2002

جنوری ۲۰۰۲ء

جہادی تحریکات اور ان کا مستقبلمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مغربی طاقتیں اور پاکستان کی سلامتیپروفیسر میاں انعام الرحمن
ملتِ اسلامیہ اور موجودہ عالمی صورتِ حالادارہ
امریکی صدر ٹرومین اور سعودی فرماں روا شاہ عبد العزیز کی تاریخی خط وکتابتادارہ
جنوبی ایشیا کے حوالے سے یہودی منصوبہ بندیاسرار عالم
اسلامی تحریکیں اور مغربی بلاکپروفیسر میاں انعام الرحمن
عصرِ حاضر میں اسلام کی تعبیر و تشریح ۔ مولانا منصوری کے ارشادات پر ایک نظرعرفان الہی
مولانا سید مظفر حسین ندویؒپروفیسر محمد یعقوب شاہق
سیدنا عمرؓ اور قتلِ منافق کا واقعہ ۔ مولانا حافظ مہر محمدکا مکتوبِ گرامیادارہ
حکومت اور دینی مدارس ۔ دینی مدارس کے بارے میں ایک سرکاری رپورٹادارہ

جہادی تحریکات اور ان کا مستقبل

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(لاہور کے ایک دینی حلقے کی طرف سے ’’الشریعہ‘‘ کے رئیس التحریر کو چند سوالات موصول ہوئے جن کے جوابات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ ادارہ)

 

سوال :۱۱ ستمبر کے حملے کے بعد جو حالات پیش آئے ہیں، ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ 

جواب : ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن میں پنٹاگون کی عمارت سے جہاز ٹکرانے کے جو واقعات ہوئے ہیں، ان کے بارے میں حتمی طور پرکچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کس نے کیے ہیں اور خود مغربی ایجنسیاں بھی اس سلسلے میں مختلف امکانات کا اظہار کر رہی ہیں لیکن چونکہ امریکہ ایک عرصہ سے معروف عرب مجاہد اسامہ بن لادن اور عالم اسلام کی مسلح جہادی تحریکات کے خلاف کارروائی کا پروگرام بنا رہا تھا اور خود اسامہ بن لادن کی تنظیم ’’القاعدہ‘‘ کی طرف سے امریکی مراکز اور تنصیبات کو نشانہ بنانے کے اعلانات بھی موجود تھے اس لیے امریکہ نے ان حملوں کا ملزم اسامہ بن لادن کو ٹھہرانے اور افغانستان کی طالبان حکومت سے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کا فوری مطالبہ کر دیا اور اقوام متحدہ اور ورلڈ میڈیا کے ذریعے سے وہ دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش میں لگ گیا کہ ان حملوں کی ذمہ داری اسامہ بن لادن پر ہی عائد ہوتی ہے۔ 

جہاں تک ان حملوں کا تعلق ہے، دنیا کے ہر باشعور شخص نے ان کی مذمت کی اور ان میں ضائع ہونے والی ہزاروں بے گناہ جانونں کے نقصان پر افسوس اور ہم دردی کا اظہار کیا ہے لیکن امریکہ نے ا س پر جس رد عمل کا اظہار کیا اور اس رد عمل پر اپنے آئندہ اقدامات کی بنیاد رکھی، اس کے بارے میں واضح تاثر یہ تھا کہ اس رد عمل کی بنیاد حوصلہ وتدبر پر نہیں بلکہ غصے اور انتقام پر ہے اور عام طور پر یہ محسوس ہونے لگا کہ امریکہ بہر صورت فوری انتقامی کارروائی کرنے اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ’’جہادی تحریکات‘‘ کو کچل دینے پر تل گیا ہے اور اس کے بعد ہونے والے مسلسل اقدامات نے اس عمومی تاثر واحساس کی تصدیق کر دی ہے۔

جہاں تک الشیخ اسامہ بن لادن اور افغانستان کی طالبان حکومت کے موقف کا تعلق ہے، ان کے طریقہ کار اور ترجیحات سے اختلاف کی گنجائش کے باوجود اصولی طور پر ان کا موقف درست تھا اور امریکہ کا موقف اس کے مقابلے میں کمزور اور بے وزن تھا اسی لیے امریکہ نے کارروائی میں عجلت سے کام لیا تاکہ ۱۱ ستمبر کے واقعات کے نتیجے میں اسے عالمی سطح پر جو ہم دردی حاصل ہوئی ہے، ا س کے ٹھنڈا پڑ جانے سے قبل وہ سب کچھ کر دیا جائے جس کے لیے امریکی دماغ اور ادارے کئی سال سے منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اسامہ بن لادن روس کے خلاف ’’جہاد افغانستان‘‘ میں عملاً شریک تھے اور امریکہ بھی اس جہاد کا سب سے بڑا سپورٹر تھا اسی لیے اس دور میں مغربی ذرائع ابلاغ اور خود امریکی ادارے انہیں ایک ’’عظیم مجاہد‘‘ کے طور پر پیش کرتے رہے اور جہاد افغانستان کے خاتمے کے بعد اسامہ بن لادن ایک ہیرو کے طو رپر اپنے وطن واپس جا چکے تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ خود ان کے اپنے ملک سعودی عرب اور اس کے ساتھ پورے عرب خطے کو امریکہ کے ہاتھوں وہی صورت حال درپیش ہے جو جہاد افغانستان سے قبل افغانستان کو روس کے ہاتھوں درپیش تھی تو ان کے لیے اس صورتِ حال کو قبول کرنا ممکن نہ رہا۔ انہوں نے دیکھا کہ خلیج عرب میں امریکی فوجیں مسلسل بیٹھی ہیں جس کی وجہ سے عرب ممالک کی آزادی اور خود مختاری ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔ عرب ممالک کی دولت اور تیل کا بے دردی کے ساتھ استحصال کیا جا رہا ہے، عرب عوام کو انسانی، شہری اور شرعی حقوق حاصل نہیں ہے اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا کوئی موقع بھی میسر نہیں ہے جبکہ فلسطین کے خلاف اسرائیل کی جارحیت اور تشدد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور فلسطینی عوام پر ان کی اپنی زمین تنگ کر دی گئی ہے تو انہوں نے صدائے احتجاج بلند کی اور مطالبہ کیا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجیں خلیج عرب سے نکل جائیں لیکن چونکہ ان کے ملک میں اس قسم کی بات کہنے اور کوئی سیاسی مہم چلانے کی کوئی گنجائش نہیں تھی اس لیے انہیں مجبوراً اس رخ پر آنا پڑا کہ وہ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کریں اور خلیج عرب سے امریکی فوجوں کی واپسی کے لیے اسی قسم کی جدوجہد منظم کریں جس طرح کی جدوجہد کا تجربہ افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی کے لیے اس سے قبل ہو چکا تھا اور وہ خود اس میں شریک رہے تھے۔

اسامہ بن لادن کے طریق کار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس بات سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ان کا موقف اور مطالبہ اصولی طور پر درست تھا اور اس بات سے اختلاف کرنا بھی ممکن نہیں ہے کہ سعودی عرب اور خلیج عرب کے دیگر ممالک میں سیاسی جدوجہد کے راستے مکمل طور پر مسدود ہونے کی وجہ سے اسامہ بن لادن اور ان کے رفقا کے لیے اپنے جذبات اور موقف کے اظہار کے لیے صرف ایک راستہ باقی رہ گیا تھا جسے تشدد کا راستہ کہا جاتا ہے اور جس پر اسامہ بن لادن کو مطعون کیا جاتا ہے لیکن طعن وتشنیع کرنے والے اس معروضی تناظر سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں کہ ان حالات میں ان کے لیے اس کے سوا کوئی اور راستہ اختیار کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔

اسامہ بن لادن کا خیال تھا کہ وہ جہاد افغانستان میں ٹریننگ لینے والے دنیا بھر کے مجاہدین کو ایک نظم اور پروگرام میں منسلک کریں گے اور اس طرح ایک ایسا مزاحمتی گروپ وجود میں آجائے گا جو عالم اسلام کے مختلف حصوں میں ہونے والے جبر وتشدد کے خلاف ’’پریشر گروپ‘‘ کا کام کرے گا اور شاید وہ اس کے ذریعے سے اسرائیلی جارحیت کے سامنے کوئی رکاوٹ کھڑی کرنے اور خلیج عرب میں امریکی فوجوں کے خلاف اس حد تک دباؤ منظم کرنے میں کام یاب ہو جائیں جو امریکہ کو خلیج عرب میں اپنی فوجوں کی موجودگی کے تسلسل پر نظر ثانی کے لیے مجبور کر سکے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے سوڈان کو اپنی سرگرمیوں کامرکز بنایا لیکن امریکی دباؤ کی وجہ سے سوڈان کی حکومت کے لیے اسامہ بن لادن کا وجود برداشت کرنا ممکن نہ رہا چنانچہ وہ سوڈان چھوڑ کر افغانستان آ گئے جہاں طالبان کی حکومت قائم ہو چکی تھی اور وہ ایک نظریاتی اسلامی ریاست کے قیام اور امریکہ کے تسلط سے عالم اسلام بالخصوص خلیج عرب کی آزادی کے حوالے سے اسامہ بن لادن کے موقف سے متفق تھی۔ ان کے ساتھ وہ ہزاروں عرب مجاہد بھی افغانستان آ گئے جو جہاد افغانستان میں شریک تھے اور اسلامی جذبات سے سرشار ہونے کی وجہ سے اپنے اپنے ملکوں میں واپس جانے کی صورت میں حکومتوں کی طرف سے انتقامی کارروائیوں اور ریاستی جبر کا نشانہ بننے کے خطرات سے دوچار تھے۔

طالبان حکومت نے نہ صرف انہیں پناہ دی بلکہ موقف اور جذبات کی ہم آہنگی اور دینی حمیت میں شراکت کی وجہ سے دونوں میں ایسے تعلقات کار بھی قائم ہو گئے کہ انہیں ایک ہی منزل کے مسافر سمجھا جانے لگا۔ اس کے باوجود طالبان حکومت نے ۱۱ ستمبر کے واقعات کے بعد یک طرفہ موقف اختیار نہیں کیا بلکہ ان واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر ثبوت فراہم کر دیے جائیں تو وہ اسامہ بن لادن کو حوالے کر دینے کے مطالبے پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں یا کسی ایسے بین الاقوامی فورم کے حوالے بھی کر سکتے ہیں جو غیر جانب دار ہو مگر امریکہ نے رعونت اور ہٹ دھرمی کے ساتھ ان کے اس جائز موقف کو مسترد کر دیا اور اپنے الزامات کو ہی قطعی ثبوت قرار دیتے ہوئے افغانستان پر حملہ کا اعلان کر دیا جس کے ذریعے سے امریکہ نے وہ دونوں مقاصد حاصل کر لیے جو اس نے پہلے سے طے کر رکھے تھے اور ۱۱ ستمبر کے واقعات ان کے لیے محض بہانہ ثابت ہوئے۔

سوال : افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت کا خاتمہ ہوا ہے۔ اسے آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

جواب : طالبان حکومت قائم ہوتے ہی مجھے یہ خدشہ محسوس ہونے لگا تھا اور میں نے کئی مضامین میں اس کا اظہار بھی کیا کہ اس حکومت کو برداشت کرنا نہ صرف یہ کہ امریکہ کے لیے ممکن نہیں ہے بلکہ وہ مسلمان حکومتیں بھی اسے اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہیں جو اپنے ملکوں میں اسلامی نظام کے نفاذ کی تحریکات کا سامنا کر رہی ہیں کیونکہ طالبان حکومت کی کامیابی کا واضح مطلب یہ ہوتا کہ مسلمان ملکوں میں اسلامی نظام کے نفاذ کی تحریکات کو تقویت حاصل ہوتی اور ایک کام یاب حکومت کی صورت میں عملی آئیڈیل بھی مل جاتا۔ اس لیے امریکہ اور کفر کی دیگر طاقتوں کے ساتھ ان مسلم حکومتوں کا اتحاد ایک فطری بات تھی اور ان سب نے مل کر ایک ایسی حکومت کو ختم کر دیا ہے جو اپنی کام یابی کی صورت میں دونوں کے لیے خطرہ بن سکتی تھی۔ خطرہ اس معنی میں نہیں کہ وہ کوئی بہت بڑی قوت ہوتی بلکہ اس معنی میں کہ موجودہ عالمی سسٹم سے ہٹ کر اور اس سے بغاوت کر کے ایک الگ نظریہ اور فلسفہ کے تحت بننے والی کسی حکومت کی کام یابی سے ان تمام قوتوں اور عناصر کو بغاوت کا راستہ مل جاتا جو موجودہ عالمی سسٹم سے مطمئن نہیں ہیں اور ا س سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ اسی لیے اسے بہت بڑ اخطرہ سمجھا گیا اور اسے ختم کرنے پر دنیا کی سب حکومتیں اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود متفق ہو گئیں۔

امریکہ اور اس کی زیر قیادت عالمی استعمار کو عالم اسلام سے کوئی فوجی، سیاسی یا معاشی خطرہ نہیں ہے اور نہ مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان ہی ہے بلکہ فوجی، سیاسی اور معاشی طور پر پور اعالم اسلام امریکہ کے شکنجے میں پوری طرح جکڑا ہوا ہے مگر مغربی تہذیب وثقافت اور فلسفہ ونظام کے مقابلے میں اگر کسی فلسفہ ونظام اور تہذیب وثقافت میں کھڑا ہونے کی قوت وصلاحیت موجود ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادی اسلامی تحریکات کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہیں اور بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اس فلسفہ ونظام اور تہذیب وثقافت کو اگر دنیا کے کسی خطے میں ایک ریاستی سسٹم کے طور پر قدم جمانے کا موقع مل گیا تو وہ موجودہ عالمی نظام اور مغربی فلسفہ وثقافت کے لیے حقیقی خطرہ بن سکتا ہے اسی وجہ سے موجودہ عالمی سسٹم کے ارباب حل وعقد نے قطعی طور پر یہ بات طے کر رکھی ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں کوئی ایسی مسلمان حکومت وجود میں نہ آنے پائے جو موجودہ عالمی سسٹم اور بین الاقوامی نیٹ ورک سے ہٹ کر ہو یا دوسرے لفظوں میں اقوام متحدہ کی بالادستی قبول کرنے کے بجائے وہ اپنا کوئی الگ ایجنڈا رکھتی ہو۔ افغانستان میں طالبان کی اسلامی نظریاتی حکومت کو تسلیم نہ کرنے اور اب اسے فوجی طاقت کے زور پر ختم کر دینے کا بھی یہی پس منظر ہے البتہ طالبان حکومت کے خاتمے پر انتہائی افسوس اور صدمہ کے باوجود کسی حد تک یہ بات اطمینان بخش ہے کہ طالبان حکومت کا خاتمہ فلسفہ ونظام اور تہذیب وثقافت میں مغرب کی بالادستی کے حوالے سے نہیں ہوا بلکہ محض مادی طاقت، جبر وتشدد اور عسکری قوت کے زور پر اسے ہٹایا گیا ہے۔ فکر وفلسفہ اور نظام وثقافت اگر زندہ ہوں تو عسکری ناکامیاں زیادہ دیر تک ان کا راستہ نہیں روک سکتیں اور وہ کسی نہ کسی طرح سے اپنے اظہاراور پیش قدمی کے راستے نکال لیا کرتے ہیں۔

سوال :مستقبل میں افغانستان کی صورت حال کیا ہوگی؟

جواب : میرے خیال میں امریکی اتحاد کی پشت پناہی سے قائم ہونے والی حکومت افغانستان میں امن قائم کرنے میں کام یاب نہیں ہوگی اور افغانستان کے سب قبائل کو مطمئن کرنا اس کے بس میں نہیں ہوگا۔ یہ صرف اسلام اور ایمان کی قوت تھی جس نے قبائلی تعصبات اور علاقائی امتیازات کو دبارکھا تھا۔ اس کا پردہ ہٹ جانے کے بعد اب تمام معاملات قبائل اور علاقائیت کے حوالے سے طے پائیں گے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان عصبیتوں میں اضافہ ہوگا جبکہ مغربی قوتوں کا مفاد بھی اسی میں ہوگا کہ یہ عصبیتیں بڑھیں اور اختلافات وتفرقہ کا ماحول قائم رہے تاکہ وہ اس کی آڑ میں افغانستان پر اپنا کنٹرول زیادہ دیر تک قائم رکھ سکیں اور وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کر سکیں۔

دوسری طرف طالبان تحریک نے میدان جنگ سے پسپائی اختیار کی ہے، ذہنی طور پر شکست اور دست برداری قبول نہیں کی اور ان کی افرادی قوت بڑی حد تک محفوظ ہے اس لیے وہ کچھ وقت گزرنے کے بعد دوبارہ منظم ہوں گے اور مزاحمت کا راستہ اختیار کریں گے جس کی حمایت وتعاون کرنا اس خطے کی ان تمام قوتوں کی مجبوری بن جائے گا جو امریکہ کی یہاں مستقل موجودگی کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔ وقتی لشکر کشی میں امریکی اقدامات کا ساتھ دینا اور بات ہے اور اس خطے میں امریکہ کی مستقل فوجی موجودگی کو قبول کرنا اس سے بالکل مختلف امر ہے اس لیے اس کا فائدہ ہر اس قوت کو ہوگا جو افغانستان میں امریکی اتحاد کی فوجوں کی مستقل یا زیادہ دیر تک موجودگی کے خلاف مزاحمت کا راستہ اختیار کرے گی۔ میرا اندازہ ہے کہ طالبان کی یہ مزاحمتی تحریک دوبارہ منظم ہونے میں ایک سال اور اپنے ہدف تک پہنچنے میں پانچ چھ سال کا عرصہ لے سکتی ہے اور افغان قوم کے مزاج، روایات اور تاریخی تسلسل کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے اس کی کام یابی میں شک اور تردد کی کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی۔

سوال :القاعدہ اور طالبان کو نشانہ بنا کر امت مسلمہ پر جو ظلم کیا گیا ہے، اس میں اسلامی ممالک کی کیا ذمہ داری ہے؟

جواب : میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ موجودہ مسلم حکومتیں عالمی نظام اور اقوام متحدہ کے نیٹ ورک کا حصہ ہیں، وہ ا س سے بغاوت اور انحراف کا سوچ بھی نہیں سکتیں اس لیے ان سے کسی ذمہ داری کی ادائیگی بلکہ کسی بھی درجے میں کسی خیر کی توقع کرنا ہی فضول ہے۔ اسلامی تحریکات کو مسلم عوام سے اپنا رشتہ استوار کرنا ہوگا اور انہی کے اعتماد اور تعاون سے اپنے کام کو آگے بڑھانا ہوگا۔ اس کے سوا ان کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے۔

سوال :مستقبل میں مجاہدین کو کس طرح کا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے؟ بالخصوص اب جبکہ پاکستان میں بھی مجاہدین کے خلاف عملی کارروائی ہونے کی توقع ہے؟

جواب : میں اصولی طور پر تشدد کے حق میں نہیں ہوں اور پر امن سیاسی جدوجہد کا قائل ہوں، اسی وجہ سے جہاں سیاسی جدوجہد کے راستے کھلے ہوں، وہاں کسی قسم کی پر تشدد تحریک کو جائز نہیں سمجھتا اور پاکستان میں بھی نفاذ اسلام کی جدوجہد کے لیے تشدد اور عسکریت کا راستہ اختیار کرنا میرے نزدیک درست طرز عمل نہیں ہے البتہ جہاں عالمی جبر یا ریاستی تشدد کی فضا موجود ہو اور اس کے خلاف رائے عامہ کو منظم کرنے، اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے اور سیاسی دباؤ ڈالنے کے تمام راستے مسدود ہوں، وہاں احتجاج کرنے اورکلمہ حق بلند کرنے والوں کی طرف سے تشدد کا راستہ اختیار کرنے کو ان کی مجبوری سمجھتا ہوں اور مجبوری ہی کے درجے میں ان کی حمایت کو دینی حمیت کا تقاضا تصور کرتا ہوں۔ اسی طرح جن غیر مسلم ممالک میں مسلم اکثریت کے خطے اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، ان کی جدوجہد میرے نزدیک جہاد ہے۔ اس پس منظر میں ’’جہادی تحریکات‘‘ کے لیے یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ مل بیٹھ کر اپنی پالیسی اور طریق کار کا ازسر نو جائزہ لیں، اپنی غلطیوں کی نشان دہی کریں، ترجیحات پر نظر ثانی کریں اور اہل علم ودانش کو اعتماد میں لے کر اپنا آئندہ طرز عمل طے کریں۔

میرے نزدیک جن باتوں نے جہادی تحریکات کو نقصان پہنچایا ہے، ان میں چند اہم امور یہ ہیں:

۱۔ اصل اہداف سے ہٹ کر جذباتی نعرہ بازی مثلاً دہلی کے لال قلعہ پر جھنڈا لہرانے، پاکستان میں طالبان کی طرز پر انقلاب لانے اور مغربی ملکوں کے مراکز کو نشانہ بنانے کی باتیں جنہوں نے ان سب قوتوں کو نہ صرف چوکنا کیا بلکہ متحدبھی کر دیا۔

۲۔ ایجنسیوں کے ساتھ ضرورت سے زیادہ اختلاط اور اس اختلاط میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی درپردہ کوششیں جن کی وجہ سے پالیسی سازی اور فیصلوں کی قوت بتدریج جہادی تحریکات کی لیڈرشپ کے ہاتھوں سے نکلتی چلی گئی۔

۳۔ باہمی مشاورت، تعلقات کار اور انڈر سٹینڈنگ کے ضروری اہتمام سے گریز۔

۴۔ ملک کے داخلی معاملات بالخصوص فرقہ وارانہ امور میں شعوری یا غیر شعوری طور پر ملوث ہونا۔

۵۔ اور اہل علم ودانش سے صرف تعاون اور سرپرستی کے حصول پر قناعت کرتے ہوئے ان سے راہ نمائی اور مشاورت کی ضرورت محسوس نہ کرنا۔

یہ اور اس قسم کی دیگر کئی باتیں ہیں جنہوں نے جہادی تحریکات کو نقصان پہنچایا اور ان کے مخالف عناصر کو اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا ہے اس لیے جہادی تحریکات کو اپنی پالیسیوں اور طریق کار کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے اور اہل علم ودانش کی راہ نمائی میں لائحہ عمل اور ترجیحات کا پھر سے تعین کرنا چاہیے۔

سوال :حال ہی میں انڈین پارلیمنٹ پر فدائی حملہ ہوا ہے، اس کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

جواب : یہ حملہ جس نے بھی کیا ہے، اس نے انڈیا کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کارروائی کی راہ ہموار کرے اور امریکہ کو جہادی تحریکوں کے خلاف دباؤ بڑھانے میں اس سے سہولت حاصل ہوئی ہے۔ اس پس منظر میں مجھے یہ حملہ کسی بین الاقوامی پلان کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔

سوال :مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے مسئلے میں امریکہ کیا اب سنجیدگی سے غور کرے گا؟ میری مراد اس سے اقوام متحدہ ہے۔

جواب :فلسطین اور کشمیر دونوں جگہ امریکہ کی دل چسپی یا اقوام متحدہ کی تھوڑی بہت حرکت کا بنیادی سبب مزاحمتی تحریک اور مجاہدین کا کسی نہ کسی حد تک دباؤ ہے۔ یہ دباؤ موجود رہا تو شاید اقوام متحدہ اور امریکہ کسی درجے میں ان مسائل کے حل میں دل چسپی لیں اور اگر یہ دباؤ ختم ہو گیا یا جیسا کہ خود امریکہ کا پروگرام ہے کہ مجاہدین کے اس دباؤ کو بزور بازو ختم کر دیا جائے تو اس کے بعد حالات کے نارمل ہو جانے پر امریکہ، اقوام متحدہ یا دیگر مغربی قوتوں کے لیے کوئی درد سر باقی نہیں رہے گا کہ وہ ان مسائل کے حل میں دل چسپی لیں اور پھر عربوں اور پاکستان کو آزادی اور اطمینان کی فضا میں اقتصادی اور معاشی ترقی کا موقع بھی فراہم کریں۔ یہ سب باتیں امریکہ کے اپنے مفادات کے خلاف ہیں اس لیے اس سے یا اقوام متحدہ سے اس سلسلے میں کسی مثبت کردار کی توقع ایک خوش فہمی اور خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں ہوگی۔

مغربی طاقتیں اور پاکستان کی سلامتی

پروفیسر میاں انعام الرحمن

مغربی طاقتوں کے موجودہ رویے کی بنیاد دوسری جنگ عظیم کے دوران میں ایٹم بم کے استعمال میں ٹریس کی جا سکتی ہے۔ بہ نظر غائر معلوم ہو جاتا ہے کہ ان طاقتوں کا مقصد دنیا میں امن کا قیام اور لوگوں کی عمومی خوش حالی نہیں بلکہ طاقت کے بل بوتے پر اپنی برتری قائم کرنا ہے۔ایٹم بم کی تباہی کے پیش نظر چاہیے تو یہ تھا کہ اس کی روک تھام اور خاتمے کے لیے موثر اقدامات کیے جاتے لیکن مغربی طاقتوں نے اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر اس کو ایک موثر ہتھیار کے طور پر اپنا لیا۔ اس طرح بعد از جنگ کا عہد ایٹمی دوڑ کا عہد بن گیا۔ اس ایٹمی دوڑ کے جنگ جویانہ اثرات فلموں کے ذریعے سے پورے مغربی معاشرے میں سرایت کر گئے۔ اگر تحلیل نفسی کا کوئی سنجیدہ ماہر غیر جانب دارانہ اور معروضی انداز سے مغربی معاشرے کا تجزیہ کرے تو اس پر اس ’’مہذب‘‘ معاشرے کی حقیقت بہت جلد عیاں ہو جائے گی۔

قوت وطاقت کے بل بوتے پر اپنی برتری کے اظہار کی تازہ ترین کاوش وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں کی جا رہی ہے۔ بد امنی اور باہمی منافرت کے گڑھ افغانستان میں طالبان نے کم از کم امن وامان قائم کر لیا تھا۔ مخصوص صورتِ حال میں کسی بھی نوخیز حکومت کے لیے یہ بہت کریڈٹ کی بات تھی۔ ترقی وخوش حالی کے اقدامات امن وامان سے مشروط اور اس کے بعد کی بات تھے۔ اس اعتبار سے ترجیحات کے تعین میں طالبان نے کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ لیکن یہی ان کی غلطی بھی ہے۔ بھلا ایٹمی دوڑ کے خالقوں کو امن وامان کیسے راس آ سکتا تھا اور پھر ایسا امن وامان جو وسیع ہوتے ہوئے‘ ان کی قوت وطاقت پر استوار برتری کے لیے چیلنج بھی بن سکتا تھا۔ اپنی مخصوص تخریبی نفسیات کی وجہ سے مغربی طاقتیں افغانستان پر چڑھ دوڑیں اور ان کے معاشرے کی اکثریت نے ان کے اس اقدام کی حمایت وتصدیق کرنے میں دیر نہیں لگائی کیونکہ مخصوص تربیت کی وجہ سے مغربی معاشرہ امن کا خواہاں نہیں ہو سکتا۔ ان کی تہذیب اور شائستگی دوسروں کی لوٹ مار اور حق تلفی سے مشروط ہے۔ مغربی طاقتوں نے طالبان کے افغانستان میں مداخلت کر کے کچھ اس طرح کی گھمبیر صورتِ حال پیدا کی ہے جس سے وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں امن وامان اور تحفظ وسلامتی کا مسئلہ سنگین تر ہو گیا ہے۔ اس کا مختصر سا جائزہ درج ذیل ہے:

۱۔ طالبان حکومت کو مغربی طاقتوں نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ اگر تسلیم نہ کرنے کی وجہ چار پانچ سال پہلے بھی موجود تھی تو پھر اسی وقت طالبان حکومت کو ختم کرنے کے اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ آخر اتنے سال چھوٹ دینے کی کوئی وجہ تو ہوگی۔ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ مغربی طاقتیں چاہتی تھیں کہ طالبان افغانستان پر کنٹرول کر لیں اور کچھ پر پرزے بھی نکال لیں تاکہ ان کی ٹھکائی کے بہانے یہاں آنے کا موقع مل سکے۔ اگر بہت شروع میں طالبان حکومت کے خلاف کارروائی کی جاتی تو اس کا دائرہ کار بہت مختصر ہوتا اور مغربی طاقتوں کے مخصوص مفادات پورے نہ ہوتے۔

۲۔ اب افغانستان کو ’’دوسرا کشمیر‘‘بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان کے لیے جتنی اہمیت کشمیر کی ہے‘ اتنی ہی اہمیت افغانستان کی بھی ہے:

(i) کشمیر میں بھارتی فوج ہے جبکہ افغانستان میں امریکی وبرطانوی فوج یا کم از کم پسِ پردہ کنٹرول انہی کا ہوگا۔

(ii) کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور وہ پاکستان سے الحاق چاہتے تھے لیکن اس وقت کشمیر میں کم از کم تین گروپ موجود ہیں: ۱۔ پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی‘ ۲۔ بھارت کے ساتھ الحاق کے حامی اور ۳۔ خود مختار کشمیر کے حامی۔ اسی طرح طالبان کا افغانستان پاکستان کا مکمل حامی تھا لیکن اس وقت تین گروہ ابھر رہے ہیں اور جنہیں ابھارنے کی بھرپور کوششیں ہو رہی ہیں‘ اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ بہرحال جس طرح کشمیر میں مصنوعی انداز سے گروہ پیدا کیے گئے ہیں‘ اسی انداز سے افغانستان میں قبائلی عصبیت کو ہوا دی جا رہی ہے۔

۳۔ پاک بھارت جنگوں کے دوران میں شاہِ ایران نے افغانستان کو کسی بھی قسم کی چھیڑ خانی سے باز رکھا تھا۔ اب افغانستان میں طالبان طرز کی دوست حکومت موجود نہیں۔ پھر طالبان حکومت پاکستان اور ایران کے مابین وجہ نزاع بھی رہی ہے جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات اونچ نیچ کا شکار ہوئے۔ایران اب بھی سابقہ تجربے کی بنا پر تحفظات کا شکار ہوگا لہذا اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ ایران‘ پاک بھارت کشیدگی کے دوران شاہِ ایران کے عہد والا کردار ادا نہ کرے۔ اسی بات سے ایک اور نکتہ سامنے آتا ہے کہ مغربی طاقتوں کا طالبان حکومت کو چار پانچ سال تک ڈھیل دینے میں ایک مقصد یہ بھی تھا کہ پاکستان ایران تعلقات کشیدہ ہوں تاکہ پاک بھارت کشمکش کے دوران میں افغان بارڈر پر دباؤ بڑھاتے ہوئے مشرقی بارڈر پر پاکستان کو کسی کمپرومائز پر مجبور کیا جا سکے۔

۴۔ پھر خارجی محاذ پر ایسے دباؤ سے پاکستان داخلی اعتبار سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگا اور واقعتاً ایسا ہی ہے۔ قوم میں شدید قسم کا احساسِ بے چارگی پایا جا رہا ہے۔ صرف چین امید کی ایک کرن ہے اور وہ بھی اس لیے کہ پاکستان اس کی اسٹرٹیجک ضرورت ہے۔

۵۔ کشمیر میں تین موثر گروہوں کی موجودگی اور افغانستان میں کثیر نسلی حکومت کے قیام سے پاکستان بھی معاشرتی گروہ بندیوں کا شکار ہو سکتا ہے جس سے داخلی ٹوٹ پھوٹ اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی۔

۶۔ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے پاکستان کو درپیش سنگین حالات کے اثرات دونوں خطوں پرمرتب ہوں گے جس سے بے یقینی اور عدم تحفظ کا احساس پھیلے گا۔

ان نکات کے پیش نظر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مغربی طاقتوں کا ٹارگٹ پاکستان کی سلامتی اور وحدت کو پارہ پارہ کرنا ہے۔ کشمیر پر پاکستان کو کسی مصنوعی حل پر کمپرومائز کے لیے مجبور کیا جا سکتا ہے۔ یہ حل بہت سارے مسائل کو جنم دے گا۔ اس طرح مسئلہ کشمیر حل ہونے کے باوجود سنگین نوعیت کے مسائل بدستور موجود رہیں گے۔ ان کا اظہار معاشرتی گروہ بندیوں کی صورت میں ہوگا۔ افغان بحران کی وجہ سے ہمارا معاشرہ پہلے ہی تقسیم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ کشمیر کا کوئی بھی مصنوعی حل مزید تقسیم در تقسیم کا باعث ثابت ہوگا۔ پاکستان کی سیاسی وجغرافیائی وحدت شاید کسی علاقائی طاقت کے مفاد میں ہو اور وہ اس وحدت کی بقا کے لیے پاکستان کی پشت پر موجود بھی رہے لیکن پاکستان کی سماجی وحدت اس علاقائی طاقت کے لیے بھی ایک خطرہ ہے لہذا سماجی وحدت کا شیرازہ بکھیرنے میں یہ علاقائی طاقت‘ مغربی طاقتوں کی ممد ومعاون ثابت ہوگی۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ مغربی طاقتیں فلسطین کی طرز پر مزید پیچیدگیوں کا حامل کوئی حل مسلط کر سکتی ہیں جس سے مشرقِ وسطیٰ کی طرح‘ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا مستقل غیر یقینی کیفیت کا شکار رہیں گے۔ اب تک اختیار کی گئی پالیسیوں کے تناظر میں‘ مغربی طاقتیں اس غیر یقینی کی کیفیت اور عدم تحفظ کے احساس کے پھیلاؤ کے لیے کام کرتی نظر آ رہی ہیں۔ ان کے ماضی کے کردار کے پیش نظر یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

ملتِ اسلامیہ اور موجودہ عالمی صورتِ حال

ادارہ

(۲۰۔۲۱ دسمبر ۲۰۰۱ء  کو کراچی میں ’’جنگ گروپ آف نیو زپیپرز‘‘ کے زیر اہتمام ’’دہشت گردی، عالم اسلام کو درپیش ایک نیا چیلنج‘‘ کے عنوان سے دو روزہ سیمینار ہوا جس میں عالم اسلام کے ممتاز دانش وروں نے اس موضوع پر اظہار خیال کیا۔ قارئین کی سہولت کے لیے اس سیمینار کے چند اہم خطابات کا خلاصہ اور اعلامیہ روزنامہ جنگ کی رپورٹنگ کی مدد سے پیش کیا جا رہا ہے۔ ملک بھر کے علماء کرام، اہل دانش اور دینی وسیاسی راہ نماؤں سے ہماری گزارش ہے کہ ان کا سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے۔ غور طلب نکات پر کھلے دل ودماغ کے ساتھ بحث وتمحیص کا اہتمام کیا جائے اور تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں امت مسلمہ کی صحیح سمت میں فکری وعلمی راہ نمائی کے خطوط متعین کرنے میں پیش رفت کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ادارہ)

 جناب محمود شام کا خطبہ استقبالیہ

خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے جنگ کے گروپ ایڈیٹر محمود شام نے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ گیارہ ستمبر کو رونما ہونے والے واقعات اور اس کے بعد دنیا کے مختلف حصوں میں ہونے والی تبدیلیوں، بالخصوص افغانستان پر امریکہ کی مسلسل خوف ناک بمباری، طالبان کی طرف سے پہلے آخری دم تک لڑنے کا عزم، پھر مزار شریف، کابل وغیرہ سے اچانک انخلا نے دنیا بھر میں ہر عمر کے مسلمانوں کے ذہنوں میں مختلف سوالات پیدا کیے ہیں۔ پاکستان اس وقت فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے۔ فرنٹ لائن اسٹیٹ ہونا ایک اعزاز بھی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ ۱۱ستمبر کے بعد مختلف ممالک کے صدور، وزرائے اعظم، وزرائے خارجہ پاکستان کے دورے کر رہے ہیں۔ صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کو بجا طور پر صاحب عصر بھی کہا گیا۔ انہیں امریکی صدر نے خصوصی عشائیہ دیا۔ پاکستان کے اقتصادی مسائل حل کرنے کے لیے امریکا سمیت ہر ملک نے وعدے بھی کیے، عملی اقدامات بھی کیے۔ فرٹ لائن اسٹیٹ ہونا آزمائش بھی ہے۔ جب بھی افغانستان کا یہ بحران گزر گیا تو تمام ممالک اپنے معمول میں مصروف ہو جائیں گے، پاکستان اپنے مسائل کے سامنے پھر تنہا کھڑا ہوگا۔ افغانستان کا بحران پاکستان میں بھی داخل ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ہم دیوار ہم سایے ہیں۔ جنگ گروپ نے فرنٹ لائن اسٹیٹ کے سب سے بڑے اخباری گروپ ہونے کے حوالے سے اپنا فرض سمجھا کہ وہ دنیا بھر میں رابطے کر کے ایسے اسکالرز کو فرنٹ لائن اسٹیٹ میں اظہار خیال کی دعوت دے جو اسلامی تعلیمات اور جدید علوم میں امتزاج کے قائل ہیں، جو دنیائے اسلام اور مغرب کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ 

۱۱ ستمبر کے واقعات کے بعد عالم اسلام کو یقیناًایک نیا چیلنج درپیش ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے امریکا، جرمنی، برطانیہ، جہاں جہاں بھی گرفتاریاں ہوئی ہیں، صرف مسلمان نوجوانوں کی ہوئی ہیں۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف مسلمان ہی دہشت گرد ہیں؟ مسلمان امریکا سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ کیا یہ دو تہذیبوں کا تصادم ہے؟ کیا یہ اسلام کو بدنام کرنے اور مسخ کرنے کی سازش تو نہیں ہے۔ مسلمان نوجوان خود ہتھیار اٹھانے پر کیوں مجبور ہو رہا ہے؟ مسلمان حکومتیں کیا اپنا کردار ادا نہیں کر رہی ہیں؟ کیا مسلمان ملکوں میں سول سوسائٹی ہے؟ کیا مسلمان ملکوں میں جمہوری آزادیاں ہیں؟ یہ اور بہت سے دوسرے سوالات ہیں جن کا جواب آپ کو یقیناًیہ محترم اورمعزز اسکالرز دیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ دو روزہ سیمینار عالم اسلام میں بیداری کی نئی لہر پیدا کرنے کے لیے ایک نقطہ آغاز ہوگا۔ 

میں جنگ گروپ کی طرف سے تمام مسلمان اسکالرز، مسلمان ملکوں کے تعلیمی اداروں، مسلمان ملکوں کی حکومتوں، مسلمان ملکوں کے اخباری اداروں کو یہ پیشکش کرتا ہوں کہ وہ اپنی معلومات، تفصیلات ہمیں بھجوائیں، ہم انہیں محفوظ بھی کریں گے، دنیا تک پہنچائیں گے۔ ہم تمام مسلم اور غیر مسلم اسکالرز کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ حالات حاضرہ پر اپنے خیالات ہمیں بھجوائیں، ہم اسے اردو، انگریزی دونوں زبانوں میں شائع کریں گے۔ جنگ گروپ عالم اسلام اور مغرب کے درمیان ایک پل، ایک رابطے کا منصب ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ۱۱ ستمبر کے بعد شروع ہونے والی جنگ ایک طویل جنگ ہے جو برسوں نہیں‘ صدیوں جاری رہ سکتی ہے۔ ہم سب کو اس کے لیے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے۔ ایک جامع حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ یہ سیمینار ایک نقطہ آغاز ہے۔ اس میں مقالات پیش کرنے والے اس جنگ کا ہراول دستہ ہیں۔

وزیر داخلہ جناب معین الدین حیدر

وفاقی وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے کہا کہ موجودہ حکومت پاکستان کو ایک معتدل، ترقی پسند اسلامی ریاست بنانے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی اسلام کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہم چند قاعدہ پڑھ لینے والے جاہلوں کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور دے سکتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم پاکستان کے بنیادی مسائل کا تدارک کریں اور اقتصادی طور پر ملک کو مستحکم بنائیں۔ خود کو مضبوط بنا کر ہی چیلنجوں کامقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

۱۱ ستمبر کے بعد ایک نئی دنیا نے جنم لیا ہے بالخصوص مسلم ممالک اور مسلمانوں کے لیے نئے چیلنج سامنے آئے ہیں۔ مغربی طاقتوں نے ایک اتحاد تشکیل دیا ہے۔ ایک خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ مستقبل کا ہدف مسلم ممالک ہو سکتے ہیں۔ ان حالات نے کئی سوالات کو بھی جنم دیا ہے کہ اس صورت حال میں مسلم ممالک کو کیا کرنا چاہیے؟ مغربی طاقتیں کہہ رہی ہیں کہ یہ جنگ اسلام کے خلاف نہیں ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق کھلتے جا رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ اسلامی ممالک کس طرح ان چیلنجوں کا سامنا کریں گے؟اس کے لیے ہمیں اپنی عوام کو تعلیم اور شعور دینا ہوگا، تحقیق کرنا ہوگی، جدید ٹیکنالوجی اور معلومات حاصل کرنا ہوں گی، اسلامی ممالک میں پاپولر حکومتیں بنانا ہوں گی اور جہاں تک ممکن ہو، تنازعات اور جنگوں سے اجتناب کرنا ہوگا اور خود کو مستحکم کرنا ہوگا کیونکہ کمزور ممالک یا قومیں کسی بھی چیلنج کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ پہلے ہمیں اپنے ممالک کے ہاؤسز کو ’’ان آرڈر‘‘ لانا ہوگا۔ جب ہم خود ’’ان آرڈر‘‘ ہوں گے تو چیلنجوں کا مقابلہ کر سکیں گے۔ 

مسلم دنیا کا کوئی ڈائنامک فورم نہیں ہے جہاں مل بیٹھ کر اپنے مسائل کا تجزیہ کر سکیں، ان کا حل تلاش کر سکیں اور اس پر عمل کر سکیں یا اسلامی ممالک کا مقدمہ موثر اور ٹھوس انداز میں دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ جبکہ جی ایٹ جیسے ادارے اکثر ملتے ہیں، فیصلہ کرتے ہیں اور پھر دوسرے دن سے ہی ان پر عمل شروع ہو جاتا ہے۔ یہ محض ڈی بیٹنگ سوسائٹیز نہیں ہیں۔ 

اسلامی ممالک کے میڈیا کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات کا احاطہ کرتے ہوئے معین حیدر نے کہا کہ اس کے لیے وسیع سرمایے کی ضرورت ہے تاہم بنیادی بات تعلیم کی ہے۔ اگر ہمارے پاس تعلیم ہوگی تو مختلف سطح پر منفی پروپیگنڈے کا موثر جواب دے سکیں گے۔ 

پاکستان مسلم اور غیر مسلم ممالک سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہے اور ہمارا ایسے ممالک کے ساتھ تعاون بھی جاری ہے جس کی بڑی مثال عوامی جمہوریہ چین ہے۔ پاکستان کو ایک معتدل، اسلامی ترقی پسند ملک بننے کے اقدامات موجودہ حکومت نے ۱۱ ستمبر سے قبل ہی شروع کر دیے تھے۔ اگست کے مہینے میں دو جماعتوں کو، جن پر مسلح ہونے کا الزام تھا، ان پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ شہریوں سے اسلحہ واپس لیا جا رہا ہے، مساجد میں جہاد کے نام سے چندہ لیا جاتا ہے اور پتہ نہیں کہاں چلا جاتا ہے۔ اس کو روکا جا رہا ہے۔

ہم مدرسوں کے خلاف نہیں ہیں مگر ہماری کوشش ہے کہ مدرسے اپنا وہ تاریخی کردار ادا کریں جو ماضی میں ہوا کرتا تھا جہاں سے اہل علم ودانش پیدا ہوتے تھے۔ اس مقصد کے لیے ہم مشاورت کے ساتھ ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن سے مدرسے اپنی سابقہ حیثیتوں میں بحال ہو جائیں۔ 

افغانستان میں جو کچھ ہوا، پاکستان نے بہت پہلے انہیں آگاہ کیا تھا، مشورہ دیا تھا۔ پاکستان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ پڑوسی ملک کے معاملات میں شریک ہو۔ ہم نے واضح کر دیا تھا کہ افغانستان میں جو کچھ ہوگا، وہ خود ا سے نمٹیں گے۔ جب بدھا کے بتوں کو توڑا جا رہا تھا، اس وقت بھی مشورہ دیا گیا تھا کہ پوری دنیا کو اپنا دشمن نہ بنائیں، انہیں ناراض نہ کریں۔ اس وقت صرف دو مسلم ممالک ایک چھوٹی سی امداد افغانستان کو دیتے تھے جبکہ افغانستان کو بیشتر امداد غیر مسلم ممالک سے ملتی تھی۔ ملا محمد عمر خود ساختہ امیر المومنین بن گئے، ان کی حمایت کس طرح کی جا سکتی تھی؟ 

پاکستان میں مختلف سطحوں سے اصلاحات کی جا رہی ہیں جن میں پولیس اصلاحات بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہی فیصلے کرے گی۔

وزیر مذہبی امور ڈاکٹر محمود احمد غازی

وفاقی وزیر زکوٰۃ وعشر اور مذہبی امور ڈاکٹر محمود احمد غازی نے کہا کہ انسانی حقوق کی پامالی، عدم مساوات اور ناانصافیوں کے خلاف شدید رد عمل نے دہشت گردی کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر ان ناانصافیوں اور عدم مساوات کو دور کرنے کی صورت میں ہی دہشت گردی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور ہمیں اپنے رویے اور پالیسیوں کا جائزہ لینا ہوگا۔ جہاد پر تنقید کی جا رہی ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جہاد ہی کے ذریعے سے اسلام کے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے مسلمانوں نے اپنا مقام حاصل کیا ہے۔

دہشت گردی کی مذمت کی جانی چاہیے اور ۱۱ ستمبر کے واقعے کی پوری دنیا اور ہر طبقے نے مذمت کی لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کی صحیح طور پر تشریح ہونی چاہیے کیونکہ کشمیر اور فلسطین میں آزادی کے لیے چلائی جانے والی تحریکوں کو دہشت گردی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ پاکستان کو گزشتہ برسوں میں کئی طرح کی دہشت گردیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس کا مقابلہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں مساوی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے لیکن سلامتی کونسل میں ویٹو پاور خود مساوی حقوق کے منافی ہے اور یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ یہ ویٹو پاور اسلام اور اسلامی ممالک کے خلاف ہی استعمال کی گئی۔ 

جدیدیت میں مغرب کی تقلید کرنے کے بجائے مغرب کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی اپنی ضروریات، تقاضوں اور حالات کے مطابق رائج کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاد ہی کے ذریعے سے سب سے پہلے حق کی جنگ لڑی گئی۔ جہاد برائیوں کے خلاف برسرپیکار ہونے اور اس کے خلاف جدوجہد کا نام ہے۔ اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو دور کرنے کے لیے جدوجہد کا نام مجاہدہ، ناخواندگی کے خاتمے کے خلاف جدوجہد کا نام جہاد ہے۔ جہاد کو کسی بھی دور میں اسلام کا نفاذ پھیلانے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔

پروفیسر ڈاکٹر فاروق حسن

پروفیسر ڈاکٹر فاروق حسن نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر بین الاقوامی اتحاد کی حالیہ مہم کا مقصد ٹون ٹاورز آف اسلام سعودی عرب اور پاکستان کو گرانا ہے اور بھارت بھی اس سازش میں شریک ہے اور اس کی طرف سے سب سے پہلے پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ بھارت اس موقع سے فائدہ اٹھا کر پاکستان پر حملہ بھی کر سکتا ہے۔ ہمارے قریب سمندر میں تین طیارہ بردار جہاز، ۵۰۰ جدید ترین جنگی طیارے، ۴۲ ہزار امریکی کمانڈو اور فوجی اور انٹی ٹنل بلاسٹک بم سمیت جدید ترین ہتھیار کیا صرف ایک اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے ہماری سرحدوں کے قریب اور اندر لائے گئے ہیں؟ کیا سبھی ملکوں کی افواج کو انفرادی مجرم پکڑنے کے لیے استعمال کیا گیا؟ انٹی ٹنل بلاسٹک بم تاجکستان میں نیو کلیر ٹنلز کو توڑنے کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے نیو کلیئر ٹنلز کو توڑنے کے لیے لائے گئے ہیں۔

امریکا اور مغربی ممالک دہشت گردی کے خلاف مہم کو مسلمانوں اور عالم اسلام کے خلاف چلا رہے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عالم اسلام کی سب سے بری تنظیم او آئی سی ہے جس کے رکن ممالک کی تعدد ۵۷ اور مبصرین کی تعداد ۳ ہے۔ اس طرح یہ کل ۶۰ ممالک ہوتے ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادی بھی کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ امریکا کے نزدیک دنیا میں دہشت گرد صرف مسلمان ممالک ہیں۔ ہمیں اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ المیہ یہ ہے کہ ان ۶۰ ممالک میں سے کسی ایک ملک نے اس پر امریکا سے احتجاج نہیں کیا اور یہ تک پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ ان ۶۰ ممالک میں کون سے ملک شامل ہیں؟ او آئی سی کی کارکردگی بھی نہایت مایوس کن رہی ہے۔ اس کے ۱۱ ستمبر کے بعد اب تک صرف دو اجلاس ہوئے۔ ایک اجلا س افغانستان پر بمباری کے دو دن بعد ہوا جس میں نیو یارک اور واشنگٹن پر دہشت گردی کی مذمت کی گئی۔ افغانستان پر بمباری کا کوئی ذکر یا مذمت نہیں کی گئی۔ دوسرا اجلاس وزرائے خارجہ کا ۱۰ دن پہلے ہوا جس میں افغانستان پر حملے یا دہشت گردی کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ ان حالات کو دیکھا جائے تو بہت ہول آتا ہے۔

افغانستان پر حملے اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کے خلاف پورے ۶۰ مسلمان ممالک میں سے صرف سعودی عرب اور ملائشیا نے آواز اٹھائی۔ سعودی عرب نے پرنس عبد اللہ بیس کو دینے سے انکار کیا جو اس علاقے میں جدید ترین بیس تھی۔ اس طرح ولی عہد شہزادہ عبد اللہ نے شاہ فیصل کی یاد تازہ کر دی۔ ملائشیا وہ واحد ملک تھا جس نے بڑے حوصلے کے ساتھ یہ بات کہی کہ اقوام متحدہ نے افغانستان پر حملے کی قرارداد منظور نہیں کی اور یہ حملہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ میں گزشتہ ۵۰ برس سے دہشت گردی کی تعریف متعین تھی اور استصواب رائے اور حقوق کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو دہشت گردی میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔

امریکہ میں دہشت گردی کے بارے میں بیورو آف کاؤنٹر ٹیررازم کے نام سے ایک محکمہ ہے جس کے تحت ۵ اکتوبر کو دہشت گرد تنظیموں کی جو فہرست جاری ہوی، اس میں پاکستان دہشت گرد ممالک میں شامل ہونے سے بال بال بچاجبکہ سالانہ رپورٹ میں ایک اور طرح سے اس کا نام شامل ہے۔اس میں ۲۶ دہشت گرد تنظیموں کے نام تھے جبکہ ایک ماہ بعد نومبر میں دہشت گرد اداروں کی جو فہرست جاری کی گئی، ان کی تعداد بڑھ کر ۳۶ ہو گئی، اس میں ۵ پاکستانی تنظیمیں شامل تھیں۔ ہم نے اس پر نہ صرف احتجاج نہیں کیا بلکہ امریکا کے ایک اشارے پر ان سب کے خلا ف کارروائی بھی کر ڈالی حالانکہ ہم ان کے اتحادی تھے۔ اس طرح امریکا نے اپنی فہرست میں ۵ دہشت گرد تنظیموں کے نام شامل کرکے نشان دہی کر دی ہے کہ یہ لوگ غلط کام کر رہے ہیں۔ وہ جب چاہیں گے، ان کے خلاف کارروائی بھی کر ڈالیں گے۔ 

جنیوا کنونشن ۴۹ اور پروٹوکول ۷۵ اور ۷۷ کے مطابق کسی جنگی قیدی سے ا س کے عہدے اور نام پوچھنے کے سوا کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جا سکتی لیکن افغانستان میں نہ صرف کھلم کھلا پوچھ گچھ ہو رہی ہے بلکہ ۱۴ جنگی قیدیوں کو وہ اپنے بحری جہازوں پر بھی لے گئے ہیں۔ کیا کسی نے کبھی احتجاج کیا؟ 

جنیوا کنونشن کے تحت جو لوگ جنگ میں سرنڈر کریں، ان کو قابض فوجوں کے حوالے کیا جانا چاہیے۔ افغانستان کے جنگی قیدیوں کو امریکا اور بھارت کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ کیا کسی مسلمان ملک یا حکمرانوں نے اس پر احتجاج کیا؟ پاکستانی افغانستان گئے تھے، وہاں شہید ہو گئے یا گرفتار ہو گئے۔ ہماری حکومت نے ان کی لاشیں تک لینے سے انکار کر دیا۔ امریکا اپنے ایک امریکی طالبان کو بچانے کے لیے قانون اور قاعدے بدل رہا ہے۔ ہمارا تو حال یہ ہے کہ ۱۱ ستمبر کے بعد امریکا میں ۴ سو پاکستانی گرفتار ہیں۔ ان کے حق میں حکومت کی طرف سے کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ میں نے اپنی خدمات ان پاکستانیوں کے لیے پیش کر دی ہیں۔

اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب ۷ کے آرٹیکل ۶۰ سے ۶۹ میں کسی ملک میں قیام امن کے لیے فوج کی تعیناتی کے بارے میں قوانین ہیں جن کے تحت غیر جانب دار ممالک سے امن فوج تعینات کی جائے گی لیکن افغانستان میں جو امن فوج لائی جا رہی ہے، ا س کی سربراہی برطانیہ کے جنرل میکال کریں گے جو غیر جانب دار ملک نہیں بلکہ افغانستان پر حملہ آور فوج کا اتحادی ہے۔ 

اسی طرح اس سوال کا بھی ابھی تک کوئی جواب نہیں مل سکا کہ افغانستان پر مسلط کی جانے والی جنگ کا جواز کیا ہے؟ کیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی کسی قرارداد میں افغانستان پر حملہ تجویز کیا تھا؟ انہوں نے اس سلسلے میں وہ قرارداد پڑھ کر سنائی اور کہا کہ اس قراداد میں افغانستان پر حملہ کرنے کا کوئی ذکر تک موجود نہیں ہے۔ شرم کی بات ہے کہ کسی نے بھی سوائے ملائشیا کے امریکا اور اس کے اتحادیوں سے یہ تک نہیں پوچھا کہ تم کس قانون کے تحت یہ حملہ کر رہے ہو؟ افغانستان پر حملہ کرنے والی فوج اقوام متحدہ کی نہیں بلکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی فوج ہے۔ یہ سوال پاکستان بھی اٹھا سکتا تھا۔ مانا کہ پاکستان پر دباؤ بہت تھا مگر وہ اگر قانونی سوال اٹھاتا تو جواب بھی ملتا۔ ہم یہ سارے سوال قانونی طور پر پوچھ سکتے تھے۔

ہماری خارجہ پالیسی کا بھی عجیب عالم ہے کہ ہم ایک ایک اور دو دو دنوں میں اپنی پالیسی بدل دیتے ہیں اور ہمیں طویل المیعاد اور قلیل المیعاد پالیسیوں کا علم نہیں ہوتا۔ جنرل پرویز مشرف نے ۱۰ نومبر کو اقوام متحدہ سے خطاب کیا اور کہا کہ شمالی اتحاد کو کابل پر قبضہ نہ کرنے دیا جائے۔ بش نے مشترکہ پریس کانفرنس میں اس کی توثیق کر دی کہ وہ کابل میں داخل نہیں ہوں گے مگر ۲۴ گھنٹے بعد شمالی اتحاد والے کابل پر قابض ہو گئے۔ لندن میں ہمارے وزیر خارجہ عبد الستار نے بیان دیا کہ شمالی اتحاد والوں کو لگام دی جائے اور جب وہ قابض ہو گئے تو ان کے حق میں بیان دے دیا۔ ایک ملک میں اتنی جلدی خارجہ پالیسی بدلنے کی کوئی دوسری مثال مشکل ہی سے ملے گی۔ 

حالت یہ کہ بم ہمارے پاکستانی علاقوں تک میں گرتے رہے ہیں لیکن ہم نے اس پر بھی کبھی احتجاج نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ پورا عالم اسلام سخت خطرے میں ہے اس لیے اگر ہم آواز اٹھانا نہیں چاہتے، ہمارے سروں پر موجود خطرے کو محسوس نہیں کرتے، اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کو نہیں سمجھتے تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے اور ہمیں امریکا کی ۵۳ ویں یا ۵۴ویں ریاست بننے پر کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہیے اور عملاً امریکا کی قیادت ایسا ہی کر رہی ہے۔ امریکی وزیر دفاع رمز فیلڈ نے کہا ہے کہ ہم واپس نہیں جائیں گے۔

سیمینار کی طرف سے جاری کردہ ’’کراچی ڈیکلریشن‘‘

جنگ گروپ آف نیوز پیپرز کے زیر اہتمام ہونے والے دو روزہ سیمینار میں اسکالرز، محققین کے پیش کردہ مقالات، پاکستان بھر سے ارسال کردہ عوام کے سوالات، سیمینار کے دوران ہونے والے سوال وجواب کی روشنی میں وقت کا یہ تقاضا سامنے آتا ہے کہ عالم اسلام کا یہ فرض ہے کہ وہ تیزی سے بدلتی دنیا، انسانی سوچ کی پیش رفت، عالمی معاشی نظام میں اتار چڑھاؤ، بین الاقوامی سیاسی علاقائی تعلقات، جدید سائنسی اور فکری معاملات کا آزادانہ اور خود مختارانہ تنقیدی تجزیہ جاری رکھے۔ سیمینار میں ہونے والے مباحثے کے نتیجے میں یہ حقیقت بھی بار بار اپنا وجود منواتی رہی ہے کہ اسلامی ملکوں کی تنظیم (او آئی سی) کو پہلے سے زیادہ فعال اور پہلے سے زیادہ منظم ہونا چاہیے اور اس کے تمام رکن ممالک کے ساتھ باہمی مذاکرات کے نتیجے میں اس کو یورپین یونین کی طرح مسلمان ملکوں کی یونین کہا جانا چاہیے جو حکومتی شراکت، آزادی اور انسانی حقوق کی مظہر ہو۔ 

۱۱ ستمبر کو نیو یارک میں فنانس ٹریڈ سنٹر، واشنگٹن میں پینٹاگون پر طیارے ٹکرانے سے ہونے والی دہشت گردی کو قابل مذمت اقدام قرار دیتے ہوئے سیمینار کے شرکااور سامعین نے کھلے الفاظ میں کہا کہ اسلامی تعلیمات اور تہذیب میں ایسے وحشیانہ اقدامات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کسی بھی مسلمان کو ایسے عمل میں ملوث نہیں ہونا چاہیے جس سے بے گناہ عام شہریوں کی جان اور مال کو خطرہ لاحق ہو۔ 

سیمینار کے شرکا اور سامعین دو روزہ اظہاریوں اور مباحثوں کے بعد اس نتیجے پر بھی پہنچے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں جس طرح جدید ترین جنگی ہتھیار استعمال کیے، شہری ٹھکانوں پر حملے کیے، بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا، یہ بھی قابل مذمت ہے۔ دہشت گردی کا جنگی طاقت کے ذریعے سے خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ اس سے دہشت گردی کے مزید رجحانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ دنیا میں امن وامان، اقتصادی معاملات، بین الاقوامی تعلقات کے نازک امور کو طے کرتے وقت صرف طاقت کی زبان استعمال نہ کرے بلکہ ہر ملک، ہر قوم کے مسائل اور حالات کے اس کے مذہب، تمدن اور مخصوص حالات کے تناظر میں جائزہ لیا جائے، پھر ان کے حل کا لائحہ عمل طے کیا جائے۔ مغربی ممالک ہر مسئلے کو صرف اپنے تمدن اور ماحول کی روشنی میں حل کرنے کا فیصلہ نہ کریں۔

یہ سیمینار تمام مسلمان ملکوں اور حکومتوں پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنے ہاں نوجوان ذہنوں میں جنم لینے والے تمام سوالات کا جواب دینے کا اہتمام کریں۔ ان کی سوچوں کو طاقت سے نہ دبائیں، ان کی الجھنوں کو دور کرنے کے لیے عام مباحثوں کا ماحول فراہم کریں، تقریر وتحریر اور اجتماع کی آزادی، ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ یہ سیمینار تمام مسلمان ملکوں سے اپیل کرتا ہے کہ و ہ اپنے ہاں تعلیم کو زیادہ سے زیادہ عام کریں۔ ہر شہری بلا امتیاز مذہب اور جنس لازمی طور پر ابتدائی تعلیم ضرور حاصل کرے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان اور رسول اکرم ﷺ کے ارشادات بھی تعلیم کے حصول کو لازمی قرار دیتے ہیں۔ یہ سیمینار تمام مسلمان ملکوں سے یہ بھی اپیل کرتا ہے کہ روزگار کے حصول، علاج معالجے کی بنیادی سہولتوں اور زندگی کی بنیادی ضروریات، پینے کا صاف پانی، شفاف ماحولیات کی فراہمی میں اپنا بنیادی کردار ذمہ داری سے ادا کرے۔ اس کے علاوہ ان وجوہ اور اسباب کا بھی جائزہ لیا جائے جن کے نتیجے میں دہشت گردی کا ارتکاب کیا جاتا ہے اور ان تنازعات کو حل کیا جائے جن کی وجہ سے عالمی امن کو سخت خطرہ ہے۔

یہ سمینار مسلمان ملکوں پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنی یونیورسٹیوں کے درمیان ایسے انتظامات کریں کہ طلبہ اور اساتذہ کے باضابطہ تبادلے ہوں۔ اہم واقعات اور موضوعات پر ان یونیورسٹیوں میں سیمینارز، ورک شاپس اور کانفرنسیں منعقد ہونی چاہییں۔ مسلمان اسکالرز اور محققین کی آپس میں ملاقاتیں اور تبادلہ خیال عالم اسلام میں اجتماعی طور پر اتفاق رائے کو جنم دے سکتا ہے۔ یہ سیمینار مسلمان ملکوں کے اخباری اداروں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ آپس میں خبروں، مضامین، رپورٹوں ، ملاقات اور تصاویر کے تبادلے کا اہتمام کریں تاکہ دنیا بھر میں مسلمان ایک دوسرے کے سیاسی ، سماجی، معاشی اور علمی حالات سے باخبررہیں۔ یہ سیمینار علماء کرام اور دینی مدارس کے مہتمم حضرات سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے نصاب میں جدید ترین علوم، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی تازہ ترین تبدیلیوں کو بھی شامل کریں۔ ان مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ اور طالبات کی اگر حالات حاضرہ پر گہری نظر ہو تو وہ یقیناًاپنے اپنے معاشرے میں ایک فعال اور ذمہ دارانہ کردار ادا کر سکیں گے۔

امریکی صدر ٹرومین اور سعودی فرماں روا شاہ عبد العزیز کی تاریخی خط وکتابت

ادارہ

(مالیر کوٹلہ بھارت کے دینی جریدہ ماہنامہ ’’دار السلام‘‘ نے نومبر ۲۰۰۱ء کے شمارے میں مملکت سعودی عرب کے بانی شاہ عبد العزیز آل سعود کے نام امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین کے ۱۰ فروری ۱۹۴۸ء کے تحریر کردہ ایک خط اور ملک عبد العزیز آل سعود کی طرف سے اس کے جواب کا اردو ترجمہ شائع کیا ہے۔ اس سے قارئین بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ افغانستان، کشمیر، فلسطین کے حوالے سے امریکہ جو کردار اب ادا کر رہا ہے، وہ کسی حادثہ کا نتیجہ نہیں بلکہ بہت پہلے سے طے شدہ پالیسی اور پروگرام کا ایک تسلسل ہے اور اس امر کا بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ ہمارے مسلم حکمران امریکہ کے ان عزائم اور پروگرام کے بخوبی واقف ہونے کے باوجود ابھی تک زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کر پائے اور انہوں نے عالم اسلام کے وسائل اور دولت امریکہ کے قدموں پر ڈھیر کر کے ذاتی، خاندانی اور طبقاتی سطح پر مفادات حاصل کرنے کے سوا عالم اسلام اور ملت اسلامیہ کے مفاد کے لیے کسی مشترکہ منصوبہ بندی اور پیش رفت کی آج تک ضرورت محسوس نہیں کی۔ ادارہ)

 

صدر ٹرومین کی جانب سے شاہ عبد العزیز کے نام خط

حضور جلالت ملک عبد العزیز آل سعود، فرماں روائے مملکت سعودی عرب

قابل قدر بادشاہ!

جیسا کہ آپ بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے ملک باہمی طور پر ایسی دیرینہ محبت اور مودت کے تعلقات میں مربوط ہیں جس کی بنیاد عدل وانصاف، آزادی، عالمی سطح پر امن وسلامتی کے قیام کی رغبت اور ساری انسانیت کی بھلائی پر قائم ہے، نیز ہماری باہمی اقتصادی مصلحتوں نے ان تعلقات کو اس وقت مزید مضبوط اور گہرا بنا دیا جب آپ نے اپنے ملک سعودی عرب میں دریافت کیے جانے والے تیل کے کنووں سے تیل نکالنے کا معاہدہ ہمارے ملک کی کمپنیوں سے کیا۔ اس طرح ہمیں وہاں تیل نکالنے والے وسیع وعریض پلانٹ قائم کرنے کے مواقع دست یاب ہوئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اب ہمارے تعلقات اس قدر مضبوط ہو چکے ہیں کہ دونوں میں کسی ایک ملک میں ہونے والے ہر خوشگوار وناخوشگوار واقعہ کی صدائے بازگشت دوسرے ملک میں سنائی دیتی ہے۔ ویسے بھی ہمارے نزدیک مشرق وسطیٰ میں امن وسلامتی کا قیام نہایت اہم حیثیت رکھتا ہے۔ اس علاقے سے آپ کا ملک دینی، تاریخی اور لسانی بنیادوں پر جڑا ہوا ہے۔ اس علاقے کے تمام ملکوں کو عرب لیگ جیسے ادارے نے باہم مربوط کر رکھا ہے۔ چونکہ عرب لیگ اور ساری عرب قوم کے دلوں میں آپ کے ملک کا ایک اونچا مقام ہے لہذا میں نے یہ مناسب سمجھا کہ عالمی سلامتی اور ایک ستائی ہوئی مظلوم قوم کے نام پر آپ سے مدد طلب کروں تاکہ آپ مقدس سرزمین پر اس کے باشندوں، عرب اور یہود کے درمیان برپا خانہ جنگ کو روکنے میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کر سکیں اور عرب قوم کو اپنے ہم وطن یہودیوں کے ساتھ مصالحت پر آمادہ کر لیں۔ ہٹلر کے دور میں یہودیوں نے جو عذاب جھیلے، کیا وہ ان کے لیے کافی نہیں کہ اب بھی وہ ستائے جاتے ہیں؟ آپ ہرگز نہیں چاہیں گے کہ یہودی اب بھی عذاب وتکلیف میں گرفتار رہیں چہ جائیکہ آپ ان عربوں کا ساتھ دیں جو اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرارداد (جو ارض مقدس کو دونوں قوموں کے درمیان تقسیم کرنے سے متعلق ہے) کو کھلم کھلا چیلنج کر رہے ہیں۔ عربوں کا یہ انداز اقوام متحدہ میں شامل تمام ملکوں کے خلاف جس میں سرفہرست آپ کا ملک آتا ہے، سرکشی اور زیادتی کے مترادف ہے۔

جس بات کا مجھے ڈر ہے، وہ یہ کہ کہیں مختلف ممالک متحدہ طور پر ان بغاوت کرنے والوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرنے پر درست کرنے کے لیے ان پر فوج کشی نہ کر دیں جس سے آپ کی قوم کی ہزاروں جانوں کے تلف ہو جانے کا خدشہ ہے۔ یقیناًیہ امر ہمارے لیے بھی اور آپ کے لیے بھی باعث رنج وتکلیف ہوگا۔ میں اس امر کو بھی آپ سے مخفی رکھنا نہیں چاہتا کہ اگر حالات اسی طرح رہے تو یہ چیز ہمارے خوشگوار تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے جس سے ہمارے مشترکہ مفادات بڑے نقصان سے دوچار ہو سکتے ہیں کیونکہ امریکہ قوم مظلوم یہودیوں کے لیے اپنے اندر عطف وکرم کا شدید جذبہ رکھتی ہے۔ ان یہودیوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو جوں کا توں قبول کر لیا ہے جبکہ یہ قرارداد ان کے تمام مطالب کی تکمیل بھی نہیں کر رہی لہذا عرب قوم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کریں اور یہودی قوم سے اس معاملے میں پیچھے رہ جائیں۔

جلالۃ الملک! تاریخ آپ کا انتظار کر رہی ہے تاکہ آپ کا نام اس انداز میں رقم کیاجائے کہ شاہ عبد العزیز وہ بادشاہ ہے جنہوں نے اپنی حکمت اور اثر ورسوخ کے ذریعے سے اراضی مقدسہ میں امن وسلامتی کو قائم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ لہذا اپنی قوم کے لوگوں کو عالمی بائیکاٹ کی تکالیف سے بچا لیجیے اور مجبور ومظلوم اسرائیلی قوم کو سکھ کا سانس لینے کا موقع فراہم کیجیے۔ 

میری جانب سے سلام، نیک تمنائیں اور پیشگی پرخلوص شکریہ

آپ کا مخلص

ہیری ٹرومین

ملک عبد العزیز آل سعود کی جانب سے جواب

شاہی محل، ریاض

۱۰ ربیع الثانی ۱۳۶۷ھ

عزت مآب جناب ہیری ٹرومین، صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ

معزز صدر!

آپ کا۱۰ فروری کو تحریر کردہ مکتوب موصول ہوا۔ آپ نے میرے متعلق محبت اور الفت کے جو جملے اپنے خط میں تحریر کیے ہیں، ان پر میں آپ کا شکر گزار ہوں مگر اس بات کی صراحت بھی ضروری سمجھتا ہوں (کیونکہ صراحت اور کھری بات کرنا ہمارے آداب میں شامل ہے) کہ جوں جوں میں آپ کے خط کی عبارت سنتا رہا، اسی طرح میری حیرت اور استعجاب میں اضافہ ہوتا رہا کہ آپ نے کس طرح یہودی قوم کے باطل کو حق ثابت کرنے کی کوشش میں مجھ جیسے عربی بادشاہ کے بارے میں یوں بد گمانی کر لی جس کی اسلام اور عرب کے ساتھ وابستگی اور اخلاص کو آپ اچھی طرح جانتے ہیں اور آپ نے یہ تصور کر لیا کہ میں اپنی قوم کے حق کے مقابلے میں یہودیوں کے ساتھ ان کے باطل پر تعاون کروں گا۔ ہمارے دلوں میں فلسطین کا ایک مقام ہے۔ اس کی وضاحت میں ایک مثال کے ذریعے سے کروں گا۔

اگر کوئی ملک آپ کی کسی اسٹیٹ پر قبضہ کر لے اور اس کے دروازے دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والوں کے لیے کھول دے تاکہ وہ اس کو اپنا ملک بنا کر اس میں مقیم ہو جائیں اور جب امریکی عوام اس جبری قبضے کو ختم کرنے کی غرض سے اٹھ کھڑے ہوں اور ہم آپ سے دوستی اور سلامتی کے نام پر اس معاملہ میں مدد کے خواہاں ہو جائیں اور کہیں کہ امریکی قوم کے نزدیک آ پ اپنے مقام اور اثر ورسوخ کو استعمال کر کے امریکی قوم کو غیر ملکیوں کے ساتھ مقابلہ سے روکیں تاکہ یہ اجنبی قوم اپنا ملک قائم کر سکے اس طرح تاریخ بھی آپ صدر ٹرومین کو اپنے روشن صفحات میں امریکہ میں اپنی حکمت اور نفوذ کے ذریعے سے امن قائم کرنے والا کہے، اس وقت آپ کے دل میں ہمارے اس مطالبہ کا کیا رد عمل ہوگا؟

جناب صدر! عرب قوم میں میرے جس مقام ومرتبہ کا ذکر آپ نے کیا ہے، مجھے وہ مقام محض عرب اور اسلام سے شدید دلی وابستگی کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے۔ لہذا آپ مجھ سے ایسی بات کا مطالبہ کیسے کر سکتے ہیں جو کسی ذمہ دار عرب کے لیے ناممکن ہے اور پھر فلسطین میں جاری جنگ کوئی داخلی جنگ نہیں جیسا کہ آپ کا خیال ہے بلکہ یہ اس کے اصل حق دار عرب قوم اور ان صہیونی جنگ جوؤں کے درمیان جاری لڑائی ہے جو فلسطینیوں کی چاہت کے علی الرغم عالمی سلامتی کے قیام کا دعویٰ کرنے والے چند ایک ملکوں کی مدد سے اپنا قبضہ جمانے کی کوشش میں ہیں۔ نیز فلسطین کو تقسیم کرنے کی منظور کردہ قرارداد جس کو مختلف ملکوں سے منظور کروانے میں آپ کا رول نمایاں رہا ہے، محض ظلم وناانصافی پر مبنی ایسی قرارداد ہے جس کو ابتدا ہی سے تمام عرب ملکوں نے نیز ان ملکوں نے بھی رد کر دیا جو حق کا ساتھ دے رہے ہیں لہذا حالیہ نتائج کے ذمہ دار عرب نہیں جس پر آپ ہمیں محتاط رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

میں اپنے ان مسلمان بھائیوں کے لیے انتہائی محبت اور شفقت کے جذبات رکھتا ہوں جو فلسطین میں صہیونی حملہ آوروں کے خلاف اپنے وطن کا دفاع کرتے ہوئے نذرانہ شہادت پیش کر رہے ہیں کیونکہ ہم عرب لوگ اس کو ایسا شرف سمجھتے ہیں جو ہمارے لیے قابل فخر ہے۔ ہم کسی بھی قیمت پر ان فلسطینی بھائیوں کی تائید سے دست بردار نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ صہیونی حملہ آوروں کے خوابوں کو چکنا چور نہ کر دیں۔ جہاں تک آپ نے باہمی اقتصادی مصلحتوں کا ذکر کیا ہے جن سے میرا اور آپ کا ملک جڑا ہوا ہے، تو یاد رکھیے کہ یہ اقتصادی مفادات میرے نزدیک پرِ کاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ میں ان اقتصادی مفادات کو قربان کر سکتا ہوں مگر مجھے یہ منظور نہیں کہ اس کے بدلے میں فلسطین کی ایک بالشت زمین بھی مجرم یہودیوں کے ہاتھوں فروخت کر دوں۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر گواہ ہے کہ میں تیل کے ان کنووں کو بند کر سکتا ہوں۔ تیل کے یہ کنویں اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں ہیں جو اس نے آج ہم پر جاری فرمائی ہیں لہذا ہم ان کو کبھی عذاب الٰہی میں تبدیل نہیں کرنا چاہتے۔ میں نے اس سے قبل کئی دفعہ ساری دنیا پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ میں اپنے تمام بیٹوں سمیت فلسطین کے لیے لڑنے مرنے پر تیار ہوں۔ پھر اس کے باوجود میرے لیے تیل کے یہ کنویں میری اپنی جان اور میری اولاد سے کیسے عزیز تر ہو سکتے ہیں؟ 

قرآن مجید کہ جس پر ہمارا ایمان ہے، جو ہماری زندگی ہے اور جس پر ہم اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں، اس کتاب نے تورات اور انجیل کی طرح یہود قوم پر لعنت کی ہے۔ یہی قرآن مجید ہم پر اس امر کو فرض قرار دیتا ہے کہ ہم اپنی جانوں اور مالوں کے ذریعے سے اس مقدس سرزمین کو یہودی دخل اندازی اور تسلط سے روکیں جس میں کوئی اور راستہ نہیں۔ اگر امریکی عیسائیوں اور ان کے دیگر حواریوں کے دینی عقیدہ کا تقاضا یہ ہے کہ وہ یہودیوں کو ان کے ناپاک قدموں کے ذریعے سے مقدس سرزمین کو ناپاک کرنے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں تو ہمارے دل بھی آج اس ایمان سے معمور ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس سرزمین کو یہودیوں سے پاک وصاف کریں۔ 

جس قسم کے الفت اور محبت اور جانب دارانہ تعلقات آپ کی حکومت نے یہودیوں سے استوار کیے ہیں اور اس کے مقابلے میں عرب کے ساتھ جس طرح آپ نے اپنی دشمنی کا اظہار کیا ہے، یہی ایک بات کافی ہے کہ ہم آ پ کے ساتھ خیر سگالی کے تعلقات کو منقطع کر دیتے، امریکی کمپنیوں کے ہمارے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں کو منسوخ قرار دے دیتے لیکن ہم نے اس لیے جلد بازی سے کام لینا مناسب نہیں سمجھا کہ ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ آپ کا ملک فلسطین کے موقف پر نظر ثانی کرے گا اور واضح باطل کی تائید سے کنارہ کش ہو کر واضح حق کا ساتھ دے گا۔ہم اس معاملہ میں آپ پر کوئی دباؤ ڈالنا نہیں چاہتے، نہ اس کے لیے تجارتی تعلقات کو ذریعہ بنانا چاہتے ہیں کیونکہ ہم عربی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حق کو بذریعہ حق غالب کیا جائے نہ کہ ان یہودیوں کی طرح جو رشوت دے کر مختلف ملکوں کو اپنی تائید پر ابھارنے کی کوشش میں ہیں۔ مگر اس کے باوجود جب ہمیں اس بات کا یقین ہو جائے کہ حق کو کیوں پامال کیا جا رہا ہے تو ہم اس کے تحفظ کے لیے ہر وہ وسیلہ اختیار کریں گے جو اس میں موثر ثابت ہوگا۔ خصوصاً عرب لیگ قومیت اور اس کے حقوق کی حفاظت کے لیے جو تجویز بھی منظور کرے گی، ہم اس کی تائید میں ہوں گے۔

یقیناًیہ بات میرے لیے باعث مسرت ہے کہ جو امریکی ہمارے ملک میں مقیم ہیں، وہ ہمارے مہمان ہیں۔ جب تک وہ ہماری سرزمین میں ہیں، انہیں ہماری جانب سے کوئی شکایت یا تکلیف نہیں ہوگی۔ آپ اس بات کا اطمینان رکھیں۔ سب سے زیادہ اگر ان کو کوئی تکلیف پہنچ سکتی ہے تو یہی کہ ہمارے ملک میں ان کے قیام کی مدت کو مختصر کر کے پوری عزت واکرام کے ساتھ ان کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے ان کے ملک امریکہ واپس بھجوا دیں۔

اخیر میں صاحب صدر! میں آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ جن تجارتی اشیا کی بنیاد پر ہمارے مابین اقتصادی تعلقات قائم ہیں، یہ وہ مال ہے کہ دنیا کی مارکیٹ میں ا س کے فروخت کرنے والے بہت کم ہیں لیکن اس کے خریدنے والے بہت زیادہ۔

صاحب صدر! میری نیک تمنائیں اور آداب قبول فرمائیں۔

مخلص عبد العزیز آل سعود

ملک المملکۃ العربیۃ السعودیۃ

جنوبی ایشیا کے حوالے سے یہودی منصوبہ بندی

اسرار عالم

(بھارت کے ممتاز مسلم دانش ور جناب اسرار عالم نے یہ مضمون دو سال قبل اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے دورۂ جنوبی ایشیا کے پس منظر میں تحریر کیا تھا۔ ادارہ)

 عالم اسلام کے بہتیرے حکمرانوں کی سالوسی‘ خاموشی یا مجبوری کے ساتھ حاشیہ برداری کے باوجود پوری امت اور بطور خاص عامۃ المسلمین میں بڑھتے ہوئے دینی رجحان‘ شعور‘ جاں سپاری اور مغرب سے نفرت نے یہودیوں کومزید برافروختہ اور انہیں مزید غیر انسانی طور پر کچلنے کی طرف مائل کر دیا ہے۔ یہودی قوت کی یہی حواس باختگی جو مختلف پردوں میں مختلف بہانوں یا تدبیروں سے اور مختلف ہاتھوں کے ذریعے سے تقریباً تمام ہی براعظموں میں مسلمانوں کے قتل عام‘ نسل کشی ‘ دربدری‘ عصمت دری‘ بائیکاٹ‘ اذیت دہی اور بے عزتی کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے۔ یہودی ان ساری تدبیروں کے باوجود امت کے عزم میں لچک کے آثا ردور دور تک نہیں پا رہے ہیں۔

اپنے تمام حربوں‘ تدبیروں اور دھمکیوں کے باوجود وہ اس میں ناکام ہو گئے ہیں کہ کسی مسلم ملک کو جوہری طاقت ہرگز بننے نہ دیں گے۔ اس ناکامی نے انہیں یکایک ایک ایسے خطرے کے اندیشے میں مبتلا کر دیا ہے جس کا نتیجہ یہ بھی برآمد ہو سکتا ہے کہ بیسویں صدی میں کی گئی ان کی ساری کوششیں صفر ہو کر رہ جائیں۔ چنانچہ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے ایک خطرناک فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ وہی فیصلہ ہے جس کی تعمیل کے پہلے مرحلے کے لیے صدر امریکہ نے جنوبی ایشیا کا سفر کرنا ضروری سمجھا۔

لیکن جنوب ایشیا کا ہی سفر کیوں؟ اس کے دو اسباب نظر آتے ہیں:

۱۔ یہودیوں کا یہ احساس کہ ساری دنیا میں اسلامی بیداری کا مرکز فی الوقت جنوب ایشیا ہے۔

۲۔ جنوبی ایشیا کی ایک قوم کے ایک طبقے کا یہ باور کرا دینا کہ وہ قوم اور یہودی اینگلو سیکسن انتظام قدرتی حلیف ہیں اور امریکہ کا اس پر شرح صدر ہو جانا۔

ایک جانب امریکہ اور جاپان کے مابین اس پر اتفاق کے باوجود کہ دونوں اپنے اختلافات کو مزید ہوا نہیں دیں گے (مئی ۴‘ ۲۰۰۰ء) یہ بات یقینی ہو چکی ہے کہ اب ان دونوں کے اختلافات یعنی جنگ عظیم دوم کے بعد یہودی قوم کا قائم کردہ امریکہ‘ برطانیہ‘ سلامتی کونسل‘ آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک انتظام کی روشنی میں جاپان امریکہ تعلقات Point of no return تک پہنچ گئے ہیں۔ دوسری جانب ۱۹۸۹ء سے جاری ہلمٹ کول طوفان کو ہرچند کہ اس طرح روک دیا گیا ہے کہ خود ہلمٹ کول کو صدارت سے الگ کر دیا گیا اور ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے لیکن ان سب کے باوجود یورپ میں ان کا لایا گیا اتحاد کا طوفان اب بھی پوری شدت سے آگے بڑھ رہا ہے جس کا نتیجہ اہل یورپ کا کوسوو آپریشن میں ناٹو کا بے دلی سے ساتھ دینا اور کسی درجے میں امریکی‘ برطانوی فوجوں سے عدم تعاون کرنا ہے۔

باشندگان برصغیر کے لیے بالعموم اور باشندگان ہند کے لیے بالخصوص سن ۲۰۰۰عیسوی کی شروعات بظاہر نہایت روشن اور امید افزا اور بباطن سخت تاریک اور بدترین معلوم ہوتی ہیں۔ اگر صدر کلنٹن کے اس دورے کے مضمرات مخصوص رخ پر گئے اور اس کے عواقب اسی طرح سامنے آئے جو اس طرح کے قدرتی تحالف کا منطقی نتیجہ ہے تو یہ ایک ایسی ہول ناک صورت ہوگی جس کی نظیر اس خطے کی تین ہزار سالہ تاریخ میں کوئی دوسری نہیں ملے گی۔

صدر امریکہ کلنٹن کا دورہ ظاہر ہے طرفین کے اتفاق کا نتیجہ ہوگا یعنی اس بات پر اتفاق کا کہ دونوں اپنی اپنی جگہ محسوس کرنے لگے کہ ان کے مخصوص مقاصد کی تکمیل اس تحالف میں ممکن ہے۔ ا س صورت میں یہ بالکل جداگانہ بات ہے کہ دونوں کے مقاصد الگ الگ ہوں۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں کے مقاصد ایک ہی ہوں یا ایک ہی بات کے دو الگ الگ پہلو۔ ایسی صورت میں طرفین کا یہ تصوراتی اتفاق بلا روک ٹوک عملی اتفاق میں بدل جائے گا اور بہت اہم امور میں گہرائی تک جا سکتا ہے۔کلنٹن نے مارچ ۲۰۰۰ء میں بھارت کا دورہ کیا اور انہوں نے بھارتی جنتا پارٹی کی قیادت والی حکومت کے ساتھ بہت سے میدانوں میں متفقہ اقدامات کے لیے معاہدے اور مفاہمت کیے جن میں سب سے اہم بات امریکہ کی بعض شرائط کے ساتھ ہندوستان کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لیے آمادگی ہے۔

اس کے معاً بعد اپریل میں برطانوی وزیر خارجہ کک کا دورۂ ہند ہوا اور انہوں نے بھی انہیں شرائط کے ساتھ ہندوستان کی سلامتی کونسل کی رکنیت کے استحقاق کی حمایت کی۔ اپریل کے وسط میں بھارت کے صدر کا دورۂ فرانس اور اس کے معاً بعد فرانس کے دو وفود کی بھارت آمد ہوئی۔ اس میں سب سے ابھری ہوئی بات بعض شرائط کے ساتھ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لیے بھارتی استحقاق کی فرانس کے ذریعے حمایت ہے۔ بھارت جیسے ایشیائی ملک کا سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننا اہل ایشیا کے لیے خوشی اور اطمینان کی بات ہے لیکن کل تک مغرب کا بھارت کو رکنیت سے محروم رکھنا اور آج حمایت کرنا تشویش کا باعث ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ کہیں عالمی استعماری قوتیں بھارت کی موجودہ حکومت کے مخصوص رجحانات کا اپنے استعماری مقاصد کے لیے استحصال کرنا تو نہیں چاہتیں؟ اگر ایسا ہے تو لازماً اس کا نقصان صرف اور صرف بھارت کو ہوگا۔ تشویش کی دوسری بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر یہ اتفاق اور تحالف ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بھارت کی اندرونی صورت حال بعض پہلوؤں سے اتنی سنگین ہو چکی ہے کہ جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ شاید ۱۹۴۶ء اور ۱۹۴۷ء میں بھی صورت حال اتنی سنگین نہیں تھی۔ بابری مسجد کا انہدام‘ ٹاڈا میں ہزاروں مسلمانوں کی گرفتاری اور مہینوں بلکہ سالوں دستور کی موجودگی میں بلا مقدمہ قید وبند اور اذیت‘ قانون اور حکومت کے بعض بے قابو حلقوں کا فاشسٹ عناصر کی کھلی حمایت اور ان کے لیے قانونی چھتری کی فراہمی‘ پورے ملک میں مسلمانوں کو برسرزمین خوف زدہ کرنا‘ مسلم معیشت کے خلاف درپردہ اور علانیہ عملی اقدامات‘ دستور کی ترمیم کی کارروائی کا آغاز‘ مذہبی تعمیرات بل کے ذریعے سے ہر طرح کے مذہبی‘ ثقافتی اور تہذیبی اداروں اور سرگرمیوں اور تشخصات کا خاتمہ کرنے کی کوشش‘ مخصوص علاقوں اور زمینوں سے مسلمانوں کی جبری بے دخلی‘ تمام دینی‘ ثقافتی اور تہذیبی سرگرمیوں کو غیر ذمہ دارانہ طور پر دہشت گردی قرار دینا‘ تمام دینی‘ ثقافتی اور تہذیبی مقامات کو دہشت گردی کے اڈے قرار دینا‘ مسلمانوں کا انتظامیہ‘ مقننہ اور عدلیہ سے اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے دستوری چارہ جوئی کے حق کا صرف کاغذ پر باقی رہ جانا‘ پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے معتد بہ حصہ کو فاشی جذبات سے بھر دیا جانا اور فوج کے بعض طبقات کا اس سے اچھوتا نہ رہ جانا‘ بیوروکریسی کے بہت بڑے طبقے کا انہیں سرگرمیوں میں متحرک ہو جانا ایک ایسی صورت حال کو جنم دے رہا ہے جس کے عواقب کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

اس مخصوص صورت حال میں مشہور ماہر حکمت عملی اور قومی سلامتی کونسل کے رکن کے سبرمینیم (K. Subrahmanyam) کا یہ اظہار خیال بہت معنی خیز ہے کہ

’’بین الاقوامی دہشت گردی‘ مذہبی انتہا پسندی اور منشیات کے لین دین کو قابو میں لانا اس اتفاق کا بنیادی جزو ہے (جو بھارت اور امریکہ کے مابین ہے)‘‘

ہرچند کہ یہ بات بے حد حیرانی کی ہے کہ ہندوستان کے سب سے بڑے فکری گروہ آر ایس ایس کی ہندوستان کے تعلق سے عالمی پالیسی امریکہ کی عالمی پالیسی کے بالکل علی الرغم اور اس سے متصادم ہے۔ آر ایس ایس ایک نظریاتی گروہ ہے اور سبرا مینیم کی تلقین خالصتاً ابن الوقتی اور موقع پرستی کے اصول پر قائم ہے۔ ہر چند کہ سبرامینیم نے اپنے فلسفے کو عملیت (Pragmatism) کا لبادہ اوڑھایا ہے لیکن وہ اپنی اس عملیت کی پیش کش میں یہ بتانے سے قاصر رہے کہ اگر ایک بار بھارت اس عملیت کا سہارا لے کر اپنی ریاستی اصولیت سے ہٹ جائے اور کچھ دنوں کے بعد اسے یہ اندازہ ہو کہ امریکہ بھارت اور اپنے مفادات کے توازن کے ساتھ تکمیل سے زیادہ صرف اپنے مفادات کی تکمیل چاہتا ہے اور اسے بھارتی مفادات سے کوئی خاص غرض نہیں تو پھر بھارت اس صورت حال سے اپنے کو کیونکر نکال پائے گا اور اس کی عملیت کیا ہوگی؟ اور یہ خطرہ اس صورت میں اور بھی عیاں ہوتا نظر آتا ہے کہ وہ خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ صرف اس کا مسئلہ نہیں جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے:

’’امریکہ بھارت کے بازار میں دلچسپی رکھتا ہے ٹھیک اسی طرح جیسے ہر ملک کسی دوسرے ملک کے بازار میں دلچسپی رکھتا ہے۔ بھارت کو چاہییے کہ وہ امریکہ کے بازار میں بھارتی سوفٹ ویئر اور ہنر مندی کے امکانات کے دروازے وا کرے‘‘۔

بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ: 

’’اس بنیادی مفروضے میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ دنیا میں اپنے سپر پاور کے مقام کو دوامی بنائے رکھنا‘ اپنے شہریوں کو سب سے زیادہ فی کس آمدنی دینا اور تمام بڑے تدبیری‘ معاشی‘ تکنیکی اور عالمی ماحولیاتی فیصلوں میں غالب فیصلہ کن حیثیت میں رہنا چاہتا ہے۔‘‘

ظاہر ہے کہ اس صورت میں بھارت کے لیے اس غار میں داخل ہونا جتنا خوش نما اور آسان ہوگا‘ اختلاف کی صورت میں اس غار سے نکلنا اتنا ہی بھیانک اور مشکل۔ لیکن اب جبکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی جنتا پارٹی حکومت نے اس سمت میں جانے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو سبرامینیم کے الفاظ میں بھارت اور امریکہ کے متفقہ مقاصد اس خطے میں اقلیتوں کے لیے بے حد تشویش ناک ثابت ہوں گے۔ حالات کے اس رخ پر چلے جانے کے بعد وزیر داخلہ ایڈوانی کا بیان مزید تشویش ناک مضمرات کا حامل سمجھا جاتا ہے کہ اب بھارت پر بیرونی خطرے اور اس کے اندرونی خطروں میں فرق باقی نہیں رہ گیا ہے۔ اب ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ یہ خطہ ایک ہزار سال کے اجتماعی امن کے بعد پھر قتل عام اور بڑے پیمانے پر عوامی بے دخلی (Mass exodus) کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کا تلخ تجربہ بھارت کی تاریخ نے بطور خاص دوسری صدی عیسوی اور نویں صدی عیسوی کے مابین کیا تھا۔ لیکن اس سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی اس خطے کے تعلق سے پالیسی میں اچانک تبدیلی اور ان کی جانب سے بھارت کے انتخاب کا اصل سبب کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ

۱۔ یہودی قوت یہ محسوس کر چکی ہے کہ اب اس کی اور عالم اسلام کی کشمکش ناگزیر ہو کر عالمی جنگ کی صورت اختیار کرنے جا رہی ہے۔

۲۔ یا یہ کہ وہ اب اس کا فیصلہ کر چکے ہیں کہ عالم اسلام کو کچل دینے میں مزید تاخیر ان کے عالمی منصوبے کو ہی درہم برہم کر کے رکھ دے گی لہذا ایسا اقدم ناگزیر ہوگیا ہے۔ لیکن وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ایسا قدم ایک عالمی جنگ پر منتج ہوگا۔

۳۔ یا یہ ہے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کو ڈھانے اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو اور پورے جزیرۃ العرب پر قبضہ کر لینے کو مزید ٹالنا خطرناک ہوگا لہذا اس آپریشن کے کرنے کا وقت گزرتا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ایسا آپریشن ایک عالمی جنگ پر منتج ہوگا۔

۴۔ کیا وہ اس نتیجے تک پہنچ گئے ہیں کہ ایک عالمی جنگ کی صورت میں جرمنی اور جاپان نہ صرف یہ کہ ان کا ساتھ نہیں دیں گے بلکہ ممکن ہے کہ مخالفانہ رول ادا کریں اور اس صورت میں سلامتی کونسل میں ان کی رکنیت ہول ناک نتائج پیدا کرے گی؟

۵۔ کیا وہ اس نتیجے تک پہنچ گئے ہیں کہ جنگ عظیم دوم کے بعد انہوں نے جرمنی اور جاپان کی عزت نفس کو جس طرح پامال کیا ہے‘ اس کے سبب کسی بحرانی صورت میں ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

۶۔ کیا ا س کا سبب عالم اسلام سے ہونے والی عالمی جنگ کی مخصوص حکمت عملی ہے؟ یہ بات واضح ہے کہ ایسی آئندہ جنگ کی تین خصوصیات ہوں گی:

(i) ایک جانب سے اعلیٰ فنی جنگی مشینری کی حرکت (High-tech war machinary mobilisation) اور دوسری جانب سے ادنیٰ اور متوسط جنگی مشینری کی حرکت (Low and medium-tech war machinary mobilisation) 

(ii) بے حد وحساب خام مال کی کھپت (High consumption of raw material)

(iii) غیر معمولی اور بے شمار انسانی جانوں کا تلف ہونا (War of over-kill)

ظاہر ہے اس صورت حال میں کئی باتیں قابل ذکر ہوں گی۔

(i) یہودیوں کا موت سے بے حد ڈرنا جبکہ ایک عام اندازے کے مطابق ایک ایسی عالمی جنگ کے چھڑنے کی صورت میں اب ۳۰ سے ۵۰ کروڑ لوگوں کے مرنے یا زخمی ہونے کا اندیشہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ۵۰ کروڑ کے کلی زیاں میں اگر یہودیوں اور مسلمانوں کی اموات کا تناسب ۱۰۰:۱ بھی ہو جب بھی یہودیت ۵۰ لاکھ اموار کو برداشت نہیں کر سکے گی۔

(ii)اس صورت میں اس کے لیے جرمنی اور جاپان بے کار ہیں۔ وہ ان کے لیے اتنی جانوں کی قربانی دینے کی صلاحیت سے قاصر ہیں۔

(iii) یورپ کا کوئی ملک شاید کسی ایسی جنگ کے لیے تیار نہ ہو مثلاً روس اور مشرقی یورپ کے ممالک۔

(iv)جنگ عظیم اول اور دوم کے سابقہ ریکارڈ کی بنیاد پر وہ یہ قیاس کرنے میں حق بجانب ہیں کہ بھارت ان کے لیے اتنی جانوں کی قربانی دے سکتا ہے۔ خود اس ملک کی اندرونی صورت حال میں ایک طبقے کے لیے یہ تاریخی حکمت عملی دور رس نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔

(v) انسانی وسائل کے ساتھ ساتھ کسی ایسی جنگ میں خام مال اور اب اس Globalised دنیا میں Industrial Base بھی ناگزیر ہیں۔ جرمنی تو خر کسی حد تک ورنہ جاپان تو خام مال کے تناظر میں بالکل بے کار ہے۔ بھارت ہر دو اعتبار سے مالا مال ہے۔

(vi) جرمنی اور جاپان دونوں یہودیوں کے علاقہ دشمنی کی باہری سرحدوں پر واقع ہیں اور کسی ایسی جنگ میں ان کا تعاون موثر نہیں ہوگا۔ اس کے برخلاف یہودیوں کے نقطہ نظر سے بھارت باہری سرحدوں (Peripheral) پر ہونے کے بجائے عالم اسلام کے وسط میں واقع ہے جو ہر اعتبار سے Mobility اور Strike کے لیے موزوں ہے۔ یہودیوں اور امریکہ کو اس سے چنداں غرض نہیں کہ اس صورت میں بھارت کو کتنے نقصانات کا سامنا ہوگا اس لیے کہ صرف اپنے مفادات کو سامنے رکھنا ان کی تاریخ رہی ہے۔

(vii) کسی ایسی متوقع جنگ میں بیلسٹک میزائلوں کا رول سب سے زیادہ ہوگا۔ ایسی صورت میں بین بر اعظمی بیلسٹک میزائل کا رول بہت کم نظر آتا ہے۔ خاص طور پر اس صورت میں کہ ان کے وار ہیڈز جوہری ہوں اور روایتی ہیڈز کے ساتھ بین بر اعظمی میزائلوں کے استعمال کی کوئی گنجائش نہیں‘ نہ مالی اعتبار سے اور نہ جنگی اعتبار سے۔ لہذا اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ درمیانے اور چھوٹے درجے کے بیلسٹک میزائل ہی زیادہ تر استعمال کیے جائیں۔ اس صورت میں واقعی علاقہ جنگ (Real war theatre) کا معاملہ یہودیوں کے لیے سنگین ہوگا خاص طور پر اس لیے کہ ان کے دماغوں میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی یاد ابھی محو نہیں ہوئی ہے چنانچہ اس تناظر میں بھی بھارت ان کے لیے نہایت موزوں علاقہ ہے جہاں وہ اپنے مفادات کی جنگ بھارتی سرزمین پرلڑنا چاہتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر یہودیوں کو بھارت کی آمادگی بھی مل جائے تو یہ ہر صورت سے جرمنی اور جاپان کے مقابلے میں زیادہ مفید ہوگی۔

کیا مسٹر کلنٹن کا دورہ دراصل اس سلسلے کا آغاز ہے جس کا منطقی نتیجہ غزوہ ہند ہو سکتا ہے؟ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگ ظہور دجال سے معاً قبل کسی نزدیکی عہد میں ہوگی۔ یہ جنگ بے حد خوں آشام ہوگی جس میں جان اور اسباب کا بے حد زیاں ہوگا۔ جس کی شروعات مقامی اہل ایمان پر غیر انسانی مظالم‘ ان کی بے بسی اور ان کی داد رسی کے حوالے سے ہوگی۔ عین ممکن ہے کہ حالات کے وقوع پذیر ہونے کا وہ آخری سلسلہ جس کی آخری کڑی ظہور دجال اور پھر قتل دجال ہے‘ اس کا آغاز غزوہ ہند سے ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا سبب جنوب ایشیا میں مسلمانوں کا قتل عام اور ان کا کلی صفایا کر دینے کے اقدامات ہوں جس کے آثار بد قسمتی سے پوری طرح نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔

امریکہ اور برطانیہ کے اس فیصلے کے تناظر میں ان کے مقاصد کو اس طرح ملخص کیا جا سکتا ہے:

۱۔ جنوب ایشیا میں مسلمانوں کو نہتا کرنا

۲۔ یہودیوں کے نقطہ نظر سے جنوب ایشیا میں نام نہاد اسلامی لہر کو روکنے کے لیے اسلامی سرگرمیوں‘ تشخصات اور ثقافت کا خاتمہ کرنا۔ اس صورت میں اس ایجنڈے کی طرف پیش رفت جس کے تحت پورے جنوبی ایشیا کو اسلامی جذبات وعواطف سے پاک کرنا اور بھارت میں مسلمانوں کو بہرصورت de-islamise کرنا یا انہیں Liquidation کی حد تک  Marginaliseکر دینا ناگزیر ہے۔ اگر حکمت عملی کی بنا یہی ہے اور ایسا نہیں لگتا کہ اس کے سوا کوئی اور بات یہودیوں کو منظور ہوگی تو اس صورت حال میں یہ وہ انقلابی تبدیلی ہے جو لازماً تاریخی رخ اختیار کرے گی اور پھر صورت حال ہر ایک کے قابو سے باہر ہو جائے گی۔

اسلامی تحریکیں اور مغربی بلاک

پروفیسر میاں انعام الرحمن

بیسویں صدی کے آخری دو عشرے اس لحاظ سے بہت اہمیت کے حامل ہیں کہ اس دوران میں عالمی سیاست کے رجحانات میں بنیادی تبدیلیاں واقع ہوئیں ۔ کمیونزم کی توسیع اور گرم پانیوں تک رسائی کے لیے سوویت یونین کی افغانستا ن میں مداخلت، سوویت یونین کی شکست وریخت، کشمیر کی تحریک آزادی میں شدت، اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حل کے لیے مغربی طاقتوں کی نام نہاد کوششیں، یوگوسلاویہ کا زوال اور بوسنیا کے مسلمانوں پر شرم ناک ظلم وستم۔ اگر ہم درج بالا امور کو ذہن میں رکھیں تو تبدیلی کی نہج اس طرح ترتیب پاتی ہے:

۱۔ سرد جنگ کا خاتمہ اور امریکہ کا یک قطبی طاقت کے طور پر ابھرنا،

۲۔ نئی مسلم ریاستوں کا ظہور،

۳۔ اسلامی تحریکوں کا اس زعم میں مبتلا ہونا کہ نئی ریاستیں ان کی مجاہدانہ سرگرمیوں کا نتیجہ ہیں،

۴۔ ا س زعم کی وجہ سے کشمیر کی تحریک آزادی میں تشدد کا در آنا،

۵۔ اسی زعم کا ایک خاص پہلو افغانستان کی ’’مثالی‘‘ امارت اسلامیہ کی صورت میں سامنے آیا اور اسلام کی تعبیر وتشریح اور اظہار میں عصری تقاضوں کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ یہ سمجھا گیا کہ اگر اتنی بڑی ایمپائر کو صرف ’’مجاہدانہ‘‘ سرگرمیوں سے گرایا جا سکتا ہے تو ظاہر ہے کہ زندگی کے باقی اموربھی پرانے طور طریقوں اور تشریحات سے انجام دیے جا سکتے ہیں۔

۶۔ اسلامی تحریکوں کا اپنی بساط سے بڑ ھ کو خود کو پیش کرنا۔ اس قسم کے دعوے کرنا کہ اکیسویں صدی اسلام کی صدی ہے، ہم نے سوویت یونین کو شکست دی ہے، کمیونزم کو شکست دی ہے، اب ہم مغربی دنیا سے بھی مقابلہ کرنے کو تیار ہیں، سرمایہ دارانہ نظام کی شکست وریخت ہمارے ہی ہاتھوں ہوگی وغیرہ وغیرہ۔

۷۔ مغرب کا اسلام کو ایک خطرے کے طور پر بھانپ لینا۔

اگر ہم ان نکات کو سامنے رکھیں تو مسلمانوں کی ’’سادگی‘‘ اس طرح ظاہر ہوگی کہ

۱۔ سوویت یونین کی شکست وریخت صرف ’’مجاہدانہ‘‘ سرگرمیوں کا نتیجہ نہیں تھی۔ اس جنگ کے دوران میں ایک بہت بڑا اور طاقت ور بلاک ان کی پشت پر تھا۔ اس بلاک کے اپنے مخصوص مقاصد تھے جن کے حصول کے لیے مسلمان اور اسلامی نظریہ کو استعمال کیا گیا۔

۲۔ خیال رہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کمیونزم کی توسیع بہت سرعت سے ہوئی جس سے شمالی امریکہ اور برطانیہ شدید خدشات کا شکار ہو گئے۔ اگر ہم دوسری جنگ عظیم کے وقت کی دنیا پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ تقریباً سارا یورپ سوائے برطانیہ کے، آمرانہ نظام کو اپنائے ہوئے تھا۔ جمہوریت صرف برطانیہ اور شمالی امریکہ تک محدود تھی۔ اس طرح جنگ سے پہلے بھی ان دو ملکوں کے لیے چیلنج موجود تھا جو جنگ کے بعد کمیونزم کی توسیع کی صورت میں موجود رہا۔ جنگ سے پہلے ان دونوں ملکوں نے جمہوریت کو بچائے رکھا۔ اب جنگ کے بعد جمہوریت کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کو بچانا بھی مقصود تھا۔ کمیونزم جس تیزی سے پھیل رہا تھا اور جتنا ڈسپلن اور تنظیم کمیونسٹوں میں موجود تھی، اس سے دونوں ممالک ہائی الرٹ ہو گئے اور نتیجے کے طور پر کمیونزم کی توڑ پھوڑ کے لیے زیادہ تیزی، ڈسپلن اور تنظیم سے کام کرنے لگے۔ اس سے ایک نکتہ سامنے آتا ہے کہ کمیونزم کا عروج اور پھیلاؤ اس کے زوال کا سبب بنا کیونکہ اسی بنا پر مقابل بلاک ہائی الرٹ ہو گیا اور Backlash effect (جوابی حملے) کے مصداق کمیونزم کی روک تھام کے لیے انتہائی اقدامات کیے گئے۔ مسلمان اور اسلامی نظریہ بھی انہی اقدامات کا ایک حصہ تھے۔

۳۔ اس Backlash effect کے اثر شمالی امریکہ اور برطانیہ تو اپنے مقاصد میں کام یاب ہو گئے۔ جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کو بچا لیا گیا لیکن بزعم خویش مسلمان بھی اپنے مقاصد میں کام یاب ہو گئے۔ نئی مسلم ریاستوں کا ظہور ہوا۔ یورپ کے قلب میں ایک مسلم ریاست بن گئی۔ جہاد کے ثمرات کی وجہ سے ’’جہاد‘‘ کو مزید تقویت پہنچی۔ کشمیر، فلسطین وغیرہ میں اسلامی تحریکیں شدت اختیار کر گئیں۔ افغانستان کے نوے فی صد حصے پر اسلامی حکومت قائم ہو گئی۔ پاکستان کو موقع مل گیا کہ افغان سرحد سے بے فکر ہو کر کشمیر پر اپنی توجہ مبذول رکھ سکے تاکہ جہاد کا ایک اور ’’ثمر‘‘ سامنے آ سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ریاستوں سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کی پلاننگ کرے کہ معاشی قوت بننے کا نادر موقع آپہنچا ہے وغیرہ۔

۴۔ اپنے مقاصد میں کام یابی کے حوالے سے ہم ایک بنیادی بات بھول گئے کہ یہ کام یابی صرف ہماری قربانیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس میں ٹیکنالوجی اور سرمایہ غیروں کا تھا۔ اس طرح اپنی استعداد کا غلط اندازہ لگاتے ہوئے ہم نے اپنا دائرہ کار وسیع کر لیا جس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔

۵۔ سوویت یونین اور کمیونزم کی شکست وریخت کو اپنی کام یابی گردانتے ہوئے اسلامی تحریکوں نے اپنی پروجیکشن اور تشہیر شروع کر دی، اپنا دائرہ کار بھی بڑھا لیا حالانکہ پہلے ان کی پشت پر کوئی موجود تھا جو ان میں موجود ’’کمی‘‘ کو پورا کر رہا تھا۔ اب جبکہ وہ پشت پر موجود نہیں رہا، اسلامی تحریکیں خود کو اسی طرح طاقت ور اور فعال خیال کر رہی ہیں۔ اس طاقت اور فعالیت کے ساتھ جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے، کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

۶۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی تحریکوں کو موجودہ صورتِ حال کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟ میرے خیال میں یہ وہی Backlash effect ہے جو شمالی امریکہ اور برطانیہ نے سوویت یونین کی روک تھام کے لیے اختیار کیا تھا۔ اسلامی تحریکوں کی پروجیکشن اور بڑھکیں اس Backlash effect کا سبب بنی ہیں۔ ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اسلامی تحریکوں کا پھیلاؤ اور احیا ہی ان کے زوال کا سبب بن رہا ہے۔ مغربی بلاک ہائی الرٹ ہو گیا ہے کیونکہ ہماری توسیع اور پلاننگ بغیر بنیاد کے تھی یعنی ہم نے دائرہ کار بڑھاتے ہوئے اپنی استعداد کا غلط اندازہ لگایا لیکن دائرہ کار مغربیوں کے Backlash effect کا سبب بن گیا۔ مغربی بلاک دائرہ کار کی وجہ سے ہماری طاقت اگر پچاس فی صد خیال کرتا ہے تو حقیقتاً ہماری طاقت دس فی صد ہے کیونکہ ہم نے مصنوعی انداز سے اپنا دائرہ کار پھیلا رکھا تھا حالانکہ اس کی استعداد نہیں تھی۔ اسی وجہ سے Backlash effect کے اثرات ہمارے لیے زیادہ شدید ثابت ہوں گے۔ اگر ہم سوویت یونین سے تقابلی جائزہ لیں تو شمالی امریکہ اور برطانیہ پچاس کی دہائی میں ہی ہائی الرٹ ہو چکے تھے۔ اس کی وجہ سینیٹر میکارتھی تھا۔ بہرحال سوویت یونین اتنا سخت جان ثابت ہوا کہ نہ صرف Backlash effect کے باوجود کئی عشرے سہار گیا بلکہ شمالی امریکہ اور برطانیہ کے لیے دردِ سر بنا رہا کیونکہ کمیونزم کا پھیلاؤ اور پروجیکشن اتنی مصنوعی نہیں تھی اور اس میں استعداد بھی موجود تھی۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمانوں اور اسلامی تحریکوں میں اتنی استعداد موجود ہے کہ وہ مغربی بلاک کے اس Backlash effect کو عشروں تک سہار سکیں؟ معروضی اور تجزیاتی جائزہ جواب نفی میں دیتا ہے۔

یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مغربی بلاک کے توسیع پسندانہ عزائم کے مقابلے میں بھی Backlash effect ممکن ہے؟ میرا خیال ہے نہیں کیونکہ سوویت یونین کے خلاف شمالی امریکہ اور برطانیہ ایسا اظہار کر سکتے تھے کہ ٹیکنالوجی اور اسٹریٹجی کے اعتبار سے دونوں ممالک سوویت یونین سے برتر تھے۔ اسی طرح ان کا Backlash effect مسلمانوں اور اسلامی تحریکوں کے حوالے سے بھی موثر ہے لیکن مسلمان اور اسلامی تحریکیں ایسا اظہار کرنے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں ہیں کیونکہ Backlash effect کے موثر ہونے کے تقاضے بھی ہیں اور ان تقاضوں کو پورا کرنے کی استعداد فی الحال ہم میں موجود نہیں۔

عصرِ حاضر میں اسلام کی تعبیر و تشریح ۔ مولانا منصوری کے ارشادات پر ایک نظر

عرفان الہی

مولانا محمد عیسیٰ منصوری کے مضمون ’’عصر حاضر میں اسلام کی تعبیر وتشریح‘‘ نے فکر وخیال کو مہمیز لگا دی۔ مدت سے جاری سست رفتار غور وفکر نے جلد ہی نتائج کو آئینہ خیال میں مشکل کر دیا۔ اس موضوع پر اپنے ناقص مطالعہ وفکر کے نتائج حسب ارشاد پیش خدمت ہیں جن میں کوئی بھی صحیح اضافہ وترمیم دل وجان سے قابل قبول ہوگا۔

جہاں تک مولانا منصوری کے اس ارشاد کا تعلق ہے کہ دعوت دین میں عقائد کی دعوت کو مقدم کیا جائے تو مجھے اس سے اتفاق ہے۔ یہی انبیاء کا نہج ہے۔ ا س میں مسلم مبلغین ومفکرین سے جو کوتاہی ہوئی یا ہو رہی ہے، ظاہر ہے۔ اسلام دلوں پر حکمرانی کرنے آیا ہے نہ کہ محض جسموں پر۔ البتہ دوسرے انبیاء علیہم السلام کے علاوہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سیرت میں دعوتِ دین کا کچھ مختلف انداز بھی سامنے آتا ہے ۔

مولانا منصوری کی یہ بات کہ اہل مغرب جو موجودہ اندازِ دعوت دین کی وجہ سے جس میں سیاسی پہلو غالب ہو، پہلے مرحلے پر ہی ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں اور انداز دعوت کے بدل جانے سے زیادہ کھلے اور ٹھنڈے دل سے اسلام کی دعوت کو سن سکیں گے، اس سے مجھے مکمل اتفاق نہیں۔ انفرادی سطح پر جزوی طور پر یہ بات درست ہو سکتی ہے مگر اجتماعی سطح پر ہرگز نہیں۔

قرآن مجید جو ابدی حقائق کی کتاب اور دعوتِ دین کا اصل ماخذ ومعلم ہے، ہمیں بتاتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام جب فرعون کے پاس تشریف لے گئے تو آپ کے کندھوں پر دہری ذمہ داری تھی:

۱۔ بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات دلانے کی جدوجہد

۲۔ فرعون اور اس کی قوم کو دعوتِ دین۔

فرعون کے دربار میں موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو اپنا اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کا تعارف بطور رسول خدا کرانے کے بعد جو پہلی بات فرمائی، وہ بنی اسرائیل کی رہائی کی بات تھی اور دوسری بات دعوت تھی۔

فَاْتِیَاہُ فَقُوْلاَ اِنَّا رَسُوْلاَ رَبِّکَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ وَلاَ تُعَذِّبْہُمْ قَدْ جِءْنَاکَ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ وَالسَّلاَمُ عَلیٰ مَنِ اتَّبَعَ الْہُدیٰ (طٰہٰ)

’’اس (فرعون) کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم آپ کے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دیجیے اور انہیں عذاب نہ کیجیے۔ ہم آپ کے پاس آپ کے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آئے ہیں اور جو ہدایت کی بات مانے، اس پر سلامتی ہو۔‘‘

اس کے بعد ہی موسیٰ علیہ السلام فرعون کو مفصل دعوت دیتے ہیں۔اس دعوت اور فرعون کے رد عمل کو ملاحظہ فرمائیے:

’’فرعون نے کہا کہ تمام جہانوں کا مالک کیا؟

(موسیٰ علیہ السلام نے) کہا کہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں میں ہے، سب کا مالک بشرطیکہ تم لوگوں کو یقین ہو۔

(فرعون نے اپنے ہالی موالی سے) کہا کہ کیا تم سنتے نہیں؟

موسیٰ بولے، تمہارا اور تمبارے باپ دادا کا مالک۔

فرعون نے کہا، یہ پیغمبر جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے، باؤلا ہے۔

موسیٰ نے کہا، مشرق اور مغرب اور جو کچھ ان دونوں میں ہے، سب کا مالک بشرطیکہ تم سمجھو۔

فرعون نے کہا، اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تمہیں مقید کر دوں گا۔

موسیٰ نے کہا، خواہ میں آپ کے پاس روشن چیز (یعنی معجزہ) لاؤں؟

فرعون نے کہا، اگر سچے ہو تو اسے لاؤ۔

پس انہوں نے اپنی لاٹھی ڈالی تو وہ اسی وقت صریح اژدہا بن گئی اور اپنا ہاتھ نکالا تو اسی دم سفید براق نظر آنے لگا۔

فرعون نے اپنے گرد کے سرداروں سے کہا، یہ کامل الفن جادوگر ہے۔ چاہتا ہے کہ تم کو اپنے جادو کے زور سے تمہارے ملک سے نکال دے۔ تو تمہاری کیا رائے ہے؟ (الشعراء)‘‘

اس ساری گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کا معاملہ کسی اور وقت کے لیے اٹھا نہیں رکھا بلکہ اصل دعوت پر بھی مقدم فرمایا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی دعوت توحید کو نہایت وضاحت اور سادگی سے پیش کیا جس سے کوئی اور پہلو نکالنا ممکن نہیں تھا مگر فرعون نے ان پر حکومت واقتدار کے حصول کی تہمت لگا دی تاکہ قوم فرعون بدک کر موسیٰ علیہ السلام کی دعوت سے کان لپیٹ لے اور ذہنی تناؤ کی کیفیت میں آجائے۔

موسیٰ علیہ السلام کی خواہش اور دعوت اس لیے تھی کہ

ھَلْ لَّکَ اِلیٰ اَنْ تَزَکیّٰ وَاَھْدِیَکَ اِلیٰ رَبِّکَ فَتَخْشیٰ (النازعات)

’’کیا تو چاہتا ہے کہ پاک ہو جائے اور میں تجھے تیرے پروردگار کا رستہ بتاؤ ں کہ تجھ کو خوف پیدا ہو؟

مگر فرعون کی حکمرانی کی چھٹی حس اس میں اپنے لیے خطرے کی بو محسوس کرنے لگی اور اس کا خدشہ کچھ غلط بھی نہ تھا۔ قرآن پاک ہی ہمیں بتاتا ہے کہ فرعون اور اس کی قوم جب اپنی نافرمانی کے ہاتھوں غرق ہو گئے تو بنی اسرائیل ہی وارث قرار پائے:

فَاَخْرَجْنَاھُمْ مِّنْ جَنَّاتٍ وَّعُیُوْنٍ وَّکُنُوْزٍ وَّمَقَامٍ کَرِیْمٍ کَذَالِکَ وَاَوْرَثْنَاھَا بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ (الشعراء)

’’تو ہم نے ان کو باغوں اور چشموں سے نکال دیا اور خزانوں اور باعزت مکانات سے ۔ (ان کے ساتھ ہم نے) اس طرح (کیا) اور ان چیزوں کا وارث بنی اسرائیل کو کر دیا۔‘‘

اہل مغرب اس وقت صرف ہماری دعوت کے مخاطب ہی نہیں، تنقید کے مورد بھی ہیں۔ وہ بالواسطہ اور بلا واسطہ اہل اسلام کے عظیم اور ناقابل تلافی نقصانات کے ذمہ دار ہیں۔ ہم دعوت دین کے وقت بھی اپنی قوم کو موسیٰ علیہ السلام کے اسوہ کی روشنی میں نظر انداز نہیں کر سکتے۔ مظلوم کی حمایت اگر سیاست کا جزو ہے تو اسے دعوت دین سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

اہل مغرب اس وقت معنوی طور پر تقریباً پوری دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ ہم خواہ کتنی ہی سادگی سے دعوت دیں، اہل مغرب کو اسلام کے روپ میں اپنے اقتدار کے لیے ایک خطرہ لازماً محسوس ہوگا۔ وہ اسی ذہنی تناؤ کا شکار ہوں گا جس کا شکار فرعون ہوا تھا کیونکہ اہل سیاست کی ذہنیت ایک ہی ہوتی ہے۔

دوسری مثال تاریخ رسالت سے ہمیں ملتی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے قیصر روم کو دعوتی خط لکھا تو اس نے یہ تبصرہ کیا:

’’اگر یہ نبی سچا ہے تو ایک دن میرا پایہ تخت اس کے قدموں کے نیچے ہوگا۔‘‘

رسول اللہ ﷺ کا خط ایک دعوتی خط تھا مگر اس حکمران کو بھی اس میں اپنے اقتدار کے لیے خطرہ محسوس ہوا اور یہ خدشہ بھی بے جانہ تھا۔ کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ اسلام خود کو دوسری حکومتوں کے لیے خطرہ کے طور پر پیش کرتا ہے مگر دوسری حکومتیں اس کو بہرحال اپنے لیے خطرہ گردانتی ہیں۔

مولانا منصوری نے اہل مغرب کے جس ذہنی تناؤ کا ذکر فرمایا ہے، وہ غالباً دعوت دینے والوں کے غلط انداز دعوت کی بنا پر ہوگا مگر صحیح انداز دعوت کے باوجود اس سے مکمل طور پر نجات ممکن ہوگی۔ ہاں صرف اس صورت میں اس ذہنی تناؤ کے رد عمل سے بچنا ممکن ہو سکتا ہے جب ہم اسلام کو محض انفرادی سطح تک ہی متعارف کرائیں اور اس کے نظام اجتماعی کی ہوا بھی نہ لگنے دیں مگر یہ اسلام کے ساتھ نادان دوستی ہوگی جس سے اس کا حقیقی چہرہ مسخ ہو جائے گا۔

آخر میں ایک یورپی نو مسلم محمد اسد کی کتاب Road to Makkah سے ایک اقتباس نقل کرتا ہوں جو معاملہ کی بہترین وضاحت پیش کرتا ہے:

’’جب اہل مغر ب کسی دوسرے مذہب یا تہذیب مثلاً ہندو مت یا بدھ مت کے بار ے میں بات کرتے ہیں تو وہ ان مذاہب اور اپنے تہذیبی نظریات کے بنیادی اختلافات سے ہمیشہ آگاہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے یا ان مذاہب اور تہذیبوں کے نظریات کی تعریف بھی کر دیتے ہیں لیکن یہ بات ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آتی کہ وہ ان کو اپنی تہذیب کے نعم البدل کے طور پر اپنا لیں کیونکہ وہ پہلے ہی سے اس کے ناممکن ہونے کا یقین کیے ہوتے ہیں۔ وہ ان اجنبی تہذیبوں کی حوصلہ افزائی متانت اور اکثر ہم دردی سے کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ اسلام کے بارے میں بات کرتے ہیں جو ان کے لیے ہندو مت اور بدھ مت کے فلسفوں جیسا اجنبی نہیں تو مغربی متانت ایک جذباتی قسم کے تعصب میں بدل جاتی ہے۔ بعض اوقات اس پر میں حیران ہوتا ہوں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی اقدار مغرب کے روحانی اور معاشرتی اقدار سے اس قدر قریب ہیں کہ انہوں نے اسلام کو مغربی نظریات کے نعم البدل کے طور پر ایک پوشیدہ چیلنج بنا دیا ہے۔‘‘

(Road to Makkah, page 4-5)


مولانا سید مظفر حسین ندویؒ

پروفیسر محمد یعقوب شاہق

۹ نومبر ۲۰۰۱ء کو آزادی کشمیر کے پہلے امیر المجاہدین اور ممتاز عالم دین مولانا سید مظفر حسین ندوی نے ۷۹ برس کی عمر میں دنیائے فانی کو الوداع کہا۔ مولانا کی وفات سے دور قدیم کے دینی مدارس کے پروردہ اصحاب کی وہ تاب ناک اخلاقی روایت دم توڑ گئی ہے جو اللہ تعالیٰ سے حقیقی تعلق، علم وفضل، تقویٰ، حق گوئی، انکسار، تزکیہ نفس، مصلحتوں سے بے نیاز، بے خوفی اور درویشی پر استوار تھی۔ وہ اتحاد امت کے داعی، شرافت کے پیکر اور اپنے احباب اور عزیزوں کے لیے سراپا شفقت ومحبت تھے۔ انہوں نے زندگی بھر اعلائے کلمۃ الحق کا پرچم اٹھائے رکھا۔

مولانا سید مظفر حسین ندویؒ ضلع باغ کے ایک گاؤں سوہاوہ شریف میں ۱۹۲۳ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گرامی کا نام سید محمد ایوب شاہ اور دادا کا نام سید علی شاہ المعروف پیر سوہاوی تھا۔ سادات گردیزیہ کے اس علمی گھرانے کی شہرت قبل از تقسیم ریاست پونچھ کے طول وعرض میں پھیلی ہوئی تھی اور دور دراز سے لوگ سفر کر کے یہاں اپنی روحانی پیاس بجھانے آتے تھے۔ سید مظفر حسین کی ابتدائی تعلیم کا آغاز گاؤں کے پرائمری اسکول سے ہوا۔ ان کو اس زمانے کے ایک گریجویٹ استاذ ماسٹر خلیل الرحمن سے پڑھنے کاموقع ملا جو ضلع ہزارہ سے تعلق رکھتے تھے۔ قرآن پاک ناظرہ اور ابتدائی دینی علوم کا آغاز سید لقمان شاہ سے کیا اور پھر دس گیارہ سال کی عمر میں ان کے والد محترم نے شیخ نبی بخش نظامی اور ممتاز مورخ محمد دین فوق جو ان دنوں پونچھ شہر میں تھے، کے مشورہ سے دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ برعظیم پاک وہند میں ندوہ میں مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ ندوہ کے اساتذہ میں تھے اور ان کے بڑے بھائی سید محمد علی دار العلوم کے ناظم تھے۔ چنانچہ انہوں نے کشمیر سے آنے والے بچے کو داخلہ دے دیا اور ہاسٹل میں قیام وطعام کا انتظام بھی کر دیا گیا۔ مولانا نے اس ادارہ میں دس برس تک تعلیم حاصل کی اور ۱۹۴۱ء میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد اسی ادارہ میں عربی ادب کے استاذ مقرر ہوئے اور ۱۹۴۶ء تک تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ۱۹۴۶ء میں ان کو ضلع پونچھ ریاست جموں وکشمیر میں تبلیغی مشن پر مامور کیا گیا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب تحریک پاکستان برعظیم کے طول وعرض میں چل رہی تھی اور کشمیر میں آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے پرچم تلے تحریک آزادی اپنے شباب پر تھی۔ چنانچہ آپ بھی تحریک آزادی سے وابستہ ہو گئے۔ ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کو جمعۃ الوداع کے دن سوہاوہ شریف کی مسجد میں آپ نے ایک انقلابی خطاب کیا جس کے نتیجے میں مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت نے آپ کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔ ۲۳ اگست ۱۹۴۷ء کو نیلا بٹ کے مقام پر جس عوامی اجتماع سے سردار عبد القیوم خان نے باغیانہ خطاب کیا تھا، ا س کی صدارت مولانا سید مظفر حسین ندوی نے کی تھی۔ اس وقت وہ نوجوان تھے اور عزم وہمت کے حوالے سے کوہ گراں تھے۔ چنانچہ عوامی تنظیم کے بعد ۲۶ اگست ۱۹۴۷ء کو جو جلوس باغ کی طرف روانہ ہوا، اس میں مولانا شامل تھے۔ یہ جلوس ہڈا ہاڑی کے مقام پر پہنچا جہاں ایک بڑے اجتماع میں ڈوگرہ حکومت کے خلاف اعلان جہاد کیا گیا۔ جلسہ کومنتشر کرنے کی غرض سے ڈوگرہ فوج نے گولی چلا دی اور نصف درجن مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔

اسی دوران میں تحریک آزادی کے لیے مسلمانوں کو مسلح کرنے کی ضرورت کے پیش نظر مولانا نے امیر المجاہدین مولانا فضل الٰہی چمر قندی سے رابطہ کیا اور کثیر تعداد میں رائفلیں حاصل کیں۔ ۳۰ ستمبر ۱۹۴۷ء کو مجاہدین کا ایک قافلہ جس کی قیادت سردار محمد عبد القیوم خان کر رہے تھے، کوہالہ سے چھ میل کے فاصلہ پر ’’باسیاں‘‘ کے مقام پر پہنچا اور وہاں ایک مسجد میں نماز عصر ادا کی۔ بعد از نماز اس بات پر بحث ہوئی کہ شرعی طریقہ پر جہاد کو منظم کرنے کے لیے ایک امیر کے ہاتھ پر بیعت کرنا ضروری ہے چنانچہ مشاورت کے بعد اتفاق رائے سے مولانا سید مظفر حسین ندوی کو امیر المجاہدین منتخب کیا گیا اور مجاہد رہنماؤں جن میں سردار محمد عبد القیوم خان، سید علی اصغر شاہ، محمد سلیم خان(بعد میں میجر)، راجہ محمد صدیق خان (بعد میں کرنل)، محمد سعید خان (بعد میں میجر)، محمد حیات خان (بعد میں کیپٹن) وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں، نے مولانا کے ہاتھ پر جہاد کے لیے بیعت کی۔ بیعت کے الفاظ کو ندوی صاحب نے لکھا اور آج تک یہ تحریر مولانا کے کتب خانہ میں محفوظ ہے۔ اس تحریر کے متن کا خلاصہ یہ ہے:

’’آج ہم اللہ کی راہ میں جہادشروع کر رہے ہیں۔ اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون نافذ کرنے اور کشمیر کے مسلمانوں کو ڈوگرہ حکمرانوں سے نجات دلانا ہمارا نصب العین ہے۔ ہم صرف مقابلہ کرنے والوں سے لڑیں گے۔ عورتوں‘ بچوں‘ بوڑھوں‘ معذوروں اور بیماروں پر یا ہتھیار نہ اٹھانے والوں پر ہم ہتھیار نہیں اٹھائیں گے۔ مال غنیمت کو بیت المال میں جمع کروائیں گے۔‘‘

اس بیعت کے بعد جنگی دستوں کی تنظیم کا کام سردار عبد القیوم خان کے سپرد کر دیا گیا۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء میں باغ شہر فتح ہو گیا اور مفتوحہ علاقوں میں جہادی شوریٰ نے مولانا سید مظفر حسین ندوی کو قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) مقرر کر دیا۔ آپ کے ساتھ کفل گڑھ کے مولانا امیر عالم خان‘ مولانا سید ثناء اللہ شاہ‘ مولانا محمد عبد الغنی‘ مولانا سید نظیر شاہ سوہاوی‘ مولانا عبد الحمید قاسمی عباس پوری کو مختلف شعبوں میں ان کے نائب کے طور پر کام کرنے کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔ مولانا محمد عبد الغنی مرحوم کو باغ بیت المال کا امیر مقرر کیا گیا۔

آزاد حکومت کے قیام کے بعد جب یہ عارضی انتظامیہ ختم ہو گئی تو سردار محمد ابراہیم خان بانی صدر نے مولانا سید مظفر حسین ندوی کو ’’انسپکٹر دینیات سکولز/ کالجز آزاد کشمیر‘‘ مقرر کیا جبکہ دوسرے علماء کرام کو محکمہ افتا میں لگا دیا گیا۔ دو برس کے بعد مولانا کو مظفر آباد ڈگری کالج میں بطور پروفیسر اسلامک اسٹڈیز لگایا گیا اور دو برس کے بعد وہ آزاد کشمیر محکمہ امور دینیہ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور ریٹائرمنٹ تک اسی عہدہ پر کام کرتے رہے۔ مزید برآں وہ پبلک سروس کمیشن آزاد کشمیر کے مستقل ممبر اور اسلامی نظریاتی کونسل آزاد کشمیر کے رکن بھی رہے۔ ۱۹۸۳ء میں وہ ساٹھ برس کی عمر پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔ ۱۹۵۱ء میں جب مفتی اعظم فلسطین جناب سید امین الحسینی پاکستان اور آزاد کشمیر کے دورہ پر آئے تو آپ نے کوآرڈی نیٹر اور مترجم کے فرائض سرانجام دیے۔ 

مولانا نے اپنی تدریسی زندگی کے دوران میں ابتدا سے میٹرک کی سطح تک ’’نور ایمان‘‘ کے نام سے اسلامیات کے مضمون کے لیے ایک سلسلہ کتب تصنیف کیا اور یہ نصاب کئی برس تک آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں میں رائج رہا۔ ’’نور ایمان‘‘ کے اس سلسلے کو کینیا (افریقہ) کے نصاب تعلیم میں بھی جگہ دی گئی۔ مولانا کی آخری تحریر راقم الحروف کی کتاب ’’فیض الغنی‘‘ کا پیش لفظ ہے۔ اس کتاب کا پیش لفظ لکھنے کی درخواست کے ساتھ جب میں ان کے گھر مظفر آباد حاضر ہوا تو وہ علالت کی زندگی گزار رہے تھے لیکن انہوں نے کتاب کا مسودہ رکھ لیا اور دوسرے تیسرے دن ’’پیش لفظ‘‘ لکھ کر حوالے کر دیا۔

مولانا نے بھرپور زندگی گزاری۔ سرکاری ملازمت بھی کی او رمنبر ومحراب سے بھی عمر بھر ان کا تعلق رہا۔ آزاد کشمیر میں جتنے سربراہان حکومت برسراقتدار آئے‘ کم وبیش سب نے مولانا کو بے حد احترام دیا اور ان کی تلخ باتوں سے چشم پوشی اختیار کی۔ مولانا منہ پر کبھی حق بات کہنے سے باز نہ آئے۔ وہ کسی اعلیٰ سطحی اجلاس میں ہوتے یا مسجد کے منبر پر‘ ان کی حق گوئی ضرب المثل بن چکی تھی۔ وہ تصنع‘ بناوٹ اور سخن سازی کے فن سے ناآشنا تھے۔ ان کی زبان خوشامد سے کبھی آلودہ نہیں ہوئی۔

۷ اکتوبر کو جب افغانستان پر امریکی بمبار ہوائی جہازوں نے حملہ کیا تو یہ خبر بجلی بن کر ان پر گری۔ دوہا میں او آئی سی کے وزراء خارجہ کے اجلاس کی روداد دیکھ کر ان کے دل پر چوٹ لگی اور اس کے بعد وہ بہت مختصر بات کرتے تھے۔ ان کے اہل خانہ اور فرزندوں کا بیان ہے کہ قوت گویائی کم ہونے کے باوجود ان کے ہوش وحواس قائم تھے۔ ان کو کاغذ اور قلم دیا گیا تاکہ وہ آخری نصیحت لکھ سکیں۔ انہوں نے مضبوطی سے قلم ہاتھ میں لیا اور آخری الفاظ لکھے جو یہ تھے: ’’امریکہ .....مردہ باد‘‘ اور کچھ لمحات کے بعد ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی:

مقام گریہ ہے اہل قفس کہ فصل بہار 
گلوں کو خاک میں خود ہی ملا کے آئی ہے

سیدنا عمرؓ اور قتلِ منافق کا واقعہ ۔ مولانا حافظ مہر محمدکا مکتوبِ گرامی

ادارہ

عزیزم مولانا عمار ناصر صاحب زید لطفکم

اللہ تعالیٰ آپ کے علم وعمل اور ریسرچ وتحریر میں اضافہ فرمائے۔ آپ کے کئی مضامین واقعی علمی اور بصیرت افروز ہوتے ہیں۔ اللہم زد فزد۔ 

مگر الشریعہ دسمبر ۲۰۰۱ء کے شمارے میں ’سیدنا عمرؓ اور قتلِ منافق کا واقعہ‘ نفی میں پڑھ کر بہت دکھ ہوا۔ ایسے واقعات کچھ راویوں کی بدولت اگرچہ محدثانہ معیار سے صحت کے اعلیٰ درجہ پر نہ بھی ہوں مگر تواتر وشہرت، اصولِ ایمان اور عقائدِ اسلام کے معیار پر ہوں تو ان پر رد وقدح مناسب نہیں۔ اس کی مثال، جیسے میں نے سنا ہے کہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ العالی نے جوانی میں جب ’گلدستہ توحید‘ تصنیف فرمایا تو صحیحین کی روایات کی بنا پر ہادی اعظم ﷺ کے والدین کے ایمان پر بھی بحث کر دی۔ جب حضرت امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے فرمایا: ’’یہ بات کتاب سے خارج کر دو۔ ہمارے ایمان اور سوال وجواب سے اس کا تعلق نہیں۔ اس سے آپ ﷺ مغموم ہوں گے۔‘‘ او کما قال۔ چنانچہ حضرت استاذیم دامت برکاتہم نے ’گلدستہ توحید‘ سے اسے بالکل نکال دیا ہے۔

آپ بھی اور کبھی برادر محترم مولانا آپ کے عم مکرم ایسے منفرد تحقیقی مضامین سے پرہیز کریں جن کو دوسرے فرقے ہتھیار بنا کر ہمارے خلاف استعمال کریں۔ یہ مضمون کسی اور پرچہ میں آپ کے نام کے بغیر ہو تو رافضی کی تنقید ہی سمجھی جائے گی کیونکہ وہ صحابہ کرامؓ کے تحفظ ودفاع میں ہر آیت وحدیث پر تنقید کرتے ہیں۔

میرے پاس وقت نہیں کہ آپ کے مضمون کا مناقشہ کروں۔ سرِ دست تین تفسیروں کا حوالہ سامنے ہے۔ ابن جریر طبری کا ذکر تو آپ بھی کر چکے ہیں۔ تفسیر فخر الدین رازی ج ۱۰، ص ۱۵۷ بیروت میں ہے:

’’مسئلہ دوم: مفسرین نے اصابتہم مصیبۃ کہ ان منافقوں کو مصیبت پہنچی کی تفسیر میں کئی باتیں لکھی ہیں۔ پہلی یہ کہ حضرت عمرؓ کا ان منافقوں کے اس ساتھی کو قتل کرنا جس نے اقرار کیا تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ پر راضی نہیں ہے۔ پس وہ حضور علیہ السلام کے پاس حضرت عمرؓ کے خلاف مقدمہ لے کر آ گئے اور قسم اٹھائی کہ ہمارا مقصد غیر رسول کے پاس جانے سے اصلاح تھی ۔ یہ زجاج کا پسندیدہ ہے۔‘‘

یہی کچھ اس رکوع کے شان نزول میں سب مفسرین نقل کرتے ہیں۔ علماء دیوبند بھی یہی لکھتے ہیں۔ مثلاً مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ ’معارف القرآن‘ میں لکھتے ہیں:

’’چند اہم مسائل: اول یہ کہ وہ شخص مسلمان نہیں جو اپنے ہر جھگڑے اور ہر مقدمے میں رسول کریم ﷺ کے فیصلہ پر مطمئن نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت فاروق اعظمؓ نے اس شخص کو قتل کر ڈالا جو آنحضرت ﷺ کے فیصلے پر راضی نہ ہو اور پھر معاملہ کو حضرت عمر کے پاس لے گیا۔ اس مقتول کے اولیا (منافقین) نے رسول اللہ ﷺ کی عدالت میں حضرت عمرؓ پر دعویٰ کر دیا کہ انہوں نے بلاوجہ ایک مسلمان کو قتل کر دیا۔‘‘ الخ (ج ۲، ص ۴۶۱)

تفسیر مدارک نسفی ج ۱، ص ۳۷۲ بر حاشیہ تفسیر خازن مطبوعہ بیروت میں ہے:

فدخل عمر فاخذ سیفہ فضرب بہ عنق المنافق فقال ھکذا اقضی لمن لم یرض بقضاء اللہ ورسولہ فنزل جبریل علیہ السلام ان عمر فرق بین الحق والباطل فقال رسول اللہ ﷺ انت الفاروق۔

تو حضرت عمرؓ اندر گئے، تلوار لے کر اس منافق کی گردن اڑا دی۔ پھر فرمایا، میرا فیصلہ اس شخص کے حق میں یہی ہے جو کہ خدائے پاک اور حضرت رسول اللہ کے فیصلے کو نہ مانے۔ تب جبریل علیہ السلام نے آکر کہا، حضرت عمرؓ نے حق اور باطل میں فرق کر دیا ہے۔ تو حضور ﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا: آپ ’’فاروق‘‘ ہیں۔

اور لباب التاویل تفسیر خازن ص ۳۷۳ میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ یہ بشر نامی منافق کے بار ے میں اتری جسے حضرت عمرؓ نے قتل کر کے ٹھنڈا کر دیا تھا۔ الخ

آپ اپنی مزید تسلی کے لیے تفسیر عثمانی ص ۱۱۲، تفسیر بیان القرآن تھانویؒ اور معالم العرفان مولانا عبد الحمید سواتی پر مقام ہذا دیکھ لیں۔ پھر اس کا شان نزول -- طاغوت کعب بن اشرف کی طرف جانا، مصیبت کا تعین، آپ ﷺ کے فیصلے سے اعراض -- خود بتا دیں۔

آپ کے تین درایتی اعتراضات کا جواب یہ ہے:

۱۔ منافقوں نے حضرت عمرؓ کے خلاف خوب پراپیگنڈا کیا۔ تفسیر، سیرت اور حدیث کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ تلاش شرط ہے۔

۲۔ حضرت عمرؓ کو مغلوب الغضب کہنا بھی شان ایمان کا اعتراف ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جذبہ توحید سے مغلوب ہو کر حضرت ہارون علیہ السلام کا سر غصہ سے جھنجھوڑا یا جیسے حضرت علی المرتضیٰ نے رد شرک کے غصے میں اپنے ۷۰ حب داروں کو زندہ آگ میں جلا دیا (مشکوٰۃ)جو آپ کو حاجت روا، مشکل کشا، کارساز، عالم الغیب، مختار کل، رب اور خدائی صفات والا کہتے تھے حالانکہ زندہ کو آگ میں جلانے کی صریح ممانعت ہے کہ اللہ کے سوا آگ کا عذاب کوئی نہ دے۔ اور سبائی مشرکوں نے اسی حدیث سے حضرت علیؓ کی ربوبیت پر استدلال کیا اور آگ میں جل گئے۔ جیسے اب بھی یا علی مدد کہہ کر آگے پر چلتے اور جلتے ہیں۔ یا جیسے اب طالبان نے اپنا سب کچھ قربان کر کے امریکہ طاغوت کے آگے سر نہیں جھکایا۔

۳۔ منافق کا قتل خلافِ شرع نہیں۔ ارشاد خداوندی ہے ’’کفار اور منافقین سے جہاد کریں اور ان پر خوب سختی کریں۔’’ گو یہ آپ ﷺ کے شایانِ شان نہ تھا مگر حضرت ابوبکرؓ نے زکوٰۃ کے منکروں، مرتدوں، مسیلمہ کذاب اور بنو حنیفہ سے جنگ کر کے اور حضرت علیؓ نے خوارج سے جنگ کر کے خدا ورسول کا یہ حکم پورا کر دکھایا۔

والسلام ۔ آپ کا چچا

مہر محمد میانوالوی

حکومت اور دینی مدارس ۔ دینی مدارس کے بارے میں ایک سرکاری رپورٹ

ادارہ

ملک بھر میں تمام دینی اداروں کا مکمل طور پر کریک ڈاؤن ممکن ہے نہ کسی انتظامی ایکشن سے سو فیصد دینی ادارے بند کیے جا سکتے ہیں۔ اس بارے میں صوبوں کے محکمہ داخلہ کے حکام کی طرف سے وفاقی حکومت کو پچھلے دنوں آگاہ کیا گیا ہے کہ اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق ۱۰ لاکھ سے زائد بچے پنجاب‘ سندھ‘ سرحد اور بلوچستان میں قائم مختلف اداروں میں دینی تعلیم وتربیت حاصل کر رہے ہیں جبکہ ان اداروں کی تعداد کئی ہزار ہے جس میں سے ۱۰ فیصد کے قریب ایسے ادارے ہیں جن کے بارے میں مختلف حساس اداروں کے توسط سے حکومت کو یہ اطلاعات مل چکی ہیں کہ ان کے ہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جہاد کی تربیت بھی دی جاتی ہے اور اس حوالے سے انہیں اس میں بطور نوجوان اور مسلمان کے بھرپور حصہ لینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ان دس فیصد میں سے ۷‘ ۸ فیصد اداروں کے پاس ہر قسم کا اسلحہ وغیرہ موجود ہے جس کے بارے میں پولیس اور دیگر اداروں کے پاس مکمل معلومات ہیں۔ ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کو بعض ذمہ دار حلقوں کی طرف سے یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ حکومت بھی مختلف علماء کرام کی خدمات حاصل کر کے سرکاری سرپرستی میں ’’دار العلوم‘‘ کی طرز پر ایک ادارہ قائم کرے جس میں نوجوان نسل کو جدید ترین نصاب کے ساتھ اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا جا سکے۔ اس ادارے کی شاخیں پہلے مرحلے میں چاروں صوبوں اور پھر مختلف اہم مقامات پر قائم کی جائیں۔ ان ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کو یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ کسی بھی غیر ملکی دباؤ پر دینی اداروں کا کریک ڈاؤن شروع کرنے کے بجائے ان کو جدید ترین نصاب تعلیم رائج کرنے پر مجبور کیا جائے۔ ان اداروں کے حالات بہتر بنانے کے لیے حکومت خود اپنے وسائل سے ضروری اقدامات کرے۔ اس کے علاوہ معروف دینی اداروں کو مختلف تعلیمی بورڈز سے منسلک کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنے پر غور کیا جانا چاہیے۔ ان ذرائع کے مطابق اس وقت مختلف دینی اداروں میں ۶۰ فیصد سے ۷۰ فیصد طالب علم وہ ہیں جو کئی وجوہ کی بنا پر بے سہارا ہیں لیکن یہ دینی ادارے ان کی پرورش اور سرپرستی کر رہے ہیں۔ حکومت کو اس سلسلے میں بھی ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے بے سہارا اور یتیم بچوں کو تعلیم وتربیت کے بہتر سے بہتر مواقع فراہم کیے جا سکیں۔

(نوائے وقت‘ ۱۳ دسمبر ۲۰۰۱ء)

دینی مدارس کے وفاقوں کا مشترکہ اعلان

ملک بھر کے تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس کی تعلیمی تنظیمات کے اجلاس میں وفاق المدارس العربیہ کے صدر مولانا سلیم اللہ خان اور ناظم اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ‘ رابطۃ المدارس الاسلامیۃ پاکستان کے ناظم اعلیٰ مولانا عبد المالک اور مولانا فتح محمد مہتمم جامعہ مرکز علوم اسلامیہ منصورہ‘ تنظیم المدارس پاکستان کے صدر مولانا مفتی عبد القیوم ہزاروی اور ناظم اعلیٰ مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی‘ وفاق المدارس الشیعہ کے سیکرٹری جنرل مولانا سید محمدعباس نقوی اور مولانا محمد افضل حیدری‘ وفاق المدارس السلفیہ کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد یونس اور جامعہ اشرفیہ کے نائب مہتمم مولانا حافظ فضل الرحیم نے شرکت کی۔ مرکزی میڈیا سیل کے مطابق اجلاس کی صدارت رابطۃ المدارس الاسلامیۃ پاکستان کے صدر مولانا عبد المالک نے کی۔ ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان‘‘کے رابطہ سیکرٹری مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے دینی مدارس کے خلاف عالمی سازش پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کے خلاف متحدہ جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا اور مدارس کے سلسلے میں سرکاری حلقوں کی جانب سے مجوزہ اقدامات پر تنقید کی۔

اجلاس سے مولانا سلیم اللہ خان‘ مولانا مفتی عبد القیوم ہزاروی‘ مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی‘ مولانا عبد المالک‘ مولانا سید عباس نقوی اور مولانا محمد یونس نے بھی خطاب کیا۔ شرکا نے اس موقف کا اعادہ کیا کہ مدارس اپنے عظیم ماضی کی شاندار روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ہمت واستقامت کے ساتھ دین اسلام کی ترویج اور ملک وملت کی تعمیر میں اپنا سفر جاری رکھیں گے اور اس کی راہ میں ہر قسم کی اندرونی اور بیرونی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مدارس دینیہ کی آزادی وخود مختاری کا ہر قیمت پر دفاع کیا جائے گااور کسی بھی قسم کی حکومتی مداخلت ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔ مختلف حلقوں کی جانب سے مدارس دینیہ پر لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات مخصوص اہداف حاصل کرنے کے لیے غیر ملکی اسلام دشمن قوتوں کے ایجنڈا کا حصہ ہیں جن کو کلی طور پر رد کیا جاتا ہے اور اس لب ولہجہ کی سخت مذمت کی جاتی ہے۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے کیے جانے والے گمراہ کن اور بے بنیادی پراپیگنڈے کے جواب میں حقائق کو واضح کرنے‘ رائے عامہ کو دینی مدارس کی عظمت سے آگاہ کرنے اور دینی اداروں کی گراں قدر خدمات کو اجاگر کرنے کے لیے پورے ملک میں صوبائی دار الحکومتوں میں صوبائی کنونشن اور مرکزی سطح پر اسلام آباد میں تحفظ عظمت مدارس کنونشن منعقد کیے جائیں گے۔ پہلا صوبائی کنونشن جامعہ نعیمیہ لاہور میں ۶ جنوری کو‘ دوسرا صوبائی کنونشن بنوری ٹاؤن کراچی میں ۲۰ جنوری کو‘ تیسرا صوبائی کنونشن جامع مسجد درویش پشاور میں ۳ فروری کو منعقد ہوگا۔ مرکزی کنونشن ۱۰ فروی کو اسلام آباد میں منعقد ہوگا جس میں تمام مکاتب فکر کے ہزاروں مدارس دینیہ کے لاکھوں علماء کرام‘ طلباء اور ملت کے نمائندہ وفود شریک ہوں گے۔ اجلاس میں وہ قراردادیں بھی منظور کی گئیں جن میں مطالبہ کیا گیا کہ مظلوم افغان بھائیوں کی حمایت اور عالمی دہشت گرد امریکہ کے مظالم کے خلاف حالیہ احتجاجی تحریک کے تمام قائدین قاضی حسین احمد‘ مولانا فضل الرحمن‘ لیاقت بلوچ‘ مولانا عطاء المومن بخاری‘ مولانا سمیع الحق اور تمام گرفتار شدگان کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور ملک کے معروف سکالر اور جامعہ نعیمیہ کے مہتمم ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو خطابت کے منصب سے برطرف کرنے کی ناروا کارروائی کو منسوخ کر کے انہیں ان کے عہدے پر فوری طور پر بحال کیا جائے۔ ایک اور متفقہ قرارداد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فوری طور پر وطن عزیز سے غیر ملکی فوجوں کو نکالے اور قومی امور میں واضح طور پر کی جانے والی بیرونی مداخلت کو ختم کرے۔ (روزنامہ اوصاف‘ ۷ دسمبر ۲۰۰۱ء)

حدود آرڈی نینس‘ لاہور ہائی کورٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل

لاہور ہائی کورٹ نے اجتماعی بد اخلاقی کے مجرموں کو موت سے کم سزا نہ دینے سے متعلق قانون کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو حدود آرڈی ننس کی دفعہ ۱۰ (۴) میں ترمیم کا جائزہ لینے کی ہدایت کر دی ہے۔ اس ضمن میں مسٹر جسٹس خواجہ محمد شریف اور مسٹر جسٹس ایم نعیم اللہ شیروانی نے قرار دیا ہے کہ جب قتل جیسے سنگین مقدمات میں مجرم کو عمر قیدکی سزا دی جا سکتی ہے تو اجتماعی بد اخلاقی کے مجرموں کے کم از کم عمر قید کی سزا مقرر کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔ فاضل جج نے قرار دیا کہ ہمیں بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اجتماعی بد اخلاقی کے ایسے مقدمات جن کے مجرم عمر قید کے مستحق ہوتے ہیں‘ ہم ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ قانون انہیں موت سے کم سزا دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ فاضل جج نے اپنے فیصلے کی نقل وفاقی سیکرٹری قانون کو بھجواتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ معاملہ حکومت کے ذمہ داروں کے نوٹس میں لایا جائے تاکہ ترمیم کے ذریعے اجتماعی بد اخلاقی کے مجرموں کے لیے موت کے ساتھ عمر قید کی سزا بھی مقرر کی جا سکے۔ فاضل بنچ نے کہا کہ زیر نظر کیس میں ہم اپیل کنندگان کی سزائے موت کو عمر قید میں بدلنا بھی چاہیں تو ایسا نہیں کر سکتے۔ زیر نظر کیس میں بد اخلاقی کا نشانہ بننے والی کنیز بی بی اور اس کے والدین نے مجرموں کو معاف کر دیا ہے لیکن یہ جرم ناقابل راضی نامہ ہونے کی وجہ سے مجرموں کو نہیں چھوڑا جا سکتا تاہم عدالت ان کے لیے اتنا ضرور کر سکتی تھی کہ ان کی موت کی سزا کو عمر قید میں بدل دیتی لیکن قانون نے عدالت کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ پنڈی بھٹیاں کے ارشاد اور اشرف منظور کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے کنیز بی بی سے اجتماعی بد اخلاقی کے جرم میں موت کی سزا سنائی تھی جس کے خلاف مجرموں نے اپیل دائر کی تھی۔ دوران سماعت اپیل کنندگان کے وکیل نے نکتہ اٹھایا کہ ایک مجرم ارشاد کی عمروقوعہ کے وقت اٹھارہ سال سے کم تھی اور مروجہ قانون کے مطابق ۱۸ سال سے کم عمر نابالغ ملزم کو موت کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ فاضل بنچ نے یہ اعتراض مسترد کر دیا اور قرار دیا کہ ۱۸ سال سے کم عمر کے مجرم کو سزائے موت نہ دینے کا اصول حدود کے مقدمات پر لاگو نہیں ہوتا۔ ایسا کم عمر مجرم جو بد اخلاقی کی صلاحیت رکھتا ہو‘ اسے بالغ تصور کیا جائے گا اور اسے پوری سزا ملے گی۔ فاضل بنچ نے اپیل مسترد کر دی تاہم اپنی آبزرویشنز کے ساتھ فیصلہ کی نقل وزارت قانون کو بھجوا دی ہے۔ (روزنامہ پاکستان‘ ۸ دسمبر ۲۰۰۱ء)

اسلامی نظریاتی کونسل نے قرار دیا ہے کہ شرعی لحاظ سے کسی بھی اتھارٹی کو حدود اللہ معاف کرنے یا ان میں تخفیف کرنے اور ان کو کسی دوسری سزا میں تبدیل کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ اسی طرح قصاص معاف کرنے کا اختیار بھی کسی اتھارٹی کو حاصل نہیں ہے البتہ اولیا یا ان میں سے کوئی قصاص معاف کر سکتا ہے جبکہ تعزیری سزاؤں میں صدر‘ گورنر‘ وفاقی یا صوبائی حکومتیں ایسی سزائیں معاف کرنے یا ان میں کوئی تبدیلی وتخفیف کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔ کونسل نے یہ ریمارکس اپنے حالیہ اجلاس میں ایک شہری کی جانب سے ’’عدالتوں کی جانب سے دی جانے والی سزائیں۔ معاف کرنے کے اختیار پر شرعی نقطہ نظر‘‘ کے زیر عنوان بھیجے جانے والے خط پر تفصیل بحث کے دوران دیے۔ کونسل نے کہا کہ ۱۹۷۳ء کے آئین کے آرٹیکل ۴۵ کے تحت صدر پاکستان کو کسی بھی عدالت‘ ٹربیونل یا دیگر ہیئت مجاز کی دی ہوئی سزا کو معاف کرنے‘ ملتوی کرنے‘ تخفیف کرنے‘ معطل کرنے یا تبدیل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ مجموعہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۴۰۱‘ ۴۰۲ کے تحت صوبائی حکومتوں کو بھی سزا معاف کرنے‘ مہلت دینے یا اسے تبدیل کرنے کا اختیار حاصل ہے البتہ دفعہ ۴۰۱ کی ذیلی شق ۲ میں صوبائی حکومتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ سزا کی معطلی یا تخفیف کے لیے درخواست موصول ہونے کے بعد اس جج سے رائے طلب کرے گی جس نے سزا سنائی ہو۔ اسی طرح پرونان رول ۱۹۷۸ء میں سزا کی تخفیف کے جو قواعد بیان کیے گئے ہیں‘ ان کی رو سے کسی قیدی کے اچھے چال چلن یا بعض امتحانات پاس کرنے کی بنا پر اس کی سزا میں تخفیف کی جا سکتی ہے لہذا عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزا میں جو تبدیلی یا تخفیف کی جاتی ہے‘ وہ ملک کے قانون کے تحت ہی ہوتی ہے۔ کونسل نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۴۰۱‘ ۴۰۲ اور ۴۰۳ الف کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان دفعات میں حکومت کی جانب سے سزاؤں کے تعطل‘ تخفیف اور معافی کے بارے میں احکام درج ہیں مگر شریعت کے مطابق حدود کے بارے میں حکومت اس قسم کے اختیارات استعمال نہیں کر سکتی اور قصاص کی صورت میں صرف ولی مقتول ہی دیت معاف کر سکتا ہے۔ لیکن جہاں حکومت ولی ہو‘ وہاں صلح کرتے ہوئے دیت بھی منظور کر سکتی ہے البتہ تعزیرات کے دیگر معاملات میں حکومت کو سزا کے تعطل اور معافی کے اختیارات حاصل نہیں بشرطیکہ ان سے حقوق العباد متاثر نہ ہوتے ہوں۔ ایسی معافی ان تعزیرات یعنی جرائم موجب تعزیر میں نہیں ہوگی جو حقوق اللہ سے متعلق ہوں جیسے اجنبی عورت کا بوسہ لینا۔ کونسل نے محسوس کیا ہے کہ یہ دفعات شریعت کے ان متذکرہ اصولوں کے مطابق نہیں لہذا کونسل یہ سفارش کرتی ہے کہ ان دفعات میں شریعت کے احکام متذکرہ بالا کی روشنی میں مناسب ترامیم کی جائیں اور شریعت کی رو سے دفعہ ۴۰۲ ب میں بھی مناسب ترمیم کی جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس مسئلے پر مزید رائے کے لیے اسے کونسل کی قانونی کمیٹی کے حوالے کر دیا ہے جو کونسل کے آئندہ اجلاس تک ان دفعات کے حوالے سے شرعی احکام کے مطابق اپنی رپورٹ تیار کر کے پیش کرے گی۔

(روزنامہ نوائے وقت‘ راول پنڈی‘ ۳۰ دسمبر ۲۰۰۱ء)

فروری ۲۰۰۲ء

جمہوریت‘ مسلم ممالک اور امریکہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مسلمانوں کا عالمی کردار کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟مولانا حافظ صلاح الدین یوسف
مسلمانان عالم کے لیے لائحہ عملمولانا محمد عیسی منصوری
عصری تقاضے اور اسلام کی تعبیر وتشریحپروفیسر میاں انعام الرحمن
مدارس دینیہ کے مالیاتی نظام کے بارے میں دار العلوم کراچی کا ایک اہم فتویٰادارہ
پاکستان شریعت کونسل کی صوبائی شوریٰ کا اجلاسادارہ
تعارف و تبصرہادارہ
صدر پاکستان کی خدمت میں ایک ضروری عرض داشتادارہ

جمہوریت‘ مسلم ممالک اور امریکہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امریکہ کے سابق صدر کلنٹن ان دنوں فکری ونظریاتی محاذ پر سرگرم عمل ہیں اور امریکی پالیسیوں کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے مسلسل کردار ادا کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا اور مختلف اجتماعات سے خطاب کرنے کے علاوہ عالم اسلام کی محترم مذہبی شخصیات جامعہ ازہر کے امام اکبر اور حرمین شریفین کے امام محترم سے بھی ملاقات کی اور اس دوران انہوں نے سعودی عرب اور دیگر مسلمان ملکوں کے تعلیمی نظام کو ہدف تنقید بناتے ہوئے تلقین کی کہ وہ تعلیمی نصاب میں تبدیلی کریں اور خا ص طور پر اس میں عقیدہ پر زور دینے کے عنصر پر نظر ثانی کریں۔ جناب کلنٹن نے گزشتہ دنوں نیو یارک میں ایک سیمینار کا اہتمام بھی کیا جس کے انتظامات خود ان کی قائم کردہ ’’کلنٹن پریسڈ نیشنل فاؤنڈیشن‘‘ نے کیے اور ان کے ساتھ اس سلسلے میں نیو یارک یونیورسٹی آف لا اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے مسلم کرسچین سنٹر نے بھی میزبانی کے فرائض میں شرکت کی۔ اس سیمینار میں دو سو کے لگ بھگ اہم مدعوین شریک تھے اور متعدد مسلم دانش وروں نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے امت مسلمہ اور عالم اسلام کے حوالے سے امریکی پالیسیوں پر کڑی نکتہ چینی کی۔ 

سیمینار کے حوالے سے نہ تو ساری تفصیلات اس خبر کا حصہ ہیں جو اس وقت ہمارے سامنے ہے اور نہ سب باتوں پر اس کالم میں تبصرہ ہی کیا جا سکتا ہے البتہ ایک پہلو جو زیادہ قابل توجہ ہے‘ اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ ’’امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن کی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک اجلاس میں مسلم دانش وروں نے امریکہ پر الزام عائد کیا کہ وہ اسرائیل کی یک طرفہ طور پر حمایت کر رہا ہے۔ ان دانش وروں نے امریکہ کو مسلم دنیا میں جمہوریت کو فروغ دینے میں ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا۔ تاہم کلنٹن نے مشرق وسطیٰ کے تعلق سے اپنے نظم ونسق کی پالیسیوں کی مدافعت کی اور مسلم مفکرین کے ان الزامات کو مسترد کر دیا کہ گیارہ ستمبر سے قبل مسلم شدت پسندی کے لیے کلنٹن اور ان کے جانشین کی پالیسیاں ذمہ دار ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ساتھ ہی انہوں نے مباحثہ کے دوران ایڈریل کالج کے پروفیسر مقتدر خان کی اس بات سے اتفاق کیا کہ امریکہ نے مسلم دنیا میں جمہوریت کو فروغ دینے میں کوئی خاص کام نہیں کیا۔‘‘

ہمیں جس نکتہ پر اظہار خیال کرنا ہے‘ وہ یہ ہے کہ ’’مسلم دانش وروں نے امریکہ کو مسلم دنیا میں جمہوریت کو فروغ دینے میں ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا‘‘ جس کے جواب میں کلنٹن صاحب نے کسی حد تک اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے یہ کہا کہ ’’امریکہ نے مسلم دنیا میں جمہوریت کو فروغ دینے میں کوئی خاص کام نہیں کیا‘‘ مگر ہمارا موقف ان دونوں سے مختلف ہے اور پورے شرح صدر کے ساتھ ہماری گزارش یہ ہے کہ امریکہ نے صرف یہ نہیں کہ مسلم دنیا میں جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے کوئی خاص کام نہیں کیا اور وہ مسلم ممالک میں جمہوریت کو فروغ دینے میں ناکامی کا ذمہ دار ہے بلکہ دنیا میں جمہوریت کے فروغ کی راہ میں امریکہ خود سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے اور اس کی حتی الوسع یہ کوشش ہے کہ دنیا کے کسی بھی مسلمان ملک میں جہاں کے عام مسلمان اسلام کے ساتھ کمٹ منٹ رکھتے ہیں اور اپنی اجتماعی زندگی میں اسلامی احکام وقوانین کی عمل داری کے واضح رجحان سے بہرہ ور ہیں‘ وہاں جمہوریت کا راستہ روکا جائے‘ عوام کو حکومتوں اور ان کی پالیسیوں کی تشکیل سے دور رکھا جائے اور دینی رجحانات کی نمائندگی کرنے والے طبقات وعناصر کو رائے عامہ اور پالیسی سازی کے مراکز کے قریب نہ آنے دیا جائے۔

امریکہ کے نزدیک جمہوریت کوئی اصول اور فلسفہ نہیں ہے کہ وہ اسے دنیا کے ہر خطہ میں اور ہر حال میں کارفرما دیکھنا چاہتا ہے بلکہ یہ محض ایک ہتھیار ہے جسے امریکہ اور مغربی ممالک اپنے فلسفہ وثقافت کے فروغ اور مفادات کے حصول وتحفظ کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور جمہوریت کے اولین دعوے داروں کے اسی طرز عمل اور رویے نے خود جمہوریت کی افادیت کو مشکوک بنا کر رکھ دیا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں دیکھ لیجیے۔ خلیج عرب کے ممالک میں رائے عامہ‘ شہری آزادیاں‘ جمہوری حکومتیں اور حکومت وپالیسی سازی میں عوام کی نمائندگی شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہے اور خاندانی آمریتیں ان ملکوں کے عوام پر مسلط ہیں مگر امریکہ اور اس کے حواری مغربی ممالک خلیج کے ممالک میں شہری حقوق اور جمہوری اقدار کی حمایت کرنے کے بجائے آمرانہ حکومتوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور نہ صرف ان آمریتوں کو سیاسی واخلاقی سپورٹ مہیا کر رہے ہیں بلکہ فوجی قوت کے بل پر ان کی حفاظت کی ذمہ داری بھی امریکی کیمپ نے سنبھال رکھی ہے صرف اس وجہ سے کہ امریکہ کو معلوم ہے کہ ان ممالک میں جس روز عوام کی نمائندہ حکومتیں قائم ہو گئیں‘ وہ مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کے تحفظ سے ہاتھ اٹھا لیں گی اور ان کی پالیسیوں میں اسلامی تعلیمات واحکام کے اثرات موجودہ آمرانہ حکومتوں سے کہیں زیادہ ہوں گے اس لیے امریکہ کو وہ جمہوریت قبول نہیں ہے جو اسلامی اقدار کے فروغ کا ذریعہ ہو اور جس سے امریکہ کے معاشی مفادات خطرے میں پڑتے ہوں۔

آج سے دس برس قبل سعودی عرب میں شرعی اور جمہوری اصلاحات کے لیے یادداشت پیش کرنے والے علما اور دانش وروں کو جس ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ ان میں سے جو علما جلا وطن ہو کر لندن پہنچے‘ ان میں ڈاکٹر محمد مسعری اور ڈاکٹر سعد الفقیہ کو ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ یہ حضرات جب لندن پہنچے تو انہیں مغربی میڈیا نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور چند دنوں میں انہیں عربوں کے ہیرو کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ میڈیا کاروں کا خیال تھا کہ یہ چونکہ یونیورسٹیوں کے پروفیسر ہیں اور سیاسی حقوق کی بات کر رہے ہیں اس لیے انہیں شاید سعودی عرب میں مغربی فلسفہ وثقافت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور انہیں آگے کر کے سعودی عرب میں عوامی سطح پر دینی وثقافتی اقدار کی مضبوط گرفت کو ڈھیلا کیا جا سکتا ہے اس لیے ان حضرات کی خوب آؤ بھگت ہوئی لیکن جونہی ان دانش وروں نے واضح طور پر کہا کہ وہ سیاسی آزادیوں اور شہری حقوق کا مطالبہ اسلامی تعلیمات کے دائرے میں رہتے ہوئے کر رہے ہیں اور ان کا مقصد مشرق وسطیٰ میں مغربی مفادات کی پاسداری نہیں بلکہ وہاں کے عوام کی خواہشات اور رائے کے مطابق حکومت اور پالیسیوں کی تشکیل ہے تو ان کے آگے پیچھے پھرنے والے میڈیا کاروں نے انہیں ایسے نظر انداز کر دیا جیسے ان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہو اور جن لوگوں کے لیے وہ شہری حقوق اور سیاسی آزادیوں کی بات کر رہے ہیں‘ ان کا سرے سے کوئی استحقاق ہی نہ ہو۔

مشرق وسطیٰ ہمارے سامنے اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ امریکہ کو جمہوریت یا سیاسی حقوق سے کوئی غرض نہیں ہے بلکہ اس کی دل چسپی صرف دو باتوں سے ہے۔ ایک یہ کہ کہیں اسلامی رجحانات اجتماعی سطح پر نہ ابھرنے پائیں اور دوسری یہ کہ امریکہ نے اپنے لیے جو مفادات یک طرفہ طور پر خود طے کر رکھے ہیں‘ ان کی ہر حالت میں حفاظت ہوتی رہے۔ اس کے لیے اگر کسی جگہ جمہوری اقدار اور سیاسی آزادیوں کی حمایت کام دیتی ہے تو امریکہ اس کے لیے تیار ہے اور اگر سیاسی حقوق کو دبانے اور جمہوری اقدار کا سرے سے جھٹکا کر دینے سے امریکہ کا کام بنتا ہے تو اسے اس سے بھی کوئی حجاب نہیں ہے۔

خلیج عرب سے ہٹ کر الجزائر اور ترکی میں بھی ہم امریکہ کا کردار کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں جہاں عوام کی منتخب جماعتوں کو فوجی قوت کے بل پر پیچھے دھکیل دیا گیا۔ رائے عامہ کے فیصلوں اور انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیا گیا اور عوامی رجحانات کو فوج کشی کے ذریعے سے دبا دیا گیا صرف اس لیے کہ ان رجحانات اور عوامی فیصلوں میں اسلامی اقدار کے احیا اور دینی روایات کی عمل داری کے امکانات نظر آ رہے تھے اور ساری دنیا مشاہدہ کر رہی ہے کہ ترکی اور الجزائر میں رائے عامہ کی نمائندگی کرنے والی جمہوری جماعتوں اور انہیں فوجی قوت کے زور سے کچل دینے والی آمریتوں میں سے امریکہ کی پشت پناہی کسے حاصل ہے اور امریکہ کے حواری دیگر مغربی ممالک کس کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔

خود ہم پاکستان میں بار بار اس کا تجربہ کر چکے ہیں اور صرف ایک تجربہ سے ہی مجموعی صورت حال کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن وسنت کو ملک کا سپریم لا قرار دینے کا بل عوام کی منتخب قومی اسمبلی اور سینٹ نے باری باری منظور کیا تھا لیکن قومی اسمبلی میں اس کی منظوری کے آخری مراحل میں امریکی سفارت خانہ نے مداخلت کر کے قرآن سنت کی بالادستی سے حکومتی نظام اور سیاسی ڈھانچے کو مستثنیٰ کرنے کی شق زبردستی شامل کرائی جس سے یہ بات طے ہو گئی کہ امریکہ کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے کیا فیصلہ کر رہے ہیں بلکہ اس کا ٹارگٹ صرف اور صرف یہ ہے کہ مسلم ممالک میں امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں نے جو نوآبادیاتی اور استحصالی نظام مسلط کر رکھا ہے‘ وہ ہر حال میں محفوظ رہے اور اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ اس لیے ہم امریکہ سے کوئی شکایت کرنے کے بجائے مسلم دانش وروں سے یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ امریکہ سے جمہوریت کے حوالے سے کوئی توقع وابستہ کرنے کے فریب سے جتنی جلدی ہو سکے‘ باہر نکل آئیں کیونکہ جمہوریت امریکہ کے لیے اصول کی نہیں بلکہ صرف ایک ہتھیار کی حیثیت رکھتی ہے۔

مسلمانوں کا عالمی کردار کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف

درج ذیل مقالہ جنگ گروپ پاکستان کے زیر اہتمام ’’دہشت گردی:دنیائے اسلام کے لیے ایک نیا چیلنج‘‘ کے عنوان سے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل کراچی میں ۲۰‘ ۲۱ دسمبر ۲۰۰۱ء کو ہونے والے عالمی سیمینار میں پڑھاگیا۔

میری گفتگو یا موضوع کے دو حصے ہیں:

۱۔ مسلمانوں کا عالمی کردار کیا ہے؟

۲۔ اور کیا ہونا چاہیے؟

(۱) مسلمانوں کا عالمی کردار کیا ہے؟

پہلے حصے یا سوال کا جواب بالکل واضح ہے کہ اس وقت مسلمانان عالم کا سرے سے کوئی عالمی کردار نہیں ہے۔ یعنی کہنے کو تو مسلمانوں کی ۶۰ مملکتیں ہیں اور ان میں اور دیگر ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد بھی ایک ارب سے متجاوز ہے۔ علاوہ ازیں مسلمان افرادی قوت اور متعدد قدرتی وسائل سے بھی مالامال ہیں‘ ان کا جغرافیائی محل وقوع بھی نہایت اہمیت کا حامل اور تقریباً باہم پیوست ہے جو ایک نہایت عظیم اکائی اور زبردست قوت بننے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود مسلمان ممالک کی حیثیت صفر سے زیادہ نہیں۔ وہ ایک تودۂ خاک ہیں جو کسی طوفان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا‘ وہ ایک چراغ رہ گزر ہیں جو باد تند تو کیا باد نسیم کا جھونکا بھی برداشت نہیں کر سکتا‘ وہ گرداب بلا میں پھنسی ایک ڈولتی کشتی ہیں جس سے طوفان بلا خیز کی خوف ناک موجیں اٹھکیلیاں کر رہی ہیں‘ وہ ایک ایسا تنکا ہیں جو سیلابی ریلے کے ساتھ بہنے پر مجبور ہے‘ وہ انسانوں کا ایک ایسا ریوڑ ہیں جس کی کوئی سمت ہے نہ کوئی رکھوالا‘ وہ گم گشتہ راہی ہیں جسے اپنی منزل کا پتہ ہے نہ اس کا کوئی شعور ہی انہیں حاصل ہے‘ وہ بیوہ کا آنچل ہیں جسے کوئی بھی نوچ کر پھینک سکتا ہے‘ وہ یتیم کا آنسو ہیں جس کی کوئی اہمیت نہیں‘ وہ ایک گدائے بے نوا ہیں جس کی کوئی عزت وآبرو نہیں اور وہ ایک شہر خموشاں کی مانند ہیں جس میں زندگی کی کوئی حرارت وتوانائی نہیں۔ بالفاظ دیگر ان کے پاس عصا ہے لیکن کوئی کلیمی کردار ادا کرنے والا نہیں‘ دعوائے ایمان ہے لیکن ضرب ید اللٰہی نہیں‘ حسین سے نسبت پر فخر ہے لیکن رسم شبیری ادا کرنے کی ہمت نہیں‘ نبی آخر الزمان حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے جذباتی تعلق ووابستگی ضرور ہے لیکن اسوۂ رسول اپنانے کے لیے تیار نہیں اور قرآن کریم جیسا نسخہ کیمیا اور نسخہ شفا ان کے پاس موجود ہے لیکن شدت مرض سے جاں بلب ہونے کے باوجود اسے استعمال کرنے کے لیے تیار نہیں۔

حضرات محترم! یہ مفروضات نہیں‘ الفاظ کے طوطا مینا نہیں‘ پراپیگنڈا کی شعبدہ گری نہیں۔ یہ حقائق ہیں‘ گو تلخ ہیں۔ واقعات ہیں جو ہر شخص کے تجربہ ومشاہدہ کا حصہ ہیں۔ یہ ہمارا وہ کردار ہے جو ’عیاں را چہ بیاں‘ کے مصداق محتاج وضاحت نہیں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اسلامیان عالم کا یہ حال ان کے اپنے اخلاق وکردار کا نتیجہ اور ان کے اپنے اعمال کا برگ وبار ہیں ؂

میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ 
خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے

ورنہ یہی مسلمان تھے جنہوں نے بدر واحد کے معرکے سر کیے‘ قیصر وکسریٰ کی عظیم الشان سلطنتوں کو روند ڈالا تھا‘ ساری دنیا پر اپنی عظمت ورفعت کے پرچم لہرائے تھے اور اپنے تمدن وتہذیب کا سکہ رواں کیا تھا۔ آج اس کے برعکس ایسا کیوں ہے کہ ان کا خون مانند آب‘ ارزاں ہے؟ انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے‘ ایک مسلمان ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی لیکن سارا عالم ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کا مصداق بنا رہا بلکہ ہم نے تو اپنے کندھے اور اڈے بھی یہ کہہ کر پیش کر دیے کہ ؂ تو مشق ناز کر خون دو عالم میری گردن پر

ہماری گزشتہ روشن تاریخ کے مقابلے میں عالم اسلام کا حالیہ کردار جس میں پاکستان سرفہرست ہے‘ نہایت حیرت واستعجاب کا باعث ہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ جب سندھ میں راجہ داہر کے زیر نگیں علاقے میں بحری قزاقوں نے مسلمانوں پر جبر وظلم کیا تو ایک مسلمان عورت نے ہزاروں میل دور حجاج بن یوسف کو مدد کے لیے پکارا اور یہ پکار اور فریاد جب حجاج کے علم میں آئی تو اسی وقت ا س نے لبیک کہا اور مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے ایک لشکر جرار روانہ کر دیا جس نے آکر سندھ اور ہند میں اسلامی فتوحات کا دروازہ کھولا۔ آج دنیا نے دوسرا منظر دیکھا کہ وہ طالبان جن کو ان کے اسلامی تشخص کی بنا پر پاکستان نے بھی سپورٹ کیا‘ اور بھی بعض ممالک نے ان سے تعاون کیا اور اس تعاون سے انہوں نے افغانستان کے نوے فی صد حصے پر اسلام کا نفاذ کر دیا‘ شرعی حدود جاری کیں‘ اسلحے اور منشیات‘ بد امنی اور قتل وغارت گری کی وارداتوں سے ملک کو محفوظ کیا‘ عورتوں کی بابت اسلامی تعلیمات کی پابندی کی‘ مخلوط تعلیم‘ مخلوط ملازمت ختم کی اور ان کے لیے مردوں سے الگ بعض شعبوں میں تعلیم اور ملازمت کا انتظام کیا (جو اسلامی تعلیمات کا اور وقت کا اہم تقاضا تھا) اور امن وسکون کا ایک نہایت قابل رشک ریکارڈ قائم کر کے وہ تباہ حال افغانستان کی تعمیر نو کا کام نہایت اخلاص‘ بے لوثی اور برق رفتاری سے کر رہے تھے کہ امریکہ میں ۱۱ ستمبر کو ہونے والی دہشت گردی کی واردات کو بہانہ بنا کر اور بلا ثبوت اسامہ بن لادن کو اس کا ذمے دارٹھہرا کر افغانستان کو اور اس میں قائم اسلامی حکومت کو تہس نہس کر دیا حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ میں ہونے والی دہشت گردی جس میں سرعت‘ ماہرانہ چابک دستی اور سازش کی گہرائی اور گیرائی نے دنیا کو حیرت زدہ اور امریکیوں کو مبہوت کر دیا‘ اسامہ یا اس کی تنظیم القاعدہ کے بس کی بات نہیں تھی۔ یہ یقیناًایک ایسے گروہ کی کارروائی ہے جو امریکی ہی ہے اور اسے امریکہ کے خصوصی اداروں تک رسائی بھی حاصل ہے لیکن امریکہ طالبان کو صرف اس لیے ختم کرنا چاہتا تھاکہ مفلس وقلاش ہونے کے باوجود انہوں نے امریکہ کی دریوزہ گری کرنی پسند نہیں کی۔ دوسرے‘ صدیوں سے امن سے محروم علاقے میں اسلام کی حکمرانی کے ذریعے سے انہوں نے عملاً امن قائم کر کے دکھا دیا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ کیا دہشت گردوں کے ہاتھوں بھی کبھی امن قائم ہوا ہے؟ کیا دہشت گردوں کے ذریعے سے بھی لوگوں کی جان ومال اور عزت وآبرو کا تحفظ ہوا ہے؟ کیا دہشت گردوں کے اقدامات سے بھی کبھی تعمیر وطن کا کام ہوا ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقیناًنفی میں ہے تو کیا اس سے یہ واضح نہیں ہو جاتا کہ طالبان دہشت گرد تھے نہ دہشت گردوں کے پشتی بان؟ وہ تو اسلام کے محافظ تھے‘ وطن کے معمار تھے‘ ناقہ ملت کے حدی خواں تھے‘ اسلامی اقدار وروایات کے پاسبان تھے‘ اسلامی تہذیب کے علم بردار اور قرون اولیٰ کے اخلاق وکردار کے حامل تھے۔ اسی لیے وہ عالم اسلام کی امیدوں کا مرکز تھے ‘ الحاد وزندقہ کی تاریکیوں میں قندیل ربانی تھے‘ ظلمت شب میں صبح درخشاں کی نوید جاں فزا تھے‘ وہ مقاصد فطرت کی نگہبانی کرنے والے بندگان صحرائی اور مردان کہستانی تھے۔ وہ عجم کا حسن طبیعت اور عرب کا سوز دروں تھے اور اس دور میں جب کہ سوائے سعودی عرب کے کوئی بھی اسلامی ملک اسلامی عقیدہ وایمان کے تقاضوں کو بروئے کار لانے کے لیے تیار نہیں‘ وہ سرمایہ ملت کے نگہبان اور علامہ اقبال کے ان اشعار کے مصداق تھے ؂ 

یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا ودریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن
نہ مال غنیمت‘ نہ کشور کشائی

افسوس:

وہ لوگ ہم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے
ڈھونڈا تھا آسماں نے جنہیں خاک چھان کر

مرورِ ایام کی دبیز تہوں اور لیل ونہار کی ہزاروں گردشوں کے بعد چشم فلک نے ایسے حکمران دیکھے تھے جن کا رہن سہن‘ طور اطوار اور طرز بود وباش اسی طرح عام انسانوں کا سا تھا جس کی مثالیں خلفاء راشدین نے قائم کی تھیں۔ شاہانہ کروفر سے دور‘ امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ سے پاک اور مسرفانہ وعیاشانہ طرز زندگی سے نفور۔ سارے وسائل عوام کی فلاح وبہبودکی نذر اور شب وروز کا ہر لمحہ ملک وملت کی خدمت کے لیے وقف۔ انہوں نے فقیری میں بادشاہی کی‘ غریبی میں خود داری کا مظاہرہ کیا‘ تباہ حالی کے باوجود گدائی کا کاسہ اور کشکول نہیں اٹھایا‘ کسی کے سامنے جھولی نہیں پھیلائی‘ غیروں کی دریوزہ گری نہیں کی‘ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے حسین جالوں میں نہیں پھنسے بلکہ فاقہ کشی‘ بھوک‘ قحط اور بے سروسامانی کے باوصف خود انحصاری کی پالیسی اپنائی۔ لیکن افسوس‘ قلب ونظر کی کجی اور نگہ کی نامسلمانی نے ان کی خوبیوں کو برائی سمجھا‘ ان کی غیرت وخود داری کو نادانشی باور کرایا‘ ان کے عزم وایمان کو ایک ناقابل معافی جرم قرار دیا کہ 

؂ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

اور اپنے دین پر استقلال وثابت قدمی کو انتہا پسندی کا عنوان دیا اور ان کی سادگی کو فریب خوردگی سے اور مغرب کی حیا باختہ تہذیب سے نفرت کو بے خبری سے تعبیر کیا اور جب ان طعنوں سے بھی کام نہ بنا اور افغانستان پر ان کی گرفت کمزور ہونے کے بجائے مضبوط تر ہوتی چلی گئی تو بھیڑیے اور میمنے کے مشہور واقعے کی طرح ۱۱ ستمبر کے واقعے کو بہانہ بنا کر ان پر آتش وآہن کی بارش کر دی۔ انہوں نے اگرچہ مردانہ وار مقابلہ کیا اور اپنے خون سے شجاعت ومردانگی کی ایک لازوال تاریخ رقم کر دی لیکن وہ چونکہ نہتے تھے‘ جدید اسلحی وسائل سے محروم تھے اور ان تابڑ توڑ فضائی حملوں کا جواب دینے سے قاصر تھے جو دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد نے ان پر کیے‘ اس وحشیانہ بمباری اور خوں خوارانہ دہشت گردی نے انہیں پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ یوں ان کی خوبیاں ان کے لیے بلائے جان بن گئیں ؂ اے روشنئی طبع تو بر من بلا شدی

اور یہ ظلم‘ وحشت وبربریت کا یہ مظاہرہ اور درندگی وخوں آشامی کی یہ حرکت صرف دشمنوں ہی نے نہیں کی بلکہ اپنے بھی اس میں شریک ہو گئے۔ بے گانوں ہی نے وار نہیں کیے‘ دوستوں نے بھی خنجر گھونپنے سے گریز نہیں کیا۔ اعدائے دین ہی نے انہیں کشتنی قرار نہیں دیا بلکہ نام نہاد مسلمان حکمرانوں نے بھی انہیں گردن زدنی ہی سمجھا۔ یہ مظلوم طالبان بزبان حال کہہ رہے ہیں ؂

من از بیگانگاں ہرگز نہ نالم
کہ بامن ہرچہ کرد آں آشنا کرد 
اور بقول حفیظ جالندھری ؂ 
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

دوستوں نے اپنوں پر ناوک افگنی کے لیے دلیل یہ پیش کی کہ ہم نے انہیں بہت سمجھایا‘ صورت حال کی نزاکت کا احساس دلایا‘ لیکن وہ سمجھے نہیں اور حالات کی خطرناکی کے ادراک سے قاصر رہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ بات ایسی نہیں ہے جو باور کرائی جا رہی ہے۔ طالبان کا رویہ ہرگز عدم مفاہمت کا نہیں تھا۔ وہ ۱۹۹۸ء سے یہ کہہ رہے تھے کہ امریکہ کے پاس اگر اسامہ کے دہشت گردی کی کسی کارروائی میں ملوث ہونے کا ثبوت ہے تو وہ کسی غیر جانب دار عدالت میں پیش کرے‘ ہم اس کے لیے اسامہ کو کسی تیسرے ملک کی تحویل میں دینے کے لیے تیار ہیں لیکن چونکہ اس کے پاس ایسا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا اور نہ ہے اس لیے مذاکرات کی یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ اس کے پاس صرف اتہامات ومفروضات ہیں جنہیں وہ دھونس اور دھاندلی سے ثبوت باور کرانا چاہتا تھا۔ اس کا اصل مقصد تو افغانستان سے ایسی حکومت کا خاتمہ تھا جو دنیا میں اسلامی عدل وانصاف کی مظہر اور اسلامی اخوت ومساوات کا نمونہ تھی۔ بلاشبہ امریکہ کے کچھ اور سیاسی ومعاشی مقاصد بھی ہیں لیکن بڑا مقصد احیائے اسلام اور جہاد کے بڑھتے ہوئے اس جذبے کا خاتمہ تھا جو طالبان کے طرز حکومت اور ان کی منصفانہ پالیسیوں سے پیدا ہو رہا تھا جس کا علاج بقول علامہ اقبال انہوں نے یہی سوچا کہ ؂

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز ویمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو ان کے کوہ ودمن سے نکال دو
اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہو کو مرغزار ختن سے نکال دو
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو

اقبال مرحوم کا یہ کلام ضرب کلیم میں ہے اور اس نظم کا عنوان ہی یہ ہے: ’’ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘‘چنانچہ ابلیس کے سارے سیاسی فرزندوں نے مل کر‘ جس کا نام عالمی اتحاد ہے‘ افغانستان کے چمن سے اس کے اس غزل سرا کو نکال دیا ہے جس نے افغانستان کو امن واستحکام عطا کیا تھا جو کسی ملک کی تعمیر نو کے لیے نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اب افغانستان میں پھر قتل وغارت گری کا بازار گرم اور لوٹ کھسوٹ اور خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہے اور امن واستحکام ایک خواب وخیال بن کر رہ گیا ہے۔ اگر ان عالمی دہشت گردوں کا مقصد افغانستان میں امن واستحکام قائم کر کے اس کی تعمیر نو ہوتا تو یہ کام طالبان سے مفاہمت کر کے ہی ممکن تھا۔ اب یہ مقصد سالہا سال تک حاصل ہوتا نظر نہیں آتا ؂

جنہیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تم نے
وہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی

طالبان کے مخالفین ذرا گریبان میں منہ ڈال کر سوچیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام سے جو کارروائی ہوئی ہے‘ اس سے دہشت گری کا خاتمہ ہوا ہے یا دہشت گردی کا دیو اور زیادہ قوی ہو گیا ہے؟ امن واستحکام قائم ہوا ہے یا اس کے برعکس بد امنی اور عدم استحکام میں اضافہ ہو گیا ہے؟ اگر یہ تسلیم ہے اور ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی ختم نہیں ہوئی بلکہ بڑھی ہے اور آئندہ بھی کم ہونے کا نہیں بلکہ بڑھنے ہی کا امکان ہے تو پھر اس کارروائی کا کیا جواز ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کی ہے؟

دنیائے اسلام کے عام مسلمان بلاشبہ اس المیہ افغانستان پر خون کے آنسو رو رہے ہیں ؂

آسماں را حق بود گرخوں ببارد بر زمیں
بر زوال تو مجاہد اے امیر المومنیں

وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے اور کرنا چاہتے ہیں لیکن بے بس ہیں اور احتجاج واضطراب کی صدا بلند کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ الحمد للہ عوام نے اپنا یہ فرض ادا کیا‘ وہ تڑپتے رہے اور تڑپ رہے ہیں‘ مضطرب وپریشان رہے اور مضطرب وپریشان ہیں۔ بلاشبہ ان کا یہ اضطراب اور پریشان ہونا ان کے ایمان کی علامت اور ان کے جذبہ اخوت اسلامی کا مظہر ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان گرامی ہے:

تری المومنین فی تراحمہم وتوادہم وتعاطفہم کمثل الجسد اذا اشتکی عضو تداعی لہ سائر جسدہ بالسہر والحمی (صحیح بخاری‘ کتاب الادب‘ باب رحمۃ الناس والبہائم‘ حدیث نمبر ۶۰۱۱)

’’تم مومنوں کو ایک دوسرے پر رحم کرنے‘ باہم نرمی اور محبت کرنے میں ایسا دیکھو گے جیسے ایک جسم ہوتا ہے ۔ جسم کا جب کوئی ایک حصہ تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو سارا جسم ہی تکلیف محسوس کرتا اور اس کی وجہ سے بیدا ر رہتا اور بعض دفعہ بخار تک میں مبتلا ہو جاتا ہے۔‘‘

ایک دوسری حدیث میں فرمایا:

المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا (صحیح بخاری‘ کتاب المظالم‘ باب نصر المظلوم‘ حدیث ۲۴۴۶)

’’مومن‘ مومن کے لیے ایسے ہے جیسے ایک دیوار یا عمارت ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کے ساتھ پیوست اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مضبوطی کا باعث ہوتا ہے۔‘‘

قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفت یہ بیان فرمائی ہے:

والمومنون والمومنات بعضہم اولیاء بعض (التوبہ ۹/۷۱)

’’مومن مرد اورمومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔‘‘

دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفت بیان فرمائی:

لا تجد قوما یومنون باللہ والیوم الآخر یوادون من حاد اللہ ورسولہ ولو کانوا آباء ہم او ابناء ہم او اخوانہم او عشیرتہم اولئک کتب فی قلوبہم الایمان وایدہم بروح منہ ویدخلہم جنات تجری من تحتہا الانہار خالدین فیہا رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ اولئک حزب اللہ الا ان حزب اللہ ہم المفلحون (المجادلۃ ۵۸/۲۲)

’’تم ایسے لوگوں کو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں‘ ایسا نہیں پاؤ گے کہ وہ ایسے لوگوں سے محبت رکھیں جو اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں‘ چاہے ان وہ کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے ہوں یا ان کے بھائی ہوں یا ان کے خاندان اور قبیلے کے لوگ ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے اور اپنی خاص رحمت سے ان کی مدد کی ہے اور وہ ان کو ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے‘ اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے۔ یہی اللہ کا گروہ ہے اور اللہ کا گروہ ہی کامیاب ہونے والا ہے۔‘‘

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے یہود ونصاریٰ کو دوست بنانے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا اور ساتھ ہی یہ فرمایا:

انما ولیکم اللہ ورسولہ والذین آمنوا فان حزب اللہ ہم الغالبون (المائدہ ۵/۵۶)

’’تمہارا دوست تو صرف اللہ‘ اس کا رسول اور اہل ایمان ہیں ( یاد رکھو) اللہ کا گروہ ہی غالب آنے والا ہے۔‘‘

ان آیات واحادیث سے واضح ہے کہ:

۱۔ اہل ایمان ایک جسم کی مانند ہیں چاہے وہ کوئی بھی ہوں‘ کسی بھی نسل سے ان کا تعلق ہو‘ کوئی بھی زبان وہ بولتے ہوں‘ مشرق میں رہتے ہوں یا مغرب میں۔ ایمان کے رشتے نے ان کو ایک لڑی میں پرودیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے مونس وغم خوار‘ ایک دوسرے کے دست وبازو اور دکھ درد میں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں ؂

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

۲۔ یہ اللہ کا گروہ ہیں۔

۳۔ ان کے مقابلے میں کافر شیطان کا گروہ ہیں۔

۴۔ اہل ایمان کی محبت اور دوستی صرف اہل ایمان کے ساتھ ہوتی ہے (جیسے کافر ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں) اور کافروں کے ساتھ ان کی دوستی نہیں ہوتی‘ چاہے وہ ان کے باپ‘ ان کے بیٹے‘ ان کے بھائی یا ان کے خاندان اور قبیلے کے فرد ہوں۔

۵۔ فلاح وغلبہ ایسے ہی مومنوں کا حق ہے۔

ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

والذین کفروا بعضہم اولیاء بعض الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض وفساد کبیر (الانفال ۸/۷۳)

’’کافر ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے (یعنی تم مسلمان بھی اگر ایک دوسرے کے دوست نہیں بنو گے) تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پیدا ہوگا۔‘‘

اور وہ فتنہ وفساد یہی ہے کہ اس صورت میں کافروں کے حوصلے بڑھ جائیں گے‘ مسلمان مغلوب ہو جائیں گے اور اللہ کا کلمہ بلند ہونے کے بجائے پست ہو جائے گا۔ اس اعتبار سے اہل ایمان کی یہ صفت کہ وہ ایک دوسرے کے دوست اور ایک دوسرے کے معاون اور انصار ہیں‘ مسلمانوں کی ایک پالیسی اور مقصد زندگی ہے اور ہونا چاہیے‘ اس لیے کہ اسی پالیسی میں اللہ کے دین کی بلندی کا راز مضمر ہے۔

عوام کی حد تک تو اہل ایمان نے اس پالیسی کا بلاشبہ اظہار کیا لیکن مسلم حکمرانوں نے اس کے برعکس پالیسی اختیار کر کے ایک جرم عظیم کا ارتکاب کیا ہے۔ ان میں سے کچھ نے تو امریکہ کو سب کچھ پیش کر دیا۔ ان کو معلومات فراہم کیں جن کی اس دور میں بہت زیادہ اہمیت ہے‘ اپنی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دی‘ فوجی نقل وحرکت اور دیگر جنگی ضروریات ومقاصد کے لیے اپنے اڈے تک انہیں دے دیے‘ اور بھی انہوں نے جس چیز کا مطالبہ کیا‘ انہوں نے پیش کرنے میں تامل نہیں کیا اور یوں چند ڈالروں کے وعدۂ فردا پر اپنے لیے ایمان کش اور غلامانہ کردار پسند کیا۔ آہ ؂ قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند۔

انہوں نے ملت فروشوں میں اپنا نام لکھوا کر ذلت ورسوائی کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ؂

جعفر از بنگال وصادق از دکن
ننگ آدم‘ ننگ دیں‘ ننگ وطن

اور کچھ مسلمان ملکوں نے اپنے اڈے تو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی لیکن اپنے بعض ذہنی تحفظات کی وجہ سے امریکی کارروائی کو خاموشی سے دیکھنے پر قناعت کی اور بعض مسلمان ملکوں نے دبے لفظوں میں اسے صرف جلد بازی سے تعبیر کیا لیکن کسی مسلمان ملک کو اس جرات رندانہ کی توفیق نہ ہوئی کہ وہ امریکہ سے یہ مطالبہ کرتا کہ پہلے ہمیں اسامہ کی دہشت گردی کا واضح ثبوت دکھلاؤ‘ اس کے بغیر تمہاری کارروائی بجائے خود دہشت گردی ہوگی حتیٰ کہ اس نازک موقعے پر اسلامی سربراہی کانفرنس کا اجلاس تک بلانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ صرف وزرائے خارجہ کی حد تک‘ وہ بھی جب چڑیاں سارا کھیت چگ گئیں‘ ایک اجلاس ہوا اور اس میں بھی نشستند وگفتند وبرخاستند سے زیادہ کچھ نہیں ہوا کیونکہ اس میں ایک قرارداد مذمت تک پاس نہیں ہوئی۔ گویا سارے مسلمان ممالک اس وقت امریکہ کے غلام ہیں اور ان سب کا آقائے ولی نعمت امریکہ ہے۔ وہ جو چاہے کرے‘ اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ اقوام متحدہ سے کچھ لوگ امیدیں وابستہ کرتے ہیں لیکن اس کا کردار بھی ایک امریکی لونڈی سے زیادہ نہیں۔ امریکہ اسے بھی صرف اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے اور یوں اس کا کردار بھی اپنی پیش رو لیگ آف نیشنز سے مختلف نہیں رہا جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا ؂

من ازیں بیش نہ دانم کہ کفن دزدے چند 
بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند

یہ سارے مسلمان ممالک اقوام متحدہ سمیت اس شعر کا مصداق ہیں ؂ 

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
جو چاہیں سو آپ کرے ہیں‘ ہم کو عبث بدنام کیا

یہ ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے لیے ڈوب مرنے کے مقام ہے۔ ہمارا وجود ایک مجسم عبرت ہے‘ ذلت ورسوائی کا عجیب وغریب نمونہ ہے۔ بقول حالی مرحوم ؂

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے

یا بقول اقبال مرحوم ؂

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

ایک اور شعر میں اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں:

تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی‘ مرا ایماں ہے زناری

(۲) مسلمانوں کا عالمی کردار کیا ہونا چاہیے؟

بہرحال اس وقت مسلمانوں کا عالمی کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب اس موضوع کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ ان کا عالمی کردار کیا ہونا چاہیے؟ اس کا جواب بھی واضح ہے کہ اسلام غالب ہونے کے لیے آیا ہے‘ مغلوب ہونے کے لیے نہیں۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے: الاسلام یعلو ولا یعلی۔ اس لیے یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ ہم اس کے برعکس غالب ہونے کے بجائے مغلوب کیوں ہیں؟ فاتح کے بجائے مفتوح کیوں ہیں؟ سربلند وسرخ رو ہونے کے بجائے ذلیل ورسوا کیوں ہیں؟ دنیا کے قائد ہونے کے بجائے مقتدی کیوں ہیں؟ 

اس کے اسباب ووجوہ مخفی نہیں‘ ڈھکے چھپے نہیں‘ کوئی سربستہ راز نہیں‘ بلکہ ہر شخص پر واضح اور آشکار ہیں۔اس کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا سبب ایمان ویقین کی کمی‘ اپنے نظریے اور عقیدے سے انحراف‘ اپنے اسلامی تشخص کے تحفظ وبقا کے جذبے سے مجرمانہ حد تک غفلت واعراض اور غیروں کی تہذیب کو اپنانے کا شوق فراواں اور ان کی نقالی پر فخر کرنا ہے۔ اسے علامہ اقبال علیہ الرحمۃ نے ایک شعر میں یوں سمو دیا ہے ؂

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

ٹی وی پر اسی مغرب کی حیاباختہ تہذیب کی یلغار ہے‘ ہمارے قومی اخبارات اسی تہذیب کو پھیلانے میں نہایت موثر کردار ادا کر رہے ہیں اور یوں بڑی تیزی سے ہم اسلامی تہذیب اور اس کے حیا وعفت کے تصور اور ایمان ویقین کی دولت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ اقبال نے اس بات کو ظریفانہ انداز سے اس طرح بیان کیا تھا ؂

لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روشِ مغربی ہے مد نظر
وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین؟
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

اقبال نے یہ اشعار اس وقت کہے تھے جب بے پردگی اور غیروں کی نقالی کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا۔ اسی دور میں اکبر الٰہ آبادی نے بھی کہا تھا ؂

بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے پردہ تمہارا‘ وہ کیا ہوا؟
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

اب اس ڈرامے کے سارے سین سامنے آگئے ہیں‘ پردہ اٹھ گیا ہے اور بقول اقبال بے حجابی کا وہ زمانہ آ گیا ہے جس میں دیدارِ یار عام ہے۔

حضرات محترم! مسئلہ انگریزی زبان کے پڑھنے یا نہ پڑھنے کا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ تہذیبی شناخت اور نظریاتی تشخص کا ہے۔ انگریزی زبان اس وقت بین الاقوامی نیز سائنسی علوم کی زبان ہے۔ اس لیے اس کی اہمیت وضرورت اور افادیت وناگزیریت سے مجال انکار نہیں۔ بنا بریں بحیثیت زبان کے اور بطور علم وفن کے اس کے سیکھنے کو کوئی ناجائز نہیں کہتا لیکن کیا اسے پڑھنے اور سیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم انگریزی زبان کواپنا اوڑھنا بچھونا ہی بنا لیں‘ ہماری کوئی گفتگو بلا ضرورت انگریزی الفاظ کی بھرمار کے بغیر نہ ہو‘ ہماری دکانوں کے سائن بورڈ انگریزی ہی میں ہوں‘ ہمارے گھروں کے باہر ناموں کی تختیاں انگریزی ہی میں ہوں‘ ہماری تقریبات کے دعوت نامے انگریزی ہی میں ہوں حتیٰ کہ ہمیں اب اپنی زبان کے امی جان‘ ابو جان‘ چچا جان‘ ماموں جان اور خالہ جان وغیرہ الفاظ بھی پسند نہ ہوں اور ان کی جگہ ڈیڈی‘ پاپا‘ ماما‘ ممی‘ انکل اور آنٹی وغیرہ محبوب ہوں؟ عام لوگ شاید ان باتوں پر چیں بہ چیں ہوں گے یا اسے بے وقت کی راگنی قرار دیں گے یا غیر اہم سمجھتے ہوں لیکن میں عرض کروں گا کہ ان باتوں پر چیں بہ چیں ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘ یہ بے وقت کی راگنی بھی نہیں ہے اور اسے غیر اہم بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ تہذیبی شناخت کا مسئلہ ہے‘ نظریاتی تشخص کا مسئلہ ہے‘ قومی غیرت اور حمیت کا مسئلہ ہے۔ اگر آپ دنیا میں اپنا وجود منوانا چاہتے ہیں‘ اقوام دنیا میں عزت ووقار کا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ اپنی عظمت رفتہ کے حصول کی کوئی تمنا اور آرزو رکھتے ہیں تو آپ بلاشبہ انگریزی زبان میں خوب مہارت حاصل کریں لیکن آپ کو اپنی تہذیبی شناخت کو برقرار رکھنا ہوگا‘ اپنے اسلامی تشخص کی حفاظت کرنی ہوگی اور ملی غیرت وحمیت کا ثبوت دینا ہوگا۔ اس کے لیے اپنی قومی زبان‘ اپنا قومی لباس اور اپنا مسلم تمدن اپنانا ہوگا۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو یاد رکھیے‘ تہذیبوں کے موجودہ تصادم اور نظریات کے ٹکراؤ میں آپ کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی اور آپ حرفِ غلط کی طرح مٹا دیے جائیں گے۔ بقول اکبر الٰہ آبادی

تم شوق سے کالج میں پڑھو‘ پارک میں پھولو
جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ پہ جھولو
لیکن یہ سخن بندۂ عاجز کا رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو

بہرحال دنیا میں عزت ووقار کا مقام حاصل کرنے کے لیے پہلی بات اپنے ایمان وعقیدے کی حفاظت اور اپنے نظریاتی تشخص کا احساس اور دینی وملی غیرت کی بقا اور اس کا اظہار ہے۔ اس کے لیے نصاب تعلیم کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا ضروری ہے‘ ٹی وی کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے اور قومی اخبارات کے مالکان ومدیران کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنا رویہ بدلیں اور قوم کے اسلامی تشخص کے تحفظ وبقا کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

ہماری پستی اور زبوں حالی کا دوسرا سبب خود انحصاری کے بجائے آئی ایم ایف وغیرہ کے قرضوں پر معیشت کا ڈھانچہ استوار کرنا ہے۔ جو حکومت بھی آتی ہے‘ وہ خود انحصاری کا ڈھنڈورا تو خوب پیٹتی ہے اور کشکول توڑنے کااعلان کرتی ہے لیکن ساری دنیا میں کشکول لیے پھرتی ہے اور جب وہ حکومت رخصت ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ قرضوں کے بوجھ میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ بوجھ اور بڑھ گیا ہے۔ غلامی کی زنجیریں اور بوجھل ہو گئی ہیں اور قرض کی مے پی پی کر ہماری فاقہ مستی خوب رنگ لا رہی ہے۔ جب تک ہماری حکومتیں بیرونی قرضوں پر اپنا انحصار ختم نہیں کریں گی‘ ہم دنیا میں سر اٹھا کر چلنے اور ان کے ناجائز دباؤ کو نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہو سکیں گے۔

تیسرا سبب مسلمان ملکوں کا باہمی اختلاف اور ان کے مابین اتحاد کا فقدان ہے۔ اسی اختلاف اور عدم اتفاق نے ان کی قوت کو منتشر اور پارہ پارہ کر رکھا ہے۔ اگر یہ سارے ملک اسلام کی بنیاد پر متحد ہو جائیں‘ ان سب کی آواز ایک ہو جائے تو اقوام متحدہ من مانی کر سکتی ہے نہ امریکہ وبرطانیہ کو مسلمانوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی ہمت ہو سکتی ہے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد جیسے ساری دنیائے اسلام نے امریکہ میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت کی تھی‘ اسی طرح اگر وہ اسامہ بن لادن کے بارے میں بھی متحدہ موقف اختیار کرتی اور امریکہ سے ثبوت مانگتی یا ہمارے صدر محترم امریکی صدر سے مہلت لے کر تمام اسلامی سربراہوں سے رابطہ کر کے انہیں صورت حال اور معاملے کی سنگینی اور نزاکت سے آگاہ کرتے تو یقیناًاس المیے سے بچا جا سکتا تھا جو عالم اسلام کی بے حسی‘ مجرمانہ سکوت اور ہمارے بزدلانہ اور غیر دانش مندانہ فیصلے کی وجہ سے رونما ہوا۔ آئندہ ایسے المیوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ عالم اسلام میں باہم اتحاد واتفاق ہو‘ اسلامی سربراہی کانفرنس موثر اور فعال ہو اور آپس کی تلخیاں اور کشیدگیاں دور ہوں۔ پورا عالم اسلام ایک جسدِ واحد کی طرح اور ایک بنیان مرصوص ہو۔ عالمی مسائل بالخصوص مسلمانوں سے متعلق پالیسیوں میں ان کا موقف ایک اور اسلامی تعلیمات کا مظہر ہو۔

ہماری پستی اور کمزوری کا چوتھا سبب منصوبہ بندی کا فقدان اور اپنے مسائل ووسائل کا عدم شعور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلامی ملکوں کو ایک تو افرادی قوت سے نوازا ہے۔ دوسرے ہر قسم کے قدرتی وسائل انہیں وافر مقدار میں عطا کیے ہیں لیکن منصوبہ بندی کے فقدان اور خداداد وسائل کی قدروقیمت کے عدم احساس کی وجہ سے ہم پستی کا شکار اور غیروں کے محتاج ہیں۔ ہمارے اہل علم وہنر دیار غیر میں کام کر رہے ہیں اور ان کی ترقی میں ان کے ساتھ خوب تعاون کر رہے ہیں۔ ہم انہیں معقول تنخواہ اور مراعات دے کر ان کو ملکی ترقی میں حصہ دار بنانے کے لیے تیار نہیں حتیٰ کہ اگر کوئی خود ملی اور قومی جذبے کے پیش نظر اپنے ملک میں رہ کر اپنے ملک کو سائنسی وایٹمی ٹیکنالوجی یا دیگر اہم شعبوں کو رفعت بہ کنار کرنا چاہتا ہو تو ہمیں اس کی خدمات قبول نہیں یا اس کی قدر ومنزلت کا اہتمام کر کے اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کرنا اور اس کی تذلیل وتوہین کرنا ہمارا شعار ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بالآخر وہ پھر دیار غیر ہی کو اپنا مسکن اور غیروں ہی کی خدمت کو اپنا مقصد زندگی بنا لیتا ہے یاخاموشی اور گم نامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال ہمارے دو ایٹمی سائنس دانوں کے ساتھ موجودہ حکومت کا رویہ ہے جو اس نے اپنے آقائے ولی نعمت امریکہ کے کہنے پر ان کے ساتھ کیا ہے ؂ شرم تم کو مگر نہیں آتی

اسی طرح خداداد وسائل کا معاملہ ہے۔ ہمیں ان کی قدر وقیمت کا اورانہیں ترقی دے کر ان سے استفادہ کرنے کا صحیح شعور واحساس ہی نہیں ہے ورنہ اگر عالم اسلام مل کر اپنے وسائل ومسائل کے بارے میں اجتماعی سوچ اور فکر کو بروئے کار لائے اور ایک دوسرے سے اخذ واستفادہ کر کے انہیں ترقی دے اور انہیں صحیح طریقے سے استعمال کرے تو اس سے ان کے مسائل بھی بہت حد تک حل ہو سکتے ہیں اور بہت جلد ترقی سے بھی ہم کنار ہو سکتے ہیں۔ اس وقت ہماری جو صورت حال ہے‘ ا س کا نقشہ علامہ اقبال نے اس طرح کھینچا ہے ؂

جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن‘تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن‘ تم ہو
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن‘ تم ہو

ہماری کمزوری وزبوں حالی کا پانچواں سبب ہمارا اپنے دفاع سے غفلت برتنا ہے۔ عالم اسلام کی دفاعی حالت یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ مال دار ملک کویت اور سعودی عرب اور عرب امارات اپنے دفاع کے لیے مغربی ممالک کے محتاج ہیں۔ آج سے چند سال قبل صدام حسین نے کویت پر جارحانہ قبضہ کر لیا اور سعودی عرب پر بھی جارحیت کے ارتکاب کا اظہار کیا تو ان دونوں ممالک نے امریکہ وبرطانیہ وغیرہ سے امداد طلب کی اور انہوں نے آکر صدام کی جارحیت سے ان دونوں کو بچایا جس کی بہت بھاری قیمت ان کو چکانی پڑی بلکہ ابھی تک چکا رہے ہیں جس نے ان کی معیشت کو نیم جان کردیا ہے۔ اسی طرح ۵۴ سال سے اسرائیل نے عربوں کی ناک میں دام کر رکھا ہے حالانکہ عربوں کے مقابلے میں وہ ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کے باشندگان کی تعداد بھی ۳۰ لاکھ سے زیادہ نہیں ہے جبکہ عرب ۱۱ کروڑ کی تعداد میں ہیں اور دنیاوی وسائل سے مالامال بھی ہیں لیکن چونکہ وہ اپنا موثر دفاع کرنے کے قابل نہیں اس لیے اسرائیل سے مسلسل مار کھا رہے ہیں بالخصوص فلسطینی مسلمانوں پر اس نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے لیکن کوئی اسلامی ملک اس کا ہاتھ پکڑنے اور اسے سبق سکھانے کے قابل نہیں۔ تیسری مثال اسامہ بن لادن اور ملا عمر کی ہے۔ مسلم حکمران امریکہ کے دباؤ پر یا اپنے ذہنی تحفظات کی وجہ سے انہیں جو چاہیں کہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو دہشت گرد کہنا ایک بہت بڑا جھوٹ اور دہشت گرد سمجھنا بہت بڑا ظلم ہے۔ یہ دونوں اسلام کے مجاہد اور ملت اسلامیہ کے عظیم ہیرو ہیں۔ اسامہ اسلامی جہاد کی علامت ہے۔ اس نے عالم اسلام میں جہاد کی ایک لہر پیدا کی ہے جس سے عالم کفر لرزاں ہے۔ اس نے مسلم نوجوانوں کو ایک ولولۂ تازہ دیاہے۔ ان کے اندر چٹانوں کا سا عزم اور حوصلہ پیدا کیا ہے۔ اسلام کی خاطر مر مٹنے کا جذبہ اور شعور بیدار کیا ہے جس کی وجہ سے ممولے کے اندر شہباز سے لڑنے کی اور کنجشک فرومایہ کے اندر ہم پایہ سلیمان جیسے لوگوں سے ٹکرانے کی قوت وتوانائی پیدا ہوئی ہے۔ ملا عمر حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے بعد تاریخ اسلام کا وہ تیسرا عمر ہے جس نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں وسائل کی قلت اور مسائل کی بھرمار کے باوجود اسلامی حکومت اور اس کے عدل وانصاف اور مساوات کا وہ نمونہ عملی طور پر پیش کر کے دکھا دیا جس نے خلافت راشدہ کے دور کی یاد تازہ کر دی جس کے قیام کی ہر مسلمان اپنے دل میں آرزو رکھتا ہے۔ ان دونوں دانائے راز شخصیتوں کا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں شہید یا گرفتار ہو جانا عند اللہ تو یقیناًان کے لیے اعزاز واکرام کا باعث ہوگا لیکن ہم مسلمانوں کے لیے وہ دن ایک نہایت الم ناک دن اور ڈوب مرنے کا مقام ہوگا۔ عالم اسلام کی یہ بے بسی کہ وہ ملت اسلامیہ کے ان بے گناہ عظیم سپوتوں کو اس وقت پناہ مہیا کرنے سے قاصر ہے‘ قابل عبرت تو ضرور ہے لیکن ناقابل فہم ہرگز نہیں۔ اور ہماری غلامی کی انتہا یہ ہے کہ حکومت نے اوقاف کی مسجدوں میں ائمہ کرام کو امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت کے خلاف قنوت نازلہ پڑھنے یعنی ان کے لیے بددعا کرنے سے حکماً روک دیا ہے۔ فانا للہ وانا الیہ راجعون۔ اقبال نے سچ ہی کہا تھا ؂ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر۔ بلکہ شاید ضمیر نام کی کوئی چیز باقی ہی نہیں رہتی اور صرف یس سر کہنا ہی یاد رہ جاتا ہے۔

وجہ اس بے بسی کی یہی ہے کہ کوئی بھی اسلامی ملک اپنا دفاع کرنے کے قابل نہیں ہے حتیٰ کہ سارا عالم اسلام مل کر ان کا مقدمہ بھی اقوام متحدہ میں پیش کرنے کی ہمت نہیں رکھتا چہ جائیکہ وہ انہیں پناہ دے سکے جب کہ ان مغربی ممالک کا اپنا کردار یہ ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے دہشت گردوں اور بڑے بڑے اخلاقی مجرموں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے۔

ان مثالوں سے مقصد اس نکتے کی وضاحت ہے کہ عالم اسلام اپنے دفاع سے یکسر غافل ہے حالانکہ قرآن کریم میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے:

واعدوا لہم ما استطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل ترہبون بہ عدو اللہ وعدوکم وآخرین من دونہم (التوبہ ۱۸/۶۰)

’’جتنی طاقت تم تیار کر سکتے ہو‘ تیار کرواور گھوڑے بھی باندھے ہوئے تیار رکھو ۔ تم اس کے ذریعے سے اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کو ڈراؤ۔‘‘

حدیث میں آتا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

الا ان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی (صحیح مسلم ‘ الامارۃ‘ باب فضل الرمی والحث علیہ‘ حدیث نمبر ۱۹۱۷)

’’سن لو‘قوت سے مرا دتیر اندازی ہے۔قوت سے مرا دتیر اندازی ہے۔ ‘قوت سے مرا دتیر اندازی ہے۔ ‘‘

یعنی نبی کریم ﷺ نے قوت سے مراد تیر اندازی لی ہے۔ گویا اس طرح تیز اندازی کے سیکھنے کی اہمیت کو واضح فرمایا کیونکہ اس وقت جنگ میں تیر اندازی ہی سب سے بڑا ہتھیار تھا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ قرآن کریم میں قوت تیار کرنے اور قوت مہیا رکھنے کا جو حکم ہے تو اس سے مراد اپنے وقت کے وہ ہتھیار اور اسلحی وسائل ہیں جو جنگ میں زیادہ سے زیادہ موثر اور دشمن کو زیر کرنے میں کارگر ہو سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے آج کل بری‘ بحری اور فضائی تینوں شعبوں میں جو نئے نئے ہتھیار تیار ہوئے ہیں‘ بے آواز جہاز سے لے کر میزائل اور ایٹم بم اور ہائیڈروجن بموں تک تمام ہتھیاروں کی تیاری اور انہیں مہیا کر کے اپنے پاس رکھنا ضروری ہے۔ یہ قرآن اور پیغمبر اسلام کا فرمان ہے اس لیے علماء اسلام کا متفقہ موقف ہے کہ سی ٹی بی ٹی پر دستخط نہ کیے جائیں کیونکہ ایٹمی قوت کے حصول اور اس میں پیش رفت حکم قرآنی کا تقاضا ہے اور اس سے انحراف قرآن وحدیث کی تصریحات کے خلاف ہے۔

لیکن افسوس مسلمان ممالک اس حکم قرآنی سے غافل رہے اور غافل ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج امریکہ اور اس کے اتحادی جو چاہیں کریں‘ مسلمان ممالک ان کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہیں‘ وہ ان کے حکم سے سرتابی کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ وہ ملت اسلامیہ کے عظیم مجاہد اور ہیرو کو دہشت گرد کہیں‘ وہ اسلام کے ایک بے داغ اور مثالی حکمران کو دہشت گردوں کا پشتی بان قرار دیں تو ہمارے اندر ان سے اختلاف کرنے کی ہمت نہیں۔ وہ ان دونوں پر چڑھ دوڑیں اور ان کے ساتھ دیگر بہت سے معصوم اور بے گناہوں پر تابڑ توڑ حملے کریں تو ہم اس مسلم کشی میں ان کے دست وبازو بن جائیں اور اپنا سب کچھ ان کی خدمت میں پیش کر دیں جیسا کہ المیہ افغانستان کے پس منظر میں بے گانوں کی ستم رانی کے ساتھ اپنوں کی کرم فرمائی واضح ہے ؂

قریب یارو ہے رو زمحشر‘چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر؟
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

اس لیے ضروری ہے کہ عالم اسلام اپنے وسائل جمع کرے۔ جس کے پاس مال ودولت ہے‘ وہ مال دے۔ جس کے پاس علم وہنر ہے‘ وہ اپنا علم وہنر پیش کرے۔ جس کے پاس جذبہ وتوانائی ہے‘ وہ اسے بروئے کار لائے۔ یوں وہ اپنے وسائل اور صلاحیتیں جمع کر کے اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنائے تاکہ اس المیے کا اعادہ نہ ہو سکے اور اس تہذیبی تصادم میں مسلمان ممالک بھی اپنی تہذیب کو بچانے میں کوئی کردار ادا کر سکیں۔

چھٹا سبب مغرب کے مقابلے میں ہمارے اخلاق وکردار کی پستی ہے۔ مغرب بے دین ہونے اور بے حیائی کو تہذیب کے طور پر اپنانے کے باوجود عمومی زندگی میں اخلاقی قدروں کا پاسبان ہے‘ امانت ودیانت اس کا شعار ہے۔ اس نے زندگی گزارنے کے لیے جو معاشرتی اصول اور ضابطے وضع کیے ہیں‘ ان کی پابندی کرنے والا ہے۔ محنت‘ لگن اور جدوجہد کرنے والا ہے۔ علم وہنر کا حامل اور اہل علم وہنر کا قدر دان ہے۔ اپنی ان خوبیوں کا وہ صلہ پا رہا ہے‘ دنیا میں اس کی تجارتی ساکھ قائم ہے‘ پوری دنیا اس کی مصنوعات کی منڈی ہے اور گراں سے گراں تر ہونے کے باوجود لوگ انہیں آنکھیں بند کر کے لے لیتے ہیں۔ حالانکہ یہ و ہ خوبیاں ہیں جن کی تلقین ہمارے مذہب نے کی ہے۔ ان خوبیوں میں ہمیں ممتاز ہونا چاہیے تھا۔ اخلاق وکردار کی یہ بلندی ہمارا شعار ہونا چاہیے تھی لیکن بد قسمتی سے معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ہم مذکورہ خوبیوں سے محروم اور اخلاقی پستیوں میں مبتلا ہیں اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ ہم آج کل مغرب کی تقلید اور اس کی نقالی کرنے میں فخر تو محسوس کرتے ہیں لیکن اس کی مذکورہ خوبیاں اپنانے کے لیے پھر بھی تیار نہیں۔ گویا ہم نے اس کی تقلید بھی کی ہے تو ایسی باتوں میں جو ہمارے مذہب کے خلاف ہیں اور ان کا کوئی تعلق مادی وسائنسی علوم اور ترقی سے نہیں ہے۔ ہم شوق سے کتے پالتے ہیں‘ ڈاگ شو اور فیشن شو منعقد کرواتے ہیں۔ کس لیے؟ کہ فرنگی اس کا شوق رکھتے ہیں۔ ہم نے اپنی عورتوں کو بے پردہ کر دیا‘ محض اس لیے کہ ان کی عورتیں بے پردہ ہیں۔ ہم نے ان کا سا لباس اختیار کر لیا‘ تاکہ ہم بھی ماڈرن اور مہذب لگیں یا کہلوائیں لیکن کوئی بتلائے کہ ان چیزوں کا کوئی تعلق ان کی ترقی اور ان کے علوم وفنون کی مہارت سے ہے؟ کیا ان کی ترقی کتوں سے پیار کرنے کی مرہون منت ہے؟ یا کوٹ پتلون اور ٹائی کا اس میں دخل ہے؟ کیا عورتوں کی عریانی ان کی ترقی کی بنیاد ہے؟ نہیں‘ ہرگز نہیں۔ پھر ان چیزوں میں ان کی تقلید کا کیا فائدہ؟ اور اپنے تہذیبی تشخص اور مذہبی انفرادیت کو ختم کرنے کا کیا مطلب؟ ان کی ترقی کا راز تو علم وہنر‘ ان کی محنت اور لگن‘ امانت ودیانت اور ان تھک جدوجہد میں مضمر ہے۔

علامہ اقبال رحمہ اللہ نے‘ جنہوں نے خود مغرب میں رہ کر ہر چیز کا مشاہدہ کیا تھا‘ وہ یورپ کی ترقی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں ؂

