا کے ہر خطہ میں اور ہر حال میں کارفرما دیکھنا چاہتا ہے بلکہ یہ محض ایک ہتھیار ہے جسے امریکہ اور مغربی ممالک اپنے فلسفہ وثقافت کے فروغ اور مفادات کے حصول وتحفظ کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور جمہوریت کے اولین دعوے داروں کے اسی طرز عمل اور رویے نے خود جمہوریت کی افادیت کو مشکوک بنا کر رکھ دیا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں دیکھ لیجیے۔ خلیج عرب کے ممالک میں رائے عامہ‘ شہری آزادیاں‘ جمہوری حکومتیں اور حکومت وپالیسی سازی میں عوام کی نمائندگی شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہے اور خاندانی آمریتیں ان ملکوں کے عوام پر مسلط ہیں مگر امریکہ اور اس کے حواری مغربی ممالک خلیج کے ممالک میں شہری حقوق اور جمہوری اقدار کی حمایت کرنے کے بجائے آمرانہ حکومتوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور نہ صرف ان آمریتوں کو سیاسی واخلاقی سپورٹ مہیا کر رہے ہیں بلکہ فوجی قوت کے بل پر ان کی حفاظت کی ذمہ داری بھی امریکی کیمپ نے سنبھال رکھی ہے صرف اس وجہ سے کہ امریکہ کو معلوم ہے کہ ان ممالک میں جس روز عوام کی نمائندہ حکومتیں قائم ہو گئیں‘ وہ مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کے تحفظ سے ہاتھ اٹھا لیں گی اور ان کی پالیسیوں میں اسلامی تعلیمات واحکام کے اثرات موجودہ آمرانہ حکومتوں سے کہیں زیادہ ہوں گے اس لیے امریکہ کو وہ جمہوریت قبول نہیں ہے جو اسلامی اقدار کے فروغ کا ذریعہ ہو اور جس سے امریکہ کے معاشی مفادات خطرے میں پڑتے ہوں۔

آج سے دس برس قبل سعودی عرب میں شرعی اور جمہوری اصلاحات کے لیے یادداشت پیش کرنے والے علما اور دانش وروں کو جس ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ ان میں سے جو علما جلا وطن ہو کر لندن پہنچے‘ ان میں ڈاکٹر محمد مسعری اور ڈاکٹر سعد الفقیہ کو ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ یہ حضرات جب لندن پہنچے تو انہیں مغربی میڈیا نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور چند دنوں میں انہیں عربوں کے ہیرو کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ میڈیا کاروں کا خیال تھا کہ یہ چونکہ یونیورسٹیوں کے پروفیسر ہیں اور سیاسی حقوق کی بات کر رہے ہیں اس لیے انہیں شاید سعودی عرب میں مغربی فلسفہ وثقافت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور انہیں آگے کر کے سعودی عرب میں عوامی سطح پر دینی وثقافتی اقدار کی مضبوط گرفت کو ڈھیلا کیا جا سکتا ہے اس لیے ان حضرات کی خوب آؤ بھگت ہوئی لیکن جونہی ان دانش وروں نے واضح طور پر کہا کہ وہ سیاسی آزادیوں اور شہری حقوق کا مطالبہ اسلامی تعلیمات کے دائرے میں رہتے ہوئے کر رہے ہیں اور ان کا مقصد مشرق وسطیٰ میں مغربی مفادات کی پاسداری نہیں بلکہ وہاں کے عوام کی خواہشات اور رائے کے مطابق حکومت اور پالیسیوں کی تشکیل ہے تو ان کے آگے پیچھے پھرنے والے میڈیا کاروں نے انہیں ایسے نظر انداز کر دیا جیسے ان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہو اور جن لوگوں کے لیے وہ شہری حقوق اور سیاسی آزادیوں کی بات کر رہے ہیں‘ ان کا سرے سے کوئی استحقاق ہی نہ ہو۔

مشرق وسطیٰ ہمارے سامنے اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ امریکہ کو جمہوریت یا سیاسی حقوق سے کوئی غرض نہیں ہے بلکہ اس کی دل چسپی صرف دو باتوں سے ہے۔ ایک یہ کہ کہیں اسلامی رجحانات اجتماعی سطح پر نہ ابھرنے پائیں اور دوسری یہ کہ امریکہ نے اپنے لیے جو مفادات یک طرفہ طور پر خود طے کر رکھے ہیں‘ ان کی ہر حالت میں حفاظت ہوتی رہے۔ اس کے لیے اگر کسی جگہ جمہوری اقدار اور سیاسی آزادیوں کی حمایت کام دیتی ہے تو امریکہ اس کے لیے تیار ہے اور اگر سیاسی حقوق کو دبانے اور جمہوری اقدار کا سرے سے جھٹکا کر دینے سے امریکہ کا کام بنتا ہے تو اسے اس سے بھی کوئی حجاب نہیں ہے۔

خلیج عرب سے ہٹ کر الجزائر اور ترکی میں بھی ہم امریکہ کا کردار کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں جہاں عوام کی منتخب جماعتوں کو فوجی قوت کے بل پر پیچھے دھکیل دیا گیا۔ رائے عامہ کے فیصلوں اور انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیا گیا اور عوامی رجحانات کو فوج کشی کے ذریعے سے دبا دیا گیا صرف اس لیے کہ ان رجحانات اور عوامی فیصلوں میں اسلامی اقدار کے احیا اور دینی روایات کی عمل داری کے امکانات نظر آ رہے تھے اور ساری دنیا مشاہدہ کر رہی ہے کہ ترکی اور الجزائر میں رائے عامہ کی نمائندگی کرنے والی جمہوری جماعتوں اور انہیں فوجی قوت کے زور سے کچل دینے والی آمریتوں میں سے امریکہ کی پشت پناہی کسے حاصل ہے اور امریکہ کے حواری دیگر مغربی ممالک کس کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔

خود ہم پاکستان میں بار بار اس کا تجربہ کر چکے ہیں اور صرف ایک تجربہ سے ہی مجموعی صورت حال کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن وسنت کو ملک کا سپریم لا قرار دینے کا بل عوام کی منتخب قومی اسمبلی اور سینٹ نے باری باری منظور کیا تھا لیکن قومی اسمبلی میں اس کی منظوری کے آخری مراحل میں امریکی سفارت خانہ نے مداخلت کر کے قرآن سنت کی بالادستی سے حکومتی نظام اور سیاسی ڈھانچے کو مستثنیٰ کرنے کی شق زبردستی شامل کرائی جس سے یہ بات طے ہو گئی کہ امریکہ کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے کیا فیصلہ کر رہے ہیں بلکہ اس کا ٹارگٹ صرف اور صرف یہ ہے کہ مسلم ممالک میں امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں نے جو نوآبادیاتی اور استحصالی نظام مسلط کر رکھا ہے‘ وہ ہر حال میں محفوظ رہے اور اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ اس لیے ہم امریکہ سے کوئی شکایت کرنے کے بجائے مسلم دانش وروں سے یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ امریکہ سے جمہوریت کے حوالے سے کوئی توقع وابستہ کرنے کے فریب سے جتنی جلدی ہو سکے‘ باہر نکل آئیں کیونکہ جمہوریت امریکہ کے لیے اصول کی نہیں بلکہ صرف ایک ہتھیار کی حیثیت رکھتی ہے۔

مسلمانوں کا عالمی کردار کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف

درج ذیل مقالہ جنگ گروپ پاکستان کے زیر اہتمام ’’دہشت گردی:دنیائے اسلام کے لیے ایک نیا چیلنج‘‘ کے عنوان سے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل کراچی میں ۲۰‘ ۲۱ دسمبر ۲۰۰۱ء کو ہونے والے عالمی سیمینار میں پڑھاگیا۔

میری گفتگو یا موضوع کے دو حصے ہیں:

۱۔ مسلمانوں کا عالمی کردار کیا ہے؟

۲۔ اور کیا ہونا چاہیے؟

(۱) مسلمانوں کا عالمی کردار کیا ہے؟

پہلے حصے یا سوال کا جواب بالکل واضح ہے کہ اس وقت مسلمانان عالم کا سرے سے کوئی عالمی کردار نہیں ہے۔ یعنی کہنے کو تو مسلمانوں کی ۶۰ مملکتیں ہیں اور ان میں اور دیگر ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد بھی ایک ارب سے متجاوز ہے۔ علاوہ ازیں مسلمان افرادی قوت اور متعدد قدرتی وسائل سے بھی مالامال ہیں‘ ان کا جغرافیائی محل وقوع بھی نہایت اہمیت کا حامل اور تقریباً باہم پیوست ہے جو ایک نہایت عظیم اکائی اور زبردست قوت بننے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود مسلمان ممالک کی حیثیت صفر سے زیادہ نہیں۔ وہ ایک تودۂ خاک ہیں جو کسی طوفان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا‘ وہ ایک چراغ رہ گزر ہیں جو باد تند تو کیا باد نسیم کا جھونکا بھی برداشت نہیں کر سکتا‘ وہ گرداب بلا میں پھنسی ایک ڈولتی کشتی ہیں جس سے طوفان بلا خیز کی خوف ناک موجیں اٹھکیلیاں کر رہی ہیں‘ وہ ایک ایسا تنکا ہیں جو سیلابی ریلے کے ساتھ بہنے پر مجبور ہے‘ وہ انسانوں کا ایک ایسا ریوڑ ہیں جس کی کوئی سمت ہے نہ کوئی رکھوالا‘ وہ گم گشتہ راہی ہیں جسے اپنی منزل کا پتہ ہے نہ اس کا کوئی شعور ہی انہیں حاصل ہے‘ وہ بیوہ کا آنچل ہیں جسے کوئی بھی نوچ کر پھینک سکتا ہے‘ وہ یتیم کا آنسو ہیں جس کی کوئی اہمیت نہیں‘ وہ ایک گدائے بے نوا ہیں جس کی کوئی عزت وآبرو نہیں اور وہ ایک شہر خموشاں کی مانند ہیں جس میں زندگی کی کوئی حرارت وتوانائی نہیں۔ بالفاظ دیگر ان کے پاس عصا ہے لیکن کوئی کلیمی کردار ادا کرنے والا نہیں‘ دعوائے ایمان ہے لیکن ضرب ید اللٰہی نہیں‘ حسین سے نسبت پر فخر ہے لیکن رسم شبیری ادا کرنے کی ہمت نہیں‘ نبی آخر الزمان حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے جذباتی تعلق ووابستگی ضرور ہے لیکن اسوۂ رسول اپنانے کے لیے تیار نہیں اور قرآن کریم جیسا نسخہ کیمیا اور نسخہ شفا ان کے پاس موجود ہے لیکن شدت مرض سے جاں بلب ہونے کے باوجود اسے استعمال کرنے کے لیے تیار نہیں۔

حضرات محترم! یہ مفروضات نہیں‘ الفاظ کے طوطا مینا نہیں‘ پراپیگنڈا کی شعبدہ گری نہیں۔ یہ حقائق ہیں‘ گو تلخ ہیں۔ واقعات ہیں جو ہر شخص کے تجربہ ومشاہدہ کا حصہ ہیں۔ یہ ہمارا وہ کردار ہے جو ’عیاں را چہ بیاں‘ کے مصداق محتاج وضاحت نہیں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اسلامیان عالم کا یہ حال ان کے اپنے اخلاق وکردار کا نتیجہ اور ان کے اپنے اعمال کا برگ وبار ہیں ؂

میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ 
خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے

ورنہ یہی مسلمان تھے جنہوں نے بدر واحد کے معرکے سر کیے‘ قیصر وکسریٰ کی عظیم الشان سلطنتوں کو روند ڈالا تھا‘ ساری دنیا پر اپنی عظمت ورفعت کے پرچم لہرائے تھے اور اپنے تمدن وتہذیب کا سکہ رواں کیا تھا۔ آج اس کے برعکس ایسا کیوں ہے کہ ان کا خون مانند آب‘ ارزاں ہے؟ انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے‘ ایک مسلمان ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی لیکن سارا عالم ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کا مصداق بنا رہا بلکہ ہم نے تو اپنے کندھے اور اڈے بھی یہ کہہ کر پیش کر دیے کہ ؂ تو مشق ناز کر خون دو عالم میری گردن پر

ہماری گزشتہ روشن تاریخ کے مقابلے میں عالم اسلام کا حالیہ کردار جس میں پاکستان سرفہرست ہے‘ نہایت حیرت واستعجاب کا باعث ہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ جب سندھ میں راجہ داہر کے زیر نگیں علاقے میں بحری قزاقوں نے مسلمانوں پر جبر وظلم کیا تو ایک مسلمان عورت نے ہزاروں میل دور حجاج بن یوسف کو مدد کے لیے پکارا اور یہ پکار اور فریاد جب حجاج کے علم میں آئی تو اسی وقت ا س نے لبیک کہا اور مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے ایک لشکر جرار روانہ کر دیا جس نے آکر سندھ اور ہند میں اسلامی فتوحات کا دروازہ کھولا۔ آج دنیا نے دوسرا منظر دیکھا کہ وہ طالبان جن کو ان کے اسلامی تشخص کی بنا پر پاکستان نے بھی سپورٹ کیا‘ اور بھی بعض ممالک نے ان سے تعاون کیا اور اس تعاون سے انہوں نے افغانستان کے نوے فی صد حصے پر اسلام کا نفاذ کر دیا‘ شرعی حدود جاری کیں‘ اسلحے اور منشیات‘ بد امنی اور قتل وغارت گری کی وارداتوں سے ملک کو محفوظ کیا‘ عورتوں کی بابت اسلامی تعلیمات کی پابندی کی‘ مخلوط تعلیم‘ مخلوط ملازمت ختم کی اور ان کے لیے مردوں سے الگ بعض شعبوں میں تعلیم اور ملازمت کا انتظام کیا (جو اسلامی تعلیمات کا اور وقت کا اہم تقاضا تھا) اور امن وسکون کا ایک نہایت قابل رشک ریکارڈ قائم کر کے وہ تباہ حال افغانستان کی تعمیر نو کا کام نہایت اخلاص‘ بے لوثی اور برق رفتاری سے کر رہے تھے کہ امریکہ میں ۱۱ ستمبر کو ہونے والی دہشت گردی کی واردات کو بہانہ بنا کر اور بلا ثبوت اسامہ بن لادن کو اس کا ذمے دارٹھہرا کر افغانستان کو اور اس میں قائم اسلامی حکومت کو تہس نہس کر دیا حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ میں ہونے والی دہشت گردی جس میں سرعت‘ ماہرانہ چابک دستی اور سازش کی گہرائی اور گیرائی نے دنیا کو حیرت زدہ اور امریکیوں کو مبہوت کر دیا‘ اسامہ یا اس کی تنظیم القاعدہ کے بس کی بات نہیں تھی۔ یہ یقیناًایک ایسے گروہ کی کارروائی ہے جو امریکی ہی ہے اور اسے امریکہ کے خصوصی اداروں تک رسائی بھی حاصل ہے لیکن امریکہ طالبان کو صرف اس لیے ختم کرنا چاہتا تھاکہ مفلس وقلاش ہونے کے باوجود انہوں نے امریکہ کی دریوزہ گری کرنی پسند نہیں کی۔ دوسرے‘ صدیوں سے امن سے محروم علاقے میں اسلام کی حکمرانی کے ذریعے سے انہوں نے عملاً امن قائم کر کے دکھا دیا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ کیا دہشت گردوں کے ہاتھوں بھی کبھی امن قائم ہوا ہے؟ کیا دہشت گردوں کے ذریعے سے بھی لوگوں کی جان ومال اور عزت وآبرو کا تحفظ ہوا ہے؟ کیا دہشت گردوں کے اقدامات سے بھی کبھی تعمیر وطن کا کام ہوا ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقیناًنفی میں ہے تو کیا اس سے یہ واضح نہیں ہو جاتا کہ طالبان دہشت گرد تھے نہ دہشت گردوں کے پشتی بان؟ وہ تو اسلام کے محافظ تھے‘ وطن کے معمار تھے‘ ناقہ ملت کے حدی خواں تھے‘ اسلامی اقدار وروایات کے پاسبان تھے‘ اسلامی تہذیب کے علم بردار اور قرون اولیٰ کے اخلاق وکردار کے حامل تھے۔ اسی لیے وہ عالم اسلام کی امیدوں کا مرکز تھے ‘ الحاد وزندقہ کی تاریکیوں میں قندیل ربانی تھے‘ ظلمت شب میں صبح درخشاں کی نوید جاں فزا تھے‘ وہ مقاصد فطرت کی نگہبانی کرنے والے بندگان صحرائی اور مردان کہستانی تھے۔ وہ عجم کا حسن طبیعت اور عرب کا سوز دروں تھے اور اس دور میں جب کہ سوائے سعودی عرب کے کوئی بھی اسلامی ملک اسلامی عقیدہ وایمان کے تقاضوں کو بروئے کار لانے کے لیے تیار نہیں‘ وہ سرمایہ ملت کے نگہبان اور علامہ اقبال کے ان اشعار کے مصداق تھے ؂ 

یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا ودریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن
نہ مال غنیمت‘ نہ کشور کشائی

افسوس:

وہ لوگ ہم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے
ڈھونڈا تھا آسماں نے جنہیں خاک چھان کر

مرورِ ایام کی دبیز تہوں اور لیل ونہار کی ہزاروں گردشوں کے بعد چشم فلک نے ایسے حکمران دیکھے تھے جن کا رہن سہن‘ طور اطوار اور طرز بود وباش اسی طرح عام انسانوں کا سا تھا جس کی مثالیں خلفاء راشدین نے قائم کی تھیں۔ شاہانہ کروفر سے دور‘ امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ سے پاک اور مسرفانہ وعیاشانہ طرز زندگی سے نفور۔ سارے وسائل عوام کی فلاح وبہبودکی نذر اور شب وروز کا ہر لمحہ ملک وملت کی خدمت کے لیے وقف۔ انہوں نے فقیری میں بادشاہی کی‘ غریبی میں خود داری کا مظاہرہ کیا‘ تباہ حالی کے باوجود گدائی کا کاسہ اور کشکول نہیں اٹھایا‘ کسی کے سامنے جھولی نہیں پھیلائی‘ غیروں کی دریوزہ گری نہیں کی‘ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے حسین جالوں میں نہیں پھنسے بلکہ فاقہ کشی‘ بھوک‘ قحط اور بے سروسامانی کے باوصف خود انحصاری کی پالیسی اپنائی۔ لیکن افسوس‘ قلب ونظر کی کجی اور نگہ کی نامسلمانی نے ان کی خوبیوں کو برائی سمجھا‘ ان کی غیرت وخود داری کو نادانشی باور کرایا‘ ان کے عزم وایمان کو ایک ناقابل معافی جرم قرار دیا کہ 

؂ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

اور اپنے دین پر استقلال وثابت قدمی کو انتہا پسندی کا عنوان دیا اور ان کی سادگی کو فریب خوردگی سے اور مغرب کی حیا باختہ تہذیب سے نفرت کو بے خبری سے تعبیر کیا اور جب ان طعنوں سے بھی کام نہ بنا اور افغانستان پر ان کی گرفت کمزور ہونے کے بجائے مضبوط تر ہوتی چلی گئی تو بھیڑیے اور میمنے کے مشہور واقعے کی طرح ۱۱ ستمبر کے واقعے کو بہانہ بنا کر ان پر آتش وآہن کی بارش کر دی۔ انہوں نے اگرچہ مردانہ وار مقابلہ کیا اور اپنے خون سے شجاعت ومردانگی کی ایک لازوال تاریخ رقم کر دی لیکن وہ چونکہ نہتے تھے‘ جدید اسلحی وسائل سے محروم تھے اور ان تابڑ توڑ فضائی حملوں کا جواب دینے سے قاصر تھے جو دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد نے ان پر کیے‘ اس وحشیانہ بمباری اور خوں خوارانہ دہشت گردی نے انہیں پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ یوں ان کی خوبیاں ان کے لیے بلائے جان بن گئیں ؂ اے روشنئی طبع تو بر من بلا شدی

اور یہ ظلم‘ وحشت وبربریت کا یہ مظاہرہ اور درندگی وخوں آشامی کی یہ حرکت صرف دشمنوں ہی نے نہیں کی بلکہ اپنے بھی اس میں شریک ہو گئے۔ بے گانوں ہی نے وار نہیں کیے‘ دوستوں نے بھی خنجر گھونپنے سے گریز نہیں کیا۔ اعدائے دین ہی نے انہیں کشتنی قرار نہیں دیا بلکہ نام نہاد مسلمان حکمرانوں نے بھی انہیں گردن زدنی ہی سمجھا۔ یہ مظلوم طالبان بزبان حال کہہ رہے ہیں ؂

من از بیگانگاں ہرگز نہ نالم
کہ بامن ہرچہ کرد آں آشنا کرد 
اور بقول حفیظ جالندھری ؂ 
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

دوستوں نے اپنوں پر ناوک افگنی کے لیے دلیل یہ پیش کی کہ ہم نے انہیں بہت سمجھایا‘ صورت حال کی نزاکت کا احساس دلایا‘ لیکن وہ سمجھے نہیں اور حالات کی خطرناکی کے ادراک سے قاصر رہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ بات ایسی نہیں ہے جو باور کرائی جا رہی ہے۔ طالبان کا رویہ ہرگز عدم مفاہمت کا نہیں تھا۔ وہ ۱۹۹۸ء سے یہ کہہ رہے تھے کہ امریکہ کے پاس اگر اسامہ کے دہشت گردی کی کسی کارروائی میں ملوث ہونے کا ثبوت ہے تو وہ کسی غیر جانب دار عدالت میں پیش کرے‘ ہم اس کے لیے اسامہ کو کسی تیسرے ملک کی تحویل میں دینے کے لیے تیار ہیں لیکن چونکہ اس کے پاس ایسا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا اور نہ ہے اس لیے مذاکرات کی یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ اس کے پاس صرف اتہامات ومفروضات ہیں جنہیں وہ دھونس اور دھاندلی سے ثبوت باور کرانا چاہتا تھا۔ اس کا اصل مقصد تو افغانستان سے ایسی حکومت کا خاتمہ تھا جو دنیا میں اسلامی عدل وانصاف کی مظہر اور اسلامی اخوت ومساوات کا نمونہ تھی۔ بلاشبہ امریکہ کے کچھ اور سیاسی ومعاشی مقاصد بھی ہیں لیکن بڑا مقصد احیائے اسلام اور جہاد کے بڑھتے ہوئے اس جذبے کا خاتمہ تھا جو طالبان کے طرز حکومت اور ان کی منصفانہ پالیسیوں سے پیدا ہو رہا تھا جس کا علاج بقول علامہ اقبال انہوں نے یہی سوچا کہ ؂

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز ویمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو ان کے کوہ ودمن سے نکال دو
اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہو کو مرغزار ختن سے نکال دو
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو

اقبال مرحوم کا یہ کلام ضرب کلیم میں ہے اور اس نظم کا عنوان ہی یہ ہے: ’’ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘‘چنانچہ ابلیس کے سارے سیاسی فرزندوں نے مل کر‘ جس کا نام عالمی اتحاد ہے‘ افغانستان کے چمن سے اس کے اس غزل سرا کو نکال دیا ہے جس نے افغانستان کو امن واستحکام عطا کیا تھا جو کسی ملک کی تعمیر نو کے لیے نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اب افغانستان میں پھر قتل وغارت گری کا بازار گرم اور لوٹ کھسوٹ اور خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہے اور امن واستحکام ایک خواب وخیال بن کر رہ گیا ہے۔ اگر ان عالمی دہشت گردوں کا مقصد افغانستان میں امن واستحکام قائم کر کے اس کی تعمیر نو ہوتا تو یہ کام طالبان سے مفاہمت کر کے ہی ممکن تھا۔ اب یہ مقصد سالہا سال تک حاصل ہوتا نظر نہیں آتا ؂

جنہیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تم نے
وہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی

طالبان کے مخالفین ذرا گریبان میں منہ ڈال کر سوچیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام سے جو کارروائی ہوئی ہے‘ اس سے دہشت گری کا خاتمہ ہوا ہے یا دہشت گردی کا دیو اور زیادہ قوی ہو گیا ہے؟ امن واستحکام قائم ہوا ہے یا اس کے برعکس بد امنی اور عدم استحکام میں اضافہ ہو گیا ہے؟ اگر یہ تسلیم ہے اور ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی ختم نہیں ہوئی بلکہ بڑھی ہے اور آئندہ بھی کم ہونے کا نہیں بلکہ بڑھنے ہی کا امکان ہے تو پھر اس کارروائی کا کیا جواز ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کی ہے؟

دنیائے اسلام کے عام مسلمان بلاشبہ اس المیہ افغانستان پر خون کے آنسو رو رہے ہیں ؂

آسماں را حق بود گرخوں ببارد بر زمیں
بر زوال تو مجاہد اے امیر المومنیں

وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے اور کرنا چاہتے ہیں لیکن بے بس ہیں اور احتجاج واضطراب کی صدا بلند کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ الحمد للہ عوام نے اپنا یہ فرض ادا کیا‘ وہ تڑپتے رہے اور تڑپ رہے ہیں‘ مضطرب وپریشان رہے اور مضطرب وپریشان ہیں۔ بلاشبہ ان کا یہ اضطراب اور پریشان ہونا ان کے ایمان کی علامت اور ان کے جذبہ اخوت اسلامی کا مظہر ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان گرامی ہے:

تری المومنین فی تراحمہم وتوادہم وتعاطفہم کمثل الجسد اذا اشتکی عضو تداعی لہ سائر جسدہ بالسہر والحمی (صحیح بخاری‘ کتاب الادب‘ باب رحمۃ الناس والبہائم‘ حدیث نمبر ۶۰۱۱)

’’تم مومنوں کو ایک دوسرے پر رحم کرنے‘ باہم نرمی اور محبت کرنے میں ایسا دیکھو گے جیسے ایک جسم ہوتا ہے ۔ جسم کا جب کوئی ایک حصہ تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو سارا جسم ہی تکلیف محسوس کرتا اور اس کی وجہ سے بیدا ر رہتا اور بعض دفعہ بخار تک میں مبتلا ہو جاتا ہے۔‘‘

ایک دوسری حدیث میں فرمایا:

المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا (صحیح بخاری‘ کتاب المظالم‘ باب نصر المظلوم‘ حدیث ۲۴۴۶)

’’مومن‘ مومن کے لیے ایسے ہے جیسے ایک دیوار یا عمارت ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کے ساتھ پیوست اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مضبوطی کا باعث ہوتا ہے۔‘‘

قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفت یہ بیان فرمائی ہے:

والمومنون والمومنات بعضہم اولیاء بعض (التوبہ ۹/۷۱)

’’مومن مرد اورمومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔‘‘

دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفت بیان فرمائی:

لا تجد قوما یومنون باللہ والیوم الآخر یوادون من حاد اللہ ورسولہ ولو کانوا آباء ہم او ابناء ہم او اخوانہم او عشیرتہم اولئک کتب فی قلوبہم الایمان وایدہم بروح منہ ویدخلہم جنات تجری من تحتہا الانہار خالدین فیہا رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ اولئک حزب اللہ الا ان حزب اللہ ہم المفلحون (المجادلۃ ۵۸/۲۲)

’’تم ایسے لوگوں کو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں‘ ایسا نہیں پاؤ گے کہ وہ ایسے لوگوں سے محبت رکھیں جو اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں‘ چاہے ان وہ کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے ہوں یا ان کے بھائی ہوں یا ان کے خاندان اور قبیلے کے لوگ ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے اور اپنی خاص رحمت سے ان کی مدد کی ہے اور وہ ان کو ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے‘ اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے۔ یہی اللہ کا گروہ ہے اور اللہ کا گروہ ہی کامیاب ہونے والا ہے۔‘‘

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے یہود ونصاریٰ کو دوست بنانے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا اور ساتھ ہی یہ فرمایا:

انما ولیکم اللہ ورسولہ والذین آمنوا فان حزب اللہ ہم الغالبون (المائدہ ۵/۵۶)

’’تمہارا دوست تو صرف اللہ‘ اس کا رسول اور اہل ایمان ہیں ( یاد رکھو) اللہ کا گروہ ہی غالب آنے والا ہے۔‘‘

ان آیات واحادیث سے واضح ہے کہ:

۱۔ اہل ایمان ایک جسم کی مانند ہیں چاہے وہ کوئی بھی ہوں‘ کسی بھی نسل سے ان کا تعلق ہو‘ کوئی بھی زبان وہ بولتے ہوں‘ مشرق میں رہتے ہوں یا مغرب میں۔ ایمان کے رشتے نے ان کو ایک لڑی میں پرودیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے مونس وغم خوار‘ ایک دوسرے کے دست وبازو اور دکھ درد میں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں ؂

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

۲۔ یہ اللہ کا گروہ ہیں۔

۳۔ ان کے مقابلے میں کافر شیطان کا گروہ ہیں۔

۴۔ اہل ایمان کی محبت اور دوستی صرف اہل ایمان کے ساتھ ہوتی ہے (جیسے کافر ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں) اور کافروں کے ساتھ ان کی دوستی نہیں ہوتی‘ چاہے وہ ان کے باپ‘ ان کے بیٹے‘ ان کے بھائی یا ان کے خاندان اور قبیلے کے فرد ہوں۔

۵۔ فلاح وغلبہ ایسے ہی مومنوں کا حق ہے۔

ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

والذین کفروا بعضہم اولیاء بعض الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض وفساد کبیر (الانفال ۸/۷۳)

’’کافر ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے (یعنی تم مسلمان بھی اگر ایک دوسرے کے دوست نہیں بنو گے) تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پیدا ہوگا۔‘‘

اور وہ فتنہ وفساد یہی ہے کہ اس صورت میں کافروں کے حوصلے بڑھ جائیں گے‘ مسلمان مغلوب ہو جائیں گے اور اللہ کا کلمہ بلند ہونے کے بجائے پست ہو جائے گا۔ اس اعتبار سے اہل ایمان کی یہ صفت کہ وہ ایک دوسرے کے دوست اور ایک دوسرے کے معاون اور انصار ہیں‘ مسلمانوں کی ایک پالیسی اور مقصد زندگی ہے اور ہونا چاہیے‘ اس لیے کہ اسی پالیسی میں اللہ کے دین کی بلندی کا راز مضمر ہے۔

عوام کی حد تک تو اہل ایمان نے اس پالیسی کا بلاشبہ اظہار کیا لیکن مسلم حکمرانوں نے اس کے برعکس پالیسی اختیار کر کے ایک جرم عظیم کا ارتکاب کیا ہے۔ ان میں سے کچھ نے تو امریکہ کو سب کچھ پیش کر دیا۔ ان کو معلومات فراہم کیں جن کی اس دور میں بہت زیادہ اہمیت ہے‘ اپنی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دی‘ فوجی نقل وحرکت اور دیگر جنگی ضروریات ومقاصد کے لیے اپنے اڈے تک انہیں دے دیے‘ اور بھی انہوں نے جس چیز کا مطالبہ کیا‘ انہوں نے پیش کرنے میں تامل نہیں کیا اور یوں چند ڈالروں کے وعدۂ فردا پر اپنے لیے ایمان کش اور غلامانہ کردار پسند کیا۔ آہ ؂ قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند۔

انہوں نے ملت فروشوں میں اپنا نام لکھوا کر ذلت ورسوائی کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ؂

جعفر از بنگال وصادق از دکن
ننگ آدم‘ ننگ دیں‘ ننگ وطن

اور کچھ مسلمان ملکوں نے اپنے اڈے تو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی لیکن اپنے بعض ذہنی تحفظات کی وجہ سے امریکی کارروائی کو خاموشی سے دیکھنے پر قناعت کی اور بعض مسلمان ملکوں نے دبے لفظوں میں اسے صرف جلد بازی سے تعبیر کیا لیکن کسی مسلمان ملک کو اس جرات رندانہ کی توفیق نہ ہوئی کہ وہ امریکہ سے یہ مطالبہ کرتا کہ پہلے ہمیں اسامہ کی دہشت گردی کا واضح ثبوت دکھلاؤ‘ اس کے بغیر تمہاری کارروائی بجائے خود دہشت گردی ہوگی حتیٰ کہ اس نازک موقعے پر اسلامی سربراہی کانفرنس کا اجلاس تک بلانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ صرف وزرائے خارجہ کی حد تک‘ وہ بھی جب چڑیاں سارا کھیت چگ گئیں‘ ایک اجلاس ہوا اور اس میں بھی نشستند وگفتند وبرخاستند سے زیادہ کچھ نہیں ہوا کیونکہ اس میں ایک قرارداد مذمت تک پاس نہیں ہوئی۔ گویا سارے مسلمان ممالک اس وقت امریکہ کے غلام ہیں اور ان سب کا آقائے ولی نعمت امریکہ ہے۔ وہ جو چاہے کرے‘ اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ اقوام متحدہ سے کچھ لوگ امیدیں وابستہ کرتے ہیں لیکن اس کا کردار بھی ایک امریکی لونڈی سے زیادہ نہیں۔ امریکہ اسے بھی صرف اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے اور یوں اس کا کردار بھی اپنی پیش رو لیگ آف نیشنز سے مختلف نہیں رہا جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا ؂

من ازیں بیش نہ دانم کہ کفن دزدے چند 
بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند

یہ سارے مسلمان ممالک اقوام متحدہ سمیت اس شعر کا مصداق ہیں ؂ 

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
جو چاہیں سو آپ کرے ہیں‘ ہم کو عبث بدنام کیا

یہ ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے لیے ڈوب مرنے کے مقام ہے۔ ہمارا وجود ایک مجسم عبرت ہے‘ ذلت ورسوائی کا عجیب وغریب نمونہ ہے۔ بقول حالی مرحوم ؂

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے

یا بقول اقبال مرحوم ؂

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

ایک اور شعر میں اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں:

تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی‘ مرا ایماں ہے زناری

(۲) مسلمانوں کا عالمی کردار کیا ہونا چاہیے؟

بہرحال اس وقت مسلمانوں کا عالمی کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب اس موضوع کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ ان کا عالمی کردار کیا ہونا چاہیے؟ اس کا جواب بھی واضح ہے کہ اسلام غالب ہونے کے لیے آیا ہے‘ مغلوب ہونے کے لیے نہیں۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے: الاسلام یعلو ولا یعلی۔ اس لیے یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ ہم اس کے برعکس غالب ہونے کے بجائے مغلوب کیوں ہیں؟ فاتح کے بجائے مفتوح کیوں ہیں؟ سربلند وسرخ رو ہونے کے بجائے ذلیل ورسوا کیوں ہیں؟ دنیا کے قائد ہونے کے بجائے مقتدی کیوں ہیں؟ 

اس کے اسباب ووجوہ مخفی نہیں‘ ڈھکے چھپے نہیں‘ کوئی سربستہ راز نہیں‘ بلکہ ہر شخص پر واضح اور آشکار ہیں۔اس کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا سبب ایمان ویقین کی کمی‘ اپنے نظریے اور عقیدے سے انحراف‘ اپنے اسلامی تشخص کے تحفظ وبقا کے جذبے سے مجرمانہ حد تک غفلت واعراض اور غیروں کی تہذیب کو اپنانے کا شوق فراواں اور ان کی نقالی پر فخر کرنا ہے۔ اسے علامہ اقبال علیہ الرحمۃ نے ایک شعر میں یوں سمو دیا ہے ؂

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

ٹی وی پر اسی مغرب کی حیاباختہ تہذیب کی یلغار ہے‘ ہمارے قومی اخبارات اسی تہذیب کو پھیلانے میں نہایت موثر کردار ادا کر رہے ہیں اور یوں بڑی تیزی سے ہم اسلامی تہذیب اور اس کے حیا وعفت کے تصور اور ایمان ویقین کی دولت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ اقبال نے اس بات کو ظریفانہ انداز سے اس طرح بیان کیا تھا ؂

لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روشِ مغربی ہے مد نظر
وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین؟
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

اقبال نے یہ اشعار اس وقت کہے تھے جب بے پردگی اور غیروں کی نقالی کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا۔ اسی دور میں اکبر الٰہ آبادی نے بھی کہا تھا ؂

بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے پردہ تمہارا‘ وہ کیا ہوا؟
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

اب اس ڈرامے کے سارے سین سامنے آگئے ہیں‘ پردہ اٹھ گیا ہے اور بقول اقبال بے حجابی کا وہ زمانہ آ گیا ہے جس میں دیدارِ یار عام ہے۔

حضرات محترم! مسئلہ انگریزی زبان کے پڑھنے یا نہ پڑھنے کا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ تہذیبی شناخت اور نظریاتی تشخص کا ہے۔ انگریزی زبان اس وقت بین الاقوامی نیز سائنسی علوم کی زبان ہے۔ اس لیے اس کی اہمیت وضرورت اور افادیت وناگزیریت سے مجال انکار نہیں۔ بنا بریں بحیثیت زبان کے اور بطور علم وفن کے اس کے سیکھنے کو کوئی ناجائز نہیں کہتا لیکن کیا اسے پڑھنے اور سیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم انگریزی زبان کواپنا اوڑھنا بچھونا ہی بنا لیں‘ ہماری کوئی گفتگو بلا ضرورت انگریزی الفاظ کی بھرمار کے بغیر نہ ہو‘ ہماری دکانوں کے سائن بورڈ انگریزی ہی میں ہوں‘ ہمارے گھروں کے باہر ناموں کی تختیاں انگریزی ہی میں ہوں‘ ہماری تقریبات کے دعوت نامے انگریزی ہی میں ہوں حتیٰ کہ ہمیں اب اپنی زبان کے امی جان‘ ابو جان‘ چچا جان‘ ماموں جان اور خالہ جان وغیرہ الفاظ بھی پسند نہ ہوں اور ان کی جگہ ڈیڈی‘ پاپا‘ ماما‘ ممی‘ انکل اور آنٹی وغیرہ محبوب ہوں؟ عام لوگ شاید ان باتوں پر چیں بہ چیں ہوں گے یا اسے بے وقت کی راگنی قرار دیں گے یا غیر اہم سمجھتے ہوں لیکن میں عرض کروں گا کہ ان باتوں پر چیں بہ چیں ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘ یہ بے وقت کی راگنی بھی نہیں ہے اور اسے غیر اہم بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ تہذیبی شناخت کا مسئلہ ہے‘ نظریاتی تشخص کا مسئلہ ہے‘ قومی غیرت اور حمیت کا مسئلہ ہے۔ اگر آپ دنیا میں اپنا وجود منوانا چاہتے ہیں‘ اقوام دنیا میں عزت ووقار کا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ اپنی عظمت رفتہ کے حصول کی کوئی تمنا اور آرزو رکھتے ہیں تو آپ بلاشبہ انگریزی زبان میں خوب مہارت حاصل کریں لیکن آپ کو اپنی تہذیبی شناخت کو برقرار رکھنا ہوگا‘ اپنے اسلامی تشخص کی حفاظت کرنی ہوگی اور ملی غیرت وحمیت کا ثبوت دینا ہوگا۔ اس کے لیے اپنی قومی زبان‘ اپنا قومی لباس اور اپنا مسلم تمدن اپنانا ہوگا۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو یاد رکھیے‘ تہذیبوں کے موجودہ تصادم اور نظریات کے ٹکراؤ میں آپ کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی اور آپ حرفِ غلط کی طرح مٹا دیے جائیں گے۔ بقول اکبر الٰہ آبادی

تم شوق سے کالج میں پڑھو‘ پارک میں پھولو
جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ پہ جھولو
لیکن یہ سخن بندۂ عاجز کا رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو

بہرحال دنیا میں عزت ووقار کا مقام حاصل کرنے کے لیے پہلی بات اپنے ایمان وعقیدے کی حفاظت اور اپنے نظریاتی تشخص کا احساس اور دینی وملی غیرت کی بقا اور اس کا اظہار ہے۔ اس کے لیے نصاب تعلیم کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا ضروری ہے‘ ٹی وی کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے اور قومی اخبارات کے مالکان ومدیران کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنا رویہ بدلیں اور قوم کے اسلامی تشخص کے تحفظ وبقا کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

ہماری پستی اور زبوں حالی کا دوسرا سبب خود انحصاری کے بجائے آئی ایم ایف وغیرہ کے قرضوں پر معیشت کا ڈھانچہ استوار کرنا ہے۔ جو حکومت بھی آتی ہے‘ وہ خود انحصاری کا ڈھنڈورا تو خوب پیٹتی ہے اور کشکول توڑنے کااعلان کرتی ہے لیکن ساری دنیا میں کشکول لیے پھرتی ہے اور جب وہ حکومت رخصت ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ قرضوں کے بوجھ میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ بوجھ اور بڑھ گیا ہے۔ غلامی کی زنجیریں اور بوجھل ہو گئی ہیں اور قرض کی مے پی پی کر ہماری فاقہ مستی خوب رنگ لا رہی ہے۔ جب تک ہماری حکومتیں بیرونی قرضوں پر اپنا انحصار ختم نہیں کریں گی‘ ہم دنیا میں سر اٹھا کر چلنے اور ان کے ناجائز دباؤ کو نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہو سکیں گے۔

تیسرا سبب مسلمان ملکوں کا باہمی اختلاف اور ان کے مابین اتحاد کا فقدان ہے۔ اسی اختلاف اور عدم اتفاق نے ان کی قوت کو منتشر اور پارہ پارہ کر رکھا ہے۔ اگر یہ سارے ملک اسلام کی بنیاد پر متحد ہو جائیں‘ ان سب کی آواز ایک ہو جائے تو اقوام متحدہ من مانی کر سکتی ہے نہ امریکہ وبرطانیہ کو مسلمانوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی ہمت ہو سکتی ہے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد جیسے ساری دنیائے اسلام نے امریکہ میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت کی تھی‘ اسی طرح اگر وہ اسامہ بن لادن کے بارے میں بھی متحدہ موقف اختیار کرتی اور امریکہ سے ثبوت مانگتی یا ہمارے صدر محترم امریکی صدر سے مہلت لے کر تمام اسلامی سربراہوں سے رابطہ کر کے انہیں صورت حال اور معاملے کی سنگینی اور نزاکت سے آگاہ کرتے تو یقیناًاس المیے سے بچا جا سکتا تھا جو عالم اسلام کی بے حسی‘ مجرمانہ سکوت اور ہمارے بزدلانہ اور غیر دانش مندانہ فیصلے کی وجہ سے رونما ہوا۔ آئندہ ایسے المیوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ عالم اسلام میں باہم اتحاد واتفاق ہو‘ اسلامی سربراہی کانفرنس موثر اور فعال ہو اور آپس کی تلخیاں اور کشیدگیاں دور ہوں۔ پورا عالم اسلام ایک جسدِ واحد کی طرح اور ایک بنیان مرصوص ہو۔ عالمی مسائل بالخصوص مسلمانوں سے متعلق پالیسیوں میں ان کا موقف ایک اور اسلامی تعلیمات کا مظہر ہو۔

ہماری پستی اور کمزوری کا چوتھا سبب منصوبہ بندی کا فقدان اور اپنے مسائل ووسائل کا عدم شعور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلامی ملکوں کو ایک تو افرادی قوت سے نوازا ہے۔ دوسرے ہر قسم کے قدرتی وسائل انہیں وافر مقدار میں عطا کیے ہیں لیکن منصوبہ بندی کے فقدان اور خداداد وسائل کی قدروقیمت کے عدم احساس کی وجہ سے ہم پستی کا شکار اور غیروں کے محتاج ہیں۔ ہمارے اہل علم وہنر دیار غیر میں کام کر رہے ہیں اور ان کی ترقی میں ان کے ساتھ خوب تعاون کر رہے ہیں۔ ہم انہیں معقول تنخواہ اور مراعات دے کر ان کو ملکی ترقی میں حصہ دار بنانے کے لیے تیار نہیں حتیٰ کہ اگر کوئی خود ملی اور قومی جذبے کے پیش نظر اپنے ملک میں رہ کر اپنے ملک کو سائنسی وایٹمی ٹیکنالوجی یا دیگر اہم شعبوں کو رفعت بہ کنار کرنا چاہتا ہو تو ہمیں اس کی خدمات قبول نہیں یا اس کی قدر ومنزلت کا اہتمام کر کے اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کرنا اور اس کی تذلیل وتوہین کرنا ہمارا شعار ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بالآخر وہ پھر دیار غیر ہی کو اپنا مسکن اور غیروں ہی کی خدمت کو اپنا مقصد زندگی بنا لیتا ہے یاخاموشی اور گم نامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال ہمارے دو ایٹمی سائنس دانوں کے ساتھ موجودہ حکومت کا رویہ ہے جو اس نے اپنے آقائے ولی نعمت امریکہ کے کہنے پر ان کے ساتھ کیا ہے ؂ شرم تم کو مگر نہیں آتی

اسی طرح خداداد وسائل کا معاملہ ہے۔ ہمیں ان کی قدر وقیمت کا اورانہیں ترقی دے کر ان سے استفادہ کرنے کا صحیح شعور واحساس ہی نہیں ہے ورنہ اگر عالم اسلام مل کر اپنے وسائل ومسائل کے بارے میں اجتماعی سوچ اور فکر کو بروئے کار لائے اور ایک دوسرے سے اخذ واستفادہ کر کے انہیں ترقی دے اور انہیں صحیح طریقے سے استعمال کرے تو اس سے ان کے مسائل بھی بہت حد تک حل ہو سکتے ہیں اور بہت جلد ترقی سے بھی ہم کنار ہو سکتے ہیں۔ اس وقت ہماری جو صورت حال ہے‘ ا س کا نقشہ علامہ اقبال نے اس طرح کھینچا ہے ؂

جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن‘تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن‘ تم ہو
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن‘ تم ہو

ہماری کمزوری وزبوں حالی کا پانچواں سبب ہمارا اپنے دفاع سے غفلت برتنا ہے۔ عالم اسلام کی دفاعی حالت یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ مال دار ملک کویت اور سعودی عرب اور عرب امارات اپنے دفاع کے لیے مغربی ممالک کے محتاج ہیں۔ آج سے چند سال قبل صدام حسین نے کویت پر جارحانہ قبضہ کر لیا اور سعودی عرب پر بھی جارحیت کے ارتکاب کا اظہار کیا تو ان دونوں ممالک نے امریکہ وبرطانیہ وغیرہ سے امداد طلب کی اور انہوں نے آکر صدام کی جارحیت سے ان دونوں کو بچایا جس کی بہت بھاری قیمت ان کو چکانی پڑی بلکہ ابھی تک چکا رہے ہیں جس نے ان کی معیشت کو نیم جان کردیا ہے۔ اسی طرح ۵۴ سال سے اسرائیل نے عربوں کی ناک میں دام کر رکھا ہے حالانکہ عربوں کے مقابلے میں وہ ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کے باشندگان کی تعداد بھی ۳۰ لاکھ سے زیادہ نہیں ہے جبکہ عرب ۱۱ کروڑ کی تعداد میں ہیں اور دنیاوی وسائل سے مالامال بھی ہیں لیکن چونکہ وہ اپنا موثر دفاع کرنے کے قابل نہیں اس لیے اسرائیل سے مسلسل مار کھا رہے ہیں بالخصوص فلسطینی مسلمانوں پر اس نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے لیکن کوئی اسلامی ملک اس کا ہاتھ پکڑنے اور اسے سبق سکھانے کے قابل نہیں۔ تیسری مثال اسامہ بن لادن اور ملا عمر کی ہے۔ مسلم حکمران امریکہ کے دباؤ پر یا اپنے ذہنی تحفظات کی وجہ سے انہیں جو چاہیں کہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو دہشت گرد کہنا ایک بہت بڑا جھوٹ اور دہشت گرد سمجھنا بہت بڑا ظلم ہے۔ یہ دونوں اسلام کے مجاہد اور ملت اسلامیہ کے عظیم ہیرو ہیں۔ اسامہ اسلامی جہاد کی علامت ہے۔ اس نے عالم اسلام میں جہاد کی ایک لہر پیدا کی ہے جس سے عالم کفر لرزاں ہے۔ اس نے مسلم نوجوانوں کو ایک ولولۂ تازہ دیاہے۔ ان کے اندر چٹانوں کا سا عزم اور حوصلہ پیدا کیا ہے۔ اسلام کی خاطر مر مٹنے کا جذبہ اور شعور بیدار کیا ہے جس کی وجہ سے ممولے کے اندر شہباز سے لڑنے کی اور کنجشک فرومایہ کے اندر ہم پایہ سلیمان جیسے لوگوں سے ٹکرانے کی قوت وتوانائی پیدا ہوئی ہے۔ ملا عمر حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے بعد تاریخ اسلام کا وہ تیسرا عمر ہے جس نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں وسائل کی قلت اور مسائل کی بھرمار کے باوجود اسلامی حکومت اور اس کے عدل وانصاف اور مساوات کا وہ نمونہ عملی طور پر پیش کر کے دکھا دیا جس نے خلافت راشدہ کے دور کی یاد تازہ کر دی جس کے قیام کی ہر مسلمان اپنے دل میں آرزو رکھتا ہے۔ ان دونوں دانائے راز شخصیتوں کا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں شہید یا گرفتار ہو جانا عند اللہ تو یقیناًان کے لیے اعزاز واکرام کا باعث ہوگا لیکن ہم مسلمانوں کے لیے وہ دن ایک نہایت الم ناک دن اور ڈوب مرنے کا مقام ہوگا۔ عالم اسلام کی یہ بے بسی کہ وہ ملت اسلامیہ کے ان بے گناہ عظیم سپوتوں کو اس وقت پناہ مہیا کرنے سے قاصر ہے‘ قابل عبرت تو ضرور ہے لیکن ناقابل فہم ہرگز نہیں۔ اور ہماری غلامی کی انتہا یہ ہے کہ حکومت نے اوقاف کی مسجدوں میں ائمہ کرام کو امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت کے خلاف قنوت نازلہ پڑھنے یعنی ان کے لیے بددعا کرنے سے حکماً روک دیا ہے۔ فانا للہ وانا الیہ راجعون۔ اقبال نے سچ ہی کہا تھا ؂ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر۔ بلکہ شاید ضمیر نام کی کوئی چیز باقی ہی نہیں رہتی اور صرف یس سر کہنا ہی یاد رہ جاتا ہے۔

وجہ اس بے بسی کی یہی ہے کہ کوئی بھی اسلامی ملک اپنا دفاع کرنے کے قابل نہیں ہے حتیٰ کہ سارا عالم اسلام مل کر ان کا مقدمہ بھی اقوام متحدہ میں پیش کرنے کی ہمت نہیں رکھتا چہ جائیکہ وہ انہیں پناہ دے سکے جب کہ ان مغربی ممالک کا اپنا کردار یہ ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے دہشت گردوں اور بڑے بڑے اخلاقی مجرموں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے۔

ان مثالوں سے مقصد اس نکتے کی وضاحت ہے کہ عالم اسلام اپنے دفاع سے یکسر غافل ہے حالانکہ قرآن کریم میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے:

واعدوا لہم ما استطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل ترہبون بہ عدو اللہ وعدوکم وآخرین من دونہم (التوبہ ۱۸/۶۰)

’’جتنی طاقت تم تیار کر سکتے ہو‘ تیار کرواور گھوڑے بھی باندھے ہوئے تیار رکھو ۔ تم اس کے ذریعے سے اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کو ڈراؤ۔‘‘

حدیث میں آتا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

الا ان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی (صحیح مسلم ‘ الامارۃ‘ باب فضل الرمی والحث علیہ‘ حدیث نمبر ۱۹۱۷)

’’سن لو‘قوت سے مرا دتیر اندازی ہے۔قوت سے مرا دتیر اندازی ہے۔ ‘قوت سے مرا دتیر اندازی ہے۔ ‘‘

یعنی نبی کریم ﷺ نے قوت سے مراد تیر اندازی لی ہے۔ گویا اس طرح تیز اندازی کے سیکھنے کی اہمیت کو واضح فرمایا کیونکہ اس وقت جنگ میں تیر اندازی ہی سب سے بڑا ہتھیار تھا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ قرآن کریم میں قوت تیار کرنے اور قوت مہیا رکھنے کا جو حکم ہے تو اس سے مراد اپنے وقت کے وہ ہتھیار اور اسلحی وسائل ہیں جو جنگ میں زیادہ سے زیادہ موثر اور دشمن کو زیر کرنے میں کارگر ہو سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے آج کل بری‘ بحری اور فضائی تینوں شعبوں میں جو نئے نئے ہتھیار تیار ہوئے ہیں‘ بے آواز جہاز سے لے کر میزائل اور ایٹم بم اور ہائیڈروجن بموں تک تمام ہتھیاروں کی تیاری اور انہیں مہیا کر کے اپنے پاس رکھنا ضروری ہے۔ یہ قرآن اور پیغمبر اسلام کا فرمان ہے اس لیے علماء اسلام کا متفقہ موقف ہے کہ سی ٹی بی ٹی پر دستخط نہ کیے جائیں کیونکہ ایٹمی قوت کے حصول اور اس میں پیش رفت حکم قرآنی کا تقاضا ہے اور اس سے انحراف قرآن وحدیث کی تصریحات کے خلاف ہے۔

لیکن افسوس مسلمان ممالک اس حکم قرآنی سے غافل رہے اور غافل ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج امریکہ اور اس کے اتحادی جو چاہیں کریں‘ مسلمان ممالک ان کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہیں‘ وہ ان کے حکم سے سرتابی کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ وہ ملت اسلامیہ کے عظیم مجاہد اور ہیرو کو دہشت گرد کہیں‘ وہ اسلام کے ایک بے داغ اور مثالی حکمران کو دہشت گردوں کا پشتی بان قرار دیں تو ہمارے اندر ان سے اختلاف کرنے کی ہمت نہیں۔ وہ ان دونوں پر چڑھ دوڑیں اور ان کے ساتھ دیگر بہت سے معصوم اور بے گناہوں پر تابڑ توڑ حملے کریں تو ہم اس مسلم کشی میں ان کے دست وبازو بن جائیں اور اپنا سب کچھ ان کی خدمت میں پیش کر دیں جیسا کہ المیہ افغانستان کے پس منظر میں بے گانوں کی ستم رانی کے ساتھ اپنوں کی کرم فرمائی واضح ہے ؂

قریب یارو ہے رو زمحشر‘چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر؟
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

اس لیے ضروری ہے کہ عالم اسلام اپنے وسائل جمع کرے۔ جس کے پاس مال ودولت ہے‘ وہ مال دے۔ جس کے پاس علم وہنر ہے‘ وہ اپنا علم وہنر پیش کرے۔ جس کے پاس جذبہ وتوانائی ہے‘ وہ اسے بروئے کار لائے۔ یوں وہ اپنے وسائل اور صلاحیتیں جمع کر کے اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنائے تاکہ اس المیے کا اعادہ نہ ہو سکے اور اس تہذیبی تصادم میں مسلمان ممالک بھی اپنی تہذیب کو بچانے میں کوئی کردار ادا کر سکیں۔

چھٹا سبب مغرب کے مقابلے میں ہمارے اخلاق وکردار کی پستی ہے۔ مغرب بے دین ہونے اور بے حیائی کو تہذیب کے طور پر اپنانے کے باوجود عمومی زندگی میں اخلاقی قدروں کا پاسبان ہے‘ امانت ودیانت اس کا شعار ہے۔ اس نے زندگی گزارنے کے لیے جو معاشرتی اصول اور ضابطے وضع کیے ہیں‘ ان کی پابندی کرنے والا ہے۔ محنت‘ لگن اور جدوجہد کرنے والا ہے۔ علم وہنر کا حامل اور اہل علم وہنر کا قدر دان ہے۔ اپنی ان خوبیوں کا وہ صلہ پا رہا ہے‘ دنیا میں اس کی تجارتی ساکھ قائم ہے‘ پوری دنیا اس کی مصنوعات کی منڈی ہے اور گراں سے گراں تر ہونے کے باوجود لوگ انہیں آنکھیں بند کر کے لے لیتے ہیں۔ حالانکہ یہ و ہ خوبیاں ہیں جن کی تلقین ہمارے مذہب نے کی ہے۔ ان خوبیوں میں ہمیں ممتاز ہونا چاہیے تھا۔ اخلاق وکردار کی یہ بلندی ہمارا شعار ہونا چاہیے تھی لیکن بد قسمتی سے معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ہم مذکورہ خوبیوں سے محروم اور اخلاقی پستیوں میں مبتلا ہیں اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ ہم آج کل مغرب کی تقلید اور اس کی نقالی کرنے میں فخر تو محسوس کرتے ہیں لیکن اس کی مذکورہ خوبیاں اپنانے کے لیے پھر بھی تیار نہیں۔ گویا ہم نے اس کی تقلید بھی کی ہے تو ایسی باتوں میں جو ہمارے مذہب کے خلاف ہیں اور ان کا کوئی تعلق مادی وسائنسی علوم اور ترقی سے نہیں ہے۔ ہم شوق سے کتے پالتے ہیں‘ ڈاگ شو اور فیشن شو منعقد کرواتے ہیں۔ کس لیے؟ کہ فرنگی اس کا شوق رکھتے ہیں۔ ہم نے اپنی عورتوں کو بے پردہ کر دیا‘ محض اس لیے کہ ان کی عورتیں بے پردہ ہیں۔ ہم نے ان کا سا لباس اختیار کر لیا‘ تاکہ ہم بھی ماڈرن اور مہذب لگیں یا کہلوائیں لیکن کوئی بتلائے کہ ان چیزوں کا کوئی تعلق ان کی ترقی اور ان کے علوم وفنون کی مہارت سے ہے؟ کیا ان کی ترقی کتوں سے پیار کرنے کی مرہون منت ہے؟ یا کوٹ پتلون اور ٹائی کا اس میں دخل ہے؟ کیا عورتوں کی عریانی ان کی ترقی کی بنیاد ہے؟ نہیں‘ ہرگز نہیں۔ پھر ان چیزوں میں ان کی تقلید کا کیا فائدہ؟ اور اپنے تہذیبی تشخص اور مذہبی انفرادیت کو ختم کرنے کا کیا مطلب؟ ان کی ترقی کا راز تو علم وہنر‘ ان کی محنت اور لگن‘ امانت ودیانت اور ان تھک جدوجہد میں مضمر ہے۔

علامہ اقبال رحمہ اللہ نے‘ جنہوں نے خود مغرب میں رہ کر ہر چیز کا مشاہدہ کیا تھا‘ وہ یورپ کی ترقی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں ؂

قوت مغرب نہ از چنگ ورباب
نے زرقص دختران بے حجاب
نے زسحرِ ساحران لالہ رو است
نے زعریاں ساق نے از قطع مو است
محکمی او نہ از لا دینی است
نے فروغش از خط لاطینی است
قوت افرنگ از علم وفن است
از ہمیں آتش چراغش روشن است
حکمت از قطع وبرید جامہ نیست
مانع علم وہنر عمامہ نیست

حضرات محترم! ہماری پستی اور کمزوری کے یہ چند اسباب ہیں۔ جب تک ہم اپنی مذکورہ کمزوریوں کا ازالہ نہیں کریں گے اور مذکورہ خطوط پر اپنی پالیسیوں کو استوار نہیں کریں گے‘ ہم موجودہ تہذیبی تصادم میں اپنا وہ عالمی کردار ادا نہیں کر سکیں گے جو ہماری عظمت رفتہ کا بھی آئینہ دار ہو اور روشن مستقبل کا مظہر بھی۔ بقول علامہ اقبال:

سبق پھر پڑھ صداقت کا‘ عدالت کا‘ شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو‘ زمانہ چال قیامت کی چل گیا
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے ’’اے اسلام والو تم‘‘
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر غافل‘ عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
جو کرے گا امتیاز رنگ وخوں مٹ جائے گا
ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر
تا خلافت بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب وجگر

علامہ اقبال مزید فرماتے ہیں:

ناموس ازل را تو امینی تو امینی
دارائے جہاں را تو یساری تو یمینی
اے بندہ خاکی تو زمانی تو زمینی
صہبائے یقیں در کش واز دیر گماں خیز
از خواب گراں‘ خواب گراں‘ خواب گراں خیز
از خواب گراں خیز
فریاد زافرنگ ودل آویزی افرنگ
فریاد زشیرینی وپرویزی افرنگ
عالم ہمہ ویرانہ زچنگیزی افرنگ
معمار حرم! باز بہ تعمیر جہاں خیز
از خواب گراں‘ خواب گراں‘ خواب گراں خیز
از خواب گراں خیز

مسلمانان عالم کے لیے لائحہ عمل

مولانا محمد عیسی منصوری

جب سے اس دھرتی پر انسان کا وجود ہوا ہے‘ یہاں خیر اور شر کی رزم آرائی اور جنگ مسلسل جاری ہے۔ ہر دور میں خیر کا راستہ آسمانی وحی کی اتباع کا اور شر کا راستہ خواہشات وشہوات کے پیچھے دوڑنے کا رہا ہے۔ خدا کے آخری پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ نے آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے دنیا میں خیر کو شر پر غالب کر دیا تھا اور پوری انسانیت کو اس کے خالق کا آخری پیغام پہنچا دیا تھا جو پوری انسانیت کی بقا اور خوش حالی‘ امن وسلامتی‘ ہمہ گیر یک جہتی اور ہر نوع کی دنیوی ودینی ترقیات وفلاح کا ضامن تھا۔ اس پیغام کی بنیاد ایک خالق کی عظمت واطاعت اور تمام انسانوں کی مساوات اور حقوق کی ادائیگی پر تھی۔ ربع صدی کے نہایت مختصر عرصے میں اس دورکی معمور دنیا (ایشیا‘ افریقہ‘ یورپ) کے بڑے حصے پر اس آخری پیغام کی حامل قوم غالب وحاوی ہو کر سترہویں صدی عیسوی تک دنیا میں عالمی قوت بن کر فائق وسربلند رہی۔ اس پورے عرصے میں وہ مخصوص نسل جو اپنے کرتوتوں کے سبب سے خدا کی بارگاہ سے مردود ہوئی تھی‘ جسے تمام آسمانی کتابوں نے مسلسل جرائم ونافرمانی‘ خدا ورسول سے مقابلہ اور خدا کے ہزارہا پیغمبروں کو ستانے اور قتل کرنے کی وجہ سے حزب الشیطان یعنی شیطان کی پارٹی قرار دیا ہے‘ جن کی بنیادی خصلت قرآن کی زبان میں حرام خوری (سود خوری)‘ اقوام عالم کے مابین شر وفتنہ انگیزی اور جاسوسی رہی ہے‘ جن کو تمام آسمانی کتب نے ملعون ومغضوب علیہم یعنی خدا کی رحمت سے دوری اور خدا کے قہر وغضب کے مستحق ہونے کی مہر ثبت کر دی۔ ہزارہا سال سے یہ مخصوص نسل پرست ٹولہ برابر اپنی سازشوں میں مصروف رہا تاکہ پوری انسانیت کو اپنا ہمہ جہتی غلام بنا کر ان پر اپنے خونی پنجے گاڑ دے۔ قرون وسطیٰ میں اس ٹولے کی سازش اور اکسانے پر ہی صلیبی جنگیں برپا ہوئیں۔ اس ٹولے نے انیسویں صدی عیسوی تک مغرب کی مسیحی اقوام کو رام کر لیا اور مذہب کو ختم کر کے مغربی اقوام کو نیشنلزم کے نام پر ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہیں کے مختلف طبقات کو باہم ٹکرا کر اپنے شکنجہ میں جکڑ لیا۔ مغربی اقوام پر اس طرح تسلط حاصل کر لیا کہ مغرب کے سیاستدان‘ صنعت کار‘ تاجر‘ کاشت کار‘ مزدور‘ اہل قلم‘ اسکالر‘ دانش ور سب صہیونی مقاصد کے لیے کام کرنے والے مزدور اور چاکر بن کر رہ گئے۔ پھر مغربی اقوام کے کندھوں پر سوار ہو کر بیسویں صدی میں اقوام عالم کو نظریاتی وفکری‘ اقتصادی ومعاشی‘ تمدنی ومعاشرتی طور پر اپنا اسیر بنا لیا۔ اس وقت پوری دنیا کی اقوام مغربی اقوام کے واسطے سے درحقیقت نسل پرست صہیونیوں کے منحوس جال میں پھنس چکی ہیں اور بے بسی کے ساتھ ان کی اطاعت پر مجبور ہیں۔

ملت اسلامیہ جن کا باہمی تعلق ورشتہ خون کے رشتے سے زیادہ مضبوط تھا‘ جن کے نزدیک رنگ ونسل‘ وطنی وطبقاتی فرق وامتیاز کی کوئی حیثیت نہیں تھی‘ گزشتہ صدیوں میں انہیں مغرب نے نظریاتی وفکری انتشار میں مبتلا کرکے خدا کی آخری وحی سے دور کر دیا۔ یاد رہے کہ گزشتہ تین صدیوں میں مغرب میں جتنی فکری ونظریاتی تحریکیں اٹھیں‘ وہ سب صہیونی نسل پرستوں کی منصوبہ بندی کے تحت اٹھیں اور مغرب کے اکثر مفکر نسلاً یہودی تھے۔ ان سب کا مشترکہ مقصد آسمانی وحی (مذہب) سے کاٹ کر خواہشات وشہوات کی راہ پر ڈالنا تھا۔ پہلے نیشنلزم (وطنیت) کے نام پر ملت اسلامیہ کے پچاسوں ٹکڑے کیے۔ پھر ان میں نظریاتی وطبقاتی جنگ تیز کر کے ایک ہی ملک کے مختلف طبقات کو باہم لڑایا اور ہر طبقہ میں اپنے فکری‘ تمدنی وسیاسی غلبہ کے ہم نوا افراد کومسلط کیا پھر ان کے ذریعے سے پورے عالم اسلام کو ایک ایسی مردہ لاش میں تبدیل کر دیا کہ جس طرح چاہیں‘ یہودی اور ان کے غلام (مغربی اقوام) نوچ کھسوٹ کریں اور وہ اف نہ کر سکیں۔ اس شیطانی پارٹی نے پوری منصوبہ بندی کر لی ہے کہ مستقبل میں کبھی مسلمان اور مسیحی ان کی ہمہ گیر غلامی کے چنگل سے نہ نکلنے پائیں۔ خاص طور پر ملت اسلامیہ باہم متحد ومتفق نہ ہونا پائے۔ اس وقت ملت اسلامیہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی حزب الشیطان (یہودیوں) کا ہمہ جہتی غلبہ وتسلط ہے جو ملت اسلامیہ کے تمام مسائل ومشکلات‘ ذلت وخواری کی جڑ اور بنیاد ہے۔ اگر اب بھی اس شیطانی جال سے نکلنے کی منصوبہ بندی نہ کی گئی تو آنے والی نسلیں ان کی بدترین غلامی کی دلدل میں مزید دھنستی چلی جائیں گی اور دنیا سے خیر اور آسمانی وحی کی برکات معدوم ہو کر مکمل طور پر خواہشات کی شیطانی حکمرانی قائم ہو جائے گی۔ ملت اسلامیہ گزشتہ دو صدیوں میں اپنی ناسمجھی اور بے دانشی کے سبب سے مغرب کی ذہنی‘ تمدنی‘ تعلیمی اور معاشرتی اقتدا کر کے جانکنی کی حالت کو پہنچ گئی ہے۔ 

اس انسانیت ومذہب دشمن ٹولے نے پوری دنیا کو باکسنگ کا گراؤنڈ بنا کر رکھ دیا ہے۔ جس طرح باکسنگ کے کھیل میں غالب آنے والا باکسر پچھڑ جانے والے باکسر کو دوبارہ اٹھنے نہیں دیتا‘ جب بھی وہ ہوش میں آنے یا اٹھنے کی کوشش کرتا ہے‘ تو غالب باکسر اس کے سر پر گھونسہ رسید کر کے دوبارہ سلا دیتا ہے۔ اب ہارنے والے باکسر کی سمجھ داری ہے کہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے یا مزید ہڈیاں تڑوانے کے بجائے وقتی طور پر اپنی شکست تسلیم کر کے اگلے راؤنڈ کے لیے تیاری کرے۔ اس وقت دنیا کے گراؤنڈ پر کوئی مسلم ملک اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کی کوشش کرے گا تو اسے اسی طرح ٹھکانے لگا دیا جائے گا جیسے شاہ فیصل شہید‘ جنرل ضیاء الحق یا ماضی قریب میں صدام حسین اور مہاتیر محمد کا حشر کیا جا چکا ہے۔ اس لیے ملت اسلامیہ کے لیے اپنی تقدیر بدلنے یا دنیا پر غالب شیطانی ٹولے سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ وہ ہے خاموشی وصبر اور حکمت ودانش مندی کے ساتھ طویل جدوجہد جس کے بنیادی نکات مندرجہ ذیل ہو سکتے ہیں:

۱۔ مسلم ممالک آپس میں میل جول‘ تبادلہ خیالات کے ذریعے سے باہمی مفاہمت‘ ایک دوسرے کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے قریب آنے کی طرح ڈالیں۔ تمام ممالک اپنی سائنسی‘ صنعتی‘ علمی اور تکنیکی پسماندگی دور کرنے کے لیے مل جل کر تعلیمی‘ ٹیکنیکل اور سائنسی ادارے اور ریسرچ مراکز قائم کریں۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے اپنے جگر گوشوں اور بہترین صلاحیت رکھنے والے نوجوانوں کو مغربی یونیورسٹیوں اور اداروں میں اسلام دشمن نظریات ‘ معاشرت اور کلچر کے حوالے کرنے کے بجائے مسلم ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے سائنسی وٹیکنیکل ادارے قائم کیے جائیں۔ ہر مسلم ملک کسی ایک شعبہ میں اعلیٰ ترین تعلیم وتربیت کی ذمہ داری قبول کرے۔ اس میں تمام مسلم ممالک کے علاوہ افریقہ وایشیا کی تیسری دنیا کی پس ماندہ اقوام وممالک کو اپنے ساتھ شریک کر کے ان کی بھی مدد وکفالت کی جائے۔

۲۔ مسلم ملکوں کو غذائی اجناس میں خود کفیل بنانے کے لیے زراعت پر خصوصی توجہ دی جائے جس طرح اسرائیل نے جدید سائنسی ٹیکنالوجی استعمال کر کے اپنے صحراؤں کو گلشن بنا کر یورپ کے ممالک کو سبزیوں‘ فروٹ اور فروٹ جوس سے بھر دیا ہے۔ بہت سے مسلم ممالک کے پاس وسیع زمینیں ہیں مگر وسائل نہیں اور بہت سے مسلم ممالک وسائل سے مالامال ہیں۔ زراعت میں باہمی تعاون واعانت کے تمام ممکن طریقے اختیار کیے جائیں۔ 

۳۔ مسلم ممالک زیادہ سے زیادہ باہمی تجارت کو فروغ دیں۔ اس وقت مسلم ملکوں کی نوے فی صد سے زیادہ تجارت ان ملکوں کے ساتھ ہے جو اسلام اور ملت اسلامیہ کے دشمن ہیں۔ جو چیز کسی مسلم ملک سے مل سکتی ہو‘ اسے ہر قیمت پر مسلم ملک ہی سے خریدیں۔ تجارت میں مسلم ممالک باہمی ترجیحی بنیادوں پر رعایت دیں۔

۴۔ تمام مسلم ممالک مل کر اپنے ڈیفنس اور اسلحہ سازی کے لیے مربوط پروگرام وضع کریں۔ مثلاً ہر مسلم ملک کسی ایک چیز میں اعلیٰ سے اعلیٰ فنی مہارت حاصل کرے اور اس کی صنعت ڈالنے پر پوری توجہ منعطف کرے۔ کوئی مسلم ملک ٹینک سازی‘ کوئی توپ سازی‘ کوئی لڑاکا طیاروں کی تیاری‘ کوئی میزائل سازی‘ کوئی خلائی سیاروں کی تیاری‘ کوئی نیوی اور میزائل بردار کشتیوں کی تیاری اور کوئی اسلحہ اور کوئی چھوٹے اسلحہ سازی کی فنی مہارت حاصل کرنے اور صنعت ڈالنے پر اپنی توانائی صرف کرے۔ یہ اسلحہ سازی اور فنی مہارت کا حصول نہ صرف ۵۶ مسلم ممالک کے لیے ہو بلکہ افریقہ وایشیا کے پس ماندہ ملکوں اور قوموں کو سہارا دے کر انہیں مغرب کے ظالم شکنجے سے نکلنے میں مدد دی جائے۔

۵۔ آج کا دور ذرائع ابلاغ کا دور ہے۔ روس کو شکست امریکی اسلحہ نے نہیں دی بلکہ سیٹلائیٹ نے دی ہے۔ جدید کمیونی کیشن ورابطہ کے لیے کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ اور سیٹلائیٹ کی اعلیٰ فنی تعلیم ان چیزوں کی تیاری میں مل جل کر منصوبہ بندی کی جائے۔ مسلم ممالک میں نہ ٹیلنٹ کی کمی ہے نہ وسائل کی۔

۶۔ دنیا میں معدنیات‘ پٹرول‘ ربر‘ سونا‘ پیٹل‘ تانبہ‘ لوہا حتیٰ کہ یورینیم کے ستر فیصد سے زیادہ ذخائر عالم اسلام کے پاس ہیں۔ ا س وقت دنیا کی ترقی یافتہ اقوام ہم سے کچا مال کوڑیوں کے دام خرید کر پھر انہیں سونے کے دام لوٹا رہی ہیں۔ معدنیات کے نکالنے اور ان کی تیاری کا انتظام اپنے ہی ملکوں میں ہونا چاہیے۔

۷۔ مسلم دنیا کے مختلف طبقات سائنس دان‘ جدید علوم وٹیکنالوجی کے ماہرین‘ اسکالر‘ صحافی ودانش ور‘ صنعت کار‘ سیاست دان‘ مذہبی علماء ومفکرین کے میل جول اور تبادلہ خیالات کے لیے زیادہ سے زیادہ مجالس‘ کانفرنسیں‘ سیمینار اور پروگرام رکھے جائیں تاکہ ملت اسلامیہ کے مختلف طبقات باہمی علمی وفکری استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ دلی طور پر ایک دوسرے کے قریب آ سکیں۔

۸۔ یہود اور ان کے آلہ کار مغرب کے اسلام دشمن ممالک کی فکری یلغار‘ الحادی فلسفوں‘ تزویراتی حربوں اور سازشوں کے توڑ کے لیے دنیوی اور دینی علوم کے ماہرین پر مشتمل ایک علمی کونسل ہر مسلم ملک میں قائم کی جائے اور سال میں کم از کم دو مرتبہ مسلم ممالک کے علماء ومفکرین اور دانش وروں کو اعدائے اسلام کی علمی وفکری یلغار وسازشوں پر غور وخوض کے لیے مجتمع کیا جائے۔ ہر مسلم ملک میں جدید ترین ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے دشمن کی طرف سے آنے والے گمراہ کن علمی وفکری سیلاب ونشراتی اداروں (پرنٹ والیکٹرانک میڈیا) کے نام نہاد دانش وروں اور اسکالرز پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ان کی پھیلائی ہوئی گم راہیوں اور زہریلے افکار وکلچر کا موثرجواب فراہم کیا جائے۔

۹۔ نئی نسل کو ذہنی وفکری گم راہیوں‘ بے راہ روی‘ خواہشات وشہوت پرستی اور تخریبی امور سے بچانے کے لیے اسلام کی بنیادی اعلیٰ‘ آفاقی وتعمیری تعلیمات سے واقفیت کے لیے عصری درس گاہوں میں ابتدا ہی سے انتظامات کیے جائیں تاکہ نئی نسل بے راہ رو نہ ہونے پائے اور اسلام دشمن تحریکیں اور عناصر انہیں شکار نہ کر سکیں۔

۱۰۔ قرآن نے پوری انسانیت کی بہبود وبھلائی اور دنیا وآخرت کی فلاح کے لیے جو تعلیمات‘ پیغام‘ ہدایات اور پروگرام دیا ہے‘ جدید ترین ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے انہیں دنیا کے ہر انسان تک پہنچانے کی سعی کی جائے۔

۱۱۔ دشمنان اسلام کا اصل ہتھیار اور طاقت لذات وشہوت پرستی‘ فحش وبے حیائی کی گندی معاشرت‘ فیشن وتعیش پسندی کا مغربی کلچر ہے جو خدا فراموشی اورآخرت سے غفلت کا کلچر ہے۔ اس کے مقابلے کے لیے ملت اسلامیہ کے ہر فرد کو سادگی‘ جفا کشی کی مجاہدانہ زندگی کا عادی بنایا جائے۔

اس حقیقت پر کڑی نظر رکھنی ہوگی کہ ہر مسلم ملک میں این جی اوز کے نام سے دشمنان اسلام کے بے شمار افراد وتنظیمیں کام کر رہی ہیں جو فلاحی کاموں اور رفاہ عامہ وخدمت خلق کے کاموں کے پردے میں درحقیقت مغربی آقاؤں کے ایجنٹ اور جاسوس ہیں اور ان کے ناپاک مقاصد کے لیے کوشاں ہیں۔ اس ناسور وکینسر پر کڑی نظر رکھی جائے۔ تمام مسلم ممالک اور ان کے سربراہوں کو یہ بات خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہود ونصاریٰ اور کافر کبھی کسی مسلمان کے دوست اور خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔ اس پر پوری تاریخ شاہد ہے۔ اس وقت بھی فلسطین‘ بوسنیا‘ چیچنیا اور کشمیر میں پورا عالم کفر مسلمانوں کے مقابلے پر جس طرح ملت واحدہ بنا ہوا ہے‘ یہ منظر حقائق سمجھانے کے لیے کافی ہے۔

عصری تقاضے اور اسلام کی تعبیر وتشریح

پروفیسر میاں انعام الرحمن

کسی قوم کی کمزور تاریخ یا پھر اپنی عظیم تاریخ کا کمزور شعور تخلیقی صلاحیتوں کو مردہ اور سارے نظامِ اقدار وخیال کو تتر بتر کر دیتا ہے۔ عالمی مسلم معاشرہ اسی المیے کا شکار ہے۔ اسلام کی عصری تقاضوں سے ہم آہنگ تعبیر وتشریح بیک وقت دو محاذوں پر کام کرنے سے ممکن ہے‘ داخلی اور خارجی۔ درج بالا پہلے فقرے کے تناظر میں داخلی محاذ پر زیادہ سنجیدگی اور مشقت کی ضرورت ہے۔ اگر ہم کتاب اور سنت‘ احادیث نبوی اور اسلام کے ابتدائی عہد میں دعوت کے اسلوب پر طائرانہ نظر دوڑائیں تو اسلامی اسپرٹ بہت زیادہ سوشل معلوم ہوگی۔ اسلام کی دعوتی اور توسیعی سرگرمیاں‘ چاہے ان کا رخ خود مسلم معاشرہ کے داخل کی طرف ہو یا خارج میں کوئی غیر مسلم مخاطب ہو‘ ہمیشہ سوشل منہاج کی حامل رہی ہیں۔ سیاست‘ معیشت‘ تمدن‘ ثقافت‘ علوم وفنون وغیرہ ان سب کا خمیر سوشل رویے سے ہی اٹھا تھا۔ سوشل رویے کی تہذیب اور اٹھان میں دو طرح کی نفسیات کام کرتی ہے‘ انفرادی اور گروہی۔ نظری اعتبار سے ممکن ہے کہ ہم اپنی سہولت کے پیش نظر اور نت نئے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے ان کو علیحدہ علیحدہ ڈسکس کریں لیکن عملی اعتبار سے علیحدگی کی حتمی لائن کھینچنا ناممکن ہے۔ ابن خلدون شاید واحد مسلم مفکر ہے جس نے تاریخ کی ’’سماجی طرح‘‘ کی بنیاد ڈالی اور مسلم تاریخ کو معتبر کرنے کے ساتھ ساتھ نقد وانتقاد کے کئی پہلو متعارف کرائے۔ اپنے عہد میںیہ بہت بڑا کارنامہ تھا۔ ہماری نااہلی کی وجہ سے اب بھی یہ ایک کارنامہ ہے۔ اگر ہم ابن خلدون کے بعد تفہیم تاریخ کے تسلسل کو قائم نہیں رکھ سکے تو کم از کم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اس کے اصول تاریخ کو اپنے عہد کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر ایسا ہو سکے تو عصر حاضر میں اسلام کی تعبیر وتشریح کے لیے درکار تاریخی شعور کچھ نہ کچھ حاصل ہو جائے گا۔ تاریخی شعور کے بغیر کوئی بھی تخلیقی سرگرمی سطحی اور عارضی ثابت ہوگی کیونکہ اس کی عدم موجودگی سے معاشرے سے معیار غائب ہو جاتے ہیں‘ اوٹ پٹانگ تُک بندیاں راہ پا جاتی ہیں‘ زمینی حقائق نظر انداز کر دیے جاتے ہیں‘ عقائد ’’جذبات نما‘‘ بن جاتے ہیں‘ انفرادی اور گروہی زندگی نصب العین اور راہ عمل سے یکسر خالی ہو جاتی ہے۔ تاریخی شعور سے عاری کوئی بھی معاشرہ زندہ معاشرہ نہیں کہلا سکتا کہ آرزوؤں کی شکست کا عمل تیز ہو جاتا ہے اور شکستِ آرزو شکستِ زیست کا باب ثابت ہوتی ہے۔

عصر حاضر میں اسلام کی تعبیر وتشریح کے داخلی منہاج کے لیے پہلا قدم ’’صحیح سوال‘‘ کرنا ہے۔ اکثر سننے اور پڑھنے میں آتا ہے کہ کتاب وسنت سے دوری کی وجہ سے مسلمان زوال کا شکار ہو گئے ہیں۔ یہ بیانیہ اور واقعاتی انداز ہے۔ درحقیقت یہی انداز ہمارے زوال کا سبب ہے۔ سوال اس طرح ہونا چاہیے کہ ’’ہم کتاب وسنت سے کیوں دور ہو گئے ہیں؟‘‘ اس سوال کے جواب میں کوئی سنجیدہ‘ جامع‘ تجزیاتی کتاب شاید ہی ملے۔ اگر کچھ کتب مل بھی جائیں تو ان کا جواب بیانیہ اور واجبی سا ہوگا کہ ہم نے مغرب کی اندھا دھند پیروی شروع کر دی ہے‘ مغربی ثقافت کی یلغار سے ہم منتشر ہو گئے ہیں‘ علوم وفنون میں غیر مسلموں کی ترقی سے ہم بہت مرعوب ہو گئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کے واقعات میں محض نشان دہی کی گئی ہے جیسا کہ سوال میں نشان دہی کی گئی ہے کہ ہم کتاب وسنت سے دوری کی وجہ سے زوال کا شکار ہیں۔ اگر پڑھنے والا ہوش مند قاری ہے تو ایسے جوابات سے اس کا رد عمل زیادہ سے زیادہ ایک لمحے کی زیر لب مسکراہٹ ہوگا۔ مجھے مسکراہٹ کی اہمیت سے انکار نہیں ہے لیکن اسلام کی تعبیر وتشریح کے لیے درکار جوابات کے لیے یہ ناکافی ہیں۔ ایسے سوالات اور ان کے تسلی بخش جوابات بنیاد فراہم کرنے کے باوجود تعمیم کے زمرے میں آئیں گے۔ مشقت تو ہوگی لیکن کچھ درکار (Required) سوالات بھی تلاش کرنا ہوں گے۔ یہ تلاش تبھی موثر ثابت ہوگی اگر ہم اپنے زمانے کے حدود اربعہ‘ ساخت اور رجحانات کی بابت کماحقہ آگاہ ہوں گے۔ محدود با خبری ہمیں راستے سے ہٹا (Detract)سکتی ہے۔ ایسے سوالات کی نوعیت بھی اگرچہ تعمیمیت کی حامل ہوگی لیکن ا سکی جڑیں عصر حاضر سے مخصوص ہوں گی۔ مثلاً:

۱۔ کیا کسی الہامی مذہب کا زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہونا ممکن ہے؟

۲۔ اگر ممکن ہے تو کیا عصر حاضر میں اس کی ضرورت ہے؟

۳۔ اگر ضرورت بھی ہے تو اس کے ادعائی ثمرات کیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں؟

۴۔ آئیے مل کر کسی ایسے مذہب کی دریافت کا سفر شروع کریں‘ اس عہد کے ساتھ کہ سفر کی صعوبتوں سے بھاگیں گے نہیں۔ دورانِ سفر میں باہمی اختلاف کا امکان موجود رہے گا۔ آئیے یہ بھی طے کر لیں کہ کسی اختلاف کو اس طرح پیش نہیں کریں گے جس سے سفر متاثر ہو اور قافلے کی ٹوٹ پھوٹ کا امکان ہو۔

داخلی منہاج پر کیے گئے ایسے سوالات عصری تقاضوں کو Address کریں گے۔ نتیجے میں پیدا ہونے والے ثمرات محض داخلی نوعیت کے نہیں ہوں گے بلکہ خارجی محاذ پر مسلمانوں کے لیے موثر ہتھیار ثابت ہوں گے۔

بعض اصحاب کی رائے ہے کہ اسلامی دعوت کی ’’کلیت‘‘ کا اظہار مناسب نہیں کہ حکمت عملی کا تقاضا یہی ہے۔ مولانا محمد عیسیٰ منصوری ماہنامہ الشریعہ کے نومبر ۲۰۰۱ء کے شمارے میں رقم طراز ہیں کہ

’’۱۹۹۴ء میں امریکہ میں عالمی مذاہب کانفرنس ہوئی جو ہر سو سال بعد منعقد ہوتی ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دنیا کے ہر چھوٹے بڑے مذہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہب کا تعارف پیش کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں شرکت کرنے والی ایک علمی شخصیت نے اس کانفرنس کا ایک نہایت قابل غور نکتہ تحریر کیا ہے۔ وہ یہ کہ کانفرنس میں دوسرے مذاہب پر گفتگو کے دوران لوگ سنجیدہ رہتے اور بغور سنتے مگر جونہی اسلام کے تعارف کا موقع آجاتا‘ وہ جارحانہ انداز اختیار کر لیتے۔ لوگوں کے اس رویے کا سبب بتاتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ دیگر مذاہب کے نمائندے اپنے مذہب کو فرد کی تعمیر کی حیثیت سے پیش کرتے یعنی ان کا مذہب فرد کے اعمال وعقائد میں کیا تبدیلی چاہتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام کانمائندہ اپنی بات یہاں سے شروع کرتا کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے ....... تو سامع پر فوری اثر یہ مرتب ہوگا کہ وہ سمجھے گا کہ مسلمان ہم پر سیاسی بالادستی واقتدار کے خواہاں ہیں۔‘‘

جہاں تک دیگر مذاہب کے جارحانہ رویے کا تعلق ہے تو اس پر اکتفاکروں گا کہ کفار ملت واحدہ ہیں۔ جہاں تک پیغام کی اجتماعیت کا تعلق ہے تو میراخیال ہے کہ اسلام اور دیگر مذاہب میں بنیادی فرق ہی یہی ہے ورنہ بعض دوسرے مذاہب کے لوگ بھی موحد ہیں‘ ان کا کوئی نہ کوئی نبی بھی ہے اور آسمانی صحیفہ بھی‘ اگرچہ تحریف شدہ۔ چونکہ دیگر مذاہب میں سیاست واجتماعیت کے حوالے سے کلیدی راہنمائی موجود نہیں اس لیے ناواقفیت کی فضا میں ان کا رویہ جارحانہ ہو جاتا ہے۔ ان کا مذہبی شعور یہ ماننے پر ہی تیار نہیں ہوتا کہ مذہب ضابطہ حیات بھی ہو سکتا ہے۔ ضرورت ان کے مذہبی شعور کو Address کرنے کی ہے نہ کہ اپنے پیغام کی آفاقیت پر کمپرومائز (Compromise)کرنے کی۔ اگر وہ محدود مذہبی شعور کے سبب سے نہیں تو خوف کی فضا میں جارحیت کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں ان کا خوف دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ان کا خوف کس نوعیت کا ہے۔ میرے نقطہ نظر سے پیغام کی آفاقیت کو برقرار رکھتے ہوئے پیرایہ اظہار اور اسلوب میں تبدیلی سے ان کا خوف کم ہو سکتا ہے۔ کمپرومائز اسلوب کی حد تک ہو سکتا ہے۔ جہاں تک خوف کے مکمل خاتمے کا تعلق ہے تو آپ کمپرومائز کی انتہا پر بھی چلے جائیں تو وہ ختم نہیں ہوگا۔ یہ ایک عام سا نفسیاتی نکتہ ہے۔

موصوف مقالہ نگار اجتماعی ہیئت اور سیاست وریاست کی نفی کرتے ہوئے فرد پر بہت زور دیتے ہیں‘ اگرچہ حکمت عملی کے تحت۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ’’فرد‘‘ ہوتا بھی ہے؟ جیسا کہ میں نے بہت ابتدائی سطور میں اشارہ کیا ہے۔ پھر اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ عصر حاضر تو عالمی گاؤں (Global Village) جیسے رجحانات سے عبارت ہے۔ ضرورت اسلام کے اجتماعی نظام کے مکاشفے کی ہے نہ کہ فردیت کی۔ آئیے مغرب کے سماجی نظام کی روشنی میں اس ’’ضرورت‘‘ کا مختصراً جائزہ لیں:

کسی طرز معاشرت سے ہی زندگی کے دیگر پہلوؤں کی ہیئت کا تعین ہوتا ہے لہذا کسی ملک کے سیاسی‘ معاشی اور دیگر نظاموں کے مطالعہ سے اس ملک کے سماجی نظام کی مخصوص نہج کا تقریباً کلی ادراک بآسانی ہوجاتا ہے۔ دیگر نظام ہائے زندگی اپنے خالق یعنی طرز معاشرت کے عکاس ثابت ہوتے ہیں۔ اگر کسی ملک کی معیشت کا رخ منفی ہے تو لامحالہ قصور وار متعلقہ ملک کا مخصوص سماجی نظام ہی ہوگا۔

اگر ہم مغرب کے اقتصادی وسیاسی نظام ہائے زندگی کا جائزہ لیں تو ان میں مضمر منفیت چھپی نہیں رہتی۔ ان نظاموں کے استحصالی پہلو سے دنیا آگاہ ہے۔ اس منفیت کو دور کرنے کی اصلاحی کوششیں اگر صرف متعلقہ نظاموں تک محدود رہیں تو نہ صرف سطحی شمار ہوں گی بلکہ بے سود ثابت ہوں گی کیونکہ ان نظاموں کی منفیت مخصوص سماجی نظام کی مرہون منت ہے۔ اس سماجی نظام کو ایڈریس کر کے ہی اصلاح احوال کی امید کی جا سکتی ہے۔

معاشی منفیت کچھ ا س طرح سے ہے کہ 

۱۔ سودی نظام

۲۔ دولت کا ارتکاز

۳۔ اور اخلاقیات اور معاشی سرگرمیوں میں بعداس نظام کی نمایاں خصوصیات ہیں۔

سیاسی منفیت اس طرح سے ہے کہ

۱۔ جمہوریت ہی آئیڈیل نظام ہے۔

۲۔ جب ریاست اور حکومت میں فرق روا نہیں رکھا جاتا تھا تو حکمران طبقہ کہتا تھا ’’میں ریاست ہوں‘‘۔ آج ریاست اور حکومت میں فرق ہونے سے حکمران طبقہ کہتا ہے ’’میں عوام ہوں‘‘۔ اگر عمیق نظر سے جائزہ لیں تو دونوں باتوں میں صرف لفظی ہیر پھیر ہے کیونکہ مقتدر طبقہ دونوں جگہ مخصوص ہے۔

۳۔ قومی مفاد ہر چیز پر مقدم اور زیادہ عزیز ہے۔

سماجی منفیت کچھ اس طرح سے ہے کہ

۱۔ انفرادیت پسندی کی انتہا ہے۔

۲۔ یہی انفرادیت پسندی جب اجتماعی سطح پر ظاہر ہوتی ہے تو ایک قوم بھی قوموں کی برادری میں صرف اپنا انفرادی مفاد ہی عزیز رکھتی ہے۔ قومی مفاد کی عفریتی اصطلاح کسی قوم کے انفرادیت پسندانہ رجحانات کو مرتکز کرنے میں بہت معاون ثابت ہوتی ہے۔

۳۔ یہی انفرادیت پسندی فرد کی سطح پر دولت کے ارتکاز کا باعث بنتی ہے کہ محروم اور کمزور طبقے میں خوف کی ایک عجیب سی فضا قائم کر دیتی ہے۔

۴۔ انفرادیت پسندی کی وجہ سے مقابلے کا رجحان ضروری ہو جاتا ہے کہ اس مقابلے میں اخلاقیات منہ لپیٹ کر ایک طرف پڑی رہتی ہے۔

مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ مغرب کے سماجی نظام میں موجود انفرادیت پسندی کی انتہا سے اقتصادی وسیاسی شعبہ ہائے زندگی میں جملہ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ انفرادیت پسندی کے زہر اور اس کے مضمرات کی منفیت نے ہی مغرب کے سماجی نظام کو ایک مخصوص نہج پر ڈال رکھا ہے جس کے سنگین نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ مغرب کا تدریسی وتربیتی نظام بنیادی مرکز کی حیثیت سے اس مخصوص سماجی نظام کو پروان چڑھا رہا ہے۔ طلبا کو زندگی کی دوڑ میں آگے نکلنے کے داؤ پیچ سکھائے جاتے ہیں۔ تربیتی لیپا پوتی کے ذریعے سے ان کا مخصوص ذہن بنایا جاتا ہے۔ یہ مخصوص ذہن معاشرے کے اندر سب سے آگے نکلنے کے لیے کسی کو خاطر میں نہیں لاتا اور اجتماعی سطح پر کسی دوسری قوم کو پرکاہ کی اہمیت نہیں دیتا۔ اگر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ذہن Accommodating (دوسروں کا لحاظ کرنے والا) نہیں ہے۔ اجتماعی سطح پر دوسری اقوام کو Accommodate کرنے پر تیار نہیں اور فرد کی سطح پر معاشرے کے دیگر افراد کو Accommodateکرنے پر تیار نہیں۔ لہذا اس مخصوص ذہن کا اخلاقیات یا زندگی کے آئیڈیلز سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہوتا۔ یہی مخصوص ذہن زندگی کے ہر شعبے میں اپنے مخصوص انداز سے کوئی نہ کوئی گل کھلاتا رہتا ہے۔ محروم طبقوں کی بغاوت کے پیش نظر اپنی مخصوص تربیت کی وجہ سے گل کھلانے کا عمل ’’تہذیبی دائرے‘‘ میں کیا جاتا ہے۔ یہ تہذیبی دائرہ وہی ہوتا ہے جو یہ لوگ پراپیگنڈے کے ذریعے سے لوگوں کے ذہنوں میں ڈال دیتے ہیں اور اسے قبول کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ صورت احوال میں کیسے تبدیلی کی جا سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسی طرز معاشرت کی بنیاد رکھنا ہوگی جس میں انفرادیت پسندانہ رجحانات شدید نہ ہوں۔ اس کے لیے اس مخصوص ذہن کو بدلنا ہوگا اور اس مخصوص ذہن کو تدریسی وتربیتی نہج میں تبدیلی پیدا کر کے ہی بدلا جا سکتا ہے کیونکہ وہ اسی مخصوص تدریسی وتربیتی نہج کی پیداوار ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ درست نہج کون سی ہے؟ اس کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے؟ انسانی زندگی کے وہ کون سے آئیڈیلز ہیں جنہیں سماج میں رائج کیا جانا چاہیے؟ ان کی تلاش کے لیے ہمیں انسانی شخصیت سے ہی کچھ نہ کچھ اخذ کرنا ہوگا۔

کہتے ہیں بچے کی معصومیت لاشعوری ہوتی ہے۔ بچہ دانستہ یا کسی باقاعدہ پلان کے تحت معصومانہ گفتگو وحرکات نہیں کرتا۔ یہ اس سے خود بخود ہو جاتا ہے کیونکہ بچے پر شعور کی لیپا پوتی نہیں ہوتی۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسانی فطرت کی اپج فقط بچے میں جھلکتی ہے۔ معاشرت کی درستگی اسی اپج کو بچے کی بعد کی زندگی میں سمونے پر منحصر ہے۔ 

مغربی معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا کہ اس لاشعور کو ہی شعور میں ڈھالا جائے کیونکہ انسانی فطرت کی اپج کو اپنے بنائے ہوئے مصنوعی تربیتی نظام سے دبانے کی بھرپور اور خاصی کامیاب کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح ایک مخصوص شعوری لیبل شخصیت پر چسپاں کر دیا جاتا ہے۔ جب تک یہ شعوری لیبل موجود رہتا ہے‘ فرد اس کے مطابق ہی زندگی کی سرگرمیاں جاری رکھتا ہے۔ بڑھاپے میں قویٰ کمزور ہوجانے سے اس شعوری تربیت کا اثر قدرے مدہم پڑ جاتا ہے اور دوبارہ بچپن والا لاشعور جھانکنے لگتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ بوڑھے بچوں کی مانند ہوتے ہیں۔ بہرحال بچپن کے بعد اور بڑھاپے سے پہلے کے عہد کا طویل دورانیہ جو مخصوص منفی تربیتی نہج کے زیر اثر گزرتا ہے‘ ا س کی باقیات کسی بھی بوڑھے میں بچے جیسی اپج نہیں رہنے دیتیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ جوانی کے ایام کی مانند لاشعور مکمل دبا بھی نہیں رہتا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جدید عہد میں انسانی شخصیت کے دو ادوار یعنی بچپن اور بڑھاپا ہی اس کے ’’اپنے‘‘ ادوار ہیں۔ اور سب سے فعال اور سرگرم دور بد ترین سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ مخصوص تربیتی نظام کی منفیت کی وجہ سے لاشعور کو بڑھاوا دینے کا بندوبست نہیں کیا جاتا۔ اس کے بجائے زندگی کو مسائل کا شکار کرنے والے خود ساختہ ‘ مصنوعی اور انتہائی سطحی نوعیت کے مقاصد کے تحت شعور کی مخصوص تربیت کی جاتی ہے کیونکہ ان مسلط کردہ شعوری محرکات ومقاصد کا ’’لاشعور‘‘ سے تطابق نہیں ہوتا اس لیے انسانی شخصیت ایک مستقل اضطرابی کیفیت سے دوچار ہو جاتی ہے۔ اس عدم مطابقت کا نتیجہ یہ ہے کہ مغرب میں نفسیاتی مسائل کی نئی جہتیں منظر عام پر آ رہی ہیں۔

میرے خیال میں انسان اور جانور میں بنیادی فرق شاید یہی ہے کہ انسان لاشعوری آئیڈیلز کو باقاعدہ شعور میں ڈھالنے پر قادر ہے۔ یوں سمجھیے کہ جو سادگی اور خلوص کسی بچے میں خود بخود موجود ہوتے ہیں‘ جوان ہونے پر بچہ اس سادگی اور خلوص کو اپنے پورے شعور کے ساتھ قبول کرے اور مثبت معاشرتی عمل کی بنیادرکھے‘ تب بات بنتی ہے۔ جس انسان کا شعور‘ لاشعور سے جتنی زیادہ مطابقت رکھے گا‘ وہ انسان اتنا ہی زیادہ انسان ہوگا۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر طرز معاشرت کو نفسیاتی اعتبار سے ڈسکس کیا جائے اور فردکی میکانکی اور Calculated تربیت کے بجائے لاشعور کے آئیڈیلز کو ہی شعور کی سطح پر پھیلا دیا جائے تو نتیجتاً پیدا ہونے والے معاشرے کے خمیر سے جو دیگر نظام ہائے زندگی اٹھیں گے‘ وہ افراد میں اخوت اور بھائی چارے کے جذبات پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ قوموں کے درمیان امن اور رواداری کی ایک نئی نہج کی بشارت ثابت ہوں گے۔

کتاب اللہ اور اسوۂ رسول اس سلسلے میں ہماری رہنمائی شرح وبسط سے کرتے ہیں۔ بچے کی معصومیت‘ سادگی‘ خلوص‘ سچائی‘ دیانت داری‘ محبت اور ایثار وغیرہ کا ایک طرز معاشرت کے طور پر بھرپور شعوری اظہار رسول پاک ﷺ کے دست مبارک سے تشکیل پانے والے معاشرے میں ملتا ہے۔ بلاشبہ اس نہج سے صحابہ کرامؓ کی اجتماعی زندگی کا مطالعہ بہت دل چسپ اور نتیجہ خیز ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے عمل کی نئی راہیں کھول سکتا ہے۔

یہاں ایک اہم نکتے کا بیان بے محل نہ ہوگا۔ قیام پاکستان کے وقت ہمارے لیے موقع تھا کہ اسلام کی آفاقیت اور بین الاقوامیت کا عملی نمونہ پیش کرتے۔ کٹا پھٹا پاکستان Blessing in disguise کے مصداق مشرقی اور مغربی وحدتوں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے عالمگیریت اور آفاقیت کی نہج کا آغاز کر سکتا تھا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان الگ الگ جغرافیے کے باوجود اسلام کے نقطہ اتصال پر غیر جغرافیائی ہوتے۔ آنے والے دنوں میں او آئی سی اسی غیر جغرافیائی اتصال کی توسیع ہوتی۔ اس اعتبار سے پاکستان دنیا کا پہلا ملک ہوتا جہاں بین الاقوامی طرز حکومت کا تجربہ کیا جاتا۔ لیکن ہوا کیا؟ اس کے بالکل الٹ۔ کیونکہ بیسیویں صدی میں اسلام کی Orientation مجہولی رہی ہے یا رد عملی۔ (اگرچہ اسے اسلام کے بجائے مسلمانوں کی Orientation کہنا زیادہ بہتر ہوگا لیکن چونکہ مسلمان اسے بطور اسلام پیش کرتے رہے ہیں اس لیے ایسا لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں) اب مجہولی رویہ قوم پرستی کے جذبے اور نظریے سے سرشار تھا اور رد عملی رویہ دونوں جغرافیوں کو ایک جغرافیہ بنانے پر مصر تھا۔ دونوں کی اپروچ اسلام سے میل نہ کھاتی تھی۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس وقت سے پہلے فکری سطح پر اسلام کی اجتماعی ہیئت پر کام ہو چکا ہوتا تو کیا پاکستان اور مسلم ورلڈ کا مستقبل روشن نہ ہوتا؟ ہو سکتا ہے کہ عالمی گاؤں کے سیاسی ومعاشرتی سیٹ اپ کے لیے ہم نظیر کا کام بھی دیتے۔ میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عصر حاضر میں اسلام کی تعبیر وتشریح کرتے وقت ہمیں زمینی حقائق مد نظر رکھنے چاہییں۔ موضوع کا انتخاب کرتے وقت ہماری اپروچ موضوعی (Subjective) کے بجائے معروضی (Objective) ہونی چاہیے۔ فرد کی اہمیت اپنی جگہ مسلم لیکن عصر حاضر کا تقاضا ہے کہ ہم اسلام کی ہیئت اجتماعی کی نوک پلک سنوارتے ہوئے تعبیر وتشریح کے نئے افق ظہور میں لائیں۔

درج بالا سطور میں‘ میں نے پیرایہ اظہار اور اسلوب کی تبدیلی کی بھی بات کی ہے۔ اسلوب کی تبدیلی فقط کمپرومائز کے لیے نہیں بلکہ عصری تقاضوں کے مطابق اسلام کی تفہیم کے لیے بھی ضروری ہے۔ اسلام کی تعبیر وتشریح عصری اسلوب کی متقاضی ہے۔ عصری اسلوب سے میری کیا مراد ہے؟ ایک مثال سے وضاحت کرتا ہوں۔ میرے دوست پروفیسر محمد اکرام شعبہ اسلامیات سے منسلک ہیں۔ ان کا ایم اے کا مقالہ ’’منکرین حدیث کے اعتراضات کا جائزہ‘‘ کے عنوان سے تھا۔ انہوں نے پڑھنے کے لیے عنایت کیا۔ میں نے ’’بزور ناتوانی زندہ ام‘‘ کے عنوان سے اپنے تاثرات لکھ کر پیش کیے۔ درج ذیل عبارت انہی تاثرات سے لی گئی ہے:

’’چھاپے خانے کی ایجاد سے انسان کا حافظہ بتدریج کمزور ہونا شروع ہوا۔ انسان نے ’’یاد‘‘ رکھنے کی اپنی خصوصیت چھاپے خانے کو منتقل کر دی۔ پھر کمپیوٹر آیا جو حافظے کو معدوم کرنے کی کوشش میں ہے۔ ترقی کی کئی دوسری اقسام بھی انسان کی بعض خصوصیات کے خاتمے کا باعث بن رہی ہیں۔ اس سے انسان کی اندرونی شخصیت کھوکھلی ہوتی جا رہی ہے۔ مغربی انسان زیادہ کھوکھلا ہے۔ اس کا داخلی وجود آہستہ آہستہ تقریباً معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ مغرب کے مشہور نقاد ٹی ایس ایلیٹ نے غیر شعوری طور پر شاعرانہ اظہار کو جذبات یا شخصیت کے اظہار کے بجائے ’فرار‘‘ قرار دیتے وقت اس کھوکھلے پن کو بیان کیا ہے۔ اس طرح مغربی ادب بھی معدومیت کو فروغ دے رہا ہے۔

مسلمانوں کے ہاں اس سے مختلف صورت دیکھنے میں آتی ہے۔ چھاپہ خانے اور کمپیوٹر کی ایجاد کے باوجود مسلمانوں نے حفظ قرآن کی روایت ترک نہیں کی۔ اگر حفظِ قرآن کا مقصد حفاظت قرآن تھا تو آج وہ مقصد دوسرے ذرائع سے پورا ہو ہی رہا ہے۔ مذہبیت سے قطع نظر حفظ قرآن کی روایت برقرار رکھنا درحقیقت اپنی ایک انسانی خصوصیت سے دست برداری کے خلاف انکار اور بغاوت ہے۔ حفظ قرآن کی روایت ایک انسانی خصوصیت یعنی یاد اور حافظے کا تسلسل ہے اور اس تسلسل کا امین ’’مسلم اجتماعی لاشعور‘‘ ہے۔ ...... علم حدیث ایک وسیع علم ہے۔ اس کی تفہیم کے ضمن میں مختلف نقطہ ہائے نظر ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک تاریخ سے وابستگی بھی ہے۔ بڑی بوڑھیوں کے قصے کہانیوں والی تاریخ نہیں اور نہ آنکھیں بند کر کے کی جانے والی وابستگی بلکہ تجزیے پر مبنی شعوری وابستگی۔ اس وابستگی کا منطقی نتیجہ مقدمہ ابن خلدون ہے۔ ’’مقدمہ‘‘ کوئی مسلمان ہی تخلیق کر سکتا تھا کیونکہ غیر مسلم معاشرے میں علم حدیث کی طرز کا کوئی علم موجود نہیں۔ اگر علم حدیث کی نوعیت پر غیر جانب داری سے غور کریں تو یہ علم بھی ’’مسلم اجتماعی لاشعور‘‘ کا تراشیدہ معلوم ہوتا ہے۔ بلاشبہ علم حدیث داخلی مضبوطی کا خارجی اظہار ہے۔‘‘

میرا ذاتی نقطہ نظر یہی تھا کہ اب حفظ قرآن کی شاید ضرورت نہیں ۔لیکن حیران تھا کہ یہ روایت نہ صرف جاری ہے بلکہ کسی حلقے کی طرف سے کوئی تنقید بھی سننے میں نہیں آ رہی۔ جب میں نے غور کیا کہ ایسا کیوں ہے تو درج بالا نکات ذہن میں آئے۔ اس طرح اپنی ہی کی ہوئی عصری تعبیر وتشریح سے حفظ قرآن کی روایت کے چند نئے امکان ظاہر ہوئے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ تعبیر وتشریح کیسے ممکن ہوسکی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ’’دانتوں کی کمزوری تہذیب کی علامتوں میں سے ہے۔‘‘ کیونکہ جب انسان نے آگ دریافت نہیں کی تھی تو کچا گوشت کھاتا تھا جس کی وجہ سے اس کے دانت بہت مضبوط تھے لیکن آگ کی دریافت کے ساتھ ہی اس کے دانتوں کی مضبوطی میں کمی آنی شروع ہو گئی کیونکہ اب دانتوں کو زیادہ کام نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اس بات سے میں نے اخذ کیا کہ چھاپہ خانہ حافظے کی کمزوری کا سبب ہے کیونکہ اب حافظے کو زیادہ کام نہیں کرنا پڑتا۔ پھر سوال یہ تھا کہ کیا مسلمانوں نے دانستہ اس بات کو محسوس کرتے ہوئے حفظ قرآن کی روایت برقرار رکھی ہے؟ میرا خیال تھا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس کا جواب مجھے ژونگ کی وضع کردہ ایک اصطلاح ’’اجتماعی لا شعور‘‘ سے مل گیا جس کا موجودہ سیاق وسباق میں ورژن ’’مسلم اجتماعی لاشعور‘‘ کر دیا۔ تعبیر وتشریح کی یہی اپروچ عصری اسلوب ہے۔

عصری تقاضوں کے مطابق اسلام کی تعبیر وتشریح کے پیش نظر حافظے کی بابت بحیثیت بنیادی انسانی ضرورت بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ میں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر انسان کا حافظہ معدوم ہو جائے تو وہ قرآن مجید کا بھی مخاطب نہیں رہتا۔

اب بحث کے آخری نکتے کی طرف آتا ہوں۔ اگر آپ حافظے والی عبارت پر نظر دوڑائیں تو ٹی ایس ایلیٹ کا نام نظر آئے گا۔ ژونگ کا بھی ذکر ہوا۔ دانتوں کی کمزوری والا فقرہ غالباً ول ڈیورنٹ کا ہے۔ اب آپ اندازہ کریں کہ ایک پیراگراف لکھنے کے دوران میں ان تین افراد کی فکر شامل حال رہی۔ ظاہر ہے کہ ان کے علاوہ بھی بہت سی تحریریں جو میں پڑھ چکا ہوں‘ غیر شعوری طور پر ممد ومعاون رہیں۔ یہاں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم مسلمان‘ بالخصوص راسخ العقیدہ مسلمان‘ ڈارون‘ ژونگ‘ فرائیڈ‘ آئن سٹائن وغیرہ سے گھبراتے کیوں ہیں؟ ہم گوناگونی‘ تنوع کو اپنے مطالعے کا حصہ کیوں نہیں بناتے؟ دینی مدرسوں کے سلیبس سے لے کر ان کے رسائل تک ہر جگہ یک رنگی پائی جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسلام کی تفہیم عصری اسلوب کے بغیر ناممکن ہے اور عصری اسلوب وسیع المشربی کا تقاضا کرتا ہے۔ رومی‘ عطار‘ سنائی اور حافظ‘ سعدی اور بے شمار ایسے ادیب اور مفکر ہیں جو ان افکار‘ خیالات اور میلانات کی بدولت پیدا ہوئے جو حجاز میں نہ تب موجود ہو سکتے تھے اور نہ اب پیدا ہو سکتے ہیں۔ ہمیں بھی اسلام کی تعبیر وتشریح کے لیے روایتی خول سے نکلنا ہوگا تاکہ مسلم معاشرہ زندہ معاشرہ بن کر ارتقا پذیر رہے اور اپنے اظہار کی نت نئی جولانیوں سے حیات کو جاوداں رکھے۔

مدارس دینیہ کے مالیاتی نظام کے بارے میں دار العلوم کراچی کا ایک اہم فتویٰ

ادارہ

محترم ومکرم حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ مزاج گرامی؟

بندہ ایک دینی مدرسہ کامسؤل ہے۔ چند مسائل کے سلسلے میں رہنمائی چاہتا ہے تاکہ تام امور شریعت مطہرہ کے مطابق سرانجام دیے جا سکیں۔

۱۔ مہتمم زکوٰۃ کی رقم کا وکیل ہوتا ہے اور اس کے لیے مستحق افراد کو فوراً مالک بنانا ضروری ہے تاکہ زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا ہو جائے ۔ اس کے لیے حیلہ تملیک اختیار کیا جاتا ہے۔ اگر مہتمم خود مالی طور پر کمزور ہے تو کیا وہ اس قسم کا اپنے آپ کو مالک بنا سکتا ہے تاکہ تملیک بھی ہو جائے اور فوراً رقم مدرسہ کی مالیات میں شامل ہو جائے؟

۲۔ زکوٰۃ کی رقم مدرسہ کے کن کن معاملات میں استعمال کی جا سکتی ہے؟

۳۔ مدرسہ کا چندہ خصوصاً زکوٰۃ کی رقم کا کسی بینک میں رکھنا کیسا ہے؟

۴۔ مدرسہ میں ایک مسجد بھی ہے جبکہ ایک ہی رسید بک پر مدرسہ کے نام پر چندہ لیا جاتا ہے تاکہ مسجد کا انتظام بھی مدرسہ کے تابع رہے تو مالی اعتبار سے ان دونوں کو چلانے کی شرعی راہ کیا ہے؟

۵۔ حیلہ تملیک کا طریق کار کیا ہے جو آسان بھی ہو اور شریعت کے تمام تقاضوں کے مطابق بھی؟ تملیک کے بعد یہ رقم اساتذہ کی تنخواہوں‘ مدرسہ ومسجد کی تعمبیر اور مدرسہ کے دیگر امور پر خرچ کی جا سکتی ہیں؟

والسلام

عبد الرؤف فاروقی‘ لاہور


الجواب حامداً ومصلیاً

۱و۲۔ موجودہ زمانہ کے مہتمم یا ان کے مقرر کردہ حضرات جو چندہ یا زکوٰۃ وغیرہ وصول کرتے ہیں‘ وہ بحیثیت وکیلِ فقرا کے وصول کرتے ہیں نہ کہ اصحاب اموال کے وکیل کے طور پر کیونکہ مہتمم صاحب اور ان کے مقرر کردہ حضرات کو مدرسہ کے جملہ طلبہ پر اس طرح کی ولایت عامہ حاصل ہے جس طرح سلطان کو اپنی رعایا پر ولایت عامہ حاصل ہوتی ہے۔ لہذا مہتمم صاحب یا ان کے مقرر کردہ حضرات کے قبضے میں پہنچتے ہی زکوٰۃ وعشر دینے والوں کی زکوٰۃ وعشر اور دیگر صدقاتِ واجبہ ادا ہو جاتے ہیں بشرطیکہ مدرسہ میں عاقل بالغ مستحقِ زکوٰۃ طلبہ زیر تعلیم ہوں۔ اور اگر مہتممین حضرات مدرسہ کے مصرفِ زکوٰۃ طلباء (بالغ‘ فقیر‘ غیر سید) سے اپنے لیے صراحتاً بھی وکالت نامہ لکھوا لیں اور ہر سال آنے والے طلباء سے اس کی تجدید کراتے رہیں تو اور بھی اچھا اور قرینِ احتیاط ہے۔ وکالت نامہ کے الفاظ یہ ہیں:

’’میں مہتمم مدرسہ اور ان کے نائب کو اختیار دیتا ہوں کہ وہ میری طرف سے بطورِ وکیل زکوٰۃ اور دیگر صدقات واجبہ وصول کریں اور وہ انہیں طلباء کے مصارف‘ طعام وقیام اور تعلیم وغیرہ پر خرچ کریں یا حسبِ صواب دید مدرسہ کو ان اموال کا مالک بنائیں یا مدرسہ پر وقف کر دیں۔‘‘

اس کے بعد جب مہتمم صاحب یا ان کا مقرر کردہ آدمی صدقات واجبہ بطور وکیل وصول کرے گا تو معطین کی زکوٰۃ بھی ادا ہو جائے گی اور حاصل شدہ رقم کو مصالح طلباء ومدرسہ پر خرچ کیا جا سکے گا۔ اسی میں احتیاط ہے۔ لہذا مہتمم صاحب کے خود حیلہ تملیک کرنے یا کسی سے حیلہ تملیک کرانے کے مقابلے میں توکیل کی مذکورہ صورت زیادہ بہتر ہے بشرطیکہ مدرسہ میں عاقل‘ بالغ مستحقِ زکوٰۃ طلباء موجود ہوں اور رقم پوری احتیاط اور امانت ودیانت کے ساتھ محض طلباء اور مدرسہ کی مصلحت ہی میں خرچ کی جائے۔ (ماخذہ امداد المفتین ص ۱۰۸۵ وتبویب ۷/۱۲۳)

ضروری تنبیہ: اس تحقیق میں مہتممین مدارس کے لیے ایک تو آسانی ہوگئی کہ ان کو ہر شخص کا مال زکوٰۃ اور اس کا حساب الگ الگ لکھنے کی ضرورت نہیں رہی اور قبل از خرچ معطی چندہ کا انتقال ہو جائے تو اس کے وارثوں کو واپس کرنے کی ضرورت نہ رہی۔ معطین چندہ کو بھی یہ فائدہ پہنچا کہ ان کی زکوٰۃ فوری طور پر ادا ہو گئی لیکن مہتممین مدارس کی گردن پر آخرت کا ایک بڑا بوجھ آپڑا کہ وہ ہزاروں فقرا کے وکیل ہیں جن کے نام اور پتے محفوظ اور یاد رکھنا بھی آسان نہیں کہ خدا نخواستہ اگر اس مال کے خرچ کرنے میں کوئی غلطی ہو جائے تو معافی مانگی جا سکے۔ اس لیے اگر مہتممین مدارس نے فقرا طلباء کی ضروریات کے علاوہ کسی کام میں خرچ کیا تو وہ ایسا ناقابل معافی جرم ہوگا جس کی تلافی ان کے قبضے میں نہیں اس لیے ان سب حضرات پر لازم ہے کہ مدارس کے چندہ کی رقم کو بڑی احتیاط کے ساتھ صرف ان ضروریات پر خرچ کیا جائے جن کا تعلق طلباء سے ہے مثلاً ان کا طعام ولباس‘ دواء وعلاج‘ ان کی رہائشی ضرورتیں‘ ان کے لیے کتابوں کی خریداری وغیرہ۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم (ماخوذ از امداد المفتین ص ۱۰۸۶)

۳۔ توکیل یا حیلہ تملیک کے بعد مذکورہ رقم بوقتِ ضرورت بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھوائی جا سکتی ہے۔

۴۔ بہتر تو یہ ہے کہ مسجد کا فنڈ الگ ہو اور مدرسہ کا الگ ہو۔ تاہم اگر مسجد مدرسہ کے تابع ہو اور دونوں کی انتظامیہ بھی ایک ہو اور ایسی صورت میں صراحتاً یا دلالتاً یہ بات معلوم ہو کہ چندہ اور عطیات دینے والے حضرات اپنے دیے ہوئے عطیات کو مسجد اور مدرسہ دونوں کی ضروریات میں خرچ کرنے پر راضی ہیں تو ایسی صورت میں مسجد اور مدرسہ کا مشترکہ فنڈ رکھنا درست ہے۔ (ماخذہ تبویب ۳۸/۳۴۷)

۵۔ تملیک شرعی کا بے غبار طریقہ یہ ہے کہ جس قدر رقم تملیک کرانی ہو‘ اتنی رقم کے لیے کسی فقیر مصرفِ زکوٰۃ (بالغ غیر سید) سے کہا جائے کہ آپ اتنی رقم اپنے کسی سے قرضہ لے کر مدرسہ یامسجد کے لیے اپنی طرف سے بطور چندہ دے دیں‘ آپ کو ثواب ملے گا اور ہم یہ قرضہ ادا کروا دیں گے۔ جب وہ قرضہ لے کر ادارے میں بطور چندہ دے دے تو ادارہ اس قدر رقم زکوٰۃ اس کو مالک وقابض بنا کر دے دے تاکہ وہ اپنا قرضہ ادا کر سکے۔ تملیک کے مذکورہ طریقہ کے بعد زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ کی رقم اساتذہ کی تنخواہوں‘ مدرسہ ومسجد کی تعمیر اور ان کے دیگر امور میں خرچ کی جا سکتی ہیں۔ (ماخذہ تبویب ۴۷/۳۱۶)

وفی الدر المختار: ویشترط ان یکون الصرف تملیکا لا اباحۃ کما مر۔ لا یصرف الی بنا نحو مسجد ولا الی کفن میت وقضاء دینہ ....وقدمنا ان الحیلۃ ان یتصدق علی الفقیر ثم یامر بفعل ہذہ الاشیاء (۲/۳۴۴)
وفی رد المحتار: وحیلۃ التکفین بہا التصدق علی فقیر ثم ہوا یکفن فیکون الثواب لہما وکذا فی تعمیر المسجد (۲/۲۷۱) واللہ اعلم بالصواب

محمد وسیم

دار الافتاء دار العلوم کراچی

پاکستان شریعت کونسل کی صوبائی شوریٰ کا اجلاس

ادارہ

پاکستان شریعت کونسل صوبہ سندھ کی مجلس شوریٰ کا اجلاس ۴ فروری ۲۰۰۲ء کو جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن نارتھ کراچی میں امیر مرکزی حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں شیخ الحدیث مولانا زر ولی خان‘ مولانا زاہد الراشدی‘ مولانا سیف الرحمن ارائیں‘ مولانا احسان اللہ ہزاروی‘ مولانا عبد الرشید انصاری‘ مولانا قاری حضرت ولی‘ مولانا اقبال اللہ ہزاروی‘ مولانا حافظ محمد اکبرراشد‘ مولانا عبد الرحمن خطیب اور دیگر حضرات نے شرکت کی۔ اجلاس میں ملک کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ دینی جماعتوں اور مراکز کے درمیان باہمی مشاورت اور رابطہ کو فروغ دینے کے لیے جدوجہد کا مربوط طریق کار طے کیا جائے گا اور اس بات کی کوشش کی جائے گی کہ موجودہ حالات میں دینی اقدار کے تحفظ اور پاکستان کے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے دینی جماعتوں اور مراکز کو زیادہ سے زیادہ متحرک اور فعال بنایا جائے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے صدر اجلاس مولانا فداء الرحمن درخواستی نے کہا کہ مغرب کی ثقافتی یلغار اور علمی وفکری مہم جوئی کے مقابلے کے لیے دینی جماعتوں کو مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا اور اس مقصد کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں فکری ونظریاتی تربیت اور بریفنگ کی نشستوں کا انعقاد ضروری ہے جن میں علماء کرام اور دینی کارکنوں کو درپیش خطرات اور خدشات سے آگاہ کیا جائے اور انہیں ان کے مقابلے کے لیے تیار کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ علمی‘ نظریاتی اور فکری جدوجہد کی حد تک پاکستان شریعت کونسل ملک کے بڑے شہروں میں اس قسم کی محافل کے اہتمام کا پروگرام بنا رہی ہے اور دوسری دینی جماعتوں سے بھی ہماری گزارش یہ ہے کہ وہ نئی نسل کی ذہن سازی اور علماء کرام کی بریفنگ کے لیے فکری نشستوں کا ہر سطح پر اہتمام کریں۔ اس موقع پر طے ہوا کہ پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی ۱۹‘ ۲۰‘ ۲۱ فروری کو حیدرآباد اور کراچی کا دورہ کر کے سرکردہ علماء کرام سے ملاقات کریں گے اور اس موقع پر باہمی مشاورت سے اگلا پروگرام طے کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 

دینی تعلیم کے فروغ کے لیے خصوصی توجہ دی جائے۔ مولانا فداء الرحمن درخواستی

جامعہ عثمانیہ معین آباد لانڈھی کراچی میں ۴ فروری ۲۰۰۲ء کو بعد نماز عصر ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان شریعت کونسل کے سربراہ مولانا فداء الرحمن درخواستی نے علماء کرام پر زور دیا کہ وہ دینی تعلیم کے فروغ اور نئی نسل کی ذہنی وفکری تربیت کی طرف خصوصی توجہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت معاشرے میں جو خرابیاں ہیں‘ ان کی ذمہ داری میں ہماری کوتاہیوں کو بھی دخل ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے طرز عمل کا جائزہ لیں اور اپنے عظیم اسلاف اور اکابر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دینی تعلیم کو عام کرنے اور اپنی اور عام مسلمانوں کی دینی واخلاقی اصلاح کی طرف خصوصی توجہ دیں اور خلوص کے ساتھ محنت کریں۔

پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم نے واضح طور پر کہا ہے کہ تمہیں معاشرے میں جو مشکلات اور مصیبتیں پیش آتی ہیں‘ وہ تمہاری اپنی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں اس لیے ہمیں سنجیدگی کے ساتھ اپنے موجودہ ملی وقومی مصائب وآلام کے اسباب وعوامل کا تجزیہ کرنا چاہیے اور ان کے تدارک کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری نسل انسانی مجموعی طور پر مصائب ومشکلات سے دوچار ہے جس کی سب سے بڑی وجہ آسمانی تعلیمات سے انحراف اور خواہشات کی پیروی ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ نسل انسانی کو آسمانی تعلیمات کی طرف واپس لانے کی محنت کی جائے اور دنیا کو دینی اقدار کی ضرورت کا احساس دلایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری اہل اسلام اور مسلم علما پر عائد ہوتی ہے کیونکہ آسمانی تعلیمات صرف انہی کے پاس محفوظ حالت میں موجود ہیں اور وہی صحیح طور پر نسل انسانی کی راہ نمائی کر سکتے ہیں۔

مولانا فداء الرحمن درخواستی کا دورۂ بنگلہ دیش

پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی بنگلہ دیش کے دو ہفتہ کے دورہ پر روانہ ہو گئے ہیں۔ شاعر اسلام سید سلمان گیلانی بھی ان کے ہمراہ ہیں۔ وہ مختلف شہروں میں دینی اجتماعات اور دینی مدارس کی تقریبات سے خطاب کریں گے اور ۱۸ فروری کو کراچی واپس پہنچ جائیں گے۔

حافظ محمد حذیفہ خان سواتی کی دستار بندی

حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی دامت برکاتہم کے پوتے‘ مولانا زاہد الراشدی کے نواسے اور مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی کے فرزند حافظ محمد حذیفہ خان سواتی نے بحمد اللہ تعالیٰ دس سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ مکمل کر لیاہے۔ اس سلسلے میں ۱۲ جنوری ۲۰۰۲ء کو مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی جس میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سربراہ حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب دامت برکاتہم سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف نے آخری سبق سن کر حافظ محمد حذیفہ خان سواتی کی دستار بندی کی اور دعا فرمائی۔ اس موقع پر حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی‘ مولانا زاہد الراشدی اور مولانا حافظ محمد ریاض خان سواتی نے تقریب سے خطاب کیا جبکہ شہر کے علماء کرام اور دینی کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

مدیر ’الشریعہ‘ کی شادی خانہ آبادی

ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کے مدیر حافظ محمد عمار خان ناصر کی شادی خانہ آبادی ۶ جنوری ۲۰۰۲ء کو جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم کے مہتمم مولانا قاری خبیب احمد عمر کی دختر حافظہ حفصہ ناہید کے ساتھ انجام پائی جو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کی نواسی اور مولانا زاہد الراشدی کی بھانجی ہیں۔ اس موقع پر ۷ جنوری کو دعوت ولیمہ کی تقریب میں علماء کرام‘ دینی کارکنوں اور شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور خیر وبرکت کی دعا کی۔

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’مضاربت اور بلاسود بینکاری‘‘

دار العلوم کورنگی کراچی کے سابق استاذ حدیث حضرت مولانا عبد الحق (زیارت گل) زید مجدہم کا گراں قدر مقالہ جس پر انہیں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی سند عطا کی ہے‘ مولانا حافظ لیاقت علی شاہ کی مساعی سے کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے۔ تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب زیر بحث موضوع کے کم وبیش تمام اہم پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔

قیمت درج نہیں ہے جبکہ مندرجہ ذیل پتہ سے طلب کی جا سکتی ہے: 

مکتبہ غفوریہ‘ نزد جامعہ اسلامیہ درویشیہ‘ بلاک بی‘ سندھی مسلم سوسائٹی‘ کراچی

’’المتون المعتبرۃ فی عقائد اہل السنۃ والجماعۃ‘‘

مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے سابق خطیب محدث پنجاب حضرت مولانا عبد العزیز سہالوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے پوتے مولانا رشید احمد علوی صاحب نے اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد پر معروف اور متداول متون کو کتابی شکل میں جمع کر دیا ہے جن میں الفقہ الاکبر‘ العقیدۃ الطحاویۃ‘ العقائد العضدیۃ‘ العقائد النسفیۃ اور العقائد البزدویۃ سمیت دس اہم متون شامل ہیں اور اہل علم کے لیے بہت زیادہ افادیت کے حامل ہیں۔

ڈیڑھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب پر قیمت درج نہیں اور اسے مولانا رشید احمد علوی صاحب سے مندرجہ ذیل پتہ پر طلب کیا جا سکتا ہے: دفتر ختم نبوت‘ اندرونی سیالکوٹی گیٹ‘ گوجرانوالہ

اکیسویں صدی کے چیلنجز پر ’’الحق ‘‘ کی خصوصی اشاعت

عالم اسلام کے لیے اکیسویں صدی عیسوی کے چیلنجز کے حوالے سے معروف دینی جریدہ ماہنامہ ’’الحق‘‘ اکوڑہ خٹک نے ایک خصوصی اشاعت (اگست تا نومبر ۲۰۰۱ء) کا اہتمام کیا ہے جو پونے تین سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں عالم اسلام کے سرکردہ علماء کرام اور اہل دانش نے اپنے مقالات میں اکیسویں صدی میں پیش آنے والی صورت حال اور ا س کے حوالے سے علماء کرام اور دینی حلقوں کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی ہے۔ اس خصوصی شمارہ کی قیمت ۸۰ روپے ہے اور اسے دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک صوبہ سرحد سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

’’استحباب الدعاء بعد الفرائض ورفع الیدین فیہ‘‘

فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا مانگنے کا مسئلہ ایک عرصہ سے علمی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ مکہ مکرمہ کے معروف حنفی عالم دین فضیلۃ الشیخ مولانا عبد الحفیظ ملک نے اس پر عربی زبان میں رسالہ تصنیف کیا ہے جس میں انہوں نے علمی انداز میں اپنے اس موقف کی وضاحت کی ہے کہ فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا مانگنا مسنون ہے اور اسے بدعت قرار دینا درست نہیں ہے۔

بڑے سائز کے ۱۴۰ صفحات پر مشتمل اس کتابچہ پر قیمت درج نہیں ہے اور اسے موسسۃ الخلیل الاسلامیۃ‘ چنیوٹ بازار‘ فیصل آباد کے مالک ملک شاہد رسول صاحب سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

’’میرے حضرت میرے شیخ ؒ ‘‘

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق رحمہ اللہ تعالیٰ کے تلمیذ خاص مولانا عبد القیوم حقانی نے اپنے محبوب استاذ کے حالات زندگی اور خدمات ومجاہدات پر اپنے مخصوص انداز میں قلم اٹھایا ہے اور متعدد سبق آموز واقعات اور ارشادات کا ایک گل دستہ پیش کیا ہے جو حضرت شیخ الحدیثؒ کے عقیدت مندوں کے لیے گراں قدر تحفہ اور عام علما اور اہل دین کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

اڑھائی سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس مجلد کتاب کی قیمت ۹۰ روپے ہے اور اسے مندرجہ ذیل پتہ سے طلب کیا جا سکتا ہے: القاسم اکیڈمی‘ جامعہ ابو ہریرہ‘ خالق آباد‘ نوشہرہ‘ صوبہ سرحد

’’ازدواجی حقوق نسواں‘‘

شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے خادم خاص حضرت مولانا محمد صابرؒ کی دختر نے جو مولانا محمد انور کی اہلیہ محترمہ ہیں اور ایک عرصہ سے دینی وتدریسی خدمات سرانجام دے رہی ہیں‘ اس اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور خواتین کے ازدواجی حقوق کے حوالے سے متعدد امور پر تحقیقی انداز سے روشنی ڈالی ہے۔ ان کی بیان کردہ تمام باتوں سے اتفاق ضروری نہیں تاہم یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ دینی وتدریسی ماحول سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے آج کے دور کے ایک اہم مسئلہ پر علمی وتحقیقی کاوش پیش کی ہے جس کا رجحان ہمارے حلقوں میں بہت کم ہو گیا ہے۔

اڑھائی سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ۱۰۰ روپے ہے اور مکتبہ دار العلوم عثمانیہ‘ کوٹ عبد المالک‘ شیخوپورہ روڈ لاہور سے طلب کی جا سکتی ہے۔

’’عالمِ اسلام پر مغربی قزاقوں کی دہشت گردی‘‘

معروف عالم دین اور جامعہ عثمان بن عفانؓ رحیم یار خان کے شیخ الحدیث حضرت مولانا بشیر احمد حامد حصاروی نے عالم اسلام کے خلاف مغربی حکمرانوں کی سیاسی‘ عسکری‘ معاشی اور ثقافتی یلغار پر قلم اٹھایا ہے اور معروضی حالات کے ساتھ ساتھ جناب نبی اکرم ﷺ کے متعدد ارشادات کے حوالے سے مغربی استعمار کے ظلم وجبر اور وحشت وبربریت کو آشکار کرنے کے علاوہ مسلمانوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔

۱۰۰ صفحات پر مشتمل اس کتابچہ پر قیمت درج نہیں ہے اور اسے حامد اکیڈمی‘ میاں ٹاؤن ‘رحیم یار خان سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

’’بین الاقوامی شخصیات کی کہانی‘‘

بادشاہی مسجد لاہور کے سابق خطیب مولانا سید عبد القادر ازاد کو اس حیثیت سے دنیا کے مختلف ممالک کے دوروں اور بین الاقوامی شخصیات سے ملاقاتوں کا موقع ملتا رہا ہے۔ انہوں نے ان ملاقاتوں کے حوالے سے اپنی یادداشتیں اور تاثرات بیان کیے ہیں جنہیں معروف صحافی وقار ملک صاحب نے قلم بند کیا ہے اور الفیصل ناشران وتاجران کتب اردو بازار لاہور نے شائع کیا ہے۔ پچا س سے زائد جن شخصیات کی ملاقاتوں اور ان کے بارے میں تاثرات کا اس کتاب میں تذکرہ کیا گیا ہے‘ ان میں شاہ فیصل شہید‘ کرنل قذافی‘ حسنی مبارک‘ پوپ جان پال دوم‘ ملک ایلزبتھ‘ جارج بش‘ الیکسی کوسیجن‘ جمی کارٹر‘ مسز بندرانائیکے‘ لیڈیا ڈیانا اور گوربا چوف بھی شامل ہیں۔

ساڑھے چار سے زائد صفحات پر مشتمل اس مجلد کتاب کی قیمت ساڑھے تین سو روپے ہے۔

’’ابو عبیدہؓ ٹرسٹ کے رسائل‘‘

حاجی محمد اقبال خان صاحب ایک عرصہ تک متحدہ عرب امارات کی ریاست عجمان میں مقیم رہے ہیں اور مختلف دینی شخصیات کی کتابیں شائع کرکے تقسم کرنے ان کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ اب کچھ عرصہ سے گوجرانوالہ میں مقیم ہیں اور ابو عبیدہؓ ٹرسٹ قائم کر کے اپنے اس مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس وقت ان کے شائع کردہ چار رسالے ہمارے سامنے ہیں:

گناہ بے لذت    از مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ 

آئینہ محمدی    از شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر

چراغ کی روشنی    از شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر

تبلیغ اسلام    از شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر

ان میں سے ہر رسالہ دس روپے کے ڈاک ٹکٹ بھیج کر پوسٹ بکس ۲۵۰ جی پی او گوجرانوالہ کے پتہ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

’’چند مفید رسائل‘‘

جامع مسجد درویشیہ‘ بلاک بی‘ سندھی مسلم ہاؤسنگ سوسائٹی کراچی کے خطیب مولانا لیاقت علی شاہ نقشبندی کے چند مفید اور معلوماتی رسائل اس وقت ہمارے سامنے ہیں:

۱۔ کھانا پینا قرآن وسنت کی روشنی میں    صفحات ۶۸

۲۔ وظائف قرآنی مع چہل احادیث    صفحات ۱۳۲

۳۔ مسنون دعائیں    صفحات ۳۱۲

ان میں عام مسلمانوں کے لیے کھانے پینے کے آداب ومسائل اور روزمرہ کی مسنون دعائیں اور وظائف عمدہ ترتیب کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں اور مصنف سے مندرجہ بالا پتہ سے طلب کیے جا سکتے ہیں۔

’’حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے مواعظ‘‘

جامعہ دار العلوم اسلامیہ ۲۹۱ کامران بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور کے مہتمم حضرت مولانا مشرف علی تھانوی کی زیر ادارت ماہنامہ ’’الامداد‘‘ نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس اللہ سرہ العزیز کے مواعظ کو سال کی ضروریات کے مطابق ترتیب وار پیش کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جو عام مسلمانوں بلکہ اہل علم کے لیے بھی بہت زیادہ افادیت کا حامل ہے۔

’’الامداد‘‘ کا سالانہ زر خریداری ۱۰۰ روپے ہے اور مندرجہ بالا پتہ پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

’’قیامِ پاکستان اور مولانا ابو الکلام آزادؒ ‘‘

صقارین میڈیا نیٹ ورک گوجرانوالہ کے جریدہ ’’اذان‘‘ نے اگست ۲۰۰۱ء کی اشاعت کو حضرت مولانا ابو الکلام آزادؒ کی حیات وخدمات کے تذکرہ اور خاص طور پر قیام پاکستان کے حوالے سے ان کے موقف کی وضاحت کے لیے مخصوص کیا ہے جو بعض اہم معلوماتی مضامین پر مشتمل ہے۔

صفحات ۱۱۲ اور قیمت ۲۵ روپے ہے اور آزاد بک ہاؤس اردو بازار گوجرانوالہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

صدر پاکستان کی خدمت میں ایک ضروری عرض داشت

ادارہ

۱۸۔۱۹ جنوری ۲۰۰۲ء کو وفاقی وزارت مذہبی امور کے زیر اہتمام اسلام آباد میں منعقدہ علماء ومشائخ کانفرنس کے موقع پر مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کر کے انہیں اہم معاملات میں دینی حلقوں کے جذبات سے آگاہ کیا اور مندرجہ ذیل تحریری عرض داشت پیش کی۔

 

بخدمت محترم جناب جنرل پرویز مشرف صاحب چیف ایگزیکٹو وصدر پاکستان

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

۱۶ جنوری ۲۰۰۲ء کو حکومت کی طرف سے یہ اعلان سامنے آیا کہ آئندہ ہونے والے قومی‘ صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے انتخابات مخلوط بنیادوں پر ہوں گے۔ اس اعلان سے پاکستان کے مسلمانوں میں عموماً اور علماء اسلام کے حلقوں میں خصوصاً تشویش واضطراب کی ایک بہت بڑی لہر دوڑ گئی ہے۔ اگر اس فیصلے کو واپس نہ لیا گیا تو یہ بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اس لیے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس فیصلے کو آج کے خطاب میں واپس لینے کا اعلان کیا جائے اس لیے کہ یہ اعلان قیام پاکستان کی اساس‘ دو قومی نظریہ اور ’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘ کے خلاف ہے۔

آئین پاکستان کی قائم اسلامی دفعات‘ قرارداد مقاصد جو آئین کی دفعہ ۲۔ الف کی رو سے دستور کا موثر حصہ ہے‘ جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کل کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو اختیار واقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا‘ وہ ایک مقدس امانت ہے جس کا معنی یہ ہے کہ قرآن پاک اور پیغمبر پاک کی سنت پاکستان کا اعلیٰ ترین قانون ہے‘ کے بھی خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود اور قرآن وسنت کی رو سے مسلمان الگ امت ہیں اور کفار الگ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

ان ہذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاعبدون (الانبیاء ۹۲)

’’یقیناًیہ تمہاری امت ایک امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس میری ہی عبادت کرو۔‘‘

وکذالک جعلناکم امۃ وسطا لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا (البقرہ ۱۴۳)

’’اور اس طرح ہم نے تمہیں ایک امت معتدل بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر تم پر گواہ بنے۔‘‘

کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر وتومنون باللہ 

’’تم تمام امتوں سے بہتر امت ہو جسے لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے ۔ تم معروف کا حکم کرتے ہو اور منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘

یا ایہا النبی اتق اللہ ولا تطع الکافرین والمنافقین (الاحزاب ۱)

’’اے نبی‘ اللہ سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کرنا۔‘‘

ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ہواہ وکان امرہ فرطا (الکہف ۲۸)

’’اور نہ اطاعت کرنا اس شخص کی جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے۔‘‘

یا ایہا الذین آمنوا لاتتخذوا بطانۃ من دونکم لا یالونکم خبالا (آل عمران ۱۱۸)

’’اے ایمان والو‘ کسی غیر مذہب کے آدمی کو اپنا رازدان نہ بنانا۔ یہ لوگ تمہیں نقصان پہنچانے اور فتنہ انگیزی میں کسی طرح کوتاہی نہیں کرتے۔‘‘

یا ایہا الذین آمنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم (النساء ۵۹)

’’ایمان والو‘ اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے صاحب امر لوگوں کی۔‘‘

ان آیات میں اس بات کی تصریح ہے کہ مسلمانوں کے معاملات چلانے کے ذمہ دار مسلمان ہوں گے۔ عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کسی نظام کو چلانے والے وہی لوگ ہوں جو اس نظام کو مانتے ہوں‘ اس نظام کو جانتے ہوں اور اس کے مطابق معاشرے کو استوار کرنا چاہتے ہوں۔ آئین پاکستان کی رو سے پاکستان کا نظام قرآن وسنت ہے لہذا پاکستان میں حکومتی عہدوں پر‘ جن میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کی رکنیت بھی شامل ہے‘ صرف مسلمانوں کو فائز کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح احادیث رسول ﷺ میں مسلمانوں کو ایک جسد اور ایک عمارت کی طرح قرار دیا گیا ہے کہ غیر مسلم اس عمارت کا حصہ نہیں ہیں۔ فقہاء اسلام کا بھی اس پر اجماع ہے کہ کافر مسلمانوں کے حکام اور اولی الامر نہیں ہو سکتے۔

اسلامی نظریاتی کونسل جو ایک آئینی ادارہ ہے‘ اس نے بھی جداگانہ طریق انتخاب کو ہی اسلام کے مطابق قرار دیا ہے اور قرارداد مقاصد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حلقہ ہائے عمل میں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو قرآن وسنت کی تعلیم کے مطابق ترتیب دے سکیں۔ تاریخ اسلام میں مخلوط بنیادوں کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ مخلوط انتخاب کے نتیجے میں تو پاکستان بھی دو ٹکڑے ہوا۔ البتہ غیر مسلموں کو اپنے معاملات اپنے مذہب کے مطابق چلانے کی آزادی اسلام نے دی ہے۔ اس لیے وہ اپنی کمیونٹی کی فلاح وبہبود کی خاطر اپنے نمائندے الگ سے منتخب کر سکتے ہیں تاکہ مسلمان ان کے معاملات کو ان کے نمائندوں کی وساطت سے چلا کر ان کے حقوق کو ٹھیک طرح سے ادا کر سکیں۔ انہی وجوہ سے اب تک پاکستان میں جداگانہ طرز انتخاب رائج تھا اس لیے پاکستان کی جو عمارت اسلامی بنیادوں پر اب تک استوار ہے‘ ان میں سے کسی بنیاد کو گرانے کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ اگر آپ نے بقول خود اسلام اور آئین پاکستان کے مطابق حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا فریضہ سرانجام دیا تو علما آپ کے ساتھ تعاون کریں گے۔ بصورت دیگر ایک لاحاصل کشمکش کا شدید خطرہ ہے جس سے ملک کی سلامتی اور استحکام کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ اللہ کرے کہ پاکستان اسلامی معاشرہ کا نمونہ اور قائم ودائم رہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

مارچ ۲۰۰۲ء

امریکی مطالبات اور پاکستان کی پوزیشنمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مفتی اعظم سعودی عرب کا خطبہ حجادارہ
علماء دیوبند اور سرسید احمد خان ۔ چند تاریخی غلط فہمیوں کا جائزہمولانا محمد عیسی منصوری
امریکی اور برطانوی جارحیت۔ ایک تجزیاتی مطالعہپروفیسر میاں انعام الرحمن
جنرل مشرف کا دورۂ امریکہ ۔ اور پاک امریکہ تعلقات کی نئی جہتپروفیسر شیخ عبد الرشید
دینی مدارس کے نظام ونصاب کی اصلاح کے حوالے سے ’’مجلس فکر ونظر‘‘ کی منظور کردہ سفارشات اور نصابادارہ
کتاب کے ساتھ میرا تدریجی تعارفادارہ
تعارف و تبصرہادارہ

امریکی مطالبات اور پاکستان کی پوزیشن

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امریکی ایوان نمائندگان نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ دستور پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی شق اور توہین رسالت پر موت کی سزا کا قانون ختم کیا جائے۔ یہ مطالبہ ایک قرارداد کی صورت میں کیا گیا ہے جو صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے حالیہ دورۂ امریکہ کے موقع پر امریکی ایوان نمائندگان نے منظور کی اور قرارداد کی منظوری کے بعد اس پر عمل درآمد کے اہتمام کے لیے اسے متعلقہ کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

امریکہ کا یہ مطالبہ نیا نہیں بلکہ کافی عرصہ سے چلا آ رہا ہے۔ ۱۹۸۷ء میں امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے پاکستان کی امداد کی بحالی کے لیے جو چند شرائط عائد کی تھیں‘ ان میں بھی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ایک معاصر میں ۵ مئی ۱۹۸۷ء کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی سینٹ نے یہ طے کیا تھا کہ امریکی صدر ہر سال پاکستان کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کیا کریں گے جس میں توثیق کی جائے گی کہ حکومت پاکستان ان شرائط کی پابندی کر رہی ہے تو اس کے بعد امداد کی سالانہ قسط پاکستان کے سپرد کی جائے گی۔ ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ ’’حکومت پاکستان اقلیتی گروہوں مثلاً احمدیوں کو مکمل شہری اور مذہبی آزادیاں نہ دینے کی روش سے باز آ رہی ہے اور ایسی تمام سرگرمیاں ختم کر رہی ہے جو مذہبی آزادیوں پر قدغن عائد کرتی ہیں۔‘‘

اس کے بعد سے نہ صرف امریکہ بلکہ دیگر مغربی حکومتیں اور ایمنسٹی انٹر نیشنل سمیت بہت سے عالمی ادارے پاکستان کو مسلسل یاد دہانی کراتے آ رہے ہیں کہ وہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور اسلام کے نام پر سرگرمیاں جاری رکھنے کی ممانعت سے متعلق قوانین پر نظر ثانی کرے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی حالیہ قرارداد میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ’’بین الاقوامی چارٹر‘‘ کی شق ۱۸ کا بھی حوالہ دیا گیا جس کی رو سے قادیانیوں کے خلاف پاکستان میں نافذ شدہ قوانین بادی النظر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار پاتے ہیں۔ بعد میں جب توہین رسالت کے بعض واقعات پر پاکستان کی مختلف عدالتوں میں مقدمات کی سماعت شروع ہوئی تو توہین رسالت پر موت کی سزا کا قانون بھی بین الاقوامی تنقید کا ہدف بن گیا اور یہ مطالبہ عالمی سطح پر ہونے لگا کہ توہین رسالت کو ان سنگین جرائم میں شامل نہ کیا جائے جن پر موت کی سزا دی جاتی ہے چنانچہ امریکی ایوان نمائندگان کی حالیہ قرارداد بھی اسی پس منظر میں سامنے آئی ہے۔ جہاں تک امریکہ ودیگر مغربی حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں کے مطالبات کا تعلق ہے تو ان کی بنیاد اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر پر ہے جس کی دفعات ۱۸ اور ۱۹ حسب ذیل ہیں:

’’دفعہ ۱۸: ہر شخص کو آزادی خیال‘ آزادی ضمیر اور آزادی مذہب کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں اپنا مذہب یا عقیدہ تبدیل کرنے اور انفرادی اور اجتماعی طور پر‘ علیحدگی میں یا سب کے سامنے اپنے مذہب یا عقیدے کی تعلیم‘ اس پر عمل‘ اس کے مطابق عبادت کرنے اور اس کی پابندی کرنے کی آزادی شامل ہے۔

دفعہ ۱۹ : ہر شخص کو آزادی رائے اور آزادی اظہار کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں بلا مداخلت رائے رکھنے کی آزادی اور بلالحاظ علاقائی حدود کسی بھی ذریعے سے اطلاعات اور نظریات تلاش کرنے‘ حاصل کرنے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کا حق شامل ہے۔‘‘

مغربی ممالک اور اداروں کا موقف یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے منشور کی یہ شقیں بین الاقوامی قوانین کا درجہ رکھتی ہیں اور پاکستان نے اقوام متحدہ کے ممبر کی حیثیت سے اس منشور پر دستخط کر کے اس کی پابندی کی ذمہ داری قبول کر رکھی ہے اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور توہین رسالت پر موت کی سزا کے قوانین ان شقوں میں بیان کردہ آزادیوں اور حقوق کے منافی ہیں اس لیے پاکستان کو اپنے حلف اور دستخط کے مطابق ان قوانین پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور انہیں بین الاقوامی قوانین سے ہم آہنگ کرنا چاہیے۔ دوسری طرف پاکستان کا موقف یہ ہے کہ اس ملک کا قیام اسلامی تشخص کے حوالے سے وجود میں آیا ہے۔ اسلام پاکستان کے لیے صرف ایک مذہب نہیں بلکہ ریاست کی وجہِ قیام اور دستوری بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلامی احکام وقوانین کی اساس بین الاقوامی قوانین پر نہیں بلکہ قرآن وسنت پر ہے اور قرآن وسنت اور اجماع امت کی رو سے قادیانیوں کو مسلمان تسلیم کرنے اور انہیں ملت اسلامیہ کے حصے کے طور پر قبول کرنے کی کسی درجہ میں کوئی گنجائش نہیں اس لیے انہیں پاکستان کے دستور اور قانون کی رو سے مسلمان تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح توہین رسالت پر موت کی سزا اسلام کے احکام میں سے ہے جس پر قرآن وسنت کی صریح تعلیمات کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کا چودہ سو سالہ اجماعی تعامل موجود ہے اس لیے بین الاقوامی قوانین کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے قرآن وسنت اور اجماع امت کے صریح احکام سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔

یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور انہیں ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر ملک میں قبول کرنے کا موقف دراصل علماء کرام اور دینی حلقوں کا نہیں تھا اور وہ اس سلسلے میں خلیفہ اول حضرت صدیق اکبرؓ کے اسوہ کا حوالہ دیتے رہے ہیں جنہوں نے جناب نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد نبوت کے تین دعوے داروں مسیلمہ کذاب‘ سجاح اور طلیحہ کے خلاف باقاعدہ فوج کشی کر کے ان کا استیصال کیا تھا لیکن مفکر پاکستان علامہ سر محمد اقبالؒ نے ایک درمیان کی راہ نکالی کہ قادیانیوں کو نئے نبی کے پیروکار کی حیثیت سے مسلمانوں سے الگ نئی امت تسلیم کر لیا جائے اور غیر مسلم اقلیت کے طور پر مسلم معاشرے میں انہیں برداشت کر لیا جائے چنانچہ علماء کرام اور دینی حلقے اپنے موقف سے پیچھے ہٹ کر علامہ اقبالؒ کے موقف پر آ گئے لیکن قادیانیوں نے اسے تسلیم نہیں کیا اور ایک نئے مدعی نبوت کے پیروکار ہونے کے باوجود خود کو مسلمانوں میں شامل رکھنے پر بے جا اصرار کیا جس پر مسلمانوں نے باقاعدہ تحریک چلائی اور ۱۹۷۴ء میں ملک کی منتخب قومی اسمبلی نے ایک دستوری ترمیم کے ذریعے سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جس کے بعد بھی قادیانیوں کا اپنے سابقہ موقف پر اصرار جاری رہا اور انہوں نے پارلیمنٹ کا متفقہ فیصلہ قبول کرنے کے بجائے دستور سے انحراف کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اسلام کے نام پر اپنے نئے مذہب کی تبلیغ اور مسلمانوں کی مخصوص مذہبی علامات وشعائر مثلاً مسجد‘ کلمہ طیبہ‘ نماز وغیرہ کا استعمال مسلسل جاری رکھا۔ اس پر ۱۹۸۴ء میں تمام مکاتب فکر کی مشترکہ دینی تحریک کے نتیجے میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے ایک آرڈی نینس کے ذریعے سے قادیانیوں پر پابندی لگا دی کہ وہ اسلام کے نام پر اپنے مذہب کی تبلیغ اور مسلمانوں کی مخصوص مذہبی علامات وشعائر استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے اشتباہ پیدا ہوتا اور مسلمانوں کا دینی تشخص مجروح ہوتا ہے۔بعد میں ۱۹۸۵ء میں منتخب ہونے والی پارلیمنٹ نے بھی اس آرڈی نینس کی توثیق کر دی۔

اسی طرح توہین رسالت پر موت کی سزا کے قوانین بھی منتخب پارلیمنٹ نے پاس کیے اور پاکستان کے عوام نے ان کے حق میں ملک گیر کام یاب ہڑتال کر کے یہ فیصلہ دیا کہ یہ قوانین صرف مذہبی حلقوں کا مطالبہ نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت کے دل کی آواز ہیں اس لیے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے‘ انہیں اسلام کا نام اور مسلمانوں کے شعائر وعلامات کے استعمال سے روکنے اور توہین رسالت پر موت کی سزا کے قوانین پاکستانی باشندوں کے عوامی فیصلے کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود امریکہ اور دیگر مغربی ممالک اور ادارے ان پر نظر ثانی کا مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عزیز احمد خان نے ایک بریفنگ میں واضح کر دیا ہے کہ یہ دونوں قوانین منتخب پارلیمنٹ کے طے کردہ ہیں اور حکومت پاکستان ان پر نظر ثانی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی لیکن ہمارے نزدیک صرف اتنی بات کافی نہیں ہے اور بین الاقوامی قوانین اور اسلامی احکام کے باہمی ٹکراؤ سے پیدا ہونے والے اس کنفیوژن کو دور کرنے کے لیے سنجیدہ محنت کی ضرورت ہے جس میں ملک کے دینی حلقوں اور حکومت دونوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہمارے خیال میں اس مرحلے پر مندرجہ ذیل نکات کو منطق‘ استدلال اور معقولیت کے ساتھ عالمی رائے عامہ کے سامنے واضح کرنا ضروری ہے:

مفتی اعظم سعودی عرب کا خطبہ حج

ادارہ

(اس سال   ۲۰ لاکھ کے لگ بھگ خوش نصیب مسلمانوں نے سعودی عرب کے مفتی اعظم سماحۃ الشیخ عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ تعالیٰ کی امامت میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور امیر حج موصوف نے اپنے خطبہ حج میں عالم اسلام کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے ملت اسلامیہ کی راہ نمائی کے لیے انتہائی درد دل کے ساتھ بہت سی مفید باتیں ارشاد فرمائیں۔ ہمارے نزدیک یہ خطبہ مسلم حکمرانوں کی تنظیم او آئی سی کے باقاعدہ ریکارڈ اور ایجنڈے میں شامل ہونا چاہیے اور عالم اسلام کے حکمرانوں اور دیگر تمام طبقات کو ان پر سنجیدہ توجہ دینی چاہیے۔ روزنامہ نوائے وقت کے شکریے کے ساتھ اس خطبے کا اردو خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)


سعودی عرب کے مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز آل شیخ نے امریکہ میں ۱۱ ستمبر کے حملوں کے بعد مغرب کی جانب سے اسلام کے خلاف دہشت گردی کے الزامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ منسلک کر دینا انتہائی بے انصافی ہے۔ یہاں مسجد نمرہ میں ۲۰ لاکھ سے زائد حجاج کرام کے سامنے خطبہ حج میں انہوں نے کہا کہ دہشت گردی‘ نا انصافی اور ظلم کے برابر ہے اور اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ دہشت گردی کو ایسے عظیم مذہب کے ساتھ کیسے منسلک کیا جا سکتا ہے جو انسانی زندگی کابہت زیادہ احترام کرتا ہے اور جنگ کے بجائے امن کو فروغ دیتا ہے۔ اسلام بچوں‘ عورتوں اور بے گناہ لوگوں کے قتل سے سختی سے روکتا ہے۔ یہ معاہدوں اور سمجھوتوں کا احترام کرتا ہے اور ہر وقت حقوق کی پاس داری کرتا ہے۔ انہوں نے دنیا کے 1.3ارب مسلمانوں سے کہا کہ وہ اپنے مذہب اسلام پر سختی سے کاربند رہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان دنوں اسلامی ممالک میں اہم واقعات رونما ہو رہے ہیں جو ہمیں غور وفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مذہب کے دفاع کے لیے متحد ہو جائیں۔ انہوں نے اسلام کے دشمنوں کی جانب سے پیدا کیے گئے حالات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تہذیب نے انسانوں میں تفریق پیدا کی ہے اور انسانوں کو تباہی والے ہتھیاروں کے سوا اور کچھ نہیں دیا۔ مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات نہ کریں جس سے ان پر کوئی الزام آئے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ ہمارے گناہوں کی شامت کے باعث ہے۔ کمزور عقائد‘ مسلمانوں کے درمیان اختلافات اور جھگڑے اس کا سبب ہیں۔ پھر ہم ہر چیز کا الزام اپنے دشمنوں پر کیوں عائد کریں؟ انہوں نے کہا کہ مسلمان غیروں پر بھروسہ نہ کریں۔ اللہ نے ہمیں مادی نعمتیں عطا کی ہیں جن سے ہم معاشی خود کفالت حاصل کر سکتے ہیں اس لیے مسلمان غیروں کے پنجے سے معاشی آزادی حاصل کریں۔

عبد العزیز آل شیخ نے کہا کہ اسلام ایک دوسرے کی خیر خواہی کا دین ہے۔ اسلام عفو ودرگزر کا دین ہے۔ اسلام وہ دین ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے۔ اسلام کا مقصد دنیا سے ظلم اور ناانصافی کا خاتمہ ہے۔ اسلام دین عدل ہے۔ دنیا کے اندر عدل کی حکمرانی‘ انصاف کی حکمرانی یہ اس دین کا مرکزی نکتہ ہے اور یہ دین اسی لیے بھیجا گیا ہے کہ دنیا کے اندر عدل وانصاف کوجاری کیا جائے۔ دین اسلام احترام آدمیت کا اور احترام انسانیت کا دین ہے۔ اسلام کے اندر ایک انسانی جان کی اتنی قیمت ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی شخص کو بلاجواز قتل کر دیا تو قرآن حکیم کی رو سے اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کر دیا۔ قران پاک میں آیا ہے کہ ’’جس نے بلا سبب معصوم انسان کو قتل کیا تو اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کیا۔‘‘ اسلام دنیا کے ہر خطے میں ہونے والے ظلم کی مذمت کرتا ہے۔ یہ ظلم چاہے بے قصور مسلمانوں کے ساتھ ہو یا ان مسلمانوں کے ساتھ جن کے پاس کوئی اسلحہ نہیں‘ چاہے یہ ظلم فلسطین کے ان مسلمانوں کے ساتھ ہو جو اس وقت زیادتی اور ظلم کا شکار ہیں۔ تو دین اسلام ظاہر ہے کہ ان سارے مظلوموں کی مدافعت کرتا ہے اور ظلم کرنے والوں کی ہر حال میں مذمت کرتا ہے چاہے کچھ لوگ ان کے مظالم سے کتنی ہی چشم پوشی کریں۔ دین اسلام کا مقصد یہ ہے کہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی اختیار کرنے کا سبق دیا جائے اور انسانوں کو انسانوں کے ظلم سے نکال کر اسلام کا سایہ انہیں فراہم کیا جائے۔ اسلام وہ دین ہے کہ جو ہر قسم کے علاقائی‘ نسلی تعصبات اور رنگ کے تعصبات کا قلع قمع کرتا ہے‘ انہیں ختم کرتا ہے اور پوری انسانیت کو مساوات کا درس دیتا ہے۔ اسلام نے جو کچھ انسانیت کو دیا ہے‘ انسانیت اس پر فخر کر سکتی ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ لوگ جنہوں نے انسانیت کو تباہ کرنے والا اسلحہ بنایا ہے اور جنہوں نے ایسے ایسے ہتھیار ایجاد کیے ہیں کہ جو آج انسان کے لیے بہت بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں اور مستقبل میں ان ہتھیاروں کی وجہ سے پوری انسانیت تباہی کی زد پر ہے۔ یہ اسلحہ انسانیت کو تباہ کرنے کے لیے اور ختم کر دینے کے لیے اور انسانیت کو‘ اس کی تکریم اور اس کی عزت کو پامال کرنے اور انسان کے حقوق کو ختم کرنے کے لیے یہ اسلحہ ایک بہت بڑی علامت ہے اور بہت بڑا خطرہ ہے۔

آج مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی نعمت سے نوازا ہے۔ دنیا کے اندر جغرافیائی لحاظ سے بہترین خطے میں ہر قسم کی نعمتیں اور طاقت کے ذرائع انہیں عطا کیے ہیں۔ یہ سب ان کے پاس ہے مگر بد قسمتی یہ ہے کہ مسلمان گروہ بندیوں کا شکار ہیں۔ مسلمان آپس میں ٹکڑے ٹکڑے ہیں۔ مسلمانوں کا ایک دوسر ے پر اعتماد نہیں ہے۔ مسلمانوں کے دلوں کے اندر بزدلی گھر کر چکی ہے اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی وجہ سے آج وہ طرح طرح کے مسائل کا شکار ہیں ۔ آج میری اپیل ہر مسلمان سے ہے اور میں ہر مسلمان کو بڑے خیرخواہانہ جذبے سے یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے فرض کو پہچانے ۔ اگر ہر مسلمان اپنے فرض کو پہچان لے اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہو جائے اور اس بات کا عہد کر لے کہ وہ خود اچھا مسلمان بنے گا اور جو لوگ اس کے تحت ہیں‘ ان کی وہ اچھی تربیت کرے گا‘ ان کا وہ خیال کرے گا‘ سرکار رسالت مآب ﷺ کی اس حدیث کے مطابق کہ ’’تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اپنی رعیت کے بارے میں‘‘ تو اگر مسلمان اپنی ان ذمہ داریوں کو محسوس کر لیں اور ہر مسلمان دوسروں کی فکر کرنے کے بجائے اپنی اپنی فکراور اپنے خاندان ‘ اپنی رعیت جو لوگ اس کے تحت ہیں‘ ان کی فکر کرے تو ا س سے ایک بہت بڑی اصلاح کی صورت اور بہت بڑی تبدیلی ہم اپنے معاشروں میں پیدا کر سکتے ہیں۔

اسی طرح مسلمانوں کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے دین کی دعوت کو عصری زبان میں‘ اس زبان میں جو آج انسان سمجھتے ہیں‘ نہایت آسان پیرایے میں اس دین کی دعوت کو پیش کرے ۔ وہ لوگ جو اس دین میں داخل نہیں ہیں یا مسلمان نہیں ہیں‘ ان تک ہمیں اس دین کی دعوت کو اپنے عمل کے ذریعے سے اور آسان زبان کے ساتھ حکمت کے ساتھ جیسا کہ حکم دیا گیا ہے کہ ’’اپنے رب کے راستے کی طرف اچھی نصیحت اور حکمت کے ساتھ دعوت دو‘‘ یہ فریضہ ہمیں ادا کرنا چاہیے۔ مسلمان حکمت کے ساتھ آسان دعوت پیش کریں اور اپنے عمل سے اس کا نمونہ انسانوں کے سامنے رکھیں۔ اس کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ لوگ اس دین کی طرف متوجہ نہ ہوں۔

آج اس دین کے دشمن یہ چاہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی نئی نسل کو گمراہی کے راستے پر ڈال دیں۔ آج غیر مسلم میڈیا اور مسلمانوں کے دشمن ہر طریقے سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کی نئی نسل طرح طرح کی برائیوں میں پڑ جائے‘ انہیں شراب کی لت لگ جائے اور وہ رقص وسرود میں مبتلا ہو جائیں اور اس طرح سے ان کی جو تخلیقی صلاحیتیں ہیں اور عملی صلاحیتیں ہیں یا وہ صلاحیتیں کہ جن کے ذریعے سے وہ اس امت کو عروج کی طرف اور ترقی کی طرف لے جا سکتے ہیں‘ ان صلاحیتوں پر وار کیاجائے‘ ان کی ان صلاحیتوں کو ختم کر دیا جائے۔ دشمن کی یہ چال ہے کہ وہ امت مسلمہ کی نئی نسل کو بے عمل بنا دے‘ امت مسلمہ کی نئی نسل کو غفلت کے اندر مبتلا کر دے۔ اس سلسلے میں تمام ذمہ داران کو آگاہ ہونا چاہیے اور اپنی نئی نسل کی تربیت اور ان کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔

مسلمان امت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے اقتصادی معاملات کے اندر‘ اپنی معیشت میں خود کفیل ہوں۔ اس طرح کے پروگرام اور اس طرح کی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان اپنے معاملات کے اندر خود کفیل ہوں‘ بالخصوص اپنی معیشت کے معاملے میں وہ دوسروں پر بھروسہ نہ کریں بلکہ اس طرح کے اقدامات کیے جائیں کہ مسلمان استعمار اور غیروں سے نجات حاصل کریں‘ خاص طور پر اپنی معیشت کے معاملات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اتنی نعمتیں عطا کی ہیں اور اتنے معیاری مادی وسائل عطا کیے ہیں کہ اس حکمت عملی کو آسانی سے اختیار کیا جا سکتا ہے کہ وہ معاشی خود کفالت حاصل کریں اور غیروں کے پنجے سے اور ان کے قبضہ سے آزادی حاصل کریں۔ اسی طرح سے مسلمانوں پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ عناصر جو کہ اس امت کے درمیان فرقہ بندی اور اسے گروہوں میں تقسیم کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں‘ ان کے سلسلے میں بھی انہیں چاہیے کہ وہ چوکنا رہیں۔

علماء دیوبند اور سرسید احمد خان ۔ چند تاریخی غلط فہمیوں کا جائزہ

مولانا محمد عیسی منصوری

روزنامہ جنگ لندن میں مانچسٹر کے جناب غلام ربانی صاحب اپنے ایک مضمون بعنوان ’’ہم نے فرقہ پرستی کا سانڈ پال لیا‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمانوں میں سے اس قوم کے بہی خواہ سرسید احمد خان اٹھے اور انہوں نے اس قوم کو پستی سے نکالنے کی خاطر علی گڑھ یونیورسٹی قائم کی تاکہ مسلمان اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں۔ یہ دل خراش حقیقت ہے کہ دیوبند فرقہ والوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کے عین مقابل ایک مدرسہ کھول کر سرسید احمد خان کی مخالفت کرنا شروع کر دی اور اس کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کر کے اس کو نیچری کہنا شروع کر دیا اور مسلمانوں کے لیے انگریزی تعلیم حاصل کرنا ناجائز قرار دے دیا۔‘‘

اس پیراگراف میں جناب غلام ربانی صاحب نے چند بے بنیاد باتیں علماء دیوبند کی طرف منسوب کر کے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے:

ایک یہ کہ دیوبند والوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کے عین مقابل اپنا مدرسہ کھول کر سرسید کی مخالفت کی۔

دوسری یہ کہ انہوں نے سرسید کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کیا۔

تیسری یہ کہ انہوں نے انگریزی تعلیم حاصل کرنے کو ناجائز قرار دیا۔

غلام ربانی صاحب کے یہ تینوں دعوے بالکل بے بنیاد‘ گمراہ کن اور سراسر غلط ہیں۔ یہ غلط فہمیاں عوام تو عوام‘ خواص تک کے ذہنوں میں موجود ہیں۔ آئیے تاریخی حقائق کی روشنی میں ان تینوں دعووں کا جائزہ لیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ مدرسہ دیوبند علی گڑھ یونیورسٹی کے عین مقابل نہیں بلکہ تین سو میل دور ایک چھوٹے سے قصبے میں قائم کیا گیا اور اس کا قیام مسلمانوں کی دینی تعلیم کے پیش نظر عمل میں لایا گیا تھا۔ علی گڑھ یونیورسٹی اور دار العلوم دیوبند کے قیام کا پس منظر یہ ہے کہ ۱۸۵۷ء کے غدر یا جنگ آزادی کے ناکام ہونے کے بعد ‘ جو اصلاً مسلمانوں کی طرف سے آخری مغل تاج دار بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں مسلمانوں کا اقتدار بحال کرنے کی کوشش کی تھی‘ پورے ہندوستان پر انگریز کا اقتدار مستحکم ہو گیا۔ چونکہ انگریز نے برصغیر کی حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اور مسلمان ہی انگریز کے خلاف برسرپیکار تھے‘ اس لیے اس نے مسلمانوں خصوصاً علما کو مظالم کا نشانہ بنایا۔ غدر میں بے شمار علما قتل کیے گئے یا ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ انگریز نے اپنی پالیسی کی بنیاد ہندوؤں کو نوازنے اور مسلمانوں کو کمزور اور تباہ کرنے پر رکھی۔ تمام اسلامی اوقاف کو ضبط اور دینی تعلیم کے مدارس کو بند کر کے علما کو نان شبینہ کا محتاج بنا دیا۔ دوسری طرف سرکاری ملازمتوں کے دروازے مسلمانوں پر بند کر کے ان کی معاشی حالت بالکل تباہ کر دی۔ فارسی کی جگہ انگریزی کو سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ عیسائی مشنریاں برصغیر کو ایک عیسائی ملک بنانے کے لیے کوشاں ہو گئیں۔ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ ہندوستان دوسرا اسپین نہ بن جائے جہاں کوئی نماز پڑھانے والا نہ ملے اور مادی ومعاشی امتیاز سے مسلمان بالکل ختم ہو کر رہ جائیں۔ غرض ۱۸۵۷ء کے غدر کے بعد برصغیر میں مسلمانوں اور اسلام کے وجود کو حقیقی خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔ 

ان حالات میں ملت کے درد مندوں نے مسلمانوں کے دین ودنیا کے تحفظ وبقا کے لیے مختلف طریقہ ہائے کار اختیار کیے تاکہ مسلمان مادی ترقی‘ سرکاری ملازمتوں‘ جدید علوم اور قومی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ اس کے لیے سرسید احمد خان نے علی گڑھ کالج کی بنیاد رکھی۔ جبکہ دینی علوم اور اسلامی تمدن وکلچر کے تحفظ اور مسلمانوں کا رشتہ اسلام سے باقی رکھنے کے لیے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی زیر سرپرستی دیوبند کا مدرسہ قائم کیا گیا۔ یہ دونوں بزرگ ایک ہی استاد حضرت مولانا مملوک علی صاحب (جو حضرت شاہ ولی اللہؒ کے خاندان کے آخری علمی وارث تھے) کے شاگرد تھے۔ یہ دونوں ادارے ۱۸۵۷ء کے غدر یا جنگ آزادی کے چند سال بعد قائم ہوئے البتہ دونوں کی پالیسی اور طریقہ کار مختلف تھا۔ ایک کا مقصد مسلمانوں کے دنیوی تنزل کو روکنا تھا تو دوسرے کا ان کے دینی علوم وکلچر کا تحفظ کرنا۔ الحمد للہ اب برصغیر میں بہت سے دینی ادارے قائم ہو گئے ہیں مگر شروع میں تقریباً نصف صدی تک مدرسہ دیوبند ہی صحیح معنوں میں ایک اسلامی جامعہ کہلانے کا مستحق تھا۔ 

ان دونوں اداروں کے بانی بزرگوں میں باہم کوئی دشمنی یا عناد نہ تھااور دونوں کو مسلمانوں ہی کا مفاد عزیز تھا اور اپنے اپنے کام میں دونوں مخلص تھے۔ چنانچہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال پر سرسید احمد خان نے اپنے رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں نہایت غم کے ساتھ طویل مضمون لکھا جو کہ انتہائی درمندانہ تھا۔ اس کی آخری چند سطور ملاحظہ ہوں:

’’اس زمانہ میں سب لوگ تسلیم کرتے ہوں گے کہ مولوی محمد قاسم اس دنیا میں بے مثل تھے۔ ان کا پایہ اس زمانہ میں شاید معلوماتی علم میں شاہ عبد العزیز سے کچھ کم ہو‘ الا اور تمام باتوں میں ان سے بڑھ کر تھا۔ مسکینی‘ نیکی اور سادہ مزاجی میں ان کا پایہ مولوی محمد اسحاق (شاہ عبد العزیز کے نواسے) سے بڑھ کر نہ تھا تو کم بھی نہ تھا۔ وہ درحقیقت فرشتہ سیرت اور ملکوتی خصلت کے شخص تھے اور ایسے آدمی کے وجود سے زمانہ کا خالی ہو جانا ان بزرگوں کے لیے جو ان کے بعد زندہ ہیں‘ نہایت رنج اور افسوس کا باعث ہے۔ دیوبند کا مدرسہ ان کی ایک عمدہ یادگار ہے اور سب لوگوں کا فرض ہے کہ ایسی کوشش کریں کہ وہ مدرسہ ہمیشہ قائم اور مستقل رہے اور اس کے ذریعے سے تمام قوم کے دل پر ان کی یادگاری کا نقش جما رہے۔‘‘ (رود کوثر‘ صفحہ ۳۶۸)

بانی دار العلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے انتقال پر سرسید کی یہ تحریر اس غلط فہمی کی تردید کے لیے کافی ہے کہ دیوبند کا مدرسہ سرسید کی مخالفت کے لیے قائم ہوا تھا۔ یہی نہیں بلکہ سرسید نے علی گڑھ یونیورسٹی کا شعبہ دینیات حضرت مولانا محمد قاسمؒ کے داماد مولانا عبد اللہ صاحب کے سپرد کیا اور اب تک ہر دور میں علی گڑھ یونیورسٹی کا شعبہ دینیات علماء دیوبند ہی کے سپرد رہا ہے۔ دار العلوم دیوبند کے پہلے صدر مدرس مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ جو سرسید کے محبوب استاد مولانا مملوک علیؒ کے صاحب زادے تھے‘ سرسید کو حقیقی بھائی سے زیادہ عزیز تھے۔ ان تاریخی حقائق سے دیوبند اور علی گڑھ کے درمیان مخاصمت یا دشمنی کی داستان سراسر من گھڑت ثابت ہوتی ہے۔

اب آئیے غلام نبی صاحب کے دوسرے دعوے کی طرف کہ سرسید کے خلاف علماء دیوبند نے کفر کا فتویٰ دیاتھا۔ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے جو علماء کے خلاف پھیلائی گئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ علماء دیوبند نے کبھی سرسید پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا۔ معروف اسکالر ومحقق شیخ محمد اکرام جو مولانا حالی کے بعد سرسید کے سب سے بڑے طرفدار اور مداح حامی اور وکیل سمجھے جاتے ہیں‘ لکھتے ہیں:

’’اس مخالفت کے متعلق عوام بلکہ خواص میں بھی کئی غلط فہمیاں رائج ہیں۔ اس بارے میں سب سے بڑی غلط فہمی بہت عام ہے کہ علما نے سرسید کی مخالفت اس وجہ سے کی کہ وہ انگریزی تعلیم رائج کرنا چاہتے تھے۔ یہ خیال انتہائی غلط اور علماء اسلام کے ساتھ صریح بے انصافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سرسید کے سب سے بڑے مخالف وہ حضرات تھے جنہوں نے نہ صرف برصغیر میں سرسید کی شدید مخالفت کا ہنگامہ کھڑا کیا بلکہ حرمین شریفین تک سے ان کے خلاف کفر کے فتوے حاصل کیے۔ ان میں ایک کانپور کے ڈپٹی کلکٹر امداد علی صاحب‘ دوسرے گورکھ پور عدالت کے سب جج مولوی علی بخش صاحب تھے۔ یہ دونوں بزرگ انگریز کے نہایت مقرب اور اس قدر وفادار تھے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ہندوستانیوں کے خلاف برملا انگریز کی وفاداری میں سینہ پر گولی تک کھائی۔ چنانچہ خواجہ الطاف حسین حالی نے سرسید کی سوانح حیات ’’حیات جاوید‘‘ میں تفصیل سے اس مسئلے پر بحث کی ہے۔ حالی ان دونوں حضرات کے متعلق لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں سرسید کی جس قدر مخالفتیں اطراف وجوانب سے ہوئیں‘ان کا منبع ان ہی دو صاحبان کی تحریریں ہیں۔ ‘‘

جہاں تک علما کی طرف سے انگریزی زبان سیکھنے کی مخالفت کا تعلق ہے تو یہ بھی ایک بالکل بے بنیاددعویٰ ہے۔ ابتدا میں حضرت شاہ ولی اللہؒ کے جانشین شاہ عبد العزیزؒ سے کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے کے متعلق فتویٰ پوچھا گیا تو فرمایا: ’’انگریزی کالجوں میں پڑھو اور سیکھو۔ شرعاً ہر طرح سے جائز ہے۔‘‘ (اسباب بغاوت ہند‘ مصنفہ سرسید احمد خان) یا درہے کہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کو برصغیر کے تمام علماء (دیوبندی‘ بریلوی‘ اہل حدیث) اپنا مقتدا وامام مانتے ہیں۔

دیوبندی جماعت کے سب سے بڑے مفتی اور عالم مولانا رشید احمد گنگوہی ہیں جو سرسید احمد خان کے معاصرین میں سے ہیں۔ ان کا فتویٰ فتاویٰ رشیدیہ میں آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ لکھتے ہیں: 

’’انگریزی زبان سیکھنا درست ہے بشرطیکہ کوئی معصیت کا مرتکب نہ ہو اور نقصان دین میں اس سے نہ آئے۔‘‘

اور مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے شاگرد وجانشین اور دار العلوم دیوبند کے پہلے طالب علم شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ نے ۱۹۲۰ء میں خود علی گڑھ میں جامعہ ملیہ کے تاسیسی خطبہ استقبالیہ میں فرمایا تھا:

’’آپ میں جو لوگ محقق اور باخبر ہیں‘ وہ جانتے ہوں گے کہ میرے بزرگوں نے کسی وقت بھی کسی اجنبی زبان سیکھنے یا دوسری قوموں کے علوم وفنون حاصل کر نے پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا۔‘‘

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بھارت کی دوسری مسلم یونیورسٹی جامعہ ملیہ کی تاسیس وبنیاد اسی دیوبند کے فرزند شیخ الہند کے ہاتھوں پڑی۔ الغرض علماء دیوبند نے کبھی انگریزی زبان سیکھنے یا مغربی علوم وفنون حاصل کرنے کی مخالفت نہیں کی البتہ انگریز پرستی‘ انگریز کی وفاداری‘ اسلامی احکام وتمدن کی جگہ مغربی افکار ومعاشرت اختیار کرنے کے خلاف ضرور نفرت کا اظہار کیا جس سے آج تک ہمیں مغرب کی ذہنی غلامی نے جکڑ رکھا ہے۔ اگر محترم غلام ربانی صاحب دیوبند کے کسی بزرگ کی طرف سے انگریزی زبان اور جدید سائنسی علوم سیکھنے کی مخالفت کی نشان دہی کر دیں تو ان کی ازحد نوازش ہوگی اور ہماری معلومات میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جن حضرات نے سرسید اور علی گڑھ کالج کی سخت مخالفت کی تھی‘ انہوں نے اپنے سخت سے سخت مضامین اور درشت سے درشت فتاویٰ میں کبھی یہ نہیں لکھا کہ انگریزی پڑھنا ناجائز یا کفر ہے بلکہ یہی لکھا کہ جس کے عقائد سرسید جیسے ہوں‘ وہ مسلمان نہیں اور جو مدرسہ ایسے عقائد والا قائم کرے‘ ا س کی اعانت جائز نہیں۔ شروع میں سب حضرات کو خطرہ تھا کہ سرسید اپنے کالج میں اپنے ان مخصوص مذہبی خیالات کی تبلیغ کریں گے جن کا اظہار وہ اپنی تفسیر‘ کتابوں‘ رسائل اور مضامین میں کر رہے ہیں مگر بعد میں جب دیکھا کہ سرسید نے ایسا نہیں کیا تو انہوں نے بھی مخالفت ختم کر دی۔

آئیے اس امر پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ ایک طبقہ نے سرسید احمد خان کی مخالفت کیوں کی تھی؟ ہندوستان پر انگریزکا اقتدار قائم ہو جانے کے بعد سرسید نے جو حکمت عملی پیش کی‘ وہ دو امور پر مشتمل تھی: ایک سیاسی اور دوسرے مذہبی۔ سیاسی یہ کہ ۱۸۵۷ء کے غدر یا جنگ آزادی میں سرسید اور علما دونوں نے حصہ لیا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سرسید ایک فریق یعنی انگریز کے ساتھ تھے اور علما دوسرے فریق یعنی مجاہدین کے ساتھ۔ اس کے بعد سرسید نے اپنی کتاب ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ اور دوسری تصانیف میں انگریز کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کو غدار‘ خساری اور غنڈہ وغیرہ کے القاب سے نوازا اور مسلمانوں کو ہمیشہ انگریز کے وفادار رہنے اور انگریزی تمدن ومعاشرت اختیار کرنے کی تلقین کی۔ سرسید کے سیاسی فلسفہ کی بنیاد انگریز کے ساتھ کامل وفاداری پر تھی۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو نہ صرف انگریزی تمدن ومعاشرت اختیار کر لینی چاہیے بلکہ اس پر فخر بھی کرنا چاہیے۔

سرسید کا مذہبی فلسفہ یہ تھا کہ قرآن وسنت کے احکام اور تعلیمات پر مغربی دانش وروں کے اعتراضات کو قبول کرتے ہوئے اسلام کی ایسی تشریح کی جائے جو مغرب کے لیے قابل قبول قرار پائے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے قرآن کی جو تفسیر لکھی‘ اس میں حضرات انبیاء کے معجزات ‘ جنت اور جہنم اور جنات کا انکار کرتے ہوئے اسلامی احکام وقوانین کی عجیب وغریب تاویلیں کیں اور اس میں اس حد تک آگے نکل گئے کہ کوئی مسلمان اس کا تصور نہیں کر سکتا۔ مثال کے طور پر سرسید احمد خان کے نزدیک وحی کے معنیٰ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبریل پیغام لے کر پیغمبر کے پاس آتے تھے بلکہ یہ اس طرح ہے کہ جیسے کسی پر جنون یا مرگی کے دورے کی کیفیت ہو اور اس میں وہ نارمل کیفیت سے ہٹ کر خاص قسم کی گفتگو کرے۔ وحی کے اس معنی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن کلام الٰہی ہونے کے بجائے نبی اکرم ﷺ کا کلام قرار پاتا ہے اور اس سے اسلام کے بنیادی عقائد نبوت اور قرآن کی پوری عمارت دھڑام سے زمین پر آجاتی ہے۔ مغربی دانش وروں اور مستشرقین کے نزدیک قرآن محمد ﷺ کا کلام ہے اور وحی کے معنی اور کیفیت اسی طرح بیان کرتے ہیں۔ 

سرسید نے اپنی تفسیر قرآن‘ دیگر کتب‘ رسالہ اور مضامین میں جن مذہبی خیالات کا اظہار کیا ہے‘ اس سے علی گڑھ تحریک کے تمام قائدین کو سخت اختلاف تھا اور مذہبی خیالات میں کوئی بھی ان کے ساتھ نہیں تھا۔ سرسید کے جانشین محسن الملک نواب مہدی علی خان نے جب سرسید کی تفسیر دیکھی تو انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ سرسید قبلہ رو ہو کر نماز پڑھتے ہوں گے۔ انہوں نے ایک طویل اور سخت خط لکھا۔ اسی طرح ایک اور نہایت قریبی ساتھی اور معاون نے سرسید کو یہاں تک لکھا کہ قرآن کو منزل من اللہ ماننے سے انکار کر دینا آسان ہے بہ نسبت اس معنی وتفسیر کے جو آپ بیان فرما رہے ہیں۔ غرض سرسید کے مذہبی خیالات وتعبیرات سے مولانا حالی‘ شبلی نعمانی اور نواب محسن الملک جیسے ان کے تمام قریبی رفقا نے سخت اختلاف کرتے ہوئے ان سے اپنی براء ت کا اظہار کیا۔ مذہبی معاملات میں ان کی جو تحریریں تھیں‘ ان سے سرسید کے تعلیمی مشن کو سخت نقصان پہنچا اور غیر ضروری مخالفت کا سامنا ہوا۔چنانچہ حالی کے بعد سرسید کے زبردست مداح وحامی شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں کہ تفسیر کی اشاعت نے سرسید کے دوسرے کاموں کو بہت نقصان پہنچایا اور ا س سے فائدہ بہت کم ہوا۔ ان کا اصل مقصد مسلمانوں میں تعلیم عام کرنا اور ان کی دنیوی ترقی کا انتظام کرنا تھا۔ سرسید نے اپنی مخالفت کا سامان آپ پیدا کر لیا اور بعض لوگوں کو انگریزی تعلیم سے عقائد متزلزل ہو جانے کا جو ڈر تھا‘ اس کا بدیہی ثبوت خود بہم پہنچایا۔

الغرض سرسید کے ان دونوں مذہبی وسیاسی فلسفوں کو خود علی گڑھ کی دوسری نسل نے مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان کی قیادت میں علی گڑھ میں تعلیم پانے والوں نے نہ صرف ان کی اسلامی عقائد واحکام کی تعبیر وتشریح کو مسترد کیا بلکہ انگریزکی کامل وفاداری کے فلسفہ کو رد کرتے ہوئے تحریک آزادی میں شیخ الہند کی قیادت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ لوگ علی گڑھ کے تعلیم یافتہ تھے مگر آزادی کی جدوجہد میں بیشتر مولانا محمد قاسم نانوتوی کے جانشین اور دیوبند کے صدر شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی قیادت میں برطانوی استعمار کے خلاف صف آرا ہو گئے تھے۔

دینی تعلیم کی ترویج کے ساتھ ساتھ استعمار کے خلاف جہاد علماء دیوبند کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ استعمار کے خلاف جہاد دیوبند مدرسہ کے قائم ہونے سے بہت پہلے ۱۸۵۷ء میں شروع ہو چکا تھا جب شاملی کے میدان میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی‘ مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا محمد قاسم نانوتوی نے انگریز کے خلاف جنگ لڑی۔ اس میں پیر ضامنؒ کے ساتھ بہت سے علما ومحدثین شہید ہوئے۔ اس کے بعد تحریک آزادی کے تمام ممتاز راہنما ڈاکٹر انصاری‘ حکیم اجمل خان‘ مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا ابو الکلام آزاد‘ مولانا عبید اللہ سندھی برطانوی استعمار کے خلاف جنگ میں مولانا محمد قاسم نانوتوی کے جانشین شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے ساتھ تھے۔ آج بھی دیوبند کے معنوی فرزند مختلف ممالک میں جہاد کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں۔ طالبان علماء دیوبند ہی کے خوشہ چین ہیں۔ امریکہ اور مغرب نے اب تک پاکستان کی جن تحریکوں اور افراد پر پابندی عائد کی ہے‘ ان میں سے بیشتر کا تعلق علماء دیوبند ہی سے ہے۔

البتہ سرسید کے پروگرام کے دو حصوں کو مسلمانوں میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ ایک یہ کہ مسلمان اپنے حقوق کا تحفظ جداگانہ تشخص کی بنیاد پر کریں۔ دوسرے یہ کہ انگریزی تعلیم حاصل کر کے نئے نظام میں عملاًشریک ہوں۔ ان دونوں کی بنیاد متعصب ہندو اکثریت کے غلبہ کے خوف سے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے جذبہ پر تھی جس میں سرسید احمد خان بلاشبہ مخلص نظر آتے ہیں اسی لیے اسے مسلمانوں میں قبولیت عامہ حاصل ہوئی۔ اس حوالے سے علماء دیوبند سرسید احمد خان کی خدمات‘ جدوجہد‘ قربانیوں اور ایثار کے پوری طرح معترف وقدر دان ہیں اور کبھی ان کے تذکرہ واعتراف میں حجاب محسوس نہیں کرتے۔ وہ اس حوالے سے سرسید کے دل میں مسلمانوں کے لیے درد اور فکر کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں مسلمانوں کا محسن مانتے ہیں۔

آخر میں ہم جناب غلام ربانی صاحب سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اس وقت جب کہ تمام دنیا کی باطل طاقتیں اسلام اورمسلمانوں کی مخالفت میں متحد ہوئی ہیں‘ جس کا مظاہرہ آئے دن فلسطین‘ بوسنیا‘ مقدونیا‘ چیچنیا اور کشمیر میں ہوتا رہتا ہے‘ ایسے نازک وقت میں ماضی کے اختلافات کو ہوا دینے اور قدیم وجدید طبقات میں نفرت بڑھانے کے بجائے ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ دنیا بھر کے فقہی مذاہب حنفی‘ شافعی‘ مالکی‘ حنبلی اور برصغیر کے تمام مکاتب فکر دیوبندی‘ بریلوی‘ اہل حدیث اور قدیم وجدید دونوں طبقوں (علما اور جدید تعلیم یافتہ) کے مابین خلیج کو کم کیا جائے۔ اسلام کی اعلیٰ تعلیمات کی روشنی میں ہمارا اصول الحکمۃ ضالۃ المومن ہونا چاہیے یعنی ہر طبقہ اور جگہ سے اچھی باتوں کو اختیار کرنا چاہیے۔ ہمیں قدیم صالح اور جدید نافع کے درمیان ایک حسین امتزاج پیدا کر کے ملت کے تمام طبقات کو اسلام کی دعوت ودفاع کے لیے بھائی بھائی بنا کر باطل قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنا دینا چاہیے۔ اس میں ہم سب کی اور پوری ملت اسلامیہ کی بھلائی اور سرخ روئی ہے۔

امریکی اور برطانوی جارحیت۔ ایک تجزیاتی مطالعہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

پہلی جنگ عظیم میں امریکی شمولیت کے حوالے سے جواز پیدا کرتے ہوئے وڈرو ولسن نے کہا تھا کہ اس طرح دنیا جمہوریت کے لیے محفوظ (Safe for democracy) ہو جائے گی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر شمالی امریکہ اور برطانیہ کے سامنے ایک موثر اور طاقت ور کمیونسٹ گروہ آنے سے یہ ’’تحفظ‘‘ قائم نہ رہا۔ اسی لیے سرد جنگ کے دوران میں امریکہ اور برطانیہ کی خارجی پالیسی کا محور کمیونسٹ گروہ کو فوجی طاقت کے اعتبار سے بہت پیچھے رکھنا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس مقصد کا حصول اپنی فوجی طاقت میں بے پناہ اضافے سے ہی ہو سکتا تھا۔ سرد جنگ کے دوران میں امریکی وبرطانوی سرگرمیاں جمہوریت کے حوالے سے توسیعی نہیں تھیں بلکہ ان کا مرکزی نکتہ کمیونسٹ پھیلاؤ کو روکنا تھا اسی لیے رونالڈ ریگن نے سوویت یونین کو Evil empire(شر کی سلطنت) سے موسوم کیا۔

موجودہ دور میں امریکی وبرطانوی سرگرمیاں توسیعی اور جارحیت پر مبنی ہیں۔ کمیونسٹ گروہ کے مقابل ہونے کے سبب سے دونوں ممالک نے اسلحے کے ڈھیر جمع کر رکھے تھے۔ طاقت کے اس ڈھیر کا outlet (اظہار)جارحیت میں ڈھونڈا جا رہا ہے۔ اس جارحیت کے ذریعے سے دنیا کو ’’جمہوریت کے لیے محفوظ‘‘ بنایا جا رہا ہے۔ اس گفتگو کے تناظر میں ممتاز برطانوی مفکر برٹرینڈ رسل کی فکر سے استشہاد ضروری ہو جاتا ہے۔ موصوف لکھتے ہیں:

’’اگرچہ طاقت کی حکمرانی کوئی ایسی چیز نہیں جس کی تعریف وتوصیف کی جائے اور اگر اس کی جگہ کوئی نرم ولطیف اور کم ظالمانہ چیز لے لے تو آدمی کو لازماً خوش ہوناچاہیے ‘ تاہم سماجی اداروں کی ترقی میں اس کا ایک مفید کردار ہے۔ حکومت ایک مشکل فن ہے اور (اسی طرح) حکومت کی اطاعت بھی مشکل ہے ماسوائے اس کے کہ (حکومت کی طاقت) کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے۔ طاقت سے مسلط کی گئی حکومتوں نے گروہوں کی تشکیل میں ایسا کردار ادا کیا ہے جو بہت ضروری معلوم ہوتا ہے۔ انگریزوں کی اکثریت آج اپنی حکومت کی اس لیے اطاعت کرتی ہے کہ اسے معلوم ہے کہ اس کا بدل خوف ناک نراجیت اور انتشار ہے۔ لیکن ایسے طویل ادوار بھی گزرے ہیں جن کے دوران میں لوگوں نے نراجیت اور انتشار کو‘اگر ان کا حصول ان کے بس میں تھا‘ ترجیح دی۔ بادشاہوں اور جاگیرداروں کے درمیان طویل لڑائیاں رہیں جن میں‘ خوش قسمتی سے جاگیرداروں نے ایک دوسرے کو جڑسے اکھاڑ دیا۔ نتیجتاً بادشاہ فاتح کی حیثیت سے نمودار ہوا۔ لوگوں نے اس کی اطاعت کی کیونکہ وہ اطاعت کے لیے مجبور کر سکتا تھا اور ا س طرح سے رعایا نے اتحاد اور قانون کی اطاعت کی عادت حاصل کر لی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب بادشاہی طاقت میں کمی آ گئی تو ایسا نراجیت کے احیا کی صورت میں نہیں ہوا بلکہ حکومتوں کی نئی اقسام کے ذریعے سے۔ تاہم اس امر میں شک کا اظہار کیا جا سکتا ہے کہ بادشاہی طاقت کے مرحلے سے گزرے بغیر شاید ہی کوئی ایک واحد مستحکم حکومت سارے ملک پر کبھی قائم ہوئی ہو ۔

بادشاہی طاقت سے جمہوریت کی طرف تبدیلی جو کہ انگلینڈ میں چارلس اول کے عہد سے لے کر ملکہ وکٹوریہ کے عہد تک ہوئی‘ ایک ایسی تبدیلی ہے جس کی دوسری بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ جہاں کہیں سماجی اکائی ہے‘ وہاں حکومت ناگزیر ہے اور یہ حکومت کی طاقت وجبر ہے جو متعلقہ گروہ کو ربط واتحاد عطا کرتی ہے۔ لیکن جب ایک دفعہ گروہ تشکیل پا جائے ‘ایسا کسی بھی طریقے سے ہوا ہو‘ تو گروہ کی ساخت میں کسی تبدیلی کے بغیر حکومت کی ہیئت وصورت بدلی جا سکتی ہے۔ اکثر وبیشتر سب سے مشکل مرحلہ ایک واحد حکومتی گروہ کی تشکیل ہے اور مآل کار‘ حکومت کی ہیئت وصورت میں تبدیلیاں بہت آسان ہوتی ہیں۔ نراجیت پسندانہ جذبات کو دبائے بغیر کسی بھی حکومتی گروہ کی تشکیل نہیں ہو سکتی اور جذبات کی تحدید بہت آسانی سے ہو جاتی ہے اگر گروہ کے صرف کمزور ارکان کو دبانا مقصود ہو جبکہ مضبوط ارکان اپنے نراجیت پسندانہ جذبات کا بدل حکومتی طاقت کے استعمال کی صورت میں پا لیتے ہیں ۔ جب پاپا اونگھ رہے ہوں‘ تو وکٹوریہ عہد کے بچے شور نہیں مچاتے تھے لیکن پاپا جب چاہتا‘ شور کر سکتا تھا۔ پاپا کا ان بچوں کو سرزنش کرنے کا جذبہ‘ جو اس کے آرام میں خلل ڈالتے تھے‘ نراجی حملہ ہوتا اگر خاندانی گروہ قائم نہ ہو چکاہوتا لیکن چونکہ یہ قائم ہو چکا تھا ‘ اس لیے اسے نظم وضبط قائم رکھنے کے لیے پدری اختیار کا ایک مناسب استعمال سمجھا جاتا تھا۔ اس طرح سے سماجی گروہوں کی تشکیل اس کے بغیر ممکن ہو سکی کہ تشکیل پانے سے قبل گروہوں کے جو طریقہ ہائے عمل تھے‘ ان میں بہت زیادہ مداخلت کی جائے۔ البتہ کمزور افراد اس سے مستثنیٰ ہیں۔ مثال کے طور پر قتل کو لیجیے۔ جہاں کہیں کسی خطے میں فاتح اشرافیہ حکومت کرتی ہے تو یہ بات ایک عمومی قاعدے کے طور پر مان لی جاتی ہے کہ سماجی اعتبار سے کمتر لوگوں کو سماجی لحاظ سے اپنے سے برتر لوگوں کو قتل نہیں کرنا چاہیے یا حتیٰ کہ ایک دوسرے کو بھی لیکن جب سماجی اعتبار سے کوئی برتر آدمی کسی کمتر وادنیٰ کو قتل کرے تو یہ ایک ٹھیک اور صحیح عمل ہوگا۔ حقیقت میں اگر برتر لوگ بہت زیادہ بے صبرے نہ ہوں تو وہ ایسا قانونی ذرائع سے کر سکتے ہیں۔ خالصتاً رضاکارانہ تعاون پر مبنی نئے گروہوں کی تشکیل کی کوششیں عام طور پر ناکام ہو جاتی ہیں کیونکہ ایسے گروہوں کے لیے کوئی بھی حکومت تشکیل دی جائے‘ وہ روایتی احترام کی حامل نہیں ہوتی اور اسے اتنی طاقت نہیں دی جاتی کہ وہ جبری احترام حاصل کر سکے۔

موجودہ عہد میں اس اصول کا سب سے اہم اطلاق عالمی حکومت پر ہوتا ہے۔ جنگ کی روک تھام کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ کرہ ارض پر محیط ایک واحد حکومت قائم ہو لیکن ایک وفاقی حکومت جو باہمی رضامندی سے بنائی گئی ہو جیسا کہ انجمن اقوام اور اقوام متحدہ کی تشکیل کی گئی‘ یقیناً کمزور ہی ہوگی کیونکہ اسے تشکیل دینے والی قومیں محسوس کریں گی‘ جیسا کہ نوابوں نے قرون وسطیٰ میں محسوس کیا تھا کہ نراجیت خود مختاری کے کھونے سے بہتر ہے۔اور جیسا کہ قرون وسطیٰ میں نراجیت کی جگہ منظم حکومت کے آنے کا انحصار شاہی طاقت کی فتح پر تھا‘ اسی طرح سے بین الاقوامی تعلقات میں نراجیت کے بجائے نظم وضبط کا آنا‘ اگر یہ آجاتا ہے‘ ایک قوم یا قوموں کے اتحاد کی برتر قوت کے ذریعے سے ہوگا اور جب ایسی حکومت واحدہ تشکیل پا جائے گی تبھی یہ ممکن ہوگا کہ بین الاقوامی جمہوری حکومت کا ارتقا شروع ہو۔ یہ نظریہ جس پر میں پچھلے تیس برس سے قائم ہوں‘ اس کی تمام آزاد خیال لوگوں اور ہر قوم کے تمام قوم پرستوں نے شدید مخالفت کی ہے۔ بلاشبہ میں اس بات سے متفق ہوں کہ یہ بہت بہتر ہوگا کہ رضامندی پر مبنی ایک بین الاقوامی حکومت کی تشکیل ہو لیکن مجھے اس بات پر بھی پورا اطمینان ہے کہ قومی خود مختاری کی محبت اتنی مضبوط ہے کہ ایسی کوئی بین الاقوامی حکومت موثر اختیار نہیں رکھ سکے گی۔ جب ایک قوم یا قوموں کے گروہ کی عسکری برتری پر مبنی تمام دنیا کے لیے حکومت واحد ایک صدی یا اس کے لگ بھگ عرصہ تک اقتدار میں رہے گی تو یہ اس درجے کااحترام حاصل کرنا شروع کر دے گی جس سے ممکن ہو جائے گا کہ وہ طاقت کے بجائے قانون اور جذبات پر اپنے اختیار کی بنیاد رکھے اور جب ایسا ہو جائے گا تو بین الاقوامی حکومت جمہوری ہو سکتی ہے۔ میں نہیں کہتا کہ یہ ایک خوش گوار امکان ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ انسان کی نراجی تحاریک (جذبات) اتنی مضبوط ہیں کہ وہ پہلے مرحلے پر سوائے برتر طاقت کے کسی اور چیز کے تابع ہونا کے قابل نہیں ہو سکتیں۔‘‘

معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ رسل کی فکر سے ملتی جلتی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں:

۱۔ کیا امریکہ اور برطانیہ کے مخصوص حالات کی پیدا کردہ فکر کا پھیلاؤ‘ بغیر ترامیم کے‘ ممکن اور سودمند ثابت ہوگا؟

۲۔ کیا امریکہ اور برطانیہ اپنی اپنی جغرافیائی حدود کے اندر عملی اعتبار سے اور عوامی سطح پر وہ ثمرات حاصل کر چکے ہیں جس کا وعدہ ان کی فکر کرتی ہے؟

۳۔ کیا ان کی فکر کے نظری وعملی پہلو یکساں ہیں؟

۴۔ کیا قرون وسطیٰ کے عہد اور اکیسویں صدی میں معاشرت اور مقامیت کے حوالے سے کوئی فرق نہیں ہے؟

۵۔ کیا جمہوریت کی نوعیت اور جمہوریت کا حصول اسی انداز کا متقاضی ہے جو دونوں ممالک میں معروف ہے؟

۶۔ کیا مختلف قوموں کے اختلافات اور شناخت کی خواہش کو ایک قوم کے اندر موجود متخالف گروہوں کے برابر سمجھا جا سکتا ہے؟

۷۔ کیا قوموں کی شناخت کی خواہش کو address کرنے کا واحد طریقہ جبر اور جارحیت ہے؟

۸۔ کیا قرون وسطیٰ سے اکیسویں صدی تک نوع انسانی نے اس معاملے کو نمٹانے کے لیے کوئی نئی راہ تلاش نہیں کی؟

اگر ہم یورپی اور عالمی تاریخ کا سرسری جائزہ لیں تو ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے میں چنداں مشکل نہیں ہوتی۔ مثلاً سب سے پہلے 1648ء کا ویسٹ فالیا ٹریٹی (Treaty of Westphalia) ہی دیکھ لیں۔ اس ٹریٹی سے ریاستوں کا نظام (States system) پیدا ہوا جس سے امید بندھی کہ یورپ میں امن قائم ہو جائے گا کیونکہ ریاستوں کو ان کی حدود کے اندر مقتدر تسلیم کرنے سے اور دوسری ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رکھنے سے ہی امن کا قیام ممکن تھا۔ اس سے مذہبی جنگوں سے بچنے کی بھی امید تھی۔ پھر 1871ء میں برطانیہ‘ فرانس‘ اٹلی‘ پرشیا‘ رشیا‘ آسٹریا اور ترکی نے لندن کانفرنس میں درج ذیل اعلامیے (Declaration)پر دستخط کیے:

"That the powers recognise it an essential principle of the Law of Nations that no power can liberate itself from the engagements of a treaty nor modify the stipulations thereof, unless with the consent of the contracting parties by measns of an amiable understanding." 

