جنوری ۲۰۰۱ء
حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ پر ایک نظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حکومت نے آخر کار "حمود الرحمن کمیشن" کی رپورٹ کا ایک اہم حصہ عوام کی معلومات کے لیے کیبنٹ ڈویژن کی لائبریری میں رکھ دیا ہے اور اس کے اقتباسات قومی اخبارات میں شائع ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ۱۹۷۱ء میں ملک سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد مغربی پاکستان کے باقی ماندہ حصے میں قائم ہونے والی بھٹو حکومت نے عوامی مطالبہ پر اس وقت کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سربراہ جسٹس حمود الرحمن مرحوم کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن قائم کیا تھا جس میں پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس انوا ر الحق مرحوم اور سندھ بلوچستان ہائی کورٹ کے سربراہ جسٹس طفیل علی عبد الرحمن مرحوم بھی شامل تھے۔ کمیشن کے ذمہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب و عوامل کی نشاندہی اور اس کے ذمہ دار افراد کے تعین کے ساتھ ساتھ اس سلسلہ میں ضروری کارروائی کے لیے سفارشات اور تجاویز پیش کرنا تھا۔
کمیشن نے دو سو سے زیادہ افراد کے بیانات اور ستر کے لگ بھگ شہادتیں قلمبند کرنے کے بعد اپنی رپورٹ پیش کر دی تھی جو "ٹاپ سیکرٹ" قرار دے دی گئی اور ملک کے عوام کو اس کی تفصیلات کا علم نہ ہو سکا۔ مختلف حلقوں کی طرف سے اس رپورٹ کی اشاعت کا مسلسل مطالبہ کیا جاتا رہا۔ مگر اس رپورٹ کے بعد ملک میں قائم ہونے والی کسی حکومت نے بھی اس مطالبہ پر توجہ نہ دی حتی کہ اس رپورٹ کے کچھ حصے مبینہ طور پر چوری ہوئے اور بھارت کے بعض اخبارات نے گزشتہ دنوں انہیں شائع کر دیا جس پر اس رپورٹ کی اشاعت کا مطالبہ ایک بار پھر منظر عام پر آیا اور وزیر داخلہ جناب معین الدین حیدر کی سربراہی میں ایک کمیٹی نے رپورٹ کا از سر نو جائزہ لے کر اس کے ایک حصے کی اشاعت کی سفارش کر دی جس پر اسے کیبنٹ ڈویژن کی لائبریری میں عوام کے مطالعہ کے لیے رکھ دیا گیا ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق رپورٹ کے آٹھ حصوں میں سے صرف دو حصے "اوپن" کیے گئے ہیں جبکہ باقی چھ حصے بدستور " صیغہ راز" میں ہیں اور اس کے مندرجات کو خارجہ تعلقات کے "حساس امور" قرار دے کر حسب سابق ناقابل اشاعت کے زمرے میں رکھا گیا ہے تاہم جو حصہ شائع ہوا ہے وہ بھی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے اور اس نے ان تمام شبہات ‘ خدشات اور الزامات کی تصدیق کر دی ہے جو اس عظیم سانحہ کے حوالہ سے اس وقت کی فوجی و سیاسی قیادت اور نوکر شاہی کے بارے میں عوامی حلقوں میں وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے ہیں۔
روزنامہ جنگ لاہور ‘ نوائے وقت لاہور اور اوصاف اسلام آباد نے ۳۱ دسمبر ۲۰۰۰ء کے شماروں میں حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کی جو تفصیلات شائع کی ہیں ان میں سے چند اہم نکات درج ذیل ہیں۔
- جنرل یحییٰ خان‘ جنرل عبد الحمید خان‘ جنرل پیرزادہ‘ جنرل مٹھا اور ان کے رفقاء نے ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ء کو صدر محمد ایوب خان مرحوم کو اقتدار سے ہٹانے کی سازش کی جس پر ان کے خلاف کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔
- جنرل یحییٰ خان سمیت ۱۵ اعلیٰ فوجی افسران اپنی نا اہلی‘ کرپشن‘ بد عنوانی اور بدکرداری کی وجہ سے تقسیم ملک کے ذمہ دار ہیں‘ ان کا کورٹ مارشل کیا جائے۔
- ان فوجی افسران نے اپنے مشترکہ مفاد کی خاطر سیاسی جماعتوں پر دباؤ ڈالنے اور انہیں دھمکانے کے علاوہ روپے پیسے کا لالچ دے کر انتخابات کے نتائج اپنے حق میں کرانے کی کوشش کی۔
- پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے منتخب اسمبلی میں عوامی لیگ کا سیاسی طور پر مقابلہ کرنے کی بجائے ڈھاکہ میں ۳ مارچ کو بلائے جانے والے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکہ جانے والے ارکان اسمبلی کی ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکی دے کر انتہائی غیر جمہوری طرز عمل کا مظاہرہ کیا۔
- مسٹر بھٹو نے دو اکثریتی جماعتوں کی تھیوری اور "گرینڈ کولیشن" کی تجویز پاکستان کے وفاق کو بچانے کے لیے نہیں بلکہ کنفیڈریشن کے لیے پیش کی۔
- لیفٹیننٹ جنرل عمر نے سیاسی جماعتوں کو قومی اسمبلی کا اجلاس جلد بلانے کی مخالفت کرنے پر اکسایا۔
- ڈھاکہ میں بلایا جانے والا قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ عرصہ کے لیے ملتوی کرنے پر عوامی لیگ نے سول نا فرمانی شروع کر دی جو اس قدر بھرپور تھی کہ جنرل ٹکا خان مشرقی پاکستان کا گورنرمقرر ہو کر ڈھاکہ پہنچے تو انہیں حلف اٹھانے کے لیے کوئی جج میسر نہیں تھا۔
- یحییٰ خان نے عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن پر دباؤ ڈالا کہ وہ دستور سازی اور چھ نکات کو نظر انداز کر کے حکومت سازی میں پیپلز پارٹی سے تعاون کریں۔
- شیخ مجیب الرحمن واجبی سطح کے لیڈر تھے‘ چھ نکات ان کے مرتب کردہ نہیں تھے اور نہ ہی ان میں اتنی اہلیت و صلاحیت تھی بلکہ یہ چھ نکات جو ملک کے سب سے بڑے سیاسی تنازعہ کی بنیاد بنے مشرقی پاکستان کے ینگ سی ایس پی افسران کے ایک گروپ نے مرتب کیے تھے اور انہیں بیرونی عوامل کی پشت پناہی حاصل تھی جنہوں نے ان چھ نکات کی تشہیر اور مشرقی پاکستان کے عوام کو ان کے حق میں تیار اور متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
- تین مارچ کو ڈھاکہ میں عوامی لیگ کے احتجاجی جلسہ پر فوج کی فائرنگ سے ہزاروں افراد ہلاک و زخمی ہوئے ۔
- ۲۵ مارچ کو فوج نے ڈھاکہ میں آدھی رات کو پوزیشن سنبھال کر فوجی ایکشن شروع کیا جس کے نتیجے میں پچاس ہزار کے لگ بھگ افراد جاں بحق ہوئے۔
- جنرل یحییٰ خان اور ان کے ساتھی جرنیلوں کا اکثر وقت عورت اور شراب کے ساتھ مصروف گزرتا تھا اور اس مقصد کے لیے راولپنڈی صدر میں صدر یحییٰ خان کا ذاتی بنگلہ بدکاری کا اڈہ بن گیا تھا۔
- رپورٹ میں ایک درجن سے زائد عورتوں کی فہرست اور کوائف دیے گئے ہیں جن کے شب و روز یحییٰ خان اور ان کے ساتھی جرنیلوں کے ساتھ گزرتے تھے اور وہ دوسری عورتیں بھی سپلائی کرتی تھیں۔
- یحییٰ خان اکثر اوقات رات سات آٹھ بجے ڈنر کے بہانے ایوان صدر سے نکلتے اور صبح واپس آتے۔
- صدر یحییٰ خان نے صدارتی آفس میں جانا بھی ترک کر رکھا تھا اور بھارت کے ساتھ جنگ کے دوران جی ایچ کیو کے آپریشن روم میں وہ صرف دو تین بار گئے۔
- نومبر ۷۱ء میں عین حالت جنگ کے دوران یحییٰ خان نے گورنر ہاؤس لاہور میں تین روز ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ بسر کیے۔
- جنرل نیازی پان سمگل کرتے تھے‘ رشوت لیتے تھے اور رقاصاؤں کے گھروں میں جاتے تھے۔
- بریگیڈیر حیات اللہ نے مقبول پورکے محاذ جنگ میں عورتیں بنکرز اور مورچوں میں طلب کر لیں۔
- بریگیڈیر جہاں زیب ارباب نیشنل بینک کی سراج گنج شاخ سے ایک کروڑ پینتیس لاکھ روپے لوٹنے کی واردات میں اپنے دوسرے چھ فوجی افسر ساتھیوں سمیت ملوث ہیں۔
- جی ایچ کیو نے جنرل نیازی کو بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا حکم نہیں دیا۔ یہ فیصلہ جنرل نیازی کا ذاتی تھا۔
یہ ہے وہ ایک ہلکا سا خاکہ اس پس منظر کا جو مملکت خداداد پاکستان کے دو حصوں میں بٹ جانے اور سقوط ڈھاکہ جیسے عظیم ملی سانحہ کا باعث بنا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے اس سے کیا سبق حاصل کیا؟ اور ۷۱ء کے بعد ربع صدی سے زائد عرصہ میں مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے‘ اس طرح کے اسباب و عوامل کو روکنے اور حالات کو بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ کیا ایسا تو نہیں کہ ہم نے "جرم" اور "مجرم" دونوں پر پردہ ڈال کر خود کو اندرونی و بیرونی سازشوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور حالات کی اصلاح کے لیے سقوط ڈھاکہ جیسے کسی اور سانحہ کا انتظار کر رہے ہیں؟
نعمتوں کی ناشکری پر عذاب الٰہی کا ضابطہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
عید الفطر کے موقع پر مرکزی عید گاہ اہل سنت گوجرانوالہ میں مدیر "الشریعۃ" کا خطاب ۔
بعد الحمد والصلوٰۃ آج عید کا دن ہے‘ عید خوشی کو کہتے ہیں اور آج دنیا بھر کے مسلمان اس بات پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خوشی اور تشکر کا اظہار کر رہے ہیں کہ رمضان المبارک کا رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ نصیب ہوا اور اس میں ہر مسلمان کو اپنے ذوق اور توفیق کے مطابق اللہ تعالیٰ کی بندگی اور نیک اعمال کا موقع ملا۔ روزہ‘ قرآن کریم کا سننا سنانا ‘ صدقہ خیرات اور نوافل کی توفیق ہوئی‘ اس خوشی میں مسلمان بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہیں اور تشکر و امتنان کا اظہار کر رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ وہ شکر گزاری پر نعمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں ۔ قرآن کریم میں سور ۃ ابراھیم کی آیت ۷ میں ارشاد خداوندی ہے کہ
"اگر تم میری نعمتوں پر شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں مزید دوں گا اور اگر نا شکری کرو گے تو میرا عذاب بہت سخت ہے۔"
یعنی جس طرح شکر گزاری پر نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اسی طرح نا شکری پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت عذاب اور سزا بھی دی جاتی ہے۔اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک اور ضابطہ بھی بیان فرمایا ہے کہ جونعمتیں خود انسانوں کی فرمائش پر انہیں دی جاتی ہیں‘ ان کی ناشکری پر عذاب بھی سب سے زیادہ سخت ہوتا ہے۔ میں نے آج خطبہ کے بعد سورۃ المائدۃ کی جو آیات کریمہ (۱۱۲ تا ۱۱۵) آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ رب العزت نے اسی ضابطہ اور قانون کی وضاحت کی ہے اور ایک تاریخی واقعہ کا تذکرہ کیا ہے‘ سورۃ المائدۃ اسی واقعہ سے منسوب ہے۔ مائدۃ دستر خوان کو کہتے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں بنی اسرائیل کے لیے آسمان سے تیار کھانوں کا خوان اترنے کا واقعہ اس سورہ میں بیان ہوا ہے جس کی وجہ سے اس سورۃ کو "المائدۃ" کہا جاتا ہے‘ وہ واقعہ انہی آیات میں ہے جو میں نے آپ کے سامنے پڑھی ہیں اور ان کا مفہوم یہ ہے کہ
" اور جب حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ کیا آپ کا رب اس کی طاقت رکھتا ہے کہ ہم پر آسمان سے خوان اتارے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ حواریوں نے کہا کہ ہم یہ ارادہ کرتے ہیں کہ ہم اس میں سے کھائیں گے جس سے ہمارے دلوں کو اطمینان نصیب ہوگا اور ہم یہ جان لیں گے کہ آپ نے ہم سے سچ کہا اور ہم اس پر گواہ ہو جائیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دعا کی کہ یا اللہ ہم پر خوان اتار دے۔ وہ ہمارے پہلوں اور پچھلوں کے لیے عید ہوگی اور آپ کی قدرت کی نشانی ہوگی‘ آپ ہمیں رزق عطا فرمادیں کیونکہ آپ بہترین رزق دینے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم پر خوان اتار دوں گا مگر اس کے بعد تم میں سے جس نے نا شکری کی تو میں اسے ایسا عذاب دوں گا کہ وہ عذاب اس کائنات میں اور کسی کو نہیں دوں گا۔"
یعنی جس نعمت کی فرمائش کی جا رہی ہے اس کے ملنے کے بعد بھی اگر نا شکری کی گئی تو اس پر خدا کا عذاب بہت زیادہ سخت اور بے مثال ہوگا اور اس کی سنگینی اور شدت دوسرے عذابوں سے کہیں زیادہ ہوگی۔
ان آیات کے ضمن میں امام ابن جریر طبریؒ نے "تفسیر طبری" میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اور حضرت مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ نے " تفسیر مظہری" میں حکیم ترمذیؒ کی "نوادر الاصول " کے حوالہ سے حضرت سلمان فارسیؓ کی تفصیلی روایات نقل کی ہیں‘ ان دونوں کو سامنے رکھ کر واقعہ کی تھوڑی سی تفصیل آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
ان روایات کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے پیروکاروں کو جب روزہ رکھنے کی تلقین کی اور فرمایا کہ اگر تم ایک ماہ کے روزے رکھو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری دعا کو قبول کریں گے۔ چنانچہ بنی اسرائیل نے ایک ماہ مسلسل روزے رکھے اور جب تیس روزے مکمل ہوگئے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ان کے حواریوں نے عرض کیا کہ ہمارے ہاں رواج ہے کہ جب ہم ایک ماہ تک کسی کے ہاں مزدوری اور کام کرتے ہیں تو وہ ہمیں اپنی طرف سے کھانا کھلاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں کہ وہ ہمارے لیے آسمان سے تیار کھانوں کا خوان اتارے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پہلے تو انہیں تنبیہ کی کہ خدا سے ڈرو ‘ اس قسم کے سوالات مناسب نہیں لیکن جب وہ اپنے سوال پر قائم رہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے خوان اتارنے کی درخواست کر دی جس پر اللہ رب العزت نے خوان اتارنے کا وعدہ کرلیا اور ساتھ ہی فرمایا کہ اگر اس کے بعد بھی نا شکری کی تو پھر میرا عذاب ایسا ہوگا کہ اس کی مثال پوری کائنات میں نہیں ہوگی۔ چنانچہ آسمان سے تیار کھانوں کا دستر خوان اترا بلکہ مسلسل چالیس دن تک اترتا رہا اور بنی اسرائیل سب کے سب روزانہ اس سے کھاتے رہے۔ چالیس دن کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش شروع ہوئی اور حکم ہو اکہ آج کے بعد یہ خوان غریب اور مستحق لوگوں کے لیے ہوگا اور امیر اور صاحب استطاعت افراد کو اس سے کھانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس سے قبل یہ شرط بھی لگائی گئی تھی کہ دستر خوان پر بیٹھ کر جتنا کھا سکتے ہو کھاؤ مگر ساتھ لے جانے اور ذخیرہ کرنے کی اجازت نہیں ہے اور دستر خوان سے کوئی چیز اٹھا کر لے جانے کو خیانت شمار کیا جائے گا۔ مگر امیر لوگ اور صاحب استطاعت افراد ان شرائط کی پابندی نہ کر سکے اور طرح طرح کے حیلے نکال کر خلاف ورزی شروع کر دی جس کی وجہ سے یہ خوان اترنا بند ہوگیا اور خلاف ورزی کرنے والے سینکڑوں افراد کو یہ عذاب ہوا کہ رات کو بے فکری کے ساتھ اپنے بستروں پر محو خواب تھے کہ ان کی شکلیں بدل گئیں اور انہیں خنزیروں کی شکل میں مسخ کر دیا گیا۔ صبح اٹھے تو عجیب صورت حال تھی ۔ دھڑ اور جسم انسانوں کے تھے مگر چہرے اور شکلیں خنزیروں کی بن چکی تھیں۔ بنی اسرائیل میں کہرام مچ گیا‘ سب لوگ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے گرد جمع ہو کر آہ و زاری کرنے لگے۔ وہ سینکڑوں خنزیر نما انسان بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے گرد گھومتے اور روتے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان میں سے کسی کا نام لے کر پکارتے تو وہ سر ہلا کر ہاں کرتا مگر گفتگو کی طاقت سلب ہو چکی تھی۔ ان کا رونا دھونا بعد از وقت تھا اس لیے کسی کام نہ آیا اور وہ خنزیر نما سینکڑوں انسان تین دن اس حال میں رہنے کے بعد موت کا شکار ہوگئے ۔ ان میں سے کوئی زندہ نہ رہا اور نہ ہی کسی کی نسل آگے چلی۔
گویا اس واقعہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قانون کا عملی اظہار فرما دیا کہ وہ عام نعمتوں کی ناشکری پر بھی سزا دیتے ہیں لیکن جو نعمت فرمائش اور درخواست کر کے لی جائے اس کی ناشکری پر ان کا عذاب بہت زیادہ سخت ہوتا ہے۔
اس حوالہ سے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کا ایک ارشاد گرامی بھی آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نے یہ واقعہ بیان کر کے عربوں سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا ۔ "تفسیر ابن کثیرؒ " میں انہی آیات کریمہ کے ضمن میں منقول ہے کہ حضرت عمار بن یاسرؐ نے ایک مجلس میں "مائدہ" والا یہ واقعہ بیان فرمایا اور پھر کہا کہ اے اہل عرب ! تم پر اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا احسان کیا کہ حضرت محمد ﷺ جیسے عظیم پیغمبر تمہیں عطا فرمائے۔ حالانکہ ان سے پہلے تم صرف اونٹ اور بکریاں چرانے والے چرواہے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ کی برکت سے تمہیں عرب و عجم کی بادشاہت مل گئی اور نبی اکرم ﷺ نے تمہیں ہدایت کی کہ سونا چاندی ذخیرہ نہ کرنا یعنی دولت کو جمع کرنے کے بجائے اسے مستحقین پر خرچ کرتے رہنا مگر تم نے دولت کو ذخیرہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس لیے یاد رکھو کہ تم بھی اسی طرح خدا کے عذاب کا شکار ہوگے جس طرح مائدہ والے بنی اسرائیل خدا کے عذاب میں مبتلا ہوئے تھے۔
حضرت عمار بن یاسرؓ نے یہ بات اپنے دورکے پس منظر اور حالات میں کہی تھی لیکن آج کے حالات اور تناظر میں ان کے اس ارشاد گرامی کو دیکھ لیجئے کہ کس طرح حرف بہ حرف صادق آرہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ پون صدی میں عربوں کو تیل اور سونے کی صورت میں جس دولت سے مالا مال کیا‘ اس کی مثال نہیں ملتی لیکن یہ دولت کہاں خرچ ہوئی؟ یہ دولت ملت اسلامیہ کے اجتماعی اور ملی مفاد میں خرچ ہوتی تو اس کا میدان سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ دفاع اور معیشت تھا مگر عربوں کی دولت ان معاملات میں مسلمانوں کے کسی کام نہ آئی اور نہ ہی غریب مسلمانوں اور نادار لوگوں کی ضروریات پر یہ دولت صرف کی گئی البتہ عیاشی پر‘ اللّوں تللّوں پر‘ بیکار بلڈنگوں پر اور شاہانہ اخراجات پر تیل کی دولت برباد ہوگئی اور جو دولت ان کاموں پر صرف نہ ہو سکی وہ مغربی ملکوں کے بینکوں میں ذخیرہ کر دی گئی ہے جو مسلمانوں کے بجائے ان کے دشمنوں کے تصرف میں ہے اور ان کے کام آرہی ہے۔
اللہ نے چھپر پھاڑ کر عربوں کو دولت دی تھی‘ زمین کا سینہ ان کے لیے چاک کر دیا تھا مگر انہوں نے اس عظیم نعمت کی جو ناشکری کی‘ اس کی سزا آج ہم سب بھگت رہے ہیں اور اسرائیل جیسے چھوٹے سے ملک کے سامنے تمام عرب ممالک بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ یہ خدا کا عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ نعمتیں بھی بے حساب دیتا ہے مگر ان کی ناشکری پر اس کی گرفت بھی بڑی سخت اور عبرتناک ہوتی ہے۔ عربوں کو ایک طرف رکھئے خود ہمارا حال کیا ہے؟ ہم نے یعنی جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے " پاکستان" جیسی عظیم نعمت اللہ تعالیٰ سے مانگ کر لی تھی اور یہ کہا تھاکہ یا اللہ ! اس خطہ کے مسلمانوں کو الگ ملک عطا فرما دے‘ ہم اس میں تیرے احکام کی پابندی کا اہتمام کریں گے‘ ہمارے ایک ہاتھ میں قرآن شریف اور دوسرے ہاتھ میں بخاری شریف تھی اور ہم نے لاکھوں کے اجتماع میں عہد کیا تھا کہ پاکستان بن گیا تو ان دو کتابوں کی حکمرانی قائم کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں الگ ملک دے دیا اور پاکستان بن گیا مگر ہم نے کیا کیا؟ اور نصف صدی سے مسلسل کیا کر رہے ہیں؟ ہم نے مملکت خداداد پاکستان کو لوٹ کھسوٹ اور مار دھاڑ کا مرکز بنا لیا۔ ہم میں سے جس کا جتنا داؤ چلا اس نے ملک کو لوٹنے اور اس کے وسائل کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
ہم نے خدا کے قانون کو‘ اسلام کے نظام کو اور قرآن و سنت کی ہدایات کو نظر انداز کردیا اور خواہشات کی غلامی میں لگ گئے۔ آج غریب آدمی کے پاس تن ڈھانپنے کو کپڑا نہیں ہے‘ بجلی کا بل دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں‘کھانے کو روٹی نہیں ہے اور سر چھپانے کو مکان نہیں ہے مگر چند افراد نے اپنی تجوریوں اور بیرون ملکوں بینکوں میں دولت کے انبار لگا رکھے ہیں۔ آج مجھے اور آپ سب کو اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے اور اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم تو عید کے روز نئے کپڑے پہنے‘ خوشبو لگائے اور بنے سنورے بیٹھے ہیں مگر ہمارے اردگرد کتنے لوگ ہیں جو آج کے دن بھی اپنے بچوں کے لیے ایک دن کی عارضی خوشیوں کا اہتمام نہیں کر سکے۔ ان کی تعداد تھوڑی نہیں بہت زیادہ ہے او ردن بدن بڑھتی جا رہی ہے‘ ان لوگوں کا بھی وہی خدا ہے جو سب کچھ دیکھ رہا ہے اور ان لوگوں کے دلوں سے بھی آہیں نکلتی ہیں جو سیدھی عرش پر جاتی ہیں۔ اس لیے ہمیں بنی اسرائیل کے اس واقعہ سے عبرت حاصل کرنی چاہیے‘ سبق لینا چاہیے اور نصیحت پکڑنی چاہیے۔ ابھی وقت ہے اگر ہم ندامت اور توبہ کے ساتھ اپنی اصلاح کا راستہ اختیار کر لیں تو توبہ کا دروازہ کھلا ہے لیکن اگر ہم نے اب بھی سبق نہ سیکھا تو عذاب کا قانون سب کے لیے یکساں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اصلاح اور توبہ کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین
اسلام میں عورت کا مقام
حکیم محمود احمد ظفر
اللہ تعالیٰ کائنات کا خالق بھی ہے اور مالک بھی۔ اس نے لاکھوں اور کروڑوں قسم کی مخلوق پیدا فرمائی اور اس کائنات میں اس کا دائرہ کار Function الگ الگ رکھا۔ اس دنیا میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے عورت کو بھی پیدا فرمایا اور مرد کو بھی اور دونوں کے عضوی اور احساساتی اختلافات کی وجہ سے ان دونوں کا دائرہ کار بھی الگ الگ رکھا اور عملی زندگی میں مرد کو عورت پر فوقیت دی اور فضیلت عطا فرمائی۔ چنانچہ قرآن حکیم میں فرمایا: الرجال قوامون علی النساء "مرد عورتوں پر قوام ہیں"۔ عربی زبان میں قوام‘ قیام اور قیم اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی کام یا نظام کا ذمہ دار اور چلانے والا ہو۔ اس آیت میں قوام کا ترجمہ عموماً "حاکم" کیا جاتا ہے یعنی مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔ مراد یہ ہے کہ ہر اجتماعی نظام کے لیے عقلاً اور عرفاً یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کا کوئی سربراہ یا امیر یا حاکم ہو تاکہ اختلاف کے وقت اس کے فیصلے سے کام چل سکے۔ جس طرح ملک و سلطنت اور ریاست کے لیے اس کی ضرورت سب کے لیے مسلم ہے‘ اسی طرح اس قبائلی نظام میں جس کو "خانہ داری " کہا جاتا ہے‘ اس میں بھی ایک امیر اور سربراہ کی ضرورت ہے۔ عورتوں اور بچوں کے مقابلہ میں اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے مردوں کو منتخب فرمایا کیونکہ ان کی علمی اور عملی قوتیں بہ نسبت عورتوں اور بچوں کے زیادہ ہیں۔ اور یہ ایسا بدیہی معاملہ ہے کہ سمجھدار عورت یا مرد اس کا انکار نہیں کر سکتا۔ (معارف القرآن ج ۲ ص ۳۹۶)
شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ نے اس بارہ میں فرمایا کہ
"خلاصہ یہ کہ مردوں کو عورتوں پر حاکم اور نگران حال بنایا ہے دو وجہ سے : اول بڑی اور وہبی وجہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اصل سے بعضوں کو بعضوں پر یعنی مردوں کوعورتوں پر علم و عمل میں کہ جن دونوں پر تمام کمالات کا دارومدار ہے‘ فضیلت اور بڑائی عطا فرمائی جس کی تشریح احادیث میں موجود ہے۔ " (فوائد عثمانی)
مردوں کو عورتوں پر فکری اور ذہنی اعتبار سے فوقیت حاصل ہے‘ اسی وجہ سے انہیں عورتوں پر قوام بنایا گیا۔ یہ کون سی فکری اور ذہنی صلاحیتیں ہیں‘ ان پر بحث کرتے ہوئے اکمل الدین الباہری قدس سرہ نے عنایہ شرح ہدایہ میں فرمایا کہ :
"نفس انسانی کی قوتوں کو چار درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا درجہ کہ مطلقاً سوچنے سمجھنے کی استعداد موجود ہو۔ یہ استعداد فطرتاً ہر شخص میں پائی جاتی ہے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ جزئیات میں حواس کے استعمال سے بدیہی باتیں دریافت ہونے لگیں (جیسا کہ دیکھ کر رنگ کا پتہ چل جانا اور چکھ کر ذائقہ کا علم ہوجانا وغیرہ وغیرہ) اور عقل اس قابل ہو کہ اس میں غور و فکر کے ذریعہ خاص حقائق کا اکتساب کرنے لگے۔ اس کو اصطلاح میں "عقل بالملکہ" کہتے ہیں۔ اس صلاحیت کے بعد آدمی پر شریعت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ بدیہی حقیقتوں سے جو نظریات مستنبط ہو رہے ہیں ان کے ادراک میں کسی قسم کی دقت اور محنت پیش نہ آئے ‘ اسکا نام "عقل بالفعل" ہے۔چوتھا درجہ یہ ہے کہ نظریات ہمیشہ ذہن میں اسطرح مستحضر رہیں گویا آنکھوں کے سامنے ہیں۔ اسکو "عقل" مستفاد کہا جاتا ہے ۔"
اس کے بعد علامہ اکمل الدینؒ فرماتے ہیں :
"شریعت کی ذمہ داریوں کا دارومدار جس صلاحیت عقل پر ہے یعنی "عقل بالملکہ" عورتوں میں اس کی کمی نہیں‘ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ جزئیات میں حواس کو استعمال کر کے بدیہات کو پا لیتی ہیں۔ اور اگر کسی بات کو بھول جائیں تو یاد دہانی کے بعد ذہن میں حاضر بھی کر لیتی ہیں۔ اگر ان کی صلاحیت میں کسی قسم کا نقص ہوتا تو دین کے جن ارکان کی ذمہ داریاں مردوں پر ڈالی گئی گئی ہیں‘ عورتوں کو اس سے مختلف ارکان کی تکلیف دی جاتی‘ حالانکہ صورت واقعہ یہ نہیں ہے۔ لہذا معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے جو ان کے بارہ میں "ناقصات عقل" فرمایا ہے تو اس سے "عقل بالفعل" مراد ہے۔" (عنایہ علیٰ فتح القدیر ج ۶ ص ۸)
معلوم ہوا کہ وہ عقل جس سے بدیہی حقیقتوں سے جو نظریات مستنبط ہو رہے ہیں ان کے ادراک میں کسی قسم کی دقت اور محنت پیش نہ آئے‘ اس عقل میں عورت کمزور اور ناقص ہے۔ یہ علامہ اکمل الدین کی تحقیق ہے جو قرآنی اصول کو ثابت کرتی ہے کہ مرد عورتوں پر قوام ہیں۔
"مرد عورتوں پر قوام ہیں" قرآن حکیم کی اس بات کو وضعی قانون نے غلط قرار دیا‘ لیکن گزشتہ سو سالہ تجربہ اور تحقیق نے بتایا کہ الٰہی قانون ہی اس معاملہ میں حقیقت سے قریب تر ہے۔ آزادی نسواں کی تحریک کی تمام تر کامیابیوں کے باوجود آج بھی نام نہاد "مہذب دنیا" میں مرد ہی جنس برتر Dominant Sex کی حیثیت رکھتے ہیں۔
آزادی نسواں کی تحریک کے علم برداروں کی سب سے بڑی دلیل اس سلسلہ میں یہ تھی کہ عورت اور مرد کے درمیان کوئی فطری فرق نہیں بلکہ سماجی فرق ہے۔ اگر عورت پر سماجی دباؤ ختم کر دیا جائے تو وہ ہر وہ کام کر سکتی ہے جو مرد کر سکتا ہے اور عورت کسی لحاظ سے مرد سے پیچھے نہیں رہے گی۔
اس تحریک کو دو سو سال سے اوپر ہوگئے ہیں اور ان ملکوں میں یہ تحریک پوری طرح کامیاب بھی ہو چکی ہے جو صنعتی لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں۔ ان ملکوں میں عورت اور مرد کی برابری کے قوانین بھی بنائے جا چکے ہیں مگر قانون یا رواج اور سماج کے لحاظ سے آج کی عورت اب بھی وہاں کے مرد سے بہت پیچھے ہے‘ اور زندگی کے ہر شعبہ میں مرد کی برابری نہیں کر سکی ہے۔
یہ بات صرف میں نہیں کہہ رہا بلکہ یورپ اور امریکہ کا ہر مفکر‘ دانشور اور مبصر اس کا اعتراف کرتا ہے۔ چنانچہ علمی دنیا کی نہایت معتبر کتاب انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا کے مقالہ نگار نے لکھا ہے :
"اقتصادی میدان میں گھر سے باہر کام کرنے والی عورتیں بہت زیادہ تعداد میں کم تنخواہ پانے والے کاموں میں ہیں۔ اور ان کا درجہ (status) سب سے کم اور نیچا ہے ۔ حتی کہ عورتیں ہر اس کام میں جو عورتیں اور مرد دونوں کرتے ہیں‘ کم تنخواہ پاتی ہیں۔ ۱۹۸۲ء میں ایک عام عورت کی تنخواہ امریکہ میں مرد کی تنخواہ کے ۶۰ فیصد کے برابر تھی۔ اور جاپان میں اوسطاً ۵۵ فیصد ۔ سیاسی لحاظ سے بھی سیاسی جماعتوں اور لوکل اور مرکزی حکومتوں میں زیادہ عورتیں مردوں سے نیچی ہیں"
اس سے معلوم ہوا کہ حکماء مغرب نے آزادی نسواں کی تشخیص غلط کی تھی۔ ان کی تشخیص یہ تھی کہ ان دونوں صنفوں میں یہ فرق سماجی حالات کی بنا پر ہے۔ حالانکہ یہ فرق اسلام کی نشاندہی کے مطابق پیدائشی بناوٹ کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی مفکرین نے اس مسئلہ پر بڑی تحقیق کی اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ جب تک ان دونوں صنفوں میں یہ عضوی اور احساساتی فرق رہے گا‘ دونوں کی سماجی حیثیت میں بھی فرق رہے گا۔
"اسلام میں عورت مرد سے کم تر ہے" یہ یورپ کا معاندانہ پراپیگنڈہ ہے جو وہ اسلام کو بدنام کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ آج سے نہیں بلکہ دو تین سو سال سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ چنانچہ مشہور مستشرق ایڈورڈ ولیم لین نے اپنی کتاب Selection from Quran کے دیباچہ میں لکھا ہے :
The fatal point in Islam is the degradation of women
"اسلام میں تباہ کن پہلو عورت کو حقیر درجہ دینا ہے۔"
اسی طرح ایک اور مفکر جے ایم رابرٹس J.M. Roberts نے لکھا :
Its coming was in many ways revolutionary. It kept women, for example, in an inferior position .... (The Pelican History of the World, P.334)
"دنیا میں اسلام کی آمد کئی لحاظ سے انقلابی تھی‘ مثال کے طور پر اس نے عورت کو کم درجہ دیا۔"
اسلام میں عورت کو کم درجہ دیا گیا ہے‘ یہ در اصل اسلام کی بات کو بگاڑ کر پیش کرنا ہے۔ اسلام یہ ہرگز نہیں کہتا کہ عورت مرد سے کم تر ہے بلکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ "عورت مرد سے مختلف ہے" یہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں فرق کا معاملہ ہے نہ کہ ایک کے مقابلے میں دوسرے کے بہتر (Better) ہونے کا۔ مرد اور عورت کے بارہ میں اسلام کے سارے قوانین اسی اصول پر مبنی ہیں کہ عورت اور مرد دو الگ الگ صنفیں ہیں‘ لہذا خاندانی اور سماجی زندگی میں ان کا دائرہ عمل بھی ایک نہیں بلکہ مختلف ہے۔ اور ایک ہو بھی نہیں سکتا ۔ کیونکہ جب دونوں صنفوں کے مابین حیاتیاتی بناوٹ کے لحاظ سے فرق ہے تو ان کے درمیان عمل کے لحاظ سے بھی لازمی طور پر فرق ہونا چاہیے۔
مرد اور عورت کے درمیان جو فرق اسلام نے بتایا ہے اس کو موجودہ دور میں علم انسانی کے ماہرین نے بھی تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ امریکہ کے ایک پروفیسر اسٹیون گولڈ برگ نے لکھا ہے :
"اس فرق کی زیادہ حقیقت پسندانہ توجیہ یہ ہے کہ اس کو مردانہ ہارمون Male Harmone کا نتیجہ قرار دیا جائے جو کہ ابتدائی جرثومہ حیات پر اس وقت غالب آجاتے ہیں جب کہ ابھی وہ رحم مادر میں ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ چھوٹے بچے چھوٹی بچیوں سے ہمیشہ جارح ہوتے ہیں۔"
آگے چل کر پروفیسر گولڈ برگ لکھتا ہے :
"اس کا مطلب یہ نہیں کہ مرد عورتوں سے بہتر ہوتے ہیں بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ مرد عورتوں سے مختلف Different ہوتے ہیں۔ مرد کا دماغ اس سے مختلف کام کرتا ہے جس طرح عورت کا دماغ کام کرتا ہے۔ یہ فرق چوہوں وغیرہ کے نر اور مادہ میں بہت زیادہ واضح طور پر تجربہ کیا جا سکتا ہے۔" (ڈیلی ایکسپریس مورخہ ۴ جولائی ۱۹۷۷ء)
یورپ کے مشہور مفکر‘ دانشور اور نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر الیکسیش کیرل نے بھی اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے اسلام کے نظریہ مرد و زن کی تائید کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اس معاملہ کی حیاتیاتی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :
"مرد اور عورت کے درمیان جو فرق پائے جاتے ہیں وہ محض جنسی اعضاء کی خاص شکل‘ رحم کی موجودگی‘ حمل یا طریقہ تعلیم کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ وہ اس سے زیادہ بنیادی نوعیت کے ہیں جو خود نسیجوں کی بناوٹ سے پیدا ہوتے ہیں اور پورے نظام میں خصوصی کیمیاوی مادے کے سرایت کرنے سے ہوتے ہیں جو کہ خصیۃ الرحم سے نکلتے ہیں۔ ان بنیادی حقیقتوں سے بے خبری اور نا واقفیت نے ترقی نسواں کے حامیوں کو اس عقیدے پر پہنچایا ہے کہ دونوں صنفوں کے لیے ایک قسم کی تعلیم‘ ایک طرح کے اختیارات اور ایک طرح کی ذمہ داریاں ہونی چاہئیں۔"
ڈاکٹرصاحب اس سلسلہ میں مزید لکھتے ہیں :
" حقیقت کے اعتبار سے عورت نہایت گہرے طور پر مرد سے مختلف ہے۔ عورت کے جسم کے ہر خلیہ میں زنانہ پن کا اثر موجود ہوتا ہے۔ یہی بات اس کے اعضا کے بارہ میں صحیح اور درست ہے۔ اور سب سے بڑھ کر اس کے اعصابی نظام کے بارہ میں عضویاتی قوانین بھی اتنے ہی اٹل ہیں جتنا فلکیاتی قوانین قطعی اور اٹل ہیں۔ ہم مجبور ہیں کہ انہیں اسی طرح مانیں جیسے وہ ہیں۔ عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو خود اپنی فطرت کے مطابق ترقی دیں۔ وہ مردوں کی نقل کرنے کی کوشش نہ کریں۔ تہذیب کی ترقی میں ان کا حصہ اس سے زیادہ ہے جتنا کہ مردوں کا ہے۔ انہیں اپنے مخصوص عمل کو ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیے۔"
(Dr. Alexis Carel : Man the unknown, New Yrok. P. 91)
انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا کی 19 ویں جلد میں خواتین کا درجہ Status of Women پر ایک مفصل مقالہ لکھا گیا ہے جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان پیدائشی بناوٹ کے لحاظ سے فرق پایا جاتا ہے۔ مقالہ نگار لکھتا ہے:
"اوصاف شخصیت کے لحاظ سے مردوں کے اندر جارحیت اور غلبہ کی خصوصیات پائی جاتی ہے۔ ان میں حاصل کرنے کا جذبہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں عورتیں کوئی سہارا چاہتی ہیں۔ ان کے اندر معاشرہ پسندی کا رجحان زیادہ ہوتا ہے اور ناکامی کی صورت میں مردوں کے مقابلے وہ زیادہ آسانی سے بے ہمت ہو جاتی ہیں۔"
آزادی نسواں کے علم بردار یہ کہتے ہیں کہ عورت اور مرد کا فرق محض سماجی حالات کی پیداوار ہے مگر موجودہ زمانہ میں مختلف متعلقہ شعبوں میں اس مسئلہ کا جو گہرا مطالعہ کیا گیا ہے‘ اس سے ثابت ہوا ہے کہ صنفی فرق کے پیچھے حیاتیاتی عوامل Biological Factors کار فرما ہیں۔ ایک امریکی سرجن Edgar Berman کا فیصلہ ہے کہ عورتیں اپنی ہارمون کیمسٹری کی وجہ سے اقتدار کے منصب کے لیے جذباتی ثابت ہو سکتی ہیں۔
Because of their hormonal chemistry, women might be too emotional for position of power. (Time Magazine, March 20 , 1972, P 28)
امریکہ میں آزادی نسواں کی تحریک کافی طاقت ور ہے‘ لیکن اب اس کے حامی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ان کی راہ کی اصل رکاوٹ سماج یا قانون نہیں بلکہ خود فطرت ہے۔ فطری طور پر ہی ایسا ہے کہ عورت بعض حیاتیاتی محدودیت Limitations of Biology کا شکار ہے۔ میل ہارمون اور فی میل ہارمون Male & Female Harmone کا فرق دونوں میں زندگی کے آغاز ہی سے موجود ہوتا ہے۔ چنانچہ تحریک آزادی نسواں کے پرجوش حامی کہنے لگے ہیں کہ فطرت ظالم ہے۔ ہمیں چاہیے کہ پیدائشی سائنس Science of Exergies کے ذریعے نئے قسم کے مرد اور نئی قسم کی عورتیں پیدا کریں۔
یورپ ‘ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی عورت مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے اور مردوں کی طرح کمانے اور خود کفیل ہونے کے لیے باہر نکلی تو اس کو معلوم ہوگیا کہ بعض حیاتیاتی اور فطری کمزوریوں کی وجہ سے کسی شعبہ زندگی میں بھی وہ مردوں کے برابر کام نہیں کر سکتی تو اس نے اپنے نسوانی جسم کا سودا کرنے کے لیے اس کو سربازار لٹکا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو مرد کی برابری کا درجہ تو نہ ملا البتہ معاشرہ طرح طرح کے مسائل سے دو چار ہوگیا جن میں عریانیت ‘ جنسی جرائم‘ بے نکاحی زندگی اور بغیر والد کے بچے سرفہرست ہیں۔
افسوس یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ آزادی نسواں کی جس تحریک سے اب تنگ آچکے ہیں اور وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ عورت کسی میدان میں بھی مرد کا مقابلہ نہیں کر سکتی‘ اس تحریک کو اب پاکستان میں بعض مخصوص نہج کی عورتیں اپنی لیڈری چمکانے کے لیے شروع کیے ہوئے ہیں۔ اور وہ پاکستان کی پاک باز اور با عصمت عورت کو چراغ خانہ کے بجائے شمع انجمن بنانا چاہتی ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی نے سچ کہا تھا
حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بیگانہ تھی
اب ہے شمع انجمن‘ پہلے چراغ خانہ تھی
جو غلطی یورپ اور امریکہ نے دو سو برس قبل کی تھی کہ عورت اور مرد کے درمیان کوئی فطری فرق نہیں بلکہ سماجی فرق ہے‘ وہی غلطی آج پاکستان میں کی جا رہی ہے۔ یاد رکھئے عورت مرد سے مختلف ہے‘ لہذا اس کا دائرہ کار بھی مختلف ہے۔ یہی اسلام کا فیصلہ ہے اور یہی فیصلہ یورپ اور امریکہ کے دانشوروں اور مفکرین کا ہے۔
تحریک ریشمی رومال پر ایک نظر
مولانا شمس الحق مشتاق
یہ بیسویں صدی کا حیدر آباد سندھ ہے۔ قدیم طرز کے مکان میں ایک شخص پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس سوئی دھاگا لیے ایک زرد رنگ کا رومال جس کی لمبائی ایک گز ہے اور عرض بھی اتنا ہی ہے گدڑی میں سی رہا ہے۔ وضع قطع اور صورت شکل سے درویش نظر آتا ہے۔ اچانک ایک دھماکہ سا ہوتا ہے وہ سر اٹھا کر دیکھتا ہے چند گورے اور سکھ فوجی صحن کی دیواریں پھاند کر اس کی طرف لپکے آرہے ہیں۔ وہ گدڑی اٹھا کر کمرے کے پچھلے دروازے کی طرف بھاگنے لگتا ہے لیکن فوجی سر پر پہنچ جاتے ہیں اور اس سے گدڑی چھین لیتے ہیں۔ وہ شخص ان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور صحن میں پہنچ کر دیوار پھاند لیتا ہے۔ چند فوجی اس کے پیچھے جاتے ہیں لیکن تھوڑی دیر بعد ہاتھ ملتے لوٹ آتے ہیں۔
یہ درویش آزادی ہند کی انقلابی پارٹی کے سرگرم اور سرفروش رکن اور پارٹی کے قائد شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ کے قابل اعتماد پیروکار شیخ عبد الرحیم تھے۔ اچاریہ کرپلانی کے حقیقی بھائی جو مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے ہاتھ پر حلقہ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔
پارٹی کا مرکزی دفتر پہلے دیوبند میں تھا بعد میں دہلی منتقل ہوگیا۔ تحریک کا نام جس کی بنا پر پارٹی تشکیل دی گئی تھی پہلے ثمرۃ التربیہ اور پھر جمعیۃ الانصار رکھا گیا تھا۔ اس کا پروگرام یہ تھا کہ ہندوستان پر قابض انگریز حکومت کے خلاف ملک بھر میں عام بغاوت کرائی جائے اس طرح ملک کو فرنگی استبداد سے آزاد کرانا تھا۔ منصوبے کے مطابق ترکی کی فوج کو افغانستان کے راستے حملہ آور ہونا تھا اس لیے افغانستان کی حکومت کو بھی جس کا سربراہ حبیب اللہ خان تھا ہموار کرنا تھا ۔ ترکی سے یہ طے کیا جا رہا تھا کہ اس کی فوج ہندوستان کو آزاد کراکے لوٹ جائے گی ۔ اس مدد کے عوض آزاد ہندوستان اس کی اخلاقی اور مالی امداد کرتا رہے گا۔ ترکی فوج کے کماندار غازی انور پاشا تھے۔
اس طریقہ کار پر عمل کرنے کے لیے دس جامع منصوبے ۱۹۰۵ء میں بنائے گئے تھے۔ ان کی تکمیل ۱۹۱۴ء میں ہوئی۔ منصوبے یہ تھے : ہندو مسلم مکمل اتحاد‘ علماء فکر قدیم اور جدید تعلیم یافتہ طبقے میں اشتراک فکر و عمل‘ اقوام عالم سے اخلاقی مدد کا حصول‘ جنگی نقشوں کی تیاری‘ انقلاب کے بعد عبوری حکومت کے خاکے کی ترتیب‘ بغاوت کے خفیہ مراکز کا قیام‘ بیرون ملک امدادی مراکز کا تعین‘ ترکی کی حمایت کے لیے دوسرے ملکوں سے رابطہ ‘ باہر سے حملے کے لیے راستوں کی نشاندہی‘ بیک وقت بغاوت اور حملے کے لیے تاریخ کا تعین۔
تاریخ شاہد ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے لیے معرکہ بالا کوٹ ۱۸۳۱ء اور انقلاب ۱۸۵۷ء کی خونچکاں اقدامات کے بعد یہ تیسری سرفروشانہ تحریک تھی جو تحریک ریشمی رومال کے نام سے تاریخ کے صفحوں پر انمٹ نقوش چھوڑ گئی۔ پہلی تحریک مسلمانوں کے جاہلانہ تغافل سے ناکام ہوئی۔ لیکن دوسری اور تیسری تحریکیں بعض لوگوں کے مجرمانہ عدم تعاون اور کھلے بندوں غداری سے ملیا میٹ ہوئیں۔ یہ ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ تینوں تحریکوں میں بنیادی اور مرکزی کردار علمائے حق نے ادا کیا ۔ انقلاب ۱۸۵۷ء میں عام مسلمانوں کا زیادہ حصہ ہے لیکن دوسری دونوں تحریکوں کا سہرا تمام تر علماء حق کے سر ہے۔ تحریک ریشمی رومال کی کامیابی اپنوں کی غداری اور انگریزوں کے طے شدہ حفظ ما تقدم کے باوجود یقینی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ بیرونی امداد کے امکانات دسترس میں تھے۔ ۱۸۵۸ء میں سامراجیت کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ سے براہ راست حکومت برطانیہ کے ہاتھ میں منتقلی کے بعد انگریز دشمنی کے دور کا آغاز ہو چلا تھا ۔ بعید نہ تھا کہ یہ خارجی نیک فال داخلی جدوجہد کے لیے ممد و معاون ثابت ہوتی۔ برطانیہ کی توسیع پسندی کے پیش نظر ۱۸۵۰ء میں دوار آف بھوٹان پر قبضہ کیا گیا اور برما کے شمالی حصہ کو فتح کر کے سلطنت میں شامل کیا گیا۔ ۱۸۶۸ء میں تبت اور چین پر حملہ کیا گیا اور سرحد کے مجاہدین پر فوج کشی ہوئی۔ ۱۸۸۵ء میں کابل پر حملہ کیا گیا۔ ۱۸۹۰ء میں حکومت منی پور پر تسلط کیا گیا۔ ۱۸۹۵ء میں چترال پر قبضہ ہوا۔ ۱۸۹۶ء میں تیراہ پر حملہ کیا گیا۔ ۱۸۹۷ء میں دوبارہ سرحدی مجاہدین کے خلاف چھ مہمیں بھیجی گئیں۔ بیرونی امداد کے سلسلے میں حکومت ترکی سے توقع کسی خوش فہمی اور جذباتیت کی بنا پر نہیں تھی اس کے پس منظر میں ٹھوس حقائق اور دلائل تھے ۔ترکی برطانیہ کا زخم خوردہ تھا۔ اگر مذہب اور حریت پسندی ہندوستان اور ترکی میں قدر مشترک نہ ہوتی تب بھی سیاسی طور پر ترکی کی طرف سے مدد لازمی تھی۔ ۱۸۳۹ء میں انگریزوں نے سلطان عبد المجید خان کو محمد علی پاشا کی بغاوت کے خلاف مدد دی اور اس کے عوض میں پہلے عدن کی بندرگاہ اور پھر سارے عدن پر قبضہ کر لیا۔ اس قبضے کی وجہ سے آنے والے برسوں میں جو نتائج نکلے وہ تصور میں لائے جا سکتے ہیں۔ اس مدد کا سارا خرچ (بیس لاکھ پونڈ) ہندوستان کے ذمہ قرض کے طور پر ڈالا گیا۔ ۱۸۷۸ء میں باب عالی سلطان عبد المجید خان سے خفیہ معاہدہ کر کے جزیرہ قبرص قبضے میں کیا گیا اس کے بھی دور رس نتائج نکلے۔ اسی سال برلن میں یورپی ملکوں کی کانفرنس ہوئی جس میں ترکی کے حصے بخرے کر کے آپس میں بانٹ لیے گئے۔ برطانیہ بھی حصے دار بنا۔ ۱۸۵۸ء میں رومانیہ‘ بلغاریہ‘ کریٹ‘ سرویا‘ مولڈویا‘ ولاچیا‘ ابوسینا‘ مونٹی ‘ نیگرو اور ارضی گونیا کو ترکی کے قبضے سے نکلوا دیا۔ ۱۹۰۴ء میں برطانیہ کی شہ پر فرانس نے مراکش پر قبضہ کر لیا۔
۱۹۰۸ء میں ترکی میں فوجی انقلاب رونما ہوا۔ یہ انقلاب فوجیوں کی تنظیم " اتحاد المسلمین" نے برپا کیا تھا جس کے قائد غازی انور پاشا تھے۔ بعد میں یہی حکومت کے سربراہ بنے۔ ۱۹۱۲ء کی جنگ بلقان میں ہندوستان کی حریت پسند تحریکوں نے ترکی کی جو اخلاقی اور مالی مدد کی تھی اسے انور پاشا بھولے نہیں تھے۔ اس لیے تحریک ریشمی رومال کو ترک کے سربراہ کی حیثیت سے اس کی مدد غیر متوقع نہیں تھی۔ تحریک کے پہلے دو منصوبوں کے لیے فضا پہلے ہی سازگار تھی۔ ہندوستان کے تمام حریت پسندوں میں ذہنی ہم آہنگی اور اشتراک عمل کا جذبہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کے وقت ہی سے پیدا ہو چکا تھا اور اس کا مظاہرہ بار بار خصوصاً ۱۸۵۷ء میں اور اس کے بعد ہو چکا تھا۔ تحریک کے عملی قائد شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن تھے لیکن اس کے قیام اور ساری منصوبہ بندی میں جن شخصیتوں کا ہاتھ تھا ان میں رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا شوکت علی‘ مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا عبید اللہ سندھی‘ ڈاکٹر انصاری‘ موتی لال نہرو‘ لاجپت رائے اور راجندر پرشاد شامل تھے۔ اس کے علاوہ ۱۸۵۷ء کے انقلاب نے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک کھیپ مہیا کر دی تھی جن کے دلوں میں حریت کی چنگاریاں سلگ رہی تھیں اور ذہن جدید طبیعاتی تقاضوں سے روشن تھے۔ ان نوجوانوں میں جن لوگوں کو اہم فرائض سونپے گئے ان میں پروفیسر برکت اللہ ایم اے تھے جنہیں ترکی‘ جرمنی اور جاپانی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ چوہدری رحمت علی گریجویٹ‘ لالہ ہرویال ایم اے‘ کامریڈ ستھرا سنگھ گریجویٹ‘ مولوی محمد علی قصوری گریجویٹ‘ میاں عبد الباری ایم اے‘ رام چندر گریجویٹ‘ بمبئی کے شیخ محمد ابراہیم ایم اے اور چینی زبان میں ماہر بنگال کے شوکت علی گریجویٹ وغیرہ شامل تھے۔ تیسرے منصوبے کے تحت چین‘ جاپان‘ فرانس‘ برما اور امریکہ میں کام شروع کیا گیا۔ اس کے لیے مشنری طریقہ کار اپنایا گیا۔ پہلا مشن دیوبند سے فارغ التحصیل مولانا مقبول الرحمن مانسہرہ ہزارہ اور شوکت علی کی سرکردگی میں چین بھیجا گیا جس میں چھ اور افراد بھی شامل تھے لیکن چین میں ایک مرکزی سیرت کمیٹی قائم کر کے ملک بھر میں اس کی شاخیں کھول دی گئیں۔ اردو اور چینی زبانوں میں ایک رسالہ "الیقین" جاری کیا گیا۔ ان کاموں میں مشن کو بڑی کامیابی ہوئی۔ چینی مسلمانوں کی خاصی تعداد ہندوستان کی صورت حال سے متاثر ہوئی اور انگریز سامراجیت سے چھٹکارا دلانے میں ہر ممکن اخلاقی مدد کا وعدہ کیا۔ ہر چند کہ چینی عوام خودظلم و استبداد کی چکی میں پس رہے تھے ۔ حکومت کی سطح پر کوئی نمایاں کام نہ ہو سکا کیونکہ ملک پر سامراجیت کے دوسرے روپ شہنشاہیت اور جاگیر داری کا تسلط تھا۔ مشن نے اپنے اخراجات اس طرح پورے کیے کہ ایک شفاخانہ کھول لیا۔ مولانا مقبول الرحمن طبابت اور شوکت علی ڈاکٹری کرتے تھے۔
۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۹ء تک چین میں کام کرنے کے بعد دونوں صاحبان کو برما جانے کا حکم ملا۔ مشن کے تین ارکان کو چین میں کام کی نگرانی کے لیے چھوڑا گیا۔ شفاخانے کو فروخت کر کے ان کے گزارے کے لیے رقم دی گئی اور سفر کا خرچ بھی نکالا گیا۔ ایک آدمی کو واپس ہندوستان بھیجا گیا اور چار آدمی برما پہنچے۔ وہاں کپڑے کا کاروبار شروع کیا گیا جس میں کافی منافع ہوا۔ برما میں مذہبی طریقہ کار اپنانے سے کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ لہذا انسانی رشتے کو مقصد کے حصول کے ذریعہ بنایا گیا اور انسانی برادری کے نام سے ایک انجمن بنائی گئی جس کا نصب العین انسانی فلاح و بہبود بتایا گیا۔ مولانا مقبول الرحمن نے عربی زبان میں ایک کتاب "الانسان" لکھی ۔ اس کا انگریزی اور برمی زبانوں میں شوکت علی نے ترجمہ کیا۔ مشن ۱۹۱۲ء تک بڑی کامیابی سے اپنا کام کرتا رہا ۔ اس نے ہزاروں افراد کو ہندوستان کی اخلاقی مدد کے لیے تیار کیا جس سے ایک مخلص حلقہ پیدا ہوگیا شومئی قسمت کہ ۱۹۱۲ء میں تحریک ناکام ہوگئی ۔ شوکت علی اور دونوں ہندو اراکین ہندوستان چلے گئے اور مولانا مقبول الرحمن رنگون جا پہنچے ۔ شوکت علی ہندوستان سے فرار ہو کر برلن چلے گئے اور مولانا مقبول الرحمن ۱۹۲۳ء میں وطن لوٹے۔
دوسرا مشن جاپان بھیجا گیا ۔ اس میں پانچ آدمی تھے اور قائد پروفیسر برکت اللہ تھے۔ انگریزی‘ ترکی‘ جرمنی زبانوں کے علاوہ جاپانی زبان میں بھی مہارت رکھنے کی وجہ سے انہیں ٹوکیو کے ایک کالج میں پروفیسری مل گئی۔ مشن نے اسلامک فریٹرنٹی کے نام سے ایک انجمن بنائی اور اسی نام سے انگریزی اور جاپانی زبانوں میں رسالہ نکالا جس کے مدیر پروفیسر صاحب تھے۔ ترکی کی طرح جاپان سے بھی بھرپور مدد کی توقع تھی کیونکہ جاپان برطانیہ کا سخت مخالف تھا۔ اسی مخالفت کی بنا پر اس نے دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ پر حملہ کیا تھا۔ مشن کو یہاں کامیابی سے ہمکنار ہوتا دیکھ کر ۱۹۱۰ء میں پروفیسر برکت اللہ کو چوہدری رحمت علی کی مدد کے لیے فرانس جانے کا حکم ملا۔ جہاں چوہدری صاحب کی سرکردگی میں تیسرا مشن کام کر رہا تھا۔ پروفیسر صاحب نے ملازمت چھوڑ دی ‘ اخبار بند کر دیا اور ساتھی کو لے کر فرانس کی طرف روانہ ہوگئے۔
فرانس کے مشن میں چوہدری رحمت علی کے ساتھ دو آدمی تھے‘ ان میں ایک گریجویٹ رام چندر نہایت قابل نوجوان تھا۔ پروفیسر برکت اللہ نے انگریزی زبان میں ایک اخبار "انقلاب" جاری کیا اور تندہی سے کام کرنے لگے۔ یہ اخبار مشن کی تشکیل کردہ غدر پارٹی کا ترجمان تھا۔ رولٹ کمیٹی کی رپورٹ میں اخبار کا نام بھی غدار لکھا گیا ہے جو کہ غلط ہے۔ فرانس میں چھ سال تک کام ہوتا رہا۔ عوامی سطح پر "غدر پارٹی" کی بہت حوصلہ افزائی کی گئی۔ اخلاقی مدد کے بھی روشن امکانات تھے لیکن حکومت کی طرف سے کوئی امید نہیں تھی۔ جو کچھ حاصل ہوا اسی پر اکتفا کر کے پروفیسر برکت اللہ اور چوہدری رحمت علی کو امریکہ جانے کا حکم ملا۔
امریکہ میں لال ہر دیال کی سربراہی میں چھ آدمیوں پر مشتمل مشن کام کر رہا تھا۔ پروفیسر صاحب اور چوہدری صاحب کی شمولیت سے تعداد آٹھ ہوگئی۔ یہاں بھی "غدر پارٹی" کام کر رہی تھی۔ ان دونوں حضرات کے آنے کے بعد پروفیسر صاحب کی ادارت میں "غدر" نام سے ایک اخبار نکالا گیا۔ در اصل واشنگٹن کے اسی اخبار کا مغالطہ رولٹ کمیٹی کو ہوا تھا۔ چوہدری رحمت علی کی سکونت تو پیرس میں تھی لیکن وہ واشنگٹن آتے جاتے رہتے تھے اور وہاں کچھ زمین بھی خرید لی تھی۔ انہوں نے اسے بیچ کر ایک ہوٹل کھول لیا۔ اس کے ایک کمرے میں پارٹی کا اور دوسرے کمرے میں اخبار کا دفتر قائم کیا گیا۔ ہوٹل کی آمدنی سے اخراجات پورے ہوتے رہے اور یہ پہلے ہردیال اور چوہدری صاحب کی نگرانی میں چلتا رہا اس کے علاوہ پارٹی والوں نے رنگوں کا کاروبار شروع کر رکھا تھا۔ اس میں سے آمدنی بھی تھی اور دہلی کے مرکز سے رابطہ بھی قائم تھا۔ دہلی کے چار مسلمان اور تین ہندو‘ پشاور کے دو مسلمان ‘ ایک ہندو ‘ لاہور کے دو مسلمان اور پانچ ہندو‘ بمبئی کا ایک مسلمان اور چار ہندو‘ کلکتہ کے چار ہندو اور ایک مسلمان‘ ڈھاکہ کے دو ہندو ایک مسلمان اور کراچی کا ایک ہندو ان لوگوں سے مال منگواتے تھے اور کاروبار کی آڑ میں مرکز کی رپورٹیں بھیجی اور ہدایات حاصل کی جاتی تھیں۔ ہندوستان میں تحریک کے ناکام ہونے کی خبر ملی تو ہوٹل فروخت کر دیا گیا اور اخبار بھی بند کر دیا گیا۔ مشن کے اراکین پیرس چلے گئے‘ وہاں سے جنیوا اور برلن ہوتے ہوئے افغانستان پہنچے اور وطن آ گئے۔
انقلابیوں کا چوتھا منصوبہ جنگی نقشوں کی تیاری تھا۔ اس منصوبے کو تین شکلیں دی گئیں۔ پہلی شکل تھی بیرونی حملے کے لیے راستوں اور محاذوں کی تفصیلی نشاندہی کرنا۔ حملہ آور فوج کے لیے رسد رسانی اور اس کے اپنے ہیڈ کوارٹر سے رابطے اور انقلابی رضا کاروں سے رابطے کے لیے پیغام رسانی کا انتظام کرنا اور حملہ آور فوج کی نقل و حرکت کے لیے سہولت فراہم کرنا۔ دوسری شکل یہ تھی کہ سی آئی ڈی کے آدمیوں سے تعاون حاصل کیا جائے اور اس محکمے میں اپنے آدمی داخل کیے جائیں تا کہ حکومت کی پالیسیوں اور اداروں کی خبر ملتی رہے ۔ تیسری شکل تھی فوج میں اپنے ہم خیال بنانا اور انقلابی کارکنوں کو فوج میں بھرتی کرانا تا کہ جب حملہ ہو تو دشمن کو سبو تاژ کیا جا سکے۔
پہلا کام مولانا عبید اللہ سندھی کو سونپا گیا اور بمبئی کے شیخ محمد ابراہیم ایم اے کو ان کا مددگار بنایا گیا۔ مولانا نے شمال مغربی سرحد کے کئی دورے کیے۔ جغرافیائی پوزیشن کا بغور نظر معائنہ کیا۔ فنون حرب سے آگاہی کے لیے انگریزی‘ جرمنی‘ ترکی‘ فرانسیسی اور عربی زبانوں کی کتابیں منگوا کر ان کا مطالعہ کیا۔ قدیم اور جدید طریقوں کو پرکھا اور متواتر سات سال تک کام کرنے کے بعد جنگ اور اس کے محاذوں کا ایک فقید المثال نقشہ تیار کیا۔ ان کے مطالعے سے بعد میں ترکی‘ جرمنی اور افغان فوجی افسروں نے بھی استفادہ کیا۔ مولانا کے تربیت یافتہ نوجوانوں نے والئی افغانستان امیر امان اللہ اور انگریزوں کے مابین جنگ میں افغان فوج کی ناقابل فراموش رہنمائی کی۔ دوسرے کام کی سربراہی ڈاکٹر انصاری نے انجام دی ۔ بہت سے ہندو اور مسلم نوجوان سی آئی ڈی میں گھس گئے اور حکومت کے راز قائدین تحریک تک پہنچاتے رہے۔ تحریک کی ناکامی کے بعد کئی نوجوان پکڑے گئے اور پھانسی پر لٹکائے گئے۔ تیسری شکل کے تحت منتخب نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کرایا گیا۔ انہوں نے حب الوطن فوجیوں کو اپنا ہم خیال بنایا۔ بعض پکڑے بھی گئے اور کچھ لوگ تحریک کی ناکامی کے بعد بھی رہے اور پہلی جنگ عظیم کے بعد فوج سے نکل گئے۔ بعض ایسے بھی جو مستقل طور پر فوج میں رہے اور دوسری جنگ عظیم میں دوسرے افراد کو اپنے ساتھ ملا کر آزاد ہند فوج کے روپ میں سامنے آئے۔
پانچویں منصوبے کے تحت انقلاب کے بعد قائم ہونے والی عبوری حکومت کا خاکہ یہ بنایا گیا کہ ایک ہندو اور ایک مسلمان پر مشتمل ایک اعلیٰ اختیارات کی کونسل ہوگی۔ مسلمان رکن کے لیے شیخ الہند مولانا محمود حسن کا نام تھا۔ ہندو رکن کا نام تحقیق طلب ہے۔ کونسل کے تحت صدر‘ وزیر اعظم‘ وزیر مملکت اور ان کے ماتحت کابینہ ہوگی۔ ان عہدے داروں کے لیے مجوزہ افراد علی الترتیب راجہ مہندر پرتاب‘ پروفیسر برکت اللہ او رمولانا عبید اللہ سندھی تھے۔ انہی لوگوں نے کابینہ بنانا تھی۔ فوج کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے حضرت شیخ الہند کا نام تھا جرنیلوں کی تعداد بارہ رکھی گئی تھی۔
چھٹا منصوبہ بغاوت کے خفیہ مراکز کے قیام کا تھا۔ ہیڈ کوارٹر دہلی میں بنایا گیا ۔ اس میں شیخ الہند‘ مولانا محمد علی‘ مولانا شوکت علی‘ مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا عبید اللہ سندھی‘ ڈاکٹر انصاری‘ گاندھی جی‘ پنڈت موتی لال نہرو‘ لالہ لاجپت رائے اور بابو راجندر پرشاد وغیرہ صف اول کے لوگ تھے ہیڈکوارٹر کے تحت آٹھ شاخیں پانی پت (یوپی کے اضلاع) لاہور (پنجاب) راندیر (بمبئی) گجرات کاٹھیاواڑ (مہاراشٹر) کراچی (قلات) لسبیلہ وغیرہ‘ اتمان زئی (شمالی سرحد) دین پور (بہاول پور) اور ترنگ زئی (آزاد قبائل) ‘ امروٹ (سندھ) میں کام کرتی تھیں۔ ان شاخوں کے امیر علیٰ الترتیب مولانا احمد اللہ‘ مولانا محمد احمد‘ مولانا محمد ابراہیم‘ مولانا محمد صادق‘ خان عبد الغفار خان‘ مولانا غلام محمد‘ مولانا فضل واحد اور مولانا تاج محمود تھے۔ مرکز میں ہندو اراکین کی موجودگی کے باوجود کسی شاخ کا سربراہ ہندو نہیں تھا۔ بعض ذرائع کے مطابق بنگال میں بھی شاخیں تھیں۔ بنگال میں مولانا ریاض احمد اور شمال مغربی سرحد میں تین علماء کی مشترکہ کمان تھی۔ کہا جاتا ہے کہ چند سال بعد جب آزاد قبائل اور انگریزوں کی خونریز جھڑپیں ہوئیں اور انگریز فوج کو پے در پے ہزیمت اٹھانی پڑی تو یہ اسی کام کا کارنامہ تھا۔
ساتویں منصوبے یعنی بیرون ملک امدادی مراکز کے قیام کی سمت میں ہیڈ کوارٹر کابل میں تھا۔ یہاں کے سربراہ مہندر پرتاب تھے۔ بعد میں مولانا سندھی ان سے جا ملے اور دونوں نے مل کر کام کیا۔ اس ہیڈ کوارٹر کی شاخیں مدینہ منورہ‘ برلن‘ استنبول‘ انقرہ اور قسطنطنیہ میں تھیں۔ برلن میں لالہ ہردیال نے نمایاں کام کیا۔ ان کی کوشش سے جرمنی اور ترکی کا پیکٹ ہوا اور جرمنی ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے آمادہ ہوگیا۔ کابل کے ہیڈ کوارٹر نے فقید المثال کارنامہ انجام دیا۔ امیر حبیب اللہ اور اس کے لڑکے عنایت اللہ کے دوغلے پن (جو بعد میں غداری پر منتج ہوا) کے باوجود تحریک کے آدمیوں کو افغانستان کی سیاست میں اتنا عمل دخل حاصل ہوگیا کہ تحریک کی ناکامی کے بعد قائدین کے دوست اور ہمدرد افسروں نے امیر حبیب اللہ خان کو قتل کروا کر اس کے بیٹے خان امان اللہ کو تخت پر بٹھایا جنہوں نے شروع سے تحریک کی اخلاقی اور مالی مدد کی تھی۔ انہوں نے تخت پر بیٹھتے ہی تحریک کے نظر بند قائدین کو رہا کر کے اپنا مشیر بنا لیا۔ قائدین تحریک ہی کے مشورے سے امان اللہ خان نے انگریزوں سے دو دو ہاتھ کیے اور ۲۳ اگست ۱۹۱۹ء کو افغانستان کو مکمل آزاد کروا لیا۔ مولانا سندھی افغانستان میں چوری چھپے داخل ہوئے تھے تو فوج کے سپہ سالار نادر شاہ نے قندھار میں ان کا پرجوش خیر مقدم کیا۔ جب قائدین تحریک کے ایماء پر انگریزوں سے لڑنے کے بارے میں رائے معلوم کرنے کے لیے جرگہ بلایا گیا تو حبیب اللہ خان کے سوا سب لوگوں نے لڑائی کے حق میں رائے دی۔ ان میں امان اللہ خان اور عنایت اللہ خان اور ان کا بھائی نصر اللہ خان پیش پیش تھے۔
آٹھواں منصوبہ یہ تھا کہ برطانیہ اور ترکی کی آویزش میں (وسیع تر مقصد یہ تھا کہ ترکی کے ہندوستان پر حملے کے لیے) بعض ملکوں مثلاً روس‘ جرمنی‘ فرانس اور امریکہ کو ترکی کی حمایت پر آمادہ کیا جائے۔ اس ضمن میں کراچی میں اکابرین تحریک کی ایک مجلس مشاورت ہوئی۔ مولانا محمد علی کا خیال تھا کہ امریکہ ترکی کا ساتھ دے گا کیونکہ وہ خود بھی برطانیہ کا غلام رہ چکا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا خیال تھا کہ امریکہ غیر جانبدار رہے گا لیکن شیخ الہند کا موقف تھا کہ امریکہ برطانیہ کی کھلے بندوں مدد کرے گا۔ چنانچہ یہی ہوا تاہم امریکہ اور فرانس کے انصاف پسند لوگوں نے برطانیہ کے خلاف احتجاج کیا اور تحریک کا مشن کسی حد تک کامیاب رہا۔
روس میں بھی تحریک کا مشن حکومت کی سطح پر ناکام رہا۔ زار نے مشن کے قائدین ڈاکٹر مرزا احمد علی اور ستھرا سنگھ کی گرفتاری کا حکم دیا لیکن تاشقند کے گورنر نے جو تحریک کے کارکن بن گئے تھے انہیں گرفتاری سے بچا لیا۔ اس مشن کا تذکرہ روس کے انقلابیوں نے اپنے ایک پمفلٹ میں بھی کیا تھا اور اسے موثر قرار دیا تھا۔ عوامی سطح پر مشن اپنے مقصد میں کامیاب رہا اور روس برطانیہ دوستی خطرے میں پڑ گئی جس کے لیے لارڈ کچز خود روس پہنچا۔ البتہ ایک دوسرا مشن جو روس کے راستے جاپان جا رہا تھا زار کے ہتھے چڑھ گیا۔ بد قسمتی سے ستھرا سنگھ جو اس مشن میں شامل تھے اپنے ساتھی عبد القادر سمیت انگریزوں کے حوالے کر دیے گئے۔ انگریزوں نے ستھرا سنگھ کو پھانسی دے دی اور عبد القادر کو لمبی قید کی سزا دی۔
بیرون ملک تحریک کو صرف جرمنی میں کامیابی حاصل ہوئی۔ راجہ مہندر پرتاب نے وہاں تین سال رہ کر یہ کارنامہ انجام دیا۔ پروفیسر برکت اللہ اور لالہ ہردیال نے بھی ان کی اعانت کی۔ اس سلسلہ میں جرمنی کے کیپٹن ہنٹس نے بڑی مدد کی وہ محاذ کے معائنے کے لیے کابل بھی گیا۔ یہ کوششیں بار آور ہوئیں اور جرمنی ترکی کی مدد کرنے اور ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے آمادہ ہوگیا۔ مطمئن ہو کر راجہ مہندر پرتاب کابل چلے گئے جہاں مولانا سندھی بھی پہنچ گئے۔
نویں منصوبے میں حملے کے لیے راستوں کا تعین کرنا تھا۔ ایران‘ برطانیہ کا حلیف اور ترکی کا دشمن تھا۔ اس لیے وہ راستہ ترک کرنا پڑا‘ دوسرا راستہ افغانستان تھا۔ امان اللہ خان اور سول اور فوجی افسروں اور قبائل کے اٹل فیصلے سے ڈر کر حبیب اللہ خان راستہ دینے پر آمادہ ہوگیا۔ لیکن انگریز دوستی کا حق ادا کرنے کے لیے تجویز پیش کی کہ ترکی فوج بعض مخصوص دروں سے گزرے‘ ہم انگریزوں سے کہہ دیں گے کہ وہاں کے قبائلی باغی ہوگئے ہیں اور ہم مجبور ہیں اس کے علاوہ سرکاری فوج جنگ میں حصہ نہ لے البتہ رعایا رضا کارانہ طور پر حصہ لے سکتی ہے۔ در اصل اس کا مقصد یہ تھا کہ فریقین میں جس کا پلہ بھاری دیکھوں گا۔ اس کے ساتھ ہو جاؤں گا۔
امان اللہ خان اور نصر اللہ خان نے قائدین تحریک کو سمجھایا کہ اسی پر اکتفا کر لیں جب ترکی کی فوج ملک میں داخل ہو جائے گی تو ہم اپنے باپ کو انگریزوں کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر لیں گے ورنہ اسے راستہ سے ہٹا دیں گے۔ حملہ کے لیے چار محاذ بنائے گئے۔ ہر محاذ پر ایک انقلابی کو نگران مقرر کیا گیا۔ مولانا محمد صادق کی نگرانی میں قلات اور مکران کے قبائل کا ترک فوج کی قیادت میں کراچی پر حملہ‘ حافظ مولانا تاج محمود سندھی کی نگرانی میں ترک فوج کی سربراہی میں غزنی اور قندھار کے قبائل کا کوئٹہ پر حملہ‘ درہ خیبر کے راستہ پشاور پر مہمند اور مسعود قبائل کا ترک فوج کی قیادت میں حملہ‘ نگران حاجی صاحب ترنگ زئی تھے‘ اوگی ہزارہ کے محاذ پر ترکی کی فوج کا کوہستانی قبائل کو لے کر حملہ‘ نگرانی مولانا محمد اسحاق مانسہروی کی تھی۔
دسویں منصوبے کا مقصد حملے اور بغاوت کی ایک تاریخ مقرر کرنا تھا۔ ۱۹۰۵ء سے ۱۹۱۴ء تک نو منصوبوں کو کامیابی سے عملی جامہ پہنایا گیا اور دسویں پر عمل باقی تھا کہ جنگ عظیم چھڑ گئی۔ یہ انقلابیوں کے لیے سنہری موقع تھا فوراً دیوبند میں مجلس مشاورت منعقد ہوئی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ بیرونی حملہ اور اندرونی بغاوت ۱۹ فروری ۱۹۱۷ء کو ہو مجلس شوریٰ نے اس کی اطلاع تمام شاخوں کو دے دی اور کہا کہ بغاوت کے لیے تیار رہیں لیکن حملے کی تاریخ کے حتمی فیصلے کے لیے دوسری اطلاع کا انتظار کریں۔ شیخ الہند کو ایک وثیقہ لکھ کر دیا گیا جس پر مجلس شوریٰ کے اراکین نے دستخط کیے۔ طے کیا گیا کہ شیخ الہند غازی انور پاشا سے بالمشافہ مل کر مجوزہ تاریخ کی منظوری لیں اور تحریک اور حکومت کے مابین نیز حکومت ترکی اور حکومت افغانستان کے درمیان تحریری معاہدہ کرائیں ۔ اس دوسرے معاہدہ کے سلسلہ میں انہیں انور پاشا کی تحریر لے کر افغانستان جانا تھا اور اس پر حبیب اللہ خان سے دستخط لے کر واپس انور پاشا کو پہنچانا تھا۔
شیخ الہند نے اپنی جائیداد شرعی قانون وراثت کے مطابق تقسیم کردی اور حج کا ارادہ ظاہر کر کے روانہ ہوگئے۔ حکومت نے انہیں دہلی میں گرفتار کرنے کا ارادہ کیا لیکن ان کے معتقدین کا ہجوم دیکھ کر بمبئی میں گرفتار کرنے کی ٹھانی۔ ڈاکٹر انصاری نے خفیہ پولیس میں اپنے آدمیوں کی مدد سے اس تار کو ہوم سیکرٹری کے دفتر میں رکوا دیا جو اس مقصد سے گورنر جنرل کی طرف سے بمبئی کے گورنر کو بھیجا جا رہا تھا۔ یہ تار اس وقت ملا جب آپ جہاز میں سوار ہو چکے تھے۔ چنانچہ عدن کے گورنر کو روانہ کر دیا گیا لیکن وہاں بھی انقلابیوں نے بروقت پہنچنے نہ دیا اور آپ بخیر و عافیت مکہ معظمہ پہنچ گئے۔ اس وقت حجاز ترکی کے زیر حکومت تھا۔ وہاں کے گورنر غالب پاشا جو انور پاشا کی جنگی کمیٹی کے سیکرٹری بھی تھے‘ انقلابی تحریک کے ہمنوا تھے۔ شیخ الہند نے ان سے دو تحریریں لیں۔ ایک میں جہاد کی ترغیب تھی اسے چھپوا کر ہندوستان اور افغانستان کے نام تھی کہ شیخ الہند جو کچھ بھی کہیں اسے ہماری تائید حاصل ہے۔ انگریزوں نے اس پہلی تحریک کو غالب نامہ کہا اور اسی کی بنا پر بعد میں غالب پاشا کو گرفتار کر کے جنگی قیدی رکھا۔ انہوں نے بھی اپنی اس تحریر کا اقرار کیا‘ دوسری کا نام تک نہ لیا۔
شیخ الہند نے "غالب نامہ" مولانا محمد میاں کے حوالے کیا کہ اسے ہندوستان اور افغانستان لے جائیں۔ وہ ہندوستان پہنچے تو سی آئی ڈی پیچھے لگ گئی۔ چنانچہ افغانستان چلے گئے اور اس کی اشاعت کی۔ اسی اثنا میں ریشمی رومال کے پکڑے جانے کے بعد افغانستان پہنچی۔ البتہ اس سے افسروں اور قبائلی سرداروں میں نیا عزم پیدا ہوا اور امان اللہ خان انقلاب لانے میں کامیاب ہوئے۔
شیخ الہند اور انور پاشا کی ملاقات مدینہ منورہ میں ہوئی ۔ جمال پاشا ان کے ساتھ تھے۔ انور پاشا نے پہلے ان سے تحریر کردہ دونوں معاہدے لے لیے اور واپس چلے گئے۔ ایک ماہ بعد یہ معاہدے شیخ الہند کو مدینہ منورہ کے گورنر نے بلا کر دیے۔ ان پر انور پاشا کے دستخط ثبت تھے اور حملے اور بغاوت کی منظوری بھی تھی۔ دونوں معاہدوں کا مجموعی نام "انور نامہ" رکھا گیا۔ شیخ الہند نے تحریر اور حکومت ترکی کے معاہدے کو اپنے پاس رکھ لیا اور افغانستان ترکی معاہدہ مولانا ہادی حسن کو دے کر انہیں بھیج دیاکہ اسے افغانستان پہنچا دیا جائے۔ اس دستاویز کو بھجوانے میں شیخ الہند نے غیر معمولی حسن تدبیر سے کام لیا۔ خاص طور پر سے لکڑی کا ایک صندوق بنوایا۔ اس کے تختوں کے درمیان اس طرح چھپوایا کہ نظر نہ آتا تھا۔ ساتھ ہی بمبئی کے ایک رکن کو پیغام بھجوایا کہ وہ عرشہ جہاز پر ہی مولانا ہادی حسن سے صندوق لے لیں اور اسے فلاں پتے پر پارسل کر دیں۔ جوں ہی جہاز بمبئی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔ وہ رکن عرشہ جہاز پر گئے اور اسے قلیوں سے اٹھوا کر باہر لے گئے۔ اسی وقت اسے مظفر نگر میں حاجی محمد نبی کے پتے پر پارسل کروا دیا۔ سی آئی ڈی نے مولانا ہادی حسن کی تلاشی لی اور انہیں مشتبہ قرار دے کر نینی تال بھجوا دیا جہاں انہیں حوالات میں بند کر دیا گیا۔
حاجی محمد نبی کو شیخ الہند نے ساری بات کہلوا بھیجی تھی۔ انہوں نے معاہدے کو اپنے پاس رکھا۔ کچھ عرصہ بعد مولانا ہادی حسن رہا ہو کر آئے۔ انہوں نے حلیہ بدل کر اپنا نام ظفر احمد رکھا اور معاہدے کو افغانستان پہنچا دیا ۔حبیب اللہ خان نے اپنے دونوں بیٹوں امان اللہ خان اور نصر اللہ خان اور سول فوجی افسروں اور قبائلی سرداروں کو آتش زیرپا دیکھا تو طوعاً و کرھاً اس کی منظوری دے دی۔ مولانا عبید اللہ سندھی اور نصرت اللہ خان نے ایک ماہر کاریگر سے معاہدے کی ساری عبارت جو عربی زبان میں تھی‘ ایک ریشمی رومال پر کڑھوائی اس میں حبیب اللہ خان اور اس کے تینوں بیٹوں کے دستخط بھی آگئے۔ رومال کا رنگ زرد تھا۔ اس کی لمبائی چوڑائی ایک مربع گز تھی۔ اس پر زرد رنگ سے چاروں کے دستخط دوبارہ کروا لیے گئے۔ اس کے بعد رومال کو پشاور بھجوایا گیا۔ یہ فرض شیخ عبد الحق نے انجام دیا جو بنارس کے نو مسلم گریجویٹ تھے اور افغانستان ہندوستان کے درمیان کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ اسی تجارت کی آڑ میں پیغام رسانی کرتے تھے۔ انہوں نے اسی قسم کے پانچ رومال لیے اور ریشمی رومال کو ان میں ملا دیا۔ پروگرام یہ تھا کہ رومال حیدر آباد میں شیخ عبد الرحیم کو پہنچایا جائے گا جو اسے لے کر حج کو جائیں گے اور شیخ الہند کے حوالے کریں گے۔ موصوف اسے انور پاشا کو لے جا کر دیں گے اور پروگرام کے مطابق ترکی‘ افغانستان کے راستے ۱۹ فروری ۱۹۱۸ء کو ہندوستان پر حملہ کر دے گا۔
شیخ عبد الحق نے یہ امانت پشاور میں حق نواز خان کو رات نو بجے پہنچائی انہوں نے صبح چار بجے اسے ایک خاص آدمی کے ہاتھ بہاول پور کے مقام دین پور میں سجادہ نشین خواجہ غلام محمد کو بھجوا دیا۔ نماز صبح سے پہلے فوج نے حق نواز کے گھر پر چھاپا مارا اور انہیں گرفتار کر لیا۔ ان کی رہائی ایک ماہ بعد ہوئی۔ خواجہ غلام محمد کو رومال اگلے دن دس بجے صبح ملا۔ انہوں نے اسی وقت اسے ایک آدمی کے ہاتھ حیدر آباد چلتا کیا۔ ان کے گھر پر بھی فوج نے شام کے چار بجے چھاپہ مارا اور انہیں گرفتار کر لیا ۔چار ماہ تک قید رہے۔ ریشمی رومال دوسرے دن دوپہر کو حیدر آباد میں شیخ عبد الرحیم کو ملا اور عشاء کے وقت جب وہ اسے گدڑی میں سی رہے تھے‘ فوج کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس دستاویز کے ہاتھ آجانے سے انگریزوں کو مجاہدین اور حکومت ترکی کے تفصیلی عزائم کا ثبوت مل گیا۔ انہوں نے داخلی طور پر یہ فوری قدم اٹھایا کہ ہر اس مقام پر فوج بھیج دی جہاں بغاوت کا خطرہ تھا اور شمال مغربی سرحد پر فوج دگنی کر دی۔ اس کے ساتھ ہی ملک بھر میں انقلابیوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی۔ جس شخص پر ذرا سا شبہ گزرا اسے گرفتار کر لیا ‘ گرفتار شدگان پر طرح طرح کی سختیاں کیں۔ دو چار کے سوا سب ہی ثابت قدم رہے تاہم تحریک دفن ہوگئی۔
خاص طور پر سب سے پہلے ترکی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور ترکی کی ہر سرحد پر محاذ کھول دیے۔ ایران میں فوج داخل کر کے ترکی اور افغانستان کے درمیان حد بندی کر دی۔ سب سے بڑا انتقام یہ لیا کہ شریف مکہ کو آلہ کار بنا کر اس سے ترکی کے خلاف بغاوت کرا دی۔ اس کے علاوہ عرب اور ہندوستان کے زر خرید ایجنٹوں سے ترکوں کے خلاف فتوے دلوائے۔ جنگ ختم ہو چکی تھی اور انگریزوں کو موقع مل گیا تھا کہ افغانستان کو دبائیں لیکن تحریک کے جو کارکن وہاں گرفتاری سے بچ رہے تھے انہوں نے قبائلیوں کی بڑی رہنمائی کی۔ حاجی ترنگ زئی نے قبائلیوں کو جمع کر کے تین سال تک انگریزوں کا مقابلہ کیا۔ قلات اور لسبیلہ کے قبائل نے دو سال تک مقابلہ کیا۔ امان اللہ خان نے کوہاٹ تک قبضہ کر لیا تھا۔ لیکن انگریزوں سے صلح ہوگئی اور افغانستان کی مکمل آزادی اور خود مختاری تسلیم کر لی گئی۔ شیخ الہند کو مکہ معظمہ میں گرفتار کرلیا گیا۔ ان پر مصر کی فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور پھر جنگی قیدی بنا کر مالٹا بھیج دیا گیا۔ جنگ ختم ہوئی تو ہندوستان آئے کچھ عرصہ خلافت تحریک میں کام کیا اور رحلت فرمائی۔
اس ضمن میں ریشمی رومال پکڑا کیسے گیا؟ کچھ مصدقہ اور کچھ غیر تصدیق شدہ باتیں ہیں۔ مولانا عبید اللہ سندھی کا خیال تھا کہ پشاور کے نواز خان نے مخبری کی لیکن مولانا حسین احمد مدنی کو اس سے اختلاف تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حبیب اللہ خان اور اس کا لڑکا عنایت اللہ خان مجاہدوں کے ہر منصوبے کی انگریزوں کو باقاعدہ رپورٹ پہنچاتے تھے۔ ان لوگوں کی غدار فطرت کے سبب یہ بات خارج از امکان نہیں ہے۔ غداری کے سلسلے میں تحریک کے اکثر ارکان متفق ہیں کہ انگریزوں کے جاسوس مجاہدین کے روپ میں تحریک میں گھس گئے تھے اور کچھ لوگوں نے جان بچانے کے لیے بھی راز اگل دیے۔
من از بیگانگاں ہرگز نہ نالم
کہ بامن ہرچہ کرد آں آشنا کرد
غیر ملکی قرضوں کا جال اور پاکستان کی آزادی
لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل
عالمی سود خوروں نے قرضے کا قطرہ ایک بار پھر ہمارے خشک منہ میں ٹپکا دیا۔ ۱۹۷ ملین ڈالر کی حقیر رقم ہماری آزادی‘ معیشت اور مستقبل کی قیمت ٹھہرائی گئی ہے۔ ایک بار پھر ہماری تمام اقتصادی ‘ معاشی اور سیاسی پالیسی پر آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی اداروں کے ذریعے امریکہ کو تسلط کا حق حاصل ہوگیا ہے۔ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے بعد آزادی کے حصول کے جو امکانات روشن ہوگئے تھے ختم ہو کر رہ گئے ہیں چنانچہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو جس طرح بیرونی قوتوں کے حکم پر قانون و آئین کے منافی جیل سے نکال کر سعودی عرب پہنچایا گیا اس سے ثابت ہوگیاکہ پاکستان کی حکومت اور عوام اپنی مرضی اور اپنے آئین کے بجائے امریکہ کی مرضی اور حکم کے پابند ہیں۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ ہم قرضوں کے جال میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔
غیر ملکی قرضوں کا مسئلہ بہت پرانا ہے ایوب خان کے زمانہ میں بھی ہم مقروض تھے لیکن تب ہر پاکستانی صرف ساٹھ روپے کا مقروض تھا۔ آج ہمارا ہر شہری یہاں تک کہ نوزائیدہ بچہ بھی ۲۵۰۰۰ روپے کا مقروض ہے۔ موجودہ ۳۷ بلین ڈالر (۲۳ کھرب پاکستانی روپے) کا غیر ملکی قرضہ اگر عوام کو ادا کرنا پڑے تو ہر خاندان پر دو لاکھ روپے سے زائد کا بوجھ پڑے گا جس میں صدر مملکت سے لے کر ایک غریب مزدور اور ہاری سب ہی شامل ہوں گے۔ قیام پاکستان کے وقت ایک ڈالر ہمارے ایک روپے کے برابر تھا جو ایوب دور میں بڑھ کر نو روپے کا ہوگیا اور آج ساٹھ روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اب ہماری پوزیشن یہ ہے کہ ہمیں اس سال پانچ ارب ڈالر (تین سو ارب روپے) ادا کرنے ہوں گے جب کہ ہماری مجموعی برآمدات کا حجم بے پناہ کوششوں کے باوجود آٹھ ارب ڈالر سے زیادہ نہیں ہو سکا۔ دوسری طرف پوری کوشش کے باوجود ٹیکسوں کی مد میں ایک سو ارب روپے سے زیادہ اضافے کی امید نہیں۔ ماضی کے تجربات ‘ معروضی حالات اور مستقبل کے امکانات کو نگاہ میں رکھیں تو اس بات کا دور دور تک امکان نظر نہیں آتا کہ پاکستان یہ قرضے ادا کر سکتا ہے ۔ ہمارے موجودہ حکمران اب تک دعوے کر رہے ہیں کہ ہم یہ قرضے ادا کریں گے لیکن عملی صورت یہ ہے کہ یہ بھی پرانے قرضے ادا کرنے کے بجائے نئے قرضے لے رہے ہیں۔ ہم اپنے بل بوتے پر اغیار کا بچھایا ہوا غلامی کا یہ جال توڑ سکتے ہیں لیکن اس کام کے لیے جس درویش صفت اور بے لوث قیادت کی ضرورت ہے ہم اس سے محروم ہیں۔ ہمیں وہ لیڈر شپ میسر نہیں جس کی آواز پر ساری قوم لبیک کہے اور شعب ابی طالب میں محصور ہونے کا آپشن قبول کرنے پر آمادہ ہو۔ لہذا موجودہ صورت حال کے تناظر میں دو ہی آپشن رہ جاتے ہیں۔
پہلا آپشن یہ ہے کہ ہم آئی ایم ایف اور امریکہ کے سامنے مکمل سرنڈر کی راہ اپنا لیں۔ ایٹمی صلاحیت ختم کرنے پر رضامند ہو جائیں۔ اپنی خارجہ پالیسی امریکہ کے تابع کر لیں‘ کشمیر سے دستبردار ہو جائیں اور جہاد کشمیر ختم کرنے میں امریکہ اور بھارت کا ہاتھ بٹائیں۔ لیکن یہ سب کچھ کر کے ہماری اقتصادی حالت بہتر ہو سکے گی یا قرضے معاف کر دیے جائیں گے اس بات کی کوئی ضمانت نہیں اور یہ راستہ اختیار کرنے کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے عقیدے‘ نظریے اور آزادی سے محروم ہونا قبول کرلیں۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم قرضے ادا کرنے سے انکار کر دیں جب تک ادا کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی۔ ہمارے پاس انکار کی معقول وجوہ ہیں:
۱۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یہ Odious Loans ظالمانہ اور غلیظ قرضے لیتے وقت ہماری حکومتوں نے قوم سے نہیں پوچھا۔ چاہے وہ مارشل لا کی غیر جمہوری حکومتیں ہوں یا عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی جمہوری حکومتیں‘ عوام سے کسی نے پوچھنے کی تکلیف گوارا نہیں کی۔ لہذا ان جبری قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ غریب عوام پر ڈالنا آئین‘ قانون اور اخلاق کے کسی قرینے سے جائز نہیں۔
۲۔ ان کی دیدہ دانستہ غلط پلاننگ mis management قرضے دینے والے ملکوں اور اداروں نے کی۔ اس دانستہ بد انتظامی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اتنے بھاری قرضوں سے ملک اور قوم کو فائدہ نہ پہنچا سوائے ایوب دور کے جب تربیلا اور منگلا وغیرہ تعمیر ہوئے۔ گزشتہ بارہ سال کے دوران ۲۳ ارب ڈالر کے قرضے لیے گئے۔ ان سے پاکستان کو کیا حاصل ہوا۔ سوائے موٹر وے کے جو ان قرضوں میں شامل نہیں۔ کوئی چھوٹا بنک بھی غیر معینہ یا ناقص منصوبے کے لیے قرض نہیں دیتا تو آئی ایم ایف اور عالمی بینک نے قرضے کیوں دیے۔ در اصل یہ رقم قرض دینے والوں کے ایما پر لوٹ لی گئی اور لوٹ مار کا یہ مال ان ہی بینکوں میں چلا گیا جہاں سے آیا تھا۔ اب لوٹ کے مال کے پیچھے لوٹنے والے بھی وہاں جا پہنچے ہیں لہذا قانون‘ اخلاق اور عقل و منطق کے کسی اصول کے تحت پاکستان کے عوام پر یہ بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا۔ بد انتظامی کی ذمہ داری سے قرض دینے والے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔
قرض دینے والے بنک اور ملک دیکھ رہے تھے اور اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ قرضے قوم کے بجائے چند افراد کے مفادات پر خرچ ہو رہے ہیں۔ ان عالمی اداروں کو معلوم تھا کہ ان قرضوں کا ثمر عوام کو نہیں ملے گا لیکن چونکہ قرض لینے والے ان کے سیاسی اور معاشی ایجنڈے پر عمل پیرا تھے اس لیے وہ کسی اصول اور ضابطے کے بغیر ہماری رقوم جاری کرتے رہے‘ مقروض ملکوں میں ان قرضوں کی مدد سے من پسند حکومتیں بھی لاتے رہے اور ان قرضوں کے عوض ایسی اقتصادی پالیسیاں بناتے اور چلاتے رہے جن سے غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ عوام کے نام پر لیا قرضہ چند افراد کے بنک اکاؤنٹس میں پہنچ رہا ہے۔ کون بتا سکتا ہے کہ گزشتہ بارہ برس میں لیا گیا ۲۳ ارب ڈالر (ساڑھے تیرہ کھرب روپے) کا قرضہ کہاں گیا۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ یہ قرض کہاں خرچ ہوا؟ اس کے علاوہ نواز شریف کے دور میں عوام کے منجمد گیارہ ارب ڈالر (چھ سو ساٹھ ارب روپے) کا بھی کچھ پتہ نہیں۔ موجودہ حکومت نے احتساب کا وعدہ کیا تھا لیکن اس نے سابق وزیر اعظم کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی‘ ایسا لگتا ہے کہ اسے بھی احتساب کے پورے سلسلے کو فراموش کرنے میں ہی عافیت نظر آئی ہے۔
۳۔ قوم کو ان ظالمانہ قرضوں میں جکڑ کر نہ صرف یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ہمارے قرضے مع سود واپس کرو بلکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ تمہاری روٹی‘ روزگار اور روشنی کا فیصلہ بھی ہم کریں گے۔ چنانچہ آئی ایم ایف کے کہنے پر گیس‘ بجلی اور آٹے پر غریبوں کے لیے رعایت Subsidy بھی ختم کر دو‘ کرنسی کی قیمت کم کرو‘ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اپنے تمام ذرائع اور وسائل کثیر ملکی (Multi National) کمپنیوں کے حوالے کر دو۔ ایٹمی صلاحیت ختم کرنے کے لیے سی ٹی بی ٹی کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ کشمیر کے معاملے میں پسپائی پر مجبور کیا جا رہا ہے اور ان سارے معاملات کے لیے قرضوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
ہمارے اقتصادی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ہماری معیشت سنبھل رہی ہے۔ یہ ایک سفید جھوٹ ہے‘ عوام معاشی بدحالی اور بیروزگاری کے ہاتھوں خودکشی کر رہے ہیں۔ مہنگائی ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔ بجلی‘ پٹرول اور گیس کی قیمتیں بار بار بڑھائی جا رہی ہیں‘ یہ کیسی معاشی ترقی ہے؟ ہم پانچ ارب ڈالر سالانہ ادا کر کے کیسے ترقی کر سکتے ہیں؟ یہ سلسلہ جاری رہا تو آئندہ چند برسوں کے اندر قرضے کی قسطیں ہمارے مجموعی بجٹ سے بھی بڑھ جائیں گی۔ معیشت کا احیا تو کجا الٹا ہماری آزادی اور بقا خطرے میں ہے۔ ہمارے اقتصادی دانشوروں کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے قرضے دینے سے انکار کیا تو ہمیں ڈیفالٹ قرار دے کر دنیا میں تنہا کر دیا جائے گا‘ برآمدات نہیں ہوں گی‘ ایل سی نہیں کھلے گی‘ یہ دانش بھی مغرب سے ہمارے ہاں آئی ہے۔ یہ مفروضہ ہی غلط ہے کہ ہماری برآمدات ختم ہو جائیں گی۔ برآمدات کا سلسلہ چین‘ افغانستان‘ ایران اور دیگر اسلامی ممالک سے جاری رہ سکتا ہے‘ جن پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ اس طرح ایک نیا تجارتی بلاک وجود میں آسکتا ہے۔ ہمارا سب سے زیادہ خرچ تیل پر ہوتا ہے جس کے بدلے ہم تیل پیدا کرنے والے ممالک کو چاول‘ گندم اور کپاس برآمد کر سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ڈیفالٹ کرنے والا پاکستان پہلا ملک نہیں ہوگا۔ لاطینی امریکہ کے سولہ ملک ڈیفالٹ کر چکے ہیں جس کے بعد ان کی معیشت میں بہتری کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔ جہاں تک تنہائی کا معاملہ ہے تو چین اور روس نے سیاسی طور پر تنہا ہو کر ہی ترقی کی۔ دراصل یہ اقتصادی دانشور ایک سازش کے تحت ہمیں سمجھانے پاکستان آتے ہیں اور ہر بار ہمیں ایٹمی پروگرام‘ کشمیر اور دفاعی بجٹ میں کمی کرنے کی تلقین کا سلسلہ دوبارہ چالو کرا دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقتصادی اور سیاسی تنہائی پاکستان کے حق میں خوش بختی کا ذریعہ ہو سکتی ہے۔ میرے یقین کے پیچھے ٹھوس دلائل ہیں:
- سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی امداد ہمیں حاصل ہوگی جب ہم تمام جھوٹے سہاروں کو چھوڑ کر صرف اس کا دامن تھامیں گے تو وہ ہمیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ ہم پیغمبر آخر الزمانؐ کے نام لیوا ہو کر تنہائی سے کیوں ڈریں جنہوں نے شعب ابی طالب میں رہ کر اقتصادی مقاطعے کا سامنا کیا اور جنگ احزاب میں دشمنان اسلام کی متحدہ قوت کو پسپا کیا۔
- دنیا میں وہ تمام ممالک جنہیں سیاسی طور پر تنہا کیا گیا اور جن کے خلاف استعماری ملکوں نے اتحاد کیا وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہوگئے۔ ان کے عوام کے خفیہ جوہر بروئے کار آگئے۔ جاپان‘ روس‘ چین اور ان گنت دوسرے ممالک کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ چین پاکستان کے بعد وجود میں آیا‘ وہ آج کہاں کھڑا ہے۔ ایران‘ عراق‘ سوڈان اور لیبیا کو تنہا کیا گیا لیکن وہ سب زندہ رہے۔ کیوبا ایک چھوٹا سا بے وسیلہ ملک ہے۔ اس کو تنہا کیا گیا لیکن فیڈرل کاسترو کا بال تک بیکا نہ ہو سکا۔ پاکستان تو ایٹمی طاقت ہے ‘ اسے تنہا رکھنا اول تو ناممکن ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان ملت اسلامیہ کا قائد بن جائے گا پھر عین ممکن ہے تیل کی دولت سے مالا مال اسلامی ممالک پاکستان کے قرضے اتارنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ وہ اگر مغرب کی استعماری افواج کو اربوں ڈالر کی تنخواہ دے سکتے ہیں تو پاکستان کو اس مشکل سے نکالنے میں مدد کیوں نہیں دے سکتے۔
- تنہائی کی مصیبت میں ایک رحمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم اس سے فائدہ اٹھا کر پاک سرزمین کو اسلامی نظام کی برکات سے فیض پہنچانے کے قابل ہو جائیں گے۔ اسلام کو عروج اور ترقی شعب ابی طالب میں فاقہ کشی اور غزوہ خندق میں پیٹ پر پتھر باندھنے کے بعد ملی تھی۔ اس لیے ہمارے لیے تنہائی کوئی تباہی نہیں لائے گی بلکہ ہم یکسو ہو کر نئے نظام کی بنیاد رکھیں گے۔
- پاکستان میں قیادت کا بحران اس وجہ سے پیدا ہوا کہ استعماری طاقتوں نے ہماری آزادی پر کنٹرول قائم کیا اور اپنے ایجنٹ اور کرائے کے لیڈر پاکستان پر مسلط رکھے اور عوام کو کوئی مخلص قائد نہ مل سکا۔ پاکستان تنہا ہوگا تو عوامی مزاحمت کی راہنمائی کرنے والی حقیقی قیادت ابھرے گی جو اپنے مفادات پر عوام کو قربان کرنے اور ان کا خون چوسنے کے بجائے اپنے جان و مال کی قربانی پیش کرے گی۔ ایک حقیقی لیڈر شپ پیدا ہوگی جو پاکستان کو موجودہ بحران سے نکالنے کی اہل ہوگی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ چین نے تنہائی اختیار کی تو اسے ماؤزے تنگ اور چو این لائی جیسے بے نفس اور بے لوث لیڈر ملے۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ جن ممالک کو تنہا کیا گیا ان کے لیڈروں کا دور قیادت طویل تر ہے۔ چین کے موزے تنگ‘ شمالی کوریا کے کم ال سنگ‘ کیوبا کے فیڈل کاسترو‘ لیبیا کے معمر قذافی اس کی مثال ہیں۔ ایران کے خمینی زندگی کے آخری سانسوں تک عوام کے دلوں میں زندہ رہے۔ اسی طرح صدام امریکہ اور مغرب کی تمام تر مخالفت کے باوجود تیس برس سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس جو حکمران مغرب کے سامنے جھک گئے ہیں ان کا دورانیہ چند سال کا ہوتا ہے چونکہ وہ اپنے آقاؤں سے مخلص ہوتے ہیں اور قوم کے وفادار نہیں ہوتے اس لیے قوم انہیں جلد ہی نظروں سے گرا دیتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے سامنے عزت اور آبرو کا راستہ کھلا ہے۔ ہمیں پوری قوت سے اعلان کر دینا چاہیے کہ ہم غیر ملکی قرضے ادا نہیں کر سکتے اور نہ قرضوں کی خاطر اپنے ملک کی آزادی کو امریکہ کے پاس گروی رکھ سکتے ہیں۔ ہماری قوم اس پر متفق ہے ۔ میں اس مقصد کے لیے تحریک شروع کر چکا ہوں ۔ اب تک سرگودھا اور سیالکوٹ کی بار کونسلوں سے خطاب کر چکا ہوں جہاں وکلا برادری نے مکمل اتفاق رائے سے قراردادیں منظور کی ہیں جن میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ استعماری قرضے ادا کرنے سے انکار کر دے۔ میری درخواست ہے کہ قومی پریس اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے اور عوامی رائے کو منظم شکل میں ابھارے ۔میں ان شاء اللہ گھر گھر جا کر لوگوں سے کہوں گا کہ اگر ہم سسک سسک کر اور ذلت سے جینا نہیں چاہتے ‘ اگر ہم نہیں چاہتے کہ مٹھی بھر غیر ملکی ایجنٹ قوم کا مال لوٹ کر غیر ملکی بینکوں میں لے جائیں اور ہمارے قومی مجرموں کو امریکہ ہمارے آئین و قانون کے ہاتھوں چھڑا کر لے جائے تو ہمیں مزاحمت کرنا ہوگی۔ ہمیں قرضوں کی سازش کا شکار بننے سے صاف انکار کرنا ہوگا۔ ہم اپنے ایمان‘ نظریے اور آزادی سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ ہمیں عزت سے جینا ہے تو عزت سے مرنے کے لیے بھی تیار رہنا ہوگا۔ سرنڈر کی پالیسی سے موت نہیں ٹلتی۔ اس لیے ہمیں اعلان کر دینا چاہیے کہ ہم ذلت سے جینا اور مرنا نہیں چاہتے۔ ہمارے حکمرانوں کے سامنے دو ہی راستے ہیں ‘ امریکہ کے ساتھ کھڑے ہوں یا اپنی مظلوم مگر غیرت مند قوم کے ساتھ‘ درمیان کا کوئی راستہ نہیں۔
کشمیر کی آزادی کا واحد راستہ - جہاد
الشیخ عمر بکری محمد
اسلام کو کشمیر میں سن ۵۰۰ ہجری (۱۲۰۰ عیسوی) میں نافذ کیا گیا۔ برطانیہ کے مداخلت کرنے اور سکھوں کے کشمیر پر (۱۸۱۹) میں قبضہ کرلینے سے پہلے تک اسلام وہاں غالب رہا۔ ۱۸۴۶ء سے یہ ہندوؤں کے ہاتھوں میں ہے جب گلاب سنگھ نے اسے برطانیہ کو صرف ساڑھے سات ملین روپے میں بیچ دیا۔ یہ برطانیہ ہی تھا جو انڈین برصغیر کو تین واضح خطوں میں تقسیم کرنے کا ذمہ دار تھا جبکہ انہوں نے عرب جزیرہ نما کو کئی مزید حصوں میں تقسیم کر دیا۔ اسلام کی غیر موجودگی سے قتل و غارت اور تشدد آئے ہیں کیونکہ ہندوؤں کے مذہب میں ایسا کوئی ہمدردی اور رحم کا عنصر نہیں ہے۔ یہ برطانیہ تھا جس کی راہنمائی لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کی‘ جس نے ہندوؤں کے ساتھ نرمی برتتے ہوئے کشمیر کو ان کی عمل داری میں دینا یقینی بنا دیا اور نتیجے کے طور پر کشمیر پر کفار کا قبضہ ہوگیا۔
اللہ جل شانہ فرماتے ہیں:
"اے ایمان والو ! ان مشرکین سے لڑو جو تمہیں گھیرے میں لے لیں اور ان کو تمہاری اندر کی سختی دیکھ لینے دو اور جان لو کہ اللہ ان کے ساتھ ہے جو اس سے ڈرتے ہیں۔" (۱۲۳ : ۹emq )
اللہ حکم دیتا ہے کہ جہاد ہی ظالم ہندوؤں کے خلاف واحد حل ہے۔ مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ مشرکین سے جنگ کریں اور وہاں پر پھر سے اسلامی حکومت لے آئیں۔ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ افغانستان کی مسلم افواج افواج کو اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ جنگ کریں۔ اسلام میں ایسی کوئی گفت و شنید کے ساتھ تصفیہ کی صورت نہیں ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ مشرکین کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہو سکتا۔ مشرکین نہیں چاہیں گے کہ اسلام کسی صورت پھلے پھولے۔ یہ مشرکین ہی ہیں جنہوں نے پہلے ۱۹۲۴ء میں اسلامی خلافت کو تباہ کر کے مسئلہ پیدا کیا۔
مسلمانوں کو صرف روزے اور نماز ہی میں نہیں بلکہ ہر معاملے میں اللہ سے ڈرنا چاہیے۔
"اس چیز کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف بھیجی گئی ہے اور اللہ کے سوا کسی دوسرے آقا کی پیروی نہ کرو‘ تم تھوڑا یاد رکھتے ہو۔" (۳:۴ tmq)
قوم پرستی نے مسلمانوں کو ان کی جمہوریت کی طرف مطالبے کا جواز دیا ہے۔ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کب مسلمان کفار کے غلبے سے نجات حاصل کرنے کے لیے الگ مملکت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کشمیر میں ظلم کے وجود کی وجہ اسلامی نظام کی عملداری نہ ہونا ہے۔
"وہ لوگ جو اللہ کی دی ہوئی نشانیوں کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ ظالم ہیں۔" (۴۵:۵ tmq)
مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم جو قتل و غارت کشمیر‘ فلسطین‘ افغانستان‘ بوسنیا اور چیچنیا میں دیکھتے ہیں اس کا احساس ہونا چاہیے۔ یہ صرف وہاں کے مسائل نہیں ہیں بلکہ مسلم دنیا سے اسلام کے عملی طور پر غائب ہونے کا بلاواسطہ نتیجہ ہیں۔ اس مسئلہ کی طرف توجہ دی جانی ضروری ہے کیونکہ اس مسئلہ کو حل کیے بغیر ہم مسئلہ کشمیر کا مستقل حل ڈھونڈنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ مسلمانو ! یاد رکھو صرف ۳۱۳ مسلمان غزوہ بدر میں ۱۰۰۰ کی تعداد میں دشمن فوج سے لڑے تھے اور کامیاب ہوئے تھے کیونکہ وہ ایمان رکھتے تھے کہ فتح اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمیں اس عقیدے کی بنیاد پر تمام کفار کے خلاف جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے کہ فتح اللہ کی طرف سے آتی ہے۔ کشمیر کے لیے وہی حل ہے جو اسلام پیش کرتا ہے۔ باقی تمام کو آزما لیا گیا ہے۔ پچاس سالوں تک ہم دیکھ چکے ہیں کہ وہ تمام ناکام ہو چکے ہیں۔
"اے جو ایمان لائے ہو ! کیا میں تمہیں ایک ایسا راستہ نہ دکھاؤں جو تمہیں المناک انجام سے بچائے گا۔ تمہیں چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو اور اللہ کے راستے پر اپنی جانوں اور اپنے مال کے ساتھ جدوجہد کرو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جان سکو۔" (۱۱‘۱۰ :۶۱ tmq)
اے مسلمانو ! کشمیر یا بوسنیا یا کسی بھی اسلامی ملک میں اپنی بہنوں اور بھائیوں کو مت فراموش کرنا‘ ان کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا‘ مساجد میں خطبات کے دوران ظلم و جبر کی نشاندہی کرو اور اپنے آپ کو جسمانی اور ذہنی طور پر جہاد کے لیے تیار کریں اور ان مسائل کے درست حل (نظام خلافت) کے لیے اسلام کا مطالعہ کریں۔
اسلام میں انسانی حقوق کی اہمیت اور دائرہ کار
مولانا عصمت اللہ
عصر حاضر میں ہر طرف انسانی حقوق (Human Rights) کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ یورپی اقوام اس معاملہ میں زیادہ ہی فکر مندی ظاہر کر رہی ہیں۔ ان کے اس طرز عمل سے لگتا ہے کہ انسانی حقوق کے بارے میں زیادہ فکر‘ غم‘ پریشانی انہیں کو لاحق ہے۔ اگرچہ دکھی انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ان لوگوں نے کچھ تنظیمیں بھی قائم کر رکھی ہیں۔ ان کی مختلف شاخیں مختلف ممالک میں کام کر رہی ہیں۔ اس سلسلہ میں اقوام متحدہ بھی اپنی فکرمندی ظاہر کرتا رہتا ہے اور اقوام متحدہ نے اپنے زیر اہتمام کئی شعبے ترتیب دے رکھے ہیں اور ہر سال کچھ دن منانے کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ کہیں خواتین کے حقوق کا عالمی دن منانے کی صدا بلند کی جاتی ہے‘ کہیں مزدوروں ‘یتییموں‘ بچوں‘ معذوروں کے عالمی دن منانے کا شور مچایا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس انداز میں کیا جاتا ہے کہ گویا انسانی حقوق‘ انسانیت کا احترام‘ خواتین کی فلاح و بہبود اور آدمیت کے مقام و مرتبہ کا تصور اور خیال ایک نئی ایجاد ہے۔
یورپی اقوام کے اس طرز عمل سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ اور این جی اوز اقوام عالم کو یہ باور کرانے کی کوشش اور فکر میں مبتلا ہیں کہ انسانیت کی جو عظمت‘ مقام کی بلندی اور حقوق کی ادائیگی کی فکر ان کے اندر ہے‘ وہ کسی اور قوم کے اندر نہیں۔ وہ یوں ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی نظام حیات کے پاس تو اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ مسلمانوں کا دین و مذہب‘ تعلیمات اسلامیہ‘ تہذیب و تمدن‘ اسلامی معاشرہ اور قرآن و سنت انسانیت کے حقوق اور عظمت سے غافل و بے خبر ہیں۔ ان کے پاس تو اس سلسلے میں کوئی آئینی‘ دستوری‘ تعلیمی‘ تہذیبی‘ فکری‘ نظری‘ علمی و عملی سرمایہ نہیں ہے اور آدمیت کے احترام حقوق کا تصور نیا پیدا ہوا ہے۔
آئیے مختصراً اسلامی تہذیب کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لیں کہ اسلام کی تعلیمات انسانی حقوق اور عظمت کو کس نظر سے دیکھتی ہیں اور اسلامی تعلیمات اس بارے میں کیا کہتی ہیں اور اسلام انسانی حقوق کے بارے میں کیا تصور پیش کرتا ہے۔ اس سے قبل کہ قرآن و سنت کی روشنی میں اس اہم مسئلے پر تبصرہ کریں‘ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ حقائق دوسرے مذاہب اور تہذیبوں مثلاً ہندو مت‘ بدھ مت‘ یہودیت‘ نصرانیت کے بھی پیش کر دیے جائیں تاکہ مسابقت کے اس دور میں اسلام میں انسانی حقوق کے معاملہ کو مقابلہ کی صورت میں سمجھنا آسان ہو سکے۔ اس طرح اسلام کی عظمت و وقار دلوں میں خوب راسخ ہو سکے گی اور تقابلی مطالعہ سے اچھائی‘ برائی‘ اعلیٰ و ادنیٰ‘ بہتر‘ بدتر‘ صدق و کذب اور حق و باطل باسانی سمجھا جا سکے۔