قوت مغرب نہ از چنگ ورباب
نے زرقص دختران بے حجاب
نے زسحرِ ساحران لالہ رو است
نے زعریاں ساق نے از قطع مو است
محکمی او نہ از لا دینی است
نے فروغش از خط لاطینی است
قوت افرنگ از علم وفن است
از ہمیں آتش چراغش روشن است
حکمت از قطع وبرید جامہ نیست
مانع علم وہنر عمامہ نیست

حضرات محترم! ہماری پستی اور کمزوری کے یہ چند اسباب ہیں۔ جب تک ہم اپنی مذکورہ کمزوریوں کا ازالہ نہیں کریں گے اور مذکورہ خطوط پر اپنی پالیسیوں کو استوار نہیں کریں گے‘ ہم موجودہ تہذیبی تصادم میں اپنا وہ عالمی کردار ادا نہیں کر سکیں گے جو ہماری عظمت رفتہ کا بھی آئینہ دار ہو اور روشن مستقبل کا مظہر بھی۔ بقول علامہ اقبال:

سبق پھر پڑھ صداقت کا‘ عدالت کا‘ شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو‘ زمانہ چال قیامت کی چل گیا
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے ’’اے اسلام والو تم‘‘
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر غافل‘ عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
جو کرے گا امتیاز رنگ وخوں مٹ جائے گا
ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر
تا خلافت بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب وجگر

علامہ اقبال مزید فرماتے ہیں:

ناموس ازل را تو امینی تو امینی
دارائے جہاں را تو یساری تو یمینی
اے بندہ خاکی تو زمانی تو زمینی
صہبائے یقیں در کش واز دیر گماں خیز
از خواب گراں‘ خواب گراں‘ خواب گراں خیز
از خواب گراں خیز
فریاد زافرنگ ودل آویزی افرنگ
فریاد زشیرینی وپرویزی افرنگ
عالم ہمہ ویرانہ زچنگیزی افرنگ
معمار حرم! باز بہ تعمیر جہاں خیز
از خواب گراں‘ خواب گراں‘ خواب گراں خیز
از خواب گراں خیز

مسلمانان عالم کے لیے لائحہ عمل

مولانا محمد عیسی منصوری

جب سے اس دھرتی پر انسان کا وجود ہوا ہے‘ یہاں خیر اور شر کی رزم آرائی اور جنگ مسلسل جاری ہے۔ ہر دور میں خیر کا راستہ آسمانی وحی کی اتباع کا اور شر کا راستہ خواہشات وشہوات کے پیچھے دوڑنے کا رہا ہے۔ خدا کے آخری پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ نے آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے دنیا میں خیر کو شر پر غالب کر دیا تھا اور پوری انسانیت کو اس کے خالق کا آخری پیغام پہنچا دیا تھا جو پوری انسانیت کی بقا اور خوش حالی‘ امن وسلامتی‘ ہمہ گیر یک جہتی اور ہر نوع کی دنیوی ودینی ترقیات وفلاح کا ضامن تھا۔ اس پیغام کی بنیاد ایک خالق کی عظمت واطاعت اور تمام انسانوں کی مساوات اور حقوق کی ادائیگی پر تھی۔ ربع صدی کے نہایت مختصر عرصے میں اس دورکی معمور دنیا (ایشیا‘ افریقہ‘ یورپ) کے بڑے حصے پر اس آخری پیغام کی حامل قوم غالب وحاوی ہو کر سترہویں صدی عیسوی تک دنیا میں عالمی قوت بن کر فائق وسربلند رہی۔ اس پورے عرصے میں وہ مخصوص نسل جو اپنے کرتوتوں کے سبب سے خدا کی بارگاہ سے مردود ہوئی تھی‘ جسے تمام آسمانی کتابوں نے مسلسل جرائم ونافرمانی‘ خدا ورسول سے مقابلہ اور خدا کے ہزارہا پیغمبروں کو ستانے اور قتل کرنے کی وجہ سے حزب الشیطان یعنی شیطان کی پارٹی قرار دیا ہے‘ جن کی بنیادی خصلت قرآن کی زبان میں حرام خوری (سود خوری)‘ اقوام عالم کے مابین شر وفتنہ انگیزی اور جاسوسی رہی ہے‘ جن کو تمام آسمانی کتب نے ملعون ومغضوب علیہم یعنی خدا کی رحمت سے دوری اور خدا کے قہر وغضب کے مستحق ہونے کی مہر ثبت کر دی۔ ہزارہا سال سے یہ مخصوص نسل پرست ٹولہ برابر اپنی سازشوں میں مصروف رہا تاکہ پوری انسانیت کو اپنا ہمہ جہتی غلام بنا کر ان پر اپنے خونی پنجے گاڑ دے۔ قرون وسطیٰ میں اس ٹولے کی سازش اور اکسانے پر ہی صلیبی جنگیں برپا ہوئیں۔ اس ٹولے نے انیسویں صدی عیسوی تک مغرب کی مسیحی اقوام کو رام کر لیا اور مذہب کو ختم کر کے مغربی اقوام کو نیشنلزم کے نام پر ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہیں کے مختلف طبقات کو باہم ٹکرا کر اپنے شکنجہ میں جکڑ لیا۔ مغربی اقوام پر اس طرح تسلط حاصل کر لیا کہ مغرب کے سیاستدان‘ صنعت کار‘ تاجر‘ کاشت کار‘ مزدور‘ اہل قلم‘ اسکالر‘ دانش ور سب صہیونی مقاصد کے لیے کام کرنے والے مزدور اور چاکر بن کر رہ گئے۔ پھر مغربی اقوام کے کندھوں پر سوار ہو کر بیسویں صدی میں اقوام عالم کو نظریاتی وفکری‘ اقتصادی ومعاشی‘ تمدنی ومعاشرتی طور پر اپنا اسیر بنا لیا۔ اس وقت پوری دنیا کی اقوام مغربی اقوام کے واسطے سے درحقیقت نسل پرست صہیونیوں کے منحوس جال میں پھنس چکی ہیں اور بے بسی کے ساتھ ان کی اطاعت پر مجبور ہیں۔

ملت اسلامیہ جن کا باہمی تعلق ورشتہ خون کے رشتے سے زیادہ مضبوط تھا‘ جن کے نزدیک رنگ ونسل‘ وطنی وطبقاتی فرق وامتیاز کی کوئی حیثیت نہیں تھی‘ گزشتہ صدیوں میں انہیں مغرب نے نظریاتی وفکری انتشار میں مبتلا کرکے خدا کی آخری وحی سے دور کر دیا۔ یاد رہے کہ گزشتہ تین صدیوں میں مغرب میں جتنی فکری ونظریاتی تحریکیں اٹھیں‘ وہ سب صہیونی نسل پرستوں کی منصوبہ بندی کے تحت اٹھیں اور مغرب کے اکثر مفکر نسلاً یہودی تھے۔ ان سب کا مشترکہ مقصد آسمانی وحی (مذہب) سے کاٹ کر خواہشات وشہوات کی راہ پر ڈالنا تھا۔ پہلے نیشنلزم (وطنیت) کے نام پر ملت اسلامیہ کے پچاسوں ٹکڑے کیے۔ پھر ان میں نظریاتی وطبقاتی جنگ تیز کر کے ایک ہی ملک کے مختلف طبقات کو باہم لڑایا اور ہر طبقہ میں اپنے فکری‘ تمدنی وسیاسی غلبہ کے ہم نوا افراد کومسلط کیا پھر ان کے ذریعے سے پورے عالم اسلام کو ایک ایسی مردہ لاش میں تبدیل کر دیا کہ جس طرح چاہیں‘ یہودی اور ان کے غلام (مغربی اقوام) نوچ کھسوٹ کریں اور وہ اف نہ کر سکیں۔ اس شیطانی پارٹی نے پوری منصوبہ بندی کر لی ہے کہ مستقبل میں کبھی مسلمان اور مسیحی ان کی ہمہ گیر غلامی کے چنگل سے نہ نکلنے پائیں۔ خاص طور پر ملت اسلامیہ باہم متحد ومتفق نہ ہونا پائے۔ اس وقت ملت اسلامیہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی حزب الشیطان (یہودیوں) کا ہمہ جہتی غلبہ وتسلط ہے جو ملت اسلامیہ کے تمام مسائل ومشکلات‘ ذلت وخواری کی جڑ اور بنیاد ہے۔ اگر اب بھی اس شیطانی جال سے نکلنے کی منصوبہ بندی نہ کی گئی تو آنے والی نسلیں ان کی بدترین غلامی کی دلدل میں مزید دھنستی چلی جائیں گی اور دنیا سے خیر اور آسمانی وحی کی برکات معدوم ہو کر مکمل طور پر خواہشات کی شیطانی حکمرانی قائم ہو جائے گی۔ ملت اسلامیہ گزشتہ دو صدیوں میں اپنی ناسمجھی اور بے دانشی کے سبب سے مغرب کی ذہنی‘ تمدنی‘ تعلیمی اور معاشرتی اقتدا کر کے جانکنی کی حالت کو پہنچ گئی ہے۔ 

اس انسانیت ومذہب دشمن ٹولے نے پوری دنیا کو باکسنگ کا گراؤنڈ بنا کر رکھ دیا ہے۔ جس طرح باکسنگ کے کھیل میں غالب آنے والا باکسر پچھڑ جانے والے باکسر کو دوبارہ اٹھنے نہیں دیتا‘ جب بھی وہ ہوش میں آنے یا اٹھنے کی کوشش کرتا ہے‘ تو غالب باکسر اس کے سر پر گھونسہ رسید کر کے دوبارہ سلا دیتا ہے۔ اب ہارنے والے باکسر کی سمجھ داری ہے کہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے یا مزید ہڈیاں تڑوانے کے بجائے وقتی طور پر اپنی شکست تسلیم کر کے اگلے راؤنڈ کے لیے تیاری کرے۔ اس وقت دنیا کے گراؤنڈ پر کوئی مسلم ملک اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کی کوشش کرے گا تو اسے اسی طرح ٹھکانے لگا دیا جائے گا جیسے شاہ فیصل شہید‘ جنرل ضیاء الحق یا ماضی قریب میں صدام حسین اور مہاتیر محمد کا حشر کیا جا چکا ہے۔ اس لیے ملت اسلامیہ کے لیے اپنی تقدیر بدلنے یا دنیا پر غالب شیطانی ٹولے سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ وہ ہے خاموشی وصبر اور حکمت ودانش مندی کے ساتھ طویل جدوجہد جس کے بنیادی نکات مندرجہ ذیل ہو سکتے ہیں:

۱۔ مسلم ممالک آپس میں میل جول‘ تبادلہ خیالات کے ذریعے سے باہمی مفاہمت‘ ایک دوسرے کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے قریب آنے کی طرح ڈالیں۔ تمام ممالک اپنی سائنسی‘ صنعتی‘ علمی اور تکنیکی پسماندگی دور کرنے کے لیے مل جل کر تعلیمی‘ ٹیکنیکل اور سائنسی ادارے اور ریسرچ مراکز قائم کریں۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے اپنے جگر گوشوں اور بہترین صلاحیت رکھنے والے نوجوانوں کو مغربی یونیورسٹیوں اور اداروں میں اسلام دشمن نظریات ‘ معاشرت اور کلچر کے حوالے کرنے کے بجائے مسلم ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے سائنسی وٹیکنیکل ادارے قائم کیے جائیں۔ ہر مسلم ملک کسی ایک شعبہ میں اعلیٰ ترین تعلیم وتربیت کی ذمہ داری قبول کرے۔ اس میں تمام مسلم ممالک کے علاوہ افریقہ وایشیا کی تیسری دنیا کی پس ماندہ اقوام وممالک کو اپنے ساتھ شریک کر کے ان کی بھی مدد وکفالت کی جائے۔

۲۔ مسلم ملکوں کو غذائی اجناس میں خود کفیل بنانے کے لیے زراعت پر خصوصی توجہ دی جائے جس طرح اسرائیل نے جدید سائنسی ٹیکنالوجی استعمال کر کے اپنے صحراؤں کو گلشن بنا کر یورپ کے ممالک کو سبزیوں‘ فروٹ اور فروٹ جوس سے بھر دیا ہے۔ بہت سے مسلم ممالک کے پاس وسیع زمینیں ہیں مگر وسائل نہیں اور بہت سے مسلم ممالک وسائل سے مالامال ہیں۔ زراعت میں باہمی تعاون واعانت کے تمام ممکن طریقے اختیار کیے جائیں۔ 

۳۔ مسلم ممالک زیادہ سے زیادہ باہمی تجارت کو فروغ دیں۔ اس وقت مسلم ملکوں کی نوے فی صد سے زیادہ تجارت ان ملکوں کے ساتھ ہے جو اسلام اور ملت اسلامیہ کے دشمن ہیں۔ جو چیز کسی مسلم ملک سے مل سکتی ہو‘ اسے ہر قیمت پر مسلم ملک ہی سے خریدیں۔ تجارت میں مسلم ممالک باہمی ترجیحی بنیادوں پر رعایت دیں۔

۴۔ تمام مسلم ممالک مل کر اپنے ڈیفنس اور اسلحہ سازی کے لیے مربوط پروگرام وضع کریں۔ مثلاً ہر مسلم ملک کسی ایک چیز میں اعلیٰ سے اعلیٰ فنی مہارت حاصل کرے اور اس کی صنعت ڈالنے پر پوری توجہ منعطف کرے۔ کوئی مسلم ملک ٹینک سازی‘ کوئی توپ سازی‘ کوئی لڑاکا طیاروں کی تیاری‘ کوئی میزائل سازی‘ کوئی خلائی سیاروں کی تیاری‘ کوئی نیوی اور میزائل بردار کشتیوں کی تیاری اور کوئی اسلحہ اور کوئی چھوٹے اسلحہ سازی کی فنی مہارت حاصل کرنے اور صنعت ڈالنے پر اپنی توانائی صرف کرے۔ یہ اسلحہ سازی اور فنی مہارت کا حصول نہ صرف ۵۶ مسلم ممالک کے لیے ہو بلکہ افریقہ وایشیا کے پس ماندہ ملکوں اور قوموں کو سہارا دے کر انہیں مغرب کے ظالم شکنجے سے نکلنے میں مدد دی جائے۔

۵۔ آج کا دور ذرائع ابلاغ کا دور ہے۔ روس کو شکست امریکی اسلحہ نے نہیں دی بلکہ سیٹلائیٹ نے دی ہے۔ جدید کمیونی کیشن ورابطہ کے لیے کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ اور سیٹلائیٹ کی اعلیٰ فنی تعلیم ان چیزوں کی تیاری میں مل جل کر منصوبہ بندی کی جائے۔ مسلم ممالک میں نہ ٹیلنٹ کی کمی ہے نہ وسائل کی۔

۶۔ دنیا میں معدنیات‘ پٹرول‘ ربر‘ سونا‘ پیٹل‘ تانبہ‘ لوہا حتیٰ کہ یورینیم کے ستر فیصد سے زیادہ ذخائر عالم اسلام کے پاس ہیں۔ ا س وقت دنیا کی ترقی یافتہ اقوام ہم سے کچا مال کوڑیوں کے دام خرید کر پھر انہیں سونے کے دام لوٹا رہی ہیں۔ معدنیات کے نکالنے اور ان کی تیاری کا انتظام اپنے ہی ملکوں میں ہونا چاہیے۔

۷۔ مسلم دنیا کے مختلف طبقات سائنس دان‘ جدید علوم وٹیکنالوجی کے ماہرین‘ اسکالر‘ صحافی ودانش ور‘ صنعت کار‘ سیاست دان‘ مذہبی علماء ومفکرین کے میل جول اور تبادلہ خیالات کے لیے زیادہ سے زیادہ مجالس‘ کانفرنسیں‘ سیمینار اور پروگرام رکھے جائیں تاکہ ملت اسلامیہ کے مختلف طبقات باہمی علمی وفکری استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ دلی طور پر ایک دوسرے کے قریب آ سکیں۔

۸۔ یہود اور ان کے آلہ کار مغرب کے اسلام دشمن ممالک کی فکری یلغار‘ الحادی فلسفوں‘ تزویراتی حربوں اور سازشوں کے توڑ کے لیے دنیوی اور دینی علوم کے ماہرین پر مشتمل ایک علمی کونسل ہر مسلم ملک میں قائم کی جائے اور سال میں کم از کم دو مرتبہ مسلم ممالک کے علماء ومفکرین اور دانش وروں کو اعدائے اسلام کی علمی وفکری یلغار وسازشوں پر غور وخوض کے لیے مجتمع کیا جائے۔ ہر مسلم ملک میں جدید ترین ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے دشمن کی طرف سے آنے والے گمراہ کن علمی وفکری سیلاب ونشراتی اداروں (پرنٹ والیکٹرانک میڈیا) کے نام نہاد دانش وروں اور اسکالرز پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ان کی پھیلائی ہوئی گم راہیوں اور زہریلے افکار وکلچر کا موثرجواب فراہم کیا جائے۔

۹۔ نئی نسل کو ذہنی وفکری گم راہیوں‘ بے راہ روی‘ خواہشات وشہوت پرستی اور تخریبی امور سے بچانے کے لیے اسلام کی بنیادی اعلیٰ‘ آفاقی وتعمیری تعلیمات سے واقفیت کے لیے عصری درس گاہوں میں ابتدا ہی سے انتظامات کیے جائیں تاکہ نئی نسل بے راہ رو نہ ہونے پائے اور اسلام دشمن تحریکیں اور عناصر انہیں شکار نہ کر سکیں۔

۱۰۔ قرآن نے پوری انسانیت کی بہبود وبھلائی اور دنیا وآخرت کی فلاح کے لیے جو تعلیمات‘ پیغام‘ ہدایات اور پروگرام دیا ہے‘ جدید ترین ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے انہیں دنیا کے ہر انسان تک پہنچانے کی سعی کی جائے۔

۱۱۔ دشمنان اسلام کا اصل ہتھیار اور طاقت لذات وشہوت پرستی‘ فحش وبے حیائی کی گندی معاشرت‘ فیشن وتعیش پسندی کا مغربی کلچر ہے جو خدا فراموشی اورآخرت سے غفلت کا کلچر ہے۔ اس کے مقابلے کے لیے ملت اسلامیہ کے ہر فرد کو سادگی‘ جفا کشی کی مجاہدانہ زندگی کا عادی بنایا جائے۔

اس حقیقت پر کڑی نظر رکھنی ہوگی کہ ہر مسلم ملک میں این جی اوز کے نام سے دشمنان اسلام کے بے شمار افراد وتنظیمیں کام کر رہی ہیں جو فلاحی کاموں اور رفاہ عامہ وخدمت خلق کے کاموں کے پردے میں درحقیقت مغربی آقاؤں کے ایجنٹ اور جاسوس ہیں اور ان کے ناپاک مقاصد کے لیے کوشاں ہیں۔ اس ناسور وکینسر پر کڑی نظر رکھی جائے۔ تمام مسلم ممالک اور ان کے سربراہوں کو یہ بات خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہود ونصاریٰ اور کافر کبھی کسی مسلمان کے دوست اور خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔ اس پر پوری تاریخ شاہد ہے۔ اس وقت بھی فلسطین‘ بوسنیا‘ چیچنیا اور کشمیر میں پورا عالم کفر مسلمانوں کے مقابلے پر جس طرح ملت واحدہ بنا ہوا ہے‘ یہ منظر حقائق سمجھانے کے لیے کافی ہے۔

عصری تقاضے اور اسلام کی تعبیر وتشریح

پروفیسر میاں انعام الرحمن

کسی قوم کی کمزور تاریخ یا پھر اپنی عظیم تاریخ کا کمزور شعور تخلیقی صلاحیتوں کو مردہ اور سارے نظامِ اقدار وخیال کو تتر بتر کر دیتا ہے۔ عالمی مسلم معاشرہ اسی المیے کا شکار ہے۔ اسلام کی عصری تقاضوں سے ہم آہنگ تعبیر وتشریح بیک وقت دو محاذوں پر کام کرنے سے ممکن ہے‘ داخلی اور خارجی۔ درج بالا پہلے فقرے کے تناظر میں داخلی محاذ پر زیادہ سنجیدگی اور مشقت کی ضرورت ہے۔ اگر ہم کتاب اور سنت‘ احادیث نبوی اور اسلام کے ابتدائی عہد میں دعوت کے اسلوب پر طائرانہ نظر دوڑائیں تو اسلامی اسپرٹ بہت زیادہ سوشل معلوم ہوگی۔ اسلام کی دعوتی اور توسیعی سرگرمیاں‘ چاہے ان کا رخ خود مسلم معاشرہ کے داخل کی طرف ہو یا خارج میں کوئی غیر مسلم مخاطب ہو‘ ہمیشہ سوشل منہاج کی حامل رہی ہیں۔ سیاست‘ معیشت‘ تمدن‘ ثقافت‘ علوم وفنون وغیرہ ان سب کا خمیر سوشل رویے سے ہی اٹھا تھا۔ سوشل رویے کی تہذیب اور اٹھان میں دو طرح کی نفسیات کام کرتی ہے‘ انفرادی اور گروہی۔ نظری اعتبار سے ممکن ہے کہ ہم اپنی سہولت کے پیش نظر اور نت نئے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے ان کو علیحدہ علیحدہ ڈسکس کریں لیکن عملی اعتبار سے علیحدگی کی حتمی لائن کھینچنا ناممکن ہے۔ ابن خلدون شاید واحد مسلم مفکر ہے جس نے تاریخ کی ’’سماجی طرح‘‘ کی بنیاد ڈالی اور مسلم تاریخ کو معتبر کرنے کے ساتھ ساتھ نقد وانتقاد کے کئی پہلو متعارف کرائے۔ اپنے عہد میںیہ بہت بڑا کارنامہ تھا۔ ہماری نااہلی کی وجہ سے اب بھی یہ ایک کارنامہ ہے۔ اگر ہم ابن خلدون کے بعد تفہیم تاریخ کے تسلسل کو قائم نہیں رکھ سکے تو کم از کم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اس کے اصول تاریخ کو اپنے عہد کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر ایسا ہو سکے تو عصر حاضر میں اسلام کی تعبیر وتشریح کے لیے درکار تاریخی شعور کچھ نہ کچھ حاصل ہو جائے گا۔ تاریخی شعور کے بغیر کوئی بھی تخلیقی سرگرمی سطحی اور عارضی ثابت ہوگی کیونکہ اس کی عدم موجودگی سے معاشرے سے معیار غائب ہو جاتے ہیں‘ اوٹ پٹانگ تُک بندیاں راہ پا جاتی ہیں‘ زمینی حقائق نظر انداز کر دیے جاتے ہیں‘ عقائد ’’جذبات نما‘‘ بن جاتے ہیں‘ انفرادی اور گروہی زندگی نصب العین اور راہ عمل سے یکسر خالی ہو جاتی ہے۔ تاریخی شعور سے عاری کوئی بھی معاشرہ زندہ معاشرہ نہیں کہلا سکتا کہ آرزوؤں کی شکست کا عمل تیز ہو جاتا ہے اور شکستِ آرزو شکستِ زیست کا باب ثابت ہوتی ہے۔

عصر حاضر میں اسلام کی تعبیر وتشریح کے داخلی منہاج کے لیے پہلا قدم ’’صحیح سوال‘‘ کرنا ہے۔ اکثر سننے اور پڑھنے میں آتا ہے کہ کتاب وسنت سے دوری کی وجہ سے مسلمان زوال کا شکار ہو گئے ہیں۔ یہ بیانیہ اور واقعاتی انداز ہے۔ درحقیقت یہی انداز ہمارے زوال کا سبب ہے۔ سوال اس طرح ہونا چاہیے کہ ’’ہم کتاب وسنت سے کیوں دور ہو گئے ہیں؟‘‘ اس سوال کے جواب میں کوئی سنجیدہ‘ جامع‘ تجزیاتی کتاب شاید ہی ملے۔ اگر کچھ کتب مل بھی جائیں تو ان کا جواب بیانیہ اور واجبی سا ہوگا کہ ہم نے مغرب کی اندھا دھند پیروی شروع کر دی ہے‘ مغربی ثقافت کی یلغار سے ہم منتشر ہو گئے ہیں‘ علوم وفنون میں غیر مسلموں کی ترقی سے ہم بہت مرعوب ہو گئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کے واقعات میں محض نشان دہی کی گئی ہے جیسا کہ سوال میں نشان دہی کی گئی ہے کہ ہم کتاب وسنت سے دوری کی وجہ سے زوال کا شکار ہیں۔ اگر پڑھنے والا ہوش مند قاری ہے تو ایسے جوابات سے اس کا رد عمل زیادہ سے زیادہ ایک لمحے کی زیر لب مسکراہٹ ہوگا۔ مجھے مسکراہٹ کی اہمیت سے انکار نہیں ہے لیکن اسلام کی تعبیر وتشریح کے لیے درکار جوابات کے لیے یہ ناکافی ہیں۔ ایسے سوالات اور ان کے تسلی بخش جوابات بنیاد فراہم کرنے کے باوجود تعمیم کے زمرے میں آئیں گے۔ مشقت تو ہوگی لیکن کچھ درکار (Required) سوالات بھی تلاش کرنا ہوں گے۔ یہ تلاش تبھی موثر ثابت ہوگی اگر ہم اپنے زمانے کے حدود اربعہ‘ ساخت اور رجحانات کی بابت کماحقہ آگاہ ہوں گے۔ محدود با خبری ہمیں راستے سے ہٹا (Detract)سکتی ہے۔ ایسے سوالات کی نوعیت بھی اگرچہ تعمیمیت کی حامل ہوگی لیکن ا سکی جڑیں عصر حاضر سے مخصوص ہوں گی۔ مثلاً:

۱۔ کیا کسی الہامی مذہب کا زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہونا ممکن ہے؟

۲۔ اگر ممکن ہے تو کیا عصر حاضر میں اس کی ضرورت ہے؟

۳۔ اگر ضرورت بھی ہے تو اس کے ادعائی ثمرات کیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں؟

۴۔ آئیے مل کر کسی ایسے مذہب کی دریافت کا سفر شروع کریں‘ اس عہد کے ساتھ کہ سفر کی صعوبتوں سے بھاگیں گے نہیں۔ دورانِ سفر میں باہمی اختلاف کا امکان موجود رہے گا۔ آئیے یہ بھی طے کر لیں کہ کسی اختلاف کو اس طرح پیش نہیں کریں گے جس سے سفر متاثر ہو اور قافلے کی ٹوٹ پھوٹ کا امکان ہو۔

داخلی منہاج پر کیے گئے ایسے سوالات عصری تقاضوں کو Address کریں گے۔ نتیجے میں پیدا ہونے والے ثمرات محض داخلی نوعیت کے نہیں ہوں گے بلکہ خارجی محاذ پر مسلمانوں کے لیے موثر ہتھیار ثابت ہوں گے۔

بعض اصحاب کی رائے ہے کہ اسلامی دعوت کی ’’کلیت‘‘ کا اظہار مناسب نہیں کہ حکمت عملی کا تقاضا یہی ہے۔ مولانا محمد عیسیٰ منصوری ماہنامہ الشریعہ کے نومبر ۲۰۰۱ء کے شمارے میں رقم طراز ہیں کہ

’’۱۹۹۴ء میں امریکہ میں عالمی مذاہب کانفرنس ہوئی جو ہر سو سال بعد منعقد ہوتی ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دنیا کے ہر چھوٹے بڑے مذہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہب کا تعارف پیش کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں شرکت کرنے والی ایک علمی شخصیت نے اس کانفرنس کا ایک نہایت قابل غور نکتہ تحریر کیا ہے۔ وہ یہ کہ کانفرنس میں دوسرے مذاہب پر گفتگو کے دوران لوگ سنجیدہ رہتے اور بغور سنتے مگر جونہی اسلام کے تعارف کا موقع آجاتا‘ وہ جارحانہ انداز اختیار کر لیتے۔ لوگوں کے اس رویے کا سبب بتاتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ دیگر مذاہب کے نمائندے اپنے مذہب کو فرد کی تعمیر کی حیثیت سے پیش کرتے یعنی ان کا مذہب فرد کے اعمال وعقائد میں کیا تبدیلی چاہتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام کانمائندہ اپنی بات یہاں سے شروع کرتا کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے ....... تو سامع پر فوری اثر یہ مرتب ہوگا کہ وہ سمجھے گا کہ مسلمان ہم پر سیاسی بالادستی واقتدار کے خواہاں ہیں۔‘‘

جہاں تک دیگر مذاہب کے جارحانہ رویے کا تعلق ہے تو اس پر اکتفاکروں گا کہ کفار ملت واحدہ ہیں۔ جہاں تک پیغام کی اجتماعیت کا تعلق ہے تو میراخیال ہے کہ اسلام اور دیگر مذاہب میں بنیادی فرق ہی یہی ہے ورنہ بعض دوسرے مذاہب کے لوگ بھی موحد ہیں‘ ان کا کوئی نہ کوئی نبی بھی ہے اور آسمانی صحیفہ بھی‘ اگرچہ تحریف شدہ۔ چونکہ دیگر مذاہب میں سیاست واجتماعیت کے حوالے سے کلیدی راہنمائی موجود نہیں اس لیے ناواقفیت کی فضا میں ان کا رویہ جارحانہ ہو جاتا ہے۔ ان کا مذہبی شعور یہ ماننے پر ہی تیار نہیں ہوتا کہ مذہب ضابطہ حیات بھی ہو سکتا ہے۔ ضرورت ان کے مذہبی شعور کو Address کرنے کی ہے نہ کہ اپنے پیغام کی آفاقیت پر کمپرومائز (Compromise)کرنے کی۔ اگر وہ محدود مذہبی شعور کے سبب سے نہیں تو خوف کی فضا میں جارحیت کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں ان کا خوف دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ان کا خوف کس نوعیت کا ہے۔ میرے نقطہ نظر سے پیغام کی آفاقیت کو برقرار رکھتے ہوئے پیرایہ اظہار اور اسلوب میں تبدیلی سے ان کا خوف کم ہو سکتا ہے۔ کمپرومائز اسلوب کی حد تک ہو سکتا ہے۔ جہاں تک خوف کے مکمل خاتمے کا تعلق ہے تو آپ کمپرومائز کی انتہا پر بھی چلے جائیں تو وہ ختم نہیں ہوگا۔ یہ ایک عام سا نفسیاتی نکتہ ہے۔

موصوف مقالہ نگار اجتماعی ہیئت اور سیاست وریاست کی نفی کرتے ہوئے فرد پر بہت زور دیتے ہیں‘ اگرچہ حکمت عملی کے تحت۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ’’فرد‘‘ ہوتا بھی ہے؟ جیسا کہ میں نے بہت ابتدائی سطور میں اشارہ کیا ہے۔ پھر اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ عصر حاضر تو عالمی گاؤں (Global Village) جیسے رجحانات سے عبارت ہے۔ ضرورت اسلام کے اجتماعی نظام کے مکاشفے کی ہے نہ کہ فردیت کی۔ آئیے مغرب کے سماجی نظام کی روشنی میں اس ’’ضرورت‘‘ کا مختصراً جائزہ لیں:

کسی طرز معاشرت سے ہی زندگی کے دیگر پہلوؤں کی ہیئت کا تعین ہوتا ہے لہذا کسی ملک کے سیاسی‘ معاشی اور دیگر نظاموں کے مطالعہ سے اس ملک کے سماجی نظام کی مخصوص نہج کا تقریباً کلی ادراک بآسانی ہوجاتا ہے۔ دیگر نظام ہائے زندگی اپنے خالق یعنی طرز معاشرت کے عکاس ثابت ہوتے ہیں۔ اگر کسی ملک کی معیشت کا رخ منفی ہے تو لامحالہ قصور وار متعلقہ ملک کا مخصوص سماجی نظام ہی ہوگا۔

اگر ہم مغرب کے اقتصادی وسیاسی نظام ہائے زندگی کا جائزہ لیں تو ان میں مضمر منفیت چھپی نہیں رہتی۔ ان نظاموں کے استحصالی پہلو سے دنیا آگاہ ہے۔ اس منفیت کو دور کرنے کی اصلاحی کوششیں اگر صرف متعلقہ نظاموں تک محدود رہیں تو نہ صرف سطحی شمار ہوں گی بلکہ بے سود ثابت ہوں گی کیونکہ ان نظاموں کی منفیت مخصوص سماجی نظام کی مرہون منت ہے۔ اس سماجی نظام کو ایڈریس کر کے ہی اصلاح احوال کی امید کی جا سکتی ہے۔

معاشی منفیت کچھ ا س طرح سے ہے کہ 

۱۔ سودی نظام

۲۔ دولت کا ارتکاز

۳۔ اور اخلاقیات اور معاشی سرگرمیوں میں بعداس نظام کی نمایاں خصوصیات ہیں۔

سیاسی منفیت اس طرح سے ہے کہ

۱۔ جمہوریت ہی آئیڈیل نظام ہے۔

۲۔ جب ریاست اور حکومت میں فرق روا نہیں رکھا جاتا تھا تو حکمران طبقہ کہتا تھا ’’میں ریاست ہوں‘‘۔ آج ریاست اور حکومت میں فرق ہونے سے حکمران طبقہ کہتا ہے ’’میں عوام ہوں‘‘۔ اگر عمیق نظر سے جائزہ لیں تو دونوں باتوں میں صرف لفظی ہیر پھیر ہے کیونکہ مقتدر طبقہ دونوں جگہ مخصوص ہے۔

۳۔ قومی مفاد ہر چیز پر مقدم اور زیادہ عزیز ہے۔

سماجی منفیت کچھ اس طرح سے ہے کہ

۱۔ انفرادیت پسندی کی انتہا ہے۔

۲۔ یہی انفرادیت پسندی جب اجتماعی سطح پر ظاہر ہوتی ہے تو ایک قوم بھی قوموں کی برادری میں صرف اپنا انفرادی مفاد ہی عزیز رکھتی ہے۔ قومی مفاد کی عفریتی اصطلاح کسی قوم کے انفرادیت پسندانہ رجحانات کو مرتکز کرنے میں بہت معاون ثابت ہوتی ہے۔

۳۔ یہی انفرادیت پسندی فرد کی سطح پر دولت کے ارتکاز کا باعث بنتی ہے کہ محروم اور کمزور طبقے میں خوف کی ایک عجیب سی فضا قائم کر دیتی ہے۔

۴۔ انفرادیت پسندی کی وجہ سے مقابلے کا رجحان ضروری ہو جاتا ہے کہ اس مقابلے میں اخلاقیات منہ لپیٹ کر ایک طرف پڑی رہتی ہے۔

مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ مغرب کے سماجی نظام میں موجود انفرادیت پسندی کی انتہا سے اقتصادی وسیاسی شعبہ ہائے زندگی میں جملہ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ انفرادیت پسندی کے زہر اور اس کے مضمرات کی منفیت نے ہی مغرب کے سماجی نظام کو ایک مخصوص نہج پر ڈال رکھا ہے جس کے سنگین نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ مغرب کا تدریسی وتربیتی نظام بنیادی مرکز کی حیثیت سے اس مخصوص سماجی نظام کو پروان چڑھا رہا ہے۔ طلبا کو زندگی کی دوڑ میں آگے نکلنے کے داؤ پیچ سکھائے جاتے ہیں۔ تربیتی لیپا پوتی کے ذریعے سے ان کا مخصوص ذہن بنایا جاتا ہے۔ یہ مخصوص ذہن معاشرے کے اندر سب سے آگے نکلنے کے لیے کسی کو خاطر میں نہیں لاتا اور اجتماعی سطح پر کسی دوسری قوم کو پرکاہ کی اہمیت نہیں دیتا۔ اگر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ذہن Accommodating (دوسروں کا لحاظ کرنے والا) نہیں ہے۔ اجتماعی سطح پر دوسری اقوام کو Accommodate کرنے پر تیار نہیں اور فرد کی سطح پر معاشرے کے دیگر افراد کو Accommodateکرنے پر تیار نہیں۔ لہذا اس مخصوص ذہن کا اخلاقیات یا زندگی کے آئیڈیلز سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہوتا۔ یہی مخصوص ذہن زندگی کے ہر شعبے میں اپنے مخصوص انداز سے کوئی نہ کوئی گل کھلاتا رہتا ہے۔ محروم طبقوں کی بغاوت کے پیش نظر اپنی مخصوص تربیت کی وجہ سے گل کھلانے کا عمل ’’تہذیبی دائرے‘‘ میں کیا جاتا ہے۔ یہ تہذیبی دائرہ وہی ہوتا ہے جو یہ لوگ پراپیگنڈے کے ذریعے سے لوگوں کے ذہنوں میں ڈال دیتے ہیں اور اسے قبول کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ صورت احوال میں کیسے تبدیلی کی جا سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسی طرز معاشرت کی بنیاد رکھنا ہوگی جس میں انفرادیت پسندانہ رجحانات شدید نہ ہوں۔ اس کے لیے اس مخصوص ذہن کو بدلنا ہوگا اور اس مخصوص ذہن کو تدریسی وتربیتی نہج میں تبدیلی پیدا کر کے ہی بدلا جا سکتا ہے کیونکہ وہ اسی مخصوص تدریسی وتربیتی نہج کی پیداوار ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ درست نہج کون سی ہے؟ اس کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے؟ انسانی زندگی کے وہ کون سے آئیڈیلز ہیں جنہیں سماج میں رائج کیا جانا چاہیے؟ ان کی تلاش کے لیے ہمیں انسانی شخصیت سے ہی کچھ نہ کچھ اخذ کرنا ہوگا۔

کہتے ہیں بچے کی معصومیت لاشعوری ہوتی ہے۔ بچہ دانستہ یا کسی باقاعدہ پلان کے تحت معصومانہ گفتگو وحرکات نہیں کرتا۔ یہ اس سے خود بخود ہو جاتا ہے کیونکہ بچے پر شعور کی لیپا پوتی نہیں ہوتی۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسانی فطرت کی اپج فقط بچے میں جھلکتی ہے۔ معاشرت کی درستگی اسی اپج کو بچے کی بعد کی زندگی میں سمونے پر منحصر ہے۔ 

مغربی معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا کہ اس لاشعور کو ہی شعور میں ڈھالا جائے کیونکہ انسانی فطرت کی اپج کو اپنے بنائے ہوئے مصنوعی تربیتی نظام سے دبانے کی بھرپور اور خاصی کامیاب کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح ایک مخصوص شعوری لیبل شخصیت پر چسپاں کر دیا جاتا ہے۔ جب تک یہ شعوری لیبل موجود رہتا ہے‘ فرد اس کے مطابق ہی زندگی کی سرگرمیاں جاری رکھتا ہے۔ بڑھاپے میں قویٰ کمزور ہوجانے سے اس شعوری تربیت کا اثر قدرے مدہم پڑ جاتا ہے اور دوبارہ بچپن والا لاشعور جھانکنے لگتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ بوڑھے بچوں کی مانند ہوتے ہیں۔ بہرحال بچپن کے بعد اور بڑھاپے سے پہلے کے عہد کا طویل دورانیہ جو مخصوص منفی تربیتی نہج کے زیر اثر گزرتا ہے‘ ا س کی باقیات کسی بھی بوڑھے میں بچے جیسی اپج نہیں رہنے دیتیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ جوانی کے ایام کی مانند لاشعور مکمل دبا بھی نہیں رہتا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جدید عہد میں انسانی شخصیت کے دو ادوار یعنی بچپن اور بڑھاپا ہی اس کے ’’اپنے‘‘ ادوار ہیں۔ اور سب سے فعال اور سرگرم دور بد ترین سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ مخصوص تربیتی نظام کی منفیت کی وجہ سے لاشعور کو بڑھاوا دینے کا بندوبست نہیں کیا جاتا۔ اس کے بجائے زندگی کو مسائل کا شکار کرنے والے خود ساختہ ‘ مصنوعی اور انتہائی سطحی نوعیت کے مقاصد کے تحت شعور کی مخصوص تربیت کی جاتی ہے کیونکہ ان مسلط کردہ شعوری محرکات ومقاصد کا ’’لاشعور‘‘ سے تطابق نہیں ہوتا اس لیے انسانی شخصیت ایک مستقل اضطرابی کیفیت سے دوچار ہو جاتی ہے۔ اس عدم مطابقت کا نتیجہ یہ ہے کہ مغرب میں نفسیاتی مسائل کی نئی جہتیں منظر عام پر آ رہی ہیں۔

میرے خیال میں انسان اور جانور میں بنیادی فرق شاید یہی ہے کہ انسان لاشعوری آئیڈیلز کو باقاعدہ شعور میں ڈھالنے پر قادر ہے۔ یوں سمجھیے کہ جو سادگی اور خلوص کسی بچے میں خود بخود موجود ہوتے ہیں‘ جوان ہونے پر بچہ اس سادگی اور خلوص کو اپنے پورے شعور کے ساتھ قبول کرے اور مثبت معاشرتی عمل کی بنیادرکھے‘ تب بات بنتی ہے۔ جس انسان کا شعور‘ لاشعور سے جتنی زیادہ مطابقت رکھے گا‘ وہ انسان اتنا ہی زیادہ انسان ہوگا۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر طرز معاشرت کو نفسیاتی اعتبار سے ڈسکس کیا جائے اور فردکی میکانکی اور Calculated تربیت کے بجائے لاشعور کے آئیڈیلز کو ہی شعور کی سطح پر پھیلا دیا جائے تو نتیجتاً پیدا ہونے والے معاشرے کے خمیر سے جو دیگر نظام ہائے زندگی اٹھیں گے‘ وہ افراد میں اخوت اور بھائی چارے کے جذبات پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ قوموں کے درمیان امن اور رواداری کی ایک نئی نہج کی بشارت ثابت ہوں گے۔

کتاب اللہ اور اسوۂ رسول اس سلسلے میں ہماری رہنمائی شرح وبسط سے کرتے ہیں۔ بچے کی معصومیت‘ سادگی‘ خلوص‘ سچائی‘ دیانت داری‘ محبت اور ایثار وغیرہ کا ایک طرز معاشرت کے طور پر بھرپور شعوری اظہار رسول پاک ﷺ کے دست مبارک سے تشکیل پانے والے معاشرے میں ملتا ہے۔ بلاشبہ اس نہج سے صحابہ کرامؓ کی اجتماعی زندگی کا مطالعہ بہت دل چسپ اور نتیجہ خیز ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے عمل کی نئی راہیں کھول سکتا ہے۔

یہاں ایک اہم نکتے کا بیان بے محل نہ ہوگا۔ قیام پاکستان کے وقت ہمارے لیے موقع تھا کہ اسلام کی آفاقیت اور بین الاقوامیت کا عملی نمونہ پیش کرتے۔ کٹا پھٹا پاکستان Blessing in disguise کے مصداق مشرقی اور مغربی وحدتوں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے عالمگیریت اور آفاقیت کی نہج کا آغاز کر سکتا تھا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان الگ الگ جغرافیے کے باوجود اسلام کے نقطہ اتصال پر غیر جغرافیائی ہوتے۔ آنے والے دنوں میں او آئی سی اسی غیر جغرافیائی اتصال کی توسیع ہوتی۔ اس اعتبار سے پاکستان دنیا کا پہلا ملک ہوتا جہاں بین الاقوامی طرز حکومت کا تجربہ کیا جاتا۔ لیکن ہوا کیا؟ اس کے بالکل الٹ۔ کیونکہ بیسیویں صدی میں اسلام کی Orientation مجہولی رہی ہے یا رد عملی۔ (اگرچہ اسے اسلام کے بجائے مسلمانوں کی Orientation کہنا زیادہ بہتر ہوگا لیکن چونکہ مسلمان اسے بطور اسلام پیش کرتے رہے ہیں اس لیے ایسا لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں) اب مجہولی رویہ قوم پرستی کے جذبے اور نظریے سے سرشار تھا اور رد عملی رویہ دونوں جغرافیوں کو ایک جغرافیہ بنانے پر مصر تھا۔ دونوں کی اپروچ اسلام سے میل نہ کھاتی تھی۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس وقت سے پہلے فکری سطح پر اسلام کی اجتماعی ہیئت پر کام ہو چکا ہوتا تو کیا پاکستان اور مسلم ورلڈ کا مستقبل روشن نہ ہوتا؟ ہو سکتا ہے کہ عالمی گاؤں کے سیاسی ومعاشرتی سیٹ اپ کے لیے ہم نظیر کا کام بھی دیتے۔ میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عصر حاضر میں اسلام کی تعبیر وتشریح کرتے وقت ہمیں زمینی حقائق مد نظر رکھنے چاہییں۔ موضوع کا انتخاب کرتے وقت ہماری اپروچ موضوعی (Subjective) کے بجائے معروضی (Objective) ہونی چاہیے۔ فرد کی اہمیت اپنی جگہ مسلم لیکن عصر حاضر کا تقاضا ہے کہ ہم اسلام کی ہیئت اجتماعی کی نوک پلک سنوارتے ہوئے تعبیر وتشریح کے نئے افق ظہور میں لائیں۔

درج بالا سطور میں‘ میں نے پیرایہ اظہار اور اسلوب کی تبدیلی کی بھی بات کی ہے۔ اسلوب کی تبدیلی فقط کمپرومائز کے لیے نہیں بلکہ عصری تقاضوں کے مطابق اسلام کی تفہیم کے لیے بھی ضروری ہے۔ اسلام کی تعبیر وتشریح عصری اسلوب کی متقاضی ہے۔ عصری اسلوب سے میری کیا مراد ہے؟ ایک مثال سے وضاحت کرتا ہوں۔ میرے دوست پروفیسر محمد اکرام شعبہ اسلامیات سے منسلک ہیں۔ ان کا ایم اے کا مقالہ ’’منکرین حدیث کے اعتراضات کا جائزہ‘‘ کے عنوان سے تھا۔ انہوں نے پڑھنے کے لیے عنایت کیا۔ میں نے ’’بزور ناتوانی زندہ ام‘‘ کے عنوان سے اپنے تاثرات لکھ کر پیش کیے۔ درج ذیل عبارت انہی تاثرات سے لی گئی ہے:

’’چھاپے خانے کی ایجاد سے انسان کا حافظہ بتدریج کمزور ہونا شروع ہوا۔ انسان نے ’’یاد‘‘ رکھنے کی اپنی خصوصیت چھاپے خانے کو منتقل کر دی۔ پھر کمپیوٹر آیا جو حافظے کو معدوم کرنے کی کوشش میں ہے۔ ترقی کی کئی دوسری اقسام بھی انسان کی بعض خصوصیات کے خاتمے کا باعث بن رہی ہیں۔ اس سے انسان کی اندرونی شخصیت کھوکھلی ہوتی جا رہی ہے۔ مغربی انسان زیادہ کھوکھلا ہے۔ اس کا داخلی وجود آہستہ آہستہ تقریباً معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ مغرب کے مشہور نقاد ٹی ایس ایلیٹ نے غیر شعوری طور پر شاعرانہ اظہار کو جذبات یا شخصیت کے اظہار کے بجائے ’فرار‘‘ قرار دیتے وقت اس کھوکھلے پن کو بیان کیا ہے۔ اس طرح مغربی ادب بھی معدومیت کو فروغ دے رہا ہے۔

مسلمانوں کے ہاں اس سے مختلف صورت دیکھنے میں آتی ہے۔ چھاپہ خانے اور کمپیوٹر کی ایجاد کے باوجود مسلمانوں نے حفظ قرآن کی روایت ترک نہیں کی۔ اگر حفظِ قرآن کا مقصد حفاظت قرآن تھا تو آج وہ مقصد دوسرے ذرائع سے پورا ہو ہی رہا ہے۔ مذہبیت سے قطع نظر حفظ قرآن کی روایت برقرار رکھنا درحقیقت اپنی ایک انسانی خصوصیت سے دست برداری کے خلاف انکار اور بغاوت ہے۔ حفظ قرآن کی روایت ایک انسانی خصوصیت یعنی یاد اور حافظے کا تسلسل ہے اور اس تسلسل کا امین ’’مسلم اجتماعی لاشعور‘‘ ہے۔ ...... علم حدیث ایک وسیع علم ہے۔ اس کی تفہیم کے ضمن میں مختلف نقطہ ہائے نظر ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک تاریخ سے وابستگی بھی ہے۔ بڑی بوڑھیوں کے قصے کہانیوں والی تاریخ نہیں اور نہ آنکھیں بند کر کے کی جانے والی وابستگی بلکہ تجزیے پر مبنی شعوری وابستگی۔ اس وابستگی کا منطقی نتیجہ مقدمہ ابن خلدون ہے۔ ’’مقدمہ‘‘ کوئی مسلمان ہی تخلیق کر سکتا تھا کیونکہ غیر مسلم معاشرے میں علم حدیث کی طرز کا کوئی علم موجود نہیں۔ اگر علم حدیث کی نوعیت پر غیر جانب داری سے غور کریں تو یہ علم بھی ’’مسلم اجتماعی لاشعور‘‘ کا تراشیدہ معلوم ہوتا ہے۔ بلاشبہ علم حدیث داخلی مضبوطی کا خارجی اظہار ہے۔‘‘

میرا ذاتی نقطہ نظر یہی تھا کہ اب حفظ قرآن کی شاید ضرورت نہیں ۔لیکن حیران تھا کہ یہ روایت نہ صرف جاری ہے بلکہ کسی حلقے کی طرف سے کوئی تنقید بھی سننے میں نہیں آ رہی۔ جب میں نے غور کیا کہ ایسا کیوں ہے تو درج بالا نکات ذہن میں آئے۔ اس طرح اپنی ہی کی ہوئی عصری تعبیر وتشریح سے حفظ قرآن کی روایت کے چند نئے امکان ظاہر ہوئے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ تعبیر وتشریح کیسے ممکن ہوسکی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ’’دانتوں کی کمزوری تہذیب کی علامتوں میں سے ہے۔‘‘ کیونکہ جب انسان نے آگ دریافت نہیں کی تھی تو کچا گوشت کھاتا تھا جس کی وجہ سے اس کے دانت بہت مضبوط تھے لیکن آگ کی دریافت کے ساتھ ہی اس کے دانتوں کی مضبوطی میں کمی آنی شروع ہو گئی کیونکہ اب دانتوں کو زیادہ کام نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اس بات سے میں نے اخذ کیا کہ چھاپہ خانہ حافظے کی کمزوری کا سبب ہے کیونکہ اب حافظے کو زیادہ کام نہیں کرنا پڑتا۔ پھر سوال یہ تھا کہ کیا مسلمانوں نے دانستہ اس بات کو محسوس کرتے ہوئے حفظ قرآن کی روایت برقرار رکھی ہے؟ میرا خیال تھا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس کا جواب مجھے ژونگ کی وضع کردہ ایک اصطلاح ’’اجتماعی لا شعور‘‘ سے مل گیا جس کا موجودہ سیاق وسباق میں ورژن ’’مسلم اجتماعی لاشعور‘‘ کر دیا۔ تعبیر وتشریح کی یہی اپروچ عصری اسلوب ہے۔

عصری تقاضوں کے مطابق اسلام کی تعبیر وتشریح کے پیش نظر حافظے کی بابت بحیثیت بنیادی انسانی ضرورت بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ میں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر انسان کا حافظہ معدوم ہو جائے تو وہ قرآن مجید کا بھی مخاطب نہیں رہتا۔

اب بحث کے آخری نکتے کی طرف آتا ہوں۔ اگر آپ حافظے والی عبارت پر نظر دوڑائیں تو ٹی ایس ایلیٹ کا نام نظر آئے گا۔ ژونگ کا بھی ذکر ہوا۔ دانتوں کی کمزوری والا فقرہ غالباً ول ڈیورنٹ کا ہے۔ اب آپ اندازہ کریں کہ ایک پیراگراف لکھنے کے دوران میں ان تین افراد کی فکر شامل حال رہی۔ ظاہر ہے کہ ان کے علاوہ بھی بہت سی تحریریں جو میں پڑھ چکا ہوں‘ غیر شعوری طور پر ممد ومعاون رہیں۔ یہاں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم مسلمان‘ بالخصوص راسخ العقیدہ مسلمان‘ ڈارون‘ ژونگ‘ فرائیڈ‘ آئن سٹائن وغیرہ سے گھبراتے کیوں ہیں؟ ہم گوناگونی‘ تنوع کو اپنے مطالعے کا حصہ کیوں نہیں بناتے؟ دینی مدرسوں کے سلیبس سے لے کر ان کے رسائل تک ہر جگہ یک رنگی پائی جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسلام کی تفہیم عصری اسلوب کے بغیر ناممکن ہے اور عصری اسلوب وسیع المشربی کا تقاضا کرتا ہے۔ رومی‘ عطار‘ سنائی اور حافظ‘ سعدی اور بے شمار ایسے ادیب اور مفکر ہیں جو ان افکار‘ خیالات اور میلانات کی بدولت پیدا ہوئے جو حجاز میں نہ تب موجود ہو سکتے تھے اور نہ اب پیدا ہو سکتے ہیں۔ ہمیں بھی اسلام کی تعبیر وتشریح کے لیے روایتی خول سے نکلنا ہوگا تاکہ مسلم معاشرہ زندہ معاشرہ بن کر ارتقا پذیر رہے اور اپنے اظہار کی نت نئی جولانیوں سے حیات کو جاوداں رکھے۔

مدارس دینیہ کے مالیاتی نظام کے بارے میں دار العلوم کراچی کا ایک اہم فتویٰ

ادارہ

محترم ومکرم حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ مزاج گرامی؟

بندہ ایک دینی مدرسہ کامسؤل ہے۔ چند مسائل کے سلسلے میں رہنمائی چاہتا ہے تاکہ تام امور شریعت مطہرہ کے مطابق سرانجام دیے جا سکیں۔

۱۔ مہتمم زکوٰۃ کی رقم کا وکیل ہوتا ہے اور اس کے لیے مستحق افراد کو فوراً مالک بنانا ضروری ہے تاکہ زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا ہو جائے ۔ اس کے لیے حیلہ تملیک اختیار کیا جاتا ہے۔ اگر مہتمم خود مالی طور پر کمزور ہے تو کیا وہ اس قسم کا اپنے آپ کو مالک بنا سکتا ہے تاکہ تملیک بھی ہو جائے اور فوراً رقم مدرسہ کی مالیات میں شامل ہو جائے؟

۲۔ زکوٰۃ کی رقم مدرسہ کے کن کن معاملات میں استعمال کی جا سکتی ہے؟

۳۔ مدرسہ کا چندہ خصوصاً زکوٰۃ کی رقم کا کسی بینک میں رکھنا کیسا ہے؟

۴۔ مدرسہ میں ایک مسجد بھی ہے جبکہ ایک ہی رسید بک پر مدرسہ کے نام پر چندہ لیا جاتا ہے تاکہ مسجد کا انتظام بھی مدرسہ کے تابع رہے تو مالی اعتبار سے ان دونوں کو چلانے کی شرعی راہ کیا ہے؟

۵۔ حیلہ تملیک کا طریق کار کیا ہے جو آسان بھی ہو اور شریعت کے تمام تقاضوں کے مطابق بھی؟ تملیک کے بعد یہ رقم اساتذہ کی تنخواہوں‘ مدرسہ ومسجد کی تعمبیر اور مدرسہ کے دیگر امور پر خرچ کی جا سکتی ہیں؟

والسلام

عبد الرؤف فاروقی‘ لاہور


الجواب حامداً ومصلیاً

۱و۲۔ موجودہ زمانہ کے مہتمم یا ان کے مقرر کردہ حضرات جو چندہ یا زکوٰۃ وغیرہ وصول کرتے ہیں‘ وہ بحیثیت وکیلِ فقرا کے وصول کرتے ہیں نہ کہ اصحاب اموال کے وکیل کے طور پر کیونکہ مہتمم صاحب اور ان کے مقرر کردہ حضرات کو مدرسہ کے جملہ طلبہ پر اس طرح کی ولایت عامہ حاصل ہے جس طرح سلطان کو اپنی رعایا پر ولایت عامہ حاصل ہوتی ہے۔ لہذا مہتمم صاحب یا ان کے مقرر کردہ حضرات کے قبضے میں پہنچتے ہی زکوٰۃ وعشر دینے والوں کی زکوٰۃ وعشر اور دیگر صدقاتِ واجبہ ادا ہو جاتے ہیں بشرطیکہ مدرسہ میں عاقل بالغ مستحقِ زکوٰۃ طلبہ زیر تعلیم ہوں۔ اور اگر مہتممین حضرات مدرسہ کے مصرفِ زکوٰۃ طلباء (بالغ‘ فقیر‘ غیر سید) سے اپنے لیے صراحتاً بھی وکالت نامہ لکھوا لیں اور ہر سال آنے والے طلباء سے اس کی تجدید کراتے رہیں تو اور بھی اچھا اور قرینِ احتیاط ہے۔ وکالت نامہ کے الفاظ یہ ہیں:

’’میں مہتمم مدرسہ اور ان کے نائب کو اختیار دیتا ہوں کہ وہ میری طرف سے بطورِ وکیل زکوٰۃ اور دیگر صدقات واجبہ وصول کریں اور وہ انہیں طلباء کے مصارف‘ طعام وقیام اور تعلیم وغیرہ پر خرچ کریں یا حسبِ صواب دید مدرسہ کو ان اموال کا مالک بنائیں یا مدرسہ پر وقف کر دیں۔‘‘

اس کے بعد جب مہتمم صاحب یا ان کا مقرر کردہ آدمی صدقات واجبہ بطور وکیل وصول کرے گا تو معطین کی زکوٰۃ بھی ادا ہو جائے گی اور حاصل شدہ رقم کو مصالح طلباء ومدرسہ پر خرچ کیا جا سکے گا۔ اسی میں احتیاط ہے۔ لہذا مہتمم صاحب کے خود حیلہ تملیک کرنے یا کسی سے حیلہ تملیک کرانے کے مقابلے میں توکیل کی مذکورہ صورت زیادہ بہتر ہے بشرطیکہ مدرسہ میں عاقل‘ بالغ مستحقِ زکوٰۃ طلباء موجود ہوں اور رقم پوری احتیاط اور امانت ودیانت کے ساتھ محض طلباء اور مدرسہ کی مصلحت ہی میں خرچ کی جائے۔ (ماخذہ امداد المفتین ص ۱۰۸۵ وتبویب ۷/۱۲۳)

ضروری تنبیہ: اس تحقیق میں مہتممین مدارس کے لیے ایک تو آسانی ہوگئی کہ ان کو ہر شخص کا مال زکوٰۃ اور اس کا حساب الگ الگ لکھنے کی ضرورت نہیں رہی اور قبل از خرچ معطی چندہ کا انتقال ہو جائے تو اس کے وارثوں کو واپس کرنے کی ضرورت نہ رہی۔ معطین چندہ کو بھی یہ فائدہ پہنچا کہ ان کی زکوٰۃ فوری طور پر ادا ہو گئی لیکن مہتممین مدارس کی گردن پر آخرت کا ایک بڑا بوجھ آپڑا کہ وہ ہزاروں فقرا کے وکیل ہیں جن کے نام اور پتے محفوظ اور یاد رکھنا بھی آسان نہیں کہ خدا نخواستہ اگر اس مال کے خرچ کرنے میں کوئی غلطی ہو جائے تو معافی مانگی جا سکے۔ اس لیے اگر مہتممین مدارس نے فقرا طلباء کی ضروریات کے علاوہ کسی کام میں خرچ کیا تو وہ ایسا ناقابل معافی جرم ہوگا جس کی تلافی ان کے قبضے میں نہیں اس لیے ان سب حضرات پر لازم ہے کہ مدارس کے چندہ کی رقم کو بڑی احتیاط کے ساتھ صرف ان ضروریات پر خرچ کیا جائے جن کا تعلق طلباء سے ہے مثلاً ان کا طعام ولباس‘ دواء وعلاج‘ ان کی رہائشی ضرورتیں‘ ان کے لیے کتابوں کی خریداری وغیرہ۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم (ماخوذ از امداد المفتین ص ۱۰۸۶)

۳۔ توکیل یا حیلہ تملیک کے بعد مذکورہ رقم بوقتِ ضرورت بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھوائی جا سکتی ہے۔

۴۔ بہتر تو یہ ہے کہ مسجد کا فنڈ الگ ہو اور مدرسہ کا الگ ہو۔ تاہم اگر مسجد مدرسہ کے تابع ہو اور دونوں کی انتظامیہ بھی ایک ہو اور ایسی صورت میں صراحتاً یا دلالتاً یہ بات معلوم ہو کہ چندہ اور عطیات دینے والے حضرات اپنے دیے ہوئے عطیات کو مسجد اور مدرسہ دونوں کی ضروریات میں خرچ کرنے پر راضی ہیں تو ایسی صورت میں مسجد اور مدرسہ کا مشترکہ فنڈ رکھنا درست ہے۔ (ماخذہ تبویب ۳۸/۳۴۷)

۵۔ تملیک شرعی کا بے غبار طریقہ یہ ہے کہ جس قدر رقم تملیک کرانی ہو‘ اتنی رقم کے لیے کسی فقیر مصرفِ زکوٰۃ (بالغ غیر سید) سے کہا جائے کہ آپ اتنی رقم اپنے کسی سے قرضہ لے کر مدرسہ یامسجد کے لیے اپنی طرف سے بطور چندہ دے دیں‘ آپ کو ثواب ملے گا اور ہم یہ قرضہ ادا کروا دیں گے۔ جب وہ قرضہ لے کر ادارے میں بطور چندہ دے دے تو ادارہ اس قدر رقم زکوٰۃ اس کو مالک وقابض بنا کر دے دے تاکہ وہ اپنا قرضہ ادا کر سکے۔ تملیک کے مذکورہ طریقہ کے بعد زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ کی رقم اساتذہ کی تنخواہوں‘ مدرسہ ومسجد کی تعمیر اور ان کے دیگر امور میں خرچ کی جا سکتی ہیں۔ (ماخذہ تبویب ۴۷/۳۱۶)

وفی الدر المختار: ویشترط ان یکون الصرف تملیکا لا اباحۃ کما مر۔ لا یصرف الی بنا نحو مسجد ولا الی کفن میت وقضاء دینہ ....وقدمنا ان الحیلۃ ان یتصدق علی الفقیر ثم یامر بفعل ہذہ الاشیاء (۲/۳۴۴)
وفی رد المحتار: وحیلۃ التکفین بہا التصدق علی فقیر ثم ہوا یکفن فیکون الثواب لہما وکذا فی تعمیر المسجد (۲/۲۷۱) واللہ اعلم بالصواب

محمد وسیم

دار الافتاء دار العلوم کراچی

پاکستان شریعت کونسل کی صوبائی شوریٰ کا اجلاس

ادارہ

پاکستان شریعت کونسل صوبہ سندھ کی مجلس شوریٰ کا اجلاس ۴ فروری ۲۰۰۲ء کو جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن نارتھ کراچی میں امیر مرکزی حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں شیخ الحدیث مولانا زر ولی خان‘ مولانا زاہد الراشدی‘ مولانا سیف الرحمن ارائیں‘ مولانا احسان اللہ ہزاروی‘ مولانا عبد الرشید انصاری‘ مولانا قاری حضرت ولی‘ مولانا اقبال اللہ ہزاروی‘ مولانا حافظ محمد اکبرراشد‘ مولانا عبد الرحمن خطیب اور دیگر حضرات نے شرکت کی۔ اجلاس میں ملک کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ دینی جماعتوں اور مراکز کے درمیان باہمی مشاورت اور رابطہ کو فروغ دینے کے لیے جدوجہد کا مربوط طریق کار طے کیا جائے گا اور اس بات کی کوشش کی جائے گی کہ موجودہ حالات میں دینی اقدار کے تحفظ اور پاکستان کے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے دینی جماعتوں اور مراکز کو زیادہ سے زیادہ متحرک اور فعال بنایا جائے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے صدر اجلاس مولانا فداء الرحمن درخواستی نے کہا کہ مغرب کی ثقافتی یلغار اور علمی وفکری مہم جوئی کے مقابلے کے لیے دینی جماعتوں کو مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا اور اس مقصد کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں فکری ونظریاتی تربیت اور بریفنگ کی نشستوں کا انعقاد ضروری ہے جن میں علماء کرام اور دینی کارکنوں کو درپیش خطرات اور خدشات سے آگاہ کیا جائے اور انہیں ان کے مقابلے کے لیے تیار کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ علمی‘ نظریاتی اور فکری جدوجہد کی حد تک پاکستان شریعت کونسل ملک کے بڑے شہروں میں اس قسم کی محافل کے اہتمام کا پروگرام بنا رہی ہے اور دوسری دینی جماعتوں سے بھی ہماری گزارش یہ ہے کہ وہ نئی نسل کی ذہن سازی اور علماء کرام کی بریفنگ کے لیے فکری نشستوں کا ہر سطح پر اہتمام کریں۔ اس موقع پر طے ہوا کہ پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی ۱۹‘ ۲۰‘ ۲۱ فروری کو حیدرآباد اور کراچی کا دورہ کر کے سرکردہ علماء کرام سے ملاقات کریں گے اور اس موقع پر باہمی مشاورت سے اگلا پروگرام طے کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 

دینی تعلیم کے فروغ کے لیے خصوصی توجہ دی جائے۔ مولانا فداء الرحمن درخواستی

جامعہ عثمانیہ معین آباد لانڈھی کراچی میں ۴ فروری ۲۰۰۲ء کو بعد نماز عصر ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان شریعت کونسل کے سربراہ مولانا فداء الرحمن درخواستی نے علماء کرام پر زور دیا کہ وہ دینی تعلیم کے فروغ اور نئی نسل کی ذہنی وفکری تربیت کی طرف خصوصی توجہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت معاشرے میں جو خرابیاں ہیں‘ ان کی ذمہ داری میں ہماری کوتاہیوں کو بھی دخل ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے طرز عمل کا جائزہ لیں اور اپنے عظیم اسلاف اور اکابر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دینی تعلیم کو عام کرنے اور اپنی اور عام مسلمانوں کی دینی واخلاقی اصلاح کی طرف خصوصی توجہ دیں اور خلوص کے ساتھ محنت کریں۔

پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم نے واضح طور پر کہا ہے کہ تمہیں معاشرے میں جو مشکلات اور مصیبتیں پیش آتی ہیں‘ وہ تمہاری اپنی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں اس لیے ہمیں سنجیدگی کے ساتھ اپنے موجودہ ملی وقومی مصائب وآلام کے اسباب وعوامل کا تجزیہ کرنا چاہیے اور ان کے تدارک کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری نسل انسانی مجموعی طور پر مصائب ومشکلات سے دوچار ہے جس کی سب سے بڑی وجہ آسمانی تعلیمات سے انحراف اور خواہشات کی پیروی ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ نسل انسانی کو آسمانی تعلیمات کی طرف واپس لانے کی محنت کی جائے اور دنیا کو دینی اقدار کی ضرورت کا احساس دلایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری اہل اسلام اور مسلم علما پر عائد ہوتی ہے کیونکہ آسمانی تعلیمات صرف انہی کے پاس محفوظ حالت میں موجود ہیں اور وہی صحیح طور پر نسل انسانی کی راہ نمائی کر سکتے ہیں۔

مولانا فداء الرحمن درخواستی کا دورۂ بنگلہ دیش

پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی بنگلہ دیش کے دو ہفتہ کے دورہ پر روانہ ہو گئے ہیں۔ شاعر اسلام سید سلمان گیلانی بھی ان کے ہمراہ ہیں۔ وہ مختلف شہروں میں دینی اجتماعات اور دینی مدارس کی تقریبات سے خطاب کریں گے اور ۱۸ فروری کو کراچی واپس پہنچ جائیں گے۔

حافظ محمد حذیفہ خان سواتی کی دستار بندی

حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی دامت برکاتہم کے پوتے‘ مولانا زاہد الراشدی کے نواسے اور مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی کے فرزند حافظ محمد حذیفہ خان سواتی نے بحمد اللہ تعالیٰ دس سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ مکمل کر لیاہے۔ اس سلسلے میں ۱۲ جنوری ۲۰۰۲ء کو مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی جس میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سربراہ حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب دامت برکاتہم سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف نے آخری سبق سن کر حافظ محمد حذیفہ خان سواتی کی دستار بندی کی اور دعا فرمائی۔ اس موقع پر حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی‘ مولانا زاہد الراشدی اور مولانا حافظ محمد ریاض خان سواتی نے تقریب سے خطاب کیا جبکہ شہر کے علماء کرام اور دینی کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

مدیر ’الشریعہ‘ کی شادی خانہ آبادی

ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کے مدیر حافظ محمد عمار خان ناصر کی شادی خانہ آبادی ۶ جنوری ۲۰۰۲ء کو جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم کے مہتمم مولانا قاری خبیب احمد عمر کی دختر حافظہ حفصہ ناہید کے ساتھ انجام پائی جو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کی نواسی اور مولانا زاہد الراشدی کی بھانجی ہیں۔ اس موقع پر ۷ جنوری کو دعوت ولیمہ کی تقریب میں علماء کرام‘ دینی کارکنوں اور شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور خیر وبرکت کی دعا کی۔

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’مضاربت اور بلاسود بینکاری‘‘

دار العلوم کورنگی کراچی کے سابق استاذ حدیث حضرت مولانا عبد الحق (زیارت گل) زید مجدہم کا گراں قدر مقالہ جس پر انہیں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی سند عطا کی ہے‘ مولانا حافظ لیاقت علی شاہ کی مساعی سے کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے۔ تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب زیر بحث موضوع کے کم وبیش تمام اہم پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔

قیمت درج نہیں ہے جبکہ مندرجہ ذیل پتہ سے طلب کی جا سکتی ہے: 

مکتبہ غفوریہ‘ نزد جامعہ اسلامیہ درویشیہ‘ بلاک بی‘ سندھی مسلم سوسائٹی‘ کراچی

’’المتون المعتبرۃ فی عقائد اہل السنۃ والجماعۃ‘‘

مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے سابق خطیب محدث پنجاب حضرت مولانا عبد العزیز سہالوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے پوتے مولانا رشید احمد علوی صاحب نے اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد پر معروف اور متداول متون کو کتابی شکل میں جمع کر دیا ہے جن میں الفقہ الاکبر‘ العقیدۃ الطحاویۃ‘ العقائد العضدیۃ‘ العقائد النسفیۃ اور العقائد البزدویۃ سمیت دس اہم متون شامل ہیں اور اہل علم کے لیے بہت زیادہ افادیت کے حامل ہیں۔

ڈیڑھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب پر قیمت درج نہیں اور اسے مولانا رشید احمد علوی صاحب سے مندرجہ ذیل پتہ پر طلب کیا جا سکتا ہے: دفتر ختم نبوت‘ اندرونی سیالکوٹی گیٹ‘ گوجرانوالہ

اکیسویں صدی کے چیلنجز پر ’’الحق ‘‘ کی خصوصی اشاعت

عالم اسلام کے لیے اکیسویں صدی عیسوی کے چیلنجز کے حوالے سے معروف دینی جریدہ ماہنامہ ’’الحق‘‘ اکوڑہ خٹک نے ایک خصوصی اشاعت (اگست تا نومبر ۲۰۰۱ء) کا اہتمام کیا ہے جو پونے تین سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں عالم اسلام کے سرکردہ علماء کرام اور اہل دانش نے اپنے مقالات میں اکیسویں صدی میں پیش آنے والی صورت حال اور ا س کے حوالے سے علماء کرام اور دینی حلقوں کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی ہے۔ اس خصوصی شمارہ کی قیمت ۸۰ روپے ہے اور اسے دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک صوبہ سرحد سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

’’استحباب الدعاء بعد الفرائض ورفع الیدین فیہ‘‘

فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا مانگنے کا مسئلہ ایک عرصہ سے علمی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ مکہ مکرمہ کے معروف حنفی عالم دین فضیلۃ الشیخ مولانا عبد الحفیظ ملک نے اس پر عربی زبان میں رسالہ تصنیف کیا ہے جس میں انہوں نے علمی انداز میں اپنے اس موقف کی وضاحت کی ہے کہ فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا مانگنا مسنون ہے اور اسے بدعت قرار دینا درست نہیں ہے۔

بڑے سائز کے ۱۴۰ صفحات پر مشتمل اس کتابچہ پر قیمت درج نہیں ہے اور اسے موسسۃ الخلیل الاسلامیۃ‘ چنیوٹ بازار‘ فیصل آباد کے مالک ملک شاہد رسول صاحب سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

’’میرے حضرت میرے شیخ ؒ ‘‘

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق رحمہ اللہ تعالیٰ کے تلمیذ خاص مولانا عبد القیوم حقانی نے اپنے محبوب استاذ کے حالات زندگی اور خدمات ومجاہدات پر اپنے مخصوص انداز میں قلم اٹھایا ہے اور متعدد سبق آموز واقعات اور ارشادات کا ایک گل دستہ پیش کیا ہے جو حضرت شیخ الحدیثؒ کے عقیدت مندوں کے لیے گراں قدر تحفہ اور عام علما اور اہل دین کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

اڑھائی سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس مجلد کتاب کی قیمت ۹۰ روپے ہے اور اسے مندرجہ ذیل پتہ سے طلب کیا جا سکتا ہے: القاسم اکیڈمی‘ جامعہ ابو ہریرہ‘ خالق آباد‘ نوشہرہ‘ صوبہ سرحد

’’ازدواجی حقوق نسواں‘‘

شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے خادم خاص حضرت مولانا محمد صابرؒ کی دختر نے جو مولانا محمد انور کی اہلیہ محترمہ ہیں اور ایک عرصہ سے دینی وتدریسی خدمات سرانجام دے رہی ہیں‘ اس اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور خواتین کے ازدواجی حقوق کے حوالے سے متعدد امور پر تحقیقی انداز سے روشنی ڈالی ہے۔ ان کی بیان کردہ تمام باتوں سے اتفاق ضروری نہیں تاہم یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ دینی وتدریسی ماحول سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے آج کے دور کے ایک اہم مسئلہ پر علمی وتحقیقی کاوش پیش کی ہے جس کا رجحان ہمارے حلقوں میں بہت کم ہو گیا ہے۔

اڑھائی سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ۱۰۰ روپے ہے اور مکتبہ دار العلوم عثمانیہ‘ کوٹ عبد المالک‘ شیخوپورہ روڈ لاہور سے طلب کی جا سکتی ہے۔

’’عالمِ اسلام پر مغربی قزاقوں کی دہشت گردی‘‘

معروف عالم دین اور جامعہ عثمان بن عفانؓ رحیم یار خان کے شیخ الحدیث حضرت مولانا بشیر احمد حامد حصاروی نے عالم اسلام کے خلاف مغربی حکمرانوں کی سیاسی‘ عسکری‘ معاشی اور ثقافتی یلغار پر قلم اٹھایا ہے اور معروضی حالات کے ساتھ ساتھ جناب نبی اکرم ﷺ کے متعدد ارشادات کے حوالے سے مغربی استعمار کے ظلم وجبر اور وحشت وبربریت کو آشکار کرنے کے علاوہ مسلمانوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔

۱۰۰ صفحات پر مشتمل اس کتابچہ پر قیمت درج نہیں ہے اور اسے حامد اکیڈمی‘ میاں ٹاؤن ‘رحیم یار خان سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

’’بین الاقوامی شخصیات کی کہانی‘‘

بادشاہی مسجد لاہور کے سابق خطیب مولانا سید عبد القادر ازاد کو اس حیثیت سے دنیا کے مختلف ممالک کے دوروں اور بین الاقوامی شخصیات سے ملاقاتوں کا موقع ملتا رہا ہے۔ انہوں نے ان ملاقاتوں کے حوالے سے اپنی یادداشتیں اور تاثرات بیان کیے ہیں جنہیں معروف صحافی وقار ملک صاحب نے قلم بند کیا ہے اور الفیصل ناشران وتاجران کتب اردو بازار لاہور نے شائع کیا ہے۔ پچا س سے زائد جن شخصیات کی ملاقاتوں اور ان کے بارے میں تاثرات کا اس کتاب میں تذکرہ کیا گیا ہے‘ ان میں شاہ فیصل شہید‘ کرنل قذافی‘ حسنی مبارک‘ پوپ جان پال دوم‘ ملک ایلزبتھ‘ جارج بش‘ الیکسی کوسیجن‘ جمی کارٹر‘ مسز بندرانائیکے‘ لیڈیا ڈیانا اور گوربا چوف بھی شامل ہیں۔

ساڑھے چار سے زائد صفحات پر مشتمل اس مجلد کتاب کی قیمت ساڑھے تین سو روپے ہے۔

’’ابو عبیدہؓ ٹرسٹ کے رسائل‘‘

حاجی محمد اقبال خان صاحب ایک عرصہ تک متحدہ عرب امارات کی ریاست عجمان میں مقیم رہے ہیں اور مختلف دینی شخصیات کی کتابیں شائع کرکے تقسم کرنے ان کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ اب کچھ عرصہ سے گوجرانوالہ میں مقیم ہیں اور ابو عبیدہؓ ٹرسٹ قائم کر کے اپنے اس مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس وقت ان کے شائع کردہ چار رسالے ہمارے سامنے ہیں:

گناہ بے لذت    از مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ 

آئینہ محمدی    از شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر

چراغ کی روشنی    از شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر

تبلیغ اسلام    از شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر

ان میں سے ہر رسالہ دس روپے کے ڈاک ٹکٹ بھیج کر پوسٹ بکس ۲۵۰ جی پی او گوجرانوالہ کے پتہ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

’’چند مفید رسائل‘‘

جامع مسجد درویشیہ‘ بلاک بی‘ سندھی مسلم ہاؤسنگ سوسائٹی کراچی کے خطیب مولانا لیاقت علی شاہ نقشبندی کے چند مفید اور معلوماتی رسائل اس وقت ہمارے سامنے ہیں:

۱۔ کھانا پینا قرآن وسنت کی روشنی میں    صفحات ۶۸

۲۔ وظائف قرآنی مع چہل احادیث    صفحات ۱۳۲

۳۔ مسنون دعائیں    صفحات ۳۱۲

ان میں عام مسلمانوں کے لیے کھانے پینے کے آداب ومسائل اور روزمرہ کی مسنون دعائیں اور وظائف عمدہ ترتیب کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں اور مصنف سے مندرجہ بالا پتہ سے طلب کیے جا سکتے ہیں۔

’’حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے مواعظ‘‘

جامعہ دار العلوم اسلامیہ ۲۹۱ کامران بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور کے مہتمم حضرت مولانا مشرف علی تھانوی کی زیر ادارت ماہنامہ ’’الامداد‘‘ نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس اللہ سرہ العزیز کے مواعظ کو سال کی ضروریات کے مطابق ترتیب وار پیش کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جو عام مسلمانوں بلکہ اہل علم کے لیے بھی بہت زیادہ افادیت کا حامل ہے۔

’’الامداد‘‘ کا سالانہ زر خریداری ۱۰۰ روپے ہے اور مندرجہ بالا پتہ پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

’’قیامِ پاکستان اور مولانا ابو الکلام آزادؒ ‘‘

صقارین میڈیا نیٹ ورک گوجرانوالہ کے جریدہ ’’اذان‘‘ نے اگست ۲۰۰۱ء کی اشاعت کو حضرت مولانا ابو الکلام آزادؒ کی حیات وخدمات کے تذکرہ اور خاص طور پر قیام پاکستان کے حوالے سے ان کے موقف کی وضاحت کے لیے مخصوص کیا ہے جو بعض اہم معلوماتی مضامین پر مشتمل ہے۔

صفحات ۱۱۲ اور قیمت ۲۵ روپے ہے اور آزاد بک ہاؤس اردو بازار گوجرانوالہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

صدر پاکستان کی خدمت میں ایک ضروری عرض داشت

ادارہ

۱۸۔۱۹ جنوری ۲۰۰۲ء کو وفاقی وزارت مذہبی امور کے زیر اہتمام اسلام آباد میں منعقدہ علماء ومشائخ کانفرنس کے موقع پر مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کر کے انہیں اہم معاملات میں دینی حلقوں کے جذبات سے آگاہ کیا اور مندرجہ ذیل تحریری عرض داشت پیش کی۔

 

بخدمت محترم جناب جنرل پرویز مشرف صاحب چیف ایگزیکٹو وصدر پاکستان

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

۱۶ جنوری ۲۰۰۲ء کو حکومت کی طرف سے یہ اعلان سامنے آیا کہ آئندہ ہونے والے قومی‘ صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے انتخابات مخلوط بنیادوں پر ہوں گے۔ اس اعلان سے پاکستان کے مسلمانوں میں عموماً اور علماء اسلام کے حلقوں میں خصوصاً تشویش واضطراب کی ایک بہت بڑی لہر دوڑ گئی ہے۔ اگر اس فیصلے کو واپس نہ لیا گیا تو یہ بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اس لیے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس فیصلے کو آج کے خطاب میں واپس لینے کا اعلان کیا جائے اس لیے کہ یہ اعلان قیام پاکستان کی اساس‘ دو قومی نظریہ اور ’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘ کے خلاف ہے۔

آئین پاکستان کی قائم اسلامی دفعات‘ قرارداد مقاصد جو آئین کی دفعہ ۲۔ الف کی رو سے دستور کا موثر حصہ ہے‘ جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کل کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو اختیار واقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا‘ وہ ایک مقدس امانت ہے جس کا معنی یہ ہے کہ قرآن پاک اور پیغمبر پاک کی سنت پاکستان کا اعلیٰ ترین قانون ہے‘ کے بھی خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود اور قرآن وسنت کی رو سے مسلمان الگ امت ہیں اور کفار الگ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

ان ہذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاعبدون (الانبیاء ۹۲)

’’یقیناًیہ تمہاری امت ایک امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس میری ہی عبادت کرو۔‘‘

وکذالک جعلناکم امۃ وسطا لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا (البقرہ ۱۴۳)

’’اور اس طرح ہم نے تمہیں ایک امت معتدل بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر تم پر گواہ بنے۔‘‘

کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر وتومنون باللہ 

’’تم تمام امتوں سے بہتر امت ہو جسے لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے ۔ تم معروف کا حکم کرتے ہو اور منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘

یا ایہا النبی اتق اللہ ولا تطع الکافرین والمنافقین (الاحزاب ۱)

’’اے نبی‘ اللہ سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کرنا۔‘‘

ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ہواہ وکان امرہ فرطا (الکہف ۲۸)

’’اور نہ اطاعت کرنا اس شخص کی جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے۔‘‘

یا ایہا الذین آمنوا لاتتخذوا بطانۃ من دونکم لا یالونکم خبالا (آل عمران ۱۱۸)

’’اے ایمان والو‘ کسی غیر مذہب کے آدمی کو اپنا رازدان نہ بنانا۔ یہ لوگ تمہیں نقصان پہنچانے اور فتنہ انگیزی میں کسی طرح کوتاہی نہیں کرتے۔‘‘

یا ایہا الذین آمنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم (النساء ۵۹)

’’ایمان والو‘ اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے صاحب امر لوگوں کی۔‘‘

ان آیات میں اس بات کی تصریح ہے کہ مسلمانوں کے معاملات چلانے کے ذمہ دار مسلمان ہوں گے۔ عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کسی نظام کو چلانے والے وہی لوگ ہوں جو اس نظام کو مانتے ہوں‘ اس نظام کو جانتے ہوں اور اس کے مطابق معاشرے کو استوار کرنا چاہتے ہوں۔ آئین پاکستان کی رو سے پاکستان کا نظام قرآن وسنت ہے لہذا پاکستان میں حکومتی عہدوں پر‘ جن میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کی رکنیت بھی شامل ہے‘ صرف مسلمانوں کو فائز کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح احادیث رسول ﷺ میں مسلمانوں کو ایک جسد اور ایک عمارت کی طرح قرار دیا گیا ہے کہ غیر مسلم اس عمارت کا حصہ نہیں ہیں۔ فقہاء اسلام کا بھی اس پر اجماع ہے کہ کافر مسلمانوں کے حکام اور اولی الامر نہیں ہو سکتے۔

اسلامی نظریاتی کونسل جو ایک آئینی ادارہ ہے‘ اس نے بھی جداگانہ طریق انتخاب کو ہی اسلام کے مطابق قرار دیا ہے اور قرارداد مقاصد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حلقہ ہائے عمل میں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو قرآن وسنت کی تعلیم کے مطابق ترتیب دے سکیں۔ تاریخ اسلام میں مخلوط بنیادوں کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ مخلوط انتخاب کے نتیجے میں تو پاکستان بھی دو ٹکڑے ہوا۔ البتہ غیر مسلموں کو اپنے معاملات اپنے مذہب کے مطابق چلانے کی آزادی اسلام نے دی ہے۔ اس لیے وہ اپنی کمیونٹی کی فلاح وبہبود کی خاطر اپنے نمائندے الگ سے منتخب کر سکتے ہیں تاکہ مسلمان ان کے معاملات کو ان کے نمائندوں کی وساطت سے چلا کر ان کے حقوق کو ٹھیک طرح سے ادا کر سکیں۔ انہی وجوہ سے اب تک پاکستان میں جداگانہ طرز انتخاب رائج تھا اس لیے پاکستان کی جو عمارت اسلامی بنیادوں پر اب تک استوار ہے‘ ان میں سے کسی بنیاد کو گرانے کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ اگر آپ نے بقول خود اسلام اور آئین پاکستان کے مطابق حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا فریضہ سرانجام دیا تو علما آپ کے ساتھ تعاون کریں گے۔ بصورت دیگر ایک لاحاصل کشمکش کا شدید خطرہ ہے جس سے ملک کی سلامتی اور استحکام کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ اللہ کرے کہ پاکستان اسلامی معاشرہ کا نمونہ اور قائم ودائم رہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

مارچ ۲۰۰۲ء

امریکی مطالبات اور پاکستان کی پوزیشنمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مفتی اعظم سعودی عرب کا خطبہ حجادارہ
علماء دیوبند اور سرسید احمد خان ۔ چند تاریخی غلط فہمیوں کا جائزہمولانا محمد عیسی منصوری
امریکی اور برطانوی جارحیت۔ ایک تجزیاتی مطالعہپروفیسر میاں انعام الرحمن
جنرل مشرف کا دورۂ امریکہ ۔ اور پاک امریکہ تعلقات کی نئی جہتپروفیسر شیخ عبد الرشید
دینی مدارس کے نظام ونصاب کی اصلاح کے حوالے سے ’’مجلس فکر ونظر‘‘ کی منظور کردہ سفارشات اور نصابادارہ
کتاب کے ساتھ میرا تدریجی تعارفادارہ
تعارف و تبصرہادارہ

امریکی مطالبات اور پاکستان کی پوزیشن

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امریکی ایوان نمائندگان نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ دستور پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی شق اور توہین رسالت پر موت کی سزا کا قانون ختم کیا جائے۔ یہ مطالبہ ایک قرارداد کی صورت میں کیا گیا ہے جو صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے حالیہ دورۂ امریکہ کے موقع پر امریکی ایوان نمائندگان نے منظور کی اور قرارداد کی منظوری کے بعد اس پر عمل درآمد کے اہتمام کے لیے اسے متعلقہ کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

امریکہ کا یہ مطالبہ نیا نہیں بلکہ کافی عرصہ سے چلا آ رہا ہے۔ ۱۹۸۷ء میں امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے پاکستان کی امداد کی بحالی کے لیے جو چند شرائط عائد کی تھیں‘ ان میں بھی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ایک معاصر میں ۵ مئی ۱۹۸۷ء کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی سینٹ نے یہ طے کیا تھا کہ امریکی صدر ہر سال پاکستان کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کیا کریں گے جس میں توثیق کی جائے گی کہ حکومت پاکستان ان شرائط کی پابندی کر رہی ہے تو اس کے بعد امداد کی سالانہ قسط پاکستان کے سپرد کی جائے گی۔ ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ ’’حکومت پاکستان اقلیتی گروہوں مثلاً احمدیوں کو مکمل شہری اور مذہبی آزادیاں نہ دینے کی روش سے باز آ رہی ہے اور ایسی تمام سرگرمیاں ختم کر رہی ہے جو مذہبی آزادیوں پر قدغن عائد کرتی ہیں۔‘‘

اس کے بعد سے نہ صرف امریکہ بلکہ دیگر مغربی حکومتیں اور ایمنسٹی انٹر نیشنل سمیت بہت سے عالمی ادارے پاکستان کو مسلسل یاد دہانی کراتے آ رہے ہیں کہ وہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور اسلام کے نام پر سرگرمیاں جاری رکھنے کی ممانعت سے متعلق قوانین پر نظر ثانی کرے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی حالیہ قرارداد میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ’’بین الاقوامی چارٹر‘‘ کی شق ۱۸ کا بھی حوالہ دیا گیا جس کی رو سے قادیانیوں کے خلاف پاکستان میں نافذ شدہ قوانین بادی النظر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار پاتے ہیں۔ بعد میں جب توہین رسالت کے بعض واقعات پر پاکستان کی مختلف عدالتوں میں مقدمات کی سماعت شروع ہوئی تو توہین رسالت پر موت کی سزا کا قانون بھی بین الاقوامی تنقید کا ہدف بن گیا اور یہ مطالبہ عالمی سطح پر ہونے لگا کہ توہین رسالت کو ان سنگین جرائم میں شامل نہ کیا جائے جن پر موت کی سزا دی جاتی ہے چنانچہ امریکی ایوان نمائندگان کی حالیہ قرارداد بھی اسی پس منظر میں سامنے آئی ہے۔ جہاں تک امریکہ ودیگر مغربی حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں کے مطالبات کا تعلق ہے تو ان کی بنیاد اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر پر ہے جس کی دفعات ۱۸ اور ۱۹ حسب ذیل ہیں:

’’دفعہ ۱۸: ہر شخص کو آزادی خیال‘ آزادی ضمیر اور آزادی مذہب کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں اپنا مذہب یا عقیدہ تبدیل کرنے اور انفرادی اور اجتماعی طور پر‘ علیحدگی میں یا سب کے سامنے اپنے مذہب یا عقیدے کی تعلیم‘ اس پر عمل‘ اس کے مطابق عبادت کرنے اور اس کی پابندی کرنے کی آزادی شامل ہے۔

دفعہ ۱۹ : ہر شخص کو آزادی رائے اور آزادی اظہار کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں بلا مداخلت رائے رکھنے کی آزادی اور بلالحاظ علاقائی حدود کسی بھی ذریعے سے اطلاعات اور نظریات تلاش کرنے‘ حاصل کرنے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کا حق شامل ہے۔‘‘

مغربی ممالک اور اداروں کا موقف یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے منشور کی یہ شقیں بین الاقوامی قوانین کا درجہ رکھتی ہیں اور پاکستان نے اقوام متحدہ کے ممبر کی حیثیت سے اس منشور پر دستخط کر کے اس کی پابندی کی ذمہ داری قبول کر رکھی ہے اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور توہین رسالت پر موت کی سزا کے قوانین ان شقوں میں بیان کردہ آزادیوں اور حقوق کے منافی ہیں اس لیے پاکستان کو اپنے حلف اور دستخط کے مطابق ان قوانین پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور انہیں بین الاقوامی قوانین سے ہم آہنگ کرنا چاہیے۔ دوسری طرف پاکستان کا موقف یہ ہے کہ اس ملک کا قیام اسلامی تشخص کے حوالے سے وجود میں آیا ہے۔ اسلام پاکستان کے لیے صرف ایک مذہب نہیں بلکہ ریاست کی وجہِ قیام اور دستوری بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلامی احکام وقوانین کی اساس بین الاقوامی قوانین پر نہیں بلکہ قرآن وسنت پر ہے اور قرآن وسنت اور اجماع امت کی رو سے قادیانیوں کو مسلمان تسلیم کرنے اور انہیں ملت اسلامیہ کے حصے کے طور پر قبول کرنے کی کسی درجہ میں کوئی گنجائش نہیں اس لیے انہیں پاکستان کے دستور اور قانون کی رو سے مسلمان تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح توہین رسالت پر موت کی سزا اسلام کے احکام میں سے ہے جس پر قرآن وسنت کی صریح تعلیمات کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کا چودہ سو سالہ اجماعی تعامل موجود ہے اس لیے بین الاقوامی قوانین کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے قرآن وسنت اور اجماع امت کے صریح احکام سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔

یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور انہیں ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر ملک میں قبول کرنے کا موقف دراصل علماء کرام اور دینی حلقوں کا نہیں تھا اور وہ اس سلسلے میں خلیفہ اول حضرت صدیق اکبرؓ کے اسوہ کا حوالہ دیتے رہے ہیں جنہوں نے جناب نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد نبوت کے تین دعوے داروں مسیلمہ کذاب‘ سجاح اور طلیحہ کے خلاف باقاعدہ فوج کشی کر کے ان کا استیصال کیا تھا لیکن مفکر پاکستان علامہ سر محمد اقبالؒ نے ایک درمیان کی راہ نکالی کہ قادیانیوں کو نئے نبی کے پیروکار کی حیثیت سے مسلمانوں سے الگ نئی امت تسلیم کر لیا جائے اور غیر مسلم اقلیت کے طور پر مسلم معاشرے میں انہیں برداشت کر لیا جائے چنانچہ علماء کرام اور دینی حلقے اپنے موقف سے پیچھے ہٹ کر علامہ اقبالؒ کے موقف پر آ گئے لیکن قادیانیوں نے اسے تسلیم نہیں کیا اور ایک نئے مدعی نبوت کے پیروکار ہونے کے باوجود خود کو مسلمانوں میں شامل رکھنے پر بے جا اصرار کیا جس پر مسلمانوں نے باقاعدہ تحریک چلائی اور ۱۹۷۴ء میں ملک کی منتخب قومی اسمبلی نے ایک دستوری ترمیم کے ذریعے سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جس کے بعد بھی قادیانیوں کا اپنے سابقہ موقف پر اصرار جاری رہا اور انہوں نے پارلیمنٹ کا متفقہ فیصلہ قبول کرنے کے بجائے دستور سے انحراف کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اسلام کے نام پر اپنے نئے مذہب کی تبلیغ اور مسلمانوں کی مخصوص مذہبی علامات وشعائر مثلاً مسجد‘ کلمہ طیبہ‘ نماز وغیرہ کا استعمال مسلسل جاری رکھا۔ اس پر ۱۹۸۴ء میں تمام مکاتب فکر کی مشترکہ دینی تحریک کے نتیجے میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے ایک آرڈی نینس کے ذریعے سے قادیانیوں پر پابندی لگا دی کہ وہ اسلام کے نام پر اپنے مذہب کی تبلیغ اور مسلمانوں کی مخصوص مذہبی علامات وشعائر استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے اشتباہ پیدا ہوتا اور مسلمانوں کا دینی تشخص مجروح ہوتا ہے۔بعد میں ۱۹۸۵ء میں منتخب ہونے والی پارلیمنٹ نے بھی اس آرڈی نینس کی توثیق کر دی۔

اسی طرح توہین رسالت پر موت کی سزا کے قوانین بھی منتخب پارلیمنٹ نے پاس کیے اور پاکستان کے عوام نے ان کے حق میں ملک گیر کام یاب ہڑتال کر کے یہ فیصلہ دیا کہ یہ قوانین صرف مذہبی حلقوں کا مطالبہ نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت کے دل کی آواز ہیں اس لیے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے‘ انہیں اسلام کا نام اور مسلمانوں کے شعائر وعلامات کے استعمال سے روکنے اور توہین رسالت پر موت کی سزا کے قوانین پاکستانی باشندوں کے عوامی فیصلے کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود امریکہ اور دیگر مغربی ممالک اور ادارے ان پر نظر ثانی کا مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عزیز احمد خان نے ایک بریفنگ میں واضح کر دیا ہے کہ یہ دونوں قوانین منتخب پارلیمنٹ کے طے کردہ ہیں اور حکومت پاکستان ان پر نظر ثانی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی لیکن ہمارے نزدیک صرف اتنی بات کافی نہیں ہے اور بین الاقوامی قوانین اور اسلامی احکام کے باہمی ٹکراؤ سے پیدا ہونے والے اس کنفیوژن کو دور کرنے کے لیے سنجیدہ محنت کی ضرورت ہے جس میں ملک کے دینی حلقوں اور حکومت دونوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہمارے خیال میں اس مرحلے پر مندرجہ ذیل نکات کو منطق‘ استدلال اور معقولیت کے ساتھ عالمی رائے عامہ کے سامنے واضح کرنا ضروری ہے:

مفتی اعظم سعودی عرب کا خطبہ حج

ادارہ

(اس سال   ۲۰ لاکھ کے لگ بھگ خوش نصیب مسلمانوں نے سعودی عرب کے مفتی اعظم سماحۃ الشیخ عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ تعالیٰ کی امامت میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور امیر حج موصوف نے اپنے خطبہ حج میں عالم اسلام کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے ملت اسلامیہ کی راہ نمائی کے لیے انتہائی درد دل کے ساتھ بہت سی مفید باتیں ارشاد فرمائیں۔ ہمارے نزدیک یہ خطبہ مسلم حکمرانوں کی تنظیم او آئی سی کے باقاعدہ ریکارڈ اور ایجنڈے میں شامل ہونا چاہیے اور عالم اسلام کے حکمرانوں اور دیگر تمام طبقات کو ان پر سنجیدہ توجہ دینی چاہیے۔ روزنامہ نوائے وقت کے شکریے کے ساتھ اس خطبے کا اردو خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)


سعودی عرب کے مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز آل شیخ نے امریکہ میں ۱۱ ستمبر کے حملوں کے بعد مغرب کی جانب سے اسلام کے خلاف دہشت گردی کے الزامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ منسلک کر دینا انتہائی بے انصافی ہے۔ یہاں مسجد نمرہ میں ۲۰ لاکھ سے زائد حجاج کرام کے سامنے خطبہ حج میں انہوں نے کہا کہ دہشت گردی‘ نا انصافی اور ظلم کے برابر ہے اور اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ دہشت گردی کو ایسے عظیم مذہب کے ساتھ کیسے منسلک کیا جا سکتا ہے جو انسانی زندگی کابہت زیادہ احترام کرتا ہے اور جنگ کے بجائے امن کو فروغ دیتا ہے۔ اسلام بچوں‘ عورتوں اور بے گناہ لوگوں کے قتل سے سختی سے روکتا ہے۔ یہ معاہدوں اور سمجھوتوں کا احترام کرتا ہے اور ہر وقت حقوق کی پاس داری کرتا ہے۔ انہوں نے دنیا کے 1.3ارب مسلمانوں سے کہا کہ وہ اپنے مذہب اسلام پر سختی سے کاربند رہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان دنوں اسلامی ممالک میں اہم واقعات رونما ہو رہے ہیں جو ہمیں غور وفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مذہب کے دفاع کے لیے متحد ہو جائیں۔ انہوں نے اسلام کے دشمنوں کی جانب سے پیدا کیے گئے حالات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تہذیب نے انسانوں میں تفریق پیدا کی ہے اور انسانوں کو تباہی والے ہتھیاروں کے سوا اور کچھ نہیں دیا۔ مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات نہ کریں جس سے ان پر کوئی الزام آئے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ ہمارے گناہوں کی شامت کے باعث ہے۔ کمزور عقائد‘ مسلمانوں کے درمیان اختلافات اور جھگڑے اس کا سبب ہیں۔ پھر ہم ہر چیز کا الزام اپنے دشمنوں پر کیوں عائد کریں؟ انہوں نے کہا کہ مسلمان غیروں پر بھروسہ نہ کریں۔ اللہ نے ہمیں مادی نعمتیں عطا کی ہیں جن سے ہم معاشی خود کفالت حاصل کر سکتے ہیں اس لیے مسلمان غیروں کے پنجے سے معاشی آزادی حاصل کریں۔

عبد العزیز آل شیخ نے کہا کہ اسلام ایک دوسرے کی خیر خواہی کا دین ہے۔ اسلام عفو ودرگزر کا دین ہے۔ اسلام وہ دین ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے۔ اسلام کا مقصد دنیا سے ظلم اور ناانصافی کا خاتمہ ہے۔ اسلام دین عدل ہے۔ دنیا کے اندر عدل کی حکمرانی‘ انصاف کی حکمرانی یہ اس دین کا مرکزی نکتہ ہے اور یہ دین اسی لیے بھیجا گیا ہے کہ دنیا کے اندر عدل وانصاف کوجاری کیا جائے۔ دین اسلام احترام آدمیت کا اور احترام انسانیت کا دین ہے۔ اسلام کے اندر ایک انسانی جان کی اتنی قیمت ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی شخص کو بلاجواز قتل کر دیا تو قرآن حکیم کی رو سے اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کر دیا۔ قران پاک میں آیا ہے کہ ’’جس نے بلا سبب معصوم انسان کو قتل کیا تو اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کیا۔‘‘ اسلام دنیا کے ہر خطے میں ہونے والے ظلم کی مذمت کرتا ہے۔ یہ ظلم چاہے بے قصور مسلمانوں کے ساتھ ہو یا ان مسلمانوں کے ساتھ جن کے پاس کوئی اسلحہ نہیں‘ چاہے یہ ظلم فلسطین کے ان مسلمانوں کے ساتھ ہو جو اس وقت زیادتی اور ظلم کا شکار ہیں۔ تو دین اسلام ظاہر ہے کہ ان سارے مظلوموں کی مدافعت کرتا ہے اور ظلم کرنے والوں کی ہر حال میں مذمت کرتا ہے چاہے کچھ لوگ ان کے مظالم سے کتنی ہی چشم پوشی کریں۔ دین اسلام کا مقصد یہ ہے کہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی اختیار کرنے کا سبق دیا جائے اور انسانوں کو انسانوں کے ظلم سے نکال کر اسلام کا سایہ انہیں فراہم کیا جائے۔ اسلام وہ دین ہے کہ جو ہر قسم کے علاقائی‘ نسلی تعصبات اور رنگ کے تعصبات کا قلع قمع کرتا ہے‘ انہیں ختم کرتا ہے اور پوری انسانیت کو مساوات کا درس دیتا ہے۔ اسلام نے جو کچھ انسانیت کو دیا ہے‘ انسانیت اس پر فخر کر سکتی ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ لوگ جنہوں نے انسانیت کو تباہ کرنے والا اسلحہ بنایا ہے اور جنہوں نے ایسے ایسے ہتھیار ایجاد کیے ہیں کہ جو آج انسان کے لیے بہت بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں اور مستقبل میں ان ہتھیاروں کی وجہ سے پوری انسانیت تباہی کی زد پر ہے۔ یہ اسلحہ انسانیت کو تباہ کرنے کے لیے اور ختم کر دینے کے لیے اور انسانیت کو‘ اس کی تکریم اور اس کی عزت کو پامال کرنے اور انسان کے حقوق کو ختم کرنے کے لیے یہ اسلحہ ایک بہت بڑی علامت ہے اور بہت بڑا خطرہ ہے۔

آج مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی نعمت سے نوازا ہے۔ دنیا کے اندر جغرافیائی لحاظ سے بہترین خطے میں ہر قسم کی نعمتیں اور طاقت کے ذرائع انہیں عطا کیے ہیں۔ یہ سب ان کے پاس ہے مگر بد قسمتی یہ ہے کہ مسلمان گروہ بندیوں کا شکار ہیں۔ مسلمان آپس میں ٹکڑے ٹکڑے ہیں۔ مسلمانوں کا ایک دوسر ے پر اعتماد نہیں ہے۔ مسلمانوں کے دلوں کے اندر بزدلی گھر کر چکی ہے اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی وجہ سے آج وہ طرح طرح کے مسائل کا شکار ہیں ۔ آج میری اپیل ہر مسلمان سے ہے اور میں ہر مسلمان کو بڑے خیرخواہانہ جذبے سے یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے فرض کو پہچانے ۔ اگر ہر مسلمان اپنے فرض کو پہچان لے اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہو جائے اور اس بات کا عہد کر لے کہ وہ خود اچھا مسلمان بنے گا اور جو لوگ اس کے تحت ہیں‘ ان کی وہ اچھی تربیت کرے گا‘ ان کا وہ خیال کرے گا‘ سرکار رسالت مآب ﷺ کی اس حدیث کے مطابق کہ ’’تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اپنی رعیت کے بارے میں‘‘ تو اگر مسلمان اپنی ان ذمہ داریوں کو محسوس کر لیں اور ہر مسلمان دوسروں کی فکر کرنے کے بجائے اپنی اپنی فکراور اپنے خاندان ‘ اپنی رعیت جو لوگ اس کے تحت ہیں‘ ان کی فکر کرے تو ا س سے ایک بہت بڑی اصلاح کی صورت اور بہت بڑی تبدیلی ہم اپنے معاشروں میں پیدا کر سکتے ہیں۔

اسی طرح مسلمانوں کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے دین کی دعوت کو عصری زبان میں‘ اس زبان میں جو آج انسان سمجھتے ہیں‘ نہایت آسان پیرایے میں اس دین کی دعوت کو پیش کرے ۔ وہ لوگ جو اس دین میں داخل نہیں ہیں یا مسلمان نہیں ہیں‘ ان تک ہمیں اس دین کی دعوت کو اپنے عمل کے ذریعے سے اور آسان زبان کے ساتھ حکمت کے ساتھ جیسا کہ حکم دیا گیا ہے کہ ’’اپنے رب کے راستے کی طرف اچھی نصیحت اور حکمت کے ساتھ دعوت دو‘‘ یہ فریضہ ہمیں ادا کرنا چاہیے۔ مسلمان حکمت کے ساتھ آسان دعوت پیش کریں اور اپنے عمل سے اس کا نمونہ انسانوں کے سامنے رکھیں۔ اس کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ لوگ اس دین کی طرف متوجہ نہ ہوں۔

آج اس دین کے دشمن یہ چاہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی نئی نسل کو گمراہی کے راستے پر ڈال دیں۔ آج غیر مسلم میڈیا اور مسلمانوں کے دشمن ہر طریقے سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کی نئی نسل طرح طرح کی برائیوں میں پڑ جائے‘ انہیں شراب کی لت لگ جائے اور وہ رقص وسرود میں مبتلا ہو جائیں اور اس طرح سے ان کی جو تخلیقی صلاحیتیں ہیں اور عملی صلاحیتیں ہیں یا وہ صلاحیتیں کہ جن کے ذریعے سے وہ اس امت کو عروج کی طرف اور ترقی کی طرف لے جا سکتے ہیں‘ ان صلاحیتوں پر وار کیاجائے‘ ان کی ان صلاحیتوں کو ختم کر دیا جائے۔ دشمن کی یہ چال ہے کہ وہ امت مسلمہ کی نئی نسل کو بے عمل بنا دے‘ امت مسلمہ کی نئی نسل کو غفلت کے اندر مبتلا کر دے۔ اس سلسلے میں تمام ذمہ داران کو آگاہ ہونا چاہیے اور اپنی نئی نسل کی تربیت اور ان کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔

مسلمان امت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے اقتصادی معاملات کے اندر‘ اپنی معیشت میں خود کفیل ہوں۔ اس طرح کے پروگرام اور اس طرح کی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان اپنے معاملات کے اندر خود کفیل ہوں‘ بالخصوص اپنی معیشت کے معاملے میں وہ دوسروں پر بھروسہ نہ کریں بلکہ اس طرح کے اقدامات کیے جائیں کہ مسلمان استعمار اور غیروں سے نجات حاصل کریں‘ خاص طور پر اپنی معیشت کے معاملات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اتنی نعمتیں عطا کی ہیں اور اتنے معیاری مادی وسائل عطا کیے ہیں کہ اس حکمت عملی کو آسانی سے اختیار کیا جا سکتا ہے کہ وہ معاشی خود کفالت حاصل کریں اور غیروں کے پنجے سے اور ان کے قبضہ سے آزادی حاصل کریں۔ اسی طرح سے مسلمانوں پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ عناصر جو کہ اس امت کے درمیان فرقہ بندی اور اسے گروہوں میں تقسیم کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں‘ ان کے سلسلے میں بھی انہیں چاہیے کہ وہ چوکنا رہیں۔

علماء دیوبند اور سرسید احمد خان ۔ چند تاریخی غلط فہمیوں کا جائزہ

مولانا محمد عیسی منصوری

روزنامہ جنگ لندن میں مانچسٹر کے جناب غلام ربانی صاحب اپنے ایک مضمون بعنوان ’’ہم نے فرقہ پرستی کا سانڈ پال لیا‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمانوں میں سے اس قوم کے بہی خواہ سرسید احمد خان اٹھے اور انہوں نے اس قوم کو پستی سے نکالنے کی خاطر علی گڑھ یونیورسٹی قائم کی تاکہ مسلمان اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں۔ یہ دل خراش حقیقت ہے کہ دیوبند فرقہ والوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کے عین مقابل ایک مدرسہ کھول کر سرسید احمد خان کی مخالفت کرنا شروع کر دی اور اس کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کر کے اس کو نیچری کہنا شروع کر دیا اور مسلمانوں کے لیے انگریزی تعلیم حاصل کرنا ناجائز قرار دے دیا۔‘‘

اس پیراگراف میں جناب غلام ربانی صاحب نے چند بے بنیاد باتیں علماء دیوبند کی طرف منسوب کر کے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے:

ایک یہ کہ دیوبند والوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کے عین مقابل اپنا مدرسہ کھول کر سرسید کی مخالفت کی۔

دوسری یہ کہ انہوں نے سرسید کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کیا۔

تیسری یہ کہ انہوں نے انگریزی تعلیم حاصل کرنے کو ناجائز قرار دیا۔

غلام ربانی صاحب کے یہ تینوں دعوے بالکل بے بنیاد‘ گمراہ کن اور سراسر غلط ہیں۔ یہ غلط فہمیاں عوام تو عوام‘ خواص تک کے ذہنوں میں موجود ہیں۔ آئیے تاریخی حقائق کی روشنی میں ان تینوں دعووں کا جائزہ لیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ مدرسہ دیوبند علی گڑھ یونیورسٹی کے عین مقابل نہیں بلکہ تین سو میل دور ایک چھوٹے سے قصبے میں قائم کیا گیا اور اس کا قیام مسلمانوں کی دینی تعلیم کے پیش نظر عمل میں لایا گیا تھا۔ علی گڑھ یونیورسٹی اور دار العلوم دیوبند کے قیام کا پس منظر یہ ہے کہ ۱۸۵۷ء کے غدر یا جنگ آزادی کے ناکام ہونے کے بعد ‘ جو اصلاً مسلمانوں کی طرف سے آخری مغل تاج دار بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں مسلمانوں کا اقتدار بحال کرنے کی کوشش کی تھی‘ پورے ہندوستان پر انگریز کا اقتدار مستحکم ہو گیا۔ چونکہ انگریز نے برصغیر کی حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اور مسلمان ہی انگریز کے خلاف برسرپیکار تھے‘ اس لیے اس نے مسلمانوں خصوصاً علما کو مظالم کا نشانہ بنایا۔ غدر میں بے شمار علما قتل کیے گئے یا ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ انگریز نے اپنی پالیسی کی بنیاد ہندوؤں کو نوازنے اور مسلمانوں کو کمزور اور تباہ کرنے پر رکھی۔ تمام اسلامی اوقاف کو ضبط اور دینی تعلیم کے مدارس کو بند کر کے علما کو نان شبینہ کا محتاج بنا دیا۔ دوسری طرف سرکاری ملازمتوں کے دروازے مسلمانوں پر بند کر کے ان کی معاشی حالت بالکل تباہ کر دی۔ فارسی کی جگہ انگریزی کو سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ عیسائی مشنریاں برصغیر کو ایک عیسائی ملک بنانے کے لیے کوشاں ہو گئیں۔ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ ہندوستان دوسرا اسپین نہ بن جائے جہاں کوئی نماز پڑھانے والا نہ ملے اور مادی ومعاشی امتیاز سے مسلمان بالکل ختم ہو کر رہ جائیں۔ غرض ۱۸۵۷ء کے غدر کے بعد برصغیر میں مسلمانوں اور اسلام کے وجود کو حقیقی خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔ 

