2000

جنوری ۲۰۰۰ء

الشریعہ اکادمی کے تعلیمی منصوبہ جات کے لیے مجوزہ نصابادارہ
مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒمولانا عتیق الرحمن سنبھلی
دعا اور درود منزل پر کیسے پہنچتے ہیں؟عبد الرشید ارشد
سود کے بارے میں سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلہ پر عمل کیا جائےمولانا مفتی محمد رفیع عثمانی
مولانا مسعود اظہر کی پریس کانفرنسادارہ
حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی کا مکتوبِ عمومیشیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
اخبار و آثارادارہ
جنرل پرویز مشرف کے نام عبد الرشید غازی کا خطادارہ
آہ! حضرت مولانا سد ابو الحسن علی ندویؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

الشریعہ اکادمی کے تعلیمی منصوبہ جات کے لیے مجوزہ نصاب

ادارہ

الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، گوجرانوالہ کے مجوزہ تعلیمی پروگرام کے حوالہ سے تین کلاسوں یعنی (۱) حفظ قرآن کریم مع میٹرک (۲) شہادۃ العالیہ مع گریجویشن اور (۳) فضلاء درس نظامی خصوصی کورس کے لیے تجویز کردہ نصاب کا خاکہ ملک کی اہم علمی شخصیات کی خدمت میں ارسال کیا گیا ہے جو ذیل میں درج کیا جا رہا ہے۔ قارئین اس کے بارے میں اپنی رائے، تجویز یا تجربہ سے ہمیں آگاہ کرنا چاہیں تو شکریہ کے ساتھ اسے قبول کیا جائے گا اور تمام موصولہ آراء و تجاویز کو سامنے رکھ کر تعلیمی پروگرام کو حتمی شکل دی جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ (رئیس التحریر)

(کمپوزنگ جاری)

مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

قرآن پاک کی سورہ ۳۳ (الاحزاب) میں ایک آیت آتی ہے۔ اس سورہ میں غزوہ احزاب (جو غزوہ خندق کے نام سے مشہور ہے) کے ان سخت حالات کا ذکر ہے جن کا ثابت قدمی سے مقابلہ کرنے والے مسلمانوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے بڑی تعریف و ستائش پائی ہے۔ اس تعریف کے مضمون کی یہ آیت ہے:
ترجمہ: ’’ان اہلِ ایمان میں کتنے ہی وہ مردانِ جانباز ہیں جنہوں نے سچ کر دکھایا اس عہد کو جو اللہ سے انہوں نے باندھا تھا۔ پس کوئی ان میں پورا کر چکا ہے اپنا ذمہ اور کوئی ان میں راہ دیکھ رہا ہے اور بدلہ نہیں ہے انہوں نے ایک ذرہ بھر بھی‘‘۔ (آیت ۲۳)
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ، جو گزرنے والے سال ۱۹۹۹ء کی آخری تاریخ ۳۱ دسمبر بمطابق ۲۳ رمضان المبارک ۱۴۲۰ھ کو ہماری اس دنیا سے کنارہ فرما گئے، انہی مردانِ باخدا کی روایت کے امینوں میں سے ایک تھے۔ اور جس وقت اور جس تاریخ میں یہ سانحہ پیش آیا اس وقت نہ صرف برصغیر پاک و ہند میں بلکہ بلامبالغہ پورے عالمِ اسلام میں وہ اپنے ممتاز مرتبے کی تنہا شخصیت رہ گئے تھے۔ اللہ انہیں اپنی بے پایان رحمتوں سے نہال اور مالامال فرمائے اور ان کے اٹھ جانے سے پیدا ہونے والے خلا کے پر ہونے کی کوئی طُرح اپنی قدرتِ کاملہ سے ڈال دے۔
یوں تو عالمِ اسلام کا کوئی قابلِ ذکر حصہ مشکل ہی سے ایسا ہو گا جہاں کے دینی رجحان رکھنے والے پڑھے لکھے مسلمانوں میں مولانا کی وفات کو ملت کا ایک بڑا نقصان نہ سمجھا جائے، مگر اس کا سب سے زیادہ خسارہ قدرتی طور پر انہیں لوگوں کے حصے میں آنے کا خطرہ ہے جن کے لیے مولانا کی ذات سب سے زیادہ فائدے کا باعث رہی تھی، یعنی مولانا کے ہم وطن مسلمانانِ ہند۔ راقمِ سطور کا تعلق بھی نہ صرف اسی سرزمینِ ہند سے ہے بلکہ ۱۹۴۸ء سے ۱۹۷۶ء تک، جس کے بعد آب و دانہ انگلستان لے آیا، مولانا نے اتنے قریب ہو کر رہنے کا موقع دیا ہے کہ جس سے زیادہ موقع ان کے اہل خانہ اور قریبی اعزہ و اقارب کے علاوہ کم ہی لوگوں کو رہا ہو گا۔ اس بنا پر اسے یہ جاننے کا بھی پورا موقع رہا کہ مولانا کی ذات میں مسلمانانِ ہند کے لیے فائدوں کی کیا نوعیت تھی؟ اور ۱۹۴۷ء میں تقسیمِ ہند کے بعد سے ہندوستانی مسلمانوں کا یہ حصہ دین اور دنیا دونوں کے اعتبار سے جس آزمائش میں چلا آ رہا ہے، اس آزمائش اور ابتلاء کے طویل دور میں مولانا کا کیا کردار اس ملتِ ہندیہ کی خدمت کے سلسلے میں رہا؟ صرف اس پہلو سے مولانا کی زندگی کا کچھ تذکرہ بھی یہ دکھانے کو ان شاء اللہ کافی ہو گا کہ مولانا انہی مردانِ باخدا کی مقدس روایات کے امین تھے جن کا ذکر مذکورہ بالا آیتِ قرآنی میں کیا گیا ہے۔
ہندوستان کی تقسیم ابھی ہوئی نہیں تھی، صرف ۳ جون ۱۹۴۷ء والی قرارداد ہی ہوئی تھی، یا اس سے بھی کچھ پہلے، جبکہ کانگریس اور مسلم لیگ میں سمجھوتے کے تمام امکانات تباہ ہو چکے تھے اور بجز تقسیم کے ملک کا کوئی اور مقدر خارج از امکان بن گیا تھا، پنجاب کے جوہرآباد ضلع خوشاب سے ایک پُرزور اور انتہائی مخلصانہ دعوت آئی کہ اب جبکہ ملک تقسیم ہونے جا رہا ہے، آپ اِدھر کو ہجرت کا ارادہ فرما لیں، ہر طرح کے انتظامات آپ کے لیے کر لیے گئے ہیں، آپ کی یہاں ضرورت ہے۔ یہ دعوت دینے والے وہ مرحوم چوہدری نیاز علی خان تھے جنہوں نے پٹھان کوٹ کے قریب اپنی ستر ایکڑ زمین وقف کر کے اس پر وہ عمارتیں مع ایک خوبصورت مسجد کے بنائی تھیں جو دارالاسلام کے نام سے موسوم ہوئیں اور ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۷ء تک جماعتِ اسلامی ہند کے مرکز کے طور پر استعمال ہوتی رہیں۔ تقسیم سے پہلے چوہدری صاحب کا مسکن اس دارالاسلام کے قریب ہی جلال پور نامی گاؤں تھا جہاں پر چوہدری صاحب کا وسیع و عریض فروٹ فارم ہوتا تھا۔
چوہدری نیاز علی خان صاحب کی اس دعوت کے مخاطب مولانا تنہا نہ تھے بلکہ راقم سطور کے والد مرحوم مولانا محمد منظور نعمانی (وفات ۱۹۹۷ء) جن کے ساتھ  مولانا کا رشتہ ایک جان دو قالب کا بنتا جا رہا تھا، وہ بھی اس میں شریک بلکہ چوہدری صاحب کی طرف سے ذریعۂ دعوت بھی وہی تھے، اس لیے کہ چوہدری صاحب کو زیادہ واقفیت میرے والد ماجد ہی سے تھی۔ بہرحال اس پُرخلوص دعوت کا جواب، جس پر چوہدری صاحب کی آزمودہ شخصیت کے حوالے سے پورا اعتماد کیا جا سکتا تھا، یہ دیا گیا کہ ہمیں ہندوستانی حصے میں رہ جانے والے مسلمانوں کے ساتھ ہی رہنا اور جینا مرنا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری ضرورت یہاں زیادہ ہے۔
یہاں تذکرہ صرف مولانا علی میاںؒ کا مقصود ہے اس لیے اب میں صرف انہی کے حوالے سے عرض کرتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی خدمت کے لیے اور ان کے دکھ سکھ میں شریک رہنے کا جو عہد ۱۹۴۷ء میں باندھا تھا اسے پوری ثابت قدمی اور دلجمعی کے ساتھ اپنی زندگی کے آخری سانس تک نبھایا۔
؎ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
تقسیم کے بعد والے ہندوستانی مسلمانوں کو دو طرح کے مسائل کا سامنا تھا:
  1. ایک ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ۔
  2. دوسرے ان کے دین کی سلامتی جس کو اس وقت سے خطرہ لاحق ہو چکا تھا جب شدھی سنگھٹن وغیرہ کی تحریکیں کوئی ۲۵ سال پہلے برہمنیت کے خطرناک عزائم کو آشکارا کر گئی تھیں۔
ان دونوں میں سے پہلی قسم کے مسائل  میں مسلمانوں کی خدمت گزاری کے لیے جمعیت علماء ہند کی لیڈرشپ اور وہ دوسرے نیشنلسٹ مسلمان بہتر پوزیشن میں تھے جنہوں نے تقسیمِ ہند کے خلاف کانگریس کے شانہ بشانہ لڑائی لڑی تھی، اور حق ہے کہ ان حضرات نے اس معاملے میں کوئی کسر اٹھائے نہیں رکھی۔ وہ بلاکسی تفریق کے ہر کلمہ گو کی مدد کو ہر طرف دوڑے، حتٰی کہ جمعیت علماء ہند کے دیوبندی علماء نے تعزیے اٹھوانے اور عرس کروانے تک میں ان مسلمانوں کے حق میں لڑائی لڑی جو ان باتوں کے قائل تھے۔ مولانا علی میاں صاحب (اور ان کے رفیق خاص میرے والد ماجد) اس زمرے میں نہیں آتے تھے۔ یہ عملاً سیاست کے بجائے مسلمانوں کی دینی خدمت کا زیادہ ذوق رکھتے تھے اور پہلے سے اسی لائن پر کام کرتے آ رہے تھے۔ مولانا نے خاص طور سے ہندوستانی مسلمانوں کی جس دینی خدمت کو اپنی تقریری اور تحریری جدوجہد کا مرکزی نقطہ بنایا وہ ان کے توحیدی مزاج کی حفاظت تھی۔
مولانا خاندانی طور پر حضرت سید احمد شہیدؒ کے وارث تو تھے ہی، اس پر مزید (خود ان کے بیان کے مطابق) ان کے دینی ذوق و مزاج کی تعمیر و تربیت میں حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ کے مکتوبات کو بہت خاص دخل تھا جس میں اکبر کے دینِ الٰہی کا توڑ کرنے کے لیے ایک فقیرِ بے نوا کی بے چینیاں ایک عالم کو بے چین کر دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ نئے ہندوستان میں یہی فتنہ نئے سرے سے سر اٹھانے یا ایک نئی بساط کار بچھانے جا رہا تھا اور اس نے زبردست حکومتی وسائل کے ساتھ اپنی بساط کار بچھائی۔ مولانا نے اولین دن سے جو اس کو اپنا خاص نشانہ بنایا تو آخر تک بنائے ہی رکھا۔ وہ برہمنیت کے توڑ میں مسلمانوں کو صاف صاف دعوت دیتے تھے کہ ابراہیمیت کو اپنا اسوہ بنائیں اور اسوۂ ابراہیمی کی پیروی میں کوئی سمجھوتہ مشرکانہ دین سے نہ کریں۔ اللہ نے مولانا کو تحریر و تقریر دونوں ہی پر بھرپور قدرت دی تھی اور انہوں نے اپنے مالک کی دی ہوئی اس قدرت کو اس کی سب سے اہم ’’وصیت‘‘ اخلاصِ توحید اور حفاظتِ توحید ہی میں لگایا۔
ان کے بالکل آخری دور کا (غالباً گزشتہ سال کے نومبر یا دسمبر کا) واقعہ ہے کہ یوپی کے سرکاری سکولوں میں بندے ماترم کو رواج دینے کی جو ایک مہم چل رہی تھی اور دیوبند سے اس کے خلاف فتوٰی نکلا کہ مسلمان بچوں کے لیے اس میں شرکت حرام ہے، تب مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر کی حیثیت سے بعض انگریزی اخبارات کے نمائندوں نے مولانا کا نقطۂ نظر اس معاملے میں جاننا چاہا۔ مولانا کا جواب ٹھیٹھ ابراہیمی لہجے میں دوٹوک تھا کہ ہم شرکیہ گیت میں شرکت کی بجائے مر جانا پسند کریں گے۔ اس تاریخ ساز جواب نے کم از کم فوری اور ظاہری طور پر وندے ماترم کی بساط یوپی سکولوں سے لپیٹ دی۔ باقاعدہ اس حکم کی منسوخی کا اعلان ہوا اور وزیرتعلیم بیک بینی و دوگوش برخاست۔ آج کی بھارتی گورنمنٹ جس بھارتیہ جنتا پارٹی کی سربراہی میں چل رہی ہے اس کا مسلمانوں سے صاف صاف کہنا رہا ہے کہ انہیں بھارتی تہذیب کو اپنانا ہو گا مذہب وہ اپنا رکھیں۔ یہ بات کانگریسی لیڈروں کے ایک طبقے کی زبان پر بھی آزادی کے کچھ ہی دنوں بعد ایک غیرجارحانہ انداز میں (یا کہئے دعوت و تلقین کے انداز میں) آ گئی تھی۔ ان میں سب سے نمایاں جواہر لال کے ہم وطن جوہر شوتم داس ٹنڈن تھے، جنہوں نے کانگریس میں اتنی طاقت حاصل کر لی تھی کہ جواہر لال کے امیدوار (اچاریہ کرپلانی) کے مقابلے میں آل انڈیا کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔ اپنے انتخاب کے فورًا بعد انہوں نے یہی راگ اٹھایا، تب ہمارے مولانا نے ’’مذہب یا تہذیب‘‘ کے عنوان سے ایک عالمانہ مقالہ لکھ کر اس فاشٹ راگ کو چیلنج کیا۔ وہ ایک قابلِ دید مقالہ ہے، اللہ نے مولانا کو بات کہنے کا وہ سلیقہ دیا تھا کہ سخت سے سخت بات بھی کڑواہٹ سے دور ہوتی تھی، اس لیے سنی جاتی تھی۔
اس طرح کی باتوں کا خاص پس منظر یہ تھا کہ ہندوستانی کے ہندی بولنے والے صوبوں اور خاص کر یوپی میں پرائمری اور سیکنڈری سطح پر نصابِ تعلیم رائج کیا جا رہا تھا جو بچوں کے دل و دماغ پر ہندو تہذیب اور ہندو تاریخ کی چھاپ لگائے۔ اس کے مقابلے کے لیے ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے جو کوششیں شروع ہوئیں ان میں سب سے زیادہ نمایاں کوشش یوپی دینی تعلیمی کونسل کے قیام کی شکل میں ۱۹۰۹ء میں سامنے آئی۔ حضرت مولانا کو اس کا صدر منتخب کیا گیا اور آخر تک آپ ہی اس عہدے پر رہے۔ اسی کوشش کے ردعمل میں یوپی کے اس وقت کے وزیراعلیٰ (یا اگر میں بھول رہا ہوں تو وزیرتعلیم، جو بعد میں بہرحال وزیراعلیٰ ہی ہوئے) بابوسچدیوانانند نے، جو بہت فاضل شخص مانے جاتے تھے، ایک تقریر میں ایک عالمانہ انداز میں سوال اٹھایا کہ آخر ایران میں اسلام آجانے کے بعد تو وہاں کے لوگوں نے اپنے نامور آباؤاجداد سے رشتہ نہ توڑا، وہ بہرام و افراسیاب کی داستانوں پر ایسے ہی فخر کرتے رہے، تو ہمارے ہندوستانی مسلمانوں کو کیا دِقت ہے کہ وہ کرشن اور ارجن سے بھی اپنا رشتہ قائم رکھیں؟ ہمارے مولانا نے اس کا جو جواب دیا بابوسچدیوانانند نے بھی اس کا نوٹس لیا اور ماہنامہ الفرقان لکھنؤ جہاں مولانا کا مضمون شائع ہوا تھا اس کو اپنا جواب اپنے ہی قلم سے اردو میں لکھ کر بھیجا جو ایک بڑا شائستہ جواب تھا۔
الغرض مولانا کی عالمی سطح پر ان اسلامی خدمات کے پہلو بہ پہلو جن سے باہر لوگ فی الجملہ واقف ہیں، ہندوستانی مسلمانوں کے سلسلے میں مولانا مرحوم کا خاص کارنامہ ان کے توحیدی مذہب اور تہذیب کی ہمہ دم پاسبانی کی جدوجہد ہے، اللہ انہیں اس کا بھرپور اجر عطا فرمائے اور مسلمانانِ ہند کو ان کا ثانی، آمین۔

دعا اور درود منزل پر کیسے پہنچتے ہیں؟

عبد الرشید ارشد

محسنِ انسانیت سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دعا اور صدقہ تقدیر کو بھی ٹال دیتے ہیں۔ ایک اور موقعہ پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ بندہ وہ ہے جو اس سے مانگے اور جو اپنے کیے پر نادم ہو کر توبہ کرے۔ جیسا کہ ہر نماز کی آخری رکعت کے دوران ایسی مستقل دعا کو جزوِ نماز بنا دیا گیا ہے جو قیامت تک ہر مسلم کے ذمہ فرض ہے۔
موجودہ دور کی سائنسی ایجادات ریڈار، ریڈیو، ٹیلیویژن، وائرلیس اور ٹیلیفون یا کمپیوٹر نے آج ہمارے لیے دعا کے مقامِ قبولیت تک پہنچنے اور اس کے اثرات واپس دعا مانگنے والے تک پہنچانے کے مخفی انتظامات کو سمجھنا بہت آسان کر دیا ہے۔ یہ ساری ایجادات خالق کے تخلیق کردہ انسان کے کاسۂ سر میں رکھے چند اونس وزنی دماغ کی سوچ سے سامنے آئیں کہ ایک شخص ایک مشین کے سامنے بیٹھ کر کوئی بات کرتا ہے تو مطلوبہ مقام پر مطلوبہ شخص اسے سن سکتا ہے اور ان باتوں کا ریکارڈ بھی ممکن ہے اور اس کا جواب بھی سنا جاتا ہے۔ ریڈار ہو، ریڈیو یا ٹیلیویژن ہو، ٹیلیفون یا کمپیوٹر ہو، یا وائرلیس ہو، دن بدن ان کا دائرہ کار وسیع ہو کر کرۂ ارض تک ہی محدود نہیں بلکہ کائنات کی وسعتوں تک پھیل رہا ہے اور اس پر ہم سب گواہ ہیں کہ یہ سب انسانی عقل کا کرشمہ ہے۔ کروڑوں میل دور فضا میں تیرتے سیاروں تک انہی اسباب سے پیغام رسانی ممکن ہوئی ہے۔
انسان کے خالق نے اگر انسان کو اس حد تک صلاحیتوں سے نوازا ہے تو تصور کیا جا سکتا ہے کہ خود خالق نے اپنی مخلوق سے مسلسل ربط کا کس قدر مؤثر انتظام کیا ہو گا۔ قرآن پاک میں مختلف انداز میں خالق جل شانہ نے فرمایا کہ کائنات کی وسعتیں ہوں یا زمین کی تہیں ہوں، بڑی چیز ہو یا انسانی آنکھ کو نظر نہ آنے والے ذرات، ہر شے میرے علم میں ہے اور میرے ہاں ریکارڈ میں محفوظ بھی ہے۔ میں ہر جگہ تمہارے ساتھ ہوں، میں دیکھتا بھی ہوں اور سنتا بھی ہوں۔ انسان کا خودساختہ نظامِ مواصلات مقناطیسی لہروں کا محتاج ہے اور ان کا محدود دائرہ کار ہے، کچھ مقامات ایسے آتے ہیں جہاں یہ ہمت ہار جاتی ہیں۔
انسان شعاعوں سے بھی مختلف فوائد حاصل کرتا ہے جو قدرت کا عطیہ ہیں، سائنس کی دنیا نے ان کو مختلف نام دیے ہیں۔ یہ ایکس ریز ہیں، گاما ریز ہیں، الفا اور بیٹا ریز ہیں۔ ہر شعاع سے نفع نقصان کی کہانی بھی الگ ہے۔ مثلاً ایکس ریز سے علاج ممکن ہوا تو انسان کے لیے نعمت، اور گاما ریز کی مقدار ذرا بڑھے تو نری ہلاکت۔ روشنی کی شعاعیں ہوں یا مقناطیسی لہریں، یہ انسان کی تخلیق نہیں بلکہ یہ خالق ہی کی تخلیق ہے، جس سے متمتع ہوتی ہے ہر نوع کی مخلوق، کہ خالق نے انہیں مخلوق کے لیے مسخر کر دیا کہ کائنات کا نظام منضبط طریقہ سے چلتا رہے۔ ان شعاعوں اور لہروں سے ماوراء ایک اور نظام بھی ہے جس سے کائنات کنٹرول ہوتی ہے اور جس کے ذریعے یہ سب کچھ وجود میں آیا ہے۔ یہ نور کی شعاعیں ہیں جو ہر دوسری معلوم قوت سے بے حد و حساب قوی ہیں اور لامحدود ہیں۔
واحد کے معنی ایک ہیں اور ایک کو تقسیم کیا جا سکتا ہے یا یہ تقسیم در تقسیم ہو سکتا ہے۔ مگر احد ناقابلِ تقسیم یکتائی ہے۔ خالق کی ودیعت کردہ عقل سے انسان، خالق کی تخلیق کردہ ناقابلِ تقسیم اکائی (ایٹم) کی حقیقت و ماہیت جان سکا۔ اس ناقابلِ تقسیم اکائی کی بے پناہ قوت کو جان سکا اور اسے امن یا تباہی کے لیے استعمال پر قادر ہو سکا۔ مگر ساری محنت کے باوجود وہ یہ دعوٰی کرنے کے قابل نہیں ہے کہ یہ اکائی مکمل طور پر اس کی سمجھ میں آ چکی ہے، یا اس پر اس کا مکمل کنٹرول ہے۔
نور کی یکتائی کیا ہے، اگر انسان سمجھ سکے تو اس کی عملی زندگی کے بے شمار مسائل حل کر کے یہ اسے دھرتی کی معتبر ترین ہستی بنا دے۔ اس کائنات میں اس نور کی یکتائی کا عمل دخل اور طریقۂ کار قبولیتِ دعا کو سمجھنے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ آئیے اس پہلو پر خالق ہی سے راہنمائی لیتے ہیں۔
’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ (کائنات میں) اس نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق میں رکھا ہوا چراغ، یہ چراغ ایک فانوس ہو اور فانوس موتی کی طرح چمکدار تارا، اور وہ چراغ زیتون  کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑک پڑتا ہو، چاہے اسے آگ نہ لگے، (اس طرح) روشنی پہ روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہو گئے ہوں)، اللہ اپنے نور کی طرف سے جس کی چاہتا ہے راہنمائی کرتا ہے، وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے، وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے۔‘‘ (النور ۳۵)
خالق کے مذکورہ فرمان سے جو باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں انہیں یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
  1. اللہ (جو احد ہے) آسمانوں اور زمین (کی لامتناہی وسعتوں اور گہرائیوں) کا نور ہے۔
  2. یہ نور ہمہ جہت ہے، اس نور کا رخ متعین نہیں کیا جا سکتا۔
  3. یہ نور انتہائی روشن چراغ کی مانند ہے، (جس کے مرکزے کو آنکھ نہیں دیکھ سکتی، یعنی چکاچوند ہے)۔
  4. چراغ کی مثال سے انسان کو اللہ احد یعنی نور کی یکتائی کا تصور دلانا مقصود ہے۔
اگر انسان دو امور پر عقل کے گھوڑے نہ دوڑائے اور ہر طرح کے تجسس سے دستبردار ہو جائے کہ اللہ جل شانہ کس شکل میں ہے اور کائنات میں اس کے عرش کا مقام کہاں ہے، اور صرف اس پہلو سے غور و فکر کرے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ جس صورت میں ہے اور جہاں ہے وہ خالق ہے اور اس کے فرامین برحق ہیں، تو قرآن میں غور و فکر سے اس کے لیے ہر لمحہ نئی راہیں نکلتی رہیں گی۔ مگر مذکورہ دونوں امور پر غور و فکر اسے گمراہی کے راستے پر تو لے جا سکتا ہے، ہدایت اس کا مقدر نہ ہو گی۔
اللہ احد کے نور کی ناقابلِ تقسیم یکتائی کائنات کی وسعتوں میں جہاں بھی ہے اپنے اندر (مرکز میں) وہ العزیز سب سے زیادہ قوی، الجبار والقھار جبار و قہار اور الرحمن الرحیم انتہائی مہربان و شفیق، الودود سب سے بڑھ کر محبت کرنے والی صفات سے متصف ہے۔ اسی طرح دوسری بے شمار صفات جو اسمائے الٰہی میں بیان کی گئی ہیں اس نور کا خاصہ ہیں۔ نور کی یہ بے پایاں قوت یقیناً اپنے چاروں سمت ہی نہیں ہمہ جہت اپنے نور کی کرنوں کو پھیلاتی ہے۔ یہ نور کی صفت ہے کہ اسے پابند نہیں کیا جا سکتا، اور پھر خالق کا نور! لہٰذا اپنے مرکز سے ہمہ جہت کائنات کی وسعتوں میں، سمندر کی گہرائیوں میں، سیاروں کی سخت چٹانوں اور گہرائیوں میں سے آرپار، جہاں تک خالق کا اقتدار ہے، جس کا ہم ساری زندگی صرف کر کے بھی ادراک نہیں کر سکتے، جاتی ہیں، اور یہ نور کی کرنیں ایسی ہیں کہ ان کا شمار ممکن ہی نہیں ہے۔
جب ہم یہاں تک پہنچ جاتے ہیں تو خالق کا یہ فرمان ہم پر بالکل عیاں ہو جاتا ہے کہ تم جہاں کہیں بھی ہو میں تمہارے ساتھ ہوں، میں دیکھتا ہوں، میں سنتا ہوں۔ آسمان کی وسعتوں میں، ہر ذرہ اور دھرتی کی تہہ اور سمندروں کی گہرائیوں میں موجود ہر شے سے باخبر ہوں کہ نور کی اس کائنات میں پھیلی کرنوں کے ذریعے وہ ہماری شاہ رگ سے بھی یقیناً قریب ہے۔ اور نور کی یکتائی سے خارج ہمہ وقت ہمہ جہت کرنیں ہی اس یکتائی کے کان، اس کی آنکھیں ہیں، اور انہی کے ذریعے ہر کسی مخلوق سے رابطہ ہے۔
مخلوق کے ساتھ رابطہ کا ایک سبب اور بھی خالق کے فرمان سے سمجھ میں آتا ہے۔ قرآن حکیم میں فرمایا کہ آدم کو مٹی سے مکمل شکل و صورت دینے کے بعد میں نے اس میں اپنی روح کا ایک جزو پھونکا (روح یا زندگی) ونفخت فیہ من روحی۔ گویا مخلوق میں زندگی کی رمق، اس کے نور کا ایک معمولی جز اس میں موجود ہونے کے سبب ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ انسان ہو یا کوئی دوسرا ذی روح، اس میں ان صفات کا ایک معمولی جز موجود ہے جو بدرجہ اتم خالق کے پاس ہیں۔ مثلاً جذبہ محبت و مودت، جذباتِ رحم و کرم، داعیات قہر و غضب وغیرہ، جنہیں ہم فطری یا جبلی تقاضے کہتے ہیں، یہ خالق کا مخلوق کے لیے عطیہ ہے اور رابطہ کا سبب بھی ہیں۔
مخلوق میں نور کا جزو خالق کے نور سے ہر لمحہ منسلک ہے اور یہی خالق اور مخلوق کے درمیان ہر وقت ربط کا ذریعہ ہے۔ یہ بات کل سمجھنا مشکل تھا مگر آج انسان کے تخلیق کردہ وائرلیس، ریڈیو یا انٹرنیٹ نے اسے سمجھنا آسان کر دیا ہے کہ ریڈیو اسٹیشن یا وائرلیس اسٹیشن میں رکھی مشنری سے مقناطیسی لہریں فضا میں جو پیغام نشر کرتی ہیں وہ ہر ریڈیو اور وائرلیس سیٹ پر وصول کیے جاتے ہیں۔ وائرلیس دو طرفہ رابطہ کا معروف ذریعہ ہے۔ مرکزی مقام پر مشینری بہت زیادہ ہوتی ہے اور جہاں پیغام بھیجے جاتے ہیں یا جہاں جہاں سے پیغام وصول کیے جاتے ہیں وہاں بہت ہی ہلکا پھلکا انتظام ہوتا ہے یعنی معمولی مشین۔ اس سے یہ بات با آسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جو لازوال و لاجواب نور کی یکتائی ہے، اس کے نور کی کرنیں، مخلوق کے اندر نور کے جز کی کمزور کرنوں تک پیغام کیسے ارسال کرتی ہیں اور پیغام کیسے وصول کرتی ہیں، یا ایک پیغام وصول کر کے دوسرے متعلقہ حصے تک پیغام کیسے بھیجتی ہیں۔ قرآن حکیم سے اس کی مثال دیکھیے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر کو دیکھ کر چیونٹیوں کی ملکہ نے جو کچھ کہا وہ کس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام تک پہنچا۔
جب ہم خالق اور مخلوق کے مابین دوطرفہ کرنوں کے  باہم اتصال یا ہر چیز کے علم کے لیے علیم و خبیر خالق کی کائنات کی وسعتوں پر ہاوی نورانی کرنوں کی کیفیت کا اپنی حد تک کچھ نہ کچھ شعور و ادراک پا لیتے ہیں تو ہمیں یہ سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی کہ خالق زندوں کے سلام و پیغام و درود مُردوں تک کیسے پہنچاتے ہیں۔ چونکہ اللہ احد کے نور کی یکتائی کی کرنیں ہر چیز کا احاطہ کیے ہیں، ہر چیز سے انفرادی ربط ہے، اور ہر کرن اپنے مرکز سے بھی مربوط ہے، تو ایک شخص جب قبرستان سے گزرتا ہے، فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق السلام علیکم یا اہل القبور کہتا ہے تو اس سے ملی نورِ الٰہی کی کرن مرکزِنور کو یہی سلام پہنچا دیتی ہے۔ اور پھر مرکزِ نور اپنے انداز میں وہی کچھ متعلقہ کرنوں کے ذریعے متعلق دفن افراد کی زندہ جاوید روحوں تک پہنچا دیتا ہے کہ جسمِ خاکی کو فنا ہے روح فنا نہیں ہوتی۔ 
محسنِ انسانیتؐ پر درود بھیجنے کا حکم خود خالق نے اپنی محکم کتاب میں درج فرما دیا، اور یہ حکم صرف صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین تک حیاتِ سرورِ دوعالم کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر دور کے ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس کے لیے اوقات کا تعین بھی نہیں فرمایا گیا۔ اب کرۂ ارض پر چار سو مسلمان حسبِ توفیق درود بھیجتے ہیں تو خالق ہی کے فرمان کے مطابق ملائکہ بھی نہ صرف یہ کہ نبی اکرمؐ پر درود بھیجتے ہیں بلکہ آپؐ پر درود بھیجنے والوں کے لیے دعا بھی کرتے ہیں۔ ان باتوں پر قرآن و حدیث کی شہادت موجود ہے (سورہ الاحزاب)۔ اگر یہ درود اور دعائیں متعلقین تک نہیں پہنچ سکتیں جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے تو معاذ اللہ حکمِ الٰہی عبث ہے۔
درود و سلام اور دعاؤں کو ربانی نور کی کرنوں ہی کے ذریعے ہر جگہ سے وصول کیا جاتا ہے اور ہر متعلقہ ہستی تک پہنچایا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں اگر خالق نے یہ فرمایا کہ اے نبی! تم مُردوں کو نہیں سنا سکتے تو اس سے لفظی معنی لے کر یہ فرض کر لینا کہ ہماری دعائیں کسی قبر میں داخل ہی نہیں ہوتیں، علم و عقل کی توہین ہے۔ بلکہ خالق کے فرامین کی روح کو نہ سمجھنے کی تصدیق ہے کہ خالق ہمیں ایسی بات کا حکم دے جو اسی کے کسی دوسرے فرمان کی نفی ہو۔
قرآن پاک میں انبیاء علیہم السلام سے دعائیں منقول ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنی مشرک باپ کے لیے دعا کا ذکر ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار دعاؤں کی تاکید فرمائی۔ پھر ہر فرض نماز کی آخری رکعت میں دعا نماز کا جز قرار پائی اور وہ بھی قیامت تک رہنے والے مومنین کے لیے۔ یہ سب بے فائدہ ہو جائے گا اگر ہم قرآن کی کسی آیت کی حقیقی روح کو نظرانداز کر کے ظاہری معنی پر ہی اسے محمول کریں۔ قرآن پاک میں تو نبی اکرمؐ کو محاورتاً یہ فرمایا گیا کہ جس طرح مردہ حواسِ خمسہ سے بظاہر عاری ہو جاتا ہے اور اسے اس حالت میں کچھ سنایا نہیں جا سکتا، اسی طرح تم ان مشرکین کو کیا سنا سکتے ہو۔ مثلاً یہی اسلوب سورۃ لقمان میں اپنایا گیا جہاں فبشرہ بعذاب الیم ۔۔ ظاہر ہے خوشخبری اچھی خبر کے لیے ہے نہ کہ بری خبر کے لیے، یہ خالق کا اندازِ کلام ہے، استعارہ ہے۔
دائمی جدائی دینے والوں تک ہماری دعاؤں کی رسائی، رسولِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم تک ہمارے درود و سلام کی رسائی کی نوعیت و کیفیت سمجھنے میں اب کوئی دشواری نہیں آنی چاہیے کہ یہ سارا کام ربانی نور کی کرنیں سرانجام دیتی ہیں۔ اور یہ ابدی مربوط نظام اس قدر تیز ہے کہ ادھر ذہن میں سوچ آئی، لفظ زبان سے نکلا، ادھر متعلقہ جگہ پر پہنچ کر ان کے نامۂ اعمال میں کریڈٹ ہو گیا جو محشر میں دائیں یا بائیں ہاتھ میں ہو گا۔ اور مالکِ کائنات نے متعلقہ ہستی کو کس طرح آگاہ فرمایا، یا نہیں فرمایا، ہمیں اس پر اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے کہ اس میں عاقبت خراب ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ نہ ہم اس تجسس کے لیے مکلف ہیں کہ یہ محشر میں یا قبر میں ہم سے پوچھا جائے گا۔
مذکورہ وضاحت کے بعد اب ہم دعا کی حقیقت پر بات کرتے ہیں کہ جب بندہ دعا کرتا ہے تو وہ خالق تک کیسے پہنچتی ہے اور اس کی قبولیت یا عدمِ قبولیت کی کیفیت کیا ہے۔ دعا کے ضمن میں چند باتیں ذہن نشین رہنی چاہئیں۔
  • دینے والے کے مقابلے میں مانگنے والے کا اپنی حیثیت کا تعین کرنا۔
  • دینے والے کی عظمت و سخاوت کا اعتراف اور مدد و تعاون پر قادر ہونے کا مکمل ادراک۔
  • دینے والے کے ساتھ اپنے تعلق کا شعور اور مانگنے کا انداز۔
روز مرہ زندگی میں ہم اخبارات میں پڑھتے ہیں، سنتے ہیں کہ جب کوئی بحری جہاز مصیبت میں گرفتار ہو، طوفان میں گھر جائے تو بڑے کرب اور دکھ بھری لجاجت کے ساتھ وائرلیس پر بار بار ایک پیغام SOS (ہمیں بچاؤ) نشر کرتا ہے اور گرد و پیش آنے جانے والے بحری جہاز یا قریبی بندرگاہ پر جو بھی اس پیغام کو سنتا ہے مدد کے لیے دوڑ لگا دیتا ہے۔ اسی طرح مشکل میں پھنسا ہوا ہوائی جہاز آخری پیغام کے طور پر وائرلیس پر May Day (مشکل گھڑی) دہراتا ہے جس سے کنٹرول ٹاور کو اس کی مصیبت کا اندازہ ہو جاتا ہے اور امدادی پارٹیاں جہاز کے مسافروں کی مدد کے لیے روانہ ہو جاتی ہیں۔
بعینہ اسی طرح جب کوئی بندہ اپنے گناہ کی معافی یا اپنی حاجات کی تکمیل کے لیے اپنے اندر کی قلیل نور کی کرنوں کو اعلیٰ و ارفع اللہ کے نور کی کرنوں کے ساتھ پیغام رسانی کے لیے استعمال کرتا ہے تو اس رابطے کا انحصار اس بات پر ہے کہ بھیجنے والے کی کرنوں کی کیفیت کیا ہے۔ کیا وہ SOS اور May Day طرز کا پیغام بھیج رہا ہے یا عمومی طرز کا۔ یہ بات نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بخوبی سمجھ آتی ہے کہ یتیم اور مظلوم کی دعا اور عرشِ الٰہی کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہوتی۔ یعنی دونوں طرف کی کرنوں کا اتصال فوری اور مؤثر ہوتا ہے کہ یہ بھیجنے والے کے دل کی گہرائی سے خارج ہوتی ہیں، جسے ہم یک سوئی (Concentration) کہتے ہیں۔ ریڈار یا کسی بھی دوسرے ذریعے سے بھیجے جانے والے پیغامات میں اگر یک سوئی نہ ہو تو دنیوی نقطۂ نظر سے کبھی بھی مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ یہی صورتِ حال بارگاہِ رب العزت میں کی جانے والی دعا کی ہے۔
یکسوئی پیدا کرنے کے لیے لازم ہے کہ مانگنے والے کے دل و دماغ میں اپنی اور جس ہستی سے مانگا جا رہا ہے اس کی حیثیت واضح ہو۔ جب تک مانگنے والے کے دل و دماغ میں اپنے لیے بے بسی اور بے چارگی کا یقین نہ ہو گا، اور دینے والی ہستی کے متعلق بھی یہی محکم یقین نہ ہو گا کہ صرف اور صرف وہی دے سکتا ہے، اس وقت تک مانگنے والے کے نور کی کمزور کرنیں بھٹکتی پھریں گی، منزل تک لے جانے والی کرنوں کے ساتھ ان کا ملاپ ہی نہ ہو پائے گا۔
یکسوئی کے لیے دوسری ضرورت، بے چارگی و بے بسی کی کیفیت سے آگے ایک اور قدم، دینے والے کے ساتھ اطاعت کا تعلق ہے۔ ایسی اطاعت جس میں محبت اور شوق دونوں پائے جائیں۔ محبت اور شوق جس معیار کے ہوں گے، یکسوئی بھی اسی قدر معیاری ہو گی۔ اور پھر یقیناً دو طرفہ کرنوں کا باہم اتصال بھی اسی قدر جلد، مؤثر اور معیاری ہو گا۔
اطاعت محض جذبے کا نام نہیں ہے بلکہ اطاعت کا تعلق اعمال کے ذریعے فراہم کیے جانے والے ثبوت سے ہے۔ اس کا ایک پلڑا معروف پر عمل یعنی عبادات، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں توازن اور حسن قائم رکھنا ہے، تو دوسرا پلڑا صغیرہ کبیرہ گناہوں سے بچنا ہی نہیں گناہ کی طرف لے جانے والے راستوں سے بھی دور رہنا ہے۔ 
نبئ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کا یہ مفہوم کس نے نہ سنا ہو گا کہ پیٹ میں لقمہ حرام ہو، جسم پر کپڑے حرام ہوں، حقوق اللہ اور حقوق العباد پامال ہوں، اور اس کے باوجود بندہ یہ سمجھے کہ میں جب چاہوں جو چاہوں اپنے رب سے لے لوں۔ اس کی مثال تو ایسے ہے جیسے کراچی پہنچنے کا متمنی مسافر غلطی سے یا جان بوجھ کر پشاور جانے والی گاڑی میں سوار ہو کر بڑی عاجزی، یکسوئی اور لجاجت سے بخیریت کراچی پہنچنے کی دعا کرے، وہ پشاور تو بلادعا پہنچ جائے گا مگر کراچی کبھی نہ پہنچے گا۔
دعا کے ضمن میں سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ قطع رحمی کے لیے دعا قبول نہیں ہوتی مگر خیر کے لیے کی گئی کوئی دعا رد نہیں ہوتی۔ البتہ دعا کے اثرات کا ظاہر ہونا قادرِ مطلق، حکیم و رحیم رب کی حکمت پر منحصر ہے۔ خالقِ کائنات اپنی مخلوق کے جملہ معاملات و مسائل سے ہر لمحہ باخبر ہے۔ انفرادی اور اجتماعی ضروریات اس سے اوجھل نہیں ہیں۔ اگر کوئی چیز بندہ کے لیے اسی وقت نفع بخش ہوتی ہے جب وہ اس کا مطالبہ کرتا ہے تو اسے فورًا مل جاتی ہے۔ اگر وہ چیز اس وقت اس کے لیے نافع نہیں ہوتی تو اسے اس وقت تک مؤخر کر دیا جاتا ہے جب تک وہ اس شخص یا جماعت کے لیے نافع ثابت نہ ہو۔ جیسا کہ ہم خود تجربہ رکھتے ہیں، ماضی کی بعض دعاؤں کے اثرات بہت بعد نکلتے ہیں۔ اسی طرح بعض دعائیں ایسی ہیں جنہیں مانگنے والا خیر سمجھ کر مانگ رہا ہے مگر علیم و خبیر مہربان رب اس طلب میں پنہاں خرابیوں کو جانتے ہوئے اسے قبول نہیں فرماتا بلکہ اس کا بہتر بدل اسے دے دیتا ہے۔ اور جن دعاؤں کے متعلق بندہ گمان کرتا ہے کہ قبول نہیں ہوئیں، ان کا اجر محشر تک مؤخر کر دیتا ہے۔
فرمانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ محشر میں ایک شخص جب حساب سے فارغ ہو جائے گا تو اللہ جل شانہ فرشتوں سے فرمائیں گے کہ اس کے کھاتے میں اور جو کچھ ہے لے آؤ۔ بندہ حیران ہو گا کہ حساب تو ہو چکا! اسی دوران فرشتے پہاڑ جتنی نیکیاں سامنے لائیں گے تو بندے کی حیرت میں اور اضافہ ہو گا۔ بندے کو یوں حیران دیکھ کر خالقِ کائنات فرمائیں گے کہ بندے یہ تیری ان دعاؤں کا اجر ہے جنہیں دنیا میں تو سمجھتا تھا کہ وہ قبول نہیں ہوئیں۔ اس پر بے ساختہ بندہ کہہ اٹھے گا کہ کاش دنیا میں میری کوئی دعا قبول ہی نہ ہوئی ہوتی۔ یوں بندے کی دعا اور بندے کا پیش کردہ درود مکمل صحت کے ساتھ کسی تاخیری لمحوں میں نہیں، لحظوں میں مقامِ مطلوب تک پہنچ جاتے ہیں۔

سود کے بارے میں سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلہ پر عمل کیا جائے

مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی

اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے سودی نظام کے خاتمے کا فیصلہ دے کر اسلامی تاریخ کا ناقابل فراموش کارنامہ انجام دیا ہے۔ سود سے متعلق سپریم کورٹ کا عظیم الشان فیصلہ صرف پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام میں اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے جس پر پوری قوم کو دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
مفتی محمد رفیع عثمانی دارالعلوم کورنگی میں ایک بڑے دینی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے، انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے دامن میں صرف چند تاریک پہلو لیے ہوئے نہیں ہے، اس کے روشن کارناموں کے ذریعے دل سے امید و حوصلہ مندی کے سرچشمے بھی پھوٹتے ہیں۔ پاکستان کی امتیازی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے مفتی محمد رفیع عثمانی نے کہا کہ
  • یہی وہ مملکت ہے جس کے دستور اور آئین میں واضح لفظوں میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ اور قرآن و سنت کی بالادستی کو تسلیم کیا گیا ہے، جس سے ملک کو سیکولرازم کی راہ پر ڈالنے کی بہت سی مذموم کوششیں دم توڑ گئیں۔
  • اسی طرح قادیانیوں کو سرکاری سطح پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے میں سب سے پہل کرنے کا سہرا بھی اسی کے سر ہے۔ پاکستان کے بعد ہی دوسرے ملکوں نے قادیانیوں کے کفر کو قانونی طور پر تسلیم کیا۔
  • اس کے علاوہ دنیا میں پہلی مسلم ایٹمی طاقت بننے کا شرف بھی پاکستان ہی کو حاصل ہے،
  • اور اب سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلہ نے سودی نظام کا قابلِ عمل متبادل پیش کر کے پاکستان کو پورے عالمِ اسلام میں ایک اور قابلِ فخر امتیاز عطا کیا ہے۔
مفتی محمد رفیع عثمانی نے حکومت سے پُرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ عدالتِ عظمٰی کے وقیع اور تاریخی فیصلے کا دل سے احترام کرتے ہوئے تیزی سے کاروائیاں شروع کرے تاکہ مقررہ تاریخ سے پہلے ہی سود کے مکارانہ اور ظالمانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جا سکے۔ ایسا کرنا حکومت کی نیک نامی اور سعادت مندی کا باعث ہو گا۔ دینی قوتوں اور باشعور عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اس تاریخی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک انقلابی نوعیت کا فیصلہ ہے، اس کو روبہ عمل لانے کے لیے نیم دلانہ انداز نہ صرف ناکامی کا سبب بنے گا بلکہ اس کا انتہائی مضر اثر ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے ہر نئے نظام کی طرح اس میں بھی شروع میں کچھ عملی دشواریاں پیش آئیں لیکن مسلم ماہرینِ معاشیات اور فقہی بصیرت کے حامل علماء دین کی رہنمائی سے اس کا حل بہ آسانی نکل آئے گا۔

مولانا مسعود اظہر کی پریس کانفرنس

ادارہ

بھارتی طیارہ اغوا کرنے والے ہائی جیکروں کے مطالبے پر رہا ہونے والے مولانا مسعود اظہر نے جمعرات کو کراچی میں دارالعلوم جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے مفتی نظام الدین شامزئی کی قیام گاہ پر ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس پریس کانفرنس کا متن یہ ہے:
’’سب سے پہلے میں مجلسِ تعاونِ اسلامی کے چیئرمین حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے اپنی صحافی برادی کے ساتھ ہم کلام ہونے کا موقع عطا فرمایا۔ ان کے بعد میں اپنی صحافی برادری کے ان تمام حضرات کا شکرگزار ہوں جو اس پریس کانفرنس میں تشریف لائے ہیں یا جنہوں نے اپنے نمائندوں کو یہاں بھیجا ہے۔ میں اپنی گفتگو شروع کرنے سے پہلے ان تمام صحافی بھائیوں اور بزرگوں سے معذرت کرتا ہوں جنہیں گزشتہ دنوں مجھ سے ملاقات کرنے کی کوشش میں کچھ تکلیف اٹھانی پڑی حالانکہ میں نہ تو ذرائع ابلاغ سے چھپ رہا تھا، نہ ہی مجھے کوئی بات چھپانا تھی۔ لیکن آج ہر وہ مسلمان جو دنیا پر اسلام کے غلبے اور مسلمانوں کے حقوق کی بات کرتا ہے اس پر زمین کو تنگ کرنے کی  کوشش کی جاتی ہے اور اس سے آزادی کے ساتھ زندہ رہنے کا حق چھینا جاتا ہے۔ حالانکہ میں بھارت میں قانونی طور پر داخل  ہوا تھا اور تقریباً چھ سال بعد مجھے بھارت کے وزیرخارجہ نے خود آ کر طالبان کے سپرد کیا، یعنی بھارت کے حکمرانوں نے مجھے خود رہا کیا، یوں مجھے غیرقانونی حراست کے بعد قانونی آزادی ملی۔ مگر اس کے باوجود بھارت کے منفی پراپیگنڈے نے ایسے حالات پیدا کر دیے جن کی وجہ سے مجھے اپنی صحافی برادری کے سامنے آنے میں دیر لگی۔ امید ہے کہ آپ میری معذرت کو قبول فرمائیں گے اور ان مجبوریوں کے خلاف ضرور آواز اٹھائیں گے جو مجھ پر اپنے محبوب اور عزیز وطن میں واپس آنے کے باوجود مسلط کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اب آپ حضرات کے سامنے چند حقائق کا انکشاف کرنا چاہتا ہوں اور میں اس بات کی امید رکھتا ہوں کہ آپ ان ناقابلِ تردید حقائق کو باریکی کے ساتھ سمجھیں گے:
  1. ہائی جیکنگ کے اس معاملے کا سب سے اہم سوال یہ بنایا گیا ہے کہ ہائی جیکر کون تھے؟ اور کہاں گئے؟ معاف کیجئے میرے نزدیک یہ دونوں سوال ثانوی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ ہائی جیکنگ کیوں ہوئی؟ اور اس اہم ترین سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ بھارت جو خود کو ایک جمہوری ملک قرار دیتا ہے اس نے اپنی جیلوں میں کئی افراد کو سالہا سال سے قید کر رکھا ہے اور ان افراد کی رہائی کے تمام قانونی دروازے بند کر دیے ہیں۔ میں اس بارے میں جو کچھ کہہ رہا ہوں پورے وثوق اور چیلنج کے ساتھ کہہ رہا ہوں اور میں عنقریب اس کے دستاویزی ثبوت بھی پریس کے سامنے لاؤں گا۔ یقیناً آپ کو یہ سن کر حیرانی ہو گی کہ جموں کشمیر کی جیلوں میں بند کئی افراد کو وہاں کی عدالتوں نے رہا کر دیا ہے مگر انڈیا انہیں رہا نہیں کرتا۔ یہ سن کر تعجب ہو گا کہ گرفتاری کے پہلے سال مجھے اس لیے ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا کہ میں نے بطور ایک صحافی اپنی رہائی کے لیے ایک وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ کیا بھارت اس بات کا جواب دے سکتا ہے کہ وہ ساٹھ قیدی جنہیں گزشتہ تین ماہ کے عرصے میں جموں کی ٹاڈا کورٹ نے رہا کر دیا ہے اب کس جرم کی پاداش میں بند ہیں؟ کیا بھارت یہ بتا سکتا ہے کہ راجوری اور نوشہرہ کے تھانوں میں بند وہ افراد جنہیں کئی سال پہلے رہا کرنے کا حکم جاری ہو چکا تھا اب کس جرم میں بند ہیں؟ خود مجھے پہلے تو کئی سال تک کورٹ میں نہیں لے جایا گیا، اور جب کورٹ لے جایا گیا تو ٹاڈا کورٹ کے جج نے ۱۶ نومبر ۱۹۹۹ء کو ایک حکم نامے کے ذریعے مجھے تمام الزامات سے بری قرار دے کر رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا مگر انڈین حکام کی طرف سے کہا گیا کہ تم رہائی کا خواب تک نہ دیکھنا۔ یہ عدالتی کاروائی تو محض ایک تماشا ہے چونکہ جیلوں میں بند قیدیوں کے لیے رہائی کے تمام دروازے مسدود کر دیے گئے ہیں اس لیے بھارت کی اس غیرقانونی دہشت گردی کے خلاف بعض ایسے اقدامات ہوتے ہیں جنہیں پوری دنیا دہشت گرد قرار دیتی ہے۔ مگر میں یہ پوچھتا ہوں کہ آخر جیلوں میں بند ان قیدیوں کی رہائی کا اور کیا ذریعے ہیں اور دنیا نے اس سلسلے میں بھارت پر کیا دباؤ ڈالا ہے؟ کیا دنیا یہ چاہتی ہے کہ وہ قیدی ’’ہنسی خوشی‘‘ جیلوں میں سڑتے رہیں اور ہر طرح کا تشدد سہتے رہیں؟
  2. ہائی جیکنگ کے اس معاملے کا ایک اہم پہلو مسئلہ کشمیر ہے۔ بھارت نے کشمیر میں جو دہشت گردی شروع کر رکھی ہے اور جس طرح اس نے کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کا استحصال کیا ہے اس کا کوئی بھی ردعمل کسی بھی وقت کسی بھی جگہ ہو سکتا ہے۔ دنیا کے تمام مہذب ممالک کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو حل کروائیں ورنہ ہائی جیکنگ جیسے معاملات پر واویلا کرنا چھوڑ دیں۔ ہائی جیکروں نے ہوائی جہاز میں کسی عورت کی طرف نگاہِ غلط تک نہیں اٹھائی، جبکہ کشمیر میں تو انڈین فورسز آئے دن وہاں کی عصمت ماب ماؤں بہنوں کی بے حرمتی کرتی رہتی ہیں۔ تھوڑا سا غور کیجئے وہ ظلم زیادہ سنگین ہے یا یہ؟ وہ حرکت زیادہ قابل مذمت ہے یا یہ؟ انڈیا کو چاہیے کہ جموں و کشمیر کی جیلوں میں بند تمام قیدیوں کو فی الفور رہا کر دے اور اپنی تمام فورسز کو کشمیر سے واپس بلا لے اور پاکستان سے مذاکرات کر کے اس مسئلے کو حل کرے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ میری پاکستان حکومت سے بھی پرزور اپیل ہے کہ وہ اپنے اس حالیہ موقف پر شدت سے قائم رہے کہ جب تک انڈیا کشمیر کے مسئلے کو حل نہیں کرتا اس وقت تک اس سے دال چینی یا آلو ٹماٹر کے موضوع پر کوئی بات نہ کی جائے۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور وہاں کے لوگوں کی جان اور عزت پاکستانیوں کو چینی اور آلو سے زیادہ عزیز ہونی چاہیے۔ میں جنرل پرویز مشرف صاحب کے اس بیان کا خیرمقدم کرتا ہوں جس میں انہوں نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کو مسئلہ کشمیر کے ساتھ مشروط کر دیا ہے۔ چونکہ یہ پالیسی ملکی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے اس لیے اس میں ذرہ برابر لچک پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ بھارت اگر خطے میں امن چاہتا ہے اور اپنی عوام کی فلاح و بہبود چاہتا ہے تو اسے مذاکرات کے لیے خود پہل کرنی چاہیے۔
  3. ہائی جیکر کون تھے؟ اس کے بارے میں میری معلومات یہ ہیں کہ یہ تمام پانچوں افراد بھارتی شہری تھے اور وہ جذبہ جہاد سے معمور گمنام مجاہد تھے جنہوں نے بھارت کے مظالم سے بے چین ہو کر یہ قدم اٹھایا۔ چنانچہ میں عالمی اور ملکی ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے بھارت کو یہ چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اغواشدہ جہاز کی اس پرواز کے تمام ریکارڈ کو سامنے لائے جس پرواز کے دوران یہ جہاز اغوا ہوا ہے۔ اگر بھارت نے یہ ثابت کر دیا کہ اس جہاز پر کوئی بھی ایک پاکستانی باشندہ سوار تھا تو ہم اس کے تمام الزامات کو درست مان لیں گے۔ بھارت میں جھوٹ کی عملداری ہے اور ان کے اعلیٰ حکام بھی جھوٹ بولنے سے گریز نہیں کرتے۔ وہاں تو اگر طاعون (پلیگ) کا مرض پھیل جائے تو یہ کہا جاتا ہے کہ طاعون زدہ چوہے آئی ایس آئی نے بھجوائے تھے۔ بھارت کے تمام اخبارات میں اوسطاً روزانہ پانچ خبریں آئی ایس آئی اور پاکستان کی مبینہ سازشوں کے بارے میں ہوتی ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ اگر یہ سچ ہے تو پھر بھارت کی فوج اور اس کی ایجنسیاں کیا کرتی ہیں؟ میں نہایت وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہائی جیکنگ کے اس معاملے میں پاکستان کا ملوث ہونا تو درکنار یہاں اس کا کسی کو علم بھی نہیں تھا۔ لیکن یہ بھی کہتا ہوں کہ بھارت ایک دہشت گرد ملک ہے جس کے سات صوبوں میں اس وقت جنگ اور تشدد جاری ہے اور دیگر کئی صوبے اندرونی خانہ جنگی کا شکار ہیں۔ چنانچہ اگر ہم لوگ بھارت کو اپنی صفائیاں پیش کرتے رہیں گے تو یہ زیادہ سر پر چڑھتا جائے گا۔ چونکہ بھارت مسلمہ طور پر ایک دہشت گرد ملک ہے اور اس نے وطن عزیز پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اس لیے اس کے کسی الزام کو قابل توجہ نہ سمجھا جائے اور نہ ہی اس کی صفائی میں کچھ کہا جائے۔ پاکستان اس پورے معاملے میں بالکل صاف ہے اور اگر بھارت کے پاس کوئی ثبوت موجود ہے تو وہ اسے پیش کرے‘‘
(مطبوعہ روزنامہ جنگ، کراچی ۔ ۷ جنوری ۲۰۰۰ء)

مولانا مسعود اظہر کی تقریر پر امریکی ردعمل

امریکہ نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ حال ہی میں بھارتی طیارے کے اغواکاروں کے مطابق پر رہا کیے گئے مولانا اظہر مسعود کے خلاف کاروائی کی جائے۔ بی بی سی کے مطابق امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان جیمز روبن نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مولانا مسعود اظہر نے کراچی میں جو تقریریں اور بیانات دیے ہیں وہ امریکہ کے لیے ناقابل قبول اور قابل مذمت ہیں۔ ترجمان نے مزید کہا کہ ان بیانات میں مولانا مسعود اظہر نے پاکستانیوں کو امریکیوں اور بھارت کے خلاف اکسایا ہے، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ مولانا مسعود اظہر کے خلاف تحقیقات کرے اور اگر انہوں نے پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے تو ان کے خلاف کاروائی کرے۔ جیمز روبن نے سخت الفاظ میں پاکستان کو متنبہ کیا کہ اگر مولانا مسعود اظہر کے بیانات کی وجہ سے کسی امریکی کو نقصان پہنچا تو اس کا ذمہ دار پاکستان ہو گا۔
بی بی سی کے مطابق امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک طرح سے پاکستان کو وارننگ دی ہے۔ واضح رہے کہ حال ہی میں ایسی ہی وارننگ طالبان کو بھی دی گئی تھی۔ بی بی سی کے مطابق پانچ اہم امریکی سینیٹرز آئندہ ہفتے پاکستان آ رہے ہیں، یہ سینیٹرز پاکستانی حکام سے تمام مسائل خصوصاً ہائی جیکنگ، دہشت گردی، افغانستان کے ساتھ تعلقات اور اسامہ بن لادن پر بات چیت کریں گے۔ بی بی سی کے مطابق یہ وفد چاہتا ہے کہ پاکستان انہیں اس بات کی یقین دہانی کرائے کہ وہ دہشت گردی میں ملوث نہیں ہے۔ بی بی سی کے مطابق ان سینیٹرز کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام سے جو بات چیت ہو گی اس کی روشنی میں یہ فیصلہ ہو گا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کیسے ہوں گے۔ بی بی سی کے مطابق صدر کلنٹن کے پاکستان جانے کا فیصلہ بھی ان سینیٹروں کے دورے کے بعد ہو گا۔
(رپورٹ: روزنامہ قومی اخبار، کراچی ۔ ۷ جنوری ۲۰۰۰ء)

حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی کا مکتوبِ عمومی

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

مکرمی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، مزاج گرامی؟ گزارش ہے کہ مدرسہ نصرۃ العلوم فاروق گنج گوجرانوالہ گزشتہ اڑتالیس برس سے دین حق کی سربلندی، اسلامی علوم کی تعلیم و ترویج اور مسلکِ حق علماء دیوبند کی ترجمانی کے لیے بحمد اللہ تعالیٰ تسلسل کے ساتھ خدمات سرانجام دے رہا ہے اور ملک بھر کے اہلِ علم اور اہلِ حق مدرسہ نصرۃ العلوم کی ان خدمات سے بخوبی آگاہ ہیں۔
راقم الحروف مدرسہ کے آغاز سے جامع مسجد نور کے خطیب اور مدرسہ نصرۃ العلوم کے بانی و مہتمم و سرپرست کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہا ہے، جبکہ ۱۹۹۱ء میں میری علالت کی وجہ سے مدرسہ کی مجلسِ شورٰی نے میرے بڑے فرزند حاجی محمد فیاض خان سواتی کو مدرسہ کا اہتمام سونپ دیا جس نے کامیابی کے ساتھ مسلسل نو سال تک یہ خدمات سرانجام دیں، اور اس کے دور میں مدرسہ نے خاصی ترقی کی اور مدرسہ کا نظام کامیابی کے ساتھ چلتا رہا۔ مگر شورٰی کے صدر و سیکرٹری صاحبان کو کچھ ایسی شکایات پیدا ہوئیں جو معقول نہیں تھیں اور بار بار سمجھانے کے باوجود وہ ان پر اڑے رہے تو عزیزم حاجی محمد فیاض خان سلّمہ نے احتجاجاً استعفٰی دے دیا اور چارج حوالے کر کے ملک سے باہر چلا گیا۔
اس دوران شہر کے سرکردہ علماء کرام اور دیگر اہم شخصیات نے مسلسل کوشش کی کہ صدر و سیکرٹری صاحبان ان شکایات کے بارے میں ملک کے سرکردہ علماء کرام میں سے ایک دو بزرگوں کے سامنے بیٹھ کر بات کریں مگر وہ اس کے لیے کسی صورت میں تیار نہ ہوئے۔ البتہ راقم الحروف کو پیشکش کی کہ میں دوبارہ مدرسہ کا اہتمام سنبھال لوں، جس کے لیے ابتداءً میں آمادہ نہیں تھا مگر شہر کے علماء کرام اور سرکردہ دوستوں کے اصرار پر جب میں نے دوبارہ اہتمام قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی تو صدر و سیکرٹری صاحبان نے مدرسہ کے سالہاسال پہلے سے چلے آنے والے متفقہ قواعد و ضوابط میں یکطرفہ طور پر ترامیم کر کے مہتمم کو بالکل بے اختیار اور صدر و سیکرٹری کا ملازم بنا دیا، جسے میں نے قبول نہیں کیا اور قواعد و ضوابط کو متنازعہ قرار دے کر مدرسہ کا اہتمام مشروط طور پر دوبارہ سنبھال لیا۔
اس کے بعد صدر و سیکرٹری صاحبان سے بار بار کہا جاتا رہا کہ وہ قواعد و ضوابط کے بارے میں ملک کے بڑے دینی مدارس کے دساتیر کو سامنے رکھ کر مدارس کے معروف نظام کار کو تسلیم کریں اور اس سلسلہ میں مروّجہ طریقہ کار کا احترام کریں مگر انہوں نے جائز موقف تسلیم کرنے کی بجائے راقم الحروف کو نوٹس دے دیا کہ آپ مدرسہ کے اہتمام اور جامع مسجد نور کی خطابت سے فارغ ہیں اس لیے چارج ایک ملازم کے حوالے کر کے آپ چلے جائیں۔ جس پر میں نے شہر کے علماء کرام اور سرکردہ احباب کی میٹنگ بلائی اور ان کے سامنے ساری صورتحال رکھ دی۔ چنانچہ علماء کرام، اہلِ محلہ، جامع مسجد نور کے نمازیوں اور مدرسہ نصرۃ العلوم کے معاونین کے شدید اصرار پر میں نے یہ نوٹس تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور صدر و سیکرٹری صاحبان کو ان کے ناروا اور معاندانہ طرز عمل کے باعث ان کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور مدرسہ نصرۃ العلوم و جامع مسجد نور کے تمام انتظامات خود کنٹرول کر کے عبوری طور پر مندرجہ ذیل حضرات پر مشتمل نئی مجلسِ شورٰی قائم کر دی ہے:
  1. احقر عبد الحمید سواتی (مہتمم)
  2. میاں محمد عارف ایڈووکیٹ (صدر)
  3. ڈاکٹر فضل الرحمٰن (سیکرٹری)
  4. حاجی ملک محمد زاہد یوسف (خزانچی)
  5. مولانا زاہد الراشدی (رکن)
  6. حاجی شوکت علی (رکن)
  7. حاجی محمد فیاض خان سواتی (رکن)
آنجناب کی خدمت میں یہ عریضہ اس پس منظر اور تازہ صورتحال سے آگاہ کرنے کے لیے ارسال کیا جا رہا ہے کہ مدرسہ نصرۃ العلوم و جامع مسجد نور گوجرانوالہ کے انتظامات میں نے بانی و مہتمم کی حیثیت سے کنٹرول کر لیے ہیں اور نئی شورٰی نے کام شروع کر دیا ہے۔ جس کے بعد سابق صدر میر ریاض انجم اور سیکرٹری حافظ بشیر احمد صاحبان کا مدرسہ کے انتظامات سے کوئی تعلق نہیں رہا اور ان کی طرف سے اخبارات میں مدرسہ نصرۃ العلوم کے لیے چندہ کی جو اپیلیں شائع ہو رہی ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ نیز ان کے نام پر مدرسہ کا اکاؤنٹ بھی اب مدرسہ و مسجد کے لیے استعمال نہیں ہو رہا۔ اس لیے آنجناب سے گزارش ہے کہ دیگر احباب کو بھی اس صورتحال سے آگاہ کر دیں اور تعاون کرنے والے دوستوں کو بتا دیں کہ مدرسہ و مسجد کے لیے تعاون کی رقم مدرسہ کے دفتر میں براہ راست جمع کرائی جائے یا مدرسہ کے پہلے سے مقررہ سفیروں (۱) حافظ عبد الکریم (۲) حافظ عبد الغفور (۳) مستری رشید احمد، یا مہتمم کی طرف سے مقرر کردہ نمائندوں میں سے کسی کو دے کر رسید حاصل کریں۔ ان کے علاوہ کوئی شخص مدرسہ نصرۃ العلوم یا جامع مسجد نور کے لیے چندہ جمع کرنے کا مجاز نہیں۔ نیز مدرسہ نصرۃ العلوم کا کوئی پوسٹ بکس نمبر نہیں ہے اس لیے مدرسہ نصرۃ العلوم یا جامع مسجد نور کے حوالہ سے ہر قسم کی خط و کتابت براہ راست مدرسہ نصرۃ العلوم، فاروق گنج، گوجرانوالہ کے پتہ پر کی جائے،
شکریہ، والسلام
(مولانا صوفی) عبد الحمید سواتی
بانی و مہتمم مدرسہ نصرۃ العلوم و جامع مسجد نور
محلہ فاروق گنج، گوجرانوالہ

اخبار و آثار

ادارہ

مولانا ندویؒ کی وفات پر پورا عالمِ اسلام غمزدہ ہے

پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمٰن درخواستی ؒ عمرہ کی ادائیگی کے بعد کراچی واپس پہنچ گئے ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی سے فون پر ملک کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور دونوں راہنماؤں نے کونسل کی مرکزی مجلسِ شورٰی کے اجلاس کے بارہ میں مشورہ کیا جو اگلے ماہ طلب کیا جا رہا ہے۔
دریں اثنا مولانا فداء الرحمٰن درخواستی ؒ نے مفکرِ اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ مولانا ندویؒ عالمِ اسلام کی عظیم علمی و دینی شخصیت تھے اور ان کی وفات پر پوری ملتِ اسلامیہ سوگوار ہے۔ انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔
پاکستان شریعت کونسل کے دیگر راہنماؤں مولانا زاہد الراشدی، مولانا منظور احمد چنیوٹی، مولانا قاری سعید الرحمٰن، مولانا حامد علی رحمانی، مولانا اکرام الحق خیری، مولانا سیف الرحمٰن ارائیں، مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر، مولانا محمد حسن کاکڑ، مولانا سخی داد خوستی اور مولانا احسان اللہ ہزاروی نے بھی حضرت ندویؒ کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کی دینی و ملی خدمات پر خراجِ عقیدت پیش کیا ہے اور بلندئ درجات کی دعا کی ہے۔

مولانا زاہد الراشدی کا دورہ برطانیہ

پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے ۱۶ رمضان المبارک سے برطانیہ کا دو ہفتے کا دورہ کیا اور ابوبکرؓ اسلامک سنٹر (ساؤتھال)، ہدایہ سنٹر (ہیز، مڈل سیکس)، مسجد طیبہ (واش وڈ ہیتھ، برمنگھم)، مسجد ابوبکرؓ (والسال)، مسجد فاروق اعظمؓ (برنلے)، پاکستان سنٹر (نوٹنگھم)، اور مسجد قوت الاسلام (کراؤلی) میں تراویح میں ختمِ قرآن کریم کی تقریبات اور دیگر اجتماعات سے خطاب کیا۔ مولانا راشدی ۲۹ رمضان المبارک کو گوجرانوالہ واپس پہنچ گئے اور انہوں نے نمازِ عید الفطر حسبِ معمول مرکزی عید گاہ، مبارک شاہ روڈ، گوجرانوالہ میں پڑھائی۔

جامعہ دارالعلوم کراچی کے فضلاء متوجہ ہوں

جامعہ دارالعلوم کراچی کے تعلیمی سال کے آغاز اور افتتاح بخاری کے موقع پر بروز اتوار، پیر مورخہ ۲۹/ ۳۰ شوال ۱۴۲۰ھ مطابق ۶/ ۷ فروری ۲۰۰۰ء کو دو روزہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے جس میں جامعہ دارالعلوم کراچی کے دورہ حدیث، تخصص فی الافتاء، اور شعبہ تجوید و قراءت کے تمام فضلاء کی دستاربندی کا فیصلہ گیا ہے۔ اس اجتماع میں تعلیمی و تربیتی مجالس کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔ ان فضلاء سے درخواست ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے کوائف اور موجودہ پتہ فون نمبر وغیرہ سے دفتر تعلیمات جامعہ دارالعلوم کراچی کو مطلع کریں۔
ناظم تعلیمات، جامعہ دارالعلوم کراچی، ڈاکخانہ دارالعلوم کراچی ۱۴

ایک ضروری اعلان: اہلِ علم توجہ فرمائیں

مرزا غلام احمد قادیانی نے ایک قصیدہ لکھ کر علماء اسلام سے اس کا جواب طلب کیا۔ علماء کرام میں سے پروفیسر مولانا قاضی ظفر الدین اورینٹل کالج لاہور نے اس کا جواب ’’قصیدہ رائیہ بجواب قصیدہ مرزائیہ‘‘ تحریر فرمایا اور مولانا حکیم شاہ غنیمت حسین اشرفی نے ’’ابطالِ اعجازِ مرزا‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں شائع کیا ہے۔
ملک بھر کے تمام دینی رہنماؤں اور علماء کرام سے درخواست ہے کہ جن حضرات کے پاس ان کتب میں سے کوئی کتاب موجود ہو تو مطلع فرمائیں۔ عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت ان کتابوں کو شائع کرنا چاہتی ہے، امید ہے کہ اس پر توجہ دی جائے گی۔
جواب کیلئے: مولانا عزیز الرحمٰن جالندھری، مرکزی ناظمِ اعلیٰ، عالی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت، حضوری باغ روڈ، ملتان۔

جنرل پرویز مشرف کے نام عبد الرشید غازی کا خط

ادارہ

بخدمت جناب چیف ایگزیکٹو آف پاکستان، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ گزشتہ سال ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۸ء کو صبح فون پر میری چھوٹی بہن کا خوف سے بھرا یہ پیغام ملا کہ ابا جان کو گھر سے باہر مسجد کے صحن میں گولیاں ماری گئی ہیں۔ گھر کی طرف جاتے ہوئے جہاں میں ایک طرف اللہ تعالیٰ سے اپنے والد کی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا وہاں میرا ذہن یہ بھی سوچ رہا تھا کہ میرے درویش صفت والد سے کسی کو کیا دشمنی ہو سکتی ہے۔ میرے والد نے زندگی بھر نہ تو فرقہ واریت کی بات کی اور نہ کسی سے ذاتی بغض و عناد رکھا۔ بلکہ ہمیشہ حق اور سچ بات کہتے رہے اور اس میں بھی کبھی تشدد سے کام نہ لیا۔ آخر کسی کو پھر ان سے ایسی کیا دشمنی ہو گئی تھی کہ ان کو مسجد کے صحن میں ٹارگٹ بنا کر گولیوں کا نشانہ بنایا۔ لیکن وقت کے ساتھ مجھے ان سب سوالوں کے جوابات ملتے گئے اور اس قتل کے محرکات، اسباب و عوامل عیاں ہو گئے۔
جناب والا! سابقہ دور میں فرقہ واریت اور دہشت گردی کی آڑ لے کر جس طرح حق بات کہنے والوں کو راستے سے ہٹایا گیا وہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا اور میرے والد کا قتل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اگر صاف اور شفاف تحقیقات کرائی جائیں تو صورتحال بالکل واضح ہو جائے گی۔ مختصر عرض کروں کہ تفتیش کے آغاز ہی میں بعض شواہد پر اصل قاتل گرفتار ہوا، اس کی شناخت عینی شاہدین نے کی۔ لیکن چونکہ پس پردہ چھپے ہوئے اصل قاتلوں تک رسائی کو ناممکن بنانا تھا اس لیے مکمل شناخت کے باوجود گرفتار شدہ زیرتحویل قاتل کو ڈرامائی انداز میں چھوڑا گیا اور پھر ہمیں مطمئن کرنے اور خانہ پری کرنے کے لیے اسی چھوڑے گئے قاتل کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جاتے رہے اور آہستہ آہستہ ایک سال سے بھی کم عرصہ میں کیس کو دبا دیا گیا۔ اس پورے عرصہ میں یہ بات سب پر واضح ہے کہ انتظامیہ اور پولیس مکمل طور پر اوپر والوں سے خوفزدہ نظر آتی تھی۔
اگر حالات و واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو معصوم الفطرت، شفیق الطبع اور فرشتہ صفت انسان کے درد انگیز قتل میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کے بھائی شہباز شریف اور سابق وزیر فروغ ذرائع ابلاغ مشاہد حسین ملوث ہیں۔ واضح رہے کہ ملزم کی بھرپور پشت پناہی کی گئی اور ایک سال گزرنے کے باوجود عالمِ اسلام کے مایہ ناز بزرگ، سرکاری حیثیت کی حامل شخصیت، دارالخلافہ کے خطیب، اور پاکستان رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین کے بہیمانہ قتل کو سردخانہ میں ڈال دیا گیا۔ اس سلسلے میں ایک حساس ادارے کا بھی بھرپور کردار نظر آتا ہے۔ ابتدائی تحقیقات کی کیفیت سے ہی بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ حکومت کسی صورت میں بھی تحقیقات میں پیشرفت نہیں چاہتی بلکہ کیس کو فوری طور پر دبانا چاہتی ہے۔ بعد از مختلف ذرائع سے ہمیں پریشرائز بھی کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ متعدد علماء کو بھی ڈرایا دھمکایا جاتا رہا کہ اس کیس کے بارے میں بات کی تو تمہارا حشر بھی ان جیسا ہو سکتا ہے۔
جناب والا! میرے والد کا جرم صرف حق اور سچ بات کرنا تھا کہ جس کی سزا ان کو سابق حکمرانوں نے دی۔ بہرحال تمام تحفظات کو بالائے طاق رکھ کر میں نے مورخہ ۶ نومبر ۱۹۹۸ء کو ایک پریس کانفرنس کی اور اس میں بالکل واضح الفاظ میں دلائل کے ساتھ اس وقت تک ہونے والی تحقیقات پر پریس بریفنگ دی اور حکومت کے رویے، ہتھکنڈوں اور اس بھیانک سازش اور ظالمانہ قتل کے عوامل اور پہلوؤں سے بھی آگاہ کیا۔ میری جانب سے حکومتِ وقت کو موردِ الزام ٹھہرانے پر حکومت کی جانب سے کوئی وضاحت یا تردید نہ کی گئی۔ مزید اس سلسلے میں پاکستان کے جید علماء نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ بھی شائع کی تھی جسے سابق صوبائی وزیر قاری سعید الرحمٰن صاحب نے مورخہ ۲۹ نومبر ۱۹۹۸ء کو پریس کانفرنس میں پیش کیا لیکن حسبِ سابق ہمارے حکمران اس دفعہ بھی ٹس سے مس نہ ہوئے۔
چونکہ میرے والد کے قتل میں سابق حکمران ملوث ہیں لہٰذا مجھے ان سے انصاف کی توقع نہ تھی اور میں وقت کے انتظار میں رہا۔ اب میں آپ سے انصاف ملنے کی توقع لے کر عرض کر رہا ہوں کہ میرے والد کے ظالمانہ قتل کے ذمہ دار میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور مشاہد حسین ہیں۔ لہٰذا میں آپ سے استدعا کرتا ہوں کہ آپ سنجیدگی کے ساتھ اور خصوصی دلچسپی لے کر میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور مشاہد حسین کو میرے والد کے قتل کے مقدمہ میں شاملِ تفتیش کر کے فوری طور پر تحقیقات کرائیں اور انہیں قرار واقعی انجام تک پہنچائیں۔ اس مقصد کے لیے کسی جید عالمِ دین اور ماہرِ قانون کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جائے جس میں فوج اور عدلیہ کے نیک اور صالح افراد بھی ہوں تاکہ درویش منش، مخلوقِ خدا کے ہمدرد اور محبِ وطن عالمِ دین کے قتل میں ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
انصاف کا طالب: عبد الرشید غازی
 بن شہیدِ اسلام مولانا عبد اللہ شہیدؒ
مرکزی جامع مسجد شہیدِ اسلام، جی ۶، اسلام آباد

آہ! حضرت مولانا سد ابو الحسن علی ندویؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۳۱ دسمبر ۱۹۹۹ء کو برطانیہ کے شہر برنلے میں مولانا عزیز الحق ہزاروی کے ہاں تھا کہ جامعہ الہدیٰ نوٹنگھم کے پرنسپل مولانا رضاء الحق سیاکھوی نے ٹیلی فون پر حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے انتقال کی روح فرسا خبر دیتے ہوئے بتایا کہ حضرت مولانا ندویؒ آج صبح رائے بریلی (انڈیا) میں اپنا دنیا کا سفر مکمل کر کے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

حضرت مولانا ایک عرصہ سے علیل تھے مگر ضعف و علالت کے باوجود اپنے مشن کے حوالہ سے ان کی سرگرمیاں مسلسل جاری رہیں۔ الشریعہ کے گزشتہ شمارہ میں قارئین نے بمبئی میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سالانہ اجلاس میں حضرت مولاناؒ کا خطبہ صدارت ملاحظہ کیا ہے جو وہ علالت کی وجہ سے خود وہاں تشریف لے جا کر نہیں پڑھ سکے تھے اور ان کی طرف سے مولانا عبد اللہ عباس ندوی نے شرکائے کانفرنس کو سنایا تھا۔ اس خطبہ صدارت میں حضرت مولاناؒ نے پرسنل لاء کے مسئلہ پر مسلمانانِ ہند کی جس جرأت اور حوصلہ کے ساتھ ترجمانی کی ہے وہ اکابر علمائے حق اور اربابِ عزیمت کی روایات کی آئینہ دار ہے۔

حضرت ندویؒ کا تعلق امیر المجاہدین حضرت سید احمد شہیدؒ کے خاندان سے تھا، ان کی ولادت ۱۹۱۴ء میں ہوئی اور اس طرح انہوں نے عیسوی سن کے لحاظ سے پچاسی برس کی عمر پائی۔ انہوں نے ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ماحول میں تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے او راپنے استاذ محترم علامہ سید سلیمان ندویؒ کے جانشین کے طور پر ندوہ کی سربراہی کے منصب پر فائز ہوئے۔ انہوں نے ندوہ کے اکابر مولانا سید علی مونگیریؒ، علامہ شبلیؒ نعمانی، مولانا عبد الحئی حسنیؒ، اور علامہ سید سلیمان ندویؒ کی علمی روایات اور ملی خدمات کے پرچم کو نہ صرف بلند سے بلند تر کیا بلکہ ان کے دور میں ندوہ کے تعارف و خدمات کا دائرہ پورے عالم اسلام بالخصوص عالم عرب تک پھیلتا چلا گیا۔ اردو ان کے گھر کی زبان تھی جبکہ عربی میں انہیں بے تکلف گفتگو اور تحریر کا ملکہ حاصل تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے انہیں فصاحت و سلاست کے جس کمال سے نوازا تھا اس نے خود عرب دانشوروں اور اربابِ علم میں انہیں نمایاں اور ممتاز مقام دے دیا تھا۔

حضرت مولانا علی میاںؒ خاندانی اعتبار سے حضرت سید احمد شہیدؒ کے خانوادہ سے تعلق رکھتے تھے، تعلیم و تربیت اور تگ و تاز میں انہوں نے ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ورثہ کو سنبھالا جبکہ روحانی طور پر انہیں حضرت شاہ عبد القادر رائے پوریؒ، حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، اور حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی جیسے عظیم اکابر سے اجازت و خلافت حاصل تھی۔ اس طرح وہ مختلف عظیم الشان نسبتوں کا مجمع البحار بن گئے تھے۔

حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے مغربی ثقافت اور اس کے پیداکردہ نظریاتی و علمی فتنوں کے تعاقب کو اپنی زندگی کا مشن بنا رکھا تھا۔ وہ بلاشبہ اس دور میں اسلامی تہذیب و ثقافت اور تاریخ و روایات کے بے باک نقیب تھے۔ انہوں نے اس حوالہ سے دنیائے اسلام کے اربابِ فکر و دانش کے ایک بڑے حصے کو ادراک و شعور کی منزل سے ہمکنار کیا اور مغرب کے سیکولر فلسفہ اور فری سوسائٹی کے تار و پود بکھیر کر ذہنی مرعوبیت کی فضا کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

راقم الحروف کو ایک عرصہ سے حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ سے نیاز حاصل تھے۔ ۱۹۸۴ء میں مکہ مکرمہ میں حضرت ندویؒ اور حضرت مولانا منظور احمدؒ نعمانی کی پہلی بار زیارت ہوئی اور اس کے بعد آکسفورڈ اور لاہور میں حضرت ندویؒ سے کئی بار ملاقات و استفادہ کا شرف حاصل ہوا۔ ایک دو بار کوشش کی کہ ان سے ان کی اسناد کے ساتھ روایت حدیث کی اجازت حاصل کی جائے مگر موقع نہ ملا۔ چند ماہ قبل حضرتؒ کی خدمت میں عریضہ ارسال کیا کہ میرا بیعت کا تعلق حضرت مولانا عبید اللہ انور قدس اللہ سرہ العزیز سے تھا، ان کی وفات کے بعد حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے خلفاء میں سے آپ کے ساتھ طبیعت زیادہ مانوس ہے اس لیے بیعت کے تعلق اور روایت حدیث کی اجازت کی درخواست کر رہا ہوں۔ اس کے جواب میں ابھی دو ماہ قبل ان کا گرامی نامہ موصول ہوا جس میں دونوں گزارشات کی قبولیت کی اطلاع تھی۔

اس کے بعد میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ رمضان المبارک کے بعد کسی بہانے انڈیا جانے کا پروگرام بنا کر استاذ اور شیخ کی حیثیت سے حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی زیارت و ملاقات کا شرف ایک بار پھر حاصل کیا جائے مگر تقدیر کا فیصلہ غالب آگیا اور حضرت مرحوم میرے جیسے ہزاروں عقیدت مندوں کی امیدوں کو حسرتوں میں تبدیل کرتے ہوئے اپنے خالق و مالک کے حضور پیش ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور اہل خاندان، تلامذہ، منتسبین، احباب اور عقیدت مندوں کو صبر و حوصلہ کے ساتھ ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

فروری ۲۰۰۰ء

امریکی ایجنڈا اور جنرل پرویز مشرفمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حدیثِ نبویؐ کی اہمیت اور بخاری شریفشیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر
معاشرتی دیوالیہ پن کے اسبابشیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ اور جنرل محمد ضیاء الحق مرحومہارون الرشید
امریکہ، اسلام اور دہشت گردیولیم بی مائیلم
پاکستانی معیشت پر غلبہ کے لیے عالمی بینک کا پروگرامعلی محمد رضوی
عالمی معیشت، یہودی ساہوکار اور مسلم ممالکعبد الرشید ارشد
مسلم ممالک کے لیے مغربی ممالک کا ایجنڈاظہیر الدین بھٹی
اسلام آباد میں چیچنیا کے سابق صدر کی گرفتاریحامد میر
عالمی منظرادارہ
دستور کی رو سے اسلامی دفعات کے تحفظ کا فرمان جاری کیا جائےادارہ
غیر سودی نظام کے لیے کمیشن کا قیامادارہ
کشمیر اور چیچنیا کے مجاہدین کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہارمولانا فداء الرحمٰن درخواستی

امریکی ایجنڈا اور جنرل پرویز مشرف

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امریکی نائب وزیرخارجہ مسٹر انڈرفرتھ گزشتہ دنوں اسلام آباد آئے اور چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف اور دیگر مقتدر شخصیات سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے انتباہ کیا کہ پاکستان کو اپنی سرحدی حدود میں کام کرنے والے انتہا پسند اسلامی گروپوں پر پابندی عائد کرنا ہوگی جو بین الاقوامی برادری کے لیے بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق مسٹر انڈر فرتھ نے کہا کہ حرکۃ المجاہدین سمیت بہت سے مسلح اسلامی گروپ دہشت گردی کر رہے ہیں اس لیے ان پر پابندی لگائی جائے۔ اس کے ساتھ ہی امریکی سینٹروں کے وفد کے حالیہ دورۂ پاکستان کے اختتام پر وفد کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے پانچ شرائط پیش کی گئی ہیں۔ روزنامہ جنگ لاہور ۲۲ جنوری ۲۰۰۰ء کی رپورٹ کے مطابق امریکی وفد کی پیش کردہ شرائط یہ ہیں:

جہاں تک امریکی مطالبات اور شرائط کا تعلق ہے یہ نئی نہیں ہیں بلکہ ایک عرصہ سے یہ شرائط الفاظ اور عنوان کی تبدیلوں کے ساتھ بار بار سامنے آرہی ہیں اور امریکی حکومت ان شرائط کی تکمیل کے لیے حکومت پاکستان پر مسلسل دباؤ جاری رکھے ہوئے ہے۔ مگر امریکی صدر مسٹر بل کلنٹن کے مجوزہ دورۂ بھارت سے قبل اس سلسلہ میں کسی حتمی فیصلہ کے لیے پاکستان پر زور دیا جا رہا ہے تاکہ مسٹر کلنٹن بھارت کے ساتھ پاکستان کا دورہ بھی کر سکیں اور امریکہ کی منصوبہ بندی میں جنوبی ایشیا اور کشمیر کے حوالہ سے جو پروگرام پہلے سے طے شدہ ہے وہ اس کے آغاز کا اعلان کر سکیں۔