چنانچہ جب ہم دوسرے مذاہب کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان مذاہب اور تہذیبوں میں انسان اور حیوان کے درمیان حد فاصل قائم نہیں کی گئی۔ بدھ مت کی تعلیمات میں انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا۔
اسی طرح ہندو قانون میں ایک جانور اور ایک انسان کا قتل برابر کا درجہ رکھتا ہے اور ایک جانور بھی اپنی کسی نفع رسانی کے باعث انسان کی ماں کا درجہ پا سکتا ہے ۔
یہودیت‘ نصرانیت میں قرابت داروں کو چھوڑ کر صرف ماں باپ کا ذکر کیا گیا ہے لیکن دوسرے قرابت داروں اور رشتہ داروں کو کوئی مرتبہ نہیں دیا گیا۔
دنیا کے ایک بڑے جمہوری نظام کے دعوے دار ملک ہندوستان میں حال ہی میں پیش آنے والے ان واقعات سے ہندو نظام میں انسانی حقوق کی پاسداری کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
روزنامہ جنگ میں ہندوستانی انگریزی ہفت روزہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ آزادی کے ۵۳ سال بعد بھی کسی نچلی ذات میں پیدا ہونا ہندوستان میں ایک عذاب ‘ ایک لعنت سے کم نہیں۔ اس کا تازہ ترین ثبوت اس وقت ملا جب ایک کانگریسی رکن پارلیمنٹ ویلدروی نے اپنے بیٹے کی شادی کی رسم اپنے علاقے کے مندر میں ادا کی۔ رسم کے بعد مندر کے پرومہت نے حکم دیا کہ ساری عبادت گاہ کو نجاست سے پاک کیا جائے۔ اس کے لیے ایک عظیم عمل کیا گیا۔ مندر نجس کس طرح ہوا؟ صرف اس وجہ سے کہ رکن پارلیمنٹ کی بیوی ایک عیسائی عورت ہے اور وہ بھی اپنے بیٹے کی شادی کی رسم میں شرکت کے لیے مندر میں آئی تھی۔ حالانکہ مسٹر روی ایک زمانے میں صوبائی وزیر داخلہ بھی رہے ہیں۔
ایک اور مثال سنئے ‘ گزشتہ اگست میں ایک عدالتی افسر بھرھتری پرشاد نے سپریم کورٹ میں درخواست دی کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے یو پی حکومت کی طرف سے جبری طور پر ریٹائر کرنے کے خلاف اس کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ اسے جبری طور پر اس لیے ریٹائر کیا گیا تھا کہ اس نے حکومت کا ایک حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ حکم کیا تھا؟ جب مذکورہ افسر کا ایک عدالت سے دوسری عدالت میں تبادلہ ہوا تو ان کا جو جانشین جج مقرر ہوا جس کا نام اے کے سری وستوا تھا۔ اس نے عدالت میں بیٹھنا شروع کرنے سے پہلے گنگا جل منگوایا۔ پوری عدالت کو دہلوایا اس لیے کہ میرا پیش رو جو یہاں بیٹھتا رہا ہے وہ ایک نچلی ذات سے تعلق رکھتا تھا۔ دیکھئے آج بھی بھارت میں لوگ ذات پات کی تقسیم کے عذاب میں مبتلا ہیں۔
اس وقت امریکہ جو انسانی حقوق کا بڑا چیمپئن بنا ہوا ہے اس کا اپنا یہ حال ہے کہ اس نے جاپان کے دو بڑے شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے جس میں لاکھوں جانیں آن واحد میں لقمہ اجل بن گئیں۔ ہزاروں مکان زمیں بوس ہوگئے اور دونوں شہر ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ اسی طرح جب مشرقی تیمور کے عیسائیوں کامسئلہ پیش آتا ہے تو اس کی حمایت میں امریکہ‘ اقوام متحدہ اور پورا یورپ کھڑا ہو جاتا ہے اور انسانی حقوق کا اس قدر شور و غل بپا کیا جاتا ہے کہ اس کو آزادی دلا کر ہی چین لیتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں دیکھیں یہ کشمیر ہے۔ ۵۳ برس سے آزادی کا مطالبہ کر رہا ہے‘ اس کی قراردادیں امریکہ‘ یورپ اور سلامتی کونسل کے دروازے پر مسلسل دستک دے رہی ہیں۔ وادی کشمیر مسلسل آگ میں جل رہی ہے۔ خون میں نہا رہی ہے‘ عزتیں لٹ رہی ہیں‘ نہ صرف نوجوان بلکہ بچے‘ بوڑھے اور صنف نازک تک کو عقل و فکر سے بالا اذیتیں اور تکلیفیں دی جا رہی ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کے دعوے داروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بوسنیا‘ کسووا اور چیچنیا کے ہاں جس قدر انسانی حقوق کی پامالی ہوئی ہے اس کی مثال چشم فلک نے بھی شاید نہ دیکھی ہو۔ آج تک اجتماعی قبریں دریافت ہو رہی ہیں۔ بایں ہمہ پوری دنیا پر سکوت و جمود طاری ہے۔
اور یہ فلسطین ہے ۱۹۴۲ء کو انگریزوں نے اس پر قبضہ کیا۔ پھر عالم عرب کے قلب میں اسرائیل ریاست قائم کر دی گئی جس کی درندگی ‘ بربریت کی خبریں آتی رہی ہیں۔ لیکن اب اکتوبر کے آغاز سے ٹینکوں‘ توپوں اور راکٹوں سے فلسطین کا ناطقہ بند کر دیا گیا۔ وہاں مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ آئے دن مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ نوجوانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے لیکن افسوس بالائے افسوس کہ کسی کو بھی یہاں انسانی حقوق کی پامالی نظر نہیں آتی بلکہ روس ‘ امریکہ ‘ بھارت جب ذرا محسوس کرتے ہیں کہ عالم عرب خواب غفلت سے بیدار ہوا چاہتا ہے تو فوراً مذاکرات کا بگل بجا دیا جاتا ہے۔
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
تاکہ مسلمان سویا رہے اور ہم انسانی حقوق کے شور و ہنگامے میں اپنوں کے حقوق کا تحفظ اور مسلمانوں کے جان و مال اور عزت و آبرو سر عام نیلام کرتے رہیں۔ ان واقعات میں خاص طور پر یہ نقطہ قابل غور ہے کہ جو لڑائی میں مقابلہ کر رہے ہیں ان کا قتل تو سمجھ میں آتا ہے لیکن تہی دست (خالی ہاتھ) غیر مسلح لوگوں کا خون بہانا‘ خواتین کی عزت کو تار تار کرنا‘ بچوں کو گولیاں کا نشانہ بنانا اور بوڑھوں تک کو ٹینکوں تلے روند دینا انتہائی بدبختی ‘ شقاوت قلبی اور حیوانیت و درندگی ہے۔
آئیے ذرا اسلامی تعلیمات‘ اسلامی نظام حیات‘ واقعات اور تاریخ اسلامی کے حوالے سے حقوق انسانی کا جائزہ لیں کہ اسلامی تعلیمات میں انسانیت و آدمیت کا کیا مقام ہے؟ اور حقوق انسانی کی کیا اہمیت و عظمت ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں حقوق انسانی کا دائرہ بڑا وسیع ہے اسلام میں انسانی حقوق کا آغاز ایک فرد کی ذات سے ہوتا ہے اور پھر اس کا دائرہ پھیلنا شروع ہوتا ہے تو پھیلتا چلا جاتا ہے۔ یوں یہ دائرہ وسعت اختیار کرتے کرتے گھر‘ قرابت دار‘ پڑوس‘ محلہ ‘ شہر ‘ ملک اور پوری دنیا کے افراد انسانی تک وسیع ہوجاتا ہے۔ اسی طرح تمام آفاق سے سمٹتا سمٹتا ایک فرد کی ذات میں جمع ہو جاتا ہے۔ اسلام نے انسانی حقوق کو صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ حیوانات‘ چرند پرند‘ درند‘ جمادات‘ نباتات تک کے حقوق بیان کر دیے ہیں۔
امام الانبیاء ﷺ کی تعلیمات مین اونٹ‘ ہرن اور چڑیا کے لیے بھی فلاح و بہبود اور حسن سلوک کرنے کی ہدایات موجود ہیں۔ انسانوں کے لیے درجہ وار حقوق کی ایسی ترتیب قائم کر دی ہے کہ زندگی کا کوئی شعبہ حقوق سے خالی نہیں چھوڑا۔ چنانچہ مرد و عورت‘ اپنے پرائے‘ چھوٹے بڑے‘ بیمار تندرست‘ امیر غریب‘ حاکم رعایا‘ بہن بھائی‘ ماں باپ‘ شوہر بیوی‘ قریبی‘ اجنبی‘ مسلم غیر مسلم‘ شہری دیہاتی‘ غلام آقا‘ مہمان میزبان اور یتیم ‘ بیوہ غرض معاشرے کے ہر فردکے حقوق کی ایسی تفصیلات بیان کر دی ہیں کہ ایسی حد بندی کسی دوسرے مذہب و ملت میں نہیں پائی جاتی۔ مذہبی درجہ وار حقوق کی ایسی تفصیل موجود ہے جبکہ اسلام نے نے تو انسان کو من حیث الانسان بڑی تکریم اور فضیلت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے :
"اور ہم نے اولاد آدم کو عزت دی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری میں سواری دی۔ اور ہم نے ان کو صاف ستھری چیزوں کا رزق دیا اور ہم نے ان کو اپنی بہت ساری مخلوق پر فضیلت دی۔" (بنی اسرائیل)
صرف اسی پر اکتفا نہیں ہے بلکہ اسلام میں انسانی خون کو انتہائی قیمتی قرار دیا گیا ہے۔ اگر کوئی فرد کسی دوسرے انسان کو ناحق موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے تو مذہب اسلام میں مناسب سزا مقرر کر دی گئی ہے۔ قتل و خون بہانے کو مختلف صورتوں میں تقسیم کر دیا ہے جس قسم کا قتل ہوگا اسی طرح کی سزا کا تعین ہوگا۔ اس کے بارے میں قصاص و دیت کے تفصیلی احکام قرآن و سنت میں موجود ہیں۔ عذاب آخرت اس کے علاوہ ہے۔
اس سلسلے میں چند قرآنی ارشادات ملاحظہ فرمائیں:
"اے ایمان والو ! تم پر مقتولوں کے بارے میں برابری کرنا فرض کر دیا گیا ہے۔" (البقرہ)
"جس نے کسی جان کو بلا عوض یا زمین میں فساد کرنے کے بغیر مار ڈالا۔ تو گویا اس نے سب لوگوں کو مار دیا اور جس نے ایک جان کو زندہ رکھا گویا اس نے سب لوگوں کو زندہ رکھا۔" (المائدہ)
"اور نہ قتل کرو اس جان کو جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا‘ مگر جائز صورت میں" (الانعام)
اس سلسلے میں امام الانبیاء ﷺ کے فرموادت کا مطالعہ کریں کہ آپ نے کس قدر اہمیت سے انسانی جان کے تحفظ کو بیان کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا :
"مومن کا قتل اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کے تہہ و بالا ہونے سے بڑھ کر ہے۔"
اگر کوئی شخص کسی مسلمان کے قتل میں ایک لفظ سے مدد کرے گا تو قیامت کے دن اس کی پیشانی پر رحمت سے مایوس لکھا ہوگا۔
اسلام کی نظر میں کوئی جان بے وقعت اور بے قیمت نہیں ہے اور کسی کو رائیگاں اور فضول قرار نہیں دیا جاتا۔ چنانچہ اگر کوئی لاش آبادی میں یا آبادی سے باہر اتنی دور پائی جائے کہ اگر کوئی شخص زور سے آواز لگائے تو وہاں تک اس کی آواز پہنچ سکے تو اس مقتول کے آس پاس قریبی آبادی پر اس کی ذمہ داری ڈالی جائے گی تا کہ اسلامی معاشرے کا ہر فرد بیدار مغز‘ حالات سے با خبر اور محلہ میں ہر کوئی ایک دوسرے کا خیر خواہ‘ خیر اندیش‘ بھلائی کا خواہاں بن کر رہے۔ کسی کو اپنے علاقے میں شر و فساد‘ دہشت گردی اور امن و امان برباد نہ کرنے دے اور رات کی تاریکی میں بھی معاشرہ دن کی روشنی کی طرح ہی بیدار محسوس ہو۔ چنانچہ اس لاش کے ورثہ مقتول کے مطالبے پر فقہی کاروائی پوری کر کے دیت دلائی جاتی ہے۔ اس سے یہ وہم نہ کیا جائے کہ یہ قوانین تو مسلمانوں کے لیے ہیں۔ ایسا نہیں اسلامی قوانین بین الاقوامی امن و سلامتی کے ضامن ہیں۔
آئیے ذرا ایک ہلکی سی جھلک آپ کو اقلیتوں کے حقوق کی دکھلائے جائیں۔ اسلامی معاشرہ میں جس طرح ایک مسلمان کی جان و مال‘ عزت و آبرو کی حفاظت کو ضروری قرار دیا گیا ہے اسی طرح اقلیتوں اور غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت و نگرانی بھی اسلامی حکومت اور معاشرے پر ڈالی گئی ہے۔ چنانچہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا۔
"جو کوئی غیر مسلم پر ظلم کرے گا یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا یا طاقت سے زیادہ تکلیف دے گا اس کی کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر لے گا تو قیامت کے دن اس کی طرف سے میں دعوے دار ہوں گا۔"
جنگ بدر میں جو مشرکین قید ہوئے تھے سرکار دو عالم ﷺ نے ان قیدیوں کو صحابہ میں تقسیم کر دیا تھا اور آپؐ نے فرمایا تھا : "قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔"
خود قید ہونے والے لوگ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ پر آپؐ کے اس ارشاد کا یہ اثر تھا کہ صحابہ کرامؓ پہلے ہمیں کھانا کھلاتے تھے اگر کھانا بچ جاتا تو کھاتے ورنہ صرف کھجور پر ہی اکتفا کر لیتے تھے۔
یہ وہ قیدی تھے جنہوں نے مکہ میں حضور پاک ؐ اور صحابہؓ کو اذیت و تکلیف دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا تھا۔ اب موقع تھا کہ صحابہ کرام ان سے اپنی مرضی کے مطابق بدلہ لے سکتے تھے لیکن یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ ان کو تشدد کا نشانہ بنانا تو درکنار بلکہ ہر ممکن آرام کا خیال رکھا جاتا ہے۔
آج کے مہذب و متمدن اور ترقی یافتہ ہونے کے دعوے دار ملکوں سے ذرا پوچھیں کہ کیا وہ اپنے اسیروں کے ساتھ ایسے سلوک کی مثال پیش کر سکتے ہیں۔ ان ملکوں میں تو حال یہ ہے کہ آئے دن جیلوں میں قیدیوں کو اذیتیں دے کر ہلاک کرنے کی خبریں پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ‘ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے معلوم ہوتی رہتی ہیں۔ کتنے قیدی ہیں جن کو روزانہ انڈین جیلوں میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا جاتا ہے۔
امریکہ اسامہ بن لادن کے بہانے افغانستان اور سوڈان میں میزائل پھینک کر کتنا جانی و مالی نقصان کر چکا ہے۔ اور مزید موقع کی تلاش میں ہے۔ اہل عراق کے لیے پابندیاں لگا کر معصوم عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ امریکہ فلسطین میں جو کھیل کھیل رہا ہے اب تو پوری دنیا اس سے واقف ہو چکی ہے۔ بایں ہمہ ایک ہی سانس میں مسلسل انسانی حقوق کے راگ بھی الاپ رہا ہے۔ جبکہ اسلام میں جنگی ہدایات‘ تعلیمات میں یہ بات زور دے کر کہی گئی ہے کہ لڑائی کے دوران کسی بچے‘ بوڑھے‘ عورت‘ راہب ‘ معذور اور بیمار کو قتل نہ کیا جائے۔ درختوں اور فصلوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ غیر مسلموں کو ان کی زمینوں‘ گھروں اور عبادت گاہوں سے الگ نہ کیا جائے۔
دور فاروقی میں جب بیت المقدس فتح ہوا تو ایک موقع ایسا آیا کہ سیدنا فاروق اعظمؓ کو نماز کا وقت ہوگیا۔ جب آپ عیسائیوں کے مشہور گرجا گھر (قمامہ) کی سیر کر رہے تھے۔ عیسائی پادری نے کہا کہ یہیں نماز ادا فرما لیں۔ آپؓ نے یہ کہہ کر نماز ادا کرنے سے انکار کر دیا کہ کہیں کل کو مسلمان میرے نماز پڑھنے کو بہانہ بنا کر اس پر قبضہ نہ کر لیں۔ لہذا میں اس میں نماز ادا نہیں کروں گا۔
حضرت ابو عبیدہؓ نے ملک شام کو فتح کیا تو غیر مسلم ابو عبیدہؓ کے سلوک اور اسلامی تعلیمات میں اپنے حقوق کی حفاظت کی ہدایات کو دیکھ کر مسلمانوں کے حامی و مددگار بن گئے۔
محمد بن قاسم فاتحانہ سندھ میں داخل ہوئے اور راجہ داہر قتل ہوگیا تو لوگ مارے ڈر اور خوف کے اپنے گھروں کو چھوڑکر بھاگ رہے تھے۔ اسی وقت محمد بن قاسم کی طرف سے اعلان کر دیا گیا کہ جو کوئی اپنی جان بچانے کے لیے جانا چاہتا ہے اسے جانے دیا جائے اور اس سے کوئی تعرض نہ کیا جائے۔ محمد بن قاسم کے اس اعلان سے لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا اور لوگ بدستور اپنے ہی گھروں میں ٹھہر گئے اور جو بھاگ گئے تھے واپس آگئے۔
ولید بن عبد الملک نے اپنے دور خلافت میں جامع مسجد دمشق کا کچھ حصہ جبراً عیسائیوں کی جگہ پر تعمیر کر دیا تھا۔ جب عمر بن عبد العزیز خلیفہ مقرر ہوئے تو مسجد کے اس حصہ کو گرانے اور عیسائیوں کے حوالے کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ بالاخر عیسائیوں کی مرضی سے معاملہ طے پا گیا تو مسجد کے اس حصہ کو باقی رہنے دیا گیا۔
بیت المقدس سیدنا فاروق اعظمؓ کے دور خلافت سے مسلمانوں کے قبضہ میں چلا آرہا تھا۔ ۴۹۲ھ میں جب عیسائیوں نے دوبارہ بیت المقدس کو فتح کر لیا تو چند سال میں فلسطین کا بڑا حصہ ان کے تصرف میں آگیا۔
انگریز مورخ لین پول لکھتا ہے :
"بیت المقدس میں فاتحانہ داخلہ پر صلیبی عیسائیوں نے ایسا قتل عام مچایا کہ ان صلیبوں کے گھرڑے جو مسجد عمر سوار ہوگئے گھٹنوں گھٹنوں خون کے چشمے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ بچوں کی ٹانگیں پکڑ کر ان کو دیواروں سے دے مارا یا ان کو دیواروں سے پھینک دیا گیا۔
اس کے بالمقابل جب ۵۸۳ء کو سلطان صلاح الدین ایوبی نے دوبارہ بیت المقدس کو حاصل کیا اور ۹۰ سال بعد بیت المقدس کو فتح کرنے کی آرزو پوری ہوئی۔
ابن شداد لکھتے ہیں کہ ہر طرف دعا و تہلیل و تکبیر کا شور بلند تھا۔ ۹۰ برس بعد جمعہ کی نماز ہوئی۔ صلیب اتار دی گئی۔ اسلام کی فتح مندی اور اللہ تعالیٰ کی مدد کا عجیب منظر آنکھوں کے سامنے تھا۔
بہرحال اسلام میں انسانی حقوق کو جو اہمیت حاصل ہے اس کی مثال کسی مذہب و ملت ‘ تہذیب و تمدن‘ اور نظام و دستور میں نہیں ملتی۔ اسلامی تاریخ ایسے حقائق و مشاہد سے بھری پڑی ہے۔
انہیں چشم روشن اور دل زندہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
سرکاری حج پالیسی اور حجاج کو درپیش مشکلات ۔ چیف ایگزیکٹو کے نام ایک مکتوب
مولانا محمد عبد العزیز محمدی
- بخدمت جناب عزت مآب جنرل پرویز مشرف ‘ چیف ایگزیکٹو پاکستان (اسلام آباد)
- بخدمت جناب وزیر حج و امور مذہبیہ پاکستان(اسلام آباد)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ مزاج گرامی ؟ ۔ امید ہے طبیعت بعافیت ہوگی۔
چند ایک معروضات پیش خدمت ہیں۔ حجاج کرام کو ہر سال پیش آمدہ مشکلات و مسائل وقتاً فوقتاً اخبارات اور قومی جرائد میں آتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں روزنامہ جنگ کی طرف سے جنگ فورم میں منعقدہ مذاکرہ کے مطالعہ کے بعد میں ضروری سمجھتا ہوں کہ جناب کی توجہ چند ایک تجاویز کی طرف خصوصیت سے مبذول کرائی جائے جن پر سنجیدگی سے غور کر کے انہیں قابل عمل بنا دیا جائے تو ان شاء اللہ امید ہے کہ کافی حد تک حجاج کرام کی شکایات کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ تب ہی ممکن ہوگا کہ جناب ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے ان تجاویز کو بیوروکریسی کی روایتی سازش اور دست برد سے بچا کر عملاً نافذ کرنے کے لیے ذاتی و سرکاری ذرائع بروئے کار لائیں۔
۱۔ جناب والا ‘ حجاج کرام کے لیے رہائش ‘ معلم کا انتخاب اور مکہ سے منیٰ ‘ عرفات‘ مزدلفہ آمد و رفت ٹرانسپورٹ کا انتظام حجاج کرام کی اپنی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے اور ان کے لیے لازمی کٹوتی کو ختم کر دیا جائے۔
۲۔ بھارت غیر مسلم حکومت ہونے کے باوجود اپنے حجاج کرام سے درخواست کے ساتھ صرف پانچ ہزار روپے لیتی ہے۔ اور باقی رقم بعد میں جمع کرائی جاتی ہے جبکہ پاکستانی حکومت ہر سال حجاج کرام سے پوری رقم ۸ ماہ قبل جمع کراتی ہے جو حجاج کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ (یہ بہانہ کہ ہمیں سعودی حکومت کو بلڈنگ کے لیے ۲۳ فیصد ایڈوانس دینا پڑتا ہے‘ اسے آڑ بنا کر حجاج کرام سے پوری رقم اتنا عرصہ قبل لے لینے کا کوئی جواز نہیں) نیز بھارت اپنے حجاج کو سب سڈی دیتا ہے۔ جبکہ پاکستان ہر سال رقم میں اضافہ کر دیتا ہے۔ اس لیے گزارش ہے کہ حجاج کرام سے پہلے کی طرح ایک صد روپے کے فارم یا ایک چوتھائی رقم ایڈوانس لے لی جائے اور بقایا رقم حج سے دو تین ماہ قبل جمع کرائیجائے اس جائز اور مبنی بر حقیقت مطالبے کو مذہبی امور کے ناخدا سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ آئندہ حج قومی کانفرنس کے موقع پر سب سے پہلے یہی مسئلہ زیر بحث لایا جائے اور رائے عامہ کا احترام کیاجائے۔
۳۔ جناب والا حج پالیسی پہلے سے تیار ہوتی ہے جسے حج بیورو کریسی دفتروں میں بیٹھ کر تیار کرتی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ کانفرنس کے موقع پر کئی باتوں کا جواب وہاں کے ذمہ دار یہ دیتے ہیں کہ یہ حج پالیسی میں نہیں ہے‘ کانفرنس تو اب ہو رہی ہے‘ پالیسی پہلے کس طرح طے ہوگئی؟ حج قومی کانفرنس رسمی‘ روایتی اور مہمانوں کو شرمندہ کرنے کے لیے محض ایک دھوکہ ہے۔ عوامی تجاویز کو در خور اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ کانفرنس کے موقع پر مختلف کمیٹیوں کی تشکیل اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ہوتی ہے۔ طے شدہ ٹارگٹ کے حصول کے علاوہ عوامی تجاویز کو ضیاع وقت سمجھ کر ٹال دیا جاتا ہے۔ اس دھوکہ دہی سے نجات دلا کر عوامی تجاویز کو قابل عمل بنایا جائے۔ وزارت مذہبی امور کے عملہ کی کارکردگی یہ ہے۔ ہماری ایک جوائنٹ درخواست (اپنے انتظام اور اپنی گاڑی سے چند احباب کا ایک گروپ حج پر لے جانے کے سلسلے میں) ڈائریکٹر مذہبی امور صوبہ سرحد نے اپنے مکتوب No 2(11)/94-DH(G)/962-63 Peshawar مورخہ ۲ دسمبر ۱۹۹۸ء سیکشن آفیسر (p.w) وزارت مذہبی امور کو بھیجی تھی۔ آج عرصہ دو سال کے بعد ہم ابھی تک جواب کے انتظار میں ہیں۔ متعلقہ افسران کو جواب دینے کی فرصت نہیں ملی یا جواب کی زحمت گوارا نہیں کر رہے یا ریکارڈ اتنا صاف ہے کہ درخواست ہی گم ہوگئی ۔
۴۔ حج و عمرہ کے لیے (Land Route) خشکی کے راستے ٹرانسپورٹ کارواں بھیجے جائیں۔ اس سے نوجوانوں میں شوق بڑھے گا۔ راستے میں مقدس مقامات کی زیارت ہوگی۔ P.I.A کا بوجھ کم ہوگا اور گزشتہ سال کی طرح P.I.A کی طرف سے پیدا شدہ مشکل صورت حال کا اعادہ نہیں ہوگا۔ وزارت مذہبی امور کا یہ عذر لنگ کب تک چلے گا کہ (Land Route) حج پالیسی میں نہیں ہے۔ آخر پالیسی میں کب آئے گا۔ کون پالیسی بنائے گا اور کب تک من مانی چلے گی۔ اگر حکومت سرکاری طور پر حج کارواں نہیں بھیج سکتی تو کم از کم اپنے طور پر پرائیویٹ قافلے By Road جانا چاہیں تو انہیں سہولیات‘ ویزہ کے حصول کے لیے سرکاری طور پر تعاون اور ضروری کارروائی کے ساتھ ساتھ N.O.C دے دی جائے۔
۵۔ حج و عمرہ کے لیے بحری راستے نامعلوم وجوہ کی بنا پر بند کر دیے گئے۔ صرف یہ بہانہ کہ بحری جہاز ناکارہ ہوگئے ہیں‘ بیک وقت سب کیسے ناکارہ ہوگئے۔ اس سلسلے میں تو ہم کچھ نہیں کہتے۔ اگر پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن والے بیک وقت بحری جہازوں کے ناکارہ ہونے میں اپنی غفلت و کوتاہی کی سزا غریب لوگوں کو دینے اور پاکستانی بندرگاہوں کی افادیت و اہمیت ختم کرنے کا فیصلہ کر ہی چکے ہیں تو پرائیویٹ جہاز رانی کی حوصلہ افزائی کے لیے پرائیویٹ کمپنیوں کو رائیلٹی اور خصوصی رعایات دی جائیں تا کہ سمندری صنعت کو فروغ ہو اور حج و عمرہ کے لیے پہلے کی طرح بحری راستوں کو بھی اختیار کیا جا سکے۔
۶۔ حج بدل در حقیقت حج فرض ہی کی طرح ہے اس لیے حج بدل والوں کو مخصوص کوٹہ سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔
۷۔ حاجیوں کو بلڈنگ مافیا کی رشوت‘ ناواقف اور سفارشی عملہ سے نجات دلائی جائے۔ حج کے نام پرناجائز منافع خوری کا سد باب کیا جائے۔ جو رہائش ۶۰۰ ریال پر ملتی ہے اس کا کرایہ حاجیوں سے ۱۴۵۰ ریال لے لیا جاتا ہے۔یہ کتنی بڑی زیادتی ہے۔ ویسے بھی حج فارموں میں حجاج کے لیے رہائش کی درجہ بندی کچھ اس طرح سے ہوتی ہے کہ کم سے کم ۸۰۰ ریال اور زیادہ سے زیادہ ۱۶۰۰ ریال لیے جانے کا کالم ہوتا ہے۔ مگر کسی حاجی کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کس درجہ کی رہائش میں ہے۔ ہر حاجی سے زیادہ سے زیادہ (maximum) کٹوتی کر لی جاتی ہے۔ وہاں حاجی کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ خدام الحجاج صرف فوجی اور سکاؤٹس بھیجے جاتے ہیں ۔ اگر پرائیویٹ طور پر حجاج کرام کی خدمت کرنے والی تنظیموں سے بھی خدام بھیجنے کے لیے ایک کوٹہ مقرر کیا جائے تو وہ اپنی ساکھ باقی رکھنے کی خاطر صحیح معنوں میں خدام فراہم کرتے ہوئے دیندار‘ محنتی اور خدمت کا جذبہ رکھنے والے افراد مہیا کر سکیں گے ۔
۸۔ حاجی کیمپوں میں مستورات کے لیے پردے کا صحیح انتظام کیاجائے۔ پردے کے ریک (rack) اور کیبن بنائے جائیں تا کہ کوئی حاجی اپنے محرم‘ مستورات کو ملنا چاہیں تو بے پردگی کا احتمال نہ ہو‘ موجودہ صورت حال غیر تسلی بخش ہے۔ نیز حج و عمرہ کی پروازوں میں لیڈیز ایئر ہوسٹس کو ممنوع قرار دے کر سٹیورڈ مقرر کیے جائیں۔
۹۔ سرکاری سطح پر سعودی عرب کو آگاہ کیا جائے کہ بعض معلمین حجاج کے وقوف منیٰ و مزدلفہ کے حدود کی پرواہ نہیں کرتے۔ اس سال وقوف منیٰ کے خیمے منیٰ کے علاوہ مزدلفہ کی حدود میں بھی نصب کرائے گئے تھے۔ حجاج کو حدود کا علم نہیں ہوتا اس لیے معلمین کو پابند کیا جائے کہ وقوف منیٰ ‘ مزدلفہ اپنی اپنی حدود میں کرائیں۔
۱۰۔ رمضان المبارک کے احترام میں عمرہ کے لیے P.I.A کی ٹکٹ میں دس ہزار روپے اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ عام حالات میں واپسی ٹکٹ اسلام آباد سے 28-27 ہزار ہوتی ہے جبکہ رمضان شریف میں 38-35 ہزار روپے کر دی جاتی ہے۔ نیز ایک اور مشکل درپیش ہے کہ ٹریول ایجنسیز اور P.I.A سٹاف والے ملی بھگت سے عمرہ والوں کے لیے جعلی سیٹ (O.K.) کرا لیتے ہیں‘ جب ویزہ لگ کر آجاتا ہے تو سیٹ کی تصدیق (confirmation ) سے انکاری ہو جاتے ہیں کہ وہ تو صرف ویزہ کے حصول کے لیے O.K کرائی تھی۔ عازمین مجبور ہوتے ہیں۔ آخر تک پریشان رہتے ہیں ۔ بالاخر P.I.A اور ٹریول ایجنسیز کی بلیک میلنگ اور اضافی اخراجات کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کھلے فراڈ سے نجات دلائی جائے۔
۱۱۔ حاجی کیمپوں میں کسٹم سٹاف حجاج کی بعض استعمال کی چیزوں مثلاً ٹوتھ پیسٹ‘ تیل‘ صابن‘ ادویات وغیرہ کو ممنوع قرار دے کر حاجیوں کے ورثا کو واپس دینے کی بجائے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور بعد میں آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں جو شرعاً ناجائز ہے۔ اگر وہ اشیاء واقعی ممنوع ہیں تو حجاج کے ورثا کو واپس کر دی جائیں۔
یہ چند ایک گزارشات میں نے عرض کر دی ہیں جو وزارت مذہبی امور کی دانستہ یا غیر دانستہ غلط حکمت عملی کی وجہ سے حجاج کے لیے پریشان کن ہیں۔ اللہ پاک نے آپ کو اختیارات دیے ہیں‘ اللہ پاک کے مہمانوں کو ان مشکلات سے نجات دلا کر اپنے لیے ذخیرہ آخرت بنائیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو شریعت مطہرہ کی بالادستی قائم کرنے اور ملک کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی مملکت بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
خادم العلماء والحجاج : (مولانا) محمد عبد العزیز محمدی ‘خطیب جامع مسجد (امان) اسلامیہ کالونی ‘ ڈیرہ اسماعیل خان
کراچی میں حافظ الحدیث کانفرنس کا انعقاد
ادارہ
شیخ الاسلام حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ساری زندگی اسلامی علوم کی ترویج و اشاعت ‘ اسلامی نظام کے نفاذ‘ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور باطل نظریات و افکار کے تعاقب کے لیے جدوجہد میں گزار دی اور ان کی بھرپور زندگی علماء کرام اور دینی کارکنوں کے لیے ہمیشہ مشعل راہ ثابت ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز علماء کرام نے گزشتہ دنوں جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن نارتھ کراچی میں حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ علیہ کی یاد میں پاکستان شریعت کونسل کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی "حافظ الحدیث کانفرنس" سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
کانفرنس کی پہلی نشست حضرت مولانا مطیع الرحمن درخواستی اور دوسری نشست کی صدارت پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی نے کی۔ جبکہ کانفرنس سے سپاہ صحابہؓ کی سپریم کونسل کے چیئرمین مولانا ضیاء القاسمی‘ جمعیت علماء اسلام (س) کے قائم مقام مرکزی امیر مولانا قاضی عبد اللطیف‘ پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی‘ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے سربراہ ڈاکٹر فضل احمد‘ مولانا اسعد تھانوی‘ مولانا بشیر احمد شاد‘ مولانا سیف الرحمن ارائیں‘ مولانا عبد الرشید انصاری‘ شیخ الحدیث مولانا زرولی خان‘ مولانا مفتی حبیب الرحمن درخواستی‘ مولانا قاری اللہ داد‘ شاعر اسلام سید سلمان گیلانی‘ قاری عبد الکریم اور قاری محمد اکبر مالکی نے خطاب کیا۔ کانفرنس صبح ساڑھے دس بجے سے شام ساڑھے پانچ بجے تک جاری رہی اور اس میں کراچی اور دیگر شہروں سے ہزاروں کی تعداد میں علماء کرام‘ دینی کارکنوں او رطلبہ نے شرکت کی۔
مولانا ضیاء القاسمی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت درخواستی رحمہ اللہ علیہ نے زندگی بھر محنت اور جدوجہد کے ساتھ دین کا جو گلشن آباد کیا وہ ہم سب کی امیدوں کا مرکز ہے اور ہم اس کی ہمیشہ آبادی کے لیے دعا گو ہیں۔ وہ اہل حق کے قافلہ سالار تھے اور انہوں نے حق پرست علما اور کارکنوں کی ہر دور میں سرپرستی کی۔
مولانا قاضی عبد اللطیف نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی نے ملک میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کی قیادت کی اور ان کی سربراہی میں اہل حق کے قافلہ نے ربع صدی سے زیادہ عرصہ تک نفاذ شریعت کی تحریک کو آگے بڑھایا۔ اس لیے آج ان کا سب سے بڑا ورثہ یہی جدوجہد ہے اور ہم سب کو اس جدوجہد میں زیادہ سے زیادہ حصہ ڈالنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آج فوجی حکومت کو این جی اوز اور لا دین عناصر نے گھیرے میں لے رکھا ہے اور یہ این جی اوز پاکستان کی اسلامی حیثیت کے خاتمہ کے لیے بین الاقوامی ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کے وجود اور اس کے نظریاتی تشخص کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ اس لیے علماء کرام اور دینی حلقوں کو چاہیے کہ وہ متحد ہو کر اس خطرے کا مقابلہ کریں اور ملک کی اسلامی حیثیت اور قومی وحدت کے تحفظ کے لیے کسی قربانی سے گریز نہ کریں ۔انہوں نے کہا کہ آج پاکستان کے اسلامی دستور کے مخالف قوم پرست سیاست دان لندن میں بیٹھ کر پاکستان کے دستور کے خلاف باتیں کر رہے ہیں اور اس کے خاتمہ کے لیے مطالبات کر رہے ہیں جو خطرے کا الارم ہیں کیونکہ اگر خدانخواستہ ۷۳ کا دستور ختم ہوگیا تو اس ملک میں پھر کسی آئین پر قومی اتفاق رائے حاصل نہیں کیا جا سکے گا اور قومی وحدت خطرے میں پڑ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بین الاقوامی ایجنڈے کے سب سے بڑے اہداف تین ہیں۔ ایک یہ پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کیا جائے‘ دوسرا یہ کہ پاکستان کو معاشی طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا جائے اور تیسرا یہ کہ فوج سے عوام کو متنفر کر کے ملک کے دفاع کی قوت کو غیر موثر بنا دیا جائے۔ اس ایجنڈے پر تیزی سے عمل ہو رہا ہے اور مختلف شعبوں میں فوج کو براہ راست ملوث کرنے سے لے کر اشیاء صرف کے نرخوں میں اضافے اور ضلعی حکومتوں کے نام سے نیم خود مختار ریاستوں کے قیام اور عورتوں کی آزادی کے بہانے خاندانی نظام کی تباہی کی مہم تک منصوبوں پر تسلسل کے ساتھ عمل ہو رہا ہے۔ اس لیے اس وقت سب سے بڑی ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی حلقوں اور جماعتوں کی قیادتیں سرجوڑ کر بیٹھیں اورملکی وحدت اور اسلامی دستور کے تحفظ کے لیے متحد ہو جائیں۔
مولانا زاہد الراشدی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی اہل حق کی روایات کے امین تھے۔ انہوں نے اپنے عظیم اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین کے تحفظ و ترویج کے لیے ہر مورچہ پر جنگ لڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا درخواستی کی پون صدی سے زیادہ عرصے پر محیط جدوجہد کے سات اہداف سب سے نمایاں تھے جن کے لیے وہ ہر وقت سرگرم عمل رہتے تھے اور اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کو سرگرم عمل رہنے کی تلقین کرتے تھے۔
پہلے نمبر پر وہ ملک میں نفاذ شریعت کے نفاذ کے خواہاں تھے اور انہوں نے مسلسل پینتیس برس تک جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر کی حیثیت سے اس جدوجہد کی راہنمائی کی۔ وہ اپنے ہر عقیدت مند اور شاگرد سے عام اجتماعات میں اس بات کا حلف لیا کرتے تھے کہ وہ زندگی بھر نفاذ شریعت کے لیے جدوجہد کرتا رہے گا۔
دوسرے نمبر پر وہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے تھے۔ منکرین ختم نبوت کا تعاقب‘ عقیدہ ختم نبوت کی وضاحت و تشریح اور علماء کرام کو اس محنت کے لیے تیار کرنا ان کا خصوصی موضوع تھا اور اس مقصد کے لیے انہوں نے کئی مہمات کی عملی طور پر بھی قیادت کی۔
تیسرے نمبر پر وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت و عقیدت کا بطور خاص درس دیا کرتے تھے۔ صحابہ کرامؓ کے واقعات بیان کرتے‘ ان کی محبت اور عقیدت کو ابھارتے‘ ان پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دیتے اور ان کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے علماء کرام اور کارکنوں کو جدوجہد پر آمادہ کرتے تھے۔
چوتھے نمبر پر جہاد حضرت درخواستی رحمہ اللہ تعالیٰ کے بیانات کا خاص موضوع ہوا کرتا تھا۔ جب افغانستان کے جہاد کا آغاز نہیں ہوا تھا وہ اس دور میں بھی جہاد کے فضائل بیان کرتے‘ قرون اولیٰ کے واقعات سناتے اور اپنے شاگردوں اور سامعین کو جہاد کے لیے تیار کرتے تھے اور جب جہاد افغانستان عملاً شروع ہوا تو انہوں نے افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقے کا طوفانی دورہ کر کے علماء کرام اور دیندار عوام کو افغان مجاہدین کی پشت پناہی کے لیے تیار کیا اور آخر دم تک افغان جہاد کی حمایت اور پشت پناہی کرتے رہے۔
پانچویں نمبر پر وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی تلقین کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے رابطہ اور تعلق کا سبق دیتے اور باطنی تزکیہ اور اصلاح کی طرف توجہ دلاتے تھے۔
چھٹے نمبر پر حضرت درخواستی کا خاص مشن ملک کے ہر حصے میں دینی مدارس کا قیام تھا‘ وہ جہاں جاتے دینی مدارس قائم کرنے کی تلقین کرتے‘ مدارس کے لیے چندہ اکٹھا کر کے دیتے اور ان مدارس کی عملی اور مالیاتی سرپرستی کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں اور انہی کے ذریعہ معاشرہ میں دین کی حفاظت ہوگی۔
ساتویں نمبر پر انہوں نے اہل حق کی مختلف جماعتوں کے درمیان مفاہمت و ارتباط کے لیے ہر دور میں کوشش کی‘ وہ علماء دیوبند سے تعلق رکھنے والی ہر جماعت کو اپنی جماعت کہتے تھے اور سب جماعتوں کی سرپرستی کرتے ہوئے ان میں اتحاد و اشتراک کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ دین کی جدوجہد کے یہ ساتوں محاذآج بھی موجود ہیں اور حضرت درخواستی ؒ کے ساتھ ہماری محبت و عقیدت کا تقاضا ہے کہ ہم ان محاذوں پر اسی طرح سرگرم عمل رہیں جس طرح ہمارے مرحوم اور مربی ہمیں سرگرم عمل رہنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔
مولانا بشیر احمد شاد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت جن مدارس کے ذریعہ قائم ہوئی ہے‘ ان مدارس کا جال حضرت درخواستی ؒ نے ہی بچھایا تھا اور ان کی جدوجہد کے نتیجے میں ہی دنیا میں ایک بار پھر اسلامی نظام کے نفاذ کا مبارک سلسلہ شروع ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت درخواستی ؒ کی جدوجہد جاری رہے گی اور ہم ان کے خدام کی حیثیت سے ان کے مشن کی تکمیل کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
مقررین نے حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ تعالیٰ کی علمی خدمات‘ دینی جدوجہد اور ملی کارناموں کے ساتھ ساتھ ان کے ذاتی اوصاف ‘ کرامات اور نیکی و تقویٰ کے بیسیوں واقعات بیان کیے اور کہا کہ وہ اس صدی میں پرانے بزرگوں کی روایات اور اخلاق و عادات کا نمونہ تھے۔ جبکہ کانفرنس کے اختتام پر حضرت درخواستی ؒ کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی گئی اور ان کے مشن کو جاری رکھنے کے عزم کی تجدید کی گئی۔
تعارف و تبصرہ
ادارہ
’’دارالعلم کی مطبوعات‘‘
معہد اللغۃ العربیۃ اور دارالعلم ۶۹۹ آب پارہ مارکیٹ اسلام آباد کے سربراہ مولانا محمد بشیر سیالکوٹی باذوق اہل حدیث عالم دین ہیں جو قادیانیت جیسے گمراہ گروہوں کے علمی و فکری تعاقب کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کے مختلف مکاتب فکر میں باہمی رواداری اور ہم آہنگی کے فروغ اور عربی زبان کی ترویج کے لیے مسلسل سرگرم عمل رہتے ہیں اور اس سلسلہ میں ان کی خدمات کو تمام دینی حلقوں میں احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
وہ ایک عرصہ سے اس مقصد کے لیے کوشاں ہیں کہ دینی مدارس میں عربی زبان اور لغت اور ادب و انشاء کی تعلیم و تدریس کے لیے جدید اسلوب کو اپنایا جائے تا کہ سالہا سال تک ان مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اور تدریسی خدمات سر انجام دینے والے اساتذہ میں عربی زبان میں تحریر و گفتگو کی صلاحیت کا جو خلا رہ جاتا ہے اور بری طرح محسوس ہوتا ہے اسے پر کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے ندوۃ العلماء لکھنو طویل مدت سے مصروف کار ہے جس کے مثبت نتائج سب کے سامنے ہیں لیکن تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں اس رخ پر کوئی موثر کام نہیں ہو سکا اور ہمارے خیال میں مولانا محمد بشیر سیالکوٹی اسی مہم کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں جس کے لیے انہوں نے اسلام آباد میں مختلف طبقات کے لیے عربی کلاسوں کے اجرا کے علاوہ نصابی ضروریات کے لیے کتابوں کی تدوین و اشاعت کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے جن میں سے دو کتابیں اس وقت ہمارے سامنے ہیں۔
(۱) مفتاح الانشاء حصہ اول میں اعلیٰ جماعتوں کے طلبہ کو عربی ترجمہ اور تحریر و انشاء سکھانے کے لیے جدید اسلوب کے مطابق خاصا مفید مواد جمع کر دیا گیا ہے۔
(۲) اساس الصرف میں علم صرف کے ضروری قواعد کو نئے اسلوب سے مرتب کر کے ضروری تمرینات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
(۳) اقرأ کے نام سے عربی ریڈر چار حصوں میں ہے جس میں کثیر الاستعمال عربی الفاظ و محاورات کا اچھا ذخیرہ جمع کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ مولانا محمد بشیر سیالکوٹی کی کوشش ہے کہ سعودی عرب کی وزارت تعلیم نے عربی نہ بولنے والوں کے لیے دروس اللغۃ العربیۃ کے نام سے تین حصوں میں جو نصابی کتاب شائع کی ہے دینی مدارس اسے بھی اپنے نصاب میں شامل کریں تا کہ طلبہ میں جدید عربی کو سمجھنے اور اس میں لکھنے پڑھنے کی صلاحیت پیدا ہو اور ہماری معلومات کے مطابق اہل حدیث مکتب فکر کے وفاق المدارس السلفیہ پاکستان نے ان کی تجاویز کو منظور کرتے ہوئے عربی زبان کی تعلیم و تدریس کے نصاب و اسلوب میں ضروری تبدیلیوں کا فیصلہ کر لیا ہے جو ہمارے خیال میں اس سمت میں ایک مثبت پیش رفت ہے۔
ہم اصولی طور پر مولانا موصوف کے اس موقف سے متفق ہیں کہ علما اور طلبہ میں جدید عربی کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے تعلیم و تدریس کے جدید اسلوب کو اختیار کرنا ضروری ہے ۔اس لیے دینی مدارس اور ان کے وفاقوں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اس اہم ضرورت کا احساس کریں اور اس بری طرح محسوس ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لیے ندوۃ العلماء لکھنو کے نصاب‘ مولانا محمد بشیر سیالکوٹی کی تجاویز اور دیگر متعلقہ ماہرین کی آرا کو سامنے رکھتے ہوئے ضروری اقدامات سے گریز نہ کریں۔
’’قرآن پاک کے نئے سائنسی معجزات‘‘
ڈاکٹر سلطان بشیر محمود صاحب اور میجر (ر) امیر افضل خان صاحب نے اپنی اس مشترکہ کاوش میں مختلف سائنسی اصولوں اور ضابطوں کے حوالہ سے قرآن کریم کے متعدد مضامین اور معارف کو نئے رنگ میں پیش کیا ہے اور قرآن کریم کے بارے میں مختلف حلقوں کی طرف سے پھیلائے جانے والے شکوک و شبہات اور مغالطوں کا جواب دیا ہے۔ دو سو سے زائد صفحات کی یہ کتاب خوبصورت ٹائٹل اور مضبوط جلد کے ساتھ القرآن الحکیم ریسرچ فاؤنڈیشن 60/B ناظم الدین روڈ F-8/4 اسلام آباد نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ایک سو روپے ہے۔
’’قیامت اور حیات بعد الموت‘‘
یہ کتاب ڈاکٹر سلطان بشیر محمود صاحب کی تصنیف ہے جسے اردو میں میجر (ر) امیر افضل خان صاحب نے پیش کیا ہے۔ اس میں قیامت اور حیات بعد الموت کے بارے میں اسلامی عقائد اور قرآن وسنت کی تشریحات کی سائنسی انداز میں وضاحت کی گئی ہے اور اس سلسلہ میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ساڑھے پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس ضخیم اور مجلد کتاب کی قیمت تین سو روپے ہے اور اسے مندرجہ بالا ایڈریس سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’اسماء اللہ عز و جل‘‘
جناب رشید اللہ یعقوب نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے اسماء گرامی کے بارے میں قرآن کریم‘ احادیث نبویہ اور بزرگان دین کے اقوال و فرمودات کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ خوبصورت انداز سے پیش کیا ہے جو ان کے حسن ذوق کا آئینہ دار ہے اور اصحاب ذوق کے لیے بیش بہا تحفہ ہے۔
عمدہ کتابت و طباعت‘ خوبصورت ٹائٹل اور مضبوط جلد کے ساتھ آرٹ پیپر پر شائع ہونے والی یہ کتاب اڑھائی سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جسے صدقہ جاریہ کے طور پر شائع کیا گیا ہے اور اسے رحمۃ للعالمین ریسرچ سنٹر مکان نمبر 8 زمزمہ سٹریٹ نمبر 3 زمزمہ کلفٹن کراچی 75600 سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’نسخہ سکون‘‘
ماہنامہ الہلال مانچسٹر کے مدیر مولانا حافظ محمد اقبال رنگونی نے بیماریوں اور ان کے جسمانی و روحانی علاج کے بارے میں ضروری دینی معلومات اور احکام و مسائل کے ساتھ ساتھ ماثور دعاؤں کا ایک انتخاب اس کتابچہ میں پیش کیا ہے جو مختلف بیماریوں کے بارے میں جناب نبی اکرم ﷺ حضرات صحابہ کرامؓ اور سلف صالحینؒ سے منقول ہیں۔ یہ کتابچہ ادارہ اشاعت الاسلام برطانیہ نے شائع کیا ہے اور اسے مندرجہ ذیل ایڈریس سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ P.O. Box 36 Manchester M16 7AN (UK)
’’صمصام الاسلام‘‘
میانمار (برما) کے مسلم اکثریت کے صوبہ اراکان کے مسلمان ایک عرصہ سے برمی حکومت کے مظالم کا شکار اور دینی آزادی اور تشخص کے تحفظ کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں‘ حضرت مولانا حافظ محمد صدیق اراکانی اس جدوجہد کے اہم راہ نماؤں میں سے ہیں جنہوں نے مذکورہ بالا عنوان کے تحت اس کتابچہ میں جہاد کی اہمیت اور اس کے احکام و مسائل کی وضاحت کے ساتھ ساتھ جہادی تحریکات کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے اور جہاد سے متعلقہ امور پر علمی انداز سے بحث کی ہے۔
سوا سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ حرکۃ الجہاد الاسلامی اراکان نے شائع کیا ہے اور اسے مصنف سے جامع احتشامیہ جیکب آباد کراچی سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
فروری ۲۰۰۱ء
مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
(مدیر ’’الشریعہ‘‘ مولانا زاہد الراشدی نے ۱۲ جنوری سے ۲۱ جنوری ۲۰۰۱ء تک متحدہ عرب امارات کا تبلیغی دورہ کیا اور مختلف اجتماعات سے خطاب کرنے کے علاوہ سرکردہ شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور متعدد علمی ودینی مراکز میں گئے۔ انہوں نے یہ دورہ جمعیۃ طلباء اسلام پاکستان کے سابق راہ نما جناب محمد فاروق شیخ اور جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ متحدہ عرب امارات کے سیکرٹری اطلاعات حافظ بشیر احمد چیمہ کی دعوت پر کیا اور دبی ، شارجہ، عجمان، ام القوین، راس الخیمۃ اور الفجیرۃ کی ریاستوں میں احباب سے ملاقاتیں کیں۔ اتفاق سے جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن صاحب بھی ان دنوں متحدہ عرب امارات کے دورے پر تھے چنانچہ دونوں راہ نماؤں نے دبی کی مسجد الغریر، مسجد الرفاعۃ اور مسجد بلال بن رباحؓ میں عام اجتماعات سے خطاب کیا اور حافظ بشیر احمد چیمہ کی طرف سے دیے گئے عصرانہ میں شرکت کی۔ مسجد بلال بن رباحؓ میں عام اجتماع سے مولانا زاہد الراشدی کے خطاب کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ ادارہ)
بعد الحمد والصلوۃ۔ آج کے اس اجتماع سے جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر حضرت مولانا فضل الرحمن تفصیلی خطاب کریں گے۔ ان سے قبل مجھے کچھ گزارشات پیش کرنے کو کہا گیا ہے، ا س لیے بطور تمہید چند باتیں آپ سے عرض کروں گا۔ مجھ سے پہلے ہمارے فاضل دوست مولانا مفتی عبد الرحمن نے اپنے خطاب میں افغانستان کی طالبان حکومت کا ذکر کیا ہے اور اسے درپیش مشکلات کا حوالہ دیا ہے۔ بلا شبہ ’’طالبان‘‘ آج کے دور کا مظلوم ترین طبقہ ہے جس کے خلاف کفر ونفاق کی پوری دنیا متحد ہو گئی ہے اور انہیں عالمی استعمار کے سامنے جھکانے یا مٹا دینے کے لیے منصوبے بن چکے ہیں۔
طالبان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اسلام کا صرف نام نہیں لیتے بلکہ اپنے ملک میں اسلامی احکام وقوانین کو عملی طور پر نافذ بھی کر رہے ہیں اور اس سلسلہ میں وہ کسی قسم کے بین الاقوامی دباؤ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا اصل جرم یہی ہے جس کی وجہ سے ان کے خلاف پابندیوں اور ان کی اقتصادی ناکہ بندی کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ بات کوئی نئی نہیں ہے، اس سے قبل بھی اہل حق اس قسم کی مشکلات کا شکار ہوتے آ رہے ہیں حتی کہ خود نبی اکرم ﷺ کو بھی مکہ مکرمہ کے کفار کی طرف سے اس قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا جب قریش کے باقی خاندانوں نے بنو ہاشم سے مطالبہ کیا تھا کہ محمد ﷺ کو قتل کے لیے ان کے حوالے کر دیا جائے لیکن بنو ہاشم نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں قریش کے تمام قبائل نے مل کر بنو ہاشم کا سوشل بائیکاٹ کر دیا اور جناب نبی اکرم ﷺ اپنے خاندان سمیت شعب ابی طالب میں تین سال تک محصور رہے۔
کفار کی طرف سے ان کے خلاف یہ پابندیاں عائد کی گئی تھیں کہ ان کے ساتھ لین دین نہیں ہوگا، ان سے رشتہ داری قائم نہیں کی جائے گی، ان کے پاس خوراک وغیرہ کی کوئی چیز نہیں جانے دی جائے گی اور ان کی معاشی ناکہ بندی ہوگی۔ اس دوران نبی اکرم ﷺ اور ان کے ساتھیوں کو کن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، ان کا اندازہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے اس ارشاد سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہم درختوں کے پتے کھا کر گزارے کیا کرتے تھے اور راستے میں پڑا ہوا خشک چمڑا اٹھا لیتے تھے اور اسے گرم پانی میں نرم کر کے چبا کر نگل لیا کرتے تھے۔
سیرت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ وادی میں بھوکے بچے جب روتے چلاتے تو ارد گرد گھومنے والے مشرکین یہ آوازیں سن کو خوش ہوا کرتے تھے۔ اس کیفیت کے ساتھ نبی اکرم ﷺ اور ان کے خاندان کو محصور رہنا پڑا لیکن مشرکین کی عائد کردہ یہ پابندیاں اسلام کا راستہ نہ روک سکیں اور اسلام کی دعوت وتبلیغ کا عمل نہ صرف جاری رہا بلکہ اس دوران حضرت ابو ذر غفاریؓ اور بہت سے دیگر حضرات نے اسلام قبول کیا اور مشرکین کو اندازہ ہوگیا کہ ان کی پابندیاں اور ناکہ بندی تین سال گزرنے کے باوجود کارگر نہیں ہو رہی تو کچھ سمجھ دار مشرکین نے آگے بڑھ کر وہ معاہدہ ختم کرا دیا۔ اس لیے آج بھی یہ پابندیاں اسلام کا راستہ نہیں روک سکیں گی اور اگر طالبان حکومت اپنے مشن اور پروگرام پر استقامت کے ساتھ گامزن رہی تو پابندیاں لگانے والوں کو بہت جلداندازہ ہو جائے گا کہ ان کا فیصلہ کس قدر غلط تھا۔
میں اس موقع پر اس صورت حال کے حوالہ سے آپ حضرات کی خدمت میں ایک اور بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مشکلات ومصائب کے بارے میں اسلام کا مزاج کیا ہے؟ اور اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ اس پر سیرت نبوی سے دو واقعات پیش کروں گا تاکہ یہ بات ہمارے سامنے رہے کہ مشکلات ومصائب کے دور میں سنت نبوی کیا ہے۔
ایک واقعہ تو اس وقت کا ہے جب نبی اکرم ﷺ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔ اس وقت ظاہری کیفیت یہ تھی کہ خود اپنی جان کے تحفظ کا مسئلہ درپیش تھا، رات کی تاریکی میں چھپ کر مکہ مکرمہ سے نکلے تھے، سفر کے لیے عام راستہ اختیار نہیں کیا تھا بلکہ خفیہ راستے سے سفر کر رہے تھے۔ حضرت صدیق اکبرؓ کے ہمراہ تین دن تک غار ثور میں روپوش رہے اور راستہ میں چلتے ہوئے کسی کو اپنے نام بتانے میں بھی احتیاط سے کام لیتے تھے۔ یہ تو ظاہری کیفیت تھی کہ بظاہر جان کا بچانا مشکل ہو رہا تھا لیکن اسی دوران سراقہ بن مالکؓ جناب نبی اکرم ﷺ کو راستہ میں ملے اور پکڑنے میں ناکام ہو کر امان چاہی تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ ’’سراقہ، میں تمہارے ہاتھوں میں کسری بادشاہ کے کنگن دیکھ رہا ہوں‘‘
یہ محض اتفاق نہیں تھا بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے قدرت کے ساتھ ساتھ حکمت کا بھی اظہار تھا جس میں ہمارے لیے دو سبق ہیں۔ ایک یہ کہ خدائی فیصلے ظاہری حالات پر نہیں ہوتے۔ ظاہری حالات جس قدر بھی ناموافق ہوں، اگر مسلمان کا تعلق اللہ تعالی کے ساتھ مضبوط ہے اور اس کا ایمان ویقین پختہ ہے تو ظاہری حالات کی ناسازگاری اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی۔ اور دوسرا سبق یہ ہے کہ مسلمان کو ظاہری حالات سے مایوس نہیں ہونا چاہئے، مشکلات کتنی ہی کیوں نہ ہوں ،اسے اپنا ہدف سامنے رکھنا چاہئے اور ٹارگٹ میں کوئی کمی نہیں کرنی چاہئے۔ اب دیکھئے کہ جناب نبی اکرم ﷺ ظاہری طور پر کس حال میں ہیں کہ چھپ کر اور جان بچا کر مدینہ منورہ پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن نظر کہاں ہے؟ کسری کے کنگنوں پر جو اس وقت کی ایک بڑی سلطنت کا حکمران تھا اور سراقہ بن مالکؓ سے فرمایا جا رہا ہے کہ اسے کسری کے کنگن پہنائے جائیں گے اور پھر یہ صرف ایک وقتی بات نہیں تھی بلکہ پیش گوئی تھی جو حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ امیر المومنین حضرت عمر بن الخطابؓ کے دور خلافت میں فارس فتح ہوا، کسری کے شاہی خزانے غنیمت کے مال میں مدینہ منورہ آئے، ان میں وہ کنگن بھی تھے جو کسری بادشاہ دربار میں پہنا کرتا تھا۔ حضرت عمر بن الخطابؓ نے سراقہ بن مالک کو بلایا اور یہ کہہ کر تھوڑی دیر کے لیے کسری کے کنگن انہیں پہنائے کہ اگرچہ سونے کے کنگن پہننا مرد کے لیے جائز نہیں ہے لیکن جناب نبی اکرم ﷺ کی پیش گوئی کو پورا کرنے کے لیے میں یہ کنگن کچھ دیر کے لیے تمہیں پہنا رہا ہوں۔ اس طرح جناب نبی اکرم ﷺ نے ہمیں سبق دیا کہ مشکلات ومصائب اور حالات کی ناساز گاری سے گھبرا کر مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہئے اور اپنے ہدف اور ٹارگٹ میں کوئی کمزوری نہیں دکھانی چاہئے۔
دوسرا واقعہ بھی اسی نوعیت کا ہے کہ مسلمانو ں کے مقابلہ میں بدر و احد کی جنگ میں ناکام ونامراد ہو کر قریش مکہ نے یہ بات سمجھ لی کہ وہ اکیلے جناب نبی اکرم ﷺ کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس لیے انہوں نے عرب قبائل سے گٹھ جوڑ کر کے مسلمانوں کے خلاف ان کا متحدہ محاذ بنوایا اور ایک بہت بڑا لشکر لے کر مدینہ منورہ کی طرف یلغار کر دی۔ یہ غزوۂ احزاب کی بات ہے جسے غزوۂ خندق بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں ایک طرف عرب قبائل کا بہت بڑا متحدہ محاذ تھا اور دوسری طرف جناب نبی اکرم ﷺ اور ان کے ساتھی تھے جن کی تعداد چھوٹے بڑے سب ملا کر ڈیڑھ ہزار کے قریب تھی۔ نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ کے دفاع کے لیے حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورہ سے خندق کھودنے کا پروگرام بنایا اور خود صحابہ کرام کے ساتھ مل کر دن رات خندق کھودنے میں مصروف رہے۔ قرآن کریم نے سورۃ الاحزاب میں اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور اہل ایمان کو یاد دلایا ہے کہ اس وقت کو یاد کرو جب تم پر چاروں طرف سے لشکر چڑھ دوڑے تھے، جب تمہاری آنکھیں خوف کے مارے پتھرا گئی تھیں، جب خوف کی شدت سے تمہارے دل سینوں سے اچھل کر حلق میں پھنس گئے تھے، جب تم اللہ تعالی کی مدد کے بارے میں گمانوں کا شکار ہونے لگے تھے، جب مومنوں کو آزمائش میں ڈال دیا گیا تھا اور جب ان پر شدید زلزلے کی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔
یہ اس وقت کی ظاہری کیفیت تھی جس کا نقشہ قرآن کریم ان الفاظ میں کھینچ رہا ہے اور روایات میں آتا ہے کہ بہت سے خندق کھودنے والوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا اور بعض لوگوں نے بھوک کی شدت سے یپٹ پر پتھر باندھ رکھے تھے حتی کہ ایک صاحب نے جناب نبی اکرم ﷺ کو اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھا کر دکھایا کہ اس نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھا ہوا ہے تو نبی اکرم ﷺ نے اپنے پیٹ مبارک سے کپڑا اٹھا کر دکھا دیا جہاں دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ اس صورت حال میں جب ظاہری طور پر سخت مایوسی اور شدید خوف کی کیفیت مدینہ منورہ کی آبادی کا احاطہ کیے ہوئے تھی، جناب نبی اکرم ﷺ سے خندق میں ایک چٹان کے سخت ضربوں کے باوجود نہ ٹوٹنے کی شکایت کی گئی، چنانچہ نبی اکرم ﷺ خود تشریف لے گئے اور کدال کی ایک ہی ضرب سے چٹان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ جب آپ نے کدال سے چٹان پر ضرب لگائی تو وہاں سے چمک اٹھی اور جناب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ’’مجھے اس چمک میں قیصر وکسری کے محلات دکھائی دیے ہیں‘‘
ظاہری کیفیت دیکھئے کہ خوف اور مایوسی کا کیا عالم ہے؟ اور اس حالت میں نظر کی بلندی ملاحظہ کیجئے کہ اس وقت کی دو سب سے بڑی سلطنتوں کے شاہی محلات دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ بھی کوئی اتفاقی بات نہیں تھی بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے خوش خبری تھی اور یہ سبق تھا کہ ظاہری حالات سے مایوس نہ ہو بلکہ اللہ تعالی کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط رکھو، اس پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے اپنے مشن پر گامزن رہو اور اپنے ٹارگٹ اور ہدف میں کوئی کمزوری نہ آنے دو۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمام تر سازوسامان اور لشکر کی کثرت کے باوجود قبائل عرب کی یہ یلغار ناکام ہوئی اور اللہ تعالی نے جناب نبی اکرم ﷺ کو نہ صرف فتح عطا فرمائی بلکہ اس پیش گوئی کے مطابق قیصر وکسری کے شاہی محلات بھی اپنے اپنے وقت میں مسلمانوں کو عطا فرمائے۔
قرآن کریم میں ہے کہ آزمائش اور ابتلا کے اس سخت ترین دور کے بعد غزوۂ احزاب میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کی مدد اس طرح کی کہ ہوا کوتیز کر دیا اور غیبی لشکر آسمان سے اتارے جنہوں نے محاصرہ کرنے والے کافروں کے لشکر کو تتر بتر کر دیا اور وہ کوئی مقصد حاصل کیے بغیر ناکام واپس لوٹ گئے۔
اس لیے ہمیں یہ یقین رکھنا چاہئے کہ طالبان کی اسلامی حکومت اگر اسلام کے مکمل اور عملی نفاذ کے مشن پر قائم رہتی ہے اور ظاہری حالات کی ناسازگاری سے خوفزدہ نہیں ہوتی تو اس کے لیے بھی غیب کی قدرتیں حرکت میں آئیں گی اور امریکہ کی قیادت میں عالمی استعمار کا ان کے خلاف متحدہ محاذ اسی طرح ناکام ہوگا جس طرح جناب نبی اکرم ﷺ کے خلاف قبائل عرب کا اتحاد ناکام ہو گیا تھا البتہ ہمیں اس حوالہ سے اپنی ذمہ داریوں پر ضرور نگاہ رکھنی چاہئے کہ اپنے مظلوم طالبان بھائیوں کی اس مشکل وقت میں ہم کیا مدد کر سکتے ہیں اور ان کا ہاتھ کس طرح بٹا سکتے ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقہ سے نباہنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔
خلافت اسلامیہ کی اہمیت
الشیخ عمر بکری محمد
اپنی پوری تیرہ سو سالہ تاریخ میں اسلامی نظام (خلافت) نے انسانی جدوجہد کے ہر پہلو سے، خواہ وہ معاشی ہو، جنگی ہو یا انصاف ہو، دنیا پر اعلی حکمرانی کی۔ لیکن جب مصطفی کمال نے ۱۹۲۴ء میں اقتدار سنبھال لیا اور ترکی کو لامذہب مملکت بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر دیا تو اس شاندار حکومت کاخاتمہ ہو گیا۔ ہمیں بحیثیت مسلمان یہ چاہئے کہ ہم یہ جائزہ لیں کہ اسلامی ریاست میں ہمارے آباؤ اجداد کس طریقے سے تہذیب وتمدن کی اعلی بلندی پر پہنچے تھے اور پھر ساری انسانیت کی رہنمائی کرنے لگے تھے اور آج ہم کیوں ذلیل ہو رہے ہیں؟ ۲۳ سال کے مختصر عرصہ میں اسلامی نظام نے قبل از اسلام کے جاہل عرب معاشرہ کو دنیا کے سب سے جدید اور پر شکوہ معاشرے میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اسلام کی بنیا د اللہ تعالی پر ایمان لانے پر ہے جو کائنات کا خالق ہے اور جس نے قرآن کو اپنے پیغمبر محمد ﷺ کے ذریعہ بھیجا۔ خدا کا نظریہ یا دین جو اس بنیاد سے نکلتا ہے اس نے زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر رکھا ہے جس نے انسان کے تعلق کو خالق سے جوڑا حتی کہ انسان کا اپنے آپ سے بھی تعلق جوڑا اور پھر اس کا دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق جوڑا مثلا تنازعات، کاروبار اور جنگ وغیرہ۔ خدا کے اس نظریے کا نفاذ پوری شکل میں ایسے ہوا تھا جسے ہم نظام خلافت کے نام سے جانتے ہیں۔
کسی بھی عمل کو پرکھنے کامعیار یہ ہے کہ اس کا حوالہ اور ماخذ قرآن ہو، سنت نبوی ہو، قیاس ہو اور اجماع صحابہؓ ہو۔ عمل کو پرکھنے کامعیار یہ ہے کہ اس کے کرنے میں خدا کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے تو وہ حق ہے اور اگر غضب کا باعث ہے تو پھر وہ عمل باطل ہے۔ اس طرح اسلام نے راز فاش کر دیا اور عقلی طور پر جواب دے دیا کہ سب سے زیادہ دلچسپ سوال کیا ہیں؟ مثلا میں کہاں سے آیا ہوں؟ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اور میں کہاں جا رہا ہوں؟
ان سب سوالوں کا جواب یہ ہے کہ انسان کو خدا نے تخلیق کیا ہے اور انسان محدود ہے، اس کا علم محدود ہے خاص کر اپنے ارد گرد کے ماحول سے۔ لہذا وہ اس قابل نہیں ہے کہ زندگی کا ایسا نظام بنائے جو اس کی خواہشات اور فطرت سے ہم آہنگ ہو۔ مثال کے طور پر یہ تو صرف رولس رائس کار کو بنانے والا ہی جان سکتا ہے کہ اس کی کار میں کیا کیا ہدایات موجود ہیں تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ کارکردگی دکھائی جا سکے۔ اسی طرح انسان ہے، اسے بھی اپنے بنانے والے کی ہدایات پر چلنا پڑتا ہے ، تب ہی اس کی زندگی کے اعمال طے کریں گے کہ اس عارضی زندگی میں اللہ کی ہدایات کا کتنا اتباع کیا ہے اور اسی حساب سے انسان کے لیے سزا یاجزا ہے۔
اسلام کے موثر نظام نے مسلمانوں کو انسانی کاوشوں کے تمام پہلوؤں میں ذہنی اعتبار سے اعلی بنا دیا ہے اور یہ ترقی خاص طور پر فوج میں نمایاں نظر آتی تھی کہ جس میں مسلم افواج کفار کے مقابلے میں ناقابل تسخیر ہونے کی شہرت رکھتے تھے۔ حتی کہ مسلمانوں کی تھوڑی سے تعداد بھی ہمیشہ وسیع کافر افواج پر غالب آجاتی تھی اور انہیں شکست دے دیتی تھی۔ اسلامی ریاست کی شاندار تاریخ اس حقیقت کی غماز ہے اوراس میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ کے دور میں مسلمان مصر پر قابض ہو گئے اور پھر سپین پر طارق بن زیادکا قبضہ اور وہ بھی چند ہزا ر سپاہیوں کے ساتھ۔ یہ تو اسلام کی بے شمار فتوحات میں سے صرف دو مثالیں تھیں۔ ماضی کے ان مسلمانوں کا بڑا مقام تھا کیونکہ وہ اپنے خالق کے مکمل نظام کا اتباع کرتے تھے۔ ہم آج کے مسلمان بڑا نیچا مقام رکھتے ہیں کیونکہ ہم ایک نامکمل نظام کی پیروی کرتے ہیں جو انسانی دماغوں کی اختراع ہے، مثلا جمہوریت، اشتراکیت وغیرہ۔ مومن وہ ہے جو مکمل طور پر اسلام کی پیروی کرتا ہے اور اللہ ہمیشہ اسے فتح سے نوازتا ہے جیسا کہ اس آیت میں ارشاد ربانی ہے : ’’اللہ مومنوں کو منع فرماتا ہے اس بات سے کہ وہ کافروں کو اپنے اوپر غالب کر لیں‘‘ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک زبردست اور باوقار اسلامی ریاست ٹکڑے ٹکڑے ہو کر تقریبا پچاس غیر موثر ریاستوں میں بٹ گئی ہے۔ اور یہ تما م تر ریاستیں کفار کے خاص مفادات کا حصہ بن گئی ہیں۔ ان ٹوٹی ہوئی مسلم ریاستوں کے وسائل کفار ہی اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ استعمال کر رہے ہیں جن کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ کسی طرح اسلام کو دوبارہ ایک سیاسی قوت بن کر دنیا پر چھا جانے سے روکیں اور کفار ہمارے وسائل کو آہستہ آہستہ زبردست لوٹ مار کا نشانہ بنائیں اور جو تھوڑا بہت بچ جائے وہ بھی انہی کی جیبوں میں ہم خود بھریں تاکہ شہریوں کے لیے کچھ بھی نہ رہے اور ظاہر ہے کہ وسیع پیمانے پر مسلمان ممالک میں غربت اسی کا نتیجہ ہے۔ لیکن الحمد للہ ، اللہ ہمیں آہستہ آہستہ مگر یقیناًجگا رہا ہے کہ ہم یہ محسوس کر لیں کہ ہماری پوزیشن غیر محفوظ اور نشانے پر ہے۔ اسی طرح گھناؤنے جرائم کے ذریعے جو کٹھ پتلی حکومتیں بے گناہ مسلمانوں کے خلاف ڈھا رہی ہیں، اور کفار کی نسل کشی کی مہمیں جو مسلمانوں کے خلاف بوسنیا، کشمیر، فلسطین اور چیچنیا میں چلائی جا رہی ہیں، یہ سب کچھ مسلمان ممالک میں بٹھائی گئی کٹھ پتلی انتظامیہ کے تحت ہو رہا ہے جو ہمیشہ چند روایتی الفاظ سے اظہار رد عمل کرتے ہیں : ’’ہم پر لازم ہے کہ ہم بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کریں‘‘ اور پھر مکمل لاپروائی برتتے ہیں۔
ان خطرات کو محسوس کر لینے سے ایک امیدکی کرن نظر آجاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ شکر ہے کہ اب مسلمانوں میں ان مسئلوں کا شعور پیدا ہو گیا ہے۔ اگر یہ مسئلہ مکمل طور پر اجاگر ہو جائے تو پتہ چلے گا کہ مسلمانوں کے زوال کا سبب یہ ہے کہ انہیں کمزور بنا دینے کا نظام ان پر تھوپ دیا گیا ہے۔ اور ایسا کفار نے اپنی کٹھ پتلی حکومتوں کی مدد سے کیا ہے لیکن اس زوال کا علاج یہ ہے کہ ہم خالق کے کامل نظام کی طرف واپس آ جائیں۔ یہ شرط ہے کہ اپنے دین کا مطالعہ کریں اور اسلام کے بھولے ہوئے حصے کو تلاش کر کے نافذ کریں جو کہ ابھی تک ہمارے اعمال سے خارج ہے۔ مسلمان کے لیے لازمی ہے کہ وہ اسلامی ریاست کے ڈھانچہ کو اور اس سے متعلقہ امور جو کہ اسلام سے اخذ کردہ ہوں اور ان کا کام ریاست کو چلانا ہو، ان کو سمجھے۔ الحمد للہ، سچے مسلمانوں کے گروہ ان موضوعات کا مطالعہ گہرائیوں تک کر چکے ہیں۔ اب ہم مسلمان لوگوں سے چاہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو اس علم سے آراستہ کریں تاکہ اسلام اور اس کے نظام حکومت پر ان کا یقین مضبوط ہو اور وہ انہیں اس خلیفہ کی ریاست کے لیے تیار کرے جو اب ان شاء اللہ قریب ہی ہے۔
نقد روایت کا درایتی معیار ۔ مسلم فکر کے تناظر میں
محمد عمار خان ناصر
خبر کی اہمیت
انسانی علم کے عام ذرائع میں خبر بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا دائرۂ کار وہ امور ہیں جن تک انسان کے حواس اور عقل کی رسائی نہیں ہے۔ ہم اپنے حواس کی مدد سے صرف ان چیزوں کے بارے میں جان سکتے ہیں جو ہمارے سامنے ہوں اور ہم ان پر دیکھنے، سننے، چھونے، سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیتیں بروئے کار لا سکتے ہوں۔ اسی طرح ہماری عقل صرف ان معلومات کو ترتیب دے کر مختلف نتائج اخذ کر سکتی ہے جو ہمارے حواس اس تک پہنچاتے ہیں۔ لیکن باقی امور کے علم کے لیے ہمیں دوسرے انسانوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے جو ہمیں ان تجربات کے بارے میں بتا سکیں جو انہیں حاصل ہوئے یا ان واقعات کی خبر دے سکیں جن کا انہوں نے مشاہدہ کیا ہے۔
انسانی تمدن کی تشکیل اور ارتقا میں خبر نہایت اہم کردار کرتی ہے۔ اسی کے ذریعے سے ہم ان افراد اور گروہوں کے بارے میں جانتے اور ان کے حوالے سے مختلف علمی وعملی رویے اختیار کرتے ہیں جن سے ہمارا براہ راست واسطہ نہیں یا جو زمانی لحاظ سے ہم سے پہلے ہو گزرے ہیں اور اسی کے ذریعے سے نسل انسانی مختلف میدانوں میں اپنے تجربات واکتشافات کو محفوظ کر کے اگلی نسلوں تک پہنچانے کا اہتمام کرتی ہے۔
تاہم انسان کو حاصل ہونے والی دوسری تمام صلاحیتوں کی طرح، خبر کی صلاحیت بھی نقائص اور خامیوں سے پاک نہیں۔ خبر کی افادیت کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اس میں حقیقت واقعہ کو بالکل اسی طرح بیان کیا گیا ہو جیسی کہ وہ ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ہر خبر اس معیار پر پورا نہیں اترتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خبر کو روایت کرنے والے،جیسا کہ واضح ہے، انسانوں میں سے ہی کچھ افراد ہوتے ہیں اور اس کے مضمون کی ترتیب میں ان کی طبعی صلاحیتوں، مشاہدہ واستنباط کے طریقوں، ان کے گرد وپیش کے حالات اور ان کے کردار کا نہایت گہرا اثر ہوتا ہے۔ یہ تمام عوامل بالعموم واقعہ کی حقیقی تصویر کو خراب کرنے اور اس میں سے حقیقت کے عنصر کو کمزور کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
نقد خبر کا معیار
اس نقص کے ازالہ کے لیے نسل انسانی کے عقلا نے صدیوں کے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں روایت کی جانچ پرکھ کے مختلف اصول وضع کیے ہیں جن کا اطلاق کر کے کسی بھی روایت کی تصدیق یا تکذیب کی جا سکتی اور ماخذ علم کے طور پر اس کا مقام متعین کیاجا سکتا ہے۔ یہ اصول وضوابط کیا ہیں؟ مولانا سید ابو الاعلی مودودیؒ کے حسب ذیل اقتباس میں نقد روایت کے بنیادی پہلو بیان کیے گئے ہیں:
’’ہمیں دیکھنا چاہئے کہ کسی خبر کی تحقیق کا سخت سے سخت قابل عمل معیار کیا ہو سکتا ہے۔ فرض کیجئے زید نام کا ایک شخص اب سے سو برس پہلے گزرا ہے جس کے متعلق عمرو ایک روایت آپ تک پہنچاتا ہے۔ آپ کو تحقیق کرنا ہے کہ زید کے متعلق یہ روایت درست ہے یا نہیں؟ اس غرض کے لیے آپ حسب ذیل تنقیحات قائم کر سکتے ہیں :
(۱) یہ روایت عمرو تک کس طریقے سے پہنچی؟ درمیان میں جو واسطے ہیں، ان کا سلسلہ زید تک پہنچتا ہے یا نہیں؟ درمیانی راویوں سے ہر راوی نے جس شخص سے روایت کی ہے، اس سے وہ ملا بھی تھا یا نہیں۔ ہر راوی نے روایت کس عمر اور کس حالت میں سنی؟ روایت کو اس نے لفظ بلفظ نقل کیا یا اس کے مفہوم کو اپنے الفاظ میں ادا کیا؟
(۲) کیا یہی روایت دوسرے طریقوں سے بھی منقول ہے؟ اگر منقول ہے تو سب بیانات متفق ہیں یا مختلف؟ اور اختلاف ہے تو کس حد تک؟ اگر کھلا ہوا اختلاف ہے تو مختلف طریقوں میں سے کون سا طریق زیادہ معتبر ہے؟
(۳) جن لوگوں کے واسطے سے یہ خبر پہنچی ہے، وہ خود کیسے ہیں؟ جھوٹے یا بد دیانت تو نہیں؟ اس روایت میں ان کی کوئی ذاتی یا جماعتی غرض تو مخفی نہیں؟ ان میں صحیح یاد رکھنے اور صحیح نقل کرنے کی قابلیتتھی یا نہیں؟
(۴) زید کی افتاد طبع، اس کی سیرت، اس کے خیالات اور اس کے ماحول کے متعلق جو مشہور ومتواتر روایات یا ثابت شدہ معلومات ہمارے پاس موجود ہیں، یہ روایت ان کے خلاف تو نہیں ہے؟
(۵) روایت کسی غیر معمولی اور بعید از قیاس امر کے متعلق ہے یا معمولی اور قرین قیاس امر کے متعلق؟ اگر پہلی صورت ہے تو کیا طرق روایت اتنے کثیر، مسلسل اور معتبر ہیں کہ ایسے امر کو تسلیم کیا جا سکے؟ اور اگر دوسری صورت ہے تو کیا روایت اپنی موجودہ شکل میں اس امر کی صحت کا اطمینان کرنے کے لیے کافی ہے؟
یہی پانچ پہلو ہیں جن سے کسی خبر کی جانچ پڑتال کی جا سکتی ہے۔‘‘ (۱)
اس اقتباس کا تجزیہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اس میں روایت کی تنقید کے دو مستقل اور جداگانہ معیاروں کا ذکر کیا گیا ہے :
پہلا معیار ’’روایتی معیار‘‘ ہے جس میں اصل بحث راوی کی شخصیت، سند کے اتصال، روایت کے طریقوں اور اس کی مختلف سندوں سے ہوتی ہے۔ اقتباس میں مذکورپہلے تین امور اسی معیار سے متعلق ہیں۔
دوسرا معیار ’’درایتی معیار‘‘ ہے جس میں مذکورہ امورہ سے ہٹ کر دیگرعقلی قرائن کی روشنی میں روایت کے صحت واستناد کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اقتباس میں مذکور آخر ی دونوں امور اسی معیار کی وضاحت کرتے ہیں۔
درایت کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم
درایت کا لغوی معنی جاننا ہے۔ المعجم الوسیط میں ہے: دری الشئی : علمہ بضرب من الحیلۃ ’’کسی چیز کی درایت کا مطلب ہے تگ ودو اور کوشش کر کے اس کو معلوم کرنا۔‘ ‘ (۲)
اصطلاحی مفہوم کے لحاظ سے ’’درایت‘‘ دو مختلف معنوں میں مستعمل ہے۔ پہلا مفہوم وہ ہے جو امام سیوطیؒ نے علامہ ابن الاکفانی ؒ سے نقل کیا ہے۔ ان کی تقسیم کے مطابق علم حدیث کی دو قسمیں ہیں : علم الروایہ اور علم الدرایہ۔ علم الروایہ کے تحت انہوں نے درج ذیل امور کا ذکر کیا ہے : نبی ﷺ کے اقوال وافعال، ان کی روایت، ان کا ضبط کرنا اور ان کے الفاظ کو تحریر میں لانا۔ جبکہ علم الدرایہ میں درج ذیل امور شامل ہیں : روایت کی حقیقت ، اس کی شرائط، انواع اور احکام، راویوں کے حالات اور ان کی شرائط، روایت کی مختلف اقسام اور ان سے متعلقہ امور۔ (۳)
دوسرے معنی کے لحاظ سے درایت کا لفظ ، مذکورہ بالا وسیع مفہوم کے بجائے، نقد روایت کے محدود تناظر میں استعمال ہوتا ہے اور اس سے مراد ایسے قرائن کا علم اور اطلاق ہوتاہے جن کا لحاظ رکھنا ، عقل عام اور روز مرہ انسانی تجربات ومشاہدات کی روشنی میں، کسی بھی خبر کا مقام متعین کرنے میں ضروری ہے۔
زیر نظر مقالہ میں ہمارا مقصود مسلمانوں کی علمی روایت میں نقد خبرکے درایتی معیار اور اس کے عملی اطلاق کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کرنا ہے۔
درایتی نقد کے مختلف پہلو
سب سے پہلے تو اس بات پر غور کیجئے کہ کسی روایت کو بلحاظ درایت پرکھتے ہوئے کون کون سے امور زیر بحث لائے جا سکتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ کے سابق الذکر اقتباس میں دو پہلو بیان کیے گئے ہیں :
۱۔ کسی شخص کے متعلق وارد روایت کے بارے میں یہ دیکھاجائے کہ وہ اس کی افتاد طبع، سیرت، خیالات اور اس کے ماحول کے متعلق ثابت شدہ معلومات کے خلاف تو نہیں ؟
۲۔ یہ دیکھا جائے کہ اگر روایت کسی غیر معمولی اور بعید از قیاس امر کے متعلق ہے تو کیا اس کے راوی اتنے زیادہ اور معتبر ہیں کہ محض ان کی شہادت پر ایسے امر کو تسلیم کیا جا سکے؟
سیرت النبی کے مقدمہ میں علامہ شبلیؒ نے جو بحث کی ہے، اس کی روشنی میں اس پر درج ذیل امور کااضافہ کیا جا سکتا ہے :
۳۔ رواۃ کے مختلف مدارج کو ملحوظ رکھا جائے۔ نہایت ضابط، نہایت معنی فہم اور نہایت دقیقہ رس راویوں کی روایات کو عام راویوں کی روایات پر ترجیح ہونی چاہئے۔ بالخصوص ان روایتوں میں یہ فرق ضرور ملحوظ رکھنا چاہئے جو فقہی مسائل یا دقیق مطالب سے تعلق رکھتی ہیں۔
۴۔ یہ دیکھا جائے کہ راوی جو واقعہ بیان کرتا ہے، اس میں کس قدر حصہ اصل واقعہ ہے اور کس قدر راوی کا قیاس ہے۔ (۴)
مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ نے اس ضمن میں مزید چند امور کی نشان دہی کی ہے :
۶۔ واقعہ کے اصل راوی کے تعلقات صاحب واقعہ کے ساتھ کس قسم کے تھے؟
۷۔ نفس واقعہ کی نوعیت کیا ہے؟ کیا وہ واقعہ اس ماحول میں پیش آ سکتا ہے؟
۸۔ اگر واقعہ کو صحیح مان لیا جائے تو طبعا جو نتائج اس پر مرتب ہونے چاہئیں، وہ ہوئے ہیں یا نہیں؟ (۵)
درایتی نقد کے یہ پہلوعام ہیں اور ان کا اطلاق ہر قسم کی روایات پر ہو سکتا ہے۔ تاہم اگر زیر بحث روایت دینی لحاظ سے بھی اہمیت رکھنے والی ہویعنی اس کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف ہو تو مزید دو پہلو پیش نظر رہنے چاہئیں جن کی تائید عقل عام سے بھی ہوتی ہے اور جن کی تصریح جلیل القدر محدثین اور فقہاء نے بھی کی ہے :
۹۔ روایت قرآن مجید کی نصوص یا رسول اللہ ﷺ کی سنت مشہورہ کے خلاف تو نہیں؟
۱۰۔ اس روایت کو تسلیم کرنے سے دین کے کسی مسلمہ اصول پر زد تو نہیں پڑتی؟
دین میں نقد درایت کی بنیاد
روایت کی تحقیق کرتے ہوئے حالات وقرائن کی روشنی میں اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کی تعلیم خود قرآن مجید نے دی ہے۔ سورۂ نور میں واقعہ افک کے ضمن میں ارشاد ہے :
لو لا اذ سمعتموہ ظن المومنون والمومنات بانفسھم خیرا وقالوا ھذا افک مبین
ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اس بات کو سنا تو مومن مردوں اور عورتوں نے ایک دوسرے کے بارے میں نیک گمان کیا اور کہا کہ یہ تو صریح بہتان ہے۔ (۶)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بعض خبریں ایسی ہوتی ہیں جن کے بطلان کے قرائن اس قدر واضح ہوتے ہیں کہ ان کو سنتے ہی ان کی تردید کر دینی چاہئے۔ چنانچہ تفسیر ابن کثیر میں روایت ہے کہ جب حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے یہ بات سنی تو اپنی اہلیہ سے فرمایا: ’’یہ سراسر جھوٹ ہے۔ اے ام ایوب، کیا تم ایسا کر سکتی ہو؟‘‘ انہوں نے کہا :بخدا نہیں۔ تو فرمایا : ’’اللہ کی قسم، عائشہؓ تم سے بہتر ہیں‘‘ (۷)
مسند احمد میں حضرت ابو اسید الساعدیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
اذا سمعتم الحدیث تعرفہ قلوبکم وتلین لہ اشعارکم وابشارکم وترون انہ منکم قریب فانا اولاکم بہ واذا سمعتم الحدیث عنی تنکرہ قلوبکم وتنفر منہ اشعارکم وابشارکم وترون انہ منکم بعید فانا ابعدکم منہ
جب تم کوئی ایسی حدیث سنو جس سے تمہارے دل مانوس ہوں اور تمہارے بال وکھال اس سیمتاثر ہوں اور تم اس کو اپنے سے قریب سمجھوتو میں اس کا تم سے زیادہ حق دار ہوں اور جب کوئی ایسی حدیث سنو جس کو تمہارے دل قبول نہ کریں اور تمہارے بال وکھال اس سے متوحش ہوں اور تم اس کو اپنے سے دور سمجھو تو میں تم سے بڑھ کر اس سے دور ہوں ۔ (۸)
صحا بہ کرامؓ
درایت کی بنیاد پر روایت کو پرکھنے کے طریقے کا آغاز حضرات صحابہ کرامؓ ہی کے زمانے میں ہو چکا تھا اور جلیل القدر صحابہ کرامؓ کی آرا میں اس کے استعمال کے متعدد شواہد موجود ہیں :
حضرت عائشہؓ:
ام المومنین حضرت عائشہؓ کے ہاں قبول روایت کی شرائط میں سے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ کتاب اللہ اور اصول شرع کے خلاف نہ ہو چنانچہ انہوں نے متعدد مواقع پر بعضصحابہ کرامؒ کی بیان کردہ روایتوں کو محض اس بنا پر رد کر دیا کہ وہ، ان کے نزدیک، اس معیار پر پورا نہیں اترتی تھیں۔ امام سیوطیؒ نے یہ روایات اپنے رسالہ عین الاصابہ فی ما استدرکتہ عائشۃ علی الصحابۃ میں درج کردی ہیں۔ (۹) یہاں ہم ان میں سے چند مثالیں نقل کرتے ہیں:
۱۔ حضرت ابن عمرؓ کی بیان کردہ یہ روایت جب حضرت عائشہؓ کے سامنے پیش کی گئی کہ ان المیت لیعذب ببکاء اھلہ علیہ (بے شک مرنے والے کو اس کے اہل کے رونے کی وجہ سے سزا دی جاتی ہے) تو فرمایا : ’’ رسول اللہ ﷺ نے یہ بات مومن کے بارے میں نہیں بلکہ کافر کے بارے میں فرمائی ہوگی۔ پھر فرمایا، تمہیں قرآن کافی ہے : لا تزر وازرۃ وزر اخری (کوئی جان دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی)
۲۔ حضرت عمرؓ نے یہ روایت بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ بدر کے موقع پر مشرکین کی لاشوں سے، جو ایک کنویں میں پھینک دی گئی تھیں، مخاطب ہو کر کہا : فھل وجدتم ما وعد ربکم حقا (تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا، کیا تمہیں اس کا حق ہونا معلوم ہو گیا ہے؟) صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ، کیا آپ مردوں سے مخاطب ہو رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا : ما انتم باسمع منھم ولکن لا یجیبون (ان کی سننے کی صلاحیت تم سے کم نہیں ہے۔ بس اتنی بات ہے کہ یہ جواب نہیں دے سکتے) حضرت عائشہؓ نے یہ روایت سن کر کہا : آپ نے ایسا نہیں بلکہ یہ کہا ہوگا کہ اس وقت یہ لوگ جان چکے ہیں کہ جو میں ان سے کہتا تھا، وہ حق ہے۔ پھر آپؓ نے یہ آیات پڑھیں : انک لا تسمع الموتی (بے شک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے) وما انت بمسمع من فی القبور (آپ ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں پڑے ہوئے ہیں)
۳۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے جب یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : الطیرۃ فی المراۃ والدابۃ والدار (نحوست عورت میں، سواری کے جانور میں اور گھر میں ہے) تو حضرت عائشہؓ نے کہا: اللہ کی قسم، رسول اللہ ﷺ ایسا نہیں کہتے تھے۔ آپ تو اہل جاہلیت کے بارے میں فرماتے تھے کہ وہ یوں کہتے ہیں۔ پھر آپ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی : ما اصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی انفسکم الا فی کتاب من قبل ان نبراھا۔ (تمہیں زمین میں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے، وہ ایک کتا ب میں لکھی ہوئی یعنی طے شدہ ہے، اس سے پہلے کہ ہم اس کو وجود میں لائیں)
۴۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے جب یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے دوزخ میں داخل کر دیا کیونکہ وہ نہ اس کو خود کھلاتی پلاتی تھی اور نہ اسے چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لے۔ حضرت عائشہؓ نے یہ حدیث سن کر کہا : ’’اللہ کے ہاں مومن کا مرتبہ اس سے کہیں زیادہ ہے کہ وہ اس کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دے۔ یہ عورت ،درحقیقت، کافر تھی۔‘‘
۵۔ جب حضرت ابو ہریرہؓ نے یہ روایت بیان کی کہ ’’جو آدمی وتر کی نماز نہ پڑھے، اس کی کوئی نماز قبول نہیں ‘‘ تو حضرت عائشہؓ نے اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا : ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو آدمی پانچ فرض نمازوں کی ، تمام شرائط کے ساتھ، پابندی کرے گا ، اللہ تعالی کے ہاں اس کا یہ حق ہے کہ وہ اس کو عذاب نہ دے۔‘‘
حضرت عمرؓ :
سنن ابی داؤد میں روایت ہے کہ فاطمہ بنت قیس نے یہ روایت بیان کی کہ ان کے خاوند نے انہیں تین طلاقیں دے دی تھیں تو رسول اللہ ﷺ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ عدت کے دوران میں ان کا نفقہ خاوند کے ذمے نہیں ہے۔ لیکن حضرت عمرؓ نے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا : ما کنا لندع کتاب ربنا وسنۃ نبینا لقول امراۃ لا ندری احفظت ام لا۔ ’’ہم کتاب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کو ایک عورت کی بات پر نہیں چھوڑ سکتے جس کو پتہ نہیں بات یاد بھی رہی یا نہیں‘‘ (۱۰)
حضرت ابن عباسؓ:
۱۔ جامع ترمذی میں ہے کہ ابو ہریرہؓ نے جب یہ حدیث بیان کی کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے تو عبد اللہ ابن عباسؓ نے اس کو خلاف عقل ہونے کی بنا پر قبول نہ کیا اور فرمایا : ’’کیا ہم چکناہٹ سے وضو کریں؟ کیا ہم گرم پانی کے استعمال سے وضو کریں؟ ‘‘ اس پر حضرت ابو ہریرہؓ نے کہا : ’’جب تمہارے سامنے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کی جائے تو باتیں نہ بنایا کرو۔‘‘ (۱۱)
۲۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ عمرو نے جابر بن زید سے پوچھا ، لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ انہوں نے کہا ، حکم بن عمرو الغفاری تو یہی بات کہتے تھے لیکن عبد اللہ ابن عباسؓ اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور قرآن کی یہ آیت پڑھتے تھے : قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما (کہہ دو کہ مجھ پر جو وحی بھیجی گئی ہے، اس میں ان چار چیزوں یعنی مردار، خون، خنزیر کے گوشت یا غیر اللہ کے نام پر منت مانے ہوئے جانورکے سوا میں کوئی چیز حرام نہیں پاتا) (۱۲)
حضرت ابو ایوب انصاریؓ:
صحیح بخاری میں ہے کہ محمود بن الربیع نے یہ حدیث بیان کی کہ : ان اللہ قد حرم علی النار من قال لا الہ الا اللہ یبتغی بذلک وجہ اللہ (جس شخص نے اللہ کی رضا کی خاطر لا الہ الا اللہ پڑھ لیا اس پر اللہ نے جنت کو حرام کر دیا) حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے یہ سنا تو فرمایا: واللہ ما اظن رسول اللہ ﷺ قال ما قلت قط (بخدا میں نہیں سمجھتا کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی ایسی بات فرمائی ہوگی)
حافظ ابن حجرؓ ان کے انکار کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث کا ظاہرمفہوم یہ ہے کہ گناہ گار موحدین جہنم میں نہیں جائیں گے حالانکہ یہ بات بہت سی آیات اور مشہور احادیث کے خلاف ہے۔ (۱۳)
حضرت معاویہؓ:
موطا امام مالک میں روایت ہے کہ حضرت معاویہؓ نے سونے یا چاندی کے کچھ برتن فروخت کیے اور بدلے میں ان کے وزن سے زیادہ سونا یا چاندی وصول کی۔ جب حضرت ابو الدرداءؓ نے انہیں بتایا کہ اس بیع سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے تو جواب دیا : میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔ (۱۴) گویا انہوں نے عقل وقیاس کی بنا پر روایت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔
محدثین کرام
محدثین نے جہاں روایت کی سند کی تحقیق کے سلسلے میں گراں قدر اصول وضع کیے ہیں، وہاں روایت کے متن کی تنقید کے سلسلے میں درایت کی اہمیت بھی تسلیم کی ہے۔ چنانچہ محدث عمر بن بدر الموصلی لکھتے ہیں:
لم یقف العلماء عند نقد الحدیث من حیث سندہ بل تعدوا الی النظر فی متنہ فقضوا علی کثیر من الاحادیث بالوضع وان کان سندا سالما اذا وجدوا فی متونھا عللا تقضی بعدم قبولھا
علما نے نقد حدیث کے معاملہ میں صرف سند پر اکتفا نہیں کی بلکہ اس دائرے میں متن کو بھی شامل کیا ہے چنانچہ انہوں نے بہت سی ایسی حدیثوں کے موضوع ہونے کا فیصلہ کیا ہیجن کی سندیں اگرچہ درست تھیں لیکن ان کے متن میں ایسی خرابیاں پائی جاتی تھیں جو ان کو قبول کرنے سے مانع تھیں (۱۵)
درایت کے اصولو ں کی وضاحت کرتے ہوئے خطیب بغدادیؒ اپنی کتاب الفقیہ والمتفقہ میں لکھتے ہیں:
واذا روی الثقۃ المامون خبرا متصل الاسناد رد بامور: احدھا ان یخالف موجبات العقول فیعلم بطلانہ لان الشرع انما یرد بمجوزات العقول واما بخلاف العقول فلا۔ والثانی ان یخالف نص الکتاب او السنۃ المتواترۃ فیعلم انہ لا اصل لہ اومنسوخ۔ والثالث ان یخالف الاجماع فیستدل علی انہ منسوخ او لا اصل لہ لانہ لا یجوز ان یکون صحیحا غیر منسوخ وتجمع الامۃ علی خلافہ۔ ۔۔۔۔۔ والرابع ان ینفرد الواحد بروایۃ ما یجب علی کافۃ الخلق علمہ فیدل ذلک علی انہ لا اصل لہ لانہ لا یجوز ان یکون لہ اصل وینفرد ہو بعلمہ من بین الخلق العظیم۔ والخامس ان ینفرد بروایۃ ما جرت العادۃ بان ینقلہ اھل التواتر فلا یقبل لانہ لا یجوز ان ینفرد فی مثل ھذا بالروایۃ
جب کوئی ثقہ اور مامون راوی ایسی روایت بیان کرے جس کی سند بھی متصل ہے تو اس کو ان امور کے پیش نظر رد کر دیا جائے گا : ایک یہ کہ وہ تقاضائے عقل کے خلاف ہو ۔ اس سے اس کا بطلان معلوم ہوگا کیونکہ شرع کا ورود عقل کے مقتضیات کے مطابق ہوتاہے نہ کہ عقل کے خلاف۔ دوسرے یہ کہ وہ کتاب اللہ کی نص یا سنت متواترہ کے خلاف ہو۔ اس سے معلوم ہوگا کہ اس کی کوئی اصل نہیں یا یہ منسوخ ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ اجماع کے خلاف ہو۔ اس سے یہ استدلال کیا جائے گا کہ وہ منسوخ ہے یا اس کی کوئی اصل نہیں کیونکہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ صحیح اور غیر منسوخ ہو اور امت کا اس کے خلاف اجماع ہو جائے۔ چوتھے یہ کہ ایسے واقعہ کو صرف ایک راوی بیان کرے جس کا جاننا تمام لوگوں پر واجب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کی کوئی اصل نہیں کیونکہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایسی بات کی کوئی اصل ہو اور تمام لوگوں میں سے صرف ایک راوی اس کو نقل کرے۔ پانچویں یہ کہ ایسی بات کو صرف ایک آدمی نقل کرے جس کو عادتا لوگ تواتر کے ساتھ نقل کرتے ہیں۔ یہ بھی قبول نہیں ہوگی کیونکہ جائز نہیں کہ ایسے واقعہ کو نقل کرنے والا صرف ایک آدمی ہو (۱۶)
امام ابن الجوزیؒ فرماتے ہیں:
ما احسن قول القائل : اذا رایت الحدیث یباین المعقول او یخالف المنقول او یناقض الاصول فاعلم انہ موضوع
کسی کہنے والے نے کتنی اچھی بات کہی ہے کہ جب تم دیکھو کہ ایک حدیث عقل کے خلاف ہے یا ثابت شدہ نص کے مناقض ہے یا کسی اصول سے ٹکراتی ہے تو جان لو کہ وہ موضوع ہے۔ (۱۷)
ذیل میں ہم وہ مثالیں پیش کرتے ہیں جن میں جلیل القدر محدثین نے ان اصولوں کو برتتے ہوئے درایتی معیار پر پورا نہ اترنے والی روایات کو ناقابل قبول قرار دیا ہے اگرچہ ان کے راوی نہایت ثقہ اور اسانید بالکل متصل ہیں۔
۱۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ ایک جھگڑے کے سلسلے میں حضرت عمرؓ کے پاس آئے۔ حضرت عباسؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا:
اقض بینی وبین ھذا الکاذب الآثم الغادر الخائن
میرے اور اس جھوٹے، گناہ گار، بد عہد اور خائن کے درمیان فیصلہ کیجئے۔
امام نوویؒ ، علامہ مازریؒ سے نقل کرتے ہیں:
ھذا اللفظ الذی وقع لا یلیق ظاہرہ بالعباس وحاش لعلی ان یکون فیہ بعض ھذہ الاوصاف فضلا عن کلھا ولسنا نقطع بالعصمۃ الا للنبی ﷺ ولمن شھد لہ بہا لکنا مامورون بحسن الظن بالصحابۃ رضی اللہ عنھم اجمعین ونفی کل رذیلۃ عنھم واذا انسدت طرق تاویلھا نسبنا الکذب الی رواتھا
اس روایت میں واقع یہ الفاظ بظاہر حضرت عباس سے صادر نہیں ہو سکتے اور یہ ناممکن ہے کہ سیدنا علیؓ کی ذات میں ان میں سے کوئی ایک وصف بھی ہو۔ اور ہمارا رسول اللہ ﷺ اور ان لوگوں کے علاوہ جن کے بارے میں آپ نے شہادت دی، کسی کے بارے میں بھی معصوم ہونے کا عقیدہ نہیں ہے۔ ہمیں حکم ہے کہ صحابہؓ کے بارے میں حسن ظن رکھیں اور ہر بری بات کی ان سے نفی کریں۔ جب تاویل کے تمام راستے بند ہو جائیں تو پھر ہم جھوٹ کی نسبت روایت کے راویوں کی طرف کریں گے۔ (۱۸)
۲۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ قیامت کے دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کو دیکھیں گے کہ ان پر ذلت اور سیاہی چچھائی ہوئی ہے تو اللہ تعالی سے عرض کریں گے کہ یا اللہ آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ قیامت کے دن تمہیں رسوا نہیں کروں گا۔ اللہ تعالی ارشاد فرمائیں گے کہ میں جنت کو کافروں پر حرام کر رکھا ہے۔
امام اسماعیلیؒ فرماتے ہیں:
ھذا خبر فی صحتہ نظر من جھۃ ان ابراھیم علم ان اللہ لا یخلف المیعاد فکیف یجعل ما صار لابیہ خزیا مع علمہ بذالک
س روایت کی صحت میں اشکال ہے۔ کیونکہ ابراہیم علیہ السلام جانتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا تو ان کے والد کا جو انجام ہوا، اس کو وہ کیسے اپنی رسوائی قرار دے سکتے ہیں؟ (۱۹)
۳۔ صحیح بخاری میں عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بندر کو دیکھا جس نے زنا کیا تھا۔ اس پر دوسرے بندروں نے جمع ہو کر اس کو سنگ سار کیا۔
حافظ ابن عبد البرؒ اس حدیث پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فیھا اضافۃ الزنا الی غیرمکلف واقامۃ الحد علی البھائم وھذا منکر عند اھل العلم
اس میں زنا کی نسبت غیر مکلف کی طرف کی گئی ہے اور جانوروں پر حد لگانے کا ذکر ہے ۔ اہل علم کے نزدیک یہ بات بعید از قیاس ہے۔ (۲۰)
۴۔ صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ عبد اللہ بن ابی کے حامیوں اور آنحضرت ﷺ کے صحابہؓ کے مابین جھگڑا ہو گیا جس پر یہ آیت اتری: وان طائفتان من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما
محدث ابن بطالؒ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس واقعہ کے متعلق نہیں ہو سکتی کیونکہ اس میں دو مومن گروہوں میں صلح کرانے کا ذکر ہے جبکہ روایات کے مطابق عبد اللہ بن ابی اور اس کا گروہ اس وقت تک علانیہ کافر تھا۔ (۲۱)
۵۔ سن ابی داؤد میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کرتے ہوئے اپنے اعضا کو تین تین مرتبہ دھویا اور پھر فرمایا : من زاد علی ھذا او نقص فقد اساء وظلم (جس نے اس تعداد میں کمی بیشی کی، اس نے برا کیا اور ظلم کیا)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :
اسنادہ جید لکن عدہ مسلم فی جملۃ ما انکر علی عمرو بن شعیب لان ظاھرہ ذم النقص من الثلاث
اس کی سند عمدہ ہے لیکن امام مسلم نے اس کو عمرو بن شعیب کے منکرات میں شمار کیا ہے کیونکہ ظاہرکے لحاظ سے یہ روایت تین مرتبہ سے کم دھونے والے کی مذمت کرتی ہے (حالانکہ صحیح روایات میں رسول اللہ ﷺ سے ایسا کرنا ثابت ہے) (۲۲)
۶۔ صحیح بخاری میں واقعہ معراج کی ایک روایت میں ہے کہ یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے ہوا۔
امام ابن حزمؒ اس پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اہل علم کا اتفاق ہے کہ واقعہ معراج رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد ہوا تھا اس لیے روایت میں مذکور بات درست نہیں ہو سکتی۔ (۲۳)
۷۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ابو سفیانؓ نے اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کو اپنی دختر حضرت ام حبیبہؓ کے ساتھ نکاح کی پیش کش کی۔
ابن حزمؒ فرماتے ہیں کہ تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا حضرت ام حبیبہؓ کے ساتھ نکاح فتح مکہ سے بہت عرصہ پہلے ہو چکا تھا جبکہ ابو سفیانؓ ابھی ایمان نہیں لائے تھے، لہذا اس روایت کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ (۲۴)
۸۔ صحیح بخاری میں واقعہ معراج کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ موسی علیہ السلام کے کہنے پر نمازوں میں تخفیف کے لیے بار بار اللہ تعالی کے پاس جاتے رہے ۔ آخری مرتبہ جب آپ واپس آئے اور موسی علیہ السلام نے پھرواپس جانے کو کہا تو آپ نے انہیں اللہ تعالی کا ارشاد سنایا کہ : ما یبدل القول لدی (اس حکم میں مزید کوئی تبدیلی نہیں ہوگی) لیکن موسی علیہ السلام نے پھر بھی آپ سے دوبارہ جانے کے لیے کہا۔
محدث داؤدی فرماتے ہیں کہ یہ با ت درست نہیں کیونکہ باقی تمام روایات اس کے برخلاف بات بیان کرتی ہیں نیز موسی علیہ السلام، اللہ تعالی کا ارشاد سننے کے بعد آپ ﷺ کو دوبارہ جانے کا نہیں کہہ سکتے۔ (۲۵)
۹۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ جب رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کا انتقال ہوا تو رسول اللہ ﷺنے اپنی قمیص اس کے بیٹے کو دی اور حکم دیا کہ اس میں اس کو کفن دیا جائے۔ پھر آپ اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے اٹھے تو حضرت عمرؓ نے کہا: کیا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں گے جبکہ وہ منافق ہے اور اللہ تعالی نے آپ کو ان کے لیے استغفار کرنے سے منع بھی کیاہے؟ آپ نے فرمایا اللہ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ اگر میں ستر مرتبہ ان کے لیے مغفرت کی دعا کروں تو اللہ معاف نہیں کرے گا، اس لیے میں ستر سے زیادہ مرتبہ دعا کروں گا۔ اس کے بعد آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔
اس روایت کو متعدد محدثین نے تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں :
واستشکل فھم التخییر من الایۃ حتی اقدم جماعۃ من الاکابر علی الطعن فی صحۃ ھذا الحدیث مع کثرۃ طرقہ واتفاق الشیخین وسائر الذین خرجوا الصحیح علی تصحیحہ ۔۔۔۔۔ انکر القاضی ابوبکر صحۃ ھذا الحدیث وقال : لا یجوز ان یقبل ھذا ولا یصح ان الرسول قالہ انتھی۔ ولفظ القاضی ابی بکر الباقلانی فی التقریب : ھذا الحدیث من اخبار الاحاد التی لا یعلم ثبوتھا۔ وقال امام الحرمین فی مختصرہ : ھذا الحدیث غیر مخرج فی الصحیح۔ وقال فی البرھان : لا یصححہ اھل الحدیث۔ وقال الغزالی فی المستصفی : الاظھر ان ھذا الخبر غیر صحیح۔ وقال الداودی الشارح : ھذا الحدیث غیر محفوظ
رسول اللہ ﷺ کا آیت سے اختیار کا مفہوم اخذ کرنا محل اشکال سمجھا گیا ہے اسی لیے اکابر اہل علم کی ایک جماعت نے ، باوجودیکہ اس حدیث کی سندیں بہت سی ہیں اور شیخین اور صحیح احادیث جمع کرنے والے دوسرے محدثین اس کے صحیح ہونے پر متفق ہیں، اس حدیث کی صحت پر اعتراض کیا ہے۔ قاضی ابوبکر نے اس حدیث کو صحیح ماننے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کو قبول کرنا جائز نہیں اور نہ رسول اللہ ﷺ ایسا فرما سکتے ہیں۔ تقریب میں قاضی ابوبکر الباقلانی کے الفاظ یہ ہیں کہ یہ حدیث ان اخبار آحاد میں سے جن کا ثبوت مشکوک ہے۔ امام الحرمین کہتے ہیں کہ یہ روایت صحیح احادیث کے زمرے میں نہیں ہے۔ برہان میں کہتے ہیں کہ اس کو علماء حدیث صحیح تسلیم نہیں کرتے۔ غزالی مستصفی میں لکھتے ہیں کہ اس کا غیر صحیح ہونا بالکل واضح ہے۔ شارح داؤدی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث محفوظ نہیں ہے۔ (۲۶)