ان حالات میں ملت کے درد مندوں نے مسلمانوں کے دین ودنیا کے تحفظ وبقا کے لیے مختلف طریقہ ہائے کار اختیار کیے تاکہ مسلمان مادی ترقی‘ سرکاری ملازمتوں‘ جدید علوم اور قومی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ اس کے لیے سرسید احمد خان نے علی گڑھ کالج کی بنیاد رکھی۔ جبکہ دینی علوم اور اسلامی تمدن وکلچر کے تحفظ اور مسلمانوں کا رشتہ اسلام سے باقی رکھنے کے لیے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی زیر سرپرستی دیوبند کا مدرسہ قائم کیا گیا۔ یہ دونوں بزرگ ایک ہی استاد حضرت مولانا مملوک علی صاحب (جو حضرت شاہ ولی اللہؒ کے خاندان کے آخری علمی وارث تھے) کے شاگرد تھے۔ یہ دونوں ادارے ۱۸۵۷ء کے غدر یا جنگ آزادی کے چند سال بعد قائم ہوئے البتہ دونوں کی پالیسی اور طریقہ کار مختلف تھا۔ ایک کا مقصد مسلمانوں کے دنیوی تنزل کو روکنا تھا تو دوسرے کا ان کے دینی علوم وکلچر کا تحفظ کرنا۔ الحمد للہ اب برصغیر میں بہت سے دینی ادارے قائم ہو گئے ہیں مگر شروع میں تقریباً نصف صدی تک مدرسہ دیوبند ہی صحیح معنوں میں ایک اسلامی جامعہ کہلانے کا مستحق تھا۔ 

ان دونوں اداروں کے بانی بزرگوں میں باہم کوئی دشمنی یا عناد نہ تھااور دونوں کو مسلمانوں ہی کا مفاد عزیز تھا اور اپنے اپنے کام میں دونوں مخلص تھے۔ چنانچہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال پر سرسید احمد خان نے اپنے رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں نہایت غم کے ساتھ طویل مضمون لکھا جو کہ انتہائی درمندانہ تھا۔ اس کی آخری چند سطور ملاحظہ ہوں:

’’اس زمانہ میں سب لوگ تسلیم کرتے ہوں گے کہ مولوی محمد قاسم اس دنیا میں بے مثل تھے۔ ان کا پایہ اس زمانہ میں شاید معلوماتی علم میں شاہ عبد العزیز سے کچھ کم ہو‘ الا اور تمام باتوں میں ان سے بڑھ کر تھا۔ مسکینی‘ نیکی اور سادہ مزاجی میں ان کا پایہ مولوی محمد اسحاق (شاہ عبد العزیز کے نواسے) سے بڑھ کر نہ تھا تو کم بھی نہ تھا۔ وہ درحقیقت فرشتہ سیرت اور ملکوتی خصلت کے شخص تھے اور ایسے آدمی کے وجود سے زمانہ کا خالی ہو جانا ان بزرگوں کے لیے جو ان کے بعد زندہ ہیں‘ نہایت رنج اور افسوس کا باعث ہے۔ دیوبند کا مدرسہ ان کی ایک عمدہ یادگار ہے اور سب لوگوں کا فرض ہے کہ ایسی کوشش کریں کہ وہ مدرسہ ہمیشہ قائم اور مستقل رہے اور اس کے ذریعے سے تمام قوم کے دل پر ان کی یادگاری کا نقش جما رہے۔‘‘ (رود کوثر‘ صفحہ ۳۶۸)

بانی دار العلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے انتقال پر سرسید کی یہ تحریر اس غلط فہمی کی تردید کے لیے کافی ہے کہ دیوبند کا مدرسہ سرسید کی مخالفت کے لیے قائم ہوا تھا۔ یہی نہیں بلکہ سرسید نے علی گڑھ یونیورسٹی کا شعبہ دینیات حضرت مولانا محمد قاسمؒ کے داماد مولانا عبد اللہ صاحب کے سپرد کیا اور اب تک ہر دور میں علی گڑھ یونیورسٹی کا شعبہ دینیات علماء دیوبند ہی کے سپرد رہا ہے۔ دار العلوم دیوبند کے پہلے صدر مدرس مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ جو سرسید کے محبوب استاد مولانا مملوک علیؒ کے صاحب زادے تھے‘ سرسید کو حقیقی بھائی سے زیادہ عزیز تھے۔ ان تاریخی حقائق سے دیوبند اور علی گڑھ کے درمیان مخاصمت یا دشمنی کی داستان سراسر من گھڑت ثابت ہوتی ہے۔

اب آئیے غلام نبی صاحب کے دوسرے دعوے کی طرف کہ سرسید کے خلاف علماء دیوبند نے کفر کا فتویٰ دیاتھا۔ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے جو علماء کے خلاف پھیلائی گئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ علماء دیوبند نے کبھی سرسید پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا۔ معروف اسکالر ومحقق شیخ محمد اکرام جو مولانا حالی کے بعد سرسید کے سب سے بڑے طرفدار اور مداح حامی اور وکیل سمجھے جاتے ہیں‘ لکھتے ہیں:

’’اس مخالفت کے متعلق عوام بلکہ خواص میں بھی کئی غلط فہمیاں رائج ہیں۔ اس بارے میں سب سے بڑی غلط فہمی بہت عام ہے کہ علما نے سرسید کی مخالفت اس وجہ سے کی کہ وہ انگریزی تعلیم رائج کرنا چاہتے تھے۔ یہ خیال انتہائی غلط اور علماء اسلام کے ساتھ صریح بے انصافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سرسید کے سب سے بڑے مخالف وہ حضرات تھے جنہوں نے نہ صرف برصغیر میں سرسید کی شدید مخالفت کا ہنگامہ کھڑا کیا بلکہ حرمین شریفین تک سے ان کے خلاف کفر کے فتوے حاصل کیے۔ ان میں ایک کانپور کے ڈپٹی کلکٹر امداد علی صاحب‘ دوسرے گورکھ پور عدالت کے سب جج مولوی علی بخش صاحب تھے۔ یہ دونوں بزرگ انگریز کے نہایت مقرب اور اس قدر وفادار تھے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ہندوستانیوں کے خلاف برملا انگریز کی وفاداری میں سینہ پر گولی تک کھائی۔ چنانچہ خواجہ الطاف حسین حالی نے سرسید کی سوانح حیات ’’حیات جاوید‘‘ میں تفصیل سے اس مسئلے پر بحث کی ہے۔ حالی ان دونوں حضرات کے متعلق لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں سرسید کی جس قدر مخالفتیں اطراف وجوانب سے ہوئیں‘ان کا منبع ان ہی دو صاحبان کی تحریریں ہیں۔ ‘‘

جہاں تک علما کی طرف سے انگریزی زبان سیکھنے کی مخالفت کا تعلق ہے تو یہ بھی ایک بالکل بے بنیاددعویٰ ہے۔ ابتدا میں حضرت شاہ ولی اللہؒ کے جانشین شاہ عبد العزیزؒ سے کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے کے متعلق فتویٰ پوچھا گیا تو فرمایا: ’’انگریزی کالجوں میں پڑھو اور سیکھو۔ شرعاً ہر طرح سے جائز ہے۔‘‘ (اسباب بغاوت ہند‘ مصنفہ سرسید احمد خان) یا درہے کہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کو برصغیر کے تمام علماء (دیوبندی‘ بریلوی‘ اہل حدیث) اپنا مقتدا وامام مانتے ہیں۔

دیوبندی جماعت کے سب سے بڑے مفتی اور عالم مولانا رشید احمد گنگوہی ہیں جو سرسید احمد خان کے معاصرین میں سے ہیں۔ ان کا فتویٰ فتاویٰ رشیدیہ میں آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ لکھتے ہیں: 

’’انگریزی زبان سیکھنا درست ہے بشرطیکہ کوئی معصیت کا مرتکب نہ ہو اور نقصان دین میں اس سے نہ آئے۔‘‘

اور مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے شاگرد وجانشین اور دار العلوم دیوبند کے پہلے طالب علم شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ نے ۱۹۲۰ء میں خود علی گڑھ میں جامعہ ملیہ کے تاسیسی خطبہ استقبالیہ میں فرمایا تھا:

’’آپ میں جو لوگ محقق اور باخبر ہیں‘ وہ جانتے ہوں گے کہ میرے بزرگوں نے کسی وقت بھی کسی اجنبی زبان سیکھنے یا دوسری قوموں کے علوم وفنون حاصل کر نے پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا۔‘‘

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بھارت کی دوسری مسلم یونیورسٹی جامعہ ملیہ کی تاسیس وبنیاد اسی دیوبند کے فرزند شیخ الہند کے ہاتھوں پڑی۔ الغرض علماء دیوبند نے کبھی انگریزی زبان سیکھنے یا مغربی علوم وفنون حاصل کرنے کی مخالفت نہیں کی البتہ انگریز پرستی‘ انگریز کی وفاداری‘ اسلامی احکام وتمدن کی جگہ مغربی افکار ومعاشرت اختیار کرنے کے خلاف ضرور نفرت کا اظہار کیا جس سے آج تک ہمیں مغرب کی ذہنی غلامی نے جکڑ رکھا ہے۔ اگر محترم غلام ربانی صاحب دیوبند کے کسی بزرگ کی طرف سے انگریزی زبان اور جدید سائنسی علوم سیکھنے کی مخالفت کی نشان دہی کر دیں تو ان کی ازحد نوازش ہوگی اور ہماری معلومات میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جن حضرات نے سرسید اور علی گڑھ کالج کی سخت مخالفت کی تھی‘ انہوں نے اپنے سخت سے سخت مضامین اور درشت سے درشت فتاویٰ میں کبھی یہ نہیں لکھا کہ انگریزی پڑھنا ناجائز یا کفر ہے بلکہ یہی لکھا کہ جس کے عقائد سرسید جیسے ہوں‘ وہ مسلمان نہیں اور جو مدرسہ ایسے عقائد والا قائم کرے‘ ا س کی اعانت جائز نہیں۔ شروع میں سب حضرات کو خطرہ تھا کہ سرسید اپنے کالج میں اپنے ان مخصوص مذہبی خیالات کی تبلیغ کریں گے جن کا اظہار وہ اپنی تفسیر‘ کتابوں‘ رسائل اور مضامین میں کر رہے ہیں مگر بعد میں جب دیکھا کہ سرسید نے ایسا نہیں کیا تو انہوں نے بھی مخالفت ختم کر دی۔

آئیے اس امر پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ ایک طبقہ نے سرسید احمد خان کی مخالفت کیوں کی تھی؟ ہندوستان پر انگریزکا اقتدار قائم ہو جانے کے بعد سرسید نے جو حکمت عملی پیش کی‘ وہ دو امور پر مشتمل تھی: ایک سیاسی اور دوسرے مذہبی۔ سیاسی یہ کہ ۱۸۵۷ء کے غدر یا جنگ آزادی میں سرسید اور علما دونوں نے حصہ لیا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سرسید ایک فریق یعنی انگریز کے ساتھ تھے اور علما دوسرے فریق یعنی مجاہدین کے ساتھ۔ اس کے بعد سرسید نے اپنی کتاب ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ اور دوسری تصانیف میں انگریز کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کو غدار‘ خساری اور غنڈہ وغیرہ کے القاب سے نوازا اور مسلمانوں کو ہمیشہ انگریز کے وفادار رہنے اور انگریزی تمدن ومعاشرت اختیار کرنے کی تلقین کی۔ سرسید کے سیاسی فلسفہ کی بنیاد انگریز کے ساتھ کامل وفاداری پر تھی۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو نہ صرف انگریزی تمدن ومعاشرت اختیار کر لینی چاہیے بلکہ اس پر فخر بھی کرنا چاہیے۔

سرسید کا مذہبی فلسفہ یہ تھا کہ قرآن وسنت کے احکام اور تعلیمات پر مغربی دانش وروں کے اعتراضات کو قبول کرتے ہوئے اسلام کی ایسی تشریح کی جائے جو مغرب کے لیے قابل قبول قرار پائے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے قرآن کی جو تفسیر لکھی‘ اس میں حضرات انبیاء کے معجزات ‘ جنت اور جہنم اور جنات کا انکار کرتے ہوئے اسلامی احکام وقوانین کی عجیب وغریب تاویلیں کیں اور اس میں اس حد تک آگے نکل گئے کہ کوئی مسلمان اس کا تصور نہیں کر سکتا۔ مثال کے طور پر سرسید احمد خان کے نزدیک وحی کے معنیٰ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبریل پیغام لے کر پیغمبر کے پاس آتے تھے بلکہ یہ اس طرح ہے کہ جیسے کسی پر جنون یا مرگی کے دورے کی کیفیت ہو اور اس میں وہ نارمل کیفیت سے ہٹ کر خاص قسم کی گفتگو کرے۔ وحی کے اس معنی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن کلام الٰہی ہونے کے بجائے نبی اکرم ﷺ کا کلام قرار پاتا ہے اور اس سے اسلام کے بنیادی عقائد نبوت اور قرآن کی پوری عمارت دھڑام سے زمین پر آجاتی ہے۔ مغربی دانش وروں اور مستشرقین کے نزدیک قرآن محمد ﷺ کا کلام ہے اور وحی کے معنی اور کیفیت اسی طرح بیان کرتے ہیں۔ 

سرسید نے اپنی تفسیر قرآن‘ دیگر کتب‘ رسالہ اور مضامین میں جن مذہبی خیالات کا اظہار کیا ہے‘ اس سے علی گڑھ تحریک کے تمام قائدین کو سخت اختلاف تھا اور مذہبی خیالات میں کوئی بھی ان کے ساتھ نہیں تھا۔ سرسید کے جانشین محسن الملک نواب مہدی علی خان نے جب سرسید کی تفسیر دیکھی تو انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ سرسید قبلہ رو ہو کر نماز پڑھتے ہوں گے۔ انہوں نے ایک طویل اور سخت خط لکھا۔ اسی طرح ایک اور نہایت قریبی ساتھی اور معاون نے سرسید کو یہاں تک لکھا کہ قرآن کو منزل من اللہ ماننے سے انکار کر دینا آسان ہے بہ نسبت اس معنی وتفسیر کے جو آپ بیان فرما رہے ہیں۔ غرض سرسید کے مذہبی خیالات وتعبیرات سے مولانا حالی‘ شبلی نعمانی اور نواب محسن الملک جیسے ان کے تمام قریبی رفقا نے سخت اختلاف کرتے ہوئے ان سے اپنی براء ت کا اظہار کیا۔ مذہبی معاملات میں ان کی جو تحریریں تھیں‘ ان سے سرسید کے تعلیمی مشن کو سخت نقصان پہنچا اور غیر ضروری مخالفت کا سامنا ہوا۔چنانچہ حالی کے بعد سرسید کے زبردست مداح وحامی شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں کہ تفسیر کی اشاعت نے سرسید کے دوسرے کاموں کو بہت نقصان پہنچایا اور ا س سے فائدہ بہت کم ہوا۔ ان کا اصل مقصد مسلمانوں میں تعلیم عام کرنا اور ان کی دنیوی ترقی کا انتظام کرنا تھا۔ سرسید نے اپنی مخالفت کا سامان آپ پیدا کر لیا اور بعض لوگوں کو انگریزی تعلیم سے عقائد متزلزل ہو جانے کا جو ڈر تھا‘ اس کا بدیہی ثبوت خود بہم پہنچایا۔

الغرض سرسید کے ان دونوں مذہبی وسیاسی فلسفوں کو خود علی گڑھ کی دوسری نسل نے مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان کی قیادت میں علی گڑھ میں تعلیم پانے والوں نے نہ صرف ان کی اسلامی عقائد واحکام کی تعبیر وتشریح کو مسترد کیا بلکہ انگریزکی کامل وفاداری کے فلسفہ کو رد کرتے ہوئے تحریک آزادی میں شیخ الہند کی قیادت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ لوگ علی گڑھ کے تعلیم یافتہ تھے مگر آزادی کی جدوجہد میں بیشتر مولانا محمد قاسم نانوتوی کے جانشین اور دیوبند کے صدر شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی قیادت میں برطانوی استعمار کے خلاف صف آرا ہو گئے تھے۔

دینی تعلیم کی ترویج کے ساتھ ساتھ استعمار کے خلاف جہاد علماء دیوبند کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ استعمار کے خلاف جہاد دیوبند مدرسہ کے قائم ہونے سے بہت پہلے ۱۸۵۷ء میں شروع ہو چکا تھا جب شاملی کے میدان میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی‘ مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا محمد قاسم نانوتوی نے انگریز کے خلاف جنگ لڑی۔ اس میں پیر ضامنؒ کے ساتھ بہت سے علما ومحدثین شہید ہوئے۔ اس کے بعد تحریک آزادی کے تمام ممتاز راہنما ڈاکٹر انصاری‘ حکیم اجمل خان‘ مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا ابو الکلام آزاد‘ مولانا عبید اللہ سندھی برطانوی استعمار کے خلاف جنگ میں مولانا محمد قاسم نانوتوی کے جانشین شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے ساتھ تھے۔ آج بھی دیوبند کے معنوی فرزند مختلف ممالک میں جہاد کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں۔ طالبان علماء دیوبند ہی کے خوشہ چین ہیں۔ امریکہ اور مغرب نے اب تک پاکستان کی جن تحریکوں اور افراد پر پابندی عائد کی ہے‘ ان میں سے بیشتر کا تعلق علماء دیوبند ہی سے ہے۔

البتہ سرسید کے پروگرام کے دو حصوں کو مسلمانوں میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ ایک یہ کہ مسلمان اپنے حقوق کا تحفظ جداگانہ تشخص کی بنیاد پر کریں۔ دوسرے یہ کہ انگریزی تعلیم حاصل کر کے نئے نظام میں عملاًشریک ہوں۔ ان دونوں کی بنیاد متعصب ہندو اکثریت کے غلبہ کے خوف سے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے جذبہ پر تھی جس میں سرسید احمد خان بلاشبہ مخلص نظر آتے ہیں اسی لیے اسے مسلمانوں میں قبولیت عامہ حاصل ہوئی۔ اس حوالے سے علماء دیوبند سرسید احمد خان کی خدمات‘ جدوجہد‘ قربانیوں اور ایثار کے پوری طرح معترف وقدر دان ہیں اور کبھی ان کے تذکرہ واعتراف میں حجاب محسوس نہیں کرتے۔ وہ اس حوالے سے سرسید کے دل میں مسلمانوں کے لیے درد اور فکر کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں مسلمانوں کا محسن مانتے ہیں۔

آخر میں ہم جناب غلام ربانی صاحب سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اس وقت جب کہ تمام دنیا کی باطل طاقتیں اسلام اورمسلمانوں کی مخالفت میں متحد ہوئی ہیں‘ جس کا مظاہرہ آئے دن فلسطین‘ بوسنیا‘ مقدونیا‘ چیچنیا اور کشمیر میں ہوتا رہتا ہے‘ ایسے نازک وقت میں ماضی کے اختلافات کو ہوا دینے اور قدیم وجدید طبقات میں نفرت بڑھانے کے بجائے ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ دنیا بھر کے فقہی مذاہب حنفی‘ شافعی‘ مالکی‘ حنبلی اور برصغیر کے تمام مکاتب فکر دیوبندی‘ بریلوی‘ اہل حدیث اور قدیم وجدید دونوں طبقوں (علما اور جدید تعلیم یافتہ) کے مابین خلیج کو کم کیا جائے۔ اسلام کی اعلیٰ تعلیمات کی روشنی میں ہمارا اصول الحکمۃ ضالۃ المومن ہونا چاہیے یعنی ہر طبقہ اور جگہ سے اچھی باتوں کو اختیار کرنا چاہیے۔ ہمیں قدیم صالح اور جدید نافع کے درمیان ایک حسین امتزاج پیدا کر کے ملت کے تمام طبقات کو اسلام کی دعوت ودفاع کے لیے بھائی بھائی بنا کر باطل قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنا دینا چاہیے۔ اس میں ہم سب کی اور پوری ملت اسلامیہ کی بھلائی اور سرخ روئی ہے۔

امریکی اور برطانوی جارحیت۔ ایک تجزیاتی مطالعہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

پہلی جنگ عظیم میں امریکی شمولیت کے حوالے سے جواز پیدا کرتے ہوئے وڈرو ولسن نے کہا تھا کہ اس طرح دنیا جمہوریت کے لیے محفوظ (Safe for democracy) ہو جائے گی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر شمالی امریکہ اور برطانیہ کے سامنے ایک موثر اور طاقت ور کمیونسٹ گروہ آنے سے یہ ’’تحفظ‘‘ قائم نہ رہا۔ اسی لیے سرد جنگ کے دوران میں امریکہ اور برطانیہ کی خارجی پالیسی کا محور کمیونسٹ گروہ کو فوجی طاقت کے اعتبار سے بہت پیچھے رکھنا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس مقصد کا حصول اپنی فوجی طاقت میں بے پناہ اضافے سے ہی ہو سکتا تھا۔ سرد جنگ کے دوران میں امریکی وبرطانوی سرگرمیاں جمہوریت کے حوالے سے توسیعی نہیں تھیں بلکہ ان کا مرکزی نکتہ کمیونسٹ پھیلاؤ کو روکنا تھا اسی لیے رونالڈ ریگن نے سوویت یونین کو Evil empire(شر کی سلطنت) سے موسوم کیا۔

موجودہ دور میں امریکی وبرطانوی سرگرمیاں توسیعی اور جارحیت پر مبنی ہیں۔ کمیونسٹ گروہ کے مقابل ہونے کے سبب سے دونوں ممالک نے اسلحے کے ڈھیر جمع کر رکھے تھے۔ طاقت کے اس ڈھیر کا outlet (اظہار)جارحیت میں ڈھونڈا جا رہا ہے۔ اس جارحیت کے ذریعے سے دنیا کو ’’جمہوریت کے لیے محفوظ‘‘ بنایا جا رہا ہے۔ اس گفتگو کے تناظر میں ممتاز برطانوی مفکر برٹرینڈ رسل کی فکر سے استشہاد ضروری ہو جاتا ہے۔ موصوف لکھتے ہیں:

’’اگرچہ طاقت کی حکمرانی کوئی ایسی چیز نہیں جس کی تعریف وتوصیف کی جائے اور اگر اس کی جگہ کوئی نرم ولطیف اور کم ظالمانہ چیز لے لے تو آدمی کو لازماً خوش ہوناچاہیے ‘ تاہم سماجی اداروں کی ترقی میں اس کا ایک مفید کردار ہے۔ حکومت ایک مشکل فن ہے اور (اسی طرح) حکومت کی اطاعت بھی مشکل ہے ماسوائے اس کے کہ (حکومت کی طاقت) کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے۔ طاقت سے مسلط کی گئی حکومتوں نے گروہوں کی تشکیل میں ایسا کردار ادا کیا ہے جو بہت ضروری معلوم ہوتا ہے۔ انگریزوں کی اکثریت آج اپنی حکومت کی اس لیے اطاعت کرتی ہے کہ اسے معلوم ہے کہ اس کا بدل خوف ناک نراجیت اور انتشار ہے۔ لیکن ایسے طویل ادوار بھی گزرے ہیں جن کے دوران میں لوگوں نے نراجیت اور انتشار کو‘اگر ان کا حصول ان کے بس میں تھا‘ ترجیح دی۔ بادشاہوں اور جاگیرداروں کے درمیان طویل لڑائیاں رہیں جن میں‘ خوش قسمتی سے جاگیرداروں نے ایک دوسرے کو جڑسے اکھاڑ دیا۔ نتیجتاً بادشاہ فاتح کی حیثیت سے نمودار ہوا۔ لوگوں نے اس کی اطاعت کی کیونکہ وہ اطاعت کے لیے مجبور کر سکتا تھا اور ا س طرح سے رعایا نے اتحاد اور قانون کی اطاعت کی عادت حاصل کر لی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب بادشاہی طاقت میں کمی آ گئی تو ایسا نراجیت کے احیا کی صورت میں نہیں ہوا بلکہ حکومتوں کی نئی اقسام کے ذریعے سے۔ تاہم اس امر میں شک کا اظہار کیا جا سکتا ہے کہ بادشاہی طاقت کے مرحلے سے گزرے بغیر شاید ہی کوئی ایک واحد مستحکم حکومت سارے ملک پر کبھی قائم ہوئی ہو ۔

بادشاہی طاقت سے جمہوریت کی طرف تبدیلی جو کہ انگلینڈ میں چارلس اول کے عہد سے لے کر ملکہ وکٹوریہ کے عہد تک ہوئی‘ ایک ایسی تبدیلی ہے جس کی دوسری بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ جہاں کہیں سماجی اکائی ہے‘ وہاں حکومت ناگزیر ہے اور یہ حکومت کی طاقت وجبر ہے جو متعلقہ گروہ کو ربط واتحاد عطا کرتی ہے۔ لیکن جب ایک دفعہ گروہ تشکیل پا جائے ‘ایسا کسی بھی طریقے سے ہوا ہو‘ تو گروہ کی ساخت میں کسی تبدیلی کے بغیر حکومت کی ہیئت وصورت بدلی جا سکتی ہے۔ اکثر وبیشتر سب سے مشکل مرحلہ ایک واحد حکومتی گروہ کی تشکیل ہے اور مآل کار‘ حکومت کی ہیئت وصورت میں تبدیلیاں بہت آسان ہوتی ہیں۔ نراجیت پسندانہ جذبات کو دبائے بغیر کسی بھی حکومتی گروہ کی تشکیل نہیں ہو سکتی اور جذبات کی تحدید بہت آسانی سے ہو جاتی ہے اگر گروہ کے صرف کمزور ارکان کو دبانا مقصود ہو جبکہ مضبوط ارکان اپنے نراجیت پسندانہ جذبات کا بدل حکومتی طاقت کے استعمال کی صورت میں پا لیتے ہیں ۔ جب پاپا اونگھ رہے ہوں‘ تو وکٹوریہ عہد کے بچے شور نہیں مچاتے تھے لیکن پاپا جب چاہتا‘ شور کر سکتا تھا۔ پاپا کا ان بچوں کو سرزنش کرنے کا جذبہ‘ جو اس کے آرام میں خلل ڈالتے تھے‘ نراجی حملہ ہوتا اگر خاندانی گروہ قائم نہ ہو چکاہوتا لیکن چونکہ یہ قائم ہو چکا تھا ‘ اس لیے اسے نظم وضبط قائم رکھنے کے لیے پدری اختیار کا ایک مناسب استعمال سمجھا جاتا تھا۔ اس طرح سے سماجی گروہوں کی تشکیل اس کے بغیر ممکن ہو سکی کہ تشکیل پانے سے قبل گروہوں کے جو طریقہ ہائے عمل تھے‘ ان میں بہت زیادہ مداخلت کی جائے۔ البتہ کمزور افراد اس سے مستثنیٰ ہیں۔ مثال کے طور پر قتل کو لیجیے۔ جہاں کہیں کسی خطے میں فاتح اشرافیہ حکومت کرتی ہے تو یہ بات ایک عمومی قاعدے کے طور پر مان لی جاتی ہے کہ سماجی اعتبار سے کمتر لوگوں کو سماجی لحاظ سے اپنے سے برتر لوگوں کو قتل نہیں کرنا چاہیے یا حتیٰ کہ ایک دوسرے کو بھی لیکن جب سماجی اعتبار سے کوئی برتر آدمی کسی کمتر وادنیٰ کو قتل کرے تو یہ ایک ٹھیک اور صحیح عمل ہوگا۔ حقیقت میں اگر برتر لوگ بہت زیادہ بے صبرے نہ ہوں تو وہ ایسا قانونی ذرائع سے کر سکتے ہیں۔ خالصتاً رضاکارانہ تعاون پر مبنی نئے گروہوں کی تشکیل کی کوششیں عام طور پر ناکام ہو جاتی ہیں کیونکہ ایسے گروہوں کے لیے کوئی بھی حکومت تشکیل دی جائے‘ وہ روایتی احترام کی حامل نہیں ہوتی اور اسے اتنی طاقت نہیں دی جاتی کہ وہ جبری احترام حاصل کر سکے۔

موجودہ عہد میں اس اصول کا سب سے اہم اطلاق عالمی حکومت پر ہوتا ہے۔ جنگ کی روک تھام کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ کرہ ارض پر محیط ایک واحد حکومت قائم ہو لیکن ایک وفاقی حکومت جو باہمی رضامندی سے بنائی گئی ہو جیسا کہ انجمن اقوام اور اقوام متحدہ کی تشکیل کی گئی‘ یقیناً کمزور ہی ہوگی کیونکہ اسے تشکیل دینے والی قومیں محسوس کریں گی‘ جیسا کہ نوابوں نے قرون وسطیٰ میں محسوس کیا تھا کہ نراجیت خود مختاری کے کھونے سے بہتر ہے۔اور جیسا کہ قرون وسطیٰ میں نراجیت کی جگہ منظم حکومت کے آنے کا انحصار شاہی طاقت کی فتح پر تھا‘ اسی طرح سے بین الاقوامی تعلقات میں نراجیت کے بجائے نظم وضبط کا آنا‘ اگر یہ آجاتا ہے‘ ایک قوم یا قوموں کے اتحاد کی برتر قوت کے ذریعے سے ہوگا اور جب ایسی حکومت واحدہ تشکیل پا جائے گی تبھی یہ ممکن ہوگا کہ بین الاقوامی جمہوری حکومت کا ارتقا شروع ہو۔ یہ نظریہ جس پر میں پچھلے تیس برس سے قائم ہوں‘ اس کی تمام آزاد خیال لوگوں اور ہر قوم کے تمام قوم پرستوں نے شدید مخالفت کی ہے۔ بلاشبہ میں اس بات سے متفق ہوں کہ یہ بہت بہتر ہوگا کہ رضامندی پر مبنی ایک بین الاقوامی حکومت کی تشکیل ہو لیکن مجھے اس بات پر بھی پورا اطمینان ہے کہ قومی خود مختاری کی محبت اتنی مضبوط ہے کہ ایسی کوئی بین الاقوامی حکومت موثر اختیار نہیں رکھ سکے گی۔ جب ایک قوم یا قوموں کے گروہ کی عسکری برتری پر مبنی تمام دنیا کے لیے حکومت واحد ایک صدی یا اس کے لگ بھگ عرصہ تک اقتدار میں رہے گی تو یہ اس درجے کااحترام حاصل کرنا شروع کر دے گی جس سے ممکن ہو جائے گا کہ وہ طاقت کے بجائے قانون اور جذبات پر اپنے اختیار کی بنیاد رکھے اور جب ایسا ہو جائے گا تو بین الاقوامی حکومت جمہوری ہو سکتی ہے۔ میں نہیں کہتا کہ یہ ایک خوش گوار امکان ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ انسان کی نراجی تحاریک (جذبات) اتنی مضبوط ہیں کہ وہ پہلے مرحلے پر سوائے برتر طاقت کے کسی اور چیز کے تابع ہونا کے قابل نہیں ہو سکتیں۔‘‘

معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ رسل کی فکر سے ملتی جلتی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں:

۱۔ کیا امریکہ اور برطانیہ کے مخصوص حالات کی پیدا کردہ فکر کا پھیلاؤ‘ بغیر ترامیم کے‘ ممکن اور سودمند ثابت ہوگا؟

۲۔ کیا امریکہ اور برطانیہ اپنی اپنی جغرافیائی حدود کے اندر عملی اعتبار سے اور عوامی سطح پر وہ ثمرات حاصل کر چکے ہیں جس کا وعدہ ان کی فکر کرتی ہے؟

۳۔ کیا ان کی فکر کے نظری وعملی پہلو یکساں ہیں؟

۴۔ کیا قرون وسطیٰ کے عہد اور اکیسویں صدی میں معاشرت اور مقامیت کے حوالے سے کوئی فرق نہیں ہے؟

۵۔ کیا جمہوریت کی نوعیت اور جمہوریت کا حصول اسی انداز کا متقاضی ہے جو دونوں ممالک میں معروف ہے؟

۶۔ کیا مختلف قوموں کے اختلافات اور شناخت کی خواہش کو ایک قوم کے اندر موجود متخالف گروہوں کے برابر سمجھا جا سکتا ہے؟

۷۔ کیا قوموں کی شناخت کی خواہش کو address کرنے کا واحد طریقہ جبر اور جارحیت ہے؟

۸۔ کیا قرون وسطیٰ سے اکیسویں صدی تک نوع انسانی نے اس معاملے کو نمٹانے کے لیے کوئی نئی راہ تلاش نہیں کی؟

اگر ہم یورپی اور عالمی تاریخ کا سرسری جائزہ لیں تو ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے میں چنداں مشکل نہیں ہوتی۔ مثلاً سب سے پہلے 1648ء کا ویسٹ فالیا ٹریٹی (Treaty of Westphalia) ہی دیکھ لیں۔ اس ٹریٹی سے ریاستوں کا نظام (States system) پیدا ہوا جس سے امید بندھی کہ یورپ میں امن قائم ہو جائے گا کیونکہ ریاستوں کو ان کی حدود کے اندر مقتدر تسلیم کرنے سے اور دوسری ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رکھنے سے ہی امن کا قیام ممکن تھا۔ اس سے مذہبی جنگوں سے بچنے کی بھی امید تھی۔ پھر 1871ء میں برطانیہ‘ فرانس‘ اٹلی‘ پرشیا‘ رشیا‘ آسٹریا اور ترکی نے لندن کانفرنس میں درج ذیل اعلامیے (Declaration)پر دستخط کیے:

"That the powers recognise it an essential principle of the Law of Nations that no power can liberate itself from the engagements of a treaty nor modify the stipulations thereof, unless with the consent of the contracting parties by measns of an amiable understanding." 

’’(اس اعلامیے میں شریک تمام) طاقتیں اسے قوموں کے قانون کا لازمی اصول تسلیم کرتی ہیں کہ کوئی بھی طاقت اپنے آپ کو کسی معاہدے کے عہد وپیمان سے آزاد نہیں کر سکتی اور نہ ان شرائط کو بدل ہی سکتی ہے جب تک کہ معاہدے میں شامل دوسرے فریق دوستانہ اتفاق رائے سے اس کی منظوری نہ دے دیں۔‘‘

جدید عہد کے حوالے سے 1961ء کا ’’ویانا کنونشن ڈپلومیٹک تعلقات پر‘‘ نہایت اہم ہے۔ اس کے افتتاحیے کے مطابق:

"....that an international convention on diplomatic intercourse, privileges and immunities (will) contribute to the development of friendly relations among nations, irrespective of their differring constitutional and social systems."

’’ڈپلومیٹک میل جول‘ مراعات اور تحفظات کے لیے ایک بین الاقوامی کنونشن اقوام کے مابین‘ ان کے دستوری اور سماجی نظاموں کے تفاوت سے قطع نظر‘ دوستانہ تعلقات کی ترقی کے لیے مدد دے گا ۔‘‘

دوسری ریاستوں کے معاملات میں دخل اندازی اور ڈپلومیٹک ایکشن کی وسعت کے حوالے سے اس کنونشن کا آرٹیکل 41بہت واضح ہے:

"Without prejudice to their privileges and immunities, it is the duty of all persons enjoying such privileges and immunities to respect the laws and regulations of the receiving state. They also have a duty not to interfere in the internal affairs of that state. All official business with the receiving state entrusted to the (diplomatic) missions by the sending state shall be conducted with or through the Ministry for Foreign Affaris of the receiving state of such other ministry as may be agreed."

’’اپنی مراعات اور تحفظات کے تعصب کے بغیر یہ ان تمام افراد کا فرض ہے جو ان مراعات اور تحفظات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں کہ وہ اس خیر مقدم کرنے والی ریاست کے قوانین اور ضابطوں کا احترام کریں۔ ان کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اس ریاست کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ خیر مقدم کرنے والی ریاست سے متعلقہ تمام سرکاری کام جو کہ بھیجنے والی ریاست اپنے مشن کو سونپتی ہے‘ خیر مقدم کرنے والی ریاست کی خارجہ معاملات کی وزارت کے ساتھ یا اس کے ذریعے سے انجام پانے چاہییں یا کوئی ایسی دوسری وزارت جس پر اتفاق ہو۔‘‘

خیال رہے کہ امریکہ نے کنونشن پر دستخط 29جون 1961ء کو کیے اور اس کی توثیق 13 نومبر 1972ء کو کی کیونکہ امریکی صدر یا اس کا نمائندہ دستخط کرنے کا تو مجاز ہے لیکن توثیق (Ratification)کی مجاز امریکی سینٹ ہے۔ امریکہ نے اس کنونشن کی توثیق کے فوراً بعد قلابازی کھائی کیونکہ 1976ء میں امریکی کانگریس نے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی یہ ذمہ داری ٹھہرائی کہ وہ امریکی معاشی یا فوجی امداد لینے والے ممالک کی انسانی حقوق کے ریکارڈ کے حوالے سے سالانہ رپورٹ تیار کرے۔ یہیں سے امریکی مداخلت کا آغاز ہو جاتا ہے۔ مداخلت کے حوالے سے صدارتی احکامات کے پیچھے کانگریسی منظوری بھی مستقل موجود ہے۔ 

اگر آپ اب تک کے مندرجات کو مد نظر رکھیں تو صاف مترشح ہوتا ہے کہ عالم گیریت اور باہمی تعاون کے حوالے سے دنیا آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی لیکن بڑھنے کا یہ انداز یا پیش رفت امریکی اور برطانوی بالادستی کے خلاف تھی کیونکہ قانونی اور برابری کی سطح پر ہونے والی پیش رفت سے ان دونوں طاقتوں کی ’’بالادستی‘‘ کو خطرہ تھا۔ اب ظاہر ہے کہ اسلحے کے انبار کی موجودگی میں یہ ممالک اپنی بالادستی سے کیسے دست بردار ہو سکتے تھے اس لیے بین الاقوامی ضوابط کی دھجیاں اڑاتے ہوئے جمہوریت کو عالمی سطح پر پھیلانے کے نام سے دونوں ممالک بد معاش (Rogue) بنے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں سماجی وسیاسی نظام میں تبدیلیاں لانے کے لیے مداخلت کی گئی۔ حالیہ دورۂ چین کے دوران میں بش کا بیان کہ امریکہ کو ’’رو ل ماڈل‘‘ کے طور پر اپنایا جا سکتا ہے‘ چین کے دستوری نظام میں مداخلت ہی گردانا جا سکتا ہے۔ صدر بش نے ایسا بیان دیتے ہوئے ڈپلومیٹک ایکشن کی وسعت کی حدود وقیود کو مد نظر نہیں رکھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ قانونی اور گفت وشنید پر مبنی عالم گیریت کی طرف ارتقا کو اپنانے کے بجائے‘ رسل کے تجزیے سے مماثل اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس مضمون میں اٹھائے گئے چند سوالات کے تناظر میں یہ اقدامات موثر ثابت نہیں ہوں گے۔

جنرل مشرف کا دورۂ امریکہ ۔ اور پاک امریکہ تعلقات کی نئی جہت

پروفیسر شیخ عبد الرشید

جنرل پرویز مشرف کا دورۂ امریکہ حکومتی توقعات کے مطابق اور عوامی توقعات کے برعکس مکمل ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش سے ملاقات کو انتہائی مثبت اور تعمیری قرار دیا اور اپنے مقاصد میں کام یابی کی واضح نشان دہی کی اور اپنے اس یقین کا اظہار کیا کہ نئی صدی میں مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پاک امریکہ تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک پاکستانی حکمران جب بھی امریکہ یاترا پر گئے تو واپسی پر قوم کو یہی نوید دی کہ اب پاک امریکہ دوستی طویل المیعاد‘ پائیدار اور مستحکم وخوش حال پاکستان کی ضامن ہوگی مگر اوراق تاریخ شاہد ہیں کہ پاک امریکہ تعلقات نشیب وفراز کا شکار رہے ہیں۔ کسی مخصوص وقت میں ان دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کیسے ہوں گے‘ اس کا زیادہ تر انحصار امریکی مفادات کے تقاضوں پر ہی رہا۔ تجربات اس بات کے عکاس ہیں کہ امریکہ پاکستانی مفادات کو کسی بھی خاطر میں لانے پر کبھی تیار نہیں ہوا۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ یک طرفہ معاملہ رہا۔ جب بھی امریکہ ہم سے گلے ملنے لگا تو ہمارے گلے پڑ گیا۔ تاہم ۱۱ ستمبر کے بعد اور موجودہ علاقائی صورت حال میں پاک امریکہ تعلقات غیر معمولی نوعیت واہمیت اختیار کر گئے ہیں اور ایک بار پھر پاکستان سے بھی زیادہ امریکہ کے مفادات کو ہمارے خطے میں خاص طور پر نازک اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔

۱۱ ستمبر کے بعد پاکستان کے حاکموں نے ’’دہشت گردی‘‘ اور ’’بنیاد پرستی‘‘ کے خاتمے کی نیک کوششوں میں امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا جس سے جمہوریت کے محافظوں اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان تعلقات کا نیا باب شروع ہوا جس سے ۶۰ء اور ۸۰ء کی دہائی کی یاد تازہ ہو گئی چنانچہ جنرل پرویز مشرف کے دورۂ امریکہ تک ہمارے چار ہوائی اڈے ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ میں امریکی افواج کے پاس تھے۔ کراچی میں ہمارے سب سے بڑے ’’قائد اعظم بین الاقوامی ہوائی اڈے‘‘ کا پرانا ٹرمینل مکمل طور پر امریکی فوجیوں کے زیر استعمال ہے۔ کراچی شہر کے وسط میں انہوں نے رابطہ دفتر قائم کر لیا ہے۔ یاد رہے اس سے قبل بھی ہمارے ایک جمہوریت دوست فوجی صدر نے ۶۰ء کی دہائی میں ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ میں پشاور کے قریب بڈابیر کا اڈہ امریکہ کو دیا تھا جہاں سے U-2 نامی امریکی جاسوسی جہاز سوویت یونین کی فضاؤں میں گیا جہاں اسے مارا گیا تو خروشچیف نے رد عمل میں ہمیں You too کہہ کر گلوب پر واقع پاکستان پر سرخ دائرہ کھینچا اور ۱۶ دسمبر۱۹۷۱ء کو پاکستان دولخت ہو گیا۔

۱۱ ستمبر کے بعد امریکہ سے جو ہمارا نیا رشتہ بنا اورعلاقے میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے ہم نے وطن عزیز کے اندر اور باہر جو ’’جرات مندانہ‘‘ پالیسی اختیار کی اور مغربی دانش وروں کے وژن کے مطابق ’’جدید‘‘ اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جو سعی جمیل شروع کی‘ اس پر شاباش لینے کے لیے جنرل پرویز مشرف امریکہ گئے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق جنرل کو غیر معمولی اہمیت دی گئی۔ اس دورکے آغاز سے قبل ۹ فروری کو دونوں ممالک کے درمیان ایک دفاعی سمجھوتہ پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کو PAK-US ACQUISITION AND CROSS SERVICES AGREEMENT کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے مطابق پاکستان‘ افغانستان اور گرد وپیش کے خطے میں امریکی فوجی اور دوسرے مفادات کی تکمیل کی خاطر ہر نوعیت کا Logisticتعاون فراہم کرے گا۔ امریکہ بھی دہشت گردی کے خلاف اس مہم کی تکمیل میں پاکستان کو مختلف نوعیت کی سہولتیں فراہم کرے گا اور اسے ۳۰۰ سے ۵۰۰ ملین ڈالر کی مدد بھی دے گا۔ اس حوالے سے امریکی ماہرین نے صدربش کی طرف سے پاکستان کے ذمے ایک ارب ڈالر کے قرضے کی معافی کو ایک فیاضانہ اقدام سے تعبیر کیا ہے۔ وزیر خزانہ شوکت عزیز اور امریکہ میں پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی نے بھی اس پر بڑے تفاخر اور گہرے اطمینان کا اظہار کیا ہے لیکن اس معافی کے اعلان کی نوعیت کی وضاحت نہیں ہو سکی کیونکہ یہ تو پہلے سے واجب الادا امریکی قرضوں کی باقی ماندہ رقم ہے اور یہ اصل زر کے بجائے سود کی مد میں واجب الادا ہے اور یہ رقم پوری ایک ارب ڈالر بھی نہیں بلکہ ۸۰ کروڑ ڈالر بنتی تھی اور اب مزید ۲۰ کروڑ ڈالر کی اضافی امداد اس لیے دی گئی ہے کہ پورے ایک ارب ڈالر کے قرضے کی ادائیگی میں سہولت پیدا ہو سکے اور یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ یہ اعلان غیر مشروط نہیں بلکہ اس کی توثیق امریکی کانگرس کے ایوان بالا سینٹ کو کرنا ہوگی جہاں پچھلے چار ماہ سے پاکستان کو دی جانے والی تجارتی مراعات کو دبا کر رکھا گیا ہے۔ ویسے بھی کانگریس میں طاقت ور بھارت نواز لابی پہلے سے سرگرم عمل ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس دورہ میں دفاعی سازوسامان کے حوالے سے کوئی قابل ذکر بات نہیں جبکہ ۱۸ فروری کو ہی طے ہوا کہ امریکہ پاکستان کے واحد دشمن ملک بھارت کو ’’فائر فائنڈرز‘‘ نامی جاسوس ریڈار دے گا جو کشمیری مجاہدین کے خلاف استعمال ہوں گے۔ امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل رچرڈ مائر نے بھارت کی فوجی تعلیم وتربیت کے لیے رقم دوگنا کرنے کا بھی اعلان کیا۔ دوسری طرف تجارت کے شعبے میں ٹیکسٹائل کے کوٹے کے حوالے سے امریکی دورہ میں بات چیت ہوئی لیکن امریکی ٹیکسٹائل لابی کے اثر کے تحت واضح کر دیا گیا کہ ٹیرف کی معافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

جنوبی ایشیا میں امریکہ کی قلیل المیعاد فوجی موجودگی کے ہمارے دعووں کے برعکس صدر بش طویل المیعاد موجودگی کا راگ ببانگ دہل الاپ رہے ہیں جس سے پاک چین مثالی دوستی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ چین اور پاکستان کے تعلقات کی نوعیت بھی اب وہ نہیں رہی جو کہ ماضی میں ہوا کرتی تھی۔

اس تجزیے سے عیاں ہوا کہ موجودہ دورۂ امریکہ عوامی توقعات کے مطابق بڑی اہمیت کا حامل ثابت نہ ہوا تاہم حاکم وقت کی ترجیحات ضروری نہیں کہ عوامی آرزوؤں کے مطابق ہوں۔ امریکہ کا دورہ اس لحاظ سے بھی کام یاب رہا کہ جنرل پرویز مشرف کے اہل خانہ جو مستقل طور پر امریکہ میں آباد ہیں‘ ان کی میزبانی کا لطف بوسٹن میں اٹھایا گیا۔ اس دورے کے دوران میں جنرل پرویز مشرف جو ملک پاکستان کے عوام کو رعب میں رکھنے کے لیے مختلف مواقع پربامعنی فوجی وردیوں کا مسلسل استعمال کرتے ہیں اور گاہے گاہے احکامات ربانی کی روشنی میں صاف صاف بتاتے ہیں کہ یہ اقتدار انہیں اللہ تعالیٰ نے بخشا ہے‘ وردی اتار کر امریکہ یاترا پر گئے اور اپنی حکومت‘ نظام حکومت اور پروگرامِ حکومت کے لیے امریکی سند حاصل کی۔ ایسے حکمران جن کے پاس اپنے ’’بنیاد پرست اور جاہل‘‘ عوام کی دی ہوئی سند حکومت نہ ہو‘ ان کے لیے امریکہ کی سند کلیدی اہمیت اختیار کر جاتی ہے جو کہ صدر بش نے اپنے یونین ایڈریس میں ان کا خصوصی ذکر کر کے اور جنرل پرویز کو ذاتی دوست قرار دے کر فراہم کر دی ہے اور یہ کوئی چھوٹی موٹی کام یابی نہیں‘ عوام اور سیاست دانوں پر لازم ہے کہ وہ اس کام یابی پر جنرل صاحب کو مبارک باد پیش کریں۔ بے چاری جمہوریت کے لیے اس دورے کا پیغام یہی ہے کہ وہ آئندہ متوقع ’’شفاف اور منصفانہ‘‘ انتخابات کے باوجود مزید کچھ عرصہ آرام وراحت میں بسر کرے۔ سردست امریکہ کو پاکستان میں ملٹری برانڈ ڈیموکریسی کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی شہ رگ کشمیر کے حوالے سے امریکی صدر کی وضاحتیں بھی اچانک مثبت ہو گئی ہیں۔ کارگل بحران اور اعلان واشنگٹن میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے امریکی بد نیتی کے گناہ ۱۱ ستمبر کے واقعہ نے دھو دیے ہیں۔ اب امریکہ خالصتاً پاکستان کے مفاد میں پاک بھارت مذاکراتی عمل میں فعال کردار ادا کرے گا۔ اس کردار میں ’’معاہدۂ تاشقند سے اعلان واشنگٹن‘‘ تک امریکی کردار اور رویے کی جھلک نظر نہیں آئے گی۔ پاکستان کے حاکموں ومحافظوں کا یہی دانش مندانہ تجزیہ ہے لہذا حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں کے مصداق فوجی حکمرانوں کے ایجنڈے کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا جائے۔ اس سے انکار بنیاد پرستی اور دہشت گردی ہوگا۔

جنرل پرویز مشرف کے تدبر وحکمت‘ جرات مندی وبہادری کا تو اس وقت پورا عالم معترف ہے۔ ان کی امریکہ یاترا پر کئی امریکی کالم نویسوں نے انہیں پاکستان کا کمال اتاترک کہا ہے۔ کچھ نے تو ان کو انور السادات سے مماثل قرار دیا۔ ایک امریکی کالم نویس نے جنرل پرویز مشرف کو جنوبی ایشیا کا گوربا چوف بتایا۔ ان تینوں راہنماؤں کا امریکہ اور مغرب میں بڑا نام ہے کیونکہ اپنے اپنے ممالک میں مغرب کے مفادات کا تحفظ زمینی حقائق کی آڑ میں جس طرح انہوں نے کیا‘ شاید امریکی بصورت دیگر نہ کر پاتے۔ مذکورہ تینوں راہنما ترکی‘ مصر اور سوویت یونین کی تاریخ کے اہم باب ہیں۔ ان کی عظمت سے اس وقت تک انکار ممکن نہیں جب تک کوئی ’’انتہا پسند قنوطی‘‘ تاریخ کے اوراق الٹ پلٹ کر یہ نہ دیکھ لے کہ سیکولرازم کی بدترین مثال ترکی ہے جہاں جبر سے رسم الخط بدلا گیا‘ بزور قوت لباس تبدیل کروایا گیا اور طاقت سے دینی شعائر کو بند کر کے جدید جمہوریہ کی بنیاد رکھی گئی۔ یہی کمال اتاترک کا عظیم کارنامہ ہے۔

انور السادات کے نام کے ساتھ ہی بنیاد پرست کا حافظہ اگر انہیں کیمپ ڈیوڈ کی یاد نہ دلا دے اور علاقائی وعالمی صورت حال میں زمینی حقائق سے مطابقت پیدا کر کے سوویت یونین کی گاڑی کو روس تک لے آنے میں گوربا چوف نے جس مہارت اور حب الوطنی کا مظاہرہ کیا‘ وہ اتنا پرانا واقعہ نہیں کہ تاریخ کی کتاب کھولنا پڑے۔ ان تینوں عظیم راہ نماؤں میں ایک اور مماثلت بھی ہے کہ تینوں مختلف اوقات میں مغرب کے چہیتے رہے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو دورۂ امریکہ پر امریکی کالم نویس جنرل پرویز مشرف میں بیک وقت تینوں کی عظمت دیکھتے رہے اسی لیے دورہ سے پہلے اور بعد میں وہ اعتراف عظمت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد اعلان کرتے رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے‘ پاک امریکہ دوستی اور خوش حال ومستحکم جدید اسلامی ریاست پاکستان کے قیام وتحفظ کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ صدر کے منصب پر فائز رہیں حالانکہ جب وہ اس منصب پر براجمان ہوئے تھے تو کسی کی پروا کیے بغیر ’’بہادری وجرات مندی‘‘ سے ہو گئے تھے۔ اب بھی کس کی مجال ہے کہ وہ کمانڈو کا راستہ روک سکے۔

اس کام یاب امریکی دورے کے باوجود ضروری ہے کہ یہ امر تسلیم کر لیا جائے کہ وقت آگیا ہے کہ پاکستان اب دنیا کو نئی طرح سے دیکھے۔ یہ طے کرنا اہم ہے کہ پاکستان کے مفادات کیا ہیں؟ یہ طے کرتے وقت ہمیں ریاست اور حکومت میں فرق ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔ پھر دیکھنا ہوگا کہ ریاست کے اپنے مفادات کس طرح بہتر طریق سے تکمیل کو پہنچ سکتے ہیں۔ یہ امر اب کھل کر سامنے آ چکا ہے کہ ریاست پاکستان اور امریکہ کے مفادات علاقائی صورت حال میں ایک دوسرے سے بڑی حد تک یکسانیت نہیں رکھتے۔ نصف صدی کی تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ ’’پاکستان آپشن‘‘ کو تبھی استعمال میں لاتا ہے جب ایسا کرنا اس کے لیے فائدہ مند ہو۔ اس طرح تو یہ مطلقاً یک طرفہ معاملہ کے سوا کچھ نہیں۔ وقت اور ہوش مندی کا تقاضا ہے کہ جنوبی ایشیا میں امریکہ کی دیرپا موجودگی کا مدبرانہ تجزیہ کر کے ’’علاقائی دوستوں‘‘ کی قربانی نہ دی جائے۔ ایسا نہ ہو کہ حالات کے کروٹ لینے پر امریکہ آنکھیں ماتھے پر رکھے اور ہم گنگناتے رہیں ؂

مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے

دینی مدارس کے نظام ونصاب کی اصلاح کے حوالے سے ’’مجلس فکر ونظر‘‘ کی منظور کردہ سفارشات اور نصاب

ادارہ

(دینی مدارس کے نظام تعلیم کی اصلاح کے حوالے سے ممتاز ماہرین تعلیم اور مدارس کے چاروں وفاقوں کے نمائندگان پر مشتمل ’’مجلس فکر ونظر‘‘ نے متفقہ طور پر درج ذیل سفارشات اور نصاب کی منظوری دی ہے۔ اس ضمن میں مزید تفصیلات کے لیے مجلس کے جنرل سیکرٹری جناب ڈاکٹر محمد امین صاحب سے ۱۳۶ نیلم بلاک‘ علامہ اقبال ٹاؤن‘ لاہور کے پتہ پر رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ ادارہ)

متفقہ سفارشات

مقصود

ان سفارشات کا مقصد یہ ہے کہ

۱۔ دینی مدارس کے طلبہ کے علم میں مزید رسوخ پیدا ہو۔

۲۔ ان کے اخلاق وللہیت میں اضافہ ہو۔

۳۔ مسلکی تعصبات کا خاتمہ ہو۔

۴۔ طلبہ میں عصری تحدیات سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا ہو۔

علما کی تیاری کے مقاصد

۱۔ مساجد میں امامت وخطابت اور قرآن ناظرہ وحفظ کے علاوہ ترجمہ قرآن اور تدریس حدیث۔

۲۔ دینی مدارس میں تدریس۔

۳۔ جدید سکولوں/ کالجوں/ یونیورسٹیوں میں اسلامی وعربی علوم کی تدریس وتحقیق۔

۴۔ عام افراد معاشرہ کی دینی تعلیم اور اصلاح۔

نصاب درس نظامی

مدت تدریس: ۸ سال‘ داخلہ برائے مڈل پاس

اسلامی علوم

۱۔ قرآن حکیم

۱۔ مکمل قرآن حکیم کا لفظی وبامحاورہ ترجمہ مع صرفی ونحوی تراکیب

۲۔ قرآن حکیم کے بعض منتخب حصوں کا تفسیری اور تحقیقی مطالعہ جس میں متنوع مناہج کی تفاسیر(مثلاً

اثری‘ لغوی‘ فقہی‘ کلامی‘ سائنسی اور معاصر تفاسیر) شامل ہوں۔

۳۔ علوم القرآن

۴۔ تجوید کا ایک کورس سب کے لیے

۵۔ باقاعدہ درس قرآن کے ذریعے سے قرآنی مفاہیم ومقاصدکو طلبہ کے ذہن نشین کرانا

۶۔ غیر حافظ طلبہ کے لیے حفظ کانصاب

۷۔ آخری سال دورۂ قرآن یعنی مکمل قرآن حکیم کی تدریس

۸۔ ہر وہ مدرسہ / جامعہ جہاں مکمل درس نظامی اور دورۂ حدیث کا انتظام ہو‘ وہاں شیخ الحدیث کی

طرح شیخ التفسیر کا ہونا ضروری ہو۔

۲۔ حدیث وسیرت

۱۔ آخری دورۂ حدیث سے پہلے بخاری ومسلم کا بالاستیعاب اور فرقہ واریت سے مبرا تحقیقی مطالعہ

۲۔ آخری سال میں باقی کتب صحاح ستہ کا دورہ

۳۔ علوم الحدیث

۴۔ مطالعہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم

۳۔ فقہ واصول فقہ

۱۔ فقہ القرآن والسنہ

۲۔ حنفی اصول فقہ

۳۔ حنبلی‘ مالکی‘ شافعی‘ ظاہری اور شیعی اصول فقہ کا مطالعہ

۴۔ ان سب کا تقابلی مطالعہ اور عصر حاضر کے مسائل کے حوالے سے عملی مشق

۵۔ حنفی فقہ کا ایک متن

۶۔ دیگر فقہوں کے منتخب متون کا مطالعہ

۴۔ عقیدہ

۱۔ ماضی کے کلامی مباحث ومذاہب کا منتخب مطالعہ

۲۔ معاصر مذاہب ضالہ (قادیانیت وپرویزیت)

۳۔ تقابل ادیان

۵۔ منطق وفلسفہ

منتخب متون کا تعارفی مطالعہ

۶۔ مطالعہ احوال امت

۱۔ مسلمانوں کی ماضی کی تاریخ کا اجمالی مطالعہ

۲۔ موجودہ مسلم دنیا کی تاریخ اور جغرافیہ

۷۔ دعوت وتربیت

۱۔ اصول دعوت (دوسروں تک دعوت پہنچانے کے آداب وشروط)

۲۔ گفتگو اور تقریر کی عملی مشق

۳۔ اصول تربیت اور اخلاق (قرآن وسنت اور کتب تزکیہ نفس سے)

۴۔ اس کی عملی مشق

۸۔ تحقیق

۱۔ ہر ہفتے لائبریری پیریڈ

۲۔ ساتویں سال طرق تحقیق کی تدریس وعملی مشق

۳۔ آخری سال تحقیقی مقالہ لکھنا

۹۔ جدید علوم

۱۔ جدید سماجی علوم (معاشیات‘ سیاسیات‘ فلسفہ وغیرہ) کا تعارفی وتنقیدی مطالعہ

۲۔ جدید سائنسی علوم (طبیعیات‘ حیاتیات‘ کیمیا وغیرہ) کا تعارفی وتنقیدی مطالعہ

۳۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا تعارفی پیکج

۱۰۔ زبانیں

عربی:

عربی سمجھنے کے علاوہ عربی بولنے اور لکھنے (انشا) کی عمدہ مہارت

ضروری اقدامات:

۱۔ عربی کے متخصص اساتذہ کا تقرر

۲۔ طریقہ مباشرہ اور طریق قواعد کے امتزاج پر مبنی نیا تدریسی منہج

۳۔ پہلے سال کے بعد عربی زبان کے پیریڈ میں اردو بولنے پر پابندی اور آخری دو سالوں میں

ذریعہ تعلیم بھی عربی ہو۔

۴۔ پندرہ روزہ بزم ادب اور تقریری وتحریری مقابلے

۵۔ ترجمہ

اردو:

اردو بولنے اور لکھنے کی عمدہ صلاحیت

ضروری اقدامات:

۱۔ اردو کے دینی ادب کی تدریس

۲۔ اردو کے متخصص استاد کا تقرر

۳۔ پندرہ روزہ بزم ادب اور تقریری وتحریری مقابلے

انگریزی:

انگریزی پڑھنے‘ سمجھنے اور بولنے کی متوسط درجے کی صلاحیت

ضروری اقدامات:

۱۔ متخصص استاد کا تقرر

۲۔ اندازاً بی اے کی سطح تک کی تدریس

فارسی:

فارسی پڑھنے اور سمجھنے کی معمولی صلاحیت

علاقائی زبانوں میں اظہار مدعا کی حوصلہ افزائی

دراسات علیا

بڑے دینی مدارس اپنے آپ کو آٹھ سالہ درس نظامی تک محدود نہ رکھیں بلکہ اس کے بعد تخصص اور تحقیق کی تعلیم بھی جاری رکھیں جس کی کچھ تفصیل یوں ہے:

۱۔ درجہ تخصص (درس نظامی کے بعد دو سالہ تحقیقی پروگرام‘ مساوی ایم فل)

پہلے تین ماہ طرق تحقیق واساسی موضوعات کی تدریس وتسجیل موضوع

قرآن وعلوم القرآن‘ حدیث‘ علوم الحدیث‘ فقہ واصول فقہ اور دیگر اسلامی موضوعات پر تحقیق

۲۔ درجہ تحقیق (درجہ تخصص کے بعد ۳ سالہ فل ٹائم اور ۵ سالہ پارٹ ٹائم تحقیقی پروگرام‘ مساوی پی ایچ ڈی)

موضوعات کی تسجیل کے وقت مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھا جائے:

۱۔ تقابلی مطالعے کو ترجیح دی جائے۔

۲۔ رٹے رٹائے موضوعات کے بجائے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جائے جن کی عصر حاضر اور پاکستانی معاشرے کے حوالے سے اہمیت ہو۔

۳۔ تحقیق میں تخلیقیت اور اصالت پر اصرار کیاجائے۔

متفرق امور

داخلہ:

درس نظامی میں داخلہ صرف ایسے مڈل پاس طلبہ کو دیا جائے تو ناظرہ پڑھ سکتے ہوں یا ان حفاظ کو جو مطلوبہ استعداد رکھتے ہوں۔

امتحان:

۱۔ ہر تعلیمی سال کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور ہر حصے کے آخر میں امتحان نہائی ہو جائے۔

۲۔ امتحان میں معروضی سوالات بھی دیے جائیں۔

۳۔ پاس ہونے کے لیے ۴۰ فی صد نمبر حاصل کرنا ضروری ہو اور مجموعی طورپر ۵۰ فیصد

۴۔ تقریری/ زبانی امتحان بھی ہونا چاہیے۔

تدریس اساتذہ:

۱۔ نئے اساتذہ کی تربیت

۲۔ موجودہ اساتذہ کے لیے ریفریشر کورسز

۳۔ ناظمین ومہتممین مدارس کی تربیت

تربیت طلبہ:

۱۔ ہر مدرسہ میں تربیت طلبہ کے کام کو اہمیت دی جائے اور اس کو منظم کیا جائے۔ مثلاً اساتذہ میں سے ہر کلاس کا ایک مربی ہو‘ طلبہ میں سے بھی ایک مربی ہو۔ ناظم مدرسہ (یا اس کا نامزد کردہ استاذ) بطور مرکزی مربی کام کرے۔ ان لوگوں پر مشتمل ایک تربیتی کمیٹی ہو جس کا اجلاس ہر ماہ باقاعدگی سے ہو۔

۲۔ ہر امتحان میں عملی تربیت کا ایک پرچہ ہو جس کے ۱۰۰ نمبر ہوں اور اس میں پاس ہونا لازمی ہو۔

۳۔ صالح طلبہ کے لیے حوصلہ افزائی کے انعامات رکھے جائیں۔

۴۔ تربیت کے لیے ذکر وفکر کے ایسے حلقوں اور صحبت صالحین کا اہتمام کیا جائے جہاں قرآن وسنت کی تعلیمات کی سختی سے پابندی کی جاتی ہو۔

۵۔ جس طرح جدید تعلیمی اداروں میں ہفتہ صفائی منایا جاتا ہے‘ اسی طرح دینی مدارس میں ہفتہ صفائی کے علاوہ اخلاقی تطہیر (رذائل سے بچنے اور حصول فضائل) کے لیے بھی ہفتے منائے جائیں اور متعلقہ موضوع کے حوالے سے ہفتہ بھر عملی پروگرام رکھے جائیں۔

نصاب

سال اول (نصف اول)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیم (حفظ) پارہ عمقرآن حکیم -
تجوید اور مشق-جمال القرآنعلم التجوید‘ قاری غلام رسول
عربیاللغۃ العربیۃالعربیۃ لغیرالناطقین بہا(۱) القراء ۃ المیسرۃ
اردو---
عربیالقواعدالنحو الواضح (۱) القواعد العربیۃ الصحیحۃ

سال اول (نصف ثانی)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب

قرآن حکیم حفظ

(منتخب سورتیں)

البقرہ (پہلا اور آخری رکوع)
 الحشر‘ یاسین‘ الملک‘ المزمل‘ المدثر
۔۔ 
تجوید اور مشق۔فوائد مکیہ۔
عربیاللغۃ العربیۃ العربیۃ لغیر الناطقین بہا (۲) القراء ۃ المیسرۃ
الکتاب الاساسی
اردو۔۔۔
عربیالقواعدالنحو الواضح (۲) القواعد العربیۃ الصحیحۃ
انگریزی۔۔۔

سال دوم (نصف اول)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیم (ترجمہ)پارہ ۱ تا ۴ مع تطبیق قواعد ۔۔
عربیاللغۃ العربیۃالعربیۃ لغیر الناطقین بہا (۳) العربیۃ للناشئین
اردو۔۔۔
عربیالقواعداصول الصرف نصف اول
النحو الواضح (۳) نصف اول
الکامل فی قواعدالعربیۃ وصرفہا
انگریزی۔۔۔
فارسی۔۔۔

سال دوم (نصف ثانی)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیم (ترجمہ)پارہ ۴ تا ۸ مع تطبیق قواعد۔۔
عربیاللغۃ العربیۃالعربیۃ لغیر الناطقین بہا (۴) العربیۃ للناشئین
اقرا العربیۃ وتحدث بہا
اردو۔۔۔
عربیالقواعداصول الصرف نصف ثانی
النحو الواضح (۳) نصف ثانی
الکامل فی القواعد العربیۃ وصرفہا
انگریزی۔۔۔
فارسی۔۔۔

سال سوم (نصف اول)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیم (ترجمہ) پارہ ۹ تا ۱۴ مع تطبیق قواعد۔۔
حدیث وسیرتمطالعہ عمومیریاض الصالحین (۱)۔
عربیاللغۃ العربیۃ
الانشاء والکتابۃ
العربیۃ لغیر الناطقین بہا (۵)
معلم الانشاء (۱)
دروس اللغۃ العربیۃ
قصص النبیین
اردو۔۔۔
عربیالقواعد (الصرف)
النحو
 الشافیہ (نصف اول)
القواعد العربیۃ المیسرۃ (۱)
سلم اللسان فی النحو والصرف والبیان
انگریزی۔۔۔

سال سوم (نصف ثانی)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیم (ترجمہ) پارہ ۱۵ تا ۲۰ مع تطبیق قواعد۔۔
حدیث و سیرتمطالعہ عمومیریاض الصالحین (۲)۔
عربیاللغۃالعربیۃ
الانشاء والکتابۃ
العربیۃ لغیر الناطقین بہا (۶)
معلم الانشاء (۲)
دروس اللغۃ العربیۃ
قصص النبیین
اردو۔۔۔
عربیالقواعد (النحو)
(الصرف)
القواعد العربیۃ المیسرۃ (۲)
الشافیہ (نصف ثانی)
سلم اللسان فی النحو والصرف والبیان
انگریزی۔۔۔

سال چہارم (نصف اول)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیم (ترجمہ) پارہ ۲۱ تا ۲۵ مع تطبیق قواعد۔۔
حدیث وسیرت اصول حدیث
تدوین وحجیت حدیث
تیسیر مصطلح الحدیث (اردو)
السنۃ ومکانتہا فی التشریع الاسلامی
۔
عربیالادب (النثر القدیم) 
النثر الجدید
الشعر الجدید
کلیلہ ودمنہ (منتخب)
طہ حسین‘ الشیخان (نصف اول)
تراجم منظومات اقبال‘ الصاوی شعلان (منتخب)
۔
اردو۔۔۔
عربیالقواعدالنحو الوافی (۱‘۲) منتخبمغنی اللبیب
انگریزی۔۔۔

سال چہارم (نصف ثانی)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیم (ترجمہ)  پارہ ۲۶ تا ۳۰ مع تطبیق قواعد ۔۔
حدیث وسیرتاصول حدیث (جرح وتعدیل‘ اسماء الرجال‘ تخریج حدیث)شرح نخبۃ الفکر الکفایۃ للخطیب
حجۃ اللہ البالغہ
عربیالادب (النثر القدیم) 
النثر الجدید
الشعر الجدید
الف لیلۃ ولیلۃ (منتخب)
طہ حسین‘ الشیخان (نصف ثانی) 
العزام‘ دیوان الاسرار والرموز (منتخب)
طہ حسین‘ الایام
سمیر عبد الحمید‘ اقبال ودیوان ارمغان حجاز
اردو۔۔۔
عربیالقواعدالنحو الوافی (۳‘۴) منتخبمغنی اللبیب
انگریزی۔۔۔

سال پنجم (نصف اول)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیم(تفسیر) ۔ جلالین (پارہ ۱ تا ۱۵) ۔
علوم القرآنتاریخ القرآن‘ اعجاز  القرآن‘ اسباب نزول سبع قراءات‘ ناسخ ومنسوخ
 
سیوطی‘ الاتقان (منتخب)مناع القطان‘ مباحث فی علوم القرآن
صبحی  صالح‘ مباحث فی علوم القرآن
تقی عثمانی‘ علوم القرآن
ابو زہرہ‘ المعجزۃ  الخالدۃ
 
حدیث وسیرتمتن حدیث 
سیرت النبی ﷺ
مشکوۃ (نصف اول) 
ابن اسحاق‘ سیرت النبی (نصف اول)
شبلی نعمانی‘ سیرۃ النبی
قاضی سلمان‘ رحمۃ للعالمین
پیر کرم شاہ‘ ضیاء النبی
فقہ واصول فقہ اصول فقہ حنفیاصول الشاشی الجصاص‘ الفصول البہاری‘ مسلم الثبوت
عربیالادب (الشعر القدیم)
الشعر الجدید 
النثر القدیم
النثر الجدید 
 
دیوان حسان (منتخب) 
احمد شوقی (منتخب)
الکامل للمبرد (منتخب)
العقاد‘ العبقریۃ
۔  
۔  
قصص العرب
۔ 
منطقمبادیات ومصطلحاتتیسیر المنطقعبد الستار سعیدی‘  تعلیم المنطق
فلسفہمبادیات ومصطلحاتبدایۃ الحکمۃ مفتی افضل حسین‘  ہدایۃ الحکمۃ

سال پنجم (نصف ثانی)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیم(تفسیر)۔ جلالین (پارہ ۱۶ تا ۳۰)۔  
 
علوم القرآنتفسیر کے اصول‘ مآخذ اور مناہج وغیرہالفوز الکبیر
الاتقان (منتخب)
ابن تیمیہ‘ مقدمہ فی اصول التفسیر۔ الذہبی‘ التفسیر  والمفسرون۔ الصابونی‘ علوم القرآن
حدیث وسیرتمتن حدیث
سیرۃ النبی ﷺ
مشکوۃ (نصف ثانی)
ابن اسحاق‘ سیرۃ النبی (نصف ثانی)
شبلی‘ سیرت النبی
تھانوی‘ نشر الطیب
دانا پوری‘ اصح السیر
کاندھلوی‘ سیرۃ المصطفیٰ
فقہ واصول فقہمتن حنفی فقہقدوری ۔ 
 
عربیالادب (النثر القدیم)
النثر الجدید
الشعر القدیم
الشعر الجدید
الجاحظ‘ البیان والتبیین (منتخب)
العقاد‘ العبقریۃ (۲)
دیوان المتنبی (منتخب)
حافظ ابراہیم (منتخب)
قصص العرب
منطقمبادیات ومصطلحاتالمرقاۃایساغوجی
فلسفہمبادیات ومصطلحاتمیبذیغزالی‘ تہافت الفلاسفۃ
ابن رشد‘ تہافت التہافت
محمود جونپوری‘ شمس بازغہ

سال ششسم (نصف اول)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیمقدیم تفاسیر تفسیر طبری (پارہ ۱) ۔
حدیث وسیرتمتن حدیث کا تحقیقی مطالعہ بخاری نصف اولفتح الباری
عمدۃ القاری
فقہ و اصول فقہ اصول فقہ تقابلی مطالعہالآمدی‘ الاحکام (منتخب)شافعی ‘الرسالۃ
زیدان‘ الوجیز
عربیالادب (الشعر القدیم)
النثر القدیم 
النثر الجدید
دیوان الحماسہ (منتخب)
ابن قتیبہ‘ ادب الکاتب (منتخب)
الافغانی‘ الرد علی الدہریین
 ۔
عقیدہتصحیح عقائد
رد مذاہب ضالہ
شرح عقائد النسفی
قادیانی مسئلہ‘ مفتی محمد شفیع
قادیانی مسئلہ‘ مولانا مودودی
 ۔
مطالعہ امتمسلم تاریخ کا اجمالی جائزہثروت صولت‘ مختصر تاریخ اسلام (۱)معین الدین ندوی‘ تاریخ اسلام (۱)

 سال ششسم (نصف ثانی)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیمقدیم تفاسیررازی‘ تفسیر کبیر (پارہ ۲۹) 
جصاص‘ احکام القرآن (الاحزاب)
 ۔
حدیث وسیرتمتن حدیث کا تحقیقی مطالعہ بخاری نصف ثانیارشاد الساری
فتح الباری
فقہ واصول فقہ متن فقہ حنفیہدایۃ اولینالکاسانی‘ بدائع الصنائع
عربیالادب (الشعر القدیم)
النثر القدیم
النثر الجدید
المعلقات السبعۃ (منتخب)
عقد الفرید (منتخب)
الندوی‘ ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین
۔
الاغانی
۔ 
 
عقیدہتصحیح عقائد
رد مذاہب ضالہ (ردمنکرین سنت)
عقیدہ طحاویہ مع شرح
افتخار احمد بلخی‘ فتنہ انکار حدیث
شبلی‘ الکلام وعلم الکلام
مودودی‘ سنت کی آئینی حیثیت
مصطفی اعظمی‘ الدراسات فی الحدیث النبوی
عبد الرحمن کیلانی‘ آئینہ پرویزیت
مطالعہ امتماضی قریب کی مسلم تاریخ کا اجمالی جائزہ بشمول مطالعہ پاکستانثروت صولت‘ مختصر تاریخ اسلام (۲)معین الدین ندوی‘ تاریخ اسلام (۲)

سال ہفتم (نصف اول)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیمعصری تفاسیر(شوریٰ ونور)مفتی محمد شفیع‘ معارف القرآن
پیر کرم شاہ‘ ضیاء القرآن
 ۔
حدیث وسیرتمتن حدیث کا تحقیقی مطالعہمسلم نصف اول النووی‘ المنہاج
قاضی عیاض‘ الاکمال
فقہ واصول فقہ متن فقہ حنفیہدایہ آخرینالکاسانی‘ بدائع الصنائع
عقیدہرد ادیان باطلہ (یہودیت وعیسائیت) مظہر صدیقی‘ مذاہب عالم
کیرانوی‘ قرآن سے بائبل تک
سہ ماہی اسلام اور عیسائیت
مطالعہ امتمعاصر مسلم ممالک کے حالات ومسائلقاسم محمود‘ اسلامی دنیا ۲۰۰۱ءندوی‘ مسلم ممالک میں اسلام اور مغربیت کی کشمکش
طرق تحقیقمطالعہ طرق تحقیقشلبی‘ کیف تکتب بحثا او رسالۃ ڈاکٹر رفیع الدین، اسلامی تحقیق کا طریق کار
ڈاکٹر سعید اللہ قاضی، اسلامی تحقیق
مودودی، تنقیحات
جدید سماجی علوممغربی تہذیب کی فکری اساس` سیاسیات‘ مذہب ۔ ۔
جدید سائنسی علومسائنسی ترقی کے اسباب‘  تاریخ طبعیات ۔ڈاکٹر رفیع الدین‘ اسلام اور سائنس

سال ہفتم (نصف ثانی)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیمعصری تفاسیر
شوریٰ ونور
سورہ دخان
مودودی‘ تفہیم القرآن
عبد الرحمن کیلانی‘ تفسیر القرآن
طنطاوی‘ جواہر القرآن
 
حدیث وسیرت متن حدیث کا تحقیقی مطالعہمسلم نصف آخر فتح الملہم
فقہ واصول فقہ متون فقہ کا تقابلی مطالعہابن رشد‘ بدایۃ المجتہد (منتخب)شاہ ولی اللہ‘ الانصاف فی اصول الاختلاف۔ 
حاجی امداد اللہ‘ فیصلہ ہفت مسئلہ۔
المذاہب الخمسہ۔ 
ابوزہرہ‘ مذاہب اسلامیہ
عقیدہرد ادیان باطلہ (بدھ مت وہندو مت)  ۔وحید الدین خان‘ علم جدید کا چیلنج
مطالعہ امتمعاصر مسلم ممالک کے حالات ومسائلزاہد انجم‘ مسلم ممالک کے مسائل ووسائلشکیب ارسلان‘ اسباب زوال امت۔ 
بیگووچ‘ اسلام اور مشرق ومغرب کی کشمکش
جدید سماجی علوممعاشیات ‘ قانون ۔ ۔
جدید سائنسی علومکیمیا ۔ ۔

سال ہشتم (نصف اول)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیمدورۂ قرآن نصف اول ڈاکٹر رفیع الدین‘ قرآن اور علم جدید
حدیث وسیرتدورۂ حدیثسنن ابی داؤد ۔
دعوت وتربیتاصول الدعوۃ
اصول التربیۃ
زیدان‘ اصول الدعوۃ الاسلامیۃ
احیاء علوم الدین (منتخب)
قاری طیب‘ دعوت دین۔
سید قطب‘ خصائص الدعوۃ الاسلامیۃ۔
علی ہجویری‘ کشف المحجوب۔
ندوی‘ تصوف واحسان۔
حدیث وسیرتدورۂ حدیثسنن ترمذی ۔
جدید سماجی علومسماجیات ۔ ۔
جدید سائنسی علومحیاتیات ۔ ۔
کمپیوٹرمبادیات ۔ ۔

سال ہشتم (نصف ثانی)

مضمونمواد تدریسنصابی کتبامدادی کتب
قرآن حکیمدورۂ قرآن (نصف ثانی) ۔ ۔
حدیث وسیرتدورۂ حدیثسنن نسائی ۔
دعوت وتربیتاصول تربیت
اصول دعوت
سہروردی‘ عوارف المعارف (منتخب)
فتحی یکن‘ اصول الدعوۃ الاسلامیۃ
ڈاکٹر میر ولی الدین‘ قرآن اور تعمیر سیرت۔
محمد قطب‘ قرآن کا طریق دعوت
حدیث وسیرتدورۂ حدیثسنن ابن ماجہ ۔
تحقیقتحقیقی مقالہ لکھنا ۔ ۔
جدید سماجی علومفلسفہ‘ نفسیات ۔عبد السلام ندوی‘ تاریخ حکماء اسلام۔ 
ڈاکٹر اظہر رضوی‘ مسلم نفسیات کے خدوخال
جدید سائنسی علوم کونیات‘ فلکیات ۔ڈاکٹر فضل کریم‘ قرآن اور کائنات

کتاب کے ساتھ میرا تدریجی تعارف

ادارہ

(یہ مضمون ’’مطالعہ‘‘ کے عنوان سے مختلف اصحاب قلم کی تحریروں کے ایک کتابی مجموعہ کے لیے لکھا گیا۔)

 کتاب کے ساتھ میرا تعارف بحمد اللہ تعالیٰ بہت پرانا ہے اور اس دور سے ہے جبکہ میں کتاب کے مفہوم اور مقصد تک سے آشنا نہیں تھا۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کا گھر میں زیادہ تر وقت لکھنے پڑھنے میں گزرتا تھا اور ان کے ارد گرد الماریوں میں کتابیں ہی کتابیں ہوتی تھیں اس لیے کتاب کے چہرہ سے شناسائی تو تب سے ہے جب میں نے ارد گرد کی چیزوں کو دیکھنا اور ان میں الگ الگ فرق کرنا شروع کر دیا تھا۔

اس کے بعد کتاب سے دوسرے مرحلے کا تعارف اس وقت ہوا جب میں نے دو چار حرف پڑھ لیے اور کم از کم کتاب کا نام پڑھ سکتا تھا۔ والد صاحب ایک چارپائی پر بیٹھ کر لکھا کرتے تھے اور حوالہ کے لیے کوئی کتاب دیکھنے کی ضرورت ہوتی تو خود اٹھ کر متعلقہ الماری سے وہ کتاب لے لیا کرتے تھے مگر جب میں اور میری بڑی ہمشیرہ الفاظ کی شناخت کے قابل ہو گئے تو پھر اس کام میں ہماری شرکت بھی ہو گئی ‘ اس حد تک کہ ہم میں سے کوئی موجود ہوتا تو والد صاحب کو کتاب کے لیے خود الماری تک نہیں جانا پڑتا تھا بلکہ وہ ہمیں آواز دیتے کہ فلاں کتاب کی فلاں جلد نکال لاؤ اور ہم میں سے کوئی یہ خدمت سرانجام دے دیتا۔ ابتدا میں والد صاحب کو ہمیں یہ بتانا پڑتا تھا کہ فلاں الماری کے فلاں خانے میں اس نام کی کتاب سے اس کی اتنے نمبر کی جلد نکال لاؤ۔ بعد میں کتابوں سے ہمارا تعارف گہرا ہو گیا تو وہ صرف کتاب اور جلد نمبر کا کہتے اور ہم کتاب نکال لاتے اور اس کے لیے بسا اوقات ہم دونوں بہن بھائیوں میں مقابلہ بھی ہوتا کہ کون پہلے کتاب نکال کر لاتا ہے۔

اس وقت کی جن کتابوں کے نام ابھی تک ذہن کے نقشے میں محفوظ ہیں‘ ان میں ۱۔ السنن الکبریٰ‘ ۲۔ لسان المیزان‘ ۳۔ تذکرۃ الحفاظ‘ ۴۔ تہذیب التہذیب‘ ۴۔ تاریخ بغداد اور ۶۔ نیل الاوطار بطور خاص قابل ذکر ہیں جو علم حدیث اور اسماءِ رجال کی کتابیں ہیں اور یہ حضرت والد صاحب کے خصوصی ذوق کے علوم ہیں۔ ان کتابوں کے نام‘ ٹائٹل اور جلدیں بچپن میں ہی ذہن پر نقش ہو گئی تھیں اور یہ نقش ابھی تک ا س طرح تازہ ہیں جیسے آج ہی ان کتابوں کو دیکھا ہو۔

پھر ایک قدم اور آگے بڑھا اور کتاب کو خود پڑھنے کی منزل آ گئی۔ اس کے لیے میں گکھڑ کے ایک مرحوم بزرگ ماسٹر بشیر احمد صاحب کشمیری کا ممنون احسان ہوں کہ ان کی بدولت کتاب کے مطالعہ کی حدود میں قدم رکھا۔ ماسٹر بشیر احمد کشمیریؒ پرائمری سکول کے ٹیچر تھے‘ حضرت والد محترم کے قریبی دوستوں میں سے تھے‘ ان کے خاندان سے ہمارا گہرا خاندانی تعلق تھا‘ انہیں ہم چاچا جی کہا کرتے تھے اور وہ بھی ہم سے بھتیجوں جیسا تعلق رکھتے تھے۔ ان کی والدہ محترمہ کو ہم بے جی کہتے تھے اور ان کی ہمشیرگان ہماری پھوپھیاں کہلاتی تھیں۔ انہی میں سے ایک پھوپھی اب میرے چھوٹے بھائی مولانا عبد القدوس قارن کی خوش دامن ہیں۔ والد محترم کو جب کسی جلسہ یا دوسرے کام کی وجہ سے رات گھر سے باہر رہنا پڑتا تو بے جی اس روز ہمارے ہاں رات گزارتی تھیں اور ہمیں چھوٹی چھوٹی کہانیاں سنایا کرتی تھیں جس کی وجہ سے ہم بہت خوش ہوتے تھے اور ہمیں ایسی رات کا انتظار رہتا تھا۔

ماسٹر بشیر احمد صاحب امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے شیدائی اور احرار کے سرگرم کارکن تھے۔ وہ حضرت شاہ جیؒ کی گکھڑ تشریف آوری اور جلسہ سے خطاب کا واقعہ اکثر سنایا کرتے تھے اور میرے بارے میں بتاتے تھے کہ میں بالکل گود کابچہ تھا اور مجھے حضرت شاہ جیؒ نے گود میں اٹھایا تھا اس لیے مجھ سے اگر کوئی دوست پوچھتا ہے کہ کیا تم نے امیر شریعتؒ کی زیارت کی ہے تو میں کہا کرتا ہوں کہ مجھے تو یاد نہیں ہے البتہ شاہ جیؒ نے مجھے دیکھا ہے۔

ماسٹر صاحب کے ہاں ہفت روزہ خدام الدین‘ ترجمان اسلام‘ ماہنامہ تبصرہ‘ ہفت روزہ پیام اسلام‘ ہفت روزہ چٹان اور دیگر دینی جرائد آیا کرتے تھے۔ میں ان جرائد سے انہی کے ہاں متعارف ہوا اور وہیں سے رسالے پڑھنے کی عادت شروع ہوئی۔ حضرت والد صاحب کے پاس دہلی سے ماہنامہ برہان‘ ملتان سے ماہنامہ الصدیق‘ چوکیرہ (سرگودہا) سے ماہنامہ الفاروق اور فیصل آباد (تب لائل پور) سے ہفتہ روزہ پاکستانی آیا کرتے تھے جو میری نظر سے گزرا کرتے تھے۔ جامع مسجد بوہڑ والی گکھڑ کے حجرہ کی الماری میں ایک چھوٹی سی لائبریری تھی جس کے انچارج ماسٹر صاحب مرحوم تھے۔ اس میں زیادہ تر احرار راہ نماؤں کی کتابیں تھیں۔ وہیں سے میں نے وہ کتابیں لیں جو میری زندگی میں مطالعہ کی سب سے پہلی کتابیں ہیں۔ چودھری افضل حق مرحوم کی ’’تاریخ احرار‘‘ مولانا مظہر علی اظہر کی ’’دنیا کی بساط سیاست‘‘ اور آغا شورش کاشمیری کی ’’خطبات احرار‘‘ پہلی کتابیں ہیں جن کا میں نے باقاعدہ مطالعہ کیا۔ کچھ سمجھ میں آئیں اور اکثر حصے ذہن کے اوپر سے ہی گزر گئے لیکن بہرحال میں نے اپنی مطالعاتی بلکہ فکری زندگی کا آغاز ان کتابوں سے کیا۔

یہ میری زندگی کا وہ دور ہے جب میں نے قرآن کریم حفظ مکمل کر لیا تھا اور صرف ونحو کی ابتدائی کتابیں گھر میں ہی حضرت والد صاحب سے پڑھ رہا تھا یعنی ۱۹۶۱ء اور ۱۹۶۲ء کا دور جب میری عمر تیرہ چودہ برس کے لگ بھگ تھی۔ اس کے بعد جب ۶۳ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں داخل ہوا اور مدرسہ کے دار الاقامہ میں ایک آزاد طالب علم کی حیثیت سے نئی زندگی کا آغاز کیا تو میں نے اس آزادی کا خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ گھومنا پھرنا‘ جلسے سننا‘ لائبریریاں تلاش کرنا‘ رسالے ڈھونڈنا‘ کتابیں مہیا کرنا اور ان کا مطالعہ کرنا میرے روزہ مرہ معمولات میں شامل ہو گیا تھا۔ درسی کتابوں کے ساتھ میرا تعلق اتنا ہی تھا کہ سبق میں حاضر ہوتا تھا اور واجبی سے مطالعہ وتکرار کے ساتھ سبق کو کسی حد تک قابومیں رکھنے کی کوشش بھی بسا اوقات کر لیتا تھا لیکن اس کے علاوہ میری مصروفیات کا دائرہ پھیل چکا تھا اور اس میں شب وروز کی کوئی قید باقی نہیں رہ گئی تھی۔

اس دور میں مدرسہ نصرۃ العلوم کے کتب خانے کے علاوہ عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی دامت برکاتہم کی ذاتی لائبریری میری دسترس میں تھی اور چوک نیائیں میں اہل حدیث دوستوں کا ’’اسلامی دار المطالعہ‘‘ میری جولان گاہ میں شامل تھا جہاں میں اکثر عصر کے بعد جاتا‘ دینی جرائد اور رسالوں پر نظر ڈالتا اور مطالعہ کے لیے کوئی نہ کوئی کتاب وہاں سے لے آتا۔ طالب علمی کے دور میں سب سے زیادہ استفادہ میں نے ان تین لائبریریوں سے کیا ہے۔

مطالعہ کے لیے مجھے جس نوعیت کی کوئی کتاب یا رسالہ میسر آجاتا‘ سمجھ میں آتا یا نہ آتا‘ میں اس پر ایک نظر ڈالنے کی کوشش ضرور کرتا البتہ ترجیحات میں بالترتیب ۱۔ مزاحیہ تحریریں‘ ۲۔ تاریخی ناول اور ۳۔ جاسوسی ادب سرفہرست رہے اور اب بھی اختیاری مطالعہ میں حتی الامکان ترجیحات کی یہ ترتیب قائم رہتی ہے مگر یہ بات تفریحی مطالعہ کی ہے یعنی فارغ وقت گزارنے کے لیے‘ ذہن کو دیگر مصروفیات سے فارغ کرنے کے لیے اور تھوڑی بہت ذہنی آسودگی حاصل کرنے کے لیے ورنہ عملی وفکری ضرورت کے لیے میرے مطالعہ کی ترجیحات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی ہو چکی ہیں اور اب ۱۔ حدیث نبوی ﷺ اور اس سے متعلقہ علوم وفنون‘ ۲۔ تاریخ اور حقائق وواقعات کا پس منظر اور ۳۔ اقوام وافکار کا تقابلی مطالعہ اسی ترتیب کے ساتھ میری دل چسپی کے موضوعات ہیں۔

شعر وشاعری بھی میرے مطالعہ کا اہم موضوع رہی ہے اور کسی حد تک اب بھی ہے۔ ایک دور میں دیوان حافظؒ اور دیوان غالب میرے سرہانے کے نیچے مستقل پڑے رہتے تھے۔ دیوان حافظؒ کے بہت سے اشعار سمجھ میں نہیں آتے تھے اس لیے میں نے مترجم دیوان رکھا ہوا تھا اور اس کی مدد سے ضروری باتیں سمجھ لیا کرتا تھا۔ عربی ادب میں دیوان حماسہ مطالعہ اور تدریس دونوں کے لیے میری پسندیدہ کتاب ہے اور مصر کے قومی شاعر شوقیؒ کی کوئی چیز مل جائے تو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔

اردو ناول کی شاید ہی کوئی صنف میں نے چھوڑی ہو۔ جاسوسی‘ تاریخی اور رومانی ہر قسم کے ناول میں نے پڑھے ہیں اور سینکڑوں ناول پڑھ ڈالے ہیں۔ نسیم حجازی سے لے کر ابن صفی تک کوئی ناول نگار میرے دائرے سے باہر نہیں رہا جبکہ ادبی جرائد میں چٹان‘ اردو دائجسٹ‘ سیارہ ڈائجسٹ‘ حکایت‘ قومی ڈائجسٹ اور علامت سالہا سال تک میرے مطالعہ کا حصہ رہے ہیں اور ماہنامہ الشریعۃ کے تبادلے میں جو بیسیوں جرائد ہر ماہ آتے ہیں‘ ان سب کے مضامین کے عنوانات پرایک نظر ڈالنا اور دل چسپی کے مضامین کو مطالعہ کے لیے الگ کر لینا اب عادت سی بن گئی ہے۔

کتاب کے ساتھ تعارف کا اس سے اگلا مرحلہ میرے طالب علمی کے آخری دور میں شروع ہوا۔ یہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد کے دور کی بات ہے۔ گوجرانوالہ ریلوے اسٹیشن کے سامنے جہاں آج کل سفینہ مارکیٹ ہے‘ ان دنوں یہاں خیام ہوٹل ہوا کرتا تھا جہاں ہر اتوار کی شام کو ’’مجلس فکر ونظر‘‘ کے زیر اہتمام ایک فکری نشست جمتی تھی۔ ارشد میر ایڈووکیٹ مرحوم اس مجلس کے سیکرٹری تھے۔ ان سے اسی محفل میں تعارف ہوا جو بڑھتے بڑھتے بے تکلفانہ اور برادرانہ دوستی تک جا پہنچا۔ اس ادبی محفل میں کوئی نہ کوئی مقالہ ہوتا اور ایک آدھ نظم یا غزل ہوتی جس پر تنقید کا میدان گرم ہوتا اور ارباب شعر وادب اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے۔ پروفیسر اسرار احمد سہاروی‘ سید سبط الحسن ضیغم‘ ایزد مسعود ایڈووکیٹ‘ پروفیسر عبد اللہ جمال‘ پروفیسر افتخار ملک مرحوم‘ پروفیسر محمد صادق‘ پروفیسر رفیق چودھری‘ اثر لدھیانوی مرحوم اور ارشد میر ایڈووکیٹ مرحوم اس مجلس کے سرکردہ ارکان تھے۔ میں بھی ہفتہ وار ادبی نشست میں جاتا تھا اور ایک خاموش سامع کی حیثیت سے شریک ہوتا تھا۔ ایک روز اگلی محفل کا پروگرام طے ہو رہا تھا لیکن کوئی صاحب مقالہ کے لیے تیار نہیں ہو رہے تھے۔ میں نے جب یہ کیفیت دیکھی تو کہا کہ اگر اجازت ہو تو اگلی محفل میں مضمون میں پڑھ دوں؟ دوستوں نے میری طرف دیکھا تو میری ہیئت کذائی دیکھ کر تذبذب کا شکار ہو گئے اور ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ تھوڑی خاموشی کے بعد ارشد میر صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کس موضوع پر مضمون پڑھیں گے؟ میں نے جواب دیا کہ ’’ فلپ کے ہٹی کی کتاب ’عرب اور اسلام‘ پر ایک تنقیدی نظر‘‘۔ ہٹی کی اس کتاب کا ترجمہ انہی دنوں آیا تھا اور میں نے تازہ تازہ پڑھ کر اس کی بہت سی باتوں کو نشان زد کر رکھا تھا۔ اس لیے میرا خیال تھا کہ میں اگلے اتوار تک کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات کو قلم بند کر لوں گا مگر میرا یہ کہنا ایک دھماکہ ثابت ہوا۔ میری پہلی بات ہی بعض دوستوں کو ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ دوسری بات نے تو ان کے چہروں کی کیفیات کو یک لخت تبدیل کر دیا اور مجھے بعض چہروں پر خندۂ استہزا کی جھلک صاف دکھائی دینے لگی مگر میں اپنے موقف پر قائم رہا جس پر ارشد میر صاحب نے اگلی محفل میں میرے مضمون کا اعلان کر دیا۔ 

میں نے اپنے مضمون کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصے میں ان واقعاتی غلطیوں کی نشان دہی کی جو ہٹی سے تاریخی طور پر چند واقعات کو بیان کرنے میں ہو گئی تھیں اور ان کی تعداد دس سے زیادہ تھی۔ دوسرے حصے میں اس اصولی بحث پر کچھ گزارشات پیش کیں کہ ہٹی اور دیگر مستشرقین اسلام کو ایک تحریک (Movement) کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ اسلام تحریک نہیں بلکہ دین ہے اور پھر اس کے ساتھ ہی تحریک اور دین کے فر ق کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا۔ اس مضمون کا پہلا حصہ ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور میں اس دور میں شائع ہو گیا تھا مگر دوسرے حصے کے بارے میں ترجمان اسلام کے مدیر محترم ڈاکٹر احمد حسین صاحب کمال مرحوم نے مجھے بتایا کہ وہ کہیں گم ہو گیا ہے۔ بد قسمتی سے میرے پاس اس کی کاپی نہیں تھی اور مزید بد قسمتی یہ کہ اس کے بعد اس حصے کو لکھنے کی کئی بار کوشش کر چکا ہوں مگر ابھی تک اس معیار پر نہیں لکھ پا رہا۔ کسی کتاب کے پوسٹ مارٹم اور آپریشن کے حوالے سے یہ میرا پہلا مضمون تھا جو میں نے ’’مجلس فکر ونظر‘‘ کی ہفتہ وار ادبی نشست میں پڑھا جسے بے حد پسند کیا گیا اور اس کے بعد مجلس میں میری شمولیت نے خاموش سامع کے بجائے متحرک رکن کی شکل اختیار کر لی۔

کتاب کے ساتھ میرے تعلق کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ زندگی میں اپنے جیب خرچ اور کمائی کا ایک بڑا حصہ میں نے کتاب پر صرف کیا ہے۔ خرچ کے معاملے میں میری تین کمزوریاں شروع سے رہی ہیں: ۱۔ سفر‘ ۲۔ کتاب اور ۳۔ ڈاک اسٹیشنری۔ مجھے جب بھی اپنے اخراجات میں کوئی گنجائش ملی ہے (بسا اوقات اس کے بغیر بھی) تو میری رقم کے مصارف میں یہی تین چیزیں شامل رہی ہیں اور اب بھی یہی صورت حال ہے۔ میں نے زندگی میں جتنی کتابیں خریدی ہیں‘ اگر سب میرے پاس موجود ہوتیں تو انہیں سنبھالنے کے لیے اچھی خاصی لائبریری درکار ہوتی مگر میرے ساتھ المیہ یہ رہا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک کتاب خریدنے میں جس قدر ’’فضول خرچ‘‘ تھا‘ اسی طرح کتاب دینے میں بھی فراخ دل رہا ہوں۔ مجھ سے جس دوست نے بھی کسی ضرورت کے لیے کوئی کتاب مانگی ہے‘ میں انکار نہیں کر سکا اور اس طرح دی ہوئی کتابوں میں شاید ہی چند کتابیں مجھے واپس ملی ہوں ورنہ اکثر کتابیں دوستوں ہی کے کام آ رہی ہیں۔ یہ ’’واردات‘‘ میرے ساتھ انفرادی کے علاوہ اجتماعی بھی ہوئی ہے اور کئی بار ہوئی ہے۔ ۶۵ء کی بات ہے کہ گکھڑ میں ’’انجمن نوجوانان اسلام‘‘ قائم ہوئی جس کے بانیوں میں میرا نام بھی شامل ہے۔ اس انجمن نے عوامی خدمت کے لیے ’’دار المطالعہ‘‘قائم کیا تو میں نے اپنی زیادہ تر کتابیں وہاں دے دیں کہ عمومی استفادہ ہوگا اور محفوظ بھی رہیں گی مگر دو چار سال کے بعد انجمن بکھری تو کتابوں کا بھی کچھ پتہ نہ چل سکا کہ کہاں گئیں۔

اس کے بعد گوجرانوالہ میں اسلامیہ کالج روڈ پر کچھ نوجوانوں نے ’’انصار الاسلام لائبریری‘‘ کے نام سے دینی دار المطالعہ قائم کیا تو اس وقت جمع ہونے والی کتابوں کا بڑا حصہ ان کی نذر کر دیا۔ یہ دار المطالعہ آٹھ دس سال چلتا رہا ہے اور اب اس کا بھی کوئی سراغ موجود نہیں ہے۔

اس کے کافی عرصہ بعد شاہ ولی اللہ یونیورسٹی وجود میں آئی اور اس میں لائبریری قائم کی گئی تو میں نے ایک بار پھر کتابوں کی چھانٹی کی اور اچھا خاصا ذخیرہ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کی لائبریری میں منتقل کر دیا مگر یونیورسٹی کا سلسلہ تعلیم چند سال بعد منقطع ہو گیا تو لائبریری بھی بند ہو گئی۔ خدا جانے کوئی کتاب وہاں اب بھی موجود ہے یا نہیں۔

یہ سلسلہ شاید مزید آگے چلتا مگر اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرمائی کہ میرے بڑے بیٹے حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ کو کتاب شناسی کا ذوق عطا فرمایا‘ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔ اس نے آہستہ آہستہ کتابوں کا معاملہ اپنے کنٹرول میں لے لیا اور کچھ مجھے بھی تھوڑی ’’عقل‘‘ آ گئی اس لیے اب اگر اس سے کوئی کتاب کے بارے میں پوچھتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ ’’ابو سے پوچھنا پڑے گا‘‘ اور مجھ سے کوئی بات کرتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ ’’ناصر کو پتہ ہوگا‘‘۔ اس طرح کچھ کتابیں بچی ہوئی ہیں اور ہم انہیں الشریعۃ اکادمی کی لائبریری کے لیے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔

’’الشریعہ اکادمی‘‘ گوجرانوالہ میں جی ٹی روڈ پر کنگنی والا بائی پاس کے ساتھ مغرب کی جانب ہاشمی کالونی میں ایک کنال رقبہ پر تعلیمی اور تصنیفی مقاصد کے لیے قائم کی گئی ہے جس کی نگرانی میرے پاس اور نظم عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر کے ہاتھ میں ہے۔ اس میں ایک لائبریری کے لیے بڑا ہال مخصوص کر دیا گیا ہے اور خواہش ہے کہ ایک اچھی سی لائبریری بنائی جائے جو علماء کرام‘ اہل دانش اور طلبہ کے لیے استفادہ کا ذریعہ بنے۔ ارادہ یہ ہے کہ فارغ التحصیل علماء کرام کے لیے ایک ’’خصوصی کورس‘‘ شروع کیا جائے جس میں انہیں تاریخ‘ تقابل ادیان‘ تعلقات عامہ‘ کمپیوٹر اور دیگر ضروری مضامین کی تیاری کے ساتھ ساتھ تحقیق ومطالعہ‘ تحریر وانشا اور ادب وصحافت کے ذوق سے آشنا کیاجائے اور اردو‘ عربی اور انگلش سے حسبِ ضرورت روشناس کرایا جائے۔ اس کے لیے جگہ موجود ہے اور دیگر ضروری وسائل کے لیے بھی اصحاب خیر سے تعاون کی امید ہے لیکن میرے نزدیک اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز ایک معیاری لائبریری ہے ۔ جس روز کام شروع کرنے کی حد تک لائبریری میسر آ گئی‘ اس ’’خصوصی کورس‘‘ کا آغاز کر دیا جائے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’مسئلہ کشمیر —  پس منظر، موجودہ صورتحال اور حل‘‘

ڈاکٹر محمد فاروق خان ہمارے ملک کے معروف دانش ور اور کالم نگار ہیں اور جس مسئلے پر قلم اٹھاتے ہیں‘ اس میں تحقیق‘ تجزیہ اور استدلال کے خوب صورت امتزاج کو قاری کے لیے باعث کشش بنا دیتے ہیں۔ بعض مسائل پر ان کے استدلال وتجزیہ کے نتائج سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن تحقیق واستدلال میں ان کی محنت اورمسئلے کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے ان کی وسعت نظر سے اختلاف ممکن نہیں۔

زیر نظر مقالہ میں انہوں نے مسئلہ کشمیر کے تاریخی پس منظر اور اس مسئلے میں مختلف فریقوں کے موقف وکردار کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے اور حقائق وواقعات کو ترتیب اور حوالہ جات کے ساتھ اس انداز سے پیش کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر اور اس کے بارے میں کشمکش کا ایک مجموعی تناظر قاری کے سامنے آجاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ان کے پیش کردہ حل اور تجاویز سے بھی ہمیں اتفاق ہو لیکن مسئلہ کشمیر کو ایک تاریخی تسلسل اور تناظر میں پیش کرنے کے لیے ان کی محنت قابل داد ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے اس کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔

۶۸ صفحات پر مشتمل یہ مقالہ عمدہ کمپوزنگ اور طباعت کے ساتھ دار الاشراق‘ ۱۲۳/بی ماڈل ٹاؤن لاہور نے شائع کیا ہے۔

’’فتنہ دجال اکبر خطرات اور تدابیر‘‘

جناب رسالت مآب ﷺ نے امت کو جن فتنوں سے بطور خاص خبردار فرمایا ہے‘ ان میں دجال کا فتنہ سرفہرست ہے اور متعدد احادیث نبویہ میں دجال اور اس کے فتنے کے بارے میں نشانیاں‘ تفصیلات اور اس کی تباہ کاریاں وضاحت کے ساتھ موجود ہیں جن کی تعبیر وتشریح ہر دور میں محدثین کرامؒ اپنے اپنے علمی دائرے اور ذوق کے مطابق کرتے آ رہے ہیں۔

بھارت کے معروف مسلم سکالر اور دانش ور ڈاکٹر اسرار عالم نے اس موضوع پر بہت تفصیل کے ساتھ لکھا ہے اور ان کی تحقیق وتجزیہ کا ایک منفرد انداز ہے جس میں عالم اسلام کے خلاف مغرب کی فکری اور تہذیبی یلغار کو دجالی فتنہ کے روپ میں پیش کر کے مغرب کے دجل وفریب کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر اسرار عالم صاحب کے فکر وتجزیہ کے تمام نتائج سے اتفاق ضروری نہیں لیکن مغربی فلسفہ وتہذیب کی تباہ کاریوں اور اس کے مکر وفریب کو جس تنوع اور وسعت کے ساتھ انہوں نے بے نقاب کیا ہے‘ اس سے مغرب کے فکر وفلسفہ اور اس کی تہذیبی یلغار کے اہداف کو سمجھنے میں خاصی مدد ملتی ہے۔

زیر نظر رسالہ میں انہوں نے اس موضوع پر اپنی تحریروں کا خلاصہ ۸۰ صفحات میں پیش کیا ہے جسے دار العلم نئی دہلی نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت ۲۰ روپے ہے۔

’’درس مثنوی مولانا رومؒ ‘‘

مولانا جلال الدین رومیؒ کی’’مثنوی‘‘ کو نہ صرف فارسی ادب کی کلاسیکل کتابوں میں نمایاں مقام حاصل ہے بلکہ اہل تصوف کے ہاں بھی معرفت اور اسرار بندگی کے بیان میں اسے اعلیٰ درجہ کی کتاب سمجھا جاتا ہے بالخصوص برصغیر پاک وہند میں شیخ العلما حضرت حاجی امداد اللہ مہاجرمکیؒ اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے حلقہ میں تو مثنوی باقاعدہ تربیت واصلاح کے نصاب میں شامل ہے جس کا درس دیا جاتا ہے اور اس کی تعلیم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ 

حضرت تھانویؒ ہی کے حلقہ کے ایک باذوق بزرگ حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب مدظلہ نے چار سال قبل مثنوی پر اپنے متوسلین اور خوشہ چینوں کو چوبیس درس دیے جنہیں قلم بند کر کے کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔

پونے چار سو صفحات کی یہ خوب صورت اور مجلد کتاب کتب خانہ مظہری‘ پوسٹ بکس ۱۱۱۸۲‘ گلشن اقبال بلاک ۲‘ کراچی سے طلب کی جا سکتی ہے۔

’’ماہنامہ ظلال القرآن‘‘

مولانا سید محمد معروف شاہ شیرازی ہزارہ کے معروف عالم اور دانش ور ہیں جن کا فکری تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور علمی میدان میں ان کی خدمات کا سلسلہ خاصا وسیع ہے جس میں سید قطب شہیدؒ کی معرکہ آرا تفسیر ’’فی ظلال القرآن‘‘ کا اردو ترجمہ بطور خاص قابل ذکر ہے۔ ان دنوں وہ اسلام آباد سے ماہنامہ ’’ظلال القرآن‘‘ کے نام سے ایک معیاری علمی ودینی جریدہ پابندی سے شائع کر رہے ہیں جس میں علمی وفکری مسائل کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کی تازہ ترین صورت حال پر تبصرہ بھی شامل ہوتا ہے۔

۵۰ صفحات پر مشتمل اس ماہوار جریدہ کی قیمت فی شمارہ ۱۵ روپے اور سالانہ زر خریداری ۱۵۰ روپے ہے۔ خط وکتابت مندرجہ ذیل پتہ پر کی جا سکتی ہے:

مسجد عمار بن یاسرؓ ‘ گلی ۲۶‘ F/10-1‘ اسلام آباد

’’امریکی چرچ کا جنسی بحران‘‘

لاہور (انٹر نیشنل ڈیسک) امریکہ کے ریورنڈجان جے جیوگین کی طرف سے ڈیڑھ سو کے قریب نوعمر لڑکوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات اور پیٹرک میکسوالے کی طرف سے ۱۹۸۶ء میں اس سے ہونے والے جنسی تشدد پر ریورنڈ جیوگین کے خلاف عدالتی کارروائی اور نو سے دس سال تک سزائے قید کے بعد امریکہ بھر کے کیتھولک فرقے کے لوگ خوفزدہ ہیں اور اپنے فادرز کے ہاتھوں بچوں کے جنسی تشدد کے متعدد سکینڈلوں سے پریشان ہو چکے ہیں۔ امریکہ کے ممتاز جریدے نیوز ویک کی حالیہ اشاعت میں شائع ہونے والے مضمون ’’فادرز کے گناہ‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ کے لوگ اب بوسٹن کے کارڈینل کے مخالف ہو چکے ہیں جس کے ماتحت کام کرنے والے پادری جنسی سکینڈل میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اس تازہ سکینڈل کے باعث متعدد پادریوں نے جان جے جیوگین کے خلاف قانونی کارروائی پر تشویش اور غم وغصے کا اظہار کیا ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ ہم اتنی توہین محسوس کر رہے ہیں کہ ہم نے عوام میں اپنے مخصوص کالر پہننا بھی ترک کر دیا ہے۔ بوسٹن کے کیتھولکس کی نصف تعداد کا مطالبہ ہے کہ کارڈینل مستعفی ہو جائیں کیونکہ ان کی وجہ سے کیتھولک چرچ کی بدنامی ہوئی ہے۔ اس سکینڈل کی وجہ سے امریکہ کے ایسے بہت سے اداروں سے متعلق لوگ بھی پریشان ہو گئے ہیں جن سے ان کے بچے منسلک ہیں۔ ان میں سکول سپورٹس کی ٹیمیں‘ بوائے اسکاؤٹس وغیرہ شامل ہیں۔ آرچ ڈایوسس آف منڈولفیا نے انکشاف کیا ہے کہ اسے اس بات کی معقول شہادت ملی ہے کہ ۳۵ پادری پانچ عشروں تک بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کرتے رہے ہیں اور انہوں نے متعدد بار ایسے پادریوں کو ان کے فرائض سے سبک دوش کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایری زونا ڈیلی سٹار نے بشپ مینویل ڈی مورنیو آف ٹکسون کے استعفا کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ اس کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ چرچ کے افسران نے خاموشی کے ساتھ نو لڑکوں کو خاموش رہنے کے لیے لاکھوں ڈالر ادا کیے ہیں۔ پلین ٹفس کی اتھارٹیز نے بتایا ہے کہ انہیں روزانہ کالیں وصول ہو رہی ہیں جن میں میری لینڈ‘ نیو یارک‘ کیلی فورنیا ‘ایری زونا اور ایلونوس میں جنسی تشدد کے شکار بچوں نے اپنے ساتھ ہونے والے واقعات بیان کیے ہیں۔ اس مضمون میں متعدد پادریوں کی طرف سے مختلف بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد کے واقعات درج کیے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ آئندہ دس سال میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد پر ہونے والے تصفیوں پر چرچ ایک بلین ڈالر خرچ کریں گا جبکہ ۱۹۸۰ء کے بعد سے اب تک کم از کم ۸۸۰ ملین ڈالر ادا کر چکا ہے۔