امریکہ کی مجبوری یہ ہے کہ جہاد کے جس عمل اور مجاہدین کے جن گروپوں کو اس نے اپنے روایتی حریف سوویت یونین کے خلاف افغانستان کے جہاد آزادی میں سپورٹ کیا تھا اور مالی، عسکری اور تربیتی امداد مہیا کی تھی، امریکہ نے ان سے یہ توقع بھی وابستہ کر لی تھی کہ مجاہدین کی یہ تنظیمیں سوویت یونین کے خاتمہ اور روس کی شکست کے بعد امریکہ کی احسان مند رہیں گی اور امریکہ آئندہ بھی انہیں اپنے مقاصد اور پروگرام کے لیے حسب منشا استعمال کر سکے گا۔ مگر جہاں افغانستان میں امریکی امداد حاصل کرنے والے افغان گروپوں کے ہاتھ سے وہاں کا اقتدار نکل گیا اور طالبان کے نام سے ایک نئی قوت نے افغانستان کا کنٹرول حاصل کر کے امریکی ایجنڈے کے لیے آلۂ کار بننے سے انکار کر دیا وہاں مجاہدین کی تنظیموں نے بھی اپنی سرگرمیوں کے لیے نئے محاذوں کا انتخاب کیا اور امریکی اشاروں کی پروا کیے بغیر کشمیر، فلسطین، بوسنیا، صومالیہ، کسووو اور چیچنیا کے مظلوم مسلمانوں کی امداد کے لیے سرگرم ہوگئیں۔ امریکہ کی خواہش تھی کہ طالبان اور جہادی تنظیمیں سنکیانگ میں وہاں کے مسلمانوں کے لیے جہاد آزادی کا میدان گرم کر کے چین کو بھی سوویت یونین کی طرح شکست دینے کے امریکی پروگرام کا حصہ بنیں مگر ان مجاہدین کی ترجیحات میں خلیج عرب سے امریکی فوجوں کی واپسی، کشمیر کی آزادی، بوسنیا، کسووو اور چیچنیا کے مظلوم مسلمانوں کی امداد اور فلسطین کی حقیقی آزادی جیسے معاملات زیادہ ضروری اور مقدم قرار پائے جس سے امریکہ کا نیو ورلڈ آرڈر اور اس کی عالم اسلام پر بالادستی کا منصوبہ فلاپ ہوتا دکھائی دینے لگا۔ چنانچہ اسی غصہ میں امریکہ بہادر ان جہادی تحریکات کو دہشت گرد قرار دے کر انہیں ختم کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے جن کی وہ خود روسی استعمار کے خلاف حمایت و امداد کرتا رہا ہے۔ اور امریکی نائب وزیرخارجہ اور سینٹروں کے حالیہ دورۂ پاکستان کا پس منظر بھی یہی ہے مگر چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے امریکی سینٹروں کے وفد کو ملاقات کے دوران جو جواب دیا ہے وہ ہمارے نزدیک پاکستانی عوام کے جذبات کی صحیح ترجمانی کرتا ہے اور معروضی حالات میں ایک غیور حکمران کی حیثیت سے انہیں یہی جواب دینا چاہیے تھا۔ چنانچہ روزنامہ جنگ لاہور ۱۷ جنوری ۲۰۰۰ء کے مطابق:

’’چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے امریکی سینٹروں کے وفد کو دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا ہے کہ پاکستان جہادی تنظیموں پر پابندی نہیں لگا سکتا اور نہ ہی مسلمانوں کو جہاد سے روکا جا سکتا ہے جیسے روس کے خلاف جہاد کو نہیں روکا جا سکا تھا۔ اعلیٰ عسکری ذرائع نے ’’جنگ‘‘ کو بتایا کہ جنرل پرویز مشرف نے امریکی سینٹروں پر یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ جہاد مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے، امریکہ کو دہشت گردی اور جہاد میں بنیادی فرق کو سمجھنا ہوگا۔ ان اعلیٰ عسکری ذرائع کے بقول جنرل پرویز مشرف نے امریکی سینٹروں کو بتایا کہ پاکستان نے دہشت گردی اور ہائی جیکنگ کی ہمیشہ مذمت کی ہے اور کرتا رہے گا تاہم جہاں تک جہاد کا تعلق ہے یہ اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے، دنیا میں مسلمان جہاں بھی جہاد کرتے ہیں وہ دراصل اپنا مذہبی فریضہ نبھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہادی تنظیمیں صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں سرگرم عمل ہیں اور یہ تنظیمیں کشمیر ہو یا چیچنیا جہاں بھی جہاد کر رہی ہیں اسے روکا نہیں جا سکتا۔‘‘

ہمارے خیال میں جنرل پرویز مشرف کی اس دوٹوک وضاحت کے بعد اس سلسلہ میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ البتہ جنرل صاحب کو پاکستانی عوام کے جذبات کی اس جرأت مندانہ ترجمانی پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے ہم ان سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ امریکہ کی دیگر شرائط کے بارے میں بھی وہ دوٹوک اور صاف انداز میں وضاحت کر دیں کہ ہم ایک اسلامی ریاست کے باشندے ہیں اور اسلام صرف ہمارا سرکاری مذہب ہی نہیں بلکہ دستور پاکستان کی صراحت کے مطابق قومی دستورِ حیات اور حکومتی پالیسیوں کا سرچشمہ بھی ہے، اس لیے جمہوریت، معیشت، آزادی، حقوق اور ایٹمی قوت سمیت تمام امور کے بارے میں ہم وہی پالیسی اختیار کر سکتے ہیں جس کی قرآن و سنت کی تعلیمات میں گنجائش ہو۔

اس کے ساتھ ہی سی ٹی بی ٹی پر دستخط کی حمایت کرنے والے حلقوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اس پر دستخط کر دینے سے پاکستان کی موجودہ ایٹمی پوزیشن پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مگر اصولی طور پر دو باتوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے:

ہمیں امید ہے کہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے رفقاء اس صورتحال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں گے اور جہادی تحریکات کی طرح سی ٹی بی ٹی کے بارے میں بھی اسلامی تعلیمات کے حوالہ سے امریکہ کو دو ٹوک جواب دے کر دینی حمیت اور قومی غیرت کا بروقت مظاہرہ کریں گے۔

حدیثِ نبویؐ کی اہمیت اور بخاری شریف

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں تعلیمی سال کا آغاز ۱۸ شوال المکرم ۱۴۲۰ھ کو ہوا اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے بخاری شریف کے سبق کی ابتدا کر کے نئے تعلیمی سال کا افتتاح فرمایا۔ اس تقریب میں مدرسہ نصرۃ العلوم کے اساتذہ و طلبہ کے علاوہ معززینِ شہر، مختلف دینی مدارس کے اساتذہ اور جماعتی احباب کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اللہ تعالیٰ کا بے پناہ احسان اور اس کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں انسان اور اشرف المخلوقات بنایا، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا کیا، اور ایمان اور دین کی دولت عطا فرمائی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مسند احمد، ابوداؤد اور ترمذی میں روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
ان اللہ یعطی الدنیا من یحب و من لا یحب ولا یعطی الدین الا من یحب۔
’’اللہ تعالیٰ دنیا اس کو بھی دیتا ہے جس سے محبت کرتا ہے اور اس کو بھی دیتا ہے جس سے اس کو محبت نہیں ہوتی، مگر دین صرف اس کو دیتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔‘‘
حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بادشاہت اور نبوت دونوں عطا فرمائیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو خلافت عطا فرمائی اور نبوت بھی دی۔ اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کو نبوت کے ساتھ ساتھ جِنّوں اور انسانوں پر اقتدار بھی دیا۔ جبکہ دولت قارون جیسے نافرمان کو بھی دی جس کے بارے میں قرآن کریم میں آتا ہے کہ اس کے خزانہ، یا ایک تفسیر کے مطابق خزانہ کی چابیوں کو نوجوانوں کا مضبوط گروہ (عصبہ) اٹھاتے ہوئے تھک جاتا تھا۔ عصبہ عربی زبان میں دس سے ستر تک کی جماعت پر بولا جاتا ہے، یعنی قارون کے پاس اتنے خزانے تھے کہ دس نوجوانوں کا مضبوط گروہ بھی ان خزانوں کو یا ان کی چابیوں کو نہیں اٹھا سکتا تھا۔ تفسیر ابن کثیرؒ میں ہے کہ قارون کا نام منور تھا اور وہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا رشتہ میں پڑپوتا تھا۔ جبکہ امام رازیؒ نے لکھا ہے کہ قارون حضرت موسٰی علیہ السلام کا چچازاد بھائی تھا مگر سرکشی کی وجہ سے اسے اس کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق دنیا کی دولت اللہ تعالیٰ کے پیاروں اور نافرمانوں سب کو مل سکتی ہے مگر دین اور ایمان کی دولت اللہ تعالیٰ صرف اپنے پیاروں کو عطا فرماتے ہیں۔ اور ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں دین پڑھنے اور پڑھانے کی توفیق سے نوازا اور ایمان کی دولت نصیب فرمائی۔
دین کی بنیاد قرآن کریم پر ہے اور حدیثِ رسولؐ اس کی تشریح ہے۔ جبکہ فقہ اسلامی قرآن و سنت سے مستنبط کیے جانے والے احکام کا نام ہے۔ منکرینِ حدیث کہتے ہیں کہ حدیث کی کوئی حیثیت نہیں، مگر یہ بات غلط ہے کیونکہ حدیث کے بغیر قرآن کریم سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ اس وقت اس کی تفصیل کا موقع نہیں، البتہ دو تین باتیں ضروری طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں:
  • قرآن کریم میں حکم ہے ’’اقیموا الصلوٰۃ‘‘ نماز قائم کرو۔ مگر نماز کی کیفیت، نمازوں کے اوقات، رکعات کی تعداد اور دیگر تفصیلات قرآن کریم میں مذکور نہیں ہیں، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور فعل سے ہی ہم یہ تفصیلات معلوم کر سکتے ہیں۔ اس کے بغیر نماز کی ترتیب اور کیفیت کا تعین نہیں ہو سکتا۔
  • اسی طرح قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ ’’واٰتوا الزکوٰۃ‘‘ زکوٰۃ ادا کرو۔ مگر اس میں نصاب کی تفصیل کہ کتنے مال پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، اور زکوٰۃ کی مقدار کہ کتنی رقم زکوٰۃ کے طور پر ادا کرنی ہے، قرآن کریم میں ان کا ذکر نہیں ہے، اور یہ تفصیل جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اور عمل سے ہی معلوم ہو سکتی ہے۔
  • قرآن کریم میں حج کا حکم ہے اور یہ ارشاد ہے کہ ’’وللہ علی الناس حج البیت‘‘ صاحبِ استطاعت مسلمان پر حج فرض ہے۔ مگر حج کا طریقہ کیا ہے؟ اس کے اعمال کیا ہیں اور ان میں کیا ترتیب ہے؟ قرآن کریم نے بیان نہیں فرمائے، اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و حدیث سے ہی ان کا علم حاصل ہو سکتا ہے۔
  • ابوداؤد شریف میں روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت عمران بن حصینؓ سے مسئلہ پوچھا اور کہا کہ مسئلہ قرآن کریم سے بتانا۔ اس پر حضرت عمران بن حصینؓ ناراض ہو گئے اور فرمایا کہ قرآن کریم نے چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ہے، اب تم یہ بتاؤ کہ ہاتھ کہاں سے کاٹنا ہے اور قرآن کریم میں اس کی تفصیل کہاں ہے؟ اس شخص کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے معافی مانگی۔ چنانچہ مستدرک حاکمؒ کی روایت میں ہے کہ ’’فصار من فقہاء المسلمین‘‘ وہ بعد میں مسلمانوں کے فقہاء میں شمار ہونے لگا۔
منکرینِ حدیث کا کہنا ہے کہ حدیث کو حجت ماننے سے اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن وہ مغالطہ دیتے ہیں، اس لیے کہ حدیث کو ماننے والے مسلمان سب کے سب نمازوں کی تعداد اور رکعات وغیرہ کی اصولی باتوں پر متفق ہیں، اور ان میں سے زیادہ سے زیادہ جزوی کیفیات پر اختلاف ہے کہ رفع یدین کرنا ہے یا نہیں، آمین آہستہ کہنی ہے یا بلند آواز سے۔ جبکہ حدیث کا انکار کرنے والے گروہ تو نمازوں کی تعداد اور ان کے اوقات پر بھی متفق نہیں ہیں۔ کوئی ایک نماز کہتا ہے، کوئی دو کہتا ہے، اور کوئی چھ نمازیں فرض مانتا ہے۔ اسے کہتے ہیں کہ ’’فر عن المطر وقام تحت المیزاب‘‘ بارش سے بھاگا پرنالے کے نیچے کھڑا ہو گیا۔
منکرینِ حدیث کے ان اختلافات کی کچھ تفصیل ہم نے اپنی کتاب ’’انکارِ حدیث کے نتائج‘‘ میں بیان کر دی ہے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دیں محدثین اور فقہاء کو کہ محدثینؒ نے احادیث کو مستند طریقہ سے جمع کر دیا، اور فقہاء کرامؒ نے ان کے معانی امت کو سمجھائے۔ حدیث میں متن اور سند بھی ضروری ہے اور معنی اور مفہوم کا سمجھنا بھی ضروری ہے۔ پہلے کام کا اہتمام محدثینؒ نے کیا ہے اور دوسری ضرورت فقہاءؒ نے پوری کر دی ہے۔ امام ترمذیؒ نے ایک مقام پر ایک حدیث نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’وکذلک قال الفقہاء و ھم اعلم بمعانی الحدیث‘‘ اور فقہاء نے (اس حدیث کے بارے میں) یہ کہا ہے کہ وہ حدیث کے معانی کو زیادہ جاننے والے ہیں۔ 
حدیث کی کتابوں میں سب سے اہم بخاری شریف ہے جو امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ نے جمع کی ہے۔ امام بخاریؒ کے پردادا مغیرہؒ حضرت یمان جعفیؓ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے تھے۔ امام بخاریؒ کی ولادت ۱۹۴ھ اور وفات ۲۵۶ھ میں ہوئی اور انہوں نے ۶۲ سال سے کچھ زیادہ عمر پائی۔ امام بخاریؒ نے چھ لاکھ احادیث میں سے صحیح بخاریؒ کا انتخاب کیا اور بخاری شریف کا پورا نام یہ ہے: ’’الجامع المسند الصحیح من حدیث رسول اللہ و سنتہ و احکامہ‘‘۔ بخاری شریف کی ترتیب و تدوین ۱۶ سال میں مکمل ہوئی اور احادیث کے اندراج میں امام بخاریؒ کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ خود فرماتے ہیں کہ ہر حدیث کے لکھنے سے پہلے میں نے غسل کیا اور دو رکعت نماز ادا کی، پھر حدیث لکھی۔
امام بخاریؒ امت کے عظیم محدث اور باوقار اور غیور عالم تھے جنہوں نے علم کے احترام اور وقار کو اس حد تک ملحوظ رکھا کہ بخارا کے حاکم خالد بن احمد نے امام بخاریؒ سے کہا کہ وہ گورنر ہاؤس آ کر اس کے بچوں کو الجامع الصحیح اور تاریخ پڑھا دیا کریں۔ امام بخاریؒ نے انکار کر دیا۔ آج کا زمانہ ہوتا تو اس پر فخر کیا جاتا کہ گورنر کے گھر جا کر اس کے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ مگر امام بخاریؒ نے اسے علم اور دین کے وقار کے خلاف سمجھا اور انکار کر دیا۔ اس کے بعد گورنر نے کہا کہ چلیں ہمارے گھر آ کر نہ پڑھائیں بلکہ ہمارے بچے خود آپ کے پاس آ کر پڑھیں گے مگر ان کے لیے الگ مجلس کا اہتمام کر دیں۔ حضرت امام بخاریؒ نے اس سے بھی انکار کر دیا اور فرمایا کہ وہ دین پڑھانے میں تفریق نہیں کر سکتے۔ اس پر گورنر بخارا امام بخاریؒ سے ناراض ہو گیا اور اس حد تک تنگ کیا کہ جلاوطن ہو گئے اور سمرقند کے قریب خرتنگ کے  مقام پر مسافرت کے عالم میں امام بخاریؒ کا انتقال ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائیں، آمین۔

معاشرتی دیوالیہ پن کے اسباب

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

فرمایا ’’واعلموا ان اللہ یحول بین المرء وقلبہ‘‘ جان لو کہ اللہ تعالیٰ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ اگر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی تعمیل میں سستی دکھاؤ گے تو ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اور تمہارے دل کے درمیان آڑے آ جائے اور تم سے تعمیلِ حکم کی توفیق ہی سلب کر لے اور پھر تم نیکی سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاؤ۔ ظاہر ہے کہ انسان کا دل تو اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ کوئی شخص اس کے حکم پر آمادۂ تعمیل نہیں ہوتا تو وہ اس دل کو پلٹ بھی سکتا ہے۔
دل کا معاملہ بڑا نازک ہے۔ انسان کے ارادے کا مرکز یہی دل ہے اور اس کے ذریعے انسان نیکی یا برائی کی طرف جاتا ہے۔ اسی لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام دعا میں سکھایا کرتے تھے ’’یا مقلب القلوب ثبت قلبی علیٰ دینک‘‘ اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم فرما۔ آپ نے یہ دعا بھی سکھلائی ’’یا مقلب القلوب صرف قلوبنا الیٰ طاعتک‘‘ اے دلوں کے پھیرنے والے مولا کریمأ ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔ کہیں یہ الٹ ہی نہ جائیں، جس طرح اہلِ کتاب کے دل نافرمانیوں کی وجہ سے معکوس ہو گئے، اس طرح ہمارے دلوں سے بھی نیکی کی توفیق سلب نہ ہو جائے۔ اسی لیے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی تعمیل میں غفلت نہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دل کے درمیان حائل ہو کر اس کی کیفیت ہی بدل دے اور پھر تم ہمیشہ کے لیے تعمیلِ حکم سے محروم ہو جاؤ۔

فتنوں سے بچو

ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ایک اور تنبیہ بھی کی ہے ’’واتقوا فتنۃ لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصۃ‘‘ اس فتنے سے بچ جاؤ جو خاص طور پر صرف ظالموں کو ہی نہیں پہنچے گا بلکہ اس میں پوری کی پوری قوم ملوث ہو جائے گی۔ امام شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ دین میں خرابی پیدا نہ کرو۔ شرکیہ رسوم اور بدعات کو رواج نہ دو کیونکہ اس کا وبال صرف بدعت کرنے والوں پر ہی نہیں بلکہ پوری ملت پر پڑے گا۔ اسی طرح جب دنیا میں کھلے عام برائی کا ارتکاب ہوتا ہے اور پھر لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھی انجام نہیں دیتے تو پھر پوری قوم اور جماعت مبتلائے سزا ہو جاتی ہے اور اس میں نیک و بد کا کوئی امتیاز باقی نہیں رہتا۔ قتلِ ناحق، زنا، شراب نوشی، شرک اور بدعات ایسی بیماریاں ہیں جن کی سزا پورے معاشرے کو بھگتنا پڑتی ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ اس فتنہ سے بچ جاؤ جو نہ صرف برائی کے مرتکبین کے لیے بلکہ پوری قوم کے لیے وبالِ جان بن سکتا ہے۔

ریاست کا فتنہ

مفسرِ قرآن مولانا عبید اللہ سندھیؒ فرماتے ہیں کہ اس آیتِ کریمہ میں جن فتنوں سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے ان میں ریاست کا فتنہ بھی شامل ہے۔ جب تک مسلمان جہاد کرتے رہے، جماعت درست رہی، مگر جب جہاد کو ترک کر دیا تو ریاست کا فتنہ پیدا ہو گیا۔ حضرت عثمان غنی ؓ کے زمانے میں شروع ہونے والا فتنہ آج تک قائم و دائم ہے۔ یہ ایک مسلّمہ اصول ہے کہ جب تک مسلمان عامل بالجہاد رہے ریاست کا نظم و نسق ٹھیک طور سے کام کرتا رہا، مگر جونہی جہاد کا جذبہ کمزور پڑ گیا تو اس کی جگہ حرص و لالچ نے لے لی۔ ہر فرد اور پارٹی دوسری پر غالب آنے کی کوشش میں مصروف ہو گئی اور اس طرح آپس میں قتال شروع ہو گیا جس کی وجہ سے دیگر بے شمار برائیاں قوم میں در آئیں۔ پہلے تو مذہبی فرقے وجود میں آئے اور پھر سیاسی پارٹیاں بن گئیں اور آپس میں سرپھٹول ہونے لگا۔ اس کی مثال خود اپنے ملک میں دیکھ لیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ ہر جماعت اقتدار کی بھوکی نظر آتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز حربے استعمال کرنا اپنا حق سمجھتی ہے، جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ ساری قوم مشکلات و مصائب کی چکی میں پس رہی ہے۔ نہ سیاسی طور پر سکون ہے نہ معاشی حالت اچھی ہے۔ معاشرہ فتنہ و فساد کا گہوارہ بن چکا ہے۔ قوم روبہ تنزل ہے اور اس سزا میں صرف فتنہ پرداز ہی شامل نہیں بلکہ پوری قوم دینی، معاشرتی اور معاشی لحاظ سے دیوالیہ بن چکی ہے۔
فرمایا ’’واعلموا ان اللہ شدید العقاب‘‘ خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ جب کوئی قوم اس قسم کے فتنہ میں مبتلا ہو جاتی ہے تو پھر اللہ کی گرفت بھی آ جاتی ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ سخت گرفت کرنے والا ہے۔

مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ اور جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم

ہارون الرشید

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل محمد ضیاء الحق نے مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کے توسط سے اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک عہد باندھا تھا ۔۔۔ وقت آ گیا ہے کہ یہ راز بیان کر دیا جائے، جنرل پرویز مشرف کو اس وعدے سے آگاہ کر دیا جائے اور یہ عہد ان کی طرف منتقل کر دیا جائے۔ ایک صادق اور امین گواہ موجود ہے جو پوری ذمہ داری اور تفصیل کے ساتھ اس تحریر پر شہادت دے سکتا ہے اور جنرل پرویز مشرف اس گواہ سے ذاتی طور پر واقف ہیں۔ یہ ان کے سکیورٹی کونسل کے رکن ڈاکٹر محمود غازی ہیں، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے نائب صدر اور سپریم کورٹ کے سابق جج۔
بہت دن پہلے ڈاکٹر صاحب نے یہ واقعہ اس عاجز کو سنایا تھا، انہوں نے اشاعت کی اجازت مرحمت نہ کی تھی۔ جمعہ کی شب جب کسی اور موضوع پر گفتگو کے لیے اس صاحبِ علم کو زحمت دی گئی تو ازراہِ کرم انہوں نے رونگٹے کھڑے کر دینے والا یہ واقعہ میرے لیے دہرایا اور اشاعت کی اجازت عطا کی۔ پورے چوبیس گھنٹے میں نے معاملے کے سیاق و سباق پر غور کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ پیغام منتقل کرنے کا وقت ہے اور اب اس میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔
یہ آٹھویں عشرے کا ذکر ہے (تاریخ اخبارات کی فائل سے متعین کی جا سکتی ہے) جب مدینہ منورہ سے جنرل محمد ضیاء الحق کے رفیق کار جناب اے کے بروہی نے ٹیلی فون پر ان سے رابطہ کیا اور بتایا کہ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ جدہ سے بھارت جاتے ہوئے نصف دن کے لیے کراچی میں قیام کریں گے۔ وہ ایک انتہائی اہم پیغام لے کر آ رہے ہیں لہٰذا صدر راولپنڈی سے کراچی پہنچ کر ان سے مل لیں۔ معلوم نہیں عظیم قانون دان نے سرکار ﷺ کا حوالہ دیا یا نہیں، تاہم جنرل محمد ضیاء الحق نے فورًا ہی آمادگی ظاہر کی۔ حجاز سے اے کے بروہی بھی ان کے ساتھ آئے۔
جیسا کہ بعد میں جناب بروہی نے ڈاکٹر محمود غازی کو بتایا کہ یکایک انہیں الجھنوں نے آ لیا تھا اور وہ قرار کی تلاش میں حجازِ مقدس گئے تھے۔ مدینہ منورہ میں مولانا ابوالحسن علی ندویؒ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ وہ شخص کہ عالم کی حیثیت سے تاریخ جس کا تذکرہ ابوالکلام آزادؒ، علامہ اقبالؒ، مولانا اشرف علی تھانویؒ اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے ساتھ کرے گی، اور جہاں تک ان کے خاص ہنر یعنی عربی زبان میں نثرنگاری کا تعلق ہے، ساری دنیا جانتی ہے، عرب و عجم میں ان کا کوئی ہمسر نہ تھا۔ اس آدمی کی ذاتی زندگی اجلی، پاکیزہ اور قابلِ تقلید تھی۔ مدینہ منورہ میں اے کے بروہی نے مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کو یکایک اس حال میں دیکھا کہ اضطراب ان کے پورے پیکر سے پھوٹ رہا تھا۔ سرکار ﷺ کا پاک باز امتی گنبدِ خضرٰی کے سائے میں حیران اور ہراساں تھا، یہ کس قدر تعجب خیز بات تھی!
ابوالحسن علی ندویؒ ایسے لوگ اپنے اضطراب کا راز بیان نہیں کیا کرتے لیکن اے کے بروہی غالباً اسی لیے مدینہ منورہ بلائے گئے تھے کہ پیغام سنیں اور پہنچا دیں۔ ابوالحسن علی ندویؒ نے، جنہیں پیار سے علی میاں کہا جاتا تھا، خواب میں سرکار ﷺ کو دیکھا تھا اور عالی مرتبت ﷺ نے ان سے خواب میں یہ پوچھا کہ انہوں نے آپؐ کی حفاظت کا کیا انتظام کیا ہے؟ جیسا کہ بعد میں علی میاں نے بیان کیا، وہ مضطرب ہو کر اٹھ بیٹھے لیکن کچھ دیر میں دوبارہ سوئے تو پھر سے سرکار ﷺ کی زیارت ہوئی اور آپؐ نے دوسری بار سوال کیا، تم نے میری حفاظت کا کیا انتظام کیا ہے؟
رسول اللہ ﷺ کے دونوں امتی اضطراب، حیرت، رنج، خوف اور تعمیل کی آرزو کے ساتھ بہت دیر تک اس سوال پر غور کرتے رہے کہ سرکارؐ کے ارشاد کا مفہوم کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ نور الدین زندگی کا سا معاملہ نہ تھا جب وہ دو بدبخت یہودیوں نے مرقد مبارک میں نقد لگانے کی جسارت کی تھی۔ نو سو برس سے سیسے کی دیواریں جسمِ اطہر کی حفاظت کرتی ہیں، اب اس اشارے کا مفہوم شاید کچھ اور تھا۔
آخر کار وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس معاملے کو عالمِ اسلام کی سب سے بڑی سپاہ کے سردار جنرل محمد ضیاء الحق کے سپرد کر دیا جائے۔ ان کے نزدیک اس پیغام کا مطلب یہ تھا کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرزمین بالخصوص اور عالمِ اسلام بالعموم خطرات سے دوچار ہے۔ یہ سمجھ میں آنے والی بات تھی کیونکہ سرکارؐ کو اپنی امت سے بڑھ کر کبھی کسی چیز کی فکر لاحق نہ ہوئی تھی۔ بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں کہ جزا و سزا کے دن جب عظیم الشان انبیاءؑ سمیت ہر شخص اپنی جان کے روگ میں مبتلا ہو گا، سرکارؐ اس روز بھی امت کے غم خوار ہوں گے۔
خیرمقدم ہو چکا، عظیم استقبالیہ تقریب برپا کی جا چکی اور تنہائی کا لمحہ وارد ہوا، یہ وقت ان سب پر بہت بھاری تھا۔ سادہ، سچے اور کھرے آدمی نے، سارا عرب جس کے حسنِ بیاں کا مداح تھا، صاف اور آسان الفاظ میں اپنا خواب دہرایا۔ پھر شائستہ آدمی نے اپنا ہاتھ شائستہ جنرل کے گریبان پر رکھا اور کہا، میں نے سرکار ﷺ کا پیغام آپ کو پہنچا دیا، قیامت کے دن حضورؐ کے سامنے مجھ سے سوال کیا گیا تو اسی گریبان کو تھام کر آپ کو سامنے لے جاؤں گا اور عرض کروں گا کہ میں نے فرض چکا دیا تھا۔ یہ کہتے ہوئے ۷۳ سالہ عالمِ دین رو دیا۔ گداز اور درد کی شدت سے شاید اس کا پورا پیکر کانپ رہا ہو گا۔ بروہی روئے اور محمد ضیاء الحق بھی روئے کہ دونوں گریہ کرنے والے آدمی تھے۔ لیکن جنرل کے لیے یہ فیصلے کی ساعت تھی اور وہ زیادہ دیر تک نہ رو سکا لہٰذا اس نے جلد ہی خود کو تھام لیا۔ پانچ لاکھ فوج اور ایٹمی پاکستان کے سربراہ نے اپنے آنسو پونچھے، پھر انکساری اور عاجزی لیکن محکم لہجے میں انہوں نے کہا، اگر آنجناب کو پھر سے حضور ﷺ کی زیارت نصیب ہو تو نہایت ادب سے عرض گزاریں کہ پاکستانی فوج کا آخری سپاہی تک کٹ مرے گا لیکن مدینہ منورہ اور حرمین شریفین پر آنچ نہ آنے دے گا۔
کون جانتا ہے کہ اس وقت جنرل کی آنکھوں میں کیسی چمک ہو گی اور وہ کن رفعتوں کو چھو رہا ہو گا۔ جنرل نے اپنا وعدہ کس طرح پورا کیا؟ میرا خیال ہے کہ ایٹمی پروگرام کی تکمیل اور حفاظت سے۔ پھر وہ قتل کر دیے گئے اور ظاہر ہے کہ انہیں ان لوگوں نے قتل کیا جو عالمِ اسلام کے دشمن تھے۔ ان کے جانشین صدر غلام اسحاق خان ایک نوکری پیشہ آدمی تھے اور ان سے کسی کو امید نہ تھی، لیکن تاریخ شہادت دے گی انہوں نے امانت داری کے تمام تقاضے پورے کر دکھائے۔ وہ امریکی سازشوں کے سامنے ڈٹے رہے حتٰی کہ اقتدار سے الگ کر دیے گئے۔ بے نظیر کو ایٹمی پروگرام میں مداخلت کی اجازت ہی نہ تھی، وہ ایسی بدقسمت پاکستانی حکمران تھیں جنہیں کہوٹہ میں داخل ہونے کی توفیق تک نہ ہو سکی۔
جہاں تک نواز شریف کا تعلق ہے، جلد ہی کھل جائے گا کہ انہوں نے صرف کارگل پر بہنے والے پاک لہو کا سودا نہ کیا تھا بلکہ وہ افغانستان، اسامہ بن لادن، ایٹم بم اور میزائل پروگرام کا قضیہ چکانے کا وعدہ بھی کر چکے تھے۔ لیکن پھر ایک ذرا سی غلطی انہیں اسی طرح اڑا لے گئی جیسے تنکے کو آندھی اڑا لے جاتی ہے۔ اب یہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے بلند عزم رفقاء کی ذمہ داری ہے جن میں سے بعض کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ شاید گردنیں کٹوا دیں مگر پاکستان اور اسلام سے بے وفائی نہ کریں۔
اس عاجز کا فرض صرف یہ تھا کہ ۱۹۸۰ء کی پاک فوج کے سربراہ نے سید ابوالحسن علی ندویؒ کے توسط سے سرکارؐ کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ ۲۰۰۰ء کی سپاہ اور اس کے سرداروں تک پہنچا دیا جائے۔ اس سوال پر غور کرنا ان کا کام ہے کہ کیا ایٹمی پروگرام کے بغیر یہ وعدہ پورا کیا جا سکتا ہے، اور یہ کہ کیا سی ٹی بی ٹی پر دستخطوں کے بعد یہ پروگرام محفوظ ہو جائے گا؟ رہ گیا وہ شخص جو سی ٹی بی ٹی پر دستخطوں کے لیے بہت بے چین ہے تو تحقیق کر لی جائے کہ اس شخص اور اس کی اولاد کے مفادات پاکستان سے وابستہ ہیں یا امریکہ سے؟ ۔۔۔ اس عاجز کے پاس کچھ شواہد موجود ہیں، وقت آیا تو وہ قوم کے سامنے پیش کر دے گا۔ اگر وہ زندہ رہا، اگر اس کا سر اس کے کندھوں پر سلامت رہا۔
’’اور اللہ کی رحمت سے صرف گمراہ ہی مایوس ہوتے ہیں۔‘‘ (القرآن)
(بہ شکریہ روزنامہ جنگ، کوئٹہ ۔ ۳ جنوری ۲۰۰۰ء)

امریکہ، اسلام اور دہشت گردی

ولیم بی مائیلم

(اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سفیر جناب ولیم بی مائیلم نے ۲ دسمبر ۱۹۹۹ء کو انگلش اسپیکنگ یونین لاہور کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسلام اور دہشت گردی کے حوالہ سے امریکی حکومت کے موقف اور پالیسیوں کی وضاحت کی ہے، ان کا یہ خطاب روزنامہ نوائے وقت لاہور کے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔ اس پر مدیر ’’الشریعہ‘‘ مولانا زاہد الراشدی کا تبصرہ آئندہ شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں۔ ادارہ)


امریکہ کے سفیر ولیم بی مائیلم کا خطاب

آج میں وہ کچھ کرنا چاہتا ہوں جو کسی بھی مقرر کے لیے ایک انتہائی مشکل کام ہو سکتا ہے یعنی ایک ایسے تصور کی بیخ کنی کرنا اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا جو ذہنوں کی گہرائی میں جاگزیں ہو چکا ہو۔ یہ تصور نہ صرف یہ کہ غلط ہے بلکہ امکانی طور پر خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ اور وہ تصور یہ ہے کہ امریکہ اسلام کو اپنا دشمن گردانتا ہے اس لیے مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ امریکہ سے دشمنوں جیسا سلوک کریں۔ اس تصور کے شواہد بہت نمایاں ہیں اور اس کے لیے ہمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ یہاں پاکستان میں یا کسی دوسرے اسلامی ملک میں بعض سیاسی یا مذہبی انتہاپسند، غیر ذمہ دارانہ بیانات میں اپنے دینی بھائیوں سے کہتے رہتے ہیں کہ جہاں کہیں بھی امریکی نظر آئیں انہیں نشانہ بنایا جائے۔ جبکہ امریکہ میں اس قسم کے عاقبت نا اندیش تصورات اتنے نمایاں نظر نہیں آتے لیکن بدقسمتی سے وہاں بھی کچھ ایسے ناسمجھ لوگ موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام اگر امریکہ کا دشمن نہیں تو کم از کم ان کے ملک کے لیے خطرہ ضرور ہے۔ اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ سوچ نہ صرف قابلِ مذمت بلکہ انتہائی خطرناک ہے۔
اگر آپ اخبارات پڑھتے ہیں تو آپ کے علم میں ہو گا کہ میں نے گزشتہ سال کئی تقاریر میں اس قسم کے غلط اور کم فہم رویوں کی مخالفت کی ہے۔ اکثر اوقات میں ان تصورات کو نظریاتی اور تاریخی حوالوں کی روشنی میں دیکھتا ہوں تاکہ اس عظیم فلسفیانہ باہمی مطابقت کو اجاگر کیا جا سکے جو دونوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ میں حقائق کے برعکس ان تاریخی اور واقعاتی حوالوں پر بھی نظر رکھتا ہوں جو ایسے نتائج اخذ کرنے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں کہ امریکہ اور اسلام ایک دوسرے کے دشمن ہیں یا فطری حریف ہیں۔
آج میں تصورات و نظریات کی بلندیوں کے تذکرے کے بجائے ایک ایسے موضوع پر اظہارِ خیال کروں گا جس کا تعلق عملی سیاست کے نشیب سے ہے۔ یہ مسئلہ اسلام سے خوفزدہ امریکیوں اور امریکہ کو دشمن سمجھنے والے مسلمانوں کے ان اندیشوں کا نتیجہ ہے جو اسلام اور دہشت گردی کو گڈمڈ کر دینے سے پیدا ہوئے۔ میں بلا خوفِ تردید یہ کہتا ہوں کہ امریکی حکومت اور بیشتر امریکی عوام اس الجھن کا شکار نہیں ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ یا بیشتر مسلمان بھی اس الجھن میں مبتلا نہیں ہیں، لیکن ہم میں سے ایک بہت چھوٹی سی اقلیت کا بھی اس مخمصے کا شکار ہونا انتہائی مہلک اور تباہ کن ہے۔
امریکہ کی جنگ اسلام کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ہے۔ دہشت گردی انسانی تاریخ کے لیے نئی نہیں ہے۔ البتہ حالیہ عشروں میں یہ ان لوگوں کا پسندیدہ ہتھیار بن گئی ہے جنہیں عوامی اور اخلاقی حمایت حاصل نہیں ہوتی اور جو اپنے مطالبات منوانے کے لیے نہ تو سیاسی جدوجہد کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے نظریات رائے عامہ کے لیے کوئی کشش رکھتے ہیں۔ دہشت گردی کسی ایک مذہب، علاقے یا سیاسی گروہ تک محدود نہیں ہے۔ بدقسمتی سے آپ کا وطن اور میرا وطن دونوں ہی نہ صرف داخلی دہشت گردی بلکہ بیرونی شہہ پر کی جانے والی دہشت گردی کا شکار ہیں۔
امریکی کانگریس نے ایک قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت انتظامیہ ہر دو سال میں غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست مرتب کرنے کی پابند ہے۔ اس سلسلے کی دوسری فہرست گزشتہ ماہ سامنے آئی ہے، اس فہرست میں اٹھائیس تنظیموں کے نام شامل ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں یعنی اس سے قطع نظر کہ یہ چھوٹی سی اقلیت کیا سمجھتی ہے، یہ فہرست نہ تو صرف اسلامی گروپوں پر مبنی ہے اور نہ ہی اس میں شامل ناموں میں غالب اکثریت مسلمان گروپوں کی ہے۔ بلاشبہ اس فہرست میں اسامہ بن لادن کی تنظیم القائدہ (Al-Qaida) شامل ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس میں جنوبی امریکن، جاپانی، یورپی اور ایشیائی دہشت گرد گروپ بھی شامل ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ کا نشانہ کوئی مذہب یا نظریہ نہیں بلکہ ہماری جنگ ان مجرموں کے خلاف ہے جو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے قتل اور تشدد کی راہ اپناتے ہیں۔ یہ دستاویز محض ان تنظیموں کے ناموں پر مشتمل فہرست نہیں ہے جنہیں ہم ناپسند کرتے ہیں، بلکہ یہ ایک ایسا مؤثر ہتھیار ہے جسے حقیقی دہشت گردوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ میں آپ کے سامنے کچھ ایسے ٹھوس نتائج بیان کر سکتا ہوں جو اس ہتھیار کے استعمال سے حاصل ہوئے ہیں:
  • دس سال قبل پین امریکن کی پرواز ۱۰۳ کی بم دھماکے سے تباہی کے دو مشتبہ ملزمان اب حراست میں ہیں اور اسکاٹ لینڈ کی عدالتیں ان کے خلاف مقدمے کی سماعت کی تیاری کر رہی ہیں۔ جیسا کہ ہمارے ایک لیڈر کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کے ضمن میں ہمارا حافظہ بہت ہی قوی ہے۔
  • الخبر (Khobar) سعودی عرب میں بم دھماکے کے ایک مشتبہ ملزم کو مقدمہ چلانے کی غرض سے گزشتہ ماہ سعودی عرب بھیج دیا گیا۔
  • ہم نے حال ہی میں افریقہ سے تعلق رکھنے والے ایک مشتبہ ملزم کو متعلقہ ملک کے حوالے کیا ہے جو ہمارے خیال میں دارالسلام میں امریکی سفارتخانے میں بم دھماکے میں ملوث ہے۔

امریکہ کے ساتھ ساتھ بہت سے مسلمان ممالک بھی دہشت گردی کا شکار ہیں، دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ میں ہم ان حکومتوں سے بھی تعاون کرتے ہیں جو دہشت گردی کا نشانہ اور شکار ہیں۔ ہم نہ صرف مشرقِ وسطیٰ میں اپنے ساتھی ممالک بلکہ کئی ایسے دوسرے ملکوں سے بھی قریبی تعاون کر رہے ہیں جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کا عزم کر رکھا ہے۔ ہم ان ملکوں کو صرف اپنی فہرستوں سے استفادہ کرنے یا محض یہ کہنے پر اکتفا نہیں کرتے کہ وہ اپنے حفاظتی انتظامات بہتر بنائیں، بلکہ انسدادِ دہشت گردی کے پروگرام کے تحت بھی ان سے تعاون کرتے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت فنڈ مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ کوئی امریکی سفیر مثال کے طور پر یہ کہہ سکتا ہے کہ ہمارے خیال میں ہوائی اڈے پر آپ کے حفاظتی انتظامات کمزور اور ناقص ہیں اور ہم انہیں بہتر بنانے میں آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف متعلقہ ملک کو تربیتی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں بلکہ ہمارے سفارت خانوں اور متعلقہ ممالک کے سکیورٹی کے اداروں کے تعلقات مستحکم ہوتے ہیں۔ اس طرح کے تعلقات نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں اور ہمیں دنیا بھر میں ہوائی اڈوں کے ذریعے نقل و حرکت کرنے والے دہشت گردوں کو پکڑنے کا موقع ملتا ہے اور خاطرخواہ نتائج حاصل ہوتے ہیں۔

امریکہ روادار، جامع، اور جمہوری معاشروں کا حامی ہے

اب تک میں نے ان باتوں پر اظہارِ خیال کیا ہے جن کا امریکہ مخالف ہے یعنی دہشت گردی اور جبر و ظلم۔ لیکن اب کچھ ذکر ان باتوں کا جن کا امریکہ حامی ہے اور یہ کہ مسلمان ملکوں سے ہمارے تعلقات پر وہ کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔ اگرچہ امریکہ کو اپنے آئین اور ان مخصوص سیاسی اداروں پر فخر ہے جو اس نے پروان چڑھائے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ انہیں مثالی اداروں کی حیثیت سے دوسرے ملکوں کو براہ راست برآمد نہیں کرنا چاہتا، بلکہ اس کے بجائے ہم ایسے معاشروں کے فروغ کی حوصلہ افزائی اور مدد کرتے ہیں جو روادار، جامع اور جمہوری ہوں۔

مغرب اور عالمِ اسلام دونوں میں کچھ لوگ یہ سوال کرتے ہیں: آیا اسلام جمہوریت سے ہم آہنگی اور مطابقت رکھتا ہے؟ ایران اور افغانستان میں سیاسی اسلامی تحریکوں کے بعض مغربی ناقدین کی رائے ہے کہ مذہب کے زیراثر اسلامی حکومتیں روادار اور جمہوری نہیں ہو سکتیں۔ عالمی سیاست میں مغرب کی بالادستی کے مخالف بعض مسلمان ناقدین سمجھتے ہیں چونکہ جمہوری ادارے مغربی سامراجیت کی دین ہیں اس لیے اگر امریکہ روادار، جامع اور جمہوری معاشروں کی حمایت کرتا ہے تو گویا وہ عالمِ اسلام سے تصادم کی راہ پر گامزن ہے۔