’’(اس اعلامیے میں شریک تمام) طاقتیں اسے قوموں کے قانون کا لازمی اصول تسلیم کرتی ہیں کہ کوئی بھی طاقت اپنے آپ کو کسی معاہدے کے عہد وپیمان سے آزاد نہیں کر سکتی اور نہ ان شرائط کو بدل ہی سکتی ہے جب تک کہ معاہدے میں شامل دوسرے فریق دوستانہ اتفاق رائے سے اس کی منظوری نہ دے دیں۔‘‘

جدید عہد کے حوالے سے 1961ء کا ’’ویانا کنونشن ڈپلومیٹک تعلقات پر‘‘ نہایت اہم ہے۔ اس کے افتتاحیے کے مطابق:

"....that an international convention on diplomatic intercourse, privileges and immunities (will) contribute to the development of friendly relations among nations, irrespective of their differring constitutional and social systems."

’’ڈپلومیٹک میل جول‘ مراعات اور تحفظات کے لیے ایک بین الاقوامی کنونشن اقوام کے مابین‘ ان کے دستوری اور سماجی نظاموں کے تفاوت سے قطع نظر‘ دوستانہ تعلقات کی ترقی کے لیے مدد دے گا ۔‘‘

دوسری ریاستوں کے معاملات میں دخل اندازی اور ڈپلومیٹک ایکشن کی وسعت کے حوالے سے اس کنونشن کا آرٹیکل 41بہت واضح ہے:

"Without prejudice to their privileges and immunities, it is the duty of all persons enjoying such privileges and immunities to respect the laws and regulations of the receiving state. They also have a duty not to interfere in the internal affairs of that state. All official business with the receiving state entrusted to the (diplomatic) missions by the sending state shall be conducted with or through the Ministry for Foreign Affaris of the receiving state of such other ministry as may be agreed."

’’اپنی مراعات اور تحفظات کے تعصب کے بغیر یہ ان تمام افراد کا فرض ہے جو ان مراعات اور تحفظات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں کہ وہ اس خیر مقدم کرنے والی ریاست کے قوانین اور ضابطوں کا احترام کریں۔ ان کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اس ریاست کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ خیر مقدم کرنے والی ریاست سے متعلقہ تمام سرکاری کام جو کہ بھیجنے والی ریاست اپنے مشن کو سونپتی ہے‘ خیر مقدم کرنے والی ریاست کی خارجہ معاملات کی وزارت کے ساتھ یا اس کے ذریعے سے انجام پانے چاہییں یا کوئی ایسی دوسری وزارت جس پر اتفاق ہو۔‘‘

خیال رہے کہ امریکہ نے کنونشن پر دستخط 29جون 1961ء کو کیے اور اس کی توثیق 13 نومبر 1972ء کو کی کیونکہ امریکی صدر یا اس کا نمائندہ دستخط کرنے کا تو مجاز ہے لیکن توثیق (Ratification)کی مجاز امریکی سینٹ ہے۔ امریکہ نے اس کنونشن کی توثیق کے فوراً بعد قلابازی کھائی کیونکہ 1976ء میں امریکی کانگریس نے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی یہ ذمہ داری ٹھہرائی کہ وہ امریکی معاشی یا فوجی امداد لینے والے ممالک کی انسانی حقوق کے ریکارڈ کے حوالے سے سالانہ رپورٹ تیار کرے۔ یہیں سے امریکی مداخلت کا آغاز ہو جاتا ہے۔ مداخلت کے حوالے سے صدارتی احکامات کے پیچھے کانگریسی منظوری بھی مستقل موجود ہے۔ 

اگر آپ اب تک کے مندرجات کو مد نظر رکھیں تو صاف مترشح ہوتا ہے کہ عالم گیریت اور باہمی تعاون کے حوالے سے دنیا آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی لیکن بڑھنے کا یہ انداز یا پیش رفت امریکی اور برطانوی بالادستی کے خلاف تھی کیونکہ قانونی اور برابری کی سطح پر ہونے والی پیش رفت سے ان دونوں طاقتوں کی ’’بالادستی‘‘ کو خطرہ تھا۔ اب ظاہر ہے کہ اسلحے کے انبار کی موجودگی میں یہ ممالک اپنی بالادستی سے کیسے دست بردار ہو سکتے تھے اس لیے بین الاقوامی ضوابط کی دھجیاں اڑاتے ہوئے جمہوریت کو عالمی سطح پر پھیلانے کے نام سے دونوں ممالک بد معاش (Rogue) بنے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں سماجی وسیاسی نظام میں تبدیلیاں لانے کے لیے مداخلت کی گئی۔ حالیہ دورۂ چین کے دوران میں بش کا بیان کہ امریکہ کو ’’رو ل ماڈل‘‘ کے طور پر اپنایا جا سکتا ہے‘ چین کے دستوری نظام میں مداخلت ہی گردانا جا سکتا ہے۔ صدر بش نے ایسا بیان دیتے ہوئے ڈپلومیٹک ایکشن کی وسعت کی حدود وقیود کو مد نظر نہیں رکھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ قانونی اور گفت وشنید پر مبنی عالم گیریت کی طرف ارتقا کو اپنانے کے بجائے‘ رسل کے تجزیے سے مماثل اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس مضمون میں اٹھائے گئے چند سوالات کے تناظر میں یہ اقدامات موثر ثابت نہیں ہوں گے۔

جنرل مشرف کا دورۂ امریکہ ۔ اور پاک امریکہ تعلقات کی نئی جہت

پروفیسر شیخ عبد الرشید

جنرل پرویز مشرف کا دورۂ امریکہ حکومتی توقعات کے مطابق اور عوامی توقعات کے برعکس مکمل ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش سے ملاقات کو انتہائی مثبت اور تعمیری قرار دیا اور اپنے مقاصد میں کام یابی کی واضح نشان دہی کی اور اپنے اس یقین کا اظہار کیا کہ نئی صدی میں مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پاک امریکہ تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک پاکستانی حکمران جب بھی امریکہ یاترا پر گئے تو واپسی پر قوم کو یہی نوید دی کہ اب پاک امریکہ دوستی طویل المیعاد‘ پائیدار اور مستحکم وخوش حال پاکستان کی ضامن ہوگی مگر اوراق تاریخ شاہد ہیں کہ پاک امریکہ تعلقات نشیب وفراز کا شکار رہے ہیں۔ کسی مخصوص وقت میں ان دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کیسے ہوں گے‘ اس کا زیادہ تر انحصار امریکی مفادات کے تقاضوں پر ہی رہا۔ تجربات اس بات کے عکاس ہیں کہ امریکہ پاکستانی مفادات کو کسی بھی خاطر میں لانے پر کبھی تیار نہیں ہوا۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ یک طرفہ معاملہ رہا۔ جب بھی امریکہ ہم سے گلے ملنے لگا تو ہمارے گلے پڑ گیا۔ تاہم ۱۱ ستمبر کے بعد اور موجودہ علاقائی صورت حال میں پاک امریکہ تعلقات غیر معمولی نوعیت واہمیت اختیار کر گئے ہیں اور ایک بار پھر پاکستان سے بھی زیادہ امریکہ کے مفادات کو ہمارے خطے میں خاص طور پر نازک اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔

۱۱ ستمبر کے بعد پاکستان کے حاکموں نے ’’دہشت گردی‘‘ اور ’’بنیاد پرستی‘‘ کے خاتمے کی نیک کوششوں میں امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا جس سے جمہوریت کے محافظوں اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان تعلقات کا نیا باب شروع ہوا جس سے ۶۰ء اور ۸۰ء کی دہائی کی یاد تازہ ہو گئی چنانچہ جنرل پرویز مشرف کے دورۂ امریکہ تک ہمارے چار ہوائی اڈے ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ میں امریکی افواج کے پاس تھے۔ کراچی میں ہمارے سب سے بڑے ’’قائد اعظم بین الاقوامی ہوائی اڈے‘‘ کا پرانا ٹرمینل مکمل طور پر امریکی فوجیوں کے زیر استعمال ہے۔ کراچی شہر کے وسط میں انہوں نے رابطہ دفتر قائم کر لیا ہے۔ یاد رہے اس سے قبل بھی ہمارے ایک جمہوریت دوست فوجی صدر نے ۶۰ء کی دہائی میں ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ میں پشاور کے قریب بڈابیر کا اڈہ امریکہ کو دیا تھا جہاں سے U-2 نامی امریکی جاسوسی جہاز سوویت یونین کی فضاؤں میں گیا جہاں اسے مارا گیا تو خروشچیف نے رد عمل میں ہمیں You too کہہ کر گلوب پر واقع پاکستان پر سرخ دائرہ کھینچا اور ۱۶ دسمبر۱۹۷۱ء کو پاکستان دولخت ہو گیا۔

۱۱ ستمبر کے بعد امریکہ سے جو ہمارا نیا رشتہ بنا اورعلاقے میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے ہم نے وطن عزیز کے اندر اور باہر جو ’’جرات مندانہ‘‘ پالیسی اختیار کی اور مغربی دانش وروں کے وژن کے مطابق ’’جدید‘‘ اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جو سعی جمیل شروع کی‘ اس پر شاباش لینے کے لیے جنرل پرویز مشرف امریکہ گئے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق جنرل کو غیر معمولی اہمیت دی گئی۔ اس دورکے آغاز سے قبل ۹ فروری کو دونوں ممالک کے درمیان ایک دفاعی سمجھوتہ پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کو PAK-US ACQUISITION AND CROSS SERVICES AGREEMENT کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے مطابق پاکستان‘ افغانستان اور گرد وپیش کے خطے میں امریکی فوجی اور دوسرے مفادات کی تکمیل کی خاطر ہر نوعیت کا Logisticتعاون فراہم کرے گا۔ امریکہ بھی دہشت گردی کے خلاف اس مہم کی تکمیل میں پاکستان کو مختلف نوعیت کی سہولتیں فراہم کرے گا اور اسے ۳۰۰ سے ۵۰۰ ملین ڈالر کی مدد بھی دے گا۔ اس حوالے سے امریکی ماہرین نے صدربش کی طرف سے پاکستان کے ذمے ایک ارب ڈالر کے قرضے کی معافی کو ایک فیاضانہ اقدام سے تعبیر کیا ہے۔ وزیر خزانہ شوکت عزیز اور امریکہ میں پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی نے بھی اس پر بڑے تفاخر اور گہرے اطمینان کا اظہار کیا ہے لیکن اس معافی کے اعلان کی نوعیت کی وضاحت نہیں ہو سکی کیونکہ یہ تو پہلے سے واجب الادا امریکی قرضوں کی باقی ماندہ رقم ہے اور یہ اصل زر کے بجائے سود کی مد میں واجب الادا ہے اور یہ رقم پوری ایک ارب ڈالر بھی نہیں بلکہ ۸۰ کروڑ ڈالر بنتی تھی اور اب مزید ۲۰ کروڑ ڈالر کی اضافی امداد اس لیے دی گئی ہے کہ پورے ایک ارب ڈالر کے قرضے کی ادائیگی میں سہولت پیدا ہو سکے اور یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ یہ اعلان غیر مشروط نہیں بلکہ اس کی توثیق امریکی کانگرس کے ایوان بالا سینٹ کو کرنا ہوگی جہاں پچھلے چار ماہ سے پاکستان کو دی جانے والی تجارتی مراعات کو دبا کر رکھا گیا ہے۔ ویسے بھی کانگریس میں طاقت ور بھارت نواز لابی پہلے سے سرگرم عمل ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس دورہ میں دفاعی سازوسامان کے حوالے سے کوئی قابل ذکر بات نہیں جبکہ ۱۸ فروری کو ہی طے ہوا کہ امریکہ پاکستان کے واحد دشمن ملک بھارت کو ’’فائر فائنڈرز‘‘ نامی جاسوس ریڈار دے گا جو کشمیری مجاہدین کے خلاف استعمال ہوں گے۔ امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل رچرڈ مائر نے بھارت کی فوجی تعلیم وتربیت کے لیے رقم دوگنا کرنے کا بھی اعلان کیا۔ دوسری طرف تجارت کے شعبے میں ٹیکسٹائل کے کوٹے کے حوالے سے امریکی دورہ میں بات چیت ہوئی لیکن امریکی ٹیکسٹائل لابی کے اثر کے تحت واضح کر دیا گیا کہ ٹیرف کی معافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

جنوبی ایشیا میں امریکہ کی قلیل المیعاد فوجی موجودگی کے ہمارے دعووں کے برعکس صدر بش طویل المیعاد موجودگی کا راگ ببانگ دہل الاپ رہے ہیں جس سے پاک چین مثالی دوستی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ چین اور پاکستان کے تعلقات کی نوعیت بھی اب وہ نہیں رہی جو کہ ماضی میں ہوا کرتی تھی۔

اس تجزیے سے عیاں ہوا کہ موجودہ دورۂ امریکہ عوامی توقعات کے مطابق بڑی اہمیت کا حامل ثابت نہ ہوا تاہم حاکم وقت کی ترجیحات ضروری نہیں کہ عوامی آرزوؤں کے مطابق ہوں۔ امریکہ کا دورہ اس لحاظ سے بھی کام یاب رہا کہ جنرل پرویز مشرف کے اہل خانہ جو مستقل طور پر امریکہ میں آباد ہیں‘ ان کی میزبانی کا لطف بوسٹن میں اٹھایا گیا۔ اس دورے کے دوران میں جنرل پرویز مشرف جو ملک پاکستان کے عوام کو رعب میں رکھنے کے لیے مختلف مواقع پربامعنی فوجی وردیوں کا مسلسل استعمال کرتے ہیں اور گاہے گاہے احکامات ربانی کی روشنی میں صاف صاف بتاتے ہیں کہ یہ اقتدار انہیں اللہ تعالیٰ نے بخشا ہے‘ وردی اتار کر امریکہ یاترا پر گئے اور اپنی حکومت‘ نظام حکومت اور پروگرامِ حکومت کے لیے امریکی سند حاصل کی۔ ایسے حکمران جن کے پاس اپنے ’’بنیاد پرست اور جاہل‘‘ عوام کی دی ہوئی سند حکومت نہ ہو‘ ان کے لیے امریکہ کی سند کلیدی اہمیت اختیار کر جاتی ہے جو کہ صدر بش نے اپنے یونین ایڈریس میں ان کا خصوصی ذکر کر کے اور جنرل پرویز کو ذاتی دوست قرار دے کر فراہم کر دی ہے اور یہ کوئی چھوٹی موٹی کام یابی نہیں‘ عوام اور سیاست دانوں پر لازم ہے کہ وہ اس کام یابی پر جنرل صاحب کو مبارک باد پیش کریں۔ بے چاری جمہوریت کے لیے اس دورے کا پیغام یہی ہے کہ وہ آئندہ متوقع ’’شفاف اور منصفانہ‘‘ انتخابات کے باوجود مزید کچھ عرصہ آرام وراحت میں بسر کرے۔ سردست امریکہ کو پاکستان میں ملٹری برانڈ ڈیموکریسی کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی شہ رگ کشمیر کے حوالے سے امریکی صدر کی وضاحتیں بھی اچانک مثبت ہو گئی ہیں۔ کارگل بحران اور اعلان واشنگٹن میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے امریکی بد نیتی کے گناہ ۱۱ ستمبر کے واقعہ نے دھو دیے ہیں۔ اب امریکہ خالصتاً پاکستان کے مفاد میں پاک بھارت مذاکراتی عمل میں فعال کردار ادا کرے گا۔ اس کردار میں ’’معاہدۂ تاشقند سے اعلان واشنگٹن‘‘ تک امریکی کردار اور رویے کی جھلک نظر نہیں آئے گی۔ پاکستان کے حاکموں ومحافظوں کا یہی دانش مندانہ تجزیہ ہے لہذا حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں کے مصداق فوجی حکمرانوں کے ایجنڈے کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا جائے۔ اس سے انکار بنیاد پرستی اور دہشت گردی ہوگا۔

جنرل پرویز مشرف کے تدبر وحکمت‘ جرات مندی وبہادری کا تو اس وقت پورا عالم معترف ہے۔ ان کی امریکہ یاترا پر کئی امریکی کالم نویسوں نے انہیں پاکستان کا کمال اتاترک کہا ہے۔ کچھ نے تو ان کو انور السادات سے مماثل قرار دیا۔ ایک امریکی کالم نویس نے جنرل پرویز مشرف کو جنوبی ایشیا کا گوربا چوف بتایا۔ ان تینوں راہنماؤں کا امریکہ اور مغرب میں بڑا نام ہے کیونکہ اپنے اپنے ممالک میں مغرب کے مفادات کا تحفظ زمینی حقائق کی آڑ میں جس طرح انہوں نے کیا‘ شاید امریکی بصورت دیگر نہ کر پاتے۔ مذکورہ تینوں راہنما ترکی‘ مصر اور سوویت یونین کی تاریخ کے اہم باب ہیں۔ ان کی عظمت سے اس وقت تک انکار ممکن نہیں جب تک کوئی ’’انتہا پسند قنوطی‘‘ تاریخ کے اوراق الٹ پلٹ کر یہ نہ دیکھ لے کہ سیکولرازم کی بدترین مثال ترکی ہے جہاں جبر سے رسم الخط بدلا گیا‘ بزور قوت لباس تبدیل کروایا گیا اور طاقت سے دینی شعائر کو بند کر کے جدید جمہوریہ کی بنیاد رکھی گئی۔ یہی کمال اتاترک کا عظیم کارنامہ ہے۔

انور السادات کے نام کے ساتھ ہی بنیاد پرست کا حافظہ اگر انہیں کیمپ ڈیوڈ کی یاد نہ دلا دے اور علاقائی وعالمی صورت حال میں زمینی حقائق سے مطابقت پیدا کر کے سوویت یونین کی گاڑی کو روس تک لے آنے میں گوربا چوف نے جس مہارت اور حب الوطنی کا مظاہرہ کیا‘ وہ اتنا پرانا واقعہ نہیں کہ تاریخ کی کتاب کھولنا پڑے۔ ان تینوں عظیم راہ نماؤں میں ایک اور مماثلت بھی ہے کہ تینوں مختلف اوقات میں مغرب کے چہیتے رہے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو دورۂ امریکہ پر امریکی کالم نویس جنرل پرویز مشرف میں بیک وقت تینوں کی عظمت دیکھتے رہے اسی لیے دورہ سے پہلے اور بعد میں وہ اعتراف عظمت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد اعلان کرتے رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے‘ پاک امریکہ دوستی اور خوش حال ومستحکم جدید اسلامی ریاست پاکستان کے قیام وتحفظ کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ صدر کے منصب پر فائز رہیں حالانکہ جب وہ اس منصب پر براجمان ہوئے تھے تو کسی کی پروا کیے بغیر ’’بہادری وجرات مندی‘‘ سے ہو گئے تھے۔ اب بھی کس کی مجال ہے کہ وہ کمانڈو کا راستہ روک سکے۔

اس کام یاب امریکی دورے کے باوجود ضروری ہے کہ یہ امر تسلیم کر لیا جائے کہ وقت آگیا ہے کہ پاکستان اب دنیا کو نئی طرح سے دیکھے۔ یہ طے کرنا اہم ہے کہ پاکستان کے مفادات کیا ہیں؟ یہ طے کرتے وقت ہمیں ریاست اور حکومت میں فرق ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔ پھر دیکھنا ہوگا کہ ریاست کے اپنے مفادات کس طرح بہتر طریق سے تکمیل کو پہنچ سکتے ہیں۔ یہ امر اب کھل کر سامنے آ چکا ہے کہ ریاست پاکستان اور امریکہ کے مفادات علاقائی صورت حال میں ایک دوسرے سے بڑی حد تک یکسانیت نہیں رکھتے۔ نصف صدی کی تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ ’’پاکستان آپشن‘‘ کو تبھی استعمال میں لاتا ہے جب ایسا کرنا اس کے لیے فائدہ مند ہو۔ اس طرح تو یہ مطلقاً یک طرفہ معاملہ کے سوا کچھ نہیں۔ وقت اور ہوش مندی کا تقاضا ہے کہ جنوبی ایشیا میں امریکہ کی دیرپا موجودگی کا مدبرانہ تجزیہ کر کے ’’علاقائی دوستوں‘‘ کی قربانی نہ دی جائے۔ ایسا نہ ہو کہ حالات کے کروٹ لینے پر امریکہ آنکھیں ماتھے پر رکھے اور ہم گنگناتے رہیں ؂

مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے

دینی مدارس کے نظام ونصاب کی اصلاح کے حوالے سے ’’مجلس فکر ونظر‘‘ کی منظور کردہ سفارشات اور نصاب

ادارہ

(دینی مدارس کے نظام تعلیم کی اصلاح کے حوالے سے ممتاز ماہرین تعلیم اور مدارس کے چاروں وفاقوں کے نمائندگان پر مشتمل ’’مجلس فکر ونظر‘‘ نے متفقہ طور پر درج ذیل سفارشات اور نصاب کی منظوری دی ہے۔ اس ضمن میں مزید تفصیلات کے لیے مجلس کے جنرل سیکرٹری جناب ڈاکٹر محمد امین صاحب سے ۱۳۶ نیلم بلاک‘ علامہ اقبال ٹاؤن‘ لاہور کے پتہ پر رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ ادارہ)

متفقہ سفارشات

مقصود

ان سفارشات کا مقصد یہ ہے کہ

۱۔ دینی مدارس کے طلبہ کے علم میں مزید رسوخ پیدا ہو۔

۲۔ ان کے اخلاق وللہیت میں اضافہ ہو۔

۳۔ مسلکی تعصبات کا خاتمہ ہو۔

۴۔ طلبہ میں عصری تحدیات سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا ہو۔

علما کی تیاری کے مقاصد

۱۔ مساجد میں امامت وخطابت اور قرآن ناظرہ وحفظ کے علاوہ ترجمہ قرآن اور تدریس حدیث۔

۲۔ دینی مدارس میں تدریس۔

۳۔ جدید سکولوں/ کالجوں/ یونیورسٹیوں میں اسلامی وعربی علوم کی تدریس وتحقیق۔

۴۔ عام افراد معاشرہ کی دینی تعلیم اور اصلاح۔

نصاب درس نظامی

مدت تدریس: ۸ سال‘ داخلہ برائے مڈل پاس

اسلامی علوم

۱۔ قرآن حکیم

۱۔ مکمل قرآن حکیم کا لفظی وبامحاورہ ترجمہ مع صرفی ونحوی تراکیب

۲۔ قرآن حکیم کے بعض منتخب حصوں کا تفسیری اور تحقیقی مطالعہ جس میں متنوع مناہج کی تفاسیر(مثلاً

اثری‘ لغوی‘ فقہی‘ کلامی‘ سائنسی اور معاصر تفاسیر) شامل ہوں۔

۳۔ علوم القرآن

۴۔ تجوید کا ایک کورس سب کے لیے

۵۔ باقاعدہ درس قرآن کے ذریعے سے قرآنی مفاہیم ومقاصدکو طلبہ کے ذہن نشین کرانا

۶۔ غیر حافظ طلبہ کے لیے حفظ کانصاب

۷۔ آخری سال دورۂ قرآن یعنی مکمل قرآن حکیم کی تدریس

۸۔ ہر وہ مدرسہ / جامعہ جہاں مکمل درس نظامی اور دورۂ حدیث کا انتظام ہو‘ وہاں شیخ الحدیث کی

طرح شیخ التفسیر کا ہونا ضروری ہو۔

۲۔ حدیث وسیرت

۱۔ آخری دورۂ حدیث سے پہلے بخاری ومسلم کا بالاستیعاب اور فرقہ واریت سے مبرا تحقیقی مطالعہ

۲۔ آخری سال میں باقی کتب صحاح ستہ کا دورہ

۳۔ علوم الحدیث

۴۔ مطالعہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم

۳۔ فقہ واصول فقہ

۱۔ فقہ القرآن والسنہ

۲۔ حنفی اصول فقہ

۳۔ حنبلی‘ مالکی‘ شافعی‘ ظاہری اور شیعی اصول فقہ کا مطالعہ

۴۔ ان سب کا تقابلی مطالعہ اور عصر حاضر کے مسائل کے حوالے سے عملی مشق

۵۔ حنفی فقہ کا ایک متن

۶۔ دیگر فقہوں کے منتخب متون کا مطالعہ

۴۔ عقیدہ

۱۔ ماضی کے کلامی مباحث ومذاہب کا منتخب مطالعہ

۲۔ معاصر مذاہب ضالہ (قادیانیت وپرویزیت)

۳۔ تقابل ادیان

۵۔ منطق وفلسفہ

منتخب متون کا تعارفی مطالعہ

۶۔ مطالعہ احوال امت

۱۔ مسلمانوں کی ماضی کی تاریخ کا اجمالی مطالعہ

۲۔ موجودہ مسلم دنیا کی تاریخ اور جغرافیہ

۷۔ دعوت وتربیت

۱۔ اصول دعوت (دوسروں تک دعوت پہنچانے کے آداب وشروط)

۲۔ گفتگو اور تقریر کی عملی مشق

۳۔ اصول تربیت اور اخلاق (قرآن وسنت اور کتب تزکیہ نفس سے)

۴۔ اس کی عملی مشق

۸۔ تحقیق

۱۔ ہر ہفتے لائبریری پیریڈ

۲۔ ساتویں سال طرق تحقیق کی تدریس وعملی مشق

۳۔ آخری سال تحقیقی مقالہ لکھنا

۹۔ جدید علوم

۱۔ جدید سماجی علوم (معاشیات‘ سیاسیات‘ فلسفہ وغیرہ) کا تعارفی وتنقیدی مطالعہ

۲۔ جدید سائنسی علوم (طبیعیات‘ حیاتیات‘ کیمیا وغیرہ) کا تعارفی وتنقیدی مطالعہ

۳۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا تعارفی پیکج

۱۰۔ زبانیں

عربی:

عربی سمجھنے کے علاوہ عربی بولنے اور لکھنے (انشا) کی عمدہ مہارت

ضروری اقدامات:

۱۔ عربی کے متخصص اساتذہ کا تقرر

۲۔ طریقہ مباشرہ اور طریق قواعد کے امتزاج پر مبنی نیا تدریسی منہج

۳۔ پہلے سال کے بعد عربی زبان کے پیریڈ میں اردو بولنے پر پابندی اور آخری دو سالوں میں

ذریعہ تعلیم بھی عربی ہو۔

۴۔ پندرہ روزہ بزم ادب اور تقریری وتحریری مقابلے

۵۔ ترجمہ

اردو:

اردو بولنے اور لکھنے کی عمدہ صلاحیت

ضروری اقدامات:

۱۔ اردو کے دینی ادب کی تدریس

۲۔ اردو کے متخصص استاد کا تقرر

۳۔ پندرہ روزہ بزم ادب اور تقریری وتحریری مقابلے

انگریزی:

انگریزی پڑھنے‘ سمجھنے اور بولنے کی متوسط درجے کی صلاحیت

ضروری اقدامات:

۱۔ متخصص استاد کا تقرر

۲۔ اندازاً بی اے کی سطح تک کی تدریس

فارسی:

فارسی پڑھنے اور سمجھنے کی معمولی صلاحیت

علاقائی زبانوں میں اظہار مدعا کی حوصلہ افزائی

دراسات علیا

بڑے دینی مدارس اپنے آپ کو آٹھ سالہ درس نظامی تک محدود نہ رکھیں بلکہ اس کے بعد تخصص اور تحقیق کی تعلیم بھی جاری رکھیں جس کی کچھ تفصیل یوں ہے:

۱۔ درجہ تخصص (درس نظامی کے بعد دو سالہ تحقیقی پروگرام‘ مساوی ایم فل)

پہلے تین ماہ طرق تحقیق واساسی موضوعات کی تدریس وتسجیل موضوع

قرآن وعلوم القرآن‘ حدیث‘ علوم الحدیث‘ فقہ واصول فقہ اور دیگر اسلامی موضوعات پر تحقیق

۲۔ درجہ تحقیق (درجہ تخصص کے بعد ۳ سالہ فل ٹائم اور ۵ سالہ پارٹ ٹائم تحقیقی پروگرام‘ مساوی پی ایچ ڈی)

موضوعات کی تسجیل کے وقت مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھا جائے:

۱۔ تقابلی مطالعے کو ترجیح دی جائے۔

۲۔ رٹے رٹائے موضوعات کے بجائے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جائے جن کی عصر حاضر اور پاکستانی معاشرے کے حوالے سے اہمیت ہو۔

۳۔ تحقیق میں تخلیقیت اور اصالت پر اصرار کیاجائے۔

متفرق امور

داخلہ:

درس نظامی میں داخلہ صرف ایسے مڈل پاس طلبہ کو دیا جائے تو ناظرہ پڑھ سکتے ہوں یا ان حفاظ کو جو مطلوبہ استعداد رکھتے ہوں۔

امتحان:

۱۔ ہر تعلیمی سال کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور ہر حصے کے آخر میں امتحان نہائی ہو جائے۔

۲۔ امتحان میں معروضی سوالات بھی دیے جائیں۔

۳۔ پاس ہونے کے لیے ۴۰ فی صد نمبر حاصل کرنا ضروری ہو اور مجموعی طورپر ۵۰ فیصد

۴۔ تقریری/ زبانی امتحان بھی ہونا چاہیے۔

تدریس اساتذہ:

۱۔ نئے اساتذہ کی تربیت

۲۔ موجودہ اساتذہ کے لیے ریفریشر کورسز

۳۔ ناظمین ومہتممین مدارس کی تربیت

تربیت طلبہ:

۱۔ ہر مدرسہ میں تربیت طلبہ کے کام کو اہمیت دی جائے اور اس کو منظم کیا جائے۔ مثلاً اساتذہ میں سے ہر کلاس کا ایک مربی ہو‘ طلبہ میں سے بھی ایک مربی ہو۔ ناظم مدرسہ (یا اس کا نامزد کردہ استاذ) بطور مرکزی مربی کام کرے۔ ان لوگوں پر مشتمل ایک تربیتی کمیٹی ہو جس کا اجلاس ہر ماہ باقاعدگی سے ہو۔

۲۔ ہر امتحان میں عملی تربیت کا ایک پرچہ ہو جس کے ۱۰۰ نمبر ہوں اور اس میں پاس ہونا لازمی ہو۔

۳۔ صالح طلبہ کے لیے حوصلہ افزائی کے انعامات رکھے جائیں۔

۴۔ تربیت کے لیے ذکر وفکر کے ایسے حلقوں اور صحبت صالحین کا اہتمام کیا جائے جہاں قرآن وسنت کی تعلیمات کی سختی سے پابندی کی جاتی ہو۔

۵۔ جس طرح جدید تعلیمی اداروں میں ہفتہ صفائی منایا جاتا ہے‘ اسی طرح دینی مدارس میں ہفتہ صفائی کے علاوہ اخلاقی تطہیر (رذائل سے بچنے اور حصول فضائل) کے لیے بھی ہفتے منائے جائیں اور متعلقہ موضوع کے حوالے سے ہفتہ بھر عملی پروگرام رکھے جائیں۔

نصاب

سال اول (نصف اول)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیم (حفظ) پارہ عمقرآن حکیم -
تجوید اور مشق-جمال القرآنعلم التجوید‘ قاری غلام رسول
عربیاللغۃ العربیۃالعربیۃ لغیرالناطقین بہا(۱) القراء ۃ المیسرۃ
اردو---
عربیالقواعدالنحو الواضح (۱) القواعد العربیۃ الصحیحۃ

سال اول (نصف ثانی)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب

قرآن حکیم حفظ

(منتخب سورتیں)

البقرہ (پہلا اور آخری رکوع)
 الحشر‘ یاسین‘ الملک‘ المزمل‘ المدثر
۔۔ 
تجوید اور مشق۔فوائد مکیہ۔
عربیاللغۃ العربیۃ العربیۃ لغیر الناطقین بہا (۲) القراء ۃ المیسرۃ
الکتاب الاساسی
اردو۔۔۔
عربیالقواعدالنحو الواضح (۲) القواعد العربیۃ الصحیحۃ
انگریزی۔۔۔

سال دوم (نصف اول)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیم (ترجمہ)پارہ ۱ تا ۴ مع تطبیق قواعد ۔۔
عربیاللغۃ العربیۃالعربیۃ لغیر الناطقین بہا (۳) العربیۃ للناشئین
اردو۔۔۔
عربیالقواعداصول الصرف نصف اول
النحو الواضح (۳) نصف اول
الکامل فی قواعدالعربیۃ وصرفہا
انگریزی۔۔۔
فارسی۔۔۔

سال دوم (نصف ثانی)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیم (ترجمہ)پارہ ۴ تا ۸ مع تطبیق قواعد۔۔
عربیاللغۃ العربیۃالعربیۃ لغیر الناطقین بہا (۴) العربیۃ للناشئین
اقرا العربیۃ وتحدث بہا
اردو۔۔۔
عربیالقواعداصول الصرف نصف ثانی
النحو الواضح (۳) نصف ثانی
الکامل فی القواعد العربیۃ وصرفہا
انگریزی۔۔۔
فارسی۔۔۔

سال سوم (نصف اول)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیم (ترجمہ) پارہ ۹ تا ۱۴ مع تطبیق قواعد۔۔
حدیث وسیرتمطالعہ عمومیریاض الصالحین (۱)۔
عربیاللغۃ العربیۃ
الانشاء والکتابۃ
العربیۃ لغیر الناطقین بہا (۵)
معلم الانشاء (۱)
دروس اللغۃ العربیۃ
قصص النبیین
اردو۔۔۔
عربیالقواعد (الصرف)
النحو
 الشافیہ (نصف اول)
القواعد العربیۃ المیسرۃ (۱)
سلم اللسان فی النحو والصرف والبیان
انگریزی۔۔۔

سال سوم (نصف ثانی)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیم (ترجمہ) پارہ ۱۵ تا ۲۰ مع تطبیق قواعد۔۔
حدیث و سیرتمطالعہ عمومیریاض الصالحین (۲)۔
عربیاللغۃالعربیۃ
الانشاء والکتابۃ
العربیۃ لغیر الناطقین بہا (۶)
معلم الانشاء (۲)
دروس اللغۃ العربیۃ
قصص النبیین
اردو۔۔۔
عربیالقواعد (النحو)
(الصرف)
القواعد العربیۃ المیسرۃ (۲)
الشافیہ (نصف ثانی)
سلم اللسان فی النحو والصرف والبیان
انگریزی۔۔۔

سال چہارم (نصف اول)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیم (ترجمہ) پارہ ۲۱ تا ۲۵ مع تطبیق قواعد۔۔
حدیث وسیرت اصول حدیث
تدوین وحجیت حدیث
تیسیر مصطلح الحدیث (اردو)
السنۃ ومکانتہا فی التشریع الاسلامی
۔
عربیالادب (النثر القدیم) 
النثر الجدید
الشعر الجدید
کلیلہ ودمنہ (منتخب)
طہ حسین‘ الشیخان (نصف اول)
تراجم منظومات اقبال‘ الصاوی شعلان (منتخب)
۔
اردو۔۔۔
عربیالقواعدالنحو الوافی (۱‘۲) منتخبمغنی اللبیب
انگریزی۔۔۔

سال چہارم (نصف ثانی)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیم (ترجمہ)  پارہ ۲۶ تا ۳۰ مع تطبیق قواعد ۔۔
حدیث وسیرتاصول حدیث (جرح وتعدیل‘ اسماء الرجال‘ تخریج حدیث)شرح نخبۃ الفکر الکفایۃ للخطیب
حجۃ اللہ البالغہ
عربیالادب (النثر القدیم) 
النثر الجدید
الشعر الجدید
الف لیلۃ ولیلۃ (منتخب)
طہ حسین‘ الشیخان (نصف ثانی) 
العزام‘ دیوان الاسرار والرموز (منتخب)
طہ حسین‘ الایام
سمیر عبد الحمید‘ اقبال ودیوان ارمغان حجاز
اردو۔۔۔
عربیالقواعدالنحو الوافی (۳‘۴) منتخبمغنی اللبیب
انگریزی۔۔۔

سال پنجم (نصف اول)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیم(تفسیر) ۔ جلالین (پارہ ۱ تا ۱۵) ۔
علوم القرآنتاریخ القرآن‘ اعجاز  القرآن‘ اسباب نزول سبع قراءات‘ ناسخ ومنسوخ
 
سیوطی‘ الاتقان (منتخب)مناع القطان‘ مباحث فی علوم القرآن
صبحی  صالح‘ مباحث فی علوم القرآن
تقی عثمانی‘ علوم القرآن
ابو زہرہ‘ المعجزۃ  الخالدۃ
 
حدیث وسیرتمتن حدیث 
سیرت النبی ﷺ
مشکوۃ (نصف اول) 
ابن اسحاق‘ سیرت النبی (نصف اول)
شبلی نعمانی‘ سیرۃ النبی
قاضی سلمان‘ رحمۃ للعالمین
پیر کرم شاہ‘ ضیاء النبی
فقہ واصول فقہ اصول فقہ حنفیاصول الشاشی الجصاص‘ الفصول البہاری‘ مسلم الثبوت
عربیالادب (الشعر القدیم)
الشعر الجدید 
النثر القدیم
النثر الجدید 
 
دیوان حسان (منتخب) 
احمد شوقی (منتخب)
الکامل للمبرد (منتخب)
العقاد‘ العبقریۃ
۔  
۔  
قصص العرب
۔ 
منطقمبادیات ومصطلحاتتیسیر المنطقعبد الستار سعیدی‘  تعلیم المنطق
فلسفہمبادیات ومصطلحاتبدایۃ الحکمۃ مفتی افضل حسین‘  ہدایۃ الحکمۃ

سال پنجم (نصف ثانی)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیم(تفسیر)۔ جلالین (پارہ ۱۶ تا ۳۰)۔  
 
علوم القرآنتفسیر کے اصول‘ مآخذ اور مناہج وغیرہالفوز الکبیر
الاتقان (منتخب)
ابن تیمیہ‘ مقدمہ فی اصول التفسیر۔ الذہبی‘ التفسیر  والمفسرون۔ الصابونی‘ علوم القرآن
حدیث وسیرتمتن حدیث
سیرۃ النبی ﷺ
مشکوۃ (نصف ثانی)
ابن اسحاق‘ سیرۃ النبی (نصف ثانی)
شبلی‘ سیرت النبی
تھانوی‘ نشر الطیب
دانا پوری‘ اصح السیر
کاندھلوی‘ سیرۃ المصطفیٰ
فقہ واصول فقہمتن حنفی فقہقدوری ۔ 
 
عربیالادب (النثر القدیم)
النثر الجدید
الشعر القدیم
الشعر الجدید
الجاحظ‘ البیان والتبیین (منتخب)
العقاد‘ العبقریۃ (۲)
دیوان المتنبی (منتخب)
حافظ ابراہیم (منتخب)
قصص العرب
منطقمبادیات ومصطلحاتالمرقاۃایساغوجی
فلسفہمبادیات ومصطلحاتمیبذیغزالی‘ تہافت الفلاسفۃ
ابن رشد‘ تہافت التہافت
محمود جونپوری‘ شمس بازغہ

سال ششسم (نصف اول)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیمقدیم تفاسیر تفسیر طبری (پارہ ۱) ۔
حدیث وسیرتمتن حدیث کا تحقیقی مطالعہ بخاری نصف اولفتح الباری
عمدۃ القاری
فقہ و اصول فقہ اصول فقہ تقابلی مطالعہالآمدی‘ الاحکام (منتخب)شافعی ‘الرسالۃ
زیدان‘ الوجیز
عربیالادب (الشعر القدیم)
النثر القدیم 
النثر الجدید
دیوان الحماسہ (منتخب)
ابن قتیبہ‘ ادب الکاتب (منتخب)
الافغانی‘ الرد علی الدہریین
 ۔
عقیدہتصحیح عقائد
رد مذاہب ضالہ
شرح عقائد النسفی
قادیانی مسئلہ‘ مفتی محمد شفیع
قادیانی مسئلہ‘ مولانا مودودی
 ۔
مطالعہ امتمسلم تاریخ کا اجمالی جائزہثروت صولت‘ مختصر تاریخ اسلام (۱)معین الدین ندوی‘ تاریخ اسلام (۱)

 سال ششسم (نصف ثانی)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیمقدیم تفاسیررازی‘ تفسیر کبیر (پارہ ۲۹) 
جصاص‘ احکام القرآن (الاحزاب)
 ۔
حدیث وسیرتمتن حدیث کا تحقیقی مطالعہ بخاری نصف ثانیارشاد الساری
فتح الباری
فقہ واصول فقہ متن فقہ حنفیہدایۃ اولینالکاسانی‘ بدائع الصنائع
عربیالادب (الشعر القدیم)
النثر القدیم
النثر الجدید
المعلقات السبعۃ (منتخب)
عقد الفرید (منتخب)
الندوی‘ ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین
۔
الاغانی
۔ 
 
عقیدہتصحیح عقائد
رد مذاہب ضالہ (ردمنکرین سنت)
عقیدہ طحاویہ مع شرح
افتخار احمد بلخی‘ فتنہ انکار حدیث
شبلی‘ الکلام وعلم الکلام
مودودی‘ سنت کی آئینی حیثیت
مصطفی اعظمی‘ الدراسات فی الحدیث النبوی
عبد الرحمن کیلانی‘ آئینہ پرویزیت
مطالعہ امتماضی قریب کی مسلم تاریخ کا اجمالی جائزہ بشمول مطالعہ پاکستانثروت صولت‘ مختصر تاریخ اسلام (۲)معین الدین ندوی‘ تاریخ اسلام (۲)

سال ہفتم (نصف اول)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیمعصری تفاسیر(شوریٰ ونور)مفتی محمد شفیع‘ معارف القرآن
پیر کرم شاہ‘ ضیاء القرآن
 ۔
حدیث وسیرتمتن حدیث کا تحقیقی مطالعہمسلم نصف اول النووی‘ المنہاج
قاضی عیاض‘ الاکمال
فقہ واصول فقہ متن فقہ حنفیہدایہ آخرینالکاسانی‘ بدائع الصنائع
عقیدہرد ادیان باطلہ (یہودیت وعیسائیت) مظہر صدیقی‘ مذاہب عالم
کیرانوی‘ قرآن سے بائبل تک
سہ ماہی اسلام اور عیسائیت
مطالعہ امتمعاصر مسلم ممالک کے حالات ومسائلقاسم محمود‘ اسلامی دنیا ۲۰۰۱ءندوی‘ مسلم ممالک میں اسلام اور مغربیت کی کشمکش
طرق تحقیقمطالعہ طرق تحقیقشلبی‘ کیف تکتب بحثا او رسالۃ ڈاکٹر رفیع الدین، اسلامی تحقیق کا طریق کار
ڈاکٹر سعید اللہ قاضی، اسلامی تحقیق
مودودی، تنقیحات
جدید سماجی علوممغربی تہذیب کی فکری اساس` سیاسیات‘ مذہب ۔ ۔
جدید سائنسی علومسائنسی ترقی کے اسباب‘  تاریخ طبعیات ۔ڈاکٹر رفیع الدین‘ اسلام اور سائنس

سال ہفتم (نصف ثانی)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیمعصری تفاسیر
شوریٰ ونور
سورہ دخان
مودودی‘ تفہیم القرآن
عبد الرحمن کیلانی‘ تفسیر القرآن
طنطاوی‘ جواہر القرآن
 
حدیث وسیرت متن حدیث کا تحقیقی مطالعہمسلم نصف آخر فتح الملہم
فقہ واصول فقہ متون فقہ کا تقابلی مطالعہابن رشد‘ بدایۃ المجتہد (منتخب)شاہ ولی اللہ‘ الانصاف فی اصول الاختلاف۔ 
حاجی امداد اللہ‘ فیصلہ ہفت مسئلہ۔
المذاہب الخمسہ۔ 
ابوزہرہ‘ مذاہب اسلامیہ
عقیدہرد ادیان باطلہ (بدھ مت وہندو مت)  ۔وحید الدین خان‘ علم جدید کا چیلنج
مطالعہ امتمعاصر مسلم ممالک کے حالات ومسائلزاہد انجم‘ مسلم ممالک کے مسائل ووسائلشکیب ارسلان‘ اسباب زوال امت۔ 
بیگووچ‘ اسلام اور مشرق ومغرب کی کشمکش
جدید سماجی علوممعاشیات ‘ قانون ۔ ۔
جدید سائنسی علومکیمیا ۔ ۔

سال ہشتم (نصف اول)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیمدورۂ قرآن نصف اول ڈاکٹر رفیع الدین‘ قرآن اور علم جدید
حدیث وسیرتدورۂ حدیثسنن ابی داؤد ۔
دعوت وتربیتاصول الدعوۃ
اصول التربیۃ
زیدان‘ اصول الدعوۃ الاسلامیۃ
احیاء علوم الدین (منتخب)
قاری طیب‘ دعوت دین۔
سید قطب‘ خصائص الدعوۃ الاسلامیۃ۔
علی ہجویری‘ کشف المحجوب۔
ندوی‘ تصوف واحسان۔
حدیث وسیرتدورۂ حدیثسنن ترمذی ۔
جدید سماجی علومسماجیات ۔ ۔
جدید سائنسی علومحیاتیات ۔ ۔
کمپیوٹرمبادیات ۔ ۔

سال ہشتم (نصف ثانی)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیمدورۂ قرآن (نصف ثانی) ۔ ۔
حدیث وسیرتدورۂ حدیثسنن نسائی ۔
دعوت وتربیتاصول تربیت
اصول دعوت
سہروردی‘ عوارف المعارف (منتخب)
فتحی یکن‘ اصول الدعوۃ الاسلامیۃ
ڈاکٹر میر ولی الدین‘ قرآن اور تعمیر سیرت۔
محمد قطب‘ قرآن کا طریق دعوت
حدیث وسیرتدورۂ حدیثسنن ابن ماجہ ۔
تحقیقتحقیقی مقالہ لکھنا ۔ ۔
جدید سماجی علومفلسفہ‘ نفسیات ۔عبد السلام ندوی‘ تاریخ حکماء اسلام۔ 
ڈاکٹر اظہر رضوی‘ مسلم نفسیات کے خدوخال
جدید سائنسی علوم کونیات‘ فلکیات ۔ڈاکٹر فضل کریم‘ قرآن اور کائنات

کتاب کے ساتھ میرا تدریجی تعارف

ادارہ

(یہ مضمون ’’مطالعہ‘‘ کے عنوان سے مختلف اصحاب قلم کی تحریروں کے ایک کتابی مجموعہ کے لیے لکھا گیا۔)

 کتاب کے ساتھ میرا تعارف بحمد اللہ تعالیٰ بہت پرانا ہے اور اس دور سے ہے جبکہ میں کتاب کے مفہوم اور مقصد تک سے آشنا نہیں تھا۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کا گھر میں زیادہ تر وقت لکھنے پڑھنے میں گزرتا تھا اور ان کے ارد گرد الماریوں میں کتابیں ہی کتابیں ہوتی تھیں اس لیے کتاب کے چہرہ سے شناسائی تو تب سے ہے جب میں نے ارد گرد کی چیزوں کو دیکھنا اور ان میں الگ الگ فرق کرنا شروع کر دیا تھا۔

اس کے بعد کتاب سے دوسرے مرحلے کا تعارف اس وقت ہوا جب میں نے دو چار حرف پڑھ لیے اور کم از کم کتاب کا نام پڑھ سکتا تھا۔ والد صاحب ایک چارپائی پر بیٹھ کر لکھا کرتے تھے اور حوالہ کے لیے کوئی کتاب دیکھنے کی ضرورت ہوتی تو خود اٹھ کر متعلقہ الماری سے وہ کتاب لے لیا کرتے تھے مگر جب میں اور میری بڑی ہمشیرہ الفاظ کی شناخت کے قابل ہو گئے تو پھر اس کام میں ہماری شرکت بھی ہو گئی ‘ اس حد تک کہ ہم میں سے کوئی موجود ہوتا تو والد صاحب کو کتاب کے لیے خود الماری تک نہیں جانا پڑتا تھا بلکہ وہ ہمیں آواز دیتے کہ فلاں کتاب کی فلاں جلد نکال لاؤ اور ہم میں سے کوئی یہ خدمت سرانجام دے دیتا۔ ابتدا میں والد صاحب کو ہمیں یہ بتانا پڑتا تھا کہ فلاں الماری کے فلاں خانے میں اس نام کی کتاب سے اس کی اتنے نمبر کی جلد نکال لاؤ۔ بعد میں کتابوں سے ہمارا تعارف گہرا ہو گیا تو وہ صرف کتاب اور جلد نمبر کا کہتے اور ہم کتاب نکال لاتے اور اس کے لیے بسا اوقات ہم دونوں بہن بھائیوں میں مقابلہ بھی ہوتا کہ کون پہلے کتاب نکال کر لاتا ہے۔

اس وقت کی جن کتابوں کے نام ابھی تک ذہن کے نقشے میں محفوظ ہیں‘ ان میں ۱۔ السنن الکبریٰ‘ ۲۔ لسان المیزان‘ ۳۔ تذکرۃ الحفاظ‘ ۴۔ تہذیب التہذیب‘ ۴۔ تاریخ بغداد اور ۶۔ نیل الاوطار بطور خاص قابل ذکر ہیں جو علم حدیث اور اسماءِ رجال کی کتابیں ہیں اور یہ حضرت والد صاحب کے خصوصی ذوق کے علوم ہیں۔ ان کتابوں کے نام‘ ٹائٹل اور جلدیں بچپن میں ہی ذہن پر نقش ہو گئی تھیں اور یہ نقش ابھی تک ا س طرح تازہ ہیں جیسے آج ہی ان کتابوں کو دیکھا ہو۔

پھر ایک قدم اور آگے بڑھا اور کتاب کو خود پڑھنے کی منزل آ گئی۔ اس کے لیے میں گکھڑ کے ایک مرحوم بزرگ ماسٹر بشیر احمد صاحب کشمیری کا ممنون احسان ہوں کہ ان کی بدولت کتاب کے مطالعہ کی حدود میں قدم رکھا۔ ماسٹر بشیر احمد کشمیریؒ پرائمری سکول کے ٹیچر تھے‘ حضرت والد محترم کے قریبی دوستوں میں سے تھے‘ ان کے خاندان سے ہمارا گہرا خاندانی تعلق تھا‘ انہیں ہم چاچا جی کہا کرتے تھے اور وہ بھی ہم سے بھتیجوں جیسا تعلق رکھتے تھے۔ ان کی والدہ محترمہ کو ہم بے جی کہتے تھے اور ان کی ہمشیرگان ہماری پھوپھیاں کہلاتی تھیں۔ انہی میں سے ایک پھوپھی اب میرے چھوٹے بھائی مولانا عبد القدوس قارن کی خوش دامن ہیں۔ والد محترم کو جب کسی جلسہ یا دوسرے کام کی وجہ سے رات گھر سے باہر رہنا پڑتا تو بے جی اس روز ہمارے ہاں رات گزارتی تھیں اور ہمیں چھوٹی چھوٹی کہانیاں سنایا کرتی تھیں جس کی وجہ سے ہم بہت خوش ہوتے تھے اور ہمیں ایسی رات کا انتظار رہتا تھا۔

ماسٹر بشیر احمد صاحب امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے شیدائی اور احرار کے سرگرم کارکن تھے۔ وہ حضرت شاہ جیؒ کی گکھڑ تشریف آوری اور جلسہ سے خطاب کا واقعہ اکثر سنایا کرتے تھے اور میرے بارے میں بتاتے تھے کہ میں بالکل گود کابچہ تھا اور مجھے حضرت شاہ جیؒ نے گود میں اٹھایا تھا اس لیے مجھ سے اگر کوئی دوست پوچھتا ہے کہ کیا تم نے امیر شریعتؒ کی زیارت کی ہے تو میں کہا کرتا ہوں کہ مجھے تو یاد نہیں ہے البتہ شاہ جیؒ نے مجھے دیکھا ہے۔

ماسٹر صاحب کے ہاں ہفت روزہ خدام الدین‘ ترجمان اسلام‘ ماہنامہ تبصرہ‘ ہفت روزہ پیام اسلام‘ ہفت روزہ چٹان اور دیگر دینی جرائد آیا کرتے تھے۔ میں ان جرائد سے انہی کے ہاں متعارف ہوا اور وہیں سے رسالے پڑھنے کی عادت شروع ہوئی۔ حضرت والد صاحب کے پاس دہلی سے ماہنامہ برہان‘ ملتان سے ماہنامہ الصدیق‘ چوکیرہ (سرگودہا) سے ماہنامہ الفاروق اور فیصل آباد (تب لائل پور) سے ہفتہ روزہ پاکستانی آیا کرتے تھے جو میری نظر سے گزرا کرتے تھے۔ جامع مسجد بوہڑ والی گکھڑ کے حجرہ کی الماری میں ایک چھوٹی سی لائبریری تھی جس کے انچارج ماسٹر صاحب مرحوم تھے۔ اس میں زیادہ تر احرار راہ نماؤں کی کتابیں تھیں۔ وہیں سے میں نے وہ کتابیں لیں جو میری زندگی میں مطالعہ کی سب سے پہلی کتابیں ہیں۔ چودھری افضل حق مرحوم کی ’’تاریخ احرار‘‘ مولانا مظہر علی اظہر کی ’’دنیا کی بساط سیاست‘‘ اور آغا شورش کاشمیری کی ’’خطبات احرار‘‘ پہلی کتابیں ہیں جن کا میں نے باقاعدہ مطالعہ کیا۔ کچھ سمجھ میں آئیں اور اکثر حصے ذہن کے اوپر سے ہی گزر گئے لیکن بہرحال میں نے اپنی مطالعاتی بلکہ فکری زندگی کا آغاز ان کتابوں سے کیا۔

یہ میری زندگی کا وہ دور ہے جب میں نے قرآن کریم حفظ مکمل کر لیا تھا اور صرف ونحو کی ابتدائی کتابیں گھر میں ہی حضرت والد صاحب سے پڑھ رہا تھا یعنی ۱۹۶۱ء اور ۱۹۶۲ء کا دور جب میری عمر تیرہ چودہ برس کے لگ بھگ تھی۔ اس کے بعد جب ۶۳ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں داخل ہوا اور مدرسہ کے دار الاقامہ میں ایک آزاد طالب علم کی حیثیت سے نئی زندگی کا آغاز کیا تو میں نے اس آزادی کا خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ گھومنا پھرنا‘ جلسے سننا‘ لائبریریاں تلاش کرنا‘ رسالے ڈھونڈنا‘ کتابیں مہیا کرنا اور ان کا مطالعہ کرنا میرے روزہ مرہ معمولات میں شامل ہو گیا تھا۔ درسی کتابوں کے ساتھ میرا تعلق اتنا ہی تھا کہ سبق میں حاضر ہوتا تھا اور واجبی سے مطالعہ وتکرار کے ساتھ سبق کو کسی حد تک قابومیں رکھنے کی کوشش بھی بسا اوقات کر لیتا تھا لیکن اس کے علاوہ میری مصروفیات کا دائرہ پھیل چکا تھا اور اس میں شب وروز کی کوئی قید باقی نہیں رہ گئی تھی۔

اس دور میں مدرسہ نصرۃ العلوم کے کتب خانے کے علاوہ عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی دامت برکاتہم کی ذاتی لائبریری میری دسترس میں تھی اور چوک نیائیں میں اہل حدیث دوستوں کا ’’اسلامی دار المطالعہ‘‘ میری جولان گاہ میں شامل تھا جہاں میں اکثر عصر کے بعد جاتا‘ دینی جرائد اور رسالوں پر نظر ڈالتا اور مطالعہ کے لیے کوئی نہ کوئی کتاب وہاں سے لے آتا۔ طالب علمی کے دور میں سب سے زیادہ استفادہ میں نے ان تین لائبریریوں سے کیا ہے۔

مطالعہ کے لیے مجھے جس نوعیت کی کوئی کتاب یا رسالہ میسر آجاتا‘ سمجھ میں آتا یا نہ آتا‘ میں اس پر ایک نظر ڈالنے کی کوشش ضرور کرتا البتہ ترجیحات میں بالترتیب ۱۔ مزاحیہ تحریریں‘ ۲۔ تاریخی ناول اور ۳۔ جاسوسی ادب سرفہرست رہے اور اب بھی اختیاری مطالعہ میں حتی الامکان ترجیحات کی یہ ترتیب قائم رہتی ہے مگر یہ بات تفریحی مطالعہ کی ہے یعنی فارغ وقت گزارنے کے لیے‘ ذہن کو دیگر مصروفیات سے فارغ کرنے کے لیے اور تھوڑی بہت ذہنی آسودگی حاصل کرنے کے لیے ورنہ عملی وفکری ضرورت کے لیے میرے مطالعہ کی ترجیحات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی ہو چکی ہیں اور اب ۱۔ حدیث نبوی ﷺ اور اس سے متعلقہ علوم وفنون‘ ۲۔ تاریخ اور حقائق وواقعات کا پس منظر اور ۳۔ اقوام وافکار کا تقابلی مطالعہ اسی ترتیب کے ساتھ میری دل چسپی کے موضوعات ہیں۔

شعر وشاعری بھی میرے مطالعہ کا اہم موضوع رہی ہے اور کسی حد تک اب بھی ہے۔ ایک دور میں دیوان حافظؒ اور دیوان غالب میرے سرہانے کے نیچے مستقل پڑے رہتے تھے۔ دیوان حافظؒ کے بہت سے اشعار سمجھ میں نہیں آتے تھے اس لیے میں نے مترجم دیوان رکھا ہوا تھا اور اس کی مدد سے ضروری باتیں سمجھ لیا کرتا تھا۔ عربی ادب میں دیوان حماسہ مطالعہ اور تدریس دونوں کے لیے میری پسندیدہ کتاب ہے اور مصر کے قومی شاعر شوقیؒ کی کوئی چیز مل جائے تو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔

اردو ناول کی شاید ہی کوئی صنف میں نے چھوڑی ہو۔ جاسوسی‘ تاریخی اور رومانی ہر قسم کے ناول میں نے پڑھے ہیں اور سینکڑوں ناول پڑھ ڈالے ہیں۔ نسیم حجازی سے لے کر ابن صفی تک کوئی ناول نگار میرے دائرے سے باہر نہیں رہا جبکہ ادبی جرائد میں چٹان‘ اردو دائجسٹ‘ سیارہ ڈائجسٹ‘ حکایت‘ قومی ڈائجسٹ اور علامت سالہا سال تک میرے مطالعہ کا حصہ رہے ہیں اور ماہنامہ الشریعۃ کے تبادلے میں جو بیسیوں جرائد ہر ماہ آتے ہیں‘ ان سب کے مضامین کے عنوانات پرایک نظر ڈالنا اور دل چسپی کے مضامین کو مطالعہ کے لیے الگ کر لینا اب عادت سی بن گئی ہے۔

کتاب کے ساتھ تعارف کا اس سے اگلا مرحلہ میرے طالب علمی کے آخری دور میں شروع ہوا۔ یہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد کے دور کی بات ہے۔ گوجرانوالہ ریلوے اسٹیشن کے سامنے جہاں آج کل سفینہ مارکیٹ ہے‘ ان دنوں یہاں خیام ہوٹل ہوا کرتا تھا جہاں ہر اتوار کی شام کو ’’مجلس فکر ونظر‘‘ کے زیر اہتمام ایک فکری نشست جمتی تھی۔ ارشد میر ایڈووکیٹ مرحوم اس مجلس کے سیکرٹری تھے۔ ان سے اسی محفل میں تعارف ہوا جو بڑھتے بڑھتے بے تکلفانہ اور برادرانہ دوستی تک جا پہنچا۔ اس ادبی محفل میں کوئی نہ کوئی مقالہ ہوتا اور ایک آدھ نظم یا غزل ہوتی جس پر تنقید کا میدان گرم ہوتا اور ارباب شعر وادب اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے۔ پروفیسر اسرار احمد سہاروی‘ سید سبط الحسن ضیغم‘ ایزد مسعود ایڈووکیٹ‘ پروفیسر عبد اللہ جمال‘ پروفیسر افتخار ملک مرحوم‘ پروفیسر محمد صادق‘ پروفیسر رفیق چودھری‘ اثر لدھیانوی مرحوم اور ارشد میر ایڈووکیٹ مرحوم اس مجلس کے سرکردہ ارکان تھے۔ میں بھی ہفتہ وار ادبی نشست میں جاتا تھا اور ایک خاموش سامع کی حیثیت سے شریک ہوتا تھا۔ ایک روز اگلی محفل کا پروگرام طے ہو رہا تھا لیکن کوئی صاحب مقالہ کے لیے تیار نہیں ہو رہے تھے۔ میں نے جب یہ کیفیت دیکھی تو کہا کہ اگر اجازت ہو تو اگلی محفل میں مضمون میں پڑھ دوں؟ دوستوں نے میری طرف دیکھا تو میری ہیئت کذائی دیکھ کر تذبذب کا شکار ہو گئے اور ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ تھوڑی خاموشی کے بعد ارشد میر صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کس موضوع پر مضمون پڑھیں گے؟ میں نے جواب دیا کہ ’’ فلپ کے ہٹی کی کتاب ’عرب اور اسلام‘ پر ایک تنقیدی نظر‘‘۔ ہٹی کی اس کتاب کا ترجمہ انہی دنوں آیا تھا اور میں نے تازہ تازہ پڑھ کر اس کی بہت سی باتوں کو نشان زد کر رکھا تھا۔ اس لیے میرا خیال تھا کہ میں اگلے اتوار تک کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات کو قلم بند کر لوں گا مگر میرا یہ کہنا ایک دھماکہ ثابت ہوا۔ میری پہلی بات ہی بعض دوستوں کو ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ دوسری بات نے تو ان کے چہروں کی کیفیات کو یک لخت تبدیل کر دیا اور مجھے بعض چہروں پر خندۂ استہزا کی جھلک صاف دکھائی دینے لگی مگر میں اپنے موقف پر قائم رہا جس پر ارشد میر صاحب نے اگلی محفل میں میرے مضمون کا اعلان کر دیا۔ 

میں نے اپنے مضمون کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصے میں ان واقعاتی غلطیوں کی نشان دہی کی جو ہٹی سے تاریخی طور پر چند واقعات کو بیان کرنے میں ہو گئی تھیں اور ان کی تعداد دس سے زیادہ تھی۔ دوسرے حصے میں اس اصولی بحث پر کچھ گزارشات پیش کیں کہ ہٹی اور دیگر مستشرقین اسلام کو ایک تحریک (Movement) کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ اسلام تحریک نہیں بلکہ دین ہے اور پھر اس کے ساتھ ہی تحریک اور دین کے فر ق کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا۔ اس مضمون کا پہلا حصہ ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور میں اس دور میں شائع ہو گیا تھا مگر دوسرے حصے کے بارے میں ترجمان اسلام کے مدیر محترم ڈاکٹر احمد حسین صاحب کمال مرحوم نے مجھے بتایا کہ وہ کہیں گم ہو گیا ہے۔ بد قسمتی سے میرے پاس اس کی کاپی نہیں تھی اور مزید بد قسمتی یہ کہ اس کے بعد اس حصے کو لکھنے کی کئی بار کوشش کر چکا ہوں مگر ابھی تک اس معیار پر نہیں لکھ پا رہا۔ کسی کتاب کے پوسٹ مارٹم اور آپریشن کے حوالے سے یہ میرا پہلا مضمون تھا جو میں نے ’’مجلس فکر ونظر‘‘ کی ہفتہ وار ادبی نشست میں پڑھا جسے بے حد پسند کیا گیا اور اس کے بعد مجلس میں میری شمولیت نے خاموش سامع کے بجائے متحرک رکن کی شکل اختیار کر لی۔

کتاب کے ساتھ میرے تعلق کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ زندگی میں اپنے جیب خرچ اور کمائی کا ایک بڑا حصہ میں نے کتاب پر صرف کیا ہے۔ خرچ کے معاملے میں میری تین کمزوریاں شروع سے رہی ہیں: ۱۔ سفر‘ ۲۔ کتاب اور ۳۔ ڈاک اسٹیشنری۔ مجھے جب بھی اپنے اخراجات میں کوئی گنجائش ملی ہے (بسا اوقات اس کے بغیر بھی) تو میری رقم کے مصارف میں یہی تین چیزیں شامل رہی ہیں اور اب بھی یہی صورت حال ہے۔ میں نے زندگی میں جتنی کتابیں خریدی ہیں‘ اگر سب میرے پاس موجود ہوتیں تو انہیں سنبھالنے کے لیے اچھی خاصی لائبریری درکار ہوتی مگر میرے ساتھ المیہ یہ رہا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک کتاب خریدنے میں جس قدر ’’فضول خرچ‘‘ تھا‘ اسی طرح کتاب دینے میں بھی فراخ دل رہا ہوں۔ مجھ سے جس دوست نے بھی کسی ضرورت کے لیے کوئی کتاب مانگی ہے‘ میں انکار نہیں کر سکا اور اس طرح دی ہوئی کتابوں میں شاید ہی چند کتابیں مجھے واپس ملی ہوں ورنہ اکثر کتابیں دوستوں ہی کے کام آ رہی ہیں۔ یہ ’’واردات‘‘ میرے ساتھ انفرادی کے علاوہ اجتماعی بھی ہوئی ہے اور کئی بار ہوئی ہے۔ ۶۵ء کی بات ہے کہ گکھڑ میں ’’انجمن نوجوانان اسلام‘‘ قائم ہوئی جس کے بانیوں میں میرا نام بھی شامل ہے۔ اس انجمن نے عوامی خدمت کے لیے ’’دار المطالعہ‘‘قائم کیا تو میں نے اپنی زیادہ تر کتابیں وہاں دے دیں کہ عمومی استفادہ ہوگا اور محفوظ بھی رہیں گی مگر دو چار سال کے بعد انجمن بکھری تو کتابوں کا بھی کچھ پتہ نہ چل سکا کہ کہاں گئیں۔

اس کے بعد گوجرانوالہ میں اسلامیہ کالج روڈ پر کچھ نوجوانوں نے ’’انصار الاسلام لائبریری‘‘ کے نام سے دینی دار المطالعہ قائم کیا تو اس وقت جمع ہونے والی کتابوں کا بڑا حصہ ان کی نذر کر دیا۔ یہ دار المطالعہ آٹھ دس سال چلتا رہا ہے اور اب اس کا بھی کوئی سراغ موجود نہیں ہے۔

اس کے کافی عرصہ بعد شاہ ولی اللہ یونیورسٹی وجود میں آئی اور اس میں لائبریری قائم کی گئی تو میں نے ایک بار پھر کتابوں کی چھانٹی کی اور اچھا خاصا ذخیرہ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کی لائبریری میں منتقل کر دیا مگر یونیورسٹی کا سلسلہ تعلیم چند سال بعد منقطع ہو گیا تو لائبریری بھی بند ہو گئی۔ خدا جانے کوئی کتاب وہاں اب بھی موجود ہے یا نہیں۔

یہ سلسلہ شاید مزید آگے چلتا مگر اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرمائی کہ میرے بڑے بیٹے حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ کو کتاب شناسی کا ذوق عطا فرمایا‘ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔ اس نے آہستہ آہستہ کتابوں کا معاملہ اپنے کنٹرول میں لے لیا اور کچھ مجھے بھی تھوڑی ’’عقل‘‘ آ گئی اس لیے اب اگر اس سے کوئی کتاب کے بارے میں پوچھتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ ’’ابو سے پوچھنا پڑے گا‘‘ اور مجھ سے کوئی بات کرتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ ’’ناصر کو پتہ ہوگا‘‘۔ اس طرح کچھ کتابیں بچی ہوئی ہیں اور ہم انہیں الشریعۃ اکادمی کی لائبریری کے لیے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔

’’الشریعہ اکادمی‘‘ گوجرانوالہ میں جی ٹی روڈ پر کنگنی والا بائی پاس کے ساتھ مغرب کی جانب ہاشمی کالونی میں ایک کنال رقبہ پر تعلیمی اور تصنیفی مقاصد کے لیے قائم کی گئی ہے جس کی نگرانی میرے پاس اور نظم عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر کے ہاتھ میں ہے۔ اس میں ایک لائبریری کے لیے بڑا ہال مخصوص کر دیا گیا ہے اور خواہش ہے کہ ایک اچھی سی لائبریری بنائی جائے جو علماء کرام‘ اہل دانش اور طلبہ کے لیے استفادہ کا ذریعہ بنے۔ ارادہ یہ ہے کہ فارغ التحصیل علماء کرام کے لیے ایک ’’خصوصی کورس‘‘ شروع کیا جائے جس میں انہیں تاریخ‘ تقابل ادیان‘ تعلقات عامہ‘ کمپیوٹر اور دیگر ضروری مضامین کی تیاری کے ساتھ ساتھ تحقیق ومطالعہ‘ تحریر وانشا اور ادب وصحافت کے ذوق سے آشنا کیاجائے اور اردو‘ عربی اور انگلش سے حسبِ ضرورت روشناس کرایا جائے۔ اس کے لیے جگہ موجود ہے اور دیگر ضروری وسائل کے لیے بھی اصحاب خیر سے تعاون کی امید ہے لیکن میرے نزدیک اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز ایک معیاری لائبریری ہے ۔ جس روز کام شروع کرنے کی حد تک لائبریری میسر آ گئی‘ اس ’’خصوصی کورس‘‘ کا آغاز کر دیا جائے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’مسئلہ کشمیر —  پس منظر، موجودہ صورتحال اور حل‘‘

ڈاکٹر محمد فاروق خان ہمارے ملک کے معروف دانش ور اور کالم نگار ہیں اور جس مسئلے پر قلم اٹھاتے ہیں‘ اس میں تحقیق‘ تجزیہ اور استدلال کے خوب صورت امتزاج کو قاری کے لیے باعث کشش بنا دیتے ہیں۔ بعض مسائل پر ان کے استدلال وتجزیہ کے نتائج سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن تحقیق واستدلال میں ان کی محنت اورمسئلے کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے ان کی وسعت نظر سے اختلاف ممکن نہیں۔

زیر نظر مقالہ میں انہوں نے مسئلہ کشمیر کے تاریخی پس منظر اور اس مسئلے میں مختلف فریقوں کے موقف وکردار کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے اور حقائق وواقعات کو ترتیب اور حوالہ جات کے ساتھ اس انداز سے پیش کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر اور اس کے بارے میں کشمکش کا ایک مجموعی تناظر قاری کے سامنے آجاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ان کے پیش کردہ حل اور تجاویز سے بھی ہمیں اتفاق ہو لیکن مسئلہ کشمیر کو ایک تاریخی تسلسل اور تناظر میں پیش کرنے کے لیے ان کی محنت قابل داد ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے اس کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔

۶۸ صفحات پر مشتمل یہ مقالہ عمدہ کمپوزنگ اور طباعت کے ساتھ دار الاشراق‘ ۱۲۳/بی ماڈل ٹاؤن لاہور نے شائع کیا ہے۔

’’فتنہ دجال اکبر خطرات اور تدابیر‘‘

جناب رسالت مآب ﷺ نے امت کو جن فتنوں سے بطور خاص خبردار فرمایا ہے‘ ان میں دجال کا فتنہ سرفہرست ہے اور متعدد احادیث نبویہ میں دجال اور اس کے فتنے کے بارے میں نشانیاں‘ تفصیلات اور اس کی تباہ کاریاں وضاحت کے ساتھ موجود ہیں جن کی تعبیر وتشریح ہر دور میں محدثین کرامؒ اپنے اپنے علمی دائرے اور ذوق کے مطابق کرتے آ رہے ہیں۔

بھارت کے معروف مسلم سکالر اور دانش ور ڈاکٹر اسرار عالم نے اس موضوع پر بہت تفصیل کے ساتھ لکھا ہے اور ان کی تحقیق وتجزیہ کا ایک منفرد انداز ہے جس میں عالم اسلام کے خلاف مغرب کی فکری اور تہذیبی یلغار کو دجالی فتنہ کے روپ میں پیش کر کے مغرب کے دجل وفریب کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر اسرار عالم صاحب کے فکر وتجزیہ کے تمام نتائج سے اتفاق ضروری نہیں لیکن مغربی فلسفہ وتہذیب کی تباہ کاریوں اور اس کے مکر وفریب کو جس تنوع اور وسعت کے ساتھ انہوں نے بے نقاب کیا ہے‘ اس سے مغرب کے فکر وفلسفہ اور اس کی تہذیبی یلغار کے اہداف کو سمجھنے میں خاصی مدد ملتی ہے۔

زیر نظر رسالہ میں انہوں نے اس موضوع پر اپنی تحریروں کا خلاصہ ۸۰ صفحات میں پیش کیا ہے جسے دار العلم نئی دہلی نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت ۲۰ روپے ہے۔

’’درس مثنوی مولانا رومؒ ‘‘

مولانا جلال الدین رومیؒ کی’’مثنوی‘‘ کو نہ صرف فارسی ادب کی کلاسیکل کتابوں میں نمایاں مقام حاصل ہے بلکہ اہل تصوف کے ہاں بھی معرفت اور اسرار بندگی کے بیان میں اسے اعلیٰ درجہ کی کتاب سمجھا جاتا ہے بالخصوص برصغیر پاک وہند میں شیخ العلما حضرت حاجی امداد اللہ مہاجرمکیؒ اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے حلقہ میں تو مثنوی باقاعدہ تربیت واصلاح کے نصاب میں شامل ہے جس کا درس دیا جاتا ہے اور اس کی تعلیم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ 

حضرت تھانویؒ ہی کے حلقہ کے ایک باذوق بزرگ حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب مدظلہ نے چار سال قبل مثنوی پر اپنے متوسلین اور خوشہ چینوں کو چوبیس درس دیے جنہیں قلم بند کر کے کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔

پونے چار سو صفحات کی یہ خوب صورت اور مجلد کتاب کتب خانہ مظہری‘ پوسٹ بکس ۱۱۱۸۲‘ گلشن اقبال بلاک ۲‘ کراچی سے طلب کی جا سکتی ہے۔

’’ماہنامہ ظلال القرآن‘‘

مولانا سید محمد معروف شاہ شیرازی ہزارہ کے معروف عالم اور دانش ور ہیں جن کا فکری تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور علمی میدان میں ان کی خدمات کا سلسلہ خاصا وسیع ہے جس میں سید قطب شہیدؒ کی معرکہ آرا تفسیر ’’فی ظلال القرآن‘‘ کا اردو ترجمہ بطور خاص قابل ذکر ہے۔ ان دنوں وہ اسلام آباد سے ماہنامہ ’’ظلال القرآن‘‘ کے نام سے ایک معیاری علمی ودینی جریدہ پابندی سے شائع کر رہے ہیں جس میں علمی وفکری مسائل کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کی تازہ ترین صورت حال پر تبصرہ بھی شامل ہوتا ہے۔

۵۰ صفحات پر مشتمل اس ماہوار جریدہ کی قیمت فی شمارہ ۱۵ روپے اور سالانہ زر خریداری ۱۵۰ روپے ہے۔ خط وکتابت مندرجہ ذیل پتہ پر کی جا سکتی ہے:

مسجد عمار بن یاسرؓ ‘ گلی ۲۶‘ F/10-1‘ اسلام آباد

’’امریکی چرچ کا جنسی بحران‘‘

لاہور (انٹر نیشنل ڈیسک) امریکہ کے ریورنڈجان جے جیوگین کی طرف سے ڈیڑھ سو کے قریب نوعمر لڑکوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات اور پیٹرک میکسوالے کی طرف سے ۱۹۸۶ء میں اس سے ہونے والے جنسی تشدد پر ریورنڈ جیوگین کے خلاف عدالتی کارروائی اور نو سے دس سال تک سزائے قید کے بعد امریکہ بھر کے کیتھولک فرقے کے لوگ خوفزدہ ہیں اور اپنے فادرز کے ہاتھوں بچوں کے جنسی تشدد کے متعدد سکینڈلوں سے پریشان ہو چکے ہیں۔ امریکہ کے ممتاز جریدے نیوز ویک کی حالیہ اشاعت میں شائع ہونے والے مضمون ’’فادرز کے گناہ‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ کے لوگ اب بوسٹن کے کارڈینل کے مخالف ہو چکے ہیں جس کے ماتحت کام کرنے والے پادری جنسی سکینڈل میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اس تازہ سکینڈل کے باعث متعدد پادریوں نے جان جے جیوگین کے خلاف قانونی کارروائی پر تشویش اور غم وغصے کا اظہار کیا ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ ہم اتنی توہین محسوس کر رہے ہیں کہ ہم نے عوام میں اپنے مخصوص کالر پہننا بھی ترک کر دیا ہے۔ بوسٹن کے کیتھولکس کی نصف تعداد کا مطالبہ ہے کہ کارڈینل مستعفی ہو جائیں کیونکہ ان کی وجہ سے کیتھولک چرچ کی بدنامی ہوئی ہے۔ اس سکینڈل کی وجہ سے امریکہ کے ایسے بہت سے اداروں سے متعلق لوگ بھی پریشان ہو گئے ہیں جن سے ان کے بچے منسلک ہیں۔ ان میں سکول سپورٹس کی ٹیمیں‘ بوائے اسکاؤٹس وغیرہ شامل ہیں۔ آرچ ڈایوسس آف منڈولفیا نے انکشاف کیا ہے کہ اسے اس بات کی معقول شہادت ملی ہے کہ ۳۵ پادری پانچ عشروں تک بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کرتے رہے ہیں اور انہوں نے متعدد بار ایسے پادریوں کو ان کے فرائض سے سبک دوش کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایری زونا ڈیلی سٹار نے بشپ مینویل ڈی مورنیو آف ٹکسون کے استعفا کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ اس کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ چرچ کے افسران نے خاموشی کے ساتھ نو لڑکوں کو خاموش رہنے کے لیے لاکھوں ڈالر ادا کیے ہیں۔ پلین ٹفس کی اتھارٹیز نے بتایا ہے کہ انہیں روزانہ کالیں وصول ہو رہی ہیں جن میں میری لینڈ‘ نیو یارک‘ کیلی فورنیا ‘ایری زونا اور ایلونوس میں جنسی تشدد کے شکار بچوں نے اپنے ساتھ ہونے والے واقعات بیان کیے ہیں۔ اس مضمون میں متعدد پادریوں کی طرف سے مختلف بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد کے واقعات درج کیے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ آئندہ دس سال میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد پر ہونے والے تصفیوں پر چرچ ایک بلین ڈالر خرچ کریں گا جبکہ ۱۹۸۰ء کے بعد سے اب تک کم از کم ۸۸۰ ملین ڈالر ادا کر چکا ہے۔

(روزنامہ نوائے وقت لاہور‘ ۲۸ فروری ۲۰۰۲ء)

’’پاکستان میں پہلا اسلامی بینک‘‘

کراچی (ا پ پ) سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک میں پہلے اسلامی کمرشل بینک کے قیام کے لیے لائسنس جاری کر دیا ہے۔ کراچی میں ہونے والی ایک سادہ تقریب میں گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین نے میزان بینک لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو عرفان صدیقی کو لائسنس دیا۔ میزان بینک کے سپانسرز کا کویت اور بحرین میں بھی ایک بینک قائم ہے جبکہ جدہ میں اسلامک ڈویلپمنٹ بینک کے نام سے بھی ایک ادارہ موجود ہے۔ میزان بینک کے چیئرمین اور بورڈ آف ڈائریکٹرز شیخ ابراہیم بن خلیفہ الخلیفہ ہیں جو کہ بحرین کے نائب وزیر خزانہ ہیں۔ میزان بینک لمیٹڈ پہلا اسلامک بینک ہوگا جو پاکستان کے اندر کام شروع کرے گا۔ اس کی پورے ملک میں شاخیں کھولی جائیں گی۔ گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین نے ایک انٹرویو میں کہا کہ میزان بینک کو ایک اہم اور بھاری ذمہ داری سونپی گئی ہے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ دیگر بینک بھی اسلامی اصولوں کے مطابق بینکاری کو فروغ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کافی مشکل مرحلہ ہے تاہم یہ دیکھنا ہے کہ بینک کس طرح اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے حکومت سے وضاحت طلب کی کہ بینکوں کا نظام کیا اسلامی اصولوں کے مطابق کیا جائے گا جس کے بعد سٹیٹ بینک کے کمیشن نے میزان بینک کی درخواست پر غور کیا اور بینک پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں لائسنس جاری کیا۔ انہوں نے کہا کہ نئے اسلامک بینک کے قیام سے لوگوں کو ایک نیا تجربہ ملے گا جس کے بعد دوسرے بینک بھی اس کی تقلید کرنے کے لیے آگے آئیں گے۔

(روزنامہ پاکستان لاہور‘ یکم فروری ۲۰۰۲ء)

’’امریکہ میں ڈاڑھی کا مقدمہ‘‘

نیو یارک (نمائندہ خصوصی) نیو جرسی اسٹیٹ میں ۱۰ مسلمان پولیس افسران نے دوران ڈیوٹی ڈاڑھی رکھنے کا مقدمہ جیت لیا ہے۔ جسٹس ڈیپارٹمنٹ کے ایک لاسوٹ میں کہا گیا تھا کہ ۱۰ مسلم افسروں کو ڈاڑھی رکھنے کی وجہ سے ملازمت سے بے دخلی یا پھر ان کی مرضی کے خلاف محکموں میں کھپائے جانے کا امکان تھا۔ جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے محکمہ کو حکم دیا کہ مسلم پولیس افسروں کو دوران ملازمت ڈاڑھی رکھنے کی اجازت دی جائے اور انہیں ہرجانے کے طور پر ۶۰۰,۵۳ ڈالر بھی ادا کیے جائیں۔

(روزنامہ پاکستان لاہور‘ ۸ فروری ۲۰۰۲ء)

اپریل ۲۰۰۲ء

پاکستان کے دینی حلقوں کا اصولی موقفادارہ
بیروت کی علماء کانفرنس کا اعلامیہادارہ
گجرات کا المیہ اور اس کے اثراتمولانا محمد رابع حسنی ندوی
دورِ جدید کے چند اجتہاد طلب مسائلڈاکٹر محمود احمد غازی
یورپ میں چرچ اور اسٹیٹ کی علیحدگی۔ ایک جائزہسلطان احمد اصلاحی
علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ ۔ فکری مماثلتیںپروفیسر محمد یونس میو
آہ ! مولانا عاشق الٰہی برنی مہاجر مدنی نور اللہ مرقدہحافظ مہر محمد میانوالوی
پیٹ معذور ہوتا ہےپروفیسر میاں انعام الرحمن
مولانا درخواستی کا دورۂ جنوبی افریقہ، فجی وبنگلہ دیشادارہ
تعارف و تبصرہادارہ
بغاوت کی دستکپروفیسر میاں انعام الرحمن
قافلہ میعادادارہ
مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کی تاریخ پر ایک نظرادارہ

پاکستان کے دینی حلقوں کا اصولی موقف

ادارہ

(۲۸ مارچ ۲۰۰۲ء کو ہمدرد کانفرنس سنٹر لٹن روڈ لاہور میں روزنامہ پاکستان ویلغار کے زیر اہتمام ’’خلافت راشدہ کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی جس کی صدارت جمعیۃ اتحاد العلماء پاکستان کے صدر مولانا عبد المالک خان نے کی اور پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی مہمان خصوصی کے طور پر شریک ہوئے جبکہ کانفرنس سے خطاب کرنے والوں میں جمعیۃ اہل حدیث پاکستان کے ناظم اعلیٰ مولانا میاں محمد جمیل، جمعیۃ العلماء پاکستان کے مولانا قاری زوار بہادر، جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا خلیل الرحمن حقانی، تحریک خلافت پاکستان کے ڈاکٹر معظم علی علوی ومولانا خورشید احمد گنگوہی، مولانا پیر سیف اللہ خالد، مولانا غلام رسول راشدی اور مولانا عبد الرشید ارشد کے علاوہ روزنامہ پاکستان کے مینجنگ ڈائریکٹر عمر مجیب شامی اور ممتاز دانش ور اور کالم نگار جناب عطاء الرحمن شامل تھے۔ کانفرنس میں تمام راہ نماؤں کی توثیق کے ساتھ ایک مشترکہ اعلامیہ پیش کیا گیا جو متفقہ طور پر منظور ہوا۔ موجودہ معروضی صورت حال میں ملک کی دینی قوتوں کے اصولی موقف کے طور پر یہ اعلامیہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)

بیروت کی علماء کانفرنس کا اعلامیہ

ادارہ

القدس اور فلسطین کی مدد، مظلوم فلسطینی عوام کی تائید، زیادتی اور غاصبانہ قبضے کو ختم کرنے کے حق اور اپنے دفاع کی خاطر صہیونی غاصب کے بارے میں اسلام اور علماء اسلام کے موقف کو واضح کرنے کے لیے لبنان میں ’’تجمع العلماء المسلمین‘‘کی دعوت پر بیروت میں ۲۵/۲۶ شوال ۱۴۲۲ھ مطابق ۹،۱۰ جنوری ۲۰۰۲ء کو فلسطینی عوام کے جہاد کی تائید میں ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی جس کا عنوان تھا ’’قدس کو بچانا اور فلسطینی عوام کی مدد کرنا شریعت کا حکم ہے اور اس کی خاطر جہاد کرنا واجب ہے‘‘۔ ا س کانفرنس میں ۳۴ ممالک کے ۱۳۰ بڑے بڑے علما اور امت مسلمہ کے قائدین شریک ہوئے جو دنیا کے کونے کونے سے تشریف لائے۔ کانفرنس کے اختتام پر شریک ہونے والوں نے اختتامی اعلامیہ جاری کیا اور سفارشات پیش کیں جو مندرجہ ذیل ہیں:

اعلامیہ

صہیونی زیادتی اور دہشت گردی کے سائے تلے جس بحران سے فلسطینی عوام گزر رہے ہیں، اس کے بارے میں عالمِ عرب اور عالمِ اسلام خاموش بیٹھے ہیں۔ ان کی خاموشی ہماری سمجھ میں نہیں آتی لیکن الحمد للہ دوسری طرف دنیا بھر کے علماء کرام فلسطینی عوام کی نصرت اور امت مسلمہ کے ہر شعبہ کے افراد کی زبان بن کر اور اپنی دینی ذمہ داری کا احساس اور شریعت کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اور اخلاقی وانسانی فرض کو سمجھتے ہوئے مندرجہ ذیل اٹل موقف کا اعلان کرتے ہیں:

۱۔ فلسطین سارے کا سارا نہر سے لے کر سمندر تک، شمال سے لے کر جنوب تک اس کے سارے شہر اور گاؤں جس کا دار الخلافت القدس ہے، یہ سب عربی اور اسلامی زمین ہے اور یہ سارے فلسطینیوں کا وطن ہے۔ اس میں وہ بھی شامل ہیں جو مقبوضہ فلسطین میں رہ رہے ہیں اور وہ بھی جن کو زبردستی ملک بدر کیا گیا۔ فلسطین ان سب کا حق ہے، بلا کسی قید یا شرط کے فلسطین ان کا ہے اور وہ فلسطین کے۔

۲۔ القدس جس کی تاریخی حدود معروف ہے، ایک عربی اور اسلامی شہر ہے۔ یہ شہر حصے بخرے اور تقسیم کے قابل نہیں ہے۔ سب مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس کو آزاد کرائیں اور اس کا دفاع کریں اور اس کو یہودیوں سے بچائیں اور اس کا اسلامی تشخص قائم رکھیں۔

۳۔ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کا کسی بھی شکل میں وجود غیر شرعی اور غیر قانونی ہے۔ یہ وجود حملے، غصب اور ناجائز قبضے کا نتیجہ ہے۔ فلسطین کے عوام کو ملک بدر اور بے گھر کر کے حاصل کیا گیا۔ یہ غاصب اپنے وجود کو مستحکم بنانے کے لیے وہاں زندگی کے ہر شعبہ کو یہودیت کا رنگ دے رہے ہیں اور اپنے وجود کو طول دینے کے لیے زیادتیاں اور دہشت گردی کر رہے ہیں اور بے گناہوں کا خون بہا رہے ہیں لیکن یہ وجود کتنا بھی لمبا ہوجائے، مسلمانوں کی نظر میں ہمیشہ اجنبی، زیادتی کی نشانی، زمین اور اس کے باشندوں کے حقوق اور اس کے مقدسات کا غاصب شمار ہوگا اور اس سے ہٹ کر جتنے بھی معاہدے یا بات چیت یہودیوں کے ساتھ ہوئی، سب باطل اور غیر موثر ہیں۔ ان کی شرعی یا قانونی بنیاد نہیں ہے۔

۴۔ فلسطینی عوام کی اسرائیلی سامراج اور اس کی زیادتیوں کے خلاف جدوجہد کی مختلف شکلیں ان کا حق ہے۔ اسلام نے ان کو یہ حق دیا ہے اور اس کی تائید تمام ادیان، فطری قوانین اور انسانی اقدار کرتے ہیں۔

۵۔ ایسے حملے جن کے نتیجے میں شہادت یقینی ہو، جو مجاہدین اسرائیلی دشمن کے خلاف کر رہے ہیں، جائز ہیں جس کی دلیل کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں ملتی ہے بلکہ یہ کام شہادت کا بلند ترین درجہ ہے اور اللہ کی خوشنودی اور جنت حاصل کرنے کا راستہ ہے۔ عقیدہ، ایمان اور اللہ کی خوشنودی کی خاطر سوچ سمجھ کر اور اپنی مرضی سے شہید ہونا دفاعی تحریک کا ایک اہم ہتھیار ہے جس کے ذریعے سے مسلمانوں کو اپنے دشمنوں پر معنوی برتری حاصل ہوئی ہے جو مادی طاقت کی کمی کو پورا کرتے ہیں۔

۶۔ ہم بین الاقوامی سوسائٹی پر زور دیتے ہیں کہ وہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی کو روکے نہ کہ مظلوم فلسطینی عوام سے مطالبہ کرے کہ وہ اپنے ہتھیار ڈال دیں حالانکہ اس نے یہ ہتھیار اپنے دفاع کے لیے اٹھائے ہیں۔ ہم زور دیتے ہیں کہ فلسطینی عوام کا حق ہے کہ وہ اپنی جان کے دفاع کے معرکے میں ہر ذریعے سے اسلحہ حاصل کر سکتے ہیں۔

۷۔ ہم امریکہ کی تیار کردہ دہشت گردوں کی فہرست کو رد کرتے ہیں جس کے ذریعے سے لبنان ، فلسطین اور کشمیر میں جدوجہد کرنے والی طاقتوں پر داغ لگانے کی کوشش ہو رہی ہے اور اس سلسلے میں ان ملکوں، اداروں اور افراد کو بھی بدنام کیا جا رہا ہے جو اس مشروع جہاد کی تائید اور پشت پناہی کر رہے ہیں۔

اگر امریکی حکومت میں صہیونیت کے حامیوں کا ہدف فلسطینی جہادی طاقتیں ہیں اس لیے کہ اسرائیل کو اگر کوئی خطرہ ہے تو صرف ان سے ہے تو ہم بھی کھل کر اعلان کرتے ہیں کہ یہ جدوجہد جدید دور میں سب سے زیادہ مقدس اور بلند تحریک ہے۔ یہ پوری امت کی آواز ہے جو صہیونیت کے خلاف اپنے حقوق اور مقدسات کے دفاع میں اٹھائی جا رہی ہے۔ یہ تحریک اور وہ مجاہدین جو اللہ کی خاطر جہاد کر رہے ہیں، سارے مسلمانوں کی عزت اور آبرو ہیں اور ساری دنیا کے مظلوموں کے خوابوں کی تعبیر ہیں، چاہے وہ مسلمان کہیں بھی ہوں۔

۸۔ ’’حزب اللہ‘ ‘، ’’حماس‘‘ اور ’’جہاد اسلامی‘‘ اور دوسری آزادی کی تحریکیں اس امت کی زبان ہیں۔ دوسرے ملکوں اور ان کے عوام کے دفاع کی فرنٹ لائن ہیں جو ان کے حقوق، مسائل اور ان کے مقدسات کا دفاع کرتے ہیں۔ یہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی عزت اور آبرو ہیں اور سارے دنیا کے مظلوموں کے خوابوں کی تعبیر ہیں۔

۹۔ تمام عرب اور مسلمان حکومتوں، ان کے عوام اور سیاسی پارٹیوں پر واجب ہے کہ فلسطینی عوام کی نصرت، حمایت اور مدد کریں اور ان کا دفاع کریں۔

۱۰۔ ہم عالم عرب اور عالم اسلام کی حکومتوں اور ان کے عوام اور وہاں کی سیاسی پارٹیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ متحد ہو کر امت کو کمزوری، عاجزی، تفرقہ، قومی ومسلکی اور سیاسی اختلافات سے پاک کریں۔ ہم ان سب کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ گفتگو، مصالحت اور تعاون کے ذریعے سے امت کو مضبوط بنیادوں پر متحد کریں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ القدس اور فلسطین کو امت کا مرکزی مسئلہ سمجھ کر اور اس کو فوقیت دے کر ہم عربوں اور مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے صحیح راستے کا انتخاب کر رہے ہیں۔

۱۱۔ علما یہ سمجھتے ہیں کہ گیارہ ستمبر کے بعد امریکی حکام کا ظالمانہ حملہ جس کا آغاز افغانستان میں ہوا ہے، جس میں بے گناہ عوام کا قتل عام ہوا ہے اور قلعہ جنگی میں قیدیوں کو بے دردی سے قتل کرکے ان کا خاتمہ کیا گیا، یہ جرم اس دور میں سنگین ترین جرم ہے جس کے ذریعے سے امریکہ پورے عالم اسلام کو اپنے شکنجے میں کسنا چاہتا ہے۔ یہ بات امت مسلمہ سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ ایک ہو کر اس منصوبے کا مقابلہ کرے اور اس کو ناکام بنائے۔

۱۲۔ علما عرب سربراہی کانفرنس سے جو لبنان میں منعقد ہونے والی ہے، مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے خلاف کھڑے ہوں اور انتفاضہ کی حمایت کریں اور وہ اس کو اللہ اور اپنے عوام کے سامنے اپنی دینی اور دنیاوی ذمہ داری سمجھیں۔

۱۳۔ اس کانفرنس میں شریک ہونے والے تمام علما امیر عبد اللہ بن عبد العزیز کے خطاب کو جو انہوں نے خلیجی مجلس تعاون کے سامنے کیا تھا، سراہتے ہیں۔ شام اور اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کو بھی سراہتے ہیں جس میں انہوں نے فلسطینی عوام کا ساتھ دیا ہے اور سمجھتے ہیں کہ جو تحریک فلسطین میں ابھری ہے، وہ سارے مسلمانوں کے موقف کی تعبیر ہے۔

۱۴۔ اس کانفرنس میں شریک ہونے والے اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور انتفاضہ کی بھرپور حمایت پر لبنان کی حکومت اور عوام کے جرات مندانہ موقف کی قدر کرتے ہیں اور اس پر انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جس نے اس کانفرنس کی بیروت میں میزبانی کی اور اس کو کامیاب بنانے کے لیے تمام سہولتیں فراہم کیں۔

فیصلے

۱۔ اس کانفرنس کو دائمی ادارے کی شکل دی جائے گی اور اس سلسلے میں جنرل سیکرٹریٹ، انتظامیہ اور ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو اس کام کو جاری رکھے۔

۲۔ فلسطینی عوام کی ثابت قدمی کو سپورٹ دینے کے لیے ایک بین الاقوامی فنڈ قائم کیا جائے گا۔

سفارشات

۱۔ دنیا کے کسی ملک پر امریکی جارحیت کی مدد کرنا حرام ہے۔

۲۔ سکولوں کے سلیبس میں فلسطین اور القدس کے نام سے ایک مضمون پڑھایا جائے تاکہ آنے والی نسلوں کے ذہن میں یہ مسئلہ اجاگر رہے۔

۳۔ عرب ممالک میں فلسطینی پناہ گزینوں کے مسائل اور مشکلات کا احاطہ کرنا اور اس کے حل پر غور اور تدابیر اختیار کرنی چاہییں۔

۴۔ ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جو میڈیا کو استعمال کر کے سیاسی دباؤ ڈال سکے جس میں میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیموں اور تمام موثر شعبوں کے ماہرین ہوں۔

۵۔ اس کانفرنس میں شریک ہونے والے علما فلسطین میں جدوجہد اور انتفاضہ کو زکوٰۃ، صدقات، خمس، ہدیے اور عطیات یا کسی بھی قسم کی مالی مدد کو جائز سمجھتے ہیں اور اس کی سفارش کرتے ہیں۔

۶۔ فلسطین کی سرزمین کی ملکیت یہودیوں کو منتقل کرنا حرام ہے۔ یہ بات خرید وفروخت سے ہو یا کسی اور ذریعے سے، سب ناجائز ہے۔

۷۔ کانفرنس میں شریک ہونے والے اسرائیل کا بائیکاٹ کرنا واجب سمجھتے ہیں۔ شرکا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے خاتمے کو واجب سمجھتے ہیں۔ تعلقات استوار کرنے اور اس کی کسی بھی سیاسی ،ڈپلومیٹک، اقتصادی اور تجارتی شکل کی مخالفت کرتے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی سیاسی، معاشی یا تجارتی شکلیں باطل اور ناجائز ہیں۔

۸۔ حج کے دنوں سے فائدہ اٹھایا جائے اور ان دنوں میں فلسطین کے مسئلے کی وضاحت کی جائے اور اس کی مدد کے لیے لوگوں کو پکارا جائے۔ ملاقاتوں، اجتماعات اور مختلف طریقوں سے یہ مقصد حاصل کیا جائے۔

۹۔ جہاد کے مختلف معانی کی تشریح وتوضیح کے سلسلے میں علما کے کردار پر زور دیا جائے۔ امت کے افراد زندگی کے اجتماعی، اقتصادی، ثقافتی اور ہر میدان میں کام کریں، کسی میدان کو خالی نہ چھوڑیں۔

۱۰۔ امت مسلمہ کا اتحاد اور فلسطین کی آزادی کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد فلسطین میں صہیونیت کے خلاف جدوجہد اور انتفاضہ کی تائید اور مدد کرنا ہے۔

(بہ شکریہ ’’جریدۃ الاتحاد‘‘ لاہور)

گجرات کا المیہ اور اس کے اثرات

مولانا محمد رابع حسنی ندوی

ہندوستا ن کو بدیسی غلامی سے آزادی ملنے پر ملک کی ضرورت کے لائق حکومت قائم کرنے اور چلانے کے لیے اس کے دانش وروں اور قانون دانوں نے جو دستور دیا، وہ اس کے قومی اقدار اور مفادات کا حامل دستور ہے جو ہندوستان میں اس عظیم ملک کے تاریخی مزاج وکردار کی جھلک پیش کرتا تھا۔ اس ملک کا ماضی فرقہ وارانہ مذہبی منافرت کا حامل نہیں رہا ہے۔ یہاں ماضی میں جو بھی ٹکراؤ یا کشمکش رہی ہے، وہ ا س کے حکمرانوں کے سیاسی وفوجی اقتدار کی بقا اور طلب تک محدود رہی ہے، مذہبی فرقہ بندی پر نہیں رہی ہے چنانچہ مسلم حکمرانوں کے ماتحت عہدہ داروں میں ہندو دانش ور اور منتظم اور ہندو حکمرانوں کے ماتحت عہدہ داروں میں مسلمان دانش ور اور منتظمین بھی رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر جیسا مذہبی مسلمان شہنشاہ جس کو ہندوؤں میں سخت ہندو دشمن مسلمان حکمران بتایا جاتا ہے، اس نے بھی متعدد اعلیٰ عہدوں پر ہندو دانش وروں اور منتظمین کو رکھا تھا اور صرف مسجدوں کو ہی نہیں بلکہ متعدد مندروں کو بھی جائیدادیں وقف کیں لیکن ہندوستان پر غیر ملکی انگریز حکومت نے ملک میں اپنے قدم جمائے رکھنے کے لیے یہ سیاست اختیار کی کہ ملک کے مختلف مذہبی فرقوں کے مابین پیش آنے والے واقعات میں نفرت اور ٹکراؤ کے اسباب دکھائے جائیں تاکہ ملک کی عوامی طاقت متحد نہ رہ سکے۔ اس کے لیے ملک کی تاریخ میں مذہبی فرقوں کے مابین واقعات کی ایسی تصویر کشی کی جس سے یہ ثابت ہو کہ ملک میں مذہبی زور دستی اور حق تلفی کا دور دورہ رہا ہے چنانچہ انگریز ی اقتدار میں ایسی کتابیں اور نصاب تعلیم مرتب کیا گیا جن سے انگریزوں کا یہ مقصد پورا ہوتا تھا، خاص طور پر مسلمانوں کو جابر اور ظالم اور غیر مسلموں کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کرنے والا دکھایا گیا۔

اس نصاب اور لٹریچر نے عام ہندوؤں اور سکھوں کے ذہنوں کو مسموم کیا، پھر اس ذہن کی کارفرمائی تقسیم ہند کے موقع پر سخت انداز میں ہوئی اور یہ انگریزی اقتدار اعلیٰ کی سربراہی میں انجام پائی جس سے ہندو مسلم فرقوں کے دلوں میں ایک دوسرے سے سخت نفرت وعداوت ابھری اور ملک کے دونوں ٹکڑوں کے سرحدی علاقوں میں آگ وخون کا کھیل ہوا اور اس سے متحدہ ہندوستان کے ماضی کی رواداری، میل محبت کی تاریخ ٹوٹ پھوٹ گئی۔

لیکن دونوں فرقوں کے غیر متعصب مزاج کے حامل دانش وروں اور قائدین نے حالات کو سنبھالا اور ملک کے مستقبل کے لیے ملک کے ماضی کی اقدار کو بنیاد بنایا اور اسی کے مطابق دستور ترتیب دیا۔ اس دستور کے بموجب ملک نے اپنے نئے عہد میں قدم بڑھایا اور ترقی کی راہ اختیار کی۔ ملک کے باشندوں کی تعداد اور اپنے رقبہ کی وسعت اور اپنی زمینی دولت پھر اپنے روادارانہ اور انسانیت دوست مزاج کے لحاظ سے پورے مشرق کی قیادت کے منصب کی طرف بڑھنا شروع ہوا اور پورے ایشیا میں اس کی اہمیت اور بڑائی کو تسلیم کیا جانے لگا۔ اس پورے خطے میں ہندوستان کے ارد گرد پچاس سے زیادہ مسلم ممالک ہیں، وہ سب ہندوستان کو اپنے بڑے بھائی کی حیثیت سے دیکھنے لگے لیکن انگریزوں کے بوئے ہوئے علاقائی ونسلی منافرت کے بیج بھی اپنا کام کرتے رہے اور ان کے اثر میں آئے ہوئے فرقہ وارانہ دشمنی اور ٹکراؤ کو پسند کرنے والے اداروں اور افراد نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ مسلمان اقلیت میں تھے اس لیے ان کے فرقہ وارانہ دشمنی کا مزاج رکھنے والے زیادہ کارگر نہ ہو سکے لیکن ہندوؤں میں اس مزاج کے لوگ اور ادارے ملک پر اپنے اثرات بڑھاتے رہے حتیٰ کہ اپنی تدبیروں اور سازشوں سے سیکولر مزاج رکھنے والی حکومتوں میں دخیل بلکہ حاوی ہو گئے۔ وہ ہندو نوجوانوں کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور عداوت کا خیال پیدا کرتے رہے ۔ وہ یہ کام جو پہلے تعلیم وابلاغ کے ذرائع سے کرتے تھے ،اب سیاست وحکومت کے ذرائع سے کرنے لگے۔

فرقہ وارانہ منافرت کی حامل ان طاقتوں کا اصل مرکز زیادہ تر ہندوستان کا مغربی علاقہ رہا اور مہاراشٹر اور گجرات ان کے اثرات کا بنیادی علاقہ رہا۔ وہاں سے وہ شمالی ہندوستان اور جنوبی علاقوں میں اپنے منصوبوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس سلسلے میں ان کو اجودھیا کی قدیم مسجد جس کا انتساب بابر کی طرف کیا جاتا ہے، ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان موضوع نزاع بنانے کا اچھا عنوان ملا چنانچہ اس کے نام سے تحریک شروع کی گئی جس کو حکومتوں کے منافرت پسند ذہن کے افراد وعہدہ داروں کی طرف سے سہارا ملتا رہا۔ بالآخر فرقہ پرست ہندو طاقتوں کو مسجد پر قبضہ کر لینے اور اس میں مندر کے مذہبی رسومات ادا کرنے کا موقع مل گیا۔ مسلمانوں کے پاس عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے سوا کوئی دوسرا معتبر ذریعہ نہ تھا چنانچہ انہوں نے اس سے رجوع کیا جس کی بنا پر برس ہا برس سے یہ مسئلہ عدالت میں زیر بحث ہے اور شاید ابھی اسی طرح چلتا رہے لیکن ایک طرف طاقت ہو اور دوسری طرف عدالت تو طاقت اپنا فوری اثر دکھاتی ہے اور عدالت سے رجوع کرنے والے کو اپنی کمزوری کا مشاہدہ کرتے رہنا پڑتا ہے۔

سالِ رواں میں اس کشمکش کا اثر گجرات کے صوبہ سے زیادہ ظاہر ہوا۔ وہاں ہندو بالادستی بلکہ جارحانہ سیاست کے حامل لوگوں کی حکومت ہے۔ اس کے زیر سایہ یہ خونی ڈرامہ رچایا گیا جس سے پورے ملک کے مسلمانوں کے دل دہل گئے اور ملک کا روادارانہ سیکولر کردار پاش پاش ہو گیا۔ بالآخر بدنامی کے خوف اور سیکولر مزاج کے افرادکے دباؤ کا کسی قدر اثر پڑا اور عدالت عظمیٰ نے خصوصی توجہ کی اور ایودھیا کے نام پر جن جارحانہ مقاصد کی تکمیل کی جانے والی تھی، وہ روک دی گئی اور حالات کے بدترین ہو جانے کا جو سلسلہ شروع ہو گیا تھا، اس میں کچھ ٹھہراؤ پیدا ہوا۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ ٹھہراؤ کتنا قائم رہتا ہے۔

اس ملک کے سربراہان حکومت کو، خواہ وہ ہندو فرقہ پرستی کے رہبر آر ایس ایس کے ہم نوا ہوں اور خواہ ملک کے سیکولر مزاج کے داعی ہوں، اس بات پر غور کرنا اور فیصلہ کرنا ہے کہ فرقہ پرستی کا یہ جارحانہ عمل جو ایودھیا میں اپنی من مانی کرنے کے لیے ساری انسانی قدروں اور ملک کی سا لمیت وترقی کے لیے تباہ کن طوفان کی شکل اختیار کر گیا ہے، ملک وقوم کو کس تباہی اور انتشار تک لے جائے گا اور ملک وقوم کی عزت کو بیرون ملک کیا نقصان پہنچائے گا؟ کارخانوں کو جلانا، صنعتی ٹھکانوں کو تباہ کرنا اور سب مال لوٹ لینا، لوٹنے والوں کو کچھ سستے فائدے تو حاصل کرا دے گا لیکن برباد ہو جانے والی صنعتوں کے ختم ہو جانے سے ملک کی دولت اور صنعتی ذرائع میں کیا کمی واقع ہو جائے گی۔ جبکہ یہ مالی وصنعتی کوششیں خاصی حد تک غیر ملکی کرنسی کے حصول کا اور اندرون ملک میں اضافہ دولت کا ذریعہ بن رہی تھیں، اب ملک کے حصول دولت کے دائرے میں کس قدر خسارہ کا باعث ہوگا اور کتنی صنعتیں ٹھپ ہو کر رہ جائیں گی۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر منظم فساد سے ملک اپنی طاقت ودولت کے مقام سے ایک قدم پیچھے چلا جاتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ فرقہ وارانہ جوش وغضب میں ملک کی سا لمیت، عزت اور اقتصادی طاقت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور صرف جذباتی مسرت کے حصول کے لیے اس کو قربان کر دیا جاتا ہے۔ گجرات جو ملک کی صنعتوں کا عظیم گہوارہ ہے، کس قدر اقتصادی توانائی سے محروم ہو گیا اور یہ خود گجرات کے باشندوں کے ہاتھوں انجام پایا۔ یہ لوگ ملک وقوم کے بہی خواہ ہوئے یا بد خواہ؟

اب رہا مسلمانوں کا مسئلہ تویہ تباہی ان کے لیے حوادث کی حیثیت تو رکھتی ہے لیکن ان کے مٹا دینے یا ختم کر دینے کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ منظم فسادات کے ذریعے سے مسلمانوں کا خاتمہ کر دینے کی اس ملک میں گزشتہ ۵۵ سالوں میں کئی بار کوششیں کی گئیں لیکن وقتی نقصان سے زیادہ ان کا اثر نہیں پڑا۔ مسلمانوں کی تاریخ نے ان کو بتایا ہے کہ ایسے طوفانوں سے بھی زیادہ سخت طوفان ان پر سے گزرے ہیں اور وہ ان کے اثر سے غیر معمولی خوف ودہشت اور تباہی وخسارہ سے گزرے ہیں لیکن وہ ختم نہیں کیے جا سکے بلکہ اس کے بعد ان میں مزید ہمت وحوصلہ پیدا ہوا اور انہوں نے اپنے سابقہ مقام کو دوبارہ بحال کر لیا۔ ان کو ان کے مذہب نے مایوسی اور شکست خوردگی کی اجازت نہیں دی ہے بلکہ ان کو تعلیم دی ہے کہ ایسے طوفانوں میں وہ اپنے حوصلہ کو برقرار رکھیں اور انسانی شریفانہ کردار پر قائم رہتے ہوئے اپنے پروردگار سے خیر کی امید رکھیں۔ سارے حالات کے باوجود آخری کام یابی حق وانصاف اور ہمت سے کام لینے والوں کی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ اس کی شاہد ہے۔

بعض لوگ اسپین کا نام لیتے ہیں۔ وہ قدیم زمانے میں ایک چھوٹا ملک تھا اور اس میں مسلمان اقلیت میں ہونے کے تعلق سے کم آبادی رکھتے تھے۔ کئی صدیوں تک ظلم برداشت کرنے کے بعد خود ان کی آبادی کی ایک تعداد نے تبدیلی وطن کو اختیار کرلیا۔ اب موجودہ جمہوری عہد میں پھر وہ وہاں دوبارہ بڑھ رہے ہیں اور ترقی کر رہے ہیں۔ رہا یہ ملک ہندوستان تو یہاں کے بیس کروڑ مسلمانوں کو بے وزن کردینے کی کوشش مسلمانوں کو صرف جزوی نقصان پہنچا سکتی ہے، ان کے وجود کو نقصان نہیں پہنچا سکتی لیکن اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی ہے کہ یہ نقصان رسانی پورے ملک وقوم کے لیے کئی پہلوؤں سے نقصان دہ ثابت ہوگی۔

ملک وقوم کی سا لمیت وطاقت کے لیے ضروری ہے کہ اس کی آبادی کے مختلف طبقات میں میل جول، تعاون اور ہم آہنگی ہو اور وہ اسی صورت میں ہوگا کہ ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھیں اور اپنے فرقہ کے فائدہ کے لیے دوسرے فرقہ کے ساتھ حق تلفی اور نقصان رسانی کا عمل اختیار نہ کریں۔ کئی صدیوں سے قائم وجاری اور حکومت وتاریخ کے ریکارڈوں میں تسلیم کی جانے والی مسجد کو محض خواہش پر ہندو عبادت گاہ بنا دینے کی کوشش صرف تلخی، ٹکراؤ اور ملک کی ہم آہنگی کو تباہ کرنے کے سوا کچھ اور نتیجہ پید انہ کر سکے گی۔

گجرات میں مسلمانوں کو جس بربریت کے ساتھ مارا، لوٹا اور تباہ کیا گیا ہے، اس کو سن کر اور دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ ظلم کی دردناک مثال ہے۔ ظلم ایسا انسانی جرم ہے جس پر اللہ رب العالمین کی گرفت جلد ہوتی ہے۔ اس ظلم کا نتیجہ بھی سخت ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔ اس کی گرفت اور سزا سخت ہوتی ہے۔ کوئی تعجب کی بات نہ ہوگی کہ گجرات کے ظالموں کو اپنے ظلم کا نتیجہ سخت دیکھنا پڑے۔

مسلمانوں کو اس سلسلے میں اپنے پروردگار سے رحمت کی دعا اور حالات کا مقابلہ کرنے میں دانش مندی اور دستور وجمہوری قدروں کے ساتھ طریقہ کار کاپابند رہنا ان کے لیے کامیابی کی راہ استوار کرے گا۔ امید ہے کہ ملک کے دونوں فریق اگر جلد نہیں تو بدیر ہی سمجھ داری کی راہ کو اپنائیں گے۔ موجودہ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئندہ کے خطرات کے مقابلے کے لیے مناسب حکمت عملی اختیارکریں گے اور موجودہ المیہ میں نقصان اٹھانے والے اپنے بھائیوں کے ساتھ جو ہمدردی قابل عمل ہے، اختیار کریں گے اور گجرات میں جو ریلیف کا کام ہو رہا ہے، ا س میں حسبِ استطاعت پورا حصہ لیں گے۔

(بہ شکریہ تعمیر حیات لکھنؤ)

دورِ جدید کے چند اجتہاد طلب مسائل

ڈاکٹر محمود احمد غازی

اسلامی علوم وفنون کی تدوینِ نو کا کام ایک ہمہ پہلو تعلیمی اور فکری جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔ اس جدوجہد میں بعض نئے مسائل پر اجتہادی نقطہ نظر سے غور وخوض بھی شامل ہے اور بعض اجتہادی آرا پر ازسرنو ناقدانہ نظر ثانی بھی ناگزیر ہے۔ دور جدید نے بعض ایسے مسائل ومعاملات ہمارے سامنے پیش کر دیے ہیں جو سلف کے سامنے نہیں تھے اس لیے ماضی میں مجتہدین امت اور مفکرین اسلام کو ان پر کوئی رائے قائم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ 

مثال کے طور پر ایک کثیر العناصر (Pluralistic) معاشرے میں اسلام کا کردار کیاہے اور کیا ہونا چاہیے؟ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو بیسویں صدی کے اواخر میں سامنے آیا۔ بالخصوص مجاہدین افغانستان کے ہاتھوں سوویت یونین کی تباہی وبربادی اور بالآخر کمیونزم کے زوال کے نتیجے میں جو یک قطبی دنیا سامنے آئی تو اس مسئلہ کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا۔ اب ایک طرف تو مغرب کے بالادست فاتحین کی کوشش یہ ہے کہ تاریخ کے خاتمے کے اعلانات اور تہذیبوں کے تصادم کے پردوں میں ایک یک عنصری نظام دنیا پر مسلط کر دیں اور دوسری طرف کثیر العناصر نظاموں کی تلاش کے نام پر دوسروں کے معاملات میں مداخلت کا جواز پیدا کریں۔ ان حالات میں مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ قرآن وسنت کی نصوص اور فقہاء اسلام کی تصریحات کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کا تعین کریں کہ ایک مسلم معاشرہ میں دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں کی بقا کیونکر اور کن حدود کے اندر رہ کر ہو سکتی ہے اور ایک غیر مسلم معاشرے میں اسلامی ثقافت اور اسلامی تمدن کا تحفظ کیسے کیا جا سکتا ہے؟

آج دنیا کا کوئی بڑا شہر ایسا نہیں ہے جہاں مسلمانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ نہ ہو رہا ہو، جہاں آئے دن مسلم تنظیمیں قائم نہ ہو رہی ہوں، جہاں مسجدیں اور اسلامی مراکز پھل پھول نہ رہے ہوں، جہاں قدیم اور جدید مسلمانوں کے مابین تفاعل نہ ہو رہا ہو۔ ان شہروں میں تیزی سے پھیلنے والی مسلم آبادیاں اپنے آپ کو سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی طور پر منظم کر رہی ہیں۔ مشرق ومغرب کے غیر مسلم ممالک میں بسنے والے یہ لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلم نوجوان اپنے تشخص کا تحفظ اور اپنی شخصیت کا اظہار چاہتے ہیں۔ ان حالات میں ان کو آئے دن نت نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شریعت اسلامی کی رو سے ان مسائل کا حل کیا ہے؟ ان سب سوالات کا شافی جواب آج کے اہل علم کے ذمہ ایک قرض اور فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ ماضی میں یہ صورت حال اتنی شدید اور وسیع نہیں تھی جتنی آج ہو چکی ہے۔ اس کی شدت اور وسعت میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر آنے والا دن ایک نیا مسئلہ لے کر طلوع ہوتا ہے۔

ہماری قدیم فقہی کتابیں اسلام کے دور عروج میں مرتب ہوئیں۔ مجتہدین اسلام نے اسلامی ریاست، اسلامی تہذیب، اسلامی ثقافت، اسلامی معاشرہ اور اسلامی زندگی کے ایسے مسائل تو نہایت باریک بینی اور دقت نظر سے مرتب کر دیے جو مسلمانوں کو اپنے دور عروج میں پیش آئے یا جن سے مسلمانوں کو مسلم ماحول میں واسطہ پڑتا ہے۔ رہے وہ مسائل جو ایک مسلم اقلیت کو پیش آ سکتے تھے یا غلامی کی زندگی گزارنے والے مسلمانوں کو پیش آ سکتے تھے، ان سے فقہاء اسلام کو زیادہ اعتنا کرنے کا نہ موقع ملا اور نہ اس کی ضرورت پیش آئی۔ اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب مسلمانوں کو سیاسی زوال کا سامنا کرنا پڑا تو یہ وہ زمانہ تھا جب فقہ اسلامی بھی ایک طرح کے تعطل کا شکار تھی اور دور انحطاط سے گزر رہی تھی۔ اجتہاد کا سلسلہ تقریباً بند ہو چکا تھا اور علماء اسلام بالعموم دور انحطاط میں لکھی ہوئی فقہی کتابوں اور متون کی شرحوں اور حاشیوں کے پڑھنے پڑھانے میں مصروف تھے۔ ان حالات میں مغربی ممالک میں جا کر بسنے والے مسلمانوں کی راہ نمائی کا کوئی خاص سامان فراہم نہ ہوا اور یہ لوگ مختلف مغربی معاشروں میں جا جا کر گم ہوتے رہے۔ آج نئی تحقیقات اور تاریخی اکتشافات سے ان لاتعداد مسلم آبادیوں کا پتہ چل رہا ہے جو امریکہ، آسٹریلیا، برازیل اور ارجنٹائنا جیسے بڑے ممالک کے سمندروں میں گم ہو گئیں۔ اگر اٹھارویں صدی کے اوائل ہی سے کسی فقہ الاقلیات پر غور وخوض کی داغ بیل ڈال دی جاتی اور ایسے غیر موافقانہ ماحول میں مسلم وجود کے احکام پہلے سے مرتب شدہ موجود ہوتے تو شاید یہ مسلمان آبادیاں یوں آسانی اور تیزی سے گم نہ ہوتیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ آج فقہاء اسلام اور علماء امت کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ ان بدلتے ہوئے حالات میں پیش آنے والے سوالات اور نت نئی مشکلات کا ایسا قابل عمل حل پیش کریں جو غیر مسلم ماحول میں مسلم وجود کے تحفظ اور بقا کا ضامن ہو۔

اس معاملے کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آج کے حالات کی مناسبت سے مسلم معاشرہ اور مسلم ریاست کی تحدید نو کی جائے اور جدید معروضی حقائق اور فکری مباحث کے پس منظر میں یہ واضح کیا جائے کہ اسلامی معاشرے کی تعریف کیا ہے اور اسلامی ریاست آج کے سیاق وسباق میں کس ریاست کو کہا جائے گا۔ اس بات کی ضرورت اس لیے پیش آ رہی ہے کہ فقہاء اسلام نے آج سے کم وبیش ایک ہزار دو سو سال قبل دار الاسلام، دار الحرب اور دار الصلح وغیرہ کی جو حد بندیاں تجویز کی تھیں، وہ آج کے زمینی حقائق کی روشنی میں اجنبی معلوم ہوتی ہیں۔ خود فقہاء اسلام کو ابتدائی دو تین صدیوں میں ہی ان تقسیمات پر کئی بار ازسرنو غور وخوض کرنا پڑا۔ دوسری صدی ہجری کے نصف اول کے زمینی حقائق کی روشنی میں امام ابو حنیفہؒ (متوفیٰ ۱۵۰ھ) کے فہم اسلام کی رو سے روئے زمین کو صرف دو حصوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے تھے یعنی دار الحرب اور دار الاسلام۔ لیکن جلد ہی امام شافعیؒ (متوفیٰ ۲۰۴ھ)بلکہ خود امام ابو حنیفہؒ کے تلامذہ کو اس تقسیم پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور انہوں نے دار الاسلام اور دار الحرب کی دوگانہ تقسیم کے مابین دار العہد اور دار الصلح کی درمیانی تقسیمیں تجویز کرنا ضروری سمجھا۔ کچھ اور بعد کے فقہا نے دار العدل، دار البغی اور ایسی ہی دوسری تقسیموں کی ضرورت محسوس کی۔ آج کے بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں جدید زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ان تمام تقسیموں پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کوئی ایک ملک نہ دنیا سے بالکلیہ لاتعلق ہو کر رہ سکتا ہے اور نہ کسی ملک سے تعلق کی وہ نوعیت ہو سکتی ہے جو فقہاء اسلام نے دار الحرب کے حوالے سے سوچی تھی۔ یہاں تک کہ جن ممالک سے مسلمان عملاً برسر جنگ ہیں (مثلاً ہندوستان، اسرائیل، روس اور فلپائن) ان کو بھی کلی طور پر دار الحرب قرار دینا اس لیے مشکل ہے کہ فقہائے اسلام نے اس وقت دار الحرب کی جو شرائط بیان کی تھیں، ان میں سے کئی شرائط ان ممالک میں نہیں پائی جاتیں۔ اسی طرح کئی ایسے ممالک ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، جہاں مسلمانوں کی خود مختار حکومتیں بھی ہیں، جہاں انہیں مذہبی مراسم اور مذہبی تعلیم کی آزادی بھی حاصل ہے لیکن وہ خود کو آئینی طور پر سیکولر یعنی لامذہبی ریاست قرار دیتے ہیں۔ ان کو نہ شاید دار الاسلام کے زمرہ میں رکھا جا سکتا ہے اور نہ غالباً ان کو دار الحرب قرار دیا جا سکتا ہے۔

یہ اور ا س طرح کے بہت سے مسائل ایسے ہیں جن کے پیش نظر ایک نئی تقسیم کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ قرآن مجید اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام اور نصوص اور فقہاء اسلام کے متفق علیہ اجتہادات کو سامنے رکھتے ہوئے ان حدود کا آسانی سے تعین کیا جا سکتا ہے جن کے ذریعے سے جدید بین الاقوامی تعلقات اور میل جول کے معاملات کو نئے انداز سے منظم کیا جا سکے۔

اسی طرح کا ایک اور مسئلہ گزشتہ چند سالوں کے درمیان ہونے والی بحثوں کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ یہ بحثیں جو مشہور امریکی فضلا سموئیل ہنٹنگٹن اور فوکویاما کی تحریروں سے شروع ہوئی تھیں، اس وقت دنیا میں بحث ونظر کا موضوع بنی ہوئی ہیں۔ ہنٹنگٹن نے تہذیبوں کے تصادم کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، اس نے مستقبل میں ممکنہ تہذیبی جنگ یا کم از کم کشمکش کے بارے میں مسلمانوں کے لیے اہمیت رکھنے والے متعدد سوالات اٹھائے ہیں۔ تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کا رویہ کیا ہوگا؟ جس چیز کو اسلامی تہذیب کہا جاتا ہے، اس کے تحفظ اور بقا کے لیے مسلمانوں کو کس حد تک جانا چاہیے؟ کیا اسلامی تہذیب کے مادی اور فنی مظاہر (مثلاً تاج محل اور الحمرا) اسی طرح دفاع کے مستحق ہیں جس طرح اسلامی تہذیب کے فکری اور تعلیمی امتیازات (مثلاً اسلامی علوم، کلام اور اصول فقہ وغیرہ)؟ تہذیبوں کے اس ممکنہ تصادم یا کشمکش میں مذاہب کی روایتی تقسیم (مذاہب اہل کتاب، شبہ اہل کتاب اور غیر اہل کتاب) کی حیثیت کیا ہوگی؟ تہذیبوں کے اس تصادم کے دوران مسلمانوں کی ذمہ داری کیا ہوگی؟ اس باب میں کیا مسلم حکومتوں، مسلم عوام اور مسلم اقلیتوں کی ذمہ داریوں کے مابین فرق کیا جائے گا؟ اگر تہذیبوں کا یہ تصادم شروع ہوا تو دنیائے اسلام میں اس وقت قائم قومی ریاستوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ قومی ریاستوں اور تصور امت کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کی کیا صورت ہوگی؟ دنیائے اسلام کے وہ علاقے جہاں بہت سے لوگ خود کو مغربی تہذیب کا تسلسل قرار دیتے ہیں، ان کا طرز عمل اس تصادم کے دوران میں کیا ہونا چاہیے؟ یہ اور ایسے بے شمار سوالات ہیں جو ایک اجتہادی بصیرت کے متقاضی ہیں۔ ان سوالات کا جواب نہ محض فقہی اسلوبِ استدلال سے کام لے کر دیا جا سکتا ہے اور نہ محض متکلمین اسلام کی تحریروں سے۔ اس کام کے لیے نہ صرف قرآن مجید پر گہری نظر اور پیغام قرآن میں عمیق بصیرت کی ضرورت ہے بلکہ فکر اسلامی میں مہارت، تصوف اور کلام سے واقفیت اور تاریخ اسلام پر گہری نظر کے ساتھ ساتھ جدید مغربی افکار بالخصوص فلسفہ تاریخ اور معرکہ مذہب وسائنس کی تاریخ اور نشیب وفراز سے ناقدانہ واقفیت بھی ضروری ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم میں اس کی گنجائش ہے کہ ایسے اصحاب بصیرت پیدا ہو سکیں جو اس طرح کے چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے میں امت مسلمہ کی راہ نمائی کر سکیں؟ اکیسویں صدی میں مسلمانوں کے نظام تعلیم کا کم از کم ایک بنیادی ہدف ایسے افراد کار کی تیاری بھی ہونا چاہیے۔

اسلامی علوم وفنون کی تدوین نو کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ جو جدید دینی تحریکات اور تحریکی فکر کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، وہ جہاد اور دعوت کے رشتہ شکستہ کی بازیابی ہے۔ بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائیوں میں جب پہلی جنگ عظیم میں کام یابی کے بعد سلطنت برطانیہ کا آفتاب نصف النہار پر معلوم ہوتا تھا، جب لینن اور اسٹالن کی سربراہی میں کمیونزم کی جبروتی طاقت سامنے آئی، جب ہٹلر اور مسولینی کی قائم کردہ کلیت پسندانہ اور مستبدانہ سلطنتیں وجود میں آئیں تو دنیائے اسلام میں بہت سے حساس اور مخلص خادمین اسلام نے یہ محسوس کیا کہ دنیائے اسلام کی کمزوری اور ادبار کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ امت مسلمہ کی پشت پناہی کے لیے کوئی ایسی بڑی سلطنت موجود نہیں جو مذکورہ بالا ریاستوں کے مقابلے میں کھڑی ہو سکے اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسلام کے موقف کو بیان کر سکے۔ اس احساس نے جس کی بنیادیں اخلاص اور دردمندی کے خمیر سے اٹھی تھیں، متعدد طاقت ور اسلامی تحریکات کو جنم دیا۔ ان تحریکوں کی صفوں سے بہت سے ایسے اہل قلم اور ارباب صحافت سامنے آئے جنہوں نے ملت اسلامیہ کی نشأۃ ثانیہ کی لازمی شرط اور خشت اول کے طور پر اسلامی ریاست کے وجود کو لازمی قرار دیا اور یوں بیسویں صدی کے وسط سے لے کر آئندہ کم وبیش پچاس سال کے دوران میں یہ بحث معاصر اسلامی فکر کی شاید سب سے اہم بحث بن گئی جس نے دنیائے اسلام میں مغربی تعلیم یافتہ نوجوانو ں کی ایک بہت بڑی تعداد کو متاثر کیا اور اس طرح احیاء اسلام اور اقامت دین کی اصطلاحیں تاسیس ریاست کے مترادف بن گئیں۔ ان مباحث میں جہاد اور دعوت کی اصطلاحات کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا لیکن اکثر وبیشتر یہ دونوں اصطلاحات ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر استعمال ہوئیں حالانکہ یہ دونوں اصطلاحات مسلمانوں کی دینی ذمہ داریوں کے دو مختلف مراحل کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اسلامی تعلیم کی بنیادی روح ایمان کامل، تعلق مع اللہ اور اخروی کامیابی کا حصول ہے۔ اسلام کا مزاج داعیانہ ہے، فاتحانہ نہیں۔ وہ سنگ وخشت کو فتح کرنے سے نہیں، قلب وروح کو فتح کرنے سے غرض رکھتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے معاصر حکمرانوں کو جتنے بھی تبلیغی والانامے تحریر فرمائے، ان میں بہت سے والا ناموں میں یہ بات قدر مشترک کی حیثیت رکھتی تھی کہ اگر تم اس پیغام کو قبول کر لو تو تمہاری حکومت برقرار رہے گی اور تمہارا اقتدار قائم رہے گا۔ اسلامی دعوت کی تاریخ میں یہ بات انتہائی اہمیت رکھتی ہے کہ آغاز وحی سے لے کر ریاست مدینہ کے قیام اور سنہ ۲ ہجری میں میثاق مدینہ کی تحریر وتدوین تک کا یہ سارا پندرہ سالہ عمل ایک انتہائی پرامن تبدیلی کے عمل سے عبارت تھا۔ بغیر ایک قطرہ خون بہائے اور تلوار ہاتھ میں لیے ایک مسلم معاشرہ اور مسلم ریاست وجود میں آ گئی۔ جہاد بالسیف کی اجازت اس وقت دی گئی جب اس ریاست پر بیرونی حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ دعوت اور جہاد کے مابین اس نہایت اہم تاریخی ترتیب کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام میں اصل دعوت ہے اور جہاد بالسیف اس کا ایک ناگزیر مرحلہ۔ یوں بھی قرآن مجید کی متعلقہ نصوص کی رو سے جہاد کی بہت سی قسموں (جہاد بالمال، جہاد بالقرآن، جہاد بالنفس) کے ساتھ جہاد بالسیف محض ایک مرحلہ ہے، اگرچہ وہ اپنی اہمیت اور فضیلت کے اعتبار سے بقیہ تمام مراحل سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

بیسویں صدی کی اسلامی تحریکات میں جو مزاج تیار ہوا اور جو ادب سامنے آیا، اس میں دعوت اور جہاد کے ان مراحل اور ترتیب کا لحاظ رکھنے کی، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شعوری کوشش نہ کی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دعوت کا خالص نبوی اسلوب پس منظر میں چلا گیا اور مغربی انداز کے سیاسی عمل اور سیاسی تنظیم نے اس کی جگہ لے لی۔ سیاسی سرگرمیوں کا یہ انداز خالص دعوتی انداز سے چونکہ خاصا مختلف تھا اس لیے جب ان سرگرمیوں کو دینی مکالمہ اور دینی محاورہ میں بیان کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس میں جہاد کی اصطلاح زیادہ موزوں اور قریب الفہم محسوس ہوئی اس لیے اس کو بلاتکلف استعمال کیا جانے لگا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاد کے وہ تمام مستلزمات جو جہاد بالسیف کے ساتھ خاص ہیں، روزہ مرہ کے سیاسی عمل کا لازمی حصہ سمجھے جانے لگے اور یوں دینی تحریکات کے پرجوش کارکنوں کے ذہنوں میں معمول کا مغربی انداز کا سیاسی عمل ایک جہادی سرگرمی بن گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب اس میں شدت پیدا ہوتی گئی تو اس کا اظہار شدت پسندانہ اور بعض دفعہ دہشت پسندانہ انداز میں ہونے لگا۔ گزشتہ چوتھائی صدی کے دوران میں مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک پھیلی ہوئی بہت سی اسلامی تحریکات کے کارکنوں کی شدت پسندی کے اسباب اسی فکری پس منظر میں تلاش کیے جانے چاہییں۔

ان حالات میں مسلمان اہل علم اور مفکرین کی یہ ذمہ داری ہے کہ جہاد اور دعوت کے گرد گھومنے والے اس نئے علم کلام کا ازسرنو جائزہ لیں اور یہ واضح کریں کہ دعوت اور جہاد کا رشتہ کیا ہے اور یہ کہ دور جدید کے مغربی انداز کے عام سیاسی عمل کی اسلام میں کیا حیثیت ہے اور یہ کہ اس عمل کو کب اور کس طرح دعوتی رنگ دیا جانا چاہیے اور کب اور کن حالات میں اس عمل کو جہاد بالسیف میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

جہاد کے سیاق وسباق میں جہاں دعوت وجہاد کے رشتہ شکستہ کی بحالی ضروری ہے اور جہاں اسلام کے داعیانہ (بمقابلہ فاتحانہ) کردار کی اہمیت پر زور دینے کی ضرورت ہے، وہاں جہاد اصغر (جہاد بالسیف) اور جہاد اکبر (جہاد بالنفس) کا تعلق یاد دلانا بھی ضروری ہے۔ عدل، وفاء عہد، احساس ذمہ داری، نظم، سمع وطاعت اور اس طرح کے بہت سے احکام جہاد کے لازمی عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان عناصر کے بغیر اگر تلوار اٹھائی جائے گی تو وہ فتنہ اور افراتفری پیدا کرے گی اور اس سے جہاد کے تقاضے پورے نہ ہوں گے۔ تلوار آخری چارہ کار ہے۔ اس سے پہلے دعوت اور اس کے مراحل، تالیف قلب اور اس کے مراحل اور دشمن پر پرامن دباؤ کے مراحل کا گزرنا ضروری ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ جدید اسلامی فکر کے نمائندہ بعض انتہائی محترم اسلامی مفکرین کی تحریروں سے جو یک طرفہ رجحان جنم لے رہا ہے، اس میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس عدم توازن کی بڑی وجہ سلف کی احتیاط، توازن اور جامعیت کا نظروں سے اوجھل ہو جانا ہے۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے نئے معاملات ہیں جو سنجیدہ اور گہرے غور وخوض کے متقاضی ہیں۔ اسلامی علوم وفنون کی تدوینِ نو کا عمل ان بنیادی تصورات ومفاہیم کی تصحیح وتوضیح کے بغیر ممکن نہ ہوگا۔

یورپ میں چرچ اور اسٹیٹ کی علیحدگی۔ ایک جائزہ

سلطان احمد اصلاحی

عیسائیت کبھی فکر ونظر کا کوئی مکمل نظام نہیں رہی جس کی بنیاد پر سماج کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل کی جا سکے۔ قوم یہود کے اندر جو زرپرستی اور دنیا طلبی پیدا ہو گئی تھی، اس کے علما ورہبان جس طرح روح شریعت کو چھوڑ کر اس کے الفاظ سے کھیلنے لگے تھے اور اپنے دینی منصب کو کلیتاً جلبِ دنیا کا ذریعہ قرار دے رکھا تھا، حضرت مسیح علیہ السلام ایک عارضی وقفے کے لیے انہی کی اصلاح کے لیے بھیجے گئے تھے جس کی صراحت وہ خود ان لفظوں میں کرتے ہیں:

’’میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔‘‘ (متی باب ۱۵:۲۴)

آں جناب کی ان تعلیمات وہدایت سے بھی صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ کی بعثت خاص قوم یہود کے لیے ہوئی تھی اور آپ کی تمام تر کوششیں ان کے بگاڑ کو دور کرنے اور انہیں راہ راست پر لگانے پر مرکوز تھیں:

’’تم سن چکے ہو کہ تم سے کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی دہنے گال پر طمانچہ مارے‘ دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے اور جو کوئی تجھ پر نالش کر کے تیرا کرتا لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لینے دے اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے‘ اس کے ساتھ دو کوس چلا جا۔ جو کوئی تجھ سے مانگے‘ اسے دے اور جو تجھ سے قرض چاہے‘ اس سے منہ نہ موڑ۔‘‘(متی باب ۵: ۳۸۔۴۲)

’’لیکن میں تم سننے والوں سے کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو۔ جو تم سے عداوت رکھیں‘ ان کا بھلا کرو۔ جو تم پر لعنت کریں‘ ان کے لیے برکت چاہو۔ جو تمہاری تحقیر کریں‘ ان کے لیے دعا کرو۔ جو تیرے ایک گال پرطمانچہ مارے‘ دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے اور جو تیرا چوغہ لے‘ اس کو کرتا لینے سے بھی منع نہ کر۔ جو کوئی تجھ سے مانگے‘ اسے دے اور جو تیرا مال لے لے‘ اس سے طلب نہ کر۔‘‘ (لوقا باب ۶: ۲۷۔۳۱)

’’مگر تم اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور بھلا کرو اور بغیر ناامید ہوئے قرض دو تو تمہارا اجر بڑا ہوگا اور تم خدا تعالیٰ کے بیٹے ٹھہرو گے کیونکہ وہ ناشکروں اور بدوں پر بھی مہربان ہے۔ جیسا تمہارا باپ رحیم ہے‘ تم بھی رحم دل ہو۔‘‘ (ایضاً آیت ۳۵‘۳۶)

قومِ یہود جسے اللہ تعالیٰ نے ایک خا ص وقت تک کے لیے امامت عالم کے منصب پر فائز کیاتھا اور اسے اپنے بے پایاں احسانات سے نوازا تھا‘ اس کی ہدایت وراہنمائی کے لیے تورات کی صورت میں ایک جامع مجموعہ قوانین عطا کیا تھا۔ بعد میں وقت گزرنے کے ساتھ اس کے اندر خرابی اور بگاڑ کی جو صورتیں پیدا ہوئیں‘ اس کا نمایاں ترین مظہر اس قوم کا فقہی جمود تھا۔چنانچہ اس نے روح شریعت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس کے ظاہر کو سب کچھ سمجھ لیا۔ بے جا لفظی موشگافیاں کر کے خدائی شریعت کو کچھ کا کچھ بنا دیا اور احکام کے حقیقی منشا کے علی الرغم ان کا ہیولیٰ ہی بالکل بدل کر رکھ دیا جس کے نتیجے میں وہ ان بے شمار جکڑ بندیوں میں پھنس گئے جن کا خدائی مرضی سے کوئی واسطہ نہ تھا اور بہت سی ان بندشوں سے وہ آزاد ہو گئے جن کا الٰہی شریعت انہیں پابند دیکھنا چاہتی تھی۔ قوم یہود کے سلسلہ انبیا کی آخری کڑی حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت توراتی شریعت میں پیدا ہوجانے والے اسی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے ہوئی تھی اور آپ کو ملنے والے مجموعہ احکام انجیل کی امتیازی حیثیت ہی یہ تھی کہ وہ اس قوم اور خاص کر اس کے علما ورہبان کی ظاہر پرستی کو ختم کر کے ان کے اندر روح شریعت کی پیروی کے جذبہ کو بیدار کرے۔ عہد نامہ جدید کا درج ذیل بیان اس حقیقت کا زندہ ثبوت ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام اپنی قوم کے فقیہوں اورفریسیوں کی حالت زار پر ماتم کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’اے ریا کار فقیہو اور فریسیو!تم پر افسوس کہ تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھتے ہو اور دکھاوے کے لیے نماز کو طول دیتے ہو۔‘‘ (متی باب ۲۳:۱۴)

’’اے ریاکار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس کہ پودینہ اور سونف اور زیرہ پر دہ یکی دیتے ہو پر تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔ لازم تھا کہ یہ بھی کرتے اور وہ بھی نہ چھوڑتے۔ اے اندھے راہ بتانے والو‘ جو مچھر کو تو چھانتے ہو اور اونٹ کو نگل جاتے ہو۔

اے ریاکار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس کہ پیالے اور رکابی کو اوپر سے صاف کرتے ہو مگر وہ اندر لوٹ اور ناپرہیزگاری سے بھرے ہیں۔ اے اندھے فریسی! پہلے پیالے اور رکابی کو اندر سے صاف کر تاکہ اوپر سے بھی صاف ہو جائیں۔

اے ریاکار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کے مانند ہو جو اوپر سے تو خوب صورت دکھائی دیتی ہیں مگر اندر مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہیں۔ اسی طرح تم بھی ظاہر میں تو لوگوں کو راست باز دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں ریاکاری اور بے دینی سے بھرے ہو۔‘‘

(ایضاً‘ آیات ۲۳ تا ۲۸)

’’پھر اس نے اپنی تعلیم میں کہا کہ فقیہوں سے خبردار رہو جو لمبے لمبے جامے پہن کر پھرنا اور بازاروں میں سلام اور عبادت خانوں میں اعلیٰ درجے کی کرسیاں اور ضیافتوں میں صدر نشینی چاہتے ہیں اور وہ بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھتے ہیں اور دکھاوے کے لیے نماز کو طول دیتے ہیں۔ ان ہی کو زیادہ سزا ملے گی۔‘‘ (مرقس باب ۱۲: ۳۸۔ ۴۰)

لیکن سانحہ یہ پیش آیا کہ قوم یہود کی عظیم اکثریت نے حضرت مسیح علیہ السلام کا انکار کیا اور اپنے کو انجیل سے بالکل بے تعلق کر لیا۔ دوسری طرف جن لوگوں نے آں جناب کی پیروی اختیار کی‘ وہ آپ کے حکم اور مرضی کے علی الرغم دوسری انتہا پر جا پہنچے کہ انہوں نے انجیل ہی کو سب کچھ سمجھ لیا اور توراۃ کے منکر ہو گئے جبکہ اصل صورت یہ تھی کہ تورات اور انجیل دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والی تھیں۔ اس دوگونہ مجموعہ شریعت کی پیروی ہی میں اہل کتاب کی نجات مضمر تھی اور اسی کے ذریعے سے وہ زندگی میں جادۂ اعتدال پر قائم رہ سکتے تھے۔ اہل تورات جس فقہی جمود اور لفظی جکڑبندیوں کے گرداب میں پھنس گئے تھے‘ انجیل کے بغیر وہ اس سے نکلنے میں کام یاب نہیں ہو سکتے تھے۔ اس طرح انجیل میں حکمت وموعظت اور روح شریعت کی بھرپور تشریح وتفصیل تو تھی لیکن توراتی مجموعہ قانون کے بغیر اس کے لیے زندگی کی گاڑی کو زیادہ دور تک اعتدال وتوازن کے ساتھ چلانا بہت مشکل تھا۔ لیکن تفصیلات سے قطع نظر ہوا یہی کہ انجیل تورات سے کٹ گئی اور جس طرح اہل کتاب کے لیے انجیل سے روگردانی کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ وہ روح شریعت سے عاری ہو کر نری ظاہر پرستی اور دنیا طلبی اور جلب منفعت میں لگ گئے‘ پیروان مسیح کے لیے توراۃ کے انکار کا انجام یہ ہوا کہ ان کے پاس ایک بالکل کٹی پھٹی شریعت باقی رہ گئی جو واقعہ یہ ہے کہ سماج کی تعمیر اور انسانی آبادی کے مسائل کے حل کی عظیم ذمہ داری سے کسی بھی صورت عہدہ برآ نہیں ہو سکتی تھی۔ اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہوا کہ حضرت مسیح کی وفات پر زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ ۳۲۵ء کی نیسیا کی کونسل میں مسیحیت پر پال کی اجارہ داری قائم ہو گئی جس کے نتیجے میں اس کی صورت ہی مسخ ہو گئی۔ توراۃ سے کٹ جانے کے سبب اس کے اندر پیدا ہوجانے والی مذکورہ خامی اور کمی سے قطع نظر اس کی ہم آہنگی بالکل خاک میں مل گئی اور وہ تضادات کا ایک مجموعہ بن کر رہ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ عہد نامہ جدید میں اگر حضرت مسیح علیہ السلام ایک طرف اپنے پیرووں کو اس دعا کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں کہ آسمان کی طرح زمین پر بھی خدا کی بادشاہت قائم ہو:

’’پس تم اس طرح دعا کیا کرو کہ اے ہمارے باپ ‘ تو جو آسمان پر ہے‘ تیرا نام پاک مانا جائے۔ تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے‘ زمین پر بھی ہو۔‘‘ (متی باب ۶: ۹۔۱۰)

تو دوسرے مقام پر ہمیں ان کا یہ اعلان پڑھنے کو ملتا ہے:

’’میری بادشاہی اس دنیا کی نہیں۔‘‘ (یوحنا باب ۱۸:۳۶)

اس سے بھی آگے دوسری جگہ وہ صاف طور پر دین ودنیا کی تقسیم کا درس دیتے دکھائی دیتے ہیں:

’’پس جو قیصر کا ہے‘ قیصر کو اور جو خدا کا ہے‘ خدا کو ادا کرو۔‘‘ (متی باب ۲۲:۲۱)

اس کے علاوہ عہد نامہ جدید حکومت وقت کی پیروی کو بلالحاظ اس کے کہ وہ کس روش پر عمل پیرا ہے اور اس کا انداز کیا ہے‘ پیروان مسیح کے لیے لازم قرار دیتا ہے :

’’ہر شخص اعلیٰ حکومتوں کا تابع دار رہے کیونکہ کوئی حکومت ایسی نہیں جو خدا کی طرف سے نہ ہو اور جو حکومتیں موجود ہیں‘ خدا کی طرف سے مقرر ہیں۔ پس جو کوئی حکومت کا سامنا کرتا ہے‘ وہ خدا کے انتظام کا مخالف ہے اور جو مخالف ہیں‘ سزا پائیں گے۔‘‘ (رومیوں کے نام پولس رسول کا خط باب ۱۳: ۱۔۲)

اس تاکید کے ساتھ کہ:

’’سب کا حق ادا کرو۔ جس کو خراج چاہیے‘ خراج دو۔ جس کو محصول چاہیے‘ محصول‘ جس سے ڈرنا چاہیے‘ اس سے ڈرو۔ جس کی عزت کرنا چاہیے‘ اس کی عزت کرو۔‘‘ (ایضاً آیت ۷)

رومن ایمپائر کو پال (Paul) کی قائم کردہ اسی مسیحیت کا تجربہ ہوا اور چوتھی صدی عیسوی میں وہ ا س کا سرکاری مذہب قرار پا گئی۔ پانچویں صدی عیسوی میں حالات کی گردش سے رومن ایمپائر کے زوال کے بعد فطری طور پر اس کی وراثت اس کے حصے میں آئی۔ اپنی ان محدودیتوں اور کمیوں کے پیش نظر جن کا ابھی ذکر ہوا‘ مسیحیت کے لیے مناسب تو یہ تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ چھوٹے اور مختصر دائروں میں انسانی زندگی کے مسائل کے حل میں اپنے کو لگاتی اور حکومت وسلطنت کے جھمیلوں سے اپنے کو بالکل دور رکھتی لیکن مسیحیت کے علم برداروں کے لیے‘ جن کی نگاہیں رومن ایمپائر کی زبردست شان وشوکت کے سامنے خیرہ ہو چکی تھیں‘ اس کا سہارنا اور کمتر دائرے پر اپنے کو قانع بنانا ممکن نہ ہو سکا۔ چنانچہ اس کے بعد ذرا تاخیر کیے بغیر کلیسا نے اپنے کو رومی شاہنشاہی کے ڈھنگ پر منظم کرنا شروع کر دیا اور آٹھویں اور نویں صدی تک وہ پوری طرح کھل کر میدان میں آ گیا لیکن جیسا کہ اشارہ کیا گیا‘ پال کی مسیحیت اپنی محدودیت اور اپنے داخلی تضادات کے ساتھ حکومت وسلطنت کے لیے کوئی کامل اور ہم آہنگ نظام عمل عطا کرنے سے قاصر تھی‘ چنانچہ قطع نظر ان بے شمار ادارہ جاتی اور شعبہ جاتی امور ومسائل کے جن میں اس کا نمائندہ کلیسائے روم بری طرح رومن ایمپائر سے متاثر رہا اور بے چون وچرا اور بلا تامل انہیں اپنے ہاں اپناتا گیا، اس صورت حال نے سرزمین یورپ میں اسی وقت سے چرچ اور اسٹیٹ بالفاظ دیگر مذہب اور ریاست کا جھگڑا کھڑا کر دیا کہ اقتدار کا اصل سرچشمہ کون ہے؟ اپائے روم یا وقت کے سیکولر حکمران؟ جس کا سلسلہ آگے ہزار سال یعنی سترہویں اور اٹھارویں صدی تک جاری رہا جبکہ مختلف انقلابات کے نتیجے میں کلیسائی اور شاہی بساط الٹ کر دستوری حکومتیں وجود میں آتی ہیں جن کے اندر کھلے لفظوں میں مذہب کی معاملات دنیا سے بے دخلی کا اعلان کیا جاتا ہے اور یورپ اطمینان کا سانس لیتا دکھائی دیتا ہے کہ اب آئندہ اسے مذہب کے نام پر ظلم واستبداد کے شکنجے میں نہ کسا جا سکے گا۔ زمانہ مابعد میں اسی کی تقلید میں دنیا کے مختلف حصوں سے مذہب کی معاملات دنیا سے بے دخلی کی بات ہمارے سننے میں آتی ہے۔

چرچ اور اسٹیٹ کی علیحدگی

آج یورپ نے اسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیا ہے کہ مذہب کا معاملاتِ دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسی کے اثر سے دنیا کے بیشتر خطوں میں بھی اسے ایک مقبول عام تصور کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے لیکن آپ کو سن کر تعجب ہوگا کہ زیادہ دور نہیں‘ ابھی اٹھارویں صدی کے اختتام تک صورت یہ تھی کہ وہاں ’’بادشاہ بمرضی خدا‘‘ (King by the grace of God)کے لقب کے بغیر بادشاہوں کا نام لینے کی بھی کسی کی ہمت نہ تھی۔ اگلے زمانوں کی بات اپنی جگہ‘ اسی اٹھارویں صدی میں فرانس کے لوئیس چہاردہم (Louis XIV) اور انگلینڈ کے جیمز دوم (James II) نے ’’مرضی خدا‘‘ (The grace of God)کو ایک سیاسی عقیدے کے طور پر اپنایا اور اس کی بدولت اپنی کلیت پسندی (Absolutism) کے لیے وجہ جواز پیدا کی جس کی رو سے دیگر تمام انسانی حقوق مثلاً دولت‘ خاندان‘ پارلیمنٹ وغیرہ کی طرح بادشاہ کا یہ حق بھی ابدی اور من جانب اللہ تھا جسے کسی صورت چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس طرح بادشاہ کی شخصیت عام انسانی قانون کے دائرے سے بلند قرار پا گئی تھی۔ اس کے بعد ایسا ہوا کہ فرانس کی عمل داریوں (Estates) نے اس تصور کو قبول کرنے سے انکار کیا اور برطانوی پارلیمنٹ نے نسبتاً اور سختی سے اس کے خلاف آواز بلند کی۔ بالآخر انگلینڈ کے ۱۶۸۸ء اور فرانس کے ۱۷۸۹ء کے انقلابات کے نتیجے میں بادشاہوں کے اس تقدس اور ان کے من جانب اللہ ہونے کے تصور کو آخری طور پر مسترد کر دیا گیا۔

سرزمین یورپ میں عیسائیت کے قدم جمانے سے لے کر اٹھارویں صدی کے اختتام تک یہ مسئلہ کبھی زیر بحث آیا ہی نہیں کہ مذہب کا معاملات دنیا سے کوئی تعلق ہے‘ نہ ہونا چاہیے بلکہ سچ یہ ہے کہ کسی بھی ایسے شخص کے لیے جو اپنے ہوش وحواس بالکل کھو نہ چکا ہو‘ اس طرح کی بات اپنی زبان پر بھی لانے کی ہمت نہ تھی۔ اس وقت تک مذہب سے تعلق نہیں‘ مذہب سے لاتعلقی‘ بے دینی سب سے بڑا جرم تھی جس کا ارتکاب کرنے والا نہایت بد انجام سے دوچار ہوتا تھا ۔ وہاں اگر جھگڑا رہا ہے تو اس کا کہ دنیا پرمذہب عیسائیت کی حکومت کس ادارے کے ذریعے سے انجام پائے۔ چرچ اور پاپائیت کے ذریعے سے یہ کام انجام پائے یا یہ ذمہ داری سیکولر حکمرانوں کے سپرد ہونی چاہیے۔ اور کہنا چاہیے کہ عہد جدید کی پو پھٹنے تک یورپ بری طرح سے اس کشمکش کا شکار اور اس اختلاف ونزاع کی آماجگاہ رہا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا کہ یہی آویزش وچپقلش ہمیں یورپ کی تاریخ کا سب سے نمایاں باب نظر آتی ہے۔ خاص طور پر قرونِ وسطیٰ کے زمانے میں تو ایسا لگتا ہے کہ وہاں اس ایک کام کے سوا دوسرا کوئی کام ہی نہ تھا جس میں باشندگان یورپ کی قوتیں اور صلاحیتیں صرف ہوتیں جس کے لیے ان میں سے ہر فریق ’’کتاب مقدس‘‘ سے غذا حاصل کرتا تھا جو اس کے لیے‘ جیسا کہ ابھی اوپر تفصیل گزری‘ اس مقصد کی خاطر بھرپور مواد فراہم کرتی تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یورپ میں بارہویں صدی سے لے کر سولہویں صدی تک ’’سیاسی تصور‘‘ کی کل دوڑ اس نشانے تک محدود تھی کہ پاپائیت کا یہ دعویٰ کہ شہنشاہیت پر اسے بالادستی حاصل رہے‘ درست ہے یا نہیں۔ خاص طور پر نویں صدی سے لے کر گیارہویں اور بارہویں صدی تک یہ لڑائی اپنے شباب پر تھی جس میں دونوں فریق اپنے اپنے حق میں الگ الگ دلائل فراہم کر رہے تھے۔ کلیسا جس بنیاد پر اپنے لیے اس حق کا مدعی تھا‘ اس میں خاص بات یہ تھی کہ:

۱۔ چونکہ پوری بنی نوع انسانی ایک ہے اس لیے چرچ جس کی بنیاد براہ راست خدا نے رکھی ہے‘ ریاست کی ذمہ داری بھی صحیح معنوں میں اسی کی ہو سکتی ہے۔ خدائی فرمان کے ذریعے سے اسے یہ چیز حاصل ہوئی ہے۔ خدا جس کی ذات میں تمام دنیوی وروحانی اختیارات مرکوز ہیں‘ چونکہ یہ چیز قادر مطلق ذات کا اٹوٹ حصہ ہے اس لیے کسی صورت میں اس کے حصے بخرے نہیں کیے جا سکتے۔ اس ریاست کے سربراہ اصلاً تو حضرت مسیح علیہ السلام ہیں لیکن چونکہ وہ بنفس نفیس اس دنیا میں موجود نہیں اس لیے ضروری ہے کہ زمین پر ان کا ایک نمائندہ ہو جو عام انسانوں پر ان کے اقتدار کو بحال رکھ سکے۔ جناب مسیح کا یہ نمائندہ پوپ (Pope) ہے جو بیک وقت لوگوں کا پادری (Priest) بھی ہے اور ان کا بادشاہ (King) بھی۔ بادشاہ یعنی ان کا دنیوی اور روحانی شہنشاہ‘ ان کا قانون ساز (Law-giver) ان کا منصف (Judge) غرض یہ کہ وہ ہر پہلو سے سب سے بڑا اور زبردست ہے۔

۲۔ دونوں ہی تلواریں جن میں سے ایک روحانی اقتدار کی نمائندگی کرتی ہے‘ دوسری سیکولر اقتدار ہے‘ انہیں پہلے تو خدا نے پطرس (Peter)کو عطا کیا اور اس سے منتقل ہو کر یہ خیر پوپ تک پہنچی جو روئے زمین پر خدا کا نائب (Vicegerent of God) ہے۔ روحانی تلوار کو تو پوپ نے اپنے پاس باقی رکھا البتہ دنیوی تلوار کو اس نے سیکولر حکمرانوں تک منتقل کر دیا لیکن اس منتقلی کا مطلب یہ نہیں کہ یہ لوگ آزادانہ طور پر اس کے مالک ہو گئے۔ ان کی زیادہ سے زیادہ حیثیت یہ ہے کہ یہ کلیسا کے وکیل اور اس کے معتمد علیہ (Agent) ہیں۔ پوپ مالک تو دراصل بیک وقت روحانی اور سیکولر اختیارات دونوں کا ہے‘ البتہ عملاً استعمال وہ اپنے روحانی اختیار ہی کا کرتا ہے۔ بادشاہ اور سیکولر حکمران اپنے مناصب اور اپنے اختیارات بالواسطہ طور پر خدا سے اور بلاواسطہ پوپ سے حاصل کرتے ہیں اور اس بنا پر وہ اس کی رعایا (Vassals) ہیں ۔ بس اتنا ہے کہ پاپا کی رعایا میں شہنشاہ کو سب سے اونچا مقام حاصل ہے۔ اس کی تاج پوشی کی حلف برداری دراصل پوپ کو ایک طرح کا خراج عقیدت ہے۔ دنیوی اقتدار چونکہ چرچ کا عطا کردہ ہے اس لیے اس کا استعمال بھی چرچ کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ پوپ کو اس کا اختیار حاصل ہے بلکہ یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ سیکولر حکمرانوں کو براہ راست اپنے کنٹرول میں رکھے۔ کسی تکلف کے بغیر وہ شہنشاہی اقتدار کو ایک شخص سے ہٹا کر دوسرے شخص تک منتقل کر سکتا ہے۔ اپنی اس حیثیت میں دراصل وہ بادشاہ گر یابادشاہ کا انتخاب کنندہ (Imperial elector) ہے۔ شہنشاہیت میں جب کبھی کہیں خلا پیدا ہوگا‘ ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر اس کی نگرانی پوپ تک منتقل ہو جائے گی۔ پوپ کو اس کا بھی اختیار ہے کہ وہ عام حکمرانوں کے خلاف لوگوں کی شکایات کی سماعت کر سکے‘ انہیں معزول کر دے اور ان کی رعایا کو ان کی وفاداری سے الگ قرار دے دے۔

۳۔ مادہ کے بالمقابل روح کا درجہ بڑھا ہوا ہے اس لیے فطری طور پر عوامی اقتدار کے مقابلے میں روحانی اقتدار زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور بجا طور پر اسے زیادہ عزت واحترام کا مقام حاصل ہونا چاہیے۔ چرچ روح کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ ریاست کو صرف اس کے قالب کی نمائندگی حاصل ہے۔ چرچ سورج کے مانند ہے‘ ریاست کی حیثیت اس کے مقابلے میں چاند کی ہے۔ اس بنا پر عوامی اقتدار (Lay authority) روحانی اقتدار سے مستعار ہے‘ اسی کے ذریعے سے اسے قوت نافذہ ملتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس کا تمام تر دارومدار اسی پر ہے۔

اس کے برعکس سیکولر حکمران اپنے لیے جس دلیل کی بنیاد پر اس حق کے دعوے دار تھے‘ اس میں نمایاں بات یہ تھی کہ:

۱۔ سیکولر اقتدار چرچ کا تفویض کردہ نہیں بلکہ یہ چیز براہ راست خدا کی عطا کردہ ہے۔ بادشاہ روئے زمین پر خدا کے نائب اور خلیفہ ہیں اور اس بنا پر وہ صرف اسی کے روبرو جواب دہ ہیں۔ ریاست کو اسی طرح من جانب اللہ (Divine) ہونے کی سند حاصل ہے جیسی کہ چرچ کو ہے اور اس بنا پر وہ چرچ کی تابع فرمان نہیں ہو سکتی ہے۔

۲۔ شہنشاہیت کے علم بردار (Imperialists) پاپائیت کی بالادستی سے اپنے کو آزاد رکھنے کے لیے خاص طور پر کتاب مقدس کو بنیاد بناتے تھے اور عہد نامہ قدیم وجدید ہر ایک سے اس سلسلے میں دلائل فراہم کرتے تھے۔ عہدنامہ جدید سے بالخصوص وہ پال کے اس قول کا حوالہ دیتے تھے جس کا اس سے پہلے ذکر آ چکا ہے کہ :

’’کوئی حکومت ایسی نہیں جو خدا کی طرف سے نہ ہو اور جو حکومتیں موجود ہیں‘ خدا کی طرف سے مقرر ہیں۔ پس جو کوئی حکومت کا سامنا کرتا ہے‘ وہ خدا کے انتظام کا مخالف ہے۔‘‘

کتاب مقدس کے اسی طرح کے فرامین کی بنیاد پر سیکولر حکمرانوں کا رعایا سے مطالبہ تھا کہ وہ ان کی غیر مشروط وفادار رہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ خدا کی طرف سے مقرر ہونے کے سبب سے وہ صرف خدا کے حضور جواب دہ ہیں اور اس بنا پر پاپائیت کے اختیار سے بالکل آزاد ہیں اور ان کے اوپر اسے کسی قسم کا اثر واقتدار دکھانے کا حق نہیں ہے۔

اس مرحلے پر جن لوگوں نے مختلف تشریحات کے ساتھ کلیسا کی حمایت کی‘ ان میں سے چند خاص نام یہ ہیں: ہیلڈی برانڈ یا گریگوری ہفتم (Hildebrand or Gregory VII, 1073-1080)‘ سینٹ برنارڈ (St, Bernard, 1091-1153)‘ مین گولڈ (Mane Gold)‘ جان آف سیلس بری (John of Salisbury, 1115-1180)‘ سینٹ ٹامس ایکوناس (St. Thomas Aquinas, 1227-1274‘ اور آگسٹس ٹرائمفس (Augustus Triumphus)۔

اس کے بالمقابل سیکولر حکمرانوں کی تائید میں جو لوگ پیش پیش تھے‘ ان میں قابل ذکر یہ لوگ تھے: مارسگلو آف پاڈوا (Marsiglo of Padua, 1270-1340)‘ ولیم آف اوک ہام (William of Ockham, 1290-1347‘ اطالوی فلسفی دانتے (Dante)اور پیرے ڈیوبیس (Pierre Dubois) جن کے استدلال میں علاوہ اور چیزوں کے حضرت مسیح کا یہ قول بھی شامل تھا کہ ’’میری بادشاہی اس دنیا کی نہیں‘‘۔

پاپائیت کے علم برداروں اور سیکولر حکمرانوں کے ہم نواؤں کی یہ لڑائی کیسی شدید تھی‘ اس کا اندازہ آپ صرف اس سے کر سکتے ہیں کہ صرف گیارہویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں یعنی ۱۰۵۲ء سے ۱۱۱۲ء کے عرصے میں اپنے اپنے موقف کی حمایت میں فریقین کی طرف سے ایک سو پندرہ کتابچے منظر عام پر آئے تھے۔

چرچ اور اسٹیٹ کی اس لڑائی میں فتح مندی کا سہرا کلیسا کے ہاتھ رہا اور واقعہ یہ ہے کہ تیرہویں صدی عیسوی تک پاپائیت کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہ تھی۔ چودھویں صدی کے آتے آتے یورپ میں قومی بادشاہتوں نے زور پکڑنا شروع کریا اور نظام جاگیرداری‘ جبکہ بڑی حد تک یہی ادارہ کلیسا کے زور اور قوت کا ذریعہ تھا‘ دن بدن کمزور پڑتا گیا۔ اسی عرصے میں مختلف اسباب کے تحت یورپ میں روشن خیالی (Enlightenment) اور نشأۃ ثانیۃ (Renaissance)کی تحریکات نے اپنے اثرات دکھانے شروع کیے۔ عوام الناس کے ذہن وفکر میں بیداری آئی‘ سماج میں فرد کی اہمیت کا احساس فزوں تر ہونے لگا اور لوگ بے چون وچرا کلیسا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ نتیجے کے طور پر وہاں میکاولی (Machiavelli, 1409-1527) جیسے مفکرین منظر عام پر آئے جنہوں نے براہ راست مذہب واخلاق سے سیاست کی علیحدگی کا علم بلند کیا۔ اس کے بعد اگرچہ لوتھر (Luther) کی سولہویں صدی کی اصلاح (Reformation) کی تحریک نے ایک بار پھر مذہب اور اسٹیٹ کو ایک ساتھ جوڑنا چاہا جس کے لیے اس نے موجود الوقت پاپائیت کو مسترد کرتے ہوئے بادشاہوں کے ابدی حق (Divine Right of Kings)کا نعرہ لگایا اور خدا کے مقرر کردہ شہزادوں کی خاموش اطاعت (Passive obedience of the godly princes) کی تلقین شروع کی لیکن مسیحی اقتدار سے یورپ اس قدر عاجز آ چکا تھا کہ ’قومی بادشاہتوں‘ کے ذریعے سے مسیحیت کے بالواسطہ اقتدار کے بوجھ کو بھی وہ اب زیادہ دن تک اٹھانے کے لیے آمادہ نہ تھا۔ اس نے صاف لفظوں میں دعویٰ کیا کہ اقتدار کا سرچشمہ بادشاہ نہیں‘ ملک کے عوام ہیں۔ حکومت وقت کو ان کی مرضیات کا آئینہ دار ہونا چاہیے اور معاملات زندگی کی تنظیم اس ڈھنگ سے ہونی چاہیے جیسا کہ کسی ملک کے عوام کی خواہش ہو۔ چنانچہ مذکورہ تحریک اصلاح کے خلاف خود محاذ اٹھ کھڑا ہوا اور آگے اٹھارویں صدی تک خاص طور پر ہابس‘ لاک اور روسو جیسے مفکرین منظر عام پر آئے جنہوں نے میکاولی سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر مذہب واخلاق کو ریاست کے تابع قرار دیا اور بادشاہوں کے ابدی حق کے برخلاف سماجی معاہدہ (Social Contract)‘ عوام کے اقتدار اعلیٰ (Sovereignty of people)اور خواہش عام (General will) کا تصور پیش کیا جس کا خلاصہ تھا کہ حکومت کا ادارہ بذات خود اقتدارکا مالک نہیں۔ اقتدار کا اصل سرچشمہ عوام ہیں۔ حکمران اور عوام کے درمیان ایک طرح کا سماجی معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت کوئی حکومت وجود میں آتی ہے اس لیے اسے عوام کی مرضیات کا آئینہ دار ہونا چاہیے جس سے خلاف ورزی کی صورت میں وہ اپنے حق بقا سے محروم ہو جاتی ہے۔ نیز یہ کہ مسیحیت کسی صورت میں حکومت وسیاست کے لیے موزوں نہیں۔ یہ خاص طور پر انہی لوگوں کے افکار کا نتیجہ تھا کہ ۱۶۸۸ء میں انگلینڈ اور ۱۷۷۶ء میں امریکہ اور ۱۷۸۹ء میں فرانس کے انقلابات وجود میں آئے جن میں آخری طور پر بادشاہتوں کے خاتمہ کے ذریعے سے بالواسطہ طور پر سرزمین یورپ سے مسیحیت کے اقتدار کا خاتمہ عمل میں آیا اور معاملات دنیا سے بے دخل کرتے ہوئے مذہب کو فرد کی نجی زندگی پر قانع ہونے کے لیے مجبور کر دیا گیا اور انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ دستوری سطح پر یہ بات منظر عام پر آئی کہ مذہب کا معاملات دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسے اگر جینا ہے تو اس دائرے کے باہر ہی وہ زندہ رہ سکتا ہے۔ چنانچہ ان انقلابات کے نتیجے میں جو تحریری دستاویزات سامنے آئیں‘ ان میں اگرچہ خالق کائنات (Creator)‘ خدا تعالیٰ (Prudence)اور اعلیٰ تر ہستی (Supreme Being) کے الفاظ موجود ہیں لیکن اس بات کی صراحت بھی موجود ہے کہ معاملات دنیا کے سلسلے میں اب مذہب کے لیے کوئی احترام نہیں رہے گا نیز یہ کہ اقتدار کا اصل سرچشمہ دراصل قوم ہوا کرتی ہے۔

بلنچلی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’تھیوری آف اسٹیٹ‘ میں ریاست سے تعلق رکھنے والے بعض اہم مسائل کے سلسلے میں قرون وسطیٰ اور عہد جدید میں ان کے مابین پائے جانے والے فاصلے کا ایک تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے جس کے ذریعے سے موجودہ دور میں ’مذہب کی معاملات دنیا سے بے دخلی‘ کے رائج الوقت تصور کے پس منظر کو کافی بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ہم ذیل میں اس کے بعض اہم عنوانات کو اسی نقشہ کے ساتھ پیش کرتے ہیں:

قرون وسطیٰ

۱۔ ریاست کا تصور

قرون وسطیٰ میں ریاست اور ریاست کے اختیار کو براہ راست خدا سے حاصل کردہ تصور کیا جاتا تھا۔ ریاست کی حیثیت ایک ایسی تنظیم کی تھی جو خدا کی مرضی کی آئینہ دار اور اس کے اپنے ہاتھوں کی پیدا کردہ تھی۔

عہد جدید

جدید دور میں ریاست کا وجودانسانی ذرائع کا رہین منت ہے اور اس کی بنیاد تمام انسانی فطرت پر ہے۔ ریاست ایک مشترک زندگی کی تنظیم سے عبارت ہے جس کی تشکیل انسانی ہاتھوں کے ذریعے سے انجام پاتی ہے اور اس کا انتظام بھی انہی کے ذریعے سے چلتا ہے اور یہ چیز تمام تر انسانی مقاصد کے گرد گھومتی ہے۔

۲۔ دینیات اور سائنس

ریاست کے تصور کی بنیاد مذہبی اصولوں پر تھی اور اس کی طاقت سے اس کی پوری مشینری حرکت کرتی تھی۔ قرون وسطیٰ میں اگرچہ مسیحیت چرچ اور اسٹیٹ کی ثنویت کی قائل تھی لیکن اس کا اعتقاد تھا کہ یہ دونوں ہی تلواریں یعنی روحانی اور دنیوی‘ خدا کی تفویض کردہ ہیں۔ ایک کو اس نے پوپ کے حوالے کیا ہے اور دوسرے کی ذمہ داری شہنشاہ کو سونپی ہے۔ پروٹسٹنٹ اسکول دینیات نے روحانی تلوار کے تصور کو مسترد ضرور کیا اور صرف ایک تلوار یعنی ریاست کو قابل قبول ٹھہرایا لیکن اس مذہبی خیال کو وہ مضبوطی کے ساتھ پکڑے ہوئے تھا کہ اقتدار اعلیٰ خدا کی طرف سے آتا ہے۔

ریاست کے بنیادی اصولوں کی راہ انسانی علوم یعنی فلسفہ اور تاریخ متعین کرتے ہیں۔ موجودہ علم سیاسیات ریاست کی تعبیر وتشریح میں اصلاً انسان کا اعتبار کرتا ہے۔ وہ اپنے سفر کا آغاز ہی اسی نقطہ سے کرتا ہے۔ چنانچہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ریاست افراد کے اس اجتماع سے عبارت ہے جو آپس میں اس لیے متحد ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنا تحفظ اور اپنی آزادی کا دفاع کر سکیں۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جو بحیثیت مجموعی اسے پوری قوم کی امنگوں کا مظہر خیال کرتے ہیں۔ ریاست کا جدید نظریہ مذہبی نہیں ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ بالکل لامذہبی ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ریاست کا دار ومدار مذہبی عقیدے پر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اس کا انکار نہیں کرتا کہ خدا نے انسانی فطرت کو بنایا ہے اور یہ جو دنیا کا نظام چل رہا ہے‘ اس میں اس کی قدرت کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ موجودہ علم سیاسیات کا وظیفہ یہ نہیں کہ خدائی طور طریقوں کو سمجھنے میں اپنی قوت صرف کرے۔ وہ ریاست کو ایک انسانی ادارے کی حیثیت سے سمجھنا چاہتا ہے۔

۳۔ تھیا کریسی (مذہبی مستبدانہ حکومت)

عہد وسطیٰ میں ریاست کا تصور بالکل پرانے دور کے انسانوں کی طرح براہ راست تھیاکریسی کا تو نہ تھا البتہ وہ بالواسطہ تھیا کریسی کا قائل تھا۔ بیچ کی کڑی یعنی حکمران خدا کا نائب اور اس کا خلیفہ ہوتا تھا۔

جدید اقوام کے سیاسی شعور کے لیے تھیاکریسی اپنی جملہ صورتوں کے ساتھ حد درجہ ناگوار ہے۔ عہد جدید کی ریاست ایک انسانی اور دستوری انتظام سے عبارت ہے۔ ریاست کااختیار عوامی قانون کے ہاتھوں بندھا ہوا ہے اور سیاست کا منتہائے مقصود قوم کی فلاح ہے۔ البتہ یہ تمام چیزیں انسانی فہم سے اخذ کردہ ہیں اور انہیں انسانی ذرائع ہی سے رو بہ عمل لایا جائے گا۔

۴۔ مذہب

قرون وسطیٰ میں ریاست کا تمام تر انحصار ہم مذہب جماعات وافرادپر تھا اور اس کا مطالبہ تھا کہ ہر جگہ عقیدے کی یکسانی رہے۔ کافروں اوربے دینوں کے لیے اس زمانے میں کوئی سیاسی حقوق حاصل نہ تھے۔ ان پر مختلف طرح کے مظالم توڑے جاتے تھے اور انہیں طرح طرح سے ستایا جاتا تھا بلکہ اکثر وبیشتر انہیں فنا کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔ بہتر سے بہتر سلوک جس کی ان کے ساتھ توقع رکھی جا سکتی تھی‘ وہ یہ کہ ان کے وجود کو انگیز کر لیا جائے۔

موجودہ دور میں کسی شخص کو قانونی طور پر کوئی مقام ومرتبہ عطا کرنے کے لیے ریاست مذہب کو ایک شرط لازم تصور نہیں کرتی۔ فرد اور سماج ان دونوں سے تعلق رکھنے والے قوانین مذہب اور عقیدے کی گرفت سے بالکل آزاد ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ عہد جدید کی ریاست عقیدے کی آزادی کا تحفظ کرتی اور مختلف چرچوں اور مذہبی سوسائٹیوں کو ایک لڑی میں پرو کر رکھتی ہے۔البتہ مذہب سے بیزار یا کسی بھی بے عقیدہ شخص کے سلسلے میں وہ کسی قسم کی ظلم وزیادتی اور اس کی ایذا رسانی کو کسی بھی انداز سے جائز تصورنہیں کرتی۔

اس موازنے کی روشنی میں عہد جدید کے انسان کی نظر میں مذہب کی حیثیت‘ اس کے مرتبہ ومقام نیز زندگی کی دوڑ میں اس کی واقعی جگہ کے سلسلے میں اس کے نقطہ نظر کو باحسن وجوہ سمجھا جا سکتا ہے کہ کس طرح قرون وسطیٰ میں چرچ اور اسٹیٹ کی کشمکش کے نتیجے میں وہاں مذہب کے سلسلے میں ایک خاص نقطہ نظر پروان چڑھا اور بعد میں آہستہ آہستہ اس نے مسیحیت سے آگے فی الجملہ مذہب ہی کے سلسلے میں ایک عام تصور کی حیثیت اختیار کر لی جس کا انتہائی مقام یہ ہے کہ وہ زندگی میں ایک عضو معطل کی حیثیت سے تو باقی رہ سکتا ہے البتہ اس کے لیے سماج میں کسی موثر کردار کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یورپ کی تاریخ میں ایک طویل عرصے تک مذہب اور چرچ لازم وملزوم کی حیثیت اختیار کیے رہے۔ بعد میں چرچ کا نظام کمزور ہونے کے بعد یہ مقام وہاں کے بادشاہوں کو حاصل ہو گیا اور وہ روئے زمین پر مذہب کا عملی مظہر قرار پائے۔ بادشاہوں نے چرچ کو بے دخل کر کے زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لی تو معاملہ پھر بھی غنیمت رہا اس لیے کہ اول الذکر کی طرح یہ بھی اپنے تئیں مذہب کی نمائندگی کے مدعی تھے لیکن اٹھارویں صدی میں جب مذہب سے بیزار بلکہ اس سے عاجز عوام نے ان بادشاہتوں کی بساط الٹی تو بادشاہوں کے خاتمے کا بھی موجب بنی جو اپنے کو اٹوٹ طور پر ان بادشاہتوں سے جوڑے ہوئے تھا۔

یورپ کا ستم یہ ہے کہ پہلے تو اس نے ایک نامکمل مذہب سے جس کے چہرے کو انسانی تحریفات سے بری طرح داغ دار کر رکھا تھا‘ اپنے کو جوڑے رکھا لیکن اس سے بڑی ستم ظریفی اس کی یہ ہے کہ مختلف اسباب کے تحت جب وہ اس مذہب سے عاجز آ گیا تو اسے مسترد کرنے کے ساتھ ہی اس نے نفس مذہب کے سلسلے میں ایسا دھواں دار پراپیگنڈا شروع کیا کہ کہنا چاہیے کہ دنیا کے بیشتر مذاہب کے ماننے والے اس کی لپیٹ میں آ گئے اور اپنے اپنے مذہب کو بھی انہوں نے اسی چوکھٹے کا پابند بنا لیا جس کی وکالت سرزمین یورپ کے فرزانوں کی طرف سے کی جا رہی تھی یعنی یہ کہ مذہب انسان کی پرائیویٹ زندگی کا معاملہ ہے‘ معاملات دنیا سے اس کا کوئی تعلق ہے نہ ہونا چاہیے‘ یہاں تک کہ اہل یورپ کے نزدیک مذہب کی تعریف ہی اس دائرے میں محصور ہو کر رہ گئی کہ ’’مذہب نام ہے اس محسوس عملی تعلق کا جو کسی ایک یا متعدد مافوق الفطری وجود یا وجودوں پر اعتقاد کی صورت میں کسی فرد کا اس سے یا ان سے قائم ہوتا ہے۔‘‘

ہم مبارک بار دیتے ہیں یورپ کو اس کی اس ہوشیاری اور چالاکی پر کہ اس نے جب اپنی ناک کاٹی تو اس کے فضائل اس زور وقوت کے ساتھ بیان کیے کہ دنیا کی عظیم آبادی نے اپنے لیے ’نکٹا‘ ہونے ہی کو باعث افتخار سمجھا اور ہر اس شخص کو الٹا عار دلانے لگی جو کسی بھی صورت اپنے لیے ’ناک والا‘ رہنے کا قائل اور اس کی وکالت کرنے والا اور اس کا موید نظر آتا ہو۔ لیکن خاص طور پر آج کے روشن خیال اور آزادئ فکر ونظر کے مدعیوں سے ہمارا یہ سوال اب بھی قائم ہے کہ کیا یورپ کے اپنے اس محدود تلخ تجربے کے نتیجے میں نفس مذہب کے سلسلے میں اس کا مذکورہ بالا اعلان واظہار کسی بھی درجے میں حق وصداقت کا آئینہ دار ہے؟ اور کیا اس کی پیروی میں کسی بھی دوسری سمت سے اس طرح کے کسی اظہار واعلان کو مبنی بر حقیقت اور حق وانصاف کاتقاضا قرار دیا جا سکتا ہے؟

(بہ شکریہ ’’تحقیقات اسلامی‘‘ اعظم گڑھ۔ انڈیا)

علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ ۔ فکری مماثلتیں

پروفیسر محمد یونس میو

کلام اقبال میں ملا‘ ملائے حرم‘ پیر حرم‘ فقیہان حرم‘ جناب شیخ‘ شیخ مکتب‘ فقیہ شہر‘ صوفی‘ ذکر نیم شبی‘ مراقبے‘ سرور‘ خانقہی اور کرامات جیسی اصطلاحات اور تراکیب سے ایک عامی اس بدگمانی میں بجا طور پر مبتلا ہوتا ہے کہ اقبال طبقہ علماء ومشائخ پر طنز کر رہے ہیں۔ یہ صرف بدگمانی نہیں‘ کچھ حقیقت بھی ہے لیکن اس تنقید کا مصداق جید اور مستند علماء کرام نہیں بلکہ علم وہنر سے بے نیاز اور فکر وعمل سے تہی دامن حضرات ہیں۔ قدیم وجدید میں رشتہ قائم کرنا وقت کا اہم ترین مسئلہ رہا ہے اور بدقسمتی سے علما کی اکثریت اس امرخاص سے بے نیاز رہی ہے۔ دراصل اقبال مستقبل کے چیلنجوں سے بے خبر انہی روایت پسند رویوں پر اعتراض کرتے ہیں اور اپنی اس تنقید میں وہ حق بجانب بھی ہیں کیونکہ تقلیدِ محض اسلام کے اصول حرکت کے منافی ہے۔ چنانچہ اس لحاظ سے اقبالؒ علما کے محسن تصور کیے جا سکتے ہیں۔ رشید احمد جالندھری اپنے ایک مضمون ’’اقبال اور علما‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’وہ تو علما کو ان کی معنوی بیماریوں، جمود، تنگ نظری، بے کیف رسوم پرستی اور حقائق حیات سے تغافل وغیرہ سے صحت یاب کر کے ان کو ان کا صحیح مقام دلانا چاہتے ہیں۔‘‘

یہاں اقبال علما تعلقات پر تفصیلی بحث مطلوب نہیں۔ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ اقبال کے علماء ومشائخ سے گہرے روابط کے باوجود آج ان کو علما کا نقاد خیال کیا جاتا ہے تو اس کی کئی ایک ظاہری وجوہ ہیں۔ ایک وجہ تو اقبال کی علما پر وہ تنقید ہے جو انہوں نے عصری تقاضوں سے غفلت کی وجہ سے ان پر کی ہے۔ دوسری وجہ بعض قدامت پسند حضرات کے وہ فتوے ہیں جو انہوں نے علامہ پر لگائے ہیں۔ ایک اور وجہ علما کا سیاسی کردار بھی ہو سکتا ہے جس کی آڑ میں خاص وعام نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے۔ 

تاہم یہ تصویر کا صرف ایک پہلو ہے۔ تصویر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عصری تقاضوں سے علما کی اس علمی بے نیازی کے باوجود اقبال علما سے بے نیاز نہیں ہوئے بلکہ وقتاً فوقتاً ان حضرات سے مقدور بھر استفادہ کرتے رہے چنانچہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی تنقیدات کو علما سے بعد کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ علماء ومشائخ سے غایت درجہ کی عقیدت رکھتے تھے۔ مولانا شبلی نعمانی، سید سلمان ندوی اور مولانا انور شاہ کشمیری وغیرہ سے آپ کو خصوصی علمی ودینی تعلق رہا ہے۔ سید سلمان ندوی کے نام علامہ کے بیسیوں خطوط ملتے ہیں۔ ان خطوط سے شبلی، ندوی اور اقبال کی ایک خوبصورت علمی تکون بنتی نظر آتی ہے۔ ’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ کی تیاری کے سلسلے میں اقبالؒ نے مولانا ندوی کو ایک طویل سوال نامہ ارسال فرمایا۔ اس سے ان حضرات کے علمی تعلقات پر روشنی پڑتی ہے۔ جسٹس جاوید اقبال نے ’’زندہ رود‘‘ جلد ۳ میں ان سوالات کا خلاصہ بیان کیا ہے۔ سفر افغانستان بھی ندوی اقبال دوستی پر دال ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری سے اقبال کی متعدد ملاقاتیں اور مسئلہ زمان ومکان، مسئلہ ختم نبوت، فقہ حنفی اور مسئلہ حدوث عالم وغیرہ پر علمی استفادہ بھی ثابت ہے۔ علامہ کشمیری کی وفات پر شاعر مشرق نے لاہور میں ایک تعزیتی جلسہ منعقد کرایا اور اپنی صدارتی تقریر میں شاہ مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا: ’’اسلام کی ادھر کی پانچ سو سالہ تاریخ شاہ صاحب کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔‘‘ مولانا کشمیری کا یہ قول بھی قابل غور ہے کہ ’’مجھ سے جس قدر استفادہ اقبال نے کیا، کسی مولوی نے نہیں کیا۔‘‘

علما کے ساتھ ذاتی روابط کے علاوہ بہت سے معاصر علما اور مشائخ کے ساتھ اقبال کاعلمی، دینی اور فکری اشتراک بھی پایا جاتا ہے جس پر ہمارے سکالرز اور محققین پوری طرح سے توجہ نہیں دے سکے۔ زیر نظر سطور میں، میں مولانا تھانویؒ اور علامہ اقبالؒ کے مابین پائی جانے والی فکری مماثلتوں کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ 

ڈاکٹر محمد اجمل نے اپنے مقالہ ’’علم اور مذہبی واردات‘‘ میں ڈاکٹر محمد اقبال اور مولانا اشرف علی تھانوی کے لیے ’’دو حکیم الامت‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں:

’’بیسویں صدی کے اوائل میں برصغیر کے مسلمانوں نے دو ممتاز ہستیوں کو ’’حکیم الامت‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ ایک تھے مولانا اشرف علی تھانوی اور دوسرے علامہ اقبال۔حقیقت میں یہ دونوں ہستیاں حکیم الامت تھیں۔‘‘

پروفیسر انور صادق کے نزدیک اقبال کی بنیادی حیثیت ایک مصلح کی ہے۔ اپنے مضمون ’’اقبال کی بنیادی حیثیت‘‘ میں فرماتے ہیں: 

’’واقعہ یہ ہے کہ اقبال بنیادی طور پر شاعر ہیں اور نہ فلسفی بلکہ وہ کچھ اور ہی ہیں۔ شاعری اور تفلسف ان کی ذات کے اضافی پہلو ہیں۔ درحقیقت وہ مصلحِ قوم ہیں۔‘‘

عالم اسلام کی موجودہ حالت پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ سوچ ایک سوال بن کر ابھرتی ہے کہ جب اسلام ایک ابدی دین ہے جس کو اللہ تمام ادیان پر غالب کرنا چاہتے ہیں تو آخر اس دین حق کی موجودگی میں مسلمان اپنی سیاسی بے چارگی‘ معاشی پس ماندگی‘ معاشرتی بد حالی اور اخلاقی بے راہ روی سے کیوں دوچار ہیں؟ علامہ محمد اقبال نے ’’علم الاقتصاد‘‘ ، ’’قومی زندگی‘‘، ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ اور ’’خطبات‘‘ خاص طور پر خطبہ اجتہاد میں انہی وجوہ کا جائزہ لیا ہے۔ ’’شکوہ‘‘، ’’جواب شکوہ‘‘، ’’طلوع اسلام‘‘ اور ’’خضر راہ‘‘ میں بھی ان سوالات کا جواب ملتا ہے۔ غالباً برصغیر میں ڈاکٹر محمد اقبال پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لیے ’’اسلام کی تشکیل جدید‘‘ کی ضرورت محسوس کی۔ مولانا سعید احمد اکبر آبادی ’’خطبات اقبال پر ایک نظر‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’اس کی داد دینی چاہیے کہ ایک ایسے دور جمود وتعطل ذہنی میں جبکہ اجتہاد کا لفظ زبان سے نکالتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں ان پر آزاد خیالی کا لیبل نہ لگ جائے، علامہ نے اپنی چشم بصیرت سے آنے والے زمانے کو دیکھ لیا۔‘‘

آپ اسلامی فقہ کی تدوین نو کو کتنا ضروری خیال کرتے تھے؟ صوفی غلام مصطفی کے نام خط میں لکھتے ہیں:

’’میرا عقیدہ ہے کہ جو شخص اس وقت قرآنی نقطہ نگاہ سے زمانہ حال کے جورس پروڈنس پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ابدیت ثابت کرے گا، وہی اسلام کا مجدد ہوگا اور بنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم بھی وہی شخص ہوگا۔‘‘

یہی بات قدرے زیادہ شہرت کے پس منظر میں مولانا تھانویؒ کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ اصلاحِ احوال امت کے موضوع پر آپ نے مستقل کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ ’’اصلاح انقلاب امت‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں ایک ضخیم تصنیف جسٹس تقی عثمانی صاحب نے مرتب کی ہے۔ جناب شیخ محمد اکرام نے حضرت تھانویؒ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’دیوبند سے متعدد بلند پایہ ہستیوں نے فیض حاصل کیا۔ ان میں سے بعض مثلاً انور شاہ کشمیری اور شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی اس لائق ہیں کہ ان کے کارنامے علیحدہ عنوانات کے تحت بیان کروں لیکن اکابرین دیوبند میں ایک بزرگ ایسے تھے کہ ان کے ذکر کے بغیر گزشتہ پچاس برس کی مذہبی تاریخ کسی طرح مکمل نہیں ہو سکتی۔‘‘

گردوپیش کے احوال کے لحاظ سے اصلاح امت کے لیے ان دونوں بزرگوں نے جو افکار پیش کیے، ان میں اشتراک اور ہم آہنگی کے متعدد دل چسپ پہلو پائے جاتے ہیں۔ آئیے ان پر ایک نظر ڈالیں:

سیاسی افکار

۱۔ دو قومی نظریہ تحریک پاکستان کا سنگ بنیاد ہے اور مولانا تھانوی روز اول ہی سے دو قومی نظریہ کے حامی اور ہندو مسلم اتحاد کے مخالف رہے تھے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ اقبال اور قائد اعظم ایک عرصہ تک ہندو مسلم اتحاد کے داعی رہے۔ میثاق لکھنو وغیرہ اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘، ’’نیا شوالہ‘‘ اور ’’ترانہ ہندی‘‘ ایسی نظمیں اقبال کی اسی فکر کی مظہر ہیں لیکن مولانا تھانوی نے اپنی سیاسی بصیرت سے کام لے کر بہت پہلے ہندوؤں کی ذہنیت سے آگاہ کر دیا تھا۔ اپنے ایک وعظ میں فرمایا:

’’یہ ہندو مسلمانوں کی جان، مال اور ایمان سب کے دشمن ہیں اور انہیں کو اپنا ہم درد اور خیر خواہ سمجھ رکھا ہے۔ یہی ان کی بڑی زبردست ناکامی کا راز ہے۔ جو شخص دوست دشمن میں امتیاز نہ کر سکے، وہ کیا خاک کام کرے گا۔‘‘