فقہاء حنفیہ
فقہاء حنفیہ کے ہاں روایت کے درایتی نقد کو خاص اہمیت حاصل ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے نہایت مضبوط اصول وضع کیے ہیں۔ امام سرخسیؒ ان اصولوں کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فاما القسم الاول وھو ثبوت الانقطاع بدلیل معارض فعلی اربعۃ اوجہ :اما ان یکون مخالفا لکتاب اللہ تعالی او السنۃ المشھورۃ عن رسول اللہ او یکون حدیثا شاذا لم یشتھر فی ما تعم بہ البلوی ویحتاج الخاص والعام الی معرفتہ او یکون حدیثا قد اعرض عنہ الائمۃ من الصدر الاول بان ظھر منھم الاختلاف فی تلک الحادثۃ ولم تجر بینھم المحاجۃ بذلک الحدیث
دوسری دلیل کے ساتھ تعارض کے اعتبار سے روایت کے منقطع ہونے کی چار صورتیں ہیں : یا تو روایت کتاب اللہ کے خلاف یا رسول اللہ ﷺ کی مشہور سنت کے خلاف ہو۔ یا عموم بلوی میں کوئی شاذ اور غیر مشہور حدیث وارد ہو جبکہ اس کی معرفت ہر خاص وعام کو ہونی چاہئے۔ یا کوئی ایسی حدیث ہو جس سے صدر اول کے ائمہ نے اعراض کیا ہو ۔ یعنی ان کے مابین اس مسئلے کے بارے میں بحث ہوئی ہو لیکن اس حدیث سے انہوں نے استدلال نہ کیا ہو۔ (۲۷)
ایک دوسری بحث میں لکھتے ہیں :
اذا انسد باب الرای فی ما روی وتحققت الضرورۃ بکونہ مخالفا للقیاس الصحیح فلا بد من ترکہ
جب کسی روایت کے ماننے سے رائے کا باب بالکل بند ہوتا ہو اور اور ہر پہلو سے واضح ہو جائے کہ وہ قیاس صحیح کے مخالف ہے تو اس کو چھوڑنا لازم ہے (۲۸)
فقہاء احناف نے ان اصولوں کی بنیا دپر جن روایتوں کو رد کیا ہے، وہ حسب ذیل ہیں:
مخالف قرآن روایات
۱۔ ترمذی میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جو آدمی اپنی شرمگاہ کو چھوئے، اسے چاہئے کہ وہ وضو کر ے‘‘
سرخسیؒ فرماتے ہیں کہ یہ روایت قرآن کے خلاف ہے کیونکہ قرآن مجید میں مسجد قبا کے نمازیوں کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے : فیہ رجال یحبون ان یتطھروا (اس میں ایسے مرد ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ خوب طہارت حاصل کریں) یعنی پانی سے استنجا کریں۔ ظاہر ہے کہ پانی سے استنجا شرمگاہ کو ہاتھ لگائے بغیر نہیں ہو سکتا۔ چونکہ اللہ تعالی نے اس عمل کو طہارت حاصل کرنے سے تعبیر کیا ہے جبکہ مذکورہ حدیث میں،اس کے برخلاف، مس ذکر کو نقض طہارت کو سبب قرار دیا گیا ہے ،اس لیے یہ حدیث قابل قبول نہیں ۔
(۲) فاطمہ بنت قیس رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ ایسی عورت کا نفقہ خاوند کے ذمہ واجب نہیں جس کو تین طلاقیں دی گئی ہوں۔
سرخسیؒ فرماتے ہیں کہ یہ روایت قرآن مجید کی اس آیت کے خلاف ہے : اسکنوھن من حیث سکنتم من وجدکم ’’تم انکو ٹھہراؤ جہاں تم خود ٹھہرے ہو، اپنی طاقت کے مطابق‘‘ آیت میں اسکنوھن سے مراد انفقوھن ہے، جس سے معلوم ہوا کہ نفقہ خاوند کے ذمہ ہے، لہذا مذکورہ حدیث کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔
(۳) صحیح مسلم میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بعض مقدمات میں ایک گواہ اور قسم کی بنیاد پر مدعی کے حق میں فیصلہ کر دیا۔
سرخسیؒ فرماتے ہیں کہ یہ روایت کتاب اللہ کے اس حکم کے منافی ہے: واستشھدوا شھیدین من رجالکم ’’اور تم گواہ بناؤ اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کو‘‘ اس لیے ناقابل قبول ہے۔
سنت مشہورہ کے خلاف روایت
(۱) حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے تر کھجور کے عوض میں خشک کھجور کی بیع کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : کیا تر کھجور خشک ہونے کے بعد کم ہو جاتی ہے؟ سائل نے کہا، ہاں۔ آپ نے فرمایا : تو پھر یہ بیع جائز نہیں۔
سرخسی کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؓ نے اس روایت پر عمل نہیں کیا کیونکہ یہ سنت مشہورہ کے خلاف ہے جس کا ذکر رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد میں ہے : التمر بالتمر مثل بمثل (کھجور کے بدلے میں کھجور لی جائے تو مقدار ایک جیسی ہونی چاہئے) اس حدیث میں ہم جنس اشیا کے باہمی مبادلہ کے لیے مطلق مماثلت کی (یعنی بوقت بیع) شرط لگائی گئی ہے، جبکہ سعدؓ کی مذکورہ روایت میں، اس کے برخلاف، یہ کہا گیا ہے کہ مماثلت اس حالت کے اعتبار سے ہونی چاہئے جبکہ تر کھجور خشک ہو جائے۔
عموم بلوی میں وارد خبر واحد
سرخسیؒ فرماتے ہیں کہ اس اصول کی بنا پر ہمارے علما نے درج ذیل روایات کو قبول نہیں کیا
(۱) وہ روایات جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
(۲) وہ روایات جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جنازہ کی چارپائی اٹھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
(۳) وہ روایات جن میں ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں بلند آواز سے بسم اللہ کی تلاوت کی۔
(۴) وہ روایات جن میں ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع یدین کیا کرتے تھے۔
وہ روایات جن سے صحابہؓ نے استدلال نہیں کیا
سرخسیؒ فرماتے ہیں کہ چونکہ درج ذیل روایات سے صحابہؓ نے، باوجودیکہ ان مسائل کے متعلق ان کے مابین مباحثہ واستدلال ہوا، استدلال نہیں کیا، اس لیے قابل قبول نہیں :
(۱) الطلاق بالرجال والعدۃ بالنساء (طلاق مردوں کے اعتبار سے ہے اور عدت عورتوں کے اعتبار سے)
(۲) ابتغوا فی اموال الیتامی خیرا کی لا تاکلھا الصدقۃ (زیر پرورش یتیموں کے مال کو کاروبار میں لگاؤ ، ایسا نہ ہو کہ مسلسل زکاۃ دینے سے وہ ختم ہو جائیں) (۲۹)
قیاس کے خلاف روایات
اگر غیر فقیہ راوی ایسی روایت بیان کرے جو قیاس صحیح کے مخالف ہے، تو قیاس کو روایت پر ترجیح ہوگی۔ اس اصول پر حسب ذیل روایات سرخسیؒ کے ہاں ناقابل قبول قرار پاتی ہیں :
(۱) حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر کوئی شخص ایسا جانور خریدے جس کا دودھ گاہک کو دھوکا دینے کے لیے کئی دنوں سے نہیں دوہا گیا تھا، تو اگر وہ اس کو رکھنے پر راضی ہو تو درست، ورنہ جانور کو واپس کر دے اور استعمال شدہ دودھ کے بدلے میں ایک صاع کھجوریں دے۔
سرخسیؒ کہتے ہیں کہ یہ روایت ہر لحاظ سے قیاس صحیح کے مخالف ہے کیونکہ استعمال شدہ دودھ کے تاوان کے طور پر یا تو اتنی ہی مقدار میں دودھ دینا چاہئے اور یا اس کی قیمت۔ ہر حالت میں ایک صاع کھجوروں کا تاوان دینے کی کوئی تک نہیں ہے۔
(۲) سلمہ بن المحبقؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر کسی آدمی نے اپنی بیوی کی لونڈی سے مباشرت کر لی تو اگر اس میں لونڈی کی رضامندی شامل تھی تو اب وہ لونڈی خاوند کی ملکیت میں آگئی اور اس کے عوض میں وہ یبوی کو اس جیسی کوئی اور لونڈی دے دے۔ اور اگر خاوند نے لونڈی کو مجبور کیا ہے تو اب وہ آزاد ہے اور اس کے عوض میں خاوند اپنی بیوی کو اس جیسی کوئی اور لونڈی دے۔
سرخسیؒ فرماتے ہیں کہ ازروئے قیاس یہ حدیث ناقابل فہم ہے، لہذا قابل قبول نہیں۔ (۳۰)
مسلمات کے خلاف روایات
۱۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ قرآن مجید میںیہ حکم نازل ہوا تھا کہ حرمت رضاعت تب ثابت ہوگی جب بچے نے دس مرتبہ کسی عورت کا دودھ پیا ہو۔ اس کے بعد یہ حکم منسوخ ہو گیا اور اس کی جگہ یہ حکم نازل ہوا کہ پانچ مرتبہ دودھ پینے سے وہ عورت بچے کی ماں بن جائے گی۔ یہ آیت رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد بھی قرآن مجید میں تلاوت کی جاتی تھی۔
امام ابوبکر الجصاصؒ اس پر نقد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اما حدیث عائشۃ فغیر جائز اعتقاد صحتہ علی ما ورد ۔۔۔۔ ولیس احد من المسلمین یجیز نسخ القرآن بعد موت النبی ﷺ فلو کان ثابتا لوجب ان تکون التلاوۃ موجودۃ
اس حدیث کی صحت کا اعتقاد رکھنا جائز نہیں کیونکہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد قرآن میں نسخ کو جائز نہیں مانتا تو اگر یہ روایت درست ہوتی تو یہ آیت قرآن میں موجود ہوتی۔ (۳۱)
اس روایت کے بارے میں یہی رائے امام سرخسیؒ نے بھی ظاہر کی ہے۔ (۳۲)
۲۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ جب رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کا انتقال ہوا تو رسول اللہ ﷺ اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے آگے بڑھے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے آپ کو روکنے کی کوشش کی اور کہا : کیا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں گے جبکہ اللہ تعالی نے آپ کو اس سے منع کیا ہے؟ لیکن رسول اللہ ﷺ نے پھر بھی اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔
امام طحاوی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
لان محالا ان یکون اللہ تعالی ینھی نبیہ عن شئی ثم یفعل ذلک الشئی ولا نری ھذا الا وھما من بعض رواۃ الحدیث
یہ بات ناممکن ہے کہ اللہ تعالی اپنے نبی کو کسی کام سے منع کرے اور پھر نبی وہی کام کرے۔ ہمارے خیال میں یہ کسی راوی کا وہم ہے۔
اس کے بعد انہوں نے متعدد روایات سے ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عبد اللہ بن ابی کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی۔ (۳۳)
۳۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ لبید بن اعصم یہودی نے رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا جس کا اثرآپ پر اس طرح ظاہر ہوا کہ آپ کام کرنے کے بعد بھول جاتے کہ آپ نے اسے کیا ہے۔
امام جصاصؒ اس روایت کی سخت الفاظ میں تردید کرتے ہیں:
ومثل ھذہ الاخبار من وضع الملحدین ۔۔۔۔۔ والعجب ممن یجمع بین تصدیق الانبیاء علیہم السلام واثبات معجزاتھم وبین التصدیق بمثل ھذا من فعل السحرۃ
اس طرح کی روایات ملحدین کی وضع کردہ ہیں۔ اور ان لوگوں پر تعجب ہے جو انبیا کی تصدیق کرتے اور ان کے معجزات کو مانتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ بھی مانتے ہیں کہ جادوگر انبیا پریہ عمل کر سکتے ہیں۔ (۳۴)
فقہاء مالکیہ
فقہاء مالکیہ کے ہاں بھی درایتی نقد کا استعمال نمایاں طور پر ملتا ہے۔ امام شاطبیؒ لکھتے ہیں:
ھذا القسم علی ضربین : احدھما ان تکون مخالفتہ للاصل قطعیۃ فلا بد من ردہ۔ والآخر ان تکون ظنیۃ اما بان یتطرق الظن من جھۃ الدلیل الظنی واما من جھۃ کون الاصل لم یتحقق کونہ قطعیا وفی ھذا الموضع مجال للمجتھدین ولکن الثابت فی الجملۃ ان مخالفۃ الظنی لاصل قطعی یسقط اعتبار الظنی علی الاطلاق وھو مما لا یختلف فیہ
ظنی دلیل اگر قطعی دلیل کے مخالف ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں : ایک یہ کہ اس کا اصل کے مخالف ہونا قطعی ہو ، اس صورت میں اس کو رد کرنا لازم ہے۔ دوسری یہ کہ ا س کا اصل کے خلاف ہونا ظنی ہو، یاتو اس لیے کہ اصل کے ساتھ اس کی مخالفتظنی ہے اور یا اس لیے کہ اصل کا قطعی ہونا متحقق نہیں ہوا۔ اس دوسری صورت میں مجتہدین کے لیے اختلاف کی گنجائش ہے۔ لیکن اصولی طور پر یہ بات طے شدہ ہے کہ ظنی کا قطعی کے مخالف ہونا ظنی کو ساقط الاعتبار کر دیتا ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (۳۵)
چنانچہ امام مالکؒ کا اصول یہ ہے کہ اگر کوئی روایت ظاہر قرآن، عمل اہل مدینہ اور قیاس قوی کے معارض ہو تو اس کو رد کر دیتے ہیں۔ اس اصول پر انہوں نے متعدد روایات کو قبول نہیں کیا ۔
مخالف قرآن روایات
۱۔ حدیث : من مات وعلیہ صیام صام عنہ ولیہ (جو آدمی فوت ہو جائے اور اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کا ولی ا سی طرف سے روزے رکھے) شاطبیؒ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
لمنافاتہ للاصل القرآنی الکلی نحو قولہ تعالی : الا تزر وازرۃ وزر اخری وان لیس للانسان الا ما سعی
کیونکہ یہ قرآن کے بیان کردہ اس ضابطہ کے خلاف ہے کہ کوئی جان دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور یہ کہ انسان کے لیے وہی عمل کارآمد ہیں جو اس نے خود کیے ہوں (۳۶)
۲۔ ایسی احادیث جن میں یہ کہا گیا ہے کہ جب تک بچہ پانچ یا دس مرتبہ کسی عورت کا دودھ نہ پی لے، حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ شاطبی فرماتے ہیں :
ولم یعتبر فی الرضاع خمسا ولا عشرا للاصل القرآنی فی قولہ : وامھاتکم اللاتی ارضعنکم واخواتکم من الرضاعۃ وفی مذھبہ من ھذا کثیر
امام مالک نے رضاع میں پانچ یا دس مرتبہ کا اعتبار نہیں کیا کیونکہ قرآن کی اس آیت کے (عموم کے) خلاف ہے : وامہاتکم التی ارضعنکم واخواتکم من الرضاعۃ ۔ اور اس کی مثالیں ان کے مذہب میں بہت زیادہ ہیں۔ (۳۷)
مخالف عمل اہل مدینہ
ابن عبد البرؒ لکھتے ہیں :
فجملۃ مذھب مالک فی ذلک ایجاب العمل بمسندہ ومرسلہ ما لم یعترضہ العمل بظاہر بلدہ
امام مالک کے مذہب کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ خبر واحد پر، چاہے وہ مسند یا ہو مرسل، عمل کرتے ہیں جب تک کہ وہ اہل مدینہ کے عمل کے خلاف نہ ہو۔ (۳۸)
اس اصول پر انہوں نے حسب ذیل روایات رد کی ہیں:
۱۔ خیار مجلس کی احادیث ۔ ابن عبد البر لکھتے ہیں:
ولا یری العمل بحدیث خیار المتبایعین ۔۔۔۔ لما اعترضھما عندہ من العمل
امام مالکؒ خیار مجلس کی حدیث پر عمل نہیں کرتے کیونکہ یہ عمل اہل مدینہ کے معارض ہے۔ (۳۹)
۲۔ حضر کی حالت میں موزوں پر مسح کرنے کی روایات۔ ابو الولید ابن رشدؒ الجد لکھتے ہیں:
وسئل عن المسح علی الخفین فی الحضر ایمسح علیہما؟ فقال لا، ما افعل ذلک ۔۔۔۔ وانما ھی ھذہ الاحادیث ۔ قال : ولم یروا یفعلون ذلک وکتاب اللہ احق ان یتبع ویعمل بہ
امام مالکؒ سے حضر میں مسح علی الخفین کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا، میں ایسا نہیں کرتا۔ اس کے حق میں تو بس یہ حدیثیں ہی ہیں۔ جبکہ خلفاء راشدین (اور اہل مدینہ) کا عمل اس پر نہیں ہے۔ (اس صورت میں) کتاب اللہ کے حکم (غسل) پرہی عمل کرنا درست ہے (۴۰)
مخالف قیاس
۱۔ وہ روایات جن میں حکم دیا گیا ہے کہ جب کتا برتن میں منہ ڈال جائے تو برتن کو سات مرتبہ دھویا جائے۔ شاطبیؒ امام مالکؒ سے نقل کرتے ہیں:
جاء الحدیث ولا ادری ما حقیقتہ؟ وکان یضعفہ ویقول : یؤکل صیدہ فکیف یکرہ لعابہ؟
حدیث تو آئی ہے لیکن مجھے نہیں معلوم کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی کمزوری بتاتے ہوئے امام مالکؒ فرماتے تھے کہ اگر کتے کا شکار کیا ہوا جانور کھایا جا سکتا ہے تو اس کا لعاب کیسے مکروہ ہو سکتا ہے؟ (۴۱)
۲۔ سات آدمیوں کی طرف سے ایک گائے یا اونٹ کی قربانی کی روایات۔ چونکہ قیاس یہ ہے کہ ہر آدمی کی طرف سے ایک ہی جانور قربان کیا جائے، اس لیے امام مالکؒ ان روایات پر عمل نہیں کرتے۔ ابن رشد الحفیدؒ لکھتے ہیں۔
رد الحدیث لمکان مخالفتہ للاصل فی ذلک
اصل کی مخالفت کی وجہ سے امام مالکؒ نے اس حدیث کو رد کر دیا ہے۔ (۴۲)
۳۔ وہ روایات جن میں ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر ان ہانڈیوں کو الٹنے کا حکم دیا جن میں مال غنیمت کے اونٹوں اور بکریوں کا گوشت، غنیمت کے تقسیم ہونے سے پہلے ہی پکایا جا رہا تھا۔ شاطبیؒ لکھتے ہیں:
تعویلا علی اصل رفع الحرج الذی یعبر عنہ بالمصالح المرسلۃ فاجاز اکل الطعام قبل القسم لمن احتاج الیہ
ان روایتوں کو امام مالکؒ نے رفع حرج یعنی مصالح مرسلہ کے اصول کے منافی ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کیا۔ اس لیے وہ ضرورت مند کے لیے مال غنیمت کی تقسیم سے قبل بھی اس میں سے کھانے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ (۴۳)
اس تمام تفصیل سے واضح ہے کہ اسلام کی علمی روایت میں درایت ایک نہایت شاندار تاریخ رکھتی ہے۔ مختلف طریقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے علما، محدثین اور فقہا نے اپنے اپنے زوق کے مطابق روایتوں کو پرکھنے کے مختلف عقلی اصول وضع کیے اور ان کو اپنی تحقیقات میں برتا۔ یہ تو ممکن ہے کہ ہم ان کی انفرادی تحقیقات سے اختلاف کریں اور کسی معقول تاویل سے یہ واضح کردیں کہ زیر بحث روایت، درحقیقت، خلاف اصول نہیں ہے لیکن ، اہل علم کی مجموعی تحقیقات کی روشنی میں یہ بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ درایت کی روشنی میں روایات کو پرکھنا ایک مسلمہ علمی اصول ہے اور جب کسی روایت کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ وہ قرآن کی کسی نص، رسول اللہ ﷺ کی سنت ثابتہ، دین کے مسلمات یا عقل عام کے تقاضوں کے خلاف ہے تو اس کو یکسر رد کر دینا چاہئے، چاہے اس کی سند کتنی ہی صحیح اور اس کے طرق کتنے ہی کثیر ہوں۔ واللہ اعلم
حوالہ جات
(۱) مودودی، ابو الاعلی، سید : تفہیمات، لاہور : اسلامک پبلی کیشنز، ۲۰۰۰ء، حصہ اول، ص ۳۴۵
(۲) المعجم الوسیط، ایران : دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ۱۴۰۸ھ، ص ۲۸۲
(۳) السیوطی، جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر: تدریب الراوی، ج ۱، ص ۴۰
(۴) شبلی نعمانی :سیرت النبی، لاہور : مکتبہ تعمیر انسانیت، ۱۹۷۵ء، ج ۱، ص ۱۰۱
(۵) سعید احمد اکبر آبادی : صدیق اکبرؓ،
(۶) سورۃ النور ، آیت ۱۶
(۷) ابن کثیر، ابو الفداء اسماعیل: تفسیر القرآن العظیم، لاہور : امجد اکیڈیمی، ۱۹۸۲ء، ج ۳، ص ۲۷۳
(۸) الامام احمد: المسند ، گوجرانوالہ: ادارہ احیاء السنۃ، سن ندارد، ج ۴، ص ۵
(۹) عین الاصابہ فی ما استدرکتہ عائشۃ علی الصحابہ، مشمولہ سیرت عائشہ: سید سلیمان ندوی، لاہور : اسلامی کتب خانہ، سن ندارد، ص ۲۶۶ تا ۲۸۱
(۱۰) ابو داؤد، سلیمان بن اشعث السجستانی: سنن ابی داؤد، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ : دار السلام، ۲۰۰۰ء، کتاب الطلاق، باب فی نفقۃ المبتوتۃ، حدیث نمبر ۲۲۹۱
(۱۱) الترمذی، ابو عیسی محمد بن عیسی : جامع الترمذی، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ : دار السلام، ۲۰۰۰ء، کتاب الطہارۃ، باب الوضوء مما غیرت النار، حدیث نمبر ۷۹
(۱۲) البخاری، محمد بن اسماعیل : الجامع الصحیح مع شرحہ فتح الباری، دمشق : مکتبۃ الغزالی ، سن ندارد، حدیث نمبر ۵۵۲۹، ج ۹، ص ۶۵۴
(۱۳) ابن حجر، احمد بن علی العسقلانی : فتح الباری، دمشق : مکتبۃ الغزالی، سن ندارد، ج ۳، ص ۲۶
(۱۴) الامام مالک : الموطا، کراچی : میر محمد کتب خانہ، سن ندارد، باب بیع الذھب بالورق عینا وتبرا ، ص ۶۸۲
(۱۵) تقی امینی : حدیث کا درایتی معیار،کراچی :قدیمی کتب خانہ، ۱۹۸۶ء، ص ۱۷۹، ۱۸۰
(۱۶) الخطیب، ابوبکر احمد بن علی البغدادی : الفقیہ والمتفقہ، بیروت : دار الکتب العلمیہ، ۱۹۸۰، ج ۱، ص ۱۳۲، ۱۳۳
(۱۷) تدریب الراوی، ج ۱ ، ص ۲۷۷
(۱۸) النووی، ابو زکریا یحی بن شرف : شرح صحیح مسلم، دمشق : مکتبۃ الغزالی، سن ندارد، ج ۱۲، ص ۷۲
(۱۹) فتح الباری : ج ۸، ص ۵۰۰
(۲۰) فتح الباری : ج ۷، ص ۱۶۰
(۲۱) فتح الباری : ج ۵، ص ۲۹۹
(۲۲) فتح الباری : ج ۱، ص ۲۳۳
(۲۳) الامیر الیمانی، محمد بن اسماعیل : توضیح الافکار، بیروت : دار احیاء التراث العربی، ۱۳۶۶ھ، ج ۱، ص ۱۲۸، ۱۲۹
(۲۴) المرجع السابق
(۲۵) فتح الباری : ج ۱۳، ص ۴۸۶
(۲۶) فتح الباری، ج ۸، ص ۳۳۸
(۲۷) السرخسی، ابوبکر محمد بن احمد : اصول السرخسی، لاہور : دار المعارف النعمانیہ، ۱۹۸۱ء، ج ۱، ص ۳۶۴
(۲۸) اصول السرخسی : ج ۱، ص ۳۴۱
(۲۹) اصول السرخسی، ج ۱، ص ۳۶۴ تا ۳۷۰
(۳۰) اصول السرخسی : ج ۱، ص ۳۴۱
(۳۱) الجصاص، ابوبکر احمد بن علی الرازی، احکام القرآن، لاہور : سہیل اکیڈیمی، ۱۹۸۰، ج ۳، ص ۱۲۵
(۳۲) اصول السرخسی : ج ۲، ص ۷۹، ۸۰۔
(۳۳) الطحاوی، ابو جعفر احمد بن محمد : مشکل الآثار
(۳۴) احکام القرآن : ج ۱، ص ۴۶
(۳۵) الموافقات : ج ۳، ص ۱۸
(۳۶) الموافقات : ج ۳، ص ۲۲
(۳۷) الموافقات : ج ۳، ص ۲۳
(۳۸) ابن عبد البر: التمہید ، لاہور : المکتبۃ القدوسیۃ، ۱۹۸۳ء، :ج ۱، ص ۳
(۳۹) المرجع السابق
(۴۰) ابن رشد، ابو الولید القرطبی : البیان والتحصیل، بیروت : دار الغرب الاسلامی ، ۱۹۸۸ء، ج ۱، ص ۸۲
(۴۱) الموافقات : ج ۳، ص ۲۱
(۴۲) بدایۃ المجتہد: ج ۱، ص ۳۱۸
(۴۳) الموافقات : ج ۳، ص ۲۲
طالبان کے خلاف سلامتی کونسل کی قرارداد کا متن
ادارہ
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) افغانستان پر پابندیوں سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرارداد کا متن درج ذیل ہے:
اقوام متحدہ کے منشور کے باب ہفتم پر عمل کرتے ہوئے :
۱۔ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ طالبان قرارداد نمبر ۱۲۶۷ (۱۹۹۹) کی تعمیل کریں جو بالخصوص بین الاقوامی دہشت گردوں اور ان کی تنظیموں کو پناہ دینے اور تربیت دینے سے روکتی ہے ۔ اس قرارداد کے تحت طالبان اس بات کو یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات کریں کہ ان کے زیر کنٹرول علاقے کو دہشت گردی کی تنصیبات اور کیمپوں کے لیے یا دوسرے ملکوں یا ان کے شہریوں کے دہشت گردوں کی کارروائی کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ طالبان مقدمات میں ماخوذ بین الاقوامی دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی بین الاقوامی کوششوں میں تعاون کریں۔
۲۔ یہ مطالبہ بھی کیا جاتا ہے کہ طالبان بلاتاخیر قرارداد نمبر ۱۲۶۷ (۱۹۹۹) کے پیراگراف نمبر کی پابندی کریں جو انہیں پابند کرتی ہے کہ وہ اسامہ بن لادن کو اس ملک کے حکام کے حوالے کریں جہاں وہ مقدمے میں ماخوذ ہیں یا ایسے ملک کے حکام کے حوالے کریں جہاں سے اسامہ کو ایسے ملک میں پہنچایا جا سکے یا ایسے ملک کے حکام کے حوالے کریں جہاں انہیں گرفتار کر کے موثر طو رپر مقدمہ چلایا جا سکے۔
۳۔ مزید مطالبہ کیا جاتا ہے کہ طالبان اپنے زیر کنٹرو ل علاقے میں دہشت گردوں کو تربیت دینے والے کیمپوں کو بند کرنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ یہ مطالبہ بھی کیا جاتا ہے کہ ان کیمپوں کو بند کرنے کی تصدیق اقوام متحدہ سے کرائی جائے۔ یہ تصدیق اقوام متحدہ کو ذیل کے پیراگراف ۱۹ کے تحت رکن ممالک سے حاصل ہونے والی معلومات اور ایسے دیگر ذرائع سے کی جائے جو اس قرارداد پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں۔
۴۔ تمام رکن ممالک کو ان کی اس ذمہ داری سے آگاہ کیا جاتا ہے کہ وہ قرارداد نمبر ۱۲۶۷ (۱۹۹۹) کے پیراگراف ۴ کے تحت اقدامات کو یقینی بنائیں۔
۵۔ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ تما م ممالک:
(اے) قرارداد نمبر ۱۲۶۷ (۱۹۹۹) کے تحت قائم کردہ کمیٹی (جسے آئندہ ’’کمیٹی‘‘ کہا جائے گا) کے نشان زدہ طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں بشمول اپنے شہریوں، وفاقوں، اپنے جھنڈے والی گاڑیوں، طیاروں کے ذریعے ہتھیاروں اور ہر قسم کی متعلقہ اشیاء بشمول اسلحہ، گولہ بارود، فوجی گاڑیوں، فوجی آلات، پیرا ملٹری سامان اور ان کے سپیئر پارٹس کی براہ راست یا بالواسطہ فراہمی، فروخت ، منتقلی کو روکیں گے۔
(بی) کمیٹی طالبان کے جن علاقوں کی نشاندہی کرے گی ان میں اپنے شہریوں، اپنے علاقوں سے طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں کے مسلح افراد کی فوجی سرگرمیوں سے متعلق معاملات میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر فنی مشوروں، معاونت یا تربیت فراہم، منتقل یا فروخت کرنے سے روکیں گے۔
(سی ) طالبان کو ملٹری یا متعلقہ سیکورٹی معاملات میں مشورہ دینے کے لیے افغانستان میں کنٹریکٹ یا کسی دوسرے انتظام کے تحت موجود اپنے افسران، ایجنٹوں، مشیروں اور فوجیوں کو واپس بلالیں گے اور اس معاملے سے متعلق دوسرے ملکوں کے شہریوں سے بھی ملک سے چلے جانے کے لیے کہیں گے۔
۶۔ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ پیراگراف ۵ کے تحت عائد اقدامات کا اطلاق ا س غیر مہلک فوجی سامان پر مبنی امداد یا تربیت پر نہیں ہوگا جس کا مقصد صرف انسانیت کی بھلائی اور حفاظت ہوگا اور جس کے لیے کمیٹی پیشگی طو پر منظوری دے چکی ہوگی اور اس بات کی توثیق کی جاتی ہے کہ پیراگراف نمبر ۵ کے تحت عائد پابندیوں کا اطلاق اقوام متحدہ کے اہلکاروں، میڈیا کے نمائندوں اور انسانی بنیاد پر کام کرنے والے رضا کاروں کی جانب سے صرف ذاتی استعمال کے لیے افغانستان کو بھیجے جانے والے حفاظتی کپڑوں، بشمول فلیگ جیکٹوں اور فوجی ہیلمٹوں پر نہیں ہوتا۔
۷۔ تمام ممالک نے طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار رکھنے پر زور دیا تاکہ طالبان مشنوں میں عملے کی تعداد اور سطح اور عہدوں کو کم سے کم حد تک رکھا جائے اور عملے کے جو ارکان باقی رہ جائیں ان کی اپنے علاقے میں نقل وحرکت کو کنٹرول یا پابند کیا جائے۔ بین الاقوامی تنظیموں میں طالبان مشنوں کے سلسلے میں میزبان ملک اگر ضروری سمجھتے ہوں تو ا س پیراگراف پر عملدرآمد کے لیے متعلقہ تنظیموں سے مشورہ کریں۔
۸۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ تمام ممالک مزید اقدامات کریں گے:
(اے) اپنے ممالک میں طالبان کے تمام دفاتر مکمل اور فوری طور پر بند کر دیں گے۔
(بی) اپنے ممالک میں آریانہ افغان ایئر لائنز کے تمام دفاتر فوری طور پر بند کر دیں گے۔
(سی ) اسامہ بن لادن اور ان سے متعلق افراد اور ان کے فنڈز اور دیگر مالیاتی اثاثے بلاتاخیر منجمد کر دیں گے جن کا تعین کمیٹی نے کیا ہے۔ ان میں القاعدہ تنظیم اور اس کے فنڈز جو اسامہ بن لادن یا ان سے متعلق افراد کی ملکیت یا زیر کنٹرول سے بالواسطہ یا بلا واسطہ حاصل ہوتے ہیں اور اسامہ یا ان سے متعلق ادارے بشمول القاعدہ تنظیم شامل ہیں۔ کمیٹی سے درخواست کی گئی کہ وہ رکن ممالک اور علاقائی تنظیموں کی جانب سے فراہم کردہ اطلاعات کی بنیاد پر ایسے افراد اور اداروں کی جن کا تعین اسامہ بن لادن کے ساتھیوں کی حیثیت سے کیا گیا ہے اور جو القاعدہ تنظیم میں ہیں، ایک تازہ ترین فہرست تیار کرے۔
۹۔ یہ مطالبہ کیا گیا کہ طالبان افیون اور دیگر غیر قانونی منشیات کی تمام سرگرمیاں بند کر دیں اور افیون کی غیر قانونی کاشت کے حقیقی خاتمے کے لیے کام کریں جن کی رقم دہشت گرد سرگرمیوں میں استعمال ہوتی ہے۔
۱۰۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ تمام ممالک اپنے شہریوں اور اپنے علاقوں سے افغانستان کے زیر کنٹرول علاقے میں کسی بھی شخص کو جس کا تعین کمیٹی نے کیا ہے، کیمیکل ایسیٹیک اینہائیڈ رائیڈ کی فراہمی، منتقلی اور فروخت کی روک تھام کریں گے۔
۱۱۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ تمام ممالک کسی بھی طیارے کو کمیٹی کے تعین کردہ طالبان کے زیر کنٹرول علاقے کے لیے پرواز کرنے، اپنی علاقائی حدود پر سے گزرنے یا وہاں سے آنے والے طیارے کو اپنے ملک میں لینڈ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جب تک ایسی کسی مخصوص پرواز کے لیے کمیٹی نے انسانی ضرورت کی بنیاد پر منظوری نہ دے دی ہو۔ ان میں مذہبی فرائض مثلا ادائیگی حج یا ایسی وجوہ کے لیے چلنے والی پروازیں جو تنازع افغانستان کے پرامن حل کو تقویت دیتی ہوں یا طالبان کی جانب سے اس قرارداد یا قرارداد ۱۲۶۷ (۱۹۹۹) کی تعمیل میں مدد دیتی ہوں، شامل ہیں۔
۱۲۔ کمیٹی افغانستان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے والی تنظیموں اور سرکاری ریلیف ایجنسیوں کی فہرست رکھے گی۔ ان میں اقوام متحدہ اور ا س کی ایجنسیاں اور بین الاقوامی ریڈ کراس وغیرہ شامل ہوں گی۔ پیراگراف ۱۱ کے ذریعے سے لگائی گئی پابندیوں کا طلاق متذکرہ بالا فہرست میں شامل تنظیموں اور سرکاری ریلیف ایجنسیوں کی طرف سے یا ان کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پروازوں پر نہیں ہوگا۔ کمیٹی فہرست پر باقاعدگی سے نظر ثانی کرتی رہے گی۔ جن نئی تنظیموں اور ریلیف ایجنسیوں کا نام شامل کرنا مناسب ہوگا وہ شامل کرے گی اور ان کے نام خارج کر دے گی جن کے بارے میں وہ فیصلہ کرے گی کہ وہ انسانی مقاصد کے بجائے کسی اور مقصد کے لیے پروازیں چلا رہی ہیں یا چلا سکتی ہیں۔ ان تنظیموں اور سرکاری ایجنسیوں کو فوری طور پر مطلع کر دیا جائے گا کہ ان کی یا ان کی طرف سے پروازوں پر پیراگراف ۱۱ کا اطلاق ہوگا۔
۱۳۔ طالبان اس بات کو یقینی بنائیں کہ امدادی اداروں کے افراد اور امداد کی ان کے زیر کنٹرول علاقے میں ضرورت مند افراد تک رسائی محفوظ اور بلا رکاوٹ ہو۔ طالبان اقوام متحدہ اور اس سے ملحق انسانی امدادی تنظیموں کے ارکان کی حفاظت، سلامتی اور آزادانہ نقل وحرکت یقینی بنانے کی ضمانت دیں۔
۱۴۔ تمام ریاستوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ طالبان کے نائب وزیر اور اس سے اوپر کے عہدے داروں ، اس کے برابر عہدے کے مسلح افراد اور طالبان کے دوسرے سینئر مشیروں اور اہم شخصیات کو اپنے علاقے میں داخل ہونے یا وہاں سے گزر کر کہیں جانے سے روکنے کے لیے اقدامات کریں۔ ماسوائے اس کے کہ وہ انسانی ہمدردی کے کسی مقصد سے، حج جیسے مذہبی فریضے کی ادائیگی کے لیے یا افغان تنازع کے پرامن تصفیے کی خاطر مذاکرات کے لیے یا قرارداد ۱۲۶۷ (۱۹۹۹) پر عمل درآمد کے سلسلے میں کہیں جا رہے ہوں۔
۱۵۔ کمیٹی کے مشورے سے سیکرٹری جنرل سے درخواست کی جاتی ہے کہ
(اے) ماہرین کی ایک کمیٹی قائم کی جائے جو قرارداد کی منظوری کے ساٹھ دن کے اندر کونسل کو سفارشات پیش کرے کہ رکن ملکوں کی اپنے قومی ذرائع سے حاصل کردہ اور سیکرٹری جنرل کو فراہم کردہ معلومات کے علاوہ اور کس کس طرح پیراگرافس ۳ اور ۵ کے مطابق ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی اور دہشت گردی کے تربیتی کیمپوں کے بند کرنے کی نگرانی کی جا سکتی ہے۔
(بی) متعلقہ رکن ملکوں سے رابطہ کر کے اس قرارداد اور قرارداد ۱۲۶۷ (۱۹۹۹) کے ذریعے لگائی گئی پابندیوں پر عمل کرائیں اور بات چیت کے نتائج سے کونسل کو مطلع کریں۔
(سی) موجودہ اقدامات پر عملدرآمد اور عملدرآمد میں مشکلات کے بارے میں رپورٹ دیں۔ انہیں مستحکم کرنے کے لیے سفارشات اور اس سلسلے میں رکاوٹ بننے والے طالبان کے اقدامات کا جائزہ پیش کریں۔
(ڈی) وہ اس قرارداد اور قراراداد ۱۲۶۷ (۱۹۹۹) کے تحت اقدامات سے پیدا ہونے والی انسانی سطح کی پیچیدگیوں کا جائزہ لیں اور اس قرارداد کی منظوری کے نوے دن کے اندر سفارشات پیش کریں اور اس کے بعد ان اقدامات کی مدت ختم ہونے سے ۳۰ دن پہلے تک باقاعدگی کے ساتھ جامع رپورٹس دیتے رہیں۔
۱۶۔ کمیٹی سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ قرارداد ۱۲۶۷ (۱۹۹۹) میں بیان کردہ ٹاسک کے علاوہ مندرجہ ذیل کام سنبھال کر اپنی ذمہ داری پوری کرے۔
(اے) رکن ممالک اور علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کی فراہم کردہ اطلاعات کی بنیاد پر وہ طیاروں کے طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان میں داخل ہونے اور اترنے کے مقامات کی فہرست مرتب کرے، اسے اپ ڈیٹ کرتی رہے اور فہرست کے مشمولات سے رکن ممالک کو مطلع کرے۔
(بی) رکن ممالک اور علاقائی تنظیموں کی فراہم کردہ اطلاعات کی بنیاد پر پیراگراف ۸ (سی) کے مطابق ایسے افراد اور ہستیوں کی فہرست مرتب کرے اور اسے اپ ڈیٹ کرتی رہے جن کااسامہ بن لادن سے تعلق ہے۔
(سی ) پیراگرافس ۶ اور ۱۱ میں بیان کردہ استثنایات کے لیے درخواستوں پر غور کر کے ان پر فیصلہ کرے۔
(ڈی) اس قرارداد کی منظوری کے ایک ماہ کے اندر پیراگراف ۱۲ کے مطابق افغانستان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے والی منظور شدہ تنظیموں اور سرکاری امدادی ایجنسیوں کی فہرست تیار کرے اور اسے اپ ڈیٹ کرتی رہے۔
(ای) ان اقدامات پر عملدرآمد سے متعلق اطلاعات کو عام ذرائع ابلاغ اور جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے عام کرے۔
(ایف) اس بات پر غور کرے کہ ا س قرارداد اور قرارداد ۱۲۶۷ (۱۹۹۹) کے ذریعے عائد کردہ اقدامات پر مکمل اور موثر عملدرآمد پر زور دینے کے لیے کمیٹی کے چیئرمین اور دوسرے ارکان کا علاقے کے رکن ملکوں کا ایک دورہ مناسب ہے۔
(جی) کمیٹی وقتا "فوقتا "اس قرارداد اور قرارداد ۱۲۶۷ (۱۹۹۹) کے بارے میں ملنے والی اطلاعات اور ممکنہ خلاف ورزیوں کے بارے میں رپورٹیں اور اقدامات کو موثر اور مضبوط کرنے کے لیے سفارشات بھیجتی رہے۔
۱۷۔ تمام رکن ممالک اقوام متحدہ اور اس کے خصوصی اداروں سمیت تمام علاقائی اور بین الاقوامی ادارے قرارداد کی شقوں پر سختی سے عملدرآمد کریں اگرچہ پیرا گراف نمبر پانچ، آٹھ، دس اور گیارہ میں مذکورہ اقدامات کے نفاذ کی تاریخ سے قبل ان اداروں اور افغانستان کے درمیان کوئی بین الاقوامی معاہدہ یا مفاہمت ہی موجود کیوں نہ ہو ،انہیں کوئی اجازت نامہ اور لائسنس ہی کیوں نہ جاری کیا گیا ہویا ان پر کسی طرح کے فرائض کی بجا آوری لازم ہی قرار کیوں نہ دی گئی ہو۔
۱۸۔ تمام ممالک ایسے افراد اور اداروں کے خلاف اپنے دائرۂ اختیار کے اندر رہتے ہوئے کی جانے والی کارروائی سے آگاہ کریں جو پیراگراف پانچ، آٹھ، دس اور گیارہ میں مذکور اقدامات کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہوں اور ان پر مناسب جرمانے عائد کریں۔
۱۹۔ رکن ممالک کمیٹی کے اہداف کے حصول کے لیے اس سے مکمل تعاون کریں اور کمیٹی کو قرارداد کے نفاذ کے لیے جو اطلاعات درکار ہوں، وہ فراہم کریں۔
۲۰۔ تمام ممالک قرارداد کے نفاذ کے ۳۰ یوم کے اندر کمیٹی کو آگاہ کریں کہ انہوں نے قرارداد کے موثر نفاذ کی خاطر کیا اقدامات کیے ہیں۔
۲۱۔ سیکرٹریٹ سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ حکومتی اور عوامی ذرائع سے قرارداد کی ممکنہ خلاف ورزی کے بارے میں موصول ہونے والی اطلاعات کمیٹی کو جائزہ لینے کے لیے بھیجیں۔
۲۲۔ پیراگراف پانچ، آٹھ، دس اور گیارہ میں مذکور اقدامات قرارداد کی منظوری کے ایک ماہ بعد ایسٹرن سٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق رات ایک بجے نافذ ہو جائیں گے۔
۲۳۔ پابندیوں کا نفاذ ایک سال کے لیے ہے۔ اس کے بعد کونسل فیصلہ کرے گی کہ آیا طالبان نے پیراگرف ایک، دو، تین پر عملدرآمد کیا ہے یا نہیں اور یہ کہ مزید اتنی ہی مدت کے لیے پابندیوں میں انہی شرائط کے ساتھ توسیع کی جائے یا نہیں۔
۲۴۔ اگر طالبان ایک سال سے کم عرصہ میں ہی شرائط پوری کر دیتے ہیں تو سیکورٹی کونسل نافذ کیے گئے اقدامات واپس لے لے گی۔
۲۵۔ کونسل اس عزم کا اظہار کرتی ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے موجودہ قرارداد اور ۹۹ء میں منظور ہونے والی قرارداد نمبر ۱۲۶۷ کے اہداف حاصل کرنے کی خاطر مزید پابندیوں کے نفاذ پر بھی غور کرے گی۔
(بشکریہ جنگ لاہور، ۲۱ دسمبر ۲۰۰۰ء)
اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات
ادارہ
اسلام آباد (خبر نگار) اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر شیر محمد زمان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جمعہ کی چھٹی کو ختم کرنے کا غلط فیصلہ واپس لیا جائے۔ مقام حیرت ہے کہ جمعۃ الوداع کی تعطیل قیام پاکستان سے لے کر میاں نواز شریف کے دوسرے دور اقتدار تک ہوتی رہی مگر حکومت نے اس زیادتی کی تلافی بھی ضروری نہیں سمجھی۔ انہوں نے یہ بات اسلامی نظریاتی کونسل کے ۱۴۱ ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ۴ جولائی ۱۹۷۷ء کے بعد نافذ ہونے والے قوانین کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ضابطہ دیوانی اور ضابطہ فوجداری کے حالیہ مفصل شق وار جائزہ کے باوجود کونسل قرآن وسنت اور اسلامی تاریخی کی روشنی میں سچے اور فوری انصاف کی فراہمی اور اسلامی قوانین کے ثمرات کو ممکن الحصول بنانے کے لیے ضابطہ مرتب کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہاپاکستان میں نافذ ہونے والے قوانین حدود وقصاص ودیت پر مختلف حلقوں کے اعتراضات اور مبینہ بد عنوانیوں اور خواتین سے مبینہ امتیازی سلوک کی شکایات پر ایک کمیٹی ان کا بغور جائزہ لے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کونسل کے اخراجات ۹۷۔۱۹۹۶ء کی نسبت ایک تہائی رہ گئے لہذا پری آڈٹ کا وہی نظام کونسل میں رائج ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر شیر محمد زمان نے کہا کہ کونسل کی سفارشات کے عملی نفاذ کے لیے ایک لائحہ عمل وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کونسل پہلے بھی یہ پیش کش کر چکی ہے کہ آئندہ قانون سازی میں قرآن وسنت سے متعارض کوئی عنصر شامل نہ کرنے کو یقینی بنانے کے لیے آرٹیکل (۱) ۲۲۷ کے تحت یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ ہر بل مقننہ کے سامنے پیش ہوتے ہی متعلقہ مجلس قائمہ کے ساتھ ساتھ کونسل کو بھی بھجوا دیا جائے تاکہ اسلامی نقطہ نظر سے اس کے بارے میں کونسل کی رائے بھی ایوان کے سامنے آ جائے۔ لیکن ہماری اس تجویز پر باضابطہ توجہ نہیں دی گئی اگرچہ بعض بل کونسل کو بھجوائے گئے۔ مثلا انفساخ نکاح مسلمانان ایکٹ کا ترمیمی بل ۱۹۹۹ء، انسانی اعضاء کے عطیہ وپیوند کاری کے مجوزہ آرڈیننس ۲۰۰۰ء کا مسودہ بھی حال ہی میں کونسل کی رائے معلوم کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ ان تجاویز کو پذیرائی بخشی جائے تو قوانین کی اسلامی تشکیل کے عمل میں خاصی سہولت اور تیزی پیدا ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک مختلف علوم وفنون کے نصاب کو اسلامی تعلیمات وفلسفہ حیات اور پچھلی چودہ صدیوں میں مسلم مفکرین کی فکر سے روشناس کرانے کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا۔ کونسل نے اپنے مخصوص دائرہ کار کی ترجیحات کے پیش نظر تدریس قانون کے سہ سالہ نصاب کی اسلامی تشکیل پر بھرپور توجہ دی ہے۔ پاکستان میں قانون کی تمام درسگاہوں کے فلسفہ ومقاصد میں ایسے انقلاب کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ۲۴ پرچوں کے مفصل نصاب پر مشتمل ہمارا تجویز کردہ سہ سالہ نصاب برائے لاء کالجز فوری طور پر نافذ کیا جائے۔ یہ صورت حال ہرگز قابل قبول نہیں کہ ہمارے لاء کالجز سے ایسے قانون دان فارغ ہو کر نکلیں جو عربی زبان کی شد بد بھی نہ رکھتے ہوں اور اسلامی قوانین سے نابلد ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بلاشبہ معاشرتی سطح پر خواتین کے حقوق کا تحفظ ہماری ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہئے اور ہمیں اپنے پورے وسائل بروئے کار لا کر اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ اسلام نے ہماری خواتین کو جو حقوق عطا کیے ہیں انہیں غصب کرنے کے تمام راستے مسدود کر دیے جائیں۔ اسلام کسی بھی معاملے میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا اور قتل کو قتل تصور کرتا ہے اگرچہ اسلامی آداب معاشرت ،احترام والدین، حیا داری وعزت نفس کی قدریں بھی ہمارا سرمایہ حیات ہیں۔ سوشل ورک، بالخصوص خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو اگر صحیح معنوں میں خلوص نیت کے ساتھ کسی طرح کے مفاد، لالچ یا کسی طرح کی بیرونی تحریک یا دباؤ کے بغیر خواتین کے حقوق کی بحالی مقصود ہے تو ان اداروں میں کام کرنے والی خواتین خود کو اسلامی حقوق کی بحالی کے لیے وقف کر دیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی کی سربراہی میں قائم ہونے والی ٹاسک فورس پچھلے سات آٹھ مہینوں سے امتناع ربا آرڈیننس کے مسودہ کی تیاری اور اس کے عملی مضمرات پر نہایت احتیاط، فکری گہرائی اور جزئیاتی تفاصیل کے ساتھ غور کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوانین وضوابط سے یہ نظام وجود میں نہیں آئے گا۔ ہم سب کو اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے دائرہ کار میں دیانت وامانت کا وہ مفہوم سختی کے ساتھ اپنانا ہوگا جو ہمارے سرور کائنات حضرت محمد ﷺ کی مبارک تعلیمات پر مشتمل ہے۔ اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ حکومتی اقدامات سے بھی یہ واضح ہو نا چاہئے کہ ہم اجتماعی طور پر اس سفر کا آغاز کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت نے بیرون ملک متوطن پاکستانیوں کے پاکستان میں فارن ایکس چینج اکاؤنٹ منجمد کر کے اصول دیانت کی خلاف ورزی کے ساتھ ان کے اعتماد کو ناقابل تلافی صدمہ پہنچایا۔ موجودہ حکومت بہرحال اس حکومت کی جانشین اور اس کی ذمہ داریوں کی وارث ہے لہذا ہمیں کسی تحفظ یا ہچکچاہٹ کے بغیر اس دھاندلی پر غیر ملکوں میں مقیم پاکستانیوں سے غیر مشروط معافی مانگنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی اور پاکستانی ثقافت کے احیا اور اس کی ترویج وسرپرستی کے حوالے سے ہمارے ذرائع ابلاغ برابر ایک منفی کردار ادا کر رہے ہیں اور سرکاری الیکٹرانک میڈیا اس کردار میں پیش پیش ہے۔ خود انحصاری کے نام پر، غیر ملکی ٹی وی چینلز سے مقابلہ کی آڑ میں لباس، چال ڈھال، رہن سہن، گفتگواور معاشرتی رویوں کے ایسے ماڈل ٹیلی ویژن پر ڈراموں، کلچرل شوز، موسیقی کے پروگراموں اور سب سے بڑھ کر اشتہارات کے ذریعہ سے پیش کیے جا رہے ہیں جو ہماری اخلاقی اقدار اور معاشرتی آداب کے تقدس کو تہس نہس کرنے کے ساتھ ان منفی رویوں کو دلکشی کے ساتھ پیش کر کے گمراہی، احساس محرومی اور جرائم کے ارتکاب کی آبیاری کرتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی اصلاح بالخصوص سرکاری ذرائع ابلاغ کی اصلاح ایک ایسا پروگرام ہے جو کسی بھاری بجٹ کا متقاضی نہیں۔ اس کے لیے صرف سوچ درست کرنے اور عزم صمیم کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا بلاشبہ اسلام میں ہفتہ میں ایک دن کی لازمی چھٹی کا کوئی تصور نہیں مگر ہفتہ وار چھٹی کے لیے دن کا تعین ناگزیر ہو تو اسلامی ریاست میں جمعہ کو فیصلہ کن ترجیح حاصل ہے۔ بہرکیف قومی یکجہتی اور مسلم معاشرہ کے شعار کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ جمعہ کی چھٹی کو ختم کرنے کا غلط فیصلہ واپس لیا جائے۔
(مطبوعہ روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی، ۱۰ جنوری ۲۰۰۱ء)
دجال ۔ ایک تجزیاتی مطالعہ
پروفیسر غلام رسول عدیم
دینی موضوعات پر لکھنا اور تحقیق وتفحص سے لکھنا کنج کاوی بھی چاہتا ہے اور تلوار کی دھار پر چلنے کے فن کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ تاہم اس پژوہش کاری اور احقاق حق کے لیے جان مارنے والے کو جب تخلیقی راہیں سوجھنے لگتی ہیں تو اس کی تحریر میں بلا کا بانکپن اور غضب کی دلکشی آجاتی ہے۔ اس کشش وانجذاب میں قاری بسا اوقات بے بس ہو کر رہ جاتا ہے۔ وہ از خود گرفتہ ہو کر محقق کے سامنے خود انداز وخود سپر ہو جاتا ہے اس لیے کہ اس کے سوا اس کے پاس چارۂ کار ہی نہیں رہ جاتا۔
بلاشبہ منقولات کا استحکام اپنی جگہ کوہستانی سلسلوں کی صلابتیں رکھتا ہے مگر کبھی معقولاتی ہپناٹزم سے منقولات کی ساری دیواریں گرتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں (اگرچہ اصلا " وہ گر نہ رہی ہوں مگر معلوم ضرور ہوتی ہیں) جب سحرکار محقق اپنے سارے بارود سے خطرناک بارودی سرنگیں (mines) بچھا دیتا ہے تو قاری بے چارے کی کبھی ٹانگ بھک سے اڑتی ہوئی نظر آتی ہے تو کبھی بازو۔ کبھی اس کا دماغ پھٹ جاتا ہے تو کبھی سارا جسم متاثر ہو کر ہمیشہ کے لیے اسے اپاہج کر دیتا ہے اور کبھی محقق کی تعقلاتی واستدلالی برنائیاں انسانی ذہنوں کو وہ اچھوتے خیالات اور ان ہونے افکار (جو ناموجود ہی رہتے تو بہتر تھا) دے جاتی ہیں کہ منقولات اپنی صلابتوں کے باوجود ریزہ ریزہ اور اپنی اعماق کے باوجود اتھلی اتھلی سی نظر آنے لگتی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل زیر نظر کتاب ’’دجال‘‘ واجب الاحترام مولانا زاہد الراشدی نے بڑی محبت سے عنایت کی اور اس پر لکھنے کا حکم بھی دیا۔ عنوان دیکھا، سرسری طور پر کتاب کو دیکھا، ذیلی عنوانات نے چونکا یا تو ضرور مگر سنبھال کر رکھ دی کہ اس موضوع پر پڑھنے یا لکھنے کا موقع آیا تو دیکھا جائے گا۔ اسی اثنا میں مولانا عازم یورپ ہو گئے، راقم بھی سمجھا کہ حکم ٹل گیا۔ اب بشرط فرصت مطالعہ ہو جائے گا مگر ان کی واپسی پر وہی تقاضا دہرایا گیا تو اب جائے ماندن نہ پائے رفتن والا معاملہ تھا۔ وعدہ کر لیا۔ والکریم اذا وعد وفیکتاب نکالی، مطالعہ شروع کیا تو معلوم ہوا کہ طائرانہ نگاہ سے کام نہ چلے گا، غواصانہ طرز عمل اپنانا ہوگا۔ آگے پیچھے وقت نکال نکال کا استیعابا " ومستوعبا " مطالعہ شروع کر دیا۔ دوران مطالعہ پتہ چلا کہ مصنف کی گیارہ کتابیں مطبوع ہیں۔ پس ورق پر دی فہرست دیکھ کر جی میں آئی کہ کاش یہ کتابیں بھی کسی طرح ہاتھ آئیں تو ان کا بھی مطالعہ کیا جائے۔ پھر خیال آتا کہ مولانا موصوف ہی سے اس ضمن میں درخواست کی جائے گی۔
بہر صورت کتاب ’’دجال‘‘ کے مصنف سے متعلق نادیدہ تاثر وتعارف تو کچھ یوں ہے کہ جناب اسرار عالم کا علمی تبحر مسلم اور وسعت نظر قابل رشک ہے۔ قدیم وجدید پر ان کی علمی وفکری گرفت قابل دید بھی ہے اور قابل داد بھی۔ ان کی علمیت کی گہرائی اور معلومات کا وفور کتاب کے صفحے صفحے بلکہ لفظ لفظ سے جھلک رہا ہے۔ انداز بیان، مفہوم المراد اور اسلوب کی دل آویزی قاری کو مسحور کیے دیتی ہے۔ تاہم انجام کار تک پہنچتے پہنچتے تحقیق وپژوہش کی ریزہ کاریاں خود رائی اور خود آرائی کی حدوں کو چھوتی ہوئی دکھائی دینے لگتی ہیں۔
کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے جن کو پھر مختلف حصوں اور مراحل میں بانٹا گیا ہے۔پہلے باب میں عالم موجود میں دجال کی نمایاں ترین اشکال پیش کی گئی ہیں۔ اقوام متحدہ کی فکری اور سیاسی ساخت وبافت اور ا س کے ہیئتیانسجام کو مدلل انداز میں پیش کر کے ا س کے پیچھے یہودی قوتوں کی کارفرمائی کو بجا طور پر ظاہر کیا گیا ہے۔
جدید اصطلاحات پیش کر کے پوری قوت استدلال کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے کہ انسانی حقوق، معاشی بحران، عالمی مالیاتی اداروں اور قانون کی حکمرانی وغیرہ کے اصل رائج الوقت مفہومات کیا ہیں۔ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے انہیں کس دجل اور دسیسہ کاری کے ساتھ ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہ عصر حاضر کا سب سے بڑا دجال ہے جو Global Civic Ethics او ر Total demilitarization of States کے ذریعے پورے روئے ارض کی ہر دجال حکومت کا ممد ومعاون ہے۔ اس خیال کو تقویت دینے کے لیے مصنف نے جو تاثیر وتاثر میں ڈوبا ہوا توضیحی وترغیبی اسلوب بیان اختیار کیا ہے، اس میں شعور وآگہی کے جملہ وسائل استعمال کیے ہیں۔ تاریخ عالم سے استناد اور عصر حاضر کے جدید ترین فکری رویوں کے نیچے یہودی عزائم کے مضمرات، امریکی بھارتی باہمی دلچسپیاں بلکہ مسلم دشمنی کے لیے گہری چسپیدگیاں، کلنٹن سبرامینیم کی فکری زہر چکانیاں بڑے ہی تلخ حقائق کے طور پر پیش کی ہیں۔
’’اب ایسا محسوس ہونے لگا ہے یہ خطہ ایک ہزار سال کے اجتماعی امن کے بعد پھر قتل عام اور بڑے پیمانے پر عوامی بیدخلی Mass Exodus کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کا تلخ تجربہ بھارت نے بطور خاص دوسری صدی عیسوی اور نویں صدی عیسوی کے مابین کیا تھا۔‘‘ (ص ۳۴)
عیسائی یہودیوں یا یہودی عیسائیوں کے جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کو اسلام سے پھیرنے، ختم کرنے یا کم از کم زاویہ نشین کر دینے کے فری میسنری منصوبوں کو غیر مبہم اعداد وشمار سے واضح کیا ہے۔
اس دوران میں مصنف نے سطر سطر میں معلومات عامہ کے دھارے بہا دیے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ان کی سوچ اپنی اور مآخذ اصلی ہیں۔ قاری کی آسانی کے لیے وہ دوسری زبانوں کے واضح اقتباس دے کر بڑا ہی رواں ترجمہ بھی کر دیتے ہیں۔ ان کے یہ تبصرے ۲۰۰۰ء تک کے یہودی عزائم کے جاندار تجزیے ہیں۔ عالم اسلام بالخصوص پاکستان کو جس سنگین حصار میں محصور کیا جا رہا ہے، اسے اور اکیسویں صدی، ترقی ومسابقت وغیرہ کے خوشنما ناموں کے پردے میں کی جانے والی منظم کوششوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ باقاعدہ جریدی اقتباسات سے اپنے موقف کی بھرپور تائید لائی گئی ہے۔ اس باب کے آخر میں ائمۃ المضلین کے عنوان سے حضرت مجدد الف ثانی ؒ ، حضرت شاہ ولی اللہؒ او ر علامہ اقبال ؒ کی دینی وملی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان علما کی سخت مذمت کی ہے جو ’’اہل حکومت، اہل ثروت، اہل سیاست اور جہلا کے بواب‘‘ بننے پر قانع ہو گئے۔
باب دوم میں ستارہ وصلیب کے عنوان سے یہود ونصاری اور مسلمانوں کے ایک محوری نقطے یعنی آمد مسیح، ظہور دجال اور حکومت عدل کے قیام کو موضوع بنایا ہے۔ان تینوں عقائد کو اپنی تحقیق کے مطابق متعلقہ مذاہب کے نوشتوں سے استنباط کر کے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہودیوں کے عقیدے کو مرحلہ وار پیش کیا ہے۔ آمد مسیح کے تصور کو جس طرح انہوں نے مسخ کر کے رکھ دیا ہے ، ان اجزا کی ترتیب کچھ یوں ہے:
’’اللہ اور اللہ کے ملائکہ سے مایوسی، ساری دنیا سے غصہ اور نفرت، اپنی طاقت اور ابلیس اور ا س کے دجالوں کی مدد سے کھوئی ہوئی چیزوں اور آئندہ کی بشارتوں کو حاصل کرنے کی کوشش‘‘
’’ساری دنیا کے یہودی جس مسیح کا انتظار کر رہے ہیں، جس کے لیے راہیں ہموار کر رہے ہیں، وہ دراصل دجال اکبر یعنی مسیح الدجال ہے‘‘
مصنف نے یہ بات بھی علی الاعلان کہی ہے کہ یہودی دینی ادب دجال کے ذکر سے خالی ہے۔ اگر کہیں کوئی شائبہ ہے بھی تو اسے تاویلات سے رد کر دیا گیا ہے۔
روئے ارض پر نظام عدل کے قیام کے سلسلے میں ’’ہایوم‘‘ کی کم از کم ۹ جدا جدا تاویلات کا ذکر کیا گیا ہے جن کی رو سے مسیح یعنی دجال اکبر کی آمد پر خوشحالی کے دن آئیں گے۔ مسیح کے دن کو دجال اکبر پر منطبق کر کے قیام اسرائیل اور دجالی تہذیب کو یسعیاہ نبی کے قول سے جوڑ دیا ہے۔
جہاں تک عیسائیوں کا تعلق ہے، ان میں پروٹسٹنٹوں کی عیسائیت تو یہودی امتزاج مسیحیت ہے البتہ رومن کیتھولک Second coming of Jesus کو مانتے ہیں۔ اس کے لیے مصنف نے اناجیل اربعہ سے اقتباسات دے کر اپنے موقف کو خاصا وزنی بنایا ہے۔ اس بات کو کھل کر بیان کیا ہے کہ دجال کے ظہور کے بارے میں متناسب اناجیل متی ،مرقس اور لوقا خاموش ہیں حالانکہ آمد مسیح کے بارے میں ان میں خاصا مواد موجود ہے۔ یوحنا میں واضح اشارات کاذکر کیا ہے۔ Anti Christ (مخالف مسیح) Man of lawlessness (لاقانونیت کاآدمی) Son of perdiction (تباہی کا بیٹا) مسیحیت میں اس کی صفات جھوٹا، فریبی، خدائی کا دعویدار، حیرت ناک کرشمے دکھانے والا، دین مخالف، تباہی لانے والا اور مخالف خدا وغیرہ ہیں۔ یہ صفات بہت حد تک دجال سے ملتی جلتی ہیں۔
قیام عدل Kingdom of God (حکومت الہیہ) کے سلسلے میں مسیحی نوشتوں سے اخذ واستفادہ کے بعد مصنف نے ’’موجودہ عیسائیت‘‘ کو اس قافلے سے تشبیہ دی ہے جو اپنے قافلہ سالار سے بچھڑ گیا ، راہزنوں (یہودیوں) کے چنگل میں آ گیا اور لوٹا گیا، پھر دوسرا جتھہ آیا اس نے معصوم بنتے ہوئے غلط راستوں پر لگا دیا۔ ا س راستے پر ڈال دیا جو اس ملک کو جاتا تھا جہاں غلاموں کی خرید وفروخت ہوتی۔ راہزن جانتے تھے کہ انہیں وہاں لے جا کر بیچ دیا جائے گا۔ مصنف کے بقول اب سیدنا مسیح آئیں گے تو موجودہ مسیحی دنیاپال کے دین کے بجائے ان کے دین پر ہوگی۔ یہی معنی ہے فیکسر الصلیب کا۔
تیسرے باب میں حقیقت دجال کے عنوان سے اسلام کا نقطہ نگاہ دجال سے متعلق پیش کیا ہے۔ یہی وہ مرکزی باب ہے جہاں مصنف کی طبیعت کے تحقیقی بلکہ تخلیقی جوہر کھلے ہیں۔ اللہ تعالی اور اس کی کائنات کے بارے میں قرآنی سند کے ساتھ چار مدارج سے بحث کی ہے جو خاصی دلچسپ ہے۔
عالم اصل جس کے بارے میں مصنف متردد ہیں کہ وہ ہے بھی یا نہیں، پہلا عالم قرار دیا گیا ہے۔ دوسرا عالم عالم بریہ، تیسرا عالم عصر اور چوتھا عالم اشیاء ہے۔ آخری عالم ہی محل تکلیف ٹھہرا کر مجرائے دین اللہ قرار دیا ہے۔ ان عوالم کی تشریح میں آیات قرآنی سے استخراجا " بڑا زور دیا ہے۔
حقیقت دوم میں ابلیس، شیاطین وغیرہم کی حقیقت پر بحث کی ہے۔ ملائکہ، جنات اور آدم کی تخلیق کو ابنائے نور، ابنائے نار اور ابنائے ارض کے عنوانات کے تحت پیش کیا ہے۔ قرآن مجید میں ملائکہ کی صفات کے مطابق انہیں Categorize کر دیا ہے ۔ انواع نار کی تقسیم کر کے فرماتے ہیں ’’عالم اشیاء سے انواع نار کی بڑی آبادی کا تقریبا خاتمہ ہو گیا‘‘ (ص ۲۰۴) پھر ا س کلی تباہی کے خود ساختہ اسباب بھی گنوائے ہیں جو ایجاد بندہ قسم کی چیز ہے۔ (ص ۲۰۵) شیاطین کی انواع گنوائی گئی ہیں۔ ملائکہ کی طرح قرآن مجید یا احادیث نبوی سے ان کی صفات چن چن کر ان کو انواع بنا دیا ہے۔
حقیقت سوم کے عنوان سے معرکہ خیر وشر کو موضوع بنا کر مصنف نے طبیعت کی خوب خوب جولانیاں دکھائی ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’کائنات میں معرکہ خیر وشر کے آخری مرحلے کا باضابطہ آغاز اسی لمحے ہو گیا جب اللہ تعالی نے ابلیس کو یوم وقت معلوم تک کی اجازت دی۔ اللہ تعالی نے فرمایا : قال فانک من المنظرین الی یوم الوقت المعلوم (الحجر ۳۷، ۳۸۔ ص ۸۰، ۸۱) جواب میں اللہ نے فرمایا : لاملئن جھنم منک وممن تبعک منھم اجمعین ‘‘ (ص ۸۰)
اس سارے مضمون کو پوری شرح وبسط کے ساتھ بڑے ہی پرزور استدلال سے پیش کیا ہے۔ انسان کے خلیفۃ اللہ ہونے کو خوبصورتی سے justify کیا ہے۔ فی الارض خلیفۃ سے مراد لیاہے ’’اہل زمین میں سے‘‘ ابنائے نور اپنی امیدیں لگائی بیٹھے تھے اور ابنائے نار اپنی ۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آدم کو صرف اسما سکھائے اور اشیاء نہیں دکھائیں اور ملائکہ کو اشیاء دکھائیں اور نام پوچھا‘‘ (ص ۴۴۸) یہ تاویل بھی خاصی انوکھی ہے۔
باب چہارم میں معرکہ خیر وشر کی تاریخ مرحلہ وار بیان کی ہے۔ مرحلہ اول میں آدم قدیم، مرحلہ دوم میں الجنۃ کا وہ دور جب اللہ نے آدم کے جسم سے حوا کو الگ کر دیا۔ عام ڈگر سے ہٹ کر لا تقربا ہذہ الشجرۃ (البقرہ ۳۵) کا ترجمہ کیا ہے ’’اور پاس مت کرنا اس شجر کو‘‘ (ص ۲۶۲) ’’آدم وحوا اس الشجرۃ کو قریب کر بیٹھے اور انہیں اس کا مزہ مل گیا‘‘ (ص ۲۶۴)
مفسرین سے اختلافی آواز بلند کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’’قرآن کی ا س عبارت سے مراد لینا جیسا کہ بیشتر مفسرین نے لیا ہے کہ وہاں کوئی پھل یا اناج کھانے کی کوئی چیز تھی، قرآن کی زبان اور بیان کے خلاف ہے‘‘ (ص ۲۶۷)
’’انہوں نے وہ عمل کر لیا جسے ’’جماع‘‘ کہتے ہیں۔ ان کی زندگی میاں بیوی کی تھی، ایسا قطعا نہیں تھا‘‘ (ص ۲۶۸)
ان سطور پر تبصرہ تحصیل حاصل ہے۔ معلوم نہیں مصنف میاں بیوی نہ ہونے کے باوجود آدم وحوا کو جماع کے عمل میں ملوث کر کے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان سنگین الفاظ کے لیے ان کے پاس کیا جواز ہے:
’’ممکن ہے دونوں کی صورت یہ ہو کہ دونوں کے جسم ہوں اور ان دونوں کے دو جانب یعنی اوپر اور نیچے دو دو سوراخ ہوں یا یہ کہ اوپر کے دو سوراخ کھلے ہوں اور دونوں کے نیچے کے دو سوراخ
تو ہوں مگر ا س پر کوئی بندش، پنبہ یا پردہ لگا ہو‘‘ (ص ۲۶۹)
کھل نہیں سکا کہ مصنف کو ایسے لاطائل مفروضات کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے۔ ان امکانات میں آخر پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟
’’چنانچہ حضرت آدم اور حضرت حوا کا یہ عمل نہ صرف ایک عمل تھا بلکہ ایک ایسا عمل تھا جس نے الجنۃ کے پورے نظام کو blast کر دیا‘‘ (ص ۲۶۹)
پھر بجلی کے تاروں کی مثال دی ہے کہ خلاف قاعدہ ملیں تو شارٹ سرکٹ ہو جانے پر دھماکہ ہو جاتا ہے۔
’’ایسا لگتا ہے حضرت حوا اس یا ان مقاربت سے حاملہ ہو گئیں اور استنساخ Cloning پر بنائی گئی الجنۃ میں ابذار Insensation کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اب اس کا نتیجہ یہی برآمد ہوتا کہ وہاں استنساخ سے تولید کی سنت تو تھی لیکن ابذار سے ہونے والی تولید کا نظم کرنا الجنۃ کی سنت کےخلاف تھا اور نتیجتا " وہاں فساد برپا ہوتا‘‘
’’الجنۃ سے نکلنے کا بنیادی سبب یہی غیر صالح حمل کے سوا کچھ نہ تھا‘‘ (ص ۲۷۲)
یہ ہے تحقیق جس سے معرکہ خیر وشر میں ’’آدم وحوا سخت تباہ کن حالات سے دوچار ہوئے‘‘ (ص ۲۷۹)
مرحلہ سوم میں آدم وحوا زمین پر دکھائے گئے ہیں۔ ولادت قابیل کو جنت کا ناجائز حمل قرار دیا گیا ہے۔ ولادت زمین پر ہی ہوئی مگر وہ ’’نہ جنتی مخلوق آدمی تھا نہ ارضی مخلوق آدمی‘‘ ہابل البتہ ارضی جائز اولاد تھا۔’’قابیل وہابیل کی لڑائی اور اس کے لیے بہن پر جھگڑا سب افسانے ہیں‘‘
حضرت شیث اور دیگر اولاد آدم وحوا کے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’اسی طرح یہ لوگ اگرچہ آدمی تھے مگر زمینی ہونے کے اعتبار سے آدھے تھے اور ابھی تک پوری طرح زمینی نہیں ہوئے تھے‘‘
رانش بن شیث پہلے مکمل زمینی انسان تھے۔ پھر پورے یقین کے ساتھ ان کی عمریں گنوائی ہیں۔توضیحات میں حضرت ادریس ہی کو الیسع کہا گیا ہے۔ پھر ذو الکفل کو نصرت کفل کے تانے بانے میں لاکر عجیب طرح سے صفت ادریس قرار دیا ہے۔ پھر ادریس، الیسع اور ذو الکفل کو ایک ہی شخصیت قرار دیا ہے۔ ایسی ہی تحقیق انیق ذو القرنین سے متعلق ہے۔ انہیں بھی صفت مان کر ادریس قرار دیا ہے۔
’’ایسا لگتا ہے کہ دو ہزار سالوں کے اندر اندر ہی اللہ تعالی نے ایک بار پھر حضرت ادریس کو جنہیں پہلے مرحلے میں ذو الکفل بنایا گیا تھا، ذو القرنین کے اعتبار سے مبعوث فرمایا‘‘ (ص ۳۱۷)
ع جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
’’غور کرنے سے ایسا لگتا ہے‘‘ ، ’’اس عاجز کی رائے یہ ہے‘‘ ، ’’اس عاجز کا رجحان اسی جانب ہے‘‘، ’’اس عاجز کی رائے میں‘‘ ، ’’اس عاجز کا احساس ہے‘‘، ’’اس عاجز کا خیال ہے‘‘، ’’ اس عاجز کی تحقیق کے مطابق‘‘ یہ ہیں وہ الفاط جن کے بعد پوری علمی وجاہت اور زور تحقیق سے موصوف وہ وہ کیفیات وواقعات تخلیق کرتے چلے جاتے ہیں کہ ہم جیسے عاجز تو ان کے سمجھنے سے عاجز ہی رہ جاتے ہیں۔ فساد عقیدہ میں شرک اور فساد طبع کے تحت انسانی آبادی کو تباہ کرنے کے لیے زنا بین المخلوقات اور زنا بین الانسان کے ضمن میں تحریر فرمایا ہے:
’’ملک شیاطین اور جن شیاطین ابلیس کے ساتھ برابر کے شریک تھے چنانچہ وہ بطور خاص آدمی خواتین پر حملہ آور ہوئے اور ان سے زبردستی یا انہیں قابو میں لاکر یا ان سے روابط بڑھا کر ان کے ساتھ طبعی ازدواجی تعلقات پیدا کر لیے اور اس اختلاط اور زنا کا نتیجہ یہ ہوا کہ زمین پر بین المخلوقاتی نیم انسانی ملکی یا نیم جنیاتی خلاف طبعی حرام نسل کی پیدائش کا آغاز ہوا‘‘
شیاطین کی اقسام کے طور پر جبار نفل الیو، نفر اور عفریت کی خود ساختہ تقسیم کر کے من مانی توضیحات کی ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ابلیس کی غضب ناکی کا اظہار کرتے ہوئے جوموصوف کے خلاق ذہن اور طبع رسا نے واقعہ گھڑا ہے، قابل دید ہے:
’’وہ اپنی کوششوں سے ملائکہ کے ایک گروہ کو گمراہ کرنے اور اپنے ساتھ ملانے اور انہیں آدم کے خلاف اپنی جنگ میں آلہ کار بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ کہا جاتا ہے (معلوم نہیں کو ن کہتا ہے اور موصوف نے کس سے سنا ہے، اس قول کا پایہ استناد کیا ہے) کہ یہ دو سو سے زائد ملائکہ تھے جن میں انیس اعلی درجے کے ملائکہ تھے۔ ابلیس نے ان کے اندر فساد جنس پیدا کیا اور انہیں زمین پر لے آیا۔ ابلیس کی کوششوں سے ان ملائکہ نے انسانی عورتوں سے صحبت کی اور بے قابو ہو گئے‘‘ (ص ۳۲۷)
ناطقہ سر بگریباں ہے، اسے کیا کہیے
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھئے
اقوام عالم میں قرآن مجید نے بغرض عبرت آموزی جن اقوام کی تاریخ سے اعتنا کیا ہے، ان میں عرب بائدہ کی دو معروف قومیں عاد اور ثمود بھی ہیں۔ مفسرین ومورخین نے تاریخ، کتبات اور آثار حفریات سے ان قوموں کے بارے میں جو معلومات فراہم کی ہیں، ہمارے محقق نے ان سب کو مسترد کر کے اس سارے علمی خزانے کو بیک جنبش قلم دفن کر کے رکھ دیا ہے۔ اب تک قوم عاد کا مسکن جنوبی عرب میں احقاف کے ریگزار رہے ہیں جن کی طرف ہود علیہ السلام مبعوث ہوئے اور ثمود کا مسکن شمالی عرب میں الحجر کا علاقہ مانا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس تحقیق کے مطابق :
’’قوم عاد کا مسکن بابل کے شمالی ضلع کے دار السلطنت عاد کے نام سے مشہور ہوئی‘‘
جس کے حدود سلطنت کا تعین یوں کیا گیا ہے
’’مصر، شمال میں آرمینیا اور ایشیا کوچک تک ،جنوب میں یمن اور مشرق میں سندھ تک۔ وادی سندھ کی تہذیب دراصل عاد کی تہذیب یا اس کی توسیع تھی‘‘ (ص ۳۵۰)
’’اس عاجز کی تحقیق کے مطابق یہ تہذیب ثمودی تہذیب ہے جسے تاریخ میں مصر کی تہذیب یا وادئ نیل کی تہذیب The Nile valley civilization بلکہ مخصوص طور پر عہد ابرام The Pyramid Age کہتے ہیں‘‘ (ص ۳۵۵)
’’بات اہم یہ نہیں کہ وہ اونٹنی تھی؟ کہاں سے اور کیسے پیدا ہوئی، کہاں سے آئی؟ کتنا پانی پیتی تھی؟ یہ سب افسانے بھی ہو سکتے ہیں‘‘ (ص ۳۶۰)
ع بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بو العجبی است
مصنف کے علمی شکوہ، طرفگئ خیالات، دانش وبینش کی نادرہ کاریوں کو تسلیم کرلینے کے باوجود یہ ہیں وہ تحقیق وجستجو اور فکری پژوہش اور ذہنی قلابازیوں کے نادر نمونے جو اس کتاب کے مطالعہ سے سامنے آتے ہیں۔ اس میں کلام نہیں کہ مصنف کی علمی وتحقیقی کاوشیں غیر معمولی ہیں۔ وہ ژرف نگاہی کے اسلحہ سے لیس ہو کر نکتہ بنکتہ ومرحلہ بمرحلہ اس گہرائی تک جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو ایک محقق کا طرۂ امتیاز ہوتی ہے۔ لیکن اس فکری اڑان میں وہ کبھی کبھی حقیقت حال سے دور جا نکلتے ہیں۔کہیں اپنی وسعت علم کی اساس پر اور کہیں اپنی رائے کی خود رائی کے زور پر رائی کو پربت اور ذرے کوکوہ گراں بنا دیتے ہیں۔ اس طرح ان کی تحقیقی مساعی سے ماضی کے ایوانوں میں تزلزل اور مسلمات میں دراڑیں پڑتی نظر آتی ہیں۔ یوں احقاق حق کے بجائے اتلا ف حق کا احساس پیدا ہونے لگتا ہے۔ مفروضے پر عظیم الشان عمارت بنا دینے کا فن خوب جانتے ہیں اور لطف کی بات یہ کہ استناد قرآن وحدیث سے کر کے ایسی تاویلات پیش کرتے ہیں کہ قاری کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ معرکہ خیر وشر کے حصے میں تو موصوف نے ایسے اچھوتے خیالات اور من مانے انہونے تصورات دیے ہیں کہ اچھے بھلے صاحب ایمان کا بھی سر چکرا جاتا ہے، پاؤں ڈگمگانے لگتے ہیں اور ایمان وایقان میں بے نام سے کسمساہٹیں پیدا ہونے لگتی ہیں۔
دوبئی میں چند روز کی حاضری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
رمضان المبارک کے بعد چند روز کے لیے دوبئی جانے کا اتفاق ہوا اور دوبئی کے علاوہ متحدہ عرب امارات کی دیگر امارات شارجہ‘ عجمان‘ راس الخیمۃ اور الفجیرہ میں بھی مختلف دینی وعلمی مراکز دیکھنے اور سرکردہ حضرات واحباب سے ملاقات وگفتگو کا موقع ملا۔ ہمارے پرانے دوستوں حافظ بشیر احمد چیمہ آف گکھڑ اور جناب محمد فاروق شیخ آف گوجرانوالہ نے میزبانی کی اور ان کے ساتھ مولانا مفتی عبد الرحمن اورچودھری رشید احمد چیمہ نے بھی بہت سے مقامات میں رفاقت سے نوازا۔
دوبئی کے بارے میں سنتے آ رہے تھے کہ بیروت کے بعد مغربی ثقافت کے بہت سے مظاہر نے وہاں کا رخ کر لیا ہے اور جوکچھ خانہ جنگی اور تباہی سے قبل بیروت میں ہوتا تھا وہ سب کچھ اب دوبئی میں ہونے لگا ہے۔ بعض اہم مراکز میں جا کر فی الواقع یہی تاثر ملا اور مختلف حضرات سے جس قسم کی کہانیاں سننے کو ملیں ان سے اندازہ ہوا کہ دوبئی ابھی پوری طرح بیروت بنا تو نہیں لیکن حالات کا رخ اسی جانب ہے اور عشرت وتعیش کی جو سہولتیں دوبئی کے بڑے ہوٹلوں اور تجارتی مراکز میں دی جانے لگی ہیں ان کی رفتار یہی رہی تو آج کے دوبئی کا بیس سال قبل کے بیروت سے شاید کچھ زیادہ فرق باقی نہ رہے مگر یہ سوچتے ہی ذہن کا رخ ادھر مڑ گیا کہ مشرق وسطی کا پیرس بننے کے بعد بیروت پر جو گزری ہے اور اسے مغربی کلچر کی آزادانہ نمائندگی کرنے کی جو سزا ملی ہے ‘ دوبئی کے ارباب حل وعقد کی نگاہوں سے یقیناًوہ اوجھل نہیں ہوگی اور انہوں نے اپنے اس خطہ کو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور سوچ رکھا ہوگا۔ خدا کرے کہ ہمارا یہ حسن ظن صحیح ثابت ہو اور بیروت کے عروج وزوال کی شاہراہ پر تیزی سے دوڑتے چلے جانے والے دوبئی کی بریکوں پر اس کے بہی خواہوں کا کنٹرول قائم رہے۔
البتہ تصویر کے دوسرے رخ کے طور پر دوبئی میں اچھے مناظر بھی دیکھنے میں آئے۔ مساجد میں نمازیوں کی رونق دیکھی‘ دینی درسگاہوں میں بچوں کو قرآن کریم اور ضروریات دین کی تعلیم حاصل کرتے دیکھا اور دعوت وارشاد کے حوالہ سے مختلف اداروں کی سرگرمیاں سننے میں آئیں جس سے خوشی ہوئی کہ ابھی توازن زیادہ نہیں بگڑا اور خیرکا پہلو اپنی کشش ایک حد تک باقی رکھے ہوئے ہے۔
سب سے زیادہ خوشی مرکز جمعۃ الماجد للثقافۃ والتراث میں جا کر ہوئی جو دوبئی کے ایک عرب شیخ اور تاجر الشیخ جمعۃ الماجد نے ذاتی خرچ سے قائم کر رکھا ہے اور ۸۷ء سے مسلسل مصروف کار ہے۔ اس مرکز میں مختلف علوم وفنون پر تین لاکھ کتابیں ذخیرہ کی گئی ہیں‘ مخطوطات ونوادر کو جمع اور محفوظ کرنے کا اہتمام ہے جس کے تحت چھ ہزار اصل مخطوطات‘ دس ہزار مخطوطات کے فوٹو اور پچاس ہزار مخطوطات کے مائیکرو فلم محفوظ کر لیے گئے ہیں۔ مرکز کے ساتھ کلیۃ الدراسات الاسلامیۃ کے نام سے تعلیمی ادارہ اور جمعیۃ بیت الخیر کے عنوان سے رفاہی ادارہ کام کر رہا ہے۔ مرکز میں ایک سو سے زائد افراد پر مشتمل عملہ کام کرتا ہے جس میں ایک بڑی تعداد مختلف علوم وفنون کے متخصصین کی ہے اور آفاق الثقافۃ والتراث کے عنوان سے ایک ضخیم اور وقیع سہ ماہی علمی مجلہ بھی شائع ہوتا ہے۔ اس مرکز میں زیادہ وقت گزارنے کی حسرت ہی رہی اور مرکز دیکھنے کے بعد سے دل مسلسل الشیخ جمعۃ الماجد حفظہ اللہ تعالی کے لیے دعاگو ہے کہ اللہ رب العزت ان کی ان علمی ودینی خدمات کو قبول فرمائیں اور عالم اسلام کے دیگر اصحاب خیر کو بھی ان کے اس ذوق کا حصہ دار بنا دیں۔ آمین یا رب العالمین
جامعہ فاروقیہ کراچی کے شہید اساتذہ
کراچی میں اہل دین ایک بار پھر دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں اور اس بار نشانہ جامعہ فاروقیہ فیصل کالونی کراچی کے مظلوم اساتذہ بنے ہیں‘ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جامعہ فاروقیہ ملک کے معروف اور مرکزی علمی اداروں میں سے ہے جس کے مہتمم وفاق المدارس العربیۃ پاکستان کے سربراہ شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب مدظلہ ہیں اور اس طرح ایک بار پھر اہل حق کے ایک بڑے مرکز کو دہشت گردوں نے ہدف بنایا ہے۔
یہ اساتذہ تو تعلیم وتدریس کی دنیا کے لوگ تھے جن کا ان ہنگاموں سے کوئی عملی واسطہ نہیں تھا جو فرقہ واریت یا دہشت گردی کا باعث بنتے ہیں یا انہیں اس کا بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ان مظلوم اساتذہ اور ان کے دیگر شہید رفقا کا اس کے سوا کوئی قصور نہیں تھا کہ وہ ایک دینی وعلمی مرکز سے وابستہ تھے اور خاموشی کے ساتھ قرآن وسنت اور دیگر دینی علوم سے نئی نسل کو آراستہ کر رہے تھے۔ ان کو نشانہ بنا کر دہشت گردوں کو اس سے زیادہ کیا حاصل ہوا ہوگا کہ ان کے مخالفانہ جذبات کو وقتی طور پر تسکین مل گئی ہوگی اور اس کارکردگی پر انہیں کہیں سے شاباش حاصل ہو گئی ہوگی لیکن انہیں اس کا اندازہ نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی اس مذموم حرکت اور وحشیانہ کارروائی سے علم وتقوی کا وجود چھلنی کر دیا ہے۔
یہ لمحہ فکریہ ہے ملک کے ارباب فکر ودانش کے لیے اور اس بات کی دعوت فکر ہے کہ وہ علماء کرام اور دینی کارکنوں کے اس قتل عام کو روکنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس کے حقیقی اسباب وعوامل کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی روک تھام کے لیے کوئی مثبت اور موثر حکمت عملی اختیار کریں۔
اللہ تعالی جامعہ فاروقیہ کراچی کے ان مظلوم شہدا کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور ان کے پس ماندگان اور متوسلین کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں‘ آمین یا رب العالمین۔
تعارف و تبصرہ
ادارہ
’’دنیا کی نامور خواتین‘‘
روزنامہ اوصاف اسلام آباد کے معروف کالم نگار جناب محمد اسلم کھوکھر نے دنیا کی ڈیڑھ سو سے زیادہ نامور خواتین کے حالات اور کارناموں کو اس ضخیم کتاب میں جمع کیا ہے جن میں ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریؓ سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو تک مختلف مذاہب‘ طبقات‘ اقوام اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی نامور خواتین شامل ہیں اور اس حوالہ سے اچھا خاصا تاریخی مواد اور معلومات اس میں سمو دی ہیں۔
ساڑھے چھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب فکشن ہاؤس‘ ۱۸۔ مزنگ روڈ لاہور نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت چار سو روپے ہے۔
’’دینی مسائل اور ان کا حل‘‘
انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے امیر مولانا ڈاکٹر احمد علی سراج روزنامہ کویت ٹائمز میں دینی مسائل کے حوالہ سے قارئین کی طرف سے پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات دیتے ہیں جو مختلف دینی عنوانات پر مسائل واحکام اور معلومات کا ذخیرہ ہوتے ہیں۔ انہی سوالات وجوابات کا ایک ضخیم مجموعہ انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ کویت نے شائع کیا ہے۔
صفحات ۶۱۰‘ کتابت وطباعت معیاری‘ مضبوط جلد‘ قیمت درج نہیں۔
پاکستان میں ملنے کا پتہ: (۱) جامعہ سراج العلوم‘ دار القرآن ڈیرہ اسماعیل خان (۲) ۳۹ سکندر بلاک‘ علامہ اقبال ٹاؤن لاہور
’’عالمی نظام سیاست واقتصاد اور افغانستان کی طالبان تحریک‘‘
مولانا خالد محمود نے یہ ضخیم کتاب طالبان کی اسلامی تحریک کے پس منظراور موجودہ عالمی اقتصادی وسیاسی صورت حال میں طالبان تحریک کی انقلابی حیثیت کو واضح کرنے کے جذبہ کے ساتھ لکھی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے افغانستان کی تاریخ اور عالمی سیاسی واقتصادی حالات کے بارے میں معلومات کا بہت بڑا ذخیرہ جمع کر دیا ہے جو افغانستان اور طالبان کے موضوع پر مطالعہ سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کے لیے بیش بہا تحفہ ہے۔
چھ سو سے زائد صفحات پرمشتمل یہ کتاب گوشۂ علم وتحقیق‘ المدینہ گارڈن‘ جمشید روڈ نمبر ۲ ‘ کراچی نے عمدہ طباعت اور مضبوط جلد کے ساتھ پیش کی ہے اور اس کی قیمت ۱۸۰ روپے ہے۔
’’مقالاتِ رحمانی‘‘
جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے سابق مہتمم حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن رحمہ اللہ تعالی کے مختلف مضامین ومقالات کو ان کے فرزند مولانا عزیز الرحمن رحمانی نے مقالات رحمانی کے عنوا ن سے مرتب کیا ہے جس میں مختلف اہم عنوانات پرمعلوماتی اور علمی مضامین شامل ہیں اور حضرت مفتی صاحب کا صدقہ جاریہ ہیں۔
صفحات ۴۰۰‘ عمدہ جلد‘ کتابت وطباعت معیاری‘ ناشر: المکتبۃ البنوریہ‘ علامہ بنوری ٹاؤن‘ کراچی
’’فقہی جواہر‘‘
دار العلوم لندن کے شیخ الحدیث حضرت مولانا عمر فاروق کے مختلف مضامین کو القاسم اکیڈمی جامعہ ابو ہریرہ خالق آباد نوشہرہ صوبہ سرحد نے مندرجہ بالا عنوان کے ساتھ شائع کیا ہے اور اس میں طلاق‘ عقیقہ‘ اہل کتاب کا ذبیحہ‘ فوٹو گرافی اور دیگر ضروری معاملات پر شرعی احکام کو فقہی انداز میں واضح کیا گیا ہے۔
۶۶ صفحات کے اس کتابچہ کی قیمت ۴۵ روپے ہے۔
بسنت کا تاریخی پس مظر
حکیم افتخار یوسف زئی
بسنت منانے والے یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ جب موسم سرما رخصت ہوتا ہے اور بہا ر کی آمد آمد ہوتی ہے تو یہ تہوار منایا جاتا ہے جبکہ تاریخی حقائق اس کے خلاف ہیں۔
سکھ مورخ ڈاکٹر بی ایس نجار نے اپنی کتاب پنجاب میں آخری مغل دور حکومت میں لکھا ہے کہ ۱۷۰۷ء تا ۱۷۵۹ء زکریاخان پنجاب کا گورنر تھا۔ حقیقت رائے سیالکوٹ کے ایک کھتری باکھ مل پوری کا بیٹا تھا۔ اس نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ اس جرم پر حقیقت رائے کو قاضی وقت نے موت کی سزا دی۔ اس واقعہ سے غیر مسلم آبادی کو شدید دھچکا لگا اور بڑے بڑے ہندو مہاشے اور سرکردہ لوگ زکریا خان گورنر کے پاس گئے کہ حقیقت رائے کی سزا ئے موت معاف کر دی جائے لیکن زکریا خان نے ان کی سفارش ماننے سے انکار کر دیا اور ۱۷۴۷ء میں اسے موت کی سزا دے دی گئی۔
ہندوؤں کے نزدیک حقیقت رائے نے ہندو دھرم کے لیے قربانی دی۔ اس لیے انہوں نے پیلی (بسنتی) پگڑیاں اور ان کی عورتوں نے پیلی ساڑھیاں پہنیں اور اس کی مڑھی پر پیلا رنگ بکھیر دیا۔ بعد میں ایک ہندو کالو رام نے اس مڑھی پر ایک مندر تعمیر کروایا۔ جس دن حقیقت رائے کو موت کی سزا دی گئی اس دن کو پیلے رنگ کی نسبت سے بسنت کا نام دیا گیا۔ اس دن ملحقہ میدان میں پتنگ بازی بھی ہوئی اور حقیقت رائے کی یاد تازہ رکھنے کے لیے یہ بسنت ہندو تہوار کے طور پر ہر سال منانے کا سلسلہ قائم ہوا جو بھارت میں تو معمولی انداز میں منایا جاتا ہے اور یہاں بڑی دھوم دھام سے پتنگ بازی اور دیگر ہر قسم کی لغویات اور بے ہودگی کا مظاہرہ کئی کئی دن تک شب وروز کیا جاتا ہے جس میں ہمارے ذرائع ابلاغ بھرپور رنگینی اور فحاشی کے ساتھ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
حقیقت رائے کی یہ مڑھی کوٹ خواجہ سعید (کھوجے شاہ / گھوڑے شاہ) لاہور میں ہے۔ اب یہ جگہ باغبان پورہ میں باوے دی مڑھی کے نام سے مشہور ہے اور اسی علاقہ کے قبرستان میں موجود ہے۔ ہندو سکھ زائرین بسنت کے موقع پر اب تک باوے دی مڑھی پر حاضری دیتے اور منتیں مانتے ہیں۔ شاید ان میں بسنت منانے والے مسلمان بھی ہوں۔ اس لیے بسنت موسمی تہوار نہیں ہے بلکہ ہندو اسے یادگار حقیقت رائے کے طور پرمناتے ہیں اور یہ خالصتا ہندوانہ تہوار ہے لیکن مسلمانوں کو اس بات کا احساس تک نہیں کہ ایک گستاخ رسول کی یاد میں منائے جانے والے تہوار پر لاکھوں روپیہ لٹا کر اور جانی نقصان اٹھا کر وہ ہر سال اس منحوس رسم کی آبیاری کرتے ہیں۔
مارچ ۲۰۰۱ء
امریکہ کا خدا بیزار سسٹم
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
روزنامہ جنگ لاہور ۲۶ فروری ۲۰۰۱ء کی ایک خبر کے مطابق امریکی ریاست ورجینیا میں سینٹ کے ریاستی ارکان نے ایک یادگاری سکہ پر ’’ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہیں‘‘ کے الفاظ کندہ کرنے کی تجویز مسترد کر دی ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ ریاست میں امریکہ کے قدیم باشندوں ’’ریڈ انڈین‘‘ کے اعزاز اور توقیر کے لیے ایک سلور ڈالر جاری کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں جس پر جنگلی بھینس کی تصویر کے ساتھ IN GOD WE TRUST (ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہیں) کے الفاظ کندہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ چاندی کا یہ یادگاری سکہ سکولوں میں بھی آویزاں کرنے کی تجویز ہے مگر ریاستی سینٹ کے ارکان نے سرکاری سکولوں میں یہ ماٹو آویزاں کرنے کے مسودہ قانون کو رد کر دیا ہے۔ خبرنگار کے تبصرہ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح امریکہ میں ریاست اور کلیسا کی علیحدگی کے آئینی تصور نے خدا کی ذات کو بھی متنازعہ بنا دیا ہے۔
امریکہ کے آئین میں خدا، بائبل، کلیسا اور مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے کر ریاستی معاملات میں ان کے کسی قسم کے تعلق یا مداخلت کی نفی کی گئی ہے اور اسی بنیاد پر کسی بھی ریاستی، قانونی یا اجتماعی معاملہ کے حوالے سے مذاہب کے ذکر کو وہاں پسند نہیں کیا جاتا بلکہ قانونی طور پر اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ اجتماعی معاملات میں خدا، بائبل، کلیسا اور مذہب کی دخل اندازی سے شہریوں کی آزادی رائے، خود مختاری اور اپنے فیصلے خود کرنے کا حق مجروح ہوتا ہے اس لیے مذہب اور اس کے متعلقات کو فرد کے ذاتی معاملات تک محدود رکھا جائے، ریاستی اور اجتماعی امور کے تعین پر صرف اور صرف سوسائٹی کا اختیار باقی رہنے دیاجائے اور سوسائٹی کی اکثریت کسی بھی معاملہ میں جو فیصلہ کر دے، اسے حرف آخر تصور کیا جائے۔ اسی فلسفہ اور تصور کا نام سیکولر ازم ہے اور یہ فلسفہ نہ صرف دنیا کی اکثر حکومتوں کے دساتیر کی بنیاد ہے بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے قواعد وضوابط اور فیصلوں کی پشت پر بھی اسی فلسفہ اور تصور کی کارفرمائی ہے۔
ہمارے ہاں عام طور پر ’’سیکولر ازم‘‘ کو ’’غیر فرقہ وارانہ حکومت‘‘ کے معنی میں پیش کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سیکولر ازم کی بنیاد مذہب کی نفی پر نہیں بلکہ اس سے مراد کسی ایک فرقہ پر دوسرے فرقہ کی بالادستی کو روکنا ہے اس لیے اسے قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ محض ایک فریب کاری ہے اور اس کا اصل حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے کہ جس فلسفہ اور نظام میں خدا کے نام اور اس پر بھروسہ کے الفاظ کو محض علامتی طور پر کسی ماٹو میں بھی قبول کرنے کی گنجائش نہ ہو ، اس کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ مذہب یا اس کی کسی بنیاد کی نفی نہیں کرتا، بلکہ صرف رواداری کی تلقین کرتا ہے، خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اس مسئلہ کو ایک اور زاویہ سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ، سیکولر ممالک اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی طرف سے اجتماعی نظام اور دستور وقانون کے حوالے سے مسلم ممالک سے جو تقاضے کیے جا رہے ہیں اور ان کے سامنے جو ایجنڈا اب تک پیش کیا گیا ہے، اس میں صرف فرقہ وارانہ رواداری کے معاملات شامل نہیں ہیں بلکہ ریاستی نظام کو مذہب اور مذہبی اقدار سے کلیتا لا تعلق کردینے کے مطالبات بھی اس ایجنڈے کا حصہ ہیں اور پارلیمنٹ کے غیر مشروط اختیارات اور قانون سازی میں عوامی نمائندوں کو فائنل اتھارٹی قرار دینے کا تصور ریاستی نظم سے مذہب کو بے دخل کر دینے ہی کا دوسرا رخ ہے۔
مذکورہ خبر میں ’’ریڈ انڈین‘‘ کا بھی تذکرہ ہے جن کی توقیر اور اعزاز کے لیے یہ یادگاری سکہ جاری کیا جا رہا ہے۔ ’’ریڈ انڈین‘‘ امریکہ کے اصل اور قدیمی باشندے ہیں۔ جب کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تو امریکہ بالکل غیر آباد براعظم نہیں تھا بلکہ وہاں پہلے سے انسان آباد تھے حتی کہ اب یہ بات تحقیقی طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ عرب اور مسلمان کولمبس سے بہت پہلے امریکہ پہنچ چکے تھے لیکن اسی دور میں اندلس کی اسلامی ریاست کے خاتمہ اور صلیبی قوتوں کے تسلط کے باعث امریکہ میں بھی مسلمانوں کے بجائے عیسائی یورپیوں نے قبضہ جما لیا اور پھر امریکہ یورپی آباد کاروں ہی کا ملک بن کر رہ گیا حتی کہ امریکہ کی اصل آبادی کو بھی ان یورپیوں نے ’’ریڈ انڈین‘‘ کا نام دے کر اچھوت بنا دیا اور رفتہ رفتہ پورے نظام سے بے دخل کر دیا۔ ’’ریڈ انڈین’’ آج بھی امریکہ میں موجود ہیں لیکن امریکی نظام میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ وہ دوسرے درجے کے شہری سمجھے جاتے ہیں اور انہیں ان کے جائز حقوق دینے کے بجائے ان کے اعزاز وتوقیر کے لیے ’’یادگاری سکے‘‘ جاری کر کے انہیں بہلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بہرحال یہ امریکہ کے ’’خدا بیزار سسٹم‘‘ کی ایک جھلک ہے جسے بین الاقوامی فلسفہ اور ورلڈ سسٹم کے نام پر پوری دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن قرآن وسنت کی ابدی اور آفاقی تعلیمات پر یقین رکھنے والے مسلمانوں اور اہل دین کے ہوتے ہوئے یہ خواب کبھی تعبیر کی منزل حاصل نہیں کر سکے گا۔
علم کا مقام اور اہل علم کی ذمہ داریاں
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی
(اکتوبر ۱۹۸۱ء میں کشمیر یونیورسٹی سری نگر نے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی قدس اللہ سر ہ العزیز کو ’’ڈاکٹر آف لٹریسی‘‘ کی اعزازی ڈگری پیش کی۔ اس موقع پر منعقد ہونے والے کانووکیشن سے حضرت مولانا ندوی رحمہ اللہ تعالی نے جو فکر انگیز خطاب فرمایا، وہ اہل علم کے استفادہ کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)
جناب چانسلر صاحب (بی کے نہرو، گورنر کشمیر)، پرو چانسلر صاحب (شیخ محمد عبد اللہ، چیف منسٹر کشمیر)، وائس چانسلر صاحب (ڈاکٹر وحید الدین ملک) ،اساتذۂ جامعہ، فضلاء کرام اور معزز حاضرین!
میرا عقیدہ ہے کہ علم ایک اکائی ہے جو بٹ نہیں سکتی۔ اس کو قدیم وجدید، مشرقی ومغربی، نظری وعملی میں تقسیم کرنا صحیح نہیں اور جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا ہے
دلیل کم نظری قصہء جدید وقدیم
میں علم کو ایک صداقت مانتا ہوں جو خدا کی وہ دین ہے جو کسی ملک وقوم کی ملک نہیں اور نہ ہونی چاہئے۔ مجھے علم کی کثرت میں بھی وحدت نظر آتی ہے۔ وہ وحدت سچائی ہے، سچ کی تلاش ہے، علمی ذوق ہے، اور اس کو پانے کی خوشی ہے۔ اس کے باوجود میں جناب چانسلر صاحب، وائس چانسلر صاحب اور اس جامعہ کے ذمہ داروں کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنے ایک علمی اعزاز کے لیے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا جس کا انتساب اور تعلق قدیم طرز تعلیم سے ہے۔
میں علم، ادب، شاعری، فلسفہ ،حکمت کسی میں اس اصول کا قائل نہیں ہوں کہ جو اس کی وردی پہن کر آئے، وہی عالم اور دانش ور ہے اور یہ مان لیا گیا ہے کہ جس کے جسم پر وردی نہ ہو، وہ نہ مستحق خطاب ہے نہ لائق سماعت۔ بد قسمتی سے ادب وشاعری میں بھی یہی حال ہے۔ جو ادب کی دکان نہ لگائے، اور اس پر ادب کا سائن بورڈ آویزاں نہ کرے، اور ادب کی وردی پہن کر ادبی محفل میں نہ آئے، وہ ’’بے ادب‘‘ ہے۔ لوگوں نے ان پیدائشی ادیبوں اور شاعروں کا قصور کبھی معاف نہیں کیا جن کے جسم پر وہ وردی دکھائی نہ دیتی ہو یا جن کو بد قسمتی سے ان وردیوں میں سے کوئی وردی نہ مل سکی ہو۔ میں علم کی آفاقیت اور علم کی تازگی کا قائل ہوں، جس میں خدا کی رہنمائی ہر دور میں شامل رہی ہے۔ اگر خلوص ہے اور سچی طلب ہے تو خدا کی طرف سے کسی وقت فیضان میں کمی نہیں۔
حضرات !
اس موقر دانش گاہ کے جلسہ تقسیم اسناد میں جو فلک بوس ہمالیہ کی ایک سرسبز وحسین وادی میں منعقد ہو رہا ہے، مجھے بے اختیار وہ واقعہ یاد آتا ہے جو عرب کے ایک خشک علاقہ میں ایک پہاڑ پر جو نہ بلند تھا اور نہ سرسبز،تقریبا چودہ سو سال پہلے پیش آیا تھا اور جس نے تاریخ انسانی ہی نہیں بلکہ تقدیر انسانی پر ایسا گہرا اور لازوال اثر ڈالا ہے جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی اور جس کا اس ’’لوح وقلم‘‘ سے خاص تعلق ہے جس پر علم وتہذیب اور تحقیق وتصنیف کی اساس ہے اور جس کے بغیر نہ یہ عظیم دانش گاہیں وجود میں آتیں اور نہ یہ وسیع کتب خانے جن سے دنیا کی زینت اور زندگی کی قدر وقیمت ہے۔میری مراد پہلی وحی کے واقعہ سے ہے جو ۱۲ فروری ۶۱۱ء کے لگ بھگ نبی عربی محمد ﷺ پر مکہ کے قریب غار حرا میں نازل ہوئی۔ اس کے الفاظ یہ تھے:
اقرا باسم ربک الذی خلق ۔ خلق الانسان من خلق ۔ اقرا وربک الاکرم ۔ الذی علم بالقلم ۔ علم الانسان ما لم یعلم(سورہ علق، ۱ تا ۵)
(اے محمد) اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا ۔ پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جن کا اس کو علم نہ تھا۔
خالق کائنات نے اپنی وحی کی اس پہلی قسط اور باران رحمت کے اس پہلے چھینٹے میں بھی اس حقیقت کے اعلان کو موخر وملتوی نہیں فرمایا کہ علم کی قسمت سے وابستہ ہے غار حرا کی اس تنہائی میں جہاں ایک نبی امی اللہ کی طرف سے دنیا کی ہدایت کے لیے پیغام لینے گیا تھا اور جس کا یہ حال تھا کہ اس نے قلم کو حرکت دینا خود بھی نہیں سیکھا تھا، جو قلم کے فن سے یکسر واقف نہ تھا۔ کیا دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر کہیں مل سکتی ہے؟ اور اس بلندی کا تصور بھی ہو سکتا ہے کہ اس نبی امی پر ایک امت امی اور ایک ناخواندہ ملک کے درمیان (جہاں جامعات اور دانش گاہیں تو بڑی چیز ہیں، حرف شناسی بھی عام نہیں تھی) پہلی بار وحی نازل ہوتی ہے اور آسمان وزمین کا رابطہ صدیوں بعد قائم ہوتا ہے تو اس کی ابتدا ہوتی ہے اقرا سے۔ جو خود پڑھا ہوا نہیں تھا، اس پر جو وحی نازل ہوتی ہے، اس میں اس کو خطاب کیا جاتا ہے کہ پڑھو۔ یہ اشارہ تھا اس طرف کہ آپ کو جو امت دی جانے والی ہے، وہ امت صرف طالب علم ہی نہ ہوگی بلکہ معلم عالم اور علم آموز ہوگی۔ وہ علم کی اس دنیا میں اشاعت کرنے والی ہوگی۔ جو دور آپ کے حصے میں آیا ہے، وہ دور امیت کا نہیں ہوگا، وہ دور وحشت کا دور نہیں ہوگا، وہ دور جہالت کا دور نہیں ہوگا، وہ دور علم دشمنی کا دور نہیں ہوگا ،وہ دور علم کا دور ہوگا، عقل کا دور ہوگا، حکمت کا دور ہوگا، تعمیر کا دور ہوگا، انسان دوستی کا دور ہوگا، وہ دور ترقی کا دور ہوگا۔
باسم ربک الذی خلق (اس پروردگار کے نام سے پڑھو جس نے پیدا کیا) بڑی غلطی یہ تھی کہ علم کا رشتہ رب سے ٹوٹ گیا تھا اس لیے علم سیدھے راستے سے ہٹ گیا تھا۔ اس ٹوٹے ہوئے رشتہ کو یہاں جوڑا گیا۔ جب علم کو یاد کیا گیا، اس کو یہ عزت بخشی گئی تو اس کے ساتھ ساتھ اس کی بھی آگاہی دی گئی کہ اس علم کی ابتدا اسم رب سے ہونی چاہئے اس لیے کہ علم اسی کا دیا ہوا ہے، اسی کا پیدا کیا ہوا ہے اور اسکی رہنمائی میں یہ متوازن ترقی کر سکتا ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی انقلاب آفریں، انقلاب انگیز اور صاعقہ آسا آواز تھی جو ہماری دنیا کے کانوں نے سنی تھی، جس کا کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ اگر دنیا کے ادیبوں اور دانش وروں کو دعوت دی جاتی کہ آپ لوگ قیاس کیجئے کہ جو وحی نازل ہونے والی ہے، اس کی ابتدا کس چیز سے ہوگی؟ اس میں کس چیز کو اولیت دی جائے گی تو میں سمجھتا ہوں کہ ان میں سے ایک آدمی بھی جو اس امی قوم اور اس کے مزاج اور دماغ سے واقف تھا، یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ اقرا کے لفظ سے شروع ہوگی۔
یہ ایک انقلاب انگیز دعوت تھی کہ علم کا سفر خدائے حکیم وعلیم کی رہنمائی میں شروع کیا جا نا چاہئے اس لیے کہ یہ سفر بہت طویل، پر پیچ اور بہت پر خطر ہے ۔ یہاں دن دہاڑے قافلے لٹتے ہیں، قدم قدم پر مہیب وعمیق گھاٹیاں ہیں، گہرے دریا ہیں، قدم قدم پر سانپ اور بچھو ہیں، اس لیے اس میں ایک رہبر کامل کی رفاقت ہونی چاہئے اور وہ رہبر کامل حقیقتا خدا کی ذات ہے۔ مجرد علم وادب نہیں، وہ علم مقصود نہیں جو بیل بوٹے بنانے کا نام ہے، جو محض کھلنوں سے کھیلنے کا نام ہے۔وہ علم نہیں جو محض دل بہلانے کا نام ہے، وہ علم نہیں جو ایک کو دوسرے سے لڑانے کا نام ہے، وہ علم نہیں جو قوموں کو قوموں سے ٹکرانے کا نام ہے، وہ علم نہیں جو اپنے معدہ کی خندق کو بھرنے کا ذریعہ سکھانے کا نام ہے، وہ علم نہیں جوزبان کو صرف استعمال کرنا سکھاتا ہے، بلکہ اقرا باسم ربک الذی خلق ۔ خلق الانسان من علق ۔ اقرا وربک الاکرم ۔ الذی علم بالقلم ۔ علم الانسان ما لم یعلم ’’پڑھو، تمہارا رب بڑا کریم ہے۔‘‘ وہ تمہاری ضرورتوں سے، تمہاری کمزوریوں ے کیسے ناآشنا ہو سکتا ہے؟ اقرا وربک الاکرم ۔ الذی علم بالقلم آپ خیال کیجئے کہ قلم کا رتبہ اس سے زیادہ کس نے بڑھایا ہوگا کہ اس غار حرا کی پہلی وحی نے بھی قلم کو فراموش نہیں کیا۔ وہ قلم جو شاید ڈھونڈنے سے بھی مکہ کیکسی گھر میں نہ ملتا۔ اگر آپ اسے تلاش کرنے کے لیے نکلتے تو شاید معلوم نہیں کسی ورقہ بن نوفل کے یا کسی کاتب کے جو دیار عجم سے کچھ لکھنا پڑھنا سیکھ کر آیا ہو، گھر میں ملتا۔
اور پھر ایک بہت بڑی انقلاب انگیز اور لافانی حقیقت بیان کی کہ علم کی کوئی انتہا نہیں۔ علم الانسان ما لم یعلم ۔انسان کو سکھایا جس کا اس کو پہلے سے علم نہ تھا۔ سائنس کیا ہے؟ ٹیکنالوجی کیا ہے؟ انسان چاند پر جا رہا ہے، خلا کو ہم نے طے کر لیا ہے، دنیا کی طنابیں کھینچ لی ہیں، یہ سب علم الانسان ما لم یعلم کا کرشمہ نہیں تو کیا ہے؟
حضرات !
اجازت دیجئے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر وادئ علم کے ایک مسافر کی حیثیت سے کچھ مشورے، کچھ تجربے پیش کروں۔
جامعات کا پہلا کام سیرت سازی ہے۔ یونیورسٹی ایسا کیرکٹر بنائے جو اپنے ضمیر کو بقول اقبال ایک کف جو کے بدلے میں بیچنے کے لیے تیار نہ ہو۔ آج کل کے فلسفے اور نظام یہ سمجھتے ہیں کہ اس بازار میں سب کی قیمت مقرر ہے ، کوئی اگر کم قیمت پر نہیں خریدا جا سکتا تو زیادہ قیمت پر خرید لیا جائے گا۔ ایک جامعہ کی حقیقی کامیابی یہ ہے کہ وہ سیرت سازی کا کام کرے۔ وہ ایسے صاحب علم افراد پیدا کرے جو اپنے ضمیر کا سودا نہ کر سکیں، جن کو دنیا کی کوئی طاقت، کوئی تخریبی فلسفہ، کوئی غلط دعوت وتحریک کسی دام خرید نہ سکے، جو اقبال کے الفاظ میں پورے اعتماد وافتخار کے ساتھ کہہ سکیں
کرم تیرا کہ بے جوہر نہیں میں
غلام طغرل وسنجر نہیں میں
جہاں بینی مری فطرت ہے لیکن
کسی جمشید کا ساغر نہیں میں
دوسرا فرض یہ ہے کہ ہماری جامعات سے ایسے نوجوان نکلیں جو اپنی زندگیاں حق وصداقت اور علم وہدایت کے لیے قربان کرنے کے لیے تیار ہوں، جن کو کسی کے لیے بھوکا رہنے میں وہ لذت آئے جو کسی کو پیٹ بھر کر کھانے اور نائے ونوش میں آتی ہے، جن کو کھونے میں وہ مسرت حاصل ہو جو بعض اوقات کسی کو پانے میں نہیں ہوتی، جو اپنی جوانی کی بہترین توانائیاں، ذہن کی بہترین صلاحیتیں اور اپنے جامعہ کا بہترین عطیہ جس سے ان کی جھولی بھر دی گئی ہے، انسانیت کو تباہی سے بچانے کے لیے صرف کریں۔
دانش گاہوں کو دیکھنا چاہئے کہ وہ اعلی صلاحیت کے لوگ کتنی تعداد میں پیدا کر رہی ہیں؟ میں صفائی سے کہتا ہوں کہ اب کسی ملک کی یہ تعریف نہیں کہ وہاں بڑی تعداد میں یونیورسٹیاں ہیں، یہ کوتاہ نظری اب بہت پرانی ہو گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ علم کے شوق میں، جستجو کی راہ میں، علم واخلاق کے پھیلانے اور برائیوں، بد اخلاقیوں، سفاکی ودرندگی، دولت وقوت کی پرستش کو روکنے کے لیے کتنے آدمی اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں، اپنی قوم کو صاحب شعور، مہذب اور باضمیر قوم بنانے کے لیے کتنی تعداد میں نوجوان موجود ہیں جو اپنی ذاتی سربلندی اور ترقی سے آنکھیں بند کر کے اس مقصد کے لیے اپنے کو وقف کرتے ہیں۔ اصل معیار یہ ہے کہ کتنے نوجوان ایسے ہیں جو دنیا کی تمام آسائشوں اور ترقیوں سے آنکھیں بند کر کے کسی گوشے میں ٹھوس علمی وتعمیری کام کر رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ادب، شاعری، فنون لطیفہ، حکمت وفلسفہ، تصنیف وتالیف سب کا مقصد یہ ہے کہ ملک وملت میں ایک نئی زندگی اور روح پیدا ہو اور وہ سراب کی نمود اور شعلہ کی بھڑک نہ ہو۔ میں اس وقت ترجمان حقیقت ڈاکٹر محمد اقبال کے یہ شعر پڑھوں گا جو انہوں نے اگرچہ کسی ادیب یا شاعر سے مخاطب ہو کر کہے تھے لیکن یہ علم وادب، فلسفہ وحکمت سب پر صادق آتے ہیں:
اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے
یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا
شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا
حضرات!