(روزنامہ نوائے وقت لاہور‘ ۲۸ فروری ۲۰۰۲ء)

’’پاکستان میں پہلا اسلامی بینک‘‘

کراچی (ا پ پ) سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک میں پہلے اسلامی کمرشل بینک کے قیام کے لیے لائسنس جاری کر دیا ہے۔ کراچی میں ہونے والی ایک سادہ تقریب میں گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین نے میزان بینک لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو عرفان صدیقی کو لائسنس دیا۔ میزان بینک کے سپانسرز کا کویت اور بحرین میں بھی ایک بینک قائم ہے جبکہ جدہ میں اسلامک ڈویلپمنٹ بینک کے نام سے بھی ایک ادارہ موجود ہے۔ میزان بینک کے چیئرمین اور بورڈ آف ڈائریکٹرز شیخ ابراہیم بن خلیفہ الخلیفہ ہیں جو کہ بحرین کے نائب وزیر خزانہ ہیں۔ میزان بینک لمیٹڈ پہلا اسلامک بینک ہوگا جو پاکستان کے اندر کام شروع کرے گا۔ اس کی پورے ملک میں شاخیں کھولی جائیں گی۔ گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین نے ایک انٹرویو میں کہا کہ میزان بینک کو ایک اہم اور بھاری ذمہ داری سونپی گئی ہے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ دیگر بینک بھی اسلامی اصولوں کے مطابق بینکاری کو فروغ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کافی مشکل مرحلہ ہے تاہم یہ دیکھنا ہے کہ بینک کس طرح اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے حکومت سے وضاحت طلب کی کہ بینکوں کا نظام کیا اسلامی اصولوں کے مطابق کیا جائے گا جس کے بعد سٹیٹ بینک کے کمیشن نے میزان بینک کی درخواست پر غور کیا اور بینک پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں لائسنس جاری کیا۔ انہوں نے کہا کہ نئے اسلامک بینک کے قیام سے لوگوں کو ایک نیا تجربہ ملے گا جس کے بعد دوسرے بینک بھی اس کی تقلید کرنے کے لیے آگے آئیں گے۔

(روزنامہ پاکستان لاہور‘ یکم فروری ۲۰۰۲ء)

’’امریکہ میں ڈاڑھی کا مقدمہ‘‘

نیو یارک (نمائندہ خصوصی) نیو جرسی اسٹیٹ میں ۱۰ مسلمان پولیس افسران نے دوران ڈیوٹی ڈاڑھی رکھنے کا مقدمہ جیت لیا ہے۔ جسٹس ڈیپارٹمنٹ کے ایک لاسوٹ میں کہا گیا تھا کہ ۱۰ مسلم افسروں کو ڈاڑھی رکھنے کی وجہ سے ملازمت سے بے دخلی یا پھر ان کی مرضی کے خلاف محکموں میں کھپائے جانے کا امکان تھا۔ جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے محکمہ کو حکم دیا کہ مسلم پولیس افسروں کو دوران ملازمت ڈاڑھی رکھنے کی اجازت دی جائے اور انہیں ہرجانے کے طور پر ۶۰۰,۵۳ ڈالر بھی ادا کیے جائیں۔

(روزنامہ پاکستان لاہور‘ ۸ فروری ۲۰۰۲ء)

اپریل ۲۰۰۲ء

پاکستان کے دینی حلقوں کا اصولی موقفادارہ
بیروت کی علماء کانفرنس کا اعلامیہادارہ
گجرات کا المیہ اور اس کے اثراتمولانا محمد رابع حسنی ندوی
دورِ جدید کے چند اجتہاد طلب مسائلڈاکٹر محمود احمد غازی
یورپ میں چرچ اور اسٹیٹ کی علیحدگی۔ ایک جائزہسلطان احمد اصلاحی
علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ ۔ فکری مماثلتیںپروفیسر محمد یونس میو
آہ ! مولانا عاشق الٰہی برنی مہاجر مدنی نور اللہ مرقدہحافظ مہر محمد میانوالوی
پیٹ معذور ہوتا ہےپروفیسر میاں انعام الرحمن
مولانا درخواستی کا دورۂ جنوبی افریقہ، فجی وبنگلہ دیشادارہ
تعارف و تبصرہادارہ
بغاوت کی دستکپروفیسر میاں انعام الرحمن
قافلہ میعادادارہ
مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کی تاریخ پر ایک نظرادارہ

پاکستان کے دینی حلقوں کا اصولی موقف

ادارہ

(۲۸ مارچ ۲۰۰۲ء کو ہمدرد کانفرنس سنٹر لٹن روڈ لاہور میں روزنامہ پاکستان ویلغار کے زیر اہتمام ’’خلافت راشدہ کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی جس کی صدارت جمعیۃ اتحاد العلماء پاکستان کے صدر مولانا عبد المالک خان نے کی اور پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی مہمان خصوصی کے طور پر شریک ہوئے جبکہ کانفرنس سے خطاب کرنے والوں میں جمعیۃ اہل حدیث پاکستان کے ناظم اعلیٰ مولانا میاں محمد جمیل، جمعیۃ العلماء پاکستان کے مولانا قاری زوار بہادر، جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا خلیل الرحمن حقانی، تحریک خلافت پاکستان کے ڈاکٹر معظم علی علوی ومولانا خورشید احمد گنگوہی، مولانا پیر سیف اللہ خالد، مولانا غلام رسول راشدی اور مولانا عبد الرشید ارشد کے علاوہ روزنامہ پاکستان کے مینجنگ ڈائریکٹر عمر مجیب شامی اور ممتاز دانش ور اور کالم نگار جناب عطاء الرحمن شامل تھے۔ کانفرنس میں تمام راہ نماؤں کی توثیق کے ساتھ ایک مشترکہ اعلامیہ پیش کیا گیا جو متفقہ طور پر منظور ہوا۔ موجودہ معروضی صورت حال میں ملک کی دینی قوتوں کے اصولی موقف کے طور پر یہ اعلامیہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)

بیروت کی علماء کانفرنس کا اعلامیہ

ادارہ

القدس اور فلسطین کی مدد، مظلوم فلسطینی عوام کی تائید، زیادتی اور غاصبانہ قبضے کو ختم کرنے کے حق اور اپنے دفاع کی خاطر صہیونی غاصب کے بارے میں اسلام اور علماء اسلام کے موقف کو واضح کرنے کے لیے لبنان میں ’’تجمع العلماء المسلمین‘‘کی دعوت پر بیروت میں ۲۵/۲۶ شوال ۱۴۲۲ھ مطابق ۹،۱۰ جنوری ۲۰۰۲ء کو فلسطینی عوام کے جہاد کی تائید میں ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی جس کا عنوان تھا ’’قدس کو بچانا اور فلسطینی عوام کی مدد کرنا شریعت کا حکم ہے اور اس کی خاطر جہاد کرنا واجب ہے‘‘۔ ا س کانفرنس میں ۳۴ ممالک کے ۱۳۰ بڑے بڑے علما اور امت مسلمہ کے قائدین شریک ہوئے جو دنیا کے کونے کونے سے تشریف لائے۔ کانفرنس کے اختتام پر شریک ہونے والوں نے اختتامی اعلامیہ جاری کیا اور سفارشات پیش کیں جو مندرجہ ذیل ہیں:

اعلامیہ

صہیونی زیادتی اور دہشت گردی کے سائے تلے جس بحران سے فلسطینی عوام گزر رہے ہیں، اس کے بارے میں عالمِ عرب اور عالمِ اسلام خاموش بیٹھے ہیں۔ ان کی خاموشی ہماری سمجھ میں نہیں آتی لیکن الحمد للہ دوسری طرف دنیا بھر کے علماء کرام فلسطینی عوام کی نصرت اور امت مسلمہ کے ہر شعبہ کے افراد کی زبان بن کر اور اپنی دینی ذمہ داری کا احساس اور شریعت کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اور اخلاقی وانسانی فرض کو سمجھتے ہوئے مندرجہ ذیل اٹل موقف کا اعلان کرتے ہیں:

۱۔ فلسطین سارے کا سارا نہر سے لے کر سمندر تک، شمال سے لے کر جنوب تک اس کے سارے شہر اور گاؤں جس کا دار الخلافت القدس ہے، یہ سب عربی اور اسلامی زمین ہے اور یہ سارے فلسطینیوں کا وطن ہے۔ اس میں وہ بھی شامل ہیں جو مقبوضہ فلسطین میں رہ رہے ہیں اور وہ بھی جن کو زبردستی ملک بدر کیا گیا۔ فلسطین ان سب کا حق ہے، بلا کسی قید یا شرط کے فلسطین ان کا ہے اور وہ فلسطین کے۔

۲۔ القدس جس کی تاریخی حدود معروف ہے، ایک عربی اور اسلامی شہر ہے۔ یہ شہر حصے بخرے اور تقسیم کے قابل نہیں ہے۔ سب مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس کو آزاد کرائیں اور اس کا دفاع کریں اور اس کو یہودیوں سے بچائیں اور اس کا اسلامی تشخص قائم رکھیں۔

۳۔ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کا کسی بھی شکل میں وجود غیر شرعی اور غیر قانونی ہے۔ یہ وجود حملے، غصب اور ناجائز قبضے کا نتیجہ ہے۔ فلسطین کے عوام کو ملک بدر اور بے گھر کر کے حاصل کیا گیا۔ یہ غاصب اپنے وجود کو مستحکم بنانے کے لیے وہاں زندگی کے ہر شعبہ کو یہودیت کا رنگ دے رہے ہیں اور اپنے وجود کو طول دینے کے لیے زیادتیاں اور دہشت گردی کر رہے ہیں اور بے گناہوں کا خون بہا رہے ہیں لیکن یہ وجود کتنا بھی لمبا ہوجائے، مسلمانوں کی نظر میں ہمیشہ اجنبی، زیادتی کی نشانی، زمین اور اس کے باشندوں کے حقوق اور اس کے مقدسات کا غاصب شمار ہوگا اور اس سے ہٹ کر جتنے بھی معاہدے یا بات چیت یہودیوں کے ساتھ ہوئی، سب باطل اور غیر موثر ہیں۔ ان کی شرعی یا قانونی بنیاد نہیں ہے۔

۴۔ فلسطینی عوام کی اسرائیلی سامراج اور اس کی زیادتیوں کے خلاف جدوجہد کی مختلف شکلیں ان کا حق ہے۔ اسلام نے ان کو یہ حق دیا ہے اور اس کی تائید تمام ادیان، فطری قوانین اور انسانی اقدار کرتے ہیں۔

۵۔ ایسے حملے جن کے نتیجے میں شہادت یقینی ہو، جو مجاہدین اسرائیلی دشمن کے خلاف کر رہے ہیں، جائز ہیں جس کی دلیل کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں ملتی ہے بلکہ یہ کام شہادت کا بلند ترین درجہ ہے اور اللہ کی خوشنودی اور جنت حاصل کرنے کا راستہ ہے۔ عقیدہ، ایمان اور اللہ کی خوشنودی کی خاطر سوچ سمجھ کر اور اپنی مرضی سے شہید ہونا دفاعی تحریک کا ایک اہم ہتھیار ہے جس کے ذریعے سے مسلمانوں کو اپنے دشمنوں پر معنوی برتری حاصل ہوئی ہے جو مادی طاقت کی کمی کو پورا کرتے ہیں۔

۶۔ ہم بین الاقوامی سوسائٹی پر زور دیتے ہیں کہ وہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی کو روکے نہ کہ مظلوم فلسطینی عوام سے مطالبہ کرے کہ وہ اپنے ہتھیار ڈال دیں حالانکہ اس نے یہ ہتھیار اپنے دفاع کے لیے اٹھائے ہیں۔ ہم زور دیتے ہیں کہ فلسطینی عوام کا حق ہے کہ وہ اپنی جان کے دفاع کے معرکے میں ہر ذریعے سے اسلحہ حاصل کر سکتے ہیں۔

۷۔ ہم امریکہ کی تیار کردہ دہشت گردوں کی فہرست کو رد کرتے ہیں جس کے ذریعے سے لبنان ، فلسطین اور کشمیر میں جدوجہد کرنے والی طاقتوں پر داغ لگانے کی کوشش ہو رہی ہے اور اس سلسلے میں ان ملکوں، اداروں اور افراد کو بھی بدنام کیا جا رہا ہے جو اس مشروع جہاد کی تائید اور پشت پناہی کر رہے ہیں۔

اگر امریکی حکومت میں صہیونیت کے حامیوں کا ہدف فلسطینی جہادی طاقتیں ہیں اس لیے کہ اسرائیل کو اگر کوئی خطرہ ہے تو صرف ان سے ہے تو ہم بھی کھل کر اعلان کرتے ہیں کہ یہ جدوجہد جدید دور میں سب سے زیادہ مقدس اور بلند تحریک ہے۔ یہ پوری امت کی آواز ہے جو صہیونیت کے خلاف اپنے حقوق اور مقدسات کے دفاع میں اٹھائی جا رہی ہے۔ یہ تحریک اور وہ مجاہدین جو اللہ کی خاطر جہاد کر رہے ہیں، سارے مسلمانوں کی عزت اور آبرو ہیں اور ساری دنیا کے مظلوموں کے خوابوں کی تعبیر ہیں، چاہے وہ مسلمان کہیں بھی ہوں۔

۸۔ ’’حزب اللہ‘ ‘، ’’حماس‘‘ اور ’’جہاد اسلامی‘‘ اور دوسری آزادی کی تحریکیں اس امت کی زبان ہیں۔ دوسرے ملکوں اور ان کے عوام کے دفاع کی فرنٹ لائن ہیں جو ان کے حقوق، مسائل اور ان کے مقدسات کا دفاع کرتے ہیں۔ یہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی عزت اور آبرو ہیں اور سارے دنیا کے مظلوموں کے خوابوں کی تعبیر ہیں۔

۹۔ تمام عرب اور مسلمان حکومتوں، ان کے عوام اور سیاسی پارٹیوں پر واجب ہے کہ فلسطینی عوام کی نصرت، حمایت اور مدد کریں اور ان کا دفاع کریں۔

۱۰۔ ہم عالم عرب اور عالم اسلام کی حکومتوں اور ان کے عوام اور وہاں کی سیاسی پارٹیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ متحد ہو کر امت کو کمزوری، عاجزی، تفرقہ، قومی ومسلکی اور سیاسی اختلافات سے پاک کریں۔ ہم ان سب کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ گفتگو، مصالحت اور تعاون کے ذریعے سے امت کو مضبوط بنیادوں پر متحد کریں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ القدس اور فلسطین کو امت کا مرکزی مسئلہ سمجھ کر اور اس کو فوقیت دے کر ہم عربوں اور مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے صحیح راستے کا انتخاب کر رہے ہیں۔

۱۱۔ علما یہ سمجھتے ہیں کہ گیارہ ستمبر کے بعد امریکی حکام کا ظالمانہ حملہ جس کا آغاز افغانستان میں ہوا ہے، جس میں بے گناہ عوام کا قتل عام ہوا ہے اور قلعہ جنگی میں قیدیوں کو بے دردی سے قتل کرکے ان کا خاتمہ کیا گیا، یہ جرم اس دور میں سنگین ترین جرم ہے جس کے ذریعے سے امریکہ پورے عالم اسلام کو اپنے شکنجے میں کسنا چاہتا ہے۔ یہ بات امت مسلمہ سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ ایک ہو کر اس منصوبے کا مقابلہ کرے اور اس کو ناکام بنائے۔

۱۲۔ علما عرب سربراہی کانفرنس سے جو لبنان میں منعقد ہونے والی ہے، مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے خلاف کھڑے ہوں اور انتفاضہ کی حمایت کریں اور وہ اس کو اللہ اور اپنے عوام کے سامنے اپنی دینی اور دنیاوی ذمہ داری سمجھیں۔

۱۳۔ اس کانفرنس میں شریک ہونے والے تمام علما امیر عبد اللہ بن عبد العزیز کے خطاب کو جو انہوں نے خلیجی مجلس تعاون کے سامنے کیا تھا، سراہتے ہیں۔ شام اور اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کو بھی سراہتے ہیں جس میں انہوں نے فلسطینی عوام کا ساتھ دیا ہے اور سمجھتے ہیں کہ جو تحریک فلسطین میں ابھری ہے، وہ سارے مسلمانوں کے موقف کی تعبیر ہے۔

۱۴۔ اس کانفرنس میں شریک ہونے والے اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور انتفاضہ کی بھرپور حمایت پر لبنان کی حکومت اور عوام کے جرات مندانہ موقف کی قدر کرتے ہیں اور اس پر انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جس نے اس کانفرنس کی بیروت میں میزبانی کی اور اس کو کامیاب بنانے کے لیے تمام سہولتیں فراہم کیں۔

فیصلے

۱۔ اس کانفرنس کو دائمی ادارے کی شکل دی جائے گی اور اس سلسلے میں جنرل سیکرٹریٹ، انتظامیہ اور ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو اس کام کو جاری رکھے۔

۲۔ فلسطینی عوام کی ثابت قدمی کو سپورٹ دینے کے لیے ایک بین الاقوامی فنڈ قائم کیا جائے گا۔

سفارشات

۱۔ دنیا کے کسی ملک پر امریکی جارحیت کی مدد کرنا حرام ہے۔

۲۔ سکولوں کے سلیبس میں فلسطین اور القدس کے نام سے ایک مضمون پڑھایا جائے تاکہ آنے والی نسلوں کے ذہن میں یہ مسئلہ اجاگر رہے۔

۳۔ عرب ممالک میں فلسطینی پناہ گزینوں کے مسائل اور مشکلات کا احاطہ کرنا اور اس کے حل پر غور اور تدابیر اختیار کرنی چاہییں۔

۴۔ ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جو میڈیا کو استعمال کر کے سیاسی دباؤ ڈال سکے جس میں میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیموں اور تمام موثر شعبوں کے ماہرین ہوں۔

۵۔ اس کانفرنس میں شریک ہونے والے علما فلسطین میں جدوجہد اور انتفاضہ کو زکوٰۃ، صدقات، خمس، ہدیے اور عطیات یا کسی بھی قسم کی مالی مدد کو جائز سمجھتے ہیں اور اس کی سفارش کرتے ہیں۔

۶۔ فلسطین کی سرزمین کی ملکیت یہودیوں کو منتقل کرنا حرام ہے۔ یہ بات خرید وفروخت سے ہو یا کسی اور ذریعے سے، سب ناجائز ہے۔

۷۔ کانفرنس میں شریک ہونے والے اسرائیل کا بائیکاٹ کرنا واجب سمجھتے ہیں۔ شرکا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے خاتمے کو واجب سمجھتے ہیں۔ تعلقات استوار کرنے اور اس کی کسی بھی سیاسی ،ڈپلومیٹک، اقتصادی اور تجارتی شکل کی مخالفت کرتے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی سیاسی، معاشی یا تجارتی شکلیں باطل اور ناجائز ہیں۔

۸۔ حج کے دنوں سے فائدہ اٹھایا جائے اور ان دنوں میں فلسطین کے مسئلے کی وضاحت کی جائے اور اس کی مدد کے لیے لوگوں کو پکارا جائے۔ ملاقاتوں، اجتماعات اور مختلف طریقوں سے یہ مقصد حاصل کیا جائے۔

۹۔ جہاد کے مختلف معانی کی تشریح وتوضیح کے سلسلے میں علما کے کردار پر زور دیا جائے۔ امت کے افراد زندگی کے اجتماعی، اقتصادی، ثقافتی اور ہر میدان میں کام کریں، کسی میدان کو خالی نہ چھوڑیں۔

۱۰۔ امت مسلمہ کا اتحاد اور فلسطین کی آزادی کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد فلسطین میں صہیونیت کے خلاف جدوجہد اور انتفاضہ کی تائید اور مدد کرنا ہے۔

(بہ شکریہ ’’جریدۃ الاتحاد‘‘ لاہور)

گجرات کا المیہ اور اس کے اثرات

مولانا محمد رابع حسنی ندوی

ہندوستا ن کو بدیسی غلامی سے آزادی ملنے پر ملک کی ضرورت کے لائق حکومت قائم کرنے اور چلانے کے لیے اس کے دانش وروں اور قانون دانوں نے جو دستور دیا، وہ اس کے قومی اقدار اور مفادات کا حامل دستور ہے جو ہندوستان میں اس عظیم ملک کے تاریخی مزاج وکردار کی جھلک پیش کرتا تھا۔ اس ملک کا ماضی فرقہ وارانہ مذہبی منافرت کا حامل نہیں رہا ہے۔ یہاں ماضی میں جو بھی ٹکراؤ یا کشمکش رہی ہے، وہ ا س کے حکمرانوں کے سیاسی وفوجی اقتدار کی بقا اور طلب تک محدود رہی ہے، مذہبی فرقہ بندی پر نہیں رہی ہے چنانچہ مسلم حکمرانوں کے ماتحت عہدہ داروں میں ہندو دانش ور اور منتظم اور ہندو حکمرانوں کے ماتحت عہدہ داروں میں مسلمان دانش ور اور منتظمین بھی رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر جیسا مذہبی مسلمان شہنشاہ جس کو ہندوؤں میں سخت ہندو دشمن مسلمان حکمران بتایا جاتا ہے، اس نے بھی متعدد اعلیٰ عہدوں پر ہندو دانش وروں اور منتظمین کو رکھا تھا اور صرف مسجدوں کو ہی نہیں بلکہ متعدد مندروں کو بھی جائیدادیں وقف کیں لیکن ہندوستان پر غیر ملکی انگریز حکومت نے ملک میں اپنے قدم جمائے رکھنے کے لیے یہ سیاست اختیار کی کہ ملک کے مختلف مذہبی فرقوں کے مابین پیش آنے والے واقعات میں نفرت اور ٹکراؤ کے اسباب دکھائے جائیں تاکہ ملک کی عوامی طاقت متحد نہ رہ سکے۔ اس کے لیے ملک کی تاریخ میں مذہبی فرقوں کے مابین واقعات کی ایسی تصویر کشی کی جس سے یہ ثابت ہو کہ ملک میں مذہبی زور دستی اور حق تلفی کا دور دورہ رہا ہے چنانچہ انگریز ی اقتدار میں ایسی کتابیں اور نصاب تعلیم مرتب کیا گیا جن سے انگریزوں کا یہ مقصد پورا ہوتا تھا، خاص طور پر مسلمانوں کو جابر اور ظالم اور غیر مسلموں کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کرنے والا دکھایا گیا۔

اس نصاب اور لٹریچر نے عام ہندوؤں اور سکھوں کے ذہنوں کو مسموم کیا، پھر اس ذہن کی کارفرمائی تقسیم ہند کے موقع پر سخت انداز میں ہوئی اور یہ انگریزی اقتدار اعلیٰ کی سربراہی میں انجام پائی جس سے ہندو مسلم فرقوں کے دلوں میں ایک دوسرے سے سخت نفرت وعداوت ابھری اور ملک کے دونوں ٹکڑوں کے سرحدی علاقوں میں آگ وخون کا کھیل ہوا اور اس سے متحدہ ہندوستان کے ماضی کی رواداری، میل محبت کی تاریخ ٹوٹ پھوٹ گئی۔

لیکن دونوں فرقوں کے غیر متعصب مزاج کے حامل دانش وروں اور قائدین نے حالات کو سنبھالا اور ملک کے مستقبل کے لیے ملک کے ماضی کی اقدار کو بنیاد بنایا اور اسی کے مطابق دستور ترتیب دیا۔ اس دستور کے بموجب ملک نے اپنے نئے عہد میں قدم بڑھایا اور ترقی کی راہ اختیار کی۔ ملک کے باشندوں کی تعداد اور اپنے رقبہ کی وسعت اور اپنی زمینی دولت پھر اپنے روادارانہ اور انسانیت دوست مزاج کے لحاظ سے پورے مشرق کی قیادت کے منصب کی طرف بڑھنا شروع ہوا اور پورے ایشیا میں اس کی اہمیت اور بڑائی کو تسلیم کیا جانے لگا۔ اس پورے خطے میں ہندوستان کے ارد گرد پچاس سے زیادہ مسلم ممالک ہیں، وہ سب ہندوستان کو اپنے بڑے بھائی کی حیثیت سے دیکھنے لگے لیکن انگریزوں کے بوئے ہوئے علاقائی ونسلی منافرت کے بیج بھی اپنا کام کرتے رہے اور ان کے اثر میں آئے ہوئے فرقہ وارانہ دشمنی اور ٹکراؤ کو پسند کرنے والے اداروں اور افراد نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ مسلمان اقلیت میں تھے اس لیے ان کے فرقہ وارانہ دشمنی کا مزاج رکھنے والے زیادہ کارگر نہ ہو سکے لیکن ہندوؤں میں اس مزاج کے لوگ اور ادارے ملک پر اپنے اثرات بڑھاتے رہے حتیٰ کہ اپنی تدبیروں اور سازشوں سے سیکولر مزاج رکھنے والی حکومتوں میں دخیل بلکہ حاوی ہو گئے۔ وہ ہندو نوجوانوں کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور عداوت کا خیال پیدا کرتے رہے ۔ وہ یہ کام جو پہلے تعلیم وابلاغ کے ذرائع سے کرتے تھے ،اب سیاست وحکومت کے ذرائع سے کرنے لگے۔

فرقہ وارانہ منافرت کی حامل ان طاقتوں کا اصل مرکز زیادہ تر ہندوستان کا مغربی علاقہ رہا اور مہاراشٹر اور گجرات ان کے اثرات کا بنیادی علاقہ رہا۔ وہاں سے وہ شمالی ہندوستان اور جنوبی علاقوں میں اپنے منصوبوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس سلسلے میں ان کو اجودھیا کی قدیم مسجد جس کا انتساب بابر کی طرف کیا جاتا ہے، ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان موضوع نزاع بنانے کا اچھا عنوان ملا چنانچہ اس کے نام سے تحریک شروع کی گئی جس کو حکومتوں کے منافرت پسند ذہن کے افراد وعہدہ داروں کی طرف سے سہارا ملتا رہا۔ بالآخر فرقہ پرست ہندو طاقتوں کو مسجد پر قبضہ کر لینے اور اس میں مندر کے مذہبی رسومات ادا کرنے کا موقع مل گیا۔ مسلمانوں کے پاس عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے سوا کوئی دوسرا معتبر ذریعہ نہ تھا چنانچہ انہوں نے اس سے رجوع کیا جس کی بنا پر برس ہا برس سے یہ مسئلہ عدالت میں زیر بحث ہے اور شاید ابھی اسی طرح چلتا رہے لیکن ایک طرف طاقت ہو اور دوسری طرف عدالت تو طاقت اپنا فوری اثر دکھاتی ہے اور عدالت سے رجوع کرنے والے کو اپنی کمزوری کا مشاہدہ کرتے رہنا پڑتا ہے۔

سالِ رواں میں اس کشمکش کا اثر گجرات کے صوبہ سے زیادہ ظاہر ہوا۔ وہاں ہندو بالادستی بلکہ جارحانہ سیاست کے حامل لوگوں کی حکومت ہے۔ اس کے زیر سایہ یہ خونی ڈرامہ رچایا گیا جس سے پورے ملک کے مسلمانوں کے دل دہل گئے اور ملک کا روادارانہ سیکولر کردار پاش پاش ہو گیا۔ بالآخر بدنامی کے خوف اور سیکولر مزاج کے افرادکے دباؤ کا کسی قدر اثر پڑا اور عدالت عظمیٰ نے خصوصی توجہ کی اور ایودھیا کے نام پر جن جارحانہ مقاصد کی تکمیل کی جانے والی تھی، وہ روک دی گئی اور حالات کے بدترین ہو جانے کا جو سلسلہ شروع ہو گیا تھا، اس میں کچھ ٹھہراؤ پیدا ہوا۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ ٹھہراؤ کتنا قائم رہتا ہے۔

اس ملک کے سربراہان حکومت کو، خواہ وہ ہندو فرقہ پرستی کے رہبر آر ایس ایس کے ہم نوا ہوں اور خواہ ملک کے سیکولر مزاج کے داعی ہوں، اس بات پر غور کرنا اور فیصلہ کرنا ہے کہ فرقہ پرستی کا یہ جارحانہ عمل جو ایودھیا میں اپنی من مانی کرنے کے لیے ساری انسانی قدروں اور ملک کی سا لمیت وترقی کے لیے تباہ کن طوفان کی شکل اختیار کر گیا ہے، ملک وقوم کو کس تباہی اور انتشار تک لے جائے گا اور ملک وقوم کی عزت کو بیرون ملک کیا نقصان پہنچائے گا؟ کارخانوں کو جلانا، صنعتی ٹھکانوں کو تباہ کرنا اور سب مال لوٹ لینا، لوٹنے والوں کو کچھ سستے فائدے تو حاصل کرا دے گا لیکن برباد ہو جانے والی صنعتوں کے ختم ہو جانے سے ملک کی دولت اور صنعتی ذرائع میں کیا کمی واقع ہو جائے گی۔ جبکہ یہ مالی وصنعتی کوششیں خاصی حد تک غیر ملکی کرنسی کے حصول کا اور اندرون ملک میں اضافہ دولت کا ذریعہ بن رہی تھیں، اب ملک کے حصول دولت کے دائرے میں کس قدر خسارہ کا باعث ہوگا اور کتنی صنعتیں ٹھپ ہو کر رہ جائیں گی۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر منظم فساد سے ملک اپنی طاقت ودولت کے مقام سے ایک قدم پیچھے چلا جاتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ فرقہ وارانہ جوش وغضب میں ملک کی سا لمیت، عزت اور اقتصادی طاقت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور صرف جذباتی مسرت کے حصول کے لیے اس کو قربان کر دیا جاتا ہے۔ گجرات جو ملک کی صنعتوں کا عظیم گہوارہ ہے، کس قدر اقتصادی توانائی سے محروم ہو گیا اور یہ خود گجرات کے باشندوں کے ہاتھوں انجام پایا۔ یہ لوگ ملک وقوم کے بہی خواہ ہوئے یا بد خواہ؟

اب رہا مسلمانوں کا مسئلہ تویہ تباہی ان کے لیے حوادث کی حیثیت تو رکھتی ہے لیکن ان کے مٹا دینے یا ختم کر دینے کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ منظم فسادات کے ذریعے سے مسلمانوں کا خاتمہ کر دینے کی اس ملک میں گزشتہ ۵۵ سالوں میں کئی بار کوششیں کی گئیں لیکن وقتی نقصان سے زیادہ ان کا اثر نہیں پڑا۔ مسلمانوں کی تاریخ نے ان کو بتایا ہے کہ ایسے طوفانوں سے بھی زیادہ سخت طوفان ان پر سے گزرے ہیں اور وہ ان کے اثر سے غیر معمولی خوف ودہشت اور تباہی وخسارہ سے گزرے ہیں لیکن وہ ختم نہیں کیے جا سکے بلکہ اس کے بعد ان میں مزید ہمت وحوصلہ پیدا ہوا اور انہوں نے اپنے سابقہ مقام کو دوبارہ بحال کر لیا۔ ان کو ان کے مذہب نے مایوسی اور شکست خوردگی کی اجازت نہیں دی ہے بلکہ ان کو تعلیم دی ہے کہ ایسے طوفانوں میں وہ اپنے حوصلہ کو برقرار رکھیں اور انسانی شریفانہ کردار پر قائم رہتے ہوئے اپنے پروردگار سے خیر کی امید رکھیں۔ سارے حالات کے باوجود آخری کام یابی حق وانصاف اور ہمت سے کام لینے والوں کی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ اس کی شاہد ہے۔

بعض لوگ اسپین کا نام لیتے ہیں۔ وہ قدیم زمانے میں ایک چھوٹا ملک تھا اور اس میں مسلمان اقلیت میں ہونے کے تعلق سے کم آبادی رکھتے تھے۔ کئی صدیوں تک ظلم برداشت کرنے کے بعد خود ان کی آبادی کی ایک تعداد نے تبدیلی وطن کو اختیار کرلیا۔ اب موجودہ جمہوری عہد میں پھر وہ وہاں دوبارہ بڑھ رہے ہیں اور ترقی کر رہے ہیں۔ رہا یہ ملک ہندوستان تو یہاں کے بیس کروڑ مسلمانوں کو بے وزن کردینے کی کوشش مسلمانوں کو صرف جزوی نقصان پہنچا سکتی ہے، ان کے وجود کو نقصان نہیں پہنچا سکتی لیکن اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی ہے کہ یہ نقصان رسانی پورے ملک وقوم کے لیے کئی پہلوؤں سے نقصان دہ ثابت ہوگی۔

ملک وقوم کی سا لمیت وطاقت کے لیے ضروری ہے کہ اس کی آبادی کے مختلف طبقات میں میل جول، تعاون اور ہم آہنگی ہو اور وہ اسی صورت میں ہوگا کہ ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھیں اور اپنے فرقہ کے فائدہ کے لیے دوسرے فرقہ کے ساتھ حق تلفی اور نقصان رسانی کا عمل اختیار نہ کریں۔ کئی صدیوں سے قائم وجاری اور حکومت وتاریخ کے ریکارڈوں میں تسلیم کی جانے والی مسجد کو محض خواہش پر ہندو عبادت گاہ بنا دینے کی کوشش صرف تلخی، ٹکراؤ اور ملک کی ہم آہنگی کو تباہ کرنے کے سوا کچھ اور نتیجہ پید انہ کر سکے گی۔

گجرات میں مسلمانوں کو جس بربریت کے ساتھ مارا، لوٹا اور تباہ کیا گیا ہے، اس کو سن کر اور دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ ظلم کی دردناک مثال ہے۔ ظلم ایسا انسانی جرم ہے جس پر اللہ رب العالمین کی گرفت جلد ہوتی ہے۔ اس ظلم کا نتیجہ بھی سخت ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔ اس کی گرفت اور سزا سخت ہوتی ہے۔ کوئی تعجب کی بات نہ ہوگی کہ گجرات کے ظالموں کو اپنے ظلم کا نتیجہ سخت دیکھنا پڑے۔

مسلمانوں کو اس سلسلے میں اپنے پروردگار سے رحمت کی دعا اور حالات کا مقابلہ کرنے میں دانش مندی اور دستور وجمہوری قدروں کے ساتھ طریقہ کار کاپابند رہنا ان کے لیے کامیابی کی راہ استوار کرے گا۔ امید ہے کہ ملک کے دونوں فریق اگر جلد نہیں تو بدیر ہی سمجھ داری کی راہ کو اپنائیں گے۔ موجودہ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئندہ کے خطرات کے مقابلے کے لیے مناسب حکمت عملی اختیارکریں گے اور موجودہ المیہ میں نقصان اٹھانے والے اپنے بھائیوں کے ساتھ جو ہمدردی قابل عمل ہے، اختیار کریں گے اور گجرات میں جو ریلیف کا کام ہو رہا ہے، ا س میں حسبِ استطاعت پورا حصہ لیں گے۔

(بہ شکریہ تعمیر حیات لکھنؤ)

دورِ جدید کے چند اجتہاد طلب مسائل

ڈاکٹر محمود احمد غازی

اسلامی علوم وفنون کی تدوینِ نو کا کام ایک ہمہ پہلو تعلیمی اور فکری جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔ اس جدوجہد میں بعض نئے مسائل پر اجتہادی نقطہ نظر سے غور وخوض بھی شامل ہے اور بعض اجتہادی آرا پر ازسرنو ناقدانہ نظر ثانی بھی ناگزیر ہے۔ دور جدید نے بعض ایسے مسائل ومعاملات ہمارے سامنے پیش کر دیے ہیں جو سلف کے سامنے نہیں تھے اس لیے ماضی میں مجتہدین امت اور مفکرین اسلام کو ان پر کوئی رائے قائم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ 

مثال کے طور پر ایک کثیر العناصر (Pluralistic) معاشرے میں اسلام کا کردار کیاہے اور کیا ہونا چاہیے؟ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو بیسویں صدی کے اواخر میں سامنے آیا۔ بالخصوص مجاہدین افغانستان کے ہاتھوں سوویت یونین کی تباہی وبربادی اور بالآخر کمیونزم کے زوال کے نتیجے میں جو یک قطبی دنیا سامنے آئی تو اس مسئلہ کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا۔ اب ایک طرف تو مغرب کے بالادست فاتحین کی کوشش یہ ہے کہ تاریخ کے خاتمے کے اعلانات اور تہذیبوں کے تصادم کے پردوں میں ایک یک عنصری نظام دنیا پر مسلط کر دیں اور دوسری طرف کثیر العناصر نظاموں کی تلاش کے نام پر دوسروں کے معاملات میں مداخلت کا جواز پیدا کریں۔ ان حالات میں مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ قرآن وسنت کی نصوص اور فقہاء اسلام کی تصریحات کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کا تعین کریں کہ ایک مسلم معاشرہ میں دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں کی بقا کیونکر اور کن حدود کے اندر رہ کر ہو سکتی ہے اور ایک غیر مسلم معاشرے میں اسلامی ثقافت اور اسلامی تمدن کا تحفظ کیسے کیا جا سکتا ہے؟

آج دنیا کا کوئی بڑا شہر ایسا نہیں ہے جہاں مسلمانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ نہ ہو رہا ہو، جہاں آئے دن مسلم تنظیمیں قائم نہ ہو رہی ہوں، جہاں مسجدیں اور اسلامی مراکز پھل پھول نہ رہے ہوں، جہاں قدیم اور جدید مسلمانوں کے مابین تفاعل نہ ہو رہا ہو۔ ان شہروں میں تیزی سے پھیلنے والی مسلم آبادیاں اپنے آپ کو سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی طور پر منظم کر رہی ہیں۔ مشرق ومغرب کے غیر مسلم ممالک میں بسنے والے یہ لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلم نوجوان اپنے تشخص کا تحفظ اور اپنی شخصیت کا اظہار چاہتے ہیں۔ ان حالات میں ان کو آئے دن نت نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شریعت اسلامی کی رو سے ان مسائل کا حل کیا ہے؟ ان سب سوالات کا شافی جواب آج کے اہل علم کے ذمہ ایک قرض اور فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ ماضی میں یہ صورت حال اتنی شدید اور وسیع نہیں تھی جتنی آج ہو چکی ہے۔ اس کی شدت اور وسعت میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر آنے والا دن ایک نیا مسئلہ لے کر طلوع ہوتا ہے۔

ہماری قدیم فقہی کتابیں اسلام کے دور عروج میں مرتب ہوئیں۔ مجتہدین اسلام نے اسلامی ریاست، اسلامی تہذیب، اسلامی ثقافت، اسلامی معاشرہ اور اسلامی زندگی کے ایسے مسائل تو نہایت باریک بینی اور دقت نظر سے مرتب کر دیے جو مسلمانوں کو اپنے دور عروج میں پیش آئے یا جن سے مسلمانوں کو مسلم ماحول میں واسطہ پڑتا ہے۔ رہے وہ مسائل جو ایک مسلم اقلیت کو پیش آ سکتے تھے یا غلامی کی زندگی گزارنے والے مسلمانوں کو پیش آ سکتے تھے، ان سے فقہاء اسلام کو زیادہ اعتنا کرنے کا نہ موقع ملا اور نہ اس کی ضرورت پیش آئی۔ اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب مسلمانوں کو سیاسی زوال کا سامنا کرنا پڑا تو یہ وہ زمانہ تھا جب فقہ اسلامی بھی ایک طرح کے تعطل کا شکار تھی اور دور انحطاط سے گزر رہی تھی۔ اجتہاد کا سلسلہ تقریباً بند ہو چکا تھا اور علماء اسلام بالعموم دور انحطاط میں لکھی ہوئی فقہی کتابوں اور متون کی شرحوں اور حاشیوں کے پڑھنے پڑھانے میں مصروف تھے۔ ان حالات میں مغربی ممالک میں جا کر بسنے والے مسلمانوں کی راہ نمائی کا کوئی خاص سامان فراہم نہ ہوا اور یہ لوگ مختلف مغربی معاشروں میں جا جا کر گم ہوتے رہے۔ آج نئی تحقیقات اور تاریخی اکتشافات سے ان لاتعداد مسلم آبادیوں کا پتہ چل رہا ہے جو امریکہ، آسٹریلیا، برازیل اور ارجنٹائنا جیسے بڑے ممالک کے سمندروں میں گم ہو گئیں۔ اگر اٹھارویں صدی کے اوائل ہی سے کسی فقہ الاقلیات پر غور وخوض کی داغ بیل ڈال دی جاتی اور ایسے غیر موافقانہ ماحول میں مسلم وجود کے احکام پہلے سے مرتب شدہ موجود ہوتے تو شاید یہ مسلمان آبادیاں یوں آسانی اور تیزی سے گم نہ ہوتیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ آج فقہاء اسلام اور علماء امت کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ ان بدلتے ہوئے حالات میں پیش آنے والے سوالات اور نت نئی مشکلات کا ایسا قابل عمل حل پیش کریں جو غیر مسلم ماحول میں مسلم وجود کے تحفظ اور بقا کا ضامن ہو۔

اس معاملے کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آج کے حالات کی مناسبت سے مسلم معاشرہ اور مسلم ریاست کی تحدید نو کی جائے اور جدید معروضی حقائق اور فکری مباحث کے پس منظر میں یہ واضح کیا جائے کہ اسلامی معاشرے کی تعریف کیا ہے اور اسلامی ریاست آج کے سیاق وسباق میں کس ریاست کو کہا جائے گا۔ اس بات کی ضرورت اس لیے پیش آ رہی ہے کہ فقہاء اسلام نے آج سے کم وبیش ایک ہزار دو سو سال قبل دار الاسلام، دار الحرب اور دار الصلح وغیرہ کی جو حد بندیاں تجویز کی تھیں، وہ آج کے زمینی حقائق کی روشنی میں اجنبی معلوم ہوتی ہیں۔ خود فقہاء اسلام کو ابتدائی دو تین صدیوں میں ہی ان تقسیمات پر کئی بار ازسرنو غور وخوض کرنا پڑا۔ دوسری صدی ہجری کے نصف اول کے زمینی حقائق کی روشنی میں امام ابو حنیفہؒ (متوفیٰ ۱۵۰ھ) کے فہم اسلام کی رو سے روئے زمین کو صرف دو حصوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے تھے یعنی دار الحرب اور دار الاسلام۔ لیکن جلد ہی امام شافعیؒ (متوفیٰ ۲۰۴ھ)بلکہ خود امام ابو حنیفہؒ کے تلامذہ کو اس تقسیم پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور انہوں نے دار الاسلام اور دار الحرب کی دوگانہ تقسیم کے مابین دار العہد اور دار الصلح کی درمیانی تقسیمیں تجویز کرنا ضروری سمجھا۔ کچھ اور بعد کے فقہا نے دار العدل، دار البغی اور ایسی ہی دوسری تقسیموں کی ضرورت محسوس کی۔ آج کے بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں جدید زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ان تمام تقسیموں پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کوئی ایک ملک نہ دنیا سے بالکلیہ لاتعلق ہو کر رہ سکتا ہے اور نہ کسی ملک سے تعلق کی وہ نوعیت ہو سکتی ہے جو فقہاء اسلام نے دار الحرب کے حوالے سے سوچی تھی۔ یہاں تک کہ جن ممالک سے مسلمان عملاً برسر جنگ ہیں (مثلاً ہندوستان، اسرائیل، روس اور فلپائن) ان کو بھی کلی طور پر دار الحرب قرار دینا اس لیے مشکل ہے کہ فقہائے اسلام نے اس وقت دار الحرب کی جو شرائط بیان کی تھیں، ان میں سے کئی شرائط ان ممالک میں نہیں پائی جاتیں۔ اسی طرح کئی ایسے ممالک ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، جہاں مسلمانوں کی خود مختار حکومتیں بھی ہیں، جہاں انہیں مذہبی مراسم اور مذہبی تعلیم کی آزادی بھی حاصل ہے لیکن وہ خود کو آئینی طور پر سیکولر یعنی لامذہبی ریاست قرار دیتے ہیں۔ ان کو نہ شاید دار الاسلام کے زمرہ میں رکھا جا سکتا ہے اور نہ غالباً ان کو دار الحرب قرار دیا جا سکتا ہے۔

یہ اور ا س طرح کے بہت سے مسائل ایسے ہیں جن کے پیش نظر ایک نئی تقسیم کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ قرآن مجید اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام اور نصوص اور فقہاء اسلام کے متفق علیہ اجتہادات کو سامنے رکھتے ہوئے ان حدود کا آسانی سے تعین کیا جا سکتا ہے جن کے ذریعے سے جدید بین الاقوامی تعلقات اور میل جول کے معاملات کو نئے انداز سے منظم کیا جا سکے۔

اسی طرح کا ایک اور مسئلہ گزشتہ چند سالوں کے درمیان ہونے والی بحثوں کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ یہ بحثیں جو مشہور امریکی فضلا سموئیل ہنٹنگٹن اور فوکویاما کی تحریروں سے شروع ہوئی تھیں، اس وقت دنیا میں بحث ونظر کا موضوع بنی ہوئی ہیں۔ ہنٹنگٹن نے تہذیبوں کے تصادم کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، اس نے مستقبل میں ممکنہ تہذیبی جنگ یا کم از کم کشمکش کے بارے میں مسلمانوں کے لیے اہمیت رکھنے والے متعدد سوالات اٹھائے ہیں۔ تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کا رویہ کیا ہوگا؟ جس چیز کو اسلامی تہذیب کہا جاتا ہے، اس کے تحفظ اور بقا کے لیے مسلمانوں کو کس حد تک جانا چاہیے؟ کیا اسلامی تہذیب کے مادی اور فنی مظاہر (مثلاً تاج محل اور الحمرا) اسی طرح دفاع کے مستحق ہیں جس طرح اسلامی تہذیب کے فکری اور تعلیمی امتیازات (مثلاً اسلامی علوم، کلام اور اصول فقہ وغیرہ)؟ تہذیبوں کے اس ممکنہ تصادم یا کشمکش میں مذاہب کی روایتی تقسیم (مذاہب اہل کتاب، شبہ اہل کتاب اور غیر اہل کتاب) کی حیثیت کیا ہوگی؟ تہذیبوں کے اس تصادم کے دوران مسلمانوں کی ذمہ داری کیا ہوگی؟ اس باب میں کیا مسلم حکومتوں، مسلم عوام اور مسلم اقلیتوں کی ذمہ داریوں کے مابین فرق کیا جائے گا؟ اگر تہذیبوں کا یہ تصادم شروع ہوا تو دنیائے اسلام میں اس وقت قائم قومی ریاستوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ قومی ریاستوں اور تصور امت کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کی کیا صورت ہوگی؟ دنیائے اسلام کے وہ علاقے جہاں بہت سے لوگ خود کو مغربی تہذیب کا تسلسل قرار دیتے ہیں، ان کا طرز عمل اس تصادم کے دوران میں کیا ہونا چاہیے؟ یہ اور ایسے بے شمار سوالات ہیں جو ایک اجتہادی بصیرت کے متقاضی ہیں۔ ان سوالات کا جواب نہ محض فقہی اسلوبِ استدلال سے کام لے کر دیا جا سکتا ہے اور نہ محض متکلمین اسلام کی تحریروں سے۔ اس کام کے لیے نہ صرف قرآن مجید پر گہری نظر اور پیغام قرآن میں عمیق بصیرت کی ضرورت ہے بلکہ فکر اسلامی میں مہارت، تصوف اور کلام سے واقفیت اور تاریخ اسلام پر گہری نظر کے ساتھ ساتھ جدید مغربی افکار بالخصوص فلسفہ تاریخ اور معرکہ مذہب وسائنس کی تاریخ اور نشیب وفراز سے ناقدانہ واقفیت بھی ضروری ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم میں اس کی گنجائش ہے کہ ایسے اصحاب بصیرت پیدا ہو سکیں جو اس طرح کے چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے میں امت مسلمہ کی راہ نمائی کر سکیں؟ اکیسویں صدی میں مسلمانوں کے نظام تعلیم کا کم از کم ایک بنیادی ہدف ایسے افراد کار کی تیاری بھی ہونا چاہیے۔

اسلامی علوم وفنون کی تدوین نو کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ جو جدید دینی تحریکات اور تحریکی فکر کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، وہ جہاد اور دعوت کے رشتہ شکستہ کی بازیابی ہے۔ بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائیوں میں جب پہلی جنگ عظیم میں کام یابی کے بعد سلطنت برطانیہ کا آفتاب نصف النہار پر معلوم ہوتا تھا، جب لینن اور اسٹالن کی سربراہی میں کمیونزم کی جبروتی طاقت سامنے آئی، جب ہٹلر اور مسولینی کی قائم کردہ کلیت پسندانہ اور مستبدانہ سلطنتیں وجود میں آئیں تو دنیائے اسلام میں بہت سے حساس اور مخلص خادمین اسلام نے یہ محسوس کیا کہ دنیائے اسلام کی کمزوری اور ادبار کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ امت مسلمہ کی پشت پناہی کے لیے کوئی ایسی بڑی سلطنت موجود نہیں جو مذکورہ بالا ریاستوں کے مقابلے میں کھڑی ہو سکے اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسلام کے موقف کو بیان کر سکے۔ اس احساس نے جس کی بنیادیں اخلاص اور دردمندی کے خمیر سے اٹھی تھیں، متعدد طاقت ور اسلامی تحریکات کو جنم دیا۔ ان تحریکوں کی صفوں سے بہت سے ایسے اہل قلم اور ارباب صحافت سامنے آئے جنہوں نے ملت اسلامیہ کی نشأۃ ثانیہ کی لازمی شرط اور خشت اول کے طور پر اسلامی ریاست کے وجود کو لازمی قرار دیا اور یوں بیسویں صدی کے وسط سے لے کر آئندہ کم وبیش پچاس سال کے دوران میں یہ بحث معاصر اسلامی فکر کی شاید سب سے اہم بحث بن گئی جس نے دنیائے اسلام میں مغربی تعلیم یافتہ نوجوانو ں کی ایک بہت بڑی تعداد کو متاثر کیا اور اس طرح احیاء اسلام اور اقامت دین کی اصطلاحیں تاسیس ریاست کے مترادف بن گئیں۔ ان مباحث میں جہاد اور دعوت کی اصطلاحات کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا لیکن اکثر وبیشتر یہ دونوں اصطلاحات ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر استعمال ہوئیں حالانکہ یہ دونوں اصطلاحات مسلمانوں کی دینی ذمہ داریوں کے دو مختلف مراحل کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اسلامی تعلیم کی بنیادی روح ایمان کامل، تعلق مع اللہ اور اخروی کامیابی کا حصول ہے۔ اسلام کا مزاج داعیانہ ہے، فاتحانہ نہیں۔ وہ سنگ وخشت کو فتح کرنے سے نہیں، قلب وروح کو فتح کرنے سے غرض رکھتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے معاصر حکمرانوں کو جتنے بھی تبلیغی والانامے تحریر فرمائے، ان میں بہت سے والا ناموں میں یہ بات قدر مشترک کی حیثیت رکھتی تھی کہ اگر تم اس پیغام کو قبول کر لو تو تمہاری حکومت برقرار رہے گی اور تمہارا اقتدار قائم رہے گا۔ اسلامی دعوت کی تاریخ میں یہ بات انتہائی اہمیت رکھتی ہے کہ آغاز وحی سے لے کر ریاست مدینہ کے قیام اور سنہ ۲ ہجری میں میثاق مدینہ کی تحریر وتدوین تک کا یہ سارا پندرہ سالہ عمل ایک انتہائی پرامن تبدیلی کے عمل سے عبارت تھا۔ بغیر ایک قطرہ خون بہائے اور تلوار ہاتھ میں لیے ایک مسلم معاشرہ اور مسلم ریاست وجود میں آ گئی۔ جہاد بالسیف کی اجازت اس وقت دی گئی جب اس ریاست پر بیرونی حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ دعوت اور جہاد کے مابین اس نہایت اہم تاریخی ترتیب کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام میں اصل دعوت ہے اور جہاد بالسیف اس کا ایک ناگزیر مرحلہ۔ یوں بھی قرآن مجید کی متعلقہ نصوص کی رو سے جہاد کی بہت سی قسموں (جہاد بالمال، جہاد بالقرآن، جہاد بالنفس) کے ساتھ جہاد بالسیف محض ایک مرحلہ ہے، اگرچہ وہ اپنی اہمیت اور فضیلت کے اعتبار سے بقیہ تمام مراحل سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

بیسویں صدی کی اسلامی تحریکات میں جو مزاج تیار ہوا اور جو ادب سامنے آیا، اس میں دعوت اور جہاد کے ان مراحل اور ترتیب کا لحاظ رکھنے کی، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شعوری کوشش نہ کی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دعوت کا خالص نبوی اسلوب پس منظر میں چلا گیا اور مغربی انداز کے سیاسی عمل اور سیاسی تنظیم نے اس کی جگہ لے لی۔ سیاسی سرگرمیوں کا یہ انداز خالص دعوتی انداز سے چونکہ خاصا مختلف تھا اس لیے جب ان سرگرمیوں کو دینی مکالمہ اور دینی محاورہ میں بیان کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس میں جہاد کی اصطلاح زیادہ موزوں اور قریب الفہم محسوس ہوئی اس لیے اس کو بلاتکلف استعمال کیا جانے لگا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاد کے وہ تمام مستلزمات جو جہاد بالسیف کے ساتھ خاص ہیں، روزہ مرہ کے سیاسی عمل کا لازمی حصہ سمجھے جانے لگے اور یوں دینی تحریکات کے پرجوش کارکنوں کے ذہنوں میں معمول کا مغربی انداز کا سیاسی عمل ایک جہادی سرگرمی بن گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب اس میں شدت پیدا ہوتی گئی تو اس کا اظہار شدت پسندانہ اور بعض دفعہ دہشت پسندانہ انداز میں ہونے لگا۔ گزشتہ چوتھائی صدی کے دوران میں مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک پھیلی ہوئی بہت سی اسلامی تحریکات کے کارکنوں کی شدت پسندی کے اسباب اسی فکری پس منظر میں تلاش کیے جانے چاہییں۔

ان حالات میں مسلمان اہل علم اور مفکرین کی یہ ذمہ داری ہے کہ جہاد اور دعوت کے گرد گھومنے والے اس نئے علم کلام کا ازسرنو جائزہ لیں اور یہ واضح کریں کہ دعوت اور جہاد کا رشتہ کیا ہے اور یہ کہ دور جدید کے مغربی انداز کے عام سیاسی عمل کی اسلام میں کیا حیثیت ہے اور یہ کہ اس عمل کو کب اور کس طرح دعوتی رنگ دیا جانا چاہیے اور کب اور کن حالات میں اس عمل کو جہاد بالسیف میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

جہاد کے سیاق وسباق میں جہاں دعوت وجہاد کے رشتہ شکستہ کی بحالی ضروری ہے اور جہاں اسلام کے داعیانہ (بمقابلہ فاتحانہ) کردار کی اہمیت پر زور دینے کی ضرورت ہے، وہاں جہاد اصغر (جہاد بالسیف) اور جہاد اکبر (جہاد بالنفس) کا تعلق یاد دلانا بھی ضروری ہے۔ عدل، وفاء عہد، احساس ذمہ داری، نظم، سمع وطاعت اور اس طرح کے بہت سے احکام جہاد کے لازمی عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان عناصر کے بغیر اگر تلوار اٹھائی جائے گی تو وہ فتنہ اور افراتفری پیدا کرے گی اور اس سے جہاد کے تقاضے پورے نہ ہوں گے۔ تلوار آخری چارہ کار ہے۔ اس سے پہلے دعوت اور اس کے مراحل، تالیف قلب اور اس کے مراحل اور دشمن پر پرامن دباؤ کے مراحل کا گزرنا ضروری ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ جدید اسلامی فکر کے نمائندہ بعض انتہائی محترم اسلامی مفکرین کی تحریروں سے جو یک طرفہ رجحان جنم لے رہا ہے، اس میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس عدم توازن کی بڑی وجہ سلف کی احتیاط، توازن اور جامعیت کا نظروں سے اوجھل ہو جانا ہے۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے نئے معاملات ہیں جو سنجیدہ اور گہرے غور وخوض کے متقاضی ہیں۔ اسلامی علوم وفنون کی تدوینِ نو کا عمل ان بنیادی تصورات ومفاہیم کی تصحیح وتوضیح کے بغیر ممکن نہ ہوگا۔

یورپ میں چرچ اور اسٹیٹ کی علیحدگی۔ ایک جائزہ

سلطان احمد اصلاحی

عیسائیت کبھی فکر ونظر کا کوئی مکمل نظام نہیں رہی جس کی بنیاد پر سماج کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل کی جا سکے۔ قوم یہود کے اندر جو زرپرستی اور دنیا طلبی پیدا ہو گئی تھی، اس کے علما ورہبان جس طرح روح شریعت کو چھوڑ کر اس کے الفاظ سے کھیلنے لگے تھے اور اپنے دینی منصب کو کلیتاً جلبِ دنیا کا ذریعہ قرار دے رکھا تھا، حضرت مسیح علیہ السلام ایک عارضی وقفے کے لیے انہی کی اصلاح کے لیے بھیجے گئے تھے جس کی صراحت وہ خود ان لفظوں میں کرتے ہیں:

’’میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔‘‘ (متی باب ۱۵:۲۴)

آں جناب کی ان تعلیمات وہدایت سے بھی صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ کی بعثت خاص قوم یہود کے لیے ہوئی تھی اور آپ کی تمام تر کوششیں ان کے بگاڑ کو دور کرنے اور انہیں راہ راست پر لگانے پر مرکوز تھیں:

’’تم سن چکے ہو کہ تم سے کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی دہنے گال پر طمانچہ مارے‘ دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے اور جو کوئی تجھ پر نالش کر کے تیرا کرتا لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لینے دے اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے‘ اس کے ساتھ دو کوس چلا جا۔ جو کوئی تجھ سے مانگے‘ اسے دے اور جو تجھ سے قرض چاہے‘ اس سے منہ نہ موڑ۔‘‘(متی باب ۵: ۳۸۔۴۲)

’’لیکن میں تم سننے والوں سے کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو۔ جو تم سے عداوت رکھیں‘ ان کا بھلا کرو۔ جو تم پر لعنت کریں‘ ان کے لیے برکت چاہو۔ جو تمہاری تحقیر کریں‘ ان کے لیے دعا کرو۔ جو تیرے ایک گال پرطمانچہ مارے‘ دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے اور جو تیرا چوغہ لے‘ اس کو کرتا لینے سے بھی منع نہ کر۔ جو کوئی تجھ سے مانگے‘ اسے دے اور جو تیرا مال لے لے‘ اس سے طلب نہ کر۔‘‘ (لوقا باب ۶: ۲۷۔۳۱)

’’مگر تم اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور بھلا کرو اور بغیر ناامید ہوئے قرض دو تو تمہارا اجر بڑا ہوگا اور تم خدا تعالیٰ کے بیٹے ٹھہرو گے کیونکہ وہ ناشکروں اور بدوں پر بھی مہربان ہے۔ جیسا تمہارا باپ رحیم ہے‘ تم بھی رحم دل ہو۔‘‘ (ایضاً آیت ۳۵‘۳۶)

قومِ یہود جسے اللہ تعالیٰ نے ایک خا ص وقت تک کے لیے امامت عالم کے منصب پر فائز کیاتھا اور اسے اپنے بے پایاں احسانات سے نوازا تھا‘ اس کی ہدایت وراہنمائی کے لیے تورات کی صورت میں ایک جامع مجموعہ قوانین عطا کیا تھا۔ بعد میں وقت گزرنے کے ساتھ اس کے اندر خرابی اور بگاڑ کی جو صورتیں پیدا ہوئیں‘ اس کا نمایاں ترین مظہر اس قوم کا فقہی جمود تھا۔چنانچہ اس نے روح شریعت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس کے ظاہر کو سب کچھ سمجھ لیا۔ بے جا لفظی موشگافیاں کر کے خدائی شریعت کو کچھ کا کچھ بنا دیا اور احکام کے حقیقی منشا کے علی الرغم ان کا ہیولیٰ ہی بالکل بدل کر رکھ دیا جس کے نتیجے میں وہ ان بے شمار جکڑ بندیوں میں پھنس گئے جن کا خدائی مرضی سے کوئی واسطہ نہ تھا اور بہت سی ان بندشوں سے وہ آزاد ہو گئے جن کا الٰہی شریعت انہیں پابند دیکھنا چاہتی تھی۔ قوم یہود کے سلسلہ انبیا کی آخری کڑی حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت توراتی شریعت میں پیدا ہوجانے والے اسی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے ہوئی تھی اور آپ کو ملنے والے مجموعہ احکام انجیل کی امتیازی حیثیت ہی یہ تھی کہ وہ اس قوم اور خاص کر اس کے علما ورہبان کی ظاہر پرستی کو ختم کر کے ان کے اندر روح شریعت کی پیروی کے جذبہ کو بیدار کرے۔ عہد نامہ جدید کا درج ذیل بیان اس حقیقت کا زندہ ثبوت ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام اپنی قوم کے فقیہوں اورفریسیوں کی حالت زار پر ماتم کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’اے ریا کار فقیہو اور فریسیو!تم پر افسوس کہ تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھتے ہو اور دکھاوے کے لیے نماز کو طول دیتے ہو۔‘‘ (متی باب ۲۳:۱۴)

’’اے ریاکار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس کہ پودینہ اور سونف اور زیرہ پر دہ یکی دیتے ہو پر تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔ لازم تھا کہ یہ بھی کرتے اور وہ بھی نہ چھوڑتے۔ اے اندھے راہ بتانے والو‘ جو مچھر کو تو چھانتے ہو اور اونٹ کو نگل جاتے ہو۔

اے ریاکار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس کہ پیالے اور رکابی کو اوپر سے صاف کرتے ہو مگر وہ اندر لوٹ اور ناپرہیزگاری سے بھرے ہیں۔ اے اندھے فریسی! پہلے پیالے اور رکابی کو اندر سے صاف کر تاکہ اوپر سے بھی صاف ہو جائیں۔

اے ریاکار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کے مانند ہو جو اوپر سے تو خوب صورت دکھائی دیتی ہیں مگر اندر مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہیں۔ اسی طرح تم بھی ظاہر میں تو لوگوں کو راست باز دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں ریاکاری اور بے دینی سے بھرے ہو۔‘‘

(ایضاً‘ آیات ۲۳ تا ۲۸)

’’پھر اس نے اپنی تعلیم میں کہا کہ فقیہوں سے خبردار رہو جو لمبے لمبے جامے پہن کر پھرنا اور بازاروں میں سلام اور عبادت خانوں میں اعلیٰ درجے کی کرسیاں اور ضیافتوں میں صدر نشینی چاہتے ہیں اور وہ بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھتے ہیں اور دکھاوے کے لیے نماز کو طول دیتے ہیں۔ ان ہی کو زیادہ سزا ملے گی۔‘‘ (مرقس باب ۱۲: ۳۸۔ ۴۰)

لیکن سانحہ یہ پیش آیا کہ قوم یہود کی عظیم اکثریت نے حضرت مسیح علیہ السلام کا انکار کیا اور اپنے کو انجیل سے بالکل بے تعلق کر لیا۔ دوسری طرف جن لوگوں نے آں جناب کی پیروی اختیار کی‘ وہ آپ کے حکم اور مرضی کے علی الرغم دوسری انتہا پر جا پہنچے کہ انہوں نے انجیل ہی کو سب کچھ سمجھ لیا اور توراۃ کے منکر ہو گئے جبکہ اصل صورت یہ تھی کہ تورات اور انجیل دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والی تھیں۔ اس دوگونہ مجموعہ شریعت کی پیروی ہی میں اہل کتاب کی نجات مضمر تھی اور اسی کے ذریعے سے وہ زندگی میں جادۂ اعتدال پر قائم رہ سکتے تھے۔ اہل تورات جس فقہی جمود اور لفظی جکڑبندیوں کے گرداب میں پھنس گئے تھے‘ انجیل کے بغیر وہ اس سے نکلنے میں کام یاب نہیں ہو سکتے تھے۔ اس طرح انجیل میں حکمت وموعظت اور روح شریعت کی بھرپور تشریح وتفصیل تو تھی لیکن توراتی مجموعہ قانون کے بغیر اس کے لیے زندگی کی گاڑی کو زیادہ دور تک اعتدال وتوازن کے ساتھ چلانا بہت مشکل تھا۔ لیکن تفصیلات سے قطع نظر ہوا یہی کہ انجیل تورات سے کٹ گئی اور جس طرح اہل کتاب کے لیے انجیل سے روگردانی کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ وہ روح شریعت سے عاری ہو کر نری ظاہر پرستی اور دنیا طلبی اور جلب منفعت میں لگ گئے‘ پیروان مسیح کے لیے توراۃ کے انکار کا انجام یہ ہوا کہ ان کے پاس ایک بالکل کٹی پھٹی شریعت باقی رہ گئی جو واقعہ یہ ہے کہ سماج کی تعمیر اور انسانی آبادی کے مسائل کے حل کی عظیم ذمہ داری سے کسی بھی صورت عہدہ برآ نہیں ہو سکتی تھی۔ اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہوا کہ حضرت مسیح کی وفات پر زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ ۳۲۵ء کی نیسیا کی کونسل میں مسیحیت پر پال کی اجارہ داری قائم ہو گئی جس کے نتیجے میں اس کی صورت ہی مسخ ہو گئی۔ توراۃ سے کٹ جانے کے سبب اس کے اندر پیدا ہوجانے والی مذکورہ خامی اور کمی سے قطع نظر اس کی ہم آہنگی بالکل خاک میں مل گئی اور وہ تضادات کا ایک مجموعہ بن کر رہ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ عہد نامہ جدید میں اگر حضرت مسیح علیہ السلام ایک طرف اپنے پیرووں کو اس دعا کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں کہ آسمان کی طرح زمین پر بھی خدا کی بادشاہت قائم ہو:

’’پس تم اس طرح دعا کیا کرو کہ اے ہمارے باپ ‘ تو جو آسمان پر ہے‘ تیرا نام پاک مانا جائے۔ تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے‘ زمین پر بھی ہو۔‘‘ (متی باب ۶: ۹۔۱۰)

تو دوسرے مقام پر ہمیں ان کا یہ اعلان پڑھنے کو ملتا ہے:

’’میری بادشاہی اس دنیا کی نہیں۔‘‘ (یوحنا باب ۱۸:۳۶)

اس سے بھی آگے دوسری جگہ وہ صاف طور پر دین ودنیا کی تقسیم کا درس دیتے دکھائی دیتے ہیں:

’’پس جو قیصر کا ہے‘ قیصر کو اور جو خدا کا ہے‘ خدا کو ادا کرو۔‘‘ (متی باب ۲۲:۲۱)

اس کے علاوہ عہد نامہ جدید حکومت وقت کی پیروی کو بلالحاظ اس کے کہ وہ کس روش پر عمل پیرا ہے اور اس کا انداز کیا ہے‘ پیروان مسیح کے لیے لازم قرار دیتا ہے :

’’ہر شخص اعلیٰ حکومتوں کا تابع دار رہے کیونکہ کوئی حکومت ایسی نہیں جو خدا کی طرف سے نہ ہو اور جو حکومتیں موجود ہیں‘ خدا کی طرف سے مقرر ہیں۔ پس جو کوئی حکومت کا سامنا کرتا ہے‘ وہ خدا کے انتظام کا مخالف ہے اور جو مخالف ہیں‘ سزا پائیں گے۔‘‘ (رومیوں کے نام پولس رسول کا خط باب ۱۳: ۱۔۲)

اس تاکید کے ساتھ کہ:

’’سب کا حق ادا کرو۔ جس کو خراج چاہیے‘ خراج دو۔ جس کو محصول چاہیے‘ محصول‘ جس سے ڈرنا چاہیے‘ اس سے ڈرو۔ جس کی عزت کرنا چاہیے‘ اس کی عزت کرو۔‘‘ (ایضاً آیت ۷)

رومن ایمپائر کو پال (Paul) کی قائم کردہ اسی مسیحیت کا تجربہ ہوا اور چوتھی صدی عیسوی میں وہ ا س کا سرکاری مذہب قرار پا گئی۔ پانچویں صدی عیسوی میں حالات کی گردش سے رومن ایمپائر کے زوال کے بعد فطری طور پر اس کی وراثت اس کے حصے میں آئی۔ اپنی ان محدودیتوں اور کمیوں کے پیش نظر جن کا ابھی ذکر ہوا‘ مسیحیت کے لیے مناسب تو یہ تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ چھوٹے اور مختصر دائروں میں انسانی زندگی کے مسائل کے حل میں اپنے کو لگاتی اور حکومت وسلطنت کے جھمیلوں سے اپنے کو بالکل دور رکھتی لیکن مسیحیت کے علم برداروں کے لیے‘ جن کی نگاہیں رومن ایمپائر کی زبردست شان وشوکت کے سامنے خیرہ ہو چکی تھیں‘ اس کا سہارنا اور کمتر دائرے پر اپنے کو قانع بنانا ممکن نہ ہو سکا۔ چنانچہ اس کے بعد ذرا تاخیر کیے بغیر کلیسا نے اپنے کو رومی شاہنشاہی کے ڈھنگ پر منظم کرنا شروع کر دیا اور آٹھویں اور نویں صدی تک وہ پوری طرح کھل کر میدان میں آ گیا لیکن جیسا کہ اشارہ کیا گیا‘ پال کی مسیحیت اپنی محدودیت اور اپنے داخلی تضادات کے ساتھ حکومت وسلطنت کے لیے کوئی کامل اور ہم آہنگ نظام عمل عطا کرنے سے قاصر تھی‘ چنانچہ قطع نظر ان بے شمار ادارہ جاتی اور شعبہ جاتی امور ومسائل کے جن میں اس کا نمائندہ کلیسائے روم بری طرح رومن ایمپائر سے متاثر رہا اور بے چون وچرا اور بلا تامل انہیں اپنے ہاں اپناتا گیا، اس صورت حال نے سرزمین یورپ میں اسی وقت سے چرچ اور اسٹیٹ بالفاظ دیگر مذہب اور ریاست کا جھگڑا کھڑا کر دیا کہ اقتدار کا اصل سرچشمہ کون ہے؟ اپائے روم یا وقت کے سیکولر حکمران؟ جس کا سلسلہ آگے ہزار سال یعنی سترہویں اور اٹھارویں صدی تک جاری رہا جبکہ مختلف انقلابات کے نتیجے میں کلیسائی اور شاہی بساط الٹ کر دستوری حکومتیں وجود میں آتی ہیں جن کے اندر کھلے لفظوں میں مذہب کی معاملات دنیا سے بے دخلی کا اعلان کیا جاتا ہے اور یورپ اطمینان کا سانس لیتا دکھائی دیتا ہے کہ اب آئندہ اسے مذہب کے نام پر ظلم واستبداد کے شکنجے میں نہ کسا جا سکے گا۔ زمانہ مابعد میں اسی کی تقلید میں دنیا کے مختلف حصوں سے مذہب کی معاملات دنیا سے بے دخلی کی بات ہمارے سننے میں آتی ہے۔

چرچ اور اسٹیٹ کی علیحدگی

آج یورپ نے اسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیا ہے کہ مذہب کا معاملاتِ دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسی کے اثر سے دنیا کے بیشتر خطوں میں بھی اسے ایک مقبول عام تصور کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے لیکن آپ کو سن کر تعجب ہوگا کہ زیادہ دور نہیں‘ ابھی اٹھارویں صدی کے اختتام تک صورت یہ تھی کہ وہاں ’’بادشاہ بمرضی خدا‘‘ (King by the grace of God)کے لقب کے بغیر بادشاہوں کا نام لینے کی بھی کسی کی ہمت نہ تھی۔ اگلے زمانوں کی بات اپنی جگہ‘ اسی اٹھارویں صدی میں فرانس کے لوئیس چہاردہم (Louis XIV) اور انگلینڈ کے جیمز دوم (James II) نے ’’مرضی خدا‘‘ (The grace of God)کو ایک سیاسی عقیدے کے طور پر اپنایا اور اس کی بدولت اپنی کلیت پسندی (Absolutism) کے لیے وجہ جواز پیدا کی جس کی رو سے دیگر تمام انسانی حقوق مثلاً دولت‘ خاندان‘ پارلیمنٹ وغیرہ کی طرح بادشاہ کا یہ حق بھی ابدی اور من جانب اللہ تھا جسے کسی صورت چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس طرح بادشاہ کی شخصیت عام انسانی قانون کے دائرے سے بلند قرار پا گئی تھی۔ اس کے بعد ایسا ہوا کہ فرانس کی عمل داریوں (Estates) نے اس تصور کو قبول کرنے سے انکار کیا اور برطانوی پارلیمنٹ نے نسبتاً اور سختی سے اس کے خلاف آواز بلند کی۔ بالآخر انگلینڈ کے ۱۶۸۸ء اور فرانس کے ۱۷۸۹ء کے انقلابات کے نتیجے میں بادشاہوں کے اس تقدس اور ان کے من جانب اللہ ہونے کے تصور کو آخری طور پر مسترد کر دیا گیا۔

سرزمین یورپ میں عیسائیت کے قدم جمانے سے لے کر اٹھارویں صدی کے اختتام تک یہ مسئلہ کبھی زیر بحث آیا ہی نہیں کہ مذہب کا معاملات دنیا سے کوئی تعلق ہے‘ نہ ہونا چاہیے بلکہ سچ یہ ہے کہ کسی بھی ایسے شخص کے لیے جو اپنے ہوش وحواس بالکل کھو نہ چکا ہو‘ اس طرح کی بات اپنی زبان پر بھی لانے کی ہمت نہ تھی۔ اس وقت تک مذہب سے تعلق نہیں‘ مذہب سے لاتعلقی‘ بے دینی سب سے بڑا جرم تھی جس کا ارتکاب کرنے والا نہایت بد انجام سے دوچار ہوتا تھا ۔ وہاں اگر جھگڑا رہا ہے تو اس کا کہ دنیا پرمذہب عیسائیت کی حکومت کس ادارے کے ذریعے سے انجام پائے۔ چرچ اور پاپائیت کے ذریعے سے یہ کام انجام پائے یا یہ ذمہ داری سیکولر حکمرانوں کے سپرد ہونی چاہیے۔ اور کہنا چاہیے کہ عہد جدید کی پو پھٹنے تک یورپ بری طرح سے اس کشمکش کا شکار اور اس اختلاف ونزاع کی آماجگاہ رہا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا کہ یہی آویزش وچپقلش ہمیں یورپ کی تاریخ کا سب سے نمایاں باب نظر آتی ہے۔ خاص طور پر قرونِ وسطیٰ کے زمانے میں تو ایسا لگتا ہے کہ وہاں اس ایک کام کے سوا دوسرا کوئی کام ہی نہ تھا جس میں باشندگان یورپ کی قوتیں اور صلاحیتیں صرف ہوتیں جس کے لیے ان میں سے ہر فریق ’’کتاب مقدس‘‘ سے غذا حاصل کرتا تھا جو اس کے لیے‘ جیسا کہ ابھی اوپر تفصیل گزری‘ اس مقصد کی خاطر بھرپور مواد فراہم کرتی تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یورپ میں بارہویں صدی سے لے کر سولہویں صدی تک ’’سیاسی تصور‘‘ کی کل دوڑ اس نشانے تک محدود تھی کہ پاپائیت کا یہ دعویٰ کہ شہنشاہیت پر اسے بالادستی حاصل رہے‘ درست ہے یا نہیں۔ خاص طور پر نویں صدی سے لے کر گیارہویں اور بارہویں صدی تک یہ لڑائی اپنے شباب پر تھی جس میں دونوں فریق اپنے اپنے حق میں الگ الگ دلائل فراہم کر رہے تھے۔ کلیسا جس بنیاد پر اپنے لیے اس حق کا مدعی تھا‘ اس میں خاص بات یہ تھی کہ:

۱۔ چونکہ پوری بنی نوع انسانی ایک ہے اس لیے چرچ جس کی بنیاد براہ راست خدا نے رکھی ہے‘ ریاست کی ذمہ داری بھی صحیح معنوں میں اسی کی ہو سکتی ہے۔ خدائی فرمان کے ذریعے سے اسے یہ چیز حاصل ہوئی ہے۔ خدا جس کی ذات میں تمام دنیوی وروحانی اختیارات مرکوز ہیں‘ چونکہ یہ چیز قادر مطلق ذات کا اٹوٹ حصہ ہے اس لیے کسی صورت میں اس کے حصے بخرے نہیں کیے جا سکتے۔ اس ریاست کے سربراہ اصلاً تو حضرت مسیح علیہ السلام ہیں لیکن چونکہ وہ بنفس نفیس اس دنیا میں موجود نہیں اس لیے ضروری ہے کہ زمین پر ان کا ایک نمائندہ ہو جو عام انسانوں پر ان کے اقتدار کو بحال رکھ سکے۔ جناب مسیح کا یہ نمائندہ پوپ (Pope) ہے جو بیک وقت لوگوں کا پادری (Priest) بھی ہے اور ان کا بادشاہ (King) بھی۔ بادشاہ یعنی ان کا دنیوی اور روحانی شہنشاہ‘ ان کا قانون ساز (Law-giver) ان کا منصف (Judge) غرض یہ کہ وہ ہر پہلو سے سب سے بڑا اور زبردست ہے۔

۲۔ دونوں ہی تلواریں جن میں سے ایک روحانی اقتدار کی نمائندگی کرتی ہے‘ دوسری سیکولر اقتدار ہے‘ انہیں پہلے تو خدا نے پطرس (Peter)کو عطا کیا اور اس سے منتقل ہو کر یہ خیر پوپ تک پہنچی جو روئے زمین پر خدا کا نائب (Vicegerent of God) ہے۔ روحانی تلوار کو تو پوپ نے اپنے پاس باقی رکھا البتہ دنیوی تلوار کو اس نے سیکولر حکمرانوں تک منتقل کر دیا لیکن اس منتقلی کا مطلب یہ نہیں کہ یہ لوگ آزادانہ طور پر اس کے مالک ہو گئے۔ ان کی زیادہ سے زیادہ حیثیت یہ ہے کہ یہ کلیسا کے وکیل اور اس کے معتمد علیہ (Agent) ہیں۔ پوپ مالک تو دراصل بیک وقت روحانی اور سیکولر اختیارات دونوں کا ہے‘ البتہ عملاً استعمال وہ اپنے روحانی اختیار ہی کا کرتا ہے۔ بادشاہ اور سیکولر حکمران اپنے مناصب اور اپنے اختیارات بالواسطہ طور پر خدا سے اور بلاواسطہ پوپ سے حاصل کرتے ہیں اور اس بنا پر وہ اس کی رعایا (Vassals) ہیں ۔ بس اتنا ہے کہ پاپا کی رعایا میں شہنشاہ کو سب سے اونچا مقام حاصل ہے۔ اس کی تاج پوشی کی حلف برداری دراصل پوپ کو ایک طرح کا خراج عقیدت ہے۔ دنیوی اقتدار چونکہ چرچ کا عطا کردہ ہے اس لیے اس کا استعمال بھی چرچ کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ پوپ کو اس کا اختیار حاصل ہے بلکہ یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ سیکولر حکمرانوں کو براہ راست اپنے کنٹرول میں رکھے۔ کسی تکلف کے بغیر وہ شہنشاہی اقتدار کو ایک شخص سے ہٹا کر دوسرے شخص تک منتقل کر سکتا ہے۔ اپنی اس حیثیت میں دراصل وہ بادشاہ گر یابادشاہ کا انتخاب کنندہ (Imperial elector) ہے۔ شہنشاہیت میں جب کبھی کہیں خلا پیدا ہوگا‘ ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر اس کی نگرانی پوپ تک منتقل ہو جائے گی۔ پوپ کو اس کا بھی اختیار ہے کہ وہ عام حکمرانوں کے خلاف لوگوں کی شکایات کی سماعت کر سکے‘ انہیں معزول کر دے اور ان کی رعایا کو ان کی وفاداری سے الگ قرار دے دے۔

۳۔ مادہ کے بالمقابل روح کا درجہ بڑھا ہوا ہے اس لیے فطری طور پر عوامی اقتدار کے مقابلے میں روحانی اقتدار زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور بجا طور پر اسے زیادہ عزت واحترام کا مقام حاصل ہونا چاہیے۔ چرچ روح کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ ریاست کو صرف اس کے قالب کی نمائندگی حاصل ہے۔ چرچ سورج کے مانند ہے‘ ریاست کی حیثیت اس کے مقابلے میں چاند کی ہے۔ اس بنا پر عوامی اقتدار (Lay authority) روحانی اقتدار سے مستعار ہے‘ اسی کے ذریعے سے اسے قوت نافذہ ملتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس کا تمام تر دارومدار اسی پر ہے۔

اس کے برعکس سیکولر حکمران اپنے لیے جس دلیل کی بنیاد پر اس حق کے دعوے دار تھے‘ اس میں نمایاں بات یہ تھی کہ:

۱۔ سیکولر اقتدار چرچ کا تفویض کردہ نہیں بلکہ یہ چیز براہ راست خدا کی عطا کردہ ہے۔ بادشاہ روئے زمین پر خدا کے نائب اور خلیفہ ہیں اور اس بنا پر وہ صرف اسی کے روبرو جواب دہ ہیں۔ ریاست کو اسی طرح من جانب اللہ (Divine) ہونے کی سند حاصل ہے جیسی کہ چرچ کو ہے اور اس بنا پر وہ چرچ کی تابع فرمان نہیں ہو سکتی ہے۔

۲۔ شہنشاہیت کے علم بردار (Imperialists) پاپائیت کی بالادستی سے اپنے کو آزاد رکھنے کے لیے خاص طور پر کتاب مقدس کو بنیاد بناتے تھے اور عہد نامہ قدیم وجدید ہر ایک سے اس سلسلے میں دلائل فراہم کرتے تھے۔ عہدنامہ جدید سے بالخصوص وہ پال کے اس قول کا حوالہ دیتے تھے جس کا اس سے پہلے ذکر آ چکا ہے کہ :

’’کوئی حکومت ایسی نہیں جو خدا کی طرف سے نہ ہو اور جو حکومتیں موجود ہیں‘ خدا کی طرف سے مقرر ہیں۔ پس جو کوئی حکومت کا سامنا کرتا ہے‘ وہ خدا کے انتظام کا مخالف ہے۔‘‘

کتاب مقدس کے اسی طرح کے فرامین کی بنیاد پر سیکولر حکمرانوں کا رعایا سے مطالبہ تھا کہ وہ ان کی غیر مشروط وفادار رہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ خدا کی طرف سے مقرر ہونے کے سبب سے وہ صرف خدا کے حضور جواب دہ ہیں اور اس بنا پر پاپائیت کے اختیار سے بالکل آزاد ہیں اور ان کے اوپر اسے کسی قسم کا اثر واقتدار دکھانے کا حق نہیں ہے۔

اس مرحلے پر جن لوگوں نے مختلف تشریحات کے ساتھ کلیسا کی حمایت کی‘ ان میں سے چند خاص نام یہ ہیں: ہیلڈی برانڈ یا گریگوری ہفتم (Hildebrand or Gregory VII, 1073-1080)‘ سینٹ برنارڈ (St, Bernard, 1091-1153)‘ مین گولڈ (Mane Gold)‘ جان آف سیلس بری (John of Salisbury, 1115-1180)‘ سینٹ ٹامس ایکوناس (St. Thomas Aquinas, 1227-1274‘ اور آگسٹس ٹرائمفس (Augustus Triumphus)۔

اس کے بالمقابل سیکولر حکمرانوں کی تائید میں جو لوگ پیش پیش تھے‘ ان میں قابل ذکر یہ لوگ تھے: مارسگلو آف پاڈوا (Marsiglo of Padua, 1270-1340)‘ ولیم آف اوک ہام (William of Ockham, 1290-1347‘ اطالوی فلسفی دانتے (Dante)اور پیرے ڈیوبیس (Pierre Dubois) جن کے استدلال میں علاوہ اور چیزوں کے حضرت مسیح کا یہ قول بھی شامل تھا کہ ’’میری بادشاہی اس دنیا کی نہیں‘‘۔

پاپائیت کے علم برداروں اور سیکولر حکمرانوں کے ہم نواؤں کی یہ لڑائی کیسی شدید تھی‘ اس کا اندازہ آپ صرف اس سے کر سکتے ہیں کہ صرف گیارہویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں یعنی ۱۰۵۲ء سے ۱۱۱۲ء کے عرصے میں اپنے اپنے موقف کی حمایت میں فریقین کی طرف سے ایک سو پندرہ کتابچے منظر عام پر آئے تھے۔

چرچ اور اسٹیٹ کی اس لڑائی میں فتح مندی کا سہرا کلیسا کے ہاتھ رہا اور واقعہ یہ ہے کہ تیرہویں صدی عیسوی تک پاپائیت کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہ تھی۔ چودھویں صدی کے آتے آتے یورپ میں قومی بادشاہتوں نے زور پکڑنا شروع کریا اور نظام جاگیرداری‘ جبکہ بڑی حد تک یہی ادارہ کلیسا کے زور اور قوت کا ذریعہ تھا‘ دن بدن کمزور پڑتا گیا۔ اسی عرصے میں مختلف اسباب کے تحت یورپ میں روشن خیالی (Enlightenment) اور نشأۃ ثانیۃ (Renaissance)کی تحریکات نے اپنے اثرات دکھانے شروع کیے۔ عوام الناس کے ذہن وفکر میں بیداری آئی‘ سماج میں فرد کی اہمیت کا احساس فزوں تر ہونے لگا اور لوگ بے چون وچرا کلیسا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ نتیجے کے طور پر وہاں میکاولی (Machiavelli, 1409-1527) جیسے مفکرین منظر عام پر آئے جنہوں نے براہ راست مذہب واخلاق سے سیاست کی علیحدگی کا علم بلند کیا۔ اس کے بعد اگرچہ لوتھر (Luther) کی سولہویں صدی کی اصلاح (Reformation) کی تحریک نے ایک بار پھر مذہب اور اسٹیٹ کو ایک ساتھ جوڑنا چاہا جس کے لیے اس نے موجود الوقت پاپائیت کو مسترد کرتے ہوئے بادشاہوں کے ابدی حق (Divine Right of Kings)کا نعرہ لگایا اور خدا کے مقرر کردہ شہزادوں کی خاموش اطاعت (Passive obedience of the godly princes) کی تلقین شروع کی لیکن مسیحی اقتدار سے یورپ اس قدر عاجز آ چکا تھا کہ ’قومی بادشاہتوں‘ کے ذریعے سے مسیحیت کے بالواسطہ اقتدار کے بوجھ کو بھی وہ اب زیادہ دن تک اٹھانے کے لیے آمادہ نہ تھا۔ اس نے صاف لفظوں میں دعویٰ کیا کہ اقتدار کا سرچشمہ بادشاہ نہیں‘ ملک کے عوام ہیں۔ حکومت وقت کو ان کی مرضیات کا آئینہ دار ہونا چاہیے اور معاملات زندگی کی تنظیم اس ڈھنگ سے ہونی چاہیے جیسا کہ کسی ملک کے عوام کی خواہش ہو۔ چنانچہ مذکورہ تحریک اصلاح کے خلاف خود محاذ اٹھ کھڑا ہوا اور آگے اٹھارویں صدی تک خاص طور پر ہابس‘ لاک اور روسو جیسے مفکرین منظر عام پر آئے جنہوں نے میکاولی سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر مذہب واخلاق کو ریاست کے تابع قرار دیا اور بادشاہوں کے ابدی حق کے برخلاف سماجی معاہدہ (Social Contract)‘ عوام کے اقتدار اعلیٰ (Sovereignty of people)اور خواہش عام (General will) کا تصور پیش کیا جس کا خلاصہ تھا کہ حکومت کا ادارہ بذات خود اقتدارکا مالک نہیں۔ اقتدار کا اصل سرچشمہ عوام ہیں۔ حکمران اور عوام کے درمیان ایک طرح کا سماجی معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت کوئی حکومت وجود میں آتی ہے اس لیے اسے عوام کی مرضیات کا آئینہ دار ہونا چاہیے جس سے خلاف ورزی کی صورت میں وہ اپنے حق بقا سے محروم ہو جاتی ہے۔ نیز یہ کہ مسیحیت کسی صورت میں حکومت وسیاست کے لیے موزوں نہیں۔ یہ خاص طور پر انہی لوگوں کے افکار کا نتیجہ تھا کہ ۱۶۸۸ء میں انگلینڈ اور ۱۷۷۶ء میں امریکہ اور ۱۷۸۹ء میں فرانس کے انقلابات وجود میں آئے جن میں آخری طور پر بادشاہتوں کے خاتمہ کے ذریعے سے بالواسطہ طور پر سرزمین یورپ سے مسیحیت کے اقتدار کا خاتمہ عمل میں آیا اور معاملات دنیا سے بے دخل کرتے ہوئے مذہب کو فرد کی نجی زندگی پر قانع ہونے کے لیے مجبور کر دیا گیا اور انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ دستوری سطح پر یہ بات منظر عام پر آئی کہ مذہب کا معاملات دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسے اگر جینا ہے تو اس دائرے کے باہر ہی وہ زندہ رہ سکتا ہے۔ چنانچہ ان انقلابات کے نتیجے میں جو تحریری دستاویزات سامنے آئیں‘ ان میں اگرچہ خالق کائنات (Creator)‘ خدا تعالیٰ (Prudence)اور اعلیٰ تر ہستی (Supreme Being) کے الفاظ موجود ہیں لیکن اس بات کی صراحت بھی موجود ہے کہ معاملات دنیا کے سلسلے میں اب مذہب کے لیے کوئی احترام نہیں رہے گا نیز یہ کہ اقتدار کا اصل سرچشمہ دراصل قوم ہوا کرتی ہے۔

بلنچلی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’تھیوری آف اسٹیٹ‘ میں ریاست سے تعلق رکھنے والے بعض اہم مسائل کے سلسلے میں قرون وسطیٰ اور عہد جدید میں ان کے مابین پائے جانے والے فاصلے کا ایک تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے جس کے ذریعے سے موجودہ دور میں ’مذہب کی معاملات دنیا سے بے دخلی‘ کے رائج الوقت تصور کے پس منظر کو کافی بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ہم ذیل میں اس کے بعض اہم عنوانات کو اسی نقشہ کے ساتھ پیش کرتے ہیں:

قرون وسطیٰ

۱۔ ریاست کا تصور

قرون وسطیٰ میں ریاست اور ریاست کے اختیار کو براہ راست خدا سے حاصل کردہ تصور کیا جاتا تھا۔ ریاست کی حیثیت ایک ایسی تنظیم کی تھی جو خدا کی مرضی کی آئینہ دار اور اس کے اپنے ہاتھوں کی پیدا کردہ تھی۔

عہد جدید

جدید دور میں ریاست کا وجودانسانی ذرائع کا رہین منت ہے اور اس کی بنیاد تمام انسانی فطرت پر ہے۔ ریاست ایک مشترک زندگی کی تنظیم سے عبارت ہے جس کی تشکیل انسانی ہاتھوں کے ذریعے سے انجام پاتی ہے اور اس کا انتظام بھی انہی کے ذریعے سے چلتا ہے اور یہ چیز تمام تر انسانی مقاصد کے گرد گھومتی ہے۔

۲۔ دینیات اور سائنس

ریاست کے تصور کی بنیاد مذہبی اصولوں پر تھی اور اس کی طاقت سے اس کی پوری مشینری حرکت کرتی تھی۔ قرون وسطیٰ میں اگرچہ مسیحیت چرچ اور اسٹیٹ کی ثنویت کی قائل تھی لیکن اس کا اعتقاد تھا کہ یہ دونوں ہی تلواریں یعنی روحانی اور دنیوی‘ خدا کی تفویض کردہ ہیں۔ ایک کو اس نے پوپ کے حوالے کیا ہے اور دوسرے کی ذمہ داری شہنشاہ کو سونپی ہے۔ پروٹسٹنٹ اسکول دینیات نے روحانی تلوار کے تصور کو مسترد ضرور کیا اور صرف ایک تلوار یعنی ریاست کو قابل قبول ٹھہرایا لیکن اس مذہبی خیال کو وہ مضبوطی کے ساتھ پکڑے ہوئے تھا کہ اقتدار اعلیٰ خدا کی طرف سے آتا ہے۔

ریاست کے بنیادی اصولوں کی راہ انسانی علوم یعنی فلسفہ اور تاریخ متعین کرتے ہیں۔ موجودہ علم سیاسیات ریاست کی تعبیر وتشریح میں اصلاً انسان کا اعتبار کرتا ہے۔ وہ اپنے سفر کا آغاز ہی اسی نقطہ سے کرتا ہے۔ چنانچہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ریاست افراد کے اس اجتماع سے عبارت ہے جو آپس میں اس لیے متحد ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنا تحفظ اور اپنی آزادی کا دفاع کر سکیں۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جو بحیثیت مجموعی اسے پوری قوم کی امنگوں کا مظہر خیال کرتے ہیں۔ ریاست کا جدید نظریہ مذہبی نہیں ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ بالکل لامذہبی ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ریاست کا دار ومدار مذہبی عقیدے پر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اس کا انکار نہیں کرتا کہ خدا نے انسانی فطرت کو بنایا ہے اور یہ جو دنیا کا نظام چل رہا ہے‘ اس میں اس کی قدرت کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ موجودہ علم سیاسیات کا وظیفہ یہ نہیں کہ خدائی طور طریقوں کو سمجھنے میں اپنی قوت صرف کرے۔ وہ ریاست کو ایک انسانی ادارے کی حیثیت سے سمجھنا چاہتا ہے۔

۳۔ تھیا کریسی (مذہبی مستبدانہ حکومت)

عہد وسطیٰ میں ریاست کا تصور بالکل پرانے دور کے انسانوں کی طرح براہ راست تھیاکریسی کا تو نہ تھا البتہ وہ بالواسطہ تھیا کریسی کا قائل تھا۔ بیچ کی کڑی یعنی حکمران خدا کا نائب اور اس کا خلیفہ ہوتا تھا۔

جدید اقوام کے سیاسی شعور کے لیے تھیاکریسی اپنی جملہ صورتوں کے ساتھ حد درجہ ناگوار ہے۔ عہد جدید کی ریاست ایک انسانی اور دستوری انتظام سے عبارت ہے۔ ریاست کااختیار عوامی قانون کے ہاتھوں بندھا ہوا ہے اور سیاست کا منتہائے مقصود قوم کی فلاح ہے۔ البتہ یہ تمام چیزیں انسانی فہم سے اخذ کردہ ہیں اور انہیں انسانی ذرائع ہی سے رو بہ عمل لایا جائے گا۔

۴۔ مذہب

قرون وسطیٰ میں ریاست کا تمام تر انحصار ہم مذہب جماعات وافرادپر تھا اور اس کا مطالبہ تھا کہ ہر جگہ عقیدے کی یکسانی رہے۔ کافروں اوربے دینوں کے لیے اس زمانے میں کوئی سیاسی حقوق حاصل نہ تھے۔ ان پر مختلف طرح کے مظالم توڑے جاتے تھے اور انہیں طرح طرح سے ستایا جاتا تھا بلکہ اکثر وبیشتر انہیں فنا کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔ بہتر سے بہتر سلوک جس کی ان کے ساتھ توقع رکھی جا سکتی تھی‘ وہ یہ کہ ان کے وجود کو انگیز کر لیا جائے۔

موجودہ دور میں کسی شخص کو قانونی طور پر کوئی مقام ومرتبہ عطا کرنے کے لیے ریاست مذہب کو ایک شرط لازم تصور نہیں کرتی۔ فرد اور سماج ان دونوں سے تعلق رکھنے والے قوانین مذہب اور عقیدے کی گرفت سے بالکل آزاد ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ عہد جدید کی ریاست عقیدے کی آزادی کا تحفظ کرتی اور مختلف چرچوں اور مذہبی سوسائٹیوں کو ایک لڑی میں پرو کر رکھتی ہے۔البتہ مذہب سے بیزار یا کسی بھی بے عقیدہ شخص کے سلسلے میں وہ کسی قسم کی ظلم وزیادتی اور اس کی ایذا رسانی کو کسی بھی انداز سے جائز تصورنہیں کرتی۔

اس موازنے کی روشنی میں عہد جدید کے انسان کی نظر میں مذہب کی حیثیت‘ اس کے مرتبہ ومقام نیز زندگی کی دوڑ میں اس کی واقعی جگہ کے سلسلے میں اس کے نقطہ نظر کو باحسن وجوہ سمجھا جا سکتا ہے کہ کس طرح قرون وسطیٰ میں چرچ اور اسٹیٹ کی کشمکش کے نتیجے میں وہاں مذہب کے سلسلے میں ایک خاص نقطہ نظر پروان چڑھا اور بعد میں آہستہ آہستہ اس نے مسیحیت سے آگے فی الجملہ مذہب ہی کے سلسلے میں ایک عام تصور کی حیثیت اختیار کر لی جس کا انتہائی مقام یہ ہے کہ وہ زندگی میں ایک عضو معطل کی حیثیت سے تو باقی رہ سکتا ہے البتہ اس کے لیے سماج میں کسی موثر کردار کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یورپ کی تاریخ میں ایک طویل عرصے تک مذہب اور چرچ لازم وملزوم کی حیثیت اختیار کیے رہے۔ بعد میں چرچ کا نظام کمزور ہونے کے بعد یہ مقام وہاں کے بادشاہوں کو حاصل ہو گیا اور وہ روئے زمین پر مذہب کا عملی مظہر قرار پائے۔ بادشاہوں نے چرچ کو بے دخل کر کے زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لی تو معاملہ پھر بھی غنیمت رہا اس لیے کہ اول الذکر کی طرح یہ بھی اپنے تئیں مذہب کی نمائندگی کے مدعی تھے لیکن اٹھارویں صدی میں جب مذہب سے بیزار بلکہ اس سے عاجز عوام نے ان بادشاہتوں کی بساط الٹی تو بادشاہوں کے خاتمے کا بھی موجب بنی جو اپنے کو اٹوٹ طور پر ان بادشاہتوں سے جوڑے ہوئے تھا۔

یورپ کا ستم یہ ہے کہ پہلے تو اس نے ایک نامکمل مذہب سے جس کے چہرے کو انسانی تحریفات سے بری طرح داغ دار کر رکھا تھا‘ اپنے کو جوڑے رکھا لیکن اس سے بڑی ستم ظریفی اس کی یہ ہے کہ مختلف اسباب کے تحت جب وہ اس مذہب سے عاجز آ گیا تو اسے مسترد کرنے کے ساتھ ہی اس نے نفس مذہب کے سلسلے میں ایسا دھواں دار پراپیگنڈا شروع کیا کہ کہنا چاہیے کہ دنیا کے بیشتر مذاہب کے ماننے والے اس کی لپیٹ میں آ گئے اور اپنے اپنے مذہب کو بھی انہوں نے اسی چوکھٹے کا پابند بنا لیا جس کی وکالت سرزمین یورپ کے فرزانوں کی طرف سے کی جا رہی تھی یعنی یہ کہ مذہب انسان کی پرائیویٹ زندگی کا معاملہ ہے‘ معاملات دنیا سے اس کا کوئی تعلق ہے نہ ہونا چاہیے‘ یہاں تک کہ اہل یورپ کے نزدیک مذہب کی تعریف ہی اس دائرے میں محصور ہو کر رہ گئی کہ ’’مذہب نام ہے اس محسوس عملی تعلق کا جو کسی ایک یا متعدد مافوق الفطری وجود یا وجودوں پر اعتقاد کی صورت میں کسی فرد کا اس سے یا ان سے قائم ہوتا ہے۔‘‘

ہم مبارک بار دیتے ہیں یورپ کو اس کی اس ہوشیاری اور چالاکی پر کہ اس نے جب اپنی ناک کاٹی تو اس کے فضائل اس زور وقوت کے ساتھ بیان کیے کہ دنیا کی عظیم آبادی نے اپنے لیے ’نکٹا‘ ہونے ہی کو باعث افتخار سمجھا اور ہر اس شخص کو الٹا عار دلانے لگی جو کسی بھی صورت اپنے لیے ’ناک والا‘ رہنے کا قائل اور اس کی وکالت کرنے والا اور اس کا موید نظر آتا ہو۔ لیکن خاص طور پر آج کے روشن خیال اور آزادئ فکر ونظر کے مدعیوں سے ہمارا یہ سوال اب بھی قائم ہے کہ کیا یورپ کے اپنے اس محدود تلخ تجربے کے نتیجے میں نفس مذہب کے سلسلے میں اس کا مذکورہ بالا اعلان واظہار کسی بھی درجے میں حق وصداقت کا آئینہ دار ہے؟ اور کیا اس کی پیروی میں کسی بھی دوسری سمت سے اس طرح کے کسی اظہار واعلان کو مبنی بر حقیقت اور حق وانصاف کاتقاضا قرار دیا جا سکتا ہے؟

(بہ شکریہ ’’تحقیقات اسلامی‘‘ اعظم گڑھ۔ انڈیا)

علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ ۔ فکری مماثلتیں

پروفیسر محمد یونس میو

کلام اقبال میں ملا‘ ملائے حرم‘ پیر حرم‘ فقیہان حرم‘ جناب شیخ‘ شیخ مکتب‘ فقیہ شہر‘ صوفی‘ ذکر نیم شبی‘ مراقبے‘ سرور‘ خانقہی اور کرامات جیسی اصطلاحات اور تراکیب سے ایک عامی اس بدگمانی میں بجا طور پر مبتلا ہوتا ہے کہ اقبال طبقہ علماء ومشائخ پر طنز کر رہے ہیں۔ یہ صرف بدگمانی نہیں‘ کچھ حقیقت بھی ہے لیکن اس تنقید کا مصداق جید اور مستند علماء کرام نہیں بلکہ علم وہنر سے بے نیاز اور فکر وعمل سے تہی دامن حضرات ہیں۔ قدیم وجدید میں رشتہ قائم کرنا وقت کا اہم ترین مسئلہ رہا ہے اور بدقسمتی سے علما کی اکثریت اس امرخاص سے بے نیاز رہی ہے۔ دراصل اقبال مستقبل کے چیلنجوں سے بے خبر انہی روایت پسند رویوں پر اعتراض کرتے ہیں اور اپنی اس تنقید میں وہ حق بجانب بھی ہیں کیونکہ تقلیدِ محض اسلام کے اصول حرکت کے منافی ہے۔ چنانچہ اس لحاظ سے اقبالؒ علما کے محسن تصور کیے جا سکتے ہیں۔ رشید احمد جالندھری اپنے ایک مضمون ’’اقبال اور علما‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’وہ تو علما کو ان کی معنوی بیماریوں، جمود، تنگ نظری، بے کیف رسوم پرستی اور حقائق حیات سے تغافل وغیرہ سے صحت یاب کر کے ان کو ان کا صحیح مقام دلانا چاہتے ہیں۔‘‘

یہاں اقبال علما تعلقات پر تفصیلی بحث مطلوب نہیں۔ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ اقبال کے علماء ومشائخ سے گہرے روابط کے باوجود آج ان کو علما کا نقاد خیال کیا جاتا ہے تو اس کی کئی ایک ظاہری وجوہ ہیں۔ ایک وجہ تو اقبال کی علما پر وہ تنقید ہے جو انہوں نے عصری تقاضوں سے غفلت کی وجہ سے ان پر کی ہے۔ دوسری وجہ بعض قدامت پسند حضرات کے وہ فتوے ہیں جو انہوں نے علامہ پر لگائے ہیں۔ ایک اور وجہ علما کا سیاسی کردار بھی ہو سکتا ہے جس کی آڑ میں خاص وعام نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے۔ 

تاہم یہ تصویر کا صرف ایک پہلو ہے۔ تصویر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عصری تقاضوں سے علما کی اس علمی بے نیازی کے باوجود اقبال علما سے بے نیاز نہیں ہوئے بلکہ وقتاً فوقتاً ان حضرات سے مقدور بھر استفادہ کرتے رہے چنانچہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی تنقیدات کو علما سے بعد کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ علماء ومشائخ سے غایت درجہ کی عقیدت رکھتے تھے۔ مولانا شبلی نعمانی، سید سلمان ندوی اور مولانا انور شاہ کشمیری وغیرہ سے آپ کو خصوصی علمی ودینی تعلق رہا ہے۔ سید سلمان ندوی کے نام علامہ کے بیسیوں خطوط ملتے ہیں۔ ان خطوط سے شبلی، ندوی اور اقبال کی ایک خوبصورت علمی تکون بنتی نظر آتی ہے۔ ’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ کی تیاری کے سلسلے میں اقبالؒ نے مولانا ندوی کو ایک طویل سوال نامہ ارسال فرمایا۔ اس سے ان حضرات کے علمی تعلقات پر روشنی پڑتی ہے۔ جسٹس جاوید اقبال نے ’’زندہ رود‘‘ جلد ۳ میں ان سوالات کا خلاصہ بیان کیا ہے۔ سفر افغانستان بھی ندوی اقبال دوستی پر دال ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری سے اقبال کی متعدد ملاقاتیں اور مسئلہ زمان ومکان، مسئلہ ختم نبوت، فقہ حنفی اور مسئلہ حدوث عالم وغیرہ پر علمی استفادہ بھی ثابت ہے۔ علامہ کشمیری کی وفات پر شاعر مشرق نے لاہور میں ایک تعزیتی جلسہ منعقد کرایا اور اپنی صدارتی تقریر میں شاہ مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا: ’’اسلام کی ادھر کی پانچ سو سالہ تاریخ شاہ صاحب کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔‘‘ مولانا کشمیری کا یہ قول بھی قابل غور ہے کہ ’’مجھ سے جس قدر استفادہ اقبال نے کیا، کسی مولوی نے نہیں کیا۔‘‘

علما کے ساتھ ذاتی روابط کے علاوہ بہت سے معاصر علما اور مشائخ کے ساتھ اقبال کاعلمی، دینی اور فکری اشتراک بھی پایا جاتا ہے جس پر ہمارے سکالرز اور محققین پوری طرح سے توجہ نہیں دے سکے۔ زیر نظر سطور میں، میں مولانا تھانویؒ اور علامہ اقبالؒ کے مابین پائی جانے والی فکری مماثلتوں کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ 

ڈاکٹر محمد اجمل نے اپنے مقالہ ’’علم اور مذہبی واردات‘‘ میں ڈاکٹر محمد اقبال اور مولانا اشرف علی تھانوی کے لیے ’’دو حکیم الامت‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں:

’’بیسویں صدی کے اوائل میں برصغیر کے مسلمانوں نے دو ممتاز ہستیوں کو ’’حکیم الامت‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ ایک تھے مولانا اشرف علی تھانوی اور دوسرے علامہ اقبال۔حقیقت میں یہ دونوں ہستیاں حکیم الامت تھیں۔‘‘

پروفیسر انور صادق کے نزدیک اقبال کی بنیادی حیثیت ایک مصلح کی ہے۔ اپنے مضمون ’’اقبال کی بنیادی حیثیت‘‘ میں فرماتے ہیں: 

’’واقعہ یہ ہے کہ اقبال بنیادی طور پر شاعر ہیں اور نہ فلسفی بلکہ وہ کچھ اور ہی ہیں۔ شاعری اور تفلسف ان کی ذات کے اضافی پہلو ہیں۔ درحقیقت وہ مصلحِ قوم ہیں۔‘‘

عالم اسلام کی موجودہ حالت پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ سوچ ایک سوال بن کر ابھرتی ہے کہ جب اسلام ایک ابدی دین ہے جس کو اللہ تمام ادیان پر غالب کرنا چاہتے ہیں تو آخر اس دین حق کی موجودگی میں مسلمان اپنی سیاسی بے چارگی‘ معاشی پس ماندگی‘ معاشرتی بد حالی اور اخلاقی بے راہ روی سے کیوں دوچار ہیں؟ علامہ محمد اقبال نے ’’علم الاقتصاد‘‘ ، ’’قومی زندگی‘‘، ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ اور ’’خطبات‘‘ خاص طور پر خطبہ اجتہاد میں انہی وجوہ کا جائزہ لیا ہے۔ ’’شکوہ‘‘، ’’جواب شکوہ‘‘، ’’طلوع اسلام‘‘ اور ’’خضر راہ‘‘ میں بھی ان سوالات کا جواب ملتا ہے۔ غالباً برصغیر میں ڈاکٹر محمد اقبال پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لیے ’’اسلام کی تشکیل جدید‘‘ کی ضرورت محسوس کی۔ مولانا سعید احمد اکبر آبادی ’’خطبات اقبال پر ایک نظر‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’اس کی داد دینی چاہیے کہ ایک ایسے دور جمود وتعطل ذہنی میں جبکہ اجتہاد کا لفظ زبان سے نکالتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں ان پر آزاد خیالی کا لیبل نہ لگ جائے، علامہ نے اپنی چشم بصیرت سے آنے والے زمانے کو دیکھ لیا۔‘‘

آپ اسلامی فقہ کی تدوین نو کو کتنا ضروری خیال کرتے تھے؟ صوفی غلام مصطفی کے نام خط میں لکھتے ہیں:

’’میرا عقیدہ ہے کہ جو شخص اس وقت قرآنی نقطہ نگاہ سے زمانہ حال کے جورس پروڈنس پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ابدیت ثابت کرے گا، وہی اسلام کا مجدد ہوگا اور بنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم بھی وہی شخص ہوگا۔‘‘