گاندھی جسے کانگرس کا دماغ کہنا چاہیے، اس نے نہایت مہارت کے ساتھ مسلمانوں کی قوت اور جذبہ کا استعمال اپنی جماعت کے حق میں کیا۔ عام مسلمان کا تو ذکر ہی کیا، بڑے بڑے اس کے سیاسی فریب کاشکار ہو کر کانگرس کا دم بھرنے لگے۔ مولانا تھانویؒ نے کانگرس کی اسلام دشمنی کو بے نقاب کر کے اس میں عدم شرکت پر فتویٰ دیا: 

’’مسلمانوں کا کانگریس میں شرکت کرنا، ہندوؤں کے ساتھ مل کر یا ان کو ساتھ ملا کر کام کرنا یہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے نہایت خطرناک بات ہے۔‘‘ 

آپ نے اپنے ایک ملفوظ میں مزید فرمایا:

’’کانگرس خالص مذہبی اور سیاسی ہندوؤں کی تحریک ہے جس کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو تباہ وبرباد کرنا ہے۔‘‘ 

آپ نے ایک اور سلسلہ گفتگو میں فرمایا:

’’ہم کانگرس کی امداد نہیں کر سکتے۔‘‘ 

مولانا تھانوی کے ملفوظات میں بڑے حقیقت پسندانہ تبصرے موجود ہیں۔ ایک خاص مجلس میں گاندھی کے بارے میں فرمایا:

’’یہ توحید اور رسالت کا منکر ہے، اسلام اور مسلمانوں کا دشمن اور رئیس المشرکین والکافرین ہے۔‘‘ 

ایک جگہ گاندھی کو ’طاغوت‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور ایک ملفوظ میں اسے چالاک، مکار، اسلام اور مسلمانوں کا دشمن کہا ہے۔ تحریک شدھی، ہجرت، قربانی گاؤ،موہلا بغاوت وغیرہ کے پیچھے گاندھی کا ذہن کام کر رہا تھا۔ ان تحاریک کے نتائج مسلمانوں کے حق میں نہایت مضر اور ہندوؤں کے لیے انتہائی سودمند ثابت ہوئے۔ مولانا نے ان امور پر یوں گرفت فرمائی:

’’بعض کفار پر مجھے بہت ہی غیظ ہے۔ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا اور ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں۔ ہجرت کا سبق پڑھایا، شدھی کا مسئلہ اٹھایا، مسلمانوں کے عرب جانے کی آواز اٹھائی، قربانی گاؤ پر انہوں نے اشتعال دیا۔ یہ لوگ مسلمانوں کی جان کے دشمن ہیں بلکہ ایمان، جان ومال اور ماہ وجاہ، مسلمانوں کی سب چیزوں کے دشمن ہیں۔‘‘

اس قدر سخت تنقید کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ آپ ہندو مسلم اتحاد کے بارے میں سوچ بھی سکتے تھے۔ وہ تو اتحاد کو مسلمانوں کی شان کے خلاف سمجھتے تھے نیز ہندوؤں اور انگریز کے بجائے خدا پر بھروسہ کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ 

علامہ اقبال بھی مسلمان علما کے کانگریسی کردار کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک گفتگو کے دوران میں فرمایا: 

’’کانگرسی خیال کے علما ہندوؤں کا ساتھ دے کر بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ اگر قوم نے ان کا ساتھ دیا تو اس کا نتیجہ بہت مہلک ہوگا۔‘‘

مسئلہ وطنیت وقومیت پر مولانا حسین احمد مدنی سے آپ کا اختلاف ایک مشہور بات ہے۔ ’’ارمغان حجاز‘‘ میں ’’حسین احمد‘‘ کے زیر عنوان نظم بھی اس بحث کی یاد دلاتی ہے۔ علامہ نے اپنے موقف کی حمایت میں ’’جغرافیائی حدود اور مسلمان‘‘ کے نام سے مضمون قلم بند کروایا جو ۹ مارچ ۱۹۳۸ء کے روزنامہ ’’احسان‘‘ میں شائع ہوا۔ اس تحریر کے ۴۳ روز بعد آپ راہئ ملک عدم ہوئے۔ مذکورہ مضمون ’’مقالات اقبال‘‘ (مرتبہ سید عبد الواحد) میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

۲۔ علامہ اقبال ترکِ موالات کے مخالف تھے بلکہ اس کے رہنماؤں سے بھی نالاں تھے۔ مولانا تھانویؒ بھی اس تحریک میں مستور نقصانات کو دیکھ رہے تھے۔ چنانچہ اس کے اثرات پر یوں تبصرہ کیا کہ ایک صاحب جو ترک موالات کا شکار ہوئے اور ملازمت کھو بیٹھے، اس کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:

’’یہ صاحب سرکاری ملازم تھے۔ اس تحریک کے سبب مستعفی ہو گئے۔ ملازمت تلاش کرتے ہیں مگر ملتی نہیں۔ پریشان ہیں۔ دین ودنیا دونوں خراب ہوئے۔ اس کانگریس کی وجہ سے ہر شخص پریشان ہے۔‘‘

۳۔ آپ نے تحریکِ ہجرت کی بھی مخالفت کی اور فتویٰ دیا کہ شریعت نے وجوبِ ہجرت کے لیے جو شرائط عائد کی ہیں وہ شرائط ابھی موجود نہیں۔ آپ ہجرت کو گاندھی کا سبق کہتے تھے اور اس کے فتاویٰ جاری کرنے والے علما پر سخت ناراضی اور غصے کا اظہار کرتے تھے۔ 

علامہ اقبال کے خطوط میں ہجرت کے متعلق اشارات ملتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اس تحریک کی حمایت بالکل نہیں کی بلکہ اس کو مولانا تھانوی کی طرح ناپسند فرمایا۔ پروفیسر محمد اکبر منیر کو اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں: 

’’ہندوستان اور بالخصوص پنجاب سے بے شمار لوگ افغانستان کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ اس وقت تک پندرہ بیس ہزار آدمی جا چکا ہوگا۔‘‘ 

اس تحریک کے نتائج کے بارے میں جسٹس جاوید اقبال رئیس بروک ولیمز کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’کابل سے پشاور تک شاہراہ پر دونوں طرف زمین ان بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کی قبروں سے بھر گئی جو اس سفر کی مصیبتیں برداشت نہ کر سکے۔ جب مہاجرین اپنے اپنے دیہات واپس پہنچے تو بالکل قلاش اور گھربار سے محروم تھے اور سرچھپانے کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔‘‘

سید ریاض حسین نے اس تحریک کے بارے میں اپنا خیال ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

’’بس یہی قدم تھا جو مسلمانوں نے بغیر سوچے سمجھے کیا۔‘‘

۴۔ اقبال اور مولانا تھانوی تحریک خلافت کے بارے میں بھی ہم خیال تھے۔ اقبال صوبائی خلافت کمیٹی کے رکن تھے، بعد ازاں مستعفی ہو گئے۔ وہ وفد خلافت کو انگلستان بھیجنے کے بھی خلاف تھے چنانچہ سید سلمان ندوی کے نام ایک خط میں اس وفد پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ مولانا تھانوی نے تحریک خلافت سے علیحدگی اختیار کی۔ اس پر مولانا کو قتل کی دھمکی بھی موصول ہوئی۔ آپ نے ایک مجلس میں فرمایا:

’’تحریک خلافت کا زمانہ نہایت ہی پرفتن زمانہ تھے۔ بڑے بڑے پھسل گئے۔ عجب ایک ہڑبونگ مچا ہوا تھا۔ حق وباطل میں بھی امتیاز نہ رہا تھا۔‘‘

طریقت وتصوف

تصوف اور مسائل تصوف مسلمانوں کا ایک قدیمی مسئلہ ہے۔ تصوف کے بارے میں عام طور پر تین مکاتب فکر موجود ہیں۔ ایک افراط کا شکار ہے اور دوسرا تفریط کا اور تیسرا ان کے بین بین ہے اور یہی مسلک ہر دو حکیم الامت کا تھا۔ علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ کا عقیدہ یہ تھا کہ شریعت وطریقت دو چیزیں نہیں ہیں بلکہ طریقت شریعت کا ایک جز ہے اور شریعت کے تابع ہے جس کا مقصد تزکیہ نفس ہے۔ اقبال اپنے ایک خط میں شاہ سلمان پھلواری کو لکھتے ہیں:

’’حقیقی اسلامی تصوف کا میں کیونکر مخالف ہو سکتا ہوں کہ خود سلسلہ عالیہ قادریہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ بعض لوگوں نے ضرورغیر اسلامی عناصر اس میں داخل کر دیے ہیں۔ جو شخص غیر اسلامی عناصر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے، وہ تصوف کا خیر خواہ ہے نہ کہ مخالف۔‘‘

آج بھی نام نہاد صوفیوں نے سادہ لوح عوام کو ظاہر وباطن کی بحث میں الجھا رکھا ہے حالانکہ شریعت ظاہر وباطن دونوں پر حاوی ہے اور ان میں تفریق کی قائل نہیں۔ اقبال نے ’نیو ایرا‘ کی ۲۸ جولائی ۱۹۱۷ء کی اشاعت میں اپنے ایک مضمون ’’تصوف اور اسلام‘‘ میں شیخ احمد رفاعی کے حوالے سے لکھا ہے:

’’شیخ وہ ہے جس کا ظاہر وباطن مشروع ہو۔ طریقت عین شریعت ہے۔ جھوٹا اس فرقے کو نجاست آلود کرتا ہے اور کہتا ہے باطن اور ہے ظاہر اور ہے۔‘‘

علامہ نے تصوف پر کئی اور مضامین بھی لکھے۔ یہ مضامین خواجہ حسن نظامی کے مثنوی اسرار خودی پر اعتراضات کے جواب میں تحریر کیے جن میں ’اسرار خودی اور تصوف‘ (۱۹۱۶ء)، ’سرِاسرار خودی‘ (۱۹۱۶ء)، ’تصوفِ وجودیہ‘ (۱۹۱۶ء) اور ’علم ظاہر وباطن‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مسئلہ تصوف کی تفہیم میں اقبال کی یہ تحریریں بڑی معاون ثابت ہوتی ہیں۔ مذکورہ بالا مضامین ’مقالاتِ اقبال‘ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ۱۹۱۶ء سے ۱۹۱۸ء کے عرصے میں لکھے گئے مکتوبات میں یہ بحث مل سکتی ہے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ حقیقی اسلامی تصوف کے قائل ہیں اور طریقت کو شریعت کا ہی ایک حصہ اور جز خیال کرتے ہیں۔

تصوف پر مولانا تھانوی کا گراں قدر سرمایہ موجود ہے۔ ’انفاس عیسیٰ‘، ’الرفیق فی سواء الطریق‘، اور ’شریعت وطریقت‘ خالص تصوف کی کتابیں ہیں۔ تیرہ سو صفحات پر مشتمل ’تربیت السالک‘ مولانا کی مایہ ناز تصنیف ہے۔ ’التکشف عن مہمات التصوف‘ نہایت مستند اور ادبی مزاج کی کتاب ہے جو ۷۵۰ صفحات پر مشتمل آٹھ رسائل کا مجموعہ ہے۔ اس میں ’عرفان حافظ‘ کے نام سے حافظ شیرازی کے کلام کی متصوفانہ شرح کے علاوہ ’حقیقت الطریقۃ من السنۃ الانیقۃ‘ کے عنوان سے ۳۵۰ احادیث کی روشنی میں تصوف اور متعلقات تصوف کو ثابت کیا ہے۔ علاوہ ازیں ’مسائل السلوک من کلام ملک الملوک‘ کے نام سے قرآن کی متصوفانہ تفسیر فرمائی ہے۔ ’بیان القرآن‘کے حاشیے میں جابجا مسائل تصوف کی نشان دہی کی گئی ہے۔ آپ کے ملفوظات وفرمودات میں بھی موقع ومحل کی مناسبت سے تصوف وسلوک پر عمدہ بحثیں موجود ہیں۔ پھر آپ کے خلفا اور مریدین اور سوانح نگاروں نے آپ کی زیر نگرانی جو کام کیا ہے، وہ اس پر مستزاد ہے۔ 

مولانا تھانوی تصوف کی کیا تفسیر فرماتے ہیں، ’شریعت وطریقت‘ سے چند سطور قارئین کی نذر ہیں:

’’شریعت کے پانچ اجزا ہیں۔ پانچواں جز تصوف ہے جسے شریعت میں اصلاح نفس کہتے ہیں۔ آج کل لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تصوف کے لیے بیوی، بچوں اور دوسرے دنیاوی امور کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ یہ جاہل صوفیوں کا مسئلہ ہے جو تصوف کی حقیقت کو نہیں جانتے۔‘‘

اسی چیز کو اقبال نے بار بار غیر اسلامی اور عجمی تصوف کہا ہے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ دونوں حضرات ایسے غیر اسلامی رہبانی تصوف کے مخالف ہیں جو زندگی کے تقاضوں سے فرار کی راہ دکھاتا ہے۔

مثنوی مولانا رومؒ 

علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ میں ایک اور فکری ہم آہنگی مولانا رومؒ اور ان کی مثنوی ہے۔ شاعر مشرق کی مولانا جلال الدین رومیؒ سے عقیدت محتاج بیان نہیں جبکہ مولانا تھانویؒ کے مولانا رومیؒ سے استفادہ سے ایک عام آدمی بھی باخبر ہے۔ جو حضرات مولانا تھانویؒ کے علمی افادات سے شغف رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ان کے ملفوظات اور تصانیف میں جابجا مولانا رومی کے اشعار ملتے ہیں۔ ’’عرفان حافظ‘‘ کا ذکر گزر چکا ہے۔ یہاں یہ سن لیجیے کہ آپ نے مثنوی مولوی معنوی کی شرح کی ہے جس کو کلید مثنوی کے نام سے ۲۴ جلدوں میں ادارۂ تالیفات اشرفیہ ملتان نے شائع کیا ہے۔ فارسی اور اردو کا ذوق رکھنے والے احباب کے لیے یہ ایک خاصے کی چیز ہے۔ اس شرح کا تذکرہ علامہ کے خطوط میں ملتا ہے۔ خان محمد نیاز الدین خان کو ایک مکتوب محررہ ۳ فروری ۱۹۱۷ء میں لکھتے ہیں:

’’مولوی اشرف علی تھانوی، جہاں تک مجھے معلوم ہے، وحدۃ الوجود کے مسئلے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے ان کی کتاب عمدہ ہوگی۔‘‘

اپنے مضمون ’’سر اسرار خودی‘‘ میں حضرت خواجہ حسن نظامی کو مخاطب کر کے لکھا ہے:

’’حضرت، میں نے مولانا جلال الدین رومیؒ کی مثنوی کو بیداری میں پڑھا ہے اور بار بار پڑھا ہے۔ آپ نے شاید اسے سکر کی حالت میں پڑھا ہے کہ اس میں آپ کو وحدۃ الوجود نظر آتا ہے۔ مولوی اشرف علی تھانوی سے پوچھیے، وہ اس کی تفسیر کس طرح کرتے ہیں۔ میں اس بارے میں انہی کا مقلد ہوں۔‘‘

تعلیم وتربیت

شعبہ تعلیم وتربیت میں بھی مشترک اقدار موجود ہیں۔ خاص طور پر تعلیم وتربیت نسواں کے بارے میں ان حضرات نے بہت زیادہ لکھا ہے۔ اقبالؒ عورت کو تمدن کی جڑ قرار دیتے ہیں چنانچہ آپ نے ضرب کلیم میں عورت پر متعددقطعات رقم فرمائے ہیں۔ مدراس میں انجمن خواتین کے سپاس نامہ کے جواب میں آپ نے تقریر فرمائی جو ’’شریعت اسلام میں مرد وعورت کا مرتبہ‘‘ کے عنوان سے مقالاتِ اقبال کی زینت بن چکی ہے۔

اقبالؒ عورت کو کیسی تعلیم دینا چاہتے تھے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں رقم طراز ہیں:

’’قومی ہستی کی مسلسل بقا کے لیے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو ابتدا میں ٹھیٹھ مذہبی تعلیم دیں۔ جب وہ مذہبی تعلیم سے فارغ ہو چکیں تو ان کو اسلامی تاریخ، علم تدبیر، خانہ داری اور علم اصول حفظ صحت پڑھایا جائے۔ اس سے ان کی دماغی قابلیت اس حد تک نشوو نما پا جائے گی کہ وہ اپنے شوہروں سے تبادلہ خیال کر سکیں گی اور امومت کے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دے سکیں گی۔‘‘

علامہ اقبالؒ نے یہاں عورتوں کی تعلیم کا نصاب مقرر کر دیا ہے۔ اس نصاب کی عملی شکل ہم کو مولانا تھانویؒ کی کتاب ’’بہشتی زیور‘‘ کی صورت میں ملتی ہے۔ حضرت تھانوی ؒ کتاب کے دیباچے میں اس کی غرض تصنیف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’حقیر ناچیز اشرف علی تھانوی مظہر مدعا ہے کہ ایک مدت سے ہندوستان کی عورتوں کے دین کی تباہی دیکھ کر قلب دکھتا ہے اور اس کے علاج کی فکر میں رہتا ہے اور زیادہ وجہ فکر کی یہ تھی کہ یہ تباہی صرف ان کے دین تک محدود نہ تھی بلکہ دین سے گزر کر ان کی دنیا تک پہنچ گئی تھی اور ان کی ذات سے گزر کر ان کے بچوں بلکہ بہت سے آثار ان کے شوہروں تک اثر کر گئی تھی اور جس رفتار سے یہ تباہی بڑھتی جاتی تھی، اس کے اندازہ سے معلوم ہوتا تھا کہ اگر چندے اور اصلاح نہ کی جائے تو شاید یہ مرض قریب قریب لاعلاج ہو جائے اس لیے علاج کی فکر زیادہ ہوئی اور سبب اس تباہی کا بالقاء الٰہی اور تجربہ اور دلائل اور خود علم ضروری سے محض یہ ثابت ہوا کہ عورتوں کا علوم دینیہ سے ناواقف ہونا ہے جس سے ان کے عقائد، ان کے اعمال، ان کے معاملات، ان کے اخلاق، ان کا طرز معاشرت سب برباد ہو رہا ہے۔‘‘

اس کے بعد مولانا عورت کے جذبہ امومت کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’چونکہ بچے ان کی گود میں پلتے ہیں، زبان کے ساتھ ان کا طرز عمل، ان کے خیالات بھی ساتھ ساتھ دل میں جمے جاتے ہیں جس سے دین تو ان کا تباہ ہونا ہی ہے مگر دنیا بھی بے لطف بد مزہ ہو جاتی ہے، اس وجہ سے کہ بد اعتقادی سے بد اخلاقی پیدا ہوتی ہے اور بد اخلاقی سے بد اعمالی اور بد اعمالی سے بد معاملگی جو جڑ ہے تکدر معیشت کی۔‘‘

یہی وہ چیزیں ہیں جن کو اقبالؒ نے ’اسرار ورموز‘ کے ان اشعار میں بیان کیا ہے:

از امومت پختہ تر تعمیر ما
در خطِ سیمائے او تقدیر ما
از امومت گرم رفتار حیات
از امومت کشف اسرارِ حیات
مال او فرزند ہائے تندرست
تر دماغ وسخت کوش وچاق چست
حافظِ رمزِ اخوت مادراں
قوتِ قرآن وملت مادراں
ضرب کلیم کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگِ امومت
ہے حضرتِ انساں کے لیے اس کا ثمر موت

مختصر یہ کہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ میں ایک معنوی اتحاد موجود ہے خاص طور پر ان کی سیاسی و تعلیمی اصلاح وفلاح کے ابواب میں حد درجہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ان سطور کا مقصد یہ ہے کہ اس علمی ربط کو عوام کے سامنے لایا جائے۔ اس سے ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ امت کے دو بڑے گروہ جنہیں عرف عام میں قدیم وجدید کہا جاتا ہے، ایک دوسرے کے قریب آئیں گے، بد گمانیوں کے بادل چھٹ جائیں گے، علمی بعد اور معاشرتی نفرتیں کم ہوں گی اور فکر وعمل کی نئی نئی راہیں سامنے آئیں گی۔ ان شاء اللہ۔

آہ ! مولانا عاشق الٰہی برنی مہاجر مدنی نور اللہ مرقدہ

حافظ مہر محمد میانوالوی

۱۳ رمضان المبارک ۱۴۲۲ء کو مدینہ طیبہ میں ولی کامل، مفسر قرآن حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری اپنے محبوب مولیٰ سے جا ملے اور جنت البقیع میں سب سے افضل مدفون ذو النورین خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے مزار کے پاس تدفین کی سعادت نصیب ہوئی۔ اللہم زدہ رحمۃ واکراما واجعل الجنۃ مثواہ

مولانا عاشق الٰہی ۱۳۴۳ھ میں بسی ضلع بلند شہر انڈیا میں پیدا ہوئے۔ تبلیغی جماعت کے عظیم پیشوا شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ سے سہارنپور میں ۱۳۶۳ھ میں دورۂ حدیث شریف پڑھا۔ پھر دہلی، کلکتہ کے علاوہ اپنے استاذ محترم مولانا محمد حیات سنبھلی کے مدرسہ جامعہ حیات العلوم مراد آباد میں پڑھایا حتیٰ کہ مفتی اعظم مولانا محمد شفیع ؒ نے دار العلوم کورنگی کراچی میں بلا لیا جہاں ۱۳۸۴ھ سے ۱۳۹۶ھ تک فقہ وحدیث کی تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے۔ اپنے اکابر مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ ، مولانا بدر عالم میرٹھیؒ ، مولانا عبد الغفور نقش بندیؒ ، مولانا قاری فتح محمد نقش بندیؒ کی طرح مدینہ طیبہ میں رہنے اور وہیں فوت ہو جانے کا عشق محمدی دامن گیر تھا۔ آپ کے شیخ مولانا محمد زکریاؒ صاحب بھی پہلے پہنچے ہوئے تھے اس لیے کراچی سے حرمین شریفین جاگزیں ہوئے اور تالیفی کام میں ان کو امداد دی اور تدریس کرتے رہے حتیٰ کہ ۲۶ سال بعد دل کی حسرت وتمنا پوری ہوگئی۔ رحمت للعالمین ﷺ کا قرب نصیب ہوا اور ارشاد نبوی کے مطابق شفاعت کے حق دار ہو گئے۔

تدریسی خدمات میں انہماک کے باوجود تصنیف وتالیف کی لائن میں اللہ تعالیٰ نے بہترین دماغ اور وافر صلاحیت عطا فرمائی تھی۔ اردو اور عربی میں سو کے لگ بھگ بڑی چھوٹی کتب تصنیف فرمائیں جن کو خدا نے مقبولیت عامہ سے نوازا۔ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں طبع ہوئیں۔ ناشرین کا کاروبار چمکا مگر مولانا نے خود ان سے ذاتی فائدہ یا رائلٹی نہیں لی نہ کسی کتاب کے حقوق طبع محفوظ رکھے۔ ان کے چھوٹے بیٹے عبد اللہ کا بیان ہے کہ اپنے لیے یا اولاد کے لیے ذاتی مکان تک نہیں بنایا۔ اگر کسی نے آپ کی کتاب پر اپنا نام لکھ کر چھاپ دیا تو برا نہیں منایا بلکہ کہا کہ چلو دین کی بات تو دوسرے تک پہنچ گئی، ہمیں نام کی شہرت درکار نہیں۔ ایسی مثال آج کل کم ہی ملے گی۔

اگر کثیر التصانیف ہونے میں حضرت تھانویؒ کے بعد آپ کا نام شمار کیا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا، اگرچہ حضرت شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنیؒ کے علمی وارث اور سلف صالحین کے مطابق مسلک اہل سنت علماء دیوبند کے حقیقی ترجمان اور پچاس سے زائد کتب کے مصنف استاذی المکرم شیخ الحدیث والتفسیر مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ دونوں بزرگوں کی تصانیف میں موازنہ سے راقم کو فرق یہ محسوس ہوتا ہے کہ مولاناعاشق الٰہی کی اردو تصانیف عام فہم، اصلاح حال واعمال پر ابھارنے والی تبلیغی طرز کی ہیں جبکہ استاذ مکرم کی فرق باطلہ کے رد میں عقائد حقہ اہل سنت وعلماء دیوبند کی حفاظت کا حصن حصین ہیں۔ حضرت برنی کی عربی تصانیف بہت وسیع عالمانہ، تحقیقی، بلند پایہ اور حنفی مسلک کی ترجمان ہیں۔ دیار عرب میں رہ کر فقہ حنفی کی وکالت اور حفاظت کا حق ادا کیا ہے۔ فرحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً

آپ کی عربی تصانیف میں سے چند یہ ہیں: 

(۱) جدید تفسیر انوار القرآن (۹ جلدیں) جس کے انگریزی، فرانسیسی، ہندی اور بنگالی زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ 

(۲) مجانی الاثمار من شرح معانی الآثار للطحاوی 

(۳) بہیج الراوی بتخریج احادیث الطحاوی

(۴) انعام الباری فی شرح اشعار البخاری

(۵) التسہیل الضروری فی مسائل القدوری

(۶) زاد الطالبین

(۷) المواہب الشریفۃ فی مناقب الامام ابی حنیفۃؒ 

(۸) القادیانیۃ ماہی؟

(۹) حاشیہ الخیرات الحسان فی مناقب ابی حنیفۃ النعمان

(۱۰) التحفۃ المرضیۃ فی شرح المقدمۃ الجزریۃ

(۱۱) روضۃ الاحباب

اردو میں درج ذیل کتابیں کافی مقبول ہیں:

(۱۲) سیرت سرور کونین (۳ جلدیں)

(۱۳) شرح اربعین نووی

(۱۴) امت مسلمہ کی مائیں

(۱۵) مسلم خواتین کے لیے بیس سبق

(۱۶) مسنون دعائیں

(۱۷) تحفہ خواتین

(۱۸) چھ باتیں

(۱۹) اسلامی نام

(۲۰) ذکر اللہ کی کثرت کیجیے

(۲۱) شرعی حدود وقصاص

راقم کو حضرت ممدوح ومرحوم سے کوئی خاص ذاتی تعلق یا شرفِ تلمذ نہیں البتہ ۸۷ء میں جب راقم جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن کراچی میں تخصص فی علوم الحدیث کا طالب علم تھا، آپ دار العلوم میں مدرس تھے۔ تراویح سنانے والے حفاظ کو منتخب کرنے کی ڈیوٹی آپ کے ذمے لگا دی گئی۔ حفاظ کی ایک جماعت کے ساتھ احقر کو بھی پہلی مرتبہ آپ کی زیارت نصیب ہوئی۔ کشادہ پیشانی، گول چہرہ، میانہ قد، سرمگیں آنکھیں، چمکیلے دانت، سانولا رنگ اور بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ٹیسٹ صاف گوئی کے ساتھ اور اغلاط کی نشان دہی کرتے ہوئے لیا۔ کسی کی اصلاح کے لیے بروقت تنقید اور حق گوئی آپ کی فطرت معلوم ہوئی کہ لگی لپٹی رکھنے کے بجائے بلا خوف لومۃ لائم صحیح وسدید اور حق بات بڑے بڑے لوگوں کو صاف کہہ دیتے تھے۔ امتحان دینے کے شرف کے علاوہ اس وجہ سے بھی عقیدت ہے کہ آپ کی اردو تصانیف اپنے کتب خانہ اور مکتبہ عثمانیہ کے لیے سرمایہ اور باعث زینت بنائی تھیں۔ حضرت استاذیم مدظلہ کی کتب کی طرح ان سے بھی ہر قسم کا فائدہ اٹھایا۔

قلبی تعلق کا تازہ سبب ابھی رمضان ۱۴۲۲ھ میں عمرہ کرنا ہے۔ مدینہ طیبہ جا کر آپ کا پتہ کرنے مسجد قبا گیا۔ عصر کے بعد امام صاحب نے فرمایا ’’عاشق الٰہی شیخ معروف ابنہ عبد الرحمن مدرس فی الحرم النبوی‘‘ خوشی سے واپس آکر ان کو تلاش کر لیا۔ پتہ چلا کہ حضرت عارضہ قلب کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہیں۔ جمعرات کے دن واپس آ گئے تو جمعہ ۸ رمضان کی شب کو ملاقات کاپروگرام بنایا۔ دفاع صحابہ اور تائید اہل سنت میں اپنی چند کتابیں تو مولانا عبد الحفیظ مکی کے صاحب زادوں کو دی تھیں۔ وہ خود افریقہ گئے ہوئے تھے اور بقیہ مولانا کے صاحبزادے قاری عبد الرحمن کوثر کو دے دی تھیں کہ وہ حضرت کو دکھا کر دعا کی درخواست کر دیں۔

میری محرومی اور قدرے غفلت کا نتیجہ کہیے کہ تراویح کے بعد مولانا عبد الرحمن تجوید پڑھانے بیٹھ گئے۔ میں کچھ دیر انتظار میں بیٹھا دیکھتا رہا۔ ان کے اٹھتے وقت لمحہ بھر کو نگاہ دوسری طرف ہو گئی اور وہ بھی مجھے دیکھے یاد کیے بغیر گھر چلے گئے۔ پھر جدید مسجد کے وسیع صحرا یا سمندر میں ایک دوسرے سے نہ مل سکے۔ جمعہ کے وقت اور پھر تراویح کے بعد بھی ان سے ملاقات اور حضرت کا شرفِ زیارت نہ پا سکا۔ دوسرے دن پھر عمرہ کر کے پاکستان آ گیا۔ ۳ دن بعد خبر سنی کہ حضرت مولانا عاشق الٰہی انتقال فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ۳دن زیارت کی مشقت کا اجر اور اہل اللہ سے محبت خدا کے حوالے کرتا ہوں کہ وہ اپنی مہربانی سے بخش دے۔ 

احب الصالحین ولست منہم لعل اللہ یرزقنی الصلاحا

اللہ تعالیٰ اکابر دیوبند کی طرح مولانا عاشق الٰہی کی خدمات دینیہ کو قبول فرما کر خطایا سے درگزر فرمائے۔ آمین

پیٹ معذور ہوتا ہے

پروفیسر میاں انعام الرحمن

وہ بے چینی سے ہاتھ پر ہاتھ مسل رہا تھا۔ بھاری بھرکم کھردرے ہاتھوں پر جمی ہوئی پتلی سی سیاہی صاف چغلی کھا رہی تھی کہ یہ ’’دستِ محنت‘‘ ہیں۔ اپنا خون پسینہ ایک کرکے روزی کمانے والا پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے سوالی بننے پر مجبور ہو گیا تھا۔ .......’’یقین کریں باؤ صاحب، میں مانگنے والا نہیں ہوں۔ ........ بڑا عجیب سا لگ رہا ہے۔ ...... شرم آ رہی ہے۔ میں تو ..... میں تو جی کاری گر ہوں۔ لوہے کی الماریاں مرمت کرتا ہوں۔ ہفتہ ہو گیا ہے کام نہیں ملا۔ ...... میرے پاس ڈیڑھ سو روپے تھے، وہ ختم ہو گئے ہیں۔ ..... اگر ..... اگر آپ ......‘‘ اس سے آگے کچھ کہنے سے وہ ہچکچا رہا تھا۔ میرا خیال تھا وہ کرایے وغیرہ کے لیے پچاس، سو روپے کا تقاضا کرے گا لیکن جب بات ’’اگر آپ......‘‘ سے آگے بڑھی تو میں حقیقتاً چونک اٹھا۔ وہ صرف ’’روٹی‘‘ کھانے کے لیے پیسے مانگ رہا تھا۔ اس کے کھردرے ہاتھوں کی سختی اس کی ’’انا‘‘ کی حفاظت نہ کر پائی تھی۔ میں نے پریشان سے انداز میں جیب میں ہاتھ ڈالا اور حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے دس روپے کی ’’خطیر رقم‘‘ اس کے حوالے کر دی۔ اگر اس وقت اس سے ذرا بڑھ کر مدد کرنے کی کوشش کرتا تو بجٹ درہم برہم ہونے سے ’’پروفیسری‘‘ تہی دامن ہو جاتی۔ اس کے ہاتھوں کا کھردرا پن، ان پر جمی ہوئی ہلکی سی سیاہی، بھرائی ہوئی آواز اور لہجے سے امڈتی سچائی ، یہ سب چیزیں اسے پیشہ ور بھکاری سمجھنے میں مانع ہو رہی تھیں۔ پھر اس نے پوچھا، ’’باؤ جی آپ کیا کام کرتے ہیں؟‘‘ ’’کالج میں پڑھاتا ہوں۔‘‘ میرے جواب پر اس نے خالصتاً ’’کامی‘‘ لوگوں کی طرح مشتاق ہو کر کہا، ’’کالج میں بھی الماریوں کی مرمت کا بہت سا کام ہوتا ہے، بنچ وغیرہ بھی ہوتے ہیں، امتحانی کرسیاں بھی ہوتی ہیں۔ ..... میں کالج میں حاضر ہو جاؤں؟‘‘ اس کے سوالیہ انداز کو میں نے سیاست دانوں کی طرح ٹالتے ہوئے کہا کہ کالج میں ایسے کام عموماً گرمیوں کی چھٹیوں میں ہوتے ہیں۔ ویسے بھی ہر کام ایک Process سے ہوتا ہے۔ کالج میں ایک مخصوص کمیٹی ہی یہ کام کروا سکتی ہے۔ اگر تم دل چسپی رکھتے ہو تو کالج کی اس کمیٹی سے رابطہ کر لو۔ یوں میں نے اسے ٹال دیا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ میں اس کی مدد کرنے سے قاصر تھا۔ بحیثیت پروفیسر میں خود ’’سرخ فیتے‘‘ کا شکار رہا ہوں، بھلا اس کے لیے کیا کر سکتا تھا؟ آخر Process بھی کوئی چیز ہے، اگر معاملہ میرے اور اس جیسے لوگوں کا ہو۔ اور اگر ’’ہاتھ پڑتا‘‘ ہو تو دستور بھی کوئی چیز نہیں۔

اس شخص کے لہجے کی سچائی اور شکستگی نے دل میں غبار بھر دیا۔ ذہن کی یہ حالت تھی جیسے کسی نے جامد پانی میں لگاتار پتھر پھینک کر ہلچل مچا دی ہو۔ ایک نہ تھمنے والے اضطراب نے ذہن کے ایک گوشے میں مستقل پڑا ڈال لیا۔ کیا پیٹ کی ’’انا‘‘ نہیں ہوتی؟ یہ اور اس جیسے کئی سوالات تھے جو کم از کم ایک لمحے کے لیے سہی، کسی کو بھی جھنجھوڑ سکتے ہیں۔ 

یہ واقعہ مجھے اس واقعے کی بازگشت معلوم ہوا جب ایک مرتبہ ایک اچھے خاصے سفید پوش قسم کے صاحب ملے اور کہا کہ آپ سے بات کرنی ہے۔ میں نے کہا، فرمائیے۔ انہوں نے اصرار سے گھر لے جانے کو کہا۔ میں گھر لے آیا، چائے سے تواضع کی۔ اس کے بعد ان صاحب نے جو حرکت کی، میں لرز کر رہ گیا۔ میرے خواب وخیال میں بھی نہ تھا کہ وہ ایسا کر گزریں گے۔

خواب بھی خواب ہوئے اب تو یہاں پر یارو

وہ اچانک اٹھے اور میرے گھٹنے پکڑ کر تھکے تھکے لہجے میں انتہائی لجاجت اور بے چارگی سے کہا، ’’میں بہت مجبور ہوں۔ اگر آپ ایک سو روپے عنایت فرمائیں تو زندگی بھر احسان مند رہوں گا۔ چند ہی روز میں آپ کو واپس کر دوں گا۔‘‘ میں تو اپنے گھٹنے پکڑے جانے پر ششدر تھا، تقریباً سکتے کی حالت میں تھا۔ ہوش میں آنے پر شرمندگی سے گھڑوں نہیں سمندروں پانی میں نہا گیا۔ جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے اکثر علاقوں میں ہو سکتا ہے یہ معمول کی حرکت ہو لیکن میرے لیے گھٹنے پکڑے جانا ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ شاید یہ اس سمندروں پانی میں نہانے کا نتیجہ ہے کہ اس کی چھوڑی ہوئی ’’تری‘‘ لفظوں میں ڈھل کر تحریر کی صورت میں ’’خشک ‘‘ہو رہی ہے۔ میرا خیال ہے یہ تری کبھی ختم نہیں ہوگی۔ خیر! میں نے ان صاحب کو سو روپے دیے اور ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا کہ آپ ذہن پر بوجھ نہ ڈالیں، یہ آپ کی اپنی رقم ہے۔ ہم اجنبی سہی، لیکن آپ کا مجھ پر کوئی حق بھی ہے۔

ذہن پر ان واقعات کے نقوش ابھی دھندلے نہیں ہوئے تھے کہ خبر آئی، جنرل پرویز مشرف نے ’’صدر‘‘ کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ خبر پڑھ کر نواب وقار الملک کے وہ الفاظ یاد آ گئے جو انہوں نے تقسیمِ بنگال کی تنسیخ پر کہے تھے:

’’حکومت کا یہ اقدام مسلمانوں کی لاشوں پر سے توپ خانہ گزارنے کے مترادف ہے جو اس امر کا احساس کیے بغیر گزارا گیا ہو کہ شاید ان میں سے کچھ لاشیں نیم جان ہوں۔‘‘

صدر محترم! معاشی بے انصافی اور معاشرتی بے یقینی کے تھپیڑوں سے یہ قوم نیم جان ضرور ہوئی ہے، ابھی مری نہیں۔ خدارا صدارتی مراعات جیسے توپ خانے اس پر سے مت گزاریے۔ اپنی ’’انا‘‘ کی تسکین کے لیے لاکھوں اناؤں کو قربان مت کیجیے۔ ایک طرف ایڈہاک لیکچررز کو چھٹی کرا دی گئی ہے اور دوسری طرف ......۔

صدر محترم! دستِ محنت کو سوالی بنانے کے بجائے میدانِ محنت کی کشادگی کا بندوبست کیجیے۔ ہمارے وطن میں دستِ محنت کی کمی نہیں، بس میدانِ محنت نایاب ہے۔ قاضی صاحب نے رہائی کے بعد جو بیانات دیے ہیں، ان کا لفظ لفظ سچ پر مبنی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے الفاظ نہیں، کیل ہیں جو ایک ایک کر کے دماغ میں ٹھونکے جا رہے ہیں۔ لیکن قاضی صاحب! کیا کریں، پیٹ کا دماغ نہیں ہوتا اس لیے قوم پر آپ کی کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ جذباتی نعرے لگانے والے اور فصیح وبلیغ تقریریں کرنے والے بھی یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ پیٹ کے کان نہیں ہوتے۔ پیٹ کی آنکھیں بھی نہیں ہوتیں۔ پیٹ تو بس پیٹ ہوتا ہے۔ ہاں، پیٹ معذور ہوتا ہے۔

مولانا درخواستی کا دورۂ جنوبی افریقہ، فجی وبنگلہ دیش

ادارہ

دنیا بھر کے مسلمانوں میں عقائد واعمال کی پختگی اور دینی اقدار وروایات کے ساتھ وابستگی کا جذبہ پروان چڑھ رہا ہے اور وہ اپنا اسلامی تشخص برقرار رکھتے ہوئے اس میں مزید رنگ بھر رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی نے ساؤتھ افریقہ، فجی آئی لینڈ اور بنگلہ دیش کے تبلیغی دورے سے واپسی پر اسلام آباد میں علما کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں میں احیاء اسلام کا جذبہ موج زن ہے اور دین داری کی لہریں اٹھ رہی ہیں جس کا زندہ اور واضح ثبوت روز افزوں دینی اداروں کا قیام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ساؤتھ افریقہ کے دورے میں بیانات کے لیے جوہانس برگ، ڈربن، لیڈیز منٹ، آزاد ولڈ اور اسپرنس جانے کا اتفاق ہوا۔ ان تمام شہروں میں خوبصورت ایئر کنڈیشنڈ مساجد، وسیع وعریض مدارس اور بڑی بڑی خانقاہیں وجود میں آ چکی ہیں جہاں دین کی تبلیغ واشاعت اور تعلیم وتربیت کا کام وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے۔ خاص طور پر آزاد ولڈ اور اسپرنس کے مدارس قابل دید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ساؤتھ افریقہ کے مسلمان، علماء ومشائخ کے ساتھ بے پایاں عقیدت اور وارفتگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دینی اجتماعات میں بھرپور شرکت کرتے ہیں۔

مولانا درخواستی نے اپنے دورۂ بنگلہ دیش کے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کے لوگ پاکستانیوں سے بے حد محبت کرتے ہیں خاص طور پر علما کا بہت زیادہ احترام واکرام کرتے ہیں اور دین داری میں بہت پختہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کا سب سے بڑا تبلیغی اجتماع بنگلہ دیش میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ مدنیہ قاضی بازار سلہٹ کے جلسہ دستار بندی کے عظیم اجتماع سے فضیلت علم کے موضوع پر خطاب ہوا۔ اس کے علاوہ مولوی بازار، سنام گنج اوردیگر شہروں میں بڑے بڑے اجتماعات میں بیانات ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ سلہٹ اور ڈھاکہ مسجدوں کے شہر مشہور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہاں کی موجودہ حکومت سابقہ حکومت سے بہتر ہے۔ وہاں کی اسمبلی کے انتخابات میں علما نے شریعت گروپ کے نام سے حصہ لیا اور تین علما اسمبلی کے ممبر قرار پائے اور اب اسمبلی کے اندر اور باہر حق کی آواز بلند کر رہے ہیں۔ 

انہوں نے اپنے دورۂ فجی آئی لینڈ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں اگرچہ مسلمان اقلیت میں ہیں اور ان کی تعداد آٹھ فیصد ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنا دینی تشخص برقرار رکھے ہوئے ہیں اور علما کی بڑی قدر کرتے ہیں اور وہاں ایک سو بیس مساجد موجود ہیں۔ فجی آئی لینڈ مختلف جزائر پر مشتمل ہے۔ مشہور جزیروں میں دار الحکومت صوبہ، لمباسا اور طاویونی، جہاں سے دن کی ابتدا ہوتی ہے، شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہاں کے تمام جزیروں میں مختلف عنوانات پر بیانات ہوئے۔ (رپورٹ: مولانا محمد ادریس ڈیروی)

علماء کرام نئی نسل کی ذہن سازی پر توجہ دیں

پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی نے ۳۰ مارچ کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں علماء کرام کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مغرب کی ثقافتی یلغار اور ہندو تہذیب کے اثرات کی روک تھام کے لیے نئی نسل کی صحیح دینی واخلاقی تربیت کی ضرورت ہے اور یہ کام علماء کرام ہی بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں علماء کرام اور دینی اداروں کو تعلیم وتربیت اور رفاہی خدمات کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے اور ان این جی اوز کا عملی میدان میں مقابلہ کرنا چاہیے جو غیر ملکی سرمایہ سے پاکستان میں تعلیم، صحت اور رفاہی خدمات کی آڑ میں عیسائیت اور مغربی تہذیب کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان این جی اوز کو ہمارے معاشرے میں آنے کا اس لیے موقع ملا ہے کہ ہمارے ہاں ان کاموں کا خلا ہے۔ اگر ہم خود ان کاموں میں پیش پیش ہوں تو کسی اور کو یہاں آکر اس خلا سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ دینی تعلیم، نوجوانوں کی روحانی واخلاقی تربیت اور سوسائٹی کے نادار لوگوں کی کفالت مذہبی طور پر بھی ہماری ذمہ داری ہے اور علماء کرام ودینی مراکز کو اس کے لیے منظم طور پر کام کرنا چاہیے۔

مولانا درخواستی الشریعۃ اکادمی بھی تھوڑی دیر کے لیے تشریف لائے اور منصوبہ کی کام یابی کے لیے دعا کی۔

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’معجزات پیغمبر ﷺ‘‘

معروف محقق اور مناظر حضرت مولانا عبد اللطیف مسعود نے جناب نبی اکرم ﷺ کے معجزات پر قلم اٹھایا ہے اور معجزہ کی نوعیت ومقصد کی وضاحت کے ساتھ ساتھ معجزہ اور سحر کے فرق کوواضح کرنے کے علاوہ جناب نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے بارے میں کتب سماویہ کی پیش گوئیوں نیز مہاتما بدھ اور ویدکی پیش گوئیوں کا بھی باحوالہ تذکرہ کیا ہے۔ مولانا عبد اللطیف مسعود مسیحیت کے محققین میں شمار ہوتے ہیں اور جناب نبی اکرم ﷺ کے بارے میں انجیل کی پیش گوئیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے مسیحی علما نے جو حربے اختیار کیے ہیں، اس کتاب میں ان کا بھی پردہ چاک کیا گیا ہے۔

۳۰۰ سے زائد صفحات کی یہ خوب صورت اور مجلد کتاب دار العلوم مدنیہ ڈسکہ کلاں ضلع سیالکوٹ نے شائع کی ہے اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، حضوری باغ روڈ ملتان سے بھی طلب کی جا سکتی ہے۔ کتاب کی قیمت ۱۵۰ روپے ہے۔

’’دلیل قصص النبیین‘‘

دار العلم آب پارہ اسلام آباد کے مدیر مولانا محمد بشیر ایک عرصہ سے عربی زبان کی ترویج اور تعلیمی اداروں میں عصر حاضر کے تقاضوں کی روشنی میں عربی کی تعلیم کے لیے نصاب ونظام کی تدوین میں سرگرم عمل ہیں اور اس سلسلے میں ان کی مختلف علمی کاوشیں سامنے آ چکی ہیں۔

مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی قدس اللہ سرہ العزیز نے بچوں کی دینی تعلیم وتربیت اور ان میں عربی کا ذوق پیدا کرنے کے لیے ’’قصص النبیین‘‘ پانچ حصوں میں تصنیف فرمائی تھی جو بہت سے تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل ہے۔ مولانا محمد بشیر نے اساتذہ کے لیے ’’قصص النبیین‘‘ کی گائیڈ کے طور پر اس کے ہر حصے کے بارے میں الگ کتابچہ شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے اور پہلے دو حصوں سے متعلقہ کتابچے اس وقت ہمارے سامنے ہیں جو بالترتیب ۵۶ اور ۶۴ صفحات پر مشتمل ہیں۔ ان میں مصنف نے بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ ’قصص النبیین‘ کے اصل اسباق کے ساتھ ضروری مشقیں مرتب کی ہیں اور اساتذہ کی راہ نمائی کے لیے طریق کار کی وضاحت بھی کر دی ہے۔

ہمارے ہاں دینی تعلیم کے نظام میں ایک بڑی کمی یہ ہے کہ اساتذہ کی تربیت اور راہ نمائی کا کوئی مناسب نظام اور ماحول موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے عربی ودینی مدارس کے تعلیمی نظام میں محنت، خلوص اور لگن کے باوجود مطلوبہ مقاصد پوری طرح حاصل نہیں ہو رہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ مولانا محمد بشیر کی یہ کوشش اس خلا کو کسی حد تک پر کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ دینی مدارس میں عربی کی تعلیم دینے والے اساتذہ کے لیے ان کتابچوں کا مطالعہ اور ان سے استفادہ بے حد افادیت کا حامل ہوگا۔ ان کی قیمت بالترتیب ۲۰ روپے اور ۲۵ روپے ہے اور یہ دار العلم ۶۹۹ آب پارہ مارکیٹ اسلام آباد نے شائع کیے ہیں۔

’’انسان نے لکھنا کیسے سیکھا؟‘‘

ندوۃ العلما لکھنو کے حلقہ کے علماء کرام میں مولانا ابو الجلال ندویؒ ایک معروف محقق عالم گزرے ہیں جن کے تحقیقی وعلمی مضامین ایک عرصہ تک دینی جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں اور وہ کچھ عرصہ حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کے ہمراہ دار المصنفین اعظم گڑھ کے علمی جریدہ ’’معارف‘‘ کی ادارت کی خدمات بھی سرانجام دیتے رہے ہیں۔ 

’’ابو الجلال ندوی اکیڈمی‘‘ ۲۴۳ النور چیمبرز، پریڈی اسٹریٹ کراچی نے مولانا مرحوم کے مضامین ومقالات کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا ہے جو بلاشبہ ایک بڑی علمی خدمت ہے۔ اس سلسلے میں فن تحریر کی تاریخ کے حوالے سے مولانا ابو الجلال ندویؒ کا مضمون ’’انسان نے لکھنا کیسے سیکھا؟‘‘ کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے جو اس وقت ہمارے سامنے ہے اور بیس صفحے کا یہ مضمون اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے گراں قدر تحفہ ہے جس کا ہدیہ ۱۰ روپے ہے۔

’’ادارہ اشاعت الاسلام مانچسٹر کے چند رسائل‘‘

ماہنامہ ’’الاسلام‘‘ گلاسٹر یوکے کے مدیر الحاج ابراہیم یوسف باوا اور ان کے لائق فرزند حافظ محمد اقبال رنگونی علمی ودینی حلقوں میں تعارف کے محتاج نہیں ہیں اور ایک عرصہ سے دینی جرائد میں مختلف موضوعات پر ان کی نگارشات عام لوگوں کی راہ نمائی کا باعث بن رہی ہیں۔ انہوں نے مانچسٹر میں ’’ادارہ اشاعت الاسلام‘‘ قائم کر کے مختلف دینی عنوانات پر لٹریچر کی اشاعت کا آغاز کیا ہے اور خوبصورت معیاری انداز میں چند کتابچے شائع کیے ہیں جن میں سے مندرجہ ذیل کتابچے اس وقت ہمارے پیش نظر ہیں:

۱۔ بیماری اور اس کا علاج از الحاج ابراہیم یوسف باوا۔ صفحات ۳۲

اس میں قرآن وحدیث کی روشنی میں بیماری اور اس کے علاج کے سلسلے میں راہ نمائی کی گئی ہے۔ 

۲۔ معارف الہام از حافظ محمد اقبال رنگونی۔ صفحات ۳۲

اس میں الہام کی حقیقت اور اس کی مختلف صورتوں اور احکام کا قرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے۔

۳۔ معارف کشف از حافظ محمد اقبال رنگونی ۔صفحات ۴۸

یہ رسالہ کشف کی نوعیت اور اس کے شرعی احکام کے حوالے سے ترتیب دیا گیا ہے۔

۴۔ حیات عیسیٰ علیہ السلام از حافظ محمد اقبال رنگونی۔ صفحات ۷۲

اس میں سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات مبارکہ، آپ کے ارشادات وتعلیمات اور رفع ونزول کے بارے میں مستند معلومات یکجا کی گئی ہیں۔

پاکستان میں یہ کتابچے مکتبہ الفاروق ، ۱۹سلطان پورہ روڈ، لاہور ۳۹ سے طلب کیے جا سکتے ہیں۔

بغاوت کی دستک

پروفیسر میاں انعام الرحمن

افغانستان سے متعلق حکومتی پالیسی سے لے کر جہادی تنظیموں پر پابندی کے حکم نامے سمیت بعض ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن پر ہر ذی شعور فرد تحفظات کا اظہار کر سکتا ہے۔ خاص طور پر عدلیہ کے حوالے سے جو آرڈی ننس جاری کیا گیا ہے، اس کے مضمرات کے پیش نظر جنرل پرویز مشرف ہٹلر کی ہم سری کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ برطانویوں کی طرح انگریزی بولنے پر فخر کرنے والوں کو یہ بات بھی جاننی چاہیے کہ برطانوی لوگ کرامویل کے عہد کو اپنی تاریخ کا حصہ نہیں مانتے لیکن جنرل موصوف نے دستور کی دھجیاں اڑاتے ہوئے عوام پر آمریت مسلط کر رکھی ہے۔ نتائج وعواقب سے بے پروا ہو کر مخصوص ومحدود مشاورت کے ساتھ اختیار کی گئی موجودہ نہج انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جنرل صاحب کے آقاؤں نے ہی ایسی خطرناک نہج کے نتائج وعواقب سے بچنے کے لیے بعض فیصلے کروا رکھے ہیں جو بین الاقوامی قانون کا حصہ شمار ہوتے ہیں۔ ۱۹۴۵ء کے نورم برگ ٹربیونل (Nuremberg Tribunal) اور ۱۹۶۱ء، ۱۹۶۲ء میں ایچ مین (Eichman) کے ٹرائل اور اپیل کے مندرجات آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ ہٹلر کے عہد میں قائم ڈیتھ کیمپوں کے منتظمین کے حق میں bawality of evilکے عنوان سے دلائل پیش کیے گئے کہ انہوں نے صرف حکومتی احکامات کی پیروی کی تھی۔ وہ عام سے معمولی لوگ تھے اور غیر معمولی حالات کا شکار ہو گئے۔ ان کے پاس کوئی چوائس نہیں تھی سوائے اس کے کہ اپنے سے برتر لوگوں کے احکام پر عمل درآمد کریں لہذا ان لوگوں نے کوئی جرم نہیں کیا لیکن ۱۹۴۵ء اور ۱۹۶۱ء، ۱۹۶۲ء میں ان کے موقف کو رد کر دیا گیا۔ ان فیصلوں کے مطابق طے پایا کہ :

۱۔ کسی بھی تنظیم سے ،چاہے وہ حکومتی ہو، وابستہ افراد یہ جاننے کے ذمہ دار ہیں کہ ان کے اعمال سے کون سے رسمی مقاصد حاصل کیے جا رہے ہیں لہذا مقصد سے دانستہ چشم پوشی کسی بھی اعتبار سے اخلاقی یا قانونی دفاع کا سبب نہیں بنے گی۔

۲۔ تنظیموں کے افراد جن سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ معقول انداز سے کام کرتے ہوئے غیر معقول مقاصد حاصل کریں، ان کا یہ قانونی حق اور اخلاقی فرض ہے کہ وہ ایسے احکامات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں۔

۳۔ تنظیموں کے ارکان اور اس معاشرے کے ارکان جن میں یہ تنظیمیں کام کرتی ہیں، ان تنظیموں کے ’’حتمی مقاصد‘‘ کی بابت جاننے کے ذمہ دارہیں۔ اگر یہ مقاصد غیر معقول ہیں تو ان میں تبدل وتغیر کے بھی ذمہ دار ہیں۔

اگر ان تین نکات کے بین السطور کو مد نظر رکھاجائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بین الاقوامی اور انسانی قدروں کی پاس داری کے لیے جنرل موصوف کے احکامات کو ماننے سے انکار کر دیا جائے؟ میرا خیال ہے معاشرے کے صبر کا پیمانہ لبریز کرنے کے لیے دستور سے بالاتر De facto سیٹ اپ ہی کافی ہے۔ اس سے بڑھ کر غیر انسانی اور بین الاقوامی قدروں سے متصادم آرڈی نینسوں کا اجرا بغاوت کو ہوا دے سکتا ہے۔ مذکورہ بین الاقوامی ضابطے میں یہ بغاوت حق ہی نہیں، فرض بھی قرار دی گئی ہے۔

قافلہ میعاد

ادارہ

مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کی تاریخ پر ایک نظر

ادارہ

 اس تاریخی جامع مسجد کے مین ہال کی توسیع، تعمیر نو، مرمت اور تزئین کا کام شروع ہے۔ ازراہ کرم خود تشریف لا کر کام کا معائنہ کیجیے اور اس کارخیر میں زیادہ سے زیادہ تعاون فرما کر اپنے ذخیرۂ آخرت میں اضافہ کیجیے
 
مزید معلومات اور متعلقہ امور کے لیے 
جامع مسجد کی انتظامیہ کے سیکرٹری شیخ محمد نسیم (گلی شیرانوالہ باغ) سے رابطہ قائم کریں۔

مئی ۲۰۰۲ء

تحریک ختم نبوت کے مطالباتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
قافلہ معادادارہ
جی ہاں! پاکستان کو آئیڈیل ازم کی ضرورت ہےپروفیسر میاں انعام الرحمن
مقاصد تشریع کا ایک مختصر جائزہمولانا منتخب الحق
دینی قوتیں: نئی حکمت عملی کی ضرورتڈاکٹر محمد امین
دستور سے کمٹمنٹ کی ضرورتپروفیسر میاں انعام الرحمن
سر سید کے مذہبی افکار پر ایک نظرگل محمد خان بخمل احمد زئی
غزوۂ بدر کی سیاسی واقتصادی اہمیتپروفیسر محمد یونس میو
تیل کی طاقتکرسٹوفر ڈکی
مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کا حادثہ وفاتامین الدین شجاع الدین
آہ! حضرت مولانا مفتی رشید احمدؒحافظ مہر محمد میانوالوی
جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی کا مکتوب گرامیڈاکٹر محمود احمد غازی

تحریک ختم نبوت کے مطالبات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تمام مذہبی مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے جداگانہ طرز انتخاب کے خاتمہ اور ووٹر کے اندراج کے فارم میں مذہب کا خانہ اور عقیدۂ ختم نبوت کا حلف ختم کرنے کے فیصلوں کو مسترد کر دیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ یہ فیصلے فی الفور واپس لے کردستور کی اسلامی دفعات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ یہ فیصلہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی دعوت پر ۴ مئی ۲۰۰۲ء کو لاہور میں منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں طے پایا کہ اس سلسلے میں تمام مذہبی جماعتوں کا سربراہی اجلاس طلب کیا جائے گا جس کے لیے جمعیۃ علماء اسلام (ف) نے میزبانی کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس سربراہی اجلاس میں تحریک ختم نبوت کو ازسرنو منظم کرنے اور کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کو ہر سطح پر متحرک کرنے کے لیے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ اجلاس میں ملک بھر کے علماء کرام اور خطبا سے اپیل کی گئی ہے کہ جمعۃ المبارک کے خطبات میں عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت واضح کی جائے، قادیانی سرگرمیوں کے بارے میں عوام کو باخبر کیا جائے اور رائے عامہ کو منظم کرنے کے لیے ضلعی اور مقامی سطح پر ختم نبوت کانفرنسیں منعقد کی جائیں۔
اجلاس میں مشترکہ طور پر اس موقف کا اعلان کیا گیا کہ جداگانہ طرز انتخاب ختم کرنے کا فیصلہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد اور تحریک پاکستان کے تاریخی پس منظر بالخصوص دو قومی نظریہ کی نفی کے مترادف ہے اور ملک کے دستور کے بھی منافی ہے جس کی اسلامی دفعات کے تحفظ کا پی سی او میں واضح طور پر وعدہ کیا گیا ہے اور سپریم کورٹ نے ظفر علی شاہ کیس میں حکومت کو پابند کیاہے کہ وہ دستور کی اسلامی دفعات سے کوئی تعرض نہیں کرے گی لیکن اس کے باوجود اس خالص اسلامی اور نظریاتی مسئلہ کو ازسرنو متنازعہ بنا کر دستور کی اسلامی حیثیت کو مجروح کیا جا رہا ہے۔
اجلاس میں اس بات کو شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا کہ امریکی کانگریس کی طرف سے قادیانیوں کو مسلمان تسلیم کرنے کے مطالبہ کے فوراً بعد مسلم اور غیر مسلم ووٹروں کے الگ الگ اندراج اور ووٹر فارم میں مذہب کا خانہ اور عقیدہ ختم نبوت کا حلف نامہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو عملاً قادیانیوں کو مسلمانوں میں شامل کرنے اور سرکاری ریکارڈ میں مسلمانوں اور قادیانیوں کا فرق ختم کر دینے کے مترادف ہے جو اسلامیان پاکستان کے لیے قطعی طور پر ناقابل برداشت ہے جبکہ یہ حلف نامہ اور مذہب کا خانہ نیز مسلم اور غیر مسلم ووٹروں کا الگ الگ اندراج بھٹو حکومت کے دور سے چلا آ رہا ہے جب مخلوط الیکشن کا طریقہ رائج تھا اس لیے اس مسئلہ کا تعلق جداگانہ الیکشن سے نہیں بلکہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے دستوری فیصلے پر عمل درآمد سے ہے اور اسے ختم کر کے دستور پاکستان کے اس فیصلے کو غیر موثر بنانے کی سازش کی گئی ہے اس لیے یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ جداگانہ طرز انتخاب اور ووٹر فارم میں عقیدہ ختم نبوت کا حلف نامہ ختم کرنے کے فیصلے فی الفور واپس لے کر اسلامیان پاکستان کو دستور کی اسلامی دفعات کے تحفظ کے حوالے سے مطمئن کیا جائے۔
اجلاس نے پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت کے خلاف کیے جانے والے کسی بھی اقدام سے بے زاری کا اعلان کیا ہے اور حکومت پر واضح کیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ کی طرف لے جانے والے ہر اقدام کی پوری قوت سے مزاحمت کی جائے گی اور ملک کی دینی قوتیں اور غیور عوام ایسے کسی بھی عمل کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کریں گے۔
اجلاس میں جمعیۃ علماء اسلام کے مولانا محمد عبد اللہ، مولانا محب النبی، مولانا عبد الرؤف فاروقی اور مولانا خلیل الرحمن حقانی، پاکستان شریعت کونسل کے مولانا زاہد الراشدی، مولانا قاری جمیل الرحمن اختراور مولانا ذکاء الرحمن اختر، مجلس تحفظ ختم نبوت کے مولانا اللہ وسایا، مولانا محمد اکرم طوفانی، مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی اور مولانا بشیر احمد، مجلس احرار اسلام کے چوہدری ثناء اللہ بھٹہ، پیر سید کفیل شاہ بخاری، عبد اللطیف خالد چیمہ اور مولانا اللہ یار ارشد، انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے مولانا منظور احمد چنیوٹی، جمعیۃ علماء پاکستان کے مولانا قاری زوار بہادراور انجینئر سلیم اللہ خان، پاکستان عوامی تحریک کے علامہ علی غضنفر کراروی اور مولانا محمد حسین آزاد، عالمی انجمن خدام الدین کے مولانا میاں محمد اجمل قادری اور جمعیۃ اہل حدیث پاکستان کے مولانا ریاض الرحمن یزدانی کے علاوہ ممتاز قانون دان جناب محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ اور صوبائی وزیر مذہبی امور مولانا مفتی غلام سرور قادری نے بھی شرکت کی۔

قافلہ معاد

ادارہ

  • عالم اسلام کی ممتاز علمی شخصیت اور بھارت کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ گزشتہ ماہ طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا تعلق صوبہ بہار سے تھا۔ دار العلوم دیوبند کے ممتاز فضلا اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کے مایہ ناز تلامذہ میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ انہوں نے بھارت میں مسلمانوں کے شرعی خاندانی قوانین کے تحفظ اور ترویج کے لیے مسلسل محنت کی اور صوبہ بہار کے امیر شریعت کے منصب پر بھی فائز رہے۔ انہوں نے دہلی میں فقہ اکیڈیمی قائم کر کے جدید مسائل پر علمی اور تحقیقی کام کا آغاز کیا اور ممتاز فقہا کے ساتھ مختلف شعبوں کے ماہرین کی مشترکہ مشاورت وتحقیق کا اہتمام کر کے جدید اور اجتہاد طلب مسائل پر علمی آرا اور فیصلوں کا قابل قدر ذخیرہ ’’جدید فقہی مباحث‘‘ کے عنوان سے کئی جلدوں میں پیش کیا جو ان کا عظیم علمی کارنامہ ہے۔ وہ جدہ کی ’’مجمع الفقہ الاسلامی‘‘ کے رکن تھے اور انہیں بھارت میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی وفات کے بعد آل پارٹیز مسلم پرسنل لا بورڈ کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔
  • افغانستان کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا محمد نبی محمدیؒ گزشتہ روز پشاور میں ۸۲ سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا تعلق صوبہ لوگر سے تھا اور وہ ظاہر شاہ کے دور میں افغان پارلیمنٹ کے رکن تھے۔ انہوں نے افغانستان میں روسی تسلط کے خلاف جدوجہد کو منظم کرنے میں سرگرم کردار ادا کیا اور ’’حرکت انقلاب اسلامی‘‘ قائم کر کے روسی استعمار سے آزادی کی جدوجہد کی قیادت کی۔ وہ طالبان حکومت کے سرپرستوں اور پشت پناہوں میں سے تھے اور افغانستان کے بزرگ، مدبر اور معاملہ فہم علماء کرام میں ان کا شمار ہوتا تھا۔
ان دونوں بزرگوں کی وفات اس خطے کے علماء کرام اور دینی حلقوں کے لیے بہت بڑے صدمے کی بات ہے اور قحط الرجال کے اس دور میں بلاشبہ ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان بزرگوں کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور ان کے متوسلین کو ان کی علمی ودینی خدمات کا سلسلہ تادیر جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

جی ہاں! پاکستان کو آئیڈیل ازم کی ضرورت ہے

پروفیسر میاں انعام الرحمن

جنرل پرویز مشرف آج کل جہاں اپنی حکومت کے ’’انقلابی اقدامات‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں‘ وہاں یہ بھی فرما رہے ہیں کہ مثالیت (Idealism) کے بجائے عملیت اور نتائجیت (Pragmatism) کو قومی شعار بنانا چاہیے۔ جنرل صاحب مجوزہ آئینی ترامیم اور ریفرنڈم کے سیاق وسباق میں قوم کو یہی ’’درس‘‘ دے رہے ہیں۔

اگر ہم ذرا گہری نظر سے معروضی واقعیت کا جائزہ لیں تو دنیا میں اس وقت موجود قومی وعالمی تشتت وانتشار‘ بے حسی اور خود غرضی کے اسباب مثالیت پسندی کے زوال میں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد اگر مثالیت پسندی کا مظاہرہ کریں تو انہیں مادی مفادات سے بالاتر ہو کر (یعنی ٹیوشن وغیرہ سے بچتے ہوئے) محنت ودیانت داری کے ساتھ طلبا کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ ایک وقت تھا جب اس شعبے کے افراد کی اکثریت مثالیت کو اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے تھی اس لیے معاشرے میں کرپشن کا گراف بھی اتنا بلند نہیں تھا۔ لیکن شعبہ تعلیم میں نتائجیت پسندی کے راہ پانے سے مثالیت کو چپ سادھنی پڑی ہے۔ مثالیت پسند گوشہ نشین ہو چکے ہیں اور احباب کی نظروں میں ’’احمق‘‘ گردانے جاتے ہیں جبکہ نتائجیت پسند ’’عاقل‘‘ اپنے معیار زندگی کو بلند سے بلندتر کرتے ہوئے زمانے کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں۔ 

نتائجیت پسندی زندگی کے ہر شعبے میں ’’شارٹ کٹ اپروچ‘‘ کو فروغ دیتی ہے۔ شعبہ تعلیم میں اسی اپروچ کے مطابق Selected study کرائی جاتی ہے جس سے طلبا کو معلومات (Information)کا طومار تو مل جاتا ہے لیکن شعور (Awareness) ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔ اس اپروچ کے سنگین نتائج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح بیوروکریسی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں مثالیت کے زوال اور نتائجیت کے در آنے سے معاشرہ جس ٹوٹ پھوٹ اور بے حسی کا شکار ہے‘ قلم اسے بیان کرنے سے قاصر ہے۔

۱۲؍ اکتوبر کو اقتدار کی مسند پر قابض ہونے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے سات نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا۔ ان نکات میں سے ایک نکتہ قومی اداروں کو سیاسی اثرات اور رجحانات سے پاک کرنا (Depoliticizing State Institutions)تھا۔ جب جنرل صاحب یہ نکتہ بیان فرما رہے تھے تو ساتھ ہی عملاً اس کی نفی بھی کر رہے تھے۔ ایک جمہوریہ میں فوجی جرنیل کا اقتدار سنبھالنا چہ معنی دارد؟ ریفرنڈم کے سلسلے میں حالیہ جلسوں میں وردی پہن کر سیاسی انداز میں ’’عوامی‘‘ تقاریر سے یہ تضاد اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ جلسوں میں سرکاری ملازمین کی جبری حاضری سرکاری اداروں کی Politicization کو ہی منعکس کرتی ہے۔ یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسلح افواج نے ملکی سلامتی اور قومی مفاد کے نام پر مملکت کے دستور کو ’’یرغمال‘‘ بنایا ہوا ہے۔ جناب صدر کو واضح کرنا چاہیے کہ ان کی دانش کے مطابق Depoliticization کے حدود اربعہ کیا ہیں اور State Institutionsکس بلا کا نام ہے؟پاکستان کے عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا آرمی ایک پرائیویٹ ادارہ ہے؟ ہماری قومی تاریخ گواہ ہے کہ آرمی کے ڈسپلن کو ہمیشہ ہائی جیک کر کے اسے پرائیویٹ ادارہ ہی ثابت کیا گیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ مقتدر گروہ کی نتائجیت پسندی نے Depoliticization کے معقول اور مثالی نکتے کو شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دیا۔ 

صدر محترم کے فرمان کے مطابق اگر ہم نتائجی نقطہ نظر سے بھی معروضی واقعیت کا جائزہ لیں تو یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ کسی بھی قسم کی ’’اصلاحات‘‘ اگر نظام کے بجائے شخصی بنیادوں پر استوار کی جائیں تو وہ دیرپا ثابت نہیں ہوتیں اور ان کے اثرات بھی خواہشات کے مطابق مرتب نہیں ہوتے۔ ویسے بھی قوم کو اصلاحات کے انبار کے بجائے کمٹ منٹ اور قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ تاریخی استشہاد بھی اسی موقف کو تقویت دیتا ہے لیکن برسراقتدار گروہ نتائجیت کے بجائے ’’موضوعی نتائجیت‘‘ کو اپنائے ہوئے ہے جس سے اصلاحات کی شخصی بنیادیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ جناب صدر کا یہ جملہ کہ ’’میں‘ میں ہوں‘‘ اس کا زندہ ثبوت ہے۔ ماہرین نفسیات اس ’’میں‘‘ کو نرگسیت کے زمرے میں شمار کرتے ہیں اور ان کے مطابق اس کا کوئی علاج نہیں۔

ریفرنڈم میں لوگوں کو ہاں یا نہیں کا آپشن بھی دیا گیا ہے اور عوام کی جہالت کا تدارک سبز اور سفید رنگ کے خانوں سے کیا گیا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کلر بلائنڈ ہے۔ انہیں مختلف رنگوں میں فرق نظر نہیں آتا۔ اس طرح دو خانوں کے درمیان کھینچی گئی لائن بے معنی ہو جاتی ہے حالانکہ حکومتی دعووں کے مطابق یہ لائن ہی ریفرنڈم کی بنیاد اور جواز ہے۔ بہتر ہوتا اگر ہاں اور نہیں کے لیے تصویروں سے مدد لی جاتی مثلاً ’’ہاں‘‘ والے خانے میں گدھ کی اور ’’نہیں‘‘ والے خانے میں فاختہ کی تصویر شائع کی جاتی بلکہ زیادہ بہتر یہ تھا کہ ’’ہاں‘‘ والے خانے میں بوٹوں کی اور ’’نہیں‘‘ والے خانے میں کتاب کی تصویر شائع کی جاتی۔ یہ ضروری نہیں تھا کہ کتاب پر ’’دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ بھی لکھا جاتا۔

صدر محترم! ریفرنڈم پر میرا اور میرے ’’ہم خیالوں‘‘ کا جواب حاضر خدمت ہے جو ہاں میں ہے۔ ہاں! پاکستان کو آئیڈیل ازم کی ضرورت ہے۔ ہاں جی ہاں‘ پاکستان کو آئیڈیل ازم کی ضرورت ہے۔ 


مقاصد تشریع کا ایک مختصر جائزہ

مولانا منتخب الحق

تشریع کے معنی ہیں قانون سازی اور ہر قانون کے بنانے کے تین مقاصد ہوتے ہیں: مقاصد ضروریہ، مقاصد حاجیہ اور مقاصد تحسینیہ۔

مقاصد ضروریہ

یہ وہ مقاصد ہیں جو خود مطلوب ہوتے ہیں اور ان کے بغیر کوئی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ مقاصد ضروریہ کی پانچ قسمیں ہیں: حفاظت دین، حفاظت نفس، حفاظت آبرو، حفاظت نسل اور حفاظت مال۔ قرآن کے احکام بھی انہی پانچ مقاصد کی ترتیب سے ہیں اور بتدریج ان کے متعلق احکامات ہیں۔
نماز، روزہ، زکوٰۃ اور دوسری تمام عبادتیں حفاظت دین کے لیے ہیں۔ یہ مقصد یعنی حفاظت دین دوسری تمام شریعتوں یعنی شریعت نوحی، شریعت موسوی اور شریعت عیسوی سب میں یکساں رہا ہے اور یہ مقصد کبھی بدلا نہیں کرتا۔
حفاظت دین کے بعد حفاظت نفس آتی ہے۔ اس ضمن میں قصاص اور دیت کے احکام آتے ہیں اور قرآن میں نماز، روزہ اور دوسری عبادتوں کے بعد حفاظت جان کے سلسلے میں قصاص اور دیت کے احکام آتے ہیں۔
حفاظت نفس کے بعد حفاظت آبرو کے سلسلے میں نکاح وطلاق وغیرہ کے احکام آتے ہیں۔
حفاظت آبرو کے بعد حفاظت نسل کے ضمن میں تجارت، زراعت اور حفاظت مال کے سلسلے میں بیع وغیرہ کے احکام آئے ہیں۔ یہ ہوئی ان مقاصد کے لحاظ سے قرآن کی ترتیب۔

مقاصد حاجیہ

یہ مقاصد خود مطلوب ومقصود نہیں ہوتے لیکن ان کو بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ ان کے بغیر مقصد ضروری حاصل نہیں ہو سکتا۔ ان مقاصد کی حیثیت اگرچہ مقاصد ضروری جیسی نہیں ہے لیکن ان کی اہمیت ان سے کچھ کم بھی نہیں۔ مثلاً اگر نماز اور وضو کو لیں تو نماز کی حیثیت اصل کی ہے اور نماز کی تکمیل کے لیے وضو لازمی شرط ہے گویا وضو کی حیثیت مقاصد حاجیہ کی ہوئی لیکن وضو کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی اس طرح وضو نماز کے لیے لازمی ہو گیا۔

مقاصد تحسینیہ

یہ مقاصد نہ تو خود مطلوب ہوتے ہیں اور نہ مقصد اصلی کے لیے موقوف علیہ کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان کے ذریعے سے مقاصد حاجی اور ضروری میں ایک طرح کا حسن پیدا ہو جاتا ہے جیسے حفاظت جان کے سلسلے میں کھانا پینا مقصد حاجی ہوا لیکن اب اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کیا ضروری ہے کہ دستر خوان بچھا کر، ہاتھ دھو کر، بسم اللہ کہہ کر کھانا کھایا جائے؟ اس کے بغیر بھی مقصد حاصل ہو سکتاہے لیکن صرف حسن پیدا کرنے کے لیے اور اس مقصد کو مزید تحسینی بنانے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ اس لیے مقاصد تحسینی اصل کے لیے تکملہ اور تتمہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مقاصد ضروریہ اصل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی حیثیت بنیاد کی ہے۔ جس طرح بغیر جڑ کے درخت کا قائم رہنا ناممکن ہے، اسی طرح مقاصد ضروریہ کے بغیر دوسرے مقاصد یعنی مقاصد حاجیہ اور مقاصد تحسینیہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ ایمان کی حیثیت اصل کی ہے۔ اب اگر کوئی شخص مومن نہیں ہے اور وہ نماز پڑھتا ہے اور روزے رکھتا ہے تو اس کی ان عبادتوں کی حیثیت جسم بغیر روح سے زیادہ نہیں ہے کیونکہ ایمان اعمال انسانی کے لیے روح کی حیثیت رکھتا ہے اور روح کے بغیر تمام اعمال بے کار ہیں یعنی مقصد اصلی کو اگر ختم کر دیا جائے تو دوسرے مقاصد کے پائے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن اس کے برخلاف اگر مقاصد حاجیہ یا مقاصد تحسینیہ ختم ہو جائیں تو مقاصد ضروریہ کا ختم ہو جانا کوئی ضروری نہیں۔
مقاصد ضروریہ اور تحسینیہ ان سب میں ایک ترتیب موجود ہے اور ہر مابعد مرتبے کا مقصد اپنے سے مقدم مقصد کے لیے تکملہ اور تتمہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا مقاصد حاجی اور مقاصد تحسینی، مقاصد ضروری کے لیے تکمیلی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ کوئی ضروری نہیں کہ تکملہ اور تتمہ کے فقدان سے اصل شے کا فقدان لازم ہی آئے مگر تکملہ یا تتمہ مفقود ہو جائے تو اصل پھر بھی باقی رہ سکتا ہے لیکن اس کے برخلاف اگر اصل شے مفقود ہو تو تکملہ اور تتمہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ جب جڑ ہی نہ موجود ہوگی تو تنوں اور شاخوں کا سوال کہاں سے پیدا ہوگا۔ 
مثال کے طور پر حفاظت جان کے سلسلے میں قصاص کا حکم ہے۔ قصاص میں مثلیت یعنی برابری کے فقدان سے مقصد اصلی یعنی حفاظت جان کے لیے قصاص کے حکم میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا اور اس مثلیت کے فقدان کے باوجود عورت ومرد، مومن وکافر، بوڑھے وجوان کا کوئی امتیاز نہیں ہے لیکن سب کے لیے یکساں حکم ہے۔ گویا اس تکملہ یا تتمہ یعنی مثلیت کے فقدان کی وجہ سے مقصد ضروری میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اسی طرح حفاظت آبرو اور حفاظت نسل کے لیے نکاح کا حکم ہے۔ اب نکاح کے تکمیلی وتحسینی مقاصد میں نفقۃ المثل اور مہر مثل آتا ہے۔ اگر اب نفقۃ المثل یا مہر مثل میں کوئی کمی بیشی ہو یا مطلقاً ختم کر دیا جائے تو اس سے نکاح کے مقصد اصلی یعنی حفاظت آبرو میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح کفاء ت نفقۃ المثل کے لیے تحسینی مقاصد کی حیثیت رکھتی ہے۔ کفاء ت نہ ہونے کی وجہ سے نفقۃ المثل ختم نہیں کیا جائے گا۔
ان مقاصد کے درمیان رابطہ کے سلسلے میں ایک اور بات یہ عرض ہے کہ چونکہ مقاصد حاجیہ اور مقاصد تحسینیہ مقاصد اصلی کے لیے اصل کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے کسی ایسے مقصد حاجی یا تحسینی کو اختیار کرنا جو مقصد حاجی کو باطل کر دے، خود باطل ہے۔ ہم مقصد حاجی وتحسینی کا اعتبار کرتے ہیں لیکن جہاں کہیں یہ صورت پیدا ہوتی ہے کہ ان تکمیلی مقاصد کو اختیار کرنے سے اصلی مقصد میں کوئی فرق پڑتا ہے تو ان مقاصد کو چھوڑنا لازمی ہو جاتا ہے کیونکہ ان کو اختیار کرنا مقصد اصلی کو باطل کرنا ہے اور جب مقصد اصلی کو باطل کر دیا جائے تو اس کے مابعد مرتبے کی حیثیت تکمیلی کس طرح ہو سکتی ہے۔ اس لیے راس مصلحت کے پیش نظر مقصد اصلی کا اعتبار کیا جائے گا اور ان مقاصد تکمیلی وتحسینی کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مقاصد حاجی اور مقاصد تحسینی میں مطلقاً اختلال کی وجہ سے مقصد ضروری میں بھی فی الجملہ اختلال پیدا ہو جاتا ہے۔ شاہ عبد العزیز تفسیر ’فتح العزیز‘ پارہ الم میں لکھتے ہیں کہ آدمی پہلے آداب کو چھوڑتا ہے، پھر مستحبات کو چھوڑتا ہے، پھر سنن کو ترک کرتا ہے، اس کے بعد فرائض سے روگردانی کرتے کرتے آہستہ آہستہ دین سے بے بہرہ ہو جاتا ہے۔ یہ تو ہوا ترک کے معاملے میں۔ یہی حال اختیار کے معاملے میں بھی ہے کہ آدمی اگر کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرنا چاہتا ہے کہ تو ایک دم ہی اختیار نہیں کر لیتا بلکہ پہلے آہستہ آہستہ ان کے آداب کواختیار کرتا ہے، پھر ان کے عادات واطوار کو اختیار کرتا ہے، پھر آہستہ آہستہ ان کے نظریات کو اختیار کرتے کرتے ان کے دین کو اختیار کر لیتا ہے۔ یہ انسان کے ترک واختیار کے تدریجی منازل ہیں۔ اس تدریج کی ابتدا نہایت معمولی ہوتی ہے لیکن اس کا اختتام شدت کو پہنچ جاتا ہے۔
اگر ایک شخص مکمل طور پر حفاظت دین کرتا ہے اور ساری عبادتیں اور ان کے تقاضے پورے کرتا ہے لیکن آہستہ آہستہ ان سے لا پروائی برتنا شروع کر دے تو نتیجتاً وہ ان سے بالکل بے بہرہ ہو جاتا ہے اسی لیے ان مقاصد کو مطلقاً مختل کر دینے سے مقصد ضروری اور مقصد حاجی فی الجملہ خلل پذیر ہوتے ہیں اسی لیے اگر مقاصد ضروری کی پوری پوری طرح حفاظت مقصود ہو تو مقاصد حاجی اور مقاصد تحسینی کی بھی پوری پوری حفاظت کرنی چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو پوری طرح حفاظت دین مقصود ہو تو وہ ان عبادات کو اچھی طرح انجام دیتا ہے۔ مثلاً نماز اس طرح بھی پڑھی جا سکتی ہے کہ وضو کر لیا جائے اور نماز پڑھ رہے ہیں لیکن دھیان کہیں اور لگا ہوا ہے۔ دل میں مختلف قسم کے خیالات آ رہے ہیں لیکن بظاہر اس کی نماز صحیح مانی جائے گی کیونکہ اس کی نیت اور اس کے خلوص کو تو سوائے اللہ کے کوئی نہیں جان سکتا۔ اب اس کی نماز بارگاہ الٰہی میں مقبول ہو یا نہ ہو لیکن ایک بظاہر دیکھنے والا اس کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کہے گا۔ یا اگر ایک شخص نماز نہیں پڑھتا تو اس کو اسلام سے خارج نہیں سمجھا جائے گا لیکن جس شخص کو پوری طرح حفاظت مقصود ہوگی، وہ نماز کے لیے وضو کرے گا تو بسم اللہ کہہ کر شروع کرے گا۔ جب نمازکی نیت کرے گا تو اپنے طور سے پوری پوری کوشش کرے گا کہ وہ اپنے خیالات کو منتشر نہ ہونے دے اور سارے ارکان صلوٰۃ کی پابندی کرنے کی پوری طرح کوشش کرے گا۔ اس کا قلب بھی خدا کی جانب راغب ہوگا۔ جسمانی وروحانی دونوں طور سے وہ اپنے کو خدا کے حضور میں سمجھے گا اور جو الفاظ ادا کرے گا، اس کی مطابقت سے تصور قائم کرے گا تو یہ ہوئی مکمل طور سے نماز لیکن اس مقصد ضروری کو مکمل طور سے حاصل کرنے کے لیے مقاصد حاجی اور مقاصد تحسینی کو بھی پورا کیا۔ 
اس طرح ان مقاصد کے درمیان جو علاقے اور رابطے موجود ہیں، ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر مقصد ضروری کی مکمل طور سے حفاظت مطلوب ہو تو ذیلی مقاصد کی بھی حفاظت کی جانی چاہیے۔ 
یہ جان لینے کے بعد پانچ باتیں نکھر کر سامنے آتی ہیں:
۱۔ مقاصد ضروری اصل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
۲۔ مقاصد حاجی اور تحسینی کے اختلال سے مقاصد ضروری میں اختلال ضروری نہیں۔
۳۔ مقاصد ضروری کے مختل ہو جانے سے مقاصد حاجی اور مقاصد تحسینی بھی مختل ہو جاتے ہیں۔
۴۔ حاجی اور تحسینی کے مطلقاً اختلال سے بالترتیب مقصد ضروری اور مقصد حاجی میں فی الجملہ اختلال پیدا ہوجائے گا۔
۵۔ مقصد ضروری کی مکمل طور پر حفاظت کرنے کے لیے مقصد حاجی اور مقصد تحسینی کی بھی حفاظت کرنی چاہیے۔
(بشکریہ ’’تجلیات‘‘ کراچی)

دینی قوتیں: نئی حکمت عملی کی ضرورت

ڈاکٹر محمد امین

افغانستان میں جو کچھ ہوا‘ وہ ایک عظیم المیہ تھا۔ پاکستان میں اب جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ بھی ایک المیے سے کم نہیں لیکن اگر پاکستان کی دینی قوتوں نے ہوش مندی سے کام نہ لیا تو خدا نخواستہ ایک عظیم تر المیہ ہم سے بہت دور نہیں۔ غلطی کسی فردسے بھی ہو سکتی ہے اور کسی جماعت سے بھی اور یہ کوئی قابل طعن بات نہیں کیونکہ گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں۔ لیکن شکست کے بعد اختیار کی گئی حکمت عملی کا تجزیہ نہ کرنا‘ اگر غلطی نظر آئے تو اسے غلطی تسلیم نہ کرنا یا غلطی سے پہنچنے والے نقصان کی تاویلیں کرنے لگ جانا گویا دوسرے لفظوں میں احساس زیاں کھو دینا ہے۔ یہ غلطی نہیں‘ بلنڈر (Blunder) ہے جسے نہ قدرت معاف کرتی ہے اور نہ اس کے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے لہذا اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہماری دینی قوتیں پوری معروضیت اور بے رحمی سے اپنی پالیسیوں کا جائزہ لیں اور زمینی حقائق کے مطابق اپنی پالیسیوں کی تشکیل نو کریں۔ اس کے لیے ایک سنجیدہ مباحثے اور مکالمے کی ضرورت ہے اور اسی ضمن میں یہ معروضات پیش کی جا رہی ہیں۔
پاکستان کی دینی قوتوں کو جس ہزیمت کا سامنا ہے‘ اگر اس کی وجہ پر ہم غور کریں تو اس کے چار بڑے سبب نظر آتے ہیں۔ ایک، دینی قوتوں کا آپس میں عدم اعتماد۔ دوم، عوامی حمایت سے ان کی محروم۔ سوم، عوام کی دینی تعلیم وتربیت کا عدم اہتمام اور چہارم، ملی اور بین الاقوامی سطح پر دوستوں اور دشمنوں کے بارے میں ان کی غیر حقیقت پسندانہ اپروچ۔ ہم انہی نکات کا تجزیہ کرتے ہوئے نئی اور مطلوب حکمت عملی کے خدوخال بھی واضح کرتے جائیں گے۔
۱۔ ہمارے دینی عناصر کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ آپس میں متحد نہیں ہیں۔ وہ آج تک انفرادی مصالح اور ملکی مفادات سے اوپر اٹھ کر دین اور ملت کے لیے سوچ ہی نہیں سکے۔ وہ آج تک اس امر کا ادراک بھی نہیں کر سکے کہ ان کو لڑانے والی قوتیں کون ہیں؟ وہ نہ بین الاقوامی اسلام دشمن قوتوں کی چالوں کو سمجھ سکے اور نہ ان کے مقامی ایجنٹوں کے حربوں کو۔ وہ اپنے حقیر مفادات کے لیے نہایت آسانی سے ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے۔ انہیں بڑی حکمت اور منصوبہ بندی سے ایک دوسرے کے خلاف لڑایا گیا۔ ان کے مابین مسلکی اختلافات کو ہوا دی گئی۔ ان کو سیاسی طور پر ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا گیا۔ مختلف سیاسی دھڑوں کے ساتھ ان کے الگ الگ الحاق کر کے ان کی قوت کو تقسیم کیا گیا۔ ایک دین کے اندر مختلف مسلک‘ ہر مسلک پر مبنی جماعت‘ ہر جماعت کے اندر کئی دھڑے‘ ہر دھڑے کی الگ سیاسی جماعت‘ گویا تقسیم در تقسیم کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو جاری ہے اور ہمارے دینی رہبر یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ اس کے پیچھے کون سا شیطان اور اس کی ذریت ہے جو ان علم برداران دین متین کو آپس میں لڑا کر کمزور اور رسوا کر رہی ہے۔ حدیث ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ نور الٰہی سے دیکھتا ہے اور یہ کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا لیکن یہ کیسے مومن (بلکہ مومنوں کے سردار) ہیں کہ سامنے کے حقائق نہیں دیکھ سکتے؟ بار بار کی ہزیمت بھی انہیں سوچنے اور جاگنے پر آمادہ نہیں کرتی۔ وہ اپنے انتشار اور افتراق پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اپنی انانیت اور اپنے تحزب پر قائم ہیں یہاں تک کہ جب وہ افغانستان کے مسئلے پر پٹ رہے تھے‘ اس وقت بھی اکٹھے نہیں ہوئے اور ہرلیڈر کو اپنی لیڈری چمکانے اور ہر جماعت کو اپنی کامیابی کی فکر پڑی ہوئی تھی اور آج بھی ان کا یہی حال ہے۔ اگر اتنا بڑا سانحہ بھی انہیں متحد نہیں کر سکا تو کب ان سے توقع کی جائے کہ وہ متحد ہوں گے؟ کیا وہ اس سے بڑے کسی سانحے کے منتظر ہیں؟ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان سے جبہ ودستار واپس لے کر انہیں صوف پہنا دیا جائے اور انہیں کسی دور افتادہ خانقاہ کے کسی حجرے میں بند کر دیا جائے جہاں کوئی حقیقی مربی ان کے دلوں کی کدورتیں دور کرے‘ ان کے اندر سے دنیا اور مال وجاہ کی محبت نکالے اور ان کے قلوب کو صیقل کرے؟
۲۔ یہ دل فریب اور جھوٹے نعرے لگانا آسان ہے کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں لیکن ہماری دینی قوتیں اس تلخ حقیقت کو کب تسلیم کریں گی کہ درحقیقت عوام ان کے ساتھ نہیں ہیں؟ عوام چونکہ دین سے محبت کرتے ہیں لہذا اس حوالے سے وہ دینی رہنماؤں کی توقیر بھی کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب کب ہے کہ وہ سیاسی اور اجتماعی امور میں بھی ان کے ساتھ ہیں؟ ہمارے نزدیک اس مظہر کے ذمہ دار بھی عوام سے زیادہ یہ دینی عناصر خود ہی ہیں کیونکہ دین ودنیا میں قائم کردہ تفریق (یعنی سیکولرازم) انہی کی اختیار کردہ ہے۔ انہوں نے صدیوں سے اپنے آپ کو مسجد ومدرسہ تک محدود کر رکھا ہے اور عوامی زندگی سے دور ہیں۔ دوسری طرف سیاست واقتدار کے باسی ہیں جنہوں نے اپنی الگ دنیابسائی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس تفریق کو کون پاٹے گا؟ عطاء اللہ شاہ بخاری مرحوم نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اے اہل لاہور‘ تقریر میری ساری رات سنتے ہو اور واہ واہ کرتے ہیں اور صبح کے وقت ووٹ جا کر کسی اور کو دیتے ہو؟ یہ ایک تلخ حقیقت تھی جس کا اقرار شاہ صاحب نے کیا لیکن کیا ہمارے دینی عناصر نے اس سے عبرت پکڑی؟ اس سے کچھ سبق سیکھا؟ اس کے اسباب وعلل پر غور کیا؟ اس کا کوئی حل سوچا کہ عوام کیوں دینی امور میں ان کی متابعت کرتے ہیں لیکن سیاسی اور اجتماعی امور میں ان کی پیروی نہیں کرتے؟ کیا انہوں نے اپنے آپ کو بدلا؟ کیا پھر عوام کے اس رویے کو بدلنے کے انہوں نے کچھ کیا؟ سید محمد قطب صاحبؒ سے ایک دفعہ ایک صحافی نے انٹرویو لیا اور پوچھا کہ پھانسی پانے سے پہلے سید قطب شہید کی آخری دنوں میں سوچ کیا تھی؟ تو انہوں نے جواب دیا وہ سوچتے تھے کہ مصری عوام نے اخوان کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟ پاکستان میں دینی جماعتوں کو ہر انتخاب میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ اب ان کو پارلیمنٹ میں اقلیتوں جتنی نشستیں بھی نہیں ملتیں لیکن کیا انہوں نے کبھی سنجیدگی سے اس کے اسباب وعلل پر غور کیا اور اپنی حکمت عملی کو بدلا؟ ان کا کام تو یہ تھا کہ وہ لوگوں کو سرمایہ دار اور جاگیردار سیاست دانوں کے چنگل سے نکالتے لیکن وہ الٹا ان کے نخچیر بن گئے۔
۳۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری دینی قیادت عوام کو دین کی تعلیم دینے‘ ان کی دینی تربیت کرنے اور انہیں اپنے ساتھ ملانے میں عظیم ناکامی سے دوچار ہوئی ہے لیکن اسے اس کا احساس ہی نہیں۔ مسجدیں فرقہ وارانہ تقریروں کا گڑھ بنی ہوئی ہیں۔ خطیب جو تقریریں جمعہ کو کرتے ہیں‘ ان کا زندگی کے حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ لوگوں کو قرآن ناظرہ پڑھا کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ معرکہ سر کر لیا حالانکہ طوطے کی طرح بے سمجھے بوجھے قرآن کی عربی عبارت پڑھ لینے سے نہ ان کی زندگی میں کوئی انقلاب آتا ہے نہ آ سکتا ہے۔ علما سے کون پوچھے کہ مسجد کا وہ کردار کیوں بحال نہیں کیا جا سکتا جو عہد رسالت مآب میں تھا؟ کیا آج مسجد میں اہل محلہ کے معزز اور دین دار افراد پر مشتمل ایک کمیٹی نہیں بنائی جا سکتی جو یہ دیکھے کہ محلے میں کوئی بھوکا تو نہیں سوتا؟ جو محلے کی بیواؤں اور مساکین کی مدد کرے؟ کیا ایک اور کمیٹی نہیں بنائی جا سکتی جو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا کام کرے‘ جو لوگوں کے اخلاق کو سنوارے‘ جو انہیں اچھی باتوں کی ترغیب دے۔ کیا ایک کمیٹی ایسی نہیں ہو سکتی جو نوجوانوں کے لیے پاکیزہ اور تعمیری سرگرمیوں کا انتظام کرے‘ جو لوگوں کے مسائل کو حل کرے مثلاً گلیوں کی صفائی او رروشنی کا انتظام اور سکولوں میں داخلے کا اہتمام۔ مسجد کو تعلیم کا مرکز کیوں نہیں بنایا جا سکتا اور سو فیصد خواندگی کا ہدف کیوں نہیں حاصل کیا جا سکتا؟ سوال یہ نہیں کہ حکومت یہ کام کیوں نہیں کرتی؟ ہمارا سوال یہ ہے کہ علما یہ کام کیوں نہیں کرتے؟ وہ دو رکعت کے امام بنے رہنے پر کیوں مصر ہیں؟ وہ سارے محلے کے ہرکام کے سچ مچ کے امام کیوں نہیں بنتے؟ جب کہ وہ یہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔ آخر کس نے ان کے ہاتھ پکڑ رکھے ہیں؟
ان کے مدرسوں میں چند ہزار یا چند لاکھ بچے پڑھتے ہیں۔ یہ بلاشبہ ان کا بڑا کارنامہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس ملک کے سکولوں میں جو کروڑوں بچے پڑھتے ہیں‘ ان کی دینی تعلیم اور ان کی اخلاقی تربیت کا ذمہ دار کون ہے؟ اور اس سلسلے میں دینی قوتیں کیا کر رہی ہیں؟ علما کو یا تو سیاست سے ہی فراغت نہیں ہوتی اور ان کی ساری محنتیں اور وسائل ادھر صرف ہو جاتے ہیں اور جو کچھ باقی بچتے ہیں‘ انہوں نے اپنا دائرۂ کار مدرسے کو بنایا ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ملت پاکستان کے کروڑوں بچے ایسی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جس میں دینی تعلیم کا مناسب انتظام نہیں‘ جہاں بچوں کی دینی تربیت کا کوئی انتظام نہیں۔ اگر حکومت یہ کام نہیں کرتی تو دینی قوتوں کے ہاتھ کس نے پکڑ رکھے ہیں کہ وہ یہ کام نہ کریں؟ یہ محض عذر لنگ ہے کہ اس کے لیے درکار اربوں روپے کہاں سے آئیں گے۔ دینی قیادت کمیونٹی کو متحرک کر کے یہ کام بآسانی کر سکتی ہے اور خود کفالتی بنیادوں پر یہ نظام بخوبی چل سکتا ہے اور مسجد اور اس کے امام کو بھی اس کا مرکز بنایا جا سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس کے لیے کبھی منصوبہ بندی کرنے کی کوشش کی گئی ہے؟ بلکہ اب تو دینی لوگوں نے بھی بطور کاروبار انگلش میڈیم اسکول کھول رکھے ہیں جہاں انگریزی کتابیں اور انگریزی نصاب پڑھا کر مغربی تہذیب کے غلام تیار کیے جاتے ہیں اور توقع یہ کی جاتی ہے بلکہ نعرے یہ لگائے جاتے ہیں کہ ہم اس معاشرے میں اسلامی انقلاب لائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ دینی اور اخلاقی لحاظ سے جتنے پست ہم اب ہیں‘ اتنے پہلے کبھی نہ تھے۔ وہ دینی اصول اور دینی اقدار جو کبھی ہمارے معاشرے کا جزو لاینفک تھیں‘ وہ اب مغربی تہذیب کے ریلے میں بہہ گئی ہیں اور دینی قوتوں کا یہ عالم ہے کہ انہیں کف افسوس ملنے کا بھی ہوش نہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ان حالات میں علم وعمل میں یکسو مسلم کہاں سے پیدا ہوں؟ صاحب کردار افراد کہاں سے آئیں؟ جس معاشرے میں انسان سازی کا عمل رک جائے‘ وہاں دو ٹانگوں کے جانور نہ پیدا ہوں تو اور کیا ہو؟ دینی تعلیم وتربیت سے محروم یہ لوگ اگر دینی جماعتوں کو ووٹ نہ دیں تو اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟ اگر وہ افغانستان میں بہتے خون پر مضطرب نہ ہوں تو آخر اس میں ان کا دوش کیاہے؟ آخر انہوں نے کردار کے نمونے دیکھے کہاں ہیں؟ عزیمت کا سبق انہیں پڑھایا کس نے ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر اہل دین اپنے گریبان میں جھانگیں تو خود انہیں شرم ساری محسوس ہوگی۔ انہیں اپنے سوا کسی کی خامیاں نظر نہ آئیں گی۔ شاید اسی لیے وہ یہ کام کرتے نہیں ہیں۔
۴۔ مغربی تہذیب کا طوطی جس طرح سر چڑھ کر بول رہا ہے اور مغربی طاقتیں سرمایے اور سائنس وٹیکنالوجی کی قوت سے مسلح ہو کر جس طرح انا ولاغیری کے نعرے بلند کرتی چہارسو پھنکار رہی ہیں‘ کیا وہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت ہے؟ کیا پاکستان کی دینی قوتوں کے پاس ایک بھی اچھا تھنک ٹینک ہے جہاں مغرب کے بارے میں ضروری معلومات جمع ہوتی ہوں‘ اس کی پالیسیوں کا تجزیہ کیا جاتا ہو کہ مغرب کیا سوچتا ہے؟ اس کی پالیسیاں کیا ہیں؟ وہ کیا کرنے والا ہے؟ اس کی منصوبہ بندی کا توڑ کیا ہو سکتا ہے؟ اگر نہیں تو ہم کسی کو دوش کیوں دیتے ہیں؟ ہمیں اپنے آپ ہی کو دوش دینا چاہیے۔ یہ سادگی بلکہ سادہ لوحی کی کون سی قسم ہے کہ ہم دشمن کو دوست سمجھتے رہے اور خود ہی اس کی گود میں جا کر بیٹھے ہیں کہ آؤ اور ہمیں ختم کرو۔ کیا عراق وکویت میں جو کچھ ہوا‘ وہ محض اتفاق تھا؟ افغانستان میں جو کچھ کیا گیا‘ وہ پلاننگ کیا چند دن کے اندر کی گئی؟ کیا پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ محض حسن اتفاق ہے؟ یا ایران‘ عراق اور سعودی عرب کے ساتھ جو ہوتا نظر آتا ہے‘ وہ محض گیدڑ بھبھکیاں ہیں؟ کیا بی 52 طیاروں کا مقابلہ کلاشنکوف سے کیا جا سکتا ہے؟ کیاآئی ایم ایف کا مقابلہ نیشنل بینک آف پاکستان کر سکتا ہے؟ کیا سی این این کے پروپیگنڈے کا توڑ پی ٹی وی سے ہو سکتا ہے؟ کیا علم وتحقیق میں پیش رفت کوئی جرم ہے؟ کیا مدارس میں انگریزی پڑھانا گناہ کبیرہ ہے؟
کیا ہم برسوں سے نہیں دیکھ رہے تھے کہ اسلامی کانفرنس تنظیم مٹی کا مادھو ہے‘ امت انتشار وافتراق کا شکار ہے‘ اسے متحد ہونے نہیں دیا جاتا بلکہ آپس میں لڑایا جاتا ہے۔ اکثر مسلم حکومتیں مغرب کی ایجنٹ ہیں یا ان کے دباؤ میں ہیں۔ کیا ہماری دینی قوتوں نے کبھی نہیں سوچا کہ اس صورت حال کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہودی اسکالروں نے صدیوں سے پروٹوکولز بنا رکھے ہیں اور وہ ایک منظم طریقے سے دنیا پر چھاتے چلے جا رہے ہیں۔ کیا ہمارے دانش وروں کے بھیجے خالی ہو گئے ہیں کہ چند سال بعد کی پلاننگ بھی نہیں کر سکتے؟ دینی قوتوں کو اس کا احساس ہونا چاہیے تھا کہ جس طرح داخلی محاذ پر ان کو اتحاد کی ضرورت ہے‘ اسی طرح ملی سطح پر بھی ان کو اتحاد کی ضرورت ہے۔ آخر یہ امت اتنی بانجھ بھی نہیں ہوئی‘ یقیناً ہر مسلم ملک اور قوم میں ایسے افراد اور ادارے موجود ہیں جو اس صورت حال پر مضطرب ہیں۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ ان کو پہچانا جاتا اور ان کو متحرک کیا جاتا اور امت کے اتحاد کو ایک مضبوط صورت دی جاتی اور اسے موثر بنایا جاتا۔
اول تو وسائل کی کمی نہیں اور اگر ہو بھی تو مل کر اسے پورا کیا جا سکتا ہے۔ مسلم ممالک مل کر طاقت ور میڈیا کو جنم دے سکتے ہیں۔ حربی تحقیق کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ سائنس وٹیکنالوجی میں ترقی کر سکتے ہیں۔ اپنے معاشی مسائل حل کر سکتے ہیں لیکن یہ سب اسی وقت ہو سکتا ہے جب ذہن بیدار ہوں۔ ان کے پیچھے نظریے کی قوت ہو اور آگے بڑھنے کا جوش وولولہ ہو اور اگر یہ نہ ہو تو جنگل کے بادشاہ شیر کا وزن تو بے چاری ایک گائے سے بھی کم ہوتا ہے۔
باتیں اور نکات تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن ہم نے پالیسی اور حکمت عملی کے حوالے سے چند اصولی باتوں پر اکتفا کیا ہے اور دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر دینی قوتیں ان چار نکات کے حوالے سے اپنی حکمت عملی بدل لیں تو آج بھی بچنے کی امید کی جا سکتی ہے یعنی وہ سچ مچ متحد ہو جائیں اور انفرادی‘ مسلکی اور جماعتی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر اعلیٰ تر مقاصد کے لیے جمع ہو جائیں۔ اس کا اظہار نہ صرف سیاست میں ہو بلکہ دینی کاموں میں بھی ہو۔ عوام تک پہنچنے کا عزم کیا جائے‘ ان کی تعلیم وتربیت کی جائے اور اس طرح داخلی محاذ کو مضبوط بنا کر ملی اور بین الاقوامی سطح پر بھی اپنے آپ کو منوایا جائے تو ہماری ڈولتی کشتی آج بھی سنبھل سکتی ہے لیکن اگر ہم نے یہ سب کچھ نہ کیا تو پھر شاید‘ نہیں یقیناًہمیں ایک بڑے المیے سے دوچار ہونا پڑے گا۔ الا من رحم ربی۔

دستور سے کمٹمنٹ کی ضرورت

پروفیسر میاں انعام الرحمن

۱۹۴۷ء سے لے کر اب تک وطن عزیز کو کئی مسائل سے سابقہ رہا ہے۔ ان میں سے سرفہرست تین کی ترتیب یوں بیان کی جاتی ہے:
۱۔ ملکی سلامتی کا تحفظ
۲۔ معیشت کی بحالی اور مضبوطی
۳۔ عوامی امنگوں کے مطابق دستوری نظام
حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں آپس میں باہم مربوط ہیں لیکن ان کی ترتیب ٹھیک نہیں رکھی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مسائل کے انبار تلے دبتے چلے جارہے ہیں کیونکہ مسائل کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ ان کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے دی گئی ترتیب بھی کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ترتیب اس طرح ہونی چاہیے تھی:
۱۔ عوامی امنگوں کے مطابق دستوری نظام
۲۔ معیشت کی بحالی اور مضبوطی دستور کے احترام سے مشروط ہے۔
۳۔ درج بالا دو امور پورے ہونے سے ملکی سلامتی خود بخود محفوظ ہو جاتی کیونکہ ملکی سلامتی کو بیرونی سے زیادہ اندرونی خطرات لاحق رہے ہیں۔
ہماری تاریخ شاہد ہے کہ ملکی سلامتی کو مرکزی اہمیت دینے سے بھی ملک سلامت نہیں رہا۔ اگر دستور کو مرکزی اہمیت دی جاتی تو بہتری کی خاصی گنجائش موجود تھی۔ 
ہمارے بنیادی دستوری مسائل تین ہیں:
۱۔ طالع آزماؤں سے دستور کا بچاؤ
۲۔ دستور کی اسلامائزیشن
۳۔ وفاق اور صوبوں میں تقسیم اختیارات بشمول مرکزی مقننہ کے دونوں ایوانوں کے مابین اختیارات کا توازن
جہاں تک دستور کی اسلامائزیشن کا تعلق ہے تو پاکستان کی تاریخ میں ہم نے سب سے پہلا دستوری قدم ۱۹۴۹ء میں قرارداد مقاصد کی صورت میں اٹھایا جس میں ملک کا سپریم لا قرآن وسنت کو قرار دیا گیا۔ اس قرارداد کو ۵۶ء‘ ۶۲ء اور ۷۳ء کے دساتیر کے دیباچے کی زینت بنایا گیا۔ صدر ضیاء الحق نے جو چند اچھے کام کیے‘ ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آٹھویں ترمیم کے ذریعے سے قرارداد مقاصد کو دستور کا قابل نفاذ حصہ بنا دیا۔ ہمارا پہلا دستوری قدم نفاذ کے اعتبار سے ابھی تشنہ تکمیل ہے۔
اس کے سب سے بنیادی مسئلہ تقسیم اختیارات کا ہے ، وفاق اور صوبوں کے مابین اور مرکزی مقننہ کے دونوں ایوانوں کے مابین۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں آٹھویں ترمیم کے بعد بھی ایوان بالا یعنی سینٹ خاصا کمزور ایوان ہے۔ اس ایوان کے پاس مالیاتی اختیار نہیں۔ کہتے ہیں جس کے پاس مالیاتی کنٹرول ہو‘ وہی طاقت کا حامل ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایوان بالا اور ایوان زیریں میں اختیارات کے حوالے سے توازن رکھا جائے کیونکہ یہی وہ ایوان ہے جس میں ہر صوبے کی مساوی نشستیں ہیں۔ امریکی سینٹ کی طرح ایوان بالا کو بہت زیادہ طاقت ور بنانے کی بھی ضرورت نہیں۔ بہرحال انفارمیشن کے موجودہ سیلاب میں چھوٹے صوبے ’’محدود اختیارات‘‘ پر قانع نہیں ہو سکتے۔ باخبری کے اعتبار سے وہ ’’بڑے‘‘ ہو گئے ہیں۔
ملک کی داخلی سلامتی کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے کہ دستور کی کلی اسلامائزیشن کے ساتھ ساتھ صوبوں کو مالیاتی اختیارات سے نوازا جائے۔ جہاں تک مرکزیت اور قومی وحدت کا تعلق ہے‘ اسلامائزیشن بہت موثر اور مثبت کردار ادا کرے گی۔ میرا خیال ہے کہ دستوری اعتبار سے مضبوط مرکز کے بجائے سماجی وحدت کا حامل مرکز زیادہ مفید ثابت ہوگا۔ شعبہ تعلیم کی مرکزیت سے سماجی وحدت حاصل کی جا سکتی ہے۔ پورے ملک کے لیے یکساں نظام تعلیم ہونا چاہیے جو مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہو اور اس کے اخراجات کی مد میں مرکزی حکومت کو ٹیکس لگانے کا بھی اختیار ملنا چاہیے۔ یہ کام وہی حکومت کر سکتی ہے جو قومی وحدت اور ملکی سلامتی کے لیے واقعی سنجیدہ ہو۔ 
اور اب آئیے دیکھیں کہ دستور سے کمٹ منٹ کے حوالے سے ہمارا ریکارڈ کیا ہے؟ 
۱۔ سب سے پہلے تو یہ نکتہ وضاحت طلب ہے کہ ۱۹۴۰ء میں قرارداد لاہور میں یہ طے پا جانے کے بعد کہ ہماری منزل پاکستان ہے‘ متوقع پاکستان کے متوقع دستور کے خدوخال ابھارنے کے لیے سات سال کے عبوری دور میں ہوم ورک کیوں نہیں کیا گیا؟ قائد اعظم کی جدوجہد ’’دستوریت‘‘ سے عبارت تھی۔ اس مخصوص نوعیت کی جدوجہد کے تناظر میں ۱۹۴۷ء میں پاکستان کے ظہور کے وقت مملکت خداداد کا اپنے دستور سے تہی دامن ہونا خاصا حیران کن ہے۔ شاید ہم مسلمان دور اندیش نہیں ہیں۔ عین وقت پر ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ قسم کے کام کرتے ہیں۔ ۴۷ء میں بھی ہم نے ۳۵ء کے ایکٹ کو عجلت میں نافذ کر دیا۔ 
۲۔ ’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے، خواجہ صاحب! نہ آپ لیاقت علی خاں ہیں نہ میں ناظم الدین ہوں۔‘‘ گورنر جنرل غلام محمد نے یہ جواب اسمبلی کی اکثریتی جماعت کے لیڈر وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو دیا تھا جن کی حکومت کو گورنر جنرل نے ۳۵ء کے آئین کی دفعہ ۱۰ کے تحت برطرف کر دیا تھا حالانکہ آزادی کے بعد قانون آزادی ہند کی رو سے گورنر جنرل ایسا اقدام اٹھانے کا مجاز نہیں تھا۔ گورنر جنرل کا مذکورہ جواب اس نفسی کیفیت اور رجحان کو نمایاں کرتا ہے جس کے مطابق ان دنوں ریاست کا نظم ونسق چلایا جا رہا تھا۔ اس کو ہم ’’شخصی بنیاد‘‘ کہہ سکتے ہیں یعنی جیسی شخصیت ہو، دستوری تقاضوں سے قطع نظر عہدے کی اہمیت میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ بے اصولی بنیادی اصول تھا۔ پاکستان کی سیاسی اور دستوری تاریخ کا المیہ یہی ہے کہ ایک طرف شخصی انتہا پسندی ہے اور دوسری ’’سمجھوتے‘‘ کی انتہا۔
گورنر جنرل غلام محمد نے بے اصولی کو راہ پاتے دیکھ کر، اپنے پہلے ’’کمانڈو ایکشن‘‘ سے شہ پا کر شخصی انتہا پسندی کا وہ قدم اٹھایا جس کی تاریکیاں اور پرچھائیاں آج بھی ہمیں گھیرے ہوئے ہیں۔ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۵۴ء کا اعلان آج بھی ایک سوالیہ نشان ہے جس میں اسمبلی کی ’’تنسیخ‘‘ کا لفظ شامل نہیں تھا۔ ۲۸؍ اکتوبر کو دفعہ ۱۴۴ لگا کر کسی بھی قسم کے عوامی اجلاس پر دو ماہ کے لیے پابندی عائد کر کے صورت حال کو کنٹرول کر لیا گیا۔ اس طرح اسمبلی عملاً تحلیل ہو گئی۔ اسمبلی کا اجلاس ۲۱ ستمبر کو ختم ہو چکا تھا تاہم مولوی تمیز الدین نے، جو اسمبلی کے صدر تھے، گورنر جنرل کے اس اقدام کو غیر دستوری قرار دیتے ہوئے اسمبلی کی مختلف کمیٹیوں کا اجلاس جاری رکھنے کی کوشش کی لیکن وزیر داخلہ سکندر مرزا نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرے کمانڈو ایکشن کو بھی کام یابی سے ہمکنار کر دیا۔
مولوی تمیز الدین اور سندھ چیف کورٹ نے جرات سے کام لے کر گورنر جنرل کی ’’میں‘‘ کو ذلیل ورسوا کر دیا۔جواب آں غزل کے مصداق گورنر جنرل نے سندھ کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں نہ صرف اپیل دائر کر دی بلکہ ’’پرچی سسٹم‘‘ بھی متعارف کروایا۔ برطانوی دستوری ماہر سر آئیور کی خدمات حکومت نے حاصل کر رکھی تھیں۔ انہوں نے دستوری اصولیت سے قطع نظر، خالصتاً پیشہ ورانہ انداز میں اپنے کلائنٹ کی جیت کے لیے ایسی ایسی نکتہ سنجیوں کا مظاہرہ کیا جنہیں اب بذلہ سنجیوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ سر آئیور اور جسٹس منیر کی مشترکہ کوششوں سے جو فیصلہ سامنے آیا، اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں کو کتنی تگ ودو اور جتن کر کے کھینچ تان کر ’’پرچی‘‘ کے مطابق فیصلہ دینے کے لیے کوئی نکتہ گھڑنا پڑا۔ اس فیصلے میں اسمبلی کی تنسیخ کے حوالے سے گورنر جنرل کے اختیار کی بابت ذکر تک نہیں کیا گیا بلکہ حکومت وقت کی خوشنودی کے لیے فیصلہ یوں دیا گیا کہ ’’اسمبلی کی تنسیخ کو کالعدم کرنے کے حوالے سے سندھ چیف کورٹ کا رٹ کی اجازت دینے کا حکم منسوخ کر دیا گیا۔‘‘ فیڈرل کورٹ کا یہ فیصلہ ۲۴ اکتوبر کے اعلان سے بھی زیادہ عجیب وغریب تھا جس میں اصل سوال کو گول کر دیا گیا۔ 

ایوب خان کے نقش قدم پر

جنرل پرویز مشرف کی طرح ایوب خان نے بھی کہا تھا کہ ہمارا اصل مسئلہ ’’اندرونی‘‘ ہے‘ پاکستان کو کوئی بیرونی خطرہ لاحق نہیں۔ بلاشبہ دونوں کی بات میں بہت وزن ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایوب خان نے مسئلے کے ادراک کے بعد درست سمت میں پیش رفت کی تھی؟ کیا ہمارے موجودہ De facto صدر بھی درست اقدامات کر رہے ہیں؟ آئیے ہلکے پھلکے انداز میں موازنہ اور تجزیہ کریں۔
کسے معلوم نہیں کہ صدر ایوب کی کوشش تھی کہ پاکستان کا سرکاری نام ’’جمہوریہ پاکستان‘‘ ہی رائج کیا جائے اور ’’بنیادی حقوق‘‘ کو دستور میں جگہ نہ دی جائے لیکن عوامی احتجاج اور اسلام پسند حلقوں کے رد عمل سے خائف ہو کر نہ صرف بنیادی حقوق کو دستوری ضمانت دی گئی بلکہ پاکستان کا سرکاری نام بھی ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ قرار پایا۔ ہمارے موجودہ صدر بھی دستور کی اسلامی شقوں سے چھیڑ خانی کرنا چاہتے ہیں۔ 
یہ بھی سب مانتے ہیں کہ ۱۹۶۲ء کے دستور کو صدر ایوب کی خواہشات کے مطابق ترتیب دیا گیا تھا۔ دستور میں صدر کے اختیارات کو دیکھتے ہوئے جسٹس کیانی نے اسے فیصل آباد کا گھنٹہ گھر قرار دیا تھا کہ سبھی بازار اس چوک میں آکر مل جاتے ہیں یعنی صدر نہ ہوا‘ اختیارات کا چوک ہو گیا۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ ان اختیارات سے بھی ایوب خان کی تسلی وتشفی نہ ہو سکی اور مختلف حیلوں بہانوں سے اختیارات کے ارتکاز کا سلسلہ جاری رہا۔ جس طرح دستور کی چوتھی اور چھٹی ترامیم معرض وجود میں آئیں‘ ان کا مطالعہ دل چسپی سے خالی نہیں ہے۔ دسمبر ۱۹۶۲ء میں وزارت خزانہ نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے سے سرکاری ملازموں کی ریٹائرمنٹ کے لیے عمر کی حد ۶۰ سال کر دی لیکن دو سال اور دس ماہ بعد حکومت کو احساس ہوا کہ ایسا کر کے غلطی کی گئی ہے لہذا ۱۱؍ اگست ۱۹۶۵ء کو باقاعدہ دستوری ترمیم کے ذریعے سے (جو کہ چوتھی ترمیم تھی) مرکزی اور صوبائی ملازمین کی عمر ریٹائرمنٹ کے لیے ساٹھ سال سے کم کر کے ۵۵ سال کر دی گئی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ چوتھی ترمیم کے صرف سات ماہ بعد یعنی ۲۱ مارچ ۱۹۶۶ء کو چھٹی ترمیم کی گئی کیونکہ چوتھی ترمیم صدر ایوب کی طالع آزمائی کے لیے درکار تحفظات فراہم کرنے میں موثر ثابت نہیں ہوئی تھی۔ چھٹی ترمیم کے ذریعے سے واضح کیا گیا کہ نہ صرف صدر یا گورنر ۵۵ سال کی عمر ہونے پر کسی کو ریٹائر کر سکتے ہیں بلکہ ریٹائرمنٹ کی عمر پوری ہونے پر اپنی مرضی سے اپنی مرضی کی شرائط پر کسی بھی ملازم کی سروس میں توسیع بھی کر سکتے ہیں۔ 
ظاہر ہے دل میں چور تھا۔ اس ترمیم سے سرکاری ملازموں کو مکمل طور پر اپنے ہاتھوں میں لینا مقصود تھا لہذا محنت‘ دیانت اور فرض شناسی کے بجائے کاسہ لیسی معیار بن گئی۔ قوم اور ملک کی خدمت کے بجائے چند افراد کو خوش رکھنے سے کوئی بھی ملازم زندگی انجوائے کر سکتا تھا۔ ان ترامیم کے مضمرات امریکی سپائل سسٹم (Spoil System) کی یاد تازہ کر دیتے ہیں جس کے مطابق امریکی صدر من پسند افراد کو اہم پوسٹوں پر تعینات کر سکتا تھا۔ نیا آنے والا صدر ان افراد کو ہٹاکر اپنی مرضی کے افراد بھرتی کرتا تھا۔ اس سسٹم کے نقائص کے پیش نظر امریکیوں نے بیسویں صدی میں اس کا مکمل خاتمہ کر دیا۔ قواعد کے مطابق اور میرٹ پر ہر کام سرانجام پانے لگا۔ پاکستان میں ایک معکوس عمل ہوا ہے۔ قواعد پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے بجائے ان کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ جس ملک کے طالع آزما دستور کو بھی نہ بخشیں‘ وہاں لاقانونیت ہی فروغ پا سکتی ہے۔ 
ہمارے موجودہ صدر ’’رٹ آف گورنمنٹ‘‘ کی بات کرتے ہیں۔ کیا وہ خود اس کا لحاظ کرتے ہوئے اقتدار میں آئے ہیں؟ سرکاری ملازموں کی جو اکھاڑ پچھاڑ وسیع تر قومی مفاد اور معیشت کی بحالی کے نام پر کی جا رہی ہے‘ کیا وہ ایوبی اقدامات سے مماثل نہیں؟ ایڈہاک لیکچرز کی چھٹی کروا کر صدر کی تنخواہ اور مراعات میں جو اضافہ کیا گیا ہے‘ اس پر تبصرہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ ہمارے صدر محترم صرف اختیارات کے ارتکاز پر قانع نہیں ہو سکتے۔ ظاہر ہے سٹیٹس (Status) کا دور ہے۔ صدر کو ہر حیثیت سے‘ ہر اعتبار سے سوا سیر ہی ہونا چاہیے۔
اپنے آمرانہ اقدامات پر پردہ ڈالنے کے لیے اور عوام میں Good willبنانے کے لیے ایوب خان نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی سیٹوں میں اضافہ کر دیا۔ خواتین کی نشستیں بھی بڑھا دی گئیں۔ ہمارے صدر محترم نے بھی عوام کو اس لولی پوپ سے نوازا ہے۔ 
صدر ایوب نے جو دستوری کمیشن تشکیل دیا تھا‘ اس نے Basic democrats کو بطور ’’انتخابی ادارہ‘‘ دستور کا حصہ بنانے کی مخالفت کی تھی لیکن صدر موصوف کو ان بی ڈی ممبرز پر بہت مان تھا۔ ہمارے موجودہ صدر نے بھی اپنا ضلعی نظام متعارف کرایا ہے۔ اگر اس کے اختیارات کی توسیع بھی بی ڈی کی طرز پر کی گئی تو لامحالہ ناکامی سے دوچار ہوگا۔ 
صدر ایوب نے پریس کو کنٹرول کرنے کے لیے آرڈی ننس جاری کیا تھا۔ ہمارے موجودہ صدر نہ صرف اس حوالے سے پر تول رہے ہیں بلکہ عدلیہ کے حوالے سے آرڈی ننس جاری کر کے جناب نے ایوب خان سے مسابقت کرنے کی کام یاب کوشش کی ہے۔
جب ۱۹۶۲ء کا دستور تشکیل کے مراحل میں تھا تو دستوری کمیشن نے دستور میں ترمیم کرنے کا اختیار مرکزی مقننہ کو دیا کہ وہ صدارتی منظوری کے ساتھ دو تہائی اکثریت سے اور صدارتی منظوری کے بغیر تین چوتھائی اکثریت سے ترمیم کی مجاز تھی۔ صوبائی اسمبلیوں کو ترمیم کے حوالے سے کوئی اختیار نہیں دیا گیا تھا۔ صدر ایوب نے دستوری کمیشن کی سفارشات جانچنے کے لیے جو دو کمیٹیاں تشکیل دی تھیں‘ ان میں اگرچہ بعض مواقع پر اختلاف رہا لیکن دونوں کمیٹیوں نے ترمیم کے طریقہ کار پر اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کمیشن کی سفارشات سے اتفاق کرتے ہوئے بلکہ کمیشن سے بھی بڑھ کر صدر کے ہاتھ مضبوط کرنے کی کامیاب کوشش کی کہ صدر تین چوتھائی ووٹ آنے پر معاملہ انتخابی ادارے یعنی بی ڈی ممبرز کے حوالے کر سکتا تھا جو ظاہر ہے ایوب خان کے بغل بچے تھے۔ 
موجودہ صدارتی احکامات کے تناظر میں بدیہی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے صدر محترم بھی اپنی ذات کے مطابق دستوری ڈھانچہ تشکیل دینے کے بعد ترمیم کے حوالے سے ایوبی نظائر سے استفادہ کریں گے۔ 
موجودہ حکومت نے اصل مسائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے عوام کی ’’دل پشوری‘‘ کے لیے طرز انتخاب کا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ میر اخیال ہے کہ جداگانہ یا مخلوط طرز انتخاب ہمارا اصل مسئلہ نہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے جداگانہ انتخاب کو متحدہ ہندوستان میں مسلم مفادات کے تحفظ کے لیے ایک ذریعے کے طور پر اپنایا تھا۔ اگر اس کے بغیر مسلم مفادات کا تحفظ ممکن ہوتا تو قائد اس سے دست بردار ہونے کو تیار تھے۔ اس سلسلے میں ’’تجاویز دہلی‘‘ کی مثال دی جا سکتی ہے۔جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو جداگانہ انتخاب کا مسئلہ منصوص نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کی صورت حال کے مطابق شاید اس کی ضرورت نہیں تھی البتہ دستور کی اسلامائزیشن کے ضمن میں قادیانی فتنہ کی روک تھام کے لیے اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اگر قادیانی فتنہ کا تدارک کسی اور طریقے سے ہو سکتا ہو تو جداگانہ طرز انتخاب کو ترک کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے۔ اس اعتبار سے طرز انتخاب‘ دستوری مسائل میں سے ایک یعنی دستور کی اسلامائزیشن کا محض ایک ثانوی پہلو ہے۔ حکومت نے کمال ہوشیاری سے اسلام پسندوں کی توجہ دستور کی ’’کلی اسلامائزیشن‘‘ سے ہٹانے کے لیے یہ شوشہ چھوڑا ہے۔ اب تک یہ شوشہ کامیاب جا رہا ہے۔
اب تک کی حکومتی پالیسی کے تناظر میں جس قسم کا سیٹ اپ بننے کی توقع کی جا سکتی ہے‘ اسے Centralized de-centralization سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ محدود، وقتی اور ڈنگ ٹپاؤ اقدامات ہیں۔ ان سے نہ صرف یہ کہ بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی بلکہ یہ دستوری تسلسل میں مخل ہو کر متوقع بہتری کا راستہ مسدود کر دیتے ہیں۔ 
ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ ضیاء الحق اورجنرل پرویز کا اقتدار کی مسند پر فائز ہونا اور اپنی ’’اعلیٰ دانش‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کو ’’ترقی‘‘ کی راہ پر ڈالنے کے نام پر شخصی تحفظات کا بندوبست کرنا قابل تعریف نہیں گردانا جا سکتا۔ اعلیٰ سطح پر دستور کی دھجیاں اڑانے سے عوامی سطح پر قانون شکنی کی نفسیات جنم لیتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ طالع آزمائی اور قانون شکنی سے عبارت ہے۔ گورنر جنرل غلام محمد‘ فیڈرل کورٹ کے ججز اور سر آئیور نے جو گل کھلایا‘ اس کے نتیجے میں ہماری دستوری اور قانونی گاڑی اسی پٹڑی پر چل نکلی جس میں ہر قدم پر ’’سپیڈ بریکر‘‘ ہیں۔ اگر ۱۹۴۰ء سے ہی ہم دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا دستور تشکیل دینے کا آغاز کر دیتے تو ۱۹۴۷ء میں اپنا بنایا ہوا دستور سر آئیور کی نکتہ سنجیوں کا شکار نہ ہوتا۔ ہو سکتا ہے ہمارا مشرقی بازو بھی ہم سے نتھی رہتا۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک کو صرف ایک کمٹ منٹ کی ضرورت ہے‘ دستور سے کمٹ منٹ کی۔ ملکی سلامتی اور معیشت کی بحالی کو فرنٹ پر رکھنے کے بجائے دستور سے کمٹ منٹ کو فرنٹ پر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ملکی سلامتی اور معیشت کی بحالی کے دھارے دستوری سرچشمے سے پھوٹیں گے۔ ماضی کی غلطیاں دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
ہمارے صدر اور ان کے رفقاء کار بارہا اعلان کر چکے ہیں کہ موجودہ سیٹ اپ اور انقلابی اقدامات کے تحفظ کے لیے درکار ہر اقدام اٹھایا جائے گا۔ پاکستان کی دستوری تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اصل مسائل سے ہٹ کر مصنوعی انداز میں صرف اپنی ذات کے تحفظ کے لیے نام نہاد نعروں کی آڑ لے کر کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو اس قدم کے مندرجات نعرے میں مضمر صداقتوں کے متوازی نہیں ہوتے۔ وقتی طور پر موثر ہونے کے باوجود ایسے اقدام اپنے پیچھے مسائل کا انبار چھوڑ کر بطور ’’بڑی یادگار‘‘ تاریخ کے صفحات میں نقش ہو جاتے ہیں۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ ہمارے صدر محترم ’’تاریخی یادگاریں‘‘ قائم نہ کریں۔ میری تو خواہش ہے کہ وہ پاکستان کے اندرونی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے معروضی انداز میں ایسے قدم اٹھائیں کہ قوم کسی اچھی یادگار کو بھی اپنے حافظے میں جگہ دے سکے۔ بہرحال دستور سازی اور رٹ آف گورنمنٹ کے حوالے سے صدر محترم کے بیانات پڑھ کر مجھے اس نوجوان کی کہانی یاد آجاتی ہے جس نے اپنے ماں باپ کو قتل کر دیا تھا اور پھر یتیم ہونے کی بنیاد پر رحم کا طلب گار تھا۔

سر سید کے مذہبی افکار پر ایک نظر

گل محمد خان بخمل احمد زئی

(مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ کے طالب علم جناب گل محمد خان بخمل احمد زئی نے زیر نظر مضمون میں مولانا سید تصدق بخاری کی کتاب ’’محرف قرآن‘‘ کے بعض مباحث کا ملخص پیش کیا ہے۔ ادارہ)
سرسید احمد خان کے آباؤ اجداد کشمیر کے رہنے والے تھے۔ شاہ عالم ثانی (۱۱۷۳ھ۔۱۱۵۹ھ) کے دور میں جب دہلی میں کلیدی آسامیوں اور مناصب پر فائز علما اور فضلا شاہ وقت سے اختلاف کی بنا پر اپنے اپنے عہدوں سے الگ کر دیے گئے تو ریاست جموں وکشمیر میں اس وقت قحط سالی کا دور دورہ تھا۔ چنانچہ یہاں کے تین معروف و معزز خاندانوں یعنی سید‘ میر اور خان خاندانوں کے افراد نے اپنے وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی کا رخ کیا اور پھر دہلی کے ہو کر رہ گئے۔ دہلی کے خالی مناصب پر انہی افراد کو سرفراز کیا گیا۔ان میں سے سید متقی بن سید ہادی (وفات ۱۸۲۸ء)کے گھرانے میں ۵؍ ذی الحجہ ۱۲۳۳ھ بمطابق ۱۷ ؍اکتوبر ۱۸۱۷ء کو سرسید احمد خان کی ولادت ہوئی۔ 
سرسید عالم شباب میں قدم رکھنے سے پہلے سن بلوغت ہی میں مروجہ ابتدائی علوم میں‘ جن میں اس وقت کی سرکاری زبان فارسی شامل ہے‘ شد بد حاصل کر چکے تھے۔ شاہ ولی اللہؒ کے پوتے مولانا مخصوص اللہؒ سے انہوں نے کچھ ابتدائی مذہبی علوم کی تحصیل کی اور کچھ اسباق مولانا مملوک علی نانوتویؒ سے بھی پڑھے۔
سریانی وعبرانی زبانوں سے مناسب واقفیت حاصل کر کے پہلے انہوں نے میدان مناظرہ میں پادریوں سے ناکام زور آزمائی کی اور اس کے بعد ’’تبیین الکلام‘‘ لکھ کر مسلمانوں اور عیسائیوں کو متحد ومتفق کرنا چاہا مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ پھر پیری مریدی کا سلسلہ شروع کیا لیکن اس میدان کے بنیادی لوازم کے فقدان کی وجہ سے یہاں بھی ناکام رہے۔ سرسید نے محکمہ مال میں ملازمت اختیار کی اور کچھ عرصے کے بعد مختاری کا امتحان پاس کر کے منصف کے عہدے پر فائز ہو گئے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں منصفی کی آڑ میں انہوں نے انگریزوں کی خوب دل کھول کر امداد کی۔ان کو اپنے اور اپنے اعوان وانصار کے گھروں میں پناہ دی اور انہیں محفوظ مقامات تک پہنچانے میں خوب شہرت حاصل کی۔ نیز انہوں نے انگریزوں کو خوش کرنے کے لیے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کو ’’بغاوت ہند‘‘ کے نام سے موسوم کیا اور اس کے اسباب وواقعات پر ایک کتاب لکھی جس میں مسلمانوں کے موقف کو غلط ٹھہرایا گیا۔ یہ کتاب انگریزوں کو اتنی پسند آئی کہ کرنل گراہم نے اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ اس تعاون اور خدمات کے پیش نظر انگریز حکومت کی طرف سے سید احمد خان کو ’’سر‘ خان بہادر‘ شاہی مشیر‘ انڈیا کا امن جج‘ اور قانون کا ڈاکٹر‘‘ جیسے خطابات نوازے گئے اور دو پشتوں تک ان کے لیے دو سو روپے کی پنشن بھی مقرر کر دی گئی۔ اکبر الٰہ آبادی نے غالباً اسی تناظرمیں کہا تھا
جب سے ہم میں آنریبل اور سر پیدا ہوئے
سوتے فتنے جاگ اٹھے اور شر پیدا ہوئے
قادیانیوں کی ’’تاریخ احمدیت‘‘ میں مرقوم ہے کہ سرسید نے مرزا غلام احمد قادیانی کی بڑی معاونت کی ہے اور ان کی کتابوں کو بہت سراہا ہے۔
خود مرزا غلام احمد قادیانی کا بیان ہے کہ سرسید تین باتوں میں مجھ سے متفق ہیں: ایک یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا نہیں ہوئے۔ دوسرے یہ کہ ان کو آسمان پر نہیں اٹھایا گیا بلکہ رافعک الی سے مراد ان کے درجات کو بلند کرنا ہے۔ تیسرے یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج روح مع الجسد کے ساتھ نہیں تھا بلکہ صرف روحانی تھا۔
مرزا غلام احمد قادیانی اور سرسید احمد خان دونوں نے مذہب اسلام کے مسلمات میں شگاف ڈال کر انہیں نئی نئی ذہنی اور مذہبی بحثوں میں الجھایا اور اس طرح انگریزوں کی بہت بڑی خدمت انجام دی۔ان کی کوششوں کے نتیجے میں انگریز کو اطمینان کے ساتھ برصغیر پر حکومت کرنے کا موقع ملا‘ مسلمانوں کی طاقت تقسیم ہو کر رہ گئی اور علماء اسلام کو بیک وقت تین محاذوں پر لڑنا پڑا یعنی انگریزی اقتدار سے آزادی کا محاذ‘ مرزا غلام احمد قادیانی کی خانہ ساز نبوت کا محاذ اور سرسید احمد خان کی ایمان سوز نیچیریت اور تحریف قرآن کا محاذ۔

سرسید کے بعض مذہبی افکار

سرسید یورپ کے ملحد اور مذہب بیزار مفکرین سے شدید متاثر تھے اور اس تاثر کے تحت انہوں نے اسلام کے بیشتر بنیادی عقائد اور مسلم حقائق کو توجیہ وتاویل کے ذریعے سے ایسی شکل دینے کی سعی کی جو مغربی ملحدین کے تصورات کے مطابق قابل قبول ہو سکے۔ چنانچہ وحی، جنت ودوزخ، آخرت ، ملائکہ وجنات کی ایسی ایسی فاسد تاویلات کیں جن سے دین کا پورا نظام ڈھے جاتا ہے۔ معجزات کو تسلیم کرنے سے ان کا ذہن باغی ہے اور مافوق الفطرت اور خارق عادت کسی امر کو تسلیم کرنے پر وہ تیار نہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے امت کے اہل علم کی اجماعی آرا کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔ چنانچہ خود لکھتے ہیں کہ 
’’میں نے بقدر اپنی طاقت کے خود قرآن کریم پر غور کیا اور چاہا کہ قرآن کو خود ہی سمجھنا چاہیے۔‘‘ 
(تفسیر القرآن ج ۱ ص ۲)
ان کی ایسی آرا کے چند نمونے ذیل میں درج کیے جارہے ہیں:
۱۔ سورہ بقرہ میں ارشاد باری ہے:
واذ ااخذنا میثاقکم ورفعنا فوقکم الطور
ترجمہ :’’اور جب ہم نے تم سے عہد لیا اور تم پر طور پہاڑ کو بلند کیا۔‘‘
اس کے تحت سرسید لکھتے ہیں کہ 
’’پہاڑ کو اٹھا کر بنی اسرائیل کے سروں پر نہیں رکھا تھا بلکہ آتش فشانی سے پہاڑ ہل رہا تھا اور وہ اس کے نیچے کھڑے یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے سروں پر گر پڑے گا۔‘‘
۲۔ دین میں کعبہ کی حیثیت سے متعلق سرسید لکھتے ہیں کہ 
’’جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس پتھر کے بنے ہوئے چوکھونٹے گھر میں ایک ایسی متعدی برکت ہے کہ جہاں سات دفعہ اس کے گرد پھرے اور بہشت میں چلے گئے، یہ ان کی خام خیالی ہے۔‘‘ (تفسیر القرآن ج ۱ ص ۲۱۱)
نیز لکھتے ہیں: 
’’اس چوکھونٹے گھر کے گرد پھرنے سے کیا ہوتا ہے؟ اس کے گرد تو اونٹ اور گدھے بھی پھرتے ہیں تو وہ کبھی حاجی نہیں ہوئے۔‘‘ (ایضاً ج ۱ ص ۲۵۱)
مزید گوہر افشانی کرتے ہیں کہ 
’’کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا اسلام کا کوئی اصلی حکم نہیں ہے۔‘‘ (ایضاً ج ۱ ص ۱۵۷)
’’نماز میں سمت قبلہ کوئی اصل حکم مذہب اسلام کا نہیں ہے۔‘‘ (ایضاً ج ۱ ص ۱۴۱)
۳۔ سرسید وحی کی حقیقت کے بارے میں لکھتے ہیں: 
’’یہ بھی مسلم ہے کہ قرآن مجید بلفظہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر نازل ہوا ہے یا وحی کیا گیا ہے، خواہ یہ تسلیم کیا جاوے کہ جبریل فرشتہ نے آنحضرت تک پہنچایا جیسا کہ مذہب عام علماء اسلام کا ہے، یا ملکہ نبوت نے جو روح الامین سے تعبیر کیا گیا ہے، آنحضرت کے قلب پر القا کیا ہے، جیسا کہ میرا خاص مذہب ہے۔‘‘ 
(ایضاً ج ۱ ص ۳)
نیز لکھتے ہیں کہ:
’’جس طرح ایک بڑھئی وغیرہ ہر آئے دن اپنے دماغ سے نئی نئی اشیا ایجاد کر کے بناتا رہتا ہے، اسی طرح نبی میں جو ملکہ نبوت ہوتا ہے، اس کے ذریعے سے وہ بھی نیکی کی راہیں بتاتا رہتا ہے اسی لیے ملکہ نبوت کے سوا کوئی اور مخلوق وحی لانے والی نہیں۔‘‘
جبریل کی حقیقت پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’پس وحی وہ چیز ہے جس کو قلب نبوت پر بسبب اسی فطری نبوت کے مبدا فیاض نے نقش کیاہے۔ وہی انتقاش قلبی کبھی مثل ایک بولنے والی آواز کے انہیں ظاہری کانوں سے سنائی دیتا ہے اور کبھی وہی نقش قلبی دوسرے بولنے والے کی صورت میں دکھائی دیتا ہے مگر اپنے آپ کے سوا نہ وہاں کوئی آواز ہے نہ بولنے والا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسی ملکہ نبوت کا جو خدا نے انبیا میں پیدا کیا ہے، جبریل نام ہے۔‘‘ (ایضاً ج ۲ ص ۲۰)
ًً’’خدا اور رسول میں بجز اس ملکہ نبوت کے جس کو ناموس اکبر اور زبان شرع میں جبریل کہتے ہیں، اور کوئی ایلچی پیغام پہنچانے والا نہیں ہوتا۔‘‘ (ایضاً ص ۲۴)
’’نبوت ایک فطری چیز ہے جو انبیا میں بمقتضائے ان کی فطرت کے مثل دیگر قواے انسانی کے ہوتی ہے۔ جس انسان میں وہ قوت ہوتی ہے، وہ نبی ہوتا ہے۔‘‘ (ایضاً ج ۱ ص ۲۳)
۴۔ سورۂ بقرہ کی آیت ربا کے تحت سرسید لکھتے ہیں :
’’اس آیت میں انہیں لوگوں کا ذکر ہے جو غریب، مسکین لوگوں سے سود لیتے تھے اور اسی سود کو جو ایسے لوگوں سے لیا جاتا تھا جو قابل رحم اور ہمدردی اور سلوک کرنے کے تھے، خدا نے حرام کیا۔‘‘ (ایضاً ج ۱ ص ۲۴۲)
مزید لکھتے ہیں:
’’ان کے سوا وہ لوگ ہیں جو ذی مقدار صاحب دولت وجاہ وحشمت ہیں اور اپنے عیش وآرام کے لیے روپیہ قرض لیتے ہیں، جائیدادیں مول لیتے ہیں، مکان بناتے ہیں اور قرض روپیہ لے کر چین اڑاتے ہیں۔ گو ان کو قرض دینا بعض حالتوں میں خلاف اخلاق ہو مگر ان سے سود لینے کی حرمت کی کوئی وجہ قرآن مجید کی رو سے مجھ کو نہیں معلوم ہوتی۔‘‘ (ایضاً ج ۱ ص ۱۴۳)
۵۔ واقعہ معراج کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ہماری تحقیق میں واقعہ معراج کا ایک خواب تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تھا۔ اسی خواب میں یہ بھی دیکھا کہ جبریل نے آپ کا سینہ چیرا اور اس کو آب زمزم سے دھویا۔‘‘ (تفسیر القرآن ج ۲ ص ۱۳۰)
نیز لکھتے ہیں 
’’ہمارا اور صاحب عقل کا بلکہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اس کو ایک واقعہ خواب کا تسلیم کرے۔‘‘ 
(ایضاً ج ۴ ص ۸۶ و ص ۱۲۲)
۶۔ سرسید کا خیال ہے کہ جنات کا ایک مستقل اور خاص مخلوق ہونا قرآن کی کسی آیت سے ثابت نہیں۔
۷۔ فرماتے ہیں کہ جس جنت کو علماء اسلام اور تمام مسلمان مانتے ہیں، وہ قرآن سے ثابت نہیں۔
اس کے علاوہ جدید سائنسی خیالات کی قرآن سے تائید مہیا کرنے کے لیے انہوں نے متعدد تحریریں لکھیں۔ مثلاً ’’خلق الانسان‘‘ لکھ کر رابرٹ چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقا اور سرچارلس لائل کی کتاب ’’انسان کا عہد پارینہ‘‘ کی تصدیق کر کے قرآنی حقائق کو مسخ کر کے رکھ دیا۔ ’’الجن والجان علیٰ ما قال فی الفرقان‘‘ میں جنات کی مخلوق کے موجود ہونے کا انکار کر کے قرآن حکیم کی سینکڑوں آیات کے مفہوم میں تحریف کر دی۔

علماء اسلام کا رد عمل

قرآن حکیم کی تفسیر کے نام پر اس کی تحریف پر مبنی یہ عقائد جب سرسید نے پیش کیے تو جلیل القدر اہل علم نے ان کی ضلالت کو بدلائل واضح کیا:
۱۔ مولانا عبد الحق حقانی ؒ نے ان عقائد کے رد میں ’’فتح المنان‘‘ المعروف تفسیر حقانی لکھ کر قرآن کریم کی ان آیات کا اصل مطلب واضح فرمایا اور تفسیر کے مقدمے میں سرسید کی تحریفات وہزلیات کے عقلی ونقلی، مدلل، ناقابل تردید اور مسکت جوابات دیے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ 
’’سید صاحب قرآن کے معنی متعارف چھوڑ کر برخلاف سلف وخلف کے الگ راہ پر چلے ہیں اور دل کھول کر اپنے آزادانہ خیالات کو دخل دیا ہے۔‘‘ (مقدمہ ص ۲۳)
۲۔ مولانا ناصر الدین محمودؒ نے ’’تنقیح البیان‘‘ میں سرسید کے گمراہ کن افکار پر سخت تنقید کی ہے۔
۳۔ حضرت مولانا محمد علیؒ نے ’’البرہان علی تجہیل من قال بغیر علم فی القرآن‘‘ میں ان افکار کی تردید کی ہے۔
۴۔ زہدی حسن جار اللہ لکھتے ہیں کہ سرسید احمد خان اور ان کے رکن رکین سید امیر علی معتزلی تھے۔
۵۔ شیعہ مفسر ابو عمار علی رئیس نے سرسید کے خیالات کے رد میں تفسیر ’’عمدۃ البیان‘‘ لکھی جس نے بڑی شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔
۶۔ علامہ عبد اللہ یوسف علی سرسید کی تفسیر کے متعلق لکھتے ہیں کہ قرآن مجید کے لفظی ترجمہ اور تشریح کے حوالے سے اس کتاب کے مندرجات کو علما کی تائید حاصل نہیں ہے۔
۷۔ مولانا وحید الزمان وقار جنگ نے لکھا کہ 
’’ایک شخص علی گڑھ میں ظاہر ہوا جس نے بہشت، دوزخ، فرشتوں سب کا انکارکیا ہے۔ پیغمبروں کے معجزوں کو شعبدہ اور طلسم قرار دیا ہے۔ قرآن کی آیتوں کی ایسی تفسیر کی جو صحابہؓ اور تابعین کے خلاف اور اہل الحاد اور باطنیوں کے طور پر ہے۔‘‘
۸۔ شیخ محمد اکرام مرحوم لکھتے ہیں:
’’سرسید احمد خان، مولوی چراغ علی اور سید امیر علی مسلمانوں کے خلاف تھے۔‘‘ (موج کوثر ص ۱۷۷)
’’سرسید احمد خان اور مرزا غلام احمد قادیانی ہم عقیدہ تھے۔‘‘ (موج کوثر ص ۱۷۹)
’’مولوی چراغ علی (متوفی ۱۸۹۵ء) سرسید کے ہم عقیدہ تھے۔‘‘ (موج کوثر ص ۱۶۶)
’’سرسید نے معراج وشق صدر کو رؤیا (خواب وخیال) کا فعل مانا ہے۔ حساب کتاب، میزان، جنت ودوزخ کے متعلق تمام قرآنی ارشادات کو بہ طریق استعارہ وتمثیل قرار دیا ہے۔ ابلیس وملائکہ سے کوئی خارج وجود مراد نہیں کہا۔ حضرت عیسیٰ کے متعلق کہا ہے کہ قرآن مجید کی کسی آیت سے ثابت نہیں ہوتا کہ وہ بن باپ کے پیدا ہوئے یا زندہ آسمانوں پر اٹھائے گئے۔‘‘ (موج کوثر ص ۱۵۹)
۹۔ خود سرسید کے پیروکار ومعتقد مولانا الطاف حسین حالیؒ لکھتے ہیں کہ سرسید نے اس تفسیر میں جابجا ٹھوکریں کھائی ہیں اور بعض مقامات پر ان سے رکیک لغزشیں ہوئی ہیں۔ (حیات جاوید ص ۱۸۴)

غزوۂ بدر کی سیاسی واقتصادی اہمیت

پروفیسر محمد یونس میو

مکہ کی تیرہ سالہ زندگی میں مشرکین نے جو دردناک اور ہوش ربا مظالم مٹھی بھر مسلمانوں پر روا رکھے اور مظلوم مسلمانوں نے جس صبر واستقلال اور معجز نما استقامت وللہیت سے مسلسل تیرہ برس تک ان ہول ناک مصائب ونوائب کا تحمل کیاٗ وہ دنیا کی تاریخ کا بے مثال واقعہ ہے۔ قریش اور ان کے حامیوں نے کوئی صورت ظلم وستم کی اٹھا نہ رکھی تاہم مسلمانوں کو حق تعالیٰ نے ان وحشی ظالموں کے مقابلے میں ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہ دی۔ صبر وتحمل کے امتحان کی آخری حد یہ تھی کہ مسلمان مقدس وطن، اعزہ واقارب، اہل وعیال، مال ودولت سب چیزوں کو خیر باد کہہ کر خالص خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کا راستہ طے کرنے کے لیے گھروں سے نکل پڑے۔ جب مشرکین کے ظلم وتکبر اور مسلمانوں کی مظلومیت اور بے کسی حد سے گزر گئی یہاں تک کہ کوئی دن خالی نہ جاتا تھا کہ کوئی مسلمان ان کے دست ستم سے زخمی اور چوٹ کھایا ہوا نہ ہوتا اور پھر اہل ایمان کے قلوب وطن وقوم، زن وفرزند، مال ودولت غرض ہر ایک ماسوی اللہ کے تعلق سے خالی اور پاک ہو کر محض خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور دولت توحید واخلاص سے ایسے بھرپور ہو گئے کہ گویا غیر اللہ کی گنجائش ہی نہ رہی، تب ان مظلوموں کو جو تیرہ برس سے برابر کفار کے ہر قسم کے حملے سہہ رہے تھے او روطن چھوڑنے پر بھی امن حاصل نہ کر سکے تھے، ظالموں سے لڑنے اور بدلہ لینے کی اجازت دی گئی:
’’اجازت دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ جاری ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔ اور اللہ یقیناًان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جاتیں۔‘‘ (الحج آیت ۶۱)
مولانا مفتی محمد شفیعؒ نے اپنی تفسیر ’معارف القرآن‘ میں لکھا ہے کہ
’’یہ پہلی آیت ہے جو قتال کفار کے معاملے میں نازل ہوئی۔ اس سے پہلے ستر سے زائد آیتوں میں اس قتال کوممنوع قرار دیا گیا تھا۔‘‘
مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے بھی اپنی تفاسیر میں ایسا ہی لکھا ہے۔
اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان دیگر اقوام اور مذاہب کا نہ صرف احترام کرتے ہیں بلکہ سیاسی غلبہ کی صورت میں ان کے جان ومال، عزت وآبرو اور عبادت گاہوں کی حفاظت کے ذمہ دار بھی ہوتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے پہلے سال ہی اوس وخزرج اور قبائل یہود وغیرہ سے ایک معاہدہ ’’میثاق مدینہ‘‘ ترتیب دیا۔ یہ دستور مسجد نبوی کی تعمیر سے بھی پہلے مرتب ہوا۔ مستشرقین نے اس دستور کا ناقدانہ مطالعہ کیا ہے۔ ویل ہاؤزن اور کستانی وغیرہ نے بہت سی شہادتیں اور دلائل پیش کرنے کے بعد اس دستاویز کو غزوۂ بدر سے پہلے کا تسلیم کیا ہے۔ اس دستورکی پچاس دفعات ہیں۔ دفعہ نمبر ۲۴، ۳۷ اور ۴۴ کے مطابق آپ ریاست مدینہ کے چیف جسٹس، سپہ سالار اور سربراہ قرار دیے گئے۔ یہ بات لائق توجہ ہے کہ مدینہ کے یہودی قبائل اور مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’رسول اللہ‘‘ مانے بغیر آپ کی متذکرہ بالا آئینی وقانونی حیثیت کو تسلیم کر لیا۔ اس دستور کے نفاذ سے اسلامی ریاست اور اس کے حلیف قبائل ایک ایسے سماجی اور سیاسی نظم کا حصہ بن گئے جس میں قبائلی امتیاز، معاشی تفوق اور سیاسی طوائف الملوکی کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ یہ معاہدہ نہ صرف سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کی بہت بڑی کام یابی تھی بلکہ معاشی اعتبار سے ان کی حکمت عملی کے دور رس نتائج مرتب ہوئے۔ اس ضمن میں دستور کی دفعات ۲۵، ۳۹ اور ۴۰ قابل ملاحظہ ہیں:
’’حالت امن میں یہود اپنے اخراجات برداشت کریں اور مسلمان اپنے اخراجات جبکہ حالت جنگ میں یہود اور مومنین مل کر اخراجات جنگ اٹھائیں گے جب تک دونوں دشمن کے خلاف حالت جنگ میں رہیں۔‘‘
یہاں یہ بات بڑی دل چسپ ہے کہ یہود مسلمانوں سے پہلے مدینے میں نہ صرف محفوظ تھے بلکہ اوس وخزرج کے بے تاج بادشاہ اب ریاست مدینہ کے تاج دار بننے والے تھے۔ مسلمانوں کی آمد سے ان کا یہ دیرینہ خواب نہ صرف ہمیشہ کے لیے پریشان ہو گیا بلکہ یہ لوگ اسلامی ریاست کے ماتحت ایک حلیف کی حیثیت میں چلے گئے۔ 
جدید اصطلاح میں آپ نے کسی بیرونی سیاسی پیش رفت سے پہلے اس وقت کی رائے عامہ کو، جو ’جوف مدینہ‘ پر مشتمل تھی، اپنے حق میں ہموار کر لیا۔ یہ داخلی سیاسی استحکام کا تقاضا تھا کہ آپ اپنے دینی اور سیاسی حریفوں اور دشمنوں پر اپنی قوت کی دھاک بٹھا دیتے۔ نیز یہ بات بھی آپ کے علم میں تھی کہ اگر مسلمان مدینہ میں محصور ہو کر بیٹھ بھی جائیں تب بھی ان کے دشمن ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ علاوہ ازیں آپ کا عالم گیر اور آفاقی مشن اب سیاسی ودفاعی مہم جوئی کی رہنمائی کر رہا تھا۔ سیرت ابن ہشام میں ہے کہ ربیع الاول ۲ھ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے جنگ کا ارادہ فرما لیا تھا۔ غالباً اس پس منظر میں آپ نے قریش کے جنگی اور تجارتی قافلوں کی نگرانی شروع کر دی تھی۔ ربیع الاول ۲ھ بمطابق ستمبر ۶۲۳ء میں آپ نے دو سو سپاہیوں کی معیت میں ’ابواء‘ کا قصد کیا جو مدینہ سے اڑتالیس میل دور ایک وادی ہے۔ طبقات ابن سعد کے مطابق آپ کے پیش نظر امیۃ بن خلف الجمعی کا قافلہ تھا جس کے ساتھ سو قریشی اور دو ہزار اونٹ تھے۔ آپ نے اس قافلے سے کوئی تعرض نہ کیا اور مدینہ لوٹ آئے۔ اسی نوع کی کچھ اور مہمات بھی مرتب ہوئیں لیکن ان مہمات کا مقصد کوئی فوجی تصادم نہ تھا بلکہ ’جوف مدینہ‘ کے قبائل سے معاہدات کرنا اور ان پر یہ ثابت کرنا تھا کہ مسلمان ایک متحرک اور بیدار قوت ہیں۔ ابواء کے مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن فحشی ضمری سے معاہدہ کیا اور ذو العشیرکے مقام پر، جو مکہ اور مدینہ کے مابین ایک مقام ہے، بنی مدلج اور بن ضمرہ سے معاہدہ کیا۔ یہ جمادی الاولیٰ ۲ھ بمطابق نومبر، دسمبر ۶۲۳ء کا واقعہ ہے۔ معروف دانش ور اور سیرت نگار جناب نعیم صدیقی صاحب نے ان کارروائیوں کے حسب ذیل مقاصد بیان کیے ہیں: ریاست مدینہ کی حفاظت، مسلمان سپاہیوں کی جنگی تربیت اور قریش کو یہ باور کرانا کہ اب ان کی معاشی شاہ رگ مدینہ کے پنجے میں آ چکی ہے اور وہ ان کی تجارتی شاہراہ کو روک کر ان کے کاروانوں کا گزر جب چاہیں، بند کر سکتے ہیں۔
سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے سورۂ انفال کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ 
’’اہل مکہ کی وہ تجارت جو اس شاہراہ کے بل پر چل رہی تھی، ڈھائی لاکھ اشرفی تک پہنچتی تھی۔ طائف اور دوسرے مقامات کی تجارت اس کے ماسوا تھی۔‘‘
گویا آپ نے اس شاہراہ کو کنٹرول کر کے قریش پر معاشی اور سیاسی دباؤ بڑھا دیا۔ 
غزوۂ بدر کے حوالے سے ’غزوہ بہ تلاش کرز بن جابر الفہری‘، ’سریہ عبد اللہ بن جحش الاسدی‘ (نخلہ) اور قریش کا مشہور تجارتی قافلہ غور طلب چیزیں ہیں۔ پھر ان کی سیاسی اور معاشی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے۔ مصنف ’’محسن انسانیت‘‘ نے اول الذکر دونوں واقعات کو غزوۂ بدر کے محرکات میں شمار کیا ہے جبکہ تجارتی قافلے کو جنگ کا دیباچہ قرار دیا ہے۔ مناسب ہوگا کہ موضوع کی مناسبت سے ان مہمات کا بحیثیت سیاسی اور معاشی اہمیت کے جائزہ لیا جائے۔
کرز بن جابر نے مدینے کی چراگاہ کو لوٹا اور مسلمانوں کے جانوروں کو بھگا کر لے گیا جس کے نتیجے میں غزوہ سفوان (ربیع الاول ۲ھ بمطابق ستمبر ۶۲۳ء) کی نوبت آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر صحابہ کے ہمراہ الفہری کا تعاقب کیا لیکن وہ بچ نکلا۔ یہ ڈاکہ زنی قطعی طور پر ایک جنگی چیلنج تھی کیونکہ کوئی زندہ اور بیدار حکومت اپنی حدود میں غیروں کی ایسی مجرمانہ مداخلت کو جنگ کے ہم معنی سمجھے بغیر نہیں رہ سکتی۔ گویا غزوہ بدر کے سیاسی اسباب میں اس واقعہ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نیز یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں نے اس واقعہ کو اپنے ذہن میں رکھا ہو اور سریہ عبد اللہ بن جحش میں جو کچھ ہوا، وہ اس کا رد عمل ہو لیکن سریہ مذکورہ کا مقصد ہرگز یہ نہ تھا بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تحریر میں فرمایا تھا کہ دو دون کے سفر کے بعد میری تحریر پڑھنا اور مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ کے مقام پر اترنا ۔ تحریر میں یہ حکم درج تھا کہ ’’قریش کے ایک قافلہ کی گھات میں لگ جاؤ اور ہمارے لیے اس کی خبروں کا پتہ لگاؤ۔‘‘ یہ روایت طبقات ابن سعد کی ہے۔ سیرت ابن ہشام میں لکھا ہے کہ ’’نخلہ میں رہ کر قریش کی کارروائیوں سے آگاہی حاصل کرتے رہو اور ان کی خبروں سے ہمیں آگاہ کرو۔‘‘ بہرحال عمرو بن حضرمی قتل ہوا اور اس کے دو ساتھی قید ہوئے۔
سریہ نخلہ (رجب ۲ھ بمطابق جنوری ۶۲۴ء) پہلی مہم ہے جس میں مسلمانان مدینہ کی ایک چھوٹی سی جماعت کو کچھ مال غنیمت حاصل کرنے میں کام یابی ہوئی۔ ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی کی تحقیق کے مطابق یہ مال غنیمت کچھ شراب ناب (خمر)، سوکھی کھجوروں (زبیب) اور کھالوں (ادم) کی غیر معینہ مقدار کے علاوہ قریش مکہ کے کچھ روایتی سامان تجارت (تجارۃ من تجارات قریش) پر مشتمل تھا۔ اس مال کے علاوہ دو قیدی بھی مسلم غازیوں کے ہاتھ لگے جن میں سے ایک نے چالیس اوقیہ چاندی یعنی ۱۶۰۰ دراہم بطور زرفدیہ ادا کر کے رہائی حاصل کی جبکہ دوسرے قیدی نے اسلام قبول کر لیا۔ ڈاکٹر صدیقی لکھتے ہیں کہ نخلہ کی حاصل شدہ غنیمت کی صحیح مالیت کا تخمینہ لگانا مشکل ہے تاہم یہ مالیت بیس ہزار درہم کی رقم ہو سکتی ہے جس کی بدولت نخلہ کی مہم میں حصہ لینے والے مسلمان جن کی تعداد ۶، ۸، ۱۲ اور ۱۳ روایت کی گئی ہے، کسی حد تک مال دار ہو گئے تھے۔ اس غنیمت کا خمس مدینہ کی ریاست کاحصہ تھا۔ ابن ہشام اور ابن سعد فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن جحش نے یہ خمس پہلے ہی نکال دیا تھا۔ 
یہاں یہ بات لائق توجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نخلہ کے مال غنیمت کو بدر کی واپسی تک موخر کیوں کیا؟ اس استفسار کا تعلق اس بحث سے ہو سکتا ہے جو بعض مستشرقین، مسلم مورخین اور مغازی نگاروں نے اٹھائی ہے اور جس میں یہ کہا گیا ہے کہ مسلمانان مدینہ نے اپنے روز افزوں اقتصادی مسائل کو حل کرنے کے لیے اور دن بدن گھٹتے ہوئے مالی ومسائل کو بڑھانے کے لیے لوٹ مار کا سہارا لیا اور بلا استثنا تمام غزوات وسرایا کا منشا ومقصد اقتصادی وسائل کی فراہمی قرار دیا ہے۔ یہاں کسی بحث میں الجھنے کے بجائے صرف غزوہ بدر اور اس سے متعلق مہمات کے بارے میں ہی بات ہوگی لیکن سیرت کے حوالے اور حالات حاضرہ کے تناظر میں کسی ممکنہ غلط فہمی کے ازالہ کے لیے ایک آدھ مستند حوالہ کی نشان دہی اپنی اخلاقی اور علمی ذمہ داری خیال کرتا ہوں چنانچہ جو صاحب غزوات وسرایانبوی کی اقتصادی اہمیت کے بارے میں تحقیق کرنا چاہیں، وہ ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی کا وقیع مقالہ ’’غزوات وسرایا کی اقتصادی اہمیت‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔ یہ تحریر نقوش کی جلد ۱۱، شمارہ ۱۳، جنوری ۱۹۸۵ء مطبوعہ ادارہ فروغ اردو لاہور کے صفحات ۳۹۸ تا ۴۶۰ پر موجود ہے۔
آئیے اب یہ دیکھا جائے کہ نخلہ کی مہم کی نوعیت اور حیثیت کیا تھی؟ نعیم صدیقی صاحب نے ’’محسن انسانیت‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’اس واقعہ کی نوعیت ویسی ہی سرحدی جھڑپوں کی تھی جیسی حکومتوں اور جنگی کمانڈروں کی مرضی کے بغیر سپاہیوں کے درمیان ہر دو ملکوں کی سرحدوں پر واقع ہوتی رہتی ہیں۔‘‘
دوسری وضاحت اس سلسلے میں یہ ہے کہ جب فاتحین نخلہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا، ’’میں نے تمہیں ماہ حرام میں کسی جنگ کا حکم نہیں دیا تھا‘‘ آپ نے اس واقعہ پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار یوں بھی فرمایا کہ آپ نے قافلے کے اونٹوں اور دونوں قیدیوں کے معاملے کو ملتوی رکھا اور اس میں سے کچھ لینے سے انکار فرما دیا تھا۔
جب قریش اور یہود کی چہ میگوئیاں بڑھیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھیوں نے ماہ حرام کو بھی حلال کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی یہ آیات نازل فرمائیں:
’’لوگ تم سے حرام مہینے میں قتال کے متعلق دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو اس میں جنگ کرنا بڑا گناہ ہے اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اللہ کے ساتھ کفر کرنا، مسجد حرام سے روکنا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا یہ سب اللہ کے نزدیک اور زیادہ جرم ہے اور فتنہ قتل سے بڑھ کر ہے۔‘‘ (۲/۲۱۷)
ابن ہشام نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ اگر تم نے انہیں ماہ حرام میں قتل کیا ہے تو انہوں نے تمہیں اللہ کے انکار کے ساتھ اللہ کی راہ سے اور مسجد حرام سے روکا ہے۔ تمہیں نکالنا جو وہاں کے رہنے والے تھے، اللہ کے ہاں اس قتل سے بڑا گناہ ہے جو تم نے ان کے کسی شخص کو کیا ہے۔ جب قرآن میں یہ حکم نازل ہوا تو اللہ نے مسلمانوں کا وہ خوف وہراس دور کر دیا جس میں وہ مبتلاتھے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلے کے اونٹوں اور قیدیوں کی طرف توجہ دی۔ ابن ہشام نے مزید لکھا ہے کہ ان آیات کے بعد عبد اللہ بن جحشؓ اور ان کے ساتھیوں کو اطمینان حاصل ہو گیا تو انہیں اجر کی امید ہوئی اور انہوں نے عرض کی ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، کیا ہم اس بات کی امید رکھیں کہ جو کچھ ہوا، یہ غزوہ تھا اور ہمیں اس کے متعلق مجاہدوں کا سا ثواب دیا جائے گا؟‘‘ تو ان کے متعلق پھر قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی:
’’بے شبہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا، یہی لوگ اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں اور وہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
ابن سعد کے ایک بیان سے بھی سریہ نخلہ کی حیثیت کے تعین میں مدد ملتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس سریہ میں عبد اللہ بن جحش کا نام امیر المومنین رکھا گیا۔
غزوہ بدر کے حوالے سے نخلہ اور قریش کے تجارتی قافلہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادوں کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھنا بھی بہت ضروری معلوم ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو قریش کے مذموم جنگی عزائم کے بارے میں کوئی شک نہیں تھا۔وہ جانتے تھے کہ قریش مناسب تیاری اور وقت کے منتظر ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ قریش کو سیاسی طور پر اس قدر مرعوب کر دیا جائے کہ وہ مدینہ پر حملے کا ارادہ ترک کر دیں اور معاشی طور پر اس قدر مفلوج کر دیا جائے کہ وہ اس اقدام کے قابل ہی نہ رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نخلہ کے بعد اس تجارتی قافلہ کا قصد فرمایا جو جنگی تیاریوں کے سلسلے میں ابو سفیان کی قیادت میں شام سے واپس آ رہا تھا۔ علامہ شبلی نعمانی فرماتے ہیں کہ اہل مکہ نے اس تجارت میں اپنا زیادہ سے زیادہ مال لگایا یہاں تک کہ غیر تاجر عورتوں تک نے اپنے زیورات اور اندوختے لا لا کر دیے۔ ابن سعد نے بھی ابو سفیان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’مرد وزن میں کوئی ایسا نہ تھا کہ جس نے اس موقع پر حصہ نہ لیا ہو۔ مدعا یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ لگا کر زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کیا جائے اور اس کی آمدنی سے ریاست مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔‘‘
قریش اس قافلے سے بڑی امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔ اس میں ایک ہزار اونٹ تھے جن پر کم از کم چالیس ہزار دینار (دو سو ساڑھے باسٹھ کلو سونا) کی مالیت کا ساز وسامان بار کیا ہوا تھا۔ قریش کا یہ قافلہ تجارت کے بجائے خود جنگی کارروائی کا دیباچہ تھا۔ یوں کہیے کہ اسلامی تحریک کا گلا کاٹنے کے لیے یہ قافلہ سونے کا خنجر لینے نکلا تھا اس لیے اہل مدینہ کے لیے بڑا زریں موقع تھا جبکہ اہل مکہ کے لیے اس مال فراواں سے محرومی بڑی زبردست فوجی، سیاسی اور اقتصادی مار کی حیثیت رکھتی تھی اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس قافلہ کی طرف جانے کی ترغیب دی: ’’یہ قریش کا قافلہ مال ودولت سے لدا چلا آ رہا ہے۔ اس کے لیے نکل پڑو۔ ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بطور غنیمت تمہارے حوالے کر دے۔‘‘ اس روایت کو ابن ہشام اور ابن سعد کے علاوہ دیگر مورخین نے بھی روایت کیا ہے۔ آپ نے طلحہ بن عبید اور سعید بن زید کو اس قافلہ کی کھوج میں بھیجا تھا۔ مسلمانوں کے لیے یہ اقدامات بتاتے ہیں کہ جنگوں میں اقتصادی حرج اختیار کرنا اور اقتصادی طور پر اپنے دشمن کو کمزور کرنا غیر شرعی نہیں ہے۔ آج کل دور جدید کی ساری جنگیں اقتصادی بنیادوں پر ہی لڑی جا رہی ہیں۔ پھرکیا وجہ ہے کہ مدینہ میں اس قافلہ پر چھاپہ مارنے کا جو رجحان پایا جاتا تھا، اس کے سلسلے میں کچھ بھی معذرت کی جائے اور کسی بھی درجے میں اس کو سیاسی یا دفاعی گناہ تصور کیا جائے۔ ’’اس قافلہ پر ہاتھ ڈالنے کے لیے اگر مسلم طاقت میں کچھ داعیہ موجود تھا تو وہ اپنی جگہ بالکل بجا تھا۔‘‘ (محسن انسانیت ص ۳۷۵)
بہرحال یہ قافلہ سالم وثابت مکہ پہنچ گیا اور جیش مکہ جس کی تعداد ایک ہزار تھی، ابو جہل کی قیادت میں بدر پہنچ گیا۔ قریشی سپاہ میں چھ سو زرہ پوش، سو سوار، بے شمار اونٹ ، اسلحہ کی فراوانی اور شراب وشباب کے سامان موجود تھے۔ قریش کے اس کبر واعجاب کا ذکر سورۂ انفال میں بھی ہوا ہے۔ اس کے مقابلے میں لشکر اسلامی کی تعداد مشہور روایت کے مطابق ۳۱۳ تھی۔ پوری فوج میں دو گھوڑے اور ستر اونٹ تھے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے مدد مانگی جس کا ذکر سورۃ الانفال کی آیت ۶ میں ہوا ہے۔ مسلمانوں کے دلوں میں جنگی حکمت عملی کے بارے میں جو بے چینی اور اضطراب تھا، وہ اللہ نے بارش اور نیند کے ذریعے سے زائل فرما دیا۔ اس واقعہ کا ذکر سورۂ انفال کی آیت ۱۱ میں ہوا ہے۔ جنگ شروع ہوئی، گھمسان کا رن پڑا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مشہور ومعروف دعا فرمائی: ’’اے اللہ اگر آج ترے یہ بندے ہلاک ہو گئے تو پھر قیامت تک تری پرستش نہ ہوگی۔ پس اے اللہ تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے، اسے پورا فرما۔‘‘ آپ نے اس قدر تضرع کے ساتھ دعا فرمائی کہ آپ کے دونوں کندھوں سے چادر گر گئی۔ حضرت ابوبکرؓ نے چادر درست کی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول، بس کیجیے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ نے فرشتوں کو وحی کی: ’’میں تمہارے ساتھ ہوں، تم اہل ایمان کے قدم جماؤ، میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا۔‘‘ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب فرمایا ’’میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کر رہا ہوں‘‘ (الانفال ۹) آپ نے اللہ کی طرف سے مدد کی خوش خبری سیدنا ابوبکرؓ کو سنائی۔ 
آپ عریشہ سے باہر تشریف لائے۔ آپ نے زرہ پہنی ہوئی تھی۔ آپ آگے بڑھتے جا رہے تھے اور آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے ’’عنقریب یہ جتھہ شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا۔‘‘ (سورہ قمر ۴۵) اس کے بعد آپ نے مٹھی بھر کنکریاں اٹھائیں اور یہ فرماتے ہیں کفار کی طرف پھینک دیں : شاہت الوجوہ (چہرے بگڑ جائیں) اور مسلمان کو حکم دیا کہ بھرپور حملہ کریں۔ کافروں کے قدم اکھڑ گئے اور ان کے بڑے بڑے سرداروں سمیت ۷۲ کافر مارے گئے۔ بدر میں کل ۱۴ مسلمان شہید ہوئے جن میں سے چھ انصار اور آٹھ مہاجر تھے۔
غزوہ بدر پہلا غزوہ تھا جس میں مسلمانوں کو مال غنیمت ملا جو ہتھیاروں، مویشیوں، گھوڑوں اور سامان رسد کے علاوہ قریشی تجارتی مال پر مشتمل تھا۔ ڈاکٹر محمد یٰسین صدیقی کی تحقیق یہ ہے کہ غنیمت میں کل ایک ہزار ہتھیار ہاتھ آئے۔ اونٹوں کی کل تعداد ایک سو پچاس تھی اور گھوڑے دس تھے۔ اس کے علاوہ دوسرا سامان کپڑا، چٹائیاں وغیرہ تھی جن کی تعداد اور مقدار کا صحیح علم نہ ہو سکا۔ اگرچہ بدر کی غنیمت کا صحیح تعین مشکل ہے تاہم ایک اندازے کے مطابق تمام اموال غنیمت کی مالیت اکتیس ہزار پانچ سو دراہم ہو سکتی ہے۔ اس ضمن میں نسبتاً قابل ذکر غنیمت وہ زر فدیہ تھا جو قیدیوں سے ان کی رہائی حاصل کرنے کے لیے حاصل ہوا۔ تمام اسیران بدر سے وصول ہونے والے فدیہ کی رقم ایک لاکھ پندرہ دراہم لکھی ہے۔ نعیم صدیقی صاحب نے یہ رقم ڈھائی لاکھ درہم بیان کی ہے۔ اگرچہ یہ جنگ قریش کے لیے ایک بہت بڑا معاشی سانحہ تھی اور مسلمانان مدینہ کو بھی اس سے کچھ نہ کچھ مالی فائدہ ہوا لیکن اس غنیمت سے تمام غازیان بدر اس وقت اتنے مال دار نہیں ہوئے تھے کہ اسے کسی معاشی انقلاب کا پیش خیمہ قرار دیا جائے۔ تاہم خلفاء راشدین کے زمانے میں جب روم وایران فتح ہوئے تو یہ مال غنیمت ہی تھا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو کچھ معاشی آسودگی حاصل ہوئی۔
بہرحال اس غزوہ کی معاشی اہمیت کے علاوہ سیاسی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مکہ کے علاوہ قبائل عرب میں ریاست مدینہ کی حیثیت مستحکم ہو گئی۔ بعض قبائل اور یہود مدینہ جنگ بدر کے بعد ہی میثاق مدینہ میں شامل ہوئے۔ بکثرت باشندگان مدینہ ایمان لائے اور بقول جناب نعیم صدیقی ’’صحیح معنوں میں اسلام معرکہ بدر کے بعد ہی ایک مسلمہ عام ریاست بنا کیونکہ اس نے اپنا سیاسی قوت ہونا بیچ کھیت منوا لیا۔‘‘ 
قرآن حکیم نے اس کے سیاسی اور معاشی اثرات کا جائزہ ان الفاظ میں لیا ہے:
’’اور یاد کرو وہ وقت جب کہ تم تھوڑے تھے اور تم کمزور خیال کیے جاتے تھے۔ تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تم کو مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمہیں اچھا رزق پہنچایا۔‘‘ (الانفال ۲۶)

تیل کی طاقت

کرسٹوفر ڈکی

تیل کے بادشاہ اب بھی سعودی ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جب تک تیل کے چشمے خشک نہیں ہو جاتے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے عرب سرمایہ داروں کی تصویر یوں پیش کی جا رہی ہے جیسے وہ تیل فروخت کرنے والی ایک زوال پذیر تنظیم کے ڈانواں ڈول مالک ہوں، جس کی طاقت دو خطروں کے باعث کمزور پڑ رہی ہے: ایک روس کی بڑھتی ہوئی تیل کی طاقت اور دوسرا عراق جو اس انتظار میں ہے کہ خلیج عرب میں سعودیہ کی جگہ لے سکے۔ 
زوال پذیر صحرائی بادشاہت کے اس خیال میں کچھ صداقت ضرور ہے۔ تیل کے حوالے سے سعودیوں کا اثر ورسوخ اب پہلے کی طرح عام اور وسیع نہیں ہے اور سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی آبادی بھی اب پہلے کی نسبت کم مال دار ہے۔ تاہم کچھ ایسے زمینی حقائق موجود ہیں جنہیں نظر انداز نہیں جا سکتا۔ سعودی عرب نہ صرف دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر کا مالک ہے بلکہ یہ وہ واحد ملک ہے جس کے پاس تیل کی اضافی مقدار مہیا کرنے کی اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ کسی بھی وقت تیل کی مارکیٹ میں ’’سیلاب‘‘ لا سکتا ہے۔ ایک سعودی افسر فخریہ کہتا ہے کہ ’’ہم کسی بھی وقت تیل کی پائپ لائنوں کو چلا کر تیل فراہم کرنے والوں دوسرے ملکوں کا ستیاناس سکتے ہیں۔‘‘
تیل کے ہتھیار کا استعمال ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ تاہم ان دنوں سعودی عرب کا رجحان اپنے صارفین‘ خصوصاً امریکہ‘ کے بجائے اپنے ساتھیوں یعنی تیل مہیا کرنے والے ملکوں(خصوصاً روس ) کا ستیاناس کرنے کی طرف زیادہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بیشتر اوقات یوں لگتا ہے جیسے سعودی عرب اور امریکہ نے توانائی فراہم کرنے والے دوسرے ملکوں کو نقصان پہنچانے کے لیے آپس میں خفیہ اتحاد کر رکھا ہو اور حقیقت بھی یہی ہے۔ ۱۹۹۱ء میں خلیجی جنگ کے اختتام کے بعد سے ریاض اور واشنگٹن تیل فروخت کرنے اور خریدنے کے حوالے سے ایک غیر اعلان شدہ عالمی اتحاد کے مشترک لیڈر بن چکے ہیں جن کا مقصد تیل کی قیمتوں کو اس ممکن حد تک متوازن رکھنا ہے جس سے فریقین میں سے کسی کو بھی زیادہ خسارہ نہ اٹھانا پڑے۔ عالمی معیشت کو سہارا دینے میں اس حقیقت کا ایک نہایت اہم کردار ہے۔ تاہم بیشتر امریکیوں کے لیے یہ ایک حیران کن بات ہوگی جو ابھی تک سعودی عرب کو ۷۰ء میں تیل کی فراہمی بند کر دینے والے ایک دشمن کی نظر سے اور (۱۱ ؍ ستمبر کے) حالیہ ہول ناک واقعات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
تیل کی منڈی کے علاوہ دنیا میں کوئی حقیقی عالمی منڈی موجود نہیں ہے۔ یہ ایک مائع شے ہے جس کی نقل وحمل پورے کرہ ارضی پر پھیلے ہوئے برآمد کنندگان اور صارفین کے مابین بہت آسان ہے۔ طلب اور رسد میں معمولی سا عدم توازن بھی پوری دنیا کو مضطرب کر دیتا ہے۔ سعودی عرب کے پاس اب تک دریافت شدہ تیل کے ذخائر کا چوتھا حصہ ہے اور اس وقت وہ تیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔جبکہ امریکہ تیل صرف کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جو کل تیل کا تقریباً تیسرا حصہ روزانہ صرف کرتا ہے۔ چنانچہ دونوں ملکوں کے درمیان مفادات کا ایک واضح اشتراک پایا جاتا ہے جس کا ادراک اس وقت سے کر لیا گیا تھا جب صدر فرینکلین روزویلٹ اور سعودی عرب کے فرمانروا عبد العزیز بن سعود‘ جنہوں نے ملک کا نام سعودیہ رکھا‘ کے مابین ۱۹۴۵ء میں Great Bitter Lake میں ملاقات ہوئی اور ایک تزویراتی اتحاد کی بنیاد رکھی گئی۔ روزویلٹ نے کانگریس کو بتایا کہ ’’میں نے ابن سعود کے ساتھ پانچ منٹ کی ملاقات میں اس سے کہیں زیادہ حقائق معلوم کر لیے ہیں جو دو یا تین درجن خطوط کے تبادلے کے بعد میرے علم میں آتے۔‘‘ اس وقت سے اب تک امریکی صدور اور سعودی فرماں رواؤں کے مابین غیر تحریری معاہدے دونوں ملکوں کے تعلقات کے لیے کلید کا کام انجام دیتے رہے ہیں۔ ایک سعودی افسر کا کہنا ہے کہ ’’ہم دونوں اپنے اپنے مفادات سے آگاہ ہیں۔ ہمارے مابین مخصوص اختلافات بھی ہیں اور اتفاق کے مخصوص نکات بھی۔‘‘
پچھلے دس سال میں اس غیر اعلان شدہ اتحاد میں کافی گرم جوشی پیدا ہو گئی تھی تاہم ۱۱ ؍ستمبر کے واقعات کے بعد اس کا مستقبل غیر امید افزا دکھائی دینے لگا تھا۔ ہر نقطہ نظر کے امریکی سیاست دانوں نے ’’بیرونی تیل سے چھٹکارا‘‘ حاصل کرنے کی دہائی دینا شروع کر دی جس کا مطلب عمومی طور پر عرب اور خاص طور پر سعودی تیل سے چھٹکارا حاصل کرنا لیا گیا۔ امریکی اس پر بے حد ناراض تھے کہ اسامہ بن لادن اور ہائی جیکروں میں سے اکثر کی پیدائش اور پرورش سعودی عرب میں ہوئی تھی۔ اور سعودی بھی خوف ودہشت کی حالت میں دیکھتے رہے کہ واشنگٹن فلسطینیوں کے خلاف جنگ میں ایریل شیرون کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ ایک بااثر سعودی کا کہنا ہے کہ ’’ایک ایسی مارکیٹ کے ساتھ معاملہ کرنا جو مسلسل عرب دنیا کے بارے میں نفرت کا رویہ اپنائے ہوئے ہے‘ ہمارے لیے آسان نہیں ہے۔‘‘
اس کے باوجود واشنگٹن اور ریاض ایک دوسرے پر اتنا ہی انحصار رکھتے ہیں جتنا کہ ایک ’جوڑے‘ کا ایک دوسرے پر ہو سکتا ہے۔ ان کے تعلقات کو مجبوری‘ اتحاد یا باہمی مفاد میں سے کوئی بھی نام دے لیجیے‘ واقعہ یہی ہے کہ سعودی اور امریکی ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ امریکی مارکیٹ کے لیے سعودی عرب بیرونی تیل کا سب سے بڑا ذریعہ ہے تاہم باہمی انحصار کی یہ صرف ایک وجہ ہے۔ دوسرے بہت سے ملک بھی‘ جن کی تعداد مجموعی طور پر ۶۰ ہے‘ روزانہ ۷۶ ملین بیرل سے زیادہ تیل نکالتے ہیں لیکن تقریباً سب کے سب بے حد تیزی کے ساتھ زمین سے نکالے ہوئے تیل کے ہر قطرے کو یا تو استعمال کر لیتے ہیں یا درآمد کر دیتے ہیں۔ سعودی عرب کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ وہ مختصر عرصے میں تیل کی روزانہ سپلائی کی موجودہ مقدار (سات اعشاریہ دو ملین بیرل) کو بڑھا کر دس اعشاریہ پانچ ملین بیرل تک لے جا سکتے ہیں تاکہ بحران کے زمانے میں قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ نہ ہو ۔ مڈل ایسٹ اکنامک سروے کے ایڈیٹر ولید خدوری کا کہنا ہے کہ ’’ بنیادی طور پر یہی بات عالمی معیشت کی حفاظت کی ضامن ہے۔‘‘
چنانچہ امریکہ کو عرب کے تیل کی احتیاج سے نکالنے سے متعلق امریکی صدر اور پریس کی باتوں کو بہت زیادہ سنجیدگی کے ساتھ نہیں لینا چاہیے۔ اس سے امریکہ کی تیل کی سپلائی کا معاملہ غیر محفوظ ہی ہوگا نہ کہ محفوظ اور امریکی انتظامیہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہے۔ ذرا سوچیں کہ گیارہ ستمبر کے فوراً کی صورت حال میں سعودی عرب نے کیا کردار ادا کیا؟ میڈیا میں کسی قسم کی تشہیر کے بغیر لیکن گہرے اثرات مرتب کرتے ہوئے انہوں نے اپنے ساتھی ملکوں کے ساتھ معاہدے میں طے شدہ کوٹے کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگلے دو ہفتے تک وہ امریکہ کو اضافی پانچ لاکھ بیرل تیل روزانہ سپلائی کرتے رہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ مشرق وسطیٰ کے عظیم بحران کے عین وسط میں، جو کہ تیل کی قیمتوں میں بے حد اضافے کا موجب ہو سکتا تھا، تیل کی قیمت حملے کے کچھ ہفتے بعد ۲۸ ڈالر فی بیرل کی سابقہ قیمت سے گر کر ۲۰ ڈالر فی بیرل تک آچکی تھی۔ سعودی عرب کے علاوہ اور کون ایسا کر سکتا تھا؟ واقعہ یہ ہے کہ کوئی بھی نہیں۔
اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ ان کے پاس بہت زیادہ تیل ہے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ ان کے لیے اسے زمین سے نکالنا بے حد آسان اور سستا ہے۔ سعودیہ کا خام تیل نکالنے کا خرچ فی بیرل ۲ ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ امریکہ کے کنووں سے اتنا تیل نکالنے پر اس سے دو گنا اور روس میں تین گنا خرچ آتا ہے۔ یقیناًانگولا سے لے کر الاسکا تک نئے نئے ذخائر مسلسل دریافت ہو رہے ہیں اور نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے سمندر کی تہہ، زمین کی تہہ اور کینیڈا اور وینزویلا کے صحراؤں میں پائے جانے والے مشکل الحصول تیل کو نکالنے کا خرچ بھی کم ہوتا چلا جائے گا، لیکن یہ ذرائع سعودی تیل کے مقابلے میں ہمیشہ مہنگے رہیں گے اور منافع کی اسی شرح میں سعودیہ کے موجودہ اور مستقبل کے اثر ورسوخ کا راز مخفی ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ امریکی سعودی تعلقات ہمیشہ دوستانہ نہیں رہے۔ ۱۹۷۳ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران میں شاہ فیصل نے اسرائیل کی حمایت کی پاداش میں امریکہ کو تیل کی سپلائی بند کر دینے کا فیصلہ کیا۔ اوپیک ممالک نے بھی اس فیصلے کی تائید کی اور تمام تیل فراہم کرنے والے ممالک نے بھاری منافع کمایا۔ تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ توڑ اضافے سے پوری دنیا کی معیشت کو شدید جھٹکے لگے۔ امریکیوں نے بڑی کاریں چھوڑ کر چھوٹی کاریں خرید لیں جو کم تیل خرچ کرتی تھیں۔ تاہم ۱۹۷۹ء کے آتے آتے، جب ایران میں خمینی انقلاب کی وجہ سے تیل کی قیمتوں کو دوسرا جھٹکا لگا، سعودی عرب کے لیے اس بحران کو حل کرنے میں ایک اور دل چسپی پیدا ہو چکی تھی۔ وہ یہ کہ ۱۹۷۰ء کی صورت حال سے حاصل ہونے والے غیر معمولی اور غیر متوقع منافع کا بیشتر حصہ انہوں نے مغرب میں اور خصوصاً امریکہ میں سرمایہ کاری میں لگا رکھا تھا۔ چنانچہ امریکی معیشت کے نقصان میں اب خود ان کا اپنا نقصان تھا۔(۱۹۷۳ء کے بائیکاٹ کے سخت ترین زمانے میں بھی سعودی، خفیہ طریقے سے Mediterranean میں امریکی بحرے بیڑے کو تیل مہیا کرتے رہے)
۱۹۸۰ء تک اوپیک کی طاقت کمزور پڑنا شروع ہو چکی تھی۔ اس کی ایک وجہ تو انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی تنظیم کا قیام تھا جس نے امریکہ اور تیل کے دوسرے صارفین کو خریداروں کے مشترکہ مقاصد کے حوالے سے اکٹھا کر دیا تھا۔ نیز ۷۰ء کے جھٹکوں نے پٹرول کے علاوہ توانائی کے دوسرے ذرائع میں دل چسپی کو بڑھا دیا تھا مثلاً North Sea میں گہرے سمندر میں تیل کی تلاش، نیوکلیئر توانائی، حتیٰ کہ پن چکیوں کے ذریعے سے توانائی کے حصول پر بھی ازسر نو غور کیا جانے لگا۔ اسی اثنا میں سوویت یونین کے زوال سے Caspian Sea میں موجود تیل کے بہت بڑے ذخیرے کے مغرب کی دسترس میں آنے کا امکان پیدا ہو گیا جس سے اوپیک کی طاقت مزید کمزور ہوگئی۔ 
سعودی عرب اور اس کے ہم سایے کویت کے ساتھ، جو مشرق وسطیٰ میں سعودیہ کے بعد تیل کا سب بڑا ایکسپورٹر ہے، امریکہ کے تعلقات ۸۰ء کی دہائی کے اواخر اور ۹۰ء کی دہائی کے آغاز میں اور مضبوط ہو گئے۔ (حسب سابق یہ بھی کسی تحریری معاہدے کے بجائے باہمی مفاہمت پر مبنی تھے) ۸۷ء اور ۸۸ء میں امریکہ نے کویت کو اپنے ٹینکرز پر امریکی جھنڈے لگانے کی اجازت دے دی اور پھر ان ٹینکروں نیز ایران سے سعودی عرب تک تیل کے نقل وحمل کی حفاظت کے لیے ایک بحری بیڑا بھیج دیا۔۱۹۹۰ء میں جب صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا اور سعودی عرب کو بھی دھمکیاں دینا شروع کر دیں تو امریکہ نے ایک عظیم اتحاد قائم کر کے عراق پر حملہ کر دیا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد امریکی فوجی دستے دونوں ملکوں میں متعین کر دیے گئے جو آج بھی وہاں موجود ہیں۔ گزشتہ ماہ امریکہ کے نائب صدر ڈک چینی جدہ گئے جہاں انہوں نے ولی عہد شہزادہ عبد اللہ کے ساتھ تازہ ترین علاقائی اکھاڑ پچھاڑ پر تبادلہ خیال کیا۔ 
تعلقات کی اس بنیاد کے ساتھ تیل کے باثروت صارف ملکوں، جن کی قیادت امریکہ کے ہاتھ میں ہے، اور اوپیک کے مابین، جن کی قیادت سعودی عرب کر رہا ہے، ایک تزویراتی مفاہمت پیدا ہو چکی ہے۔ ان کے مابین وقتاً فوقتاً مشاورت ہوتی رہتی ہے بلکہ سعودی عرب اس بات کی کوشش بھی کرتا رہتا ہے کہ صارف تنظیموں کے ساتھ باقاعدہ تعلقات قائم کیے جائیں۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے ممتاز تجزیہ نگار کلاس ری ہاگ (Klaus Rehaag) کا کہنا ہے کہ ’’امریکہ کو اپنی تیل کی رسد کی فکر ہے اور اوپیک کو طلب کے متوازن رہنے کی۔‘‘
قیمتوں میں اب بھی اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے جو کبھی کبھی کافی شدید ہوتا ہے۔ عین وقت پر حساب کتاب کے اس زمانے میں تیل کی سپلائی میں تاخیر اچھا خاصا دھچکا پہنچا سکتی ہے۔ یہی صورت حال طلب میں اچانک کمی سے پیدا ہوتی ہے۔ ۱۹۹۷ء میں ایشیا کے معاشی بحران سے تیل کی قیمتیں گر کر ۱۰ ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئیں۔ سعودی عرب اور دوسرے اوپیک ممالک نے تیل کی سپلائی میں کمی کر دی اور ۲۰۰۰ ء کے آغاز میں ایک مختصر عرصے کے لیے قیمتیں ۳۵ ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئیں۔ تاہم سعودیوں کے مطابق ۱۸ سے ۲۰ ڈالر فی بیرل کی قیمت بہترین ہے اور وہ تیل کی قیمت کو اسی کے قریب قریب رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہرحال، اگر افراط زر کے لحاظ سے تیل کی قیمت کا موازنہ کیا جائے تو امریکی آج بھی گیس پمپ پر اتنی ہی ادائیگی کرتے ہیں جتنی وہ ۷۳ء کے تیل کے بحران سے پہلے کیا کرتے تھے۔ اور قیمتوں میں غیر متوقع اتارچڑھاؤ کا امکان بھی آج پہلے کی نسبت کہیں کم ہے۔
دوسرے صارفین کے مقابلے میں امریکہ سے فی بیرل ایک ڈالر کم قیمت وصول کر کے سعودی اپنے امریکی دوستوں کو خوش ( اور محتاج) رکھنے کی خصوصی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی بڑی شرح منافع کے پیش نظر وہ سمجھتے ہیں کہ آمدنی میں ایک ڈالر کا نقصان وہ خیر سگالی کے جذبات کی صورت میں پورا کر لیتے ہیں۔ صدام اور دوسرے حملہ آوروں سے حفاظت کی یہ ایک معقول قیمت ہے۔ اور اگر ایک طرف امریکہ نیوکلیئر، حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کو صدام کی دسترس سے باہر رکھنے کے متعلق فکر مند ہے، تو دوسری طرف سعودی عرب اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ تیل کا ہتھیار بھی صدام کے ہاتھ میں نہ آنے پائے۔ ۲۰۰۰ء میں صدام نے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے لیے اپنی تیل کی سپلائی منقطع کر دی تو سعودی عرب نے فوراً پائپ لائن کو چلا کر اس کمی کو پورا کر دیا۔
کیا سعودی عرب ناقابل تسخیر ہے؟ بعض دفعہ یوں لگتا ہے کہ سعودی ایسا سمجھتے ہیں۔ سعودی وزارت تیل کے ایک سابق آفیسر نے نیوز ویک سے کہا کہ ’’تم لوگ تیل کا متبادل ڈھونڈ رہے ہو؟ یہ محض خوش کن باتیں ہیں۔ فرض کرو کہ تم توانائی کے کسی متبادل ذریعے کی قیمت کا ایک ہدف مقرر کرتے ہو (جو تیل کی موجودہ قیمت سے کم ہو) اور ہم تیل کی قیمت کو اس سے بھی کم کر دیتے ہیں تو تمہاری ساری سرمایہ کاری بالکل برباد ہو کر رہ جائے گی۔‘‘
یہ بات خارج از امکان نہیں کہ روس سعودی عرب کی جگہ تیل کا سب سے بڑے فراہم کنندہ بن جائے۔ تاہم انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اپنی انڈسٹری کو جدید بنانے کے لیے درکار کئی بلین ڈالر کی سرمایہ کاری میں کشش پیدا کرنے کے لیے روس کو بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا خاتمہ کرنا پڑے گا۔ اگر وہ ایسا کر لے، نیز تیل نکالنے کے لیے نئی پائپ لائنیں اور بندرگاہیں تعمیر کر لے،اپنی سیاسی صورت حال کو مستحکم بنا لے اور پھر اس کا نکالا ہوا تیل اس کی اپنی ملکی معیشت کی ترقی کی وجہ سے اندرون ملک میں ہی صرف نہ ہو جائے تو صرف اس صورت میں وہ سعودی عرب پر برتری حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن اس کا امکان اتنا ہی ہے جتنا اس بات کا کہ امریکی قناعت پسندی کا رویہ دوبارہ اختیار کر لیں اور چھوٹی کاریں چلانا شروع کر دیں۔ اس وقت تک ان کے لیے ’’بیرونی تیل سے نجات‘‘ حاصل کرنے کا کوئی امکان نہیں۔
(نیوز ویک، ۸ اپریل ۲۰۰۲ء)

مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کا حادثہ وفات

امین الدین شجاع الدین

دو تین برسوں سے جس سانحہ کا کھٹکا لگا ہوا تھا، وہ بالآخر پیش آ کر رہا۔ دنیا ہی فانی ہے اور اک دن جان سب کی جانی ہے۔ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی (۱۹۳۶ء ۔ ۲۰۰۲ء) بھی وہاں چلے گئے جہاں ایک نہ ایک روز سب کو جانا ہے اور زمین اوڑھ کر سو جانا ہے۔ ع
آج وہ، کل ہماری باری ہے
لیکن قاضی صاحب کی موت ایک فرد کی نہیں، ایک فرد فرید کی موت ہے، ایک فقیہ کی موت ہے۔ ایسا فقیہ جو صرف لغوی اعتبار سے ہی فقیہ نہیں تھا بلکہ معنوی لحاظ سے بھی واقعتا فقیہ تھا۔ قسام ازل نے جس کو بیدار مغز ہی نہیں بخشا تھا بلکہ اس کے سینے میں دل دردمند بھی رکھا تھا اور جسے تڑپنے پھڑکنے کی توفیق بھی بخشی تھی۔
قاضی صاحب بنیادی طور سے ایک عالم دین تھے۔ مدرسہ کی چٹائی پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ خدا کی دین اور عطا ہے، وہ جسے چاہے بخش دے۔ قاضی صاحب کے نصیبے میں دین کی سوجھ بوجھ آئی۔ وہ تفقہ کہ جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین۔ اللہ رب العزت جس کے بارے میں خیر کا معاملہ کرنا چاہتے ہیں، اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتے ہیں۔ تو یہ نعمت قاضی صاحب کے حصے میں آئی گویا خیر کے سرچشمے سے اکتساب فیض کا فیصلہ ہوا۔ یہ شریعت اسلامی کا سرچشمہ ہے اور شریعت اسلامی کا سرچشمہ ایسا سرچشمہ ہے جہاں پہنچنے والا محض پیتا نہیں، پلاتا بھی ہے اور لٹاتا بھی ہے۔ قاضی صاحب شریعت مطہرہ کے اس سرچشمہ سے نہ صرف خود سیراب ہوئے بلکہ ساقی بن گئے اور فصل گل کی تمنا میں مے دل فروز پلاتے چلے گئے۔
کسی بھی شخصیت کا مطالعہ کرتے وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی شخصیت سازی کے عناصر ترکیبی کیا تھے۔ ان کے والد ماجد مولانا عبد الاحد قاسمی حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے شاگرد رشید تھے۔ عالم ربانی شیخ الہند کے شاگرد نے رات کی تنہائیوں میں بھی اپنے لخت جگر کے لیے یقیناًخدا کے حضور ہاتھ پھیلائے ہوں گے۔ قاضی صاحب کے دامن میں فقہی فراست وبصیرت اور ملی درد وکرب کے کھلے ہوئے گل ولالہ ایسی مناجاتوں کا اشارہ دیتے ہیں۔ ان کی تعلیم دار العلوم دیوبند میں بھی ہوئی جو محض ایک دار العلوم کا نہیں، ایک مشن اور تحریک کا نام تھا اور جس کی بنیاد ان خدا ترس ہاتھوں نے ان ارادوں سے رکھی تھی کہ سرزمین ہند میں اسلام کے چراغ کی لو مدھم نہ پڑنے پائے بلکہ تیز سے تیز تر ہوتی چلی جائے۔ قاضی صاحب کو امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی جیسے شخصیت ساز بزرگ کا سایہ نصیب ہوا۔ ماضی قریب کی وہ شخصیتیں جنہوں نے افراد سازی جیسے پتہ ماری اور جگر کاوی کا کام کیا، ان میں ایک نمایاں نام حضرت امیر شریعت کا بھی ہے۔ وہ جوہری تھے چنانچہ ان کی جوہر شناس نگاہ نے دیکھا کہ مجاہد الاسلام میں اسلام کا واقعی ایک مجاہد چھپا ہوا ہے۔ 
اہل نظر جانتے ہیں کہ صلاحیتوں کے پروان چڑھنے اور ان کے برگ وبار لانے کے لیے فضا درکار ہوتی ہے، میدان درکار ہوتا ہے۔ قدرت کو قاضی صاحب سے کام لینا مقصود تھا چنانچہ یہ مواقع بھی انہیں ودیعت کیے جاتے رہے۔ وہ مسند درس پر بھی بیٹھے اور امارت شرعیہ پھلواری شریف میں قاضی کے منصب پر بھی فائز ہوئے مگر قاضی کا یہ منصب پھولوں کی نہیں، کانٹوں کی سیج ہوا کرتا ہے۔ یہاں زندگی کے حقائق بے لباس ہو کر آتے ہیں۔ ہمہ وقت مسائل کا سامنا ہوتا ہے، تلخیوں سے واسطہ پڑتا ہے اور پھر مسائل بھی بہار جیسے پس ماندہ صوبے کے۔ قاضی صاحب چاہتے تو مدرسہ کی چہار دیواری میں اپنے لیے گوشہ عافیت ڈھونڈ لیتے۔ مدارس بھی انہیں سرآنکھوں پر بٹھاتے۔ تدریس میں شاہانہ مزاج کی تسکین کا پورا سامان بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ جہاں کو جب نظر بند کر دیا گیا تو اس نے بھی چند شاگردوں کے جلو میں رہنے کی تمنا ظاہر کی تھی مگر قاضی صاحب نے سہولت پسند طبیعت نہیں پائی تھی بلکہ موج حوادث سے گزرنے میں ہی انہیں لذت ملتی تھی چنانچہ کئی دہائیوں تک وہ قاضی کے فرائض انجام دیتے رہے اور اس وجہ سے انہیں ملت کی دینی ومعاشرتی حقیقی صورت حال کا اندازہ ہوتا رہا۔ قاضی کے منصب کے سرد وگرم کو جھیل کر انہوں نے نہ صرف قضا کے اس عہدہ کے ساتھ انصاف کیا بلکہ زیادہ سچی بات یہ ہے کہ انہوں نے خود اپنے ساتھ اور ملت کے ساتھ بھی انصاف سے کام لیا۔ امارت شرعیہ میں قاضی کا یہ منصب ان کے لیے ایک ایسی بھٹی ثابت ہوا جہاں سے تپ کر وہ کندن بن کر نکلے، مسائل کی آنچ نے ان میں وہ پختگی پیدا کر دی جو ایک مجاہد کی شان اور اس کا نشان ہوا کرتی ہے۔
پھر ملت پر وہ وقت آیا جب اس کے پرسنل لا پر نظریں اٹھیں اور یکساں سول کوڈ کے نام پر اس کے ملی تشخص کو پامال کر دینے کی کوششیں ہوئیں۔ دین کا حق تھا کہ اس کے علما اس موقع پر بے قرار ہو اٹھیں اور اس سرمایہ کی پاسبانی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں چنانچہ علما عالمانہ شان اور مجاہدانہ آن بان کے ساتھ اٹھے اور آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ دیکھنے میں آیا کہ بلا تفریق مسلک ومشرب ملت علما ودانش ور تحفظ شریعت کے لیے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ بیدار مغز علما کے اس کارواں کے ایک فرد فرید مولانا مجاہد الاسلام قاسمی بھی تھے۔
امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانیؒ ، مفکر اسلام مولانا علی میاں ندویؒ اور حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ اور دوسرے اکابر کا انہیں اعتماد حاصل رہا۔ قاضی صاحب کو خدا کی عطا کردہ فقہی فراست وبصیرت ملت کے کام آئی اور فقہ اسلامی بلکہ اسلامی تعلیم کی عظمت وبرتری کا سکہ ماہرین قانون اور عصری تعلیم یافتہ طبقہ کے دلوں پر بھی ثبت اور نقش ہوتا چلا گیا۔
ملی کونسل کے پلیٹ فارم سے انہوں نے اتحاد ملت کے اپنے اسی درس کو پوری قوت سے دہرایا جس درس کو انہوں نے امارت شرعیہ سے سیکھا تھا اور جس کو مولانا ابو المحاسن سجادؒ کی کتاب زندگی سے سیکھا تھا۔ انہوں نے چاہا کہ بحیثیت خیر امت اس ملک میں مسلمانوں کو کلمہ کی بنیاد پر کھڑا کرنا ہے اور جوڑنا ہے۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ ’’ملت کا سب سے بڑا مسئلہ شعور ذات کا مسئلہ ہے۔ یہ امت اپنے کو پہچانے، اپنے منصب کو پہچانے اور اس کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ جس وقت یہ امت اپنے کو پہچان لے گی اور دنیا کو یہ باور کرا دے گی کہ اس کا سودا محال ہے، اس وقت امت کا مسئلہ قابو میں آئے گا۔‘‘
قاضی صاحب کا موضوع فقہ تھا۔ ان کی فقاہت کو دنیا نے تسلیم کیا۔ اس لحاظ سے وہ جس مقام ومرتبہ کے حامل تھے، اس کاحق تھا کہ جدید شرعی اور فقہی مسائل میں امت کی رہبری ورہنمائی کے لیے وہ کوئی قدم اٹھاتے۔ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا قیام قاضی صاحب کا ایک عظیم کارنامہ ہے۔ اس پلیٹ فارم کی ندرت یہ ہے کہ جدید مسائل کا شرعی حل تلاش کرنے کے لیے علما اور اصحاب افتا کے شانہ بشانہ علوم عصریہ کے ماہرین بھی دکھائی پڑتے ہیں۔ فقہ اکیڈمی نے علما اور طلبا میں بحث وتحقیق کامزاج پیدا کیا اور اس کے سیمیناروں میں مسائل پر جس طرح بحثیں ہوئیں، اس نے مدارس میں تبدیلی پیدا کی، فقہ کی طرف ذہن راغب ہوا اور نئی نسل میں بھی یہ احساس جاگا کہ کس طرح ہمارے قدیم علما واصحاب افتا کس قدر محنت، جگر کاوی اور اخلاص ولگن سے جدید پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کرتے تھے۔ فقہ اکیڈمی کی صدا نے اس سناٹے پر ضرب لگائی۔ مورخ جب علمی وفقہی تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو وہ فقہ اکیڈمی کو فراموش نہیں کر سکے گا۔ ان کی ادارت میں نکلنے والے مجلہ ’بحث ونظر‘ نے علمی وفقہی دنیا میں اپنی ایک شناخت قائم کر لی۔ 
بات ادارت کی آئی ہے تو قاضی صاحب کی تالیفات وتصنیفات کا بھی تذکرہ ضروری ہو گیا ہے۔ اگرچہ یہ موضوع اہل علم اور اصحاب افتا کا ہے لیکن دیکھنے اور یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ قاضی صاحب مرد میدان تھے، ان کے مشاغل کی نوعیت تحریکی بھی تھی، وہ اپنی تالیفات وتصنیفات اور تحقیقی کاموں کا ایک خزینہ چھوڑ گئے۔ فقہ اسلامی کے علاوہ انہوں نے مولانا ابو المحاسن سجادؒ کے علوم وافکار پر بھی اپنی تصنیفات چھوڑیں۔
قاضی صاحب مولانا بو المحاسن سجادؒ کو اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے۔ ان کی آئیڈیل شخصیتوں میں ایک نمایاں نام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کا بھی ہے۔ حضرت مولانا کی ذات والا صفات سے انہیں شروع ہی سے والہانہ لگاؤ اور شیفتگی رہی یہاں تک کہ اپنی طالب علمی کے زمانے میں سجاد لائبریری کے ذمہ دار کی حیثیت سے انہوں نے حضرت مولانا کو دیوبند مدعو کیا۔ ’’طالبان علوم نبوت اور اس کے عالی مقام حاملین‘‘ حضرت مولانا کی وہ تقریر ہے جو اسی موقع کی یادگار ہے۔ قاضی صاحب کو ندوہ اور اس کی فکر سے بھی گہری مناسبت تھی جس کا ایک عملی ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کاموں کے لیے ندوی فضلا کو منتخب کیا اور ان پر اعتماد کیا۔ حضرت مولانا کی فکر کا انہوں نے نہ صرف مطالعہ کیا بلکہ عملی سطح پر اسے برت کر دکھایا بھی۔ حضرت مولانا کے افکار قاضی صاحب کے فکر وعمل پر مرتب ہوئے بغیر نہیں رہے۔
وہ قدرت کی طرف سے دل دردمند، ذہن ارجمند اور زبان ہوش مند لے کر آئے تھے۔ انہوں نے اپنی تمام تر توانائیوں کو دین وملت کے لیے وقف کر دیا۔ وہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر بھی ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب ان کی علالت شدت اختیار کر چکی تھی اور ان کی زندگی کی طرف سے مایوسی ہونے لگی تھی لیکن قاضی صاحب کی لغت میں مایوسی کا لفظ نہیں تھا۔ ایک طرف ملت سخت آزمائشوں سے دوچار تھی تو دوسری طرف قاضی صاحب بیماریوں اور آزاروں سے نڈھال لیکن ان کے سینے میں ایک مجاہد کا جگر تھا اور وہ مجاہد ہی کیا جو زندگی کے آخری سانس تک لڑنے کا فیصلہ نہ کرے۔ ان کے دور میں مجموعہ قوانین اسلامی کے مسودہ کی اشاعت عمل میں آئی اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی منظر عام پر آیا جسے ان کے دور صدارت کا ایک عظیم تحفہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
افسوس کہ قاضی صاحب کی وہ ذات جو ملت کے حق میں نعمت اور تحفہ تھی، اب نہیں رہی۔ 
فاضل جفاکشان محبت کی موت کیا
جب تھک گئے تو سو گئے آرام کے لیے
البتہ ان کی خوبیاں باقی اور نیکیاں زندہ رہیں گی۔ غیر معمولی ذہانت کے ساتھ اخلاص وبے نفسی ان کا سرمایہ تھا۔ خوئے دل نوازی کی ادا نے ان سے افراد سازی کا بڑاکام لے لیا۔ وہ تیز وتند ہواؤں میں بھی چراغ جلائے رکھنے کے ہنر سے واقف تھے۔ اللہ پر توکل ان کا زاد سفر تھا۔ تفہیم کی غیر معمولی صلاحیت پائی تھی۔ رسوخ فی العلم اور تفقہ فی الدین کی دولت ان کو نصیب ہوئی تھی جس سے ان کے لیے نئے زمانے میں نئے حالات کے مطابق دین کی ترجمانی کا مشکل کام آسان ہو گیا۔ اجتماعیت ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ وہ اختلاف رائے کو نہ صرف انگیز کرتے تھے بلکہ اسے پسند بھی فرماتے تھے۔ ع
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
بہرحال ایک نعمت تھی جو اٹھا لی گئی اور ایک تحفہ تھا جسے ہم نے کھو دیا مگر قاضی صاحب دنیا کی آلائشوں اور غم وآلام سے آزاد ہو کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔ اللہ کی کریم ذات سے دعا بھی ہے اور امید بھی کہ ربانی دسترخوان پر ان کے لیے نعمتیں چنی گئی ہوں گی اور ملت کی کشتی کا کھیوان ہار اپنی مراد کو پہنچ گیا ہوگا یعنی ان کا رب ان سے راضی ہو گیا ہوگا۔
ملت کو ایک بار پھر آزمائش کی گھڑی کا سامنا ہے اور قاضی صاحب کی روح علما سے پوچھ رہی ہے:
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد
(بہ شکریہ ’تعمیر حیات‘ لکھنو)

آہ! حضرت مولانا مفتی رشید احمدؒ

حافظ مہر محمد میانوالوی

ابھی حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری مہاجر مدنی ؒ کا صدمہ وفات قلب حسرت ناک سے جدا نہیں ہوا تھا کہ شہید امارت اسلامیہ افغانستان اور انقلاب طالبان کے عظیم مربی اور محسن حضرت مولانا مفتی رشید احمد بھی داغ مفارقت دے کر مولائے حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
دنیا مسافر خانہ اور موت کی گاڑی کا پلیٹ فارم ہے۔ یہاں لاکھوں کے آنے جانے کا سلسلہ جاری ہے مگر کچھ ہستیاں اس سرائے کو نیکیوں کو چمنستان بنا کر یادگار چھوڑ جاتی ہیں۔ بلاشبہ حضرت مفتی صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن باطل شکن تھے۔ بیک وقت مدرس، مفتی، محدث، مصلح، مجاہد، مدبر حق گو، بدعات شکن، شیخ ومرشد، قائد جہادی تنظیمات، حاتم غربا ومساکین اور انقلاب افغانستان کے سب سے بڑے سرپرست ، محافظ ومعاون تھے۔ ضرب مومن کے اجرا سے آپ نے دینی صحافت اور اصلاح عوام کی بے نظیر مثال پیش کی اور لاکھوں گم گشتگان کو راہ راست پر لائے۔ حجرۂ تنہائی میں بیٹھ کر نشتر پارک جیسے جلسوں میں لاکھوں کو زیارت کرائے بغیر ایسا جامع عقیدت پلایا اور شریعت محمدیہ کا پابند بنایا کہ بڑے بڑے اولیاء کرام کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ ۵۰ ہزار فتوے جاری کرنے اور ۶۰ کتابیں تصنیف فرمانے کے ساتھ آپ یقیناًولی کامل بھی تھے کہ ناظم آباد کی ایک چھوٹی سی قدیم مسجد اور معمولی مکان میں پوشیدہ رہ کر، مختلف شہروں اور ملکوں کے دورے کیے بغیرکروڑوں افراد سے اپنی عقیدت کا لوہا منوا لیا۔ لاکھوں گنہ گاروں کو تائب، نیکیوں کا متلاشی، شریعت وسنت اور ڈاڑھی اور پردے کا پابند بنایا۔ آپ کے اشاروں پر ہی نہیں، دعاؤں سے بھی مخیر حضرات کروڑوں کا سامان افغانستان کے یتامیٰ، مجاہدین اور طالبان کے لیے ٹرکوں اور ٹرالوں پر لے جاتے رہے۔
ایں سعادت بزور بازو نیست 
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
مدرسہ قاسم العلوم اکوال تلہ گنگ کے مفتی مولانا الطاف الرحمن فاضل مدینہ یونیورسٹی کے والد محمد قاسم صاحب نے آپ کی کرامت کے طور پر مجھے بتایا کہ میں ۷۸ء میں اپنے بیٹے کو دار الافتا میں داخل کرانا چاہتا تھا مگر شرائط پوری نہ تھیں۔ یہ ورد پڑھتے ہوئے کراچی گیا کہ یا الٰہی کرم کر، سخت دل نرم کر۔ مفتی صاحب نے مولانا کو داخل کر کے فرمایا کہ آپ کے والد کی وجہ سے کر رہا ہوں۔ پھر والد صاحب سے فرمایا کہ مسلمان سخت دل نہیں ہوتا، مضبوط دل والا ہوتا ہے۔ یعنی ان کی قلبی کیفیت بطور کشف وکرامت اللہ نے معلوم کرا دی۔
احقر کا مفتی صاحب سے تلمذ برائے ہے۔ ۱۳۸۶ھ میں دورۂ حدیث شریف پڑھ کر مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے فارغ ہوا تو روحانی اصلاح کے لیے حضرت مولانا تھانوی رحمہ اللہ اور مولانا فضل الٰہی قریشی مسکین پوریؒ کے خلیفہ یادگار سلف حضرت مولانا محمد عبد اللہ بہلوی شجاع آبادی نور اللہ مرقدہ (وفات ۱۳۹۷ھ)سے بیعت کا تعلق قائم کیا اور رمضان وشعبان میں دورۂ تفسیر بھی پڑھا۔ وہاں ایک طالب علم نے مفتی صاحب کے دار الافتا کا تعارف کرایا تو احقر نے بذریعہ خط آپ سے رابطہ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ۷ شوال تک پہنچ جاؤ۔ میں خوش ہو کر گھر عید کے لیے تھمے والی ضلع میانوالی آیا۔ کراچی کا پہلا سفر تھا۔ والد مرحوم کی علالت اور کچھ اپنی سستی کی وجہ سے تین دن کی تاخیر سے ۱۰ شوال کی شام کو کراچی پہنچا۔ عشا کی نماز حضرت مفتی صاحب کے پیچھے اداکی۔ حضرت مفتی صاحب اصول کے بڑے پابند تھے۔ فرمایا تین دن لیٹ آئے ہو، داخلہ بند ہے۔ ہاں اگر کوئی ۷۵ روپے ماہانہ کے لحاظ سے تمہارا سال کا وظیفہ ادا کرنے پر راضی ہو تو گنجائش نکل آئے گی ورنہ بنوری ٹاؤن میں تخصص فی علوم الحدیث میں داخلہ لے لو۔ میرے مقدر میں آپ کی صحبت سے محرومی اور وارثان علامہ انور شاہ کشمیری حضرت علامہ محمد یوسف بنوری اور مولانا محمد ادریس بھٹی مدیر مسؤل بینات سے تلمذ کی سعادت لکھی تھی۔ انہی دنوں میں مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ جامعہ رشیدیہ ساہیوال سے ہر ماہ پڑھانے آیا کرتے تھے۔ وہاں داخلہ مل گیا۔ کبھی کبھی مفتی صاحب کی زیارت بھی ہو جاتی۔ پھر احقر کا سلسلہ تدریس وملازمت پنجاب میں ہی رہا۔
رمضان ۱۴۲۱ھ میں کراچی کے سفر کے موقع پر مفتی رشید احمد صاحبؒ کی زیارت کے لیے ناظم آباد گیا۔ عشا کی نماز میں آپ سے ملاقات ہوئی۔ انتہائی بارعب لباس اور بزرگانہ شان وشوکت حضرت تھانوی نور اللہ مرقدہ کی وضع قطع معلوم ہوئی۔ بالاخانہ پر بلایا۔ میں نے دل لگی سے اپنا تاثر سنا دیا۔ مسکرائے۔ میں نے ناکام طالب علمی کا حوالہ دیا تو اور خوش ہوئے اور فرمایا کہ میں جانتا ہوں۔ آپ پہلے بھی ملتے رہے ہیں۔ آپ کے مدح صحابہؓ اور رد رفض کے موضوع پر تصانیف سے واقف ہوں۔ دعا بھی دی۔ اپنی علمی وروحانی ضوفشانی سے احقر کو منور وسیراب فرماتے رہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ امارت اسلامیہ افغانستان کی شہادت کا غم لے کر جانے والے مفتی صاحب کو غریق رحمت فرمائے اور ان کی تمام دینی خدمات کو قبول فرمائے۔
رفتید ولے نہ از دل ما

جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی کا مکتوب گرامی

ڈاکٹر محمود احمد غازی

برادر مکرم ومحترم جناب مولانا ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپریل ۲۰۰۲ء کا ماہنامہ ’الشریعہ‘ آپ کے دیرینہ لطف وکرم سے موصول ہوا۔ میں روز اول ہی سے اس رسالے کا باقاعدہ قاری ہوں۔ آپ کی تحریروں اور مضامین میں جو اعتدال اور توازن ہوتا ہے، وہ گزشتہ کچھ عرصے سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ کی تحریریں ملک میں ایک متوازن اور معتدل مذہبی رویے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں گی۔
زیر نظر شمارے میں اپنی ایک تحریر دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔ حیرت اس لیے کہ اس عنوان سے کوئی مضمون لکھنا یاد نہیں تھا اس لیے ابتداءً خیال ہوا کہ شاید یا تو غلطی سے میرا نام چھپ گیا ہے یا یہ میرے کسی ہم نام کی تحریر ہے لیکن جب اصل مضمون پڑھا تو اندازہ ہوا کہ عنوان آپ کا اور معنون اس ناچیز کا ۔ غالباً آپ نے میرا وہ لیکچر ملاحظہ فرمایا ہوگا جس سے یہ اقتباس لے کر شائع کیا گیا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ آپ اور آپ جیسے دوسرے علماء کرام اس پورے لیکچر کو بالاستیعاب مطالعہ فرمائیں۔ آپ کے عطا کردہ اس عنوان سے خیال ہوتا ہے کہ شاید میری کتاب ’خطبات بہاول پور‘ آپ کے لیے دل چسپی کا موضوع ہوگی۔ پتہ نہیں آپ کویہ کتاب دیکھنے کا اتفاق ہوا یا نہیں۔
علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ کے مابین فکری مماثلتوں کے موضوع پر پروفیسر محمد یونس میو کا مضمون اچھا ہے لیکن بہت مختصر۔ شاید ان کو یہ تجویز کرنا موزوں ہو کہ مولانا رومیؒ کے افکار اور پیغام کے بارے میں علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ کے نظریات وخیالات کا تقابلی مطالعہ نہ صرف دل چسپ ہوگا بلکہ دونوں اکابر کے نقطہ نظر میں حیرت انگیز مماثلتیں بھی اس کے ذریعے سامنے آئیں گی۔ میری طرف سے پروفیسر محمد یونس صاحب کو مبارک باد پیش کر دیں۔
والسلام
نیاز مند
ڈاکٹر محمود احمد غازی

جون ۲۰۰۲ء

دینی حلقوں کی آزمائش اور ذمہ داریادارہ
حقیقی جمہوریت یا رجعت قہقریٰ؟پروفیسر میاں انعام الرحمن
سرحدی کشیدگی اور مغربی عزائمپروفیسر میاں انعام الرحمن
سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں جہاد کا مفہوممولانا ابوعمار زاہد الراشدی
انصاف یا جنگل کا قانون؟مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
سیرت النبی ﷺ کے خلاقی پہلو اور فکر اقبالؒپروفیسر میاں انعام الرحمن
اسلامی تحریکات کا ایک تنقیدی جائزہ (۱)ڈاکٹر یوسف القرضاوی
علماء دیوبند اور سرسید احمد خان - مولانا عیسیٰ منصوری کے ارشادات پر ایک نظرضیاء الدین لاہوری
اسلامی نظریاتی کونسل کے نام مدیر ’الشریعہ‘ کا مکتوبمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
خوشی کی تلاشاختر حمید خان
جرسِ کارواںادارہ

دینی حلقوں کی آزمائش اور ذمہ داری

ادارہ

پاکستان شریعت کونسل نے حکومت اور دینی حلقوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ کوئی خفیہ ہاتھ پاکستان میں فوج اور دینی حلقوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر کے ترکی اور الجزائر جیسے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے اس لیے دونوں طرف کے محب وطن اور اسلام دوست عناصر کو سنجیدگی کے ساتھ اس صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی روک تھام کے لیے موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ بات پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس مشاورت کی ایک قرارداد میں کہی گئی ہے جو ۹؍ مئی ۲۰۰۲ء کو جامع مسجد سلمان فارسیؓ اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں منظور کی گئی۔ یہ اجلاس کونسل کے سربراہ مولانا فداء الرحمن درخواستی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں مولانا زاہد الراشدی‘ مولانا حامد علی رحمانی‘ حاجی جاوید ابراہیم پراچہ‘ احمد یعقوب چودھری‘ مولانا محمد ادریس ڈیروی‘ مولانا صلاح الدین فاروقی‘ مولانا حافظ مہر محمد‘ مولانا عبد الحلیم قاسمی‘ مولانا محمد رمضان علوی‘ مولانا قاری جمیل الرحمن اختر‘ مخدوم منظور احمد تونسوی‘ مولانا مفتی انعام اللہ‘ ملک محمد شاہد اور دیگر راہ نماؤں نے شرکت کی۔ اجلاس میں ملک بھر میں دینی جماعتوں کے کارکنوں اور علماء کرام کی بلا امتیاز گرفتاریوں‘ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی تلاش کی آڑ میں دینی مدارس ومراکز کے خلاف امریکی اتحاد کی عسکری کارروائیوں‘ خوف وہراس کی کیفیت اور ووٹر فہرستوں کے فارم میں عقیدۂ ختم نبوت کے حلف نامہ کو ختم کرنے سمیت بہت سے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ حکومت کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کرتے ہوئے قانون کے دائرے کے اندر رہ کر ان مقاصد کے لیے دینی جدوجہد کو منظم کیا جائے گا اور متعلقہ حلقوں کے ذمہ دار حضرات سے رابطہ کر کے دینی مفادات کے تحفظ اور فوج کے ساتھ دینی حلقوں کے تصادم کو روکنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کی جائے گی۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ بین الاقوامی دباؤ اور این جی اوز کی سرگرمیوں کے باعث پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ دستور کی اسلامی دفعات کو غیر موثر بنانے‘ قادیانیت اور ناموس رسالت کے تحفظ کے بارے میں دستوری فیصلوں کو ختم کرانے اور ملک میں فحاشی اور بے حیائی کے فروغ کے لیے ایک منظم پروگرام کے تحت کام جاری ہے اور ہر سطح پر منصوبہ بندی کے ساتھ پیش رفت ہو رہی ہے جبکہ دوسری طرف کوئی خفیہ ہاتھ ملک کے دینی حلقوں کو فوج کے ساتھ محاذ آرائی کی کیفیت میں لاکر الجزائر اور ترکی کی طرح پاکستان کی دینی قوتوں کو طاقت کے بل پر کچل دینے کے لیے سرگرم عمل ہے اس لیے ملک کی دینی قیادت اس وقت شدید آزمائش سے دوچار ہے۔ کیونکہ جس طرح ہمارے لیے یہ بات ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کے اسلامی تشخص سے دست بردار ہو جائیں اور نفاذ اسلام کے لیے نصف صدی کی دستوری جدوجہد کے نتائج سے ہاتھ دھو بیٹھیں‘ اسی طرح ہم اس بات کے متحمل بھی نہیں کہ فوج کے ساتھ دینی حلقوں کی محاذ آرائی کی صورت حال پیدا کر کے ملکی سالمیت کو خطرے میں ڈال دیں۔ ہم اس وقت پل صراط پر چل رہے ہیں اور ہماری چھوٹی سی غلطی بھی ملک وقوم کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دینی قیادت کو مل بیٹھ کر اس صورت حال کا حل تلاش کرنا چاہیے اور ملک کے عوام کو متوازن دینی راہ نمائی مہیا کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت حکومت کے سائے میں عافیت کی جگہ تلاش کرنا دینی روایات اور ملی مقاصد کے ساتھ بے وفائی کی بات ہوگی اور اسی طرح محاذ آرائی کی فضا پیدا کر کے فوج اور دینی حلقوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ بھی قومی مفادات کے منافی ہوگا۔ ہمیں اس کے درمیان متوازن راہ تلاش کرنی ہوگی اور ملک بھر کے دینی کارکنوں اور دین دار عوام کو مایوسی اور بے دلی کی فضا سے نکالنے کے لیے عملی جدوجہد کرنی ہوگی۔
پاکستان شریعت کونسل کے سربراہ مولانا فداء الرحمن درخواستی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں ملک کے دینی حلقوں کے درمیان مفاہمت کو فروغ دینے کے لیے کام کرنا چاہیے اور ہر ایسی بات سے گریز کرنا چاہیے جو دینی جماعتوں‘ حلقوں اور مراکز کے درمیان بعد پیدا کرتی ہو۔ انہوں نے علماء کرام سے کہا کہ وہ تین باتوں کی طرف سب سے زیادہ توجہ دیں۔ ایک یہ کہ مثبت انداز میں عوام تک قرآن وسنت کی تعلیمات کو پہنچائیں اور اپنے خطبات جمعہ‘ دروس اور بیانات میں عام مسلمانوں کو قرآن وسنت کی تعلیمات اور اسلامی احکام وقوانین سے واقف کرانے کی کوشش کریں۔ دوسری بات یہ کہ نئی نسل کی دینی تعلیم وتربیت کی طرف خصوصی توجہ دیں اور دینی مدارس اور سکول ہر سطح پر قائم کر کے نئی پود کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ضروری عصری تعلیم سے بھی آراستہ کرنے کا اہتمام کریں اور تیسری بات یہ کہ رفاہ عامہ اور خدمت خلق کے کاموں کی طرف توجہ دیں۔ 
انہوں نے کہا کہ معاشرے کے نادار لوگوں کی خدمت اور رفاہ عامہ کی جدوجہد ہمارے دینی فرائض میں سے ہے جس کی بجا آوری ہم نے بالکل چھوڑ دی ہے اور اسی خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے ملک میں ہزاروں این جی اوز متحرک ہو گئی ہیں جو تعلیم‘ صحت اور خدمت عامہ کے دیگر کاموں کی آڑ میں اپنے نظریات اور ثقافت کو فروغ دے رہی ہیں اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم قومی زندگی کے اتنے بڑے شعبے کو این جی اوز اور مسیحی مشنریوں کے حوالے نہ کر دیں بلکہ خود آگے بڑھ کر رفاہ عامہ کے کاموں میں دل چسپی لیں اور ہر علاقہ میں اسلامی این جی اوز قائم کر کے تعلیم‘ صحت اور دیگر شعبوں میں عوام کی خدمت کا اہتمام کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے دینی مدارس بھی این جی اوز کی حیثیت رکھتے ہیں جو تعلیم کے میدان میں شان دار خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ لاکھوں نادار افراد کو خوراک اور رہائش کی سہولتیں بھی فراہم کر رہے ہیں لیکن اس کام کو دوسرے شعبوں میں بھی پھیلانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے دینی فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سرمایہ سے کام کرنے والی این جی اوز کے غلط کاموں کا راستہ بھی روک سکیں۔
پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس شوریٰ نے ایک قرارداد میں قبائلی علاقوں میں دینی مدارس کے خلاف فوجی ایکشن‘ عرب مجاہدین کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ان کی اندھا دھند گرفتاریوں اور مجاہدین کو امریکہ کے سپرد کرنے کی کارروائیوں پر شدید احتجاج کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے کسی جج کی سربراہی میں عدالتی کمیشن مقرر کیا جائے جو ۱۱؍ ستمبر کے بعد ہونے والے حالات اور دہشت گردی کے عنوان سے حکومت اور دینی حلقوں کے درمیان کشیدگی کے فروغ کے اسباب وعوامل کی نشان دہی کرے اور حالات کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات تجویز کرے۔ قرارداد میں ملک کی سیاسی اور دینی جماعتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ بھی اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن کے قیام کے مطالبہ کی تائید کریں تاکہ ہم خدا نخواستہ کسی بڑے سانحہ کے رونما ہونے سے پہلے ان اسباب وعوامل کو کنٹرول کر سکیں جو ملک وقوم کے لیے کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔
ایک قرارداد میں کشمیر‘ فلسطین‘ چیچنیا‘ مورو اور دیگر مسلم خطوں کے مجاہدین کی جدوجہد کے ساتھ مکمل یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں دہشت گرد قرار دینے کی روش کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ امریکہ اور اس کے حواری محض اپنے یک طرفہ مفادات کی خاطر مجاہدین آزادی کو دہشت گرد قرار دے کر قوموں کی آزادی کی مسلمہ روایات کی نفی کر رہے ہیں اور اگر اس حوالے سے امریکی موقف کو تسلیم کر لیا جائے تو خود امریکہ کی جنگ آزادی بھی دہشت گردی قرار پا کر بلاجواز ہو جاتی ہے۔ قرارداد میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ امریکی کانگریس کا کردار ادا کرنے کے بجائے اپنا ’’اقوام متحدہ‘‘ کا کردار بحال کرے اور مسلم دنیا کے خلاف معاندانہ اور جانب دارانہ طرز عمل پر نظر ثانی کرے نیز فلسطین اور کشمیر کے بارے میں اپنی قراردادوں پر سنجیدگی سے عمل کرائے۔ 
ایک اور قراداد میں افغانستان کے بزرگ عالم دین مولانا محمد نبی محمدیؒ ‘ بھارت کے بزرگ عالم دین مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ اور مولانا شہاب الدین ندویؒ ‘ اور پاکستان کے بزرگ عالم دین مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ کی وفات پر گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے ان کی ملی وقومی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا گیا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔
(رپورٹ: ادارہ)

حقیقی جمہوریت یا رجعت قہقریٰ؟

پروفیسر میاں انعام الرحمن

ڈوری کا ایک سرا طاقت ور شخص کے ہاتھ میں ہے اور دوسرے سرے سے ایک بظاہر آزاد شخص کی ٹانگ بندھی ہوئی ہے۔ اس ٹانگ بندھے شخص کی آزادی‘ ڈوری کی لمبائی کے برابر ہے۔ جب بھی یہ شخص ذرا زیادہ آزادی پانے کی کوشش کرتا ہے تو دوسرے سرے پر موجود شخص خائف ہو کر ڈوری کو کھینچنا شروع کر دیتا ہے اور وہ ’’آزاد‘‘ شخص الٹے پاؤں گھسٹتا چلا جاتا ہے۔ مزاحمت تو دور کی بات ہے‘ صرف بچاؤ کرنے میں ہی وہ منہ کے بل گر جاتا ہے‘ کہنیاں چھل جاتی ہیں اور ہاتھ خاک آلود ہوجاتے ہیں۔ رہا دل‘ تو اس کی بات ہی چھوڑیے۔
یہ مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ سے زیادہ کہیں اور صادق نہیں آ سکتی۔ ملک کے عسکری ادارے نے ڈوری کا سرا مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔ ’’ملکی سلامتی اور قومی مفاد‘‘ ڈوری کی لمبائی کے متوازی ہیں۔ ڈوری کے دوسرے سرے پر دستوری ڈھانچہ ہے جسے فی الواقع ’’ڈھانچہ‘‘ ثابت کر دیا گیا ہے۔ 
وطن عزیز کی تاریخ کے معروضی جائزے سے ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر دستوری اداروں کو کام کرنے کا موقع کیوں نہیں دیا جاتا؟ اس کا ایک ہی جواب نہایت شد ومد سے دیا جاتا ہے کہ دستوری ادارے‘ غیر دستوری انداز سے چلائے جاتے ہیں۔ کوئی بھی ہوش مند اور غیر جانب دار شخص اس جواب کی صحت سے انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس کا حل یہی ہے کہ ’’ڈوری‘‘ برقرار رکھی جائے‘ وقتاً فوقتاً کھینچ ماری جائے اور دستوری اداروں کو ذلیل ورسوا کیا جائے؟ آخر ایک بار کھینچ مارنے کے بعد‘ بلکہ فوراً بعد‘ دستوری اداروں کے قیام کی کوششیں کیوں کی جاتی ہیں؟ عسکری ادارہ مستقل طور پر خود ملک کی باگ ڈور کیوں نہیں سنبھال لیتا؟ بہت صاف اور سیدھی بات ہے کہ اصول وضوابط کے بغیر‘ ’’جٹکے‘‘ انداز سے کوئی بھی ادارہ نہیں چلایا جا سکتا۔ پھر ریاست تو ایک بہت بڑا ادارہ ہے۔ جب یہ بات طے شدہ ہے کہ آخر دستور ہی کی طرف لوٹنا ہوگا تو پھر اس کی دھجیاں اڑانے کا فائدہ؟
جہاں تک دستوری اداروں کے غیر دستوری انداز سے چلانے کا تعلق ہے تو اس کا تعلق شخصیات سے ہے۔ کسی کی شخصی خامیوں کی بنا پر اداروں کو نہیں لپیٹنا چاہیے بلکہ ایسے طریقے اختیار کرنے چاہییں جن سے ’’شخصی غلبے‘‘ کا تدارک ہو سکے۔ جہاں تک پارلیمانی نظام کا تعلق ہے تو برطانیہ کے اندر بھی پچھلے چند سالوں سے اس پر تنقید سامنے آ رہی ہے کہ اب یہ وزارتی نظام کے بجائے وزیر اعظمی نظام (Prime Ministerial System) بن چکا ہے۔ ویسے بھی کوئی بھی نظام مختلف مراحل طے کرتا ہوا‘ اپنے ثمرات سے مستفید کرتا ہوا‘ آخر کار Point of Saturation تک پہنچ جاتا ہے جہاں اسے پیوند کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ برطانیہ کی حد تک تو شاید یہ بات درست ہو کہ وزارتی نظام کو پیوند کاری کی ضرورت ہے لیکن پاکستان پر اس اصول کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ یہاں پارلیمانی جمہوریت کی کسی کونپل کو پھوٹتے ہی مسل دیا جاتا ہے‘ Point of saturation تو بہت دور کی بات ہے۔
حقیقی پارلیمانی جمہوریت ایک طویل ارتقا کی متقاضی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں محدود شرح خواندگی اور مخصوص معاشرتی حالات کے تناظر میں یہ ارتقا کچھ اس طرح سے ہوگا:
۱۔ پہلے الیکشن کے بعد سے پندرہ سال تک کے دور کو ہم ماقبل جمہوریت کا مرحلہ (Pre-Democratic Phase) کہہ سکتے ہیں۔
۲۔ دوسرے مرحلے پر مزید پندرہ سال کے عرصے کو جمہوریت کی جانب پیش قدمی (Initiative to Democarcy) کہہ سکتے ہیں۔
۳۔ اس کے مزید تیس سال بعد کے عرصے میں ہم جمہوریت اور اس کی متعلقہ قدروں سے معاشرتی سطح پر آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ ان پر عمل پیرا ہونے کی توقع کر سکتے ہیں۔
یہ ارتقا اس بات کے ساتھ مشروط ہے کہ کسی انقطاع کے بغیر انتخابات مسلسل ہوتے رہیں۔
پاکستان میں عملی صورت حال کچھ اس طرح سے ہے کہ ابھی ہم پہلے مرحلے سے نہیں نکل پاتے کہ قوم کے ’’رکھوالے‘‘ اپنی اہمیت جتانے آ دھمکتے ہیں۔ ملکی سلامتی اور قومی مفاد کو ’’محفوظ‘‘ کر کے دوبارہ جمہوری عمل شروع کروا دیتے ہیں۔ اگر جمہوریت پاکستان میں قدم نہیں جما سکتی تو اس کی وجہ نظام کی ناکامی نہیں بلکہ ہماری عجلت پسندی ہے۔ قوم پچپن سال سے پہلے مرحلے میں ہے اور تقاضے تیسرے مرحلے کے کرتی ہے۔ میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ادوار کو ہم ’’جمہوری‘‘ قرار نہیں دے سکتے کیونکہ ان ادوار کا شمار Pre-Democratic Phase میں ہوتا ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ مسلسل جمہوری عمل سے تبدیلی اور بہتری کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے۔ کثیر جماعتی کی جگہ دو جماعتی نظام جڑ پکڑ چکا تھا۔ عوام اپنی طاقت سے آگاہ ہو رہے تھے۔ امکان غالب تھا کہ دوسرے مرحلے میں شخصی غلبے کا تدارک بھی ہو جاتا‘ لیکن ملک وقوم کے ’’خیر خواہوں‘‘ نے ’’ذمہ داری‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’بروقت ‘‘ مداخلت کرکے کثیر جماعتی نظام کی راہ دوبارہ ہموار کر دی ہے۔ امید ہے قوم لوٹوں کی منڈی سے مزید دس بارہ سال تک محظوظ ہوتی رہے گی۔ پھر بہتری کے آثار نظر آنے پر دوبارہ ڈوری کھینچ لی جائے گی کیونکہ کوئی نہ کوئی بانکا آزادی کی ’’حدود‘‘ کو پھلانگنے کی کوشش کرے گا۔

سرحدی کشیدگی اور مغربی عزائم

پروفیسر میاں انعام الرحمن

اس وقت ساری دنیا کی نظریں جنوبی ایشیا پر مرکوز ہیں۔ اس خطے کی سات بڑی ریاستوں میں سے دو ریاستیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہیں۔ جنگ کا خطرہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ پاکستان‘ بھارتی بالادستی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ورنہ باقی پانچ ریاستوں میں سے کسی میں اتنا دم خم نہیں کہ انڈیا سے برابری کی سطح پر تعلقات قائم رکھ سکے۔ انڈیا کا بارڈر بھی تقریباً تمام ریاستوں سے متصل ہے جس سے انڈیا کو در اندازی کے تمام مواقع میسر ہیں۔ جنوبی ایشیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ خطہ نااتفاقی کے سبب ایک اصول پر متفق ہے: باہمی عدم اتحاد۔ بالخصوص انڈیا اور پاکستان کے مابین انتہائی باہمی بد اعتمادی پائی جاتی ہے۔ انڈیا میں رونما ہونے والے کسی بھی ناخوش گوار واقعے کی ذمہ داری پاکستان کے سر تھوپ دی جاتی ہے۔ یہی صورت حال دوسری جانب ہے۔ اس سے تعلقات کی نوعیت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس خطے کے باقی ممالک کے باہمی تعلقات کا تعین بھی انڈیا اور پاکستان کی پالیسیوں سے ہوتا ہے جس سے یہ خطہ مزید بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے۔ باہمی عدم اعتماد کی اس فضا نے بیرونی طاقتوں (Extra-regional powers) کو جنوبی ایشیا میں اپنا اثر ورسوخ قائم کرنے اور اس میں شدت پیدا کرنے کا موقع فراہم کیا ہے جس سے علاقائی طاقتوں کے باہمی تعلقات (Intra-regional relations)مزید پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ اس طرح جنوبی ایشیا داخلی اور خارجی دونوں اعتبار سے خطرے میں (Vulnerable) ہے۔ 
جنوبی ایشیا کے مسائل سے کماحقہ واقفیت کے لیے ضروری ہے کہ ان کو درجہ بدرجہ تین مختلف سطحوں پر دیکھا جائے: مقامی (Domestic)‘ علاقائی (Regional) اور عالمی (Global)۔
مقامی سطح پر ہر ملک کو مذہبی‘ لسانی اور نسلی عصبیتوں کا سامنا ہے۔ انڈیا میں ہندو انتہا پسندی سے ’’سیکولر ازم‘‘ خطرے میں ہے۔ فرقہ وارانہ اختلافات کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ کشمیر کے علاوہ بھی مختلف علاقوں میں علیحدگی پسند تحریکات انڈین یونین کے لیے درد سر بنی ہوئی ہیں۔ صاف اور سیدھی سی بات ہے کہ کثیر نسلی‘ کثیر مذہبی اور کثیر لسانی ملک کو زیادہ عرصے تک مصنوعی انداز میں یکجا نہیں رکھا جا سکتا۔ حالیہ ہندو انتہا پسندی سے موجودہ یکجائی بھی ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہوئی ہے۔ یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے کہ ڈوبنے والا تنکے کو بھی شہتیر سمجھتا ہے۔ بھارتی حکمرانوں نے داخلی ٹوٹ پھوٹ سے ڈوبتے ملک کو خارجی محاذ کی صورت میں ’’تنکے‘‘ سے نواز ہے اور تنکا بہرحال تنکا ہوتا ہے۔ بھارت کو اس کا اندازہ جلد ہو جائے گا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا کی علاقائی پالیسی مقامی محرکات کے پیش نظر تشکیل دی گئی ہے۔ افغانستان کے خلاف مغرب کی یلغار میں انڈیا کی انتہائی کوشش تھی کہ اسے بھی فعال رول سونپا جائے۔ کیونکہ مسلم احیا کی تحریکات پر کاری ضرب لگانے سے جہاں ایک طرف کشمیر میں آزادی کی تحریک تعطل کا شکار ہوتی‘ وہاں ہندوستانی مسلمانوں کو بھی باور کرا دیا جاتا کہ زیادہ اچھلنے کودنے کی ضرورت نہیں۔ بہت بڑی آبادی اور زرعی ملک ہونے کے ناتے انڈیا کو یہ موقع مل گیا کہ افغان جنگ کے دوسرے مرحلے میں امریکی آنکھ کا تارا بن جائے کیونکہ اہل مغرب انڈیا کو بہت بڑی منڈی کی شکل میں دیکھ رہے ہیں جہاں ان کا مال کھپ سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی کوشش ہوگی کہ انڈیا ترقی پذیر زرعی ممالک کی صف سے نکل کر صنعتی ممالک کی برادری میں شامل نہ ہونے پائے۔ اس کے لیے ظاہر ہے کہ انڈین معیشت کو تہ وبالا کرنا ہوگا۔ بارڈر پر انڈین فوج کی مستقل موجودگی آنے والے دنوں کی ہیبت ناکی کو ظاہر کرتی ہے۔ انڈین معاشی ترقی کا گراف بہت پیچھے چلا جائے گا جس سے مغربی طاقتوں کو موقع مل جائے گا کہ انڈیا کے ساتھ وہ کھیل شروع کر سکیں جو وہ نہرو کے دور میں نہیں کر سکیں۔ موجودہ ہندو انتہا پسندی کے تناظر میں معیشت پر کاری ضرب سے انڈیا داخلی محاذ پر ایک بڑے بحران سے دوچار ہوگا۔ اس بحران کے اثرات جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک پر بھی مرتب ہوں گے۔
انڈیا سے تعلقات بڑھانے میں اور اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں مغربی طاقتوں کو ایک سہولت حاصل ہے کہ انڈین عزائم عالمی سطح پر توسیعی (Extra Regional) نہیں ہیں۔ ہندومت کے مطابق سمندر پار جانا گناہ ہے۔ ہندوؤں کی سوچ ’’اکھنڈ بھارت‘‘ تک محدود ہے اس لیے مغربی ممالک کو انڈیا سے ایسا کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ بھارت کی توڑ پھوڑ کر کے جہاں اپنا مال کھپایا جا سکتا ہے‘ وہاں جنونی ہندوؤں کو ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے لایعنی نصب العین کے حصول پر بھی ابھارا جا سکتا ہے۔ اس طرح ترقی کے اعتبار سے انڈیا Status quo کا شکار رہے گا۔
پاکستان کا معاملہ بھارت سے بہت مختلف ہے۔ اکثریت کے مسلمان ہونے کے ناتے لسانی اور نسلی اختلافات اتنے شدید نہیں ہیں جتنے کہ بنا دیے گئے ہیں۔ عوام کی بہت بڑی اکثریت اسلام کے رشتہ وحدت میں پروئی ہوئی ہے۔ جہاں تک جنوبی ایشیا کا تعلق ہے‘ پاکستان ا س خطے میں مسلمانوں کے حق حکمرانی کا تسلسل ہے۔ انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے ہمارے اسلاف نے اسپین کی مثال کو مد نظر رکھا کہ اگر کسی خطے سے مسلمانوں کے اقتدار کا کلی خاتمہ ہو گیا تو وہاں سے مسلمان بھی ناپید ہو جائیں گے۔ موجودہ عالمی اور علاقائی صورت حال کے تناظر میں‘ بھارتی مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ حق حکمرانی کی حفاظت میں تساہل نہ برتتے ہوئے ہمارے اسلاف نے بہت جرات اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا۔ اس خطے میں آزاد اور خود مختار پاکستان کی موجودگی علاقائی وابستگی کی بنا پر نہیں ہے بلکہ نظریاتی بنیاد پر ہے۔ مسلمان کسی بھی نسل اور زبان سے تعلق رکھتا ہو‘ اس کی اسلام سے وابستگی علاقے سے ماورا ہوتی ہے یعنی عملاً اس کی اپروچ Extra Regional ہوتی ہے۔ اسی اپروچ کے سبب سے ساری دنیاپر مسلمانوں کا ہوا سوار ہے۔ 
امریکی سعودی تعلقات کو ہی دیکھ لیجیے۔ امریکہ کو اپنی تیل کی رسد کی فکر ہے اور سعودی عرب کو طلب کے متوازن رہنے کی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تیل کی منڈی کے علاوہ دنیا میں کوئی حقیقی عالمی منڈی موجود نہیں۔ تیل کی طلب اور رسد میں معمولی سا عدم توازن بھی پوری دنیا کا مضطرب کر دیتا ہے۔ سعودی عرب تیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جبکہ امریکہ تیل صرف کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے چنانچہ دونوں ملکوں کے درمیان مفادات کا واضح اشتراک پایا جاتا ہے لیکن ۱۱؍ ستمبر کے واقعات کے بعد امریکی پالیسیوں کے تناظر میں یہ مفاداتی اشتراک قصہ پارینہ بنتا نظر آتا ہے۔ سعودی عوام کی Extra Regional اپروچ کسی وقت بھی حالات کو پلٹا دے سکتی ہے۔
اسی طرح چین میں مسلمان علیحدگی پسندوں کو سزائے موت سے سرفراز کرنا عجیب بات نہیں ہے کیونکہ مقامی مسلمانوں کے مطابق بیجنگ اور واشنگٹن کے ’’کافروں‘‘ میں کوئی فرق نہیں۔ اسی طرح چین اور دوسرے ممالک کے مسلمانوں میں بھی کوئی فرق نہیں۔
قارئین کرام! آپ پر واضح ہو گیا ہوگا کہ دنیا بھر کے مسلمان خود کو اسلام کے رشتہ وحدت میں منسلک تصور کرتے ہیں۔ یہ وحدت سیاسی‘ حکومتی اور معاشی اعتبار سے تو موجود نہیں لیکن مستقبل میں اس کی امید کی جا سکتی ہے۔ اگر مسلم ممالک سیاسی ومعاشی وحدت کے حامل ہو جائیں تو مغرب کو شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اسلام کا قلعہ ہونے کے ناتے پاکستان ہی وہ ملک ہے جو مسلم وحدت کے لیے فعال کردار ادا کر سکتا ہے۔ مغربی طاقتوں نے اس ممکنہ فعالیت کی روک تھام کے لیے قلعے میں دراڑیں ڈال کر اسے اپنی بقا کے لیے لڑنے تک محدود کر دیا ہے۔
حالیہ افغان جنگ میں امریکہ کی عجلت پسندی کہ جنرل پرویز مشرف فوراً ہاں یا نہ میں جواب دیں‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی تاکہ جنرل مشرف بلامشاورت قدم اٹھانے پر ہدف تنقید ٹھہریں اور ان کے حامیوں اور مخالفین کی گروہ بندی جڑپکڑ سکے۔ جنرل مشرف کو اتنا زیادہ اعتماد دلایا گیا کہ انہوں نے اپنے بیانات سے گروہ بندی کے عمل کو تیز تر کر دیا۔ اس کے بعد جنرل مشرف کو ریفرنڈم کروانے کی طرف راغب کیا گیا۔ جنرل صاحب نے ضرورت سے زیادہ سمارٹ بنتے ہوئے ’ہاں‘ اور ’نہیں‘ کے درمیان قطعی لائن کھینچ دی۔ ریفرنڈم کے بجائے یہ وہ قطعی لائن ہے جس نے اپوزیشن جماعتوں کو اے پی سی میں شرکت سے روکے رکھا۔ 
سرحدی صورت حال پر عوام کی لاتعلقی بھی سنگین صورت حال کی غمازی کرتی ہے۔ فیصلہ سازی میں جنرل مشرف کی ’’سولو فلائٹ‘‘ نے ملک کو داخلی بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ خارجی محاذ پر ہمارے پاس ایک آپشن ایٹمی قوت کی صورت میں موجود ہے لیکن داخلی محاذ پر قومی وحدت پارہ پارہ ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں ہماری اپروچ Extra Regionalہونے سے تو رہی‘ ہم تو بمشکل اپنی علاقائی سرحدوں کی حفاظت اور بقا کے لیے متحد ہو سکتے ہیں۔ اس طرح مغربی طاقتوں نے اپنی مخصوص حکمت عملی کے تحت ہماری اپروچ Intra Regional کر دی ہے۔
اگر ہم بنظر غائر اسلامی دنیا کی بابت مغربی پالیسیوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی پالیسیوں کا بنیادی نکتہ اسلامی ممالک میں علاقائی رجحانات کو فروغ دینا ہے۔ افغانستان میں کرزئی حکومت کے قیام کے بعد غیر افغان مجاہدین کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا۔ پاکستان اور عرب مجاہدین کی خوب تذلیل کی گئی۔ اسی طرح کشمیر میں بھی کہا جا رہا ہے کہ غیر کشمیری اس علاقے سے نکل جائیں۔ مشرق وسطیٰ میں بھی کسی عرب اتحاد اور غیر عرب مسلمانوں کے نفوذ کے تدارک کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ 
یہ بات بہت واضح ہے کہ اسلامی تحریکات کی Extra Regional اپروچ اور عزائم نے مغربی دنیا کو خبردار کر دیا ہے کیونکہ اگر باقاعدہ عالمی اسلامی حکومت نہ بھی قائم ہو تو ان تحریکات کے زیر اثر اسلامی ممالک کے عوام اور ان کی حکومتیں بھی مغربی ممالک کے مقابل یکساں پالیسی اپنا سکتے تھے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پچاس ساٹھ ممالک کا یکساں موقف آسانی سے نظر انداز نہیں ہو سکتا۔ سلامتی کونسل کے ویٹو پاور ممبران پر شدید تنقید سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید مستقبل میں ویٹو پاور کا خاتمہ کر دیاجائے۔ دنیا کو اجتماعی سلامتی (Collective Security) کے لیے آخر کار ایسا کرنا پڑے گا۔ ایسی صورت میں جنرل اسمبلی کے اندر مسلم ممالک کی Extra Territorial اور Extra Regional اپروچ عملاً ویٹو پاور بن کر ابھر سکتی تھی۔ غالباً مستقبل کے ایسے ہی منظر سے خائف ہو کر پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک میں داخلی گروہ بندیاں پیدا کر کے ان ممالک کو صرف اپنے اپنے مخصوص علاقے کی سلامتی اور بقا تک محدود کرنے کی حکمت عملی تیار کی گئی ہے تاکہ علاقائی قومیت جڑ پکڑ سکے اور عالمی مسلم معاشرہ ظہور میں نہ آئے۔

سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۱۶ مئی ۲۰۰۲ء کو شیخ زید اسلامک سنٹر پنجاب یونیورسٹی لاہور کے زیر اہتمام ’’سیرت النبی ﷺ کانفرنس‘‘ میں مدیر ’الشریعہ‘ کا خطاب)
نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ وازواجہ واتباعہ اجمعین۔
میں شیخ زید اسلامک سنٹر پنجاب یونیورسٹی لاہور کا شکر گزار ہوں کہ جناب رسالت مآب ﷺ کی سیرت طیبہ کے موضوع پر منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں شرکت اور گفتگو کے اعزاز سے نوازا اور دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت ہمارے مل بیٹھنے کو قبول فرماتے ہوئے کچھ مقصد کی باتیں کہنے‘ سننے اور پھر ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین
مجھے گفتگو کے لیے ’’سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے جس کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ حتیٰ کہ تذکرہ بھی اس مختصر وقت میں ممکن نہیں ہے اس لیے بہت سے امور کو نظر انداز کرتے ہوئے چند ایک ایسے سوالات کا جائزہ لینا چاہوں گا جو جہاد کے حوالے سے آج کے دور میں عالمی سطح پر موضوع بحث ہیں اور ان کے بارے میں مثبت اور منفی طور پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے۔
’’جہاد‘‘ کا لفظ لغوی مفہوم کے حوالے سے کوشش‘ محنت ومشقت اور تگ ودو کی مختلف شکلوں کا احاطہ کرتا ہے اور اسے دینی پس منظر میں لیا جائے تو اسلام کی سربلندی‘ دعوت وتبلیغ‘ ترویج وتنفیذ اور تحفظ ودفاع کے لیے کی جانے والی مختلف النوع عملی کوششوں کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنی خواہشات پر کنٹرول اور نفس کی اصلاح کی مساعی پر بھی جہاد کا لفظ بولا گیا ہے جس کی قرآن وسنت میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ 
لیکن جہاد کا ایک خصوصی مفہوم ’جنگ‘ اور ’محاربہ‘ بھی ہے جسے قرآن کریم میں ’جہاد فی سبیل اللہ‘ اور ’قتال‘ کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے اور سینکڑوں آیات قرآنی اور ہزاروں احادیث نبویہ میں اس کا تذکرہ موجود ہے اور اس ’جہاد‘ کے فضائل‘ احکام‘ مسائل اور مقصدیت پر قرآن وسنت میں پورے اہتمام کے ساتھ جابجا روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ہے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کافروں کے خلاف میدان جنگ میں صف آرا ہو کر ہتھیاروں کے ساتھ ان سے معرکہ آرائی کرنا اور قتل وقتال کے ذریعے سے کفر پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا جس کی اہمیت وفضیلت پر قرآن کریم اور سنت نبویؐ کی سینکڑوں تصریحات گواہ ہیں اور اس کو آج کے دور میں اس وجہ سے سب سے زیادہ تنقید واعتراض کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ جدید عقل ودانش کے نزدیک عقیدہ ومذہب کے فروغ اور غلبہ کے لیے ہتھیار اٹھانا تہذیب وتمدن کے تقاضوں کے خلاف ہے اور ایسا کرنا بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے دائرے میں آتا ہے۔ 
اس سلسلے میں آگے بڑھنے سے قبل ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ عقیدہ ومذہب کے لیے ہتھیار اٹھانے اور باطل مذاہب پر حق مذہب کی بالادستی کے لیے عسکری جنگ لڑنے کا آغاز حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا بلکہ جہاد کا یہ عمل آسمانی ادیان میں پہلے سے تسلسل کے ساتھ چلا آ رہا ہے اور جناب نبی اکرم ﷺ نے اس حوالے سے تاریخ میں کسی نئے عمل اور اسلوب کا اضافہ کرنے کے بجائے آسمانی مذاہب کی ایک مسلسل روایت کو برقرار رکھا ہے چنانچہ جس طرح قرآن کریم میں جہاد اور مجاہدین کا تذکرہ پایا جاتا ہے‘ اسی طرح بائبل میں بھی ان مجاہدین اور مذہبی جنگوں کا ذکر موجود ہے جو بنی اسرائیل نے اپنے مذہب کے دفاع اور اپنی آزادی اور تشخص کے تحفظ کے لیے لڑیں۔ مثال کے طور پر قرآن کریم نے فلسطین کی سرزمین پر لڑی جانے والی ایک مقدس جنگ کا سورۃ البقرۃ میں تذکرہ کیا ہے جو جالوت جیسے ظالم حکمران کے خلاف حضرت طالوت کی قیادت میں لڑی گئی اور اس میں حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں جالوت بادشاہ کا معجزانہ طور پر خاتمہ ہوا۔ اس جنگ کا تذکرہ بائبل میں بھی موجود ہے اور اس میں حضرت طالوت کو’ساؤل بادشاہ‘ کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔
اس لیے آگر آج کی جدید دانش کو مذہب کے نام پر ہتھیار اٹھانے پر اعتراض ہے تو اس کا ہدف صرف قرآن کریم اور جناب نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی نہیں بلکہ اصولی طور پر بائبل اور بنی اسرائیل یعنی یہود ونصاریٰ کی پوری تاریخ اس کی زد میں ہے‘ صرف اتنے فرق کے ساتھ کہ بائبل کے ماننے والوں نے بائبل پر ایمان کے دعوے کے باوجود اس کے عملی احکام اور ماضی سے دست برداری کا اعلان کر دیا ہے جبکہ قرآن کریم پر ایمان رکھنے والے تمام تر عملی کم زوریوں کے باوجود اپنے ماضی اور قرآنی احکام وتعلیمات سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اس وضاحت کے بعد جہاد کی مقصدیت کے حوالے سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جہاد کا مقصد جناب نبی اکرم ﷺ نے ’’اعلاء کلمۃ اللہ‘‘ قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو جس کا مطلب عملی طو رپر یہ ہے کہ انسانی سوسائٹی میں حکم اور قانون کا درجہ انسانی خواہشات اور ظن وگمان کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور آسمانی تعلیمات کو حاصل ہونا چاہیے اور کلمۃ اللہ کی اسی سربلندی کے لیے قرآن کریم اور جناب نبی اکرم ﷺ نے آسمانی مذاہب کی ان دینی معرکہ آرائیوں کے تسلسل کو باقی رکھا ہے تاکہ کسی دور میں بھی انسانی خواہشات اور عقل وگمان کو وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات پر غلبہ حاصل نہ ہونے پائے اور انسانی سوسائٹی پر اللہ تعالیٰ کے احکام کی عمل داری کے جس مشن کے لیے حضرت انبیاء کرام مبعوث ہوتے رہے ہیں‘ اس میں تعطل واقع نہ ہو چنانچہ جناب نبی اکرم ﷺ نے ایک ارشاد مبارک میں یہ کہہ کر اس جدوجہد کے قیامت تک جاری رہنے کا اعلان فرما دیا ہے کہ: الجہاد ماض الی یوم القیامۃ۔ 
یہ فکر وفلسفہ کی جنگ ہے‘ اسلوب زندگی کی معرکہ آرائی ہے اور تہذیب وثقافت کا محاذ ہے جس میں شروع سے آسمانی مذاہب کا یہ موقف رہا ہے اور اب آسمانی مذاہب وادیان کے حقیقی وارث کی حیثیت سے اسلام کا موقف بھی یہی ہے کہ انسانی سوسائٹی کی راہ نمائی اور اس کے مسائل کے حل کے لیے انسانی خواہشات اور عقل ودانش تنہا کفایت نہیں کرتیں بلکہ ان پر آسمانی تعلیمات کی نگرانی ضروری ہے کیونکہ اس ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ (Check & Balance)کے بغیر انسانی خواہشات اور انسانی عقل کے لیے پوری نسل انسانی کی ضروریات ومفادات میں توازن قائم رکھنا ممکن نہیں ہے لیکن آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ تہذیب جدید نے آسمانی تعلیمات سے دست برداری کا اعلان کر کے خواہشات اور عقل ہی کو تمام امور کی فائنل اتھارٹی قرار دے رکھا ہے جس سے توازن بگڑ گیا ہے‘ اجتماعی اخلاقیات دم توڑ گئی ہیں‘ طاقت کا بے لگام گھوڑا وحی الٰہی کی لگام سے آزاد ہو گیا ہے اور پوری دنیا میں ہر طرف ’’جنگل کے قانون‘‘ (Might is Right)کا دور دورہ ہے۔
آج کی جدید دانش نے چونکہ مذاہب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کر کے شخصی زندگی کے دائروں میں محدود کر دیا ہے اس لیے عقل جدید کے نزدیک مذہب کو وہ مقام حاصل نہیں رہا کہ اس کے لیے ہتھیار اٹھائے جائیں اور اس کے فروغ وتنفیذ کے لیے عسکری قوت کو استعمال میں لایا جائے ورنہ ہتھیار تو آج بھی موجود ہیں اور جتنے ہتھیار آج پائے جاتے ہیں اور تیار ہو رہے ہیں‘ انسانی تاریخ میں ا سے قبل کبھی نہیں دیکھے گئے۔ یہ ہتھیار استعمال بھی ہوتے ہیں اور وہ تباہی لاتے ہیں کہ اس سے قبل کی انسانی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے مگر ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے والوں کے مقاصد اور عنوانات مختلف ہیں:
سوال یہ ہے کہ اگر نسلی برتری‘ طبقاتی بالادستی اور تہذیب وثقافت کے تحفظ کے لیے ہتھیار اٹھانا اور صرف اٹھانا نہیں بلکہ اسے وحشیانہ انداز میں اندھا دھند استعمال کر کے لاکھوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا دہشت گردی نہیں ہے تو آسمانی تعلیمات کے فروغ اور وحی الٰہی کی بالادستی کے لیے ہتھیار اٹھانے کو کون سے قانون اور اخلاقیات کے تحت دہشت گردی قرار دیا جا رہا ہے؟
باقی تمام پہلوؤں سے صرف نظر کرتے ہوئے آج کی معروضی صورت حال (Scenario) میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے طرز عمل کا جائزہ لے لیں کہ افغانستان اور دنیا بھر کے مختلف علاقوں میں اسلام کے اجتماعی نظام کے نفاذ کا نام لینے والوں کے خلاف ’’عالمی اتحاد‘‘ کے پرچم تلے جو وحشیانہ فوج کشی جاری ہے‘ اس کے جواز میں اس کے علاوہ اب تک کوئی دلیل پیش نہیں کی جا سکی کہ اسلام کا نام لینے والے ان مبینہ انتہاپسندوں سے آج کی عالمی تہذیب کو خطرہ ہے‘ بالادست (Dominant) ثقافت کو خطرہ ہے اور بین الاقوامی نظام کو خطرہ ہے‘ اس لیے ان انتہا پسندوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ عقیدہ ومذہب کے لیے ہتھیار اٹھانے کو دہشت گردی کہنے والے خود ایک مذہب اور عقیدہ کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے میدان جنگ میں مسلسل صف آرا ہیں۔
میری اس گزارش کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایک عقیدہ‘ فلسفہ اور تہذیب کے تحفظ کے لیے ہتھیا ر اٹھانے اور اسے بے دریغ استعمال کرنے کا ایک فریق کو حق حاصل ہے تو اس کے خلاف دوسرے عقیدہ‘ فلسفہ اور تہذیب کے علم برداروں کو ہتھیار اٹھانے کے حق سے کسی طرح محروم نہیں کیا جا سکتا اور ہتھیار بنانے اور استعمال کرنے کے لیے یہ کوئی وجہ جواز (Excuse)نہیں ہے کہ چونکہ ایک فریق کے پاس ہتھیار بنانے کی صلاحیت زیادہ ہے اور اسے ان ہتھیاروں کے استعمال کے مواقع زیادہ میسر ہیں‘ اس لیے اسے تو ہتھیار بنانے اور چلانے کا حق حاصل ہے اور دوسرا فریق اس صلاحیت میں کمزور اور ان مواقع کی فراوانی سے محروم ہے اس لیے اسے اس کا سرے سے کوئی حق نہیں ہے۔
آج امریکہ اور اس کے اتحادی اس بات پر مطمئن ہیں کہ جو جنگ وہ لڑ رہے ہیں‘ وہ اعلیٰ مقاصد کی خاطر لڑی جا رہی ہے‘ انسانیت کی بھلائی کی جنگ ہے اور ان کے بقول اعلیٰ ترین تہذیبی اقدار کے تحفظ کی جنگ ہے۔ جنگ کی اسی مقصدیت کی وجہ سے انہیں اس عظیم جانی ومالی نقصان کی کوئی پروا نہیں ہے جو دنیا بھر میں ان کے ہاتھوں مسلسل جاری ہے۔ انسان مر رہے ہیں‘ عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں‘ بچے یتیم ہو رہے ہیں‘ عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہو رہی ہیں‘ ملکوں اور قوموں کی معیشتیں تباہ ہو رہی ہیں اور امن وامان کا توازن مسلسل بگڑتا چلا جا رہا ہے لیکن ایسا کرنے والے چو نکہ اپنے زعم کے مطابق یہ سب کچھ اعلیٰ مقاصد کے لیے کر رہے ہیں اور ان اقدامات کے ذریعے سے اعلیٰ تہذیب وثقافت کا تحفظ کر رہے ہیں‘ اس لیے ان کے خیال میں یہ سب کچھ جائز ہے اور جنگ کا حصہ ہے جسے کسی چون وچرا کے بغیر پوری نسل انسانی کو برداشت کرنا چاہیے۔ یہی بات اسلام کہتا ہے اور جناب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ نسل انسانی کے لیے نجات کا راستہ انسانی خواہشات اور صرف انسانی عقل نہیں ہے بلکہ وحی الٰہی کی نگرانی اور آسمانی تعلیمات کی برتری انسانی سوسائٹی کے لیے ضروری ہے اور اسلام کے نزدیک انسانیت کی اعلیٰ اقدار اور تہذیبی روایات کا سرچشمہ انسانی خواہشات اور عقل محض نہیں بلکہ وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات ہیں اس لیے ایک مسلمان اگر ان مقاصد کے لیے ہتھیار اٹھاتا ہے تو دنیا کی مسلمہ روایات اور تاریخی عمل کی روشنی میں اسے یہ کہہ کر اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا کہ مخالف فریق کے نزدیک اس کا یہ عمل دہشت گردی قرار پا گیا ہے۔
اس اصولی وضاحت کے بعد قرآن وسنت کی رو سے جہاد کی چند عملی صورتوں کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
قرآن کریم نے بنی اسرائیل کے حوالے سے جہاد کے ایک حکم کا تذکرہ سورۃ المائدہ میں کیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے چنگل سے بنی اسرائیل کو نکال کر صحرائے سینا میں خیمہ زن ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کو حکم ملا کہ وہ ’’بیت المقدس‘‘ کو عمالقہ سے آزاد کرنے کے لیے جہاد کریں اور آگے بڑھ کر حملہ آور ہوں مگر غلامی کے دائرے سے تازہ تازہ نکلنے والی مرعوب قوم کو اس کا حوصلہ نہ ہوا اور پھر اس کے چالیس سال بعد بنی اسرائیل کی نئی نسل نے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی قیادت میں جنگ لڑ کر بیت المقدس کو آزاد کرایا۔
قرآن کریم نے بنی اسرائیل ہی کے حوالے سے ایک اور جہاد کا تذکرہ کیا ہے جس کا حوالہ ہم پہلے بھی دے چکے ہیں کہ جالوت نامی ظالم بادشاہ نے فلسطین کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر کے بنی اسرائیل کو مظالم کا شکار بنانا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ کے پیغمبر حضرت سموئیل علیہ السلام کے حکم پر طالوت بادشاہ کی قیادت میں بنی اسرائیل کی مٹھی بھر (Handful) جماعت نے جالوت کا مقابلہ کیا اور اسے میدان جنگ میں شکست دے کر فلسطین کے علاقے آزاد کرائے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں کفار مکہ کے خلاف پہلے بڑے معرکے کی قیادت بدر کے میدان میں کی اور قریش کو شکست دے کر شاندار کام یابی حاصل کی۔ یہ جنگ قریش مکہ کے ان عزائم پر ضرب لگانے کے لیے بپا ہوئی تھی جو وہ اسلام کو ختم کرنے اور جناب نبی اکرم ﷺ اور ان کی جماعت کو ناکام بنانے کے لیے اختیار کیے ہوئے تھے۔ اس کے بعد ’احد‘ اور ’احزاب‘ کی جنگیں بھی اسی پس منظر میں تھیں اور اس کشمکش کا خاتمہ اس وقت ہوا جب نبی اکرم ﷺ نے ۸ھ میں خود پیش قدمی کر کے مکہ مکرمہ پر قبضہ کر لیا۔
یہود مدینہ کے ساتھ جناب نبی اکرم ﷺ نے امن وامان کے ماحول میں وقت بسر کرنے کی کوشش کی لیکن یہودیوں کی سازشوں اور عہد شکنیوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہ رہا تو جناب نبی اکرم ﷺ نے یہودیوں کے سب سے بڑے مرکز (Stronghold)خیبر پر حملہ آور ہو کر اسے فتح کر لیا اور یہود کا زور توڑ دیا۔
قیصر روم کے باج گزاروں نے مسلمانوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اور یہ خبر ملی کہ خود قیصر روم مدینہ منورہ پر حملہ کی تیاری کر رہا ہے تو جناب نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ میں اس کا انتظار کرنے کے بجائے شام کی سرحد کی طرف پیش قدمی کی اور تبوک میں ایک ماہ قیام کر کے رومی فوجوں کا انتظار کرنے کے بعد وہاں سے واپس تشریف لائے۔
یہ تو چند کھلی جنگیں ہیں جو علانیہ لڑی گئیں لیکن ان سے ہٹ کر ایسی متعدد کارروائیاں بھی سیرت النبی کے ریکارڈ میں ملتی ہیں جنہیں چھاپہ مار کارروائیوں (Ambush)سے تعبیر کیاجاتا ہے۔ 
جناب نبی اکرم ﷺ نے میدان جنگ میں دشمن کے مقابلے کے ساتھ ساتھ میڈیا کے محاذ پر بھی کفار کے خلاف صف آرائی کی چنانچہ غزوۂ احزاب کے بعد نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ کے ایک اجتماع میں باقاعدہ طور پر اس کا اعلان کیا کہ اب قریش مکہ کو مدینہ منورہ پر حملہ آور ہونے کی جرات نہیں ہوگی لیکن اب وہ زبان کی جنگ لڑیں گے اور مسلمانوں کے خلاف پورے عرب میں پراپیگنڈے اور منافرت انگیزی کا بازار گرم کریں گے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس موقع پر شعر وخطابت سے تعلق رکھنے والے صحابہ کرامؓ کو میدان میں آنے کی ترغیب دی چنانچہ حضرت حسان بن ثابتؓ‘ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور حضرت کعب بن مالکؓ نے کھلے بندوں اعلان کر کے یہ محاذ سنبھالا اور شعر وشاعری کے محاذ پر کفار کے حملوں کا پوری جرات کے ساتھ مقابلہ کیا۔
زیادہ تفصیلات کا موقع نہیں ہے لیکن ان گزارشات سے اتنی بات ضرور سامنے آ گئی ہوگی کہ نبی اکرم ﷺ نے اسلام کی سربلندی اور امت مسلمہ کے تحفظ واستحکام کے لیے موقع ومحل کی مناسبت سے جنگ کی ہرممکنہ صورت اختیار کی اور محاذ آرائی کے جس اسلوب نے بھی جناب نبی اکرم ﷺ کے سامنے اپناچیلنج رکھا‘ اسے جواب میں مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
آج کے حالات میں جہاد کے حوالے سے دو سوال عام طو رپر کیے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان مجاہدین کی چھاپہ مار کارروائیوں کی شرعی حیثیت کیا ہے اور کیاکسی علاقے میں جہاد کے لیے ایک اسلامی حکومت کا وجود اور اس کی اجازت ضروری نہیں ہے؟
اس کے جواب میں عرض کرتا ہوں کہ اس سلسلے میں حضرت ابوبصیرؓ کا کیمپ اور حضرت فیروز دیلمیؓ کی چھاپہ مار کارروائی میں ہمارے سامنے واضح مثال کے طورپر موجود ہے۔ حضرت ابوبصیرؓ نے اپنا کیمپ جناب نبی اکرم ﷺ کی اجازت سے قائم نہیں کیا تھا لیکن جب یہ کیمپ اپنے مقاصد میں کام یاب ہوا تو نبی اکرم ﷺ نے نہ صرف اس کے نتائج کو قبول کیا بلکہ قریش کی طرف سے یک طرفہ شرائط سے دست برداری کے بعد اس کیمپ کے مجاہدین کو باعزت طور پر واپس بلا لیا۔
اسی طرح یمن پر اسود عنسی کا غیر اسلامی اقتدار قائم ہونے کے بعد جناب نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ سے فوج بھیج کر لشکر کشی نہیں کی بلکہ یمن کے اندر مسلمانوں کو بغاوت کرنے کا حکم دیا اور اسی بغاوت کی عملی شکل وہ چھاپہ مار کارروائی تھی جس کے نتیجے میں اسود عنسی قتل ہوا۔
دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر جہاد شرعی فریضہ کی حیثیت رکھتا ہے تو جو مسلمان غیر مسلم اکثریت کے ملکوں میں اقلیت (Minority)کے طورپر رہتے ہیں‘ ان کی ذمہ داری کیا ہے اور کیا ان کے لیے جہاد میں شمولیت ضروری نہیں ہے؟ 
اس کے جواب میں دو واقعات کاحوالہ دینا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت حذیفہ بن یمانؓ اور ان کے والد محترم جناب نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم آپ کی خدمت میں جہاد میں شمولیت کے لیے حاضر ہو رہے تھے کہ راستے میں کفار کے ایک گروہ نے گرفتار کر لیا اور اس شرط پر انہوں نے ہمیں رہا کیا ہے کہ ہم ان کے خلاف جنگ میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر حصہ نہیں لیں گے۔ اس پر نبی اکرم ﷺ نے یہ فرما کر انہیں بدر کے معرکے میں شریک ہونے سے روک دیا کہ اگر تم نے اس بات کا وعدہ کر لیا ہے تو اس وعدہ کی پاس داری تم پر لازم ہے چنانچہ حضرت حذیفہؓ اور ان کے والد محترم موجود ہوتے ہوئے بھی بدر کے معرکے میں مسلمانوں کا ساتھ نہیں دے سکے تھے۔
اسی طرح حضرت سلمان فارسیؓ نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا جب رسول اکرم ﷺ قبا میں قیام فرما تھے اور ابھی مدینہ منورہ نہیں پہنچے تھے لیکن حضرت سلمان فارسیؓ کا ذکر نہ بدر کے مجاہدین میں ملتا ہے اور نہ وہ احد ہی میں شریک ہو سکے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس وقت آزاد نہیں تھے بلکہ ایک یہودی کے غلام تھے چنانچہ غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ان کی شمولیت جس پہلے غزوے میں ہوئی‘ وہ احزاب کا معرکہ ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ نے جہاد کے حوالے سے مسلمانوں کے معروضی حالات اور ان کی مجبوریوں کا لحاظ رکھا ہے اس لیے جو مسلمان غیرمسلم اکثریت کے ملکوں میں رہتے ہیں اور ان کے ان ریاستوں کے ساتھ وفاداری کے معاہدات موجود ہیں‘ ان کے لیے ان معاہدات کی پاس داری لازمی ہے البتہ اپنے ملکوں کے قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد‘ ہم دردی اور خیر خواہی کے لیے وہ جو کچھ بھی کر سکتے ہیں‘ وہ ان کی دینی ذمہ داری ہے اور اس میں انہیں کسی درجے میں بھی کوتاہی روا نہیں رکھنی چاہیے۔
گزشتہ سال افغانستان پر امریکی حملے کے موقع پر میں برطانیہ میں تھا۔ مجھ سے وہاں کے بہت سے مسلمانوں نے دریافت کیا کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ میں نے عرض کیا کہ آپ کو یہودیوں کی پیروی کرنا چاہیے اور ان سے کام کا طریقہ سیکھنا چاہیے کیونکہ یہودی ان ممالک میں رہتے ہوئے جو کچھ یہودیت کے عالمی غلبہ اور اسرائیل کے تحفظ ودفاع کے لیے کر رہے ہیں‘ اسلام کے غلبہ اور مظلوم مسلمانوں کے دفاع کے لیے وہ سب کچھ کرنا مسلمانوں کا بھی حق ہے مگر یہ کام طریقہ اور ترتیب کے ساتھ ہونا چاہیے اور جن ملکوں میں مسلمان رہ رہے ہیں‘ ان کے ساتھ اپنے معاہدات اور کمٹ منٹ کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنا چاہیے۔
آج دنیا کی عمومی صورت حال پھر اس سطح پر آ گئی ہے کہ خواہشات اور محدود عقل پرستی نے ہر طرف ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور آسمانی تعلیمات کا نام لینے کو جرم قرار دیا جا رہا ہے۔ آج کی اجتماعی عقل نے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت سے انکار کر کے حاکمیت مطلقہ کا منصب خود سنبھال لیا ہے اور وحی الٰہی سے راہ نمائی حاصل کرنے کے بجائے اس کے نشانات واثرات کو ختم کرنے کی ہر سطح پر کوشش ہو رہی ہے۔ اس فضا میں ’’اعلاء کلمۃ اللہ‘‘ کا پرچم پھر سے بلند کرنا اگرچہ مشکل بلکہ مشکل تر دکھائی دیتا ہے لیکن جناب نبی اکرم ﷺ کی سنت وسیرت کا تقاضا یہی ہے کہ نسل انسانی کو خواہشات کی غلامی اور عقل محض کی پیروی کے فریب سے نکالا جائے اور اسے آسمانی تعلیمات کی ضرورت واہمیت کا احساس دلاتے ہوئے وحی الٰہی کے ہدایات کے دائرے میں لانے کی کوشش کی جائے۔
اس کے ساتھ ہی دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمان جس مظلومیت اور کس مپرسی کے عالم میں ظالم اور متسلط قوتوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں اور انہیں جس بے رحمی اور سنگ دلی کے ساتھ ان کے مذہبی تشخص کے ساتھ ساتھ قومی آزادی اور علاقائی خود مختاری (Territorial Independence)سے محروم کیا جا رہا ہے‘ اس کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا اور ان مظلوم مسلمانوں کو ظلم وجبر کے ماحول سے نجات دلانے کے لیے جو کچھ ممکن ہو‘ کر گزرنا یہ بھی جناب نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات وارشادات کا ایک اہم حصہ ہے جس سے صرف نظر کر کے ہم نبی اکرم ﷺ کی اتباع اور پیروی کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔
ان دو عظیم تر ملی مقاصد کے لیے جدوجہد کے مختلف شعبے ہیں۔ فکر وفلسفہ کا میدان ہے‘ میڈیا اور انفرمیشن ٹیکنالوجی کی جولان گاہ ہے‘ تہذیب وثقافت کا محاذ ہے‘ تعلیم وتربیت کا دائرہ ہے‘ لابنگ اور سفارت کاری کا شعبہ ہے اور عسکری صلاحیت کے ساتھ ہتھیاروں کی معرکہ آرائی ہے۔ یہ سب جہاد فی سبیل اللہ کے شعبے اور اعلاء کلمۃ اللہ کے ناگزیر تقاضے ہیں۔
اس لیے آج کے دور میں ’سنت نبوی کی روشنی میں جہاد کا مفہوم‘ یہ ہے کہ:
یہ کام دراصل مسلم حکومتوں کے کرنے کے ہیں اور انہیں او آئی سی کے عملی ایجنڈے کا حصہ ہونا چاہیے لیکن اگر دینی مراکز اور اسلامی تحریکات بھی باہمی ربط ومشاورت کے ساتھ ان مقاصد کے لیے مشترکہ پیش رفت کا اہتمام کر سکیں تو حالات کو خاصا بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

انصاف یا جنگل کا قانون؟

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

شیخ زید اسلامک سنٹر پنجاب یونیورسٹی لاہور کی سالانہ سیرت کانفرنس میں ’’سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم‘‘ کے عنوان سے راقم الحروف کی گزارشات قارئین کی نظر سے گزر چکی ہیں۔ اس کانفرنس سے مولانا حافظ صلاح الدین یوسف‘ ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی اور دیگر علماء کرام نے بھی خطاب کیا جبکہ مہمان خصوصی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر ایس ایم زمان تھے جنہوں نے اپنے اختتامی خطاب میں راقم الحروف کی معروضات کو سیرت النبی ﷺ کے صحیح رخ پر مطالعہ کی کوشش قرار دیا اور کہا کہ آج کے عالمی حالات اور مشکلات ومسائل کو سامنے رکھتے ہوئے سیرت نبوی ﷺ کے اسی طرز کے مطالعہ کی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے میری گزارشات کے حوالے سے دو پہلوؤں پر اپنے تحفظات کا بھی اظہار فرمایا جن کے بارے میں خود میرا بھی خیال ہے کہ ان کی وضاحت ضروری تھی اور یہ وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کے خطاب کے بعد اس سیرت کانفرنس میں مزید کچھ گزارش کرنے کی گنجائش نہیں تھی اس لیے ان امور کی طرف توجہ دلانے پر ڈاکٹر ایس ایم زمان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ’’نوائے قلم‘‘ کے ذریعے سے ان کے بارے میں ضروری معروضات پیش کر رہا ہوں۔
ایک بات تو یہ ہے کہ مذہب کے لیے ہتھیار اٹھانے سے کیا مراد ہے؟ ڈاکٹر صاحب کا ارشاد ہے کہ اگر تو اس سے مراد مذہب کے دفاع کے لیے ہتھیار اٹھانا ہے تو اس سے کسی کو اختلاف نہیں ہے اور اگر اس کا مطلب مذہب کی تبلیغ کے لیے ہتھیار اٹھانا ہے تو یہ بات محل نظر ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے کسی کافر کو زبردستی مسلمان بنانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور قرآن کریم نے سورہ بقرہ کی آیت ۲۵۵ میں صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ ’’دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔‘‘
مجھے ڈاکٹر صاحب موصوف کی دونوں باتوں سے اتفاق ہے لیکن یہ معاملہ ان دو صورتوں میں منحصر نہیں ہے بلکہ ایک اور صورت بھی درمیان میں ہے جس کو سامنے نہ رکھنے کی وجہ سے عام طور پر یہ الجھن پیش آجایا کرتی ہے۔ وہ ہے اسلام کی دعوت وتبلیغ اور نسل انسانی تک اسلام کا پیغام پہنچانے میں رکاوٹ بننا ۔اور اسلام نے کافر قوتوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا حکم اسی صورت میں دیا ہے جبکہ وہ لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچنے میں رکاوٹ بن جائیں کیونکہ اسلام یہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس جو پیغام ہے‘ صرف وہی نسل انسانی کی نجات کا ضامن ہے اور انسانی معاشرہ اس کے بغیر نجات وفلاح اور امن وخوش حالی کی منزل سے ہم کنار نہیں ہو سکتا اس لیے جو لوگ شخصی اور مقامی دائروں میں اسلام قبول نہیں کرتے لیکن اسلام کی دعوت میں بھی رکاوٹ نہیں بنتے‘ اسلام ان سے کوئی تعرض نہیں کرتا اور انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا لیکن جو کافر اسلام قبول نہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف اس قدر معاندانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں کہ اس کی دعوت میں رکاوٹ بن جائیں تو اسلام ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی بات کرتا ہے۔ یہ ہتھیار اٹھانا کسی کو قبول اسلام پر مجبور کرنے کے لیے نہیں بلکہ اسلام کی دعوت میں رکاوٹ بننے سے روکنے کے لیے ہے چنانچہ جناب نبی کریم ﷺ نے جہاد کے حوالے سے اپنے کمانڈروں کو یہی ہدایات دی ہیں کہ سب سے پہلے اسلام کی دعوت پیش کرو۔ اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو بات ہی ختم ہو جاتی ہے اور کوئی تنازع باقی نہیں رہتا لیکن اگر وہ اسلام قبول نہیں کرتے تو دوسرے نمبر پر کافروں کے سامنے یہ پیش کش رکھنے کی ہدایت جناب نبی اکرم ﷺ کی طرف سے دی گئی ہے کہ اپنے کفر پر قائم رہتے ہوئے اسلام کی بالادستی (عالمی کردار) کو قبول کر لو۔ اگر وہ یہ درجہ قبول کر لیں تو بھی ان کی جان ومال سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا بلکہ اسلامی ریاست ان کے جان ومال کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کرتی ہے اور اسے نبھاتی ہے۔ اس کے بعد تیسرے درجے میں یہ بات ہے کہ اگر وہ اسلام قبول نہ کریں اور اسلام کی بالادستی (عالمی کردار) کو قبول نہ کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام کی دعوت وتبلیغ کی راہ میں مزاحم ہیں اور رکاوٹ بن رہے ہیں چنانچہ اس صورت میں جناب نبی اکرم ﷺ نے ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا حکم دیا ہے اور اسے جہاد فی سبیل اللہ قرار دیتے ہوئے اس کا مقصد اعلاء کلمۃ اللہ بتایا ہے۔
یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے امریکہ اور اس کے اتحادی یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت جو عالمی نظام اور بین الاقوامی سسٹم موجود ہے اور جس تہذیب وثقافت نے اس وقت پوری دنیا کو گھیرے میں لے رکھا ہے‘ وہی نظام اور وہی ثقافت نسل انسانی کے لیے سب سے بہتر ہے اور اس سے بہتر کسی سسٹم اور تہذیب کا کوئی امکان نہیں ہے اس لیے دنیا کا جو ملک اور قوم ان کے نزدیک اس نظام وثقافت کے عالمی کردار کے لیے خطرہ قرار پاتا ہے‘ وہ اس کے خلاف چڑھ دوڑتے ہیں‘ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں اور پھر ہزاروں انسانوں کی ہلاکتوں کے باوجود بڑے فخرکے ساتھ اس اطمینان کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم نے عالمی تہذیب کو بچا لیا ہے اور ورلڈ سسٹم کو درپیش خطرات کو ختم کر دیا ہے۔
میں اس مرحلے میں اپنے اس موقف کا پھر اعادہ کرنا چاہوں گا کہ اگر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایک تہذیب اور سسٹم کو نسل انسانی کے لیے سب سے بہتر سمجھتے ہوئے اس کے عالمی غلبہ کے تحفظ کے لیے ہتھیار اٹھائیں تو وہ کسی دوسری تہذیب اور نظام کے علم برداروں کو اس حق سے محروم نہیں کر سکتے کہ وہ اگر اپنے نظام وتہذیب کو نسل انسانی کے لیے دیانت داری کے ساتھ زیادہ بہتر سمجھتے ہیں تو اس کے عالمی کردار کے قیام اور تحفظ کے لیے ہتھیار اٹھائیں اور اگر وہ (امریکی) اپنے لیے یہ حق محفوظ رکھتے ہوئے دوسرے ہر فریق کو اس حق سے محروم کر دینا چاہتے ہیں تو اس کا نام انصاف نہیں بلکہ یہ جنگل کا قانون اور طاقت کی حکمرانی ہے جو طاقت اور اسلحہ کے زور پر قائم تو کی جا سکتی ہے لیکن اخلاقی جواز اور انصاف کی بنیاد سے محروم ہونے کی وجہ سے اسے قائم رکھنا بھی ممکن نہیں رہا اور نہ آئندہ ہی ایسا کوئی امکان ہے۔
ڈاکٹر ایس ایم زمان نے دوسرا سوال یہ اٹھایا کہ میں نے جن چھاپہ مار کارروائیوں کا حوالہ دیا ہے‘ ان کے حوالے سے دہشت گردی کی ایسی کارروائیوں کی حمایت نہیں کی جا سکتی جن میں بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں اور نہ ایسی کسی کارروائی کو ہی جائز قرار دیا جا سکتا ہے جس میں کسی بستی ‘ چوک یا ریڑھی میں بم رکھ کر بے گناہ شہریوں کے جسموں کے پرخچے اڑا دیے جاتے ہیں۔
مجھے ڈاکٹر صاحب محترم کے اس ارشاد سے بھی اتفاق ہے لیکن اس وضاحت کے ساتھ کہ ہر چھاپہ مار کارروائی دہشت گردی نہیں ہوتی اور ہمیں چھاپہ مار کارروائی اور دہشت گردی میں فرق کرتے ہوئے ان کے درمیان کوئی حد فاصل قائم کرنا ہوگی۔ جناب نبی اکرم ﷺ نے کعب بن اشرف‘ ابو رافع اور اسود عنسی کے قتل کے لیے جن کارروائیوں کا حکم دیا ‘ وہ چھاپہ مار کارروائیاں ہیں اور حضرت ابوبصیرؓ نے سمندر کے کنارے عسکری کیمپ قائم کر کے قریش مکہ کے خلاف جو کارروائیاں کیں‘ وہ بھی چھاپہ مار کارروائیاں ہیں لیکن ان میں سے کسی کو بھی دہشت گردی قرار نہیں دیاجا سکتا۔ یہ کارروائیاں متعین اہداف کے خلاف تھیں اور ان کارروائیوں کا دائرہ بھی اہداف تک محدود رہا جبکہ بدر کی جنگ سے قبل ابو سفیان کے تجارتی قافلہ کو روکنے کے لیے جناب نبی اکرم ﷺ کی تیاری اور قریش کے تجارتی راستے میں چھاپہ مار کیمپ قائم کر کے حضرت ابوبصیرؓ کا قریش کی شام کی تجارت میں رکاوٹ ڈالنا یہ دشمن کی معیشت پر ضرب لگانے کی کارروائیاں تھیں اور یہ بھی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردی نہیں ہیں۔ البتہ اس سے ہٹ کر جناب نبی اکرم ﷺ نے سول آبادی اور بے گناہ اور غیر متعلق شہریوں کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے بارے میں جناب نبی اکرم ﷺ کی واضح ہدایات موجود ہیں اور اسی وجہ سے غیر متعلقہ‘ بے گناہ اور اور نہتے شہریوں کو کسی قسم کی عسکری کارروائی کا نشانہ بنانا‘ اسی طرح کسی بس یا چوک میں بم رکھ کر یا کسی مسجد یا امام بارگاہ میں بم پھینک کر بے گناہ لوگوں کی جانوں سے کھیلنا یقیناًدہشت گردی ہے جس کی کوئی بھی ذی شعور شخص حمایت نہیں کر سکتا۔ مگر ایک سوال باقی ہے کہ کسی ضروری ہدف کو نشانہ بناتے ہوئے اگر ناگزیر درجے میں کچھ بے گناہ بھی زد میں آ رہے ہوں تو پھر کیا کیا جائے؟ تو اس کے بارے میں ابو داؤد شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم ﷺ کا واضح ارشاد موجود ہے کہ ایک غزوہ میں جناب نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا گیا کہ دشمن کی قوت توڑنے کے لیے فلاں جگہ شب خون مارنا ضروری ہو گیا ہے مگر وہاں کچھ غیر متعلقہ لوگ بھی موجود ہیں جو حملہ کی صورت میں زد میں آ سکتے ہیں تو نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’وہ بھی انہی میں سے ہیں‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگی ضروریات کے لیے اگر کہیں کارروائی ناگزیر ہو جائے اور اس کارروائی کی زد میں غیر متعلقہ لوگ آ رہے ہوں تو مجبوری کے درجے میں اسے گوارا کیا جا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے امریکی اتحاد نے اہداف کو نشانہ بناتے ہوئے ہزاروں بے گناہ افغانیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے اور اس کا جواز صرف یہی پیش کیا جاتا ہے کہ جنگی کارروائی کے لیے ایسا ناگزیر تھا اور اس سے کوئی مفر نہیں تھا ۔
امید ہے کہ ڈاکٹر ایس ایم زمان کے اٹھائے ہوئے دو سوالوں کی مناسب وضاحت قارئین کے سامنے آ گئی ہوگی۔ ا س سلسلے میں اگر مزید کوئی بات وضاحت طلب ہو تو اس کے لیے بھی حاضر ہوں۔ ان شاء اللہ۔
(بشکریہ روزنامہ اوصاف اسلام آباد)

سیرت النبی ﷺ کے خلاقی پہلو اور فکر اقبالؒ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

غلطیاں بانجھ نہیں ہوتیں‘ یہ بچے دیتی ہیں۔ اگر ہم مسلم تاریخ اور مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی کا مطالعہ اس تناظر میں کریں تو نہ صرف اس فقرے کی صداقت کو تسلیم کر لیں گے بلکہ معروضی انداز سے تجزیہ کرتے ہوئے بنیادی غلطی تک پہنچنے کے قابل بھی ہو سکیں گے۔ جو بنیادی غلطی ہم سے سرزد ہوئی‘ جس نے ہمیں راہ حق سے بھٹکا دیا اور بوجوہ قدروں کے بگاڑ کا سبب بنتے ہوئے دین کی حقیقی صورت ہماری نظروں سے اوجھل کر دی‘ وہ ’’عمل‘‘ سے فرار ہے:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
پہلے سے طے شدہ اور خود ساختہ موقف کو اپنانے کے بجائے اگر کوئی سلیم الفطرت شخص دین اسلام کا مطالعہ کرے تو اس پر نہایت سہولت سے واضح ہو جائے گا کہ دین اسلام کا مخاطب انسان ہے اور اس کا غالب رجحان نظری کے بجائے عملی ہے۔ اس طرح پورے دین کی تصویر ’’عملی انسان‘‘ کے الفاظ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ دین اسلام کا امتیازی وصف یہ ہے کہ ’’عملی انسان‘‘ کا تصور بھی محض نظری طور پر پیش نہیں کیا گیا بلکہ اس کی نظری تصویر کے متوازی ایک عملی شخصیت بطور ’’نمونہ کامل‘‘ موجود ہے۔ یہ نمونہ کامل وقت کے دھارے میں گم نہیں ہوا بلکہ دین اسلام کے ’’عملی انسان‘‘ کے اظہار اور تسلسل کے لیے نظری پہلو کا حصہ بن چکا ہے۔ بقول اقبال:
وہی قرآں‘ وہی فرقاں‘ وہی یاسیں‘ وہی طٰہٰ
رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی مبارک زندگی قرآن مجسم تھی۔ آپ کے اقوال واعمال حق وباطل کے درمیان فرقان تھے۔ چونکہ قرآن مجید کی روش اختیاری ہے اور رسول پاک ﷺ کی حیات مبارکہ مجسم قرآن ہے‘ لہذا نبی کی زندگی لازماً عملی اور اختباری روش کی حامل ہوگی۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ اپنی کتاب ’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ کے پہلے خطبے میں رقم طراز ہیں:
’’صحیح بخاری اور دوسری کتب حدیث میں حضور کے اس مشاہدے کی پوری تفصیل درج ہے جس کا تعلق ابن صیاد ایسے وارفتہ نفس یہودی نوجوان سے تھا اور جس کی وجدانی کیفیتوں نے حضور رسالت مآب ﷺ کی توجہ اپنی طرف منعطف کر لی تھی۔ حضور نے اس کی آزمائش کی‘ طرح طرح کے سوالات پوچھے اور مختلف حالتوں میں اس کا معائنہ کیا۔ ایک مرتبہ آپ ایک درخت کے پیچھے کھڑے ہو گئے تاکہ وہ الفاظ سن سکیں جو ابن صیاد آپ ہی آپ بڑبڑا رہا تھا لیکن اس کی ماں نے اسے حضور کی موجودگی سے متنبہ کر دیا جس پر اس کی وہ حالت کافور ہو گئی اور حضور نے فرمایا کہ اگر اس کی ماں اسے متنبہ نہ کر دیتی تو ساری حقیقت کھل جاتی۔‘‘
ڈاکٹر اقبال سلسلہ گفتگو کو بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’بہرحال یہ ابن خلدون تھا جس نے عالم اسلام میں سب سے پہلے یہ سمجھا کہ حضور کے اس طرز عمل کے معنی فی الحقیقت کیا ہیں اور پھر اس کی قدروقیمت کا اندازہ کرتے ہوئے بڑی حد تک وہ مفروضہ قائم کر لیا جس کو آج کل نفوس تحت الشعور سے منسوب کیا جاتا ہے۔‘‘
ابن خلدون کی اس توصیف سے پہلے اقبال لکھتے ہیں کہ:
’’بایں ہمہ اصحاب رسول ﷺ جو اس واقعہ پر‘ جسے گویا تاریخ اسلام میں نفسیاتی تحقیقات کا پہلا واقعہ تصور کرنا چاہیے‘ موجود تھے، علی ٰ ہذا حضرات محدثین بھی‘ جنہوں نے آگے چل کر یہ ساری روایت باحتیاط نقل کی‘ حضور ﷺ کے اس طرز عمل کی صحیح اہمیت سمجھنے سے قاصر رہے اور اس کی تشریح اپنے معصومانہ انداز میں کی۔‘‘
ڈاکٹر اقبال نے محدثین کے طرز عمل کی بابت یہاں بہت محتاط الفاظ (’’معصومانہ انداز‘‘) استعمال کیے ہیں لیکن ضرب کلیم میں کہتے ہیں:
حلقہ شوق میں وہ جرات اندیشہ کہاں
آہ محکومی وتقلید وزوال تحقیق
علماء کرام اور حضرات محدثین کا طرز عمل اس امر کا غماز ہے کہ انہوں نے اپنے مخصوص ذہنی سانچے سے باہر نکل کر ماحول اور حالات پر واقعیت پسندانہ نظر نہیں دوڑائی۔ اس کے برعکس رسالت مآب ﷺ کی حیات مبارکہ میں ماحول اور حالات کو بھانپ لینے کی قوت اور واقعیت پسندی بدرجہ اتم موجود ہے۔ دعوت اسلام کا آغاز‘ کوہ صفا کا واقعہ‘ ہجرت مدینہ‘ میثاق مدینہ‘ صلح حدیبیہ‘ غزوات میں ٹھوس حکمت عملی‘ فتح مکہ پر مخصوص طرز عمل‘ بین الاقوامی سفارت کاری وغیرہ اس سلسلے میں چند مثالیں ہیں۔ جیسا کہ ذکر ہوا‘ رسول اکرم ﷺ کی زندگی مجسم قرآن تھی لہذا یہ واقعیت پسندی قرآنی آئیڈیلز کی متشکل صورت تھی۔
پاکستان میں سیرت النبی ﷺ پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ بازار میں بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ وزارت مذہبی امور ہر سال سیرت کانفرنس کا انعقاد کرتی ہے لیکن افسوس کامقام ہے کہ مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو رہے۔ معاشرے کی صورت پذیری قرآنی آئیڈیلز اور نبی ﷺ کی سنت کے مطابق نہیں ہو رہی۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ بنیادی وجہ وہی ہے: بے عملی۔ چونکہ ہمارا عمومی رویہ بے عملی کا بن چکا ہے‘ اس لیے نظری مباحث‘ مثلاً کانفرنسوں میں تقاریر‘ مقالے‘ کتابیں وغیرہ‘ مخصوص‘ متعین اور لگی بندھی نوعیت کی چیزیں ہیں۔ سیرت کانفرنس کے مقالہ جات کے عنوانات دیکھیے۔ اگر اتفاق سے عنوانات میں کہیں واقعیت پسندی نظر آئے گی تو مواد‘ اسلوب اور صاحب مقالہ کی اپروچ عنوان کا ستیاناس کر دے گی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگر قومی سطح کی کانفرنسوں کے مقالہ جات کا جب یہ معیار ہے تو صورت حال کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ دین سے رغبت رکھنے والے طبقے کی اکثریت اس مخصوص بے عملی کے سبب سے گرفتار خرافات ہے۔ بقول اقبال ایک باعمل مرد حر‘ جو واقعیت پسندی سے محترز نہیں ہوتا‘ وقت کی لگام ہاتھ میں لے لیتا ہے:
آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور
محکوم کا اندیشہ گرفتار خرافات
لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنے باعمل مرد حر موجود ہیں؟ کیونکہ ایسے افراد کی کاوشوں سے ہی ’’حقیقت‘‘ منور ہو کر سب کو اپنی طرف کھینچے گی۔ نبی ﷺ کو حقیقت کی کتنی جستجو رہتی تھی‘ یہ ان دعائیہ کلمات سے واضح ہے جو اکثر وبیشتر آپ کی زبان پر جاری ہوتے تھے: اے اللہ‘ مجھ کو اشیا کی اصل حقیقت سے آگاہ فرما۔‘‘ ڈاکٹر اقبال کی رائے میں اشیا کی اصل حقیقت تک رسائی‘ قرآن مجید کی رو سے‘ انسان کی اختباری روش میں پنہاں ہے۔ اقبال کے مطابق قرآن مجید نے انسان کے ایسے طرز عمل کو اس کی روحانی زندگی کا ایک ناگزیر مرحلہ ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ تعلیمات قرآن کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نے حقیقت کے اس پہلو کو جس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے‘ بے حد اہمیت دی۔ ڈاکٹر اقبال رقم طراز ہیں کہ:
’’یہ فطرت ہی کے پیہم انقلابات ہیں جن کے پیش نظر ہم مجبور ہو جاتے ہیں کہ اپنے آپ کو نئے نئے سانچوں میں ڈھال دیں۔ پھر جوں جوں ہم اپنی ذہنی کاوشوں سے علائق فطرت پر غلبہ حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں‘ ہماری زندگی میں وسعت اور تنوع پیدا ہوتا اور ہماری بصیرت تیز تر ہو جاتی ہے۔ یونہی ہم اس قابل ہو جاتے ہیں کہ محسوسات ومدرکات کے زیادہ نازک پہلو اپنی گرفت میں لے آئیں اور یونہی اشیا کے مرور زمانی پر غور وفکر کرتے کرتے ہم اپنے اندر یہ استعداد پیدا کر لیتے ہیں کہ لازمانی کا تعقل کر سکیں۔‘‘
قارئین کرام! اس اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں وسعت اور تنوع پیدا نہیں ہونے دیا۔ بوجوہ ہماری بصیرت کہنگی کا طواف کر رہی ہے۔ قرآن مجید کی اختباری روش اور سیرت النبی ﷺ کے خلاقی پہلو سے محترز ہونے کے باعث ہم فطری انقلابات کا سامنا کرنے سے گھبرا رہے ہیں۔ اسی گھبراہٹ سے وہ بے عملی پھوٹ رہی ہے جس کا اوپر کی سطروں میں ذکر ہوا حالانکہ انسان تو انسان بنتا ہی باعمل اور تخلیق کار ہونے سے ہے۔ اقبالؒ وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جب انسان کے گرد وپیش کی قوتیں اسے اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں تو وہ ان کے جیسی چاہے شکل دے سکتا اور جس طرف چاہے موڑ سکتا ہے لیکن اگر اس کا راستہ روک لیں تو اسے یہ قدرت حاصل ہے کہ اپنے اعماق وجود میں اس سے بھی ایک وسیع تر عالم تیار کر لے جہاں اس کو لا انتہا مسرت اور فیضان خاطر کے نئے نئے سرچشمے مل جاتے ہیں۔ اس کی زندگی میں آلام ہی آلام ہیں اور اس کا وجود برگ گل سے بھی نازک۔ بایں ہمہ حقیقت کی کوئی شکل ایسی طاقت ور‘ ایسی ولولہ خیز اور حسین وجمیل نہیں جیسی روح انسانی۔ لہذا باعتبار اپنی کنہ کے‘ جیسا کہ قرآن پاک کا ارشاد ہے‘ انسان ایک تخلیقی فعالیت ہے‘ ایک صعودی روح جو اپنے عروج وارتقا میں ایک مرتبہ وجود سے دوسرے میں قدم رکھتا ہے ...... انسان ہی کے حصے میں یہ سعادت آئی ہے کہ اس عالم کی گہری سے گہری آرزوؤں میں شریک ہو جو اس کے گرد وپیش میں موجود ہے اورعلیٰ ہذا اپنی کائنات کی تقدیر خود متشکل کرے‘ کبھی اس کی قوتوں سے توافق پیدا کرتے ہوئے اور کبھی پوری طاقت سے کام لیتے ہوئے اسے اپنی غرض وغایت کے مطابق ڈھال کر۔‘‘
اس پیرا گراف کا آخری فقرہ توجہ طلب ہے۔ اقبال لکھتے ہیں کہ:
’’اس لحظہ بلحظہ پیش رس اور تغیر زا عمل میں خدا بھی اس کا ساتھ دیتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ پہل انسان کی طرف سے ہو۔‘‘
قارئین کرام! تسخیر فطرت‘ واقعیت پسندی اور تخلیقی اپج کے اعتبار سے ہماری عصری تاریخ سے مترشح ہوتا ہے کہ ہم یہ شرط پوری کرنے پر تیار نہیں۔ حکومتی بے حسی پر بات کرنے کا فائدہ ہی نہیں کہ حکومتوں کے اپنے ایجنڈے ہوتے ہیں۔ ملال کی بات تو یہ ہے کہ دینی مدارس جمود کی انتہاؤں کو چھو چکے ہیں۔ عالمی سطح پر مسلمانوں کا جو حشر ہو رہا ہے اور پاکستان میں خود ان مدارس کی جو درگت بنتی نظر آرہی ہے‘ ا س سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان مدارس کے کرتا دھرتا لوگ ’’تخلیقی فعالیت‘‘ کے منصب پر، غالباً، کبھی فائز نہیں ہو سکتے۔ اپنی طرف سے پہلے کرنے کے بجائے وہ معاملہ خدا کے سپرد کیے ہوئے ہیں‘ حالانکہ:خدائے زندہ‘ زندوں کا خدا ہے۔
قرآن مجید اور سیرت خاتم النبیین ﷺ ہماری زندگیوں میں تبھی انقلاب لا سکتے ہیں اگر ہم سب سے پہلے اپنے گرد وپیش کے حالات اور ماحول پر شعوری گرفت قائم کر لیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ عصر حاضر اور اس کے تقاضوں کو سمجھنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دین اسلام کی حقیقی روح کو بھی تحقیق وجستجو کے زور پر خرافات‘ توہمات اور وہم وگمان کے چنگل سے چھڑانا ہے:
شیر مردوں سے ہوا بیشہ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی وملا کے غلام اے ساقی
ہمیں تقلید محض کے بجائے بیشہ تحقیق سے ’’جدت کردار‘‘ بھی تراشنا ہے:
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
لفظ گری اور اصطلاحوں کی طوطا مینا میں الجھنے کے بجائے عصری تفہیم کی جیکٹ پہن کر‘ قرآن میں غوطہ زن ہو کر‘ چن چن کر ایسے قرآنی آئیڈیلز معاشرتی سطح پر لانے ہیں جو جدت کردار کی تشکیل میں رہنمائی کر سکیں:
عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں
گویا اقبال عصر حاضر کے تقاضاؤں سے پر امید ہیں کہ انہی کے بطن سے جدت کردار کی راہیں ہویدا ہوں گی لیکن ’’ابلیسی خوف‘‘ بنیادی رکاوٹ ہے لہذا دین اسلام کو معاشرتی سطح پر زندگی میں سمونے کے لیے ضروری ہے کہ:
۱۔ عصر حاضر کو سمجھا جائے اور ابلیسی خوف کو دور کیا جائے۔
۲۔ عصر حاضر کے تقاضوں اور مسائل کی بابت بھی کماحقہ آگاہی حاصل کی جائے۔
ان دو تقاضوں کو پورا کیے بغیر عصر حاضر کے چیلنج کا سامنا نہیں کیا جا سکتا:
جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر
تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریف سنگ
مثلاً ہم سب جانتے ہیں کہ آج کا دور تخصیص (Specialization) کا دور ہے۔ فرد کی زندگی کے نظری اور عملی پہلوؤں میں یک رخی اپروچ ہے۔ تخصیص کی بربریت جلد ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے چنانچہ اب مغربی ممالک میں Working Father (کمائی میں مصروف باپ) جیسے معاشرتی موضوعات پر کام ہو رہا ہے۔ زندگی کی تیز رفتاری اور تخصیص نے دو آتشی تلوار کا روپ دھار لیا ہے۔ ایک آدمی اپنی زندگی کی مختلف حیثیتوں میں توازن ملحوظ نہیں رکھ پاتا جس سے بے پناہ معاشرتی‘ نفسیاتی اور جذباتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اہل مغرب اپنے انداز سے ان مسائل کا حل ڈھونڈ رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ نبی ﷺ کی حیات طیبہ ہماری بہتر راہنمائی کر سکتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ آج کے عہد کے تناظر میں رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کریں اور یہ دکھائیں کہ آپ باپ ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرتی زندگی میں بہت فعال تھے۔ آپ نے معاشرتی فعالیت اور پدرانہ ذمہ داریوں میں بہترین توازن کا مظاہرہ کیا اور تخصیص کے بجائے شخصی جامعیت کی راہ اختیار کی۔ شخصی جامعیت کے فوائد وثمرات اور اہمیت کے ضمن میں‘ اہل مغرب کا تخصیص کی بربریت پر کیا ہوا تحقیقی کام نہایت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے:
’’...... جب ۱۸۹۰ء میں تیسری نسل نے یورپ کے عقلی افق پر خود کو نمایاں کیا تو ایسے سائنس دان سامنے آئے جن کا موازنہ تاریخ میں کسی اور سے نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ وہی شخص ہے جس کو تمام لوگوں میں سے صائب الرائے قرار دیا جاتا ہے لیکن وہ تو صرف ایک سائنس سے آشنائی رکھتا ہے بلکہ اس سائنس کے بھی کسی ایک کونے کھدرے کو جانتا ہے جس کا وہ ایک فعال تفتیش کار ہے۔ وہ تو اس کو بھی ایک خوبی قرار دیتا ہے اور اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ اس چھوٹے سے دائرۂ کار کے باہر کیا موجود ہے جس کی اس نے خاص طور پر آب یاری کی ہے اور وہ علم کے عمومی شعبوں کے تجسس کو Dilettantism قرار دیتا ہے۔‘‘
’’...... سوال یہ ہے کہ ہر آئندہ نسل کا سائنس دان جو اپنی کارکردگی کے دائرہ عمل کو سکیڑتا چلا گیا ہے‘ سائنس کے دوسرے شعبوں کے ساتھ اس کا رشتہ بھی کمزور پڑ رہا ہے کیونکہ اس کی کائنات کی یہی روابطی توجیہ ہو سکتی ہے اور شاید اسی کا نام سائنس‘ کلچر اور یورپی تہذیب ہے۔‘‘
’’اور پھر انسان خود کو ان شعبوں میں سے کسی کے اندر مقید کر لیتا ہے اور باقی سب کچھ فراموش کر دیتا ہے۔ اس طریق کار کا ٹھوس اور درست ہونا عارضی طور پر اس کے حق میں چلا جاتا ہے مگر حقیقی طور پر یہ علم کا بکھراؤ (Disarticulation) ہے۔‘‘
’’تخصیص کار عالم نہیں ہے کیونکہ وہ ہر اس شے سے لاعلم ہے جو اس کے مخصوص دائرہ کار میں نہیں آتی۔ مگر وہ لاعلم بھی نہیں کیونکہ وہ بہرحال ایک سائنس دان تو ہے اور وہ اپنے حصے کی کائنات کو تو اچھی طرح جانتا ہے۔ چنانچہ ہمیں کہنا پڑے گا کہ وہ علم رکھنے والا لا علم ہے اور یہ بہت ہی سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ اس بیان میں یہ بات مضمر ہے کہ وہ لاعلم آدمی ہے۔ ...... اور حقیقت میں تخصیص کار کا رویہ یہی کچھ ہے‘ سیاست میں‘ آرٹ میں‘ سماجی اعتبار سے اور دوسرے علوم کے متعلق بھی‘ کیونکہ وہ ان معاملات میں ایک قدیم اور لاعلم انسان کا رویہ اپناتا ہے۔‘‘
’’اس غیر متوازن تخصیص کاری کا‘ جو آج کل مروج ہے‘ یہ نتیجہ فکر نکلا ہے کہ اب دنیا میں جس قدر سائنس دان موجود ہیں‘ اتنے کبھی نہیں تھے مگر جہاں تک ثقہ (Cultured)لوگوں کا تعلق ہے‘ وہ تو اتنے بھی نہیں ہیں جتنے مثال کے طور پر ۱۷۵۰ء میں تھے۔‘‘ (بحوالہ ’’سائنس کے عظیم مضامین‘‘، ترجمہ : شہزاد احمد)
قارئین محترم! ان اقتباسات سے میرے موقف کی تصویر پوری طرح آپ پر واضح ہو گئی ہوگی۔ سیرت النبی ﷺ کے ضمن میں جامعیت اور توازن کے موضوعات پر اگرچہ کافی لکھا جا چکا ہے لیکن اس زاویے اور عصر حاضر کے تناظر میں نہیں لکھا گیا۔ اگر ہم عصر حاضر اور اس کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نبی ﷺ کی حیات مبارکہ کے خلاقی پہلو منظر عام پر لا سکیں تو نہ صرف اپنی بے عملیت کا خاتمہ کر سکیں گے بلکہ مغرب کو درپیش معاشرتی مسائل کا حل بھی فراہم کر سکیں گے اور یہی آدمیت ہے جس کا تقاضا دین اسلام ہم سے کرتا ہے۔ جامعیت اور توازن سے ہی آدمیت اپنائی جا سکتی ہے۔ آج بھی انہی کے فقدان سے ایک معاشرتی بحران منہ کھولے کھڑا ہے:
آدمیت زاحترام آدمی 
باخبر شو از مقام آدمی
کسی معاشرے کے اندر اور اقوام کے مابین احترام ومقام آدمی کا نفوذ صرف شخصی جامعیت کا متقاضی ہے۔

اسلامی تحریکات کا ایک تنقیدی جائزہ (۱)

ڈاکٹر یوسف القرضاوی

اسلامی تحریک نہ کمزوریوں سے مبرا ہے نہ تنقید ونصیحت سے بالا وبے نیاز‘ جیسا کہ اسلامی تحریکوں کے بعض مخلص پیروکاروں نے تصور کر لیا ہے۔ اس تصور کے حاملین تحریک اسلامی اور اسلام کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک تحریک پر ناقدانہ نگاہ ڈالنے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اسلام پر تنقید ہو رہی ہے۔ یہی کچھ بعض لادین عناصر بانداز دیگر کرتے ہیں۔ وہ تحریک کی خطائیں گنواتے ہیں تو انہیں براہ راست اسلام سے منسوب کر دیتے ہیں اور اسلام اور اس کے احکام میں کیڑے نکالنے لگتے ہیں۔
یہ تحریک بہرحال انسانوں کی تحریک ہے جو اسلام کے غلبے اور اس کے پیغام کو پھیلانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ تحریک کے افراد اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے تمام ممکنہ اسباب وتدابیر اختیار کرتے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ نہیں اور نہ ہونا چاہیے کہ ان کا اجتہاد وحی ہے اور یہ کسی بحث وتنقید سے بلند ہے۔ ان میں سے کوئی یہ زعم نہیں رکھتا کہ وہ مواخذہ ومحاسبہ سے بری ہے اور اس پر کیے جانے والے اعتراضات ایسے ہیں جنہیں جواب وصفائی کے درخور نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
اسی بنا پر ہمارا خیال ہے کہ تحریک کے جسد وڈھانچہ اور داخلی اسباب پر بحث کی جانی چاہیے کہ یہ اب تک مطلوبہ اسلامی معاشرے کی تعمیر میں کیوں کام یاب نہیں ہو رہی ہے اور اسلامی شریعت اور عقیدے کی روشنی میں زندگی استوار کرنے میں اس کی ناکامی کی علت کیا ہو سکتی ہے۔ یہاں ہم اختیار سے چند اہم اسباب کا جائزہ لیتے ہیں۔

خود احتسابی کا فقدان

سب سے پہلی چیز جس کی لوگ شکایت کرتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ تحریک کے اندر نقد واحتساب کا عمل اگر یکسر مفقود نہیں تو ضعیف ضرور ہے۔ خود احتسابی یا نقد ذاتی سے ہماری مراد یہ ہے کہ اپنی ذات کا محاسبہ کیا جائے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ’’دانا وہ ہے جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا‘‘ یعنی اس کا محاسبہ کرتا رہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’اپنا محاسبہ خود کرو قبل اس کے کہ کوئی تمہارا محاسبہ کرے‘ اپنے عملوں کا وزن اپنے طور پر کر لیا کرو قبل اس کے کہ کوئی تمہارے اعمال کا وزن کرے۔‘‘ بعض بزرگ کہا کرتے تھے: ’’مومن اپنے نفس کا محاسبہ کرنے میں جابر سلطان سے بھی زیادہ شدید ہوتا ہے۔‘‘
یہ تو ہوا انفرادی محاسبہ نفس۔ جس طرح ایک فرد پر لازم ہے کہ وہ دیکھتا رہے کہ وہ اللہ کے معاملے میں کسی تفریط کا شکار نہ ہو اور بندوں کے حقوق میں کوئی کمی نہ چھوڑتا ہو‘ تاکہ اس کا آج ہر کل سے بہتر بنے اور آنے والا کل آج سے بہتر ثابت ہو، اسی طرح جماعت پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے اندر اجتماعی محاسبے کے عمل کو جاری کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو گمراہی پر اکٹھے ہونے سے تو محفوظ رکھا ہے لیکن جہاں تک جماعت کا تعلق ہے‘ وہ خطا اور گم راہی سے محفوظ نہیں سمجھی جا سکتی۔ خاص طور پر اجتہادی امور میں، جہاں ایک معاملے کے متعدد پہلو ہو سکتے ہیں۔ جتنا صحت کا امکان ہوتا ہے‘ اتنا ہی غلطی اور لغزش کا بھی۔ خطا کا امکان بشری کمزوریوں کے ما تحت ہو سکتا ہے۔ یہ ایمان وتقویٰ کے منافی نہیں بلکہ لوازم بشریت میں سے ہے۔ خطا کے رخ پر ان کے قدم بھی پھسل سکتے ہیں جو ہم سب سے کامل ایمان والے ہیں اور میزان میں جن کے عمل قابل ترجیح ہیں۔ صحابہ کرامؓ ہی کو لے لیں۔ غزوۂ احد کے بعد اللہ تعالیٰ کا ان کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟
اولما اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا قلتم انی ھذا قل ھو من عند انفسکم ان اللہ علی کل شی قدیر (آل عمران ۱۶۵)
یہ تمہارا کیا حال ہے کہ جب تم پر مصیبت آ پڑی تو تم کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آئی؟ حالانکہ (جنگ بدر میں) دگنی مصیبت تمہارے ہاتھوں (فریق مخالف پر) پڑ چکی ہے۔ اے نبی‘ ان سے کہو کہ یہ مصیبت تمہاری اپنی لائی ہوئی ہے۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
قرآن نے صحابہؓ کے بعض اقوال واعمال کا تعلق مظاہر ضعف وخطا ہی سے دکھایا ہے:
ولقد صدقکم اللہ وعدہ اذ تحسونہم باذنہ حتی اذا فشلتم وتنازعتم فی الامر وعصیتم من بعد ما اراکم ما تحبون منکم من یرید الدنیا ومنکم من یرید الآخرۃ (آل عمران ۱۵۲)
اللہ تعالیٰ نے (تائید ونصرت کا) جو وعدہ تم سے کیا تھا‘ وہ تو اس نے پورا کر دیا۔ ابتدا میں اس کے حکم سے تم ہی ان کو قتل کر رہے تھے مگر جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام میں باہم اختلاف کیا اور جونہی وہ چیز اللہ نے تم کو دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مال غنیمت) تم اپنے سردار کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے اس لیے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے۔
تحریک اسلامی اپنی مالک آپ ہی نہیں ہے‘ یہ پوری امت اسلامیہ کی متاع ہے۔ یہی نہیں بلکہ آنے والی مسلمان نسلوں کو منتقل ہونے والا ورثہ ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اس کے اثر وقوت کے سرچشموں سے آگاہی بھی حاصل کی جائے اور اس کے ضعف واضمحلال سے سبق بھی سیکھا جائے۔
تحریک اسلامی کے بعض مخلص متبعین تحریک میں تنقید کا دروازہ کھلنے سے اس لیے خوف زدہ رہتے ہیں کہ اس طرح بعض لوگ اس کی اچھائیوں کو بھی برائیاں ظاہر کرنے لگ جائیں گے۔ ایسی تنقید اگر اصلاح کا باعث نہ بن سکے تو فساد ثابت ہوتی ہے۔ اسی نوعیت کا عذر بعض قدیم علما نے اختیار کیا جنہوں نے امت کو اجتہاد کے دروازے بند کر رکھنے کی نصیحت وتاکید کی۔ ان کا خیال تھا کہ ایسے لوگ بھی اجتہاد کے نام پر اللہ کے دین کو تختہ مشق بنا لیں گے جو اس کے اہل نہیں ہیں۔ دین میں بے حقیقت باتوں کو داخل کریں گے‘ علم وبصیرت کے بغیر اجتہادی فیصلے کریں گے‘ خود بھی گمراہی کا شکار ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ لیکن ہمارے خیال میں ایسے لوگوں کے لیے یہ دروازے بند نہیں ہونے چاہییں جو علم وتقویٰ کے لحاظ سے معاملے پر قادر ہوں۔
اسی طرح تحریک اسلامی کے بعض عظیم قائدین پر تنقید کو بھی گوارا نہیں کیا جاتا‘ مبادا تہمت اور خصومت کے تیر ان پر چلنا شروع ہو جائیں۔ حسن البناؒ ‘ ابو الاعلیٰ مودودیؒ ‘ سید قطبؒ اور مصطفیٰ السباعیؒ یا ایسی ہی دیگر فکری اور تحریکی قیادت پر جب تنقیدی رائے زنی کی گئی تو اسے اتہام گردانتے ہوئے یہ سمجھا گیا کہ ان شخصیات کی امامت وعظمت کو طعن کا نشانہ بنایا جا رہا ہے حالانکہ تنقید علمی سطح پر ہو یا عملی اور تحریکی سطح پر‘ کسی شخص کو علمی‘ دینی اور اخلاقی مرتبے سے نیچے نہیں لا سکتی۔ ان رجال عظیم کی فکر صرف وابستگان تحریک ہی کی ملکیت نہیں ہے بلکہ یہ تو مسلمان نسلوں کی ملک ہے۔ چنانچہ نہایت ہی ضروری ہے کہ سب ان کی فکر پر تنقیدی جائزے کے ذریعے سے یہ جان سکیں کہ کہاں مکمل اتفاق ہو سکتا ہے اور کہاں اختلاف کی گنجائش ہے۔ یہ فکر صحت وصواب کے کس قدر قریب ہے اور کس حد تک اس سے بعید ہے۔
خود ان مفکرین نے کبھی اپنے آپ کو معصوم نہیں سمجھا‘ نہ اپنی آرا واجتہاد وفکر کو کبھی ’’تقدس‘‘ کا رنگ چڑھایا۔ حسن البناؒ نے تو اپنے ’’دس اصولوں‘‘ میں یہ بات بہ تاکید کہی ہے کہ نبی ﷺ کے سوا ہر شخص کی بات کو اختیار واخذ بھی کیا جا سکتا ہے اور چھوڑا بھی جا سکتا ہے۔
ان حضرات نے خوب تر کے سفر میں اپنے موقف علمی کو بدلنے میں کبھی عار نہیں سمجھا۔ سید قطبؒ ’’التصویر الفنی ومشاہد القیامۃ فی القرآن‘‘ میں قرآنی بلاغت کے منفرد عظیم نقاد کی حیثیت میں سامنے آئے۔ جب انہوں نے ’’عدالۃ الاسلام ونظامۃ الحیاۃ‘‘ لکھی تو اسلامی نظام معاشرت کی خوبیوں کے پرچارک بنے۔ اس سے آگے فکر بلند نے پرواز کی تو ’’المعالم‘‘ اور ’’فی ظلال القرآن‘‘ میں ایک زبردست تحریکی داعی کے قالب میں ڈھل کر معاشرے میں اسلامی انقلاب کے علم بردار بن گئے۔ ان کے ایک شاگرد نے ان نظریات وآرا میں ان زبردست تبدیلیوں کے ضمن میں ان سے ایک مرتبہ کہا، ’’معاف کیجیے گا‘ آپ کے بھی امام شافعیؒ کی طرح دو مذہب ہیں‘ ایک قدیم اور ایک جدید‘‘۔ سید قطبؒ نے اپنی فکر کے اجتہادی سفر میں ترقی وانقلاب کا اعتراف کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہ کی اور کہا، ’’ہاں‘ شافعی نے صرف فروع میں رائے بدلی‘ میں نے تو اصول میں بھی ایسا کیا ہے۔‘‘ سید مودودیؒ نے اپنی بعض تحریروں پر ابو الحسن علی ندویؒ کی تنقید کو خندہ پیشانی سے قبول کیا‘ اس کا ذرہ برابر برا نہ منایا جبکہ ان کے پیروکار اس معاملے میں دوسری روش اپناتے ہیں۔ وہ کسی ایسی تنقید سے ناراض ہوتے ہیں۔ انہیں اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ تحریک کے مخالفین اس تنقید کے نام پر تحریک اور اس کے زعما کے خلاف ناشائستہ مہم شروع کر دیں گے‘ قابل اعتراض نکات جمع کر کے انہیں اپنے نقطہ نظر سے پرکھیں گے۔ چھوٹی بات کو بڑی بنا کر پیش کریں گے۔ تحریک اور شخصیات سے ایسی باتیں منسوب کریں گے جن کا ان سے قطعاً کوئی تعلق نہ ہوگا۔ 
خود میرے ساتھ ایسا ہوچکا ہے۔ میں نے اپنی کتاب ’’الحل الاسلامی‘‘ میں تحریک اسلامی کی بعض داخلی مشکلات وموانع کا جائزہ لیا تھا۔ کچھ لوگوں نے اس میں سے کچھ لیا‘ کچھ کاٹا‘ کچھ بڑھایا‘ کچھ گھٹایا اور اسے اس شاعر کے طریقے سے پیش کیا جس نے کہا تھا:
ما قال ربک ویل للاولی سکروا
بل قال ربک ویل للمصلینا
’’تیرے رب نے شراب پینے والوں کے لیے ہلاکت نہیں بتائی بلکہ نماز پڑھنے والوں کے لیے تباہی کی وعید سنائی ہے۔‘‘
اس طرح کی تحریف وخرافات سے قطع نظر خالص علمی تنقید جو اخلاق سے کی جائے‘ اسے محض اس ڈر سے نہیں روکنا چاہیے۔

انقسام واختلاف

معاصر اسلامی تحریک میں ایک دوسرا فتنہ یہ ہے کہ تمام جماعتیں اور صفیں انتشار واختلاف اور تقسیم وشکستگی کا شکار ہیں۔ ہر جماعت صرف اپنے آپ ہی کو ’’جماعت المسلمین‘‘ تصور کرتی ہے‘ یہ نہیں مانتی کہ وہ مسلمانوں میں سے ایک جماعت ہے۔ ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ وہی حق پر ہے‘ باقی سب گمراہی کے راستے پر گام زن ہیں۔ صرف اسی جماعت میں شامل ہونے والے جنت کے‘ اور آگ سے نجات کے مستحق ہوں گے۔ وہ واحد ’’فرقہ ناجیہ‘‘ ہے، باقی سب ہلاکت اور دوزخ میں پڑیں گے۔ یہ بات ان میں سے ہر جماعت اگر زبان قال سے نہیں کہتی تو زبان حال سے اسی کا اظہار کرتی ہے۔ امت جس انتشار اور عدم وحدت کا شکار تھی‘ اسی میں تحریکیں ڈوبتی جا رہی ہیں۔ تحریک کا اصل ہدف غلبہ اسلام تک نہ پہنچ پانے اور اس میں استقامت نہ دکھا سکنے میں اسی افتراق وانشقاق کا دخل ہے جس کا احساس بعض مخلص اور غیرت مند افراد کو ہے اور وہ اسی چیز کے شاکی ہیں۔ فکر وعمل کا سفر اسی رخ پر اگر جاری رہا تو اتفاق وتقارب کے رستے منقطع ہو جائیں گے اور جڑنا اور ملنا مشکل ہو جائے گا۔
میں اسلامی جماعتوں کی تعداد کے خلاف نہیں ہوں اسی لیے میں نے موجودہ دراڑوں کو بھرنے کے لیے لفظ ’’وحدت‘‘ کے بجائے ’’تقارب‘‘ استعمال کیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سب اپنے اپنے وجود کو تحلیل کر کے ایک قیادت کے تحت ایک جماعت کی شکل اختیار کرلیں کیونکہ یہ ایک میٹھے اور خوش گوار خواب کے سوا کچھ نہیں۔ عملاً سب کے لیے اتنا بڑا ایثار اور عجز آسان نہیں ہے الا یہ کہ انسان فرشتوں کا روپ دھار لیں۔ پھر جماعتوں کی تعداد اگر محض تنوع اور تخصص کے لیے ہو تو ایسی قبیح بات بھی نہیں ہے بشرطیکہ یہ تصادم وتضاد کی حدود سے محفوظ رہے۔
ہو سکتا ہے ایک جماعت جاہلانہ خرافات اور شرک سے عقیدے کو پاک رکھنے میں خصوصیت رکھتی ہے‘ اس کا مقصود یہ ہو کہ مسلمانوں کے عقیدے درست کر کے قرآن وسنت کے مطابق بنایا جائے۔ کوئی دوسری جماعت عبادات کو بدعات اور دیگر آمیزشوں سے پاک رکھنے کے لیے کوشاں ہو اور چاہتی ہو کہ لوگ دین کی تعلیمات کو سمجھ لیں۔ ممکن ہے کوئی تیسری جماعت مسلم خاندان کے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہتی ہو۔ اس کی دعوت ہو کہ عورتیں شرعی پردے کو اپنائیں اور بن ٹھن کر نمائش زینت نہ کرتی پھریں۔اسی طرح بعض جماعتوں کے پیش نظر سیاسی انقلاب کا نصب العین ہو سکتا ہے۔ وہ انتخاب کے میدان میں کود کر لادینی گروہوں کی سیاسی پیش قدمی کو روکنے کا لائحہ عمل رکھتی ہوں۔ پانچویں قسم ان جماعتوں کی بھی ہو سکتی ہے جو تزکیہ وتربیت اور اجتماعی عمل کو اپنا ٹارگٹ سمجھتی ہیں اور اپنی جملہ کاوشیں اور وقت اسی مقصد کے لیے صرف کرتی ہیں۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ بعض جماعتیں عام لوگوں میں اپنا کام کرتی ہوں‘ اس کے مقابلے میں کچھ دوسری جماعتیں صرف تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے لوگوں کو اپنا مخاطب بناتی ہوں۔ بعض کی دعوت جذبات پر مضراب کا کام کرتی ہے‘ بعض کیفیات ایمان کو متاثر کرتی ہیں‘ کچھ کا پیغام عقل وفکر کو اپیل کرتا ہے‘ خاص طور پر ایسے لبرل اور اشتراکی ذہنوں کو اپیل کرتا ہے جو مغرب زدگی کے باعث عقل ہی کو تمام معیار خطا وصواب سمجھے بیٹھے ہیں۔ جماعتوں میں اسی نوعیت کے فرق ہیں۔ اس فرق کی بنا پر ہر جماعت اسی میدان میں اپنی خدمات کام میں لا رہی ہے جس میدان کی وہ نمائندہ ہے اور جسے وہ کسی دوسرے میدان کے مقابلے میں زیادہ اہم سمجھتی ہے۔
یہ چیز اچھی بھی ہے اور مفید بھی ہے بشرطیکہ سب ایک دوسرے کے بارے میں حسن ظن کا مظاہرہ کریں اور اختلاف کے مقامات پر ایک دوسرے کی برداشت سے باہر نہ ہو جائیں۔ معروف کے معاملے میں ایک دوسرے سے تعاون کریں اور سمجھائیں اور جب کبھی وجود وشعائر دین کی حفاظت جیسے بڑے مسائل درپیش ہوں تو سب ایک ہی صف میں کھڑے ہو جائیں اور قدم سے قدم ملا کر منزل مقصود تک پہنچیں۔ یہودیوں‘ عیسائیوں‘ اشتراکیوں اور ملحدوں کے خلاف ایک محاذ بنا کر لڑیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو یاد رکھیں:
ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا کانہم بنیان مرصوص (الصف ۴)
بلاشک اللہ ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر لڑتے ہیں۔
آج اسلامی تحریک کی قیادت کا فرض ہے کہ اسلام کے لیے سرگرم اسلامی جماعتوں کے مابین قربت واتفاق کی ایسی فضا پیدا کرے جس میں سلجھے ہوئے اور تعلیم یافتہ نوجوان ایک تازہ جوش وولولہ کے ساتھ عازم سفر ہو جائیں۔ عالم عرب میں خصوصیت سے جن جماعتوں کا ذکر مقصود ہے‘ وہ یہ ہیں: ۱۔ جماعت اخوان المسلمین‘ ۲۔ سلفی جماعت‘ ۳۔ جماعت الجہاد‘ ۴۔ حزب تحریر اسلامی‘ ۵۔ تبلیغی جماعت (اور عالم عرب سے باہر جماعت اسلامی پاکستان وانڈیا‘ حزب السلامۃ اور نوری جماعت ترکی‘ جماعت شباب مسلم اور حزب اسلامی ملائشیا وغیرہ)
ان اسلامی جماعتوں کو چاہیے کہ سب کے مفکرین اور قائدین کو ایک دوسرے کے اجتماعات اور دروس کے حلقوں میں بلائیں‘ تعاون کے مواقع تلاش کرنے اور اختلافات کی دراڑوں کو بھرنے کی کوشش کریں۔ جزئیات میں اختلاف کی آگ ٹھندی ہو۔ دوسروں کے بارے میں‘ وہ وہ رائے یا عمل میں مکمل اتفاق نہ بھی رکھتے ہوں‘ حسن ظن کو فروغ دیا جائے۔ کوئی ایسا لائحہ عمل تیار ہونا چاہیے جس پر سب کا جمع ہونا ممکن ہو تاکہ اسلام کے دشمنوں کے خلاف مقابلے میں سب صف واحد میں کھڑے ہو سکیں خواہ دشمن کی تعداد کتنی ہی زیادہ ہو‘ تیاری کتنے ہی پہلوؤں سے ہو اور مکر کا جال کتنا ہی مضبوط ہو۔
ان جماعتوں میں فرق کا بڑھا چڑھا ہوا ہونا اور اختلافات کے شگاف کا وسیع ہونا ایک عذر ہے۔ آخر کام تو سب اسلام ہی کا کر رہی ہیں پھر کیوں نہ قطع تعلق کی روش ختم ہو اور کشیدگی ورنجش کا ازالہ ہو؟
میرا خیال ہے کہ امام حسن البنا رحمہ اللہ کے وضع کردہ ’’دس اصول‘‘ مذکورہ جماعتوں میں فکری وعملی اشتراک کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ یہ اصول امامؒ نے مصر کی دینی جماعتوں کو اتحاد کی کم از کم بنیاد کے طور پر پیش کیے تھے تاکہ اسلام کے لیے کام کرنے والے جملہ عناصر میں فہم وفکر کی وحدت پیدا کی جا سکے اور ان میں پائے جانے والے اختلافات اور الزام تراشی کو ختم کیا جا سکے۔ نیتوں میں اخلاص ہو تو یہ ’’دس اصول‘‘ آج بھی روشن مینار بن سکتے ہیں۔ ایک اہم اصول یہ ہے کہ ’’جس چیز پر ہمارا اتفاق ہو جائے گا‘ ہم ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔ اگر کسی چیز میں اختلاف باقی رہے گا تو (الزام تراشی اور اتہام بازی کے بجائے) ایک دوسرے سے معذرت کر لیں گے۔‘‘
میں نے حسن البناؒ سے بڑھ کر اسلام کے کاز کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کی دل داری اور احترام جذبات کی خواہش کسی میں نہیں پائی۔ وہ اتفاق ورفاقت پر زور دیتے ہیں اور دلوں کے تقارب کے لیے نرم اور میٹھا اسلوب اپناتے تھے۔
اخوان المسلمین کے چھٹے اجتماع کے موقع پر اپنے پیغام میں جو کچھ کہا تھا‘ یہ ہے کہ ’’جو مختلف گروہ اسلام کے لیے کام کر رہے ہیں‘ ان کے مابین نزاعات کے سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ محبت‘ اخوت‘ تعاون اور دوستی کے جذبات کام میں لائے جائیں‘ نقطہ نظر میں تقرب اور اتفاق کے مواقع تلاش کیے جائیں۔ فقہی اور مسلکی اختلاف بعد ونفرت کا باعث نہ بنے۔ دین کو پیش کیا جائے یا دین کا کام کیا جائے تو انتہائی نرم لہجے میں تاکہ بات دلوں میں اتر جائے اور عقل کو اپیل کرتی جائے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب نام‘ القاب اور تنظیموں کی ہیئت کے فرق ختم ہو جائیں گے۔ دین اسلام کے ماننے والے ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے۔ مومنانہ اخوت قائم ہوگی اور دین کے لیے کام کرنے والے تمام لوگ اسی جذبے سے سرشار ہو کر اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہوں گے۔‘‘
تحریک اسلامی کے لیے یہ بات ہرگز مناسب نہیں کہ وہ ان شخصیات کی دینی خدمات یا خود ان شخصیات کا وزن کم کرے جو دعوت دین کے میدان میں سرگرم ہیں۔ یہ شخصیات اگرچہ انفرادی طور پر کام کر رہی ہیں لیکن پھر بھی ان کا وسیع حلقہ اثر وتلامذہ ہے‘ ان کے مدارس اور مرید ہیں۔ بلاشبہ ان میں سے بعض راست اور مخلص تو ایسے ہیں جو رائے عامہ میں ایک زبردست حرکت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ہماری منظم جماعتی اور ایک لگے بندھے پروگرام کے مطابق جدوجہد کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان لوگوں کو اعتبار سے ساقط کر دیں جو جماعت کی حدود کے اندر آکر کام نہیں کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس اس کا معقول جواز اور بعض مادی ومعنوی موانع ہوں جو انہیں منظم اور جماعتی اسلوب کار سے دور رکھتے ہوں۔ اگر وہ فکری‘ قلبی اور عملی طور پر جماعتی کام سے تعاون بھی کرتے ہوں تو پھر ان کے باضابطہ اور رسمی طور پر رکن جماعت نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح بعض بڑی صاف ستھری‘ دعوت دین میں مخلص شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں جو سرکاری محکموں سے وابستہ ہوتی ہیں۔ یہ خواہ کسی درس گاہ میں کام کر رہی ہوں یا وزارت اوقاف وغیرہ میں ملازم ہوں۔ محض سرکاری ملازم ہونے کے ’’جرم‘‘ میں ان سے تجاہل ولا تعلقی برتنا بھی کسی طور پر روا نہیں ہے۔ بعض اوقات سرکاری مشینری اور اداروں میں رہ کر یہ بڑے بڑے علمی اور عملی کام کر جانے کے قابل ہوتی ہیں۔ (باقی)

علماء دیوبند اور سرسید احمد خان - مولانا عیسیٰ منصوری کے ارشادات پر ایک نظر

ضیاء الدین لاہوری

موقر جریدہ ’’الشریعہ‘‘ میں جناب مولانا محمد عیسیٰ منصوری کا ایک مضمون بعنوان ’’علماء دیوبند اور سرسید احمد خان‘‘ مطالعہ میں آیا جو روزنامہ جنگ لندن میں مطبوعہ غلام ربانی صاحب کے ایک مضمون کے جواب میں تحریر کیا گیا ہے جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ ’’دیوبند فرقہ والوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کے عین مقابل ایک مدرسہ کھول کر سرسید احمد خان کی مخالفت کرنا شروع کر دی اور اس کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کر کے اس کو نیچری کہنا شروع کر دیا اور مسلمانوں کے لیے انگریزی تعلیم حاصل کرنا ناجائز قرار دے دیا۔‘‘ اگرچہ مولانا موصوف نے بڑے اعتماد کے ساتھ یہ بیان کیا ہے کہ ’’غلام ربانی صاحب کے یہ تینوں دعوے بالکل بے بنیاد‘ گمراہ کن اور سراسر غلط ہیں‘‘ مگر میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ انہوں نے پہلی دو باتوں کی وضاحت میں علیگ پارٹی کے پراپیگنڈا سے مرعوب ہو کر ایسا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا ہے جو حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا‘ البتہ وہ انگریزی تعلیم کے حصول کو ناجائز قرار دینے کے الزام کا مناسب رد کرتے ہیں۔
مولانا موصوف نے الزام کنندہ کے الفاظ ’’عین مقابل‘‘ کے الفاظ کا غلط مفہوم لیا اور فرمایا کہ ’’مدرسہ دیوبند علی گڑھ یونیورسٹی کے عین مقابل نہیں بلکہ تین سو میل دور ایک چھوٹے سے قصبے میں قائم کیا گیا‘‘ حالانکہ اس کا صرف یہ مطلب تھا کہ یہ مدرسہ علی گڑھ یونیورسٹی کے مقابلے میں رد عمل کے طو رپر قائم کیا گیا۔ الزام کنندہ شعوری یا غیر شعوری طور پر غلام احمد پرویز سے متاثر دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ان حضرت نے بھی اپنی ایک تحریر میں یہی غلط بات کہی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ مدرسہ دیوبند علی گڑھ کالج کے قیام (۱۸۷۵ء) سے نو سال قبل ۱۸۶۶ء میں وجود میں آیا تھا۔ (۱) اس وقت اس کالج کا منصوبہ سرسید کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ اس کا چرچا ان کے دورۂ انگلستان ۷۰۔۱۹۶۹ء کے بعد ہوا۔ سرسید نے ۱۸۶۷ء کے اخبار سائنٹفک سوسائٹی میں مدرسہ دیوبند کی پہلی سالانہ رپورٹ پر اپنا تبصرہ تحریر کیا۔ (۲) پھر جولائی ۱۸۷۳ء کے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں سرسید نے اس مدرسہ کی ساتویں سالانہ رپورٹ پر ایک طویل تبصرہ شائع کیا جس میں انہوں نے علما کو جی بھر کر لتاڑا اور اسلامی مدرسوں میں دی جانے والی تعلیم پر کڑے الفاظ میں نکتہ چینی کی۔ (۳) اس وقت سرسید کا تعلیمی منصوبہ زیر تکمیل تھا اور وہ اپنے نیچری عقائد کی بڑے زور وشور سے تشہیر کر رہے تھے۔ رد عمل کے طور پر علما کی طرف سے ایک استفتا شائع ہوا جس کی متعلقہ عبارت درج ذیل ہے:
’’کیا فرماتے ہیں علماء دین اس امر میں کہ ان دنوں ایک شخص ان مدرسوں کو جن میں علوم دینی اور ان علوم کی جو دین کی تائید میں ہیں‘ تعلیم ہوتے ہیں‘ جیسے مدرسہ اسلامیہ دیوبند اور مدرسہ اسلامیہ علی گڑھ اور مدرسہ اسلامیہ کان پور‘ ان کو برا کہتا ہے اور ان کی ضد میں ایک مدرسہ اپنے طور پر تجویز کرنا چاہتا ہے ..... مسلمانوں کو ایسے مدرسے میں چندہ دینا درست ہے یا نہیں؟‘‘ (۴)
اس استفتا سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مدرسہ دیوبند علی گڑھ یونیورسٹی کے مقابلے میں قائم نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس علی گڑھ کالج مدرسہ دیوبند کے ’’عین مقابل‘‘ جاری کیا گیا۔ کالج کی تاریخ اجرا کے بارے میں سرسید فرماتے ہیں:
’’۲۴ مئی ۱۸۷۵ء روز سالگرہ ملکہ معظمہ ..... مدرسہ کھولا گیا۔‘‘ (۵)
روز سالگرہ ملکہ معظمہ کا خاص موقع یونہی منتخب نہیں کیا گیا تھا بلکہ سرسید کی تمام تر تعلیمی کاوشیں اسی نکتے کے گرد گھومتی ہیں۔ علی گڑھ کالج کی بنیاد میں جو جذبہ کارفرما تھا‘ اسے سرسید کے ان الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے:
’’ہمارے ملک کو‘ ہماری قوم کو اگر درحقیقت ترقی کرنی اور فی الواقع ملکہ معظمہ قیصرۂ ہند کا سچا خیر خواہ اور وفادار رعیت بننا ہے تو اس کے لیے بجز اس کے اور کوئی راہ نہیں ہے کہ وہ علوم مغربی وزبان مغربی میں اعلیٰ درجہ کی ترقی حاصل کرے۔‘‘ (۶)
’’اصلی مقصد اس کالج کا یہ ہے کہ مسلمانوں میں عموماً اور بالتخصیص اعلیٰ درجے کے مسلمان خاندانوں میں یورپین سائنسز اور لٹریچر کو رواج دے اور ایک ایسا فرقہ پیدا کرے جو ازروئے مذہب کے مسلمان اور ازروئے خون اور رنگ کے ہندوستانی ہوں مگر باعتبار مذاق اور رائے وفہم کے انگریز ہوں۔‘‘ (۷)
کالج کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر وائسرائے کو پیش کردہ سپاس نامے میں اس کا مقصد یوں بیان کیا گیا:
’’ہندوستان کے مسلمانوں کو سلطنت انگریزی کی لائق وکارآمد رعایا بنانا اور ان کی طبیعتوں میں اس قسم کی خیر خواہی پیدا کرنا جو ایک غیر سلطنت کی غلامانہ اطاعت سے نہیں بلکہ عمدہ گورنمنٹ کی برکتوں کی اصل قدر شناسی سے پیدا ہوتی ہے۔‘‘ (۸)
کالج کے ٹرسٹیوں نے ایک موقع پر یہ اعلان کیا:
’’من جملہ کالج کے مقاصد اہم کے یہ مقصد نہایت اہم ہے کہ یہاں کے طلبہ کے دلوں میں حکومت برطانیہ کی برکات کا سچا اعتراف اور انگلش کیریکٹر کا نقش پیدا ہو اور اس سے خفیف سا انحراف بھی حق امانت سے انحراف کے مترادف ہے۔‘‘ (۹)
سرسید کے دست راست نواب محسن الملک کا بیان ہے:
’’یہاں کی مذہبی تعلیم تعصب سے پاک ہے‘ تفرقہ کو دور کرنے والی ہے‘ غیر مذہب والوں سے اتحاد اور دوستی رکھنے کی تعلیم دیتی ہے‘ گورنمنٹ کی اطاعت اور سچی خیر خواہی کو جزو اسلام بتاتی ہے۔‘‘ (۱۰)
ایک اور موقع پر انہوں نے فرمایا:
’’اس کا بیج تو بویا سرسید نے‘ اب جب کہ یہ پھلے پھولے گا اور اس میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو تہذیب‘ شائستگی‘ علمی قابلیت اور گورنمنٹ کی وفادار رعایا ہونے کی حیثیت سے آپ اپنی مثال ہوں گے تو اس وقت گورنمنٹ انگریزی کی برکتوں اور آزادی کی بشارت دیتے پھریں گے۔‘‘ (۱۱)
سرسید کے بہت بڑے مداح الطاف حسین حالی بیان کرتے ہیں:
’’سب سے زیادہ وفاداری اور لائلٹی کی مستحکم بنیاد جو سرسید کی مذہبی تحریروں نے مسلمانوں میں قائم کی ہے‘ وہ انگریزی تعلیم کی مزاحمتوں کو دور کر کے ان کو عام طور پر اس کی طرف متوجہ کرنا اور خاص کر ان کی تعلیم کے لیے محمڈن کالج کا قائم کرنا ہے جس کی رو سے نہایت وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ جس قدر اعلیٰ تعلیم مسلمانوں میں زیادہ پھیلتی جائے گی‘ اسی قدر وہ تاج برطانیہ کے زیادہ وفادار اور گورنمنٹ کے زیادہ معتمد علیہ بنتے جائیں گے۔‘‘ (۱۲)
یہ ہے بانیان کالج کے اپنے الفاظ میں علی گڑھ کالج میں دی جانے والی تعلیم کے اغراض ومقاصد کا ایک خاکہ جسے سرسید کی تعلیمی جدوجہد کے حوالے سے مسلمانوں کے لیے ایک نعمت قرار دیا جاتا ہے‘ وہ تعلیم جو صرف اور صرف انگریزوں کی خیر خواہی‘ وفاداری‘ لائلٹی اور انگریزی برکات کے سچے اعتراف وغیرہ وغیرہ جذبات سے معمور ہو۔ غلامانہ ذہنیت کو تقویت پہنچانے والی اس کیفیت کو مسلمانوں کی ترقی سے موسوم کیا جاتا ہے۔
جہاں تک فتووں کی بات ہے‘ مولانا موصوف کا یہ بیان محل نظر ہے کہ ’’علماء دیوبند نے کبھی سرسید پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا‘‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنا درست نہیں۔ جو بات واقعی ہوئی‘ اس سے انکار کیوں؟ دراصل سرسید کے پیروکاروں نے ذرائع ابلاغ اور تعلیمی نصاب میں پراپیگنڈا کے اصولوں سے کام لے کر مسلمانوں کی ترقی اور بھلائی کے نام پر سرسید کی شخصیت کو اس قدر صاف وشفاف بنا دیا ہے کہ اس کے زیر اثر اچھے بھلے دانش ور بھی مرعوب ہو کر بات کرتے ہیں۔ صرف صاف وشفاف ہی نہیں‘ انہوں نے سرسید کو علما کے مقابلے میں مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ان کے حق میں ہم دردی کے جذبات ابھارے جائیں۔ اگر سرسید کے موجودہ پیروکار ان کے مذہبی عقائد کو دانستہ چھپاتے ہیں یا ان سے اغماض برتتے ہیں یا ان پر عمل نہیں کرتے تو اس سے نہ تو اس دور کی صورت حال تبدیل ہو جاتی ہے جس میں یہ فتوے جاری ہوئے اور نہ سرسید اپنے عقائد سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔
علماء دیوبند کے سرسید کے خلاف کفر کے فتووں کے ذکر میں صرف ایک رسالہ ’’نصرۃ الابرار‘‘ کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ یہ رسالہ ۱۸۸۸ء میں شائع ہوا۔ اس میں متعدد شہروں کے علما کے فتاویٰ درج ہیں۔ اگرچہ اس رسالے کا بنیادی مقصد سرسید کی انڈین پیٹریاٹک ایسوسی ایشن کی سرگرمیوں کے خلاف رد عمل ظاہر کرنا تھا مگر استفتا اور ان کے جوابات میں ان کے نیچری عقائد بھی زیر بحث آ گئے۔ اگر مولانا موصوف برطانوی ہند کے مختلف علاقوں کے علما کو‘ گو وہ مسلک دیوبند سے منسلک ہوں‘ علماء دیوبند قرار نہیں دیتے تو مدرسہ اسلامیہ دیوبند کے مدرسین کو تو بہرحال ایسا تسلیم کرنا پڑے گا۔ اس رسالے میں ضلع سہارن پور کے ذیل میں مولانا محمود حسن مدرس مدرسہ اسلامیہ دیوبند کے حوالے سے یہ تحریر ملتی ہے:
’’فرقہ نیچریہ کے بارے میں جو کہ منکر نصوص قرآنی واحادیث نبوی واجماع امت ہے‘ جو کچھ علماء معتبرین نے ارشاد فرمایا ہے‘ وہ امر حق موافق کتاب وسنت ہے۔‘‘ (ص ۲۳)
اس مدرسے کے جن مدرسین نے اس تحریر کی تائید کی ہے‘ ان کے نام: احمد حسن‘ محمد حسن اور عبد اللہ خان ہیں۔ دیوبند کے علماء معتبرین نے فرقہ نیچریہ کے بارے میں جو ارشاد فرمایا‘ وہ احمد حسن ولد مولوی محمد قاسم کے حوالے سے اس تحریر میں ملاحظہ فرمائیں:
’’فرقہ نیچری جو کہ اپنے آپ کو تابع سید احمد خان بتلاتے ہیں‘ ہرگز ہرگز کوئی معاملہ ان سے جائز نہیں۔ بوجہ دعوائے اسلام ان کے دھوکا میں کوئی مسلمان نہ آوے۔ سید احمدخان کے کفر کی بابت علماء گزشتہ نے پہلے بھی تحریر فرمایا ہے اور اب بھی جو کچھ علماء مذکورہ نے تحریر فرمایا‘ موافق قواعد شرع درست ہے۔ لاریب یہ شخص کافر ہے‘ اس کے کفر میں کوئی شک وشبہ نہیں۔‘‘ (ص ۲۴)
اس کی تائید میں ’’الجوابات المذکورۃ کلہا صحیحۃ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ محمد فضل عظیم خطیب دیوبند کا نام تحریر ہے۔
سرسید کے انتقال کو ایک صدی گزر چکی ہے۔ اس دوران میں مخصوص حلقے ان کی شخصیت کو جاذب نظر بنانے کے لیے ان کے چہرے پر نیا خول چڑھانے میں مصروف رہے۔ اس مقصد کے لیے خوب خوب جھوٹ بولے گئے اور ان کے عقائد پر دبیز پردوں کی تہیں ڈال دی گئیں۔ آج یہ عالم ہے کہ علما کے فتووں پر تو بڑی لعن طعن کی جاتی ہے‘ مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ فتوے ان کے کن کن عقائد کی ترویج کے رد عمل میں جاری ہوئے۔حقائق کو بد نیتی سے دوسروں کی نظروں سے اوجھل رکھنا بھی جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ بہت کچھ سرسید کے نئے تراشیدہ بت کے پیچھے چھپ چکا ہے۔ ضرورت ہے کہ ان کے اصلی چہرے کو اجاگر کیا جائے۔ جو لاعلم ہیں‘ انہیں آگاہ کیا جائے کہ ان کے عقائد کیا تھے۔ پھر فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی کہ فتوے جائز تھے یا ناجائز۔ سرسید کے چند عقائد کا ذکر کیا جاتا ہے۔ انصاف سے بیان کیجیے کہ اگر آج کوئی شخص ان عقائد کی تبلیغ کرنے لگے تو مسلمانوں کا کیا رد عمل ہوگا؟
’’اگر وحی والہام نہ تھا تو اور کیا تھا جس نے کال ون اور لوتھر کے دل کو اس پرانے راستے سے پھیرا اور ہمارے ہی زمانے کے اس قابل تعظیم وادب شخص بابو کشیب چندرسین کے دل کو خدائے واحد کی طرف موڑا اور سوامی دیانند سرسوتی کے دل کو مورتی پوجن سے پھیرا؟‘‘ 
واضح ہو کہ موخر الذکر اس اسلام دشمن جماعت آریہ سماج کے بانی تھے جس نے برصغیر میں شدھی تحریک چلائی اور جس نے بعد میں ’’ہندو مہاسبھا‘‘ اور ’’راشٹریہ سیوک سنگھ‘‘ کی صورت میں جنم لیا۔
’’بے شک ان کے لیے آگ دہکائی گئی تھی اور ڈرایا گیا تھا کہ ان کو آگ میں ڈال کر جلا دیں گے مگر یہ بات کہ درحقیقت وہ آگ میں ڈالے گئے‘ قرآن مجید سے ثابت نہیں ہے۔‘‘ 
’’خدا نے ہم کو قانون فطرت یہ بتایا کہ آگ جلانے والی ہے۔ پس جب تک یہ قانون فطرت قائم ہے‘ اس کے برخلاف ہونا ایسا ہی ناممکن ہے جیسے کہ قولی وعدہ کے برخلاف ہونا ناممکن ہے۔‘‘

حوالہ جات

۱۔ تاریخ دار العلوم دیوبند (سید محبوب رضوی) جید پریس دہلی (۱۹۷۷ء) ص ۱۵۵
۲۔ تحریک علی گڑھ تا قیام پاکستان (ڈاکٹر ایچ بی خان) الحمد اکادمی کراچی(۱۹۹۸ء) ص ۶۸
۳۔ مقالات سرسید‘ جلد ہفتم‘ مجلس ترقی ادب لاہور (۱۹۶۲ء) ص ۲۷۸
۴۔ سرسید احمد خان‘ ایک سیاسی مطالعہ (عتیق صدیقی) مکتبہ جامعہ نئی دہلی (۱۹۷۷ء) ص ۱۳۴
۵۔ مکمل مجموعہ لکچرز سرسید‘ مصطفائی پریس لاہور (۱۹۰۰ء) ص ۴۰۵
۶۔ مقالات سرسید‘ جلد ہشتم‘ ص ۴۸
۷۔ ایڈریس اور اسپیچیں (مرتبہ‘ نواب محسن الملک) انسٹی ٹیوٹ پریس علی گڑھ (۱۸۹۸ء) دیباچہ ص ۲
۸۔ ایضاً‘ ص ۳۲
۹۔ تذکرہ وقار (محمد امین زبیری) عزیزی پریس آگرہ (۱۹۳۸ء) ص ۲۱۲
۱۰۔ مجموعہ لکچرز نواب محسن الملک‘ نول کشور پرنٹنگ پریس لاہور (۱۹۰۴ء) ص ۴۷۰
۱۱۔ ایضاً‘ ص ۴۸۶
۱۲۔ مقالات حالی‘ حصہ اول‘ انجمن ترقی اردو کراچی (۱۹۵۵ء) ص ۲۱۶

اسلامی نظریاتی کونسل کے نام مدیر ’الشریعہ‘ کا مکتوب

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

محترمی ڈاکٹر امین اللہ وثیرصاحب
سیکرٹری اسلامی نظریاتی کونسل‘ حکومت پاکستان اسلام آباد
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
’’کمیٹی برائے جائزہ قوانین حدود و قصاص‘‘ کے دوسرے اجلاس منعقدہ ۲۶ مئی ۲۰۰۲ء میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ یادفرمائی کا تہہ دل سے شکریہ ! دعوت نامہ ایسے وقت میں موصول ہوا ہے کہ پہلے سے طے شدہ مصروفیات اور مختلف دوستوں کے ساتھ مواعید کو اچانک تبدیل کرنا مشکل ہے اور متعلقہ مواد کے ضروری مطالعہ کا وقت بھی نہیں ہے۔ اس لیے اس اجلاس میں حاضری نہیں ہو سکے گی جس کے لیے بے حد معذرت خواہ ہوں۔ آئندہ کسی اجلاس کے لیے قبل از وقت دعوت نامہ موصول ہوا تو حاضری کو باعث سعادت سمجھتے ہوئے تعمیل حکم کی کوشش کروں گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
دعوت نامہ کے ہمراہ آپ کے ارسال کردہ مسودات پر میں نے ایک نظر ڈالی ہے اور پہلی فرصت میں انہیں تفصیل کے ساتھ دیکھوں گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اسلامی قانون کے ایک طالب علم اور اسلامائزیشن کی جدوجہد کے ایک کارکن کے طور پر اس حوالہ سے اپنے چند احساسات و تاثرات کو اس موقع پر کمیٹی کے اجلاس کے شرکا کی خدمت میں پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ امید ہے کہ ان طالب علمانہ معروضات کو بھی ایک نظر دیکھ لیا جائے گا۔ 
اس وقت ’’حدود آرڈیننس‘‘ سمیت متعدد اسلامی قوانین‘ دستوری دفعات اور عدالتی فیصلوں پر نظر ثانی کے تقاضے مختلف حلقوں کی طرف سے سامنے آرہے ہیں اور دھیرے دھیرے ایسی فضا قائم ہو رہی ہے کہ اگر ان تقاضوں کے حوالہ سے اصولی ترجیحات کا ابھی سے تعین نہ کیا گیا تو اسلامائزیشن کے حوالہ سے سپریم کورٹ آف پاکستان ‘ وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کا اب تک کا پورے کا پورا عمل نظر ثانی کی زد میں آجائے گا۔ یہ ادارے اس سلسلہ میں مزید کسی پیش رفت کے بجائے اپنے سابقہ کام کی صفائیاں پیش کرنے اور ان میں رد و بدل کرنے میں ہی مصروف رہیں گے۔ اور یہ ’’ ریورس گیئر‘‘ پاکستان میں اسلامائزیشن کے عمل کو ایک بار پھر ’’زیرو پوائنٹ‘‘ تک واپس لے جائے گا۔ مجھے اسلام کے نام پر نافذ ہونے والے قوانین پر نظر ثانی کی ضرورت سے انکار نہیں ہے اور اگر کسی مسودہ قانون میں کوئی فنی سقم رہ گیا ہے یا اس پر عمل درآمد کی راہ میں کوئی رکاوٹ موجود ہے تو قرآن و سنت کے اصولوں کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس پر نظر ثانی سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا لیکن یہ عمل ہمارے داخلی تقاضوں اور ضروریات کے حوالہ سے ہونا چاہیے اور اس سلسلہ میں بیرونی عوامل اور دباؤ کو قبول کرنے کا کسی سطح پر بھی تاثر قائم نہیں ہونا چاہیے ورنہ ضروری اور جائز نظر ثانی بھی شکوک و شبہات کا شکار ہو کر اس عمل پر عوام اور دینی حلقوں کے اعتماد کو مجروح کرنے کا باعث بن جائے گی۔ 
اس لیے میں اسلامائزیشن کی راہ میں حائل داخلی مشکلات اور اسلامی قوانین پر نظر ثانی کے دونوں حوالوں سے ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کے سامنے مندرجہ ذیل تجاویز رکھنا چاہوں گا۔
ہم اس وقت اس معاملہ میں قومی سطح پر ’’تذبذب‘‘ کا شکار ہیں اور اسلامی قوانین کے بارے میں عالمی تقاضوں اور دباؤ کو نہ پوری طرح قبول کر رہے ہیں اور نہ مسترد ہی کر رہے ہیں۔ یہ طرز عمل درست نہیں ہے اور اس سے پاکستان میں اسلامائزیشن کے بارے میں ابہام اور کنفیوژن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمیں علمی انداز میں ان سوالات کا سامنا کرنا چاہیے اور علم و دانش کی اعلیٰ ترین سطح پر ان سوالات کا جائزہ لیتے ہوئے شکوک و شبہات کا علمی جواب دینا چاہیے۔ میرے نزدیک اس کام کے لیے ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ سب سے بہتر فورم ہے اور کونسل اس کام کے لیے حسب معمول دوسرے اہل علم کا تعاون بھی حاصل کر سکتی ہے۔ 
مجھے امید ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان اور بالخصوص ’’کمیٹی برائے جائزہ قوانین حدود و قصاص‘‘ کے اجلاس کے شرکاء ان گزارشات پر توجہ فرمائیں گے۔ بے حد شکریہ !
والسلام 
ابو عمار زاہد الراشدی

خوشی کی تلاش

اختر حمید خان

جب میں کالج میں پڑھتا تھا، میرے یورپی تاریخ کے پروفیسر نے یہ حکایت بیان کی: ایک بوڑھی عورت بحر اوقیانوس کے کنارے ایک جھونپڑی میں رہتی تھی۔ روزانہ طغیانی کے سبب سمندر کا پانی جھونپڑی میں آجاتا اور وہ جھاڑو سے اسے نکالنے کی کوشش کرتی۔ ہمارے پروفیسر اس حکایت کو انیسویں صدی میں یورپ کے شاہوں کی جمہوری قوتوں کے خلاف سعی ناکام کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ 
اب مجھے اس حکایت کا دوسرا استعمال سمجھ میں آ رہا ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے دوست اور میں بھی اس بوڑھی عورت کی طرح سمندر کی طغیانی کو جھاڑو سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ناموزوں ہیں۔ ہماری ناموزونی محض اس لیے نہیں کہ ہم بوڑھے ہو گئے ہیں بلکہ اس وجہ سے بھی کہ ہم وقت کی غالب روش کو خوشی سے قبول نہیں کرتے۔
ہم اب بھی یہ سمجھتے ہیں قدیم دانش مند ---- چینی، ہندی یا مسلم ---- صحیح کہتے ہیں۔ انسانی روحانی اقدار اور دائمی فلسفے کی تشریح کرتے ہوئے یہ بزرگ تعلیم دیتے ہیں کہ اگر ہم خوش رہنا چاہتے ہیں تو ہم کو نفس کی جبلی خواہشات کو سختی سے قابو میں رکھنا ہوگا اور اپنے لالچ، شہوت، زیادہ کھانے کی خواہش اور ضروریات کو کم کرنا ہوگا اور سادگی، توکل اور بے غرضی اپنانی ہوگی۔
اس کے برخلاف زمانے کی غالب روش کا اعلان عام ہے کہ خوشی کے حصول کے لیے جبلی خواہشات کی تسکین کرنا، اپنی ضروریات میں بے حد اضافہ کرنا اور زیادہ سے زیادہ دولت اور قوت حاصل کرنا ضروری ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی یا حال کسی زمانے میں بھی ان روحانی بزرگوں کا مشورہ اکثریت نے قبول نہیں کیا لیکن ہمارے اسلاف، خواہ مشرق میں ہوں یا مغرب میں، گو اس مشورے پر پوری طرح عمل پیرا نہیں تھے، پھر بھی وہ اس کی سچائی سے انکار نہیں کرتے تھے۔
ہمارے دور کی غالب روش اس دائمی فلسفے کو بے جوڑ اور محض فراریت سمجھ کر رد کرتی ہے۔ آر ایس ٹانی (R.S Tawney) اپنی کلاسیکی کتاب ’’مذہب اور سرمایہ داری کا عروج‘‘ میں بیان کرتا ہے کہ یورپ میں عقائد میں تبدیلی کیسے آئی اور کس طرح ایک ظالم سماج وجود میں آیا جس کی بنیاد صنعت اور عسکریت پر تھی اور جس نے بڑی تیزی سے تمام دنیا کو فتح کر لیا۔
مالکوم مگریج (Malcolm Muggeridge)نے ۱۹۵۸ء میں لکھا:
’’دنیا کی یہ بڑھتی ہوئی یکسانی، جو خواہش کی ہم آہنگی سے وجود میں آئی ہے، بظاہر اس کے متضاد رجحانوں میں چھپی رہتی ہے۔ چنانچہ ایسا لگتا ہے گویا روس، اس کے حلقہ بگوش ملکوں اور چین کے باشندے اشتراکیت چاہتے ہیں، امریکہ اور ان کے حلقہ بگوش آزادی کے خواہش مند ہیں۔ ہم مغربی یورپ والوں کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ ہم اپنی عیسائی تہذیب کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ .... پنڈت نہرو اور ان کے ساتھی بمشکل اپنے آپ کو اس پر یقین دلا رہے ہیں کہ جو کچھ وہ چاہتے ہیں، وہ دراصل انگریزی طرز کی فلاحی اور پارلیمانی جمہوریت ہے ..... (لیکن حقیقت یہ ہے کہ) بہت کم روسی، چینی اور ان کے حلقہ بگوش اشتراکیت چاہتے ہیں۔ بہت کم امریکی آزادی اور بہت تھوڑے یورپی عیسائی یا کسی اور تہذیب کے خواہش مند ہیں اور بہت کم ہندوستانی جمہوریت یا فلاحی ریاست چاہتے ہیں۔ یہ سب، اور ان کے علاوہ تمام دنیا کے لوگ جس شے کے خواہش مند ہیں، وہ وہی ہے جو امریکہ میں لوگوں کو حاصل ہو چکی ہے: جگمگاتے ہوئے شہروں میں چھ رویہ سڑک پر آتی جاتی چمک دار کاریں، جلتی بجھتی اشتہاری روشنیاں، شور مچاتے ہوئے موسیقی کے بکس، بلند وبالا عمارتیں، منزل بہ منزل آسمان کی طرف بڑھتی ہوئی ..... میں جب رات کے وقت امریکی ریاست اوہایو کے ایتھنز شہر (کل آبادی ۳۴۵۰) میں داخل ہوا تو اندھیرے میں مجھے چار روشن، رنگین، چمک دار نشان نظر آئے۔ ان پر تحریر تھا: گیس، ڈرگز، بیوٹی اور فوڈ۔ میں نے اس وقت سوچا کہ یہ ہمارے دور کا کلام ہے جو نہایت آسان انداز میں پیش کیا گیا ہے ......‘‘
’’اس دنیا میں اب حقیقت میں نہ کوئی اشتراکی ہے اور نہ سرمایہ پرست، نہ کیتھولک، نہ پروٹسٹنٹ، نہ کالا، نہ ایشیائی، یہ یوروپی، نہ داہنے بازو والا نہ بائیں والا، نہ درمیانی، یہاں صرف ہمیشہ قائم رہنے والی خواہش ہے: گیس، نشے، خوب صورت عورت اور کھانے کی۔‘‘
یہ بات تیس سال پہلے لکھی گئی تھی۔ پھر ہر گزرنے والے عشرے کے ساتھ اشیا کے حصول کی خواہش میں برابر ترقی ہوتی گئی۔ امریکی بلاشبہ اس چمک دار سڑک پر بہت آگے نکل گئے، لیکن ہر بڑا چھوٹا ملک تن دہی سے ان کے نقش قدم پر رواں دواں ہے۔
ماہر اشتہار نویس اشیا کے حصول کے مسلک کے بڑے پادری ہیں۔ ان لوگوں نے بڑی ہوشیاری سے نفسیات کے سائنسی اصول اپنا کر، مغالطہ آمیز لطیف انداز میں ہمارے ذہنوں کو متاثر کیا ہے۔ انہوں نے ہمارے شعوری مصلحت پسند ذہن کو نظر انداز کر کے ہمارے تحت الشعور تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ہم سگریٹ خریدیں تو وہ اپنا وقت اس بات پر ضائع نہیں کرتے کہ سگریٹ نوشی اچھی ہے یا بری۔ اس بحث میں پڑنے کے بجائے وہ خوب صورت تصاویر اور مناظر کے ذریعے سے سگریٹ نوشی کو دوسرے ممالک کی سیر اور امیر لوگوں کی صحبت سے وابستہ کرتے ہیں۔ سگریٹ ہاتھ میں لے کر ہم اٹلی میں پیسا کے مینار کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں یا مصر میں گیزہ کے ہرم کے آگے، یا سگریٹ منہ میں دبا کر ہم تیز دوڑنے والی موٹر کار میں سفر کرتے یا پرکشش عورتوں کو دیکھ کر مسکرا رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے تحت الشعور کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ایک خاص قسم کے جوتے پہن لینے سے ہم جاوید میاں داد بن جائیں گے اور ایک خاص برانڈ کی چائے پینے سے عمران خان، اور ایک برانڈ کی چائے کوئی بے حد حسین خاتون ہمارے لیے پیالی میں ڈال کر بصد انداز پیش کرے گی۔ ہماری بسیار خوری کی خواہش کو یوں تقویت دی جاتی ہے کہ ہم سے کہا جاتا ہے کہ اگر ہم ایک خاص نام کی ہاضمے کی ٹکیا استعمال کریں تو ہر قسم کے مرغن کھانے زیادہ مقدار میں کھا سکیں گے۔ نفسیات کے علم سے فائدہ اٹھا کر یہ عیار اشتہار نویس ہمارے بچوں کو ببل گم، ٹافی، سپاری اور مشروبات کا عادی بنا رہے ہیں۔
اشتہار بازی کے ان ماہروں کی مدد سے، جو گاہکوں کے لالچ کے جذبے اور یکایک مال دار ہو جانے کے خواب کو تقویت دینا جانتے ہیں، بہت سے ٹھگ حال ہی میں ہزاروں بیواؤں اور پنشن پانے والوں کی بچت ہڑپ کر کے روپوش ہو گئے۔ اشیا کے حصول کی خواہش اس وقت پنپتی ہے جب لالچ، شہوت، اور بسیار خوری کی طلب کو ترغیب دی جائے۔ اشتہار کے ماہر اس کالے جادو کے سوداگر ہیں۔ اس معاملے میں وہ شیطان پر برتری کا نہ سہی، اس کی ہم سری کا دعویٰ ضرور کر سکتے ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خواہش، شہوت اور بسیار خوری کے مخالف دانش مند بزرگوں کو شکست ہو گئی۔ لیکن حقیقت یہ نہیں۔ ان کی بات آج بھی درست ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ شہوت، لالچ اور بہت کھانے کی خواہش ہم کو خوشی یا سکون نہیں دے سکتی کیونکہ ان نفسانی جذبوں کو تقویت ہمارے اندر بے اطمینانی، نفرت، بد دیانتی اور تضاد کو جنم دیتی ہے جس کا لازمی نتیجہ انسانی معاشرے میں فساد اور دکھ میں اضافے کی شکل میں نکلتا ہے۔ سوائے جادوگروں کے یا بوجھ بجھکڑوں کے کون یہ کہہ سکتا ہے کہ زیادہ خرچ کرنے کی خواہش، گیس، نشے، حسن اور کھانے کے مسلک نے امریکیوں کو واقعی خوشی بخشی ہے یا ہم جیسے نقالوں کو خوشی دے گا؟
میں اس گفتگو کو ایک حکایت پر ختم کرنا چاہتا ہوں۔ اگلے وقتوں میں ایک بوڑھا صوفی تھا، حقیقی مرشد، سادہ اور مطمئن۔ ایک دن اس کے دنیا دار مرید گوشت کی زیادہ قیمت کی شکایت کرنے لگے۔
’’ہم نے اس کو سستا کر لیا ہے‘‘، مرشد نے کہا۔
’’حضور، یہ کیسے ممکن ہوا؟’’، مرید بولے۔
مرشد نے جواب دیا، ’’اس طرح کہ ہم اس کو نہ کھائیں گے اور نہ خریدیں گے۔‘‘
شاید صارف معاشرے کے بڑھتے ہوئے طوفان کا مقابلہ اسی طرح ممکن ہے:
’’کوئی بھی تمہاری اشیا کے حصول کی خواہش کا علاج نہیں کر سکتا، سوائے دانش مندوں کے۔ جاؤ، ان کو تلاش کرو۔‘‘ (المعری)
(ماخوذ از مجموعہ مضامین:’’کومیلا سے اورنگی تک‘‘)

جرسِ کارواں

ادارہ

حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ کی یاد میں نشست

پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی نے ۲۳ مئی ۲۰۰۲ء کو اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر خطیب اسلام حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ کی یاد میں ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا جس میں متعدد سرکردہ علماء کرام نے شرکت کی۔ اجلاس میں مولانا فداء الرحمن درخواستی اور مولانا زاہد الراشدی نے حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ کی دینی وملی خدمات کا تذکرہ کیا اور ان کی جدوجہد کے متعدد واقعات بیان کیے۔ مولانا درخواستی نے کہا کہ حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ ایک صاحب دل اور صاحب کردار عالم دین تھے جنہوں نے حضرت درخواستی اور دیگر اکابر کے ساتھ دینی جدوجہد میں سرگرم حصہ لیا۔ مولانا راشدی نے کہا کہ مولانا محمد اجمل خانؒ خود دار‘ حق گو اور باحمیت بزرگ تھے اور اس سلسلے میں انہوں نے متعدد واقعات بیان کیے۔ اس موقع پر حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی گئی اور ان کی دینی وملی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

گوجرانوالہ میں ’’رابطہ ادب اسلامی‘‘ کے حلقہ کا قیام

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ’ ’دائرہ معارف اسلامیہ‘‘ کے سربراہ اور رابطہ ادب اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمود الحسن عارف ۱۲؍مئی کو ایچی سن کالج لاہور کے پروفیسر حافظ محمد ظفر اللہ شفیق کے ہمراہ گوجرانوالہ تشریف لائے اور بعد نماز عصر الشریعہ اکادمی میں ایک علمی وادبی نشست میں شرکت کی۔ الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے اس موقع پر بتایا کہ ڈاکٹر صاحب موصوف ان کی خصوصی دعوت پر تشریف لائے ہیں اور اس نشست کا مقصد یہ ہے کہ گوجرانوالہ میں علمی وادبی سرگرمیوں کے فروغ اور نوجوان اصحاب فکر ودانش کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کرنے کے لیے ادبی حلقہ کا قیام عمل میں لایا جائے اور اس کے لیے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے قائم کردہ عالمی ادبی فورم ’’رابطہ ادب اسلامی‘‘ کا حلقہ قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
ڈاکٹر محمود الحسن عارف اور پروفیسر ظفر اللہ شفیق نے ’’رابطہ ادب اسلامی‘‘ کے اغراض ومقاصد اور مختلف ملکوں میں رابطہ کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی اور گوجرانوالہ میں اس کی شاخ کے قیام کی تجویز پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ اجلاس میں سید احمد حسین زید‘ حافظ محمد عمار خان ناصر‘ پروفیسر میاں انعام الرحمن‘ مولانا محمد یوسف‘ قاری حماد الزہراوی‘ پروفیسر حافظ منیر احمد اور قاری محمد داؤد خان نوید نے شرکت کی اور ’’رابطہ ادب اسلامی‘‘ کے حلقہ کے قیام کے سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کی گئی جو مختلف ارباب علم ودانش سے رابطہ کر کے حلقہ کی عملی تشکیل کا اہتمام کرے گی۔

جولائی ۲۰۰۲ء

سود کے بارے میں چند گزارشاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اسلامی تحریکات کا ایک تنقیدی جائزہ (۲)ڈاکٹر یوسف القرضاوی
مسلمان معاشرے اور تعلیمات اسلام ۔ فکری کنفیوژن کیوں؟ارشاد احمد حقانی
عصر حاضر میں اسلامی فکر ۔ چند توجہ طلب مسائلڈاکٹر نجات اللہ صدیقی
امت مسلمہ کو درپیش فکری مسائل کے حوالے سے چند اہم گزارشاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مجوزہ آئینی ترامیم کا ایک جائزہپروفیسر میاں انعام الرحمن

سود کے بارے میں چند گزارشات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سودی نظام وقوانین کے ۳۰ جون ۲۰۰۲ء تک خاتمہ کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کے تاریخی فیصلے پر نظر ثانی کے سلسلے شریعت اپیلٹ بنچ سپریم کورٹ آف پاکستان میں یوبی ایل کی اپیل کی سماعت کے موقع پر دینی وملی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے ’’پاکستان شریعت کونسل‘‘ کی طرف سے حسب ذیل گزارشات شریعت اپیلٹ بنچ کے معزز ارکان‘ فریقین کے وکلا اور اس موضوع سے دل چسپی رکھنے والے دیگر سرکردہ ارباب علم ودانش کی خدمت میں پیش کی گئیں:
★ سود تمام آسمانی شریعتوں میں حرام رہا ہے اور بائبل میں بھی اس سلسلے میں واضح ہدایات موجود ہیں چنانچہ بائبل کی کتاب خروج باب ۲۲ آیت ۲۵ میں ارشاد ہے کہ:
’’اگر تو میرے لوگوں میں سے کسی محتاج کو جو تیرے پاس رہتا ہے‘ کچھ قرض دے تو اس سے قرض خواہ کی طرح سلوک نہ کرنا اور نہ اس سے سود لینا۔‘‘
استثناء باب ۲۳ آیت ۱۹ میں ہے کہ:
’’تو اپنے بھائی کو سود پر قرض نہ دینا خواہ وہ روپے کا ہو یا اناج کا یا کسی اور ایسی چیز کا جو بیاج پر دی جایا کرتی ہے۔‘‘
جبکہ زبور باب ۱۵ آیت ۵ میں نیک آدمی کی صفات بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ:
’’وہ اپنا روپیہ سود پر نہیں دیتا۔‘‘
قرآن کریم میں سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۷۵ تا ۲۷۹ میں سود کی ممانعت کرتے ہوئے سود اور تجارت کو باہم مثل قرار دینے والوں کے موقف کی نفی کی گئی ہے‘ تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا گیا ہے‘ سود سے باز نہ آنے والوں کے طرز عمل کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے اور سود اور تجارت میں فرق نہ کرنے والوں کو مخبوط الحواس بتایا گیا ہے۔
سورۃ النساء کی آیت ۶۱ میں بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور عذاب کے اسباب بیان کرتے ہوئے ایک سبب یہ بتایا گیا ہے کہ انہیں سود سے منع کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ سود لیتے تھے۔
جناب نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ کے تاریخی خطبے میں سود کی کلی ممانعت اور تمام سابقہ سودی معاملات کے خاتمہ کا اعلان فرمایا اور جناب نبی اکرم ﷺ کی بیسیوں احادیث میں سود کی مذمت اور سودکا کاروبار کرنے والوں کے لیے سخت عذاب اور شدید ناراضی کا ذکر موجود ہے۔
علامہ سید سلیمان ندویؒ نے ’’سیرت النبی‘‘ میں لکھا ہے کہ جب اہل طائف نے جناب نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش ہو کر اسلام قبول کرنے کے لیے چند شرائط پیش کیں تو ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ ہم سود کا لین دین نہیں چھوڑ سکتے اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ ہمارا بیشتر کاروبار سودپر چلتا ہے لیکن جناب نبی اکرم ﷺ نے یہ شرائط قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
’’سیرت النبی‘‘ میں ہی مذکور ہے کہ نجران کے مسیحیوں نے جناب نبی اکرم ﷺ کے ساتھ اسلامی سلطنت میں بطور ذمی رہنے کا معاہدہ کیا تو معاہدہ کی باقاعدہ شرائط میں یہ بات درج تھی کہ ان میں سے کوئی سود کا لین دین نہیں کرے گا۔
★ کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم اور جناب نبی اکرم ﷺ نے اس سود کی ممانعت کی ہے جو شخصی قرضوں پر ضرورت مندوں سے لیا جاتا تھا اور تجارتی قرضوں یا لین دین میں سود کی ممانعت نہیں فرمائی۔ یہ بات درست نہیں ہے اور مندرجہ ذیل شواہد اس کی تردید کرتے ہیں:
۱۔ سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
وان کان ذو عسرۃ فنظرۃ الی میسرۃ۔
’’اگر مقروض تنگ دست ہو تو کشادہ دست ہونے تک اس کو مہلت دے دو۔‘‘ 
آیت میں اس صورت کے بیان کے لیے حرف ان استعمال ہوا ہے جو عربی زبان کے قواعد کی رو سے اس بات کی دلیل ہے کہ مذکورہ صورت نادر الوقوع ہے کیونکہ عام الوقوع صورت کے ذکر کے لیے عربی زبان میں حرف اذا استعمال کیا جاتا ہے ۔ مثلاً سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۸۲میں اللہ تعالیٰ نے روزہ مرہ لین دین کے احکام بیان کرنے کے لیے اذا تداینتم بدینکے ‘ جبکہ اگلی آیت میں اسی ضمن کی ایک نادر صورت یعنی سفر میں لین دین کی صورت میں رہن کا حکم بیان کرنے کے لیے وان کنتم علی سفر کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اسی طرح سورۃ المائدہ کی آیت ۶ میں عام حالات میں نماز سے پہلے وضو کا حکم بیان کرنے کے لیے اذا قمتم الی الصلوۃکے الفاظ آئے ہیں جبکہ غیر معمولی صورت احوال میں تیمم کا حکم بیان کرنے کے لیے وان کنتم مرضی او علی سفرکے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ چنانچہ یہ تصور کہ نزول قرآن کے زمانے میں صرف تنگ دست اور مفلوک الحال لوگ ہی اپنی روز مرہ ضروریات کے لیے سود پر قرض لیا کرتے تھے‘ غلط ہے کیونکہ یہ صورت تو‘ قرآن کے الفاظ کی رو سے‘ نادر اور قلیل الوقوع تھی جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ لوگ عام طور پر ذاتی اور صرفی ضروریات کے بجائے تجارتی مقاصد کے لیے سود پر قرض لیا کرتے تھے اور قرآن نے اسی کو حرام قرار دیا ہے۔
۲۔ سورۃ الروم کی آیت ۳۹ میں اللہ تعالیٰ نے سود پر قرض دینے کا محرک بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
وما آتیتم من ربا لیربوا فی اموال الناس فلا یربوا عند اللہ۔
’’اور تم سود پر جو قرض اس غرض سے دیتے ہو کہ وہ لوگوں کے مال میں بڑھے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتی‘‘۔ 
یہ محرک‘ ظاہرہے کہ ضرورت مندوں کو دیے جانے والے صرفی قرضوں کے بجائے حقیقتاً تجارتی سود میں پایا جاتا ہے کیونکہ صرفی قرضوں میں تو قرض کے مع سود واپس آنے کے بجائے خود اصل رقم ہی کے ڈوب جانے کا امکان غالب ہوتا ہے۔
۳۔ سنن ابن ماجہ‘ کتاب التجارات‘ باب التغلیظ فی الربا میں حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے‘ سود کھلانے والے‘ سود کا معاملہ لکھنے والے اور اس کا گواہ بننے والے سب افراد کو اللہ کی لعنت کا مستحق قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس سود سے مراد تجارتی کے بجائے صرف صرفی قرضوں کا سود ہے تو اس میں سود دینے والا کس وجہ سے لعنت کا مستحق ہے؟ کیونکہ وہ بے چارہ تو جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے نہایت اضطرار کی حالت میں سود پر قرض لے رہا ہے۔
۴۔ احادیث میں ’ربا الفضل‘ یعنی ہم جنس اشیا کے مبادلہ میں کمی بیشی کی ممانعت کے احکام ’ربا النسیءۃ‘ ہی کی فرع ہیں اور سود سے بچنے کے لیے سد ذریعہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس ضمن میں دو روایتیں درج ذیل ہیں:
صاحب مشکوٰۃ نے باب الربوٰا میں بخاری شریف اور مسلم شریف کے حوالے سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ نے خیبر کے محاصل وصول کرنے کے لیے ایک نمائندہ بھیجا جو واپس آیا تو اس کے پاس عمدہ قسم کی کھجوریں تھیں۔ نبی اکرم ﷺ نے پوچھا کہ کیا خیبر میں ساری کھجوریں اسی طرح کی ہوتی ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں نے عام اور ردی کھجوریں زیادہ مقدار میں دے کر ان کے عوض عمدہ کھجوریں تھوڑی مقدار میں لے لی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے اس سے منع فرمایا اور ہدایت کی کہ اگر ایسا کرنا ضروری ہو تو ردی کھجوریں نقد رقم کے عوض بیچ کر اس کے بدلے میں عمدہ کھجوریں خرید لیا کرو۔
مشکوٰۃ شریف باب الربوٰا میں ہی بخاری اور مسلم کے حوالے سے یہ واقعہ بھی منقول ہے کہ حضرت بلالؓ جناب نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عمدہ کھجوریں لائے۔ حضور ﷺ نے دریافت کیا کہ کہاں سے آئی ہیں؟ حضرت بلالؓ نے جواب دیا کہ عام کھجوریں زیادہ مقدار میں دے کر ان کے عوض میں عمدہ کھجوریں تھوڑی مقدار میں لے لی ہیں۔ جناب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو ’’عین ربا‘‘ ہے‘ اس لیے ایسا مت کرو اور اگر اس طرح کرنا ضروری ہو تو عام کھجوریں کسی اور چیز کے عوض فروخت کر کے اس کے بدلے میں عمدہ کھجوریں لے لیا کرو۔
احادیث سے ظاہر ہے کہ ربا الفضل کے احکام کا اطلاق روزمرہ کے تجارتی لین دین پر ہوتا ہے نہ کہ صرفی قرضوں پر۔ اب یہ ایک بالکل نامعقول بات ہوگی کہ تجارتی لین دین میں سد ذریعہ کے طور پر ربا الفضل تو حرام ہو اور ربا النسیءۃ‘ جس سے بچنے کے لیے ربا الفضل کو احتیاطاً ممنوع قرار دیا گیاہے‘ حلال اور جائز ہو۔ 
۵۔ یہ بات تاریخی شواہد سے بھی ثابت ہے کہ عہد رسالت اور دور صحابہ میں تجارتی قرضوں کا رواج موجود تھا۔ اس سلسلے میں دو واقعات کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
بخاری شریف کتاب الجہاد‘ باب برکۃ الغازی فی مالہ میں مذکور ہے کہ حضرت زبیر بن العوامؓ لوگوں سے قرض لے کر تجارت کیا کرتے تھے اور وفات کے بعد ان کے ذمے مختلف لوگوں کے اس قسم کے قرضوں کی مالیت بائیس لاکھ درہم تھی جو موجودہ پاکستانی کرنسی کے حساب سے پانچ کروڑ روپے سے زیادہ رقم بنتی ہے۔
طبری مطبوعہ قاہرہ ج ۳‘ ص ۸۷ میں مذکور ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ہند بن عتبہؓ نے بیت المال سے قرض لے کر بلاد کلب میں جا کر اس سے تجارت کی۔
ان شواہد سے واضح ہوتا ہے کہ دور نبوی اور دور صحابہ میں شخصی قرضوں کے علاوہ تجارت میں سود کی شکلیں موجود تھیں‘ لوگوں سے قرض لے کر سرمایہ کاری ہوتی تھی اور تجارت کے لیے بیت المال سے قرض لینے کی صورت بھی موجود تھی لیکن ان تمام صورتوں کی موجودگی کے باوجود کسی بھی صورت میں سود کا کوئی معمول نہیں تھا اور شخصی ضرورت‘ تجارت اور سرمایہ کاری سمیت کسی بھی غرض کے لیے قرض لینے پر سود کی کلی ممانعت تھی۔
★ جناب نبی اکرم ﷺ نے متعدد احادیث میں امت میں سود کے عام ہونے کو قیامت کی نشانیوں اور امت میں پیدا ہونے والی خرابیوں میں ذکر فرمایا ہے‘ مثلاً:
۱۔ مشکوٰۃ باب الربوٰا میں ابو داؤد‘ نسائی اور مسند احمد کے حوالے سے حضرت ابو ہریرہؓ کی یہ روایت منقول ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ہر شخص سود کھانے لگے لگا اور جو نہیں کھانا چاہے گا‘ اس کے سانس کے ساتھ سود شامل ہوگا۔
۲۔ مسند احمد اور بیہقی میں حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں ایک دور ایسا آئے گا کہ کچھ لوگوں کی شکلیں اس لیے بندروں اور خنزیروں کی صورت میں مسخ ہو جائیں گی کہ وہ شراب پیتے ہوں گے‘ ریشم پہنتے ہوں گے‘ ناچ گانے کی محفلیں آباد کرتے ہوں گے اور سود کھاتے ہوں گے۔
۳۔ حافظ ابن القیمؒ نے ’’اغاثۃ اللہفانؒ ‘‘ میں جناب نبی اکرم ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ
’’لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ وہ تجارت کے نام پر سود کو حلال قرار دینے لگیں گے۔‘‘
★ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام اس غرض سے عمل میں لایا گیا تھا کہ اس ملک میں قرآن وسنت کا نظام نافذ کیا جائے گا اور برطانوی دور کے نوآبادیاتی نظام سے نجات حاصل کر کے اس کی جگہ قرآن وسنت اور خلافت راشدہ کی طرز پر نیا نظام رائج کیا جائے گا جس کی صراحت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے متعدد ارشادات میں موجود ہے۔ انہوں نے ملکی معیشت کے بارے میں بھی وضاحت کے ساتھ فرمایا تھا کہ پاکستان کے معاشی نظام کی بنیاد اسلامی تعلیمات پر ہوگی اور مغرب کے معاشی نظام سے نجات حاصل کی جائے گی چنانچہ سنگ میل پبلی کیشنز اردو بازار لاہور کی شائع کردہ کتاب ’’قائد اعظم کے مہ وسال‘‘ (مصنفہ جناب محمد علی چراغ) کے ص ۳۳۰ میں مذکور ہے کہ یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ 
’’مغرب کے نظام معاشیات نے متعدد مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ میں اسلامی نظریات کے مطابق آپ کے یہاں نظام معیشت دیکھنے کا متمنی ہوں۔ مغرب کا معاشی نظام ہی دو عظیم جنگوں کا موجب بنا ہے۔ ہمیں اپنے مقاصد اور ضروریات کے لیے کام کرنا ہے‘ ہمیں انسانوں کے لیے معاشرتی اور معاشی انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں۔‘‘
جبکہ مکتبہ محمود مکان نمبر ۸‘ رسول پورہ سٹریٹ اچھرہ لاہور کے شائع کردہ کتابچہ ’’نظریہ پاکستان اور اسلامی نظام‘‘ میں قائد اعظم کے مذکورہ خطاب کو ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے:
’’میں اشتیاق اور دل چسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ’’مجلس تحقیق‘‘ بنکاری کے ایسے طریقے کیونکر وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے لاینحل مسائل پیدا کر دیے ہیں اور اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ مغربی نظام‘ افراد انسانی کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ گزشتہ نصف صدی میں ہونے والی دو عظیم جنگوں کی ذمہ داری سراسر مغرب پر عائد ہوتی ہے۔ مغربی دنیا صنعتی قابلیت اور مشینوں کی دولت کے زبردست فوائد رکھنے کے باوجود انسانی تاریخ کے بدترین باطنی بحران میں مبتلا ہے۔ اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظام اور نظریہ اختیار کیا تو عوام کی پرسکون خوش حالی حاصل کرنے کے اپنے نصب العین میں ہمیں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اپنی تقدیر ہمیں منفرد انداز میں بنانی پڑے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ ایسا نظام پیش کر کے گویا ہم مسلمانوں کی حیثیت سے اپنا قومی فرض سرانجام دیں گے۔ انسانیت کو سچے اور صحیح امن کا پیغام دیں گے کہ صرف ایسا امن ہی انسانیت کو جنگ کی ہول ناکی سے بچا سکتا ہے اور صرف ایسا امن ہی بنی نوع انسان کی خوشی اور خوش حالی کا امین ہو سکتا ہے۔‘‘
اس لیے شریعت اپیلٹ بنچ سپریم کورٹ آف پاکستان کے قابل صد احترام سربراہ اور معزز ارکان سے گزارش ہے کہ سودی نظام کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے تاریخی فیصلے پر نظر ثانی کا فیصلہ کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات‘ جناب نبی اکرم ﷺ اور خلفاء راشدین کے تعامل‘ امت کے ہر دور کے جمہور علما وفقہا کے فیصلوں‘ قیام پاکستان کے نظریاتی مقاصد اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے ارشادات وتصریحات کو سامنے رکھیں اور نوآبادیاتی استحصالی نظام کے منحوس شکنجے سے مظلوم پاکستانی قوم کو نجات دلانے والے تاریخی فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے جناب سرور کائنات ﷺ کے ارشادات وفرمودات کی تعمیل کی سعادت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مغرب کے استحصالی معاشی نظام کے جبر کو توڑنے میں پہل اور پیش قدمی کا اعزاز بھی برقرار رکھیں۔
(۱۱ جون ۲۰۰۲ء)