اب آخر میں مجھے اپنے ان قابل مبارک باد بھائیوں سے جو یہاں سے سند لے کے جا رہے ہیں، یا ان خوش نصیب عزیزوں سے جو ابھی اس چمن علم کی خوشہ چینی میں مصروف ہیں، کچھ کہنے کی اجازت دیجئے۔ میں اپنی بات کہنے میں (جو شاید کسی قدر خشک اور سنجیدہ ہو) ایک دلچسپ کہانی کا سہارا لوں گا، جو شاید آپ کے کانوں کا ذائقہ تبدیل کرنے میں مدد کرے۔
راوی صادق البیان کہتا ہے کہ ایک بار چند طلبا تفریح کے لیے ایک کشتی پر سوار ہوئے۔ طبیعت موج پر تھی، وقت سہانا تھا، ہوا نشاط انگیز اور کیف آور تھی اور کام کچھ نہ تھا۔ یہ نوعمر طلبا خاموش کیسے بیٹھ سکتے تھے۔ جاہل ملاح دلچسپی کا اچھا ذریعہ اور فقرہ بازی، مذاق وتفریح طبع کے لیے بے حد موزوں تھا۔ چنانچہ ایک تیز طرار صاحبزادے نے اس سے مخاطب ہو کر کہا ’’چچا میاں آپ نے کون سے علوم پڑھے ہیں؟‘‘
ملاح نے جواب دیا ’’میاں میں نے کچھ پڑھا لکھا نہیں‘‘
صاحبزادہ نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا ’’ارے آپ نے سائنس نہیں پڑھی؟‘‘
ملاح نے کہا ’’میں نے تو اس کا نام بھی نہیں سنا‘‘
دوسرے صاحبزادہ بولے ’’جیومیٹری اور الجبرا تو آپ ضرور جانتے ہوں گے؟’’
ملاح نے کہا ’’حضور یہ نام میرے لیے بالکل نئے ہیں‘‘
اب تیسرے صاحبزادے نے شوشہ چھوڑا ’’مگر آپ نے جیوگرافی اور ہسٹری تو پڑھی ہی ہوگی؟’’
ملاح نے جواب دیا ’’سرکار یہ شہر کے نام ہیں یا آدمی کے؟‘‘
ملاح کے اس جواب پر لڑکے اپنی ہنسی ضبط نہ کر سکے اور انہوں نے قہقہہ لگایا۔ پھر انہوں نے پوچھا ’’چچا میاں تمہاری عمر کیا ہوگی؟’’ ملاح نے بتایا ’’یہی کوئی چالیس سال‘‘ لڑکوں نے کہا ’’آپ نے اپنی آدھی عمر برباد کی اور کچھ پڑھا لکھا نہیں‘‘
ملاح بے چارہ خفیف سا ہو کر رہ گیا اور چپ سادھ لی۔
قدرت کا تماشا دیکھئے کہ کشتی کچھ ہی دور گئی تھی کہ دریا میں طوفان آ گیا، موجیں منہ پھیلائے ہوئے بڑھ رہی تھیں اور کشتی ہچکولے لے رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ اب ڈوبی تب ڈوبی۔ دریا کے سفر کا لڑکوں کا پہلا تجربہ تھا، ان کے اوسان خطا ہو گئے، چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ اب جاہل ملاح کی باری آئی۔ اس نے بڑی سنجیدگی سے منہ بنا کر پوچھا، بھیا تم نے کون کون سے علم پڑھے ہیں؟
لڑکے اس بھولے بھالے جاہل ملاح کا مقصد نہیں سمجھ سکے اور کالج یا مدرسہ میں پڑھے ہوئے علوم کی لمبی فہرست گنانی شروع کر دی اور جب وہ یہ بھاری بھرکم اور مرعوب کن نام گنا چکے تو اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا ’’ٹھیک ہے، یہ سب تو پڑھا لیکن کیا پیراکی بھی سیکھی ہے؟ اگر خدا نخواستہ کشتی الٹ جائے تو کنارے کیسے پہنچ سکو گے؟ ‘‘ لڑکوں میں کوئی پیرنا نہیں جانتا تھا، انہوں نے بہت افسوس کے ساتھ جواب دیا ’’چچا جان یہی ایک علم ہم سے رہ گیا تھا، ہم اسے نہیں سیکھ سکے‘‘
لڑکوں کا جواب سن کر ملاح زور سے ہنسا اور کہا ’’میاں میں نے تو اپنی آدھی عمر کھوئی مگر تم نے تو پوری عمر ڈبوئی اس لیے کہ اس طوفان میں تمہارا پڑھا لکھا کام نہ آئے گا، آج پیراکی ہی تمہاری جان بچا سکتی ہے اور وہ تم جانتے ہی نہیں۔‘‘
آج بھی دنیا کے بڑے بڑے ترقی یافتہ ملکوں میں جو بظاہر دنیا کی قسمت کے مالک بنے ہوئے ہیں، صورت حال یہی ہے کہ زندگی کا سفینہ گرداب میں ہے، دریا کی موجیں خونخوار نہنگوں کی طرح منہ پھیلائے ہوئے بڑھ رہی ہیں، ساحل دور ہے او رخطرہ قریب، لیکن کشتی کے معزز ولائق سواریوں کو سب کچھ آتا ہے مگر ملاحی کا فن اور پیراکی کا علم نہیں آتا۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے سب کچھ سیکھا ہے، لیکن بھلے مانسوں، شریف، خدا شناس اور انسانیت دوست انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کا فن نہیں سیکھا۔ اقبال نے اپنے ان اشعار میں اسی نازک صورت حال اور اس عجیب وغریب تضاد کی تصویر کھینچی ہے جس کا اس بیسویں صدی کا مہذب اور تعلیم یافتہ فرد بلکہ معاشرہ کا معاشرہ شکار ہے:
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم وپیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع وضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
شریفانہ انسانی زندگی گزارنے کا بنیادی فن خدا ترسی، انسان دوستی، ضبط نفس کی ہمت وصلاحیت، ذاتی مفاد پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دینے کی عادت، انسانیت کا احترام، انسانی جان ومال، عزت وآبرو کے تحفظ کا جذبہ، حقوق کے مطالبہ پر ادائے فرض کو ترجیح، مظلوموں اور کمزوروں کی حمایت وحفاظت اور ظالموں اور طاقت وروں سے پنجہ آزمائی کا حوصلہ، ان انسانوں سے جو دولت وجاہت کے سوا کوئی جوہر نہیں رکھتے، عدم مرعوبیت وبے خوفی، ہر موقع پر اور خود اپنی قوم ،اپنی جماعت کے مقابلے میں کلمہ حق کہنے کی جرات، اپنے اور پرائے کے معاملہ میں انصاف کی ترازو کی تول، کسی دانا وبینا طاقت کی نگرانی کا یقین اور اس کے سامنے جواب دہی اور حساب کا کھٹکا، یہی صحیح ،خوشگواروبے خطر اور کامیاب زندگی گزارنے کی بنیادی شرطیں اور ایک اچھے وخوش اسلوب معاشرہ اور ایک طاقتور ومحفوظ وباعزت ملک کی حقیقی ضرورتیں اور اس کے تحفظ کی ضمانتیں ہیں۔ اس کی تعلیم اور اس کے لیے مناسب ماحول مہیا کرنا دانش گاہوں کا اولین فرض اور اس کا حصول تعلیم یافتہ نسل اور ملک کے دانش وروں کی پہلی ذمہ داری ہے، اور ہم کو اس جیسے تمام مواقع پر دیکھنا چاہئے کہ اس کام کی تکمیل میں ہماری دانش گاہیں کتنی کامیاب اور ان کے سند یافتہ افراد وفضلا کتنے قابل مبارک باد ہیں اور آئندہ ان مقاصد کے حصول اور تکمیل کے لیے ہم کیا عزائم رکھتے ہیں، اور ہم نے کیا انتظامات سوچے ہیں۔
آخر میں، میں پھر آپ کی عزت افزائی، اعتماد اور جذبہ محبت واحترام کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس کا آپ نے اپنے اس اقدام کی شکل میں اظہار فرمایا ہے۔
شراب ۔ انسان کی بد ترین دشمن
حکیم محمود احمد ظفر
شراب انسان کی بد ترین دشمن ہے۔اسی وجہ سے قرآن حکیم نے اس کو حرام قرار دیا اور لوگوں کو اس سے اجتناب کا حکم فرمایا۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ہے:
یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیھما اثم کبیر ومنافع للناس واثمھما اکبر من نفعھما۔ (البقرہ ۲۲۰)
لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ ان دونوں چیزوں میں بڑا گناہ ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ فائدہ بھی ہے لیکن ان کا گناہ ان کے فائدہ سے بہت زیادہ ہے۔
دنیا میں صحت کے مشہور ماہر پروفیسرہرش(HIRSCH) نے اس موضوع پر لکھی گئی اپنی کتاب میں کہا ہے:
’’شراب پر پابندی جو مہذب دنیا کا سب سے بڑا ملک امریکہ پندرہ سال تک لاگو نہ کر سکا، وہ اسلام نے گزشتہ چودہ صدیوں میں لاگو کر رکھی ہے اور اس طریقہ سے اس نے تہذیب وتمدن اور انسانیت کو بہت پہلے سے بچا رکھا ہے‘‘
قرآن حکیم میں شراب پر پابندی تین مقامات پر آئی ہے۔ ان میں سے ایک سورہ بقرہ ہے جس میں سے اوپر کی آیت نقل کی گئی ہے۔ دوسرا مقام جو شراب کی پابندی سے متعلق ہے، وہ سورۃ النساء کی آیت ۴۳ ہے اور تیسری جگہ یہ پابندی سورۃ المائدہ آیت ۹۰، ۹۱ میں بیان کی گئی ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک شراب پر پابندی قرآن حکیم میں بتدریج نافذ ہوئی جب کہ بعض علما کاخیال ہے کہ یہ تینوں مقامات بنیادی طور پر ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں۔ اگرچہ بظاہر ان کے بیانات الگ الگ محسوس ہوتے ہیں، لیکن دراصل معنی کے نقطہ نظر سے ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان تینوں سورتوں میں اپنے اپنے انداز میں شراب پر پابندی ہی لگائی گئی ہے البتہ شراب سے پیدا ہونے والے خطرات اور نقصانات کو الگ الگ انداز اور طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ سورۃ المائدہ میں دس دلیلوں سے شراب کو حرام کیا گیا تاکہ لوگوں کے دلوں میں اس کی نفرت جم جائے۔ چنانچہ فرمایا:
یا ایھا الذین آمنوا انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون ۔ انما یرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمر والمیسر ویصدکم عن ذکر اللہ وعن الصلوۃ فھل انتم منتھون۔ (المائدہ : ۹۰، ۹۱)
اے ایمان والو ! شراب، جوا، بتوں کے چڑھاوں کی جگہ اور فال نکالنے والے تیر ناپاک اور شیطانی کاموں میں سے ہیں، ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ شیطان صرف یہ چاہتا ہے کہ وہ شراب اور جوئے کی وجہ سے تمہارے مابین بغض وعداوت پیدا کر دے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے۔ پس کیا تم بازآنے والے ہو؟
اس آیت میں درج ذیل دس دلائل سے شراب کی حرمت کو بیان کیا گیا ہے:
۱۔ شراب کا ذکر جوئے، انصاب اور ازلام کے ساتھ کیا۔ یہ تینوں چیزیں چونکہ حرام ہیں لہذا شراب بھی حرام ہے۔
۲۔ شر اب نوشی کو رجس (ناپاک) کہا گیا اور ہر ناپاک شے حرام ہے۔
۳۔ شراب نوشی کو شیطانی کام فرمایا اور ہر شیطانی کام حرام ہے۔
۴۔ شراب نوشی سے اجتناب کا حکم فرمایا لہذا اجتناب فرض وواجب اور اس کا ارتکاب حرام ہوا۔
۵۔ آخرت ودنیا کی کامیابی اور فلاح کو شراب سے اجتناب پر منحصر کیا لہذا ارتکاب حرام ہوا۔
۶۔ شراب کو شیطان کی طرف سے عداوت کا سبب قرار دیا اور حرام کا سبب بھی حرام ہوتا ہے۔
۷۔ شراب کی وجہ سے شیطان بغض پیدا کرتا ہے اور بغض حرام ہے۔
۸۔ شراب اللہ کے ذکر سے روکنے کا سبب بنتی ہے اور اللہ کے ذکر سے روکنا حرام ہے۔
۹۔ شراب نماز سے روکتی ہے اور نماز سے روکنا حرام ہے۔
۱۰۔ اللہ تعالی نے انتہائی بلیغ ممانعت فرماتے ہوئے استفہاماً فرمایا ہے: ’’تو کیا تم شراب نوشی سے باز آنے والے ہو؟‘‘
سیدہ بریدہؓ فرماتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں بیٹھے شراب پی رہے تھے۔ اس وقت شراب پینا حلال تھا۔ اچانک میں اٹھا اور سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ کو سلام عرض کیا۔ اس وقت شراب کی حرمت کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اس کے آخر میں تھا کہ ’’کیا تم باز آنے والے ہو؟‘‘ میں اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور ان کو یہ دو آیات سنائیں۔ بعض کے ہاتھ میں شراب کا پیالہ تھا جس سے انہوں نے شراب پی لی تھی اور بعض کی شراب ابھی برتن میں موجود تھی۔ انہوں نے پیالے میں شراب زمین پر انڈیل دی اور کہنے لگے : ’’اے ہمارے رب ! ہم باز آ گئے۔ اے ہمارے رب ! ہم باز آ گئے‘‘ (تفسیر طبری ج ۷ ،ص ۴۷۔ السنن الکبری للبیہقی ج ۸، ص ۲۸۵۔ المستدرک للحاکم ج ۱، ص ۱۴۱)
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن حکیم میں ان تینوں سورتوں میں مختلف انداز سے شراب نوشی سے روکا گیا اور اس کی حرمت کو بیان کیا گیا ہے کیونکہ اسلام میں ہر ناپاک اور حرام شے سے مسلمانوں کو روکا گیا ہے۔
احادیث نبویہ میں شراب کی مذمت اور وعید
اسی طرح سرکار دو عالم ﷺ نے بھی شراب کے بارے میں بڑی وعیدیں سنائی ہیں جن میں سے چند حسب ذیل ہیں:
۱۔ سیدنا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’زنا کرتے وقت زانی میں ایمان کامل نہیں ہوتا اور شراب پیتے وقت شرابی میں ایمان کامل نہیں ہوتا اور چوری کرتے وقت چور میں ایمان کامل نہیں ہوتا‘‘ (بخاری ج ۲، ص ۸۳۶۔ نسائی، حدیث نمبر ۵۶۷۵۔ مسلم، حدیث نمبر ۱۰۱)
۲۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ آقائے دو جہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جس نے دنیا میں شراب پی، وہ آخرت میں (جنت کی شراب طہور) سے محروم رہے گا‘‘ (بخاری ج ۲، ص ۸۳۶)
۳۔ سیدنا عبد اللہ ابن عمرو ابن العاصؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’جس شخص نے شراب پی، چالیس روز تک اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ پھر اگر وہ توبہ کر لے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ پھر اگر وہ دبارہ شراب پیے تو اللہ تعالی پھر چالیس روز تک اس کی توبہ قبول نہیں فرماتے۔ پھر اگر وہ توبہ کر لے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول کر لیتے ہیں۔ پھر اگر وہ شراب پیے تو اللہ پر حق ہے کہ وہ اس کو دوزخیوں کی پیپ پلائے۔‘‘ (نسائی، حدیث نمبر ۵۶۸۶۔ ابن ماجہ ، حدیث نمبر ۳۳۷۷)
۴۔ سیدنا عبد اللہ ابن عمرو بن العاصؓ ہی سے ایک اور روایت ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’احسان جتلانے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا، نہ والدین کا نافرمان اور نہ شراب کا پینے والا‘‘ (نسائی ، حدیث نمبر ۵۶۸۸)
۵۔ سیدنا ابو مالک اشعریؓ فرماتے ہیں کہ سید دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’عنقریب میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب اور آلات موسیقی کو حلال کہیں گے۔ اور عنقریب کچھ لوگ پہاڑ کے دامن میں رہیں گے۔ جب را ت کو وہ اپنے جانوروں کا ریوڑ لے کر واپس لوٹیں گے اور ان کے پاس کوئی فقیر اپنی حاجت لے کر آئے گا تو وہ اس سے کہیں گے، کل آنا۔ اللہ تعالی پہاڑ گرا کر ان کو ہلاک کر دے گا۔ اور دوسرے لوگوں یعنی زنا، شراب اور آلات موسیقی کو حلال کہنے والوں کو مسخ کر کے قیامت کے روز بندر اور سور بنا دے گا‘‘ (بخاری، ج ۲، ص ۸۳۷)
۶۔ سیدنا عبد اللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالی نے شراب پر لعنت فرمائی ہے، اور شراب پینے والے پر، شراب پلانے والے پر، شراب فروخت کرنے والے پر، شراب خریدنے والے پر، شراب کو انگوروں سے نچوڑنے والے پر، اس کو بنانے والے پر، اس کو لادنے والے پر اور اس پر بھی جس کے پاس لاد کر لے جائی جائے‘‘ (سنن ابی داؤد، ج ۲، ص ۱۶۱)
۷۔ سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ہر وہ شے جو عقل کو ڈھانپ لے، وہ شراب ہے اور ہر نشہ آور شے حرام ہے۔ اور جس شخص نے کسی نشہ آور شے کو پیا، اس کی چالیس روز کی نمازیں ناقص ہو جائیں گی اور اگر توبہ کی تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرما لے گا اور اگر اس نے چوتھی بار شراب پی تو اللہ تعالی پر حق ہے کہ اس کو طینۃ الخیال سے پلائے۔ آپ سے پوچھا گیا کہ طینۃ الخیال کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: دوزخیوں کی پیپ۔‘‘ (ابو داؤد ج ۲، ص ۱۶۲)
۸۔ عروہ بن رویم بیان کرتے ہیں کہ ابن الدیلمی سوار ہو کر سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ کی تلاش میں گئے۔ جب ان کے پاس پہنچے تو کہا : ’’اے عبد اللہ بن عمرو، کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے شراب کے بارے میں کچھ سنا ہے؟انہوں نے فرمایا : ہاں۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت میں سے جو شخص شراب پیے گا، اللہ تعالی اس کی چالیس روز کی نمازیں قبول نہیں فرمائے گا‘‘ (سنن نسائی، حدیث نمبر ۵۶۸۰۔ سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر ۳۳۷۷)
۹۔ سیدنا معاویہؓ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص شراب پیے، اس کو کوڑے مارو۔ اگر وہ چوتھی دفعہ پیے تو اس کو قتل کر دو‘‘ (ترمذی ص ۲۲۸)
۱۰۔ سیدنا عثمانؓ فرماتے ہیں کہ شراب سے اجتناب کرو۔ یہ تمام گناہوں کی اصل ہے۔ تم سے پہلی امتوں میں ایک شخص جو نہایت عبادت گزار تھا، اس پر ایک بدکار عورت فریفتہ ہو گئی۔ اس نے اپنی لونڈی بھیج کر اس کو کسی بہانے سے بلایا۔ جب وہ عبادت گزار شخص اس کے پاس پہنچا تو اس نے دروازہ بند کر دیا۔ اس نے دیکھا کہ وہاں ایک حسین وجمیل عورت ہے، ایک لڑکاہے اور ایک شراب کا برتن ہے۔ اس بدکار عورت نے اس سے کہا : ’’خدا کی قسم ! میں نے تم کو گواہی کے لیے نہیں بلایا بلکہ اس لیے بلایا ہے کہ تم میری خواہش نفس پوری کر و یا اس شراب کو پیو یا اس لڑکے کو قتل کر دو۔‘‘ اس عابدنے (شراب کو کم تر گناہ سمجھتے ہوئے) کہا : مجھے اس شراب سے ایک پیالہ پلا دو۔ اس عورت نے اس کو ایک پیالہ شراب پلائی۔ اس نے کہا، اور پلاؤ۔ (اسی شراب کی مدہوشی میں) پھر اس نے ا س عورت سے بد کاری کی اور اس لڑکے کو بھی قتل کر دیا۔ سو تم شراب سے اجتناب کرو کیونکہ خدا کی قسم ! شراب نوشی کے ساتھ ایمان باقی نہیں رہتا ‘‘ (سنن نسائی، حدیث نمبر ۵۶۸۲)
ان احادیث کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث ہیں جن میں شراب نوشی پر وعید بیان کی گئی ہے، لیکن طوالت کے خوف سے ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
شراب کے نقصانات
سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۱۹ میں بطور خاص شراب کی خرابیاں مادی اور روحانی پہلو سے بھی بیان کی گئی ہیں کیونکہ قرآن حکیم نے نفع کے مقابلہ میں نقصان کا لفظ استعمال نہیں فرمایا بلکہ اثم کا لفظ استعمال کیا جس سے بتانا یہ مقصود تھا کہ اگرچہ دنیوی طور پر تم لوگوں کو اس کے کچھ فوائد نظر آئیں لیکن یاد رکھو اللہ تعالی کے ہاں شراب نوشی کا گناہ اس قدر زیادہ ہے کہ یہ دنیوی فوائد اس کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔لیکن اگر شراب نوشی کا سائنسی علم کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو اس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں جن میں سے چند ایک کو یہاں بیان کیا جاتا ہے۔
اس سے پہلے کہ انسانی صحت پر شراب کے زہریلے اثرات کا پوری طرح سے جائزہ لیا جائے، ہمیں اس کے کیمیاوی اجزا کے متعلق تھوڑا سا ادراک حاصل کرنا چاہئے۔
علم کیمیا (Chemistry) کی رو سے ہمیں یہ معلوم ہے کہ الکحل اشیا، خاص طور پر چربی کو، گلانے یا حل کرنے کے لیے ایک طاقتور محلول ہے۔ غذائی اصطلاحات میں یہ حل کرنے والی چیز نہیں بلکہ توڑ پھوڑ کے عمل پر منتج ہے۔ دوسرے لفظوں میں بنیادی خوراک یعنی شکر کو بیکٹیریا یا جراثیم کے ذریعے سے ہضم کرنے کے سلسلہ میں پیدا ہونے والی یہ ایک کیمیاوی ذیلی خوراک (Biproduct) ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر شراب انسانی جسم کے لیے ایک نقصان دہ کیمیکل تسلیم کیا گیا ہے اور انسانی جگراس کو فورا توڑ دیتا ہے یعنی اس کی زہرناکی کو ختم کرنے میں لگ جاتا ہے۔ اس عمل کو Deoxified کہتے ہیں۔ چنانچہ شراب یا الکحل کی یقیناًکوئی غذائی اہمیت نہیں ہے جس کا دعوی اس کے رسیا اکثر وبیشتر کرتے ہیں۔ جب یہ جسم کے اندر پہنچتی ہے تو دوسری ہر قسم کی خوراک کے برعکس کنٹرول سے باہر خامروں کی تبدیلیMetabolized یا ہضم ہو جاتی ہے۔ صرف یہی ایک ظاہری فائدہ اس آیت کریمہ میں بتایا گیا ہے۔ شراب یا الکحل کیا اثرات ڈالتی ہے، اس کو ذیل میں ہم تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔
نظام ہضم پر شرا ب کے اثرات
شراب کا سب سے پہلا برا اثر منہ سے شروع ہوتا ہے۔ عام طور پر منہ کے اندر ایک خاص قسم کا زندہ ماحول (Flora) ہوتا ہے جو ایک لعاب کی صورت میں ہے۔ نقصان دہ جراثیم کے لیے اس ماحول میں زندہ رہ جانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ مگر چونکہ شراب کی وجہ سے اس ماحول کی شدت اور قوت بتدریج کم ہوتی جاتی ہے، اس لیے اس کا نتیجہ مسوڑھوں میں زخم (Inflection) اور سوجن کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ شراب کے عادی لوگوں کے دانت نہایت تیزی سے خراب اور فرسودہ ہو جاتے ہیں۔
منہ کے بعد گلے اور خوراک کی نالی (Esophagus) کی باری آتی ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے ملحق ہوتے ہیں۔ یہ نہایت مشکل کام سرانجام دیتے ہیں اور ان پر نہایت حساس استر (Mucous Membrane) کی تہہ ہوتی ہے۔ شراب کے اثر سے اس حساس تہہ پر برا اثر پڑتا ہے اور جلن کا باعث بنتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان دونوں اعضا کے اندر ضعف پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اکثر اوقات یہ اعضا سرطان (Cancer) کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دراصل وہ ادارے جو سرطان جیسے موذی مرض کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں، ۱۹۸۰ء کے بعد سے شراب کے خلاف دور رس اقدامات کر رہے ہیں۔
یہ بات تو ہر شخص کے علم میں ہے کہ شراب کی وجہ سے معدے کی خطرناک بیماریاں مثلا Gastritis پیدا ہوتی ہیں۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ یہ خون میں موجود لائپیڈ (Lipid) جو ایک خاص قسم کی چربی ہوتی ہے، اس کے استعمال سے تحلیل ہو جاتی ہے۔ یہ لائیپڈ ایک طرح کی حفاظتی تہہ مہیا کرتا ہے جس پر تیزابیت یعنی ہائیڈرو کلورک ایسڈ کا نقصان دہ اثر نہیں ہوتا۔ اسی تہہ کی وجہ سے معدہ خود اپنے آپ کو ہضم نہیں کر سکتا۔ اگرچہ فی الحال یہ پوری طرح ثابت نہیں ہوا کہ جس طرح شراب گلے اورپینے کی نالی میں سرطان کا باعث بنتی ہے، معدے کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے، لیکن اس خیال کو تقویت حاصل ہوتی جا رہی ہے کہ معدے کے کینسر میں بھی شراب کی کارستانی ہوتی ہے۔
شراب کا سب سے زیادہ نقصان دہ اثر بارہ انگشتی آنت (Dudenum) پر ہوتا ہے۔ اس جگہ نہایت نازک کیمیائی اثرات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ شراب اس کی اس خاصیت کو متاثر کرتی ہے جو مخصوص ہاضم لعاب خارج کرنے کی صلاحیت سے تعلق رکھتی ہے اور اس کی کیمیائی حساسیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ہاضمہ کے لیے اس اہم راستے کی تباہی کے بعد شراب جگر سے پیدا ہونے والے ہاضم لعاب (Bile) کے اخراج پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ تمام شرابیوں کی بارہ انگشتی آنت اور پتہ کی جھلی ہمیشہ بیماری کا شکار ہوتی ہیں یا ان کا کام اکثر صحیح نہیں ہوتا۔ یہ حالت ہر شرابی کو گیس اور بد ہضمی کے ذریعہ مصیبت میں ڈالے رکھتی ہے۔ معدے کی یہ تکالیف آنتوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ چنانچہ نظام ہضم کے کمپیوٹر کی طرح کام کرنے والے نظام کی حسن ترتیب اور ہم آہنگی بھی تباہ وبرباد ہو جاتی ہے۔ اگرچہ ایک صحت مند انسانی جسم ہر اس شے کو ہضم کر لیتا ہے جس کی اسے ضرورت ہوتی ہے، یہ نظام ہضم کو خاص قسم کی ہدایات جاری کرنے سے ہوتا ہے، مگر زیادہ اور مستقل طور پر شراب پینے والوں کے معاملہ میں یہ کنٹرول یک قلم ختم ہو جاتا ہے اور ہضم کرنے کا عمل بلا روک ٹوک اور بغیر کسی تمیز کے جاری رہتا ہے۔ اس کا نتیجہ موٹاپے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اس لیے کہ بے تحاشا ہضم اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کر سکتا کہ خلیوں کی درمیانی جگہ (Interstices) میں چربی کا ذخیرہ کرنا شروع کر دے۔ درحقیقت چربی کی یہ کثیر مقدار دل کے پٹھوں کے نظام پر مایو کارڈک ٹیشو (Myo Cardic Tissue) پر چھا جاتی ہے اور اس طرح دل کی خطرناک قسم کی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
شراب کا سب سے زیادہ خراب اثر جگر (Liver) پر ہوتا ہے۔ انسانی جگر وہ حساس لیبارٹری ہے جو شراب کے ہر ایک چھوٹے سے چھوٹے سالمے کو زہر کی طرح محسوس کرتا ہے۔ جگر پر شراب کا اثر دو طرح سے ہوتا ہے:
۱۔ شراب خوری کی صورت میں جگر کے خلیے (Cells) الکحل ختم کرنے کی ذمہ داری میں پوری طرح مصروف ہو جاتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے دوسرے کاموں کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔
۲۔ جگر کے کیمیاوی عمل جو ایک سے ایک بڑھ کر حساس ہوتے ہیں، شراب کے بلا روک ٹوک اثر کے تحت درہم برہم ہو جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جگر کو ایک ہی عمل بار بار دہرانا پڑتا ہے اور اس طرح بے پناہ مسلسل اور بلا ضرورت محنت اور مشقت سے جگر کو کمزوری اور ضعف واقع ہو جاتا ہے۔
یہ اثرات جگر کے لیے خطرناک نتائج پیدا کرتے ہیں۔ ان اثرات میں زیادہ مشہور جگر کا سکڑنا (Cyrrhosis) ہوتا ہے جو اس کا زندہ ثبوت ہوتا ہے کہ جگر کی بربادی مکمل ہو چکی ہے۔ زیادہ خطرناک ممکنات میں سے یہ بھی ہے کہ شراب کا استعمال ایک ایک کر کے جگر کے تمام فعلوں کو تباہ کر دے۔
ان فعلوں میں سے پہلا فعل وہ ہے جس میں جگر ان اجزا کو پیدا کرتا ہے جس سے خون کا عمل ظہور پذیر ہوتا ہے۔ چونکہ جگر ان اجزا کو پیدا نہیں کر سکتا یا اس کی پیداوار بہت زیادہ کم ہو جاتی ہے، اس وجہ سے تمام عادی شرابی اندر سے کمزور (Anaemic) ہوتے ہیں یعنی ان میں خون کی کمی ہوتی ہے۔ اگرچہ ان کے چہرے خون کی نالیوں کے بڑھنے یا کھلنے کی وجہ سے تندرست اور تنومند نظر آتے ہیں لیکن ان کی ہڈیوں کے گودے (Bone Marrow) تباہ ہو چکے ہوتے ہیں یعنی درحقیقت خون کی پیداوار کا عمل ختم یا بے حد کم ہو چکا ہوتا ہے۔
مزید برآں جگر کی وہ طاقت جس کی وجہ سے جسمانی تحفظ کے اعضا جیسے مختلف قسم کے گلوبلین بالخصوص امیونو گلوبلین (Immuno Globulin) بنتے ہیں، شرابیوں میں خطرناک حد تک کم ہو جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں بیماریوں کے خلا ف مدافعت کم سے کم ہو جاتی ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ گلوبلین لحمیات کے وہ گروہ ہوتے ہیں جو معدنی نمکیات کے ہلکے محلولوں میں حل پذیر ہوتے ہیں۔ یہ خون کے سرخ خلیوں میں پائے جاتے ہیں اور حدت کو جذب کرتے ہیں۔
شراب بعض اوقات جگر کے فعل کے اچانک رک جانے کی وجہ بھی بن جاتی ہے۔ اس صورت میں ایک شرابی بے ہوشی کے عالم ہی میں مر جاتا ہے۔ اسے جگر کا دیوالیہ پن (Liver Bankruptcy) کہتے ہیں۔ جگر کے سلسلے میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی جس میں اس پر شراب کے نقصان دہ اثرات کا ثبوت نہ ملتا ہو۔ اس نکتہ کو میں اس سے زیادہ شدت سے بیان نہیں کر سکتا۔
شراب کا دوران خون پر اثر
دوران خون پر شراب کا اثر دو طرح سے ہوتا ہے۔ ایک تو جگر پر اثر کے ذریعے بالواسطہ ہوتا ہے۔ دوسرا دل کی بافتوں پر، جنہیں میو کارڈک ٹیشو (Myo Cardic Tissue) کہتے ہیں، بلا واسطہ اثر کے ذریعے۔ جگر جو خون میں چربی کی مقدار کو تحلیل کرنے میں سب سے اہم رول ادا کرتا ہے، اس میں ضعف اور خرابی پیدا ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں خون لے جانے والی نسیں سخت ہوجاتی ہیں جسے Arteriosclerosis کہتے ہیں۔ اس سے فشار خون یعنی بلڈ پریشر (Hypertension) کا عارضہ لاحق ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف الکوحل کے تیزی سے جل جانے کے عمل سے خون کے بہاؤ کے مخصوص طریق میں، جسے ہم خون کے بہاؤ کی رفتار کہتے ہیں، گڑبڑ ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے دل کی تھکان واقع ہو جاتی ہے۔ مزید برآں شراب کی وجہ سے دل میں چربی کے ذرات جمع ہو جاتے ہیں اور اعصابی نظام پر نقصان دہ اثرات کے ذریعہ دل کے عمل میں خلل اندازی واقع ہو جاتی ہے۔ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ عادی شرابی بالآخر یا تو جگر کے فعل میں خلل (Cyrrhosis) کی وجہ سے یا ہارٹ فیل ہونے کی وجہ سے اپنے خاتمے کو پہنچتے ہیں۔
وہ شخص جو دل کے عارضہ میں مبتلا ہو، اس کے لیے شراب کا ایک قطرہ لینا بھی ایسے ہے جیسے اسے اپنی زندگی کی کوئی پروا نہیں اور نہ اسے اپنے جسم کے کسی عضو کے نقصان کی پروا ہے۔ شراب کے رسیا کچھ لوگوں کے یہ بھی خیالات ہیں کہ تھوڑی اور مناسب مقدار میں شراب پینے سے دل کے تشنج یا دورے میں افاقہ ہوتا ہے۔ یہ بادی النظر میں شراب کے فوائد میں سے ایک نظر آتا ہے لیکن سائنسی طور پر اس خیال کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہے۔ اگرچہ طبی تحریروں اور کتابوں میں اس قسم کی کوئی تجویز موجود نہیں ہے لیکن بد قسمتی سے بہت سے ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اس کے برعکس سوچتے یا محسوس کرتے ہیں۔
انسانی گردے جنہیں دوران خون کے نظام کا آخری مقام سمجھا جاتا ہے، ان کو بھی شراب کے استعمال سے سخت نقصان پہنچتا ہے۔ اس لیے کہ گردے انتہائی حساس کیمیاوی جوہر کے ملاپ (Valence) کے مقام پر چھلنی کا کام دیتے ہیں لیکن شراب (الکحل) اس نازک عمل کو بھی تہ وبالا کر دیتی ہے۔ یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ وہ شرابیں جن میں الکحل کی مقدار کم ہوتی ہے، گردوں کے لیے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہیں چنانچہ زیادہ مقدار میں Beer پینے والوں کے گردے اکثر خراب ہوتے ہیں۔
لمف والے (Lymphatic) نظام کی انسانی جسم میں بے حد اہمیت ہے۔ ا س نظام کی خون والی نالیاں شراب کے ہاتھوں ناقابل علاج نقصان اٹھاتی ہیں اس لیے کہ چربی والے نامیاتی مرکب لائیپڈ(Lipid) کا اس نظام میں ایک بہت اہم مقام ہوتا ہے۔ شراب کا نقصان دہ اثر ا حیران کن حد تک اس حفاظت بہم پہنچانے والے نظام کو برباد کر دیتا ہے۔ اگر اللہ تعالی نے، جیسا کہ مختلف آیات میں فرمایا گیا ہے، اپنی خصوصی عنایات کے ذریعہ انسانی زندگی کو حفاظت کے دیگر طریقوں سے گھیرا ہوا نہ ہوتا تو ہمیں مزید صراحت سے نظر آتا کہ شراب کس قدر نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
اعصابی نظام پر شراب کا اثر
شراب عصبی خلیوں کی اس باریک جھلی میں داخل ہو جاتی ہے جو نامیاتی چربی جیسے مرکب یعنی لائیپڈ کی حفاظت میں ہوتی ہے۔ اس طرح اس نظام کے برقی رابطہ (Electrical Communication) میں خلل اندازی کرتی ہے۔ یہ خراب اثر دو مختلف ذریعوں سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کا پہلا اثر نشے کے اچانک حملے کی صورت میں ہوتا ہے لیکن اس کا دیرپا اثر بہت ہی خطرناک ہوتا ہے۔ شراب اعصابی نظام کو روز بروز نقصان پہنچاتی ہے جس سے کئی اقسام کی بیماریاں لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔ مزید برآں اگرچہ شروع شروع میں شراب کا خراب اثر معمولی یا غیر واضح بھی ہو ، تب بھی اس کے دیرپا خراب اثرات شروع ہی سے مرتب ہوتے رہتے ہیں چنانچہ کچھ لوگوں کے یہ دعوے کہ ’’مجھے تو شراب سے نشہ نہیں ہوتا یا مجھ پر شراب کا اثر نہیں ہوتا‘‘ محض طفل تسلی اور خود فریبی ہے۔
شراب کے برے اثرات جوانی میں اور بطور خاص بچپن میں بے حد زیادہ ہوتے ہیں۔ عام طو رپر یہ نظام لعاب پیدا کر کے فاسد مادوں کو جسم سے ایک بدرد جیسے عمل سے نکالنے کا کام کرتا ہے۔ معلوم بیماریوں جیسے ہذیان (Delirium) ، کپکپی (Tremen) ، پلائینورٹس (Plyneuritis)اور کورساکوف کے مجموعہ علامات (Korsakof Syndrome) شراب کے اثرات بد کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس کا نہایت برا اثر اعصابی نظام کے مراکز پر ناقابل علاج حد تک ہوتا ہے۔ الفاظ کا بھولنا (Amnesia) اور ہاتھوں کا رعشہ اس اعصابی نقصان کی علامات ہوتی ہیں۔
شراب جس میں چربی پگھلانے کی صلاحیت ہوتی ہے، تخلیقی خلیوں (Reproductive Cells) میں داخل ہو کر ان کو بے حد نقصان پہنچاتی ہے۔ اس کی عام فہم مثالوں میں نئی نسل کی ذہانت میں کمی اور ناقص بالیدگی (Dystrophy) شامل ہیں۔ بہت سے مطالعہ جات اور سروے یہ حقیقت منکشف کرتے جا رہے ہیں کہ ذہنی طور پر غبی بچوں کے والدین اکثر وبیشتر شدید قسم کی شراب نوشی کرتے تھے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ شراب عورت کے تخم (Ovum) اور بیضۂ حیات (Egg-cell) کے خلیے کو بہت آسانی سے نقصان پہنچاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ شرابی ماؤں کے بچے اکثر موروثی طور پر دماغی یا قلبی صدمے (Shock) یا جھٹکے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ شرابی باپ کی طرف سے ایسے واقعات کی تعداد تیس فی صد سے زیادہ تک ہوتی ہے۔
شراب کے معاشرے پر اثرات
یہ حقیقت بار بار ثابت ہو چکی ہے کہ شراب کس طرح معاشرتی تعلقات اور استحکام پر اثر انداز ہوتی ہے۔ شراب سے معاشرے پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، وہ حسب ذیل ہیں:
۱۔ شرابیوں میں زود رنجی یا غصے کے فوری حملے ان کو معاشرے میں لا تعداد تنازعات میں الجھائے رکھتے ہیں۔
۲۔ لا تعداد متواتر طلاقیں معاشرے کے بنیادی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں اور نتیجتا" مجرمانہ ذہنیت کے حامل بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے تمام معاشرہ خطرناک حد تک متاثر ہوتا ہے۔
۳۔ مختلف قسم کے کام کرنے والے مزدوروں اور کاریگروں پر شراب کی وجہ سے بے دلی اور کاہلی کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ اس طرح ان کی کارکردگی اور مہارت پر برا اثر پڑتا ہے جس کا آخری نقصان معاشرے کو پہنچتا ہے۔
۴۔ شراب کی وجہ سے انسانوں میں ایک دوسرے کی طرف غیر ہمدردی کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قومی تفکر، معاشرتی اتحاد اور معاشرتی مسائل کے خلاف جہاد کا جذبہ مکمل طورپر ختم ہو جاتا ہے۔
اوپر بیان کیے گئے چار قسم کے مسائل نے مغربی معاشرت والوں کو اس قدر فکر مند کر رکھا ہے کہ انہوں نے بارہا اپنی اپنی حکومتوں کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے کہ اگر شراب کا استعمال اسی طرح بڑھتا رہا تو ان ملکوں میں قومی جذبہ بالکل ختم ہو جائے گا۔
قرآن حکیم نے اس مسئلہ کی بیخ کنی کر دی ہے جس کے لیے کسی معاشرے اور کسی دانش ور میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اس مسئلے کو اس طرح دو ٹوک طریقہ سے حل کرتا یعنی شراب نوشی کا یہ مسئلہ ان معاشروں کی بنیادوں کو آہستہ آہستہ گھن کی طرح چاٹ رہا ہے جب کہ اللہ کے حکم نے ہمارے معاشرے کو صدیوں سے اس مصیبت سے دور رکھا ہے۔
فقہ اسلامی کے مآخذ قرآن مجید کی روشنی میں
محمد عمار خان ناصر
قرآن مجید دین کا بنیادی ماخذ ہے۔ چنانچہ وہ جہاں دین کے بنیادی احکام بیان کرتا ہے، وہاں ان دوسرے مآخذ کی طرف بھی رہنمائی کرتا ہے جن کی مدد سے عملی زندگی کے مختلف مسائل کے حل کے لیے ایک مفصل ضابطہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ فقہ اسلامی کے تمام بنیادی مآخذ کا ثبوت خود قرآن مجید سے ملتا ہے۔
فقہ اسلامی کے مآخذ دو طرح کے ہیں: نقلی اور عقلی۔ نقلی مآخذ میں قرآن کے علاوہ سنت، اجماع اور سابقہ شریعتیں شامل ہیں، جبکہ عقلی مآخذ کے تحت قیاس، مصالح مرسلہ، سد ذرائع، عرف اور استصحاب حال زیر بحث آتے ہیں۔
سنت
قرآن مجید نہایت واضح طور پر سنت کو دین کا ماخذ قرار دیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی ذمہ داری محض یہ نہیں تھی کہ آپ کتاب اللہ کو پہنچا دیں بلکہ اس کی تبیین اور اس کے احکام کی تشریح بھی آپ کے فرائض منصبی میں شامل تھی۔چنانچہ ارشاد ہے:
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلوا علیھم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ۔
یقیناًاللہ نے مومنوں پر انہی میں ایک رسول بھیج کر بڑا احسان کیا جو انہیں اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا، اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا اور ان کا تزکیہ کرتا ہے۔ (۱)
سورۂ نحل میں ہے:
وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم۔
اور ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل کی جو ایک یاددہانی ہے تاکہ آپ لوگوں کے لیے اس کی تبیین کریں۔ (۲)
قرآن مجید واشگاف انداز میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کوایمان کی بنیاد قرار دیتا اور آپ کی اتباع کو لازم قرار دیتا ہے۔ سورۂ نساء میں ارشاد ہے:
یا ایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ والرسول ان کنتم تومنون باللہ والیوم الاخر۔
اے ایمان والو، اللہ کی، اس کے رسول کی اور اپنے اہل حل وعقد کی اطاعت کرو۔ اگر کسی بات میں تمہارا باہم اختلاف ہو جائے تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔ (۳)
سورۃ النساء ہی میں ہے:
فلا وربک لایومنون حتی یحکموک فی ما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما۔
آپ کے رب کی قسم، یہ ایمان والے نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپ کو اپنے باہمی تنازعات میں حکم تسلیم نہ کر لیں اور پھر آپ جو بھی فیصلہ کریں، اس سے دل میں ذرا بھی تنگی محسوس نہ کریں اور اس کو پوری طرح تسلیم کر لیں۔ (۴)
سورۃ النور میں ہے:
فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبھم فتنۃ او یصیبھم عذاب الیم۔
تو وہ لوگ جو رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اس بات سے ڈریں کہ ان پر کوئی آزمائش آن پڑے یا ایک دردناک عذاب ان کو اپنی گرفت میں لے لے۔ (۵)
سورۃ الاحزاب میں ارشاد ہے :
وما کان لمومن ولا مومنۃ اذا قضی اللہ ورسولہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم ومن یعص اللہ ورسولہ فقد ضل ضلالا مبینا۔
کسی مومن مرد یا عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کو طے کر دیں تو وہ اپنا اختیار استعمال کریں۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے، وہ کھلی گمراہی میں جا پڑے گا۔ (۶)
سورۃ الحشر میں فرمایا:
وما آتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا۔
اور رسول تمہیں جو حکم دیں، اس کو لے لو اور جس کام سے منع کریں، اس سے رک جاؤ۔ (۷)
اجماع
قرآن وسنت کے بعد اجماع فقہ اسلامی کاتیسرا ماخذ تسلیم کیا گیا ہے اور اس کے لیے قرآن مجید کی درج ذیل آیات سے استدلال کیا گیا ہے:
سورۃ آل عمران میں فرمایا:
کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتومنون باللہ۔
تم بہترین امت ہو جسے لوگوں (پر حق کی شہادت دینے) کے لیے مامور کیا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ (۸)
سورۃ النساء میں ارشاد ہے:
ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الھدی ویتبع غیر سبیل المومنین نولہ ما تولی ونصلہ جھنم وساء ت مصیرا۔
اور جس نے ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کی اور مومنوں کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے پر چلا، تو ہم اس کو اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرا اور اس کو جہنم میں جلائیں گے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ (۹)
سابقہ شریعتوں کے احکام
پچھلی شریعتوں کے جن احکام کا ذکر قرآن نے کیا ہے اور ان کے منسوخ ہونے پر کوئی قرینہ نہیں، وہ بھی فقہ اسلامی میں حجت تسلیم کیے گئے ہیں۔ مثلا سورۃ النساء میں فرمایا:
وکتبنا علیہم فیھا ان النفس بالنفس والعین بالعین والانف بالانف والاذن بالاذن والجروح قصاص۔
اور ہم نے تورات میں ان پر لازم کیا کہ جان کے بدلے جان ہے، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان اور زخموں کا بھی بدلہ ہے۔ (۱۰)
بعض اہل علم نے مرتد کے لیے قتل کی سزا پر سورۂ بقرہ میں بنو اسرائیل کے واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ جب انہوں نے بچھڑے کی پوجا کی تو اللہ تعالی نے سزا کے طور پر حکم دیا:
فاقتلوا انفسکم۔
تم اپنے ساتھیوں کو قتل کرو۔ (۱۱)
قیاس
فقہ اسلامی کے عقلی مآخذ میں پہلا ماخذ قیاس ہے اور اس کی حجیت بھی قرآن مجید سے ثابت ہے۔ سورۃ الحشر میں اللہ تعالی نے بنو نضیر کی جلا وطنی کا حال بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے:
فاعتبروا یا اولی الابصار۔
اے اہل نظر، ان کے حال سے عبرت حاصل کرو۔ (۱۲)
عبرت حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے حال پر اپنے حال کو قیاس کرو اور ان کاموں سے بچو جن کی پاداش میں یہود کو یہ سزا دی گئی۔
اس کے علاوہ قرآن مجید نے بعض نظائر کے ذریعے سے بھی اہل علم کو قیا س کی تعلیم دی ہے۔ سورۃ الانعام میں حرام اشیا کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ الا ان یکون میتۃ او دما مسفوحا او لحم خنزیر فانہ رجس او فسقا اھل لغیر اللہ بہ۔
تم کہہ دو کہ مجھ پر جو وحی بھیجی گئی ہے، اس میں میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو، سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو، یا دم مسفوح ہو، یا خنزیر کا گوشت ہو کیونکہ وہ ناپاک ہے، یا کوئی ایسا جانورہو جسے گناہ کرتے ہوئے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔ (۱۳)
اس آیت میں حصر کے ساتھ چار چیزوں کی حرمت بیان کی گئی ہے، لیکن ساتھ ساتھ خنزیر کو ناپاک اور ما اہل لغیر اللہ کو فسق قرار دیتے ہوئے ان کی حرمت کی علت بھی بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح مردار اور دم مسفوح کی حرمت بھی علت پر مبنی ہے۔ چنانچہ خود قرآن نے سورہ مائدہ میں انہی علتوں کی بنیاد پر چند اور چیزیں بھی محرمات کی فہرست میں شامل کی ہیں:
حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اھل لغیر اللہ بہ والمنخنقۃ والموقوذۃ والمتردیۃ۔
تم پر یہ چیزیں حرام کی گئی ہیں :مردار، خون، خنزیر کا گوشت ، غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جانے والا جانور، ایسا جانور جو گلا گھٹنے سے، چوٹ لگنے سے،
والنطیحۃ وما اکل السبع الا ما ذکیتم وما ذبح علی النصب وان تستقسموا بالازلام ذلکم فسق۔
اوپر سے نیچے گر کر یا سینگ لگنے سے مر جائے، ایسا جانور جس کو کسی درندے نے پھاڑ کھایا ہو، (یہ سب حرام ہیں) صرف وہ جانور حلال ہے جسے تم نے ذبح کیا ہو۔ ایسا جانور بھی حرام ہے جسے کسی تھان پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ بھی کہ تم تیروں کے ذریعے سے گوشت تقسیم کرو۔ یہ سب گناہ کے کام ہیں۔ (۱۴)
یہاں علت کی بنا پر پانچ چیزوں کا الحاق میتہ کے ساتھ اور دو چیزوں کا الحاق ما اہل لغیر اللہ کے ساتھ کیا گیا ہے اور آگے علت بھی بیان کی گئی ہے کہ ذلکم فسق۔ یعنی جیسے طبعی موت مرنے والا جانور شرعی طریقے سے ذبح نہ ہونے کی وجہ سے حرام ہے، اسی طرح گلا گھٹنے کی وجہ سے، گر کر، اور سینگ لگنے کی وجہ سے مرنے والے جانور بھی حرام ہیں۔ اور جیسے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جانے والا جانور اعتقادی فسق کی وجہ سے حرام ہے، اسی طرح وہ جانور بھی حرام ہے جسے استھانوں پر ذبح کیا گیا ہو یا مشرکانہ طریقے سے اس پر جوئے کے تیر چلائے گئے ہوں۔
مصالح مرسلہ
قرآن مجید جگہ جگہ یہ بات واضح کرتا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی جو شریعت انسانوں کے لیے نازل کی ہے، اس کا مقصد انسانوں کی صلاح وفلاح اور ان کی دنیاوی واخروی بہبود ہے۔ شریعت کے تمام احکام میں عقل وفطرت پر مبنی انسانی مصالح کی رعایت کی گئی ہے۔ مصالح کا مفہوم دو لفظوں میں جلب منفعت اور دفع حرج یعنی فائدے کا حصول اور نقصان کو دور کرناہے اور قرآن مجید ان کو دین کے بنیادی اصولوں کی حیثیت سے بیان کرتا ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد ہے:
یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر۔
اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے، تنگی نہیں چاہتا۔ (۱۵)
سورۃ النساء میں فرمایا:
یرید اللہ ان یخفف عنکم۔
اللہ چاہتا ہے کہ تم سے سختی کو ہٹا دے۔ (۱۶)
سورۃ الحج میں فرمایا:
ما جعل علیکم فی الدین من حرج۔
اللہ نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ (۱۷)
بہت سے جزوی احکام کے ذکر کے تحت بھی قرآن مجید نے ان اصولوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ چنانچہ لے پالک بیٹے کے حکم کے ضمن میں فرمایا:
لکی لا یکون علی المومنین حرج فی ازواج ادعیاءھم اذا قضوا منھن وطرا۔
تاکہ مسلمانوں کو اپنے لے پالک بیتوں کی بیویوں سے نکاح کرنے میں کوئی تنگی نہ ہو جب وہ ان سے قطع تعلق کر لیں۔ (۱۸)
تیمم کا حکم بیان کرنے کے بعد فرمایا :
ما یرید اللہ لیجعل علیکم من حرج۔
اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی ڈالے۔ (۱۹)
وراثت کی تقسیم کے ضمن میں فرمایا:
لا تدرون ایھم اقرب لکم نفعا۔
تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون نفع کے پہلو سے تمہارے زیادہ قریب ہے (اس لیے اللہ نے یہ حصے خود متعین کر دیے ہیں) (۲۰)
کھانے پینے میں حرام اشیا کے ذکر کے بعد فرمایا:
فمن اضطر غیر باغ ولا عاد فلا اثم علیہ۔
تو جو مجبور ہو جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ خواہش نفس کے تحت اور ضرورت سے زیادہ نہ کھائے۔ (۲۱)
بچے کی رضاعت کے احکام بیان کرتے ہوئے فرمایا:
لا تضار والدۃ بولدھا ولا مولود لہ بولدہ۔
نہ ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے تکلیف دی جائے اور نہ باپ کو (۲۲)
کفار کے ظلم کا شکار مسلمانوں کی مدد کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض وفساد کبیر۔
اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد پھیل جائے گا۔ (۲۳)
قصاص کے قانون کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
ولکم فی القصاص حیوۃ یا اولی الالباب۔
اے ارباب عقل، تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ (۲۴)
دس گنا دشمن کے مقابلے میں میدان جنگ میں ٹھہرنے کے حکم کو منسوخ کرکے فرمایا:
الآن خفف اللہ عنکم وعلم ان فیکم ضعفا۔
اب اللہ نے تمہارے لیے تخفیف کر دی اور جان لیا کہ تمہارے اندر کمزوری ہے۔ (۲۵)
مال فے کی تقسیم کے بارے میں ہدایات دینے کے بعد فرمایا:
کی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم۔
تاکہ ایسا نہ ہو کہ یہ مال تمہارے مال داروں کے مابین ہی گردش کرتا رہے۔ (۲۶)
سورۃ البقرۃ میں دیت کا حکم دے کر فرمایا:
ذلک تخفیف من ربکم ورحمۃ۔
یہ تمہارے رب کی طرف سے آسانی اور مہربانی ہے۔ (۲۷)
سورۃ البقرۃ میں یتیموں کے مال کو سرپرستوں کے مال میں ملا لینے کی اجازت دینے کے بعد فرمایا:
ولو شاء اللہ لاعنتکم۔
اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا (لیکن اللہ آسانی چاہتا ہے) (۲۸)
اس سے واضح ہے کہ جب شریعت کے منصوص احکام میں تمام تر انسانی مصالح ملحوظ ہیں تو غیر منصوص احکام میں بھی ان مصالح کی رعایت ملحوظ رہنی چاہئے، چنانچہ جمہور فقہا نے، جزوی اختلافات سے قطع نظر،اصولی طور پرمصالح کو فقہ اسلامی کا ایک اہم ماخذ تسلیم کیا ہے۔
سد ذرائع
سد ذرائع کا اصول درحقیقت ان مصالح ہی کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہے جن کی شریعت میں رعایت کی گئی ہے۔ ا س کا مطلب ہے ان چیزوں سے بچنا جو کسی پہلو سے شریعت کے معین کردہ مصالح کو نقصان پہنچا سکتی یااس کی حرام کردہ چیزوں کے ارتکاب کا باعث بن سکتی ہیں۔قرآن مجید نے اس اصول کی بھی وضاحت کی ہے اور اسے بہت سے شرعی احکام کی بنیاد کے طور پر بیان کیا ہے:
سورۂ نور میں دوسروں کے گھروں میں داخل ہونے کے متعلق بعض ہدایات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:
ذلکم خیر لکم لعلکم تذکرون۔
یہ تمہارے لیے بہتر ہے تاکہ تم یاد دہانی حاصل کرو (۲۹)
اسی سلسلہ بیان میں آگے لباس کے بارے میں بعض ہدایات دے کر فرمایا:
ذلک ازکی لھم۔
یہ ان کیلیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ (۳۰)
اسی طرح سورۃ الاحزاب میں رسول اللہ ﷺ کی ازواج کو مخاطب کر کے فرمایا:
فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قولا معروفا۔
تم نرم لہجے میں بات نہ کرو، تاکہ وہ آدمی جس کے دل میں بیماری ہے، کسی توقع میں مبتلا نہ ہو، اور بھلے طریقے سے بات کرو۔ (۳۱)
آگے ازواج مطہرات کے حوالے سے امت کو بعض آداب کی تعلیم دینے کے بعد فرمایا:
ذلکم اطھر لقلوبکم وقلوبھن۔
یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ (۳۲)
اسی ضمن میں آگے چل کر مسلمان عورتوں کے لیے حجاب کا حکم بیان کرنے کے بعد فرمایا:
ذلک ادنی ان یعرفن فلا یؤذین۔
یہ اس بات کے زیادہ قرین ہے کہ ان کا (آوارہ عورتوں سے) امتیاز ہو جائے اور ان کو ایذا نہ پہنچائی جائے۔ (۳۳)
اس سے واضح ہے کہ مذکورہ تمام ہدایات کا مقصد معاشرتی شرم وحیا اور خانگی پردہ داری کی حفاظت ہے جو ظاہر ہے کہ ان ہدایات کی پامالی کی صورت میں قائم نہیں رہ سکتی۔
قرآن مجید میں بعض ایسے معاملات میں بھی سد ذرائع کے تحت بعض ہدایات دی گئی ہیں جن کا تعلق بنیادی طور پر دین وشریعت سے نہیں بلکہ دیگرانفرادی یا اجتماعی مصلحتوں سے ہے :
سورۃ البقرۃمیں گواہی سے متعلق ہدایات کے ضمن میں ارشاد ہے:
فان لم یکونا رجلین فرجل وامراتین ممن ترضون من الشھداء ان تضل احداھما فتذکر احداھما الاخری۔
اگر گواہی کے لیے دو مرد نہ مل سکیں تو پھر اپنے پسندیدہ گواہوں میں سے ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لو تاکہ اگر ایک بھولے تو دوسری اس کو یاد کرا دے۔ (۳۴)
مزید فرمایا:
ولا تسئموا ان تکتبوہ صغیرا او کبیرا الی اجلہ ذلکم اقسط عند اللہ واقوم للشھادۃ وادنی الا ترتابوا ۔
معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا، اس کی باہم طے ہونے والی مدت کو لکھ لینے سے مت اکتاؤ۔ یہ طریقہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف والاہے، گواہی کے لحاظ سے بھی بہتر ہے اور اس کے بھی زیادہ قرین ہے کہ تم کسی شک وشبہے میں مت پڑو۔ (۳۵)
سورۂ آل عمران میں کفار کے ساتھ دوستی کی حدود بیان کرتے ہوئے ارشاد ہے:
یایھا الذین آمنوا لا تتخذوا بطانۃ من دونکم لا یالونکم خبالا ودوا ما عنتم۔
اے ایمان والو، کفار کو اپنا بھیدی نہ بناؤ۔ وہ تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے اور تمہارے مشقت میں پڑنے کو پسند کرتے ہیں۔ (۳۶)
سورۃ النسائمیں اہم معاملات سے متعلق اطلاعات اور خبروں کے حوالے سے درج ذیل ہدایت دی:
واذا جاء ھم امر من الامن او الخوف اذاعوا بہ ولو ردوہ الی الرسول والی اولی الامر منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم۔
اور جب امن یا جنگ کی کوئی بات ان تک پہنچتی ہے تو یہ فورا اس کو نشر کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اگر یہ اسے رسول یا اپنے اہل حل وعقد کے پاس لے جاتے تو ان میں سے معاملے کی گہرائی تک پہنچنے والے لوگ اس کی حقیقت معلوم کر لیتے۔ (۳۷)
اسی طرح قرآن مجید کے درج ذیل احکام سے معلوم ہوتا ہے کہ سد ذرائع کے تحت بعض مباح چیزوں کو واجب کیا جا سکتا اور بعض پر پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے:
رسول اللہ ﷺ کی مجالس میں مسلمانوں کو اگر کسی بات کی وضاحت دریافت کرنا ہوتی تو وہ آپ ﷺ کو راعنا (یعنی ہمارا لحاظ کیجئے) کے لفظ سے مخاطب کرتے۔ یہود مدینہ شرارت اور گستاخی کے لیے اسی لفظ کو تھوڑا سا بگاڑ کر یوں ادا کرتے راعینا (ہمارا چرواہا) چنانچہ اللہ تعالی نے یہ ہدایت نازل فرمائی کہ مسلمان راعنا کا لفظ ہی استعمال نہ کریں تاکہ یہود کو یہ خباثت کرنے کا موقع نہ مل سکے:
یا ایھا الذین آمنوا لا تقولوا راعنا وقولوا انظرنا۔
اے اہل ایمان، تم راعنا مت کہا کرو بلکہ انظرنا کہا کرو۔ (۳۸)
رسول اللہ ﷺ کو تنگ کرنے کے لیے منافقین نے یہ روش اپنائی تھی کہ وقت بوقت رسول اللہ ﷺ کے پاس آ جاتے اور محض آپ کا وقت ضائع کرنے کے لیے بے مقصد باتیں کرتے رہتے۔ قرآن مجید نے ان کی اس شرارت کا سد باب کرنے کے لیے حکم دیا کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺسے مشورہ کرنا چاہیں، وہ اس سے پہلے صدقہ کر کے آئیں:
اذا ناجیتم الرسول فقدموا بین یدیکم نجواکم صدقۃ۔
جب تم رسول سے کوئی مشورہ کرنا چاہو تو مشورے سے پہلے صدقہ کر کے آیا کرو۔ (۳۹)
عرف
کسی معاشرے کا عرف ورواج اگر شریعت کے منصوص احکام یا اس کے مزاج کے خلاف نہ ہو تو فقہ اسلامی میں وہ قانون سازی کے ایک مستقل ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن مجید نے جن احکام کے ضمن میں معاشرے کے رواج کی پیروی کی ہدایت کیہے، ان میں سے چند حسب ذیل ہیں:
۱۔ دیت:
فمن عفی لہ من اخیہ شئی فاتباع بالمعروف واداء الیہ باحسان۔
پس جس کو اپنے بھائی کی طرف سے معافی مل جائے تو وہ دستور کی پیروی کرے اور اچھے طریقے سے اس کو دیت ادا کر دے۔ (۴۰)
۲۔ عورتوں کی خانگی ذمہ داریاں اور حقوق:
ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف۔
دستور کے مطابق ان کے حقوق بھی ہیں اور ذمہ داریاں بھی۔ (۴۱)
۳۔ عورتوں کا نفقہ:
وعلی المولود لہ رزقھن وکسوتھن بالمعروف۔
بچے کی ماں کا نفقہ اور اس کا کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہے۔ (۴۲)
۴۔ اجرت رضاعت:
لا جناح علیکم اذا سلمتم ما آتیتم بالمعروف۔
تم پر کوئی حرج نہیں (کہ بچے کو کوئی دوسری عورت دودھ پلائے) اگر تم وہ اجرت ان کو دو جو تم نے دستور کے مطابق دینا طے کی ہے۔ (۴۳)
۵۔ بیوہ عورتوں کا حق نکاح :
فلا جناح علیکم فی ما فعلن فی انفسھن بالمعروف۔
تو دستور کے مطابق وہ اپنے بارے میں جو بھی فیصلہ کریں، اس کا تم پر کوئی گناہ نہیں۔ (۴۴)
۶۔ مطلقہ عورتوں کے لیے متاع:
وللمطلقات متاع بالمعروف۔
اور مطلقہ عورتوں کو دستور کے مطابق کچھ سامان دے دو۔ (۴۵)
۷۔ یتیم کے سرپرست کااس کے مال میں سے اپنے اوپر خرچ کرنا:
ومن کان فقیرا فلیاکل بالمعروف۔
جو محتاج ہے تو وہ دستور کے مطابق کھا سکتا ہے۔ (۴۶)
۸۔ عورتو ں کا مہر:
وآتوھن اجورھن بالمعروف۔
دستور کے مطابق ان کو ان کے مہر دو۔ (۴۷)
استصحاب حال
استصحاب حال کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی چیز بوقت نزاع کسی خاص حالت میں موجود ہے تو اس کی اسی حالت کو درست سمجھا اور اسے اسی پر برقرار رکھا جائے گا جب تک کہ اس کے خلاف کوئی دلیل قائم نہ ہو جائے۔ قرآن مجید میں اس اصول کا اطلاق قذف کے مسئلے میں ملتا ہے۔ سورۂ نور میں ارشاد ہے:
والذین یرمون المحصنت ثم لم یاتوا باربعۃ شھداء فاجلدوھم ثمانین جلدۃ۔
اورجو لوگ پاک دامن عورتوں پر الزام لگاتے ہیں پھر اس پر چار گواہ نہیں لاتے تو تم ان کو اسی (۸۰) درے لگاؤ۔ (۴۸)
یعنی چونکہ ان عورتوں کی عام شہرت پاک دامن ہونے کی ہے اور ان کے چال چلن کے بارے میں معاشرے میں کوئی شکوک وشبہات نہیں پائے جاتے، اس لیے قانون کی نظر میں وہ پاک دامن ہی شمار ہوں گی اور اگر کوئی ان پر بدکاری کا الزام لگاتا ہے تو اس کا ثبوت اس کے ذمے ہے اور اس کے لیے اسے چار عینی گواہ پیش کرنا ہوں گے، ورنہ اسے جھوٹا قرار دے کر اس پر قذف کی حد جاری کی جائے گی۔
حوالہ جات
(۱) آل عمرا ن : ۱۶۴
(۲) النحل : ۴۴
(۳) النساء : ۵۹
(۴) النساء : ۶۵
(۵) النور : ۶۳
(۶) الاحزاب : ۳۶
(۷) الحشر : ۷
(۸) آل عمران : ۱۱۰
(۹) النساء : ۱۱۵
(۱۰) المائدہ : ۴۵
(۱۱) البقرہ : ۵۴
(۱۲) الحشر : ۲
(۱۳) الانعام : ۱۴۶
(۱۴) المائدہ : ۳
(۱۵) البقرہ : ۱۸۵
(۱۶) النساء : ۲۸
(۱۷) الحج : ۷۸
(۱۸) الاحزاب : ۳۷
(۱۹) المائدہ : ۶
(۲۰) النساء : ۱۱
(۲۱) البقرہ :۱۷۳
(۲۲) البقرہ :۲۳۳
(۲۳) الانفال : ۷۳
(۲۴) البقرہ : ۱۷۹
(۲۵) الانفال : ۶۶
(۲۶) الحشر : ۷
(۲۷) البقرہ : ۱۷۸
(۲۸) البقرہ :۲۲۰
(۲۹) النور : ۲۷
(۳۰) النور :۳۰
(۳۱) الاحزاب : ۳۲
(۳۲) الاحزاب : ۵۳
(۳۳) الاحزاب : ۵۹
(۳۴) البقرہ : ۲۸۲
(۳۵) البقرہ : ۲۸۲
(۳۶) آل عمران : ۱۱۸
(۳۷) النساء : ۸۳
(۳۸) البقرہ : ۱۰۴
(۳۹) المجادلہ : ۱۲
(۴۰) البقرہ : ۱۷۸
(۴۱) البقرہ : ۲۲۸
(۴۲) البقرہ : ۲۳۳
(۴۳) البقرہ : ۲۳۳
(۴۴) البقرہ : ۲۳۴
(۴۵) البقرہ : ۲۴۱
(۴۶) النساء : ۶
(۴۷) النساء : ۲۵
(۴۸) النور : ۴
افغانستان کے داخلی حالات پر ایک نظر
ڈاکٹر سلطان بشیر محمود
(ڈاکٹر سلطان بشیر محمود (ستارۂ امتیاز) پاکستان کے ممتاز ایٹمی سائنس دانوں میں سے ہیں اور سائنس کے حوالے سے قرآنی علوم ومعارف کی اشاعت کا خصوصی ذوق رکھتے ہیں۔ ان دنوں افغانستان کی تعمیر نو اور وہاں سرمایہ کاری کے لیے مسلم صنعت کاروں اور تاجروں کو توجہ دلانے کی مہم میں سرگرم عمل ہیں اور اس مقصد کے لیے ’’امہ تعمیر نو برائے افغانستان‘‘ کے نام سے باقاعدہ گروپ قائم کر کے مساعی کو منظم کر رہے ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے حالیہ دورۂ افغانستان کے تاثرات ایک مضمون میں بیان کیے ہیں جو قارئین کی دلچسپی اور استفادہ کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں مزید معلومات اور راہ نمائی کے لیے ڈاکٹر صاحب موصوف سے مندرجہ ذیل ایڈریس پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ 60/B ناظم الدین روڈ، F - 8/4، اسلام آباد ۔ ادارہ)
میں افغانستان جانے کے لیے پہلی بار طورخم پہنچا تو سرحد کے ہماری طرف خوف وڈر اور افراتفری کا عالم تھا۔ پولیس کے ہاتھوں شریف لوگ ذلیل وخوار ہو رہے تھے۔ جیسے تیسے ہم سرحد کی دوسری جانب پہنچے تو یک لخت وہاں کا منظر بدل گیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے کسی کھلی فضا میں آ گئے ہوں، وہاں خوف تھا نہ ڈر، پکڑ دھکڑ تھی نہ دھول دھونس۔ لوگ اپنے اپنے کاروبار میں لگے ہوئے تھے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور ملحقہ افغان علاقے کی تہذیب وثقافت ایک ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ لوگ ہماری طرف بجلی کا بل نہیں دیتے لیکن دوسری طرف بجلی استعمال کرنے والا ہر شخص پوری ایمان داری کے ساتھ بل دیتا ہے؟ جلال آباد سے کابل جاتے ہوئے میں نے ٹریفک کے نظام کا مطالعہ کیا۔ ہر گاڑی اصول وضابطے کے مطابق چلتی ہے، اس کے باوجود کہ وہاں کی سڑکوں کی حالت بہت خراب ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہاں کے مکانات ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں لیکن ان کے دل نہیں ٹوٹے ہیں۔
آپ اسلام آباد کے کسی مقام پر گاڑی پارک کریں تو بھکاریوں کا ایک غول آپ پر جھپٹے گا۔ کابل شہر میں بھی میں نے بھکاری دیکھے لیکن ان کا انداز بڑا باوقار تھا۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہ ضرورت مند ہیں۔ وہاں مفلس اور ضرورت مند شخص سڑک سے ہٹ کر ایک کمبل بچھا کر بیٹھا ہوگا، اس کی زبان خاموش ہوگی۔ جو کچھ کوئی خوشی سے چاہے، دے دے، وہ آپ کا دامن نہیں پکڑے گا۔
ہمارے ہاں جس قدر سگریٹ پیا جاتا ہے، اس پر ہر سال اربوں روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ افغانستان میں بھی موجودہ حکومت کے آنے سے قبل سگریٹ کا دھواں خوب اڑایا جاتا تھا لیکن امیر المومنین نے آتے ہی اعلان کیا کہ سگریٹ مکروہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان میں اس کے پینے پر پابندی عائد ہو گئی۔ اب یہ حالت ہے کہ آپ کابل یا قندھار شہر کے گلی کوچوں میں پھر کر دیکھ لیں، آپ کو کوئی سگریٹ نوشی کرتا ہوا نہیں دکھائی دے گا۔ حالانکہ بے روزگاری سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے تناؤ کا پیدا ہونا فطری امر ہے اور تناؤ ختم کرنے کے لیے سگریٹ کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن انہوں نے سگریٹ کے بجائے اللہ کا سہارا لیا ہے اور اللہ کی یاد کے ذریعے اپنی پریشانی دور کرتے ہیں۔
افغانستان کی حالت زار دیکھ کر میں دل ہی دل میں کڑھتا تھا لیکن وہ مطمئن تھے۔ ایک روز میں نے اپنے افغان دوستوں سے کہا، آپ پہلے ہی کس قدر مصیبت میں تھے، اب اقوام متحدہ نے مزید پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ ایک افغان نے جواب دیا اسی میں اللہ کی بہتری شامل ہوگی۔ ہم مایوس نہیں بلکہ ہمیں توقع ہے کہ ہمارا کل آج سے بہتر ہوگا۔ اللہ تعالی نے ہمیں زرخیز ملک دیا ہے، اس کی آب وہوا اچھی ہے۔ اللہ تعالی نے بارش برسا دی تو اس قدر فصل پیدا ہوگی جس سے ہر افغانی دو وقت کی روٹی کھالے۔ اور کیا چاہئے؟ حقیقت یہ ہے کہ افغانیوں نے اپنا طرز معاشرت اس قدر سادہ کر لیا ہے کہ انہیں اپنی زندگی مشکل محسوس ہی نہیں ہوتی۔
افغان معاشرے میں مثالی اسلامی مساوات کے نمونے جابجا نظر آتے ہیں۔ ایک روز میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کابل میں محکمہ منصوبہ بندی کے دفتر میں گیا۔ متعلقہ رئیس (Director) موجود نہیں تھا۔ دفتر کے چپڑاسی نے ہمیں بٹھایا اور چائے بنا کر لایا، وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر چائے پینے لگا۔ اتنے میں ڈائریکٹر صاحب آ گئے، چپڑاسی نے انہیں ہمارے بارے میں بتایا۔ وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔ ان کا چپڑاسی بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر چائے کی چسکیاں لیتا رہا۔
افغانستان کا ایک اہم مسئلہ غیر قانونی ہتھیاروں کی بہتات تھی۔ افغانستان کا کوئی گھر ایسا نہیں تھا جس میں چند ہتھیار غیر قانونی طور پر نہ ہوں۔ یہ افغان حکومت کا کارنامہ ہے جس نے ایسے لوگوں سے ہتھیار لے لیے جو ان کو اپنا زیور اور عزت خیال کرتے ہیں۔ یہ کام اس قدر مہارت اور محبت سے کیا گیا کہ کوئی معمولی سی سختی بھی نہیں کرنی پڑی۔ میں نے سہیل فاروقی سے کابل میں پوچھا کہ یہ حیرت انگیز کارنامہ کیسے انجام دیا گیا؟ وہ ملک کو ہتھیاروں سے پاک کرنے کی مہم کے انچارج تھے۔ انہوں نے کہا جیسے ہی امیر المومنین نے حکم دیا کہ تمام افراد اپنا اپنا اسلحہ جمع کرا دیں، لوگوں نے بلا توقف حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا۔ تاہم افغان دن کی روشنی میں ہتھیار دینے پر شرم محسوس کرتے تھے، اس لیے ہم نے راتوں کو مختلف آبادیوں میں ٹرک کھڑے کر دیے۔ لوگ اپنے اپنے ہتھیار اس میں لاکر پھینک دیتے اور علی الصبح حکومت کے اہل کار اس ٹرک کو لے جاتے تھے۔ اس طرح حکومت نے یہ مشکل کام بغیر کسی جبر اور سختی کے، حکمت اور دانائی سے مکمل کر لیا۔
غربت اور بے روزگاری نے افغانوں میں بے حسی اور بخل پیدا نہیں کیا جو بے خدا معاشروں کاطرۂ امتیاز ہے۔ ایک مرتبہ میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جلال آباد سے کابل جا رہا تھا۔ راستے میں نماز ظہر کے لیے ہم نے سڑک کے کنارے ایک جگہ گاڑی کھڑی کی۔ ہم وضو کے لیے پانی کی تلاش میں تھے کہ دور سے ایک نوجوان نے ہمیں دیکھا اور بھاگم بھاگ ہمارے پاس پہنچا، بڑی محبت سے سلام کیا پھر پوچھا، کیا آپ کی گاڑی خراب ہو گئی ہے؟ ہم نے بتایا کہ نماز کے لیے رکے ہیں۔ وہ دوبارہ گھر کی طرف بھاگا اور چند لمحے بعد ایک کمبل لے کر واپس آ گیا۔ اس کے ساتھ چھوٹا بھائی تھا جس نے جگ اور گلاس اٹھا رکھے تھے۔ اس نے ہمیں پانی پلایا اور ہمارے لیے وضو کا اہتمام کیا۔ پھر کمبل بچھایا اور ہمیں نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد ہمیں کھانے کی پرخلوص دعوت دی جو وقت کی کمی کی وجہ سے ہم قبول نہیں کرسکے۔ تاہم یہ پہلا موقع تھا جب میں نے افغانوں کی محبت کا ذائقہ چکھا۔ میں نے سوچا افغان معاشرے میں غربت کے باوجود کچھ لوگ مسافروں کے لیے دیدہ ودل فرش راہ کرتے ہیں۔ لیکن سفر کے دوران یہ تجربہ ہر مقام پر ہوا۔ میں اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہو گیا۔ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ افغانوں سے ان کی دولت بے شک چھن گئی ہے لیکن اسلام کا رشتہ اور مضبوط ہو گیا ہے اور مسلمانوں کے لیے ان کے دلوں میں محبت اور عقیدت بڑھ گئی ہے۔
ایک مرتبہ ہمیں ایک ضروری کام کے لیے گورنر قندھار ملا حسن خان سے ملنے کی ضرورت پڑی۔ بظاہر تو گورنر سے ملاقات جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ میرے ذہن میں پاکستانی گورنروں کا کروفر اور پروٹوکول چھایا ہوا تھا جن سے آپ ہفتوں کوشش کے باوجود نہیں مل سکتے۔ ہم اللہ پر بھروسہ کر کے سیدھے گورنر کے دفتر پہنچے۔ وہاں سے معلوم ہوا کہ گورنر صاحب نماز ظہر کے وقت مسجد میں ملیں گے۔ ہم مسجد میں گئے، نماز کے بعد لوگ مختلف ٹولیوں میں جمع ہو گئے۔ میں نے ایک شخص سے پوچھاکہ گورنر صاحب کہاں ہیں؟ اس نے بتایا کہ وہ سامنے والی ٹولی میں جو شخص کھڑا ہے، وہی گورنر قندھار ہے۔ میں نے غور سے دیکھا ، اس کی ایک ٹانگ نہیں تھی، اس کی جگہ لکڑی کی ٹانگ تھی۔ وہ باریش اور خوبصورت نوجوان تھا۔ وہ باری باری لوگوں کے پاس جاتا، ان کے مسائل سنتا، احکامات جاری کرتا اور آگے بڑھ جاتا۔ مجھے خدشہ ہوا کہ شاید ہمارے پاس آتے آتے وقت ختم ہو جائے گااور ہم ملاقات سے محروم رہ جائیں گے۔ میں نے اس خدشے کا اظہار اپنے مترجم سے کیا۔ اس نے پورے یقین سے کہا، وہ ضرور ہمارے پاس آئیں گے۔ جب گورنر حسن خان ہمارے پاس پہنچے تو تاخیر پر معذرت کی اور کہا کہ سب سے آخر میں آپ سے ملاقات کرنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ ہمارے بیرونی مہمان ہیں اور میں آپ کو خاصا وقت دینا چاہتا ہوں۔ بتائیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ ہم نے کہا ہم قندھار میں آٹے کی مل لگانا چاہتے ہیں، اس کے لیے ہمیں جگہ چاہئے۔ انہوں نے کہا، اچھی بات ہے۔ اس وقت دفاتر بند ہو گئے ہیں، آپ کل صبح آٹھ بجے مجھ سے ملیں۔ اگلے روز آٹھ بجے ہم وہاں پہنچے تو گورنر صاحب پہلے سے ہمارے انتظار میں کھڑے تھے۔ ہم نے اپنی درخواست پیش کی۔ انہوں نے دوسرے دفاتر کو ٹیلی فون کیے اور جب تک انہیں یقین نہیں ہو گیا کہ ہماری ضرورت پوری ہو گئی ہے، اس وقت تک وہ ہم پر ہی توجہ مبذول کیے رہے۔
ایک اور دفعہ ہم قندھار کے سرکاری مہمان خانے میں تھے۔ وہاں کے سرکاری مہمان خانے میں جس کا جی چاہے، قیام کر سکتا ہے۔ گورنر صاحب کا دفتر بھی مہمان خانے کے ساتھ ہی تھا۔ سردی کے دن تھے۔ جس کمرے میں ہم مقیم تھے، وہاں ہیٹر نہیں تھا۔ شام کے وقت میں نے دیکھا، گورنر ایک شخص کے ساتھ ہیٹر اٹھائے آرہے ہیں۔ انہوں نے خود کھڑے ہو کر ہیٹر لگوایا اور کہا اس وقت ہیٹر کی تنصیب اس لیے ضروری تھی کہ آپ ہمارے مہمان ہیں۔ اس ہیٹر کو ایک دوسری جگہ سے آپ کے لیے لایا ہوں تاکہ آپ کو سردی نہ لگے۔ میں نے دل میں سوچا، بے شک اسلامی حکومت کا طرۂ امتیاز یہی ہوتا ہے کہ حکمران قوم کے خادم ہوتے ہیں۔ اسلامی حکومت صرف سزاؤں کا نام نہیں بلکہ خدمت خلق کا نام ہے۔
افغانستان کے وزیر اعظم ملا ربانی سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہ بڑے منکسر المزاج شخص ہیں۔ دوران گفتگو میں انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو ہم سے بہت توقعات ہیں، ہم ان کی توقعات پوری نہیں کر رہے جس پر ہم شرمندہ ہیں، اس لیے ہماری کوتاہیوں اور غلطیوں کو معاف کریں۔ ہم آپ کی بھی خاطر تواضع پوری طرح نہیں کر سکتے۔ اسی دوران دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گیا۔ ہماری خواہش تھی کہ ا ن سے اجازت لیں کیونکہ ہم پہلے ہی ان کا خاصا وقت لے چکے تھے۔ لیکن انہوں نے کھانا کھائے بغیر جانے کی اجازت نہ دی۔ کچھ ہی دیر بعد دستر خوان بچھ گیا۔ ہم چھ سات مہمان تھے۔ دس بارہ افراد اور تھے۔ سب دستر خوان کے گرد بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد افغانی روٹی اور بینگن کے سالن کی ایک ایک پلیٹ سب کے سامنے رکھ دی گئی لیکن وزیر اعظم صاحب کے سامنے پلیٹ میں تربوز کی ایک قاش رکھ دی گئی۔ کھانے کے بعد دعا وغیرہ ہوئی اور ہم اجازت لے کر واپس آ گئے۔ میں نے راستے میں مترجم سے پوچھا کہ وزیر اعظم صاحب نے کھانا کیوں نہیں کھایا، صرف تربوز کے ایک ٹکڑے پر اکتفا کیا؟ اس نے کہا، آپ تو سرکاری مہمان تھے اس لیے آپ کو کھانا حکومت نے فراہم کیا۔ وزیر اعظم صاحب کا کھانا گھر سے آتا ہے۔ ان کے گھر میں سالن نہیں پکا ہوگا، ا س لیے تربوز بھیج دیا۔ یہ باتیں کتابوں میں پڑھتے تھے، میں نے افغانستان میں اس کے عملی مظاہرے دیکھے۔
ہم نے افغانستان میں آٹے کی ایک مل لگانے کا پروگرام بنایا جس کے لیے افغانستان کی وزارت صنعت سے اجازت نامہ لینا تھا۔ ہم ان خدشات اور تفکرات میں ڈوبے ہوئے متعلقہ وزیر سے ملنے گئے کہ نہ معلوم وزیر صاحب سے ملنے کی راہ میں کتنی مشکلات حائل ہوں گی لیکن جب ہم وہاں پہنچے اور مدعا بیان کیا تو ہمیں سیدھا وزیر صاحب کے پاس پہنچا دیا گیا جو شکل وصورت اور طور طریقوں سے فقیر لگتے تھے، فرش پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے دائیں بائیں اور آمنے سامنے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد ہماری باری آئی تو پوچھا، کیسے تشریف لائے ہیں؟ ہم نے درخواست آگے بڑھا دی اور وزیر صاحب نے ہماری درخواست پڑھ کر اس پر کچھ لکھ کر ایک اور سرکاری عہدیدار کو دے دی۔ اس طرح دس منٹ تک یہ درخواست وزارت کے مختلف افسروں کے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی دوبارہ وزیر صاحب کے پاس آئی تو انہوں نے اس پر لکھا ’’متفق بمطابق اصول وقانون‘‘ اس طرح دس منٹ کے اندر اندر ہمیں مل کی تعمیر کا اجازت نامہ مل گیا۔
ایک مرتبہ میں نے آب وبرق کے وزیر مولانا احمد جان صاحب سے تباہ شدہ بجلی کے نظام کو اتنی مشکل صورت حال کے باوجود تیزی سے قابل استعمال بنانے کا راز پوچھا۔ میں نے کہا کہ آپ نے مختصر مدت میں کس طرح کابل کے دو تہائی حصے اور قندھار کو بجلی فراہم کر دی اور دیگر علاقوں کو بھی بجلی کی فراہمی ہو رہی ہے۔ تباہ وبرباد گرڈ اسٹیشنوں کو آپ بڑی سرعت اور مہارت سے قابل استعمال بنا رہے ہیں، آخر آپ نے یہ نسخہ کہاں سے سیکھا ہے؟ انہوں نے کہا، ہمارے نظام حکومت میں وزرا کی تربیت بھی ہوتی ہے۔ متعلقہ وزیر کو اپنی وزارت کے اسرار اور رموز اور اہم تکنیکی امور سکھائے جاتے ہیں۔ ہمارے عوام میں تعمیر وطن کا بے پناہ جوش وجذبہ ہے۔ ہم انہیں سازگا رماحول اورموقع فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ مجھے کابل کے نواح میں سولہ کلو میٹر دور ایک تباہ حال پاور اسٹیشن دکھانے لے گئے جس کی تعمیر ومرمت کا کام ہو رہا تھا۔ چونکہ وہاں ٹیلی فون کی سہولت نہیں تھی اس لیے اس پاور اسٹیشن پر کام کرنے والوں کو معلوم نہ تھا کہ ان کے وزیر صاحب آ رہے ہیں لیکن جب ہم وہاں پہنچے تو مجھے یہ خوش گوار حیرت ہوئی کہ وہاں ہر شخص اپنے کام میں ڈوبا ہوا ہے۔ کوئی بے کار بیٹھا ہوا نہ تھا۔ ان کے چیف انجینئر ایک دراز ریش افغانی تھے جن کے لباس سے دھوکا ہوتا تھا کہ شاید وہ بھی مزدور ہیں۔ ان سے گفتگو ہوئی، ان کا جذبہ اور اخلاص دیکھ کر دل بہت خوش ہوا۔
حکومت نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے نام سے ایک خصوصی وزارت تشکیل دی ہے جو لوگوں کی دینی تربیت اور اخلاقی حالت سدھارنے کا اہتمام اور کام کرتی ہے۔ طالبان کا خیال ہے کہ مادی ترقی کے لیے اخلاقی ترقی ضروری ہے۔ دل بدلیں گے تو مالی حالت بدل جائے گی۔ اس سے پہلے کوئی نماز نہیں پڑھتا تھا تو اس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی تھی، اسے ایک انفرادی مسئلہ خیال کیا جاتا تھا حالانکہ شریعت اسے اجتماعی فرض قرار دیتی ہے۔ اب یہاں ہر شخص فرض سمجھ کر نماز پڑھتا ہے، اللہ کے حکم سے سرتابی کی کسی کو اجازت نہیں۔ نماز کے وقت لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر مسجد کی طرف جا رہے ہوتے ہیں۔ ریڑھی والا اپنی ریڑھی کو جوں کا توں چھوڑ کر نماز کے لیے چلا جاتا ہے۔ مجال ہے ایک پیسے کا بھی نقصان ہو۔
طالبان حکومت کے آنے سے پہلے افغانستان میں عورتوں کی جان اور عزت کس قدر خطرے میں تھی، اہل مغرب اس کا احساس رکھتے تو وہ کبھی ان پر بے بنیاد الزامات نہ لگاتے۔ بادشاہت کے دور میں مغربی تہذیب وثقافت کو عام کرنے کے لیے باقاعدہ ایک قانون منظور کیا گیا اور عورتوں کو اسکرٹ پہننے پر مجبور کیا گیا۔ داؤد کی حکومت آئی تو عورت کی تذلیل کے لیے سرعام قحبہ خانے اور شراب خانے کھول دیے گئے۔ روسی آ گئے تو شراب اور بے حیائی کا سیلاب بھی ساتھ آیا۔ روسیوں کے جانے کے بعد افغانستان طوائف الملوکی کی زد میں آ گیا۔ کابل میں مختلف نسب ونسل کے ملیشیا دندناتے پھرتے تھے۔ معصوم ومظلوم عورتوں کو جبرا گھروں سے اٹھایا جانے لگا۔ لٹیروں کی دست برد سے بچنے کے لیے ہزاروں لوگوں نے بھاگ کر جانیں اور عزتیں بچائیں۔ طالبان کے دور میں اب پہلی بار عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کا مرتبہ ملا ہے۔ آج اس ملک میں خواتین کو اس قدر تحفظ حاصل ہے کہ کوئی بری نظر سے ان کی طرف دیکھنے کی جرات نہیں کر سکتا۔
طالبان کے دور حکومت پر ایک اعتراض جبری ڈاڑھی رکھوانے کا ہے لیکن اہل مغرب اس وقت خاموش تھے جب داؤد کے دور میں ڈاڑھی والوں کو بغیر کسی قصور کے جیلوں میں ڈال دیا جاتا تھا۔ انہوں نے ایک قانون کے تحت باریش مسلمان پر سرکاری ملازمت کے دروازے بند کر دیے تھے۔ کمیونسٹ دور میں ڈاڑھی والے گردن زدنی رہے۔ اس وقت انسانی حقوق کی تنظیموں کو تکلیف نہیں ہوئی لیکن آج وہ چلا رہی ہیں۔ طالبان ڈاڑھی رکھوا رہے ہیں۔ ڈاڑھی منڈوانا ویسے بھی غیر فطری ہے اور افغان کلچر کی تو یہ پہچان ہے۔ میرے ساتھ صنعت کاروں کا ایک گروپ افغانستان میں گیا تھا، ان میں سے اکثر ڈاڑھی کے بغیر تھے لیکن ماحول سے متاثر ہو کر سب نے ڈاڑھی رکھ لی حالانکہ غیر ملکیوں پر ڈاڑھی رکھنے کی کوئی پابندی نہیں۔
دراصل مغرب نہیں چاہتا کہ دنیا کی توجہ طالبان کے اصل مسائل کی طرف مبذول ہو۔ افغانستان ایک تباہ حال ملک ہے۔ وہ دو عشروں تک جنگ کی آگ میں جلتا رہا ہے۔ اس جنگ نے افغانستان کا ہر گھر تباہ کیا ہے۔ کوئی بھی حساس شخص وہاں جا کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔یہ شور اس لیے مچایا جا رہا ہے کہ لوگ اس تباہی کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔ طالبان سے وحشت ودہشت منسوب کی جا رہی ہے تاکہ لوگ ان سے خوف زدہ ہو جائیں۔ افغانستان دو کروڑ آبادی کا ملک ہے۔ اس میں سے بیس لاکھ افراد شہید ہوئے یعنی ہر دسواں فرد راہ حق میں کام آیا۔ پچاس لاکھ زخمی ہوئے، اس طرح مجموعی طور پر ہر تیسرا شخص روسی بربریت کا براہ راست نشانہ بنا اور باقی بالواسطہ متاثر ہوئے۔ لاکھوں ایسے یتیم اور بیوائیں ہیں جن کا کوئی کمانے والا نہیں۔ ان کی بحالی کے لیے طالبان نے ایک مستقل وزارت قائم کی ہے جو معذور بوڑھوں، بے آسرا عورتوں اور بے خانماں بچوں کے آنسو پونچھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پچاس لاکھ سے زیادہ افغان بے روزگار ہیں۔ میں نے کابل اور قندھار کے صنعتی علاقوں کو دیکھا، روسی جہازوں، توپوں اور ٹینکوں نے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا د ی ہے۔ جب صنعتیں نہیں ہوں گی تو پھر روزگار کہاں سے آئے گا؟ا ہل مغرب کی خیانت دیکھئے، ان بے روزگار لوگوں کو روزگار میں مدد دینے کے بجائے ان پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے علما کا خاموش مظاہرہ
ادارہ
جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ اسلام آباد اور راول پنڈی کے زیر اہتمام اسلام آباد اور راول پنڈی کے سینکڑوں علماء کرام نے ۶ فروری ۲۰۰۱ء کو اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے خاموش مظاہرہ کیا اور اقوام متحدہ کے سفارتی افسران کو مندرجہ ذیل یادداشت پیش کی۔ مظاہرہ کی قیادت پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے امیر مولانا قاری سعید الرحمن کے ہمراہ جمعیۃ اہل السنۃ کے راہ نماؤں مولانا قاری محمد نذیر فاروقی، مولانا قاضی عبد الرشید، مولانا قاری محمد زرین، مولانا ظہور احمد علوی، مولانا عبد الخالق، مولانا گوہر رحمان، مولانا حافظ محمد صدیق اور دیگر سرکردہ علماء کرام نے کی۔
جناب سیکرٹری جنرل صاحب اقوام متحدہ
جناب عالی!