اسلامی نظام کے بعض حامیوں نے اسلام کے اصولوں اور دلائل کی آمیزش سے پارلیمانی جمہوریت کو اسلام کا لبادہ پہنایا ہے۔ مصر کی اخوان المسلمین اور یہاں پاکستان میں جماعتِ اسلامی جیسی پارٹیاں جمہوری نظام کی حامی ہیں اور جمہوری انتخابات میں حصہ لے چکی ہیں، ترکی کی اسلامی رفاہ پارٹی تو برسرِ اقتدار بھی رہ چکی ہے۔

اسلام کے ایک امریکی اسکالر ڈاکٹر جان اسپوزیٹو نے اس مسئلے کا جائزہ لیا ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جمہوریت جدید اسلامی سیاسی فکر و عمل کا ناگزیر حصہ بن چکی ہے۔ بہت سے مسلمان ملکوں میں اسے ایک ایسی کسوٹی کے طور پر قبول کیا گیا ہے جس کے ذریعے حکومتوں کی فراخدلانہ پالیسیوں اور اسلامی جماعتوں کی موزونیت کی پرکھ ہوتی ہے۔ اور یہ جواز مباح اور غیر مباح قرار دینے کی ایک مضبوط و توانا علامت بن چکا ہے کیونکہ اسے ایک آفاقی خوبی کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

اسلامی تحریکوں کو ایک بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد وہ تنوع کو برداشت کرنے کے سلسلے میں صلاحیت ثابت کریں۔ اسلامی نظام کے زیر اثر بعض حکومتوں کو اقلیتوں کی حیثیت، خواتین کے حقوق، اور اظہارِ رائے کی آزادی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ میں بلا جھجھک یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ خود میرے ملک میں رواداری، جامعیت اور جمہوریت کے مقاصد پوری طرح حاصل نہیں ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری کانگریس نے ایک قانون منظور کیا ہے جس کے تحت ہم دنیا بھر کے ملکوں میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں ایک سالانہ رپورٹ شائع کرنے کے پابند ہیں۔ ہم خود بھی اس رپورٹ پر سو فیصد پورا نہیں اترتے، لہٰذا میں کہوں گا کہ امریکہ، مغربی دنیا اور عالمِ اسلام ہم سب ہی ان مقاصد کے حصول کے لیے یکساں خواہشمند ہیں۔ بڑے پیمانے پر سیاسی آزادی اور سیاسی عمل میں شرکت تبدیلی کے اس عمل کا حصہ ہیں جس کے ذریعے نئی سیاسی روایات اور ادارے وجود میں آتے ہیں لیکن اس کے لیے وقت اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔

گزشتہ عشروں میں جمہوری تحریکوں اور حکومتِ وقت سے مزید آزادیوں کے حصول کے لیے دباؤ میں وسیع پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ دس سال پہلے جب سوویت یونین اور مشرقی یورپ جمہوریت کی رو میں بہے تو

  • سوویت یونین میں زیادہ خودمختاری کے لیے مسلمان قومیتوں کے مطالبے،
  • اور مشرقِ وسطٰی میں قیامِ امن کے عمل کے لیے فلسطینیوں،
  • اور آزادی کے لیے کشمیریوں کے مطالبات

نے دنیا بھر میں بہت سے لوگوں کی توجہ حاصل کر لی۔

سیکولرازم اور اسلامی نظام کے علمبردار اپنی حکومتوں پر سیاسی آزادی اور جمہوریت کے حوالے سے نکتہ چینی کرتے ہیں۔ اردن، مصر، کویت، تیونس اور پاکستان جیسے ملکوں میں سیاسی تبدیلیوں کے محرکین میں بڑے پیمانے پر دوسروں سے ہم آہنگی کا احساس جمہوری اداروں، اقلیتوں اور اپوزیشن کے نقطہ نظر سے رواداری کے لیے قبولیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

امریکہ بذاتِ خود ایک بڑا مُسلم معاشرہ ہے

امریکہ کے اسلام مخالف نہ ہونے کا ایک اور واضح سبب یہ ہے کہ امریکہ بذاتِ خود ایک بڑا مسلمان معاشرہ ہے۔ آپ اس دعوے کو حیرت انگیز کہہ سکتے ہیں یا اسے غلط سمجھ سکتے ہیں مگر حقیقت ہے کہ ساٹھ سے ستر لاکھ کے درمیان امریکی شہری مسلمان ہیں۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ امریکہ میں مسلمانوں کی آبادی اردن سے زیادہ ہے بلکہ کویت، بحرین، متحدہ عرب امارات اور اومان کی کل مسلم آبادی کے مقابلے میں امریکی مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ مسلمان امریکہ کی ہر ریاست اور علاقے میں موجود ہیں۔ امریکی معیشت کے ہر شعبے میں ان کا عمل دخل ہے۔ وہ عام مزدور سے لے کر کمپنی ایگزیکٹوز تک ہر حیثیت میں کام کر رہے ہیں۔ وہ امریکی مسلح افواج میں شامل ہیں اور وزارتِ خارجہ سمیت تمام سرکاری محکموں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

بیشتر امریکی مسلمان یا ان کے والدین پاکستان، لبنان، مصر یا دوسرے مسلمان ملکوں سے امریکہ منتقل ہوئے ہیں۔ دیگر تارک وطن گروپوں کی طرح وہ بھی امریکی معاشرہ اپنانے کے لیے تندہی سے کوشاں ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے دین اور ثقافت سے بھی رشتہ برقرار رکھا ہے۔ یہ تسلیم ہے کہ انہیں دوسرے تارک وطن گروپوں کی طرح غلط فہمیوں اور مسائل کا سامنا ہے لیکن ان مسائل کو حل کرنے کے لیے وہ سماجی دباؤ، سیاسی قوت اور اپنے قانونی حقوق منظم کر کے مسلسل مؤثر حیثیت حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ ان حالات کے پیشِ نظر بعض مذہبی انتہا پسندوں کا مسلمانوں سے یہ کہنا کہ وہ امریکیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیں، ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ یہ ساٹھ لاکھ افراد مسلمان اور امریکی ہیں، وہ اس وقت امریکہ میں سب سے تیزی سے پھیلنے والے دین کی نمائندگی کرتے ہیں۔

امریکی معاشرے کے اندر موجود اس بہت بڑے طبقے کے ہم پر مثبت تعمیری اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ مسلمان کنبوں کے مضبوط و مستحکم خاندانی رشتے اور ان کے برتاؤ اور سلوک کے اعلیٰ معیار ہمارے معاشرے کی تعمیر کے عوامل میں استحکام کا باعث بن رہے ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی سے لاس انجلس اور کیلیفورنیا تک امریکہ کے طول و عرض میں قائم ہزاروں مساجد ہمارے شہروں کے تعمیراتی تنوع میں ایک دلکش اضافہ ہیں۔ روز مرہ اور جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے درکار وقت کے لیے آجر ہفتے کے اوقات کار میں ردوبدل کے بارے میں سوچ بچار کر رہے ہیں۔ بہت سے مسلمان خاندان جو دینی احکامات کے مطابق لباس کو ترجیح دیتے ہیں، سکولوں حتٰی کہ مسلح افواج کو لباس کے بارے میں پابندیاں نرم کرنے پر مصر ہیں۔ ان میں سے کوئی بات اختلافِ رائے اور مزاحمت کے بغیر عمل میں نہیں آتی، لیکن اپنی ضروریات کے مطابق ردوبدل اور تبدیلی کے لیے امریکی مسلمانوں کی جدوجہد امریکہ کو ہمیشہ سے کہیں زیادہ جامع، کثیر الثقافتی اور روادار معاشرہ بنانے کے لیے ایک صحت مندانہ چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔

ثقافتوں کے درمیان مکالمے اور گفتگو کی ضرورت

ہم میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ اپنے معاشرے کے اندر تضادات اور ثقافتوں کے درمیان تصادم پر زیادہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ اتفاقِ رائے کو اخبارات اتنی اہمیت نہیں دیتے جتنی کہ وہ اختلافِ رائے کو اچھالتے ہیں۔ ویسے بھی اختلافِ رائے مکالمے سے زیادہ ڈرامائی لگتا ہے۔ لیکن مجھے اجازت دیجئے کہ میں ثقافتوں کے بارے میں ڈائیلاگ کی ضرورت کے بارے میں کچھ فکر انگیز باتیں دہرا سکوں جو حال ہی میں ایک پاکستانی تجزیہ نگار ڈاکٹر رفعت حسین نے، جن کا میں احترام کرتا ہوں، لکھی ہیں۔ ڈاکٹر رفعت حسین روزنامہ ’’دی نیشن‘‘ میں رقم طراز ہیں:

  1. ’’گفتگو اور مکالمے سے لوگوں، اقوام اور ملکوں کے درمیان اختلافات کے پُراَمن تصفیے کو فروغ ملتا ہے۔ اور چونکہ ثقافت اور ثقافتی تشخص کے نمایاں پہلو محاذ آرائی کا سبب ہوتے ہیں اس لیے ثقافتوں کے درمیان ڈائیلاگ ناگزیر ہے۔
  2. مکالمے کے متبادل خصوصاً جنگ یکسر ناقابلِ قبول ہے۔ آج کے ایٹمی دور میں کوئی قوم جنگ کی راہ نہیں اپنانا چاہتی۔
  3. گفتگو سے غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کے بارے میں بہتر مفاہمت فروغ پاتی ہے، اور ارسطو کے بقول مکالمے اور بات چیت سے ایسے اعمال کی راہ ہموار ہوتی ہے جن سے ذاتی منفعت اور خودغرضی کی بجائے دوسروں کی بھلائی کی سوچ پروان چڑھتی ہے۔
  4. مکالمے سے انسانی مساوات اور برابری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جو انسانی تہذیب کا جوہر ہے۔
  5. بات چیت تعاون اور مشترکہ سلامتی کے لیے عملی اقدام کی حیثیت رکھتی ہے۔
  6. مکالمے سے تعاون کے امکانات و فوائد کے علاوہ مسلسل محاذ آرائی، دشمنی اور تصادم کے نقصانات واضح ہو جاتے ہیں، جس سے محاذ آرائی کے محرکات بدلنے میں مدد ملتی ہے۔
  7. مکالمہ اور گفتگو، مذاکرات اور سمجھوتے کے لیے شرطِ اول اور تمہید کی حیثیت رکھتے ہیں‘‘

میرے نزدیک ان باتوں میں بڑی معنویت ہے۔ لہٰذا آج میری اپیل یہ ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کو اپنا دشمن تصور کرنے کے آسان مگر گمراہ کن راستے کو ترک کرنے کا چیلنج قبول کرنے کے لیے کمربستہ ہو جائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور بعض مسلمان ملکوں کے درمیان حقیقی اختلافات ہیں، لیکن جیسا کہ آج میں نے واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اختلاف کے مقابلے میں ہمیں متحد کرنے والی باتیں کہیں زیادہ ہیں۔ اگر ہم سب

  • باہم مفاہمت بڑھانے،
  • زیادہ جمہوریت،
  • اقلیتوں کے ساتھ زیادہ برداشت اور رواداری کا مظاہرہ کرنے،
  • انسانی حقوق کے احترام کا معیار بلند کرنے،
  • اور اپنے سیاسی نظاموں میں تمام سماجی گروپوں کو وسیع تر بنیاد پر شامل کرنے

کے لیے اپنی کوششوں کو مزید موثر و مستحکم بنا لیں، تو ہم امریکہ اور مسلمان ملکوں کے درمیان نہ صرف شکوک و شبہات کم کر سکیں گے بلکہ ہم اپنے اپنے ملکوں کو زیادہ مستحکم اور منصفانہ معاشرہ بنا سکیں گے۔


پاکستانی معیشت پر غلبہ کے لیے عالمی بینک کا پروگرام

علی محمد رضوی

پاکستانی معیشت کی کارکردگی کے بارے میں عالمی بینک کی تازہ ترین رپورٹ اس لحاظ سے ایک اہم دستاویز ہے کہ اس کے ذریعے ہمیں پاکستان کے بارے میں استعمار کی پالیسی کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

(۱) عالمی بینک کی حکمتِ عملی

معیشت کے ان پہلوؤں پر ورلڈ بینک نے سفارش کی ہے:
  • ۱۹۸۶ء/۱۹۸۷ء سے لے کر ۱۹۹۷ء/۱۹۹۸ء کے درمیان دفاعی اخراجات میں جی ڈی پی کے تناسب سے ۳۳ فیصد کمی۔
  • اسی عرصہ کے دوران حکومتی سطح پر چلنے والے کاروباری اور پیداواری اداروں میں کمی آئی اور ان کی تعداد ۲۰۰ سے گھٹ کر ۱۱۰ ہو گئی ہے۔
یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اس رپورٹ میں اس بات کا قطعاً کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ پرائیویٹائز کیے گئے ان اداروں میں ۹۰ فیصد یا تو بھاری خسارے میں جا رہے ہیں یا بند ہو چکے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی اہم ہے کہ ایک طرف تو ورلڈ بینک اخراجات میں کمی بات کرتا ہے، لیکن دوسری طرف قرضوں کی مد میں سود کی ادائیگی، جو کہ اخراجات کے اعتبار سے اہم ترین مد ہے، کے بارے میں ورلڈ بینک بالکل خاموش ہے۔ ۱۹۸۵ء سے لے کر ۱۹۸۹ء تک قرضوں پر سود کی ادائیگی کا مجموعی بجٹ کے اعتبار سے تناسب ۱۴ فیصد سے بڑھ کر ۳۳ فیصد ہو گیا ہے، لیکن قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے ورلڈ بینک ہمدردی کے دو لفظ بولنے پر بھی تیار نہیں ہے۔
رپورٹ میں ورلڈ بینک نے پاکستانی معیشت کے جن اصلاح طلب پہلوؤں کی جانب متوجہ کیا ہے وہ یہ ہیں:
  • مجموعی قومی معیشت کے توازن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بجٹ کا غیر متوازن خسارہ ہے (یہ اور بات ہے کہ اس سلسلہ میں کوئی معاشی دلیل نہیں پیش کی گئی ہے اور اس قسم کی دلیل پیش بھی کیونکر کی جا سکتی تھی کہ ایسی کوئی دلیل موجود ہی نہیں)
  • حکومتی اخراجات کی کمی کے نتیجے میں سوشل ایکشن پروگرام کی مد میں اہم منصوبوں پر عمل متاثر ہوا ہے۔
  • حکومتی اخرجات کی بہتر تنظیم کی راہ میں ادارتی کمزوریاں حائل ہیں۔
  • ورلڈ بینک کے خیال میں وفاقی حکومت صوبوں کے معاملات میں، اور صوبائی حکومتیں بلدیاتی امور میں مداخلت کی مرتکب ہو رہی ہیں، جس کی وجہ سے اخراجات کی مناسب تقسیم اور استعمال نہیں ہو پاتا ہے۔
معیشت کی ان خرابیوں کو درست کرنے کے لیے ورلڈ بینک کے خیال میں مندرجہ ذیل اصلاحات روبہ عمل لائی جانی چاہئیں:
  • بجٹ کے خسارے کو کم کرنا
  • حکومتی سطح پر کیے گئے اخراجات کا بڑا حصہ سوشل سیکٹر اور سود کی ادائیگی کے لیے مختص کرنا۔
  • حکومتی اخراجات کو بہتر طور پر منظم کرنا۔
مندرجہ بالا اصلاحات کو روبہ عمل لانے کے لیے ضروری ہے کہ
  • ہر سطح پر حکومت کے معاشی کردار کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔
  • درمیانی مدت کے بجٹ کو سالانہ بجٹ کی ترجیحات کے مطابق بنایا جائے۔
  • حکومتی سطح پر اخراجات کے بارے میں سختی سے ترجیحات مرتب کی جائیں اور اس سلسلہ میں سب سے زیادہ ترجیح سوشل سیکٹر کو دی جائے۔
  • اخراجات کے سلسلہ میں غیر حکومتی اداروں کو زیادہ اختیارات اور ذمہ داریاں تفویض کی جائیں۔
  • عوامی خدمات کی فراہمی اور انفراسٹرکچر کی تنظیم کا کام زیادہ سے زیادہ صوبائی اور بلدیاتی سطح پر منتقل کیا جائے۔
  • سول سروس کی تنظیمِ نو اور اس کے ڈھانچے کی تشکیلِ نو کی جائے، اور سول سروسز کے حجم کو کم کیا جائے اور اس کو غیر سیاسی ادارہ بنایا جائے۔
مرکزی حکومت کو کمزور کرنا ورلڈ بینک کی پالیسی کا ایک اہم ہدف ہے اور رپورٹ میں اس کا تذکرہ بغیر کسی لاگ لپیٹ کے کیا گیا ہے۔ حکومت کے کردار کی تعمیرِ نو میں صوبائی حکومتیں اہم کردار ادا کریں گی۔ حکومت ان ذمہ داریوں سے دست کش ہو جائے گی جو پرائیویٹ سیکٹر بہتر طور پر انجام دے سکتا ہے۔ رپورٹ میں اس بات پر تاسف کا اظہار کیا گیا ہے کہ ۱۹۹۶ء میں نگران حکومت کی قائم کردہ ڈاؤن سائزنگ کمیٹی نے ۱۵ ہزار حکومتی ملازمین کو فارغ کرنے کی جو تجویز دی تھی اسے پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق حکومت چھوٹی ہو، اختیارات کا ارتکاز نہ ہو، اور اس کی ذہنیت کاروباری ہونی چاہیے۔ حکومت کو اشیاء اور خدمات کی فراہمی کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جانا چاہیے اور یہ ذمہ داری پرائیویٹ سیکٹر اور این جی اوز کو سونپ دینی چاہئیں۔ مواصلات اور توانائی کے شعبے نجی شعبہ کو دے دینے چاہئیں، اور اس نجی شعبہ (جو بالعموم بڑی بڑی غیر ملکی کمپنیوں پر مشتمل ہو گا) پر حکومت کو کوئی قابو نہیں ہونا چاہیے، بلکہ انہیں ایسی ’’خودمختار‘‘ ایجنسیوں کے ذریعے ریگولیٹ کیا جانا چاہیے جو کہ مارکیٹ کے اصولوں پر چلتی ہوں۔
رپورٹ میں جو لفظ سب سے زیادہ استعمال کیا گیا ہے وہ ’’خودمختاری‘‘ ہے:
  • صوبوں کو قومی حکومت کے مقابلے میں خودمختاری دے دی جائے۔
  • بلدیاتی اداروں کو صوبائی حکومت کے مقابلے میں خودمختاری عطا کر دی جائے۔
  • اور سب سے بڑھ کر این جی اوز اس ملک کی ہر حکومت اور ادارے کے مقابلے میں خودمختار ہوں تاکہ وہ یکسوئی سے اس ملک میں اپنے استعماری آقاؤں کی پالیسیوں کو نافذ العمل کر سکیں۔
اس ’’خودمختاری‘‘ میں اضافے کے لیے جو لائحہ عمل ہے اس کے اہم اجزاء یہ ہیں:
  • نج کاری۔
  • عوامی خدمات کی قیمتوں میں مرکزی، صوبائی اور بلدیاتی سطح پر اضافہ۔
  • خدمات کی ادائیگی اور تنظیم کے نظام کو غیر مرتکز کرنا۔
ورلڈ بینک نے مالیاتی سطح پر حکومتی پالیسیوں کو مندرجہ بالا مقاصد کے تحت رکھنے کے لیے درمیانی مدت کے اخراجات کا فریم ورک دیا ہوا ہے، جس کا مقصد حکومتی پالیسی کو ان اہداف کے حصول کے لیے زیادہ سے زیادہ موثر طریقہ سے استعمال کرنا ہے۔ معاشرتی سطح پر اس کا ذریعہ سوشل ایکشن پروگرام (ایس اے پی) جس کے تحت فیملی پلاننگ کا کام موثر طریقے سے چل رہا ہے۔ ایس اے پی (سیپ) کا مجموعی مقصد یہ ہے کہ پانی، شہری سہولتیں، تعلیم اور صحت کے حوالے سے فیصلہ سازی کلیتاً استعماری اداروں کے ہاتھ میں چلی جائے۔

(۲) عالمی بینک کی حکمتِ عملی کے اثرات

ورلڈ بینک کی حکمتِ عملی کے تین اجزاء ہیں:
  • حکومتی اخراجات میں زبردست کمی اور اس کی ترتیبِ نو۔
  • مالیاتی نظام پر استعماری اداروں کا غلبہ قائم کرنا، بالکل اسی طرح جس طرح سیپ کے ذریعے سوشل سیکٹر میں استعماری اداروں کو غلبہ حاصل ہو چکا ہے۔
  • حکومتی عمل پر مارکیٹ کی اجارہ داری قائم کرنا۔
موجودہ حکومتیں ورلڈ بینک کی اس پالیسی کو نافذ کرنا چاہتی ہیں لیکن وہ یہ نہیں چاہتی ہیں کہ پاکستانی ریاست کمزور ہو۔ لیکن جیسا کہ ہم ثابت کریں گے کہ یہ بات ناممکن ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ مندرجہ بالا حکمتِ عملی پر عمل کیا جائے اور پاکستانی ریاست کمزور نہ ہو۔ حکومتی اخراجات میں کمی حکومتی طاقت، قوتِ نافذہ اور کنٹرول کو ختم کرنے کا مجرب نسخہ ہے۔ حکومتی اخراجات میں کمی کے نتیجہ میں اختیارات حکومت سے ان اداروں یا ایجنسیوں کو منتقل ہو جاتے ہیں جن کو اخراجات استعمال کرنے کی یہ قوت منتقل ہوتی ہے۔
مغربی ممالک میں ریگن اور تھیچر کے دور کے بعد حکومتی اخراجات میں کمی کے نتیجہ میں حکومت کی اتھارٹی ختم ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک اپنے وسائل کے ضیاع میں سب سے آگے ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں میں او ای سی ڈی ممالک میں ۲۰ ملین سے زائد افراد مستقل طور پر بے روزگار ہیں۔ کئی اہم صنعتوں میں استطاعت کا ناکافی استعمال ایک اہم مسئلہ ہے۔ طلب میں کمی واقع ہوئی ہے اور اس کے نتیجہ میں زرعی اور دوسری مصنوعات بڑی تعداد میں تلف کرنا پڑتی ہیں۔ مغربی حکومتیں روز افزوں معاشی اور تکنیکی عدم کارکردگی کے آگے بے بس اور خاموش تناظر ہیں۔ مغربی ممالک میں بھی حکومتیں فینانشل مارکیٹوں کے مصنوعی پھیلاؤ، مجموعی پیداوار میں جمود، ماحول کی روز افزوں برتری، نسلی نفرت کی روز افزوں افزائش، اور مستضعفین کے نظامِ امداد میں کمی جیسے مسائل کے آگے بے بس ہیں۔ جو بھی ’’نظریہ‘‘ معاشی کارکردگی میں اضافہ کا نسخہ حکومتی اخراجات میں تخفیف کو قرار دیتا ہے وہ بدیہی طور پر غلط ہے۔
پاکستان میں حکومتی اخراجات میں کمی کے اثرات تباہ کن ہوں گے، اس کی دو وجوہات ہیں:
  • اولاً تو حکومت کے علاوہ کوئی اور دوسرا ادارہ موجود ہی نہیں ہے جو انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے مطلوب پیسہ اور وسائل فراہم کر سکے۔
  • پاکستان میں حکومتی اخراجات کے بارے میں مختلف مطالعہ جات یہ ثابت کرتے ہیں کہ حکومتی سرمایہ کاری نجی سرمایہ کاری کو ’’کھینچتی‘‘ ہے۔ اس لیے حکومتی اخراجات میں کمی نجی سرمایہ کاری میں کمی کا باعث بنے گی۔
اس بات پر زور دینا بھی ضروری ہے کہ بجٹ میں خسارہ یا اس کی شرح میں اضافہ فی نفسہ مجموعی قومی معیشت کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس کے برعکس اگر بجٹ کا خسارہ بالیدگی میں اضافے کا باعث بنے تو ایسا خسارہ مجموعی قومی معیشیتی کارکردگی کے لیے سودمند ہے۔ کئی او ای سی ڈی ممالک کا تجزیہ بتاتا ہے کہ بجٹ کا خسارہ پیداوار، روزگار اور مناع میں اضافہ کا باعث بن کر مجموعی معیشت کو بہتری کی طرف گامزن کرتا ہے۔ اس لیے اصل سوال یہ نہیں ہے کہ خسارہ کو کس طرح ختم کیا جائے بلکہ قرضوں کی ادائیگی کے نظام کو کس طرح تسلی بخش بنایا جائے۔ قرضوں کی ادائیگی کے ضمن میں اور بجٹ کے خسارہ کے حوالے سے اگر کوئی چیز معیشت کے لیے خطرناک ہے تو وہ صرف قومی اور بین الاقوامی قرضوں پر سود کی ادائیگی ہے۔ اس بارے میں بھی اسلامی نظریاتی کونسل کی ۱۹۸۰ء کی رپورٹ پر عملدرآمد کیا جائے تو قرضوں کی ادائیگی کا نظام بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
حکومتی اخراجات میں کمی کا سب سے برا اثر دفاعی شعبہ پر پڑے گا۔ پہلے ہی اضافی اعتبار سے دفاعی اخراجات پر رقم آدھی رہ گئی ہے۔ استعماری ادارے پاکستان کو نیوکلیئر پروگرام ختم کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے مختلف قسم کی چالیں چل رہے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ اپنی قومی خودمختاری کا تحفظ کیا جائے اور سی ٹی بی ٹی پر دستخط نہ کیے جائیں۔ ایک مکمل نیوکلیئر پاور کی استطاعت کشمیر میں ہندوستان کے ظلم و ستم کے خلاف واحد ہتھیار ہے، اس کا تحفظ ضروری ہے۔
عام خیال کے  برعکس پاکستانی معیشت چھوٹی اور کھلی معیشت نہیں ہے جو بیرونی تجارت یا بیرونی سرمایہ کی مرہونِ منت ہے۔ پاکستان کی تجارت جی این پی کا صرف تیس فیصد ہے جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ محض دو فیصد ہے، اور امریکہ سے تجارت مجموعی قومی پیداوار کا صرف ۲۴ فیصد ہے، جبکہ مجموعی بیرونی سرمایہ کاری صرف ۱۲ فیصد ہے۔
آئی ایم ایف کو چاہیے کہ ان اعداد و شمار کا بغور مطالعہ کرے۔ مغرب کی پاکستان کو سزا دینے کی استطاعت نہایت محدود ہے۔ قرضوں کی ری شیڈولنگ کے پروگرام جو آئی ایم ایف مرتب کرتا ہے، پاکستان کی ضرورت نہیں ہیں بلکہ استعماری طاقتوں کی ضرورت ہیں۔
حکومتی اخراجات میں کمی کے ذریعے عالمی استعماری ادارے پاکستانی ریاست کے اثر و نفوذ کو ختم کر کے اختیارات استعماری ایجنسیوں، استعماری اداروں اور استعمار کے گماشتوں کے حوالے کر دینا چاہتے ہیں۔ عالمی بینک کی معاشی پالیسیوں کے لیے کوئی معاشی دلیل نہیں ہے۔ جیسا کہ لاطینی امریکہ اور افریقہ کے ممالک میں ان پالیسیوں کے نتیجہ میں معاشی طور پر تباہی و بربادی اور ریاستوں کی قوت و اختیارات میں کمی اور استعماری گرفت میں مضبوطی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ
  • ریاست کے اخراجاتی معیشت کو ختم کرنے
  • ریاست کو کمزور کرنے
  • ریاست کے اختیارات کو صوبوں، بلدیاتی اداروں اور این جی اوز کو منتقل کرنے
کی بھرپور مخالفت کریں کیونکہ یہ ریاست کو تباہ کرنے، معاشرہ اور فرد کو قربانی اور جہاد کے لیے نا اہل بنا کر اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔
(بہ شکریہ: ماہنامہ ساحل، کراچی)

عالمی معیشت، یہودی ساہوکار اور مسلم ممالک

عبد الرشید ارشد

یہود کے بڑوں نے ۹۲۹ ق م میں عالمی حکمرانی کے لیے جو منصوبہ بندی کی اور جسے ہر دور کے بڑے یہودی سینے سے لگائے ہر دور کے تقاضوں کے مطابق اس منصوبہ بندی کی نوک پلک سنوارتے، اس کی حفاظت کرتے آئے، سود کے حوالے سے اس کے انکشافات چونکا دینے والے ہی نہیں، با شعور مسلمانوں کی نیندیں حرام کرنے والے ہیں۔
نزولِ قرآن سے کم و بیش ساڑھے سولہ سو سال قبل جس خباثت کی بنیاد پر دنیا مسخر کرنے کا یہود نے منصوبہ بنایا تھا، خالق نے قرآن حکیم میں اس خباثت کا توڑ اہلِ ایمان کے سامنے سود کو حرام قرار دے کر، اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اعلانِ جنگ قرار دے کر فرمایا کہ مجھ پر ایمان کا دعوٰی کرنے والے اس زہر سے محفوظ رہیں۔
یہود کی مذکورہ منصوبہ بندی (Protocols) ’’وثائقِ یہودیت‘‘ کے نام سے مصدقہ دستاویز کی صورت میں آج بھی محفوظ ہے۔ آئیے پروٹوکولز میں سود کے کرشمے دیکھتے ہیں:
’’یہودیت کے خفیہ ریکارڈ کی رو سے ۹۲۹ ق م سلیمان اور یہودیوں کے سربراہوں نے پُراَمن عالمی تسخیر کا عملی منصوبہ بنایا۔ تاریخ جوں جوں آگے بڑھتی گئی اس کام میں ملوث افراد نے اس منصوبہ کی جزیات طے کیں جس سے بڑی خاموشی اور امن کے ساتھ یہود کے لیے تسخیرِ عالم کا یہ منصوبہ شرمندہ تعبیر ہو سکے۔‘‘ (وثائقِ یہودیت ۔ اصلاحات، صفحہ ۲۵)

راز کی بات

’’آج ہم اپنے مالیاتی پروگرام کو زیربحث لائیں گے جسے انتہائی مشکل ہونے کے ناتے ہم نے مؤخر کر رکھا تھا کہ دراصل یہی امر ہمارے تمام منصوبوں کی جان ہے۔ بات شروع کرنے سے پہلے یہ بتا دوں کہ میں نے آغاز میں اشارتاً اس پروگرام کا ذکر کیا تھا جب میں نے کہا تھا کہ ہماری تمام سرگرمیوں کا محور اعداد و شمار ہیں۔‘‘ (پروٹوکولز، ۲۰۔۱)
’’غیر یہود کے مالیاتی اداروں اور ان کے زعماء کے لیے ہم جو اصلاحات کریں گے وہ ایسی شوگر کوٹڈ ہوں گی کہ نہ تو انہیں چونکائیں گی اور نہ ہی انہیں نتائج کا احساس ہو گا۔ غیر یہود نے اپنی حماقتوں سے اپنے مالیاتی امور کو جس طرح الجھا لیا اور بند گلی میں کھڑے ہو گئے، ہم انہیں اصلاحات کے نام پر یہ راہ سجھائیں گے۔‘‘ (پروٹوکولز ۲۰۔۲۷)

شکاری کا جال

’’غیر یہود کو، بلا ان کی حقیقی ضرورت کے، قرضوں کی چاٹ لگا کر، ان کی افسر شاہی میں رشوت خوری عام کر کے، انہیں کاہلی اور نا اہلی کے غار میں دھکیل کر ہم ان سے دو گنا، تین اور چار گنا بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ مال سمیٹا ہے۔‘‘ (پروٹوکولز ۲۱۔۲)
’’ہمارے مزاحیہ ڈرامے کا پردہ ہٹتے ہی یہ حقیقت سب کے سامنے آجائے گی کہ ہمارے قرض سے بوجھ کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی رہتا ہے۔ یہ سودی بوجھ کم کرنے کے لیے مزید قرضے لینے پڑتے ہیں جن سے نئے قرضے اور نئے سود کا بوجھ بڑھتا ہے۔ اور یوں اصل زر کی ادائیگی تو رہی ایک طرف، صرف سود کی ادائیگی کے لیے عوام کے گاڑھے (پسینے) کی کمائی ٹیکسوں کی زد میں آجاتی ہے۔ یہ عوامی ٹیکس، قرض اور سود سے بڑھ کر قوم کے لیے اذیت ناک ثابت ہوتے ہیں۔‘‘ (پروٹوکولز ۲۱۔۴)
’’غیر یہود نے یہ سوچنے کی کبھی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ وہ جو قرض ہم سے لیتے ہیں، اس کی ادائیگی، یا اس پر سود کی ادائیگی کے لیے بھی وہ ہم ہی سے قرض لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ دراصل یہ ہماری منظم سوچ کا عروج ہے جس سے ہم نے غیر یہود حیوانوں کو مسخر کر رکھا ہے۔‘‘ (پروٹوکولز ۲۰۔۳۶)

سود کا کرشمہ

’’غیر یہود کے ہاں جب تک معاملہ مقامی داخلی قرضوں تک محدود تھا تو بات یوں تھی کہ مال غریب کی جیب سے امراء کی جیبوں میں منتقل ہوتا تھا۔ مگر جب ہم نے اپنے زر خرید ایجنٹوں کے ذریعے غیر ملکی قرضوں کی چاٹ لگائی تو غیر یہود کے تمام تر سرمایہ نے ہماری تجوریوں کی راہ دیکھ لی۔ یوں کہئیے کہ یہ خارجی قرضوں پر سود کی صورت میں غیر یہود کا خراج ہے جو وہ ہمیں باقاعدگی سے ادا کرنے پر مجبور ہیں۔‘‘ (پروٹوکولز ۲۰۔۳۲)
’’غیر یہود حکمرانوں کے بناوٹی معیار، معاملات، اور نا اہل بے تدبیر وزراء، شعور و احساسِ ذمہ داری سے عاری افسر شاہی، اور ان سب کا اقتصادیات کی ابجد سے ناشناس ہونا، سب پہلو مل کر ان ممالک کو ہمارا مقروض بناتے ہیں۔ اور جب ایک بار سودی جال میں پھنس جاتے ہیں تو پھر نکلنا ان کے لیے ناممکن بن جاتا ہے۔‘‘ (پروٹوکولز ۲۰۔۳۳)
’’کوئی حکومت اپنے ہی ہاتھوں دم توڑ جائے، یا اس کی اندرونی خلفشار اس پر کسی دوسرے کو مسلط کر دے، معاملہ جیسا بھی ہو، یہ ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ اور اب یہ ہماری (حقیقی) قوت ہے۔ سرمایہ پر بلاشرکتِ غیرے ہمارا کنٹرول ہے، جو جس قدر ہم چاہیں کسی حکومت کو (اپنی شرائط پر) دیں۔ وہ خوشدلی سے اسے قبول کر لے یا مالی بحران اپنا مقدر بنا لے۔‘‘ (پروٹوکولز ۱۔۸)
’’غیر یہود حکومتوں (گوئم) کی سیاسی موت اور غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے ہلاکت کی خاطر ہم بہت جلد مختلف شعبہ ہائے حیات میں اپنی اجارہ داریاں قائم کریں گے، خصوصاً زر و دولت کے ذخائر پر۔ جو غیر یہود کو لے ڈوبیں گے کہ ان کی قسمتوں کا فیصلہ یہی سونا کرے گا۔‘‘ (پروٹوکولز ۶۔۱)
مالیات پر یہود کی یہ اجارہ داری ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، لندن کلب، اور پیرس کلب جیسے بہت سے اداروں کے ذریعے ہے، جنہوں نے آکٹوپس کی طرح ہر حکومت کے مالیاتی نظام کو بے بس کر رکھا ہے۔ سیاسی اجارہ داری کے لیے اقوامِ متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل ہے، تو صحت پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی اجارہ داری ہے۔ تجارت اور مزدور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن سے کنٹرول ہوتے ہیں۔ تعلیم و صحت کے لیے یونیسف ہے، تو زراعت کے لیے ایف اے او کا دستِ قدر کارفرما ہے۔ سماجی معاشرتی میدان میں لائنز اور روٹری انٹرنیشنل طرز کے سماجی ادارے ہیں۔

قرض کی ری شیڈیولنگ

’’قرض، بالخصوص غیر ملکی قرض کی حقیقت کیا ہے؟ قرض فی الاصل ایسی گارنٹی کا نام ہے جو رقم کے ساتھ سود کی ادائیگی کے لیے لکھی جاتی ہے۔ مثلاً اگر ۵ فیصد شرح سود طے ہو تو قرض لینے والا حکمران ۲۰ سال بعد قرض کی اصل رقم کے برابر سود ادا کرے گا۔ (بروقت ادا نہ کر کے ری شیڈیول کرائے تو) ۴۰ سال بعد اسے دوگنا کر لیجئے اور ۶۰ سال ہوں تو تین گنا اور مزے کی بات یہ ہے کہ اصل زر پھر بھی ادا نہیں ہوتا۔‘‘ (پروٹوکولز ۲۰۔۳۰)
مذکورہ مختصر بحث کے بعد عقل کی قلیل مقدار ہی یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ انسان کے خالق کا علم اور اس علم کی روشنی میں راہنمائی کس قدر کامل، اعلیٰ و ارفع ہے۔ جو چیز آج مسلمان حکمرانوں کو یہود کا باجگزار بنا رہی ہے، جس غلاظت نے معیشت تباہ کی ہے، جس تباہی پر ہر کوئی شاہد ہے، جس قباحت نے افراد کا، خاندان اور اداروں کا سکھ چھین لیا ہے، اس کے نقصانات پر ساڑھے چودہ سو سال قبل ہمہ جہت مکمل راہنمائی دے دی گئی تھی۔ مگر کس قدر عقل کا اندھاپن ہے کہ خالق پر ایمان کے دعوے دار ہی خالق کے فرامین سے بغاوت کے مرتکب ہوئے اور خالق کے باغی ہونے کے ناتے ناک تک دلدل میں دھنس گئے کہ اب سانس لینا مشکل ہے۔

مسلم ممالک کے لیے مغربی ممالک کا ایجنڈا

ظہیر الدین بھٹی

(عالمی ادارے اور مغربی قوتیں مسلم ممالک کے نظام اور معاشرت میں کس قسم کی تبدیلی چاہتی ہیں؟ اس کے بارے میں وقتاً فوقتاً ’’الشریعہ‘‘ میں عالمی پریس کے حوالے سے معلومات پیش کی جاتی ہیں۔ اس سلسلہ میں روزنامہ جرأت لاہور نے ۵ نومبر ۱۹۹۹ء کو برادر مسلم ملک تیونس میں ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے جناب محمد ظہیر الدین بھٹی کی مندرجہ ذیل رپورٹ شائع کی ہے جس سے مسلم ممالک کے لیے مغربی اداروں کے تجویز کردہ عزائم اور ایجنڈے کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے، اور ہمارے ہاں این جی اوز ان حوالوں سے جو کام کر رہی ہیں اس کے مقاصد بھی واضح ہو جاتے ہیں۔ ادارہ)


’’شمالی افریقہ (جسے مغرب بھی کہا جاتا ہے) کے ایک اہم ملک تیونس میں آزادی کے بعد پہلے صدر حبیب بور قیبہ نے ۳۰ سالہ عہدِ حکومت میں کمال اتاترک کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسلامی تہذیب و تمدن کے اس مرکز (تیونس) کو سیکولر خطوط میں ڈھالنے کے لیے ہر طرح کے اقدامات کیے۔ ۱۹۸۷ء میں زید بن علی نے انہیں برطرف کر کے اقتدار سنبھالا، زید بن علی سے ابتدا میں اچھی توقعات تھیں لیکن پھر سب کچھ اسی طرح ہونے لگا۔ اسلامی تحریک کے افراد مظالم کا شکار ہوئے۔ آج بھی ہزاروں مرد اور عورتیں جیل میں ہیں۔ تحریک کے رہنما راشد الغنوشی جلاوطن ہیں، انسانی حقوق مفقود ہیں۔ لیکن جموریت کا لبادہ اوڑھے رکھنے کے لیے انتخابات کا ڈرامہ شاید مجبوری ہے، مگر جمہوریت کی عملی شکل، ریاستی طاقت سے عوام کو کچلنا اور ان کی مرضی کے خلاف حکومت سے چمٹے رہنا ہے۔ آپ دیکھیں کہ مسلمانوں کی ۹۵ لاکھ آبادی کے اس ملک کے شہریوں کے ساتھ ان کے مسلمان حکمرانوں نے کیا کچھ کیا ہے۔
تیونس ۲۰ مارچ ۱۹۵۶ء کو فرانسیسی تسلط سے آزاد ہوا۔ ۱۳ اگست ۱۹۵۶ء کو سرکاری ضابطہ قوانین جاری ہوا جس پر عملدرآمد یکم جنوری ۱۹۵۷ء سے شروع ہوا۔ اس ضابطے کے زیادہ تر قوانین شریعتِ اسلامی کے بالکل خلاف و متضاد بلکہ اس سے متصادم تھے۔ آزادی کے بعد سے اسلامی نظام عملاً معطل چلا آ رہا ہے۔ اب تو اسلام کے اصول و فروع، احکام و اخلاق اور آداب سب کچھ شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ یہاں پر شواہد پیش کیے جاتے ہیں:

شرعی عدالتوں کا خاتمہ اور واحد عدالتی نظام

ملک میں شرعی عدالتوں کی تنسیخ کا کام آزادی کے بعد ہوا، انہیں عام عدالتوں میں ضم کر دیا گیا۔

جامعۃ الزیتونہ کے اسلامی تشخص کا خاتمہ

جامعۃ الزیتونہ کا شمار عالمِ اسلام کی قدیم ترین اسلامی یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ اسے اموی گورنر عبد اللہ بن الحجاب نے ۱۱۴ھ (۷۳۲ء) میں تعمیر کروایا تھا۔ یہ جامعہ پورے شمالی افریقہ میں اسلام اور عربی زبان کی حفاظت کا قلعہ رہی ہے، مگر اب اس کا اسلامی تشخص ختم کر دیا گیا ہے۔ مخلوق تعلیم رائج ہے۔ جمعہ کے بجائے اتوار کے دن چھٹی ہوتی ہے۔ موسیقی اور رقص و سرود کے کلبوں سے نمائندگی کی جاتی ہے۔ اس کا اپنا ایک ریڈیو اسٹیشن ہے جہاں سے جامعہ میں گانے نشر کیے جاتے ہیں۔ طالبات کے دوڑ کے مقابلے مردوں کے سامنے ہوتے ہیں۔ گانے بجانے کی محفلوں کے لیے گلوکار مردوں اور عورتوں کو باقاعدہ مدعو کیا جاتا ہے۔ رمضان میں بھی یہ پروگرام ہوتے ہیں، اور ان محفلوں میں شرکت کی دعوت ادارے کے ڈائریکٹر کی طرف سے دی جاتی ہے۔ جامعہ میں طلبہ کی تعداد فرانسیسی عہد میں ۳۰ ہزار سے زیادہ ہوتی تھی۔ آزادی کے دور میں کل تعداد ۶۵ ہزار ہے۔ ان میں ۸۵ فیصد طالبات ہیں جن کے لیے بے حجاب ہونا ضروری ہے۔ نیز جامعہ میں موجود تیراکی کے تالاب میں تیراکی کا مخصوص لباس زیب تن کر کے نہانا لازم ہے۔