کولہو کے بیل

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سودی نظام کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو منسوخ کر کے اس کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا ہے اور اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں بہت سے سقم باقی رہ گئے ہیں جن کی اصلاح اور فیصلے کو جامع بنانے کے لیے اس کیس کی دوبارہ سماعت ضروری ہے جس کے دوران میں فریقین پہلے سے اٹھائے گئے نکات کے علاوہ نئے نکات بھی اٹھا سکیں گے۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے بعد وہ کنفیوژن ختم ہو گیا ہے جو سودی نظام کے مستقبل کے بارے میں ملکی اور بیرونی حلقوں میں پایا جاتا تھا اور وہ خدشات بھی ذہنوں سے نکل گئے ہیں جو سودی نظام کے خاتمے کی صور ت میں ملکی معیشت کے ڈھانچے میں پیدا ہونے والے خلفشار کے حوالے سے مسلسل گردش کر رہے تھے۔ عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں سقم کی موجودگی، اس پر نظر ثانی کی ضرورت اور اس کی نئے سرے سے سماعت کے لیے وفاقی شرعی عدالت کو ہدایت کے حوالے سے ہے اس لیے اس پہلو پر کچھ عرض کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اب یہ کیس دوبارہ وفاقی شرعی عدالت میں سماعت کے لیے پیش ہوگا۔ فریقین کے وکلا دلائل کے تبادلہ کا ایک نیا سلسلہ شروع کریں گے، بہت سے اعتراضات اٹھائے جائیں گے، باہمی بحث ومباحثہ ہوگا اور اس کے بعد معلوم ہوگا کہ وفاقی شرعی عدالت اپنے پہلے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے یا اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ اس لیے اس بنیادی سوال پر تو ہم کچھ عرض نہیں کریں گے البتہ بعض متعلقہ امور کے بارے میں چند گزارشات ضرور پیش کرنا چاہیں گے جن کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ اگر ان پر متعلقہ حلقے سنجیدہ توجہ دیتے تو شاید اس فیصلہ کی نوبت نہ آتی اور اب بھی یہ اس لیے عرض کرنا ضروری ہے کہ کیس کی ازسرنو سماعت کے موقع پر اگر یہ امور سنجیدہ توجہ کے مستحق نہ ٹھہرے تو ہمارا اندازہ ہے کہ نتیجہ پہلے سے مختلف نہیں ہوگا اور خاص طور پر دینی حلقے اور ان کی قیادت ’’بعد از مرگ واویلا‘‘ کے سوا کچھ نہیں کر پائیں گے۔
ملک کے معاشی ڈھانچہ کے بارے میں اس بنیادی فیصلے کے لیے ہم نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ صرف کر دیا ہے مگر ابھی تک ’’زیر پوائنٹ‘‘ پر کھڑے ہیں۔ فیصلے میں اس قدر تاخیر کے اسباب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور یہ بنیادی طور پر دینی قیادتوں اور اہل علم ودانش کے ان حلقوں کی ذمہ داری ہے جو سودی معیشت کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں اور اسے ملکی نظام کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے اس کے خاتمے کے متمنی ہیں۔ ہمارے خیال میں ان دونوں حلقوں نے ابھی تک اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا ورنہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور ناموس رسالت کے دفاع کی طرح اس مسئلے کو بھی دینی حلقے اپنی ترجیحات میں صحیح جگہ دے دیں اور اس کے لیے عوامی ذہن کو تیار کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام طبقات کو اعتماد میں لینے، کیس کو صحیح طریقے سے لڑنے اور علمی اور عوامی دونوں محاذوں پر دباؤ کو منظم کرنے کے لیے مناسب جدوجہد کریں تونتائج پر ان کی گرفت اس قدر ڈھیلی نہیں رہے گی جیسا کہ اب صاف طور پر دکھائی دینے لگی ہے۔
ہمیں عدالت عظمیٰ میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے یوبی ایل کی رٹ کی سماعت کے دوران میں ایک فاضل جج کے ان ریمارکس سے مکمل اتفاق ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا دفاع کرنے والے وکلا کی تیاری مکمل نہیں تھی اور خود ہمارا تاثر بھی یہی ہے کہ وہ سرکاری وکلا کے دلائل اور نکات کے جواب دینے کے بجائے روایتی باتیں دہرانے اور جذبات کو اپیل کرنے والی باتوں پر اکتفا کر رہے تھے۔ یہ بات درست ہے کہ سرکاری وکلا بالخصوص سید ریاض الحسن گیلانی ایڈووکیٹ نے جو نکات اٹھائے اور جس طرح محنت کر کے اپنا کیس پیش کیا، ان دلائل ونکات کا غلط یا صحیح ہونا اپنے مقام پر مگر دلائل کی تلاش میں ان کی محنت اور عوامی ذہن کو متاثر کرنے والے طرز استدلال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مگر دوسری طرف اس کا فقدان تھا اور اس کی وجہ یہ نہیں کہ سرکاری وکلا کے دلائل اور نکات کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ان دلائل کا جواب موجود ہے اور ہم ان کالموں میں سرکاری وکلا کی اس بحث کا جائزہ لینے اور علمی انداز سے اس کے دلائل ونکات کا جواب دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ہمارے نزدیک اس کی وجوہ مندرجہ ذیل ہو سکتی ہیں:
۱۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا دفاع کرنے والے وکلا نے نئی تیاری کی ضرورت محسوس نہیں کی اور سابقہ دلائل ونکات کے دہرانے کو ہی کافی سمجھا۔
۲۔ سرکاری وکلا کی طرف سے پیش کیے جانے والے دلائل اور نکات کو انہوں نے درخور اعتنا نہیں سمجھا اور عوامی سطح پر ان کے اثرات پر توجہ نہیں دی۔
۳۔ ملک کی بڑی دینی جماعتوں، علمی مراکز اور علمی شخصیات نے اس کیس میں براہ راست دل چسپی لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور اس میں کوئی رول ادا نہیں کیا۔ پاکستان شریعت کونسل نے رٹ کی سماعت کے دوران میں ایک تفصیلی عرض داشت سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ کے معزز ارکان اور فریقین کے وکلا کو بھجوائی تھی جس میں ان بہت سے نکات کا جواب موجود تھا جن کی بنیاد پر اس فیصلے کو دوبارہ سماعت کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے پاس بھجوایا گیا ہے مگر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا دفاع کرنے والے وکلا تک نے اس پر توجہ دینے کی زحمت نہیں فرمائی۔
۴۔ جتنا وقت سرکاری وکلا کو اپنا موقف اور دلائل پیش کرنے کے لیے دیا گیا، دوسری طرف کے وکلا کو جواب دینے کے لیے اتنا وقت نہیں ملا اور وہ اپنی بات دل جمعی کے ساتھ نہیں کہہ سکے۔ 
وجوہ کچھ بھی ہوں مگر نتائج سامنے ہیں کہ ہم سودی نظام اور غیر اسلامی ڈھانچے کے حوالے سے ایک بار پھر زیرو پوائنٹ پر واپس چلے گئے ہیں اور اب ہمیں نئے سرے سے اپنے سفر کا آغاز کرنا ہے۔
ایک نظر ان مراحل پر ڈال لیجیے جن سے گزر کر ہم نے ’’کولہو‘‘ کے گرد یہ چکر مکمل کیا ہے:
ان مراحل سے گزرنے کے بعد بھی اگر ہم ابھی تک اسی مقام پر کھڑے ہیں کہ ہمیں سود اور استحصال پر مبنی معاشی ڈھانچہ کو ہاتھ بھی لگانا ہے یا نہیں تو یہ ایک ’’قومی المیہ‘‘ ہے اور اس المیے کے رونما ہونے کے اسباب میں ہم سب کسی نہ کسی درجے میں ضرور شریک ہیں اور ہر طبقہ اور شخص کو اس کا ضرور جائزہ لینا چاہیے۔ جہاں تک کسی نظام کو تبدیل کرنے کی صلاحیت کا تعلق ہے، ہم اس صلاحیت سے محروم نہیں ہیں۔ ہم تو ایک فون کال پر پورے سسٹم اور پراسس میں ’’یوٹرن‘‘ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نفع ونقصان کی پروا کیے بغیر اسے نباہنے اور بھگتنے کا حوصلہ بھی ہمارے اندر موجود ہے۔ اس لیے بات سسٹم کو تبدیل کرنے کی صلاحیت اور اس تبدیلی کے نقصانات برداشت کرنے کے حوصلے کی نہیں بلکہ اصل بات کچھ اور ہے اور جب تک ہم اس بات کا پوری طرح ادراک کر کے اسے گرفت میں لانے کی کوشش نہیں کریں گے، نوآبادیاتی استحصالی نظام کے ’’کولہو‘‘ کے گرد اسی طرح چکر کاٹتے رہیں گے۔

اسلامی تحریکات کا ایک تنقیدی جائزہ (۲)

ڈاکٹر یوسف القرضاوی

جذبات سے مغلوبیت

تحریک اسلامی جس طرح کے بگاڑ کا شکار ہو رہی ہے‘ اس کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ عقلی اور علمی پہلو پر جذبات کی دھندچھا رہی ہے۔ تحریک کی راہوں میں بلاشبہ جذبات کا ایک رول ضرور ہے۔ اس حد تک جذبات کی اہمیت سے انکار نہیں۔ جذبات وکیفیات قلبی کی لطیف لہروں کو یکسر مسدود کر دینا مقصود نہیں ہے اور نہ یہ منشاہے کہ عقل کو اتنا غلبہ حاصل ہو جائے کہ تحریک اسلامی عقلیت کے تابع ہو کر رہ جائے۔ یہ چیز نہ صرف تحریک کے مزاج کے خلاف ہے بلکہ اسلام کے مزاج سے بھی اس کو کوئی مطابقت نہیں۔ اسلام عقل کا احترام سکھاتا ہے اور فکر ونظر کو کام میں لانے کی دعوت دیتا ہے لیکن یہ کوئی مجرد جامد عقلی ومنطقی فلسفہ نہیں ہے جس میں جذبات انسانی کا سرے سے کوئی گزر ہی نہ ہوتا ہو۔ اس کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے جذبات وواردات کے عمل دخل سے انکار ممکن نہیں ہے۔ یہ جذبات اپنے مقام پر بڑی قدر وقیمت کے حامل ہیں۔ اللہ کے لیے محبت‘ اللہ کے لیے نفرت‘ خدا کی نعمتوں اور فراغت کو پا کر فرحت وطمانیت‘ نیکی پر مسرت کی کلیوں کاکھلنا‘ معصیت کے ارتکاب پر حزن کی کیفیت پیدا ہونا‘ اللہ کا خوف دلوں میں بیٹھنا اور اس سے امید بھرا ایک تعلق قائم کرنا‘ سب ایسے نفسیاتی احوال ہیں جن کی اہمیت مسلم ہے۔ اہل تصوف نے تو ان جذبات وکیفیات پر اپنی کتابوں میں پورے پورے باب باندھے ہیں۔ اس کی واضح مثالیں ہرویؒ کی ’’منازل السائرین‘‘ اور ابن قیمؒ کی طرف سے اس کی شرح ’’مدارج السالکین‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح کی اور بھی کئی کتب ہیں۔
اس حد تک جذبات کی ہواؤں سے نہ ناپسندیدگی ہے اور نہ ان کے وجود کے حوالے سے کوئی اختلاف اور جھگڑا۔ اسلام انسانی عقل اور قلب کو بیک وقت مخاطب بناتا ہے۔ اسی بنا پر اسلام نے ان لوگوں کو لائق مذمت ٹھہرایا ہے جو عقل وفہم کو استعمال نہیں کرتے۔ ساتھ ہی ان لوگوں کی مذمت بھی آئی ہے جن کے دل اللہ کے ذکر اور پیغام سے نرم نہیں پڑتے۔ چنانچہ عقل وجذبات کو بیک وقت کام میں لانا ضروری ہے۔ یہ متفق علیہ حدیث یہی حقیقت ہمیں سمجھاتی ہے: ’’جس شخص میں تین چیزیں پائی جائیں‘ اس نے حقیقت میں ایمان کی حلاوت کا مزا چکھ لیا۔ یہ کہ اللہ اور رسول سے بڑھ کر اس کے لیے کوئی محبوب نہ ہو۔ اس کی محبت اور نفرت خالص اللہ کے لیے ہو۔ اسلام سے دوبارہ کفر کی طرف پلٹ کر جانا اس کے لیے ایسے ہی ناگوار ہو جیسے اسے اپنا آگ میں جلایا جانا ناگوار ہے۔‘‘
تحریک اسلامی کے مزاج میں ایمانی کیفیات‘ شعور ووجدان کا جہاں لحاظ موجود ہے‘ وہیں پر جذبات کے شعلوں کی لپک کے لیے گنجائش بھی ہے۔ تحریک کے لیے ضروری ہے کہ عقل کی روشنی میں جہد وعمل کا اہتمام بھی کرے اور محبت‘ اخوت اور ایثار جیسے جذبوں کے سوتوں کو بھی خشک نہ ہونے دے۔
اسلامی جماعت اسلام کے غلبے کے لیے کوشاں ہے۔ اس میں فہم وفکر کی ہم آہنگی بھی ہونی چاہیے‘ تنظیمی وحدت بھی قائم رہنی چاہیے اور ساتھ ساتھ جذباتی رشتے بھی مستحکم رہنے چاہییں۔ قلوب کی تالیف ہوتی رہے۔ دل اللہ کی محبت کی رسی سے باہم جڑے رہیں۔ وہ کیفیت پیدا ہو جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ پر بطور احسان بیان فرمایا ہے:
ھو الذی ایدک بنصرہ وبالمومنین والف بین قلوبہم لو انفقت ما فی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبہم ولکن اللہ الف بینہم انہ عزیز حکیم (الانفال ۶۲‘ ۶۳)
اور وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمہاری تائید کی اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے۔ مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑ دیے۔ یقیناًوہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔
امام حسن البناؒ ہر منگل کو اپنے ہفتہ وار خطبوں اور تقریروں میں اس امر کی شدید خواہش اور کوشش کرتے تھے کہ دلوں کو ایمان ومحبت کے ذریعے سے ہمیشہ کی تازگی اور زندگی بخشی جائے۔ اسی بنا پر انہوں نے ارکان بیعت کے لیے ’’اخوت‘‘ کو علامت تعلق بنایا اور جماعت کا نام ’’الاخوان المسلمون‘‘ رکھا۔ امام اپنے پر اثر ارشادات میں بتاتے تھے‘ ’’ہماری دعوت کی تین بنیادیں ہیں: فہم دقیق‘ ایمان عمیق اور حب وثیق۔‘‘
ان ساری گزارشات کی غرض یہ بتانا تھا کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تحریک اسلامی کے اندر عواطف وجذبات کا یہ مقام اور اہمیت ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ تحریک کے اندر جذبات کی کارفرمائی بڑھ گئی ہے تو درحقیقت ہماری اس سے مراد کیا ہے؟ اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ تحریک اسلامی میں جملہ حالات وتعلقات‘ فکر وعمل‘ افعال واقوال‘ آرا وموقف‘ شخصیات اور اجتماعی ہیئت میں انفعالیت اور جذبات سے مغلوبیت کا حصہ عقل کے استعمال سے زیادہ ہے۔ غلبہ جذبات کے رجحان کے سلسلے میں متعدد دلائل ومظاہر موجود ہیں اور ان کے اثر سے منفی نتائج کی بھی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ ہم ان میں سے تین سب سے بڑے مظاہر ونتائج کا ذکر کرتے ہیں:

(الف) ناکافی غور وخوض اور منصوبہ بندی

اسلام عقل وعلم کو پکارتا اور انہیں کام میں لانے کی دعوت دیتا ہے۔ جادۂ حق پر چلتے ہوئے معروف روایات کا لحاظ رکھنے کی تلقین اور بہت سی جگہوں پر احتیاط وپرہیز کی تاکید کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کل کا سامان اور مستقبل کے لیے تیاری کرو لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تحریک اسلامی میں اس نوعیت کا اہتمام کرنے کا رجحان کمزور ہے۔
میں نے ایک مرتبہ ایک بڑے داعی اسلام کے سامنے حالات وواقعات کے مطالعے اور اس کی روشنی میں منصوبہ بندی کی ضرورت کا اظہار کیا۔ جواب میں ان کا ارشاد تھا ’’کیا اللہ کی طرف بلانے اور لوگوں کو اسلام کی تعلیم دینے کے لیے بھی کسی منصوبہ بندی اور نقشہ گری کی ضرورت ہے؟‘‘ اس کے مقابلے میں ذرا نبی ﷺ کا عمل دیکھیں۔ آپ نے مدینہ ہجرت کرکے آنے کے بعد اسلام کے نام لیواؤں کی سرشماری کا حکم دیا تھا۔ بخاری کی روایت ہے کہ آپ کے حکم کی تعمیل میں مردم شماری ہوئی اور مسلمانوں کی کل تعداد ڈیڑھ ہزار تھی۔ اس عمل سے جس حقیقت پر دلالت ہوتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ آپ افرادی قوت کی اہمیت کا احساس رکھتے تھے۔ آپ نے نام لیوان اسلام کی تعداد کا شمار اس لیے کرایا تاکہ ان کی قوت وقیمت اور احوال وپوزیشن سے ٹھیک ٹھیک واقفیت ہو جائے۔ سچی بات یہ ہے کہ مطالعہ اور غور وفکر کو اسلام میں بھی واقعی اہمیت حاصل ہے اور تحریک اسلامی میں بھی اسی سے اپنی اور مخالفین کی قوت کا اندازہ ہو پاتا ہے۔ متعلقہ بیانات‘ ضروری معلومات اور ٹھوس حقائق کو جمع کر کے ان کا تجزیہ کرنے کے بعد ہی صحیح نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں اور ایسا لائحہ عمل وضع ہو سکتا ہے جس کو اختیار کر کے نصب العین کا حصول ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ 
تحریک سے نسبت رکھنے والے بعض لوگوں کو غور وخوض اور عمل کے لیے نقشہ سازی بڑی گراں گزرتی ہے۔ ہمارے ایک دوست کے نزدیک غور وفکر کے بعد عمل کے لیے راست راہوں کا تعین ایک ایسا فریب ہے جس کا مظاہرہ اکثر ماہرین اقتصادیات معاشی منصوبہ بندی میں نفع کے گوشوارے دکھا کر کرتے رہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اصل اہمیت آغاز کار کی ہے۔ ہمیں کام شروع کر دینے کے بجائے ٹک کر چین سے بیٹھ نہیں جانا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا ناقص عمل پر بھی یقین ہے۔ کام ہونا چاہیے خواہ وہ نقص وخطا کے پہلو اپنے اندر رکھتا ہو۔ آج ہم ناقص عمل کر دکھائیں گے تو کل کوئی اللہ کا بندہ آکر اسے درست کر دے گا۔ نقص رفع اور خطا صحیح ہو جائے گی۔ 
ممکن ہے اس نقطہ نظر کو بھی کچھ سند جواز حاصل ہو اور کسی سطح پر اندھا دھند اور اضطراری عمل کے مثبت نتائج بھی نکل آتے ہوں لیکن اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ بے سوچے سمجھے اور غلط اعمال کی پیوند کاری اور ٹیڑھے میڑھے اور آنکھیں موند کر بنائے جانے والے منصوبوں کے ذریعے سے منزل تک پہنچنا صحیح اور گہری منصوبہ بندی کے مقابلے میں ہزار گنا دشوار ہے۔ بعد میں بڑے مخلص لوگوں کی تھکا دینے والی مساعی وجہد‘ راہوں کی کجی کو درست کرنے میں ہوتی رہتی ہے اور نتیجہ کچھ برآمد نہیں ہوتا۔ غلط بنیادوں پر استوار ہونے والی جملہ مساعی غیر مشکور اور حوصلہ شکن ثابت ہوتی ہیں کیونکہ مساعی کی دیوار کی پہلی اینٹ ہی غلط رکھی گئی ہوتی ہے۔
زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے اور امتیاز وخصوصیت پیدا کرنے کے لیے بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ علمی‘ قانونی‘ سیاسی‘ اقتصادی‘ اجتماعی‘ ثقافتی‘ تربیتی‘ نشریاتی اور تنظیمی میدانوں میں ترقی کر کے دکھانا اور مہارت بہم پہنچانا جدید معاشرے میں اس لیے بھی ضروری ہے کہ عوامی ضروریات کی تکمیل اور تحریکی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ان میں سے کوئی شعبہ حیات بھی غیر اہم اور نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں ہے۔ چنانچہ ترقی ومہارت اور تخصص وامتیاز کے لیے پلاننگ ناگزیر ہے۔ یہ کمپیوٹر‘ ایٹمی اسلحے‘ فضائی جنگوں‘ طب وریاضی میں زبردست ترقی کا دور ہے۔ دنیا ایجادات کے میدان میں بہت آگے جا چکی ہے۔ یہ گہرے غور وخوض اور منصوبے کا نتیجہ ہے۔ لکیر کا فقیر بنے رہنا‘ آپس میں غیر مفید چیزوں پر الجھتے رہنا اور بے نتیجہ ورد کرتے رہنا باعث ضیاع ہے۔ مختلف شعبہ ہائے حیات میں مہارت وتخصص شریعت کی نظر میں بھی امت مسلمہ پر واجب ہے۔ ایک میدان میں اپنی ساری قوتیں اور توانائیاں کھپا دینا اور دوسرے شعبوں سے غافل رہنا کسی طور پر بھی روا نہیں ہے۔
اسلام میں جہاد کی منزلت واہمیت کا کون اندازہ کر سکتا ہے؟ اس کے باوجود نبی ﷺ کے عہد میں تمام مسلمانوں کے یک بارگی جہاد پر نکل جانے کو بھی ایک موقع پر قرآن نے خامی بتایا ہے کیونکہ اس وجہ سے مسلمان ایک دوسرے میدان سے غافل ہو گئے تھے جو اہمیت کے اعتبار سے کچھ کم نہیں۔ یعنی دین کے فہم کے سلسلے میں ان کی توجہ وطلب جہاد میں شرکت کے مقابلے میں کم ہو گئی تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وماکان المومنون لینفروا کافۃ فلولا نفر من کل فرقۃ منہم طائفۃ لیتفقہوا فی الدین ولینذروا قومہم اذا رجعوا (التوبہ ۱۲۲)
اور کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے۔ تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تا کہ وہ پرہیز کرتے۔
ذرا غور کریں ہمارے کام اٹکل پچو اور ہمارے تیر بے ہدف کے چل رہے ہیں، جبکہ معاندین اسلام اور مخالفین تحریک اسلامی ٹھوس پلاننگ کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری جدوجہد کا پھل ان کی جھولی میں پڑتا ہے۔ پھل پکنے اور توڑنے کے وقت ہم بے خبر ہوتے ہیں کیونکہ منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث ہمیں پھل پکنے کے موسم ہی کی خبر نہیں ہوتی۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ استعمار غرب کے خلاف آزادی کی تحریکوں میں یا کسی باطل قوت کے خلاف عوامی احتجاج کی لہر اٹھتے وقت ان تحریکوں کے لیے قوت محرکہ اسلام ہی بنتا رہاہے، عوامی جذبات کا سرچشمہ وابستگی اسلام ہی ثابت ہوتا رہا لیکن اسلام کے نام پر جو کھیتی بوئی گئی اور جو پودے لگائے گئے، انہیں کاٹا اور ان کی باغ بانی کا کام آگے چل کر سنبھالا تو ان اسلام دشمن، مکار اور کینہ پرور عناصر نے جو چپکے سے ہماری صفوں میں گھس آئے تھے؟ ایسے عناصر ان تحریکوں میں مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہو کر اس تاک میں لگ جاتے ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں پھاڑا اور لڑا دیا جائے ، آگے بڑھ کر جدوجہد کی قیادت سنبھال لی جائے اور عظیم کوششوں کا پکا ہوا پھل اپنے دامن میں سمیٹ لیا جائے۔ یہ ہماری بے تدبیری، معاملہ نافہمی اور بے فکری ولا پروائی ہی کے باعث ہوتا ہے کہ اسلام دشمن اور فریب کار لوگ ہمارے کندھوں پر سوار ہو کر اور ہمارے نعروں کی گونج میں ہیرو بن بیٹھتے ہیں، لوگ اپنا تن من دھن ان کے سپرد کر دیتے ہیں اور وہ نام نہاد ہیرو اطمینان کے ساتھ فتح وکام رانی کا ثمرہ پا لیتے ہیں۔ کتنوں کو دیکھا گیا کہ اسلام کا محض لبادہ اوڑھ لیتے ہیں، ان کی زبانوں پر اسلام، اسلام کا ورد جاری ہو جاتا ہے، دل کے اس خلاف سوچ رہے ہوتے ہیں۔ اسلام عملاً ان کی زندگی سے کوئی میل نہیں کھاتا۔ اپنی لچھے دار تقریروں اور دجالانہ تدبیروں کے باعث وہ مسلم عوام کو دھوکہ دینے میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔ جب اقتدار کا منصب اور ہیرو کا مرتبہ پا لیتے ہیں تو اسلام والا نقاب اتار پھینکتے اور اپنے حقیقی روپ میں ظاہر ہو جاتے ہیں۔
کمال اتاترک کو لیجیے۔ اسلام کے جھنڈے کے تحت، اسلام ہی کے نام پر، اس نے ترک عوام کی قیادت سنبھالی۔ عوام نے اپنی جانیں اور مال بخوشی اس کو سونپ دیے، اس کی عظمت کے نعرے لگائے، خوب خوب تعریف وستائش ہوئی، غازی کہلایا لیکن جب سادہ لوح مسلم عوام کی حمایت اور اسلام کے نام کے استعمال کے ذریعے کام یابی نے اس کے قدم چومے، اسلام کی تلوار اور غازی کا لقب پانے والا یہ شخص خود اسلام اور مسلمانوں کے لیے زہر میں بجھا ہوا خنجر ثابت ہوا۔ اس نے خلافت کی بساط کمال ہوشیاری سے لپیٹی اور اسلام والا پورا باب ہی خود اس نے مقفل کر دیا۔ ترکی عوام کے اسلام سے سارے رشتے کاٹنے کے درپے ہو گیا۔

مسلمان معاشرے اور تعلیمات اسلام ۔ فکری کنفیوژن کیوں؟

ارشاد احمد حقانی

ملائشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے عہد کیا ہے کہ وہ اپنے ملک کی ایک ریاست (یعنی صوبے) کے وزیر اعلیٰ جناب عبد الہادی اورنگ کے اس عزم کو ناکام بنا دیں گے کہ وہ اپنی ریاست میں شرعی احکام نافذ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ جناب عبد الہادی جس قسم کے قوانین نافذ کر رہے ہیں اور مزید کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس کے نتیجے میں ’’وہ جہنم میں جا سکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ مذکورہ قوانین نافذ کر کے ہادی اورنگ گناہ کے مرتکب ہوں گے کیونکہ یہ قوانین غیر منصفانہ ہیں۔ انہوں نے کہا: ’’چونکہ انہوں نے ایسے قوانین کی منظوری دی ہے جو حقیقی اسلامی تعلیمات پر مبنی نہیں ہیں اور اسلام کی سچی تعلیمات کو مسخ کرتے ہیں، اس لیے قیامت کے روز انہیں سزا ملے گی۔ میری حکومت عبد الہادی اورنگ کی پارٹی PAS کے مجوزہ قوانین کا مطالعہ کرے گی اور آئین کے اندر ہمیں اختیار ہوا تو ہم ان قوانین کا نفاذ روک دیں گے۔ میری جماعت اس پارٹی کے پروگرام کی مخالفت کرنے سے غیر اسلامی نہیں بن جائے گی۔‘‘
ملائشیا کے صوبے ترنگانو کے وزیر اعلیٰ جناب عبد الہادی جماعت اسلامی پاکستان کے ایک پچھلے سالانہ اجتماع میں، جو اس کی نئی آبادی قرطبہ میں منعقد ہوا تھا، تشریف لائے تھے اور میری ان سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔ وہ اپنے صوبے میں طالبان یا ضیاء الحق طرز کے اسلامی قوانین نافذ کر رہے ہیں اور ڈاکٹر مہاتیر نے انہی کی مخالفت کی ہے۔ ڈاکٹر مہاتیر کا تازہ بیان ان لوگوں کے لیے باعث حیرت ہوگا جنہوں نے صرف ایک روز پہلے ان کی زبان سے یہ دعویٰ سنا تھا کہ ملائشیا ایک اسلامی بنیاد پرست ریاست ہے کیونکہ وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات پر عمل کرتی ہے۔ یہ لوگ حیران ہوں گے کہ ڈاکٹر مہاتیر نے دو ایک ہی روز میں اس قدر ’’متضاد‘‘ باتیں کیسے کر دی ہیں لیکن اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ ڈاکٹر مہاتیر کے یہ بظاہر دو متضاد بیانات اصل میں اس مخمصے اور فکری الجھاؤ کے مظہر ہیں جو مسلمان ممالک، اس کے دانش وروں، علما اور جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ مغربی دنیا تو اسلام کے بارے میں الجھی ہی ہوئی ہے لیکن مسلمان معاشروں کے مختلف طبقات بھی کچھ کم الجھے ہوئے نہیں ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ روایتی طور پر اسلام کے ترجمان اور شارح ہمارے علما سمجھے جاتے ہیں۔ چونکہ ان کی اکثریت ایک زائد المیعاد اور فرسودہ نظام تعلیم کی پیداوار ہے اور ان کی اکثریت جدید عمرانی علوم سے بالکل بے بہرہ ہے اس لیے وہ آج بھی صدیوں کے تعامل کے نتیجے میں مدون ہونے والی شریعت کے اپنے فہم کے حتمی اور قطعی ہونے پر اصرار کرتی ہے اور اس کی تمام جزئیات کے نفاذ کو دین کا عین تقاضا سمجھتی ہے۔ اس کے مقابلے پر کچھ ایسے تعلیم یافتہ مسلمان بھی ہیں جو تعلیمات اسلام سے قریب قریب کلی طور پر بے بہرہ ہیں۔ وہ نہ صرف اسلام سے نابلد محض ہیں بلکہ بعض دوسرے فلسفوں اور نظام ہائے زندگی کے زیر اثر ہیں۔ ان فلسفوں اور نظام ہائے زندگی کے اکثر اجزا جوہری اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں۔ ان کا تصور کائنات، تصور انسان، زندگی بعد الموت کا فہم، وحی اور رسالت کے بارے میں ان کے تصورات، اسلامی تصورات کی ضد اور ان سے متصادم ہیں لیکن خوش قسمتی سے مسلمان معاشروں میں ادھر کچھ عرصے سے (یوں کہہ لیجیے کہ قریباً ایک سو سال سے) مسلمان سکالرز کا ایک اور طبقہ ابھر رہا ہے جو جدید وقدیم کا جامع ہے، جس کے مآخذ رہنمائی تو قرآن وسنت ہیں لیکن جو معاصر عمرانی علوم پر بھی نظر رکھتا ہے اور جو روح عصر سے آشنا ہے۔ یہ تیسرا طبقہ علما وفضلا ہمارے مستقبل کی امید ہے لیکن کم از کم اس وقت مسلمان معاشروں میں ان تینوں طبقات کے درمیان زیادہ تر فکری اور علمی اور ایک حد تک عملی اور سیاسی مسابقت کی دوڑ بھی جاری ہے۔ فکرونظر کے اسی اختلاف کی وجہ سے تہذیب مغرب کے بارے میں بھی ان تینوں طبقوں کا رد عمل مختلف ہے اور اکثر متصادم بھی۔ اس فکری وعملی مجادلے کی سنگینی اور شدت کا اندازہ ڈاکٹر مہاتیر ہی کے مذکورہ بیانات سے کیا جا سکتا ہے۔ وہ جناب عبد الہادی اورنگ کو اپنے فہم شریعت کو نافذ کرنے پر جہنم میں جانے اور روز محشر سزا ملنے کی وعید سنا رہے ہیں جبکہ موصوف کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ اسلام کی ٹھیٹھ شکل کو اپنی ریاست میں رائج کر رہے ہیں۔ کیا اس سے زیادہ سنگین فکری بعد کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟
تینوں طبقوں کے فکر ونظر کے اس اختلاف کا پیدا کردہ بحران اور کنفیوژن اس وقت سنگین تر ہو جاتا ہے جب ہم مغربی تہذیب اور مغربی جمہوریت کے بارے میں ان کے متبائن اور متخالف او رمتصادم رویے دیکھتے ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال صرف فرزند اقبال ہی نہیں ہیں، اقبال کے ایک باخبر طالب علم بھی ہیں۔ چند ماہ پہلے ہم ایک مغربی چینل کے ٹی وی پروگرام کی ریکارڈنگ کے لیے انتظامات کو آخری شکل دیے جانے کے انتظار میں بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔ دوران گفتگو ڈاکٹر جاوید اقبال نے مجھ سے کہا (دل تھام کر بیٹھیے اور غور سے سنیے) کہ اقبال آخر وقت تک اپنا ذہن صاف نہ کر سکے کہ تہذیب مغرب کے بارے میں ان کا رویہ درپیش لاتعداد فکری حوالوں سے کیا ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کی اس رائے میں کتنا وزن ہے، اس وقت میں اس سوال پر گفتگو نہیں کر رہا لیکن اس سے آپ اندازہ کیجیے کہ مسلمان سکالرز کے لیے تہذیب مغرب کے بارے میں ایک صائب اور متوازن رائے قائم کرنا کس طرح جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ جب اقبال جیسے شخص کے لیے، جو میرے اوپر بیان کردہ تین طبقوں میں سے جدید وقدیم کے جامع طبقے کے گل سرسبد ہیں، جاوید اقبال کے بیان کردہ مخمصے کو حل کرنا ایک لاینحل عقدہ ثابت ہوا تو تابہ دیگراں چہ رسد؟ قدیم طرز کے علما اور اسلام کے براہ راست مطالعہ سے محروم لوگوں یعنی مسلمان معاشروں کی ان دو انتہاؤں پر کھڑے لوگوں کے لیے اس کو حل کرنا کس قدر مشکل ہوگا؟ اور جب ان کے فہم اور تصورات اور اہداف وترجیحات میں اس طرح کا غیر معمولی بعد پایاجاتا ہو تو مسلمان معاشروں اور نظام ہائے حکومت کی صورت گری اور تشکیل نو میں ان کے نظریات متصادم ہوں تو اس پر قطعاً تعجب نہ ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر مہاتیر نے اپنے دو متصل بیانات کے ذریعے ملائشیا کے جس مخمصے کو نمایاں کیا ہے، یہ مخمصہ کم وبیش تمام مسلمان ممالک کو درپیش ہے۔ پاکستان کو لے لیجیے، ایران کو لے لیجیے۔ دونوں ملکوں میں اس اساس پر بالعموم اتفاق پایا جاتا ہے کہ یہاں اسلام کی تعلیمات پر عمل کیا جائے گا لیکن آپ دیکھیے کہ قائد اعظم اور مذہبی جماعتیں ایک دوسرے سے کس قدر فاصلے پر کھڑے ہیں۔ ان کے درمیان قومیت کی تعریف اور طرز انتخاب جیسے انتہائی ابتدائی امور پر بھی اتفاق رائے موجود نہیں۔ 
ایران میں شدت پسند اور اصلاح پسند دونوں شیعہ اسلام اور امام خمینی کی تعلیمات سے وابستگی کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن وہاں ایرانی معاشرے اور نظام حکومت کی تشکیل کے سوال پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں اور وہاں ایک خوف ناک فکری مباحثہ اور عملی جدال جاری ہے۔ اپنے آخری سفر ایران کے دوران دو ممتاز پاکستانی صحافیوں کی موجودگی میں میرا اس وقت کے ایرانی وزیر آہنگ وارشاد اسلامی (ہماری اصطلاحات میں وزیر ثقافت واطلاعات) جناب عطاء اللہ مہاجرانی سے ایک دل چسپ مکالمہ ہوا۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ ڈاکٹر خاتمی کے انتہائی قریبی ساتھی ہیں اور ڈاکٹر خاتمی کے ساتھی ایرانی آئین اور معاشرے کو جو رخ اور رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں، ڈاکٹر مہاجرانی نہ صرف اس سے متفق ہیں بلکہ شاید ان سے دو قدم آگے ہیں۔ اسی وجہ سے انہیں وزارت سے مستعفی ہو کر ایک نو تخلیق کردہ دفتر میں بٹھا دیا گیا ہے۔ یہ دفتر ’’تہذیبوں کے مکالمے‘‘ پر کام کر رہا ہے۔ مذکورہ مکالمے میں، میں ڈاکٹر مہاجرانی سے یہ کہلوانا چاہتا تھا کہ آپ کے آئین میں ولایت فقیہ اور راہبر کے منصب اور اختیارات کا جو فہم اپنایا گیا ہے، وہ منتخب صدر اور منتخب قیادت کے مقام، تصور اور اختیارات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مجھے معلوم تھا کہ ان کی اپنی رائے بھی یہی تھی لیکن چونکہ اس وقت وہ ایک اہم وزیر تھے اس لیے وہ کھل کر یہ بات نہ کہہ سکتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے ہاں ’’اصلاح طلبگان‘‘ اور ’’محافظ کاران‘‘ کے درمیان جو اختلاف پایا جاتا ہے، اس میں کون سا فریق امام خمینی کی تعلیمات کے قریب تر ہے یعنی آج امام خمینی زندہ ہوتے تو ان کی سرپرستی کسے حاصل ہوتی؟ انہوں نے جواب دیا کہ دونوں فریق ’’خط امام‘‘ یعنی امام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے مدعی ہیں۔ جب میں نے ان سے کہا کہ آپ نے واضح جواب نہیں دیا تو انہوں نے کہا کہ کیا مسلمانوں کے تمام فرقے یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ قرآن اور اسلام کی اصل تعلیمات پر صرف وہی کاربند ہیں حالانکہ ان کے فہم اسلام میں غیر معمولی اختلاف پایا جاتا ہے؟ اسی طرح ہمارے ہاں دونوں طبقے ’’خط امام‘‘ کے پیروکار ہونے کے مدعی ہیں اور کوئی فریق دوسرے کو قائل نہیں کر سکتا کہ وہ خط امام سے انحراف کر رہا ہے۔ 
میں جو بات واضح کر رہا ہوں، وہ یہ ہے کہ تعلیمات اسلام کی تعبیر اور تشریح اور اسی مناسبت سے تہذیب مغرب کے بارے میں رویوں میں پایا جانے والا اختلاف مسلمان معاشروں میں غیر مطلوب ہونے کے باوجود ناقابل فہم نہیں۔ اس اختلاف اور تنازع کو وقت ہی حل کرے گا اور میری پرانی رائے ہے کہ مسلمان معاشروں کا تیسرا طبقہ جو قدیم وجدید کا جامع ہے، اسی کا فہم اسلام آخر کار مسلمان معاشروں میں رائج ہوگا اور سند قبولیت پائے گا۔ لیکن ظاہر ہے ایسا دو چار دن میں نہیں ہوگا۔ اس میں سو سال بھی لگ سکتے ہیں، اگرچہ یہ عمل شروع نسبتاً جلدی بھی ہو سکتا ہے۔ 
(بشکریہ روزنامہ جنگ لاہور)

عصر حاضر میں اسلامی فکر ۔ چند توجہ طلب مسائل

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی

(ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا شمار عالم اسلام کے نامور اصحاب علم اور ماہرین معاشیات میں ہوتا ہے۔ زیر نظر تحریر میں انہوں نے نہایت بالغ نظری کے ساتھ ان مباحث کی نشان دہی کی ہے جو دین وشریعت کی تعبیر وتشریح اور امت مسلمہ کو درپیش فکری چیلنجوں کے حوالے سے عالم اسلام کے علمی حلقوں میں زیر بحث ہیں۔ تحریر کی اہمیت کے پیش نظر اسے افادۂ عام کے نقطہ نظر سے ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور کے شکریے کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

دور جدید میں احیاے اسلام کی کوشش، یا زیادہ جامع الفاظ میں اسلامی زندگی کو عقیدہ ومسلک، اجتماعی رویہ، قانون ملکی اور دستور مملکت کی حیثیت سے بہ تمام وکمال برپا کرنے کی کوشش کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تجدید ایمان کا مسئلہ ہے۔

فکری بنیادیں

ایمان کی اہمیت:

اگر یہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ آج پوری دنیا میں اللہ پر ایمان زائل یا از حد ضعیف ہو چکا ہے اور اس کی ہدایت کی طرف رجوع مفقود یا محض رسمی ہو کر رہ گیا ہے۔ دور جدید کا انسان رسمی طور پر خدا کا اقرار کرنے کے باوجود اپنا نظام زندگی خود وضع کرنے پر مصر ہے اگرچہ ایسا کرنے کے نتائج اچھے نہیں رہے ہیں۔ انسانی ذہن کی نارسائی، کوتاہ بینی اور عدم استقرار نے جدید انسان کو اضطراب وحیرانی میں مبتلا کر رکھا ہے مگر ابھی وہ خدا کی طرف رجوع پر آمادہ نہیں۔
تحریک اسلامی کو، جو صرف مسلمانوں کی اصلاح کو مقصود نہیں بناتی ہے بلکہ تمام بندگان خدا کو خدا کی ہدایت کی طرف بلاتی ہے، ایک ایسی فکر کو سامنے لانا ہے جو انسانیت کو دوبارہ خدا پر سچا ایمان عطا کرنے اور اس کی ہدایت کی طرف واپس لانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
دنیا میں گزشتہ دو سو سال سے جو تہذیب چھائی ہوئی ہے، اس نے ایمان بالغیب کی جڑیں ہلا دی ہیں اور یقین کو صرف اسی علم تک محدود کر دیا ہے جو حواس کی مدد سے حاصل کیا جا سکے۔ اس تہذیب نے انسان کا منتہائے نظر دنیوی ترقی اور مادی اقتدار تک محدود کر دیا ہے۔ زندگی کے روحانی تقاضوں کو پس پشت ڈال دیا ہے، اور اخلاق کو ان مادی مقاصد کے تابع بنا دیا ہے۔ یہی مرض اس تضاد کی بھی توجیہ کرتا ہے کہ آج جب دنیا میں ایک ارب سے زیادہ مسلمان ہیں جن کی اکثریت ۵۰ سے زیادہ ملکوں میں رہتی ہے لیکن کسی جگہ بھی اسلامی نظام زندگی قائم نہیں ہے، ان مسلمانوں میں ایمان کی کمزوری خدا کے وجود یا محمد ﷺ کی رسالت سے کھلم کھلا انکار کی صورت شاذ ونادر ہی اختیار کرتی ہے مگر ان کی ۹۹ فی صد اکثریت انسانیت کے مذکورہ بالا مشترکہ مرض میں مبتلا ہونے کے سبب اس پختہ یقین، تعلق باللہ اور محمد ﷺ کی قیادت ورہنمائی پر اس کامل اعتماد سے محروم ہے جو اللہ ہی کو زندگی کے تمام امور میں حکمران بنانے کے لیے درکار ہے۔

مسلم دانش وروں کی فکری جہت:

مسلمانوں کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ پریس اور دوسرے ذرائع سے تہذیب حاضر کی مسلسل تربیت میں رہتا ہے اور معاشی اعتبار سے ان قدروں کا زیادہ واضح شعور رکھتا ہے جو تہذیب حاضر نے انسان کو دی ہیں۔ یہی طبقہ مسلمان قوموں میں سیاسی برتری کا مالک ہے۔ یہ آزاد مسلم ممالک میں حکومت کرتا اور نظام تعلیم، پریس، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور سینما کے ذریعے عوام کی تربیت کرتا ہے اور دوسرے ممالک میں مسلمان اقلیتوں کا سیاسی اور ثقافتی رہنما ہے۔ یہ طبقہ ایمان کے غیر معمولی ضعف کا شکار ہے۔ مسلمان دانش وروں میں ایک معتد بہ تعداد خدا کے وجود، رسالت اور آخرت پر یقین سے محروم ہے یا کم از کم ایسے شک وریب میں مبتلا ہے جو ان کے ایمان کو بے اثر بنا دینے کے لیے کافی ہے۔
مسلم دانش وروں کی ایک بڑی تعداد ان بنیادی امور پر ایمان رکھنے کے باوجود یہ سمجھتی ہے کہ اسلام کا دائرہ بھی دوسرے مذاہب کی طرح نجی زندگی میں بندہ وخدا کے تعلق تک محدود ہے۔ ان کا خیال ہے کہ قرآن کی تعلیمات اور رسول کی ہدایات، عبادات واخلاق اور عام انسانی تعلقات میں ہماری رہنمائی کر سکتی ہیں مگر قرآن وسنت کے احکام وقوانین یعنی ’’شریعت‘‘ اپنے زمانے کے لیے تھی، ہمارے زمانے کے لیے نہیں ہے۔ یہ لوگ عام دنیوی امور میں شریعت کی پابندی کے قائل نہیں۔ ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد ان مسلمانوں کی بھی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ان امور میں ہم اسلامی تعلیمات کی روح کو سامنے رکھیں گے مگر سود کی حرمت، قانون وراثت اور فوجداری قوانین جیسے متعین احکام کی پابندی اس زمانے میں ممکن نہیں۔
موخر الذکر دونوں طبقوں کے رجحانات متعین کرنے میں اگر ایک طرف مغرب کی دی ہوئی فکر اور اس کا نظام اقدار اثر انداز ہوا ہے تو دوسری طرف یہ بات بھی فیصلہ کن رہی ہے کہ ان دانش وروں کو مذکورہ بالا متعین قوانین اور ان جیسے دوسرے قوانین کو آج کی دنیا میں نافذ کرنا عملاً محال نظر آتا ہے۔ جدید زندگی کے احوال وظروف اور جدید انسان کے مزاج کو، جیسا کچھ انہوں نے سمجھا ہے، اس کی روشنی میں وہ یہ رائے رکھتے ہیں کہ: سود کے بغیر معیشت نہیں چل سکتی، وراثت، گواہی، طلاق یا زندگی کے کسی مسئلے میں عورت کے ساتھ مرد سے مختلف سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ حدود شرعیہ کا نفاذ دور جدید کے انسان کا مزاج نہیں قبول کر سکتا، ایک جدید مملکت میں قانون سازی اور انتظام ملکی میں غیر مسلموں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا، وغیرہ وغیرہ۔
جب تک مسلمان معاشروں میں قیادت اور سربراہی کے مالک دانش وروں کی ایمانی اور فکری حالت یہ ہے، ظاہر ہے کہ ان کے اندر اسلامی انقلاب کی توقع نہیں کی جا سکتی، اگرچہ عام مسلمانوں میں مذہب کا اثر زیادہ ہے۔تعلیم کی کمی اور معلوم معاشی پست حالی کے سبب ابھی تہذیب جدید کی فکر اور نظام اقدار ان پر پوری طرح اثر انداز نہیں ہو سکا ہے۔ معاشی ترقی اور جدید تعلیم کے عام ہونے کے ساتھ مذہب کا اثر بھی گھٹتا جا رہا ہے۔ مذہب کا جو اثر ہے، وہ بھی زیادہ تر عبادات اور متعدد ثقافتی امور تک محدود ہے۔ البتہ زندگی کے مقاصد، منظور نظر قدریں اور دنیوی زندگی میں خوب وناخوب کے پیمانے وہی ہیں جنہیں جدید فکر کے زیر اثر دانش وروں نے اختیار کر رکھا ہے۔ اپنے لیڈروں کی مذہب سے دوری پر افسوس کرنے کے باوجود دنیوی امور سے شریعت کی بے دخلی کے معاملے میں مسلمان عوام کی غالب اکثریت اپنے لیڈروں ہی کے پیچھے چل رہی ہے۔

علما ومشائخ کا عمومی رویہ:

ہر مسلمان معاشرے میں ایک طبقہ علما ومشائخ کا بھی ہے جس سے مسلمان عوام خاصا تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے اندر شعائر اسلام کے احترام اور ثقافتی امور میں اسلامی آداب کی پابندی زیادہ تر انہی علما ومشائخ کی تربیت کا نتیجہ ہے۔ لیکن ان علما ومشائخ کو مسلمان عوام سیاسی اور عام دنیوی امور میں اپنا رہنما نہیں بناتے اور نہ خود علما ومشائخ میں اتنی خود اعتمادی اور اس بات کا حوصلہ ہے کہ وہ ان کی مکمل رہنمائی کریں۔
وہ جدید تہذیب اور مسلمان دانش وروں پر اس کے گہرے اثرات سے بالعموم ناواقف ہیں۔ اگر وہ مرض کی بعض علامتیں دیکھتے بھی ہیں تو اس کے اسباب تک پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں۔ وہ تہذیب جدید اور اس کے تمدن کی مادی بلندی سے مرعوب ہیں اور اس کو جڑ، بنیاد سے بدل کر اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کا کوئی داعیہ اپنے اندر نہیں پاتے۔ مسلمان دانش وروں کی بے دینی پر بظاہر تنقید کرنے کے باوجود امور دنیا میں یہ انہی کی قیادت کو مان رہے ہیں۔ وقت پڑنے پر مسلمان عوام کو انہی کی قیادت پر مجتمع کرنے اور انہی کی تائید پر کمربستہ کرنے کی خدمت انجام دیتے رہتے ہیں۔
یہ منظر بڑا عبرت انگیز ہے کہ جہاں بھی احیاے اسلام کی طاقت ور تحریکیں اٹھیں، علما ومشائخ کے ایک بڑے طبقے نے ان کی زبردست مخالفت کی اور بڑی حد تک اپنا وزن اس لادینی قیادت کے حق میں استعمال کیا جو ان تحریکوں کو پامال کرنا چاہتی ہے۔ ہمارے نزدیک اس کا سبب صرف گروہی عصبیت اور عوام کی قیادت چھن جانے کا خوف نہیں، بلکہ اس مخالفت کی تہہ میں اسلام کے بارے میں ان علما ومشائخ کی فکر کی محدودیت اور احیاے اسلام کی ہمہ گیر جدوجہد کے لیے مطلوبہ حوصلے کا فقدان ہے۔ ان کا یہ تاریخی وجدان ہے کہ جو کام قرون اولیٰ کے بعد پھر ممکن نہ ہو سکا، وہ آج کی دنیا میں یکسر ناممکن ہے۔ انہیں یہ اندیشہ ہے کہ مکمل اسلامی نظام کے قیام کی کوشش کہیں محدود دائرے میں بھی اسلام کے باقی نہ رہنے کا سبب نہ بن جائے۔

اسلامی تحریکیں اور مسلم معاشرے:

ایمانی حالت کے اس سرسری جائزے کی روشنی میں احیاے اسلام کی ان کوششوں پر نظر ڈالی جائے جو بیسویں صدی سے دنیاے اسلام کے مختلف علاقوں میں کی جاتی رہی ہیں تو یہ معلوم ہوگا کہ بڑی حد تک اصل مرض کو پہچانا گیا ہے اور اس کا علاج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مقالے میں ان کوششوں کا جائزہ لینا ممکن نہیں ہے۔ صرف اس حقیقت پر زور دینا مطلوب ہے کہ ابھی یہ کوششیں ناتمام ہیں۔ اسلامی تحریکوں نے عام انسانوں کو مخاطب بنا کر انہیں کفر وشرک اور حیرانی واضطراب سے ایمان کی طرف لانے کی کوشش بھی کم ہی کی ہے۔ ان کی بیش تر توجہات مسلمان معاشروں پر مرکوز رہی ہیں۔ لیکن اب بھی مسلمان دانش وروں اور ان کے عوام کا حال وہ ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔ ابھی دنیا میں کہیں بھی ان کوششوں کی (بظاہر) کامیابی کے آثار نہیں نظر آتے، اگرچہ گزشتہ نصف صدی کی کوششوں کے نتیجے میں صورت حال بہتر ہوئی ہے۔
آج مسلمان دانش وروں میں ایک معتدبہ عنصر موجود ہے جو پورے اسلام کو اختیار کرنے کا عزم رکھتا ہے اور شریعت کو نہ صرف واجب العمل سمجھتا ہے بلکہ قابل عمل سمجھتا ہے اور عصر حاضر میں اسے نافذ کرنے کا عزم بھی رکھتا ہے۔ یہ عنصر، متحرک اور فعال ہے اور متعدد مسلمان معاشروں میں اس نے عوام کے ایک بڑے طبقے کا اعتماد حاصل کر کے ان کی قیادت شک وریب میں مبتلا یا کمزور ایمان رکھنے والے اور دین ودنیا کے درمیان تفریق کرنے والے دانش وروں سے بڑی حد تک چھین بھی لی ہے۔ لیکن ابھی عوام کی غالب اکثریت کی اس نئی اسلامی قیادت کے ساتھ وابستگی زیادہ تر جذباتی ہے جس کے سبب وہ غیر اسلامی قیادت کے تسلط کے خلاف کوئی عملی اقدام کرنے اور اس راہ میں قربانیاں دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ابھی نہ عوام کا نظام اقدار بدلا ہے، نہ اس بگڑے ہوئے ’’مذہبی مزاج‘‘ کی اصلاح ہوئی ہے جو اسلام کے نام پر لوگوں کو علما اور سیاسی قیادت کے پیچھے لا کھڑا کرتا ہے۔ عام طور پر مسلم عوام معاشی ترقی، سیاسی استحکام اور امور مملکت کے نظم وانصرام کے سلسلے میں فیصلہ کن طاقت کا حق دار سیکولر قیادت ہی کو سمجھتے ہیں۔
اپنے دانش ور طبقے میں ایمان کی بحالی اور اپنے عوام کو پوری طرح ساتھ لے کر چلنے کے لیے ابھی اسلامی تحریکوں کو بہت کچھ اور کرنا ہے۔ انہیں عوام میں اسلام کا علم پھیلانے، ان کی اصلاحی اور دینی اصلاح اور ایمانی تربیت کے لیے اپنے پروگراموں کو زیادہ جامع بنانا ہے اور ان پر زیادہ مستعدی کے ساتھ عمل کرنا ہے۔ اصلاح صرف قول سے نہیں ہوا کرتی ہے، اس سے زیادہ اہمیت کردار کی ہے۔
تحریک اسلامی کے کارکنوں کو نہ صرف عبادات واخلاق میں بلکہ معاملات دنیا بالخصوص معاشی وسائل اور سیاسی طاقت کے برتنے میں نیز اپنی معاشرتی زندگی میں للہیت، ترجیح آخرت اور اخوت، مواساۃ ومرحمت، شورائیت اور مساوات کی اسلامی قدروں کے مطابق اعلیٰ اسلامی کردار کا نمونہ پیش کرنا ہے تاکہ مسلمان عوام ان قدروں کو جذب کر سکیں اور اسلامی نظام کے قیام کی راہ ہموار ہو سکے۔ انہیں اپنے عوام کے اندر وہ بنیادی انسانی صفات اجاگر کرنی ہیں جن کے بغیر کوئی انسانی گروہ زوال سے عروج اور ضعف سے قوت کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔ ہماری مراد محنت، نظم وضبط، کسی اعلیٰ مقصد کے لیے ایثار وقربانی کے جذبے اور اس مقصد کے لیے ذریعے کے طور پر علوم وفنون میں مہارت کے ذریعے تسخیر کائنات کے حوصلے سے ہے۔ صرف وعظ وارشاد کے ذریعے مسلمان عوام سے کاہلی اور جہالت، اختلاف اور فرقہ بندی، بخل اور کم ظرفی اور پست حوصلگی کی مہلک بیماریاں نہیں دور کی جا سکتیں۔ ان کے علاج کے لیے وسیع پیمانے پر مسلسل منظم کوششیں درکار ہیں۔
مسلمان دانش وروں کی ایمانی حالت درست کرنے، ان کے نظام اقدار میں تبدیلی اور کتاب وسنت کے ساتھ ان کی وفاداری بحال کرنے میں مذکورہ بالا کوششوں کو بھی دخل ہوگا مگر ان کی نسبت سے تحریک اسلامی کو کچھ علمی اور فکری کام بھی کرنے ہیں۔ یہ علمی اور فکری کام عام انسانوں کو دعوت اسلامی کا مخاطب بنانے کے ضمن میں اہمیت کے حامل ہیں، اور اس تعلیمی اور تربیتی پروگرام کے لیے بھی اہم بنیادیں فراہم کرتے ہیں جس کا ذکر اوپر عوام کی اصلاح کے ضمن میں کیا گیا ہے۔

غور وفکر کی جہتیں:

یہ مقالہ مخصوص طور پر تحریک اسلامی کے ہمہ جہتی کام کے علمی اور فکری پہلو سے بحث کرتا ہے۔ اس کا مقصد ایسے موضوعات ومسائل کی نشان دہی ہے جن پر کیا جانے والا کام اتنا تشفی بخش نہیں کہ جدید ذہن کو پوری طرح مطمئن کر سکے یا جن کے بارے میں معاصر اسلامی مفکرین کے درمیان پائے جانے والے اختلافات نے مزید بحث وتحقیق کو ناگزیر بنا دیا ہے یا جن کی طرف گزشتہ کئی عشروں میں بہت کم توجہ کی جا سکی ہے۔
ہمارے نزدیک اس طرح کا فکری کام، جس کے بعض گوشوں کی ذیل میں نشان دہی کی جائے گی، عصر حاضر میں اسلامی نظام کے قیام کی شرط لازم بن چکا ہے۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی مفکرین، فکری کام کا حق ادا کر چکے ہیں اور مسلم دانش وروں کو اسلام کے پوری طرح اختیار کرنے سے روکنے والی چیز صرف ان کی دنیا پرستی ہے، یا مسلم عوام اسلامی تحریکوں کی قیادت اور ان کے پروگراموں سے پوری طرح مطمئن ہیں، صرف فوجی آمریتیں ان کے اجتماعی ارادے کے عملی اظہار میں مانع ہیں۔ ان کے تجزیے کو ہم غیر تشفی بخش سمجھتے ہیں اور اس سے اختلاف رکھتے ہیں۔
ہم اس غلط فہمی کا شکار نہیں کہ جن فکری کاموں کی نشان دہی کی جا رہی ہے، وہ انجام پا جائیں تو دور حاضر کا انسان اسلام کی طرف دوڑ پڑے گا، یا مسلمان دانش ور فوج در فوج تحریک اسلامی کی صفوں میں شامل ہونے لگیں گے، اور مسلمان عوام کی موجودہ دو رخی اور ان کا تذبذب دور ہو جائے گا۔ جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، مسئلے کے دوسرے پہلو بھی اہمیت رکھتے ہیں، مگر ہم یہ رائے ضرور رکھتے ہیں کہ جب تک فکری کام آگے نہیں بڑھتا، دوسرے کاموں کے باوجود اسلامی تحریکیں اپنے مقاصد کے حصول میں کام یاب نہیں ہو سکتیں۔
ہمارے نزدیک انسانی دنیا میں فیصلہ کن طاقت افکار وتصورات کی طاقت ہے اور جو چیز دور حاضر میں اسلام کو اس کا اصل مقام دوبارہ دلوانے والی ہے، وہ اسلامی افکار وتصورات کی صالحیت اور دوسرے تمام افکار وتصورات کے مقابلے میں اسلام کے نظریہ حیات کا زیادہ معقول وبرتر ہونا ہے۔ شرط یہ ہے کہ باطل افکار وتصورات پر گہری تنقید کے ساتھ، اسلامی افکار وتصورات کو ایسے استدلال کے ساتھ پیش کیا جائے جس کو عصر حاضر کا انسان سمجھ سکے۔
کسی صالح تر نظریے کو محض جبر وتشدد سے زیادہ عرصہ نہیں دبایا جا سکتا۔ آج بعض مسلم ممالک میں طاقت ور اسلامی تحریکوں کو جبر کی حکمرانی نے جس طرح دبا رکھا ہے، اس سے بہت سے ذہنوں میں یہ سوال ابھر رہا ہے کہ ’’ایسے حالات میں نظام کی تبدیلی کے لیے اشاعت افکار، تعمیر کردار اور اصلاح معاشرہ کے پروگرام کس طرح مقصد برآری کر سکتے ہیں؟ طاقت کے جواب میں طاقت کی ضرورت ہے۔‘‘
اس طرح سوچنے والوں کو مذکورہ بالا تاریخی حقیقت پر غور کر کے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ انہیں وقت کے چھائے ہوئے نظام کے مقابلے میں جس طرح کی طاقت کی ضرورت ہے، وہ عوام وخواص کے ذہنوں میں صالح فکر کے رسوخ اور ان کے انفرادی اور اجتماعی کردار پر اس کے گہرے اثر کے نتیجے میں ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ انسانی فطرت جبر کی حکمرانی سے نفرت کرتی ہے مگر اس کی بے پناہ قوتوں کو جبر کے خلاف منظم کوشش پر آمادہ کرنے کے لیے صالح نظریہ اور اس پر گہرا یقین درکار ہوتا ہے۔
ساتھ ہی یہ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ کسی ملک میں بھی اسلام کی راہ کا روڑا صرف اس ملک کا مغرب زدہ طبقہ یا اس کی حکمران قوتیں نہیں بلکہ پوری لادینی تہذیب، سرمایہ دارانہ مغرب، صلیبیت اور صہیونیت اپنے عالمی پریس، اپنے لٹریچر، اپنے سفارت خانوں اور برآمد کردہ ماہرین، اپنی فوجی اور اقتصادی امداد، غرض اپنے جملہ مادی اور ذہنی وسائل کے ساتھ اسلامی نظام کے احیا کی راہ روکنے پر تلے ہوئے ہیں۔ احیاے اسلام کے لیے اس فکری جہاد کا میدان کوئی ایک ملک نہیں، پوری دنیا ہے۔
آج تحریک اسلامی جس مرحلے میں ہے، اس میں یہ لڑائی محض مادی قوت کے ذریعے نہیں جیتی جا سکتی ہے۔ ہماری اصل قوت ہمارا صالح نظریہ حیات ہے، جس کی صحیح اور موثر ترجمانی اور عصر حاضر کے ذہن ومزاج کو پوری طرح سمجھ کر کی جانے والی تفہیم --- ایسی ترجمانی اور تفہیم جس کے پیچھے داعی گروہ کے اعلیٰ اسلامی کردار کی سند موجود ہو--- جغرافیائی، قومی اور نسلی حدود سے بے نیاز ہو کر انسانوں کے دل ودماغ بدل سکتی ہے۔
یہی کام ہماری اپنی صفوں کو درست کرنے اور مخالف قوتوں کا شیرازہ منتشر کر کے انسانوں کو ان کی قیادت سے اپنی قیادت کی طرف لانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ہمیں اپنی توجہات اسی پر مرکوز کر دینی چاہییں۔

ایمان وعقیدہ

شان الوہیت:

فکری کاموں میں سرفہرست اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی صفات اور شان الوہیت کی تفہیم کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے پر اب تک ایسا لٹریچر نہیں پیش کیا جا سکا ہے جس میں دور حاضر کے منکرین خدا، متشککین (Skeptics) اور لا ادریین (Agnostics) کے خیالات کو پوری طرح سامنے رکھا گیا ہو۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہمارے مفکرین مغرب کے انسان کو اپنا مخاطب بنانے کا حوصلہ نہیں رکھتے تھے اور انہوں نے اپنے عوام کے ایمان باللہ کو ایک مسلم حقیقت اور اپنے دانش وروں کے شک وریب کو محض مغرب سے مرعوبیت کا نتیجہ سمجھا۔ افسوس کہ ہمارا مرض زیادہ گہرا ہے۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ عصر حاضر کے ائمہ فکر کے اعتراضات وشبہات کا جائزہ لیتے ہوئے اس موضوع پر کام کیا جائے۔ اس ہمہ پہلو کام میں ایسے مسائل سے بھی تعرض ناگزیر ہوگا جن کا تعلق خدا کے وجود سے نہیں بلکہ اس کی صفات اور ان صفات کے درمیان ہم آہنگی سے ہے۔ مثلاً برٹرینڈ رسل اور ٹائن بی جیسے چوٹی کے لاادریین کائنات میں شر (Evil)کے وجود کے پیش نظر خدا کی صفت رحمت وقدرت کو تسلیم کرنے اور پھر اس بنا پر خود خدا کا وجود تسلیم کرنے کو دشوار پاتے ہیں۔ معاصر اسلامی لٹریچر اس مخصوص مسئلے سے بہت سرسری انداز میں گزر گیا ہے۔
صفات خداوندی کی قرآن کی روشنی میں تفہیم کی اہمیت ایک مثال سے سمجھی جا سکتی ہے۔ خدا علیم وخبیر ہے اور وہی غیب کا علم رکھتا ہے مگر علم کے باب میں دور حاضر کا انسان کسی حد کا قائل نہیں اور وہ اس علم وخبر کا بھی مدعی ہے جو ضابطہ حیات وضع کرنے کے لیے درکار ہے۔ اس انانیت میں اعتدال پیدا کرنا شان الوہیت اور مقام عبودیت کے صحیح فہم اور متعلقہ صفات خداوندی کے قرآنی تصور پر اطمینان حاصل کیے بغیر ممکن نہیں۔
اسی طرح شان الوہیت کی ایسی تفہیم درکار ہے جو انسانوں میں عموماً اور مسلمان دانش وروں اور ان کے عوام میں خصوصاً اللہ کی حاکمیت کا تصور بھی اسی طرح راسخ کر دے جس طرح اس کے مسجود ومعبود ہونے کا تصور راسخ ہے۔ اسلامی تصور توحید کی وضاحت میں وحدت الوجود جیسے تصورات کا نوٹس لینا بھی ضروری ہے تاکہ یہ صاف اور سلجھا ہوا حرکی (Dynamic) تصور فلسفیانہ الجھاؤں سے پاک ہو کر انسانی زندگی پر اپنے گہرے اثرات مرتب کر سکے۔ 
انسان کی روحانی اور نفسیاتی، علمی اور فکری، اخلاقی اور عملی، نیز سیاسی، معاشی اور سماجی زندگی کے لیے عقیدہ توحید کے تقاضوں کی وضاحت ہر دور میں ازسرنو ضروری ہوتی ہے۔ دور حاضر کے احوال وظروف، اس کی ذہنی فضا اور مزاجی کیفیت کی مناسبت سے ایسی وضاحت درکار ہے جو مادی تہذیب کے اثرات سے زندگی کے تمام پہلوؤں کو پاک کر کے انہیں اسلامی اقدار کے مطابق ڈھال سکے۔ عملی زندگی میں توحید کے تقاضوں کی تو وضاحت کی گئی ہے مگر علم وفکر، آرٹ اور ادب، فنون لطیفہ اور جمالیات کی نسبت سے کم ہی سوچا گیا ہے۔
تمام تہذیبی مظاہر کی آب یاری بالآخر کسی ایک سرچشمہ سے ہوتی ہے جو ان کا مزاج متعین کرتا ہے۔ اسلامی تہذیب کا سرچشمہ تصور توحید ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ کائنات کے مشاہدے ومطالعے میں، قوانین فطرت کے اکتشاف اور ان کی تشریح میں یا نفس انسانی، سماج اور اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے تجزیہ وتحلیل میں اس سرچشمہ سے بے نیازی برت کر اسلامی تہذیب کی تشکیل جدید کی امید کی جا سکے۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ وہ دائرے ہیں جو علماء دین کی دسترس سے باہر رہے ہیں اور ان کے ماہرین نے شعوری یا لا شعوری طور پر ان دائروں میں خدا کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا ہے جو مغربی تہذیب نے اختیار کیا ہے۔ اس موقف پر نظر ثانی کی اور ان دائروں میں توحیدی بصیرت کے ساتھ نئے کام کی ضرورت ہے تاکہ ایک طرف تو یہ واضح ہو سکے کہ کائنات کی سب سے بڑی حقیقت یعنی خدا کے بغیر حقائق کا صحیح فہم اور ان کی تعبیر وتوجیہ دشوار ہے۔ دوسری طرف یہ ثابت ہو جائے کہ اس حقیقت کی رہنمائی میں مختلف حقائق کے درمیان ربط قائم کرنا اور ان سے متوازن اور ہم آہنگ استفادہ کرنا ممکن ہے۔

منصب رسالت:

الوہیت کے بعد وحی ورسالت کی اہمیت ہے۔ مستشرقین نے وحی کے اسلامی تصور کو مجروح کرنے اور رسالت کے حدود (Scope) کو محدود کرنے کی کوشش کی ہے جس کا بعض مسلمان دانش وروں نے خاصا اثر لیا ہے۔
وحی ورسالت کے باب میں ہندو ذہن اور عیسائی ذہن، اسلامی ذہن سے یکسر مختلف تصور رکھتا ہے۔ ان مخصوص اجنبی تصورات کا نوٹس لینا بھی ضروری ہے۔ وحی ورسالت کے قرآنی تصور کی وضاحت میں عقل انسانی، سائنس اور تاریخ کی رہنمائی کی رسائی کو بھی زیر بحث لانا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ غیب اور ایمان بالغیب کے موضوع پر سیر حاصل بحث کرنی ہوگی جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے۔ عصر حاضر کا انسان غیب سے کتراتا ہے اور کسی ایسے علم کو جاننے سے پہلو بچاتا ہے جسے عقل وتجربے کی سند نہ حاصل ہو۔ بیسویں صدی کے متعدد سائنس دانوں اور ماہرین نفسیات نے اس سطحیت اور کوتاہ نظری کے خلاف احتجاج کیا ہے اور معلوم کے بالمقابل مجہول کی وسعتوں پر زور دیا ہے مگر مزاج عصر نے اس کا اثر کم قبول کیا ہے۔ ان کی تحریروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسئلے کی مکمل تنقیح ضروری ہے۔
وحی اور رسالت کی ماہیت اور ان کی وسعتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے اس ذہن کو بھی سامنے رکھنا ہوگا جو دین وشریعت کے درمیان تفریق کرتا ہے اور سیاست ومعیشت، خاندانی زندگی اور جرم وسزا جیسے دنیوی امور میں قانون سازی کے لیے انسانی عقل وتجربے کو کافی سمجھتا ہے۔ کیا انسان کی نفسیاتی، سماجی اور معاشی وسیاسی زندگی کے جملہ امور ومتعلقات دائرہ غیب سے باہر اور انسانی علم کی مکمل رسائی میں ہیں؟ اس سوال کا واضح جواب قرآن کی روشنی میں تلاش کرنا ہوگا۔ احکام شریعت کی دائمی حیثیت کی وضاحت اور وکالت کے ضمن میں زمان ومکان کی نسبت سے بعثت محمدی کی حیثیت کا جائزہ لینا ہوگا۔ اس سلسلے میں ختم نبوت کی بھی مزید تفہیم درکار ہے کیونکہ بعض ذہنوں کے لیے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ جب عقل وحواس کی نارسائی انسان کی مستقل کمزوری ہے جس کی تلافی کے لیے وحی الٰہی کی رہنمائی درکار ہے تو تاریخ انسانی کے کسی مرحلے پر اس رہنمائی کا سلسلہ کیوں ختم کر دیا گیا؟ اس سوال اور مذکورہ بالا دوسرے مسائل کا تعلق بالآخر فلسفہ، تاریخ، مزاج شریعت اور تجدید واجتہاد کے تاریخی کردار سے جڑ جاتا ہے۔

قرآن اور سائنس:

مقام وحی ورسالت کے ضمن میں مذہب اور سائنس، یا زیادہ صحیح الفاظ میں قرآن اور سائنس کے موضوع پر بھی نئے کام کی ضرورت ہے۔ اس موضوع پر اردو اور عربی میں جو لٹریچر موجود ہے، اس پر زیادہ تر انیسویں صدی کی سائنس کی فکر کی چھاپ پڑی ہے اور وہ الا ماشاء اللہ افراط وتفریط کا شکار ہے۔
اس کی ایک مثال حیاتیاتی ارتقا (Evolution)کا مسئلہ ہے۔ سائنس کا طالب علم اسے حقیقت مانتا ہے مگر قرآن کا مفسر یا تو قرآن کی طرف اس کی قطعی تردید منسوب کرتاہے یا آیات قرآنی سے حیاتیاتی ارتقا کا اثبات کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں ، مطالعہ فطرت میں وحی الٰہی سے بے نیازی برتنے یا قرآن اور سائنس کو دو بالکل علیحدہ خانوں میں رکھنے کا رویہ صحیح نہیں ہو سکتا۔ مگر یہ بھی ممکن نہیں کہ ایک دائمی کتاب ہدایت سے تمام سائنٹفک حقائق اخذ کیے جا سکیں یا اس کے بیانات کی تفسیر میں بدلتے رہنے والے نظریات کو فیصلہ کن اہمیت دی جائے۔ مسئلے کے ان نازک پہلوؤں کی پوری رعایت ملحوظ رکھتے ہوئے مسئلہ ارتقا اور اس جیسے دوسرے مسائل کی نسبت سے قرآن کے موقف ومنہاج کی ازسرنو وضاحت ضروری ہے۔
عصر حاضر کے لیے اس کام کی ضرورت بہت زیادہ ہے کیونکہ بعض اوقات ایمان باللہ کے باوجود کسی ایک مسئلے میں شک وریب یا یہ گمان کہ معلوم ومشہود حقیقت وحی ورسالت کے بیان سے ٹکراتی ہے، پوری زندگی کو ایمان کے دور رس اثرات سے محروم کر دیتا ہے اور انسانی ذہن کو مجبور کرتا ہے کہ وہ مذہب کے سلسلے میں ایک غیر عقلی تقلیدی موقف اختیار کرے، جس کا لازمی نتیجہ عام انسانی زندگی سے مذہب کی بے دخلی ہے۔

سنت:

منصب رسالت کی تفہیم کے لیے دوسرا اہم کام سنت کی تنقیح کا ہے۔ سنت اسلامی قانون کا ماخذ اور قرآن کے پہلو بہ پہلو اسلامی تعلیمات کا منبع ہے۔ کسی زیر غور مسئلے میں سنت کی رہنمائی معلوم کرنے کے لیے ہمیں اب جو ذریعہ میسر ہے، وہ احادیث کا ذخیرہ ہے جو صدیوں کی چھان بین اور بحث وتحقیق کے نتائج کے ساتھ ہم تک منتقل ہوا ہے۔ اصولی طور پر اس ذخیرہ سے استفادہ میں ماضی کی بحث وتحقیق کو حرف آخر سمجھنے کے بجائے مزید تحقیق وتدبیر کی ضرورت ہمیشہ باقی رہے گی۔ یہ بات روایت ودرایت یا تاریخی تحقیق اور قرآن کریم کی رہنمائی میں عقلی جانچ پرکھ دونوں کے بارے میں صحیح ہے۔ چند مجموعوں میں درج ہر روایت کو لفظاً ومعناً رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب کرنے اور مستشرقین کی اتباع میں احادیث کے پورے ذخیرہ کی صحت کو مشکوک سمجھنے کے دو انتہا پسندانہ رویوں کے درمیان یہی وہ مسلک اعتدال ہے جو تحریک اسلامی کے رہنماؤں نے اختیار کیا ہے۔ اصل مسئلہ زیر غور مسائل میں اس موقف کو عملاً برت کر دکھانے اور انتہا پسندانہ موقفوں پر علمی تنقید کا ہے۔ یہ کام بھی ازحد تشنہ ہے۔
روایت ودرایت کے اعتبار سے احادیث کی ازسرنو تحقیق اور جدید مسائل کی نسبت سے سنت کی تنقیح کی سب سے زیادہ اہمیت ان دستوری، سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل میں ہے جن میں دور جدید میں اسلامی موقف کی ازسرنو تعیین اس لیے ضروری ہو گئی ہے کہ متعلقہ احوال وظروف یکسر بدل گئے ہیں۔ اس دائرے میں متعدد مسائل کے ضمن میں یہ سوال بہت اہم ہو گیا ہے کہ سنت ان مقاصد ومصالح کے اعتبار سے اور ان کے حصول کے لیے مزاج شریعت سے مناسبت رکھنے والے طریقے اختیار کرنے کا نام ہے جن کا اعتبار نبی ﷺ نے اپنے زمانے کی دستوری، سیاسی، معاشی اور سماجی زندگی کی تطہیر وتنظیم میں کیا تھا، یا خود ان متعین قواعد وضوابط کا نام ہے جو آپ ﷺ نے وضع کیے تھے۔

اسلامی تاریخ

دور جدید میں احیاے اسلام کی جدوجہد کے سیاق میں تاریخ اسلام یا مسلمانوں کی تاریخ کا ازسرنو مطالعہ ضروری ہے۔ اپنی جگہ یہ بہت اہم کام ہے کہ کتاب وسنت کے دیے ہوئے معیار پر اس تاریخ کے مختلف ادوار کی قدروقیمت کا تعین (evaluation) ان مختلف انقلابات اور تبدیلیوں کی تعبیر وتوجیہ کے ساتھ ہونا چاہیے جن سے یہ تاریخ گزری ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اس تاریخ کے بعض اہم ادوار کا مطالعہ خاصا اختلافی رہا ہے۔ اس کی ایک مثال حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور حکومت بھی ہے جس پر گزشتہ چند برسوں میں خاصی بحث رہی ہے۔ اس کام کی ا یک اہمیت یہ بھی ہے کہ جدید سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل پر بحث ومذاکرے کے دوران وسیع پیمانے پر تاریخی نظائر پیش کیے جاتے ہیں۔ کسی مستند evaluation کا فقدان اس طرح کے نظائر کا وزن مشکوک بنا دیتا ہے۔

فقہ 

معاصر اسلامی مفکرین کے درمیان دور جدید کی اسلامی قانون سازی میں حجت ہونے یا رہنما بنانے کے لحاظ سے اس فقہی ذخیرے کے مقام کے بارے میں مختلف نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں جو شروع کی چند صدیوں میں مرتب ہوا تھا۔ اصولی طور پر اللہ نے ہمیں صرف کتاب وسنت کی پابندی کا مکلف بنایا ہے۔ جدید اسلامی قانون سازی میں ہمیں ماضی کے فقہی ذخیرے سے پورا استفادہ کرنا چاہیے لیکن یہ مخصوص زمان و مکان (time and space) میں انسانی ذہن کی پیداوار ہے جس کی پابندی کی نہ کوئی شرعی اور عقلی دلیل ہے، نہ یہ پابندی عملاً مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ مگر علما کا ایک بڑا طبقہ یہ رجحان رکھتا ہے کہ نئی قانون سازی میں کوئی ایسی راہ نہیں اختیار کی جانی چاہیے جو فقہ کے معروف اسکولوں میں سے کسی اسکول نے نہ اختیار کی ہو۔
اس میدان میں تحریک اسلامی کے رہنما عام طور پر صحیح اصولی موقف کے حامل ہیں مگر جب کسی عملی مسئلے پر بحث چھڑجاتی ہے تو ان کے طرز فکر پر بھی علما کے غالب رجحان کا گہرا اثر بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس رجحان کے رد عمل میں احوال وظروف اورمزاج عصر کی بیش از بیش رعایت رکھنے والے دانش وروں میں شبہ پیدا ہوتا ہے کہ علما کتاب وسنت کے ساتھ سلف صالح کے اجتہادات کو بھی شریعت کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ یہ دونوں طبقے ایک دوسرے کو اپنا موقف سمجھانے کی کوشش کریں اور باہمی تبادلہ خیال اور بحث وتمحیص کے بعد کسی اعتدال پر مجتمع ہوں۔ بد قسمتی سے ان دونوں طبقوں کے درمیان خوش مزاجی اور انکسار طبع کے ساتھ تبادلہ آرا کا رواج نہیں پڑ سکا اور جو بحثیں ہوتی ہیں، ان کا مواد اور لہجہ کسی صحت مند نتیجے تک پہنچنے کے لیے سازگار نہیں ہوتا۔

کلامی مسائل

ہمارے ماضی کے ورثے میں مرتب شدہ فقہ کے ساتھ دینی فکر کے دوسرے اہم اجزا بالخصوص تشریح عقائد، علم الکلام اور صوفیانہ لٹریچر اور تصوف کی روایات کی بڑی اہمیت ہے۔ مسلمان معاشرہ آج جیسا ہے، اس کی تشکیل میں اس لٹریچر نے، ان علماومشائخ کے توسط سے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، فیصلہ کن حصہ لیا ہے۔ ہمارے نزدیک دینی فکر کے ان دوسرے عناصر کے سلسلے میں تحریک اسلامی کے رہنماؤں کا موقف زیادہ واضح اور صاف رہا ہے، یعنی انہوں نے اسے بحیثیت مجموعی، مخصوص احوال وظروف اور زمان ومکان کے مخصوص تقاضوں کے تحت قرآن وسنت کے انسانی فہم کا اظہار سمجھا ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ اسے دور جدید کے انسان کے لیے حجت نہیں قرار دیتے بلکہ اکثر وبیشتر اسے غیر موزوں اور جدید اسلامی ذہن ومزاج کی تشکیل کے لیے مضر سمجھتے ہوئے تمام متعلقہ مسائل پر کتاب وسنت کی روشنی میں آج کے احوال وظروف اور موجودہ زمان ومکان کے تقاضوں کے پیش نظر ازسرنو فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ 
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عام علما اور مشائخ نے ان کے اس موقف کو قبول نہیں کیا ہے اور آج بھی مسلمان عوام کے دینی افکار اور ان کے مجموعی مزاج کی تشکیل انہی غیر موزوں اثرات کے تحت ہوتی ہے۔ یہ چیز ایک طرف تو عوام کی مطلوبہ اصلاح میں زبردست رکاوٹ بنتی ہے۔ دوسری طرف پورے مسلم معاشرے میں اس حرکی اقدامی کیفیت کے پیدا ہونے میں مانع ہے جو دور حاضر میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے ضروری ہے۔ اس صورت حال کا تقاضا واضح ہے: علما ومشائخ کے غلط موقف پر تنقید، نئی دینی فکر کی جامع ترتیب، اور مسلمان عوام کی نئی فکری تربیت جو انہیں قدیم کلام اور تصوف کے غیر اسلامی اثرات سے پاک کر کے مطلوبہ مثبت مزاج عطا کر سکے۔ اس تقاضے کی تکمیل اہم اسباب کی بنا پر ابھی نہیں ہو سکی ہے۔
ہر ملک میں اسلامی تحریکوں کو سیکولر دانش وروں کے مقابلے میں اور مسلمان عوام میں نفوذ کے لیے علما ومشائخ کی اہمیت محسوس کر کے ان پر تنقید کا لہجہ نرم کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات سیکولر قیادتوں سے سیاسی کش مکش میں عوامی تائید کی ضرورت نے ان کو اس فکری اصلاح کو نظر انداز یا کم از کم ملتوی کرنے پر مجبور کیا ہے۔ وقتی طور پر یہ طریقہ اختیار کرنا کتنا ہی ناگزیر کیوں نہ نظر آتا ہو، ہمارے نزدیک اس اہم کام کے بغیر خود اس مقصد کا حصول دشوار ہے جس کی خاطر اس کام کو پس پشت ڈالا گیا ہے۔

فوج داری قوانین کا مسئلہ

اسلام کے فوج داری (criminal) قوانین پر عربی میں اچھا کام ہوا ہے جس میں سے بعض چیزیں اردو میں منتقل بھی کی جا رہی ہیں۔
بعض مخصوص شرعی سزاؤں کے سلسلے میں مختلف پہلوؤں کی مزید تحقیق ووضاحت درکار ہے کیونکہ جرم وسزا کے بارے میں جدید فلسفوں اور جدید انسان کے مزاج نے حدود شرعیہ کی نسبت سے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کر دیے ہیں۔ اس وضاحت کا ایک پہلو خود فلسفوں کے تنقیدی جائزے اور اس بارے میں اسلامی فکر کے بیان اور ان حقائق کی یاد دہانی سے تعلق رکھتا ہے جن کی طرف پہلے دو مسائل کے بیان میں اشارہ کیا جا چکا ہے۔ دوسرا پہلو ہر شرعی سزا پر علیحدہ تفصیلی بحث کا متقاضی ہے۔ چور، زانی، زنا کی تہمت لگانے والے اور برسرجنگ باغیوں کی سزا قرآن میں مقرر کر دی گئی ہے لیکن معاصر اسلامی مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ سزائیں اسلامی معاشرہ برپا ہو جانے کے بعد ہی نافذ کی جانی چاہییں۔ اس اتفاق رائے کی بنیاد یہ ہے کہ ابتدا میں بھی یہ قوانین اسلامی معاشرے کے برپا ہونے کے بعد نافذ کیے گئے تھے۔ نیز سنت سے یہ بات ثابت ہے کہ غیر معمولی حالات میں بعض شرعی سزاؤں کا نفاذ روک دیا گیا تھا۔ اس اجمالی موقف کی مزید تشریح کے طور پر اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ دور جدید میں ان سزاؤں کا نفاذ کن شرائط کی تکمیل کے بعد کیا جا سکے گا۔
قرآن کریم میں شراب پینے والے کو سزا دینے کا ذکر نہیں مگر یہ بات سنت سے ثابت ہے کہ یہ ایک قابل سزا جرم ہے۔ نبی ﷺکا شراب خور کو سزا دینا ثابت ہے مگر سزا کی جو کیفیت اور مقدار فقہ مرتب میں بیان ہوئی ہے، اس کی بنیاد خلفاے راشدینؓ کا عمل اور صحابہ کا فیصلہ ہے۔ مذکورہ بالا مباحث کی روشنی میں یہ امر قابل غور ہے کہ جدید اسلامی قانون سازی میں اس بارے میں کیا موقف اختیار کرنا چاہیے۔
شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کا ذکر قرآن کریم میں نہیں ہے۔ نبی ﷺ نے جن متعین مجرموں کے سلسلے میں یہ طریقہ اختیار کیا، ان کے جرم کی نوعیت کی ازسرنو تحقیق درکار ہے تاکہ یہ بات صاف ہو سکے کہ یہ سزا صرف احصان کے باوجود زنا کے ارتکاب کی تھی یا جرم کی نوعیت زیادہ پیچیدہ تھی۔ پھر یہ امر بھی تحقیق طلب ہے کہ اصل سزا سزائے موت ہے یا یہ مخصوص طریقہ سزا بھی شرعی حیثیت رکھتا ہے۔
قرآن کریم میں مرتد کی سزا نہیں بیان ہوئی ہے۔ مرتد کی جو سزا سنت سے ثابت ہے، اس کے ساتھ ہی حضرت عمرؓ کے ایک مشہور اثر کی بنا پر اکثر فقہا مرتد کو تین دن تک توبہ کی مہلت دینے اور اس طرح اس کے شکوک وشبہات کا ازالہ کر کے اسے اسلام کی طرف واپس لانے کی کوشش کو واجب یا کم از کم مستحب قرار دیتے ہیں۔ آزادی ضمیر کی ضمانت دینے کے باوجود ارتداد کو قابل سزا جرم قرار دینا اور اس جرم کی ایک ایسی سزا دینا جو آئندہ اصلاح کے مواقع ختم کر دے، بہت نازک مسئلہ ہے۔ فساد عقیدہ اور بنیادی امور میں اختلاف نیز اہل قبلہ کی تکفیر کے بارے میں موجودہ علما کا طرز عمل اس مسئلے کی سنگینی میں اور اضافہ کر دیتے ہیں کہ مرتد کی تعریف کیا ہوگی اور اس کو کن شرائط کی تکمیل پر سزا دی جا سکے گی؟ اس صورت میں کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا جب ملزم کو اس بات پر اصرار ہو کہ وہ مرتد نہیں ہوا ہے؟
ترک اسلام کے ساتھ اسلامی ریاست سے بغاوت اور اسلام دشمنی کا مسئلہ علیحدہ ہے۔ نازک تر مسئلہ مجرد تبدیلی دین اور ترک اسلام کی سزا کا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ قتل اس جرم کی آخری سزا ہے یا واحد سزا۔ کیا وجہ ہے کہ مرتد کے شکوک وشبہات دور کرنے کے لیے تین ہی دن کا موقع دیا جائے، مزید وقت دینے میں کون سی دلیل شرعی مانع ہے؟ اور ایک جدید اسلامی ریاست اس بارے میں کوئی قانون بناتے وقت اس حقیقت کو کتنا وزن دے گی کہ اسلامی نظام عرصہ سے معطل رہا ہے اور عہد جدید کے انسان پر حجت اس طرح نہیں تمام ہوئی ہے جس طرح اہل عرب پر ہوئی؟

اقدار کا موضوع

اسلامی تعلیمات کا مدار اخلاقی قدروں پر ہے، شریعت انہی قدروں کی تحصیل متعین احکام وہدایات کے ذریعے کرتی ہے اور یہی قدریں زندگی کے نت نئے مسائل میں انسان کی صحیح راہنمائی کرسکتی ہیں۔
انفرادی اور اجتماعی کردار کی تعمیر، سماجی اداروں کی تشکیل اور جدید مسائل میں نئی اسلامی قانون سازی میں ان قدروں کی رہنما اہمیت مسلم ہے۔ پھر یہی قدریں نظام تعلیم وتربیت میں مقاصد کا درجہ رکھتی ہیں اور مطالعہ حیات میں اسلامی ادیب کے لیے روشنی کے مینار ہیں۔ اخلاقی قدروں کی اس کلیدی اہمیت کے پیش نظر ان کے مطلق یا اضافی ہونے کی بحث بہت اہم ہے۔
اسلامی مفکرین جب اخلاقی قدروں کے مطلق ہونے پر زور دیتے ہیں تو ان کی مراد کیا ہوتی ہے؟ کیا اخلاقی قدروں کا مفہوم احوال وظروف کی تبدیلی کے ساتھ نہیں بدلتا اور ان قدروں کے عملی اظہار کے طریقوں میں تبدیلی نہیں ہوتی؟ کیا انہی باتوں کی تعبیر اس طرح مناسب نہ ہوگی کہ اخلاقی قدروں کے تصور میں ارتقا ہوتا رہتا ہے اور اس ارتقا کے امکانات لامحددود ہیں؟ دور جدید میں نظام تعلیم، قانون، ادب اور سماجی علوم کی تشکیل جدید کے ضمن میں اس بنیادی بحث کا حق نہیں ادا کیا گیا ہے۔

اسلامی فلسفہ تاریخ

اسلام کے نظام فکر وعمل میں اخلاقی قدروں کی اہمیت کے ضمن میں یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ اسلامی مبصر کی نگاہ میں تاریخ انسانی میں اصل کارفرما قوتیں کیا ہیں جن کے حوالے سے ماضی کی توجیہ وتعبیر اور مستقبل کی تعمیر میں رہنمائی حاصل کی جا سکے؟
اسلامی فلسفہ تاریخ کی ترتیب تاریخ انسانی کو ایک مخصوص رخ پر لے جانے کی کوشش کرنے والی اسلامی تحریک کی ایک ناگزیرضرورت ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل ہی اس کے طریق کار میں حقیقت پسندی، خود اعتمادی اور اس کی صفوں میں اپنی بالآخر کامیابی کا یقین پیدا کر سکتی ہے۔ اسلامی فلسفہ تاریخ کی ترتیب اور اس کی روشنی میں پوری انسانی تاریخ کی نئی تدوین اس لیے بھی ضروری ہے کہ معاصر فکری مزاج کی تشکیل میں تاریخ کی مادی تعبیر نے اہم حصہ لیا ہے۔
آج تاریخ کا مطالعہ انسانی تاریخ میں روحانی قوتوں اور اخلاقی مقاصد کے عمل سے غفلت برتتا ہے اور ثانوی درجے کے دوسرے عوامل ہی کو فیصلہ کن اہمیت دیتا ہے۔ تاریخ کے اس مطالعہ کو رد کر کے ایک نیا تاریخی شعور حاصل کیے بغیر انسانوں سے کسی تہذیبی انقلاب کی توقع لاحاصل ہے۔
افسوس کہ اس عظیم کام کے سلسلے میں جو ابتدائی کوششیں کی بھی گئی ہیں، ان کا بہت کم نوٹس لیا گیا ہے اور بظاہر اس کام کے آگے بڑھنے کے کوئی آثار نہیں نظر آتے۔ اسلامی مفکرین کی توجہات زیادہ تر ان مسائل پر مرکوز ہیں جو مخصوص سیاسی یا کلامی فضا کی وجہ سے فوری اہمیت حاصل کر گئے ہیں مگر جب تک اسلامی انقلاب کی اس جیسی بنیادی فکری ضرورتوں کو نہیں پورا کیا جاتا، عصر حاضر کے مزاج کی اصلاح ناممکن ہوگی۔

معاشرتی مسائل

پردہ:

معاشرے میں عورت کے مقام اور اس کے سیاسی اور سماجی حقوق کے سلسلے میں تحریک اسلامی کے صف اول کے مفکرین کے درمیان بھی بنیادی اختلافات موجود ہیں۔ الاخوان المسلمون کے رہنما مصر وشام کے دوسرے علما کی طرح عورت کے لیے اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ کھلا رکھنے کو جائز سمجھتے ہیں اور یہی ان کے نزدیک اصل شرعی حکم ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنما صرف ضرورت کی بنا پر ایسا کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اور عام حالات میں چہرے کے پردے کے قائل ہیں۔ جو لوگ اس اختلاف سے واقف ہیں، ان کے لیے یہ بڑا دشوار ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے علما کی رائے کو خدا کی شریعت کا درجہ دیں۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر شخص خود کتاب وسنت سے مسئلے کی پوری تحقیق نہیں کر سکتا۔
یہ مسئلہ بہت اہم ہے اور عورتوں کی بڑھتی ہوئی تعلیمی، سماجی اور بسا اوقات معاشی ذمہ داریوں اور سرگرمیوں نے اسے اور زیادہ اہم بنا دیا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ دونوں رائیں اپنے دلائل کے ساتھ سامنے آئیں۔ اسلامی تحریکیں بالخصوص اور مسلمان معاشرہ بالعموم ایک ایسا مزاج اختیار کرے جو مخلص مسلمانوں کو اختلافی مسائل میں اس بات کی پوری آزادی دے کہ وہ جس رائے کو زیادہ وزنی پائیں، اسے عمل کی بنیاد بنائیں۔ رواج کے قہر یا سماج کے دباؤ کے ذریعے کسی ایک رائے کا نفاذ اسلامی تحریک اور مسلمان معاشرے کے لیے نہ صرف نتیجے کے اعتبار سے مہلک ہوگا بلکہ دینی اعتبار سے بھی غلط ہوگا۔
اس سیاق میں یہ بات قابل افسوس ہے کہ مسلمانوں کی کسی دینی یا اصلاحی تحریک نے اپنی قوتوں کا کوئی قابل لحاظ حصہ اس اہم کام پر صرف نہیں کیا کہ ایسی صاحب علم خواتین تیار کرے جو پوری ذمہ داری کے ساتھ ان جیسے مسائل پر غور وفکر اور تحقیق کا حق ادا کر سکیں اور کسی ایک رائے تک پہنچنے میں مدد کر سکیں۔ جب تک یہ کمی پوری نہیں ہوتی، ان مسائل پر غور وفکر کرنے والوں کی ایک مخصوص ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ دور جدید کی مسلمان عورت کی علمی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی ضروریات اور حوصلوں کی پوری رعایت ملحوظ رکھیں۔

عورت کے سیاسی حقوق:

عورت کے سیاسی حقوق پر غور کرتے وقت ہم اس ضرورت کو زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں۔ مسلم ممالک میں تحریک اسلامی کے مفکرین نے اس مسئلے میں مختلف موقف اختیار کیے ہیں۔
انتخابات میں رائے دہی، مجالس قانون ساز کی رکنیت، مناصب حکومت پر تقرر، ہر مسئلہ مختلف فیہ رہا ہے اور گزشتہ ۵۰ برسوں میں تبدیلی رائے کی بھی دل چسپ مثالیں ملتی ہیں۔ مسئلے کو سلجھانے کے لیے چند بنیادی امو رپر ازسرنو غور ضروری ہے۔ مثلاً یہ کہ آیت قرآنی: وامرہم شوری بینہم میں ہم کی ضمیر صرف مسلمان مردوں کی طرف راجع ہے یا مردوں اور عورتوں دونوں کی طرف۔
یہی سوال قرآن وسنت کے بعض دوسرے نصوص کی تعبیر کے سلسلے میں بھی پیدا ہوگا۔ عہد نبوت اور خلافت راشدہ کا تعامل بھی تحقیق طلب ہے اور یہ مسئلہ بھی تنقیح کا محتاج ہے کہ اگر اجتماعی امور پر مشورے میں مردوں کی نسبت عورتوں کی شرکت کم رہی تھی تو اس کے اسباب مقامی اور عارضی تھے یا شارع جل شانہ کے کسی دائمی منشا کی تکمیل کے لیے ایسا کرنا ضروری سمجھا گیا تھا۔
یہی سوال اس دور کے سیاسی، سماجی، معاشی اور زندگی کے بعض دوسر ے مظاہر کی نسبت سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ اتنے اہم مسائل جن کا تعلق انسانوں کی نصف تعداد کے اہم حقوق سے ہو، بڑی ذمہ داری اور باریک بینی کے متقاضی ہیں اور یہ ضروری ہے کہ ہمارے فیصلے کا مدار کتاب وسنت پر ہو۔
اگر کوئی مفکر نفسیاتی، حیاتیاتی مطالعے کی روشنی میں اور متعلقہ مصالح کے ذاتی فہم کی بنا پر کوئی رائے رکھتا ہے تو اس رائے کو صرف اس دائرے میں کوئی وزن دیا جا سکتا ہے جس میں کتاب وسنت سے کوئی واضح رہنمائی نہ ملتی ہو۔ ہمارے نزدیک اس مسئلے اور متعلقہ مسائل پر غور وبحث کے دوران میں یہ فرق ملحوظ نہیں رکھا جا سکا ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ مزید بحث وتحقیق کے ذریعے کسی رائے تک پہنچا جائے۔
جیسا کہ ہم اوپر لکھ چکے ہیں، اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ اس غور وبحث میں مرد علما اور اصحاب رائے کے ساتھ ہی ساتھ صاحب علم وبصیرت، دین دار خواتین بھی پور احصہ لیں۔ اگر آج ایسی خواتین کی کمی ہے تو ہمیں ان کی ضرورت واہمیت محسوس کر کے ایسے اقدامات کرنے چاہییں کہ یہ کمی جلد از جلد پوری ہو۔
ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر اس ضرورت کی عدم تکمیل کے سبب ہم نے اسلامی معاشرے کو اس انداز پر تشکیل دینا چاہا جسے خود دین دار خواتین بھی دل سے قبول نہ کرتی ہوں تو خطرناک نتائج رونما ہو سکتے ہیں۔ ان خطرات کے سدباب کا واحد محفوظ طریقہ عورتوں میں علم وبصیرت پیدا کرنا اور ان مسائل کی بابت کیے جانے والے فیصلوں میں ان کی شرکت ہے۔

عائلی قوانین میں اصلاح:

اسلام کی عائلی قوانین یا پرسنل لا کی جو دفعات کتاب وسنت سے ماخوذ اور متفق علیہ ہیں، ان کی حکمتوں اور مصالح کے بیان پر نیز ان پر مغرب کی جانب سے کیے جانے والے اعتراضات کے جواب میں اردو اور عربی میں خاصا لٹریچر موجود ہے جو کسی حد تک جدید ذہن کو مطمئن بھی کر سکتا ہے مگر جو چیز کھٹکتی ہے، وہ ایسا اختلاف ہے جو جزئی امور میں اصلاح وترمیم، اور ریاست کی مداخلت اور نئی ضابطہ بندی کے ذریعے عدل وانصاف کی ضمانت دینے کے باب میں تحریک اسلامی کے مفکرین کے درمیان پایا جاتا ہے۔ کسی حد تک اختلاف سے تو مفر نہیں مگر جتنا اختلاف اس باب میں نظر آتا ہے، وہ بہت کچھ کم ہو جاتا اگر ایک دوسرے کی رایوں سے واقف ہو کر بحث ومذاکرے کے ذریعے اختلافات میں کمی کی کوشش کی جاتی۔
یہاں تفصیل کا موقع نہیں، صرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً پاکستان میں علما اور جماعت اسلامی نے جو موقف اختیار کیا، وہ اپنی تفصیلات میں اس موقف سے بہت مختلف ہے جو مصر، شام اور مراکش وغیرہ کے بعض علما اور الاخوان المسلمون کے رہنماؤں نے اختیار کیا ہے۔ چونکہ یہ مسئلہ غیر مسلم ممالک کے مسلمانوں کے لیے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے، اس لیے اس کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ 
تعدد ازدواج کے حق کی تحدید اور ضابطہ بندی، طلاق کے اختیار کو بعض آداب کا پابند بنانا، حق خلع کی تجدید، مطلقہ کے حقوق، ایک ساتھ تین طلاقوں کامسئلہ، صغیرہ کے نکاح، ولایت اجبار اور خیاربلوغ کے مسائل، نیز یتیم پوتے کی وراثت کے ضمن میں جبری وصیت کا مسئلہ اس دائرے کے چند ایسے مسائل ہیں جن پر غور وفکر ضروری ہے۔

غیر مسلموں کے سیاسی حقوق

دور جدید میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے سیاسی اور مدنی حقوق کا مسئلہ بھی نازک اور اہم ہے۔ اگرچہ تحریک اسلامی کے رہنماؤں نے اس بارے میں خاصاحقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا ہے مگر عام ذہنوں پر مغرب کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا کافی اثر ہے۔
موجودہ موقف یہ ہے کہ رائے دہندگی اور مجالس قانون ساز کی رکنیت نیز دوسرے مدنی حقوق میں ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ برتا جائے گا البتہ یہ مجالس ازروے دستور اس بات کی پابند ہوں گی کہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتیں۔ اسلامی ریاست کا صدر مملکت لازماً مسلمان ہوگا اور اس کی شوریٰ صرف مسلمانوں پر مشتمل ہوگی۔ غیر مسلموں سے جزیہ لینا ضروری نہیں اور انہیں فوجی خدمات سے مستثنیٰ رکھنا مناسب ہوگا۔
ان میں سے پہلی بات یعنی صدر ریاست کا مسلمان ہونا متفق علیہ اور ہر ایک کے لیے قابل فہم ہے لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ جس دستوری پابندی کے تحت مجالس قانون ساز میں غیر مسلموں کی شرکت روا رکھی گئی ہے، اسی دستوری پابندی کے تحت کابینہ یا شوریٰ کی کسی دوسری شکل میں ان کی شرکت کیوں نہیں روا رکھی جا سکتی ہے؟
فوجی خدمات کو کسی حالت میں بھی غیر مسلمانوں کے لیے لازمی نہ قرار دینا ایک معقول بات ہے لیکن اگر وہ خود کو اس خدمت کے لیے پیش کریں تو ان کے لیے اس کا دروازہ بند کرنا ضروری نہیں معلوم ہوتا۔ یہ بات زیادہ موزوں معلوم ہوتی ہے کہ فوجی خدمت اور دوسرے مناصب پر تقرر کا معیار دستور سے وفاداری کو بنایاجائے اور اس اصولی موقف کے ساتھ عملی طور پر انتخاب یا تقرر میں متعلقہ غیر مسلم افراد کے واقعی رجحانات اور کردار کو بھی نظر میں رکھا جائے۔
اسی طرح مسلمانوں اور اسلام کے کسی اہم مفاد کو مجروح کیے بغیر غیر مسلموں کو ان تمام سیاسی اور مدنی حقوق کی ضمانت دی جا سکتی ہے جو دور جدید کی کسی ریاست کے شہریوں کو حاصل ہوتے ہیں یا جن کا شمار مجلس اقوام متحدہ نے بنیادی انسانی حقوق میں کیا ہے۔ اپنے موقف کی تعیین اور اس کے بیان میں مزاج عصر کی رعایت رکھنے میں اس حد تک کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا جس حد تک نہ کسی متعین شرعی حکم کی خلاف ورزی لازم آتی ہو، نہ اسلام اور مسلمانوں کا کوئی اہم مفاد مجروح ہوتا ہو۔
اس بارے میں مسلم ممالک میں اٹھنے والی اسلامی تحریکوں کے موقف کی تعیین میں دنیا کی رائے عامہ اور غیر مسلم ممالک میں بسنے والی مسلمان اقلیتوں کے مفاد ومصالح کی رعایت رکھنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ دنیا میں اسلام کے مجموعی مفاد کا ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کو جملہ سیاسی اور مدنی حقوق اور اسلام کی طرف دعوت دینے کے آزادانہ مواقع حاصل ہوں۔ زیر غور مسئلہ میں، شریعت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے فراخ دلانہ پالیسی اختیار کرنے اور اس کو مزاج عصر سے مناسبت رکھنے والے انداز میں سامنے لانے سے اس مفاد کے تحفظ میں مددملے گی۔

مسلمان اقلیتوں کا سیاسی مسلک

غیر مسلم اکثریت والے آزاد ممالک میں بڑی تعداد میں رہنے والے مسلمانوں کے اپنے ملک کے سیاسی نظام سے تعلق کی نوعیت بھی مذکورہ بالا مسئلے سے کم اہم نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تعلق ان کی سیاسی قوت اور اس کے نتیجے میں ان کی تعلیمی اور معاشی حالت پر گہرا اثر مرتب کرتا ہے۔ ان مسلمانوں کی سیاسی قوت، تعلیمی اور معاشی حالت کی اس داعیانہ کردار کے لیے بھی اہمیت ہے جو انہیں ان ملکوں میں اختیار کرنا چاہیے ۔ اب تک یہ سمجھا گیا ہے کہ انسانوں کو حاکمیت الٰہ کی طرف دعوت دینا اس بات کو مستلزم ہے کہ جس ملک میں حاکم اعلیٰ جمہور کو قرار دیا گیا ہو، اس کے سیاسی نظام سے کنارہ کش رہا جائے۔ یہ موقف نظر ثانی کا محتاج ہے۔ قانون سازی، تشکیل حکومت اور انتظام ملکی میں فعال حصہ لے کر اپنی سیاسی قوت میں اضافہ اور تعلیمی ومعاشی حالت کو بہتر بنانے کے علاوہ خود ملک کی رائے عامہ پر اثر انداز ہونا زیادہ آسانی سے ممکن ہوگا۔
ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حاکمیت الٰہ کا عقیدہ اور اس کی طرف دعوت، اصولی طور پر ایسا کرنے میں مانع ہے۔ اس مسئلے پر کھل کر بحث ومذاکرہ ہونا چاہیے اور کوئی وجہ نہیں کہ یہ بحث مسلم ممالک کے اسلامی مفکرین کی شرکت سے محروم رہے۔ اگر مستقبل میں اسلامی تحریکوں کا منتہائے نظر صرف مسلم ممالک میں اسلامی نظام کا قیام نہیں بلکہ پوری دنیا میں اسلامی انقلاب ہے تو اس مسئلے کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔

معاشی مسائل

اسلام اور معاشی ترقی:

اگرچہ معاصر اسلامی فکر کے بعض توجہ طلب پہلوؤں کی نشان دہی میں ہم معاشی مسائل کا ذکر سب سے آخر میں کر رہے ہیں، مگر یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ دور جدید میں ان مسائل کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
بہت سے جدید ذہنوں کی اسلام اور اسلامی نظام کے قیام کے سلسلے میں بے دلی یا مخالفت ان مسائل سے وابستہ ہے۔ بہت سے مسلم دانش ور یہ احسا س رکھتے ہیں کہ بعض اسلامی تعلیمات معاشی ترقی کے لیے ناسازگار ہیں اور اسلام تیز رفتار معاشی ترقی کے لیے ایجابی طور پر سازگار فضا پیدا نہیں کر سکتا۔ مسلمان ماہرین معاشیات نے اپنے مغربی اساتذہ سے یہ سیکھا ہے کہ صنعتی ترقی کا ایک لازمی نتیجہ اور تیز رفتار ترقی کی ایک شرط روایتی سماج کے شیرازے کا منتشر ہونا ہے۔ ان دانش وروں کا تصور اسلام روایتی مذہب کے تصور سے زیادہ نہیں اور اسلام کے مطالعے کی کمی کے سبب وہ مشرق کے مسلمان ممالک کے روایتی سماج ہی کو اسلامی سماج سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ان کا ذہن یہ بات بھی تقریباً قبول کر چکا ہے کہ اسلام تیز رفتار معاشی ترقی کے صدمات نہ سہہ سکے گا۔
اگر تحریک اسلامی کو نئے اسلامی معاشرے کی تشکیل میں اپنے ماہرین معاشیات کا تعاون حاصل کرنا ہے تو ان کی ایسی غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری ہے۔ معاشی ترقی کے حقیقی تقاضوں کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور اسلام کے حرکی رجحانات کی مخفی قوتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ واضح کرنا چاہیے کہ کس طرح وہ معاشی ترقی کے لیے سازگار فضا بناتے ہیں۔ قدرتی طورپر ہمیں ان امور سے بھی بحث کرنی ہوگی کہ اسلام میں ترقی آخری مقصود کا نہیں بلکہ فلاح انسانی کا درجہ رکھتی ہے۔
اس ذیل میں بیش از بیش سامان حیات پیدا کرنے، معیار زندگی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ چاہنے، انسانی ضروریات میں بے تحاشا وسعت پیدا کرتے چلے جانے اور فرد انسانی کو مزید سامان حیات کی کبھی نہ تشفی پانے والے طلب کے دباؤ کے تحت مصروف محنت رکھنے کے معاصر مقاصد ومناہج پر تنقید بھی ضروری ہوگی۔ زندگی کے روحانی، اخلاقی اور جمالیاتی پہلوؤں کے اہم تقاضوں پر زور دیتے ہوئے معاشی ترقی کے سلسلے میں ایک ایسا معتدل نقطہ نگاہ سامنے لانا ہوگا جو مقام انسانیت کے شایان شان ہو۔
اسلام کے مجموعی نظام اقدار کے پس منظر میں معاشی قدروں کے صحیح مقام کی تعیین کے بعد یہ بات واضح کرنی ہوگی کہ اسلام مطلوبہ معاشی ترقی کے لیے قوی محرکات فراہم کرتا ہے اور اس کا اجتماعی نظام اس کے اہتمام کا ذمہ دار ہے۔ اس موضوع پر اب تک بہت کم لکھا گیا ہے۔ موجودہ لٹریچر عام لوگوں کے لیے کچھ مفید ہو سکتا ہے مگر معاشیات کے ماہرین کے لیے تشفی بخش نہیں ہے۔

پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر کی بحث:

دور جدید میں معاشی ترقی، معاشی عدل کے قیام اور فی الجملہ زندگی کی تنظیم میں انفرادی اور نجی کوششوں کی اہمیت روز بروز کم ہوتی جاتی ہے اور تعاون باہمی پر مبنی اداروں نیز ریاست کا دائرہ عمل وسیع تر ہوتاجا رہا ہے۔ یہ کسی مخصوص فلسفے کا اثر نہیں بلکہ جدید ٹکنالوجی کا نتیجہ ہے جو اشیا کی پیداوار کے لیے بڑے پیمانے پر اہتمام، طویل عرصہ پیداوار اور اس کے تقاضے کے طور پر پیداواری منصوبہ بندی اور کامیاب منصوبہ بندی کے لیے رسد اور طلب نیز خام اشیا اور تیار شدہ سامانوں کی قیمتوں میں یک گونہ استقرار کی طالب ہے۔ ایک اسلامی معیشت میں پبلک سیکٹر، کوآپریٹو سیکٹر اور پرائیویٹ سیکٹر کے اضافی مقامات پر اور صنعتوں کو قومی ملکیت میں لینے یا نہ لینے کے مسئلے پر غور کرتے وقت انفرادی حقوق اور شورائی نظام کے تقاضوں کے ساتھ جدید ٹکنالوجی کے ان تقاضوں کو بھی پوری طرح سامنے رکھنا ہوگا۔ متعلقہ عملی مسائل میں فیصلہ کا مدار مصالح کو بنانا چاہیے اور یہ ظاہر ہے کہ اکثر اوقات بالاتر مصالح کے حصول کے لیے کم تر مصالح کی قربانی یا ان کے تحفظ کے لیے دوسری تدابیر اختیار کرنا بھی لازم آئے گا۔
اس مسئلے پر جو لٹریچر ہمارے سامنے ہے، اس کا بیش تر حصہ مستقبل کی اسلامی ریاست کے متوقع مسائل کو سامنے رکھ کر تیار نہیں ہوا ہے، بلکہ غیر اسلامی معاشی نظاموں کے رد میں تیار ہوا ہے۔ اصل ضرورت ایک ترقی پذیر اسلامی ریاست کے لیے موزوں معاشی پالیسی مرتب کرنے کی ہے اور اس مسئلے میں اصل اہمیت اصطلاحوں کے ترک وقبول کی نہیں بلکہ پالیسی کے ایسے رہنما اصول وضع کرنے کی ہے جو قومی ملکیت میں لینے، تحدید ملکیت، مسئلہ ملکیت زمین، آزادی کاروبار کے حدود اور معاشی منصوبہ بندی جیسے امور میں موزوں فیصلوں کی بنیاد بن سکیں۔
بلاشبہ اس کام کا حق تو اس وقت ادا کیا جا سکے گا جب کسی ملک میں اسلامی نظام عملاً قائم ہو جائے مگر خود ایسا ہونا اب اس بات پر منحصر ہے کہ ہم مسلمان دانش وروں اور ماہرین معاشیات کو خصوصاً اور دور جدید کے انسان کو عموماً اس بات پر مطمئن کر سکیں کہ اس سلسلے میں تحریک اسلامی ایک واضح، حقیقت پسندانہ اور حرکی موقف اختیار کرتی ہے۔

غیر سودی معیشت:

اسلام میں سود کی حرمت اور معاصر معاشی نظاموں میں سود کی کلیدی اہمیت اکثر جدید تعلیم یافتہ افراد کو الجھن میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سود کو مکمل طور پر ممنوع قرار دینے کے بعد بنک کاری، نظام زر وکریڈٹ، تجارت خارجہ، بین الاقوامی مالی تعلقات کن بنیادوں پر منظم کیے جا سکیں گے؟ بہت سے مسلمان بھی یہ خیال رکھتے ہیں کہ بنک کا سود ان خرابیوں سے پاک ہے جو قرآن کے حرام کیے ہوئے ربا میں پائی جاتی ہیں۔ اس غلط فہمی کے ازالے، حرمت سود کی حکمتوں کے بیان اور مذکورہ بالا امور کی تنظیم کے لیے متبادل بنیادوں کی وضاحت پر جو کام اب تک کیا گیا ہے، وہ ابتدائی معیار کا ہے۔ مزید تفصیلات پر غور اور متبادل نظام کی فنی وضاحت درکار ہے۔ اس بات کی بھی شدید ضرورت ہے کہ تاریخ انسانی میں بالعموم اور معاصر دنیا میں بالخصوص سودکے کردار اور اس سے پیدا ہونے والی حق تلفیوں، عدم توازن اور فساد پر گہرا تجزیاتی اور معلوماتی کام کیا جائے۔ ساتھ ہی سود کی وضاحت کرنے والے اور اس کا جواز فراہم کرنے والے علمی نظریات پر علمی تنقید کا کام بھی آگے بڑھانا چاہیے۔

انشورنس:

صنعتی دور میں انشورنس ایک اہم کاروباری ضرورت ہے۔ انشورنس کارخانہ دار کے لیے یہ ممکن بنا دیتی ہے کہ وہ ایک متعین سالانہ صرفہ برداشت کر کے ناگہانی خطرات کے مالی عواقب سے بے نیاز ہو جائے۔ اس تحفظ کے بغیر وسیع پیمانے پر صنعتی پیداوار کی تنظیم دشوار ہے۔ یہی ضرورت زندگی کے دوسرے دائروں میں بھی پیش آتی ہے۔ موت کے وقت کے عدم تعین کے سبب افراد زندگی کی انشورنس کے ذریعے موت کے مالی عواقب سے تحفظ چاہتے ہیں۔
ان تمام صورتوں میں تحفظ کی بنیاد یہ فنی حقیقت فراہم کرتی ہے کہ جس خطرے کا وقوع افراد کے لیے مجہول اور غیر متعین ہوتا ہے، اسی خطرے کا افراد کے ایک بہت بڑے مجموعے میں وقوع حسابی طور پر معلوم اور متعین ہوتا ہے۔ اس بنیاد پر تعاون باہمی کے اصول پر افراد کے مجموعے خطرات کے مالی عواقب برداشت کرنے اور فرد واحد کے لیے ان کی شدت کم کرنے کا اہتمام کر سکتے ہیں اور اسی بنیاد پر تجارتی کمپنیاں بڑی تعداد میں افراد سے انشورنس کے معاہدے کر کے مذکورہ بالامقاصد حاصل کرنے کے ساتھ خود نفع کماتی ہیں اور اسی بنیاد پر اجتماعی نظام سوشل انشورنس کی مختلف صورتیں اختیار کر سکتا ہے۔
ان حقائق کے پیش نظر اسلامی معاشرے کے لیے چند بنیادی سوالات غور طلب ہیں: پہلا سوال یہ ہے کہ وہ اس ضرورت کو زندگی کے تمام دائروں میں اجتماعی نظام کے زیر اہتمام پورا کرے گا یا بعض دائروں میں ایسا کرے گا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر ہر دائرے میں اس ضرورت کی تکمیل کا اہتمام ریاست کے سپرد نہ کیا جا سکتا ہو تو ایسے دائروں میں صرف تعاون باہمی پر مبنی اداروں کو روا رکھا جائے گا یا تجارتی انشورنس کو بھی بعض دائروں میں گوارا کیا جائے گا؟
انشورنس کا موجودہ نظام سود سے ملوث ہے مگر سود کے بغیر انشورنس کی تنظیم جدید اس سے کہیں زیادہ آسان ہے جتنی بنک کاری کی تنظیم جدید۔ اس حقیقت کو سامنے نہ رکھنے اور بڑی حد تک انشورنس کمپنی کی فنی بنیادوں سے ناواقفیت کی وجہ سے اس موضوع پر ظاہر کی جانے والی آرا میں بہت کم وزن ہے۔ اردو میں اس پر کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا ہے۔ گزشتہ برسوں میں عربی میں ا س پر کئی مقالات لکھے گئے ہیں مگر اب تک مسئلہ صاف نہیں ہوا ہے۔ انشورنس کمپنی کی فنی بنیادوں کے پیش نظر بعض علما کی یہ رائے کہ اس میں قمار پایا جاتا ہے، نظر ثانی کی محتاج معلوم ہوتی ہے۔ مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر اس کی مزید تحقیق اور جامع بحث کی ضرورت ہے۔

نظام محاصل:

دور جدید کی اسلامی معیشت کے نظام محاصل پر کسی جامع کام کی ضرورت ہے۔ اگرچہ متعدد معاصر فقہا ومفکرین نے مال کی نئی قسموں مثلاً کمپنیوں کے حصص، مشینوں اور کارخانوں اور کرایہ پر دیے جانے والے مکانات وغیرہ کے سلسلے میں زکوٰۃ کے وجوب پر روشنی ڈالی ہے، مگر ابھی اس سلسلے کے تمام مسائل کا احاطہ نہیں کیا جا سکا اور زیر غور مسائل میں اختلاف رائے کم کرنے کے لیے بحث وفکر کی رفتار بہت سست ہے۔
مثال کے طور پر یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ کاروباری پیمانے پر کی جانے والی زراعت کے سلسلے میں شرعی محصول کیا ہوگا؟ عشر وزکوٰۃ کے مصارف اور جدید حالات میں ان کے مطابق عمل کی صورتیں کیا ہوں گی؟ اس بارے میں بھی مزید غور وبحث کی ضرورت ہے۔ اس سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ شرعی محاصل اور مزید محاصل، مالیاتی پالیسی (fiscal policy) اور سماجی تحفظ پر روشنی ڈالتے ہوئے غیر سودی اسلامی معیشت کے پس منظر میں ایک جامع نظام تجویز کیا جائے۔

تحدید نسل:

آج کل کم ترقی یافتہ ممالک کی معاشی پالیسی میں تحدید نسل نے بھی ایک اہم مقام حاصل کر لیا ہے۔ انفرادی سطح پر ضبط ولادت کا مسئلہ قومی پیمانے پر آبادی کو کنٹرول کرنے کے مسئلے سے بڑی حد تک علیحدہ ہے لیکن اس موضوع پر معاصر بحث ومذاکرہ اول الذکر مسئلے کے زیر سایہ شروع ہوا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بعض مفکرین اس بارے میں غیر معمولی شدت اختیار کر رہے ہیں۔ جہاں تک پہلے مسئلے کا سوال ہے، اس پر اس بڑے مسئلے کے پس منظر میں غور کرنا چاہیے جس کا ذکر معاشی ترقی کے تصور اور مقاصد پر گفتگو کرتے ہوئے کیا گیا ہے۔ مسئلے کے دونوں پہلوؤں پر مزید تحقیقی کام کی اور بحث ومذاکرے کے ذریعے موجودہ اختلاف رائے کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور)

امت مسلمہ کو درپیش فکری مسائل کے حوالے سے چند اہم گزارشات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’عصر حاضر میں اسلامی فکر۔ چند توجہ طلب مسائل‘‘ کے عنوان سے محترم ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب کا مضمون نظر سے گزرا۔ یہ مضمون اندازاً ربع صدی قبل تحریر کیا گیا تھا لیکن اس کی اہمیت وافادیت آج بھی موجود ہے بلکہ مسائل کی فہرست اور سنگینی میں کمی کے بجائے اس دوران میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
ان میں سے بیشتر مسائل خود میرے مطالعہ کا موضوع بھی رہے ہیں اور بعض مسائل پر کچھ نہ کچھ لکھا بھی ہے مگر یہ خواہش رہی ہے کہ ایجنڈا اور تجاویز کے طور پر ایسے مسائل کی ایک مربوط فہرست سامنے آجائے جو اس وقت دنیا بھر میں مختلف سطحوں پر ’’اسلامائزیشن‘‘ کے حوالے سے زیر بحث ہیں یا متعدد حلقوں کی طرف سے ان پر بحث وتمحیص کا تقاضا موجود ہے۔ میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر صاحب محترم کا یہ مضمون اس ضرورت کو کافی حد تک پورا کرتا ہے اور اسے اہل علم ودانش کے حلقوں میں زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی ضرورت ہے۔
اب سے تقریباً پون صدی قبل مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ کے عنوان سے اپنے خطبات میں ان اصولی اور علمی مسائل کی نشان دہی کی تھی جن کا جائزہ لینا اسلام کی تعبیر وتشریح کو دور جدید کے ناگزیر تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ضروری ہے۔ میرے نزدیک علامہ محمد اقبالؒ کے یہ خطبات تجاویز اور ایجنڈے کی حیثیت رکھتے تھے لیکن بدقسمتی سے موافق اور مخالف دونوں حلقوں میں انہیں ایجنڈے کے بجائے موقف کا درجہ دے دیا گیا اور اول تو ان پر سنجیدگی سے بحث ہی نہیں ہوئی اور اگر گفتگو کا تھوڑا بہت سلسلہ چلا تو وہ موقف کی حمایت ومخالفت کے دائرہ تک محدود رہا اور علامہ اقبالؒ ان تجاویز اور ایجنڈے کی صورت میں متعلقہ امور ومسائل پر جس وسیع علمی مباحثہ کی توقع کر رہے تھے‘ وہ پوری نہ ہوئی۔
مجھے یہ خدشہ ہے کہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب کے اس مضمون کے ساتھ بھی یہی معاملہ نہ ہو جائے اور ان کی ’’تجاویز‘‘ بحث وتمحیص کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے بجائے ’’موقف‘‘ قرار پا کر حمایت ومخالفت کے ایک نئے بازار کو گرم کرنے کا باعث نہ بن جائیں لیکن اس کے باوجود میں اس بات کے حق میں ہوں کہ دینی وعلمی حلقوں میں ان کا یہ مضمون ایک مربوط ایجنڈے کے طور پر بار بار پڑھا جائے اور اس میں جن مسائل کی طرف توجہ دلائی گئی ہے‘ ان پر وسیع تر دائرے میں علمی مباحثہ کا اہتمام ہو کیونکہ اسی صورت میں ہم پیش آمدہ مسائل پر ایک متفقہ یا کم از کم اکثریتی موقف تک پہنچنے اور ان مسائل کے حوالے سے فکر جدید کے چیلنج کا سامنا کرنے میں کام یاب ہو سکیں گے۔
ڈاکٹر صاحب کے مضمون میں مجھے ایک بات کھٹکی ہے کہ وہ اسلام کی تعبیر وتشریح کے لیے روایتی دینی وعلمی حلقوں کو ایک طرف کرتے ہوئے اہل دانش کے کسی نئے طبقے کو سامنے لانے کے خواہش مند ہیں اور جہاں وہ جدید فکری وعلمی تقاضوں سے روایتی دینی وعلمی حلقوں کی بے اعتنائی کا ذکر کرتے ہوئے ان کے تحفظات میں اس امر کا ذکر کرتے ہیں کہ:
’’انہیں یہ اندیشہ ہے کہ مکمل اسلامی نظام کے قیام کی کوششیں کہیں محدود دائرے میں بھی اسلام کے باقی نہ رہنے کا سبب نہ بن جائیں۔‘‘
وہاں انہیں اسلامی تحریکات سے یہ شکایت بھی ہے کہ
’’ہر ملک میں اسلامی تحریکوں کو سیکولر دانش وروں کے مقابلہ میں اور مسلمان عوام میں نفوذ کے لیے علما ومشائخ کی اہمیت محسوس کرتے ہوئے ان پر تنقید کا لہجہ نرم پڑ جاتا ہے۔‘‘
ہمارے نزدیک مسلم ممالک میں بہت سی اسلامی تحریکات نے اسی مقام پر ٹھوکر کھائی ہے کہ روایتی دینی وعلمی حلقوں کے بارے میں قطعی طور پر یہ بات طے کر کے کہ ان کے ذریعے سے اسلام کی دعوت واشاعت اور تنفیذ وترویج کا کوئی امکان نہیں ہے‘ ان سے ہٹ کر نئے علمی وفکری حلقے قائم کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں جن کا سب سے زیادہ نقصان یہ ہوا ہے کہ اسلامی تحریکات کی بیشتر صلاحیتیں اور توانائیاں اپنا وجود منوانے اور روایتی دینی حلقوں کی افادیت کی نفی کرنے میں ہی صرف ہو کر رہ گئی ہیں اور جس کام کے لیے ان نئے حلقوں کا وجود عمل میں آیا ہے‘ ا س کی طرف توجہ کم رہی ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہی روایتی حلقوں اور نئے فکری حلقوں کے درمیان کشمکش اور بحث وتمحیص کی گرم بازاری نے بعض مقامات پر نئے فکری خلفشار کو جنم دیا ہے۔
روایتی دینی وعلمی حلقوں کی سرد مہری‘ پیش آمدہ مسائل سے ان کی بے اعتنائی اور فکر جدید کے چیلنجز کا سامنا کرنے سے ان کا گریز ایک معروضی حقیقت ہے جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور خود ہمیں بھی ان حلقوں سے مسلسل یہ شکایت ہے لیکن اس مسئلہ کا حل ان روایتی حلقوں کو جو صدیوں کے تعامل کے نتیجے میں ایک مضبوط ادارے کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں‘ ایک طرف کر کے اور ان کی نفی کر کے علم ودانش کی صلاحیتیں اور توانائیاں نئے فکری حلقوں کے قیام اور ان کا وجود منوانے کی کوششوں میں ضائع کرنا نہیں ہے بلکہ خود ان روایتی دینی وعلمی حلقوں کے اندر اصلاح کی جدوجہد کو مربوط بنانا ہے اور ہمارے خیال میں روایتی حلقوں سے ہٹ کر کام کرنے والی اسلامی تحریکات نے جتنا زور اپنا الگ وجود تسلیم کرانے میں صرف کیا ہے‘ اگر وہی قوت اور صلاحیتیں روایتی حلقوں کے اندر رہتے ہوئے اصلاح اور بہتری کے لیے صرف ہوتیں تو آج صورت حال خاصی مختلف ہوتی البتہ اس کے لیے بہت زیادہ محنت اور جگر کاوی درکار ہے اور خود کو ثانوی درجے میں رکھنے کے حوصلے کی بھی ضرورت ہے لیکن ہمارے نزدیک اس مسئلے کا کوئی اور حل ممکن نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک اسلامائزیشن کا جو عمل بھی نتیجہ خیز طور پر آگے بڑھے گا‘ وہ روایتی دینی وعلمی حلقوں کے ذریعے سے ہی وجود میں آئے گا اور ان کو نظر انداز کر کے کی جانے والی کوئی بھی کوشش نئے فکری خلفشار کو جنم دینے کے علاوہ اسلامی معاشرے کی اور کوئی خدمت سرانجام نہیں دے پائے گی۔
اس لیے ہمارے سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ جدید مسائل کا ادراک وشعور اور ان کے حل کا جذبہ رکھنے والے ارباب علم ودانش کو روایتی حلقوں کے اندر ہی اپنی جگہ تلاش کرنی چاہیے اور انہی کو محنت اور تگ ودو کے ساتھ اس کام کے لیے تیار کرنے میں اپنی صلاحیتیں صرف کرنی چاہییں کیونکہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب محترم نے جن مسائل کو توجہ طلب قرار دیا ہے‘ ان کے حل کا محفوظ اور صحیح راستہ یہی ہے۔ 
میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کے اس فکر انگیز مضمون پر مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کا یہ تبصرہ زیادہ مناسب ہے اور اسی پر اپنی معروضات ختم کر رہا ہوں کہ:
’’مضمون فکر انگیز اور پر مغز ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس طریق فکر سے سو فی صد اتفاق ہو۔ بڑے اہم سوالات ہیں جن کو زیادہ دنوں تک نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ان کو نظر انداز کرنے کی اس عالم اسباب میں اکثر وہی سزا ملتی ہے جو متعدد آزاد ہونے والے ممالک اور مسلم معاشروں میں اس دور میں ملی ہے ..... لیکن سوال یہ ہے کہ ان مسائل پر کون غور کرے؟ یا وہ لوگ ہیں جو اس کے اہل نہیں ہیں اور جو اہل ہیں‘ ان کو ترکی کے پچھلے دور کے علما کی طرح اپنی دوسری مصروفیتوں سے فرصت نہیں۔‘‘ (بحوالہ ’’اسلام‘ معاشیات اور ادب‘‘ ص ۵۷‘ ۵۸ از ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی)

مجوزہ آئینی ترامیم کا ایک جائزہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

این آر بی کی طرف مجوزہ آئینی ترامیم منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ان کا پس منظر اور بنیاد صدر پاکستان کا وہ فرمان ہے جس کے مطابق انہوں نے واقعیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’طاقت‘‘ کے تین ستونوں کی نشان دہی کی ہے: صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف۔ صدر محترم کا فرمان ہے کہ ان تینوں کے درمیان ’’توازن‘‘ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ مجوزہ آئینی ترامیم کا سرسری مطالعہ ہی واضح کر دیتا ہے کہ اصل اہتمام صدر کو ’’فنا فی الدستور‘‘ کرنے کا کیا جا رہا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ترمیمی پیکج تیار کرنے والے ’’تھنک ٹینک‘‘ نے سردھڑ کی بازی لگاتے ہوئے اکیسویں صدی کے تقاضوں کے پیش نظر صدر کے فنا فی الدستور ہونے کو توازن قرار دے کر دستوری میدان میں ’’اجتہادی قدم‘‘ اٹھایا ہے۔ رہے معترضوں کے اعتراضات تو وہ حرف غلط کی طرح مٹا دیے جائیں گے۔ کسی کی کج فہمی، لا علمی اور رجعت پسندی کو ’’ترقی اور خوش حالی‘‘ کی راہ میں آخر کیوں حائل ہونے دیا جائے؟
مجوزہ ترامیم میں ’’توازن‘‘ دیکھتے ہوئے ایک سوال فوراً ابھرتا ہے کہ آخر اتنا تکلف کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ بہت سیدھا، شفاف اور حقیقت پسندانہ عمل تو یہ ہے کہ ایسی ترمیم لائی جائے جس کے مطابق وہی شخص صدر پاکستان ہوجو آرمی چیف ہو۔ آخر اس میں مضائقہ ہی کیا ہے؟ اگر عالمی برادری میں ’’توا‘‘ لگنے کا ڈر ہے تو جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین کو صدارتی عہدہ بھی سونپ دیا جائے۔ اس سے سیاست دانوں کو بھی فائدہ ہوگا کہ ’’گھر‘‘ میں لڑائی پڑ جائے گی۔ آرمی چیف کی کوشش ہوگی کہ جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ بھی اس کے پاس رہے لہٰذا مستقبل میں کسی آرمی چیف کو اپنی ایک ’’اضافی ٹوپی‘‘ کسی دوسرے کے سر پر رکھنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی، البتہ ’’اضافیت‘‘ دوسروں کے لیے برقرار رہے گی۔ 
ترمیمی پیکج کی رونمائی سے پہلے اس بات کا اعادہ بھی کیا جا رہا تھا کہ صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان اختیارات کے حوالے سے ’’روک ٹوک اور توازن‘‘ (Check & Balances) کا نظام قائم کیا جا ئے گا۔ اس اصطلاح کے استعمال سے سیاسیات کے طالب علم کا ذہن فوراً شمالی امریکہ کی طرف جاتا ہے جہاں حکومت کے تینوں شعبوں یعنی مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان روک ٹوک اور توازن قائم کیا گیا ہے تاکہ کوئی شعبہ ’’آمر‘‘ نہ بن سکے۔ مثلاً دیکھیے کہ انتظامیہ کا سربراہ یعنی امریکی صدر امریکی کانگرس پر کس طرح اثر انداز ہو سکتا ہے:
۱۔ صدر اپنی تجاویز زبانی یا تحریری طور پر کانگرس کو بھیج سکتا ہے۔ صدر جب بھی ضروری سمجھے، دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کو خطاب کر سکتا ہے۔ صدر، کانگرس کے عمومی اجلاس نہیں بلا سکتا لیکن کسی بھی نوعیت کی ہنگامی صورت میں صدر کو خصوصی اجلاس بلانے کی اجازت ہے۔
۲۔ صدر، کانگر س کے منظور کردہ مسودے کی منظوری دیتا ہے۔ وہ چاہے تو حق استرداد (ویٹو) استعمال کرتے ہوئے مسودے کو مسترد کر دے۔ ۱۷۸۹ء سے اب تک امریکی صدور استرداد کا حق سات سو سے زیادہ دفعہ استعمال کر چکے ہیں۔ مسترد شدہ مسودوں میں سے صرف چالیس کانگرس کی دو تہائی اکثریت کی حمایت حاصل کر کے دوبارہ زندگی پا سکے ہیں کیونکہ امریکی سسٹم کے مطابق سادہ اکثریت سے پاس کیے ہوئے مسودے کو اگر امریکی صدر مسترد کر دے تو امریکی کانگرس دو تہائی اکثریت سے ایسے مسودے کو دوبارہ زندگی بخش سکتی ہے۔ اس صورت میں صدارتی منظوری کی ضرورت نہیں رہتی۔
۳۔ امریکی کانگرس میں ’’کمیٹیاں‘‘ بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ انہیں Little Legislatures کہا جاتا ہے۔ یوں سمجھیں کہ قانون سازی اصل میں یہی کمیٹیاں کرتی ہیں۔ امریکی صدر ان کمیٹیوں کے ارکان سے رابطہ رکھتا ہے جس سے قانون سازی کے معاملات میں صدر کا بھی کچھ نہ کچھ عمل دخل ہو جاتا ہے۔
۴۔ امریکی کانگرس میں صدر کی سیاسی جماعت کے ارکان بھی ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے ذریعے سے بھی امریکی صدر، کانگرس پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
اس مختصر جائزے سے معلوم ہوا کہ کانگرس قانون سازی کے معاملات میں ’’آمر‘‘ نہیں بن سکتی۔ امریکی صدر آمرانہ رجحانات کو روکنے کے لیے موجود ہوتا ہے۔
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ کانگرس، امریکی صدر کو کیسے کنٹرول کرتی ہے؟
۱۔ امریکی صدر اعلیٰ عہدے داروں کا تقرر کرتا ہے۔ ان تمام تقرریوں کی حتمی منظوری امریکی کانگرس کے ایوان بالا یعنی سینٹ کے ارکان کی دو تہائی اکثریت دیتی ہے۔ سینٹ اب تک کئی صدارتی تقرریوں کو مسترد کر چکی ہے۔
۲۔ امریکہ دوسرے ممالک سے جو معاہدے کرتا ہے، ان کی حتمی منظوری امریکی سینٹ دیتی ہے۔ وڈرو ولسن نے ۱۹۱۹ء میں معاہدۂ وارسائے پر دستخط کر دیے تھے لیکن امریکی سینٹ نے توثیق کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کی وجہ سے امریکہ لیگ آف نیشنز کا ممبر نہیں بن سکا تھا۔ سینٹ کی منظوری کے بغیر امریکی صدر جنگ یا صلح کا اعلان نہیں کر سکتا اور نہ امریکی فوج کو بیرون ملک بھیج سکتا ہے۔
۳۔ صدارتی ویٹو کو کانگرس دو تہائی اکثریت سے بے اثر کر سکتی ہے، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا۔
۴۔ صدر کے کسی بھی انتظامی حکم نامے اور پالیسی کو ختم کرنے کے لیے کانگرس ’’قانون‘‘ بنا کر صدر کو بے بس کر سکتی ہے۔
۵۔ صدر کے مواخذے کا اختیار بھی امریکی کانگرس کے پاس ہے۔
۶۔ صدارتی انتخابات میں اگر کوئی امیدوار واضح اکثریت نہ لے سکے تو زیادہ ووٹ لینے والے تین صدارتی امیدواروں کے نام ’’ایوان نمائندگان‘‘ جو کہ کانگرس کا ایوان زیریں ہے، کے رو برو پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ ایوان، صدر کا انتخاب کرتا ہے۔
۷۔ صدر کے ماتحت تمام محکموں اور ملازمین کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات کی منظوری کانگرس دیتی ہے۔ 
ان طریقوں سے کانگرس، صدر کو خاصی حد تک کنٹرول کر سکتی ہے۔
جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے، اسے بھی روک ٹوک اور توازن کے نظام میں شامل کیا گیا ہے۔ عدلیہ کے ججوں کی تقرری کا اختیار صدر کے پاس ہے، سینٹ اس کی منظوری دیتی ہے اور ججوں کو معزول کرنے کا اختیار کانگرس کو دیا گیا ہے۔ اسی طرح عدلیہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ صدر کے نافذ کردہ احکام اور کانگرس کے بنائے ہوئے قوانین کو ’’آئین سے متصادم‘‘ ہونے کی صورت میں کالعدم قرار دے۔ تقریباً ۸۴ وفاقی اور ریاستی قوانین کو اس طرح ختم کیا گیا ہے۔ ان میں سے اکثر کے بعض پہلوؤں پر گرفت کرتے ہوئے جزوی طور پر ختم کیا گیا۔ اس کے علاوہ تقریباً ۳۵ صدارتی احکام کو آئینی مقام دینے سے انکار کر دیا گیا۔
اس مختصر سے جائزے سے یہ واضح ہوا کہ روک ٹوک اور توازن کسے کہتے ہیں؟ این آر بی کا یہ دعویٰ کہ آئینی ترامیم کے نئے پیکج میں صرف ناگزیر ترامیم کرتے ہوئے وز یر اعظم کے اختیارات پر چیک اینڈ بیلنس رکھا گیا ہے، خاصا حیران کن ہے۔ این آر بی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ’’کسی کے اختیارات پر اثر انداز ہوئے بغیر‘‘ اچھی حکومت (Good Governance) کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ این آر بی کے کارپردازوں کی قابلیت اور بیانات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ’’تجاہل عارفانہ‘‘ کا فن ان پر ختم ہے۔
اگر صدر محترم ’’فنا فی الدستور‘‘ ہونے سے بچنا چاہتے ہیں تو نہایت مودبانہ گزارش ہے کہ قومی سلامتی کونسل کے بجائے سوئٹزر لینڈ کی طرز پر ’’وفاقی کونسل‘‘ قائم کی جائے جس کے سات ارکان ہیں۔ سوئٹزر لینڈ کی وفاقی اسمبلی کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں وفاقی کونسل کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔ ارکان کی میعاد چار سال ہے۔ عموماً ایک بار منتخب ہونے والے کونسلرز بار بار منتخب کر لیے جاتے ہیں۔ بعض ایسے کونسلرز بھی ہوئے ہیں جنہیں بیس سے تیس سال تک وفاقی کونسل میں بار بار منتخب کیا جاتا رہا۔ وفاقی کونسل کے سات ارکان میں سے کسی ایک کو وفاقی اسمبلی ایک سال کے لیے سوئٹزر لینڈ کا صدر اور دوسرے کو نائب صدر منتخب کرتی ہے۔ کوئی فرد مسلسل دو سال صدر یا نائب صدر منتخب نہیں کیا جا سکتا۔ صدر کونسل کی صدارت کرتا ہے۔ تمام فیصلے سات کونسلروں کی مرضی سے طے پاتے ہیں۔ صدر کو فیصلہ کن ووٹ دینے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ صدر رسمی موقعوں پر قوم کے سربراہ کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ اسے غیر معمولی اختیارات حاصل نہیں ہوتے، البتہ اسے First among equals کہا جاسکتا ہے۔ کیا یہ نظام مجوزہ آئینی پیکج سے بہتر نہیں ہے؟ اگر تو پاکستان عوام کا ہے تو اس نظام سے ملتا جلتا نظام ہی بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر یہ پاکستان، صدر پاکستان کا ہے تو مجوزہ آئینی پیکج ہی آئیڈیل ہے۔ ویسے بھی عوام نہ ’’تین‘‘ میں ہیں نہ تیرہ میں۔ لہٰذا ’’تین‘‘ کے مابین توازن کا مجوزہ نظام بہترین ہے۔

پارلیمانی نظام میں سینٹ کے مالیاتی اختیارات

ایک خبر کے مطابق پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینٹ کی نشستوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ اسے بجٹ کی منظوری کا اختیار دینے کی تجویز زیر غور ہے۔ کل نشستیں ۱۳۰ کر دی جائیں گی اور ان میں سے ۳۰ نشستیں خواتین کے لیے مختص ہوں گی۔ مورخہ ۲۰۰۲ء کو روزنامہ پاکستان کے ’’جلسہ عام‘‘ میں خطاب کرتے ہوئے جناب مجیب الرحمن شامی نے بجٹ کی منظوری سے متعلق سینٹ کو اختیارات دینے کی بابت چند خدشات کا اظہار کیا ہے۔ شامی صاحب کا موقف یہ ہے کہ پارلیمانی نظام میں ایوان زیریں ہی براہ راست عوام کا منتخب کردہ اور با اختیار ایوان ہوتا ہے۔ ایوان بالا کی اختیارات کے معاملے میں وہی حیثیت ہوتی ہے جو وزیر اعظم کے مقابلے میں صدر کی۔ شامی صاحب کے کالم کا عنوان ہی ان کے موقف کو واضح کر دیتا ہے: ’’پارلیمانی نظام کو قتل کرنے کی تیاریاں‘‘۔
میرا خیال ہے کہ پاکستان میں سینٹ کو مالیاتی اختیارات دینے سے متعلق ایسے تحفظات کا اظہار کہ اس طرح پارلیمانی جمہوریت کی روح قبض کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، مناسب نہیں۔ ہم لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دستور کے تحت صرف پارلیمانی نظام ہی نہیں اپنایا گیا بلکہ وفاقی نظام بھی اپنایا گیا ہے۔ جب سینٹ کو مالیاتی اختیارات دینے کی بات چلے گی تو اس کا تعلق حقیقت میں دستور کے وفاقی پہلو سے ہوگا نہ کہ پارلیمانی پہلو سے۔ اگر ہم برطانیہ کی مثال پیش نظر رکھیں تو بات نہیں بنے گی کیونکہ برطانیہ میں پارلیمانی اور وحدانی نظام ہے۔ وہاں پاکستان کی طرز پر ’’دستوری حیثیت‘‘ کے مالک صوبے نہیں ہیں اس لیے آبادی کی بنیاد پر عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب شدہ ایوان یعنی دار العوام ہی بااختیار ادارہ ہے بلکہ حقیقت میں یہی ایوان، پارلیمنٹ ہے۔ دار الامرا کی کوئی حیثیت نہیں۔
شمالی امریکہ میں صدارتی اور وفاقی نظام ہے۔ اسی طرح کینیڈا، آسٹریلیا، سوئٹزر لینڈ وغیرہ میں بھی وفاقی نظام ہے۔ تقسیم اختیارات کی بحث وفاقی نظام میں چلتی ہے نہ کہ پارلیمانی نظام میں۔ وفاقی دستور سازی میں سب سے کٹھن مرحلہ ہی تقسیم اختیارات کا ہوتا ہے، یعنی کون سے اختیارات صوبوں کو دیے جائیں اور کون سے مرکز کو۔ اختیارات کی تعداد سے زیادہ اختیارات کی نوعیت اہم ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں مالیاتی اختیارات کلیدی ہوتے ہیں۔ جن ملکوں میں وفاقی نظام صحیح معنوں میں اپنی روح کے مطابق چل رہا ہے، وہاں صوبوں کو مالیاتی خود مختاری بھی دی گئی ہے۔
وفاقی نظام میں دوسری اہم بات مرکزی مقننہ کے دونوں ایوانوں میں صوبوں کی نمائندگی کی نوعیت اور دونوں ایوانوں کے مابین اختیارات کی تقسیم ہے۔ عام طو رپر ایوان بالا میں ہر صوبے کے لیے برابر نشستیں رکھی جاتی ہیں اور ایوان زیریں میں آبادی کی بنیاد پر نمائندگی دی جاتی ہے۔ امریکی سینٹ میں ہر وفاقی اکائی کی دو نشستیں ہیں۔ ۱۹۱۳ء سے پہلے سینٹرز کا انتخاب ریاستی اسمبلیاں کرتی تھیں یعنی بالواسطہ طریقہ انتخاب تھا جیسا کہ آج کل پاکستان میں ہے لیکن ۱۹۱۳ء میں دستور میں سترہویں ترمیم کرکے سینٹرز کے انتخاب کا حق براہ راست عوام کو دے دیا گیا۔ امریکی مقننہ کے ایوان زیریں یعنی ایوان نمائندگان میں ہر ریاست کی نمائندگی آبادی کے تناسب سے ہوتی ہے۔ دلیور، الاسکا اور نوادا سے بمشکل ایک ایک نمائندہ ہی ایوان میں پہنچتا ہے جبکہ کیلی فورنیا، ٹیکساس، نیو یارک جیسی بڑی ریاستوں سے ۴۵، ۲۷، ۳۴ ارکان پہنچتے ہیں۔
صدارتی اور پارلیمانی کی بحث کو چھوڑ کر معروضی انداز میں جائزہ لیں کہ اگر امریکہ میں ایوان زیریں کو طاقت ور بنایا جاتا تو کیا ’’انصاف‘‘ ہوتا؟ کیا بڑی آبادی والی ریاستوں کی اجاری داری قائم نہ ہو جاتی؟ صاف اور سیدھی سی بات ہے کہ اگر شمالی امریکہ میں،جہاں تمام وفاقی اکائیوں کی مساوی نمائندگی ہے، ایوان بالا کو طاقت ور نہ رکھا جاتا تو امریکہ بھی ہمارے جیسے مسائل سے دوچار ہوتا۔ ہمارا تو ریکارڈ ہی عجیب ہے۔ غالباً پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں ۱۹۵۶ء اور ۱۹۶۲ء کے وفاتی دساتیر کے تحت ’’یک ایوانی مقننہ‘‘ قائم کی گئی۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ہمیں ابھی تک صوبائی عصبیتوں کا سامنا ہے۔ کالاباغ ڈیم بھی عصبیت کی نذر ہو گیا۔ ہمیں ابھی نجانے کتنے اور ’’نذرانے‘‘ دینے ہوں گے۔
درج بالا سطور میں عرض کیا گیا کہ امریکی سینٹ کا طریقہ انتخاب بھی ۱۹۱۳ء میں براہ راست کر دیا گیا تھا۔ امریکیوں نے واقعی درست سمت میں پیش قدمی کی۔ پاکستان میں بھی اس کی ضرورت ہے کہ سینٹ کے انتخابات براہ راست کر دیے جائیں اور اسے اختیارات کے اعتبار سے قومی اسمبلی کے کم از کم برابر لازماً کر دیا جائے۔ قومی سلامتی کونسل کو دستوری حیثیت دینے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ بہتر یہ ہے کہ سینٹ سے ہی قومی سلامتی کونسل کا کام بھی لیا جائے۔
امریکی وفاق اور پاکستانی وفاق کی نوعیت میں فرق ہے۔ مثلاً شمالی امریکہ میں آزاد، مقتدر او رخود مختار ریاستوں نے باہم مل کر وفاق بنایا یعنی خارجی اقتدار اعلیٰ سے دست برداری اختیار کر لی۔ یہ قدرتی بات تھی کہ ریاستوں نے مرکز کو زیادہ اختیار دینے کے بجائے اپنے پاس زیادہ اختیارات رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن پاکستان میں مرکز نے صوبوں کو جنم دیا ہے لہٰذا قدرتی بات ہے کہ زیادہ اختیارات مرکز نے اپنے پاس رکھے ہیں لیکن اس عمل میں کچھ ایسی کوتاہیاں ہوئیں کہ معاملات سنگین ہو گئے۔ اگر ہم اپنے سفر کے آغاز سے ہی معروضی انداز میں وفاقی مسائل کو ایڈریس کرتے تو بات اتنی نہ بڑھتی۔اب جبکہ بات بڑھ چکی ہے تو ان کا جرات مندی سے سامنا کرنا ہی واحد حل ہے۔
شامی صاحب نے پارلیمانی روایت کا بھی ذکر کیا ہے کہ اگر وزیر اعظم بجٹ منظور نہ کرا سکے تو اسے اس کے خلاف عدم اعتماد سمجھا جاتا ہے اور اسے اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ پارلیمانی ڈھانچے کو وفاقی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔ سوئٹزر لینڈ میں بھی صدارتی اور پارلیمانی نظاموں کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ چاروں صوبوں کو مطمئن کرنے اور قومی وحدت کو فروغ دینے کے لیے پارلیمانی ڈھانچے سے چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے۔ خود برطانیہ میں پارلیمانی نظام ارتقائی مراحل سے گزرا ہے اور اپنی قومی ضروریات اور مزاج کے مطابق موجودہ صورت میں متشکل ہو کر بھی ارتقا پذیر ہے۔ برطانیہ میں اس طرح کی بحثیں اٹھتی رہتی ہیں کہ دار الامرا کو ختم کر دیا جائے،وزیر اعظم کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں کیونکہ نظام وزارتی کے بجائے وزیر اعظمی بنتا جا رہا ہے۔ لہذا پارلیمانی نظام کی ’’برطانوی روح‘‘ سے چمٹے رہنا دانش مندی نہیں، بالخصوص اس تناظر میں کہ برطانیہ میں وفاقی کے بجائے وحدانی نظام ہے۔
البتہ شامی صاحب کے اس نکتے سے سو فیصد اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ آئین میں ترامیم کا عمل فوجی حکومت کے بجائے منتخب پارلیمنٹ کے ذریعے سے انجام پانا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ موجودہ غیر دستوری سیٹ اپ میں وفاقی نظام عملاً وحدانی نظام بن چکا ہے لہذا ترامیم میں ’’مرکز مائل‘‘ رجحانات ہی دیکھنے کو ملیں گے۔ اس اعتبار سے یہ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ مرکز میں صوبوں کو مطمئن کرنے کا بندوبست کیا جائے تاکہ ’’مرکزیت‘‘ کے باوجود مساوی حیثیت کا احساس ’’لامرکزیت‘‘ کا متبادل بن سکے۔

اگست ۲۰۰۲ء

امریکہ کے باضمیر دانش وروں کا اعلان حقمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
صدر پاکستان کے سہ ملکی دورے کے مضمراتپروفیسر میاں انعام الرحمن
اسلامی نظام تعلیم کے بنیادی خدوخالحافظ سید عزیز الرحمن
اسلامی تحریکات کا تنقیدی جائزہ (۳)ڈاکٹر یوسف القرضاوی
دانش کا بحرانخورشید احمد ندیم
دور جدید میں اسلام کی شرح و وضاحتسید منظور الحسن
ٹیپو سلطانؒ، اقبالؒ اور عصر حاضرپروفیسر میاں انعام الرحمن
گلوبلائزیشن اور مذہب کا کردارچندرا مظفر
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے دروس قرآن کی اشاعت کا آغازمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
محمد بن اسحاق المطلبیؒ ۔ شخصیت اور کردار کا علمی جائزہمولانا مفتی فدا محمد
تعارف و تبصرہادارہ
علماء دیوبندمجاہد الحسینی

امریکہ کے باضمیر دانش وروں کا اعلان حق

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(ملک کے معروف صحافی جناب ثروت جمال اصمعی نے روزنامہ جنگ کی ۲۔ اگست ۲۰۰۲ء کی اشاعت میں مطبوعہ اپنے ایک مضمون میں امریکہ کے ساٹھ ممتاز دانش وروں کے اس مشترکہ اعلامیہ کا خلاصہ پیش کیا ہے جو چند روز قبل سامنے آیا ہے اور لندن سے گارجین نیوز سروس کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق اس اعلامیہ پر دستخط کرنے والوں میں لاری اینڈرسن، ایڈورڈ ایسز، رسل بینک، نوم چومسکی، اوسی ڈیوس، موس ڈیف، ایوا نیسلر، مارٹن لوتھر کنگ سوم، بابرا کنگ سالور، ٹونی کشنر، ایڈورڈ سعید، گلوریا سٹینم، الائس واکر، جان ایڈگارر وائڈمین اور ہارورڈزن کے نام شامل ہیں۔اس ’’مشترکہ اعلامیہ‘‘ کو انسانی ضمیر کی آواز قرار دیتے ہوئے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اسے اس ماہ کے ’’کلمہ حق‘‘ کے طور پر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)

’’ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عوام اور اقوام بڑی طاقتوں کی فوجی مداخلت اور دباؤ سے آزاد رہتے ہوئے اپنی قسمت کے فیصلے خود کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ وہ سارے لوگ جنہیں امریکی حکومت نے گرفتار کر رکھا ہے یا جن پر اس کی طرف سے مقدمے چلائے جا رہے ہیں، انہیں معروف طریقہ کار کے مطابق وہ تمام حقوق ملنے چاہییں جو دوسروں کو حاصل ہیں۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ سوال کرنے، تنقید کرنے اور اختلاف کرنے کے حق کا احترام اور تحفظ کیا جانا چاہیے۔ ہم جانتے ہیں کہ ان حقوق کے لیے ہمیشہ جدوجہد ضروری ہوتی ہے اور ان کے لیے لڑنا پڑتا ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ باضمیر لوگوں کو ان امور کے معاملے میں بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہییں جو ان کی اپنی حکومتوں کی غلط روی کا نتیجہ ہوں۔ ہمیں سب سے پہلے اس بے انصافی کی مخالفت کرنی چاہیے جو ہمارے اپنے نام پر کی جا رہی ہے۔ اس لیے ہم تمام امریکیوں سے کہتے ہیں کہ وہ اس جنگ اور اس ظلم وجبر کی مخالفت کریں جسے بش انتظامیہ نے دنیا پر مسلط کر دیا ہے۔ یہ سراسر غیر منصفانہ، غیر اخلاقی اور ناجائز ہے۔ ہم نے دنیا کے لوگوں کے ساتھ مشترکہ مقصد کے لیے جدوجہد کی راہ کا انتخاب کر لیا ہے۔‘‘
’’گیارہ ستمبر کے خوفناک واقعات کو ہم نے بھی انتہائی دکھ اور صدمے کے ساتھ دیکھا۔ ہم نے بھی ہزاروں بے گناہوں کی ہلاکت کا ماتم کیا .....مگر اس کے ساتھ ساتھ ہم نے بغداد، پانامہ سٹی اور ایک نسل پہلے ویت نام میں جنم لینے والے ایسے ہی مناظر کو بھی یاد رکھا۔ ہم لاکھوں امریکیوں کے ان غصہ بھرے سوالات میں بھی شامل رہے کہ یہ سب کچھ آخر ہو کس طرح گیا؟ تاہم ہمارے نزدیک ماتم کے قابل اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کی اعلیٰ قیادت نے انتقام کے جذبے کو بھڑکایا۔ اس نے اس پورے معاملے کو بڑی سادگی سے محض اچھائی اور برائی کی جنگ بنا کر پیش کیااور پھر میڈیا نے حکومت کا آلہ کار بن کر یہی ڈھول پیٹنا شروع کر دیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ پوچھناکہ آخر یہ خوف ناک واقعات کیوں پیش آئے، غداری کے مترادف ہے۔ اس پر کوئی گفتگو نہیں ہونی چاہیے۔ جو کچھ کیا گیا، اس کی سیاسی اور اخلاقی حیثیت پر کوئی قابل ذکر سوالات نہیں ہوئے جب کہ ہر بات کا عملی جواب یہ تھا کہ گھر کے باہر جنگ اور گھر کے اندر جبر وظلم کے حربے۔ ہمارے نام پر بش انتظامیہ نے کانگریس کی تقریباً مکمل تائید سے نہ صرف افغانستان پر حملہ کیا بلکہ اپنے آپ کو اور اپنے اتحادیوں کو یہ حق بھی دے ڈالا کہ وہ جب اور جہاں چاہیں، اپنی افواج کی بارش کر دیں۔ اس عمل کے بھیانک نتائج فلپائن سے فلسطین تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔ امریکی حکومت اب ایک بھرپور جنگ عراق پر تھوپنے کی تیاری کر رہی ہے جبکہ اس ملک کا گیارہ ستمبر کے واقعات سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ اگر امریکی حکومت کو اس امر کی کھلی چھوٹ ملی رہی کہ وہ جہاں چاہے اپنے کمانڈو، قاتل دستے اور بم برسا دے تو آخر یہ کس قسم کی دنیا ہوگی؟ 
حکومت نے ہمارے نام پر امریکہ کے اندر لوگوں کی دو قسمیں کر دی ہیں۔ ایک وہ جن سے امریکی قانون کے مطابق بنیادی حقوق کا کم از کم وعدہ برقرار ہے جبکہ دوسرے وہ ہیں جن کے لیے اب سرے سے کوئی حق نہیں ہے۔ حکومت نے ایک ہزار سے زائد تارکین وطن کو گرفتار کر کے لامحدود مدت کے لیے خفیہ تحویل میں ڈال دیا، سینکڑوں کو سمندر پار بھیج دیا جبکہ سینکڑوں آج تک جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ عشروں میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ امیگریشن کے قوانین کے تحت بعض قوموں کو امتیازی سلوک کے لیے باقاعدہ نامزد کر دیا گیا ہے۔ ہمارے نام پر حکومت نے جبر اور دباؤ کے مہیب سائے پورے ملک پر مسلط کر دیے ہیں ۔ صدر کے ترجمان لوگوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ یہ دیکھ لیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ حکومت سے اختلاف کرنے والے فنکاروں، دانش وروں اور پروفیسروں کے خیالات میڈیا میں حلیہ بگاڑ کر پیش کیے جا رہے ہیں۔ حب الوطنی کے نام نہاد قانون اور ایسے ہی دوسرے حربوں کے ذریعے ریاستی سطح پر پولیس کو تلاشی لینے اور ضبطیاں کرنے کے بے پناہ اختیارات دے دیے گئے ہیں خواہ یہ کارروائیاں خفیہ طور پر اور خفیہ عدالتوں ہی میں کیوں نہ انجام پائیں۔ ہمارے نام پر انتظامیہ نے حکومت کے دوسرے شعبوں کے اختیارات کو رفتہ رفتہ غصب کر لیا ہے۔ انتظامی حکم کے ذریعے ایسے ملٹری ٹربیونل قائم کر دیے گئے ہیں جہاں شہادت اور ثبوت کی کچھ زیادہ ضرورت نہیں۔ ان کے فیصلوں کے خلاف باقاعدہ عدالتوں میں اپیل کا حق بھی متاثرین کو نہیں دیا گیا ہے۔ صدر کے قلم کی محض ایک جنبش سے مختلف گروپوں کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے دیا گیا ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین قیادت جب ایک نسل تک جاری رہنے والی جنگ اور ایک نئے داخلی نظام کی بات کرے تو ہمیں پوری سنجیدگی سے اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ پوری دنیا کے لیے اختیار کی گئی سامراجی پالیسی اور داخلی سطح پر ایسے اقدامات جن سے لوگوں کے حقوق چھن جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے، ہمیں اس کے خلاف مزاحمت کرنی ہے۔ 
گزشتہ مہینوں کے واقعات سے واضح ہے کہ ہم تباہی کے راستے پر چل پڑے ہیں لہٰذا ہمیں اس کی روک تھام کی کوشش کرنی چاہیے۔ تاریخ میں بارہا ایسا ہوا ہے کہ لوگ انتظار کرتے رہے حتیٰ کہ بربادی سے بچنے کا وقت گزر گیا۔ بش اعلان کر چکے ہیں کہ ’’یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے مخالف‘‘۔ اس پر ہمارا جواب یہ ہے :’’ہم تمہیں تمام امریکیوں کی طرف سے بولنے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہیں۔ ہم اپنے سوال کرنے اور جاننے کے حق سے دست بردار نہیں ہوں گے۔ ہم تحفظ کے کھوکھلے وعدے پر اپنے ضمیر تمہارے حوالے نہیں کریں گے۔ ہم تمہیں اپنے نام پر کچھ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم ان جنگوں میں پارٹی بننے سے انکار کرتے ہیں۔ ہم اس بات کو نہیں مانتے کہ یہ جنگیں ہماری فلاح کے لیے شروع کی گئی ہیں۔ ہم ان لوگوں کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھاتے ہیں جو ان پالیسیوں کی بنا پر دنیا بھر میں مصائب کا شکار ہیں۔ ہم ان لوگوں کے ساتھ اپنی یک جہتی الفاظ اور عمل دونوں سے ثابت کریں گے۔‘‘ ہم جنہوں نے اس بیان پر دستخط کیے ہیں، تمام امریکیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہو جائیں۔ استفسار اور احتجاج کا جو عمل جاری ہے، ہم اسے سراہتے اور اس کی تائید کرتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس بلا کو روکنے کے لیے اس سے بہت زیادہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ہمارے لیے ان اسرائیلیوں کا طرز عمل حوصلہ افزائی کا سبب ہے جنہوں نے اپنی ذات کے لیے سنگین خطرات مول لے کر اعلان کیا کہ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور مغربی کنارے اور غزہ کی اسرائیلی مقبوضات میں کام کرنے سے انکار کر دیا۔‘‘
’’مزاحمت اور ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کی امریکہ کے ماضی میں بہت سی مثالیں موجود ہیں جن سے ہمیں حوصلہ ملتا ہے۔ ہمارے سامنے ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے غلامی کے خاتمے کے لیے جنگ کی، جنہوں نے ویت نام کی جنگ میں احکامات ماننے سے انکار کر کے احتجاج کیا، اس کے لیے بنائے گئے قوانین کی مزاحمت کی اور مزاحمت کرنے والوں کے ساتھ کھڑے رہے۔ اس لیے آج ہمیں اپنی خاموشی اور بے عملی کے مظاہرے سے دنیا کو مایوسی کی دلدل میں نہیں دھنسنے دینا چاہیے۔ اس لیے ہم دنیا سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم جنگ اور جبر کی مشینری سے لڑیں گے اور اسے روکنے کے لیے دوسروں کو بھی ہر ممکن اقدام پر تیار کریں گے۔‘‘

صدر پاکستان کے سہ ملکی دورے کے مضمرات

پروفیسر میاں انعام الرحمن

صدر پاکستان جناب پرویز مشرف کے حالیہ سہ ملکی دورے سے پاکستان نے کیا کھویا، کیا پایا، اس کا تعین عجلت میں نہیں کیا جا سکتا۔ مجموعی طور پر اس دورے کو کام یاب قرار دیا جا سکتا ہے۔ 
جناب صدر نے بنگلہ دیش پہنچنے پر ۱۹۷۱ء میں ہونے والی زیادتیوں پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے بجا فرمایا کہ اس المیے کے نتیجے میں ایک خاندان جس کا ایک ہی مذہب اور ایک ہی تاریخی ورثہ ہے اور جنہوں نے مل کر آزادی کی جدوجہد کی اور مل کر مستقبل کے خواب بنے تھے، دو حصوں میں بٹ گیا۔ صدر پاکستان کے بیان کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہ آرمی چیف بھی ہیں، اس طرح ان کا بیان مسلح افواج کی طرف سے ۷۱ء کے واقعات پر معذرت کی حیثیت رکھتا ہے۔ بنگالیوں کو مسلح افواج سے ’’خاص‘‘ شکایات تھیں۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم محترمہ خالدہ ضیا نے بھی دانش مندانہ طرز عمل اختیار کیا اور پاکستان کی معذرت کا خیر مقدم کرتے ہوئے باہم مل کر آگے بڑھنے کا عندیہ دیا۔ 
مخصوص عالمی اور علاقائی صورت حال کے تناظر میں باہمی خیر سگالی کے یہ جذبات خوش آئند ہی قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ۷۱ء کے واقعات کی تباہ کاریوں کو وسعت دینے اور دونوں ممالک کے درمیان خلیج پیدا کرنے میں بھارت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ یہ ہاتھ اب بھی مصروف عمل ہے۔ غالباً بنگلہ دیش کو اس امر کا احساس ہے کہ ’’سارک‘‘ میں پاکستان ہی واحد ملک ہے جو بھارت کے مقابل کھڑا ہو سکتا ہے۔ موجودہ علاقائی صورت حال میں، جبکہ سرحدوں پر فوجیں کھڑی ہیں، بنگلہ دیش نے خطے میں توازن قائم کرنے کے لیے اور اپنی سلامتی کے پیش نظر اپنا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈال کر دانش مندی کا ثبوت دیا ہے۔ یقیناًبنگالی قیادت کو احساس ہو گیا ہے کہ بھارت کبھی ان کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کو بنگلہ دیش سے تعلقات مزید مضبوط بنانا ہوں گے تاکہ ’’آسیان‘‘ میں کم از کم بالواسطہ ہی اس کا عمل دخل ہو سکے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں ایک دوست بنگلہ دیش پاکستانی مفادات کا تحفظ کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ’’آسیان‘‘ کے حالیہ بیانات خطرناک قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ہماری وزارت خارجہ کو اس محاذ پر توجہ دینی چاہیے۔
بنگالی قیادت کی معاملہ فہمی اس امر سے واضح ہوتی ہے کہ بیگم خالدہ ضیا نے اثاثوں کی تقسیم کا مسئلہ اٹھانے سے گریز کیا۔ پاکستان نے بھی نہ صرف بنگلہ دیش کے ذمے ۸ کروڑ ۴۰ لاکھ روپے کے واجبات معاف کر دیے ہیں بلکہ پٹ سن اور چائے کا کوٹہ بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کی درآمد پر ڈیوٹی بھی ’’ختم‘‘ کر دی ہے۔ دونوں ممالک آزادانہ تجارت کے معاہدے پر مذاکرات جاری رکھنے پر بھی متفق ہیں۔ جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے، بنگلہ دیش نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئے۔
بنگالیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بعد صدر پاکستان سری لنکا تشریف لے گئے۔ دونوں ملکوں نے ’’آزادانہ تجارتی معاہدے‘‘ پر دستخط کیے۔ یہ اقدام نئے عالمی حقائق اور علاقائی تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ سری لنکا ایسا ہی معاہدہ بھارت کے ساتھ کر چکا ہے۔ علاقائی اقتصادی تنظیموں کی اہمیت بیسویں صدی کے آخری عشرے سے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ جنوبی ایشیا میں ’’سارک‘‘ اسی لیے قائم کی گئی تھی لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی نے اسے فعال نہیں ہونے دیا۔ سارک کو بے اثر جانتے ہوئے سری لنکا نے بہترین ’’دو طرفیت‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے اور بتا دیا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی سری لنکا اور پاکستان کے تعلقات میں سرد مہری پیدا نہیں کرسکتی، اگرچہ اس سلسلے میں سری لنکا کے کچھ تزویراتی مقاصد بھی ہیں کیونکہ اپنی دفاعی ضروریات کے لیے سری لنکا پاکستان کی طرف دیکھتا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی یہ خوش آئند بات ہے کہ اس کا اپنا بنایا ہوا اسلحہ سری لنکا میں کھپ سکتا ہے۔
سارک کا اگلا سربراہی اجلاس پاکستان میں ہونے والا ہے۔ اس تناظر میں دو ایسے سارک ممالک کا دورہ جو علاقے میں بھارت اور پاکستان کے بعد کلیدی اہمیت کے حامل ہیں، اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ ہماری وزارت خارجہ کچھ ’’سوجھ بوجھ‘‘ بھی رکھتی ہے۔ بھارت کی کسی متوقع شرارت کے پیش نظر کولمبو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جناب صدر نے صحیح عندیہ دیا کہ کوئی ملک نہ بھی آئے تو بھی سارک کانفرنس ہونی چاہیے۔ صدر محترم کے اس بیان کے مضمرات اپنی جگہ، لیکن اس کے متوازی ایسی کوششیں جاری رہنی چاہییں کہ بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کرے کیونکہ سارک کا گزشتہ اجلاس بھی بھارت کے منفی رویے کی وجہ سے ایک سال کی تاخیر سے شروع ہوا تھا۔
سری لنکا کے دورے کے بعد صدر، پاکستان کے قریبی دوست ہمسایہ ملک چین تشریف لے گئے۔ جناب صدر نے جنوبی ایشیا کے حالات وواقعات کے ضمن میں چینی قیادت سے صلاح مشورے کیے۔ چین نے یقین دلایا کہ پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رہے گا۔ چینی قیادت نے زور دیا کہ بھارت کشمیر پر مذاکرات کرے۔ 
چین اس وقت پاکستان میں بہت سے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں ریلوے کوچز پاکستان پہنچی ہیں۔ جلد ہی ایسی ریلوے کو چز پاکستان میں بھی تیار کی جائیں گی۔ چین نے پاکستان کی زرعی اجناس کی برآمد بڑھانے میں مدد دینے کی پیش کش بھی کی ہے جن میں چاول، گندم، سبزیاں، پھل، تمباکو اورخام کپاس شامل ہیں۔ چینی ذرائع کے مطابق پاکستانی آم اور کینو چین میں کھپائے جا سکتے ہیں۔ اس وقت چین فرانس اور آسٹریلیا سے پھل درآمد کر رہا ہے۔ چین اور پاکستان نے سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے دو طرفہ تعاون پر بھی اتفاق کا اظہار کیا ہے۔ اس کے علاوہ چین نے پاکستان کو چار ایٹمی پاور پلانٹس لگانے میں تعاون کی پیش کش بھی کی ہے۔ ایک چینی کمپنی نے کراچی میں آئل ریفائنری قائم کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور گوادربندرگاہ کی تعمیر میں تو چین بھرپور تعاون کر ہی رہا ہے۔ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کا ٹھیکہ بھی حکومت پاکستان نے آخر کار چینی کمپنی کو دے دیا ہے۔ اس کے علاوہ چین کے تعاون سے کوئلہ کی تلاش بھی جاری ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ آئندہ چھ ماہ میں یہ کام مکمل ہو جائے گا۔ کوئلے سے چلنے والی تھرمل یونٹوں کے ذریعے سے کثیر زر مبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے گومل زم ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکہ بھی دو چینی کمپنیوں کو دیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس ٹھیکے کے لیے چار ارب اڑتیس کروڑ اسی لاکھ روپے کی بولی اس منصوبے کی تعمیر کی تخمینہ جاتی لاگت سے نصف ہے۔
پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری ہے۔ چین سے ان بڑھتے ہوئے اقتصادی روابط کے تناظر میں چینی قیادت کا یہ بیان کہ پاکستان سے تعاون جاری رہے گا، نہایت اطمینان بخش قرار دیا جا سکتا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ چین کے ایسے تحفظات جو کہ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ابھرنا شروع ہو گئے تھے، ان کا تدارک ممکنہ حد تک صدر پاکستان کے اس دورے سے ہو گیا ہوگا۔ چین کی قومی عوامی کانگریس کی مجلس قائمہ کے وائس چیئرمین سوجیالو نے زور دیا کہ پاکستانی طالب علم چینی زبان کی طرف بھی توجہ دیں۔ عالمی اقتصادی تنظیمWTO) (میں چین کی شرکت کے بعد اس کے اقتصادی امکانات میں اضافہ ہوا ہے۔ چین ترجیحی بنیادوں پر پاکستانی نوجوانوں کو اعلیٰ ملازمتیں فراہم کرے گا۔ اکیسویں صدی میں چین کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو اس کے ساتھ سماجی تعلقات بھی پروان چڑھانے چاہییں تاکہ ہمارے اثر ورسوخ میں اضافہ ہو سکے۔

اسلامی نظام تعلیم کے بنیادی خدوخال

حافظ سید عزیز الرحمن

اسلامی نظام تعلیم ایک ہمہ جہت تعمیری وانقلابی تعلیم کا خواہاں ہے جس کے جلو میں نہ صرف سیاسی ہنگامہ خیزی اور فکری آزاد روی پروان چڑھتی ہے بلکہ جو ہمہ نوع وہمہ جہت مثبت وتعمیری تبدیلیوں کا سبب وذریعہ بنتی ہے۔ اس کے بنیادی خدوخال پیش کرنا خود ایک طویل مقالے کا موضوع ہے۔ ذیل میں اختصار کے ساتھ اس کے چند اہم نکات پیش کیے جاتے ہیں:

لازمی و جبری تعلیم

اسلا م میں تعلیم لازمی ہے۔ تعلیم کی ہمہ جہت اہمیت کے پیش نظر اختیاری تعلیم کا اسلام کے ہاں کوئی تصور نہیں۔ تعلیم ہر ایک کے لیے ہے اور لازمی ہے۔ خواندگی ایسی چیز نہیں ہے جسے عوام کی مرضی پر چھوڑا جا سکے کیونکہ ناخواندہ افراد تو علم رکھتے ہی نہیں‘ ان سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ سب علم کی اہمیت کا ادراک رکھتے ہوں گے۔ یہ فریضہ تو حکومت کا ہے کہ وہ ان کے سامنے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرے اور انہیں حصول علم پر آمادہ کرے۔ خصوصاً کسی اسلامی معاشرے میں ناخواندہ افراد قطعاً قابل قبول نہیں ہو سکتے (۱) اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’علم کا حصول ہر ایک پر فرض ہے‘‘ (۲) آپ ﷺ کے عہد مبارک میں ہر نومسلم کے لیے مختلف علوم کا جاننا ضروری تھاجس کے لیے مختلف افراد اور تعلیمی ادارے سرگرم تھے۔ (۳) اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خاص طور پر خانہ بدوش بدوؤں کے لیے قرآن مجید کی جبری تعلیم کا نظام قائم کیا تھا اور اس کے لیے گشتی ٹیمیں مقرر کی تھیں۔ (۴) نیز ایسے گشتی تعلیمی دستے مقرر تھے جو لوگوں کی تعلیمی صلاحیت کا جائزہ لیتے تھے اور ضرورت کے مطابق ایسے افراد کو اساتذہ کے سپرد کرتے تھے۔ (۵)

مفت تعلیم

اسلام مفت تعلیم کا قائل ہے۔ حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں تعلیم مفت تھی۔ آپ ﷺ نے ہر مسلمان عالم پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ دوسروں تک علم پہنچائے۔ (۶) اس لیے کتمان علم پر شدید وعید بیان فرمائی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جس سے علم کے متعلق کوئی سوال ہوا اور اس نے چھپایا تو اللہ تعالیٰ اسے روز قیامت آگ کی لگام پہنائے گا۔‘‘ (۷) بعد کے دور میں بھی تعلیم مفت رہی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں نومسلموں کی تعلیم وتربیت کے لیے مختلف مکاتب قائم کیے جن کے معلمین کی تنخواہیں بیت المال سے ادا کی جاتی تھیں۔ اس دور میں سرکاری انتظام میں قرآن کریم کے علاوہ احادیث‘ سیرت وغزوات‘ فقہ‘ ادب عربی‘ علم الانساب اور کتابت وغیرہ کی تعلیم مفت ہوتی تھی اور قرآن کریم کی تعلیم پانے والے طلبا کے لیے وظائف کا بھی انتظام تھا۔ (۸) حکومتی اہتمام کے علاوہ نجی طور پر اساتذہ بھی تنخواہ لینے سے گریز کرتے تھے اور عام طور پر معاوضے قبول نہیں کرتے تھے۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؓ نے یزید بن ابی مالک اور حارث بن ابی محمد اشعری کو گشتی معلم مقرر کر کے ان کی تنخواہ مقرر کر دی۔ یزید نے تنخواہ قبول کر لی‘ حارث نے نہ کی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ یزید نے جو کچھ کیا‘ اس میں کوئی خرابی نہیں البتہ اللہ تعالیٰ حارث جیسے افراد کثرت سے پیدا کرے۔ (۹)

بچوں کی تعلیم

بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ ان کی تعلیم کا انتظام کرنا درحقیقت خود اپنے مستقبل کو سنوارنا ہے۔ حضرت عروہ بن زبیرؓ کا قول ہے: ’’تم علم حاصل کرو۔ اگر تم قوم میں سب سے چھوٹے ہو تو کل دوسرے لوگوں میں (علم کی وجہ سے) تم بزرگ بن جاؤ گے۔‘‘ (۱۰) اس لیے حضور اکرم ﷺ نے اس کی بھی بڑی تلقین فرمائی ہے۔ نیز بچپن میں حافظہ قوی ہوتا ہے اسی لیے حضرت حسن بصریؒ کا قول ہے: ’’بچپن میں تعلیم حاصل کرنا ایسے ہے جیسے پتھر پر نقش اور بڑھاپے میں تعلیم حاصل کرنا ایسے ہے جیسے نقش بر آب۔‘‘ (۱۱) آپ ﷺ نے والدین کو بچوں کی تعلیم کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: ’’کوئی والد اپنے بچے کو اس سے بہتر کوئی عطیہ نہیں دے سکتا کہ وہ اس کو اچھی تعلیم دے۔ (۱۲)اور فرمایا: ’’آدمی کا اپنے بیٹے کو ادب سکھانا ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔‘‘ (۱۳)

معذوروں کی تعلیم

اسلام کی نظر میں کسی قسم کی کمی یا کمزوری کسی کے فرائض کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ ہاں کسی پر بھی اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ تعلیم کے معاملے میں بھی اسلام کا یہ اختصاص وامتیاز ہے کہ اس نے جسمانی کمزوریوں کو حسن عمل وجہد مسلسل کی دولت سے چھپا دیا اور معذوروں سے وہ کارہائے نمایاں لیے کہ صحت مند افراد رشک کر اٹھے۔ اس کی سب سے اہم مثال حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی ہے جنہیں یہ فخر وشرف حاصل ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں اپنی غیر موجودگی میں مدینہ منورہ جیسی اسلامی ریاست کے لیے اپنا قائم مقام مقرر کیا اور انہیں یہ شرف دس بار حاصل ہوا۔ (۱۴) جبکہ دیگر جلیل القدر صحابہ کرامؓ میں سے کسی کو یہ اعزاز نہ مل سکا۔ ایک نابینا صحابی اور حضور اکرم ﷺ کی نیابت کا فریضہ‘ تعلیم وتربیت میں اعلیٰ مدارج طے کیے بغیر یہ مرتبہ کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟ اسلام میں معذوروں کی قدر ومنزلت کا یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہر دور میں اور ہر فن میں بڑے بڑے جلیل القدر علما نابینا وغیرہ گزرے ہیں۔ (۱۵) آج بھی معذوروں اور کئی وجہ سے عام جسمانی صلاحیتوں سے محروم افراد کی تعلیم کا خاص اہتمام ناگزیر ہے۔

خواتین کی تعلیم

خواتین کے لیے ایسا انتظام ضروری ہے کہ جس کے تحت وہ اپنی بنیادی ضروریات کی تعلیم‘ خواہ وہ دینی ہوں یا دنیاوی‘ بسہولت حاصل کر سکیں اور ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو اور خواتین کی تعلیم کا سلسلہ خالص اسلامی ماحول میں اسلامی تعلیمات کی ادنیٰ مخالفت اور ان سے معمولی رو گردانی کے بغیر بھی جاری رہے۔ آپ ﷺ نے انہی مقاصد کے پیش نظر خواتین کی تعلیم کے لیے علیحدہ دن اور علیحدہ مقام متعین فرمایا۔ (۱۶) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اس سلسلے کو مزید وسعت ہوئی اور خواتین کے باقاعدہ الگ مدرسے قائم ہوئے۔ (۱۷) ان کے دور میں خواتین کی بھی جبری تعلیم رائج ہو گئی تھی۔ (۱۸)
آج بھی اس سلسلے میں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ مختلف حلقوں کی جانب سے ہمارے ہاں خواتین کی علیحدہ یونیورسٹی کا مسئلہ اٹھتا رہتا ہے۔ یہ مطالبہ اپنی جگہ درست ہونے کے باوجود بھی نامکمل ہے۔ اس مطالبے کا اصل جواز اسلام میں مخلوط تعلیم کی ممانعت ہے۔ یہ امر اس کا متقاضی ہے کہ صرف جامعات کی سطح پر نہیں بلکہ پرائمری کے بعد ہر درجے اور مرحلے میں طلبا کے ادارے الگ اور طالبات کے ادارے الگ ہونے چاہییں جن میں صرف طلبا وطالبات ہی الگ الگ نہ ہوں‘ اساتذہ بھی علی الترتیب مرد اور خواتین ہوں۔ اور یہ مطالبہ کوئی نئی چیز نہیں‘ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت لیاقت علی خان نے ایک موقع پر اس مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا:
’’ان واہی باتوں کو مسلمان سننا بھی گوارا نہیں کرتے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی مشترکہ تعلیم ہو۔ آج تک مشترکہ تعلیم کا کوئی ایسا فائدہ کسی نے بیان نہیں کیا ہے جو دل نشین ہو۔ .... ممکن ہے کہ مسلمانوں میں بعض افراد ایسے ہوں جو مخلوط تعلیم کے موید ہوں مگر مسلمانوں کی ساری قوم اس کے خلاف ہے۔‘‘ (۱۹)

تعلیم بالغاں

تعلیم بالغاں کی اہمیت مسلم ہے۔ بڑی عمر کے بہت سے افراد محض اس سبب سے حصول علوم سے رہ جاتے ہیں کہ بچپن میں کسی مجبوری‘ عدم توجہی یا عدم وسائل کے سبب سے وہ تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ اسلام تعلیم کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ میں ایسے صحابہ بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں جنہوں نے نہ صرف بڑی عمر میں تحصیل علم کیا بلکہ مرتبہ کمال کو پہنچے۔ یہ سلسلہ بعد کے زمانے میں بھی جاری رہا بلکہ قرآن کریم کو بڑی عمر میں حفظ کرنے کا سلسلہ تو آج بھی جاری ہے اور یہ قرآن کریم کی برکت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’تم لوگ سردار بنائے جانے سے قبل علم حاصل کرو۔ نبی کریم ﷺ کے صحابہ نے تو بڑی عمر میں علم حاصل کیا ہے۔‘‘ (۲۰) اس لیے ہمارے ہاں بھی تعلیم بالغاں کے حلقے قائم ہونے چاہییں جہاں بڑی عمر کے ناخواندہ افراد دینی معلومات اور دنیاوی ضروریات کا علم اپنی ضرورت کے مطابق بہ سہولت حاصل کر سکیں۔

غیر مسلموں کی تعلیم

ایک اسلامی ریاست میں اسلامی نظام تعلیم کی موجودگی میں کسی غیر مسلم کو یہ اندیشہ لامحالہ ہو سکتا ہے کہ اس کی تعلیمی ضروریات کا کون کفیل ہوگا۔ لیکن یہ اندیشہ بے جا ہے۔ ایک تعلیمی نظام کیا‘اسلامی ریاست کے تو تمام امور ہی اسلامی نظام کے تحت چلتے ہیں مگر خود یہ نظام تمام غیر مسلموں کو ان کے مذہبی وتعلیمی معاملات میں مکمل آزادی دیتا ہے اور اس کی ضمانت خود آنحضرت ﷺ نے اپنے پہلے معاہدے میثاق مدینہ میں غیر مسلموں کو دی ہے۔ (۲۱) اس لیے اسلامی نظام میں ان کے حقوق اور تعلیمی ضرورتوں کا خیال رکھا جانا ضروری ہے۔

تخصصات

عام تعلیم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم اور خاص موضوعات پر تخصصات (Specialization) کی اہمیت بھی مسلم ہے۔ خود قرآن حکیم نے اس کی اہمیت کی جانب توجہ دلائی ہے۔ مثلاً فرمایا: 
فلولا نفر من کل فرقۃ منہم طائفۃ لیتفقہوا فی الدین (۲۲) 
’’سو کیوں نہ نکلے ان کے ہرگروہ میں سے کچھ لوگ تاکہ دین کی سمجھ پیدا کریں۔‘‘
اس آیت میں تخصص فی الفقہ کی اہمیت بیان ہوئی ہے۔ ایک اور مقام پر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی کے لیے متخصصین کی تیاری کی تاکید ہے۔فرمایا:
ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر ویامرون بالمعروف وینہون عن المنکر (۲۳)
’’تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائے‘ نیکی کی دعوت دے اور برائی سے روکے۔‘‘
اور عہد نبوی علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام میں بھی آپ ﷺ کی زیر تربیت بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مختلف مضامین میں تخصص وامتیاز حاصل کر لیا تھا جن میں سے بعض خوش نصیب ایسے تھے جنہیں اس اختصاص کی سند خود زبان نبوت سے ملی۔ مثال کے طور پر حضرت ابیؓ بن کعب کو قراء ت وتجوید میں اختصاص حاصل تھا۔ آپ ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں۔ (۲۴) حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قضاۃ میں امتیاز حاصل تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ہمارے سب سے بڑے قاضی حضرت علیؓ اور سب سے بڑے قاری ابیؓ ہیں۔ (۲۵) اسی طرح علوم قرآنی میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما امتیاز کے حامل تھے۔ عکرمہ فرماتے ہیں کہ ابن عباسؓ صحابہ میں سب سے زیادہ علم قرآن رکھتے تھے۔ (۲۶) اور علم تفسیر فقہ میں ابن مسعود کو شہرت ملی۔ خود آپ ﷺ نے یہ فرما کر انہیں سند عطا کی کہ تم تعلیم یافتہ لڑکے ہو۔ (۲۷) علم الفرائض میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ممتاز ہوئے۔ آپ ﷺ کا قول مبارک ہے کہ ’’میری امت میں علم فرائض سب سے زیادہ زید بن ثابت جانتا ہے۔‘‘ (۲۸) اور حلال وحرام کے علم میں معاذ بن جبلؓ درجہ امتیاز کے حامل تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں حلال وحرام کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا شخص معاذ بن جبلؓ ہے۔ (۲۹)
عصر حاضر میں بھی ہمیں ان خصوصیات کو زندہ رکھتے ہوئے آج کی ضرورت کے مطابق مختلف علوم وفنون کے ماہر تیار کرنا ہوں گے۔

حوالہ جات

۱۔ سید عزیز الرحمن /استحکام پاکستان، سیرت طیبہ کی روشنی میں/ زوار پبلی کیشنز کراچی، ۹۷ء/ ص ۲۴
۲۔ طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم : ابن ماجہ / السنن / دار المعرفۃ، بیروت / ج ۱، ص ۹۷، رقم ۲۲۴۔ 
ہیثمی / مجمع الزوائد/ ج ۱، ص ۳۳۲، رقم ۴۷۲، ۴۷۳، ۴۷۴
۳۔ ملاحظہ کیجیے :مولانا قاضی اطہر مبارک پوری/ خیر القرون کی درس گاہیں/ ادارہ اسلامیات، لاہور، ۲۰۰۰ء ۔ محمد یاسین شیخ/ عہد نبوی ﷺ کا تعلیمی نظام/ غضنفر اکیڈمی پاکستان، کراچی ۸۹ء۔ پروفیسر رب نواز / آنحضور ﷺ کی تعلیمی جدوجہد/ ادارہ تعلیمی تحقیق، لاہور، ۲۰۰۱ء۔ مولانا محمد عبد المعبود/ عہد نبوی ﷺ میں نظام تعلیم/ مکتبہ رحمانیہ، لاہور، ۲۰۰۱ء۔ پروفیسر سید محمد سلیم/ اسلام کا نظام تعلیم/ ادارہ تعلیمی تحقیق، لاہور، ۹۳ء
۴۔ شبلی نعمانی/ الفاروق/ مکتبہ صدیقیہ، ملتان ۱۹۵۲ء/ ج ۲، ص ۴۴۲
۵۔ پروفیسر سید محمد سلیم/ اسلام کا نظام تعلیم/ ص ۸۶
۶۔ احمد، ابو عبد اللہ محمد بن حنبل الشیبانی/ المسند / دار احیاء التراث العربی، بیروت، ۹۳ء/ ج ۲، ص ۳۴۱، رقم ۶۵۰۔ ترمذی/ ج ۴، ص ۳۰۵، رقم ۲۶۷۸۔ بخاری فی احادیث الانبیاء، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل
۷۔ احمد/ ج ۲، ص ۵۱۷، رقم ۷۵۱۷۔ مجمع الزوائد/ ج ۱، ص ۴۰۱، رقم ۷۴۱۔ طبرانی / المعجم الکبیر/ رقم ۱۱۳۱۰
۸۔ الفاروق / ص ۴۴۲، ۴۵۰
۹۔ مجلہ تعلیم/ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد/ شمارہ ۷، پاکستان میں تعلیم اور نجی شعبہ/ مضمون: پروفیسر سید محمد سلیم/ تعلیم فی سبیل اللہ کا احیا/ ص ۸۸
۱۰۔ ابن قتیبہ / عیون الاخبار/ بیروت/ ج ۲، ص ۱۲۳
۱۱۔ ایضاً/ ص ۱۶۴
۱۲۔ بیہقی/ شعب الایمان/ ج ۲، ص ۲۵۶۔ ترمذی/ ج ۳، ص ۳۸۳، رقم ۱۹۵۹
۱۳۔ ترمذی/ ایضاً/ رقم ۱۹۵۸
۱۴۔ یہ واقعات ذیل کے غزوات واسفار میں آپ ﷺ کی مدینہ منورہ سے غیر موجودگی میں پیش آئے:
ملاحظہ کیجیے ابن سعد/ الطبقات الکبریٰ/ دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۹۷ء/ ج ۲
(۱) غزوہ قرقرۃ الکدر/ ص ۲۳ (۲) غزوہ بنی سلیم/ ص ۲۷ (۳) غزوۂ احد/ ص ۲۹ (۴) غزوہ بنی نضیر/ ص ۲۴ (۵) غزوہ احزاب/ ص ۵۱ (۶) غزوۂ بنی قریظہ/ ص ۵۷ (۷) غزوۂ بنی لحیان/ ص ۶۰ (۸)غزوۂ الغابہ/ ص ۶۲ (۹) صلح حدیبیہ/ ص ۷۳ (۱۰) فتح مکہ/ ص ۱۰۲
اس کے علاوہ آپ ﷺ نے ابن ام مکتومؓ کو غزوۂ بدر میں صرف نمازوں کی امامت کے لیے اپنا قائم مقام مقرر فرمایا تھا: دیکھیے طبقات، ص ۸، ج ۲
۱۵۔ دیکھیے مولانا حبیب الرحمن خان شروانی/ نابینا علما/ مجلس نشریات اسلام، کراچی
۱۶۔ بخاری، کتاب العلم وکتاب الاعتصام بالسنۃ، باب تعلیم النبی ﷺ امۃ من الرجال والنساء
۱۷۔ اسلام کا نظام تعلیم/ ص ۹۰
۱۸۔ ایضاً
۱۹۔ سید مصطفی علی بریلوی/ شہید ملت لیاقت علی خان/ آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس، کراچی، ۲۰۰۱ء/ ص ۶۳
۲۰۔ بخاری/ کتاب العلم
۲۱۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ/ الوثائق السیاسیۃ/ دار النفائس، بیروت، ۸۵ء/ ص ۵۹
۲۲۔ القرآن/ سورۂ توبہ/ آیت ۱۲۲
۲۳۔ القرآن/ سورۂ آل عمران/ آیت ۱۰۴
۲۴۔ شمس الدین ابی عبد اللہ محمد بن احمد/ معرفۃ القراء الکبار/ ج ۱، ص ۲۹
۲۵۔ ابن حجر عسقلانی/ تہذیب التہذیب، بیروت/ ج ۷، ص ۳۳۷
۲۶۔ الصابونی، محمد علی/ التبیان فی علوم القرآن/ عالم الکتب، بیروت، ۸۵ء/ ج ۷، ص ۶۸
۲۷۔ احمد/ ج ۱، ص ۶۲۶، رقم ۳۵۵۸
۲۸۔ کنز العمال/ رقم ۳۳۳۰۴
۲۹۔ ڈاکٹر، احمد امین/ فجر الاسلام/ مصر/ ج ۲، ص ۱۷۱

اسلامی تحریکات کا تنقیدی جائزہ (۳)