پاکستان میں دینی رہنماؤں کے خلاف جاری دہشت گردی کے حوالے سے چند معروضات گوش گزار کرنے کے لیے یہ عریضہ پیش خدمت ہے۔ ہمیں امید ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق آپ اس سلسلہ میں ذاتی دلچسپی لے کر متاثرین کی داد رسی کریں گے۔
۱۔ دین اسلام ایک فطری دین ہے اوراس میں ہر انسان کو مکمل تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ اس کی دینی، مذہبی، سیاسی اور معاشی آزادی کا حق تسلیم کیا گیا اور اس کی مکمل ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ اللہ کریم کا یہ واضح حکم جو مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کریم میں موجود ہے، یہ ہے کہ ’’دین میں کوئی جبر نہیں‘‘ ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ نے جب مدینے کی طرف ہجرت فرمائی تو مدینہ میں یہودی آباد تھے۔ حضرت محمد ﷺ نے ان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو چودہ نکات پر مشتمل تھا اور میثاق مدینہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدے میں یہودیوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ دنیا کا یہ عظیم الشان اور اعلی ترین معاہدہ آنحضرت ﷺکی سیرت کی کتابوں میں اصل الفاظ کے ساتھ آج بھی موجود ہے۔
ہمارے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں انسانی حقوق کی رعایت اس حد تک کی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی تیز دھار آلہ مثلا چھری وغیرہ کسی کو پکڑائے تو اس کی دھار دوسرے شخص کی طرف نہ کرے بلکہ اس کا دستہ اس کو دے، کہیں ایسا نہ ہو کہ معمولی سی لا پروائی سے اس شخص کا ہاتھ زخمی ہو جائے۔ یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی شخص نیزہ یا تیز دھار والی کوئی چیز ہاتھ میں لے کرہجوم کی جگہ مثلا بازار وغیرہ میں چلے تو اس کی دھار کی نوک اپنے ہاتھ میں پکڑے تاکہ اس سے کسی شخص کے زخمی ہونے کا اندیشہ نہ رہے۔ اور صرف انسانوں کی بات نہیں، ہمارے دین اور ہمارے آقا ﷺ نے ہمیں جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنے کی تاکید کی ہے۔ حقوق کے حوالے سے ہمارے نبی کریم ﷺ کی یہ تعلیمات اور ارشادات آپ کی احادیث میں واضح طور پر موجود ہیں اور ہر فرد بشر ان کا مطالعہ کر کے ان سے آگاہی حاصل کر سکتاہے۔
صرف پاکستان میں نہیں، بلکہ پوری دنیا میں علماء کرام ،دینی مدارس کے فضلا اور مدارس سے متعلق افراد اسی تعلیم کی ترویج واشاعت میں مصروف عمل ہیں۔ یہ صرف زبانی کلامی دعوے کی بات نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی بات ہے جس کو ہر ذی شعور تسلیم کرتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آج تقریبا" دنیا کے اکثر ممالک میں پاکستانی دینی مدارس کے فارغ التحصیل علما، حفاظ اور قرا موجود ہیں۔ ان کی نگرانی کر کے، ان کی باتیں سن کر، ان کے خیالات وافکار سے آگاہی حاصل کر کے ہی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کو کس قسم کی تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ اگر بیرون دنیا میں ان کا کردار، ان کی تعلیم اورطرز تعلیم صحیح اور انسانیت کے مطابق ہے تو یہ اس بات کی کھلی شہادت ہے کہ ان کا نظام تعلیم انہی مثبت خطوط کے مطابق ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ چودہ پندرہ سال دہشت گردی، تخریب کاری، لڑائی بھڑائی، مارو جلاؤ اور گھیراؤ کی تعلیم حاصل کریں اور فارغ ہونے کے بعد یہ ساری تربیت بھول کر ایک شریف، امن پسند مصلح معاشرہ اور عابد وزاہد کا روپ دھار لیں اور ان کی پوری زندگی میں اس تعلیم کی جھلک تک نظر نہ آئے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دینی مدارس میں کسی منفی پہلو کی تعلیم نہیں دی جاتی۔
۲۔ پاکستان، ہندوستان اور دنیا کے بعض دوسرے ممالک میں دو طرز ہائے تعلیم موجود ہیں: ایک انگریزی یا عصری طرز تعلیم اور دوسرا دینی ومذہبی طرز تعلیم۔ ان دونوں طریقوں کی ہزاروں درس گاہیں موجود ہیں لیکن دونوں میں ایک واضح فرق ہے۔ عصری تعلیم کی درسگاہوں میں طلبہ کے آپس کے اختلافات، اساتذہ کے خلاف ہڑتالیں، ہم درس افراد کا قتل، سڑکیں بلاک کرنا، جلاؤ گھیراؤ، پتھراؤ، سرکاری وغیر سرکاری املاک کی تباہی، یونین سازی، افراتفری روزمرہ کا معمول ہیں لیکن دینی مدارس میں آج تک کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا لیکن منفی پروپیگنڈا دینی مدارس اور مذہبی رہنماؤں کے خلاف ہی کیا جاتا ہے۔
دینی مدارس پر دہشت گردی، مذہبی منافرت، قتل وغارت گری کا الزام تو بڑے زور وشور سے عائد کیا جاتا ہے لیکن آج تک کوئی ادارہ، تنظیم اس الزام کو ایک فیصد بھی ثابت نہیں کر سکی۔ حکومت پاکستان نے اسلامی نظریاتی کونسل سے رپورٹ مرتب کرائی۔ مرتب کنندگان نے جب رپورٹ پیش کی تو سات جگہوں کی نشان دہی کی کہ یہاں دہشت گردی ہوئی ہے۔ جب اراکین نے دریافت کیا کہ ان سات جگہوں نے دہشت گردی کی ہے یا یہ دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں تو بتایا گیا کہ یہ جگہیں دہشت گردی کا نشانہ بنی ہیں، انہوں نے کہیں دہشت گردی نہیں کی۔
دینی مدارس اور دینی رہنما اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہر مظلوم کے حامی اور ظالم کے مخالف اور انصاف کے علمبردار ہیں اور حق وصداقت کی بات کرتے ہیں۔
۳۔ پاکستان میں ایک عرصہ سے دینی مدارس، مساجد،امام بارگاہوں اور خانقاہوں کے خلاف ایک منظم سازش شروع ہے۔ مساجد، مدارس اور امام بارگاہوں پر حملے کیے جاتے ہیں، گولیاں چلائی جاتی ہیں، نمازیوں کو شہید کیا جاتا ہے، علماء کرام کو قتل کیا جاتا ہے اور بد امنی پھیلائی جاتی ہے۔ اب تک سینکڑوں علما اور ذاکرین کو شہید کیا جا چکا ہے۔ ان میں مولانا حق نواز جھنگوی، مولانا ایثار القاسمی، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی، صادق حسین، مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار، مولانا مفتی عبد السمیع، مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مولانا محمد عبد اللہ، علامہ عارف الحسینی، علامہ مرید عباس یزدانی، مولانا حبیب الرحمن یزدانی، مولانا احسان اللہ فاروقی، مولانا احسان الہی ظہیر، جناب سید صلاح الدین، جناب حکیم سعید جیسے حضرات شامل ہیں۔ جب دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو برسراقتدار افراد کے لگے بندھے بیانات چھپنا شروع ہو جاتے ہیں کہ ہم مجرموں کو نہیں چھوڑیں گے، ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا ، یہ بزدلانہ حرکت ہے، اس سے ہمارے حوصلے پست نہیں کیے جا سکتے، مجرموں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کے بیانات داغ دیے جاتے ہیں اور چند دنوں کے لیے مساجد اور امام بارگاہوں کے پہرے کا نظام شروع کر دیا جاتا ہے جوآہستہ آہستہ نرم کر دیا جاتا ہے اور مجرموں کو پھر کارروائی کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔بعض دفعہ شہید کے لواحقین کچھ لوگوں کی نشان دہی بھی کرتے ہیں، تفتیش میں مدد دیتے ہیں، دلچسپی ظاہر کرتے ہیں لیکن ایک خاص مرحلے پر پہنچ کر حکومت کی طرف سے مقرر تفتیشی ٹیم متوفی کے پس ماندگان کو صاف صاف کہہ دیتی ہے کہ اب آپ خاموش ہو جائیں، اس سے آگے تفتیش نہیں بڑھائی جا سکتی۔ اگر لواحقین اصرار کریں تو ان سے واضح الفاظ میں کہہ دیا جاتا ہے کہ آپ اس مسئلہ کو چھوڑ دیں ورنہ آپ کا نقصان بھی ہو سکتا ہے، آپ کے بچے اغوا ہو سکتے ہیں، آپ کو قتل کیا جا سکتا ہے وغیرہ۔ اس طرح کی دھمکیاں دے کر ان کو چپ کرا دیا جاتا ہے۔ مولانا محمد عبد اللہ، مولانا محمد یوسف لدھیانوی، ڈاکٹر حبیب اللہ مختار وغیرہ حضرات کے کیسوں میں اسی طرح لواحقین کی زبان بند کرائی گئی ہے۔
پاکستان میں شیعہ سنی علمی اختلاف تو ضرور موجود ہے لیکن قتل وغارت گری کا اختلاف اتنے وسیع پیمانے پر موجود نہیں ہے، تاہم ہمیں اس بات کا ضرور اقرار کرنا چاہئے کہ شیعہ سنی اختلافات کی وجہ سے کہیں کہیں کچھ واقعات رونما ہوئے ہیں لیکن ان فرقوں کے مابین باقاعدہ جنگ کی کوئی کیفیت نہیں ہے۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ جب شیعہ یا سنی کسی بھی فریق کے افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتے ہیں تو دوسرے فریق کی طرف سے اس کی مذمت کی جاتی ہے اور متاثرہ فریق کو انصاف مہیا کرنے کی اپیل کی جاتی ہے۔ اس لیے شیعہ سنی اختلاف تو موجود ہے، شیعہ سنی جنگ نہیں۔ اس کا دوسراثبوت یہ ہے کہ ایک ہی آبادی میں، اڑوس پڑوس میں شیعہ سنی اکٹھے رہتے اور کاروبار اور لین دین کرتے ہیں۔
۴۔ موجودہ حالات کے پیش نظر پاکستان کے علماء کرام آپ سے التماس کرتے ہیں کہ آپ بین الاقوامی انسانی حقوق کے سٹیج پر اس بات کی رپورٹ طلب کریں اور حکومت پاکستان سے اس قتل وغارت گری، دہشت گردی، لوٹ مار، افراتفری کی وجہ دریافت کریں کہ بلا وجہ علماء کرام، دینی مدارس، مساجد، امام بارگاہوں کو تخریب کاری کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے اور ان مسلسل واقعات کا کوئی بھی مجرم آج تک کیوں کیفر کردار تک نہ پہنچایا جا سکا؟ اگر حکومت تحفظ فراہم کرنے میں ناکام یا معذور ہے تو پھر ان اداروں کو مطلع کر دیا جائے تاکہ وہ اپنے تحفظ کے لیے اقدامات کریں۔
ہمیں امید ہے کہ آپ ہماری ان معروضات پر ہمدردی سے غور کریں گے اور مناسب اقدام کریں گے۔ اگر آپ کوئی اقدام نہیں کرسکتے تو یہی سمجھا جائے گا کہ اقوام متحدہ علما کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات سے باخبر ہونے کے باوجود مجرمانہ غفلت کا شکار ہے۔
پاکستان شریعت کونسل کی سرگرمیاں
ادارہ
مجلس عاملہ کا اجلاس
پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس ۱۸ فروری ۲۰۰۱ء کو جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈراولپنڈی صدر میں امیر مرکزیہ حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں امارت اسلامی افغانستان پر سلامتی کونسل کی طرف سے عائد کی جانے والی پابندیوں سے پیدا شدہ صورت حال کا جائزہ لیا گیا اور ملک کے تمام بڑے مکاتب فکر کی جماعتوں پر مشتمل ’’افغان ڈیفنس کونسل‘‘ کے قیام کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کے ساتھ مکمل تعاون کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں مندرجہ ذیل حضرات نے شرکت کی۔
مولانا زاہد الراشدی (گوجرانوالہ)، مولانا قاری سعید الرحمن (راولپنڈی)، مولانا حامد علی رحمانی (حسن ابدال)، مولانا عبد الرشید انصاری (کراچی)، مخدوم منظور احمد تونسوی (لاہور)، مولانا میاں عصمت شاہ کا کاخیل (پشاور)، مولانا عبد العزیز محمدی (ڈیرہ اسماعیل خان)، مولانا حافظ مہر محمد (میانوالی)، مولانا قاری جمیل الرحمن اختر (لاہور)، مولانا حسین احمد قریشی (اٹک)، مولانا صلاح الدین فاروقی (ٹیکسلا)، مولانا محمد ادریس (ڈیرہ غازی خان)، مولانا اللہ وسایا قاسم (اسلام آباد) ،مولانا عبد الخالق (اسلام آباد)، ڈاکٹر حافظ احمد خان (اسلام آباد)
- اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملک میں نفاذ اسلام کی جدوجہد اور افغانستان کی طالبان حکومت کی حمایت میں رائے عامہ کو منظم کرنے کے لیے رابطہ مہم کو تیز کیا جائے اور اس سلسلہ میں مختلف شہروں میں سیمینار منعقد کیے جائیں گے جن کا آغاز ۲۱ فروری کو لاہور سے ہوگا۔ اس کے بعد کراچی، راولپنڈی، پشاور اور دیگر شہروں میں سیمینار منعقد ہوں گے جبکہ ۲۹ اپریل کو گوجرانوالہ میں پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس شوری کا اجلاس ہوگا اور اس موقع پر کارکنوں کا اجتماع بھی منعقد کیا جائے گا۔
- اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ان سفارشات کو جلد از جلد قانونی شکل دے کر ملک میں نافذ کیا جائے اور طے شدہ پروگرام کے مطابق سودی نظام کے بروقت خاتمہ کا اہتمام کیا جائے۔
- اجلاس میں تاجرحلقوں کے بارے میں حکومت کی پالیسی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ایک قرارداد میں کہا گیا کہ اس پالیسی کے نتیجہ میں معاشی حالات بہتر ہونے کے بجائے پہلے سے زیادہ خراب ہوئے ہیں اور تاجروں کو ہراساں کرنے کی پالیسی کی وجہ سے نہ صرف ہزاروں تاجر ملک چھوڑ گئے ہیں بلکہ ملک کی بے پناہ دولت بیرون ملک منتقل ہو گئی ہے۔ قرارداد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ اس پالیسی پر نظر ثانی کر کے قومی تجارت کو مزید تباہی سے بچایا جائے اور قومی دولت کے مسلسل انخلا کو روکا جائے۔
- اجلاس میں جامعہ فاروقیہ کراچی کے اساتذہ اور عملہ کے دیگر افراد کے وحشیانہ قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ملک میں مسلسل بڑھتی ہوئی فرقہ ورانہ کشیدگی اور قتل عام کے اسباب وعوامل کی نشان دہی کے لیے سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں عدالتی کمیشن قائم کیا جائے اور علماء کرام اور دینی کارکنوں کے قتل عام کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں۔
- اجلاس میں حضرت مولانا مفتی عبد الشکور ترمذیؒ ، حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ ، حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑویؒ ، حضرت مولانا محمد لقمان علی پوریؒ اور حضرت مولانا قاضی محمد انورؒ آف ایبٹ آباد کی وفات پر گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے ان کی دینی وملی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا گیا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔
لاہور میں سیمینار
پاکستان شریعت کونسل کے زیر اہتمام ۲۱ فروری ۲۰۰۱ء کو بعد نماز ظہر فلیٹیز ہوٹل لاہور میں سیمینار منعقد ہوا جس کی صدارت امیر مرکزیہ حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی نے کی جبکہ پاکستان شریعت کونسل کے راہ نماؤں مولانا زاہد الراشدی، مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، مولانا عبد الرشید انصاری ،مولانا محمد نواز بلوچ اور مولانا حافظ ذکاء الرحمن اختر کے علاوہ جمعیۃ العلماء پاکستان کے راہ نماؤں علامہ شبیر احمد ہاشمی اور قاری زوار بہادر، جمعیۃ علماء اسلام کے راہ نماؤں مولانا محمد امجد خان اور مولانا سیف الدین سیف، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے راہ نماؤں مولانا عزیز الرحمن ثانی، مجلس احرار اسلام کے راہ نما چودھری ظفر اقبال ایڈووکیٹ، جمعیۃ اتحاد العلماء پاکستان کے سربراہ مولانا عبد المالک خان، انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے راہ نما مولانا عبد الرؤف فاروقی اور اور جیش محمدکے راہ نما ڈاکٹر نذیر احمد نے خطاب کیااور علماء کرام اور دینی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
مقررین نے افغانستان کی اسلامی حکومت کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی پابندیوں کی مذمت کی اور اعلان کیا کہ طالبان حکومت کی حمایت اور پورے ملک میں ان کی معاونت وامداد کی مہم چلائی جائے گی۔
مقررین نے وفاقی وزیر داخلہ کی طرف سے جہادی تحریکوں کے خلاف بیانات پر شدید احتجاج کیا اور کہا کہ وزیر داخلہ پاکستانی عوام کی ترجمانی کرنے کے بجائے مغرب کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ سیمینار میں دنیا بھر کی تمام مسلمان حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کیا جائے اور افغانستان کی تعمیر نو کے لیے اسے بھرپور امداد فراہم کی جائے۔
صوبہ سرحد کے امیر اور سیکرٹری جنرل
پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی نے پشاور کے مولانا عصمت شاہ کاکاخیل کو پاکستان شریعت کونسل صوبہ سرحد کا امیر اور ڈیرہ اسماعیل خان کے مولانا عبد العزیز محمدی کو صوبائی سیکرٹری جنرل مقرر کیا ہے۔ امیرمرکزیہ نے دونوں راہ نماؤں کو اختیار دیا ہے کہ وہ باہمی مشورہ سے دیگر صوبائی عہدہ داروں اور مجلس شوری کے ارکان کا تقرر کر لیں۔ صوبہ سرحد کے امیر اور سیکرٹری جنرل سے ۵۸ نشتر آباد پشاور اور مسجد امان اسلامیہ کالونی ڈیرہ اسماعیل خان کے پتہ پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
سیکرٹری جنرل کی پریس کانفرنس
پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے ۱۷ فروری کو ٹیکسلا میں ایک اجتماع سے خطاب کرنے کے علاوہ مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا صلاح الدین فاروقی کی رہائش گاہ پر اخبار نویسوں سے بھی پاکستان شریعت کونسل کے موقف اور پروگرام کے حوالہ سے تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان شریعت کونسل اقتدار کی سیاست اور انتخابی کشمکش سے الگ تھلگ رہتے ہوئے ملک میں علمی وفکری بنیاد پر نفاذ اسلام کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے اور ہماری کوشش ہے کہ اس سلسلہ میں دینی حلقوں اور علمی مراکز کے درمیان باہمی رابطہ ومفاہمت کو زیادہ سے زیادہ فروغ حاصل ہو تاکہ مشترکہ جدوجہد کی فضا قائم ہو سکے۔ مولانا زاہد الراشدی نے ملک بھر کے علماء کرام اور دینی کارکنوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس مشن میں پاکستان شریعت کونسل کے ساتھ شریک ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ کسی بھی سیاسی یا دینی جماعت کے کارکن اپنی جماعتوں میں رہتے ہوئے بھی پاکستان شریعت کونسل میں شامل ہو سکتے ہیں۔
تعارف و تبصرہ
ادارہ
ماہنامہ ’’القاسم‘‘ کا مفتی کفایت اللہ نمبرؒ
مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ جنوبی ایشیا کے دینی، سیاسی اور علمی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں اور ان کی خدمات اس خطہ کی ملی تاریخ میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی علمی ودینی راہ نمائی کے ساتھ ساتھ تحریک آزادی کی جرات مندانہ قیادت کی اور علماء حق کی قیادت میں ممتاز اور نمایاں مقام پر سرفراز ہوئے۔ انہیں اپنے دور میں جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے مفتی کی حیثیت سے یاد کیا جاتا تھا اور ان کے فتاوی ایک عرصہ تک اہل علم کی راہ نمائی کے لیے مشعل راہ کا کام دیتے رہیں گے۔
حضرت مفتی صاحبؒ کی وفات پر ہفت روزہ ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی نے ان کی خدمات اور حالات زندگی پر ایک ضخیم نمبر شائع کیا تھا جس میں ممتاز اصحاب قلم اور ارباب دانش نے ان کی علمی، سیاسی اور دینی جدوجہد کے مختلف گوشوں کو آشکار کیا ہے اور نئی نسل کو ان کے حوالے سے تاریخ کے ایک پورے دور سے متعارف کرایا ہے۔ جامعہ ابو ہریرہ خالق آباد نوشہرہ صوبہ سرحد کے ترجمان ماہنامہ ’’القاسم‘‘ کے سرپرست اعلی مولانا عبد القیوم حقانی نے الجمعیۃ کے اس ’’مفتی اعظم نمبر‘‘ کو جدید اضافوں اور ترتیب کے ساتھ ’’القاسم‘‘ کی خصوصی اشاعت کی شکل میں پیش کیا ہے جو آج کے نوجوان علماء کرام اور دینی کارکنوں کے لیے گراں قدر تحفہ ہے اور قافلہ حق کے ہر کارکن کے لیے اس کا مطالعہ ضروری ہے۔
عمدہ کتابت وطباعت اور مضبوط جلد کے ساتھ بڑے سائز کے سوا دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ ضخیم نمبر مذکورہ بالا پتہ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’پاکستان میں اسلام کا نظام کیسے قائم ہو؟‘‘
ہمارے محترم اور فاضل دوست مولانا حافظ مہر محمد میانوالوی کا خصوصی ذوق یہ ہے کہ وہ اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد وافکار کی وضاحت اور ان پر کیے جانے والے اعتراضات وشبہات کے جوابات کے ساتھ اصلاح معاشرہ اور ملک میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کے حوالہ سے بھی کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں۔ زیر نظر کتابچہ اس سلسلہ میں ان کے دو مضامین پر مشتمل ہے جن میں انہوں نے اسلامی نظام کی اہمیت اور خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے اس کے عملی نفاذ کے سلسلہ میں حکومت کے سامنے مختلف تجاویز پیش کی ہیں۔ چھوٹے سائز کے ۶۴ صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ پاکستان شریعت کونسل ضلع میانوالی نے شائع کیا ہے اور اسے جامعہ توحید وسنت ‘ بن حافظ جی تحصیل وضلع میانوالی سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’ڈاڑھی ہماری‘‘
ڈاڑھی جناب نبی اکرم ﷺ اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت اور ہمارا دینی شعار ہے جس کی اہمیت وافادیت پر بہت سے علماء کرام نے قلم اٹھایا ہے۔ مبین ٹرسٹ پوسٹ بکس ۴۷۰ اسلام آباد ۴۴۰۰۰ نے اس سلسلہ میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کے چند مضامین کا ایک جامع انتخاب مذکورہ بالا عنوان کے تحت شائع کیا ہے۔ آرٹ پیپر پر ۴۴ صفحات پر مشتمل یہ خوبصورت کتابچہ صدقہ جاریہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اسے مندرجہ بالا پتہ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
اپریل ۲۰۰۱ء
دینی مدارس کا نصاب تعلیم
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دینی مدارس میں مروج نصاب تعلیم کو درس نظامی کا نصاب کہا جاتا ہے جو ملا نظام الدین سہالویؒ سے منسوب ہے۔ ملا نظام الدین سہالویؒ المتوفی (۱۱۶۱ھ)حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے معاصرین میں تھے۔ ان کا قدیمی تعلق ہرات (افغانستان)کے معروف بزرگ حضرت شیخ عبد اللہ انصاریؒ سے تھا۔ اس خاندان کے شیخ نظام الدینؒ نامی بزرگ نے یوپی کے قصبہ سہالی میں کسی دور میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا تھا اور پھر ان کے خاندان میں یہ سلسلہ نسل درنسل چلتا رہا۔ اکبر بادشاہ نے اپنے دور میں اس خاندان کو سہالی میں معقول جاگیر دے دی تھی جس کی وجہ سے خاندانی اور تدریسی نظام کسی رکاوٹ اور دقت کے بغیر چلتا رہا حتی کہ اورنگ زیب عالمگیرؒ کے دور میں سہالی کے شیخ زادوں نے کسی تنازع کی بنیاد پر اس خاندان کے بزرگ ملا قطب الدینؒ کو شہید کر کے ان کا گھر، سامان اور کتب خانہ جلا دیا اور اس خاندان کو سہالی کا قصبہ چھوڑنا پڑا۔ سلطان اورنگ زیب عالمگیرؒ نے ۱۱۰۵ھ میں لکھنؤ میں’’فرنگی محل‘‘ کے نام کی ایک کوٹھی انہیں الاٹ کی جو ان کی تدریسی اور علمی سرگرمیوں کا مرکز بن گئی اور علماء فرنگی محل کا وہ عظیم علمی خاندان پورے برصغیر میں متعارف ہوا جس میں ملا نظام الدین سہالویؒ ، مولانا عبد الحلیم فرنگی محلیؒ اور مولانا عبد الحئی فرنگی محلیؒ جیسے اکابر ومشاہیر کے نام بھی شامل ہیں۔
اس دور میں برصغیر میں فقہ اور معقولات کی تعلیم کا دور دورہ تھا اور فرنگی محل کے علما ان دونوں علوم میں نمایاں ا ور امتیازی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کا اپنا ایک انداز تعلیم تھا اور تعلیمی نصاب بھی خود ان کا اپنا طے کردہ تھا۔ یہ نصاب تعلیم دراصل اس خاندان کے مسلسل تجربات کا نچوڑ اور حاصل تھا جسے ملا نظام الدین سہالویؒ نے مرتب شکل میں پیش کیا اور اسی وجہ سے ان سے منسوب ہو کر ’’درس نظامی‘‘ کہلایا۔ اس نصاب میں درج ذیل گیارہ علوم وفنون میں اس دور کی بہترین کتابیں شامل کی گئیں : ۱۔صرف، ۲۔ نحو، ۳۔ منطق، ۴۔ حکمت وفلسفہ، ۵۔ ریاضی، ۶۔ بلاغت، ۷۔ فقہ، ۸۔ اصول فقہ، ۹۔ علم کلام، ۱۰۔ تفسیر قرآن اور ۱۱۔ حدیث ۔
اس نصاب کے ساتھ اس خاندان کا طرز تدریس روایتی اور کتابی تھا جس میں کتاب کا متن، حاشیہ اور حاشیہ در حاشیہ سمجھنے اور حل کرنے کی صلاحیت بڑھانے پر زور دیا جاتا تھا اور کتاب کے نفس مضمون کی بہ نسبت اس کے دیگر متعلقات وتفصیلات کی طرف استاذ اور شاگرد کی توجہ زیادہ ہوتی تھی۔ اس طرز تدریس کی افادیت یہ تھی کہ اس سے ذہن وفکر کو تعمق اور گہرائی حاصل ہوتی تھی اور مطالعہ واستنباط کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا تھا۔ چنانچہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی ناکامی اور پورے جنوبی ایشیا میں صدیوں سے چلے آنے والے ہزاروں دینی مدارس کی یک لخت بندش وخاتمہ کے بعد جب حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور حضرت حاجی عابد حسینؒ جیسے بزرگوں نے ضلع سہارنپور کے قصبہ دیوبند میں رضاکارانہ چندہ اور امداد باہمی کی بنیاد پر ۱۸۶۵ء میں مدرسہ عربیہ کے نام سے ایک نئی درس گاہ قائم کی تو اس میں درس نظامی کے اسی نصاب کو تعلیم وتدریس کے نئے سلسلہ کی بنیاد بنایا اور یہی سلسلہ آگے چل کر پورے جنوبی ایشیا میں آزاد دینی مدارس کے ایک وسیع نظام کا نقطہ آغاز قرار پا گیا۔ مگر دیوبند کے حضرات نے درس نظامی کے نصاب کو من وعن قبول نہیں کیا بلکہ اس میں اس وقت کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ترمیم واضافہ بھی کیا۔ ان حضرات کا علمی وفکری تعلق حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ سے تھا اور جہاد بالاکوٹ کی ناکامی کے باعث ولی اللہی خاندان کے مسند نشین حضرت شاہ محمد اسحاق دہلویؒ کی حجاز مقدس کی طرف ہجرت کے بعد اس خاندان کے علمی ورثہ اور فکری مشن کے یہی حضرات وارث تھے اس لیے انہوں نے دونوں علمی سرچشموں کے درمیان سنگم اور پل کی حیثیت اختیار کر لی اور درس نظامی کے مذکورہ نصاب کے ساتھ شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے علوم وفلسفہ کا جوڑ لگا کر ایک ایسا نصاب تعلیم رائج کیا جو تھوڑے بہت رد ودبدل کے ساتھ جنوبی ایشیا کے اکثر دینی مدارس میں اس وقت بھی رائج ہے اور اب تک مختلف ادوار اور مختلف حلقوں کی ترامیم اور اضافہ کے باوجود ’’درس نظامی‘‘ ہی کہلاتا ہے۔
دار العلوم دیوبند نے جب اس نصاب کو اپنایا تو اس وقت کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اس میں دو بنیادی تبدیلیاں کیں۔ ایک یہ کہ درس نظامی کے پرانے نصاب میں حدیث کی صرف ایک کتاب، مشکوۃ شریف تھی لیکن حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تعلیمات وارشادات کو سامنے رکھتے ہوئے دیوبند کے نصاب میں صحاح ستہ یعنی بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ اور نسائی کو بھی شامل کر لیا گیا۔ یہ اس وقت کی اہم ضرورت تھی جسے دیوبند کے اکابر نے محسوس کرتے ہوئے نصاب کے اندر سمودیا۔ اسی طرح جہاد بالاکوٹ کے بعد جب حضرت شاہ محمد اسحاق دہلویؒ ہجرت کر کے حجاز مقدس چلے گئے تو ان کی جگہ دہلی کی مسند حدیث پر حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلویؒ متمکن ہوئے جن کا رجحان حنفیت سے گریزاں اس مکتب فکر کی طرف تھا جو بعد میں اہل حدیث کے نام سے موسوم ہوا۔ ظاہر ہے کہ حدیث کی تعلیم میں ان کے ہاں انہی احادیث وروایات کی ترجیح کا پہلو غالب ہونا تھا جو ان کے رجحانات سے مطابقت رکھتا تھا اس لیے یہ تاثر عام ہونے لگا کہ حدیث نبویؐ اور فقہ حنفی الگ الگ بلکہ ایک دوسرے کے مقابل علوم کا نام ہے۔ اس تاثر کو دور کرنے کے لیے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے حدیث کی تعلیم وتدریس کے دوران فقہ حنفی کے مسائل واحکام کے احادیث نبویہؐ سے اثبات اور ان کی ترجیح کے طرز کو اپنایا جسے بعد میں حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ اور حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ نے کمال تک پہنچا دیا۔
ان دو تبدیلیوں میں سے ایک کا تعلق نصاب میں اضافہ سے ہے اور دوسری تبدیلی طرز تدریس سے تعلق رکھتی ہے جو ظاہر ہے اس وقت کی ضروریات اور تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے عمل میں لائی گئیں لیکن اس کے بعد نصاب اورطرز تعلیم پر جمود کی ایسی مہر ثبت کر دی گئی کہ زمانے کی ضروریات اور تقاضوں سے آنکھیں بند کر لینے کوہی عافیت کا واحد ذریعہ سمجھ لیا گیا حتی کہ بڑے بڑے اکابر چیختے چلاتے رہ گئے مگر مدارس دینیہ کے ارباب حل وعقد کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اس سلسلہ میں ارباب مدارس کے بھی کچھ تحفظات اور مجبوریاں ہیں جو ہمارے پیش نظر ہیں اور ہم نے اپنے مضامین میں ان کا تفصیل سے ذکر کیا ہے لیکن ان تحفظات اور مجبوریوں کے دائرے قائم رکھتے ہوئے بھی جو ضروری ترامیم اور اضافے آسانی کے ساتھ ہو سکتے تھے، بدقسمتی سے انہیں بھی نظر انداز کر دیا گیا اور ابھی تک مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمہ اللہ تعالی ہمارے دور کے اکابر علما میں سے تھے اور ان کا شمار حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تعالی کے ابتدائی دور کے مایہ ناز شاگردوں میں ہوتا ہے جب حضرت شاہ صاحبؒ دار العلوم دیوبند میں پڑھایا کرتے تھے۔ مولانا نعمانی اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ جس سال وہ دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے تو حضرت شاہ صاحبؒ نے دورۂ حدیث کے طلبہ کو رخصت کرنے سے قبل ایک خصوصی نشست میں ہدایات اور نصائح سے نوازا جن میں سب سے اہم نصیحت یہ تھی کہ اگر اسلام کی دعوت وتبلیغ کا کام صحیح طریقے سے کرنا چاہتے ہو تو اس کے لیے انگریزی زبان سیکھنا ضروری ہے۔ اس واقعہ کو پون صدی گزر چکی ہے مگر ہمارے مدارس اب بھی انگریزی زبان کے بارے میں تردد کا شکار ہیں کہ سرے سے اس کی ضرورت بھی ہے یا نہیں؟
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس اللہ سرہ العزیز نے بھی اس مسئلے پر بہت کچھ فرمایا مگر ان کی آواز بھی صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ میں اس موقع پر ان کے دو تین ارشادات نقل کرنا چاہوں گا جس سے بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ دینی مدارس کے نصاب ونظام میں تبدیلی کی ضرورت پر اکابر علما کے احساسات اور اس کے ارباب اختیار کے ذہنی وفکری جمود کے درمیان کتنا فاصلہ تھا۔
حضرت تھانویؒ قرآن کریم کی تدریس کے مروجہ طرز پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’قرآن شریف کا طرز عام مصنفین کے طرز پر نہیں ہے بلکہ محاورہ بول چال کا طرز ہے۔ نہ اس میں اصطلاحی الفاظ کی پابندی۔ ناواقف لوگ اس کو عام تصانیف کے طریقہ پر منطبق کرنا چاہتے ہیں اس لیے سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس مضمون کو صاحب کشاف نے بھی لکھا ہے۔ اس لیے میں کہا کرتا ہوں کہ ضروری صرف ونحو اور کسی قدر ادب پڑھا کر قرآن شریف کا سادہ پڑھا دینا مناسب ہے کیونکہ کتب درسیہ کی تحصیل کے بعد دماغ میں اصطلاحات رچ جاتی ہیں پھر طالب علم قرآن شریف کو اسی طرز پر منطبق کرنے لگتا ہے۔ اس طرح قرآن شریف کا ترجمہ پڑھ کر پھر فنون ضرور پڑھے کیونکہ بعض مقامات قرآنیہ بغیر فنون کے حل نہیں ہوتے‘‘ (کلام الحسن ص ۳۲)
اسی مسئلہ کو ایک اور انداز میں یوں بیان فرماتے ہیں کہ
’’اہل مدارس طرز تعلیم میں کچھ ترمیم کریں۔ جیسے بعض متون بغیر شرح کے پڑھائی جاتی ہیں، اسی طرح جلالین سے پہلے قرآن مجید بھی بغیر کسی خاص تفسیر کے زبانی حل کے ساتھ پڑھایا جایا کرے۔ یا تو پورا قرآن پہلے پڑھا دیا جائے یا ایسا کریں کہ مثلا ربع پارہ اول خالی قرآن کریم میں پڑھا دیا جائے پھر اسی قدر جلالین پڑھا دی جائے اور مدرس اپنی سہولت کے لیے خواہ جلالین اپنے پاس رکھے یا اور کوئی مبسوط تفسیر۔ تو طلبہ کو پڑھنے میں، اسی طرح یاد کرنے کی اور مطالعہ کر کے حل کرنے کی عادت پڑ جائے گی‘‘ (اصلاح انقلاب ص ۴۷)
جبکہ نصاب میں ضروری اضافوں کے حوالے سے حضرت تھانویؒ کا ارشاد گرامی یہ ہے کہ:
’’یہ میری بہت پرانی رائے ہے اور اب تو رائے دینے سے بھی طبیعت افسردہ ہو گئی اس لیے کہ کوئی عمل نہیں کرتا۔ وہ رائے یہ ہے کہ تعزیرات ہند کے قوانین اور ڈاک خانہ اور ریلوے کے قواعد بھی مدارس اسلامیہ کے درس میں داخل ہونے چاہییں۔ یہ بہت پرانی رائے ہے مگر کوئی مانتا اور سنتا ہی نہیں۔‘‘ (الافاضات الیومیہ، جلد ششم، ص ۴۳۵)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس اللہ سرہ العزیزکے ان ارشادات کو نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دینی مدارس کے نصاب ونظام اور طرز تدریس دونوں میں تبدیلی اور وقت کی ضروریات کو ان میں سمونے کی ضرورت کا احساس بہت پرانا ہے اور اس کا اظہار بڑے بڑے اکابر نے کیا ہے لیکن دوسری طرف مدارس کے ارباب حل وعقد کے جمود کی بھی داد دیجیے کہ حضرت تھانویؒ جیسے بزرگ کو بھی اس حسرت کے ساتھ سپر انداز ہونا پڑا ہے کہ ’’کوئی مانتا اور سنتا ہی نہیں‘‘۔
ہمارے دور میں اس مسئلہ پر سب سے زیادہ بحث حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری قدس اللہ سرہ العزیز نے کی ہے اور درجنوں مضامین ومقالات میں انہوں نے نصاب تعلیم اور طرز تدریس میں وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیلی کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ ان کا ارشاد ہے کہ نصاب میں تین طرح کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے:
(۱) تخفیف، یعنی بھاری بھرکم نصاب کو کچھ ہلکا کیا جائے اور ایک ہی فن میں درجنوں کتابیں الگ الگ پڑھانے کے بجائے تین چار اہم اور زیادہ مفید کتابوں کی تعلیم دی جائے۔
(۲) تیسیر، یعنی مشکل پسندی کا طریقہ ترک کر کے غیر متعلقہ مباحث میں طلبہ کے ذہنوں کو الجھانے کے بجائے نفس کتاب اور نفس مضمون کی تفہیم کو ترجیح دی جائے۔
(۳) اثبات وترمیم، یعنی غیر ضروری فنون کو حذف کر کے جدید اور مفید علوم کو شامل کیا جائے۔ حضرت بنوریؒ نے اس سلسلہ میں جن نئے علوم کو نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے، ان میں ۱۔ تاریخ اسلام، ۲۔ سیرت النبیؐ، ۳۔ جدید عربی ادب وانشا، ۴۔ جدید علم کلام، ۵۔ ریاضی اور ۶۔ معاشیات بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
اس مسئلہ پر حضرت مولانا ابو الکلام آزادؒ نے بھی بحث کی ہے اور انہوں نے ۲۲ فروری ۱۹۴۷ء کو لکھنؤ میں عربی مدارس کے نصاب کے بارے میں ایک کمیٹی کی صدارت کرتے ہوئے جو خطبہ ارشاد فرمایا، وہ ہمارے نصاب ونظام پر ایک جامع اور مکمل تبصرہ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس موضوع سے دل چسپی رکھنے والے ہر شخص کو اس کا بار بار مطالعہ کرنا چاہئے۔ یہ خطبہ صدارت ادارہ نشریات اسلام اردو بازار لاہورکے طبع کردہ ’’خطبات آزادؒ ‘‘ میں موجود ہے اور ہم نے بھی ماہنامہ الشریعہ کے نومبر ۱۹۹۳ء کے شمارے میں اسے شائع کیا ہے۔ اس مختصر مضمون میں اس کے تمام ضروری مباحث اور پہلوؤں کا تذکرہ تو ممکن نہیں ہے مگر دو اقتباسات ضرور پیش کرنا چاہوں گا تاکہ وقت کی ضروریات اور تقاضوں سے ہماری بے خبری بلکہ بے پروائی کا کچھ اندازہ ہو سکے۔
’’حضرات ! مجھے معاف کیا جائے۔ ۱۴ تا ۱۵ برس تک لڑکے پڑھتے ہیں اور دس سطریں عربی کی صلاحیت کے ساتھ نہیں لکھ سکتے۔ اگر لکھیں گے تو ایسی عربی ہوگی جس کو ایک عرب نہ پہچان سکے گا۔ تو یہ ایک بہت بڑا نقص ہے جو ہندوستان میں پیدا ہوا۔ ضرورت ہے کہ عربی کی تعلیم کی نیو نئے سرے سے قائم کریں۔ بہترین کتابیں موجود ہیں، بہترین مواد موجود ہے، ایسی کتابیں موجود ہیں کہ عربی ادب کے معجزات میں جن کا شمار ہو سکے۔‘‘
اسی خطبہ میں مولانا آزادؒ فرماتے ہیں
’’میں نے بھی پھٹی ہوئی چٹائیوں پر بیٹھ کر انہی کتابوں کو پڑھا ہے اور میری ابتدائی تعلیم کا وہ سرمایہ ہیں۔ ایک منٹ کے لیے بھی میرے اندر مخالفت کا خیال نہیں پیدا ہو سکتا مگر میرا دل اس بارے میں زخمی ہے۔ یہ معاملہ تو ایسا تھا کہ آج سے ایک سو برس پہلے ہم نے اس چیز کو محسوس کیا ہوتا اور اس حقیقت کو تسلیم کیا ہوتا کہ اب دنیا کہاں سے کہاں آ گئی ہے اور اس کے بارے میں کیا تبدیلی ہمیں کرنا ہے لیکن اگر سو برس پہلے ہم نے تبدیلی نہیں کی تو کم از کم یہ تبدیلی ہم کو پچاس برس پہلے کرنا چاہئے تھی۔ لیکن آج ۱۹۴۷ء میں اپنے مدرسوں میں جن چیزوں کو ہم معقولات کے نام پر پڑھا رہے ہیں، وہ وہی چیزیں ہیں جن سے دنیا کا دماغی کارواں دو سو برس پہلے گزر چکا۔ آج ان کی دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘
الغرض دینی مدارس کی تمام تر خدمات، قربانیوں، ایثار اور تاریخی کردار کے باوجود آج کے دور کے تقاضوں اور ضروریات کے حوالے سے ان کے نصاب ونظام میں ضروری رد وبدل اور مناسب ترمیم واضافہ وقت کی ایک اہم ترین ضرورت ہے جس کی طرف اکابر علماء حق ہر دور میں توجہ دلاتے چلے آ رہے ہیں اور ہماری گزارش بھی یہی ہے کہ وقت کے تقاضوں کو محسوس کیا جائے، دینی ضروریات کو سامنے رکھا جائے اور مستقبل کے امکانات وخطرات کا ادراک کرتے ہوئے باہمی مشاورت کے ساتھ جو تبدیلی بھی ناگزیر ہو ،اسے اختیار کرنے میں تامل سے کام نہ لیا جائے۔ اس سلسلہ میں دینی مدارس کے سینئر اساتذہ اور دور حاضر کے مسائل وضروریات پر نظر رکھنے والے ارباب علم ودانش کے درمیان وسیع پیمانے پر مذاکروں اور مباحثوں کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سنجیدگی کے ساتھ سننے اور اس کی روشنی میں تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ خدا کرے کہ ہمارے ارباب مدارس اس ضرورت کا جلد احساس کریں اور اسے پورا کرنے کے لیے حوصلہ اور جرات کے ساتھ پیش رفت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
انتہائی افسوس ناک پولیس ایکشن
مارچ ۲۰۰۱ء کے تیسرے ہفتے کے دوران میں لاہور میں ملک کے معروف روحانی پیشو ااور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیر حضرت مولانا سید نفیس شاہ صاحب الحسینی مدظلہ کی رہائش گاہ پر ندوۃ العلماء لکھنؤ سے آئے ہوئے حضرت مولانا سید سلمان ندوی اور ان کے رفقا قیام پذیر تھے کہ نصف شب کو پولیس اہل کاروں نے وہاں دھاوا بول دیا، چند معزز مہمانوں سمیت مکان میں موجود متعدد حضرات کو گرفتار کر کے آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر پولیس ہیڈ کوارٹر لے جایا گیا اور رات بھر انہیں پریشان و ذلیل کیا گیا۔ یہ پولیس ایکشن نہایت افسوس ناک بلکہ شرمناک ہے جس سے عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہو گی۔ اس پولیس ایکشن کی جس قدر مذمت کی جائے، کم ہے۔ ہم گورنر پنجاب سے مطالبہ کرتے ہوئے کہ وہ ذاتی طور پر اس واقعہ کا نوٹس لیں اور اس کے ذمہ دار پولیس افسران کے خلاف سخت کارروائی کے علاوہ ندوۃ العلما لکھنؤ سے آنے والے معزز مہمانوں کی توہین پر سرکاری سطح پر معذرت کی جائے۔
سؤر کے گوشت کے نقصانات
حکیم محمود احمد ظفر
قرآن حکیم نے سؤر کے گوشت کے بارے میں یہ حکم دیا
انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اھل بہ لغیر اللہ فمن اضطر غیر باغ ولا عاد فلا اثم علیہ ان اللہ غفور رحیم۔ (البقرہ ۱۷۳)
بے شک اللہ تعالی نے حرام کر دیا ہے تم پر مردار، خون اور سؤر کا گوشت اور وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ ہاں جو شخص مجبوری اور اضطرار کی حالت میں ان میں سے کوئی چیز کھالے بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی یا حد سے تجاوز کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔ بے شک اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
قرآن حکیم خنزیر کے گوشت کو چار مختلف آیات میں منع کرتا ہے۔ اس کے حرام ہونے کا حکم سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۷۳، سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ۳، سورۃ الانعام کی آیت نمبر ۱۴۵ اور سورۃ النحل کی آیت نمبر ۱۱۵ میں صریحا دیا گیا ہے۔ اس حکم کو چار مختلف سورتوں میں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس حقیقت کو پرزور طریقے سے لوگوں کو بتایا جائے اور یہ کہ ہر شخص اس مسئلہ پر پوری توجہ کرے۔
روز مرہ زندگی میں سؤر سے دور رہنے کے لیے یہی وجہ کافی ہے کہ یہ بے حد غلیظ جانور ہے اور ان میں مشہور قسم کے نقصان دہ طفیلی جراثیموں کی تھیلی Trichina Cyst پائی جاتی ہے، مگر بدقسمتی سے ان معاشروں میں جہاں کئی سالوں تک سؤر کے گوشت پر پابندی رہی ہے، کچھ لوگوں نے اب یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ جانور کے ڈاکٹری معائنے کے بعد اس کو کھایا جا سکتا ہے۔
سؤر کے گوشت کی ممانعت کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟ گزشتہ ۲۵ سالوں میں قرآن حکیم کے اس حکم کی تائید میں سائنس نے متعدد وجوہ ڈھونڈلی ہیں اور خود سائنس دان بھی اللہ تعالی کے اس حکم پر حیرت زدہ رہ گئے ہیں جو اس نے قرآن حکیم کی اس آیت میں دیا ہے۔ اب میں سؤر کے جسم کے ان حصوں پر سائنسی تحقیقات کا خلاصہ پیش کروں گا جو انسانی صحت کے لیے مضرت رساں ہیں۔
مشہور جرمن میڈیکل سائنس دان ہینز ہائنرک ریکویگ (Hans Heinrich Rechweg) نے سؤر کے گوشت میں ایک عجیب قسم کی زہریلی پروٹین سٹوکسن (Sutoxin)کی نشان دہی کی ہے جس سے کئی قسم کی الرجی والی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ زہر اس قسم کی الرجی والی بیماریوں مثلا ایگزیما اور دمہ کے دورے (Asthamatic Rash) کا باعث بنتی ہے۔ اگر سٹوکسن کی مقدار یا خوراک کم ہو تو بھی اس سے تھکاوٹ اور جوڑوں کے درد کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے اگر کچھ لوگوں کی اس بات کو تھوڑی دیر کے لیے مان بھی لیا جائے کہ سؤر کا گوشت سستا ہوتا ہے تو اس سے پیدا ہونے والی بیماریاں بہت مہنگی ہوتی ہیں لہذا ان بیماریوں کے علاج میں وقت کے ضیاع اور دواؤں کے اخراجات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے۔ تب اس گوشت کی کوئی خوبی نظر نہیں آئے گی۔
جانوروں پر تجربات کے سلسلے میں سؤر کا اثر ہمیشہ نظر آجاتا ہے۔ اس جانور کے رطوبت چھوڑنے والے غدودوں کے نظام (Lymphatic System) میں تیزی سے ہونے والی فرسودگی سے ایسی خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں جو اس وجہ سے ہے کہ یہ جانور نقصان دہ بیکٹیریا سے بھری ہوئی خوراک متواتر بغیر وقفہ کے کھاتا رہتا ہے۔
خنزیر کے گوشت میں ایک عنصر میوکو پولائزک چرائڈ (Muco Polysac Charides) کافی تعداد میں پایا جاتا ہے اور چونکہ اس میں گندھک (Sulphur) ضرورت سے زیادہ ہوتا ہے، اس لیے اس کی وجہ سے جوڑوں کی بہت سی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ سؤر میں بڑھنے کے عمل میں تیزی پیدا کرنے والے ہارمونز ایک بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے گوشت کے عادی لوگوں کے جسم بھی بدنما اور عیب زدہ ہو جاتے ہیں۔
ایک اور پریشان کن بیماری جو سؤر کے گوشت کے ذریعے سے پیدا ہوتی ہے، اسے شیپ وائرس (Sheep virus) کہتے ہیں۔ یہ وائرس انسانی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتا ہے، اس لیے کہ خود سؤر کے پھیپھڑوں میں بھی یہ کثیر مقدار میں پایا جاتا ہے۔
سؤر کا گوشت خون میں چربی والے اجزا کے تناسب کا ضرورت سے زیادہ مقدار میں اضافہ کر دیتا ہے۔ آج کل ایسی خوراک یعنی قیمہ بھری آنتوں (Sausages) اور سلامی (Salami) وغیرہ بہت مرغوب سمجھی جاتی ہیں۔ سؤر کھانے والوں کے جسم رفتہ رفتہ ایک انگیٹھی کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ یورپ کے کئی شہروں میں یہ حقیقت بآسانی دیکھی جا سکتی ہے۔ پروفیسر لیٹرے (Prof. Lettre) نے تابکاری طریقے (Radioactive Tagging)استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ خوراک جسم کے اسی حصے میں مرکوز ہو جاتی ہے جس حصہ کی وہ خوراک ہے۔ چنانچہ اس نظریہ کا ثبوت مل جاتا ہے کہ سؤر کھانے والوں کے چوتڑوں میں چربی اکٹھی ہو جاتی ہے۔
سؤر کھانے والوں کو لاحق ہونے والی ایک اور مہلک بیماری چنونے یا کیڑوں والی بیماری ہوتی ہے جسے Trichinaکہتے ہیں۔سٹاہل (Stahl) نے اس موضوع پر اپنی کتاب This Wormy World میں یہ بتایا ہے کہ اس وقت دنیا میں قریبا تین کروڑ کی تعداد میں لوگ اس بیماری کے شکار ہیں۔ لاعلمی پر مبنی خیالات کے برخلاف اوپر بیان کردہ بیماری ٹرائی کینا دماغ میں صرف نقصان دہ گلٹی یا تھیلی ہی نہیں بناتی بلکہ چونکہ سور سے پھیلائی گئی یہ وبا خون میں رکاوٹ یا منجمد کرنے کا عمل بھی پیدا کرتی ہے، اس لیے اس سے ٹائیفائڈ جیسا موذی مرض بھی پیدا ہوتا ہے اور اس سے اچانک موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ سور کا گوشت جسم کے پٹھوں میں مرکوز ہو کر پٹھوں کی خطرناک بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔
سور سے متعلق مخصوص چوڑے خنزیری کیڑے (Tape Worm)والی ایک اور بیماری بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ بہت سے یورپی ممالک میں سور کے پھیپھڑوں کا کھانا ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ مگر سور کے عام گوشت کے ذریعہ بھی یہ بیماری پیدا ہو سکتی ہے۔ انسانی صحت کو سب سے زیادہ نقصان اس بیماری سے ہوتا ہے جس سے اس جانور کے گردوں کی سخت چربی کے ذریعے آنتوں میں خاص قسم کے طفیلی کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک عام فہم بات ہے کہ جانوروں کے گوشت میں دو قسم کی چربی ہوتی ہے۔ ان میں سے پہلی تو وہ ہے جو صاف نظر آتی ہے اور گوشت کے اوپر لپٹی ہوتی ہے جبکہ دوسری قسم کی چربی وہ ہوتی ہے جو خود گوشت کے پٹھوں کے ریشوں کے اندر ہی پائی جاتی ہے۔ جہاں تک چربی کا گوشت میں مرکوز ہو جانے کا معاملہہے، دوسری قسم کی چربی سے بطور خاص ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں عام قسم کے گوشت کی چیزوں میں چربی کا مرکوز ہو جانا درج ذیل ہے۔
بچھڑے کا گوشت (۱۰ فیصد)
بھیڑ کاگوشت (۲۰ فیصد)
بھیڑکے بچے کا گوشت (۲۳ فیصد)
سؤر کا گوشت (۳۵ فیصد)
جانوروں سے حاصل کردہ چربی جو ہمارے جسم میں جاتی ہے، اس کے متعلق یہ تحقیق ہو چکی ہے کہ انسانی خون میں یہ سب سے کم مقدار میں تحلیل ہوتی یا گلتی ہے۔ چنانچہ اس کے کھانے سے خون میں چربی (Lipid) اور کولیسٹرول (Cholesterol) کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر یہ اجزا خون کے بہاؤ میں زیادہ عرصہ تک موجود رہیں تو یہ چپکنے سے رکاوٹ بناتے ہیں اور خون کی شریانوں کو سخت کر دیتے ہیں۔ آج کل تو پوری طرح سے تسلیم کر لیا گیا ہے کہ خوراک میں چربی کا زیادہ مقدار میں ہونا ہی دل کی شریانوں کی بیماریوں کا سب سے بڑا سبب ہے۔ خون میں چربی کی مقدار کا ضرورت سے زیادہ ہونا وقت سے قبل بڑھاپے، ضعف، فالج اور دل کے دورے کی بلا شبہ ایک عام وجہ ہے۔
آج کل قصاب کی دوکان میں داخل ہونے والا ہر گاہک بغیر چربی کے گوشت کا طلب گار ہوتا ہے لیکن دراصل اس چربی کی زیادہ اہمیت نہیں ہے جو گوشت کے باہر ظاہری طور پر نظر آتی ہے بلکہ اس چربی سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جو ظاہری طور پر نظر نہیں آتی مگر گوشت کے اندر پٹھوں کے ریشوں میں چھپی ہوتی ہے۔
سور کے گوشت میں بہت زیادہ چربی سے ایک اور نقصان یہ ہے کہ انسانی جسم میں وٹامن ای ضرورت سے کم ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ایسا گوشت کھانے والوں میں وٹامن ای فورا تحلیل ہونے کے عمل سے اس وٹامن میں اندرونی مخفی کمی پید اہو جاتی ہے۔ اب یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ وٹامن ای بہت سے دل چسپ کام انجام دیتا ہے۔ ان میں سے ایک کام وہ ہے جس کا جنسیاتی غدود (Sex Glands) پر اہم اثر ہے۔ موٹے لوگ، خاص طور پر سور کا گوشت کھانے والے لوگ وٹامن ای کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں اور نتیجتا جنسی طور پر سست او رنامرد ہو جاتے ہیں۔ وٹامن ای کی کمی رفتہ رفتہ مختلف قسم کی جلدی اور آنکھوں کی بیماریاں پیدا کر دیتی ہے۔
جیسا کہ ہم نے ابتدا میں بتایا کہ مستقل اور متواتر گندی اور غلیظ خوراک اور فضلہ کھانے سے سور کے جسم کا لمفی نظام متواتر حرکت میں رہتا ہے اور ان حفاظت دینے والے اجزا سے بھرا رہتا ہے جن میں مخصوص سفید چربی البومن (Albumin) پائی جاتی ہے۔ یہ اجزا جو جسم کے محفوظ رکھنے والے نظام(Immune System) میں پیدا ہوتے ہیں اور جن پر متعدی امراض سے متعلق تحقیقات ہو رہی ہیں، دوسرے جسیموں یا مخلوق کے لیے انتہائی زہریلے اور مہلک اثرات رکھتے ہیں۔ اس لیے ایک جسیمہ یا مخلوق اپنے جسم کے خلیوں کی حفاظت کے لیے جو مخصوص قسم کے پروٹین پیدا کرتا ہے، وہی پروٹین دوسرے جسیمے یا اس کے کھانے والے کے خلیوں کے لیے زہر کا اثر رکھتا ہے۔ اس حقیقت کی بنا پر سؤر کے گوشت کے مسلسل استعمال سے مختلف الرجی قسم کی بیماریاں اور پٹھوں کی سوجن کی بیماری بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اگرچہ یہ حتمی طور پر ثابت نہیں ہو سکا لیکن یہ بات قرین قیاس ہے کہ یہی اجزا ہماری نسوں اور رطوبت پیدا کرنے والے لمفی نظام کے عمل میں انتشار کا باعث بھی بنتے ہیں۔
چونکہ خنزیر ایک ایسا جانور ہے جو بہت سی بیماریوں کا شکار رہتا ہے اس لیے یہ ناممکن ہے کہ اس کے گوشت کو کھانے اور ہضم کے ذریعے نقصان دہ سفید چربی والی البومنز، جنہیں اینٹی باڈی کہتے ہیں، انسانی جسم کے اندر داخل نہ ہو جائے۔
الغرض سور کا گوشت ایک ایسی خوراک ہے جسے نشوونما کے لیے نہیں بلکہ خود کو زہریلا مواد کھلانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جبکہ اس سلسلے میں تمام قسم کے حقائق سامنے آ چکے ہیں اور وہ لوگ جو اس کو محض شوق اور دکھاوے کے لیے کھاتے ہیں، ان کا مسئلہ تو اور بھی زیادہ خراب ہے۔
قرآن حکیم کی اس آیت کے ذریعے ایک اور اہم سبق جو ملتا ہے، وہ یہ ہے کہ سور کے گوشت کو خون اور مردار کے ساتھ حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہاں اس کی مثال اس طرح ہے کہ نقصان دہ جراثیم اور جانوروں سے پیدا ہونے والے زہر (ٹاکسن) ا س نکمے گوشت یعنی جگر یا دل کے گوشت میں ایک ساتھ جمع ہو جائیں، اسی قدر نقصان دہ اجزا سور کا گوشت مہیا کرتا ہے۔ ہماری توجہ بطور خاص خون میں پائی جانے والی رطوبت کے البومنز کا سور کے لمفی نظام سے پیدا ہونے والی البومنز کی طرف مبذول کرائی جا رہی ہے۔ چنانچہ آیت کریمہ میں سور کے گوشت کو مردار کے گوشت سے اس لیے ملا دیا گیا ہے کہ ان دونوں میں جراثیم سے آلودہ گندگی پائی جاتی ہے اور خون سے اس لیے ملایا گیا ہے کہ دونوں کے البومنز میں نقصان دہ رطوبت پائی جاتی ہے۔
ہم صاف صاف دیکھ سکتے ہیں کہ قرآن حکیم اس فرمان کے ذریعے سے ایک بلا وجہ قسم کی نکتہ چینی نہیں کر رہا بلکہ انسانی صحت وتندرستی کے لیے ایک بیش قیمت تحفہ پیش کر رہا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ سور کے گوشت کے ان نقصانات کا وسیع طو رپر علم ہو جانے کے بعد بھی اس کو متواتر کھایا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں اس سلسلے میں معاشی عوامل کا خاصا دخل ہے۔ مگر بہت جلد یہ چیز صحت کے لیے ایک خطرناک مسئلہ بن جائے گی۔ آج کل تو یہ بالکل عیاں بات ہے کہ دل اور خون کی شریانوں کی بیماریاں ان معاشروں میں بہت زیادہ پائی جاتی ہیں جہاں سور کا گوشت عام طور پر کھایا جاتا ہے۔ پھر بھی تاحال سور کے گوشت میں ضرورت سے زیادہ چربی کا وجود عوام میں تشویش یا بحث مباحثے کا موضوع نہیں بنا ہے۔ بہرحال یہ مسئلہ اب ایجنڈے پر آ چکا ہے اور یہ امید کی جا سکتی ہے کہ دنیا مستقبل قریب میں قرآن حکیم کے حکم کے مطابق سؤر کے گوشت سے اجتناب کر لے گی۔
آخر میں ہم اس سائنسی نقطہ نظر کو پیش کریں گے جس میں سور کے گوشت سے متعلق ایک اور اہم بات کی جاتی ہے۔ بہت سے مسلمان دانش وروں نے دعوی کیا ہے کہ صرف سور ہی ایک ایسا جانور ہے جس میں اپنی مادہ کے سلسلے میں کسی قسم کے حسد یا غیرت کا جذبہ نہیں پایا جاتا۔ اور اس لیے وہ اس کے لیے لڑائی بھی نہیں کرتا۔ اسی نسبت سے سور کھانے والے لوگ اور قومیں بھی جنسی طور پر بے غیرت ہوتی ہیں۔
فہم قرآن کے ذرائع ووسائل
محمد عمار خان ناصر
قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا، اس لیے اس کے فہم کی اولین شرط عربی زبان کا مناسب علم ہے۔ لیکن محض عربی زبان کا علم فہم قرآن کے لیے کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ قرآن کے نظم، اس کے زمانہ نزول کے حالات، کتب سابقہ اور حدیث وسنت کا علم بھی فہم قرآن کے لیے لازمی شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ ذیل میں ہم فہم قرآن کے ان ذرائع کی تفصیل پیش کرتے ہیں۔
قرآن کا نظم
کسی بھی کلام کے صحیح مفہوم کی تعیین میں اس کے نظم اور سیاق وسباق کی رعایت ایک بنیادی شرط ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی متکلم جب کلام کرتا ہے تو وہ بات کے تمام اجزا کو الفاظ میں بیان نہیں کرتا بلکہ ایسی بیشتر باتوں کو حذف کر دیتا ہے جن کو اس کا مخاطب اپنے سابق علم، متکلم کے ساتھ اپنے تعلقات ، اس کے لہجے، کلام کی ترتیب اور اس ماحول کی روشنی میں سمجھ سکتا ہے جس میں کلام کیا جا رہا ہے۔ یہ تمام لواحق کلام کے صحیح فہم کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اور کسی بھی کلام کو اگر اس کے ان لواحق سے ہٹا کر پیش کیا جائے تو اس بات کا غالب امکان ہے کہ نہ صرف متکلم کی منشا کا درست ابلاغ نہ ہو پائے گا بلکہ بعض صورتوں میں کلام کا مفہوم متکلم کی مراد کے بالکل الٹ لے لیا جائے گا۔
اس عام عقلی اصول کا اطلاق کتاب اللہ پر بھی ہوتا ہے۔چنانچہ دیکھئے:
صحیح مفہوم کی تعیین
قرآن مجید میں بہت سے مقامات ایسے ہیں کہ جن میں اگر سیاق وسباق کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو آیات کا انفرادی مفہوم خبط ہو کر رہ جاتا ہے۔ گمراہ فرقوں نے بیشتر اسی طریقے سے اپنی گمراہیوں کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
مثلا سورۃ البقرہ میں ارشاد ہے :
ان الذین آمنوا والذین ھادوا والنصاری والصابئین من آمن باللہ والیوم الاخر وعمل صالحا فلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور یہود ونصاری اور صابئین، ان میں جو بھی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے اور نیک اعمال کیے، ان کو ان کے رب کے ہاں اپنا اجر ملے گا اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (۱)
ملحدین نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ نجات کے لیے رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا ضروری نہیں بلکہ اس کا مدار ایمان باللہ ، ایمان بالآخرۃ اور اعمال صالحہ پر ہے ۔ لیکن اگر اس آیت کے سیاق کو دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوگا کہ یہ ان عقائد کی تفصیل بیان کرنے کے لیے نہیں آئی جو نجات کے لیے ضروری ہیں بلکہ یہود کے اس عقیدہ کی تردید کے لیے آئی ہے کہ وہ نسلی اعتبار سے خدا کی منتخب قوم ہیں اور محض اس بنا پر آخرت میں خدا کی نعمتوں اور رحمتوں کے مستحق ہوں گے۔ اس کا جواب اللہ نے یہ دیا ہے کہ اللہ کے ہاں کسی خاص گروہ یا قوم سے متعلق ہونا نجات کے لیے معتبر نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ایمان اور عمل صالح کی شرط ہے۔ چونکہ یہ بات ایک عام قاعدہ کی حیثیت سے بیان کی گئی ہے اور اس کا اطلاق رسول اللہ ﷺ سے پہلے گزر جانے والے لوگوں پر بھی ہوتا ہے، اس لیے اس میں رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا ذکر ناموزوں تھا۔ چنانچہ صرف وہ باتیں ذکر کی گئی ہیں جو آیت میں مذکور تمام گروہوں میں قدر مشترک کی حیثیت رکھتی تھیں۔
اسی طرح سورۃ الاحزاب میں ارشاد ہے :
ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین۔
محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں۔ وہ تو اللہ کے رسول اور سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے ہیں۔(۲)
منکرین ختم نبوت نے اس آیت میں خاتم النبیین کے لفظ کے قطعی مفہوم میں تحریف کرتے ہوئے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے :’’نبیوں پر مہر لگانے والا یعنی ان کی تصدیق کرنے والا‘‘ اور اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ اگرچہ حسی لحاظ سے آپ کی کو ئی نرینہ اولاد نہیں ہے لیکن آپ اللہ کے رسول ہیں اور آپ کی تصدیق سے آپ کی امت میں اور بھی نبی ہوں گے جو آپ کی روحانی اولاد ہوں گے۔
آیت کے مفہوم میں یہ تحریف اس کے سیاق کو نظر انداز کیے بغیر ممکن نہیں، کیونکہ یہ آیت رسول اللہ ﷺ کے متبنی حضرت زید بن حارثہؓ اور آپ کی پھوپھی زاد بہن حضرت زینبؓ کے نکاح اور پھر جدائی کے واقعہ کے ضمن میں آئی ہے۔ عرب کے معاشرے میں متبنی کو حقیقی بیٹے ہی کا مقام دیا جاتا تھا۔ چنانچہ جب اللہ تعالی کے حکم سے حضرت زیدؓ کے طلاق دینے کے بعد رسو ل اللہ ﷺ نے حضرت زینبؓ سے خود نکاح کر لیا تو منافقین نے اس کو غوغا آرائی اور فتنہ انگیزی کا سامان بنا لیا۔ اس پر اللہ تعالی نے یہ آیات نازل فرمائیں کہ یہ نکاح اللہ کے حکم سے ہوا ہے اور اس کی حکمت ہی یہ ہے کہ عرب معاشرہ کی اس غلط رسم کو ختم کر دیا جائے۔ اس کے بعد مذکورہ آیت ہے جس کا مقصد، ا س تناظر میں، اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتاکہ چونکہ محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ آپ ان تمام بد رسوم کا خاتمہ اپنی زندگی ہی میں کر جائیں۔
اس کی ایک اور مثال سورۃ الجن میں اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے :
عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدا ۔ الا من ارتضی من رسول فانہ یسلک من بین یدیہ ومن خلفہ رصدا۔
اللہ غیب کا جاننے والا ہے اور وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ رہے وہ جن کو وہ رسول کی حیثیت سے منتخب فرماتا ہے تو وہ ان کے آگے اور پیچھے پہرہ رکھتا ہے۔(۳)
اس آیت میں مفسرین نے بالعموم الا کو استثنا کے مفہوم میں لیا ہے جس سے بعض گمراہ فرقوں کو یہ استدلال کرنے کا موقع مل گیا کہ اللہ تعالی انبیاء کو بھی علم غیب عطا کرتے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ علم الغیب اور اطلاع علی الغیب میں کیا فرق ہے، اگر ان آیات کے سیاق کو ملحوظ رکھا جائے تو اس استدلال کی بالکل نفی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اس آیت سے متصل پچھلی آیت یہ ہے :
قل ان ادری اقریب ما توعدون ام یجعل لہ ربی امدا۔ عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدا۔
اعلان کر دیں کہ مجھے کچھ پتا نہیں کہ جس عذاب کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے، وہ قریب ہی ہے یا ابھی اللہ اس کو کچھ دیر اور ٹالے گا۔
یہ آیات دراصل مشرکین کے مطالبہ عذاب کے جواب میں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ سے کہلوایا جا رہا ہے کہ عذاب کے وقت کا مجھے کوئی علم نہیں کیونکہ عالم الغیب صرف اللہ ہے اور وہ اپنے غیب کی اطلاع کسی کو نہیں دیتا۔ اب اگر اگلی آیت میں الا کو استثنا کے معنی میں لے کر انبیاء کے لیے علم غیب کا اثبات کیا جائے تو پچھلے استدلال کا کوئی مفہوم باقی نہیں رہتا، کیونکہ اس کا بنیادی نکتہ ہی یہ ہے کہ پیغمبر کو عذاب کے وقت کا علم نہیں اس لیے کہ اس کا تعلق غیب کے ان معاملات سے ہے جن کی اطلاع اللہ تعالی کسی کو نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ محقق مفسرین نے یہاں الا کو استثنا کے بجائے لکن کے معنی میں لیاہے۔ (۴)
حکمت قرآن
معرفت نظم کی دوسری اہمیت حکمت قرآن کے استنباط کے حوالے سے ہے۔ قرآن کی حکمت ، فی الواقع، اس کے نظم میں پوشیدہ ہے اور نظم کی معرفت ہی وہ کنجی ہے جس کے ذریعے سے اس لازوال خزانے تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں :
’’نظم کے متعلق یہ خیال بالکل غلط ہے کہ وہ محض علمی لطائف کے قسم کی ایک چیز ہے جس کی قرآن کے اصل مقصد کے نقطہ نظر سے کوئی خاص قدر وقیمت نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک تو اس کی اصل قدر وقیمت یہی ہے کہ قرآن کے علوم اور اس کی حکمت تک رسائی اگر ہو سکتی ہے تو اسی کے واسطے سے ہو سکتی ہے۔ جو شخص نظم کی رہنمائی کے بغیر قرآن کو پڑھے گا، وہ زیادہ سے زیادہ جو حاصل کر سکے گا وہ کچھ منفرد احکام اور مفرد قسم کی ہدایات ہیں۔
اگرچہ ایک اعلی کتاب کے منفرد احکام اور اس کی مفرد ہدایات کی بھی بڑی قدر وقیمت ہے لیکن آسمان وزمین کا فرق ہے اس بات میں کہ آپ طب کی کسی کتاب المفردات سے چند جڑی بوٹیوں کے کچھ اثرات وخواص معلوم کر لیں اور اس بات میں کہ ایک حاذق طبیب ان اجزا سے کوئی کیمیا اثر نسخہ ترتیب دے دے۔ تاج محل کی تعمیر میں جو مسالا استعمال ہوا ہے، وہ الگ الگ دنیا کی بہت سی عمارتوں میں استعمال ہوا ہوگا لیکن اس کے باوجود تاج محل دنیا میں ایک ہی ہے۔ میں بلا تشبیہ یہ بات عرض کرتا ہوں کہ قرآن حکیم بھی جن الفاظ اور فقروں سے ترکیب پایا ہے، وہ بہرحال عربی لغت اور عربی زبان ہی سے تعلق رکھنے والے ہیں لیکن قرآن کی لاہوتی ترتیب نے ان کو وہ جمال وکمال بخش دیا ہے کہ اس زمین کی کوئی چیز بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
جس طرح خاندانوں کے شجرے ہوتے ہیں، اسی طرح نیکیوں اور بدیوں کے بھی شجرے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایک نیکی کو ہم معمولی نیکی سمجھتے ہیں حالانکہ اس نیکی کا تعلق نیکیوں کے اس خاندان سے ہوتا ہے جس سے تمام بڑی نیکیوں کی شاخیں پھوٹی ہیں۔ اسی طرح بسا اوقات ایک برائی کو ہم معمولی برائی سمجھتے ہیں لیکن وہ برائیوں کے اس کنبے سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہے جو تمام مہلک بیماریوں کو جنم دینے والا کنبہ ہے۔ جو شخص دین کی حکمت سمجھنا چاہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خیر وشر کے ان تمام مراحل ومراتب سے اچھی طرح واقف ہو۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ وہ دق کا پتہ دینے والی بیماری کو نزلے کا پیش خیمہ سمجھ بیٹھے اور نزلے کی آمد آمد کو دق کا مقدمۃ الجیش قرار دے دے۔ قرآن کی یہ حکمت اجزائے کلام سے نہیں بلکہ تمام تر نظم کلام سے واضح ہوتی ہے۔ اگر ایک شخص ایک سورہ کی الگ الگ آیتوں سے تو واقف ہو لیکن سورہ کے اندر ان آیتوں کے باہمی حکیمانہ نظم سے واقف نہ ہو تو اس حکمت سے وہ کبھی آشنا نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح قرآن نے مختلف سورتوں میں مختلف اصولی باتوں پر آفاقی وانفسی یا تاریخی دلائل بیان کیے ہیں۔ یہ دلائل نہایت حکیمانہ ترتیب کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ جس شخص پر یہ ترتیب واضح ہو، وہ جب اس سورہ کی تدبر کے ساتھ تلاوت کرتا ہے تو وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ زیر بحث موضوع پر اس نے ایک نہایت جامع، مدلل اور شرح صدر بخشنے والا خطبہ پڑھا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص اس ترتیب سے بے خبر ہو، وہ اجزا سے اگرچہ واقف ہوتا ہے لیکن اس حکمت سے وہ بالکل ہی محروم رہتا ہے جو اس سورہ میں بیان ہوئی ہوتی ہے۔‘‘ (۵)
اس کی ایک مثال سورہ بقرہ کے اس حصے میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں شریعت کے احکام وقوانین بیان ہوئے ہیں۔ اس باب کے مضامین کی ترتیب یہ ہے :
توحید اور اس کے متعلقات (آیات ۱۶۳ تا ۱۷۶)
توحید کے ثمرات مثلا ایمان، انفاق، اقامت صلوۃ، ادائے زکوۃ، ایفائے عہد اور حق پر استقامت (۱۷۷)
قصاص کے احکام (۱۷۸، ۱۷۹)
وصیت اور اس میں تبدیلی کے احکام (۱۸۰، ۱۸۲)
روزے کے احکام (۱۸۳ تا ۱۸۷)
رشوت خوری کی ممانعت (۱۸۸)
جہا،د حج اور انفاق کے متعلق ہدایات (۱۸۹ تا ۲۲۱)
حیض، طلاق اور رضاعت کے مسائل (۲۲۲ تا ۲۳۷)
نماز پر محافظت کی تاکید (۲۳۸)
اس حصے کا آغاز توحید کے بیان سے ہوا ہے کیونکہ تمام دین کی بنیاد اسی پر ہے۔ اس کے بعد توحید کے ثمرات بیان ہوئے ہیں اور مختلف معاملات میں شریعت کے احکام بیان کرنے سے پہلے مسلمانوں کو اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ دین محض چند رسوم وظواہر کا نام نہیں ہے بلکہ زندگی سے نہایت گہرا تعلق رکھنے والے اعمال واخلاق کا مجموعہ ہے، لہذا وہ اگلی امتوں کی طرح صرف رسوم کے بندے بن کر نہ رہ جائیں بلکہ دین کی اصلی حقیقتوں کو اپنائیں۔ نیکی اور تقوی کی اصل حقیقت واضح کرنے کے بعد ان معاملات کی طرف توجہ فرمائی جو تقوی پر مبنی ہیں اور جن پر معاشرہ کے امن اور بقا کا مدار ہے۔ اس ضمن میں حرمت جان کے حوالے سے قصاص اور حرمت مال کے حوالے سے وصیت کے احکام بیان فرمائے ہیں۔ اس کے بعد روزے کے احکام کا ذکر ہے جن کے متصل بعد رشوت اور حرام خوری کی حرمت بیان کی گئی ہے۔ جان ومال کے احترام اور حرمت رشوت کے احکام کے درمیان میں روزے کے احکام کے ذکر سے مقصد روزے کے اغراض ومقاصد اور اس کے فوائد کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ گویا روزہ جس طرح دوسروں کی جان ومال کے احترام کے حوالے سے نفس کی تربیت کرتا ہے، اسی طرح رشوت اور حرام خوری سے بچنے کے لیے بھی صبر کی اساس فراہم کرتا ہے۔ اسی صبر واستقامت کی اساس پر دین کی دو بڑی عبادتیں حج اور جہاد قائم ہیں، چنانچہ اس کے بعد ان کا ذکر کیا گیا ہے ۔ جہاد کے ساتھ انفاق کی خاص مناسبت ہے، اس لیے اس کے متعلق بھی بعض ہدایات ذکر کی گئی ہیں۔ اسی انفاق کے ضمن میں یتیم عورتوں کے ساتھ نکاح کا مسئلہ بیان ہوا جس سے نکاح وطلاق اور رضاعت کے متعلق شریعت کی عمومی ہدایات بیان کرنے کے لیے بھی ایک مناسب موقع پیدا ہو گیا۔ اس باب کا اختتام نماز پر محافظت کی تاکید سے ہوا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس باب کے آغاز پرنظر ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ اس کے آغاز میں توحید کے ذکر کے بعد احکام شریعت کے سلسلہ میں سب سے پہلے آیت ۱۷۷ میں نماز اور ساتھ ہی زکوۃ کا ذکر آتا ہے۔ یہاں دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ اس باب کا خاتمہ بھی نماز ہی کے ذکر پر ہوا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس دین میں جو اہمیت نماز کی ہے وہ دوسری کسی چیز کی بھی نہیں ہے۔ ساری شریعت کا قیام وبقا اسی کے قیام وبقا پر منحصر ہے۔ اللہ تعالی نے اس کو شریعت کی اقامت اور اس کی محافظت کے لیے ایک حصار اور ایک باڑھ کی حیثیت دی ہے۔ جو شخص اس کی حفاظت کرتا ہے وہ گویا پوری شریعت کی حفاظت کرتا ہے اور جو شخص اس میں رخنے پیدا کرتا ہے وہ ، جیسا کہ حضرت عمرؓ سے منقول ہے، باقی دین کو بدرجہ اولی ضائع کر دیتا ہے۔‘‘ (۶)
مولانا ؒ نے ربط کلام کی اس وجہ کی تائید میں سورۂ مومنون اور سورۂ معارج کی آیات بطور نظیر نقل کی ہیں جن میں اسی اسلوب پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ نماز دین کے لیے بمنزلہ حصار کے ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے :
قد افلح المومنون ۔ الذین ھم فی صلاتھم خاشعون۔
ایمان لانے والے یقیناًکامیاب ہیں، وہ جو اپنی نمازیں عاجزی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔
اس کے بعد دین واخلاق کی چند بنیادی باتوں کا تذکرہ کرنے کے بعد آخر میں پھر فرمایا ہے :
والذین ھم علی صلواتھم یحافظون۔
اور وہ جو اپنی نمازوں کی مکمل پابندی کرتے ہیں۔ (۷)
بعینہ یہی اسلوب سورۂ معارج کی آیات ۱۹۔۳۴ میں پایا جاتا ہے۔
زمانہ نزول کے حالات
قرآن مجید اپنے پیغام اور تعلیمات کے لحاظ سے اگرچہ ایک آفاقی کلام ہے لیکن اپنے نزول کے لحاظ سے ایک خاص پس منظر رکھتا ہے۔ اس کے مخاطب ایک خاص سرزمین اور خاص زمانہ میں رہنے والے لوگ تھے جن کے عقائد واعمال اور معاشرت کی اصلاح کو اس نے اپنا موضوع بنایا۔ اس کا نزول رسول اللہ ﷺ کی تیئیس سالہ مدت دعوت میں مکمل ہوا اور اس کی ہدایات کا اس عرصہ میں پیش آنے والے مختلف حالات اور مراحل کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ چنانچہ قرآن مجید، اصلا، رسول اللہ ﷺ کی اس دعوت کی تاریخ ہے ۔ اس لحاظ سے اس کے مندرجات کو سمجھنے کے لیے ان خاص حالات سے عمومی طور پر واقفیت ضروری ہے جو اس کے تدریجی نزول کے پس منظر میں موجود تھے، اس لیے کہ قرآن اس خاص زمانہ کے مختلف گروہوں اور ان کے حالات کے متعلق جو اشارات کرتا ہے، اس کے مخاطبین کے لیے تو ان کو سمجھنا آسان تھا لیکن ہمارے لیے یہ اشارات بالعموم اس قدر مجمل اور مبہم ہیں کہ ان کا صحیح تصور ذہن میں قائم ہونا اس وقت تک مشکل ہے جب تک اس زمانے کی تاریخ سے واقفیت نہ ہو۔
اس واقفیت کے دو پہلو ہیں : ایک تو قرآن کے زمانہ نزول کے حالات اور اس کے مخاطب گروہوں کے معتقدات وخیالات اور ان کے معاشرتی حالات کا عمومی علم، اور دوسرا ان خاص جزوی واقعات سے آگاہی جو قرآن مجید کی بعض آیات کے نزول کا سبب بنیں۔
عمومی پس منظر
عمومی حالات سے آگاہی میں، مولانا حمید الدین فراہیؒ کے الفاظ میں، مندرجہ ذیل باتیں شامل ہیں:
(۱) ہم کو اس وقت کے یہود ونصاری ومشرکین وصابئین وغیرہ کے مذاہب ومعتقدات سے واقف ہونا چاہئے۔
(۲) ہم کو عرب کے عام توہمات کو دریافت کرنا چاہئے۔
(۳) ہم کو جاننا چاہئے کہ نزول قرآن کی مدت میں کیا کیا واقعات نئے پیدا ہوئے اور ان سے عرب کی مختلف جماعتوں میں کیا کیا مختلف باتیں زیر بحث آ گئیں، کیا کیا ملکی وتمدنی جھگڑے چھڑ گئے اور تمام عرب میں کیا شور ش پیدا ہو گئی؟
(۴) ہم کو یہ بھی جاننا چاہئے کہ عرب کس قدر وحشی اور تند مزاج تھے اور اس لیے کس قسم کے کلام سے متاثر ہو سکتے تھے۔
(۵) ہم کو یہ بھی جاننا چاہئے کہ عرب کا مذاق سخن کیا تھا، کس قسم کے کلام کے سننے اور بولنے کے وہ عادی تھے، رزم وبزم میں ان کا خطیب کس روش پر چلتا تھا، ایجاز واطناب، ترصیع وترکیب اور دیگر اسالیب خطابت وہ کیوں کر استعمال کرتے تھے۔
(۶) اور بالاخر ہم کو یہ بھی جاننا چاہئے کہ عرب کے ذہن میں اخلاق کے مدارج نیک وبد کیا تھے۔ (۸)
مشرکین عرب
۱۔ سورۃ البقرۃ میں جوئے اور شراب کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے : فیھما اثم کبیر ومنافع للناس۔ ’’ان میں گناہ بہت بڑا ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں‘‘ ۔ (۹)
اس آیت کے متعلق بالعموم یہ سمجھا گیا ہے کہ اس میں اللہ تعالی نے جوئے او رشراب کی طبی اور ذاتی منفعت کا اعتراف کیا ہے جس کی بنیاد پر بعض ملحدین نے اس آیت سے شراب اور جوئے کا جواز کشید کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اگر عرب کے تمدنی حالات پر نظر ہو تو معلوم ہوگا کہ اس سے مراد ان کی تمدنی اور معاشرتی منفعت ہے۔ عرب کے فیاض او رسخی طبیعت کے لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ قحط کے موسم میں اکٹھے ہو کر شراب نوشی کی مجلسیں بپا کرتے تھے اور نشے میں مست ہو کر اپنے اونٹوں کو ذبح کر ڈالتے تھے ۔ پھر ان کے گوشت کی ڈھیریاں لگا کر ان پر جوا کھیلتے اور جو گوشت جیتتے، اس کو غریبوں اور محتاجوں میں بانٹ دیتے تھے۔ جوئے اور شراب سے حاصل ہونے والی یہی وہ معاشرتی منفعت تھی جس کی بنا پر جب قرآن مجید نے ان کی حرمت کا اعلان کیا تو بعض لوگوں کو اشکال ہوا کہ یہ مفید چیزیں کیوں حرام کر دی گئی ہیں۔ چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالی نے اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگرچہ ان میں بعض تمدنی فوائد ضرور ہیں لیکن ان کے نقصانات کا پہلو ان فوائد کے مقابلے میں غالب ہے، اس لیے ان کو حرام ٹھہرایا گیا ہے۔ (۱۰)
۲۔ سورۃ النساء میں محرمات کے بیان میں ارشاد ہے : وحلائل ابنائکم الذین من اصلابکم ’’تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں بھی تم پر حرام ہیں‘‘ (۱۱)
صلبی کی قید سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ رضاعی بیٹوں کی بیویاں حرام نہیں ہیں لیکن اگر اس کے پس منظر میں موجود حالات کو پیش نظر رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس قید سے مقصود، درحقیقت، لے پالک بیٹوں کو خارج کرنا ہے کیونکہ اہل عرب کے ہاں ان کو حقیقی بیٹوں کا مقام حاصل تھا جس کی اللہ تعالی نے سورۃ الاحزاب میں مفصل تردید کی ہے۔ چنانچہ مفسرین نے بالاتفاق اس آیت کا یہی مفہوم مراد لیا ہے۔
۳۔ اسی طرح سورۃ الانعام کی آیات ۱۳۶ تا ۱۴۰ میں چوپایوں کی حلت وحرمت کے متعلق عرب کے بہت سے توہمات کا ذکر ہوا اور انداز بیان اجمالی اشارات کا ہے۔ مخاطبین چونکہ ان رسوم سے پوری طرح باخبر تھے ، اس لیے ان کے لیے تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن جب آج ان آیات کو ہم پڑھتے ہیں تو ان رسوم کے متعلق بہت سے سوال ذہن میں آتے ہیں جن کا جواب ظاہر ہے کہ اس دور کی عرب معاشرت کے مطالعہ ہی سے مل سکتا ہے۔
اہل کتاب
قرآن کے مخاطب گروہوں میں مشرکین مکہ کے بعد دوسرا بڑا گروہ یہود کا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی رسالت کے انکار اور مسلمانوں کو ان کے دین سے برگشتہ کرنے کے لیے انہوں نے جو جو جتن کیے اور کتمان حق کے لیے جو جو حیلے اختیار کیے، قرآن اسی اجمالی انداز میں ان کا ذکر کرتا اور ان کی چالاکیوں کا پردہ چاک کرتا ہے۔ ان اشارات کی تفصیل اور یہودیوں کی خباثتوں سے پوری طرح آگاہی حاصل کرنے کے لیے بھی دور نبوت کے حالات کا مطالعہ ضروری ہے۔
حکمت قرآن
آیات کے نفس مفہوم کی تعیین کے علاوہ ، زمانہ نزول کے حالات سے واقفیت کا نہایت گہرا تعلق قرآن مجید کی بعض ہدایات واحکامات کی حکمت سمجھنے سے بھی ہے۔مدینہ منورہ میں کچھ عرصہ کے لیے مسلمانوں کو بیت الحرام کے بجائے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم کیوں دیا گیا، رسول اللہ ﷺ کو چار سے زیادہ شادیوں کی اجازت کیوں دی گئی، حضرت زید کے ساتھ حضرت زینب کے نکاح اور پھر ان سے جدائی کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان سے کیوں نکاح کیا، قرآن مجید نے صلح حدیبیہ کو فتح مبین کیوں قرار دیا، یہ اور اس طرح کے دوسرے سوالوں کا جواب پانے اور اس باب میں قرآن کی ہدایات کی معنویت اور مناسبت سمجھنے کے لیے دور نبوت کی تاریخ کا تفصیلی مطالعہ ازبس ضروری ہے۔
خاص آیات کا شان نزول
قرآن مجید میںآیات کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کے نزول کا سبب کوئی خاص واقعہ یا حالت تھی جو اگر پیش نظر نہ ہو تو نہ صرف یہ کہ متعلقہ آیتوں کے اشارات صحیح طور پر سمجھے نہیں جا سکتے بلکہ بعض صورتوں میں نفس مفہوم کے اخذ کرنے میں بھی غلطی کا امکان غالب ہے۔ ایسے مواقع پر شان نزول سے واقفیت اس قدر اہم ہے کہ بعض صحابہ بھی عربی زبان سے براہ راست واقفیت اور زمانہ نزول کے عمومی حالات سے باخبر ہونے کے باوجود بعض آیات کا مفہوم نہ سمجھ سکے۔
۱۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ عروہ بن زبیرؓ نے عرض کیا کہ اللہ تعالی نے صفا ومروہ کی سعی کے بارے میں فرمایا ہے:
فمن حج البیت او اعتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بھما۔
جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے، اس پر کوئی گناہ کہ وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے۔
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر کوئی سعی نہ بھی کرے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا : بھتیجے، تم غلط کہتے ہو۔ اگر یہ بات ہوتی تو اللہ تعالی یوں فرماتے : لا جناح علیہ ان لا یطوف بھما۔ (اس پر کوئی گناہ نہیں اگر وہ ان کے درمیان سعی نہ کرے) یہ آیت درحقیقت انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ وہ اسلام لانے سے پہلے مشلل کے مقام پر منات کا طواف کیا کرتے تھے اور صفا ومروہ کے مابین سعی کرنے سے گریز کرتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق سوال کیا تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (۱۲)
۲۔ سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہے :
نساؤکم حرث لکم فاتوا حرثکم انی شئتم۔
تمہاری بیویاں تمہارے لیے کھیتیاں ہیں تو اپنی کھیتیوں میں آؤ جیسے چاہو۔ (۱۳)
اس آیت کی بنیاد پر حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فتوی دے دیا کہ آدمی اپنی بیوی سے اس کی دبر میں بھی مجامعت کر سکتا ہے۔ (۱۴) سنن ابی داؤد میں روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ کو علم ہوا تو انہوں نے فرمایا: اللہ ابن عمر کو معاف کرے، بخدا ان سے غلطی ہوئی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مدینہ میں انصار کے ساتھ یہود بھی رہتے تھے اور انصار ان کو علمی لحاظ سے برتر سمجھتے اور بہت سی باتوں میں ان کے طریقے پر چلتے تھے۔ یہود کے ہاں عورتوں سے صرف ایک ہی طریقے پر (یعنی سیدھا لٹا کر) مجامعت کرنا جائز تھا اور انصار نے بھی ان کی پیروی میں یہی طریقہ اختیار کر لیا تھا۔ اس کے برخلاف قریش کے لوگوں میں عورتوں سے مختلف طریقوں سے (مثلا لٹا کر، آگے کی طرف سے، پیچھے کی طرف سے ) جماع کرنے کا طریقہ رائج تھا۔ جب مہاجرین مدینہ آئے تو ان میں سے ایک آدمی نے انصار میں سے ایک عورت کے ساتھ نکاح کیا اور اس کے ساتھ قریش کے طریقے پر جماع کرنا چاہا لیکن اس عورت نے انکار کر دیا۔ ان کے درمیان بات بڑھ گئی اور رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گئی۔ اس پر اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یہ آیت نازل کی جس کا مطلب یہ ہے کہ جماع کا محل تو ایک ہی ہے لیکن اس کے لیے تم طریقہ کوئی بھی اختیار کر سکتے ہو۔ (۱۵)
اس باب میں یہ بات، البتہ، ملحوظ رہنی چاہئے کہ اگرچہ کسی واقعہ کی بنیادی تصویر معلوم کرنے کے لیے شان نزول کی روایات کی طرف رجوع کرنا ناگزیر ہے لیکن اس کی تفصیلات بہرحال قرآن کی داخلی شہادت کی کسوٹی پر پرکھ کر ہی قبول کی جائیں گی۔ روایات کو کسی بھی صورت میں قرآن پر حکم نہیں بنایا جا سکتا۔ درج ذیل دو مثالوں سے یہ بات واضح ہو جائے گی۔
۱۔ غزوۂ بدر کی تفصیلات میں وارد روایات میں بالعموم یہ ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنے لشکر کو لے کر مدینے سے نکلے تو مسلمانوں کے سامنے اصل ہدف قریش کے تجارتی قافلے کو لوٹنا تھا، مکے سے آنے والے لشکر کے ساتھ جنگ کا ان کو گمان بھی نہیں تھا۔ لیکن علامہ شبلی نعمانی ؒ نے ان روایات کو قرآن مجید کی حسب ذیل آیات کی روشنی میں رد کر دیا ہے :
کما اخرجک ربک من بیتک بالحق وان فریقا من المومنین لکارھون۔
جیسا کہ تمہارے رب نے تمہیں تمہارے گھر سے نکالا حق کے ساتھ جبکہ مومنوں کا ایک گروہ اس کو ناپسند کرتا تھا۔ (۱۶)
شبلیؒ کہتے ہیں کہ وان میں واؤ حالیہ ہے جس کی رو سے مدینہ سے نکلنے اور ایک گروہ کے لڑائی سے جی چرانے کا زمانہ ایک ہونا چاہئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ موقع عین وہ موقع تھا جب آپ مدینہ سے نکل رہے تھے، نہ کہ مدینہ سے نکل کر جب آپ آگے بڑھے۔ (۱۷)
۲۔ غزوۂ بدر ہی کے حوالے سے ایک اور غلط فہمی جو شان نزول کی روایات سے پیدا ہوتی ہے، یہ ہے کہ قرآن مجید کی درج ذیل آیت میں رسول اللہ ﷺاور مسلمانوں کو مشرکین کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنے پر عتاب کیا گیا ہے :
ما کان لنبی ان یکون لہ اسری حتی یثخن فی الارض تریدون عرض الدنیا واللہ یرید الاخرۃ واللہ عزیز حکیم ۔ لولا کتب من اللہ سبق لمسکم فی ما اخذتم عذاب عظیم۔
کوئی نبی اس بات کا روادار نہیں ہوتا کہ اس کو قید ی ہاتھ آئیں یہاں تک کہ وہ اس کے لیے ملک میں خونریزی برپا کر دے۔ یہ تم ہو جو دنیا کے سروسامان کے طالب ہو۔ اللہ تو آخرت چاہتا ہے اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے سے موجود نہ ہوتا تو جو روش تم نے اختیار کی ہے‘ اس کے باعث تم پر ایک عذاب عظیم آ پڑتا۔(۱۸)
مولانا امین احسن اصلا حیؒ اس کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ فدیہ لے کر چھوڑنا سرے سے کوئی غلطی ہی نہ تھی کیونکہ اس کی اجازت اس سے پہلے سورہ محمد میں دی جا چکی تھی اوریہاں بھی اللہ تعالی نے اس کے معا بعد اس عمل کی تصدیق فرمائی ہے :
فکلوا مما غنمتم حلالا طیبا۔
تو وہ حلال وطیب مال کھاؤ جو تمہیں غنیمت میں ملا ہے (۱۹)
اور اگر بالفرض یہ غلطی بھی تھی تو اس کی نوعیت کسی سابق ممانعت کی خلاف ورزی کی نہیں تھی جس پر ایسی سخت وعید وارد ہو، کیونکہ اس قدر سخت الفاظ میں قرآن مجید نے کٹر کفار اور منافقین کے سوا اور کسی کو عتاب نہیں کیا۔ ان وجوہ کی بنا پر مولانا فرماتے ہیں کہ اس وعید کے مخاطب کفار ہیں جنہوں نے بدر میں شکست کے بعد یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا تھا کہ یہ نبی معاذ اللہ ہوس اقتدار میں مبتلا ہیں، انہوں نے اپنی ہی قوم میں خونریزی کرائی ، اپنے بھائیوں کو قید کیا ، ان کا مال لوٹااور ان سے فدیہ وصول کیا ہے۔ اللہ تعالی نے اس کا جواب دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی تنزیہ کی ہے اور کفار کو عتاب کیا ہے کہ یہ تو تمہیں صرف ایک چرکا لگا ہے جس پر تم اس قدر واویلا کر رہے ہو، اگر اللہ نے ہر بات کے لیے ایک وقت مقرر نہ کر رکھا ہوتا تو تمہیں اسی موقع پرا یک عذاب عظیم آپکڑتا۔ (۲۰)
سابقہ آسمانی کتب
قرآن مجید کے مطالعہ میں کتب سابقہ کا علم مختلف پہلوؤں سے مددگارہے۔
اہل کتاب پر اتمام حجت
قرآن مجید نے سورہ بقرہ اور سورۃ المائدہ میں یہود کی سابقہ تاریخ کے حوالے سے ان کے مذہبی جرائم کا تذکرہ بالتفصیل کیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہود نے کس کس طرح اللہ کے رسولوں کو ستایا اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں ہٹ دھرمی اور ضد کا رویہ اختیار کیا۔ اسی طرح اللہ تعالی نے ان کے جرائم کی پاداش میں ان پر بحیثیت قوم جو ذلت مسلط کی، اس کا بھی جگہ جگہ ذکر کیا گیا ہے۔ کتب سابقہ کے مطالعہ سے یہود کے اس رویے کی تائید وتفصیل بھی مہیا ہو سکتی ہے اور اہل کتاب پر خود انہی کی کتاب کی روشنی میں اتمام حجت بھی کی جا سکتی ہے۔
اہل کتاب کی تحریفات کی اصلاح
قرآن مجید نے سوۃ المائدہ میں خود کو سابقہ کتابوں کا مہیمن یعنی نگران قرار دیا ہے۔ اسی سورہ میں دوسری جگہ ارشاد ہے :
یبین لکم کثیرا مما کنتم تخفون من الکتاب۔
یہ رسول تمہارے سامنے تورات کی بہت سی وہ باتیں بیان کرتے ہیں جن کو تم چھپاتے رہے۔ (۲۱)
گویا قرآن کے نزول کا ایک بنیادی مقصد اہل کتاب کی تحریفات کی اصلاح ہے۔ انبیاء سابقین نے رسول اللہ ﷺ کے حق میں جو بشارتیں دی تھیں، یہود نے ان میں تحریف کر کے ان کو چھپانے کی کوشش کی ۔ خود انبیاء سابقین کے متعلق انہوں نے بے بنیاد قصے گھڑ کر ان کی شخصیات پر کیچڑ اچھالا۔ اسی طرح نصاری حضرت عیسی علیہ السلام کی ذات کے متعلق طرح طرح کی غلط فہمیوں میں مبتلا تھے اور رسول اللہ ﷺ کے حق میں حضرت مسیح علیہ السلام کی واضح بشارت میں تحریف کر چکے تھے۔ قرآن مجید نے اس طرح کی تمام تحریفات کا پردہ چاک کیا اور تمام غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے۔ سورۃ الاعراف میں فرمایا:
یجدونہ عندھم مکتوبا فی التوراۃ والانجیل۔
یہ اس پیغمبر کو اپنے ہاں تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں (۲۲)
سورۃ البقرۃ میں فرمایا:
وما کفر سلیمان ولکن الشیاطین کفروا۔
سلیمان نے بالکل کفر نہیں کیا بلکہ شیاطین نے کفر کیا۔ (۲۳)
سورۃ النساء میں فرمایا:
وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لھم۔
وہ مسیح کو نہ قتل کر سکے اور نہ سولی دے سکے بلکہ ان پر معاملہ مشتبہ کر دیا گیا۔ (۲۴)
سورۃ الصف میں فرمایا:
ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد۔
(عیسی علیہ السلام نے کہا ) اور میں ایک رسول کی خوشخبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا۔ (۲۵)
ہمارے اہل علم میں سے جن لوگوں نے کتب سابقہ اور ان سے متعلق لٹریچر کاگہرا مطالعہ کیا ہے، انہوں نے ان امور کی تحقیق میں گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔ برصغیر میں مولانا حمید الدین فراہیؒ کا رسالہ ’’ذبیح کون ہے؟‘‘ ، سورۃ الصف میں بشارت عیسی علیہ السلام کے تحت مولانا سید ابو الاعلی مودددیؒ کی اور ولکن شبہ لہم کی تفسیر میں مولانا عبد الماجد دریابادیؒ کی تحقیقات اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔
اسی طرح یہود کی تاریخ کے بہت سے واقعات کے بارے میں قرآن کا بیان بائبل کے بیان سے مختلف ہے۔ اس حوالے سے بھی قرآن کے بیانات کی معنویت اس کے بغیر واضح نہیں ہو سکتی کہ ان کا موازنہ کتب سابقہ کے بیانات سے کر کے دیکھا جائے۔
انبیاء کی تاریخ اور دین کی حکمت
قرآن مجید نے بعض مقامات پر کتب سابقہ کا ذکر اس انداز میں کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید اپنے قارئین سے یہ چاہتا ہے کہ ان کتابوں کا مطالعہ کرے۔ سورۃ الاعلی کے آخر میں فرمایا:
ان ھذا لفی الصحف الاولی۔ صحف ابراھیم وموسی۔
یہی تعلیم اگلے صحیفوں میں بھی ہے، موسی اور ابراہیم کے صحیفوں میں۔ (۲۶)
واقعہ یہ ہے کہ بے شمار تحریفات کے باوجود آج بھی ان صحائف میں اصل آسمانی تعلیمات کے اجزاء موجود ہیں اور دین کی حکمت سمجھنے میں ان سے بیش بہا مدد مل سکتی ہے۔
سنت اور امت کا تواترعملی
سنت سے مراد دین کے وہ عملی احکام ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے اس امت میں جاری فرمایا اور جنہیں امت مسلمہ کی ہر نسل اپنے تواتر عملی کے ذریعے سے اگلی نسل تک منتقل کرتی چلی آ رہی ہے۔
قرآن کی بنیادی اصطلاحات
رسول اللہ ﷺ درحقیقت کوئی نیا دین نہیں لے کر آئے تھے بلکہ آپ نے ملت ابراہیمی ہی کی ان تعلیمات وشعائر کا احیا کیا جو مرور زمانہ اور اہل عرب کی تحریفات کے نتیجے میں مسخ ہو چکی تھیں۔ اس دین میں صلوۃ، صوم، حج، نسک، نذراور اس طرح کے دوسرے احکام ایک معروف حقیقت کی حیثیت رکھتے تھے اور، تحریفات کے باوجود، ان کا بنیادی تصور بالکل مٹ نہیں گیا تھا۔ قرآن ان کا ذکر کسی نئے حکم کے طور پر نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت کے طور پر کرتا ہے جو اس کے مخاطبین کے نزدیک ثابت شدہ اور مانی ہوئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ملت ابراہیمی کے انہی ثابت شدہ شعائر کو لے کر ان میں در آنے والی تحریفات کو دور کیا اور مناسب ترمیم واضافہ کے ساتھ انہیں امت مسلمہ میں ایک سنت کی حیثیت سے جاری کر دیا۔ یہ ملت ابراہیمی کی اصطلاحات ہیں جن کا مفہوم نسل در نسل تواتر کے ساتھ نقل ہوا ہے اور ان کے ثبوت یا ان کی بنیادی شکل وصورت کی تعیین میں ذرہ برابر بھی شبہے کی گنجائش نہیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی سنت اور امت مسلمہ کا تواتر عملی، قرآن کے ان بنیادی حقائق کی تفصیل کے لیے بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
حدیث
حدیث رسول اللہ ﷺ کے ان ارشادات واقوال کا نام ہے جو آپ کے صحابہ نے انفرادی طور پر آپ سے سنے اور اسی طرح ان کو آگے نقل کر دیا۔ فہم قرآن میں حدیث کی اہمیت مختلف پہلوؤں سے ہے:
حکمت قرآن
رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر قرآن کا رمز شناس اور اس کے اسرا ر ومعانی سے آگاہ کون ہو سکتا ہے؟ قرآن کے بعض احکام کی ظاہری تشریح وتعبیر میں بھی بلا شبہ رسول اللہ ﷺ کا ہمسر کوئی نہیں ہو سکتا لیکن واقعہ یہ ہے کہ آپ کے خداداد علم وفہم اور پیغمبرانہ نکتہ شناسی کا اصل مظہر آپ کے ارشادات کا وہ حصہ ہے جس میں آپ نے قرآنی تعلیمات کے مغز کو پا کران کی توسیع بے شمار فروع کی طرف کی ہے اور اس طرح دین کو ایک مفصل ومرتب ضابطہ کی صورت میں مشکل کر دیا ہے ۔ آپ کے یہ ارشادات واقوال دین کے تمام شعبوں کو محیط ہیں اور حکمت دین کے سمجھنے میں جو رہنمائی ان سے ملتی ہے، اور کسی ذریعہ سے میسر نہیں ہو سکتی۔
قرآن کے مجمل کی تفصیل
قرآن مجید بالعموم کسی مسئلے کے بارے میں ایک حکم اصولی طور پر بیان فرما دیتا ہے لیکن اس سے متعلقہ جزوی امورکو مجمل چھوڑ دیتا ہے جن کی تفصیل رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں ملتی ہے۔ درج ذیل مثالیں ملاحظہ فرمائیے :
۱۔ سورۃ النساء میں اللہ تعالی نے محرمات کے ضمن میں ایسی عورت کو بھی شامل کیا ہے جس نے کسی بچے کو جنم تو نہیں دیا لیکن اس کو دودھ پلایا ہے۔ لیکن اس دودھ پلانے کی مقدار کیا ہو ؟ نیز کیا عمر کے کسی بھی حصے میں کسی عورت کا دودھ پینے سے وہ ماں بن جاتی ہے؟ اس معاملے میں قرآن خاموش ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
لا تحرم المصۃ ولا المصتان۔
ایک یا دو مرتبہ چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی (۲۷)
انما الرضاعۃ من المجاعۃ۔
رضاعت کا اعتبار بچے کی دودھ پینے کی عمر میں ہے۔ (۲۸)
۲۔ سورۃ النساء میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ سفر کی حالت میں ہوں تو نماز کو قصر کر کے پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن قصر نماز میں کتنی رکعتیں کم پڑھی جائیں، اس کی کوئی تفصیل قرآن میں نہیں ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو واضح فرمایا ہے۔
۳۔ اسی کے متصل بعد اللہ تعالی نے یہ اجازت دی ہے کہ اگر مسلمان حالت جنگ میں ہوں اور نماز کا وقت آ جائے تو ان کو اجازت ہے کہ ان میں سے ایک گروہ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز کا کچھ حصہ پڑھ کر دشمن کے سامنے چلا جائے اور اس کی جگہ دوسرا گروہ آ جائے اور رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز ادا کرے۔
یہ محض ایک اصولی حکم ہے جس کی عملی صورت قرآن میں بیان نہیں ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ کی اس کی تفصیل فرمائی ہے اور آپ سے صلاۃ الخوف پڑھنے کے مختلف طریقے کتب احادیث میں نقل ہوئے ہیں ۔ (۲۹)
قرآن کے محتمل کی تعیین
قرآن مجید میں متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں کہ اللہ تعالی نے کسی مسئلے میں ایک حکم بیان فرمایا ہے جس کا اطلاق بعض صورتوں میں تو واضح ہے لیکن بعض صورتوں میں واضح نہیں بلکہ احتمال کے پہلو رکھتا ہے۔ ایسی صورت میں حدیث دو یا زیادہ محتمل معنوں میں سے ایک کو متعین کر دیتی ہے۔ اس کی مثالیں حسب ذیل ہیں:
۱۔ سورۃ المائدہ میں اللہ تعالی نے مردار جانور کو حرام اور ذبح کیے ہوئے جانور کو حلال قرار دیا ہے۔ لیکن اگر ذبح کیے ہوئے جانور کے پیٹ میں سے مردہ بچہ نکل آئے تو آیا وہ ایک مستقل وجود ہونے کے لحاظ سے مردار شمار ہوگا یا ماں کا جز ہونے کے اعتبار سے مذبوح؟ قرآن کی منشا اس معاملے میں غیر واضح ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
ذکاتہ ذکاۃ امہ۔
اس کی ماں کا ذبح کرنا ہی اس کے لیے کافی ہے۔ (۳۰)
۲۔ سورہ مائدہ ہی میں اللہ تعالی نے سدھائے ہوئے شکاری کتوں کے شکار کے بارے میں فرمایا ہے : فکلوا مما امسکن علیکم واذکروا اسم اللہ علیہ ’’جس جانور کو وہ تمہارے لیے شکار کریں، اس کو تم کھا سکتے ہو اور ان کو (شکار پر چھوڑتے ہوئے) اللہ کا نام لیا کرو‘‘ اس حکم کا اطلاق بعض صورتوں میں غیر واضح ہے۔ مثلااگر سدھایا ہوا کتا جانور کو شکار کر کے اس کا کچھ گوشت خود بھی کھالے یا اس کتے کے ساتھ کوئی اور کتا بھی شکار کرنے میں شامل ہو گیا ہو تو کیا حکم ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
اذا ارسلت کلبک فاذکر اسم اللہ علیہ، فان امسک علیک فادرکتہ حیا فاذبحہ، وان ادرکتہ قد قتل ولم یاکل منہ فکلہ، وان وجدت مع کلبک کلبا غیرہ وقد قتل فلا تاکل فانک لا تدری ایھما قتلہ۔
اپنے کتے کو چھوڑتے وقت اللہ کا نام لیا کرو۔ اگر وہ تمہارے لیے شکار کو پکڑے اور تم اس کو زندہ پا لو تو اس کو ذبح کر لو۔ اگر تمہارے پہنچنے سے قبل مر جائے اور تمہارے کتے نے اس کا گوشت نہ کھایا ہو تو تم اس کو کھا سکتے ہو۔ اگر تمہارے کتے کے ساتھ کوئی اور کتا بھی شامل ہو گیا ہو اور شکار مر چکا ہو تو اسے مت کھاؤ، کیونکہ معلوم نہیں ان میں سے کس کتے نے اسے شکار کیا ہے۔ (۳۱)
۳۔ سورۃ البقرہ میں ایسی عورتوں کوجن کے خاوند فوت ہو گئے ہوں، چار ماہ دس دن تک عدت گزارنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ سورۃ الطلاق میں حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل بتائی گئی ہے۔ لیکن اگر کوئی عورت حاملہ ہو اور اس کا خاوند فوت ہو جائے تو وہ کون سی عدت گزارے گی؟ اس میں عقلی لحاظ سے دونوں احتمال ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی تعیین کرتے ہوئے ایسی صورت میں وضع حمل کو عدت قرار دیا ہے۔ (۳۲)
بعض اشکالات کا حل
فہم قرآن سے متعلق بعض اشکالات کا حل بھی رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں ملتا ہے۔
۱۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : الذین آمنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم اولئک لھم الامن وھم مھتدون (جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم کے شائبے سے بھی پاک رکھا، انہی کو امن حاصل ہوگا اور وہی ہدایت یافتہ ہیں) تو صحابہؓ نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اشکال پیش کیا کہ ہم میں سے کون آدمی ہے جس نے کچھ نہ کچھ ظلم نہ کیا ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس سے مراد شرک ہے: ان الشرک لظلم عظیم (۳۳)
۲۔ جامع ترمذی میں روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ قرآن میں تو نماز قصر کر کے پڑھنے کی اجازت حالت خوف میں دی گئی ہے، جبکہ اب لوگ امن میں ہیں (پھر یہ رخصت کیوں ہے؟) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے رخصت ہے، سو اللہ کی دی ہوئی رخصت کو قبول کرو۔ (۳۴) گویا آپ نے واضح فرمایا کہ قرآن میں حالت خوف کا ذکر بطور ایک لازمی شرط کے نہیں ہے۔
۳۔ جامع ترمذی میں ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت اتری : من یعمل سوءًا یجز بہ (جو شخص جو بھی برائی کرے گا، اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا) توصحابہؓ نے اشکال پیش کیا کہ یا رسول اللہ ہم سب سے گناہ سرزد ہو تے ہیں تو کیا ہمیں ان سب کی سزا ملے گی؟ آپ نے فرمایا: مومن کو دنیا میں جو بھی تکلیف پہنچتی ہے یہاں تک کہ ایک کانٹا بھی چبھتا ہے تو وہ اس کے گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتا ہے۔ (۳۵)
حوالہ جات
(۱) البقرہ، آیت ۶۲
(۲) الاحزاب، آیت ۴۰
(۳) الجن، آیت ۲۶، ۲۷
(۴) الآلوسی، سید محمود: روح المعانی،
(۵) اصلاحی، امین احسن: تدبر قرآن، دہلی: تاج کمپنی، ۱۹۹۹ء، جلد اول، ص ۲۰، ۲۱
(۶) المرجع السابق: ج ۱، ص ۵۴۹
(۷) المومنون، آیت ۱، ۲
(۸) فراہی، حمید الدین: ترتیب ونظام قرآن، مشمولہ قرآنی مقالات، لاہور: دار التذکیر، ۱۹۹۳ء، ص ۱۳
(۹) البقرہ، آیت ۲۱۹
(۱۰) تدبر قرآن، جلد اول، ص ۵۰۵
(۱۱) النساء، آیت ۲۳
(۱۲) البخاری، محمد بن اسماعیل: الجامع الصحیح، المملکۃ العربیۃ السعودیہ: دار السلام، ۲۰۰۰، کتاب الحج، باب وجوب الصفا والمروۃ، حدیث نمبر ۱۶۴۳
(۱۳) البقرہ، آیت ۲۲۳
(۱۴) صحیح البخاری، کتاب التفسیر، سورۃ البقرۃ ، حدیث نمبر ۴۵۲۷
(۱۵) ابو داؤد ، سلیمان بن اشعث السجستانی: سنن ابی داؤد، المملکۃ العربیۃ السعودیہ: دار السلام، ۲۰۰۰، کتاب النکاح، باب فی جامع النکاح، حدیث نمبر ۲۱۶۴
(۱۶) الانفال، آیت ۵
(۱۷) شبلی نعمانی: سیرت النبی، لاہور : مکتبہ تعمیر انسانیت، ۱۹۷۵ء، ج ۱، ص ۳۲۵
(۱۸) الانفال، آیت ۶۷
(۱۹) الانفال، آیت ۶۹
(۲۰) تدبر قرآن، ج ۳، ص ۵۱۲، ۵۱۳
(۲۱) المائدہ، آیت ۱۵
(۲۲) الاعراف، آیت ۱۵۷
(۲۳) البقرہ، آیت ۱۰۲
(۲۴) النساء، آیت ۱۵۷
(۲۵) الصف، آیت ۶
(۲۶) الاعلی، آیت ۱۹، ۲۰
(۲۷) مسلم بن الحجاج: صحیح مسلم، المملکۃ العربیۃ السعودیہ: دار السلام، ۲۰۰۰، کتاب الرضاع، باب فی المصۃ والمصتان، حدیث ۳۵۹۰
(۲۸) صحیح البخاری : کتاب النکاح، باب من قال لا رضاع بعد الحولین، حدیث نمبر ۵۱۰۲
(۲۹) سنن ابی داؤد: دار السلام، ۲۰۰۰، کتاب الصلاۃ، باب صلوۃ الخوف، احادیث ۱۲۳۶ تا ۱۲۴۸
(۳۰) المرجع السابق، کتاب الضحایا، باب ما جاء فی ذکاۃ الجنین، حدیث نمبر ۲۸۲۷
(۳۱) صحیح مسلم، کتاب الصید والذبائح، باب الصید بالکلاب المعلمۃ والرمی، حدیث نمبر ۴۹۸۱
(۳۲) سنن ابی داؤد، کتاب الطلاق، باب فی عدۃ الحامل، حدیث نمبر ۲۳۰۶
(۳۳) صحیح البخاری : کتاب التفسیر، سورۃ الانعام، حدیث ۴۶۲۹
(۳۴) الترمذی، ابو عیسی محمد بن عیسی: جامع الترمذی، المملکۃ العربیۃ السعودیہ: دار السلام، ۲۰۰۰، کتاب التفسیر، سورۃ النساء، حدیث ۳۰۳۴
(۳۵) جامع الترمذی، کتاب التفسیر، سورۃ النساء، حدیث نمبر ۳۰۳۸
مغربی تہذیب کی یلغار
محمد شمیم اختر قاسمی
مسلمانوں کے ساتھ میڈیا کا معاندانہ رویہ
عصر حاضر میں ذرائع ابلاغ اور وسائل نے اتنی ترقی کی ہے کہ اور اس کا دائرۂ عمل اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ دنیا کا ہر گوشہ اس پر عیاں اور ہر جگہ اس کی پہنچ ہے۔ وہ جس واقعے کو جب اور جس وقت چاہے، اس کا واقعی یا خیالی پس منظر پیش کر سکتا ہے اور جس پر چاہے، پردہ ڈال سکتا ہے اگرچہ وہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو۔ بالخصوص امریکیوں کے پاس مسلمانوں کے خلاف میڈیا اور ذرائع ابلاغ کو چالاکی کے ساتھ پیش کرنے کے ایسے تمام نسخے موجود ہیں جس سے وہ مثلا اسامہ بن لادن کا سر کسی اور کے سر پر دکھا سکتے ہیں اور یہ ظاہر کر سکتے ہیں کہ اسامہ کسی عورت وغیرہ کو قتل کر رہا ہے۔ ان ذرائع کے اجارہ داروں کا یہ دعوی ہے کہ یہ سیکولرازم، آزادی رائے اور زندگی کے میدان میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے علم بردار ہیں۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان کا یہ دعوی واقعہ کے بالکل خلاف ہے، کیونکہ ان کے علمی اور تہذیبی کردار سے وہی قدیم صلیبی ذہنیت اور اسلام دشمنی اور مغربیت کی برتری کے تصور کی جھلک نظر آتی ہے۔ ایسا ہی رویہ مسلمانوں کے ساتھ ملکی میڈیا کا بھی ہے اگرچہ اس کا تعلق صلیبی ذہنیت سے نہیں بلکہ سیاسی وسماجی اقدار سے ہے۔
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے اور ان کے مابین انتشار پیدا کرنے کی جتنی بھی ترکیبیں ہو سکتی ہیں، وہ مغربی اور دیسی میڈیا استعمال کرتا ہے اور حقیقت واقعہ کو اس طرح سے توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے جس سے عوام بلکہ اسلامی ذہن رکھنے والے افراد بھی بلا چوں چرا اسے تسلیم کر لیتے ہیں اور بلا اختیار سر ہلاتے ہوئے ان کی زبان سے یہ جملہ نکل جاتا ہے کہ ’’ایسا ہی ہوگا’’۔ ایسی صورت میں اسلام اور مسلمانوں سے بد ظن ہونے میں کیا چیز مانع ہو سکتی ہے؟ درج ذیل واقعات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ میڈیا مسلمانوں کو کس نظر سے دیکھتا ہے:
’’نیو یارک ٹائمز‘‘ نے ایسے اڑتالیس مقامات کی نشان دہی کی جن میں ۱۹۹۳ء میں انسٹھ نسلی تصادم ہوئے اور یہ بتایا کہ ان میں سے آدھے تصادم وہ ہیں جو مسلمانوں نے غیر مسلموں کے ساتھ کیے۔ (۱) یعنی مسلمانوں پر جو مظالم ہوئے، وہ بھی مسلمانوں ہی کے نامہ اعمال میں شمار کیے گئے۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ ایک رات ٹیلی وژن پر اسلامی حکومت یمن کے حالات، وہاں کی مساجد، طرز تعلیم، نماز ودیگر عبادات اسلامی کے طریقے دکھا ئے جا رہے تھے۔ ٹیلی وژن سرزمین یمن کے باشندوں کی محرومیت کا تفصیل سے ذکر کرتے کرتے اسلام کی طرف متوجہ ہوا اور بڑی چالاکی سے اسلام پر رقیق حملے شروع کر دیے کہ اس ملک کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑا روڑا اسلام ہے۔ اسلام نے مسلمانوں کے قافلہ تمدن کو دو سو سال پیچھے کر دیا۔ ابتدائی مراحل میں توقف ، عقب نشینی یہ اسلام کا پروگرام ہے۔ آج کی دنیا میں پیدا ہونے والے مختلف انقلابات سے محرومی اسلام کی پیروی اور اس کے دستور کی پابندی کی وجہ سے ہے۔ (۲) ابھی چند دن قبل کی بات ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو پولیس نے راستے میں اٹھا لیا اور اس پر وہ تمام الزامات لگائے جو حال میں قرب وجوار میں بم بلاسٹ ہوئے جس کو ملکی میڈیا نے خوب اچھالا اور بڑھا چڑھا کر بیان کیا یہاں تک کہ یونیورسٹی کو دہشت گردی کا سب سے بڑا اڈہ قرار دیا۔ ایک سرکاری افسر نے اپنے تحریری بیان میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مبین نامی طالب علم بے گناہ ہے، ایک سوچھی سمجھی پالیسی کے تحت طالب علم کو گرفتار کیا گیا ہے اور اس طرح یونیورسٹی کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سرکاری افسر نے ان تمام ارکان کے اوپر سے نیچے تک نام گنوائے ہیں جو یہ سازش کر رہے ہیں۔ مگر میڈیا اس تمام تحریری بیان کو ہضم کر گیا۔
بی بی سی ورلڈ سروس واحد نشریاتی ادارہ ہے جو ۲۴ گھنٹے مختلف زبانوں اور موضوعات پر خبریں اور معلوماتی پروگرام نشر کرتا رہتا ہے۔ شائقین قبل از وقت ہاتھ میں ریڈیو لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور ا س کی گوشمالی کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اس وقت تک نہیں چھوڑتے جب تک اس کی کان لال نہ ہو جائے کیونکہ وہاں سے نشر ہونے والی زیادہ تر چیزیں مبنی بر حقائق ہوتی ہیں۔ مگر وہ بھی جب اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے گفتگو کرتا ہے تو غیر منصفانہ رویہ اختیار کرتا ہے اور جہاں کہیں بھی کوئی واقعی یا محض خیالی کوئی ایسی بات نظر آتی ہے جس پر اعتراض کیا جا سکے، وہاں ان کے دل میں بد نیتی کی پر مسرت گدگدی ہونے لگتی ہے۔
قرآن وسنت، تاریخ اسلامی اور مسلمانوں کو ہدف بنا کر بے سروپا الزام عائد کیے جاتے ہیں۔ اسی دوران دوسرے سماج میں عورتوں اور نچلے طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد پر کتنا ہی ظلم ہو، وہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یورپ، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں کھلے عام عورتوں کی عصمت دری کی جاتی ہے اور ہزاروں ناقابل رحم واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ بھارت میں ہر روز تین دلت عورتوں کی روزانہ عصمت دری کی جا تی ہے۔ اس پر کسی میڈیا کی انگلی نہیں اٹھتی۔ مگر جہاں کہیں مسلمان زوجین اور مسلم معاشرہ میں کوئی ناخوشگواری کی باتیں پیش آجاتی ہیں تو میڈیا لے اڑتا ہے اور غیر اسلامی افکار کے حامل اہل قلم حضرات اس پر اپنی قلمی توانائیاں صرف کرنے لگتے ہیں اور بغیر کسی رعایت اور پاسداری کے مسلمانوں کے مقدسات پر ان کے قلموں کی نوک کھل جاتی ہے۔ مشرق ومغرب کی ساری زیادتیاں خوبیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں، عورتوں کے استحصال کے واقعات اور زوجین کی کش مکش کی داستانیں خیالی معلوم ہونے لگتی ہیں۔ اس طرح کے جارحانہ ویک طرفہ معاندانہ اقدامات سے مسلمانوں کے جذبات کو کچلا جاتا ہے۔ اگر مسلمان ان کے خلا ف آواز بلند اور جہدوجہد کرتے ہیں تو ان پر سختی کی جاتی ہے اور انہیں دہشت گرد کے القاب سے نوازا جاتا ہے، یہاں تک کہ ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جاتا ہے اور طرح طرح کی دردناک سزائیں تجویز کی جاتی ہیں۔ ان کی آزائ رائے پر قدغن لگایا جاتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ مغربی میڈیا اور مغربی حکومتیں اپنی تابع دار حکومتوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ مسلم عوام کو سختی سے کچل دیا جائے۔
جب کوئی بے ضمیر شخص اپنی شہرت یا مادی مفاد کی بنا پر کوئی ایسی بات کہتا ہے جو دشمنان اسلام کے فکر وخیال سے ہم آہنگ ہوتی ہے تو اسے غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ (اس کی بہترین مثال سلمان رشدی کی کتاب شیطانی آیات ہے) اور ساری دنیا کے مسلمانوں کو خاموش رہنے بلکہ اس کے پراگندہ خیالات کو قبول کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اس کے خیالات کو اکتشافات کا درجہ دے کر ان کی عالمگیر تشہیر کی جاتی ہے اور اس کو دنیا کا اتنا بڑا ہیرو قرار دیا جاتا ہے کہ اس کے آگے عالمی فٹ بال اور کرکٹ کپ کا ہیرو بے وزن معلوم ہونے لگتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے دروازے ان کی حفاظت اور دفاع کے لیے کھل جاتے ہیں۔ (۳)
مشہور امریکی نقاد ایڈورڈ ڈبلو ساد اپنی کتاب ’’ذرائع ابلاغ اور اسلام‘‘ میں مغربی میڈیا کے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ معاندانہ رویہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’آج کل امریکہ اور یورپ میں عام لوگوں کے لیے اسلام کا مطلب ایسی چیزیں ہیں جو خاص طور پر ناگوار خاطر ہیں۔ ذرائع ابلاغ، کومتیں اور دانش ور سب اس پر متفق ہیں کہ اسلام مغربی تمدن کے لیے خطرہ ہے۔ اسلام کی منفی باتیں دوسری باتوں کے مقابلے میں زیادہ رائج ہیں۔ اس لیے نہیں کہ اسلام سے ان کا کوئی واسطہ ہے بلکہ اس لیے کہ سوسائٹی کا ایک مقتدر طبقہ ان کو ایسا ہی گردانتا ہے۔ یہ طبقہ بڑا بااثر ہے اور اس نے اسلام کے اس منفی تصور کو پھیلانے کا ارادہ کر رکھا ہے۔‘‘ (۴)
’’میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ امریکہ میں ٹیلی وژن پر مقبول ترین اوقات میں شاید ہی کوئی پروگرام ہو جس میں نسلی عداوت شامل نہ ہو اور جہاں مسلمانوں کا مذاق نہ اڑایا گیا ہو اور جہاں مسلمانوں کو ’’جزک‘‘ کا نام دے کر برا بھلا نہ کہا گیا ہو۔ اسلام کے مقابلے میں امریکہ کی رائے عام یہ ہے کہ جو چیزیں انہیں ناپسند ہیں، وہ اسلامی ہیں۔‘‘ (۵)
ذرائع ابلاغ کی تباہ کاریاں
مغربی ذرائع ابلاغ نے انسانی دنیا کو کیا دیا، کیا سکھایا اور کن امور کے بجا لانے پر زور دیا؟ اس کی گہرائی میں ہم پہنچتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے دنیا کو جو کچھ ملا، ان میں سب سے زیادہ نقصان دہ چیز بے حیائی، عریانیت اور فحاشی ہے جس کے تباہ کن اثرات سے پوری دنیا دوچار ہے، یہاں تک کہ مغرب کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔
اسٹار، زی، سونی اور دیگر ٹی وی چینل ۲۴ گھنٹے دلربا منظر پیش کرتے رہتے ہیں۔ ان کی ایجاد نے ہر گھر کو وہ سینما ہال بنا دیا ہے جہاں زیادہ تر گندی اور عریاں فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ اس کے دیکھنے میں بڑے اور بچے ، مرد اورعورتیں ، یہاں تک کہ باپ بیٹی، بھائی بہن سب برابر کے شریک اور ایک ساتھ بیٹھ کر مزے لے لے کر دیکھتے ہیں جس کے گندے مناظر سے روح کانپ جاتی ہے۔خوبصورت عورت کو منظر عام پر لاکر دعوت نظارہ دی جاتی ہے۔ اشتہار کے نام پر بڑی بے ہودگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ سیریل ایسے کہ عشق کی داستان اور تشدد کے واقعات سے اخلاقی حس مردہ ہو جائے۔ غرض کہ اخلاق سوز اور مجرمانہ ذہنیت پیدا کرنے والی چیزیں پیش کر کے بڑے پیمانے پر بگاڑ کا سامان کیا جاتا ہے۔ اس طرح سے ٹی وی، ریڈیو کانوں اور آنکھوں دونوں کے لیے لذت کا سامان بن گیا ہے۔ شوق کا یہ عالم کہ گھر میں بیوی سے پہلے ٹی وی آ جاتا ہے۔ مغرب کی بات تو چھوڑ دیجیے کیونکہ وہ اخلاقی جذام میں مبتلا ہے۔ اس وقت مسلم معاشرہ اور اسلامی مملکتیں بھی اس بیماری کا پوری طرح شکار ہو گئی ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ وہاں یہ وبا پھیل رہی ہے جس کی بنا پر نوجوانوں پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں جو محتاج بیان نہیں۔ کیا اس برائی کے ذمہ دار ہم خود نہیں ہیں؟ کم از کم مسلمانوں کو اس بات کی آزادی حاصل ہے کہ وہ ایسے گندے وسائل کو اپنے گھروں اور معاشرے میں داخل نہ ہونے دیں۔ اگر مسلمانوں کو اپنا تشخص برقرار رکھنا ہے تو چاہئے کہ وہ مغرب کی تقلید کرنا ترک کر دیں۔
تفریح کے لیے ہم سرحد پار کی اخلاق دشمن فلموں، گانوں اور عریاں ویڈیو پروگراموں کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں اور خود ہمارا ٹی وی احساس کمتری کا شکار ہونے کے سبب سرحد پار کے پروگراموں کی نقل کو اپنی فن کاری سمجھتا ہے۔ اس صورت حال میں ایک حل تو یہ ہے کہ اگر آپ کے گھر میں ٹی وی یا ویڈیو ہے تو آپ دونوں کو زمین میں دفن کر دیں اور خود کو یہ سمجھا لیں کہ آپ نے میڈیا کے شیطان کے خلاف جہاد کا ثبوت پیش کر دیا ہے۔ لیکن ایسا کرنے کے باوجود آپ کے پڑوس میں ڈش پروہ سب کچھ آتا رہے گا جس سے بچنے کے لیے آپ نے اپنا ٹی وی اور ریڈیو زمین میں دفن کیا ہے اور خود آپ کے اپنے بچے اور پڑوس کے بچے شیطانی میڈیا سے متاثر ہوتے رہیں گے۔ دوسری شکل یہ ہے کہ آپ فنی کمال کے ساتھ متبادل پروگرام بنائیں جس میں ڈرامے بھی ہوں ،نغمے بھی ہوں، دستاویزی پروگرام بھی ہوں، گویا تعلیم وتفریح اور معلومات کو تعمیری اور اخلاقی نقطہ نظر سے ٹی وی اور ریڈیو پرنشر کیا جائے ، اور ایسا کرنا مسلمانوں کے لیے ناممکن نہیں ہے۔ یہ وہ طریقہ وہ ہوگا جسے قرآن کریم نے یوں کہا ہے کہ ’’بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں‘‘ (۶)
جنسی بے راہ روی کی تباہ کاریاں
عفت وپاک دامنی کسی بھی قوم اور معاشرے کا طرۂ امتیاز ہے۔ ہر شخص کا اس بات پر یقین ہے کہ عصمت ایک انمول موتی ہے جسے کبھی ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دفعتا اس حقیقت کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ یا پھر آزادئ نسواں کے علم بردار کارل مارکس اور اینجلز (۷) جیسے گمراہ کرنے والے انسانی درندے اسے رفتہ رفتہ ختم کر دیتے ہیں۔ اس دور میں عفت وپاک دامنی اپنی قدر وقیمت کھو چکی ہے۔ ہر جگہ اس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ بالخصوص مغرب اس حریم سے بہت زیادہ تجاوز کر گیا ہے۔ ان میں سے اکثر اس نظریہ کے حامی ہو گئے ہیں کہ عورت اور مرد آخر حیوان ہی تو ہیں۔ کیا حیوانوں کے جوڑوں میں نکاح اور وہ بھی دائمی نکاح کا کوئی سوال پیدا ہو سکتا ہے؟ (۸) سڑکیں رنڈیوں سے خالی دکھائی دینے لگیں، اس خوف سے نہیں کہ پولیس کے ڈنڈے سے دوچار ہونا پڑے گا بلکہ آزاد خیال بے پردہ گھومنے والی لڑکیوں نے ان کے بازار کو ٹھنڈا کر دیا ہے۔ نشریاتی نظام ہر ملک کا ترجمان ہوتا ہے لیکن جب یورپ میں ایک ستم رسیدہ خاتون اپنے شوہر کی زیادتیوں سے تنگ آ کر وہاں سے حل تلاش کرنے کے لیے مشورہ طلب کرتی ہے تو اس سے یہ کہا جاتا ہے کہ ۲۸ سال سے قبل تم ایک یا کئی مردوں سے تعلقات قائم کر سکتی ہو۔ کیا اس طرح کے مشورے سے پریشانیوں کا حل نکل سکتا ہے؟
یوں تو عریانیت کے پھیلنے اور زناکاری کے عام ہونے کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان سب کا احصا طوالت سے خالی نہیں۔ مگر ان میں گندے فوٹو گراف، مخلوط تعلیم، فلم، تھیٹر اور ٹی وی کا اہم رول ہے۔ تعلیمی مراکز جہاں انسانیت کی ذہن سازی کی جاتی ہے، وہیں اس قسم کے جرائم روز افزوں ہیں اور اس کام کے لیے مستقل ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اس قسم کی تعلیم گاہوں، کالجوں، فرموں کے ٹریننگ اسکول اور مذہبی مدرسوں میں ہمیشہ اس قسم کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن میں ایک ہی صنف کے دو افراد آپس میں شہوانی تعلق رکھتے ہیں۔ (۹) اور جہاں مخلوط تعلیم کا انتظام ہے، وہاں اشتعال اور تسکین قلب دونوں کے اسباب موجود ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ مغربی ممالک کے اسکولوں اور دفاتر کے باتھ رومز میں مانع حمل آلات پہلے سے موجود ہوتے ہیں تاکہ تعلیم حاصل کرتے وقت یا کام کرنے کے دوران جنسی جذبات پیدا ہو جائیں تو خواتین وحضرات اور طلبہ وطالبات محفوظ طریقے سے اپنی سفلی خواہشات کی تکمیل کر سکیں۔
جج بن لنڈسے (Ben Lindsey) جنہیں ڈنور کی عدالت جرائم اطفال (Juvenile Court)کے صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے، انہیں امریکہ کے نوجوانوں کے اخلاقی حالات سے واقف ہونے کا بہت زیادہ موقع ملا۔ انہوں نے اپنی کتاب Revolt of Modern Youth (نوجوان نسل کی بغاوت) میں ایسی بہت ساری چیزوں کا ذکر کیا ہے جس سے مغربی نوجوانوں کے اندر سے اخلاقی حس مردہ ہو جانے کا ثبوتملتا ہے۔
امریکہ میں بچے قبل از وقت بالغ ہونے لگے ہیں اور بہت کچی عمر میں ان کے اندر منفی احساسات پیدا ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے نمونہ کے طور پر ۳۱۲ لڑکیوں کے حالات کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ان میں ۲۵۵ ایسی تھیں جو گیارہ اور تیرہ برس کے درمیان میں بالغ ہو چکی تھیں اور ان کے اندر ایسی منفی خواہشات اور ایسے جسمانی مطالبات کے آثار پائے جاتے تھے جو ایک ۱۸ برس اور اس سے بھی زیادہ عمر کی لڑکیوں میں ہونے چاہئیں۔ (۱۰) وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہائی اسکول کی کم عمر لڑکیاں جنہوں نے خود مجھ سے اقرار کیا کہ ان کو لڑکوں سے صنفی تعلقات کا تجربہ ہو چکا ہے، ان میں صرف ۲۵ ایسی تھیں جن کو حمل ٹھہر گیا تھا۔ باقی میں سے بعض تو اتفاقا بچ گئی تھیں لیکن اکثر کو منع حمل کی موثر تدابیر کا کافی علم تھا۔ یہ واقفیت ان میں اتنی عام ہو چکی ہے کہ لوگوں کو اس کا صحیح اندازہ نہیں۔ (۱۱) اس کے بعد فاضل مصنف لڑکے اور لڑکیوں کے مابین جنسی خواہشات کا تقابل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ہائی اسکول کا لڑکا بمقابلہ ہائی اسکول کی لڑکی کے جذبات کی شدت میں بہت پیچھے ہے۔ عموما لڑکی ہی کسی نہ کسی طرح پیش قدمی کرتی ہے اور لڑکا اس کے اشاروں پر ناچتا ہے۔ (۱۲)
۱۹۹۳ء میں امریکی حکومت کے ایک سروے کے مطابق امریکہ میں ایک سال کے اندر ۱۴ لاکھ بارہ ہزار شادیاں قانونی طور پر منعقد ہوئیں۔ ۳ ماہ بعد ہی ان میں سے ۲ لاکھ ۹۲ ہزار کا انجام طلاق پر ہوا۔ تقریبا ۷۵ فی صد شادی شدہ مرد اور خواتین اپنے شریک حیات کے ساتھ بے وفائی کے مرتکب ہوتے ہیں جو ان شادیوں کی ناکامی کی بنیادی وجہ ہے۔ امریکہ کی آبادی میں تقریبا دو کروڑ افراد ہم جنس پرستی کی لعنت میں مبتلا ہیں۔ ۱۶ برس سے لے کر ۱۹ برس تک کی لڑکیاں جنسی حملوں کا نشانہ بنتی ہیں جن میں اکثر اپنے انتہائی قریبی رشتہ داروں یعنی باپ، بھائی وغیرہ کی ہوس کا شکار بنتی ہیں۔ امریکی ہفت روزہ انکوائرز کی ایک رپورٹ کے مطابق ۱۹۹۹ء میں تقریبا ۹ لاکھ خواتین کی عصمتیں لوٹی گئیں جبکہ ان وارداتوں کے ۶۰ فی صد ملزمان گرفتار بھی نہ ہو سکے۔ (۱۳) روزنامہ جنگ کی اطلاع کے مطابق ہر ۲۷ ویں سیکنڈ میں ایک کم عمر لڑکی ماں بن جاتی ہے۔ ہر ۴۷ویں سیکنڈ میں ایک بچی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے۔ (۱۴) مسز بل کلنٹن نے ۱۹۹۵ء میں اسلام آباد میں ایک کالج کی طالبات سے گفتگو کے دوران بڑی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی نوجوان لڑکیوں کا سب سے بڑا مسئلہ قانونی طور پر منعقد شادی سے قبل ہی ماں بن جانا ہے۔ (۱۵)
امریکہ کے علاوہ دیگر مغربی ممالک کا بھی یہی حال ہے۔ مثلا برطانیہ میں دس فیصد خاندان بغیر باپ کے پائے جاتے ہیں۔ ۷۰ فی صدلڑکے اور لڑکیاں ایسے ہیں جن کو ان کے محبوب یا منگیتر نے موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ یہاں میاں بیوی کے تعلقات کچے دھاگوں میں بندھے ہوتے ہیں جو ذرا سی بات پر طلاق پر منتج ہوتے ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے ۷۶ فی صد طلبہ وطالبات شادی کے بغیر جنسی تعلقات قائم کرنے کے حق میں ہیں۔ ۲۴ فی صد طالبات نے تسلیم کیا ہے کہ وہ یہاں آنے کے بعد کنواری نہیں رہتیں اور اب بھی ان کے باقاعدہ جنسی تعلقات ہیں۔ ۲۵ فی صد طالبات مانع حمل گولیاں استعمال کرتی ہیں۔ ۲۱ فی صد طلبہ وطالبات فحش وعریاں جرائد خریدتے ہیں۔ ۳۸ فی صد طلبہ وطالبات ہم جنسی کے قائل ہیں۔ (۱۶)
ایک جامعہ کی سروے رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا میں ۶ ہزار سے زائد بچے جن کی عمر ۱۸ برس سے کم ہے، اپنے علاج، خوراک، رہائش، شراب اور سگریٹ کے حصول کے لیے اپنا جسم فروخت کرتے ہیں جبکہ وہاں کی حکومت ان کو اس حالت زار سے نکالنے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ (۱۷)
ایک امریکی جریدہ مغربی ممالک میں اخلاقی حس کے مردہ ہو جانے اور بے حیائی وزنا کاری کے عام ہونے کی وجوہات پر ماتم کرتے ہوئے لکھتا ہے
’’تین شیطانی قوتیں ہیں جن کی تثلیث آج ہماری دنیاپر چھا گئی ہے اور یہ تینوں ایک جہنم تیار کرنے میں مشغول ہیں۔ فحش لٹریچر جو جنگ عظیم کے بعد سے حیرت انگیز رفتار کے ساتھ اپنی بے شرمی اور کثرت اشاعت میں بڑھتا جا رہا ہے۔ متحرک تصویریں جو شہوانی محبت کے جذبات کو نہ صرف بھڑکاتی ہیں بلکہ عملی سبق دیتی ہیں۔ عورتوں کا گرا ہو ااخلاقی معیار جو ان کے لباس اور بسا اوقات ان کی برہنگی اور سگریٹ کے روز افزوں استعمال اور مردوں کے ساتھ ان کے ہر قید وامتیاز سے ناآشنا اختلاط کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ تین چیزیں ہمارے یہاں بڑھتی جا رہی ہیں اور ان کا نتیجہ مسیحی تہذیب ومعاشرت کا زوال اور آخر کار تباہی ہے۔‘‘ (۱۸)
اسی اخلاقی بگاڑ کو دیکھ کر سیوا سماجی رہنما پاول کہتا ہے: اگر یورپ صرف زنا سے بچ جائے تو اس کے سارے مسائل میں حل کر دوں گا۔ اس سلسلے میں یورپ کے عوام اقدام بھی کر رہے ہیں کہ کسی طرح اس اخلاقی بگاڑ کا سد باب ہو سکے مگر اب تک خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔ مثلا فرانس کی راج دھانی پیرس کے دی پوائنٹ نے ایک سروے کیا تھا جس کی رو سے ۶۸ فی صد شہریوں نے امریکی کلچر کے بڑھتے ہوئے اثرات پر تشویش ظاہر کی تھی اور اسے روکنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ چائنا نے جو امریکہ کی نگاہ میں اسلام کے بعد دوسرا بڑا دشمن ہے، ۱۹۹۷ء میں اپنے مشرقی صوبہ گوانگ ڈونگ میں مغربی فحاشی کے خلاف بڑے پیمانے پر مہم چلائی۔ بیس ہزار فحش رسائل اور ۵۶ ہزار گندے کیسٹ ضبط کیے۔ (۱۹)
بے حیائی کی یہ دنیا ہے جہاں کسی کی عزت محفوظ نہیں اور مغرب سے بے حیائی کی ہوا جب چلتی ہے تو سیدھے اسلامی معاشرہ پر آکر تھمتی ہے۔ ان کے اصول زندگی اور عادات واطوار کو قبول کر لینا مسلم معاشرہ میں امتیاز سمجھا جاتا ہے۔ عمومالڑکیوں کی آخری خواہش اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ فلم، تھیٹر اور فلم کی زندگی اختیار کر لیں۔ ا س امنگ کی تکمیل کے لیے وہ ہر قربانی دینے کو تیار رہتی ہیں۔ ان کی ایک خا ص تعداد اپنے آپ کو فلم پروڈیوسرز اور ڈائریکٹروں کی ہوس رانیوں کے حوالے کر کے بے نیل مرام ختم ہو جاتی ہیں۔ یہ ابتدائی مرحلہ ہے۔ اس کے بعد وہ کیا کچھ نہیں کرتیں ،آپ سوچ سکتے ہیں۔ جبکہ قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کہ فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قولا معروفا (الاحزاب ۳۲) (نرمی سے بات نہ کرو، کہیں وہ لوگ کسی توقع میں مبتلا نہ ہو جائیں جن کے دلوں میں بیماری ہے۔ بھلے طریقے سے بات کیا کرو) کیا اسلام اس بات کو پسند کر سکتا ہے کہ لڑکیاں بینکوں کی کلرک، فضائی میزبان، ریستوران میں خدمت گار، مغنیات، رقاصائیں ،فلم، ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر اداکار بنی ہوئی نظر آئیں؟ ہرگز نہیں۔
لڑکیوں کے سر سے پردہ غائب ہوئے عرصہ ہو گیا۔ اگر کسی کے سر پر دوپٹہ نظر آتا ہے تو بس گلے کی ٹائی کی حد تک۔ جسم پر کپڑے اتنے باریک اور چست ہوتے ہیں کہ جیسے کسی نے تھرمامیٹر سیٹ کر دیا ہو جو جسم کے ہر ظاہری ومخفی حصے کی حرکات وسکنات کا پتہ دیتا ہو۔ یہ اس لیے ہو رہا ہے کہ مغربی ڈرامے کا سین ہمارے سامنے ہے۔ نئے کلچر کے نام پر وحشت کی ہوائیں چل رہی ہیں۔ گھروں کے خیمے اکھڑ رہے ہیں، بازاروں کی رونق بڑھ رہی ہے، پارک آباد ہو رہے ہیں، ہوٹل گھر بن رہے ہیں۔ اکبر کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہو رہی ہے۔ اپ ٹو ڈیٹ اور ماڈرن شرفا کی عمریں ترقی یافتہ ممالک اور ہوٹلوں میں کٹ رہی ہیں۔ وہ مرتے ہیں ہسپتالوں کے بستروں پر، دریا کے کنارے صحت افزا جھونپڑیوں میں اور ریٹ کے بستروں پر بحر محبت موجیں مار رہا ہے اور ساحلوں سے انسانیت کے بکھرے ہوئے اور بچے ہوئے خس وخاشاک بہائے لیے جا رہا ہے۔ یہ صرف آزادئ نسواں کا کرشمہ ہے۔ اب Women's Empowerment کا ہائیڈروجن بم پھٹے گا تو انسانیت کے ذرات فضاؤں میں اڑیں گے جیسا کہ مغربی تہذیب کے تنکے مشرق کے سمعی وبصری ذرائع (Audio Visual Media) پر ٹیلی ویژن اور بھیانک وی سی آر کے ہاتھوں گھر گھر میں اڑ رہے ہیں اور گویا پورا گھر خواب گاہ (Bed Room) بنا ہوا ہے۔ (۲۰)
اجتماع ومعاشرت اور سوشل زندگی میں مغربی طریقوں کی پیروی اور ان کے اصول زندگی اور طرز معاشرت کو قبول کر لینا اسلامی معاشرے میں بڑے دور رس نتائج رکھتا ہے۔ اس وقت مغرب ایک اخلاقی جذام میں مبتلا ہے جس سے اس کا جسم برابر کٹتا اور جلتا چلا جا رہا ہے اور اب اس کا تعفن پورے ماحول میں پھیل چکا ہے۔ اس مرض جذام کا سبب اس کی جنسی بے راہ روی اور اخلاقی انارکی ہے جو بہیمیت وحیوانیت کے حدود تک پہنچ گئی ہے۔ لیکن اس کیفیت کا بھی حقیقی اور اولین سبب عورتوں کی حد سے بڑھی ہوئی آزادی، مکمل بے پردگی، مرد وزن کا غیر محدود اختلاط اور شراب نوشی ہے۔ کسی اسلامی ملک میں اگر عورتوں کو ویسی ہی آزادی دی گئی، پردہ یکسر اٹھایا گیا، دونوں صنفوں کے اختلاط کے آزادانہ مواقع فراہم کیے گئے، مخلوط تعلیم جاری کی گئی تو اس کا نتیجہ اخلاقی انتشار اور جنسی انارکی، سول میرج، تمام اخلاقی ودینی حدود واصول سے بغاوت اور بالآخر اس اخلاقی جذام کے سوا کچھ نہیں جو مغرب کو ٹھیک انہی اسباب کی بنا پر لاحق ہو چکا ہے۔ ان اسلامی ملکوں میں جہاں مغربی تہذیب کی پرجوش نقل کی جا رہی ہے اور جہاں پردہ بالکل اٹھ گیا ہے اور مرد وزن کے اختلاط کے آزادانہ مواقع حاصل ہیں، پھر صحافت، سینما، ٹیلی ویژن، لٹریچر اور حکمران طبقہ کی زندگی اس کی ہمت افزائی بلکہ رہنمائی کر رہی ہے، وہاں اس جذام کے آثار وعلامات پوری طرح ظاہر ہونے لگے ہیں اور یہ قانون قدرت ہے جس سے کہیں مفر نہیں۔ (۲۱)
جس معاشرے میں اخلاقی اور سماجی برائیاں ہوں گی، وہ خواہ کتنا ہی دولت مند اور با اثر ہو، اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے۔ اس میں پائیداری نہیں ہوتی کیونکہ معاشرتی اصول ناپید ہوتے ہیں۔ آج کل کے مغربی معاشرے اور سوسائٹی میں اخلاقی اقدار کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے اور معاشرتی وسماجی اصول جو روندے جا رہے ہیں، اس کی وجہ سے اس قوم کا اخلاق بہت بگڑ چکا ہے۔ اسلام نے چند بنیادی اصول مقرر کر دیے ہیں جن کے اندر رہ کر معاشرہ ترقی پذیر ہو سکتا ہے۔ ان سے باہر نکلنا اخلاق وانسانیت کی موت کے مترادف ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، زناکار مرد اور زناکار عورتوں کے لیے پتھر ہے۔ عورتوں کے بارے میں خدا سے ڈرو، تمہارے حق عورتوں پر ہے اور عورتوں کے تم پر ۔ اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو کیونکہ وہ بھی تمہاری طرح خدا کی بندیاں ہیں۔ لڑکا اس کا جس کے بستر پر پیدا ہو۔ جو لڑکا اپنے باپ کے علاوہ کسی اور سے نسبت کرے، اس پر خدا اور رسول اور فرشتوں کی لعنت ہے۔
مغربی علوم و فنون اور مسلمان
صلیبی جنگوں میں شکست کھانے کے بعد انگریزوں نے اسلامی مصادر کی جڑوں کو متزلزل کرنے کا منصوبہ بنایا اور مسلمانوں کو دین حنیف سے گمراہ کرنے کی بڑے پیمانے پر سازش کی۔ حصول تعلیم کے سلسلے میں ضرورت سے زیادہ سہولت فراہم کر کے مسلم طلبہ کو غلط کیریکٹر اور غیر اسلامی افکار کے حامل بنانے پر زور دیا۔ چنانچہ جو مسلم طلبہ انگریزی جامعات سے تعلیم حاصل کر کے نکلے، ان کے اندر ایمانی بصیرت اور خوف آخرت کا فقدان ہوتا ہے۔ مغربی جامعات میں حصول تعلیم کے بعد جو طلبہ اپنے دین پر اسی طرح قائم رہے جیسا کہ اس دین کا تقاضا ہے تو ان کی تعداد بہت ہی کم ہوتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب صورت حال ایسی ہو تو اس ترقی کے دور میں جہاں ہر جگہ مغربی طرز تعلیم اور سائنسی اکتشافات کا استقبال کیا جا رہا ہے، ہر جگہ اس کا جال پھیلا ہوا ہے، ہر میدان میں انہی علوم وفنون کو برتری حاصل ہے، اس کی سائنس نے اتنی ترقی کی ہے کہ گھنٹوں کے مشکل کام کو منٹوں میں آسان بنا دیا ہے۔ تو مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟ ان علوم وفنون اور سہولیات سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانا چاہئے کہ نہیں؟ ایک صورت تو یہ ہے کہ مسلمان ابھی مغربی تعلیم ونظریات کو جوں کا توں قبول کر لے، اس صورت میں اس تعلیم کے جو نتائج اذہان وقلوب اور معاشرے پر منتج ہوں گے، وہ محتاج بیان نہیں۔ سابقہ بیان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مغربی طرز تعلیم اور سائنسی اکتشافات وایجادات کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے۔ اس صورت میں مسلمان اپنے منصب پر قائم نہیں رہ سکتے کیونکہ اللہ تعالی نے اسے خیر امت کے نام سے خطاب کیا ہے اور پھر مسلمان ایسی صورت میں اپنی ضرورت کو حل کیسے کریں گے؟ جبکہ ہمارے دینی جامعات میں ان علوم وفنون کے حصول کا انتظام کالعدم ہے۔ وہاں جن علوم پر زور دیاجاتا ہے، معاصرزمانہ کے تحت ہمارے ضرورت کے حل کے لیے ناکافی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک پیچیدگی کا حل مفتی محمد ظفیر الدین صاحب مفتی دار العلوم دیوبند کے اس بیان سے نکالا جا سکتا ہے۔
’’اگر مدارس دینیہ میں نئے اکتشافات اور جدید ایجادات کی تعلیم نہیں دی جاتی، اگر سائنس نہیں پڑھائی جاتی، یا سرمایہ کی کمی کی وجہ سے اس طرح کے دوسرے کام نہیں ہو سکتے تو اتنا تو ہو سکتا ہے کہ یہاں جو مضامین پڑھائے جاتے ہیں، ان میں ہمارے نوجوان علما باکمال ہوں۔ اسی کے ساتھ مدارس کو جس حد تک حالات وزمانہ کے مطابق آگے لے جایا جا سکتا ہے، لے جانا چاہئے۔ نئے زمانہ کی اچھی چیزوں کو خوش آمدید کہنا اور اپنانا گناہ نہیں، کار ثواب ہے۔ یہ مسلمانوں کی گم شدہ متاع ہے، جہاں بھی مل جائے لے لینی چاہئے۔ ا س پر بدعت کا حکم لگا کر کنارہ کش ہونا دانش مندی نہیں۔ خوب یاد رکھا جائے اچھی چیزوں کو اپنانا ترکہ ہے، سرقہ نہیں۔‘‘ (۲۲)
یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ سائنسی علوم وفنون اور ایجادات کو مغربی اثاثہ قرار دیتے ہیں جب کہ یہ مسلم دانش وروں اور سائنس دانوں کی میراث ہے جس سے مسلمانوں نے مدت العمر تک لاپروائی برتی، خالی میدان دیکھ کر اہل مغرب آ دھمکے اور اسے اچک لیا اور مسلمانوں کو اپنا دست نگر بنا دیا۔ اگر ہم اسلام کے اصول پر قائم رہ کر حصول علم اور تحقیق کا فریضہ ادا کرتے تو آج ہمیں جدید علوم وفنون کے لیے یورپ کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہ پڑتی حالانکہ قرآن نے لعکم تعقلون، لعلکم تتفکرون، لعلکم تشعرونکے الفاظ استعمال کر کے مسلمانوں کو سائنسی علوم کے حصول کی طرف ابھارا ہے، جیسا کہ علامہ اسد لکھتے ہیں
’’تاریخ سے بلا کسی اشتباہ کے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے سائنسی ترقی کو جتنا ابھارا ہے، اتنا کبھی کسی اور مذہب نے نہیں کیا۔ اسلامی دینیات سے علوم وفنون اور سائنسی تحقیق کی جو ہمت افزائی ہوئی، اس کا نتیجہ بنو امیہ اور بنو عباس اور ہسپانیہ کی عرب حکومت کے دور کی شاندار تہذیبی ترقیوں کی شکل میں ظاہر ہوا۔‘‘ (۲۳)
دوسری شق کا جواب ہمیں حضور ﷺ کے اس حکم سے مل جاتا ہے کہ آپ نے کاتب وحی حضرت زید بن ثابتؓ کو کسی خاص مقصد کے تحت یہودیوں کی زبان سیکھنے کا حکم دیا۔ چنانچہ دینی جامعات میں بھی دیگر فنون کی طرح ایک شعبہ انگریزی زبان وادب کی افہام وتفہیم کے لیے قائم کر کے مسلم طلبا کو انگریزی زبان وادب کا ماہر بنایا جائے۔ اس طرح ضرورت کی تکمیل ہو سکتی ہے اور خیر امت کا فریضہ بھی انجام پا سکتا ہے۔ بقول سرسید
’’مسلمانوں کی تعلیم کا طریقہ دو قسم کا ہونا چاہئے۔ ایک وہ جس کو مسلمان خود قائم کریں جس سے ان کے تمام دینی ودنیاوی مقاصد انجام پائیں۔ دوسرے وہ جس سے مسلمان ان اصول سے جو گورنمنٹ نے قائم کیے ، فائدہ اٹھائیں‘‘ (۲۴)
اب رہا مسئلہ عام اسکولوں کی تعلیم کا جو مسلمانوں کی نگرانی میں چلتے ہیں، جہاں دینیات کی تعلیم کا فقدان اور تربیت اسلامی کا معقول انتظام نہیں ہے اور سارا زور معاصر زمانہ علوم پر ہی دیا جاتا ہے تو یہ ہماری کمزوری ہے نہ کہ معاصر زمانہ تعلیم کی خرابی۔ اس سلسلے میں یہ حدیث پیش کرنے کے علاوہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ وینصرانہ ویمجسانہ (۲۵) (ہر بچہ خالص فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ یہ اس کے والدین ہوتے ہیں جو اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں) اس حدیث کو ذہن میں رکھ کر انگریزی تعلیم کے فوائد ونقصانات سے متعلق مزید باتیں سوچی جا سکتی ہیں۔
حواشی
(۱) اسلام اکیسویں صدی میں‘ ص ۳۳
(۲) مغربی تمدن کی جھلک‘ ص ۴۴
(۳) ماہنامہ الحق‘ اکوڑہ خٹک
(۴ و۵) ذرائع ابلاغ اور اسلام‘ بحوالہ معرکہ اسلام اور جاہلیت‘ مولانا صدر الدین اصلاحی‘ ص ۲۰۳
(۶) ماہنامہ ترجمان القرآن‘ لاہور‘ اگست ۲۰۰۰‘ ص ۶۸
(۷) اسلام ایک نظریہ ایک تحریک‘ مریم جمیلہ۔ مترجم‘ آماد شاہ پوری‘ ص ۳۰۷
(۸ و۹) پردہ‘ سید ابو الاعلی مودودی‘ ص ۴۷
(۱۰) سنت نبوی اور جدید سائنس‘ حکیم طارق محمود چغتائی‘ ج ۱‘ ص ۳۰۷
(۱۱) پردہ ‘ سید مودودی
(۱۲) سنت نبوی اور جدید سائنس‘ ج ۱ ‘ ص ۳۰۱
(۱۳) ہفت روزہ اکانومسٹ‘ اکتوبر ۱۹۹۴ء‘ بحوالہ ترجمان القرآن‘ مئی ۲۰۰۰ء
(۱۴) رو زنامہ جنگ لندن‘ ۲۸ اپریل ۱۹۸۷ء۔ بحوالہ سنت نبوی اور جدید سائنس ج ۲‘ ص ۶۵
(۱۵)ایضا‘ ۲۵ مارچ ۱۹۹۵ء‘ بحوالہ ترجمان القرآن لاہور‘ مئی ۲۰۰۰ء
(۱۶) ایضا‘ ۵ مارچ ۱۹۹۰ء‘ بحوالہ سنت نبوی اور جدید سائنس‘ ج ۲‘ ص ۶۴
(۱۷) روزنامہ نوائے وقت‘ ۴ جنوری ۲۰۰۰ء
(۱۸) پردہ‘ سید مودودی
(۱۹) اسلام اکیسویں صدی میں‘ ص ۳۷‘ ۳۸
(۲۰) ترجمان القرآن‘ اپریل ۲۰۰۰‘ ص ۴۹
(۲۱) مسلم ممالک میں اسلام اور مغربیت کی کشمکش‘ ابو الحسن علی ندوی‘ ص ۲۳۹
(۲۲) ماہنامہ ارمغان‘ دعوت اسلام نمبر‘ جنوری فروری مارچ ۱۹۹۸ء‘ ص ۱۱۹
(۲۳) اسلام دوراہے پر‘ ص ۶۳
(۲۴) حیات جاوید‘ الطاف حسین حالی
(۲۵) بخاری شریف‘ باب ما قیل فی اولاد المسلمین‘ ص ۱۸۵‘ کتب خانہ رشیدیہ دہلی
(بشکریہ ماہنامہ دار العلوم دیوبند، انڈیا)
پاکستان شریعت کونسل کے راہ نماؤں کا دورۂ قندھار
ادارہ
پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی اور سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے عید الاضحی کے بعد مولانا رشید احمد درخواستی کے ہمراہ قندھار کا تین روزہ دورہ کیا اور امیر المومنین ملا محمد عمر حفظہ اللہ تعالی سے ملاقات کر کے انہیں نفاذ اسلام کے اقدامات اور بت شکنی پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے امارت اسلامی افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ مکمل یک جہتی کا اظہار کیا۔ اس موقع پر مولانا فداء الرحمن درخواستی نے جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن کراچی اور پاکستان شریعت کونسل کی طرف سے ایک لاکھ بیس ہزار روپے کا عطیہ بھی طالبان حکومت کی امداد کے لیے پیش کیا۔ پاکستان شریعت کونسل کے راہ نماؤں نے افغانستان کے قاضی القضاۃ مولوی نور محمد ثاقب اور قندھار کے کور کمانڈر ملا اختر محمد عثمانی سے ملاقات کی اور ان سے افغانستان کی تازہ ترین صورت حال پر تبادلہ خیالات کیا۔ کراچی میں امارت اسلامی افغانستان کے قونصل جنرل ملا رحمت اللہ کاکا زادہ قندھار سے واپسی پر ان کے رفیق سفر تھے اور ان سے افغانستان پر اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کی جانے والی پابندیوں کے اثرات اور طالبان حکومت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون کے امکانات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی نے اس موقع پر کہا کہ افغانستان پر اقوام متحدہ کی پابندیاں سراسر ظالمانہ اور جانبدارانہ ہیں جن کے خلاف تمام مسلم ممالک کو صدائے احتجاج بلند کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ ملی غیرت کا تقاضا ہے کہ تمام مسلم حکومتیں طالبان حکومت کو تسلیم کر کے اقوام متحدہ کی پابندیوں کو مسترد کریں اور افغانستان کی تعمیر نو کے لیے اس سے بھرپور تعاون کریں۔انہوں نے کہا کہ بے جان مجسموں کو مسمار کرنے پر دنیا بھر کے واویلا سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ آج کے عالمی نظام اور بین الاقوامی رائے عامہ کو زندہ انسانوں اور ان کی مشکلات وتکالیف سے کوئی دل چسپی نہیں ہے اور بے جان بتوں کو بچانے کے لیے سب لوگ چیخ پکار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت کے اس اقدام نے عالمی برادری کے منافقانہ طرز عمل اور ورلڈ سسٹم کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کر دیا ہے۔
مولانا راشدی کا دورۂ پشاور
پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے گزشتہ ہفتے پشاور کا مختصر دورہ کیا اور پاکستان شریعت کونسل صوبہ سرحد کے امیر مولانا میاں عصمت شاہ کاکاخیل کو دورۂ قندھار کے تاثرات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ صوبہ سرحد میں کونسل کی رابطہ مہم کے سلسلے میں ان سے تبادلہ خیال کیا۔
مرکزی راہ نماؤں کا دورۂ کوئٹہ
پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی اور سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے قندھار سے واپسی پر کوئٹہ میں ایک روز قیام کیا اور پاکستان شریعت کونسل صوبہ بلوچستان کے کنوینر مولانا محمد حسن کاکڑ اور دیگر راہ نماؤں سے ملاقات کر کے انہیں دورۂ قندھا رکے تاثرات سے آگاہ کرنے کے علاوہ ان سے مختلف امور پر گفتگو کی۔
صوبہ سندھ کے نئے عہدے دار
پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی نے صوبہ سندھ کے لیے کونسل کے مندرجہ ذیل نئے عہدے داروں کا اعلان کیا ہے اور انہیں اختیار دیا ہے کہ وہ باہمی مشورے سے باقی عہدے داروں کا انتخاب کر لیں
امیر — مولانا عبد الرشید انصاری — کراچی
سیکرٹری جنرل — مولانا سیف الرحمن ارائیں — حیدر آباد
رابطہ سیکرٹری — مولانا قطب الدین انصاری — حیدر آباد
سیکرٹری اطلاعات — مولانا رشید احمد درخواستی — کراچی
خدمات دار العلوم دیوبند کی حمایت
پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی نے جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے زیر اہتمام ۹، ۱۰، ۱۱ اپریل ۲۰۰۱ء کو پشاور میں منعقد ہونے والی ’’عالمی خدمات دار العلوم دیوبند کانفرنس‘‘ کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے اور اسے وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے پاکستان شریعت کونسل کے تمام عہدہ داروں اور ارکان سے کہا ہے کہ وہ کانفرنس میں شریک ہوں اور اسے کامیاب بنانے کے لیے مکمل تعاون کریں۔ دریں اثنا کانفرنس کے داعی اور جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر حضرت مولانا فضل الرحمن نے گزشتہ ہفتے گوجرانوالہ میں پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی سے ملاقات کر کے انہیں کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کر لی ہے اور وہ مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا صلاح الدین فاروقی اور صوبہ سرحد کے امیر مولانا میاں عصمت شاہ کاکاخیل کے ہمراہ کانفرنس میں شریک ہوں گے۔
علما کی اندھا دھند گرفتاریوں پر احتجاج
پاکستان شریعت کونسل صوبہ پنجاب کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری جمیل الرحمن اختر نے محرم الحرام کے موقع پر ملک بھر میں علماء کرام اور دینی کارکنوں کی اندھا دھند گرفتاریوں پر شدید احتجاج کیا ہے اور ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت فرقہ وارانہ بد امنی کے اصل اسباب وعوامل کو دور کرنے کے بجائے ہر سال محرم الحرام کے موقع پر بلا جواز گرفتاریوں اور پابندیوں کے ذریعے سے وقت گزارنے کی کوشش کرتی ہے جس کی وجہ سے صورت حال بہتر ہونے کے بجائے مزید بگڑتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن علما کی گرفتاری، ضلع بندی اور زبان بندی کے احکامات جاری کیے گئے ہیں، ان میں سے بہت سے حضرات کئی سال پہلے وفات پا چکے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان گرفتاریوں اور پابندیوں کا مقصد صرف کارروائی ڈالنا اور رسم پوری کرنا ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس طرز عمل پر نظر ثانی کی جائے اور گرفتاریوں اور پابندیوں کے احکام واپس لے کرفرقہ وارانہ کشیدگی اور بد امنی کے اسباب وعوامل کی نشان دہی کے لیے سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں عدالتی کمیشن قائم کیا جائے۔
مرکزی مجلس شوری کا اجلاس
پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس شوری کا ایک اہم اجلاس ۲۹ اپریل ۲۰۰۱ء بروز اتوار صبح دس بجے الشریعہ اکادمی کنگنی والا گوجرانوالہ میں امیر مرکزیہ حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی کی زیر صدارت منعقد ہوگا جس میں نفاذ شریعت کی جدوجہد کے حوالے سے رابطہ مہم کو تیز کرنے کے لیے مختلف تجاویز کا جائزہ لیا جائے گا۔ اجلاس کے بعد ۳ بجے دن الشریعہ اکادمی میں پاکستان شریعت کونسل کے زیر اہتمام علماء کرام اور دینی کارکنوں کے لیے ایک خصوصی نشست بھی ہوگی جس سے حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی اور حضرت مولانا زاہد الراشدی موجودہ عالمی اور ملکی صورت حال کے تناظر میں علماء کرام اور دینی جماعتوں کی ذمہ داریوں کے موضوع پر تفصیلی خطاب کریں گے۔ ان شاء اللہ تعالی۔
تعارف و تبصرہ
ادارہ
’’آدابِ حاملینِ قرآن‘‘
قرآن کریم کے آداب وفضائل اور حفاظ وقرا کے لیے ضروری ہدایات کے حوالے سے معروف محدث امام شرف الدین نوویؒ شارح مسلم کی کتاب التبیان فی آداب حملۃ القرآن کا اردو ترجمہ حضرت مولانا نجم الدین اصلاحیؒ نے کیا تھا جو بھارت میں شائع ہو چکا ہے اور اب اسے مکہ کتاب گھر، الکریم مارکیٹ، ارو بازار لاہور نے شائع کیا ہے۔ صفحات ۱۲۰، کتابت وطباعت مناسب، مضبوط جلد، قیمت ۶۳ روپے۔
’’محمد ﷺ اور قرآن‘‘
سلمان رشدی کی رسوائے زمانہ تصنیف ’’شیطانی آیات‘‘ میں جناب نبی اکریم ﷺ کی ذات گرامی اور حضرت صحابہ کرام وازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم کے بارے میں اہانت آمیز اور گستاخانہ طرز بیان اور مواد پر ایک عرصہ سے دنیا بھر میں احتجاج ہو رہا ہے۔ بھارت کے معروف دانش ور ڈاکٹر رفیق زکریا نے سلمان رشدی کی اس خرافات کا قرآن وحدیث اور تاریخ کی روشنی میں محققانہ جائزہ لیا ہے اور ۴۳۲ صفحات پر مشتمل اس ضخیم تصنیف میں ان تمام واقعات کا احاطہ کیا ہے جن کے بارے میں سلمان رشدی نے ہرزہ سرائی کی ہے۔
یہ کتاب فکشن ہاؤس، ۱۸ مزنگ روڈ، لاہور نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ۲۰۰ روپے ہے۔
’’ردِ قادیانیت کے زریں اصول‘‘
حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی ایک عرصہ سے علما اور طلبہ کو قادیانیت کے موضوع پر لیکچر دے رہے ہیں اور عقیدۂ ختم نبوت، حیات عیسی علیہ السلام، امام مہدی کی علامات، اور مرزا غلام احمد قادیانی کے دعاوی کی حقیقت پر قادیانیوں کے پرفریب دلائل کی اصلیت کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ ۱۹۹۰ء میں انہوں نے دار العلوم دیوبند میں علما اور طلبہ کو ان موضوعات پر جو لیکچر دیے، انہیں کتابی شکل میں مرتب کیا گیا ہے اور حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود کے وقیع مقدمہ نے اس کی افادیت کو دوچند کر دیا ہے۔ اس موضوع سے دل چسپی رکھنے والے علما، طلبہ اور دینی کارکنوں کے لیے یہ بیش بہا تحفہ ہے۔
۴۴۰ صفحات پر مشتمل اس مجلد کتاب کی قیمت ۱۵۰ روپے ہے اور اسے ادارہ مرکزہ دعوت وارشاد چنیوٹ ضلع جھنگ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’قافلہ ادبِ اسلامی‘‘
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے علمی آثار اور صدقات جاریہ میں ادب اسلامی کے حوالے سے قائم ہونے والا عالمی فورم ’’عالمی رابطہ ادب اسلامی‘‘ بھی ہے جو ان کی سرپرستی میں وجود میں آیا اور پاکستان سمیت مختلف ملکوں میں اس کی شاخیں کام کر رہی ہیں۔ عالمی رابطہ ادب اسلامی کی پاکستان شاخ نے ادب اسلامی کے فروغ کے لیے ’’قافلہ ادب اسلامی‘‘ کے نام سے ایک سہ ماہی مجلہ کی اشاعت کا آغاز کیا ہے جو عربی، اردو اور انگلش تین زبانوں میں ہے اور معروف دانش ور ڈاکٹر ظہور احمد اظہر اس کے مدیر ہیں۔
زیر نظر شمارہ پہلی جلد کا شمارہ نمبر ۳، ۴ ہے جو دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی قیمت ۱۰۰ روپے ہے۔ ملنے کا پتہ:۷ حق باہو ہاؤسز، لالہ زار کالونی، رائے ونڈ، لاہور
’’برکاتِ وضو‘‘
عارف باللہ حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینی رحمہ اللہ تعالی نے اس مضمون میں وضو کی برکات وفضائل جناب نبی اکرم ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں تحریر فرمائے ہیں ۔
۲۸ صفحات پر مشتمل یہ مضمون دار الارشاد، خانقاہ مدنی، اٹک شہر نے شائع کیا ہے جس کا ہدیہ ۱۰ روپے ہے۔
دسمبر ۲۰۰۱ء
افغانستان اور موجودہ عالمی صورت حال
ادارہ
(افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جو ہونے والا ہے، اس کے بارے میں ہم اپنے خیالات آئندہ شمارے میں ان شاء اللہ تعالیٰ تفصیل کے ساتھ پیش کریں گے۔ سردست موقر قومی روزنامہ نوائے وقت کا ۲۹ نومبر ۲۰۰۱ء کا اداریہ اور ادارتی شذرات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں جن میں موجودہ صورتِ حال اور مستقبل کے خدشات وتوقعات کی بہت بہتر انداز میں عکاسی کی گئی ہے اور ہمیں بھی ’’نوائے وقت‘‘ کے اس حقیقت پسندانہ تجزیے سے اتفاق ہے۔ رئیس التحریر)
افغان بحران میں حکومت پاکستان نے امریکہ سے جو توقعات وابستہ کی تھیں، وہ نقش بر آب ثابت ہو رہی ہیں اور آہستہ آہستہ حالات جو رخ اختیار کر رہے ہیں، وہ نہ صرف کشمیری عوام کی جدوجہد کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں بلکہ ہمارے ایٹمی سائنس دانوں کے اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے علاوہ ایران سے رابطوں کا ہوّا کھڑا کر کے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان نے امریکہ سے تعاون کا فیصلہ کرتے وقت واضح کیا تھا کہ وہ نہ تو شمالی اتحاد کا کابل پر قبضہ برداشت کرے گا اور نہ جنگ کی طوالت کے حق میں ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے دہشت گردی اور جہاد میں فرق ملحوظ رکھنے کی بات بھی کی اور سٹرٹیجک اثاثوں کے تحفظ کے لیے قوم کو امریکی حمایت کی یقین دہانی بھی کرائی مگر کابل پر شمالی اتحاد کے قبضے، جنگ کو مقاصد کے حصول تک جاری رکھنے بلکہ اس کا دائرہ دوسرے ممالک تک وسیع کرنے کے اعلانات سے واضح ہو گیا ہے کہ ہماری کوئی بات نہیں مانی گئی اور ۱۱ ستمبر سے پہلے کی طرح ہم امریکہ پر اعتماد نہیں کر سکتے۔
اپنے ہی دوست طالبان کے خلاف جنگ میں ثبوت حاصل کیے بغیر امریکہ کا ساتھ دے کر ہم نہ صرف اقتصادی اور معاشی مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں بلکہ سیاسی، عسکری اور معاشرتی مسائل میں بھی اضافہ ہو رہا ہے لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ ہماری خارجہ پالیسی کسی واضح جہت سے محروم ہو گئی ہے اور ہم دوستوں کے حلقے سے نکل کر دشمنوں کے محاصرے میں آ گئے ہیں۔ ہماری مشرقی سرحدیں ہمیشہ سے غیر محفوظ چلی آ رہی ہیں اور اسی وجہ سے ہمیں ایک بڑی، طاقتور، جدید ہتھیاروں سے مسلح اور تربیت یافتہ فوج کی ضرورت لاحق ہے۔ اس کے علاوہ وسائل کا بڑا حصہ اپنے دفاع اور سلامتی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے مختص کرنا پڑتا ہے۔ امریکی دباؤ اور اپنی نااہلی کی وجہ سے اب ہم نے شمال مشرقی سرحد بھی غیر محفوظ کر لی ہے اور فوج کا اچھا خاصا حصہ حکومت کو افغان سرحد پر متعین کرنا پڑ رہا ہے۔ جغرافیائی گہرائی کا جو تصور قوم کو دیا گیا تھا، وہ پاش پاش ہو گیا ہے اور امریکہ کے اس اعلان کے بعد کہ وہ نہ صرف افغانستان میں اڈے قائم کرے گا بلکہ علاقے میں طویل عرصے تک موجود رہ کر اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا، علاقائی صورت حال میں بھی تبدیلی آ رہی ہے جو ہمارے قومی مفادات سے سراسر متصادم ہے۔
امریکہ کی ترجیح اول بھارت ہے جو ایک بڑی تجارتی منڈی، دفاعی پارٹنر اور مادر پدر آزاد مغربی تہذیب سے ہم آہنگی کی بنا پر امریکہ ومغرب کے لیے زیادہ قابل قبول ہے۔ بھارت کے مشورے پر امریکہ نے شمالی اتحاد کی سرپرستی کی اور انہیں آگے بڑھنے کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کی۔ بھارت اسرائیل گہرے روابط بھی امریکہ کے جھکاؤ میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں اور اب شمالی اتحاد کے سرپرست کے طور پر بھارت کابل میں اپنی موجودگی کا بھرپور فائدہ اٹھائے گا۔ ہمارا ایٹمی پروگرام اور عالم اسلام سے تعلقات بھی امریکہ کی نظروں میں کھٹکتے ہیں اور وہ یہ کبھی نہیں بھول سکتا کہ ۱۱ ستمبر تک ہم طالبان کے قریبی ساتھی اور سرپرست تھے۔ چینی وزیر اعظم کی پاکستان آمد کے موقع پر دونوں ممالک میں گوادر کی بندرگاہ اور مکران کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کا جو معاہدہ ہوا، وہ ہر لحاظ سے سنگ میل تھا اور یہ امریکہ وروس کی دیرینہ خواہشوں کے علی الرغم تھا جو گوادر اور بلوچستان کے وسیع ساحل تک رسائی کے لیے ایک عرصہ سے خواہاں تھے۔ ہم نے اسی وقت لکھا تھا کہ امریکہ کو یہ معاہدہ مشکل سے ہی ہضم ہوگا۔
اس سمجھوتے سے ہم نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ امریکہ پر مزید انحصار نہیں کیا جا سکتا اسی لیے ہم نے چین سے تعلقات کے نئے دور کا آغاز کیا ہے لیکن ۱۱ ستمبر کے بعد اچانک یوٹرن لے کر ہم ایک بار پھر امریکہ کے کیمپ میں چلے گئے ہیں اور اگر ہماری اس حماقت کی وجہ سے امریکہ علاقے میں مستقل اڈے قائم کر لیتا ہے تو ہمارے علاوہ چین اور ایران کے مفادات کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور یہ چیز ہمارے علاوہ چین کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ ماضی میں چین ہمیں دفاع اور سلامتی کے معاہدے کی پیشکش کر چکا ہے جس سے ہم امریکی خوف کی وجہ سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ اب یہ ہماری ضرورت ہے کہ ہم پاک چین تعلقات کو مزید نقصان سے بچانے اور اپنے مستقبل کے علاوہ مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے چین کی موجودہ ناراضگی دور کریں اور وہ رشتے مضبوط بنائیں جن کا ماضی میں دونوں طرف سے دعویٰ کیا جاتا رہا ہے۔
ہمالیہ سے بلند، سمندر سے گہری اس دوستی میں امریکہ کی ریشہ دوانیوں سے پڑنے والی دراڑوں کو بھرنے اور قد آور درخت سے مرجھاتے ہوئے اس پودے کو تازہ آب وہوا فراہم کرنے کے لیے ہمیں پیش رفت کرنی چاہیے اور یہ طے کر لینا چاہیے کہ ہماری خارجہ پالیسی کا اہم عنصر امریکہ کے بجائے چین ہے اور دونوں ممالک کا مفاد مشترک ہے کیونکہ امریکہ بھارت اور ایک لحاظ سے روس کے ذریعے سے دونوں کے لیے خطرات میں اضافہ کر رہا ہے۔ افغانستان میں عدم استحکام اور امریکہ وروس اور ان کے مشترکہ دوست بھارت کی مداخلت یا باہمی مفادات کے ٹکراؤ کی صورت میں کشمکش کے اثرات پاکستان اور چین پر یکساں مرتب ہوں گے اور جس جہاد کے خاتمے کے لیے امریکہ اتنی دور سے وارد ہوا ہے، وہ بھی جلدی ختم ہونے والا نہیں کیونکہ جس طرح ڈینگ سیاؤپنگ کی اصلاحی اور اعتدال پسندانہ پالیسیوں کے باوجود چین کمیونزم اور سوشلزم کو ترک کرنے پر تیار نہیں اور وقتاً فوقتاً اس نظریے سے وابستگی کی یاد دہانی کراتا رہتا ہے، اسی طرح کوئی مسلمان بھی جہاد سے دامن چھڑا کر اپنے خدا اور رسول کے سامنے شرمندہ ہونا پسند نہیں کرتا اور پاکستان فوج کا تو ماٹو ہی جہاد فی سبیل اللہ ہے یا تبدیل ہو چکا ہے؟
اہل پاکستان اور مسلمانوں نے چین کا کمیونزم برداشت کیا ہے تو چین کو بھی جہاد سے الرجک نہیں ہونا چاہیے البتہ سنکیانگ اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ امریکہ کے بچھائے ہوئے جال میں پھنسنے سے گریز کریں جو چین کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے انہیں اکساتا رہتا ہے اور الزام پاکستان یا افغانستان پردھر دیا جاتا ہے۔ ہم ان کے معاملات میں دخل نہ دیں اور کوشش کریں کہ چینی حکومت اور مسلمانوں میں افہام وتفہیم ہو تاکہ کسی غلط فہمی کا امکان باقی نہ رہے۔ اس طرح ہم چین کے ساتھ مل کر کوئی طویل المیعاد منصوبہ بندی کر سکتے ہیں اور دفاع وسلامتی کو درپیش نئے خطرات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ گوادر بندرگاہ، مکران ساحلی ہائی وے کے علاوہ شاہراہ ریشم کے ذریعے سے نہ صرف رشتوں کو مضبوط بلکہ معیشت کو مستحکم کر سکتے ہیں۔ عوام تو پہلے سے جانتے ہیں لیکن حکمرانوں پر بھی جلد واضح ہو جائے گا کہ امریکہ پاکستان کا دوست نہیں اس لیے مزید اس کے جال میں پھنسے رہنا دانش مندی نہیں۔ جب بحران کے دوران میں وہ ہماری کوئی بات ماننے پر تیار نہیں اور ہمارے مفادات کے منافی اقدامات میں مصروف ہے تو بعد از جنگ حکمت عملی سے کسی قسم کی توقع وابستہ کرنا خوش فہمی ہے جس کا شکار نہیں رہنا چاہیے۔
مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف ایکشن
پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے گزشتہ روز بلوچستان سے منتخب ہونے والے ضلعی ناظمین سے بات چیت کے دوران میں کہا ہے کہ انتہا پسندوں کے خلاف ایکشن کا اعلان چند روز تک کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ چند مذہبی انتہا پسندوں کو ۱۴ کروڑ عوام کو یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انتہا پسندی جس معاشرے میں جڑ پکڑ لے، وہ معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا لیکن یہ فیصلہ کرنا کہ کون تنگ نظر ہے اور کون نہیں، آسان نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی تنگ نظر کے نقطہ نظر کو دوسرا شخص تسلیم نہ کرے تو وہ اس پر انتہا پسندی کی تہمت لگا کر اسے قومی مجرم قرار دے دیتا ہے۔
صدر جنرل پرویز مشرف اس وقت حکمران وقت ہیں اور ایسے حکمران ہیں جو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں، اختیارات کے سرچشمے ان کی ذات گرامی سے پھوٹتے ہیں۔ اس سب کے باوجود ان کا ایک عوامی چہرہ بھی ہے جسے ایک سیاست دان کا چہرہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اپنے اس روپ میں انہیں سیاست دانوں اور بالخصو ص مذہبی راہنماؤں کے بارے میں رائے دیتے وقت بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ ہمارے معاشرے میں مذہبی راہنماؤں کا اپنا ایک مخصوص کردار ہے اور عوام انہیں عقیدت واحترام سے دیکھتے ہیں۔ عقیدت کے ان آبگینوں کی شکستگی ان کے لیے سوہانِ روح ہوتی ہے خصوصاً اس صورت میں جب ان کی حب الوطنی شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق کی نظر بندی سیاسی وجوہ کی بنا پر ہے۔ ان کے سیاسی بیانات ان کی اپنی جماعت اور سیاسی نظریات کے نقیب ہیں اور انہیں انتہا پسندی شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم یہ بات بھی واضح ہے کہ افغانستان پر امریکہ کی بے تحاشا بمباری اور معصوم مردوں، عورتوں ، بوڑھوں اور بچوں کے قتل عام نے پاکستان کے مسلمانوں میں انسانی ہمدردی کے جذبات پیدا کیے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ آرا جنرل مشرف کی حکمت خارجہ اور امریکہ دوستی کے مطابق نہ ہوں لیکن اس اختلاف رائے کے تحت معاشرے کے کسی طبقے پر کریک ڈاؤن کرنا قرین مصلحت نہیں۔ پاکستان کو اس وقت انتشار کے بجائے قومی یک جہتی، تنگ نظری کے بجائے کشادہ نظری اور انتہا پسندی کے بجائے عالی ظرفی کی ضرورت ہے لیکن اس کا مظاہرہ بالائی سطح سے حکومت کی طرف سے ہونا چاہیے۔ حکومت نے جس طرح کریک ڈاؤن کا ارادہ ظاہر کیا ہے، وہ موجودہ حالات میں ہمارے داخلی مفادات کے مطابق نہیں ہے۔ بنیادی جمہوریتوں کے تحت جو ضلعی ناظمین منتخب ہو کر برسر اقتدار آئے ہیں، انہوں نے ابھی تک کسی قسم کے سیاسی شعور اور سماجی آگہی کا ثبوت نہیں دیا۔ انہیں اس مشکل میں الجھانا ہرگز مناسب نظر نہیں آتا۔
عرب دنیا میں اسلامی حمیت کی تازہ لہر
سعودی عرب نے دہشت گردی سے مبینہ طور پر منسلک گروپوں کے اکاؤنٹس منجمد کرنے کے لیے امریکی درخواست کو رد کر دیا ہے۔ سعودی حکام نے کہا ہے کہ وہ بغیرثبوت کے کارروائی نہیں کر سکتے، امریکی ثبوت ناکافی ہیں۔جبکہ شہزادہ سلطان نے خیال ظاہر کیا ہے کہ افغان جنگ کسی بھی کروٹ بیٹھے، ہمارا موقف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہوگا۔ ثبوت کے بغیر کسی عرب یا مسلمان کو مورد الزام ٹھہرانا حق وانصاف کے خلاف ہے۔ عرب لیگ نے بھی اپنی دو روزہ کانفرنس میں کہہ دیا ہے کہ اگر امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو وہ مخالفت کرے گی۔یوں لگتا ہے کہ افغانستان پر حملے کی آڑ میں جس مختلف النوع انداز سے امریکہ پوری دنیا میں اسلام اورمسلمانوں پر حملہ آور ہوا ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ بتدریج مسلم امہ میں بیداری اور اسلامی حمیت کی ایک لہر سی اٹھی ہے۔
سعودی عرب وہ واحد عرب ملک ہے جس کے باشندوں کی تذلیل وتوہین مغربی میڈیا پر سب سے بڑھ کر کی جا رہی ہے، اگرچہ سعودی عرب عسکری لحاظ سے اتنا مضبوط نہیں اور نہ اس کے پاس ایٹمی اسلحہ موجود ہے لیکن اس کے باوجود اس نے دہشت گردی سے مبینہ طور پر منسلک گروپوں کے اثاثے منجمد کرنے سے صاف انکار کر کے جرات مندانہ اقدام کیا ہے۔ شاید سعودی حکمرانوں نے بالآخر امریکی تیور بھانپ کر ہی یہ فیصلہ کیا اور یہی وجہ ہے کہ بش انتظامیہ فوری طور پر بات چیت کے لیے وزارت دفاع، خزانہ اور قومی سلامتی کونسل کے حکام پر مشتمل ایک وفد سعودی عرب روانہ کر رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ امریکہ سعودی حکمرانوں پر اس وفد کے ذریعے سے عملی تعاون کے لیے دباؤ ڈالے گا لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ شاید اب سعودی حکومت اس سلسلے میں امریکہ کی تابع داری کے اثر سے نکل آئے گی۔ جس طرح عرب لیگ نے بھی اپنی کانفرنس میں ٹی وی چینل اور عرب رابطہ قائم کرنے کے ساتھ عراق پر ممکنہ حملے کی صورت میں اپنی مخالفت کا عندیہ ظاہر کر دیا ہے، وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ عرب ملت اجتماعی لحاظ سے اب اس دام ہم رنگ زمین سے آگاہ ہو گئی ہے جو جگہ جگہ عالم عرب میں امریکہ نے پھیلا رکھا ہے۔ بہرصورت اب عراق جو ایک عرب ملک ہے تو عرب لیگ کی رگ حمیت پھڑکی ہے۔ خدا کرے کہ عرب خود کو بھی امریکہ کے حصار سے نکال لیں، غنیمت ہوگا۔ ابھی تو شاید یہ ممکن نہ ہو لیکن جلد ہی آنے والا وقت بتائے گا کہ اگر مسلم امہ طالبان کو اپنے ایک پیشگی دفاع کے طور پر مضبوط کرتی اور انہیں تنہا امریکی بموں کا ایندھن نہ بننے دیتی تومسلمان دشمنی کی صلیبی آگ افغانستان میں ہی بھسم ہو جاتی اور اس کے شعلے یہاں سے ہو کر ملت بیضا کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ملکوں تک پہنچنے کا خطرہ پیدا نہ ہوتا۔ ہم پر امید ہیں کہ شاید طالبان کی قربانیاں قبول ہو جائیں اور عالم اسلام صلیبیوں کے ہاتھوں اپنی اجتماعی بربادی سے بچ جائے۔
بیعت کی حقیقت اور آداب
مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
بیعت کی بہت سی قسمیں ہیں جن میں سے ایک بیعت اسلام ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں لوگ یہی بیعت کر کے اسلام میں داخل ہوتے تھے۔ دوسری بیعت ہجرت کے لیے ہوتی تھی۔ لوگ اللہ کے نبی کے ہاتھ پر اللہ کے حکم کے مطابق ہجرت کر جانے کی بیعت یا عہد کرتے تھے۔ تیسری بیعتِ جہاد تھی۔ جب جنگ کا موقع آتا تھا تو لوگ اس بات کی بیعت کرتے تھے کہ ہم اللہ کے راستے میں جان ومال کی قربانی پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ بعض صحابہؓ نے ارکان اسلام پر پابندی کی بیعت کی۔ حضرت جریرؓ کی بیعت اسی سلسلے میں تھی کہ میں ارکان اسلام نماز، روزہ، حج، زکٰوۃ وغیرہ کی پابندی کروں گا اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کا سلوک کروں گا۔ بعض لوگوں نے حضور علیہ السلام کے دست مبارک پر اس بات کی بیعت بھی کی کہ وہ سنت پر قائم رہیں گے اور بدعات سے بچتے رہیں گے۔ پھر عورتوں نے بھی اس بات کی بیعت کی کہ وہ شرک نہیں کریں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی، نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھیں گی (یعنی غیر کی اولاد کو خاوند کی طرف منسوب نہیں کریں گی) اور نہ نیک کاموں میں آپ کی نافرمانی کریں گی۔ اس بیعت کا ذکر سورۃ الممتحنہ میں موجود ہے۔ بیعت کی ایک قسم بیعتِ تبرک بھی ہے۔ حضرت زبیرؓ اپنے آٹھ سال کے بیٹے حضرت عبد اللہؓ کو حضور علیہ السلام کی خدمت میں لے گئے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرایا۔ یہ یہی بیعت تھی ورنہ بچے کے لیے بیعت کی ضرورت نہ تھی۔
ایک بیعتِ خلافت بھی ہوتی ہے جو خلیفہ کے انتخاب کے لیے ہوتی ہے۔ حضور علیہ السلام کے بعد لوگوں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کی اور اسی طرح دیگر خلفائے راشدینؓ کی بیعت بھی ہوئی۔
بعض اوقات بزرگان دین کے کسی سلسلے میں داخل ہونے کے لیے بیعتِ سلوک بھی کی جاتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ اقرار کرنا ہوتا ہے کہ ہم ارکانِ دین کی پابندی کریں گے، عبادت وریاضت اور ذکر واذکار باقاعدگی سے انجام دیں گے تاکہ درجاتِ عالیہ نصیب ہوں اور اللہ کا تقرب حاصل ہو سکے۔ بیعت کی یہ تمام قسمیں حضور علیہ السلام سے ثابت ہیں۔
شاہ رفیع الدینؒ فرماتے ہیں کہ بعض لوگ کسی بزرگ کے ہاتھ پر محض دنیاوی فوائد حاصل کرنے کی بیعت کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بزرگ ہمارا کوئی معاملہ سلجھا دیں گے یا ہماری سفارش کر دیں گے۔ شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ یہ رسمی بیعت ہے جس کا کچھ فائدہ نہیں۔ البتہ بیعت کی باقی جتنی اقسام بیان کی گئیں، وہ درست ہیں۔
پیر کے اوصاف
حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ کسی ایسے پیر یا بزرگ سے بیعت ہونا درست ہے جس میں حسبِ ذیل اوصاف پائے جائیں:
۱۔ پیر کتاب وسنت کا علم رکھتا ہو، خود پڑھ کرعلم حاصل کیا ہو یا کسی بزرگ کی صحبت حاصل کی ہو۔ بہرحال اس کے پاس کتاب وسنت کا علم ہونا چاہیے۔
۲۔ کبائر سے مجتنب ہو اور صغائر پر اصرار نہ کرے۔ کبائر کا مرتکب بیعت کا اہل نہیں ہوتا کیونکہ وہ فساق میں شمار ہوتا ہے۔
۳۔ بیعت لینے والا دنیا سے بے رغبت اور آخرت کی طرف رغبت رکھتا ہو۔
۴۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا عامل ہو۔ اپنے متعلقین کو اچھی بات کا حکم دے اور اگر ان میں کوئی بری بات دیکھے تو فوراً روک دے۔
۵۔ پیر خود رَو نہ ہو بلکہ یہ طریقہ اس نے بزرگوں سے سیکھا ہو یا ان کی صحبت اختیار کی ہو۔ ایسا نہ ہو کہ باپ کی وفات کے بعد بیٹا جیسا کیسا بھی ہو، گدی نشین ہو گیا۔ نہ کسی سے سیکھا نہ کسی کی صحبت اختیار کی اور نہ علم حاصل کیا۔ یہ سلسلہ جو آج کل رائج ہے ،تباہ کن ہے ۔
اگر ان شرائط کو پورا کرنے والا کوئی بزرگ مل جائے تو اس کے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہیے تاکہ انسان شیطان کے پھندے سے محفوظ رہ سکے۔ ویسے یہ بیعت نہ فرض ہے اور نہ واجب البتہ سنت ہے۔ بزرگان دین میں سے حضرت دقاقؒ اور شیخ عبد القادر جیلانی ؒ سے منقول ہے کہ اگر کوئی کامل آدمی مل جائے تو بیعت کر لینی چاہیے البتہ کسی غلط کار، فاسق، شرکیہ اور بدعتی اعمال کرنے والے پیر کے ہاتھ پر بیعت کرنا ہرگز جائز نہیں۔ مولانا رومیؒ فرماتے ہیں:
اے بسا ابلیس آدم روئے ہست
پس بہر دستے نباید داد دست
اس قسم کے لوگ انسانی شکل میں شیطان ہیں اس لیے ہر ہاتھ پر ہاتھ نہیں رکھ دینا چاہیے ورنہ وہ شرک اور بدعت میں مبتلا کر دیں گے اور انسان کو گمراہ کر کے رکھ دیں گے۔
افغانستان میں امریکی پالیسی کا ایک جائزہ
پروفیسر میاں انعام الرحمن
۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والے حملے اپنی نوعیت کے لحاظ سے حیران کر دینے والے تھے۔ عالمی سطح پر رائج رجحانات کے پس منظر میں یہ واقعہ ’’اپ سیٹ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے امریکہ کو فوجی، اقتصادی اور نفسیاتی حوالے سے شدید دھچکا لگا۔ نفسیاتی بازیابی تو شاید فوری ممکن نہیں ہوگی تاہم کچھ نہ کچھ مداوا کرنے کے لیے امریکہ نے کسی ثبوت اور تصدیق کے بغیر اس واقعہ کی ذمہ داری اسامہ بن لادن اور اس کے نیٹ ورک القاعدہ پر ڈال کر ان کے خلاف بین الاقوامی رائے عامہ کو ہموار کیا اور پھر عالمی تعاون حاصل کر کے افغانستان پر حملہ کر دیا۔
امریکی پالیسی وسیع تر تناظر میں
اگرچہ ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف امریکی مہم کئی قدم آگے بڑھ چکی ہے اور اب نظری سے زیادہ عملی نوعیت کے سوالات درپیش ہیں، لیکن یہ بنیادی سوال اب بھی غور وفکر کا محتاج ہے کہ کیا دہشت گردی کے مبینہ ملزموں کے خلاف امریکہ کے پاس ملٹری آپریشن کی صورت میں ایک ہی آپشن تھا؟
میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد امریکی موقف بہت غیر ذمہ دارانہ رہا۔ ثبوت فراہم کیے بغیر اسامہ کو ان کے حوالے کرنے کا امریکی مطالبہ اخلاقی اور قانونی حوالے سے قابل مذمت تھا۔ کوئی بھی آزاد اور خود مختار ریاست ایسے کسی مطالبے کو تسلیم نہیں کر سکتی لہذا افغانوں کا فیصلہ حیران کن نہیں تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کا یہ بے جواز مطالبہ افغانستان میں مداخلت کے لیے محض ایک بہانہ تھا۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی سے اس کا جو نقصان ہوا، سو ہوا لیکن اب وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے راکھ کے اس ڈھیر سے مفادات کی نئی عمارت تعمیر کرنا چاہتا تھا۔ امریکی پالیسی سازوں نے حقیقتاً وقت سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔
اس سلسلے میں ایک فرضیے پر غور کیجیے تو امریکی عزائم کی نوعیت اور ان کی پالیسی کے تزویراتی مضمرات (Strategic implications)کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ افغانستان پر امریکی حملہ اصل ہدف سے توجہ ہٹانے کے لیے کیا گیا ہو؟ یعنی امریکہ کا اصل ہدف تو کہیں اور ہو اور دنیا اور عالم اسلام کی توجہ افغانستان پر مبذول کرا کے وہ اپنے اصل ہدف پر خفیہ کام کر رہا ہو؟ اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو پھر موجودہ جنگ محض ایک ریہرسل ہے جبکہ اصل اور باقاعدہ جنگ بعد میں ہوگی۔
اب یہ دیکھیے کہ اس ریہرسل سے امریکہ کون سے فوجی، سیاسی، اقتصادی اور تہذیبی فوائد حاصل کر سکتا ہے؟
۱۔ اب تک کی صورتِ حال کے مطابق امریکی حکمت عملی مختلف مرحلوں (Phases)میں تقسیم ہے۔ پہلے مرحلے میں صرف ہوائی حملے ہوئے اور وہ بھی اس طرح کہ خوب شور مچایا گیا کہ ’’میں آ رہا ہوں‘‘۔ ہتھیاروں کی بابت بھی بتایا گیا کہ ان کی یہ قیمت اور اہلیت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افغانوں نے سب کچھ جانتے ہوئے اپنے تحفظ کے اقدامات نہیں کیے ہوں گے؟ کیا انہوں نے اپنا مخصوص اسلحہ جو ان کے لیے نہایت مفید ثابت ہو سکتا تھا، امریکی حملوں کے لیے وہیں پڑا رہنے دیا ہوگا؟ یقیناًافغان ایسی غلطی نہیں کرسکتے تھے اور نہ امریکہ یہ چاہتا تھا کہ افغان ایسی غلطی کریں، ورنہ پہلے شور مچانے کا کیا فائدہ؟
پہلے مرحلے میں امریکیوں نے یہ پتہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ افغانی، حملے کی صورت میں اپنا اسلحہ کیسے، کتنی مدت میں اور کہاں شفٹ کرتے ہیں۔ امریکی انٹیلی جنس اس حوالے سے کام کر رہی ہوگی۔ پھر سب نے پڑھا اور سنا کہ امریکہ کے بقول فضائی حملے پچاسی فیصد کام یاب رہے اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ یہ سفید جھوٹ تھا۔ اس پراپیگنڈے کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ افغانی کیسا رد عمل ظاہر کرتے ہیں؟ اس پچاسی فیصد کامیابی کے اثر کو کم بلکہ ختم کرنے کے لیے افغانوں کا طرز عمل کیا ہوتاہے؟ اس میں ’’سرپرائز‘‘ اور ’’منفیت‘‘ کس حد تک ہوگی؟
پہلے مرحلے کی یہ معلومات امریکہ کو ’’فائنل فیز‘‘ میں بہت کام دیں گی۔ جنگ کا فائنل فیز بہت جلد متوقع نہیں ہے، ہو سکتا ہے وہ چند سال بعد شروع ہو۔ کوریا جنگ میں چین نے تین مختلف مرحلوں میں مداخلت کر کے امریکہ کوحیران کر دیا تھا اور امریکی ملٹری کمانڈ ان مرحلوں کی پیش بینی نہیں کر سکی تھی۔ امریکی کوریا، ویت نام اور کیوبا میں اپنے سابقہ تجربات سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔
اس جنگ کا دوسرا مرحلہ زمینی حملوں کا ہے۔ اس کا مقصد بھی فائنل فیز کے لیے امریکی فوج کی تربیت اور امریکی جرنیلوں کو افغانستان سے متعلق ’’عملی سہولت‘‘ بہم پہنچانا ہے تاکہ وہ افغان خطرے کو گہرے انداز سے اسٹڈی کر سکیں اور اس علاقے کی مناسبت اور افغانوں کی نفسیات کے مطابق کوئی نیا طریقہ کار (Mode of action) آزما سکیں۔ نیز نئے ہتھیاروں کی افادیت کا بھی پتہ چل سکے تاکہ فائنل فیز میں امریکہ کو سبکی نہ اٹھانی پڑے۔
۲۔ فوجی مہم کے علاوہ سیاسی میدان میں بین الاقوامی برادری بالخصوص مسلم ممالک کے رویوں کوجانچا جارہا ہے کہ ان میں ڈپلومیسی کی کتنی اہلیت ہے اور وہ اپنے مفادات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کتنی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مسلم ممالک کے عوام کو خاص کوریج دی جائے گی تاکہ فائنل فیز میں ان کی قوت کو امریکی مفادات میں چینلائز کیا جا سکے۔ مسلم ممالک کے انٹیلی جنس کے نیٹ ورک پر امریکیوں کی خاص نظر ہوگی۔ ان کی معلومات تک رسائی، تجزیہ اور بھانپ لینے کی قوت کو سٹڈی کیا جائے گا۔ امریکہ کے لیے یہ معلومات انتہائی اہمیت کی حامل ہیں کہ یہ ایجنسیاں سفارت کاری، حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ اور رائے عامہ کو ہموار کرنے میں کتنی موثر ہیں۔
۳۔ پچھلے چند سالوں میں مسلم دنیا کی جہادی تنظیمیں تیزی سے فعال ہوئی ہیں اور عوام میں ان کو پذیرائی ملی ہے۔ موجودہ امریکی حملے میں، ظاہر ہے کہ ان تنظیموں کی ہمدردیاں افغانستان کے ساتھ ہیں اور تقریباً تمام بڑی تنظیمیں افغانستان کی مدد کرنا چاہتی ہیں اور غالباً کر رہی ہیں۔ اس طرح امریکہ نے تمام جہادی تنظیموں کو افغانستان پر فوکس (Focus)کر دیا ہے اور یہ تنظیمیں فرنٹ پر آگئی ہیں۔ موجودہ جنگ سے ان تنظیموں کی سطح، صلاحیت، ان کے باہمی روابط اور مسلم عوام میں ان کی مقبولیت کھل کر سامنے آئے گی اور ان تنظیموں سے متعلق ایسی معلومات فائنل فیز میں امریکہ کے لیے بہت مفید ثابت ہوں گی۔ موجودہ جنگ کے دوران میں ہی امریکہ کو ان تنظیموں میں سے اپنے مطلب کے لیڈر بھی مل جائیں گے جو فائنل فیز کے آنے تک ان تنظیموں کی نئی نہج متعین کر کے امریکی مفادات کو تقویت بخش سکیں گے۔
۴۔ امریکہ اس جنگ سے اقتصادی لحاظ سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ اپنے زنگ آلود اسلحے کو استعمال میں لانے کے ساتھ ساتھ نئے ہتھیاروں کی افادیت کا بھی پتہ چل سکے گا اور خرچ دوسرے ملکوں پر ڈال دیا جائے گا۔ ملک کے اندر عوام سے اپیل کی جائے گی کہ جنگ کی وجہ سے حالات خراب ہو رہے ہیں لہذا حکومت کی مدد کی جائے۔ یہ جنگی فنڈ اقتصادی وفوجی مہم جوئی کے لیے کارآمد ثابت ہوگا۔
۵۔ افغانستان میں سابق سوویت یونین کی ناکامی کو امریکہ نے بہت باریک بینی سے اسٹڈی کیا ہے۔ اس ناکامی میں ظاہر ہے کہ امریکہ کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ اس جنگ میں چین نے بھی افغانوں کی مدد کی تھی۔ اسی طرح کچھ دوسرے ممالک بھی تھے اور امداد کی نوعیت میں بھی فرق تھا۔ امریکہ موجودہ جنگ میں کسی ایسے ہاتھ کو تلاش کرنے کی کوشش کرے گا جو افغانستان میں امریکی ناکامی کا سبب بننے کی سکت رکھتا ہو۔ امریکہ کی کوشش ہوگی کہ موجودہ جنگ کے دوران میں اس ہاتھ کی نشان دہی ہو سکے تاکہ اس سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کی جا سکے اور فائنل فیز میں اس کا حشر سوویت یونین جیسا نہ ہو۔ اس عمل کے دوران میں امریکی انٹیلی جنس کی کارکردگی کو تنقیدی نظر سے دیکھا جائے گا اور امریکی فیصلہ سازی کے عمل میں موجود خامیوں کی نشان دہی کر کے ان کا سدباب کیا جائے گا۔
اگر امریکی صدر کی ٹیم پر ناقدانہ نظر ڈالی جائے تو بیشتر سرد جنگ کے تجربہ کار چہرے نظر آئیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ افغان جنگ کو Anticipate کر رہا تھا۔ چونکہ افغان روسیوں کے خلاف جنگ لڑ چکے ہیں اس لیے ان کا طریقہ جنگ روسی اثرات کا حامل ہوگا۔ زیادہ تر اسلحہ بھی روسی نوعیت کا ہوگا اور ان کی امداد کرنے والے متوقع ممالک بھی سابق کمیونسٹ ہوں گے۔ لہذا کمیونسٹ نفسیات (Psyche) سے واقف لوگوں کی ٹیم ہی ایسی ’’پر پیچ‘‘ جنگ لڑ سکتی ہے جس کے کئی مرحلے ہیں ور فائنل فیز میں جیت سے ہی امریکہ اپنی بالادستی قائم رکھ سکتا ہے۔
اس ساری گفتگو سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر امریکہ نے افغانستان کو ہی کیوں اپنے ٹارگٹ کے طور پر منتخب کیا؟ اس کی وجوہ یہ ہیں:
(i) تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ دنیا میں جغرافیائی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ تاریخ جغرافیے کو بدلتی رہتی ہے لیکن افغانستا ن کا جغرافیہ ایسا ہے جو خود تاریخ بنا سکتا ہے۔ افغانستان کا جغرافیہ امریکہ کے لیے ایک سیاسی خطرے (Political threat) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ سائنسی وتکنیکی ترقی سے جغرافیے کی اہمیت میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن افغانوں نے اپنے مخصوص جغرافیے کی اہمیت کو برقرار رکھا ہے۔
(ii) افغانی جنگ آزمودہ لوگ ہیں۔ اس وقت دنیا میں اتنے تربیت یافتہ جنگ جو شایدکہیں بھی موجود نہیں۔
(iii) باقی تمام مسلم ممالک امریکہ کے نشانے کی زد میں (Vulnerable) ہیں۔ صرف افغانستان ایک استثنائی مثال ہے، لہذا امریکی اس خطرے سے نمٹنا چاہتے ہیں۔
(iv) مسلم جہادی تنظیموں کی تربیت گاہ افغانستان کی پہاڑیاں ہیں۔ اگر عالم اسلام اور امریکہ کی تکنیکی صلاحیتوں کا تقابل کیا جائے تو توازن کا نشان تک نہیں ملتا۔ صرف ایک پاکستان ایٹمی قوت ہے لیکن وہ بھی سائنسی وتکنیکی اعتبار سے امریکہ سے بہت پیچھے ہے۔ نظر آ رہا تھا کہ مغرب اسلام کشمکش میں Nuclear Deterrent موثر ثابت نہیں ہوگا، البتہ جہادی تنظیمیں ایک موثر Deterrentکے طور پر ابھر رہی تھیں۔ امریکہ اس Deterrent کو ختم کر کے اپنی بالادستی قائم رکھنا چاہتا ہے۔ اس تناظر میں امریکیوں نے اعلیٰ Threat perception کا ثبوت دیا ہے۔
۶۔ اس جنگ سے امریکہ کو حاصل ہونے والے تہذیبی فوائد کا اندازہ اس امیج سے کیا جا سکتا ہے جوکابل میں شمالی اتحاد کے داخلے کے بعد تعمیر کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ سمیت انٹرنیشنل میڈیا جو خبریں اور تصاویر پیش کر رہا ہے، ان سے اس تصور کو تقویت ملتی ہے کہ:
۱۔ طالبان کے زیر حکومت عوام جبر کا شکار تھے، اب انہیں معاشرتی آزادیوں سے ہم کنار کیا گیا ہے۔
۲۔ شعائر اسلام فرسودگی کی علامت ہیں اور ان سے اجتناب جدیدیت ہے۔
گویا مغربی رویے کے بین السطور ان کی تہذیبی برتری جھلکنا شروع ہو گئی ہے۔ ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ سے خائف مغربی قوتیں جارحیت سے اپنا دفاع کرنا چاہتی ہیں۔ اگرچہ طالبان کی بے جا سختی اور بے لچک رویہ قابل تعریف نہیں ہے اور اسلام کی تعبیر وتشریح میں عصری تقاضے ان کے پیش نظر نہیں رہے، تاہم اگر ہم مذکورہ امور کو مد نظر رکھیں تو افغانستان پر حملے کی امریکی پالیسی کے پوشیدہ (Invisible) پہلو کی بعض نئی جہتیں آشکارا ہوں گی۔ امریکی پالیسی کے خدوخال جیسے جیسے بھرپور صورت اختیار کریں گے، مسلم عوام کے ذہنی تحفظات (Mental reservations) میں اضافہ ہوتا جائے گا اور ناگزیر طور پر ہر مسلم ریاست میں معاشرتی سطح پر ’’دوئی‘‘ کو فروغ ملے گا۔ قدامت پسند ردِ عمل میں مزید قدامت پسند ہو جائیں گے اور ان کی قدامت پسندی کے مضمرات اور منفیت جدت پسندوں کو ان سے مزید دور کرنے کا باعث بنیں گے۔ اس طرح ہر ریاست میں دو معاشرتی گروہ آمنے سامنے ہوں گے۔ عالمی اسلامی معاشرہ بھی واضح دوئی کا حامل ہوگا۔ مغربی طاقتوں نے کمالِ تدبر سے متوقع مغرب اسلام کشمکش کو خود اسلامی معاشروں میں محدود کر دیا ہے جہاں جدت پسند ان کے نمائندے ہوں گے اور قدامت پسند مخالف۔ اس پر طرہ یہ کہ مغربی طاقتوں کے مخالف قدامت پسند بھی اسلام کے حقیقی نمائندے نہیں ہوں گے کیونکہ ان کا پیش کردہ اسلام اور اس کی تعبیر وتشریح رد عمل پر مبنی ہوگی لہذا اصل اسلام سے دور ہوگی۔ اس طرح اسلام کی حقیقی Orientation سامنے نہ آنے سے مغرب کی تہذیبی برتری کے لیے تمام راستے ہموار ہوتے جائیں گے۔
موجودہ صورتِ حال میں چین کی پالیسی بھی معنی خیز ہے۔ اسلامی تہذیب کی خلقی استعداد سے چین بھی خوف زدہ تھا۔ افغانستان میں امن کا قیام اور اس کے ساتھ اسلامائزیشن کے اقدامات چین کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے تھے۔ اگرچہ طالبان کا اسلام خاصا یک رخا تھا لیکن بہتری کے امکانات، بہرحال، موجود تھے۔ پاکستان، افغانستان اور وسطی ایشیائی مسلم ریاستوں میں اسلام کی تعبیر وتشریح اور نفاذ کے حوالے سے دانش ورانہ مکالمہ شروع ہو سکتا تھا۔ یہ مکالمہ ان ریاستوں کو کوئی معاشرتی نقطہ اتصال بھی فراہم کر سکتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ چین کی پالیسی اسی تناظر میں تشکیل دی گئی ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ چین میں اسلامی دعوتی سرگرمیاں قبل از وقت تھیں یا کم از کم ان کا پھیلاؤ اور طریقہ کار ایسا تھا کہ چین تحفظات کا شکار ہو گیا۔ ماضی میں چین کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔ عام قیاس آرائیاں یہی تھیں کہ مغرب اور اسلام کی تہذیبی کشمکش میں چین کا وزن اسلام کے پلڑے میں پڑے گا لیکن تازہ ترین صورت حال سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مغربی طاقتوں نے چین کو کم از کم خاموش رہنے پر رضامند کر لیا ہے۔
اس بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ افغانستان میں جاری موجودہ جنگ صرف ایک ریہرسل ہے جس سے متنوع وقتی اور مستقل فوائد کے ساتھ ساتھ ایسی معلومات کا حصول مقصود ہے جو جنگ کے فائنل فیز کے لیے کارآمد ثابت ہوں گی۔ امکان ہے کہ روس اور چین جہادی تنظیموں کے خاتمے کی حد تک امریکہ کا ساتھ دیں گے لیکن جہاں تک افغانستان کے جغرافیے کا سوال ہے، وہ کبھی اجازت نہیں دیں گے کہ امریکہ اسے فتح کرے لہذا اس جنگ کے دوران میں دوستیاں دشمنیاں بھی بدلتی رہیں گی۔
موجودہ صورت حال ۔ چند امکانات
مذکورہ بالا بحث کا تعلق امریکی پالیسی کے وسیع تر تناظر سے تھا۔ جہاں تک موجودہ جنگ کے ظاہری (Visible) پہلو کا تعلق ہے تو اس کو Discussکرنا اور جانچنا بظاہر جتنا آسان نظر تا ہے، اتنا ہی یہ مشکل بھی ہے۔ طالبان کی پسپائی کے بعد صورت حال کیا رخ اختیار کر سکتی ہے؟ اس سلسلے میں قطعیت سے کچھ کہنا فی الحال خاصا مشکل ہے۔ پاکستان اور عالم اسلام میں حکومتی رویے سے قطع نظر عوامی سطح پر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ طالبان کی پسپائی ایسا دھچکا نہیں جس کے لیے لوگ ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔ ایسا ہونا ممکنات میں سے تھا۔
اس حوالے سے آئندہ امریکی حکمت عملی کچھ اس قسم کی ہو سکتی ہے:
۱۔ کابل سلگتا رہے تاکہ افغان داخلی معاملات میں الجھے رہیں اور بقول امریکہ خارجی دنیا کے لیے دہشت گردی کا باعث نہ بنیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایکو (Echo)ممالک کی باہمی تجارت فروغ نہ پا سکے۔ یہ چیز چین اور بھارت کے مفاد میں بھی ہے۔ ایکو کی مضبوطی سے بھارت اور چین اقتصادی مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بھارت ،چین اور ایکو کی اقتصادی مسابقت مزید پیچیدگیوں کو جنم دے سکتی ہے۔ اس طرح افغانستان میں پائیدار امن اور مضبوط مرکزی حکومت کا قیام بعض ریاستوں کے مفادات سے متصادم ہے۔
۲۔ افغانستان کے کم از کم دو حصے کر دیے جائیں، شمالی افغانستان اور جنوبی افغانستان۔ ان میں اگر کوئی تعلق قائم بھی رکھا جائے تو وہ برائے نام اور معمولی نوعیت کا ہو۔ البتہ اس قسم کے پلان کی پاکستان شدید مخالفت کرے گا کیونکہ اس کے سرحدی صوبہ کو جنوبی افغانستان میں ضم کرنے کی داخلی کوششیں شروع ہو سکتی ہیں اور ایسے عناصر موجود ہیں جو مہروں کا کام دے سکتے ہیں۔ اس سے پاکستان کی سلامتی اور وحدت پارہ پارہ ہو جائے گی۔ پاکستان کی ٹوٹ پھوٹ کے اثرات سے بھارت بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ اس لیے امکان یہی ہے کہ بھارت افغانستان کی تقسیم کے کسی پلان کو تحفظات کے بغیر قبول نہیں کرے گا۔
۳۔ تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ موجودہ حالت (Stuatus quo) کو برقرار رکھا جائے تاکہ وار لارڈز کو بوقتِ ضرورت ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ اگر یہ صورت اپنائی جاتی ہے تو امریکہ کو مستقل طور پر عملاً ملوث رہنا پڑے گا جو ایک تھکا دینے والا اور اعصاب شکن عمل ہوگا۔
۴۔ ہو سکتا ہے کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کی زیرنگرانی امن فوج متعین کر دی جائے۔ اگر امریکی اور یورپی طاقتوں کی فوج بھیجی جاتی ہے تو امریکہ کو سٹرٹیجک فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ اگر مسلم ممالک کی افواج کو وہاں تعینات کیا گیا تو غلط فہمیوں کو ہوا دی جا سکتی ہے۔ ترکی، ایران اور پاکستان کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ طالبان کی حکومت اور افغانستان پر ان کے کنٹرول سے پاکستان مستقبل کے حوالے سے بہت پرامید جبکہ ایران اور ترکی تحفظات کے شکار تھے۔ موجودہ صورت حال سے ایران اور ترکی کو ایک Edge ملا ہے جس سے دونوں ممالک فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ ترکی کی فوج ویسے بھی پروفیشنل نہیں۔ اس کے سیاسی مزاج اور دل چسپیوں (Political Orientaion)سے کون واقف نہیں۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ ایکو کا پلیٹ فارم ان ممالک کو کوئی بہتر راہ دکھا سکے۔
یہ امکانات امریکی نقطہ نظر سے تھے۔ اگر طالبان کے حوالے سے دیکھیں تو یہ باتیں سامنے آتی ہیں:
۱۔ ان کی پسپائی حکمت عملی کے ماتحت ہے۔ اب وہ اپنی کچھار یعنی اصل علاقے میں واپس آ گئے ہیں۔
۲۔ شمالی اتحاد کو کابل پر قابض ہونے کا موقع دیا گیا تاکہ ان کی اندرونی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو، کیونکہ طالبان کو امریکی افواج اور امریکی ٹیکنالوجی سے زیادہ خطرہ شمالی اتحاد سے ہے۔
۳۔ پسپائی اختیار کر کے طالبان امریکی ترکش کے تیر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس سے امریکی عزائم کی نوعیت اور طریقہ کار ان پر مزید واضح ہوگا۔
۴۔ امریکی حملے کے پہلے مرحلے کے دوران میں طالبان کا استقلال شاید یہ ظاہر کرنے کے لیے تھا کہ وہ حکومت پاکستان کے زیر اثر نہیں بلکہ خود مختار ہیں۔ طالبان نے جس قسم کی مدافعت کی ہے، اس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے۔ اگر وہ بہت جلد پسپائی اختیار کر لیتے تو ان کے متعلق یہی تاثر پھیلتا کہ پاکستان کی سپورٹ کے بغیر وہ زیرو ہیں۔ اپنا کم سے کم نقصان کرواتے ہوئے انہوں نے ایک مہینے سے زیادہ مدافعت کی ہے جس سے یہ تاثر پھیلا ہے کہ ان میں لڑنے کی قوت موجود ہے۔ اب اگر پسپائی کے بعد وہ فوراً گوریلا کارروائیاں شروع کرتے ہیں اور کوئی خفیہ ہاتھ ان کی مدد پر آمادہ ہو جاتا ہے تو طالبان کی کارروائیوں کے تسلسل کو ان کی سابقہ مدافعتی سرگرمیوں کے متوازی سمجھا جائے گا کہ ان میں ابھی قوت باقی ہے۔ یہ باقی قوت خاصی طویل مدت پر محیط ہو کر دشمن کو ناکوں چنے بھی چبوا سکتی ہے۔
بہرحال صورتِ حال چاہے امریکی عزائم کے مطابق ہو یا ان کے برعکس، پاکستان کو اپنی پالیسی اس نوعیت کی رکھنا ہوگی کہ حالات کا تغیر اس کے لیے مشکلات کا باعث نہ بن سکے۔ جہاں تک پاکستان کے مفادات کا تعلق ہے تو اسے بھی طالبان کی طرح عارضی پسپائی اختیار کرنا پڑے گی۔ وقتی اور عارضی نقصان سے قطع نظر ہمیں اپنے مستقل اور پائیدار مفاد پر نظر رکھنا ہوگی۔ عالمی طاقتیں طویل عرصے تک افغانستان میں اکھاڑ پچھاڑ نہیں کر سکیں گی۔ پاکستان کو اپنے ٹارگٹ پر نظر رکھتے ہوئے اپنے کارڈز استعمال کرنا ہوں گے۔ افغانستان کی اہمیت پاکستان کے لیے ہمیشہ قائم رہے گی اور افغانستان کا مستقبل ہمیشہ پاکستان سے وابستہ رہے گا۔
چین میں مسلمان علیحدگی پسندوں کو سزائے موت
اولیور آگسٹ
مسلمان دہشت گردوں کا واسطہ کل سزائے موت دینے والے عملے (Death squad)سے تھا۔ شراب کے اثر سے ان کے حواس بجا نہیں تھے اور قہقہے لگاتے ہجوم کے درمیان میں سے انہیں ایک کھلی گاڑی پر سزائے موت کے لیے لے جایا جا رہا تھا۔ چین کے شمال مغربی علاقے کاشغر میں سہ پہر کی روشن دھوپ میں کئی درجن مسلمان قیدی نیلی گاڑیوں پر قطار میں کھڑے تھے۔ ان کے حواس بجا نہیں تھے اور وہ اپنے ارد گرد سے تقریباً بے خبر تھے۔ ماؤزے تنگ کے ۱۰۰ فٹ اونچے مضبوط مجسمے کے نیچے کھڑے یہ قیدی، جن کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں، آہستہ آہستہ لڑکھڑا رہے تھے اور سفید دستانوں والے سپاہی انہیں سہارا دے رہے تھے۔ ان کی آنکھیں بے حد سرخ تھیں اور ان کی گھورتی ہوئی لیکن خالی نظریں ان کی پریشان فکری پر دلالت کر رہی تھیں۔ انہیں احساس نہیں تھا کہ ایک گھنٹے کے اندر اندر ان کا سامنا جلاد سے ہونے والا ہے۔ ان کے عقیدے کی انتہائی تذلیل کرتے ہوئے انہیں ان کے آخری کھانے کے ساتھ شراب پلائی گئی تھی۔بظاہر ان لوگوں کو ترکی اکثریت کے صوبے سنکیانگ میں ایک آزاد مسلم ریاست کے قیام کے لیے لڑتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ علیحدگی پسند کئی سالوں سے مسلم اکثریت کے اس علاقے کو چین کے قبضے سے چھڑا کر یہاں ’’مشرقی ترکستان‘‘ کے نام سے ایک نیا ملک قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افغانستان اور مغرب کے مابین حالیہ تصادم نے اسلامی جوش وجذبے کو اور ہوا دی ہے۔ بہت سے مقامی لوگ طالبان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں اور ان کے نزدیک بیجنگ اور واشنگٹن کے ’’کافروں‘‘ میں کوئی فرق نہیں۔
افغانستان کی صورت حال کے ممکنہ اثرات کے خدشے کے پیش نظر بیجنگ کی وفادار ایلیٹ فوج گزشتہ ہفتے سے یہاں تعینات ہے۔ اس بحران نے چینی حکمرانوں کو مزید سختی کے ساتھ علیحدگی پسندوں کو کچلنے کا موقع فراہم کیا ہے اور گزشتہ روز بیجنگ حکومت کے سرکاری عہدیداروں نے سزائے موت سے کچھ پہلے کے ان غم ناک لمحات کو ایک سیاسی اجتماع میں تبدیل کر دیا۔مسلمان قیدیوں کی گاڑیوں کی قطار کے سامنے کمیونسٹ پارٹی کے سینکڑوں ارکان ترتیب سے بنی ہوئی قطاروں میں بیٹھے تھے اور صدر ژیانگ زیمن (Jiang Zemin)کے (آہنی عزم کا) حوالہ دیتی ہوئی خون جما دینے والی تقریروں کی داد دے رہے تھے۔ بینروں، جھنڈوں اور پراپیگنڈا کا مقصد پورا کرتی ہوئی تصویروں میں گھرے ہوئے مسلمان قیدی خاموشی کے ساتھ (اپنے ذہنوں پر چھائی ہوئی) شراب کی دھند کے پار دیکھنے کی کوشش رہے تھے۔ یہ دل دہلا دینے والا منظر جس نے شہر کے مین روڈ کو بلاک کررکھا تھا، ایک گھنٹے تک جاری رہا۔ پھر ایک پولیس کا سائرن بجنے کے بعد گاڑیوں کے قافلے نے اپنا سفر شروع کر دیا۔ لبریشن سٹریٹ کے دونوں طرف موجود ہزاروں تماشائی گزرتی گاڑیوں کو دیکھنے کے لیے آگے بڑھنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ سزائے موت کے میدان کو جاتے ہوئے قیدیوں کوآمنے سامنے دیکھ کر کئی لوگ بے چین لیکن بظاہر ہنس رہے تھے۔ صرف چند بچے، جنہوں نے اپنی باپردہ ماؤں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، ہجوم سے پیچھے ہٹ گئے۔ قیدی کچھ بھی نہیں بول رہے تھے۔ سب کی گردن میں ایک بڑا سا اشتہار لٹکا ہوا تھا جو چینی زبان کے بجائے مقامی ترکی زبان میں لکھا گیا تھا۔ ان پر ان قیدیوں کے جرائم لکھے ہوئے تھے جن میں عوامی امن وامان کو خراب کرنا اور دوسرے عام قسم کے جرائم شامل ہیں۔ ایک آدمی نے بتایا کہ ان میں سے دو قیدیوں کو تو ابھی سزائے موت دے دی جائے گی جبکہ باقی واپس جیل میں چلے جائیں گے۔
پیپلز سکوائر کے نزدیک جہاں سڑک تقسیم ہو جاتی ہے، قافلہ بھی تقسیم ہو گیا اور زیادہ تر گاڑیاں مقامی پولیس اسٹیشن کی جانب روانہ ہو گئیں جو شہرکی خستہ حال دیوار کے ساتھ واقع ہے۔ میں نے ایک ٹیکسی میں دوسری طرف جانے والے قافلے کا تعاقب کیا جو پولیس کی کچھ کاروں اور صرف ایک گاڑی پر مشتمل رہ گیا تھا جس پر دونوں بد نصیب قیدی سوار تھے۔ ہجوم اب بھی میلوں تک سڑک کے دونوں جانب کھڑا تھا۔ غالباً بہت سے تماشائیوں کو ان کے افسروں کی طرف سے حکم تھا کہ وہ اس خاص موقع پر موجود رہیں جس کا انتظام پارٹی عہدیداروں نے سوچے سمجھے پروگرام کے تحت لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے کیا تھا۔ صحرا میں واقع اس سرسبز اور قدیم شہر میں سلک روڈ پر ہم کئی مسجدوں کے سامنے سے گزرے۔ پٹرول اسٹیشن پر موجود ایک شخص نے بتایا کہ قیدیوں سے بھری ہوئی ایسی گاڑیاں وہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ دیکھ چکا ہے۔ ہموار سڑک جس کے دونوں جانب درخت اور مٹی کے جھونپڑے بنے ہوئے تھے، صحرا کے کنارے تک جا رہی تھی۔ شہر کے اختتام پر گاڑی اچانک ایک ملٹری ٹریننگ گراؤنڈ میں داخل ہو گئی۔دونوں بد قسمت قیدی صحرائے کاشغر کے پار چین اور افغانستان کے درمیان حائل پہاڑی سلسلے پر آخری نظر ڈال سکتے تھے۔ جب انہیں گاڑی سے اتارا گیا تب بھی ان کے ہاتھ ان کی کمر کے پیچھے بندھے ہوئے تھے ۔ میں نے سزائے موت کا منظر نہیں دیکھا البتہ اس کے فوراً بعد پہنچ کر میں نے ایک عینی شاہد سے گفتگو کی۔ اس نے بتایا کہ ان کی گردن کے پچھلی حصے میں گولی ماری گئی اور سارا کام صرف تین منٹ میں مکمل ہو گیا۔ مقامی رواج کے مطابق یہ گولی مجرم کے خاندان کو بھیج دی جائے گی تاکہ وہ آئندہ نسلوں کے لیے وارننگ بن سکے۔
(ڈیلی ’’دی ٹائمز‘‘، ۲۶ ستمبر ۲۰۰۱)
(ترجمہ: ادارہ)
سیدنا عمرؓ اور قتلِ منافق کا واقعہ
محمد عمار خان ناصر
ہمارے معاشرے میں پیشہ ور اور غیر محتاط واعظین نے جن بے اصل کہانیوں کو مسلسل بیان کر کر کے زبان زدِ عام کر دیا ہے، ان میں سے ایک سیدنا عمرؓ کے ایک منافق کو قتل کرنے کا واقعہ بھی ہے۔ زیر نظر سطور میں محدثانہ نقطہ نظر سے اس واقعہ کی پوزیشن کو واضح کیا جا رہا ہے۔
اس واقعے کی تفصیل میں حافظ ابن کثیرؒ نے سورۃ النساء کی آیت ۶۵ کے تحت دو روایتیں نقل کی ہیں:
پہلی روایت ابن مردویہؒ اور ابن ابی حاتم ؒ کے حوالے سے ہے جس کی سند حسب ذیل ہے: یونس بن عبد الاعلی اخبرنا ابن وھب اخبرنا عبد اللہ بن لہیعۃ عن ابی الاسود
دوسری روایت حافظ ابو اسحاق ابراہیم بن عبد الرحمن کی تفسیر کے حوالے سے نقل کی گئی ہے جس کی سند یہ ہے : حدثنا شعیب بن شعیب حدثنا ابو المغیرۃ حدثنا عتبۃ بن ضمرۃ حدثنی ابی
حکیم ترمذی نے ’نوادر الاصول‘ میں یہی واقعہ کسی سند کے بغیر مکحولؒ سے نقل کیا ہے اور ’نوادر‘ کے حوالے سے حافظ سیوطیؒ نے بھی اس واقعے کو ’الدر المنثور‘ میں درج کیا ہے۔ (۱)
حافظ ابو اسحاقؒ کی تفسیر میں منقول روایت کے الفاظ یہ ہیں:
’’دو آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس جھگڑا لے کر آئے‘ آپ نے حق دار کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ مقدمہ ہارنے والا کہنے لگا کہ میں اس فیصلے پر راضی نہیں ہوں۔ دوسرے فریق نے کہا کہ اب کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا‘ ابو بکرؓ صدیق کے پاس چلو۔ دونوں ان کے پاس گئے اور مقدمہ جیتنے والے نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس جھگڑا لے کر گئے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے میرے حق میں فیصلہ کیا ہے۔ ابوبکرؓ نے فرمایا کہ میرا فیصلہ بھی یہی ہے۔ لیکن دوسرا فریق اس پر بھی راضی نہ ہوا اور کہنے لگا کہ اب ہم حضرت عمرؓ کے پاس جاتے ہیں۔ (ان کی خدمت میں حاضر ہو کر) مقدمہ جیتنے والے نے ان سے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس جھگڑا لے کر گئے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے میرے حق میں فیصلہ کیا ہے‘ لیکن یہ ماننے سے انکار کرتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے اس شخص سے اس بات کی تصدیق کی۔ پھر اندر گئے‘ تلوار ہاتھ میں لے کر باہر آئے اور اس شخص کی گردن اڑا دی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: فلا وربک لا یومنون حتی یحکموک فی ما شجر بینہم ثم لا یجدوا فی انفسہم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما‘‘ (آپ کے رب کی قسم، یہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ اپنے تنازعات میں آپ کو حکم مان لیں اور پھر آپ جو فیصلہ فرمائیں، اس سے دل میں ذرا بھی تنگی محسوس نہ کریں اور اس کو پوری طرح سے تسلیم کر لیں)(۲)
ابن مردویہؒ سے منقول روایت کے آخر میں اس پر حسبِ ذیل اضافہ ہے:
’’دوسرا شخص بھاگا ہوا رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا اور کہا کہ یا رسول اللہ‘ عمر نے تو میرے ساتھی کو قتل کر دیا ہے اور اگر میں بھاگ نہ آتا تو مجھے بھی قتل کر دیتے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عمر سے مجھے یہ توقع نہ تھی کہ وہ ایک مومن کو قتل کر ڈالے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو اپنے جھگڑوں میں فیصل تسلیم نہ کر لیں اور پھر آپ کے فیصلے کے خلاف دل میں ذرا بھی تنگی محسوس نہ کریں۔ چنانچہ آپ نے اس آدمی کے خون کو رائیگاں قرار دیا اور عمرؓ سے قصاص نہ لیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس خدشے کے پیش نظر کہ کہیں دوسرے لوگ بھی اس طریقے پر عمل نہ کرنے لگیں‘ اگلی آیت میں فرمایاکہ اگر ہم ان پرلازم کر دیں کہ اپنی جانوں کو قتل کرو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے چند ہی لوگ اس حکم کی تعمیل کریں گے۔ ‘‘ (۳)
نوادر الاصول میں مکحولؒ کی روایت کے مطابق اس واقعے کے بعد حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور کہا :
’’یا رسول اللہ! عمرؓ نے اس آدمی کو قتل کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے عمرؓ کی زبان پر حق اور باطل کے مابین فرق کو واضح کر دیا ہے۔ چنانچہ عمرؓ کو فاروق کا لقب دیا گیا۔‘‘ (۴)
یہ واقعہ روایت واسناد کے لحاظ سے نہایت کمزور اور ناقابل استدلال جبکہ درایت کے لحاظ سے بالکل باطل اور بے بنیاد ہے۔
پہلے سند کو لیجیے:
۱۔ نوادر الاصول کی روایت تو، جیسا کہ عرض کیا گیا، کسی سند کے بغیر صرف مکحولؒ سے منقول ہے جو تابعی ہیں اور کسی صحابی کے واسطے کے بغیر روایت نقل کر رہے ہیں۔ان کے بارے میں محدثین کی رائے یہ ہے کہ یہ اکثر تدلیس کرتے ہوئے صحابہؓ سے روایات نقل کر دیتے ہیں حالانکہ وہ روایات خود ان سے نہیں سنی ہوتیں۔ (۵)
۲۔ ابن مردویہؒ اور ابن ابی حاتمؒ کی نقل کردہ روایت بھی منقطع ہے کیونکہ اس کے آخری راوی ابو الاسود محمد بن عبد الرحمن نوفل ہیں جو تابعی ہیں۔ محدث ابن البوقی فرماتے ہیں کہ اگرچہ زمانی لحاظ سے امکان موجود ہے لیکن عملاً کسی صحابی سے ان کی کوئی روایت ہمارے علم میں نہیں۔ (۶)
علاوہ ازیں ا س سند میں عبد اللہ بن لہیعۃجیسا بدنام ضعیف راوی موجود ہے۔ اس کے بارے میں علماء حدیث کے اقوال درج ذیل ہیں:
’’امام نسائی فرماتے ہیں‘ ثقہ نہیں ہے۔ ابن معین کہتے ہیں‘ کمزور ہے اور اس کی حدیثیں ناقابل اعتبار ہیں۔ خطیب کہتے ہیں‘ اس کے متساہل ہونے کی وجہ سے اس کے ہاں منکر روایات کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ امام مسلم فرماتے ہیں کہ ابن مہدی‘ یحییٰ بن سعید اور وکیع نے اس کی روایت لینے سے انکار کیا ہے۔ حاکم کہتے ہیں‘ بے کار احادیث بیان کرتا ہے۔ ابن حبان کہتے ہیں‘ میں نے اس کی روایات کو جانچ پرکھ کے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ تدلیس کرتے ہوئے درمیان کے کمزور راویوں کو حذف کر کے براہ راست ثقہ راویوں سے روایت نقل کر دیتا ہے۔‘‘ (۷)
۳۔ حافظ ابو اسحاق کی نقل کردہ روایت بھی منقطع ہے کیونکہ آخری راوی ضمر ۃ بن حبیب تابعی ہیں اور صحابی کا واسطہ موجود نہیں ۔ نیز سند کے ایک راوی ابو المغیرہ عبد القدوس بن الحجاج الخولانی کے بارے میں ابن حبانؒ کی رائے یہ ہے کہ وہ حدیثیں گھڑ کر ثقہ راویوں کے ذمے لگا دیتا ہے۔ (۸)
ازروئے درایت ان روایتوں پر حسب ذیل اعتراض وارد ہوتے ہیں:
ایک یہ کہ اگر مذکورہ واقعہ درست ہوتا تو سیدنا عمرؓ کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کا ایک سنہری موقع مدینہ منورہ کے منافقین کے ہاتھ آ جاتا اور وہ بھرپور طریقے سے اس کی اشاعت او ر تشہیر کرتے۔ چنانچہ ایسے واقعے کو‘ منطقی طور پر‘ کتب تاریخ وسیرت میں نمایاں طور پر مذکور ہونا چاہئے۔ جبکہ یہاں صورت حال یہ ہے کہ تاریخ اور تفسیر کی معرو ف اور قدیم کتابوں میں اس کا کہیں ذکر تک نہیں ۔ امام ابن جریر طبریؒ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ہر آیت کے شان نزول سے متعلق تمام اقوال وروایات کا احاطہ کرتے ہیں لیکن انہوں نے اس واقعہ کی طرف ادنیٰ اشارہ تک نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن کثیرؒ نے اس کو غریب جدا کہا ہے ۔ اصول حدیث کی رو سے ایسے معروف واقعات کی روایت میں خبر واحد معتبر نہیں ہوتی۔
دوسرے یہ کہ اس میں سیدنا عمرؒ جیسی محتاط‘ سمجھ دار اور حدود اللہ کی پابند شخصیت کو ایک مغلوب الغضب (Rash) انسان کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ سیدنا عمرؓ دین کے معاملے میں نہایت باحمیت اور غیرت مند تھے‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے ایسے کسی موقعے پر حد سے تجاوز نہیں کیا بلکہ کسی بھی اقدام کے لیے رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب کی۔ چنانچہ یہ روایت واضح طور پر ان دین دشمن عناصر کی وضع کردہ معلوم ہوتی ہے جن کا مقصد اکابر صحابہ کرامؓ کی شخصیات کو مسخ کرنا اور انہیں داغ دار شکل میں پیش کرنا ہے۔
تیسرے یہ کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف عدل وانصاف کے تقاضوں کے برخلاف جانب داری کی نسبت لازم آتی ہے۔ اگر سیدنا عمرؓ نے اس شخص کو قتل کیا تو یہ واقعتا ایک خلاف شرع اقدام تھا کیونکہ اس شخص نے کسی ایسے جرم کا ارتکاب نہیں کیا تھا جس پر وہ قتل کا مستحق ہوتا۔ اس کا لازمی نتیجہ قصاص تھا لیکن روایت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے خون کو رائیگاں قرار دیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ جرم واقعتا سزائے موت کا مستحق تھا تو پھر اس کو ایک واضح ضابطے کی شکل میں بیان کر کے آئندہ کے لیے بھی اجازت (Sanction) دے دینی چاہیے تھی۔ اور اگر یہ قتل درست نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے بہت بلند ہے کہ کسی ایک شخص کی رعایت کرتے ہوئے، چاہے وہ کتنا ہی عظیم المرتبت ہو، عدل وانصاف کے تقاضوں کو معطل کر دے۔
حوالہ جات
(۱) نوادر الاصول، ۱/۲۳۲۔ الدر المنثور، ۲/۱۸۱
(۲) تفسیر القرآن العظیم‘ ۱/ ۵۲۱
(۳) نفس المصدر،
(۴) نوادر الاصول، ۱/۲۳۲
(۵) تہذیب التہذیب، ۱۰/۲۹۲
(۶) نفس المصدر، ۹/ ۳۰۸
(۷) نفس المصدر، ۵/ ۳۷۸‘ ۳۷۹
(۸) الکشف الحثیث، ۱/۱۷۱
لندن میں ’’قرآنی موضوعات‘‘ کی تعارفی تقریب
مولانا محمد عیسی منصوری
(برطانیہ کے معروف مسلم دانش ور اور ماہر اقبالیات پروفیسر محمد شریف بقا صاحب نے قرآن کریم کی آیات کو موضوعات اور عنوانات کے حوالے سے ایک ہزار کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب ’’قرآنی موضوعات‘‘ میں ترتیب کے ساتھ پیش کیا ہے جو ایک اچھی پیش کش ہے اور علم وعرفان پبلشرز، ۷۔سی ماتھر سٹریٹ، ۹۔ لوئر مال لاہور نے اسے شائع کیا ہے۔ ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو رابطہ عالم اسلامی لندن کے دفتر میں اس کتاب کی تعارفی تقریب سے ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے مندرجہ ذیل خطاب کیا۔ ادارہ)
صدر محترم ومعزز سامعین!