یہی بات قدرے زیادہ شہرت کے پس منظر میں مولانا تھانویؒ کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ اصلاحِ احوال امت کے موضوع پر آپ نے مستقل کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ ’’اصلاح انقلاب امت‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں ایک ضخیم تصنیف جسٹس تقی عثمانی صاحب نے مرتب کی ہے۔ جناب شیخ محمد اکرام نے حضرت تھانویؒ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’دیوبند سے متعدد بلند پایہ ہستیوں نے فیض حاصل کیا۔ ان میں سے بعض مثلاً انور شاہ کشمیری اور شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی اس لائق ہیں کہ ان کے کارنامے علیحدہ عنوانات کے تحت بیان کروں لیکن اکابرین دیوبند میں ایک بزرگ ایسے تھے کہ ان کے ذکر کے بغیر گزشتہ پچاس برس کی مذہبی تاریخ کسی طرح مکمل نہیں ہو سکتی۔‘‘

گردوپیش کے احوال کے لحاظ سے اصلاح امت کے لیے ان دونوں بزرگوں نے جو افکار پیش کیے، ان میں اشتراک اور ہم آہنگی کے متعدد دل چسپ پہلو پائے جاتے ہیں۔ آئیے ان پر ایک نظر ڈالیں:

سیاسی افکار

۱۔ دو قومی نظریہ تحریک پاکستان کا سنگ بنیاد ہے اور مولانا تھانوی روز اول ہی سے دو قومی نظریہ کے حامی اور ہندو مسلم اتحاد کے مخالف رہے تھے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ اقبال اور قائد اعظم ایک عرصہ تک ہندو مسلم اتحاد کے داعی رہے۔ میثاق لکھنو وغیرہ اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘، ’’نیا شوالہ‘‘ اور ’’ترانہ ہندی‘‘ ایسی نظمیں اقبال کی اسی فکر کی مظہر ہیں لیکن مولانا تھانوی نے اپنی سیاسی بصیرت سے کام لے کر بہت پہلے ہندوؤں کی ذہنیت سے آگاہ کر دیا تھا۔ اپنے ایک وعظ میں فرمایا:

’’یہ ہندو مسلمانوں کی جان، مال اور ایمان سب کے دشمن ہیں اور انہیں کو اپنا ہم درد اور خیر خواہ سمجھ رکھا ہے۔ یہی ان کی بڑی زبردست ناکامی کا راز ہے۔ جو شخص دوست دشمن میں امتیاز نہ کر سکے، وہ کیا خاک کام کرے گا۔‘‘

گاندھی جسے کانگرس کا دماغ کہنا چاہیے، اس نے نہایت مہارت کے ساتھ مسلمانوں کی قوت اور جذبہ کا استعمال اپنی جماعت کے حق میں کیا۔ عام مسلمان کا تو ذکر ہی کیا، بڑے بڑے اس کے سیاسی فریب کاشکار ہو کر کانگرس کا دم بھرنے لگے۔ مولانا تھانویؒ نے کانگرس کی اسلام دشمنی کو بے نقاب کر کے اس میں عدم شرکت پر فتویٰ دیا: 

’’مسلمانوں کا کانگریس میں شرکت کرنا، ہندوؤں کے ساتھ مل کر یا ان کو ساتھ ملا کر کام کرنا یہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے نہایت خطرناک بات ہے۔‘‘ 

آپ نے اپنے ایک ملفوظ میں مزید فرمایا:

’’کانگرس خالص مذہبی اور سیاسی ہندوؤں کی تحریک ہے جس کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو تباہ وبرباد کرنا ہے۔‘‘ 

آپ نے ایک اور سلسلہ گفتگو میں فرمایا:

’’ہم کانگرس کی امداد نہیں کر سکتے۔‘‘ 

مولانا تھانوی کے ملفوظات میں بڑے حقیقت پسندانہ تبصرے موجود ہیں۔ ایک خاص مجلس میں گاندھی کے بارے میں فرمایا:

’’یہ توحید اور رسالت کا منکر ہے، اسلام اور مسلمانوں کا دشمن اور رئیس المشرکین والکافرین ہے۔‘‘ 

ایک جگہ گاندھی کو ’طاغوت‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور ایک ملفوظ میں اسے چالاک، مکار، اسلام اور مسلمانوں کا دشمن کہا ہے۔ تحریک شدھی، ہجرت، قربانی گاؤ،موہلا بغاوت وغیرہ کے پیچھے گاندھی کا ذہن کام کر رہا تھا۔ ان تحاریک کے نتائج مسلمانوں کے حق میں نہایت مضر اور ہندوؤں کے لیے انتہائی سودمند ثابت ہوئے۔ مولانا نے ان امور پر یوں گرفت فرمائی:

’’بعض کفار پر مجھے بہت ہی غیظ ہے۔ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا اور ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں۔ ہجرت کا سبق پڑھایا، شدھی کا مسئلہ اٹھایا، مسلمانوں کے عرب جانے کی آواز اٹھائی، قربانی گاؤ پر انہوں نے اشتعال دیا۔ یہ لوگ مسلمانوں کی جان کے دشمن ہیں بلکہ ایمان، جان ومال اور ماہ وجاہ، مسلمانوں کی سب چیزوں کے دشمن ہیں۔‘‘

اس قدر سخت تنقید کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ آپ ہندو مسلم اتحاد کے بارے میں سوچ بھی سکتے تھے۔ وہ تو اتحاد کو مسلمانوں کی شان کے خلاف سمجھتے تھے نیز ہندوؤں اور انگریز کے بجائے خدا پر بھروسہ کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ 

علامہ اقبال بھی مسلمان علما کے کانگریسی کردار کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک گفتگو کے دوران میں فرمایا: 

’’کانگرسی خیال کے علما ہندوؤں کا ساتھ دے کر بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ اگر قوم نے ان کا ساتھ دیا تو اس کا نتیجہ بہت مہلک ہوگا۔‘‘

مسئلہ وطنیت وقومیت پر مولانا حسین احمد مدنی سے آپ کا اختلاف ایک مشہور بات ہے۔ ’’ارمغان حجاز‘‘ میں ’’حسین احمد‘‘ کے زیر عنوان نظم بھی اس بحث کی یاد دلاتی ہے۔ علامہ نے اپنے موقف کی حمایت میں ’’جغرافیائی حدود اور مسلمان‘‘ کے نام سے مضمون قلم بند کروایا جو ۹ مارچ ۱۹۳۸ء کے روزنامہ ’’احسان‘‘ میں شائع ہوا۔ اس تحریر کے ۴۳ روز بعد آپ راہئ ملک عدم ہوئے۔ مذکورہ مضمون ’’مقالات اقبال‘‘ (مرتبہ سید عبد الواحد) میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

۲۔ علامہ اقبال ترکِ موالات کے مخالف تھے بلکہ اس کے رہنماؤں سے بھی نالاں تھے۔ مولانا تھانویؒ بھی اس تحریک میں مستور نقصانات کو دیکھ رہے تھے۔ چنانچہ اس کے اثرات پر یوں تبصرہ کیا کہ ایک صاحب جو ترک موالات کا شکار ہوئے اور ملازمت کھو بیٹھے، اس کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:

’’یہ صاحب سرکاری ملازم تھے۔ اس تحریک کے سبب مستعفی ہو گئے۔ ملازمت تلاش کرتے ہیں مگر ملتی نہیں۔ پریشان ہیں۔ دین ودنیا دونوں خراب ہوئے۔ اس کانگریس کی وجہ سے ہر شخص پریشان ہے۔‘‘

۳۔ آپ نے تحریکِ ہجرت کی بھی مخالفت کی اور فتویٰ دیا کہ شریعت نے وجوبِ ہجرت کے لیے جو شرائط عائد کی ہیں وہ شرائط ابھی موجود نہیں۔ آپ ہجرت کو گاندھی کا سبق کہتے تھے اور اس کے فتاویٰ جاری کرنے والے علما پر سخت ناراضی اور غصے کا اظہار کرتے تھے۔ 

علامہ اقبال کے خطوط میں ہجرت کے متعلق اشارات ملتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اس تحریک کی حمایت بالکل نہیں کی بلکہ اس کو مولانا تھانوی کی طرح ناپسند فرمایا۔ پروفیسر محمد اکبر منیر کو اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں: 

’’ہندوستان اور بالخصوص پنجاب سے بے شمار لوگ افغانستان کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ اس وقت تک پندرہ بیس ہزار آدمی جا چکا ہوگا۔‘‘ 

اس تحریک کے نتائج کے بارے میں جسٹس جاوید اقبال رئیس بروک ولیمز کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’کابل سے پشاور تک شاہراہ پر دونوں طرف زمین ان بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کی قبروں سے بھر گئی جو اس سفر کی مصیبتیں برداشت نہ کر سکے۔ جب مہاجرین اپنے اپنے دیہات واپس پہنچے تو بالکل قلاش اور گھربار سے محروم تھے اور سرچھپانے کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔‘‘

سید ریاض حسین نے اس تحریک کے بارے میں اپنا خیال ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

’’بس یہی قدم تھا جو مسلمانوں نے بغیر سوچے سمجھے کیا۔‘‘

۴۔ اقبال اور مولانا تھانوی تحریک خلافت کے بارے میں بھی ہم خیال تھے۔ اقبال صوبائی خلافت کمیٹی کے رکن تھے، بعد ازاں مستعفی ہو گئے۔ وہ وفد خلافت کو انگلستان بھیجنے کے بھی خلاف تھے چنانچہ سید سلمان ندوی کے نام ایک خط میں اس وفد پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ مولانا تھانوی نے تحریک خلافت سے علیحدگی اختیار کی۔ اس پر مولانا کو قتل کی دھمکی بھی موصول ہوئی۔ آپ نے ایک مجلس میں فرمایا:

’’تحریک خلافت کا زمانہ نہایت ہی پرفتن زمانہ تھے۔ بڑے بڑے پھسل گئے۔ عجب ایک ہڑبونگ مچا ہوا تھا۔ حق وباطل میں بھی امتیاز نہ رہا تھا۔‘‘

طریقت وتصوف

تصوف اور مسائل تصوف مسلمانوں کا ایک قدیمی مسئلہ ہے۔ تصوف کے بارے میں عام طور پر تین مکاتب فکر موجود ہیں۔ ایک افراط کا شکار ہے اور دوسرا تفریط کا اور تیسرا ان کے بین بین ہے اور یہی مسلک ہر دو حکیم الامت کا تھا۔ علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ کا عقیدہ یہ تھا کہ شریعت وطریقت دو چیزیں نہیں ہیں بلکہ طریقت شریعت کا ایک جز ہے اور شریعت کے تابع ہے جس کا مقصد تزکیہ نفس ہے۔ اقبال اپنے ایک خط میں شاہ سلمان پھلواری کو لکھتے ہیں:

’’حقیقی اسلامی تصوف کا میں کیونکر مخالف ہو سکتا ہوں کہ خود سلسلہ عالیہ قادریہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ بعض لوگوں نے ضرورغیر اسلامی عناصر اس میں داخل کر دیے ہیں۔ جو شخص غیر اسلامی عناصر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے، وہ تصوف کا خیر خواہ ہے نہ کہ مخالف۔‘‘

آج بھی نام نہاد صوفیوں نے سادہ لوح عوام کو ظاہر وباطن کی بحث میں الجھا رکھا ہے حالانکہ شریعت ظاہر وباطن دونوں پر حاوی ہے اور ان میں تفریق کی قائل نہیں۔ اقبال نے ’نیو ایرا‘ کی ۲۸ جولائی ۱۹۱۷ء کی اشاعت میں اپنے ایک مضمون ’’تصوف اور اسلام‘‘ میں شیخ احمد رفاعی کے حوالے سے لکھا ہے:

’’شیخ وہ ہے جس کا ظاہر وباطن مشروع ہو۔ طریقت عین شریعت ہے۔ جھوٹا اس فرقے کو نجاست آلود کرتا ہے اور کہتا ہے باطن اور ہے ظاہر اور ہے۔‘‘

علامہ نے تصوف پر کئی اور مضامین بھی لکھے۔ یہ مضامین خواجہ حسن نظامی کے مثنوی اسرار خودی پر اعتراضات کے جواب میں تحریر کیے جن میں ’اسرار خودی اور تصوف‘ (۱۹۱۶ء)، ’سرِاسرار خودی‘ (۱۹۱۶ء)، ’تصوفِ وجودیہ‘ (۱۹۱۶ء) اور ’علم ظاہر وباطن‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مسئلہ تصوف کی تفہیم میں اقبال کی یہ تحریریں بڑی معاون ثابت ہوتی ہیں۔ مذکورہ بالا مضامین ’مقالاتِ اقبال‘ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ۱۹۱۶ء سے ۱۹۱۸ء کے عرصے میں لکھے گئے مکتوبات میں یہ بحث مل سکتی ہے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ حقیقی اسلامی تصوف کے قائل ہیں اور طریقت کو شریعت کا ہی ایک حصہ اور جز خیال کرتے ہیں۔

تصوف پر مولانا تھانوی کا گراں قدر سرمایہ موجود ہے۔ ’انفاس عیسیٰ‘، ’الرفیق فی سواء الطریق‘، اور ’شریعت وطریقت‘ خالص تصوف کی کتابیں ہیں۔ تیرہ سو صفحات پر مشتمل ’تربیت السالک‘ مولانا کی مایہ ناز تصنیف ہے۔ ’التکشف عن مہمات التصوف‘ نہایت مستند اور ادبی مزاج کی کتاب ہے جو ۷۵۰ صفحات پر مشتمل آٹھ رسائل کا مجموعہ ہے۔ اس میں ’عرفان حافظ‘ کے نام سے حافظ شیرازی کے کلام کی متصوفانہ شرح کے علاوہ ’حقیقت الطریقۃ من السنۃ الانیقۃ‘ کے عنوان سے ۳۵۰ احادیث کی روشنی میں تصوف اور متعلقات تصوف کو ثابت کیا ہے۔ علاوہ ازیں ’مسائل السلوک من کلام ملک الملوک‘ کے نام سے قرآن کی متصوفانہ تفسیر فرمائی ہے۔ ’بیان القرآن‘کے حاشیے میں جابجا مسائل تصوف کی نشان دہی کی گئی ہے۔ آپ کے ملفوظات وفرمودات میں بھی موقع ومحل کی مناسبت سے تصوف وسلوک پر عمدہ بحثیں موجود ہیں۔ پھر آپ کے خلفا اور مریدین اور سوانح نگاروں نے آپ کی زیر نگرانی جو کام کیا ہے، وہ اس پر مستزاد ہے۔ 

مولانا تھانوی تصوف کی کیا تفسیر فرماتے ہیں، ’شریعت وطریقت‘ سے چند سطور قارئین کی نذر ہیں:

’’شریعت کے پانچ اجزا ہیں۔ پانچواں جز تصوف ہے جسے شریعت میں اصلاح نفس کہتے ہیں۔ آج کل لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تصوف کے لیے بیوی، بچوں اور دوسرے دنیاوی امور کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ یہ جاہل صوفیوں کا مسئلہ ہے جو تصوف کی حقیقت کو نہیں جانتے۔‘‘

اسی چیز کو اقبال نے بار بار غیر اسلامی اور عجمی تصوف کہا ہے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ دونوں حضرات ایسے غیر اسلامی رہبانی تصوف کے مخالف ہیں جو زندگی کے تقاضوں سے فرار کی راہ دکھاتا ہے۔

مثنوی مولانا رومؒ 

علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ میں ایک اور فکری ہم آہنگی مولانا رومؒ اور ان کی مثنوی ہے۔ شاعر مشرق کی مولانا جلال الدین رومیؒ سے عقیدت محتاج بیان نہیں جبکہ مولانا تھانویؒ کے مولانا رومیؒ سے استفادہ سے ایک عام آدمی بھی باخبر ہے۔ جو حضرات مولانا تھانویؒ کے علمی افادات سے شغف رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ان کے ملفوظات اور تصانیف میں جابجا مولانا رومی کے اشعار ملتے ہیں۔ ’’عرفان حافظ‘‘ کا ذکر گزر چکا ہے۔ یہاں یہ سن لیجیے کہ آپ نے مثنوی مولوی معنوی کی شرح کی ہے جس کو کلید مثنوی کے نام سے ۲۴ جلدوں میں ادارۂ تالیفات اشرفیہ ملتان نے شائع کیا ہے۔ فارسی اور اردو کا ذوق رکھنے والے احباب کے لیے یہ ایک خاصے کی چیز ہے۔ اس شرح کا تذکرہ علامہ کے خطوط میں ملتا ہے۔ خان محمد نیاز الدین خان کو ایک مکتوب محررہ ۳ فروری ۱۹۱۷ء میں لکھتے ہیں:

’’مولوی اشرف علی تھانوی، جہاں تک مجھے معلوم ہے، وحدۃ الوجود کے مسئلے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے ان کی کتاب عمدہ ہوگی۔‘‘

اپنے مضمون ’’سر اسرار خودی‘‘ میں حضرت خواجہ حسن نظامی کو مخاطب کر کے لکھا ہے:

’’حضرت، میں نے مولانا جلال الدین رومیؒ کی مثنوی کو بیداری میں پڑھا ہے اور بار بار پڑھا ہے۔ آپ نے شاید اسے سکر کی حالت میں پڑھا ہے کہ اس میں آپ کو وحدۃ الوجود نظر آتا ہے۔ مولوی اشرف علی تھانوی سے پوچھیے، وہ اس کی تفسیر کس طرح کرتے ہیں۔ میں اس بارے میں انہی کا مقلد ہوں۔‘‘

تعلیم وتربیت

شعبہ تعلیم وتربیت میں بھی مشترک اقدار موجود ہیں۔ خاص طور پر تعلیم وتربیت نسواں کے بارے میں ان حضرات نے بہت زیادہ لکھا ہے۔ اقبالؒ عورت کو تمدن کی جڑ قرار دیتے ہیں چنانچہ آپ نے ضرب کلیم میں عورت پر متعددقطعات رقم فرمائے ہیں۔ مدراس میں انجمن خواتین کے سپاس نامہ کے جواب میں آپ نے تقریر فرمائی جو ’’شریعت اسلام میں مرد وعورت کا مرتبہ‘‘ کے عنوان سے مقالاتِ اقبال کی زینت بن چکی ہے۔

اقبالؒ عورت کو کیسی تعلیم دینا چاہتے تھے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں رقم طراز ہیں:

’’قومی ہستی کی مسلسل بقا کے لیے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو ابتدا میں ٹھیٹھ مذہبی تعلیم دیں۔ جب وہ مذہبی تعلیم سے فارغ ہو چکیں تو ان کو اسلامی تاریخ، علم تدبیر، خانہ داری اور علم اصول حفظ صحت پڑھایا جائے۔ اس سے ان کی دماغی قابلیت اس حد تک نشوو نما پا جائے گی کہ وہ اپنے شوہروں سے تبادلہ خیال کر سکیں گی اور امومت کے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دے سکیں گی۔‘‘

علامہ اقبالؒ نے یہاں عورتوں کی تعلیم کا نصاب مقرر کر دیا ہے۔ اس نصاب کی عملی شکل ہم کو مولانا تھانویؒ کی کتاب ’’بہشتی زیور‘‘ کی صورت میں ملتی ہے۔ حضرت تھانوی ؒ کتاب کے دیباچے میں اس کی غرض تصنیف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’حقیر ناچیز اشرف علی تھانوی مظہر مدعا ہے کہ ایک مدت سے ہندوستان کی عورتوں کے دین کی تباہی دیکھ کر قلب دکھتا ہے اور اس کے علاج کی فکر میں رہتا ہے اور زیادہ وجہ فکر کی یہ تھی کہ یہ تباہی صرف ان کے دین تک محدود نہ تھی بلکہ دین سے گزر کر ان کی دنیا تک پہنچ گئی تھی اور ان کی ذات سے گزر کر ان کے بچوں بلکہ بہت سے آثار ان کے شوہروں تک اثر کر گئی تھی اور جس رفتار سے یہ تباہی بڑھتی جاتی تھی، اس کے اندازہ سے معلوم ہوتا تھا کہ اگر چندے اور اصلاح نہ کی جائے تو شاید یہ مرض قریب قریب لاعلاج ہو جائے اس لیے علاج کی فکر زیادہ ہوئی اور سبب اس تباہی کا بالقاء الٰہی اور تجربہ اور دلائل اور خود علم ضروری سے محض یہ ثابت ہوا کہ عورتوں کا علوم دینیہ سے ناواقف ہونا ہے جس سے ان کے عقائد، ان کے اعمال، ان کے معاملات، ان کے اخلاق، ان کا طرز معاشرت سب برباد ہو رہا ہے۔‘‘

اس کے بعد مولانا عورت کے جذبہ امومت کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’چونکہ بچے ان کی گود میں پلتے ہیں، زبان کے ساتھ ان کا طرز عمل، ان کے خیالات بھی ساتھ ساتھ دل میں جمے جاتے ہیں جس سے دین تو ان کا تباہ ہونا ہی ہے مگر دنیا بھی بے لطف بد مزہ ہو جاتی ہے، اس وجہ سے کہ بد اعتقادی سے بد اخلاقی پیدا ہوتی ہے اور بد اخلاقی سے بد اعمالی اور بد اعمالی سے بد معاملگی جو جڑ ہے تکدر معیشت کی۔‘‘

یہی وہ چیزیں ہیں جن کو اقبالؒ نے ’اسرار ورموز‘ کے ان اشعار میں بیان کیا ہے:

از امومت پختہ تر تعمیر ما
در خطِ سیمائے او تقدیر ما
از امومت گرم رفتار حیات
از امومت کشف اسرارِ حیات
مال او فرزند ہائے تندرست
تر دماغ وسخت کوش وچاق چست
حافظِ رمزِ اخوت مادراں
قوتِ قرآن وملت مادراں
ضرب کلیم کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگِ امومت
ہے حضرتِ انساں کے لیے اس کا ثمر موت

مختصر یہ کہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ میں ایک معنوی اتحاد موجود ہے خاص طور پر ان کی سیاسی و تعلیمی اصلاح وفلاح کے ابواب میں حد درجہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ان سطور کا مقصد یہ ہے کہ اس علمی ربط کو عوام کے سامنے لایا جائے۔ اس سے ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ امت کے دو بڑے گروہ جنہیں عرف عام میں قدیم وجدید کہا جاتا ہے، ایک دوسرے کے قریب آئیں گے، بد گمانیوں کے بادل چھٹ جائیں گے، علمی بعد اور معاشرتی نفرتیں کم ہوں گی اور فکر وعمل کی نئی نئی راہیں سامنے آئیں گی۔ ان شاء اللہ۔

آہ ! مولانا عاشق الٰہی برنی مہاجر مدنی نور اللہ مرقدہ

حافظ مہر محمد میانوالوی

۱۳ رمضان المبارک ۱۴۲۲ء کو مدینہ طیبہ میں ولی کامل، مفسر قرآن حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری اپنے محبوب مولیٰ سے جا ملے اور جنت البقیع میں سب سے افضل مدفون ذو النورین خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے مزار کے پاس تدفین کی سعادت نصیب ہوئی۔ اللہم زدہ رحمۃ واکراما واجعل الجنۃ مثواہ

مولانا عاشق الٰہی ۱۳۴۳ھ میں بسی ضلع بلند شہر انڈیا میں پیدا ہوئے۔ تبلیغی جماعت کے عظیم پیشوا شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ سے سہارنپور میں ۱۳۶۳ھ میں دورۂ حدیث شریف پڑھا۔ پھر دہلی، کلکتہ کے علاوہ اپنے استاذ محترم مولانا محمد حیات سنبھلی کے مدرسہ جامعہ حیات العلوم مراد آباد میں پڑھایا حتیٰ کہ مفتی اعظم مولانا محمد شفیع ؒ نے دار العلوم کورنگی کراچی میں بلا لیا جہاں ۱۳۸۴ھ سے ۱۳۹۶ھ تک فقہ وحدیث کی تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے۔ اپنے اکابر مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ ، مولانا بدر عالم میرٹھیؒ ، مولانا عبد الغفور نقش بندیؒ ، مولانا قاری فتح محمد نقش بندیؒ کی طرح مدینہ طیبہ میں رہنے اور وہیں فوت ہو جانے کا عشق محمدی دامن گیر تھا۔ آپ کے شیخ مولانا محمد زکریاؒ صاحب بھی پہلے پہنچے ہوئے تھے اس لیے کراچی سے حرمین شریفین جاگزیں ہوئے اور تالیفی کام میں ان کو امداد دی اور تدریس کرتے رہے حتیٰ کہ ۲۶ سال بعد دل کی حسرت وتمنا پوری ہوگئی۔ رحمت للعالمین ﷺ کا قرب نصیب ہوا اور ارشاد نبوی کے مطابق شفاعت کے حق دار ہو گئے۔

تدریسی خدمات میں انہماک کے باوجود تصنیف وتالیف کی لائن میں اللہ تعالیٰ نے بہترین دماغ اور وافر صلاحیت عطا فرمائی تھی۔ اردو اور عربی میں سو کے لگ بھگ بڑی چھوٹی کتب تصنیف فرمائیں جن کو خدا نے مقبولیت عامہ سے نوازا۔ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں طبع ہوئیں۔ ناشرین کا کاروبار چمکا مگر مولانا نے خود ان سے ذاتی فائدہ یا رائلٹی نہیں لی نہ کسی کتاب کے حقوق طبع محفوظ رکھے۔ ان کے چھوٹے بیٹے عبد اللہ کا بیان ہے کہ اپنے لیے یا اولاد کے لیے ذاتی مکان تک نہیں بنایا۔ اگر کسی نے آپ کی کتاب پر اپنا نام لکھ کر چھاپ دیا تو برا نہیں منایا بلکہ کہا کہ چلو دین کی بات تو دوسرے تک پہنچ گئی، ہمیں نام کی شہرت درکار نہیں۔ ایسی مثال آج کل کم ہی ملے گی۔

اگر کثیر التصانیف ہونے میں حضرت تھانویؒ کے بعد آپ کا نام شمار کیا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا، اگرچہ حضرت شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنیؒ کے علمی وارث اور سلف صالحین کے مطابق مسلک اہل سنت علماء دیوبند کے حقیقی ترجمان اور پچاس سے زائد کتب کے مصنف استاذی المکرم شیخ الحدیث والتفسیر مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ دونوں بزرگوں کی تصانیف میں موازنہ سے راقم کو فرق یہ محسوس ہوتا ہے کہ مولاناعاشق الٰہی کی اردو تصانیف عام فہم، اصلاح حال واعمال پر ابھارنے والی تبلیغی طرز کی ہیں جبکہ استاذ مکرم کی فرق باطلہ کے رد میں عقائد حقہ اہل سنت وعلماء دیوبند کی حفاظت کا حصن حصین ہیں۔ حضرت برنی کی عربی تصانیف بہت وسیع عالمانہ، تحقیقی، بلند پایہ اور حنفی مسلک کی ترجمان ہیں۔ دیار عرب میں رہ کر فقہ حنفی کی وکالت اور حفاظت کا حق ادا کیا ہے۔ فرحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً

آپ کی عربی تصانیف میں سے چند یہ ہیں: 

(۱) جدید تفسیر انوار القرآن (۹ جلدیں) جس کے انگریزی، فرانسیسی، ہندی اور بنگالی زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ 

(۲) مجانی الاثمار من شرح معانی الآثار للطحاوی 

(۳) بہیج الراوی بتخریج احادیث الطحاوی

(۴) انعام الباری فی شرح اشعار البخاری

(۵) التسہیل الضروری فی مسائل القدوری

(۶) زاد الطالبین

(۷) المواہب الشریفۃ فی مناقب الامام ابی حنیفۃؒ 

(۸) القادیانیۃ ماہی؟

(۹) حاشیہ الخیرات الحسان فی مناقب ابی حنیفۃ النعمان

(۱۰) التحفۃ المرضیۃ فی شرح المقدمۃ الجزریۃ

(۱۱) روضۃ الاحباب

اردو میں درج ذیل کتابیں کافی مقبول ہیں:

(۱۲) سیرت سرور کونین (۳ جلدیں)

(۱۳) شرح اربعین نووی

(۱۴) امت مسلمہ کی مائیں

(۱۵) مسلم خواتین کے لیے بیس سبق

(۱۶) مسنون دعائیں

(۱۷) تحفہ خواتین

(۱۸) چھ باتیں

(۱۹) اسلامی نام

(۲۰) ذکر اللہ کی کثرت کیجیے

(۲۱) شرعی حدود وقصاص

راقم کو حضرت ممدوح ومرحوم سے کوئی خاص ذاتی تعلق یا شرفِ تلمذ نہیں البتہ ۸۷ء میں جب راقم جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن کراچی میں تخصص فی علوم الحدیث کا طالب علم تھا، آپ دار العلوم میں مدرس تھے۔ تراویح سنانے والے حفاظ کو منتخب کرنے کی ڈیوٹی آپ کے ذمے لگا دی گئی۔ حفاظ کی ایک جماعت کے ساتھ احقر کو بھی پہلی مرتبہ آپ کی زیارت نصیب ہوئی۔ کشادہ پیشانی، گول چہرہ، میانہ قد، سرمگیں آنکھیں، چمکیلے دانت، سانولا رنگ اور بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ٹیسٹ صاف گوئی کے ساتھ اور اغلاط کی نشان دہی کرتے ہوئے لیا۔ کسی کی اصلاح کے لیے بروقت تنقید اور حق گوئی آپ کی فطرت معلوم ہوئی کہ لگی لپٹی رکھنے کے بجائے بلا خوف لومۃ لائم صحیح وسدید اور حق بات بڑے بڑے لوگوں کو صاف کہہ دیتے تھے۔ امتحان دینے کے شرف کے علاوہ اس وجہ سے بھی عقیدت ہے کہ آپ کی اردو تصانیف اپنے کتب خانہ اور مکتبہ عثمانیہ کے لیے سرمایہ اور باعث زینت بنائی تھیں۔ حضرت استاذیم مدظلہ کی کتب کی طرح ان سے بھی ہر قسم کا فائدہ اٹھایا۔

قلبی تعلق کا تازہ سبب ابھی رمضان ۱۴۲۲ھ میں عمرہ کرنا ہے۔ مدینہ طیبہ جا کر آپ کا پتہ کرنے مسجد قبا گیا۔ عصر کے بعد امام صاحب نے فرمایا ’’عاشق الٰہی شیخ معروف ابنہ عبد الرحمن مدرس فی الحرم النبوی‘‘ خوشی سے واپس آکر ان کو تلاش کر لیا۔ پتہ چلا کہ حضرت عارضہ قلب کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہیں۔ جمعرات کے دن واپس آ گئے تو جمعہ ۸ رمضان کی شب کو ملاقات کاپروگرام بنایا۔ دفاع صحابہ اور تائید اہل سنت میں اپنی چند کتابیں تو مولانا عبد الحفیظ مکی کے صاحب زادوں کو دی تھیں۔ وہ خود افریقہ گئے ہوئے تھے اور بقیہ مولانا کے صاحبزادے قاری عبد الرحمن کوثر کو دے دی تھیں کہ وہ حضرت کو دکھا کر دعا کی درخواست کر دیں۔

میری محرومی اور قدرے غفلت کا نتیجہ کہیے کہ تراویح کے بعد مولانا عبد الرحمن تجوید پڑھانے بیٹھ گئے۔ میں کچھ دیر انتظار میں بیٹھا دیکھتا رہا۔ ان کے اٹھتے وقت لمحہ بھر کو نگاہ دوسری طرف ہو گئی اور وہ بھی مجھے دیکھے یاد کیے بغیر گھر چلے گئے۔ پھر جدید مسجد کے وسیع صحرا یا سمندر میں ایک دوسرے سے نہ مل سکے۔ جمعہ کے وقت اور پھر تراویح کے بعد بھی ان سے ملاقات اور حضرت کا شرفِ زیارت نہ پا سکا۔ دوسرے دن پھر عمرہ کر کے پاکستان آ گیا۔ ۳ دن بعد خبر سنی کہ حضرت مولانا عاشق الٰہی انتقال فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ۳دن زیارت کی مشقت کا اجر اور اہل اللہ سے محبت خدا کے حوالے کرتا ہوں کہ وہ اپنی مہربانی سے بخش دے۔ 

احب الصالحین ولست منہم لعل اللہ یرزقنی الصلاحا

اللہ تعالیٰ اکابر دیوبند کی طرح مولانا عاشق الٰہی کی خدمات دینیہ کو قبول فرما کر خطایا سے درگزر فرمائے۔ آمین

پیٹ معذور ہوتا ہے

پروفیسر میاں انعام الرحمن

وہ بے چینی سے ہاتھ پر ہاتھ مسل رہا تھا۔ بھاری بھرکم کھردرے ہاتھوں پر جمی ہوئی پتلی سی سیاہی صاف چغلی کھا رہی تھی کہ یہ ’’دستِ محنت‘‘ ہیں۔ اپنا خون پسینہ ایک کرکے روزی کمانے والا پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے سوالی بننے پر مجبور ہو گیا تھا۔ .......’’یقین کریں باؤ صاحب، میں مانگنے والا نہیں ہوں۔ ........ بڑا عجیب سا لگ رہا ہے۔ ...... شرم آ رہی ہے۔ میں تو ..... میں تو جی کاری گر ہوں۔ لوہے کی الماریاں مرمت کرتا ہوں۔ ہفتہ ہو گیا ہے کام نہیں ملا۔ ...... میرے پاس ڈیڑھ سو روپے تھے، وہ ختم ہو گئے ہیں۔ ..... اگر ..... اگر آپ ......‘‘ اس سے آگے کچھ کہنے سے وہ ہچکچا رہا تھا۔ میرا خیال تھا وہ کرایے وغیرہ کے لیے پچاس، سو روپے کا تقاضا کرے گا لیکن جب بات ’’اگر آپ......‘‘ سے آگے بڑھی تو میں حقیقتاً چونک اٹھا۔ وہ صرف ’’روٹی‘‘ کھانے کے لیے پیسے مانگ رہا تھا۔ اس کے کھردرے ہاتھوں کی سختی اس کی ’’انا‘‘ کی حفاظت نہ کر پائی تھی۔ میں نے پریشان سے انداز میں جیب میں ہاتھ ڈالا اور حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے دس روپے کی ’’خطیر رقم‘‘ اس کے حوالے کر دی۔ اگر اس وقت اس سے ذرا بڑھ کر مدد کرنے کی کوشش کرتا تو بجٹ درہم برہم ہونے سے ’’پروفیسری‘‘ تہی دامن ہو جاتی۔ اس کے ہاتھوں کا کھردرا پن، ان پر جمی ہوئی ہلکی سی سیاہی، بھرائی ہوئی آواز اور لہجے سے امڈتی سچائی ، یہ سب چیزیں اسے پیشہ ور بھکاری سمجھنے میں مانع ہو رہی تھیں۔ پھر اس نے پوچھا، ’’باؤ جی آپ کیا کام کرتے ہیں؟‘‘ ’’کالج میں پڑھاتا ہوں۔‘‘ میرے جواب پر اس نے خالصتاً ’’کامی‘‘ لوگوں کی طرح مشتاق ہو کر کہا، ’’کالج میں بھی الماریوں کی مرمت کا بہت سا کام ہوتا ہے، بنچ وغیرہ بھی ہوتے ہیں، امتحانی کرسیاں بھی ہوتی ہیں۔ ..... میں کالج میں حاضر ہو جاؤں؟‘‘ اس کے سوالیہ انداز کو میں نے سیاست دانوں کی طرح ٹالتے ہوئے کہا کہ کالج میں ایسے کام عموماً گرمیوں کی چھٹیوں میں ہوتے ہیں۔ ویسے بھی ہر کام ایک Process سے ہوتا ہے۔ کالج میں ایک مخصوص کمیٹی ہی یہ کام کروا سکتی ہے۔ اگر تم دل چسپی رکھتے ہو تو کالج کی اس کمیٹی سے رابطہ کر لو۔ یوں میں نے اسے ٹال دیا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ میں اس کی مدد کرنے سے قاصر تھا۔ بحیثیت پروفیسر میں خود ’’سرخ فیتے‘‘ کا شکار رہا ہوں، بھلا اس کے لیے کیا کر سکتا تھا؟ آخر Process بھی کوئی چیز ہے، اگر معاملہ میرے اور اس جیسے لوگوں کا ہو۔ اور اگر ’’ہاتھ پڑتا‘‘ ہو تو دستور بھی کوئی چیز نہیں۔

اس شخص کے لہجے کی سچائی اور شکستگی نے دل میں غبار بھر دیا۔ ذہن کی یہ حالت تھی جیسے کسی نے جامد پانی میں لگاتار پتھر پھینک کر ہلچل مچا دی ہو۔ ایک نہ تھمنے والے اضطراب نے ذہن کے ایک گوشے میں مستقل پڑا ڈال لیا۔ کیا پیٹ کی ’’انا‘‘ نہیں ہوتی؟ یہ اور اس جیسے کئی سوالات تھے جو کم از کم ایک لمحے کے لیے سہی، کسی کو بھی جھنجھوڑ سکتے ہیں۔ 

یہ واقعہ مجھے اس واقعے کی بازگشت معلوم ہوا جب ایک مرتبہ ایک اچھے خاصے سفید پوش قسم کے صاحب ملے اور کہا کہ آپ سے بات کرنی ہے۔ میں نے کہا، فرمائیے۔ انہوں نے اصرار سے گھر لے جانے کو کہا۔ میں گھر لے آیا، چائے سے تواضع کی۔ اس کے بعد ان صاحب نے جو حرکت کی، میں لرز کر رہ گیا۔ میرے خواب وخیال میں بھی نہ تھا کہ وہ ایسا کر گزریں گے۔

خواب بھی خواب ہوئے اب تو یہاں پر یارو

وہ اچانک اٹھے اور میرے گھٹنے پکڑ کر تھکے تھکے لہجے میں انتہائی لجاجت اور بے چارگی سے کہا، ’’میں بہت مجبور ہوں۔ اگر آپ ایک سو روپے عنایت فرمائیں تو زندگی بھر احسان مند رہوں گا۔ چند ہی روز میں آپ کو واپس کر دوں گا۔‘‘ میں تو اپنے گھٹنے پکڑے جانے پر ششدر تھا، تقریباً سکتے کی حالت میں تھا۔ ہوش میں آنے پر شرمندگی سے گھڑوں نہیں سمندروں پانی میں نہا گیا۔ جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے اکثر علاقوں میں ہو سکتا ہے یہ معمول کی حرکت ہو لیکن میرے لیے گھٹنے پکڑے جانا ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ شاید یہ اس سمندروں پانی میں نہانے کا نتیجہ ہے کہ اس کی چھوڑی ہوئی ’’تری‘‘ لفظوں میں ڈھل کر تحریر کی صورت میں ’’خشک ‘‘ہو رہی ہے۔ میرا خیال ہے یہ تری کبھی ختم نہیں ہوگی۔ خیر! میں نے ان صاحب کو سو روپے دیے اور ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا کہ آپ ذہن پر بوجھ نہ ڈالیں، یہ آپ کی اپنی رقم ہے۔ ہم اجنبی سہی، لیکن آپ کا مجھ پر کوئی حق بھی ہے۔

ذہن پر ان واقعات کے نقوش ابھی دھندلے نہیں ہوئے تھے کہ خبر آئی، جنرل پرویز مشرف نے ’’صدر‘‘ کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ خبر پڑھ کر نواب وقار الملک کے وہ الفاظ یاد آ گئے جو انہوں نے تقسیمِ بنگال کی تنسیخ پر کہے تھے:

’’حکومت کا یہ اقدام مسلمانوں کی لاشوں پر سے توپ خانہ گزارنے کے مترادف ہے جو اس امر کا احساس کیے بغیر گزارا گیا ہو کہ شاید ان میں سے کچھ لاشیں نیم جان ہوں۔‘‘

صدر محترم! معاشی بے انصافی اور معاشرتی بے یقینی کے تھپیڑوں سے یہ قوم نیم جان ضرور ہوئی ہے، ابھی مری نہیں۔ خدارا صدارتی مراعات جیسے توپ خانے اس پر سے مت گزاریے۔ اپنی ’’انا‘‘ کی تسکین کے لیے لاکھوں اناؤں کو قربان مت کیجیے۔ ایک طرف ایڈہاک لیکچررز کو چھٹی کرا دی گئی ہے اور دوسری طرف ......۔

صدر محترم! دستِ محنت کو سوالی بنانے کے بجائے میدانِ محنت کی کشادگی کا بندوبست کیجیے۔ ہمارے وطن میں دستِ محنت کی کمی نہیں، بس میدانِ محنت نایاب ہے۔ قاضی صاحب نے رہائی کے بعد جو بیانات دیے ہیں، ان کا لفظ لفظ سچ پر مبنی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے الفاظ نہیں، کیل ہیں جو ایک ایک کر کے دماغ میں ٹھونکے جا رہے ہیں۔ لیکن قاضی صاحب! کیا کریں، پیٹ کا دماغ نہیں ہوتا اس لیے قوم پر آپ کی کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ جذباتی نعرے لگانے والے اور فصیح وبلیغ تقریریں کرنے والے بھی یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ پیٹ کے کان نہیں ہوتے۔ پیٹ کی آنکھیں بھی نہیں ہوتیں۔ پیٹ تو بس پیٹ ہوتا ہے۔ ہاں، پیٹ معذور ہوتا ہے۔

مولانا درخواستی کا دورۂ جنوبی افریقہ، فجی وبنگلہ دیش

ادارہ

دنیا بھر کے مسلمانوں میں عقائد واعمال کی پختگی اور دینی اقدار وروایات کے ساتھ وابستگی کا جذبہ پروان چڑھ رہا ہے اور وہ اپنا اسلامی تشخص برقرار رکھتے ہوئے اس میں مزید رنگ بھر رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی نے ساؤتھ افریقہ، فجی آئی لینڈ اور بنگلہ دیش کے تبلیغی دورے سے واپسی پر اسلام آباد میں علما کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں میں احیاء اسلام کا جذبہ موج زن ہے اور دین داری کی لہریں اٹھ رہی ہیں جس کا زندہ اور واضح ثبوت روز افزوں دینی اداروں کا قیام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ساؤتھ افریقہ کے دورے میں بیانات کے لیے جوہانس برگ، ڈربن، لیڈیز منٹ، آزاد ولڈ اور اسپرنس جانے کا اتفاق ہوا۔ ان تمام شہروں میں خوبصورت ایئر کنڈیشنڈ مساجد، وسیع وعریض مدارس اور بڑی بڑی خانقاہیں وجود میں آ چکی ہیں جہاں دین کی تبلیغ واشاعت اور تعلیم وتربیت کا کام وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے۔ خاص طور پر آزاد ولڈ اور اسپرنس کے مدارس قابل دید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ساؤتھ افریقہ کے مسلمان، علماء ومشائخ کے ساتھ بے پایاں عقیدت اور وارفتگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دینی اجتماعات میں بھرپور شرکت کرتے ہیں۔

مولانا درخواستی نے اپنے دورۂ بنگلہ دیش کے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کے لوگ پاکستانیوں سے بے حد محبت کرتے ہیں خاص طور پر علما کا بہت زیادہ احترام واکرام کرتے ہیں اور دین داری میں بہت پختہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کا سب سے بڑا تبلیغی اجتماع بنگلہ دیش میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ مدنیہ قاضی بازار سلہٹ کے جلسہ دستار بندی کے عظیم اجتماع سے فضیلت علم کے موضوع پر خطاب ہوا۔ اس کے علاوہ مولوی بازار، سنام گنج اوردیگر شہروں میں بڑے بڑے اجتماعات میں بیانات ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ سلہٹ اور ڈھاکہ مسجدوں کے شہر مشہور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہاں کی موجودہ حکومت سابقہ حکومت سے بہتر ہے۔ وہاں کی اسمبلی کے انتخابات میں علما نے شریعت گروپ کے نام سے حصہ لیا اور تین علما اسمبلی کے ممبر قرار پائے اور اب اسمبلی کے اندر اور باہر حق کی آواز بلند کر رہے ہیں۔ 

انہوں نے اپنے دورۂ فجی آئی لینڈ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں اگرچہ مسلمان اقلیت میں ہیں اور ان کی تعداد آٹھ فیصد ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنا دینی تشخص برقرار رکھے ہوئے ہیں اور علما کی بڑی قدر کرتے ہیں اور وہاں ایک سو بیس مساجد موجود ہیں۔ فجی آئی لینڈ مختلف جزائر پر مشتمل ہے۔ مشہور جزیروں میں دار الحکومت صوبہ، لمباسا اور طاویونی، جہاں سے دن کی ابتدا ہوتی ہے، شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہاں کے تمام جزیروں میں مختلف عنوانات پر بیانات ہوئے۔ (رپورٹ: مولانا محمد ادریس ڈیروی)

علماء کرام نئی نسل کی ذہن سازی پر توجہ دیں

پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی نے ۳۰ مارچ کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں علماء کرام کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مغرب کی ثقافتی یلغار اور ہندو تہذیب کے اثرات کی روک تھام کے لیے نئی نسل کی صحیح دینی واخلاقی تربیت کی ضرورت ہے اور یہ کام علماء کرام ہی بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں علماء کرام اور دینی اداروں کو تعلیم وتربیت اور رفاہی خدمات کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے اور ان این جی اوز کا عملی میدان میں مقابلہ کرنا چاہیے جو غیر ملکی سرمایہ سے پاکستان میں تعلیم، صحت اور رفاہی خدمات کی آڑ میں عیسائیت اور مغربی تہذیب کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان این جی اوز کو ہمارے معاشرے میں آنے کا اس لیے موقع ملا ہے کہ ہمارے ہاں ان کاموں کا خلا ہے۔ اگر ہم خود ان کاموں میں پیش پیش ہوں تو کسی اور کو یہاں آکر اس خلا سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ دینی تعلیم، نوجوانوں کی روحانی واخلاقی تربیت اور سوسائٹی کے نادار لوگوں کی کفالت مذہبی طور پر بھی ہماری ذمہ داری ہے اور علماء کرام ودینی مراکز کو اس کے لیے منظم طور پر کام کرنا چاہیے۔

مولانا درخواستی الشریعۃ اکادمی بھی تھوڑی دیر کے لیے تشریف لائے اور منصوبہ کی کام یابی کے لیے دعا کی۔

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’معجزات پیغمبر ﷺ‘‘

معروف محقق اور مناظر حضرت مولانا عبد اللطیف مسعود نے جناب نبی اکرم ﷺ کے معجزات پر قلم اٹھایا ہے اور معجزہ کی نوعیت ومقصد کی وضاحت کے ساتھ ساتھ معجزہ اور سحر کے فرق کوواضح کرنے کے علاوہ جناب نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے بارے میں کتب سماویہ کی پیش گوئیوں نیز مہاتما بدھ اور ویدکی پیش گوئیوں کا بھی باحوالہ تذکرہ کیا ہے۔ مولانا عبد اللطیف مسعود مسیحیت کے محققین میں شمار ہوتے ہیں اور جناب نبی اکرم ﷺ کے بارے میں انجیل کی پیش گوئیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے مسیحی علما نے جو حربے اختیار کیے ہیں، اس کتاب میں ان کا بھی پردہ چاک کیا گیا ہے۔

۳۰۰ سے زائد صفحات کی یہ خوب صورت اور مجلد کتاب دار العلوم مدنیہ ڈسکہ کلاں ضلع سیالکوٹ نے شائع کی ہے اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، حضوری باغ روڈ ملتان سے بھی طلب کی جا سکتی ہے۔ کتاب کی قیمت ۱۵۰ روپے ہے۔

’’دلیل قصص النبیین‘‘

دار العلم آب پارہ اسلام آباد کے مدیر مولانا محمد بشیر ایک عرصہ سے عربی زبان کی ترویج اور تعلیمی اداروں میں عصر حاضر کے تقاضوں کی روشنی میں عربی کی تعلیم کے لیے نصاب ونظام کی تدوین میں سرگرم عمل ہیں اور اس سلسلے میں ان کی مختلف علمی کاوشیں سامنے آ چکی ہیں۔

مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی قدس اللہ سرہ العزیز نے بچوں کی دینی تعلیم وتربیت اور ان میں عربی کا ذوق پیدا کرنے کے لیے ’’قصص النبیین‘‘ پانچ حصوں میں تصنیف فرمائی تھی جو بہت سے تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل ہے۔ مولانا محمد بشیر نے اساتذہ کے لیے ’’قصص النبیین‘‘ کی گائیڈ کے طور پر اس کے ہر حصے کے بارے میں الگ کتابچہ شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے اور پہلے دو حصوں سے متعلقہ کتابچے اس وقت ہمارے سامنے ہیں جو بالترتیب ۵۶ اور ۶۴ صفحات پر مشتمل ہیں۔ ان میں مصنف نے بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ ’قصص النبیین‘ کے اصل اسباق کے ساتھ ضروری مشقیں مرتب کی ہیں اور اساتذہ کی راہ نمائی کے لیے طریق کار کی وضاحت بھی کر دی ہے۔

ہمارے ہاں دینی تعلیم کے نظام میں ایک بڑی کمی یہ ہے کہ اساتذہ کی تربیت اور راہ نمائی کا کوئی مناسب نظام اور ماحول موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے عربی ودینی مدارس کے تعلیمی نظام میں محنت، خلوص اور لگن کے باوجود مطلوبہ مقاصد پوری طرح حاصل نہیں ہو رہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ مولانا محمد بشیر کی یہ کوشش اس خلا کو کسی حد تک پر کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ دینی مدارس میں عربی کی تعلیم دینے والے اساتذہ کے لیے ان کتابچوں کا مطالعہ اور ان سے استفادہ بے حد افادیت کا حامل ہوگا۔ ان کی قیمت بالترتیب ۲۰ روپے اور ۲۵ روپے ہے اور یہ دار العلم ۶۹۹ آب پارہ مارکیٹ اسلام آباد نے شائع کیے ہیں۔

’’انسان نے لکھنا کیسے سیکھا؟‘‘

ندوۃ العلما لکھنو کے حلقہ کے علماء کرام میں مولانا ابو الجلال ندویؒ ایک معروف محقق عالم گزرے ہیں جن کے تحقیقی وعلمی مضامین ایک عرصہ تک دینی جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں اور وہ کچھ عرصہ حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کے ہمراہ دار المصنفین اعظم گڑھ کے علمی جریدہ ’’معارف‘‘ کی ادارت کی خدمات بھی سرانجام دیتے رہے ہیں۔ 

’’ابو الجلال ندوی اکیڈمی‘‘ ۲۴۳ النور چیمبرز، پریڈی اسٹریٹ کراچی نے مولانا مرحوم کے مضامین ومقالات کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا ہے جو بلاشبہ ایک بڑی علمی خدمت ہے۔ اس سلسلے میں فن تحریر کی تاریخ کے حوالے سے مولانا ابو الجلال ندویؒ کا مضمون ’’انسان نے لکھنا کیسے سیکھا؟‘‘ کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے جو اس وقت ہمارے سامنے ہے اور بیس صفحے کا یہ مضمون اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے گراں قدر تحفہ ہے جس کا ہدیہ ۱۰ روپے ہے۔

’’ادارہ اشاعت الاسلام مانچسٹر کے چند رسائل‘‘

ماہنامہ ’’الاسلام‘‘ گلاسٹر یوکے کے مدیر الحاج ابراہیم یوسف باوا اور ان کے لائق فرزند حافظ محمد اقبال رنگونی علمی ودینی حلقوں میں تعارف کے محتاج نہیں ہیں اور ایک عرصہ سے دینی جرائد میں مختلف موضوعات پر ان کی نگارشات عام لوگوں کی راہ نمائی کا باعث بن رہی ہیں۔ انہوں نے مانچسٹر میں ’’ادارہ اشاعت الاسلام‘‘ قائم کر کے مختلف دینی عنوانات پر لٹریچر کی اشاعت کا آغاز کیا ہے اور خوبصورت معیاری انداز میں چند کتابچے شائع کیے ہیں جن میں سے مندرجہ ذیل کتابچے اس وقت ہمارے پیش نظر ہیں:

۱۔ بیماری اور اس کا علاج از الحاج ابراہیم یوسف باوا۔ صفحات ۳۲

اس میں قرآن وحدیث کی روشنی میں بیماری اور اس کے علاج کے سلسلے میں راہ نمائی کی گئی ہے۔ 

۲۔ معارف الہام از حافظ محمد اقبال رنگونی۔ صفحات ۳۲

اس میں الہام کی حقیقت اور اس کی مختلف صورتوں اور احکام کا قرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے۔

۳۔ معارف کشف از حافظ محمد اقبال رنگونی ۔صفحات ۴۸

یہ رسالہ کشف کی نوعیت اور اس کے شرعی احکام کے حوالے سے ترتیب دیا گیا ہے۔

۴۔ حیات عیسیٰ علیہ السلام از حافظ محمد اقبال رنگونی۔ صفحات ۷۲

اس میں سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات مبارکہ، آپ کے ارشادات وتعلیمات اور رفع ونزول کے بارے میں مستند معلومات یکجا کی گئی ہیں۔

پاکستان میں یہ کتابچے مکتبہ الفاروق ، ۱۹سلطان پورہ روڈ، لاہور ۳۹ سے طلب کیے جا سکتے ہیں۔

بغاوت کی دستک

پروفیسر میاں انعام الرحمن

افغانستان سے متعلق حکومتی پالیسی سے لے کر جہادی تنظیموں پر پابندی کے حکم نامے سمیت بعض ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن پر ہر ذی شعور فرد تحفظات کا اظہار کر سکتا ہے۔ خاص طور پر عدلیہ کے حوالے سے جو آرڈی ننس جاری کیا گیا ہے، اس کے مضمرات کے پیش نظر جنرل پرویز مشرف ہٹلر کی ہم سری کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ برطانویوں کی طرح انگریزی بولنے پر فخر کرنے والوں کو یہ بات بھی جاننی چاہیے کہ برطانوی لوگ کرامویل کے عہد کو اپنی تاریخ کا حصہ نہیں مانتے لیکن جنرل موصوف نے دستور کی دھجیاں اڑاتے ہوئے عوام پر آمریت مسلط کر رکھی ہے۔ نتائج وعواقب سے بے پروا ہو کر مخصوص ومحدود مشاورت کے ساتھ اختیار کی گئی موجودہ نہج انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جنرل صاحب کے آقاؤں نے ہی ایسی خطرناک نہج کے نتائج وعواقب سے بچنے کے لیے بعض فیصلے کروا رکھے ہیں جو بین الاقوامی قانون کا حصہ شمار ہوتے ہیں۔ ۱۹۴۵ء کے نورم برگ ٹربیونل (Nuremberg Tribunal) اور ۱۹۶۱ء، ۱۹۶۲ء میں ایچ مین (Eichman) کے ٹرائل اور اپیل کے مندرجات آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ ہٹلر کے عہد میں قائم ڈیتھ کیمپوں کے منتظمین کے حق میں bawality of evilکے عنوان سے دلائل پیش کیے گئے کہ انہوں نے صرف حکومتی احکامات کی پیروی کی تھی۔ وہ عام سے معمولی لوگ تھے اور غیر معمولی حالات کا شکار ہو گئے۔ ان کے پاس کوئی چوائس نہیں تھی سوائے اس کے کہ اپنے سے برتر لوگوں کے احکام پر عمل درآمد کریں لہذا ان لوگوں نے کوئی جرم نہیں کیا لیکن ۱۹۴۵ء اور ۱۹۶۱ء، ۱۹۶۲ء میں ان کے موقف کو رد کر دیا گیا۔ ان فیصلوں کے مطابق طے پایا کہ :

۱۔ کسی بھی تنظیم سے ،چاہے وہ حکومتی ہو، وابستہ افراد یہ جاننے کے ذمہ دار ہیں کہ ان کے اعمال سے کون سے رسمی مقاصد حاصل کیے جا رہے ہیں لہذا مقصد سے دانستہ چشم پوشی کسی بھی اعتبار سے اخلاقی یا قانونی دفاع کا سبب نہیں بنے گی۔

۲۔ تنظیموں کے افراد جن سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ معقول انداز سے کام کرتے ہوئے غیر معقول مقاصد حاصل کریں، ان کا یہ قانونی حق اور اخلاقی فرض ہے کہ وہ ایسے احکامات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں۔

۳۔ تنظیموں کے ارکان اور اس معاشرے کے ارکان جن میں یہ تنظیمیں کام کرتی ہیں، ان تنظیموں کے ’’حتمی مقاصد‘‘ کی بابت جاننے کے ذمہ دارہیں۔ اگر یہ مقاصد غیر معقول ہیں تو ان میں تبدل وتغیر کے بھی ذمہ دار ہیں۔

اگر ان تین نکات کے بین السطور کو مد نظر رکھاجائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بین الاقوامی اور انسانی قدروں کی پاس داری کے لیے جنرل موصوف کے احکامات کو ماننے سے انکار کر دیا جائے؟ میرا خیال ہے معاشرے کے صبر کا پیمانہ لبریز کرنے کے لیے دستور سے بالاتر De facto سیٹ اپ ہی کافی ہے۔ اس سے بڑھ کر غیر انسانی اور بین الاقوامی قدروں سے متصادم آرڈی نینسوں کا اجرا بغاوت کو ہوا دے سکتا ہے۔ مذکورہ بین الاقوامی ضابطے میں یہ بغاوت حق ہی نہیں، فرض بھی قرار دی گئی ہے۔

قافلہ میعاد

ادارہ

مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کی تاریخ پر ایک نظر

ادارہ

 اس تاریخی جامع مسجد کے مین ہال کی توسیع، تعمیر نو، مرمت اور تزئین کا کام شروع ہے۔ ازراہ کرم خود تشریف لا کر کام کا معائنہ کیجیے اور اس کارخیر میں زیادہ سے زیادہ تعاون فرما کر اپنے ذخیرۂ آخرت میں اضافہ کیجیے
 
مزید معلومات اور متعلقہ امور کے لیے 
جامع مسجد کی انتظامیہ کے سیکرٹری شیخ محمد نسیم (گلی شیرانوالہ باغ) سے رابطہ قائم کریں۔

مئی ۲۰۰۲ء

تحریک ختم نبوت کے مطالباتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
قافلہ معادادارہ
جی ہاں! پاکستان کو آئیڈیل ازم کی ضرورت ہےپروفیسر میاں انعام الرحمن
مقاصد تشریع کا ایک مختصر جائزہمولانا منتخب الحق
دینی قوتیں: نئی حکمت عملی کی ضرورتڈاکٹر محمد امین
دستور سے کمٹمنٹ کی ضرورتپروفیسر میاں انعام الرحمن
سر سید کے مذہبی افکار پر ایک نظرگل محمد خان بخمل احمد زئی
غزوۂ بدر کی سیاسی واقتصادی اہمیتپروفیسر محمد یونس میو
تیل کی طاقتکرسٹوفر ڈکی
مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کا حادثہ وفاتامین الدین شجاع الدین
آہ! حضرت مولانا مفتی رشید احمدؒحافظ مہر محمد میانوالوی
جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی کا مکتوب گرامیڈاکٹر محمود احمد غازی

تحریک ختم نبوت کے مطالبات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تمام مذہبی مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے جداگانہ طرز انتخاب کے خاتمہ اور ووٹر کے اندراج کے فارم میں مذہب کا خانہ اور عقیدۂ ختم نبوت کا حلف ختم کرنے کے فیصلوں کو مسترد کر دیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ یہ فیصلے فی الفور واپس لے کردستور کی اسلامی دفعات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ یہ فیصلہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی دعوت پر ۴ مئی ۲۰۰۲ء کو لاہور میں منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں طے پایا کہ اس سلسلے میں تمام مذہبی جماعتوں کا سربراہی اجلاس طلب کیا جائے گا جس کے لیے جمعیۃ علماء اسلام (ف) نے میزبانی کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس سربراہی اجلاس میں تحریک ختم نبوت کو ازسرنو منظم کرنے اور کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کو ہر سطح پر متحرک کرنے کے لیے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ اجلاس میں ملک بھر کے علماء کرام اور خطبا سے اپیل کی گئی ہے کہ جمعۃ المبارک کے خطبات میں عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت واضح کی جائے، قادیانی سرگرمیوں کے بارے میں عوام کو باخبر کیا جائے اور رائے عامہ کو منظم کرنے کے لیے ضلعی اور مقامی سطح پر ختم نبوت کانفرنسیں منعقد کی جائیں۔
اجلاس میں مشترکہ طور پر اس موقف کا اعلان کیا گیا کہ جداگانہ طرز انتخاب ختم کرنے کا فیصلہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد اور تحریک پاکستان کے تاریخی پس منظر بالخصوص دو قومی نظریہ کی نفی کے مترادف ہے اور ملک کے دستور کے بھی منافی ہے جس کی اسلامی دفعات کے تحفظ کا پی سی او میں واضح طور پر وعدہ کیا گیا ہے اور سپریم کورٹ نے ظفر علی شاہ کیس میں حکومت کو پابند کیاہے کہ وہ دستور کی اسلامی دفعات سے کوئی تعرض نہیں کرے گی لیکن اس کے باوجود اس خالص اسلامی اور نظریاتی مسئلہ کو ازسرنو متنازعہ بنا کر دستور کی اسلامی حیثیت کو مجروح کیا جا رہا ہے۔
اجلاس میں اس بات کو شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا کہ امریکی کانگریس کی طرف سے قادیانیوں کو مسلمان تسلیم کرنے کے مطالبہ کے فوراً بعد مسلم اور غیر مسلم ووٹروں کے الگ الگ اندراج اور ووٹر فارم میں مذہب کا خانہ اور عقیدہ ختم نبوت کا حلف نامہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو عملاً قادیانیوں کو مسلمانوں میں شامل کرنے اور سرکاری ریکارڈ میں مسلمانوں اور قادیانیوں کا فرق ختم کر دینے کے مترادف ہے جو اسلامیان پاکستان کے لیے قطعی طور پر ناقابل برداشت ہے جبکہ یہ حلف نامہ اور مذہب کا خانہ نیز مسلم اور غیر مسلم ووٹروں کا الگ الگ اندراج بھٹو حکومت کے دور سے چلا آ رہا ہے جب مخلوط الیکشن کا طریقہ رائج تھا اس لیے اس مسئلہ کا تعلق جداگانہ الیکشن سے نہیں بلکہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے دستوری فیصلے پر عمل درآمد سے ہے اور اسے ختم کر کے دستور پاکستان کے اس فیصلے کو غیر موثر بنانے کی سازش کی گئی ہے اس لیے یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ جداگانہ طرز انتخاب اور ووٹر فارم میں عقیدہ ختم نبوت کا حلف نامہ ختم کرنے کے فیصلے فی الفور واپس لے کر اسلامیان پاکستان کو دستور کی اسلامی دفعات کے تحفظ کے حوالے سے مطمئن کیا جائے۔
اجلاس نے پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت کے خلاف کیے جانے والے کسی بھی اقدام سے بے زاری کا اعلان کیا ہے اور حکومت پر واضح کیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ کی طرف لے جانے والے ہر اقدام کی پوری قوت سے مزاحمت کی جائے گی اور ملک کی دینی قوتیں اور غیور عوام ایسے کسی بھی عمل کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کریں گے۔
اجلاس میں جمعیۃ علماء اسلام کے مولانا محمد عبد اللہ، مولانا محب النبی، مولانا عبد الرؤف فاروقی اور مولانا خلیل الرحمن حقانی، پاکستان شریعت کونسل کے مولانا زاہد الراشدی، مولانا قاری جمیل الرحمن اختراور مولانا ذکاء الرحمن اختر، مجلس تحفظ ختم نبوت کے مولانا اللہ وسایا، مولانا محمد اکرم طوفانی، مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی اور مولانا بشیر احمد، مجلس احرار اسلام کے چوہدری ثناء اللہ بھٹہ، پیر سید کفیل شاہ بخاری، عبد اللطیف خالد چیمہ اور مولانا اللہ یار ارشد، انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے مولانا منظور احمد چنیوٹی، جمعیۃ علماء پاکستان کے مولانا قاری زوار بہادراور انجینئر سلیم اللہ خان، پاکستان عوامی تحریک کے علامہ علی غضنفر کراروی اور مولانا محمد حسین آزاد، عالمی انجمن خدام الدین کے مولانا میاں محمد اجمل قادری اور جمعیۃ اہل حدیث پاکستان کے مولانا ریاض الرحمن یزدانی کے علاوہ ممتاز قانون دان جناب محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ اور صوبائی وزیر مذہبی امور مولانا مفتی غلام سرور قادری نے بھی شرکت کی۔

قافلہ معاد

ادارہ

  • عالم اسلام کی ممتاز علمی شخصیت اور بھارت کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ گزشتہ ماہ طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا تعلق صوبہ بہار سے تھا۔ دار العلوم دیوبند کے ممتاز فضلا اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کے مایہ ناز تلامذہ میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ انہوں نے بھارت میں مسلمانوں کے شرعی خاندانی قوانین کے تحفظ اور ترویج کے لیے مسلسل محنت کی اور صوبہ بہار کے امیر شریعت کے منصب پر بھی فائز رہے۔ انہوں نے دہلی میں فقہ اکیڈیمی قائم کر کے جدید مسائل پر علمی اور تحقیقی کام کا آغاز کیا اور ممتاز فقہا کے ساتھ مختلف شعبوں کے ماہرین کی مشترکہ مشاورت وتحقیق کا اہتمام کر کے جدید اور اجتہاد طلب مسائل پر علمی آرا اور فیصلوں کا قابل قدر ذخیرہ ’’جدید فقہی مباحث‘‘ کے عنوان سے کئی جلدوں میں پیش کیا جو ان کا عظیم علمی کارنامہ ہے۔ وہ جدہ کی ’’مجمع الفقہ الاسلامی‘‘ کے رکن تھے اور انہیں بھارت میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی وفات کے بعد آل پارٹیز مسلم پرسنل لا بورڈ کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔
  • افغانستان کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا محمد نبی محمدیؒ گزشتہ روز پشاور میں ۸۲ سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا تعلق صوبہ لوگر سے تھا اور وہ ظاہر شاہ کے دور میں افغان پارلیمنٹ کے رکن تھے۔ انہوں نے افغانستان میں روسی تسلط کے خلاف جدوجہد کو منظم کرنے میں سرگرم کردار ادا کیا اور ’’حرکت انقلاب اسلامی‘‘ قائم کر کے روسی استعمار سے آزادی کی جدوجہد کی قیادت کی۔ وہ طالبان حکومت کے سرپرستوں اور پشت پناہوں میں سے تھے اور افغانستان کے بزرگ، مدبر اور معاملہ فہم علماء کرام میں ان کا شمار ہوتا تھا۔
ان دونوں بزرگوں کی وفات اس خطے کے علماء کرام اور دینی حلقوں کے لیے بہت بڑے صدمے کی بات ہے اور قحط الرجال کے اس دور میں بلاشبہ ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان بزرگوں کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور ان کے متوسلین کو ان کی علمی ودینی خدمات کا سلسلہ تادیر جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

جی ہاں! پاکستان کو آئیڈیل ازم کی ضرورت ہے

پروفیسر میاں انعام الرحمن

جنرل پرویز مشرف آج کل جہاں اپنی حکومت کے ’’انقلابی اقدامات‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں‘ وہاں یہ بھی فرما رہے ہیں کہ مثالیت (Idealism) کے بجائے عملیت اور نتائجیت (Pragmatism) کو قومی شعار بنانا چاہیے۔ جنرل صاحب مجوزہ آئینی ترامیم اور ریفرنڈم کے سیاق وسباق میں قوم کو یہی ’’درس‘‘ دے رہے ہیں۔

اگر ہم ذرا گہری نظر سے معروضی واقعیت کا جائزہ لیں تو دنیا میں اس وقت موجود قومی وعالمی تشتت وانتشار‘ بے حسی اور خود غرضی کے اسباب مثالیت پسندی کے زوال میں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد اگر مثالیت پسندی کا مظاہرہ کریں تو انہیں مادی مفادات سے بالاتر ہو کر (یعنی ٹیوشن وغیرہ سے بچتے ہوئے) محنت ودیانت داری کے ساتھ طلبا کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ ایک وقت تھا جب اس شعبے کے افراد کی اکثریت مثالیت کو اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے تھی اس لیے معاشرے میں کرپشن کا گراف بھی اتنا بلند نہیں تھا۔ لیکن شعبہ تعلیم میں نتائجیت پسندی کے راہ پانے سے مثالیت کو چپ سادھنی پڑی ہے۔ مثالیت پسند گوشہ نشین ہو چکے ہیں اور احباب کی نظروں میں ’’احمق‘‘ گردانے جاتے ہیں جبکہ نتائجیت پسند ’’عاقل‘‘ اپنے معیار زندگی کو بلند سے بلندتر کرتے ہوئے زمانے کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں۔ 

نتائجیت پسندی زندگی کے ہر شعبے میں ’’شارٹ کٹ اپروچ‘‘ کو فروغ دیتی ہے۔ شعبہ تعلیم میں اسی اپروچ کے مطابق Selected study کرائی جاتی ہے جس سے طلبا کو معلومات (Information)کا طومار تو مل جاتا ہے لیکن شعور (Awareness) ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔ اس اپروچ کے سنگین نتائج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح بیوروکریسی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں مثالیت کے زوال اور نتائجیت کے در آنے سے معاشرہ جس ٹوٹ پھوٹ اور بے حسی کا شکار ہے‘ قلم اسے بیان کرنے سے قاصر ہے۔

۱۲؍ اکتوبر کو اقتدار کی مسند پر قابض ہونے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے سات نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا۔ ان نکات میں سے ایک نکتہ قومی اداروں کو سیاسی اثرات اور رجحانات سے پاک کرنا (Depoliticizing State Institutions)تھا۔ جب جنرل صاحب یہ نکتہ بیان فرما رہے تھے تو ساتھ ہی عملاً اس کی نفی بھی کر رہے تھے۔ ایک جمہوریہ میں فوجی جرنیل کا اقتدار سنبھالنا چہ معنی دارد؟ ریفرنڈم کے سلسلے میں حالیہ جلسوں میں وردی پہن کر سیاسی انداز میں ’’عوامی‘‘ تقاریر سے یہ تضاد اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ جلسوں میں سرکاری ملازمین کی جبری حاضری سرکاری اداروں کی Politicization کو ہی منعکس کرتی ہے۔ یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسلح افواج نے ملکی سلامتی اور قومی مفاد کے نام پر مملکت کے دستور کو ’’یرغمال‘‘ بنایا ہوا ہے۔ جناب صدر کو واضح کرنا چاہیے کہ ان کی دانش کے مطابق Depoliticization کے حدود اربعہ کیا ہیں اور State Institutionsکس بلا کا نام ہے؟پاکستان کے عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا آرمی ایک پرائیویٹ ادارہ ہے؟ ہماری قومی تاریخ گواہ ہے کہ آرمی کے ڈسپلن کو ہمیشہ ہائی جیک کر کے اسے پرائیویٹ ادارہ ہی ثابت کیا گیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ مقتدر گروہ کی نتائجیت پسندی نے Depoliticization کے معقول اور مثالی نکتے کو شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دیا۔ 

صدر محترم کے فرمان کے مطابق اگر ہم نتائجی نقطہ نظر سے بھی معروضی واقعیت کا جائزہ لیں تو یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ کسی بھی قسم کی ’’اصلاحات‘‘ اگر نظام کے بجائے شخصی بنیادوں پر استوار کی جائیں تو وہ دیرپا ثابت نہیں ہوتیں اور ان کے اثرات بھی خواہشات کے مطابق مرتب نہیں ہوتے۔ ویسے بھی قوم کو اصلاحات کے انبار کے بجائے کمٹ منٹ اور قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ تاریخی استشہاد بھی اسی موقف کو تقویت دیتا ہے لیکن برسراقتدار گروہ نتائجیت کے بجائے ’’موضوعی نتائجیت‘‘ کو اپنائے ہوئے ہے جس سے اصلاحات کی شخصی بنیادیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ جناب صدر کا یہ جملہ کہ ’’میں‘ میں ہوں‘‘ اس کا زندہ ثبوت ہے۔ ماہرین نفسیات اس ’’میں‘‘ کو نرگسیت کے زمرے میں شمار کرتے ہیں اور ان کے مطابق اس کا کوئی علاج نہیں۔

ریفرنڈم میں لوگوں کو ہاں یا نہیں کا آپشن بھی دیا گیا ہے اور عوام کی جہالت کا تدارک سبز اور سفید رنگ کے خانوں سے کیا گیا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کلر بلائنڈ ہے۔ انہیں مختلف رنگوں میں فرق نظر نہیں آتا۔ اس طرح دو خانوں کے درمیان کھینچی گئی لائن بے معنی ہو جاتی ہے حالانکہ حکومتی دعووں کے مطابق یہ لائن ہی ریفرنڈم کی بنیاد اور جواز ہے۔ بہتر ہوتا اگر ہاں اور نہیں کے لیے تصویروں سے مدد لی جاتی مثلاً ’’ہاں‘‘ والے خانے میں گدھ کی اور ’’نہیں‘‘ والے خانے میں فاختہ کی تصویر شائع کی جاتی بلکہ زیادہ بہتر یہ تھا کہ ’’ہاں‘‘ والے خانے میں بوٹوں کی اور ’’نہیں‘‘ والے خانے میں کتاب کی تصویر شائع کی جاتی۔ یہ ضروری نہیں تھا کہ کتاب پر ’’دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ بھی لکھا جاتا۔

صدر محترم! ریفرنڈم پر میرا اور میرے ’’ہم خیالوں‘‘ کا جواب حاضر خدمت ہے جو ہاں میں ہے۔ ہاں! پاکستان کو آئیڈیل ازم کی ضرورت ہے۔ ہاں جی ہاں‘ پاکستان کو آئیڈیل ازم کی ضرورت ہے۔ 


مقاصد تشریع کا ایک مختصر جائزہ

مولانا منتخب الحق

تشریع کے معنی ہیں قانون سازی اور ہر قانون کے بنانے کے تین مقاصد ہوتے ہیں: مقاصد ضروریہ، مقاصد حاجیہ اور مقاصد تحسینیہ۔

مقاصد ضروریہ

یہ وہ مقاصد ہیں جو خود مطلوب ہوتے ہیں اور ان کے بغیر کوئی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ مقاصد ضروریہ کی پانچ قسمیں ہیں: حفاظت دین، حفاظت نفس، حفاظت آبرو، حفاظت نسل اور حفاظت مال۔ قرآن کے احکام بھی انہی پانچ مقاصد کی ترتیب سے ہیں اور بتدریج ان کے متعلق احکامات ہیں۔
نماز، روزہ، زکوٰۃ اور دوسری تمام عبادتیں حفاظت دین کے لیے ہیں۔ یہ مقصد یعنی حفاظت دین دوسری تمام شریعتوں یعنی شریعت نوحی، شریعت موسوی اور شریعت عیسوی سب میں یکساں رہا ہے اور یہ مقصد کبھی بدلا نہیں کرتا۔
حفاظت دین کے بعد حفاظت نفس آتی ہے۔ اس ضمن میں قصاص اور دیت کے احکام آتے ہیں اور قرآن میں نماز، روزہ اور دوسری عبادتوں کے بعد حفاظت جان کے سلسلے میں قصاص اور دیت کے احکام آتے ہیں۔
حفاظت نفس کے بعد حفاظت آبرو کے سلسلے میں نکاح وطلاق وغیرہ کے احکام آتے ہیں۔
حفاظت آبرو کے بعد حفاظت نسل کے ضمن میں تجارت، زراعت اور حفاظت مال کے سلسلے میں بیع وغیرہ کے احکام آئے ہیں۔ یہ ہوئی ان مقاصد کے لحاظ سے قرآن کی ترتیب۔

مقاصد حاجیہ

یہ مقاصد خود مطلوب ومقصود نہیں ہوتے لیکن ان کو بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ ان کے بغیر مقصد ضروری حاصل نہیں ہو سکتا۔ ان مقاصد کی حیثیت اگرچہ مقاصد ضروری جیسی نہیں ہے لیکن ان کی اہمیت ان سے کچھ کم بھی نہیں۔ مثلاً اگر نماز اور وضو کو لیں تو نماز کی حیثیت اصل کی ہے اور نماز کی تکمیل کے لیے وضو لازمی شرط ہے گویا وضو کی حیثیت مقاصد حاجیہ کی ہوئی لیکن وضو کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی اس طرح وضو نماز کے لیے لازمی ہو گیا۔

مقاصد تحسینیہ

یہ مقاصد نہ تو خود مطلوب ہوتے ہیں اور نہ مقصد اصلی کے لیے موقوف علیہ کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان کے ذریعے سے مقاصد حاجی اور ضروری میں ایک طرح کا حسن پیدا ہو جاتا ہے جیسے حفاظت جان کے سلسلے میں کھانا پینا مقصد حاجی ہوا لیکن اب اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کیا ضروری ہے کہ دستر خوان بچھا کر، ہاتھ دھو کر، بسم اللہ کہہ کر کھانا کھایا جائے؟ اس کے بغیر بھی مقصد حاصل ہو سکتاہے لیکن صرف حسن پیدا کرنے کے لیے اور اس مقصد کو مزید تحسینی بنانے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ اس لیے مقاصد تحسینی اصل کے لیے تکملہ اور تتمہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مقاصد ضروریہ اصل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی حیثیت بنیاد کی ہے۔ جس طرح بغیر جڑ کے درخت کا قائم رہنا ناممکن ہے، اسی طرح مقاصد ضروریہ کے بغیر دوسرے مقاصد یعنی مقاصد حاجیہ اور مقاصد تحسینیہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ ایمان کی حیثیت اصل کی ہے۔ اب اگر کوئی شخص مومن نہیں ہے اور وہ نماز پڑھتا ہے اور روزے رکھتا ہے تو اس کی ان عبادتوں کی حیثیت جسم بغیر روح سے زیادہ نہیں ہے کیونکہ ایمان اعمال انسانی کے لیے روح کی حیثیت رکھتا ہے اور روح کے بغیر تمام اعمال بے کار ہیں یعنی مقصد اصلی کو اگر ختم کر دیا جائے تو دوسرے مقاصد کے پائے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن اس کے برخلاف اگر مقاصد حاجیہ یا مقاصد تحسینیہ ختم ہو جائیں تو مقاصد ضروریہ کا ختم ہو جانا کوئی ضروری نہیں۔
مقاصد ضروریہ اور تحسینیہ ان سب میں ایک ترتیب موجود ہے اور ہر مابعد مرتبے کا مقصد اپنے سے مقدم مقصد کے لیے تکملہ اور تتمہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا مقاصد حاجی اور مقاصد تحسینی، مقاصد ضروری کے لیے تکمیلی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ کوئی ضروری نہیں کہ تکملہ اور تتمہ کے فقدان سے اصل شے کا فقدان لازم ہی آئے مگر تکملہ یا تتمہ مفقود ہو جائے تو اصل پھر بھی باقی رہ سکتا ہے لیکن اس کے برخلاف اگر اصل شے مفقود ہو تو تکملہ اور تتمہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ جب جڑ ہی نہ موجود ہوگی تو تنوں اور شاخوں کا سوال کہاں سے پیدا ہوگا۔ 
مثال کے طور پر حفاظت جان کے سلسلے میں قصاص کا حکم ہے۔ قصاص میں مثلیت یعنی برابری کے فقدان سے مقصد اصلی یعنی حفاظت جان کے لیے قصاص کے حکم میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا اور اس مثلیت کے فقدان کے باوجود عورت ومرد، مومن وکافر، بوڑھے وجوان کا کوئی امتیاز نہیں ہے لیکن سب کے لیے یکساں حکم ہے۔ گویا اس تکملہ یا تتمہ یعنی مثلیت کے فقدان کی وجہ سے مقصد ضروری میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اسی طرح حفاظت آبرو اور حفاظت نسل کے لیے نکاح کا حکم ہے۔ اب نکاح کے تکمیلی وتحسینی مقاصد میں نفقۃ المثل اور مہر مثل آتا ہے۔ اگر اب نفقۃ المثل یا مہر مثل میں کوئی کمی بیشی ہو یا مطلقاً ختم کر دیا جائے تو اس سے نکاح کے مقصد اصلی یعنی حفاظت آبرو میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح کفاء ت نفقۃ المثل کے لیے تحسینی مقاصد کی حیثیت رکھتی ہے۔ کفاء ت نہ ہونے کی وجہ سے نفقۃ المثل ختم نہیں کیا جائے گا۔
ان مقاصد کے درمیان رابطہ کے سلسلے میں ایک اور بات یہ عرض ہے کہ چونکہ مقاصد حاجیہ اور مقاصد تحسینیہ مقاصد اصلی کے لیے اصل کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے کسی ایسے مقصد حاجی یا تحسینی کو اختیار کرنا جو مقصد حاجی کو باطل کر دے، خود باطل ہے۔ ہم مقصد حاجی وتحسینی کا اعتبار کرتے ہیں لیکن جہاں کہیں یہ صورت پیدا ہوتی ہے کہ ان تکمیلی مقاصد کو اختیار کرنے سے اصلی مقصد میں کوئی فرق پڑتا ہے تو ان مقاصد کو چھوڑنا لازمی ہو جاتا ہے کیونکہ ان کو اختیار کرنا مقصد اصلی کو باطل کرنا ہے اور جب مقصد اصلی کو باطل کر دیا جائے تو اس کے مابعد مرتبے کی حیثیت تکمیلی کس طرح ہو سکتی ہے۔ اس لیے راس مصلحت کے پیش نظر مقصد اصلی کا اعتبار کیا جائے گا اور ان مقاصد تکمیلی وتحسینی کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مقاصد حاجی اور مقاصد تحسینی میں مطلقاً اختلال کی وجہ سے مقصد ضروری میں بھی فی الجملہ اختلال پیدا ہو جاتا ہے۔ شاہ عبد العزیز تفسیر ’فتح العزیز‘ پارہ الم میں لکھتے ہیں کہ آدمی پہلے آداب کو چھوڑتا ہے، پھر مستحبات کو چھوڑتا ہے، پھر سنن کو ترک کرتا ہے، اس کے بعد فرائض سے روگردانی کرتے کرتے آہستہ آہستہ دین سے بے بہرہ ہو جاتا ہے۔ یہ تو ہوا ترک کے معاملے میں۔ یہی حال اختیار کے معاملے میں بھی ہے کہ آدمی اگر کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرنا چاہتا ہے کہ تو ایک دم ہی اختیار نہیں کر لیتا بلکہ پہلے آہستہ آہستہ ان کے آداب کواختیار کرتا ہے، پھر ان کے عادات واطوار کو اختیار کرتا ہے، پھر آہستہ آہستہ ان کے نظریات کو اختیار کرتے کرتے ان کے دین کو اختیار کر لیتا ہے۔ یہ انسان کے ترک واختیار کے تدریجی منازل ہیں۔ اس تدریج کی ابتدا نہایت معمولی ہوتی ہے لیکن اس کا اختتام شدت کو پہنچ جاتا ہے۔
اگر ایک شخص مکمل طور پر حفاظت دین کرتا ہے اور ساری عبادتیں اور ان کے تقاضے پورے کرتا ہے لیکن آہستہ آہستہ ان سے لا پروائی برتنا شروع کر دے تو نتیجتاً وہ ان سے بالکل بے بہرہ ہو جاتا ہے اسی لیے ان مقاصد کو مطلقاً مختل کر دینے سے مقصد ضروری اور مقصد حاجی فی الجملہ خلل پذیر ہوتے ہیں اسی لیے اگر مقاصد ضروری کی پوری پوری طرح حفاظت مقصود ہو تو مقاصد حاجی اور مقاصد تحسینی کی بھی پوری پوری حفاظت کرنی چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو پوری طرح حفاظت دین مقصود ہو تو وہ ان عبادات کو اچھی طرح انجام دیتا ہے۔ مثلاً نماز اس طرح بھی پڑھی جا سکتی ہے کہ وضو کر لیا جائے اور نماز پڑھ رہے ہیں لیکن دھیان کہیں اور لگا ہوا ہے۔ دل میں مختلف قسم کے خیالات آ رہے ہیں لیکن بظاہر اس کی نماز صحیح مانی جائے گی کیونکہ اس کی نیت اور اس کے خلوص کو تو سوائے اللہ کے کوئی نہیں جان سکتا۔ اب اس کی نماز بارگاہ الٰہی میں مقبول ہو یا نہ ہو لیکن ایک بظاہر دیکھنے والا اس کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کہے گا۔ یا اگر ایک شخص نماز نہیں پڑھتا تو اس کو اسلام سے خارج نہیں سمجھا جائے گا لیکن جس شخص کو پوری طرح حفاظت مقصود ہوگی، وہ نماز کے لیے وضو کرے گا تو بسم اللہ کہہ کر شروع کرے گا۔ جب نمازکی نیت کرے گا تو اپنے طور سے پوری پوری کوشش کرے گا کہ وہ اپنے خیالات کو منتشر نہ ہونے دے اور سارے ارکان صلوٰۃ کی پابندی کرنے کی پوری طرح کوشش کرے گا۔ اس کا قلب بھی خدا کی جانب راغب ہوگا۔ جسمانی وروحانی دونوں طور سے وہ اپنے کو خدا کے حضور میں سمجھے گا اور جو الفاظ ادا کرے گا، اس کی مطابقت سے تصور قائم کرے گا تو یہ ہوئی مکمل طور سے نماز لیکن اس مقصد ضروری کو مکمل طور سے حاصل کرنے کے لیے مقاصد حاجی اور مقاصد تحسینی کو بھی پورا کیا۔ 
اس طرح ان مقاصد کے درمیان جو علاقے اور رابطے موجود ہیں، ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر مقصد ضروری کی مکمل طور سے حفاظت مطلوب ہو تو ذیلی مقاصد کی بھی حفاظت کی جانی چاہیے۔ 
یہ جان لینے کے بعد پانچ باتیں نکھر کر سامنے آتی ہیں:
۱۔ مقاصد ضروری اصل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
۲۔ مقاصد حاجی اور تحسینی کے اختلال سے مقاصد ضروری میں اختلال ضروری نہیں۔
۳۔ مقاصد ضروری کے مختل ہو جانے سے مقاصد حاجی اور مقاصد تحسینی بھی مختل ہو جاتے ہیں۔
۴۔ حاجی اور تحسینی کے مطلقاً اختلال سے بالترتیب مقصد ضروری اور مقصد حاجی میں فی الجملہ اختلال پیدا ہوجائے گا۔
۵۔ مقصد ضروری کی مکمل طور پر حفاظت کرنے کے لیے مقصد حاجی اور مقصد تحسینی کی بھی حفاظت کرنی چاہیے۔
(بشکریہ ’’تجلیات‘‘ کراچی)

دینی قوتیں: نئی حکمت عملی کی ضرورت

ڈاکٹر محمد امین

افغانستان میں جو کچھ ہوا‘ وہ ایک عظیم المیہ تھا۔ پاکستان میں اب جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ بھی ایک المیے سے کم نہیں لیکن اگر پاکستان کی دینی قوتوں نے ہوش مندی سے کام نہ لیا تو خدا نخواستہ ایک عظیم تر المیہ ہم سے بہت دور نہیں۔ غلطی کسی فردسے بھی ہو سکتی ہے اور کسی جماعت سے بھی اور یہ کوئی قابل طعن بات نہیں کیونکہ گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں۔ لیکن شکست کے بعد اختیار کی گئی حکمت عملی کا تجزیہ نہ کرنا‘ اگر غلطی نظر آئے تو اسے غلطی تسلیم نہ کرنا یا غلطی سے پہنچنے والے نقصان کی تاویلیں کرنے لگ جانا گویا دوسرے لفظوں میں احساس زیاں کھو دینا ہے۔ یہ غلطی نہیں‘ بلنڈر (Blunder) ہے جسے نہ قدرت معاف کرتی ہے اور نہ اس کے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے لہذا اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہماری دینی قوتیں پوری معروضیت اور بے رحمی سے اپنی پالیسیوں کا جائزہ لیں اور زمینی حقائق کے مطابق اپنی پالیسیوں کی تشکیل نو کریں۔ اس کے لیے ایک سنجیدہ مباحثے اور مکالمے کی ضرورت ہے اور اسی ضمن میں یہ معروضات پیش کی جا رہی ہیں۔
پاکستان کی دینی قوتوں کو جس ہزیمت کا سامنا ہے‘ اگر اس کی وجہ پر ہم غور کریں تو اس کے چار بڑے سبب نظر آتے ہیں۔ ایک، دینی قوتوں کا آپس میں عدم اعتماد۔ دوم، عوامی حمایت سے ان کی محروم۔ سوم، عوام کی دینی تعلیم وتربیت کا عدم اہتمام اور چہارم، ملی اور بین الاقوامی سطح پر دوستوں اور دشمنوں کے بارے میں ان کی غیر حقیقت پسندانہ اپروچ۔ ہم انہی نکات کا تجزیہ کرتے ہوئے نئی اور مطلوب حکمت عملی کے خدوخال بھی واضح کرتے جائیں گے۔
۱۔ ہمارے دینی عناصر کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ آپس میں متحد نہیں ہیں۔ وہ آج تک انفرادی مصالح اور ملکی مفادات سے اوپر اٹھ کر دین اور ملت کے لیے سوچ ہی نہیں سکے۔ وہ آج تک اس امر کا ادراک بھی نہیں کر سکے کہ ان کو لڑانے والی قوتیں کون ہیں؟ وہ نہ بین الاقوامی اسلام دشمن قوتوں کی چالوں کو سمجھ سکے اور نہ ان کے مقامی ایجنٹوں کے حربوں کو۔ وہ اپنے حقیر مفادات کے لیے نہایت آسانی سے ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے۔ انہیں بڑی حکمت اور منصوبہ بندی سے ایک دوسرے کے خلاف لڑایا گیا۔ ان کے مابین مسلکی اختلافات کو ہوا دی گئی۔ ان کو سیاسی طور پر ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا گیا۔ مختلف سیاسی دھڑوں کے ساتھ ان کے الگ الگ الحاق کر کے ان کی قوت کو تقسیم کیا گیا۔ ایک دین کے اندر مختلف مسلک‘ ہر مسلک پر مبنی جماعت‘ ہر جماعت کے اندر کئی دھڑے‘ ہر دھڑے کی الگ سیاسی جماعت‘ گویا تقسیم در تقسیم کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو جاری ہے اور ہمارے دینی رہبر یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ اس کے پیچھے کون سا شیطان اور اس کی ذریت ہے جو ان علم برداران دین متین کو آپس میں لڑا کر کمزور اور رسوا کر رہی ہے۔ حدیث ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ نور الٰہی سے دیکھتا ہے اور یہ کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا لیکن یہ کیسے مومن (بلکہ مومنوں کے سردار) ہیں کہ سامنے کے حقائق نہیں دیکھ سکتے؟ بار بار کی ہزیمت بھی انہیں سوچنے اور جاگنے پر آمادہ نہیں کرتی۔ وہ اپنے انتشار اور افتراق پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اپنی انانیت اور اپنے تحزب پر قائم ہیں یہاں تک کہ جب وہ افغانستان کے مسئلے پر پٹ رہے تھے‘ اس وقت بھی اکٹھے نہیں ہوئے اور ہرلیڈر کو اپنی لیڈری چمکانے اور ہر جماعت کو اپنی کامیابی کی فکر پڑی ہوئی تھی اور آج بھی ان کا یہی حال ہے۔ اگر اتنا بڑا سانحہ بھی انہیں متحد نہیں کر سکا تو کب ان سے توقع کی جائے کہ وہ متحد ہوں گے؟ کیا وہ اس سے بڑے کسی سانحے کے منتظر ہیں؟ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان سے جبہ ودستار واپس لے کر انہیں صوف پہنا دیا جائے اور انہیں کسی دور افتادہ خانقاہ کے کسی حجرے میں بند کر دیا جائے جہاں کوئی حقیقی مربی ان کے دلوں کی کدورتیں دور کرے‘ ان کے اندر سے دنیا اور مال وجاہ کی محبت نکالے اور ان کے قلوب کو صیقل کرے؟
۲۔ یہ دل فریب اور جھوٹے نعرے لگانا آسان ہے کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں لیکن ہماری دینی قوتیں اس تلخ حقیقت کو کب تسلیم کریں گی کہ درحقیقت عوام ان کے ساتھ نہیں ہیں؟ عوام چونکہ دین سے محبت کرتے ہیں لہذا اس حوالے سے وہ دینی رہنماؤں کی توقیر بھی کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب کب ہے کہ وہ سیاسی اور اجتماعی امور میں بھی ان کے ساتھ ہیں؟ ہمارے نزدیک اس مظہر کے ذمہ دار بھی عوام سے زیادہ یہ دینی عناصر خود ہی ہیں کیونکہ دین ودنیا میں قائم کردہ تفریق (یعنی سیکولرازم) انہی کی اختیار کردہ ہے۔ انہوں نے صدیوں سے اپنے آپ کو مسجد ومدرسہ تک محدود کر رکھا ہے اور عوامی زندگی سے دور ہیں۔ دوسری طرف سیاست واقتدار کے باسی ہیں جنہوں نے اپنی الگ دنیابسائی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس تفریق کو کون پاٹے گا؟ عطاء اللہ شاہ بخاری مرحوم نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اے اہل لاہور‘ تقریر میری ساری رات سنتے ہو اور واہ واہ کرتے ہیں اور صبح کے وقت ووٹ جا کر کسی اور کو دیتے ہو؟ یہ ایک تلخ حقیقت تھی جس کا اقرار شاہ صاحب نے کیا لیکن کیا ہمارے دینی عناصر نے اس سے عبرت پکڑی؟ اس سے کچھ سبق سیکھا؟ اس کے اسباب وعلل پر غور کیا؟ اس کا کوئی حل سوچا کہ عوام کیوں دینی امور میں ان کی متابعت کرتے ہیں لیکن سیاسی اور اجتماعی امور میں ان کی پیروی نہیں کرتے؟ کیا انہوں نے اپنے آپ کو بدلا؟ کیا پھر عوام کے اس رویے کو بدلنے کے انہوں نے کچھ کیا؟ سید محمد قطب صاحبؒ سے ایک دفعہ ایک صحافی نے انٹرویو لیا اور پوچھا کہ پھانسی پانے سے پہلے سید قطب شہید کی آخری دنوں میں سوچ کیا تھی؟ تو انہوں نے جواب دیا وہ سوچتے تھے کہ مصری عوام نے اخوان کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟ پاکستان میں دینی جماعتوں کو ہر انتخاب میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ اب ان کو پارلیمنٹ میں اقلیتوں جتنی نشستیں بھی نہیں ملتیں لیکن کیا انہوں نے کبھی سنجیدگی سے اس کے اسباب وعلل پر غور کیا اور اپنی حکمت عملی کو بدلا؟ ان کا کام تو یہ تھا کہ وہ لوگوں کو سرمایہ دار اور جاگیردار سیاست دانوں کے چنگل سے نکالتے لیکن وہ الٹا ان کے نخچیر بن گئے۔
۳۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری دینی قیادت عوام کو دین کی تعلیم دینے‘ ان کی دینی تربیت کرنے اور انہیں اپنے ساتھ ملانے میں عظیم ناکامی سے دوچار ہوئی ہے لیکن اسے اس کا احساس ہی نہیں۔ مسجدیں فرقہ وارانہ تقریروں کا گڑھ بنی ہوئی ہیں۔ خطیب جو تقریریں جمعہ کو کرتے ہیں‘ ان کا زندگی کے حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ لوگوں کو قرآن ناظرہ پڑھا کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ معرکہ سر کر لیا حالانکہ طوطے کی طرح بے سمجھے بوجھے قرآن کی عربی عبارت پڑھ لینے سے نہ ان کی زندگی میں کوئی انقلاب آتا ہے نہ آ سکتا ہے۔ علما سے کون پوچھے کہ مسجد کا وہ کردار کیوں بحال نہیں کیا جا سکتا جو عہد رسالت مآب میں تھا؟ کیا آج مسجد میں اہل محلہ کے معزز اور دین دار افراد پر مشتمل ایک کمیٹی نہیں بنائی جا سکتی جو یہ دیکھے کہ محلے میں کوئی بھوکا تو نہیں سوتا؟ جو محلے کی بیواؤں اور مساکین کی مدد کرے؟ کیا ایک اور کمیٹی نہیں بنائی جا سکتی جو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا کام کرے‘ جو لوگوں کے اخلاق کو سنوارے‘ جو انہیں اچھی باتوں کی ترغیب دے۔ کیا ایک کمیٹی ایسی نہیں ہو سکتی جو نوجوانوں کے لیے پاکیزہ اور تعمیری سرگرمیوں کا انتظام کرے‘ جو لوگوں کے مسائل کو حل کرے مثلاً گلیوں کی صفائی او رروشنی کا انتظام اور سکولوں میں داخلے کا اہتمام۔ مسجد کو تعلیم کا مرکز کیوں نہیں بنایا جا سکتا اور سو فیصد خواندگی کا ہدف کیوں نہیں حاصل کیا جا سکتا؟ سوال یہ نہیں کہ حکومت یہ کام کیوں نہیں کرتی؟ ہمارا سوال یہ ہے کہ علما یہ کام کیوں نہیں کرتے؟ وہ دو رکعت کے امام بنے رہنے پر کیوں مصر ہیں؟ وہ سارے محلے کے ہرکام کے سچ مچ کے امام کیوں نہیں بنتے؟ جب کہ وہ یہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔ آخر کس نے ان کے ہاتھ پکڑ رکھے ہیں؟
ان کے مدرسوں میں چند ہزار یا چند لاکھ بچے پڑھتے ہیں۔ یہ بلاشبہ ان کا بڑا کارنامہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس ملک کے سکولوں میں جو کروڑوں بچے پڑھتے ہیں‘ ان کی دینی تعلیم اور ان کی اخلاقی تربیت کا ذمہ دار کون ہے؟ اور اس سلسلے میں دینی قوتیں کیا کر رہی ہیں؟ علما کو یا تو سیاست سے ہی فراغت نہیں ہوتی اور ان کی ساری محنتیں اور وسائل ادھر صرف ہو جاتے ہیں اور جو کچھ باقی بچتے ہیں‘ انہوں نے اپنا دائرۂ کار مدرسے کو بنایا ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ملت پاکستان کے کروڑوں بچے ایسی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جس میں دینی تعلیم کا مناسب انتظام نہیں‘ جہاں بچوں کی دینی تربیت کا کوئی انتظام نہیں۔ اگر حکومت یہ کام نہیں کرتی تو دینی قوتوں کے ہاتھ کس نے پکڑ رکھے ہیں کہ وہ یہ کام نہ کریں؟ یہ محض عذر لنگ ہے کہ اس کے لیے درکار اربوں روپے کہاں سے آئیں گے۔ دینی قیادت کمیونٹی کو متحرک کر کے یہ کام بآسانی کر سکتی ہے اور خود کفالتی بنیادوں پر یہ نظام بخوبی چل سکتا ہے اور مسجد اور اس کے امام کو بھی اس کا مرکز بنایا جا سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس کے لیے کبھی منصوبہ بندی کرنے کی کوشش کی گئی ہے؟ بلکہ اب تو دینی لوگوں نے بھی بطور کاروبار انگلش میڈیم اسکول کھول رکھے ہیں جہاں انگریزی کتابیں اور انگریزی نصاب پڑھا کر مغربی تہذیب کے غلام تیار کیے جاتے ہیں اور توقع یہ کی جاتی ہے بلکہ نعرے یہ لگائے جاتے ہیں کہ ہم اس معاشرے میں اسلامی انقلاب لائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ دینی اور اخلاقی لحاظ سے جتنے پست ہم اب ہیں‘ اتنے پہلے کبھی نہ تھے۔ وہ دینی اصول اور دینی اقدار جو کبھی ہمارے معاشرے کا جزو لاینفک تھیں‘ وہ اب مغربی تہذیب کے ریلے میں بہہ گئی ہیں اور دینی قوتوں کا یہ عالم ہے کہ انہیں کف افسوس ملنے کا بھی ہوش نہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ان حالات میں علم وعمل میں یکسو مسلم کہاں سے پیدا ہوں؟ صاحب کردار افراد کہاں سے آئیں؟ جس معاشرے میں انسان سازی کا عمل رک جائے‘ وہاں دو ٹانگوں کے جانور نہ پیدا ہوں تو اور کیا ہو؟ دینی تعلیم وتربیت سے محروم یہ لوگ اگر دینی جماعتوں کو ووٹ نہ دیں تو اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟ اگر وہ افغانستان میں بہتے خون پر مضطرب نہ ہوں تو آخر اس میں ان کا دوش کیاہے؟ آخر انہوں نے کردار کے نمونے دیکھے کہاں ہیں؟ عزیمت کا سبق انہیں پڑھایا کس نے ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر اہل دین اپنے گریبان میں جھانگیں تو خود انہیں شرم ساری محسوس ہوگی۔ انہیں اپنے سوا کسی کی خامیاں نظر نہ آئیں گی۔ شاید اسی لیے وہ یہ کام کرتے نہیں ہیں۔
۴۔ مغربی تہذیب کا طوطی جس طرح سر چڑھ کر بول رہا ہے اور مغربی طاقتیں سرمایے اور سائنس وٹیکنالوجی کی قوت سے مسلح ہو کر جس طرح انا ولاغیری کے نعرے بلند کرتی چہارسو پھنکار رہی ہیں‘ کیا وہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت ہے؟ کیا پاکستان کی دینی قوتوں کے پاس ایک بھی اچھا تھنک ٹینک ہے جہاں مغرب کے بارے میں ضروری معلومات جمع ہوتی ہوں‘ اس کی پالیسیوں کا تجزیہ کیا جاتا ہو کہ مغرب کیا سوچتا ہے؟ اس کی پالیسیاں کیا ہیں؟ وہ کیا کرنے والا ہے؟ اس کی منصوبہ بندی کا توڑ کیا ہو سکتا ہے؟ اگر نہیں تو ہم کسی کو دوش کیوں دیتے ہیں؟ ہمیں اپنے آپ ہی کو دوش دینا چاہیے۔ یہ سادگی بلکہ سادہ لوحی کی کون سی قسم ہے کہ ہم دشمن کو دوست سمجھتے رہے اور خود ہی اس کی گود میں جا کر بیٹھے ہیں کہ آؤ اور ہمیں ختم کرو۔ کیا عراق وکویت میں جو کچھ ہوا‘ وہ محض اتفاق تھا؟ افغانستان میں جو کچھ کیا گیا‘ وہ پلاننگ کیا چند دن کے اندر کی گئی؟ کیا پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ محض حسن اتفاق ہے؟ یا ایران‘ عراق اور سعودی عرب کے ساتھ جو ہوتا نظر آتا ہے‘ وہ محض گیدڑ بھبھکیاں ہیں؟ کیا بی 52 طیاروں کا مقابلہ کلاشنکوف سے کیا جا سکتا ہے؟ کیاآئی ایم ایف کا مقابلہ نیشنل بینک آف پاکستان کر سکتا ہے؟ کیا سی این این کے پروپیگنڈے کا توڑ پی ٹی وی سے ہو سکتا ہے؟ کیا علم وتحقیق میں پیش رفت کوئی جرم ہے؟ کیا مدارس میں انگریزی پڑھانا گناہ کبیرہ ہے؟
کیا ہم برسوں سے نہیں دیکھ رہے تھے کہ اسلامی کانفرنس تنظیم مٹی کا مادھو ہے‘ امت انتشار وافتراق کا شکار ہے‘ اسے متحد ہونے نہیں دیا جاتا بلکہ آپس میں لڑایا جاتا ہے۔ اکثر مسلم حکومتیں مغرب کی ایجنٹ ہیں یا ان کے دباؤ میں ہیں۔ کیا ہماری دینی قوتوں نے کبھی نہیں سوچا کہ اس صورت حال کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہودی اسکالروں نے صدیوں سے پروٹوکولز بنا رکھے ہیں اور وہ ایک منظم طریقے سے دنیا پر چھاتے چلے جا رہے ہیں۔ کیا ہمارے دانش وروں کے بھیجے خالی ہو گئے ہیں کہ چند سال بعد کی پلاننگ بھی نہیں کر سکتے؟ دینی قوتوں کو اس کا احساس ہونا چاہیے تھا کہ جس طرح داخلی محاذ پر ان کو اتحاد کی ضرورت ہے‘ اسی طرح ملی سطح پر بھی ان کو اتحاد کی ضرورت ہے۔ آخر یہ امت اتنی بانجھ بھی نہیں ہوئی‘ یقیناً ہر مسلم ملک اور قوم میں ایسے افراد اور ادارے موجود ہیں جو اس صورت حال پر مضطرب ہیں۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ ان کو پہچانا جاتا اور ان کو متحرک کیا جاتا اور امت کے اتحاد کو ایک مضبوط صورت دی جاتی اور اسے موثر بنایا جاتا۔
اول تو وسائل کی کمی نہیں اور اگر ہو بھی تو مل کر اسے پورا کیا جا سکتا ہے۔ مسلم ممالک مل کر طاقت ور میڈیا کو جنم دے سکتے ہیں۔ حربی تحقیق کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ سائنس وٹیکنالوجی میں ترقی کر سکتے ہیں۔ اپنے معاشی مسائل حل کر سکتے ہیں لیکن یہ سب اسی وقت ہو سکتا ہے جب ذہن بیدار ہوں۔ ان کے پیچھے نظریے کی قوت ہو اور آگے بڑھنے کا جوش وولولہ ہو اور اگر یہ نہ ہو تو جنگل کے بادشاہ شیر کا وزن تو بے چاری ایک گائے سے بھی کم ہوتا ہے۔
باتیں اور نکات تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن ہم نے پالیسی اور حکمت عملی کے حوالے سے چند اصولی باتوں پر اکتفا کیا ہے اور دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر دینی قوتیں ان چار نکات کے حوالے سے اپنی حکمت عملی بدل لیں تو آج بھی بچنے کی امید کی جا سکتی ہے یعنی وہ سچ مچ متحد ہو جائیں اور انفرادی‘ مسلکی اور جماعتی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر اعلیٰ تر مقاصد کے لیے جمع ہو جائیں۔ اس کا اظہار نہ صرف سیاست میں ہو بلکہ دینی کاموں میں بھی ہو۔ عوام تک پہنچنے کا عزم کیا جائے‘ ان کی تعلیم وتربیت کی جائے اور اس طرح داخلی محاذ کو مضبوط بنا کر ملی اور بین الاقوامی سطح پر بھی اپنے آپ کو منوایا جائے تو ہماری ڈولتی کشتی آج بھی سنبھل سکتی ہے لیکن اگر ہم نے یہ سب کچھ نہ کیا تو پھر شاید‘ نہیں یقیناًہمیں ایک بڑے المیے سے دوچار ہونا پڑے گا۔ الا من رحم ربی۔