شرعی اوقاف کا خاتمہ

جامعہ زیتونہ کے طلباء اور علماء کے لیے وقف کردہ تمام شرعی اوقاف ضبط کر لیے گئے ہیں۔ اسی طرح ملک کی دیگر تمام مساجد اور خیراتی اداروں کے تمام اوقاف، زمینیں، جائیدادیں ختم کر دی گئی ہیں۔ کئی چھوٹی مسجدوں کو گوداموں میں اور سٹوروں میں بدل دیا گیا ہے۔

رمضان کے روزوں سے نفرت

حکومتِ تیونس رمضان کے روزے رکھنے کو بہ نظر ناپسندیدگی دیکھتی ہے کہ روزہ رکھنے سے پیداوار کم ہو جاتی ہے اور ملکی ترقی اور پیشرفت میں رکاوٹ پڑتی ہے۔

قرآن اور رسول اکرمؐ پر الزامات و اتہامات

سابق صدر حبیب بور قیبہ نے قرآن پر الزام لگایا کہ اس میں تضاد پایا جاتا ہے۔ اس نے (معاذ اللہ) سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ مبارک میں توہین کی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے تیونس سے شائع ہونے والا اخبار ’’صحیفۃ الصبح‘‘ مورخہ ۲۱ مارچ ۱۹۷۳ء۔

شریعتِ اسلامی پر نقص کا الزام

سابق صدر بور قیبہ نے اپنے ایک خطاب میں عورت و مرد کی مساوات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم عورتوں کی ترقی میں حائل سب رکاوٹوں کو دور کر دیں گے اور ہر سطح پر مرد و زن میں کامل مساوات قائم کریں گے۔ قرآنی حکم کہ ’’میت کے ترکے میں ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے‘‘ کی رکاوٹ کو بھی دور کر کے دم لیں گے۔ ہم اس مسئلے کے حل کے لیے اجتہاد سے کام لیں گے تاکہ شرعی احکام کو زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جا سکے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو مجلہ ’’الدستور‘‘ شمارہ ۵۸۷ مورخہ ۸ اگست ۱۹۸۳ء)

متبنّٰی بنانے کی اجازت

قرآنِ حکیم نے صاف الفاظ میں متبنٰی (منہ بولا بیٹا، بیٹی) بنانے کو ممنوع قرار دیا ہے مگر حکومتِ تیونس نے اس شرعی حکم کی مخالفت کرتے ہوئے ۴ مارچ ۱۹۵۸ء کو صادر ہونے والے اپنے قانون نمبر ۲۷ میں اسے جائز قرار دیا ہے۔ قانون کی ذیلی شق ۱۵ کی رو سے متبنیٰ کو قانونی بیٹے کے حقوق حاصل ہوں گے اور اس پر وہی فرائض عائد ہوں گے۔

خاندانی ڈھانچے کی تباہی

حکومت نے وقتاً فوقتاً ایسے قوانین جاری کیے ہیں جس سے تیونسی خاندان کا شیرازہ بکھر کے رہ گیا ہے۔ اس نے عورت کو اخلاقی باختگی کی اجازت دی ہے۔ بیوی کو اتنا قانونی تحفظ دیا ہے کہ خاوند اپنی بیوی کے اخلاقی طرز عمل سے چشم پوشی کرتا ہے۔ اگر کوئی خاوند اپنی بیوی کو زنا کا مرتکب پا کر اسے پکڑ لیتا ہے تو یہ بیوی کے ذاتی معاملات میں مداخلت متصور ہو گا اور ایسا شوہر سزائے موت تک کا مستوجب ہو گا۔

معاہدہ نیویارک پر دستخط

حکومت نے شرعی احکام و قوانین کو نظرانداز کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے آزادی کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں جس کی رو سے عورت کے خلاف تمام امتیازی قوانین کالعدم ہیں۔ ایک غیر مسلم کو اجازت ہے کہ وہ ایک تیونسی مسلم خاتون سے شادی رچائے، اور اس کے لیے صرف ایک مرد و عورت کی گواہی کو کافی قرار دیا گیا ہے۔ تیونسی ارکانِ پارلیمنٹ نے بھی اس معاہدے کی توثیق کر دی ہے۔

مسلم مستورات کے لیے شرعی لباس کی ممانعت

قانون نمبر ۱۰۸ کے مطابق مسلم عورت کے لیے تمام سرکاری محکموں اور تعلیمی اداروں میں شرعی لباس پہننا ممنوع قرار دیا گیا ہے، اس لیے کہ اس سے تفرقہ پیدا ہوتا ہے، نیز یہ انتہا پسندی کی علامت ہے۔ باپردہ خواتین پر علاج کے لیے ہسپتالوں میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ محض نماز کی ادائیگی اور اسلامی لباس پہننے کے جرم میں خواتین کو گرفتار کر کے مقدمہ چلایا جاتا ہے اور سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔

سرکاری اداروں میں قائم مساجد کا انہدام

آرڈیننس نمبر ۲۹ کی رو سے تمام وہ مساجد منہدم کر دی جائیں گی جو پرائیویٹ اور پبلک محکموں میں قائم ہیں، جیسے یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کی مساجد، ہسپتالوں، بندرگاہوں، فیکٹریوں اور سرکاری محکموں میں موجود مساجد۔ مزدوروں اور ملازمین پر ڈیوٹی کے دوران نماز پڑھنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

قانونِ مساجد کا اجرا

اس قانون کی رو سے مسجدوں میں درسِ قرآن دینے اور املا کروانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ قانون پر عملدرآمد کے لیے حکومت نے پولیس کی ایک مخصوص جمعیت مساجد کی نگرانی پر مامور کر دی ہے۔ ہر نماز کے وقت مسجد صرف ۲۰ منٹ کے لیے کھلتی ہے، اس کے بعد پولیس کی یہ نفری مساجد کو نمازیوں سے خالی کرانے کی کاروائی کرتی ہے، نمازیوں کو باہر نکالتی ہے، تاخیر سے والوں کو مسجد میں داخل نہیں ہونے دیتی۔ اس قانون سے جامعۃ الزیتونہ بھی مستثنٰی نہیں ہے، البتہ اسے غیر ملکی سیاحوں کی آمد پر کسی وقت بھی کھول دیا جاتا ہے۔

مساجد میں نوجوانوں کی آمد

تیونس میں نوجوان نمازیوں کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ کسی ممنوعہ انتہا پسند تنظیم سے وابستہ ہیں، یا کسی دہشت گرد جماعت کے ارکان ہیں۔ حکومت کے اس رویے نے مسجدیں ویران کر دی ہیں اور نوجوان مسجدوں کا رخ کرتے ہوئے گبھراتے ہیں۔ مسلم نوجوان پولیس افسران کے سامنے عمداً اپنے دینی احساسات چھپاتے ہیں۔ صبح سویرے اٹھ کر وقت پر نماز ادا کرنا حکومت کے نزدیک انتہاپسندی اور دہشت گردی کی نشانی ہے، اور نوجوان سزا اور قید کے مستحق ہیں۔ پولیس صبح سویرے روشن ہونے والے گھروں کی بھی نگرانی کرتی ہے۔
اب حال یہ ہے کہ لوگ گھروں میں چھپ کر اندھیرے میں نماز پڑھتے ہیں۔ پولیس مشکوک نوجوانوں سے تفتیش کرتے وقت پہلا سوال یہ کرتی ہے کہ وہ نماز پڑھتا ہے یا نہیں۔ جواب اثبات میں ہو تو اسے طرح طرح کی سزائیں دی جاتی ہیں اور اس سے یہ اعتراف کرایا جاتا ہے کہ وہ ’’اخوانجی‘‘ ہے، یعنی اخوان کی طرف سے منسوب ہے۔ تیونس میں اخوانجی ہونا گویا ایک گالی ہے۔ اگر نوجوان اپنے نمازی ہونے کی نفی کر دے، دین سے اعلانِ بیزاری  کر دے، مگر پھر بھی  پولیس کو اس کے بارے میں شک ہو تو اسے دینِ اسلام اور ذاتِ الٰہی کو گالی بکنے کا حکم دیتی ہے۔ مزید رفع شک کے لیے گلاس میں شراب ڈال کر پینے کے لیے کہتی ہے۔

اسلامی لٹریچر کی چھانٹی کے لیے کمیٹی کا قیام

ایک کمیونسٹ ملحد کی سربراہی میں اعلیٰ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو اسلامی کتابوں کا جائزہ لیتی ہے اور پھر ایسی تمام کتابوں کو کتب خانوں سے ضبط کر لیا جاتا ہے، دکانوں اور نمائشوں میں ان کا رکھنا ممنوع ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ حکومت کے خیال میں اسلامی کتابیں انتہاپسندی کا منبع ہیں۔ مساجد میں قائم لائبریریوں کو بدعت قرار دے کر ختم کر دیا گیا ہے۔

رقص و سرود کے مخلوط کلبوں کا پھیلاؤ

شہروں، قصبوں اور دیہات میں رقص و سرود کے مخلوط کلب وسیع پیمانے پر قائم کر دیے گئے۔ نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کو ان میں شمولیت کی ترغیب دی جاتی ہے اور والدین اور سرپرستوں کو شرکت سے روکنے پر ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔

جادو، علمِ نجوم اور ٹونے ٹوٹکے کی ترغیب

عقیدۂ توحید کمزور کرنے اور لوگوں کے دلوں سے ایمان محو کرنے، گھروں کو اجاڑنے، بے حیائی اور بدکاری کے فروغ کے لیے حکومت جادو، ٹونے ٹوٹکے اور کہانت کے فروغ میں دلچسپی لیتی ہے۔ حکومت جادوگروں اور نجومیوں کو اپنے دفاتر کھولنے کی اجازت دیتی ہے، اخبارات اور رسالوں میں ان کے اشتہارات شائع کیے جاتے ہیں۔

ثقافت کے نام پر بے حیائی و بدکاری کی حوصلہ افزائی

حکومتِ تیونس نے ایک ویڈیو فلم کو تیونس کے دورِ جدید کے لیے باعثِ فخر قرار دیتے ہوئے اس میں کام کرنے والوں کو سرکاری انعام اور ثقافتی میڈل سے نوازا ہے۔ اس میں عورتوں کے حمام میں ایک نوجوان کو دکھایا گیا ہے جو بالکل برہنہ عورتوں کے قابلِ ستر مقامات کو گھور گھور کر دیکھ رہا ہے۔ مائیکل جیکسن گلوکار کا خود وزیر ثقافت نے ایئرپورٹ پر شاندار خیرمقدم کیا اور لوگوں نے اس کے پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

الحاد، زندقہ کا فروغ

پبلک مقامات، سرکاری مجالس، عام محافل اور ادبی نشریات میں الحاد و زندقہ کی لہر عام ہو رہی ہے اور قابلِ تکریم رشتوں اور ہستیوں کی توہین و بے قدری فیشن بنتا جا رہا ہے۔ تیونس میں خدائے ذوالجلال کی شان میں گستاخی اور گالیاں بکنے کی ایسی بری رسم ہے کہ دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتی۔

مخلوط ہوسٹل

تیونس میں یونیورسٹیوں میں مخلوط ہوسٹل تعمیر کیے گئے ہیں جس سے اخلاقی اور جنسی بے راہروی میں اضافہ ہوا ہے۔ حالت یہ ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے طلبہ اور طالبات کو کنڈوم دیے جاتے ہیں۔

اسرائیل کو تسلیم کرنا

صہیونی مملکت کو تسلیم کرنے کے بعد اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے گئے ہیں۔ تیونس اب بدکاری اور جنسی بے راہ روی کا ملک بن چکا ہے۔ وزارتِ صحت کی طرف سے بندرگاہوں پر قائم دفتر غیر ملکی سیاحوں کو ایک کارڈ دیتا ہے جس کارڈ پر لکھا ہے ’’ہر مشتبہ جنسی عمل کے وقت کنڈوم استعمال کیجئے۔‘‘

اسلامی سلام دعا کے الفاظ کا خاتمہ

تیونس سے اسلام کے نشانات مٹانے کے لیے اب ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ کے الفاظ بھی ممنوع قرار پا چکے ہیں کیونکہ سرکار کی نظر میں یہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کی علامت ہیں۔ یہ شدت پسندوں، بنیاد پرستوں اور اخوانجیوں (اخوان المسلمون والوں) کا سلام ہے۔ حکام نے ٹیلی ویژن، قومی اور مقامی ریڈیو پر ’’السلام علیکم‘‘ کے الفاظ کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔ عوام نے بھی الزام سے بچنے کے لیے ان الفاظ کو ترک کر دیا ہے۔

تعددِ ازواج پر پابندی

قانون نمبر ۱۸ کی رو سے ایک سے زائد شادی کرنے کو خلافِ قانون قرار دیا گیا ہے۔ حکومتِ تیونس نے شہری اور سیاسی حقوق کے متعلق اقوامِ متحدہ کو جو رپورٹ بھیجی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی تعددِ ازواج کے جواز میں رکھی گئی حکمت کو لغو قرار دیا گیا ہے۔
تیونس میں آج اسلامی قوانین اور روایات کو مسخ کرنے اور مٹانے کے لیے آزادی کے بعد وہ کچھ کہا گیا ہے جو فرانس کے دورِ غلامی میں بھی نہیں ہوا تھا۔ اس کی ایک جھلک سے یہ احساس بھی بیدار ہوتا ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں آزادی کے بعد اسلامی نظام کے لیے جو اجتماعی جدوجہد کی گئی اس کا یہ ثمرہ ہے کہ آج دینی قوتوں کو کام کرنے کا میدان ملا ہوا ہے۔ مواقع کا حق یہ ہے کہ انہیں زیادہ سے زیادہ حقیقی اسلامی بیداری کے لیے استعمال کیا جائے تاکہ ملک کے عوام کی اکثریت اسلامی نظام کی برکتوں کی قائل ہو، اور ایسی قیادت کا انتخاب کرے جو ملک میں اسلامی نظام فی الواقع قائم کرے۔ اس سے دوسرے مسلمان ملکوں میں اسلامی نظام کی جدوجہد کرنے والوں کو تقویت حاصل ہو گی اور راہیں کھلیں گی۔
(روزنامہ جرأت لاہور راولپنڈی مظفر آباد ۔ صفحہ ۵ ۔ ۵ نومبر ۱۹۹۹ء)

اسلام آباد میں چیچنیا کے سابق صدر کی گرفتاری

حامد میر

چیچنیا کے سابق صدر اور موجودہ چیچن حکومت کے مشیر سلیم خان کو اسلام آباد میں گرفتار کیے جانے کے افسوسناک واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ منگل کی صبح یہ واقعہ میرے علم میں آیا تو دل و دماغ کو ایک جھٹکا لگا۔ دوپہر کو پتہ چلا کہ سلیم خان کو رہا کر دیا گیا ہے۔ اس دوران عالمی ذرائع ابلاغ نے یہ خبر بھی نشر کر دی کہ چیچن مجاہدین نے گروزنی خالی کر دیا ہے۔ لہٰذا سلیم خان سے ملاقات ضروری ہو گئی۔
شام کو میں دھڑکتے دل کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کے رویے میں وہ گرمجوشی نظر نہ آئی جس کا مظاہرہ عام طور پر چیچن مجاہدین پاکستانی مسلمانوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ میں نے جھکی ہوئی نظروں کے ساتھ ندامت بھرے لہجے میں ان سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ آپ کے ساتھ جو ہوا اس کی تلافی تو حکومت ہی کر سکتی ہے لیکن پاکستانی عوام کا ایک حقیر نمائندہ بن کر آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے دل میں کسی غلط فہمی کو پیدا نہ ہونے دیجئے گا۔ سلیم خان نے ایک لمبی آہ بھری اور کہا کہ مجھے آپ کی عوام سے کوئی شکوہ نہیں لیکن جو سلوک میرے ساتھ یہاں ہوا وہ کسی دوسرے ملک میں نہیں ہوا۔ میں نے دوبارہ ہمت جمع کی اور پھر کہا کہ شاید یہ واقعہ کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ سلیم خان نے فوری طور پر کاٹ دار لہجے میں کہا کہ یہ سازش ہے اور حکومتِ پاکستان نے اس سازش کے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی نہ کی تو کل کو کوئی اور ناخوشگوار واقعہ بھی پیش آ سکتا ہے۔
میں نے موضوع بدلتے ہوئے کہا کہ گروزنی سے مجاہدین کی پسپائی میں کہاں تک صداقت ہے؟ سلیم خان کے باریش چہرے پر سرخی چھا گئی اور انہوں نے پُر اعتماد لہجے میں کہا کہ یہ پسپائی نہیں بلکہ جنگی حکمتِ عملی کے تحت پیچھے ہٹنا ہے۔ اگر روسی فوج میں ہمت ہے تو گروزنی میں داخل کیوں نہیں ہوتی؟ سلیم خان نے بلند آواز میں کہا کہ ہم آخری گولی اور خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے لیکن آپ سے درخواست ہے کہ ہماری کامیابی کے لیے دعا کریں۔ یہ درخواست سن کر میں نے دوبارہ نظریں جھکا لیں۔ سلیم خان میرے اندرونی احساسات کو بھانپ گئے اور انہوں نے ہمدردانہ لہجے میں کہا کہ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ بھول جاؤ اور کچھ مت لکھنا ورنہ خفیہ ادارے تمہیں بھی نقصان پہنچائیں گے۔ یہ سن کر میں بھڑک اٹھا اور گستاخی کرتے ہوئے بزرگ مجاہد سے کہا کہ ہمیں اتنا بھی بزدل مت سمجھیں کہ اپنے مہمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر اف بھی نہ کریں۔
سلیم خان نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ میں پاکستان کے جس حصے میں گیا وہاں مسلمانوں نے ہمارے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا۔ حکومتی ذرائع کا کہنا تھا کہ ہم اپنی ملاقاتوں کو منظر عام پر نہ لائیں اور لب و لہجہ بھی دھیما رکھیں۔ سلیم خان پوچھ رہے تھے کہ چیچنیا میں روسی جارحیت کے خلاف امریکی ذرائع ابلاغ اور امریکی حکومت بھی مذمت پر مجبور ہیں، پھر پاکستانی حکومت ہمارے معاملے میں اتنی محتاط کیوں ہے؟ سوال سن کر میں خاموش ہو گیا اور سوچنے لگا کہ روس دھڑا دھڑ بھارت کو اسلحہ فروخت کر رہا ہے، طالبان مخالف شمالی اتحاد کی مدد بھی کر رہا ہے، اور پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات میں کہیں گرمجوشی نظر نہیں آتی، پھر ہماری حکومت چیچن مجاہدین کی کھل کر حمایت کیوں نہیں کرتی؟ بہت سوچنے کے باوجود مجھے سلیم خان کے سوال کا جواب نہیں سوجھا تو میں نے رخصت لی۔ واپسی پر سلیم خان نے دوبارہ مشورہ دیا کہ میں ان کے ساتھ زیادتی کے خلاف لکھ کر کوئی خطرہ مول نہ لوں۔
بوجھل دل کے ساتھ دفتر واپسی پر میں نے وزیر داخلہ جناب معین الدین حیدر سے فون پر بات کی اور سلیم خان کی گرفتاری کی وجہ پوچھی۔ وزیر داخلہ کا جواب مزید پریشان کن تھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے تھوڑی دیر پہلے غیر سرکاری ذریعے سے اس واقعے کا علم ہوا ہے اور نہیں معلوم کہ واقعے کا ذمہ دار کون ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ آپ قومی مفاد میں اس واقعے پر کچھ نہ لکھیں۔ میں نے جواب میں کہا کہ قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ ان عناصر کا احتساب کیا جائے جنہوں نے ایک مظلوم اسلامی ملک کے نمائندے کی توہین کی ہے۔
وزیر داخلہ معین الدین حیدر ایک سچے اور محبِ وطن پاکستانی ہیں، ان کی رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن نیت پر شک ممکن نہیں۔ سلیم خان کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ یقیناً کسی خفیہ ادارے کے اہلکاروں کی بے وقوفی ہے کیونکہ جس دن یہ واقعہ ہوا اسی دن افغان وزارتی کونسل کے صدر ملا ربانی نے جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کی۔ سلیم خان کے دورہ پاکستان کے بارے میں وزارتِ خارجہ کے ’’بابو حضرات‘‘ کے تحفظات ہو سکتے ہیں لیکن جنرل پرویز مشرف ان کے لیے وہی جذبات رکھتے ہیں جن کا اظہار ملا ربانی کے ساتھ کیا گیا۔
ہمیں امید ہے کہ حکومت سلیم خان کی غلط فہمی دور کرے گی اور ان کے ساتھ زیادتی کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کرے گی کیونکہ سلیم خان اعلیٰ حکام کی اجازت سے ویزا لے کر پاکستان آئے تھے اور کئی دن سے پاکستان میں موجود تھے۔ وزیر داخلہ چاہتے تھے کہ ہم اس واقعے پر کچھ نہ لکھیں۔ میں نے ان کی ہدایت نظر انداز کی ہے کیونکہ میرے خیال میں ملکی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ اس افسوسناک واقعے کو سامنے لایا جائے تاکہ آئندہ اس قسم کی ۔۔۔۔

عالمی منظر

ادارہ

برطانیہ میں طلاق یافتہ حضرات کو دوبارہ نکاح کا حق

لندن (ا ف پ) اگر چرچ آف انگلینڈ نے منگل کو شائع ہونے والی رپورٹ کی منظوری دے دی تو مطلقہ لوگوں کو دوبارہ شادی کی اجازت مل سکتی ہے، لیکن برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس شاید اس سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق چرچ کی قائم کردہ ورکنگ پارٹی اس معاملے کا جائزہ لے کر پرانے قواعد تبدیل کرنے کی سفارش کرنے والی ہے جس کے تحت مطلقہ افراد کو، جن کے سابق شریکِ حیات ابھی تک زندہ ہیں، دوبارہ شادی کرنا منع ہے۔ اگرچہ ورکنگ پارٹی کا اصرار ہے کہ اس کا ترجیحی آپشن یہ ہے کہ شادی زندگی بھر کے لیے ہے لیکن اس نے برطانیہ میں طلاق کے بڑھتے ہوئے واقعات کا بھی اعتراف کیا۔
یہ رپورٹ چرچ آف انگلینڈ کے قانون ساز ادارے کو جاری کی جائے گی جو امید ہے کہ سفارشات کی منظوری دے دے گی۔ اگرچہ رپورٹ میں شہزادہ چارلس کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن ان کے حالات قریب سے دیکھے جا رہے ہیں۔ بادشاہ بننے پر چارلس چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ بن جائیں گے۔ وہ ابھی تک مطلقہ ہیں جبکہ ان کی پرانی دوست کمیلا پارکر کا سابق خاوند ابھی تک زندہ ہے۔ جب وہ دونوں دوسری شادی کے لیے چرچ جائیں گے اس وقت ایک اور پیچیدگی پیدا ہو گی، نئے قواعد کے مطابق مذہبی حلقوں کو کہا جائے گا کہ چرچ میں ایسی شادی کی اجازت نہ دیں جہاں کسی کے کسی اور سے غیر قانونی جنسی تعلقات قائم ہوں اور کوئی ایک دوسرے سے بے وفائی کرتا رہا ہو، جبکہ چارلس ڈیانا سے بے وفائی کا اعتراف کر چکے ہیں۔
رپورٹ میں دوسری شادی کی اجازت کے لیے واضح قواعد کی سفارشات کی گئی ہیں۔ خاص طور پر شادی ختم ہوئے کافی عرصہ گزر چکا ہو، اور دوسری شادی ایسی صورت میں ممنوع قرار دی گئی ہے جس کسی نے اپنے خاوند یا بیوی سے بے وفائی کی ہو جس کے باعث شادی ختم ہوئی۔ 
(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۲۶ جنوری ۲۰۰۰ء)

اوسلو کی مساجد میں اذانین دینے کی اجازت

سویڈش حکام نے دارالحکومت کی ۱۸ مساجد میں بلند آواز سے اذانیں دینے کی اجازت دی ہے۔ تاہم حتمی فیصلہ متعلقہ علاقوں کے کونسلروں کی مرضی سے ہو گا۔ اوسلو کے محکمہ اربن پلاننگ کے سربراہ نے قرار دیا ہے کہ اذان شور شرابا کم کرنے کے قانون کی زد میں نہیں آتی۔ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو اوسلو کے ایک علاقے میں پہلی بار بلند آواز سے اذان دی گئی تھی۔ شہر کی پانچ لاکھ آبادی میں ۳۶ ہزار مسلمان ہیں۔
(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۲۶ جنوری ۲۰۰۰ء)

مصر میں عورت کو طلاق کا حق مل گیا

قاہرہ (ٹی وی رپورٹ) مصر کی پارلیمنٹ نے متنازع مسودہ قانون کی منظوری دے دی جس کے تحت عورت کو طلاق دینے کا حق حاصل ہو جائے گا۔ یہ بل حکومت نے پیش کیا تھا، اسے بھاری اکثریت سے منظوری حاصل ہوئی۔
(روزنامہ جنگ، لاہور ۔ ۲۸ جنوری ۲۰۰۰ء)

اسٹیٹ بینک کا شرعی مالیاتی کمیشن

کراچی (نامہ نگار) وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی شریعت ایپلٹ بینچ کے ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلہ کے مطابق اسٹیٹ بینک میں ۱۱ رکنی اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کیا ہے جو موجودہ مالیاتی نظام کو شریعت کے مطابق بنانے کے عمل کو انجام دینے اور اس کی نگرانی کے لیے پوری طرح با اختیار ہو گا۔ اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر آئی اے حنفی اس کے سربراہ ہوں گے۔ کمیشن معیشت کو سود سے پاک کرنے کے قرین ایپلیٹ بینچ کے فیصلہ پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گا۔
کمیشن کے ارکان میں ایڈیشنل سیکرٹری فنانس ڈویژن چیئرمین سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان محمد یونس خان، اور چیف اکانومسٹ ایڈوائزر اسٹیٹ بینک ایم اشرف جنجوعہ شامل ہوں گے۔ جبکہ دوسرے ارکان اکانومسٹ سلمان شاہ، ڈاکٹر پرویز حسن ایڈووکیٹ، مولانا رفیع عثمانی، اسلامک اسکالر ذاکر نامزد صدر حبیب بینک، عامر ظفر خان نامزد صدر یو بی ایل، اور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ایس امجد  حسین، اسلامک ڈویلپمنٹ بینک کے ڈاکٹر فہیم خان کمیشن کے رکن اور سیکرٹری کے طور پر کام کریں گے۔
سپریم کورٹ کی شریعت ایپلیٹ بینچ کے فیصلہ کے مطابق ملک کی موجودہ سودی معیشت کو ختم کر کے اس کی جگہ غیر سودی معیشت قائم کی جائے گی۔ اعلیٰ اختیاراتی کمیشن ملکی طور پر با اختیار ہو گا جو فوری طور پر کام شروع کر دے گا۔ شریعت ایپلیٹ بینچ نے ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کو ایک فیصلہ کے تحت ہر سطح کے سود کو اور سودی کاروبار کو مکمل طور پر حرام قرار دیا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو تین ماہ کے اندر اس فیصلہ پر عملدرآمد کی ہدایت کی گئی جس کے لیے کمیشن قائم کر دیا گیا ہے۔
(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۲۳ جنوری ۲۰۰۰ء)

طالبان کی حکومت تسلیم کی جائے

نیویارک (کے پی آئی) افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندے نے نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کو افغانستان پر طالبان کی حکمرانی تسلیم کر لینی چاہیے اور اس جنگ زدہ ملک کی دوبارہ بحالی کی کوششیں شروع کرنی چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان نے افغانستان کے ۹۰ فیصد حصے میں امن قائم کر لیا ہے لیکن ان علاقوں کی تعمیر کے لیے ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں کیونکہ اس کی تعمیر پر بہت خرچہ ہو گا جو طالبان کی برداشت سے باہر ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کے متعلق مغربی ممالک میں جو تاثر پایا جاتا ہے وہ صحیح نہیں ہے، اقوام متحدہ اور دوسری امدادی ایجنسیاں افغانستان کو امداد فراہم کر رہی ہیں لیکن طالبان کی تحریک بنیاد پرستانہ تحریک سمجھی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغان عوام نے طالبان کو نجات دہندہ سمجھ کر خوش آمدید کہا کیونکہ وہ ۱۹۸۰ء کے بعد جنگی صورتحال سے نالاں تھے۔ عوام کو امن اور سلامتی کے علاوہ بھی بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے خواہاں ہیں اور اپنے ملک کی تعمیر کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں امدادی کارکنوں اور طالبان کو اکٹھے کرنے کا اہم تجربہ حاصل ہوا ہے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ وہ اس بات پر متفق ہیں کہ سچ کو سچ ہی کہنا چاہیے۔ لڑکیوں کے لیے سکول کھولے جا رہے ہیں، ان میں سے کچھ سرکاری سطح پر اور کچھ نجی سطح پر لوگ گھروں میں کھول رہے ہیں۔ طالبان انتظامیہ بیرونی ممالک کی خواتین کو بازاروں میں گھومنے سے منع نہیں کر رہی۔
(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۲۵ جنوری ۲۰۰۰ء)

نائیجیریا کی تیسری ریاست میں بھی شرعی قوانین کا نفاذ

لاگوس (ا ف پ) نائیجیریا کی تیسری ریاست کانو میں بھی شرعی قوانین نافذ کر دیے گئے ہیں۔ اس ضمن میں ریاستی پارلیمنٹ نے ایک بل کی منظوری دے دی ہے۔ ریاستی گورنر کے دستخطوں کے بعد بل باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کرے گا۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ آئینی لحاظ سے نائیجیریا ایک سیکولر ملک ہے جہاں مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی تقریباً برابر ہے۔ اس سے قبل ملک کی دو ریاستیں اسلامی قوانین نافذ کر چکی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق مزید دو ریاستیں بھی اسلامی قوانین کے نفاذ پر غور کر رہی ہیں۔
(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۲۵ جنوری ۲۰۰۰ء)

پاک فوج اور مغربی پریس

ہانگ کانگ (نیوز ڈیسک) فار ایسٹرن اکنامک ریویو نے پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ فوج کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے مغرب اور پاکستان کے علاقائی اتحادیوں نے ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے، تاہم آہستہ آہستہ پاکستان پر بین الاقوامی برادری کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ اسلام آباد میں غیر ملکی سفارتکاروں کے مطابق مغربی ممالک پاکستان کی طرف سے اندرونی اور بیرونی محاذ پر واضح پیشرفت دیکھنا چاہتے ہیں، جبکہ دوسری طرف پاک بھارت تعلقات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔
جریدے کے مطابق صدر کلنٹن اسی صورت میں پاکستان کا دورہ کریں گے جب فوجی حکومت بقول امریکہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کاروائی کرے گی، جبکہ کلنٹن بھارت کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر بھی آمادہ کریں گے۔
جریدے نے لکھا ہے کہ کرپشن اور اقتصادی حوالے سے عوام کی فوج سے توقعات پوری نہیں ہوئیں جس کی بدولت فوج کی عوامی مقبولیت کم ہوئی ہے، جبکہ فوج میں بنیاد پرستوں کو آگے لایا جا رہا ہے اور لبرل فوجی افسروں کو کھڈے لائن لگایا جا رہا ہے، جبکہ جنرل مشرف نے لبرل ہونے کا تاثر برقرار رکھا ہوا ہے۔
(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۲۳ جنوری ۲۰۰۰ء)

انڈونیشیا کے فسادات

لاہور (انٹرنیشنل ڈیسک) جزائر ملاکا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نے پورے انڈونیشیا کو لپیٹ میں لے لیا ہے جس سے انڈونیشیا کی حکومت ہل کر رہ گئی ہے۔ فار ایسٹرن اکنامک ریویو کی رپورٹ کے مطابق جکارتہ کی مسجد الاصلاح نے، جو مسلمانوں سے بھری پڑی تھی، ۹ جنوری کو جزائر مالاکا میں عیسائیوں کی جانب سے مسلمانوں پر تشدد کے خلاف آواز بلند کی۔ ان مسلمانوں نے کہا کہ اب تک ہزاروں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا ہے، ہزاروں مسلمان عورتوں کی بے حرمتی کی گئی ہے اور ہزاروں مسلمان بچے یتیم کر دیے گئے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ خونریزی ان کے اپنے ہاں بھی شروع ہو سکتی ہے۔
(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۱۸ جنوری ۲۰۰۰ء)

بلا سود بینکاری کے ۳۰ طریقے

دنیا میں بلا سود بینکاری کے ۳۰ طریقے ہیں۔ اس سلسلے میں کویت، ایران، سعودی عرب، سوڈان، ملائیشیا جیسے اسلامی ممالک کے علاوہ کینیڈا اور امریکہ میں تجربات ہو چکے ہیں۔ اس امر کا اظہار بینکار اور ماہرِ معاشیات سلیم سالم انصاری نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ مصنف نے قبل از اسلام سودی نظام کے حوالے بھی دیے ہیں اور تاریخی تناظر میں بھی اس کا جائزہ لیا ہے۔ اس کے علاوہ مضاربہ، مشارکہ، لیزنگ، لیٹر آف کریڈٹ کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔
(روزنامہ جنگ، لاہور ۔ ۲۰ جنوری ۲۰۰۰ء)

گوتم بدھ کا دوبارہ ظہور

بیجنگ (ریڈیو نیوز) چین کی جانب سے سرکردہ بودھ لیڈر کرماپالامہ کے بھارت فرار کے بعد ڈھائی سالہ بچے کی شکل میں گوتم بودھ کے دوبارہ ظہور کا اعلان کر دیا گیا ہے اور اس بچے کو مقدس قرار دینے کی مذہبی رسوم بھی ادا کر دی گئی ہیں۔ ’’سوشنام بنکوگ‘‘ نامی یہ بچہ تبت کے دارالحکومت لہاسہ کے شمالی مقام لہاری میں ۱۳ اکتوبر ۱۹۹۷ء کو پیدا ہوا۔ اس بچے کی مذہبی حیثیت کی توثیق بھارت میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے دلائی لامہ سے ضروری خیال کی جاتی ہے۔ بچے کو مقدس قرار دینے کے لیے لہاسہ کی ’’جوبکنگ‘‘ نامی خانقاہ میں تقریب ہوئی جس میں سرکردہ حکام نے بھی شرکت کی۔ اس بچے کو ’’رینوچی‘‘ کا مذہبی مقام دیا گیا ہے۔ تبت کے خودمختار علاقہ کے نائب صدر کی جانب سے بھی بچے کے ساتویں ’’رینوچی‘‘ ہونے سے متعلق تصدیقی سرٹیفکیٹ جاری کر دیا ہے۔
ادھر بھارتی وزیر دفاع جارج فرنانڈس نے کہا ہے کہ تبت سے فرار ہو کر آنے والے بودھ مذہبی لیڈر کرماپالامہ کو بھارت میں رہنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ وزیر مملکت امور خارجہ اجیت پانچا نے بھی کہا ہے کہ کرماپالامہ کو کچھ عرصہ کے لیے بھارت میں رہنے کی اجازت ہے۔ ’’نومولود بودھا‘‘ کی تاجپوشی کی ایک اور رسم ابھی باقی ہے جس کے بعد اس کی مذہبی زندگی کا آغاز ہو گا۔
(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۱۸ جنوری ۲۰۰۰ء)

چین، طالبان اور بھارت

نئی دہلی (جنگ نیوز) ٹائمز آف انڈیا نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کا دیرینہ دوست چین طالبان سے بھی تعلقات استوار کر رہا ہے اور اس نے طالبان کے وفد کو دورے کے لیے مدعو کیا تھا۔ کابل کے حکمرانوں کے لیے سلامتی کونسل کے طاقتور رکن سے شناسا ہونے کا یہ بہترین موقع رہا۔
رپورٹ کے مطابق چین اپنے سرحدی صوبے میں اسلامی تحریک سے پریشانی کے باوجود طالبان سے راہ و رسم اس لیے بڑھا رہا ہے کہ اسے اپنے صوبے میں بعض ایسی مشکلات درپیش ہیں جن سے نمٹنے کے لیے وہ طالبان سے مدد حاصل کر سکتا ہے۔ نیز اسے طالبان کی دہشت گردی سے بھی خطرہ نہیں کیونکہ اسے یقین ہے کہ اس کا دوست پاکستان ضرورت پڑنے پر طالبان پر قابو کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ چین کے پیپلز انسٹیٹیوٹ برائے خارجہ امور نے حال ہی میں طالبان کے ۳ رکنی وفد کو مدعو کیا تھا جس نے چین جا کر چینیوں سے ملاقات کی۔
(روزنامہ جنگ، لاہور ۔ ۲۰ جنوری ۲۰۰۰ء)

چین میں مردوں کو زچگی کی چھٹیاں ملیں گی

شنگھائی (اے ایف پی) چینی حکومت نے خواتین کی طرح مردوں کو بھی زچگی کی چھٹیاں دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ سرکاری فیملی پلاننگ کمیشن کے مطابق صوبہ ہیولانگ جیانگ میں ان خاوندوں کو تنخواہ کے ساتھ ۵ سے ۱۰ دن کی چھٹی دینے کے قوانین یکم فروری سے لاگو کیے جا رہے ہیں جن کی بیوی نے بچے کو جنم دیا ہو۔
(روزنامہ جنگ، لاہور ۔ ۲۱ جنوری ۲۰۰۰ء)

برما نے بنگلہ دیش سے ۱۴ ہزار مسلمان پناہ گزینوں کو واپس لینے سے انکار کر دیا

واشنگٹن (ریڈیو رپورٹ) برما نے بنگلہ دیش سے ۱۴ ہزار مسلمان پناہ گزینوں کو واپس لینے سے انکار کر دیا ہے۔ وائس آف امریکہ کے مطابق بنگلہ دیشی حکام نے بتایا کہ برما کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وہ ان پناہ گزینوں کو برما کے شہری نہیں مانتے، بنگلہ دیش کا کہنا ہے کہ یہ پناہ گزین ان کی معیشت پر بوجھ ہیں۔
(روزنامہ جنگ، لاہور ۔ ۲۱ جنوری ۲۰۰۰ء)

فلپائن کے مسلمان حریت پسندوں کی جدوجہد

زنگوانگا، فلپائن (ا ف پ) فلپائن کے جزیرہ جولو میں مسلمان حریت پسندوں اور فوجی دستے کے درمیان ایک جھڑپ میں چھ حریت پسند جاں بحق اور آٹھ فوجی زخمی ہو گئے ہیں۔ دونوں طرف سے فائرنگ کا سلسلہ ایک گھنٹے تک جاری رہا۔ جاں بحق ہونے والے ۶ افراد کی لاشیں تلاش کر لی گئی ہیں۔ فوجی دستے نے کمک طلب کر لی جس پر ہیلی کاپٹروں کے ذریعے مزید فوج بھیج دی گئی جس نے حریت پسندوں پر راکٹ برسائے۔ حکام کے مطابق گشت کرنے والے فوجی ایک گینگ کا تعاقب کر رہے تھے جس نے ایک مقامی تاجر کا اغوا کر لیا تھا، تاہم بعد میں اسے بخیریت رہا کر دیا تھا۔
(نوائے وقت، لاہور ۔ ۲ فروری ۲۰۰۰ء)

اٹھارہ ہزار امریکی فوجی مسلمان ہو گئے

واشنگٹن (کے پی آئی) امریکہ میں اٹھارہ ہزار فوجیوں نے اسلام قبول کر لیا۔ امریکی بحریہ کے ایک مسلم کپتان یحیٰی نے اپنے انٹرویو میں بتایا ہے کہ امریکہ کی بری، بحری اور فضائی افواج میں ۱۸ ہزار فوجی مسلمان ہو چکے ہیں۔ تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکی بحریہ میں آٹھ (ہزار) فوجی ایسے ہیں جنہوں نے فوج میں پہلے سے موجود مسلمان افسروں اہلکاروں سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا ہے۔ جبکہ کئی بڑے افسروں کو ان کی کارکردگی پر تعریفی اسناد اور میڈل ملنے کے بعد غیر مسلم امریکی فوجی بھی اسلام کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی بحریہ میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کے بعد بحریہ کے علامتی نشان میں بھی تبدیلی لائی گئی ہے، صلیب کے اندر چاند بنا کر نیا نشان تشکیل دیا گیا ہے۔
(روزنامہ اوصاف، اسلام آباد ۔ ۳۱ جنوری ۲۰۰۰ء)

ججوں کے حلف نامہ سے ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ خارج

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) سپریم کورٹ آف پاکستان کے نئے چیف جسٹس اور جج صاحبان، اور سندھ، سرحد، پنجاب، اور بلوچستان کی ہائیکورٹس کے چیف جسٹس اور جج صاحبان نے بدھ کی صبح عبوری آئین کے حکم کے تحت جو حلف اٹھایا اس میں انہوں نے دستوری حلف میں دیے گئے حلف کے یہ نکات نہیں پڑھے کہ
’’میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو برقرار رکھوں گا اور اس کا تحفظ اور دفاع کروں گا۔‘‘
اسی طرح انہوں نے دستور میں دیے گئے حلف کی یہ عبارت بھی نہیں پڑھی:
’’میں اپنے فرائض کارہائے منصبی ایمانداری، اپنی انتہائی صلاحیت اور وفاداری کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور اور قانون کے مطابق انجام دوں گا۔‘‘
عبوری آئین کے حکم نمبر ایک مجریہ ۱۹۹۹ء کے آرٹیکل ۳ کے تحت فاضل جج صاحبان نے جو حلف اٹھایا، اس کا متن درج ذیل ہے:
’’میں صدقِ دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں خلوصِ نیت سے پاکستان کا حامی اور وفادار رہوں گا کہ بحیثیت چیف جسٹس پاکستان، یا جج عدالتِ عظمٰی پاکستان، یا چیف جسٹس یا جج عدالتِ عالیہ، میں اپنے فرائض و کارہائے منصبی ایمانداری، اپنی انتہائی صلاحیت اور وفاداری کے ساتھ عبوری آئین کے حکم نمبر ایک آف ۱۹۹۹ء (جیسا کہ ترمیم شدہ ہے) اور ۱۴ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو نافذ شدہ ہنگامی حالت کے اعلان اور قانون کے مطابق سرانجام دوں گا، کہ میں اعلیٰ عدالتوں کونسل (سپریم جوڈیشیل کونسل) کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کی پابندی کروں گا، کہ میں اپنے ذاتی مفاد کو اپنے سرکاری کام یا اپنے فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہونے دوں گا، اور یہ کہ میں ہر حالت میں ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ بلا خوف و رعایت اور بلا رغبت و عناد قانون کے مطابق انصاف کروں گا۔ اللہ تعالیٰ میری مدد اور رہنمائی فرمائے، آمین۔‘‘
(روزنامہ جنگ، لاہور ۔ ۲۷ جنوری ۲۰۰۰ء)

کوفی عنان کی ہمدردیاں

گروزنی (آن لائن) اقوام متحدہ سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے کہا ہے کہ پوری دنیا دہشت گردی کے خلاف ہے اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دینا چاہیے، تاہم ان کے خلاف طاقت کے استعمال میں عام شہریوں کو محفوظ رکھا جائے۔ اپنے دورہ ماسکو کے دوران روسی عبوری صدر ولادمیرپوٹین کے ساتھ ملاقات کے بعد اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ان کی ہمدردی چیچن علیحدگی پسندوں کے خلاف لڑنے والے روسی فوجیوں کے ساتھ ہے تاہم اس لڑائی میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اس قسم کی کاروائیاں بہت سوچ سمجھ کر کرنی چاہئیں کیونکہ ان میں شہریوں کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۳۰ جنوری ۲۰۰۰ء)