ڈاکٹر یوسف القرضاوی

(ب) عجلت اور بے صبری

عقل ومنطق اور علم وتدبیر پر جذبات کے غالب آجانے کا یہ ایک اور بڑا اور منفی نتیجہ ہوتا ہے۔ عجلت کار شخص میں تحمل وبردباری اور صبر اور ٹھہراؤ کی خوبی نہیں ہوتی۔ وہ چاہتا ہے کہ آج بوئے اور کل صبح ہی کاٹ لے بلکہ صبح پودا لگائے اور شام کو اس کا پھل پا لے۔ یہ چیز نہ تو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق ہے اور نہ دنیا میں ایسا کوئی اصول کارفرما ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا۔ وہ اس بات پر قادر تھا کہ ’’کن‘‘ کہہ دیتا اور ‘‘فیکون‘‘ کی صورت میں نتیجہ سامنے آجاتا لیکن اللہ نے چاہا کہ وہ اس سنت کے ذریعے سے تامل اور تحمل کی تعلیم دے۔ وہ اس بات پر بھی قادر تھا کہ اپنے نبی نوح علیہ السلام اور ان کے اہل ایمان ساتھیوں کی غیب سے مدد کر دیتا اور پہلے روز ہی وہ کام یاب قرار پاتے لیکن اس نے ایسا کرنے کے بجائے نوح علیہ السلام کو ساڑھے نو سو سال تک شب وروز اور چپکے چپکے بھی اور ہانکے پکارے بھی دعوت دینے پر مامور کر دیا۔ پھر انجام میں بھی نوح علیہ السلام کو نجات سے نوازا تو ان کے اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی کشتی ہی کے ذریعے۔ آسمان سے اس کے لیے کچھ نہ برسایا۔ وہ حضرت محمد ﷺ کی مدد اور آپ کے دشمنوں کو کسی آسمانی یا ارضی آفت کے ذریعے سے ہلاک کر دینے پر بھی قادر تھا لیکن اس کے بجائے اس نے اپنے پیارے نبی اور ان کے ساتھیوں کو ابتلاؤں اور آزمائشوں سے گزار کر فتح ونصرت سے نوازا۔ یہاں تک کہ ابتدا میں طاغوتی قوتوں کے مقابلے میں جہاد کر کے اپنابچاؤ کرنے کی بھی اجازت نہ دی اور تاکید کر دی کہ:
کفوا ایدیکم واقیموا الصلوۃ (النساء ۷۷)
اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو۔
تا آنکہ آپ کا کانٹوں بھری راہوں کا پر عزیمت سفر ختم ہوا ۔ کفار کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت مل گئی اور اللہ کا ارشاد ہوا:
وان اللہ علی نصرہم لقدیر (الحج )
اور اللہ یقیناًان کی مدد پر قادر ہے۔
اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا امر صادر کرنے تک اپنے نبی اور مومنین کو صبر وتحمل کی روش پر قائم رہنے کا حکم دیا:
فاصبر کما صبر اولو العزم من الرسل ولا تستعجل لہم (الاحقاف ۳۵)
’’پس اے نبی، صبر کرو جس طرح اولو العزم رسولوں نے صبر کیا اور ان کے معاملے میں جلدی نہ کرو۔‘‘
فاصبر ان وعد اللہ حق ولا یستخفنک الذین لا یوقنون (الروم ۶۰)
’’پس اے نبی، صبر کرو۔ یقیناًاللہ کا وعدہ سچا ہے اور ہرگز ہلکا نہ پائیں تم کو وہ لوگ جو یقین نہیں لاتے۔‘‘
واصبر وما صبرک الا باللہ ولا تحزن علیہم ولا تک فی ضیق مما یمکرون (النحل ۱۲۷)
’’اے نبی، صبر سے کام کیے جاؤ اور تمہارا یہ صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔ ان لوگوں کی حرکات پر رنج نہ کرو اور نہ ان کی چال بازیوں پر دل تنگ ہو۔‘‘
یا ایھا الذین آمنوا اصبروا وصابروا ورابطوا واتقوا اللہ لعلکم تفلحون (آل عمران ۲۰۰)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو۔ باطل پرستوں سے مقابلے میں پامردی دکھاؤ۔ حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ امید ہے فلاح پاؤ گے۔‘‘
عجلت کاری کے نتیجے میں تحریک اسلامی مکمل تیاری سے قبل ہی سخت معرکوں میں کود پڑی۔ ایسی مشکلات کو بھی اس نے قبل از وقت دعوت دے دی جو اس کی طاقت سے کہیں بڑھ کر تھیں۔ بیک وقت مشرق ومغرب سے ٹکرا گئی اور اپنے آپ کو ایسی مشکل راہوں پر ڈال لیا جن سے ہٹنا اب اس کے بس میں نہیں رہا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جملہ معاملات میں ہماری قدرت وطاقت کے بقدر ہی مکلف بنایا ہے۔ ہمارے لیے ہرگز یہ روا اور درست نہیں کہ اپنے آپ کو ان امور میں بھی مکلف ٹھہرا لیں جن کی سردست ہمارے پاس طاقت نہیں ہے اور فتنوں میں اپنے آپ کو بغیر تیاری کے مبتلا کر دیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: واتقوا اللہ ما استطعتم۔’’ اور اللہ سے ڈرتے رہو جہاں تک تمہارے لیے ممکن ہو۔‘‘ رسول پاک ﷺ کاارشاد ہے: ’’جب تمہیں کسی بات کا حکم دیا جائے تو اپنی استطاعت کے مطابق اسے پورا کرو۔‘‘ فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی برائی دیکھے تو قوت بازو سے اسے مٹائے۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے اس کے خلاف کلمہ حق بلند کرے۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں اسے برا سمجھے اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے۔‘‘
تغیر وانقلاب کی کوششوں کے طاقت وقدرت کی نسبت سے درجے مقرر کر دیے گئے ہیں چنانچہ مسلمان کے لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اس کام میں اپنے آپ کو لگائے جس کی ہمت وطاقت رکھتا ہو اور اس کام کو چھوڑ دے جو اس کی طاقت سے باہر ہو۔
اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے عجلت کی روش کو سخت ناپسند کیا ہے کیونکہ نتائج کے اعتبار سے یہ بہت بری روش ہے۔ قرآن پاک میں ایسے اشارے موجود ہیں جو عجلت وبے صبری کے برے انجام پر دلالت کرتے ہیں:
وما اعجلک عن قومک یا موسیo قال ہم اولاء علی اثری وعجلت الیک رب لترضی o قال فانا قد فتنا قومک من بعدک واضلہم السامری o (طٰہٰ ۸۳۔۸۵)
اور کیا چیز تمہیں اپنی قوم سے پہلے لے آئی اے موسیٰ؟ اس نے عرض کیا وہ بس میرے پیچھے آ ہی رہے ہیں۔ میں جلدی کر کے تیرے حضور آ گیا ہوں تاکہ تو مجھ سے خوش ہو جائے۔ فرمایا، اچھا تو سنو، ہم نے تمہارے پیچھے تمہاری قوم کو آزمائش میں ڈال دیا ہے اور سامری نے انہیں گمراہ کر ڈالا ہے۔
جب موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کی طرف پلٹے تو وہ قوم کے گمراہ ہونے کی وجہ سے غضب اور تاسف میں ڈوبے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے بھائی کی ڈاڑھی کے بال پکڑ کر غصے سے کہا:
یا ھرون ما منعک اذ رایتہم ضلوا o الا تتبعن افعصیت امری o قال یابنوم لا تاخذ بلحیتی ولا براسی o انی خشیت ان تقول فرقت بینی وبین اسرائیل ولم ترقب قولی o (طٰہٰ ۹۲۔۹۳)
اے ہارون، جب تم نے دیکھا کہ یہ گمراہ ہو چکے ہیں تو کس چیز نے تمہارا ہاتھ پکڑا کہ میرے طریقے پر عمل نہ کرو؟ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی؟ ہارون نے جواب دیا: اے میری ماں کے بیٹے، میری ڈاڑھی نہ پکڑ، نہ میرے سر کے بال کھینچ۔ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ تو آکر کہے گا کہ تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا۔
بنی اسرائیل میں شرک کے جرم کے پھوٹ پڑنے پر ہارون علیہ السلام نے صبر وتحمل کا شیوہ اختیار کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے بھائی موسیٰ کے آنے تک بنی اسرائیل باہمی پھوٹ اور خلفشار سے بچے رہیں۔ موسیٰ کے آنے پر ان کے مشورے سے نئی صورت حال کا کوئی حل سوچا جائے گا۔
حدیث نبوی میں آیا ہے کہ صبر وتحمل کی روش کی نسبت اللہ سے ہے جبکہ عجلت اور اوچھا پن شیطانی خصلتوں میں سے ہے۔ ایک اور ارشاد نبوی ہے کہ اس بندے کی دعا قبول ہوتی ہے جو جلدی نہ کرے اور کہے میں نے دعا تو کی تھی، ابھی قبول نہیں ہوئی۔
میری شدید خواہش ہے اور میں نے بارہا اس کا اظہار بھی کیا کہ تحریک اسلامی کو جہد وکاوش کا جتنا موقع ملتا ہے، اسے غنیمت جانتے ہوئے اپنی قوتوں کو مجتمع کرے۔ کسی فریب کا شکار ہو کر محاذ ومعرکہ آرائی میں نہ الجھ جائے۔ نہ تو اپنے اندر کے ناپختہ اور جلد باز عناصر اسے تصادم کی راہ پر ڈال سکیں اور نہ باہر کے مکار اور سازشی گروہ اسے تصادم کے میدان میں کھینچ کر لا سکیں۔ یہ ایک مخصوص عرصے تک حکمت سے اور اچھی اور میٹھی زبان میں اسلامی دعوت کو پھیلانے میں سرگرمی دکھائے۔ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اور اسی کی خدمت کے لیے بلند ہمت نسلوں کی تعمیر وتربیت کا کام کرے۔ نئی نسلوں کو ذہنی، روحانی، جسمانی اور اجتماعی تربیت کے زیور سے آراستہ کرے۔ معاشرے کے اندر جذب ہو کر اس کے مسائل کے حل میں مدد دے، عوام کی مشکلات دور کرنے میں سعی دکھائے اور معاشرے کی غلط سمت درست کرنے اور لوگوں کی ضروریات کی تکمیل میں کوشاں رہے۔ اپنی قوت اور زور بازو کے مظاہرے کی سوچ کچھ عرصہ ترک رکھے، حکومتوں سے کھلی ٹکر لینے کی پالیسی سے باز رہے۔ ۲۰ سال تک اس طرح کا طرز عمل اپنانے سے ایک پرامن انقلاب پورے معاشرے میں برپا ہو سکتا ہے۔ یہ فکر ونظر اور نفس واخلاق کا انقلاب ہوگا جس کے لیے کسی اسلحے کے استعمال یا جہاد کے اعلان کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔
اگرچہ یہ امکان موجود ہے اور اس طرح کے خدشات کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ اسلام سے بیزار وخائف طائفے اور ان کے حامی گروہ تحریک اسلامی کے رسوخ، نشوونما اور اس کے اثرات کے پھیلاؤ کو بھی گوارا نہیں کرتے، اس کے اتحاد کو پارہ پارہ اور اس کی منزل کو کھوٹی کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ اس کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لیے سازشوں کا جال پھیلا دیتے ہیں۔ تحریک کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسے اقدامات کو نظر انداز نہ کرے جو تحریک کو براہ راست مقابلے پر لانے کی سازش کے تحت کیے جاتے ہیں۔ اہل تحریک کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرتے رہیں۔ جب کوئی آزمائش آہی پڑے تو صبر واستقامت سے اس کا مقابلہ کریں۔

(ج) مبالغہ

عواطف وجذبات جب غالب آجاتے ہیں تو ایک تیسری آفت اندر سے رونما ہوتی ہے۔ وہ مبالغے کا حد سے بڑھ کر معاملات ومکالمات میں شامل ہو جانا ہے۔ اس آفت میں تو صرف تحریک اسلامی نہیں، پوری امت ہی گرفتار ہے۔ ظاہری معاملات میں ہم دو انتہاؤں میں سے کسی ایک پر کھڑے ہوتے ہیں، تفریط کا شکار ہوتے ہیں یا افراط کا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کی جس صفت سے مدح فرمائی ہے، وہ تو ’’الوسط‘‘ یعنی میانہ روی ہے:
وکذالک جعلناکم امۃ وسطا (البقرہ ۱۴۳)
اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا۔
یہ خوبی تحریک اسلامی سے رخصت ہو گئی ہے۔ تحریک کی صفوں میں بھی مبالغہ اور حد سے بڑھی ہوئی نمائش، فہمائش اور تعریف ومذمت کا رجحان تقویت پکڑ گیا ہے۔ اپنی تعریف آپ کی جاتی ہے۔ خرابیوں کا مجسمہ اپنے مخالفین کو بتایا جاتا ہے۔ ’’تفضیل کل‘‘ کے صیغوں میں ہی بات ہوتی ہے۔ زبان وقلم سے ’’عظیم ترین، مضبوط ترین، اعلیٰ ترین، بے مثال‘‘ اور مقابلے میں ’’گھٹیا ترین، بد ترین، اور کمزور ترین‘‘ جیسی صفات کا اظہار ہوتا ہے۔ ہم خود پسندی میں حد سے زیادہ فراخ دل ثابت ہو رہے ہیں اور دوسروں کی عیب نمائی میں بھی آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ کسی معقول آدمی کو اس سے اختلاف نہیں کہ اپنی تہذیب پر فخر کیا جائے۔ جو قوم سورج کی شعاعوں تلے فروغ وترقی چاہتی ہے، اس میں اپنی ہر چیز سے پسندیدگی فطری امر ہے۔ خاص طور پر جب تہذیب اور ثقافتی یلغاریں اور معرکے بپا ہوں، ایک تہذیب دوسری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے درپے ہو تو ایسی حالت میں اجتماعی خود پسندی روا ہے۔ لیکن یہاں یہ خطرہ بہرحال ہے کہ غرور اور خود پسندی عقل ونظر سے محروم ہو، اس میں اندھا پن پیدا ہو جائے۔ فخر وتکبر ان مہلکات میں سے ہے جو کسی فرد یا قوم کے مقدر ہو جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں قرآن یہ اشارہ دیتا ہے:
ویوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئا (التوبہ ۲۵)
ابھی غزوہ حنین کے روز تمہیں اپنے کثرت تعداد کا غرہ تھا مگر وہ تمہار ے کچھ کام نہ آئی۔
حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں: ’’دو چیزوں میں ہلاکت ہے، غرور اور قنوطیت۔‘‘
ہم غیروں --- خاص طور پر مغربی تہذیب--- کی خرابیاں کثرت سے گنواتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مغربی تہذیب اپنے اندر بعض ایسے فتنے رکھتی ہے جنہیں اس تہذیب کی اساس کی حیثیت مل گئی ہے۔ اس میں ہزار آفتیں پوشیدہ ہیں جنہیں اب اس کے مزاج سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ مادیت، نفعیت اور عنصریت جیسے اجزا اس کے خمیر میں داخل ہیں لیکن بہ نگاہ انصاف دیکھا جائے تو یہ تہذیب بعض ایسے نکات بھی رکھتی ہے جو اس کی قوت کے منابع ہیں۔ قوت کے ان سرچشموں کا علم واعتراف ہمیں اس لیے بھی ہونا چاہیے کہ یہ عدل کا تقاضا ہے اور اس لیے بھی کہ مخالف کی طاقت کے حقیقی راز کا ادراک معقولیت واحتیاط کے لحاظ سے ضروری ہوتا ہے۔
آپ دیکھتے ہیں کہ اس تہذیب کا قیام علم وتجربہ کی بنیاد پر ہوا ہے۔ وہاں اداروں اور تنظیموں کو محکم بنیادیں فراہم ہیں، تعاون کی فضا ہے، جماعتی عمل کو ایک پائیداری وتسلسل حاصل ہے۔ اجتماعی اخلاق کے کچھ اصول موجود ہیں۔ انسان، اس کی جملہ نوع کی آزادی اور ہر طرح کے حقوق کا احترام پایا جاتا ہے۔ خاص طور پر مغربی ممالک کے اندر ابنائے تہذیب کے لیے حقوق کی فراہمی کا مکمل اہتمام ہے۔ ان کے معاملات اصول مشاورت کے مطابق طے ہوتے ہیں۔ حکام کے ظلم اور نا انصافی کے مقابلے میں حقوق کی حفاظت کے لیے موثر ادارے موجود ہیں۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اسلاف کے آثار میں سے ایسی مثالوں کا ذکر کروں جن میں دشمنوں کے لیے بھی انصاف اور ان کی بڑائی اور خوبی کا اعتراف ہے۔ یہ انصاف اور اعتراف ان حالات میں بھی برقرار رہا جب مخالف میدان جنگ میں مقابلے پر اترا ہوتا تھا۔ یہ چیز میں کسی ادبی کتاب کے افسانے یا تاریخ کے واقعات سے ڈھونڈ کر پیش نہیں کر رہا ہوں بلکہ یہ ایک حدیث ہے جسے امام احمدؒ نے اپنی مسند میں اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ الفاظ مسلم کے ہیں۔ موسیٰ بن علی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ عمرو بن العاصؓ کے سامنے ایک شخص نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ’’قیامت برپا ہوگی تو رومیوں (عیسائیوں) کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی۔‘‘ حضرت عمرو بن العاصؓ نے کہا ’’ذرا غور کرو تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ اس شخص نے کہا: ’’میں تو وہی کچھ کہہ رہا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔‘‘ عمرو بن العاصؓ نے فرمایا: ’’اگر یہ بات ہے تو پھر ضرور ان میں چار خصائل ہوں گے: ۱۔ آزمائش کے وقت وہ سب سے زیادہ حلم وبردباری کا مظاہرہ کرتے ہوں گے، ۲۔ مصیبت سے گزرنے کے بعد بہت جلدی سنبھلنے کی صلاحیت کے مالک ہوں گے، ۳۔ مسکینوں، یتیموں اور ضعیفوں کے ساتھ بھلائی کرنے والے ہوں گے اور ۴۔ حاکموں کے ظلم سے بچانے والے ہوں گے۔‘‘
ممکن ہے کسی کے لیے یہ بات باعث تعجب ہو کہ اہل روم کی خوبیوں کی یہ گواہی مسلمانوں کی عسکری اور سیاسی قیادت سنبھالنے والی ہستی عمرو بن العاصؓ دے رہی ہے جس نے رومیوں کے ساتھ مصر، فلسطین اور دیگر کئی مقامات پر رومیوں کے خلاف زبردست معرکے مارے لیکن اس میں تعجب کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ اسلام نے ہمارے بزرگوں کو انصاف پر قائم رہنے، اللہ کے لیے سچ کی گواہی دینے کی تعلیم دی تھی خواہ اس کی زد خود ان کے اپنے اوپر پڑتی تھی اور کسی قوم سے ان کی دشمنی انہیں عدل سے نہیں روکتی تھی۔
دور حاضر کی تحریک اسلامی کے تجزیہ کار یہ چیز دیکھتے ہیں کہ اس میں جس طرح اپنی قوت کا مبالغہ آمیز تصور پایا جاتا ہے، اسی طرح مخالفین کی مفروضہ کمزوری کے بارے میں بھی خوش فکری کی شکار ہے۔ متعلقین تحریک جب مدح وتعریف کرتے ہیں تو خواہ وہ اپنے عزائم اور کارگزاری کی ہو یا قائدین کی، تعریف میں حد سے بڑھ جاتے ہیں ۔ اور جب مذمت ونفرت کرنے کھڑے ہوتے ہیں تب بھی آخری انتہا پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے پیش نظر کبھی اس طرح کے قول نہیں رہے کہ ’’جب اپنی پسندیدہ اور ممدوح شخصیت سے محبت کرو تو حد سے آگے نہ بڑھو، ہو سکتا ہے وہی شخصیت کسی روز تمہارے لیے سب سے ناپسندیدہ بن جائے۔ اور جب کسی کے خلاف غضب اور غصے کا اظہار کرو تو اس میں بھی اعتدال برتو۔ بعید نہیں کہ آج کی وہی مغضوب شخصیت کل تمہاری محبوب ہستی قرار پائے۔‘‘
قرآن حکیم نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ کسی سے محبت یا نفرت کے معاملے میں ہمیں عدل کو فراموش نہیں کردینا چاہیے۔ محبت ولگاؤ خواہ اپنی ذات کے ساتھ ہو یا اپنی جماعت کے ساتھ، اور نفرت اپنے دشمنوں کے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
یا ایھا الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط شھداء للہ ولو علی انفسکم او الوالدین والاقربین (النساء ۱۳۵)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری ذات پر یا تمہارے والدین یا رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔‘‘
یا ایھا الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط ولا یجرمنکم شنآن قوم علی الا تعدلوا ۔ اعدلوا ھو اقرب للتقوی واتقوا اللہ (المائدہ ۸)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔‘‘
(جاری)

دانش کا بحران

خورشید احمد ندیم

(’الشریعہ‘ کے گزشتہ شمارے میں عہد حاضر میں اسلامی فکر کو درپیش سوالات اور چیلنجوں کے حوالے سے ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، ارشاد احمد حقانی اور مدیر ’الشریعہ‘ کی نگارشات شامل اشاعت کی گئی تھیں۔ اس شمارہ میں خورشید احمد صاحب ندیم اور جناب منظور الحسن کی تحریریں یہاں پیش کی جا رہی ہیں جن میں انہوں نے اس موضوع سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس اہم بحث کی تنقید وتمحیص کے سلسلے میں ہم اہل علم کو مزید اظہار خیال کی دعوت دیتے ہیں۔ مدیر)

فکری انتشار کا موسم ہم پر کچھ اس طرح سے اترا ہے کہ جانے کا نام نہیں لیتا۔ اس کا بڑا سبب تو یہ ہوا کہ اقبالؒ اور پھر مودودیؒ جیسے لوگ دنیا سے رخصت ہوئے اور ہم ان کے جانشین پیدا نہ کر سکے۔ فکری قیادت کا منصب اس وقت سے خالی چلا آ رہا ہے۔ بعض صاحبان نظر نے ان حضرات کی زندگی ہی میں جان لیا تھا کہ ان کے بعد کیا ہوگا۔ روایت ہے کہ مولانا داؤد غزنویؒ ایک مرتبہ مولانا مودودیؒ سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ دوران گفتگو کہا: ’’مولانا! آپ بھی کوئی ابن قیمؒ پیدا کرتے جو آنے والے دنوں میں آپ کا جانشین ہوتا۔‘‘ مولانا نے اس کا جو جواب دیا، اس سے حظ اٹھانے کے لیے دو باتیں پیش نظر رکھیے۔ ایک تو یہ کہ ابن قیمؒ امام ابن تیمیہؒ کے جلیل القدر شاگرد تھے جنہوں نے اپنے استاد کے علمی ورثہ کو پوری شان کے ساتھ آگے بڑھایا۔ دوسری یہ کہ جماعت اسلامی میں سیکرٹری جنرل کو قیم کہتے ہیں۔ سید مودودیؒ ، مولانا داؤد غزنویؒ کی بات پر مسکرائے اور فرمایا: ’’آج کل تو میں قیم ہی پیدا کر رہا ہوں۔‘‘ مولانا نے جو بات ازراہ تفنن کہی، وہ بعد میں ایک امر واقعہ ثابت ہوئی۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدینؒ ، برہان احمد فاروقی یا پروفیسر خورشید احمد جیسے لوگ اس فکری تسلسل کو برقرار رکھ سکتے تھے لیکن انہوں نے خود کو بڑی حد تک اقبال اور مودودی کی شرح تک محدود رکھا۔ اس کام کی بہرحال اپنی ایک اہمیت ہے۔
ہمارے ساتھ ایک المیہ یہ ہوا کہ اقبال اور مودودی کے منصب خالی رہ گئے اور اس پر مزید قیامت ٹوٹی کہ عہد حاضر میں دانش وری محض ایک بال پوائنٹ کی مرہون منت ہو گئی۔ اس عالم میں اگر فکری انتشار ہمارا مقدر ہے تو اس کا گلہ کس سے کیا جائے؟
آج بہت سے سوالات ہیں جو لوگوں کے ذہنوں میں ابھرتے ہیں، لیکن ان کا جواب دینے والا کوئی نہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ فکری تطہیر کے بغیر عمل کی طرف قدم کیسے اٹھ سکتا ہے۔ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر خامہ فرسائی کرتے ہیں لیکن بڑے مسائل ہماری نظروں سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔ سیدنا مسیح ؑ کے الفاظ میں ہم مچھر چھانتے ہیں اور اونٹ نگلتے ہیں اور اگر کبھی انہیں موضوع بناتے بھی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم سطح سے نیچے جھانکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر عالمی تناظر میں اٹھنے والے چند سوالات دیکھیے:
۱۔ اس وقت عالمی سطح پر جس قوت کا غلبہ ہے، وہ ہمارے ساتھ زیادہ دوستانہ رویہ نہیں رکھتی۔ بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ہماری دشمن ہے۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اقتصادی اور دفاعی دونوں طرح کے معاملات میں اس کی تائید اور نصرت سے نیاز نہیں ہو سکتے۔ ایسی قوت سے مقابلہ کرنے کا کیا یہی طریقہ ہے کہ ہر روز اس پر تبرا کیا جائے، اس کی مذمت کی جائے اور اسے شیطان کبیر ثابت کیا جائے؟
۲۔ اللہ کا قانون یہ ہے کہ اس نے ہر مشکل کے ساتھ آسانی رکھ دی ہے۔ کیا ہم نے اس نوعیت کا کوئی فکری کام کیا ہے جو عہد حاضر میں ہمارے لیے ان آسانیوں کی نشان دہی کر سکے جن سے قوم میں امید پیدا ہو؟
۳۔ اگر ہمارا سامنا کسی ایسے دشمن سے ہو جو قوت، اثر ورسوخ ااور وسائل کے اعتبار سے ہم سے ہزار گنا طاقت ور ہو تو کیا اس سے ٹکرانا دانش مندی ہے جبکہ تصادم سے بچنے کی صورت بھی موجود ہو؟
۴۔ جو اقوام ہماری مخالف ہیں یا جنہیں ہم اپنا دشمن شمار کرتے ہیں، انہوں نے ہمارے جغرافیے، تاریخ، علمی ورثے، مسائل ووسائل، تہذیب وتمدن اور حالات کا گہرا تحقیقی مطالعہ کیا ہے جس کی گواہی دنیا کی لائبریریاں دے رہی ہیں۔ مجھے پچھلے دنوں ایک کتاب ’’اسلام کی یہودی دریافت‘‘ (The Jewish discovery of Islam) کی محض ورق گردانی کا موقع ملا۔ صرف یہی کتاب ہمیں حیرت زدہ کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہودیوں نے اسلام اور مسلمانوں کو سمجھنے کے لیے کیا علمی کام کیا ہے۔ کیا ہمارے ہاں دیگر اقوام کے بارے میں اس نوعیت کا کوئی تحقیقی مطالعہ ہوا ہے؟
۵۔ کیا اس طرح کے کسی علمی اور فکری کام کے بغیر محض نعرہ بازی یا بندوق اٹھانے سے اسلام کے کسی غلبے کا خواب دیکھا جا سکتا ہے؟
۶۔ ایک نظام فکر کے طور پر اسلام کو جو چیلنج درپیش ہیں، کیا ہم نے ان کا سامنا کیا ہے؟ معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا تیس برس قبل لکھا گیا ایک مقالہ حال ہی میں ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں شائع ہوا ہے۔ انہوں نے اسلامی تحریکوں کو درپیش علمی اور فکری سوالات کو نمایاں کیا ہے۔ میرا تاثر ہے کہ تیس برس بعد بھی یہ سوالات اسی طرح تشنہ جواب ہیں۔ جو قومیں اس رفتار سے چلتی ہیں، ان کے روشن مستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی کی جا سکتی ہے؟
۷۔ اس وقت عالمی حالات کا ایک فکری اور سماجی پس منظر ہے۔ کیا اس کی رعایت ملحوظ رکھے بغیر دنیا میں زندہ رہنے کی کوئی صورت ہے؟
اب آئیے چند ایسے سوالات کی طرف جن کا تعلق ہمارے داخلی حالات سے ہے:
۱۔ جس قوم کے مقتدر طبقات قومی وحدت کی اہمیت سے واقف نہ ہوں ا ور گروہی مفادات کے اسیر ہوں، وہاں تعمیر وطن کی طرف پیش قدمی کیسے ہو سکتی ہے؟
۲۔ اگر ہمارے ملک میں ایسی جماعتوں یا افراد کو سیاسی عصبیت حاصل ہوئی ہے جو بعض لوگوں کے نزدیک اخلاقی کمزوریاں رکھتے ہیں تو کیا اس بنیاد پر انہیں سیاست سے باہر رکھ کر کسی قومی وحدت کا خواب دیکھا جا سکتا ہے؟
۳۔ جہاں کرپشن کا خاتمہ کرنے سے معاشی عمل رک جائے اور جس جگہ سیاست کو اخلاقی برائیوں سے پاک کرنے سے ملک میں انتشار پیدا ہو، وہاں ترجیحات کا تعین کیسے کیا جائے؟
۴۔ کیچڑ کے تالاب میں کھڑا شخص اگر کنارے پر موجود کسی سفید پوش کے لباس پر پڑی چھینٹوں پر اعتراض کرے اور اس سے دامن کی صفائی کا مطالبہ کرے تو کیا اس مطالبے کی کوئی اخلاقی حیثیت ہوگی؟
۵۔ اگر ایک قوم کے بعض راہنما ایک طرف پورے آئین کی پامالی کو نہ صرف گوارا کریں بلکہ اس کی تائید کریں اور دوسری طرف بعض لوگوں کی قانون شکنی پر انگلی اٹھائیں تو کیا انہیں معاشرے میں اعتبار حاصل ہو سکتا ہے؟
میں نہیں جانتا کہ ہماری قوم کو ان سوالات کے جوابات ملتے ہیں یا نہیں، لیکن مجھے اس بات کی خبر ہے کہ جس معاشرے میں اہل فکر ونظر کی جانشینی کا اہتمام نہ ہو اور جہاں دانش ایک بال پوائنٹ کی کرشمہ سازی کا نام ہو، وہاں ایسے سوالات اکثر جواب طلب ہی رہتے ہیں۔ 
(روزنامہ جنگ، ۲۴ جون، ۲۰۰۲ء)

دور جدید میں اسلام کی شرح و وضاحت

سید منظور الحسن

(’الشریعہ‘ کے گزشتہ شمارے میں عہد حاضر میں اسلامی فکر کو درپیش سوالات اور چیلنجوں کے حوالے سے ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، ارشاد احمد حقانی اور مدیر ’الشریعہ‘ کی نگارشات شامل اشاعت کی گئی تھیں۔ اس شمارہ میں خورشید احمد صاحب ندیم اور جناب منظور الحسن کی تحریریں یہاں پیش کی جا رہی ہیں جن میں انہوں نے اس موضوع سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس اہم بحث کی تنقید وتمحیص کے سلسلے میں ہم اہل علم کو مزید اظہار خیال کی دعوت دیتے ہیں۔ مدیر)

موقر روزنامہ جنگ کی ۲۱ تا ۲۳ جون ۲۰۰۲ء کی اشاعت میں ’’مسلمان معاشرے اور تعلیمات اسلام ---- فکری کنفیوژن کیوں؟‘‘ کے زیر عنوان ایک اہم مضمون شائع ہوا ہے۔ اس کے مولف ممتاز صحافی اور ماہر سیاسیات جناب ارشاد احمد صاحب حقانی ہیں۔ قومی وسیاسی امور کے بارے میں ان کے تجزیے سنجیدہ اور بے لاگ ہونے کے ساتھ نہایت حکمت ودانش پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ رائے عامہ کی تشکیل اور ارباب حل وعقد کی رہنمائی میں غیر معمولی کردار ادا کرتے ہیں۔ مذکورہ مضمون میں فاضل مولف نے قومی تعمیر کے حوالے سے بعض اہم مباحث اٹھائے ہیں۔ ہمارے فہم کے مطابق ان کے نقطہ نظر کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اہل علم ودانش شریعت کے معاملے میں فکری الجھاؤ کا شکار ہیں۔ اس وقت وہ تین طبقات میں منقسم ہیں۔ ایک طبقہ روایتی علما پر مشتمل ہے جو فرسودہ نظام تعلیم کی پیداوار ہے اور جدید عمرانی علوم سے بے بہرہ ہے۔ یہ اپنے فہم شریعت کے قطعی ہونے پر مصر ہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو جدید علوم سے بہرہ مند ہے، مگر اسلامی تعلیمات سے بالکل نابلد ہے۔ یہ نظام زندگی کی اساس اسلام کے فلسفہ وحکمت اور قانون وشریعت کے بجائے بعض غیر اسلامی افکار اور نظام ہائے زندگی پر استوار کرنے کا داعی ہے۔ تیسرے طبقے میں وہ اہل علم شامل ہیں جو اسلامی علوم پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ معاصر عمرانی علوم سے بھی آگاہ ہیں۔ یہ قرآن وسنت کو ماخذ رہنمائی قرار دیتے ہیں مگر ان کی شرح ووضاحت کے حوالے سے علماے سابق کی آرا کو محل نظر سمجھتے ہیں۔ اس بنا پر یہ اس نقطہ نظر کے حامل ہیں کہ دین وشریعت کا اطلاق کرتے ہوئے عصر حاضر کی ضرورتوں کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ صاحب مضمون کے نزدیک مسلمانوں کے روشن مستقبل کا انحصار اسی تیسرے طبقہ فکر پر ہے۔ آخر میں انہوں نے اسلام کی عمرانی تعلیمات کو عصری ترقیوں کی روشنی میں سمجھنے کی ترغیب دی ہے اور اس ضمن میں اجتہاد کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ صاحب مضمون کا اصل مقدمہ نہایت وقیع ہے۔ انہوں نے ایک ماہر نباض کی طرح مسلمانوں کے مرض کی ٹھیک ٹھیک نشان دہی کی ہے اور اصلاح احوال کے لیے بالکل درست لائحہ عمل تجویز کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مسلمان علما کی غالب اکثریت تقلید جامد کو بطور اصول اختیار کیے ہوئے ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ احکام دینیہ کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے قدیم علما کا کام ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ موجودہ زمانے میں ان کے کام کی تفہیم اور شرح ووضاحت تو ہو سکتی ہے، مگر اس پر نظر ثانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دور اول کے فقہا نے جو اصول وقوانین مرتب کیے ہیں، وہ تغیرات زمانہ کے باوجود قابل عمل ہیں۔ اس ضمن میں تحقیق واجتہاد کی نہ ضرورت ہے اور نہ اس بات کا اب کوئی امکان ہے کہ کوئی شخص مجتہد کے منصب جلیلہ پر فائز ہو سکے۔ اس نقطہ نظر اور اس پر اصرار کے باوصف واقعہ یہ ہے کہ یہ اہل علم فکر اسلامی کے بارے میں پیدا ہونے والے متعدد شکوک وشبہات رفع کرنے اور نفاذ شریعت کے حوالے سے بعض سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں ایک طرف ایسے گروہ پیدا ہو رہے ہیں جو ان علما کے زیر اثر تقلید جامد کے اسیر ہیں اور دوسری طرف وہ نسل پروان چڑھ رہی ہے جو رد عمل کے طور پر اسلام کو ایک قصہ پارینہ قرار دے کر جدید فلاسفہ سے کسب فیض کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ ان کے درمیان میں کچھ ایسے لوگ بھی اگرچہ موجود ہیں جو اسلام کے بارے میں پیدا ہونے والے سوالات سے آگاہ ہیں اور ان کے شافی جوابات کی تلاش میں کوشاں ہیں، مگر واقعہ یہ ہے کہ ابھی تک ان کی کاوشیں بہت ابتدائی مراحل میں ہیں۔ اس وجہ سے مجموعی صورت حال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔
غیر مسلم دنیا میں اسلام کے بارے میں سوالات اور شکوک وشبہات تو پہلے بھی موجود تھے مگر ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد یہ بہت نمایاں ہو کر سامنے آئے ہیں۔ ان میں اسلامی شریعت کے حوالے سے بعض سوالات بہت نمایاں ہیں۔ مثلاً یہ کہ کیا اسلام ایک شدت پسند مذہب ہے؟ کیا دنیا پر حکمرانی کا حق صرف مسلمانوں کو حاصل ہے؟ کیا اسلام میں رائے کی آزادی نہیں ہے؟ کیا اسلام چھوڑنے کی سزا موت ہے؟ کیا اسلام دہشت وبربریت کی اجازت دیتا ہے؟ کیا انسان صرف اس لیے موت کے حق دار ہو سکتے ہیں کہ وہ مسلمان نہیں ہیں؟ ان کے علاوہ جرائم کی سزائیں، معاشرے میں خواتین کا کردار، نظم سیاست، نظم معیشت اور فنون لطیفہ وغیرہ کے بارے میں بھی بے شمار سوالات ہیں جو آج کل دنیا بھر میں اسلام کے حوالے سے زیر بحث ہیں۔ صاحب مضمون نے بالکل ٹھیک توجہ دلائی ہے کہ اگر ان سوالات کا جواب نہیں دیا گیا اور اس کے برعکس وہی رویہ اختیار کیا گیا جو اب تک ہمارے علما کی اکثریت نے ظاہر کیا ہے تو پھر مسلمانوں کی ترقی کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
مضمون کے بنیادی مقدمات سے پوری طرح اتفاق کے ساتھ اجتہاد کے مفہوم کے بارے میں ہم فاضل مصنف کی بات میں بعض اضافوں کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ہمارا احساس یہ ہے کہ ان کی تحریر سے کم وبیش اسی تقریر کا تاثر ہوتا ہے جو موجودہ زمانے میں ہمارے اکثر دانش ور کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ تقریر یہ ہے کہ علماے امت صدیوں سے تقلید کے طریقے پر گام زن ہیں۔ وہ ماضی بعید کے اہل علم کی تحقیقات اور آرا ہی کو حرف آخر سمجھتے اور قرآن وسنت پر ازسرنو غور کرنے کے خلاف ہیں مگر موجودہ زمانے میں تمدن کے ارتقا نے جو مسائل پیدا کر دیے ہیں، وہ ان سے صرف نظر کرتے ہوئے قدیم علما ہی کی دینی توضیحات کو اختیار کرنے پر مصر ہیں۔ چنانچہ اس امر کی ضرورت ہے کہ اجتہاد کے بند دروازے کو کھولا جائے اور اہل علم دور جدید کے تقاضوں کے پیش نظر قرآن وسنت کے احکام کی تعبیر وتشریح کریں۔ فاضل مصنف لکھتے ہیں:
’’جہاں تک اسلام کی عمرانی تعلیمات کا تعلق ہے، ان کے نئے نئے مفہوم اور مطالب اس میدان میں عصری ترقیوں کی روشنی میں واضح ہو سکتے ہیں۔ اب کوئی طبقہ زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق گزشتہ تیرہ چودہ سو سال میں سامنے آنے والی تشریحات اور مفاہیم کی لفظ بہ لفظ پیروی پر اصرار شروع کر دے تو وہ اپنے لیے اور ملت کے لیے لامحالہ طرح طرح کی مشکلات اور کجیاں پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اجتہاد کی ضرورت کس قدر شدیدہے۔ اس کے بغیر ایک قدم آگے نہیں چلا جا سکتا۔‘‘ (روزنامہ جنگ ۲۳ جون ۲۰۰۲ء)
اس تصور کے تناظر میں یہ سوالات عام طور پر ذہن میں پیدا ہوتے ہیں کہ کیا قرآن وسنت کے احکام میں مرور زمانہ کے ساتھ ترمیم وتغیر ہو سکتا ہے؟ کیا ان معاملات میں بھی اجتہاد ہو سکتا ہے جن میں قرآن وسنت نے نہایت واضح احکام دیے ہیں؟ کیا قرآن وسنت کی شرح ووضاحت کے بارے میں ہم علما کی تحقیقات کو اجتہاد ہی سے تعبیر کریں گے؟ ان سوالات کے حوالے سے یہ مناسب ہے کہ یہاں مختصر طور پر ’اجتہاد‘ کا مفہوم اور اس کا دائرۂ کار بیان کر دیا جائے۔
’اجتہاد‘ کا لغوی مفہوم کسی کام کو پوری سعی وجہد کے ساتھ انجام دینا ہے۔ اس کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ جس معاملے میں قرآن وسنت خاموش ہیں، اس میں نہایت غورخوض کر کے دین کے منشا کو پانے کی جدوجہد کی جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے منسوب روایات کی روشنی میں اجتہاد کا دائرۂ کار حسب ذیل نکات کی صورت میں متعین کیا جا سکتا ہے:
۱۔ اجتہاد کا تعلق انہی معاملات سے ہے جو کسی نہ کسی پہلو سے دین وشریعت سے متعلق ہیں۔
۲۔ انسانوں کو انفرادی یا اجتماعی حوالے سے جب بھی قانون سازی کی ضرورت پیش آئے تو انہیں چاہیے کہ وہ سب سے پہلے قرآن وسنت کی طرف رجوع کریں۔
۳۔ جن معاملات میں قرآن وسنت کی رہنمائی موجود ہے، ان میں قرآن وسنت کی پیروی لازم ہے۔
۴۔ جن معاملات میں قرآن وسنت خاموش ہیں، ان میں انسانوں کو چاہیے کہ اپنی عقل وبصیرت کو استعمال کرتے ہوئے آرا قائم کریں۔
ان نکات کی بنا پر یہ بات بطور اصول بیان کی جا سکتی ہے کہ شریعت محل اجتہاد نہیں ہے بلکہ محل اتباع ہے۔ محل اجتہاد صرف وہی امور ہیں جن کے بارے میں شریعت خاموش ہے۔ چنانچہ اجتہادی قانون سازی کرتے ہوئے، مثال کے طور پر عبادات کے باب میں، یہ قانون نہیں بنایا جا سکتا کہ تمدن کی تبدیلی کی وجہ سے اب نماز فجر طلوع آفتاب کے بعد پڑھی جائے گی؛ معیشت کے دائرے میں یہ طے نہیں کیا جا سکتا کہ اب زکوٰۃ ڈھائی فیصد سے زیادہ ہوگی؛ سزاؤں کے ضمن میں یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ قتل کے بدلے میں قتل کے بجائے عمر قید کی سزا دی جائے گی۔ گویا شریعت کے دائرے میں علما اور محققین کا کام صرف اور صرف یہی ہے کہ احکام کے مفہوم ومدعا کو اپنے علم واستدلال کے ذریعے سے متعین کرنے کی کوشش کریں۔ اس میں ان کے لیے کسی تغیر وتبدیل کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ البتہ جس دائرے میں شریعت خاموش ہے، اس میں وہ دین ومذہب، تہذیب وتمدن اور عرف ورواج کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر طرح کی قانون سازی کر سکتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں جن معاملات کے حوالے سے اجتہاد کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے، ان میں خواتین کا پردہ، فنون لطیفہ اور اسلامی سزائیں بہت نمایاں ہیں۔ یہ اور اس نوعیت کے معاملات میں اصل بات وہی ہے جسے ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔ یعنی قرآن وسنت کے احکام میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، البتہ جہاں وہ خاموش ہیں، وہاں اپنی رائے سے اجتہاد کیا جا سکے گا۔
خواتین کے حجاب کے بارے میں قرآن وسنت خاموش نہیں ہیں۔ اس وجہ سے ہم اس باب میں اجتہاد نہیں کریں گے بلکہ قرآن وسنت کے منشا کو جاننے کی کوشش کریں گے۔ اس کوشش کے نتیجے میں کوئی صاحب علم اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ چہرے کا پردہ لازم ہے اور کوئی دوسرا عالم یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ چہرے کا پردہ لازم نہیں ہے۔ ہمیں انفرادی یا اجتماعی سطح پر جس رائے کے دلائل زیادہ قوی معلوم ہوں، اسے اختیار کر لینا چاہیے۔
فنون لطیفہ میں مثلاً تصویر اور موسیقی کے جواز یا عدم جواز کے معاملے میں بھی اجتہاد نہیں کیا جائے گا، کیونکہ ان معاملات میں دین خاموش نہیں ہے۔ یہ تحقیق کی جائے گی کہ اس بارے میں دین کیا چاہتا ہے۔ اگر دین ہمارے لیے ان چیزوں کو منع کرنا چاہتا ہے تو پھر کسی اجتہاد کے ذریعے سے ان کے جواز کا راستہ نہیں کھولا جا سکتا۔ اور اگر دین نے ان پر کوئی پابندی عائد نہیں کی تو ہم اپنے طور پر انہیں ناجائز قرار نہیں دے سکتے۔
اسلامی حدود وتعزیرات میں جرائم کی جو سزائیں اللہ اور اس کے رسول نے عمومی طور پر متعین کر دی ہیں، وہ ہمارے لیے واجب الاتباع ہیں۔ ہم ان میں کوئی ترمیم وتغیر نہیں کر سکتے۔ البتہ اگر کوئی ایسا جرم سامنے آتا ہے جس کی سزا کے بارے میں کوئی ہدایت ہم قرآن وسنت میں تلاش نہیں کر پائے تو اس کے متعلق اجتہاد کیا جا سکتا ہے۔
اس باب میں جس طرز عمل کی اصلاح کی ضرورت ہے، وہ مخصوص علماے سابقین کی تحقیقات یا اجتہادات پر عمل درآمد کے لیے اصرار ہے۔ اس طرح کی کوئی پابندی اسلام نے عائد نہیں کی۔ اس نے ہر زمانے کے ہر شخص کو اس بات کا حق دیا ہے کہ وہ تحقیق واجتہاد کی صلاحیت بہم پہنچانے کے بعد دینی احکام کے حوالے سے اپنی آرا پیش کرے اور ان کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرے۔
(ماہنامہ اشراق، اگست ۲۰۰۲ء)

ٹیپو سلطانؒ، اقبالؒ اور عصر حاضر

پروفیسر میاں انعام الرحمن

تاریخ کے جدید دور میں یورپی سیاست کو عالمی سیاست کی اہمیت حاصل رہی ہے۔ برطانیہ سے امریکہ کی آزادی، انقلاب فرانس اور نپولین کے عروج نے توازن طاقت انگریزوں کے خلاف کر دیا تھا۔ زار روس سلطنت عثمانیہ پر قبضہ کر کے بحیرۂ روم تک پہنچنا چاہتا تھا۔ مصر میں نپولین کی کام یابی نے برصغیر کے انگریزوں کو خطرے کا قوی احساس دلا دیا تھا۔ انہی دنوں والی کابل زمان شاہ کے ارادے بھی شمالی ہند کے لیے پریشان کن تھے۔ انگریز افسر ہر اس حکمران سے نفرت کرتے تھے جو ان کے سیاسی مستقبل اور اقتدار کے لیے خطرناک ثابت ہو رہا ہو۔ ان کی یہ نفرت ٹیپو سلطانؒ کے بارے میں انتہائی شدید تھی۔
’’تاریخ ٹیپو سلطان‘‘ کا مصنف محب الحسن رقم طراز ہے:
’’لارڈ کارنوالس جب گورنر جنرل بن کر برصغیر آیا تو بین الاقوامی سیاست میں تجربہ کی روشنی میں اس نے انگلینڈ اور فرانس کی رقابت میں برصغیر کی اہمیت کا صحیح اندازہ کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر برصغیر میں برطانوی اقتدار قائم کرنا ہے تو جلد یا بدیر ’’ٹیپو‘‘ سے ضرور لڑنا ہوگا۔‘‘ (ص ۱۴۸)
کیمبرج ہسٹری آف انڈیا کے مطابق:
’’ٹیپو سلطان کے بارے میں انگریز کمپنی کی پالیسی یکساں وجامد نہیں رہی۔ ابتدا میں یہ کوشش تھی کہ ٹیپو کو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ وہ کمپنی کے لیے خطرہ نہ رہے۔ بعد میں یہی پالیسی اس کے مکمل استحصال میں تبدیل کر دی گئی۔‘‘(ج ۵ ص ۳۳۷)
انگریزوں کے ان رجحانات میں ٹیپو سلطان کی بد قسمتی کو صرف یہ دخل تھا کہ اٹھارہویں صدی میں وہ واحد ہندوستانی حکمران تھا جس نے انگریز استعماریت کو چیلنج کیا اور جذبہ آزادی کو اپنی زندگی کا واحد نصب العین بنا لیا۔ سلطان، اسلام اور آزادی کو دو الگ الگ چیزیں نہیں سمجھتا تھا۔ اس کے نزدیک اسلام کو سربلند کرنے یا آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے جہاد بالکفار لازمی شے تھا۔ اس نے ’’فتح المجاہدین‘‘ میں تفصیل سے مسائل جہاد بیان کیے ہیں۔ ۱۷۸۶ء میں اس نے جو اعلان جہاد کیا، ا س سے اس کے جذبہ ایمانی کا پوری طرح اظہار ہوتا ہے۔ یہ اعلان ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے:
’’ختم پیغمبران ﷺ کے وقت مسلمانوں کو جو احکام دیے گئے تھے، انہوں نے ان احکام کو بھلا دیا جس کی وجہ سے ان پر زوا ل آ گیا۔ اس وقت خدا کے فضل وکرم سے ہم ان احکام کو اپنے دستخط اور مہر سے مسلمانوں کی آگاہی کے لیے دوبارہ جاری کرتے ہیں تاکہ مسلمان ان سے ہدایت پائیں۔‘‘ (بحوالہ ’’صحیفہ ٹیپو سلطان‘‘ حصہ دوم، ص ۱۴۱ از محمود بنگلوری)
سلطان کی اپنی زندگی اسلامی رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ ’’تاریخ سلطنت خداداد‘‘ کا مصنف رقم طراز ہے کہ سلطان اس قدر کامل الحیا تھا کہ سوائے اس کے پیر کے ٹخنوں اور کلائیوں کے اس کے جسم کو کبھی کسی نے برہنہ نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ حمام میں بھی وہ اپنے تما م جسم کو چھپائے رکھتا۔ (ص ۵۰۵) حضرت عثمان غنیؓ کے بعد اس اعتبار سے دنیا میں سلطان کی حیرت انگیز مثال ہے۔
ٹیپو سلطان مجاہد تھا۔ وہ مجاہدکی طرح لڑا۔ اس کی جدتیں مفید تھیں لیکن محمد بن تغلق کی طرح اس کے خلاف پڑیں۔ سرجادوناتھ سرکار نے اگر یہ کہا ہے کہ ’’ٹیپو سلطان اپنے زمانے سے بہت پہلے پیدا ہو چکا تھا‘‘ تو کیا غلط کہا ہے۔ سلطان کے دوستوں اور حامیوں میں جذبہ تو موجود تھا لیکن انگریزوں کی مانند قومی تصور نہیں تھا۔ سلطان کے وکیلوں اور مشیروں کو انفرادی مفادات کا لالچ دے کر خریدا جا سکتا تھا۔ سلطان کی شہادت صرف اسلامی جاہ وجلال کی موت نہ تھی بلکہ یہ ہندوستان کی غیرت اور خود داری کی موت تھی۔ جنرل ہیرس سلطان کی لاش دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھا تھا کہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔‘‘
’’سلطنت خداداد‘‘ کے مطابق ایک امریکی مورخ برڈز اوڈ کلف نے سلطان کی شہادت کے ۲۴ برس بعد مشہد سلطان پر بیٹھ کر کچھ ایسے تاثرات ظاہر کیے تھے:
’’اے آسمانی جہاد کے ستارے! تو غروب ہو گیا لیکن ان ذلیل انسانوں کی طرح نہیں کہ جو مغرور اور سربلند دشمنوں کے سامنے معافی اور جاں بخشی کے لیے خاک مذمت پر سربسجود ہوئے۔ ..... تو شہنشاہی کی زندگی ٹھکرا کر شیر کی طرح میدان میں کود پڑا اور سپاہی کی طرح مر گیا۔ ...... موت بہتر ہے کہ ایسی رسوا کن زندگی سے جو سالہا سال کے اندوہ وانفعال کی سرمایہ دار ہو۔‘‘ (ص ۶۳۰) 
مسلمان حکمرانوں پر یہ الزام عموماً لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے ہندوؤں کے مندروں کو منہدم کیا اور غیر مسلموں کے ساتھ وحشیانہ سلوک روا رکھا۔ یہ ایک بہتان عظم ہے اور ٹیپو سطان کے بارے میں بالکل بے بنیاد ہے۔ گاندھی کے مضمون سے یہ حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے۔ گاندھی نے یہ مضمون اپنے اخبار ’’ینگ انڈیا‘‘ میں شائع کیا تھا۔ ایم عبد اللہ کی مرتب کی ہوئی کتاب ’’ٹیپو سلطان‘‘ کے صفحہ ۴۶ سے یہ اقتباس درج ذیل ہے:
’’میسور کا بادشاہ فتح علی ٹیپو شہید غیر ملکی مورخوں کی نظر میں ایک ایسا مسلمان تھا جس نے اپنے رعایا کو زبردستی مسلمان بنایا لیکن یہ بہت بڑا جھوٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوؤں سے اس کے تعلقات نہایت ہی دوستانہ تھے۔ اس کے کارنامہ زندگی کی یاد، دل کے اندر خوشی اور مسرت کی ایک لہر پیدا کر دیتی ہے۔ اس عظیم المرتبت سلطان کا وزیر اعظم ایک ہندو تھا اور ہمیں نہایت ندامت کے ساتھ اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اس نے فدائے آزادی کو دھوکہ دے کر دشمنوں کے حوالے کر دیا۔‘‘
ڈاکٹر بی اے سالیتور بھی اس سلسلے میں بیان کرتا ہے کہ:
’’ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کوئی شہنشاہ ایسا نہیں گزرا جس نے اپنے اور اپنی رعایا کے مفاد کو ایک جانا ہو جیسے ٹیپو سلطان نے سمجھا تھا اور اس کے سارے خطوط جو سرین گری گرو کے نام بھیجے گئے ہیں، وہ بھی انہی جذبات کے آئینہ دار ہیں۔‘‘ (بحوالہ میڈیول انڈیا کوارٹرلی، علی گڑھ، اکتوبر ۱۹۵۰ء)
ٹیپو سلطان نے اگرچہ مذہب کے معاملے میں اسلامی رواداری کا مظاہرہ کیا تھا لیکن انگریز مورخین نے ان امور کی ایسی توجیہ کی جس سے ان کی بد نیتی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسمتھ لکھتا ہے :
’’ٹیپو سلطان کٹڑ مسلمان ہونے کے باوجود عالم خوف وہراس میں برہمنوں کی دیوی دیوتاؤں سے بغرض استمداد رجوع کیا کرتا تھا اور ان کے مندروں اور عبادت گاہوں کے لیے تحفے تحائف بھیجتا تھا۔‘‘ (بحوالہ ونسنٹ اسمتھ، آکسفرڈ ہسٹری آف انڈیا، ص ۵۸۵)
لیکن جہاں مورخ اپنے فرائض کی انجام دہی سے تھک جاتا ہے، حقائق سے چشم پوشی کو حقیقت بیان قرار دینے لگتا ہے اور واقعات کی درست اور غیر جانب دارانہ ترتیب وتزئین سے عاجز آجاتا ہے، وہاں انسا ن کا ’’شاعرانہ احساس‘‘ جلوہ گر ہوتا ہے۔ وہ اسی دور ظلمت اور اندھیر نگری میں اپنے فکر وتخیل سے حقائق کی ایسی تصویر کھینچتا ہے جس سے ایک طرف تو حق سامنے آجاتا ہے اور دوسری طرف دنیا اور عالم انسانیت جوروستم اور مکروفریب کے مکروہ چہرے سے خوب واقف ہو جاتی ہے۔ ہاں ، اپنے ہی احساس تلے شاعر، مورخ کا کام بھی سرانجام دیتا ہے، قوم کی ہمت بڑھاتا ہے، راہنمائی کرتا ہے،آباؤ اجداد کے کارناموں سے اور کبھی عظمت ماضی کے تذکروں سے غیرت دلاتا ہے۔ اقبال ایسا ہی عظیم انسان تھا۔ وہ محض فلسفی شاعر نہیں تھا اور نہ صرف شاعر فلسفی تھا بلکہ مورخ شاعر بھی تھا۔ اقبال کی شاعری اس ’’تاریخی شعور‘‘ کا شاخسانہ ہے جس کی جڑیں مسلم تاریخ میں پیوست ہیں اور جس کے ڈانڈے اسلام کی ’’تعبیر نو‘‘ سے جا ملتے ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں ٹیپو شہید کی شمشیر کا نعم البدل اقبال کے قلم کی صورت میں رونما ہوا۔ ڈاکٹر اقبال نے ’’آزادی‘‘ پر نہایت شرح وبسط سے اظہار خیال فرمایا۔ اقبال کے نزدیک آزادی ہی زندگی کا دوسرا نام ہے۔ آزادی میں زندگی ’’بحر بیکراں‘‘ بن جاتی ہے اور غلامی میں متاع بے بہا سمٹ کر ’’جوئے کم آب‘‘ رہ جاتی ہے۔
برصغیر میں انگریزوں کے خلاف ٹیپو سلطان کی ناکامی کے ضمن میں ذکر ہوا تھا کہ ہندوستان میں انگریز کی مانند ’’قومی تصور‘‘ موجود نہیں تھا جس کی بنا پر ٹیپو کے رفقا کو لالچ دے کر خریدا جا سکتا تھا۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد اقبال کے عہد تک ہندوستان میں ’’قومیت‘‘ ابھرنا شروع ہو گئی تھی۔ اقبال نے اپنے ابتدائی سالوں میں ’’وطنی قومیت‘‘ کا ہی پرچار کیا مگر مطالعہ اور دنیا پر تنقیدی نظر ڈالنے کے بعد وہ اس قسم کی قومیت کے خلاف ہو گئے۔ اقبال وطن سے محبت کے خلاف نہیں بلکہ وطن کی ایسی پرستش کے خلاف ہیں جو جذبہ ملت اور انسانیت کے تقاضوں سے ٹکرا جائے۔ انہوں نے وطن سے محبت کو بہت سراہا ہے۔ نہایت مقامی اور ابتدائی وطن کشمیر کو سراہا، پھر پنجاب کے ساتھ محبت کا اظہار کیا اور پھر ہندوستان کی وسیع تر مقامیت سے وابستگی بھی قائم رکھی۔ ’ساقی نامہ‘، ’کشمیر‘، ’محراب گل‘، ’افغان کے افکار‘، ’روح ہندوستان کی فریاد‘ وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ 
اگر ہم فکر اقبال کا بغور مطالعہ کریں تو یوں لگتا ہے جیسے وہ ٹیپو سلطان اور اکیسویں صدی میں احیاء اسلام کی تحریکات کے مابین ’’بنیادی واسطہ‘‘ ہوں۔ ٹیپو کی شکست کی بنیادی وجہ جذبہ قومیت کی کمی تھی۔ اکیسویں صدی میں اگر مسلم دنیا کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ ’’جذبہ ملت‘‘ کی کمی ہوگی۔ فکر اقبال وطن سے فطری محبت کو نبھاتی ہوئی ملت کے دھارے میں گم ہوتی نظر آتی ہے۔ جدید عہد کی متوقع عالم گیریت (Globalization) کو بھانپتے ہوئے مقامیت کے اثبات کے ساتھ اقبال نہایت شدومد کے ساتھ اسلام کے تصور ملت کی بات کرتے ہیں:
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
اٹھارہویں صدی کی عالمی سیاست کے تناظر میں برطانیہ اور فرانس کی باہمی کشمکش کو دیکھتے ہوئے ٹیپو سلطان نے بھی نپولین سے رابطہ قائم کیا تھا کیونکہ وطنی قومیت کے سبب یہ دونوں ممالک ’’رقیب‘‘ بنے ہوئے تھے۔ یہ رقابت اکیسویں صدی میں یورپی یونین کی شکل میں ’’رفاقت‘‘ بن چکی ہے۔ اہل مغرب کا وطنی تصور قومیت بے محابا پھیلاؤ (Proliferation) کا شکار ہو چکا ہے۔ ایسے معروضی حالات میں مسلم دنیا کو بھی ’’وحدت‘‘ کا حامل ہونا پڑے گا۔ او آئی سی کے پلیٹ فارم پر جب مسلم ممالک اکٹھے ہوتے ہیں تو ان کے انداز واطوار اس قسم کے ہوتے ہیں جیسے گول دائرے میں پچاس ساٹھ اشخاص کھڑے ہوں اور ان کی پیٹھیں دائرے کے ’’مرکز ‘‘ کی جانب ہوں اور چہرے اپنے اپنے رخ پر۔ 
خیال رہے، ریاست میسور اور طالبان کے افغانستان میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔ سلطان فتح علی ٹیپو کی مانند ملاعمر نے ہی’’مزاحمت‘‘کی جرات کی ہے، باقی مسلم دنیا تماشائی بنی رہی۔ ٹیپو کی شہادت کے بعد انگریزوں نے اعلان کیا تھا کہ حیدر علی اور ٹیپو غاصب تھے، ان کے ’’ظلم‘‘ کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ ایسا ہی خاتمہ طالبان کے افغانستان میں کیا گیا ہے۔ ٹیپو اور ملا عمر دونوں کی سفارت کاری ناکام رہی۔
اکیسویں صدی میں ہماری پالیسیاں اور سوچ اٹھارہویں صدی والی ہیں۔ اٹھارہویں صدی میں، تیرہویں چودھویں صدی والی تھیں۔ فکری اجتہاد کا دروازہ بند ہونے کی وجہ سے دو سو سال (۱۷۹۹ء۔۲۰۰۱ء) کے عرصے میں مسلم دنیا کا مزاحمتی گروہ اہل مغرب کو شکست نہیں دے سکا۔ 
اگر آج ہم زمانے کے ساتھ نہ چلے تو عبرت ناک انجام سے دوچار ہوں گے۔ ایسے ممکنہ انجام سے بچاؤ کے لیے ہی اقبال نے ’’افکار تازہ‘‘ پر زور دیا ہے کہ کوئی بھی نظام یا فکر آخر کار Point of saturation پر پہنچ کر بے بس ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں کی زبوں حالی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی نظام اور فکر اس نقطہ پر پہنچ چکے ہیں۔ اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے تو اسلامی نظریہ ناقص، محدود اور وقتی معلوم ہوتا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اسلامی نظریے کی بنیاد الٰہیاتی ہے۔ اس نظریے کا دعویٰ ہے کہ یہ وقتی اور مقامی نہیں ہے بلکہ آفاقی اور ہر زمانے پر محیط ہے۔ اسلامی نظریہ اپنی حقیقی صورت میں کبھی Point of saturation سے دوچار نہیں ہو سکتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس کی حقیقی صورت قائم نہیں رہنے دی۔ فکر اقبال ہمیں اسلامی نظریے کی حقیقی صورت سے روشناس کراتی ہے۔ اسلامی نظریے میں موجود ’’اجتہاد‘‘ کا عنصر مسلسل نمو اور تازگی کا باعث بنتا ہے جس سے Point of saturation کبھی قریب بھی نہیں پھٹکتا۔ اقبال کے اشعار اور ان کا چھٹا خطبہ صراحت سے اجتہاد کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ اس عالم گیریت کے عہد میں بھی اسلام کے آفاقی اور عالمی پروگرام کے باوجود، مسلم دنیا اجتہاد سے محترز ہونے کے باعث ’’مقامیت‘‘ کے گرد گھوم رہی ہے۔ ہمیں کوئی نیا سوشل آرڈر بنانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف اتنا کرنا ہے کہ عصر حاضر اور اس کے مسائل کو جرات مندی سے address کریں۔ صرف اس عمل سے ہی اجتہاد کے شجر پر نئی کونپلیں پھوٹ نکلیں گی اور اسلامی نظریے کا یہ عنصر اپنے ثمرات سے لدا پھدا پوری دنیا اور عالم انسانیت کو دعوت عیش دے گا۔ بقول اقبال:
مشرق سے ہو بے زار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
آج صورت احوال یہ ہے کہ ہم فطرت کے اشارے سمجھنے سے قاصر ہیں اور سحر کو شب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اسلامی نظریے کی آبیاری کے بجائے اس کی ’’جڑوں‘‘ پر ہاتھ ڈال رہے ہیں۔ مسلم دنیا کا مقتدر طبقہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔ پاکستان کی مثال سامنے ہے۔ آئین کی بالادستی کے نئے طریقے ڈھونڈنے کے بجائے آئین کو گھر کی لونڈی بنا لیا گیا ہے حالانکہ اسلامی نظریے کے بنیادی، اٹل اور قطعی اصولوں میں سے ایک اصول ’’قانون کی بالادستی‘‘ ہے:
تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
’’نظریہ ضرورت‘‘ کا تسلسل سے وارد ہو کر ’’اصول‘‘ بن جانا ظاہر کرتا ہے کہ ناخوب، خوب ہو چکا ہے۔ قوم واقعتا غلام ہے، اس کا ضمیر بدل چکا ہے۔ شیر کی طرح آزاد زندگی گزارنے والا ٹیپو سلطان شہید تھا کہ آزاد ہونے کے ناطے اسلامی نظریے کو اچھی طرح جاننے کے سبب خود کو ’’شہری‘‘ کہلوانے پر فخر محسوس کرتا تھا۔ اس کے نام کے سات ’’سلطان‘‘ کوئی ایسا لقب نہیں تھا جو اس نے بعد میں اختیار کیا ہو، بلکہ یہ اس کے نام کا ایک حصہ تھا۔ محققین کے مطابق ٹیپو سلطان نے بعض دستاویزات پر ’’شہری ٹیپو‘‘ کے نام سے دستخط کیے تھے۔
ٹیپو کی حریت پسندی اور فکر اقبال کی اجتہادی جہت اپنے تسلسل کے ضمن میں ہم سے چند سوالات کرتے ہیں:
۱۔ کیا مسلمان حقیقتاً آزاد ہیں؟
۲۔ کیامسلم حکمران ’’شہری‘‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں اور قانون کے تابع ہیں؟
۳۔ کیا قومی جذبے کے ساتھ ساتھ ملی جذبہ بھی پروان چڑھ رہا ہے؟
۴۔ کیا اجتہاد کا دھارا اسلامی نظریے کی آب یاری کر رہا ہے؟
اگر نہیں تو ہمیں نہایت سرگرمی سے فکری اور عملی دونوں محاذوں پر کام شروع کر دینا چاہیے۔ اگر اب بھی ہم نے سستی، کاہلی دکھائی اور جمود کا شکار رہے تو نشان عبرت بن جائیں گے۔

گلوبلائزیشن اور مذہب کا کردار

چندرا مظفر

متحد انسانیت کا سبق سب سے پہلے مذہب نے ہی سکھایا تھا۔ تاہم جوں جوں گلوبلائزیشن کا رجحان انسانیت کو ایک ایسی دنیا کی طرف دھکیل رہا ہے جس میں (اقوام عالم کا) باہمی انحصار ایک نمایاں خصوصیت ہوگی‘ توں توں (اتحاد انسانیت کا تصور دینے والے) مذہب کی آواز اور نقطہ نگاہ لوگوں کے ذہنوں سے محو ہوتے جا رہے ہیں۔
گلوبلائزیشن کے موجودہ رجحان کے فروغ میں اتحاد انسانیت کے مذہبی تصور کا کوئی کردار نہیں۔ اس کے محرکات اور مقاصد (اصلاً معاشی ہیں ) اور ان کی جڑیں اس تدریجی عمل میں پیوست ہیں جس کے ذریعے سے سرمایہ‘ اشیا‘ خدمات اور بعض اوقات محنت (دنیا کے ممالک کی) قومی سرحدوں کے پابند ہوئے بغیر بین الاقوامی سطح پر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آتے جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تصورات‘ اذواق اور اقدار کی ایک (نئی) لہر بھی دنیا کی موجودہ شکل کو تبدیل کر کے ایک ایسی دنیا کو وجود میں لانے میں مدد دے رہی ہے جس میں آخر کار ایک ہی عالمی نظام کا رواج اور ایک ہی عالمی وحدت کا وجود ہوگا۔

’گلوبلائزیشن‘ کیا ہے؟

’گلوبلائزیشن‘ کا مطلب ہے مکمل معاشی آزادی یعنی عالمی سطح پر تجارت کے لیے راستے ہموار کرنا ۔ کثیر قومی تجارتی ادارے اس رجحان کے فروغ میں پیش پیش ہیں۔ حکومتیں ایسا ماحول پیدا کررہی ہیں جو ان اداروں کے کاروبار کی ترقی میں ہر ممکن حد تک معاون ہو۔ APEC‘ GATT اور WTOجیسے علاقائی اتحاد بھی اسی مقصد کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
بڑے تجارتی اداروں‘ حکومتوں اور علاقائی و بین الاقوامی اداروں کے مابین گلوبلائزیشن کے لیے مناسب ماحول پیدا کرنے کے لیے اتحاد کا پیدا ہوجانا کوئی اتفاقی بات نہیں۔ اس کی تاریخی بنیادیں استعماریت میں پیوست ہیں‘ اسی لیے (گلوبلائزیشن کے عمل میں) غالب قوتوں کے مراکز مغرب میں ہیں۔تاہم گلوبلائزیشن کے موجودہ رجحان کو مغرب کے استعماری تجربے کا اعادہ قرار دینا درست نہیں ہوگا کیونکہ طاقت کے مراکز میں سے ایک جاپان بھی ہے۔ اسی طرح شمال مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا میں طاقت کے دوسرے مراکز بھی ابھر رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں گلوبلائزیشن کوئی ایسا نظام نہیں ہے جس کے تحت سرمایہ‘ اشیا اور اذواق کا منبع (دنیا میں) چند متعین مراکز ہوں گے جہاں سے وہ باقی دنیا کی طرف سفر کریں گے کیونکہ (عالمی صورت حال پر اثر انداز ہونے والے) فیصلوں کے چند مراکز اگر مغرب میں ہیں‘ تو باقی دنیا میں بھی ایسے مراکز موجود ہیں جو خود مغرب کی صورت حال کو نیز مختلف سطحوں پر باقی دنیا کی صورت حال کو بھی متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

گلوبلائزیشن کے مثبت پہلو

۱۔ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (FDI) نے روزگار پیدا کر کے اور آمدنی کو بڑھا کر غربت کو کم کرنے میں مدد دی ہے۔
۲۔ تجارت اور بیرونی سرمایہ کاری کے پھیلاؤ نے سماجی سطح پر ہونے والی پیش رفت کے عمل کو تیز تر کر دیا اور درمیانے طبقے کو مضبوط کیا ہے۔
۳۔ ذرائع ابلاغ اور نئی انفرمیشن ٹیکنالوجی نے علم وہنر کے مختلف دائروں میں علم پھیلانے میں مدد دی ہے۔
۴۔ ابلاغ سستا اور آسان ہو گیا ہے۔ ٹیلی فون اور سفر کے اخراجات کم سے کم تر ہو رہے ہیں۔
۵۔ اس صورت حال میں (مختلف طبقات اور معاشروں کے لیے) ایک دوسرے کو سمجھنا آسان ہو گیا ہے۔ معاشرے اور سماجی طبقات جڑ اور بنیاد کے لحاظ سے کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں‘ باہمی تفاہم کے وسائل وذرائع میں اضافے کے باعث اب پہلے کی بہ نسبت زیادہ باہمی تعاون کے ماحول میں رہ سکتے ہیں۔
۶۔ گلوبلائزیشن نے اس بات کو ممکن بنا دیا ہے کہ انسان دوسرے انسانوں پر آنے والی قدرتی یا انسان کی پیدا کردہ آفات کے مواقع پر ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور ترحم کا عملی اظہار کر سکیں۔
۷۔ انسانی حقوق اور عوامی احتساب کے معاملات اب بنیادی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔
۸۔ عورتوں کے حقوق کا مسئلہ نمایاں ہو گیا ہے اور اکثر عورتوں کو درپیش مسائل پر اب توجہ دی جانے لگی ہے۔
۹۔ یہ تمام مظاہر مذہبی تعلیمات کے لیے سازگار اور معاون ہیں۔

گلوبلائزیشن کے منفی پہلو

۱۔ کثیر قومی تجارتی اداروں کی‘ جن کا واحد مقصد منافع کمانا ہے‘ بلا حدود وقیود سرگرمیوں نے ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ پیدا کر دیا ہے۔
۲۔ اگرچہ غربت کسی حد تک کم ہو گئی ہے‘ لیکن نئی معاشی ناہمواریاں پیدا ہو گئی ہیں۔ غربت کے حوالے سے مختلف خطوں کے مابین پائی جانے والی عدم مساوات نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہے۔
۳۔ زیادہ منافع کے حصول کی خاطر زندگی کی بنیادی ضروریات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ جنوب کے بہت سے ممالک ایسی صنعتوں میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے سہولتیں فراہم کرنے میں مصروف ہیں جو بیرونی منڈیوں کے لیے تو بہت نفع بخش ہیں لیکن ان میں (مقامی) لوگوں کی نہایت بنیادی ضروریات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔
۴۔ گلوبلائزیشن سرمایہ کی بین الممالک منتقلی پر مقامی حکومتوں کا کنٹرول ختم کرنے میں معاون ہے۔ ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف سرمایے کی اچانک اور ڈرامائی منتقلی (مقامی معیشت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور) بالخصوص جنوب مشرقی ایشیا کی بعض کرنسیوں کو تو اس نے تباہ کر کے رکھ دیا ۔
۵۔ ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی ہو رہی ہے (جس نے آغاز ہی سے انسانوں کے لیے بے روزگاری کا مسئلہ پیدا کیا ہے)۔ اس صورت حال میں مزید قباحت یوں پیدا ہوئی ہے کہ سرمایہ (بہت بڑے پیمانے پر) جنوب کے ان خطوں کی طرف منتقل ہو رہا ہے جہاں پیداوار پر کم لاگت آتی ہے۔ اس چیز نے شمال کے خطوں میں بے روزگاری کو بڑھا دیا ہے جو کہ انسانی خودداری اور وقار کے خلاف ایک جرم ہے۔
۶۔ گلوبلائزیشن نے دولت کے زیادہ سے زیادہ صرف کے رجحان (Consumer culture)کو بے حد مقبول بنا دیا ہے۔ اس رجحان نے مادیت کو فروغ دیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی دل چسپی انسانیت کی بنیادی اقدار سے ہٹ کر حب دنیا کی طرف زیادہ مبذول ہو گئی ہے۔
۸۔ صرف دولت کا یہ عالمی رجحان (Global consumerism) اب ایک ایسا عالمی کلچر تشکیل دینے کی طرف مائل ہے جو ایک مخصوص تہذیب اور مخصوص خطے کی پیداوار (homogenous)ہے۔ اس صورت حال میں جنوب کی مقامی ثقافتیں غالب مغربی تہذیب کے بالمقابل اپنی بقا کے سوال سے دوچار ہیں۔
۹۔ عالمی تفریحی صنعت سطحی امریکی پاپ کلچر کو فروغ دے رہی ہے جو ظاہری حواس کے نشے کو تو پورا کر تا لیکن روح کو بالکل مردہ کر دیتا ہے۔
۱۰۔ منظم تعلیمی نظام اب مارکیٹ کی ضروریات کے پیش نظر فنی اور انتظامی مہارتوں پر زیادہ زور دے رہے ہیں اور روایتی علمی مضامین کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم محض چند ہنر اور مہارتیں سیکھ لینے کا نام ہے اور اس میں اخلاقی تربیت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
۱۰۔ اگرچہ انفرمیشن ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی نے معلومات کے پھیلاؤمیں بے حد تیزی پیدا کردی ہے‘ لیکن ان معلومات کا ایک بڑا حصہ بے فائدہ اور بے کار ہے جو لوگوں کو سطحی اور بے مقصد چیزوں میں مشغول کر رہا ہے۔
۱۱۔ موجودہ دنیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے دوہرے معیار پائے جاتے ہیں ۔ یہ مسئلہ مغربی حکومتوں کی خارجہ پالیسی کا ایک حصہ ہے لیکن اسی وقت اٹھایا جاتا ہے جب ان کے اپنے مفادات اس سے وابستہ ہوں۔
۱۲۔ گلوبلائزیشن نے ہر قسم کے جرائم کو عالمی سطح پر پھیلا دیا ہے۔
۱۳۔ جرائم کی طرح بیماریاں بھی پوری دنیا میں تیزی سے پھیل رہی ہیں اور ان پر قابو پانا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔

مقابلے کی حکمت عملی

گلوبلائزیشن کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے ہم اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ اس کی ساری خوبیاں محض اضافی نتائج کی حیثیت رکھتی ہیں جبکہ اس کا بنیادی محرک یعنی زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول‘ اس کی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ گلوبلائزیشن کو انسانی تہذیب کی بقا اور سالمیت کو درپیش چیلنجوں میں سب سے زیادہ تشویش ناک چیلنج کہا جا سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس چیلنج کا سامنا کیسے کیا جا ئے؟
چونکہ مذہب اور کلچر اپنے اندر مثبت پہلو رکھتے ہیں‘ اس لیے ان کو مکمل طور پر مسترد نہ کرنا بہت اہم ہے۔ قصیر مدتی اور وسط مدتی حکمت عملی کے طور پر بعض معاشی سرگرمیوں میں اخلاقی معیارات کو شامل کرنا چاہیے اور مارکیٹ کو اخلاقی اصولوں کا پابند بنانا چاہیے۔ مسلمان اور دوسرے مذہب کے مفکرین کے لیے چیلنج یہ ہے کہ وہ معاشی طور پر قابل عمل ایسی اخلاقی پالیسیاں بنائیں جو مذہبی تعلیمات کے مطابق ہوں اور جنہیں گلوبلائزیشن کے عمل کا حصہ بنایا جا سکے ۔
طویل مدتی حکمت عملی (کے حوالے سے یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ) گلوبلائزیشن کے صرف معاشی پہلو ہی ازسرنو غورکے محتاج نہیں ہیں (بلکہ اس کے لیے ایک ہمہ جہتی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے)۔ ثقافت کے لیے رہنما اصولوں کا کردار ایسی کائناتی اخلاقی قدروں کو کرنا چاہیے جن کے ذریعے سے کسی ثقافت کے اندر موجود پابندئ حدود کی مضبوط اخلاقیات کو رو بہ عمل لاتے ہوئے دوسری ثقافت کے غلبہ کو روکا جا سکے۔ فرد اور سماج کے شعور میں اخلاقی اصولوں کو عالمی سطح پر مستحکم کر دینے میں ہی انسانیت کی واحد امید نجات ہے۔ انٹر نیٹ اور سیٹلائیٹ کے ذریعے سے پھیلنے والی تمام معلومات کو موثر طریقے سے سنسر کرنا قریب قریب ناممکن ہے۔ ایسا فرد جس کے اخلاقی نظام کا ماخذ مذہب ہو، وہی صحیح اور غلط کے صدیوں سے آزمودہ اصولوں کا پابند رہ سکتا ہے۔
الٰہی اخلاقیات کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان خدا کے ساتھ اپنے تعلق کا گہرا شعور رکھتا ہو۔ ایک خدا شناس معاشرہ نا انصافی کے خلاف لازماً آواز بلند کرتا ہے اور ایسا کرنے میں (افراد معاشرہ کے ذہن میں) اس حقیقت کا گہرا شعور کارفرما ہوتا ہے کہ وہ زمین پر خدا کے نمائندے ہیں۔ اس طرح کے افراد ہی حقیقت میں گلوبلائزیشن کے تمام زہروں کا اصل تریاق ہیں۔
ایسے افراد اور معاشروں کے نمودار ہونے کے لیے ایک عظیم اور سچ مچ کی تبدیلی لازمی ہے۔ یہ ایک طویل مدتی جدوجہد ہوگی تاہم اس کا آغاز ہمارے اپنے مذہب سے ہونا چاہیے۔ (مختلف مذہبی) اشکال‘ رسوم اور علامات کے بجائے انصاف‘ محبت اور ہمدردی کے جذبات کو، جو تمام مذاہب کی تعلیمات کا حصہ ہیں‘ خیر اور اچھائی کا محرک بننا چاہیے۔
مذہب کے لیے یہ ایک بڑی سازگار بات ہے کہ گلوبلائزیشن کے متعدد عناصر نے مذہب کے جامع اور محیط پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کو آسان بنا دیا ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہمیں یہ موقع ملا ہے کہ ہم تمام بنی نوع انسان تک اپنے اپنے مذہب کی کائناتی حقیقت کو پہنچا سکیں۔ تو پھر چند تنگ نظر اور تعصب زدہ لوگوں کو ذرائع ابلاغ پر قابض ہونے کا موقع دینے کے بجائے کیوں نہ سب مرد وزن ایک کائناتی زاویہ نگاہ سے عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کریں؟
یک مذہبی معاشروں کی جگہ اب کثیر مذہبی معاشرے نمو پذیر ہیں۔ گویا معاشرتی حقائق ہمیں اس پر مجبور کر رہے ہیں کہ ہم اپنے محدود رویوں سے نجات حاصل کر کے ایک ایسا کائناتی رخ اختیار کریں جس میں دوسروں کے ساتھ رواداری کا برتاؤ کیا جائے۔
دنیا کی اقوام کے سامنے غالباً یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر وہ متحد انسانیت پر مبنی ایک عالمی برادری کی تشکیل کی منزل تک پہنچ سکتی ہیں۔ مشہور صوفی جلال الدین رومیؒ نے جب یہ کہا کہ ’’چراغ تو مختلف ہوتے ہیں لیکن ان کی روشنی ایک جیسی ہوتی ہے‘‘ تو غالباً ان کی مراد یہی تھی۔یہ منزل محض گلوبلائزیشن کے ذریعے سے، (جس کے محرکات سراسر مادی اور اقتصادی ہیں)،حاصل نہیں کی جا سکتی۔
(ترجمہ: عمار ناصر۔ ماخذ: http://www.islamonline.net)

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے دروس قرآن کی اشاعت کا آغاز

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز برصغیر پاک وہند وبنگلہ دیش کو فرنگی استعمار سے آزادی دلانے کی جدوجہد میں گرفتار ہو کر مالٹا جزیرے میں تقریباً ساڑھے تین سال نظر بند رہے اور رہائی کے بعد جب دیوبند واپس پہنچے تو انہوں نے اپنے زندگی بھر کے تجربات اور جدوجہد کا نچوڑ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے نزدیک مسلمانوں کے ادبار وزوال کے دو بڑے اسباب ہیں۔ ایک قرآن پاک سے دوری اور دوسرا باہمی اختلافات وتنازعات، اس لیے امت مسلمہ کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کو عام کیا جائے اور مسلمانوں میں باہمی اتحاد ومفاہمت کو فروغ دینے کے لیے محنت کی جائے۔
حضرت شیخ الہندؒ کا یہ بڑھاپے اور ضعف کا زمانہ تھا اور اس کے بعد جلد ہی وہ دنیا سے رخصت ہو گئے مگر ان کے تلامذہ اور خوشہ چینوں نے اس نصیحت کو پلے باندھا اور قرآن کریم کی تعلیمات کو عام مسلمانوں تک پہنچانے کے لیے نئے جذبہ ولگن کے ساتھ مصروف عمل ہو گئے۔ اس سے قبل حکیم الامت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ اور ان کے عظیم المرتبت فرزندوں حضرت شاہ عبد العزیزؒ ، حضرت شاہ عبد القادرؒ اور حضرت شاہ رفیع الدینؒ نے قرآن کریم کے فارسی اور اردو میں تراجم اور تفسیریں لکھ کر اس خطہ کے مسلمانوں کو توجہ دلائی تھی کہ ان کا قرآن کریم کے ساتھ فہم وشعور کا تعلق قائم ہونا ضروری ہے اور اس کے بغیر وہ کفر وضلالت کے حملوں اور گمراہ کن افکار ونظریات کی یلغار سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتے جبکہ حضرت شیخ الہندؒ کے تلامذہ اور خوشہ چینوں کی یہ جدوجہد بھی اسی کا تسلسل تھی۔ بالخصوص پنجاب میں بدعات واوہام کے سراب کے پیچھے بھاگتے چلے جانے والے ضعیف العقیدہ مسلمانوں کو خرافات ورسوم کی دلدل سے نکال کر قرآن وسنت کی تعلیمات سے براہ راست روشناس کرانا بڑا کٹھن مرحلہ تھا لیکن اس کے لیے جن ارباب عزیمت نے عزم وہمت سے کام لیا اور کسی مخالفت اور طعن وتشنیع کی پروا کیے بغیر قرآن کریم کو عام لوگوں کی زبان میں ترجمہ وتفسیر کے ساتھ پیش کرنے کا سلسلہ شروع کیا، ان میں امام الموحدین حضرت مولانا حسین علی قدس اللہ سرہ العزیز آف واں بھچراں ضلع میانوالی، شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس اللہ سرہ العزیز اور حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی نور اللہ مرقدہ کے اسماء گرامی سرفہرست ہیں جنہوں نے اس دور میں علاقائی زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمہ وتفسیر سے عام مسلمانوں کو روشناس کرانے کی مہم شروع کی جب عام سطح پر اس کا تصور بھی موجود نہیں تھا مگر ان ارباب ہمت کے عزم واستقلال کا ثمرہ ہے کہ آج پنجاب کے طول وعرض میں قرآن کریم کے دروس کی محافل کو شمار کرنا بھی مشکل معلوم ہوتا ہے۔
اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کی ذات گرامی بھی ہے جنہوں نے ۱۹۴۳ء میں گکھڑ کی جامع مسجد بوہڑ والی میں صبح نماز کے بعد روزانہ درس قرآن کریم کا آغاز کیا اور جب تک صحت نے اجازت دی، کم وبیش پچپن برس تک اس سلسلہ کو پوری پابندی کے ساتھ جاری رکھا۔ انہیں حدیث میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی سے اور ترجمہ وتفسیر میں امام الموحدین حضرت مولانا حسین علی سے شرف تلمذ واجازت حاصل ہے اور انہی کے اسلوب وطرز پر انہوں نے زندگی بھر اپنے تلامذہ اور خوشہ چینوں کو قرآن وحدیث کے علوم وتعلیمات سے بہرہ ور کرنے کی مسلسل محنت کی ہے۔
حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کے درس قرآن کریم کے چار الگ الگ حلقے رہے ہیں۔ ایک درس بالکل عوامی سطح کا تھا جو صبح نماز فجر کے بعد مسجد میں ٹھیٹھ پنجابی زبان میں ہوتا تھا۔ دوسرا حلقہ گورنمنٹ نارمل سکول گکھڑ میں جدید تعلیم یافتہ حضرات کے لیے تھا جو سالہا سال جاری رہا۔ تیسرا حلقہ مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ میں متوسط اور منتہی درجہ کے طلبہ کے لیے ہوتا تھا اور دوسال میں مکمل ہوتا تھا۔ اور چوتھا مدرسہ نصرۃ العلوم میں ۷۶ء کے بعد شعبان اور رمضان کی تعطیلات کے دوران دورۂ تفسیر کی طرز پر تھا جو پچیس برس تک پابندی سے ہوتا رہا اور اس کا دورانیہ تقریباً ڈیڑھ ماہ ہوتا تھا۔ ان چاروں حلقہ ہائے دروس کا اپنا اپنا رنگ تھا اور ہر درس میں مخاطبین کی ذہنی سطح اور فہم کے لحاظ سے قرآنی علوم ومعارف کے موتی ان کے دامن قلب وذہن میں منتقل ہوتے چلے جاتے تھے۔ ان چاروں حلقہ ہائے درس میں جن علماء کرام، طلبہ، جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں اور عام مسلمانوں نے حضرت شیخ الحدیث مدظلہ سے براہ راست استفادہ کیا ہے، ان کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق چالیس ہزار سے زائد بنتی ہے۔ وذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء
ان میں عام لوگوں کے استفادہ کے لیے جامع مسجد گکھڑ والا درس قرآن کریم زیادہ تفصیلی اور عام فہم ہوتا تھا جس کے بارے میں متعدد حضرات نے خواہش کا اظہار کیا اور بعض مرتبہ عملی کوشش کا آغاز بھی ہوا کہ اسے قلم بند کر کے شائع کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے مستفید ہو سکیں لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ درس خالص پنجابی میں ہوتا تھا جو اگرچہ پورے کا پورا ٹیپ ریکارڈر کی مدد سے محفوظ ہو چکا ہے مگر اسے پنجابی سے اردو میں منتقل کرنا سب سے کٹھن مرحلہ ہے اس لیے بہت سی خواہشیں بلکہ کوششیں اس مرحلہ پر آکر دم توڑ گئیں۔
البتہ ہر کام کا قدرت کی طرف سے ایک وقت مقرر ہوتا ہے اور اس کی سعادت بھی قدرت خداوندی کی طرف سے طے شدہ ہوتی ہے اس لیے تاخیر در تاخیر کے بعد یہ صورت سامنے آئی کہ اب مولانا محمد نواز بلوچ فاضل مدرسہ نصرۃ العلوم اور برادرم محمد لقمان میر صاحب نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ہے اور تمام تر مشکلات کے باوجود اس کا آغاز بھی کر دیا ہے جس پر دونوں حضرات اور ان کے دیگر سب رفقا نہ صرف حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کے تلامذہ اور خوشہ چینوں بلکہ ہمارے پورے خاندان کی طرف سے بھی ہدیہ تشکر وتبریک کے مستحق ہیں۔ خدا کرے کہ وہ اس فرض کفایہ کی سعادت کو تکمیل تک پہنچا سکیں اور ان کی یہ مبارک سعی، قرآنی تعلیمات کے فروغ، حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کے افادات کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے اور ان گنت لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنے اور بارگاہ ایزدی میں قبولیت سے سرفراز ہو۔
یہاں ایک امر کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ یہ دروس کی کاپیاں ہیں اور درس وخطاب کا انداز تحریر سے مختلف ہوتا ہے اس لیے بعض جگہ تکرار نظر آئے گا جو درس وبیان کے لوازم میں سے ہے لہٰذا قارئین سے گزارش ہے کہ اس کو ملحوظ رکھا جائے۔ اس کے ساتھ ہی ان دروس کو ریکارڈنگ کے ذریعے سے محفوظ کرنے میں محمد اقبال آف دبئی اور محمد سرور منہاس آف گکھڑ کی مسلسل محنت کا تذکرہ بھی ضروری ہے جنہوں نے اس عظیم علمی ذخیرہ کو ریکارڈ کرنے کے لیے سالہا سال تک پابندی کے ساتھ خدمت سرانجام دی۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزاے خیر سے نوازے۔ آمین یا رب العالمین۔

محمد بن اسحاق المطلبیؒ ۔ شخصیت اور کردار کا علمی جائزہ

مولانا مفتی فدا محمد

محمد بن اسحاق رحمہ اللہ اسلامی لٹریچر میں اولین سیرت نگار ہونے کے لحاظ سے ایک ممتاز شخصیت کے مالک ہیں، لیکن ان کی ثقاہت کے بارے میں محدثین کے ہاں جتنا اختلاف پایا جاتا ہے، اتنا اختلاف شاید ہی کسی اور کے بارے میں پایا جاتا ہو۔ ذیل کی سطور میں اس اختلاف کے پس منظر اور ان پر کیے جانے والے اعتراضا ت کی مختصر وضاحت پیش کی جا رہی ہے:
ان کا سلسلہ نسب یوں ہے: ابو عبد اللہ محمد بن اسحاق المدنی القرشی مولیٰ قیس بن مخرمہ بن المطلب بن عبد مناف۔ ان کے جد امجد کانام ’یسار‘ ہے جو ’’عین التمر‘‘ کے قیدیوں میں سے تھے جسے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانہ خلافت میں ۱۲ ہجری میں مسلمانوں نے حضرت خالد بن ولیدؓ کی زیر قیادت فتح کیا ۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے عین التمر کے گرجا میں ابن اسحاق کے دادا کو ان بچوں میں پایا جو کسریٰ کے ہاں رہائش پذیر تھے۔ وہاں سے ان کو مدینہ لایا گیا۔
محمد بن اسحاق کی ولادت ۸۵ھ میں مدینہ میں ہوئی۔ کتب تاریخ میں اسی قول کو ترجیح دی گئی ہے، اگرچہ ۱۵۰ھ اور ۱۵۳ھ کے اقوال بھی موجود ہیں۔ ابن اسحاق نے جوانی مدینہ میں گزاری۔ انتہائی حسین وجمیل تھے اور خوبصورت بالوں، چہرے اور شاندار جوانی کے مالک تھے۔
ابن اسحاق نے مدینہ سے دوسرے شہروں کا رخ کیا۔ ان کا پہلے سفر کی آخری منزل اسکندریہ تھی۔ یہ ۱۱۵ھ کی بات ہے۔ وہاں انہوں مصر کے علما کی ایک جماعت سے روایت حدیث کی جن کے نام یہ ہیں: عبید اللہ بن المغیرہ، یزید بن حبیب، ثمامہ بن شفی، عبید اللہ بن ابی جعفر، قاسم بن قزمان، السکن بن ابی کریم۔ پھر ان کا سفر کوفہ، جزیرۃ الری اور الحیرہ بغداد کی طرف ہوا۔ بغداد میں گئے تو وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ یہاں ان کی ملاقات منصور سے ہوئی اور اس کے کہنے پر انہوں نے اس کے بیٹے المہدی کے لیے اپنی مشہور زمانہ سیرت کی کتاب لکھی۔ مدینہ میں صرف ابن سعدؒ ان کے شاگرد تھے جبکہ بغداد میں ان سے بہت سے لوگوں نے روایت حدیث کی۔ یہیں ان کا انتقال ہوا اور حیزران نامی قبرستان میں مدفون ہوئے۔
ابن اسحاق کے ثقہ یا غیر ثقہ ہونے کے بارے میں محدثین کے مابین شدید اختلاف ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ اور ہشام بن عروہؒ ان کے سخت مخالف ہیں اور ان کا شمار سرے سے محدثین میں ہی نہیں کرتے بلکہ انہیں کذاب اور دجال قرار دیتے ہیں۔ ان پر شیعہ اور قدری ہونے اور تدلیس کرنے کے الزامات بھی موجود ہیں۔ نیز یہ بھی کہ وہ غیر ثقہ راویوں سے روایات لیتے ہیں، انساب میں اکثر غلطی کرتے ہیں اور اپنی کتابوں میں اشعار گھسیڑتے ہیں۔ 
اس کے برخلاف ابن شہاب زہری جیسے محدث ان کی بڑی قدر کرتے تھے۔ علامہ شبلیؒ نے سیرت میں لکھا ہے کہ امام زہری کے دروازے پر دربان مقرر تھا تا کہ کوئی شخص بغیر اطلاع اندر نہ آئے لیکن محمد بن اسحاق کو عام اجازت تھی۔ (۱) اسی طرح شعبہ بن الحجاجؒ ، سفیان ثوریؒ اور زیاد البکائی ؒ ان کی توثیق کرتے ہیں۔ 
کہا جاتا ہے کہ امام مالکؒ اور محمد بن اسحاق کے درمیان ایک ذاتی رنجش تھی کیونکہ ابن اسحاق امام مالک کے نسب اور ان کے علم پر اعتراض کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے: ایتونی ببعض کتبہ حتی ابین عیوبہ انا بیطار کتبہ (۲) ’’میرے پاس ان کی کتابیں لاؤ۔ میں تمہیں ان کے عیوب سے مطلع کروں گا۔ میں ان کی کتابوں کا معالج ہوں۔‘‘ اس وجہ سے امام مالک انہیں دجال کہتے تھے۔ اسی طرح ہشام بن عبد الملک بھی ابن اسحاق سے ناراض تھے کیونکہ ابن اسحاق نے ہشام کی بیوی سے روایت نقل کی تھی اور ہشام کے ذہن میں یہ تھا کہ روایت بغیر رؤیت کے نہیں ہوتی، تو گویا ابن اسحاق نے میری بیوی کو دیکھا ہے اور اس بات کو وہ معیوب خیال کرتے تھے۔ شاید ہشام کے ذہن میں یہ بات نہ آئی کہ روایت پردے میں بھی ہو سکتی ہے یا ممکن ہے ابن اسحاق نے ان سے بچپن میں روایت لی ہو۔
ابن اسحاق پر باقی الزامات کی بھی خطیبؒ نے اپنی کتاب ’’تاریخ بغداد‘‘ میں اور ابن سید الناسؒ نے ’’عیون الاثر‘‘ میں تردید کی ہے۔ بہت سے ائمہ حدیث نے ان کی روایت کو قبول کیا ہے جیسا کہ امام بخاری، امام مسلم، امام ابو داؤد، امام نسائی، امام ترمذی اور امام ابن ماجہ رحمہم اللہ ۔ لہذا حافظ شمس الدین ذہبیؒ کا قول فیصل یہ ہے کہ محمد بن اسحاق رواۃ حسان میں سے ہیں اور مولانا انور شاہ کشمیریؒ نے اس قول کو معتدل ترین قرار دیا ہے۔ (۳)
ابن عدی رحمہ اللہ ابن اسحاق کے بارے میں فرماتے ہیں:
لو لم یکن لابن اسحاق من فضل الا انہ صرف الملوک عن الاشتغال بکتب لا یحصل منہا بشئی للاشتغال بمغازی رسول اللہ ﷺ ومبعثہ ومبتدا الخلق لکانت ہذہ فضیلۃ سبق بہا ابن اسحاق وقد فتشت احادیثہ الکثیرۃ فلم اجد ما تہیا ان یقطع علیہ بالضعف وربما اخطا واتہم فی الشئ بعد الشئ کما یخطئ غیرہ (۴)
’’ابن اسحاق کے لیے اگر اس کے سوا کوئی اور باعث فضیلت بات نہ ہو کہ انہوں نے بادشاہوں کی توجہ لا یعنی کتابوں سے ہٹا کر رسول اللہ ﷺ کی سیرت ومغازی اور آغاز تخلیق کی روایات کی طرف لگا دی تو ان کا یہ کارنامہ ہی ان کی فضیلت کے لیے کافی ہے۔ میں نے ان کی بہت سی روایات کی چھان بین کی ہے لیکن مجھے کوئی ایسی چیز نہیں ملی جس کی بنیاد پر انہیں قطعی طور پر ضعیف قرار دیا جائے۔ ہاں بعض جگہوں پر ان سے بھی دوسرے راویوں کی طرح چوک ہو جاتی ہے۔‘‘
سیرت النبی تصنیف کر کے ابن اسحاق نے آنے والے مورخین اور سیرت نگاروں کے لیے ایک راستہ ہموار کر دیا چنانچہ ابن ہشام اور سہیلی وغیرہ نے ان کے کام سے علمی استفادہ کر کے سیرت نگاری کو آگے بڑھایا۔ گویا ابن اسحاق سیرت نگاری کے امام ہیں جن کی ہم سری کا دعویٰ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ صاحب کشف الظنون لکھتے ہیں:
فابن اسحاق فی الحقیقۃ ہو عمدۃ المولفین الذین اشتغلوا بوضع السیرۃ بعدہ حتی یمکننا ان نقول ما من کتاب وضع فی السیرۃ بعد ابن اسحاق الا وہو غرفۃ من بحرہ ہذا اذا استثنینا رجلا او اثنین کالواقدی وابن سعد (۵)
’’سیرت نگاری کے فن میں ابن اسحاق ان تمام سیرت نگاروں کے لیے ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں جنہوں نے ان کے بعد سیرت نگاری کا کام کیا۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ واقدی اور ابن سعد کے استثنا کے ساتھ ابن اسحاق کے بعد سیرت پر جو بھی کتاب لکھی گئی، وہ انہی کے خوان علم سے ریزہ چینی کر کے لکھی گئی۔‘‘

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’سوانح قائد ملت حضرت مولانا مفتی محمودؒ‘‘

معروف صاحب قلم عالم دین مولانا عبد القیوم حقانی نے مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کے سوانح وخدمات کا ایک خوبصورت مجموعہ پیش کیا ہے جس میں حضرت مفتی صاحبؒ کی علمی وسیاسی خدمات اور مجاہدانہ کارناموں کا بھی دل نشین انداز میں ذکر کیا گیا ہے۔
خوب صورت ٹائٹل اور مضبوط جلد کے ساتھ مزین ۳۳۶ صفحات پر مشتمل یہ کتاب القاسم اکیڈمی، جامعہ ابو ہریرہؓ، خالق آباد، نوشہرہ نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۱۲۰ روپے ہے۔

مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ پر ’’القاسم‘‘ کی خصوصی اشاعت

مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی شخصیت اور خدمات کے حوالے سے ماہنامہ ’’القاسم‘‘ خالق آباد نوشہرہ نے اشاعت خاص کا اہتمام کیا ہے جو برصغیر کے نام ور اہل علم کی نگارشات وتاثرات پر مشتمل ہے۔
۵۶۰ صفحات کا یہ مجموعہ عمدہ طباعت، مضبوط جلد اور خوب صورت ٹائٹل کے ساتھ مزین ہے اور اس پر قیمت درج نہیں۔

’’قبر کی زندگی‘‘

مولانا نور محمد تونسوی قادری نے قبر کی زندگی اور برزخ کے حالات کے بارے میں اہل السنۃ والجماعۃ بالخصوص علماء دیوبند کے اس موقف کی دلائل کے ساتھ وضاحت کی ہے کہ قبر کا عذاب اور مرنے کے بعد عالم برزخ میں میت کے ساتھ روح کا تعلق ثابت ہے اور حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی حیات برزخی اس حوالے سے سب سے اعلیٰ وارفع ہے۔ مناظرانہ انداز کی یہ تحقیقی کتاب اس موضوع سے دل چسپی رکھنے والے حضرات کے لیے گراں قدر تحفہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
ساڑھے چھ سو کے لگ بھگ صفحات کی یہ مجلد کتاب انجمن خدام الاسلام باغبان پورہ لاہور نے شائع کی ہے جس کی قیمت ۲۴۰ روپے ہے اور اسے ظفر بک سنٹر، پاکستانی بازار، باغ بان پورہ، لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

’’ذوق بیاں‘‘

مجاہد ختم نبوت حضرت مولانا تاج محمود رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرزند وجانشین صاحب زادہ طارق محمود صاحب تحریر وتقریر دونوں میدانوں میں اپنے والد محترم کی خدمات وروایات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کی تحریروں اور خطبات کے متعدد مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ذوق بیاں‘‘ ان کے خطبات جمعہ کا دوسرا مجموعہ ہے جو ان کے مخصوص ذوق واسلوب کا آئینہ دار ہے اور اس میں مختلف عنوانات پر تیس خطبات شامل ہیں۔
۳۸۴ صفحات کی یہ مجلد کتاب مکتبہ لولاک، مرکزی جامع مسجد محمود ، ریلوے اسٹیشن فیصل آباد نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۱۷۵ روپے ہے۔

’’مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ ایک سیاسی مطالعہ‘‘

برصغیر پاک وہند وبنگلہ دیش کی برطانوی استعمار سے آزادی کی جدوجہد میں جن مجاہد علما نے نمایاں خدمات سرانجام دیں، ان میں جمعیۃ علماء ہند کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ بھی شامل ہیں۔ مجاہد عالم دین اور ممتاز پارلیمنٹیرین ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک محقق اور دانش ور بھی تھے۔ ان کی خدمات، سیاسی افکار اور جدوجہد پر محترم ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوری نے قلم اٹھایا ہے اور نئی نسل کو ایک حق گو اور مجاہد عالم دین کے کارناموں سے متعارف کرانے کی کام یاب کوشش کی ہے۔
پانچ سو سے زائد صفحات کی یہ مجلد کتاب جمعیۃ پبلی کیشنز، متصل مسجد پائلٹ سکول، وحدت روڈ لاہور نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۲۰۰ روپے ہے۔

’’جہاد اسلامی اور دور حاضر کی جنگ‘‘

برصغیر کے ممتاز عالم دین، محدث اور حق گو سیاسی راہ نما حضرت مولانا سید محمد میاں رحمہ اللہ تعالیٰ نے دور حاضر کی جنگوں اور اسلامی جہاد کے فلسفہ پر روشنی ڈالی ہے اور دونوں کے فرق کو واضح کرتے ہوئے امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فلسفہ وتعلیمات کی روشنی میں جہاد کے فلسفہ اور احکام کی وضاحت کی ہے۔
ایک سو سے زائد صفحات کی یہ مجلد کتاب بھی جمعیۃ پبلی کیشنز نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۵۰ روپے ہے۔

’’فتاویٰ مفتی محمودؒ جلد دوم‘‘

جمعیۃ پبلی کیشنز لاہور نے مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے فتاویٰ کو مرتب شکل میں شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے اور ’’فتاویٰ مفتی محمود‘‘کے نام سے ان کی پہلی جلد منظر عام پر آنے کے بعد اہل علم کے استفادہ کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ اب اس کی دوسری جلد سامنے آئی ہے جو امامت کے احکام ومسائل سے عیدین کے احکام تک کے ابواب پر مشتمل ہے اور ارباب علم وفتویٰ کے لیے گراں قدر تحفہ ہے۔
سوا پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس مجلد کتاب کی قیمت ۲۰۰ روپے ہے اور اسے مذکورہ بالا پتہ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب کے رسائل

جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور کے دار الافتا کے سربراہ ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب مختلف دینی موضوعات کے حوالے سے مفید مضامین تحریر کرتے رہتے ہیں۔ اس وقت ان کے تین رسائل ہمارے پیش نظر ہیں:
یہ رسائل جامعہ مدنیہ کریم پارک، راوی روڈ لاہور کے دار الافتا سے طلب کیے جا سکتے ہیں۔

مفتی محمد رضوان صاحب کے رسائل

ادارہ غفران چاہ سلطان راول پنڈی کے سربراہ مولانا مفتی محمد رضوان مختلف دینی عنوانات پر مفید عام کتابچے شائع کرتے رہتے ہیں جن میں زیادہ تر رسوم وبدعات اور غلط قسم کی معاشرتی روایات پر تبصرہ ہوتا ہے اور قرآن وسنت کی روشنی میں عوام کی راہ نمائی کی جاتی ہے۔ اس وقت مندرجہ ذیل رسائل ہمارے سامنے ہیں جو مندرجہ بالا پتہ سے حاصل کیے جا سکتے ہیں:
(۱) حج کی غلطیاں (۲) ماہ ربیع الاول کے فضائل واحکام (۳) ماہ ربیع الثانی کے فضائل واحکام (۴) پانی کا بحران اور اس کا حل (۵) زلزلہ اور اس سے حفاظت

بریگیڈیر (ر) قاری ڈاکٹر فیوض الرحمن کی تصانیف

بریگیڈیر (ر) قاری ڈاکٹر فیوض الرحمن مستند اور معروف عالم دین ہیں جنہوں نے شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ اور شیخ العلما حضرت مولانا بشیر احمد پسروریؒ جیسے بزرگوں سے خوشہ چینی کی ہے۔ وہ ایک عرصہ تک پاک فوج کے ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) میں شعبہ دینی تعلیمات کے انچارج رہے ہیں اور مختلف موضوعات پر تحریر وتصنیف کا سلسلہ بھی انہوں نے جاری رکھا ہے۔ اس وقت ان کی مندرجہ ذیل تصانیف ہمارے سامنے ہیں:

’’تیسیر المنطق‘‘

علم منطق پر حضرت مولانا عبد اللہ گنگوہیؒ کے معروف رسالہ ’’تیسیر المنطق‘‘ کو مولانا محمد سیف الرحمن قاسم نے تسہیل اور عام فہم مثالوں کے ساتھ مرتب کر کے شائع کیا ہے جو اس فن کی آسان تدریس کے لیے مفید ہے۔
صفحات ۸۸۔ ملنے کا پتہ: جامعۃ الطیبات، گلی نمبر ۴، محلہ کنور گڑھ، کالج روڈ، گوجرانوالہ

علماء دیوبند

مجاہد الحسینی

مرکز علم وہنر ہے سرزمین دیوبند
دین کی تعلیم کا جس پر ہوا جھنڈا بلند

جس جگہ کی تھی بشارت ہادئ عالم نے دی
ہو گیا قائم وہیں پہ مدرسہ دیوبند

گونجتی ہے اس جگہ حق وصداقت کی صدا
ہو رہے ہیں جس سے خوابیدہ مسلماں ہوش مند

وہ نشانی قاسمؒ ومحمودؒ وانور شاہؒ کی
نقش ہے جس کا دلوں پر یاد جس کی خامہ بند

حریت کا درس تھا ان حق پرستوں نے دیا
اس کی پاداش عمل میں تھی سزائے قید وبند

انسداد کفر وباطل جن کا مقصود حیات
وہ نفوس قدسیہ دارین میں ہیں فتح مند

شیخ مدنی، شیخ عثمانی ہیں ایسے پیشوا
جن کی تعلیمات سے ہم آج بھی ہیں بہرہ مند

امت خیر البشر ہو ایک پیکر میں اگر
ڈال سکتی یہ بھی ہے افلاک پر اپنی کمند

زہد وتقویٰ کے تھے پیکر حق پرستوں کے امام
ایسی شخصیات تو ہر دور کی ہیں ارجمند

ہے مجاہد کی دعا یہ رب کعبہ کے حضور
اسوۂ ختم الرسل کی ہو یہ امت کاربند


ستمبر ۲۰۰۲ء

دینی مدارس اور آج کے سوالاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ہندوستان اور پاکستان کے مشترکہ دشمنپروفیسر میاں انعام الرحمن
موجودہ نظام تعلیم کا ایک جائزہحافظ سید عزیز الرحمن
مطالعہ تاریخ کی اہمیت اور تقاضےڈاکٹر لائٹز
اسلامی تحریکات کا تنقیدی جائزہ (۴)ڈاکٹر یوسف القرضاوی
دینی جماعتیں اور انتخابی سیاستمولانا عبد الغفار حسن
وفاقی شرعی عدالت کے قیام کا پس منظر اور ضروریاتجسٹس (ر) تنزیل الرحمن
احیائے امت کے چند بنیادی تقاضےپروفیسر میاں انعام الرحمن
دار العلوم دیوبند اور دہشت گردیمولانا حبیب الرحمن قاسمی
الشریعہ اکادمی میں چالیس روزہ کورس کی اختتامی تقریبادارہ

دینی مدارس اور آج کے سوالات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۱۰۔ اگست ۲۰۰۲ء کو جامعہ اسلامیہ محمودیہ گلشن رحمان سرگودھا کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد سے مولانا زاہد الراشدی کا خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔یہ جلسہ ایک دینی درس گاہ کا سالانہ جلسہ ہے، دینی درس گاہ کی چار دیواری میں ہو رہا ہے اور اس کا موضوع بھی ’’عظمت مدارس دینیہ‘‘ تجویز کیا گیا ہے۔ اصل خطاب تو ہمارے مخدوم ومحترم بزرگ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم کا ہوگا۔ ان سے قبل برادر محترم مولانا اشرف علی کے حکم پر آپ کے سامنے حاضر ہوا ہوں اور دینی مدارس کی عظمت اور ان کی ضرورت واہمیت کے حوالے سے کچھ گزارشات آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ کچھ مقصد کی باتیں کہنے سننے کی توفیق دیں اور دین حق کی جو بات علم میں آئے، سمجھ میں آئے، اللہ تبارک وتعالیٰ اس پر عمل کی توفیق سے بھی نوازیں۔ آمین یا رب العالمین
کسی تمہید کے بغیر دینی مدارس کے حوالے سے عام طور پر ذہنوں میں پائے جانے والے تین سوالات کا جائزہ لینا چاہوں گا جو آج کی دنیا میں بہت زیادہ اہمیت اختیار کر چکے ہیں اور یقیناًآپ حضرات کے ذہنوں میں بھی یہ سوال کسی نہ کسی گوشے میں ضرور گھوم رہے ہوں گے۔
  1. پہلا سوال یہ ہے کہ دینی مدارس اپنے نصاب میں جدید علوم کو کیوں شامل نہیں کر رہے؟ انگریزی زبان، سائنس، ٹیکنالوجی اور دیگر جدید علوم کو اپنے نصاب کا حصہ کیوں نہیں بنا رہے؟ انہیں کیا شکایت ہے؟ کیا تکلیف ہے اور اس معاملے میں کیا رکاوٹ ہے؟
  2. دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر دینی مدارس سرکاری انتظامات کے تحت آجائیں اور حکومت ان کو چلانے کی ذمہ داری قبول کر لے تو انہیں کیا اشکال ہے؟ اور وہ اسے قبول کرنے کو کیوں تیار نہیں ہیں؟
  3. تیسرا سوال ہے کہ جس طرح آج کا عالمی نظام اور ورلڈ اسٹیبلشمنٹ اس بات پر تل گئی ہے کہ دینی مدارس کو کنٹرول کیا جائے، ان کے جداگانہ تشخص کو ختم کیا جائے اور معاشرہ میں ان کے آزادانہ کردار کو باقی نہ رہنے دیا جائے تو اگر خدانخواستہ یہ حملہ کام یاب ہو جاتا ہے اور یہ قوتیں دینی مدارس کو ختم کر دیتی ہیں تو دینی تعلیم کا مستقبل کیا ہوگا اور دینی مدارس کے ارباب حل وعقد کا آئندہ لائحہ عمل کیا ہوگا؟
یہ دینی مدارس کے بارے میں آج کی دنیا کے بڑے سوالات ہیں جو یقیناًاہم ہیں اور یقیناًآپ کے ذہنوں میں بھی ہوں گے اس لیے میں تھوڑے سے وقت میں ان کا جائزہ لینا چاہوں گا۔

(۱) دینی نصاب میں جدید علوم کی شمولیت

پہلا سوال یہ ہے کہ دینی مدارس اپنے نصاب میں جدید علوم کو، سائنس کو، ٹیکنالوجی کو اور دیگر ضروریات کو کیوں شامل نہیں کرتے؟ اس کے جواب میں تین باتیں عرض کروں گا۔
پہلی بات یہ کہ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی تشریف فرما ہیں جو اس امر کے گواہ ہیں کہ دینی مدارس کے تمام مکاتب فکر کے وفاقوں کے قائدین وفاقی وزرا کے ساتھ متعدد ملاقاتوں میں یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ انگریزی، سائنس اور ٹیکنالوجی وغیرہ کو بنیادی تعلیم کی جائز حد تک دینی مدارس کے نصاب میں شامل کرنے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے اور وہ میٹرک تک ان مضامین کو نصاب میں شامل کرنے کے لیے نہ صرف تیار ہیں بلکہ اس سلسلے میں بہت سے عملی اقدامات ہو چکے ہیں اور ان مضامین کو دینی مدارس کے نصاب میں شامل کیا جا چکا ہے لیکن اس کی جائز حد میٹرک تک ہے۔
دوسری بات یہ کہ میٹرک کے بعد اگلے مرحلے کی تعلیم میں ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کو دینی مدارس کے نصاب میں شامل کرنا ضروری نہیں سمجھتے بلکہ غلط تصور کرتے ہیں اس لیے اس کے لیے ہم تیار نہیں ہیں اس لیے کہ اس کے بعد تعلیم کے دائرے تقسیم ہو جاتے ہیں۔ میں آپ حضرات سے دریافت کرتا ہوں کہ کیا میڈیکل کالج کے نصاب میں قانون پڑھایا جاتا ہے؟ کسی لا کالج میں میڈیکل کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں؟ انجینئرنگ کالج میں طب کی تعلیم دی جاتی ہے؟ سرگودھا بڑا شہر ہے۔ یہاں میڈیکل کالج بھی ہوگا، لا کالج بھی ہوگا اور ٹیکنیکل کالج بھی ہوگا۔ آپ خود معلوم کر لیں اور جا کر دیکھیں کہ ان کالجوں میں دوسرے مضامین پڑھائے جاتے ہیں؟ یقیناًنہیں پڑھائے جاتے اور نہیں پڑھائے جا سکتے بلکہ میں یہ عرض کروں گا کہ یہ مطالبہ کرنا کہ میڈیکل کالج میں لا پڑھایا جائے، لا کالج میں انجینئرنگ پڑھائی جائے اور انجینئرنگ کالج میں میڈیسن کی تعلیم دی جائے، فطرت کے خلاف بات ہوگی اور حماقت کی بات ہوگی۔ اسی طرح ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس کے نصاب میں میٹرک کے بعد اگلے درجات میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے مضامین شامل کرنے کا مطالبہ بھی حماقت ہے اور کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے۔
تیسری بات ذرا تلخ سی ہے لیکن عرض کرنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ ایک اور حوالے سے اس مسئلے کا جائزہ لے لیں۔ کچھ عرصہ قبل پنجاب کی مقتدر ترین شخصیت لاہور کے ایک بڑے دینی مدرسے میں تشریف لے گئی۔ گورنر پنجاب جامعہ اشرفیہ میں تشریف لے گئے، طلبہ اور اساتذہ کے سامنے وعظ فرمایا اور وہاں یہ کہا کہ دینی مدارس اپنے نصاب میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو کیوں شامل نہیں کرتے؟ ہم اس میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور دینی مدارس کو اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ میں نے ایک مضمون میں اس کے جواب میں گورنر صاحب سے عرض کیا کہ مجھے آپ کی اس بات سے سو فی صد اتفاق ہے کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی میں باقی دنیا سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ ہم آج کی سائنس اور آج کی ٹیکنالوجی میں دنیا کی دوسری قوموں سے کم از کم سو برس پیچھے ہیں اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہم آج اسی بات کی مار کھا رہے ہیں۔
میں اس سے اگلی بات عرض کروں گا کہ اس محرومی کا احساس ہمیں زیادہ ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے آج ہم دنیا میں اپنے جائز مقام سے محروم ہیں اور ہمارے مصائب وآلام کی ایک بڑی وجہ یہ ہے۔ صرف ایک مثال سے بات سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ نے آج سے پون صدی یا ایک صدی قبل ہم مسلمانوں کو بہت بڑی دولت سے نوازا۔ خلیج میں تیل کی دولت دی۔ یہ ہمارا ادبار کا دور تھا، زوال کا دور تھا مگر اس دور میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے وقت کی سب سے بڑی دولت عطا فرمائی لیکن ہماری حالت یہ تھی کہ ہم تیل زمین سے نکالنے کی صلاحیت سے محروم تھے، چشمے کھودنے کی تکنیک سے بے بہرہ تھے، تیل نکال کر اسے ریفائن کرنے کی صلاحیت سے ہم کورے تھے اور تیل کو ریفائن کرنے کے بعد دنیا کی مارکیٹ میں بیچنے کے لیے مارکیٹنگ کی صلاحیت بھی ہم میں موجود نہیں تھی جس کی وجہ سے ہم مغربی ماہرین کو بلانے پر مجبور ہوئے۔ مغربی ماہرین آئے، پھر مغربی کمپنیاں آئیں، ان کے بعد بینک آئے، پھر سیاست کار آئے اور ان کے ساتھ مغرب کی فوجیں بھی آ گئیں جو آج تیل کے چشموں کا گھیرا ڈالے بیٹھی ہیں۔
ذرا خیال کیجیے کہ تیل ہمارا، چشمے ہمارے، کنویں ہمارے، زمین ہماری لیکن ان پر قبضہ کس کا ہے؟ اور کس وجہ سے ہے؟ یہ ہماری نااہلی تھی کہ ہم تیل نکالنے، صاف کرنے اور عالمی مارکیٹ میں اسے بیچنے کی صلاحیت سے محروم تھے جس کی وجہ سے مغرب سے ماہرین آئے اور آج ماہرین، کمپنیاں، بینک اور پھر فوجیں خلیج میں تسلط قائم کیے ہوئے ہیں۔ اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ تیل نکالنے، صاف کرنے اور مارکیٹنگ کی صلاحیت آج بھی ہم میں موجود نہیں ہے اور مغرب کے ارادے یہ ہیں کہ ابھی امریکی وزارت دفاع پینٹاگون میں یہ دھمکی دی گئی ہے کہ اگر سعودی عرب نے امریکی احکامات کی من وعن تابع داری نہ کی تو اس کے تیل کے چشموں پر قبضہ کر لیا جائے گا اور مغربی ملکوں میں اس کے اثاثے اور مغربی بینکوں میں اس کے اکاؤنٹس ضبط کر لیے جائیں گے۔
اس لیے ہمیں اس کی تکلیف زیادہ ہے اور ہم اس کا درد زیادہ محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟ اس پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کرنا چاہیے اور میں ہر اس شخص کو جس کے دل میں انصاف کی ایک رتی بھی موجود ہے اور ضمیر نام کی کوئی چیز وہ اپنے پاس رکھتا ہے، دعوت دیتا ہوں کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ اس بات کا جائزہ لے کہ امت کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں محرومی کا ذمہ دار کون ہے؟
میں تاریخ کے حوالے سے بات کروں گا۔ جب ۱۸۵۷ء کے بعد انگریز حکمرانوں نے ہمارا پورا نظام تلپٹ کر دیا تھا، دینی مدارس ختم کر دیے تھے، نظام تعلیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا اور ہر چیز الٹ پلٹ کر رکھ دی تھی تب دو طبقے سامنے آئے تھے اور انہوں نے ملت کو سہارا دیا تھا۔ دونوں نے الگ الگ شعبوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ علماء کرام نے قرآن وسنت کی تعلیم کو باقی رکھنے کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی اور اسلامی ثقافت اور تہذیب کے تحفظ کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے عوام سے تعاون کے لیے رجوع کیا، چندے مانگے، گھر گھر دستک دے کر روٹیاں مانگیں، زکوٰۃ وصدقہ کے لیے دست سوال دراز کیا اور سرکاری تعاون سے بے نیاز ہو کر عوامی تعاون کے ساتھ قرآن وسنت کی تعلیم کو باقی رکھنے اور اسلامی تہذیب وثقافت کے آثار کو بچانے کے لیے کردار ادا کیا۔ انہوں نے ایک ایک دروازے پر دستک دی، سر پر چنگیر رکھ کر گھر گھر سے روٹیاں مانگیں، ہاں ہاں میں نے خود روٹیاں مانگی ہیں، اور مجھے اس پر فخر ہے۔ میں نے اپنی طالب علمی کے دور میں گوجرانوالہ کے کئی محلوں میں سر پر چھابہ رکھ کر روٹیاں مانگی ہیں۔ ہم نے اپنی عزت نفس کی پروا نہیں کی، طعنے سنے ہیں، بے عزتی برداشت کی ہے لیکن قرآن وسنت کی تعلیم کو باقی رکھا ہے جس کی گواہی آج دشمن بھی دے رہا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایک اور طبقہ سامنے آیا جس نے قوم کو جدید علوم سے بہرہ ور کرنے کی ذمہ داری قبول کی، سائنس اور ٹیکنالوجی پڑھانے کا وعدہ کیا، انگریزی اور جدید زبانوں کی تعلیم اپنے ذمے لی۔ انہیں اس کام کے لیے ریاستی مشینری کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی اور انہوں نے قومی خزانے کے کھربوں روپے خرچ کر ڈالے۔ انہیں سرکاری وسائل میسر تھے، ریاستی پشت پناہی حاصل تھی لیکن وہ قوم کو سائنس اور ٹیکنالوجی میں آج کی قوموں کے برابر نہ لا سکے اور آج اپنی ناکامی کی ذمہ داری مولوی کے سرتھوپ کر اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں آج کی اجتماعی دانش سے سوال کرتا ہوں کہ وہ انصاف سے کام لے اور یہ فیصلہ کرے کہ نااہل کون ثابت ہوا اور اپنی ذمہ داری کس نے پوری نہیں کی؟ آج اگر ملک کے کسی گوشے میں دینی تعلیم کا انتظام نہیں ہے، قرآن وسنت کی راہ نمائی لوگوں کو میسر نہیں ہے اور اسلام کی آواز نہیں لگ رہی تو ہم مجرم ہیں لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی میں دوسری قوموں سے پیچھے رہنے کی ذمہ داری ہم پر نہ ڈالیے۔ یہ نا انصافی ہے، اس کے بارے میں ان سے پوچھیے جنہوں نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی اور اس کے لیے سرکاری خزانے کے کھربوں روپے اب تک انہوں نے خرچ کر ڈالے ہیں۔ 
میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کو مساجد میں نماز پڑھانے کے لیے امام میسر ہیں؟ قرآن کریم کی تعلیم کے لیے قاری مل رہے ہیں؟ رمضان میں قرآن سنانے کے لیے حافظ مل جاتے ہیں؟ جمعہ پڑھانے کے لیے خطیب موجود ہیں؟ مسئلہ بتانے والے مفتی صاحبان کی کمی تو نہیں؟ دینی راہ نمائی دینے کے لیے علماء کرام سے ملک کا کوئی گوشہ خالی تو نہیں؟ اس سے اگلی بات کہ میدان جنگ میں کفر کے خلاف صف آرا ہونے والے مجاہدین بھی ان مدارس سے آپ کو مل رہے ہیں یا نہیں؟ اگر یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو دینی مدارس پر اعتراض کس بات کا ہے؟
حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی آج ہی ایک محفل میں فرما رہے تھے کہ انہوں نے وفاقی وزرا سے کہا کہ سرکاری نصاب تعلیم اور نظام کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ میں کہتا ہوں کہ قومی کمیشن قائم کیجیے اور ہمیں اور سرکاری تعلیم کے ذمہ داروں کو اس کے سامنے پیش کیجیے۔ ساری حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اس لیے میں نے اپنے مضمون میں گورنر پنجاب سے عرض کیا تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے مجھے آپ کے ارشادات سے سوفی صد اتفاق ہے لیکن اس سلسلے میں باز پرس اور تلقین کی جگہ جامعہ اشرفیہ نہیں بلکہ پنجاب یونیورسٹی ہے۔ وہاں یہ وعظ کیجیے اور ان سے پوچھیے کہ قوم سائنس اور ٹیکنالوجی میں دنیا کی دوسری قوموں سے پیچھے کیوں رہ گئی ہے؟

(۲) دینی مدارس پر سرکاری کنٹرول

دوسرا سوال یہ تھا کہ دینی مدراس کو سرکاری انتظام قبول کرنے اور حکومت کے کنٹرول میں آنے پر کیا اعتراض ہے؟ اور وہ دینی مدارس کو حکومتی کنٹرول کے تحت چلانے کے لیے کیوں تیار نہیں ہیں؟
اس کے جواب میں عرض کروں گا کہ کسی فلسفیانہ بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف واقعات کے حوالے سے یہ عرض کرنا کافی ہوگا کہ ہم اس کا تجربہ کر چکے ہیں اور بہت پہلے کر چکے ہیں جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں ریاست بہاول پور پاکستان میں ضم ہوئی تو بہاول پور کا سب سے بڑا دینی مدرسہ جامعہ عباسیہ تھا جس کے بارے میں محکمہ تعلیم کے ذمہ داروں نے منصوبہ بنایا کہ اسے ’’ماڈل اسلامی یونیورسٹی‘‘ بنایا جائے گا۔ دینی علوم اور جدید تعلیم کے مضامین کو یکجا کر کے مشترکہ کورس تشکیل دیا گیا، جامعہ عباسیہ کو اسلامی یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا اور اس کا نظام محکمہ تعلیم نے سنبھال لیا۔اس کے لیے علامہ شمس الحق افغانی، علامہ سید احمد سعید کاظمی، مولانا عبد الرشید نعمانی اور دیگر سرکردہ علماء کرام کو ملک کے مختلف حصوں سے اٹھا کر بہاول پور یونیورسٹی میں بٹھایا گیا اور دنیا کو نوید دی گئی کہ ہم نے اسلامی اور جدید علوم کے امتزاج سے ایک آئیڈیل درس گاہ قائم کر دی ہے، ایک ’’ماڈل دار العلوم‘‘ بنا دیا ہے لیکن بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں اس کا حشر کیا ہوا؟ یہ ایک تلخ داستان ہے اور آج آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ آج بھی اس کا نام ’’اسلامی یونیورسٹی‘‘ ہے مگر دینی تعلیم اس کے نصاب سے خارج ہو چکی ہے۔ وہاں وہی سرکاری نصاب پڑھایا جاتا ہے جو ملک کی دیگر یونیورسٹیوں میں رائج ہے اور اس کے تعلیمی معیار کا حال یہ ہے کہ جس طالب علم کو ملک کے دوسرے کسی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ نہیں ملتا، اس کے لیے بہاول پور اسلامی یونیورسٹی کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔
دوسرا تجربہ محکمہ اوقاف نے کیا کہ اس نے ملک کے بیسیوں مدارس اپنی تحویل میں لیے اور کہا کہ ہم تم سے بہتر نظام چلائیں گے۔ تمہارے ہاں تعلیم کی درجہ بندی نہیں ہے، مدارس میں صفائی نہیں ہے، رہائش اور خوراک کا نظام بہتر نہیں ہے اور نظم ونسق کی صورت حال ٹھیک نہیں اس لیے محکمہ اوقاف ان مدارس کا تم سے بہتر انتظام کرے گا۔ ان میں سے صرف ایک مدرسہ کا حوالہ دینا چاہوں گا جسے آپ خود بھی کسی وقت جاکر دیکھ سکتے ہیں۔ اوکاڑہ کے گول چوک میں جامعہ عثمانیہ محکمہ اوقاف کی تحویل میں آنے سے قبل ملک کے بڑے دینی مدارس میں شمار ہوتا تھا۔ سینکڑوں طالب علم ہاسٹل میں رہتے تھے اور معیاری تعلیم ہوتی تھی مگر آج اس مدرسہ کے کمرے محکمہ اوقاف نے تجارتی کمپنیوں اور وکلا کو کرایے پر دے رکھے ہیں اور وقف کمروں کا کرایہ محکمہ اوقاف کھا رہا ہے۔
ایک مدرسہ کا حشر محکمہ تعلیم نے کیا، دوسرے کا محکمہ اوقاف نے اور آج یہ دونوں محکمے تقاضا کر رہے ہیں کہ ملک کے باقی مدارس بھی ان کے کنٹرول میں دے دیے جائیں۔ میں عرض کرتا ہوں کہ جناب! مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا اس لیے دوسرا تجربہ کرنے کے لیے ہم تیار نہیں ہیں۔ میرا سوال وفاقی وزیر تعلیم محترمہ زبیدہ جلال صاحبہ سے ہے کہ وہ جامعہ اسلامیہ بہاول پور کی فائل کا مطالعہ کریں۔ اس فائل کی گرد جھاڑیں اور قوم کو بتائیں کہ اس اچھی خاصی دینی درس گاہ کا محکمہ تعلیم نے کیا حشر کیا ہے اور کیوں کیا ہے؟ اس کے بعد باقی مدارس کے حوالے سے بات کریں۔

(۳) دینی مدارس اور ورلڈ اسٹیبلشمنٹ

تیسرا سوال میں نے گفتگو کے آغاز میں اٹھایا تھا کہ آج کی اسٹیبلشمنٹ دینی مدارس کو کنٹرول میں لینے پر تلی بیٹھی ہے۔ میں ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی بات نہیں کر رہا کہ وہ تو ایک چھوٹا سا یونٹ ہے بلکہ ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کی بات کر رہا ہوں جو آج عملاً دنیا کے نظام کو کنٹرول کر رہی ہے۔ اگر خدا نخواستہ وہ اپنے مقصد میں کام یاب ہو جاتی ہے اور دینی مدارس کے نظام کو تہہ وبالا کر دیتی ہے تو دینی تعلیم کا مستقبل کیا ہوگا؟ اور دینی مدارس والے پھر کیا کریں گے؟
اس کے جواب میں ایک تو سادہ سی بات ہے کہ جناب! منہ دھو رکھو۔ یہ کام آپ سے نہیں ہوگا۔ یہ آپ کے بس کی بات نہیں ہے۔ آج کے ورلڈ سسٹم کا لیڈر امریکہ بم بر سا سکتا ہے‘ ہزاروں انسانوں کو بے گناہ قتل کر سکتا ہے اور ڈیزی کٹر کی بارش کر سکتا ہے لیکن دینی تعلیم کو ختم کرنا اس کے بس میں نہیں ہے لیکن میں تاریخی حقائق کے حوالے سے بات کروں گا کہ اس سے پہلے بھی ایسا نہیں ہو سکا اور اب بھی ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔
ابھی حال ہی میں امریکہ کے وزیر خارجہ کولن پاول پاکستان آئے اور دورہ سے قبل وہیں سے یہ اعلان کر کے آئے کہ میں پاکستان کے معاشرے کو سیکولر بنانے کے ایجنڈے پر بات کرنے پاکستان جا رہا ہوں۔ میں نے ایک مضمون میں ان سے گزارش کی کہ جناب اس پر اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ اب سے دو سو برس پہلے برطانیہ بھی اس ایجنڈے پر جنوبی ایشیا میں آیا تھا۔ اس نے بھی مدارس کو بند کر دیا تھا‘ مدارس کی جائیدادیں ضبط کر لی تھیں‘ بلڈنگوں پر قبضہ کر لیا تھا‘ علماء کرام کی بڑی تعداد کو شہید کر دیا تھا‘ ہزاروں کو جیلوں میں ڈال دیا تھا‘ بہت سے علما کو کالا پانی بھیج دیا تھا‘ توپ کے منہ پر باندھ کر علما کے پرخچے اڑا دیے تھے‘ زندہ انسانوں کو درختوں سے لٹکا کر زندہ حالت میں ان کی کھالیں کھینچ لی تھیں۔ وہ تم سے بڑا درندہ تھا‘ تم سے بڑا بھیڑیا تھا‘ اس نے دو صدیوں تک اپنا پورا زور صرف کیا کہ جنوبی ایشیا کے مسلم معاشرے کو سیکولر بنا دے۔ ہاں‘ دو صدیاں‘ پوری دو صدیاں۔ ۱۷۵۷ء میں سراج الدولہ شہیدؒ کی شکست کے بعد سے ۱۹۴۷ء میں قیام پاکستان تک ایک سو نوے سال بنتے ہیں جن میں برطانوی حکومت نے پورا زور لگا دیا‘ جیلیں آباد کیں‘ پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا اور ظلم وجبر کا ہر حربہ آزمایا مگر میں سوال کرتا ہوں کہ کیا ان کارروائیوں سے ہم ختم ہو گئے؟ نہیں‘ ہم آج بھی موجود ہیں‘ زندہ ہیں اور نہ صرف زندہ ہیں بلکہ تمہارے سامنے کھڑے ہیں۔ یہ مدارس کل بھی زندہ تھے‘ آج بھی زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے۔ تم جو چاہو کر لو‘ ان مدارس کے آزادانہ کردار کو ختم نہیں کر سکتے اس لیے کہ ان مدارس میں قرآن وسنت کی تعلیم ہوتی ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود اٹھائی ہے اس لیے ہمارا ایمان ہے اور تاریخ وتجربہ اس پر گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی حفاظت بھی قیامت تک فرمائیں گے اور اس کی حفاظت کے ذرائع واسباب کی بھی حفاظت فرمائیں گے۔ اس لیے ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ آزمائش آئے گی‘ مشکل حالات پیدا ہوں گے اور جس طرح پہلے وقت گزر گیا ہے‘ اب بھی گزر جائے گا۔ قرآن وسنت کی تعلیم کا یہ نظام کل بھی تمام تر جبر وتشدد کے باوجود زندہ رہا ہے اور اب بھی ظلم وجبر کا کوئی وار دینی تعلیم کے اس تسلسل کو ختم کرنے میں کام یاب نہیں ہوگا۔
میں نے وقت زیادہ لے لیا ہے۔ حضرت مفتی صاحب نے ابھی خطاب کرنا ہے اس لیے میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

ہندوستان اور پاکستان کے مشترکہ دشمن

پروفیسر میاں انعام الرحمن

کہتے ہیں جب بہت بڑا خطرہ سامنے ہو تو دو شدید دشمن بھی، باہمی دشمنی بھلا کر اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ مثلاً سیلاب کے بہت بڑے ریلے میں بہتا ہوا درخت، سانپ، نیولے اور بندر وغیرہ کے لیے یکساں حفاظت کا سبب بن سکتا ہے۔ ایک دوسرے کے جانی دشمن مختلف جانور سیلاب تھمنے تک ایک دوسرے پر حملہ نہیں کرتے۔ بڑی حیرت کی بات ہے کہ برصغیر پاکستان وہند میں ایک نہیں کئی بڑے مشترکہ خطرات موجود ہیں مثلاً غربت، افلاس، پس ماندگی، مغربی ممالک کی اجارہ داری وغیرہ لیکن یہ دونوں ممالک مشترکہ مہیب خطرات کے باوجود ایک دوسرے پر غرا رہے ہیں۔ بھارت کا طرز عمل دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہم پر پھنکار رہا ہے۔ دونوں ممالک اگر ’’حیوانی جبلت‘‘ کی سطح پر ہوتے تو شاید مشترکہ خطرات کے پیش نظر پر امن رہتے لیکن شعور کی ’’انسانی‘‘ سطح نے باہمی عدم اعتماد کو فروغ دیتے ہوئے بہت سے خود ساختہ مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے بڑا عجیب سا لگ رہا ہے کہ برصغیر پاکستان وہند کے عوام کو جنگ سے محفوظ رکھنے کے لیے دونوں ممالک کے حکمرانوں کو کم از کم ’’حیوانی جبلت‘‘ کا ہی مظاہرہ کرنا چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ جب سرد جنگ کے دوران میں شمالی امریکہ اور سابق سوویت یونین ایک دوسرے سے تعاون کر سکتے ہیں اور لاطینی امریکہ میں دو بنیادی حریف ممالک برازیل اور ارجنٹائن اس حد تک متفق ہو سکتے ہیں کہ دونوں ایٹمی دوڑ شروع نہیں کریں گے، خاص طور پر اس تناظر میں کہ برازیل شمالی امریکہ سے بڑا رقبہ رکھتا ہے اور قدرتی دولت سے مالا مال ہے۔ اس ملک کی فی کس آمدنی بھارت اور پاکستان دونوں سے بہت زیادہ ہے ۔ یہ ملک ایٹمی مہم جوئی کا آغاز کر سکتا تھا اور جواباً ارجنٹائن کو بھی لازماً ایسا ہی کرنا پڑتا لیکن دونوں ممالک نے مذاکرات کے ذریعے سے اس امر پر اتفاق کیا کہ عوام کی خوش حالی کے لیے ملکی وسائل معاشی ترقی کے لیے وقف کر دینے چاہییں۔ اسی طرح بھارت پاکستان کی نسبت ایک بڑا ملک ہے، اسے بھی برازیل کی طرح ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے لیکن دن بدن بھارتی رویہ غیر معقول ہوتا جا رہا ہے جس سے جنوبی ایشیا غیر یقینی صورت حال کا سامنا کر رہا ہے۔
توازن طاقت کی گیم میں بھارت پاکستان کو اپنے برابر نہیں سمجھتا۔ اس خطے کے اندر اس کی نظریں چین پر مرکوز ہیں۔ مغربی ممالک کے ساتھ چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات نے تجارتی اور ٹیکنالوجیکل تبادلوں کو فروغ دیا ہے جس سے دنیا کے معاملات میں چین کو Visible اور assertive A رول ملتا معلوم ہوتا ہے۔ اندریں صورت بھارت ہاتھ پاؤں ما ررہا ہے۔ گاندھی اور نہرو کے آئیڈیل ازم کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ مغربی ممالک کے حاشیہ بردار بن کر بھارتی عزائم عالمی نوعیت کے ہوتے جا رہے ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے جاری بھارتی رویے کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ تو اندرونی تحفظات کی خاطر اور کچھ استعماری مقاصد کی خاطر بھارت علاقائی کے بجائے گلوبل لیڈر شپ چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی ایٹمی آبدوز تقریباً تیار کر لی گئی ہے جس کے لیے روس نے بھرپور تعاون کیا۔ ماہرین کی رائے ہے کہ اس آبدوز کو ایس ایل بی ایم (Sagarika Sea-launched ballistic missile)سے مسلح کیا جائے گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق sagarika کی تیاری میں بھی روس بھارت کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ اس میزائل کی رینج تقریباً تین سو کلو میٹر بتائی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارت اس ایٹمی آبدوز کے بل بوتے پر تجارتی راستوں کا ’’جگا‘‘ بن سکتا ہے کیونکہ یورپ، مشرق بعید اور مشرق وسطیٰ کے تجارتی راستے اس کے نشانے پر ہوں گے جن پرجاپان اور آسیان ممالک کی معیشتوں کا انحصار ہے۔ بھارتی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ امریکہ سے جنگی مشقوں کے باوجود کیا وہ امریکی مفادات کے خلاف کام کر سکیں گے؟ مشرق وسطیٰ اور جاپان میں کسی بھی قسم کی معاشی مہم جوئی سے امریکی مفادات براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ آسیان میں بے حد اہم سمندری راستوں کی موجودگی کے سبب کیا چین سکوت حکیمانہ ہی اختیار کرے گا؟ آنے والے دنوں میں برتری کا دعویٰ geo-economic بنیاد پر ہوگا نہ کہ geo-political بنیاد پر۔
ایٹمی قوت کو طاقت کی کرنسی قرار دینے والے ملک کو اس امر کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ طاقت ہر مسئلے کا حل نہیں ہے ورنہ سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوتا۔ بھارت کے اندر شدت سے اٹھتا ہوا ہندو انتہا پسندی کا ریلا ایٹمی قوت کو پاتال میں دھکیل سکتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف بڑھتا ہوا ظلم وستم اور ہندو انتہا پسند تحریکات کا احیا بھارت کے مستقبل کی بابت منفی تصویر پیش کرتا ہے۔ مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ان کے مذہبی مقامات کا تقدس مجروح کیا جارہا ہے۔ 
آج کا بھارت بیسویں صدی کے تیسرے عشرے کی بازگشت ہے اور ہندو انتہا پسندوں کے بیانات صدائے بازگشت۔ اگر ہندوؤں کا یہی رویہ جاری رہا تو ۱۹۴۷ء کی طرح ۲۰۴۷ء سے پہلے ہی ایک اورپاکستان بھارت کی کوکھ سے جنم لے گا۔ بھارتیوں کے عالمی قوت بننے کے خواب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، پاکستان نے ایٹمی قوت بننے کے بعد ہمیشہ ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کیا ہے۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بھی بھارت کی وجہ سے بننا پڑا۔ بھارت نے برازیل جیسا طرز عمل اختیار نہیں کیا۔ ہندوؤں کا وہ ہندوستان جو کبھی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم تھا اور تہذیبی اور اخلاقی پس ماندگی کا شکار تھا، مسلمانوں کے آنے سے نہ صرف وحدت آشنا ہوا بلکہ انسانیت سے بھی متعارف ہوا۔ وہ آج روس اور مغربی ممالک سے قربت کی پینگیں بڑھانے کی بدولت طاقت کی کرنسی رکھتا ہے لیکن اس کی قدیم نفسیات لوٹ آئی ہے۔ بھارت کا ایٹمی قوت بن کر خود کشی پرمبنی پالیسیاں اختیار کرنا اس محاورے کی صداقت کو مزید روشن کر دیتا ہے کہ ’’خدا گنجے کو ناخن نہ دے‘‘ بہتر یہی ہے کہ بھارت عالمی طاقت بننے کے بجائے خطے کے دوسرے ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے اپنے عوام کی خوش حالی کے لیے معاشی پروگرام تشکیل دے۔

موجودہ نظام تعلیم کا ایک جائزہ

حافظ سید عزیز الرحمن

ہمارا موجودہ نظام تعلیم مختلف جہتیں رکھتا ہے لیکن اس کے دو پہلو نمایاں ہیں: ۱۔ دینی تعلیم ، ۲۔ عصری تعلیم جس میں عصری علوم وفنون کے تمام ادارے شامل ہیں۔ ذیل میں ان کی خصوصیات ونقائص کا مختصر جائزہ لیا جا رہا ہے۔

دینی تعلیم

۱۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی دینی مدارس میں اسلامیات کا جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے، یونیورسٹی میں ایم اے کی سطح پر پڑھایا جانے والا نصاب اس کا صرف ایک حصہ ہے۔ 
۲۔ دینی مدارس میں آج کے گئے گزرے دور میں بھی استاد وشاگرد کے باہمی تعلق واحترام کی روایت موجود ہے۔
۳۔ ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اسکول وکالج کے مقابلے میں ان مدارس کے اخراجات بہت کم ہیں۔ تناسب کے اعتبار سے ان کا خرچ دس فی صد بھی نہیں جبکہ خواندگی میں اضافے کے ضمن میں ان کی خدمات مثالی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں دینی مدارس کی تعداد ۳ ہزار سے زائد ہے جن میں کئی لاکھ طلباتعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ( روزنامہ جنگ، کراچی/ ۲۳۔ اگست ۲۰۰۱ء)
۴۔ وسائل کی عدم فراہمی کے سبب یہ مدارس جدید سہولتوں سے محروم ہیں۔ ان کے طلبا کو جدید وسیع لائبریری اور کمپیوٹر جیسی بنیادی سہولتیں حاصل نہیں۔
۵۔ دینی جامعات کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ انہوں نے دینی روایات وخصوصیات کو غیر اسلامی تہذیبی وفکری روایات واثرات سے محفوظ رکھا ہے اور اصلاح احوال کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
۶۔ ملک وبیرون ملک میں دینی ضرورتوں کو ایک حد تک پورا کر رہے ہیں۔
۷۔ نصاب میں چند تبدیلیاں ناگزیر ہیں جو آئندہ سطور میں تجاویز کے ضمن میں درج ہیں۔ ان کی وجہ سے ان کی فعالیت متاثر ہو رہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دینی جامعات کے اکثر طلبا کا مطمح نظر روزگار نہیں ہے بلکہ تعلیم سے رضائے الٰہی وخدمت دین مقصود ہے جو مادیت پرستی کے اس طوفان میں اہم بات ہے۔

عصری تعلیم

۱۔ اساتذہ وطلبا دونوں میں بعد وفاصلہ بڑھ رہا ہے جس کا اہم سبب اساتذہ کی قابلیت میں کمی اور ٹیوشن کی روایت ہے۔
۲۔ انگریزی کو وجہ فضیلت سمجھ لیا گیا ہے جس کی وجہ سے نہ انگریزی صحیح طرح آ پاتی ہے نہ علم پر ہی قدرت ہوتی ہے۔
۳۔ بعض علوم وفنون میں کچھ اداروں نے اپنا وجود بیرون ملک بھی منوا لیا ہے۔ یہ بڑی کام یابی ہے۔
۴۔ بہت سے شعبوں میں پاکستانی ماہرین بیرونی دنیا میں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔
۵۔ پرائیویٹ اسکول وکالج طبقاتی تقسیم پیدا کر رہے ہیں۔
۶۔ ابتدائی تعلیم سے میٹرک تک پرائیویٹ اسکولوں میں نصاب درآمد شدہ ہے جو ہماری مذہبی، تہذیبی واخلاقی روایات سے یکسر مختلف بلکہ ان سے متضاد ہے۔ فکری اعتبار سے یہ ایک خطرناک صورت حال ہے۔
۷۔ مشنری تعلیمی اداروں میں ہمارے ہاں خوب داخلوں کا رجحان ہے جس کا سبب ان کی انتظامی خصوصیات ہیں مگر ان میں عیسائیت وغیرہ کی تعلیم ہو رہی ہے۔
۸۔ عربی وفارسی زبانوں سے بے توجہی برتی جا رہی ہے حالانکہ ہمارے زبان وادب کا ایک بہت وقیع سرمایہ ان میں موجود ہے۔
۹۔ امتحانات کا نظام مکمل طور پر اصلاح طلب ہے۔ اس میں وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور معیار جانچنے میں بھی خطا کا امکان بہت ہے۔
ان امور کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ صورت حال خوش کن نہیں ہے اور ہمیں زیادہ توجہ سے اپنے تعلیمی امور کا جائزہ لینا ہوگا۔

عمومی تجاویز برائے نصاب و نظام تعلیم

ذیل میں نئے اسلامی نظام کی تشکیل کے لیے تجاویز تحریر کی جاتی ہیں۔ یہ تجاویز دو طرح کی ہیں۔ بعض کا تعلق تو اس صورت سے ہے جب کہ ایک مشترکہ نظام قائم ہوگا جبکہ باقی تجاویز اس صورت کے لیے ہیں جبکہ اس موجودہ صورت حال کو برقرار رکھ کر ان میں اصلاح احوال کی کوشش کی جائے۔ ان تجاویز کا مطالعہ اسی تناظر میں کیا جائے۔
۱۔ آج کی ضرورت کے تمام مضامین مثلاً جدید فلسفہ، سائنس کے اہم اصول ومبادیات وغیرہ اردو زبان میں منتقل کر کے پڑھائے جائیں تاکہ وقت کم صرف ہو۔
۲۔ دینی مدارس میں مختلف مضامین میں تخصص کے شعبے قائم کیے جائیں مثلاً ۱۔ دعوت، ۲۔ سیرت، ۳۔ تقابل ادیان، ۴۔ علوم حدیث، ۵۔ فلسفہ جدید، ۶۔ اسلامی معاشیات وغیرہ۔
۳۔ ہر سطح پر تعلیمی نظام مکمل طور پر غیر مخلوط ہو، طلبا وطالبات کے لیے ہر دو کی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے الگ نصاب اور الگ تعلیمی اداروں کا انتظام کیا جائے۔
۴۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے طلبا کو باہر جانا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں ایک طرف اہم افرادی قوت اور اچھے ذہن باہر منتقل ہو رہے ہیں، دوسری طرف غیر مسلم معاشرے کے برے اور غلط مذہبی واخلاقی اثرات سے نئے ذہن متاثر ہو رہے ہیں۔ اس کا سدباب بہت ضروری ہے۔
۵۔ تمام تعلیمی اداروں اور درجات ومراحل کا ایک نصاب اور ایک ذریعہ ہی تعلیم ’اردو‘ ہو۔ اردو کو خاص اہمیت دی جائے اور اس کے بارے میں احساس کمتری کو ترک کیا جائے۔
۶۔ تمام عصری علوم بشمول سائنس، معاشیات، سیاسیات، فلسفہ وغیرہ کی تشکیل نو کی جائے، ان کے غیر اسلامی تصورات وافکار کو رد کیاجائے اور اسلامی تصور وموقف کو نمایاں مقام دیا جائے تاکہ ان علوم میں دانستہ شامل کیے جانے والے لادینیت کے اثرات زائل کیے جا سکیں۔
۷۔ جب تک مشترکہ نظام تعلیم قائم نہیں ہوگا، اس وقت تک دینی مدارس کو ان مضامین کا اضافہ کرنا ہوگا: 
(۱) جدید علم کلام ، جس میں بدھ مت، ہندو مت، سکھ مت نیز عیسائیت ویہودیت اور جدید غیر مسلم تحریکوں مثلاً سائنٹزم ولا دینیت وغیرہ پر بنیادی معلومات ہوں۔ (۲) اسلامی معاشیات (۳) تاریخ وسیرت (۴) انگلش کم از کم بی اے کی سطح کی۔ نیز ائمہ، خطبااور اساتذہ کے لیے خصوصی تربیتی کورسز کا انعقاد کیا جائے۔
۸۔ درس نظامی کی تکمیل کی سند شہادۃ العالمیۃ کو غیر مشروط طور پر ایم اے کے مساوی عملی طور پر تسلیم کیا جائے اور اسے وہی حیثیت دی جائے جو ایم اے کو حاصل ہے۔
۹۔ مشنری تعلیمی اداروں میں صرف غیر مسلم طلبا کو داخل ہونے کی اجازت ہو۔ مسلمان طلبا کے لیے پابندی عائد کی جائے۔

مثالی اسلامی نظام تعلیم کے لیے عملی خاکہ

یہ مختصر خاکہ ہے۔ اس کے مطابق نصاب تیار کرنے کے لیے ماہرین کی کمیٹی کا قیام ضروری ہوگا۔ یہ نظام چھ مرحلوں میں تقسیم ہوگا:
ا۔ پہلا مرحلہ پرائمری تک ہوگا۔ اس میں اردو تحریر، ناظرہ قرآن، نماز، مختصر عقائد، ابتدائی ریاضی، اور چوتھی وپانچویں جماعت میں انگریزی کے ابتدائی اسباق ہوں گے۔ نرسری، کے جی، انگلش میڈیم اسکولوں کا نصاب سب ختم ہوگا۔ ناظرہ قرآن کریم کے لیے الگ وقت مقرر ہوگا۔
ب۔ یہ مڈل کا مرحلہ ہوگا۔ اس میں چھٹی تا آٹھویں جماعت شامل ہوگی۔ اس درجے میں انگریزی، اسلامیات، معاشرتی علوم، ابتدائی سائنس، ریاضی کے ساتھ ساتھ عربی صرف ونحو اور فارسی کے ابتدائی اسباق بھی شامل ہوں گے۔ نیز آخری پارے کا صرف ترجمہ تینوں سالوں میں مکمل کرایا جائے گا۔
ج۔ یہ میٹرک پر مشتمل ہوگا۔ اس مرحلے میں چار گروپ قائم ہوں گے: ۱۔ درس نظامی، ۲۔ آرٹس، ۳۔ کامرس، ۴۔ سائنس۔ اس میں اسلامیات، عربی وانگلش، تاریخ کے اسباق لازمی ہوں گے۔ صرف سائنس اور کامرس والوں کے لیے ان کے اپنے اسباق پر زیادہ توجہ ہوگی۔ اس کے مقابلے میں درس نظامی والوں کے ہاں ان سالوں میں تفسیر، حدیث، فقہ وغیرہ پر زیادہ وقت صرف ہوگا۔ (ثانویہ عالیہ کا عمومی نصاب ہوگا) اسی طرح آرٹس والے اپنے شعبے کے چند ضروری اسباق پر توجہ دیں گے۔ زیادہ تر نصاب لازمی اور سب کے لیے مساوی ہوگا۔
د۔ یہ انٹرمیڈیٹ کا مرحلہ ہوگا۔ اس سطح پر بھی وہی چار گروپ قائم رہیں گے اور وہی بنیادی نظریہ پیش نظر رہے گا جو میٹرک کی سطح پر تھا۔
ہ۔ یہ اعلیٰ تعلیم کا مرحلہ ہوگا۔ اب اسلامیات واردو کے لازمی مضمون کے علاوہ چاروں گروپوں کے اسباق علیحدہ ہو جائیں گے۔ نیز قانون وزراعت وغیرہ کی اعلیٰ تعلیم کا آغاز بھی یہیں سے ہوگا۔ اس کے تحت: ۱۔ میڈیکل کی پانچ سالہ تعلیم ہوگی، ۲۔ انجینئرنگ وقانون کی چار سالہ تعلیم ہوگی اور ان میں سائنس کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر خصوصیت کے ساتھ پڑھایا جائے گا اور قانون کے لیے عربی اور اسلامی فقہ لازمی مضمون ہوں گے، ۳۔ درس نظامی مزید پانچ سالہ ہوگا جن میں دورۂ حدیث ۲ سالہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈگری اور بی اے کے امتحانات ختم ہوں گے۔ منشی فاضل اور عربی فاضل وغیرہ بھی سب ختم ہوں گے۔
و۔ آخری مرحلہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کا ہوگا، اس میں تمام متخصصین تیار ہوں گے۔
عام تعلیمی اداروں کے تعلیمی نظام کی جب تک انقلابی تبدیلیوں کے بعد قلب ماہیت نہیں ہو جاتی اور ان کا نظام مکمل طور پر تبدیل نہیں ہو جاتا، اس وقت تک عالمی تعلیمی کانفرنس منعقدہ مکہ مکرمہ (۳۱ مارچ ۱۹۷۷ء) کی سفارش کے مطابق دینی تعلیم کے مراکز کو علیٰ حالہا قائم رکھ کر ان کی مکمل حفاظت کا انتظام کیاجائے اور ان کی آزادی کی ضمانت فراہم کی جائے۔ (محمد تقی عثمانی/ ہمارا تعلیمی نظام/ مکتبہ دار العلوم، کراچی، ۱۴۱۵ھ/ ص ۱۴۸) 
امید ہے کہ ان تجاویز پر ان کی روح کے مطابق اگر عمل کر لیا جائے تو ان شاء اللہ ہمارا نظام تعلیم مثالی بھی ثابت ہوگا اور اسلامی بھی اور ہمارے متعین کردہ اہداف پورے کرنے میں معین ومددگار ہوگا۔ 

مطالعہ تاریخ کی اہمیت اور تقاضے

ڈاکٹر لائٹز

(کچھ عرصہ قبل ایک دینی مدرسہ میں طلبہ کا امتحان لیتے ہوئے ایک منتہی طالب علم سے میں نے سوال کیا کہ خلافت راشدہ کے جس تیس سالہ دور کا حدیث نبوی میں تذکرہ کیا گیا ہے‘ اس کی واقعاتی تفصیل کیا ہے اور حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے کتنا کتنا عرصہ حکومت کی ہے؟ وہ طالب علم اس سوال کا جواب نہ دے سکا جس کا مجھے بے حد دکھ ہوا اور ہمارے دینی مدارس کے نصاب میں تاریخ عالم، تاریخ اسلام حتیٰ کہ سیرت نبوی اور سیرت خلفائے راشدین تک کے بارے میں پائی جانے والی بے اعتنائی اور عدم توجہ کا احساس مزید گہرا اور کرب انگیز ہوتا گیا۔گزشتہ روز ایک دوست کے پاس انجمن حمایت اسلام لاہور کی شائع کردہ ’’سنین الاسلام‘‘ دیکھنے کا موقع ملا جو مشہور انگریز مستشرق ڈاکٹر لائٹنر نے اب سے کوئی سوا سو برس قبل لکھی تھی تو اس کے دیباچے نے اس کرب اور احساس کو پھر سے تازہ کر دیا۔ ڈاکٹر لائٹنر ۱۸۵۷ء کے بعد برصغیر پاک وہند میں تعلیمی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے یہ کتاب اردو میں لکھی ہے۔ اس میں تاریخ اسلام کا مرحلہ وار خلاصہ ترتیب کے ساتھ بیان کیا ہے اور دیباچے میں یہی شکایت کی ہے کہ ہمارے علماء کرام تاریخ بالخصوص عرب دنیا اور خلفائے اسلام کی تاریخ سے عام طور پر بے بہرہ ہوتے ہیں اس لیے ان کے فائدہ کی خاطر یہ کتاب لکھی گئی ہے۔ ان کا لہجہ اور انداز بیان یقیناًبہت سے دوستوں کو نامانوس محسوس ہوگا مگر اس کے باوجود صرف یہ احساس دلانے کے لیے یہ مضمون شائع کیا جا رہا ہے کہ آج کے دور میں تاریخ کے مطالعہ کی اہمیت کیا ہے اور اردو زبان میں اس کے مواد کی فراہمی کے ضروری تقاضے کیا ہیں؟ رئیس التحریر)

گزشتہ جولائی میں، میں نے کچھ مولویوں کا عربی میں امتحان لیا تھا جو پنجاب یونیورسٹی کالج میں وظائف کے امیدوار تھے۔ میں نے دیکھا کہ دوسرے علاقوں کی طرح پنجاب میں بھی بعض مولوی جہاں لفظی ترجمہ اور قواعد کی تفصیلات میں اتنی گہرائی تک پہنچتے ہیں کہ جسے یورپ کے مستشرق بہت کم وقعت دیتے ہیں، وہاں سب کے سب عرب کی تاریخ وادب کے اہم حقائق سے کم وبیش بے خبر ہیں۔ ان کی تعلیم میں اس خامی کو دور کرنے کے لیے میں نے پہلے تواریخ عرب کا ایک سن وار نقشہ مرتب کیا اور پھر ایک اور خاکہ عربی ادب کے متعلق تیار کیا لیکن میرا یہ طریق عمل تاریخ عالم کی ایک اہم شاخ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور غیر فلسفیانہ طریقے پر پیش کرنے کے مترادف تھا۔ حقیقت میں مولویوں کو یہ بتانا ضروری تھا کہ عرب کی تاریخ بہ قید سنین اور اس کے واقعات پورے تطابق زمانی کے ساتھ قلم بند موجود ہیں، جسے وہ کسی طرح بھی زمانہ افسانہ واساطیر کے سپرد نہیں کر سکتے، چاہے یہ من گھڑت افسانے اور اساطیر زمانہ عتیق ونامعلوم کے لیے جذبات عزت واحترام کو تحریک دینے میں کتنے ہی ممد ومعاون ہوں۔ انہیں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ عربی ادب صرف قرآن کی تفاسیر، چند رسائل قانون، مناظرانہ نظموں یا صرف ونحو کی کتابوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اس میں علوم ریاضی، تواریخ اور طب وغیرہ پر تصانیف کی ایک کثیر تعداد بھی موجود ہے۔ اس کے باوجود میرے ان خاکوں کا اصل مقصد پورا نہیں ہو سکتا اگر مولوی کو یہ یقین نہ دلایا جائے کہ اس کے ملک، مذہب اور ادب کی تاریخ نوع انسان کے فکر وعمل کی عالمگیر تاریخ کا صرف ایک جزو ہے۔ چنانچہ میں یہ بیان کرنے کے لیے مضطرب تھا کہ عرب کی تاریخ اسلام کی صورت میں کیونکر جلوہ گر ہوئی اور اس کے ادب نے مختلف ممالک کے باشندوں کو جو اس مسلک کے پیرو تھے، کس حد تک متاثرکیا۔ میں نے یہ بات واضح کرنے کی کوشش بھی کی ہے کہ تہذیب وتمدن کی عالمگیر تاریخ میں تاریخ اسلام کو کیا مقام حاصل ہے۔ موجودہ رسالہ میری اس سعی وکوشش کا نتیجہ ہے۔
مجھے اس امر کا پورا احساس ہے کہ اس کتاب کو کوئی خاص ادبی حیثیت حاصل نہیں لیکن اگر اسے پڑھ کر کسی مولوی کے دل میں اپنے یا دوسرے ممالک کی تاریخ وادب کے اہم واقعات کا مطالعہ کرنے کا شوق پیدا ہو جائے، جنہیں میں نے نہایت اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے، یا ان کے متعلق مزید معلومات حاصل کرنا چاہے اور ان کا مطالعہ ناقدانہ نظر سے کرے تو میرا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ مجھے یہ بھی امید ہے کہ شاید یہ کتاب دیکھ کر قابل تر مصنفین کو اسی قسم کے مفید موضوعات پر اردو میں کتابیں لکھنے کی ترغیب بھی ہو۔ .......
اس موقع پر میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ سائنس اور ادب پر ایسی مستند کتابوں کا جو کسی یورپی زبان میں لکھی ہوئی ہوں، ترجمہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ انہیں اردو میں ڈھال لینا چاہیے۔ یورپی مصنفین خصوصاً ہمارے ہم عصر بڑے عمومیت پسند ہیں اور ان کی تحریریں غیر شخصی اور تجریدی انداز کی ہیں حالانکہ قریباً تمام مشرقی زبانوں کا طبعی رجحان ذاتی، مخصوص، ٹھوس اور ڈرامائی ہے۔ ترجمے کی عام مشکلات بھی کافی حد تک کٹھن ہیں، چاہے ہم ایک یورپی زبان کا دوسری یورپی زبان میں ہی ترجمہ کیوں نہ کریں۔ مثلاً اس میں شک ہے کہ شیکسپیئر کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں، بیرنگر (Beronger) کا انگریزی میں یا ڈکنز کا اطالوی زبان میں کما حقہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ لیکن مشرقی زبانوں میں ترجمہ کرنے کے لیے مشکلات اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ ان میں ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ہاں ان کے خیالات کو دوبارہ لکھا جا سکتا ہے۔ انجیل مقدس، جس کی زبان اور روح میں اتنی مشرقیت موجود ہے، جب عربی، ترکی یا اردو میں ترجمہ کی جاتی ہے تو اصل کے پورے معانی (یا جو مفہوم ہم اصل عبارت سے لیتے ہیں یا خیالی رشتے جو اس سے وابستہ ہیں) پوری طرح ادا نہیں کیے جا سکتے۔ مثال کے طور پر سینٹ میتھیو کے چوبیسویں باب کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس کے ترابی کے ترکی ترجمے میں قواعد اور مفہوم کی ۱۰۸ غلطیاں موجود ہیں۔
ہمیں اردو میں ترجموں کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ غیر زبانوں کے مفہوم کو اردو میں ادا کیا جائے۔ مثال کے طور پر ہم مل کی ’معاشیات‘ کا ترجمہ نہیں چاہتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ ’معاشیات‘ کے نفس مضمون کو عام فہم اردو میں بیان کیا جائے۔ یہی اصول تواریخ، مابعد الطبیعیات اور ادب کی کتابوں پر بھی منطبق ہوتا ہے جن کے نفس مضمون کو ہم سلیس اور بامحاورہ زبان میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ تصنیف شدہ کتابوں کے تراجم نہیں چاہتے۔
میں جو تجویز پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں، میرا خیال ہے کہ وہ محض ترجمہ کرنے کے مقابلے میں زیادہ مفید ہے۔ اب تک جو تراجم شائع ہوئے ہیں، وہ کچھ اس طرح کے ہیں کہ انہیں سمجھنے کے لیے ایک لغات اور ایک اطاعت شعار منشی کی ضرورت ضرور پڑتی ہے لیکن ایسے قابل فہم بیان کے لیے جسے ایک چودہ سالہ بچہ بھی بآسانی سمجھ سکے، یہ ضروری ہے کہ مصنف اپنے مضمون پر پوری طرح حاوی ہو اور اس زبان میں ماہر ہو جس میں وہ کتاب لکھ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی خیالات کی نمائندگی کے لیے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، جیسا کہ ادب میں، تو یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ پہلے ان خیالی رشتوں کا موازنہ کر لیا جائے جو ایک یا دوسرے لفظ کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں اور اگر غیر زبان میں اس کا بالکل ہم معنی لفظ نہ ملے تو پھر مترجم کو خود وہ خیالی رشتے بیان کرنے چاہییں اور اپنے ترجمے میں ان الفاظ کی تشریح کر دینی چاہیے اور پھر اپنے انتخاب کردہ لفظ کی موزونیت کے متعلق تسلی کرنے کے لیے یہ سوال اٹھانا چاہیے کہ کیا اس ملک کا کوئی باشندہ جو اس مضمون پر حاوی ہو، ان ہم زبانوں کو آسان اور سادہ طریق پر اس مضمون کی تعلیم دینے کے لیے جو اس سے ناواقف محض ہیں، یہی اسلوب اختیار کرے گا؟ جب تک مترجم اس پر عمل نہ کرے گا، وہ خیالات کی نہیں بلکہ صرف اصوات کی تعلیم دے گا۔ یہ صحیح ہے کہ سائنس کی مصطلحات کے لیے، جن کے الفاظ حقائق یا اشیا کی نمائندگی کرتے ہیں، اس بات کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت نہیں کہ کس ترکیب صوتی سے حقائق یا اشیا کا مفہوم ظاہر کیا جاتا ہے لیکن جب تک کسی میں فکر وتخیل اور قوت جذب وتفہیم نہ ہو، اس کی لسانی قابلیت چاہے کتنی بھی زیادہ کیوں نہ ہو، وہ ہندوستان کے باشندوں کے لیے کوئی ایسی کتاب جسے وہ سمجھ سکیں، نہ سائنس پر لکھ سکتا ہے اور نہ ادب پر۔

اسلامی تحریکات کا تنقیدی جائزہ (۴)

ڈاکٹر یوسف القرضاوی

تجدید و اجتہاد سے گریز

یہ نکتہ بھی تحریک اسلامی کی اہم کمزوریوں میں سے ایک ہے کہ اجتہاد سے ڈرتی ہے، حالات اور وقت کی مناسبت سے دین کے دائرے کے اندر تجدیدی عمل کو پسند نہیں کرتی اور عمل وفکر کے اعتبار سے انقلابی راہیں اختیار کرنے پر مائل نہیں ہوتی۔ فقہی معاملات میں کسی قدر اجتہاد کی قائل ہوتے ہوئے بھی یہ تحریک فکر وحرکت وعمل میں تقلیدی رجحان ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ ہر قدم کو بحالہ قائم رکھنے پر اصرار کرتی ہے۔ اس نے بعض وسائل واشکال کو گلے سے لگا رکھا ہے، خواہ یہ وسائل واشکال اس کی دعوت کے فروغ ووسعت کی راہ میں ایسا پتھر ثابت ہوں جن سے مسلسل ٹھوکر لگ رہی ہو، نیز ان کے باعث تحریک کی صفوں میں تھکن، تساہل اور بے دلی کی کیفیات ہی جنم لے رہی ہوں۔یہ ان تمام منفی نتائج سے بے نیاز چلی جا رہی ہے۔
تحریک نے فکر وعمل کے میدان میں ’’مقبول‘‘ اور ’’باکمال‘‘ کی کچھ ایسی تخصیصات قائم کر رکھی ہیں جو حریت فکر اور تجدید عمل وتعین جادۂ نو کے راستے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اس نے بعض مفکرین کے ساتھ ایسی سخت وابستگیاں استوار کر دی ہیں جن کے باعث علم وتفکر کے سرچشمے پتھر کے قالب سے پھوٹنے والے ننھے سے چاہ کم آب کا روپ دھار لیں گے، جس کے نتیجے میں ذہنی اور فکری گھٹن اور نظر کی تنگی پروان چڑھتی رہے گی اور شاید نوبت یہاں تک پہنچے کہ کسی دوسرے کی کتابیں پڑھنے اور دوسروں کے حلقوں میں شامل ہونے پر ہی پابندیاں عائد ہو جائیں۔ گھٹن کے ماحول میں تعلق وعقیدت کے سوتے خشک ہونے لگتے ہیں، دل چسپیاں کم ہو جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں حرکت وعمل کی روح سے سرشار افراد آہستہ آہستہ کھسکنے لگیں گے، جیسے انگلیوں کے اندر سے پانی بہہ جاتا ہے۔ اپنے ہدف سے انکار نہ ہونے اور نصب العین کی لگن موجود ہوتے ہوئے بھی عقلیں جامد ہو کر رہ جائیں گی۔ ان دو متوازی بلکہ مخالف رجحانات کے آگے بڑھنے پر تحریک ان کھسک کر جانے والوں کی علیحدگی پر خود خوشی واطمینان محسوس کرے گی کیونکہ ساکن کو متحرک کرنے کی گستاخی کرنے والے اور تبدیلی وانقلاب کے بلبلے اٹھانے والے یہ عناصر تحریک کی صفوں میں ناپسندیدہ قرار پائیں گے۔
میں نے بعض اسلامی جماعتیں دیکھی ہیں جو اپنے پیروکاروں پر مخصوص قسم کی تعلیمات اور محدود قسم کا رنگ ثقافت اختیار کرنے کی پابندی لگا دیتی ہیں۔ یہ بے چارے جماعتوں کی قیادت کی پڑھائی ہوئی پٹی کو اس طرح دہراتے ہیں جیسے قرآن پڑھا جاتا ہے۔ مقرر کردہ وظائف کو ٹیپ ریکارڈر کی ریل کی طرح بار بار گھماتے اور اعادہ کرتے ہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ پڑھائی ہوئی پٹی اور رٹائے ہوئے وظیفوں کے بارے میں اپنی سوچ کو کام میں لائے یا ان پر تبادلہ خیال کے لیے زبان کھولے۔ یہاں اختیار کی گنجائش ہے، امتیاز وتمیز کی نہیں۔ ان کے امیر یا رئیس جماعت کا ہر فرمودہ، ہر موقف صحیح ترین کا درجہ رکھتا ہے جس میں خطا کا خفیف سا بھی امکان نہیں بلکہ ایسا حق ہے جس میں باطل کا شائبہ تک نہیں ہو سکتا۔
تحریک اسلامی میں صوفیا کے طریق تربیت سے نظریاتی اختلاف وبراء ت کا نقطہ نظر غالب ہے۔ اس کے باوجود سمع مطلق اور اندھی تقلید وطاعت کے اسی تصور کو اختیار کیا جا تا ہے جو صوفیا سے خاص ہے، جس میں یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ جس نے اپنے شیخ سے ’’کیوں‘‘ کا سوال کر دیا، وہ کبھی نجات نہیں پائے گا۔ مرید اپنے مرشد کے ہاتھ میں ایسا ہی ہے جیسے مردہ، غسال کے ہاتھ میں۔ ہم صوفیا کو اپنے مریدوں کی تربیت اس نہج پر کرتے دیکھتے ہیں کہ شیخ کے کہے ہوئے سے ہٹنا محال ہے، ’’کیوں‘‘ کا سوال بغاوت ہے۔ صوفیا کے حلقوں میں اس نہج تربیت سے مریدوں کی فوج میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی لیکن اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ علما ومفکرین کی بھی اسی طرح روایتی تقلید ہونے لگتی ہے، اس محدود فکر سے نکلنا محال ہو جاتا ہے، فکر اور اس کی تعبیر میں کھینچی ہوئی لکیروں سے باہر نکلا نہیں جا سکتا۔ اگر کوئی ایسا کر گزرے تو اسے مخالفت کے شدید حملوں کا نشانہ بننا پڑتاہے۔
آپ کو تعجب ہوگا کہ دعوت اسلامی کے ایک زعیم علامہ ڈاکٹر مصطفی السباعیؒ کو بھی ایک مرتبہ ایسی ہی منفی اور شدید صورت حال سے دوچار ہونا پڑا تھا کیونکہ انہوں نے اپنے اجتہاد کے مطابق اسلامی نظام عدل کو ’’الاشتراکیۃ الاسلامیۃ‘‘ کا نام دے دیا تھا۔ بہت سے لوگوں کو لفظ اشتراکیت میں کشش محسوس ہوتی ہے اور بہت سے اس سے الرجک ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اسلام اپنے اندر سرمایہ داری کا رنگ رکھتا ہے۔
اسی طرح ایک اور مسلمان مصنف نے ایک رسالے کے پہلے شمارے کے لیے فرمائشی مضمون لکھا، اس میں اس نے ’’بائیں بازو کے مسلمانوں‘‘ کی اصطلاح استعمال کر دی۔ ایسا اس نے اس رجحان کے رد میں کیا تھا کہ لوگ عام طور پر دعوت اسلامی کو ’’دائیں بازو‘‘ کی صف میں گنتے ہیں اور اس کا تعلق سرمایہ دارانہ نظام اور مغربی افکار کے تتبع سے قائم کرتے ہیں چنانچہ ہوا یہ کہ اس صاحب قلم کی تحریر پر شدید رد عمل ظاہر کیا گیا۔
میں ذاتی طور پر نہ دائیں بازو کی اصطلاح سے اتفاق کرتا ہوں نہ بائیں بازو کی لیکن میراموقف یہ ہے کہ اہل فکر ونظر اور صاحبان علم سے اجتہاد کا حق نہ چھینا جائے۔ محض اختلاف رائے کے نتیجے میں انہیں اتہامات اور برے بھلے کلمات کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ آج ان کی رائے مسترد کر دی جائے لیکن آنے والے دور میں وہی رائے مقبول قرار پائے۔ میرے خیال میں مجتہد اللہ تعالیٰ کے ہاں مستحق اجر ہوتا ہے خواہ اس کی اجتہادی رائے صحیح ہو یا غلط۔ خلوص نیت شرط ہے۔
ایک رسالے نے ایک بڑے مسلم مصنف سے کچھ مقالات لکھنے کی درخواست کی۔ انہوں نے ایک مقالہ لکھ کر بھیجا جس میں یہ رائے درج تھی کہ اسلامی نظام کے تحت ایک سے زیادہ اسلامی جماعتوں کا قیام جائز ہے۔ ادارے کی رائے اس سے مختلف تھی چنانچہ ان کا وہ مقالہ شائع نہ ہو سکا کیونکہ وہ لا حزبیۃ فی الاسلاموالے روایتی فلسفے کے علی الرغم رائے کا حامل تھا۔ 
دعوتی عمل سے منسلک ایک بزرگ کو ایک مرتبہ دعوت کے لیے پانچ سالہ خاکہ تیار کرنے پر لگایا گیا۔ انہوں نے اس کی تیاری میں یہ اہتمام کیا کہ مختلف اطراف سے تبادلہ خیال کیا۔ دعوت اسلامی سے خائف مخالف دھڑوں سے، مغرب کے اہل فکر مستشرقین سے، اہل کتاب کے مذہبی رہنماؤں سے، سیاسی مدبروں، سفیروں وغیرہ سے مختلف مواقع پر تبادلہ خیال کر کے کام کا نقشہ وضع کیا۔ اس تبادلہ خیال سے ان کی غایت اسلام کے بارے میں معاندین کی پرانی سوچ کو بدلنا تھا کہ مسلمان وحشی انسانوں کے غول ہیں اور تحریک اسلامی دہشت گردی اور تشدد کی علامت ہے۔ وہ سوچتے تھے کہ دوسرے آسمانی ادیان کے ساتھ پرامن طور پر زندگی گزارنے کے لیے مفاہمت کی فضا پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ مسلمان اپنے اپنے وطن میں اپنی شریعت اور عقیدے کے مطابق خود مختارانہ انداز میں رہیں بسیں اور مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے معاملات میں مزاحم نہ ہوں۔ لیکن ہوا یہ کہ بزرگ کی جملہ آرا وتجاویز کو نہ صرف رد کر دیا گیا بلکہ تضحیک وتمسخر کا نشانہ بنایا گیا اور کہنے والے نے کہا کہ شیخ بڑے ’’ترقی پسند‘‘ بن گئے ہیں۔
موجودہ فضا میں دین دار عوام کی سخت رائے اور سنگین لب ولہجہ مروجہ سکہ بن گیا ہے جس کا معاملات کی مارکیٹ میں خوب چلن ہے۔ سخت موقف ہی کے ذریعے سے اس منڈی میں سودے طے پاتے ہیں۔ سختی، تیزی، تندی اور تشدد کو قبولیت عامہ حاصل ہو گئی ہے۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ امت میں بگاڑ اور انحراف علم کے اقتدار کی تنخواہ داری میں چلے جانے اور عالموں کے مقتدرین کے اتباع کے باعث پیدا ہوا ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ عوامی خواہشات کا اتباع، سلاطین کی مرضی کا پابند ہونے سے بھی زیادہ خطرناک نتائج کا حامل ہوتا ہے۔ سلاطین کی پیروی واطاعت کرنے والے کبھی بے نقاب ہو کر رد کر دیے جاتے ہیں جبکہ عوام کی خواہشات میں تنکے بن کر چلنے والے وہ باطل ہوتے ہیں جو رائے عامہ کے زور سے سچ اور حق ٹھہرا دیے جاتے ہیں۔
بیسیویں صدی کے چھٹے عشرے میں ایسی متشدد فکر غالب رہی۔ ان حالات کا نتیجہ تجزیہ نگاروں سے مخفی نہیں۔ دعوت اور سوسائٹی میں ایک دیوار کھڑی ہو گئی۔ جاہلیت مطلقہ نے اسی تشدد کو جواز بنا کر اسے نیچا دکھانے میں اپنا پورا زور صرف کیا۔ اس عرصے میں اسی پرتشدد اور سخت رجحان کے تحت کفر کے فتوے جاری کرنے میں بڑی فراخ دلی کا ثبوت سامنے آیا۔ مسلم عوام کو لا الٰہ الا اللہ کا مطلب نہ جاننے اور حاکمیت الٰہ کا تصور نہ رکھنے کے باعث کافر ٹھہرایا گیا۔ وقت کے اہم مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے فقہی اجتہاد پر پابندی رہی، اسلامی فقہ کی تجدید کے تصور کا مذاق اڑایا گیا۔ پہلا قدم عقیدے کو ٹھہرا کر عوام کے لیے اسلامی نظام کا مکمل نقشہ تیار کرنے کو غیر ضروری خیال کیا گیا۔ کہا گیا کہ پہلے عقیدے کو قبول کیا جائے، نظام کی بات بعد میں ہوگی۔ اقتصادی، سیاسی اور معاشرتی نظام اسلامی کے حقائق پیش کرنا ثانوی امر ہے۔
جدید تحریک اسلامی کے ضعف کے یہ چند نکات تھے جو میں نے اللہ کی پکڑ کے احساس کے تحت پیش کیے ہیں۔ مقصد اصلاح وتعمیر ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ تحریک کے بعض متعلقین اس تنقیدی جائزے پر سخت چیں بچیں ہوں گے۔ اسی طرح تحریک کے مخالفین بھی اسے غنیمت سمجھ کر اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔ بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں گے اور تحریک اسلامی اور اس کے مقاصد کے ہی نہیں، خود اسلام کے بارے میں بھی غلط فہمیوں کا غبار اٹھانے کی سعی کریں گے۔
(ترجمہ: منیر احمد خلیلی)

دینی جماعتیں اور انتخابی سیاست

مولانا عبد الغفار حسن

(بزرگ عالم دین مولانا عبد الغفار حسن کی یہ تحریر ’الشریعہ‘ کے ستمبر ۱۹۹۳ء کے شمارے میں اس وقت کے حالات کے تناظر میں شائع ہوئی تھی لیکن اس میں مولانا نے جن اصولی نکات کی طرف توجہ دلائی ہے‘ ان کی اہمیت موجودہ حالات میں بھی برقرار ہے چنانچہ یہ تحریر قارئین کی خدمت میں دوبارہ پیش کی جا رہی ہے۔ مدیر)

اس وقت ملک شدید سیاسی واخلاقی بحران کا شکار ہے۔ ان حالات میں یہ ایک اہم سوال ذہنوں میں ابھر رہا ہے کہ دینی جماعتوں کا مستقبل کیا ہے؟ وہ کس طرح قرآن وسنت کی روشنی میں قوم کی رہنمائی کر سکتی ہیں؟ کیا ان کا انتخابی سیاست میں براہ راست حصہ لینا ملک وملت کے لیے مفید ہو سکتا ہے؟ اور کیا اس طرح نفاذ شریعت کی تحریک کام یابی سے ہم کنار ہو سکتی ہے؟
یہ بات عیاں ہے کہ دینی جماعتوں کے رہنما پچھلے انتخابی تجربات سے کوئی خا ص سبق حاصل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں اور ایک دفعہ پھر انتخابی دنگل میں کودنے کے لیے بے تاب ہیں۔ دینی جماعتوں میں سب سے زیادہ فعال اور منظم جماعت اسلامی ہے لیکن انتخابی سیاست کے کارزار میں دشت پیمائی کا حاصل اب تک یہ رہا ہے کہ ۱۹۵۱ء میں جماعت اسلامی نے پہلی بار الیکشن میں حصہ لیا‘ جماعت صرف ایک سیٹ لے سکی اور وہ بھی ضلع قصور کی‘ جہاں مولانا محی الدین لکھوی اہل حدیث حلقہ اثر کی بنا پر کامیاب ہوئے تھے۔ بعد کے انتخابات میں جماعت نے چار، اور زیادہ سے زیادہ آٹھ سیٹوں پر اپنے آدمی کام یاب کرائے۔ دوسری دینی جماعتوں میں مفتی محمود صاحب مرحوم کی جمعیت علماے اسلام دو صوبائی وزارتیں تک بنانے میں کام یاب ہو گئی‘ لیکن وہ بھی مغربی سیاست کی شاطرانہ چالوں کے سامنے جلد ہی ناکام ہو گئے۔
کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ ہمارے دینی رہنما اور علما وصلحا اس پامال شدہ جدوجہد کے بارے میں سنجیدگی سے سوچیں اور مستقبل کے لیے ایسا لائحہ عمل وضع کریں جو ملک وملت کے لیے مفید ہو؟
ہمارے خیال میں دینی جماعتوں کو اپنی عملی ونظریاتی سیاست پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ چند ناصحانہ مشورے پیش خدمت ہیں :
۱۔ چالیس سال سے زائد عرصے پر پھیلی ہوئی انتخابی سیاست اسلام کو ایک تنفیذی قوت کے طور پر پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکیمانہ قول پیش نظر رہنا چاہیے:
لا یلدغ المومن من جحر مرتین۔
’’ایک مومن ایک ہی بل سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ دینی جماعتوں کا اصل فریضہ داعیانہ ہے اور وہ اپنے فریضہ میں اسی وقت کام یاب ہو سکتی ہیں جبکہ ان کی دعوت یکساں طریق پر اپنے مخاطبین تک پہنچ سکے اور یہ تبھی ہے جبکہ داعیان حق اقتدار کے نہ حلیف ہوں اور نہ حریف۔ الدین النصیحۃ کے تحت وہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کو اللہ کا پیغام پہنچا سکیں‘ لیکن اقتدار کی دوڑ میں خود شریک ہو کر وہ مخالف پارٹی کے لیے ایک مقابل کی حیثیت سے ابھرتے ہیں اور پھر ان کی حق بات مخالف کے لیے صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے۔ انتخابی سیاست کی تلخیاں ایک دوسرے کی بات سننے کے راستے بند کر دیتی ہیں۔
۲۔ عملی لحاظ سے اللہ تعالیٰ کا فرمان ان کے لیے نشان راہ ہو کہ: 
وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی البر والاثم والعدوان
’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں پر ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ وزیادتی کے کاموں پر تعاون نہ کرو۔‘‘
سیاسی جماعتوں کے وہ امیدوار جو دیانت‘ تقویٰ اور راست بازی میں مشہور ہوں‘ تعاون کے مستحق ہیں‘ برخلاف ان امیدواروں کے جنہوں نے منافقت کا نام ہی سیاست گردانا ہوا ہے۔
۳۔ مجدد الف ثانی ؒ کے طرز پرناصحانہ رویہ کو اپنانا چاہیے۔ مجدد الف ثانی‘ جہانگیر کے وزرا اور امرا کو برابر خطوط لکھتے رہے جن میں انہیں شریعت کی پاس داری اور منکرات سے اجتناب کی دعوت دی جاتی تھی۔ ان کی یہ روش بالآخر عالمگیرؒ جیسے انصاف پسند اور پابند شریعت حکمران کے دور حکومت کو برپا کرنے کا باعث ہوئی جو کہ مسلم ہندوستان کی تاریخ کا ایک زریں باب ہے۔
۴۔ دینی دعوت کا خاصہ ہے کہ وہ اہل تقویٰ اور اہل دانش کے طبقہ خواص سے شروع ہو کر عوام الناس تک پھیلتی ہے اور امت کے ذہین طبقہ میں اس کی جڑیں مضبوط اور توانا ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اس دعوت کو پختگی اور پائیداری نصیب ہوتی ہے۔ اس کی مثال اس شجرہ طیبہ کی سی ہوتی ہے جس کی جڑیں گہری اور جس کی شاخیں آسمان تک پہنچ رہی ہوتی ہیں‘ برخلاف ان عوامی تحریکات کے جن میں چند خوش نما نعروں کی بنا پر عوام کو بھڑکایا جاتا ہے اور ان کی ایک بھیڑ اکٹھی کر لی جاتی ہے لیکن ٹھوس بنیادوں کے فقدان کی بنا پر یہ تحریکات جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہیں۔ ماضی قریب میں ذو الفقار علی بھٹو کے روٹی‘ کپڑا اور مکان کے نعروں پر چلائی گئی عوامی تحریک اور پھر الطاف حسین کی مہاجروں کے حقوق کی تحریک اور ان کا انجام ہر کسی کے سامنے ہے۔ ایسی تحریکات میں منفی اور جذباتی پہلو ہمیشہ غالب رہتا ہے جو وقتی طور پر ہیجان تو پیدا کر سکتا ہے‘ لیکن دائمی اثرات کا حامل نہیں ہوتا۔
پاکستان بننے سے قبل مسلم لیگ اپنی مقبولیت کی معراج پر تھی۔ غالباً ۴۶ء یا ۴۷ء میں مولانا مودودی مرحوم سے مدراس کے ایک جلسہ عام میں مسلم لیگ کی اس مقبولیت کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب کچھ یوں تھا کہ ان کی مثال ایسی ہے جیسے جنگ میں سیلاب آجائے۔ ایسی صورت میں جنگل کے تمام جانور‘ چاہے وہ شکاری ہوں یا شکاریوں کے تر نوالے‘ سب کے سب ٹیلے کی طرف دوڑتے ہیں۔ سب سیلاب سے بچنا چاہتے ہیں اس لیے ایک دوسرے سے تعرض نہیں کرتے لیکن جیسے ہی وہ ٹیلے پر پہنچ جاتے ہیں‘ ہر شکاری اپنے شکار پر وار کرنے کے لیے بے قرار ہو جاتا ہے۔ مولانا نے کہا کہ اب بھی یہی صورت حال ہے۔ ہندو سامراج کے سیلاب کا اندیشہ ہے‘ اس سے بچنے کے لیے پاکستان کا ٹیلہ سامنے رکھا گیا ہے لیکن وہاں پہنچنے کے بعد یہ ساری جمعیت منتشر ہو جائے گی اور خود غرض افراد کی اکثریت بندر بانٹ کرے گی۔
۵۔ اس سے قبل تذکرہ ہو چکا ہے کہ داعیانہ تحریکات پہلے خواص کو اپیل کرتی ہیں۔ اس ضمن میں قرآن کی یہ آیات پیش نظر رہیں:
نبی ﷺ کو حکم دیا جا رہا ہے: 
وانذر عشیرتک الاقربین (الشعراء)
’’اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو (اللہ کے عذاب سے) ڈراؤ۔‘‘
ظاہر ہے کہ نبی ﷺ کے قبیلے کے لوگ قریش کے گل سرسبد تھے اور مکہ میں رہنمائی کے مقام پرفائز تھے۔ ان لوگوں کا حلقہ بگوش اسلام ہونا تمام اہل عرب کے لیے باعث کشش ہوتا۔
اور ایسے ہی یہ آیت ہے: 
ولتنذر ام القری ومن حولہا (الانعام)
’’تاکہ آپ ام القریٰ (یعنی مکہ مکرمہ) اور جو لوگ اس کے چاروں طرف ہیں‘ ان کو ڈرائیں۔‘ ‘
یہاں نہ صرف قریش بلکہ دوسرے قبائل کی طرف بھی اشارہ ہے جو اپنے اپنے حلقوں میں انتہائی بااثر تھے۔
نبی ﷺ ایک موقع پر اللہ کے حضور یہ دعا کرتے ہیں:
اللہم اعز الاسلام بعمر بن الخطاب و بعمرو بن ہشام۔
’’اے اللہ اس اسلام کو غالب کر عمر بن خطاب اور عمرو بن ہشام (ابو جہل) کے ذریعے سے۔‘‘
نبی ﷺ کی خواہش اس بات کی آئینہ دار تھی کہ قریش کے بہترین دماغ اس دعوت کو قبول کر لیں تو بہت بڑی قوت فراہم ہو جائے گی۔
آنحضور ﷺ کی یہ حدیث ہے:
خیارکم فی الجاہلیۃ خیارکم فی الاسلام اذا فقہوا (بخاری)
’’تم میں سے جو دور جاہلیت میں بہتر تھے‘ وہ حالت اسلام میں بھی تم میں سب سے بہتر ہیں‘ بشرطیکہ وہ دین کی سمجھ رکھتے ہوں۔‘‘
ظاہر ہے کہ جاہلیت میں بہترین لوگ وہی سمجھے جاتے تھے جو کردار‘ شجاعت‘ سخاوت اور دوسرے اعلیٰ اوصاف کے حامل تھے۔ اسلام لانے کے بعد ان کے حسن میں اور اضافہ ہو گیا اس لیے وہ حالت اسلام میں بھی معزز قرار پائے۔
۶۔ اصلاح احوال کے لیے اگر متذکرہ بالا صورت اختیار نہ کی جائے بلکہ مصنوعی سہاروں کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی جائے تو نتیجہ صفر رہتا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اس امر پر خلیفہ عمر بن عبد العزیزؒ کے مختصر دور حکومت کو شاہد ٹھہرایا ہے۔ عمر بن عبد العزیزؒ ایک موروثی طریقہ خلافت میں اپنے مورث کی وصیت کی بنا پر حسن اتفاق سے مسند خلافت پر مامور کر دیے گئے تھے۔ جب انہوں نے حکومت کے ذریعہ اصلاح احوال کی کوشش کی اور مظلوموں کی داد رسی کا سلسلہ شروع کیا تو وقت کی بیورو کریسی نے ان کا ساتھ نہ دیا اور انہیں دو سال کی قلیل مدت میں زہر کھلا کر حکومت سے ہٹا دیا گیا۔
ہندوستان کی تاریخ میں سید احمد شہیدؒ اور اسماعیل شہیدؒ کی تحریک کی ناکامی کے اسباب میں اس بات کا بڑا دخل تھا کہ ایک غیر صالح معاشرے نے ان کے انتہائی مفید اور کارآمد اقدامات کو بے اثر کرنے میں پورا کردار ادا کیا۔ پشاور کی فتح کے بعد شہیدین نے سرحد کے علاقے میں قاضی مقرر کیے جو شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کے مجاز تھے۔ جب ان قاضیوں نے خوانین کے خلاف فیصلے کیے تو راتوں رات کئی قاضیوں کو شہید کر دیا گیا۔ خود معاشرہ اس حد تک خوانین کے زیر اثر تھا کہ اس حادثہ فاجعہ پر عوام میں کوئی ہلچل نہ مچی اور نہ ہی کوئی احتجاج کی آواز بلند ہوئی۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو مولانا مودودیؒ کامقالہ بعنوان ’’اسلامی حکومت کیسے قائم ہوتی ہے؟‘‘ اس مقالے میں مندرجہ بالا موضوع کی وضاحت اس عنوان کے تحت کی گئی ہے: ’’اسلامی انقلاب کی واحد سبیل‘‘ (کتاب کے موجودہ نسخوں میں ’واحد‘ کا لفظ اڑا دیا گیا ہے جو کہ مولانا مرحوم کی زندگی تک محو نہیں کیا گیا تھا) مولانا نے اپنی دو اورتصنیفات ’’اسلام کا نظریہ سیاسی‘‘ اور ’’تجدید واحیاے دین‘‘ میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے اور جویان حق کے لیے وہاں اچھا خاصا مواد مل سکتا ہے۔
مولانا کے ا س نظریے کی تائید میں نہ صرف پاکستان کے حالات بلکہ الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ کی الیکشن میں کام یابی اور پھر فوج کی طرف سے انہیں زمام حکومت سے دور رکھنا بلکہ عملی سیاست میں ان کے نفوذ کے تمام راستے بند کرنا پیش کیے جا سکتے ہیں۔ الجزائر کی سی ملتی جلتی صورت مصر اور دیگر عرب ممالک کی ہے جہاں فوج پر لادین عناصر کا غلبہ ہے اور وہ دینی جماعتوں کی الیکشن میں کام یابی کو بھی ناکامی میں بدل دینے پر قادر ہیں۔
۷۔ یہاں پر ایک اعتراض یہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ اگر دینی جماعتوں کا کام صرف دعوت وتبلیغ ہی ہے تو یہ کام تو تبلیغی جماعت بڑے احسن طریقے سے کر رہی ہے۔ جواباً عرض ہے کہ تبلیغی جماعت نے اپنے دائرۂ عمل کو چھ اصولوں تک محدود کیا ہوا ہے۔ دعوت دین کا ہمہ گیر کام ’’بلاغ مبین‘‘ چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
قل اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول فان تولوا فانما علیہ ما حمل وعلیکم ماحملتم وان تطیعوہ تہتدوا وما علی الرسول الا البلاغ المبین (النور)
’’ان سے کہو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی۔ پھر اگر تم اطاعت سے رو گردانی کرو گے تو (خوب سمجھ لو کہ تبلیغ رسالت کی) جو ذمہ داری رسول پر ہے‘ اس کا جواب دہ وہ ہے اور (اطاعت کی) جو ذمہ داری تم پر ہے‘ اس کے جواب دہ تم ہو اور اگر تم اس کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے اور رسول کے ذمے تو صرف (خدا کا حکم) صاف صاف پہنچا دینا ہے اور بس۔‘‘
ایک صحیح اسلامی دعوت کے لیے جہاں امر بالمعروف کا حکم ہے‘ وہاں نہی عن المنکر کا بار گراں بھی ہے۔ جہاں کلمہ اور نماز روزہ کی تلقین ہے‘ وہاں رزق حلال کمانے اور کاروبار کو سود کی لعنت سے پاک کرنے کی مہم بھی شامل ہے۔ صحیح اسلامی دعوت گروہی اور مذہبی تعصبات سے مبرا ہوتی ہے۔ عقلی اور فکری محاذ پر اسلام کے خلاف جو بھی حملے کیے جائیں‘ وہ اس کا بھرپور جواب دیتی ہے۔ میدان سیاست میں وہ رہنمائی دینے کے قابل ہے‘ مگر سیاست پر منافقت کی چھاپ لگنے کی بنا پر وہ اس کا ایک حصہ نہیں بنتی ہے۔ صحافت اور ذرائع ابلاغ اس کے لیے شجر ممنوعہ نہیں۔ وہ نہ صرف مساجد بلکہ عوامی اجتماعات‘ مدارس‘ کالجوں‘یونیورسٹیوں اور تمام اعلیٰ Forums کے ذریعے دعوت حق کا پرچار کرتی ہے۔
۸۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نفاذ شریعت ایک اہم اور پاک مقصد ہے کہ جس کا ذریعہ بھی پاک ہونا چاہیے:
ان اللہ طیب لا یقبل الا طیبا۔
’’اللہ تعالیٰ پاک ہیں اور پاک چیزوں ہی کو پسند کرتے ہیں۔‘‘
سودی طرز معیشت کی اصلاح خود سودی کاروبار سے نہیں ہو سکتی۔ جمہوریت جو کہ خود ایک غیر اسلامی تصور ہے‘ اسلام لانے کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ جمہوریت عوام کی اکثریت پر بنا رکھتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ محض کثرت کو کسی درجے میں مستند نہیں روا رکھتے۔ فرمایا: 
قل لا یستوی الخبیث والطیب ولو اعجبک کثرۃ الخبیث فاتقوا اللہ یا اولی الالباب لعلکم تفلحون (المائدہ)
’ ’کہہ دیجیے کہ خبیث وطیب برابر نہیں ہو سکتے‘ چاہے تمہیں ناپاک کی بہتات بھلی ہی کیوں نہ لگے۔ پس اے عقل والو‘ اللہ کی نافرمانی سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘
اس آیت سے چند راہنما اصول متعین ہوتے ہیں:
(الف) محض عوام کے غلبے کے سہارے سیاسی انقلاب نہیں آ سکتا اور نہ فلاح کی صورت پیدا ہو سکتی ہے کیونکہ عوام کی اکثریت غیر طیب ہے لہٰذا ان کا سہارا بھی کمزور ہے۔
(ب) اے عقل والو! اللہ کی نافرمانی سے ڈرو۔ اس حکم میں تمام غیر اسلامی طریقوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے جس میں حاکمیت جمہور کے نعرے پر استوار ہونے والی جمہوریت بھی شامل ہے۔
۹۔ نفاذ شریعت کے سلسلے میں سورہ شوریٰ کی آیت : ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ (کہ دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو) سے اکثر استناد کیا گیا ہے۔ یہاں قرآن فہمی کی ایک بنیادی غلطی کی گئی ہے۔ ’’الدین‘‘ سے مراد عقائد دین کہ جن کا سرتاج عقیدہ توحید ہے‘ مراد ہیں اور تفرقہ بازی سے مشرکین کے وہ عقائد مراد ہیں جو مسلمانوں کو جادۂ توحید سے ہٹانے کے لیے ہر زمانے میں وضع کیے جاتے رہے ہیں۔ گو دین عقائد‘ عبادات اور معاملات سب پر حاوی ہے لیکن اس آیت میں ’’الدین‘‘ سے تمام انبیا کی وہ مشترکہ دعوت مقصود ہے جو سوائے عقیدہ توحید کے اور کچھ نہ تھی۔ آیت کا سیاق وسباق ملاحظہ ہو:
شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراہیم وموسی وعیسی ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ کبر علی المشرکین ما تدعوہم الیہ 
’’(لوگو) اللہ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا اور جس کو (اے پیغمبر) ہم نے تمہاری طرف بھی وحی کیا اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو بھی دیا تھا (اس تاکید کے ساتھ) کہ اس دین کو قائم کرنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا ۔ یہی بات مشرکین پر شاق گزرتی ہے‘ جس کی طرف (اے پیغمبر) تم انہیں بلاتے ہو۔‘‘
’’نفاذ شریعت‘‘ کا نعرہ بلند کر کے دین کی ہمہ گیر دعوت کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ گویا شرک جلی کی روک تھام حکومت کے دائرہ اختیار سے باہر رکھی جا رہی ہے۔ بفحوائے آیت سورۃ النور : وعد اللہ الذین آمنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنہم فی الارض کما استخلف الذین من قبلہم حکومت ایک وعدہ الٰہی ہے جو بطور انعام ملتی ہے۔ کار خاص وہی ’’البلاغ المبین‘‘ ہے کہ جس کا تذکرہ اس آیت سے قبل کیا گیا ہے یعنی فکری اور عقائد کے لحاظ سے جب تک ’’البلاغ المبین‘‘ نہ ہو جائے‘ وعدہ الٰہی متحقق نہ ہوگا۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ یہ وعدہ امت مسلمہ سے بحیثیت ’’الجماعۃ‘‘ کیا گیا ہے اور بقول امام ابن تیمیہؒ ’’الجماعت‘‘ سے ساری امت مسلمہ مراد ہے‘ اسی لیے اجماع امت کی خلاف ورزی جائز نہیں۔
تنظیمی اعتبار سے جماعت سازی ایک تدبیر کا حکم رکھتی ہے اور ایسی کسی جماعت کو یہ زعم نہ ہونا چاہیے کہ وہی ’’الجماعۃ‘‘ ہے۔ وہ اس لیے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ید اللہ علی الجماعۃ نہ کہ علی الجماعات (اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے‘ یہ نہیں فرمایا کہ مختلف جماعتوں پر ہے)
آخر میں اسلامی انقلاب کے حصول کے لیے پچھلے مباحث کا خلاصہ ذکر کیا جاتا ہے:
۱۔ قرآن نے لفظ انقلاب کے بجائے اصلاح کا لفظ استعمال کیا ہے:
ان ارید الا الاصلاح ما استطعت۔
’’میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں۔‘‘
اس لیے دینی جماعتوں کا محور بھی یہی اصلاح ہو۔ انقلاب ایک اشتراکی اصطلاح ہے اور مراد ہے ایک نظام کو پلٹ کر اس کی جگہ دوسرا نظام کھڑاکرنا۔ اسلام نے اسی اصلاح کے تصور سے جاہلی معاشرے کی تطہیر کی‘ اچھی خصال کو باقی رہنے دیا اور بری خصال پر پابندیاں لگائیں۔
۲۔ دینی جماعتوں کے لیے فکری اور عقائدی محاذ پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک قوم کے ذہین طبقہ کی ذہنی تبدیلی یا اصلاح نہ ہوگی‘ اسلامی نظام کا نفاذ ناقابل تصور رہے گا۔ اس مقصد کے لیے نہ صرف خارجی محاذ پر تمام فتنوں کا مقابلہ کیا جائے بلکہ داخلی محاذ پر بھی نوجوانوں کی صحیح تعلیم وتربیت پر زور دیا جائے تاکہ وہ اصلاح کے عمل کو آگے بڑھا سکیں۔
۳۔ موجودہ حالات میں براہ راست الیکشن میں حصہ نہ لیا جائے بلکہ جو لوگ اس میدان کے شاہ سوار ہیں‘ انہیں اپنی دعوت کا نشانہ بنایا جائے اور جو کام آپ خود کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں‘ انہیں ان کی مقتدرانہ حیثیت کا احساس دلاتے ہوئے وہی کام کروانے پر آمادہ کیا جائے یعنی ایسے مصلحانہ اقدامات جو اسلام کی ترویج کا باعث ہوں۔
۴۔ عملی طور پر بھی دینی جماعتوں کا انتخابی سیاست میں ملوث ہونا مفید نہ ہوگا بلکہ مضر ہوگا۔ اسباب یہ ہیں:
(الف) اس وقت اکثر دینی جماعتیں فرقہ وارانہ بنیادوں پر سیاست میں حصہ لے رہی ہیں اور ہر جماعت کے کئی کئی دھڑے ہیں۔
(ب) سیاسی طور پر ان میں آپس میں رسہ کشی پائی جاتی ہے۔ کوئی صدر پاکستان کی حامی ہے اور کوئی معزول وزیر اعظم کی طرف دار ہے۔ کسی کے نزدیک دونوں سے بے زاری ضروری ہے اور کہیں خاندانی‘ لسانی یا علاقائی عصبیت کار فرما ہے۔
ظاہر ہے کہ اس طرح دینی جماعتوں کے ووٹ تقسیم ہو جائیں گے اور لا دین عناصر کو تقویت حاصل ہوگی اور اگر بالفرض تمام دینی جماعتیں متحد ہو جائیں تو دس پندرہ سیٹوں سے زیادہ کام یابی مشکل ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ موجودہ انتخابی نظام کے ماتحت زیادہ تر وہی لوگ کام یاب ہوتے ہیں جن کے پاس دھن‘ دھونس‘ دھاندلی کی تین دالیں ہوتی ہیں ورنہ دال نہیں گلتی بلکہ جوتیوں میں دال بٹتی رہتی ہے۔
جمہوریت سے متعلق علامہ اقبال مرحوم نے کیا خوب کہا ہے:
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