لندن کے ادبی وعلمی حلقوں میں پروفیسر محمد شریف بقا صاحب کی ہستی پاکستان کی تاریخی تہذیب، علم وآگہی، تصوف وکلام اور فلسفیانہ انداز لیے ہوئے ایک منفرد وممتاز مقام کی حامل ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کی فکر اور کلام سے بقا صاحب کی ارادت وعقیدت عشق کے درجے کو پہنچی ہوئی ہے۔ آپ نے علامہ اقبال کے کلام اور فکر کو اپنی تحقیق اور غور وخوض کا مرکز ومحور بنایا ہے ۔ یورپ اور امریکہ کی حد تک یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہاں کے علمی وادبی حلقوں میں آپ کا فکر وفن اور علمی، ادبی اور تحقیقی مقام مسلم ہے۔ آپ کی ہستی ادب وشاعری، فکری وتحقیقی اور علمی ودینی تمام حلقوں میں معروف ومحترم مانی جاتی ہے۔ آپ اپنے جذبِ دروں کے ساتھ طویل عرصہ سے برطانیہ میں فکر وتحقیق اور علامہ اقبال کے کلام کی تفہیم وتشریح میں سنجیدگی ویکسوئی سے منہمک ہیں۔ مغرب خصوصاً برطانیہ میں نئی نسل کے لیے شاعر مشرق علامہ اقبال کے کلام اور فکر کی تفہیم وتشریح کا قابل قدر کام آپ کے قلم سے وجود میں آیا۔ آپ اپنے مرشد علامہ اقبال کی طرح فروعی نزاعات سے اجتناب برتتے ہوئے اسلام کی اساسی تعلیمات کو اشاعت میں مشغول رہتے ہیں۔ آپ کی دو درجن کے قریب تصانیف علم دوست حلقوں سے دادِ تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ بندہ تقریباً تین دہائیوں سے روزنامہ جنگ میں بقا صاحب کے بصیرت افروز اور فکر انگیز مقالات ومضامین کا قاری ہے اور تقریباًدو دہائیوں سے آپ سے تعارف وشناسائی حاصل ہے۔ آپ کی بیشتر تصانیف نظر سے گزری ہیں۔ آپ کی بے نظیر تصنیف ’’اقبال اور تصوف‘‘ پر مجھے تبصرہ اور اظہار خیال کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ جب بقا صاحب کے متعلق غور کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ حضرات صوفیاء کرام کا خلوص وبے لوثی، سادگی ووقار، درد مندی وسنجیدگی بقا صاحب کی شخصیت میں رچ بس گئے ہیں۔
اسلام کی ۱۴ سو سالہ تاریخ میں عربی کے بعد فارسی صدیوں سے اسلامی فکر وفلسفہ، علوم وآگہی، ادب وشاعری کے اظہار کا ذریعہ رہی ہے اور برصغیر میں تقریباً گزشتہ ہزار سالہ علمی وفکری خزانوں کی امین ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری کا بھی بڑا حصہ جو آپ کے فکر وفلسفہ کا نقطہ عروج ہے، فارسی ہی میں ہے۔ پروفیسر محمد شریف بقا صاحب کا فارسی مطالعہ خصوصاً فارسی زبان کے مفکرین، فلاسفہ، ادبا اور شعرا کا مطالعہ نہایت عمیق ووسیع ہے۔ اب تو طبقہ علما میں بھی فارسی میں گہری بصیرت رکھنے والے نایاب ہو چکے ہیں۔ اس جہت سے برطانیہ ویورپ میں شاید ہی بقا صاحب کی نظیر ملے۔ بقا صاحب اردو وفارسی دونوں زبانوں کے قادر الکلام شاعر ہیں۔ حمد ونعت میں بھی ان کا جداگانہ رنگ ہے۔
اقبال کے متعلق مفکر اسلام سید ابو الحسن علی ندویؒ نے شہادت دی ہے کہ اس سو سال میں جدید طبقہ نے اقبال سے بڑا دیدہ ور پیدا نہیں کیا۔ وہ عصر حاضر کے مشرق کے سب سے بڑے مفکر وفلسفی ہیں۔ رشید احمد صدیقی مرحوم نے بالکل صحیح کہا ہے کہ اقبال کا کلام اس صدی کا علم کلام ہے۔ اقبال کے فکر وکلام کی خصوصیات میں عشق رسول، قرآن سے شغف اور حضرات صوفیاء کرام کا سوز وساز شامل ہیں۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے بہت صحیح کہا ہے کہ اقبال پر دنیا کے بڑے مذہب کی گرفت اتنی نہیں جتنی ایک بڑی شخصیت کی ہے۔ وہ با خدا دیوانہ باش وبا محمد ہوشیار کا مصداق ہے اور اس کی شاعری وکلام کا خلاصہ ہے: ’’قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں‘‘ اور صوفیاء کا جذب دروں، سوز ومعنی اس کے شعر شعر سے ٹپکتا ہے۔ یہی خصوصیات برطانیہ ومغرب میں اقبال کے سب سے بڑے شارح وترجمان پروفیسر محمد شریف بقا صاحب کی ہیں۔ آپ کی دو درجن کے قریب تصانیف میں سب سے نمایاں اور بے مثال انہی تین موضوعات پر ہیں۔ سب سے طویل ’’قرآنی موضوعات‘‘ جو تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے، دوسری ’’رسول اکرم ﷺ مغربی اہل دانش کی نظر میں‘‘ اور تیسری ’’اقبال اور تصوف‘‘۔
مولانا ندویؒ لکھتے ہیں: ’’اقبال کی زندگی پر یہ عظیم کتاب قرآن مجید اس قدر اثر انداز ہوئی ہے کہ اتنا وہ کسی شخصیت سے متاثر ہوئے نہ کسی کتاب سے لیکن اقبال کا قرآن پڑھنا عام لوگوں کے قرآن پڑھنے سے بالکل مختلف رہا ہے۔ آپ کے والد گرامی نے (جو ایک باصفا درویش تھے) اقبال کو بچپن میں جب وہ صبح روزانہ قرآن پڑھنے بیٹھے، تلقین کی تھی کہ قرآن اس طرح پڑھا کرو جیسے قرآن اس وقت تم پر نازل ہو رہا ہے۔ اس کے بعد اقبال نے قرآن کو اس طرح پڑھنا شروع کیا گویا وہ واقعی اس وقت نازل ہو رہا ہے۔ ایک شعر میں وہ اس کا اظہار یوں فرماتے ہیں:
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
اقبال نے اپنی پوری زندگی قرآن مجید میں غور وفکر اور تدبر وتفکر کرنے میں گزاری۔ وہ ان کی محبوب ترین کتاب تھی جس سے انہیں نئے نئے علوم کا انکشاف ہوتا۔ اس سے انہیں ایک نیا یقین، نئی قوت وتوانائی حاصل ہوتی۔ جوں جوں ان کا مطالعہ قرآن بڑھتا گیا، ان کی فکر میں بلندی پیدا ہوتی گئی۔ موجودہ دور کی ظلمتوں میں اس نے قرآن کے بعد مولانا روم کو اپنا رہنما ومرشد بنایا۔ جس طرح مولانا روم کے دور میں فلسفہ یونان عقلوں پر چھا گیا تھا، حتیٰ کہ علما بھی اس سے ہٹ کر سوچ نہیں سکتے ہیں۔ مولانا روم نے اپنی مثنوی کے ذریعے سے ایمان وایقان، عشق وسرور، سوز وساز کا پیغام دیا۔ اسی طرح اقبال کو بھی مغرب کے مادی وعقلی اور بے روح وبے خدا افکار ونظریات سے سابقہ پڑا۔ مادہ وروح کی کشمکش پورے عروج کے ساتھ سامنے آئی۔ اس قلبی اضطراب وذہنی انتشار کے موقع پر اقبال کومولانا روم نے بہت کچھ سہارا دیا۔ انہوں نے مولانا روم کو اپنا کامل رہنما تسلیم کیا اور صاف اعلان کیا کہ عقل وخرد کی ساری گتھیاں جسے یورپ کی مادیت نے الجھا رکھا ہے، اس کا حل صرف آتش رومی کے سوز ساز میں پنہاں ہے:
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
اسی کے فیض سے میرے سبو میں ہے جیحوں
اقبال کو عصر حاضر کے علما ودانش وروں، مفکرین وفلاسفہ سے سب سے بڑی شکایت یہی ہے کہ انہوں نے قرآن کو چھوڑ کر فلسفہ یونان اور روح کو چھوڑ کر الفاظ کی پرستش شروع کر دی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مسلمان براہ راست کتاب اللہ کا مطالعہ کریں اور اس کے علوم وحکمت سے مستفید ہوں۔
قرآن دنیا کی واحد کتاب ہے جس نے نوع انسانی کے افکار، اخلاق وتہذیب اور طرز زندگی پر اتنی وسعت، اتنی گہرائی اور اتنی ہمہ گیری کے ساتھ اثر ڈالا ہے جس کی کوئی نظر دنیا میں نہیں پائی جاتی۔ پہلے اس کی تاثیر نے ایک قوم کو بدلا اور پھر اس قوم نے اٹھ کر دنیا کے ایک بہت بڑے حصے کو بدل ڈالا۔ یہ کتاب صرف کاغذ کے صفحات پر لکھی نہیں رہ گئی بلکہ عمل کی دنیا میں اس کے ایک ایک لفظ نے خیالات کی تشکیل کی اور مستقل تہذیب کی تعمیر کی۔ ۱۴۰۰ برس سے اس کے ان اثرات کا سلسلہ جاری ہے اور روز بروز اس کے یہ اثرات پھیلتے جا رہے ہیں۔ یہ پورے نظام زندگی کانقشہ پیش کرتی ہے جس میں عقائد، اخلاق، تزکیہ نفس، عبادات، معاشرت، تہذیب، تمدن، معیشت، سیاست، عدالت، قانون غرض حیات انسانی کے ہر پہلو سے متعلق ایک نہایت مربوط ضابطہ بیان کرتی ہے۔ یہی نہیں، قرآن جو تصور کائنات وانسان پیش کرتا ہے، وہ تمام مظاہر اور واقعات کی مکمل توجیہ کرتا ہے۔ وہ ہر شعبہ علم میں تحقیق کی بنیاد بن سکتا ہے۔ جن حقائق کو علم کی حیثیت سے وہ پیش کرتا ہے، ان میں سے کسی ایک کو بھی آج تک غلط ثابت نہیں کیا جا سکا۔ فلسفہ وسائنس اور علوم عمران کے تمام آخری مسائل کے جوابات اس کے کلام میں موجود ہیں اور سب کے درمیان ایسا منطقی ربط ہے کہ ان پر ایک مکمل، مربوط اور جامع نظام فکر قائم ہوتا ہے۔ جو وسیع وجامع نظام اس کتاب میں پایا جاتا ہے، وہ اس زمانہ کے اہل عرب، اہل روم ویونان وایران تو درکنار، اس بیسیویں اور اکیسویں صدی کے علم سائنس کے دعوے داروں میں بھی کسی کے پاس نہیں ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ فلسفہ وسائنس اور علم عمران کی کسی ایک شاخ کے مطالعہ میں اپنی عمر کھپا دینے کے بعد آدمی کو پتہ چلتا ہے کہ اس شعبہ علم کے آخری مسائل کیا ہیں اور پھر جب غائر نگاہ سے قرآن کو دیکھتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب میں ان تمام مسائل کا واضح جواب موجود ہے۔ یہ معاملہ کسی ایک علم تک محدود نہیں ہے بلکہ ان تمام علوم کے باب میں صحیح ہے جو کائنات اور انسان سے کوئی تعلق رکھتے ہیں۔
چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی عربی زبان کا معیار فصاحت وہی ہے جو اس کتاب نے قائم کر دیا تھا حالانکہ اتنی مدت میں زبانیں بدل کر کچھ سے کچھ ہو جاتی ہیں۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جو اتنی طویل مدت تک املا، انشاء ومحاورہ، قواعد زبان اور استعمال الفاظ میں ایک ہی شان پر باقی رہ گئی ہو لیکن یہ صرف قرآن کی طاقت ہے جس نے عربی زبان کو اپنے مقام سے ہٹنے نہ دیا۔ اس کا ایک لفظ بھی آج تک متروک نہیں ہوا۔ اس کا ہر محاورہ آج تک عربی ادب میں مستعمل ہے۔ اس کا ادب آج بھی عربی کا معیاری ادب ہے اور تقریر وتحریر میں آج بھی فصیح زبان وہی مانی جاتی ہے جو چودہ سو سال پہلے قرآن میں استعمال ہوئی۔
صدیوں سے ہمارے زوال ونکبت اور تنزل وپستی کی سب سے بڑی وجہ اقبال کے الفاظ میں یہ ہے:
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
یہ دراصل قرآن مجید کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے: وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ہذا القرآن مہجورا۔ ’’جب رسول شکایت کریں گے کہ اے میرے رب، میری قوم نے قرآن کو پس پشت ڈال رکھا تھا۔‘‘
دیکھا جائے تو قرآن پاک کی یہ آیت ایک معجزہ ہے اور ایک پیش گوئی بھی۔ اس میں ہمارے اس دور کی ہوبہو تصویر پیش کی گئی ہے۔ دورِ نبوت میں قرآن ہر مسلمان کا حرزِ جاں بنا ہوا تھا۔ ہر کلمہ گو کا شغف وانہماک دنیا میں کسی کتاب سے تھا تو وہ صرف قرآن تھی۔ بد قسمتی سے جوں جوں دورِ نبوت سے دوری ہوتی گئی، مسلمانوں کا انہماک ومشغولیت کتاب اللہ کے بجائے انسانی علوم وفنون اور کتابوں سے بڑھتی گئی۔ خاص طور پر برصغیر میں چونکہ اسلام براہ راست حجاز کے بجائے ایران وترکستان کی راہ سے پہنچا، اس لیے وہاں شروع ہی سے قرآن وسنت کے بجائے عجمی وایرانی علوم وافکار، فلسفوں اور نظریات کا غلبہ رہا۔ اس کے بعد مغل دور میں ہمایوں کے شاہ ایران کے زیر بار احسان ہونے کے بعد تو فلسفہ ومنطق انسانی افکار ونظریات، اسرائیلی داستانوں اور کہانیوں کا بند کھل گیا۔ برصغیر کے مسلمانوں کے نصاب تعلیم کا نوے فی صد حصہ انہی انسانی علوم وفنون، فلسفوں اور نظریات کا مرقع رہا ہے۔ قرآن کے حق میں سب سے موثر آوازحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے بلند کی مگر اس وقت سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے بعد علمی مرکز ثقل دہلی سے لکھنو منتقل ہو چکا تھا جہاں مکمل طور پر ایرانی فکر کے حامل شیعی حکمرانی قائم ہو چکی تھی اس لیے ان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ بد قسمتی سے اب تک ہمارے دینی مدارس میں وہ نصاب تعلیم کسی نہ کسی شکل میں رائج ہے جس کی اصل بنیاد مشہور ایرانی حکیم وفلسفی فتح اللہ شیرازی نے رکھی تھی جس کا بیشتر حصہ علوم قرآن کے بجائے عجمی فلسفوں، منطق، حکمت وعلم کلام پر قائم ہے جن کا تعلق انسان کے عمل وکردار کے بجائے ذہنی ودماغی ورزش پر ہے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کی تفسیروں کا تعلق زیادہ تر انہی آیات سے تھا جو امر ونہی پر مشتمل ہیں ۔ اور وہ آیات جن کا براہ راست تعلق انسانی عمل وکردار سے نہیں، ان کی تفصیل میں جانے اور ان کی تعبیر وتفسیر کرنے میں وہ بہت احتیاط سے کام لیتے۔ تفسیر ابن عباسؓ اور تفسیر ابن کعبؓ کا بیشتر حصہ قرآن کے مفرد وغریب الفاظ کی تشریح سے تعلق رکھتا ہے یا آیاتِ احکام کے تعلق سے کوئی حدیث انہیں معلوم ہوئی تو وہ ان آیات کی تشریح وتوضیح میں بیان کر دی جاتی۔ رہے اعتقادی مسائل یا اسرار کائنات تو اس باب میں صحابہ کرامؓ سے بہت کم چیزیں منقول ہیں۔ دور تابعین میں پہلی بار ایرانیوں اور رومیوں کے ساتھ اختلاط کے بعد عجمی افکار کی دخل اندازی اور باطل افکار ونظریات کے سبب سے انتشار ذہنی پیدا ہونا شروع ہوا۔ دوسری طرف یونانی فلسفہ سے لوگ روشناس ہونے لگے۔ تیسری طرف مختلف معاشرتی، معاشی وسیاسی نوعیت کے پیچیدہ مسائل سامنے آئے۔ اس وقت ان کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ لوگوں کو ذہنی کشمکش اور کج بحثی سے بچا کر براہ راست قرآن وسنت کی اتباع پر ڈالا جائے جس کی بکثرت مثالیں قاضی شریحؒ ، ابراہیم نخعیؒ ، مجاہدؒ ، عطاؒ ، ابن سیرینؒ اور مکحولؒ کے تفسیری نکات میں ملتی ہے۔ اس دور میں نئے مسائل میں اجتہاد کثرت سے ہوا مگر تضاد یا مناظرانہ رنگ پیدا نہیں ہوا۔ اس کے بعد تبع تابعینؒ کے دور میں سارے باطل افکار کھل کر سامنے آئے جو اس سے پہلے جھجھکتے ہوئے سامنے آئے تھے۔ ایک طرف سبائیت وخارجیت، رفض واعتزال اپنے اپنے مقاصد کے لیے قرآن وسنت کو استعمال کرنے میں تیز گام ہوئے۔ دوسری طرف یونانی افکار سے متاثر لوگ عوام کے ذہنوں کو مسموم کر رہے تھے اور قرآن کی تفسیر یونانی فلسفہ کے ماتحت کر رہے تھے۔ ان فکری ونظری فلسفوں کے مقابلے پر ابو عمر بن العلاءؒ ، شعبہ بن الحجاجؒ ، سفیان ثوریؒ ، امام مالکؒ ، یونس بن حبیبؒ ، وکیع بن الجراحؒ وغیرہ نے تفسیر بالماثور یا تفسیر بالاحادیث والآثار کر کے لوگوں کو راہ حق پر قائم رکھنے کی کوشش کی لیکن جو لوگ عجمی ایرانی ویونانی افکار سے پوری طرح متاثر ہو چکے تھے، انہوں نے عقلیت، اعتزال اور یونانی فلسفہ واشراق کے رنگ میں تفسیریں کیں۔
غرض تفسیر قرآن میں اصل خرابی اس وقت ہوئی جب اسلامی تہذیب غیر اسلامی تہذیبوں اور افکار وفلسفوں سے دوچار ہوئی تو قرآن کی تفسیر مفسرین کے عقلی شعبدوں کی مینا کاری ہو گئی۔ اس کا آغاز یونانی فلسفہ کی اساس پر ہوا۔ اموی وعباسی خلفا کے دور میں درباروں میں یونان کے حکما سقراط،افلاطون اور ارسطو وغیرہ کی تعلیمات ترجمہ ہو کر پہنچنے لگیں۔ ادھر مسلمان حکما وفلاسفہ نے قرآن پاک کی تعلیمات کو ان یونانی فلاسفہ کے افکار سے مناسبتیں دینی شروع کیں۔ مزید برآں ایران کی زرتشتی تعلیمات اور ہندوستان سے اپنشدوں کے تصورات بعض مسلمان حکما وفلاسفہ کے دماغوں میں جگہ پا گئے۔ تفسیر قرآن میں ان کے تراجم عجمی علم وفن کا نقطہ آغاز تھے۔ اس سے پہلے عرب صرف شاعری سے آشنا تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن پاک کی تفسیر میں یونانی وایرانی اور ہندوستانی الٰہیات کا تصور اور اس تصور کے تحت کائنات اور انسان کے متعلق عقلی استدلال راہ پا گیا اور وہ تمام بحثیں قرآن پاک کی تفسیر کا جز ہو گئیں جو قرآن کے مقصد اور دعوت سے خارج تھیں۔ امام رازیؒ اشعری نے جو کچھ لکھا، امام غزالیؒ نے اس باب میں جن خیالات کا اظہار کیا، الجصاصؒ اور زمخشریؒ معتزلی نے تفسیر بالرائے کی جو بنیاد قائم کی، وہ قرآن پاک کی فطرہ وسادہ دعوت وتعلیمات کو اٹھا کر دقیق فلسفیانہ مباحث کے طلسم خانے میں لے گئے جس سے ایک پیچیدہ علم کلام پیدا ہو گیا۔ امام رازی کی معرکہ آرا تفسیر کبیر کے متعلق مولانا آزادؒ لکھتے ہیں:
’’اس میں منطق وفلسفہ، حکمت وعلم کلام وغیرہ سب کچھ ہے مگر قرآن نہیں ہے‘‘
امام رازی خود دنیا کے سارے علوم وفنون کی سیر کے بعد اپنی آخری تصنیف میں قم طراز ہیں:
’’میں نے علم کلام اور فلسفہ کے تمام طریقوں کو خوب دیکھا بھالا لیکن بالآخر معلوم ہوا کہ نہ تو ان میں کسی بیمار کے لیے شفا ہے نہ کسی پیاسے کے لیے سیرابی۔ سب سے بہتر اور حقیقت سے نزدیک راہ وہی ہے جو قرآن کی اپنی راہ ہے۔‘‘
غرض فہم قرآن میں تمام تر الجھاؤ اسرائیلیات اور عقلیات کی بدولت پیدا ہوئے جس کا تصنیفی شاہکار امام فخر الدین رازیؒ کی تفسیر کبیر ہے کہ اس کی بدولت قرآن میں شکوک وایرادات کے دروازے اس طرح کھلے کہ ان کا بند ہونا مشکل ہو گیا۔ اس حقیقت کو علامہ اقبالؒ نے ان الفاظ میں واشگاف کیا ہے۔
چوں سرمہ رازی من از دیدہ فروئشتیم
تقدیر امم دیدم پنہاں بہ کتاب اندر
علاجِ ضعفِ یقیں ان سے ہو نہیں سکتا
غریب اگرچہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق
غرض قرآن محض عقل نہیں کہ اس کو عقل سے حل کیا جائے۔ قرآن ایک عشق ہے جو اپنی جوت خود جگا لیتا ہے اور قاری وسامع کو مسحور کرتا ہے۔ عقل دلیل دیتی ہے، اعتقاد نہیں دیتی۔ اعتقاد شخصیت سے پیدا ہوتا ہے جو سیرت کو جلا دینی اور عشق کو لطافت بخشتی ہے۔ اسی وجہ سے نبی ﷺ کی زندگی کو عملی قرآن کہا گیا ہے۔ مولانا ابو الکلامؒ ’’تذکرہ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’قرآن کی حقیقت سے آشنا ہونے کے لیے بیضاوی وبغوی کی ورق گردانی نہیں بلکہ دل دردمند کے الہام اور جبرئیلِ عشق کے فیضان کی ضرورت ہے۔‘‘
اور دل دردمند کا الہام اور جبرئیلِ عشق کا فیضان اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم قرآن کو نظر وفکر کی اس زبان میں سمجھیں جو احادیث نبوی اور آثار صحابہؓ اور اقوال تابعین کے سانچے میں ڈھلی ہے اور قرآن ہی کے الفاظ ومطالب کی زبان ہے۔ مولانا آزاد اس حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’قرآن جب نازل ہوا تو اس کے مخاطبوں کا پہلا گروہ ہی ایسا تھا کہ تمدن کے وضعی وصناعی سانچوں میں ابھی اس کا دماغ نہیں ڈھلا تھا۔ فطرت کی سیدھی سادھی فکری حالت پر قانع تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن اپنی شکل ومعنی میں جیسا کہ واقع میں تھا، ٹھیک ٹھیک ویسا ہی ان کے دلوں میں اترتا گیا اور اسے قرآن کے فہم ومعرفت میں کسی طرح کی دشواری محسوس نہیں ہوئی۔ صحابہ کرامؓ جب پہلی مرتبہ قرآن کی کوئی آیت یا سورت سنتے تھے تو سنتے ہی اس کی حقیقت کو پالیتے تھے لیکن صدر اول کا دور ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ روم وایرن کے تمدن کی ہوائیں چلنے لگیں اور پھر یونانی علوم کے تراجم نے انسانی علوم، فنون وضعیہ کا دور شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جوں جوں وضعیت کا دور بڑھتا گیا، قرآن کے فطری اسلوب سے طبیعتیں ناآشنا ہوتی گئیں۔ رفتہ رفتہ وہ وقت آ گیا کہ قرآن کی ہر بات وضعی وصناعی طریقوں کے سانچوں میں ڈھالی جانے لگی۔ چونکہ ان سانچوں میں وہ ڈھل ہی نہیں سکتی تھی اس لیے طرح طرح کے الجھاؤ پیدا ہونے لگے اور جس قدر کوششیں سلجھانے کی کی گئیں، الجھاؤ اور زیادہ بڑھنے لگا۔‘‘
آگے مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی دور سے قرون آخر تک جس قدر مفسر پیدا ہوئے، ان کا طریق تفسیر ایک روبہ تنزل معیارِ فکر کی مسلسل زنجیر ہے جس کی ہر پچھلی کڑی پہلی کڑی سے پست تر ہے اور ہر سابق لاحق سے بلند تر واقع ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں جس قدر اوپر کی طرف بڑھتے جاتے ہیں، حقیقت زیادہ واضح، زیادہ بلند اور اپنی قدرتی شکل میں نمایاں ہوتی جاتی ہے اور جس قدر نیچے اترتے ہیں، حالت برعکس ہو جاتی ہے۔ یہ صورت حال فی الحقیقت مسلمانوں کے عام دماغی تنزل کا قدرتی نتیجہ تھی۔ انہوں نے جب دیکھا کہ قرآن کی بلندیوں کا ساتھ نہیں دے سکتے تو کوشش کی کہ قرآن کو اس کی بلندیوں سے نیچے اتار لیں کہ ان کی پستیوں کا ساتھ دے سکے۔‘‘
بقول اقبال:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
اس اعتبار سے قرآن دنیا کی مظلوم ترین کتاب ہے۔ چنانچہ علامہ سید سلیمان ندویؒ لکھتے ہیں:
’’علما روایت پسند ہوئے تو اسرائیلیات کا شکار ہوئے اور علما عقلیت پسند ہوئے تو یونانیوں کے مزعومات کے اسیر وپابند۔ تمام علماء اسلام میں علامہ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم ہی دو بزرگ ہیں جو ایک طرف روایات کے ناقد ومبصر ہیں تو دوسری طرف یونانی فلسفیات کے نقاد اور ان کے حق وباطل کے واقف کار اور ان کے دل ان سب سے ماورا حکمت محمدی کے ذوق چشیدہ اور ان کے سینے معارف نبوی ﷺ کے گنجینہ ہیں۔ ان کی تفسیر تمام تر حکمت ومصلحت اور حقیقت ومغز پر مشتمل ہوتی ہے۔ وہ حکمت نہیں جو یونان کے صنم کدہ سے اچھلی ہے بلکہ وہ جو حجاز کی نہر کوثر سے بہہ کر نکلی ہو یا جو فطرت انسانی کے ربانی چشموں سے ابلی ہو۔‘‘
جس طرح گزشتہ دور میں مسلمانوں کی علمی تباہی کا راز قرآن کو چھوڑ کر فلسفہ یونان کی دماغی پیروی میں تھا، اسی طرح آج مغربی فکر وتمدن کی اندھی تقلید میں ہے۔ انسان قرآن کی روح تک اس وقت پہنچ سکتا ہے جب اسرائیلیات وعقلیات اور موجودہ مغربی فکر وفلسفہ کی ذہنی آلودگیوں سے دور رہ کر قرآن کو اس کے اپنے ماحول، زبان اور احادیث وآثار کی روشنی میں دیکھے۔ آج قرآن کا مقابلہ بائبل یا تورات سے نہیں اور نہ اس کی ٹکر ہندومت یا بدھ مت ومجوسیت وغیرہ سے ہے بلکہ اسلام کا مقابلہ آج یورپ کے سائنسی وعلمی نظریات وافکار سے ہے جن میں نئی نسل کے لیے ایسا سحر ہے کہ جب تک ان کو مطمئن نہ کیا جائے ہم نئی نسل کو اس سحر سے نہیں نکال سکتے۔ آج یورپ کا ضمیر پھر اصل فطرت اور مذہب کی طرف لوٹنا چاہتا ہے مگر قرآن کے حامل صدیوں سے فلاسفہ یونان کی بھول بھلیاں کے اسیر بن چکے ہیں۔
قرآن کا مخاطب صرف مسلمان نہیں بلکہ نوع انسانی ہے۔ وہ خدا، انسان اور کائنات کے باہمی رشتہ کی گرہ کشائی کرتا ہے۔ وہ انسان کو ایسے اصول اور دستور حیات عطا کرتا ہے جس سے انسانی فکر وعمل میں کوئی کجی نہ رہے۔ قرآن انسانیت کے لیے فلاح وسعادت کی راہ کھولتا ہے اور وہ اپنے خالق کے متعلق انسان کی ابدی جستجو اور اس سارے سفر کی آخری منزل کا سنگِ میل ہے۔ انسان قرآن کی رہنمائی کے بغیر نہ تو اپنے خالق کا صحیح تصور کر سکتا ہے، نہ اپنی ذات کی معرفت۔ دنیا کے اکثر مذاہب اور قوموں نے اللہ کے تصور کو اپنے حصار میں بند کر لیا ہے اور خدا کو صرف اپنا ہی معبود گردانا ہے لیکن قرآن نے خدا کے رب العالمین ہونے کا اعلان کیا ہے۔ قرآن سے پہلے تک دنیا کی قوموں میں خدا کا تصور خوف ودہشت کا تصور تھا، قرآن نے رحمت وعدالت کا تصور پیش کیا ہے۔ قرآن پوری انسانیت کے لیے ایک عالمی منشور ہے۔ یہ ان لوگوں کی جستجو اور اضطراب کا فطری جواب ہے جو اپنے خالق ورب کی تلاش میں عقل وفکر کے صحراؤں اور بیابانوں میں بھٹک رہے ہیں۔ قرآن سے پہلے جو کتب سماوی تھیں وہ انسانیت کے لیے بمنزلہ ابتدائی نصاب کے تھیں اور قرآن ایک بالغ، باشعور اور ترقی یافتہ معاشرہ کے لیے مکمل اور جامع نظام حیات ہے۔ قرآن ایک بے مثل سچائی ہے جو کائنات، انسان اور خدا کے باہمی رشتہ کو حرف آخر کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ قرآن یہ بتاتا ہے کہ خدا اور اس کی صفات کیا ہیں؟ اس کائنات کی تکوین کیونکر ہوئی؟ انسان ربوبیت کاملہ کا مظہر ہے۔ قرآن تمام سچائیوں کی جامع آخری آسمانی دستاویز ہے۔ وہ ایک ضابطہ ہے جس پر چل کر انسان رشد وہدایت اور سعادت حاصل کرتا ہے۔ اس کا مطالعہ خالق کی حقیقت، کائنات کی غایت، انسان کی تخلیق کے مقصد، نبوتوں کے مشن، جزا وسزا کے قانون اور حق وباطل کے امتیازات سے آگاہ کرتا ہے۔ اس کی تعلیم ٹھیک ٹھیک دلوں میں اتر جاتی ہے اور انسان یقین کی اس دولت کو پا لیتا ہے جو فلسفہ کے سفر میں شک کے کانٹوں سے تلووں کو زخمی کرتی اور اضطراب کے صحرا میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے۔ سائنس کی خانہ ویرانی کا بھی یہی عالم ہے۔ وہ ثبوت دیتی ہے مگر یقین نہیں دیتی۔ انسانی روح کی منزل مقصود یقین ہے۔ جب تک اس کو یقین حاصل نہ ہو وہ کائنات کے توے پر اسپند کے دانے کے مانند تڑپتا رہتا ہے۔ انسانی زندگی یقین کے بغیر جان کنی کی زندگی ہے اور یقین کی دولت صرف قرآن عطا کرتا ہے۔
قرآن سے لطف اندوز ہونے اور استفادہ کرنے اور فہم قرآن کے متعلق سب سے اہم بات یہ ہے کہ طویل طویل تفاسیر کے بجائے محض ترجمہ سمجھنے پر اکتفا کیا جائے اس لیے کہ ہر دور میں قرآن کی جو تفسیریں کی گئی ہیں، ان میں مفسر کے ذہن وفکر پر جس پہلو کا غلبہ تھا، اس کا عکس آ گیا یا دور کے رجحانات وتقاضوں کا۔ اس لیے قرآن کی زیادہ ضخیم وبسیط تفاسیر کے بجائے صرف قرآن کے ترجمہ یا مختصر ترین توضیح کو ترجیح دی جائے جیسے حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلویؒ کے حواشی ہیں کیونکہ زیادہ طویل وعریض تفاسیر سے انسان خالق کے بجائے اپنی ہی جیسے دوسرے انسانی کلام میں مشغول ہو کر قرآن اور اللہ کے بجائے انسانی ذہن وفکر سے متاثر ہونے لگتا ہے۔ اس لیے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے دینی نصاب تعلیم کے متعلق اپنے وصیت نامہ میں یہ لکھا کہ قرآن کا ترجمہ بغیر تفسیر کے ختم کرنا چاہئے۔ پھر اس کے بعد تفسیر جلالین بقدر درس پڑھائی جائے۔ جلالین قرآن کی مختصر ترین تفسیر ہے جس کے الفاظ تقریباً قرآن کے الفاظ کے برابر ہیں۔ لمبی لمبی تفاسیر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے کلام کو کسی مخصوص شخص کے فکر ونظر کی عینک سے دیکھنے لگتا ہے۔ گویا کلام اللہ کو سمجھنے کے لیے پہلے کسی انسان کے ذہن وفکر پر ایمان لایا جائے۔ انسان قرآن کا صحیح لطف، اس سے استفادہ اور برکات اسی وقت حاصل کر سکتا ہے جب وہ قرآن کے الفاظ یا زیادہ سے زیادہ اس کے ترجمہ تک محدود رہے۔ حضرت شاہ عبد القادر رائے پوریؒ فرماتے ہیں کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام شجر کے ذریعے سے خدا سے ہم کلام ہوئے تھے، انسان قرآن پڑھتے وقت اپنے کو شجر تصور کرے پھر اپنے میں سے نکلے ہوئے الفاظ کو یوں سمجھے کہ خدائے پاک ہم کلام ہیں اور میں براہ راست سن رہا ہوں۔ مولانا محمد علی مونگیریؒ بانی ندوۃ العلما فرماتے ہیں کہ میں نے ابتداء اً حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن گنج مراد آبادی سے عرض کیا، حضرت مجھ کو جو مزہ شعر میں آتا ہے قرآن شریف میں نہیں آتا۔ فرمایا ابھی بُعد ہے۔ قُرب میں جو مزہ قرآن شریف میں ہے کسی چیز میں نہیں۔ کثرت سے قرآن شریف پڑھا کرو۔ اللہ میاں دل پر آکر بیٹھ جاتے ہیں۔
قرآن کی تفہیم اور اسے بآسانی سمجھنے اور کسی موضوع پر حکم خداوندی معلوم کرنے کے لیے ہمارے مکرم پروفیسر محمد شریف بقا صاحب نے تقریباً ۱۶۵ عنوانات یا موضوعات مقرر کر کے ہر ہر موضوع پر آیات قرآنی مع ترجمہ کے درج کر دی ہیں۔ اب معمولی اردو پڑھا لکھا شخص بھی کسی موضوع پر بآسانی حکم خداوندی معلوم کر سکتا ہے۔ ’’قرآنی موضوعات‘‘ نہ صرف عام مسلمان کے لیے بلکہ سکالرز، علما اور علمی کام کرنے والوں کے لیے بھی بیش قیمت تحفہ ہے۔ اب کسی درپیش موضوع پر چند لمحات میں ہر شخص قرآن پاک میں موجود تمام آیات کا احصا کر سکتا ہے اور کسی موضوع پر قرآن پاک میں بکھری ہوئی آیات پر یکجا نظر ڈال کر قرآن حکم اور منشاے خداوندی معلوم کر سکتا ہے۔ اگرچہ عربی میں اس موضوع پر متعدد حضرات نے کام کیا ہے مگر اردو میں اپنے انداز کا منفرد اور قابل صد ستائش کام ہے جس پر پروفیسر محمد شریف بقا صاحب بجا طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ کتاب باطنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ عمدہ کمپوزنگ، خوبصورت طباعت، مضبوط جلد اور حسین سرورق کے ساتھ ظاہری طور پر بھی نہایت دیدہ زیب بن گئی ہے۔ یہ کتاب اس لائق ہے کہ ہر لائبریری، ہر مسجد اور ہر گھر کی زینت بنے اور گھر کے افراد جمع ہر کر سبقاً سبقاً پڑھیں تاکہ ہمارا قرآن سے ربط وتعلق قائم ہو۔ اس کی برکات سے ہماری زندگیاں منور ہوں اور حشر کے روز قرآن ہمارا مضبوط سفارشی بنے۔ وآخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
تعلیمی نصاب کی ضروریات ۔ سلطان اورنگ زیب عالمگیرؒ کی نظر میں
پروفیسر عشرت جاوید
جب اورنگ زیب (۱۶۵۸ء۔۱۷۰۷ء) ہندوستان کی گدی پر بیٹھے تو ایک دن ان کے استاد ملا محمد صالح ان کی مدح میں ایک قصیدہ لکھ کر لائے تاکہ کچھ انعام واکرام پائیں لیکن عالمگیر جیسے متقی اور پرہیز گار شخص اپنی مدح وستائش سے خوش ہونے والے نہیں تھے۔
استا دنے کہا :’’جہاں پناہ، میں کچھ لکھ کر لایا ہوں۔‘‘
’’غالباً کوئی قصیدہ لکھ کر لائے ہوں گے‘‘، عالمگیرؒ نے قیاس سے کہا۔
’’جی ہاں، میں ایک قصیدے پر آ پ سے دادِ تحسین کا طلب گار ہوں۔‘‘
’’اس قصید ے میں میری تعریف ہوگی؟‘‘، اورنگ زیب نے پوچھا۔
ملا صالح نے مسکرا کر کہا: ’’آپ کی تعریف کون بیان کر سکتا ہے۔ ہاں کچھ کہنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
عالمگیرؒ نے کہا: ’’استاذ محترم، شاید آپ کو یہ معلوم نہیں کہ ہم اپنی تعریف کو پسند نہیں کرتے۔ آپ ہمارے استاد ہیں۔ آپ کا ہم پر حق ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم آ پ کی مدد کریں۔ آپ کے لیے یہ زیب نہیں دیتا کہ آپ ہماری جھوٹی سچی تعریف کر کے کچھ حاصل کریں۔‘‘
یہ کہہ کر بادشاہ نے حکم دیا کہ ان کو اتنا اتنا دے دیا جائے۔
جو کچھ دیا گیا، وہ ان کی توقعات سے بہت کم تھا۔ اپنی سلطنت کو عمر فاروق، علی مرتضٰی، عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہم اور ناصر الدینؒ کے انداز پر چلانے کی کوشش کرنے والے عالمگیر سے یہ توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ بیت المال کی آمدنی کو بے دریغ خرچ کریں۔ جو شخص دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کا مالک ہو کر خود قرآن لکھ کر اور ٹوپیاں کاڑھ کر روزی کماتا ہو، وہ بیت المال کا سرمایہ کسی کی خوشنودی کے لیے کس طرح لٹا سکتا تھا۔
ملا محمد صالح نے یہ انعام واکرام اپنی توقعات سے کم دیکھا تو کہا، ’’جب آپ میرا حق اپنے اوپر تسلیم کرتے ہیں تو میں یہ عرض کروں گا کہ جو کچھ مجھے عطا کیا جا رہا ہے، وہ میرے حق سے بہت تھوڑا ہے۔‘‘
عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات سنی تو چہرہ سرخ ہو گیا لیکن انہوں نے استاد کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے نہایت متانت وسنجیدگی سے کہا:
’’استاد محترم! اگر حق کا سوال ہے کہ تو ہم بھی ذرا زیادہ وضاحت اور صاف گوئی سے کام لیں گے۔ ہمیں اس بات کا اعتراف ہے کہ آپ نے ہمیں تعلیم دی لیکن اس بات میں کلام ہے کہ آپ نے جو تعلیم ہمیں دی تھی، وہ صحیح تھی۔ شاید آپ دربار میں کوئی عہدہ چاہتے ہوں گے یا جاگیر کے متمنی ہوں گے۔ ہم ضرور عہدہ بھی دیتے اور جاگیر بھی بشرطیکہ آپ ہمارے قلب کو شائستہ تعلیم سے منور ومعمور کرتے۔ آپ نے ہماری قیمتی عمر عربی صرف ونحو سکھانے میں برباد کی یا فلسفہ کے لایعنی اور لغو مسائل سے ہمارا دماغ پریشان کیا۔ آپ نے ہمیں ایسی تعلیم دی جس سے دین کا فائدہ ہوا نہ دنیا کا۔ آپ نے ہماری نوعمری کا وہ بیش قیمت وقت لغو باتوں اور بے سود اور بے لطف الفاظ سیکھنے سکھانے میں تلف کر دیا جو نہایت کارآمد باتیں سیکھنے میں صرف ہو سکتا تھا۔ آپ نے یہ نہ سمجھا کہ بچپن کا زمانہ ایسا ہوتا ہے جب حافظہ قوی ہوتا ہے۔ ہزاروں مذہبی اور عقلی احکام آسانی سے ذہن نشین ہو سکتے ہیں۔ اس وقت ایسی تعلیم ہو سکتی ہے کہ دل ودماغ میں اعلیٰ درجہ کے خیالات پیدا ہوں، حوصلے بڑھیں، بڑے بڑے کام کرنے کی قابلیت آئے۔
آپ نے سالہا سال تک عربی صرف ونحو کی تعلیم دی، حالانکہ اس کے لیے صرف ایک سال کافی تھا۔ پھر آپ نے فلسفہ پڑھایا جس کے مسائل توہمات بڑھاتے ہیں۔ ایسے مشکل اور ادق ہوتے ہیں کہ بڑی مشکل سے سمجھ میں آتے ہیں اور آسانی سے دماغ سے محو ہو جاتے ہیں۔ جن کا نتیجہ کچھ نہیں، اگر ہے بھی تو صرف اتنا کہ دماغ پراگندہ ہو جائے اور عقل چکرا جائے۔ آدمی منہ پھٹ، زبان دراز، ہٹ دھرم اور بد اعتقاد بن جائے۔ ایسی لا یعنی گفتگو کرنے لگے کہ لوگ تنگ آ جائیں۔ بتائیے کیا آپ نے ہمیں فلسفی نہیں بنایا؟ ....... کیا میرے لیے اتنا کافی نہیں تھا کہ میں نماز پڑھنے کے لیے قرآن شریف حفظ کر لیتا، ایک سال میں اتنی عربی پڑھ لیتا کہ اس میں گفتگو کر سکتا۔ پھر آپ نے کیوں میری عمر کا بہترین زمانہ برباد کیا؟
آپ نے مجھے بتایا کہ سارا افرنگستان (Europe) ایک جزیرے سے بڑا نہیں ہے جس میں سب سے زیادہ طاقتور کسی زمانے میں پرتگال کا بادشاہ تھا، اس کے بعد ہالینڈکا بادشاہ ہوا اور اب انگلینڈ کا بادشاہ ہے۔ آپ نے بتایا کہ فرانس کا بادشاہ اور انڈونیشیا کا بادشاہ ہمارے باج گزار کسی راجہ کے برابر ہیں۔ آپ نے بتایا کہ ہمارے باپ دادا---- اکبر، جہانگیر اور شاہ جہاں----کشور ہندوستان اور سارے جہاں کے بادشاہ ہیں۔ کیا آپ کی تاریخ وجغرافیہ دانی اسی قدر تھی کہ جن باتوں کو آپ نہیں جانتے تھے، انہیں غلط طریقہ پر مجھے بتائیں؟
استاذ محترم! آپ کا یہ فرض تھا کہ مجھے دنیا کے ہر حصے کے جغرافیہ سے آگاہ کرتے، یہ بتاتے کہ کون سا ملک کہاں واقع ہے، ان کی قدرتی حفاظت کے کیا ذرائع ہیں، کہاں کیا پیدا ہوتا ہے، کس چیز کی کانیں کس ملک میں ہیں، کس ملک میں کتنا بڑا دن ہوتا ہے اور کتنی بڑی رات، کس ملک میں بارش کب اور کیوں ہوتی ہے، کس قوم کے آئین جنگ کیا ہیں، سمندر کی وسعت کیا ہے، اس میں جزیرے کہاں کہاں ہیں اور کتنے، پہاڑوں کی تخلیق کیسے ہوتی ہے اور ان کے کیا فائدے ہیں، موسم کے بدلنے کی کیا وجوہ ہیں، کس بات کی احتیاط لازم ہے۔ آپ مجھے تاریخ پڑھاتے اور بتاتے کہ کس قوم نے کیسے ترقی کی اور اس کی تنزلی کے کیا اسباب ہوئے، کس بادشاہ نے فتوحات کیسے اور کتنی حاصل کیں، اور کن حادثوں سے اس کی سلطنت تباہ ہوئی، اس کا آئین حکمرانی کیا تھا اور آمدنی کے وسائل کیا تھے۔ آپ ان حادثات اور انقلابات سے ہم کو واقف کرتے جن سے قومیں یا سلطنتیں تباہ ہو گئی ہیں۔ افسوس آپ نے ہم کوبنی آدم کی وسیع اور کامل تاریخ سے آگاہ نہ کیا ۔ اور تو اور، ہمارے نامور بزرگوں کے نام تک بھی نہ بتائے۔ ان کے حالات سے آگاہ نہ کیاجو سلطنت کے بانی تھے۔ آپ نے ان کی سوانح عمریوں کا کوئی تذکرہ نہ کیا جنہوں نے اپنی خداداد ذہانت اور شجاعت سے عظیم الشان فتوحات حاصل کیں حالانکہ ایک شاہزادے کے لیے ان باتوں کا جاننا ضروری تھا۔ تاریخ ہی ایک ایسا علم ہے جس سے عقل بڑھتی ہے اور دل ودماغ میں روشنی پیدا ہوتی ہے۔ بتائیے آپ نے مجھے کیا سکھایا، مجھے آپ کا کس قدر احسان مند ہونا چاہیے؟
کاش، آپ مجھے ایسا سبق پڑھاتے جس سے انسان کے نفس کو ایسا شرف وعلو حاصل ہو جاتا کہ دنیا کے انقلابات سے متاثر نہ ہوتا۔ ترقی اور تنزلی کی حالت میں ایک سا ہی رہتا۔ نہ ترقی کی خوشی ہوتی نہ تنزلی کا غم۔ آپ مجھے ایسے استدلال کا عادی بناتے کہ تصورات او ر تخیلات کو چھوڑ کر ہمیشہ اصول صادقہ کی جانب رجوع کیا کرتا اور علم دین کے حقائق سے مجھے مطلع کرتے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم آپ کا ایسا احسان مانتے جیسا سکندر نے ارسطو کا مانا تھا۔ ہم ارسطو سے زیادہ آپ کی عزت کرتے اور سکندر سے زیادہ آپ کو انعام دیتے۔
ملا جی ! آپ نے تو ہم کو یہ بھی نہ بتایا کہ ایک بادشاہ کو رعایا کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے۔ ہم ایک شہنشاہ کے فرزند تھے۔ ضرورت تھی کہ آپ ہم کو جہاں بانی کے آئین سکھاتے، فنون حرب کی تعلیم دیتے، صف آرائی کا طریقہ سکھاتے، لشکر کو ترتیب دینے اور قلعوں کو توڑنے کی تعلیم دیتے۔ آپ نے تو ہمیں سب باتوں سے ناواقف رکھا۔ اگر خدا کی مدد شامل حال نہ ہوتی اور ہم اپنے فہم وذکا سے خود ہی کچھ نہ سیکھ لیتے تو آج بالکل کورے ہوتے اور کچھ بھی نہ کرسکتے۔ ہم کو جو کچھ بھی ملا ہے وہ ہمارے رب کا احسان ہے۔ اس پاداش میں کہ تم نے ہماری نوعمری کا بہترین زمانہ فضول باتوں میں ضائع کیا، تم سے سختی سے بازپرس کی جائے تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔‘‘
عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کے یہ خیالات سن کر جتنے بھی علما اور امرا حاضر تھے، سب دنگ رہ گئے۔ استاد کے فرائض، اس کی تعلیم، معیار، فلسفہ کے متعلق عالمگیرؒ کا نظریہ اصلی اور حقیقی تعلیم کی تحصیل کا خیال کتنا وسیع تھا، اس سے نہ صرف سب لوگ حیران ہوئے بلکہ شرمندہ بھی ہوئے۔ عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں اساتذہ کی اس کمی کا بڑا درد تھا
شکایت ہے مجھے یا رب ! خداوندان مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
(ماخوذ از ’’پراسرار بندے‘‘، مطبوعہ طیب اکیڈمی، ملتان)
مسیحیوں اور مسلمانوں کے خلاف یہودی سازش
عطأ الحق قاسمی
پاکستان میں ایک عرصے سے ’’را‘‘ اور ’’موساد‘‘ مل کر جو تخریبی کارروائیاں کرتے چلے آ رہے ہیں، ان میں سے بہاول پور کے چرچ میں اپنی عبادت میں مصروف مسیحیوں پر فائرنگ کی واردات پہلی واردات ہے جو ان کے مذموم مقاصد کے نقطہ نظر سے بھرپور ہے۔ اس سے پہلے اہل سنت اور اہل تشیع کی مساجد میں نمازیوں پر فائرنگ ہوتی رہی ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے ان دو بڑے فرقوں میں فسادات کرانا تھا مگر ان وارداتوں کا الٹا اثر ہوا۔ ان دونوں فرقوں کے عوام مشتعل ہو کر گلی کوچوں میں باہم دست وگریباں ہونے کے بجائے ایک دوسرے کے قریب آ گئے۔ وہ سمجھ گئے کہ باری باری ایک دوسرے کی مساجد پر فائرنگ کرنے والا گروہ ایک ہی ہے اور وہ دونوں کا مشترکہ دشمن ہے۔ اگر دشمن کا یہ منصوبہ کامیاب ہو جاتا تو پورے ملک میں شیعہ سنی فسادات کی آگ بھڑک اٹھتی مگر خدا کا شکر ہے کہ ہر بار فائرنگ کے بعد دشمن فسادات کا انتظار کرتا رہا اور اسے کہیں سے کبھی کوئی ’’اچھی‘‘ خبر نہ مل سکی۔
اس محاذ سے مایوس ہو کر اب دشمن ہمارے مسیحی بھائیوں کی طرف متوجہ ہوا ہے اور اس نے سولہ مسیحیوں کو چرچ میں سروس کے دوران اندھا دھند فائرنگ سے بھون کر رکھ دیا۔ اس نے انتہائی خطرناک موقع پر انتہائی خطرناک کھیل کھیلا۔ وہ اس سے بیک وقت کئی مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کا ایک مقصد مسیحی اور مسلمان بھائیوں کے درمیان منافرت کی دیوار کھڑی کرنا ہے تاکہ ان میں موجود باہمی دوستی اور محبت کی فضا کو باہمی نفاق میں تبدیلی کیا جا سکے اور یوں پاکستان کے ان سپاہیوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر کے پاکستان کو کمزور کیا جائے۔ یہودی آغاز اسلام سے ہی مسلمانوں اور مسیحیوں کو ایک دوسرے سے بھڑانے کے لیے کوشاں رہے ہیں چنانچہ قرآن مجید میں بار بار یہودیوں کو سازشیں کرنے پر متنبہ کیا گیا ہے مگر یہ گروہ اپنی حرکتوں سے کبھی باز نہیں آیا۔ اس کے اسی سازشی کردار کی بنا پر دنیا کے مختلف ملکوں میں انہیں مار پڑی اور ان کی موجودہ مضبوط پوزیشن کے باوجود مستقبل میں بھی ان کی درگت یقینی نظر آتی ہے۔
افغانستان پر امریکی حملوں کے حوالے سے پاکستانی حکومت نے جو ’’کردار‘‘ اپنایا ہے، اس پر اسے ڈالروں میں ’’ویلیں‘‘ مل رہی ہیں اور ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف ’’عالمی اتحاد‘‘ میں شامل ہونے پر مغربی ممالک ’’شاباش‘‘ الگ دے رہے ہیں جب کہ بھارت اور اسرائیل پاکستان کو بہرصورت ایک ایسا دہشت گرد ملک ثابت کرنا چاہتے ہیں جہاں ’’جنونی مسلمان‘‘ رہتے ہیں۔ چرچ میں بے گناہ مسیحیوں پر فائرنگ کر کے را اور موساد نے مغربی مسیحی ممالک کو یہی پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ اس گھٹیا اور غلیظ حرکت کا ایک مقصد امریکی بمباری سے ہلاک اور زخمی ہونے والے معصوم بچوں کی طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹانا بھی ہے اور شاید ایک مقصد پاکستانی حکومت پر دباؤ بڑھانا بھی ہے تاکہ اگر وہ کسی پوائنٹ پر کمپرومائز کے لیے تیار نہ ہو تو اسے اس کے لیے بھی تیار کیا جا سکے۔
ان تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے دفتر خارجہ کو اپنی اسٹریٹجی تیار کرنی چاہیے اور متوقع پراپیگنڈے کا توڑ کرنا چاہیے۔ اندرون ملک علما نے بروقت اس دہشت گردی کی پرزور مذمت کی ہے اور مسیحی رہنماؤں نے بھی تدبر اور بردباری کا ثبوت دے کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ دشمن کی چالوں کو سمجھتے ہیں۔ وزیر مذہبی امور اور وزیر اقلیتی امور نے بہاول پور جا کر پس ماندگان سے اظہار تعزیت کیا ہے۔ بہت ہی اچھا ہو اگر قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمن، مولانا نورانی اور مولانا سمیع الحق کے علاوہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی لواحقین سے اپنی دلی ہم دردی کا اظہار لواحقین کو اپنے سینے سے لگا کر کریں۔ مسیحی ہمارے بھائی ہیں اور بھائیوں کے دکھ درد میں شامل ہونا ہر پاکستانی کا فرض ہے۔
(بشکریہ روزنامہ جنگ لاہور)
ارباب علم ودانش کے لیے لمحہ فکریہ
ابو سلمٰی
۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں پاک فوج کی شجاعت کی شہرت چار دانگ عالم میں پھیل گئی جس سے عالم اسلام میں مسرت کی لہر دوڑ گئی اور کفر کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی۔ ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد صہیونی حکومت نے پاکستان کو دشمن نمبر ایک کہا اور اس کے خلاف خفیہ سازش شروع کر دی جو سقوط ڈھاکہ کی صورت میں نمودار ہوئی۔
۱۹۷۱ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان میں اور عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں کوئی امیدوار نامزد نہیں کیے۔ دونوں جماعتوں نے سیاسی حقوق کی پامالی اور مالی بحران کے الزامات ایک دوسرے پر عائد کیے تو صوبائی تعصب اسلامی رشتے پر غالب آ گیا۔ دونوں جماعتیں بھاری اکثریت سے اپنے اپنے صوبوں میں کامیاب ہوئیں۔ خفیہ ہاتھوں نے اقتدار کی خاطر دونوں کو ہٹ دھرمی کا لقمہ دیا۔ اقتدار کی جنگ جس دور میں شروع ہوئی، اس وقت وطن عزیز میں فوجی حکومت تھی۔ طاغوتی عناصر نے وطن عزیز کی فوجی قیادت سے انتقام بھی لے لیا اور اس کے کردار کو پاکستان کے عوام اور عالم اسلام میں رسوا بھی کر دیا۔
اس کے بعد مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں میں صوبائی تعصب ابھارنے کے لیے علاقائی پارٹیاں معرض وجود میں آ گئیں تو صوبائی خود مختاری کے مطالبے منظر عام پر آ گئے۔ سندھ کے دیہی علاقوں میں سندھو دیش، کراچی کو الگ صوبہ، سرحد میں پختونستان، بلوچستان میں مرکز کے خلاف آہ وپکار، جنوبی پنجاب میں سرائیکی صوبے کا مطالبہ اور پنجاب بھر میں ’’جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ‘‘ کے نعرے لیڈروں کی زبان سے نکل کر عوام میں پھیل گئے۔
وطن عزیز کے محب وطن عناصر کی مساعی جمیلہ سے مغربی پاکستان کے صوبوں میں مشرقی پاکستان کی طرح خانہ جنگی کے حالات پیدا نہ ہو سکے۔ البتہ پاکستان نے جس کے نادیدہ اشارے پر روسی فوج کو افغانستان سے بھگانے میں اہم کردار ادا کیا، اسی صہیونی قوت کی ہٹ لسٹ پر سرفہرست آ گیا اور پاکستان کو نامور فوجی جرنیلوں کی قیادت سے محروم کر دیا گیا۔
پھر وطن عزیز میں جمہوری حکومتوں کے یکے بعد دیگرے شارٹ ٹرم سلسلہ شروع ہوا۔ اس دوران میں اسلام نافذ ہوا اور نہ عوام کے روزہ مرہ زندگی کے مسائل حل ہوئے بلکہ مسلسل مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی تو لوگ جمہوری نظام سے بھی مایوس ہو گئے۔
معاہدۂ واشنگٹن کی وجہ سے پاک فوج کی کارگل کی چوٹیوں سے پسپائی اور پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر کے افغانستان پر امریکی حملے سے عوام میں حکومت کے خلاف نفرت کے جذبات ابھر آئے تو اسلامی انقلاب کے داعی جولائی ۹۹۹ء۱ میں منظر عام پر آ گئے۔ آب پارہ چوک اور مسجد شہدا میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اس کا بین ثبوت ہے۔
جب اس قسم کے حالات پیدا ہو جائیں تو مذہبی قیادت کو برسراقتدار آنے سے روکنے کے لیے صہیونی قوت کون سالائحہ عمل اختیار کرتی ہے؟ امریکی سی آئی اے کے تجزیہ نگار گراہم ای فلر کی رپورٹ کی آخری شق پیش خدمت ہے:
’’فوج کو اسلامی تحریکوں کو کچلنے کے لیے استعمال کیا جائے اور جب یہ دیکھا جائے کہ ان ممالک میں اسلامی اور مسلم تشخص رکھنے والی کوئی سیاسی جماعت اور اس کا قائد عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ان کے دل کی دھڑکن اور آنکھوں کا تارا بن چکا ہے اور عوامی حمایت اور تعاون کا سیلاب بلا خیز اسلامی تشخص اور پس منظر رکھنے والی سیاسی جماعت کے قائد کے اشاروں کا منتظر ہے اور وہ وقت آیا ہی چاہتا ہے کہ اسلام پسند عوامی قوت کا سیلاب سیکولر اور مغربیت زدہ حکمرانوں کی حکومتوں کو تنکوں کی طرح بہا لے جائے گا تو فوجی انقلاب کے ذریعے سے حکومت کا دھڑن تختہ کروا دیا جائے اور اسلام پسند قوتوں کا راستہ روک دیا جائے۔‘‘ (ہفت روزہ چٹان، لاہور ۔ ۳۱ اگست ۱۹۹۴ء۔ بحوالہ رواداری اور مغرب ص ۲۸۰)
اسلامی انقلاب کا راستہ روکنے کے لیے فلر کی ترکیب پر عمل کیا گیا۔ ایک کو سبک دوش کرنے اور دوسرے کو قبضہ کرنے کا اشارہ دے کر عراق، کویت کا ڈرامہ دہرایا گیا۔
پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں اسماعیلی اسٹیٹ بنانے کی سرگرمیاں پہلے ہی سے جاری تھیں کہ اچانک گوجرانوالہ کو عیسائی اسٹیٹ اور سیالکوٹ شکر گڑھ کو قادیانی اسٹیٹ بنانے کی خبروں کا ایک دن اخبار میں شائع ہونا اور دوسرے دن تردید اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ فکر دامن گیر ہوئی کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ مگر ضلعی حکومتیں قائم کرنے کی پالیسی نے یہ معما حل کر دیا۔ مسلم پاکستانی کے بجائے سندھی، پنجابی کی صوبائی پہچان معروف تھی۔ اب اس کا گراف سیالکوٹی، ملتانی ضلعی سطح پر آ جائے گا۔ پھر یہ خبریں منظر عام پر آئیں گی کہ ہمارا ضلع معدنیات سے مالا مال ہے، کوئی کہے گا کہ ہمارا ضلع زرعی پیداوار میں خود کفیل ہے۔ پھر یہی کہیں گے کہ ہمیں مرکز سے کچھ نہیں ملتا۔ یہی نفرت کے جذبات ضلعی خود مختاری کے مطالبے تک پہنچ جائیں گے۔ خدا نخواستہ ضلعی حکومتوں کو غیر مسلم این جی اوز سے براہ راست قرضے لینے کے معاہدے کرنے کا اختیار مل گیا تو تعمیر وترقی کی آڑ میں ضلعی حکومتیں قرضوں کی دلدل میں پھنس جائیں گی۔ پھر وہی ہوگا جو این جی اوز آرڈر دیں گی۔
پھر کیا ہوگا؟ گوجرانوالہ میں عیسائیوں اور سیالکوٹ میں مرزائیوں کو آباد کرنے کی مہم شروع ہو جائے گی۔ پھر ضلعی خود مختاری کا مطالبہ شدت اختیار کر جائے گا تو یہ معاملہ اقوام متحدہ تک پہنچے گا اور این جی اوز کو اقوام متحدہ سے استصواب رائے کی قرارداد پر عمل کرنے میں دقت پیش نہیں آئے گی۔ اس دوران میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مقبوضہ کشمیر یا کسی ایک حصے میں استصواب رائے کی قرارداد پر عمل ہوا تو مستقبل میں اقوام متحدہ کو اپنی نگرانی میں پاکستان کے اندر ضلعی خود مختاری کی قرارداد پر عمل کرنا آسان ہو جائے گا۔ یہی عالم اسلام کی ایٹمی قوت کو ریزہ ریزہ کرنے کی سازش ہے اور مرزائیوں کا اکھنڈ بھارت قائم کرنے کا خواب ہے اور ۲۰۲۵ء تک اسلام کو مغلوب کرنے کے صہیونی منصوبے کا حصہ ہے۔ یہ کس دور میں شروع ہوا؟ طریقہ واردات کیا ہے۔ ارباب علم ودانش کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
(بشکریہ ہفت روزہ الاعتصام لاہور)
ورلڈ اسلامک فورم کا سالانہ اجلاس
ادارہ
ورلڈ اسلامک فورم کی مرکزی کونسل نے افغانستان کے خلاف امریکہ کی جنگ کو مغربی تہذیب وثقافت کی بالادستی قائم کرنے اور دنیا بھر کے وسائل پر قبضہ کرنے کی جنگ قرار دیتے ہوئے جنگ کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ لیگ آف نیشنز کی طرح اقوام متحدہ بھی عالمی امن کے قیام میں ناکام ہو گئی ہے اس لیے اسے ختم کر کے موجودہ معروضی عالمی حقائق کی بنیا دپر اقوام عالم کے درمیان ایک نئے معاہدے اور اشتراک کی راہ ہموار کی جائے۔
مرکزی کونسل کا سالانہ اجلاس ۴ نومبر کو جامع مسجد سٹینلی روش آکسفورڈ میں ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں مولانا زاہد الراشدی، مفتی برکت اللہ، طٰہٰ قریشی، مولانا رضاء الحق سیاکھوی ، مولانا قاری عمران جہانگیری، مولانا محمد اکرم ندوی، مولانا محبوب الٰہی، مولانا محمد قاسم، مولانا محمد ریاض اور جناب مسرور احمد نے شرکت کی۔
فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا رضاء الحق سیاکھوی نے اجلاس میں فورم کی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ورلڈ اسلامک فورم کا بنیادی مقصد عالم اسلام کے مسائل کی طرف اصحاب علم وفکر اور علمی ودینی مراکز کو توجہ دلانا اور ان کے حل کے لیے علمی وفکری جدوجہد کرنا ہے جس کے لیے مختلف جماعتوں اور راہ نماؤں کے ساتھ رابطوں اور ملاقاتوں کے علاوہ خصوصی اجتماعات اور مجالس کا انعقاد کیا گیا اور بعض کتابچے اور مضامین بھی شائع کیے گئے تاہم جو کچھ ہونا چاہئے تھا، اس کا اہتمام نہیں ہو سکا اور آئندہ اس کی تلافی کی جائے گی۔
اجلاس میں افغانستان کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگ کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا گیا اور ایک اعلامیہ میں کہا گیا کہ امریکہ اس جنگ کے ذریعے سے افغانستان کی اسلامی نظریاتی حکومت کو ختم کرنا چاہتا ہے، پاکستان اور دیگر مسلمان ممالک کی اسلامی تحریکات کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہے اور وسطی ایشیا میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر پر قبضہ کرنے کا عرصہ سے خواہش مند ہے لیکن وہ اپنی جنگ کے اصل مقاصد کے اظہار کی اخلاقی جرات سے محروم ہے اور اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا عنوان دے کر دنیا کو دھوکا دے رہا ہے اس لیے یہ جنگ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا پر مغربی تہذیب وثقافت کی بالادستی قائم کرنے اور معاشی وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے لڑی جا رہی ہے اور اسے فی الفور بند ہونا چاہیے۔
اعلامیہ میں اقوام متحدہ کے کردار کو انتہائی افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عالمی امن کے قیام میں لیگ آف نیشنز کی ناکامی کے بعد اقوام متحدہ کا قیام اس مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا تھا کہ دنیا بھر کی اقوام کے درمیان انصاف اور مساوات کا اہتمام کر کے جارحیت کے ارتکاب کو روکا جائے اور عالمی امن کو تحفظ فراہم کیا جائے لیکن اقوام متحدہ اپنے نصف صدی کے کردار کے حوالے سے لیگ آف نیشنز سے بھی زیادہ ناکام ادارہ ثابت ہوا ہے اور وہ دنیا پر جارحانہ قبضے کے خواہش مند امریکی کیمپ کے ذیلی ادارے کی حیثیت اختیار کر گئی ہے اور اس نے مظلوم اقوام کے خلاف جارحیت کا راستہ روکنے کے بجائے حملہ آور ملکوں کو جارحیت کے ارتکاب کے لیے این او سی جاری کرنے کا کاروبار سنبھال لیا ہے اس لیے اس ادارے کے باقی رہنے کا کوئی جواز موجود نہیں رہا اور اسے ختم کر کے اس کی جگہ موجودہ عالمی صورت حال اور معروضی حقائق کی بنیاد پر اقوام عالم کے درمیان ایک نئے معاہدے اور ایک نئے عالمی فورم کی تشکیل ناگزیر ہو گئی ہے جس کی بنیاد کسی ایک گروہ کی اجارہ داری اور اس کے مفادات کی بالادستی کے بجائے دنیا کی تمام اقوام کے درمیان انصاف کے قیام اور تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کے یکساں احترام وتحفظ پر ہو کیونکہ اس کے بغیر دنیا کو اس عالم گیر تباہی سے نہیں بچایا جا سکتا جسے نسل انسانی پر مسلط کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی چھتری تلے امریکی کیمپ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔
اعلامیہ میں جی ایٹ (G8) کی طرف سے عالمگیریت اور گلوبلائزیشن کے پروگرام کو عالمی نوآبادیات کا ایک نیا ایڈیشن قرار دیا گیا جس کا مقصد پوری دنیا کے وسائل اور ذخائر پر آٹھ ملکوں کے قبضہ اور کنٹرول کی راہ ہموار کرنا ہے اور غریب اقوام وممالک کو غلامی کے ایک نئے شکنجے میں جکڑنا ہے ا س لیے اس کے خلاف دنیا کی مظلوم اقوام کو متحدہو جانا چاہیے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ یہ بات بھی محض فریب ہے کہ عالمگیریت اور بین الاقوامیت کا آغاز اب کیا جا رہا ہے اور مغربی ممالک اس کا آغاز کر رہے ہیں اس لیے کہ انسانی معاشرے کو رنگ ونسل اور علاقہ اور دیگر محدود امتیازات سے نجات دلاتے ہوئے پوری نسل انسانی کے لیے ایک دین، ایک فلسفہ اور ایک نظام حیات کا اعلان اب سے ڈیڑھ ہزار سال قبل خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا اور وہی انسانی سوسائٹی میں عالمگیریت اور گلوبلائزیشن کا نقطہ آغاز تھا جس کے بعد صدیوں تک دنیا کی مختلف اقوام اور ممالک نے خلافت کے تحت ایک نظام اور فلسفہ کے مطابق باہمی احترام کے ساتھ زندگی بسر کی ہے لیکن مغرب صرف طاقت اور پراپیگنڈے کے زور پر اسلام کے اس اعزاز اور کریڈٹ کو ہائی جیک کرنا چاہتا ہے جس کا عالم اسلام کے علمی وفکری حلقوں کو سنجیدہ نوٹس لینا چاہیے۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ امریکی کیمپ نے اپنے سیاسی، تہذیبی اور معاشی مقاصد کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان سے ایک نئی عالمگیر جنگ شروع کر دی ہے اور اقوام متحدہ نے اسے این او سی بھی جاری کر دیا ہے لیکن دہشت گردی کا کوئی متعین مفہوم طے کرنے کے بجائے اسے مبہم چھوڑ دیا گیا ہے جو ایک خطرناک سازش ہے جس کے ذریعے سے دہشت گردی اور تحریکات آزادی کو آپس میں خلط ملط کیا جا رہا ہے تاکہ دنیا کی کسی بھی تحریک اور جدوجہد کو دہشت گرد قرار دینے کا اختیار حملہ آور مغربی قوتوں کے اپنے ہاتھ میں رہے اور وہ دنیا کے جس گروہ اور تحریک کو چاہیں، دہشت گرد قرار دے کر اسے جارحیت کا نشانہ بنا ڈالیں۔ اس سے دنیا بھر کی تحریکات آزادی کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے اور مظلوم اقوام وممالک کی آزادی اورخود مختاری سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ دہشت گردی کی واضح تعریف کی جائے اور دہشت گردی اور جہاد وآزادی کے درمیان فرق متعین کیا جائے ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ امریکی کیمپ آزادی کی تحریکات کو دہشت گردی کا نام دے کر جارحیت کا نشانہ بنانا چاہتا ہے اور ظالم وغاصب قوموں کے جبر واستحصال میں ان کا کھلم کھلا سرپرست ومعاون بن گیا ہے۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ نے فلسطین، کشمیر، چیچنیا اور عراق اور افغانستان وغیرہ میں نہتے شہریوں کے قتل عام اور ان پر ظالم وغاصب قوتوں کی وحشیانہ جارحیت پر جو مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اقتصادی ناکہ بندی اور بمباری کے ذریعے سے لاکھوں انسانوں کے قتل اور عورتوں اور بچوں کی ہلاکت پر جس طرح آنکھیں بند کر لی ہیں، اس کے بعد انصاف ، امن اور داد رسی کے حوالے سے اقوام متحدہ سے کوئی امید باقی نہیں رہی اور یہ واضح ہو گیا ہے کہ سینٹ اور کانگریس کی طرح اقوام متحدہ بھی امریکہ ہی کا کوئی ادارہ ہے جو دنیا بھر میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جارحیت اور بالادستی کی راہ ہموار کرنے کے لیے مصروف کار ہے۔
اعلامیہ میں مسلم سربراہ کانفرنس کی تنظیم کے کردار کو انتہائی افسوس ناک قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ دو تین کو چھوڑ کر باقی تمام مسلم حکمران ملت اسلامیہ اور اپنے ملکوں کے عوام کی نمائندگی کرنے کے بجائے امریکی کیمپ کی نمائندگی کر رہے ہیں اور مغربی ملکوں کو عالم اسلام اور اپنے ملکوں کے جذبات واحساسات سے باخبر کرنے اور ان کے احترام پر آمادہ کرنے کے بجائے مغربی حکمرانوں کے خواہشات اور ایجنڈے کے مطابق اپنے عوام بالخصوص دینی حلقوں کو دبانے اور ریاستی جبر کا نشانہ بنانے میں مصروف ہے اور مسلم سربراہ کانفرنس کی تنظیم کو بھی انہوں نے اقوام متحدہ کی طرح بالادست اور جارح قوتوں کے مفادات کا محافظ بنا دیا ہے۔ اس لیے وقت آ گیا ہے کہ اسلامی سربراہ کانفرنس کی افادیت کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور مسلم سربراہوں کا ہنگامی اجلاس طلب کر کے اس میں دوٹوک فیصلہ کیا جائے اور اگر یہ ادارہ عالم اسلام کے مفادات اورمسلمانوں کی مشکلات میں کوئی موثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو اسے فوری طور پر ختم کر کے ملت اسلامیہ کو اس سنگین مذاق سے نجات دلائی جائے۔
ورلڈ اسلامک فورم کی مرکزی کونسل نے اپنے سالانہ اجلاس میں فیصلہ کیا کہ اعلامیہ میں مذکور مقاصد کے حصول اور اس کے لیے عالم اسلام کے دینی، سیاسی اور علمی حلقوں کو آمادہ کرنے کی غرض سے مہم چلائی جائے گی جس کے لیے ایک سال کا شیڈول طے کیا گیا ہے اور اس پر عمل درآمد کے لیے مولانا محمد عیسیٰ منصوری، مولانا مفتی برکت اللہ ، مولانا رضاء الحق سیاکھوی، مولانامحمد اکرم ندوی اور جناب طٰہٰ قریشی پر مشتمل پانچ رکنی ورکنگ کمیٹی قائم کی گئی ہے۔
اجلاس میں مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے موقف اور جذبات کو دلیل اور منطق کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں اور اپنے اپنے ملکوں کے قوانین کی پابندی کرتے ہوئے اپنے جذبات اور موقف کے اظہار کے لیے تمام قانونی ذرائع اختیار کریں نیز اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کی حمایت وامداد کے لیے قانون کے اندر رہتے ہوئے جو کچھ بھی وہ کر سکتے ہیں، اس سے گریز نہ کریں۔ میڈیا تک رسائی کی کوشش کی جائے ۔ ہر علاقہ کے مسلمان دینی وسیاسی رہنما ارکان پارلیمنٹ سے ملاقاتیں کریں۔ دینی وسیاسی رہنماؤں سے روابط استوار کریں۔ جنگ کے مخالف عناصر کی آواز کو تقویت پہنچائیں۔ مشترکہ اجتماعات کا اہتمام کر کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اعتماد میں لیں۔ افغانستان اور دیگر مسلم ممالک کے بے گھر افراد اور خاندانوں کو مالی معاونت فراہم کریں۔ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں یک طرفہ طور پر پھیلائے جانے والے شکوک وشبہات کے ازالہ کے لیے کام کریں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عالم اسلام کی بہتری اور مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں۔
قافلہ میعاد
ادارہ
- برصغیر پاک وہند کے معروف عالم دین اور محدث حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری گزشتہ دنوں مدینہ منورہ میں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ انہوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ حدیث نبوی کی تدریس میں بسر کیا اور متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ کچھ عرصہ قبل ہجرت کر کے مدینہ منورہ چلے گئے تھے اور اپنے مخصوص ذوق کے مطابق مسلمانوں کی علمی ودینی راہ نمائی میں مصروف تھے۔
- مانسہرہ ہزارہ کے سرگرم اور مجاہد عالم دین مولانا سید منظور احدم شاہ آسی گزشتہ دنوں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ مدرسہ نصرۃ العلوم کے فاضل اور مدیر الشریعہ کے قریبی ساتھی تھے۔ انہوں نے مانسہرہ میں مجلس تحفظ ختم نبوت اور جمعیۃ علماء اسلام کے پلیٹ فارم پر مختلف دینی تحریکات میں سرگرم کردار ادا کیا اور مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی قدس اللہ سرہ العزیز کی سوانح وخدمات پر دو جلدوں میں ایک ضخیم کتاب بھی لکھی۔
- عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی نائب امیر حضرت مولانا سید نفیس الحسینی مدظلہ کے فرزند حافظ سید انیس الحسن شاہ زیدی گزشتہ دنوں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم ایک اچھے خوش نویس تھے اور حضرت شاہ صاحب مدظلہ کے اکلوتے بیٹے تھے۔
- مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے پرانے استاذ مولانا سید عطاء اللہ شاہ گزشتہ دنوں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کے پھوپھی زاد بھائی مولانا سید فتح علی شاہ مرحوم آف لمی (بٹل ہزارہ) کے فرزند تھے ۔ مدرسہ نصرۃ العلوم کے فاضل تھے اور مدرسہ کے سکول میں ایک عرصہ سے تدریسی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔
- کامونکی گوجرانوالہ کے معروف خوش نویس اور دینی کارکن حافظ محمد شوکت گزشتہ روز حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم مجلس تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ کے دفتر میں بیٹھتے تھے اور دینی تحریکات میں سرگرم حصہ لیتے تھے۔
ہم دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت ان سب مرحومین کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں۔ نیز پس ماندگان کو صبرجمیل کی توفیق دیں۔ آمین یا رب العالمین
تعارف و تبصرہ
ادارہ
’’سیرت سلطان ٹیپو شہیدؒ‘‘
سلطان فتح علی ٹیپو شہیدؒ اور ان کے والد محترم سلطان حیدر علیؒ جنوبی ایشیا میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور فرنگی استعمار کے تسلط کے خلاف مسلمانوں کی شاندار تحریک مزاحمت کا وہ روشن کردار ہیں جنہوں نے اس دور میں جنوبی ہند میں ایک اسلامی ریاست ’’سلطنت خداداد میسور‘‘ کے نام سے قائم کی اور فرنگی استعمار کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک کر اس خطہ کے مسلمانوں کو حوصلہ دیا کہ اگر وہ جذبہ ایمانی کے اظہار کے لیے متحد ہو جائیں تو اپنے وطن کی آزادی اور دینی تشخص کو استعماری حملہ آوروں کی یلغار سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے لیکن یہ مردمجاہد ۴ مئی ۱۷۹۹ء کو اپنوں کی غداری کے باعث سرنگا پٹم کے محاذ پر انگریزی فوجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گیا اور اس کے ساتھ ہی جنوبی ایشیا میں قائم ہونے والی یہ اسلامی ریاست بھی ختم ہو گئی۔ سلطان ٹیپوؒ کی شہادت پر انگریزی فوج کے کمانڈر جنرل ہارس نے شہید کی لاش پرکھڑے ہو کر اعلان کیا تھا کہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔‘‘ اور فی الواقع اس کے بعد مسلمانوں کے قدم جنوبی ایشیا میں کسی جگہ بھی انگریزی فوجوں کے آگے جم نہ سکے۔ سلطان ٹیپو شہیدؒ کے حالات زندگی اور خدمات پر یہ کتاب مفکراسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی خواہش پر اور ان کی نگرانی میں مولانا محمد الیاس ندوی نے لکھی ہے جس میں سلطان حیدر علیؒ اور سلطان ٹیپوؒ کے حالات زندگی کے ساتھ ساتھ ’’سلطنت خداداد میسور‘‘ کے قیام اور پھر سقوط کے اسباب پر تفصیلی بحث کی گئی ہے اور ہمار ے خیال میں امارت اسلامی افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ پیش آنے والے حالیہ واقعات کے پس منظر میں دینی کارکنوں کے لیے اس کتاب کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے۔ یہ کتاب مجلس تحقیقات اسلام ونشریات اسلام لکھنو نے شائع کی ہے اور چھ سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل اس مجلد کتاب کی قیمت ۱۰۰ روپے ہے۔
’’واردات و مشاہدات‘‘
ماہنامہ ’’الرشید‘‘ لاہور کے مدیر مولانا حافظ عبد الرشید ارشد کو قدرت نے واقعہ نگاری اور تذکرہ نویسی کا خصوصی ذوق عطا فرمایا ہے اور انہوں نے اسے اہل حق کے قافلہ علماء دیوبند کی خدمات وحالات کے لیے وقف کر کے اہل حق کی جدوجہد اور تگ وتاز کے اہم شواہد ومناظر کو تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ کرنے کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے۔ ’’بیس بڑے مسلمان‘‘ اور ’’بیس مردان حق‘‘ کے علاوہ ’’الرشید‘‘ کی متعدد خصوصی اشاعتوں کے ذریعے سے اس شعبہ میں جو کام انہوں نے تنہا سرانجام دیا ہے، وہ قابل رشک ہے اور اس پر ان کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔
انہوں نے مختلف اوقات میں ’’الرشید‘‘ میں شخصیات کے حوالے سے جو شذرات لکھے ہیں اور متعدد واقعات کے بارے میں اپنے مشاہدات وتاثرات کو وقتاً فوقتاً قلم بند کیا ہے، وہ اس دور کی دینی شخصیات اور تحریکات پر معلومات کا ایک خزانہ ہے جسے انہوں نے مذکورہ بالا عنوان کے تحت یکجا کر کے استفادہ کرنے والوں کے لیے آسانی پیدا کر دی ہے۔
آٹھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ خوب صورت اور مجلد کتاب حافظ صاحب موصوف کے مخصوص ذوق طباعت کی آئینہ دار ہے جس کی قیمت تین سو روپے ہے اور اسے مکتبہ رشیدیہ، ۲۵ لوئر مال، لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’مغربی میڈیا اور اس کے اثرات‘‘
دنیا بھر کے مسلمانوں کو شکایت ہے کہ مغربی میڈیا اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو کچھ پیش کر رہا ہے، وہ صحیح تصویر نہیں ہے بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کی مخصوص معاندانہ ذہنیت کی آئینہ دار ہے۔ مولانا نذر الحفیظ ندوی نے اسی شکایت کا محققانہ جائزہ لیا ہے اور مغربی میڈیا کے اہداف ومقاصد اور طریق کار کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر رونما ہونے والے اس کے اثرات کا تفصیلی نقشہ پیش کیا ہے۔ ہمارے خیال میں دینی جماعتوں کے راہ نماؤں اور کارکنوں بالخصوص ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے حضرات کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ وہ یہ بات صحیح طور پر سمجھ سکیں کہ مغربی میڈیا کون سا کام کر رہا ہے اور کس انداز سے کر رہا ہے تاکہ وہ اس کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں اور طریق کار کا ازسرنو جائزہ لے سکیں۔ یہ کتاب دار العلوم ندوۃ العلما لکھنو نے شائع کی ہے۔ اس کے صفحات چار سو سے زائد ہیں اور قیمت نوے روپے درج ہے۔
’’انسانی حقوق‘‘
جمعیۃ علماء اسلام صوبہ سرحد کے فاضل دانش ور مولانا محمد رحیم حقانی نے انسانی حقوق کے حوالے سے مغرب کی حالیہ مہم کے پس منظر میں جمعیۃ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے بعض معلومات خطابات کے ساتھ ساتھ اس موضوع پر بہت سی ضروری معلومات کو یکجا کر دیا ہے اور موجودہ حالات میں ایک اہم ضرورت کو ایک حد تک پورا کر دیا ہے۔
۱۳۶ صفحات کی اس مجلد کتاب کی قیمت ۵۰روپے ہے اور جمعیۃ پبلی کیشنز جامع مسجد پائلٹ سکول وحدت روڈ لاہور نے اسے شائع کیا ہے۔
مئی و جون ۲۰۰۱ء
اہلِ علم سے ایک گزارش
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
رمضان المبارک کے بعد ملک کے معروف دانشور جناب جاوید احمد غامدی اور ان کے تلامذہ کے ساتھ بعض علمی و دینی مسائل پر گفتگو کا سلسلہ چل نکلا تھا اور اس سلسلے میں دونوں طرف سے مضامین مختلف اخبارات و جرائد مثلاً روزنامہ جنگ، روزنامہ اوصاف، روزنامہ پاکستان، ماہنامہ اشراق اور ماہنامہ تجلیاتِ حبیب چکوال میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان مضامین کو الشریعہ کی زیرنظر اشاعت میں اہلِ علم کی خدمت میں یکجا پیش کیا جا رہا ہے۔ اربابِ علم و دانش سے گزارش ہے کہ وہ ان مضامین کا توجہ کے ساتھ مطالعہ کریں اور اگر کسی حوالے سے اپنی رائے کے اظہار کی ضرورت محسوس کریں تو اس سے ہمیں بلاتامل آگاہ فرمائیں۔ ہمارے خیال میں اس قسم کے مسائل پر آزادانہ علمی مباحثہ ضروری ہے کیونکہ اسی سے فکری الجھنوں کی گرہیں کھلتی ہیں اور اہلِ علم کے لیے کسی معاملے میں رائے قائم کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
امید ہے کہ یہ معمولی سی کاوش اربابِ علم و دانش کی توجہات اور حوصلہ افزائی سے محروم نہیں رہے گی۔ ضخامت میں اضافہ کے باعث زیرنظر شمارہ مئی اور جون ۲۰۰۱ء کا مشترکہ شمارہ ہو گا اور اگلا شمارہ جولائی کے آغاز میں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
گزشتہ دنوں ملک کی دو نامور دینی شخصیات (۱) جمعیۃ علماء پاکستان کے سربراہ مولانا عبد الستار خان نیازی اور (۲) جمعیۃ اہلِ حدیث پاکستان کے سرپرست مولانا محمد عبد اللہ دارفانی سے رحلت کر گئے۔ ملک میں دینی اقدار کے تحفظ و فروغ کے لیے دونوں حضرات کی خدمات لائقِ تحسین رہی ہیں۔ ان کے علاوہ حافظ آباد کے بزرگ عالم دین مولانا حکیم نور احمد یزدانی کا انتقال ہو گیا ہے جو جمعیۃ علماء اسلام کے ابتدائی راہنماؤں میں سے تھے۔ علاوہ ازیں گکھڑ کے معروف ادیب و دانش جناب شمس کاشمیری کا انتقال ہو گیا ہے، وہ ایک دیندار گھرانے کے دیندار فرد اور متعدد ادبی کتابوں کے مصنف تھے، کچھ عرصہ تک ایبٹ آباد سے ہزارہ ٹائمز کے نام سے ایک جریدہ بھی شائع کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے مولانا مفتی محمد اقبال کی والدہ محترمہ بھی رحلت فرما گئی ہیں۔
ہم ان سب مرحومین کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
حدیثِ رسولؐ پڑھنے اور پڑھانے کے آداب
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر
جس مجلس میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پڑھی یا بیان کی جا رہی ہو اس مجلس میں شوروغل برپا کرنا سخت بے ادبی ہے کیونکہ آپ کے ارشاد کا احترام بعد از وفات بھی ویسا ہی ضروری ہے جیسا کہ آپ کی حیات میں تھا۔
جلیل القدر محدث اور حضرت امام بخاریؒ کے استاد امام عبد الرحمٰن بن مہدیؒ (المتوفٰی ۱۹۸ھ) کا یہ معمول تھا کہ جب ان کے سامنے حدیث پڑھی یا سنائی جاتی تو وہ لوگوں کو خاموش رہنے کا حکم دیتے اور فرماتے: ’’لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی‘‘ کہ اپنی آوازوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر بلند نہ کرو۔ نیز فرماتے تھے کہ حدیث پڑھتے پڑھاتے وقت خاموش رہنا اسی طرح لازم ہے جس طرح آپ کے دنیا میں ارشاد فرمانے کے وقت لازم تھا۔ (مدارج النبوۃ ج ۱ ص ۵۲۹)
حافظ ابن القیمؒ (المتوفٰی ۷۵۱ھ) فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر اپنی آواز کو بلند کرنا جب موجبِ حبطِ اعمال ہے تو آپ کی سنت اور احکام کے مقابلے میں اپنی رائے، رسم و رواج اور بدعات پر عمل کرنا کیونکر اعمالِ صالحہ کے لیے تباہ کن نہ ہو گا۔ (اعلام الموقعین ج ۱ص ۴۲)
رئیس التابعین حضرت سعید بن المسیبؒ (المتوفٰی ۹۳ھ) ایک پہلو پر (بیمار ہونے کی وجہ سے) لیٹے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک شخص نے ان سے ایک حدیث دریافت کی۔ وہ فورًا اٹھ کر بیٹھ گئے اور حدیث بیان کی۔ سائل نے کہا، آپ نے اتنی تکلیف کیوں کی؟ فرمایا میں اس چیز کو پسند نہیں کرتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کروٹ کے بل لیٹے لیٹے بیان کروں۔ (جامع بیان العلم ج ۲ ص ۱۱۹ ۔ مدارج النبوۃ ج ۱ ص ۵۴۱)
حضرت امام مالکؒ (المتوفٰی ۱۷۹ھ) کا یہ معمول تھا کہ جب حدیث بیان فرماتے تو پہلے غسل کرتے، پھر خوشبو لگاتے اور عمدہ لباس پہن کر نہایت عاجزی اور تواضع کے ساتھ حدیث بیان کرتے اور آخر دم تک اسی حالت میں رہتے (مدارج النبوۃ ج ۱ ص ۵۴۲)۔ امام صاحبؒ حدیث کی تعظیم کے پیشِ نظر باوضو ہی حدیثیں بیان کرتے تھے (جامع بیان العلم ج ۲ ص ۱۹۹)۔
قرآنِ کریم اور عربی زبان
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
قرآنِ مجید میں ارشاد ہے کہ اس قرآن کو روح الامین لے کر آئے ہیں ’’بلسانٍ عربی مبین‘‘ (الشعراء ۱۹۵) جس کی زبان عربی ہے جو کہ بالکل واضح اور فصیح زبان ہے۔ اس سے یہ بھی مراد لیا جا سکتا ہے کہ عربی زبان میں نازل ہونے والا یہ قرآن پاک اپنے مضامین، مطالب، معانی، دلائل، مسائل، احکام و شواہد کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن پاک کہلانے کا مستحق وہی نسخہ ہو گا جو عربی زبان میں ہو گا، کسی دوسری زبان میں ہونے والا ’’ترجمۂ قرآن‘‘ تو کہلا سکتا ہے لیکن قرآن نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’فاقرءوا ما تیسر من القرآن‘‘ (المزمل ۲۰) یعنی نماز میں جتنی سہولت ہو قرآن پڑھا کرو۔ اور قرآن وہی ہے جو عربی میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نماز عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں نہیں پڑھی جا سکتی۔
بعض ملحد قسم کے لوگ کہتے ہیں کہ ہم عربی کو سمجھتے نہیں لہٰذا اگر نماز اپنی زبان اردو پنجابی وغیرہ میں پڑھ لیا کریں تو مطلب بھی سمجھ میں آئے گا اور نماز اچھے طریقے سے ادا ہو گی۔ یہ سخت بے دینی کی بات ہے۔ بجائے اس کے کہ نماز اور قرآن پاک کی چند سورتوں کا ترجمہ سیکھ لیا جائے، انہوں نے نماز کو اردو میں منتقل کرنے کی تجویز پیش کر دی ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ لوگ انگریزی، فارسی، فرانسیسی اور جرمن زبانیں سیکھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتے مگر قرآن پاک کی زبان عربی کی باری آتی ہے تو اس کو سیکھنے کے بجائے قرآن اور نماز کے ترجمے پر گزارا کرنا چاہتے ہیں۔ آدمی تھوڑی سی کوشش کر کے نماز کی حد تک تو قرآن کے الفاظ اور ترجمہ سیکھ لیتا ہے اور پھر پوری دلجمعی کے ساتھ نماز ادا کر سکتا ہے۔
دینی مدارس اور موجودہ حکومت
ڈاکٹر محمد امجد تھانوی
ماضی میں کئی حکومتوں نے دینی مدارس کے خلاف کارروائی کرنے کی کوششیں کیں لیکن وہ اس میں اس لیے کامیاب نہیں ہو سکیں کہ پاکستان کے دینی حلقوں نے ان کی اس کوشش پر شدید تنقید کر کے اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ اسی طرح اب موجودہ حکومت امریکی مطالبے پر اور این جی اوز کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے ملک میں دینی مدارس کے خلاف اور جہادی تحریکوں کے خاتمے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔
اس سلسلے میں کابینہ کے ارکان اور بارہ علماء پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس کا مقصد مدارس کے طریقۂ تعلیم میں تبدیلی لانا ہے جو کہ ایک طویل عرصے سے درسِ نظامی کے نام سے کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے چند امریکی سینیٹروں نے پاکستان کی حکومت کے اعلیٰ حکام سے جب ملاقات کی تو انہوں نے دینی مدارس اور مساجد کا ذکر بھی کیا اور اس سلسلے میں انتہاپسندی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے خوف کا اظہار کیا، لیکن حکومت کے ایک معزز عہدیدار نے
- انہیں یقین دہانی کرائی کہ اسلام صبر، برداشت، رواداری، تحمل اور عالمگیر اقدار کی ترویج کا درس دیتا ہے اور ہمارے دینی مدارس ان کے امین ہیں۔
- اور یہ بھی کہا کہ مدارس اور مساجد ہمارے معاشرے اور ثقافت کا مرکز ہیں۔
- انہوں نے امریکی وفد کو یہ بھی بتایا کہ افغان جنگ کے دوران، جو روس اور افغانستان کے درمیان ہوئی، مجاہدین کافی مضبوط ہو چکے ہیں اور اس کے بعد حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔ اور یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ ہم ان کو سدھار دیں گے جس میں وقت لگے گا۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت دینی مدارس کے سلسلے میں اپنا لائحہ عمل بنائے گی اور اس سلسلے میں وفاقی وزیر تعلیم اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور کو یہ ٹاسک دے دیا گیا ہے کہ وہ بھی ملک کے اندر اپنے لائحہ عمل کے مطابق دارالعلوم قائم کریں جہاں دینی تعلیم کے علاوہ دنیاوی تعلیم بھی دی جائے گی۔ کیونکہ مدارس کو نہ تو ایک دم ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ حکومت فوری طور پر ان کا کنٹرول سنبھال سکتی ہے۔ حکومت کی مقرر کردہ کمیٹی نے حکومت کو یہ یقین دلایا ہے کہ دینی مدارس کو ریگولرائز کرنے کا طریقہ کار طے کر لیا جائے گا۔
ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت امریکی خواہش کے مطابق اپنے فیصلوں کو دینی مدارس پر نافذ کرنا چاہتی ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہم مدارس کو ختم تو نہیں کر سکتے لیکن دینی مدارس کو جدید ایجوکیشن سنٹر بنا کر ان کا نصاب تبدیل کر دیں گے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مدارس کی روح کو سلب کر لیا جائے گا۔
حکومت نے یہ تاثر بھی دیا ہے کہ نصاب کی تبدیلی کا مقصد بے روزگاری، تنگ نظری، عصبیت اور جاہلیت پر قابو پانا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دینی مدارس سے فارغ ہونے والے کبھی بے روزگار نہیں رہتے، کبھی حکومت سے ملازمتوں کی بھیک نہیں مانگتے، کبھی نوکریوں سے برطرف نہیں ہوتے، پھر اچانک موجودہ حکومت کو ان کی بے روزگاری کا خیال کیسے آیا؟
موجودہ حکومت اگر ملک کے کالجز اور یونیورسٹیوں کا جائزہ لے تو اس کو معلوم ہو گا کہ تنگ نظری، عصبیت، جاہلیت، ضد اور ہٹ دھرمی کے مراکز ملک کی مختلف جامعات، کالجز اور اسی قسم کے مغربی تعلیمی ادارے ہیں۔ جامعہ کراچی (کراچی یونیورسٹی) سمیت ملک کے تعلیمی اداروں میں طلبا کے جھگڑوں میں قتل ہونے والوں کی تعداد کئی سو سے زیادہ ہے۔ جبکہ پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کسی بھی دینی مدرسے کے کسی طالب علم نے کبھی اپنے مدرسے میں کسی کو قتل نہیں کیا۔ اس وقت جامعہ کراچی، این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور کراچی کے دوسرے کالجز میں خاص طور پر رینجرز اور فوج کے نوجوان پہرہ دے رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان کے کسی بھی دینی مدرسے میں تصادم کو روکنے کے لیے فوج، پولیس اور رینجرز کو نہیں بلایا جاتا۔
مغربی تعلیمی اداروں میں ہڑتالیں ہوتی ہیں، اساتذہ کی بے عزتی کی جاتی ہے، حکومت کی گرانٹ کے باوجود ہنگاموں کے باعث جامعات اور کالجز بند کر دیے جاتے ہیں، اس کے مقابلے میں پاکستان کے تمام دینی مدارس خواہ وہ کسی بھی طبقہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں مغربی تعلیمی اداروں سے ہزارہا درجے بہتر چل رہے ہیں۔
ایک جائزے کے مطابق پاکستان میں دینی مدارس میں طلبا و طالبات کی تعداد سات لاکھ سے زیادہ ہے جس میں تقریباً تین لاکھ طلبا ناظرہ قرآن کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اٹھانوے ہزار طلبا قرآن کریم کے حفظ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، چالیس ہزار طلبا تجوید قرآن کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ترپن ہزار طلبا قراءت سیکھ رہے ہیں، اور چھبیس ہزار سے زیادہ طلبا درس نظامی کا علم حاصل کر رہے ہیں۔ تقریباً اٹھاون ہزار طالبات بھی اس ملک میں دینی مدارس میں رائج نظام کے مطابق اپنی دینی تعلیمات کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کئی سو طلبا پورے ملک میں فتوے کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جس میں مہارت کے بعد وہ دین کے سلسلے میں مسلمانان پاکستان کی رہنمائی کرتے ہیں جس کو پاکستان کی عدالتِ عالیہ اور عدالتِ عظمٰی نے بھی تسلیم کیا ہے۔
ہم حکومت سے یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کون سی وجوہ ہیں جن کی بنا پر وفاقی وزیر تعلیم اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور کی نگرانی میں دینی مدارس میں نیا نصاب رائج کرنے اور مدارس کے کلچر کی تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ سیکولرازم، فاشزم اور مغربی یلغار کا مقابلہ صرف اور صرف دینی مدارس کر سکتے ہیں۔
غامدی صاحب کے ارشادات پر ایک نظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جاوید احمد غامدی صاحب ہمارے محترم اور بزرگ دوست ہیں، صاحب علم ہیں، عربی ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں، وسیع المطالعہ دانشور ہیں، اور قرآن فہمی میں حضرت مولانا حمید الدین رحمہ اللہ تعالیٰ کے مکتب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان دنوں قومی اخبارات میں غامدی صاحب اور ان کے شاگرد رشید جناب خورشید احمد ندیم کے بعض مضامین اور بیانات کے حوالے سے ان کے کچھ تفردات سامنے آرہے ہیں جن سے مختلف حلقوں میں الجھن پیدا ہو رہی ہے۔ اور بعض دوستوں نے اس سلسلہ میں ہم سے اظہار رائے کے لیے رابطہ بھی کیا ہے۔ آج بھی ایک قومی اخبار کے لاہور ایڈیشن میں پشاور پریس کلب میں غامدی صاحب کے ایک خطاب کے حوالہ سے ان کے بعض ارشادات سامنے آئے ہیں اور انہی کے بارے میں ہم کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ مگر پہلے غامدی صاحب کے علمی پس منظر کو سامنے رکھنا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ ان کی بات صحیح طور پر سمجھ میں آ سکتی ہے اور نہ ہی ہم اپنی بات وضاحت کے ساتھ کہہ پائیں گے۔
حضرت مولانا حمید الدین فراہیؒ برصغیر پاک و ہند کے سرکردہ علماء کرام میں سے تھے اور مولانا شبلی نعمانیؒ کے ماموں زاد تھے۔ ان کے اساتذہ میں مولانا شبلیؒ کے علاوہ مولانا عبد الحئی فرنگی محلیؒ، مولانا فیض الحسن سہارنپوریؒ اور پروفیسر آرنلڈ شامل ہیں۔ دینی درسیات کی تکمیل کے بعد انہوں نے جدید تعلیم بھی حاصل کی اور وہ بیک وقت عربی، اردو، فارسی، انگلش اور عبرانی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ حیدر آباد دکن کے دارالعلوم کے پرنسپل رہے جسے بعد میں جامعہ عثمانیہ کے نام سے یونیورسٹی کی شکل دے دی گئی۔ اور کہا جاتا ہے کہ دارالعلوم کو ’’جامعہ‘‘ کی شکل دینے میں مولانا فراہیؒ کی سوچ اور تحریک بھی کار فرما تھی۔ بعد میں حیدرآباد کو چھوڑ کر انہوں نے لکھنو کے قریب سرائے میر میں مدرسۃ الاصلاح کے نام سے درسگاہ کی بنیاد رکھی اور قرآن فہمی کا ایک نیا حلقہ قائم کیا جو اپنے مخصوص ذوق اور اسلوب کے حوالہ سے انہی کے نام سے منسوب ہوگیا۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں مولانا فراہیؒ کے نزدیک قرآن فہمی میں عربی ادب، نزول قرآن کے دور کے عربی لٹریچر اور روایات، اور اس کے ساتھ تعرف و تعامل کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ وہ حدیث و سنت کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں مگر ’’خبر واحد‘‘ کو ان کے ہاں وہ مقام حاصل نہیں ہے جو محدثین کے ہاں تسلیم شدہ ہے، اور وہ احکام میں خبر واحد کو حجت تسلیم نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے بعض علمی معاملات میں ان کی اور ان کے تلامذہ کی رائے جمہور علماء سے مختلف ہو جاتی ہے۔ مولانا فراہیؒ کے بعد ان کے فکر اور فلسفہ کے سب سے بڑے وارث اور نمائندہ حضرت مولانا امین احسن اصلاحیؒ تھے جنہوں نے کچھ عرصہ قبل وفاقی شرعی عدالت میں شادی شدہ مرد و عورت کے لیے زنا کی سزا کے طور پر ’’رجم‘‘ کی شرعی حد نہ ہونے پر دلائل فراہم کیے تھے اور یہ موقف اختیار کیا تھا کہ رجم اور سنگسار کرنا شرعی حد نہیں ہے۔ اس کے پیچھے بھی خبر واحد کے احکام میں حجت نہ ہونے کا تصور کارفرما تھا۔
یہ ایک مستقل علمی بحث ہے کہ احکام و قوانین کی بنیاد شہادت پر ہے یا خبر پر۔ پھر خبر اور شہادت کے نصاب و معیار میں کیا فرق ہے۔ اس میں فقہاء کے اصولی گروہ میں سے بعض ذمہ دار بزرگ ایک مستقل موقف رکھتے ہیں، جبکہ جمہور محدثین اور عملی فقہاء کا موقف ان سے مختلف ہے۔ ہمارے خیال میں مولانا حمید الدین فراہیؒ کا موقف جمہور فقہاء اور محدثین کی بجائے بعض اصولی فقہاء سے زیادہ قریب ہے، اسی وجہ سے ہم اسے ان کے تفردات میں شمار کرتے ہیں۔ اور تفردات کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ ہر صاحب علم کا حق ہے جس کا احترام کیا جانا چاہیے بشرطیکہ وہ ان کی ذات یا حلقہ تک محدود رہے۔ البتہ اگر کسی تفرد کو جمہور اہل علم کی رائے کے علی الرغم سوسائٹی پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ فکری انتشار اور ایک نئے مکتب فکر کے قیام کا سبب بنتا ہے۔ اور یہی وہ نکتہ اور مقام ہے جہاں ہمارے بہت سے قابل قدر اور لائق احترام مفکرین نے ٹھوکر کھائی ہے اور امت کے اجتماعی علمی دھارے سے کٹ کر جداگانہ فکری حلقوں کے قیام کا باعث بنے ہیں۔ بہرحال محترم جاوید احمد غامدی صاحب اور ان کے شاگرد رشید خورشید احمد ندیم صاحب کا تعلق اسی علمی حلقہ سے ہے اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے بعد اس حلقہ علم و فکر کی قیادت غامدی صاحب فرما رہے ہیں۔
پس منظر کی وضاحت کے طور پر ان تمہیدی گزارشات کے بعد ہم غامدی صاحب محترم کے ان ارشادات کی طرف آرہے ہیں جو انہوں نے گزشتہ روز پشاور پریس کلب میں گفتگو کرتے ہوئے فرمائے ہیں اور جنہیں مذکورہ اخبار نے اس طرح رپورٹ کیا ہے کہ:
- علماء کرام خود سیاسی فریق بننے کی بجائے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی اصلاح کریں تو بہتر ہوگا، مولوی کو سیاستدان بنانے کی بجائے سیاست دان کو مولوی بنانے کی کوشش کی جائے۔
- زکوٰۃ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ٹیکسیشن کو ممنوع قرار دے کر حکمرانوں سے ظلم کا ہتھیار چھین لیا ہے۔
- جہاد تبھی جہاد ہوتا ہے جب مسلمانوں کی حکومت اس کا اعلان کرے، مختلف مذہبی گروہوں اور جتھوں کے جہاد کو جہاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔
- فتوؤں کا بعض اوقات انتہائی غلط استعمال کیا جاتا ہے اس لیے فتویٰ بازی کو اسلام کی روشنی میں ریاستی قوانین کے تابع بنانا چاہیے اور مولویوں کے فتوؤں کے خلاف بنگلہ دیش میں فیصلہ صدی کا بہترین عدالتی فیصلہ ہے۔
جہاں تک پہلی بات علماء اور سیاست کا تعلق ہے کہ علماء کرام خود سیاسی فریق بننے کی بجائے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی اصلاح کریں تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ یہ موقع محل اور حالات کی مناسبت کی بات ہے اور دونوں طرف اہل علم اور اہل دین کا اسوہ موجود ہے۔ امت میں اکابر اہل علم کا ایک بہت بڑا طبقہ ہے جس نے حکمرانوں کے خلاف سیاسی فریق بننے کی بجائے ان کی اصلاح اور راہ نمائی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ لیکن ایسے اہل علم بھی امت میں رہے ہیں جنہوں نے اصلاح کے دوسرے طریقوں کو کامیاب نہ ہوتا دیکھ کر خود فریق بننے کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے بڑی مثال حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ ہیں جن کا شمار صغار صحابہؓ میں ہوتا ہے اور وہ بنیادی طور پر اہل علم میں سے تھے۔ لیکن حضرت معاویہؓ کے بعد انہوں نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا اور نہ صرف انکار بلکہ اس کے خلاف فریق بن گئے اور متوازی حکمران کے طور پر کئی برس تک حجاز اور دوسرے علاقوں پر حکومت کرتے رہے۔ اس لیے اگر کسی دور میں علماء کرام یہ سمجھیں کہ خود فریق بنے بغیر معاملات کی درستگی کا امکان کم ہے تو اس کا راستہ بھی موجود ہے اور اس کی مطلقاً نفی کر دینا دین کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔
زکوٰۃ کے بارے میں غامدی صاحب کا ارشاد گرامی ہم سمجھ نہیں پائے۔ اگر تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ کے نظام کو مکمل طور پر اپنانے کی صورت میں اسلامی حکومت کو کسی اور ٹیکس کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی تو یہ بات سو فیصد درست ہے۔ اور ہمارا موقف بھی یہی ہے کہ ایک نظریاتی اسلامی ریاست قرآن و سنت کی بنیاد پر زکوٰۃ و عشر کے نظام کو من و عن اپنا لے اور اس کو دیانتداری کے ساتھ چلایا جائے تو اسے اور کوئی ٹیکس لوگوں پر لگانے کی ضرورت نہیں رہے گی اور ملک بہت جلد ایک خوشحال رفاہی سلطنت کی شکل اختیار کر لے گا۔ لیکن کیا کسی ضرورت کے موقع پر اس کے علاوہ کوئی ٹیکس لگانے کی شرعاً ممانعت ہے؟ اس میں ہمیں اشکال ہے۔ اگر غامدی صاحب محترم اللہ تعالیٰ کی طرف سے زکوٰۃ کے بعد کسی اور ٹیکسیشن کی ممانعت پر کوئی دلیل پیش فرما دیں تو ان کی مہربانی ہوگی اور اس باب میں ہماری معلومات میں اضافہ ہو جائے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدانخواستہ ہم ٹیکسیشن کے موجودہ نظام کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ نظام تو سراسر ظالمانہ ہے اور شریعت اسلامیہ کسی پہلو سے بھی اس کی روادار نہیں ہے۔ مگر اسلامی نظام میں زکوٰۃ کے نظام کے بعد کسی اور ٹیکسیشن کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ممانعت کی کوئی دلیل ہمارے سامنے نہیں ہے اور اسی کے لیے ہم غامدی صاحب سے علمی راہ نمائی کے طلب گار ہیں۔
محترم جاوید احمد غامدی صاحب کو مختلف جہادی گروپوں کی طرف سے جہاد کے نام پر مسلح سرگرمیوں پر اشکال ہے اور وہ ان کے اس عمل کو جہاد تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا ارشاد ہے کہ جہاد کا اعلان صرف ایک مسلم حکومت ہی کر سکتی ہے اس کے سوا کسی اور کو جہاد کا اعلان کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ مگر ہمیں ان کے اس ارشاد سے اتفاق نہیں ہے، اس لیے کہ جہاد کی مختلف عملی صورتیں اور درجات ہیں اور ہر ایک کا حکم الگ الگ ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کسی ملک یا قوم کے خلاف جہاد کا اعلان اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ایک اسلامی یا کم از کم مسلمان حکومت اس کا اعلان کرے۔ لیکن جب کسی مسلم آبادی پر کفار کی یلغار ہو جائے اور کفار کے غلبہ کی وجہ سے مسلمان حکومت کا وجود ختم ہو جائے یا وہ بالکل بے بس دکھائی دینے لگے تو غاصب اور حملہ آور قوت کے خلاف جہاد کے اعلان کے لیے پہلے حکومت کا قیام ضروری نہیں ہوگا اور نہ ہی عملاً ایسا ممکن ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر ایسے مرحلہ میں مسلمانوں کی اپنی حکومت کا قیام قابل عمل ہو تو کافروں کی یلغار اور تسلط ہی بے مقصد ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ صورت پیدا ہی اس وقت ہوتی ہے جب مسلمانوں کی حکومت کفار کے غلبہ اور تسلط کی وجہ سے ختم ہو جائے، بے بس ہو جائے، یا اسی کافر قوت کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر رہ جائے۔
سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں کیا کیا جائے؟ اگر جاوید غامدی صاحب محترم کا فلسفہ تسلیم کر لیا جائے تو یہ ضروری ہوگا کہ مسلمان پہلے اپنی حکومت قائم کریں اور اس کے بعد اس حکومت کے اعلان پر جہاد شروع کیا جائے۔ لیکن پھر یہ سوال اٹھ کھڑا ہوگا کہ جب مسلمانوں نے اپنی حکومت بحال کر لی ہے تو اب جہاد کے اعلان کی ضرورت ہی کیا باقی رہ گئی ہے؟ کیونکہ جہاد کا مقصد تو کافروں کا تسلط ختم کر کے مسلمانوں کا اقتدار بحال کرنا ہے اور جب وہ کام جہاد کے بغیر ہی ہوگیا ہے تو جہاد کے اعلان کا کون سا جواز باقی رہ جاتا ہے؟
اس کی ایک عملی مثال سامنے رکھ لیجیے کہ فلسطینی عوام نے تنظیم آزادی فلسطین کے عنوان سے غیر سرکاری سطح پر اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ سالہا سال کی مسلح جدوجہد کے نتیجہ میں مذاکرات کی نوبت آئی اور ان مذاکرات کے بعد ایک ڈھیلی ڈھالی یا لولی لنگڑی حکومت جناب یاسر عرفات کی سربراہی میں قائم ہوئی جو اس وقت بین الاقوامی فورم پر فلسطینیوں کی نمائندگی کر رہی ہے۔ اگر مسلح جدوجہد نہ ہوتی تو مذاکرات اور حکومت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ مسلح جدوجہد کسی حکومت کے اعلان پر نہیں بلکہ غیر سرکاری فورم کی طرف سے شروع ہوئی اور اسی عنوان سے مذاکرات کی میز بچھنے تک جاری رہی۔ یہاں عملی طور پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت مسلح جدوجہد کے نتیجہ میں قائم ہوئی ہے نہ کہ حکومت نے قائم ہونے کے بعد مسلح جدوجہد یا جہاد کا اعلان کیا۔ لیکن اگر غامدی صاحب کے فلسفہ کو قبول کر لیا جائے تو یہ ساری جدوجہد غلط قرار پاتی ہے۔ اور ان کے خیال میں فلسطینیوں کو یہ چاہیے تھا یا شرعاً ان کے لیے جائز راستہ یہ تھا کہ وہ پہلے ایک حکومت قائم کرتے اور پھر وہ حکومت جہاد کا اعلان کرتی، تب ان کی مسلح جدوجہد غامدی صاحب کے نزدیک شرعی جہاد قرار پا سکتی تھی۔
خود ہمارے ہاں برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط کے بعد مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی نے کٹھ پتلی کی حیثیت اختیار کر لی اور عملاً انگریزوں کا اقتدار قائم ہوگیا تو اس وقت کے علماء کے سرخیل حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ نے جہاد کا فتویٰ دیا۔ اور پھر بالا کوٹ کے معرکے تک اور اس کے بعد ۱۸۵۷ء میں مسلح جہاد آزادی کے مختلف مراحل تاریخ کا حصہ بنے۔ جہاد کا یہ اعلان بھی غیر سرکاری فورم کی طرف سے تھا اور شاہ عبد العزیز دہلویؒ یا انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دینے والے دیگر علماء کو کوئی سرکاری اتھارٹی حاصل نہیں تھی۔ اس لیے غامدی صاحب کے فلسفہ کی رو سے یہ سارا عمل غیر شرعی قرار پاتا ہے۔ محترم غامدی صاحب یا ان کا کوئی شاگرد رشید اس دور میں موجود ہوتا تو وہ شاہ عبد العزیز دہلویؒ کو یہی مشورہ دیتا کہ حضور! آپ کو جہاد کے اعلان کا کوئی حق حاصل نہیں ہے اور نہ ہی حکومتی معاملات میں فریق بننے کا آپ کے لیے کوئی جواز ہے۔ آپ صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ حکومت کی راہ نمائی کریں، ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ میں آلۂ کار کی حیثیت اختیار کر جانے والے مغل بادشاہ کو مشورہ دیتے رہیں اور اس سے کہیں کہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف جہاد کا اعلان کرے، کیونکہ اس کے سوا جہاد کا اعلان کرنے کا شرعی اختیار اور کسی کے پاس نہیں ہے۔
جہاد افغانستان کی صورتحال بھی کم و بیش اسی طرح کی ہے کہ جب کابل میں روسی فوجیں اتریں، مسلح غاصبانہ قبضہ کے بعد افغانستان کے معاملات پر روس کا کنٹرول قائم ہوگیا اور ببرک کارمل کی صورت میں ایک کٹھ پتلی حکمران کو کابل میں بٹھا دیا گیا تو افغانستان کے مختلف حصوں میں علماء کرام نے اس تسلط کو مسترد کرتے ہوئے حملہ آور قوت کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔ بعد میں ان کے باہمی روابط قائم ہوئے تو رفتہ رفتہ وہ چند گروپوں کی صورت میں یکجا ہوگئے۔ پھر انہیں روسی فوجوں کے خلاف مسلح جدوجہد میں ثابت قدم دیکھ کر باہر کی قوتیں متوجہ ہوئیں اور روس کی شکست کی خواہاں قوتوں نے ان مجاہدین کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں روس کو افغانستان سے نکلنا پڑا اور سوویت یونین کا شیرازہ منتشر ہوگیا۔ غامدی صاحب کے اس ارشاد کی رو سے یہ سارا عمل غیر شرعی اور ناجائز ٹھہرتا ہے اور ان کے خیال میں افغان علماء کو از خود جہاد کا اعلان کرنے کی بجائے ببرک کارمل کی رہنمائی کرنے تک محدود رہنا چاہیے تھا، اور اس سے درخواست کرنی چاہیے تھی کہ چونکہ شرعاً جہاد کے اعلان کا اختیار صرف اس کے پاس ہے اس لیے وہ روسی حملہ آوروں کے خلاف جہاد کا اعلان کرے، تاکہ اس کی قیادت میں علماء کرام جہاد میں حصہ لے سکیں۔
فرانسیسی استعمار کے تسلط کے خلاف الجزائر کے علماء کو بھی اسی قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا، وہاں کے قوم پرست لیڈروں بن باللہ، بومدین اور بو نسیاف کے ساتھ ساتھ الشیخ عبد الحمید بن بادیسؒ اور الشیخ بشیر الابراہیمیؒ جیسے اکابر علماء نے بھی مسلح جدوجہد کی قیادت کی۔ انہوں نے فرانسیسی استعمار کے خلاف مسلح جدوجہد کو جہاد قرار دیا، اس کے لیے علماء کی باقاعدہ جماعت بنائی، اور جمعیۃ علماء الجزائر کے پلیٹ فارم سے سالہا سال تک غاصب حکومت کے خلاف مسلح جنگ لڑ کر الجزائر کی آزادی کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ بلکہ الشیخ عبد الحمید بن بادیسؒ کو یہ مشورہ ہی ان کے استاد محترم شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی نے دیا تھا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب مولانا مدنیؒ ہندوستان سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ میں مقیم تھے اور مسجد نبوی میں حدیث نبویؐ پڑھایا کرتے تھے۔ الشیخ عبد الحمید بن بادیسؒ نے ان سے حدیث پڑھی اور وہیں مدینہ منورہ میں کسی جگہ بیٹھ کر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کرنے کی اجازت طلب کی تو شیخ مدنیؒ نے ان سے کہا کہ ان کا ملک غلام ہے اس لیے وہ واپس جائیں اور علماء کرام کو منظم کر کے اپنے وطن کی آزادی کے لیے جہاد کریں۔ اگر اس وقت شیخ بن بادیسؒ کے ذہن میں کوئی ’’دانشور‘‘ یہ بات ڈال دیتا کہ آپ لوگوں کو از خود مسلح جدوجہد شروع کرنے کا شرعاً کوئی حق حاصل نہیں ہے اور جہاد کے لیے کسی مسلم حکومت کی طرف سے اعلان ضروری ہے تو وہ بھی مدینہ منورہ میں کوئی علمی مرکز قائم کر کے بیٹھ جاتے اور الجزائر کی جنگ آزادی کا جو حشر ہوتا وہ ان کی بلا سے ہوتا رہتا۔
غامدی صاحب محترم کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ساتویں صدی ہجری کے آخر میں عالم اسلام کے خلاف تاتاریوں کی خوفناک یلغار کے موقع پر جب دمشق کے حکمران سراسیمگی اور تذبذب کے عالم میں تھے اور عوام تاتاریوں کے خوف سے شہر چھوڑ کر بھاگ رہے تھے تو اس موقع پر شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے از خود جہاد کی فرضیت کا اعلان کر کے عوام کو اس کے لیے منظم کرنا شروع کر دیا تھا جس کے نتیجے میں حکمرانوں کو حوصلہ ہوا اور عوام نے شہر چھوڑنا ترک کیا۔ ورنہ اگر ابن تیمیہؒ بھی غامدی صاحب کے فلسفہ پر عمل کرتے تو بغداد کی طرح دمشق کی بھی اینٹ سے اینٹ بج جاتی۔
محترم جاوید احمد غامدی نے مولوی کے فتویٰ کے خلاف بنگلہ دیش کی کسی عدالت کے فیصلے پر مسرت کا اظہار کیا ہے اور اسے صدی کا بہترین عدالتی فیصلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ فتوؤں کا بعض اوقات انتہائی غلط استعمال کیا جاتا ہے اس لیے فتویٰ بازی کو اسلام کی روشنی میں ریاستی قوانین کے تابع بنانا چاہیے۔
بنگلہ دیش کی کون سی عدالت نے مولوی حضرات کے کون سے فتوے کے خلاف فیصلہ دیا ہے، ہمیں اس کا علم نہیں ہے اور نہ ہی مذکورہ فیصلہ ہماری نظر سے گزرا ہے۔ لیکن غامدی صاحب کے ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی عدالت نے کسی مولوی صاحب کو فتویٰ دینے سے روک دیا ہوگا یا ان کے فتویٰ دینے کے استحقاق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہوگا جس کی بنا پر غامدی صاحب اس کی تحسین فرما رہے ہیں اور پاکستان کے لیے بھی یہ پسند کر رہے ہیں کہ مولویوں کو فتویٰ دینے کی آزادی نہیں ہونی چاہیے اور فتویٰ بازی کو ریاستی قوانین کے تابع کر دینا چاہیے۔
جہاں تک اس شکایت کا تعلق ہے کہ ہمارے ہاں بعض فتوؤں کا انتہائی غلط استعمال ہوتا ہے، ہمیں اس سے اتفاق ہے۔ ان فتوؤں کے نتیجے میں جو خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں وہ بھی ہمارے سامنے ہیں۔ اور ان خرابیوں کی اصلاح کے لیے غیر سرکاری سطح پر کوئی قابل عمل فارمولا سامنے آتا ہے تو ہمیں اس سے بھی اختلاف نہیں ہوگا۔ مگر کسی چیز کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سرے سے اس کے وجود کو ختم کر دینے کی تجویز ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ چونکہ ہماری عدالتوں میں رشوت اور سفارش اس قدر عام ہوگئی ہے کہ اکثر فیصلے غلط ہونے لگے ہیں اور عدالتی نظام پر عوام کا اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے اس لیے ان عدالتوں میں بیٹھنے والے ججوں سے فیصلے دینے کا اختیار ہی واپس لے لیا جائے۔ یہ بات نظری طور پر تو کسی بحث و مباحثہ کا خوبصورت عنوان بن سکتی ہے مگر عملی میدان میں اسے بروئے کار لانا کس طرح ممکن ہے؟ اس کے بارے میں غامدی صاحب محترم ہی زیادہ بہتر طور پر رہنمائی فرما سکتے ہیں۔
اور ’’فتویٰ‘‘ تو کہتے ہی کسی مسئلہ پر غیر سرکاری رائے کو ہیں۔ کیونکہ کسی مسئلہ پر حکومت کا کوئی انتظامی افسر جو فیصلہ دے گا وہ ’’حکم‘‘ کہلائے گا اور عدالت جو فیصلہ صادر کرے گی اسے ’’قضا‘‘ کہا جائے گا۔ جبکہ ان دونوں سے ہٹ کر اگر کوئی صاحب علم کسی مسئلہ کے بارے میں شرعی طور پر حتمی رائے دے گا تو وہ ’’فتویٰ‘‘ کہلائے گا۔ امت کا تعامل شروع سے اسی طرح چلا آرہا ہے کہ حکام حکم دیتے ہیں، قاضی حضرات عدالتی فیصلے دیتے ہیں، اور علماء کرام فتویٰ صادر کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ صحابہ کرامؓ کے دور سے چلا آرہا ہے۔ خود صحابہ کرامؓ میں خلافت راشدہ کے دور میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور حضرت ابوہریرہؓ جیسے مفتیان کرام موجود تھے جو کسی مسئلہ پر فتویٰ صادر کرنے میں کسی سرکاری نظم کے پابند نہیں تھے بلکہ آزادانہ طور پر مسائل پر رائے دیتے تھے اور ان کی رائے کو تسلیم کیا جاتا تھا۔ اور تابعین کے دور سے تو فتویٰ کا یہ ادارہ اس قدر آزاد اور خودمختار ہوا کہ بڑے بڑے مفتیان کرام وقت کی حکومتوں کے خلاف فتوے دیتے تھے اور ان فتوؤں پر مصائب و آلام بھی برداشت کرتے تھے مگر انہوں نے اپنے اس آزادانہ حق میں حکومت کی کسی مداخلت کو قبول نہیں کیا۔
طبقات ابن سعدؒ کی روایت کے مطابق رئیس التابعین حضرت حسن بصریؒ نے خلیفہ یزید بن عبد المالک کے طرز عمل پر برسرعام تنقید کرتے ہوئے لوگوں سے کہا کہ وہ اس کے مظالم میں اس کے ساتھ تعاون نہ کریں۔ کامل ابن اثیرؒ کی روایت کے مطابق حضرت امام مالکؒ نے خلیفہ منصورؒ کے خلاف محمد نفس زکیہؒ کی بغاوت کی حمایت کرتے ہوئے لوگوں سے کہا کہ وہ منصورؒ کی بیعت توڑ کر محمد نفس زکیہؒ کا ساتھ دیں۔ہزارہ کی مناقب ابی حنیفہؒ میں ہے کہ امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ نے محمد نفس زکیہؒ اور ان کے بھائی ابراہیم بن عبد اللہؒ کی مذکورہ بغاوت کی کھلم کھلا حمایت کی اور منصور خلیفہؒ کے کمانڈر حسن بن قحطبہ نے امام ابو حنیفہؒ کے کہنے پر ابراہیم بن عبد اللہؒ کے خلاف لڑنے سے انکار کر دیا۔ اس سے قبل اموی خلیفہ ہشام بن عبد المالکؒ کے دور میں اس کے خلاف امام زید بن علیؒ کی بغاوت میں بھی امام ابو حنیفہؒ نے امام زیدؒ کا ساتھ دیا اور انہیں دس ہزار درہم کا چندہ بھی بھجوایا۔
خلیفہ ہارون الرشیدؒ کے دور میں حضرت امام شافعیؒ کو بھی اس الزام میں گرفتار کیا گیا کہ وہ خلیفہ وقت کے خلاف یحییٰ بن عبد اللہؒ کی بغاوت کی درپردہ حمایت کر رہے ہیں مگر الزام ثابت نہ ہونے پر بعد میں رہا کر دیا گیا۔ امام مالکؒ نے ’’جبری طلاق‘‘ کے بارے میں حکومت وقت کی منشا و مفاد کے خلاف فتویٰ دیا جس پر سرعام ان پر کوڑے برسائے گئے حتیٰ کہ ان کے شانے اتر گئے۔ مگر وہ اس شان سے اپنے فتوے پر قائم رہے کہ جب انہیں گھوڑے پر سوار کر کے بازار میں پھرایا جا رہا تھا تو وہ لوگوں سے بلند آواز میں کہتے جاتے تھے کہ جو لوگ مجھے جانتے ہیں وہ تو جانتے ہی ہیں، اور جو نہیں جانتے وہ جان لیں کہ میں مالک بن انس ہوں اور میں نے فتویٰ دیا ہے کہ جبر کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ حکمرانوں کو امام مالکؒ کے اس فتویٰ سے خوف لاحق ہوگیا تھا کہ اگر مجبوری کی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی تو جن لوگوں کو مجبور کر کے انہوں نے اپنے حق میں بیعت لے رکھی تھی کہیں وہ یہ نہ سمجھنے لگ جائیں کہ ہماری بیعت بھی واقع نہیں ہوئی اور ہم اس بیعت کے ساتھ حکمرانوں کی وفاداری کے پابند نہیں رہے۔
حکمرانوں کی مرضی اور منشا کے خلاف دیے جانے والے ان فتوؤں سے قطع نظر امت مسلمہ کے چار بڑے اماموں امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ ، اور امام احمد بن حنبلؒ نے جو لاکھوں فتاویٰ صادر کیے وہ کسی سرکاری نظم اور ریاستی قوانین کا نتیجہ نہیں بلکہ شرعی مسائل پر اہل علم کی طرف سے اظہار رائے کا ایک آزادانہ نظام کا ثمرہ تھے۔ ورنہ اگر یہ ائمہ کرامؒ فتویٰ صادر کرنے میں سرکاری نظم اور ریاستی قوانین کے تابع ہونے کو قبول کر لیتے تو نہ امام ابوحنیفہؒ کا جنازہ جیل سے نکلتا، نہ امام مالکؒ سر عام کوڑے کھاتے، نہ امام شافعیؒ کی گرفتاری کی نوبت آتی، اور نہ امام احمد بن حنبلؒ کو خلق قرآن کے مسئلہ پر قید و بند اور کوڑوں کی صبر آزما سزا کے مراحل سے گزرنا پڑتا۔ ان چاروں اماموں اور ان کے علاوہ دیگر بیسیوں فقہاء اور ائمہ نے جو لاکھوں فتوے دیے اور امت کے بے شمار مسائل کا جو مفتی حل پیش کیا وہ ایک آزادانہ عمل تھا۔ اسی وجہ سے انہیں امت میں اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی کہ آج تیرہ سو برس گزر جانے کے بعد بھی امت کی غالب اکثریت ان ائمہ کے فتاویٰ پر عمل کرتی ہے اور ان کے فقہی مذاہب کی پیروکار ہے۔
امام اعظم ابوحنیفہؒ نے تو اپنی ایک مستقل ’’مجلس علمی‘‘ قائم کر رکھی تھی جس میں علماء، فقہاء، محدثین، اہل لغت اور مختلف علوم و فنون کے ماہرین کا جمگھٹا رہتا تھا۔ یہ غیر سرکاری کونسل تھی جو مسائل پر بحث کرتی تھی، اس کے شرکاء آزادانہ رائے دیتے تھے، ان کے درمیان مباحثہ ہوتا تھا، اور جو بات طے ہوتی اسے فیصلہ کے طور پر قلمبند کیا جاتا تھا۔ اس کونسل کے فیصلے نہ صرف اس دور میں تسلیم کیے جاتے تھے بلکہ اب تک امت کا ایک بڑا حصہ ان فیصلوں پر کاربند ہے۔ امام صاحبؒ کی اس مجلس علمی یعنی غیر سرکاری کونسل کے بارے میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ علوم عربی و اسلامیات کے سربراہ ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی کی مستقل کتاب ہے جس میں انہوں نے اس کونسل کے خدوخال اور طریق کار کی وضاحت کی ہے۔