دستور سے کمٹمنٹ کی ضرورت

پروفیسر میاں انعام الرحمن

۱۹۴۷ء سے لے کر اب تک وطن عزیز کو کئی مسائل سے سابقہ رہا ہے۔ ان میں سے سرفہرست تین کی ترتیب یوں بیان کی جاتی ہے:
۱۔ ملکی سلامتی کا تحفظ
۲۔ معیشت کی بحالی اور مضبوطی
۳۔ عوامی امنگوں کے مطابق دستوری نظام
حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں آپس میں باہم مربوط ہیں لیکن ان کی ترتیب ٹھیک نہیں رکھی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مسائل کے انبار تلے دبتے چلے جارہے ہیں کیونکہ مسائل کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ ان کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے دی گئی ترتیب بھی کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ترتیب اس طرح ہونی چاہیے تھی:
۱۔ عوامی امنگوں کے مطابق دستوری نظام
۲۔ معیشت کی بحالی اور مضبوطی دستور کے احترام سے مشروط ہے۔
۳۔ درج بالا دو امور پورے ہونے سے ملکی سلامتی خود بخود محفوظ ہو جاتی کیونکہ ملکی سلامتی کو بیرونی سے زیادہ اندرونی خطرات لاحق رہے ہیں۔
ہماری تاریخ شاہد ہے کہ ملکی سلامتی کو مرکزی اہمیت دینے سے بھی ملک سلامت نہیں رہا۔ اگر دستور کو مرکزی اہمیت دی جاتی تو بہتری کی خاصی گنجائش موجود تھی۔ 
ہمارے بنیادی دستوری مسائل تین ہیں:
۱۔ طالع آزماؤں سے دستور کا بچاؤ
۲۔ دستور کی اسلامائزیشن
۳۔ وفاق اور صوبوں میں تقسیم اختیارات بشمول مرکزی مقننہ کے دونوں ایوانوں کے مابین اختیارات کا توازن
جہاں تک دستور کی اسلامائزیشن کا تعلق ہے تو پاکستان کی تاریخ میں ہم نے سب سے پہلا دستوری قدم ۱۹۴۹ء میں قرارداد مقاصد کی صورت میں اٹھایا جس میں ملک کا سپریم لا قرآن وسنت کو قرار دیا گیا۔ اس قرارداد کو ۵۶ء‘ ۶۲ء اور ۷۳ء کے دساتیر کے دیباچے کی زینت بنایا گیا۔ صدر ضیاء الحق نے جو چند اچھے کام کیے‘ ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آٹھویں ترمیم کے ذریعے سے قرارداد مقاصد کو دستور کا قابل نفاذ حصہ بنا دیا۔ ہمارا پہلا دستوری قدم نفاذ کے اعتبار سے ابھی تشنہ تکمیل ہے۔
اس کے سب سے بنیادی مسئلہ تقسیم اختیارات کا ہے ، وفاق اور صوبوں کے مابین اور مرکزی مقننہ کے دونوں ایوانوں کے مابین۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں آٹھویں ترمیم کے بعد بھی ایوان بالا یعنی سینٹ خاصا کمزور ایوان ہے۔ اس ایوان کے پاس مالیاتی اختیار نہیں۔ کہتے ہیں جس کے پاس مالیاتی کنٹرول ہو‘ وہی طاقت کا حامل ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایوان بالا اور ایوان زیریں میں اختیارات کے حوالے سے توازن رکھا جائے کیونکہ یہی وہ ایوان ہے جس میں ہر صوبے کی مساوی نشستیں ہیں۔ امریکی سینٹ کی طرح ایوان بالا کو بہت زیادہ طاقت ور بنانے کی بھی ضرورت نہیں۔ بہرحال انفارمیشن کے موجودہ سیلاب میں چھوٹے صوبے ’’محدود اختیارات‘‘ پر قانع نہیں ہو سکتے۔ باخبری کے اعتبار سے وہ ’’بڑے‘‘ ہو گئے ہیں۔
ملک کی داخلی سلامتی کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے کہ دستور کی کلی اسلامائزیشن کے ساتھ ساتھ صوبوں کو مالیاتی اختیارات سے نوازا جائے۔ جہاں تک مرکزیت اور قومی وحدت کا تعلق ہے‘ اسلامائزیشن بہت موثر اور مثبت کردار ادا کرے گی۔ میرا خیال ہے کہ دستوری اعتبار سے مضبوط مرکز کے بجائے سماجی وحدت کا حامل مرکز زیادہ مفید ثابت ہوگا۔ شعبہ تعلیم کی مرکزیت سے سماجی وحدت حاصل کی جا سکتی ہے۔ پورے ملک کے لیے یکساں نظام تعلیم ہونا چاہیے جو مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہو اور اس کے اخراجات کی مد میں مرکزی حکومت کو ٹیکس لگانے کا بھی اختیار ملنا چاہیے۔ یہ کام وہی حکومت کر سکتی ہے جو قومی وحدت اور ملکی سلامتی کے لیے واقعی سنجیدہ ہو۔ 
اور اب آئیے دیکھیں کہ دستور سے کمٹ منٹ کے حوالے سے ہمارا ریکارڈ کیا ہے؟ 
۱۔ سب سے پہلے تو یہ نکتہ وضاحت طلب ہے کہ ۱۹۴۰ء میں قرارداد لاہور میں یہ طے پا جانے کے بعد کہ ہماری منزل پاکستان ہے‘ متوقع پاکستان کے متوقع دستور کے خدوخال ابھارنے کے لیے سات سال کے عبوری دور میں ہوم ورک کیوں نہیں کیا گیا؟ قائد اعظم کی جدوجہد ’’دستوریت‘‘ سے عبارت تھی۔ اس مخصوص نوعیت کی جدوجہد کے تناظر میں ۱۹۴۷ء میں پاکستان کے ظہور کے وقت مملکت خداداد کا اپنے دستور سے تہی دامن ہونا خاصا حیران کن ہے۔ شاید ہم مسلمان دور اندیش نہیں ہیں۔ عین وقت پر ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ قسم کے کام کرتے ہیں۔ ۴۷ء میں بھی ہم نے ۳۵ء کے ایکٹ کو عجلت میں نافذ کر دیا۔ 
۲۔ ’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے، خواجہ صاحب! نہ آپ لیاقت علی خاں ہیں نہ میں ناظم الدین ہوں۔‘‘ گورنر جنرل غلام محمد نے یہ جواب اسمبلی کی اکثریتی جماعت کے لیڈر وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو دیا تھا جن کی حکومت کو گورنر جنرل نے ۳۵ء کے آئین کی دفعہ ۱۰ کے تحت برطرف کر دیا تھا حالانکہ آزادی کے بعد قانون آزادی ہند کی رو سے گورنر جنرل ایسا اقدام اٹھانے کا مجاز نہیں تھا۔ گورنر جنرل کا مذکورہ جواب اس نفسی کیفیت اور رجحان کو نمایاں کرتا ہے جس کے مطابق ان دنوں ریاست کا نظم ونسق چلایا جا رہا تھا۔ اس کو ہم ’’شخصی بنیاد‘‘ کہہ سکتے ہیں یعنی جیسی شخصیت ہو، دستوری تقاضوں سے قطع نظر عہدے کی اہمیت میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ بے اصولی بنیادی اصول تھا۔ پاکستان کی سیاسی اور دستوری تاریخ کا المیہ یہی ہے کہ ایک طرف شخصی انتہا پسندی ہے اور دوسری ’’سمجھوتے‘‘ کی انتہا۔
گورنر جنرل غلام محمد نے بے اصولی کو راہ پاتے دیکھ کر، اپنے پہلے ’’کمانڈو ایکشن‘‘ سے شہ پا کر شخصی انتہا پسندی کا وہ قدم اٹھایا جس کی تاریکیاں اور پرچھائیاں آج بھی ہمیں گھیرے ہوئے ہیں۔ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۵۴ء کا اعلان آج بھی ایک سوالیہ نشان ہے جس میں اسمبلی کی ’’تنسیخ‘‘ کا لفظ شامل نہیں تھا۔ ۲۸؍ اکتوبر کو دفعہ ۱۴۴ لگا کر کسی بھی قسم کے عوامی اجلاس پر دو ماہ کے لیے پابندی عائد کر کے صورت حال کو کنٹرول کر لیا گیا۔ اس طرح اسمبلی عملاً تحلیل ہو گئی۔ اسمبلی کا اجلاس ۲۱ ستمبر کو ختم ہو چکا تھا تاہم مولوی تمیز الدین نے، جو اسمبلی کے صدر تھے، گورنر جنرل کے اس اقدام کو غیر دستوری قرار دیتے ہوئے اسمبلی کی مختلف کمیٹیوں کا اجلاس جاری رکھنے کی کوشش کی لیکن وزیر داخلہ سکندر مرزا نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرے کمانڈو ایکشن کو بھی کام یابی سے ہمکنار کر دیا۔
مولوی تمیز الدین اور سندھ چیف کورٹ نے جرات سے کام لے کر گورنر جنرل کی ’’میں‘‘ کو ذلیل ورسوا کر دیا۔جواب آں غزل کے مصداق گورنر جنرل نے سندھ کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں نہ صرف اپیل دائر کر دی بلکہ ’’پرچی سسٹم‘‘ بھی متعارف کروایا۔ برطانوی دستوری ماہر سر آئیور کی خدمات حکومت نے حاصل کر رکھی تھیں۔ انہوں نے دستوری اصولیت سے قطع نظر، خالصتاً پیشہ ورانہ انداز میں اپنے کلائنٹ کی جیت کے لیے ایسی ایسی نکتہ سنجیوں کا مظاہرہ کیا جنہیں اب بذلہ سنجیوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ سر آئیور اور جسٹس منیر کی مشترکہ کوششوں سے جو فیصلہ سامنے آیا، اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں کو کتنی تگ ودو اور جتن کر کے کھینچ تان کر ’’پرچی‘‘ کے مطابق فیصلہ دینے کے لیے کوئی نکتہ گھڑنا پڑا۔ اس فیصلے میں اسمبلی کی تنسیخ کے حوالے سے گورنر جنرل کے اختیار کی بابت ذکر تک نہیں کیا گیا بلکہ حکومت وقت کی خوشنودی کے لیے فیصلہ یوں دیا گیا کہ ’’اسمبلی کی تنسیخ کو کالعدم کرنے کے حوالے سے سندھ چیف کورٹ کا رٹ کی اجازت دینے کا حکم منسوخ کر دیا گیا۔‘‘ فیڈرل کورٹ کا یہ فیصلہ ۲۴ اکتوبر کے اعلان سے بھی زیادہ عجیب وغریب تھا جس میں اصل سوال کو گول کر دیا گیا۔ 

ایوب خان کے نقش قدم پر

جنرل پرویز مشرف کی طرح ایوب خان نے بھی کہا تھا کہ ہمارا اصل مسئلہ ’’اندرونی‘‘ ہے‘ پاکستان کو کوئی بیرونی خطرہ لاحق نہیں۔ بلاشبہ دونوں کی بات میں بہت وزن ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایوب خان نے مسئلے کے ادراک کے بعد درست سمت میں پیش رفت کی تھی؟ کیا ہمارے موجودہ De facto صدر بھی درست اقدامات کر رہے ہیں؟ آئیے ہلکے پھلکے انداز میں موازنہ اور تجزیہ کریں۔
کسے معلوم نہیں کہ صدر ایوب کی کوشش تھی کہ پاکستان کا سرکاری نام ’’جمہوریہ پاکستان‘‘ ہی رائج کیا جائے اور ’’بنیادی حقوق‘‘ کو دستور میں جگہ نہ دی جائے لیکن عوامی احتجاج اور اسلام پسند حلقوں کے رد عمل سے خائف ہو کر نہ صرف بنیادی حقوق کو دستوری ضمانت دی گئی بلکہ پاکستان کا سرکاری نام بھی ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ قرار پایا۔ ہمارے موجودہ صدر بھی دستور کی اسلامی شقوں سے چھیڑ خانی کرنا چاہتے ہیں۔ 
یہ بھی سب مانتے ہیں کہ ۱۹۶۲ء کے دستور کو صدر ایوب کی خواہشات کے مطابق ترتیب دیا گیا تھا۔ دستور میں صدر کے اختیارات کو دیکھتے ہوئے جسٹس کیانی نے اسے فیصل آباد کا گھنٹہ گھر قرار دیا تھا کہ سبھی بازار اس چوک میں آکر مل جاتے ہیں یعنی صدر نہ ہوا‘ اختیارات کا چوک ہو گیا۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ ان اختیارات سے بھی ایوب خان کی تسلی وتشفی نہ ہو سکی اور مختلف حیلوں بہانوں سے اختیارات کے ارتکاز کا سلسلہ جاری رہا۔ جس طرح دستور کی چوتھی اور چھٹی ترامیم معرض وجود میں آئیں‘ ان کا مطالعہ دل چسپی سے خالی نہیں ہے۔ دسمبر ۱۹۶۲ء میں وزارت خزانہ نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے سے سرکاری ملازموں کی ریٹائرمنٹ کے لیے عمر کی حد ۶۰ سال کر دی لیکن دو سال اور دس ماہ بعد حکومت کو احساس ہوا کہ ایسا کر کے غلطی کی گئی ہے لہذا ۱۱؍ اگست ۱۹۶۵ء کو باقاعدہ دستوری ترمیم کے ذریعے سے (جو کہ چوتھی ترمیم تھی) مرکزی اور صوبائی ملازمین کی عمر ریٹائرمنٹ کے لیے ساٹھ سال سے کم کر کے ۵۵ سال کر دی گئی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ چوتھی ترمیم کے صرف سات ماہ بعد یعنی ۲۱ مارچ ۱۹۶۶ء کو چھٹی ترمیم کی گئی کیونکہ چوتھی ترمیم صدر ایوب کی طالع آزمائی کے لیے درکار تحفظات فراہم کرنے میں موثر ثابت نہیں ہوئی تھی۔ چھٹی ترمیم کے ذریعے سے واضح کیا گیا کہ نہ صرف صدر یا گورنر ۵۵ سال کی عمر ہونے پر کسی کو ریٹائر کر سکتے ہیں بلکہ ریٹائرمنٹ کی عمر پوری ہونے پر اپنی مرضی سے اپنی مرضی کی شرائط پر کسی بھی ملازم کی سروس میں توسیع بھی کر سکتے ہیں۔ 
ظاہر ہے دل میں چور تھا۔ اس ترمیم سے سرکاری ملازموں کو مکمل طور پر اپنے ہاتھوں میں لینا مقصود تھا لہذا محنت‘ دیانت اور فرض شناسی کے بجائے کاسہ لیسی معیار بن گئی۔ قوم اور ملک کی خدمت کے بجائے چند افراد کو خوش رکھنے سے کوئی بھی ملازم زندگی انجوائے کر سکتا تھا۔ ان ترامیم کے مضمرات امریکی سپائل سسٹم (Spoil System) کی یاد تازہ کر دیتے ہیں جس کے مطابق امریکی صدر من پسند افراد کو اہم پوسٹوں پر تعینات کر سکتا تھا۔ نیا آنے والا صدر ان افراد کو ہٹاکر اپنی مرضی کے افراد بھرتی کرتا تھا۔ اس سسٹم کے نقائص کے پیش نظر امریکیوں نے بیسویں صدی میں اس کا مکمل خاتمہ کر دیا۔ قواعد کے مطابق اور میرٹ پر ہر کام سرانجام پانے لگا۔ پاکستان میں ایک معکوس عمل ہوا ہے۔ قواعد پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے بجائے ان کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ جس ملک کے طالع آزما دستور کو بھی نہ بخشیں‘ وہاں لاقانونیت ہی فروغ پا سکتی ہے۔ 
ہمارے موجودہ صدر ’’رٹ آف گورنمنٹ‘‘ کی بات کرتے ہیں۔ کیا وہ خود اس کا لحاظ کرتے ہوئے اقتدار میں آئے ہیں؟ سرکاری ملازموں کی جو اکھاڑ پچھاڑ وسیع تر قومی مفاد اور معیشت کی بحالی کے نام پر کی جا رہی ہے‘ کیا وہ ایوبی اقدامات سے مماثل نہیں؟ ایڈہاک لیکچرز کی چھٹی کروا کر صدر کی تنخواہ اور مراعات میں جو اضافہ کیا گیا ہے‘ اس پر تبصرہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ ہمارے صدر محترم صرف اختیارات کے ارتکاز پر قانع نہیں ہو سکتے۔ ظاہر ہے سٹیٹس (Status) کا دور ہے۔ صدر کو ہر حیثیت سے‘ ہر اعتبار سے سوا سیر ہی ہونا چاہیے۔
اپنے آمرانہ اقدامات پر پردہ ڈالنے کے لیے اور عوام میں Good willبنانے کے لیے ایوب خان نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی سیٹوں میں اضافہ کر دیا۔ خواتین کی نشستیں بھی بڑھا دی گئیں۔ ہمارے صدر محترم نے بھی عوام کو اس لولی پوپ سے نوازا ہے۔ 
صدر ایوب نے جو دستوری کمیشن تشکیل دیا تھا‘ اس نے Basic democrats کو بطور ’’انتخابی ادارہ‘‘ دستور کا حصہ بنانے کی مخالفت کی تھی لیکن صدر موصوف کو ان بی ڈی ممبرز پر بہت مان تھا۔ ہمارے موجودہ صدر نے بھی اپنا ضلعی نظام متعارف کرایا ہے۔ اگر اس کے اختیارات کی توسیع بھی بی ڈی کی طرز پر کی گئی تو لامحالہ ناکامی سے دوچار ہوگا۔ 
صدر ایوب نے پریس کو کنٹرول کرنے کے لیے آرڈی ننس جاری کیا تھا۔ ہمارے موجودہ صدر نہ صرف اس حوالے سے پر تول رہے ہیں بلکہ عدلیہ کے حوالے سے آرڈی ننس جاری کر کے جناب نے ایوب خان سے مسابقت کرنے کی کام یاب کوشش کی ہے۔
جب ۱۹۶۲ء کا دستور تشکیل کے مراحل میں تھا تو دستوری کمیشن نے دستور میں ترمیم کرنے کا اختیار مرکزی مقننہ کو دیا کہ وہ صدارتی منظوری کے ساتھ دو تہائی اکثریت سے اور صدارتی منظوری کے بغیر تین چوتھائی اکثریت سے ترمیم کی مجاز تھی۔ صوبائی اسمبلیوں کو ترمیم کے حوالے سے کوئی اختیار نہیں دیا گیا تھا۔ صدر ایوب نے دستوری کمیشن کی سفارشات جانچنے کے لیے جو دو کمیٹیاں تشکیل دی تھیں‘ ان میں اگرچہ بعض مواقع پر اختلاف رہا لیکن دونوں کمیٹیوں نے ترمیم کے طریقہ کار پر اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کمیشن کی سفارشات سے اتفاق کرتے ہوئے بلکہ کمیشن سے بھی بڑھ کر صدر کے ہاتھ مضبوط کرنے کی کامیاب کوشش کی کہ صدر تین چوتھائی ووٹ آنے پر معاملہ انتخابی ادارے یعنی بی ڈی ممبرز کے حوالے کر سکتا تھا جو ظاہر ہے ایوب خان کے بغل بچے تھے۔ 
موجودہ صدارتی احکامات کے تناظر میں بدیہی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے صدر محترم بھی اپنی ذات کے مطابق دستوری ڈھانچہ تشکیل دینے کے بعد ترمیم کے حوالے سے ایوبی نظائر سے استفادہ کریں گے۔ 
موجودہ حکومت نے اصل مسائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے عوام کی ’’دل پشوری‘‘ کے لیے طرز انتخاب کا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ میر اخیال ہے کہ جداگانہ یا مخلوط طرز انتخاب ہمارا اصل مسئلہ نہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے جداگانہ انتخاب کو متحدہ ہندوستان میں مسلم مفادات کے تحفظ کے لیے ایک ذریعے کے طور پر اپنایا تھا۔ اگر اس کے بغیر مسلم مفادات کا تحفظ ممکن ہوتا تو قائد اس سے دست بردار ہونے کو تیار تھے۔ اس سلسلے میں ’’تجاویز دہلی‘‘ کی مثال دی جا سکتی ہے۔جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو جداگانہ انتخاب کا مسئلہ منصوص نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کی صورت حال کے مطابق شاید اس کی ضرورت نہیں تھی البتہ دستور کی اسلامائزیشن کے ضمن میں قادیانی فتنہ کی روک تھام کے لیے اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اگر قادیانی فتنہ کا تدارک کسی اور طریقے سے ہو سکتا ہو تو جداگانہ طرز انتخاب کو ترک کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے۔ اس اعتبار سے طرز انتخاب‘ دستوری مسائل میں سے ایک یعنی دستور کی اسلامائزیشن کا محض ایک ثانوی پہلو ہے۔ حکومت نے کمال ہوشیاری سے اسلام پسندوں کی توجہ دستور کی ’’کلی اسلامائزیشن‘‘ سے ہٹانے کے لیے یہ شوشہ چھوڑا ہے۔ اب تک یہ شوشہ کامیاب جا رہا ہے۔
اب تک کی حکومتی پالیسی کے تناظر میں جس قسم کا سیٹ اپ بننے کی توقع کی جا سکتی ہے‘ اسے Centralized de-centralization سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ محدود، وقتی اور ڈنگ ٹپاؤ اقدامات ہیں۔ ان سے نہ صرف یہ کہ بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی بلکہ یہ دستوری تسلسل میں مخل ہو کر متوقع بہتری کا راستہ مسدود کر دیتے ہیں۔ 
ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ ضیاء الحق اورجنرل پرویز کا اقتدار کی مسند پر فائز ہونا اور اپنی ’’اعلیٰ دانش‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کو ’’ترقی‘‘ کی راہ پر ڈالنے کے نام پر شخصی تحفظات کا بندوبست کرنا قابل تعریف نہیں گردانا جا سکتا۔ اعلیٰ سطح پر دستور کی دھجیاں اڑانے سے عوامی سطح پر قانون شکنی کی نفسیات جنم لیتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ طالع آزمائی اور قانون شکنی سے عبارت ہے۔ گورنر جنرل غلام محمد‘ فیڈرل کورٹ کے ججز اور سر آئیور نے جو گل کھلایا‘ اس کے نتیجے میں ہماری دستوری اور قانونی گاڑی اسی پٹڑی پر چل نکلی جس میں ہر قدم پر ’’سپیڈ بریکر‘‘ ہیں۔ اگر ۱۹۴۰ء سے ہی ہم دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا دستور تشکیل دینے کا آغاز کر دیتے تو ۱۹۴۷ء میں اپنا بنایا ہوا دستور سر آئیور کی نکتہ سنجیوں کا شکار نہ ہوتا۔ ہو سکتا ہے ہمارا مشرقی بازو بھی ہم سے نتھی رہتا۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک کو صرف ایک کمٹ منٹ کی ضرورت ہے‘ دستور سے کمٹ منٹ کی۔ ملکی سلامتی اور معیشت کی بحالی کو فرنٹ پر رکھنے کے بجائے دستور سے کمٹ منٹ کو فرنٹ پر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ملکی سلامتی اور معیشت کی بحالی کے دھارے دستوری سرچشمے سے پھوٹیں گے۔ ماضی کی غلطیاں دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
ہمارے صدر اور ان کے رفقاء کار بارہا اعلان کر چکے ہیں کہ موجودہ سیٹ اپ اور انقلابی اقدامات کے تحفظ کے لیے درکار ہر اقدام اٹھایا جائے گا۔ پاکستان کی دستوری تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اصل مسائل سے ہٹ کر مصنوعی انداز میں صرف اپنی ذات کے تحفظ کے لیے نام نہاد نعروں کی آڑ لے کر کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو اس قدم کے مندرجات نعرے میں مضمر صداقتوں کے متوازی نہیں ہوتے۔ وقتی طور پر موثر ہونے کے باوجود ایسے اقدام اپنے پیچھے مسائل کا انبار چھوڑ کر بطور ’’بڑی یادگار‘‘ تاریخ کے صفحات میں نقش ہو جاتے ہیں۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ ہمارے صدر محترم ’’تاریخی یادگاریں‘‘ قائم نہ کریں۔ میری تو خواہش ہے کہ وہ پاکستان کے اندرونی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے معروضی انداز میں ایسے قدم اٹھائیں کہ قوم کسی اچھی یادگار کو بھی اپنے حافظے میں جگہ دے سکے۔ بہرحال دستور سازی اور رٹ آف گورنمنٹ کے حوالے سے صدر محترم کے بیانات پڑھ کر مجھے اس نوجوان کی کہانی یاد آجاتی ہے جس نے اپنے ماں باپ کو قتل کر دیا تھا اور پھر یتیم ہونے کی بنیاد پر رحم کا طلب گار تھا۔

سر سید کے مذہبی افکار پر ایک نظر

گل محمد خان بخمل احمد زئی

(مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ کے طالب علم جناب گل محمد خان بخمل احمد زئی نے زیر نظر مضمون میں مولانا سید تصدق بخاری کی کتاب ’’محرف قرآن‘‘ کے بعض مباحث کا ملخص پیش کیا ہے۔ ادارہ)
سرسید احمد خان کے آباؤ اجداد کشمیر کے رہنے والے تھے۔ شاہ عالم ثانی (۱۱۷۳ھ۔۱۱۵۹ھ) کے دور میں جب دہلی میں کلیدی آسامیوں اور مناصب پر فائز علما اور فضلا شاہ وقت سے اختلاف کی بنا پر اپنے اپنے عہدوں سے الگ کر دیے گئے تو ریاست جموں وکشمیر میں اس وقت قحط سالی کا دور دورہ تھا۔ چنانچہ یہاں کے تین معروف و معزز خاندانوں یعنی سید‘ میر اور خان خاندانوں کے افراد نے اپنے وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی کا رخ کیا اور پھر دہلی کے ہو کر رہ گئے۔ دہلی کے خالی مناصب پر انہی افراد کو سرفراز کیا گیا۔ان میں سے سید متقی بن سید ہادی (وفات ۱۸۲۸ء)کے گھرانے میں ۵؍ ذی الحجہ ۱۲۳۳ھ بمطابق ۱۷ ؍اکتوبر ۱۸۱۷ء کو سرسید احمد خان کی ولادت ہوئی۔ 
سرسید عالم شباب میں قدم رکھنے سے پہلے سن بلوغت ہی میں مروجہ ابتدائی علوم میں‘ جن میں اس وقت کی سرکاری زبان فارسی شامل ہے‘ شد بد حاصل کر چکے تھے۔ شاہ ولی اللہؒ کے پوتے مولانا مخصوص اللہؒ سے انہوں نے کچھ ابتدائی مذہبی علوم کی تحصیل کی اور کچھ اسباق مولانا مملوک علی نانوتویؒ سے بھی پڑھے۔
سریانی وعبرانی زبانوں سے مناسب واقفیت حاصل کر کے پہلے انہوں نے میدان مناظرہ میں پادریوں سے ناکام زور آزمائی کی اور اس کے بعد ’’تبیین الکلام‘‘ لکھ کر مسلمانوں اور عیسائیوں کو متحد ومتفق کرنا چاہا مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ پھر پیری مریدی کا سلسلہ شروع کیا لیکن اس میدان کے بنیادی لوازم کے فقدان کی وجہ سے یہاں بھی ناکام رہے۔ سرسید نے محکمہ مال میں ملازمت اختیار کی اور کچھ عرصے کے بعد مختاری کا امتحان پاس کر کے منصف کے عہدے پر فائز ہو گئے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں منصفی کی آڑ میں انہوں نے انگریزوں کی خوب دل کھول کر امداد کی۔ان کو اپنے اور اپنے اعوان وانصار کے گھروں میں پناہ دی اور انہیں محفوظ مقامات تک پہنچانے میں خوب شہرت حاصل کی۔ نیز انہوں نے انگریزوں کو خوش کرنے کے لیے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کو ’’بغاوت ہند‘‘ کے نام سے موسوم کیا اور اس کے اسباب وواقعات پر ایک کتاب لکھی جس میں مسلمانوں کے موقف کو غلط ٹھہرایا گیا۔ یہ کتاب انگریزوں کو اتنی پسند آئی کہ کرنل گراہم نے اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ اس تعاون اور خدمات کے پیش نظر انگریز حکومت کی طرف سے سید احمد خان کو ’’سر‘ خان بہادر‘ شاہی مشیر‘ انڈیا کا امن جج‘ اور قانون کا ڈاکٹر‘‘ جیسے خطابات نوازے گئے اور دو پشتوں تک ان کے لیے دو سو روپے کی پنشن بھی مقرر کر دی گئی۔ اکبر الٰہ آبادی نے غالباً اسی تناظرمیں کہا تھا
جب سے ہم میں آنریبل اور سر پیدا ہوئے
سوتے فتنے جاگ اٹھے اور شر پیدا ہوئے
قادیانیوں کی ’’تاریخ احمدیت‘‘ میں مرقوم ہے کہ سرسید نے مرزا غلام احمد قادیانی کی بڑی معاونت کی ہے اور ان کی کتابوں کو بہت سراہا ہے۔
خود مرزا غلام احمد قادیانی کا بیان ہے کہ سرسید تین باتوں میں مجھ سے متفق ہیں: ایک یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا نہیں ہوئے۔ دوسرے یہ کہ ان کو آسمان پر نہیں اٹھایا گیا بلکہ رافعک الی سے مراد ان کے درجات کو بلند کرنا ہے۔ تیسرے یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج روح مع الجسد کے ساتھ نہیں تھا بلکہ صرف روحانی تھا۔
مرزا غلام احمد قادیانی اور سرسید احمد خان دونوں نے مذہب اسلام کے مسلمات میں شگاف ڈال کر انہیں نئی نئی ذہنی اور مذہبی بحثوں میں الجھایا اور اس طرح انگریزوں کی بہت بڑی خدمت انجام دی۔ان کی کوششوں کے نتیجے میں انگریز کو اطمینان کے ساتھ برصغیر پر حکومت کرنے کا موقع ملا‘ مسلمانوں کی طاقت تقسیم ہو کر رہ گئی اور علماء اسلام کو بیک وقت تین محاذوں پر لڑنا پڑا یعنی انگریزی اقتدار سے آزادی کا محاذ‘ مرزا غلام احمد قادیانی کی خانہ ساز نبوت کا محاذ اور سرسید احمد خان کی ایمان سوز نیچیریت اور تحریف قرآن کا محاذ۔

سرسید کے بعض مذہبی افکار

سرسید یورپ کے ملحد اور مذہب بیزار مفکرین سے شدید متاثر تھے اور اس تاثر کے تحت انہوں نے اسلام کے بیشتر بنیادی عقائد اور مسلم حقائق کو توجیہ وتاویل کے ذریعے سے ایسی شکل دینے کی سعی کی جو مغربی ملحدین کے تصورات کے مطابق قابل قبول ہو سکے۔ چنانچہ وحی، جنت ودوزخ، آخرت ، ملائکہ وجنات کی ایسی ایسی فاسد تاویلات کیں جن سے دین کا پورا نظام ڈھے جاتا ہے۔ معجزات کو تسلیم کرنے سے ان کا ذہن باغی ہے اور مافوق الفطرت اور خارق عادت کسی امر کو تسلیم کرنے پر وہ تیار نہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے امت کے اہل علم کی اجماعی آرا کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔ چنانچہ خود لکھتے ہیں کہ 
’’میں نے بقدر اپنی طاقت کے خود قرآن کریم پر غور کیا اور چاہا کہ قرآن کو خود ہی سمجھنا چاہیے۔‘‘ 
(تفسیر القرآن ج ۱ ص ۲)
ان کی ایسی آرا کے چند نمونے ذیل میں درج کیے جارہے ہیں:
۱۔ سورہ بقرہ میں ارشاد باری ہے:
واذ ااخذنا میثاقکم ورفعنا فوقکم الطور
ترجمہ :’’اور جب ہم نے تم سے عہد لیا اور تم پر طور پہاڑ کو بلند کیا۔‘‘
اس کے تحت سرسید لکھتے ہیں کہ 
’’پہاڑ کو اٹھا کر بنی اسرائیل کے سروں پر نہیں رکھا تھا بلکہ آتش فشانی سے پہاڑ ہل رہا تھا اور وہ اس کے نیچے کھڑے یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے سروں پر گر پڑے گا۔‘‘
۲۔ دین میں کعبہ کی حیثیت سے متعلق سرسید لکھتے ہیں کہ 
’’جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس پتھر کے بنے ہوئے چوکھونٹے گھر میں ایک ایسی متعدی برکت ہے کہ جہاں سات دفعہ اس کے گرد پھرے اور بہشت میں چلے گئے، یہ ان کی خام خیالی ہے۔‘‘ (تفسیر القرآن ج ۱ ص ۲۱۱)
نیز لکھتے ہیں: 
’’اس چوکھونٹے گھر کے گرد پھرنے سے کیا ہوتا ہے؟ اس کے گرد تو اونٹ اور گدھے بھی پھرتے ہیں تو وہ کبھی حاجی نہیں ہوئے۔‘‘ (ایضاً ج ۱ ص ۲۵۱)
مزید گوہر افشانی کرتے ہیں کہ 
’’کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا اسلام کا کوئی اصلی حکم نہیں ہے۔‘‘ (ایضاً ج ۱ ص ۱۵۷)
’’نماز میں سمت قبلہ کوئی اصل حکم مذہب اسلام کا نہیں ہے۔‘‘ (ایضاً ج ۱ ص ۱۴۱)
۳۔ سرسید وحی کی حقیقت کے بارے میں لکھتے ہیں: 
’’یہ بھی مسلم ہے کہ قرآن مجید بلفظہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر نازل ہوا ہے یا وحی کیا گیا ہے، خواہ یہ تسلیم کیا جاوے کہ جبریل فرشتہ نے آنحضرت تک پہنچایا جیسا کہ مذہب عام علماء اسلام کا ہے، یا ملکہ نبوت نے جو روح الامین سے تعبیر کیا گیا ہے، آنحضرت کے قلب پر القا کیا ہے، جیسا کہ میرا خاص مذہب ہے۔‘‘ 
(ایضاً ج ۱ ص ۳)
نیز لکھتے ہیں کہ:
’’جس طرح ایک بڑھئی وغیرہ ہر آئے دن اپنے دماغ سے نئی نئی اشیا ایجاد کر کے بناتا رہتا ہے، اسی طرح نبی میں جو ملکہ نبوت ہوتا ہے، اس کے ذریعے سے وہ بھی نیکی کی راہیں بتاتا رہتا ہے اسی لیے ملکہ نبوت کے سوا کوئی اور مخلوق وحی لانے والی نہیں۔‘‘
جبریل کی حقیقت پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’پس وحی وہ چیز ہے جس کو قلب نبوت پر بسبب اسی فطری نبوت کے مبدا فیاض نے نقش کیاہے۔ وہی انتقاش قلبی کبھی مثل ایک بولنے والی آواز کے انہیں ظاہری کانوں سے سنائی دیتا ہے اور کبھی وہی نقش قلبی دوسرے بولنے والے کی صورت میں دکھائی دیتا ہے مگر اپنے آپ کے سوا نہ وہاں کوئی آواز ہے نہ بولنے والا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسی ملکہ نبوت کا جو خدا نے انبیا میں پیدا کیا ہے، جبریل نام ہے۔‘‘ (ایضاً ج ۲ ص ۲۰)
ًً’’خدا اور رسول میں بجز اس ملکہ نبوت کے جس کو ناموس اکبر اور زبان شرع میں جبریل کہتے ہیں، اور کوئی ایلچی پیغام پہنچانے والا نہیں ہوتا۔‘‘ (ایضاً ص ۲۴)
’’نبوت ایک فطری چیز ہے جو انبیا میں بمقتضائے ان کی فطرت کے مثل دیگر قواے انسانی کے ہوتی ہے۔ جس انسان میں وہ قوت ہوتی ہے، وہ نبی ہوتا ہے۔‘‘ (ایضاً ج ۱ ص ۲۳)
۴۔ سورۂ بقرہ کی آیت ربا کے تحت سرسید لکھتے ہیں :
’’اس آیت میں انہیں لوگوں کا ذکر ہے جو غریب، مسکین لوگوں سے سود لیتے تھے اور اسی سود کو جو ایسے لوگوں سے لیا جاتا تھا جو قابل رحم اور ہمدردی اور سلوک کرنے کے تھے، خدا نے حرام کیا۔‘‘ (ایضاً ج ۱ ص ۲۴۲)
مزید لکھتے ہیں:
’’ان کے سوا وہ لوگ ہیں جو ذی مقدار صاحب دولت وجاہ وحشمت ہیں اور اپنے عیش وآرام کے لیے روپیہ قرض لیتے ہیں، جائیدادیں مول لیتے ہیں، مکان بناتے ہیں اور قرض روپیہ لے کر چین اڑاتے ہیں۔ گو ان کو قرض دینا بعض حالتوں میں خلاف اخلاق ہو مگر ان سے سود لینے کی حرمت کی کوئی وجہ قرآن مجید کی رو سے مجھ کو نہیں معلوم ہوتی۔‘‘ (ایضاً ج ۱ ص ۱۴۳)
۵۔ واقعہ معراج کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ہماری تحقیق میں واقعہ معراج کا ایک خواب تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تھا۔ اسی خواب میں یہ بھی دیکھا کہ جبریل نے آپ کا سینہ چیرا اور اس کو آب زمزم سے دھویا۔‘‘ (تفسیر القرآن ج ۲ ص ۱۳۰)
نیز لکھتے ہیں 
’’ہمارا اور صاحب عقل کا بلکہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اس کو ایک واقعہ خواب کا تسلیم کرے۔‘‘ 
(ایضاً ج ۴ ص ۸۶ و ص ۱۲۲)
۶۔ سرسید کا خیال ہے کہ جنات کا ایک مستقل اور خاص مخلوق ہونا قرآن کی کسی آیت سے ثابت نہیں۔
۷۔ فرماتے ہیں کہ جس جنت کو علماء اسلام اور تمام مسلمان مانتے ہیں، وہ قرآن سے ثابت نہیں۔
اس کے علاوہ جدید سائنسی خیالات کی قرآن سے تائید مہیا کرنے کے لیے انہوں نے متعدد تحریریں لکھیں۔ مثلاً ’’خلق الانسان‘‘ لکھ کر رابرٹ چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقا اور سرچارلس لائل کی کتاب ’’انسان کا عہد پارینہ‘‘ کی تصدیق کر کے قرآنی حقائق کو مسخ کر کے رکھ دیا۔ ’’الجن والجان علیٰ ما قال فی الفرقان‘‘ میں جنات کی مخلوق کے موجود ہونے کا انکار کر کے قرآن حکیم کی سینکڑوں آیات کے مفہوم میں تحریف کر دی۔

علماء اسلام کا رد عمل

قرآن حکیم کی تفسیر کے نام پر اس کی تحریف پر مبنی یہ عقائد جب سرسید نے پیش کیے تو جلیل القدر اہل علم نے ان کی ضلالت کو بدلائل واضح کیا:
۱۔ مولانا عبد الحق حقانی ؒ نے ان عقائد کے رد میں ’’فتح المنان‘‘ المعروف تفسیر حقانی لکھ کر قرآن کریم کی ان آیات کا اصل مطلب واضح فرمایا اور تفسیر کے مقدمے میں سرسید کی تحریفات وہزلیات کے عقلی ونقلی، مدلل، ناقابل تردید اور مسکت جوابات دیے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ 
’’سید صاحب قرآن کے معنی متعارف چھوڑ کر برخلاف سلف وخلف کے الگ راہ پر چلے ہیں اور دل کھول کر اپنے آزادانہ خیالات کو دخل دیا ہے۔‘‘ (مقدمہ ص ۲۳)
۲۔ مولانا ناصر الدین محمودؒ نے ’’تنقیح البیان‘‘ میں سرسید کے گمراہ کن افکار پر سخت تنقید کی ہے۔
۳۔ حضرت مولانا محمد علیؒ نے ’’البرہان علی تجہیل من قال بغیر علم فی القرآن‘‘ میں ان افکار کی تردید کی ہے۔
۴۔ زہدی حسن جار اللہ لکھتے ہیں کہ سرسید احمد خان اور ان کے رکن رکین سید امیر علی معتزلی تھے۔
۵۔ شیعہ مفسر ابو عمار علی رئیس نے سرسید کے خیالات کے رد میں تفسیر ’’عمدۃ البیان‘‘ لکھی جس نے بڑی شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔
۶۔ علامہ عبد اللہ یوسف علی سرسید کی تفسیر کے متعلق لکھتے ہیں کہ قرآن مجید کے لفظی ترجمہ اور تشریح کے حوالے سے اس کتاب کے مندرجات کو علما کی تائید حاصل نہیں ہے۔
۷۔ مولانا وحید الزمان وقار جنگ نے لکھا کہ 
’’ایک شخص علی گڑھ میں ظاہر ہوا جس نے بہشت، دوزخ، فرشتوں سب کا انکارکیا ہے۔ پیغمبروں کے معجزوں کو شعبدہ اور طلسم قرار دیا ہے۔ قرآن کی آیتوں کی ایسی تفسیر کی جو صحابہؓ اور تابعین کے خلاف اور اہل الحاد اور باطنیوں کے طور پر ہے۔‘‘
۸۔ شیخ محمد اکرام مرحوم لکھتے ہیں:
’’سرسید احمد خان، مولوی چراغ علی اور سید امیر علی مسلمانوں کے خلاف تھے۔‘‘ (موج کوثر ص ۱۷۷)
’’سرسید احمد خان اور مرزا غلام احمد قادیانی ہم عقیدہ تھے۔‘‘ (موج کوثر ص ۱۷۹)
’’مولوی چراغ علی (متوفی ۱۸۹۵ء) سرسید کے ہم عقیدہ تھے۔‘‘ (موج کوثر ص ۱۶۶)
’’سرسید نے معراج وشق صدر کو رؤیا (خواب وخیال) کا فعل مانا ہے۔ حساب کتاب، میزان، جنت ودوزخ کے متعلق تمام قرآنی ارشادات کو بہ طریق استعارہ وتمثیل قرار دیا ہے۔ ابلیس وملائکہ سے کوئی خارج وجود مراد نہیں کہا۔ حضرت عیسیٰ کے متعلق کہا ہے کہ قرآن مجید کی کسی آیت سے ثابت نہیں ہوتا کہ وہ بن باپ کے پیدا ہوئے یا زندہ آسمانوں پر اٹھائے گئے۔‘‘ (موج کوثر ص ۱۵۹)
۹۔ خود سرسید کے پیروکار ومعتقد مولانا الطاف حسین حالیؒ لکھتے ہیں کہ سرسید نے اس تفسیر میں جابجا ٹھوکریں کھائی ہیں اور بعض مقامات پر ان سے رکیک لغزشیں ہوئی ہیں۔ (حیات جاوید ص ۱۸۴)

غزوۂ بدر کی سیاسی واقتصادی اہمیت

پروفیسر محمد یونس میو

مکہ کی تیرہ سالہ زندگی میں مشرکین نے جو دردناک اور ہوش ربا مظالم مٹھی بھر مسلمانوں پر روا رکھے اور مظلوم مسلمانوں نے جس صبر واستقلال اور معجز نما استقامت وللہیت سے مسلسل تیرہ برس تک ان ہول ناک مصائب ونوائب کا تحمل کیاٗ وہ دنیا کی تاریخ کا بے مثال واقعہ ہے۔ قریش اور ان کے حامیوں نے کوئی صورت ظلم وستم کی اٹھا نہ رکھی تاہم مسلمانوں کو حق تعالیٰ نے ان وحشی ظالموں کے مقابلے میں ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہ دی۔ صبر وتحمل کے امتحان کی آخری حد یہ تھی کہ مسلمان مقدس وطن، اعزہ واقارب، اہل وعیال، مال ودولت سب چیزوں کو خیر باد کہہ کر خالص خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کا راستہ طے کرنے کے لیے گھروں سے نکل پڑے۔ جب مشرکین کے ظلم وتکبر اور مسلمانوں کی مظلومیت اور بے کسی حد سے گزر گئی یہاں تک کہ کوئی دن خالی نہ جاتا تھا کہ کوئی مسلمان ان کے دست ستم سے زخمی اور چوٹ کھایا ہوا نہ ہوتا اور پھر اہل ایمان کے قلوب وطن وقوم، زن وفرزند، مال ودولت غرض ہر ایک ماسوی اللہ کے تعلق سے خالی اور پاک ہو کر محض خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور دولت توحید واخلاص سے ایسے بھرپور ہو گئے کہ گویا غیر اللہ کی گنجائش ہی نہ رہی، تب ان مظلوموں کو جو تیرہ برس سے برابر کفار کے ہر قسم کے حملے سہہ رہے تھے او روطن چھوڑنے پر بھی امن حاصل نہ کر سکے تھے، ظالموں سے لڑنے اور بدلہ لینے کی اجازت دی گئی:
’’اجازت دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ جاری ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔ اور اللہ یقیناًان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جاتیں۔‘‘ (الحج آیت ۶۱)
مولانا مفتی محمد شفیعؒ نے اپنی تفسیر ’معارف القرآن‘ میں لکھا ہے کہ
’’یہ پہلی آیت ہے جو قتال کفار کے معاملے میں نازل ہوئی۔ اس سے پہلے ستر سے زائد آیتوں میں اس قتال کوممنوع قرار دیا گیا تھا۔‘‘
مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے بھی اپنی تفاسیر میں ایسا ہی لکھا ہے۔
اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان دیگر اقوام اور مذاہب کا نہ صرف احترام کرتے ہیں بلکہ سیاسی غلبہ کی صورت میں ان کے جان ومال، عزت وآبرو اور عبادت گاہوں کی حفاظت کے ذمہ دار بھی ہوتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے پہلے سال ہی اوس وخزرج اور قبائل یہود وغیرہ سے ایک معاہدہ ’’میثاق مدینہ‘‘ ترتیب دیا۔ یہ دستور مسجد نبوی کی تعمیر سے بھی پہلے مرتب ہوا۔ مستشرقین نے اس دستور کا ناقدانہ مطالعہ کیا ہے۔ ویل ہاؤزن اور کستانی وغیرہ نے بہت سی شہادتیں اور دلائل پیش کرنے کے بعد اس دستاویز کو غزوۂ بدر سے پہلے کا تسلیم کیا ہے۔ اس دستورکی پچاس دفعات ہیں۔ دفعہ نمبر ۲۴، ۳۷ اور ۴۴ کے مطابق آپ ریاست مدینہ کے چیف جسٹس، سپہ سالار اور سربراہ قرار دیے گئے۔ یہ بات لائق توجہ ہے کہ مدینہ کے یہودی قبائل اور مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’رسول اللہ‘‘ مانے بغیر آپ کی متذکرہ بالا آئینی وقانونی حیثیت کو تسلیم کر لیا۔ اس دستور کے نفاذ سے اسلامی ریاست اور اس کے حلیف قبائل ایک ایسے سماجی اور سیاسی نظم کا حصہ بن گئے جس میں قبائلی امتیاز، معاشی تفوق اور سیاسی طوائف الملوکی کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ یہ معاہدہ نہ صرف سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کی بہت بڑی کام یابی تھی بلکہ معاشی اعتبار سے ان کی حکمت عملی کے دور رس نتائج مرتب ہوئے۔ اس ضمن میں دستور کی دفعات ۲۵، ۳۹ اور ۴۰ قابل ملاحظہ ہیں:
’’حالت امن میں یہود اپنے اخراجات برداشت کریں اور مسلمان اپنے اخراجات جبکہ حالت جنگ میں یہود اور مومنین مل کر اخراجات جنگ اٹھائیں گے جب تک دونوں دشمن کے خلاف حالت جنگ میں رہیں۔‘‘
یہاں یہ بات بڑی دل چسپ ہے کہ یہود مسلمانوں سے پہلے مدینے میں نہ صرف محفوظ تھے بلکہ اوس وخزرج کے بے تاج بادشاہ اب ریاست مدینہ کے تاج دار بننے والے تھے۔ مسلمانوں کی آمد سے ان کا یہ دیرینہ خواب نہ صرف ہمیشہ کے لیے پریشان ہو گیا بلکہ یہ لوگ اسلامی ریاست کے ماتحت ایک حلیف کی حیثیت میں چلے گئے۔ 
جدید اصطلاح میں آپ نے کسی بیرونی سیاسی پیش رفت سے پہلے اس وقت کی رائے عامہ کو، جو ’جوف مدینہ‘ پر مشتمل تھی، اپنے حق میں ہموار کر لیا۔ یہ داخلی سیاسی استحکام کا تقاضا تھا کہ آپ اپنے دینی اور سیاسی حریفوں اور دشمنوں پر اپنی قوت کی دھاک بٹھا دیتے۔ نیز یہ بات بھی آپ کے علم میں تھی کہ اگر مسلمان مدینہ میں محصور ہو کر بیٹھ بھی جائیں تب بھی ان کے دشمن ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ علاوہ ازیں آپ کا عالم گیر اور آفاقی مشن اب سیاسی ودفاعی مہم جوئی کی رہنمائی کر رہا تھا۔ سیرت ابن ہشام میں ہے کہ ربیع الاول ۲ھ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے جنگ کا ارادہ فرما لیا تھا۔ غالباً اس پس منظر میں آپ نے قریش کے جنگی اور تجارتی قافلوں کی نگرانی شروع کر دی تھی۔ ربیع الاول ۲ھ بمطابق ستمبر ۶۲۳ء میں آپ نے دو سو سپاہیوں کی معیت میں ’ابواء‘ کا قصد کیا جو مدینہ سے اڑتالیس میل دور ایک وادی ہے۔ طبقات ابن سعد کے مطابق آپ کے پیش نظر امیۃ بن خلف الجمعی کا قافلہ تھا جس کے ساتھ سو قریشی اور دو ہزار اونٹ تھے۔ آپ نے اس قافلے سے کوئی تعرض نہ کیا اور مدینہ لوٹ آئے۔ اسی نوع کی کچھ اور مہمات بھی مرتب ہوئیں لیکن ان مہمات کا مقصد کوئی فوجی تصادم نہ تھا بلکہ ’جوف مدینہ‘ کے قبائل سے معاہدات کرنا اور ان پر یہ ثابت کرنا تھا کہ مسلمان ایک متحرک اور بیدار قوت ہیں۔ ابواء کے مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن فحشی ضمری سے معاہدہ کیا اور ذو العشیرکے مقام پر، جو مکہ اور مدینہ کے مابین ایک مقام ہے، بنی مدلج اور بن ضمرہ سے معاہدہ کیا۔ یہ جمادی الاولیٰ ۲ھ بمطابق نومبر، دسمبر ۶۲۳ء کا واقعہ ہے۔ معروف دانش ور اور سیرت نگار جناب نعیم صدیقی صاحب نے ان کارروائیوں کے حسب ذیل مقاصد بیان کیے ہیں: ریاست مدینہ کی حفاظت، مسلمان سپاہیوں کی جنگی تربیت اور قریش کو یہ باور کرانا کہ اب ان کی معاشی شاہ رگ مدینہ کے پنجے میں آ چکی ہے اور وہ ان کی تجارتی شاہراہ کو روک کر ان کے کاروانوں کا گزر جب چاہیں، بند کر سکتے ہیں۔
سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے سورۂ انفال کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ 
’’اہل مکہ کی وہ تجارت جو اس شاہراہ کے بل پر چل رہی تھی، ڈھائی لاکھ اشرفی تک پہنچتی تھی۔ طائف اور دوسرے مقامات کی تجارت اس کے ماسوا تھی۔‘‘
گویا آپ نے اس شاہراہ کو کنٹرول کر کے قریش پر معاشی اور سیاسی دباؤ بڑھا دیا۔ 
غزوۂ بدر کے حوالے سے ’غزوہ بہ تلاش کرز بن جابر الفہری‘، ’سریہ عبد اللہ بن جحش الاسدی‘ (نخلہ) اور قریش کا مشہور تجارتی قافلہ غور طلب چیزیں ہیں۔ پھر ان کی سیاسی اور معاشی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے۔ مصنف ’’محسن انسانیت‘‘ نے اول الذکر دونوں واقعات کو غزوۂ بدر کے محرکات میں شمار کیا ہے جبکہ تجارتی قافلے کو جنگ کا دیباچہ قرار دیا ہے۔ مناسب ہوگا کہ موضوع کی مناسبت سے ان مہمات کا بحیثیت سیاسی اور معاشی اہمیت کے جائزہ لیا جائے۔
کرز بن جابر نے مدینے کی چراگاہ کو لوٹا اور مسلمانوں کے جانوروں کو بھگا کر لے گیا جس کے نتیجے میں غزوہ سفوان (ربیع الاول ۲ھ بمطابق ستمبر ۶۲۳ء) کی نوبت آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر صحابہ کے ہمراہ الفہری کا تعاقب کیا لیکن وہ بچ نکلا۔ یہ ڈاکہ زنی قطعی طور پر ایک جنگی چیلنج تھی کیونکہ کوئی زندہ اور بیدار حکومت اپنی حدود میں غیروں کی ایسی مجرمانہ مداخلت کو جنگ کے ہم معنی سمجھے بغیر نہیں رہ سکتی۔ گویا غزوہ بدر کے سیاسی اسباب میں اس واقعہ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نیز یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں نے اس واقعہ کو اپنے ذہن میں رکھا ہو اور سریہ عبد اللہ بن جحش میں جو کچھ ہوا، وہ اس کا رد عمل ہو لیکن سریہ مذکورہ کا مقصد ہرگز یہ نہ تھا بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تحریر میں فرمایا تھا کہ دو دون کے سفر کے بعد میری تحریر پڑھنا اور مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ کے مقام پر اترنا ۔ تحریر میں یہ حکم درج تھا کہ ’’قریش کے ایک قافلہ کی گھات میں لگ جاؤ اور ہمارے لیے اس کی خبروں کا پتہ لگاؤ۔‘‘ یہ روایت طبقات ابن سعد کی ہے۔ سیرت ابن ہشام میں لکھا ہے کہ ’’نخلہ میں رہ کر قریش کی کارروائیوں سے آگاہی حاصل کرتے رہو اور ان کی خبروں سے ہمیں آگاہ کرو۔‘‘ بہرحال عمرو بن حضرمی قتل ہوا اور اس کے دو ساتھی قید ہوئے۔
سریہ نخلہ (رجب ۲ھ بمطابق جنوری ۶۲۴ء) پہلی مہم ہے جس میں مسلمانان مدینہ کی ایک چھوٹی سی جماعت کو کچھ مال غنیمت حاصل کرنے میں کام یابی ہوئی۔ ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی کی تحقیق کے مطابق یہ مال غنیمت کچھ شراب ناب (خمر)، سوکھی کھجوروں (زبیب) اور کھالوں (ادم) کی غیر معینہ مقدار کے علاوہ قریش مکہ کے کچھ روایتی سامان تجارت (تجارۃ من تجارات قریش) پر مشتمل تھا۔ اس مال کے علاوہ دو قیدی بھی مسلم غازیوں کے ہاتھ لگے جن میں سے ایک نے چالیس اوقیہ چاندی یعنی ۱۶۰۰ دراہم بطور زرفدیہ ادا کر کے رہائی حاصل کی جبکہ دوسرے قیدی نے اسلام قبول کر لیا۔ ڈاکٹر صدیقی لکھتے ہیں کہ نخلہ کی حاصل شدہ غنیمت کی صحیح مالیت کا تخمینہ لگانا مشکل ہے تاہم یہ مالیت بیس ہزار درہم کی رقم ہو سکتی ہے جس کی بدولت نخلہ کی مہم میں حصہ لینے والے مسلمان جن کی تعداد ۶، ۸، ۱۲ اور ۱۳ روایت کی گئی ہے، کسی حد تک مال دار ہو گئے تھے۔ اس غنیمت کا خمس مدینہ کی ریاست کاحصہ تھا۔ ابن ہشام اور ابن سعد فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن جحش نے یہ خمس پہلے ہی نکال دیا تھا۔ 
یہاں یہ بات لائق توجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نخلہ کے مال غنیمت کو بدر کی واپسی تک موخر کیوں کیا؟ اس استفسار کا تعلق اس بحث سے ہو سکتا ہے جو بعض مستشرقین، مسلم مورخین اور مغازی نگاروں نے اٹھائی ہے اور جس میں یہ کہا گیا ہے کہ مسلمانان مدینہ نے اپنے روز افزوں اقتصادی مسائل کو حل کرنے کے لیے اور دن بدن گھٹتے ہوئے مالی ومسائل کو بڑھانے کے لیے لوٹ مار کا سہارا لیا اور بلا استثنا تمام غزوات وسرایا کا منشا ومقصد اقتصادی وسائل کی فراہمی قرار دیا ہے۔ یہاں کسی بحث میں الجھنے کے بجائے صرف غزوہ بدر اور اس سے متعلق مہمات کے بارے میں ہی بات ہوگی لیکن سیرت کے حوالے اور حالات حاضرہ کے تناظر میں کسی ممکنہ غلط فہمی کے ازالہ کے لیے ایک آدھ مستند حوالہ کی نشان دہی اپنی اخلاقی اور علمی ذمہ داری خیال کرتا ہوں چنانچہ جو صاحب غزوات وسرایانبوی کی اقتصادی اہمیت کے بارے میں تحقیق کرنا چاہیں، وہ ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی کا وقیع مقالہ ’’غزوات وسرایا کی اقتصادی اہمیت‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔ یہ تحریر نقوش کی جلد ۱۱، شمارہ ۱۳، جنوری ۱۹۸۵ء مطبوعہ ادارہ فروغ اردو لاہور کے صفحات ۳۹۸ تا ۴۶۰ پر موجود ہے۔
آئیے اب یہ دیکھا جائے کہ نخلہ کی مہم کی نوعیت اور حیثیت کیا تھی؟ نعیم صدیقی صاحب نے ’’محسن انسانیت‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’اس واقعہ کی نوعیت ویسی ہی سرحدی جھڑپوں کی تھی جیسی حکومتوں اور جنگی کمانڈروں کی مرضی کے بغیر سپاہیوں کے درمیان ہر دو ملکوں کی سرحدوں پر واقع ہوتی رہتی ہیں۔‘‘
دوسری وضاحت اس سلسلے میں یہ ہے کہ جب فاتحین نخلہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا، ’’میں نے تمہیں ماہ حرام میں کسی جنگ کا حکم نہیں دیا تھا‘‘ آپ نے اس واقعہ پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار یوں بھی فرمایا کہ آپ نے قافلے کے اونٹوں اور دونوں قیدیوں کے معاملے کو ملتوی رکھا اور اس میں سے کچھ لینے سے انکار فرما دیا تھا۔
جب قریش اور یہود کی چہ میگوئیاں بڑھیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھیوں نے ماہ حرام کو بھی حلال کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی یہ آیات نازل فرمائیں:
’’لوگ تم سے حرام مہینے میں قتال کے متعلق دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو اس میں جنگ کرنا بڑا گناہ ہے اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اللہ کے ساتھ کفر کرنا، مسجد حرام سے روکنا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا یہ سب اللہ کے نزدیک اور زیادہ جرم ہے اور فتنہ قتل سے بڑھ کر ہے۔‘‘ (۲/۲۱۷)
ابن ہشام نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ اگر تم نے انہیں ماہ حرام میں قتل کیا ہے تو انہوں نے تمہیں اللہ کے انکار کے ساتھ اللہ کی راہ سے اور مسجد حرام سے روکا ہے۔ تمہیں نکالنا جو وہاں کے رہنے والے تھے، اللہ کے ہاں اس قتل سے بڑا گناہ ہے جو تم نے ان کے کسی شخص کو کیا ہے۔ جب قرآن میں یہ حکم نازل ہوا تو اللہ نے مسلمانوں کا وہ خوف وہراس دور کر دیا جس میں وہ مبتلاتھے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلے کے اونٹوں اور قیدیوں کی طرف توجہ دی۔ ابن ہشام نے مزید لکھا ہے کہ ان آیات کے بعد عبد اللہ بن جحشؓ اور ان کے ساتھیوں کو اطمینان حاصل ہو گیا تو انہیں اجر کی امید ہوئی اور انہوں نے عرض کی ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، کیا ہم اس بات کی امید رکھیں کہ جو کچھ ہوا، یہ غزوہ تھا اور ہمیں اس کے متعلق مجاہدوں کا سا ثواب دیا جائے گا؟‘‘ تو ان کے متعلق پھر قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی:
’’بے شبہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا، یہی لوگ اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں اور وہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
ابن سعد کے ایک بیان سے بھی سریہ نخلہ کی حیثیت کے تعین میں مدد ملتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس سریہ میں عبد اللہ بن جحش کا نام امیر المومنین رکھا گیا۔
غزوہ بدر کے حوالے سے نخلہ اور قریش کے تجارتی قافلہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادوں کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھنا بھی بہت ضروری معلوم ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو قریش کے مذموم جنگی عزائم کے بارے میں کوئی شک نہیں تھا۔وہ جانتے تھے کہ قریش مناسب تیاری اور وقت کے منتظر ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ قریش کو سیاسی طور پر اس قدر مرعوب کر دیا جائے کہ وہ مدینہ پر حملے کا ارادہ ترک کر دیں اور معاشی طور پر اس قدر مفلوج کر دیا جائے کہ وہ اس اقدام کے قابل ہی نہ رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نخلہ کے بعد اس تجارتی قافلہ کا قصد فرمایا جو جنگی تیاریوں کے سلسلے میں ابو سفیان کی قیادت میں شام سے واپس آ رہا تھا۔ علامہ شبلی نعمانی فرماتے ہیں کہ اہل مکہ نے اس تجارت میں اپنا زیادہ سے زیادہ مال لگایا یہاں تک کہ غیر تاجر عورتوں تک نے اپنے زیورات اور اندوختے لا لا کر دیے۔ ابن سعد نے بھی ابو سفیان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’مرد وزن میں کوئی ایسا نہ تھا کہ جس نے اس موقع پر حصہ نہ لیا ہو۔ مدعا یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ لگا کر زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کیا جائے اور اس کی آمدنی سے ریاست مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔‘‘
قریش اس قافلے سے بڑی امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔ اس میں ایک ہزار اونٹ تھے جن پر کم از کم چالیس ہزار دینار (دو سو ساڑھے باسٹھ کلو سونا) کی مالیت کا ساز وسامان بار کیا ہوا تھا۔ قریش کا یہ قافلہ تجارت کے بجائے خود جنگی کارروائی کا دیباچہ تھا۔ یوں کہیے کہ اسلامی تحریک کا گلا کاٹنے کے لیے یہ قافلہ سونے کا خنجر لینے نکلا تھا اس لیے اہل مدینہ کے لیے بڑا زریں موقع تھا جبکہ اہل مکہ کے لیے اس مال فراواں سے محرومی بڑی زبردست فوجی، سیاسی اور اقتصادی مار کی حیثیت رکھتی تھی اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس قافلہ کی طرف جانے کی ترغیب دی: ’’یہ قریش کا قافلہ مال ودولت سے لدا چلا آ رہا ہے۔ اس کے لیے نکل پڑو۔ ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بطور غنیمت تمہارے حوالے کر دے۔‘‘ اس روایت کو ابن ہشام اور ابن سعد کے علاوہ دیگر مورخین نے بھی روایت کیا ہے۔ آپ نے طلحہ بن عبید اور سعید بن زید کو اس قافلہ کی کھوج میں بھیجا تھا۔ مسلمانوں کے لیے یہ اقدامات بتاتے ہیں کہ جنگوں میں اقتصادی حرج اختیار کرنا اور اقتصادی طور پر اپنے دشمن کو کمزور کرنا غیر شرعی نہیں ہے۔ آج کل دور جدید کی ساری جنگیں اقتصادی بنیادوں پر ہی لڑی جا رہی ہیں۔ پھرکیا وجہ ہے کہ مدینہ میں اس قافلہ پر چھاپہ مارنے کا جو رجحان پایا جاتا تھا، اس کے سلسلے میں کچھ بھی معذرت کی جائے اور کسی بھی درجے میں اس کو سیاسی یا دفاعی گناہ تصور کیا جائے۔ ’’اس قافلہ پر ہاتھ ڈالنے کے لیے اگر مسلم طاقت میں کچھ داعیہ موجود تھا تو وہ اپنی جگہ بالکل بجا تھا۔‘‘ (محسن انسانیت ص ۳۷۵)
بہرحال یہ قافلہ سالم وثابت مکہ پہنچ گیا اور جیش مکہ جس کی تعداد ایک ہزار تھی، ابو جہل کی قیادت میں بدر پہنچ گیا۔ قریشی سپاہ میں چھ سو زرہ پوش، سو سوار، بے شمار اونٹ ، اسلحہ کی فراوانی اور شراب وشباب کے سامان موجود تھے۔ قریش کے اس کبر واعجاب کا ذکر سورۂ انفال میں بھی ہوا ہے۔ اس کے مقابلے میں لشکر اسلامی کی تعداد مشہور روایت کے مطابق ۳۱۳ تھی۔ پوری فوج میں دو گھوڑے اور ستر اونٹ تھے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے مدد مانگی جس کا ذکر سورۃ الانفال کی آیت ۶ میں ہوا ہے۔ مسلمانوں کے دلوں میں جنگی حکمت عملی کے بارے میں جو بے چینی اور اضطراب تھا، وہ اللہ نے بارش اور نیند کے ذریعے سے زائل فرما دیا۔ اس واقعہ کا ذکر سورۂ انفال کی آیت ۱۱ میں ہوا ہے۔ جنگ شروع ہوئی، گھمسان کا رن پڑا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مشہور ومعروف دعا فرمائی: ’’اے اللہ اگر آج ترے یہ بندے ہلاک ہو گئے تو پھر قیامت تک تری پرستش نہ ہوگی۔ پس اے اللہ تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے، اسے پورا فرما۔‘‘ آپ نے اس قدر تضرع کے ساتھ دعا فرمائی کہ آپ کے دونوں کندھوں سے چادر گر گئی۔ حضرت ابوبکرؓ نے چادر درست کی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول، بس کیجیے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ نے فرشتوں کو وحی کی: ’’میں تمہارے ساتھ ہوں، تم اہل ایمان کے قدم جماؤ، میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا۔‘‘ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب فرمایا ’’میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کر رہا ہوں‘‘ (الانفال ۹) آپ نے اللہ کی طرف سے مدد کی خوش خبری سیدنا ابوبکرؓ کو سنائی۔ 
آپ عریشہ سے باہر تشریف لائے۔ آپ نے زرہ پہنی ہوئی تھی۔ آپ آگے بڑھتے جا رہے تھے اور آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے ’’عنقریب یہ جتھہ شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا۔‘‘ (سورہ قمر ۴۵) اس کے بعد آپ نے مٹھی بھر کنکریاں اٹھائیں اور یہ فرماتے ہیں کفار کی طرف پھینک دیں : شاہت الوجوہ (چہرے بگڑ جائیں) اور مسلمان کو حکم دیا کہ بھرپور حملہ کریں۔ کافروں کے قدم اکھڑ گئے اور ان کے بڑے بڑے سرداروں سمیت ۷۲ کافر مارے گئے۔ بدر میں کل ۱۴ مسلمان شہید ہوئے جن میں سے چھ انصار اور آٹھ مہاجر تھے۔
غزوہ بدر پہلا غزوہ تھا جس میں مسلمانوں کو مال غنیمت ملا جو ہتھیاروں، مویشیوں، گھوڑوں اور سامان رسد کے علاوہ قریشی تجارتی مال پر مشتمل تھا۔ ڈاکٹر محمد یٰسین صدیقی کی تحقیق یہ ہے کہ غنیمت میں کل ایک ہزار ہتھیار ہاتھ آئے۔ اونٹوں کی کل تعداد ایک سو پچاس تھی اور گھوڑے دس تھے۔ اس کے علاوہ دوسرا سامان کپڑا، چٹائیاں وغیرہ تھی جن کی تعداد اور مقدار کا صحیح علم نہ ہو سکا۔ اگرچہ بدر کی غنیمت کا صحیح تعین مشکل ہے تاہم ایک اندازے کے مطابق تمام اموال غنیمت کی مالیت اکتیس ہزار پانچ سو دراہم ہو سکتی ہے۔ اس ضمن میں نسبتاً قابل ذکر غنیمت وہ زر فدیہ تھا جو قیدیوں سے ان کی رہائی حاصل کرنے کے لیے حاصل ہوا۔ تمام اسیران بدر سے وصول ہونے والے فدیہ کی رقم ایک لاکھ پندرہ دراہم لکھی ہے۔ نعیم صدیقی صاحب نے یہ رقم ڈھائی لاکھ درہم بیان کی ہے۔ اگرچہ یہ جنگ قریش کے لیے ایک بہت بڑا معاشی سانحہ تھی اور مسلمانان مدینہ کو بھی اس سے کچھ نہ کچھ مالی فائدہ ہوا لیکن اس غنیمت سے تمام غازیان بدر اس وقت اتنے مال دار نہیں ہوئے تھے کہ اسے کسی معاشی انقلاب کا پیش خیمہ قرار دیا جائے۔ تاہم خلفاء راشدین کے زمانے میں جب روم وایران فتح ہوئے تو یہ مال غنیمت ہی تھا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو کچھ معاشی آسودگی حاصل ہوئی۔
بہرحال اس غزوہ کی معاشی اہمیت کے علاوہ سیاسی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مکہ کے علاوہ قبائل عرب میں ریاست مدینہ کی حیثیت مستحکم ہو گئی۔ بعض قبائل اور یہود مدینہ جنگ بدر کے بعد ہی میثاق مدینہ میں شامل ہوئے۔ بکثرت باشندگان مدینہ ایمان لائے اور بقول جناب نعیم صدیقی ’’صحیح معنوں میں اسلام معرکہ بدر کے بعد ہی ایک مسلمہ عام ریاست بنا کیونکہ اس نے اپنا سیاسی قوت ہونا بیچ کھیت منوا لیا۔‘‘ 
قرآن حکیم نے اس کے سیاسی اور معاشی اثرات کا جائزہ ان الفاظ میں لیا ہے:
’’اور یاد کرو وہ وقت جب کہ تم تھوڑے تھے اور تم کمزور خیال کیے جاتے تھے۔ تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تم کو مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمہیں اچھا رزق پہنچایا۔‘‘ (الانفال ۲۶)

تیل کی طاقت

کرسٹوفر ڈکی

تیل کے بادشاہ اب بھی سعودی ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جب تک تیل کے چشمے خشک نہیں ہو جاتے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے عرب سرمایہ داروں کی تصویر یوں پیش کی جا رہی ہے جیسے وہ تیل فروخت کرنے والی ایک زوال پذیر تنظیم کے ڈانواں ڈول مالک ہوں، جس کی طاقت دو خطروں کے باعث کمزور پڑ رہی ہے: ایک روس کی بڑھتی ہوئی تیل کی طاقت اور دوسرا عراق جو اس انتظار میں ہے کہ خلیج عرب میں سعودیہ کی جگہ لے سکے۔ 
زوال پذیر صحرائی بادشاہت کے اس خیال میں کچھ صداقت ضرور ہے۔ تیل کے حوالے سے سعودیوں کا اثر ورسوخ اب پہلے کی طرح عام اور وسیع نہیں ہے اور سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی آبادی بھی اب پہلے کی نسبت کم مال دار ہے۔ تاہم کچھ ایسے زمینی حقائق موجود ہیں جنہیں نظر انداز نہیں جا سکتا۔ سعودی عرب نہ صرف دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر کا مالک ہے بلکہ یہ وہ واحد ملک ہے جس کے پاس تیل کی اضافی مقدار مہیا کرنے کی اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ کسی بھی وقت تیل کی مارکیٹ میں ’’سیلاب‘‘ لا سکتا ہے۔ ایک سعودی افسر فخریہ کہتا ہے کہ ’’ہم کسی بھی وقت تیل کی پائپ لائنوں کو چلا کر تیل فراہم کرنے والوں دوسرے ملکوں کا ستیاناس سکتے ہیں۔‘‘
تیل کے ہتھیار کا استعمال ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ تاہم ان دنوں سعودی عرب کا رجحان اپنے صارفین‘ خصوصاً امریکہ‘ کے بجائے اپنے ساتھیوں یعنی تیل مہیا کرنے والے ملکوں(خصوصاً روس ) کا ستیاناس کرنے کی طرف زیادہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بیشتر اوقات یوں لگتا ہے جیسے سعودی عرب اور امریکہ نے توانائی فراہم کرنے والے دوسرے ملکوں کو نقصان پہنچانے کے لیے آپس میں خفیہ اتحاد کر رکھا ہو اور حقیقت بھی یہی ہے۔ ۱۹۹۱ء میں خلیجی جنگ کے اختتام کے بعد سے ریاض اور واشنگٹن تیل فروخت کرنے اور خریدنے کے حوالے سے ایک غیر اعلان شدہ عالمی اتحاد کے مشترک لیڈر بن چکے ہیں جن کا مقصد تیل کی قیمتوں کو اس ممکن حد تک متوازن رکھنا ہے جس سے فریقین میں سے کسی کو بھی زیادہ خسارہ نہ اٹھانا پڑے۔ عالمی معیشت کو سہارا دینے میں اس حقیقت کا ایک نہایت اہم کردار ہے۔ تاہم بیشتر امریکیوں کے لیے یہ ایک حیران کن بات ہوگی جو ابھی تک سعودی عرب کو ۷۰ء میں تیل کی فراہمی بند کر دینے والے ایک دشمن کی نظر سے اور (۱۱ ؍ ستمبر کے) حالیہ ہول ناک واقعات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
تیل کی منڈی کے علاوہ دنیا میں کوئی حقیقی عالمی منڈی موجود نہیں ہے۔ یہ ایک مائع شے ہے جس کی نقل وحمل پورے کرہ ارضی پر پھیلے ہوئے برآمد کنندگان اور صارفین کے مابین بہت آسان ہے۔ طلب اور رسد میں معمولی سا عدم توازن بھی پوری دنیا کو مضطرب کر دیتا ہے۔ سعودی عرب کے پاس اب تک دریافت شدہ تیل کے ذخائر کا چوتھا حصہ ہے اور اس وقت وہ تیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔جبکہ امریکہ تیل صرف کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جو کل تیل کا تقریباً تیسرا حصہ روزانہ صرف کرتا ہے۔ چنانچہ دونوں ملکوں کے درمیان مفادات کا ایک واضح اشتراک پایا جاتا ہے جس کا ادراک اس وقت سے کر لیا گیا تھا جب صدر فرینکلین روزویلٹ اور سعودی عرب کے فرمانروا عبد العزیز بن سعود‘ جنہوں نے ملک کا نام سعودیہ رکھا‘ کے مابین ۱۹۴۵ء میں Great Bitter Lake میں ملاقات ہوئی اور ایک تزویراتی اتحاد کی بنیاد رکھی گئی۔ روزویلٹ نے کانگریس کو بتایا کہ ’’میں نے ابن سعود کے ساتھ پانچ منٹ کی ملاقات میں اس سے کہیں زیادہ حقائق معلوم کر لیے ہیں جو دو یا تین درجن خطوط کے تبادلے کے بعد میرے علم میں آتے۔‘‘ اس وقت سے اب تک امریکی صدور اور سعودی فرماں رواؤں کے مابین غیر تحریری معاہدے دونوں ملکوں کے تعلقات کے لیے کلید کا کام انجام دیتے رہے ہیں۔ ایک سعودی افسر کا کہنا ہے کہ ’’ہم دونوں اپنے اپنے مفادات سے آگاہ ہیں۔ ہمارے مابین مخصوص اختلافات بھی ہیں اور اتفاق کے مخصوص نکات بھی۔‘‘
پچھلے دس سال میں اس غیر اعلان شدہ اتحاد میں کافی گرم جوشی پیدا ہو گئی تھی تاہم ۱۱ ؍ستمبر کے واقعات کے بعد اس کا مستقبل غیر امید افزا دکھائی دینے لگا تھا۔ ہر نقطہ نظر کے امریکی سیاست دانوں نے ’’بیرونی تیل سے چھٹکارا‘‘ حاصل کرنے کی دہائی دینا شروع کر دی جس کا مطلب عمومی طور پر عرب اور خاص طور پر سعودی تیل سے چھٹکارا حاصل کرنا لیا گیا۔ امریکی اس پر بے حد ناراض تھے کہ اسامہ بن لادن اور ہائی جیکروں میں سے اکثر کی پیدائش اور پرورش سعودی عرب میں ہوئی تھی۔ اور سعودی بھی خوف ودہشت کی حالت میں دیکھتے رہے کہ واشنگٹن فلسطینیوں کے خلاف جنگ میں ایریل شیرون کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ ایک بااثر سعودی کا کہنا ہے کہ ’’ایک ایسی مارکیٹ کے ساتھ معاملہ کرنا جو مسلسل عرب دنیا کے بارے میں نفرت کا رویہ اپنائے ہوئے ہے‘ ہمارے لیے آسان نہیں ہے۔‘‘
اس کے باوجود واشنگٹن اور ریاض ایک دوسرے پر اتنا ہی انحصار رکھتے ہیں جتنا کہ ایک ’جوڑے‘ کا ایک دوسرے پر ہو سکتا ہے۔ ان کے تعلقات کو مجبوری‘ اتحاد یا باہمی مفاد میں سے کوئی بھی نام دے لیجیے‘ واقعہ یہی ہے کہ سعودی اور امریکی ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ امریکی مارکیٹ کے لیے سعودی عرب بیرونی تیل کا سب سے بڑا ذریعہ ہے تاہم باہمی انحصار کی یہ صرف ایک وجہ ہے۔ دوسرے بہت سے ملک بھی‘ جن کی تعداد مجموعی طور پر ۶۰ ہے‘ روزانہ ۷۶ ملین بیرل سے زیادہ تیل نکالتے ہیں لیکن تقریباً سب کے سب بے حد تیزی کے ساتھ زمین سے نکالے ہوئے تیل کے ہر قطرے کو یا تو استعمال کر لیتے ہیں یا درآمد کر دیتے ہیں۔ سعودی عرب کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ وہ مختصر عرصے میں تیل کی روزانہ سپلائی کی موجودہ مقدار (سات اعشاریہ دو ملین بیرل) کو بڑھا کر دس اعشاریہ پانچ ملین بیرل تک لے جا سکتے ہیں تاکہ بحران کے زمانے میں قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ نہ ہو ۔ مڈل ایسٹ اکنامک سروے کے ایڈیٹر ولید خدوری کا کہنا ہے کہ ’’ بنیادی طور پر یہی بات عالمی معیشت کی حفاظت کی ضامن ہے۔‘‘
چنانچہ امریکہ کو عرب کے تیل کی احتیاج سے نکالنے سے متعلق امریکی صدر اور پریس کی باتوں کو بہت زیادہ سنجیدگی کے ساتھ نہیں لینا چاہیے۔ اس سے امریکہ کی تیل کی سپلائی کا معاملہ غیر محفوظ ہی ہوگا نہ کہ محفوظ اور امریکی انتظامیہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہے۔ ذرا سوچیں کہ گیارہ ستمبر کے فوراً کی صورت حال میں سعودی عرب نے کیا کردار ادا کیا؟ میڈیا میں کسی قسم کی تشہیر کے بغیر لیکن گہرے اثرات مرتب کرتے ہوئے انہوں نے اپنے ساتھی ملکوں کے ساتھ معاہدے میں طے شدہ کوٹے کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگلے دو ہفتے تک وہ امریکہ کو اضافی پانچ لاکھ بیرل تیل روزانہ سپلائی کرتے رہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ مشرق وسطیٰ کے عظیم بحران کے عین وسط میں، جو کہ تیل کی قیمتوں میں بے حد اضافے کا موجب ہو سکتا تھا، تیل کی قیمت حملے کے کچھ ہفتے بعد ۲۸ ڈالر فی بیرل کی سابقہ قیمت سے گر کر ۲۰ ڈالر فی بیرل تک آچکی تھی۔ سعودی عرب کے علاوہ اور کون ایسا کر سکتا تھا؟ واقعہ یہ ہے کہ کوئی بھی نہیں۔
اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ ان کے پاس بہت زیادہ تیل ہے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ ان کے لیے اسے زمین سے نکالنا بے حد آسان اور سستا ہے۔ سعودیہ کا خام تیل نکالنے کا خرچ فی بیرل ۲ ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ امریکہ کے کنووں سے اتنا تیل نکالنے پر اس سے دو گنا اور روس میں تین گنا خرچ آتا ہے۔ یقیناًانگولا سے لے کر الاسکا تک نئے نئے ذخائر مسلسل دریافت ہو رہے ہیں اور نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے سمندر کی تہہ، زمین کی تہہ اور کینیڈا اور وینزویلا کے صحراؤں میں پائے جانے والے مشکل الحصول تیل کو نکالنے کا خرچ بھی کم ہوتا چلا جائے گا، لیکن یہ ذرائع سعودی تیل کے مقابلے میں ہمیشہ مہنگے رہیں گے اور منافع کی اسی شرح میں سعودیہ کے موجودہ اور مستقبل کے اثر ورسوخ کا راز مخفی ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ امریکی سعودی تعلقات ہمیشہ دوستانہ نہیں رہے۔ ۱۹۷۳ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران میں شاہ فیصل نے اسرائیل کی حمایت کی پاداش میں امریکہ کو تیل کی سپلائی بند کر دینے کا فیصلہ کیا۔ اوپیک ممالک نے بھی اس فیصلے کی تائید کی اور تمام تیل فراہم کرنے والے ممالک نے بھاری منافع کمایا۔ تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ توڑ اضافے سے پوری دنیا کی معیشت کو شدید جھٹکے لگے۔ امریکیوں نے بڑی کاریں چھوڑ کر چھوٹی کاریں خرید لیں جو کم تیل خرچ کرتی تھیں۔ تاہم ۱۹۷۹ء کے آتے آتے، جب ایران میں خمینی انقلاب کی وجہ سے تیل کی قیمتوں کو دوسرا جھٹکا لگا، سعودی عرب کے لیے اس بحران کو حل کرنے میں ایک اور دل چسپی پیدا ہو چکی تھی۔ وہ یہ کہ ۱۹۷۰ء کی صورت حال سے حاصل ہونے والے غیر معمولی اور غیر متوقع منافع کا بیشتر حصہ انہوں نے مغرب میں اور خصوصاً امریکہ میں سرمایہ کاری میں لگا رکھا تھا۔ چنانچہ امریکی معیشت کے نقصان میں اب خود ان کا اپنا نقصان تھا۔(۱۹۷۳ء کے بائیکاٹ کے سخت ترین زمانے میں بھی سعودی، خفیہ طریقے سے Mediterranean میں امریکی بحرے بیڑے کو تیل مہیا کرتے رہے)
۱۹۸۰ء تک اوپیک کی طاقت کمزور پڑنا شروع ہو چکی تھی۔ اس کی ایک وجہ تو انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی تنظیم کا قیام تھا جس نے امریکہ اور تیل کے دوسرے صارفین کو خریداروں کے مشترکہ مقاصد کے حوالے سے اکٹھا کر دیا تھا۔ نیز ۷۰ء کے جھٹکوں نے پٹرول کے علاوہ توانائی کے دوسرے ذرائع میں دل چسپی کو بڑھا دیا تھا مثلاً North Sea میں گہرے سمندر میں تیل کی تلاش، نیوکلیئر توانائی، حتیٰ کہ پن چکیوں کے ذریعے سے توانائی کے حصول پر بھی ازسر نو غور کیا جانے لگا۔ اسی اثنا میں سوویت یونین کے زوال سے Caspian Sea میں موجود تیل کے بہت بڑے ذخیرے کے مغرب کی دسترس میں آنے کا امکان پیدا ہو گیا جس سے اوپیک کی طاقت مزید کمزور ہوگئی۔ 
سعودی عرب اور اس کے ہم سایے کویت کے ساتھ، جو مشرق وسطیٰ میں سعودیہ کے بعد تیل کا سب بڑا ایکسپورٹر ہے، امریکہ کے تعلقات ۸۰ء کی دہائی کے اواخر اور ۹۰ء کی دہائی کے آغاز میں اور مضبوط ہو گئے۔ (حسب سابق یہ بھی کسی تحریری معاہدے کے بجائے باہمی مفاہمت پر مبنی تھے) ۸۷ء اور ۸۸ء میں امریکہ نے کویت کو اپنے ٹینکرز پر امریکی جھنڈے لگانے کی اجازت دے دی اور پھر ان ٹینکروں نیز ایران سے سعودی عرب تک تیل کے نقل وحمل کی حفاظت کے لیے ایک بحری بیڑا بھیج دیا۔۱۹۹۰ء میں جب صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا اور سعودی عرب کو بھی دھمکیاں دینا شروع کر دیں تو امریکہ نے ایک عظیم اتحاد قائم کر کے عراق پر حملہ کر دیا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد امریکی فوجی دستے دونوں ملکوں میں متعین کر دیے گئے جو آج بھی وہاں موجود ہیں۔ گزشتہ ماہ امریکہ کے نائب صدر ڈک چینی جدہ گئے جہاں انہوں نے ولی عہد شہزادہ عبد اللہ کے ساتھ تازہ ترین علاقائی اکھاڑ پچھاڑ پر تبادلہ خیال کیا۔ 
تعلقات کی اس بنیاد کے ساتھ تیل کے باثروت صارف ملکوں، جن کی قیادت امریکہ کے ہاتھ میں ہے، اور اوپیک کے مابین، جن کی قیادت سعودی عرب کر رہا ہے، ایک تزویراتی مفاہمت پیدا ہو چکی ہے۔ ان کے مابین وقتاً فوقتاً مشاورت ہوتی رہتی ہے بلکہ سعودی عرب اس بات کی کوشش بھی کرتا رہتا ہے کہ صارف تنظیموں کے ساتھ باقاعدہ تعلقات قائم کیے جائیں۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے ممتاز تجزیہ نگار کلاس ری ہاگ (Klaus Rehaag) کا کہنا ہے کہ ’’امریکہ کو اپنی تیل کی رسد کی فکر ہے اور اوپیک کو طلب کے متوازن رہنے کی۔‘‘
قیمتوں میں اب بھی اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے جو کبھی کبھی کافی شدید ہوتا ہے۔ عین وقت پر حساب کتاب کے اس زمانے میں تیل کی سپلائی میں تاخیر اچھا خاصا دھچکا پہنچا سکتی ہے۔ یہی صورت حال طلب میں اچانک کمی سے پیدا ہوتی ہے۔ ۱۹۹۷ء میں ایشیا کے معاشی بحران سے تیل کی قیمتیں گر کر ۱۰ ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئیں۔ سعودی عرب اور دوسرے اوپیک ممالک نے تیل کی سپلائی میں کمی کر دی اور ۲۰۰۰ ء کے آغاز میں ایک مختصر عرصے کے لیے قیمتیں ۳۵ ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئیں۔ تاہم سعودیوں کے مطابق ۱۸ سے ۲۰ ڈالر فی بیرل کی قیمت بہترین ہے اور وہ تیل کی قیمت کو اسی کے قریب قریب رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہرحال، اگر افراط زر کے لحاظ سے تیل کی قیمت کا موازنہ کیا جائے تو امریکی آج بھی گیس پمپ پر اتنی ہی ادائیگی کرتے ہیں جتنی وہ ۷۳ء کے تیل کے بحران سے پہلے کیا کرتے تھے۔ اور قیمتوں میں غیر متوقع اتارچڑھاؤ کا امکان بھی آج پہلے کی نسبت کہیں کم ہے۔
دوسرے صارفین کے مقابلے میں امریکہ سے فی بیرل ایک ڈالر کم قیمت وصول کر کے سعودی اپنے امریکی دوستوں کو خوش ( اور محتاج) رکھنے کی خصوصی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی بڑی شرح منافع کے پیش نظر وہ سمجھتے ہیں کہ آمدنی میں ایک ڈالر کا نقصان وہ خیر سگالی کے جذبات کی صورت میں پورا کر لیتے ہیں۔ صدام اور دوسرے حملہ آوروں سے حفاظت کی یہ ایک معقول قیمت ہے۔ اور اگر ایک طرف امریکہ نیوکلیئر، حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کو صدام کی دسترس سے باہر رکھنے کے متعلق فکر مند ہے، تو دوسری طرف سعودی عرب اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ تیل کا ہتھیار بھی صدام کے ہاتھ میں نہ آنے پائے۔ ۲۰۰۰ء میں صدام نے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے لیے اپنی تیل کی سپلائی منقطع کر دی تو سعودی عرب نے فوراً پائپ لائن کو چلا کر اس کمی کو پورا کر دیا۔
کیا سعودی عرب ناقابل تسخیر ہے؟ بعض دفعہ یوں لگتا ہے کہ سعودی ایسا سمجھتے ہیں۔ سعودی وزارت تیل کے ایک سابق آفیسر نے نیوز ویک سے کہا کہ ’’تم لوگ تیل کا متبادل ڈھونڈ رہے ہو؟ یہ محض خوش کن باتیں ہیں۔ فرض کرو کہ تم توانائی کے کسی متبادل ذریعے کی قیمت کا ایک ہدف مقرر کرتے ہو (جو تیل کی موجودہ قیمت سے کم ہو) اور ہم تیل کی قیمت کو اس سے بھی کم کر دیتے ہیں تو تمہاری ساری سرمایہ کاری بالکل برباد ہو کر رہ جائے گی۔‘‘
یہ بات خارج از امکان نہیں کہ روس سعودی عرب کی جگہ تیل کا سب سے بڑے فراہم کنندہ بن جائے۔ تاہم انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اپنی انڈسٹری کو جدید بنانے کے لیے درکار کئی بلین ڈالر کی سرمایہ کاری میں کشش پیدا کرنے کے لیے روس کو بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا خاتمہ کرنا پڑے گا۔ اگر وہ ایسا کر لے، نیز تیل نکالنے کے لیے نئی پائپ لائنیں اور بندرگاہیں تعمیر کر لے،اپنی سیاسی صورت حال کو مستحکم بنا لے اور پھر اس کا نکالا ہوا تیل اس کی اپنی ملکی معیشت کی ترقی کی وجہ سے اندرون ملک میں ہی صرف نہ ہو جائے تو صرف اس صورت میں وہ سعودی عرب پر برتری حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن اس کا امکان اتنا ہی ہے جتنا اس بات کا کہ امریکی قناعت پسندی کا رویہ دوبارہ اختیار کر لیں اور چھوٹی کاریں چلانا شروع کر دیں۔ اس وقت تک ان کے لیے ’’بیرونی تیل سے نجات‘‘ حاصل کرنے کا کوئی امکان نہیں۔
(نیوز ویک، ۸ اپریل ۲۰۰۲ء)

مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کا حادثہ وفات

امین الدین شجاع الدین

دو تین برسوں سے جس سانحہ کا کھٹکا لگا ہوا تھا، وہ بالآخر پیش آ کر رہا۔ دنیا ہی فانی ہے اور اک دن جان سب کی جانی ہے۔ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی (۱۹۳۶ء ۔ ۲۰۰۲ء) بھی وہاں چلے گئے جہاں ایک نہ ایک روز سب کو جانا ہے اور زمین اوڑھ کر سو جانا ہے۔ ع
آج وہ، کل ہماری باری ہے
لیکن قاضی صاحب کی موت ایک فرد کی نہیں، ایک فرد فرید کی موت ہے، ایک فقیہ کی موت ہے۔ ایسا فقیہ جو صرف لغوی اعتبار سے ہی فقیہ نہیں تھا بلکہ معنوی لحاظ سے بھی واقعتا فقیہ تھا۔ قسام ازل نے جس کو بیدار مغز ہی نہیں بخشا تھا بلکہ اس کے سینے میں دل دردمند بھی رکھا تھا اور جسے تڑپنے پھڑکنے کی توفیق بھی بخشی تھی۔
قاضی صاحب بنیادی طور سے ایک عالم دین تھے۔ مدرسہ کی چٹائی پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ خدا کی دین اور عطا ہے، وہ جسے چاہے بخش دے۔ قاضی صاحب کے نصیبے میں دین کی سوجھ بوجھ آئی۔ وہ تفقہ کہ جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین۔ اللہ رب العزت جس کے بارے میں خیر کا معاملہ کرنا چاہتے ہیں، اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتے ہیں۔ تو یہ نعمت قاضی صاحب کے حصے میں آئی گویا خیر کے سرچشمے سے اکتساب فیض کا فیصلہ ہوا۔ یہ شریعت اسلامی کا سرچشمہ ہے اور شریعت اسلامی کا سرچشمہ ایسا سرچشمہ ہے جہاں پہنچنے والا محض پیتا نہیں، پلاتا بھی ہے اور لٹاتا بھی ہے۔ قاضی صاحب شریعت مطہرہ کے اس سرچشمہ سے نہ صرف خود سیراب ہوئے بلکہ ساقی بن گئے اور فصل گل کی تمنا میں مے دل فروز پلاتے چلے گئے۔
کسی بھی شخصیت کا مطالعہ کرتے وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی شخصیت سازی کے عناصر ترکیبی کیا تھے۔ ان کے والد ماجد مولانا عبد الاحد قاسمی حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے شاگرد رشید تھے۔ عالم ربانی شیخ الہند کے شاگرد نے رات کی تنہائیوں میں بھی اپنے لخت جگر کے لیے یقیناًخدا کے حضور ہاتھ پھیلائے ہوں گے۔ قاضی صاحب کے دامن میں فقہی فراست وبصیرت اور ملی درد وکرب کے کھلے ہوئے گل ولالہ ایسی مناجاتوں کا اشارہ دیتے ہیں۔ ان کی تعلیم دار العلوم دیوبند میں بھی ہوئی جو محض ایک دار العلوم کا نہیں، ایک مشن اور تحریک کا نام تھا اور جس کی بنیاد ان خدا ترس ہاتھوں نے ان ارادوں سے رکھی تھی کہ سرزمین ہند میں اسلام کے چراغ کی لو مدھم نہ پڑنے پائے بلکہ تیز سے تیز تر ہوتی چلی جائے۔ قاضی صاحب کو امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی جیسے شخصیت ساز بزرگ کا سایہ نصیب ہوا۔ ماضی قریب کی وہ شخصیتیں جنہوں نے افراد سازی جیسے پتہ ماری اور جگر کاوی کا کام کیا، ان میں ایک نمایاں نام حضرت امیر شریعت کا بھی ہے۔ وہ جوہری تھے چنانچہ ان کی جوہر شناس نگاہ نے دیکھا کہ مجاہد الاسلام میں اسلام کا واقعی ایک مجاہد چھپا ہوا ہے۔ 
اہل نظر جانتے ہیں کہ صلاحیتوں کے پروان چڑھنے اور ان کے برگ وبار لانے کے لیے فضا درکار ہوتی ہے، میدان درکار ہوتا ہے۔ قدرت کو قاضی صاحب سے کام لینا مقصود تھا چنانچہ یہ مواقع بھی انہیں ودیعت کیے جاتے رہے۔ وہ مسند درس پر بھی بیٹھے اور امارت شرعیہ پھلواری شریف میں قاضی کے منصب پر بھی فائز ہوئے مگر قاضی کا یہ منصب پھولوں کی نہیں، کانٹوں کی سیج ہوا کرتا ہے۔ یہاں زندگی کے حقائق بے لباس ہو کر آتے ہیں۔ ہمہ وقت مسائل کا سامنا ہوتا ہے، تلخیوں سے واسطہ پڑتا ہے اور پھر مسائل بھی بہار جیسے پس ماندہ صوبے کے۔ قاضی صاحب چاہتے تو مدرسہ کی چہار دیواری میں اپنے لیے گوشہ عافیت ڈھونڈ لیتے۔ مدارس بھی انہیں سرآنکھوں پر بٹھاتے۔ تدریس میں شاہانہ مزاج کی تسکین کا پورا سامان بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ جہاں کو جب نظر بند کر دیا گیا تو اس نے بھی چند شاگردوں کے جلو میں رہنے کی تمنا ظاہر کی تھی مگر قاضی صاحب نے سہولت پسند طبیعت نہیں پائی تھی بلکہ موج حوادث سے گزرنے میں ہی انہیں لذت ملتی تھی چنانچہ کئی دہائیوں تک وہ قاضی کے فرائض انجام دیتے رہے اور اس وجہ سے انہیں ملت کی دینی ومعاشرتی حقیقی صورت حال کا اندازہ ہوتا رہا۔ قاضی کے منصب کے سرد وگرم کو جھیل کر انہوں نے نہ صرف قضا کے اس عہدہ کے ساتھ انصاف کیا بلکہ زیادہ سچی بات یہ ہے کہ انہوں نے خود اپنے ساتھ اور ملت کے ساتھ بھی انصاف سے کام لیا۔ امارت شرعیہ میں قاضی کا یہ منصب ان کے لیے ایک ایسی بھٹی ثابت ہوا جہاں سے تپ کر وہ کندن بن کر نکلے، مسائل کی آنچ نے ان میں وہ پختگی پیدا کر دی جو ایک مجاہد کی شان اور اس کا نشان ہوا کرتی ہے۔
پھر ملت پر وہ وقت آیا جب اس کے پرسنل لا پر نظریں اٹھیں اور یکساں سول کوڈ کے نام پر اس کے ملی تشخص کو پامال کر دینے کی کوششیں ہوئیں۔ دین کا حق تھا کہ اس کے علما اس موقع پر بے قرار ہو اٹھیں اور اس سرمایہ کی پاسبانی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں چنانچہ علما عالمانہ شان اور مجاہدانہ آن بان کے ساتھ اٹھے اور آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ دیکھنے میں آیا کہ بلا تفریق مسلک ومشرب ملت علما ودانش ور تحفظ شریعت کے لیے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ بیدار مغز علما کے اس کارواں کے ایک فرد فرید مولانا مجاہد الاسلام قاسمی بھی تھے۔
امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانیؒ ، مفکر اسلام مولانا علی میاں ندویؒ اور حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ اور دوسرے اکابر کا انہیں اعتماد حاصل رہا۔ قاضی صاحب کو خدا کی عطا کردہ فقہی فراست وبصیرت ملت کے کام آئی اور فقہ اسلامی بلکہ اسلامی تعلیم کی عظمت وبرتری کا سکہ ماہرین قانون اور عصری تعلیم یافتہ طبقہ کے دلوں پر بھی ثبت اور نقش ہوتا چلا گیا۔
ملی کونسل کے پلیٹ فارم سے انہوں نے اتحاد ملت کے اپنے اسی درس کو پوری قوت سے دہرایا جس درس کو انہوں نے امارت شرعیہ سے سیکھا تھا اور جس کو مولانا ابو المحاسن سجادؒ کی کتاب زندگی سے سیکھا تھا۔ انہوں نے چاہا کہ بحیثیت خیر امت اس ملک میں مسلمانوں کو کلمہ کی بنیاد پر کھڑا کرنا ہے اور جوڑنا ہے۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ ’’ملت کا سب سے بڑا مسئلہ شعور ذات کا مسئلہ ہے۔ یہ امت اپنے کو پہچانے، اپنے منصب کو پہچانے اور اس کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ جس وقت یہ امت اپنے کو پہچان لے گی اور دنیا کو یہ باور کرا دے گی کہ اس کا سودا محال ہے، اس وقت امت کا مسئلہ قابو میں آئے گا۔‘‘
قاضی صاحب کا موضوع فقہ تھا۔ ان کی فقاہت کو دنیا نے تسلیم کیا۔ اس لحاظ سے وہ جس مقام ومرتبہ کے حامل تھے، اس کاحق تھا کہ جدید شرعی اور فقہی مسائل میں امت کی رہبری ورہنمائی کے لیے وہ کوئی قدم اٹھاتے۔ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا قیام قاضی صاحب کا ایک عظیم کارنامہ ہے۔ اس پلیٹ فارم کی ندرت یہ ہے کہ جدید مسائل کا شرعی حل تلاش کرنے کے لیے علما اور اصحاب افتا کے شانہ بشانہ علوم عصریہ کے ماہرین بھی دکھائی پڑتے ہیں۔ فقہ اکیڈمی نے علما اور طلبا میں بحث وتحقیق کامزاج پیدا کیا اور اس کے سیمیناروں میں مسائل پر جس طرح بحثیں ہوئیں، اس نے مدارس میں تبدیلی پیدا کی، فقہ کی طرف ذہن راغب ہوا اور نئی نسل میں بھی یہ احساس جاگا کہ کس طرح ہمارے قدیم علما واصحاب افتا کس قدر محنت، جگر کاوی اور اخلاص ولگن سے جدید پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کرتے تھے۔ فقہ اکیڈمی کی صدا نے اس سناٹے پر ضرب لگائی۔ مورخ جب علمی وفقہی تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو وہ فقہ اکیڈمی کو فراموش نہیں کر سکے گا۔ ان کی ادارت میں نکلنے والے مجلہ ’بحث ونظر‘ نے علمی وفقہی دنیا میں اپنی ایک شناخت قائم کر لی۔ 
بات ادارت کی آئی ہے تو قاضی صاحب کی تالیفات وتصنیفات کا بھی تذکرہ ضروری ہو گیا ہے۔ اگرچہ یہ موضوع اہل علم اور اصحاب افتا کا ہے لیکن دیکھنے اور یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ قاضی صاحب مرد میدان تھے، ان کے مشاغل کی نوعیت تحریکی بھی تھی، وہ اپنی تالیفات وتصنیفات اور تحقیقی کاموں کا ایک خزینہ چھوڑ گئے۔ فقہ اسلامی کے علاوہ انہوں نے مولانا ابو المحاسن سجادؒ کے علوم وافکار پر بھی اپنی تصنیفات چھوڑیں۔
قاضی صاحب مولانا بو المحاسن سجادؒ کو اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے۔ ان کی آئیڈیل شخصیتوں میں ایک نمایاں نام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کا بھی ہے۔ حضرت مولانا کی ذات والا صفات سے انہیں شروع ہی سے والہانہ لگاؤ اور شیفتگی رہی یہاں تک کہ اپنی طالب علمی کے زمانے میں سجاد لائبریری کے ذمہ دار کی حیثیت سے انہوں نے حضرت مولانا کو دیوبند مدعو کیا۔ ’’طالبان علوم نبوت اور اس کے عالی مقام حاملین‘‘ حضرت مولانا کی وہ تقریر ہے جو اسی موقع کی یادگار ہے۔ قاضی صاحب کو ندوہ اور اس کی فکر سے بھی گہری مناسبت تھی جس کا ایک عملی ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کاموں کے لیے ندوی فضلا کو منتخب کیا اور ان پر اعتماد کیا۔ حضرت مولانا کی فکر کا انہوں نے نہ صرف مطالعہ کیا بلکہ عملی سطح پر اسے برت کر دکھایا بھی۔ حضرت مولانا کے افکار قاضی صاحب کے فکر وعمل پر مرتب ہوئے بغیر نہیں رہے۔
وہ قدرت کی طرف سے دل دردمند، ذہن ارجمند اور زبان ہوش مند لے کر آئے تھے۔ انہوں نے اپنی تمام تر توانائیوں کو دین وملت کے لیے وقف کر دیا۔ وہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر بھی ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب ان کی علالت شدت اختیار کر چکی تھی اور ان کی زندگی کی طرف سے مایوسی ہونے لگی تھی لیکن قاضی صاحب کی لغت میں مایوسی کا لفظ نہیں تھا۔ ایک طرف ملت سخت آزمائشوں سے دوچار تھی تو دوسری طرف قاضی صاحب بیماریوں اور آزاروں سے نڈھال لیکن ان کے سینے میں ایک مجاہد کا جگر تھا اور وہ مجاہد ہی کیا جو زندگی کے آخری سانس تک لڑنے کا فیصلہ نہ کرے۔ ان کے دور میں مجموعہ قوانین اسلامی کے مسودہ کی اشاعت عمل میں آئی اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی منظر عام پر آیا جسے ان کے دور صدارت کا ایک عظیم تحفہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
افسوس کہ قاضی صاحب کی وہ ذات جو ملت کے حق میں نعمت اور تحفہ تھی، اب نہیں رہی۔ 
فاضل جفاکشان محبت کی موت کیا
جب تھک گئے تو سو گئے آرام کے لیے
البتہ ان کی خوبیاں باقی اور نیکیاں زندہ رہیں گی۔ غیر معمولی ذہانت کے ساتھ اخلاص وبے نفسی ان کا سرمایہ تھا۔ خوئے دل نوازی کی ادا نے ان سے افراد سازی کا بڑاکام لے لیا۔ وہ تیز وتند ہواؤں میں بھی چراغ جلائے رکھنے کے ہنر سے واقف تھے۔ اللہ پر توکل ان کا زاد سفر تھا۔ تفہیم کی غیر معمولی صلاحیت پائی تھی۔ رسوخ فی العلم اور تفقہ فی الدین کی دولت ان کو نصیب ہوئی تھی جس سے ان کے لیے نئے زمانے میں نئے حالات کے مطابق دین کی ترجمانی کا مشکل کام آسان ہو گیا۔ اجتماعیت ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ وہ اختلاف رائے کو نہ صرف انگیز کرتے تھے بلکہ اسے پسند بھی فرماتے تھے۔ ع
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
بہرحال ایک نعمت تھی جو اٹھا لی گئی اور ایک تحفہ تھا جسے ہم نے کھو دیا مگر قاضی صاحب دنیا کی آلائشوں اور غم وآلام سے آزاد ہو کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔ اللہ کی کریم ذات سے دعا بھی ہے اور امید بھی کہ ربانی دسترخوان پر ان کے لیے نعمتیں چنی گئی ہوں گی اور ملت کی کشتی کا کھیوان ہار اپنی مراد کو پہنچ گیا ہوگا یعنی ان کا رب ان سے راضی ہو گیا ہوگا۔
ملت کو ایک بار پھر آزمائش کی گھڑی کا سامنا ہے اور قاضی صاحب کی روح علما سے پوچھ رہی ہے:
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد
(بہ شکریہ ’تعمیر حیات‘ لکھنو)

آہ! حضرت مولانا مفتی رشید احمدؒ

حافظ مہر محمد میانوالوی

ابھی حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری مہاجر مدنی ؒ کا صدمہ وفات قلب حسرت ناک سے جدا نہیں ہوا تھا کہ شہید امارت اسلامیہ افغانستان اور انقلاب طالبان کے عظیم مربی اور محسن حضرت مولانا مفتی رشید احمد بھی داغ مفارقت دے کر مولائے حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
دنیا مسافر خانہ اور موت کی گاڑی کا پلیٹ فارم ہے۔ یہاں لاکھوں کے آنے جانے کا سلسلہ جاری ہے مگر کچھ ہستیاں اس سرائے کو نیکیوں کو چمنستان بنا کر یادگار چھوڑ جاتی ہیں۔ بلاشبہ حضرت مفتی صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن باطل شکن تھے۔ بیک وقت مدرس، مفتی، محدث، مصلح، مجاہد، مدبر حق گو، بدعات شکن، شیخ ومرشد، قائد جہادی تنظیمات، حاتم غربا ومساکین اور انقلاب افغانستان کے سب سے بڑے سرپرست ، محافظ ومعاون تھے۔ ضرب مومن کے اجرا سے آپ نے دینی صحافت اور اصلاح عوام کی بے نظیر مثال پیش کی اور لاکھوں گم گشتگان کو راہ راست پر لائے۔ حجرۂ تنہائی میں بیٹھ کر نشتر پارک جیسے جلسوں میں لاکھوں کو زیارت کرائے بغیر ایسا جامع عقیدت پلایا اور شریعت محمدیہ کا پابند بنایا کہ بڑے بڑے اولیاء کرام کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ ۵۰ ہزار فتوے جاری کرنے اور ۶۰ کتابیں تصنیف فرمانے کے ساتھ آپ یقیناًولی کامل بھی تھے کہ ناظم آباد کی ایک چھوٹی سی قدیم مسجد اور معمولی مکان میں پوشیدہ رہ کر، مختلف شہروں اور ملکوں کے دورے کیے بغیرکروڑوں افراد سے اپنی عقیدت کا لوہا منوا لیا۔ لاکھوں گنہ گاروں کو تائب، نیکیوں کا متلاشی، شریعت وسنت اور ڈاڑھی اور پردے کا پابند بنایا۔ آپ کے اشاروں پر ہی نہیں، دعاؤں سے بھی مخیر حضرات کروڑوں کا سامان افغانستان کے یتامیٰ، مجاہدین اور طالبان کے لیے ٹرکوں اور ٹرالوں پر لے جاتے رہے۔
ایں سعادت بزور بازو نیست 
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
مدرسہ قاسم العلوم اکوال تلہ گنگ کے مفتی مولانا الطاف الرحمن فاضل مدینہ یونیورسٹی کے والد محمد قاسم صاحب نے آپ کی کرامت کے طور پر مجھے بتایا کہ میں ۷۸ء میں اپنے بیٹے کو دار الافتا میں داخل کرانا چاہتا تھا مگر شرائط پوری نہ تھیں۔ یہ ورد پڑھتے ہوئے کراچی گیا کہ یا الٰہی کرم کر، سخت دل نرم کر۔ مفتی صاحب نے مولانا کو داخل کر کے فرمایا کہ آپ کے والد کی وجہ سے کر رہا ہوں۔ پھر والد صاحب سے فرمایا کہ مسلمان سخت دل نہیں ہوتا، مضبوط دل والا ہوتا ہے۔ یعنی ان کی قلبی کیفیت بطور کشف وکرامت اللہ نے معلوم کرا دی۔
احقر کا مفتی صاحب سے تلمذ برائے ہے۔ ۱۳۸۶ھ میں دورۂ حدیث شریف پڑھ کر مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے فارغ ہوا تو روحانی اصلاح کے لیے حضرت مولانا تھانوی رحمہ اللہ اور مولانا فضل الٰہی قریشی مسکین پوریؒ کے خلیفہ یادگار سلف حضرت مولانا محمد عبد اللہ بہلوی شجاع آبادی نور اللہ مرقدہ (وفات ۱۳۹۷ھ)سے بیعت کا تعلق قائم کیا اور رمضان وشعبان میں دورۂ تفسیر بھی پڑھا۔ وہاں ایک طالب علم نے مفتی صاحب کے دار الافتا کا تعارف کرایا تو احقر نے بذریعہ خط آپ سے رابطہ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ۷ شوال تک پہنچ جاؤ۔ میں خوش ہو کر گھر عید کے لیے تھمے والی ضلع میانوالی آیا۔ کراچی کا پہلا سفر تھا۔ والد مرحوم کی علالت اور کچھ اپنی سستی کی وجہ سے تین دن کی تاخیر سے ۱۰ شوال کی شام کو کراچی پہنچا۔ عشا کی نماز حضرت مفتی صاحب کے پیچھے اداکی۔ حضرت مفتی صاحب اصول کے بڑے پابند تھے۔ فرمایا تین دن لیٹ آئے ہو، داخلہ بند ہے۔ ہاں اگر کوئی ۷۵ روپے ماہانہ کے لحاظ سے تمہارا سال کا وظیفہ ادا کرنے پر راضی ہو تو گنجائش نکل آئے گی ورنہ بنوری ٹاؤن میں تخصص فی علوم الحدیث میں داخلہ لے لو۔ میرے مقدر میں آپ کی صحبت سے محرومی اور وارثان علامہ انور شاہ کشمیری حضرت علامہ محمد یوسف بنوری اور مولانا محمد ادریس بھٹی مدیر مسؤل بینات سے تلمذ کی سعادت لکھی تھی۔ انہی دنوں میں مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ جامعہ رشیدیہ ساہیوال سے ہر ماہ پڑھانے آیا کرتے تھے۔ وہاں داخلہ مل گیا۔ کبھی کبھی مفتی صاحب کی زیارت بھی ہو جاتی۔ پھر احقر کا سلسلہ تدریس وملازمت پنجاب میں ہی رہا۔
رمضان ۱۴۲۱ھ میں کراچی کے سفر کے موقع پر مفتی رشید احمد صاحبؒ کی زیارت کے لیے ناظم آباد گیا۔ عشا کی نماز میں آپ سے ملاقات ہوئی۔ انتہائی بارعب لباس اور بزرگانہ شان وشوکت حضرت تھانوی نور اللہ مرقدہ کی وضع قطع معلوم ہوئی۔ بالاخانہ پر بلایا۔ میں نے دل لگی سے اپنا تاثر سنا دیا۔ مسکرائے۔ میں نے ناکام طالب علمی کا حوالہ دیا تو اور خوش ہوئے اور فرمایا کہ میں جانتا ہوں۔ آپ پہلے بھی ملتے رہے ہیں۔ آپ کے مدح صحابہؓ اور رد رفض کے موضوع پر تصانیف سے واقف ہوں۔ دعا بھی دی۔ اپنی علمی وروحانی ضوفشانی سے احقر کو منور وسیراب فرماتے رہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ امارت اسلامیہ افغانستان کی شہادت کا غم لے کر جانے والے مفتی صاحب کو غریق رحمت فرمائے اور ان کی تمام دینی خدمات کو قبول فرمائے۔
رفتید ولے نہ از دل ما

جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی کا مکتوب گرامی

ڈاکٹر محمود احمد غازی

برادر مکرم ومحترم جناب مولانا ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپریل ۲۰۰۲ء کا ماہنامہ ’الشریعہ‘ آپ کے دیرینہ لطف وکرم سے موصول ہوا۔ میں روز اول ہی سے اس رسالے کا باقاعدہ قاری ہوں۔ آپ کی تحریروں اور مضامین میں جو اعتدال اور توازن ہوتا ہے، وہ گزشتہ کچھ عرصے سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ کی تحریریں ملک میں ایک متوازن اور معتدل مذہبی رویے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں گی۔
زیر نظر شمارے میں اپنی ایک تحریر دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔ حیرت اس لیے کہ اس عنوان سے کوئی مضمون لکھنا یاد نہیں تھا اس لیے ابتداءً خیال ہوا کہ شاید یا تو غلطی سے میرا نام چھپ گیا ہے یا یہ میرے کسی ہم نام کی تحریر ہے لیکن جب اصل مضمون پڑھا تو اندازہ ہوا کہ عنوان آپ کا اور معنون اس ناچیز کا ۔ غالباً آپ نے میرا وہ لیکچر ملاحظہ فرمایا ہوگا جس سے یہ اقتباس لے کر شائع کیا گیا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ آپ اور آپ جیسے دوسرے علماء کرام اس پورے لیکچر کو بالاستیعاب مطالعہ فرمائیں۔ آپ کے عطا کردہ اس عنوان سے خیال ہوتا ہے کہ شاید میری کتاب ’خطبات بہاول پور‘ آپ کے لیے دل چسپی کا موضوع ہوگی۔ پتہ نہیں آپ کویہ کتاب دیکھنے کا اتفاق ہوا یا نہیں۔
علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ کے مابین فکری مماثلتوں کے موضوع پر پروفیسر محمد یونس میو کا مضمون اچھا ہے لیکن بہت مختصر۔ شاید ان کو یہ تجویز کرنا موزوں ہو کہ مولانا رومیؒ کے افکار اور پیغام کے بارے میں علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ کے نظریات وخیالات کا تقابلی مطالعہ نہ صرف دل چسپ ہوگا بلکہ دونوں اکابر کے نقطہ نظر میں حیرت انگیز مماثلتیں بھی اس کے ذریعے سامنے آئیں گی۔ میری طرف سے پروفیسر محمد یونس صاحب کو مبارک باد پیش کر دیں۔
والسلام
نیاز مند
ڈاکٹر محمود احمد غازی