وفاقی شرعی عدالت کے قیام کا پس منظر اور ضروریات

جسٹس (ر) تنزیل الرحمن

روزنامہ جنگ لاہور ۲۳۔ اگست ۲۰۰۲ کی خبر کے مطابق صوبائی وزیر قانون رانا اعجاز احمد خان نے لاہور میں اقلیتوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہیں بتایا ہے کہ انہوں نے وفاقی وزارت قانون کو لکھ کر بھیج دیا ہے کہ ہائی کورٹ کے ہوتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس لیے اسے ختم کر دیا جائے۔ صوبائی وزیر قانون کا کہنا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت تعصب کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہے اس لیے اسے باقی رکھنا ضروری نہیں ہے۔
وفاقی شرعی عدالت کے بارے میں ایک عرصے سے بین الاقوامی حلقوں اور پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ یہ چونکہ مذہب کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہے، اس لیے اس کا عمل اور رول تعصب پر مبنی ہے جو آج کے دور میں جمہوری اور سیکولر ذہن رکھنے والوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے اس لیے وفاقی شرعی عدالت بلکہ اس کے ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل کے وجود پر بھی نظر ثانی کی جائے اور انہیں باقی رکھنے کی ضرورت کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ صوبائی وزیر قانون رانا اعجاز احمد خان نے بھی اسی موقف کو دہرایا ہے اور بتایا ہے کہ اس موقف کو صوبائی وزارت قانون کی طرف سے باقاعدہ سفارش کا درجہ دے کر وفاقی وزارت قانون کو بھجوا دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے صوبائی وزیر قانون سے تو شاید اتنا عرض کر دینا ہی کافی ہو کہ جس پاکستان میں وہ قیام پذیر ہیں، خود اس ملک کا وجود اسی ’’تعصب‘‘ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اور جس دستور کے تحت وہ صوبائی وزارت قانون کے منصب پر براجمان ہیں، اس دستور میں اس ’’تعصب‘‘ کو قومی پالیسیوں کا سرچشمہ قرار دے کر ملک کو مذہبی تعلیمات وقوانین کے دائرے میں چلانے کی ضمانت دی گئی ہے اس لیے وہ اگر اس ’’تعصب‘‘ سے پیچھا چھڑانے میں سنجیدہ اور مخلص ہیں تو انہیں سب سے پہلے ’’تعصب‘‘ کی بنیاد پر بننے والے ملک میں اپنے قیام اور ’’تعصب‘‘ کو ملک کی پالیسیوں کی بنیاد قرار دینے والے دستور کے تحت وزارت کا منصب قبول کرنے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
اس سلسلے میں وفاقی شرعی عدالت ہی کے سابق سربراہ جسٹس (ر) ڈاکٹر تنزیل الرحمن کا ایک مضمون روزنامہ ’’اسلام‘‘ کراچی نے شائع کیا ہے جس میں انہوں نے وفاقی شرعی عدالت کے قیام کے پس منظر پر روشنی ڈالی ہے اور اسے موثر بنانے کے لیے ضروری تجاویز پیش کی ہیں۔ قارئین کے استفادہ کے لیے یہ مضمون ’’اسلام‘‘ کے شکریے کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔
(ادارہ)

جنرل محمد ضیاء الحق نے عنان حکومت سنبھالنے کے فوراً بعد وعدہ کیا کہ وہ ملک کے نظام کو اسلامی خدوخال سے مزین کریں گے۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے اس مقصد سے ایک عام اعلان کیا جس میں کہا گیا کہ یکم جنوری ۱۹۷۸ء سے پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں کسی بھی ایسے قانون کو کالعدم قرار دینے کی مجاز ہوں گی جو قرآن وسنت سے متصادم ہوگا۔
اپنے قانونی مشیروں سے مشورہ کرنے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اس اعلان کا اطلاق ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ پر براہ راست کرنے کے بجائے تما م ہائی کورٹس میں چار شریعت بینچیں تشکیل دیں اور سپریم کورٹ میں ایک شریعت اپیلٹ بنچ قائم کی۔ یہ بنچیں فروری ۱۹۷۹ء کو ایک حکم کے ذریعے قائم کی گئیں جن کا مقصد ملکی قوانین سے ان احکامات کا خاتمہ کرنا تھا جو قرآن وسنت سے متصادم تھے۔ صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے جنرل محمد ضیاء الحق نے ۱۹۷۳ء کے آئین میں ترمیم کر کے وفاقی شرعی عدالت قائم کی۔ یہ نئی وفاقی شرعی عدالت قانون عامہ (Common Law) کے پانچ ماہر جج صاحبان پر مشتمل تھی۔ اس میں شامل چار ججز ہائی کورٹ میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ ایک ریٹائرڈ سپریم کورٹ کے جج کو اس کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔
جنرل ضیاء الحق بلاشبہ مقصد سے مخلص نہیں تھے۔ انہیں خوب معلوم تھا کہ چند مستثنیات کے علاوہ عدلیہ کے ارکان شریعت کی مطلوبہ اہلیت اور تربیت نہیں رکھتے۔ ان کا اصل مقصد کچھ ججوں کو ان کی متعلقہ ہائی کورٹس سے فوراً علیحدہ کرنا تھا کیونکہ مارشل لا کے نقطہ نگاہ سے یہ جج ناپسندیدہ قرار پائے تھے۔ اس مقصد کا مکمل اظہار ۱۹۸۱ء کے عبوری آئینی حکم سے ہوا جو شرعی عدالت کے نو ماہ بعد سامنے آیا۔ اس حکم کے تحت چیف جسٹس سمیت ہماری اعلیٰ عدلیہ کے دو درجن ارکان کو ان کے عہدوں سے جبری ریٹائر کر دیا گیا۔
جیسا کہ کہا گیا، عدالت کے قیام کا اصل مقصد قوانین کو اسلامی شکل دینا نہیں تھا کیونکہ عدالت میں علما جج شامل نہیں تھے اور اس کے اختیارات بھی محدود تھے۔ عدالت کو اختیار نہیں تھا کہ وہ:
۱۔ آئین کی کسی دفعہ کا جائزہ لے جو ہمارے قانون اور سماجی زندگی کی اساس ہے۔
۲۔ مسلم پرسنل لا کا جائزہ لے جو خاندانی زندگی کا بنیادی قانون ہے۔
۳۔ مالی اور ٹیکس سے متعلق قوانین کا جائزہ لے جو ہمارے معاشرے کے سماجی اور اقتصادی ڈھانچے کو متاثر کرتے ہیں۔
۴۔ ان قواعد وقوانین کا جائزہ لے جو ہماری عدالتوں اور ٹربیونلز میں انصاف کی فراہمی کے لیے اختیار کیے جاتے ہیں۔
یہی سبب تھا کہ عوام، علما اور قانون دانوں نے عدالت پر کسی اعتماد کا اظہار نہیں کیا۔ انہیں معلوم تھا کہ عدالت ان کی مشکل کا ازالہ نہیں کر سکتی کیونکہ اس کو اختیارات ہی نہیں دیے گئے۔ بعد ازاں جب وفاقی شرعی عدالت نے اپنے ایک فیصلے کے تحت رجم کو حد قرار دینے سے انکار کیا تو اس فیصلے کے خلاف ملک گیر مظاہرے ہوئے اور جنرل ضیاء الحق مجبور ہو گئے کہ شرعی عدالت میں اسلامی قوانین سے واقف تین علما بھی شامل کریں۔ اس کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑی۔
کچھ عرصے بعد آئین میں پھر ترمیم کی گئی اور سپریم کورٹ میں دو علما کو شامل کیا گیا کیونکہ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ اپیلٹ بنچ کے عام جج شرعی معاملات میں عوامی اعتماد پر پورا اترنے سے قاصر تھے تاہم وفاقی شرعی عدالت میں علما ججز کی تقرری سے متعلق آئینی دفعہ میں ایک بڑا سقم ہے۔ اس دفعہ میں عالم جج کی مطلوبہ اہلیت کو واضح نہیں کیا گیا بلکہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ اسے اسلامی قوانین سے اچھی طرح آگاہ ہونا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ مطلوبہ جج کو یہ واقفیت ہے یا نہیں؟ آئین اس بارے میں بالکل خاموش ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وفاقی شرعی عدالت میں جج کی حیثیت سے تقرری کے لیے عالم کی اہلیت کو آئین میں واضح کر دیا جائے۔
میری ناچیز رائے میں یہ ایک ایسا فرد ہونا چاہیے جو درس نظامی سے فراغت کے بعد تخصص فی الفقہ شرعی کورس کسی مستند دار العلوم سے مکمل کر چکا ہو، اس نے اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے ایل ایل ایم شریعت کی ڈگری حاصل کی ہو یا وہ عربی، اسلامک اسٹڈی یا اسلامی اقتصادیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کا حامل ہو اور ساتھ ساتھ ہی اسلامی تحقیقی ادارے میں کم از کم پندرہ برس خدمات انجام دے چکا ہو، ایسے فرد کو شرعی عدالت میں عالم جج کی حیثیت سے مقرر کیا جا سکتا ہے۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ ایک مسئلہ یہ رہا ہے کہ شریعت کا مطلوبہ علم رکھنے والے ججز کا قحط رہا ہے۔ اس کا سبب ہماری قانونی تعلیم کا نظام ہے۔ بینچ اور بار دونوں کے ارکان دیوانی قوانین میں تحصیل یافتہ وتربیت یافتہ ہوتے ہیں جو اصل میں ’’اینگلو سیکسن‘‘ قوانین ہیں۔ چند مستثنیات وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی ذاتی محنت سے اسلامی قوانین کا علم حاصل کیا ہے۔ اسلام آباد میں اسلامی یونیورسٹی کے قیام کے بعد صورت حال ذرا بہتر ہوئی ہے اور ۱۹۸۹ء کے بعد سے شرعی قوانین اور اسلامی اقتصادیات میں پی ایچ ڈی اور ماسٹر ڈگری کے حامل افراد کی قابل ذکر تعداد فارغ التحصیل ہو رہی ہے۔ اس صورت حال میں دیوانی قوانین کے ججز کی تعداد کو رفتہ رفتہ کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بدلے اہل علم علما، شریعت لا کے پروفیسر اور پوسٹ گریجویٹ افراد کو وفاقی شرعی عدالت میں جج مقرر کیا جا سکتا ہے۔ اس تقرر کے لیے آئین کی دفعہ 203C(BA) میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔
۹۸۳اء میں جب میں اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین تھا، مجھ سے وفاقی سیکرٹری قانون نے وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس اور جج صاحبان کی ریٹائرمنٹ کی عمر کے بارے میں غیر رسمی صلاح مشورہ کیا تھا۔ میں نے بس اتنا کہا تھا کہ یہ سپریم کورٹ کے اعتبار سے ہی ہونی چاہیے یعنی شرعی عدالت کے چیف جسٹس اور جج صاحبان (بشمول علما جج) اور شرعی اپیلٹ بنچ (سپریم کورٹ) کی ریٹائرمنٹ کی عمر ۶۵ برس مقرر کی جائے۔ یہ مشورہ جنرل ضیا کے لیے سود مند نہیں تھا کیونکہ وہ چیف جسٹس اور کورٹ کے ججوں کو اپنی مرضی کا پابند رکھنا چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ شرعی عدالت کے ججوں کی تقرری اور معزولی مکمل طور پر ان کے ہاتھ میں رہے۔
ججوں کی ریٹائرمنٹ کا معاملہ ایگزیکٹو کی صواب دید پر نہیں چھوڑا جانا چاہیے۔ اس طرح چیف جسٹس، جج صاحبان اور علما جج صاحبان کو اس مسلسل خطرے سے نجات مل جائے گی کہ ان کی ملازمتوں کو صدر یا وزیر اعظم کسی فیصلے سے ناراض ہو کر ختم کر سکتے ہیں۔
وفاقی شرعی عدالت کے قیام کے ساتھ ہائی کورٹس میں شرعی بنچوں کے قیام کے قبل ازیں کیے گئے قانونی فیصلے کو منسوخ کر دیا گیا۔ ان بنچوں میں التوا میں پڑی مختلف شرعی پیشیوں کو شرعی عدالت میں بھیج دیا گیا۔ مئی میں ختم ہونے والے ایک سال کے دوران شرعی عدالت نے ایک سو چودہ ایسی پیشیوں کو نمٹا دیا۔ ان میں سے اکثر کا تعلق ایسے معاملات سے تھا جن سے درخواست دہندگان کا ذاتی مفاد وابستہ تھا۔ مثال کے طور پر ۶۷ درخواستوں کا تعلق پنجاب میں زرعی مزارعت سے تھا جبکہ درجن بھر درخواستیں قتل سے متعلق دفعہ تین سو دو کے بارے میں تھیں۔ عدالت نے ان دونوں قوانین پر فیصلہ ۸۱۔۱۹۸۰ میں صادر کر دیا لیکن فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ شرعی اپیلٹ بنچ میں دائر کی گئی جس کے باعث حتمی فیصلہ آنے میں مزید آٹھ برس لگ گئے۔
پنجاب میں قصاص ودیت کے قوانین ۹۰۔۱۹۸۹ء میں بنائے گئے تقریباً نصف درجن درخواستوں کا تعلق نماز کے اوقات، اذان اور پردے وغیرہ سے تھا جن کوخارج کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ مزید درخواستیں بھی تھیں جن کا فیصلہ کرنے کا اختیار شرعی عدالت کے پاس نہ تھا لہٰذا ان کو برخاست کر دیا گیا۔
عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو ایسی تمام کوششوں سے قوانین کو اسلامی شکل دینے کی مد میں کوئی خاطر خواہ کام یابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس لیے ۱۹۸۲ء کے لگ بھگ صدر نے آئین میں مزید ترمیم کی اور شرعی عدالت کو اختیار دیا گیا کہ وہ ازخود جائزہ لے اور مذکورہ پابندیوں کے دائرے میں قوانین کو قرآن وسنت سے متصادم پائے تو ان کو کالعدم قرار دے۔ لہٰذا شرعی عدالت نے قومی روزناموں میں اشتہارات جاری کیے کہ فلاں فلاں تاریخوں کو فلاں فلاں قوانین کا جائزہ لیا جائے گا۔ عوام اور علما کو بتا دیا گیا کہ دونوں قوانین کے حوالے سے اپنی رائے دیں اور معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے عدالت کی مدد کریں۔ بعد ازاں شرعی عدالت نے بتایا کہ اس کو کسی ضلع سے کوئی رہنمائی یا معاونت نہیں مل سکی کیونکہ عوام نے اس معاملے میں دل چسپی نہیں لی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عدالت کو اپنے طور پر نئے قوانین کا جائزہ خود لینا پڑا اور یوں وہ عملی طور پر محض ایک کمیشن میں تبدیل ہو کر رہ گئی۔
عوامی حلقوں کا کوئی فرد کسی قانون کی دفعہ کو شریعت سے متصادم قرار دینے کے لیے اعتراض اٹھانے کی غرض سے شرعی عدالت نہیں آیا۔ یہاں مجھے ہائی کورٹ کے اپنے ایک فاضل دوست کے الفاظ یاد آ رہے ہیں جس کو تبادلے پر وفاقی شرعی عدالت میں خدمات انجام دینی پڑی تھیں۔ ۲۰ جنوری ۱۹۸۳ء کو جنرل ضیاء الحق کی سرکردگی میں نفاذ اسلام کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے اس نے کہا تھا: ’’ہم شرعی عدالت کے جج دیوانی قوانین کے جج ہیں۔ قوانین کا تجزیہ کرنے کے لیے ہم کو شریعت کے ماہرین کی معاونت درکار ہے۔‘‘
شرعی عدالت کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ قرآن وسنت سے متصادم قانونی دفعات کی نشان دہی کرے، اس کے بعد حکومت کا فرض ہے کہ وہ آئین میں ترمیم کر کے مذکورہ دفعہ کو شریعت کے مطابق بنا دے، لیکن حکومت عام طور پر پالیسی کے تحت اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرتی ہے جس کی سماعت میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ حکومت ان اپیلوں کے جلد فیصلے کروانے کے لیے کوئی دل چسپی ظاہر نہیں کرتی۔ اس کے برخلاف وہ تاخیری حربے استعمال کرتی ہے جبکہ خود سپریم کورٹ بھی ایسی اپیلوں کی سماعت کو ترجیح نہیں دیتی۔ وہ عام دیوانی اور فوج داری درخواستیں نمٹانے میں مصروف رہتی ہے۔ سیاسی امور کے تصفیے میں بھی کافی وقت صرف ہوتا ہے۔
میں نے حال ہی میں اخبارات میں پڑھا ہے کہ چیف جسٹس نے لاہور، کراچی، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ میں پانچ بنچوں کے قیام کی منظوری دی ہے۔ میری خواہش تھی کہ اس موقع پر شریعت اپیلٹ بنچ بھی قائم کر دی جاتی تاکہ ان شرعی اپیلوں کی سماعت ممکن ہو جاتی ہے جو عرصہ چھ سات برس سے التوا کا شکار ہیں۔
یہاں میں ایک اور اہم بات کی نشان دہی کرتا چلوں۔ ۱۹۸۴ء میں جنرل ضیا نے آئین کی دفعہ 203(1) میں ایک اضافہ کر دیا تھا جس کے تحت وفاقی شرعی عدالت کے کسی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ اپیلٹ بنچ میں محض اپیل دائر کرتے ہی خود بخود حکم امتناعی حاصل ہو جاتا ہے۔ یہ حکم امتناعی اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک سپریم کورٹ کی متعلقہ بنچ اپیل پر فیصلہ نہیں سنا دیتی۔ اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ دیگر تمام کارروائیوں میں ہائی کورٹ کے کسی فیصلے کے خلاف اپیل کا حکم امتناعی اس وقت تک حاصل نہیں کیا جا سکتا جب تک سپریم کورٹ اس کے لیے خصوصی احکامات صادر نہ کرے لیکن شرعی امور کے لیے جنرل ضیاء الحق نے یہ بے مثل دفعہ بنائی ہے تاکہ ان کے مقاصد پر پوری اتر سکے۔ یہ دفعہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے، اگر اس کو جاری رہنے دیا گیا تو اس کی حیثیت اپیل کنندہ (جو عموماً حکومت ہوتی ہے) کے ہاتھ میں آلہ استبداد کی سی رہے گی۔

احیائے امت کے چند بنیادی تقاضے

پروفیسر میاں انعام الرحمن

معاصر اسلامی دنیا بیدار ہو چکی ہے۔ اپنے حقوق اور تشخص کی بازیافت کے لیے ہر مسلمان کسی نہ کسی محاذ پر سرگرم عمل ہے۔ اس صورت حال میں ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے موجودہ سفر کے راستے کا تعین کریں اور اس سفر کے تقاضوں سے کماحقہ واقف ہوں۔ ذیل میں اس حوالے سے ایک طالب علمانہ کاوش کی گئی ہے۔
اگر ہم کائناتی تناظر میں زندگی پر غور وفکر کریں تو اس کی بے ثباتی عیاں ہو جاتی ہے۔ فانی دنیا ہے اور فانی انسان۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری تگ ودو اور دوڑ دھوپ کس لیے ہے کیونکہ ہماری اپنی زندگی تو نہایت محدود ہے کہ سانس کا کیا بھروسہ! ہماری محدود زندگی کی ’’تحدید‘‘ میں پہلی دراڑ اس وقت پڑتی ہے جب ہم ’’تاریخی شعور‘‘ کے حامل ہو جاتے ہیں، یہ شعور کہ ہم اپنے اجداد کے اجساد اور خیالات کا تسلسل ہیں، ان کی چھوڑی ہوئی میراث کے پاسبان اور امین ہیں۔ اسی تاریخی شعور سے زندگی کی ایسی معنویت جنم لیتی ہے جو ہمیں مستقبل کے ادراک کے قابل بناتی ہے، امیدوں کا مسکن، امنگوں کی آماج گاہ شاندار مستقبل۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس شاندار مستقبل کا تانا بانا تاریخی شعور سے ہی بنا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم شان دار مستقبل کی امید باندھتے ہیں تو ہمیں لازماً تاریخی شعور کو اپنے افکارواعمال میں رچانا ہوگا۔ ایک دوسرے زاویے سے ہم مذکورہ بات کو یوں بیان کر سکتے ہیں کہ ہر موجود نسل حقیقت میں ذمہ دار نسل ہوتی ہے جس کے ایک کندھے پر تاریخی شعور کی میراث ہوتی ہے اور دوسرے کندھے پر شان دار مستقبل کی منصوبہ بندی۔ اس اعتبار سے یہ ذمہ داری زندگی کی تحدید کی نفی کر دیتی ہے کیونکہ اس ذمہ داری کے سبب ہمارا رابطہ ماضی، حال اور مستقبل تینوں سے بیک وقت ہوتا ہے کہ یہ رابطہ اور ذمہ داری انسان اور زندگی کو مسلسل وسعت پذیر رکھتے ہیں۔ 
اس گفتگو کے پیش نظر ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ :
۱۔ انسان کا بنیادی حوالہ حیاتیاتی حوالہ ہے۔
۲۔ اسی حیاتیاتی حوالے کے طفیل انسان اپنے اجداد کے خیالات وافکار کے تحفظ سے نہ صرف میراث کو محفوظ رکھتا ہے بلکہ اپنے عصری ماحول کے ساتھ ان خیالات وافکار کے تطابق سے فکری وحیاتیاتی تسلسل کے فروغ کی امید بھی باندھتا ہے۔ اس طرح ضروری ہو جاتا ہے کہ کوئی بھی فکر یا نظریہ اگر اپنے دوام کا خواہش مند ہے تو اس کا زندگی سے رشتہ بہت مضبوط اور گہرا ہونا چاہیے کیونکہ فقط اسی صورت میں مستقبل کا انسان ایسی فکر کو اپنے عصری ماحول میں جگہ دے پائے گا۔
جہاں تک اسلام کا تعلق ہے، وہ انسان کے حیاتیاتی تحفظ کے لیے ایک جامع پروگرام دیتا ہے۔ ’’انسان جیسا کہ وہ ہے‘‘ کی حفاظت کا اہتمام مسواک سے شروع ہوتا ہے اور درجہ بدرجہ مختلف مراحل طے کرتا ہوا حفظ قرآن کی روایت پر ختم ہو جاتا ہے۔ اسلام کے حیاتیاتی پروگرام کی اہمیت وافادیت جس قدر آج کے دور میں اجاگر ہو سکتی ہے، اس سے پہلے اس کا عشر عشیر بھی ممکن نہیں تھا۔ اگرچہ آج انسان اربوں کی تعداد میں ہیں لیکن ان کا حیاتیاتی اثبات (Biological Assertion)بحیثیت انسان بری طرح مجروح ہوا ہے جس کی چند مثالیں ایٹمی وماحولیاتی منفی اثرات اور کلوننگ ہیں۔ جدید عہد اور اس میں رائج رجحانات جراحت کا سامان پیدا کرنے میں تاحال ناکامی سے دوچار ہیں۔ اس ناکامی کی بنیادی وجہ خارجی (Extrovert) اپروچ ہے۔ کسی تبدیلی اور بہتری کے آثار کے لیے اس اپروچ پر کاری ضرب لگانے کی ضرورت ہے۔ یہ اطمینان کی بات ہے کہ عالمی مسلم معاشرے کا عمومی رجحان داخلی (Introvert) ہے لہٰذا دنیا کے سامنے ایک ’’مثالی حیاتیاتی انسانی گروہ‘‘ پیش کرنے میں ہماری راہ میں زیادہ مشکلات حائل نہیں ہیں۔ ہمیں صرف اتنا کرنا ہے کہ اسلام کے حیاتیاتی پروگرام کی معنویت کی تہیں کھولنا شروع کر دیں۔ خیال رہے کہ ہر عہد اپنے حصے کی تہیں کھول سکتا ہے اس لیے اجداد کی تشریحات کو ہوبہو اپنانے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔
حیاتیاتی سطح کے بعد انسان کی معاشرتی سطح کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس سطح پر انسان کو Extrovert ہونا پڑتا ہے لیکن چونکہ مسلم معاشرے کا عمومی رجحان Introvert ہے لہٰذا اچھی خاصی گڑبڑ ہو جاتی ہے۔ مثلاً ہم رہتے اکیسویں صدی میں ہیں لیکن ہماری معاشرتی سطح یعنی افراد کا باہمی تعامل (Interaction) مخصوص رجحان کی وجہ سے چھٹی ساتویں صدی کی سطح پر ہوتا ہے۔ معاشرتی سطح پر اسی خود بینی کے سبب ہر کوئی لیڈر بنا ہوا ہے، ہر ایک کی اپنی اپنی سوچ ہے، کوئی بھی اپنے دائرے کو پھلانگ کر معاشرتی دھارے میں شامل ہونے کو تیار نہیں کہ اس سے اس کی اپنی انفرادیت اور لیڈری ختم ہونے کا احتمال رہتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مذہب ایک جذباتی قدر بن کر رہ گیا ہے اور اس کا زندگی سے رشتہ ٹوٹ گیا ہے۔ خیال رہے کہ یہاں ہم نے ’دین‘ کے بجائے ’مذہب‘ کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ ’دین‘ کا تقاضا تو معاشرتی سطح پر Extrovert اپروچ اختیار کرنا ہے جس سے مسلم معاشرہ محترز ہے۔ مذہب اور زندگی کی باہمی دوری سے معاشرت کے ساتھ ساتھ انسان کی حیاتیاتی سطح بھی مجروح ہونے کا امکان ہے۔ بہرحال یہ نہایت ضروری ہے کہ مسلم معاشرہ زندگی کی معاشرتی سطح پر Extrovert اپر وچ اپنائے تاکہ مذہب اور زندگی کے باہمی رشتے سے ’دین‘ کی تفہیم ہو سکے۔
دین کو معاشرتی دھارے میں سمونے کے ساتھ ساتھ عصری ماحول کی تفہیم بھی بہت ضروری ہے۔ اپنے عہد کی نبض پر ہاتھ رکھے بغیر ہم ابھر کر سامنے نہیں آ سکتے اور نہ خارجی واقعیت پر فتح پا سکتے ہیں۔ مثلاً برصغیر میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریک میں علما کا کردار بہت اہم تھا لیکن اس کا کریڈٹ قائد اعظم محمد علی جناح لے گئے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ ہماری رائے میں جناح نے اپنے عہد کی نبض کو سمجھ لیا تھا، علما ایسا کرنے سے قاصر رہے۔ جناح نے باقی سب امور کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنی جدوجہد کو ’’دستوریت‘‘ سے عبارت کر لیا کیونکہ انگریزوں کی آمد کے بعد حکمرانی کے انداز وآداب، دستوریت اور جمہوریت سے عبارت تھے۔ جناح نے اسی چیز کو بھانپتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور شناخت کے لیے دستوری اقدامات کا مطالبہ کیا اور کانگریس کے انکار اور ہٹ دھرمی پر خود مختار پاکستان کا مطالبہ کر دیا۔ جناح کے خطبات میں وہ ’’تاریخی شعور‘‘ پوری طرح جھلکتا ہے جس کا ابتدائی سطروں میں ذکر ہوا۔ اس تاریخی شعور کی زمین سے ہی مستقبل کا خاکہ یعنی پاکستان تعمیر ہوا۔ اکیسویں صدی کی مسلم لیڈر شپ کو طے کرنا ہوگا کہ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے تشخص کی سلامتی دستوری، عسکری، تبلیغی اور معاشرتی میدانوں میں کس قسم کے اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں ۔ان میں سے کسی ایک پر زور دینا ہوگا یا سبھی سمتوں میں متوازی انداز میں آگے بڑھنا ہوگا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ان کی Presentation کیسے ہوگی؟ مثلاً برصغیر میں دستوری اقدامات کے حوالے سے مسلم مفادات کو جداگانہ انتخابات کی صورت میں پیش کیا گیا۔ اسی طرح مطالبہ پاکستان کی Presentation دو قومی نظریہ اور ’پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ‘ کی صورت میں ہوئی۔ لہٰذا نہایت ضروری امر ہے کہ اپنے عہد کی نبض سمجھنے کے ساتھ ساتھ اقدامات کی Presentation خاصے ڈھنگ سے ہو۔
موجودہ عہد کی تفہیم کے ضمن میں ایک نکتہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ہماری کاوشیں جغرافیائی اور مقامی ہونی چاہییں نہ کہ غیر جغرافیائی اور عالمی۔ یہ حقیقت ہے کہ گلوبلائزیشن سے غیر جغرافیائی عوامل تقویت پکڑ رہے ہیں لیکن دوسری طرف گلوبلائزیشن کے دباؤ سے علاقائیت اور مقامیت بھی رد عمل کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ ہمیں اسلامی عالم گیریت میں موجود مقامی عناصر کو منصہ شہود پر لانا ہوگا تاکہ غلط فہمیاں پیدا نہ ہو سکیں۔
مسلم احیا کے لیے اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے ہمیں ایسے افراد اور انجمنیں تلاش کرنی ہوں گی جن کا تعلق ہمارے مخالفین سے ہو لیکن غیر جانب دار اور سلیم الفطرت ہونے کے ناتے وہ ہمارے لیے نرم گوشہ رکھتے ہوں۔ ایسا گروہ نہ صرف ہماری حمایت کرے گا بلکہ ایک خاص پہلو سے راہنمائی بھی کرے گا۔ مخالفین میں سے ہونے کے ناتے اس گروہ کی رسائی ہمارے مخالفوں کے افکار واعمال کے داخلی ڈھانچے تک بھی ہوگی جس سے ہماری منصوبہ بندی کافی حد تک ممکنہ نقائص سے پاک رہے گی۔ دنیا میں جتنی بھی تحریکات کام یاب ہوئیں، جتنے بھی انقلابات برپا ہوئے، ان میں اس مخصوص گروہ کا کردار نہایت اہم رہا۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ صرف ۱۹۱۷ء کے روسی انقلاب کو ہی دیکھ لیجیے۔ اس میں Narodniks نے بہت فعال کردار ادا کیا۔ (Narodnikism ایک روسی اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے:کسانوں کے ساتھ مواخات)انڈیا، مشرقی یورپ اور دیگر یورپی کالونیوں میں بھی اعلیٰ طبقے کے مقامی لوگوں اور ہم دردی رکھنے والے صاحب اقتدار غیر ملکیوں نے عوام کو انقلاب کی راہ رکھائی۔ 
مسلم احیا کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک تقاضا خو دتنقیدی ہے یعنی اس سفر پر روانہ ہونے کے بعد ہر وقت الرٹ رہنا کہ کیا ہم سچ مچ صحیح سمت میں جا رہے ہیں؟ کیا ہم حقیقی معنوں میں تاریخی شعور کے حامل ہیں؟ کیا ہم نے ماضی قریب کی اسلامی تحریکات کی ناکامی کا تجزیاتی جائزہ لیتے ہوئے درست نتائج اخذ کیے ہیں؟ ہمیں جوش وجذبے کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن کام یابی پانے کے لیے تشکیک اور خود تنقیدی بہت ضروری ہے۔ امریکی انقلاب پر تحقیق کرنے والے محققین کی رائے ہے کہ اس انقلاب کا نہایت اہم پہلو دوران انقلاب اپنے اقدامات پر انتہائی سختی سے ’’سوالات‘‘ کرنا تھا۔ اگر اٹکل پچو انداز اپنایا جاتا تو یقیناًانقلابیوں کے سارے تیر بے ہدف ثابت ہوتے۔
مذکورہ بالا بحث کے ذیلی پہلوؤں پر مشتمل تفصیلی بساط بچھائی جا سکتی ہے لیکن طوالت کے خوف سے اس سے اغماض برتا گیا ہے: تو خود حدیث مفصل بخواں ازیں مجمل۔

دار العلوم دیوبند اور دہشت گردی

مولانا حبیب الرحمن قاسمی

دار العلوم دیوبند محض ایک دینی مدرسہ اور تعلیمی وتربیتی ادارہ ہی نہیں بلکہ ایک عظیم دینی‘ علمی اور اصلاحی تحریک کا عنوان ہے جس نے ملت اسلامیہ کو فکر ونظر کی طہارت وپاکیزگی‘ قلب وجگر کو عزم واستقامت اور جسم وجان کو تازگی وتوانائی بخشنے میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اقامت دین اور حریت فکر کی یہی ہمہ گیر تحریک آج ’’دیوبندیت‘‘ کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے۔یہ دیوبندیت کوئی جدید مذہب یا فرقہ نہیں بلکہ سلف صالحین سے متوارث قدیم مسلک اہل سنت والجماعت کا ایک متوازن وجامع مرقع ہے جس میں اہل سنت والجماعت کی تمام شاخیں مربوط اور ہم آہنگ ہو گئی ہیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبال لاہوریؒ سے کسی نے ایک موقع پر پوچھا تھا کہ یہ دیوبندیت کیا چیز ہے؟ یہ کوئی مذہب وفرقہ ہے؟ تو انہوں نے نہایت مختصر مگر جامع الفاظ میں فرمایا کہ ’’یہ مذہب ہے نہ فرقہ بلکہ ہر معقول پسند آدمی کا نام دیوبندی ہے۔‘‘ ایک جملے میں دیوبندیت کی یہ حقیقت نما تعریف انہیں کے کمال فکر وادب کا حصہ ہے۔
ہندوستان کی سیاسی وثقافتی تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ سلطنت مغلیہ کے زوال کے دوران ہر قسم کا بگاڑ پیدا ہو گیا تھا۔ شریعت کی جگہ رسوم نے‘ عقیدہ کی جگہ توہمات نے اور سیاست کی جگہ سازشوں نے لے لی تھی۔ علماء دین اور مشائخ ارشاد بھی‘ جن کا معاشرہ کی اصلاح میں اہم کردار رہا ہے‘ اس عمومی زبوں حالی سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکے تھے اور مسلکی وطبقاتی تشتت وانتشار کا شکار ہو کر ایک دوسرے سے دست وگریباں تھے۔ فقہا صوفیوں کو ذہنی اوہام کا اسیر‘ باطل تخیلات میں گرفتار اور گم کردہ راہ بتاتے تھے اور صوفیا فقیہوں کو محروم باطن‘ ظاہر پرست اور ذوق شریعت سے عاری ٹھہراتے تھے۔ علماء حدیث متکلمین کو عقل کا غلام اور نصوص کتاب وسنت سے بے گانہ کہتے تھے اور علماء کلام محدثین کو لفظی تعبیرات میں گم بندۂ ظواہر کا طعنہ دیتے تھے اور اس طبقاتی آویزش میں اس قدر شدت پیدا ہو گئی تھی کہ اس نے باہمی نزاع کی صورت اختیار کر لی تھی اور ہر طبقہ دوسرے کے ابطال بلکہ تکفیر پر آمادہ نظر آتا تھا۔ تحریک دار العلوم دیوبند نے اپنے مبنی بر اعتدال اور جامع مسلک میں‘ جو در حقیقت حکیم الامت امام کبیر شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی دعوت اصلاح وانقلاب کا نقش ثانی اور عکس جمیل ہے‘ حدیث‘ تفسیر‘ فقہ‘ اصول فقہ‘ کلام‘ تصوف‘ حقیقت ومعرفت وغیرہ جملہ اسلامی علوم وفنون اور احوال ومقامات کو مناسب ترتیب سے جمع کر دیا کہ تمام اسلامی علوم وفنون اپنی بھرپور افادیت کے ساتھ ہار کے موتیوں کی طرح ایک سررشتہ میں منسلک ہو گئے جس سے مسلکی اور علمی طبقات کے ایک نقطہ پر جمع ہونے کی صورت پیدا ہو گئی۔ بالفاظ دیگر یوں سمجھئے کہ تحریک دار العلوم دیوبند یا دیوبندیت کے دو بنیادی عنصر ہیں: ایک علمی اور دوسرا اخلاقی، اور یہ دونوں عنصر اپنے دامن اعتدال وجامعیت میں تمام اسلامی طبقوں اور مسلکوں کے مغز اور روح کو سمیٹے ہوئے ہیں، اس لیے دیوبندیت صحیح معنوں میں سارے علمی واخلاقی طبقات کا مرکز اجتماع ہے۔ 
دار العلوم دیوبند کے فضلا اور ان فضلا کے تلامذہ نے دیوبندیت کے اسی مذکورہ علمی وفکری منہاج پر اپنے اپنے علاقوں اور دائرۂ اثر ورسوخ میں اسلامی مدرسے اور تعلیمی درس گاہیں قائم کیں۔ یہ سارے ادارے اپنی مستقل حیثیت رکھنے کے باوجود اصولاً اسی نظام شمسی (دار العلوم دیوبند) کے ستارے ہیں جن کی ضیا پاش کرنوں سے نہ صرف برصغیر کا علمی ودینی گوشہ گوشہ تاب ناک ہے بلکہ پورے بر اعظم ایشیا اور اس سے بھی گزر کر افریقہ اور یورپ کے دور دراز بر اعظموں کو بھی علم وہدایت کے اجالے پہنچا رہے ہیں۔ اس طرح دار العلوم دیوبند کی یہ دینی‘ علمی اور اصلاحی تحریک جس کا آغاز ہندوستان کے ایک غیر معروف‘ گم نام قصبے سے ہوا تھا‘ آج ایک عظیم عالم گیر تحریک کی حیثیت سے بین الاقوامی برادری میں اپنی خاص پہچان رکھتی ہے۔ دیوبندی فکر کے حامل دنیا میں پھیلے سارے دینی مدارس دراصل اسی شجرۂ طوبیٰ کی شاخیں ہیں۔ اصل وفرع کا یہ ایسا اٹوٹ رشتہ ہے جو رد وقبول کے رسمی ضابطوں سے بالاتر اور قرب وبعد کی حدوں سے بے نیاز اور معنوی تقسیم وتجزیہ سے ماورا ہے۔
دار العلوم دیوبند اور اس کے فکر وعمل سے ہم آہنگ ان مدارس اسلامیہ میں ایک معقول تعداد ایسے مدرسوں کی بھی ہے جو ہندوستان کی آزادی سے بہت پہلے سے قائم ہیں اور بغیر کسی انقطاع کے مسلسل علم وتہذیب کی روشنی پھیلانے میں مصروف کار ہیں جنہیں سامراجی حکومت بھی اچھی نظر سے دیکھتی تھی اور ان کی علم پروری‘ انسانیت نوازی اور وطن دوستی کی کھلے دل سے معترف تھی۔
غرضیکہ ہندوستان میں موجود ان مدرسوں نے اپنی تعلیم وتربیت کے ذریعے سے جہاں اسلامی علوم وفنون کے ماہرین پیدا کیے‘ جن کی علمی خدمات کی بدولت دنیا میں ہندوستان کا نام سربلند اور روشن ہوا‘ وہیں زندگی کے ہر شعبے کے لیے فرض شناس‘ دیانت دار رجال کار بھی فراہم کیے جن سے براہ راست ملک کے استحکام وترقی میں غیر معمولی تعاون ملا ہے۔ اعلیٰ انسانی قدروں کے فروغ‘ تہذیب وتمدن اور حسن معاشرت کو رواج دینے میں ان مدرسوں نے جو قابل قدر خدمات انجام دی ہیں‘ ان کے پیش نظر بغیر کسی تردد کے کہا جا سکتا ہے کہ ایک منصف مزاج‘ حقیقت شناس‘ تعصب وتنگ نظری سے بری تجزیہ نگار جب حکومتوں کے مصارف اور امداد وتعاون سے چلنے والے تعلیمی اداروں اور ان مدرسوں کی علمی‘ سماجی خدمات کا تفصیلی جائزہ لے گا تو سرکاری تعلیمی اداروں کے مقابلے میں مدارس کی وسیع تر انسانیت نواز خدمات کی تحسین کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
مگر آج کے آزاد بھارت میں، جو دستوری اعتبار سے جمہوریت اور سیکولرازم کا پابند ہے‘ آئین وقانون کی رو سے جہاں ہر مذہبی ولسانی اکائیوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا مکمل حق حاصل ہے‘ ایک خاص فکر وذہن اور سیاسی نقطہ نظر کے تحت سرزمین ہند سے اسلامی مدرسوں کو مٹا دینے یا کم از کم انہیں تہذیبی طور پر بے جان بنا دینے کی ملک گیر پیمانے پر مہم چلائی جا رہی ہے اور عصری سیاست کے ماہر میکاولی کی اس تھیوری کے مطابق کہ ’’اپنے دشمن کو مارنے سے پہلے ضروری ہے کہ اسے خوب بدنام کیا جائے‘‘ انسانی قدروں کے محافظ ان مدرسوں کو بغیر کسی معقول بنیاد اور قانونی ثبوت کے دہشت گرد بتایا جا رہا ہے اور حیرت تو اس پر ہے کہ دہشت گردی جن لوگوں کی سرشت میں پیوست ہے‘ جن کا دامن حیات دہشت گردی کے سیاہ داغوں سے تیرہ وتاریک ہے‘ جن کی دہشت گردیوں سے ملک کی سب سے زرخیز اور ہر اعتبار سے شاد وآباد ریاست کھنڈر میں تبدیل ہو گئی ہے‘ جن کے دہشت گردانہ حملوں سے زندوں کے مکانات‘ مردوں کے مزارات‘ اقلیتوں کی عبادت گاہیں ہی نہیں بلکہ ریاست کی اسمبلیاں تک محفوظ نہیں ہیں، جن کی دہشت گردیوں کی شہادت مظلوم اقلیتوں کے خون سے لت پت ارض وطن کا چپہ چپہ دے رہا ہے‘ آج یہی لوگ ان مدارس کو دہشت گرد بتاتے ہیں جن کی سلامت روی‘ امن پروری اور وطن دوستی کے اپنے ہی نہیں‘ پرائے تک معترف ہیں۔ اسی جون‘ جولائی کے مہینوں میں فرانس اور جرمنی کے سفرا برائے ہند نے دیوبندی مکتب فکر سے متعلق براہ راست معلومات فراہم کرنے اور صحیح حقائق کو جاننے کی غرض سے دار العلوم دیوبند آکر یہاں کے نظام تعلیم وتربیت کا بغور مطالعہ کرنے‘ طلبہ واساتذہ اور انتظامیہ سے براہ راست گفتگو کرنے کے بعد اپنے تحریری معائنے میں صاف لفظوں میں اس کا اعتراف کیا کہ دار العلوم دیوبند اور دیوبندی مکتبہ فکر کے بارے میں آج کل جو باتیں پھیلائی جا رہی ہیں‘ ان کا حقائق وواقعات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ بالخصوص جرمنی کے نائب سفیر نے تو دار العلوم دیوبند میں چوبیس گھنٹے سے زائد گزارے اور درس گاہوں میں جا کر اساتذہ کی درسی تقریریں سنیں‘ طلبہ کے حجروں میں پہنچ کر ان کے رہن سہن اور طرز زندگی کو سمجھنے اور ان سے طویل گفتگو کر کے ان کے عندیہ تک پہنچنے کی کوشش کی۔ اس تفصیلی تحقیق وتفتیش کے بعد وہ اس درجہ متاثر ہوئے کہ حضرت مہتمم صاحب مدظلہ سے عرض کیاکہ ہم چاہتے ہیں کہ یہاں کے اساتذہ کا ایک وفد ہمارے یہاں جرمن آئے اور وہاں آباد مسلمانوں کو اپنے خیالات اور طرز معاشرت سے آگاہ کرے اور مزید برآں دہلی واپس جا کر دار العلوم دیوبند کے بارے میں انگریزی اخبارات میں ایک مضمون بھی شائع کرایا جس میں اس کے بارے میں نہایت اچھے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
یہ ہے دار العلوم دیوبند اور دیوبندیت کی غیروں کی نظر میں سچی تصویر جسے خود دیش باشی اپنے سیاسی مقاصد اور تنظیمی مفاد کے تحت دہشت گرد بتا رہے ہیں اور دنیا کو گمراہ کرنے کے لیے اپنے اہل کاروں سے جھوٹی رپورٹیں اور آرٹیکل تحریر کرا کے عالم گیر پیمانے پر انہیں نشر کیا جا رہا ہے:
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
لیکن یہ اغراض پسند اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ جب تک ہندوستان میں آئین وانصاف کی عمل داری باقی ہے‘ حق وباطل میں امتیاز کرنے کی صلاحیت زندہ ہے‘ تہذیب وشرافت کا بول بالا ہے اور انسانی قدروں کا احترام جاری ہے‘ یہ لوگ اپنے مذموم سیاسی مقاصد میں کام یاب نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ان جھوٹے‘ من گھڑت پروپیگنڈوں سے علم وتہذیب کے ان سرچشموں کو گدلا کر سکتے ہیں کیونکہ سچائی اور صداقت بہرحال زندہ وپائندہ رہتی ہے اور جھوٹ وفریب کی قسمت میں تباہی وبربادی ہی ہے۔ جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا۔
(بشکریہ ماہنامہ ’’دار العلوم‘‘ دیوبند)

الشریعہ اکادمی میں چالیس روزہ کورس کی اختتامی تقریب

ادارہ

۲۴۔ اگست ۲۰۰۲ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں چالیس روزہ ’’خصوصی مطالعاتی کورس‘‘ کی اختتامی تقریب اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کی زیر صدارت منعقد ہوئی جس میں ناظم سٹی تحصیل گوجرانوالہ الحاج بابو جاوید احمد نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی اور سفیر ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی نے ’’تحفظ عقیدۂ ختم نبوت کے چند ضروری تقاضے‘‘ کے موضوع پر کورس کے شرکا کو لیکچر دیا۔ تقریب میں شہر کے سرکردہ علماء کرام اور معززین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور مولانا چنیوٹی کی دعا پر تقریب اختتام پذیر ہوئی۔
الحاج بابو جاوید احمد نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مسائل اور مشکلات کی اصل وجہ دینی تعلیمات سے دوری ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ دین کی دعوت اور تبلیغ کے عمل کو وسیع کیا جائے اور نئی نسل کو قرآن کریم اور سنت نبوی کی تعلیمات وہدایات سے روشناس کرانے کے لیے زیادہ سے زیادہ محنت کی جائے۔
مولانا منظور احمد چنیوٹی نے کہا کہ ’’عقیدۂ ختم نبوت‘‘ اسلام کی بنیاد ہے اس لیے کہ نیا نبی قبول کرنے سے دین کی ہر بات کی تبدیلی کا امکان پیدا ہو جاتا ہے لہٰذا عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ پر ہی دین اسلام کے تحفظ کا دار ومدار ہے۔ انہوں نے کہا کہ منکرین ختم نبوت بالخصوص قادیانیوں کی سرگرمیاں دنیا بھر میں پھیلتی جا رہی ہیں اور زیادہ تر سادہ لوح مسلمان ان کے دام ہم رنگ زمیں کا شکار ہوتے ہیں اس لیے علماء کرام اور دینی اداروں کو چاہیے کہ وہ عام مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں کو اس فریب سے بچانے کے لیے محنت کریں۔
مولانا زاہد الراشدی نے الشریعہ اکادمی کی سالانہ تعلیمی رپورٹ تقریب کے شرکا کی خدمت میں پیش کی اور اس موقع پر بتایا کہ درس نظامی کے فضلا کے لیے ایک سالہ خصوصی کورس ترتیب دیا جا رہا ہے جس میں تاریخ اسلام‘ تقابل ادیان‘ سیاسیات‘ صحافت‘ معاشیات‘ نفسیات‘ بین الاقوامی قوانین ونظام کا تقابلی مطالعہ‘ کمپیوٹر ٹریننگ اور انگریزی زبان کے کورس کے ساتھ ساتھ امام ولی اللہ دہلویؒ کے فلسفہ وافکار پر مشتمل ضروری مضامین شامل ہوں گے اور تحقیق ومطالعہ اور مضمون نویسی کی مشق بھی کرائی جائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
چالیس روزہ کورس کے ایک شریک طالب علم مولوی فضل رحیم صاحب آف مانسہرہ نے تقریب میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ان چالیس دنوں میں بہت کچھ سیکھا ہے اور ہمیں پہلی بار اس بات کا صحیح طور پر اندازہ ہوا ہے کہ آج کی دنیا کے تقاضے کیا ہیں اور ہمیں آج کے ماحول میں اسلام کی دعوت وتبلیغ اور دین کی خدمت کے لیے کیا کچھ سیکھنے اور کرنے کی ضرورت ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہماری تجویز ہے کہ اس قسم کے کورسز کا دائرہ اور دورانیہ وسیع کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ علما اور طلبہ اس سے استفادہ کریں۔

۲۰۰۱/ء۲۰۰۲ء کی تعلیمی رپورٹ

الشریعہ اکادمی میں ۲۰۰۱/۲۰۰۲ء کے تعلیمی سال میں مندرجہ ذیل کورسز پڑھائے گئے:

انگلش لینگویج کورس:

دینی مدارس کے طلبہ کے لیے تین ماہ کا انگلش لینگویج کورس جو اپریل تا جون جاری رہا اور اس میں ۳۲طلبہ نے شرکت کی۔

کمپیوٹر ٹریننگ کورس:

دینی مدارس کے طلبہ کے لیے کمپیوٹر ٹریننگ کا تین ماہ کا کورس جو اپریل تا جون جاری رہا اور اس سے ۶۰ طلبہ نے استفادہ کیا۔

چالیس روزہ خصوصی مطالعاتی کورس:

موسم گرما کی تعطیلات کے دوران چالیس روزہ خصوصی مطالعاتی کورس کا اہتمام کیا گیا جس میں مندرجہ ذیل حضرات نے شرکت کی:
۱۔ مولوی خرم شہزاد آف نواب شاہ ۲۔ مولوی محمد نعیم آف وہاڑی ۳۔ مولوی خلیل احمد فاروقی آف کرک 
۴۔ مولوی کلیم اللہ طاہر آف کرک ۵۔ حافظ نثار احمد آف حافظ آباد ۶۔ مولوی اشرف علی آف راول پنڈی ۷۔ مولوی محمد ابراہیم خٹک آف کرک ۸۔ مولوی فضل رحیم آف مانسہرہ ۹۔ مولوی محمد ذکر اللہ آف فاریاب ۱۰۔ مولوی عابد رضا آف ملتان ۱۱۔ قاری محمد داؤد خان نوید آف گوجرانوالہ 
ان طلبہ کے لیے ۱۔ حجۃ اللہ البالغہ کے منتخب ابواب کے علاوہ ۲۔ بین الاقوامی قوانین کے ساتھ اسلامی قوانین کے تقابل‘ ۳۔ یہودیت ومسیحیت کی تاریخ‘ ۴۔ مرحلہ وار تاریخ اسلام‘ ۵۔ ابتدائی معاشیات‘ ۶۔ ابتدائی سیاسیات‘ ۷۔ انگلش لینگویج‘ ۸۔ کمپیوٹر ٹریننگ اور ۹۔ مضمون نویسی کی مشق کے حوالے سے لیکچرز‘ مطالعہ اور بریفنگ کا اہتمام کیا گیا۔ اساتذہ میں مولانا زاہد الراشدی‘ حافظ محمد عمار ناصر‘ پروفیسر میاں انعام الرحمن‘ یحییٰ خرم اور مولانا محمد یوسف شامل تھے۔

درجہ اولیٰ (صرف ونحو):

اس کے علاوہ درجہ اولیٰ میں صرف ونحو کی ایک کلاس بھی چل رہی ہے جس میں چار طالب علم شریک ہیں۔

عربی گریمر وترجمہ قرآن مجید:

عربی گریمر کے ساتھ ترجمہ قرآن کریم کی کلاس ڈیڑھ سال سے جاری ہے۔ اس میں آٹھ طلبہ شریک ہیں اور دس پاروں کا ترجمہ وتفسیر مکمل ہو چکا ہے۔

اکتوبر ۲۰۰۲ء

’دہشت گردی‘ کے حوالے سے چند معروضاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دعوتِ دین کا حکیمانہ اسلوبپروفیسر محمد اکرم ورک
امریکی جارحیت کے محرکاتپروفیسر میاں انعام الرحمن
اسلامی تحریک کا مستقبل: چند اہم مسائلراشد الغنوشی
علما اور عملی سیاستخورشید احمد ندیم
ملکی سیاست اور مذہبی جماعتیںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
عوام مذہبی جماعتوں کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟پروفیسر میاں انعام الرحمن
مذہبی جماعتوں کی ’’دکھتی رگ‘‘جاوید چودھری
تعارف و تبصرہادارہ

’دہشت گردی‘ کے حوالے سے چند معروضات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلامی نظریاتی کونسل کا سوال نامہ

اسلام امن وآشتی اور صلح وسلامتی کا مذہب ہے، اس نے انسانی زندگی کی حرمت کو اتنی اہمیت دی ہے کہ ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے اور اگر کسی مسلمان ملک میں غیر مسلم اقلیت آباد ہو تو اس کی جان ومال اور عزت وآبرو کے تحفظ کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے، نیز نجی زندگی سے متعلق معاملات میں انہیں اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی دی گئی ہے۔ اس نے نہ صرف ظلم وتعدی سے روکا ہے بلکہ ظلم کے جواب میں بھی دوسرے فریق کے بارے میں حد انصاف سے متجاوز ہو جانے کو ناپسند کیا ہے اور انتقام کے لیے بھی مہذب اور عادلانہ اصول وقواعد مقرر کیے ہیں۔
لیکن بد قسمتی سے زیادہ تر اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کی نیت سے اور کسی قدر غلط فہمیوں کی بنا پر اس وقت عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا ہے اور اس جھوٹ کو اس قدر دہرایا گیا ہے کہ اب ایک طبقہ اسلام اور دہشت گردی کو مترادف سمجھنے لگا ہے۔ ان حالات میں علما، فقہا اور ارباب افتا کی ذمہ داری ہے کہ دہشت گردی کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر کو واضح کریں اور اسلام نے امن، صلح، عدل، مذہبی رواداری اور غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک کی جو ہدایات دی ہیں، ان کو واضح کریں تاکہ لوگوں کے سامنے اسلام کی حقیقی اور سچی تصویر آ سکے۔
اس پس منظر میں درج ذیل سوالات آپ کی خدمت میں پیش ہیں:
۱۔ اسلامی نقطہ نظر سے ’دہشت گردی‘ کی تعریف اور حقیقت کیا ہے؟
۲۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض اوقات حکومتیں اپنے ملک میں بسنے والے تمام طبقات کے ساتھ عدل ومساوات کا سلوک نہیں کرتیں بلکہ بعض طبقات کے ساتھ سیاسی ومعاشی نا انصافی روا رکھی جاتی ہے اور کبھی تو ان کے جان ومال کے تحفظ میں بھی دانستہ کوتاہی سے کام لیا جاتا ہے یا سرکاری سطح پر ایسی تدبیریں کی جاتی ہیں کہ وہ طبقہ جانی ومالی نقصان سے دوچار ہو ۔ تو کیا حکومتوں کے اس غیر منصفانہ اور ظالمانہ رویے پر بھی ’دہشت گردی‘ کا اطلاق ہوگا؟
۳۔ اگر کسی گروہ یا طبقہ کے ساتھ نا انصافی روا رکھی جاتی ہے تو اس پر احتجاج اور رد عمل کا اظہار جائز ہے یا واجب؟ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات کو بھی ملحوظ رکھا جائے کہ کیا مظلوم کا ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا بھی ’دہشت گردی‘ کے دائرے میں آتا ہے؟
۴۔ اگر ایک طبقہ کی طرف سے ظلم وزیادتی ہو جس میں اس طبقہ کے کچھ افراد شریک ہوں تو کیا مظلوموں کو ظلم کرنے والے گروہ کے ان لوگوں سے بدلہ لینا جائز ہے جو بے قصور ہوں اور جو خود اس ظلم میں شامل نہ ہوں؟
۵۔ مسلمان ملکوں میں جو غیر مسلم شہری آباد ہیں، ان کو اپنے مذہبی معاملات یعنی عقیدہ، عبادت، شخصی قوانین وغیرہ میں کس حد تک آزادی حاصل ہے؟
۶۔ جہاں بھی دہشت گردی پیدا ہوتی ہے، وہاں اس کے کچھ بنیادی اسباب ومحرکات ہوتے ہیں، جیسے کسی گروہ کے ساتھ معاشی یا سیاسی ناانصافی، یا کسی گروہ کے اندر طاقت وقوت کے ذریعہ حکومت اور معاشی وسائل پر تسلط حاصل کر لینے کی خواہش۔ ان اسباب کے تدارک کے لیے اسلام کیا ہدایات دیتا ہے؟
۷۔ اگر کسی گروہ یا فرد کی جان ومال یا عزت وآبرو پر حملہ کیا جائے تو اس کے دفاع کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ حتی المقدور مدافعت واجب ہے، مباح ہے یا مستحب؟ نیز حق مدافعت کے حدود کیا ہیں؟

مولانا زاہد الراشدی کا جواب

نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین
اسلام بلاشبہ صلح وآشتی اور امن وسلامتی کا دین ہے اور جناب نبی اکرم ﷺ نے اسلام اور ایمان کا ایک معنی یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان کے شر سے لوگ محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے جسے دوسرے لوگ اپنی جان ومال پر امین سمجھیں اور انہیں اپنی جان ومال اور آبرو کے حوالے سے اس سے کوئی خطرہ محسوس نہ ہو لیکن اس کے ساتھ ہی اسلام اعتدال وتوازن کا دین بھی ہے جو دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق کے تحفظ اور حصول کا راستہ بھی بتاتا ہے اور اس کی تلقین کرتا ہے۔
ظلم وتعدی اور جبر ونا انصافی انسانی سوسائٹی کے لوازم میں سے ہے جو نسل انسانی کے آغاز سے جاری ہے اور اس کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا اس لیے ایک جامع اور مکمل ضابطہ حیات اور نظام زندگی کی حیثیت سے اسلام ظلم وتعدی کو روکنے اور جبر ونا انصافی کے سدباب کے لیے بھی ایک مستقل فلسفہ ونظام رکھتا ہے جس کی تفصیلات قرآن وحدیث اور فقہ کی کتابوں میں موجود ہیں اور ہر دور میں اس زمانے کے مقتضیات اور احوال کی روشنی میں فقہاء امت اس فلسفہ ونظام کی احکام وقواعد کی شکل میں وضاحت کرتے آ رہے ہیں۔
خلافت راشدہ سے لے کر خلافت عثمانیہ کے خاتمہ (۱۹۲۴ء) تک چونکہ اسلامی احکام وقوانین کا نفاذ کسی نہ کسی شکل میں اور کسی نہ کسی سطح پر تسلسل کے ساتھ موجود رہا ہے اس لیے ہر دور میں نئے پیش آمدہ مسائل ومشکلات کا حل بھی ساتھ ساتھ سامنے آتا رہا ہے جس میں قضاۃ کے اجتہادی فیصلوں کے علاوہ ارباب علم اور اصحاب استنباط کی آزادانہ اجتہادی کاوشیں بھی شامل ہیں اور انسانی سوسائٹی کے حالات میں تغیر کے ساتھ ساتھ اجتہادی دائرہ میں ضرورت کے مطابق شرعی احکام وقوانین میں تغیر وتبدل کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے البتہ خلافت کے زوال وادبار کے دور میں بد قسمتی سے اجتماعی زندگی کے مسائل وضروریات کی طرف اہل علم ودانش کی توجہ کم ہوتی گئی اور بیرونی افکار ونظریات اور فلسفہ وتہذیب کے مسلم معاشرے میں فروغ کے باعث اور اس سے پیدا ہونے والی آزاد روی کی وجہ سے ارباب فقہ واستنباط تحفظات کا شکار ہو کر ’’جمود‘‘ پر قناعت میں عافیت محسوس کرنے لگے تو جدید پیش آمدہ مسائل اور فکری وعلمی چیلنجز کے حوالے سے استنباط اور اجتہاد کا وہ تسلسل قائم نہ رہ سکا جو تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے زمانے کی رفتار کا ساتھ دے سکتا اور اگرچہ علمی اداروں اور شخصیات نے اس خلا کو پر کرنے کی اپنے اپنے طور پر کوشش کی لیکن تنفیذی اور اجتماعی اجتہاد واستنباط کے فقدان اور شخصیات ومراکز کے انفرادی اجتہاد واستنباط میں فطری اختلاف کے باعث وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے جو اس اجتہاد واستنباط کا اصل مقصد وہدف تھے اور باہمی ربط ومفاہمت کا کوئی سسٹم موجود نہ ہونے کی وجہ سے نظری وفکری خلفشار کا عنوان بن گئے۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمے اور اقوام متحدہ کے تحت اس کے منشور کے حوالے سے ایک نئے عالمی نظام کے آغاز کے بعد دنیا کی صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی تھی اور بین الاقوامی تعلقات کے ساتھ ساتھ ہمارے داخلی اجتماعی نظام کے احکام وقوانین کا بھی ایک بڑا حصہ شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے اجتہاد واستنباط کے ایک نئے اور ہمہ گیر عمل سے گزارے جانے کا متقاضی تھا لیکن عالمی سطح پر ملت اسلامیہ کے پاس اس کا کوئی فورم موجود نہیں تھا، مسلم حکومتوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور انفرادی طور پر اس عمل کا اہتمام کرنے والے مراکز وشخصیات پر علاقائی، گروہی اور طبقاتی رجحانات کا غلبہ ایک فطری امر ہے اس لیے یہ خلا نہ صرف باقی چلا آ رہا ہے بلکہ فطری طور پر پر نہ ہونے کی وجہ سے فکری خلفشار اور انتشار کی کیفیت نمایاں نظر آ رہی ہے اور اس وقت ہماری صورت حال یہ ہے کہ:
اس وسیع تناظر میں دہشت گردی کا اسلامی نقطہ نظر سے جائزہ لینا یقیناًایک اہم بات ہے اور اس کی ضرورت واہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس جزوی مسئلہ سے پہلے بہت سے اصولی معاملات اہل علم کی توجہات کے مستحق ہیں اور سب سے زیادہ اہمیت کا حامل یہ مسئلہ ہے کہ عالم اسلام کو اس مخمصہ سے نکالنے اور اس کی آزادی وخود مختاری بحال کرنے کے لیے ہمارے ارباب علم ودانش جہد وعمل کا کون سا خاکہ تجویز کرتے ہیں؟ اور وہ ملت اسلامیہ کو موجودہ صورت حال پر قناعت کرنے یا اس سے جان چھڑانے کے لیے کچھ کر گزرنے میں سے کون سا راستہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں؟ پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ دہشت گردی کی اسلامی حیثیت اور اس کے بارے میں شرعی احکام وقوانین کی وضاحت کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟ اور اس کی اصل غرض کیا ہے؟ اگر تو اس کا مقصد عالم اسلام کی دینی تحریکات کی راہ نمائی کرنا ہے اور ان کو یہ بتلانا ہے کہ ملت اسلامیہ کی خود مختاری کی بحالی، خلافت اسلامیہ کے احیا، عالم اسلام کے وسائل کی بازیابی اور مسلم اقوام وممالک کے گرد عالمی استعمار کے حصار کو توڑنے کے لیے ان کی جدوجہد کو ان شرعی حدود کا پابند رہنا چاہیے اور انہیں ارباب علم ودانش کی راہ نمائی کے دائرے سے باہر نہیں نکلنا چاہیے تو یہ ایک مفید اور مثبت عمل ہے جس کی ضرورت مسلم ہے اور اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر اس سارے عمل کی غرض دہشت گردی کے حوالے سے عالمی استعمار کو مطمئن کرنا اور قاعدین ومتخلفین کو ان کے قعود وتخلف کے لیے جواز اور اس کے دلائل فراہم کرنا ہے تو اس سے زیادہ قابل نفرین عمل کا موجودہ حالات میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
جہاں تک عالم اسلام کی بعض عسکری تحریکات پر ’’دہشت گردی‘‘ کا لیبل چسپاں کرنے کا تعلق ہے، اس کے بارے میں ایک اصولی بات ہر شخص کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ عمل کے احکام سے رد عمل کے احکام مختلف ہوتے ہیں اور کسی ایکشن پر جن قواعد وضوابط کا اطلاق ہوتا ہے، اس کے ری ایکشن پر انہی قواعد وضوابط کا کلیتاً اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اصول دنیا کے ہر قانونی نظام میں تسلیم شدہ ہے اور قرآن کریم نے بھی سورۃ النساء آیت ۱۴۸ میں اس اصول کو اس حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ کسی شخص کی بری بات کو ظاہر کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے مگر مظلوم کو اجازت ہے کہ وہ اپنے اوپر ظلم وزیادتی کو روا رکھنے والے ظالم کی برائی کو ظاہر کرے۔ گویا جس بات کی ایکشن اور عمل میں شرعاً اجازت نہیں ہے، ری ایکشن اور رد عمل میں قرآن کریم اس کی اجازت دے رہا ہے۔ اس سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آ جانی چاہیے کہ کوئی مظلوم رد عمل میں کوئی ایسی بات کر گزرتا ہے جس کی عام حالات میں اجازت نہیں ہے تو اس کی مظلومیت کا لحاظ رکھتے ہوئے اس معاملے میں اس سے درگزر کر دینا ہی اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے۔
اس لیے واقعاتی پس منظر کی تفصیل میں جائے بغیر اصولی طور پر یہ عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عالم اسلام کی جن تحریکات اور گروپوں کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیا جا رہا ہے، ان کے بارے میں اس بات کا جائزہ لے لینا چاہیے کہ اگر وہ غلبہ اور اقتدار کے شوق میں ایسا کر رہے ہیں اور حکمرانی کی حرص نے انہیں ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا ہے تو ان کے ’’دہشت گرد‘‘ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے لیکن اگر انہیں کسی طرف سے ہونے والے مظالم اور جبر نے رد عمل کے طور پر اس راستے پر ڈالا ہے اور جبر واستبداد کے حصار کو توڑنے میں دیگر کسی متبادل حربہ اور کوشش میں کام یابی کا کوئی امکان نہ دیکھتے ہوئے ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق وہ ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں تو انہیں اس رعایت سے محروم کر دینے کا کوئی جواز نہیں ہے جو خود اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی آیت ۱۴۸ میں مظلوموں کے لیے بیان فرمائی ہے۔
ان تمہیدی گزارشات کے بعد ہم ان سوالات کی طرف آتے ہیں جو مذکورہ بالا سوال نامہ میں اٹھائے گئے ہیں۔
ان میں سے پہلا سوال یہ ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے دہشت گردی کی تعریف کیا ہے؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ قرآن کریم نے سورۃ المائدہ کی آیت ۳۳ میں ’’محاربہ‘‘ کا جو حکم بیان فرمایا ہے، ہمیں اس پر غور کر لینا چاہیے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو سزا کا مستحق بتایا ہے، ان کے دو وصف بیان فرمائے ہیں:
ایک : یحاربون اللہ ورسولہ کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ لڑتے ہیں جس سے مراد ہمارے خیال میں یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے قائم کردہ نظام سے بغاوت کرتے ہیں۔
دوسرا : ویسعون فی الارض فساداکہ وہ زمین میں فساد پھیلانا چاہتے ہیں جس کا معنی آج کی معروف زبان میں یہ ہوگا کہ وہ امن عامہ کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔
اس آیت کریمہ کی روشنی میں ہمارے ناقص فہم کے مطابق جو لوگ کسی جائز اور قانونی سسٹم کے خلاف ناجائز طور پر بغاوت کرتے ہیں اور عام شہریوں کی جان ومال کے لیے بلاوجہ خطرہ بن جاتے ہیں، وہ ’’دہشت گرد‘‘ کہلائیں گے۔ 
کسی حکومت کے جائز اور قانونی ہونے کے لیے اس دور کے عرف کو دیکھا جائے گا کہ اس وقت بین الاقوامی تعامل اور عرف کی رو سے کون سی حکومت کو جائز اور قانونی سمجھا جاتا ہے جبکہ بغاوت کے جائز یا ناجائز ہونے میں بھی اسی بین الاقوامی عرف کا اعتبار ہوگا لیکن اس میں ایک بات کو ملحوظ رکھنا ہوگا کہ عرف اور تعامل اور چیز ہے اور کسی مخصوص مسئلہ پر عالمی برادری کا طرز عمل اس سے بالکل مختلف معاملہ ہے جس کا تجربہ ہمیں حال ہی میں افغانستان کے حوالے سے ہوا ہے کہ وہاں طالبان کی حکومت نے ملک کے ۹۰ فیصد علاقہ کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا، دار الحکومت کابل بھی ان کے کنٹرول میں تھا اور ان کے زیر اثر علاقہ میں امن کا قیام اور ان کے احکام کی عمل داری بھی تسلیم شدہ ہے۔ آج کے بین الاقوامی عرف میں کسی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے یہ باتیں کافی سمجھی جاتی ہیں بلکہ اس سے کم تر اہداف حاصل کرنے والی حکومتیں بھی تسلیم کر لی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود عالمی برادری نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس پر فوج کشی کر کے اسے جبراً ختم کر دیا۔ اس لیے ہمیں عرف وتعامل اور وقتی طرز عمل میں فرق کو ملحوظ رکھنا ہوگا اور اب تو یہ فرق اس قدر واضح ہو گیا ہے اور بڑھتا جا رہا ہے کہ بین الاقوامی قوانین وضوابط، اخلاقیات اور عالمی سیاسیات کی بیشتر اقدار وروایات کا مفہوم ومعیار تک بدل کر رہ گیا ہے۔
دوسرا سوال اس حوالے سے ہے کہ کوئی حکومت اپنے ملک کے کسی طبقہ کے ساتھ انصاف نہیں کرتی اور ان کے سیاسی حقوق اور جان ومال تک کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے تو کیا اس حکومت کے ایسے طرز عمل کو بھی ’’دہشت گردی‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس کے جواب میں گزارش ہے کہ کوئی حکومت اپنی رعیت کے کسی طبقے کو اس کے جائز حقوق سے محروم رکھتی ہے اور اس محروم رکھنے میں ریاستی جبر کا ایسا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے جس سے اس طبقہ کے وجود اور اس کے افراد کی جان ومال کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں تو یہ بات یقیناً’’ریاستی دہشت گردی‘‘ کہلائے گی۔ 
تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر کسی گروہ یا طبقہ کے ساتھ نا انصافی روا رکھی جاتی ہو تو اس پر احتجاج اور رد عمل کی کیا حیثیت ہے؟ اور کیا مظلوم کا ظالم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا بھی ’’دہشت گردی‘‘ کہلائے گا؟
اس سلسلے میں گزارش ہے کہ مظلوم کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا دنیا کے ہر قانون میں حق حاصل ہے اور اسلام بھی اسے یہ حق دیتا ہے۔ اب اس حق کی درجہ بندی کہ یہ جائز ہے یا واجب، اس کا انحصار اس وقت کے حالات پر اور مظلوم کی صواب دید پر ہے۔ اسلام نے اس میں دو درجے رکھے ہیں: عزیمت اور رخصت۔ اگر وہ عزیمت پر عمل کرتا ہے اور اپنے حق کے لیے ظالم کے خلاف جدوجہد کرتا ہے تو اسے اس کا حق حاصل ہے اور اگر صبر وتحمل کے ساتھ رخصت کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس کے لیے اس کا جواز بھی ہے چنانچہ جناب نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص اپنی جان کی حفاظت میں مارا گیا ، وہ شہید ہے۔ جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا گیا، وہ شہید ہے اور جو شخص اپنی عزت کی حفاظت میں مارا گیا، وہ بھی شہید ہے۔ اس ارشاد نبویؐ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ رخصت پر عمل کی اجازت ہے، لیکن ترجیح بہرحال عزیمت ہی کو حاصل ہے۔
باقی رہی بات ہتھیار اٹھانے کی تو فقہائے کرام کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ شخصی اور انفرادی معاملات میں تو قانون کو ہاتھ میں لینے اور ہتھیار اٹھانے کی شرعاً اجازت نہیں ہے اور ایسا کرنا بغاوت کے زمرے میں آئے گا البتہ اجتماعی معاملات میں (۱) مسلم حکمران کی طرف سے کفر بواح کے ارتکاب اور (۲) مسلم اکثریت پر غیر مسلم اقلیت کا جبری اقتدار قائم ہو جانے کی صورت میں ہتھیار اٹھانے کی اجازت ہے جو بسا اوقات فرض کا درجہ بھی اختیار کر جاتا ہے جیسا کہ دہلی پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا اقتدار قائم ہو جانے کے بعد حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ اور دیگر اکابر علماء کرام نے جہاد کا فتویٰ صادر کیا تھا۔
حملہ آور قوت کے خلاف اپنی آزادی اور خود مختاری کے لیے ہتھیار اٹھانے کے حق کو دنیا کے ہر قانون میں تسلیم کیا جاتا ہے اور اسے حریت اور آزادی کی جنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسے ’’دہشت گردی‘‘ قرار دینا ایسا ہے جیسے یہ کہہ دیا جائے کہ برطانوی استعمار سے آزادی کے لیے جن امریکی حریت پسندوں نے ہتھیار اٹھائے تھے اور اس جنگ میں انہوں نے متعلقہ اور غیر متعلقہ ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، وہ حریت پسند نہیں بلکہ ’’دہشت گرد‘‘ تھے اور اسی طرح دنیا بھر کی وہ تمام اقوام وممالک دہشت گرد قرار پائیں گے جنہوں نے غیر ملکی قابضین اور نوآبادیاتی حکمرانوں کے خلاف جنگ لڑ کر آزادی حاصل کی ہے۔
چوتھا سوال یہ ہے کہ اگر کسی طبقہ کے کچھ افراد نے ظلم کیا ہے تو کیا مظلوموں کو یہ حق حاصل ہے کہ اس طبقے کے دوسرے افراد کو انتقام کا نشانہ بنائیں جو اس عمل میں شریک نہیں تھے؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ جہاں تک غیر متعلقہ لوگوں کو انتقام کا نشانہ بنانے کا تعلق ہے، اسلام اس کی کسی صورت میں اجازت نہیں دیتا۔ یہ بھی اسی طرح کا ظلم ہوگا جس کا وہ مظلوم خود نشانہ بن چکے ہیں۔ البتہ ظالموں کے خلاف کارروائی کے دوران کچھ لوگ ناگزیر طور پر زد میں آتے ہوں تو ان کا معاملہ مختلف ہے۔ جناب نبی اکرم ﷺ نے جہاد میں عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور غیر متعلقہ افراد کو قتل کرنے سے صراحتاً منع کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی مسلم شریف کتاب الجہاد میں حضرت صعب بن جثامہؓ کی یہ روایت بھی موجود ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ یا رسول اللہ! ہم ایک جگہ شب خون مارنا چاہتے ہیں مگر وہاں عورتیں اور بچے بھی ہیں تو جناب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ: ہم منہم ’’وہ انہی میں سے ہیں‘‘ یعنی اگر وہ شب خون (چھاپہ مار کارروائی) کی زد میں ناگزیر طور پر آتے ہیں تو وہ انہی میں شمار ہوں گے اور ان کی وجہ سے کارروائی روکی نہیں جائے گی۔
پانچواں سوال یہ ہے کہ مسلمان ملکوں میں جو غیر مسلم شہری آباد ہیں، ان کو اپنے مذہبی معاملات یعنی عقیدہ، عبادت، شخصی قوانین وغیرہ میں کس حد تک آزادی حاصل ہے؟ اس کے جواب میں ہمارا طالب علمانہ نقطہ نظر یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں کوئی مسلم حکومت ایسی نہیں ہے جس پر ’اسلامی حکومت‘ کا اطلاق کیا جا سکے یا جسے خلافت کا قائم مقام قرار دیا جائے اور اس کے دائرے میں رہنے والے غیر مسلموں کو ذمیوں کا درجہ دینا شرعاً ضروری ہو جبکہ کم وبیش تمام مسلم ممالک اقوام متحدہ کے منشور پر دستخط کرنے کے علاوہ اس حوالے سے دیگر بین الاقوامی معاہدوں کی پابندی بھی قبول کر چکے ہیں اس لیے جب تک خلافت کا احیا نہیں ہوتا اور خالصتاً اسلامی شرعی حکومت قائم نہیں ہو جاتی، ہم ’’میثاق مدینہ‘‘ کی طرز پر بین الاقوامی معاہدات کے پابند ہیں اور ہمیں ان پر عمل درآمد کرنا چاہیے الا یہ کہ ان میں سے کوئی بات کسی مسلمان ملک کی خود مختاری وسالمیت اور مسلمانوں کے ملی مفاد کے لیے صریحاً خطرے کا باعث ہو تو اس میں وہ ملک ضروری تحفظات اختیار کر سکتا ہے۔
چھٹا سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کے ہر جگہ کچھ نہ کچھ اسباب ہوتے ہیں۔ اسلام ان اسباب کے تدارک کے لیے کیا ہدایات دیتا ہے؟
اس سلسلے میں عرض ہے کہ دہشت گردی فی الواقع بہت بڑا جرم ہے۔ اسلام تو عام معاشرتی جرائم میں بھی مجرم کے لیے سخت سزائیں تجویز کرنے کے ساتھ ساتھ جرم کے اسباب وعوامل کے تدارک کا حکم دیتا ہے اور ان دواعی کا راستہ روکتا ہے جو کسی شخص کو جرم تک لے جاتے ہیں۔ اسلام کا یہی اصول دہشت گردی کے بارے میں بھی ہے۔ اس پس منظر میں ہمارے نزدیک دہشت گردی کے حوالے سے دو محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک محاذ یہ ہے کہ جو عالمی قوتیں ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا عنوان اختیار کرکے دنیا بھر کی دینی تحریکات کو ٹارگٹ بنائے ہوئے ہیں، انہیں اس بات کا احساس دلایا جائے کہ جس کو تم دہشت گردی قرار دے رہے ہو، یہ دراصل رد عمل ہے ان مظالم اور جبر ونا انصافی کا جو ان اقوام وممالک اور طبقات پر مسلسل روا رکھے جا رہے ہیں اور اس رد عمل کو جبر اور تشدد کے ذریعے کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ اس قسم کی صورت حال میں جبر وتشدد سے مزید منافرت بڑھتی ہے اور جذبات میں مزید شدت پیدا ہوتی ہے اس لیے اگر تم دہشت گردی کو ختم کرنے میں سنجیدہ اور مخلص ہو تو تمہیں جبر وتشدد اور عسکری جنگ کا راستہ ترک کر کے مفاہمت اور مذاکرات کا راستہ اپنانا ہوگا۔ ظالم اور مظلوم کے فرق کو محسوس کرو، مظلوم کی مظلومیت کو تسلیم کرو، ظالم کو ظالم قرار دو اور مسلمہ اصولوں کی روشنی میں مظلوم اقوام وطبقات کو ظلم واستحصال سے نجات دلانے کے لیے سنجیدہ پیش قدمی کرو ورنہ تمہاری یہ جنگ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے متصور ہوگی اور دہشت گردی کاجواب ا س سے بڑی دہشت گردی کے ذریعہ دے کر تم خود سب سے بڑے دہشت گرد قرار پاؤ گے۔
دوسری طرف عالم اسلام کی ان عسکری تحریکات سے بھی گفتگو کی ضرورت ہے جو مختلف محاذوں پر مصروف کار ہیں اور جنہیں دہشت گرد قرار دے کر ان کو کچلنے کا عمل مسلسل جاری ہے۔ ان تحریکات کی قیادتوں کو دو باتیں سمجھانے کی ضرورت ہے۔ ایک یہ کہ ہر مسئلے کا حل ہتھیار نہیں ہے اور نہ ہی ہر جگہ ہتھیار اٹھانا ضروری ہے۔ جہاں کسی مسئلہ کے حل کا کوئی متبادل راستہ موجود ہے، اگرچہ وہ لمبا اور صبر آزما ہی کیوں نہ ہو، وہاں ہتھیار سے کام لینا ضروری نہیں ہے بلکہ بعض صورتوں میں شاید شرعاً جائز بھی نہ ہو۔ ہتھیار تو آخری حربہ ہے۔ جہاں اور کوئی ذریعہ کام نہ دیتا ہو اور کسی جگہ مسلمانوں کا وجود اور دینی تشخص حقیقی خطرات سے دوچار ہو گیا ہو تو آخری اور اضطراری حالت میں ہتھیار اٹھانے کی گنجائش نکل سکتی ہے اس لیے اضطرار بلکہ ناگزیر اضطرار کے بغیر ہتھیار کو ہاتھ میں نہ لیا جائے۔
دوسری بات ان سے یہ عرض کرنے کی ہے کہ آزادی، تشخص اور خود مختاری کے لیے اضطرار کی حالت میں قومیں ہتھیار اٹھایا کرتی ہیں۔ یہ زندہ قوموں کا شعار ہے اور آزادی کی عسکری تحریکات سے دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے لیکن غیر متعلقہ لوگوں کو نشانہ بنانا اور بے گناہ لوگوں کا خون بہانا نہ شرعاً جائز ہے اور نہ ہی دنیا کا کوئی اور قانون وضابطہ اس کی اجازت دیتا ہے۔ ان تحریکات کو اس حوالے سے شرعی احکام وقوانین کی پابندی کا ایک بار پھر عہد کرنا چاہیے اور شرعی احکام بھی وہ نہیں جو خود ان کے ذہن میں آ جائیں بلکہ وہ قوانین وضوابط جو امت کے اجماعی تعامل وتوارث کے ساتھ تسلیم شدہ چلے آ رہے ہیں اور جنہیں وقت کے اکابر علما وفقہا کی طرف سے ضروری قرار دیا جا رہا ہو۔ اس کے بغیر کوئی بھی تحریک اور جدوجہد تمام تر خلوص وجذبہ اور ایثار وقربانی کے باوجود خلفشار پیدا کرنے کا باعث بنے گی اور اس سے اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی ہوگی اس لیے ایسی تحریکات کو کسی بھی ایسی بات سے قطعی طور پر گریز کرنا چاہیے جو :
ساتواں سوال یہ ہے کہ کسی گروہ یا فرد کی جان ومال اور عزت وآبرو پر حملہ کیا جائے تو اس کے دفاع کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور یہ دفاع واجب ہے یا مستحب؟
ا س سلسلے میں اصولی طور پر یہ عرض کیا جا چکا ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ نے جب اپنی جان، مال، اور آبرو کی حفاظت میں مارے جانے والے مسلمان کو شہید قرار دیا ہے تو ان تینوں حوالوں سے دفاع کا حق اور اس کی فضیلت میں کسی کلام کی گنجائش نہیں رہ جاتی البتہ ایک اور بات عرض کرنا بھی شاید نامناسب نہ ہو کہ جان بچانے کو فقہاء کرام نے فرض قرار دیا ہے اور جہاں جان کے تحفظ کا مسئلہ آ جائے، وہاں اضطرار کی حالت میں خنزیر کا گوشت بقدر ضرورت کھانے کو بھی بعض فقہا نے فرض بتایا ہے تو اس اصول کی رو سے کسی فرد یا گروہ کے لیے یہ بات بھی فرض ہی کا درجہ اختیار کر لیتی ہے۔ اگر اسے اپنے وجود اور جان کا خطرہ لاحق ہو جائے تو وہ اسے بچانے کے لیے جو صورت دفاع کی ناگزیر ہو، وہ اسے اختیار کرے اور اس دفاع کی حد بھی وہی ہے جو حالت اضطرار کی دیگر صورتوں میں ہے کہ جتنی کارروائی سے جان بچ سکتی ہو، اسی حد تک اجازت ہے، اس سے زیادہ کی نہیں۔

دعوتِ دین کا حکیمانہ اسلوب

پروفیسر محمد اکرم ورک

دعوت کے دو بنیادی کردار ہیں: ایک داعی اور دوسرا مدعو۔تاہم دعوت کی کامیابی کامکمل انحصار داعی کی ذات پر ہے کیونکہ دعوت کے مضامین خواہ کتنے ہی پرکشش کیوں نہ ہوں، اگر داعی کا طریقِ دعوت ڈھنگ کانہیں ہے اور وہ مخالف کو حالات کے مطابق مختلف اسالیب اختیار کرکے بات سمجھانے کی قدرت نہیں رکھتا تواس کی کامیابی کاکوئی امکان نہیں ہے۔جو بات ایک پہلو سے سمجھ میں نہیں آتی، وہی بات جب دوسرے انداز سے سامنے آتی ہے تو دل میں اتر جاتی ہے۔مبلغ کی کامیابی صرف اس بات میں ہے کہ دوست دشمن سبھی پکار اٹھیں کہ اس نے ابلاغ کا حق ادا کردیا ہے۔قرآن مجید کی اصطلاح میں تصریف آیات اسی چیز کانام ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَکَذَالِکَ نُصَرِّفُ الْاٰٰیَاتِ وَلِیَقُوْلُوْا دَرَسْتَ وَلِنُبَیِّنَہ‘ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ (الانعام،۶:۱۰۵)
’’اور اسی طرح ہم اپنی دلیلیں مختلف اسالیب سے پیش کرتے ہیں،تاکہ ان پر حجت قائم ہوجائے اور وہ بول اٹھیں کہ تم نے اچھی طرح پڑھ کر سنادیا اور تاکہ ہم جاننے والوں کے لیے اچھی طرح واضح کردیں‘‘۔
قرآن مجید کے اولین مخاطب رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ ہیں،اس لیے قرآن مجید نے رسول اللہ ﷺ کی وساطت سے صحابہ کرام ؓ کو دعوت کے طریقِ کار اور اسالیب کی تعلیم دی۔یہ ایک ایسی انفرادیت ہے جو اسلام کے علاوہ کسی بھی الہامی وغیر الہامی مذہب کوحاصل نہیں کہ اس نے اپنے پیروکاروں کو باقاعدہ دعوت وتبلیغ کے اصول پوری شرح وبسط سے بتائے ہوں۔سید سلیمان ندویؒ رقمطراز ہیں:
’’یہ نکتہ کہ کس طرح لوگوں کو سچائی کے قبول کرنے کی دعوت دینی چاہیے،دنیا میں پہلی دفعہ محمد رسول اللہ ﷺکی زبان وحی ترجمان سے ادا ہوا۔وہ مذہب بھی جو الہامی اور تبلیغی ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں،یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے صحیفوں نے ان کے لیے تبلیغ کے اہم اصول کی تشریح کی ہے لیکن صحیفہ محمدی ﷺنے نہایت اختصار لیکن پوری تشریح کے ساتھ اپنے پیروؤں کو یہ بتایا کہ پیغامِ الٰہی کو کس طرح لوگوں تک پہنچایا جائے اور ان کو قبولِ حق کی دعوت کس طرح دی جائے‘‘ (سیرت النبی ﷺ ،۴/۹۱)
قرآنِ مجید نے اپنے مخصوص معجزانہ اسلوب کے مطابق دعوت کے اصول ان الفاظ میں بیان فرمائے ہیں:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ (النحل، ۱۶:۱۲۵)
’’(اے پیغمبر)لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤاور بہت ہی اچھے طریقے سے ان سے مناظرہ کرو‘‘
اس آیت مقدسہ میں دعوتِ دین کے تین بنیادی اصول بیان ہوئے ہیں:حکمت،موعظہ حسنہ اور مجادلہ بطریقِ احسن۔اگر رسول اللہ ﷺ کی زندگی کامطالعہ داعی اسلام کی حیثیت سے کیا جائے تو یہ بات بڑی واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے کہ آپ ﷺنے دعوت وتبلیغ کے فریضہ کو ادا کرتے وقت ان اصولوں سے سرِمو انحراف نہیں کیااورآپ ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ کرامؓ کے دعوتی کردار میں بھی انہی اصولوں کا غلبہ نظر آتا ہے۔ایک غیر تربیت یافتہ داعی دعوتِ دین کے لیے کس قدرغیر موزوں ہے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ فرماتے ہیں:
’’ایک نادان اور غیر تربیت یافتہ مبلغ اپنی دعوت کے لیے اس دعوت کے دشمنوں سے بھی زیادہ ضرر رساں ہوسکتا ہے۔ اگر اس کے پیش کیے ہوئے دلائل بودے اور کمزور ہوں گے، اگر اس کا اندازِ خطابت درشت اور معاندانہ ہوگا،اگر اس کی تبلیغ اخلاص وللہیت کے نور سے محروم ہوگی تو وہ اپنے سامعین کو اپنی دعوت سے متنفر کردے گاکیونکہ اسلام کی نشرواشاعت کاانحصار تبلیغ اور فقط تبلیغ پر ہے ۔اس کو قبول کرنے کے لیے نہ کوئی رشوت پیش کی جاتی ہے اور نہ جبر واکراہ سے کام لیا جاتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ایمان،ایمان ہی نہیں جس کے پسِ پردہ کوئی دنیوی لالچ یا خوف وہراس ہو۔ا س لیے اللہ تعالیٰ نے خو د اپنے محبوب مکرم کودعوتِ اسلامی کے آداب کی تعلیم دی‘‘۔ (’’ضیاء القرآن‘‘،۲/۶۱۷)
گویا دعوت کی کامیابی میں مرکزی کردار داعی کا ہے۔ داعی جس قدر تربیت یافتہ اور انسانی نفسیات کاعالم ہوگا، اسی قدر اس کی دعوت مؤثر ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ کی دعوت کے مؤثر ہونے کی ایک اہم وجہ آپ ﷺ کا ذاتی کردار تھا تو دوسری بنیادی وجہ آپ ﷺ کا اسلوبِ دعوت تھا۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ مخاطبین کی ذہنی استعداد ،میلانات،رجحانات اور ان کے خاندانی وعلاقائی پسِ منظر کو سامنے رکھ کر دعوت کاکام کیا۔سیرتِ طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کا کوئی متعین طریقِ دعوت نہ تھابلکہ مخاطبینِ دعوت کے تبدیل ہونے کے ساتھ ہی آپ ﷺ کا اسلوبِ دعوت بھی تبدیل ہوجاتا تھا۔ایک جاہل،ان پڑھ اور اجڈ مخاطب کو دعوت دینے کا انداز پڑھے لکھے اور شہر کے رہنے والے فرد سے مختلف ہوتا تھا۔رسول اللہ ﷺ کی دعوتی زندگی کا مطالعہ ہر داعی اسلام کے لیے اس حوالے سے دلچسپ بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی کہ آپ ﷺ نے ہمیشہ مخاطب کی صلاحیت کو پیشِ نظر رکھ کر اس کودعوت پیش کی ۔یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ سے ملنے کے بعد لوگ مطمئن ہوکر واپس جاتے تھے۔
دعوتِ دین کا یہ وہ اسلوب ہے جو اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنے حبیب مکرم ﷺ کو سکھایااور آپ ﷺنے صحابہ کرام ؓ کو دعوتِ دین کے ان ہی مختلف اسالیب کی تعلیم دی اور پھر صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ کی ہدایات اور طرزِ عمل کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا۔ابو وائلؓ سے روایت ہے:
’’عبداللہؓ بن مسعود لوگوں کو ہر جمعرات کو وعظ سنایاکرتے تھے۔ ایک شخص نے ان سے کہا: اے ابوعبدالرحمنؓ! میری خواہش ہے کہ آپؓ روزانہ وعظ کیا کریں،تو انہوں نے فرمایا میں ایسا اس وجہ سے نہیں کرتا کہ کہیں تم پر بوجھ نہ بن جاؤں۔میں بھی اسی طرح ناغہ کرکے تمہیں نصیحت سناتا ہوں جس طرح رسول اللہ ﷺ ہم کو وقفہ کرکے نصیحت سنایا کرتے تھے تاکہ ہم بیزار نہ ہوجائیں‘‘۔
اس روایت سے بہر حال یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صحابہ کرامؓ دعوت وتبلیغ میں ہمیشہ رسول اللہﷺ کی ہدایت اور طرزِ عمل کو پیشِ نظر رکھتے تھے۔دعوت وتبلیغ میں دعوت کے پیش کرنے کا ڈھنگ اور اسلوب کس قدر اہمیت کا حامل ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے جب بھی کسی داعی کو کسی قوم ،قبیلے یا علاقے کی طرف روانہ فرمایا تو وہاں کے لوگوں کے حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ان کو دعوت کے کسی نہ کسی اسلوب کی بھی تعلیم ارشاد فرمائی ۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

اصول تدریج کی تلقین

رسول اللہ ﷺنے ہمیشہ دعوت وتبلیغ میں تدریج کا لحاظ رکھااور دوسرے مبلغین اسلام کو بھی اصولِ تدریج کی تلقین فرمائی۔حکمتِ تبلیغ کے ضمن میں داعی کا فرض ہے کہ تدریج کے پہلو کو نظر انداز نہ کرے۔ تدریج کا مطلب یہ ہے کہ داعی یک بارگی شریعت کے تمام احکامات کا بوجھ مخاطب کی گردن پر نہ لاد دے بلکہ آہستہ آہستہ اس کے سامنے سارے احکام پیش کرے۔ تدریج کا یہ اصول فرد اور قوم دونوں کے لیے ضروری ہے۔ دین ایک نظام ہے اور اس نظام کو اگر حکیمانہ ترتیب سے پیش نہ کیا جائے تو مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوسکتے۔اسی حقیقت کی طرف ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’قرآن میں سب سے پہلے جو چیز نازل کی گئی، وہ مفصل کی سورتوں میں سے ایک سورۃ ہے،جس میں جنت اور جہنم کا ذکرہے۔یہاں تک کہ جب لوگ اسلام کے دائرے میں آگئے تب حلال وحرام کے احکام نازل ہوئے۔اگر بالکل شروع ہی میں حکم آجاتا کہ شراب نہ پیو تو لوگ کہتے کہ ہم ہرگز نہ چھوڑیں گے اور اگر یہ حکم دیاجاتا کہ زنا نہ کرو تولوگ کہتے ہم ہرگز زنا نہ چھوڑیں گے‘‘ (بخاری، کتاب فضائل القرآن ،باب تالیف القرآن،ح:۴۹۹۳،ص:۸۹۶)
اصول تدریج میں داعی احکام کی ترتیب کیارکھے گا ؟اس کی وضاحت بھی خود زبانِ رسالتﷺ نے فرمادی کہ سب سے پہلے توحیدو رسالت کی دعوت دی جائے، اس کے بعد عبادات۔ عبادات میں بھی اہم پھر اہم کے اصول کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔چنانچہ رسول اللہﷺنے حضرت معاذؓ بن جبل کو جب یمن دعوت وتبلیغ کے لیے بھیجا تو ان الفاظ میں تلقین فرمائی:
’’تم عنقریب اہلِ کتاب کی ایک قوم کے پاس پہنچوگے۔جب تو ان کے پاس پہنچے تو سب سے پہلے انہیں یہ دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺاللہ کے رسول ہیں۔جب وہ اس میں تیری اطاعت کرلیں تو ان کو بتاؤ کہ اللہ نے ان پر دن رات کی پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور جب وہ تیری یہ بات مان لیں تو ان کو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے صدقہ فرض کیا ہے۔یہ صدقہ ان کے دولت مندوں سے لے کر ان کے غریبوں کو دیا جائے گااور جب وہ اس کو تسلیم کر لیں تو دیکھو چن چن کر ان کا عمدہ مال نہ لے لینا اور ہاں مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں‘‘(صحیح البخاری ،کتاب المغازی ،باب بعث ابی موسیٰ ؓ ومعاذ ؓ الی الیمن،ح :۴۳۴۷، ص:۷۳۶۔ ایضاً ح : ۱۴۹۶،۱۳۹۵،۱۴۵۸،۷۳۷۲۔ مسند احمد،مسند عبداللہ بن عباس ،ح:۲۰۷۲،۱/۳۸۶)

رفق ونرمی کی تلقین

داعی دعوت کا کوئی بھی اسلوب اختیار کرے، جب تک وہ مخاطب سے نرمی اور خیر خواہی کے جذبہ سے بات نہیں کرے گا، اس کی دعوت مؤثر نہیں ہوگی۔ سختی اور شدت مخاطب کے دل میں نفرت اور عداوت کے جذبات پیدا کرتی ہے جس سے مخاطب اپنی ضد پر اڑ جاتا ہے۔نتیجتاًدعوت کاسارا فائدہ اور نصیحت کا سارا اثر زائل ہوجاتاہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو اپنے بدترین مخالفین سے بھی نرم انداز میں گفتگو کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام کو فرعون جیسے باغی کے سامنے پیغامِ ربانی لے کرجانے کاحکم دیا تو یہ ہدایت بھی فرمائی:
اِذْھَبَآاِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہ‘ طَغیٰ Oفَقُوْلَا لَہ‘ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہ‘ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشی (طٰہٰ ،۲۰:۴۳،۴۴)
’’تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ ،اس نے سرکشی کی ہے تو اس سے نرم گفتگو کرنا، شاید وہ نصیحت قبول کرے یا(اللہ سے) ڈرے‘‘۔ 
دعوت وتبلیغ میں رفق ونرمی کی اس سے بہتر مثال نہیں ہوسکتی کہ نہ انبیاء سے بہتر کوئی داعی ہوسکتاہے اور نہ فرعون سے بڑھ کر کوئی سرکش اور باغی ہوسکتا ہے۔اگر ایسے مجرم کے سامنے وعظ ونصیحت کرتے وقت نرمی اختیار کرنے کاحکم ہے تو عام مجرم اور گمراہ لوگوں سے تو کہیں بڑھ کر نرمی اختیار کرنی چاہئے۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے مبلغ صحابہ کرامؓ کو ہمیشہ نرمی اختیار کرنے کا حکم فرمایا۔حضرت طفیلؓ بن عمرونے اسلام قبول کیا تو رسول اللہ ﷺنے ان کو اپنی ہی قوم کی طرف مبلغ بنا کر بھیجا۔چنانچہ وہ لوگوں کو مسلسل دعوت دیتے رہے لیکن قوم انکار کرتی رہی۔بالآخروہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ ﷺ قبیلہ دوس نے مجھے ہرا دیا۔ میں نے ان کو بہت دعوت دی لیکن وہ ایمان نہیں لائے۔ آپ ﷺ ان کے لیے بددعا کریں۔رسول اللہ ﷺنے بددعا کرنے کے بجائے قبیلۂ دوس کے لیے یہ دعا فرمائی:
اللّٰھم اھد دوسا،ارجع الی قومک فادعھم وارفق بھم (ابن ہشام، ’’السیرۃ النبویۃ‘‘، ۴۲۲۱۔ ابنِ اثیر،’’اسد الغابہ‘‘،تذکرہ طفیلؓ بن عمرو،۳/۵۵)
’’اے اللہ دوس کو ہدایت عطا فرما(طفیلؓ بن عمرو سے فرمایا)تم اپنی قوم کی طرف لوٹ جاؤ ان کو دعوت دیتے رہو لیکن ان کے ساتھ نرمی اختیار کرو‘‘۔
چنانچہ مآخذ سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے تعلیم کردہ اسلوب کو اختیار کرنے کا نتیجہ انتہائی شاندار نکلا۔ کثیر لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ۷ ھ میں جب حضرت طفیلؓ بن عمرو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کے ساتھ قبیلہ دوس کے ستر یا اسی گھرانوں کے لوگ تھے۔ (ابنِ ہشام،قصۃ اسلام الطفیلؓبن عمرو الدوسی ،۱/۴۲۳۔ اسد الغابہ، تذکرہ طفیلؓ بن عمرو،۳/۵۵)
رسول اللہ ﷺنے عمروؓ بن مرہ الجہنی کو اپنے قبیلہ کی طرف دعوت دینے کے لیے بھیجا تو ان کو دعوت وتبلیغ کا یہ اسلوب تعلیم فرمایا:
علیک بالرفق والقول السدید،ولا تکن فظا ولا متکبرا ولا حسودا (ابن کثیر، ’’البدایۃ والنھایۃ‘‘، ۲/۳۵۱)
’’نرمی سے پیش آنا،صحیح اور سچی بات کرنا،سخت کلامی اور بدخلقی سے پیش نہ آنا،تکبر اور حسد نہ کرنا‘‘
دعوت وتبلیغ میں حسنِ اخلاق اور نرمی کا اسلوب کس قدر مؤثر ہے، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت خالدؓ بن ولیدکو دعوت وتبلیغ کے لیے یمن روانہ فرمایا،حضرت خالدؓ بن ولیدنے بعض لوگوں کے ساتھ سختی کی جس کی وجہ سے چھ ماہ مسلسل کو شش کے باوجود بھی لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو واپس بلالیااور حضرت علیؓکوبطور مبلغ روانہ فرمایا۔ابنِ اثیرکا بیان ہے:
’’رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو یمن بھیجا اور ان سے قبل آپ ﷺ خالدؓ بن ولیدکو یمن دعوت وتبلیغ کے لیے بھیج چکے تھے لیکن ان لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا۔لہذا رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو روانہ کرتے وقت نصیحت کی کہ وہ خالدؓ اور ان کے اصحاب کی وجہ سے (اہلِ یمن کے ساتھ)ہونے والی بدسلوکی اور نقصان کاتاوان ادا کریں (ان لوگوں سے نرمی کریں)چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیااور لوگوں کو رسول اللہﷺ کا خط پڑھ کر سنایاتو قبیلۂ ہمدان سارے کاسارا ایک ہی دن میں مسلمان ہوگیا‘‘۔ (الکامل فی التاریخ، ۲/۲۰۵)
وہ لوگ جو چھ ماہ سے قبولِ اسلام سے انکاری تھے، جب ان کے ساتھ نرمی کا اسلوب اختیار کیاگیا تو انہوں نے فوراً اسلام قبول کرلیا۔ان چند روایات سے نرمی کے اسلوب کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔

ترغیب وترہیب کی تلقین

حضرت عبداللہ بن ابی بکرؓسے مروی ہے کہ بنی حارث بن کعب کے وفد کی واپسی کے بعد رسول اللہ ﷺ نے عمروؓ بن حزم الانصاری کو ان کا والی مقررکیا تاکہ ان سے زکوٰۃ وصدقات کی وصولی کے ساتھ ساتھ ان کو اسلامی تعلیمات سے بھی روشناس کرائیں۔ آپ ﷺ نے عمروؓ بن حزم کو بنی حارث کی طرف ایک طویل مکتوب دے کر روانہ فرمایا جس میں ان کو اسلامی احکام کی تبلیغ کا حکم فرمایا اور اس کے ساتھ ان کو دعوت میں ترغیب وترہیب کا انداز اختیار کرنے کا بھی حکم دیا:
ویبشر الناس بالجنۃ وبعملھا، وینذر الناس النار وعملھا ویستألف الناس حتی یفقھوا فی الدین (ابنِ ہشام،اسلام بنی الحارث بن کعب ۴/۲۵۰۔ تاریخ الامم والملوک، ۳/۱۵۷(واقعات ۱۰ھ) ابنِ ہشام، اسلام بنی الحارث بن کعب،۴/۲۴۹)
’’لوگوں کو جنت کی بشارت دیں اور اس کے اعمال سے آگاہ کریں، دوزخ سے ڈرائیں اور اس کے اعمال سے متنبہ کریں۔لوگوں کے ساتھ نہایت اخلاق سے پیش آئیں تاکہ وہ ارکانِ دین کو اچھی طرح سمجھ لیں‘‘
حضرت خالدؓ بن ولید نے،جن کو بنی حارث کی طرف تبلیغی مہم پر بھیجا گیا تھا، بذریعہ خط اپنی کامیابی کی اطلاع بھیجی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو مزید تبلیغ جاری رکھنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی یہ تلقین بھی فرمائی:
فبشّرھم وانذر ھم (ابنِ ہشام،اسلام بنی الحارث بن کعب، ۴/۲۴۹)
’’تم ان کو جنت کی خوشخبری دو اور ان کو دوزخ سے ڈراؤ‘‘

موقع ومحل کا لحاظ رکھنے کی تلقین

ہر داعی اسلام کے لیے ضروری ہے کہ وہ دیکھے کہ کیا دعوت وتبلیغ کے لیے یہ وقت اور موقع مناسب ہے کیونکہ اگر مخاطب اعتراض اور نکتہ چینی کی طرف مائل ہو تو جذبے کی سچائی اور اندرونی لگن کے باوجود داعی کی دعوت غیر مؤثر ہوگی۔ اس وقت مناسب یہ ہوگا کہ داعی بحث کو بڑھانے کے بجائے وہیں ختم کرکے وہا ں سے ہٹ جائے اور کسی مناسب موقع کا انتظار کرے۔ جب کسی دوسرے موقع پر مخاطب کا ذہن نکتہ چینی کی طرف مائل نہ ہوتو پھر اس کے سامنے حق کو پیش کرے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیٓ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ (الانعام،۶:۶۸)
’’جب تم ان لوگوں کو دیکھو جوہماری آیات میں نکتہ چینی کررہے ہیں تو ان سے اعراض کرویہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں‘‘
اسی لیے رسول اللہﷺ نے موقع بے موقع دعوت وتبلیغ جیسے نازک کام سے منع کیاہے جب مخاطب کسی کاروبار یا ایسی دلچسپی میں منہمک ہو جس کو چھوڑ کر دعوت حق کی طرف متوجہ ہونا اس کی طبیعت پر گراں گزرے۔ ظاہر ہے کہ اس صور ت میں مخاطب داعی کی بات کو کبھی بھی دل کی گہرائیوں اور حقیقی جذبے سے نہیں سنے گاجودعوت کی کامیابی کاسب سے لازمی عنصر ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺنے صحابہ کرامؓ کو تلقین فرمائی کہ وہ دعوت وتبلیغ کے جوش میں ہر مجلس میں نہ گھس جایاکریں بلکہ پہلے حالات کاجائزہ لیں۔ اگر دعوت کے لیے ماحول سازگار ہوتو دعوت دیں ورنہ مناسب وقت کاانتظار کریں۔

آسانی اور سہولت کی تلقین

دین کی جائز آسانی اور سہولت کوپیشِ نظر رکھنا، دین کو درشت اور مشکل نہ بنانا اس کی قبولیت کا اہم ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے عام مسلمانوں کے لیے ہمیشہ آسانی اور سہولت کے پہلو کو پیش نظر رکھا۔حضرت عائشہؓ رسول اللہ ﷺ کے طرزِ عمل کے متعلق ارشاد فرماتی ہیں:
ما خیّر رسول اللّٰہ ﷺ بین امرین الا أخذ ایسرھما مالم یکن اثما، فان کان اثما کان ابعد الناس منہ، وما انتقم رسول اللّٰہ ﷺ لنفسہ الا ان تنتھک حرمۃ اللّٰہ فینتقم للّٰہ بھا (الموطّأ، کتاب حسن الخلق، باب ماجاء فی حسن الخلق، ح:۶۹۰، ص: ۵۵۵۔ صحیح مسلم، ح:۶۰۴۵۔ صحیح البخاری، ح:۶۱۲۶)
’’رسول اللہ ﷺ کو کبھی دوامور میں اختیار نہیں دیا گیا مگریہ کہ آپ ﷺنے ان میں سے آسان کو اختیار کیا بشرطیکہ اس میں گناہ نہ ہو۔ اگر گناہ ہوتو اس سے تمام انسانوں سے زیادہ دور ہوتے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہیں لیا مگر جبکہ اللہ کی حرمت مجروح ہوتو پھر آپ ﷺ اللہ کے لیے انتقام لیتے‘‘
انسان طبعاً سہولت پسند ہے اس لیے داعی کافرض ہے کہ وہ دین کو مشکلات کا مجموعہ نہ بنائے بلکہ جہاں تک ممکن ہو، دینی زندگی کو لوگوں کے لیے آسان بناکر پیش کرے۔ دینی معاملات میں تشدد پسندی اور سختی سے حتی الوسع پرہیزکرے اور اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو جو حل سب سے آسان ہو، اس کی طرف رجوع کرناچاہیے۔ رسول اللہﷺ کے طرزِ عمل سے اس کی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے :
’’ایک دیہاتی مسجد میں آیا، اس نے دورکعتیں اداکیں پھر کہنے لگا: اے اللہ مجھ پر اور محمد ﷺ پر رحم فرمااور ہمارے ساتھ کسی اور پر نہ فرما۔ رسول اللہ ﷺ نے توجہ فرمائی اور فرمایا: تونے وسیع چیز کو تنگ کردیا۔ پھر اس نے جلدی سے مسجد میں پیشاب کردیا۔ لوگ اس کی طرف (مارنے کی خاطر)دوڑے تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیںآسانی کرنے والا بنایا گیا ہے،مشکل پسند نہیں۔ اس پر پانی کا ایک ڈول بہادو‘‘ (صحیح البخاری،کتاب الوضوء،باب یصیب الماء علی البول فی المسجد ،ح:۲۲۰،ص:۴۱۔ ایضاً، کتاب الادب،باب قول النبی ﷺ یسروا ولا تعسروا، ح:۶۱۲۸، ص:۱۰۶۸۔ صحیح مسلم،کتاب الطہارۃ،باب وجوب غسل البول وغیرہ :۶۶۱،ص:۱۳۳۔ جامع الترمذی ،کتاب الطہارۃ،باب ماجاء فی البول یصیب الارض،ح:۱۴۷،ص:۴۱۔ سننِ ابی داؤد،کتاب الطہارۃ،باب الارض یصیب البول،ح:۳۸۰،ص:۶۶۔ سننِ نسائی ،کتاب الطہارۃ،باب ترک التوقیت فی الماء،ح:۵۶،ص:۷)
جہالت یا عدم واقفیت ایک مرض ہے۔ اسے ایک قسم کی معذوری سمجھ کر ازالے کی کوشش کرنا ہی انسانیت کی خدمت ہے لیکن اس سے اظہارِ نفرت وانتقام گویا اس کی اصلاح کے تمام راستے بند کرنے والی بات ہے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ کا ارشادہے:
عن انسؓ قال رسول اللہﷺ:خیر دینکم ایسرہ،وخیر العبادۃ الفقہ (ابنِ عبدالبر،جامع بیان العلم وفضلہ،باب تفضیل العلم علی العبادۃ، ۱/۲۱)
’’حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:تمہارا دین آسان ہے اور اچھی عبادت دینی بصیرت حاصل کرنا ہے‘‘
چنانچہ رسول اللہﷺ نے جب حضرت معاذ بن جبلؓ اور ابوموسیٰ اشعریؓ کویمن میں دعوتی مہم پر روانہ فرمایا تو ان کو اسی اسلوبِ دعوت کی تلقین ان الفاظ میں فرمائی:
یسّرا ولا تعسّرا ،وبشّرا ولا تنفّرا (ابنِ ہشام،وصیۃ الرسول معاذا حین بعثہ الی الیمن،۴/۲۴۶)
’’دین کو آسان بناکر پیش کرنا سخت بنا کر پیش نہ کرنا،لوگوں کو خوشخبری سنانا نفرت نہ دلانا‘‘
صحابہ کرامؓ نے اگر کبھی دینی معاملات میں اعتدال سے ہٹ کر تشدد کی راہ اپنائی تو آپﷺ نے انتہائی سختی سے منع فرمایا۔حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ حضرت معاذؓبن جبل نے ایک مرتبہ انصار کو نمازِ مغرب پڑھائی اور قرأ ت کو خوب طول دیا۔حضرت حازم انصاریؓ نہ ٹھہر سکے اور اپنی علیحدہ نماز پڑھ کر چل دیے۔حضرت معاذؓبن جبل ان سے سخت ناراض ہوئے ۔ حضرت حازمؓ بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ معاذ ؓ ہمیں بہت طویل نماز پڑھاتے ہیں جس کی ہم طاقت نہیں رکھتے۔ رسول اللہﷺ نے حضرت معا ذؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا:
یا معاذؓ! أفتّان أنت ؟ أفتّان أنت؟ اقرأ بکذا،اقرأ بکذا (سننِ ابی داؤد،کتاب الصلوٰۃ،باب تخفیف الصلوٰۃ،ح:۷۹۰،ص:۱۲۳۔ اسد الغابہ،تذکرہ حازمؓ انصاری،۱/۳۶۰)
’’اے معاذؓ! کیا تم فتنہ میں ڈالنے والے ہو؟اے معاذ لوگوں پر تخفیف کرو‘‘
رسول اللہﷺ نے ثقیف پر حضرت عثمانؓ بن ابی العاص کو امیر مقرر کرکے روانہ فرمایا۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے مجھ سے جو آخری عہد لیا، وہ یہ تھا:
یاعثمانؓ! تجاوز فی الصلٰوۃ، واقدر الناس باضعفھم، فان فیھم الکبیر والصغیر والضعیف وذا الحاجۃ (ابنِ ہشام،امر وفد ثقیف واسلامھا ،۴/۱۹۵۔اسد الغابہ،تذکرہ عثمانؓ بن ابی العاص،۳/۳۷۲)
’’اے عثمانؓ!نماز ہلکی رکھنا اور لوگوں میں ان کے سب سے زیادہ ضعیف آدمی کو معیار بنانا،کیونکہ (نماز پڑھنے والے) لوگوں میں بڑے بھی ہوتے ہیں اور چھوٹے بھی،ضعیف بھی ہوتے ہیں اور صاحبِ ضرورت بھی‘‘
شاہانِ حمیر نے قاصدکے ذریعہ رسول اللہﷺ کو اپنے اسلام لانے کی اطلاع بھیجی تو رسول اللہﷺ نے ان کی طرف چند صحابہ کومحاصل جمع کرنے اور دعوت وتبلیغ کے لیے روانہ فرمایا،ان لوگوں میں حضرت معاذؓبن جبل بھی تھے۔ ابن اسحاق کابیان ہے کہ رسول اللہ ﷺنے روانگی کے وقت ان سے عہد لیا اور سہولت اور آسانی کا اسلوب اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:
یسّر ولا تعسّر، وبشّر ولا تنفّر، وانک ستقدم علی قوم من اہل الکتاب، یئلونک مامفتاح الجنۃ؟ فقل شہادۃ ان لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ (ابنِ ہشام، وصیۃ الرسول ﷺ معاذا حین بعثہ الی الیمن ،۴/۲۴۶)
’’آسانی پیدا کرنا ،دشواری پیدا نہ کرنا، خوش رکھنے والی باتیں کرنا ، نفرت دلانے والی باتیں نہ کرنا،تم اہلِ کتاب کے کچھ لوگوں کے پاس جارہے ہو،وہ تم سے پوچھیں گے جنت کی کنجی کیا ہے؟ تو تم کہنا: اس بات کی گواہی دینا کہ خدا ئے واحد کے سوا اور کوئی ہستی عبادت کے لائق نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے‘‘۔
حضرت ابو مسعود انصاریؓ سے مروی ہے:
’’ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا:یارسول اللہ ﷺ!میں تو فلاں شخص کی وجہ سے فجر کی نماز سے پیچھے رہ جاتا ہوں (باجماعت ادا نہیں کرسکتا)،کیونکہ وہ بہت لمبی نماز پڑھاتا ہے‘‘۔
راوی کا بیان ہے :میں نے رسو ل اللہ ﷺ کووعظ کے دوران کبھی اس قدر غصے میں نہیں دیکھا جتنا اس دن ہوئے۔ پھر فرمایا:
یا ایھاالناس! ان منکم منفرین، فایکم ما صلی بالناس فلیوجز، فان فیھم الکبیر والضعیف وذا الحاجۃ (صحیح البخاری ،کتاب الاحکا م ،باب ہل یقضی القاضی او یفتی وہو غضبان؟ ح:۷۱۵۹، ص:۱۲۳۲۔ ایضاً،کتاب الاذان، باب تخفیف الامام فی القیام، ح:۷۰۲،۷۰۴،۹۰،۶۱۱۰)
اے لوگو! تم میں کچھ لوگ نفرت پھیلانے والے ہیں،جو شخض لوگوں کو نماز پڑھائے وہ مختصر (قرأت وغیرہ) کرے،ان میں بوڑھے ،کمزور اور کام والے بھی ہوتے ہیں‘‘۔

مخاطب کی ذہنی استعداد کا لحاظ رکھنے کی تلقین

دعوت وتبلیغ میں حکمت کا تقاضایہ ہے کہ داعی مخاطب کی ذہنی استعداد کالحاظ رکھتے ہوئے اپنی دعوت پیش کرے۔ اگر داعی عام مخاطب کی ذہنی استعداد کو نظر انداز کرتے ہوئے منطقی استدلال اور فلسفیانہ بحثیں شروع کردے یاکسی صاحبِ علم اور دانشور شخص کو دعوت دیتے وقت گفتگو کا غیر علمی اور غیر عقلی اسلوب اختیار کرے،تو اس صورت میں دعوت کے مؤثر ہونے کی توقع رکھنا فضول ہے۔اس لیے داعی کا فرض ہے کہ وہ مخاطب کی ذہنی استعداد اورنفسی کیفیات کا لحاظ کرتے ہوئے دعوت کا فریضہ ادا کرے۔داعی درحقیقت ایک بے مثال استاد اور مربی کی طرح ہے جو سامع کانفسیاتی جائزہ لیتے ہوئے اس کے ذہنی پس منظر ،اس کی استعداداور اس کے مزاج کو سامنے رکھ کر بات کرتاہے۔وہ ایک بدوی اور شہری ،پڑھے لکھے اور ان پڑھ،اور عقل وتجربہ کے مختلف مدارج رکھنے والے انسانوں سے مختلف طریقوں اور اسالیب سے گفتگو کرتاہے۔خود داعی اعظمﷺ نے ہمیشہ مخاطب کے ذہنی معیار کی رعایت فرمائی۔ اسی لیے ہر شخص آپ ﷺ سے مطمئن ہوتا تھا ۔صرف یہی نہیں بلکہ آپ ﷺ مخاطب کی ذہنی استعداد کالحاظ رکھتے ہوئے عمدہ مثالوں اور روزمرہ کے مشاہدات سے اس انداز میں استدلال فرماتے کہ بات سامع کے دل ودماغ میں اترتی چلی جاتی۔ حضرت ابوہریرۃؓسے روایت ہے:
’’ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول ﷺ!میری بیوی نے سیاہ بچے کو جنم دیا ہے اور میں اس کو پسند نہیں کرتا۔رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟اس نے کہا:ہاں، آپ ﷺنے فرمایا :ان کے رنگ کیا ہیں؟اس نے کہا:سرخ ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا:کیا ان میں سے کوئی سیاہی مائل بھی ہے؟اس نے کہا:ہاں سیاہی مائل بھی ہے۔آپ ﷺنے فرمایا:وہ کہاں سے آگیا؟ کہنے لگا :اے اللہ کے رسول !شاید ان کی کہیں اصل نسب میں ہوگا۔آپ ﷺنے فرمایا:شاید یہ بھی کہیں اصل نسب میں ہوگا‘‘۔ (صحیحَ البخاری،کتاب الطلاق،باب اذا عرض بنفی الولد، ح:۵۳۰۵، ص:۹۴۸۔ ایضاً،کتاب الحدود،باب ماجاء فی التعریض، ح:۶۸۴۷، ص:۱۱۸۰۔ ایضاً،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،باب من شبہ أصلاًمعلوماً ح:۷۳۱۴، ص:۱۲۵۹۔ صحیح مسلم،کتاب اللعان،ح:۳۷۶۸،ص:۶۵۲)
چنانچہ وہ بدو بالکل مطمئن ہوگیا۔رسول اللہﷺ نے صحابہ کرامؓ کو بھی یہی تلقین فرمائی کہ وہ لوگوں کی عقل اور ذہنی استعداد کے مطابق دعوت دیں ۔صحابہ کرامؓکہتے ہیں:
أمرنا ان نکلّم الناس علی قدر عقولھم (منتخب کنزالعمال،کتاب الاخلاق،باب فی الاخلاق المحمودۃ ،ح:۸۵۰۳،۴/۷۰)
’’آپﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم لوگوں کی ذہنی استعداد کے مطابق بات کریں‘‘

مخاطب کے مقام ومرتبہ کا لحاظ رکھنے کی تلقین

داعی کا فرض ہے کہ وہ ممکن حد تک مخاطب کے معاشرتی وسیاسی مقام ومرتبہ کا لحاظ رکھے۔کیونکہ ایسے لوگ عزت افزائی کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں۔اگر داعی ان کے مقام ومرتبہ کو نظر انداز کرے گا تو ممکن ہے کہ شیطان اسے گمراہ کردے اور اسے حق بات سننے سے روک دے۔اس لیے داعئ حق کو چاہئے کہ وہ ایک خاص حد تک ان کی اس کمزوری کا لحاظ رکھے تاکہ قبولِ حق میں ان کے اپنے نفس کی مزاحمتوں کے سوا داعی کی طرف سے کوئی جدید مانع پیدا نہ ہوجائے۔
خود رسول اللہ ﷺ کا یہ عمل تھا کہ آپ ﷺ وفود عرب،جو عام طو رپر قبائلی رؤسااور سرداروں پر مشتمل ہوتے تھے،کی پیشوائی فرماتے،ان کے احترام کے لیے کھڑے ہوتے اور ان کی عزت افزائی فرماتے،چنانچہ کئی وفود جو محض معاہدہ صلح کے لیے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے تھے ،آپ ﷺ کے حسنِ اخلاق اور عزت افزائی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اسلام قبول کرلیا۔ مثلاً وفدِاشجع معاہدہ صلح وامن کے لیے آیا تھالیکن آپﷺکے حسنِ اخلاق سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔ (ابن سعد، ’’الطبقات الکبریٰ ‘‘،وفدِ اشجع،۱/۳۰۶) اس لیے رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓکی بھی اسی نہج پرتربیت فرمائی اور ان کو حکم دیا کہ وہ لوگوں سے ان کے مقام ومرتبہ کے مطا بق سلوک کریں ۔آپ ﷺ کا فرمان ہے :
انزلوا الناس منازلھم (سننِ ابی داؤد،کتاب الادب،باب فی تنزیل الناس منازلھم ح:۴۸۴۲،ص:۶۸۴)
’’لوگوں سے ان کی قدر ومنزلت کے مطابق پیش آؤ‘‘۔
مخاطب کے مقام ومرتبہ کا لحاظ رکھنے اور دعوت کو نرم انداز میں پیش کرنے کاجو حکم ہے اس کا جواز فقط اسی حد تک ہے جہاں تک حق کے وقار کو ٹھیس نہ پہنچے ،اگر اس اسلوب کو اختیار کرنے سے دعوتِ حق کا وقار مجروح ہونے کا اندیشہ ہوتو داعی کو ایسے تمام طریقوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔

اعجاز و اختصار کی تلقین

داعی کے لیے اس امر کالحاظ رکھنا بھی ضر وری ہے کہ دعوت کی فضول تکراراور بے فائدہ طولِ بیان کہیں لوگوں کودعوت کے مضامین ہی سے متنفر نہ کردے۔رسول اللہﷺ کے خطبے نہایت مختصر ہواکرتے تھے اور بعض روایات میں رسول اللہﷺ نے خطبہ کے اختصار کو خطیب کی دانش مندی کی علامت قرار دیتے ہوئے فرمایا:
ان من البیان سحرًا (سنن ابی داؤد، کتاب الاد ب، باب ماجاء فی الشعر،ح:۵۰۱۱،ص:۷۰۵)
’’بعض خطبے جادو ہوتے ہیں‘‘
اس حدیث میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیاگیا ہے کہ اگر داعی کاخطبہ مختصر ،جامع اور بلیغ ہوگا تو وہ جادو کی طرح اثر کرے گا۔جبکہ طویل خطبہ نہ صرف سامع کی طبیعت کوکند کردے گابلکہ دعوت کوقبول کرنے کی حس اور صلاحیت کوبھی ختم کردے گا۔اس لیے رسول اللہ ﷺ نے دعوت وتبلیغ میں ہمیشہ اختصار سے کام لیانیز آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کی بھی اسی نہج پر تربیت فرمائی ۔حضرت عمار بن یاسرؓ فرماتے ہیں:
أمرنا رسول اللّٰہ باقصار الخطب (سننِ ابی داؤد،کتاب الصلوٰۃ، باب اقصار 
’’رسول اللہﷺ نے ہمیں خطبہ میں اختصار کاحکم فرمایا ہے‘‘۔الخطب، ح:۱۱۰۶، ص:۱۶۶) 
حضرت عمار بن یاسرؓنے ایک دفعہ خطبہ دیا تو آپؓنے اپنے خطبہ میں اختصار سے کام لیا۔ قبیلۂ قریش کے ایک شخص نے کہا اگر آپؓ کچھ مزید فرماتے تو بہتر تھا،آپؓنے جواب دیا:
ان رسول اللّٰہ ﷺ نھی ان نطیل الخطبۃ (المسند، حدیث عمار بن یاسرؓ، ح:۱۸۴۱۰،۵/۴۱۹)
’’رسو ل اللہﷺ نے ہمیں طویل خطبے سے منع فرمایا ہے‘‘

جبر واکراہ سے اجتناب کی تلقین

اسلام کو جملہ الہامی وغیر الہامی مذاہب میں اس لحاظ سے انفرادیت حاصل ہے کہ اس نے اپنی ترویج واشاعت کے باقاعدہ اصول بیان کیے ہیں اور کھل کر اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ دین ایسی چیز نہیں جس کو زبردستی کسی پرٹھونساجائے کیونکہ دینِ اسلام کا اولین جزو ایمان ہے اور ایمان نام ہے یقین کا۔دنیاکی کوئی طاقت کسی کے دل میں یقین کا ایک ذرہ بھی زبردستی پیدا نہیں کر سکتی۔ اس لیے قرآن کا واضح حکم ہے:
لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِ (البقرہ،۲:۲۵۶)
’’دین میں زبردستی نہیں ہے،تحقیق ہدایت گمراہی سے الگ ہوچکی ہے‘‘۔
دعوتِ دین کا یہ وہ اسلوب ہے جس کو نہ صرف رسول اللہﷺ نے خود اختیار فرمایابلکہ صحابہ کرامؓ کو بھی اس کی تلقین فرمائی چنانچہ رسول اللہﷺ نے جب عمروؓ بن حزم کوبنو حارث بن کعب کی طرف دعوت وتبلیغ اور صدقات کی وصولی کے لیے روانہ فرمایا تو ان کو ایک تحریر لکھ کردی جس میں یہ ہدایت واضح طور پر درج تھی:
.........وأنہ من اسلم من یھودی اونصرانی اسلاما خالصا من نفسہ، ودان بدین الاسلام، فانہ من المومنین، لہ مثل ما لھم، وعلیہ مثل ما علیھم، ومن کان علی نصرانیتہ أویھودیتہ فانہ لایردعنھا (ابن ہشام،اسلام بنی الحارث بن کعب،۴/۲۵۱)
’’..........اور جو یہودی یانصرانی اپنی طرف سے مخلصانہ اسلام لے آئے اور دین اسلام کو اپنا دین بنالے، وہ مومنوں میں شمار ہوگا،اس کے وہی حقوق ہوں گے جو مومنوں پرہوں گے اور جو اپنی یہودیت یانصرانیت پر قائم رہے گا اسے اس یہودیت یا نصرایت سے پھیرا نہ جائے گا‘‘

خلاصۂ بحث 

مخاطبینِ دعوت دوچیزوں سے فوری طور پر متاثر ہوتے ہیں: ایک داعی کاذاتی کردار اور دوسرا اس کابات کرنے کا اندازکہ وہ کس انداز میں اپنی دعوت کو لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے ۔اس لیے ایک داعی کا صرف یہی فرض نہیں کہ وہ لوگوں کے سامنے حق کو بیان کردے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ وہ مضامین دعوت کو لوگوں کے سامنے اس طریقے سے پیش کرے اور بات اس پیرائے میں کرے کہ ان پر حق پوری طرح آشکاراہوجائے اور بات ہر خاص و عام کی سمجھ میں آجائے اور جن لوگوں کے دلوں میں قبولِ حق کی کچھ بھی صلاحیت اور تڑپ ہے، وہ اس کو قبول کرلیں ۔اس مقصد کے حصول کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ دعوت کی زبان انتہائی مؤثر ،داعی کا طرزِ کلام فطری اور اس کا اسلوب د ل نشین ہو۔
ایک داعی کاکام یہ نہیں کہ وہ ایک مؤرخ کی طرح واقعات کو بیان کردے بلکہ اس کا کردار ایک صحافی،فلسفی اور مقنّن سے بالکل مختلف ہے۔ ایک طرف تو اس کا موضوع اتنا وسیع ہے کہ زندگی کے تمام معاملات اس کے تحت آجاتے ہیں اور دوسری طرف اس کے مخاطبین میں مزاج اور طبیعت کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے اور ان کی ذہنی استعداد بھی ایک جیسی نہیں ہوتی ۔اس لیے داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ مخاطب کی صلاحیتوں کے اس اختلاف کو پیشِ نظر رکھ کر بات کرے،اورمخاطبین کے مذاق اور رجحانِ طبع کا لحاظ کرتے ہوئے دعوت کے مختلف اسالیب اختیار کرے اور اس کی طرف مختلف سمتوں سے آئے کہ نہ صرف اس پر حق واضح ہوجائے بلکہ اس پر اتمامِ حجت بھی ہوجائے۔اگر داعی دعوت کا ایک ہی متعین اسلوب اختیار کرے گا تو اس کی ناکامی نوشتۂ دیوارہے۔کیونکہ اس کی یہ یک رنگی اس فطرت کے بالکل خلاف ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر فرد میں طبیعتوں اور صلاحیتوں کے اختلاف کے ساتھ رکھی ہے۔رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ کی دعوتی زندگی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے دعوتِ دین کاکوئی متعین اسلوب اختیار نہیں کیابلکہ مخاطب کے حالات کا لحاظ رکھتے ہوئے جو مناسب جانا، اس اسلوب اور انداز کو اختیار کیا۔ آپﷺ نے صحابہ کرامؓ کو اسلوبِ دعوت کی جو تلقین کی، اس میں بھی جوتنوع ہے، وہ مخاطبینِ دعوت کے اعتبار ہی سے ہے۔
داعی کاکام مدعو کے ذہن کو بالکل تبدیل کرکے رکھ دینا ہے، اس لیے یہ کام اس قدر آسان نہیں۔ اس کے لیے داعی کا صاحبِ علم ہونے کے ساتھ ساتھ حکیم ہونا بھی ضروری ہے۔،دعوتِ حق میں حکیمانہ اندازِ تخاطب کامیابی کی ضمانت بن سکتاہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے حکمت کے سارے اصول پیغمبرِ اسلامﷺ کو سکھائے اور آپﷺ نے اپنی دعوتی زندگی میں ان اسالیب کو اختیار کرکے ایک مثال قائم کی اورپھر آپﷺ نے صحابہ کرامؓ کی بھی اسی نہج پر تربیت فرمائی۔ دعوت کے اصول اور اسلوب کو اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کردینا امتِ محمدیہ ﷺکی ایسی خصوصیت ہے جس میں دنیا کا کوئی مذہب ،چاہے وہ الہامی ہویا غیر الہامی،اسلام کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتا ۔ قرآن نے خود دعوت کے اصول اور اسلوب کو بیان کیا اور پیغمبرِ اسلام ﷺ نے اس پر عمل کرکے ایک عملی مثال قائم فرمائی اور پھر آپﷺ نے اپنے ماننے والوں کو بھی ان کی تلقین اور ہدایت فرمائی جیسا کہ گذشتہ سطور میں اس کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ 

امریکی جارحیت کے محرکات

پروفیسر میاں انعام الرحمن

عالمی سیاست کے حقیقت پسند مکتبہ فکر کے مطابق کسی بھی قسم کی ’’قدریں‘‘ قومی مفاد کا جزو لا ینفک نہیں ہوتیں۔ مغربی ممالک کی عمومی نفسیات اسی مکتبہ فکر سے متاثر ہے لہٰذا ان ممالک میں قومی مفاد کو قدروں سے وابستہ کرنے کے بجائے تزویراتی مفاد سے وابستہ کیا جاتا ہے، اگرچہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ڈھنڈورا اعلیٰ انسانی قدروں کا ہی پیٹا جاتا ہے۔ افغانستان اور عراق کے خلاف حالیہ امریکی اقدامات میں بھی ’’انسانی تہذیب کی سلامتی‘‘ جیسے جوازات گھڑے گئے ہیں حالانکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکی پالیسی ساز قدریاتی تعیش پر مبنی ترجیحات اپنا کر تزویراتی نقصانات کے متحمل کبھی نہیں ہو سکتے اس لیے بفرض محال امریکی اقدامات میں قدری پہلوؤں کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو وہ لازماً تزویراتی مفادات سے ہم آہنگ ہوں گے۔ تبھی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ان اقدامات کا پشتیبان بنا ہوگا۔
سپر طاقت ہونے کے باوجود امریکیوں کے لیے دنیا میں ابھرتے ہوئے باہمی انحصار (Rising Interdependence) کا رجحان درد سر بنا ہوا ہے۔ امریکی حکومت دنیا کے کسی بھی کونے کھدرے میں کسی انقلابی پیش رفت سے انتہائی خوف زدہ ہے کہ اس سے بالواسطہ امریکی مفادات پر زد پڑ سکتی ہے۔ اکیسویں صدی میں ریاست کے اندرون وبیرونی کا فرق ختم ہو چکا ہے۔ یہی پس منظر ہے جس کے باعث امریکہ عالمی کردار (Globalized role) اپنانا چاہتا ہے تاکہ اس کا موجودہ سٹیٹس برقرار رہے۔
بنظر غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکی انرجی کا چالیس فی صد حصہ تیل سے پورا ہوتا ہے اور تیل کا پینتالیس فی صد حصہ درآمد کیا جاتا ہے اور کل درآمد کا ایک چوتھائی خلیج سے لیا جاتا ہے یعنی امریکی انرجی کا تقریباً پانچ فی صد سے بھی کم انحصار خلیج کے تیل پر ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ صرف پانچ فی صد انرجی کے تحفظ کے لیے اتنا ’’کھڑاک‘‘ کر رہا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ جاپان کی انرجی کا سینتیس فی صد انحصار خلیج کے تیل پر ہے، اس طرح کچھ اور ممالک بھی اپنی تیل کی ضروریات کا وافرحصہ خلیج کے ذخائر سے پورا کرتے ہیں۔ عالمی منڈی کے اپنے تیل کا تقریباً ایک تہائی خلیج پر منحصر ہے لہٰذا وہاں کسی قسم کی گڑبڑ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھا دے گی اور نتیجے کے طور پر امریکہ کو بھی پینتالیس فی صد درآمدی تیل کی زیادہ قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر باہمی انحصار کے سبب امریکی معیشت پر بالواسطہ بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ اثرات شدید نوعیت کے نہ بھی ہوں تو بھی امریکی عزائم کی راہ میں حائل ہونے کی کافی سکت رکھیں گے کہ امریکہ کا مسئلہ ’’روٹی کا مسئلہ‘‘ نہیں ہے بلکہ قومی تفاخر، انداز زندگی، جمہوریت اور انسانی حقوق کی ٹھیکے داری بھی اس کے لیے نفسیاتی مسائل بن چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مذکورہ امور کی بابت دنیا بھر میں کام کرنے کے لیے مضبوط معیشت کی ضرورت ہے۔ 
خیال رہے کہ ۱۹۷۰ء کے عشرے میں تیل کے بحران کے بعد امریکی حکومت نے بیس بلین ڈالرز خرچ کر کے Strategic Petroleum Reserve تعمیر کیا تھا تاکہ عربوں کے ’’ہتھیار‘‘ سے بچا جا سکے لیکن اس وقت دنیا میں رائج مخصوص معاشی رجحانات نے اس ریزور کی سابقہ اہمیت میں کافی کمی کر دی ہے۔
تیل کی قیمتوں میں غیر متوقع اضافہ درحقیقت عالمی معیشت پر ’’ٹیکس‘‘ تصور کیا جاتا ہے کہ اس سے افراط زر میں اضافہ ہوگا اور طلب میں کمی واقع ہوگی۔ قیمتوں میں اضافے سے امریکی معیشت یوں متاثر ہوگی کہ اسے ایک بڑے درآمدی بل کا سامنا کرنا پڑے گا اور بڑے درآمدی بل سے معیشت کو دھچکا لگے گا اور نتیجتاً پیداواری عمل متاثر ہونے سے پوری معیشت بیٹھ جائے گی۔ ماہرین کی رائے ہے کہ اگر امریکی حکومت، رچرڈ نکسن کا مقصد ’’توانائی کے میدان میں خو دمختاری‘‘ حاصل بھی کر لے تو بھی وہ میکرو اکنامک اثرات سے بچ نہیں سکے گی کہ باقی دنیا میں تیل کی قیمتوں میں اضافے سے عالمی منڈی کو شدید دھچکا لگے گا۔ 
اگر ہم مذکورہ پہلوؤں کے مضمرات پر غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ تیل کی قیمتوں پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کا دفاعی بجٹ متاثر نہ ہو کیونکہ امریکی معیشت کو دھچکا لگنے کی صورت میں دفاعی بجٹ میں کٹوتی ضروری ہو جائے گی اور امریکہ ٹھیکے داری نہیں کر سکے گا۔
اگر ہم ایک اور زاویے سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی انشورنس پالیسی کی طرز پر تشکیل دی گئی ہے۔ سابقہ سوویت یونین سے کسی خوف ناک تصادم کے امکان کے پیش نظر دفاع پر ٹریلین ڈالرز جھونک دیے گئے تھے۔ امریکی خارجہ پالیسی میں Margin of Safety کلیدی عنصر بن چکا تھا۔ جس طرح عام زندگی میں بہت کم لوگ امید رکھتے ہیں کہ ان کا گھر جل سکتا ہے لیکن اس کے باوجود اکثرلوگ وافر انشورنس کی سکیورٹی ترجیحی بنیادوں پر اپناتے ہیں۔ سابقہ سوویت یونین سے کسی امکانی ٹکراؤ کے پیش نظر امریکی پالیسی ساز بھی وافر انشورنس کی سکیورٹی کو اپنائے ہوئے تھے اور اسلحہ کے انبار لگا رہے تھے۔ ہماری رائے میں اصل بات یہ ہے کہ کسی امکانی مسئلے کی ’’نوعیت‘‘ کیا ہے؟ یعنی امکان کے وجود میں ڈھلنے سے نقصان کس حد تک ہو سکتا ہے، اگرچہ مخصوص واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کا امکان انتہائی کم ہو۔ سابقہ سوویت یونین سے براہ راست ٹکراؤ کا امکان اگرچہ بہت کم تھا لیکن اگر یہ ٹکراؤ ہو جاتا تو نقصان کا شمار ہی نہیں کیا جا سکتا تھا لہٰذا امریکی پالیسی ساز ایسے نقصان سے بچاؤ کے لیے Margin of Safety پر مبنی پالیسی بنانے میں حق بجانب تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ امریکہ پالیسی کی یہی نفسیات افغانستان اور عراق میں نظر آتی ہے۔ وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر سے اگرچہ امریکی مفادات براہ راست وابستہ نہیں ہیں لیکن امریکہ باہمی انحصار کے عالمی رجحان کے باعث Margin of Safety کا خواہاں ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ امریکی پالیسی ساز سرد جنگ کی نفسیات سے چھٹکارا نہیں پا سکے۔ ہمارے موقف کو اس امر سے مزید تقویت ملتی ہے کہ امریکی صدر کے ارد گرد موجود افراد، سرد جنگ کے دوران بھی کلیدی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ ان کی سوچ اور رویہ اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو سکا۔
سیاسی مدبرین کہتے ہیں کہ جنگ کا آپشن اختیار کرتے وقت بزرجمہروں کو اچھی طرح جانچ لینا چاہیے کہ کیا جنگ کے بعد مناقشت میں کمی واقع ہوگی یا مزید اضافہ ہو جائے گا۔ بش سنیئر کے عہد میں عراق پر حملوں کے بعد کی صورت حال امریکی فیصلہ سازی میں غلطی کی نشان دہی کرتی ہے کہ اس کے بعد امریکہ عراق کشمکش میں اضافہ ہوا ہے۔ آخر یہ کیسی جیت تھی کہ امریکہ نے جنگ جیتنے کے باوجود مشرق وسطیٰ میں اپنی فوجی موجودگی میں مزید اضافہ کیا؟ اسی طرح افغانستان پر حالیہ حملوں کے بعد امریکی دفاعی بجٹ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی بجٹ بن کر سامنے آیا۔ سوویت یونین کی شکست وریخت، پہلی خلیجی جنگ میں امریکی فتح اور حالیہ افغان جنگ میں بھی امریکی فتوحات کے باوجود یورپ، جاپان، جنوبی کوریا، فلپائن، لاطینی امریکہ اور جنوب مغربی ایشیا میں امریکہ کی فوجی ذمہ داریاں (Military Commitments) وہی ہیں جو سرد جنگ کے دوران تھیں۔ ماضی کی نسبت اس وقت امریکہ کو زیادہ خطرات لاحق ہیں مثلاً منشیات، دہشت گردی، تیسری دنیا میں امریکہ مخالف لہر وغیرہ۔ ان خطرات سے نمٹنے کے لیے Soft Power Strategic Measures کی ضرورت ہے جیسا کہ:
۱۔ عالمی معاملات میں بین الاقوامی برادری کی رائے کا احترام کرنا۔
۲۔ امتیازی پالیسیوں کے بجائے اصولی موقف اختیار کرنا۔
۳۔ غربت وافلاس کے خاتمے کے لیے فعال کردار ادا کرنا۔
۴۔ دنیا کے ہر خطے کی ترقی کے لیے اقدامات کرنا۔
۵۔ مقامی وعلاقائی تقاضوں اور نظریات کا احترام کرنا۔
لیکن اس وقت امریکی پالیسیوں کا محور Hard Power Strategic Measures ہیں۔ جناب واکر بش کی بڑھکیں کہ ’’کوئی ہمارا ساتھ دے یا نہ دے، ہم عراق پر حملہ ضرور کریں گے‘‘ امریکی حکمت عملی کے اسی پہلو کو اجاگر کرتی ہیں۔ ہو سکتا ہے امریکیوں کا حکمت عملی کے سخت پہلو پر زور دینا اپنے تئیں ٹھیک ہی ہو لیکن سیاسی مدبر میکس ویبر (Max Weber)کی بات بھی جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ پالیسیوں کو ان کے نتائج کے اعتبار سے جانچا جانا چاہیے نہ کہ ان کے محرکات کے حوالے سے۔ دنیامیں امریکہ مخالف بڑھتی ہوئی لہر امریکی پالیسیوں کی بابت نتائج کے اعتبار سے منفی تصویر پیش کرتی ہے۔
خلیجی جنگ، افغانستان میں امریکی مداخلت اور عراق پر امریکہ کے حالیہ حملوں سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ امریکہ حقیقتاً عالمی لیڈر ہے، اس کے مقابلے میں کوئی نہیں۔ اگر ہم امریکہ کی موجودہ پوزیشن کا جنگ بوئر (۱۹۰۲۔۱۸۹۹ء) کے بعد کے برطانیہ سے موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسی طرح برطانیہ بھی اپنے تئیں عالمی لیڈر بنا ہوا تھا حالانکہ درحقیقت یہ برطانیہ کے زوال کا آغاز تھا کیونکہ اس وقت:
۱۔ نئی عظیم طاقتیں ابھر رہی تھیں جس طرح آج جاپان، جرمنی اور چین ابھر رہے ہیں۔
۲۔ اس وقت برطانیہ کی سٹرٹیجک کمٹ منٹس اور ان پر پورا اترنے کی اہلیت کے درمیان ’’خلیج‘‘ حائل ہو رہی تھی اور اس کی معاشی قوت امریکہ اور جرمنی کے مقابلے میں کمزور پڑ رہی تھی۔ اسی طرح آج کا امریکہ بھی سٹرٹیجک کمٹ منٹس کا دائرہ بے محابا پھیلا چکا ہے۔ پال کینیڈی نے اپنی مشہور کتاب Rise and Fall of Great Powers میں اسی چیز کو Imperial Overstretch کا نام دیا ہے کہ امریکہ ماضی کی عظیم سلطنتوں کی مانند بے محابا پھیلاؤ کا شکار ہے اور اسی کے ہاتھوں اسے زوال آئے گا کیونکہ عالمی کردار ادا کرنے کے لیے نمو پذیر معیشت ہی پشتی بان ثابت ہو سکتی ہے لیکن عالمی غلبے کے لیے جس قدر اخراجات بڑھتے جاتے ہیں، اسی قدر قومی وسائل کا زیادہ تر حصہ ایسے اخراجات کے لیے مختص کرنا پڑتا ہے نہ کہ معاشی پیداواری عمل کے لیے۔ اس طرح ایک تضاد (Paradox) سامنے آتا ہے کہ عالمی برتری کے تعاقب سے معاشی بنیادیں کھوکھلی ہو جاتی ہیں جن پر برتری کا انحصار ہوتا ہے۔
جنگ بوئر کے بعد برطانوی بھی آج کے امریکیوں کی مانند نعرے لگا رہے تھے کہ بین الاقوامی قانون کی پاس داری اور علم برداری کو یقینی بنانے کے لیے اور دنیا میں ’’دائمی امن‘‘ کے قیام کے لیے برطانوی کردار ناگزیر ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ، آج کے نوم چومسکی وغیرہ کی طرح، اس وقت بھی کچھ انگریز مدبروں نے برطانیہ کے عالمی کردار کی Restructuring کی کوشش کی تھی لیکن ناکام ہوئے تھے کیونکہ جنگ بوئر جیت لی گئی تھی اس لیے برطانوی بے محابا پھیلاؤ میں مضمر سٹرٹیجک اور معاشی کمزوریاں فتح کے نشے کے باعث پالیسی سازوں کی نظروں سے اوجھل رہیں۔ آج کے امریکی پالیسی ساز بھی ایسے ہی اندھے پن کا شکار ہیں۔ ہماری رائے میں آنے والے وقت میں امریکہ کی فوجی طاقت ’’اضافی‘‘ شمار ہوگی۔ امریکہ اپنی جارحیت کے محرکات تلے ہی دم توڑ دے گا۔

اسلامی تحریک کا مستقبل: چند اہم مسائل

راشد الغنوشی

(راشد الغنوشی، تیونس کی اسلامی تحریک النہضۃ کے صف اول کے قائد ہیں اور اسلامی تحریکات کو درپیش چیلنجوں کے حوالے سے حقیقت پسندانہ اور عملی سوچ کا حامل ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔ ذیل میں بعض اہم امور پر ان کے خیالات ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ لاہور کے شکریے کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ مدیر)

اسلام اور مغرب

کسی بھی معاشرے کے مسائل کا حل معاشرے کے اپنے پاس موجود ہوتا ہے تاہم دیگر عوامل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ درست ہے کہ اس وقت مغرب کا کردار منفی ہے اور اس کی وجہ ان کا یہ خیال ہے کہ اگر ]احیاے اسلام کے نتیجے میں مسلم ممالک میں[ تبدیلی آئی تو متبادل، اسلام ہوگا اور یہ کتنا ہی معتدل کیوں نہ ہو، ان کو پسند نہیں ہے۔ لیکن تبدیلی ناگزیر ہے۔ یہ اللہ کی مرضی سے واقع ہوگی۔ یہ اللہ ہے، نہ کہ مغرب، جو، جو چاہتا ہے، کرتا ہے۔
دنیا میں کئی سیاسی تبدیلیاں آئی ہیں اور وہ سب مغرب کو پسند نہ تھیں لیکن مغرب کو انہیں حقیقت تسلیم کرنا پڑا۔ عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کو تسلیم کرنے میں امریکہ کو طویل زمانہ لگ گیا لیکن آخر کار امریکہ کو چین کی حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا۔ یہی معاملہ اب اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اس وقت اسلام کو ہوا سمجھنے والوں کی آواز میں بظاہر زور ہے اور معاملات ان کے ہاتھ میں ہیں، تاہم مغرب میں ایسی تحریک موجود ہے جو اسلام کے ساتھ تعمیری رابطے میں یقین رکھتی ہے۔
اگر اسلام اور مسلمان کی قسمت اپنے وقت کے عالمی نظام کے تابع ہوا کرتی تو دونوں میں سے کوئی بھی مغرب کے نوآبادیاتی تسلط اور عالمی غلبے کے صدیوں کے اثرات سے باقی نہ بچتا۔ اس کے برعکس ان داخلی اور خارجی عوامل کے باوجود، جو ترقی کو روکتے رہے، اسلام آج اس رفتار سے پھیل رہا ہے جو اس کے اقتدار کے ہزار سال میں بھی نہیں تھی۔ مستقبل اسلام کا ہے اور یہی اللہ کی مرضی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ دیر سے نہیں، جلد ہی یہ حقیقت تسلیم کر لی جائے گی کہ اسلام اور مسلمان ہماری دنیا کا ایک حصہ ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر شخص اسلام سے اتفاق کرے، نہ ہی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ غیر اسلام سے اتفاق کریں لیکن متفق نہ ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ آپ دشمن بن جائیں۔ تہذیبیں ایک دوسرے سے مکالمہ کرتی ہیں، لڑا نہیں کرتیں۔
یہ حقیقت ہے کہ آج کا مغرب، تیونس میں یا کہیں بھی اسلامی تبدیلی کے حق میں نہیں ہے۔ تاہم اگر ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ایسا کیوں ہے، تو ہم اس منفیت (negativism) کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ منفی رویہ تاریخی ہے اور دراصل ناواقفیت پر مبنی ہے۔ (اجنبی اور نامعلوم کا خوف) لہٰذا یہ مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے، چاہے وہ مقامی ہوں یا باہر سے آئے ہوں، کہ وہ ناواقفیت اور تعصب کی ان خلیجوں کو پاٹنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
دیانت داری کا تقاضا ہے کہ میں اس بیرونی عامل کے مثبت پہلوؤں کو تسلیم کروں۔ تیونس کی ایک اسلامی تحریک کے افراد ایمنسٹی انٹر نیشنل، ہیومن رائٹس واچ، لائرز کمیٹی، انٹر نیشنل فیڈریشن آف ہیومن رائٹس جیسی تنظیموں کے ان اقدامات کے لیے ممنون ہیں جو انہوں نے تیونس میں آزادی اور ظلم وستم کا نشانہ بننے والوں کے حق میں کیے اور اب بھی کر رہے ہیں۔
مغرب نے ہزاروں مسلمان مہاجرین کا استقبال کیا ہے، انہیں پناہ فراہم کی ہے اور موقع فراہم کیا ہے کہ اپنی زندگی کو ازسرنو شروع کریں۔ انہیں اظہار رائے کی آزادی دی ہے۔ اس سے اس دور کی یاد تازہ ہو جاتی ہے کہ جب قرون وسطیٰ میں عیسائی، چرچ کی تفتیش اور ظلم سے فرار حاصل کر کے انہی ساحلوں سے اس وقت کی اسلامی دنیا کا رخ کرتے تھے جو اس زمانے میں آزادی اور امن کی جنت تھی۔
انتہا پسندی اور منفی رجحانات کو ایک طرف رکھتے ہوئے، میں مسلمانوں اور مغرب کے درمیان نئی مفاہمت کو، خصوصاً وہ جو غیر حکومتی سطح پر استوار ہوئی ہے، امید کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ بلاشبہ اس سمت میں طویل سفر باقی ہے۔ مسلمان اور مغرب دونوں کو اپنے اپنے لگے بندھے تصورات (Stereotypes) سے آگے جانا ہے اور حقیقت کی اصل تک پہنچنا ہے اور وہ ہے:انسانیت کی خدمت۔ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:
’’اے بنی نوع انسان، ہم نے تم کو مرد اور عورت ایک جوڑے سے پیدا کیا اور پھر تمہیں قوموں اور قبیلوں میں بانٹ دیا تاکہ تم ایک دوسرے کوجان سکو، بے شک اللہ کی نگاہ میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سے سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔‘‘ (الحجرات ۴۹: ۱۳۔۱۴)

اسلام اور جمہوریت

میرے خیال میں اسلامی تحریکوں اور جمہوریت کو سمجھنے میں غلطی کی گئی ہے۔
اول، یہ غلط ہے کہ تقریباً تمام اسلامی تحریکوں نے اپنے مقاصد کو جمہوریت کے ساتھ منسلک کر دیا ہے اس لیے کہ بہت سے تو لفظ جمہوریت کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک یہ مغرب کی بدنام نوآبادیاتی تاریخ کا تسلسل ہے اور ان کے اسلامی تصورات کی بنیاد سے ٹکراتا ہے۔ بہت سے اسلامی اہل قلم ابھی تک اس اصطلاح کے استعمال کے جواز پر بحث کر رہے ہیں۔ اس بحث کا آغاز مولانا مودودیؒ نے کیا تھا اور بعد میں سید قطب شہیدؒ کی فکر نے اسے آگے بڑھایا۔ علاوہ ازیں کچھ نئی اسلامی تحریکیں ہیں جو اس کی شدید مخالف ہیں۔ لگن کے ساتھ جمہوریت کا دفاع کرنے والے درحقیقت بہت کم ہیں۔
اسلام پسندوں کے بار بار کے اور بڑھتے ہوئے مطالبات کے باوجود کہ انہیں جمہوری عمل میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے، مسلمان حکومتیں عموماً انہیں اس عمل میں شامل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چند ایک ہی عرب یا مسلمان ممالک ایسے ہیں جو جمہوریت پر عمل پیرا ہیں، اس لیے اسلام پسند عام طور پر جمہوریت کے دائرے سے باہر وجود رکھتے ہیں۔ ان کو عموماً نظر انداز کیا جاتا ہے یا پھر انہیں تصادم پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ بہت کم ہیں جنہیں سیاسی عمل کا حصہ بننے دیا گیا۔ اس طرح بد قسمتی سے انہیں مجبور کر دیا جاتا ہے کہ دیگر متبادل راستے اختیار کریں۔
دوم، تبدیلی کا عمل بیشتر صورتوں میں ایک گروہ کا آزادانہ انتخاب نہیں ہوتا بلکہ معروضی حقائق کی ضروریات اور امکانات کے تحت مجبوراً اختیار کرنا پڑتا ہے۔ نہیں تو ایسا کیوں ہوا کہ الجزائر کا اسلامی گروپ جمہوری فضا میں وجود میں آیا اور بعد ازاں جہادی گروپ میں تبدیل ہو گیا لیکن ہمسایہ ملک کی اسلامی تحریک کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ اسی طرح ایران میں شاہ ایران کے ظلم واستبداد کے خلاف اسلامی تحریک کا رد عمل مختلف تھا۔ نہ تو اس نے تشدد کا راستہ اختیار کیا اور نہ ہی یہ تبدیلی جمہوریت کے راستے آئی۔ سوڈان کی تحریک نے عوام کی حمایت سے فوج کے ادارے کے ذریعے تبدیلی لانے پر انحصار کیا۔
اس تنوع کی وجہ کیا ہے جب کہ اسلام ایک اور یکساں ہے؟ معروضی حالت، جغرافیائی وتاریخی عوامل اور افراد کی صورت حال، یہ سب اس کی وجہ ہیں۔ اس لیے تبدیلی کا طریقہ کسی بھی اسلامی تحریک کے لیے ایک قطعی واضح راستہ نہیں ہوتا بلکہ ایک مخصوص معروضی حقیقت کی تشکیل کردہ مساوات (equation) کا آخری نتیجہ ہوتا ہے۔
سوم، یہ فرض کر لینا غلط ہے کہ جمہوریت کا تصور مکمل طور پر مغرب کا تصور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ انسانی ورثے کا حصہ ہے۔
چہارم، اسلامی تحریک کے تجربے نے ثابت کر دیا ہے کہ جس طرح اسلام کا تصور، جمہوریت کے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ایران میں شاید خاتمی کے صدر بننے تک کے دور میں ہوا، اور بیشتر اسلامی تاریخ میں جمہوریت یعنی امت کا اپنے حکمرانوں (شوریٰ) کو منتخب کرنے کی روایت موجود نہیں رہی ہے، اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جمہوریت کو اسلام کے بغیر نافذ کیا جا سکتا ہے۔ ایک غیر عادلانہ اسلامی ریاست اور ایک عادلانہ غیر اسلامی ریاست کا تصور ممکن ہے۔ اس صورت میں اسلامی بصیرت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ عادلانہ ریاست کی خوش حالی اور ترقی کی امید کی جائے، چاہے وہ غیر اسلامی کیوں نہ ہو، اور غیر عادلانہ ریاست سے کرپشن اور انحطاط کی توقع کی جائے، چاہے وہ اسلامی ہی کیوں نہ ہو۔
جمہوریت اور انسانی حقوق کی موجودگی وہ مثالی صورت ہے جس میں لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جا سکتی ہے اور اسلامی ریاست قائم کی جا سکتی ہے لیکن اسلام ان کے لیے ناگزیر نہیں۔ البتہ اسلام ہی میں ان اقدار کا مثالی تصور اور عمل کے لیے مثالی ماحول ملتا ہے۔ اگر اسلام پسند جمہوریت کے حق میں کلمہ خیر کہتے ہیں تو اس کی وجہ ان کے مذہب کی تعلیمات ہیں جو شورائیت، عدل اور حکمت ودانش کی بات کو کسی بھی جگہ سے حاصل کر لینے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ہم سے کہا ہے کہ دو متبادل ہوں تو زیادہ آسان کا انتخاب کیاجائے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جمہوریت آسان تر ہے اور اسلامی کی روح کے قریب تر بھی۔
اس کا ایک واضح ثبوت مسلمانوں کا غیر عادلانہ مسلم ممالک سے عادلانہ غیر مسلم ممالک کی طرف اس وجہ سے ترک وطن کر کے آنا ہے کہ اسلام عدل کے ماحول میں خوب پھلتا پھولتا ہے اس لیے جب اللہ کے رسول ﷺ مکۃ المکرمۃ میں تھے تو آپ نے لوگوں تک دعوت پہنچانے کی آزادی چاہی۔ دوسری صورت میں مسلمانوں کا ترک وطن اور مغرب میں لاتعداد اسلامی کانفرنسوں کا انعقاد اور مطبوعات کی بڑھی ہوئی تعداد کی آپ کیا توجیہ کریں گے؟ آپ اور آپ کے رفقا کسی مسلم ملک مثلاً تیونس میں رہنے کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ یہاں جمہوری فضا میں رہنا پسند کرتے ہیں، چاہے یہاں اسلامی ریاست نہ ہو۔

اسلامی تبدیلی کی حکمت عملی

یہ حقیقت ہے کہ معاصر اسلامی معاشرے کے نمونے کی وضاحت اور دیگر نمونوں کے ساتھ اس کی مشابہت اور اختلاف کے تعین کے لیے بڑی کوششیں کی گئی ہیں لیکن ابھی اس میدان میں بڑے کام کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی ریاست کے اندر اور باہر مسلموں اور غیر مسلموں کے انفرادی واجتماعی حقوق کی یکساں حفاظت سے اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی وابستگی کے بارے میں کوئی ابہام نہ رہے۔ اسی طرح خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں بھی تشدد پسندی، دہشت گردی، تکفیر اور محض رائے یا عقیدے کے اختلاف کی وجہ سے انسانی زندگی، عزت اور مال پر حملوں کو اسلام سے جوڑنے کی روش ترک کی جائے۔ ان واقعات کو الگ کر کے دیکھنا چاہیے تاکہ اسلام کی جو خوف ناک تصویر بنا دی گئی ہے، وہ درست ہو جائے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلامی انقلاب کی حکمت عملی پر اس وجہ سے بھی بڑی بحث باقی ہے کہ حقوق آزادی کی خاطر، مسلم یا غیر مسلم استبداد کے مقابلے کے لیے ہتھیار اٹھانے کے جواز کے بارے میں غیر یقینی کیفیت ہے۔ میرا خیال ہے کہ افغانستان اور الجزائر میں خون بہنے کے بعد، جس سے خوارج کے فتنے کی یاد آ جاتی ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ مسلمان اس امر پر متفق ہو جائیں کہ اپنے اندرونی اختلافات کے حل کرنے کے لیے تشدد کا راستہ ترک کر دیں گے۔ طاقت کا استعمال اسی وقت درست ہے کہ جب اسلام کی سرزمین پر غیر ملکی حملہ آور ہو جائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ برعظیم پاک وہند میں سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی اسلامی فکر کا یہ فائدہ ہوا ہے کہ باقاعدہ اعلان شدہ جہاد کے علاوہ تشدد کے استعمال کے ناقابل قبول ہونے کا مسئلہ طے ہو گیا ہے۔ اس سے علاقہ (افغانستان میں جو کچھ ہوا، اس سے قطع نظر) باہمی جنگ وجدل سے محفوظ ہو گیا جبکہ عالم عرب میں یہ بات طے نہ ہونے کی وجہ سے کئی تباہ کن واقعات رونما ہوئے۔
تبدیلی کا طریقہ یقیناًحرکی (dynamic) ہے لیکن تحدیدات (limits) کے بغیر نہیں۔ حدیث ہے: ’’تم میں سے جو منکر کو ہوتا دیکھے، اسے ہاتھ سے مٹا دے، اگر ایسا نہ کر سکے تو زبان سے برا کہے اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو پھر دل میں برا جانے اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے۔‘‘ (مسلم) اس حدیث سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ تبدیلی کی حکمت عملی جامد نہیں ہے اور حقیقت اس قدر پیچیدہ ہے کہ صرف ایک سادہ حل کافی نہیں ہے۔ اسلامی فکر میں تبدیلی کے ایسے نظریے کی گنجایش ہے جو حقیقت کی تمام پیچیدگیوں کو سلجھا سکتا ہے۔
اس طرح تبدیلی کے ایک کے بجائے کئی راستے سامنے آتے ہیں۔ کسی ایک طریق کار کو نظری طور پر بیان کیا جا سکتا ہے لیکن جو صورت حال تبدیل کرنا ہے، اس کاطریق کار معروضی حقیقت ہی متعین کرے گی۔ یہی مذکورہ بالا حدیث میں لفظ ’’استطاعت‘‘ کا مفہوم ہے۔ یہ استطاعت فقہ کی کتابوں کے مطالعے سے نہیں پیدا ہوتی بلکہ حقیقت حال کے علم سے پیدا ہوتی ہے۔ یہی ہم عصر اسلامی فکر کی سب سے بڑی خامی ہے کہ اس میں نظریاتی اور تصوراتی حل زیادہ غالب اور نمایاں ہیں۔ اس میں کسی زیر غور صورت حال کے اقتصادی اور معاشرتی پہلوؤں اور اس پر اثر انداز ہونے والے اندرونی بیرونی عناصر کے ایسے مطالعے کو نظر انداز کیا گیا ہے جس سے تبدیلی کے لیے کوئی مخصوص حکمت عملی اختیار کی جا سکے۔ قرآن کا ہم سے مطالبہ ہے: فاتقوا اللہ ما استطعتم (التغابن ۶۴: ۱۶) ’’لہٰذا جہاں تک تمہارے بس میں ہے، اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ آخر ہم اپنی استطاعت کی حد کو کس طرح معلوم کریں گے جب تک حقیقت کے مطالعے کا اہتمام نہ کریں؟ ہمارے پاس بہت سے مسلم قانون ساز، ڈاکٹر اور انجینئر ہیں لیکن تاریخ، اقتصادیات، نفسیات، سماجیات اور معاشریات کے ماہرین مقابلتاً بہت کم ہیں۔ اس صورت میں ہم اس استطاعت کا تعین کیسے کریں جسے تبدیلی لانے کے مختلف طریقہ ہائے کار میں سے ایک کا انتخاب کرنے کے لیے شرط قرار دیا گیا ہے؟
یہ ان وجوہات میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے روایتی اور معاصر اسلامی فکر کی کوششیں رائیگاں جاتی ہیں اور ان میں خامی رہی ہے۔ یہ دراصل شریعت کے علوم کے مقابلے میں معروضی حقائق کے علوم سے عدم واقفیت کی وجہ سے ہے۔ جب تک ہم اس خامی کو دور نہ کریں گے، علاقائی اور عالمی صورت حال اور ان کے آگے بڑھنے کی سمت کے بارے میں ہمارے اندازے درست نہ ہوں گے۔ ان غلط اندازوں پر تبدیلی کی جو حکمت عملی تشکیل دی جائے گی، وہ تباہ کن ہوگی۔ عظیم مفکر فتحی یکن کے الفاظ میں اس طرح اسلامی سرگرمیاں پہلے تعمیر، پھر تخریب اور پھر تعمیر کا عمل ہوں گی یعنی ایسا عمل جس میں پیش رفت (dynamic of action) نہ ہو۔
اسلامی تحریکوں میں خود احتسابی کا شاذ ہونا اور تخلیقی اختراع کے مقابلے میں اندھی تقلید کو ترجیح دینا، اس کی وجہ ہے۔ روایتی علما کے حوالے مسلسل دیے جاتے ہیں اور ان کے کیے ہوئے کاموں کو بار بار دہرایا جاتا ہے۔ ان میں حق وباطل اور حرام وحلال کے مجرد اصول ہماری موجودہ حقیقت سے قطع نظر بیان کیے گئے ہیں۔ ان کی تنقیح سماجی علوم کے غیر ماہرین کے لیے ممکن نہیں، نہ وہ اس کے ارتقا کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہم ان کے مطالعے سے ہی اسلامی تبدیلی کی حکمت عملی کا تعین کر سکتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ ہم اس خاص پہلو کے حوالے سے آگے بڑھیں، پیچھے نہ آئیں۔ ’’سارا انحصار اللہ کی توفیق پر ہے۔ اسی پر میں نے بھروسا کیا اور ہر معاملے میں اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔‘‘ (ہود ۱۱: ۸۸)

تیونس کی اسلامی تحریک ’النہضۃ‘

اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس تحریک نے جس کی نشوونما مسلم دنیا کے سب سے زیادہ مغرب زدہ ماحول میں ہوئی، اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے، مقاصد کے حوالے سے پیش رفت کا جائزہ لینے اور مستقبل کے سفر کے لیے مناسب سبق حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ وقت نکالا ہے۔
ہماری تحریک کی نشوونما میں ایسے دو جائزے غیر معمولی قدروقیمت کے حامل ہیں۔ پہلا، بنیاد رکھے جانے اور ۸۶۔۱۹۷۰ء میں ابتدائی نشوونما کے دور سے متعلق ہے، دوسرا ۹۵۔۱۹۸۶ء کے دور کا جائزہ ہے۔
تحریک کی مثبت خصوصیات میں تحریک کی علمی اور تخلیقی سوچ ہے۔ اس سوچ کی بدولت تحریک نے اندھی تقلید کا راستہ ترک کر کے نئے تصورات کو اپنی سیاسی فکر میں جذب کیا جیسے جمہوریت، حقوق انسانی، مہذب معاشرہ اور خواتین کی شرکت، اور ان تصورات کو اسلامی اقدار کے قالب میں ڈھالا۔ اس کی بدولت تحریک کے لیے ممکن ہو گیا کہ تشدد اور نام نہاد ریڈیکل ازم کے راستے سے احتراز کرے، جس سے کئی چھوٹے گروہوں نے نقصان اٹھایا ہے۔ تحریک اس قابل ہو گئی کہ نظریاتی مشکلات کے بغیر مغرب کے ساتھ مکالمہ کرے۔ ہماری تحریک جدیدیت کے دور میں اسلامی دروازے سے داخل ہوئی ہے۔ وہ ایک ایسے اسلامی نظریے سے مسلح ہے جو ظلم کو مسترد کرتا ہے، اور ریاست کا قانونی جواز عوام الناس کی رضامندی سے مشروط کرتا ہے۔
اسلامی تحریک کے علم برداروں کی حکومت کے جواز کی بنیاد وہی ہے جو کسی اور سیاسی گروہ کی ہو سکتی ہے۔ وہ اپنا پروگرام عوام کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ صرف عوام کو حق حاصل ہے کہ اسے قبول کر لیں یا اسے مسترد کر دیں۔ یہ مسئلہ پریشانی کا باعث بنتا ہے کہ اگر عوام نے اسلام پسند پارٹی کو رد کر دیا اور سیکولر پارٹی کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کیا، تب کیا ہوگا؟ جس مسلم معاشرے میں اپنی اقدارکا شعور موجود ہو، اس میں یہ امکان بڑی حد تک نہیں ہے۔ تاہم کھیل کے قوانین کو تسلیم کرتے ہوئے، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ عوام کی مرضی کے مطابق حکومت میں تبدیلی آتی رہے، اسلامی تحریک دوسری جماعتوں کے ساتھ اپنے معاہدوں کی پاس داری کرے گی۔ اسی طرح، امید ہے کہ دوسرے گروہ بھی اپنے معاہدے کے پابند رہیں گے اور اسلامی تحریک کے افراد کو ان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد قید، جلا وطنی یا موت کی سزا دینے سے باز رہیں گے۔ ایوان اقتدار سے باہر رہنے کا وقفہ اسلامی تحریک کو یہ موقع دے گا کہ وہ اپنا جائزہ لے، مسلمانوں کو اپنے پروگرام پر مطمئن کرنے میں ناکامی کی وجوہات معلوم کرے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کرے۔ اگر وہ سوال کا صحیح جواب فراہم کر سکیں گے تو یقینی طور پر دوبارہ برسر اقتدار آئیں گے۔ ہمیں مسلمانوں کی راست روی پر اعتماد رکھنا چاہیے کیونکہ رسالت مآب ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت ضلالت پر کبھی مجتمع نہ ہوگی اور جب تم میں اختلاف ہو تو اکثریت کا راستہ اختیار کرو۔ (ابن ماجہ)
ہمارے جائزے میں جو منفی نکتہ ابھر کر سامنے آیا، وہ یہ تھا کہ اپنی قوت اور اپنے مخالفین کی قوت کا اندازہ لگانے میں ہم سے غلطی ہوئی۔ نیز قومی حالات کی تشکیل میں علاقائی اور عالمی عناصر کی اہمیت کا ہم کماحقہ ادراک نہ کر سکے۔
ہماری خامیوں میں سے ایک خامی یہ بھی رہی کہ ہم کچھ افراد کے اقدامات کے بارے میں، جو تحریک کی پالیسیوں کے خلاف تھے، انضباطی کارروائی کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے تحریک پر بحیثیت مجموعی تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ 
(ترجمہ: مسلم سجاد)

علما اور عملی سیاست

خورشید احمد ندیم

کیا علما کو عملی سیاست میں حصہ لینا چاہیے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے وقت دو باتیں پیش نظر رہنا چاہییں۔ ایک تو یہ ہے کہ یہ شریعت کا نہیں، حکمت وتدبر کا معاملہ ہے۔ یہ جائز اور ناجائز کی بحث نہیں ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ شریعت نے علما کو سیاست میں حصہ لینے سے روک دیا ہے یا انہیں اس کے لیے حکم دیا ہے۔ جب ہم اس سوال کو موضوع بناتے ہیں تو ہمارے پیش نظر محض یہ ہے کہ اس سے دین اور علما کو کوئی فائدہ پہنچا ہے یا نقصان؟ دوسری بات یہ کہ عملی سیاست سے ہماری مراد اقتدار کی سیاست (Power Politics) ہے یعنی اقتدار کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا یا کسی کے عزل ونصب کے لیے کوئی عملی کردار ادا کرنا۔
قرآن مجید کی راہنمائی یہ ہے کہ ایک عالم دین کا اصل کام انذار کرنا ہے۔ (توبہ :۱۲۲) انذار یہ ہے کہ لوگوں کو خبردار کیا جائے کہ انہیں ایک روز اپنے پروردگار کے حضور میں حاضر ہونا ہے اور ان اعمال کے لیے جواب دہ ہونا ہے جو وہ اس دنیا میں سرانجام دیں گے۔ اس جواب دہی کا تعلق اس کردار کے ساتھ ہے جو وہ اس دنیا میں ادا کریں گے۔ اگر کوئی حکمران ہے تو اس کی جواب دہی کی نوعیت اور ہے، اور اگر ایک عامی ہے تو اس کے لیے اور۔ اسی انذار کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ علما دین کو اس طرح بیان کریں جیسے کہ وہ ہے۔ اگر دین کو کوئی فکری چیلنج درپیش ہے تو وہ دین کا مقدمہ لڑیں۔ اگر مسلمان معاشرے میں کوئی علمی یا عملی خرابی در آئی ہے تو وہ اسے اصل دین کی طرف بلائیں۔ اس معاملے میں ان کی حیثیت ایک داروغہ کی نہیں ہے۔ انہیں دین کا ابلاغ کرنا اور اسے دوسروں تک پہنچا دینا ہے۔ اس کی ایک صورت ایسے مبلغین کی تیاری ہے جو اس کام کو لے کر معاشرے میں پھیل جائیں اور ایسے ادارے اور دار العلوم آباد کرنا ہے جہاں دین کے جید عالم تیار ہوں۔ اس انذار کی ایک شکل عامۃ الناس کا تزکیہ بھی ہے۔ یہ تزکیہ علم کا بھی ہوگا اور عمل کا بھی۔ یہ وہ کام ہے جو ہمارے صوفیا کرتے رہے ہیں۔ اس وقت تصوف ایک فلسفہ حیات کے طور پر زیر بحث نہیں ہے۔ میں جس پہلو کی تحسین کر رہا ہوں، وہ صوفیانہ حکمت عملی ہے جو خانقاہوں اور صوفیا کے حلقوں میں اختیار کی گئی ہے۔
تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ علما نے جب یہ کام کیا، معاشرے پر اس کے غیر معمولی اثرات مرتب ہوئے۔ ان اثرات کا دائرہ اقتدار کے ایوانوں سے لے کر عامۃ الناس کے حجروں تک پھیلا ہوا ہے۔ مختلف تذکروں میں ہمیں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جب حکمران، علما کے حجروں میں حاضر ہیں یا علما ارباب اقتدار سے بے نیازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ علما کو اگر معاشرے میں یہ مقام حاصل تھا تو اس کا سبب یہ تھا کہ وہ انذار کے منصب پر فائز تھے۔ انہوں نے خود کو اس کام کے لیے مخصوص کر لیا تھا کہ وہ دین بیان کریں گے اور معاشرے کے مختلف طبقات کو ان کی دینی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کریں گے۔ یہ لوگ کبھی اقتدار کی کشمکش میں فریق نہیں بنے۔ معاشرے پر ان کے اثرات کا یہ عالم تھا کہ حکمران ان کی رائے کے احترام پر مجبور تھے۔ پھر یہ وقت بھی آ گیا کہ ایسے لوگ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے جن پر کسی صاحب علم کا خاص اثر تھا۔ اس نے برسر اقتدار آ کر ان کی رائے کو ریاست کا قانون بنا دیا۔ ہارون الرشید نے قاضی ابو یوسف کو قاضی القضاۃ بنا دیا۔ محکمہ قضا جب ان کے ہاتھ آیا تو اسلامی ریاست میں اسی کو قضا کے عہدے پر فائز کیا جاتا جس کی سفارش قاضی ابو یوسف کرتے تھے۔ افریقہ میں معز بن باولیس کو والی بنایا گیا تو امام مالک کی فقہ کو وہاں غلبہ حاصل ہو گیا۔ اندلس میں حکم بن ہشام کے دور میں فقہ مالکی کو سرکاری حیثیت مل گئی۔ مصر میں صلاح الدین یوسف بن ایوب جب عبید کو شکست دے کر حکمران بنے تو فقہ شافعی کو غلبہ ملا کیونکہ بنو ایوب شوافع تھے۔ اب کسی جگہ ایسا نہیں ہوا کہ وہاں فقہ حنفی کے لیے مہم چلائی گئی ہو یا حنبلی مسلک کے نفاذ کا مطالبہ لے کر لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہوں۔
ہم جن صاحبان عزیمت کا ذکر کرتے ہیں، اور اس میں کیا شبہ ہے کہ یہ تذکرہ ہمارے ایمان کی تقویت کا باعث بنتا ہے، ان کا معاملہ یہ تھا کہ وہ اقتدار کی کشمکش میں کبھی فریق نہیں تھے۔ انہوں نے حکمرانوں سے اگر اختلاف کیا تو اس موقع پر جب انہوں نے دین میں مداخلت کی یا شریعت کے کسی حکم کو تبدیل کرنا چاہا۔ عباسی حکمرانوں نے جب یہ حکم جاری کیا کہ جو ان کی بیعت سے نکلے تو اس کی بیوی خود بخود اس پر حرام ہو جائے گی تو یہ فرمان دین میں مداخلت تھا چنانچہ امام مالکؒ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی کہ اس جبری طلاق کی کوئی حقیقت نہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ نے اگر حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھائی تو اس بات پر کہ وہ ریاست کی قوت کو بروئے کارلا کر یہ چاہتے تھے کہ قرآن مجید کو مخلوق مانا جائے۔ علما اور فقہاے امت کا یہ کام اپنی حقیقت میں انذار ہے۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اگر کہیں دین کے کسی حکم کو تبدیل کیا جا رہا ہے تو وہ لوگوں کے سامنے دین کا صحیح تصور پیش کریں۔ یہ کوئی سیاسی کردار نہیں ہے۔ ان لوگو ں نے حکمرانوں کے ناپسندیدہ کاموں پر انہیں ٹوکا لیکن نہ خود کو ان کی اطاعت سے آزاد کیا نہ دوسرے لوگوں کو اس کے لیے کہا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان جلیل القدر لوگوں کو اس راہ میں بہت سی مشکلات برداشت کرنا پڑیں لیکن اس کے بعد ارباب اقتدار کے لیے یہ آسان نہیں رہا کہ وہ اپنی رائے پر اصرار کریں۔
آج بھی اگر کوئی ایسی صورت حال پیش آتی ہے تو یہ علما کی ذمہ داری ہے کہ وہ دین کا دفاع کریں اور اس راہ میں کوئی مشقت اٹھانا پڑتی ہے تو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کریں۔ صبر واستقامت ایسی چیزیں نہیں ہیں جو رائیگاں چلی جائیں۔ جو لوگ ان خوبیوں کا مظاہرہ کرتے ہیں، معاشرے پر ان کے بے پناہ اثرات ہوتے ہیں۔ آج کے جمہوری دور میں تو حکمرانوں کے لیے مزید مشکل ہو جائے اگر وہ ایسے لوگوں کی مخالفت کریں۔
اسی بنیاد پر ہم اس بات کے قائل ہیں کہ علما کے شایان شان یہی ہے کہ وہ اقتدار کی حریصانہ کشمکش سے دور رہ کر منصب اعلیٰ کو آباد کریں اور دین کی حفاظت کے ساتھ لوگوں کا تزکیہ نفس کریں۔ اس سے دین کو فائدہ پہنچے گا اور ان کے احترام میں بھی اضافہ ہوگا۔ میں تو یہ عرض کرتا ہوں کہ اس سے ان کا سیاسی اثر ورسوخ بھی کئی گنا بڑھ جائے گا۔ میں پاکستان کے کئی ایسے علما وصوفیا کے نام گنوا سکتا ہوں جو اپنی خانقاہوں سے کبھی نہیں نکلے لیکن ان کے معاشرتی اثرات کا یہ عالم ہے کہ ہر عام انتخابات کے موقع پر اہل سیاست ان کے دروازے پر حاضر ہوتے ہیں اور ان سے تائید کی بھیک مانگتے ہیں۔ وہ جس کے حق میں فیصلہ دے دیں، ان کے حلقہ اثر میں اس کی کام یابی یقینی ہو جاتی ہے۔
یہ صحیح ہے کہ تاریخ میں ہمیں بعض ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو اقتدار کی کشمکش میں فریق تھے۔ پرانے دور میں اس کی نوعیت خروج کی تھی۔ امام ابن تیمیہؒ نے ’’منہاج السنۃ‘‘ میں ان تمام بغاوتوں کا جائزہ لے کر یہ بتایا ہے کہ ایسی کوئی کوشش نہ صرف یہ کہ کامیاب نہیں ہوئی بلکہ اس سے امت میں انتشار اور افتراق کا ایسا دروازہ کھلا کہ پھر کبھی بند نہیں ہو سکا۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں اگرچہ صاحبان اقتدار کی تبدیلی کے انداز بدل گئے ہیں لیکن علما کی عملی سیاست میں شرکت کے نتائج پر کوئی فرق نہیں آیا۔ پاکستان کو اگر ہم اپنی توجہ کا مرکز بنائیں تو علما کی سیاست کا دین کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچا۔
پاکستان میں علما عملی سیاست میں بالعموم دو طرح سے شریک رہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے بعض مذہبی ودینی مسائل پر تحریکیں اٹھائیں اور مطالبات منوانے کے لیے اپنی سیاسی قوت کو بروئے کار لائے۔ دوسری صورت میں یہ دھماکہ انہوں نے خود کو قوم کے سامنے متبادل قیادت کے طور پر پیش کر کے کیا اور مروجہ نظام کے تحت اقتدار تک پہنچنے کی سعی کی۔ ان دونوں صورتوں کے جو نتائج نکلے، میں انہیں قدرے تفصیل کے ساتھ زیر بحث لا رہا ہوں۔
تحریکیں اٹھا کر علما نے بعض مذہبی معاملات میں حکومت وقت سے قانون سازی کا مطالبہ کیا۔ مثال کے طور پر ۱۹۴۸ء میں دستور اسلامی کے لیے تحریک اٹھی، ۱۹۵۳ء اور پھر ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ ۱۹۷۳ء کے آئین کو اسلامی بنانے کے لیے آواز اٹھائی گئی۔ ان مخصوص مسائل کے علاوہ بھی ہمارے علما ہر حکومت سے یہ مطالبہ کرتے رہے کہ وہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کرے۔ گزشتہ دنوں میں ان کی طرف سے اسلام آباد پر یلغار کا اعلان تھا۔ یہ اقدام بھی اس مطالبہ پر مبنی تھا کہ حکومت فوری طور پر نفاذ اسلام کا اعلان کرے۔ علما کی یہ مہم بڑی حد تک کام یاب رہی۔ قانون سازی کے باب میں ان کے مطالبات بالعموم تسلیم کر لیے گئے۔ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ قانون کی سطح پر پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے میں اب کوئی امر مانع نہیں ہے۔ یہ البتہ ایک دوسری بحث ہے کہ محض قانون سازی سے کیا کوئی ریاست اسلامی بن سکتی ہے؟
اب ہم دوسری صورت کی طرف آتے ہیں۔ اس ملک میں اقتدار تک پہنچنے کے دو راستے ہیں: ایک آئینی، دوسرا غیر آئینی۔ آئینی طور پر برسراقتدار آنے کا واحد راستہ انتخابات ہیں۔ ہماری مذہبی جماعتوں نے انتخابات میں دو طرح سے حصہ لیا۔ انفرادی حیثیت میں اور سیاسی اتحادوں میں شامل ہو کر۔ انفرادی سطح پر انتخابات میں حصہ لے کر علما نہ صرف کوئی قابل ذکر کام یابی حاصل نہ کر سکے بلکہ ان کی حمایت میں بتدریج کمی آئی۔ ۱۹۷۰ء میں انہیں پندرہ فیصد رائے دہندگان کا اعتماد حاصل تھا تو ۱۹۹۷ء تک پہنچتے پہنچتے اس میں بہت کمی آگئی۔ تاہم اتحادوں میں شامل ہو کر وہ پارلیمنٹ تک پہنچے اور بعض اوقات صوبائی اور قومی سطح پر شریک اقتدار بھی ہوئے۔ ظاہر ہے کہ یہ شرکت اسی وقت ممکن ہوئی جب انہوں نے کسی بڑی سیاسی جماعت کا ہاتھ تھاما۔
یہ تو علما کی سیاست کے براہ راست نتائج ہیں۔ اب ہم ان نتائج کی طرف آتے ہیں جو بالواسطہ سامنے آئے۔
پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ اقتدار کی حریصانہ کشمکش میں شریک ہو کر وہ منصب دعوت سے معزول ہو گئے۔ اب وہ معاشرے میں دین کے داعی کا کردار ادا نہیں کر سکتے۔ اس کی وجہ بڑی واضح ہے۔ دعوت بے غرض بناتی ہے اور سیاست غرض مند۔ جب آپ کسی کو دین کی دعوت دیتے ہیں تو جواباً کسی اجر کا مطالبہ نہیں کرتے۔ اس سے آپ کی قدر ومنزلت میں اضافہ ہوتا ہے اور آپ اس بات سے بے نیاز ہوتے ہیں کہ آپ کی دعوت کے کیا اثرات مدعو پر پڑیں گے، اس کو آپ کی بات پسند آئے گی یا نہیں۔ اس کے بالمقابل جب آپ سیاست میں ہیں تو لوگوں سے ووٹ کے لیے درخواست کرتے ہیں۔ یہ ایک ضرورت مند کا کردار ہے۔ آپ کو حق بات کہنے سے زیادہ دلچسپی اس امر میں ہے کہ عوام کے مطالبات کیا ہیں؟ چنانچہ کسی سیاسی ضرورت کے تحت آپ یہ ثابت کرتے ہیں کہ آپ ہی وہ موزوں ترین شخص ہیں جو ان کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔ جو یہ بات باور کرانے میں کام یاب ہو جاتا ہے، وہ جیت جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سیاست کی حریصانہ کشمکش میں جب آپ فریق بنتے ہیں تو پھر وہ گروہ آپ کا مخاطب نہیں رہتا جو آپ کا مخالف ہے۔ اس طرح آپ کی دعوت اس طبقے تک نہیں پہنچ سکتی اور یہ بات حکمت تبلیغ کے خلاف ہے لہٰذا علما کی سیاست کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ مسند دعوت خالی ہو گیا۔
دوسرے نتیجے کا تعلق مذہبی جماعتوں کی ہیئت ترکیبی سے ہے۔ ہمارے ہاں مذہبی جماعتیں، جماعت اسلامی کے استثنا کے ساتھ، فرقہ وارانہ بنیاد پر قائم ہیں۔ ہر مسلک کے علما نے اپنی سیاسی جماعت بنا رکھی ہے۔ سیاست کے مبادیات سے واقف ایک شخص بھی یہ جانتا ہے کہ جو جماعت کسی خاص مذہبی فکر پر قائم ہو، وہ کبھی قومی جماعت نہیں بن سکتی۔ اس کے ساتھ ان مذہبی عناصر کے مفاد کا تقاضا بھی یہی ہے کہ یہ تقسیم باقی رہے کیونکہ اس صورت میں انہیں ایک پریشر گروپ کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور پھر وہ کسی بڑی سیاسی جماعت سے معاملہ کر کے سینٹ یا اسمبلی تک پہنچ جاتے ہیں اور اس طرح سیاسی منظر پر اپنی موجودگی کو یقینی بناتے ہیں۔ اس سے کسی فرد واحد یا چند افراد کو تو دنیاوی اعتبار سے فائدہ پہنچتا ہے لیکن قوم میں مسلکی تقسیم مزید پختہ ہو جاتی ہے۔ چونکہ ان عناصر کے پیش نظر شخصی مفاد ہوتا ہے اس لیے ایک لازمی نتیجے کے طور پر شخصیات کا تصادم (Personality clash) جنم لیتا ہے اور یہ جماعتیں مزید تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتی ہیں۔ آج اس ملک میں کوئی مذہبی جماعت ایسی نہیں جو دو یا دو سے زیادہ حصوں میں منقسم نہ ہو۔ گویا اس مذہبی سیاست کا دوسرا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ فرقہ وارانہ گروہ بندی مضبوط تر ہو گئی۔
تیسرا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاست میں مسلسل ناکامیوں نے ان لوگوں کو مایوسی (Frustration) کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا۔ چنانچہ اب وہ برملا یہ کہنے لگے ہیں کہ انتخابی سیاست سے کام یابی کا کوئی امکان نہیں اس لیے ہمیں اب کوئی دوسرا راستہ تلاش کرنا ہوگا کیونکہ آئین کے تحت تبدیلی کا واحد راستہ انتخابات ہیں۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ ان میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو تبدیلی کے لیے مسلح جدوجہد کے قائل ہیں۔
چوتھا نتیجہ یہ نکلا کہ عملی سیاست میں شریک بعض علما کے دامن پر جب دنیاوی آلودگیوں کے نشانات کا تاثر ابھرا تو اس سے علما کی شہرت کو بالعموم بہت نقصان پہنچا۔ میرے لیے یہ کہنا ممکن نہیں کہ اس تاثر میں صداقت کا تناسب کیا ہے لیکن اس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ یہ تاثر پیدا ہی تب ہوا جب علما عملی سیاست میں الجھے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ دور جدید میں علما کا وقار جتنا مجروح ہوا ہے، شاید ہی کسی دوسرے طبقے کا ہوا ہو۔ دنیا داروں کے ساتھ جب انہوں نے معاملات کیے تو علما کو ان کی سطح پر اترنا پڑا۔
میرے نزدیک ان نتائج کی فہرست طویل ہو سکتی ہے لیکن اگر محض ان ہی کو پیش نظر رکھا جائے تو یہی رائے بنتی ہے کہ عملی سیاست دین اور علما دونوں کے لیے مفید ثابت نہیں ہوئی۔ علما کی عملی سیاست میں شرکت کا واحد فائدہ یہ ہوا کہ یہ ملک آئینی اور دستوری طور پر اسلامی بن گیا۔ اس کے علاوہ اس شرکت کے تمام نتائج منفی رہے۔ اب جہاں تک اس واحد فائدے کا تعلق ہے تو علما اگر اپنے منصب انذار پر جلوہ افروز رہتے اور حکمرانوں کو اس جانب متوجہ کرتے کہ اگر کسی خطے میں مسلمانوں کو اقتدار حاصل ہو جائے تو وہ شرعاً اس کے پابند ہیں کہ وہاں اللہ کے قانون کی حکمرانی ہو تو بھی یہ مقصد حاصل ہو جاتا۔ یہ قوم مزاجاً بھی ریاست کے سیکولر تشخص کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے اور اس کے ساتھ اگر علما کا یہ دباؤ بھی ہوتا تو کوئی حکومت یہ جرات نہ کر سکتی کہ وہ پاکستان کو دستوری طور پر سیکولر بنائے۔ پھر اس بات سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ دستور کو اسلامی بنانے اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے میں بنیادی کردار ایک ایسے عالم دین، مولانا ظفر احمد انصاری مرحوم کا تھا جو عملی سیاست سے دور رہنے والے تھے۔
اس تجزیے سے یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں ہوگا کہ اس سے مقصود دین وسیاست کی علیحدگی کی وکالت ہے۔ یہاں محض یہ بات کہی جا رہی ہے کہ علما کا کام سیاست نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کا کام ہے جو اپنی افتاد طبع کے اعتبار سے سیاست کا رجحان رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کو اسلامی ریاست ہونا چاہیے اور اس میں بھی دو آرا نہیں کہ اس کے لیے جدوجہد ہونی چاہیے لیکن ہمارے نزدیک یہ کام وہ لوگ کریں جن کے اندر اس کے لیے فطری داعیہ موجود ہو۔ علما کا منصب یہ نہیں کہ وہ سیاست دان بنیں۔ ان کاکام یہ ہے کہ وہ سیاست دانوں کو مسلمان بنائیں۔ اس ملک میں تنہا مولانا مودودیؒ کے عالمانہ کام کا یہ اثر ہے کہ اہل صحافت کی ایک ایسی کھیپ تیار ہوئی جس کی تمام صحافیانہ سرگرمیوں کا محور ومرکز یہ ہے کہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست ہونا چاہیے۔ اگر مولانا سیاست کی حریفانہ کشمکش کو بھی اسی طرح متاثر کرتے، ذرا غور کیجیے اگر ہمارے درمیان ایسے علما موجود ہوتے جن کی علمی وجاہت سے اس ملک کا رجحان ساز طبقہ یعنی اہل سیاست، فوجی قیادت، بیورو کریسی مرعوب ہوتے تو اس ملک کا نقشہ کیا ہوتا؟ میرا کہنا یہ ہے کہ اگر علما اپنی ذمہ داری بطریق احسن ادا کرتے تو آج ہمیں حکمرانوں سے نفاذ اسلام کی بھیک نہ مانگنا پڑتی۔
(جنوری ۲۰۰۱ء)