چیچن مجاہدین پہاڑوں میں منتقل ہو گئے

گروزنی (ا ف پ) چیچنیا میں جانبازوں اور روسی فوج کے درمیان لڑائی ملک کے جنوبی پہاڑوں کی طرف منتقل ہو گئی ہے۔ روسی فوجی ذرائع کے مطابق گروزنی سے نکلنے والے جانبازوں نے شہر کے نواحی پہاڑی علاقہ میں پوزیشنیں سنبھال لی ہیں اور مورچہ بند ہو کر روسی فوج پر حملے کر رہے ہیں۔ فریقین نے ایک دوسرے کو بھاری جانی نقصان پہنچانے کے دعوے کیے ہیں۔ روسی فوج نے تباہ شدہ دارالحکومت میں اپنی پیش قدمی تیز کر دی ہے۔
فوج کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ جانبازوں کے شہر سے نکل جانے کے باعث مزاحمت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ روس کے فوجی عہدے داروں نے چیچن جانبازوں کے گروزنی سے نکل جانے پر حیرت کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ تقریباً ناممکن ہے کہ دو ہزار کے قریب جانباز روس کے مضبوط حصار کو توڑ کر شہر سے محفوظ انخلاء کر گئے ہیں۔ فوجی عہدے دار نے اسے مشکوک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ قیادت سے خفیہ ڈیل کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ عہدے دار نے مزید کہا ہے کہ وہ شہر کے باہر روسی فوج کی ایک دفاعی لائن کو توڑ سکتے ہیں، جبکہ اس طرح جُل دے کر نکلنا ممکن نہیں ہے۔
ادھر معلوم ہوا ہے کہ برطانوی اخبار دی ٹائمز سے وابستہ ایک صحافی کو روسی فوج نے حراست میں لے لیا ہے۔ صحافی گائلز ویل روسی فوج کو اپنی شناخت کرانے میں ناکام ہو گیا جس پر اسے حراست میں لے لیا گیا۔
(روزنامہ اوصاف ۔ ۴ فروری ۲۰۰۰ء)

سعودی عرب میں انتخابات نہیں ہو سکتے

ریاض (ا ف پ) ایک سعودی عہدے دار نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں انتخابات نہیں کرائے جا سکتے۔ مجلسِ شورٰی (مشاورتی کونسل) کے سربراہ الشیخ محمد بن ابراہیم الجبیر نے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال مجلسِ شورٰی کے ارکان کے انتخابات کے لیے الیکشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سعودی عرب میں انتخابات آئیڈیل راستہ نہیں ہے، کیونکہ ارکان کی نامزدگی کے لیے معیار کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے، جبکہ انتخابات میں اس معیار کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو مجلسِ شورٰی میں نمائندگی نہیں دی جا سکتی۔
الشیخ محمد بن ابراہیم الجبیر نے کہا کہ ۸۰ رکنی مجلسِ شورٰی کے لیے امیدواروں کی نامزدگی سینئر سعودی حکام پر مشتمل کمیٹی کرتی ہے جو حکومت کو مشورے دیتی ہے، تاہم اسے فیصلہ سازی کا اختیار نہیں ہے۔
ادھر شورٰی کے ایک رکن نے کہا کہ کمیٹی الشیخ محمد جبیر کے علاوہ وزیر داخلہ، گورنر ریاض، شاہ فہد، اور ولی عہد شہزادہ عبد اللہ کے مشیروں پر مشتمل ہے، تاہم حتمی فیصلہ خادمِ حرمین الشریفین خود کرتے ہیں۔
(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۳ فروری ۲۰۰۰ء)

اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات

ٹوبہ ٹیک سنگھ (نامہ نگار) مرکزی جامع مسجد اہلِ حدیث میں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے مرکزی رہنما ممبر اسلامی نظریاتی کونسل مولانا علامہ ارشاد الحق نے کہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ۱۹۷۳ء سے ۱۹۸۷ء تک فوجداری دیوانی دستور ترامیم پر نظرثانی مکمل کر کے اسے حتمی شکل دے دی ہے۔ اب دستور کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے تمام تجاویز چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل و ارکان چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کر کے انہیں پیش کر دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے معطل ہونے سے قادیانیوں نے دوبارہ سر اٹھایا ہے اور قادیانیوں نے مساجد میں بشیر الدین محمود کا ترجمہ شدہ قرآن رکھنا شروع کر کے اذان دینا شروع کر دی ہے۔ آئین میں دوبارہ اسلامی شقوں کے نفاذ سے یہ فتنہ ختم ہو جائے گا۔
(نوائے وقت، لاہور ۔ یکم فروری ۲۰۰۰ء)

دستور کی رو سے اسلامی دفعات کے تحفظ کا فرمان جاری کیا جائے

ادارہ

ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن آف پاکستان کے چیئرمین چوہدری ظفر اقبال ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کی دعوت پر مختلف دینی راہنماؤں اور ماہرینِ قانون کا ایک مشترکہ مشاورتی اجلاس ۶ فروری ۲۰۰۰ء کو نیو مسلم ٹاؤن لاہور میں مجلسِ احرارِ اسلام پاکستان کے دفتر میں منعقد ہوا جس میں ۱۹۷۳ء کے دستور کی معطلی اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے پی سی او کے تحت حلف نامہ میں ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کے نام سے ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ کے الفاظ حذف کیے جانے سے پیدا شدہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا کہ دستورِ پاکستان کے معطل ہونے کے بعد سے ملک میں قادیانیوں اور سیکولر لابیوں کی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ججوں کے حلف نامہ سے ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ کے الفاظ حذف ہونے سے پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت مشکوک ہو کر ایک سیکولر ملک کا تاثر ابھر رہا ہے۔ اسی طرح چیف ایگزیکٹو کی حکومت میں شامل بعض افراد کے بارے میں قادیانی ہونے یا بین الاقوامی سیکولر لابیوں سے ان کے تعلق کی افواہیں پھیل رہی ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ چیف ایگزیکٹو کی طرف سے اس سلسلہ میں پوری قوم بالخصوص دینی حلقوں کو اعتماد میں لیا جائے اور صورتحال کی وضاحت کی جائے۔ 
اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے چیف ایگزیکٹو سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ جس طرح ۱۹۷۷ء میں جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے ۱۹۷۳ء کا دستور معطل کرنے کے بعد دینی حلقوں کے مطالبہ پر عبوری آئین میں دستور کی اسلامی دفعات اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی دفعات کو بحال رکھنے کا اعلان کیا تھا، اسی طرح جنرل پرویز مشرف بھی پی سی او کے تحت ایک مستقل فرمان کے ذریعے ۱۹۷۳ء کے دستور کی اسلامی دفعات، عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ، قراردادِ مقاصد کی بالادستی، اور ملک کے نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کی بحالی کا اعلان کریں۔
اجلاس میں ملک بھر کی دینی جماعتوں کے قائدین سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس سلسلہ میں ٹھوس مشترکہ لائحہ عمل اختیار کر کے عقیدہ ختم نبوت کی دستوری حیثیت اور دستور پاکستان کی اسلامی دفعات کے تحفظ کے لیے بروقت اور موثر کردار ادا کریں۔
اجلاس میں طے کیا گیا کہ اس سلسلہ میں دینی جماعتوں کے راہنماؤں سے رابطہ کیا جائے گا اور لاہور کی سطح پر تمام دینی جماعتوں کا ایک مشترکہ مشاورتی اجلاس طلب کیا جائے گا تاکہ اس مسئلہ پر دینی جماعتوں کے باہمی تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے پروگرام مشترکہ طور پر طے کیا جا سکے۔
اجلاس میں مجلسِ احرارِ اسلام کے راہنماؤں مولانا سید عطاء المہیمن شاہ بخاری، مولانا محمد اسحاق سلیمی، چودھری ثناء اللہ بھٹہ، مولانا سید کفیل شاہ بخاری، عبد اللطیف خالد چیمہ، میاں اویس احمد، عالمی مجلسِ تحفظِ ختم نبوت کے مرکزی راہنما مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی اور پاکستان شریعت کونسل کے راہنماؤں مولانا زاہد الراشدی اور مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر کے علاوہ ممتاز قانون دان چودھری نذیر احمد غازی ایڈووکیٹ اور ملک رب نواز ایڈووکیٹ نے بھی شرکت کی۔

غیر سودی نظام کے لیے کمیشن کا قیام

ادارہ

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت بنچ کے ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے کے مطابق اسٹیٹ بینک میں ۱۲ رکنی اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کیا ہے جو موجودہ مالیاتی نظام کو شریعت کے مطابق بنانے کے عمل کو انجام دینے اور اس کی نگرانی کے لیے پوری طرح با اختیار ہو گا۔ اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر آئی اے حنفی اس کمیشن کے سربراہ ہوں گے۔ یہ کمیشن معیشت کو سود سے پاک کرنے کے فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گا۔
سپریم کورٹ کے شریعت بنچ نے ربوٰا کو حرام قرار دینے کا جو فیصلہ دیا ہے وہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک تاریخی فیصلہ ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا ہے اور قیامِ پاکستان کے موقع پر ہم نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان تمام دنیا کے لیے مینارۂ نور ثابت ہو گا اور ہم دنیا کو اسلام کے عادلانہ نظام کا نمونہ پیش کریں گے۔ قیامِ پاکستان کو نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے، اس دوران دینی جماعتوں کی طرف سے سود کے خلاف مہم چلتی رہی اور پاکستان میں سود سے پاک مالی نظام کے قیام کا مطالبہ ہوتا رہا لیکن حکومت نے اس کی طرف توجہ نہ کی۔
اب سپریم کورٹ کے شریعت بنچ نے اپنے ۲۳ دسمبر کے فیصلے میں ربوٰا کی ساری شکلیں غیر اسلامی قرار دی ہیں اور حکومت سے کہا ہے کہ وہ پاکستان میں غیر سودی مالی نظام قائم کرے۔ اس لحاظ سے حکومت کا یہ فیصلہ بڑا مستحسن ہے کہ اس نے اس فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے ایک گیارہ رکنی اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کیا ہے جو معیشت کو سود سے پاک کرنے کے لیے اپنی سفارشات پیش کرے گا۔
اس وقت دنیا میں مغرب کا مالیاتی نظام رائج ہے جو سر تا پا سود پر مبنی ہے۔ پاکستان بھی اس مالیاتی نظام میں جکڑا ہوا ہے۔ اس لحاظ سے غیر سودی نظام کا نقشہ پیش کرنا ایک جرأت مندانہ کام ہے اور اس کی توقع انہی لوگوں سے کی جا سکتی ہے جو اسلام کے مالیاتی نظام سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ اس پر پختہ ایمان بھی رکھتے ہوں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس اعلیٰ سطحی کمیشن کے قیام سے کوئی اچھا تاثر قائم نہیں ہوتا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ اس کمیشن میں کمٹڈ لوگ شامل کیے جاتے جو سود کو حرام سمجھتے۔ لیکن ایک آدھ کو چھوڑ کر اس کمیشن میں زیادہ تر ایسے لوگ شامل کیے گئے ہیں جو سود کے حق میں دلائل دیتے رہے ہیں۔ ایسے لوگوں سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اسٹیٹس کو سے ہٹ کر غیر سودی نظام کا نقشہ پیش کریں گے۔
اس کمیشن کے لیے انقلابی ذہنوں کی ضرورت تھی جو روایتی سودی نظام کو ختم کر کے غیر سودی اسلامی مالیاتی نظام پر یقین رکھتے ہوں۔ ہمیں امید ہے کہ حکومت اس کمیشن پر نظرثانی کرے گی اور ایسے لوگوں کو سامنے لائے گی جو واقعی کچھ کر کے دکھانا چاہتے ہوں۔ صرف لیپاپوتی کرنے والے نہ ہوں ورنہ حکومتی ارادوں کے بارے میں بھی شک و شبہے کا اظہار شروع ہو جائے گا۔
(ادارتی شذرہ نوائے وقت لاہور ۔ ۲۵ جنوری ۲۰۰۰ء)

کشمیر اور چیچنیا کے مجاہدین کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار

مولانا فداء الرحمٰن درخواستی

پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمٰن درخواستی نے کہا ہے کہ پاکستان کے عوام نے ۵ فروری کو ملک گیر ہڑتال اور ہمہ گیر تقریبات کے ذریعے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ کشمیری عوام کی جدوجہدِ آزادی میں پاکستانی عوام ان کے ساتھ ہیں اور وہ کشمیری عوام کی جدوجہد کو اپنی جدوجہد سمجھتے ہیں۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ برطانوی استعمار نے اپنے مخصوص مفادات کے لیے جان بوجھ کر کھڑا کیا تھا اور اقوامِ متحدہ کے واضح فیصلوں اور قراردادوں کے باوجود عالمی طاقتیں اس مسئلہ کو حل کرانے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہیں جس کی وجہ سے کشمیری عوام نے مجبور ہو کر بھارت کی مسلح جارحیت کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے ہیں اور وہ مسلسل جہاد میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام کا یہ مسلّمہ حق ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ آزادانہ رائے شماری کے ذریعے کریں اور بھارت عالمی فورم پر اس کا وعدہ کرنے کے باوجود کشمیری عوام کا یہ حق انہیں دینے سے انکاری ہے جس کی وجہ سے پورے جنوبی ایشیا کا امن خطرے میں پڑ گیا ہے۔ مغربی طاقتوں کا اپنا کوئی مفاد نہیں ہے اس لیے وہ مظلوم مسلمانوں کی پکار سننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مشرقی تیمور میں چند برسوں میں ریفرنڈم اور آزادی کا اہتمام کرنے والے عالمی اداروں نے کشمیر، فلسطین، چیچنیا، کسوو اور بوسنیا میں جو کردار ادا کیا ہے اس سے واضح ہو گیا ہے کہ یہ مغربی قوتیں مسلمانوں کے بارے میں معاندانہ رویہ اور دہرا معیار رکھتی ہیں اور جہاں مسلمانوں کے حقوق کی بات ہوتی ہے یہ منافقت کا شکار ہو جاتی ہیں۔
مولانا درخواستی نے کشمیری مجاہدین اور چیچنیا کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ہم آہنگی اور
یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اسلام آباد میں چیچنیا کے سابق صدر سلیم خان کی گرفتاری اور ان کے ساتھیوں پر خفیہ ادارے کے اہل کاروں کے تشدد کی شدید مذمت کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ چیچنیا کے سابق صدر کے خلاف اس شرمناک کارروائی کے ذمہ دار افسران کو معطل کر کے سزا دی جائے۔
پاکستان شریعت کونسل کے سربراہ نے کہا کہ ملک کی تازہ صورتحال اور نفاذ شریعت کی جدوجہد کو تیز کرنے کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے کونسل کی مرکزی مجلسِ شورٰی کا اجلاس عید الاضحٰی سے قبل طلب کیا جا رہا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

مارچ ۲۰۰۰ء

امریکہ، اسلام اور دہشت گردیمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
قربانی اور سنتِ نبویؐشیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر
بیت اللہ کی تعمیر کے مختلف مراحلشیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
فری میسن تحریک اور اس میں شمولیت کا حکمادارہ
چیچن مسلمانوں کے جہادِ آزادی کا پسِ منظرزیلم خان پاندرے
عالمی منظرادارہ
تعارفِ کتبادارہ
مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی دینی خدمات بے مثل ہیںاعجاز میر

امریکہ، اسلام اور دہشت گردی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’الشریعہ‘‘ کے گزشتہ شمارہ میں اسلام آباد میں متعین امریکہ کے سفیر محترم جناب ولیم بی مائیلم کے ایک خطاب کا متن قارئین نے ملاحظہ کر لیا ہو گا جو انہوں نے گزشتہ دسمبر کے اوائل میں لاہور میں ارشاد فرمایا ہے، اور اس میں انہوں نے عام طور پر پائے جانے والے اس ذہن اور تاثر کو غلط قرار دینے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ اور عالمِ اسلام اس وقت ایک دوسرے کے حریف کے طور پر آمنے سامنے کھڑے ہیں، اور امریکی فلسفہ اور اسلام کے درمیان کشمکش دن میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تصور غلط بلکہ خطرناک ہے اور ان کے خیال میں اس تصور کی بیخ کنی کرنا اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ضروری ہے۔ اور اسی مقصد کے لیے انہوں نے اپنے نقطہ نظر سے معروضی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ باور کرانے کی سعی فرمائی ہے کہ امریکہ اسلام کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ہے، جو بقول ان کے ایسے لوگوں کا پسندیدہ ہتھیار بن گئی ہے جنہیں عوامی اور اخلاقی حمایت حاصل نہیں ہوتی اور جو اپنی بات منوانے کے لیے سیاسی جدوجہد نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کے نظریات رائے عامہ کے لیے کشش رکھتے ہیں۔

جناب ولیم بی مائیلم کا کہنا ہے کہ امریکہ روادار، جمہوری اور جامع معاشروں کی حمایت کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اختلاف رائے کو مکالمہ اور ڈائیلاگ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جائے اور اپنی بات منوانے کے لیے تشدد کا راستہ نہ اختیار کیا جائے۔ ان کا ارشاد ہے کہ امریکہ خود اپنے معاشرے میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو سموئے ہوئے ہے اس لیے اس کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ مخاصمت رکھتا ہے۔

ہم انتہائی ادب و احترام کے ساتھ یہ عرض کر رہے ہیں کہ محترم ولیم بی مائیلم کا یہ موقف حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا، اور تاریخی پس منظر اور معروضی حقائق کا آئینہ دار ہونے کی بجائے صرف ان خواہشات کی عکاسی کرتا ہے جو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے حکمرانوں اور پالیسی ساز دانشوروں نے عالم اسلام اور مسلمانوں کے حوالہ سے یکطرفہ طور پر اپنے دلوں میں سجا رکھی ہیں۔ اور وہ یہ چاہ رہے ہیں کہ دنیا کے سوا ارب سے زائد مسلمان اپنے عقائد، کلچر، روایات اور مذہبی احکام و قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس ایجنڈے کو آنکھیں بند کر کے قبول کر لیں جو امریکہ کی قیادت میں مغرب نے ان کے لیے طے کر لیا ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ عالم اسلام میں دینی بیداری کی تحریکات کو فروغ حاصل ہو رہا ہے اور اسلام کے ساتھ مسلمانوں کی شعوری وابستگی میں مسلسل اضافے کے ساتھ ساتھ مغرب کے معاندانہ اور متعصب رویہ کا ادراک بتدریج بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ سے مسلم ممالک میں مغرب نواز حکمران طبقات اور اداروں کے لیے مغرب کے ایجنڈے پر آزادانہ طور پر عمل کرنا دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ اور اسی بات نے مسلمانوں کے بارے میں مغربی دانشوروں کی ذہنی الجھن کو جھنجھلاہٹ میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔

ہم جناب ولیم بی مائیلم کی طرح نظریات اور فلسفوں کی باریکیوں میں پڑنے کی بجائے معروضی حالات اور واقعات کے حوالہ سے اپنے موقف کے حق میں چند شواہد پیش کرنا چاہتے ہیں، مگر زیادہ تفصیلات میں جائے بغیر چند اصولی گزارشات پر اکتفا کریں گے تاکہ سفیر موصوف کے اس ارشاد کا حقائق کی بنیاد پر جائزہ لے کر تصویر کے اصل رخ سے قارئین کو متعارف کرایا جا سکے۔ ہم دو حوالوں سے اپنی گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں:

  1. ایک یہ کہ اس وقت عالم اسلام اور مسلم ممالک سے امریکہ کے تقاضے اور مطالبات کیا ہیں اور مسلمانوں کے معتقدات اور مسلمہ اسلامی تعلیمات کے پس منظر میں ان تقاضوں اور مطالبات کی نوعیت و حیثیت کیا ہے؟
  2. اور دوسرا یہ کہ ان تقاضوں اور مطالبات کے حوالہ سے مختلف ملکوں کے ساتھ امریکہ کے طرز عمل میں یکسانیت کا معیار کیا ہے؟ اور کسی جگہ اس یکسانیت کا فقدان نظر آتا ہے تو وہاں بادی النظر میں اس کے اسباب کیا ہیں؟

جناب ولیم بی مائیلم نے تو صرف یہ کہہ کر بات نمٹانے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ جامع، روادار اور جمہوری معاشروں کا حامی ہے۔ اور یہ کہہ کر انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی تعلیمات اور ان کی نمائندگی کرنے والی بعض اسلامی تحریکات اسلامی معاشرہ کے لیے جامع، روادار اور جمہوری تصور کو قبول نہیں کر رہیں، جس کی وجہ سے تضاد اور کشمکش کی فضا نظر آ رہی ہے۔ مگر وہ اس تفصیل میں نہیں گئے کہ جامع، روادار اور جمہوری معاشرہ سے ان کی مراد کیا ہے؟ اس لیے اس تفصیل کو جاننے کے لیے ہمیں امریکہ کی دیگر ذمہ دار شخصیات سے رجوع کرنا پڑ رہا ہے کہ جب کوئی امریکی راہنما کسی معاشرہ سے جمہوری، روادار اور جامع ہونے کا تقاضا کرتا ہے تو اس کے ذہن میں اس کا عملی خاکہ کیا ہوتا ہے؟ چنانچہ دو ذمہ دار امریکی عہدیداروں کے حالیہ خطابات اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی کرتے ہیں: ایک امریکہ کے نائب وزیر خارجہ کارل انڈر فرتھ ہیں جنہوں نے گزشتہ دنوں ہاورڈ یونیورسٹی واشنگٹن ڈی سی میں ’’امریکی اور جنوبی ایشیا نئی صدی میں‘‘ کے عنوان سے اس مسئلہ پر وضاحت کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ اور دوسرے امریکہ کے شعبہ عالمی امور میں ایشیا پیسفک سب کمیٹی کے چیئرمین ڈوگ بیرٹر ہیں جنہوں نے واشنگٹن ڈی سی کے ولسن سنٹر میں منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں اسی مسئلہ پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔

مسٹر کارل انڈر فرتھ نے جنوبی ایشیا کے لیے امریکہ کے چار نکاتی ایجنڈے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

  • ’’امریکہ اس خطے میں جمہوریت کا فروغ چاہتا ہے۔
  • اس کی معاشی ترقی کا خواہشمند ہے۔
  • اس خطہ کے عوام کی معاشرتی بہبود کے لیے کوشاں ہے، اور
  • عالمی رو (گلوبل مین اسٹریم) میں اس کی بھرپور شمولیت کے حق میں ہے۔‘‘

جبکہ معاشی ترقی کے حوالہ سے مسٹر ڈوگ بیرٹر امریکی عزائم کا ہدف ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ:

’’امریکہ کو اس امر پر توجہ کرنی چاہیے اور اپنے وسائل کو بڑھانا چاہیے تاکہ اس ریجن میں ہمارے تجارتی مفادات کو بڑھایا جا سکے اور اس علاقے میں امریکی اثر و رسوخ قائم رہے۔‘‘

جس کا مطلب واضح ہے کہ جنوبی ایشیا میں امریکہ کی معاشی پالیسیوں کا اصل مقصد اس خطہ کے عوام کی معاشی ترقی نہیں بلکہ اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ اور اپنے تجارتی مفادات کو بڑھانا ہے۔ اور ہمارا خیال ہے کہ ایجنڈے کی باقی شقوں کے حوالہ سے بھی امریکی پالیسیوں کا ہدف اس سے مختلف نہیں ہے۔ اور یہ صرف جنوبی ایشیا کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ دنیا کے ہر حصے کے لیے امریکی پالیسیوں اور تقاضوں کا اصل ہدف اور ٹارگٹ صرف اس کے اپنے مفادات ہوتے ہیں، اور اپنے مفادات و اغراض کے علاوہ اسے اور کسی بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ورنہ حالات کا تناظر اس طرح دکھائی نہ دے کہ پاکستان میں تو ایک جمہوری حکومت کی برطرفی امریکہ کے لیے تکلیف کا باعث ہو اور کارل انڈر فرتھ صاف طور پر یہ کہیں کہ:

’’اکتوبر میں پاکستان میں ہونے والے فوجی اقدام سے پورے جنوبی ایشیا کو دھچکہ لگا ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ یہ محض عارضی ہو گا، جس طرح جنرل نے کنٹرول حاصل کیا ہے ہم اس کی تائید نہیں کر سکتے، اور ہم نے ان سے اور ان کی منتخب کی ہوئی نئی انتظامیہ سے بغیر لگی لپٹی اس کا اظہار کیا ہے۔‘‘

مگر پاکستان کے پڑوس میں خلیج عرب کے ممالک بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں عوام کے سرے سے رائے دہی کے حق سے محروم رہنے پر امریکہ کو کوئی تشویش نہ ہو۔ اور اس کی ساری جمہوریت پسندی ایک طرف لگی لپٹی تیل کے چشموں کے پاس مدہوش پڑی رہے۔

جناب ولیم بی مائیلم کا یہ کہنا بھی مغالطہ نوازی کی انتہا ہے کہ وہ جسے دہشت گردی قرار دے رہے ہیں، یعنی اپنی بات منوانے کے لیے جبر و تشدد کا سہارا لینا، وہ صرف انہی گروہوں کا پسندیدہ ہتھیار ہے جو عوامی اور اخلاقی حمایت سے محروم ہوتے ہیں اور جن کے پروگرام میں رائے عامہ کے لیے کوئی کشش نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ الجزائر کی مثال اس سلسلہ میں ہمارے سامنے ہے کہ وہاں کی اسلامی جماعتوں نے اپنا نقطہ نظر عوام کے سامنے پیش کیا، ان کی ذہن سازی کی، ان کی حمایت حاصل کی اور وہاں کے عوام کی بھارتی اکثریت نے انہیں ۱۹۹۲ء کے عام انتخابات میں اپنی نمائندگی کے لیے منتخب کر لیا۔ اس وقت وہاں کسی طرف سے تشدد کا کوئی شائبہ موجود نہیں تھا، لیکن عوام کی اس رائے کو فوجی قوت کے زور پر ٹھکرا دیا گیا جس کے نتیجے میں وہاں تشدد کی لہر اٹھی اور امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک نے عوامی فیصلے اور جمہوری عمل کے خلاف فوجی آمریت کو سپورٹ کیا۔

اس لیے یہ کہنا کہ امریکہ کو جمہوری معاشرہ سے دلچسپی ہے، قطعی طور پر غلط ہے۔ امریکہ کو صرف اپنے مفادات سے غرض ہے۔ وہ اگر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں عوام کو سرے سے رائے کا حق نہ دینے، اور الجزائر میں عوامی رائے کو فوجی طاقت کے زور پر ٹھکرانے سے پورے ہوتے ہوں تو امریکہ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اور اگر پاکستان میں وہ مفادات ایک جمہوری حکومت کے ذریعے حاصل ہو رہے ہوں تو اس جمہوری حکومت کے خلاف فوجی جنرل کا اقدام امریکہ کے لیے ناقابل قبول ہو جاتا ہے۔

اسی طرح معاشرتی بہبود کا پہلو لے لیجئے جسے مسٹر کارل انڈر فرتھ نے جنوبی ایشیا کے لیے امریکی ایجنڈے کا اہم حصہ قرار دیا ہے، مگر اس کی تشریح امریکی رہنماؤں کے نزدیک خود کارل انڈر فرتھ کے بقول یہ ہے کہ:

’’حقوق انسانی کے لیے عالمی ڈیکلیریشن کے مطابق تعلیم، خواتین کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔‘‘

اور مسٹر ڈوگ بیرٹر اس کی تشریح کرتے ہیں کہ:

’’امریکی کمٹمنٹ کو ذہن نشین رکھتے ہوئے ہمیں باہمی، علاقائی اور کثیر القومی اپروچز استعمال کرنی چاہئیں تاکہ ہم اس خطہ میں ان اصولوں کو فروغ دے سکیں۔‘‘

امریکہ اور اس کے رفقاء اس حوالہ سے مسلمانوں کا یہ حق تسلیم نہیں کرتے کہ وہ انسانی حقوق، تعلیم، صحت اور دیگر مسائل میں اپنے مذہبی عقائد و احکام کی ترجیحات کا لحاظ رکھ سکیں، بلکہ وہ ان سے سیکولرازم اور حقوق انسانی کے عالمی ڈیکلیریشن کے ساتھ اسی کمٹمنٹ کی پابندی کرانا چاہتے ہیں جو امریکہ نے کر رکھی ہے، اور وہ اس کمٹمنٹ کا ساری دنیا کو پابند بنانے کے درپے ہیں، حالانکہ امریکی دانشور اچھی طرح اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ:

لیکن اس کے باوجود امریکہ اس چارٹر کو پورے عالم اسلام پر مسلط کرنے پر تلا ہوا ہے اور اس کو حتمی معیار قرار دے کر اس کے خلاف اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کے عقائد و نظریات اور روایات و اقدار کو کلیتاً مسترد کر رہا ہے۔ اور پھر اسے اس بات پر بھی اصرار ہے کہ اس کی اس مہم کو اسلام کے خلاف نہ سمجھا جائے اور امریکہ کو اسلام کا مخالف قرار نہ دیا جائے۔

جناب ولیم بی مائیلم نے جامع، روادار اور جمہوری معاشرہ کی بات کی ہے اور وہ مسلم ممالک سے تقاضہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے اندرونی دائروں میں ان تینوں اصولوں کی پابندی کریں۔ لیکن عالمی دائرے میں، جسے مسٹر کارل انڈر فرتھ نے ’’گلوبل مین اسٹریم‘‘ سے تعبیر کیا ہے، یہی تین اصول امریکی رہنماؤں کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔ اور وہ نہ صرف مسلم ممالک بلکہ چین اور دیگر کئی ممالک کا بھی یہ حق تسلیم نہیں کرتے کہ وہ اپنے عوام کی رائے کا احترام کریں اور اپنی قوم کے عقائد و روایات اور کلچر و تمدن کو ترجیح دیں۔ گویا ان ملکوں کے عوام کی رائے امریکی لیڈروں کے نزدیک ’’رائے عامہ‘‘ نہیں کہلاتی اور امریکی فلسفہ کے نزدیک رائے عامہ کا اطلاق صرف اس پر ہوتا ہے جس سے مغرب کے کلچر اور فلسفہ کو تقویت حاصل ہوتی ہو اور مذہبی اقدار کی بجائے مذہب بیزار رجحانات کو فروغ ملتا ہو۔ ورنہ امریکہ اور یورپ کے ممالک کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ محض اپنی سیاسی، سائنسی اور معاشی بالادستی کے زور پر ایشیا اور افریقہ کے ممالک کو ان کے عوام کی رائے، مذہب اور مرضی کے علی الرغم مغربی فکر و فلسفہ کو قبول کرنے پر مجبور کریں؟

اس لیے ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سفیر محترم سے عرض ہے کہ حالات کا رخ بالکل واضح ہے کہ امریکہ صرف اپنے مفادات کے حصول اور اپنےفکر و فلسفہ اور کلچر کے فروغ کے لیے سرگرم عمل ہے، اسے نہ جمہوری روایات اور رائے عامہ سے کوئی غرض ہے، نہ دوسری قوموں کے مذہبی تشخص کا کوئی پاس ہے اور نہ ہی ان کے کلچر اور ثقافت کی بقا سے کوئی دلچسپی ہے، حتٰی کہ اس کی جمہوریت پسندی، اس کے مفادات اور خودغرضی کی اس حد تک اسیر اور پابند ہے کہ کراچی میں اس کا فلسفہ و معیار اور ہوتا ہے اور اس سے صرف دو گھنٹے کی فضائی مسافت پر دوبئی میں اس کے نظریات اور افکار بالکل تبدیل ہو جاتے ہیں۔

لہٰذا اس نوعیت کے معروضی حقائق کی روشنی میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ امریکہ خود کو واحد سپر پاور سمجھتے ہوئے ’’گلوبل مین اسٹریم‘‘ کی قیادت اور کنٹرول سنبھالنے کے لیے بے چین ہے، اور چونکہ اس کے راستہ میں نظریاتی اور ثقافتی طور پر اسلام ایک مضبوط اور ناقابل تسخیر رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے اس لیے وہ اسلام کو اپنا حریف سمجھتے ہوئے اسلامی تصورات کو دبانے، اسلامی بیداری کی تحریکات کو کچلنے، اور مغربی ہٹ دھرمی اور ظلم و نا انصافی کے خلاف ردعمل کے طور پر ابھرنے والی قوتوں پر ’’دہشت گردی‘‘ کا لیبل چسپاں کر کے ان کی کردارکشی کی مہم میں مصروف ہے۔

آخر میں کچھ بات ’’دہشت گردی‘‘ کے حوالہ سے بھی ہو جائے کہ آخر امریکہ کے نزدیک اس کی تعریف کیا ہے؟ افغانستان کے حوالہ سے دیکھ لیں کہ وہی عمل افغان مجاہدین روس کے خلاف کریں تو امریکہ کے نزدیک یہ ان کا جہادِ آزادی ہے۔ اور اسی لہجے میں وہ امریکی مداخلت کو قبول کرنے سے انکار کریں تو وہ دہشت گردی قرار پائے۔ امریکی سفیر یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ طالبان نے اسامہ بن لادن کو پناہ دے رکھی ہے اس لیے وہ دہشت گرد ہیں، اس لیے کہ اسامہ بن لادن کو امریکہ نے دہشت گرد قرار دیا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ’’دہشت گردی‘‘ کا کوئی معروف اصول اور قانون بھی ہے یا امریکہ ہی دنیا کا واحد معیار ہے کہ جسے امریکی حکومت دہشت گرد کہہ دے اس پر وحی آسمانی کی طرح ایمان لانا پوری نسل انسانی کے ذمہ فرض ہو جاتا ہے؟

جناب ولیم بی مائیلم سے بڑے ادب کے ساتھ ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اگر بالفرض کسی وقت کوئی بڑی قوت امریکہ کی کسی ریاست میں اپنی فوجیں اتار کر اس کے تمام وسائل پر قبضہ کر لے، اور امریکہ میں ایسی حکومت ہو جو وہاں کے عوام کو ووٹ اور رائے کا حق دینے سے صاف انکار کر رہی ہو، اور اس شخصی آمریت اور قابض فوجی قوت کے درمیان گٹھ جوڑ کے خلاف آواز اٹھانے اور اپنی بات کہنے کا کوئی فورم موجود نہ رہا ہو، ایسے حالات میں اگر کوئی باغیرت امریکی شہری ’’اسامہ بن لادن‘‘ کی طرح تنگ آ کر غیر ملکی افواج کے تسلط سے اپنے وطن کو نجات دلانے کے لیے ہتھیار اٹھا لے تو کیا سفیر محترم اسے بھی دہشت گرد قرار دے دیں گے؟ اور آئندہ کیا، امریکہ تو ماضی میں اس مرحلہ سے گزر چکا ہے کہ برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف امریکی قوم نے اسی طرح ہتھیار بکف ہو کر آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ اور جناب ولیم بی مائیلم شاید یہ یاد دلانے کی ضرورت نہ ہو کہ امریکہ جس طرح آزادی کی بات کر رہا ہے خود اس کی اپنی آزادی کے پیچھے اسامہ بن لادن طرز کے کئی ’’دہشت گرد‘‘ تاریخ کے جھروکوں سے جھانک رہے ہیں۔ اور صرف برطانوی استعمار کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا عمل نہیں بلکہ افغانستان میں طالبان اور شمالی اتحاد کی باہمی جنگ کی طرح بلکہ اس سے کہیں خوفناک خانہ جنگی بھی امریکی آزادی کی بنیادوں میں صاف دکھائی دے رہی ہے۔

لہٰذا اپنے لیے الگ اور دوسروں کے لیے الگ معیار قائم نہ کیجئے، اور جن مراحل سے خود گزر کر اس مقام پر پہنچے ہیں، دوسری قوموں کو ان مراحل سے گزرتے ہوئے ان پر پھبتیاں کس کر اور انہیں طعن و طنز کا نشانہ بنا کر خود اپنے ماضی کی نفی نہ کیجئے کہ یہ زندہ اور انصاف پسند قوموں اور افراد کا شیوہ نہیں ہوتا۔ ہم نے صرف دو حوالوں سے مختصر گفتگو کی ہے:

  1. ایک یہ کہ امریکہ کی موجودہ مہم جوئی واضح طور پر اسلام اور اسلامی فلسفہ و تہذیب کے خلاف ہے۔
  2. اور دوسرا یہ کہ جس جمہوریت اور انسانی حقوق کا پرچم امریکہ نے اٹھا رکھا ہے اس کے بارے میں امریکہ نے مختلف علاقوں اور ملکوں کے لیے الگ الگ معیار قائم کر رکھا ہے۔

اس لیے جناب ولیم بی مائیلم کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ امریکہ اسلام کا مخالف نہیں ہے اور ان کا یہ ارشاد بھی حقائق کے یکسر منافی ہے کہ امریکہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم عمل ہے۔ بلکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ امریکہ انتہائی خودغرضی کے ساتھ صرف اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہا ہے اور اس کے مفادات کی راہ میں اسلام، جمہوریت یا انسانی حقوق میں سے جو فلسفہ بھی رکاوٹ بنتا ہے وہ اسے روند کر آگے بڑھنے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتا۔

قربانی اور سنتِ نبویؐ

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

(۱) حضرت ابو سعید الخدریؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یا اھل المدینۃ‘‘ اے مدینہ میں بسنے والو! قربانی کا گوشت تم تین دن کے بعد نہیں کھا سکتے۔ (مسلم ۔ جلد ۲ ص ۱۵۸ و مستدرک ۴ ص ۲۳۲)
یہ تین دن کی تخصیص صرف ایک سال ایک خاص اور معقول وجہ کی بنا پر تھی اور بعد کو اس سے زیادہ کی اجازت بھی مل گئی تھی۔ جیسا کہ انہی روایات میں اس کی تصریح موجود ہے۔
(۲) حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ہم قربانی کے گوشت کو نمک لگا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ طیبہ میں پیش کیا تھے۔ (بخاری ص ۸۳۵)
(۳) حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں ہمیں عید کی نماز پڑھائی۔ آپؐ نماز سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ بعض لوگوں نے نمازِ عید سے قبل ہی قربانی کر لی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تمہیں دوبارہ قربانی کرنا ہو گی۔ (مسلم جلد ۲ ص ۱۵۵)
(۴) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں کبھی اونٹ کی قربانی کی اور کبھی بھیڑ اور بکری کی۔ (سنن الکبرٰی ۹ ص ۲۷۲)
(۵) حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک سے مدینہ طیبہ میں دو مینڈھے قربانی دیے۔ (بخاری ۱ ص ۲۳۱)
(۶) حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ مدینہ طیبہ میں قربانی کے دنوں میں ایک کثیر تعداد قافلہ آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ تین دن سے زائد گوشت اپنے گھروں میں نہیں رکھا جا سکتا، باقی سب ان قافلہ والوں میں تقسیم کر دو۔ (موطا امام مالک ص ۱۸۸)
(۷) حضرت ابو زید انصاریؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انصار (مدینہ) کے گھروں میں سے ایک گھر کے سامنے سے گزر رہے تھے کہ آپ کو گوشت کی خوشبو محسوس ہوئی۔ آپ نے حضرت ابو بردہ بن نیارؓ کو تحقیقِ حال کے لیے بھیجا۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک انصاریؓ نے نمازِ عید سے قبل ہی قربانی کر لی ہے۔ چنانچہ حضورؐ نے اس کو دوبارہ قربانی کا حکم دیا۔ (ابن ماجہ ص ۲۳۵)
(۸) حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں اپنے ہاتھ سے اونٹوں کی قربانی دی اور اپنے ہاتھ سے وہ ذبح کیے۔ (نسائی ج ۲ ص ۱۷۹)
(۹) حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پورے دس سال مدینہ طیبہ میں اقامت پذیر رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے (ترمذی ج ۱ ص ۱۸۲ و مشکوٰۃ ص ۱۲۹)۔ بلکہ فیلسوفِ اسلام علامہ ابن رشدؒ (المتوفی ۵۹۵ھ) لکھتے ہیں کہ
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے، جیسا کہ آپؐ سے روایت کیا گیا ہے، کبھی قربانی ترک نہیں کی۔ حتٰی کہ سفر میں بھی آپ نے ترک نہیں کی، جیسا کہ حضرت ثوبانؓ کی روایت میں آتا ہے کہ آپؐ نے اپنے ہاتھ مبارک سے قربانی کی، پھر فرمایا کہ اے ثوبانؓ اس قربانی کا گوشت ٹھیک کر کے پکاؤ، چنانچہ میں مدینہ طیبہ تک آپؐ کو کھلاتا آیا۔ (محصلہ)
(۱۰) حضرت علیؓ ہر سال دو جانور قربانی دیا کرتے تھے، ایک اپنی طرف سے اور ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے، اور فرمایا کرتے تھے کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ جب تک زندہ رہوں آپؐ کی طرف سے قربانی کیا کروں۔ (مستدرک ۴ ص ۲۳۰)
(۱۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھے قربانی دیے اور فرمایا کہ ایک میری طرف سے اور ایک میری امت کے ان افراد کی طرف سے جنہوں نے توحید و رسالت کا اقرار کیا ہو گا لیکن قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے ہوں گے۔ (مستدرک ۴ ص ۲۳۸)
(۱۲) حضرت عاصم بن کلیبؒ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم فارس کے علاقہ میں دشمن سے جنگ کر رہے تھے اور ہمارے جرنیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابیؓ تھے۔ چنانچہ ہمیں یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ قربانی کے دن تو آ گئے ہیں اور ہمیں سال بھر عمر کی بکریاں دستیاب نہیں ہو سکتیں، تو حضرت مجاشع بن مسعودؓ نے فرمایا کہ اگر بکریاں نہیں مل سکتیں تو کیا حرج ہے، میں نے جناب رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ چھ ماہ سے زائد عمر کے دنبہ کی قربانی بھی جائز ہے، سو اس کی قربانی کر لو (مستدرک ۴ ص ۲۳۶، نسائی ج ۲ ص ۱۸۰، سنن الکبرٰی ۹ ص ۲۷۰)
(۱۳) حضرت ابو امام بن سہلؓ فرماتے ہیں کہ ہم مدینہ طیبہ میں قربانی کے جانوروں کو اچھی طرح پالا کرتے تھے۔ (بخاری ۲ ص ۸۳۳)