جون ۲۰۰۲ء

دینی حلقوں کی آزمائش اور ذمہ داریادارہ
حقیقی جمہوریت یا رجعت قہقریٰ؟پروفیسر میاں انعام الرحمن
سرحدی کشیدگی اور مغربی عزائمپروفیسر میاں انعام الرحمن
سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں جہاد کا مفہوممولانا ابوعمار زاہد الراشدی
انصاف یا جنگل کا قانون؟مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
سیرت النبی ﷺ کے خلاقی پہلو اور فکر اقبالؒپروفیسر میاں انعام الرحمن
اسلامی تحریکات کا ایک تنقیدی جائزہ (۱)ڈاکٹر یوسف القرضاوی
علماء دیوبند اور سرسید احمد خان - مولانا عیسیٰ منصوری کے ارشادات پر ایک نظرضیاء الدین لاہوری
اسلامی نظریاتی کونسل کے نام مدیر ’الشریعہ‘ کا مکتوبمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
خوشی کی تلاشاختر حمید خان
جرسِ کارواںادارہ

دینی حلقوں کی آزمائش اور ذمہ داری

ادارہ

پاکستان شریعت کونسل نے حکومت اور دینی حلقوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ کوئی خفیہ ہاتھ پاکستان میں فوج اور دینی حلقوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر کے ترکی اور الجزائر جیسے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے اس لیے دونوں طرف کے محب وطن اور اسلام دوست عناصر کو سنجیدگی کے ساتھ اس صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی روک تھام کے لیے موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ بات پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس مشاورت کی ایک قرارداد میں کہی گئی ہے جو ۹؍ مئی ۲۰۰۲ء کو جامع مسجد سلمان فارسیؓ اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں منظور کی گئی۔ یہ اجلاس کونسل کے سربراہ مولانا فداء الرحمن درخواستی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں مولانا زاہد الراشدی‘ مولانا حامد علی رحمانی‘ حاجی جاوید ابراہیم پراچہ‘ احمد یعقوب چودھری‘ مولانا محمد ادریس ڈیروی‘ مولانا صلاح الدین فاروقی‘ مولانا حافظ مہر محمد‘ مولانا عبد الحلیم قاسمی‘ مولانا محمد رمضان علوی‘ مولانا قاری جمیل الرحمن اختر‘ مخدوم منظور احمد تونسوی‘ مولانا مفتی انعام اللہ‘ ملک محمد شاہد اور دیگر راہ نماؤں نے شرکت کی۔ اجلاس میں ملک بھر میں دینی جماعتوں کے کارکنوں اور علماء کرام کی بلا امتیاز گرفتاریوں‘ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی تلاش کی آڑ میں دینی مدارس ومراکز کے خلاف امریکی اتحاد کی عسکری کارروائیوں‘ خوف وہراس کی کیفیت اور ووٹر فہرستوں کے فارم میں عقیدۂ ختم نبوت کے حلف نامہ کو ختم کرنے سمیت بہت سے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ حکومت کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کرتے ہوئے قانون کے دائرے کے اندر رہ کر ان مقاصد کے لیے دینی جدوجہد کو منظم کیا جائے گا اور متعلقہ حلقوں کے ذمہ دار حضرات سے رابطہ کر کے دینی مفادات کے تحفظ اور فوج کے ساتھ دینی حلقوں کے تصادم کو روکنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کی جائے گی۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ بین الاقوامی دباؤ اور این جی اوز کی سرگرمیوں کے باعث پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ دستور کی اسلامی دفعات کو غیر موثر بنانے‘ قادیانیت اور ناموس رسالت کے تحفظ کے بارے میں دستوری فیصلوں کو ختم کرانے اور ملک میں فحاشی اور بے حیائی کے فروغ کے لیے ایک منظم پروگرام کے تحت کام جاری ہے اور ہر سطح پر منصوبہ بندی کے ساتھ پیش رفت ہو رہی ہے جبکہ دوسری طرف کوئی خفیہ ہاتھ ملک کے دینی حلقوں کو فوج کے ساتھ محاذ آرائی کی کیفیت میں لاکر الجزائر اور ترکی کی طرح پاکستان کی دینی قوتوں کو طاقت کے بل پر کچل دینے کے لیے سرگرم عمل ہے اس لیے ملک کی دینی قیادت اس وقت شدید آزمائش سے دوچار ہے۔ کیونکہ جس طرح ہمارے لیے یہ بات ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کے اسلامی تشخص سے دست بردار ہو جائیں اور نفاذ اسلام کے لیے نصف صدی کی دستوری جدوجہد کے نتائج سے ہاتھ دھو بیٹھیں‘ اسی طرح ہم اس بات کے متحمل بھی نہیں کہ فوج کے ساتھ دینی حلقوں کی محاذ آرائی کی صورت حال پیدا کر کے ملکی سالمیت کو خطرے میں ڈال دیں۔ ہم اس وقت پل صراط پر چل رہے ہیں اور ہماری چھوٹی سی غلطی بھی ملک وقوم کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دینی قیادت کو مل بیٹھ کر اس صورت حال کا حل تلاش کرنا چاہیے اور ملک کے عوام کو متوازن دینی راہ نمائی مہیا کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت حکومت کے سائے میں عافیت کی جگہ تلاش کرنا دینی روایات اور ملی مقاصد کے ساتھ بے وفائی کی بات ہوگی اور اسی طرح محاذ آرائی کی فضا پیدا کر کے فوج اور دینی حلقوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ بھی قومی مفادات کے منافی ہوگا۔ ہمیں اس کے درمیان متوازن راہ تلاش کرنی ہوگی اور ملک بھر کے دینی کارکنوں اور دین دار عوام کو مایوسی اور بے دلی کی فضا سے نکالنے کے لیے عملی جدوجہد کرنی ہوگی۔
پاکستان شریعت کونسل کے سربراہ مولانا فداء الرحمن درخواستی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں ملک کے دینی حلقوں کے درمیان مفاہمت کو فروغ دینے کے لیے کام کرنا چاہیے اور ہر ایسی بات سے گریز کرنا چاہیے جو دینی جماعتوں‘ حلقوں اور مراکز کے درمیان بعد پیدا کرتی ہو۔ انہوں نے علماء کرام سے کہا کہ وہ تین باتوں کی طرف سب سے زیادہ توجہ دیں۔ ایک یہ کہ مثبت انداز میں عوام تک قرآن وسنت کی تعلیمات کو پہنچائیں اور اپنے خطبات جمعہ‘ دروس اور بیانات میں عام مسلمانوں کو قرآن وسنت کی تعلیمات اور اسلامی احکام وقوانین سے واقف کرانے کی کوشش کریں۔ دوسری بات یہ کہ نئی نسل کی دینی تعلیم وتربیت کی طرف خصوصی توجہ دیں اور دینی مدارس اور سکول ہر سطح پر قائم کر کے نئی پود کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ضروری عصری تعلیم سے بھی آراستہ کرنے کا اہتمام کریں اور تیسری بات یہ کہ رفاہ عامہ اور خدمت خلق کے کاموں کی طرف توجہ دیں۔ 
انہوں نے کہا کہ معاشرے کے نادار لوگوں کی خدمت اور رفاہ عامہ کی جدوجہد ہمارے دینی فرائض میں سے ہے جس کی بجا آوری ہم نے بالکل چھوڑ دی ہے اور اسی خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے ملک میں ہزاروں این جی اوز متحرک ہو گئی ہیں جو تعلیم‘ صحت اور خدمت عامہ کے دیگر کاموں کی آڑ میں اپنے نظریات اور ثقافت کو فروغ دے رہی ہیں اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم قومی زندگی کے اتنے بڑے شعبے کو این جی اوز اور مسیحی مشنریوں کے حوالے نہ کر دیں بلکہ خود آگے بڑھ کر رفاہ عامہ کے کاموں میں دل چسپی لیں اور ہر علاقہ میں اسلامی این جی اوز قائم کر کے تعلیم‘ صحت اور دیگر شعبوں میں عوام کی خدمت کا اہتمام کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے دینی مدارس بھی این جی اوز کی حیثیت رکھتے ہیں جو تعلیم کے میدان میں شان دار خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ لاکھوں نادار افراد کو خوراک اور رہائش کی سہولتیں بھی فراہم کر رہے ہیں لیکن اس کام کو دوسرے شعبوں میں بھی پھیلانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے دینی فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سرمایہ سے کام کرنے والی این جی اوز کے غلط کاموں کا راستہ بھی روک سکیں۔
پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس شوریٰ نے ایک قرارداد میں قبائلی علاقوں میں دینی مدارس کے خلاف فوجی ایکشن‘ عرب مجاہدین کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ان کی اندھا دھند گرفتاریوں اور مجاہدین کو امریکہ کے سپرد کرنے کی کارروائیوں پر شدید احتجاج کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے کسی جج کی سربراہی میں عدالتی کمیشن مقرر کیا جائے جو ۱۱؍ ستمبر کے بعد ہونے والے حالات اور دہشت گردی کے عنوان سے حکومت اور دینی حلقوں کے درمیان کشیدگی کے فروغ کے اسباب وعوامل کی نشان دہی کرے اور حالات کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات تجویز کرے۔ قرارداد میں ملک کی سیاسی اور دینی جماعتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ بھی اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن کے قیام کے مطالبہ کی تائید کریں تاکہ ہم خدا نخواستہ کسی بڑے سانحہ کے رونما ہونے سے پہلے ان اسباب وعوامل کو کنٹرول کر سکیں جو ملک وقوم کے لیے کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔
ایک قرارداد میں کشمیر‘ فلسطین‘ چیچنیا‘ مورو اور دیگر مسلم خطوں کے مجاہدین کی جدوجہد کے ساتھ مکمل یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں دہشت گرد قرار دینے کی روش کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ امریکہ اور اس کے حواری محض اپنے یک طرفہ مفادات کی خاطر مجاہدین آزادی کو دہشت گرد قرار دے کر قوموں کی آزادی کی مسلمہ روایات کی نفی کر رہے ہیں اور اگر اس حوالے سے امریکی موقف کو تسلیم کر لیا جائے تو خود امریکہ کی جنگ آزادی بھی دہشت گردی قرار پا کر بلاجواز ہو جاتی ہے۔ قرارداد میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ امریکی کانگریس کا کردار ادا کرنے کے بجائے اپنا ’’اقوام متحدہ‘‘ کا کردار بحال کرے اور مسلم دنیا کے خلاف معاندانہ اور جانب دارانہ طرز عمل پر نظر ثانی کرے نیز فلسطین اور کشمیر کے بارے میں اپنی قراردادوں پر سنجیدگی سے عمل کرائے۔ 
ایک اور قراداد میں افغانستان کے بزرگ عالم دین مولانا محمد نبی محمدیؒ ‘ بھارت کے بزرگ عالم دین مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ اور مولانا شہاب الدین ندویؒ ‘ اور پاکستان کے بزرگ عالم دین مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ کی وفات پر گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے ان کی ملی وقومی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا گیا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔
(رپورٹ: ادارہ)

حقیقی جمہوریت یا رجعت قہقریٰ؟

پروفیسر میاں انعام الرحمن

ڈوری کا ایک سرا طاقت ور شخص کے ہاتھ میں ہے اور دوسرے سرے سے ایک بظاہر آزاد شخص کی ٹانگ بندھی ہوئی ہے۔ اس ٹانگ بندھے شخص کی آزادی‘ ڈوری کی لمبائی کے برابر ہے۔ جب بھی یہ شخص ذرا زیادہ آزادی پانے کی کوشش کرتا ہے تو دوسرے سرے پر موجود شخص خائف ہو کر ڈوری کو کھینچنا شروع کر دیتا ہے اور وہ ’’آزاد‘‘ شخص الٹے پاؤں گھسٹتا چلا جاتا ہے۔ مزاحمت تو دور کی بات ہے‘ صرف بچاؤ کرنے میں ہی وہ منہ کے بل گر جاتا ہے‘ کہنیاں چھل جاتی ہیں اور ہاتھ خاک آلود ہوجاتے ہیں۔ رہا دل‘ تو اس کی بات ہی چھوڑیے۔
یہ مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ سے زیادہ کہیں اور صادق نہیں آ سکتی۔ ملک کے عسکری ادارے نے ڈوری کا سرا مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔ ’’ملکی سلامتی اور قومی مفاد‘‘ ڈوری کی لمبائی کے متوازی ہیں۔ ڈوری کے دوسرے سرے پر دستوری ڈھانچہ ہے جسے فی الواقع ’’ڈھانچہ‘‘ ثابت کر دیا گیا ہے۔ 
وطن عزیز کی تاریخ کے معروضی جائزے سے ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر دستوری اداروں کو کام کرنے کا موقع کیوں نہیں دیا جاتا؟ اس کا ایک ہی جواب نہایت شد ومد سے دیا جاتا ہے کہ دستوری ادارے‘ غیر دستوری انداز سے چلائے جاتے ہیں۔ کوئی بھی ہوش مند اور غیر جانب دار شخص اس جواب کی صحت سے انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس کا حل یہی ہے کہ ’’ڈوری‘‘ برقرار رکھی جائے‘ وقتاً فوقتاً کھینچ ماری جائے اور دستوری اداروں کو ذلیل ورسوا کیا جائے؟ آخر ایک بار کھینچ مارنے کے بعد‘ بلکہ فوراً بعد‘ دستوری اداروں کے قیام کی کوششیں کیوں کی جاتی ہیں؟ عسکری ادارہ مستقل طور پر خود ملک کی باگ ڈور کیوں نہیں سنبھال لیتا؟ بہت صاف اور سیدھی بات ہے کہ اصول وضوابط کے بغیر‘ ’’جٹکے‘‘ انداز سے کوئی بھی ادارہ نہیں چلایا جا سکتا۔ پھر ریاست تو ایک بہت بڑا ادارہ ہے۔ جب یہ بات طے شدہ ہے کہ آخر دستور ہی کی طرف لوٹنا ہوگا تو پھر اس کی دھجیاں اڑانے کا فائدہ؟
جہاں تک دستوری اداروں کے غیر دستوری انداز سے چلانے کا تعلق ہے تو اس کا تعلق شخصیات سے ہے۔ کسی کی شخصی خامیوں کی بنا پر اداروں کو نہیں لپیٹنا چاہیے بلکہ ایسے طریقے اختیار کرنے چاہییں جن سے ’’شخصی غلبے‘‘ کا تدارک ہو سکے۔ جہاں تک پارلیمانی نظام کا تعلق ہے تو برطانیہ کے اندر بھی پچھلے چند سالوں سے اس پر تنقید سامنے آ رہی ہے کہ اب یہ وزارتی نظام کے بجائے وزیر اعظمی نظام (Prime Ministerial System) بن چکا ہے۔ ویسے بھی کوئی بھی نظام مختلف مراحل طے کرتا ہوا‘ اپنے ثمرات سے مستفید کرتا ہوا‘ آخر کار Point of Saturation تک پہنچ جاتا ہے جہاں اسے پیوند کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ برطانیہ کی حد تک تو شاید یہ بات درست ہو کہ وزارتی نظام کو پیوند کاری کی ضرورت ہے لیکن پاکستان پر اس اصول کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ یہاں پارلیمانی جمہوریت کی کسی کونپل کو پھوٹتے ہی مسل دیا جاتا ہے‘ Point of saturation تو بہت دور کی بات ہے۔
حقیقی پارلیمانی جمہوریت ایک طویل ارتقا کی متقاضی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں محدود شرح خواندگی اور مخصوص معاشرتی حالات کے تناظر میں یہ ارتقا کچھ اس طرح سے ہوگا:
۱۔ پہلے الیکشن کے بعد سے پندرہ سال تک کے دور کو ہم ماقبل جمہوریت کا مرحلہ (Pre-Democratic Phase) کہہ سکتے ہیں۔
۲۔ دوسرے مرحلے پر مزید پندرہ سال کے عرصے کو جمہوریت کی جانب پیش قدمی (Initiative to Democarcy) کہہ سکتے ہیں۔
۳۔ اس کے مزید تیس سال بعد کے عرصے میں ہم جمہوریت اور اس کی متعلقہ قدروں سے معاشرتی سطح پر آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ ان پر عمل پیرا ہونے کی توقع کر سکتے ہیں۔
یہ ارتقا اس بات کے ساتھ مشروط ہے کہ کسی انقطاع کے بغیر انتخابات مسلسل ہوتے رہیں۔
پاکستان میں عملی صورت حال کچھ اس طرح سے ہے کہ ابھی ہم پہلے مرحلے سے نہیں نکل پاتے کہ قوم کے ’’رکھوالے‘‘ اپنی اہمیت جتانے آ دھمکتے ہیں۔ ملکی سلامتی اور قومی مفاد کو ’’محفوظ‘‘ کر کے دوبارہ جمہوری عمل شروع کروا دیتے ہیں۔ اگر جمہوریت پاکستان میں قدم نہیں جما سکتی تو اس کی وجہ نظام کی ناکامی نہیں بلکہ ہماری عجلت پسندی ہے۔ قوم پچپن سال سے پہلے مرحلے میں ہے اور تقاضے تیسرے مرحلے کے کرتی ہے۔ میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ادوار کو ہم ’’جمہوری‘‘ قرار نہیں دے سکتے کیونکہ ان ادوار کا شمار Pre-Democratic Phase میں ہوتا ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ مسلسل جمہوری عمل سے تبدیلی اور بہتری کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے۔ کثیر جماعتی کی جگہ دو جماعتی نظام جڑ پکڑ چکا تھا۔ عوام اپنی طاقت سے آگاہ ہو رہے تھے۔ امکان غالب تھا کہ دوسرے مرحلے میں شخصی غلبے کا تدارک بھی ہو جاتا‘ لیکن ملک وقوم کے ’’خیر خواہوں‘‘ نے ’’ذمہ داری‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’بروقت ‘‘ مداخلت کرکے کثیر جماعتی نظام کی راہ دوبارہ ہموار کر دی ہے۔ امید ہے قوم لوٹوں کی منڈی سے مزید دس بارہ سال تک محظوظ ہوتی رہے گی۔ پھر بہتری کے آثار نظر آنے پر دوبارہ ڈوری کھینچ لی جائے گی کیونکہ کوئی نہ کوئی بانکا آزادی کی ’’حدود‘‘ کو پھلانگنے کی کوشش کرے گا۔

سرحدی کشیدگی اور مغربی عزائم

پروفیسر میاں انعام الرحمن

اس وقت ساری دنیا کی نظریں جنوبی ایشیا پر مرکوز ہیں۔ اس خطے کی سات بڑی ریاستوں میں سے دو ریاستیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہیں۔ جنگ کا خطرہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ پاکستان‘ بھارتی بالادستی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ورنہ باقی پانچ ریاستوں میں سے کسی میں اتنا دم خم نہیں کہ انڈیا سے برابری کی سطح پر تعلقات قائم رکھ سکے۔ انڈیا کا بارڈر بھی تقریباً تمام ریاستوں سے متصل ہے جس سے انڈیا کو در اندازی کے تمام مواقع میسر ہیں۔ جنوبی ایشیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ خطہ نااتفاقی کے سبب ایک اصول پر متفق ہے: باہمی عدم اتحاد۔ بالخصوص انڈیا اور پاکستان کے مابین انتہائی باہمی بد اعتمادی پائی جاتی ہے۔ انڈیا میں رونما ہونے والے کسی بھی ناخوش گوار واقعے کی ذمہ داری پاکستان کے سر تھوپ دی جاتی ہے۔ یہی صورت حال دوسری جانب ہے۔ اس سے تعلقات کی نوعیت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس خطے کے باقی ممالک کے باہمی تعلقات کا تعین بھی انڈیا اور پاکستان کی پالیسیوں سے ہوتا ہے جس سے یہ خطہ مزید بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے۔ باہمی عدم اعتماد کی اس فضا نے بیرونی طاقتوں (Extra-regional powers) کو جنوبی ایشیا میں اپنا اثر ورسوخ قائم کرنے اور اس میں شدت پیدا کرنے کا موقع فراہم کیا ہے جس سے علاقائی طاقتوں کے باہمی تعلقات (Intra-regional relations)مزید پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ اس طرح جنوبی ایشیا داخلی اور خارجی دونوں اعتبار سے خطرے میں (Vulnerable) ہے۔ 
جنوبی ایشیا کے مسائل سے کماحقہ واقفیت کے لیے ضروری ہے کہ ان کو درجہ بدرجہ تین مختلف سطحوں پر دیکھا جائے: مقامی (Domestic)‘ علاقائی (Regional) اور عالمی (Global)۔
مقامی سطح پر ہر ملک کو مذہبی‘ لسانی اور نسلی عصبیتوں کا سامنا ہے۔ انڈیا میں ہندو انتہا پسندی سے ’’سیکولر ازم‘‘ خطرے میں ہے۔ فرقہ وارانہ اختلافات کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ کشمیر کے علاوہ بھی مختلف علاقوں میں علیحدگی پسند تحریکات انڈین یونین کے لیے درد سر بنی ہوئی ہیں۔ صاف اور سیدھی سی بات ہے کہ کثیر نسلی‘ کثیر مذہبی اور کثیر لسانی ملک کو زیادہ عرصے تک مصنوعی انداز میں یکجا نہیں رکھا جا سکتا۔ حالیہ ہندو انتہا پسندی سے موجودہ یکجائی بھی ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہوئی ہے۔ یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے کہ ڈوبنے والا تنکے کو بھی شہتیر سمجھتا ہے۔ بھارتی حکمرانوں نے داخلی ٹوٹ پھوٹ سے ڈوبتے ملک کو خارجی محاذ کی صورت میں ’’تنکے‘‘ سے نواز ہے اور تنکا بہرحال تنکا ہوتا ہے۔ بھارت کو اس کا اندازہ جلد ہو جائے گا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا کی علاقائی پالیسی مقامی محرکات کے پیش نظر تشکیل دی گئی ہے۔ افغانستان کے خلاف مغرب کی یلغار میں انڈیا کی انتہائی کوشش تھی کہ اسے بھی فعال رول سونپا جائے۔ کیونکہ مسلم احیا کی تحریکات پر کاری ضرب لگانے سے جہاں ایک طرف کشمیر میں آزادی کی تحریک تعطل کا شکار ہوتی‘ وہاں ہندوستانی مسلمانوں کو بھی باور کرا دیا جاتا کہ زیادہ اچھلنے کودنے کی ضرورت نہیں۔ بہت بڑی آبادی اور زرعی ملک ہونے کے ناتے انڈیا کو یہ موقع مل گیا کہ افغان جنگ کے دوسرے مرحلے میں امریکی آنکھ کا تارا بن جائے کیونکہ اہل مغرب انڈیا کو بہت بڑی منڈی کی شکل میں دیکھ رہے ہیں جہاں ان کا مال کھپ سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی کوشش ہوگی کہ انڈیا ترقی پذیر زرعی ممالک کی صف سے نکل کر صنعتی ممالک کی برادری میں شامل نہ ہونے پائے۔ اس کے لیے ظاہر ہے کہ انڈین معیشت کو تہ وبالا کرنا ہوگا۔ بارڈر پر انڈین فوج کی مستقل موجودگی آنے والے دنوں کی ہیبت ناکی کو ظاہر کرتی ہے۔ انڈین معاشی ترقی کا گراف بہت پیچھے چلا جائے گا جس سے مغربی طاقتوں کو موقع مل جائے گا کہ انڈیا کے ساتھ وہ کھیل شروع کر سکیں جو وہ نہرو کے دور میں نہیں کر سکیں۔ موجودہ ہندو انتہا پسندی کے تناظر میں معیشت پر کاری ضرب سے انڈیا داخلی محاذ پر ایک بڑے بحران سے دوچار ہوگا۔ اس بحران کے اثرات جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک پر بھی مرتب ہوں گے۔
انڈیا سے تعلقات بڑھانے میں اور اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں مغربی طاقتوں کو ایک سہولت حاصل ہے کہ انڈین عزائم عالمی سطح پر توسیعی (Extra Regional) نہیں ہیں۔ ہندومت کے مطابق سمندر پار جانا گناہ ہے۔ ہندوؤں کی سوچ ’’اکھنڈ بھارت‘‘ تک محدود ہے اس لیے مغربی ممالک کو انڈیا سے ایسا کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ بھارت کی توڑ پھوڑ کر کے جہاں اپنا مال کھپایا جا سکتا ہے‘ وہاں جنونی ہندوؤں کو ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے لایعنی نصب العین کے حصول پر بھی ابھارا جا سکتا ہے۔ اس طرح ترقی کے اعتبار سے انڈیا Status quo کا شکار رہے گا۔
پاکستان کا معاملہ بھارت سے بہت مختلف ہے۔ اکثریت کے مسلمان ہونے کے ناتے لسانی اور نسلی اختلافات اتنے شدید نہیں ہیں جتنے کہ بنا دیے گئے ہیں۔ عوام کی بہت بڑی اکثریت اسلام کے رشتہ وحدت میں پروئی ہوئی ہے۔ جہاں تک جنوبی ایشیا کا تعلق ہے‘ پاکستان ا س خطے میں مسلمانوں کے حق حکمرانی کا تسلسل ہے۔ انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے ہمارے اسلاف نے اسپین کی مثال کو مد نظر رکھا کہ اگر کسی خطے سے مسلمانوں کے اقتدار کا کلی خاتمہ ہو گیا تو وہاں سے مسلمان بھی ناپید ہو جائیں گے۔ موجودہ عالمی اور علاقائی صورت حال کے تناظر میں‘ بھارتی مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ حق حکمرانی کی حفاظت میں تساہل نہ برتتے ہوئے ہمارے اسلاف نے بہت جرات اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا۔ اس خطے میں آزاد اور خود مختار پاکستان کی موجودگی علاقائی وابستگی کی بنا پر نہیں ہے بلکہ نظریاتی بنیاد پر ہے۔ مسلمان کسی بھی نسل اور زبان سے تعلق رکھتا ہو‘ اس کی اسلام سے وابستگی علاقے سے ماورا ہوتی ہے یعنی عملاً اس کی اپروچ Extra Regional ہوتی ہے۔ اسی اپروچ کے سبب سے ساری دنیاپر مسلمانوں کا ہوا سوار ہے۔ 
امریکی سعودی تعلقات کو ہی دیکھ لیجیے۔ امریکہ کو اپنی تیل کی رسد کی فکر ہے اور سعودی عرب کو طلب کے متوازن رہنے کی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تیل کی منڈی کے علاوہ دنیا میں کوئی حقیقی عالمی منڈی موجود نہیں۔ تیل کی طلب اور رسد میں معمولی سا عدم توازن بھی پوری دنیا کا مضطرب کر دیتا ہے۔ سعودی عرب تیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جبکہ امریکہ تیل صرف کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے چنانچہ دونوں ملکوں کے درمیان مفادات کا واضح اشتراک پایا جاتا ہے لیکن ۱۱؍ ستمبر کے واقعات کے بعد امریکی پالیسیوں کے تناظر میں یہ مفاداتی اشتراک قصہ پارینہ بنتا نظر آتا ہے۔ سعودی عوام کی Extra Regional اپروچ کسی وقت بھی حالات کو پلٹا دے سکتی ہے۔
اسی طرح چین میں مسلمان علیحدگی پسندوں کو سزائے موت سے سرفراز کرنا عجیب بات نہیں ہے کیونکہ مقامی مسلمانوں کے مطابق بیجنگ اور واشنگٹن کے ’’کافروں‘‘ میں کوئی فرق نہیں۔ اسی طرح چین اور دوسرے ممالک کے مسلمانوں میں بھی کوئی فرق نہیں۔
قارئین کرام! آپ پر واضح ہو گیا ہوگا کہ دنیا بھر کے مسلمان خود کو اسلام کے رشتہ وحدت میں منسلک تصور کرتے ہیں۔ یہ وحدت سیاسی‘ حکومتی اور معاشی اعتبار سے تو موجود نہیں لیکن مستقبل میں اس کی امید کی جا سکتی ہے۔ اگر مسلم ممالک سیاسی ومعاشی وحدت کے حامل ہو جائیں تو مغرب کو شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اسلام کا قلعہ ہونے کے ناتے پاکستان ہی وہ ملک ہے جو مسلم وحدت کے لیے فعال کردار ادا کر سکتا ہے۔ مغربی طاقتوں نے اس ممکنہ فعالیت کی روک تھام کے لیے قلعے میں دراڑیں ڈال کر اسے اپنی بقا کے لیے لڑنے تک محدود کر دیا ہے۔
حالیہ افغان جنگ میں امریکہ کی عجلت پسندی کہ جنرل پرویز مشرف فوراً ہاں یا نہ میں جواب دیں‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی تاکہ جنرل مشرف بلامشاورت قدم اٹھانے پر ہدف تنقید ٹھہریں اور ان کے حامیوں اور مخالفین کی گروہ بندی جڑپکڑ سکے۔ جنرل مشرف کو اتنا زیادہ اعتماد دلایا گیا کہ انہوں نے اپنے بیانات سے گروہ بندی کے عمل کو تیز تر کر دیا۔ اس کے بعد جنرل مشرف کو ریفرنڈم کروانے کی طرف راغب کیا گیا۔ جنرل صاحب نے ضرورت سے زیادہ سمارٹ بنتے ہوئے ’ہاں‘ اور ’نہیں‘ کے درمیان قطعی لائن کھینچ دی۔ ریفرنڈم کے بجائے یہ وہ قطعی لائن ہے جس نے اپوزیشن جماعتوں کو اے پی سی میں شرکت سے روکے رکھا۔ 
سرحدی صورت حال پر عوام کی لاتعلقی بھی سنگین صورت حال کی غمازی کرتی ہے۔ فیصلہ سازی میں جنرل مشرف کی ’’سولو فلائٹ‘‘ نے ملک کو داخلی بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ خارجی محاذ پر ہمارے پاس ایک آپشن ایٹمی قوت کی صورت میں موجود ہے لیکن داخلی محاذ پر قومی وحدت پارہ پارہ ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں ہماری اپروچ Extra Regionalہونے سے تو رہی‘ ہم تو بمشکل اپنی علاقائی سرحدوں کی حفاظت اور بقا کے لیے متحد ہو سکتے ہیں۔ اس طرح مغربی طاقتوں نے اپنی مخصوص حکمت عملی کے تحت ہماری اپروچ Intra Regional کر دی ہے۔
اگر ہم بنظر غائر اسلامی دنیا کی بابت مغربی پالیسیوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی پالیسیوں کا بنیادی نکتہ اسلامی ممالک میں علاقائی رجحانات کو فروغ دینا ہے۔ افغانستان میں کرزئی حکومت کے قیام کے بعد غیر افغان مجاہدین کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا۔ پاکستان اور عرب مجاہدین کی خوب تذلیل کی گئی۔ اسی طرح کشمیر میں بھی کہا جا رہا ہے کہ غیر کشمیری اس علاقے سے نکل جائیں۔ مشرق وسطیٰ میں بھی کسی عرب اتحاد اور غیر عرب مسلمانوں کے نفوذ کے تدارک کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ 
یہ بات بہت واضح ہے کہ اسلامی تحریکات کی Extra Regional اپروچ اور عزائم نے مغربی دنیا کو خبردار کر دیا ہے کیونکہ اگر باقاعدہ عالمی اسلامی حکومت نہ بھی قائم ہو تو ان تحریکات کے زیر اثر اسلامی ممالک کے عوام اور ان کی حکومتیں بھی مغربی ممالک کے مقابل یکساں پالیسی اپنا سکتے تھے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پچاس ساٹھ ممالک کا یکساں موقف آسانی سے نظر انداز نہیں ہو سکتا۔ سلامتی کونسل کے ویٹو پاور ممبران پر شدید تنقید سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید مستقبل میں ویٹو پاور کا خاتمہ کر دیاجائے۔ دنیا کو اجتماعی سلامتی (Collective Security) کے لیے آخر کار ایسا کرنا پڑے گا۔ ایسی صورت میں جنرل اسمبلی کے اندر مسلم ممالک کی Extra Territorial اور Extra Regional اپروچ عملاً ویٹو پاور بن کر ابھر سکتی تھی۔ غالباً مستقبل کے ایسے ہی منظر سے خائف ہو کر پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک میں داخلی گروہ بندیاں پیدا کر کے ان ممالک کو صرف اپنے اپنے مخصوص علاقے کی سلامتی اور بقا تک محدود کرنے کی حکمت عملی تیار کی گئی ہے تاکہ علاقائی قومیت جڑ پکڑ سکے اور عالمی مسلم معاشرہ ظہور میں نہ آئے۔

سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۱۶ مئی ۲۰۰۲ء کو شیخ زید اسلامک سنٹر پنجاب یونیورسٹی لاہور کے زیر اہتمام ’’سیرت النبی ﷺ کانفرنس‘‘ میں مدیر ’الشریعہ‘ کا خطاب)
نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ وازواجہ واتباعہ اجمعین۔
میں شیخ زید اسلامک سنٹر پنجاب یونیورسٹی لاہور کا شکر گزار ہوں کہ جناب رسالت مآب ﷺ کی سیرت طیبہ کے موضوع پر منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں شرکت اور گفتگو کے اعزاز سے نوازا اور دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت ہمارے مل بیٹھنے کو قبول فرماتے ہوئے کچھ مقصد کی باتیں کہنے‘ سننے اور پھر ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین
مجھے گفتگو کے لیے ’’سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے جس کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ حتیٰ کہ تذکرہ بھی اس مختصر وقت میں ممکن نہیں ہے اس لیے بہت سے امور کو نظر انداز کرتے ہوئے چند ایک ایسے سوالات کا جائزہ لینا چاہوں گا جو جہاد کے حوالے سے آج کے دور میں عالمی سطح پر موضوع بحث ہیں اور ان کے بارے میں مثبت اور منفی طور پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے۔
’’جہاد‘‘ کا لفظ لغوی مفہوم کے حوالے سے کوشش‘ محنت ومشقت اور تگ ودو کی مختلف شکلوں کا احاطہ کرتا ہے اور اسے دینی پس منظر میں لیا جائے تو اسلام کی سربلندی‘ دعوت وتبلیغ‘ ترویج وتنفیذ اور تحفظ ودفاع کے لیے کی جانے والی مختلف النوع عملی کوششوں کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنی خواہشات پر کنٹرول اور نفس کی اصلاح کی مساعی پر بھی جہاد کا لفظ بولا گیا ہے جس کی قرآن وسنت میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ 
لیکن جہاد کا ایک خصوصی مفہوم ’جنگ‘ اور ’محاربہ‘ بھی ہے جسے قرآن کریم میں ’جہاد فی سبیل اللہ‘ اور ’قتال‘ کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے اور سینکڑوں آیات قرآنی اور ہزاروں احادیث نبویہ میں اس کا تذکرہ موجود ہے اور اس ’جہاد‘ کے فضائل‘ احکام‘ مسائل اور مقصدیت پر قرآن وسنت میں پورے اہتمام کے ساتھ جابجا روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ہے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کافروں کے خلاف میدان جنگ میں صف آرا ہو کر ہتھیاروں کے ساتھ ان سے معرکہ آرائی کرنا اور قتل وقتال کے ذریعے سے کفر پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا جس کی اہمیت وفضیلت پر قرآن کریم اور سنت نبویؐ کی سینکڑوں تصریحات گواہ ہیں اور اس کو آج کے دور میں اس وجہ سے سب سے زیادہ تنقید واعتراض کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ جدید عقل ودانش کے نزدیک عقیدہ ومذہب کے فروغ اور غلبہ کے لیے ہتھیار اٹھانا تہذیب وتمدن کے تقاضوں کے خلاف ہے اور ایسا کرنا بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے دائرے میں آتا ہے۔ 
اس سلسلے میں آگے بڑھنے سے قبل ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ عقیدہ ومذہب کے لیے ہتھیار اٹھانے اور باطل مذاہب پر حق مذہب کی بالادستی کے لیے عسکری جنگ لڑنے کا آغاز حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا بلکہ جہاد کا یہ عمل آسمانی ادیان میں پہلے سے تسلسل کے ساتھ چلا آ رہا ہے اور جناب نبی اکرم ﷺ نے اس حوالے سے تاریخ میں کسی نئے عمل اور اسلوب کا اضافہ کرنے کے بجائے آسمانی مذاہب کی ایک مسلسل روایت کو برقرار رکھا ہے چنانچہ جس طرح قرآن کریم میں جہاد اور مجاہدین کا تذکرہ پایا جاتا ہے‘ اسی طرح بائبل میں بھی ان مجاہدین اور مذہبی جنگوں کا ذکر موجود ہے جو بنی اسرائیل نے اپنے مذہب کے دفاع اور اپنی آزادی اور تشخص کے تحفظ کے لیے لڑیں۔ مثال کے طور پر قرآن کریم نے فلسطین کی سرزمین پر لڑی جانے والی ایک مقدس جنگ کا سورۃ البقرۃ میں تذکرہ کیا ہے جو جالوت جیسے ظالم حکمران کے خلاف حضرت طالوت کی قیادت میں لڑی گئی اور اس میں حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں جالوت بادشاہ کا معجزانہ طور پر خاتمہ ہوا۔ اس جنگ کا تذکرہ بائبل میں بھی موجود ہے اور اس میں حضرت طالوت کو’ساؤل بادشاہ‘ کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔
اس لیے آگر آج کی جدید دانش کو مذہب کے نام پر ہتھیار اٹھانے پر اعتراض ہے تو اس کا ہدف صرف قرآن کریم اور جناب نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی نہیں بلکہ اصولی طور پر بائبل اور بنی اسرائیل یعنی یہود ونصاریٰ کی پوری تاریخ اس کی زد میں ہے‘ صرف اتنے فرق کے ساتھ کہ بائبل کے ماننے والوں نے بائبل پر ایمان کے دعوے کے باوجود اس کے عملی احکام اور ماضی سے دست برداری کا اعلان کر دیا ہے جبکہ قرآن کریم پر ایمان رکھنے والے تمام تر عملی کم زوریوں کے باوجود اپنے ماضی اور قرآنی احکام وتعلیمات سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اس وضاحت کے بعد جہاد کی مقصدیت کے حوالے سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جہاد کا مقصد جناب نبی اکرم ﷺ نے ’’اعلاء کلمۃ اللہ‘‘ قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو جس کا مطلب عملی طو رپر یہ ہے کہ انسانی سوسائٹی میں حکم اور قانون کا درجہ انسانی خواہشات اور ظن وگمان کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور آسمانی تعلیمات کو حاصل ہونا چاہیے اور کلمۃ اللہ کی اسی سربلندی کے لیے قرآن کریم اور جناب نبی اکرم ﷺ نے آسمانی مذاہب کی ان دینی معرکہ آرائیوں کے تسلسل کو باقی رکھا ہے تاکہ کسی دور میں بھی انسانی خواہشات اور عقل وگمان کو وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات پر غلبہ حاصل نہ ہونے پائے اور انسانی سوسائٹی پر اللہ تعالیٰ کے احکام کی عمل داری کے جس مشن کے لیے حضرت انبیاء کرام مبعوث ہوتے رہے ہیں‘ اس میں تعطل واقع نہ ہو چنانچہ جناب نبی اکرم ﷺ نے ایک ارشاد مبارک میں یہ کہہ کر اس جدوجہد کے قیامت تک جاری رہنے کا اعلان فرما دیا ہے کہ: الجہاد ماض الی یوم القیامۃ۔ 
یہ فکر وفلسفہ کی جنگ ہے‘ اسلوب زندگی کی معرکہ آرائی ہے اور تہذیب وثقافت کا محاذ ہے جس میں شروع سے آسمانی مذاہب کا یہ موقف رہا ہے اور اب آسمانی مذاہب وادیان کے حقیقی وارث کی حیثیت سے اسلام کا موقف بھی یہی ہے کہ انسانی سوسائٹی کی راہ نمائی اور اس کے مسائل کے حل کے لیے انسانی خواہشات اور عقل ودانش تنہا کفایت نہیں کرتیں بلکہ ان پر آسمانی تعلیمات کی نگرانی ضروری ہے کیونکہ اس ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ (Check & Balance)کے بغیر انسانی خواہشات اور انسانی عقل کے لیے پوری نسل انسانی کی ضروریات ومفادات میں توازن قائم رکھنا ممکن نہیں ہے لیکن آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ تہذیب جدید نے آسمانی تعلیمات سے دست برداری کا اعلان کر کے خواہشات اور عقل ہی کو تمام امور کی فائنل اتھارٹی قرار دے رکھا ہے جس سے توازن بگڑ گیا ہے‘ اجتماعی اخلاقیات دم توڑ گئی ہیں‘ طاقت کا بے لگام گھوڑا وحی الٰہی کی لگام سے آزاد ہو گیا ہے اور پوری دنیا میں ہر طرف ’’جنگل کے قانون‘‘ (Might is Right)کا دور دورہ ہے۔
آج کی جدید دانش نے چونکہ مذاہب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کر کے شخصی زندگی کے دائروں میں محدود کر دیا ہے اس لیے عقل جدید کے نزدیک مذہب کو وہ مقام حاصل نہیں رہا کہ اس کے لیے ہتھیار اٹھائے جائیں اور اس کے فروغ وتنفیذ کے لیے عسکری قوت کو استعمال میں لایا جائے ورنہ ہتھیار تو آج بھی موجود ہیں اور جتنے ہتھیار آج پائے جاتے ہیں اور تیار ہو رہے ہیں‘ انسانی تاریخ میں ا سے قبل کبھی نہیں دیکھے گئے۔ یہ ہتھیار استعمال بھی ہوتے ہیں اور وہ تباہی لاتے ہیں کہ اس سے قبل کی انسانی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے مگر ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے والوں کے مقاصد اور عنوانات مختلف ہیں:
سوال یہ ہے کہ اگر نسلی برتری‘ طبقاتی بالادستی اور تہذیب وثقافت کے تحفظ کے لیے ہتھیار اٹھانا اور صرف اٹھانا نہیں بلکہ اسے وحشیانہ انداز میں اندھا دھند استعمال کر کے لاکھوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا دہشت گردی نہیں ہے تو آسمانی تعلیمات کے فروغ اور وحی الٰہی کی بالادستی کے لیے ہتھیار اٹھانے کو کون سے قانون اور اخلاقیات کے تحت دہشت گردی قرار دیا جا رہا ہے؟
باقی تمام پہلوؤں سے صرف نظر کرتے ہوئے آج کی معروضی صورت حال (Scenario) میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے طرز عمل کا جائزہ لے لیں کہ افغانستان اور دنیا بھر کے مختلف علاقوں میں اسلام کے اجتماعی نظام کے نفاذ کا نام لینے والوں کے خلاف ’’عالمی اتحاد‘‘ کے پرچم تلے جو وحشیانہ فوج کشی جاری ہے‘ اس کے جواز میں اس کے علاوہ اب تک کوئی دلیل پیش نہیں کی جا سکی کہ اسلام کا نام لینے والے ان مبینہ انتہاپسندوں سے آج کی عالمی تہذیب کو خطرہ ہے‘ بالادست (Dominant) ثقافت کو خطرہ ہے اور بین الاقوامی نظام کو خطرہ ہے‘ اس لیے ان انتہا پسندوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ عقیدہ ومذہب کے لیے ہتھیار اٹھانے کو دہشت گردی کہنے والے خود ایک مذہب اور عقیدہ کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے میدان جنگ میں مسلسل صف آرا ہیں۔
میری اس گزارش کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایک عقیدہ‘ فلسفہ اور تہذیب کے تحفظ کے لیے ہتھیا ر اٹھانے اور اسے بے دریغ استعمال کرنے کا ایک فریق کو حق حاصل ہے تو اس کے خلاف دوسرے عقیدہ‘ فلسفہ اور تہذیب کے علم برداروں کو ہتھیار اٹھانے کے حق سے کسی طرح محروم نہیں کیا جا سکتا اور ہتھیار بنانے اور استعمال کرنے کے لیے یہ کوئی وجہ جواز (Excuse)نہیں ہے کہ چونکہ ایک فریق کے پاس ہتھیار بنانے کی صلاحیت زیادہ ہے اور اسے ان ہتھیاروں کے استعمال کے مواقع زیادہ میسر ہیں‘ اس لیے اسے تو ہتھیار بنانے اور چلانے کا حق حاصل ہے اور دوسرا فریق اس صلاحیت میں کمزور اور ان مواقع کی فراوانی سے محروم ہے اس لیے اسے اس کا سرے سے کوئی حق نہیں ہے۔
آج امریکہ اور اس کے اتحادی اس بات پر مطمئن ہیں کہ جو جنگ وہ لڑ رہے ہیں‘ وہ اعلیٰ مقاصد کی خاطر لڑی جا رہی ہے‘ انسانیت کی بھلائی کی جنگ ہے اور ان کے بقول اعلیٰ ترین تہذیبی اقدار کے تحفظ کی جنگ ہے۔ جنگ کی اسی مقصدیت کی وجہ سے انہیں اس عظیم جانی ومالی نقصان کی کوئی پروا نہیں ہے جو دنیا بھر میں ان کے ہاتھوں مسلسل جاری ہے۔ انسان مر رہے ہیں‘ عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں‘ بچے یتیم ہو رہے ہیں‘ عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہو رہی ہیں‘ ملکوں اور قوموں کی معیشتیں تباہ ہو رہی ہیں اور امن وامان کا توازن مسلسل بگڑتا چلا جا رہا ہے لیکن ایسا کرنے والے چو نکہ اپنے زعم کے مطابق یہ سب کچھ اعلیٰ مقاصد کے لیے کر رہے ہیں اور ان اقدامات کے ذریعے سے اعلیٰ تہذیب وثقافت کا تحفظ کر رہے ہیں‘ اس لیے ان کے خیال میں یہ سب کچھ جائز ہے اور جنگ کا حصہ ہے جسے کسی چون وچرا کے بغیر پوری نسل انسانی کو برداشت کرنا چاہیے۔ یہی بات اسلام کہتا ہے اور جناب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ نسل انسانی کے لیے نجات کا راستہ انسانی خواہشات اور صرف انسانی عقل نہیں ہے بلکہ وحی الٰہی کی نگرانی اور آسمانی تعلیمات کی برتری انسانی سوسائٹی کے لیے ضروری ہے اور اسلام کے نزدیک انسانیت کی اعلیٰ اقدار اور تہذیبی روایات کا سرچشمہ انسانی خواہشات اور عقل محض نہیں بلکہ وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات ہیں اس لیے ایک مسلمان اگر ان مقاصد کے لیے ہتھیار اٹھاتا ہے تو دنیا کی مسلمہ روایات اور تاریخی عمل کی روشنی میں اسے یہ کہہ کر اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا کہ مخالف فریق کے نزدیک اس کا یہ عمل دہشت گردی قرار پا گیا ہے۔
اس اصولی وضاحت کے بعد قرآن وسنت کی رو سے جہاد کی چند عملی صورتوں کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
قرآن کریم نے بنی اسرائیل کے حوالے سے جہاد کے ایک حکم کا تذکرہ سورۃ المائدہ میں کیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے چنگل سے بنی اسرائیل کو نکال کر صحرائے سینا میں خیمہ زن ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کو حکم ملا کہ وہ ’’بیت المقدس‘‘ کو عمالقہ سے آزاد کرنے کے لیے جہاد کریں اور آگے بڑھ کر حملہ آور ہوں مگر غلامی کے دائرے سے تازہ تازہ نکلنے والی مرعوب قوم کو اس کا حوصلہ نہ ہوا اور پھر اس کے چالیس سال بعد بنی اسرائیل کی نئی نسل نے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی قیادت میں جنگ لڑ کر بیت المقدس کو آزاد کرایا۔
قرآن کریم نے بنی اسرائیل ہی کے حوالے سے ایک اور جہاد کا تذکرہ کیا ہے جس کا حوالہ ہم پہلے بھی دے چکے ہیں کہ جالوت نامی ظالم بادشاہ نے فلسطین کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر کے بنی اسرائیل کو مظالم کا شکار بنانا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ کے پیغمبر حضرت سموئیل علیہ السلام کے حکم پر طالوت بادشاہ کی قیادت میں بنی اسرائیل کی مٹھی بھر (Handful) جماعت نے جالوت کا مقابلہ کیا اور اسے میدان جنگ میں شکست دے کر فلسطین کے علاقے آزاد کرائے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں کفار مکہ کے خلاف پہلے بڑے معرکے کی قیادت بدر کے میدان میں کی اور قریش کو شکست دے کر شاندار کام یابی حاصل کی۔ یہ جنگ قریش مکہ کے ان عزائم پر ضرب لگانے کے لیے بپا ہوئی تھی جو وہ اسلام کو ختم کرنے اور جناب نبی اکرم ﷺ اور ان کی جماعت کو ناکام بنانے کے لیے اختیار کیے ہوئے تھے۔ اس کے بعد ’احد‘ اور ’احزاب‘ کی جنگیں بھی اسی پس منظر میں تھیں اور اس کشمکش کا خاتمہ اس وقت ہوا جب نبی اکرم ﷺ نے ۸ھ میں خود پیش قدمی کر کے مکہ مکرمہ پر قبضہ کر لیا۔
یہود مدینہ کے ساتھ جناب نبی اکرم ﷺ نے امن وامان کے ماحول میں وقت بسر کرنے کی کوشش کی لیکن یہودیوں کی سازشوں اور عہد شکنیوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہ رہا تو جناب نبی اکرم ﷺ نے یہودیوں کے سب سے بڑے مرکز (Stronghold)خیبر پر حملہ آور ہو کر اسے فتح کر لیا اور یہود کا زور توڑ دیا۔
قیصر روم کے باج گزاروں نے مسلمانوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اور یہ خبر ملی کہ خود قیصر روم مدینہ منورہ پر حملہ کی تیاری کر رہا ہے تو جناب نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ میں اس کا انتظار کرنے کے بجائے شام کی سرحد کی طرف پیش قدمی کی اور تبوک میں ایک ماہ قیام کر کے رومی فوجوں کا انتظار کرنے کے بعد وہاں سے واپس تشریف لائے۔
یہ تو چند کھلی جنگیں ہیں جو علانیہ لڑی گئیں لیکن ان سے ہٹ کر ایسی متعدد کارروائیاں بھی سیرت النبی کے ریکارڈ میں ملتی ہیں جنہیں چھاپہ مار کارروائیوں (Ambush)سے تعبیر کیاجاتا ہے۔ 
جناب نبی اکرم ﷺ نے میدان جنگ میں دشمن کے مقابلے کے ساتھ ساتھ میڈیا کے محاذ پر بھی کفار کے خلاف صف آرائی کی چنانچہ غزوۂ احزاب کے بعد نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ کے ایک اجتماع میں باقاعدہ طور پر اس کا اعلان کیا کہ اب قریش مکہ کو مدینہ منورہ پر حملہ آور ہونے کی جرات نہیں ہوگی لیکن اب وہ زبان کی جنگ لڑیں گے اور مسلمانوں کے خلاف پورے عرب میں پراپیگنڈے اور منافرت انگیزی کا بازار گرم کریں گے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس موقع پر شعر وخطابت سے تعلق رکھنے والے صحابہ کرامؓ کو میدان میں آنے کی ترغیب دی چنانچہ حضرت حسان بن ثابتؓ‘ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور حضرت کعب بن مالکؓ نے کھلے بندوں اعلان کر کے یہ محاذ سنبھالا اور شعر وشاعری کے محاذ پر کفار کے حملوں کا پوری جرات کے ساتھ مقابلہ کیا۔
زیادہ تفصیلات کا موقع نہیں ہے لیکن ان گزارشات سے اتنی بات ضرور سامنے آ گئی ہوگی کہ نبی اکرم ﷺ نے اسلام کی سربلندی اور امت مسلمہ کے تحفظ واستحکام کے لیے موقع ومحل کی مناسبت سے جنگ کی ہرممکنہ صورت اختیار کی اور محاذ آرائی کے جس اسلوب نے بھی جناب نبی اکرم ﷺ کے سامنے اپناچیلنج رکھا‘ اسے جواب میں مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
آج کے حالات میں جہاد کے حوالے سے دو سوال عام طو رپر کیے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان مجاہدین کی چھاپہ مار کارروائیوں کی شرعی حیثیت کیا ہے اور کیاکسی علاقے میں جہاد کے لیے ایک اسلامی حکومت کا وجود اور اس کی اجازت ضروری نہیں ہے؟
اس کے جواب میں عرض کرتا ہوں کہ اس سلسلے میں حضرت ابوبصیرؓ کا کیمپ اور حضرت فیروز دیلمیؓ کی چھاپہ مار کارروائی میں ہمارے سامنے واضح مثال کے طورپر موجود ہے۔ حضرت ابوبصیرؓ نے اپنا کیمپ جناب نبی اکرم ﷺ کی اجازت سے قائم نہیں کیا تھا لیکن جب یہ کیمپ اپنے مقاصد میں کام یاب ہوا تو نبی اکرم ﷺ نے نہ صرف اس کے نتائج کو قبول کیا بلکہ قریش کی طرف سے یک طرفہ شرائط سے دست برداری کے بعد اس کیمپ کے مجاہدین کو باعزت طور پر واپس بلا لیا۔
اسی طرح یمن پر اسود عنسی کا غیر اسلامی اقتدار قائم ہونے کے بعد جناب نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ سے فوج بھیج کر لشکر کشی نہیں کی بلکہ یمن کے اندر مسلمانوں کو بغاوت کرنے کا حکم دیا اور اسی بغاوت کی عملی شکل وہ چھاپہ مار کارروائی تھی جس کے نتیجے میں اسود عنسی قتل ہوا۔
دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر جہاد شرعی فریضہ کی حیثیت رکھتا ہے تو جو مسلمان غیر مسلم اکثریت کے ملکوں میں اقلیت (Minority)کے طورپر رہتے ہیں‘ ان کی ذمہ داری کیا ہے اور کیا ان کے لیے جہاد میں شمولیت ضروری نہیں ہے؟ 
اس کے جواب میں دو واقعات کاحوالہ دینا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت حذیفہ بن یمانؓ اور ان کے والد محترم جناب نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم آپ کی خدمت میں جہاد میں شمولیت کے لیے حاضر ہو رہے تھے کہ راستے میں کفار کے ایک گروہ نے گرفتار کر لیا اور اس شرط پر انہوں نے ہمیں رہا کیا ہے کہ ہم ان کے خلاف جنگ میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر حصہ نہیں لیں گے۔ اس پر نبی اکرم ﷺ نے یہ فرما کر انہیں بدر کے معرکے میں شریک ہونے سے روک دیا کہ اگر تم نے اس بات کا وعدہ کر لیا ہے تو اس وعدہ کی پاس داری تم پر لازم ہے چنانچہ حضرت حذیفہؓ اور ان کے والد محترم موجود ہوتے ہوئے بھی بدر کے معرکے میں مسلمانوں کا ساتھ نہیں دے سکے تھے۔
اسی طرح حضرت سلمان فارسیؓ نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا جب رسول اکرم ﷺ قبا میں قیام فرما تھے اور ابھی مدینہ منورہ نہیں پہنچے تھے لیکن حضرت سلمان فارسیؓ کا ذکر نہ بدر کے مجاہدین میں ملتا ہے اور نہ وہ احد ہی میں شریک ہو سکے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس وقت آزاد نہیں تھے بلکہ ایک یہودی کے غلام تھے چنانچہ غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ان کی شمولیت جس پہلے غزوے میں ہوئی‘ وہ احزاب کا معرکہ ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ نے جہاد کے حوالے سے مسلمانوں کے معروضی حالات اور ان کی مجبوریوں کا لحاظ رکھا ہے اس لیے جو مسلمان غیرمسلم اکثریت کے ملکوں میں رہتے ہیں اور ان کے ان ریاستوں کے ساتھ وفاداری کے معاہدات موجود ہیں‘ ان کے لیے ان معاہدات کی پاس داری لازمی ہے البتہ اپنے ملکوں کے قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد‘ ہم دردی اور خیر خواہی کے لیے وہ جو کچھ بھی کر سکتے ہیں‘ وہ ان کی دینی ذمہ داری ہے اور اس میں انہیں کسی درجے میں بھی کوتاہی روا نہیں رکھنی چاہیے۔
گزشتہ سال افغانستان پر امریکی حملے کے موقع پر میں برطانیہ میں تھا۔ مجھ سے وہاں کے بہت سے مسلمانوں نے دریافت کیا کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ میں نے عرض کیا کہ آپ کو یہودیوں کی پیروی کرنا چاہیے اور ان سے کام کا طریقہ سیکھنا چاہیے کیونکہ یہودی ان ممالک میں رہتے ہوئے جو کچھ یہودیت کے عالمی غلبہ اور اسرائیل کے تحفظ ودفاع کے لیے کر رہے ہیں‘ اسلام کے غلبہ اور مظلوم مسلمانوں کے دفاع کے لیے وہ سب کچھ کرنا مسلمانوں کا بھی حق ہے مگر یہ کام طریقہ اور ترتیب کے ساتھ ہونا چاہیے اور جن ملکوں میں مسلمان رہ رہے ہیں‘ ان کے ساتھ اپنے معاہدات اور کمٹ منٹ کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنا چاہیے۔
آج دنیا کی عمومی صورت حال پھر اس سطح پر آ گئی ہے کہ خواہشات اور محدود عقل پرستی نے ہر طرف ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور آسمانی تعلیمات کا نام لینے کو جرم قرار دیا جا رہا ہے۔ آج کی اجتماعی عقل نے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت سے انکار کر کے حاکمیت مطلقہ کا منصب خود سنبھال لیا ہے اور وحی الٰہی سے راہ نمائی حاصل کرنے کے بجائے اس کے نشانات واثرات کو ختم کرنے کی ہر سطح پر کوشش ہو رہی ہے۔ اس فضا میں ’’اعلاء کلمۃ اللہ‘‘ کا پرچم پھر سے بلند کرنا اگرچہ مشکل بلکہ مشکل تر دکھائی دیتا ہے لیکن جناب نبی اکرم ﷺ کی سنت وسیرت کا تقاضا یہی ہے کہ نسل انسانی کو خواہشات کی غلامی اور عقل محض کی پیروی کے فریب سے نکالا جائے اور اسے آسمانی تعلیمات کی ضرورت واہمیت کا احساس دلاتے ہوئے وحی الٰہی کے ہدایات کے دائرے میں لانے کی کوشش کی جائے۔
اس کے ساتھ ہی دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمان جس مظلومیت اور کس مپرسی کے عالم میں ظالم اور متسلط قوتوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں اور انہیں جس بے رحمی اور سنگ دلی کے ساتھ ان کے مذہبی تشخص کے ساتھ ساتھ قومی آزادی اور علاقائی خود مختاری (Territorial Independence)سے محروم کیا جا رہا ہے‘ اس کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا اور ان مظلوم مسلمانوں کو ظلم وجبر کے ماحول سے نجات دلانے کے لیے جو کچھ ممکن ہو‘ کر گزرنا یہ بھی جناب نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات وارشادات کا ایک اہم حصہ ہے جس سے صرف نظر کر کے ہم نبی اکرم ﷺ کی اتباع اور پیروی کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔
ان دو عظیم تر ملی مقاصد کے لیے جدوجہد کے مختلف شعبے ہیں۔ فکر وفلسفہ کا میدان ہے‘ میڈیا اور انفرمیشن ٹیکنالوجی کی جولان گاہ ہے‘ تہذیب وثقافت کا محاذ ہے‘ تعلیم وتربیت کا دائرہ ہے‘ لابنگ اور سفارت کاری کا شعبہ ہے اور عسکری صلاحیت کے ساتھ ہتھیاروں کی معرکہ آرائی ہے۔ یہ سب جہاد فی سبیل اللہ کے شعبے اور اعلاء کلمۃ اللہ کے ناگزیر تقاضے ہیں۔
اس لیے آج کے دور میں ’سنت نبوی کی روشنی میں جہاد کا مفہوم‘ یہ ہے کہ:
یہ کام دراصل مسلم حکومتوں کے کرنے کے ہیں اور انہیں او آئی سی کے عملی ایجنڈے کا حصہ ہونا چاہیے لیکن اگر دینی مراکز اور اسلامی تحریکات بھی باہمی ربط ومشاورت کے ساتھ ان مقاصد کے لیے مشترکہ پیش رفت کا اہتمام کر سکیں تو حالات کو خاصا بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

انصاف یا جنگل کا قانون؟

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

شیخ زید اسلامک سنٹر پنجاب یونیورسٹی لاہور کی سالانہ سیرت کانفرنس میں ’’سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم‘‘ کے عنوان سے راقم الحروف کی گزارشات قارئین کی نظر سے گزر چکی ہیں۔ اس کانفرنس سے مولانا حافظ صلاح الدین یوسف‘ ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی اور دیگر علماء کرام نے بھی خطاب کیا جبکہ مہمان خصوصی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر ایس ایم زمان تھے جنہوں نے اپنے اختتامی خطاب میں راقم الحروف کی معروضات کو سیرت النبی ﷺ کے صحیح رخ پر مطالعہ کی کوشش قرار دیا اور کہا کہ آج کے عالمی حالات اور مشکلات ومسائل کو سامنے رکھتے ہوئے سیرت نبوی ﷺ کے اسی طرز کے مطالعہ کی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے میری گزارشات کے حوالے سے دو پہلوؤں پر اپنے تحفظات کا بھی اظہار فرمایا جن کے بارے میں خود میرا بھی خیال ہے کہ ان کی وضاحت ضروری تھی اور یہ وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کے خطاب کے بعد اس سیرت کانفرنس میں مزید کچھ گزارش کرنے کی گنجائش نہیں تھی اس لیے ان امور کی طرف توجہ دلانے پر ڈاکٹر ایس ایم زمان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ’’نوائے قلم‘‘ کے ذریعے سے ان کے بارے میں ضروری معروضات پیش کر رہا ہوں۔
ایک بات تو یہ ہے کہ مذہب کے لیے ہتھیار اٹھانے سے کیا مراد ہے؟ ڈاکٹر صاحب کا ارشاد ہے کہ اگر تو اس سے مراد مذہب کے دفاع کے لیے ہتھیار اٹھانا ہے تو اس سے کسی کو اختلاف نہیں ہے اور اگر اس کا مطلب مذہب کی تبلیغ کے لیے ہتھیار اٹھانا ہے تو یہ بات محل نظر ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے کسی کافر کو زبردستی مسلمان بنانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور قرآن کریم نے سورہ بقرہ کی آیت ۲۵۵ میں صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ ’’دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔‘‘
مجھے ڈاکٹر صاحب موصوف کی دونوں باتوں سے اتفاق ہے لیکن یہ معاملہ ان دو صورتوں میں منحصر نہیں ہے بلکہ ایک اور صورت بھی درمیان میں ہے جس کو سامنے نہ رکھنے کی وجہ سے عام طور پر یہ الجھن پیش آجایا کرتی ہے۔ وہ ہے اسلام کی دعوت وتبلیغ اور نسل انسانی تک اسلام کا پیغام پہنچانے میں رکاوٹ بننا ۔اور اسلام نے کافر قوتوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا حکم اسی صورت میں دیا ہے جبکہ وہ لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچنے میں رکاوٹ بن جائیں کیونکہ اسلام یہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس جو پیغام ہے‘ صرف وہی نسل انسانی کی نجات کا ضامن ہے اور انسانی معاشرہ اس کے بغیر نجات وفلاح اور امن وخوش حالی کی منزل سے ہم کنار نہیں ہو سکتا اس لیے جو لوگ شخصی اور مقامی دائروں میں اسلام قبول نہیں کرتے لیکن اسلام کی دعوت میں بھی رکاوٹ نہیں بنتے‘ اسلام ان سے کوئی تعرض نہیں کرتا اور انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا لیکن جو کافر اسلام قبول نہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف اس قدر معاندانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں کہ اس کی دعوت میں رکاوٹ بن جائیں تو اسلام ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی بات کرتا ہے۔ یہ ہتھیار اٹھانا کسی کو قبول اسلام پر مجبور کرنے کے لیے نہیں بلکہ اسلام کی دعوت میں رکاوٹ بننے سے روکنے کے لیے ہے چنانچہ جناب نبی کریم ﷺ نے جہاد کے حوالے سے اپنے کمانڈروں کو یہی ہدایات دی ہیں کہ سب سے پہلے اسلام کی دعوت پیش کرو۔ اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو بات ہی ختم ہو جاتی ہے اور کوئی تنازع باقی نہیں رہتا لیکن اگر وہ اسلام قبول نہیں کرتے تو دوسرے نمبر پر کافروں کے سامنے یہ پیش کش رکھنے کی ہدایت جناب نبی اکرم ﷺ کی طرف سے دی گئی ہے کہ اپنے کفر پر قائم رہتے ہوئے اسلام کی بالادستی (عالمی کردار) کو قبول کر لو۔ اگر وہ یہ درجہ قبول کر لیں تو بھی ان کی جان ومال سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا بلکہ اسلامی ریاست ان کے جان ومال کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کرتی ہے اور اسے نبھاتی ہے۔ اس کے بعد تیسرے درجے میں یہ بات ہے کہ اگر وہ اسلام قبول نہ کریں اور اسلام کی بالادستی (عالمی کردار) کو قبول نہ کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام کی دعوت وتبلیغ کی راہ میں مزاحم ہیں اور رکاوٹ بن رہے ہیں چنانچہ اس صورت میں جناب نبی اکرم ﷺ نے ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا حکم دیا ہے اور اسے جہاد فی سبیل اللہ قرار دیتے ہوئے اس کا مقصد اعلاء کلمۃ اللہ بتایا ہے۔
یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے امریکہ اور اس کے اتحادی یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت جو عالمی نظام اور بین الاقوامی سسٹم موجود ہے اور جس تہذیب وثقافت نے اس وقت پوری دنیا کو گھیرے میں لے رکھا ہے‘ وہی نظام اور وہی ثقافت نسل انسانی کے لیے سب سے بہتر ہے اور اس سے بہتر کسی سسٹم اور تہذیب کا کوئی امکان نہیں ہے اس لیے دنیا کا جو ملک اور قوم ان کے نزدیک اس نظام وثقافت کے عالمی کردار کے لیے خطرہ قرار پاتا ہے‘ وہ اس کے خلاف چڑھ دوڑتے ہیں‘ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں اور پھر ہزاروں انسانوں کی ہلاکتوں کے باوجود بڑے فخرکے ساتھ اس اطمینان کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم نے عالمی تہذیب کو بچا لیا ہے اور ورلڈ سسٹم کو درپیش خطرات کو ختم کر دیا ہے۔
میں اس مرحلے میں اپنے اس موقف کا پھر اعادہ کرنا چاہوں گا کہ اگر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایک تہذیب اور سسٹم کو نسل انسانی کے لیے سب سے بہتر سمجھتے ہوئے اس کے عالمی غلبہ کے تحفظ کے لیے ہتھیار اٹھائیں تو وہ کسی دوسری تہذیب اور نظام کے علم برداروں کو اس حق سے محروم نہیں کر سکتے کہ وہ اگر اپنے نظام وتہذیب کو نسل انسانی کے لیے دیانت داری کے ساتھ زیادہ بہتر سمجھتے ہیں تو اس کے عالمی کردار کے قیام اور تحفظ کے لیے ہتھیار اٹھائیں اور اگر وہ (امریکی) اپنے لیے یہ حق محفوظ رکھتے ہوئے دوسرے ہر فریق کو اس حق سے محروم کر دینا چاہتے ہیں تو اس کا نام انصاف نہیں بلکہ یہ جنگل کا قانون اور طاقت کی حکمرانی ہے جو طاقت اور اسلحہ کے زور پر قائم تو کی جا سکتی ہے لیکن اخلاقی جواز اور انصاف کی بنیاد سے محروم ہونے کی وجہ سے اسے قائم رکھنا بھی ممکن نہیں رہا اور نہ آئندہ ہی ایسا کوئی امکان ہے۔
ڈاکٹر ایس ایم زمان نے دوسرا سوال یہ اٹھایا کہ میں نے جن چھاپہ مار کارروائیوں کا حوالہ دیا ہے‘ ان کے حوالے سے دہشت گردی کی ایسی کارروائیوں کی حمایت نہیں کی جا سکتی جن میں بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں اور نہ ایسی کسی کارروائی کو ہی جائز قرار دیا جا سکتا ہے جس میں کسی بستی ‘ چوک یا ریڑھی میں بم رکھ کر بے گناہ شہریوں کے جسموں کے پرخچے اڑا دیے جاتے ہیں۔
مجھے ڈاکٹر صاحب محترم کے اس ارشاد سے بھی اتفاق ہے لیکن اس وضاحت کے ساتھ کہ ہر چھاپہ مار کارروائی دہشت گردی نہیں ہوتی اور ہمیں چھاپہ مار کارروائی اور دہشت گردی میں فرق کرتے ہوئے ان کے درمیان کوئی حد فاصل قائم کرنا ہوگی۔ جناب نبی اکرم ﷺ نے کعب بن اشرف‘ ابو رافع اور اسود عنسی کے قتل کے لیے جن کارروائیوں کا حکم دیا ‘ وہ چھاپہ مار کارروائیاں ہیں اور حضرت ابوبصیرؓ نے سمندر کے کنارے عسکری کیمپ قائم کر کے قریش مکہ کے خلاف جو کارروائیاں کیں‘ وہ بھی چھاپہ مار کارروائیاں ہیں لیکن ان میں سے کسی کو بھی دہشت گردی قرار نہیں دیاجا سکتا۔ یہ کارروائیاں متعین اہداف کے خلاف تھیں اور ان کارروائیوں کا دائرہ بھی اہداف تک محدود رہا جبکہ بدر کی جنگ سے قبل ابو سفیان کے تجارتی قافلہ کو روکنے کے لیے جناب نبی اکرم ﷺ کی تیاری اور قریش کے تجارتی راستے میں چھاپہ مار کیمپ قائم کر کے حضرت ابوبصیرؓ کا قریش کی شام کی تجارت میں رکاوٹ ڈالنا یہ دشمن کی معیشت پر ضرب لگانے کی کارروائیاں تھیں اور یہ بھی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردی نہیں ہیں۔ البتہ اس سے ہٹ کر جناب نبی اکرم ﷺ نے سول آبادی اور بے گناہ اور غیر متعلق شہریوں کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے بارے میں جناب نبی اکرم ﷺ کی واضح ہدایات موجود ہیں اور اسی وجہ سے غیر متعلقہ‘ بے گناہ اور اور نہتے شہریوں کو کسی قسم کی عسکری کارروائی کا نشانہ بنانا‘ اسی طرح کسی بس یا چوک میں بم رکھ کر یا کسی مسجد یا امام بارگاہ میں بم پھینک کر بے گناہ لوگوں کی جانوں سے کھیلنا یقیناًدہشت گردی ہے جس کی کوئی بھی ذی شعور شخص حمایت نہیں کر سکتا۔ مگر ایک سوال باقی ہے کہ کسی ضروری ہدف کو نشانہ بناتے ہوئے اگر ناگزیر درجے میں کچھ بے گناہ بھی زد میں آ رہے ہوں تو پھر کیا کیا جائے؟ تو اس کے بارے میں ابو داؤد شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم ﷺ کا واضح ارشاد موجود ہے کہ ایک غزوہ میں جناب نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا گیا کہ دشمن کی قوت توڑنے کے لیے فلاں جگہ شب خون مارنا ضروری ہو گیا ہے مگر وہاں کچھ غیر متعلقہ لوگ بھی موجود ہیں جو حملہ کی صورت میں زد میں آ سکتے ہیں تو نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’وہ بھی انہی میں سے ہیں‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگی ضروریات کے لیے اگر کہیں کارروائی ناگزیر ہو جائے اور اس کارروائی کی زد میں غیر متعلقہ لوگ آ رہے ہوں تو مجبوری کے درجے میں اسے گوارا کیا جا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے امریکی اتحاد نے اہداف کو نشانہ بناتے ہوئے ہزاروں بے گناہ افغانیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے اور اس کا جواز صرف یہی پیش کیا جاتا ہے کہ جنگی کارروائی کے لیے ایسا ناگزیر تھا اور اس سے کوئی مفر نہیں تھا ۔
امید ہے کہ ڈاکٹر ایس ایم زمان کے اٹھائے ہوئے دو سوالوں کی مناسب وضاحت قارئین کے سامنے آ گئی ہوگی۔ ا س سلسلے میں اگر مزید کوئی بات وضاحت طلب ہو تو اس کے لیے بھی حاضر ہوں۔ ان شاء اللہ۔
(بشکریہ روزنامہ اوصاف اسلام آباد)

سیرت النبی ﷺ کے خلاقی پہلو اور فکر اقبالؒ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

غلطیاں بانجھ نہیں ہوتیں‘ یہ بچے دیتی ہیں۔ اگر ہم مسلم تاریخ اور مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی کا مطالعہ اس تناظر میں کریں تو نہ صرف اس فقرے کی صداقت کو تسلیم کر لیں گے بلکہ معروضی انداز سے تجزیہ کرتے ہوئے بنیادی غلطی تک پہنچنے کے قابل بھی ہو سکیں گے۔ جو بنیادی غلطی ہم سے سرزد ہوئی‘ جس نے ہمیں راہ حق سے بھٹکا دیا اور بوجوہ قدروں کے بگاڑ کا سبب بنتے ہوئے دین کی حقیقی صورت ہماری نظروں سے اوجھل کر دی‘ وہ ’’عمل‘‘ سے فرار ہے:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
پہلے سے طے شدہ اور خود ساختہ موقف کو اپنانے کے بجائے اگر کوئی سلیم الفطرت شخص دین اسلام کا مطالعہ کرے تو اس پر نہایت سہولت سے واضح ہو جائے گا کہ دین اسلام کا مخاطب انسان ہے اور اس کا غالب رجحان نظری کے بجائے عملی ہے۔ اس طرح پورے دین کی تصویر ’’عملی انسان‘‘ کے الفاظ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ دین اسلام کا امتیازی وصف یہ ہے کہ ’’عملی انسان‘‘ کا تصور بھی محض نظری طور پر پیش نہیں کیا گیا بلکہ اس کی نظری تصویر کے متوازی ایک عملی شخصیت بطور ’’نمونہ کامل‘‘ موجود ہے۔ یہ نمونہ کامل وقت کے دھارے میں گم نہیں ہوا بلکہ دین اسلام کے ’’عملی انسان‘‘ کے اظہار اور تسلسل کے لیے نظری پہلو کا حصہ بن چکا ہے۔ بقول اقبال:
وہی قرآں‘ وہی فرقاں‘ وہی یاسیں‘ وہی طٰہٰ
رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی مبارک زندگی قرآن مجسم تھی۔ آپ کے اقوال واعمال حق وباطل کے درمیان فرقان تھے۔ چونکہ قرآن مجید کی روش اختیاری ہے اور رسول پاک ﷺ کی حیات مبارکہ مجسم قرآن ہے‘ لہذا نبی کی زندگی لازماً عملی اور اختباری روش کی حامل ہوگی۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ اپنی کتاب ’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ کے پہلے خطبے میں رقم طراز ہیں:
’’صحیح بخاری اور دوسری کتب حدیث میں حضور کے اس مشاہدے کی پوری تفصیل درج ہے جس کا تعلق ابن صیاد ایسے وارفتہ نفس یہودی نوجوان سے تھا اور جس کی وجدانی کیفیتوں نے حضور رسالت مآب ﷺ کی توجہ اپنی طرف منعطف کر لی تھی۔ حضور نے اس کی آزمائش کی‘ طرح طرح کے سوالات پوچھے اور مختلف حالتوں میں اس کا معائنہ کیا۔ ایک مرتبہ آپ ایک درخت کے پیچھے کھڑے ہو گئے تاکہ وہ الفاظ سن سکیں جو ابن صیاد آپ ہی آپ بڑبڑا رہا تھا لیکن اس کی ماں نے اسے حضور کی موجودگی سے متنبہ کر دیا جس پر اس کی وہ حالت کافور ہو گئی اور حضور نے فرمایا کہ اگر اس کی ماں اسے متنبہ نہ کر دیتی تو ساری حقیقت کھل جاتی۔‘‘
ڈاکٹر اقبال سلسلہ گفتگو کو بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’بہرحال یہ ابن خلدون تھا جس نے عالم اسلام میں سب سے پہلے یہ سمجھا کہ حضور کے اس طرز عمل کے معنی فی الحقیقت کیا ہیں اور پھر اس کی قدروقیمت کا اندازہ کرتے ہوئے بڑی حد تک وہ مفروضہ قائم کر لیا جس کو آج کل نفوس تحت الشعور سے منسوب کیا جاتا ہے۔‘‘
ابن خلدون کی اس توصیف سے پہلے اقبال لکھتے ہیں کہ:
’’بایں ہمہ اصحاب رسول ﷺ جو اس واقعہ پر‘ جسے گویا تاریخ اسلام میں نفسیاتی تحقیقات کا پہلا واقعہ تصور کرنا چاہیے‘ موجود تھے، علی ٰ ہذا حضرات محدثین بھی‘ جنہوں نے آگے چل کر یہ ساری روایت باحتیاط نقل کی‘ حضور ﷺ کے اس طرز عمل کی صحیح اہمیت سمجھنے سے قاصر رہے اور اس کی تشریح اپنے معصومانہ انداز میں کی۔‘‘
ڈاکٹر اقبال نے محدثین کے طرز عمل کی بابت یہاں بہت محتاط الفاظ (’’معصومانہ انداز‘‘) استعمال کیے ہیں لیکن ضرب کلیم میں کہتے ہیں:
حلقہ شوق میں وہ جرات اندیشہ کہاں
آہ محکومی وتقلید وزوال تحقیق
علماء کرام اور حضرات محدثین کا طرز عمل اس امر کا غماز ہے کہ انہوں نے اپنے مخصوص ذہنی سانچے سے باہر نکل کر ماحول اور حالات پر واقعیت پسندانہ نظر نہیں دوڑائی۔ اس کے برعکس رسالت مآب ﷺ کی حیات مبارکہ میں ماحول اور حالات کو بھانپ لینے کی قوت اور واقعیت پسندی بدرجہ اتم موجود ہے۔ دعوت اسلام کا آغاز‘ کوہ صفا کا واقعہ‘ ہجرت مدینہ‘ میثاق مدینہ‘ صلح حدیبیہ‘ غزوات میں ٹھوس حکمت عملی‘ فتح مکہ پر مخصوص طرز عمل‘ بین الاقوامی سفارت کاری وغیرہ اس سلسلے میں چند مثالیں ہیں۔ جیسا کہ ذکر ہوا‘ رسول اکرم ﷺ کی زندگی مجسم قرآن تھی لہذا یہ واقعیت پسندی قرآنی آئیڈیلز کی متشکل صورت تھی۔
پاکستان میں سیرت النبی ﷺ پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ بازار میں بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ وزارت مذہبی امور ہر سال سیرت کانفرنس کا انعقاد کرتی ہے لیکن افسوس کامقام ہے کہ مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو رہے۔ معاشرے کی صورت پذیری قرآنی آئیڈیلز اور نبی ﷺ کی سنت کے مطابق نہیں ہو رہی۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ بنیادی وجہ وہی ہے: بے عملی۔ چونکہ ہمارا عمومی رویہ بے عملی کا بن چکا ہے‘ اس لیے نظری مباحث‘ مثلاً کانفرنسوں میں تقاریر‘ مقالے‘ کتابیں وغیرہ‘ مخصوص‘ متعین اور لگی بندھی نوعیت کی چیزیں ہیں۔ سیرت کانفرنس کے مقالہ جات کے عنوانات دیکھیے۔ اگر اتفاق سے عنوانات میں کہیں واقعیت پسندی نظر آئے گی تو مواد‘ اسلوب اور صاحب مقالہ کی اپروچ عنوان کا ستیاناس کر دے گی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگر قومی سطح کی کانفرنسوں کے مقالہ جات کا جب یہ معیار ہے تو صورت حال کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ دین سے رغبت رکھنے والے طبقے کی اکثریت اس مخصوص بے عملی کے سبب سے گرفتار خرافات ہے۔ بقول اقبال ایک باعمل مرد حر‘ جو واقعیت پسندی سے محترز نہیں ہوتا‘ وقت کی لگام ہاتھ میں لے لیتا ہے:
آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور
محکوم کا اندیشہ گرفتار خرافات
لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنے باعمل مرد حر موجود ہیں؟ کیونکہ ایسے افراد کی کاوشوں سے ہی ’’حقیقت‘‘ منور ہو کر سب کو اپنی طرف کھینچے گی۔ نبی ﷺ کو حقیقت کی کتنی جستجو رہتی تھی‘ یہ ان دعائیہ کلمات سے واضح ہے جو اکثر وبیشتر آپ کی زبان پر جاری ہوتے تھے: اے اللہ‘ مجھ کو اشیا کی اصل حقیقت سے آگاہ فرما۔‘‘ ڈاکٹر اقبال کی رائے میں اشیا کی اصل حقیقت تک رسائی‘ قرآن مجید کی رو سے‘ انسان کی اختباری روش میں پنہاں ہے۔ اقبال کے مطابق قرآن مجید نے انسان کے ایسے طرز عمل کو اس کی روحانی زندگی کا ایک ناگزیر مرحلہ ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ تعلیمات قرآن کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نے حقیقت کے اس پہلو کو جس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے‘ بے حد اہمیت دی۔ ڈاکٹر اقبال رقم طراز ہیں کہ:
’’یہ فطرت ہی کے پیہم انقلابات ہیں جن کے پیش نظر ہم مجبور ہو جاتے ہیں کہ اپنے آپ کو نئے نئے سانچوں میں ڈھال دیں۔ پھر جوں جوں ہم اپنی ذہنی کاوشوں سے علائق فطرت پر غلبہ حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں‘ ہماری زندگی میں وسعت اور تنوع پیدا ہوتا اور ہماری بصیرت تیز تر ہو جاتی ہے۔ یونہی ہم اس قابل ہو جاتے ہیں کہ محسوسات ومدرکات کے زیادہ نازک پہلو اپنی گرفت میں لے آئیں اور یونہی اشیا کے مرور زمانی پر غور وفکر کرتے کرتے ہم اپنے اندر یہ استعداد پیدا کر لیتے ہیں کہ لازمانی کا تعقل کر سکیں۔‘‘
قارئین کرام! اس اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں وسعت اور تنوع پیدا نہیں ہونے دیا۔ بوجوہ ہماری بصیرت کہنگی کا طواف کر رہی ہے۔ قرآن مجید کی اختباری روش اور سیرت النبی ﷺ کے خلاقی پہلو سے محترز ہونے کے باعث ہم فطری انقلابات کا سامنا کرنے سے گھبرا رہے ہیں۔ اسی گھبراہٹ سے وہ بے عملی پھوٹ رہی ہے جس کا اوپر کی سطروں میں ذکر ہوا حالانکہ انسان تو انسان بنتا ہی باعمل اور تخلیق کار ہونے سے ہے۔ اقبالؒ وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جب انسان کے گرد وپیش کی قوتیں اسے اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں تو وہ ان کے جیسی چاہے شکل دے سکتا اور جس طرف چاہے موڑ سکتا ہے لیکن اگر اس کا راستہ روک لیں تو اسے یہ قدرت حاصل ہے کہ اپنے اعماق وجود میں اس سے بھی ایک وسیع تر عالم تیار کر لے جہاں اس کو لا انتہا مسرت اور فیضان خاطر کے نئے نئے سرچشمے مل جاتے ہیں۔ اس کی زندگی میں آلام ہی آلام ہیں اور اس کا وجود برگ گل سے بھی نازک۔ بایں ہمہ حقیقت کی کوئی شکل ایسی طاقت ور‘ ایسی ولولہ خیز اور حسین وجمیل نہیں جیسی روح انسانی۔ لہذا باعتبار اپنی کنہ کے‘ جیسا کہ قرآن پاک کا ارشاد ہے‘ انسان ایک تخلیقی فعالیت ہے‘ ایک صعودی روح جو اپنے عروج وارتقا میں ایک مرتبہ وجود سے دوسرے میں قدم رکھتا ہے ...... انسان ہی کے حصے میں یہ سعادت آئی ہے کہ اس عالم کی گہری سے گہری آرزوؤں میں شریک ہو جو اس کے گرد وپیش میں موجود ہے اورعلیٰ ہذا اپنی کائنات کی تقدیر خود متشکل کرے‘ کبھی اس کی قوتوں سے توافق پیدا کرتے ہوئے اور کبھی پوری طاقت سے کام لیتے ہوئے اسے اپنی غرض وغایت کے مطابق ڈھال کر۔‘‘
اس پیرا گراف کا آخری فقرہ توجہ طلب ہے۔ اقبال لکھتے ہیں کہ:
’’اس لحظہ بلحظہ پیش رس اور تغیر زا عمل میں خدا بھی اس کا ساتھ دیتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ پہل انسان کی طرف سے ہو۔‘‘
قارئین کرام! تسخیر فطرت‘ واقعیت پسندی اور تخلیقی اپج کے اعتبار سے ہماری عصری تاریخ سے مترشح ہوتا ہے کہ ہم یہ شرط پوری کرنے پر تیار نہیں۔ حکومتی بے حسی پر بات کرنے کا فائدہ ہی نہیں کہ حکومتوں کے اپنے ایجنڈے ہوتے ہیں۔ ملال کی بات تو یہ ہے کہ دینی مدارس جمود کی انتہاؤں کو چھو چکے ہیں۔ عالمی سطح پر مسلمانوں کا جو حشر ہو رہا ہے اور پاکستان میں خود ان مدارس کی جو درگت بنتی نظر آرہی ہے‘ ا س سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان مدارس کے کرتا دھرتا لوگ ’’تخلیقی فعالیت‘‘ کے منصب پر، غالباً، کبھی فائز نہیں ہو سکتے۔ اپنی طرف سے پہلے کرنے کے بجائے وہ معاملہ خدا کے سپرد کیے ہوئے ہیں‘ حالانکہ:خدائے زندہ‘ زندوں کا خدا ہے۔
قرآن مجید اور سیرت خاتم النبیین ﷺ ہماری زندگیوں میں تبھی انقلاب لا سکتے ہیں اگر ہم سب سے پہلے اپنے گرد وپیش کے حالات اور ماحول پر شعوری گرفت قائم کر لیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ عصر حاضر اور اس کے تقاضوں کو سمجھنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دین اسلام کی حقیقی روح کو بھی تحقیق وجستجو کے زور پر خرافات‘ توہمات اور وہم وگمان کے چنگل سے چھڑانا ہے:
شیر مردوں سے ہوا بیشہ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی وملا کے غلام اے ساقی
ہمیں تقلید محض کے بجائے بیشہ تحقیق سے ’’جدت کردار‘‘ بھی تراشنا ہے:
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
لفظ گری اور اصطلاحوں کی طوطا مینا میں الجھنے کے بجائے عصری تفہیم کی جیکٹ پہن کر‘ قرآن میں غوطہ زن ہو کر‘ چن چن کر ایسے قرآنی آئیڈیلز معاشرتی سطح پر لانے ہیں جو جدت کردار کی تشکیل میں رہنمائی کر سکیں:
عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں
گویا اقبال عصر حاضر کے تقاضاؤں سے پر امید ہیں کہ انہی کے بطن سے جدت کردار کی راہیں ہویدا ہوں گی لیکن ’’ابلیسی خوف‘‘ بنیادی رکاوٹ ہے لہذا دین اسلام کو معاشرتی سطح پر زندگی میں سمونے کے لیے ضروری ہے کہ:
۱۔ عصر حاضر کو سمجھا جائے اور ابلیسی خوف کو دور کیا جائے۔
۲۔ عصر حاضر کے تقاضوں اور مسائل کی بابت بھی کماحقہ آگاہی حاصل کی جائے۔
ان دو تقاضوں کو پورا کیے بغیر عصر حاضر کے چیلنج کا سامنا نہیں کیا جا سکتا:
جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر
تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریف سنگ
مثلاً ہم سب جانتے ہیں کہ آج کا دور تخصیص (Specialization) کا دور ہے۔ فرد کی زندگی کے نظری اور عملی پہلوؤں میں یک رخی اپروچ ہے۔ تخصیص کی بربریت جلد ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے چنانچہ اب مغربی ممالک میں Working Father (کمائی میں مصروف باپ) جیسے معاشرتی موضوعات پر کام ہو رہا ہے۔ زندگی کی تیز رفتاری اور تخصیص نے دو آتشی تلوار کا روپ دھار لیا ہے۔ ایک آدمی اپنی زندگی کی مختلف حیثیتوں میں توازن ملحوظ نہیں رکھ پاتا جس سے بے پناہ معاشرتی‘ نفسیاتی اور جذباتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اہل مغرب اپنے انداز سے ان مسائل کا حل ڈھونڈ رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ نبی ﷺ کی حیات طیبہ ہماری بہتر راہنمائی کر سکتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ آج کے عہد کے تناظر میں رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کریں اور یہ دکھائیں کہ آپ باپ ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرتی زندگی میں بہت فعال تھے۔ آپ نے معاشرتی فعالیت اور پدرانہ ذمہ داریوں میں بہترین توازن کا مظاہرہ کیا اور تخصیص کے بجائے شخصی جامعیت کی راہ اختیار کی۔ شخصی جامعیت کے فوائد وثمرات اور اہمیت کے ضمن میں‘ اہل مغرب کا تخصیص کی بربریت پر کیا ہوا تحقیقی کام نہایت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے:
’’...... جب ۱۸۹۰ء میں تیسری نسل نے یورپ کے عقلی افق پر خود کو نمایاں کیا تو ایسے سائنس دان سامنے آئے جن کا موازنہ تاریخ میں کسی اور سے نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ وہی شخص ہے جس کو تمام لوگوں میں سے صائب الرائے قرار دیا جاتا ہے لیکن وہ تو صرف ایک سائنس سے آشنائی رکھتا ہے بلکہ اس سائنس کے بھی کسی ایک کونے کھدرے کو جانتا ہے جس کا وہ ایک فعال تفتیش کار ہے۔ وہ تو اس کو بھی ایک خوبی قرار دیتا ہے اور اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ اس چھوٹے سے دائرۂ کار کے باہر کیا موجود ہے جس کی اس نے خاص طور پر آب یاری کی ہے اور وہ علم کے عمومی شعبوں کے تجسس کو Dilettantism قرار دیتا ہے۔‘‘
’’...... سوال یہ ہے کہ ہر آئندہ نسل کا سائنس دان جو اپنی کارکردگی کے دائرہ عمل کو سکیڑتا چلا گیا ہے‘ سائنس کے دوسرے شعبوں کے ساتھ اس کا رشتہ بھی کمزور پڑ رہا ہے کیونکہ اس کی کائنات کی یہی روابطی توجیہ ہو سکتی ہے اور شاید اسی کا نام سائنس‘ کلچر اور یورپی تہذیب ہے۔‘‘
’’اور پھر انسان خود کو ان شعبوں میں سے کسی کے اندر مقید کر لیتا ہے اور باقی سب کچھ فراموش کر دیتا ہے۔ اس طریق کار کا ٹھوس اور درست ہونا عارضی طور پر اس کے حق میں چلا جاتا ہے مگر حقیقی طور پر یہ علم کا بکھراؤ (Disarticulation) ہے۔‘‘
’’تخصیص کار عالم نہیں ہے کیونکہ وہ ہر اس شے سے لاعلم ہے جو اس کے مخصوص دائرہ کار میں نہیں آتی۔ مگر وہ لاعلم بھی نہیں کیونکہ وہ بہرحال ایک سائنس دان تو ہے اور وہ اپنے حصے کی کائنات کو تو اچھی طرح جانتا ہے۔ چنانچہ ہمیں کہنا پڑے گا کہ وہ علم رکھنے والا لا علم ہے اور یہ بہت ہی سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ اس بیان میں یہ بات مضمر ہے کہ وہ لاعلم آدمی ہے۔ ...... اور حقیقت میں تخصیص کار کا رویہ یہی کچھ ہے‘ سیاست میں‘ آرٹ میں‘ سماجی اعتبار سے اور دوسرے علوم کے متعلق بھی‘ کیونکہ وہ ان معاملات میں ایک قدیم اور لاعلم انسان کا رویہ اپناتا ہے۔‘‘
’’اس غیر متوازن تخصیص کاری کا‘ جو آج کل مروج ہے‘ یہ نتیجہ فکر نکلا ہے کہ اب دنیا میں جس قدر سائنس دان موجود ہیں‘ اتنے کبھی نہیں تھے مگر جہاں تک ثقہ (Cultured)لوگوں کا تعلق ہے‘ وہ تو اتنے بھی نہیں ہیں جتنے مثال کے طور پر ۱۷۵۰ء میں تھے۔‘‘ (بحوالہ ’’سائنس کے عظیم مضامین‘‘، ترجمہ : شہزاد احمد)
قارئین محترم! ان اقتباسات سے میرے موقف کی تصویر پوری طرح آپ پر واضح ہو گئی ہوگی۔ سیرت النبی ﷺ کے ضمن میں جامعیت اور توازن کے موضوعات پر اگرچہ کافی لکھا جا چکا ہے لیکن اس زاویے اور عصر حاضر کے تناظر میں نہیں لکھا گیا۔ اگر ہم عصر حاضر اور اس کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نبی ﷺ کی حیات مبارکہ کے خلاقی پہلو منظر عام پر لا سکیں تو نہ صرف اپنی بے عملیت کا خاتمہ کر سکیں گے بلکہ مغرب کو درپیش معاشرتی مسائل کا حل بھی فراہم کر سکیں گے اور یہی آدمیت ہے جس کا تقاضا دین اسلام ہم سے کرتا ہے۔ جامعیت اور توازن سے ہی آدمیت اپنائی جا سکتی ہے۔ آج بھی انہی کے فقدان سے ایک معاشرتی بحران منہ کھولے کھڑا ہے:
آدمیت زاحترام آدمی 
باخبر شو از مقام آدمی
کسی معاشرے کے اندر اور اقوام کے مابین احترام ومقام آدمی کا نفوذ صرف شخصی جامعیت کا متقاضی ہے۔

اسلامی تحریکات کا ایک تنقیدی جائزہ (۱)

ڈاکٹر یوسف القرضاوی

اسلامی تحریک نہ کمزوریوں سے مبرا ہے نہ تنقید ونصیحت سے بالا وبے نیاز‘ جیسا کہ اسلامی تحریکوں کے بعض مخلص پیروکاروں نے تصور کر لیا ہے۔ اس تصور کے حاملین تحریک اسلامی اور اسلام کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک تحریک پر ناقدانہ نگاہ ڈالنے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اسلام پر تنقید ہو رہی ہے۔ یہی کچھ بعض لادین عناصر بانداز دیگر کرتے ہیں۔ وہ تحریک کی خطائیں گنواتے ہیں تو انہیں براہ راست اسلام سے منسوب کر دیتے ہیں اور اسلام اور اس کے احکام میں کیڑے نکالنے لگتے ہیں۔
یہ تحریک بہرحال انسانوں کی تحریک ہے جو اسلام کے غلبے اور اس کے پیغام کو پھیلانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ تحریک کے افراد اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے تمام ممکنہ اسباب وتدابیر اختیار کرتے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ نہیں اور نہ ہونا چاہیے کہ ان کا اجتہاد وحی ہے اور یہ کسی بحث وتنقید سے بلند ہے۔ ان میں سے کوئی یہ زعم نہیں رکھتا کہ وہ مواخذہ ومحاسبہ سے بری ہے اور اس پر کیے جانے والے اعتراضات ایسے ہیں جنہیں جواب وصفائی کے درخور نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
اسی بنا پر ہمارا خیال ہے کہ تحریک کے جسد وڈھانچہ اور داخلی اسباب پر بحث کی جانی چاہیے کہ یہ اب تک مطلوبہ اسلامی معاشرے کی تعمیر میں کیوں کام یاب نہیں ہو رہی ہے اور اسلامی شریعت اور عقیدے کی روشنی میں زندگی استوار کرنے میں اس کی ناکامی کی علت کیا ہو سکتی ہے۔ یہاں ہم اختیار سے چند اہم اسباب کا جائزہ لیتے ہیں۔

خود احتسابی کا فقدان

سب سے پہلی چیز جس کی لوگ شکایت کرتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ تحریک کے اندر نقد واحتساب کا عمل اگر یکسر مفقود نہیں تو ضعیف ضرور ہے۔ خود احتسابی یا نقد ذاتی سے ہماری مراد یہ ہے کہ اپنی ذات کا محاسبہ کیا جائے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ’’دانا وہ ہے جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا‘‘ یعنی اس کا محاسبہ کرتا رہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’اپنا محاسبہ خود کرو قبل اس کے کہ کوئی تمہارا محاسبہ کرے‘ اپنے عملوں کا وزن اپنے طور پر کر لیا کرو قبل اس کے کہ کوئی تمہارے اعمال کا وزن کرے۔‘‘ بعض بزرگ کہا کرتے تھے: ’’مومن اپنے نفس کا محاسبہ کرنے میں جابر سلطان سے بھی زیادہ شدید ہوتا ہے۔‘‘
یہ تو ہوا انفرادی محاسبہ نفس۔ جس طرح ایک فرد پر لازم ہے کہ وہ دیکھتا رہے کہ وہ اللہ کے معاملے میں کسی تفریط کا شکار نہ ہو اور بندوں کے حقوق میں کوئی کمی نہ چھوڑتا ہو‘ تاکہ اس کا آج ہر کل سے بہتر بنے اور آنے والا کل آج سے بہتر ثابت ہو، اسی طرح جماعت پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے اندر اجتماعی محاسبے کے عمل کو جاری کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو گمراہی پر اکٹھے ہونے سے تو محفوظ رکھا ہے لیکن جہاں تک جماعت کا تعلق ہے‘ وہ خطا اور گم راہی سے محفوظ نہیں سمجھی جا سکتی۔ خاص طور پر اجتہادی امور میں، جہاں ایک معاملے کے متعدد پہلو ہو سکتے ہیں۔ جتنا صحت کا امکان ہوتا ہے‘ اتنا ہی غلطی اور لغزش کا بھی۔ خطا کا امکان بشری کمزوریوں کے ما تحت ہو سکتا ہے۔ یہ ایمان وتقویٰ کے منافی نہیں بلکہ لوازم بشریت میں سے ہے۔ خطا کے رخ پر ان کے قدم بھی پھسل سکتے ہیں جو ہم سب سے کامل ایمان والے ہیں اور میزان میں جن کے عمل قابل ترجیح ہیں۔ صحابہ کرامؓ ہی کو لے لیں۔ غزوۂ احد کے بعد اللہ تعالیٰ کا ان کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟
اولما اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا قلتم انی ھذا قل ھو من عند انفسکم ان اللہ علی کل شی قدیر (آل عمران ۱۶۵)
یہ تمہارا کیا حال ہے کہ جب تم پر مصیبت آ پڑی تو تم کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آئی؟ حالانکہ (جنگ بدر میں) دگنی مصیبت تمہارے ہاتھوں (فریق مخالف پر) پڑ چکی ہے۔ اے نبی‘ ان سے کہو کہ یہ مصیبت تمہاری اپنی لائی ہوئی ہے۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
قرآن نے صحابہؓ کے بعض اقوال واعمال کا تعلق مظاہر ضعف وخطا ہی سے دکھایا ہے:
ولقد صدقکم اللہ وعدہ اذ تحسونہم باذنہ حتی اذا فشلتم وتنازعتم فی الامر وعصیتم من بعد ما اراکم ما تحبون منکم من یرید الدنیا ومنکم من یرید الآخرۃ (آل عمران ۱۵۲)
اللہ تعالیٰ نے (تائید ونصرت کا) جو وعدہ تم سے کیا تھا‘ وہ تو اس نے پورا کر دیا۔ ابتدا میں اس کے حکم سے تم ہی ان کو قتل کر رہے تھے مگر جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام میں باہم اختلاف کیا اور جونہی وہ چیز اللہ نے تم کو دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مال غنیمت) تم اپنے سردار کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے اس لیے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے۔
تحریک اسلامی اپنی مالک آپ ہی نہیں ہے‘ یہ پوری امت اسلامیہ کی متاع ہے۔ یہی نہیں بلکہ آنے والی مسلمان نسلوں کو منتقل ہونے والا ورثہ ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اس کے اثر وقوت کے سرچشموں سے آگاہی بھی حاصل کی جائے اور اس کے ضعف واضمحلال سے سبق بھی سیکھا جائے۔
تحریک اسلامی کے بعض مخلص متبعین تحریک میں تنقید کا دروازہ کھلنے سے اس لیے خوف زدہ رہتے ہیں کہ اس طرح بعض لوگ اس کی اچھائیوں کو بھی برائیاں ظاہر کرنے لگ جائیں گے۔ ایسی تنقید اگر اصلاح کا باعث نہ بن سکے تو فساد ثابت ہوتی ہے۔ اسی نوعیت کا عذر بعض قدیم علما نے اختیار کیا جنہوں نے امت کو اجتہاد کے دروازے بند کر رکھنے کی نصیحت وتاکید کی۔ ان کا خیال تھا کہ ایسے لوگ بھی اجتہاد کے نام پر اللہ کے دین کو تختہ مشق بنا لیں گے جو اس کے اہل نہیں ہیں۔ دین میں بے حقیقت باتوں کو داخل کریں گے‘ علم وبصیرت کے بغیر اجتہادی فیصلے کریں گے‘ خود بھی گمراہی کا شکار ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ لیکن ہمارے خیال میں ایسے لوگوں کے لیے یہ دروازے بند نہیں ہونے چاہییں جو علم وتقویٰ کے لحاظ سے معاملے پر قادر ہوں۔
اسی طرح تحریک اسلامی کے بعض عظیم قائدین پر تنقید کو بھی گوارا نہیں کیا جاتا‘ مبادا تہمت اور خصومت کے تیر ان پر چلنا شروع ہو جائیں۔ حسن البناؒ ‘ ابو الاعلیٰ مودودیؒ ‘ سید قطبؒ اور مصطفیٰ السباعیؒ یا ایسی ہی دیگر فکری اور تحریکی قیادت پر جب تنقیدی رائے زنی کی گئی تو اسے اتہام گردانتے ہوئے یہ سمجھا گیا کہ ان شخصیات کی امامت وعظمت کو طعن کا نشانہ بنایا جا رہا ہے حالانکہ تنقید علمی سطح پر ہو یا عملی اور تحریکی سطح پر‘ کسی شخص کو علمی‘ دینی اور اخلاقی مرتبے سے نیچے نہیں لا سکتی۔ ان رجال عظیم کی فکر صرف وابستگان تحریک ہی کی ملکیت نہیں ہے بلکہ یہ تو مسلمان نسلوں کی ملک ہے۔ چنانچہ نہایت ہی ضروری ہے کہ سب ان کی فکر پر تنقیدی جائزے کے ذریعے سے یہ جان سکیں کہ کہاں مکمل اتفاق ہو سکتا ہے اور کہاں اختلاف کی گنجائش ہے۔ یہ فکر صحت وصواب کے کس قدر قریب ہے اور کس حد تک اس سے بعید ہے۔
خود ان مفکرین نے کبھی اپنے آپ کو معصوم نہیں سمجھا‘ نہ اپنی آرا واجتہاد وفکر کو کبھی ’’تقدس‘‘ کا رنگ چڑھایا۔ حسن البناؒ نے تو اپنے ’’دس اصولوں‘‘ میں یہ بات بہ تاکید کہی ہے کہ نبی ﷺ کے سوا ہر شخص کی بات کو اختیار واخذ بھی کیا جا سکتا ہے اور چھوڑا بھی جا سکتا ہے۔
ان حضرات نے خوب تر کے سفر میں اپنے موقف علمی کو بدلنے میں کبھی عار نہیں سمجھا۔ سید قطبؒ ’’التصویر الفنی ومشاہد القیامۃ فی القرآن‘‘ میں قرآنی بلاغت کے منفرد عظیم نقاد کی حیثیت میں سامنے آئے۔ جب انہوں نے ’’عدالۃ الاسلام ونظامۃ الحیاۃ‘‘ لکھی تو اسلامی نظام معاشرت کی خوبیوں کے پرچارک بنے۔ اس سے آگے فکر بلند نے پرواز کی تو ’’المعالم‘‘ اور ’’فی ظلال القرآن‘‘ میں ایک زبردست تحریکی داعی کے قالب میں ڈھل کر معاشرے میں اسلامی انقلاب کے علم بردار بن گئے۔ ان کے ایک شاگرد نے ان نظریات وآرا میں ان زبردست تبدیلیوں کے ضمن میں ان سے ایک مرتبہ کہا، ’’معاف کیجیے گا‘ آپ کے بھی امام شافعیؒ کی طرح دو مذہب ہیں‘ ایک قدیم اور ایک جدید‘‘۔ سید قطبؒ نے اپنی فکر کے اجتہادی سفر میں ترقی وانقلاب کا اعتراف کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہ کی اور کہا، ’’ہاں‘ شافعی نے صرف فروع میں رائے بدلی‘ میں نے تو اصول میں بھی ایسا کیا ہے۔‘‘ سید مودودیؒ نے اپنی بعض تحریروں پر ابو الحسن علی ندویؒ کی تنقید کو خندہ پیشانی سے قبول کیا‘ اس کا ذرہ برابر برا نہ منایا جبکہ ان کے پیروکار اس معاملے میں دوسری روش اپناتے ہیں۔ وہ کسی ایسی تنقید سے ناراض ہوتے ہیں۔ انہیں اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ تحریک کے مخالفین اس تنقید کے نام پر تحریک اور اس کے زعما کے خلاف ناشائستہ مہم شروع کر دیں گے‘ قابل اعتراض نکات جمع کر کے انہیں اپنے نقطہ نظر سے پرکھیں گے۔ چھوٹی بات کو بڑی بنا کر پیش کریں گے۔ تحریک اور شخصیات سے ایسی باتیں منسوب کریں گے جن کا ان سے قطعاً کوئی تعلق نہ ہوگا۔ 
خود میرے ساتھ ایسا ہوچکا ہے۔ میں نے اپنی کتاب ’’الحل الاسلامی‘‘ میں تحریک اسلامی کی بعض داخلی مشکلات وموانع کا جائزہ لیا تھا۔ کچھ لوگوں نے اس میں سے کچھ لیا‘ کچھ کاٹا‘ کچھ بڑھایا‘ کچھ گھٹایا اور اسے اس شاعر کے طریقے سے پیش کیا جس نے کہا تھا:
ما قال ربک ویل للاولی سکروا
بل قال ربک ویل للمصلینا
’’تیرے رب نے شراب پینے والوں کے لیے ہلاکت نہیں بتائی بلکہ نماز پڑھنے والوں کے لیے تباہی کی وعید سنائی ہے۔‘‘
اس طرح کی تحریف وخرافات سے قطع نظر خالص علمی تنقید جو اخلاق سے کی جائے‘ اسے محض اس ڈر سے نہیں روکنا چاہیے۔

انقسام واختلاف

معاصر اسلامی تحریک میں ایک دوسرا فتنہ یہ ہے کہ تمام جماعتیں اور صفیں انتشار واختلاف اور تقسیم وشکستگی کا شکار ہیں۔ ہر جماعت صرف اپنے آپ ہی کو ’’جماعت المسلمین‘‘ تصور کرتی ہے‘ یہ نہیں مانتی کہ وہ مسلمانوں میں سے ایک جماعت ہے۔ ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ وہی حق پر ہے‘ باقی سب گمراہی کے راستے پر گام زن ہیں۔ صرف اسی جماعت میں شامل ہونے والے جنت کے‘ اور آگ سے نجات کے مستحق ہوں گے۔ وہ واحد ’’فرقہ ناجیہ‘‘ ہے، باقی سب ہلاکت اور دوزخ میں پڑیں گے۔ یہ بات ان میں سے ہر جماعت اگر زبان قال سے نہیں کہتی تو زبان حال سے اسی کا اظہار کرتی ہے۔ امت جس انتشار اور عدم وحدت کا شکار تھی‘ اسی میں تحریکیں ڈوبتی جا رہی ہیں۔ تحریک کا اصل ہدف غلبہ اسلام تک نہ پہنچ پانے اور اس میں استقامت نہ دکھا سکنے میں اسی افتراق وانشقاق کا دخل ہے جس کا احساس بعض مخلص اور غیرت مند افراد کو ہے اور وہ اسی چیز کے شاکی ہیں۔ فکر وعمل کا سفر اسی رخ پر اگر جاری رہا تو اتفاق وتقارب کے رستے منقطع ہو جائیں گے اور جڑنا اور ملنا مشکل ہو جائے گا۔
میں اسلامی جماعتوں کی تعداد کے خلاف نہیں ہوں اسی لیے میں نے موجودہ دراڑوں کو بھرنے کے لیے لفظ ’’وحدت‘‘ کے بجائے ’’تقارب‘‘ استعمال کیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سب اپنے اپنے وجود کو تحلیل کر کے ایک قیادت کے تحت ایک جماعت کی شکل اختیار کرلیں کیونکہ یہ ایک میٹھے اور خوش گوار خواب کے سوا کچھ نہیں۔ عملاً سب کے لیے اتنا بڑا ایثار اور عجز آسان نہیں ہے الا یہ کہ انسان فرشتوں کا روپ دھار لیں۔ پھر جماعتوں کی تعداد اگر محض تنوع اور تخصص کے لیے ہو تو ایسی قبیح بات بھی نہیں ہے بشرطیکہ یہ تصادم وتضاد کی حدود سے محفوظ رہے۔
ہو سکتا ہے ایک جماعت جاہلانہ خرافات اور شرک سے عقیدے کو پاک رکھنے میں خصوصیت رکھتی ہے‘ اس کا مقصود یہ ہو کہ مسلمانوں کے عقیدے درست کر کے قرآن وسنت کے مطابق بنایا جائے۔ کوئی دوسری جماعت عبادات کو بدعات اور دیگر آمیزشوں سے پاک رکھنے کے لیے کوشاں ہو اور چاہتی ہو کہ لوگ دین کی تعلیمات کو سمجھ لیں۔ ممکن ہے کوئی تیسری جماعت مسلم خاندان کے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہتی ہو۔ اس کی دعوت ہو کہ عورتیں شرعی پردے کو اپنائیں اور بن ٹھن کر نمائش زینت نہ کرتی پھریں۔اسی طرح بعض جماعتوں کے پیش نظر سیاسی انقلاب کا نصب العین ہو سکتا ہے۔ وہ انتخاب کے میدان میں کود کر لادینی گروہوں کی سیاسی پیش قدمی کو روکنے کا لائحہ عمل رکھتی ہوں۔ پانچویں قسم ان جماعتوں کی بھی ہو سکتی ہے جو تزکیہ وتربیت اور اجتماعی عمل کو اپنا ٹارگٹ سمجھتی ہیں اور اپنی جملہ کاوشیں اور وقت اسی مقصد کے لیے صرف کرتی ہیں۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ بعض جماعتیں عام لوگوں میں اپنا کام کرتی ہوں‘ اس کے مقابلے میں کچھ دوسری جماعتیں صرف تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے لوگو