ملکی سیاست اور مذہبی جماعتیں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ملکی سیاست میں حصہ لینے والی مذہبی جماعتیں اس وقت عجیب مخمصے میں ہیں اور ریگستان میں راستہ بھول جانے والے قافلے کی طرح منزل کی تلاش بلکہ تعین میں سرگرداں ہیں۔ مروجہ سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کرتے وقت مذہبی جماعتیں یقیناًاپنے اس اقدام پر پوری طرح مطمئن نہ تھیں اور وہ خدشات وخطرات اس وقت بھی ان کے ذہن میں اجمالی طور پر ضرور موجود تھے جن سے انہیں آج سابقہ درپیش ہے لیکن ان کا خیال یہ تھا کہ مروجہ سیاست میں شریک کار بنے بغیر ملکی نظام میں تبدیلی کی کوشش نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی اور مروجہ سیاست کی خرابیوں پر وہ مذہبی قوت اور عوامی دباؤ کے ذریعے سے قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس لیے مذہبی جماعتوں نے مروجہ سیاست کی دلدل میں کود پڑنے کا رسک لے لیا لیکن آج ووٹ، الیکشن اور دباؤ کی مروجہ سیاست ان کے گلے کا ہار بن گئی ہے کہ نہ تو انہیں اس کے ذریعے سے دینی مقاصدکے حصول کا کوئی امکان نظر آ رہا ہے، نہ وہ اس سے کنارہ کش ہونے کا حوصلہ رکھتی ہیں، نہ اس مروجہ سیاست کے ناگزیر تقاضوں کا پورا کرنا ان کے بس کی بات ہے اور نہ ہی وہ قومی سیاست میں اپنے موجودہ مقام اور بھرم کو باقی رکھنے میں کام یاب ہو رہی ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ قومی سیاست کی ریت دینی رہنماؤں کی مٹھی سے مسلسل پھسلتی جا رہی ہے اور قومی سیاست میں بے وقعت ہونے کے اثرات معاشرے میں ان کے دینی وقار ومقام کو بھی لپیٹ میں لیتے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس صورت حال کا ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ سنجیدہ تجزیہ کیا جائے اور ان اسباب وعوامل کا سراغ لگایا جائے جو ملکی سیاست میں مذہبی جماعتوں کی ناکامی کا باعث بنے ہیں تاکہ ان کی روشنی میں دینی سیاسی جماعتیں اپنے مستقبل کو حال سے بہتر بنانے کی منصوبہ بندی کر سکیں۔ 
جہاں تک قومی سیاست میں حصہ لینے او رمروجہ سیاسی عمل کے ذریعے سے ملکی نظام کی تبدیلی اور نفاذ اسلامی کی جدوجہد کا تعلق ہے، اس میں کلام نہیں ہے کہ تمام تر خدشات وخطرات کے باوجود آج بھی دینی جماعتوں کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ دینی حلقوں کا واحد ہدف نظام کی تبدیلی ہے۔ وہ موجودہ اجتماعی نظام کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں جو یقیناًغیر اسلامی ہے اور دینی حلقے اس نظام کو ختم کر کے اس کی جگہ اسلام کا عادلانہ نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہربات ہے کہ نظام کی تبدیلی کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ طاقت کے بل پر موجودہ نظام کو بیخ وبن سے اکھاڑ دیا جائے اور دوسرا یہ کہ رائے عامہ کو ساتھ ملا کر اس کے ذریعے سے نظام کی تبدیلی کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔
طاقت اگر موجود ہو اور کافرانہ نظام کا تحفظ کرنے والی طاقتوں سے نظام کی باگ ڈور چھین لینے کی سکت رکھتی ہو تو نظام کی تبدیلی کا یہ راستہ سب سے زیادہ موثر اور محفوظ ہے بلکہ شرعی اصولوں کی روشنی میں ایسی صورت حال میں طاقت کا استعمال دینی فریضہ کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ ہماری دلی دعا اور خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کی دینی قوتوں کو ایسی طاقت فراہم کرنے کا شعور، حوصلہ اور مواقع نصیب فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔ لیکن موجودہ حالات میں ایسی طاقت دینی قوتوں کے پاس موجود ہے نہ مستقبل قریب میں فراہم ہونے کے امکانات ہیں اس لیے متبادل اور محفوظ راستہ میسر آنے تک پاکستان کے دینی حلقوں کے پاس صرف یہی ایک طریقہ باقی رہ جاتا ہے کہ وہ مروجہ سیاسی عمل کے ذریعے سے ملکی نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کرتی رہیں۔ البتہ قومی سیاست میں حصہ لینے والی دینی جماعتوں کو ان عوامل کا ضرور تجزیہ کرنا چاہیے جو اب تک سیاست میں ان کی ناکامی یا کمزوری کا باعث بنے ہوئے ہیں اور اسی ضمن میں بحث وتمحیص کے آغاز کے لیے چند گزارشات پیش کی جا رہی ہیں۔
ہمارے خیال میں دینی سیاسی جماعتوں کی ناکامی کی ایک وجہ یہ ہے کہ نفاذ اسلام کے لیے ان کا ہوم ورک نہیں ہے۔ ان کے بیشتر کارکنوں بلکہ رہنماؤں کو بھی نفاذ اسلام کے فکری اور عملی تقاضوں کا ادراک نہیں ہے اور نہ ہی ان نظریاتی اور واقعاتی رکاوٹوں سے آگاہی ہے جو نفاذ اسلام کی راہ روکے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے سوا کسی اور جماعت کے پاس رہنماؤں اور کارکنوں کی فکری، علمی اور عملی تربیت کا سرے سے کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے اور جماعت اسلامی کے تربیتی نظام کی بنیادی بھی اجتماعی فکر کے بجائے شخصی فکر پر ہے جس سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو رہے اور نہ ہی وہ شخصی فکر دینی حلقوں کا اعتماد حاصل کر سکا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ دینی سیاسی جماعتوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ملک کی دو بڑی سیاسی قوتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نفاذ اسلام کے معاملہ میں یکساں سوچ اور طرز عمل کی حامل ہیں، صرف سیٹوں کے حصول، اخبارات میں کوریج اور سیاسی اہمیت میں وقتی اضافے کی خاطر انہی میں سے کسی کے ساتھ سیاسی وابستگی کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ کوئی مذہبی جماعت پیپلز پارٹی کے ساتھ تمام تر طعنوں کو سہتے ہوئے بھی وقتی مفاد کی خاطر جا بیٹھتی ہے اور کوئی جماعت مسلم لیگ سے بارہا ڈسے جانے کے باوجود اسی بل میں پھر گھس جانے میں عافیت سمجھتی ہے۔ اس طرز عمل نے دینی سیاسی جماعتوں کے تشخص اور وقار کو جس بری طرح پامال کیا ہے، اس کے تصور سے بھی باشعور دینی کارکنوں کو جھرجھری آ جاتی ہے لیکن راہ نمایان گرامی منزلت اس قدر احساس پروف واقع ہوئے ہیں کہ ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ 
تیسری وجہ یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں نے ابھی تک آپس میں مل بیٹھنے اور دینی حلقوں کے باہمی اتحاد کی ضرورت وافادیت کو محسوس نہیں کیا۔ کبھی کبھار عوامی دباؤ سے بے بس ہو کر وقتی طور پر مل بیٹھتے ہیں تو الیکشن میں بڑے سیاسی اتحادوں کی طرف سے سیٹوں کی سبز جھنڈی بلند ہوتے ہی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ادھر کو لپک پڑتے ہیں جبکہ ملتا وہاں سے بھی کچھ نہیں ہے۔ دینی سیاسی جماعتوں کے قائدین آج تک اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کر سکے کہ ان کی اصل قوت ان کے باہمی اتحاد میں ہے اور ان کے متحد ہونے کی صورت میں عوام نے انہیں کبھی مایوس نہیں کیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد ملک کی دینی جماعتوں نے حقیقی سیاسی اتحاد کا مظاہرہ صرف ایک مرتبہ ۷۷ء میں کیا ہے اور اس کے ثمرات آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ انہی ثمرات کی وجہ سے ملک کی حقیقی حکمران قوتوں نے ہمیشہ کے لیے یہ حکمت عملی طے کر لی ہے کہ پاکستان کے دینی حلقوں اور جماعتوں کو کبھی کسی عملی اور حقیقی سیاسی اتحاد کی منزل تک پہنچنے نہ دیا جائے۔
دینی سیاسی جماعتوں کی قومی سیاست میں ناکامی کی ایک وجہ ان کا فرقہ وارانہ تشخص اور ترجیحات بھی ہیں۔ ملک کی کوئی دینی سیاسی جماعت ایسی نہیں جو صرف ایک ہی مذہبی مکتب فکر کی نمائندگی نہ کرتی ہو۔ جماعت اسلامی نے اس دائرے سے نکل کر ہمہ گیر ہونے کا تصور دیا لیکن طریق کار ایسا اختیار کیا کہ عملاً ملک میں پہلے سے موجود مذہبی مکاتب فکر میں ایک نئے نیم مکتب فکر کا عنوان بن گئی۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ ہماری دینی سیاسی جماعتوں کی تشکیل مذہبی مکاتب فکر کی بنیاد پر ہے اور ان کے ہاں کارکنوں کی تربیت، قیادت کے چناؤ اور پالیسیوں کے تعین کا دارومدار بھی فرقہ وارانہ ترجیحات پر ہے۔ پھر بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے دینی تعلیمی اداروں میں کارکنوں کی تربیت کے لیے دوسرے مذہبی مکاتب فکر کے خلاف ان کی ذہن سازی کا جو معیار قائم کر دیا گیا ہے، لادین اور سیکولر لابیوں کے خلاف ان کی ذہن سازی اس کا دسواں حصہ بھی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ دینی سیاسی جماعتوں کے کارکن سیکولر اور منافق سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھنا تو اس قدر معیوب نہیں سمجھتے لیکن آپس میں دوسرے مذہبی مکاتب فکر کے کارکنوں کے ساتھ مل بیٹھنے میں ان کا حجاب بدستور قائم رہتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جمعیت علماء اسلام پاکستان، جمعیت علماء پاکستان ، جمعیت اہل حدیث پاکستان، جماعت اسلامی اور دوسری دینی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو انفرادی طور پر اور باہم مل بیٹھ کر ان اسباب وعوامل کا ضرور جائزہ لینا چاہیے اور ان منفی عوامل سے گلو خلاصی کے لیے ٹھوس حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ ہماری رائے آج بھی یہی ہے کہ ملک کی دینی سیاسی جماعتوں کے سامنے ملکی نظام کو تبدیل کرنے اور نفاذ اسلام کے لیے مروجہ سیاسی عمل کے ذریعے سے جدوجہد ہی موجودہ حالات میں واحد راستہ ہے اور اگر وہ باہمی منافرت، بے اعتمادی اور فرقہ وارانہ ترجیحات پر قابو پاکر آپس میں حقیقی سیاسی اتحاد کی کوئی مستحکم بنیاد قائم کر سکیں تو نہ صرف مروجہ سیاست کی خرابیوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں بلکہ اسے دینی تقاضوں کے سانچے میں ڈھالنے کی سکت بھی ان میں موجود ہے۔
(جنوری ۱۹۹۲ء)

عوام مذہبی جماعتوں کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟

پروفیسر میاں انعام الرحمن

اکثر اوقات یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ہمارے مذہبی معاشرے کے عوام سیاست میں حصہ لینے والی مذہبی جماعتوں کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ اس کے جواب میں دو نقطہ ہائے نظر سامنے آتے ہیں: مذہبی جماعتوں کا موقف یہ ہوتا ہے کہ انگریز کے ٹوڈی ان کی راہ میں حائل ہیں ورنہ عوام تو دل وجان سے مذہبی جماعتوں کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ ان میں سے بعض لوگ خود عوام ہی کو منافقت پسند اور دوغلا قرار دیتے ہیں جو عام زندگی میں تو دین پر عمل کے حوالے سے علما کی طرف رجوع کرتے ہیں لیکن سیاست میں ان کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ علما کے مخالف طبقے کا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ علما جدید عہد کے تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں اس لیے اگر وہ خود کو نماز روزے تک ہی محدود رکھیں تو یہ نہ صرف عوام کے لیے بلکہ خود ان کے لیے بھی بہتر ہے۔
ہمارے خیال میں ان دونوں نقطہ ہائے نظر میں جزوی صداقت موجود ہے۔ آئیے غیر جانب دارانہ اور معروضی انداز میں جائزہ لیں کہ آخر انتخابات میں مذہبی جماعتوں کوووٹ کیوں نہیں ملتے؟
ہماری رائے میں سیاست میں مذہبی جماعتوں کی ناکامی کے بنیادی اسباب حسب ذیل ہیں:

محدود فکری اپروچ 

۱۔ مذہبی جماعتوں کا ذہنی وفکری سانچہ اصلاً دینی مدارس میں تیار ہوتا ہے چنانچہ ان مدارس کے نظام میں موجود خامیوں کا پورا پورا عکس سیاست کے میدان میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ دینی مدارس پر عام طور پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ ان میں سائنسی علوم کی تعلیم نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے علما کا طبقہ معاشرے کے عمومی دھارے (Main Stream) میں شامل نہیں ہو سکا اور ’’وقت‘‘ سے پیچھے رہ گیا ہے۔ ہمارے خیال میں سائنسی علوم کی تعلیم نہ دینے کا تو کسی حد تک جواز تلاش کیا جا سکتا ہے لیکن عصری سماجی علوم سے صرف نظر ناقابل اعتذار ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ سیاست ومعیشت، ثقافت وسماجیات اور دیگر شعبوں میں ہونے والی ترقیوں اور ارتقا سے ہمارے علماء کرام نابلد رہتے ہیں۔ ان امور کو ڈیل کرنے سے متعلق ان کا طریقہ فرسودہ اور متروک ہے اسی لیے بعض حلقے یہ مشورہ دینے لگے ہیں کہ علماء کرام اپنے آپ کو قوم کی صرف اخلاقی تربیت کے لیے وقف کر دیں کہ اس سے زیادہ کچھ کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ اخلاقی تربیت کے لیے بھی جدید عہد اور سماجی علوم کے ارتقا کا مطالعہ ضروری ہے کیونکہ آج کے انسان کی اجتماعی نفسیات بہرحال زرعی دور کے انسان کی نفسیات جیسی نہیں ہے۔ اسی طرح آج کے مسائل کی نوعیت اور انسان پر ان کے اثرات بھی ہمارے ’’شاندار ماضی‘‘ سے بہرحال مختلف ہیں۔
۲۔ ہمارا طبقہ علما اگرچہ اپنے آپ کو ’’دین‘‘ کے نمائندے کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن درحقیقت وہ ’’مذہب‘‘ کا نمائندہ ہے۔ یہ طبقہ بالعموم دین کے کسی جامع اور ہمہ گیر تصور کا داعی نہیں ہے اور اس کی عملی خدمات کا دائرہ کار بھی مخصوص اور لگا بندھا ہے یعنی تعلیم کے ایک خاص شعبے کو اس طبقے نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس طبقے کی اپروچ نظری ہے، عملی نہیں اور نظری اپروچ بھی ’’دین‘ ‘پر محیط نہیں بلکہ زیادہ توجہ ’’مذہب‘‘ پر مبذول ہوتی ہے۔ اس حوالے سے یہ یقیناًایک خطرناک بات ہوگی کہ دین کی نمائندگی کا دعویٰ لے کر یہ طبقہ مسند اقتدار پر رونق افروز ہو اور ’’مذہب‘‘ کو نافذ کرنا شروع کر دے۔ ہم معذرت کے ساتھ عرض کریں گے کہ اس طرح خود دین اسلام کی بابت خدشات جنم لیں گے کہ شاید یہ دین جدید عہد کے تقاضوں سے عہد برآ نہیں ہو سکتا حالانکہ درحقیقت دین تو نافذ ہی نہیں کیا گیا ہوگا۔ اس ضمن میں طالبان کا تجربہ پیش نظر رہنا چاہیے جنہوں نے اپنے مذہبی تصورات کے تحت بعض ایسے اقدامات کیے جن کو پاکستان کے راسخ العقیدہ اور طالبان کے حامی مذہبی حلقے بھی ہضم نہ کر سکے۔ 
۳۔ مذہب کے حوالے سے سیاسی ایجنڈا رکھنے والی ان جماعتوں کے خود کو ’’مذہبی‘‘ یا ’’دینی‘‘ جماعتیں قرار دینے سے تھیا کریسی کا تاثر ابھرتا ہے۔ مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن جماعتوں نے اپنے نام کے ساتھ ’’دینی‘‘ کا سابقہ نہیں لگایا، کیا وہ غیر دینی ہیں ؟ دوسرے لفظوں میں کیا وہ غیر اسلامی ہیں؟ کیا ان جماعتوں کے کارکن دین سے باہر ہیں؟ ممکن ہے مذہبی جماعتیں ان سوالوں کا جواب واضح طور اثبات میں نہ دیں لیکن اپنے طرز عمل سے وہ نفسیاتی طور پر قوم کو مذہبی اور غیر مذہبی میں تقسیم کرنے کا سبب بن رہی ہیں اس لیے ہماری رائے میں ’’مذہبی جماعت‘‘ کی اصطلاح بالکل ترک کر دینی چاہیے اور دینی جماعت اور غیر دینی جماعت کی بابت پیدا ہونے والے سوالات اور تاثرات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے۔

سیاسی تقاضوں سے بے اعتنائی

۱۔ مذہبی جماعتوں کا رویہ سیاسی نہیں ہے اور نہ ہمارے محترم علماء کرام ووٹ حاصل کرنے کے لیے وہ ’’پاپڑ‘‘ بیلنے کے لیے تیار ہیں جو اس میدان میں بہرحال بیلنے پڑتے ہیں۔ عام سیاسی جماعتوں کے بر خلاف، جو اپنی کارکردگی اور عملی وعدوں کی بنیاد پر ووٹ مانگتی ہیں، مذہبی جماعتیں اس لہجے میں بات کرتی ہیں جیسے مذہب کا نمائندہ ہونے کی بنا پر عوام کا ووٹ ان کا استحقاق ہو۔ وہ عوام کو یہ باور کراتے ہیں کہ مذہبی جماعتوں کو ووٹ دینا ان کا ’’دینی فریضہ‘‘ ہے اور اس سلسلے میں دوسری جماعتوں پر تنقید کے لیے ’’فتووں‘‘ کا سہارا لینا ایک عام بات ہے۔ یہ رویہ کسی بھی درجے میں ووٹر کو اپیل نہیں کرتا بلکہ الٹا اس کے ذہنی فاصلے کو بڑھانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
۲۔ علما کے نام نہاد ’’اتحاد‘‘ میں ٹکٹوں کی تقسیم کرتے وقت زمینی حقائق کے بجائے فرقہ وارانہ ایڈجسٹمنٹ کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹکٹوں کی تقسیم کی جا سکتی ہے تو برادری کی بنیاد پر کیوں نہیں؟ پاکستان کی سیاست میں برادری کا کردار بہت اہم ہے۔ اگر ٹکٹوں کی تقسیم میں اس پہلو کو بھی مد نظر رکھا جائے تو نام نہاد اتحاد زیادہ سیٹیں جیت سکتا تھا کیونکہ برادری کے لوگوں نے تو بہرحال اپنے امیدوار کو ووٹ دینا تھا لیکن ایک فرقے کاووٹر دوسرے فرقے کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتا۔
۳۔ سیاست میں سیاست دان کی شخصیت کا کردار بنیادی ہے۔ ایک کام یاب سیاست دان اپنے وقت کو عوام کے لیے وقف رکھتا، ہر وقت ان سے رابطہ رکھتا اور اپنے حلقہ اثر کو مسلسل بڑھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے یہ کوئی جز وقتی کام نہیں۔ انگریزی محاورے کے مطابق سیاست ایک Jealous Mistress (حاسد بیوی) ہے جو اپنی سوکن کو برداشت نہیں کرتی لیکن مذہبی جماعتوں نے اس سامنے کی حقیقت کو کبھی قابل اعتنا ہی نہیں گردانا۔ بجائے اس کے کہ وہ مذہبی رجحان رکھنے والے پیشہ ور سیاسی قائدین کی کوئی کھیپ الگ سے تیارکریں، انتخابات کے موقع پر وہ مدارس کے اساتذہ اورمساجد کے ائمہ کو امیدوار بنا کر میدان میں لے آتی ہیں جن کی انتخابی مہم کی ساری توانائیاں اپنا تعارف کرانے میں ہی صرف ہو جاتی ہیں۔
۴۔ معروضی سیاست میں پیسے کی بھی بہت اہمیت ہے۔ جس کی جیب بھاری ہو، وہ بہتر پوزیشن میں ہوتا ہے۔ طبقہ علما کی اپنی کوئی جیب ہی نہیں بلکہ، معاف کیجیے، وہ خود کسی کی جیب میں ہوتا ہے۔

معاشرتی مسائل سے لا تعلقی

۱۔ سوشل سیکٹر بہت وسیع میدان ہے لیکن افسوس ہے کہ جتنا یہ میدان وسیع ہے، مذہبی طبقے کی خدمات اس سلسلے میں اتنی ہی کم ہیں۔ ہرکس وناکس آگاہ ہے کہ دین اسلام کا غالب رجحان عملی ہے اور اس میں حقوق العباد پر بے حد زور دیا گیا ہے لیکن علماء کرام کی نظروں سے دین کا یہ غالب پہلو ابھی تک اوجھل ہے۔ گلی محلوں میں اس طبقے کے قائم کردہ بے شمار چھوٹے بڑے مدرسے دکھائی دیتے ہیں لیکن سلائی سنٹر، ہسپتال، سکول، بلڈ بینک اور اس طرح کے دیگر رفاہی ادارے بنانے کا ان کے ہاں کوئی تصور موجود نہیں۔ اسی بنا پر ایک عمومی تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ یہ طبقہ ’’طفیلی‘‘ (Parasite) ہے ، اسے کیا معلوم کہ ورکنگ کلاس کے مسائل اور مشکلات کیا ہیں؟ 
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ طبقہ علما میں بھی ’’طبقاتی درجہ بندی‘‘ راہ پا چکی ہے اور علما اے، بی، سی کی مختلف کلاسوں میں تقسیم ہیں۔ سی کلاس کے علما کو اے کلاس کے علما کے ہاں وہ پذیرائی نہیں ملتی جس کے وہ حق دار ہیں۔ اس طرح مساوات اور سادگی کے اسلامی تصورات عملاً ایک طرف رکھ دیے گئے ہیں۔ گویا اے کلاس کے علما کے اقتدار میں آنے سے سماجی سطح پر اس تبدیلی کے پیدا ہونے کی کوئی توقع نہیں ہے جس کا پرچار کیا جاتا ہے۔

باہمی برداشت کا فقدان

علماء کرام کے ’’اتحاد‘‘ کی بابت بھی عوام بجا طور پر تحفظات رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اتحاد صرف کاغذی ہے اور الیکشن میں ووٹوں کی شرح سے اس اتحاد کی ’’مضبوطی‘‘ سامنے آ جائے گی۔ ایک ہی حلقے میں دو مختلف فرقوں کے امیدوار، جو اتحاد کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، ان کی ووٹوں کی شرح مختلف ہوگی کیونکہ کوئی بھی فرقہ دوسرے فرقے کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں۔ ہمارے خیال میں مذہبی طبقہ اگر صرف ’’اپنے‘‘ ووٹوں کو ’’اکٹھا‘‘ کر لے تو بڑی بات ہے، اسے فی الحال ’’عوامی ووٹ‘‘ لینے کی ضرورت نہیں۔
یہ وہ حقائق ہیں جن کی بنا پر ہماری زبان میں ’’ملا کی دوڑ مسجد تک‘‘، ’’بسم اللہ کے گنبد میں رہنا‘‘ اور ’’دو ملاؤں میں مرغی حرام‘‘ قسم کے محاورے رائج ہو گئے ہیں۔ ان محاوروں کے طفیل علما کی بابت یہ نفسیاتی تاثر عام ہو گیا ہے کہ ان کا وژن بہت محدود ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ محاورے انگریز کے عہد میں وجود میں آئے اور انگریز نے علما کی بابت ان تاثرات کو تقویت دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ بات بھی ناقابل انکار ہے کہ طبقہ علما کی مخصوص روش نے ان محاوروں پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی ہے۔ ہم امید کر سکتے ہیں کہ طبقہ علما اپنے فکر وعمل کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے ایسا طرز عمل اختیار کرے گا کہ لوگ انہیں اپنی ’’آخرت کا محافظ‘‘ سمجھنے کے ساتھ ساتھ اپنی ’’دنیا کا نگہبان‘‘ بھی سمجھنے لگیں اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ انتخابات میں انہیں ووٹ بھی دینے لگیں۔

مذہبی جماعتوں کی ’’دکھتی رگ‘‘

جاوید چودھری

جنوری ۱۹۷۷ء میں الیکشن کا اعلان ہوا تو تمام بڑی اپوزیشن جماعتیں بھٹو کے خلاف جمع ہو گئیں۔ اس اجتماع کو پاکستان عوامی اتحاد یا پی این اے کا نام دیا ہے۔ اس اتحاد میں مذہبی جماعتوں کی اکثریت تھی لہٰذا بھٹو اسے ’’ملاؤں کا اتحاد‘‘ کہتے تھے۔ آنے والے دنوں میں پی این اے نے اپنی جدوجہد کو ’’تحریک نظام مصطفی‘‘ کا نام دے کر بھٹوکے خدشات سچ ثابت کر دیے۔ اس اتحاد نے ۱۰ جنوری کو اپنی مہم شروع کی۔ پورے پاکستان میں آگ لگ گئی۔ ایک ایک شہر میں ایک ایک دن میں نو نو جلوس نکلے، عوام کے اس رد عمل نے بھٹو کی مضبوط کرسی کے پائے ہلا دیے۔ صاف نظر آرہا تھا، بھٹو اور اس کی قیادت اب ماضی کا قصہ پارینہ بن جائے گی۔ بھٹو نے علماء کرام کی اس یلغار کو روکنے کی ذمہ داری مولانا کوثرنیازی کو سونپ دی۔ مولانا، بھٹو کی کابینہ میں اطلاعات ونشریات کے وفاقی وزیر اور بلا کے مقرر تھے۔ ان کی زندگی کا زیادہ حصہ علما کی قربت میں گزرا تھا لہٰذا وہ گھر کے بھیدی تھے۔
مولانا خم ٹھونک کر میدان میں آ گئے۔ انہوں نے عوام کو یقین دلانا شروع کر دیا کہ علماء کرام میں ملکی قیادت کی صلاحیت ہی موجود نہیں۔ ایک عوامی اجتماع میں مولانا کوثر نیازی نے عوامی اتحاد کو چیلنج دیا ’’اگر مولانا شاہ احمد نورانی، مفتی محمود کے پیچھے نماز پڑھ لیں اور بعد ازاں اس کی قضا ادا نہ کریں تو پیپلز پارٹی، پی این اے کے مقابلے میں اپنے تمام امیدوار بٹھا دے گی۔‘‘ چیلنج تہلکہ خیز تھا، بھٹو نے سنا تو پریشان ہو کر مولانا کو ٹیلی فون کیا ’’یہ تم نے کیا کر دیا، یہ لوگ تو ایسا کر گزریں گے‘‘ مولانا نے جواب دیا ’’سر، میں ان لوگوں کو جانتا ہوں، نورانی کی گردن پر تلوار بھی رکھ دی جائے تو بھی وہ مفتی محمود کی امامت میں نماز ادا نہیں کریں گے‘‘ چیلنج کی تشہیر ہوئی تو عوام نے پی این اے کے راہنماؤں پردباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ عوامی رد عمل سے مجبور ہو کر پی این اے کے لیڈر ملتان میں جمع ہوئے، مشترکہ جلسہ کیا اور بعد ازاں مغرب کے وقت قاسم باغ میں نورانی صاحب نے امامت کرائی اور مفتی محمود سمیت تمام راہنماؤں نے ان کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کر دی۔ اگلے روز کے اخبارات نے نماز کی تصاویر اور خبریں نمایاں کرکے شائع کیں۔ اسی شام مولانا کوثر نیازی نے ایک جلسے میں اعلان کیا ’’میں نے یہ چیلنج دیا تھا، مولانا نورانی مفتی محمود کی امامت میں نماز پڑھ کر دکھائیں، یہ نہیں کہا تھا کہ مفتی محمود، نورانی کے پیچھے نماز پڑھ لیں‘‘ چند روز بعد لاہور ایئر پورٹ پر مولانا کوثر نیازی کی شاہ احمد نورانی سے اتفاقاً ملاقات ہوئی، نورانی صاحب نے مولانا سے شکوہ کیا ’’تم نے تو ہماری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا‘‘
یہ واقعی علماء کرام کی دکھتی رگ ہے۔ شاید اسی باعث آج تک پاکستان میں اسلام کا نفاذ نہیں ہو سکا۔ شاید اسی کی وجہ سے مذہبی جماعتیں اپنے پورے اثر ورسوخ کے باوجود کبھی ووٹ نہیں لے پائیں۔ لوگ انہیں چندہ دے دیتے ہیں، پوری پوری رات ان کی تقریریں سنتے ہیں، ان کے لیے جلوس بھی نکالتے ہیں، ان کے کہنے پر اپنے بچے تک جہاد پر روانہ کر دیتے ہیں لیکن نہیں دیتے تو ووٹ نہیں دیتے۔ شاید اس کی وجہ ان کی یہی دکھتی رگ ہے۔ لوگ سوچتے ہیں جو لوگ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتے، وہ مل کر ملک کیسے چلائیں گے؟ علماء کرام کے یہی اختلافات تھے جن کے باعث جنرل ضیاء الحق کہنے پر مجبور ہو گئے، ’’لوگ مجھ سے نفاذ اسلام کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن میں پریشان ہو جاتا ہوں، میں کون سا اسلام نافذ کروں؟ یہاں تو ہر فرقے، ہر عالم کا اسلام الگ ہے‘‘۔
۲۵ برس بعد ایک بار پھر ۸ ستمبر کو کراچی میں شاہ احمد نورانی نے امامت کرائی اور منور حسن، ساجد نقوی، قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمن نے ان کے پیچھے نماز ادا کی۔ گویا ۲۵ برس بعد بھی معاملہ وہیں کا وہیں ہے۔ ہماری مذہبی قیادت کو ان برسوں میں جو کچھ سیکھنا چاہیے تھا، انہوں نے وہ نہیں سیکھا لیکن اس کے باوجود ان کا یہ اقدام قابل ستائش ہے۔ ایک نظریاتی، ثقافتی، اخلاقی اور سیاسی طور پر منتشر قوم کے لیے واقعتا یہ ایک خوش خبری ہے۔ جس ملک میں لوگ جان کے خطرے سے نام بدلنے پر مجبور ہوں، وہاں نظریاتی اور فقہی اختلافات بھلا کر علماء کرام کا ایک ’’امام‘‘ پر متفق ہو جانا ٹھیک ٹھاک انقلاب ہے۔ مجھے یقین ہے یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو کبھی نہ کبھی مولانا شاہ احمد نورانی بھی مولانا فضل الرحمن کے پیچھے نماز پڑھنے کی گنجائش نکال لیں گے کیونکہ اتحاد اختلافات سے بہرحال زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ ان علماء کرام کی دیکھا دیکھی اب ۱۲۹ پارٹیوں میں منقسم سیاست دانوں کو بھی سیاسی اور جمہوری ’’جماعت‘‘ کے لیے صفیں درست کر لینی چاہییں، کندھے سے کندھا ملا لینا چاہیے اور اپنا کوئی ’’امام‘‘ چن کر اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دینا چاہیے کیونکہ یہ بات طے ہے کہ جب تک پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، ق، پ، ج، ایم کیو ایم، تحریک انصاف، ملت پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل موومنٹ، سندھ نیشنل فرنٹ، سندھ ڈیمو کریٹک الائنس اور تحریک استقلال مل کر جدوجہد نہیں کرتیں، ہوس اقتدار سے بالاتر ہو کر نہیں سوچتیں، ملکی ترقی، سیاسی استحکام اور جمہوری مستقبل کے ایک پلیٹ فارم سے الیکشن نہیں لڑتیں، اس ملک سے ۱۲۔ اکتوبر اور ۵ جولائی ختم نہیں ہو سکتے۔ اس ملک سے نظریہ ضرورت، گریٹ نیشنل انٹرسٹ اور ۵۸ ۔ ۲ بی رخصت نہیں ہو سکتی۔ آج ہو یا کل، بہرحال اس ملک کے تمام سیاست دانوں کو کندھے سے کندھا ملانا ہی پڑے گا۔ اپنی دکھتی رگ کا دکھ بھلانا ہی ہوگا۔
(روزنامہ جنگ ، ۱۹ ستمبر ۲۰۰۲ء)

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’ذکر اہل بیت مصطفی ﷺ‘‘

اس کتابچہ میں علامہ حافظ شفقات احمد مجددی نے اہل بیت کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل ومناقب پر اپنے مخصوص ذوق کے مطابق معلومات جمع کی ہیں۔ 
صفحات ۱۹۲۔ ناشر: دار التبلیغ، آستانہ عالیہ حضرت کیلیانوالہ شریف، ضلع گوجرانوالہ

’’حضرت امیر معاویہؓ کے حق میں اہل بیت رسول کا فیصلہ‘‘

جناب محمد رفیق کیلانی نے اس کتابچہ میں امیر المومنین حضرت معاویہؓ کے بارے میں حضرات اہل بیت کرامؓ کے تاثرات بیان کیے ہیں اور مستند حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ کی چار بیٹیاں تھیں۔
یہ رسالہ بھی دار التبلیغ، آستانہ عالیہ حضرت کیلیانوالہ شریف، ضلع گوجرانوالہ نے شائع کیا ہے۔

ماہنامہ ’’آب حیات‘‘ لاہور

مولانا محمود الرشید حدوٹی کی زیر ادارت ’’آب حیات‘‘ کے نام سے ایک دینی جریدہ شائع ہوتا ہے جس کا جولائی ۲۰۰۲ء کا شمارہ اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ اس میں دینی عنوانات کے ساتھ ساتھ دور حاضر کے مسائل اور ملت اسلامیہ کو درپیش مشکلات کے حوالے سے بھی مفید مضامین شامل ہیں۔
قیمت فی پرچہ ۱۰ روپے اور سالانہ زر خریداری ۱۰۰ روپے ہے جبکہ خط وکتابت مدیر محترم سے جامعہ اشرفیہ، مسلم ٹاؤن، فیروز پور لاہور کے پتہ پر کی جا سکتی ہے۔

’’ہیرے اور کنکر‘‘

محمد یاسین خان قائم خانی صاحب نے ’’قائم خانی راجپوت‘‘ خاندان کے تعارف اور جہاد آزادی میں اس خاندان کی خدمات پر قلم اٹھایا ہے اور اس میں جنگ آزادی کے حوالے سے بہت سی مفید معلومات پیش کی ہیں۔ 
پونے تین سو سے زائد صفحات کی یہ مجلد کتاب ادارہ تحقیق وتصنیف ترگڑھ براستہ ملوک ، تحصیل وضلع ملتان نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۱۵۰ روپے ہے۔

نومبر و دسمبر ۲۰۰۲ء

دور جدید کے فکری تقاضے اور علماء کراممولانا ابوعمار زاہد الراشدی
صحابہ کرامؓ کا اسلوب دعوت (۱)پروفیسر محمد اکرم ورک
رمضان المبارک کی فضیلتمولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
دیوبند اور جہادمولانا عتیق الرحمن سنبھلی
جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغاممولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ترقی اور لبریشن کی متوازی پرواز ناگزیر ہےپروفیسر میاں انعام الرحمن
’’گلستان سعدی‘‘ڈاکٹر محمد اکرم ندوی
شیفیلڈ (برطانیہ) میں جامعہ الہدیٰ کی افتتاحی تقریبادارہ
مدیر سہ ماہی ’’مصباح الاسلام‘‘ (مٹہ خیل) کے نام مولانا زاہد الراشدی کا مکتوبمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دور جدید کے فکری تقاضے اور علماء کرام

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

لندن میں بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے چند نوجوان علماء کرام نے ’’موطا ٹرسٹ‘‘ کے نام سے ایک سوسائٹی قائم کر رکھی ہے جو موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں دینی وعلمی خدمات سرانجام دینے کا جذبہ رکھتے ہیں اور دعوت وتعلیم کے حوالے سے ایک قابل عمل پروگرام کی تشکیل کی کوشش کر رہے ہیں۔ چند ماہ قبل ندوۃ العلماء لکھنو سے حضرت مولانا سید سلمان ندوی لندن تشریف لائے تو موطا ٹرسٹ کی فرمائش پر انہوں نے نوجوان علماء کرام کی ایک جماعت کو آج کے تقاضوں اور دینی وعوت وتعلیم سے تعلق رکھنے والے چند اہم عنوانات پر مسلسل پانچ روز تک لیکچر دیے۔ میری لندن حاضری کے موقع پر انہوں نے ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری کی وساطت سے مجھ سے بھی فرمائش کی کہ اس سلسلے میں کچھ گزارشات ان کی خدمت میں پیش کروں چنانچہ ۲۳۔ اکتوبر سے ۲۶۔ اکتوبر تک مسلسل چار روز عشا کے بعد مجھے ان سے گفتگو کا موقع ملا ۔ گفتگو میں شریک بعض دوستوں کی خواہش تھی کہ ان معروضات کو قلم بند کر کے تحریری صورت میں سامنے لایا جائے۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ یہ ابتدائی موقع تھا اس لیے گفتگو اس انداز سے مرتب طور پر نہیں کی گئی کہ اسے مقالہ کی صورت میں تحریر کیا جا سکے۔ پھر کبھی موقع ملا تو ان شاء اللہ تعالیٰ اس ضرورت کو ملحوظ رکھا جائے گا۔ البتہ اس دوران پیش کی جانے والی چند اہم گزارشات کا خلاصہ قارئین کے سامنے رکھا جا رہا ہے:
آج کے دور میں دینی کام کے لیے سب سے پہلے آج کی دنیا کے مجموعی تناظر کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، اقوام عالم میں ہماری حیثیت کیا ہے اور ہمارے دائیں بائیں اور آگے پیچھے دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ اس لیے علماء کرام اور بالخصوص نوجوان علماء کرام کو چاہیے کہ وہ دنیا کے حالات سے باخبر رہیں، معاصر اقوام ومذاہب سے واقفیت حاصل کریں اور اس عالمی تہذیبی کشمکش کا شعور حاصل کریں جو اس وقت اسلام اور مغرب کے درمیان تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کے بغیر کوئی نوجوان عالم دین دینی وعلمی خدمات سرانجام دینا چاہتا ہے تو وہ اپنے مخصوص اور محدود ماحول کے دائرے میں تھوڑا بہت کام ضرور کر لے گا لیکن اسلام کی دعوت اور ملت اسلامیہ کے مسائل ومشکلات کے حوالے سے کچھ نہیں کر پائے گا۔
اسلام اور مغرب کی کشمکش کے پس منظر میں اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ مغرب کا موقف کیا ہے اور اس موقف کا پس منظر کیا ہے؟ ہم مغرب کے موقف کو اصولی طور پر دو حوالوں سے زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ ایک تو یہ تاریخی پس منظر ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے کہ مغرب نے قرون وسطیٰ یا قرون مظلمہ میں مذہب کے جس کردار کا مشاہدہ کیا ہے بلکہ مذہب کے جس کردار کو بھگتا ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے مغرب کی مذہب دشمنی کو سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہتا۔ مغرب نے صدیوں تک اس صورت حال میں وقت گزارا ہے کہ عام آبادی بادشاہت اور جاگیردارانہ نظام کے مظالم کی چکی میں پستی رہی ہے۔ عام آدمی اس دور میں غلام سے بد تر حیثیت اختیار کر چکا تھا اور انسانوں کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ مذہب نے اس دوران عام آدمی کا ساتھ دینے کے بجائے بادشاہ اور جاگیردار کا ساتھ دیا اور اپنا پورا وزن مظلوم کے بجائے ظالم کے پلڑے میں ڈال دیا حتیٰ کہ بادشاہت اور جاگیرداری کے خلاف عوامی بغاوت کے موقع پر بھی مذہب کا پرچم تھامے ہوئے اس دور کے اہل مذہب نے غریب عوام کے بجائے بادشاہت اور جاگیرداری کی حمایت وتعاون کو ترجیح دی جس کے نتیجے میں شدید رد عمل کی طوفانی لہروں نے بادشاہت اور جاگیرداری کے ساتھ مذہب کا بیڑا بھی گہرے سمندر میں غرق کر دیا۔
اس لیے آج جب مغرب والوں کے سامنے مذہب کا نام آتا ہے تو ان کی نظروں کے سامنے قرون وسطیٰ کا منظر گھوم جاتا ہے اور ان کے لیے یہ تسلیم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ مذہب اور اہل مذہب کا اس کے سوا بھی کوئی کردار ہو سکتا ہے لہٰذا ہمیں مغرب کے سامنے مذہب کی بات کرتے ہوئے مذہب سے اس کی شدید نفرت کے اس بڑے سبب کا لحاظ کرنا ہوگا اور دلیل، منطق اور کردار کے ساتھ واضح کرنا ہوگا کہ اسلام اور قرون وسطیٰ کی مسیحیت کے معاشرتی کردار میں کیا فرق ہے اور عام اہل مغرب کو باور کرانا ہوگا کہ اسلام بادشاہت کا نہیں بلکہ عوام کا ساتھی ہے اور جاگیردار کا نہیں بلکہ مظلوم کا حمایتی ہے۔
مذہب سے اہل مغرب کی شدید نفرت کا دوسرا سبب یہ ہے کہ مذہب نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں اہل مغرب کی پیش رفت اور ترقی کی حوصلہ افزائی کرنے اور اس کا ساتھ دینے کے بجائے اس کی مخالفت کی ہے۔ مذہب نے کائنات کے مطالعہ اور زمین وآسمان کے نظام کی سائنسی تعبیرات کو کفر والحاد قرار دے کر سائنس دانوں پرفتوے عائد کیے ہیں اور مذہبی عدالتوں نے انہیں خوف ناک سزائیں دی ہیں۔ یہ ایک مستقل باب ہے جس کے مطالعہ کی ضرورت ہے اور اس سے بھی مذہب کے ساتھ اہل مغرب کی نفرت کی شدت اور نوعیت کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ آج کی عالمی کشمکش کے تناظر میں ایک اور بات کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ مغرب کا کہنا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کے نام سے ایک بین الاقوامی ادارہ تشکیل پایا تھا اور اس نے ممالک اقوام کے نظام کو چلانے کے لیے انسانی حقوق کے چارٹر کے نام سے راہ نما اصول وضع کیے تھے جس پر دنیا بھر کے تمام ممالک کے نمائندوں نے دستخط کر کے اس چارٹر کو اپنی حکومتوں اور نظاموں کے لیے راہ نما اصول کے طور پر تسلیم کر رکھا ہے۔ اس چارٹر کی دفعات کی تشریح وتعبیر کا بھی ایک نظام ہے جس میں تمام ممالک شریک ہیں اور اقوام متحدہ کے مختلف ادارے بوقت ضرورت اس چارٹر کی دفعات کی تشریع وتعبیر کرتے ہیں۔ اس لیے جن ممالک نے اس چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں اور جو ممالک اقوام متحدہ کے نظام میں باقاعدہ شریک ہیں، انہیں اس معاہدہ کی پابندی کرنی چاہیے اور اپنی شرکت اور دستخطوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے قانونی نظاموں اور حکومتی ڈھانچوں کو اقوام متحدہ کے منشور اور قراردادوں کے دائرے میں لانا چاہیے۔
ہم مسلمانوں کی اس سلسلے میں دو بڑی الجھنیں ہیں۔ ایک یہ کہ اقوام متحدہ کے منشور کو من وعن قبول کرنے کی صورت میں ہمیں قرآن وسنت کے بہت سے صریح احکام سے دست بردار ہونا پڑتا ہے اور خاندانی نظام یعنی نکاح وطلاق اور وراثت کے علاوہ حدود وتعزیرات کے باب میں بھی قرآن کریم اور سنت نبوی کے متعدد صریح قوانین واحکام پر عمل کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں رہتا۔ اور دوسری الجھن یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے نظام پر مغرب کی اجارہ داری ہے اور خود اقوام متحدہ کے فیصلوں اور قراردادوں پر عمل درآمد میں بھی مغرب کی ترجیحات کا غلبہ رہتا ہے لیکن ان دو الجھنوں اور رکاوٹوں کے باوجود مغرب کے اس موقف کو اصولی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جن ممالک نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں اور جن ممالک کے نمائندے اقوام متحدہ کے نظام میں شریک ہیں، ان کو اقوام متحدہ کے منشور اور فیصلوں کی پابندی کرنی چاہیے۔
اس کے علاوہ آج کے نوجوان علماء کرام کے لیے اس بات کو سمجھنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کے منشور اور اس کے مختلف اداروں کے فیصلوں اور قراردادوں کا اسلامی احکام وقوانین کے ساتھ کہاں کہاں ٹکراؤ ہے اور اقوام متحدہ یا دوسرے لفظوں میں آج کے بین الاقوامی قوانین کا کون سا حصہ اور کون سا قانون قرآن وسنت کے کون سے قانون اور ضابطے سے متصادم ہے؟ اس کا ادراک حاصل کیے بغیر ہم آج کی عالمی تہذیبی کشمکش اور مسلمانوں کے ساتھ اہل مغرب کی کشیدگی کو پوری طرح نہیں سمجھ سکتے۔
اس کشمکش سے ہٹ کر مثبت انداز میں اہل مغرب کے سامنے اسلام کی دعوت کو پیش کرنے اور مغربی ماحول میں اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے بھی ہمیں اپنے روایتی طرز عمل پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ کسی بھی شخص، گروہ یا سوسائٹی کے سامنے اسلام کی دعوت رکھنے سے قبل یہ ضروری ہے کہ بات اس کی زبان میں ہو اور صر ف زبان کافی نہیں بلکہ اسلوب اور انداز بھی اس سوسائٹی کے لیے متعارف ہو ورنہ صرف اچھی انگریزی بول کر اپنے روایتی مشرقی اسلوب میں اسلام کی دعوت وتعلیم کا فریضہ مغرب میں سرانجام دینے کا نتیجہ بھی مختلف نہیں ہوگا جبکہ زبان واسلوب کے ساتھ تیسرے نمبر پر اس قوم اور سوسائٹی کی نفسیات اور ذہنی سطح کا ادراک حاصل کرنا بھی دعوت وتعلیم کا ناگزیر تقاضا ہے۔ 
میں عام طور پر اس سلسلے میں ایک روایت پیش کیا کرتا ہوں جو سیرت نبوی کی بیشتر کتابوں میں موجو د ہے کہ جناب نبی اکرم ا کے پاس ایک بار قریش کے چند سردار آئے اور پوچھا کہ آخر آپ چاہتے کیا ہیں؟ تو نبی اکرم ا نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہارے سامنے ایک کلمہ پیش کر رہا ہوں جسے اگر تم قبول کر لو تو عرب پر تمہاری بادشاہت قائم ہو جائے گی اور عجم بھی تمہارے تابع ہوگا۔ رسول اکرم ا کا یہ ارشاد گرامی ان سرداروں کی نفسیات کے پس منظر میں تھا کہ یہ سردار لوگ ہیں اور چودھراہٹ ہی کی زبان سمجھتے ہیں اس لیے نبی اکرم ا نے ایمان اور کلمہ طیبہ کے بے شمار فوائد میں سے پہلے مرحلہ میں وہی فائدہ ان کے سامنے رکھا جو فوری طور پر ان کی سمجھ میں آ سکتا تھا۔ہمیں اس سنت نبوی سے راہ نمائی حاصل کرنی چاہیے اور لوگوں کی ذہنی سطح اور نفسیات کو سمجھتے ہوئے اس کے مطابق ان کے سامنے اسلام کی دعوت وتعلیم کو رکھنا چاہیے۔
علماء کرام بالخصوص نوجوان علما کو تاریخ کے مطالعہ کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ عالمی تاریخ، مختلف اقوام وممالک کی تاریخ اور بالخصوص عالم اسلام کی تاریخ کے اہم مراحل سے ان کا واقف ہونا ضروری ہے۔ پھر ان تحریکات سے بھی انہیں باخبر ہونا چاہیے جو مختلف ادوار میں اہل حق اورعلماء دین نے ملت کی آزادی اور دین کے تحفظ کے لیے بپا کی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں ہمارے اکابر حضرت مجدد الف ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کے خانوادہ کی خدمات، علماء دیوبند کی جدوجہد اور برطانوی استعمار سے آزادی کی تحریکات سے آگاہی کے بغیر تو ہم اپنے مشن اور اہداف کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ ہمارے بزرگوں نے حالات اور موقع محل کی مناسبت سے جدوجہد کے مختلف طریقے اپنائے ہیں: 

یہ سب اہداف نہیں بلکہ طریقہ ہائے کار تھے۔ ان میں سے کوئی بھی حتمی اور قطعی نہیں تھا بلکہ یہ بات حالات پر منحصر تھی کہ کس وقت کون سا طریق کار دینی جدوجہد کو آگے بڑھانے میں مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ 

نوجوان علما کو اس بات سے بھی باخبر ہونا چاہیے کہ جب یونان،ایران اور ہندوستان کے فلسفوں نے مسلمانوں کے عقائد واعمال میں در اندازی شروع کی، ان کے اثرات ہمارے ہاں پھیلنے لگے اور ان فلسفوں نے ہمارے عقائد کو متاثر کرنا چاہا تو اس وقت کے باشعور علماء اسلام نے ان فلسفوں سے آگاہی حاصل کی، ان پر عبور حاصل کیا اور ان فلسفوں کی زبان اور اصطلاحات استعمال کر کے انہی کے دلائل سے اسلام کی حقانیت کو دنیا کے سامنے پیش کیا جبکہ آج دنیا پر مغرب کے سیکولر فلسفے کی حکمرانی ہے جس کی بنیاد مذہب سے لا تعلقی پر ہے ، جس کی زبان انسانی حقوق کی زبان ہے اور جس کی نفسیات میں آزادی اور اباحت مطلقہ رچ بس گئی ہے۔ آج کی اصطلاحات الگ ہیں، اسلوب مختلف ہے اور دلیل ومنطق کے ہتھیار جداگانہ ہیں۔ ہمیں اس فلسفہ سے، اس کی اصطلاحات سے، اس کے اسلوب سے اور اس کے دلائل سے اسی طرح مکمل واقفیت حاصل کرنا ہوگی جس طرح امام ابو الحسن اشعریؒ ، امام ابو منصور ماتریدیؒ ، امام ابن تیمیہؒ ، امام غزالیؒ ، امام ابن رشدؒ اور دوسرے اہل علم نے یونانی، ایرانی اور ہندی فلسفوں پر عبور حاصل کر کے انہی کی زبان اور دلائل سے ان کا رد کیا تھا۔
یہ آج کے دور کی چند اہم ضروریات اور چند ناگزیر تقاضے ہیں جن کی طرف مناسب توجہ نہ دینے کا ہمیں نقصان ہو رہا ہے اورہم علمی، فکری اور تہذیبی محاذ پر کھلا میدان سامنے ہونے کے باوجود پیش رفت نہیں کر پا رہے۔ ان کی طرف دینی مدارس کو توجہ دینی چاہیے، دینی مدارس کا نصاب ونظام تشکیل دینے والوں کو متوجہ ہونا چاہیے۔ یہ اصل ذمہ داری ان کی ہے لیکن اگر ان سے ہٹ کر بھی کچھ علمی ادارے اور فکری سوسائٹیاں ان ضروریات کو محسوس کرتے ہوئے انہیں پورا کرنے کی کوشش شروع کر دیں تو کچھ نہ کچھ پیش رفت ضرور ہوگی اور شاید انہی کی کوششوں سے جمود کی اس دیوار میں کوئی روشن دان نمودار ہو جائے۔

صحابہ کرامؓ کا اسلوب دعوت (۱)

پروفیسر محمد اکرم ورک

مکی دور

چالیس سال کی عمر میں رسول اللہ ﷺ نے اعلانِ نبوت فرمایا تو حکمِ الٰہی کے مطابق دعوت کے کام کا آغاز نہایت حکمت،تدبر اور تدریج کے ساتھ فرمایا۔آپ انے ابتداء اً ان لوگوں کے سامنے دعوت پیش کی جو آپ کی صحبت سے فیض یاب ہوچکے تھے اور آپ کے اخلاق او رچالیس سالہ زندگی کے شب وروز سے آگاہ تھے۔انہوں نے بلا تامل اس دعوت کو قبول کرلیا چنانچہ عورتوں میں حضرت خدیجہؓ ،مردوں میں حضرت ابوبکرؓ،غلاموں میں حضرت زیدؓ بن حارثہ اور بچوں میں حضرت علیؓ نے سب سے پہلے قبولیتِ اسلام کا شرف حاصل کیا۔
تیرہ سالہ مکی دور کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دعوتِ دین کے لئے صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ کی بھر پور معاونت کی اور اس ضمن میں پیش آنے والی ہر اذیت ،تکلیف اور دکھ کوبڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔دعوتِ دین کے اس مشکل اور کٹھن دور میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے جو مناہج اور اسالیب اختیار فرمائے، ذیل کی سطور میں ان کا ایک جائزہ پیش کیاجارہا ہے۔

انفرادی سطح پر دعوت / خفیہ دعوت

مکی دور میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے ہر فرد تک انفرادی سطح پر دعوت پہنچانے کا اسلوب اختیار کیا اوریہ حقیقت ہے کہ اگر افراد تک ذاتی سطح پر بات پہنچائی جائے تو اس کا یقیناًاثر ہوتا ہے ۔اس لئے اسوۂ رسول اکی پیروی کرتے ہوئے صحابہ کرامؓ نے بھی اس اندازِ دعوت کو بڑے مؤثر طریقۂ تبلیغ کے طور پر اپنایا۔ چنانچہ مکی دور کے ابتدائی سالوں میں کئی لوگوں کا صحابہ کرامؓ کی دعوت پر اسلام قبول کرنا اس طریقۂ تبلیغ کی کامیابی کی روشن دلیل ہے ۔علامہ ابن الاثیرؒ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے تذکرہ میں لکھتے ہیں:
’’ان(ابوبکرؓ) کے ہاتھ پر ایک جماعت جن کو ان کے ساتھ محبت وتعلق تھا، اسلام لائی۔یہاں تک کہ عشرہ مبشرہ میں سے پانچ بزرگ بھی ان کے ہاتھ پر اسلام لائے‘‘۔ (۱)
حضرت عثمان بن عفانؓ کے تذکرہ میں ان بعض ناموں کی تفصیل بھی ملتی ہے جنہوں نے حضرت صدیق اکبرؓ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ۔نیز اشارۃً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتدامیں یہ کامیابی انفرادی سطح پر خفیہ دعوت کی بدولت حاصل ہوئی:
’’قریش کے لوگ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آتے تھے اور متعدد وجوہ مثلاً علم، تجربہ اور حسنِ مجالست کی بناء پر ان سے محبت کرتے تھے۔چنانچہ آنے والوں اور ساتھ بیٹھنے والوں میں سے جن لوگوں پر ان کو اعتماد تھا ان کوانہوں نے دعوتِ اسلام دی اور جیسا کہ مجھے معلوم ہواہے ان کے ہاتھ پر زبیر بن عوامؓ،عثمانؓ بن عفان اور طلحہؓ بن عبیداللہ اسلام لائے ‘‘۔ (۲)
حضرت ابوبکرؓ کو قریش میں جو مقام ومرتبہ حاصل تھا،جس کی بناء پر وہ قریش میں دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیتے رہے، ان کی اس حیثیت کا ذکر کرتے ہوئے ابن ہشام لکھتے ہیں:
’’ابوبکرؓ اپنی قوم میں بہت تعلقات رکھنے والے ،محبوب ،نرم اخلاق ،قریش میں بہترین نسب والے تھے،قریش کے انساب کا انہیں تمام قریش سے زیادہ علم تھا اور ان کی اچھائی برائی کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔تجارت کرتے تھے،خوش مزاج تھے، ہر ایک سے نیک سلوک کرتے تھے۔علم ،تجارت اور حسنِ معاملات کے سبب قوم کے تمام افراد آپ کے پاس آتے تھے اور آپ سے تعلقات رکھتے تھے، آپ نے قوم کے ان تمام افراد کو اسلام کی جانب بلانا شروع کردیا،جن پر آپ کو بھروسا تھاا ور جو کہ آپ کے پاس آتے جاتے تھے اور اٹھتے بیٹھتے تھے‘‘۔ (۳)
جن لوگوں نے حضرت ابوبکرؓ کی تبلیغ اور کوششوں سے اسلام قبول کیا ابنِ ہشام نے ان کے نام ذکر کئے ہیں جوحسبِ ذیل ہیں:
عثمانؓ بن عفان،زبیرؓ بن عوام، عبدالرحمنؓ بن عوف ،سعدؓ بن ابی وقاص ،طلحہؓ بن عبیداللہ ،ابو عبیدہؓ بن الجراح، ابو سلمہؓ، ارقمؓ بن ابی الارقم،عثمانؓ بن مظعون نیز ان کے دونوں بھائی قدامہؓ اور عبداللہؓ ،عبیدہؓ بن الحارث،سعیدؓ بن زید نیزان کی بیوی فاطمہ بنت الخطابؓ ،اسماء بنت ابی بکرؓ ،عائشہ بنت ابی بکرؓ،خبابؓ بن الارت، عمیرؓ بن ابی وقاص، عبداللہؓ بن مسعود،مسعودؓ بن القاری،مسعودؓ بن ربیعہ،سلیطؓ بن عمرو اور ان کے بھائی حاطبؓ ،عیاشؓ بن ربیعہ اور ان کی بیوی اسماءؓ بنت سلامہ،عامرؓ بن ربیعہ،عبداللہؓ بن حجش اور ان کے بھائی احمدؓ ،جعفرؓ بن ابی طالب اور ان کی زوجہ اسماءؓ بنت عمیس ،حاطبؓ بن الحارث اور ان کی بیوی فاطمہ بنت المجلل، خطابؓ بن الحارث اور ان کی بیوی فکیہہؓ بنت یسار،معمرؓ بن الحارث، السائبؓ بن عثمانؓ بن مظعون،المطلبؓ بن ازھراور ان کی بیوی رملہؓ بنت ابی عوف ،نعیمؓ بن عبداللہ1،عامرؓ بن فھیرہ مولیٰ ابی بکرؓ،خالدؓ بن سعید اور ان کی بیوی امینہؓ بنت خلف بن اسد ،حاطبؓ بن عمرو، ابو حذیفہؓ بن عتبہ بن ربیعہ، واقدؓ بن عبداللہ، خالدؓ ،عامرؓ،عافلؓ اور ایاسؓ بنو البکیر بن عبدیالیل میں سے،عمار بن یاسرؓ اور صہیبؓ بن سنان(۴)
دعوت وتبلیغ کے میدان میں صحابیات نے بھی،باوجود اپنی فطری کمزوریوں کے،صحابہ کرامؓ کے شانہ بشانہ کام کیا۔بعض صحابیات کے متعلق بھی اس طرح کی روایات ملتی ہیں کہ ا نہوں نے انفرادی سطح پر دعوت وتبلیغ کاکام پوری جانفشانی سے کیا ۔ابن اثیر کی روایت کے مطابق حضرت ام شریکؓ دوسیہ ایک صحابیہ تھیں،جو آغاز اسلام میں مخفی طور پرقریش کی عورتوں کواسلام کی دعوت دیاکرتی تھیں۔قریش کو ان کی مخفی کوششوں کا حال معلوم ہوا تو ان کو مکہ سے نکال دیا۔(۵)
حضرت فاطمہ بنت خطابؓ کی استقامت ،عزم واستقلال اور دعوت سے متاثر ہوکر حضرت عمرؓ بن خطاب نے اسلام قبول کیا۔ (۶)
مدنی دور میں بھی صحابیات نے انفرادی سطح پر دعوت وتبلیغ کاکام انجام دیا۔حضرت ام حکیمؓ بنت الحارث کی شادی عکرمہ بن ابی جہل سے ہوئی تھی۔ وہ خود تو فتح مکہ کے دن اسلام لائیں لیکن ان کے شوہر بھاگ کر یمن چلے گئے ابنِ شہاب بیان کرتے ہیں کہ ام حکیمؓ نے یمن کا سفر اختیار کیا اور ان (عکرمہؓ بن ابی جہل )کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ (۷)
حضرت ابو طلحہؓنے حالتِ کفر میں حضرت ام سلیمؓ کو پیغامِ نکاح دیا تو انہوں نے فرمایا کہ تم کافر ہواور میں مسلمان ،نکاح کیونکر ہوسکتا ہے ۔ہاں اگر تم اسلام قبول کرلو تو وہی میرا مہر ہوگا ۔اس کے سوا تم سے کچھ طلب نہ کروں گی ۔ام سلیمؓ نے ابوطلحہؓ کے ضمیر کو جھنجھوڑ تے ہوئے اور ان کو مائل بہ اسلام کرتے ہوئے جو اسلوب اختیار فرمایا وہ ملاحظہ ہوچنانچہ آپؓ نے فرمایا:
یا ابا طلحہؓ! ألست تعلم ان الٰھک الذی تعبد نبت من الارض، قال: بلی، قالت: افلا تستحیی ان تعبد شجرۃ؟ 
’’اے ابو طلحہ! کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ تمہارا معبود زمین سے اگاہے؟ انہوں نے جواب دیا :ہاں،فرمایا: پھر تم کو درخت کی پوجا کرتے ہوئے شرم نہیں آتی؟‘‘ 
بالآخر حضرت ام سلیمؓ کی ترغیب اور تبلیغ کے نتیجہ میں ابو طلحہؓ مسلمان ہوگئے اور اسلام ہی ان کا مہر قرار پایا۔ (۸)
حضرت عدیؓ بن حاتم اپنے قبیلے کے بادشاہ اور مذہباً عیسائی تھے۔ جب اسلامی فوجوں نے ان کے قبیلہ پر حملہ کیا تو یہ بھاگ کر شام چلے گئے۔ قیدیوں میں ان کی بہن سفانہؓ بنتِ حاتم بھی قیدی ہوکر آئیں اور رسول اللہ اکے حسنِ سلوک سے متاثر ہوکراسلام قبول کرلیا۔رسول اللہ ﷺ نے ان کو اپنے خاندان میں واپس جانے کی اجازت دے دی۔چنانچہ یہ شام اپنے بھائی عدی بن حاتم کے پاس آگئیں اور ان کواسلام کی طرف بلایا چنانچہ ان کی ترغیب سے عدیؓ اپنی بہن کے ہمراہ مدینہ طیبہ حاضر ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کرلی۔(۹)

اجتماعی سطح پر دعوت/علانیہ دعوت

مکی دور کے ابتدائی سالوں میں خفیہ دعوت کا سلسلہ جاری رہا۔جس میں صرف انفرادی سطح پر ہی دعوت ممکن تھی نتیجۃًکئی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔بالآخر جب تبلیغ عام کایہ حکم نازل ہوا:
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ (الحجر ، ۱۵:۹۴)
’’آپ کو جو حکم ملا ہے آپؐ وہ لوگوں کو سنادیں اور مشرکوں کی بالکل پروانہ کریں‘‘
تو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام نے بھی عوامی اجتماعات ،مجالس ،بازاروں ،میلوں اور دیگر تقریبات میں اجتماعی سطح پر لوگوں کو دعوت پیش کی اور اس راہ میں بے پناہ مشکلات کا بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ سامنا کیا۔صحابہ کرامؓ میں سے یہ اعزاز بھی حضرت ابوبکر صدیقؓ کوحاصل ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے اجتماعی سطح پر دعوت کا فریضہ سرانجام دیا ۔اس لحاظ سے حضرت ابوبکر صدیقؓ اسلام میں سب سے پہلے خطیب اور اعلانیہ تبلیغ کرنے والے ہیں۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
’’جب رسول اللہ اکے مرد صحابہ کی تعداد اڑتیس ہوگئی تو صدیقِ اکبرؓنے رسول اللہ ﷺ سے اصرار کیا کہ اب کھل کر اسلام کی دعوت دی جائے۔آپ نے فرمایا:اے ابو بکرؓ!ابھی ہم لوگ تھوڑے ہیں،لیکن حضرت ابوبکرؓ اصرار کرتے رہے۔ جس پر رسول اللہ انے کھلم کھلا دعوت وتبلیغ کی اجازت دے دی۔چنانچہ مسلمان مسجد حرام کے مختلف حصوں میں بکھر گئے اور ہر آدمی اپنے قبیلہ میں جاکر بیٹھ گیا اور حضرت ابوبکرؓلوگوں میں بیان کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے جبکہ رسول اللہ ﷺ بھی تشریف فرماتھے۔حضرت صدیقِ اکبرؓاسلام میں سب سے پہلے خطیب ہیں جنہوں نے اللہ اور رسول ا کی طرف لوگوں کو اعلانیہ دعوت دی۔مشرکین مکہ ابوبکرؓ اور دوسرے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور مسجدِ حرام کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کو خوب ماراجبکہ حضرت ابوبکرؓ کو خوب مارا بھی گیا اور پاؤں تلے بھی روندا گیا‘‘۔ (۱۰)
ابن ہشام ابن اسحاق کے حوالے سے روایت کرتے ہیں:
’’پہلا شخص جس نے رسول اللہ اکے بعد مکہ میں بلند آواز سے قرآن کی تلاوت کی وہ عبداللہؓ بن مسعود ہیں۔ایک روز رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓجمع ہوئے اور کہنے لگے کہ قریش نے قرآن کواپنے سامنے بلندآوازمیں پڑھتے ہوئے کبھی نہیں سنا۔ایساکون ہے جو انہیں قرآن سنائے؟عبداللہؓ بن مسعود نے کہا:میں (یہ کام انجام دیتا ہوں)سب نے کہا:ہمیں ان سے تمہارے لئے خوف ہے ۔ہم تو ایسا شخص چاہتے ہیں جو خاندان والا ہوکہ اگر ان لوگوں نے اس سے کوئی بدسلوکی کرنا چاہی تو اس کے اہلِ خاندان حفاظت کرسکیں۔ابنِ مسعودؓ نے کہا:مجھے چھوڑ دو اللہ تعالیٰ خود میری حفاظت فرمائے گا۔دوسرے دن حضرت ابنِ مسعودؓمقامِ ابراہیم کے پاس ایسے وقت آئے جب قریش اپنی مجلسوں میں تھے۔پھر بلند آواز سے سورۃ الرحمن کی تلاوت شروع کی۔ قریش نے اسے غور سے سنا اور بولے : ابن ام عبد نے کیا کہا؟ پھر خود ہی کہنے لگے یہ تو وہی پڑھتا ہے جو محمدا لایا ہے۔وہ سب کے سب ان کی جانب اٹھ کھڑے ہوئے اور ابنِ مسعود کے منہ پر مارنے لگے۔وہ برابر پڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ اس سورۃ کے اس حصے تک پہنچ گئے ،جس تک اللہ تعالیٰ نے چاہا۔پھر اپنے ساتھیوں کی جانب لوٹ آئے کہ ان کے چہرے پر قریش نے نشانات ڈال دیئے تھے۔ابنِ مسعودؓ سے دوسرے صحابہؓ نے کہا:اسی چیز کا ہمیں ڈر تھا ،انہوں نے جواب دیا: آج دشمنانِ خدا میری نظرمیں جتنے ذلیل ہیں،اتنے ذلیل کبھی نہ تھے۔اگر تم چاہو تو اسی طرح ان کے پاس کل سویرے بھی پہنچوں ۔انہوں نے کہا: نہیں تمہارے لئے یہی کافی ہے۔ تم نے انہیں وہ باتیں سنا دیں ،جنہیں وہ ناپسند کرتے تھے‘‘۔(۱۱)
حضرت عبداللہ ابنِ عباسؓ نے حضرت ابوذر غفاریؓ کے قبولِ اسلام کی طویل روایت بیان کی ہے۔جب انہوں نے اسلام قبول کرلیاتو رسول اللہ ﷺ نے انہیں واپس اپنی قوم میں جانے اور تبلیغِ دین کا حکم دیا۔لیکن حضرت ابوذرؓ نے بڑے جوش اور جذبۂ جان نثاری کے ساتھ بارگاہِ رسالت میں عرض کیا:
والذی نفسی بیدہ لاصرخن بھا بین ظہر انیھم۔ 
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے میں اس کلمۂ توحید کا اعلان کافروں میں پورے زور سے کروں گا‘‘۔
چنانچہ حضرت ابوذرغفاریؓ بیت اللہ میں آئے اور لوگوں کو اللہ ورسول کی طرف دعوت دی۔مشرکین کھڑے ہوئے اور ان کو اتنا مارا کہ ان کو لٹادیااتنے میں حضرت عباسؓ آگئے اور وہ ان کو بچانے کیلئے ان پر لیٹ گئے اور ان کو کافروں سے چھڑایا۔ اگلے دن حضرت ابوذر غفاریؓنے پھران کو ویسے ہی سرعام اور اعلانیہ دعوتِ اسلام دی۔ اس روز بھی کافروں نے ان کو خوب مارا چنانچہ حضرت عباسؓ کی مداخلت ہی سے ان کی جان بچی۔(۱۲)
ایک دفعہ حضرت عثمانؓ بن مظعون قریش کی ایک ایسی مجلس میں تشریف لے گئے جس میں لبیدؓ بن ربیعہ2 شعر کہہ رہا تھا جب اس نے یہ شعر پڑھا:
الا کل شیء ماخلا اللّٰہ باطل
’’خبردار !اللہ کے سوا سب چیزیں باطل ہیں‘‘
تو آپؓ نے اس کو خوب داد دی اور فرمایا:تم نے سچ کہا ہے۔لیکن جب اس نے دوسرا مصرع پڑھا
وکل نعیم لامحالۃ زائل
’’اور ہر نعمت کو بالآخر زوال ہے‘‘
تو حضرت عثمانؓ بن مظعون نے اس کی بھر پور تردید کی اور فرمایا: تم جھوٹے ہو اس لئے کہ جنت کی نعمتوں کو کبھی زوال نہیں ہے اور وہ ہمیشہ رہیں گی۔
مشرکین نے گھورکر حضرت عثمانؓ بن مظعون کی طرف دیکھا اور لبید سے کہا تم یہ شعر پھر پڑھو۔ لبید نے پھر پڑھا ۔آپ نے پھر اسی طرح پہلے مصرع کی تصدیق اور دوسرے کی تکذیب کی۔اہلِ مجلس میں سے ایک احمق شخص اٹھا اور ان پر حملہ کردیا ،ان کو مارا یہاں تک کہ ان کی ایک آنکھ نیلی ہوگئی۔ لیکن وہ اپنا فریضۂ تبلیغ پورا کرچکے تھے۔(۱۳)
مکی دور میں تو صحابیات کے حوالے سے کوئی ایسی روایت معلوم نہیں ہوسکی جس سے معلوم ہوکہ انہوں نے اجتماعی سطح پر دعوت کا کام کیا ہو،تاہم مدنی دور میں صحابیات نے بھی اجتماعی سطح پر دعوتِ دین کی خدمات انجام دیں۔ اس کی ایک مثال صحیح بخاری کی اس روایت میں ملتی ہے کہ ایک غزوہ میں صحابہ کرامؓ پانی کی تلاش میں نکلے تو حسنِ اتفاق سے ایک عورت سے ملاقات ہوگئی جو ایک اونٹ پر سوار تھی اور اس کے پاس پانی کا ایک مشکیزہ تھا۔صحابہؓ نے اس سے پانی کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ پانی یہاں سے ایک دن کی مسافت پر ہے چنانچہ صحابہ کرامؓ اس کو رسول اللہ اکی خدمت میں لے آئے۔صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے پانی استعمال کیا معجزانہ طور پر پانی میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی ۔اس عورت نے جب رسول اللہ ﷺ کے اس معجزہ کو دیکھا تو اس کو اسی وقت آپ ا کی حقانیت کا یقین ہوگیا۔ واپسی پر رسول اللہ ﷺ نے اس کو پانی کی قیمت دلوادی جس سے وہ عورت آپ ا کے حسنِ اخلاق سے بہت متاثر ہوئی چنانچہ جب یہ عورت واپس اپنے قبیلے میں گئی تو اس نے نہ صرف اپنے اسلام کا اعلان کیا بلکہ تمام قبیلہ والوں کو بھی اسلام کی دعوت دی چنانچہ تمام لوگوں نے اس کی دعوت پر اسلام قبول کرلیا۔ (۱۴)

ہجرتِ حبشہ3 اور دعوتِ دین کا فروغ

جب رسول اللہؐ نے ملا حظہ فرمایا کہ خودآپ اللہ تعالیٰ سے خالص تعلق اور اپنے چچا ابو طالب کی بدولت آفتوں سے محفوظ ہیں جبکہ آپ کے اصحاب مصائب وآلام کا نشانہ بن رہے ہیں نیز آپ کفار مکہ سے اپنے اصحاب کی حفاظت کرنے سے بھی قاصر ہیں تو ایک دن آپ ﷺنے صحابہ سے مخاطب ہوکر فرمایا:
لوخر جتم الی ارض الحبشۃ فان بھا ملکا لایظلم عندہ احد،وھی ارض صدق ،حتی یجعل اللّٰہ لکم فرجا مما انتم فیہ (۱۵)
’’اگر تم لوگ سرزمینِ حبشہ ہجرت کرجاؤ (تو تمہارے لئے بہترہے کیونکہ) وہاں کے بادشاہ کے ہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا اور وہ سچائی والی سرزمین ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ان آفتوں سے، جن میں تم مبتلاء ہو ،کوئی کشائش پیدا فرمادے‘‘۔
چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے اہل ایمان نے ماہ رجب 5 نبوی میں حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ (۱۶) اول اول گیارہ مردوں اور چار عورتوں نے شرفِ ہجرت حاصل کیا۔حضرت عثمانؓ بن عفان،زبیر بن العوامؓ،مصعبؓ بن عمیر،عبدالرحمنؓ بن عوف،ابوسلمہؓ بن عبدالاسد،عثمانؓ بن مظعون،عامرؓ بن ربیعہ،ابوسبرہؓ بن ابی رہم یا ابو حاطبؓ بن عمرو،سہیلؓ بن بیضاء، عبداللہؓ بن مسعود،ابو حذیفہؓ بن عتبہ،اور چار خواتین یہ ہیں۔ رقیہ بنتِ رسول اللہ ﷺزوجہ عثمانِ غنیؓ،سہلہؓبنتِ سہیل زوجہ ابوحذیفہؓ،سلمہؓبنتِ ابی امیہ زوجہ ابوسلمہؓاور لیلیٰؓ بنتِ حشمہ زوجہ عامرؓ بن ربیعہ۔(۱۷)
یہ حضرات حبشہ میں بڑی پرسکون زندگی بسر کررہے تھے کہ انہیں اطلاع ملی کہ قریش نے اسلام قبول کرلیا ہے چنانچہ یہ لوگ مکہ واپس آگئے ۔یہاں پہنچنے پر معلوم ہواکہ قریش تو پہلے سے بھی زیادہ مسلمانوں کے دشمن بن چکے ہیں ۔اس لئے کچھ لوگ حبشہ واپس چلے گئے اور کچھ مکہ ہی میں ٹھہر گئے ۔اب یہ حضرات پہلے سے بھی زیادہ قریش کے ظلم وستم کا نشانہ بنے چنانچہ رسول اللہ انے دوبارہ انہیں حبشہ کی طرف ہجر ت کرنے کی اجازت دی۔اس بار تراسی مردوں اور اٹھارہ عورتوں نے ہجرت کی۔(۱۸)
مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے والوں کے علاوہ پچاس مہاجرین کا ایک جتھہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی معیت میں یمن سے حبشہ پہنچا۔حضرت ابوموسیٰ اشعریؓکا بیان ہے:
’’ہم یمن میں تھے ہمیں اطلاع ملی کہ نبی کریم امکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ تشریف لے گئے ہیں۔ہم وہاں سے کشتیوں میں سوار ہوکر روانہ ہوئے تاکہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں شرفِ باریابی حاصل کریں۔لیکن راستہ میں ہمیں سمندری طوفان نے آلیااور ہماری کشتیاں حبشہ کے ساحل پر جالگیں ۔وہاں ہماری ملاقات جعفرؓ بن ابی طالب سے ہوئی چنانچہ ہم نے وہیں اقامت اختیار کرلی اور کئی سال وہاں قیام کیا۔ ہم اس وقت حضرت جعفرؓ کی معیت میں مدینہ واپس آئے جب کہ خیبر میں سارے قلعے فتح ہوچکے تھے اور ان پر اسلام کا پرچم لہرارہا تھا۔ہمیں دیکھ کر رسول اللہ انے فرمایا:
لکم انتم یااہل السفینۃ ہجرتان (۱۹)
’’اے کشتی والو!تمہیں دو ہجرتوں کا ثواب ملے گا‘‘۔
یعنی پہلی ہجرت اپنے وطن سے حبشہ کی طرف اور دوسری ہجرت حبشہ سے مدینہ کی طرف۔
ابنِ قیم کا بیان ہے کہ جب مہاجرین حبشہ کو رسول اللہؐ کی ہجرتِ مدینہ کی اطلاع ملی تو ان میں سے تینتیس آدمی واپس آگئے ۔جن میں سے سات کو راستہ ہی میں کفارِ مکہ نے گرفتار کرلیااور باقی بخیریت مدینہ رسول اللہؐ کی خدمت میں پہنچ گئے۔اس کے بعد باقی مہاجرین فتح خیبر کے سال ۷ ؁ھ میں واپس آئے۔(۲۰) ابنِ ہشام نے بڑی تفصیل سے مہاجرین حبشہ کا ذکر کیا ہے اور قبائل کے اعتبار سے مہاجرین حبشہ کی تفصیل بیان کی ہے۔نجاشی کی بدولت مسلمان حبشہ میں امن وامان سے زندگی بسر کرنے لگے ۔قریش کو بھلا کب گواراتھا کہ مسلمان سکھ اور چین کی زندگی بسر کرنے لگیں،چنانچہ انہوں نے طے کیا کہ نجاشی کے پاس سفارت بھیجی جائے کہ ہمارے مجرموں کو اپنے ملک سے نکال دو اور ان کو ہمارے حوالے کردو۔چنانچہ کفارِمکہ نے عبداللہ بن ابی ربیعہ اور عمرو بن العاص کو اس مقصد کیلئے منتخب کیا۔جنہوں نے نجاشی سے قبل اس کے درباریوں سے ملاقات کی اور ان کو قیمتی تحائف دے کر اپنی حمایت پر آمادہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ کل دربار میں ہماری تائید کریں۔دوسرے دن سفرائے قریش نجاشی کے دربار میں گئے اور اس سے درخواست کی کہ ہمارے مجرم ہمارے حوالے کئے جائیں ،درباریوں نے بھی بھرپور تائید کی۔نجاشی نے مسلمانوں کو بلابھیجااور کہا کہ تم لوگوں نے کون سا دین ایجاد کرلیا ہے جو نصرانیت اور بت پرستی دونوں کے مخالف ہے۔معاملہ چونکہ بڑا نازک اور تشویش ناک تھا اسلئے تمام صحابہؓ نے باہم مشورہ کیا کہ نجاشی سے کس انداز سے بات کی جائے۔ بالآخر تمام صحابہؓ نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا:
واللّٰہ ماعلمنا،وما امرنا بہ نبینا کائنًا فی ذالک ماھوکائن (۲۱)
’’اللہ کی قسم!ہم وہی کہیں گے جو ہمارے نبی نے ہمیں تعلیم دی ہے اور جن باتوں کا آپؐ نے ہمیں حکم دیا ہے۔اس معاملہ میں جو ہوتا ہے ہوجائے‘‘۔
چنانچہ مسلمانوں نے اپنی طرف سے گفتگو کیلئے حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کاانتخاب کیا۔جنہوں نے نجاشی کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
ایھا الملک! کنا قوما اہل جاہلیۃ، نعبد الاصنام، ونأکل المیتۃ، ونأتی الفواحش، ونقطع الارحام، ونسئی الجوار، ویأکل القوی منا الضعیف، فکنا علی ذالک حتی بعث اللّٰہ الینا رسولا منا نعرف نسبہ وصدقہ وامانتہ وعفافہ، فدعانا الی اللّٰہ لنوّحدہ ونعبدہ ونخلع ما کنا نعبد نحن وآباؤنا من دونہ من الحجارۃ والاوثان و أمرنا بصدق الحدیث وأداء الامانۃ، وصلۃ الرحم، وحسن الجوار، والکف عن المحارم والدماء، ونھانا عن الفواحش، وقول الزور، وأکل مال الیتیم، وقذف المحصنات، وأمرنا ان نعبداللّٰہ وحدہ لانشرک بہ شیئا، وأمرنا بالصلوٰۃ والزکوٰۃ والصیام، فصدّقناہ وآمنّا بہ‘‘(۲۲)
’’اے بادشاہ!ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے،بت پوجتے اور مردار کھاتے تھے،بد کاریاں کرتے تھے،ہمسائیوں کو ستاتے تھے ،بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا،قوی لوگ کمزور کوکھا جاتے تھے،اسی اثنا میں ہم میں ایک شخص پیدا ہوا جس کی شرافت اور صدق ودیانت سے ہم لوگ پہلے سے واقف تھے۔ اس نے ہم کو اسلام کی دعوت دی اور یہ سکھلایا کہ ہم پتھروں کو پوجنا چھوڑدیں،سچ بولیں،خون ریزی سے باز آجائیں،یتیموں کا مال نہ کھائیں، ہمسائیوں کوآرام دیں، عفیف عورتوں پربدنامی کا داغ نہ لگائیں،نماز پڑھیں،روزے رکھیں،زکوٰۃ دیں،پس ہم نے اس کی تصدیق کی اور اس پر ایمان لے آئے‘‘۔
اس جرم پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہوگئی اور ہم کو مجبور کرتی ہے کہ اسی گمراہی میں پھر واپس آجائیں۔نجاشی نے کہا!جو کلام الٰہی تمہارے رسول پر اترا ہے ،کہیں سے پڑھو۔حضرت جعفرؓنے سورہ مریم کی چند آیات تلاوت کیں،نجاشی پر رقت طاری ہوگئی یہاں تک کہ اس کی داڑھی تربتر ہوگئی ۔جب نجاشی کے پاس موجود علماء نے یہ کلام سنا تو وہ بھی اتنا روئے کہ ان کے صحیفے بھیگ گئے ۔پھر کہا اللہ کی قسم !یہ کلام اور انجیل دونوں ایک ہی چراغ کے پر تو ہیں،یہ کہہ کر سفراء قریش سے کہا: تم واپس جاؤ۔میں ان مظلوموں کو ہرگز واپس نہ دوں گا۔
دوسرے دن عمرو بن العاص نے پھر دربار میں رسائی حاصل کی اور نجاشی سے کہا : جنابِ والا !آپ کو یہ بھی معلوم ہے یہ لوگ حضرت عیسیٰ کی نسبت کیا اعتقاد رکھتے ہیں؟نجاشی نے ایک بار پھر مسلمانوں کو بلا بھیجا کہ اس سوال کا جواب دیں۔مسلمانوں کو اب حقیقی فکر دامن گیر ہوئی کہ اگر حضرت عیسیٰ ؑ کے ابن اللہ ہونے سے انکار کرتے ہیں تو نجاشی عیسائی ہے ،وہ ناراض ہوگا۔تاہم صحابہ کرامؓنے متفقہ طور پر فیصلہ کیا:
نقول واللّٰہ ماقال اللّٰہ،وماجاء نا بہ نبینا‘(۲۳)
’’قسم خدا کی!ہم وہی کہیں گے جو اللہ کا حکم اور رسول اللہؐ کی تعلیم ہے‘‘۔
جب یہ لوگ نجاشی کے دربار میں حاضر ہوئے تو نجاشی نے کہا:تم لوگ حضرت عیسیٰ ؑ بن مریم کے متعلق کیا اعتقاد رکھتے ہو؟ حضرت جعفرؓنے فرمایا: ہمارے نبی ا نے ہمیں بتایا ہے:
ھو عبداللّٰہ ورسولہ وروحہ وکلمتہ القاھا الی مریم العذراء البتول
’’عیسیٰ ؑ اللہ کے بندے ،رسول،اس کی روح اور کلمہ ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے کنواری اور پاکباز مریم کی طرف ڈال دیا‘‘۔
نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا :واللہ جو تم نے کہا عیسیٰ ؑ اس ایک تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہے۔دربار میں موجود عیسائی علماء نجاشی کے طرزِ عمل سے سخت برہم ہوئے 4 تاہم نجاشی نے ان کے غصہ کی قطعاً پرواہ نہ کی۔قریش کے سفیر بالکل ناکام واپس آئے۔(۲۴)
حبشہ میں صحابہ کرامؓ نے دعوتِ دین کے لئے جو اسلوب اختیار کیااس کی ایک ہلکی سی جھلک حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کی اس معرکۃ الآراء تقریر میں دیکھی جاسکتی ہے ۔حضرت جعفرؓنے اپنے مخاطب نجاشی اور دیگر امراء کے مقام ومرتبہ کا پوری طرح لحاظ رکھتے ہوئے اتنے مدلل،خوبصورت اور دلنشیں پیرائے میں اپنی دعوت کو پیش کیا کہ نہ صرف قریشی سفیر اپنے مشن میں مکمل طور پر ناکام ہوئے بلکہ سرزمینِ حبشہ میں مسلمانوں کے لئے حالات مزید سازگار ہوگئے۔حضرت جعفرؓکی حق وصداقت پر مبنی گفتگو سے نجاشی اور اس کے درباری اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
حضرت جعفرؓ کی اس تقریر سے اس وقت تک کے نصابِ دعوت کا بھی اندازہ کیاجاسکتاہے۔یقیناًحبشہ میں مسلمان توحیدو رسالت کے علاوہ ان ہی اخلاقی تعلیمات کی تبلیغ کرتے ہوں گے۔جن کا ذکر حضرت جعفرؓنے اپنی تقریر میں فرمایا۔حبشہ میں مسلمانوں کے اسلوبِ دعوت کا یہ پہلو بھی خصوصیت سے قابلِ ذکر ہے کہ مشکل ترین لمحات میں انہوں نے بنیادی عقائد پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا اور اس معاملہ میں بڑا واضح اور دو ٹوک مؤقف اختیار کیا۔مسلمانوں کے اسی اسلوبِ دعوت کی بنا پر نہ صرف نجاشی بلکہ کئی دیگر لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔مہاجرینِ حبشہ کی بدولت دعوتِ اسلام حبشہ میں اس قدر عام ہوئی کہ اس سے نہ صرف بادشاہ بلکہ اس کے درباری بھی متاثرہوئے۔ملکِ حبشہ کے عیسائیوں نے بھی اسلام کی تعلیمات سے آگاہی کی کوششیں شروع کردیں۔اس بات کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ وہاں سے بیس عیسائیوں کاایک وفد مکہ آکر رسول اللہ اسے ملا۔رسول اللہ ﷺ نے ان کو اسلام کی دعوت دی اور ان کے سامنے قرآن کی آیات تلاوت کیں تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور وہ ایمان لے آئے۔(۲۵)
حبشہ میں مسلمانوں کی دیگر دعوتی سرگرمیاں کس نوعیت کی تھیں؟ یہ معلوم کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے تاہم یہ طے شدہ بات ہے کہ صحابہ کرامؓنے حبشہ کی پرامن فضا اور سازگار ماحول سے ضرور استفادہ کیاہوگا۔ڈاکٹر حمید اللہ فرماتے ہیں:
’’اب چونکہ تبلیغ کی آزادی تھی،اس لئے یہ مسلمان (مکے کے نومسلم مہاجر)حبشہ میں تبلیغ کرنے لگے۔نتیجہ یہ نکلا کہ چند سالوں میں وہاں کافی تعداد میں یعنی کم ازکم چالیس پچاس حبشی مسلمان ہوگئے‘‘۔(۲۶)
نجاشی کا قبولِ اسلام اس حقیقت کی سب سے بڑی گواہی ہے کہ حبشہ میں مسلمانوں نے دعوتِ حق کو بڑے مؤثر انداز میں پیش کیا ہوگا ۔جب نجاشی کے انتقال کی خبرمدینہ پہنچی تو اس پر ر سول اللہؐ نے غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی۔ (۲۷)
جب رسول اللہؐ نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی تو مہاجرین حبشہ میں سے کچھ لوگ فوراً واپس چلے آئے جبکہ جو لوگ وہاں رہ گئے تھے ان کو واپس لانے کیلئے رسول اللہ ﷺ نے عمروؓ بن امیہ الضمری کو ایک خط دے کر نجاشی کے پاس بھیجا۔رسو ل اللہ ا کے خط کے جواب میں نجاشی نے لکھا:
’’امابعد!فقد ارسلت الیک یارسول اللّٰہﷺ من کان عندی من اصحابک المہاجرین من مکۃالی بلادی،وہااناارسلت الیک ابنی اریحا فی ستین رجلاً من اہل الحبشۃ‘ (۲۸)
’’اے اللہ کے رسول ! مہاجرین مکہ میں سے جو لوگ میرے پاس آئے تھے انہیں میں آپ کی طرف بھیج رہا ہوں اور میں آپ کی طرف اہلِ حبشہ میں سے بھی ساٹھ افراد کو اپنے بیٹے اریحا سمیت بھیج رہا ہوں‘‘۔
حبشہ میں مسلمانوں کی دعوتی سرگرمیوں کے حوالے سے یہاں پر ایک روایت کاذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا جس سے واضح طور پر یہ اشارات ملتے ہیں کہ صرف مہاجر ین حبشہ ہی نہیں بلکہ دیگر حبشی مسلمان بھی قبول اسلام کے بعد دعوت کاکام کسی نہ کسی سطح پر کرتے رہے ہیں۔ابن ہشام کی روایت کے مطابق جب رسول اللہؐ نے عمروؓ بن امیہ الضمری کومہاجرین حبشہ کو لانے کے لئے نجاشی کے پاس بھیجا تو اتفاق سے عمروؓ بن العاص،جو حبشہ آئے ہوئے تھے،نے عمرو بن امیہ کونجاشی کے دربار سے نکلتے ہوئے دیکھ لیا تو عمرو بن العاص فوراً نجاشی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: جو شخص ابھی ابھی آپ کے دربار سے نکل کر گیاہے یہ ہمارے دشمن کا قاصد ہے آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اسے قتل کردوں۔نجاشی یہ سن کر انتہائی غضبناک ہوا اور کہا:
’’أتسألنی ان أعطیک رسول رجل یأتیہ الناموس الاکبر الذی کان یاتی موسیٰ لتقلہ ! قال : قلت ! ایھا الملک ، أکذاک ھو ؟ قال : ویحک یاعمرو ! اطعنی واتبعہ ، فانہ واللّٰہ لعلی الحق ، ولیظھرن علی من خالفہ ،کما ظھر موسیٰ علی فرعون وجنودہ، قال ، قلت : افتبا یعنی لہ علی الاسلام؟ قال: نعم، فبسط یدہ، فبایعتہ علی الاسلام۔ (۲۹)
’’کیاتم مجھ سے قتل کرنے کیلئے ایسے انسان کے قاصد کو حوالے کرنے کی درخواست کرتے ہو جس کے پاس وہی ناموس اکبر آتا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پرآتا تھا؟ اس پر عمرو بن العاص نے عرض کیا:اے بادشاہ!کیایہ معاملہ ہے؟نجاشی نے کہا :اے عمرو تیرا برا ہو!میری مان اور جاکر ان کی اتباع کرلو۔خدا کی قسم ! وہ بالکل حق پر ہیں،جس طرح موسیٰ ،فرعون اور اس کی افواج پر غالب آئے تھے ٹھیک اسی طرح یہ بھی ان تمام لوگوں پر غالب آئیں گے جو انکے مخالف ہیں۔( اب حق عمرو بن عاص پر واضح ہوچکا تھا)کہنے لگے!کیا آپ ان کی جانب سے اسلام پر میری بیعت لیں گے؟چنانچہ نجاشی نے ہاتھ آگے بڑھایا تو انہوں نے اس کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کرلی۔
چنانچہ حضرت عمرو بن العاص نے نجاشی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اورواپس مکہ پلٹ گئے ۔ کچھ عرصہ تک اپنے اسلام کو پوشیدہ رکھا، تاہم فتح مکہ سے قبل بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر اپنے اسلام کا اعلان فرمایا۔(۳۰)
اس روایت سے یہ بات بہرحال واضح ہوجاتی ہے کہ حبشہ میں فروغِ اسلام میں مہاجرین کی کوشش کے علاوہ نجاشی اور دیگر حبشی مسلمانوں کے اثر ورسوخ نے بھی نمایاں کردار اد اکیاہوگا۔اس لئے یہ کہنا بجا طور پر درست ہے کہ حبشہ میں مسلمانوں کی کل تعداد صرف وہی نہ تھی جو حضرت جعفرؓ کی معیت میں مدینہ حاضر ہوئے بلکہ یہ تعداد یقیناًاس سے کہیں زیادہ ہوگی اور کتنے ہی نومسلم وہ ہوں گے جو اپنی مجبوریوں کے باعث مدینہ حاضری سے قاصر رہے۔
چنانچہ حضرت جعفرؓ بن ابی طالب ۷ھ فتح خیبر کے موقع پر باقی ماندہ مسلمانوں کے ساتھ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو اس وفد میں وہ حبشی مسلمان بھی شامل تھے جو مہاجرین حبشہ کی دعوت سے متاثر ہوکراسلام قبول کرچکے تھے اور اب رسول اللہؐ کی زیارت کاشرف حاصل کرنے کیلئے حاضر ہوئے تھے۔ان حبشی مسلمانوں میں سے بعض کے نام کتب رجال اور سیر کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔
حبشی مسلمانوں میں نجاشی کے بیٹے اریحا کے علاوہ اس کے دو بھتیجوں ذودجن اور ذومخبر کے نام بھی ملتے ہیں۔(۳۱)ابنِ اثیر نے حضرت ابرہہؓ کے تذکرہ میں بھی آٹھ حبشی مسلمانوں کے نام گنوائے ہیں جو یہ ہیں بحیراؓ،ابرہہؓ،اشرفؓ،ادریسؓ،ایمنؓ،نافعؓ اور تمیمؓ(۳۲)اس کے علاوہ حضرت تمامؓ،دریدالراہبؓ،ذومہدمؓ ،ذو مناحبؓ اور عامرالشامیؓ کے نام بھی ملتے ہیں۔(۳۳)

قبائل عرب کے لئے مبلغین کا تقرر

ابتداء میں رسول اللہ ااور صحابہ کرامؓ کی تبلیغی ودعوتی سرگرمیوں کا مرکز زیادہ تر مکہ اور اس کی نواحی بستیاں ہی تھیں جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَھَا وَتُنْذِرَ یَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَیْبَ فِیْہِ ( الشوریٰ، ۴۲:۷)
’’اور اس طرح ہم نے وحی کے ذریعے عربی زبان میں قرآن اتارا تاکہ آپ اہل مکہ اور اس کے قرب وجوار میں رہنے والوں کو ڈرائیں اورانہیں قیامت کے دن سے ڈرائیں جس میں کوئی شک نہیں ہے‘‘۔
لیکن جب قریش مکہ کی طرف سے اسلام کی مخالفت میں مسلسل تیزی اور شدت آنے لگی تو آپ نے دیگر قبائل عرب کو اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کافیصلہ کیا۔دیگر قبائل میں دعوت وتبلیغ کے سلسلہ میں صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ کی بھر پور معاونت کی چنانچہ رسول اللہ ﷺ جس قبیلہ میں بھی دعوت وتبلیغ کے لئے تشریف لے گئے ،صحابہ کرامؓ آپ کے ہمراہ رہے۔بالخصوص حضرت صدیق اکبرؓ ،زیدؓ بن حارثہ اور علی المرتضیؓآپ کے دوش بدوش نظر آتے ہیں۔
عبداللہؓ بن مسعود قبولِ اسلام سے قبل اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’میں عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرایا کرتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر صدیقؓ میرے پاس سے گزرے اور مجھ سے دودھ طلب کیا ۔میں نے عرض کیا:مجھے امانت داربنایاگیاہے(یعنی مجھے دینے کا اختیار نہیں)تو آپ نے فرمایا:تیرے پاس کوئی ایسی بکری ہے جو ابھی تک حاملہ نہ ہوئی ہو ؟ میں نے ایک ایسی ہی بکری آپ کی خدمت میں پیش کی۔ آپ نے اس پر ہاتھ پھیرا تو دودھ اتر آیا،آپ نے خود ودھ دوہا،خود پیا اور ابو بکرؓ کوبھی پلایا،پھر دوبارہ ہاتھ پھیرا تو دودھ خشک ہوگیا۔میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول مجھے بھی یہ چیز سکھادیں۔آپ نے میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور فرمایا:
یرحمک اللّٰہ فانک علیم معلم(۳۴)
’’اللہ تمہیں اپنی برکتوں سے نوازے۔تم تعلیم یافتہ نوجوان ہو‘‘۔
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ سے باہر کسی دوردراز مقام سے واپس لوٹ رہے تھے ،جہاں آپ ا یقیناًدعوت وتبلیغ کے سلسلہ ہی میں تشریف لے گئے ہوں گے،اور ابوبکرؓ اس دعوتی مشن میں آپ ا کے ہمراہ تھے۔سفر کی طوالت کے باعث ہی آپ انے پیاس کی شدت کے ہاتھوں مجبور ہوکر عبداللہؓ بن مسعود سے دودھ طلب فرمایاہوگا۔
بعض روایات میں مزید وضاحت ملتی ہے کہ اس نوعیت کی مہمات میں نہ صرف صدیق اکبرؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہوتے تھے بلکہ لوگوں سے آپ کا تعارف بھی کرواتے تھے۔حضرت علیؓکا بیان ہے : 
’’اللہ تعالیٰ نے جب رسول اللہ ﷺ کو قبائل عرب کو دعوت دینے کاحکم دیا تو رسول اللہؐ دعو ت وتبلیغ کے لیے نکل پڑے اور ابوبکر صدیقؓ آپ کے ہمراہ تھے۔مختلف قبائل کی قیام گاہوں سے ہوتے ہوئے ہم ایک مجلس میں پہنچے جس پر سکون اوروقار کے آثار نمایاں تھے۔ابوبکر صدیقؓ آگے بڑھے اور انہیں سلام کیا اور ابوبکرؓ نیکی کے ہرکام میں سبقت کرنے والے تھے۔ابوبکر صدیقؓ نے ان سے پوچھا: آپ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ہم بنی شیبان بن ثعلبہ میں سے ہیں ۔تو آپؓنے فرمایا: غالباً آپ لوگ سن چکے ہوں گے کہ یہاں اللہ کے رسول مبعوث ہوئے ہیں۔اور پھر رسول اللہؐ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:وہ یہی ہیں ۔اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے انہیں اسلام کی طرف دعوت دی۔‘‘(۳۵)
عبداللہ بن والصبہ العبسی اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں: ہم جمرۃ الاولیٰ کے سامنے منی میں خیمہ زن تھے کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ رسول اللہ ﷺ اونٹنی پر سوار تھے اور زیدؓ بن حارثہ آپ اکے پیچھے سوار تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دعوتِ اسلام دی۔ (۳۶)
اسی طرح جس وقت رسول اللہ ﷺ اہل طائف کو دعوتِ اسلام دینے کے لئے تشریف لے گئے تو اس وقت بھی حضرت زید بن حارثہؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔(۳۷)
ان چند روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ اجہاں کہیں بھی دعوتی وتبلیغی مشن پر جاتے تو صدیق اکبرؓ اور زید ؓ بن حارثہ کے علاوہ حضرت علیؓ باوجود اپنی طفولیت کے آپ کے ہمراہ ہوتے تھے۔
مکی دور میں بعض قبائل کی طرف رسول اللہؐ نے دعوت وتبلیغ کیلئے صحابہ کرامؓ کوروانہ فرمایا۔رسول اللہؐ کی پوری دعوتی زندگی کا یہ اصول رہا ہے کہ جو شخص بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا،آپ اسے اس کے قبیلے ،خاندان اور افرادِ خانہ کے لئے مبلغ مقرر فرمادیتے تھے۔ خصوصاًمکی دور میں اسلام کی جس قدر اشاعت ہوئی اس میں انفرادی دعوت کا کردار بڑا اہم رہا ہے۔
ذیل کی سطور میں ان صحابہ کرامؓ کی دعوتی سرگرمیوں کا حال بیان کیاجارہاہے جن کورسول اللہ ﷺ نے ہجرت سے قبل اپنے اپنے قبائل میں دعوت وتبلیغ کے لئے روانہ فرمایا۔

ابو موسیٰ اشعریؓ کا قبولِ اسلام اور دعوتِ اسلام

ابن الاثیرکا بیان ہے کہ ابوموسیٰ الاشعریؓ قدیم الاسلام صحابی تھے جنہوں نے مکہ حاضر ہوکر اسلام قبول کیا۔(۳۸)
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی قوم کے کثیر لوگوں نے ان کے زیرِ اثر اسلام قبول کیا۔چنانچہ ابوموسیٰ اشعریؓکااپنا بیان ہے کہ جب ہمیں یمن میں اطلاع ملی کہ رسو ل اللہ ا مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے آئے ہیں تو میں اپنی قوم کے پچاس آدمیوں کے ساتھ روانہ ہوا تاکہ ہم بارگاہِ رسالت میں شرفِ بازیابی حاصل کریں لیکن سمندری طوفان ہمیں حبشہ لے گیا جہاں سے ہم حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کے ہمراہ واپس آئے اور اس وقت خیبر کے سارے قلعے فتح ہوچکے تھے۔(۳۹)
اس روایت سے معلوم ہوتاہے کہ مکہ میں رسول اللہ اکے ہاتھ پر قبولِ اسلام کے بعد حضرت ابوموسیٰ الاشعریؓ واپس اپنے قبیلے میں جاکر مسلسل دعوت وتبلیغ میں مصروف رہے ہوں گے اور آپؓ کی کوششوں سے اسلام قبول کرنے والوں کی کثرت کااندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ صرف پچاس افراد تو وہ تھے جو مدینہ کے ارادہ سے آپؓکے ساتھ آئے۔

ضمادؓ ازدی کا قبولِ اسلام اور دعوتِ اسلام

ازد شنوء ۃ ،عرب کے نامور قبیلوں میں سے ایک مشہور قبیلہ تھااس کے ایک رئیس ضمادؓ ازدی مکہ مکرمہ آئے وہ ان مریضوں کو دم کرتے تھے جنہیں آسیب یا جنات کی تکلیف ہوتی تھی۔اسے یہاں کے چند احمقوں نے رسول اللہ اکے بارے میں بتایا کہ انہیں آسیب کی شکایت ہے،وہ بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں، انہیں غشی کے دورے پڑتے ہیں ۔علاوہ ازیں ایک نئے مذہب کا پروپیگنڈا بھی بڑے زور وشور سے کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے سارے شہر میں فتنہ وفساد کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں ۔ایسے بیماروں کے لئے تیرا دم بڑا اکسیر ہے۔اگر تم ان کو دم کردو تو تیرے دم سے وہ صحت یاب ہوجائیں گے ،اس طرح تمام قوم تیری شکر گزار ہوگی۔انہوں نے دل میں طے کیا کہ اگر میری اس شخص سے ملاقات ہوئی تو میں ضرور اسے دم کروں گا ،شائد اللہ تعالیٰ اسے میرے ذریعہ شفایاب کردے۔چنانچہ اس نے ایک روز رسول اللہ ﷺ کوحرم کے صحن میں بیٹھے دیکھا۔ وہ حضو راکے پاس جاکر بیٹھ گئے اور کہنے لگے میرے پاس آسیب کا بڑا مجرب دم ہے اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے میرے دم سے صحت بخش دیتاہے۔ کیاآپ کی مرضی ہے کہ میں آپ کو دم کروں؟اس کی بات سن کر رسول اللہؐ یوں گویا ہوئے:
’’ان الحمد للّٰہ،نحمدہ ونستعینہ من یھدی اللّٰہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ واشھد ان لاالہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ وان محمدا عبدہ ورسولہ‘‘
ضماد ؓ یہ کلمات سن کر بے خود ہوگئے اور عرض کی ایک بار پھر دہرائیے ۔رسول اللہ انے تین بار ان کلمات کو دہرایا۔انہیں سننے کے بعد ضمادؓ کہنے لگے:
لقد سمعت قول الکھنۃ،وقول السحرۃ،وقول الشعراء، فما سمعت مثل کلماتک ھٰولآء، ھات یدک ابا یعک علی الاسلام۔
’’میں نے کاہنوں اور جادوگروں کے اقوال سنے ہیں،شعراء کے اشعار سنے ہیں لیکن میں نے آپ کے ان کلمات کی مثل کوئی کلام نہیں سنا۔ہاتھ آگے بڑھائیے تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کروں‘‘۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنا دستِ اقدس بڑھایا ان سے بیعت لی اور پھرفرمایا : یہ بیعت صرف تمہاری طرف سے نہیں بلکہ تمہاری قوم کی طرف سے بھی ہے۔انہوں نے کہا بیشک یہ بیعت میری قوم کی طرف سے بھی قبول فرمائیں۔(۴۰)
بعدکے دور میں رسول اللہ انے ایک لشکر بھیجا جس کا گزر قومِ ضمادؓ پرہوا۔ امیرلشکر نے پوچھا : کیاتم میں کسی نے اس قوم سے کچھ لیا ہے؟ ایک آدمی نے کہا!ہاں،میں نے ایک لوٹا لیاہے۔امیرِ لشکرنے کہا واپس کردو،یہ حضرت ضمادؓ کی قوم ہے۔(۴۱)
اس روایت سے بالجملہ یہ معلوم ہوتاہے کہ حضرت ضما دؓکی قوم ان کے زیرِ اثر اسلام قبول کرچکی تھی اور یہ چیز صحابہ کرامؓکے علم میں تھی۔اس لئے امیرِِ لشکر نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ چونکہ یہ حضرت ضمادؓ کی قوم ہے جو مسلمان ہوچکی ہے اور مسلمان کا مال لوٹنا جائز نہیں اس لئے ان کا مال واپس کردیاجائے۔

طفیلؓ بن عمرو کی دعوتِ اسلام

حضرت طفیلؓ بن عمروالدوسی ہجرت سے قبل بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو دل پہلے ہی نورِ ایمان سے لبریز ہوچکا تھا۔قبولِ اسلام کے بعد خود ہی عرض کیا کہ یارسول اللہ ، میر ی قوم میں میری چلتی ہے میں ان کے پاس جاکر ان کو اسلام کی دعوت دوں گا۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو اپنی قوم کی طرف مبلغ بنا کرروانہ فرمایا۔حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہؐ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو حضرت طفیلؓ بن عمرو نے بھی اپنی قوم کے ایک مہاجر کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ (۴۲)
اس روایت سے فی الجملہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے اثرسے بعض لوگوں نے اسلام قبول کیا لیکن ابن ہشام اور ابن الاثیر کی روایت ہے کہ حضرت طفیلؓ بن عمرو دوسی خدمتِ اقدس سے پلٹ کر مسلسل اشاعتِ اسلام کی خدمت انجام دیتے رہے یہاں تک کہ جب رسول اللہ ﷺنے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو انہوں نے بھی قبیلہ دوس کے ستر یا اسی گھرانوں کے ساتھ شرفِ ہجرت حاصل کیا اور یہ تمام لوگ ان ہی کے زیرِ اثر مسلمان ہوئے تھے۔(۴۳) دوس کا وفد بارگاہِ رسالت میں ۷ ھ میں حاضر ہوا۔(۴۴)

ابو ذر غفاریؓ کی قبیلہ غفار کو دعوت

حضرت ابوذر غفاریؓ فطرتاً نیک سیرت انسان تھے ۔جب رسول اللہؐ کی بعثت کی خبر سنی تو بارگاہِ نبوی امیں حاضر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔رسول اللہ انے ان سے فرمایا:
فھل انت مبلغ عنی قومک ؟ عسی اللّٰہ ان ینفعھم بک ویأجرک فیھم(۴۵)
’’کیا تم میری طرف سے اپنی قوم کو اسلام کا پیغام پہنچا سکتے ہو؟ شاید تمہاری وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کو نفع دے اور تمہیں اجرو ثواب عطافرمائے‘‘۔
چنانچہ واپسی پر حضرت ابوذر غفاریؓ نے سب سے پہلے اپنے بھائی انیس کو دعوتِ اسلام دی۔وہ مسلمان ہوگئے ۔اس کے بعد ماں کو مائل بہ اسلام کیاوہ بھی بخوشی حلقۂ اسلام میں داخل ہوگئیں ۔پھرِ آپؓ نے تمام قوم کو اسلام کی طرف بلایا ۔نصف لوگ اسی وقت مسلمان ہوگئے اور باقی نے بھی ہجرت کے بعد اسلام قبو ل کرلیا۔حضرت ا بو ذرؓ کی دعوتی سرگرمیوں نے دوسرے قبائل کو بھی متاثر کیا چنانچہ قبیلہ غفار کے متصل ہی بنو اسلم کا قبیلہ آباد تھا۔ وہ لوگ بھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ!جس چیز پر ہمارے بھائی اسلام لائے ہیں اس پر ہم بھی اسلام لاتے ہیں۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا:
غفار غفراللّٰہ لھا و اسلم سا لمھا اللّٰہ (۴۶)
’’اللہ تعالیٰ غفار کی مغفرت کرے اور اسلم کو سلامت رکھے‘‘

حوالہ جات

(۱) اسد الغابہ ، تذکرہ عبداللہ بن عثمان ابو بکر الصدیقؓ، ۳ / ۲۰۶
(۲) اسد الغابہ ، تذکرہ عثما نؓ بن عفان ، ۳/ ۳۷۶۔ ابنِ حجر،ابوالحسن احمد بن علی ،’’الاصابہ فی تمییز الصحابۃ‘‘، تذکرہ عبداللہ بن عثمان ابو بکر الصدیقؓ ، ۲/۳۴۲،دارا احیائالتراث العربی ،بیروت،۱۳۲۸ھ
(۳) ابن ہشام ، اسلام ابی بکر الصدیقؓ ، ۱/ ۲۸۶، ۲۸۷
(۴) ابن ہشام ، ذکر من اسلم من الصحابۃ بدعوۃ ابی بکرؓ ،۱/ ۲۸۷۔۲۹۷
(۵) ا سد الغابہ ، تذکرہ ام شریکؓ الدوسیہ ، ۵/ ۵۹۴ 
(۶) ایضاً،تذکرہ فاطمہ بنت الخطابؓ ، ۵/ ۵۱۹
(۷) الموطا، کتاب النکاح ،باب نکاح المشرک اذااسلمت زوجتہ قبلہ ، ح:۶۲۰، ص:۳۴۲
(۸) الاصابہ ،تذکرہ ام سلیمؓ بنت ملحان ، ۴/ ۴۶۱ ۔اسد الغابہ، تذکرہ زیدؓ بن سہل ، ۲/ ۲۳۲
(۹) ابن ھشام ، ۲/۷۱۴
(۱۰) البدایۃ ،۳/۲۹،۳۰۔الاصابہ ، تذکرہ ام الخیرؓبنت صخر ،۴/ ۴۴۷۔اسدالغابہ ، تذکر ہ ام الخیرؓ بنت صخر، ۵/۵۸۰
(۱۱) ابن ہشام ، اول من جھر بالقرآن ، ۱/ ا۳۵، ۳۵۲۔اسد الغابہ ، تذکرہ عبداللہؓ بن مسعود ، ۳ /۲۵۶، ۲۵۷
(۱۲) صحیح البخاری ، کتاب المناقب ، باب قصہ اسلام ابی ذرؓ الغفاری ، ح : ۳۵۲۲، ص :۵۹۲۔ ایضاً کتاب مناقب الانصار ، باب اسلام ابی ذرؓ الغفاری ، ح :۳۸۶۱ ، ص :۶۴۸
(۱۳) اسد الغابہ، تذکرہ عثمانؓ بن مظعون ، ۳/۳۸۶ 
(۱۴) صحیح البخاری ، کتاب التیمم، باب الصعید الطیب وضوء المسلم ،ح :۳۴۴، ص:۵۹
(۱۵) ابن ہشام ، ذکر الہجرۃ الاولیٰ الی ارض الحبشہ ، ۱/ ۳۵۸
(۱۶) زادالمعاد ،۳/ ۲۳
(۱۷) سیرۃ النبی ﷺ ، ۱/۱۴۹، ۱۵۰
(۱۸) زاد المعاد ، ۳/۲۳
(۱۹) صحیح البخاری ، کتاب مناقب الانصار ، باب ہجرۃ الحبشہ ، ح:۳۸۷۶، ص:۶۵۱۔ المستدرک ، مناقب ابی موسٰیؓالاشعری ، ۳/۴۶۴۔اسدالغابہ ، تذکرہ ابو موسٰیؓ الاشعری ، ۵/ ۳۰۸
(۲۰) ابنِ قیم الجوزیۃ ، ابوعبداللہ محمد بن یزید،’’زاد المعاد ‘‘، ۳/۲۶،موسس الرسالۃ ،بیروت ،۱۹۷۹ء
(۲۱) ابن ہشام ارسال قریش الی حبشۃفی طلب المہاجرین الیھا، ۱/ ۳۷۳۔ المسند، حدیث جعفرؓ بن ابی طالب ، 
ح ۱۷۴۲،۱/ ۳۳۳
(۲۲) ابن ہشام ، ارسال الی الحبشہ فی طلب المہاجرین الیہا، ۱/ ۳۷۳،۔المسند، حدیث جعفرؓ بن ابی طالب ، ح :۱۷۴۲، ۱/ ۳۳۲۔۳۳۴
(۲۳) ابنِ ہشام،ارسال قریش الی الحبشۃ فی طلب المہاجرین الیھا،۱/۳۷۳۔ المسند ،حدیث جعفرؓ بن ابی طالب، 
ح: ۱۷۴۲، ۱/۳۳۴
(۲۴) یہ تمام واقعات ،سیرت ابنِ ہشام اور مسندِ احمد میں موجود ہیں۔امام احمد بن حنبل اور ابنِ ہشام کا سلسلہ سند بھی ایک ہے۔محمد بن اسحاق ،زہری،ابوبکر بن عبدالرحمنؓ بن الحرث بن ہشام مخزومی،ام سلمہؓ ۔یہ سب ثقہ راوی ہیں اور سب سے آخری راوی ام المومنین حضرت ام سلمہؓ ہیں جو خود اس واقعہ میں شریک تھیں اور اس وقت تک رسول اللہ ﷺ کی زوجیت میں نہیں آئیں تھیں بلکہ اپنے پہلے شوہر ابوسلمہؓ بن عبدالاسد کے ساتھ حبشہ ہجرت کرکے گئی تھیں۔(ابنِ ہشام ،ارسال قریش الی الحبشہ فی طلب المہاجرین ،۱/۳۷۳۔۳۷۵۔ المسند،حدیث جعفرؓ بن ابی طالب،ح:۱۷۴۲، ۱/۳۳۲۔۳۳۴)
(۲۵) ابنِ ہشام،۱/۴۱۸
(۲۶) خطباتِ بہاولپور،ص:۴۰۳
(۲۷) ابنِ ہشام،خروج الحبشہ علی النجاشی ،۱/۳۷۹۔ اسدالغابہ،تذکرہ اصحمہؓ ،۱/۱۴۲۔ صحیح البخاری،کتاب مناقب الانصار،بابموت النجاشی،ح:۳۴۷۷،ص:۶۵۱
(۲۸) محمد حمید اللہ ،ڈاکٹر،’’الوثائق السیاسیۃفی العھد النبوی والخلافۃ الراشدۃ‘‘،ص:۴۹،قاہرہ ،۱۹۴۱ء
(۲۹) ابن ہشام،اسلام عمروؓ بن العاص وخالدؓ بن الولید،۳/۳۰۴۔اسد الغابہ،تذکرہ عمروؓ بن العاص،۴/۱۱۶
(۳۰) ابن ہشام،اسلام عمروؓ بن العاص وخالد بن الولید،۳/۳۰۴۔اسد الغابہ،تذکرہ عمروؓ بن العاص ،۴/۱۱۶
(۳۱) اسد الغابہ،تذکرہ ذومخبرؓ، ۲/۱۴۴
(۳۲) اسد الغابہ،تذکرہ ابرہہؓ ۱/۴۴
(۳۳) یہ تمام نام اور ان کے حالات زندگی اسد الغابہ اور الاصابہ میں ان صحابہ کے تذکروں میں موجود ہیں۔
(۳۴) المسند ،مسند عبداللہؓ بن مسعود ،ح:۳۵۸۷،۱/۶۲۶
(۳۵) ابنِ کثیر،’’البدایۃ‘‘ ۳/۱۴۲۔ ایضاً،’’ السیرۃ النبویۃ‘‘،۲/۱۶۹۔ الہندی،علاء الدین علی المتقی بن حسام الدین ’’کنز العمال ‘‘ فضائل ابی بکر الصدیقؓ،۶/۳۱۹،موسسۃ الرسالہ،بیروت
(۳۶) ابن کثیر، ابوالفداء،اسماعیل ابنِ عمر’’السیرۃ النبویۃ‘‘،۲/۱۷۱،دارالمعارفۃ،بیروت،۱۹۷۶ء
(۳۷) ابنِ کثیر’’ البدایۃ ‘‘،۳/۱۴۴
(۳۸) اسدالغابہ،عبداللہؓ بن قیس ابو موسیٰ اشعریؓ، ۳/۲۴۵
(۳۹) صحیح البخاری،کتاب مناقب الانصار،باب ہجرۃ الحبشۃ،ح:۳۸۷۶، ص:۶۵۱۔ المستدرک،مناقب ابی موسیٰ الاشعریؓ۳/۴۶۴۔ اسدالغابہ،تذکرہ ابوموسیٰ الاشعریؓ،۵/۳۰۸
(۴۰) اسد الغابہ،تذکرہ ضمادؓ بن ثعلبۃ الازدی،۳/۴۱،۴۲ ۔ الاصابہ،تذکرہ ضمادؓ بن ثعلبۃ الازدی،۲/۲۱۰
(۴۱) اسد الغابہ،تذکرہ ضمادؓ بن ثعلبۃ الازدی،۳/۴۱۔۲۴
(۴۲) المسند،مسندجابرؓ بن عبداللہ ،ح:۱۴۶۵۴، ۴/۳۴۹
(۴۳) ابنِ ہشام،قصۃ اسلام الطفیلؓ بن عمرو دوسی۱/۴۳۲۔ اسدالغابہ،تذکرہ طفیلؓ بن عمروالدوسی،۳/۵۴
(۴۴) ابن سعد ,وفدِ دوس،۱/۳۵۳
(۴۵) صحیح مسلم،کتاب فضائل ا لصحابۃ،باب من فضائل ابی ذرؓ،ح:۶۳۵۹،ص،۱۰۸۶،۱۰۸۸
(۴۶) ایضاً

حواشی

  1. ان کا مشہور نام ’’النحام ‘‘ ہے او راس نام سے اس کی وجہ شہرت رسول اللہﷺکا یہ فرمان ہے: لقد سمعت نحمہ فی الجنتہ ’’میں نے جنت میں ان کے کنگھارنے کی آواز سنی ‘‘ (ابن ھشام ذکر من اسلم من الصحابہ بدعوۃ ابی بکرؓ ، ۱/ ۹۲۵)
  2. لبیدؓ بن ربیعہ بعد میں مسلمان ہو گئے تھے ۔قبول اسلام کے بعد انہوں نے شعر کہنا ترک کر دیا ۔ایک روز حضرت عمرفاروق ؓ نے لبیدؓ بن ربیعہ سے کہا : مجھے اپنے اشعار سناؤ تو انہوں نے کہا کہ میں کوئی شعر نہ کہوں گا اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران کی تعلیم کر دی ہے ۔حضرت لبیدؓ بن ربیعہ نے ایک سو چالیس سال کی عمر میں امیر معاویہؓ کے دور حکومت میں انتقال فرمایا ۔(اسدالغابہ ،تذکرہ لبیدؓبن ربیعہ ، ۴/ ۲۶۲)
  3. حبش عرب کے جنوب میں واقع ہے حبش عربی نام ہے ۔یونانی میں اسے ایتھوپیا (Ethiopia)کہتے ہیں۔دنیا کے موجودہ نقشے میں یہ اے۔بی سینا کے نام سے موسوم ہے۔حبشی زبان میں بادشاہ کو نجوس (negus)کہتے ہیں۔نجاشی اسی لفظِ نجوس سے معرب ہے۔(سیرۃ النبیﷺ،۱/۱۵۵) بعثت نبویﷺکے زمانے میں حبشہ کے تخت پر اصحمہ نامی بادشاہ متمکن تھا۔نجاشی نے حضرت جعفرؓکے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔جب نجاشی کی وفات ہوئی تو آپﷺنے نجاشی کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا فرمائی۔ (صحیح البخاری ، کتاب مناقب الانصار ، باب موت النجاشی ، ح: ۳۸۷۷، ص:۶۵۱) نجاشی کا خاندان چوتھی صدی عیسوی سے حبش پر حکمران تھا۔یہ خاندان پہلے بت پرست تھا رومی شہنشاہیت نے مصر کے ذریعہ یہاں عیسائیت کی بنیاد رکھی۔ اسکندریہ کے ایک بشپ نے یہاں اپنے مشن کا ایک مرکز قائم کیا اور پھر رفتہ رفتہ پورے ملک میں عیسائیت پھیل گئی۔ ( ڈبلیو ، پی ، ہیرس ، پادری ، ’’تواریخ مسحیے کلیسا ‘‘کرسچین نالج سوسائٹی ، لاہور ، ص:۲۶۸، ۱۹۲۵ء)
  4. حضرت عیسیٰ کے متعلق نجاشی نے اسلامی نقطۂ نظر کو جو پزیرائی بخشی ڈاکٹر حمید اللہ نے ا س کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی ہے:
’’نجاشی فرقۂ طبیعت واحد کا(یعنی مانو فرائٹ)عیسائی تھا۔اور ان دنوں اس فرقے اور یونان کے عیسائیوں میں بڑے سخت اختلافات تھے،آخر الذکر اس بات کے قائل تھے کہ حضرت عیسیٰ ؑ میں بوقت واحد دو طبیعتیں تھیں، انسانی اور خدائی بھی۔ابرہہ جو (یمن میں)نجاشی کا نائب تھا۔حضرت عیسیٰ ؑ کو ابن اللہ نہیں مانتا تھابلکہ صرف مسیح اللہ۔غالباً نجاشی کے بھی یہی عقائد ہوں گے۔ اور یہ مسلمانوں کے عقائد کے بہت مماثل ہیں‘‘۔ (محمد حمید اللہ،ڈاکٹر،’’رسول اکرم ؐ کی سیاسی زندگی‘‘دارالاشاعت کراچی،۱۹۸۷ء ،ص۱۲۷)
(جاری)

رمضان المبارک کی فضیلت

مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

یا ایہا الذین آمنواکتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون (البقرہ: ۱۸۳)
’‘اے ایمان والو، تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے گزرے ہیں تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔‘‘
اس آیت میں ارکان اسلام میں سے ایک اہم رکن روزے کا بیان ہے۔ صیام (روزہ) کے لفظی معنی رک جانے کے ہیں۔ عربی زبان میں اس کے لیے امساک کا لفظ بھی آتا ہے تاہم صوم کا لفظ بھی رک جانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ 
شریعت میں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور خواہشات نفسانی سے اپنے آپ کو روکے رکھنے کا نام روزہ ہے۔ روزہ نہار شرعی کے اندر ہوتا ہے اور شرعی دن سے مراد پو پھٹنے سے لے کر سورج غروب ہونے تک کا وقت ہے۔ اس دوران کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے باز رہنا اس نیت کے ساتھ کہ میرا روزہ ہے، یہی صوم ہے اور اسلام کے ارکان میں سے تیسرا رکن ہے۔ حضور علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ: علیکم بالصوم فانہ لا عدل لہ۔ ’’تم روزہ کو لازم پکڑو کیونکہ روزے جیسی کوئی اور عبادت نہیں۔‘‘
فرمایا، اے ایمان والو! یہ روزے صرف تم پر ہی نہیں فرض کیے گئے بلکہ تم سے پہلے گزرنے والے لوگوں پر بھی اسی طرح فرض تھے البتہ ان روزوں کی مقدار اور تعداد مختلف امتوں کے لیے مختلف رہی ہے۔ چنانچہ مشہور ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام ایام بیض یعنی ہر ماہ کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کا روزہ رکھتے تھے اور یہ روزے امت محمدیہ کے لیے مستحب کا درجہ رکھتے ہیں حالانکہ حضرت آدم علیہ السلام کے لیے فرض تھے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی امت کے لوگ بڑے سخت مزاج اور اکھڑ تھے، ان میں بہیمیت کا عنصر زیادہ مقدار میں پایا جاتا تھا۔ اسے کم کرنے کے لیے اس امت کو سارا سال روزے رکھنے کا حکم تھا۔ حضرت داؤد علیہ السلام دو دن روزہ رکھتے تھے اور تیسرے دن افطار کرتے تھے۔ اس امت آخر الزمان کے لیے اللہ تعالیٰ نے سال بھر میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے۔ ان کے متعلق فرمایا: ایاما معدودات یعنی تین سو ساٹھ دن میں سے انتیس یا تیس دن کے روزے فرض قرار دیے گئے ہیں۔
امام طحاویؒ اپنی کتاب مشکل الآثار میں فرماتے ہیں کہ ہر عبادت میں ریا کا امکان ہے، صرف روزہ ہی ایک ایسی عبادت ہے جس میں ریا کاری کا کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ باطنی عبادت ہے اور اس کا تعلق ایک طرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے اور دوسری طرف بندے کے ساتھ۔ نماز، زکوٰۃ، حج وغیرہ ایسی عبادات ہیں جنہیں دوسرے لوگ دیکھ سکتے ہیں، انہیں محسوس کر سکتے ہیں اور زکوٰۃ سے مستفید بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر روزے کے ساتھ ایسا معاملہ پیش نہیں آ سکتا۔ اس کا تعلق صرف روزے دار کی ذات سے ہوتا ہے۔ دوسرا شخص نہ اسے دیکھ سکتا ہے اور نہ محسوس کر سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص عام لوگوں کے سامنے تو نہیں کھاتا پیتا مگر درپردہ ایسا کر لیتا ہے تو اس کا روزہ کہاں ہوگا۔ وہ لاکھ اعلان کرتا پھرے کہ میں روزہ دار ہوں مگر اس کی حقیقت کو وہ خود جانتا ہے یا اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ روزہ دار ہے یا نہیں۔ اس کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بدلہ تو ہر عبادت کا دیا جائے گا مگر روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کی جزا میں خاص طور پر خود عطا کروں گا۔ حدیث قدسی کے الفاظ ہیں: الصوم لی وانا اجزی بہ۔ ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا‘‘
روزے کا ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ یہ قانون کی پابندی سکھاتا ہے۔ روزے کے ذریعے انسان ایک مقررہ وقت کے لیے حلال اکل وشرب سے بھی رک جاتا ہے۔ مقصد اس کا یہ ہے کہ انسان قانون کا پابند ہو جائے۔ جب وہ قانون کی پابندی کے ذریعے حلال چیزوں سے رک سکتا ہے تو وہ حرام چیزوں سے بھی رک جائے گا۔ کھانے پینے اور نفسانی خواہشوں کی تکمیل سے انسان کا نفس مزید پھلتا پھولتا ہے۔ اسے کمزور کرنے کے لیے اسلام نے روزے کا قانون نافذ کیا تاکہ نفس انسانی کو فاقہ کے ذریعے سے کمزور کیا جا سکے۔ لعلکم تتقون کا یہی مطلب ہے کہ انسان میں تقویٰ جیسی اچھی خصلت پیدا ہو جائے۔
حضرت مولانا شیخ الہندؒ فرماتے ہیں کہ روزے کے ذریعے سے جب نفس کو مرغوبات سے روکنے کی عادت پڑ جائے گی تو پھر اسے شرعاً حرام چیزوں سے روکنا آسان ہو جائے گا۔ جب روزہ کی وجہ سے قوت نفس اور شہوت میں ضعف آئے گا تو تم متقی بن جاؤ گے۔ روزہ میں یہ بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے کہ اس سے سرکش نفس کی اصلاح ہوتی ہے اور شریعت کے احکام پر پابندی ہونے لگتی ہے۔ متقی بننے کا یہی معنی ہے کہ انسانی نفس اس کے تابع ہو جائے اور احکام شریعت پر عمل آسان ہو جائے۔

دیوبند اور جہاد

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

(یہ مضمون بھارت میں دینی مدارس کے خلاف بعض حلقوں کی نفرت انگیز مہم کے پس منظر میں لکھا گیا ہے)

دیوبند (دار العلوم دیوبند) ان دنوں بڑی آزمائش سے گزر رہا ہے۔ افغانی طالبان پر جو قہر گزشتہ دنوں ٹوٹا، ہماری (بی جے پی) حکومت نے اس موقع پر ہر کردنی وناکردنی اس خواہش کے ماتحت کی تھی کہ امریکہ بہادر کے ساتھ اس کے لیے بھی اس میں کچھ حصہ ڈالنے کی صورت بن جائے مگر امید بر نہ آ سکی۔ اس محرومی کی تلافی اب وہ طالبان کی ’دیوبندیت‘ کے حوالے سے دیوبند اور اس کی نسبت کے ساتھ ملک بھر میں پھیلے ہوئے سلسلہ مدارس پر ستم آزمائی کی شکل سے کرنے میں لگ گئی ہے۔
طالبان بے شک ’’دیوبندی‘‘ تھے۔ اور وہ اگر ’جہاد‘ پیشہ تھے تو دیوبند کو اس پر بھی کسی معذرت کی ضرورت نہیں ہے۔ دیوبند خود روح جہاد کا وارث ہے۔ یہی روح تھی جس نے اس کے اکابر واصاغر کو ہند میں برطانوی حکومت سے برسرپیکار رکھا۔ یہی روح تھی جس نے ان کی نہایت حساس اسلامیت کو بھی ان غیر مسلم برادران وطن کے شانہ بہ شانہ ہو جانے میں حائل نہ ہونے دیا جن کو انہوں نے جانا کہ برطانوی استعمار سے ہند کی آزادی کے طلب گار ہیں۔ اور یہ ان کی اس روح ہی کی تو چھاپ تھی کہ اس جنگ آزادی میں حصہ لینے والوں کے لیے، بلا تفریق مسلم وغیرمسلم، ’’مجاہدین آزادی‘‘ کا لفظ بولا جانے لگا اور جو اس جنگ میں کام آئے، وہ ’’شہید‘‘ کہلائے۔ یہ طالبان بھی، جن کے حوالے سے دیوبند اس وقت نشانہ بنا ہوا ہے، خود ان امریکیوں اور برطانویوں کی زبان سے بھی ایک وقت تک ’’مجاہد‘‘ ہی (بطور ایک باعزت لقب کے) کہلائے۔ پس یہ ’جہاد‘ اور ’جہاد پیشگی‘ جس فخر وعزت کے ہمیشہ سے حق دار ہیں، آج کسی کی زبان بدل جانا ان کو اپنے اس اعزاز سے محروم نہیں کر سکتا ہے۔ دیوبند کے عربی مدرسہ کو کل اگر ہندو برادران وطن سے قریب کرنے اور ان کے لیے قابل عزت بنانے والی چیز بھی اس کی جہادی روح ہی تھی تو کیسے اسی دیوبند سے توقع کی جا سکتی ہے کہ ملک کے تخت حکومت پر آج اگر کچھ اس قسم کے لوگ آ گئے ہیں جنہیں ملک کی جنگ آزادی میں کوئی دل چسپی نہ تھی اور جہاد کے معزز نام کو وہ گالی بنا دینا چاہتے ہیں تو دیوبند اپنی اس تاریخی میراث کو رسوا ہونے کے لیے چھوڑ دے؟ دیوبند میں قرآن اور حدیث پڑھائی جاتی ہے۔ وہ جب تک قرآن وحدیث پڑھانے سے دست بردار نہ ہو،جہاد کی تعلیم دینے سے دست بردار نہیں ہو سکتا۔ جہاد قرآن وحدیث کا جزو لا ینفک (اٹوٹ انگ) ہے۔ اور یہ وہی تعلیم ’جہاد‘ ہے جس کے ماتحت ۱۹۱۹ء میں خلافت اسلامیہ ترکی کی طرف سے انگریزوں کے خلاف اعلان جہاد کی حمایت میں ہندوستان کے مسلمانوں نے تحریک خلافت برپا کی تو مہاتما گاندھی نے آگے بڑھ کر اس کی سرپرستی کرتے ہوئے اسے تحریک آزادی ہند کا حصہ بنا یا۔ اور اس تحریک کی جہادی روح نے آزادی کی تحریک کو جیسی نئی حرارت سے آشنا کیا، اس کا انکار صرف تعصب ہی کی مجبوری سے کیا جا سکتا ہے ورنہ نہیں۔ کیا اسی جہاد کے بارے میں اب یہ قبول کیا جا سکتا ہے کہ اب یہ ’’دہشت گردی‘‘ ہو گیا؟ اور اب اس کو مان کر رہنے والوں کے لیے ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں؟
جہاد حق کی حفاظت کے لیے ظلم وجبر کی طاقتوں سے جنگ کا نام ہے۔ اسلام نے اپنے ابتدا کے ۱۳ برس مکہ کے اندر ظلم سہنے میں گزارے۔ پھر جب اللہ کا حکم ہوا اور مدینہ والوں کے دلوں میں اسلام گھر کر گیا، مزید انہیں اس فراخ دلی کی بھی توفیق ملی کہ پیغمبر اسلام ا اور آپ کے مظلوم ساتھیوں کو اپنے وطن میں پناہ دینے بلکہ اپنا ہم وطن بنانے کو تیار ہوئے ۔ اس طرح یہ سب لوگ رفتہ رفتہ مکہ چھوڑ گئے۔ پر اس پربھی جب مکہ کے ظالموں نے پیچھا نہ چھوڑا، مدینہ پر بھی دھاوے ہونے لگے، تب کی یہ بات ہے کہ اسلام میں جہاد کا باب کھلا۔ اور جس طرح یہ اسلام کے دشمن ہی تھے جنہوں نے یہ باب پہلے دن کھلوایا تھا، زمانہ آج بھی گواہی دے رہا ہے کہ وہی اس کے بھی ذمہ دار ہیں کہ یہ سدا کھلا ہی رہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ یہ بڑا نازک ’’کھیل‘‘ ہے۔ اس میں بڑی آسانی سے غلطی راہ پا سکتی ہے۔ ایسی غلطی بھی جس میں حق اور حد سے تجاوز (Excess) ہو جائے اور ایسی بھی کہ اپنے ہی کو مہنگی پڑ جائے۔ مگر اس دنیا میں بعض ایسے کاموں کو بھی جائز رکھے بغیر چارہ نہیں ہوتا جن میں اونچ نیچ کے پورے خطرات ہوں۔ (مہاتما گاندھی کے لیے تو عدم تشدد عقیدہ کا درجہ رکھتا تھا اور تشدد (Vilolence) مطلقاً گناہ کا۔ لیکن ملک کی آزادی کے بعد انہیں اس عقیدہ میں گنجائش نکالنا پڑی جس کے ماتحت انہوں نے کشمیر اور گوا کے سلسلے میں حکومت ہند کے فوجی اقدامات کو بجا ٹھیرایا) تاہم اسلام نے اس پر خطر عمل کو غلطیوں سے بچانے کے لیے تعلیم وہدایت کا جو نمونہ قائم کیا ہے، اس کے حوالے سے اسلام کی عظمت ماننے سے صرف وہی لوگ انکار کر سکتے ہیں جو کھلا دل نہیں رکھتے۔ آئیے دو ایک واقعات کی مثالوں سے اس کو سمجھیں۔
پیغمبر اسلام ا کے ایک ایسے محبوب نوجوان صحابی جن سے آپ وہی محبت فرماتے جو محبت آپ کو اپنے نواسوں حسن حسین رضی اللہ عنہما سے تھی، اسامہ بن زیدؓ نامی تھے۔ یہ خود اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک جہادی مہم میں دشمن کی شکست کے بعد انہوں نے اس کے ایک بھاگتے ہوئے آدمی کا پیچھا اپنے ایک ساتھی کے ساتھ کیا۔ وہ پکڑ میں آنے لگا تو اس نے کلمہ اسلام پڑھ کر مسلمان ہونے کا اظہار کیا۔ ظاہر ہے کہ موقع بتاتا تھا کہ یہ اس نے جان بچانے کے لیے کیا۔ اسامہ نے ہاتھ نہیں روکا اگرچہ ان کے ساتھی نے اس پر ہاتھ روک لیا تھا۔ واپسی پر یہ بات رسول اللہ ا کے سامنے آئی تو اسامہ کا بیان ہے کہ آپ نے فرمایا ’’تم نے اس کے لا الٰہ الا اللہ کے بعد بھی اس پر ہاتھ چلایا؟‘‘ انہوں نے عرض کیا، حضور وہ تو جان بچانے کے لیے کر رہا تھا۔ مگر، کہتے ہیں، آپ بار بار یہی فرماتے تھے، ’’تم نے لا الٰہ الا اللہ کے بعد بھی اس کو قتل کیا؟‘‘ یہاں تک کہ میں آرزو کرنے لگا کہ کاش یہ گناہ مجھ سے حالت اسلام میں نہ ہوا ہوتا‘‘ (صحیح بخاری، کتاب المغازی) یہ ایک ایسے صحابی کی بات ہے جو محبوب رسول اللہ کہلاتے تھے۔
اسی طرح خالد بن ولیدؓ جن کو رسول اللہ کی سرکار سے ’’سیف اللہ‘‘ (اللہ کی تلوار) کا خطاب ملا ہوا تھا، ان سے بھی کچھ اس طرح کی ایک صورت حال میں، کہ شبہ کا فائدہ دیا جا سکتا تھا، فیصلہ کی غلطی ایک موقع پر ہوئی تو، راوی کا بیان ہے : ’’اس کی خبر ملنے پر رسول اللہ ا نے (آسمان کی طرف) ہاتھ اٹھاتے ہوئے دوبار فرمایا : ’’اے اللہ، میں خالد کے اس فعل سے تیرے حضور براء ت کرتا ہوں۔‘‘ یہ بھی بخاری ہی کی روایت ہے۔ 
دو ہی مثالیں یہ سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ اس عمل جہاد میں اونچ نیچ کے خطرات پر بند باندھنے کے لیے کس درجے کی سختی سے کام لیا گیا۔ ایک مسلمان کے لیے کوئی دوسری سزا اس سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی کہ رسول اللہ ا اس کے فعل پر ملامت فرمائیں یا بیزاری وبراء ت کا اظہار کریں۔ علاوہ ازیں قرآن میں جن آیتوں سے جہاد کا باب کھلا، ان میں پہلے ہی قدم پر اچھی طرح جتایا گیا کہ زیادتی نہ ہونے پائے: وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا ان اللہ لا یحب المعتدین۔ ’’اور لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو تم سے لڑ رہے ہیں، لیکن زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ (البقرہ ۲: ۱۹۰)
پس اسلام کی تعلیم جہاد سے کسی کو ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ تو ا س کی دوسری تعلیمات کی طرح دنیا کو امن دینے اور فتنہ وفساد مٹانے کا مقصد رکھتی ہے۔ ہاں وہ لوگ جن کی نیتیں مسلمانوں کے بارے میں خراب ہوں، وہ اگر اس سے ڈریں تو یہ اس اسلامی جہاد کا قصور نہیں۔ یہ ان کی اپنی بد نیتی کی خطا ہے۔ وہ اپنی نیتیں مسلمانوں کے بارے میں ٹھیک کریں، تب انہیں ذرہ برابر بھی مسلمانوں اور ان کی جہادی تعلیم سے خوف کی ضرورت نہ ہوگی۔ خاص طور سے دیوبند جیسے اسلامی تعلیم وتربیت کے مرکز کی ہند میں موجودگی اور اس کا مسلمانوں پر اثر، یہ تو یہاں کے غیر مسلموں کے لیے ایک بڑا ذریعہ اطمینان ہونا چاہیے کہ اسلام کی جہادی ’’تلوار‘‘ پر چیک (Check) کی اتھارٹی رکھنے والے ایک ایسا ادارہ موجود ہے جو علی الاعلان جہاد کی تعلیم اگرچہ دیتا تھا، جس نے قادیان میں نبوت کا دعویٰ کرکے اٹھنے والے اس مرزا غلام احمد کو اسلام سے خارج کرانے کی کوشش میں کوئی دقیقہ اٹھا کے نہ رکھا جس کی نبوت کا اصل مقصد اسلام سے جہاد کو خارج کرنا تھا، مگر اپنی اس ’جہادیت‘ کے باوجود وہ اس بات کی کوشش میں پیش پیش رہا ہے کہ آزاد ہندوستان میں ہندو مسلمان ایک ہی جھنڈے اور ایک ہی حکومت کے ماتحت مل جل کر انسانیت کی خدمت کا ایک نیا باب رقم کریں۔ حد ہے کوئی اس ستم کی کہ اس سوچ اور اس کردار کے ادارہ کی زندگی اس الزام میں تنگ کی جائے کہ یہاں سے ہندوؤں کے خلاف، ملک کے خلاف جہادی دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے!
تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو
جو لوگ دیوبند کے ساتھ اس بے اعتمادی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ نادانی کا وہی کھیل ہے جو کشمیر میں شیخ محمد عبد اللہ مرحوم کے ساتھ کھیلا گیا۔ اس نے اندھے اعتماد کے ساتھ کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرایا مگر جب دوسری طرف اعتماد کے معاملے کا وقت آیا تو اسے بے اعتمادی ملی۔ اس نے دیکھا کہ نگرانی کے لیے مہرے بٹھائے گئے ہیں۔ اسی بے اعتمادی کی یہ فصل ہے کہ جو ملک عزیز کو اس دن سے لے کر آج تک ’مسئلہ کشمیر‘ کے نام سے کاٹنی پڑ رہی ہے۔ (طالبان کی جہادیت میں بھی ہندوستان کے لیے کوئی شکایت کا پہلو اگر تھا تو اس کا تعلق بھی اسی مسئلہ کشمیر سے تھا۔ ان کی دیوبندیت سے کوئی تعلق اس کا نہ تھا) کاش یہ لوگ جو مسلمانوں کے بارے میں اس بے اعتمادی کے رویہ سے مسلمانوں سے زیادہ مسائل خود ملک کے لیے پیدا کرتے آ رہے ہیں، وہ کبھی آزادی سے پہلے کے کچھ ماضی کا یہ سین دیکھ کر سبق حاصل کر سکیں کہ مسلمانوں نے اپنی خالص اسلامی تحریک ’’تحریک خلافت‘‘ کی قیادت کس اعتماد کے ساتھ مہاتما گاندھی کے ہاتھوں میں دے دی تھی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ہندوستان کو کبھی چین نہیں نصیب ہو سکتا جب تک کہ مسلمانوں والا یہ مزاج قومی مزاج نہ بن جائے۔ ہندوستان کی تقدیر اسی باہمی اعتماد وبے اعتمادی سے وابستہ ہے۔

جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغام

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۱۷۔ اکتوبر ۲۰۰۲ء کو شیفیلڈ، برطانیہ میں مدنی ٹرسٹ نوٹنگھم کے زیر اہتمام جامعہ الہدیٰ کی افتتاحی تقریب سے خطاب)

برادر محترم مولانا رضاء الحق سیاکھوی اور ان کے رفقا کا شکر گزار ہوں کہ جامعہ الہدیٰ شیفیلڈ کے افتتاح کے موقع پر اس تقریب میں آپ حضرات کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کا موقع فراہم کیا اور اس نئے تعلیمی ادارے کے آغاز پر مدنی ٹرسٹ کے تمام دوستوں کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت اس ادارہ کو پورے خطے میں دین کی سربلندی اور علم کے فروغ کا ذریعہ بنائیں، آمین یارب العالمین۔
ہم ایک دینی درس گاہ کے افتتاح کی تقریب میں جمع ہیں اور دینی مدارس کے حوالے سے اس وقت یہ صورت حال ہمارے سامنے ہے کہ ایک طرف دینی مدارس کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور نئی دینی درس گاہیں قائم ہو رہی ہیں اور دوسری طرف دینی مدارس کی مخالفت عالمی سطح پر بڑھتی جا رہی ہے۔ اس مدرسہ کو انسان کی تہذیبی پیش رفت میں رکاوٹ قرار دیا جا رہا ہے، سولائزیشن کا دشمن بتایا جا رہا ہے اور بلند آہنگی کے ساتھ یہ پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ یہ مدرسہ تہذیب وتمدن کے لیے خطرہ ہے، سولائزیشن اور نسل انسانی کی ثقافتی پیش رفت کے لیے خطرہ ہے اور موجودہ عالمی سسٹم کے لیے خطرہ ہے، اس لیے اسے ختم کیا جائے یا کم از کم اس کے جداگانہ تشخص، کردار، آزادی اور خود مختاری کو محدود کر دیا جائے۔ میں اس پس منظر میں آج کی اس محفل میں صرف ایک پہلو پر مختصراً کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ وہ لوگ جو اس مدرسہ کی مخالفت میں پیش پیش ہیں اور اسے بند کرنے کے درپے ہیں، ان سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر تم انصاف کی نظر سے دیکھو تو یہ مدرسہ خود تمہاری ضرورت بھی ہے اور پوری نسل انسانی کو اس کی ضرورت ہے۔ میری اس گزارش کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو اس دینی مدرسہ کے مخالف ہیں اور خاص طور پر ویسٹرن سولائزیشن کے علم برداروں اور مغربی تہذیب وثقافت کی نمائندگی کرنے والے دانش وروں سے عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ یہ دینی درس گاہ تمہاری ضرورت بھی ہے، جو کچھ یہ مدرسہ پڑھا رہا ہے اور جن علوم کو یہ تاریخ کی دست برد سے محفوظ رکھے ہوئے ہے، اس کی مستقبل میں تمہیں بھی ضرورت پڑ سکتی ہے بلکہ ضرورت پڑے گی اس لیے تم اس کی ضرورت سے بے نیاز نہیں رہ سکتے۔
تم نے اب سے دو تین سو برس قبل یورپ میں اہل مذہب کے ظالمانہ کردار سے تنگ آکر اس کے رد عمل میں مذہب کا طوق گردن سے اتار دیا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ اب سے تین صدیاں قبل یورپ میں اہل مذہب کا کردار کیا تھا اور کس طرح انہوں نے پورے معاشرے کو اپنے ظالمانہ کردار کے شکنجے میں کسا ہوا تھا اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اسی کے رد عمل میں تم نے مذہب سے پیچھا چھڑانے کا راستہ اختیار کیا تھا۔ تم اہل مذہب کی مخالفت میں خود مذہب کے خلاف انتہا پر چلے گئے اور تم نے کہا کہ اب انسانی سوسائٹی بالغ ہو گئی ہے اور اپنے فیصلے خود کر سکتی ہے، اس لیے انسان کو باہر سے ڈکٹیشن لینے کی ضرورت نہیں ہے اور آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی پابندی کا دور گزر گیا ہے اس لیے اب ہم اپنے معاملات خود طے کریں گے، انسانی سوسائٹی اپنے فیصلے خود کرے گی اور کسی بیرونی ہدایت کے بغیر اپنا نظام خود چلائے گی۔ تم نے اس فلسفے پر ایک نیا نظام تشکیل دیا، ایک نیا کلچر پیش کیا اور پھر اسے پوری دنیا پر مسلط کرنے کے لیے ہر طرف چڑھ دوڑے۔
لیکن تین صدیوں کے بعد آج تمہاری اس تگ ودو کے نتائج سامنے آ رہے ہیں تو تم خود پریشانی کا شکار ہو گئے ہو، آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی راہ نمائی سے بے نیاز ہو کر آج انسانی سوسائٹی فکری انتشار، تہذیبی انارکی اور افراتفری کی انتہا کو پہنچ گئی ہے اور تمہاری دانش گاہیں خود اس مقام سے واپسی کی راہیں ڈھونڈ رہی ہیں۔ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم جان میجر نے اس نعرہ پر باقاعدہ مہم چلائی کہ ’’Back to Bases‘‘ (بنیادوں کی طرف واپسی) کی ضرورت ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے لیے بنیاد پرستی کو طعنہ بنا دیا گیا ہے اور اہل مغرب خود بنیادوں کی طرف واپسی کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس نے بی بی سی پر کئی لیکچر دیے اور کہا کہ ہم نے صرف عقل کو معیار قرار دے کر ٹھوکر کھائی ہے اور ہم نسل انسانی کو نقصان کی طرف لے جا رہے ہیں اس لیے ’’وجدان‘‘ کی طرف واپسی کی ضرورت ہے۔ برطانوی شہزادے نے ’’وجدان‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے جو ابتدائی مرحلہ ہے۔ اس کے بعد وحی اور الہام ہی کی بات آئے گی۔ جبکہ ممتاز روسی لیڈر اور دانش ور گوربا چوف نے کھلے بندوں اعتراف کیا کہ ہم نے عالمی جنگ کے بعد دفتروں اور کارخانوں میں افرادی قوت کے خلا کو پر کرنے کے لیے عورت کو بہکا کر گھر سے نکالا جس سے ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہو گیا ہے اور اب ہمیں عورت کو دوبارہ گھر میں لے جانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔
ان باتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مغرب کے دانش وروں کی سوچ کا رخ کیا ہے اور وہ موجودہ صورت حال سے کس قدر پریشان ہیں۔ اب یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی رہنمائی سے پیچھا چھڑا کر نسل انسانی نے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا بلکہ نقصان سے دوچار ہوئی ہے اور انسانی سوسائٹی کو اس نئے فلسفے اور کلچر نے اخلاقی انارکی اور ذہنی خلفشار کے سوا کچھ نہیں دیا چنانچہ مغرب کی دانش گاہوں میں اس بات پر غور شروع ہو چکا ہے کہ یہاں سے واپسی کا راستہ کیا ہے اور انسانی سوسائٹی کو اس دلدل سے کیسے نکالا جا سکتا ہے۔
مغرب کے اہل دانش سے میرا سوال ہے کہ جس ’’وجدان‘‘ اور ’’بنیادوں‘‘ کی طرف واپسی کی تم بات کر رہے ہو، اگر تم نے اس کا فیصلہ کر لیا اور تمہارے پاس اب اس فیصلے کے سوا کوئی اور ’’چوائس‘‘ باقی بھی نہیں رہا تو یہ بنیادیں تمہیں ملیں گی کہاں سے؟ اور عقل انسانی کے لیے بیرونی راہ نمائی یا دوسرے لفظوں میں وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کا یہ سودا تم آخر کس دکان سے حاصل کر سکو گے؟ یہ ’’جنس‘‘ آج مسلمانوں کے سوا کسی کے پاس نہیں ہے اور نہ کسی اور مذہب کے ماننے والوں کے پاس آسمانی تعلیمات کا کوئی قابل اعتماد ذخیرہ موجود ہے۔ یہ سعادت صرف مسلمانوں کو حاصل ہے کہ ان کے پاس نہ صرف قرآن کریم اصلی حالت میں محفوظ وموجود ہے بلکہ قرآن کریم کی تشریحات وتعبیرات میں حضرت محمد رسول اللہ ا کی تعلیمات بھی تمام تر جزئیات وتفصیلات کے ساتھ موجود ہیں اور نسل انسانی نے جب کبھی آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کا فیصلہ کیا، اسے یہ چیز صرف اور صرف مسلمانوں کے ہاں سے ہی ملے گی اور دنیا کا کوئی مذہب انسانی سوسائٹی کی اس ضرورت کو پورا نہیں کر سکے گا۔
یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے آخری کتاب قرآن کریم اور آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ ا کے ارشادات وتعلیمات کی حفاظت کا ایسا فول پروف انتظام کر رکھا ہے کہ ان میں کسی اور چیز کی در اندازی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی تکوینی حکمت ہے کہ لاکھوں سینوں میں قرآن کریم کے محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کے سب سے پہلے لکھوائے جانے والے نسخے بھی ابھی تک موجود ومحفوظ ہیں جو امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان ص کے دور میں تحریر کیے گئے ہیں۔ اس لیے آج صرف اور صرف مسلمان اس دعویٰ کی پوزیشن میں ہیں کہ ان کے پاس آسمانی تعلیمات محفوظ حالت میں موجود ہیں اور نسل انسانی کو جب بھی آسمانی تعلیمات کی ضرورت محسوس ہوئی، وہ اصلی حالت میں اسے مسلمانوں کے پاس مل جائیں گی۔
میں مغرب کے اہل دانش سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ سمجھ دار لوگ ہیں اور سمجھ دار لوگوں کی ایک علامت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ وہ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی متبادل ضرور ذہن میں رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی مغرب کے دانش وروں کو سوچنا چاہیے کہ جس راستے پر انہوں نے نسل انسانی کو تین سو برس قبل چلانا شروع کیا تھا، اس کی ناکامی کی صورت میں ان کے پاس اس کا متبادل کیا ہے؟ اور انہوں نے اس کے بارے میں کیا سوچ رکھا ہے؟
آج سچی بات یہ ہے کہ مغرب کا فلسفہ ناکام ہو چکا ہے، مغرب کے کلچر نے انسانی سوسائٹی کو اخلاقی انارکی اور ذہنی خلفشار سے دوچار کر دیا ہے، انسانی قدریں برباد ہو گئی ہیں، خاندانی نظام جو انسانی سوسائٹی کا بنیادی یونٹ ہے، بکھر کر رہ گیا ہے اور خود مغرب کے دانش وروں نے وجدان، بنیادوں اور ماضی کی طرف واپس جانے کے لیے سوچنا شروع کر دیا ہے اس لیے میں ان سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ دینی مدرسہ جس کو وہ ختم کرنے کے درپے ہیں، انہی وجدانیات، بنیادوں اور ماضی کے اخلاقی اقدار کی تعلیم دے رہا ہے جن کی ضرورت کا احساس خود ان کے ذہنوں میں اجاگر ہونا شروع ہو گیا ہے۔ یہ مدرسہ ان اقدار وتعلیمات کو نہ صرف محفوظ رکھے ہوئے ہے بلکہ اسے نئی نسل کے سپرد کرنے کے لیے تعلیم وتربیت کے محاذ پر سرگرم عمل بھی ہے اور اس حوالے سے یہ مدرسہ ان لوگوں کی بھی ضرورت ہے جو اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور کل جب انہیں کہیں اور پناہ نہیں ملے گی، یہی مدرسہ ان کی راہ نمائی اور نجات کے لیے کردار ادا کرے گا۔
باقی رہی بات اس مدرسہ کو ختم کرنے کی تو میں اس موقع پر اہل مغرب سے اختصار کے ساتھ یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تم بار بار اس بات کا تجربہ کر چکے ہو کہ یہ تمہارے بس کی بات نہیں اس لیے اس کام میں اپنا وقت ضائع نہ کرو۔ تم نے ۱۸۵۷ء کے بعد جنوبی ایشیا میں اس درس گاہ کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا تھا لیکن جبر وتشدد کے تمام تر مراحل کے باوجود جنوبی ایشیا میں یہ درس گاہ نہ صرف زندہ ہے بلکہ پہلے سے زیادہ متحرک اور موثر کردار ادا کر رہی ہے۔ تم نے ترکی میں اس مدرسہ کو اپنی طرف سے مکمل طور پر ختم کر دیا تھا اور اس کو دوبارہ ابھرنے سے روکنے کے لیے پون صدی سے جبر کا ہر حربہ آزما رہے ہو لیکن یہ مدرسہ ترکی میں بھی زندہ ہے اور اگر تم اس کی زندگی کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہو تو ترکی میں فوج کے جبر سے ہٹ کر ایک الیکشن کرا کے دیکھ لو، تمہیں اس مدرسے کی کارکردگی کا گراف معلوم ہو جائے گا۔ تم نے وسطی ایشیا میں اس مدرسہ کو بند کرنے کے لیے جبر اور تشدد کو انتہاتک پہنچا دیا اور اس درس گاہ کا کردار ختم کرنے کے لیے ریاستی جبر کی ہر شکل آزما کر دیکھ لی ہے لیکن پون صدی کے بعد دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ وسطی ایشیا میں بھی یہ مدرسہ زندہ ہے اور اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
اس لیے میں مغرب کے دانش وروں کو آج کی اس محفل کی وساطت سے یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ حقائق سے آنکھیں بند کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ مدرسہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ پوری نسل انسانی کی اور خود تمہاری بھی ضرورت ہے۔ اس چٹان سے سر ٹکرانے کے بجائے اس کے وجود کو تسلیم کرو اور اس کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس کا پیغام نسل انسانی کے بہتر مستقبل کا پیغام ہے، انسانی سوسائٹی کو انارکی اور خلفشار کی دلدل سے نکالنے کا پیغام ہے اور آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کا پیغام ہے۔ اب نسل انسانی کو اسی پیغام کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے سوا نسل انسانی کی فلاح کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

ترقی اور لبریشن کی متوازی پرواز ناگزیر ہے

پروفیسر میاں انعام الرحمن

اس وقت دنیا میں ترقی کو جا نچنے کے لیے تین طریقے رائج ہیں۔ انہیں تین مکاتب فکر بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایک مکتبہ فکر کے مطابق کوئی ملک اس وقت ترقی یافتہ ہو جاتا ہے جب اس کا GNP نمو پذیر رہے اور قومی ضروریات پوری کرتا رہے۔ والٹ روسلو Walt Roslow) (کی کتاب ’’معاشی نمو کے مراحل‘‘ (The Stages of Economic Growth) کی طرح مزید کئی کتب نے ترقی کے اس پہلو کو خاصا اجاگر کیا ہے۔ اس کے علاوہ معاشی منصوبہ بندی میں ماہرین معاشیات کے حتمی کردار نے بھی غیر معاشی عوامل کو عملاً دیس نکالا دے دیا ہے۔ 
جدید دور میں شاید ہی کوئی ایسا ماہر معاشیات ہو جو دھڑلے سے مذکورہ بالا نظریے کی حمایت کرے کیونکہ اب ترقی کے گراف کے لیے ایچ ڈی آئی (Human Development Index) سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی ملک جی این پی کی شرح کے اعتبار سے بہتر پوزیشن میں بھی ہو لیکن اس کی کارکردگی ایچ ڈی آئی میں انتہائی بری ہو تو ایسے ملک کو ترقی یافتہ یا خوش حال نہیں کہا جا سکتا۔ دنیا میں اس وقت ترقی کو عموماً ایسے جانچا جاتا ہے: ترقی = معاشی نشو ونما + سماجی تبدیلی۔ یعنی ترقی صرف معاشی نشوونما کے گرد نہیں گھومتی بلکہ اس کے متوازی سماجی تبدیلی بھی عمل میں آنی چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ترقی اور جدت فیکٹریوں کی موجودگی کا نام نہیں ہے بلکہ فیکٹریوں پر ایک خاص نقطہ نظر کی موجودگی کا نام ہے۔ یہاں اس امر کا اعتراف ناگزیر معلوم ہوتا ہے کہ اس مکتبہ فکر کے ہاں بھی عملاً سماجی تبدیلی کی حیثیت ثانوی رہی ہے۔
تیسرا مکتبہ فکر اخلاقی قدرو ں پر بہت زیادہ زور دیتاہے۔ اس کے مطابق سماجی تبدیلی کو ممکنہ حد تک وسیع تاریخی سیاق وسباق میں دیکھا جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ مذہبی حلقے اس مکتبہ فکر سے خاصے متاثر ہیں۔
دنیا میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ترقی کی اصطلاح استعمال نہیں کرتا اور اس کا بدل لبریشن (Liberation) کو قرار دیتا ہے۔ لبریشن کا مطلب ہے کہ آبادی کی اکثریت، مقتدر اقلیت سے چھٹکارا حاصل کر لے اور ’’تبدیلی کے عمل‘‘ پر اپنا کنٹرول قائم کرے۔ اس کے برعکس اگرچہ ترقی میں بھی تبدیلی کی بات ہوتی ہے جیسا کہ ابتدائی سطور میں ذکر ہوا، لیکن یہ تبدیلی اس قسم کی ہوتی ہے کہ زیادہ تر فوائد مقتدر اقلیت ہی سمیٹ لیتی ہے مثلاً پیداوار کا زیادہ ہونا اور وسیع پیمانے پر کھپ جانا، ہاؤسنگ اور میڈیکل کی بہتر سہولتیں وغیرہ۔ تیسری دنیا کے سماجی ماہرین، منصوبہ ساز اور سیاسی قائدین بھی ’’ترقی‘‘ کے رائج الوقت معیار اور مفہوم کی بابت تحفظات رکھتے ہیں۔ ان کی اکثریت روایتی دانش (Conventional Wisdom) کے کھوکھلے پن کو بخوبی جانتی ہے اس لیے وہ غیر ملکی امداد، غیر ملکی سرمایہ کاری اور تکنیکی امداد میں مضمر منفیت کے پیش نظر ’’لبریشن‘‘ کی پزیرائی کے خواہاں ہیں۔
اس وقت اگرچہ بعض ممالک میں بین الاقوامی مالیاتی ایجنسیوں کے تعاون کی بدولت معاشی نشوونما ہوئی ہے لیکن سماجی سطح پر طبقاتی تعلقات میں کوئی بنیادی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ ’’دولت اور طاقت کی تقسیم‘‘ کا پرانا استحصالی نظام نہ صرف قائم ہے بلکہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں جنوبی کوریا اور تائیوان کی مثال دی جا سکتی ہے۔ عوامی جمہوریہ چین ایک اعتبار سے منفرد ہے کہ وہاں جاگیردارانہ سماجی نظام ختم کیا جا چکا ہے۔ حکمرانوں میں جب بھی (Elitism) ظاہر ہونے لگتی ہے تو اسے جڑ سے اکھاڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تکنیکی کام یابیوں کو ثقافتی تقاضوں کے تحت رکھا گیا ہے۔ چین میں ایسا اس لیے ہو سکا کہ اس کی اپروچ میں ’’لبریشن‘‘ جھلکتی ہے۔
لہٰذا لبریشنسٹس (Liberationists)کے مطابق ترقی یا کام یابی ’’فوائد کی کثرت‘‘ پر موقوف نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ کسی معاشرے میں تبدیلی کا عمل کیسے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اگرچہ ظاہری فوائد بھی دیکھے جاتے ہیں لیکن ان کے حصول میں فیصلہ کن کردار اس امر سے متعین ہوتا ہے کہ کیا معاشرے میں عوامی سطح پر خود مختاری پائی جاتی ہے بجائے اس کے کہ Elitist عناصر چھائے ہوئے ہوں۔ کیا نقل کے بجائے سماجی تخلیقیت بھی تبدیلی کے عمل میں شامل رہی ہے؟ اور کیا تبدیلی کی قوتوں پر پورا کنٹرول رہا ہے یا محض ان سے ایڈجسٹ منٹ پر اکتفا کر لیا گیا ہے؟
اگر ہم بنظر غائر دنیا میں موجودہ رجحان کا جائزہ لیں تو نام نہاد ترقی پھیلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کے جی این پی میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ اضافہ تیسری دنیا کے غریب عوام کے ’’استحصال‘‘ کا مرہون منت ہے یعنی ترقی کے دوسرے سرے پر ’’لبریشن‘‘ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کنٹرول سے خود ان ممالک کے اندر بھی ’’لبریشن‘‘ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ان ممالک میں تبدیلی کا عمل بلاشبہ Elite oriented رہا ہے۔ اب اسے Mass oriented ہو جانا چاہیے۔ شاید ایسا ہونے سے ہی ان ممالک کی پالیسیاں، جو کہ دیگر ترقی پذیر ممالک کی بابت ہیں، استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک صاف ہوں گی۔
حیرت کی بات ہے کہ وطن عزیز میں بھی ترقی کی راہ پر گام زن ہونے کے لیے معاشی فیکٹر کو حرز جان بنا لیا گیا ہے۔ ایچ ڈی آئی اور لبریشن کو کوئی اہمیت نہیں دی جا رہی۔ خواندگی کی شرح شرم ناک ہے اور شرح اموات پر کنٹرول بھی بہت سے ترقی پذیر ممالک کی نسبت کم ہے۔ خواتین سے کھیتوں میں ڈھور ڈنگروں کی طرح کام لیا جا رہا ہے۔ قومی ذمہ داریوں کو شیئر کرنے میں ان کا کردار تقریباً صفر ہے، بالخصوص اس تناظر میں کہ وہ ملکی آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ ہیں۔ حالیہ الیکشن میں اگرچہ تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور میں مذکور امور کو سرفہرست رکھا ہے لیکن بدیہی طور پر ان کی دل چسپیاں کچھ اور ہی دکھائی دے رہی ہیں۔ ڈاکٹر حضرات اور پروفیسر صاحبان آئے دن واویلا کرتے رہتے ہیں کہ ڈی نیشنلائزیشن حقیقت میں لبریشن کی ضد ہے اور بورڈ آف گورنرز کا ’’لالی پاپ‘‘ استادوں کو استادی دکھانے والی بات ہے۔ لیکن ترقی کے دلدادہ لوگوں کا کان ایسا ہے کہ اس پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ملک کو ترقی اور خوش حالی کی راہ پر ڈالنے والے ہمارے قابل ماہرین اور پالیسی ساز اگر صرف Costa Rica جیسے ملک سے ہی اپنی کارکردگی کا موازنہ کریں تو بغلیں جھانکتے نظر آئیں گے۔ کوسٹاریکا میں خواتین کی شرح خواندگی ۱۹۶۰ء میں ۱۷ فی صد تھی جو کہ Mass oriented policies کی بدولت ۱۹۸۰ء میں ۶۵ فی صد تک پہنچ گئی۔ ان تعلیم یافتہ خواتین نے شیر خوار بچوں اور پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات کو کم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس طرح بالواسطہ صحت پر حکومتی اخراجات کم ہو گئے۔
ہماری رائے میں مسائل حل کرنے کا راستہ ڈی نیشنلائزیشن نہیں بلکہ Structural vulnerability کو ایڈریس کرنے میں ہے کہ اسی کی وجہ سے معاشی، سیاسی اور ثقافتی قوتوں پر کنٹرول حاصل نہیں ہوتا اور معاشرہ شتر بے مہار کی طرح ہو جاتا ہے۔ ایسے میں خارجی طاقتیں ’’مہار‘‘ بننے کی کوشش ہی نہیں کرتیں بلکہ کام یاب بھی ہو جاتی ہیں۔ ان کی کام یابی سے ’’لبریشن‘‘ کی قیمتی پر ترقی بھی اپنے بازو کھول دیتی ہے تاکہ پورے معاشرے کو کھلے بازوؤں میں سما کر بھینچ سکے۔ 
وطن عزیز میں نئی منتخب اسمبلی کے حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں پر منحصر ہوگا کہ وہ صرف نام نہاد ترقی کا انتخاب کرتے ہیں یا لبریشن کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ ہر کس وناکس کو اندازہ ہے کہ اگر ہمارے قائدین نے صرف ترقی کے راستے کو ترجیح دی اور عوامی مفاد کو پس پشت ڈال کر لبریشن کو تج دیا تو مستقبل ان کی ’’مہذبانہ یاسیت‘‘ کا مضحکہ اڑائے گا۔ ماضی میں قوموں پراس سے بھی بھاری وقت آتے رہے ہیں لیکن کوئی قوم ہماری طرح ایسی ذہنی تکان کا شکار نہیں ہوئی۔ انیسویں صدی کے شکست خوردہ فرانس نے دنیا کے عظیم اذہان پیدا کیے تھے کیونکہ فرانس کی معاشرتی اور ثقافتی زندگی میں لبریشن اور ایگو بدرجہ اتم موجود تھے۔ اسی مخصوص فضا کے طفیل فرانس کو دوبارہ کھڑے ہونے کا موقع مل گیا لیکن اس وقت وطن عزیز میں استعماری فضا بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، موجود تو وہ پہلے سے ہے۔ عوام کی تعلیم وصحت پر دھڑلے سے ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے اور شرمندہ ہونے کے بجائے توجیہات پیش کی جا رہی ہیں حالانکہ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ ہماری ساری ترقی غالباً وسائل اور اطوار کی ترقی ہے۔ زندگی کے مقاصد اور اعیان سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ یہ کسی قوم کا مخصوص نظام تعلیم ہی ہوتا ہے جو مقاصد اور اعیان کی نگہبانی کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں پروان چڑھاتا ہے۔ یہ نظام تعلیم استعماری فضا کی نہیں بلکہ لبریشن اور ایگو کی فضا کا تقاضا کرتا ہے تاکہ معاشرے میں ایسے اذہان جنم لے سکیں جن کے طفیل پورا معاشرہ ذہنی اور تہذیبی اعتبار سے ’’متمول‘‘ کہلا سکے۔ اس وقت ہمارے معاشرے کے سامنے ایک بنیادی سوال موجود ہے کہ کیا ہم ذہنی اور تہذیبی اعتبار سے متمول ہونا چاہتے ہیں؟ اگر ہمارا جواب اثبات میں ہے تو ہمیں لازماً لبریشن کو بھی ترقی کے متوازی لے کر آگے بڑھنا ہوگا ورنہ اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہوگی کہ کسی قوم کی فوج تو بیرکوں کے بجائے اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہو اور پروفیسر حضرات کالجوں کے بجائے سڑکوں کو رونق بخش رہے ہوں۔ ذہنی اور تہذیبی دیوالیہ پن کی یہ ایسی واقعاتی شہادت ہے جس کی نظیر تلاش نہیں کی جا سکتی۔

’’گلستان سعدی‘‘

ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

تصحیح وتوضیح: دکتر غلام حسین یوسفی
شرکت سہامی انتشارات خوارزمی
چاپ سوم: مہر ماہ ۱۳۷۳ھ ش ۔ تہران
بچہ کار آیدت ز گل طبقے
از گلستان من ببر ورقے
اردو داں طبقہ کے لیے شیخ سعدی کی ’گلستاں‘ محتاج تعارف نہیں ۔ شیخ سعدی (م ۶۹۰ھ)نے یہ کتاب ۶۵۶ھ میں تصنیف کی اور خود ان کی حیات ہی میں اس کا شہرہ ہر طرف پھیل گیا۔ یہ کتاب خواص وعوام میں یکساں مقبول رہی ہے۔ صدیاں گزر گئیں کہ ’بوستان‘ کی طرح شیخ کی ’گلستاں‘ مختلف مسلم ممالک بشمول ہندوستان کے نصاب درس میں اب تک داخل ہے۔ اس کتاب پر کثرت سے شرحیں لکھی گئیں اور دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے۔
ایران وہندوستان میں گلستاں کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے جو مختلف خصوصیات کے حامل ہیں۔ پیش نظر ایڈیشن تحقیق، تصحیح اور توضیح کے جدید اصولوں کی روشنی میں تیار کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین یوسفی تمام محبان سعدی کے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے پوری جان کاہی سے عالمی ادب کے اس شہ پارہ کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا۔ سطور ذیل میں اس جدید ایڈیشن کا ایک تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔
باریک خط سے متوسط سائز کے آٹھ سو پندرہ صفحوں پر پھیلا ہوا یہ محقق نسخہ تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: متن کتاب، توضیحات مربوط بہ متن گلستاں، اور شرح نسخہ بدلہا، جس میں متن گلستان ص ۴۹ سے ۱۹۱ تک ہے۔
متن گلستاں سے پہلے ’’استاد سخن‘‘ کے عنوان سے ایک مفصل بحث ہے جو گلستاں کے ایک تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ پر مشتمل ہے۔ یہ بحث بہت ہی کارآمد ہے۔ اس میں گلستاں کے امتیازات نمایاں کرنے کے علاوہ گلستاں کے مطالعہ کے وقت ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کے جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’’استاد سخن‘‘ میں محقق نے پہلے گلستاں کی اس نمایاں ترین خصوصیت پر روشنی ڈالی ہے کہ یہ زندگی کے بیش بہا تجربات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے گہرے اور عمیق مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا مصنف ایک مرد جہاں دیدہ، پختہ کار اور سوجھ بوجھ کا حامل ہے، جو زندگی کے بے شمار نشیب وفراز سے گزرا ہے، جس نے شہر شعر وعشق شیراز اور اس زمانے کے متمدن شہروں کا قریب سے مطالعہ کیا ہے، جسے علماء ومشائخ اور ملوک وامرا سے لے کر عوام الناس تک کے ہر طبقہ سے قریبی اور طویل صحبت واختلاط کے مواقع حاصل رہے ہیں۔ اس دنیا میں اور لوگوں کو بھی یہی خصوصیات حاصل رہی ہیں لیکن شیخ سعدی جیسی چشم بینا، ذہن روشن، نگاہ باریک بیں، اہلیت مردم شناسی اور قوت ادراک واستفادہ بہت کم لوگوں کو میسر ہوا ہے۔ فاضل محقق نے گلستاں کی اس خصوصیت کو مزید واضح کرنے کے لیے اندرون کتاب سے بعض مثالیں پیش کی ہیں اور قدرے تفصیل سے اس خصوصیت کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے۔
گلستاں کی خصوصیات اور امتیازات پر ایک طویل گفتگو کے بعد محقق نے گلستاں پر کیے جانے والے بعض اعتراضات کا جائزہ لیا ہے۔ ایک عام اعتراض یہ ہے کہ اس کتاب کی ترتیب میں شیخ کے پیش نظر کوئی مرکزی فکر (System) نہیں جو گلستاں کے مختلف ابواب کے لیے جامع عنوان کی حیثیت رکھتی ہو، بلکہ یہ کتاب ایک کشکول کی طرح معلوم ہوتی ہے جس میں شیخ نے اپنی سیاحت کے تیس سالہ متفرق ومتنوع تجربات قلم بند کیے ہیں۔ ڈاکٹر یوسفی نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ اجتماعی اور سیاسی اخلاقیات کے سلسلے میں شیخ نے بوستاں میں منظم اصول پیش کیے ہیں اور گلستاں میں آقای دکتر زریں کوب کے الفاظ میں انسان اور انسانی دنیا کی تصویر کشی ان تمام محاسن ومعایب اور مطابقات وتناقضات کے ساتھ کی گئی ہے جو خود انسان اور انسانی دنیا میں موجود ہیں۔ اس میں انسانی زندگی کو اس طرح پیش کیا گیا ہے جس طرح یہ بذات خود ہے نہ کہ جس طرح اسے ہونا چاہیے اور خود دنیا، انسان کی طرح تناقض وشگفتگی کے مختلف مظاہر سے خالی نہیں۔
لوگوں نے عام طور سے گلستاں کی ان حکایتوں کو شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھا ہے جن میں شیخ سعدی خود جزو داستان کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔ فاضل محقق کے خیال میں ان تمام داستانوں میں شیخ کی موجودگی واقعہ کے مطابق نہیں ہے اور بڑی حد تک اس میں افسانہ کا رنگ شامل ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان قصوں کو اس بات کی دلیل میں نہیں پیش کیا جا سکتا کہ ان تمام واقعات میں شیخ سعدی کی اسی طرح شرکت رہی ہے جس طرح انہوں نے بیان کی ہے اور نہ گلستاں کی حکایات یہ ثبوت فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں کہ شیخ نے ان جگہوں کا سفر بھی کیا ہے جہاں وہ کہانی کا کوئی نہ کوئی کردار پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شیخ نے یہ طرز اس لیے اختیار کیا ہے کہ اس سے قصص وحکایات کی اثر اندازی بڑھ جاتی ہے۔ فاضل محقق کے اس موقف سے علامہ شبلی نعمانی کے اس دعویٰ کی تائید ہوتی ہے کہ ’بوستاں‘ میں شیخ کے سفرہندوستان کا قصہ محض رنگ آمیزی داستاں ہے۔
اس کے بعد ڈاکٹر یوسفی لکھتے ہیں کہ شیخ سعدی کی مقبولیت اور فارسی زبان میں ان کے اثرات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے چار سو سے زیادہ اشعار اور جملے فارسی زبان میں مثل کا مقام پیدا کیے ہوئے ہیں اور عام اجتماعی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ صدیاں گزر گئیں اور سعدی کی گلستاں اب تک اسی طرح مقبول ہے۔ نثر فارسی پر سعدی کا ایک عظیم احسان یہ ہے کہ انہوں نے اسے تکلف وتصنع کے چنگل سے نجات دے کر فطری طرز اور معتدل اسلوب عطا کیا۔ مصحح نے کتنی سچی بات کہی ہے کہ اگر گلستاں میں سے عمدہ قطعات منتخب کر کے بطور مثال پیش کیے جائیں تو شاید کتاب کا اکثر حصہ نقل کرنا پڑے۔ گلستاں میں قرآنی آیات، احادیث اور عربی اشعار وامثال اس طرح برمحل اور سیاق کلام کے ساتھ مربوط ہیں کہ ان سے کوئی ثقالت نہیں پیدا ہوتی بلکہ اس سے سخن کی اثر انگیزی اور سلاست میں اور اضافہ ہو گیا ہے اور زبان مزید شیریں وپر معنی ہو گئی ہے۔
فاضل محقق نے گلستاں کی معجزانہ سہل نگاری، ماہرانہ منظر کشی اور دقیق تصویر کشی کی خصوصیات پر جدا جدا مفصل گفتگو کی ہے۔
اس قیمتی بحث وگفتگو کے بعد گلستاں کا پورا متن ہے جو ضروری باریک بینی، مکمل تصحیح اور سترہ مخطوطہ نسخوں اور معتبر مطبوعہ نسخوں، شرحوں اور ترجموں سے استفادہ کے بعد پیش کیا گیا ہے۔ نسخوں کے اختلافات آخر کتاب میں صفحہ اور سطر کے حوالے سے بیان کیے گئے ہیں۔ موجودہ متن لارڈ گرینوی کے مخطوطہ نسخہ پر مبنی ہے۔ یہ نسخہ عبد الصمد بن محمد بن محمد بن خلیفہ بن عبد السلام بیضاوی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اور کتابت کی تاریخ ماہ صفر ۷۲۰ھ ہے۔ متن میں قوسین کے درمیان دوسرے نسخوں کے ان ضروری اضافوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جن سے جملوں کی وضاحت یا کوئی مزید فائدہ حاصل ہو سکتا تھا۔
پورا متن بہت واضح ہے۔ ہر حکایت الگ الگ ہے۔ اشعار نمایاں طریقہ سے لکھے گئے ہیں۔ یہ متن ہندوستانی نسخوں کی طرح بین السطور حواشی اور تشریحی نوٹ سے پاک ہے۔ فاضل محقق نے متن کے بعد توضیحات کے عنوان سے شرح پیش کی ہے اور اس کے بعد نسخوں کے اختلافات دکھائے ہیں۔ متن کے اندر نہ کوئی تشریحی نوٹ ہے اور نہ کوئی توضیحی کلمہ۔ عربی عبارتوں پر پوری حرکات دی ہیں اور ساتھ ہی مختلف فارسی الفاظ کے تلفظ کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
مکمل متن کے بعد توضیحات ہیں جن میں عربی عبارتوں کی تشریح کے ساتھ بہت سے فارسی کلمات اور تعبیرات کی مکمل تحقیق پیش کی گئی ہے۔ اشخاص اور مقامات کی تشریح کے علاوہ جگہ جگہ قیمتی اور مفصل بحثیں ہیں۔ متقدمین کے اشعار اور جملے بطور تائید پیش کیے گئے ہیں اور کہیں کہیں شیخ سعدی کے مآخذ متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان توضیحات میں سراج الدین علی خان آرزو کی خیابان گلستاں، دہلی ۱۲۶۷ھ اور محمد حسین برہان تبریزی کی ’’برہان قاطع‘‘ سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی ’’برہان قاطع‘‘ ہے جس پر مرزا غالب سخت ناراض تھے اور جس کی تردید میں ’’قاطع برہان‘‘ تحریر کی گئی اور پھر سرزمین ہند میں اچھی خاصی معرکہ آرائی شروع ہو گئی۔ ذیل میں توضیحات کے بعض نمونے دیے جا رہے ہیں:
’’ذکر جمیل سعدی کہ در افواہ عام افتادہ است وصیت سخنش کہ در بسیط (زمین) منتشر گشتہ وقصب الجیب حدیثش کہ ہمچوں شکر می خورند‘‘ (ص ۱۵)میں ’’قصب الجیب‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کلمہ کے ضبط اور مفہوم میں طویل بحثیں کی گئی ہیں۔ پھر تفصیل سے ان بحثوں کو نقل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس موضوع پر دو فاضل ایرانیوں نے ’’قصب الجیب‘‘ کے عنوان سے مستقل مضامین بھی لکھے ہیں جن کا حوالہ فاضل محقق نے یہاں دیا ہے۔
’’حکمت محض است اگر لطف جہاں آفریں خاص کند بندہ ای مصلحت عام را‘‘ (ص ۵۵) میں لفظ ’’اگر‘‘ کے مفہوم پر طویل گفتگو کی ہے۔ بعض لوگوں نے گلستاں اور بوستاں میں اس طرح سے ’’اگر‘‘ کے استعمال پر مستقل بحثیں لکھی ہیں۔ ان بحثوں میں ایک رائے یہ بھی پیش کی گئی ہے کہ اس طرح کے مواقع پر ’’اگر‘‘ ایجاب وتاکید کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔
’’خورشید در سیاہی شد یونس اندر دہان ماہی شد‘‘ (ص ۶۱) میں دوسرے مصرعہ کی تشریح میں شارحین کے اختلاف پر روشنی ڈالی ہے۔ اس موضوع پر بھی ایک صاحب نے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے۔
’’با بداں یار گشت ہمسر لوط خاندان نبوتش گم شد‘‘ (ص ۶۲) ہندوستانی نسخوں میں پہلا مصرعہ اس طرح ہے: ’’پسر نوح با بداں بنشست‘‘ دونوں نسخوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔ فاضل محقق نے پہلی روایت کو ترجیح دیتے ہوئے کہا ہے: ’’اما علاوہ برآں کہ متن چاپ حاضر مطابق ضبط نسخہ ہائی معتبر ست، مضمون مصراع دوم با سرگزشت ہمسر لوط بیشتر تناسب دارد‘‘ یہ بات واضح نہیں ہے کہ کس بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ دوسرے مصرعہ کا مفہوم لوط علیہ السلام کے اہل خانہ کی سرگزشت سے زیادہ مطابق ہے۔
’’سرہنگ زادہ ای بر در سرای اغلیمش دیدم کہ عقل وکیاستے‘‘ (ص ۶۳) میں اغلیمش کی تعیین کی کوشش کی ہے جس کا عہد سعدی کے ہوش سنبھالنے سے پہلے کا ہے۔ اس پر اعتراض پیدا کر کے یہ جواب دیا گیا ہے کہ ضروری نہیں کہ سعدی نے اغلیمش کی زندگی ہی میں اس قصر کی زیارت کی ہو۔
گلستاں کے اندر بعض تاریخی گرفتیں کی گئی ہیں۔ میرے خیال میں گلستاں جیسی کتابوں پر مورخانہ نگاہ ڈالنا بد ذوقی ہے۔ ذیل میں ایک مثال دی جا رہی ہے جس میں ناقدین نے سعدی کی تاریخی فرو گزاشت پر گفتگو کی ہے:
’’ہارون الرشید را چوں ملک مصر مسلم شد گفت: بخلاف آں طاغی کہ بہ غرور ملک مصر دعوی خدائی کرد نبخشم ایں ملک را مگر بہ خسیس ترین کسے از بندگان سیاہے داشت خصیب نام، ملک مصر بہ وی ارزانی داشت‘‘ (ص ۸۴) ابن بطوطہ نے بھی یہی لکھا ہے کہ خصیب ایک سیاہ غلام تھا لیکن مورخین کے نزدیک خصیب ایرانی نژاد ہے نہ کہ حبشی۔ فاضل محقق نے شیخ سعدی اور ابن بطوطہ دونوں کی غلطی کی نشان دہی کی ہے۔
’’چندانکہ مرا شیخ اجل ابو الفرج ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ بہ ترک سماع فرمودے‘‘ (ص ۹۴) گلستاں کے تمام شارحین نے اس پر بحث کی ہے کہ ابن جوزی سے کون ابن جوزی مراد ہیں۔ عام رجحان یہ ہے کہ اس سے مراد ابن جزی دوم متوفی ۶۵۶ھ ہیں نہ کہ امام ابن جوزی جن کا سال وفات ۵۹۷ھ ہے۔ فاضل محقق نے آقای محمد محیط طباطبائی کے حوالہ سے یہ تحقیق پیش کی ہے کہ اس سے مراد شیرازی الاصل شیخ الناصح ابو الفرج عبد الرحمن بن نجم الدین عبد الوہاب بن شیخ ابو الفرج الجوزی ہیں۔
یہاں اس بات کی طرف اشارہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ توضیحات مذہبی تعصب سے پاک ہیں۔ اس میں ضرورت کے موقعوں پر ائمہ اسلام کی رایوں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ مثلاً ’’الفقر فخری‘‘ (ص ۱۶۳) کی تشریح میں لکھتے ہیں: ’’در سفینۃ البحار، طبع نجف، ۲/۳۷۸، جزء حدیث نبوی ذکر شدہ، ومولف اللولو المرصوع (ص ۵۵) بہ نقل از ابن تیمیہ آں را از احادیث موضوع شمردہ است‘‘ (ص ۴۹۷، ۴۹۸)
صحابہ کرامؓ کی حرمت بھی ملحوظ ہے مثلاً ذو الفقار علی (ص ۵۳) کی تشریح کرتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے: ’’علی بن ابی طالب (ع) امام اول شیعیان وخلیفہ چہارم از خلفاے راشدین کہ دورہ خلافتش از ۳۵ تا ۴۰ بودہ است‘‘۔ یہاں فاضل محقق نے خلفائے ثلاثہ کے لیے راشدین کا لفظ استعمال کیا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ص کے بارے میں لکھا ہے: ’’کنیہ یکے از اصحاب پیغمبر (ص) کہ بہ سال ۵۷، ۵۸ یا ۵۹ھ در گزشت ..... ابو ہریرہ ہمیشہ در خدمت پیغمبر بود، ونیز چوں حافظہ ای قوی داشت حدیث ہاے بسیار ازو روایت کردہ اند‘‘ (ص ۳۵۵)
اس کے بعد نسخوں کے اختلافات ’’شرح نسخہ بدلہا‘‘ کے عنوان سے پیش کیے ہیں۔ محقق نے گلستاں کی تصحیح میں سترہ مخطوطہ نسخوں سے استفادہ کیا ہے۔ مقدمہ میں ہر نسخہ کی تفصیل بیان کی ہے۔ اس کے علاوہ مطبوعہ نسخوں سے بھی استفادہ کیا ہے۔ ان مطبوعہ نسخوں میں سے ایک کلکتہ سے شائع شدہ سنہ ۱۸۲۵ء کا نسخہ ہے جو مطبوعہ نسخوں میں سب سے قدیم ہے۔ جس نسخہ پر متن میں اعتماد کیا گیا ہے، وہ ہمارے یہاں ہندوستان کے مطبوعہ نسخوں سے قدرے مختلف ہے۔ فاضل محقق نے نسخوں کے سارے اختلافات مفصل بیان کیے ہیں۔ ذیل میں بعض ایسی مثالیں پیش کی جا رہی ہیں جہاں ہندوستانی نسخوں سے اختلاف ہے:
’’گلے خوشبوی در حمام روزے  ۔رسید از دوست مخدومی بدستم‘‘(ص ۵۱)
ہندوستانی اور بعض دوسرے نسخوں میں ’’مخدومی‘‘ کے بجائے ’’محبوبے‘‘ ہے۔
’’کمال ہمشیں در من اثر کرد‘‘ (ص ۵۱)
ہندوستانی نسخوں میں ’’جمال ہمنشیں‘‘ ہے۔
’’سرچشمہ شاید گرفتن بہ بیل‘‘ (ص ۶۱)
ہمارے یہاں کے نسخوں میں بیل کے بجائے ’’میل‘‘ ہے۔
اس کے بعد لغات وتراکیب کی فہرست ہے جس میں حروف تہجی کے لحاظ سے ان سارے الفاظ وتراکیب کو جمع کیا ہے جن کی تشریح توضیحات میں پیش کی ہے۔
آخر میں قرآن کریم کی آیات، احادیث شریفہ، عربی اشعار اور جملوں کے آغاز، آغاز اشعار فارسی، امثال وحکم، اعلام اور مراجع کے الگ الگ انڈکس دیے گئے ہیں۔
آخر میں اپنے اس تاثر کا اعادہ کرتا ہوں کہ یہ گلستاں کا جدید ترین اور مکمل ترین ایڈیشن ہے اور مطالعہ سعدی کے میدان میں ایک بیش بہا اضافہ۔

شیفیلڈ (برطانیہ) میں جامعہ الہدیٰ کی افتتاحی تقریب

ادارہ

۱۷ اکتوبر ۲۰۰۲ء کو برطانیہ کے شہر شیفیلڈ میں جامعۃ الہدیٰ کی افتتاحی تقریب تھی۔ مدنی ٹرسٹ نوٹنگھم کے زیر اہتمام جامعۃ الہدیٰ کے نام سے ایک معیاری تعلیمی ادارہ ۱۹۹۶ء سے کام کر رہا ہے۔ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی قدس اللہ سرہ العزیز کی تشریف آوری پر ان کی دعا کے ساتھ اس ادارہ کا آغاز ہوا تھا۔ مولانا رضاء الحق سیاکھوی اور ان کے رفقا دل جمعی کے ساتھ اس کا نظام چلا رہے ہیں۔
جامعۃ الہدیٰ نوٹنگھم میں بچیوں کی دینی تعلیم کا اہتمام ہے اور انہیں سکول کی مکمل تعلیم کے ساتھ ساتھ عربی زبان، قرآن وحدیث، فقہ اسلامی اور دیگر ضروری دینی علوم پڑھائے جاتے ہیں۔ اس وقت ڈیڑھ سو کے لگ بھگ طالبات ہاسٹل میں ہیں جو مختلف درجات میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور اس کام یاب تجربہ کے بعد نوٹنگھم سے کم وبیش تیس میل کے فاصلے پر دوسرے شہر شیفیلڈ میں ایک پرانے سکول کی عمارت خرید کر اسی طرز پر طلبہ کے لیے تعلیمی ادارہ قائم کیا گیا ہے جس کی پہلی کلاس کا آغاز ۱۷۔ اکتوبر کو ہوا۔ پاکستان کے معروف عالم دین اور سپریم کورٹ کے شریعٹ اپیلٹ بنچ کے سابق رکن جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی مہمان خصوصی تھے۔
تقریب میں برطانیہ کے مختلف شہروں سے ممتاز علماء کرام شریک ہوئے جن میں مولانا محمد عیسیٰ منصوری، مولانا محمد یعقوب قاسمی، مولانا عبد الرشید ربانی، مولانا قاری تصور الحق، مولانا قاری محمد عمران خان جہانگیری، مولانا عبید الرحمن، حاجی بوستان خان، مولانا مفتی محمد اسلم، مولانا قاری محمد اسماعیل رشیدی، مولانا محمد قاسم، مولانا اکرام الحق خیری، مولانا امداد الحسن نعمانی، مولانا محمد اشرف قریشی، مولانا عبد القدیر شہاب اور مولانا قاری سید ابرار حسین شاہ بطور خاص قابل ذکر ہیں جبکہ مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار کے لگ بھگ حضرات نے شرکت کی۔ تبلیغی جماعت کے بزرگ راہ نما مولانا حافظ محمد شریف نے تقریب کی صدارت کی۔ مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہ نے اپنے مفصل خطاب میں دینی تعلیم کی اہمیت اور مدارس دینیہ کے معاشرتی کردار پر روشنی ڈالی اور دعا کے ساتھ جامعہ الہدیٰ شیفیلڈ کے تعلیمی سلسلہ کا افتتاح کیا جبکہ مولانا عبد الرشید رحمانی، حاجی بوستان خان، مولانا قاری تصور الحق اور ڈاکٹر ولایت خان نے بھی خطاب کیا۔ مدنی ٹرسٹ کے سیکرٹری اور جامعہ الہدیٰ کے پرنسپل مولانا رضاء الحق سیاکھوی نے مدنی ٹرسٹ کی تعلیمی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی اور جامعہ الہدیٰ کے تعلیمی پروگرام اور ترجیحات کی وضاحت کی۔
’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی نے، جو جامعہ الہدیٰ کی مشاورتی کونسل کے رکن ہیں ، اس موقع پر ’’جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغام‘‘ کے عنوان پر اپنی معروضات پیش کیں۔

مدیر سہ ماہی ’’مصباح الاسلام‘‘ (مٹہ خیل) کے نام مولانا زاہد الراشدی کا مکتوب

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

محترم مولانا سید عنایت اللہ شاہ ہاشمی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سہ ماہی ’’المصباح‘‘ (مصباح الاسلام) کا جون تا اگست ۲۰۰۲ء کا شمارہ موصول ہوا۔ یاد فرمائی کا تہہ دل سے شکریہ۔ مجلہ دیکھ کر خوشی اور مضامین کا تنوع دیکھ کر اطمینان ہوا کہ ہمارے دینی حلقوں میں آج کی صحافتی ضروریات اور تقاضوں کا احساس بیدار ہو رہا ہے۔ اس طرف کم وبیش ربع صدی قبل حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری قدس اللہ سرہ العزیز نے دینی مراکز کو توجہ دلائی تھی لیکن ابھی تک مطلوبہ توجہ اس مسئلہ کو حاصل نہیں ہو رہی۔ اصل ضرورت میڈیا اور صحافت کے جدید ترین اسلوب اور تکنیک کے ساتھ اسلام کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے نیز اسلام اور اہل دین کے بارے میں عالمی سطح پر پھیلائے گئے شکوک وشبہات اور غلط فہمیوں کے ازالے کی ہے جو بہرحال بڑے دینی مدارس اورمراکز ہی پوری کر سکتے ہیں تاہم اپنے داخلی حلقہ میں اس ضرورت کے احساس کو اجاگر کرنا اور باصلاحیت نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع فراہم کرنا بھی فائدہ سے خالی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے انہی میں سے کوئی باصلاحیت نوجوان آگے بڑھنے کا ذوق رکھتا ہو اور اپنی محنت اور تگ ودو سے پیش رفت کا کوئی راستہ نکال لے۔
طالبان حکومت کے بارے میں بحث کے حوالے سے مجھے اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں ہے کہ ان کی پالیسیوں پر بحث نہیں ہونی چاہیے اور ان کی کوتاہیوں کو سامنے نہیں آنا چاہیے۔ ان کے اخلاص، ایثار، قربانی، للہیت اور صدق وصفا میں کوئی شبہ نہیں لیکن اس کامطلب معصوم ہونا نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ خود احد اور حنین کے حوالے سے صحابہ کرام جیسی پاک باز ہستیوں کی بشری غلطیوں کو قرآن کریم میں اجاگر کر سکتے ہیں تو ہمیں اس میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ پوری سنجیدگی اور گہرائی کے ساتھ اس امر کا جائزہ لیں کہ کہاں کہاں غلطی ہوئی ہے اور ماضی کی غلطیوں کے ازالہ کے لیے مستقبل میں کیا طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ میرے نزدیک اس صورت حال پر مباحثہ کی ضرورت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے لیے ابھی شاید وقت موزوں نہ ہو لیکن جلد یا بدیر ہمیں اس مرحلہ سے گزرنا ہوگا ورنہ مستقبل کی صحیح منصوبہ بندی میں ہم کام یاب نہیں ہو پائیں گے۔
زبان کی اصلاح کی طرف بطور خاص توجہ دیں اور اگر اردو ادب کے کوئی سنیئر پروفیسر یا دینی ذہن رکھنے والے کہنہ مشق صحافی دست یاب ہوں تو ان کی خدمات سے ضرور فائدہ اٹھائیں۔
ان گزارشات کے ساتھ ’’المصباح‘‘ (مصباح الاسلام) کے اجرا پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