بیت اللہ کی تعمیر کے مختلف مراحل

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے بیت اللہ شریف کی تعمیر کی اور اس کی تجدید حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے ہوئی۔ اس کے بعد قبیلہ جرہم نے تعمیر کی۔ یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے سسرال کا خاندان ہے۔ پھر قوم عمالقہ کا ذکر ملتا ہے اور اس کے بعد قریش نے حضور علیہ السلام کے اعلانِ نبوت سے پانچ سال قبل بیت اللہ شریف کی تعمیر کی جب کہ اس کی چھت کمزور ہو چکی تھی۔ یہ وہی تعمیر ہے جس کے دوران حطیم کا حصہ خانہ کعبہ سے باہر نکالا گیا تھا جو آج بھی اسی حالت میں ہے۔ اس کے بعد عبد اللہ بن زبیرؓ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔ پھر عبد الملک بن مروان کے زمانے میں حجاج بن یوسف نے بیت اللہ کو گرا کر نئے سرے سے تعمیر کیا۔ اور پھر یہ آخری تعمیر ترکی عہدِ حکومت میں سلطان مراد کے زمانے میں ہوئی جو اب تک قائم ہے۔
البتہ موجودہ سعودی حکومت نے حرم شریف کی تعمیر میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ خانہ کعبہ کے گرداگرد ترکی عہد کے برامدوں کے پیچھے بڑے وسیع برامدے اور چاروں طرف سات بلند اور خوبصورت مینار تعمیر کیے ہیں۔ اب صفا و مروہ کا پورا حصہ ساتھ شامل ہو چکا ہے۔ اس دو منزلہ عمارت کا فرش سنگِ مرمر کا ہے جس پر دبیز قالین بچھائے گئے ہیں۔ آب زم زم کی فراہمی کے لیے جدید نظام قائم کیا ہے۔ حرمِ پاک میں روشنی کے لیے ٹیوب لائٹس اور فانوس روشن ہیں۔ برقی پنکھے ہمہ وقت چلتے رہتے ہیں اور لاؤڈ اسپیکر کا مربوط نظام قائم ہے۔
اہلِ کتاب نے اس مقدس مقام کی فضیلت کو کم کرنے کی غرض سے اپنی ہی کتابوں میں تحریف کی ہے۔ زبور میں موجود ہے کہ خدا کے مقدس بندے وادی بکہ میں گزریں گے۔ وہاں پر پانی کے چشمے کا بھی ذکر ہے۔ اس سے مراد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام ہیں۔ اور چشمہ سے مراد آب زم زم ہے۔ مگر انہوں نے ’’بکہ‘‘ کو ’’بکا‘‘ بنا دیا اور کہا کہ یہ وادی مکہ کا نہیں بلکہ وادی بکا کا ذکر ہے اور عربی زبان میں بکا سے مراد رونا ہے۔ اسی طرح ان کی کتابوں میں مروہ کا ذکر بھی ملتا ہے کہ اس مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی قربانی دی۔ مروہ سے مراد تو وہی صفا اور مروہ پہاڑیاں ہیں مگر انہوں نے اس لفظ کو بگاڑ کر موریا بنا دیا۔ یہ بھی ان کی تحریف کا ایک شاہکار ہے۔

مقامِ ابراہیم

فرمایا بیت اللہ شریف وہ مقدس مقام ہے ’’فیہ اٰیات بیّنات‘‘ جس میں واضح نشانیاں ہیں۔ منجملہ ان کے ’’مقامِ ابراھیم‘‘ مقامِ ابراہیم ہے۔ مقامِ ابراہیم کا ایک معنی تو یہ ہے کہ اس جگہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد اسماعیل علیہ السلام کے لیے اقامت گاہ بنایا جیسا کہ سورۃ ابراہیم میں موجود ہے: ’’ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم ۔۔۔ الخ‘‘۔ اے ہمارے پروردگار! میں اپنی اولاد کو تیرے حرمت والے گھر کے پاس بے آب و گیاہ زمین میں آباد کرتا ہوں تاکہ وہ نماز قائم کریں، تیری عبادت کریں اور دنیا کے دل وہاں کھنچے ہوئے آئیں، اور انہیں پھلوں سے روزی عطا فرما تاکہ وہ تیرا شکر ادا کریں۔ یہ ابراہیم علیہ السلام کی دعا تھی جو حرف بحرف پوری ہوئی ’’اطعمھم من جوع و اٰمنھم من خوف‘‘ اللہ نے انہیں بھوک سے نجات دی اور خوف سے امان بخشی۔ تو اس لحاظ سے اس میں بڑی واضح نشانیاں ہیں۔
عام مشہور یہ ہے کہ مقامِ ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ شریف تعمیر کیا تھا۔ خانہ کعبہ کی دیواریں جوں جوں اونچی ہوتی جاتی تھیں پتھر بھی خود بخود اوپر کو اٹھتا تھا، اور آپ اس پر کھڑے کھڑے تعمیر کا کام کرتے تھے۔ اس سخت پتھر پر اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کے پاؤں کا نشان بھی نقش کر دیا، جس کا مشاہدہ دنیا بھر کے لوگ آج تک کر رہے ہیں۔ پہلے یہ پتھر ایک دوسری عمارت میں بند کر کے رکھا گیا تھا، موجودہ حکومت نے اس کو شیشہ میں بند کر کے بابِ رحمت کے سامنے مطاف میں رکھ دیا ہے، یہ دیکھنے والوں کو بخوبی نظر آتا ہے۔ سعودی حکومت نے شیشہ کا یہ خول ۳۵ لاکھ ریال میں امریکہ سے خصوصی طور پر تیار کروایا تھا، بیک وقت دو خول بنائے گئے تھے تاکہ ایک ٹوٹ جائے تو دوسرا وہاں رکھ دیا جائے۔ یہ خاص قسم کا شیشہ ہے جو موسی اثرات سے محفوظ رہتا ہے، بہرحال مقامِ ابراہیم اللہ کی واضح نشانیوں میں سے ہے۔

فری میسن تحریک اور اس میں شمولیت کا حکم

ادارہ

رابطہ عالمِ اسلامی کی مجلسِ فقہی نے شعبان ۱۳۹۸ھ میں فری میسن تحریک میں شمولیت کے سوال کا جائزہ لیا اور اس پر مجلس کی جانب سے ایک جامع تبصرہ تحریر کیا گیا۔ اس کا ترجمہ میرپور آزاد کشمیر کے ضلع مفتی مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی کے قلم سے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

حمد و ستائش خدائے بزرگ و برتر کے لیے ہے اور صلوٰۃ و سلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی آل و اصحاب پر اور جنہوں نے راہِ ہدایت اختیار کی ان پر۔ مجمع الفقہی الاسلامی نے فری میسن تحریک اور اس کی رکنیت اختیار کرنے کے بارے میں اپنے اجلاس میں غور و خوض کیا۔ اس ضمن میں اس تحریک کا تمام لٹریچر کھنگالا گیا جس کے نتیجہ میں مجلسِ فقہ اس نتیجہ پر پہنچی کہ
  1. فری میسن تحریک ایک خفیہ تنظیم ہے جو حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ کبھی اپنی سرگرمیاں زیرزمین انجام دیتی ہے اور کبھی علی الاعلان۔ تاہم یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ دراصل یہ خفیہ تنظیم، اس کے ارکان بھی اس کی سرگرمیوں اور مقاصد سے بے خبر رہتے ہیں، حتٰی کہ اس تنظیم کے ایسے ارکان بھی اس کی خفیہ سرگرمیوں سے مکمل واقفیت نہیں رکھتے جو سالہا سال سے اس کے رکن ہیں اور تنظیم میں ذمہ دار مناصب پر فائز ہیں۔
  2. اس کے تمام ارکان ظاہری طور پر پوری دنیا میں انسانی بھائی چارے کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے سے روابط برقرار رکھتے ہیں، اور بظاہر اس تنظیم میں تمام ادیان و مذاہب کے لوگ بلا لحاظ عقیدہ و دین شریک ہیں۔
  3. یہ تنظیم لوگوں کو مالی، سیاسی منفعت کا لالچ دے کر اپنے ممبران میں شامل کرتی ہے اور پوری دنیا میں ہر حالت میں اپنے ارکان کے سیاسی مفادات کے لیے کام کرتی ہے خواہ وہ باطل پر ہی کیوں نہ ہوں، لیکن ان کے نزدیک فری میسن کا ہر رکن بہرحال حق پر ہے چاہے وہ باطل پر ہی کیوں نہ ہو۔
  4. اس تنظیم کی ممبر شپ حاصل کرتے وقت ایسی مجالس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں عجیب و غریب اشارات، علامات ہوتی ہیں۔ جن میں دہشت اور وحشت کے ایسے اسالیب اختیار کیے جاتے ہیں جن سے ممبر شپ حاصل کرنے والا شخص اولین مرحلے پر ہی ایسے خوف کا شکار ہو جاتا ہے کہ اگر اس نے کسی مرحلے پر بھی تحریک کے اسرار و رموز کو منکشف کیا تو اسے خوفناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
  5. اس تنظیم میں احمق اور بے وقوف قسم کے دیندار مجروں کو اپنے دین کے مطابق عبادت کی پوری آزادی دی جاتی ہے اور انہیں چھوٹے موٹے عہدے بھی دے دیے جاتے ہیں۔ تاہم ملحد اور بے دین اور دہریہ قسم کے ممبران مختلف ٹیسٹوں اور تجربات سے گزار کر اعلیٰ ترین مناصب پر فائز کر دیے جاتے ہیں تاکہ ان کی ذہانت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تحریک کے زیر انتظام جاری تخریب کاریوں کو تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔
  6. یہ تحریک پوری دنیا میں سیاسی کھیل کھیلتی ہے اور اقوامِ عالم میں اکثر انقلابات اور ملکوں کے اندرونی فسادات اور شورشوں میں اس تحریک کا خفیہ ہاتھ کارفرما ہوتا ہے۔
  7. یہ تحریک دراصل صہیونی تحریک ہے جو یہودیوں نے ہی قائم کی ہے اور پوری دنیا میں یہ تحریک یہودیت کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے۔
  8. یہ تحریک خفیہ طور پر تمام ادیانِ عالم کو ملیامیٹ کرنے اور ان کی اصلی شکل بگاڑنے کے لیے قائم کی گئی ہے، جبکہ اس کا اصلی ہدف اسلام اور مسلمانانِ عالم کے خلاف سازشوں کے لیے جال تیار کرنا ہے۔
  9. اس تنظیم کا بنیادی منشور یہ ہے کہ ہر ملک کی اعلیٰ ترین سیاسی، ادبی اور مالی اعتبار سے مستحکم شخصیات اور اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین کو قابو کیا جائے، تاکہ جس ملک میں جب چاہے اپنے مقاصد کے لیے انقلاب برپا کروا دے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تنظیم کی رکنیت کے لیے بادشاہوں، صدور اور عمائدینِ حکومت پر زیادہ توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔
  10. چونکہ یہ تنظیم خفیہ طور پر کام کرتی ہے اور لوگوں کی نظروں سے بچنے اور قانونی گرفت سے محفوظ رکھنے کے لیے اس تنظیم کے مختلف ادارے ظاہری ناموں سے کام کرتے ہیں، تاکہ فری میسن تحریک کو اگر کبھی کسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے تو یہ ادارے آزادی سے کام کرتے رہیں جو دراصل فری میسن کا دوسرا نام ہیں۔ ان میں سے دو ادارے ایسے ہیں جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، لائنز کلب اور روٹری کلب۔ ان کی تمام سرگرمیاں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہیں۔
مجمع الفقہی اس نتیجے پر پہنچا کہ فری میسن تحریک قطعی طور پر عالمی صہیونی تحریک ہے جو صرف اور صرف یہودی استعمار کی بین الاقوامی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قائم کی گئی ہے۔ اس کا مقصد فلسطینی سرزمین کو یہود کے پنجہ میں دینا، عرب حکمرانوں کو گمراہ کرنا، مسلمان ممالک میں اسلامی نظام کی راہ میں روڑے اٹکانا ہے، مقامی ایجنٹوں کی مدد سے شکوک و شبہات کی فضا پیدا کرنا، فرقہ واریت کا زہر پھیلا کر باہمہ گر مسلمانوں میں کشت و خون کا بازار گرم کرنا، مسلمانوں کی دفاعی قوت کو کمزور کرنے کے لیے مسلمانوں کی دفاعی افواج میں افراتفری اور فکری انتشار پیدا کرنا، اس کے اہم اہداف ہیں۔
لہٰذا جو شخص ان مقاصد کو جانتے ہوئے اس تحریک میں شامل ہو کر کام کرے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے، البتہ اگر کسی شخص کو ان مقاصد کا علم نہ ہو اور وہ رکن بن جائے تو وہ گناہگار ہو گا۔

دستخط

محمد علی الحرکان وائس پریزیڈنٹ، سیکرٹری جنرل رابطہ عالمِ اسلامی
عبد اللہ بن حمید صدر مجلس، صدر سپریم جوڈیشل کونسل، سعودی عرب

اراکین

عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز (رئیس ادارت الجرث العلمیہ والافتاء والدعوۃ والارشاد، سعودی عرب)۔ محمد محمود الصواف ۔ صالح بن عسیمین۔ محمد بن عبد اللہ السبیل۔ محمد رشید قبانی۔ عبد القدوس ہاشمی۔ مصطفٰی الزرقا۔ محمد رشیدی۔ ابوبکر کوی۔

چیچن مسلمانوں کے جہادِ آزادی کا پسِ منظر

زیلم خان پاندرے

چیچنیا کی موجودہ تحریکِ آزادی کا آغاز علمی و ادبی حلقے سے ہوا۔ مجھے ایک ادیب اور شاعر ہونے کے ناطے علمی و ادبی حلقوں میں اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا اور آپس کی گفتگو میں روسی مظالم اور چیچن قوم کی تہذیب و تمدن، ثقافت اور اسلامی تشخص، جسے روس مٹانے پر تلا ہوا تھا، موضوع بحث بنتے رہے۔ یہی وہ فکر، سوچ اور جذبہ تھا جس نے ہمیں آگے بڑھ کر اپنی ثقافت کے تحفظ اور اسلامی تشخص کو اجاگر کرنے اور آزادی کے لیے جدوجہد کرنے پر ابھارا۔
میں یونین آف رائٹرز فورم کا ممبر تھا اور ہمیں شاعری، نثر اور دیگر ادبی کتب کی تیاری اور اشاعت کا کام کرنا ہوتا تھا۔ اس فورم کے تحت اشتراکی نظریات کے پرچار کے لیے لٹریچر تیار کیا جاتا تھا۔ ہم نے شاعری، نثر اور دیگر ادبی اصناف میں اشتراکی نظریات کی آڑ میں چیچن انگش قوم کی تاریخِ حریت، ثقافت، تہذیب و تمدن اور ملی شعور کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ وطن سے محبت، حریتِ فکر، سچائی، دیانت داری اور عزت سے جینے اور آزادی کی سوچ دینے کی کوشش کی۔ اس میں اشتراکی نظریات کا پرچار بھی ہوتا تھا مگر یہ سب راہ ہموار کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ اس لٹریچر کے نتیجے میں چیچن قوم میں آزادی اور قومی تشخص کے لیے ایک تڑپ پیدا ہونے لگی۔
یہ ۱۹۷۵ء کی بات ہے۔ آہستہ آہستہ یونین آف رائٹرز فورم سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنتا چلا گیا۔ ہم چونکہ یہ کام بہت محتاط طریقے سے کر رہے تھے اس لیے ایک مدت تک کمیونسٹ پارٹی اور حکومت کو ہماری سرگرمیوں کا پتا نہ چل سکا۔ پھر حکومت کو کچھ شبہ ہوا تو اس نے اقدامات اٹھانا شروع کیے اور کے جی بی کے ذریعے کاروائیاں بھی کی گئیں۔
ہماری اس جدوجہد کے نتیجے میں عوام میں یہ سوچ جڑ پکڑنے لگی کہ کمیونسٹ پارٹی چیچن قوم کی دشمن ہے۔ یہ چیچن تہذیب و ثقافت اور ملی تشخص کو مٹا دینا چاہتے ہیں۔ یہی سوچ قومی سوچ کا رخ اختیار کرتی چلی گئی، اسی طرح سے یہ کوشش قومی تشخص اجاگر کرنے کا ذریعہ بن گئی۔ اس وقت ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ کام سیاسی بیداری کا ذریعہ بن جائے گا، ہمیں اس کی زیادہ توقع نہیں تھی۔ ہماری توقع سے بڑھ کر کام ہو گیا، پھر وہ وقت بھی آیا کہ ۱۹۷۹ء میں براہ راست حکومت اور چیچن انگش تصادم شروع ہو گئے۔
۱۹۸۹ء میں گوربا چوف کی گلاس ناسٹ اور پرسٹرائیکا اصطلاحات کے نتیجے میں کچھ سیاسی آزادی میسر آئی۔ سیاسی جماعتیں بنانے کی آزادی بھی مل گئی۔ چنانچہ ۱۹۸۹ء میں ماسکو سے واپسی پر میں نے وائی ناخ ڈیمو کریٹک پارٹی کی بنیاد ڈالی جسے ہم لوگ وائی ناخ جماعت کہتے تھے۔ پارٹی کے بنیادی مقاصد چیچن انگش قوم کو روس سے علیحدہ کرنا، آزادی حاصل کرنا اور اسلامی جمہوری نظام کا نفاذ تھا۔
۱۹۹۰ء تک یہ صورتحال تھی کہ چیچنیا کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ۷۰ فیصد تک روسی قابض تھے اور باقی ۳۰ فیصد پر چیچن انگش تھے۔ اس سے چیچن قوم میں روس سے نفرت پیدا ہو گئی اور ظلم و ستم کا احساس شدت پکڑنے لگا۔
۱۹۵۸ء میں جلاوطنی کے بعد جب ہم لوگ واپس اپنے وطن آئے تو گروزنی شہر میں ہمارے خلاف مظاہرے ہوئے کہ ہمیں نکالا جائے اور واپس بھیجا جائے، مظاہرین در پردہ روسی تھے۔ ۱۹۷۳ء میں انگش قوم کے جو علاقے واپس نہیں کیے جا رہے تھے ان کے لیے مظاہرے شروع ہوئے۔ مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا گیا، گرم پانی  پھینکا گیا اور دیگر حربے استعمال کیے گئے۔ اس طرح سے یہ ظلم  ستم کا سلسلہ چلتا رہا۔ عالم یہ تھا کہ جو بھی ادیب یا شاعر روس کے خلاف بات کرتا، اسے ستایا جاتا اور نوکری سے بھی نکال دیا جاتا۔
۱۹۹۰ء تک کوئی بھی چیچن انگش باشندہ اس ریاست کا سربراہ یا کسی نمایاں عہدے پر تعینات نہیں تھا۔ اگر کوئی چیچن نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی ریاست میں نوکری چاہتا تو اسے یہاں ملازمت نہ دی جاتی بلکہ روس بھیج دیا جاتا تاکہ روسی ثقافت میں ضم ہو جائے اور قومی تشخص نہ ابھر سکے۔ حتٰی کہ جو نوجوان دس پندرہ سال کی ملازمت کے بعد بھی چیچنیا اپنی ریاست میں واپسی یا تبادلے کے لیے کہتے تو ان کا تبادلہ نہ کیا جاتا اور ان کے بجائے روسی افسر نامزد کیے جاتے۔ اگر نوجوان اپنی ثقافت، روایات، اسلامی تشخص کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے تو انہیں نوکری سے نکال دیا جاتا اور جیل بھیج دیا جاتا۔ یہ سب ظالمانہ اقدام چیچن قوم کے تشخص کو مٹانے اور ان کی آزادی کی تحریک کو دبانے کے لیے کیے جاتے رہے۔ یہ ان مظالم کی ایک معمولی جھلک ہے جو روسی، چیچن قوم پر ڈھاتے رہے۔ تمام تر مظالم کے باوجود روسی، چیچن عوام کے دل سے جذبۂ جہاد اور آزادی کی تڑپ نہ نکال سکے۔
چیچن لوگ کس قسم کے عزم و ہمت کے مالک ہیں اور روسی ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ اس کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ روس میں جبری فوجی ملازمت کے دوران چیچن نوجوان روسی افسروں سے قطعاً نہ ڈرتے تھے بلکہ اپنے رعب و دبدبے سے ان سے اپنے کپڑے حتٰی کہ موزے تک دھلوا لیا کرتے تھے، چاہے اس کے نتیجے میں انہیں کتنی ہی سزا کیوں نہ بھگتنا پٍڑتی۔ یہ بات مشہور تھی کہ ایک فوجی دستے میں دو چیچن نہیں ہونے چاہئیں، ایک ہی بہت ہوتا ہے۔ اگر کسی دستے میں دو چیچن سپاہی ہو جاتے تو وہ سب پر حاوی ہو جاتے۔ شاید روس کے موجودہ وزیراعظم سے کسی چیچن نے ایسا ہی سلوک کیا ہو جو وہ آج بدلہ لے رہا ہے۔
چیچنیا کی تحریکِ آزادی اسی طرح آگے بڑھتی رہی۔ ہم نے کبھی روسی قانون کو تسلیم نہیں کیا، ہمارے علاقوں میں اپنا قانون تھا۔ ہم نے اسلامی شریعت نافذ کر رکھی تھی۔ جو بھی روسی قانون ہوتا ہمارے قبائل اسے شریعت کے مطابق پاتے تو قبول کر لیتے وگرنہ رد کر دیتے تھے۔ گویا ہماری قوم نے روسیوں اور روسی نظام کو ذہنی طور پر کبھی بھی قبول نہ کیا اور نہ ہی تسلیم کیا۔
اس تحریک کو وائی ناخ جمہوری پارٹی کنٹرول کرتی رہی۔ پھر وہ مرحلہ بھی آیا کہ جہاں کہیں کسی روسی نے کسی چیچن پر ظلم کیا، کسی عورت سے بدسلوکی کی گئی تو لوگ گھروں سے نکل آتے، مظاہرے کرتے اور حکومت کے خلاف نعرے لگاتے اور انتظامیہ کے ساتھ تصادم بھی ہوتا۔ اس طرح بتدریج یہ تحریک ایک قومی تحریک میں بدل گئی۔ پوری قوم کی ایک ہی آرزو تھی کہ روس سے نجات اور آزادی حاصل کی جائے۔
نومبر ۱۹۹۰ء میں وائی ناخ ڈیموکریٹک پارٹی نے پوری چیچن قوم کی نمائندگی کے لیے نیشنل کانگرس بلائی، اس میں حکمران پارٹی کے لوگ بھی شریک ہوئے۔ کانگرس میں چیچنیا کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کی قرارداد منظور کی گئی۔ حکومت نے بھی قومی دباؤ کے پیشِ نظر اس قرارداد کی تائید کی اور چیچنیا کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ انہیں خدشہ تھا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو قوم اٹھ کھڑی ہو گی۔ ماسکو نے اس فیصلے پر تنقید تو کی لیکن کوئی ایکشن نہ لیا۔ ان کا خیال تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات دب جائے گی۔
ایک سال کے اندر اندر چیچن عوام کے دباؤ میں اس قدر اضافہ ہوا کہ حکومت مفلوج ہو کر رہ گئی۔ حکومت نے آزادی کا اعلان تو کیا مگر وہ چالبازی کر رہے تھے اور ٹال مٹول سے کام لے رہے تھے۔ عملاً حکومت نیشنل کانگرس کے ہاتھ آ گئی تھی۔
۲۷ اکتوبر ۱۹۹۱ء کو چیچن انگش پارلیمانی اور صدارتی انتخابات ہوئے۔ اس کے بعد انگش باشندوں نے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا، وہ روسی حکومت کے تحت ہی رہنا چاہتے تھے، ہم نے بھی انہیں مجبور نہ کیا۔ اس طرح سے پہلی چیچن پارلیمنٹ وجود میں آ گئی اور جوہر داؤد صدر بن گئے۔ اس وقت میں پارلیمنٹ کا رکن تھا۔ پھر ۱۹۹۳ء میں مجھے نائب صدر کے لیے چن لیا گیا۔
ان انتخابات کے بعد روس سے کئی بار بات چیت، مذاکرات ہوئے اور آزادی کی بات ہوئی۔ یورپ کے کچھ ممالک مثلاً فن لینڈ، جارجیا، آرمینیا، لتھونیا، اسٹونیا وغیرہ بھی ہماری آزادی کے حق میں تھے۔ اسی بنا پر ہم نے اقوامِ متحدہ اور دیگر ممالک سے درخواست کی کہ وہ ہماری آزادی تسلیم کر لیں۔ اقوامِ متحدہ کو ۷۶ مختلف دستاویزات بھیجی گئیں کہ وہ ہماری آزادی اور قانونی حیثیت کو تسلیم کریں۔ جبکہ ۱۲ مارچ ۱۹۹۲ء کو چیچن پارلیمنٹ سے ملک کا دستور بھی منظور کیا جا چکا تھا۔ خاص طور پر یہ بات بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ یہ آزادی سیاسی طور پر حاصل کی گئی تھی، کسی جنگ و جدل یا غیر سیاسی ہتھکنڈوں کے ذریعے حاصل نہیں کی گئی تھی۔
جون ۱۹۹۲ء میں چیچنیا سے تمام روسی افواج کو نکال باہر کیا گیا۔ یہ ایک تاریخ ساز واقعہ تھا کہ پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ سوویت یونین کی کسی ریاست سے یا دنیا کے کسی ملک سے روسی فوجوں کو اس طرح سے نکالا گیا ہو۔ اس کے بعد پھر دیگر بالٹک ریاستوں سے روسی فوجیں نکلی تھیں۔ اس دوران روس سے کئی بار مذاکرات ہوئے جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ آئینی اور دستوری لحاظ سے ہمیں ایک دوسرے کو تسلیم کر لینا چاہیے، مگر روس اس کے لیے تیار نہ تھا۔
چیچنیا کی آزادی کے بعد روس نے ہماری آزادی کو تسلیم کرنے کی بجائے سازشیں شروع کر دیں۔ کے جی بی کے ذریعے دہشت گردی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ہماری اہم تنصیبات کو دھماکوں سے اڑایا گیا۔ جوہر داؤد پر کئی مرتبہ قاتلانہ حملے ہوئے جن میں ہمارے کئی وزیر ہلاک ہو گئے۔ مجھ پر بھی حملہ کیا گیا۔ روس تخریب کاری اور دہشت گردی سے اس ریاست کو ختم کر دینا چاہتا تھا۔ اس کام کے لیے اس نے چیچن باشندے اور اپنے تخریب کار بھی استعمال کیے۔ روسی حکومت نے کئی مرتبہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششیں کیں لیکن ہر دفعہ ان کو ناکامی ہوئی۔ روس نے سیاسی طور پر انتشار پھیلانے کی کوشش بھی کی اور ایک مصنوعی اپوزیشن گروپ اسمبلی میں بنا کر اپنے مقاصد پورے کرنا چاہے۔
جب ان تمام کوششوں میں اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو ۲۶ نومبر ۱۹۹۴ء کو ریگولر آرمی کو چیچن باشندوں کے لباس اور بہروپ میں چیچنیا میں داخل کر دیا۔ گروزنی پر یہ حملہ صبح سویرے کیا گیا مگر دوپہر تک اس حملے کو پسپا کر دیا گیا۔ تقریباً دو سو فوجی گرفتار کیے گئے۔ ۶۰ حملہ آور ٹینکوں میں سے ۱۰ صحیح سلامت پکڑ لیے گئے اور باقی تباہ کر دیے گئے۔ اس ناکامی کے بعد روس نے اسے تختہ الٹ دینے کی اندرونی سازش قرار دیا۔ اس پر ہم نے گرفتار روسی فوجیوں کو ٹی وی پر دکھایا اور ان کی تصاویر جاری کر دیں۔ اس سازش کے بے نقاب ہو جانے پر اور عالمی سطح پر شرمندگی سے بچنے کے لیے روس نے مختلف روسی سیاسی لیڈروں اور جماعتوں کے ذریعے درخواست کی کہ گرفتار فوجیوں کو چھوڑ دیا جائے۔ مذاکرات کے نتیجے میں روسی حکومت نے وعدہ بھی کیا کہ آئندہ حملہ نہیں کیا جائے گا۔ مگر جیسے ہی قیدی واپس کیے گئے روس وعدے سے پھر گیا۔ چیچن فوج کو ہتھیار ڈالنے اور روس کے وفاق کا پابند رہنے کو کہا گیا اور حملے کا الٹی میٹم دے دیا۔
بالآخر ۱۱ دسمبر ۱۹۹۴ء کو دوبارہ حملہ کر دیا گیا۔ جوہر داؤد نے مذاکرات کی کئی بار کوشش کی، اقوامِ متحدہ اور دیگر اداروں کو روسی جارحیت پر متوجہ کیا مگر بے سود رہا۔ اس جنگ میں ایک لاکھ بیس ہزار چیچن باشندے کام آئے جبکہ مکانات، عمارات اور ہسپتال تک تباہ و برباد کر کے رکھ دیے گئے۔ جوہر داؤد کی شہادت کے بعد صدارت کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔
۲۷ مئی ۱۹۹۶ء کو ماسکو میں صدر یلسن اور میرے درمیان عالمی پروٹوکول کے مطابق مذاکرات ہوئے، جس کے نتیجے میں یہ بات طے پائی کہ لڑائی بند کی جائے۔ یہ مذاکرات یورپی یونین کی کوششوں سے ممکن ہوئے تھے۔ کچھ دن کے امن کے بعد روس نے اپنے تمام تر وعدوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پھر لڑائی شروع کر دی۔ اس دوران ہم نے چیچنیا میں اسلامی نظامِ شریعت بھی نافذ کر دیا۔ روس نے گروزی پر ایک بار پھر قبضہ کر لیا۔ روس نے ایک ماہ سے زائد مدت میں یہ قبضہ کیا تھا مگر کچھ عرصے کے بعد ہم نے صرف ایک گھنٹے کے اندر اندر گروزنی آزاد کروا لیا۔
یورپی یونین کے تعاون سے ۳۱ دسمبر ۱۹۹۶ء کو ایک بار پھر روس اور چیچنیا کے درمیان مذاکرات ہوئے جس کے نتیجے میں روس کو اپنی فوج نکالنا پڑی۔ معاہدے میں یہ بھی طے پایا کہ چیچنیا میں ازسرنو انتخابات کروائے جائیں تاکہ ایک منتخب حکومت بنے جسے روس تسلیم کرے گا۔ روسی حکومت گزشتہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو تسلیم نہیں کرتی تھی۔
جنگ کی تباہی کے بعد انتہائی کٹھن حالات میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوتا تھا مگر ہم نے امن کی خاطر نئے انتخابات بھی کروائے۔ یہ انتخابات چیچنیا کے دستور کے تحت ہوئے تھے جنہیں دنیا بھر میں تسلیم کیا گیا۔ ان آزاد انتخابات کا روس سمیت عالمی اداروں اور یورپی نمائندوں کی ایک بڑی ٹیم نے براہ راست مشاہدہ کیا اور منصفانہ قرار دیا۔ روسی حکومت نے ارسلان مسخادوف کو باقاعدہ صدر بننے پر مبارکباد دی۔ اس کے بعد یلسن اور ارسلان مسخادوف کے درمیان ماسکو میں مذاکرات ہوئے جس کے تحت ایک معاہدہ امن پر دستخط بھی ہوئے۔ یہ معاہدہ ۱۲ مئی ۱۹۹۷ء کو ماسکو میں ہوا۔ اس طرح سے قانونی طور پر یہ بات واضح ہو گئی کہ روس نے چیچنیا کو تسلیم کر لیا ہے۔
اس لحاظ سے اگر آئینی، دستوری اور دنیا کے مُسلّمہ اصولوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو روسی فوجوں کے انخلا کے بعد چیچنیا کے دستور کے تحت منصفانہ انتخابات کا ہونا، جنہیں روس نے عالمی سطح پر تسلیم کیا ہو، اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ چیچنیا ایک خودمختار اور بااختیار ریاست ہے جسے تسلیم کیا جانا چاہیے۔ چنانچہ ہم نے اقوامِ متحدہ اور دیگر مسلم و غیر مسلم ممالک سے درخواست کی کہ چیچنیا کی حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ مگر روس نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے درپردہ اپنے سفارتکاروں کے ذریعے مختلف ممالک پر دباؤ ڈالا جنہوں نے روس کے خوف کی وجہ سے ہمیں تسلیم نہ کیا۔
اگر غور کیا جائے تو اس لحاظ سے گزشتہ دس برس سے چیچنیا ایک آزاد اور خودمختار ریاست ہے۔ ہم نے تمام تر جدوجہد آئینی اور قانونی اصولوں کے مطابق کی ہے۔ روس سے متعدد معاہدے بھی کیے ہیں جن سے وہ پھرتا رہا ہے۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ دنیا کے ممالک ہمیں تسلیم نہ کریں۔ مسلمان ممالک کا تو فرض ہے کہ اس جارحیت اور ظلم و ناانصافی کے پیش نظر ہمیں نہ صرف تسلیم کریں بلکہ ہماری اخلاقی و مادی مدد بھی کریں۔ پاکستان جس کا عالمِ اسلام میں ایک منفرد مقام ہے، اس سے ہماری خاص طور پر اپیل ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے اور حکومتِ پاکستان ہماری حکومت کو تسلیم کرے۔ مگر ہمیں افسوس ہے کہ مسلم ممالک بھی جرأت کا مظاہرہ نہیں کر رہے اور امریکہ یا دیگر ممالک سے خوفزدہ ہیں۔
آج امتِ مسلمہ کی بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ مختلف سمتوں میں بٹی ہوئی اور منتشر ہے۔ امت کے سامنے کوئی واضح حکمتِ عملی اور ٹھوس لائحہ عمل نہیں ہے۔ مسلمان حکمران امریکہ، روس یا مختلف طاقتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں، جبکہ اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کے خلاف متحد ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ جاری ہے۔ چیچنیا، بوسنیا، کوسووو، کشمیر، فلسطین، سوڈان اور مشرقی تیمور اس بات کے کھلے ثبوت ہیں۔ یہودی، عیسائی، ہندو سب مل کر مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہیں، مگر یہ حکمران کوئی سبق سیکھنے کی بجائے الٹا مسلمانوں کے خلاف ان قوتوں کی ہی مادی امداد کر رہے ہیں، یہ بات انتہائی افسوسناک ہے۔
اگر یہی مایوس کن صورتحال رہی تو اس بات کا خدشہ ہے کہ جس طرح آج چیچنیا پر جارحیت کی گئی ہے، اگر ایک چیچنیا ختم ہو گا تو دس چیچنیا سامنے آئیں گے، ایک کشمیر ختم ہو گا تو کئی کشمیر سامنے آئیں گے، ایک فلسطین ختم ہو گا تو کئی فلسطین سامنے آئیں گے۔ اسلام دشمن قوتیں جو چاہتی ہیں کر گزرتی ہیں۔ انہیں انڈونیشیا کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا تو مشرقی تیمور کا مسئلہ پیدا کر دیا۔ مسلمان حکمران امریکہ کے آگے سر بہ سجود ہیں۔ اگر اس روش کو نہ بدلا گیا تو آپ بہت جلد دیکھیں گے کہ قازقستان کے ایک بڑے حصے پر روس قبضہ کر لے گا۔ پاکستان کو بھی بہت سے خطرات کا سامنا ہے، اسے بھی کئی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ آج ایک معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے کہ مسلمان حکمران امریکہ، روسی اور یورپ کے آگے سجدہ ریز اور ان کے غلام ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت دنیا میں صرف دو ممالک ہی آزاد ہیں۔ ایک چیچنیا اور دوسرا افغانستان، جنہوں نے جرأت مندانہ موقف اپنایا ہے اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ دیگر مسلم ممالک میں پاکستان کسی حد تک آزاد ہے۔ عراق روس پر انحصار کرتا ہے، ایران بھی روس کے رحم و کرم پر ہے، جبکہ سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک بھی امریکہ کے زیراثر ہیں۔
ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم اس ذلت کا کیوں شکار ہیں؟ یہ اس لیے کہ ہم نے اللہ کے راستے کو چھوڑ دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمارے لیے ایک قرآن اور ایک امتِ مسلمہ کو چھوڑ کر گئے تھے مگر ہم نے قرآن کو بھی چھوڑ دیا اور امت کے اتحاد کو بھی پارہ پارہ کر دیا۔ یہ ساری ذلت و پستی اسی روش کا نتیجہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان متحد ہو کر ازسرنو خلافت کے احیا کی کوشش کریں۔ اگر تمام مسلمان ممالک نہیں تو کم از کم چند ممالک بالخصوص پاکستان اور افغانستان باہمی اتحاد سے اس صورتحال کا مقابلہ کریں۔ پاکستان آج ایک ایٹمی طاقت ہے، وہ امتِ مسلمہ کی امامت کا فریضہ بہتر انداز میں ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان کو ٹھوس لائحہ عمل اپنانا چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان مل کر اسلامی فوج تشکیل دیں اور دنیا پر یہ واضح کر دیں کہ جہاں بھی مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا سلوک روا رکھا گیا یا جارحیت یا دہشت گردی کی گئی تو ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد میں پیچھے نہیں رہیں گے۔ یہ جرأت مندانہ موقف اپنانے کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ پوری امتِ مسلمہ کی یہ دل کی آواز ہے۔ مسلمان اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ ضرورت صرف عزم و حوصلے کی ہے۔ یہ صرف اللہ پر پختہ ایمان و یقین اور جہاد کا راستہ اپنانے ہی سے ممکن ہو گا۔ جو قومیں سر اٹھا کر چلنے کا عزم رکھتی ہیں وہی دنیا  میں جینے کا بھی حق رکھتی ہیں۔ چیچنیا نے اپنے لیے اسی راستے کو منتخب کیا ہے۔
(بہ شکریہ ماہنامہ ترجمان القرآن، لاہور)

عالمی منظر

ادارہ

عالی جاہ محمد کے پیروکاروں نے کلمہ طیبہ پڑھنے کا اعلان کر دیا

واشنگٹن (ریڈیو رپورٹ) امریکہ کے نام نہاد مسلمان ’’نیشن آف اسلام‘‘ نامی فرقے کے لیڈر لوئیس فرح خان نے اہلِ سنت مسلم امریکن سوسائٹی کے لیڈر وارث دین محمد کے ساتھ نماز ادا کر کے اعلان کیا کہ وہ اور ان کے ہزاروں پیروکار اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لے آئے ہیں اور اب وہی کلمہ طیبہ پڑھیں گے جو دنیا کے ایک ارب مسلمان پڑھتے ہیں۔ اس سے پہلے نیشن آف اسلام اور اس کے لیڈر لوئیس فرح خان کا ایمان تھا کہ خدا تنظیم کے بانی ڈبلیو ای فرح کے روپ میں اپنے شاگرد عالی جاہ محمد کے ساتھ آیا۔ لوئیس فرح خان پیشہ ور گلوکار تھے، وہ قرآن پاک نہایت خوش الحانی سے پڑھتے ہیں۔ انہوں نے دس لاکھ سیاہ فام مسلمانوں کا تاریخی اجتماع کیا تھا۔
(روزنامہ جنگ، لاہور ۔ ۴ مارچ ۲۰۰۰ء)

دہلی میں مسلمانوں کا مظاہرہ

نئی دہلی (اے ایف پی) گزشتہ روز یہاں ہزاروں مسلمانوں نے یو پی کی اسمبلی میں پیش آنے والے اس بل کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا جس کے تحت عبادت گاہیں تعمیر کرنے سے پہلے حکومت سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہو گا۔ جامع مسجد میں نماز جمعہ کے بعد پچاس ہزار سے زائد مسلمانوں نے وزیراعظم ہاؤس تک مارچ کیا اور حکومت کے خلاف زبردست نعرے بازی کی۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے جامع مسجد کے نائب امام سید احمد بخاری نے کہا کہ بھارتی آئین میں نہ صرف مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے بلکہ ہر شخص کو اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کا بھی حق حاصل ہے، مگر مذکورہ بل اس حق کو غصب کر لے گا اس لیے اسے فوری طور پر واپس لے لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کی حکومت ایسی حرکتیں کرنے سے باز نہ آئی تو اس سے بھارت کا اتحاد پارہ پارہ ہو جائے گا۔ اس سے قبل مسلم عمائدین کے ایک وفد نے بھارتی صدر سے بھی ملاقات کی اور ان پر زور دیا کہ وہ اس طرح کا قانون پاس کرنے کی مزاحمت کریں۔
(روزنامہ جنگ، لاہور ۔ ۴ مارچ ۲۰۰۰ء)

اسرائیل میں عرب دوسرے نمبر کے شہری

اسلام آباد (انٹرنیشنل ڈیسک) اسرائیلی پارلیمنٹ (کیبنٹ) نے ایک قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت اسرائیل میں رہنے والے عرب باشندے اسرائیل کے شہری نمبر ۲ ہیں۔ ان کو ایک نمبر شہری کی سہولیات دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ لیکوڈ پارٹی کی طرف سے ایک بل پیش کیا گیا ہے جس میں شام کے ساتھ مذاکرات کے لیے ریفرنڈم کرانے کے لیے کہا گیا ہے اور اس کو ۵۱ فیصد ووٹ سے منظور کر لیا گیا ہے۔ یہودیوں کی بنیاد پرست پارٹی شاش نے بھی اس بل کی حمایت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ عرب باشندوں کو اس میں شامل نہ کیا جائے تاکہ صحیح رائے سامنے آ سکے۔
(روزنامہ اوصاف، اسلام آباد ۔ ۴ مارچ ۲۰۰۰ء)

انڈونیشیا میں اسلامی جماعتوں کے اتحاد کا پہلا مظاہرہ

جکارتہ (انٹرنیشنل ڈیسک) انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں ملک بھر کی ممتاز اسلام پسند جماعتوں کی مشترکہ ریلی منعقد ہوئی جس نے بعد میں اجتماع کی صورت اختیار کر لی۔ اسلامی جماعتوں کی طرف سے اتحاد کا یہ حیران کن مظاہرہ جکارتہ فٹ بال اسٹیڈیم میں دیکھا گیا جہاں تقریباً ۶۰ ہزار سے زائد اسلام پسندوں کی نعرہ تکبیر سے فضا گونج رہی تھی۔ ریلی میں پارلیمنٹ کے سپیکر اور ممتاز اسلام پسند رہنما امین رئیس کے علاوہ درجن بھر رہنما تھے۔ ریلی کے منتظم اور ممتاز سرگرم اسلام پسند رہنما عمر الحامد نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ ریلی کا کوئی خاص ایجنڈا نہیں تاہم یہ اسلام پسندوں کو متحد کرنے کی پہلی کامیاب کوشش ہے۔
(ہفت روزہ الہلال، اسلام آباد ۔ ۲۵ فروری ۲۰۰۰ء)

کوسوو میں مسلمانوں کا امریکہ کے خلاف مظاہرہ

پرسٹینا (مانیٹرنگ ڈیسک) کوسوو کے دارالحکومت پرسٹینا میں گزشتہ روز ہزاروں مسلمانوں نے امریکہ اور نیٹو کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا۔ مظاہرین کوسوو میں تعینات ایک امریکی فوجی کی طرف سے سربوں کے ہاتھوں قتل ہونے والی ایک مسلمان لڑکی کی لاش کے ساتھ زیادتی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ مظاہرین نے مذکورہ امریکی فوجی کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرے کے دوران کوسوو کے فساد زدہ شہر میٹرووتسا میں حالیہ مسلم سرب فسادات کے دوران سربوں کی پشت پناہی کرنے پر نیٹو افواج کے خلاف زبردست نعرے بازی کی گئی اور نیٹو افواج کی مقامی قیادت تبدیل کرنے اور اسے نگران کونسل کے ماتحت کرنے کا مطالبہ کی۔ مظاہرے میں ہزاروں مرد و خواتین اور بچوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے تھے۔
(ہفت روزہ الہلال، اسلام آباد ۔ ۲۵ فروری ۲۰۰۰ء)

مصر میں طلاق کے مقدمات کی بھرمار

قاہرہ (اے ایف پی) مصر میں خواتین کو طلاق کا حق دینے کا نیا قانون نافذ ہو گیا ہے۔ قانون نافذ ہونے کے دوسرے دن ہی طلاق کے لیے مقدمات میں زبردست اضافہ شروع ہو گیا ہے۔ طلاق کے لیے ایک دن میں معمول کی جتنی درخواستیں آ رہی تھیں ان سے دگنی آنے لگی ہیں۔ طلاق کے لیے گزشتہ روز جو ۲۰ درخواستیں آئی تھیں وہ نئے قانون کی بنیاد پر تھیں۔ نئے قانون کے مطابق خاتون اپنے شوہر کے ساتھ ناچاقی پر طلاق لے سکتی ہے۔ طلاق کے بدلے میں اسے تمام مالیاتی حقوق سے دستبردار ہونا پڑتا ہے حتٰی کہ شوہر سے وصول کیا گیا حق مہر اور بری بھی واپس کرنا پڑتی ہے۔
(روزنامہ پاکستان، لاہور ۔ ۳ مارچ ۲۰۰۰ء)