اس لیے فتویٰ کے آزادانہ عمل کو ریاستی قوانین کے تابع کرنے کی یہ تجویز یا خواہش امت کے چودہ سو سالہ اجتماعی تعامل کے منافی ہے جس کی کسی صورت میں حمایت نہیں کی جا سکتی۔ اور ہمارے محترم اور بزرگ دوست جاوید احمد غامدی صاحب ناراض نہ ہوں تو ڈرتے ڈرتے ان سے ایک سوال پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ انہوں نے مختلف گروپوں کی مسلح جدوجہد کے جہاد نہ ہونے، زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکس کی ممانعت، اور ریاستی نظم سے ہٹ کر فتویٰ کا استحقاق نہ ہونے کے بارے میں جو ارشادات فرمائے ہیں وہ بھی تو معروف معنوں میں ’’فتویٰ‘‘ ہی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہیں یہ فتوے جاری کرنے کی اتھارٹی کس ریاستی قانون نے دی ہے؟
توضیحات
خورشید احمد ندیم
مولانا زاہد الراشدی نے استادِ محترم جاوید احمد صاحب غامدی کے بعض نتائجِ فکر اور ’’تکبیر مسلسل‘‘ میں بیان کی گئی کچھ آرا کو اپنے مضامین کا موضوع بنایا ہے جو ایک معاصر روزنامے میں شائع ہوئے ہیں۔ انہوں نے چار اہم مسائل پر اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے جو ظاہر ہے ہمارے موقف سے مختلف اور اس پر ناقدانہ تبصرہ ہے۔ مولانا نے اپنے اختلاف کا اظہار جس سلیقے کے ساتھ کیا ہے، اس سے ہمارے دل میں ان کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ ہماری بات سے لوگ اس سے قبل بھی اختلاف کرتے رہے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ہم اس لہجے کو ترس گئے تھے۔ ہماری یہ خواہش کم ہی پوری ہوئی کہ لوگ علمی آرا کو علمی نظر ہی سے دیکھیں اور اسی حوالے سے ان پر اظہار خیال کریں۔ مولانا نے اس وادی میں قدم رکھا ہے تو ہم ان کے لیے سراپا شکر ہیں۔
مولانا زاہد الراشدی نے اپنے مضامین میں جن موضوعات پر قلم اٹھایا ہے وہ آج سب سے زیادہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان پر قوم کو صحیح راہنمائی میسر آئے۔ ان مسائل پر کوئی رائے قائم کرتے وقت اگر ہم نے ٹھوکر کھائی یا کسی ابہام کا شکار ہوئے تو اس سے ہماری اجتماعی زندگی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔ مولانا نے اس سلسلہ مضامین کے آغاز میں ہمارا فکری شجرہ نسب بھی بیان کیا ہے، اس میں دو باتیں وضاحت کی طلب گار ہیں۔ آج کا کالم انہی کی توضیح کے لیے خاص ہے، جہاں تک اصل مسائل کا تعلق ہے تو وہ اگلے کالموں میں ایک ترتیب سے زیربحث آئیں گے۔
پہلی بات خبرِ واحد کی حجیت کے بارے میں ہے، اس باب میں محدثین اور فقہا کا اختلاف معروف ہے، اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور ہنوز یہ بحث زندہ ہے۔ ہمارے مکتبہ فکر کے نزدیک فہمِ دین کے جو اصول ہیں وہ اگر پیشِ نظر ہوں تو یہ بحث قطعاً غیر اہم ہو جاتی ہے۔ محترم جاوید صاحب نے ’’اصول و مبادی‘‘ کے عنوان سے انہیں بیان کر دیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے:
’’سنت سے مراد دینِ ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے‘‘۔یہ سنت چالیس امور پر مشتمل ہے۔ ’’اس کے بارے میں یہ بات بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں۔ وہ جس طرح صحابہؓ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے، یہ اسی طرح ان کے اجماعی اور عملی تواتر سے ملی ہے، اور ہر دور میں امت کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے‘‘۔ (اشراق ۱۹۹۸ء، ۱۹۹۹ء)
سنت کی یہ تعریف اگر سامنے ہو تو نہ صرف اخبار آحاد کی حجیت کا سوال باقی نہیں رہتا بلکہ سنت کے ماخذ دین ہونے پر جو اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں وہ بھی ختم ہو جاتے ہیں۔
دوسری بات کا تعلق رجم کے بارے میں مولانا امین احسن اصلاحی کی رائے سے ہے۔ زنا کی سزا کے حوالے سے مولانا کا موقف یہ ہے کہ اس کے نفاذ میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی تمیز روا نہیں رکھی جائے گی۔ قرآن مجید جب اس جرم کے لیے سو کوڑوں کی سزا بیان کرتا ہے تو وہ مجرم کی ازدواجی حیثیت کو زیربحث نہیں لاتا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مولانا کی یہ رائے جمہور کے موقف سے مختلف ہے لیکن وہ کبھی اس بات کے علمبردار نہیں رہے کہ ریاست کا قانون ان کی رائے پر مبنی ہو۔
اس باب میں ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ایک مسلمان ریاست میں پبلک لا اسی رائے کی بنیاد پر بنایا جائے جس پر زیادہ سے زیادہ لوگوں کا اعتماد ہو۔ اگر پاکستان میں لوگوں کی اکثریت ان علما کی رائے سے اتفاق کرتی ہے جو ہم سے مختلف الرائے ہیں تو ہمارا کہنا یہ ہے کہ انہی کی رائے کو قانون سازی کے وقت پیشِ نظر رکھا جائے۔ اس کے ساتھ ہم اس بات کے بھی قائل ہیں کہ اہلِ علم کو بہرحال یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ علمی طور پر اگر کوئی مختلف رائے رکھتے ہیں تو اسے آزادی سے بیان بھی کر سکیں۔ اگر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت ان کی رائے پر اعتماد کرنے لگتی ہے تو پھر خودبخود اسے یہ حیثیت حاصل ہو جائے گی کہ اسے ریاست کا قانون بنا دیا جائے۔
یہ بات واقعاتی طور پر درست نہیں ہے کہ مولانا کبھی وفاقی شرعی عدالت گئے اور انہوں نے رجم کے شرعی حد نہ ہونے پر دلائل فراہم کیے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے ’’تدبر قرآن‘‘ کا وہ حصہ چھپ چکا تھا جس میں مولانا نے اپنی رائے بیان کی ہے۔ عدالت نے اسی سے استفادہ کیا تھا۔ مولانا اصلاحی نہ صرف یہ کہ کسی عدالت میں نہیں گئے بلکہ جاوید صاحب نے تو جسٹس آفتاب حسین سے یہ کہا کہ وہ اپنے فیصلے کی بنیاد اس رائے پر رکھیں جس پر اکثریت اعتماد کرتی ہے۔
ہمارا تو اس بات پر اصرار رہا ہے کہ اہلِ علم کو اپنی رائے دینے پر ہی اکتفا کرنا چاہیے۔ اس کے نفاذ یا دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اور اگر کوئی دوسرا ان سے اختلاف کرتا ہے تو اس کا یہ حق تسلیم کرنا چاہیے۔ اس باب میں ہم تو امام مالک کے مقلد ہیں، خلیفہ منصور نے جب ان کے سامنے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ان کی موطا کو ریاست کا قانون بنانا چاہتا ہے تو انہوں نے منصور کی تائید نہیں کی اور کہا کہ لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے وہ جس رائے کو چاہیں گے اختیار کر لیں گے۔
یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں میں جو فقہی مکاتبِ فکر مقبول ہوئے ان کے فروغ میں اقتدار کا ایک حصہ رہا ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی درست ہے کہ جب معاشرہ کسی صاحبِ علم پر اعتماد کرنے لگتا ہے تو پھر صاحبانِ اقتدار کے لیے بھی یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ اس کی رائے کے برخلاف فیصلہ دیں۔ مامون الرشید کے وزیر فضل بن سبل کو کسی نے یہ مشورہ دیا کہ عدالتوں کو اس بات سے روک دیا جائے کہ وہ ابوحنیفہ کی رائے کی بنیاد پر فتوٰی دیں۔ اس نے مشاورت کے لیے اہلِ علم و دانش کو جمع کیا، سب کی رائے یہ تھی کہ اس اقدام کا نہ صرف یہ کہ کوئی فائدہ نہیں بلکہ اس سے نقصان کا اندیشہ ہے۔ لوگ عباسی حکمران پر ٹوٹ پڑیں گے اور ان کے اقتدار کا سلامت رہنا مشکل ہو جائے گا۔ لوگوں نے فضل سے یہ بھی کہا کہ جس نے آپ کو یہ رائے دی وہ کوئی احمق شخص ہے۔ ہمارے نزدیک کوئی صاحبِ علم آج بھی اگر امام ابوحنیفہ کے طرز عمل کی تقلید کرے تو ایسے ہی نتائج نکل سکتے ہیں۔
ہمارا اصل مسئلہ ہی یہی ہے کہ ہم اپنی بات بزور دوسروں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اور اس بات کو اپنے نامہ اعمال میں جلی حروف سے درج کروانا چاہتے ہیں کہ ہم نے فلاں فلاں فتنے کے خلاف جہاد کیا۔ ہم اختلاف کرنے والے کو پہلے دائرہ اسلام اور پھر دائرہ حیات سے خارج کرنے کے لیے کمربستہ ہو جاتے ہیں۔ مسجدوں پر قبضے کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے اور دوسروں کے لیے جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جتنی محنت ہم لوگوں کو کافر قرار دینے کے لیے کرتے ہیں اگر اتنی ہی مشقت ہم انہیں مسلمان بنانے کے لیے اٹھائیں تو دنیا کا منظر بہت بدل جائے۔
مولانا زاہد الراشدی نے اہم مسائل کو سنجیدہ بحث کا موضوع بنایا ہے، اللہ کرے کہ ہم بحیثیت قوم ان مسائل پر زیادہ سے زیادہ اتفاقِ رائے پیدا کر سکیں۔
علما اور سیاست
کیا علما کو عملی سیاست میں حصہ لینا چاہیے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے وقت دو باتیں پیش نظر رہنا چاہییں۔ ایک تو یہ ہے کہ یہ شریعت کا نہیں، حکمت وتدبر کا معاملہ ہے۔ یہ جائز اور ناجائز کی بحث نہیں ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ شریعت نے علما کو سیاست میں حصہ لینے سے روک دیا ہے یا انہیں اس کے لیے حکم دیا ہے۔ جب ہم اس سوال کو موضوع بناتے ہیں تو ہمارے پیش نظر محض یہ ہے کہ اس سے دین اور علما کو کوئی فائدہ پہنچا ہے یا نقصان؟ دوسری بات یہ کہ عملی سیاست سے ہماری مراد اقتدار کی سیاست (Power Politics) ہے یعنی اقتدار کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا یا کسی کے عزل ونصب کے لیے کوئی عملی کردار ادا کرنا۔
قرآن مجید کی راہنمائی یہ ہے کہ ایک عالم دین کا اصل کام انذار کرنا ہے۔ (توبہ :۱۲۲) انذار یہ ہے کہ لوگوں کو خبردار کیا جائے کہ انہیں ایک روز اپنے پروردگار کے حضور میں حاضر ہونا ہے اور ان اعمال کے لیے جواب دہ ہونا ہے جو وہ اس دنیا میں سرانجام دیں گے۔ اس جواب دہی کا تعلق اس کردار کے ساتھ ہے جو وہ اس دنیا میں ادا کریں گے۔ اگر کوئی حکمران ہے تو اس کی جواب دہی کی نوعیت اور ہے، اور اگر ایک عامی ہے تو اس کے لیے اور۔ اسی انذار کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ علما دین کو اس طرح بیان کریں جیسے کہ وہ ہے۔ اگر دین کو کوئی فکری چیلنج درپیش ہے تو وہ دین کا مقدمہ لڑیں۔ اگر مسلمان معاشرے میں کوئی علمی یا عملی خرابی در آئی ہے تو وہ اسے اصل دین کی طرف بلائیں۔ اس معاملے میں ان کی حیثیت ایک داروغہ کی نہیں ہے۔ انہیں دین کا ابلاغ کرنا اور اسے دوسروں تک پہنچا دینا ہے۔ اس کی ایک صورت ایسے مبلغین کی تیاری ہے جو اس کام کو لے کر معاشرے میں پھیل جائیں اور ایسے ادارے اور دار العلوم آباد کرنا ہے جہاں دین کے جید عالم تیار ہوں۔ اس انذار کی ایک شکل عامۃ الناس کا تزکیہ بھی ہے۔ یہ تزکیہ علم کا بھی ہوگا اور عمل کا بھی۔ یہ وہ کام ہے جو ہمارے صوفیا کرتے رہے ہیں۔ اس وقت تصوف ایک فلسفہ حیات کے طور پر زیر بحث نہیں ہے۔ میں جس پہلو کی تحسین کر رہا ہوں، وہ صوفیانہ حکمت عملی ہے جو خانقاہوں اور صوفیا کے حلقوں میں اختیار کی گئی ہے۔
تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ علما نے جب یہ کام کیا، معاشرے پر اس کے غیر معمولی اثرات مرتب ہوئے۔ ان اثرات کا دائرہ اقتدار کے ایوانوں سے لے کر عامۃ الناس کے حجروں تک پھیلا ہوا ہے۔ مختلف تذکروں میں ہمیں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جب حکمران، علما کے حجروں میں حاضر ہیں یا علما ارباب اقتدار سے بے نیازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ علما کو اگر معاشرے میں یہ مقام حاصل تھا تو اس کا سبب یہ تھا کہ وہ انذار کے منصب پر فائز تھے۔ انہوں نے خود کو اس کام کے لیے مخصوص کر لیا تھا کہ وہ دین بیان کریں گے اور معاشرے کے مختلف طبقات کو ان کی دینی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کریں گے۔ یہ لوگ کبھی اقتدار کی کشمکش میں فریق نہیں بنے۔ معاشرے پر ان کے اثرات کا یہ عالم تھا کہ حکمران ان کی رائے کے احترام پر مجبور تھے۔ پھر یہ وقت بھی آ گیا کہ ایسے لوگ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے جن پر کسی صاحب علم کا خاص اثر تھا۔ اس نے برسر اقتدار آ کر ان کی رائے کو ریاست کا قانون بنا دیا۔ ہارون الرشید نے قاضی ابو یوسف کو قاضی القضاۃ بنا دیا۔ محکمہ قضا جب ان کے ہاتھ آیا تو اسلامی ریاست میں اسی کو قضا کے عہدے پر فائز کیا جاتا جس کی سفارش قاضی ابو یوسف کرتے تھے۔ افریقہ میں معز بن باولیس کو والی بنایا گیا تو امام مالک کی فقہ کو وہاں غلبہ حاصل ہو گیا۔ اندلس میں حکم بن ہشام کے دور میں فقہ مالکی کو سرکاری حیثیت مل گئی۔ مصر میں صلاح الدین یوسف بن ایوب جب عبید کو شکست دے کر حکمران بنے تو فقہ شافعی کو غلبہ ملا کیونکہ بنو ایوب شوافع تھے۔ اب کسی جگہ ایسا نہیں ہوا کہ وہاں فقہ حنفی کے لیے مہم چلائی گئی ہو یا حنبلی مسلک کے نفاذ کا مطالبہ لے کر لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہوں۔
ہم جن صاحبان عزیمت کا ذکر کرتے ہیں، اور اس میں کیا شبہ ہے کہ یہ تذکرہ ہمارے ایمان کی تقویت کا باعث بنتا ہے، ان کا معاملہ یہ تھا کہ وہ اقتدار کی کشمکش میں کبھی فریق نہیں تھے۔ انہوں نے حکمرانوں سے اگر اختلاف کیا تو اس موقع پر جب انہوں نے دین میں مداخلت کی یا شریعت کے کسی حکم کو تبدیل کرنا چاہا۔ عباسی حکمرانوں نے جب یہ حکم جاری کیا کہ جو ان کی بیعت سے نکلے تو اس کی بیوی خود بخود اس پر حرام ہو جائے گی تو یہ فرمان دین میں مداخلت تھا چنانچہ امام مالکؒ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی کہ اس جبری طلاق کی کوئی حقیقت نہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ نے اگر حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھائی تو اس بات پر کہ وہ ریاست کی قوت کو بروئے کارلا کر یہ چاہتے تھے کہ قرآن مجید کو مخلوق مانا جائے۔ علما اور فقہاے امت کا یہ کام اپنی حقیقت میں انذار ہے۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اگر کہیں دین کے کسی حکم کو تبدیل کیا جا رہا ہے تو وہ لوگوں کے سامنے دین کا صحیح تصور پیش کریں۔ یہ کوئی سیاسی کردار نہیں ہے۔ ان لوگو ں نے حکمرانوں کے ناپسندیدہ کاموں پر انہیں ٹوکا لیکن نہ خود کو ان کی اطاعت سے آزاد کیا نہ دوسرے لوگوں کو اس کے لیے کہا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان جلیل القدر لوگوں کو اس راہ میں بہت سی مشکلات برداشت کرنا پڑیں لیکن اس کے بعد ارباب اقتدار کے لیے یہ آسان نہیں رہا کہ وہ اپنی رائے پر اصرار کریں۔
آج بھی اگر کوئی ایسی صورت حال پیش آتی ہے تو یہ علما کی ذمہ داری ہے کہ وہ دین کا دفاع کریں اور اس راہ میں کوئی مشقت اٹھانا پڑتی ہے تو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کریں۔ صبر واستقامت ایسی چیزیں نہیں ہیں جو رائیگاں چلی جائیں۔ جو لوگ ان خوبیوں کا مظاہرہ کرتے ہیں، معاشرے پر ان کے بے پناہ اثرات ہوتے ہیں۔ آج کے جمہوری دور میں تو حکمرانوں کے لیے مزید مشکل ہو جائے اگر وہ ایسے لوگوں کی مخالفت کریں۔
اسی بنیاد پر ہم اس بات کے قائل ہیں کہ علما کے شایان شان یہی ہے کہ وہ اقتدار کی حریصانہ کشمکش سے دور رہ کر منصب اعلیٰ کو آباد کریں اور دین کی حفاظت کے ساتھ لوگوں کا تزکیہ نفس کریں۔ اس سے دین کو فائدہ پہنچے گا اور ان کے احترام میں بھی اضافہ ہوگا۔ میں تو یہ عرض کرتا ہوں کہ اس سے ان کا سیاسی اثر ورسوخ بھی کئی گنا بڑھ جائے گا۔ میں پاکستان کے کئی ایسے علما وصوفیا کے نام گنوا سکتا ہوں جو اپنی خانقاہوں سے کبھی نہیں نکلے لیکن ان کے معاشرتی اثرات کا یہ عالم ہے کہ ہر عام انتخابات کے موقع پر اہل سیاست ان کے دروازے پر حاضر ہوتے ہیں اور ان سے تائید کی بھیک مانگتے ہیں۔ وہ جس کے حق میں فیصلہ دے دیں، ان کے حلقہ اثر میں اس کی کام یابی یقینی ہو جاتی ہے۔
یہ صحیح ہے کہ تاریخ میں ہمیں بعض ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو اقتدار کی کشمکش میں فریق تھے۔ پرانے دور میں اس کی نوعیت خروج کی تھی۔ امام ابن تیمیہؒ نے ’’منہاج السنۃ‘‘ میں ان تمام بغاوتوں کا جائزہ لے کر یہ بتایا ہے کہ ایسی کوئی کوشش نہ صرف یہ کہ کامیاب نہیں ہوئی بلکہ اس سے امت میں انتشار اور افتراق کا ایسا دروازہ کھلا کہ پھر کبھی بند نہیں ہو سکا۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں اگرچہ صاحبان اقتدار کی تبدیلی کے انداز بدل گئے ہیں لیکن علما کی عملی سیاست میں شرکت کے نتائج پر کوئی فرق نہیں آیا۔ پاکستان کو اگر ہم اپنی توجہ کا مرکز بنائیں تو علما کی سیاست کا دین کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچا۔
پاکستانی سیاست میں علما کا کردار
پاکستان میں علما عملی سیاست میں بالعموم دو طرح سے شریک رہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے بعض مذہبی ودینی مسائل پر تحریکیں اٹھائیں اور مطالبات منوانے کے لیے اپنی سیاسی قوت کو بروئے کار لائے۔ دوسری صورت میں یہ دھماکہ انہوں نے خود کو قوم کے سامنے متبادل قیادت کے طور پر پیش کر کے کیا اور مروجہ نظام کے تحت اقتدار تک پہنچنے کی سعی کی۔ ان دونوں صورتوں کے جو نتائج نکلے، میں انہیں قدرے تفصیل کے ساتھ زیر بحث لا رہا ہوں۔
تحریکیں اٹھا کر علما نے بعض مذہبی معاملات میں حکومت وقت سے قانون سازی کا مطالبہ کیا۔ مثال کے طور پر ۱۹۴۸ء میں دستور اسلامی کے لیے تحریک اٹھی، ۱۹۵۳ء اور پھر ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ ۱۹۷۳ء کے آئین کو اسلامی بنانے کے لیے آواز اٹھائی گئی۔ ان مخصوص مسائل کے علاوہ بھی ہمارے علما ہر حکومت سے یہ مطالبہ کرتے رہے کہ وہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کرے۔ گزشتہ دنوں میں ان کی طرف سے اسلام آباد پر یلغار کا اعلان تھا۔ یہ اقدام بھی اس مطالبہ پر مبنی تھا کہ حکومت فوری طور پر نفاذ اسلام کا اعلان کرے۔ علما کی یہ مہم بڑی حد تک کام یاب رہی۔ قانون سازی کے باب میں ان کے مطالبات بالعموم تسلیم کر لیے گئے۔ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ قانون کی سطح پر پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے میں اب کوئی امر مانع نہیں ہے۔ یہ البتہ ایک دوسری بحث ہے کہ محض قانون سازی سے کیا کوئی ریاست اسلامی بن سکتی ہے؟
اب ہم دوسری صورت کی طرف آتے ہیں۔ اس ملک میں اقتدار تک پہنچنے کے دو راستے ہیں: ایک آئینی، دوسرا غیر آئینی۔ آئینی طور پر برسراقتدار آنے کا واحد راستہ انتخابات ہیں۔ ہماری مذہبی جماعتوں نے انتخابات میں دو طرح سے حصہ لیا۔ انفرادی حیثیت میں اور سیاسی اتحادوں میں شامل ہو کر۔ انفرادی سطح پر انتخابات میں حصہ لے کر علما نہ صرف کوئی قابل ذکر کام یابی حاصل نہ کر سکے بلکہ ان کی حمایت میں بتدریج کمی آئی۔ ۱۹۷۰ء میں انہیں پندرہ فیصد رائے دہندگان کا اعتماد حاصل تھا تو ۱۹۹۷ء تک پہنچتے پہنچتے اس میں بہت کمی آگئی۔ تاہم اتحادوں میں شامل ہو کر وہ پارلیمنٹ تک پہنچے اور بعض اوقات صوبائی اور قومی سطح پر شریک اقتدار بھی ہوئے۔ ظاہر ہے کہ یہ شرکت اسی وقت ممکن ہوئی جب انہوں نے کسی بڑی سیاسی جماعت کا ہاتھ تھاما۔
یہ تو علما کی سیاست کے براہ راست نتائج ہیں۔ اب ہم ان نتائج کی طرف آتے ہیں جو بالواسطہ سامنے آئے۔
پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ اقتدار کی حریصانہ کشمکش میں شریک ہو کر وہ منصب دعوت سے معزول ہو گئے۔ اب وہ معاشرے میں دین کے داعی کا کردار ادا نہیں کر سکتے۔ اس کی وجہ بڑی واضح ہے۔ دعوت بے غرض بناتی ہے اور سیاست غرض مند۔ جب آپ کسی کو دین کی دعوت دیتے ہیں تو جواباً کسی اجر کا مطالبہ نہیں کرتے۔ اس سے آپ کی قدر ومنزلت میں اضافہ ہوتا ہے اور آپ اس بات سے بے نیاز ہوتے ہیں کہ آپ کی دعوت کے کیا اثرات مدعو پر پڑیں گے، اس کو آپ کی بات پسند آئے گی یا نہیں۔ اس کے بالمقابل جب آپ سیاست میں ہیں تو لوگوں سے ووٹ کے لیے درخواست کرتے ہیں۔ یہ ایک ضرورت مند کا کردار ہے۔ آپ کو حق بات کہنے سے زیادہ دلچسپی اس امر میں ہے کہ عوام کے مطالبات کیا ہیں؟ چنانچہ کسی سیاسی ضرورت کے تحت آپ یہ ثابت کرتے ہیں کہ آپ ہی وہ موزوں ترین شخص ہیں جو ان کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔ جو یہ بات باور کرانے میں کام یاب ہو جاتا ہے، وہ جیت جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سیاست کی حریصانہ کشمکش میں جب آپ فریق بنتے ہیں تو پھر وہ گروہ آپ کا مخاطب نہیں رہتا جو آپ کا مخالف ہے۔ اس طرح آپ کی دعوت اس طبقے تک نہیں پہنچ سکتی اور یہ بات حکمت تبلیغ کے خلاف ہے لہٰذا علما کی سیاست کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ مسند دعوت خالی ہو گیا۔
دوسرے نتیجے کا تعلق مذہبی جماعتوں کی ہیئت ترکیبی سے ہے۔ ہمارے ہاں مذہبی جماعتیں، جماعت اسلامی کے استثنا کے ساتھ، فرقہ وارانہ بنیاد پر قائم ہیں۔ ہر مسلک کے علما نے اپنی سیاسی جماعت بنا رکھی ہے۔ سیاست کے مبادیات سے واقف ایک شخص بھی یہ جانتا ہے کہ جو جماعت کسی خاص مذہبی فکر پر قائم ہو، وہ کبھی قومی جماعت نہیں بن سکتی۔ اس کے ساتھ ان مذہبی عناصر کے مفاد کا تقاضا بھی یہی ہے کہ یہ تقسیم باقی رہے کیونکہ اس صورت میں انہیں ایک پریشر گروپ کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور پھر وہ کسی بڑی سیاسی جماعت سے معاملہ کر کے سینٹ یا اسمبلی تک پہنچ جاتے ہیں اور اس طرح سیاسی منظر پر اپنی موجودگی کو یقینی بناتے ہیں۔ اس سے کسی فرد واحد یا چند افراد کو تو دنیاوی اعتبار سے فائدہ پہنچتا ہے لیکن قوم میں مسلکی تقسیم مزید پختہ ہو جاتی ہے۔ چونکہ ان عناصر کے پیش نظر شخصی مفاد ہوتا ہے اس لیے ایک لازمی نتیجے کے طور پر شخصیات کا تصادم (Personality clash) جنم لیتا ہے اور یہ جماعتیں مزید تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتی ہیں۔ آج اس ملک میں کوئی مذہبی جماعت ایسی نہیں جو دو یا دو سے زیادہ حصوں میں منقسم نہ ہو۔ گویا اس مذہبی سیاست کا دوسرا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ فرقہ وارانہ گروہ بندی مضبوط تر ہو گئی۔
تیسرا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاست میں مسلسل ناکامیوں نے ان لوگوں کو مایوسی (Frustration) کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا۔ چنانچہ اب وہ برملا یہ کہنے لگے ہیں کہ انتخابی سیاست سے کام یابی کا کوئی امکان نہیں اس لیے ہمیں اب کوئی دوسرا راستہ تلاش کرنا ہوگا کیونکہ آئین کے تحت تبدیلی کا واحد راستہ انتخابات ہیں۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ ان میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو تبدیلی کے لیے مسلح جدوجہد کے قائل ہیں۔
چوتھا نتیجہ یہ نکلا کہ عملی سیاست میں شریک بعض علما کے دامن پر جب دنیاوی آلودگیوں کے نشانات کا تاثر ابھرا تو اس سے علما کی شہرت کو بالعموم بہت نقصان پہنچا۔ میرے لیے یہ کہنا ممکن نہیں کہ اس تاثر میں صداقت کا تناسب کیا ہے لیکن اس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ یہ تاثر پیدا ہی تب ہوا جب علما عملی سیاست میں الجھے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ دور جدید میں علما کا وقار جتنا مجروح ہوا ہے، شاید ہی کسی دوسرے طبقے کا ہوا ہو۔ دنیا داروں کے ساتھ جب انہوں نے معاملات کیے تو علما کو ان کی سطح پر اترنا پڑا۔
میرے نزدیک ان نتائج کی فہرست طویل ہو سکتی ہے لیکن اگر محض ان ہی کو پیش نظر رکھا جائے تو یہی رائے بنتی ہے کہ عملی سیاست دین اور علما دونوں کے لیے مفید ثابت نہیں ہوئی۔ علما کی عملی سیاست میں شرکت کا واحد فائدہ یہ ہوا کہ یہ ملک آئینی اور دستوری طور پر اسلامی بن گیا۔ اس کے علاوہ اس شرکت کے تمام نتائج منفی رہے۔ اب جہاں تک اس واحد فائدے کا تعلق ہے تو علما اگر اپنے منصب انذار پر جلوہ افروز رہتے اور حکمرانوں کو اس جانب متوجہ کرتے کہ اگر کسی خطے میں مسلمانوں کو اقتدار حاصل ہو جائے تو وہ شرعاً اس کے پابند ہیں کہ وہاں اللہ کے قانون کی حکمرانی ہو تو بھی یہ مقصد حاصل ہو جاتا۔ یہ قوم مزاجاً بھی ریاست کے سیکولر تشخص کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے اور اس کے ساتھ اگر علما کا یہ دباؤ بھی ہوتا تو کوئی حکومت یہ جرات نہ کر سکتی کہ وہ پاکستان کو دستوری طور پر سیکولر بنائے۔ پھر اس بات سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ دستور کو اسلامی بنانے اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے میں بنیادی کردار ایک ایسے عالم دین، مولانا ظفر احمد انصاری مرحوم کا تھا جو عملی سیاست سے دور رہنے والے تھے۔
اس تجزیے سے یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں ہوگا کہ اس سے مقصود دین وسیاست کی علیحدگی کی وکالت ہے۔ یہاں محض یہ بات کہی جا رہی ہے کہ علما کا کام سیاست نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کا کام ہے جو اپنی افتاد طبع کے اعتبار سے سیاست کا رجحان رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کو اسلامی ریاست ہونا چاہیے اور اس میں بھی دو آرا نہیں کہ اس کے لیے جدوجہد ہونی چاہیے لیکن ہمارے نزدیک یہ کام وہ لوگ کریں جن کے اندر اس کے لیے فطری داعیہ موجود ہو۔ علما کا منصب یہ نہیں کہ وہ سیاست دان بنیں۔ ان کاکام یہ ہے کہ وہ سیاست دانوں کو مسلمان بنائیں۔ اس ملک میں تنہا مولانا مودودیؒ کے عالمانہ کام کا یہ اثر ہے کہ اہل صحافت کی ایک ایسی کھیپ تیار ہوئی جس کی تمام صحافیانہ سرگرمیوں کا محور ومرکز یہ ہے کہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست ہونا چاہیے۔ اگر مولانا سیاست کی حریفانہ کشمکش کو بھی اسی طرح متاثر کرتے، ذرا غور کیجیے اگر ہمارے درمیان ایسے علما موجود ہوتے جن کی علمی وجاہت سے اس ملک کا رجحان ساز طبقہ یعنی اہل سیاست، فوجی قیادت، بیورو کریسی مرعوب ہوتے تو اس ملک کا نقشہ کیا ہوتا؟ میرا کہنا یہ ہے کہ اگر علما اپنی ذمہ داری بطریق احسن ادا کرتے تو آج ہمیں حکمرانوں سے نفاذ اسلام کی بھیک نہ مانگنا پڑتی۔
غامدی صاحب اور خبرِ واحد
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
علماء کے سیاسی کردار، کسی غیر سرکاری فورم کی طرف سے جہاد کے اعلان کی شرعی حیثیت، علماء کرام کے فتویٰ جاری کرنے کے آزادانہ استحقاق، اور زکوٰۃ کے علاوہ کسی اور ٹیکس کی شرعی ممانعت کے حوالہ سے محترم جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے بعض حالیہ ارشادات کے بارے میں ان کالموں میں کچھ گزارشات پیش کی تھیں۔ ہمارا خیال تھا کہ غامدی صاحب محترم ان مسائل پر قلم اٹھائیں گے اور ہمیں ان کے علم و مطالعہ سے استفادہ کا موقع ملے گا۔ لیکن شاید ’’پروٹوکول‘‘ کے تقاضے آڑے آگئے جس کی وجہ سے غامدی صاحب کی بجائے ان کے شاگرد رشید خورشید احمد ندیم صاحب نے ہماری ان گزارشات پر قلم اٹھایا اور معاصر روزنامہ جنگ میں ’’تکبیر مسلسل‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے مضامین میں انہوں نے ان مسائل پر اظہار خیال کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
اس سلسلہ میں قارئین کی یہ الجھن ہمارے پیش نظر ہے کہ ہماری گزارشات اور خورشید احمد ندیم صاحب کی جوابی توضیحات الگ الگ اخبارات میں شائع ہو رہی ہیں اور بہت سے قارئین کے لیے دونوں کا مطالعہ کرنا مشکل ہے۔ اس لیے اگر دونوں اخبارات اپنے صفحات میں شائع ہونے والے ان مضامین کے جواب میں سامنے آنے والے مضامین کو بھی اپنے صفحات میں جگہ دے دیں تو اس سے دونوں روزناموں کے قارئین کو پوری بحث سے استفادہ کا موقع مل جائے گا۔ لیکن یہ اخبارات کے منتظمین کا مسئلہ ہے اور وہ اپنی مصلحتوں اور ضرریات کو زیادہ بہتر طو رپر سمجھتے ہیں کہ
رموز مملکت خویش خسروان دانند
بہرحال اب تک خورشید احمد ندیم نے دو نکات پر گفتگو کی ہے۔ پہلے مرحلہ میں انہوں نے توضیحات کے عنوان سے خبر واحد کے حجت ہونے کے بارے میں ہماری گزارش پر تبصرہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ان کے ہاں سنت کا جو مفہوم سمجھا جاتا ہے اسے پیش نظر رکھا جائے تو خبر واحد کے حجت ہونے یا نہ ہونے کی بحث کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ مگر ہمیں خورشید صاحب کے اس ارشاد سے اختلاف ہے جس کا آئندہ سطور میں ہم ذکر کریں گے لیکن اس سے قبل ہم خبر واحد کے بارے میں عام قارئین کے لیے تھوڑی سی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں تاکہ وہ صحیح طور پر اس بحث کو سمجھ سکیں۔
’’خبر واحد‘‘ کا لفظی معنٰی ایک آدمی کی روایت ہے۔ اور محدثین کی اصطلاح میں خبر واحد اسے کہتے ہیں کہ قرون اولیٰ یعنی صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے دور میں کسی حدیث نبویؐ کو روایت کرنے میں ایک ہی بزرگ متفرد ہوں اور دوسرا کوئی ان کے ساتھ اس بات کو بیان کرنے میں شریک نہ ہو۔ ایسی خبر کے بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف چلا آرہا ہے کہ شرعی احکام کے ثبوت میں یہ خبر اور حدیث حجت ہے یا نہیں۔ جمہور محدثین اور فقہاء کا موقف یہ ہے کہ کسی بھی ثقہ راوی کی روایت کردہ خبر واحد اگر قرآن کریم کی کسی نص صریح کے خلاف نہیں اور کوئی خبر متواتر یا اجماعی تعامل بھی اس کی نفی نہیں کر رہا تو وہ شرعاً حجت ہے اور اس پر عمل واجب ہے۔ مگر بعض اصولی فقہاء کا موقف یہ ہے کہ خبر واحد کسی شرعی حکم کے وجوب کا فائدہ نہیں دیتی۔
ہم نے ایک سابقہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ مولانا امین احسن اصلاحیؒ اور جناب جاوید احمد غامدی کے مکتب فکر کا موقف ان اصولی فقہاء کے قریب ہے۔ اسی وجہ سے انہیں شادی شدہ مرد اور عورت کے زنا کا مرتکب قرار پانے پر اس کے لیے سنگسار کرنے کی سزا کو ’’شرعی حد‘‘ کے طور پر قبول کرنے میں تامل ہے۔ اس کے جواب میں خورشید ندیم صاحب کا ارشاد ہے کہ سنت رسولؐ کے بارے میں غامدی صاحب کی وضاحت کو سامنے رکھنے کے بعد خبر واحد کی حجت کا سوال باقی نہیں رہتا۔ چنانچہ وہ اس ضمن میں غامدی صاحب کے دو ارشادات نقل کر رہے ہیں کہ
(۱) ’’سنت سے مراد دین ابراہیمی ؑ کی وہ روایت ہے جسے نبی اکرمؐ نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔‘‘
(۲) ’’اس بارے میں یہ بات بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں وہ جس طرح صحابہؓ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے یہ اسی طرح ان کے اجتماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور ہر دور میں امت کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے۔‘‘
ہم ان دو اقتباسات کا جو مطلب سمجھ پائے ہیں وہ یہ ہے کہ سنت صرف وہی ہے جو دین ابراہیمیؑ کے سابقہ تسلسل کے ساتھ نقل ہوتی چلی آرہی ہے اور جناب نبی اکرمؐ نے تجدید و اصلاح کے ساتھ اسے باقی رکھا ہے۔ اس کا لازمی مطلب اگر سامنے رکھا جائے تو جناب نبی اکرمؐ کا ہر وہ عمل اور قول سنت کے دائرہ سے نکل جاتا ہے جس کا دین ابراہیمیؑ کے سابقہ تسلسل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور رسول اکرمؐ نے اپنی طرف سے نئی سنت کے طور پر اس کا اجراء فرمایا ہے۔ اسی طرح کسی سنت کے ثبوت کے لیے غامدی صاحب کے نزدیک یہ ضروری ہے کہ وہ صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد امت کے اجماع اور قولی تواتر سے ثابت ہو۔ اور جو سنت نبویؐ یا حدیث رسولؐ اجماع اور تواتر کے ذریعہ ہم تک نہیں پہنچی وہ غامدی صاحب کے نزدیک ثابت شدہ نہیں ہے۔
لہٰذا اگر حدیث و سنت کے تعین اور ثبوت کے لیے اس معیار کو قبول کر لیا جائے تو چوہدری غلام احمد پرویز اور ان کے رفقاء کی طرح حدیث و سنت کے انکار کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ بلکہ اس وقت حدیث و سنت کے نام سے روایات کا جو ذخیرہ امت کے پاس موجود ہے اور جس کی چھان پھٹک کے لیے محدثین تیرہ سو برس سے صبر آزما اور جاں گسل علمی جدوجہد میں مصروف چلے آرہے ہیں اس کا کم و بیش نوے فیصد حصہ خود بخود سنت کے دائرے سے نکل کر کالعدم قرار پا جاتا ہے۔ ہمیں تعجب اس بات پر ہے کہ خورشید احمد ندیم صاحب ان اقتباسات کے ذریعہ خبر واحد کے حجت ہونے بلکہ سرے سے اس کے بیشتر کو سنت تسلیم کرنے سے انکار فرما رہے ہیں، مگر انہیں اس بات پر بھی اصرار ہے کہ سنت کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کو سامنے رکھنے کے بعد خبر واحد کے حجت ہونے یا نہ ہونے کے اختلاف کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی۔
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک خبر واحد بلکہ اجماع اور تواتر کے ذریعہ ثابت نہ ہونے والی کسی بھی سنت کی کوئی اہمیت نہیں ہے، مگر امت کے جمہور محدثین اور فقہاء کے نزدیک جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر وہ ارشاد اور عمل پوری اہمیت رکھتا ہے جو اہل علم کے طے کردہ اصولوں کے مطابق ثقہ اور مستند راویوں کے ذریعہ امت تک پہنچا ہے اور جسے محدثین صحیح روایت کے طور پر امت کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
لطف کی بات یہ ہے کہ غامدی صاحب اور خورشید ندیم صاحب کے نزدیک کسی ایک سنت کے ثبوت کے لیے تو صحابہ کرامؓ اور امت کا اجتماعی تعامل ضروری ہے، لیکن اسی سنت کے مفہوم کے تعین، روایت کے طریق کار، قبولیت کے معیار، اور صحت و ضعف کے قواعد و اصول کے بارے میں امت کے چودہ سو سالہ اجتماعی تعامل اور جمہور محدثین و فقہاء کا طرز عمل ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ وہ امت کے جمہور اہل علم کے طے کردہ اس معیار کو قبول کرنے کی بجائے اپنے ’’جداگانہ اصولوں‘‘ کو حتمی معیار کے طور پر پیش کرنے پر مصر ہیں۔ اور اس معاملہ میں اجتماع و تواتر اور تفرد و توحد کا فرق ان کے ذہن تک رسائی کا راستہ پانے میں کامیاب نہیں ہو رہا۔
علماء اور سیاست
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
خورشید احمد ندیم صاحب نے علماء کے سیاسی کردار پر تفصیلی بحث کی ہے اور اس نقطہ نظر کی وضاحت کی ہے کہ علماء کرام کو عملی سیاست میں براہ راست رفیق بننے کی بجائے اصولی سیاست اور رہنمائی کی سطح تک اپنی سرگرمیوں کو محدود رکھنا چاہیے۔ اور ساتھ ہی پاکستان کی پچاس سالہ سیاست کا تجزیہ کیا ہے کہ علماء کا عملی سیاست میں حصہ لینا علماء اور دین دونوں کے لیے فائدہ کی بجائے نقصان کا باعث بنا ہے۔
جہاں تک علماء کے عملی سیاست میں فریق بننے یا نہ بننے کی بات ہے خورشید ندیم صاحب نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ یہ جائز و ناجائز کی بات نہیں بلکہ حکمت و تدبیر کا مسئلہ ہے۔ اس لیے اس حوالہ سے ان کے موقف اور ہمارے موقف میں کچھ زیادہ فرق نہیں رہا کیونکہ ہم نے بھی ’’موقع محل کی مناسبت‘‘ کے عنوان سے ضرورت کے وقت عملی سیاست میں علماء کے فریق بننے کا دفاع کیا تھا۔ جبکہ انہوں نے اسے ’’حکمت و تدبیر‘‘ کا نام دے دیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ حکمت و تدبیر نہ تو ایسی جامد شے ہے کہ ہر وقت ایک ہی حالت اور کیفیت میں رہے اور نہ ہی اس کی سطح ہر طبقہ، زمانہ اور علاقہ کے لیے یکساں رہتی ہے کہ ہر طرح کے حالات میں اس سے ایک ہی طرح کا نتیجہ برآمد ہو۔ اس لیے ہم بھی اس بحث کو آگے نہیں بڑھا رہے کیونکہ بے مقصد بحث اور لفظی نزاع کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
البتہ ہم اپنی اس گزارش کا اعادہ ضروری سمجھتے ہیں کہ قومی زندگی میں علماء کا اصل مقام علمی رہنمائی اور فکری قیادت ہے، اور عملی سیاست میں براہ راست فریق نہ بننے کی صورت میں وہ زیادہ بہتر طور پر اپنی ذمہ داری کے تقاضے پورے کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر کسی وقت حکمت و تدبیر کے تقاضے یا موقع محل کی مناسبت سے وہ شرح صدر کے ساتھ عملی سیاست میں خود سامنے آنے کو ضروری سمجھتے ہوں تو ان کے لیے شرعاً یہ دروازہ بند نہیں ہے۔ اور اسلامی تاریخ میں ان کے لیے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ، حضرت امام ابو حنیفہؒ ، حضرت امام مالکؒ ، شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ، اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ جیسے زعمائے امت کا واضح اسوہ اور شاندار روایات موجود ہیں جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں عملی سیاست میں نہ صرف دخل دیا بلکہ اس کے لیے گروہ بندی کی، محاذ آرائی کے دور سے گزرے، اور تاریخ میں قربانی و ایثار اور استقلال و استقامت کے روشن باب قائم کیے۔
مگر خورشید ندیم صاحب کے تجزیہ کے دوسرے حصے یعنی پاکستان میں علماء کے سیاسی کردار کے حوالے سے ان کی رائے سے ہمیں اتفاق نہیں ہے۔ انہوں نے عملی سیاست میں علماء کرام کے فریق بننے کے جو نقصانات گنوائے ہیں وہ ہمارے سامنے بھی ہیں اور ان میں سے بعض باتوں سے ہمیں اتفاق ہے۔ لیکن ان کا یہ کہنا ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ عملی سیاست میں حصہ لے کر علماء کرام ’’دعوت کے منصب‘‘ سے معزول ہوگئے ہیں۔ کیونکہ ہماری نصف صدی کی تاریخ میں بھی ماضی کی طرح یہ دونوں دائرے الگ الگ رہے ہیں اور آج بھی الگ الگ ہیں۔
دینی جدوجہد کی یہ فطری تقسیم کار چودہ سو سال سے چلی آرہی ہے کہ علمی کام کرنے والے خاموشی سے اپنے کام میں مگن ہیں، دعوت و اصلاح کے مرد میدان اپنے محاذ پر مصروف کار ہیں، اور تحریکی مزاج کے اہل علم و دین کا اپنا میدان کار ہے۔ پاکستان کی باون سالہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو یہ تمام شعبے یہاں بھی اپنے دائرہ کار میں مصروف دکھائی دیں گے اور ان میں باہمی تعاون کی ایک خاموش روش بھی نظر آئے گی۔ ملک میں ایسے اصحاب علم کی ایک بڑی تعداد آج بھی موجود ہے جو عملی سیاست کے جھمیلوں میں پڑے بغیر اپنا کام کر رہے ہیں۔ اور عوامی سطح پر دین کی طرف بنیادی دعوت کا عمل بھی موجود ہے جو عملی سیاست سے الگ تھلگ رہ کر دین کی چند بنیادی باتوں کو ہر مسلمان کے ذہن میں ڈالنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ کیا خورشید ندیم صاحب کی ’’حکمت و تدبیر‘‘ اس تقسیم کار کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے؟ اور کیا ان کے نزدیک ’’حکمت و تدبیر‘‘ اسی کا نام ہے کہ علم و دانش سے تعلق رکھنے والے تمام حضرات کو ایک ہی طرح کے کام میں لگا دیا جائے اور تمام اذہان و افکار کو ایک ہی سطح، ایک ہی دائرہ اور ایک ہی رخ کا پابند بنا کر باقی ہر کام کی نفی کر دی جائے؟ ہم خورشید ندیم صاحب محترم سے یہ سمجھنا چاہیں گے کہ عملی سیاست میں فریق بننے والے علماء کی محدود تعداد کو سامنے رکھ کر وہ ملک بھر کے تمام اہل علم و دانش کو دعوت کے منصب سے معزول کرنے کا حکم کس بنیاد پر صادر کر رہے ہیں؟
پھر خورشید ندیم صاحب کو اس بات کا اعتراف ہے کہ علماء کی سیاسی جدوجہد کی وجہ سے ملک دستوری لحاظ سے اسلامی ہے اور قانون سازی میں یہ ضمانت موجود ہے کہ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنے گا۔ ہمارے خیال میں اس معاملے کو ایک اور رخ سے دیکھا جائے تو بات زیادہ واضح ہو جائے گی کہ عملی سیاست میں علماء کے فریق بننے کی وجہ سے پاکستان اب تک سیکولر ریاست بننے سے بچا ہے۔ ورنہ اگر پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ موجود نہ ہوتے تو قرارداد مقاصد کبھی منظور نہ ہوتی۔ ۱۹۷۱ء کی دستور ساز اسمبلی میں مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا عبد الحقؒ ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، مولانا عبد المصطفیٰ ازہری، پروفیسر غفور احمد، اور مولانا ظفر احمد انصاری موجود نہ ہوتے تو اسلام کے سرکاری مذہب ہونے اور قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کی ضمانت جیسی بنیادی دفعات دستور کا حصہ نہیں بن سکتی تھیں۔ اور ۱۹۷۴ء میں یہی حضرات قومی اسمبلی کے رکن نہ ہوتے تو قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہو سکتا تھا۔
لطف کی بات یہ ہے کہ خورشید احمد ندیم اس سارے کام کو مولانا ظفر احمد انصاری کے کھاتے میں ڈال کر انہیں عملی سیاست سے دور رہنے والا بزرگ قرار دے رہے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس دور کے دستور سازی کے عمل سے ہی سرے سے بے خبر ہیں۔ مولانا ظفر احمد انصاری کی خدمات اور کردار سے انکار نہیں، لیکن وہ دستور ساز اسمبلی اور قومی اسمبلی میں اس ٹیم کا ایک حصہ تھے جس میں مذکورہ بالا اکثر بزرگ شامل تھے اور ان کی قیادت مولانا مفتی محمودؒ کر رہے تھے۔ جبکہ عملی سیاست سے مولانا ظفر احمد انصاری کے دور رہنے کی کیفیت یہ تھی کہ وہ ۱۹۷۱ء کے الیکشن میں کراچی سے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ کر دستور ساز اسمبلی اور پھر قومی اسمبلی کے رکن بنے تھے۔ اس لیے اگر وہ اس سارے انتخابی عمل سے گزر کر بھی عملی سیاست سے دور رہنے والے بزرگ قرار پا سکتے ہیں تو مذکورہ بالا دیگر بزرگوں کو یہ سہولت دینے میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔
ہمارے خیال میں موجودہ عالمی حالات اور شدید بین الاقوامی دباؤ کے تناظر میں علماء کا پاکستان کو سیکولر ریاست بننے سے روکے رکھنا ہی ایک ایسی بنیادی کامیابی ہے جس کی خاطر عملی سیاست کے تمام مبینہ نقصانات برداشت کیے جا سکتے ہیں۔
مولانا زاہد الراشدی کی خدمت میں
معز امجد
پچھلے دنوں مولانا زاہد الراشدی صاحب کا ایک مضمون ”غامدی صاحب کے ارشادات پر ایک نظر‘‘ تین قسطوں میں روزنامہ ”اوصاف‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں مولانا محترم نے استاذِ گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی کی بعض آرا پر اظہارِ خیال فرمایا ہے۔ مذکورہ مضمون میں مولانا محترم کے ارشادات سے اگرچہ ہمیں اتفاق نہیں ہے، تاہم ان کی یہ تحریر علمی اختلافات کے بیان اور مخالف نقطہء نظر کی علمی آرا پر تنقید کے حوالے سے ایک بہترین تحریر ہے۔ مولانا محترم نے اپنی بات کو جس سلیقے سے بیان فرمایا اور ہمارے نقطہء نظر پر جس علمی اندازسے تنقید کی ہے، وہ یقیناًموجودہ دور کے علما اور مفتیوں کے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے۔ مولانا محترم کے اندازِ بیان اور ان کی تنقید کے اسلوب سے جہاں ہمارے دل میں ان کے احترام میں اضافہ ہوا ہے، وہیں اس سے ہمیں اپنی بات کی وضاحت اور مولانا محترم کے فرمودات کا جائزہ لینے کا حوصلہ بھی ملا ہے۔ اس مضمون میں ہم مولانا محترم کے اٹھائے ہوئے نکات کا بالترتیب جائزہ لیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے ہماری دعا ہے کہ وہ صحیح بات کی طرف ہماری رہنمائی فرمائے اور غلط باتوں کے شر سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔
علماے دین اور سیاست
سب سے پہلی بات، جس پر مولانا محترم نے تنقید کی ہے، وہ علماے دین کے کام کے حوالے سے استاذِ گرامی کی رائے ہے۔ مولانا محترم کے اپنے الفاظ میں، وہ اس طرح سے ہے:
’’علماے کرام خود سیاسی فریق بننے کی بجائے، حکمرانوں اور سیاست دانوں کی اصلاح کریں تو بہتر ہو گا، مولوی کو سیاست دان بنانے کے بجائے، سیاست دان کو مولوی بنانے کی کوشش کی جائے۔‘‘
مولانا محترم استاذِ گرامی کی اس رائے کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے کہ علماے کرام خود سیاسی فریق بننے کی بجائے، حکمرانوں اور سیاست دانوں کی اصلاح کریں، تو اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ یہ موقع ومحل اور حالات کی مناسبت کی بات ہے اور دونوں طرف اہلِ علم اور اہلِ دین کا اسوہ موجود ہے۔ امت میں اکابر اہلِ علم کا ایک بہت بڑا طبقہ ہے جس نے حکمرانوں کے خلاف سیاسی فریق بننے کی بجائے ان کی اصلاح اور رہنمائی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ لیکن ایسے اہلِ علم بھی امت میں رہے ہیں، جنھوں نے اصلاح کے دوسرے طریقوں کو کامیاب نہ ہوتا دیکھ کرخود فریق بننے کا راستہ اختیار کیا ہے ... اس لیے اگر کسی دور میں علماے کرام یہ سمجھیں کہ خود فریق بنے بغیر معاملات کی درستی کا امکان کم ہے تو اس کا راستہ بھی موجود ہے اور اس کی مطلقاً نفی کر دینا دین کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔‘‘
ہمیں مولانا محترم کی محولہ عبارت سے بہت حد تک اتفاق ہے۔ علماے دین کا سیاسی اکھاڑوں میں اترنے کا مسئلہ، جیسا کہ استاذِ گرامی کے رپورٹ کیے گئے بیان سے بھی واضح ہے، حرمت و حلت کا مسئلہ نہیں ہے۔ استاذِ گرامی کا نقطہء نظر یہ نہیں ہے کہ علما کا سیاست کے میدان میں اترنا حرام ہے، اس کے برعکس، ان کی رائے یہ ہے کہ سیاست کے میدان میں اترنے کے بجائے، یہ ’بہتر ہوگا‘ کہ علماسیاست دانوں کی اصلاح کریں۔ ظاہر ہے کہ مسئلہ بہتر اور کہتر تدبیر کا ہے، نہ کہ حلال و حرام یا مطلقاً نفی کا۔
یہاں ہم البتہ، یہ بات ضرور واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ قرآنِ مجید میں علماے دین کی جو ذمہ داری بیان ہوئی ہے، وہ اپنی قوم میں آخرت کی منادی کرنا اور اس کے بارے میں اپنی قوم کو انذار کرنا ہے۔ چنانچہ، اپنے کام کے حوالے سے وہ جو رائے بھی قائم کریں اور جس میدان میں اترنے کا بھی وہ فیصلہ کریں، انھیں یہ بات کسی حال میں فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں وہ سب سے پہلے اسی ذمہ داری کے حوالے سے مسؤل ٹھیریں گے جو کتابِ عزیز نے ان پر عائد کی ہے۔ اس وجہ سے انھیں اپنی زندگی اور اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتے ہوئے یہ ضرور سوچ لینا چاہیے کہ کہیں ان کا یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ ذمہ داری کو ادا کرنے میں رکاوٹ تو نہیں بن جائے گا۔
ہم یہاں اتنی بات کا اضافہ ضروری سمجھتے ہیں کہ علماے کرام پر قرآنِ مجید نے اصلاحِ احوال کی نہیں، بلکہ اصلاحِ احوال کی جدوجہد کرنے کی ذمہ داری عائد کی ہے۔ مولانا محترم اگر غور فرمائیں، تو ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے۔ پہلی صورت میں منزلِ مقصود اصلاحِ احوال، جبکہ دوسری صورت میں اصلاح کی جدوجہد ہی راستہ اور اس راستے کا سفر ہی اصل منزل ہے۔ چنانچہ، ہمارے نزدیک، معاملات کی درستی کے امکانات خواہ بظاہر ناپید ہی کیوں نہ ہوں، علماے دین کا کام کامیابی کے امکانات کا جائزہ لینا نہیں، بلکہ اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آنے تک اس کی ڈالی ہوئی ذمہ داری کو بہتر سے بہتر طریقے پر ادا کرتے چلے جانا ہے۔ اس معاملے میں قرآنِ مجید نے ان لوگوں کا بطورِ مثال، خاص طور پر ذکر کیا ہے، جو یہود کی ایک بستی میں آخرت کی منادی کرتے تھے۔ یہ یہود کی اخلاقی پستی کا وہ دور تھا کہ اصلاح کی اس جدوجہد کی کامیابی کا سرے سے کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا۔ چنانچہ، جب بستی والوں نے ان مصلحین سے یہ پوچھا کہ ناامیدی کی اس تاریکی میں وہ یہ کام آخر کس لیے کر تے چلے جا رہے ہیں، تو انھوں نے جواب دیا:
مَعْذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمْ۔ (الاعراف ۷: ۱۶۴)
’’اس لیے کہ تمھارے رب کے حضور یہ ہمارے لیے عذر بن سکے(کہ ہم نے اپنے کام میں کوئی کمی نہیں کی)۔‘‘
قرآنِ مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت و انذار کے معاملے میں انبیاے کرام کا اسوہ بھی یہی رہا ہے۔ حالات کی نامساعدت اور کامیابی کی امید کے فقدان کو انھوں نے اپنے لیے کبھی رکاوٹ نہیں سمجھا۔ وہ اللہ کی طرف سے فیصلہ آنے تک اسی کام پر لگے رہے جس کا پروردگارِ عالم نے انھیں حکم دیا تھا۔ اس میدانِ عمل کا اسوۂ حسنہ یہی ہے۔ اس کی راہ پر چل نکلنا ہی منزل اور اس راہ میں اٹھایا ہوا ہر قدم ہی اصل کامیابی ہے۔
زکوٰۃ اور ٹیکس
اخبار کے بیان کے مطابق، استاذِگرامی نے کہا ہے:
’’زکوٰۃ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ٹیکسیشن کو ممنوع قرار دے کر حکمرانوں سے ظلم کا ہتھیار چھین لیا ہے۔‘‘
مولانا محترم اس بیان کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’... لیکن کیا کسی ضرورت کے موقع پر (زکوٰۃ کے علاوہ) اور کوئی ٹیکس لگانے کی شرعاً ممانعت ہے؟ اس میں ہمیں اشکال ہے۔ اگر غامدی صاحب محترم اللہ تعالیٰ کی طرف سے زکوٰۃ کے بعد کسی اور ٹیکسیشن کی ممانعت پر کوئی دلیل پیش فرما دیں، تو ان کی مہربانی ہو گی اور اس باب میں ہماری معلومات میں اضافہ ہو جائے گا۔‘‘
استاذِ گرامی اپنی بہت سی تحریروں میں اپنی رائے کی بنیاد واضح کر چکے ہیں۔ اپنے مضمون ’قانونِ معیشت‘ میں وہ لکھتے ہیں:
فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلوٰۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ۔ (التوبۃ ۹: ۵)
’’پھر اگر وہ توبہ کر لیں، نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔‘‘
سورۂ توبہ میں یہ آیت مشرکینِ عرب کے سامنے ان شرائط کی وضاحت کے لیے آئی ہے جنھیں پورا کر دینے کے بعد وہ مسلمانوں کی حیثیت سے اسلامی ریاست کے شہری بن سکتے ہیں۔ اس میں ’فخلوا سبیلہم‘ (ان کی راہ چھوڑ دو) کے الفاظ اگر غور کیجیے تو پوری صراحت کے ساتھ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ آیت میں بیان کی گئی شرائط پوری کرنے کے بعد جو لوگ بھی اسلامی ریاست کی شہریت اختیار کریں، اس ریاست کا نظام جس طرح ان کی جان، آبرو اور عقل و رائے کے خلاف کوئی تعدی نہیں کر سکتا، اسی طرح ان کی املاک، جائدادوں اور اموال کے خلاف بھی کسی تعدی کا حق اس کو حاصل نہیں ہے۔ وہ اگر اسلام کے ماننے والے ہیں، نماز پر قائم ہیں اور زکوٰۃ دینے کے لیے تیار ہیں تو عالم کے پروردگار کا حکم یہی ہے کہ اس کے بعد ان کی راہ چھوڑ دی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمانِ واجب الاذعان کی رو سے ایک مٹھی بھر گندم، ایک بالشت زمین، ایک پیسا، ایک حبہ بھی کوئی ریاست اگر چاہے تو ان کے اموال میں سے زکوٰۃ لے لینے کے بعد بالجبر ان سے نہیں لے سکتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت میں فرمایا ہے:
امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا ان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ ویقیموا الصلوٰۃ ویؤتوا الزکوٰۃ فاذا فعلوا عصموا منی وماء ہم واموالہم الا بحقہا وحسابہم علی اللہ۔ (مسلم، کتاب الایمان)
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروںیہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ وہ یہ شرائط پوری کر لیں تو ان کی جانیں اور ان کے اموال مجھ سے محفوظ ہو جائیں گے، الا یہ کہ وہ ان سے متعلق کسی حق کے تحت اس سے محروم کر دیے جائیں۔ رہا ان کا حساب تو وہ اللہ کے ذمے ہے۔‘‘
یہی بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر نہایت بلیغ اسلوب میں اس طرح بیان فرمائی ہے:
ان دماء کم واموالکم حرام علیکم لحرمۃ یومکم ھذا فی شھرکم ھذا فی بلدکم ھذا۔ (مسلم، کتاب الحج)
’’بے شک، تمھارے خون اور تمھارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں،(۱) جس طرح تمھارا یہ دن (یوم النحر) تمھارے اس مہینے (ذوالحجہ) اور تمھارے اس شہر (ام القری مکہ) میں۔‘‘
اس سے واضح ہے کہ اس آیت کی رو سے اسلامی ریاست زکوٰۃ کے علاوہ جس کی شرح اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کی وساطت سے مختلف اموال میں مقرر کر دی ہے، اپنے مسلمان شہریوں پر کسی نوعیت کا کوئی ٹیکس بھی عائد نہیں کر سکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
اذا ادیت زکوٰۃ مالک فقد قضیت ما علیک۔ (ترمذی، کتاب الزکوٰۃ)
’’جب تم اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہو، تو وہ ذمہ داری پوری کر دیتے ہو جو (ریاست کی طرف سے) تم پر عائد ہوتی ہے۔‘‘
اسی طرح آپ نے فرمایا ہے:
لیس فی المال حق سوی الزکوٰۃ۔ (ابنِ ماجہ، کتاب الزکوٰۃ)
’’لوگوں کے مال میں زکوٰۃ کے سوا (حکومت کا) کوئی حق قائم نہیں ہوتا۔‘‘
اربابِ اقتدار اگر اپنی قوت کے بل بوتے پر اس حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو یہ ایک بد ترین معصیت ہے جس کا ارتکاب کوئی ریاست اپنے شہریوں کے خلاف کر سکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لا یدخل الجنۃ صاحب مکس۔ (ابو داؤد، کتاب الخراج والامارۃ والفء)
’’کوئی ٹیکس وصول کرنے والا جنت میں داخل نہ ہو گا۔‘‘
اسلام کا یہی حکم ہے جس کے ذریعے سے وہ نہ صرف یہ کہ عوام اور حکومت کے مابین مالی معاملات سے متعلق ہر کشمکش کا خاتمہ کرتا، بلکہ حکومتوں کے لیے اپنی چادر سے باہر پاؤں پھیلا کر قومی معیشت میں عدمِ توازن پیدا کردینے کا ہر امکان بھی ہمیشہ کے لیے ختم کر دیتا ہے۔
تاہم اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ مال سے متعلق اللہ پروردگارِ عالم کے مطالبات بھی اس پر ختم ہو جاتے ہیں۔ قرآن میں تصریح ہے کہ اس معاملے میں اصل مطالبہ انفاق کا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح یہ فرمایا ہے کہ مال میں زکوٰۃ ادا کر دینے کے بعد حکومت کا کوئی حق باقی نہیں رہتا، اسی طرح یہ بھی فرمایا ہے:
ان فی المال حقاً سوی الزکوٰۃ۔ (ترمذی، کتاب الزکوٰۃ)
’’بے شک، مال میں زکوٰۃ کے بعد بھی (اللہ کا) ایک حق قائم رہتا ہے۔‘‘
(ماہنامہ ”اشراق“، اکتوبر ۱۹۹۸، ص۲۹۔ ۳۲)
امید ہے کہ دیے گئے اقتباس سے مولانا محترم پر استاذِ گرامی کا استدلال پوری طرح سے واضح ہو جائے گا۔ مولانا محترم سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اس استدلال میں اگر کوئی خامی دیکھیں، تو ہمیں اس سے ضرور آگاہ فرمائیں۔
جہاد اور مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی
اخبار کے بیان کے مطابق، استاذِ محترم نے کہا ہے:
’’جہاد تبھی جہاد ہوتا ہے، جب مسلمانوں کی حکومت اس کا اعلان کرے۔ مختلف مذہبی گروہوں اور جتھوں کے جہاد کو جہاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘
مولانا محترم، استاذِگرامی کی بات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’... جہاد کی مختلف عملی صورتیں اور درجات ہیں اور ہر ایک کا حکم الگ الگ ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کسی ملک یا قوم کے خلاف جہاد کا اعلان اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ایک اسلامی یا کم از کم مسلمان حکومت اس کا اعلان کرے، لیکن جب کسی مسلم آبادی پر کفار کی یلغار ہو جائے اور کفار کے غلبے کی وجہ سے مسلمان حکومت کا وجود ختم ہو جائے یا وہ بالکل بے بس دکھائی دینے لگے، تو غاصب اور حملہ آور حکومت کے خلاف جہاد کے اعلان کے لیے پہلے حکومت کا قیام ضروری نہیں ہو گا اور نہ ہی عملاً ایسا ممکن ہوتا ہے کیونکہ اگر ایسے مرحلہ میں مسلمانوں کی اپنی حکومت کا قیام قابلِ عمل ہو تو کافروں کی یلغار اور تسلط ہی بے مقصد ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ صورت پیدا ہی اس وقت ہوتی ہے جب مسلمانوں کی حکومت کفار کے غلبہ اور تسلط کی وجہ سے ختم ہو جائے، بے بس ہو جائے یا اسی کافر حکومت کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر رہ جائے۔
سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں کیا کیا جائے گا؟ اگر جاوید غامدی صاحب محترم کا فلسفہ تسلیم کر لیا جائے تو یہ ضروری ہو گا کہ مسلمان پہلے اپنی حکومت قائم کریں اور اس کے بعد اس حکومت کے اعلان پر جہاد شروع کیا جائے۔ لیکن پھر یہ سوال اٹھ کھڑا ہو گا کہ جب مسلمانوں نے اپنی حکومت بحال کر لی ہے تو اب جہاد کے اعلان کی ضرورت ہی کیا باقی رہ گئی ہے؟ کیونکہ جہاد کا مقصد تو کافروں کا تسلط ختم کر کے مسلمانوں کا اقتدار بحال کرنا ہے اور جب وہ کام جہاد کے بغیر ہی ہو گیا ہے تو جہاد کے اعلان کا کون سا جواز باقی رہ جاتا ہے؟‘‘
مولانا محترم کی یہ بات کہ کسی قوم یا ملک کے خلاف جہاد تو بہرحال مسلمان حکومت ہی کی طرف سے ہو سکتا ہے، ہمارے لیے باعثِ صد مسرت ہے۔ ہم اسے بھی غنیمت سمجھتے ہیں کہ موحودہ حالات میں مولانا نے اس حد تک تو تسلیم کیا کہ کسی ملک وقوم کے خلاف جہاد مسلمان حکومت ہی کر سکتی ہے۔ چنانچہ اب ہمارے اور مولانا کے درمیان اختلاف صرف اسی مسئلے میں ہے کہ اگر کبھی مسلمانوں پر کوئی بیرونی قوت اس طرح سے تسلط حاصل کر لے کہ مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی اس کے آگے بالکل بے بس ہو جائے تو اس صورت میں عام مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ یہ واضح رہے کہ ایسے حالات میں مولانا ہی کی بات سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ بیرونی طاقت کے خلاف اگر مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی اپنی سلطنت کے دفاع کا انتظام کرنے کو آمادہ ہو تو اس صورت میں بھی مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی ہی کی طرف سے کی جانے والی جدوجہد ہی اس بات کی مستحق ہو گی کہ اسے جہاد قرار دیا جائے۔ مزید برآں ایسے حالات میں نظمِ اجتماعی سے ہٹ کر، جتھہ بندی کی صورت میں کی جانے والی ہر جدوجہد، غلط قرار پائے گی۔ اگرچہ ہمیں یقین ہے کہ مولانا کو ہماری اس بات سے اتفاق ہو گا، تاہم پھر بھی ہم یہ چاہیں گے کہ مولانا ہمارے اس خیال کی تصدیق یا تردید ضرور فرما دیں، تاکہ اس معاملے میں قارئین کے ذہن میں بھی کوئی شک باقی نہ رہے۔ چنانچہ ہمارے فہم کی حد تک، اب ہمارے اور مولانا کے درمیان اختلاف صرف اس صورت سے متعلق ہے جب مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی، کسی بھی وجہ سے، بیرونی طاقت کے تسلط کے خلاف جدوجہد کرنے سے قاصر ہو۔ مولانا کے نزدیک اس صورت میں مسلمانوں کو ہر حال میں اپنی سلطنت کے دفاع کی جدوجہد کرنی چاہیے، خواہ یہ جدوجہد غیر منظم جتھہ بندی ہی کی صورت میں کیوں نہ ہو۔ مزید یہ کہ اس ضمن میں جو منظم یا غیر منظم جدوجہد بھی مسلمانوں کی طرف سے کی جائے گی، وہ مولانا محترم کے نزدیک ’جہاد ‘ہی قرار پائے گی۔
مولانا محترم نے اپنی بات کی وضاحت میں فلسطین، برِ صغیر پاک وہند، افغانستان اور الجزائرکی کامیاب جدوجہدِ آزادی اور دمشق کے عوام میں تاتاریوں کے خلاف کامیابی کے ساتھ جہاد کی روح پھونکنے کے معاملے میں ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ کی کوششوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ ہم اپنا نقطہء نظر بیان کرنے سے پہلے، تین باتوں کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں: اول یہ کہ مولانا محترم نے جتنے واقعات کا حوالہ دیا ہے، ان سب کی مولانا محترم کی رائے سے مختلف توجیہ نہ صرف یہ کہ کی جا سکتی بلکہ کی گئی ہے۔ دوم یہ کہ کسی جدوجہد کی اپنے مقصد کے حصول میں کامیابی، اس جدوجہد کے شریعتِ اسلامی کے مطابق ہونے کی دلیل نہیں ہوتی اور نہ کسی جدوجہد کی اپنے مقصد کے حصول میں ناکامی اس کے خلافِ شریعت ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ اور سوم یہ کہ عام انسانوں کی بات بے شک مختلف ہو گی، مگر مولانا محترم جیسے اہلِ علم سے ہماری توقع یہی ہے کہ وہ اہلِ علم کے عمل سے شریعت اخذ کرنے کے بجائے، شریعت کی روشنی میں اس عمل کا جائزہ لیں۔ اگر شریعتِ اسلامی کے بنیادی ماخذوں، یعنی قرآن و سنت، میں اس عمل کی بنیاد موجود ہے تو اسے شریعت کے مطابق اور اگر ایسی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے تو بغیر کسی تردد کے اسے شریعت سے ہٹا ہوا قرار دیں۔ ’جہاد‘ یا ’قتال‘ شریعتِ اسلامی کی اصطلاحات ہیں۔ ان اصطلاحات کی تعریف یا ان کے بارے میں تفصیلی قانون سازی کا ماخذ اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبروں کا اسوہ اور ان کی جاری کردہ سنت ہی ہو سکتی ہے۔ فلسطینی مسلمانوں کی جدوجہد ہو یا برِ صغیر پاک و ہند، افغانستان، الجزائریا دمشق کے مسلمانوں کی، یہ جدوجہد جہاد و قتال کی تعریف اور قانون سازی کا ماخذ نہیں، بلکہ خود اس بات کی محتاج ہے کہ شریعت کے بنیادی ماخذوں کی روشنی میں اس کی صحت یا عدمِ صحت کا فیصلہ کیا جائے۔ مولانا یقیناًاس بات سے اتفاق کریں گے کہ شریعتِ اسلامی مسلمانوں کے عمل سے نہیں، بلکہ مسلمانوں کا عمل شریعتِ اسلامی سے ماخوذ ہوناچاہیے۔ وہ یقیناًاس بات کو تسلیم کریں گے کہ شریعتِ اسلامی کے فہم کی اہمیت اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے ہر قسم کے جذبات و تعصبات سے بالا ہو کر پوری دیانت داری کے ساتھ پہلے سمجھ لیا جائے اور پھر پورے جذبے کے ساتھ اس پر عمل کیا جائے۔ جذبات و تعصبات سے الگ ہو کر غور کرنے کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے بات کو اصولی سطح پر سمجھ لیا جائے۔ اس کے بعد بھی اگر ضروری محسوس ہو تو فلسطین، برصغیر پاک و ہند، افغانستان، الجزائر اور دمشق کے مسلمانوں کی جدوجہد کو شریعت سے مستنبط اصولی رہنمائی کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔
اس وضاحت کے بعد، اب آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ کی کتاب قرآنِ مجید اور اس کے پیغمبروں کا اسوہ اور ان کی جاری کردہ سنت زیرِ غور مسئلے میں ہمیں کیا رہنمائی دیتے ہیں:
سب سے پہلی صورت جو ہمارے اور مولانا محترم کے درمیان متفق علیہ ہے، یہ ہے کہ کسی قوم و ملک کے خلاف جارحانہ اقدام اسی صورت میں ’جہاد‘ کہلانے کا مستحق ہو گا، جب یہ مسلمانوں کی کسی حکومت کی طرف سے ہو گا۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں بھی منظم حکومت کی طرف سے ہونا، اس اقدام کے جواز کی شرائط میں سے ایک شرط ہی ہے۔ بات یوں نہیں ہے کہ مسلمانوں کی منظم حکومت کی طرف سے کیا گیا ہر اقدام ’جہاد‘ ہی ہوتا ہے، بلکہ یوں ہے کہ ’جہاد‘ صرف مسلمانوں کی منظم حکومت ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔
دوسری صورت، جس کا اگرچہ مولانا محترم نے اپنی تحریر میں ذکر تو نہیں کیا، تاہم ان کی باتوں سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ اس میں بھی ہمارے اور ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، وہ یہ ہے کہ جب کسی مسلمان ریاست کے خلاف جارحانہ اقدام کیا جائے اور اس کا نظمِ اجتماعی اپنا دفاع کرنے کے لیے تیار ہو اور اس مقصد کے لیے جارح قوم کے خلاف میدانِ جنگ میں اترے، تو اس صورت میں بھی مسلمانوں کی منظم حکومت ہی کی طرف سے کیا گیا اقدام ’جہاد‘ کہلانے کا مستحق ہو گا۔ اس صورت میں تمام مسلمانوں کے لیے لازم ہو گا کہ وہ اپنے نظمِ اجتماعی ہی کے تحت منظم طریقے سے اپنے ملک و قوم کا دفاع کریں اور اس سے الگ ہو کر کسی خلفشار کا باعث نہ بنیں۔ یہ صورت، اگر غور کیجیے، تو پہلی صورت ہی کی ایک فرع ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ معاملہ خواہ قوم کے دفاع کا ہویا کسی جائز مقصد سے کسی دوسری قوم کے خلاف جارحانہ اقدام کا، دونوں ہی صورتوں میں یہ چونکہ مسلمانوں کی اجتماعیت سے متعلق ہے، لہٰذا اس کے انتظام کی ذمہ داری اصلاً ان کی اجتماعیت ہی پر ہے۔ اس طرح کے موقعوں پر عام مسلمانوں کو دین و شریعت کی ہدایت یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنے ملک و قوم کی خدمت کے لیے پیش کر دیں، اپنے حکمرانوں (اولوالامر) کی اطاعت کریں اور ہر حال میں اپنے نظمِ اجتماعی (الجماعۃ) کے ساتھ منسلک رہیں۔ ان کا نظمِ اجتماعی انھیں جس محاذ پر فائز کرے، وہ وہیں سینہ سپر ہوں، ان کا نظمِ اجتماعی جب انھیں پیش قدمی کا حکم دے تو اسی موقع پر وہ پیش قدمی کریں اور اگر کبھی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ان کا اجتماعی نظم انھیں دشمن کے آگے ہتھیار ڈال دینے کا حکم دے، تو وہ اپنے ملک و قوم ہی کی اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے، اس ذلت کو بھی برداشت کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔
منظم اجتماعی دفاع و اقدام کی ان دو واضح صورتوں کے علاوہ اندرونی یا بیرونی قوتوں کے جبر و استبداد کی بہت سی دوسری صورتیں بھی ہو سکتی ہیں۔ ہمارے اور مولانا محترم کے درمیان اختلاف اصلاً انھی دوسری صورتوں سے متعلق ہے۔ مولانا محترم کے نزدیک، اوپر دی ہوئی دونوں صورتوں کو چھوڑ کر، جبر و استبداد کی باقی صورتوں میں مسلمانوں کو گروہوں، جتھوں اور ٹولوں کی صورت میں اپنا دفاع اور آزادی کی جدوجہد کرنی چاہیے اور اس صورتِ حال میں یہی جدوجہد ’جہاد‘ قرار پائے گی۔ ہمارے نزدیک، مولانا محترم کی یہ رائے صحیح نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک، ایسی صورتِ حال میں بھی دین و شریعت کی ہدایت وہی ہے، جو پہلی دو صورتوں میں ہمارے اور مولانا محترم کے درمیان متفق علیہ ہے۔ شاید یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ دین و شریعت کی رو سے جہاد و قتال کی غیر منظم جدوجہد، بالعموم، جن ہمہ گیر اخلاقی و اجتماعی خرابیوں کو جنم دیتی ہے، شریعتِ اسلامی انھیں کسی بڑی سے بڑی منفعت کے عوض بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ قرآنِ مجید اور انبیاے کرام کی معلوم تاریخ سے یہ بات بالکل واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جبر و استبداد کی قوتوں کے خلاف، خواہ یہ قوتیں اندرونی ہوں یا بیرونی، اسی صورت میں تلوار اٹھانے کا حکم اور اس کی اجازت دی، جب مسلمان اپنی ایک خودمختار ریاست قائم کر چکے تھے۔ اس سے پہلے کسی صورت میں بھی انبیاے کرام کو کسی جابرانہ تسلط کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
جابرانہ تسلط میں حالات کی رعایت سے جو صورتیں پیدا ہوتی ہیں، وہ درجِ ذیل ہیں:
۱۔ جہاں محکوم قوم کو اپنے مذہب و عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی حاصل ہو۔
۲۔ جہاں محکوم قوم کو اپنے مذہب و عقیدے پر عمل کرنے کی اجازت حاصل نہ ہو۔
پہلی صورت میں جابرانہ تسلط سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کرنا ہر محکوم قوم کا حق تو بے شک ہے، مگر یہ دین کا تقاضا نہیں ہے۔ چنانچہ اسی اصول پر حضرتِ مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کی بعثت کے موقع پر اگرچہ بنی اسرائیل رومی سلطنت کے محکوم ہو چکے تھے، تاہم اللہ کے اس پیغمبر نے انھیں نہ کبھی رومی تسلط کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے کا مشورہ دیا اور نہ خود ہی ایسی کسی جدوجہد کی بنا ڈالی۔ ظاہر ہے کہ اگر ایسے حالات میں آزادی کی جدوجہد کو دین میں مطلوب و مقصود کی حیثیت حاصل ہوتی، تو حضرتِ مسیح جیسے اولو العزم پیغمبر سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ دین کے اس مطلوب و مقصود سے گریز کی راہ اختیار کرتے۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایسی صورتِ حال میں آزادی کی جدوجہد دین و شریعت کا تقاضا نہیں ہے۔ اس بات سے بہرحال اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ ایسی صورتِ حال میں بھی آزادی کی جدوجہد ہر قوم کا فطری حق ہے۔ وہ یقیناًیہ حق رکھتی ہے کہ اس جابرانہ تسلط سے چھٹکارا پانے کی جدوجہد کرے۔ مگر چونکہ یہ جدوجہد دین کا تقاضا نہیں ہے، اس وجہ سے یہ ضروری ہے کہ اسے نہ صرف پرامن بنیادوں ہی پر استوار کیا جائے، بلکہ اس بات کا بھی پوری طرح سے اہتمام کیا جائے کہ مسلمانوں کے کسی اقدام کی وجہ سے کسی مسلم یا غیر مسلم کا خون نہ بہنے پائے۔ اس جدوجہد میں مسلمانوں کے رہنماؤں کو یہ بات بہرحال فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دین و شریعت میں جان و مال کی حرمت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ انھیں ہر حال میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کے کسی اقدام کے نتیجے میں جان و مال کی یہ حرمت اگر ناحق پامال ہوئی، تو اس بات کا شدید اندیشہ ہے کہ وہ اپنے اس اقدام کے لیے اللہ کے حضور میں مسؤل قرار پا جائیں۔ جان و مال کی یہ حرمت اگر کسی فرد یا قوم کے معاملے میں ختم ہو سکتی ہے تو شریعت ہی کی دی ہوئی رہنمائی میں ختم ہو سکتی ہے۔ چنانچہ، ظاہر ہے کہ جبر و تسلط کی اس پہلی صورت میں اگر آزادی کی جدوجہد دین و شریعت کا تقاضا نہیں ہے تو پھر اس کے لیے کیے گئے کسی جارحانہ اقدام کو نہ ’جہاد‘ قرار دیا جا سکتا اور نہ اس راہ میں لی گئی کسی جان کو جائز ہی ٹھیرایا جا سکتا ہے۔
دوسری صورت وہ ہے کہ جب کسی دوسری قوم پر جابرانہ تسلط ایسی صورت اختیار کر لے کہ محکوم قوم کے باشندوں کو اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اجازت حاصل نہ ہو۔ اس صورت میں محکوم قوم کے امکانات کے لحاظ سے دو ضمنی صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں:
۱۔ جہاں محکوم قوم کے لیے جابرانہ تسلط کے علاقے سے ہجرت کر جانے کی راہ موجود ہو۔
۲۔ جہاں محکوم قوم کے لیے ہجرت کی راہ مسدود ہو۔
اگر مذہبی جبر اور استبداد کے دور میں لوگوں کے لیے اپنے علاقے سے ہجرت کر جانے اور کسی دوسرے علاقے میں اپنے دین پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزارنے کی راہ کھلی ہو، تو اس صورت میں دین کا حکم یہ ہے کہ لوگ اللہ کے دین پر آزادی کے ساتھ عمل کرنے کی خاطر، اپنے ملک اور اپنی قوم کو اللہ کے لیے چھوڑ دیں۔ قرآنِ مجید کے مطابق ایسے حالات میں ہجرت نہ کرنا اور اس کے نتیجے میں اپنے آپ کو مذہبی جبر اور استبداد کا نشانہ بنے رہنے دینا جہنم میں لے جانے کا باعث بن سکتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَآءِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَالُوْ فِیْمَ کُنْتُمْ، قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْآ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَا جِرُوْا فِیْھَا فَاُولٰٓءِکَ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَسَآءَ تْ مَصِیْرًا۔ (النساء ۴: ۹۷)
’’بے شک، جن لوگوں کو فرشتے اس حال میں موت دیں گے کہ وہ (ظلم و جبر کے باوجود یہیں بیٹھے) اپنی جانوں پر ظلم ڈھا رہے ہوں گے، تو وہ ان سے پوچھیں گے: ’تم کہاں پڑے رہے؟‘ وہ کہیں گے: ’ہم اپنی زمین میں کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں رکھتے تھے‘۔ فرشتے ان سے پوچھیں گے: ’کیا اللہ کی زمین اتنی وسیع نہ تھی کی تم اس میں (کہیں اور) ہجرت کر جاتے؟‘ چنانچہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے۔‘‘
ہجرت کی یہی صورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی زندگیوں میں پیش آئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ ہجرت مصر سے صحراے سینا کی طرف تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت نے یثرب کو مدینۃ النبی بننے کا شرف بخشا۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اس ہجرت سے پہلے نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جاں نثار ساتھیوں کو جبر وا ستبداد کے خلاف کسی جہاد کے لیے منظم کیا اور نہ حضرت موسیٰ ہی نے اس طرح کی کسی جہادی کارروائی کی روح اپنی قوم میں پھونکی۔ اللہ تعالیٰ کے ان جلیل القدر پیغمبروں کا اسوہ یہی ہے کہ ظلم و استبداد کی بدترین تاریکیوں میں بھی انھوں نے فدائین کے جتھے، گروہ اور ٹولے تشکیل دینے کے بجائے، صبر واستقامت سے دار الہجرت کے میسر آنے کا انتظار کیا اور اس وقت تک ظلم و جبر کے خاتمے کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی جب تک اللہ کی زمین پر انھیں ایک خود مختار ریاست کا اقتدار نہیں مل گیا۔
اس کے برعکس، اگر ایسے حالات میں دارالہجرت میسر نہ ہو یا کسی اور وجہ سے ہجرت کرنے کی راہیں مسدود ہوں، تو اس صورت میں بھی قرآنِ مجید میں دو امکانات بیان ہوئے ہیں: اولاًیہ کہ ان حالات میں ظلم و استبداد کا نشانہ بنے ہوئے یہ لوگ کسی منظم اسلامی ریاست کو اپنی مدد کے لیے پکاریں۔ ایسے حالات میں قرآنِ مجید نے اس اسلامی ریاست کو، جسے لوگ مدد کے لیے پکاریں، یہ حکم دیا ہے کہ اگر اس کے لیے اس جابرانہ اور استبدادی حکومت کے خلاف ان مسلمانوں کی مدد کرنی ممکن ہو تو پھر اس پر لازم ہے کہ وہ یہ مدد کرے، الا یہ کہ جس قوم کے خلاف اسے مدد کرنے کے لیے پکارا جا رہا ہے، اس کے اور مسلمانوں کی اس ریاست کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ موجود ہو۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یُہَاجِرُوْا مَا لَکُمْ مِّنْ وَّلَایَتِہِمْ مِّنْ شَیْ ءٍ حَتّٰی یُھَاجِرُوْا وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ اِلاَّ عَلٰی قوَمٍْ م بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَھُمْ مِّیْثَاقٌ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۔ (الانفال ۸: ۷۲)
’’وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں، مگر جنھوں نے ہجرت نہیں کی، تم پر ان کی اس وقت تک کسی قسم کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے جب تک وہ ہجرت کر کے تمھارے پاس نہ آ جائیں۔ البتہ، وہ اگر تمھیں دین کے نام پر مدد کے لیے پکاریں، تو تم پر ان کی مدد کرنے کی ذمہ داری ہے، الا یہ کہ جس قوم کے خلاف وہ تمھیں مدد کے لیے پکاریں، اس کے اور تمھارے درمیان کوئی معاہدہ موجود ہو۔ اور یاد رکھو، جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘
پھر ایک اور مقام پر وقت کی اسلامی ریاست کو ان مجبور مسلمانوں کی مدد پر ابھارتے ہوئے فرمایا:
وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیّاً وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا۔ (النساء ۴: ۷۵)
’’اور تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے جنگ نہیں کرتے جو دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار، ہمیں اس ظالم باشندوں کی بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنے پاس سے ہمدرد پیدا کر اور ہمارے لیے اپنے پاس سے مددگار کھڑے کر۔‘‘
ثانیاً یہ کہ ظلم و استبداد کے ان حالات میں ان کے لیے مسلمانوں کی کسی منظم ریاست سے مدد طلب کرنے یا کسی ریاست کے ان کی مدد کو آنے کا امکان موجود نہ ہو۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ لوگ صبر و استقامت کے ساتھ ان حالات کو برداشت کریں، یہاں تک کہ آں سوے افلاک سے ان کی آزمایش کے خاتمے کا فیصلہ صادر ہو جائے۔ قرآنِ مجید میں حضرت شعیب علیہ الصلاۃ والسلام کی سرگزشت بیان کرتے ہوئے ان کے حوالے سے فرمایا ہے:
وَاِنْ کَانَ طَآءِفَۃٌ مِّنْکُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِیْٓ اُرْسِلْتُ بِہٖ وَطَآءِفَۃٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰہُ بَیْنَنَا وَ ھُوَ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ۔ (الاعراف ۷: ۸۷)
’’اور اگر تم میں سے ایک گروہ اس بات پر ایمان لے آئے جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے اور ایک گروہ اسے ماننے سے انکار کرے، تو (ایمان لانے والوں کو چاہیے کہ) وہ صبر کریں، یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ فرما دے۔ اور یقیناً اللہ بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے۔‘‘
مولانا حمید الدین فراہی اسی صورتِ حال کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’... اپنے ملک کے اندر بغیر ہجرت کے جہاد جائز نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سرگزشت اور ہجرت سے متعلق دوسری آیات سے یہی حقیقت واضح ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاد اگر صاحبِ جمیعت اور صاحبِ اقتدار امیر کی طرف سے نہ ہو تو وہ محض شورش و بد امنی اور فتنہ و فساد ہے۔‘‘ (مجموعہء تفاسیرِ فراہی، ص۵۶)
قرآنِ مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاے کرام کے حوالے سے، ظلم و استبداد کی مذکورہ صورتیں اور ان صورتوں کا مقابلہ کرنے میں اللہ کے ان جلیل القدر پیغمبروں کا اسوہ بیان ہوا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ مولانا محترم پیغمبروں کے اس اسوہ سے جہاد و قتال کے احکام کا استنباط کرنے کے بجائے، مسلمان قوموں کی تحریک ہاے آزادی ہی سے جہاد کی مختلف صورتیں اور ان کے احکام اخذ کرنے پر کیوں مصر ہیں۔ ہم البتہ یہاں اس بات کی طرف اشارہ ضروری سمجھتے ہیں کہ دنیا میں جب کبھی غیر مقتدر گروہوں کی طرف سے تلوار اٹھائی گئی ہے، تو اس اقدام نے آزادی کی تحریک کو کوئی فائدہ پہنچایا ہو یا نہ پہنچایا ہو، ظلم و جبر کی قوتوں کو بے گناہ شہریوں، عورتوں اور بچوں پر ظلم و جبر کے مزید پہاڑ گرانے کا جواز ضرور فراہم کیا ہے۔ لوگ خواہ اس قسم کی قتل و غارت کو جبر و استبداد کی بڑھتی ہوئی لہریں قرار دے کر اپنے دلوں کو کتنی ہی تسلی دیتے رہیں، ہمیں یہ بات بہرحال فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دین و شریعت سے اعراض کر کے، اپنی بے تدبیری اور بے حکمتی کے ساتھ امن و امان کی فضا خراب کر کے ظلم و جبر کو اخلاقی جواز فراہم کرنا، کسی حال میں بھی ظلم و جبر کا ساتھ دینے سے کم نہیں ہے۔
فتووں پر پابندی
اخبار کے بیان کے مطابق، استاذِگرامی نے کہا ہے:
’’فتووں کا بعض اوقات انتہائی غلط استعمال کیاجاتا ہے۔ اس لیے فتویٰ بازی کو اسلام کی روشنی میں ریاستی قوانین کے تابع بنانا چاہیے اور مولویوں اور فتووں کے خلاف بنگلہ دیش میں (عدالت کا) فیصلہ صدی کا بہترین فیصلہ ہے۔‘‘
مولانا محترم استاذِ گرامی کی اس رائے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جہاں تک اس شکایت کا تعلق ہے کہ ہمارے ہاں بعض فتووں کا انتہائی غلط استعمال ہوتا ہے ہمیں اس سے اتفاق ہے۔ ان فتووں کے نتیجے میں جو خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں، وہ بھی ہمارے سامنے ہیں اور ان خرابیوں کی اصلاح کے لیے غیر سرکاری سطح پر کوئی قابلِ عمل فارمولا سامنے آتا ہے تو ہمیں اس سے بھی اختلاف نہیں ہو گا۔ مگر کسی چیز کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سرے سے اس کے وجود کو ختم کر دینے کی تجویز ہماری سمجھ سے بالاتر ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ چونکہ ہماری عدالتوں میں رشوت اور سفارش اس قدر عام ہو گئی ہے کہ اکثر فیصلے غلط ہونے لگے ہیں اور عدالتی نظام پر عوام کا اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے اس لیے ان عدالتوں میں بیٹھنے والے ججوں سے فیصلے دینے کا اختیار ہی واپس لے لیا جائے۔ یہ بات نظری طور پر تو کسی بحث و مباحثے کا خوب صورت عنوان بن سکتی ہے، مگر عملی میدان میں اسے بروے کار لانا کس طرح ممکن ہے؟...
اور ”فتویٰ“ تو کہتے ہی کسی مسئلے پر غیر سرکاری ”رائے“ کو ہیں کیونکہ کسی مسئلہ پر حکومت کا کوئی انتظامی افسر جو فیصلہ دے گا، وہ ”حکم“ کہلائے گااور عدالت فیصلہ صادر کرے گی تو اسے ”قضا“ کہا جائے گا اور ان دونوں سے ہٹ کر اگر کوئی صاحبِ علم کسی مسئلے کے بارے میں شرعی طور پر حتمی رائے دے گاتو وہ ”فتویٰ“ کہلائے گا۔ امت کا تعامل شروع سے اسی پر چلا آ رہا ہے کہ حکام حکم دیتے ہیں، قاضی حضرات عدالتی فیصلے دیتے ہیں اور علماے کرام فتوی صادر کرتے ہیں۔‘‘
ہم مولانا محترم کو یقین دلاتے ہیں کہ استاذِگرامی کی مذکورہ رائے بھی اسی قسم کے فتووں سے متعلق ہے، جسے مولانا محترم نے بھی ’فتووں کا انتہائی غلط استعمال‘ قرار دیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مولانا محترم کسی نامعلوم وجہ سے اس ’انتہائی غلط استعمال‘ کی روک تھام کے لیے بھی کسی ’غیر سرکاری‘ فارمولے ہی کے قائل ہیں. جبکہ ہمارے استاذ کے نزدیک فتووں کا یہ ’انتہائی غلط استعمال‘ بالعموم، جن مزید ’انتہائی غلط‘ نتائج و عواقب کا باعث بنتا اور بن سکتا ہے، اس کے پیشِ نظراس کی روک تھام کے لیے سرکاری سطح پرسخت قانون سازی کرنا ضروری ہو گیا ہے۔
ہم یہاں یہ ضروری محسوس کرتے ہیں کہ قارئین پر صحیح اور غلط قسم کے فتووں کا فرق واضح کر دیں۔ اس کے بعد قارئین خود یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ موجودہ دور کے علما میں فتووں کا صحیح اور ’انتہائی غلط‘ استعمال کس تناسب سے ہوتا ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ علماے کرام کی سب سے بڑی اور اہم ترین ذمہ داری، عوام و خواص کے سامنے دینِ متین کی شرح و وضاحت کرنا اور مختلف صورتوں اور احوال کے لیے دین و شریعت کا فیصلہ ان کے سامنے بیان کرنا ہے۔ مثال کے طور پر، یہ علما ہی کا کام ہے کہ وہ نکاح و طلاق کے بارے میں شریعت کے احکام کی وضاحت کریں، یہ انھی کا مقام ہے کہ وہ قتل و سرقہ، قذف و زنا اور ارتداد وغیرہ کے حوالے سے شریعت کے احکام بیان کریں۔ اس میں شبہ نہیں کہ کتاب و سنت کی روشنی میں اس طرح کے تمام احکام کی شرح و وضاحت کا کام علما ہی کو زیب دیتا ہے اور وہی اس کے کرنے کے اہل ہیں۔ علما کے اس کام پر پابندی لگانا تو درکنار، اس کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنا بھی بالکل ممنوع قرار پانا چاہیے۔ تاہم، ریاستی سطح پر قانون سازی اور اس قانون سازی کے مطابق مقدمات کے فیصلے کرنے کا معاملہ محض مختلف علما کے رائے دے دینے ہی سے پورا نہیں ہو جاتا۔ اس کے آگے بھی کچھ اہم مراحل ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں، سب سے پہلے ملک کی پارلیمان کو مختلف علما کی رائے سامنے رکھتے اور ان کے پیش کردہ دلائل کا جائزہ لیتے ہوئے، ملکی سطح پر قانون سازی کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے، ملکی سطح پر قانون سازی کرتے ہوئے تمام مکاتبِ فکر اور علما کی رائے کو سامنے تو رکھا جا سکتا ہے، مگر ان سب کی رائے کو مانا نہیں جاسکتا۔ رائے بہرحال وہی نافذالعمل ہوگی اور ملکی اور ریاستی قانون کا حصہ بنے گی، جو پارلیمان کے نمائندوں کے نزدیک زیادہ صائب اور قابلِ عمل سمجھی جائے گی۔ قانون سازی کے اس عمل کے بعد بھی علما کا یہ حق تو بے شک برقرار رہتا ہے کہ وہ قانون و اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے، اپنی بات کو مزید واضح کرنے، اس کے حق میں مزید دلائل فراہم کرنے اور پارلیمان کے نمائندوں کو اس پر قائل کرنے کی جدوجہد جاری رکھیں۔ لیکن ریاست کا نظم یہ تقاضا بہرحال کرتا ہے کہ اس میں جس رائے کے مطابق بھی قانون سازی کر دی گئی ہو، اس میں بسنے والے تمام لوگ عوام خواص اور علما اس قانون کا پوری طرح سے احترام کریں اور اس کے خلاف انارکی اور قانون شکنی کی فضا پیدا کرنے کی ہرگز کوشش نہ کریں۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ پارلیمان کے اختیار کردہ قانون کے مطابق عدالتوں میں پیش ہونے والے مقدمات کے فیصلے کرنے کا ہے۔ یہ مرحلہ، دراصل، قانون کے اطلاق کا مرحلہ ہے۔ اس میں عدالت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ فریقین کی رائے سن کر، ملکی پارلیمان کی قانون سازی کی روشنی میں حق و انصاف پر مبنی فیصلہ صادر کرے۔
جن فتووں کو ہم ’انتہائی غلط‘ سمجھتے اور مسلمانوں کی اجتماعیت کو جن کے شر و فساد سے بچانے کے لیے قانون سازی کو نہ صرف جائز بلکہ بعض صورتوں میں ضروری سمجھتے ہیں، ان کا تعلق دراصل قانون سازی اور اس کے بعد کے مراحل سے ہے۔
چنانچہ، مثال کے طور پر، یہ بے شک علماے دین کا کام ہے کہ وہ دین و شریعت کے اپنے اپنے فہم کے مطابق لوگوں کو یہ بتائیں کہ طلاق دینے کا صحیح طریقہ کیا ہے، اور اس میں غلطی کی صورت میں کون کون سے احکام مترتب ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی علما ہی کا کام ہے کہ وہ لوگوں کو یہ سمجھائیں کہ ان کے فہم کے مطابق کن کن صورتوں میں طلاق واقع ہو جاتی اور کن کن صورتوں میں اس کے وقوع کے خلاف فیصلہ دیا جا سکتا ہے۔ تاہم ریاستی سطح پر طلاق کے بارے میں قانون سازی، ہما شما کی رائے پر نہیں بلکہ پارلیمان کے نمائندوں کی اکثریت کے کسی ایک رائے کے قائل ہو جانے پر منحصر ہو گی۔ پارلیمان میں طے پا جانے والی یہ رائے بعض علما کی رائے کے خلاف تو ہو سکتی ہے، مگر ریاست میں واجب الاطاعت قانون کی حیثیت سے اسی کو نافذ کیا جائے گا اور، علما سمیت، تمام لوگوں پر اس کی پابندی کرنی لازم ہو گی۔ مزید برآں، یہ فیصلہ کہ زید یا بکر کے کسی خاص اقدام سے اس کی طلاق واقع ہو گئی یا اس کا نکاح فسخ ہو گیا ہے، ایک عدالتی فیصلہ ہے، جس کا دین کی شرح و وضاحت اور علماے کرام کے دائرہء کار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر یہ فیصلے بھی علماے کرام ہی کو کرنے ہیں، تو پھر مولانا محترم ہی ہمیں سمجھا دیں کہ عدالتوں کے قیام اور ان میں مقدمات کو لانے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے۔
اسی طرح، یہ علماے دین ہی کا کام ہے کہ وہ اپنے نقطہء نظر کے مطابق ارتداد کی صورتوں اور ان کی مجوزہ سزاؤں کو پارلیمان سے منوانے کی کوشش کریں۔ تاہم یہ ان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی رائے کے خلاف، پارلیمان کے نمائندوں کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیں۔ مزید برآں، کسی خاص شخص کو مرتد قرار دینا بھی، چونکہ قانون کے اطلاق ہی کا مسئلہ ہے، اس لیے یہ بھی علما کے نہیں بلکہ عدالت کے دائرے کی بات ہے، جو اسے مقدمے کے گواہوں کے بیانات، ان پر جرح اور ملزم کو صفائی کا پورا پورا موقع دے دینے کے بعد انصاف کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہی کرنا چاہیے۔ یہی معاملہ کسی فرد یا گروہ کو کافر یا واجب القتل قرار دینے اور اس سے ملتے جلتے معاملات کا ہے۔ چنانچہ، فتووں کے ’انتہائی غلط استعمال‘ ہی کی ایک مثال بنگلہ دیشی عدالت کا فیصلہ صادر ہونے کے بعد اگلے ہی روز سامنے آئی، جب بنگلہ دیشی علما کے ایک گروہ نے فیصلہ کرنے والے جج کو ’مرتد‘ اور، ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں، واجب القتل قرار دے دیا۔ مولانا محترم ہی ہمیں یہ بتائیں کہ اگر اس قسم کے فتوے کو سن کر کوئی مذہبی انتہا پسند فیصلہ کرنے والے جج کو، صفائی کا موقع دیے یا اس کی بات کو سمجھے بغیراپنے طور پر خدا نخواستہ، قتل کر دے تو کیا ریاست کو ایسے انتہا پسندوں کے ساتھ ساتھ فتووں کا یہ ’انتہائی غلط استعمال‘ کرنے والے علما کو کوئی سزا نہیں دینی چاہیے؟ مولانا محترم کا جواب یقیناًنفی ہی میں ہو گا، کیونکہ اس معاملے میں ان کا ’فتویٰ‘ تو یہی ہے کہ فتووں کے اس ’انتہائی غلط استعمال‘ کی روک تھام کے لیے بھی اگر کوئی اقدام ہونا چاہیے، تو وہ ’غیر سرکاری سطح‘ ہی پر ہونا چاہیے۔
مولانا کی مذکورہ رائے کے برعکس، ہمارے نزدیک، فتووں کے اس طرح کے ’انتہائی غلط استعمال‘ کی روک تھام کے لیے ’سرکاری سطح پر‘ مناسب قانون سازی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔
اس ضمن میں علما صحابہ کا اسوہ ہمارے سامنے ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ انھیں تقسیمِ میراث کے معاملے میں عول و رد کے قانون سے اتفاق نہیں تھا۔ تاہم ان کا یہ اختلاف ہمیشہ جائز حدود کے اندر ہی رہا۔ وہ اپنے اس اختلاف کا ذکر اپنے شاگردوں میں تو کرتے تھے اور بے شک یہ ان کا فطری حق بھی تھا، مگر انھوں نے نہ اپنے اس اختلاف کی وجہ سے قانون سازی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی، نہ اس کی بنیاد پر حکومت کے خلاف پراپگینڈہ کیا اور نہ ریاست میں تقسیمِ وراثت کے معاملے میں اپنے فتوے جاری کیے۔
علماے کرام کے فتوے بھی جب تک ان اخلاقی اور قانونی حدود کے اندر رہیں، اس وقت تک وہ یقیناًخیر و برکت ہی کا باعث بنیں گے۔ مگر ان حدود سے باہرپارلیمان اور عدالتوں کے کام میں مداخلت کرنے والے فتووں پر پابندی نہ صرف مسلمانوں کی اجتماعی مصلحت کے لیے ضروری ہے، بلکہ منظم اجتماعی زندگی کی تشکیل کے لیے ناگزیر محسوس ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ صحیح باتوں کے لیے دلوں میں جگہ پیدا فرمائے اور غلط باتوں کے شر سے ہم سب کو دنیا اور آخرت میں محفوظ و مامون رکھے۔
علماء کے سیاسی کردار پر جناب غامدی کا موقف
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
غالباً عید الفطر کے ایام کی بات ہے کہ محترم جاوید احمد غامدی نے پشاور پریس کلب میں جہاد، فتویٰ، زکوٰۃ، ٹیکس اور علماء کے سیاسی کردار کے حوالہ سے اپنے خیالات کا اظہار کیا جو ملک کے جمہور علماء کے موقف اور طرز عمل سے مختلف تھے۔ اس لیے میں نے روزنامہ اوصاف اسلام آباد میں مسلسل شائع ہونے والے اپنے کالم ’’نوائے قلم‘‘ میں ان کا ناقدانہ جائزہ لیا۔ اس پر غامدی صاحب محترم کے شاگرد رشید جناب خورشید احمد ندیم نے روزنامہ جنگ میں غامدی صاحب کے موقف کی مزید وضاحت کی جن پر میں نے ان کی چند باتوں پر روزنامہ اوصاف میں دوبارہ تبصرہ کر دیا۔
اس کے بعد غامدی صاحب کے ایک اور شاگرد معز امجد نے روزنامہ پاکستان میں انہی امور پر تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا اور اسے جاوید احمد غامدی کی زیرادارت شائع ہونے والے ماہنامہ اشراق لاہور میں بھی میرے مذکورہ بالا مضمون کے ساتھ شائع کر دیا گیا۔ زیر نظر مضمون میں معز امجد کے اس مضمون کی بعض باتوں پر اظہار خیال کرنا چاہتا ہوں لیکن چونکہ سابقہ مضامین مختلف اخبارات میں شائع ہونے کی وجہ سے بیشتر قارئین کے سامنے پوری بحث نہیں ہوگی اس لیے اس کا مختصر خلاصہ ساتھ پیش کر رہا ہوں تاکہ بحث کا کوئی پہلو قارئین کے سامنے تشنہ نہ رہے۔
غامدی صاحب نے فرمایا تھا کہ علماء کو سیاست میں فریق بننے کی بجائے اپنا کردار علمی و فکری راہنمائی تک محدود رکھنا چاہیے اور بہتر ہے کہ مولوی کو سیاستدان بنانے کی بجائے سیاستدان کو مولوی بنانے کی کوشش کی جائے۔ راقم الحروف نے اس پر عرض کیا کہ یہ موقع محل کی مناسبت کی بات ہے کہ علماء کرام علمی و فکری راہنمائی اور قیادت کریں یا ضرورت ہو تو حالات کی اصلاح کے لیے خود سیاست میں فریق بننے کا راستہ اختیار کریں۔ دونوں طرف امت کے اہل علم کا اسوہ موجود ہے اور ضرورت کے مطابق کوئی سا راستہ اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔ خورشید احمد ندیم نے جواب میں اس سے اتفاق کیا کہ یہ حلال و حرام کا مسئلہ نہیں بلکہ حکمت و تدبیر کی بات ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ پاکستان میں علماء کرام کے قومی سیاست میں خود فریق بننے سے دین اور علماء کو فائدہ کی بجائے نقصان ہوا ہے۔ راقم الحروف نے ان کی اس بات سے اختلاف کیا اور عرض کیا کہ ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد کی منظوری صرف اس لیے ہو سکی کہ اسمبلی میں علامہ شبیر احمد عثمانیؒ بطور رکن موجود تھے۔ اور ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلام کو سرکاری مذہب قرار دینے، قران و سنت کے مطابق قانون سازی کی دستوری ضمانت اور دیگر اسلامی دفعات کی شمولیت کی واحد وجہ یہ تھی کہ دستور ساز اسمبلی میں مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ ، مولانا عبد الحقؒ ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، مولانا ظفر احمد انصاریؒ ، اور مولانا عبد المصطفیٰ ازہریؒ جیسے سرکردہ علماء نے اس کے لیے مشترکہ طور پر جنگ لڑی۔ اس لیے اگر آج کے شدید بین الاقوامی دباؤ اور عالمی سطح کی مسلسل مخالفت کے باوجود پاکستان دستوری طور پر ایک اسلامی ریاست کے طور پر قائم ہے اور کفر و استعمار کی آنکھوں میں مسلسل کھٹک رہا ہے تو یہ قومی سیاست میں علماء کرام کے فریق بننے کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا اس ایک بنیادی اور اصولی فائدہ کے لیے ان نقصانات کو برداشت کیا جا سکتا ہے جو اس سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے سامنے آرہے ہیں۔ اور ہمارے خیال میں یہ فائدہ نقصانات پر بھاری ہے۔
غامدی صاحب نے فرمایا تھا کہ جہاد کا حق صرف اسلامی حکومت کو ہے، اس کی طرف سے اعلان کے بغیر کوئی جنگ جہاد نہیں کہلا سکتی، اس لیے مختلف جہادی گروپوں کی طرف سے کی جانے والی جنگ شرعاً جہاد نہیں ہے۔ راقم الحروف نے اس پر عرض کیا کہ بلاشبہ کسی ملک یا قوم کے خلاف اعلان جنگ مسلمان حکومت ہی کا حق ہے لیکن جب کسی مسلمان آبادی پر کافروں کا جابرانہ تسلط قائم ہو جائے اور مسلمانوں کی حکومت اس تسلط کے خلاف مزاحمت کے لیے تیار نہ ہو یا اس میں مزاحمت کی سکت نہ رہے تو پھر آزادی کے حصول کے لیے جہاد کا آغاز کسی حکومت کے اعلان یا اجازت پر موقوف نہیں رہے گا۔ اور ایسے موقع پر اگر علماء مسلمان معاشرہ کی قیادت کرتے ہوئے کافر قوت کے تسلط کے خلاف مزاحمت کا اعلان کریں گے تو وہ شرعاً جہاد کہلائے گا۔ اس سلسلہ میں راقم الحروف نے برصغیر پاک و ہند کے جہاد آزادی، الجزائر کے جہاد آزادی، اور افغانستان کے جہاد کے ساتھ ساتھ تاتاریوں کی یورش کے خلاف شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کے اعلان جہاد کا بھی حوالہ دیا کہ ماضی میں علماء کرام نے ایسے مراحل میں جہاد کا اعلان کیا ہے اور ان کی جدوجہد کو شرعی جہاد ہی کی حیثیت حاصل رہی ہے۔
اس کے جواب میں معز امجد نے طویل بحث کی ہے اور میں اس کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت محسوس کر رہا ہوں۔ انہوں نے اصولی طور پر میرے طرز استدلال سے اختلاف کیا ہے کہ میں نے امت کے اہل علم کے تعامل سے استدلال کر کے غلطی کی ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ
’’عام انسانوں کی بات بے شک مختلف ہوگی مگر مولانا محترم جیسے اہل علم سے ہماری توقع یہی ہے کہ وہ اہل علم کے عمل سے شریعت اخذ کرنے کی بجائے شریعت کی روشنی میں اس عمل کا جائزہ لیں۔ اگر شریعت اسلامی کے بنیادی ماخذوں یعنی قرآن و سنت میں اس عمل کی بنیاد موجود ہے تو اسے شریعت کے مطابق اور اگر ایسی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے تو بغیر کسی تردد کے اسے شریعت سے ہٹا ہوا قرار دیں۔‘‘
میرے نزدیک ہمارے درمیان نقطۂ نظر کے اختلاف کا بنیادی نکتہ اور اصل موڑ یہی ہے۔ اگر یہ واضح ہو جائے تو باقی معاملات کا سمجھنا زیادہ مشکل نہیں رہے گا۔ اس لیے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ شریعت کے اصول دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو قرآن کریم اور سنت نبویؐ سے دلالت صریحہ اور قطعی ثبوت کے ساتھ ہمارے پاس موجود ہیں۔ یعنی ان کے مفہوم کے تعین کے لیے کسی استدلال اور استنباط کی ضرورت نہیں اور ثبوت میں بھی کوئی ابہام نہیں ہے۔ اور جو فقہاء کی اصطلاح میں صریح الدلالہ اور قطعی الثبوت کہلاتے ہیں ان کے بارے میں تو کسی درجہ میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ انہیں ہر بات پر فوقیت حاصل ہے اور کسی بھی شخصیت کے موقف یا طرز عمل کو اس پر ترجیح حاصل نہیں ہے۔ حتیٰ کہ قرآن کریم کی سورۃ التحریم کے مطابق خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حلال و حرام کی واضح اشیاء میں اپنی رائے اور مرضی اختیار کرنے کا حق حاصل نہیں دیا گیا۔ لیکن شریعت کے جن اصول و احکام کے ثبوت اور استدلال و استنباط کا مدار شخصیات پر ہے اور وہ شخصیات کے استدلال و استنباط ہی کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں ان کے بارے میں بنیادی حیثیت اور ترجیح شخصیات کو حاصل ہے۔ اور شخصیات کے علم و فضل اور درجات میں تفاوت کا اثر ان کے استنباط کردہ اصول و احکام پر لازماً پڑے گا۔ یہ ایک بدیہی بات ہے جس سے محترم غامدی اور ان کے لائق احترام شاگردان گرامی کو بھی شاید اختلاف نہیں ہوگا۔
سادہ سی بات ہے کہ اگر اصول نے شخصیات کو جنم دیا ہے تو اصول کو ان پر بالادستی ہوگی، اور اگر شخصیات نے اصول قائم کیے ہیں اور اصول کا اپنا وجود ان شخصیات کے استدلال و استنباط کا رہین منت ہے تو ان اصول کو شخصیات پر بالاتر قرار دینے اور ان کے مقابلہ میں شخصیات کی قطعی طور پر نفی کردینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ بلکہ خود قرآن کریم کی منشا کو سامنے رکھا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے اصول بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اتباع کے بارے میں شخصیات کی پیروی کی ترغیب دی ہے۔ سورۃ الفاتحہ قرآن کریم کی سب سے پہلی اور سب سے زیادہ تلاوت کی جانے والی سورت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں صراط مستقیم پر چلتے رہنے کی توفیق مانگنے کا سلیقہ سکھایا ہے اور ’’صراط مستقیم‘‘ کی وضاحت میں صراط الذین انعمت علیہم فرما کر شخصیات ہی کو آئیڈیل بنانے کا راستہ دکھایا ہے۔ اسی طرح سورۃ البقرہ کی ایک آیت میں صحابہ کرامؓ کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ اگر باقی لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسا ایمان تم لائے ہو تو وہ ہدایت پائیں گے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ ایمان کے معاملہ میں صحابہ کرامؓ کی شخصیات کو معیار اور آئیڈیل قرار دیا گیاہے۔ اس لیے اہل علم اور شخصیات سے شریعت اخذ کرنے کی بات نہ تو قرآن کریم کی منشا کے خلاف ہے اور نہ ہی عقل و منطق اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
اس سلسلہ میں دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ شریعت کے جو احکام و اصول اہل علم اور شخصیات کے استدلال و استنباط کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں، ان احکام و اصول کی ترجیحات بھی اہل علم اور شخصیات کے درمیان موجود ترجیحات کے ساتھ ساتھ اپنی ترتیب قائم کریں گی۔ اور اسی ترتیب و ترجیح کے فہم و ادراک اور تشکیل و اطلاق کا نام فقہی تدبر ہے جس نے فقہائے امت کو اہل علم کے دیگر تمام طبقات پر فوقیت اور امتیاز عطا کیا ہے۔ شریعت کے ہر حکم کو اس کی صحیح جگہ پر رکھنے اور اس سے صحیح طور پر استفادہ کے لیے ان ترجیحات کا لحاظ ناگزیر ہے ورنہ شریعت پر عمل کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔
اسی ضمن میں یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ ہر دور میں اس دور کی ضروریات کے مطابق اصول وضع کیے گئے ہیں اور انہی ضروریات کے تحت ان کا اطلاق بھی ہوا ہے۔ اس لیے قطعی اور صریح اصولوں کو بالاتر رکھتے ہوئے ظنی اور استدلالی اصولوں کو ان کی ضروریات کے دائرہ تک محدود رکھنا اور انہیں وضع کرنے والے اہل علم اور شخصیات کی ترجیحات کے معیار پر ان کی ترتیب قائم کرنا بھی شریعت کا تقاضا ہے۔ اور یہی وہ جگہ ہے جہاں بعض اصولی حضرات ٹھوکر کھاتے ہیں کیونکہ جب وہ خود اپنے وضع کردہ اصولوں کا اطلاق پوری امت پر کرنے لگتے ہیں تو ظاہر بات ہے کہ امت کا بیشتر حصہ انہیں اپنے اصولوں پر عمل کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ اور ان کی اصول پرستی انہیں اس بات پر ابھارنے لگتی ہے کہ وہ اپنے قائم کردہ اصولوں کی لاٹھی اٹھا کر اس کے ساتھ پوری امت کے اہل علم کو ہانکنے لگ جائیں۔
اس بات کو مزید واضح کرنے کے لیے ایک عملی مثال دینا چاہوں گا۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک دوست میرے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ نے حضرت امام بخاریؒ کی طرح احادیث نبویؐ کے جمع کرنے اور ان کی صحت کے اصول قائم کرنے پر کوئی کام کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں اور انہیں اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ میرا یہ جواب ان کے لیے حیرت کا باعث بنا اور انہوں نے قدرے غصے سے فرمایا کہ کیا امام ابوحنیفہؒ کو احادیث کی ضرورت نہیں تھی؟ میں نے جواب دیا کہ احادیث کی ضرورت تھی لیکن ان پر امام بخاریؒ کی طرز کے کام کی انہیں کوئی ضرورت نہیں تھی۔ پھر میں نے اس کی وضاحت کی کہ امام ابوحنیفہؒ ۸۰ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔ یہ صحابہ کرامؓ کا آخری دور تھا اور کوفہ صحابہ کرامؓ کا مرکز تھا۔ اس لیے امام صاحبؒ کا شمار تابعین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے صغار صحابہؓ اور کبار تابعینؒ کو دیکھا اور ان سے استفادہ کیا ہے۔ ان کی وفات ۱۵۶ھ میں ہوئی اور ان کے دور میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث و سنن کی روایت میں اتنے واسطے نہیں ہوتے تھے کہ ان کی چھان بین کی زیادہ ضرورت پڑتی۔ اس لیے انہوں نے ایک دو قابل اعتماد واسطوں سے جو روایات ملیں انہی کی بنیاد پر اپنی فقہ کی عمارت کھڑی کر دی۔ جبکہ امام بخاریؒ کی ولادت ۱۹۴ھ اور وفات ۲۵۶ھ میں ہوئی۔ اس وقت احادیث کی روایت میں چار پانچ واسطے آچکے تھے اور ان کی صحت و ضعف کے لیے سخت اصول قائم کرنے کی ضرورت پیش آگئی تھی۔ اس لیے امام بخاریؒ نے اس ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے اصول قائم کیے اور ان کی بنیاد پر صحیح احادیث کا ایک منتخب ذخیرہ امت کے سامنے پیش کر دیا۔ اس لیے امام بخاریؒ کے وضع کردہ اصول کی اہمیت اپنی جگہ پوری طرح مسلم ہے لیکن ان اصولوں کا پون صدی پہلے پر موثربہ ماضی اطلاق کر کے امام ابوحنیفہؒ کو ان کا پابند بنانا نہ شریعت کا تقاضا ہے اور نہ عقل و دانش اس کی متحمل ہے۔
اس پس منظر میں محترم جاوید غامدی صاحب اور ان کے رفقاء سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ حضرت مولانا حمید الدین فراہیؒ کے استدلال و استنباط اور ان کے قائم کردہ اصولوں کی اہمیت سے انکار نہیں اور اہل علم کے درمیان مسلمہ حدود کے دائرہ میں ان سے استفادہ کی ضرورت سے بھی ہم صرف نظر نہیں کر رہے۔ مگر ان اصولوں کا اطلاق ماضی کے ہر دور کے اہل علم پر کر کے پوری امت کے اہل علم کے تعامل اور مسلسل طرز عمل کی نفی کر دینا بھی دانش مندی کا تقاضا نہیں۔
اس سلسلہ میں تیسری گزارش ہے کہ جس کی طرف ہم اپنے سابقہ مضامین میں اصولی فقہاء اور عملی فقہاء کی اصطلاح کے ساتھ اشارہ کر چکے ہیں کہ اصول وضع کرنا ایک مختلف عمل ہے اور سوسائٹی کے عملی مسائل پر ان کا اطلاق کر کے قواعد و احکام مستنبط کرنا اس سے مختلف عمل کا نام ہے۔ آج کی اصطلاح میں اسے دستور سازی اور قانون سازی کے اصولی کام اور سوسائٹی میں عملی طور پر اس کے نفاذ کے عدالتی عمل کے درمیان فرق سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس فرق کو ملحوظ نہ رکھنے سے بسا اوقات مشکلات پیدا ہوتی ہیں اور عملی مشکلات کا لحاظ نہ کر کے صرف اصول کی بنیاد پر فیصلے کرتے چلے جانے سے ایسی الجھنیں جنم لیتی ہیں جن کا حل بظاہر مشکل نظر آنے لگتا ہے۔ اس اصولیت محضہ کا اظہار سب سے پہلے خوارج نے کیا تھا جنہوں نے اپنے ذوق کے مطابق کچھ اصول وضع کیے اور ان اصولوں پر اس قدر سختی دکھائی کہ بعض حضرات نے صحابہ کرامؓ تک کی تکفیر کر ڈالی۔ مثلاً انہوں نے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان بپا ہونے والی صفین کی جنگ مین حضرت علیؓ کی طرف سے تحکیم پر راضی ہونے سے اختلاف کرتے ہوئے ان کے لشکر سے علیحدگی اختیار کی۔ ان کی بغاوت اور علیحدگی کے بعد حضرت عبد اللہ بن عباسؓ ان کے پاس حضرت علیؓ کے نمائندہ کے طور پر گفتگو کے لیے گئے تو امام نسائی کی ’’سنن کبریٰ‘‘ کی روایت کے مطابق ان خوارج نے حضرت علیؓ پر جو اعتراضات کیے ان میں ایک یہ تھا کہ اگر حضرت معاویہؓ اور ان کے رفقاء مسلمان ہیں تو ان کے خلاف جنگ لڑنا جائز نہیں ہے۔ اور اگر وہ مسلمان نہیں ہیں تو جنگ میں ان کے قیدیوں کو غلام کیوں نہیں بنایا گیا؟ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ جنگ تو ام المومنین حضرت عائشہؓ کے ساتھ بھی ہوئی تھی، کیا تم (نعوذ باللہ) انہیں لونڈی بنانا پسند کرو گے؟ اس کا جواب خوارج کے پاس کوئی نہیں تھا چنانچہ چھ ہزار خوارج میں سے دو ہزار افراد اس بات پر ان کا ساتھ چھوڑ کر حضرت علیؓ کے کیمپ میں واپس آگئے تھے۔
اس لیے اصول، اہل علم اور شخصیات میں توازن کے حوالہ سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ
- قرآن و سنت کے بیان کردہ قطعی اور صریح اصولوں کو ہر چیز پر فوقیت اور بالاتری حاصل ہے۔
- جو اصول اہل علم نے قرآن و سنت کی روشنی میں خود مستنبط کیے ہیں ان میں اصل مدار شخصیات پر ہے اور شخصیات کی باہمی ترجیحات ان کے وضع کردہ اصولوں میں بھی کارفرما ہوں گی۔
- ظنی اور استنباطی اصولوں اور سوسائٹی میں ان کے اطلاق و تطبیق کی عملی مشکلات دونوں کو سامنے رکھ کر احکام و ضوابط طے کیے جائیں گے۔
- بعد میں پیش آنے والی ضروریات کے لیے وضع کیے جانے والے اصولوں کا موثر بہ ماضی اطلاق ضروری نہیں ہوگا اور نہ ہی ماضی کے معاملات کا ان کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا۔
- صحابہ کرامؓ کا دور چونکہ ان سب استنباطات، استدلالات اور اجتہادات سے مقدم ہے اور وہ چشمہ نبوت سے براہ راست فیض یاب ہوئے ہیں، اس لیے قرآن و سنت کے مفہوم و مصداق کے تعین اور بعد میں آنے والے اصولوں کے تعارض و تضاد کے حل کے لیے ان کا تعامل حتمی حجت ہے۔
اس اصولی بحث کے بعد میں جہاد کے مسئلہ کی طرف آتا ہوں جس میں ہمارے در