اسلام فرانس کا دوسرا بڑا مذہب بن گیا

اسلام آباد (خبری ذرائع) اسلام آباد میں متعین فرانس کے سفیر نے اعتراف کیا ہے کہ اسلام فرانس کا دوسرا سب سے بڑا مذہب بن گیا ہے جہاں مسلمانوں کی تعداد ۴۵ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ واضح رہے کہ فرانس میں اسلام کی تیزی سے پھیلتی ہوئی مقبولیت اس کے باوجود ہے کہ سرکاری سطح پر اسلام اور مسلمانوں سے بھرپور تعصب برتا جاتا ہے اور فرانس کی اسلام سے بغض و عناد کی تاریخ طویل ترین ہے۔
(ہفت روزہ ضرب مومن، کراچی ۔ ۳ تا ۹ مارچ ۲۰۰۰ء)

اسامہ بن لادن کا نیٹ ورک

واشنگٹن (انٹر نیوز) امریکی سی آئی اے کے سربراہ جارج ٹینٹ نے کہا ہے کہ امریکہ کو مطلوب اسامہ بن لادن کی دہشت گردانہ کاروائیوں کی کوئی سمت نہیں ہے۔ اس کی تمام صلاحیتیں انہی کاروائیوں پر صرف ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسامہ نے دہشت گردی کا ایک نیٹ ورک بنایا ہوا ہے جو آج بھی موجود ہے اور وہ پورے پلاننگ کے ساتھ کاروائیاں کرتے ہیں۔ ۱۹۹۸ء میں دو امریکی سفارت خانوں میں دھماکہ بھی ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ تھا جس میں ۲۲۰ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
(روزنامہ انصاف، لاہور ۔ ۳ مارچ ۲۰۰۰ء)

نائیجیریا میں مسلم مسیحی فسادات

لاگوس (آن لائن) نائیجیریا میں عیسائی اور مسلمان باشندوں کے درمیان جاری خونریز لڑائی میں ۵۰۰ سے زائد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔ فسادات کا مرکز عبا نامی شہر ہے۔ ایک پولیس ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ فوجی دستوں اور سکیورٹی ایجنسیوں نے امن و امان کی صورت حال کو کسی حد تک کنٹرول کر لیا ہے تاہم اب بھی مختلف علاقوں سے چھوٹے پیمانے پر فسادات کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ انہیں انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ دو تین روز سے جاری ملک کے بدترین نسلی اور مذہبی فسادات میں ایک اندازے تک ۵۰۰ سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔ عبا اور قریبی شہروں میں عینی شاہدین کے مطابق ان شہروں کے مختلف علاقوں میں جا بجا لاشیں بکھری پڑی نظر آتی ہیں۔
(روزنامہ انصاف، لاہور ۔ ۳ مارچ ۲۰۰۰ء)

کینیڈا کی ریاست میں سکھ وزیراعظم

(واشنگٹن) کینیڈا کے صوبہ برٹش کولمبیا میں ایک سکھ نے نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ۵۲ سالہ اجل سنگھ نے صوبہ میں حکمران جماعت نیو ڈیموکریٹس میں قیادت کی دوڑ میں کامیابی کے بعد گزشتہ روز صوبے کے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ وہ برٹش کولمبیا کے ۳۳ویں وزیراعظم ہیں۔
حلف برداری کے بعد انہوں نے کہا کہ یہ ایک خوشگوار بات ہے۔ اجل سنگھ ۳۵ سال قبل ۱۷ سال کی عمر میں بھارت سے ہجرت کر کے کینیڈا آئے تھے۔ انہوں نے ۴۰۰ سے زائد مہمانوں کے سامنے اپنے نئے وطن کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک میرے لیے بہت اچھا ثابت ہوا ہے۔ حلف برداری کے  موقع پر ان کی بیوی اور تینوں بچے بھی موجود تھے۔ اجل سنگھ نے مزید کہا کہ وہ اپنے صوبے کے عوام کو یہ احساس دلانا چاہتے ہیں کہ ہم ایک سرے سے دوسرے تک متحد ہیں۔ وزارتِ عظمٰی کا حلف سنبھالنے سے قبل اجل دوسنج صوبے کے اٹارنی جنرل تھے اور اگلے منگل کو وہ اپنی کابینہ کا اعلان کریں گے۔
اخبار ’’ٹورنٹو سٹار‘‘ کے مطابق دوسنج کو سیکنڈل زدہ صوبے برٹش کولمبیا میں حکومتی امور چلانے کے لیے ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہو گا۔ اجل دوسنج کی حلف برداری کی تقریب ایک ناچ گھر میں ہوئی۔ اس موقع پر بھارت کے روایتی کھانوں سے مہمانوں کی تواضع کی گئی جبکہ روایتی پگڑیاں پہنے فنکاروں نے ستار اور ڈھول پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۲۷ فروری ۲۰۰۰ء)

چیچن مسلمانوں کا قتلِ عام اور امریکی ادارے

واشنگٹن (کے پی آئی) امریکہ کی حقوقِ انسانی کی ایک تنظیم نے چیچنیا میں بڑے پیمانے پر قتلِ عام کے تین واقعات کی رپورٹ کانگریس میں پیش کر دی ہے۔ رپورٹ پیش ہونے کے بعد ری پبلکن اور ڈیموکریٹک سینیٹروں نے امریکی انتظامیہ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ کلنٹن انتظامیہ چیچنیا میں روسی مظالم بند کرنے کے بجائے دوسرے امور پر توجہ دے رہی ہے۔
سینیٹر جاسف اوبیڈن نے کہا کہ کلنٹن انتظامیہ ہتھیاروں پر کنٹرول کے معاملے کو اہمیت دے کر چیچنیا میں روسی فوجی مظالم سے نگاہ پھیر رہی ہے۔
امریکی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر جس ٹائمز نے کہا کہ روس کے حق میں امریکی حکام کے بیانات پر اسے شرمندگی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیچن جانبازوں کے خلاف فوجی کاروائی کو دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کہنے والے انسانیت پر ظلم کر رہے ہیں۔
سینیٹر بیڈن نے کہا کہ امریکی محکمہ خارجہ کو ریڈیو لیبرٹی کے رپورٹر ہپٹسکی کی رہائی میں بری طرح ناکامی ہوئی ہے۔
حقوقِ انسانی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے اہلکار پیٹر بوکیرٹ نے خارجہ تعلقات کمیٹی کے سامنے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ روسی فوج نے الدمی میں ۶۲ سے زیادہ بے گناہ چیچن باشندوں کو شہید کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان افراد پر اس وقت فائرنگ کی گئی جب وہ گلیوں اور صحنوں میں روسی فوج کو اپنے دستاویزات دکھا رہے تھے۔ بوکیرٹ نے کہا کہ انہوں نے الدمی اور دیگر قتل عام کے دو واقعوں کی تفصیلات ان افراد سے حاصل کی ہیں جو حملوں اور فائرنگ سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۴ مارچ ۲۰۰۰ء)

برمنگھم میں اسلامی کتابوں کی دوکان پر چھاپہ

برمنگھم۔ انگلینڈ (ا ف پ) برطانوی پولیس نے برطانیہ سے باہر دہشت گردی کے واقعات کے سلسلے میں یہاں ایک اسلامی لٹریچر والی ایک دکان اور کئی مکانوں کی تلاشی لے کر ایک شخص کو گرفتار کر لیا۔ اس موقع پر بھاری تعداد میں نقدی، دستاویزات اور الیکٹرانک آلات پر قبضہ کر لیا گیا۔ پولیس کے مطابق انکوائری چند دنوں میں مکمل کر لی جائے گی۔ پولیس ترجمان نے بتایا کہ اسلامی تنظیموں کی طرف سے دہشت گردی کے ساتھ روابط کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے تلاشی کے وارنٹ جاری کر دیے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ برمنگھم میں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے۔
(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۲ مارچ ۲۰۰۰ء)

جذبات بھڑکانے والے اشتہارات پر پابندی

بیجنگ (اے این پی) بیجنگ میں فحاشی کی روک تھام کے لیے انتظامیہ نے اشتہارات کے بورڈز پر ماڈلز کی عریاں تصاویر پر پابندی لگا دی ہے۔ نئے قانون کے تحت اشتہاری کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ماڈل گرل کے گلے سے ۱۵ سینٹی میٹر نیچے اور گھٹنوں سے ۱۵ سینٹی میٹر اوپر تک کا حصہ عریاں نہیں ہونا چاہیے۔ اشتہاری ایجنسیوں نے اس قانون کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔
(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۲ مارچ ۲۰۰۰ء)

نائجیریا: صوبہ کانو کے گورنر نے بھی اسلامی شریعت کو قانون بنانے کے مسودے پر دستخط کر دیے

لاگوس (اے ایف پی) افریقہ کی سب سے بڑی ریاست نائجیریا جہاں اسلامی شریعت کو قانون بنائے جانے کے خلاف کئی صوبوں میں عیسائی مسلم فسادات جاری ہیں وہاں شمالی صوبہ کانگو کے گورنر نے بھی وفاقی حکومت کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے صوبے میں شریعت کے مطابق قانون سازی کا عمل شروع کرنے کے مسودے پر دستخط کر دیے ہیں۔
(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۳ مارچ ۲۰۰۰ء)

صومالیہ میں فسادات

مغادیشو (ا ف پ) جنوبی صومالیہ میں دو گروپوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں چھ افراد ہلاک ہو گئے۔ راہانوین مزاحمتی فوج کے ایک اعلان کے مطابق اس نے اسلامک کورٹ ملیشیا کے چار ارکان کو ہلاک کر دیا ہے جبکہ اس کے دو ارکان مارے گئے۔ مزاحمتی فوج کے ترجمان اصغر نے کہا کہ اسلامک کورٹ ملیشیا کی ایک جیپ تباہ کر دی گئی جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہو گئے، تاہم اسلامک کورٹ کے ایک اہلکار نے اس تنظیم کے ارکان کی ہلاکت کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی لڑائی میں ملوث نہیں ہوئی۔ یہ لڑائی آر آر اے اور کوسوارے کے لوگوں کے درمیان تھی۔ انہوں نے کہا کہ آر آر اے کی طرف سے نصب کی جانے والی ایک بارودی سرنگ سے ٹکرا کر مقامی ملیشیا کی ایک جیب تباہ ہو گئی۔ مقامی لوگ آر آر اے کی طرف سے علاقے کی زمین پر زبردستی قبضے کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ متاثرہ علاقے کے لوگوں نے بتایا کہ چند ہفتوں سے آر آر اے اور اسلامک کورٹ ملیشیا علاقے میں اپنی طاقت میں اضافہ کر رہی ہیں۔
(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۲۷ فروری ۲۰۰۰ء)

گھر سے بھاگنے والی لڑکیاں اور ۲۱ویں صدی

لاہور (لیڈی رپورٹر) اکیسویں صدی میں شاید لڑکیوں کو عقل آ گئی ہے اور وہ بیسیوں صدی کے مقابلے میں کم تعداد میں گھروں سے بھاگی ہیں۔ پاکستان میں ۱۹۹۴ء سے ۱۹۹۹ء تک لڑکیاں گھروں سے سب سے زیادہ فرار ہوئیں لیکن ۲۰۰۰ء میں اچانک یہ تعداد گھٹ گئی۔ دسمبر میں ۵۸ عورتیں اور ۱۳ بچے دارالامان میں داخل ہوئے جس سے عورتوں کی تعداد ۱۱۳ اور بچوں کی ۲۵ ہو گئی۔ اسی مہینے ۵۲ عورتیں اور ۱۴ بچے ڈسچارج ہو گئے۔
نئی صدی شروع ہوئی تو ماہ جنوری میں ۶۱ عورتیں اور ۱۱ بچے دارالامان میں رہ گئے۔ جنوری میں صرف ۲۵ عورتیں گھروں سے بھاگ کر دارالامان پہنچیں، ان کے ہمراہ ۴ بچے تھے۔ جنوری میں داخلے کی ۲۹ تعداد رہی جبکہ ڈسچارج ہونے والوں کی تعداد میں اچانک اضافہ ہو گیا۔ ۴۱ عورتیں اور ۷ بچے ڈسچارج ہوئے۔ ماہ فروری میں ۴۵ عورتیں اور ۱۰ بچوں کا اندراج ہوا۔ اسی ماہ ۳۰ عورتیں اور ۵ بچے پنجاب کے مختلف اطراف سے فرار ہو کر دارالامان پہنچے۔ فروری میں ۳۰ عورتیں اور ۴ بچے ڈسچارج کیے گئے۔ اس طرح پہلی بار دارالامان میں رش ختم ہوا۔
دارالامان کی سپرنٹنڈنٹ زبیدہ خاتون نے کہا کہ نئی صدی نے اگر لڑکیوں کو عقل دے دی ہے اور انہیں احساس ہو گیا ہے کہ گھر کی دہلیز پار کرنا شرافت کے منافی ہے تو یہ بھی غنیمت ہے۔ خدا لڑکیوں کو ہدایت دے کہ وہ ماں باپ کی عزت سے نہ کھیلا کریں۔ زندگی ایڈونچر نہیں ہے کہ اسے داؤ پر لگا دیا جائے۔
(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۲۷ فروری ۲۰۰۰ء)

تعارفِ کتب

ادارہ

حیاتِ امیرِ شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ

امیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے حالاتِ زندگی اور خدمات پر معروف احرار راہنما جانباز مرزا مرحوم نے انتہائی عرق ریزی اور جستجو کے ساتھ ’’حیاتِ امیرِ شریعتؒ‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب مرتب کی تھی جو ان کی زندگی میں متعدد بار شائع ہو چکی ہے اور اب ان کے فرزند جناب خالد جانباز کی اجازت سے مکتبہ احرار (۶۹ سی، حسین اسٹریٹ، وحدت روڈ، نیو مسلم ٹاؤن، لاہور) نے شائع کی ہے۔
پونے پانچ سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل یہ کتاب حضرت شاہ جیؒ کے حالاتِ زندگی اور کارناموں کے ساتھ ساتھ اس دور کے سیاسی حالات اور اہلِ حق کی جدوجہد سے بھی قاری کو متعارف کراتی ہے اور قافلۂ حق کے شرکاء کے لیے اس کا مطالعہ بطور خاص ضروری ہے۔

خزائن السنن (جلد دوم)

ترمذی شریف پر شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کے درسی افادات خزائن السنن (جلد اول) کے عنوان سے چھپ چکے ہیں جو ترمذی حصہ اول کے ابواب پر مشتمل ہیں۔ اب ترمذی کے کتاب البیوع سے متعلقہ ابواب پر مولانا حافظ عبد القدوس قارن استاذِ حدیث مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ نے اپنے درسی افادات کو اسی عنوان کے ساتھ پیش کیا ہے جو مفید مباحث اور معلومات پر مشتمل ہیں اور طلبہ و اساتذہ کے لیے یکساں افادیت کے حامل ہیں۔
اڑھائی سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب عمدہ طباعت اور خوبصورت جلد کے ساتھ عمر اکادمی، نزد مدرسہ نصرۃ العلوم، فاروق گنج، گوجرانوالہ نے شائع کی ہے، اور اس کی قیمت ۹۰ روپے ہے۔

تحفۂ جہاد

جہاد کے موضوع پر حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ تعالیٰ کے افادات کو حرکۃ المجاہدین کے راہنما مولانا اللہ وسایا قاسم نے عمدہ ترتیب کے ساتھ جمع کیا ہے اور ۵۰ کے لگ بھگ عنوانات کے تحت منتخب احادیث ترجمہ اور مختصر تشریح کے ساتھ جمع کر دی ہیں۔ ۶۴ صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ حرکۃ المجاہدین کے مرکزی دفتر خیابان سرسید نزد سی ڈی اے اسٹاپ راولپنڈی سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

خطباتِ جرنیل

سپاہِ صحابہؓ پاکستان کے سربراہ مولانا محمد اعظم طارق نے چار سالہ اسارت کے دوران جیل میں اپنے بعض رفقاء کے اصرار پر ہفتہ میں ایک بار موقع ملنے پر ان کے سامنے اظہارِ خیال کا معمول بنا لیا تھا اور وہی خطبات اب تحریری شکل میں ’’خطباتِ جرنیل‘‘ کے عنوان سے ہمارے سامنے ہیں۔ سپاہ صحابہؓ کا موقف، مولانا محمد اعظم طارق کا اندازِ بیان اور اس پر جیل کا مخصوص ماحول ان خطبات میں جو رنگ بھر سکتا ہے اس کا اظہار الفاظ میں نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کی حرارت اور اثر خیزی کا اندازہ اس کے مطالعہ سے ہی ہو سکتا ہے۔
پونے پانچ سو سے زائد صفحات کا یہ مجموعۂ خطبات سپاہِ صحابہؓ پاکستان نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت دو سو روپے ہے۔

آزادی کی انقلابی تحریک

برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف آزادی کی تحریک مختلف مراحل سے گزری ہے اور حریت پسندوں کے مختلف گروہوں نے اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ انہی میں سرفروشوں اور جانبازوں کا ایک عظیم گروہ ’’مجلسِ احرارِ اسلام‘‘ کے نام سے باشندگانِ وطن کے سینوں میں بغاوت کی آگ بھڑکاتا اور دار و رسن کی وادیوں سے دیوانہ وار گزرتا رہا۔ مجلسِ احرار اسلام نے برطانوی استعمار کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں مختلف عنوانات کے ساتھ تحریکات کے کئی محاذ گرمائے اور عزیمت و استقامت کی نئی روایات قائم کیں۔ انہی میں سے ایک تحریک ’’فوجی بھرتی بائیکاٹ‘‘ کی تحریک بھی ہے جس کا آغاز مجلسِ احرارِ اسلام کے راہنماؤں نے ۱۹۳۹ء میں کیا اور باشندگانِ وطن کو برطانوی فوج میں بھرتی ہونے سے روکنے میں اپنا پورا زور لگا دیا۔
برطانوی حکمرانوں نے برصغیر سے فوج بھرتی کر کے اس خطہ کے نوجوانوں کے خون سے مشرقِ وسطیٰ میں خلافتِ عثمانیہ اور عالمِ اسلام کے خلاف اپنے تیار کردہ سامراجی نقشے میں جو رنگ بھرا وہ آج اسرائیل کے مکروہ وجود اور خلیج پر امریکی استعمار کے مسلح قبضے کی صورت میں صاف دکھائی دے رہا ہے، اور ان بوریہ نشین درویشوں کی بصیرت کی گواہی دے رہا ہے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو برطانیہ کی فوج میں بھرتی ہونے اور اس کو اپنے خون سے ازسرنو زندگی مہیا کرنے سے روکا تھا۔
نوجوان، با صلاحیت اور صاحبِ درد قلمکار محمد عمر فاروق نے اسی داستان کو نئی نسل کے لیے خوبصورت انداز میں مرتب کر دیا ہے، اور اس تحریک کے حالات و واقعات کو دستاویزی انداز میں پیش کر کے تاریخ کے ریکارڈ میں ایک قابل قدر اضافہ کیا ہے۔
پونے تین سو صفحات کی یہ ایک مجلد اور خوبصورت کتاب مکتبہ احرار ۶۹ سی، حسین اسٹریٹ، وحدت روڈ، نیو مسلم ٹاؤن، لاہور نے شائع کی ہے اور قیمت درج نہیں ہے۔

اسلام اور اکیسویں صدی کا چیلنج

بھارت کے  معروف مسلم دانشور جناب اسرار عالم نے موجودہ دور کے معروضی حقائق کا تجزیہ کرتے ہوئے اکیسویں صدی کے متوقع عالمی سیٹ اپ میں اسلام کے کردار اور اس حوالہ سے ذہنوں میں ابھرنے والے شکوک و شبہات اور خدشات پر سیر حاصل بحث کی ہے، اور اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ آنے والے دور میں اسلام ہی عالمِ انسانیت کی صحیح راہنمائی اور قیادت کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس فکر و فلسفہ کے تقاضوں اور اس کے لیے اہلِ علم و دانش کی ذمہ داریوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
ایک سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ گراں قدر مقالہ اصحابِ علم و دانش کی خصوصی توجہ کا متقاضی ہے اور اسے دانش بک ڈسٹریبیوٹرز (۱۷۳۹/۳ نیو کوہ نور ہوٹل، پٹوڈی ہاؤس، دریا گنج، نیو دہلی ۱۱۰۰۰۲) سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

مولانا حافظ مہر محمد کے دو رسالے

اہلِ سنت کے معروف محقق مولانا حافظ مہر محمد میانوالوی نے ’’حضرت عمار بن یاسرؓ کی شہادت اور سبائیوں کے کرتوت‘‘ اور ’’اسلام اور شیعیت کا تقابلی جائزہ‘‘ کے عنوان سے دو رسالے شائع کیے ہیں جو اپنے موضوعات پر معلوماتی رسالے ہیں اور مصنف موصوف نے اس سلسلہ میں اہلِ سنت کے موقف کو واضح کرنے کے لیے خاصی محنت کی ہے۔ دونوں رسالوں کی مجموعی قیمت بیس روپے ہے اور مکتبہ عثمانیہ ڈھوک مستال میانوالی سے طلب کیے جا سکتے ہیں۔

اشکِ مسلمانانِ برما

برما کے صوبہ اراکان کے مظلوم مسلمان ایک عرصہ سے اپنے اسلامی تشخص کے تحفظ اور آزادی کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، اور اس خطہ کے معروف عالمِ دین حضرت مولانا حبیب اللہ پکتلی نے اس جدوجہد کے احوال اور تقاضوں پر اس رسالہ میں روشنی ڈالی ہے۔ برما کے مسلمانوں کے حالات، مظلومیت، جدوجہد اور قربانیوں کے بارے میں یہ معلوماتی رسالہ مکتبہ فیضیہ برمی کالونی ۳۶ جی لانڈھی کراچی سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

جہاد فی سبیل اللہ

جہاد کے احکام اور فضائل پر مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع قدس اللہ سرہ العزیز کا معروف رسالہ جو پہلے بھی  کئی بار چھپ چکا ہے، مبین ٹرسٹ پوسٹ بکس ۴۷۰ اسلام آباد ۴۴۰۰۰ نے معیاری اور خوبصورت انداز میں دوبارہ شائع کیا ہے اور اسے ٹرسٹ کی طرف سے مفت تقسیم کیا جا رہا ہے۔ مبین ٹرسٹ اپنی مطبوعات مفت تقسیم کرتا ہے، البتہ بذریعہ ڈاک منگوانے کی صورت میں ڈاک خرچ منگوانے والے کے ذمہ ہو گا۔

مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی دینی خدمات بے مثل ہیں

اعجاز میر

ندوۃ العلماء لکھنؤ کے سربراہ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ عالمِ اسلام کی عظیم علمی و دینی شخصیت تھے جن کا گذشتہ سال بلکہ صدی کے آخری دن ۳۱ دسمبر کو رائے بریلی میں کم و بیش ۸۷ سال کی عمر میں انتقال ہو گیا اور ان کی وفات کے صدمہ کو دنیا بھر کے علمی و دینی حلقوں میں یکساں طور پر محسوس کیا گیا۔ مختلف ممالک میں ان کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے تعزیتی اجتماعات کا انعقاد کیا گیا اور ہر مکتبہ فکر کے علماء کرام اور اہلِ دانش نے ان کی دینی و ملی خدمات کا اپنے اپنے انداز میں تذکرہ کیا۔
گوجرانوالہ میں بھی گزشتہ جمعہ کو اس سلسلہ میں ایک تعزیتی نشست منعقد ہوئی جس کا اہتمام الشریعہ اکادمی کے ناظم حافظ محمد عمار خان ناصر نے مرکزی جامع مسجد میں کیا اور شہر کے سرکردہ علماء کرام اور اہلِ دانش نے اس میں شرکت کی۔ اس تعزیتی ریفرنس کی صدارت اسلامیہ کالج گوجرانوالہ کے ریٹائرڈ پرنسپل پروفیسر محمد عبد اللہ جمال نے کی جبکہ ثانوی تعلیمی بورڈ گوجرانوالہ کے شعبہ امتحانات کے نگران پروفیسر غلام رسول عدیم مہمانِ خصوصی تھے۔ ان کے علاوہ پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی اور گورنمنٹ ظفر علی خان ڈگری کالج وزیر آباد کے پروفیسر حافظ منیر احمد نے بھی اظہارِ خیال کیا۔ معروف صحافی اور استاد سید احمد حسین زید نے نظامت کے فرائض سرانجام دیے اور بزرگ عالمِ دین علامہ محمد احمد لدھیانوی کی دعا پر یہ نشست اختتام پذیر ہوئی۔

پروفیسر غلام رسول عدیم

پروفیسر غلام رسول عدیم نے ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ملی کردار اور مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی دینی و علمی خدمات پر تفصیلی روشنی ڈالی اور کہا کہ ۱۹۵۷ء کی جنگِ آزادی میں ناکامی کے بعد برصغیر کے مسلمانوں کو سنبھالا دینے کے لیے دو مکاتبِ فکر وجود میں آئے:
چنانچہ ان دونوں کی کوششوں سے علی گڑھ اور دیوبند کے تعلیمی ادارے وجود میں آئے جن کا رخ ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور متضاد تھا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سر سید احمد خان مرحوم اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ دونوں ایک ہی استاذ مولانا مملوک علی نانوتویؒ کے شاگرد تھے اور استاد بھائی تھے اور دونوں نے مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے تعلیم کا میدان منتخب کیا۔ البتہ دونوں کا راستہ الگ الگ اور سمت ایک دوسرے سے مختلف تھی۔
ان دونوں سوچوں کو جمع کر کے ایک نئی راہ نکالنے کے لیے ۱۸۹۸ء میں ایک تیسرا ادارہ وجود میں آیا جس کا نام ’’ندوۃ العلماء لکھنؤ‘‘ ہے جس نے یہ فکر پیش کی کہ مسلمانوں کے لیے دینی تعلیم و تربیت انتہائی ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جدید علم اور زبانوں کی تعلیم بھی ضروری ہے کیونکہ وہ اسی صورت میں آنے والے دور میں دینِ اسلام کی بہتر طور پر نمائندگی کر سکیں گے۔ ندوۃ العلماء لکھنؤ کی بنیاد مولانا سید محمد علی مونگیریؒ نے رکھی اور ان کے ساتھ جن اکابر نے اس فکر کو پھیلنے کے لیے محنت کی ان میں علامہ شبلی نعمانیؒ، مولانا عبد الحق حقانیؒ اور مولانا حکیم عبد الحئی حسنیؒ بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔ جن کی کوششوں سے ندوہ ایک علی و فکری تحریک کی صورت اختیار کر گیا۔ مولانا حکیم عبد الحئی حسنیؒ ندوۃ کے ناظم تھے اور بہت بڑے عالم اور ادیب تھے، اردو ادب پر ان کی تصنیف ’’گلِ رعنا‘‘ سے ہر صاحبِ ذوق آگاہ ہے، اور عربی زبان میں علمی شخصیات پر ان کی آٹھ جلدوں میں ضخیم کتاب ’’نزہۃ الخواطر‘‘ موجود ہے جس سے اہلِ علم مسلسل استفادہ کر رہے ہیں۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ انہی مولانا حکیم عبد الحئی حسنیؒ کے فرزند ہیں۔
پروفیسر غلام رسول عدیم نے بتایا کہ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ ۱۹۱۴ء میں پیدا ہوئے جب ان کے والد ندوہ کے منتظم تھے، اس لیے انہوں نے ندوہ کے ماحول میں آنکھ کھولی، اسی ماحول میں تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے، پھر نصف صدی تک ندوہ کے سربراہ رہے۔ اور ان کے دور میں ندوہ نے عالمگیر شہرت حاصل کی کیونکہ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ ایک بین الاقوامی شخصیت اور عربی و اردو کے بلند پایہ ادیب تھے۔ انہیں پورے عظیم عالمِ اسلام میں ایک فکری و علمی رہنما کی حیثیت حاصل تھی اور وہ رابطہ عالم اسلامی کے بانی رکن ہونے کے علاوہ عرب دنیا کے بہت سے علمی اداروں اور یونیورسٹیوں کی اہم کمیٹیوں کے ممبر تھے۔ ان کی تصنیفات سے دنیا بھر کے علماء کرام اور دانشوروں نے استفادہ کیا ہے اور امت اسلامیہ کے ایک بڑے حصے نے ان سے رہنمائی حاصل کی۔
انہوں نے کہا کہ ندوہ کا خصوصی ذوق ادب اور تاریخ کا ہے، اسلامی تاریخ کو ازسرنو مرتب کرنے اور تاریخِ اسلام کے ساتھ ساتھ مسلم شخصیات کے کارناموں کو نئی پود کے سامنے پیش کرنے میں علامہ شبلی نعمانیؒ مولانا سید سلمان ندویؒ، اور مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے جو عظیم خدمات سرانجام دی ہیں وہ ندوہ کا امتیاز و افتخار ہے اور اس بارے میں برصغیر کا کوئی اور ادارہ ندوۃ العلماء لکھنؤ کی ہمسری نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کہا کہ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے کارناموں میں ایک بہت بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کو عرب دنیا میں متعارف کرایا اور علامہ اقبالؒ کے کلام کا عربی میں ترجمہ کر کے ان کی فکر کو عرب دانشوروں تک پہنچایا۔ اس سلسلہ میں مولانا ندویؒ نے خود بیان کیا ہے کہ وہ جب عرب ممالک میں گئے تو دیکھا کہ برصغیر کے ہندو مفکر اور شاعر رابندراناتھ ٹیگور کا تعارف تو وہاں کے علمی و ادبی حلقوں میں موجود ہے مگر مسلمان مفکر علامہ اقبالؒ سے وہاں کے ادبی حلقے متعارف نہیں ہیں، چنانچہ انہوں نے ۲۴ برس کی عمر میں علامہ اقبالؒ کی وفات سے چند ماہ قبل خود ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کے ساتھ اس کا ذکر کیا اور خواہش ظاہر کی کہ وہ ان کے کلام کا عربی میں ترجمہ کرنا چاہتے ہیں جس پر اقبالؒ نے انتہائی خوشی کا اظہار کیا اور اجازت دے دی۔ اور اس کے بعد مولانا ندویؒ نے جس ذوق اور کاوش کے ساتھ عرب دنیا کو علامہ اقبالؒ کے فکر اور کلام سے روشناس کرانے کا کام کیا یہ انہی کا حصہ ہے اور یہ حقیقت ہے کہ عرب علماء اور دانشوروں کو اقبال کے متعارف کرانے کا سہرا سب سے زیادہ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے سر ہے۔

مولانا زاہد الراشدی

مولانا زاہد الراشدی نے تعزیتی نشست سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی خدمات کا بطور خاص تذکرہ کیا اور کہا کہ وہ بھارت کے مظلوم مسلمانوں کے لیے بہت بڑے سہارے اور ڈھارس کی حیثیت رکھتے تھے اور صرف قلم اور زبان کی دنیا کے آدمی نہیں تھے بلکہ انہوں نے عملی میدان میں بھارتی مسلمانوں کی جرأت مندانہ قیادت کی۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ مسلمانوں کے خاندانی قوانین کے تحفظ کے لیے قائم ہونے والے کل جماعتی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سربراہ تھے اور انہوں نے آخر دم تک اس ذمہ داری کو پوری جرأت و استقامت کے ساتھ نبھایا۔
بھارت میں مسلمان اقلیت میں ہیں اور ان پر ایک عرصہ سے یہ دباؤ چلا آ رہا ہے کہ وہ نکاح، طلاق اور وراثت سے متعلقہ خاندانی قوانین میں مذہبی احکام سے دستبردار ہو کر ہندوؤں اور دیگر غیر مسلمانوں کے ساتھ مشترکہ خاندانی قوانین (کامن سول کوڈ) کو قبول کر لیں لیکن مسلمان اس کے لیے تیار نہیں ہیں، اور مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی سربراہی میں تمام مسلم جماعتوں اور مکاتبِ فکر کے نمائندوں پر مشتمل آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اس سلسلہ میں مسلمانوں کی قیادت کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کے شخصی اور خاندانی قوانین کو ابھی تک تحفظ حاصل ہے۔
اس سلسلہ میں اپنی وفات سے صرف دو ماہ قبل مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے ممبئی میں ہونے والے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ملک گیر اجتماع میں جو خطبہ صدارت پیش کیا اس میں انہوں نے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ نکاح، طلاق اور وراثت میں مذہبی احکام سے دستبردار ہونے کی دعوت کو ہم ارتداد کی دعوت سمجھتے ہیں اور اس کا اسی طرح مقابلہ کریں گے جس طرح ہمارے اسلاف نے ارتداد کی دعوت کا ہمیشہ کیا ہے۔
اسی طرح بھارت کے سب سے بڑے صوبہ یوپی میں بی جے پی کی حکومت نے جب سرکاری تعلیمی اداروں میں روزانہ صبح ’’بندے ماترم‘‘ کا ترانہ گانے کو تمام طلبہ اور طالبات کے لیے لازمی قرار دیا تو مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے اعلان کیا کہ اس ترانے کے بعض اشعار شرکیہ ہیں اور ہم مسلمان ہیں، کوئی شرکیہ ترانہ نہیں گا سکتے، اس لیے ہم موت قبول کر لیں گے مگر ہمارے بچے سکولوں میں یہ ترانہ نہیں پڑھیں گے۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے اس دوٹوک اور شدید احتجاج پر یو پی حکومت کو بالآخر اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔
مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے عالمِ اسلام کو سب سے زیادہ جس فتنے سے خبردار کیا اور اس کے لیے مسلسل محنت کی وہ ’’نیشنلزم‘‘ کا فتنہ ہے۔ مولانا ندویؒ کا کہنا ہے کہ وطنی قومیت کا یہ فتنہ عالمِ اسلام کا شیرازہ بکھیرنے اور خلافتِ اسلامیہ کو ختم کرنے کے لیے سازش کے تحت کھڑا کیا گیا ہے، اس لیے مسلمانوں کو اس فتنے سے نجات حاصل کرنی چاہیے اور مِلی سوچ اور جذبات کو فروغ دینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ بہت سی علمی و روحانی نسبتوں کا مجموعہ تھے۔ ان کا خاندانی تعلق امیر المومنین سید احمد شہیدؒ کے خاندان سے تھا اور وہ رائے بریلی کی عظیم خانقاہ دائرہ شاہ علم اللہؒ کے مسند نشین تھے۔ علمی طور پر وہ ندوۃ العلماء کے نمائندہ تھے اور روحانی طور پر انہیں حضرت مولانا محمد زکریا سہارنپوری سے خلافت و اجازت حاصل تھی، اور بلاشبہ وہ ہمارے ان عظیم اسلاف و اکابر کی آخری نشانی تھے جو ہم سے جدا ہو گئے ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ اس تعزیتی ریفرنس کا مقصد جہاں مولانا ندویؒ کی خدمات پر خراجِ عقیدت پیش کرنا اور ان کے ساتھ اپنی نسبت کا اظہار ہے وہاں نئی نسل کو ان کے کارناموں کا تعارف کرانا بھی ہے جو نئی پود کا حق ہے کیونکہ ان جیسے بزرگوں اور اکابر کی خدمات اور کارناموں سے سبق حاصل کر کے ہی ہماری نئی نسل آنے والے دور میں ملتِ اسلامیہ کی صحیح طور پر خدمت اور رہنمائی کر سکتی ہے۔
نشست کے اختتام پر مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی مغفرت اور بلندئ درجات کے لیے دعا کی گئی۔

اپریل ۲۰۰۰ء

شادی اور اس کے سماجی اثراتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
خواب اور اس کی تعبیرشیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر
تقدیر کی تین قسمیںشیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
وثائقِ یہودیت (پروٹوکولز) کا مختصر تعارفعبد الرشید ارشد
نائجیریا میں عیسائی مسلم فساداتملک احمد اسرار
خواتین کی عالمی کانفرنسیں اور ان کے مقاصدراحیل قاضی
چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جاناپروفیسر میاں انعام الرحمن
امریکی دباؤ کے خلاف پاکستان کی دینی جماعتوں کا مشترکہ موقفادارہ
اسلامی نظام نافذ کیا جائے، CTBT پر دستخط نہ کیے جائیںادارہ
امارتِ اسلامی افغانستان اور ڈاکٹر جاوید اقبالادارہ
عالمی منظر نامہادارہ
تعارفِ کتبادارہ
خلیفہ عبد الحمید اور قرہ صو آفندیادارہ

شادی اور اس کے سماجی اثرات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(میرپور آزاد کشمیر کی بزرگ دینی و سماجی شخصیت اور مدنی ٹرسٹ جامعہ الہدٰی (نوٹنگھم، برطانیہ) کے چیئرمین مولانا ڈاکٹر اختر الزمان غوری کی دختر کے نکاح کی باوقار تقریب ۳ اپریل ۲۰۰۰ء کو جامعہ علوم اسلامیہ میرپور کی جامع مسجد خدیجۃ الکبرٰیؓ میں عصر کی نماز کے بعد منعقد ہوئی جس میں آزاد کشمیر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب عبد المجید ملک، سابق وزیر چودھری محمد یوسف، ضلع مفتی مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی، بزرگ عالم دین مولانا عبد الغفور اور ممتاز کشمیری لیڈر چودھری فضل الٰہی تاج پوری سمیت سرکردہ معززین علاقہ، سرکاری حکام، علماء کرام اور وکلاء کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی جبکہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ علوم عربی و اسلامیات کے سربراہ ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے اور خطاب کیا۔ پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے خطبہ مسنونہ پڑھ کر ایجاب و قبول کرایا اور اس موقع پر نکاح کی اہمیت اور دیگر متعلقہ امور پر خطاب کیا جس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ الشریعہ)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ یہ ہمارے محترم دوست اور بزرگ ساتھی مولانا ڈاکٹر اختر الزمان غوری صاحب کی بیٹی کے نکاح کی تقریب ہے جس میں شرکت اور آپ حضرات کے ساتھ ملاقات و گفتگو کا موقع فراہم کرنے پر میں محترم ڈاکٹر صاحب کا شکر گزار ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت اس نکاح کو میاں بیوی اور ان کے خاندانوں میں محبت اور اعتماد میں اضافے کا ذریعہ بنائیں اور باہمی محبت و اعتماد کے ساتھ نیکی کی زندگی کی توفیق دیں، آمین۔

شادی کو عام طور پر ایک سماجی ضرورت سمجھا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک طبعی ضرورت ہے اور سماجی ضرورت بھی ہے۔ لیکن اسلام نے اسے صرف ضرورت کے دائرے تک محدود نہیں رکھا بلکہ زندگی کے مقاصد میں شمار کیا ہے اور نیکی اور عبادت قرار دیا ہے جس سے شادی کے بارے میں اسلام کے فلسفہ اور باقی دنیا کی سوچ میں ایک بنیادی فرق سامنے آتا ہے۔ کیونکہ اگر شادی کو محض ایک ضرورت اور مجبوری سمجھا جائے تو پھر یہ ضرورت جہاں پوری ہو اور جس حد تک پوری ہو بس اسی کی کوشش کی جائے گی، لیکن اگر اس کے دائرہ کو وسعت دے کر اسے مقصد اور نیکی بھی شمار کیا جائے تو پھر اس کی حدود اور دائرہ کار کا تعین مقصد اور عبادت کے حوالہ سے ہوگا۔ اور یہی چیز اسلام کے فلسفۂ نکاح اور اس کے خاندانی نظام کے تصور کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت کہا ہے اور یہ سارے پیغمبروں کی مشترکہ سنت ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام پیغمبروں نے شادی کی اور ان کی اولاد بھی ہوئی جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے کہ’’بے شک ہم نے آپؐ سے پہلے کئی رسول بھیجے اور انہیں بیویاں اور اولاد بھی عطا کی‘‘ (سورہ الرعد)۔ البتہ دو پیغمبروں کے بارے میں صراحت ہے کہ ان کی شادی نہیں ہوئی۔ ایک حضرت یحییٰ علیہ السلام جن کے بارے میں قرآن کریم میں ہے کہ وہ ’’حصور‘‘ تھے یعنی عورت کے قریب نہ جانے والے تھے اور دوسرے حضرت عیسٰی علیہ السلام ہیں جن کے بارے میں احادیث میں ہے کہ ان کی شادی ابھی ہونی ہے، وہ جب دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے تو ان کی شادی ہوگی اور اولاد بھی ہوگی۔ اس لیے شادی حضرات انبیاء کرامؑ کی سنت ہے اور عبادت بھی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کی نیت کی جائے تو شادی کے ہر عمل پر جناب نبی اکرمؐ نے ثواب کی بشارت دی ہے۔ حتیٰ کہ نبی کریمؐ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص محبت سے اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالتا ہے تو یہ بھی صدقہ شمار ہوگا اور اس پر اسے ثواب ملے گا۔ ’’در مختار‘‘ فقہ حنفی کی معروف کتاب ہے، اس میں لکھا ہے کہ دو عبادتیں ایسی ہیں جو تمام انبیاء کرام میں مشترک رہی ہیں اور یہ دو عبادتیں جنت میں بھی ہوں گی۔ ایک ایمان باللہ اور دوسری نکاح اور شادی۔ یعنی باقی عبادات میں تو انبیاء کرام کی شریعتوں میں فرق رہا ہے کہ نماز، روزہ، صدقہ وغیرہ کی کیفیات مختلف رہی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کا ذکر اور نکاح یہ دو عمل ایسے ہیں جو تمام انبیاء کرام میں یکساں رہے ہیں اور جنت میں بھی ہوں گے۔

اسلام کی نظر میں شادی انسانی ضرورت بھی ہے، اس کی زندگی کا مقصد بھی ہے، عبادت بھی ہے اور ایک مسلمان کے ایمان اور اخلاق و عادات کی حفاظت کے لیے مضبوط حصار بھی ہے جسے قرآن کریم نے احصان کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ ’’حصن‘‘ عربی زبان میں قلعہ کو کہتے ہیں اور ’’احصان‘‘ کا معنی قلعہ بنانا اور قلعہ بندی کرنا ہے۔ گویا ایک مسلمان جب شادی کر کے گھر آباد کرتا ہے تو وہ ایک نیا قلعہ تعمیر کرتا ہے جو اس کے ایمان، اخلاق اور عادات کی حفاظت کرتا ہے اور اس باطنی تحفظ کے ساتھ ساتھ اسے لوگوں کی نگاہوں، باتوں اور شکوک و شبہات سے بھی تحفظ مل جاتا ہے اور شادی اس کے لیے بہت سی ظاہری اور باطنی تحفظات کا قلعہ بن جاتی ہے۔ پھر قرآن کریم نے ایک اور بہت خوبصورت اشارہ کیا ہے کہ اس حوالہ سے جہاں مردوں کا ذکر کیا وہاں فرمایا ’’محصنین‘‘ جو فاعل کا صیغہ ہے جس کا معنٰی ہے قلعہ بنانے والے، اور جہاں عورتوں کا تذکرہ فرمایا وہاں کہا ’’محصنات‘‘ جو مفعول کا صیغہ ہے جس کا معنٰی ہے وہ چیزیں جنہیں قلعے کے اندر رکھ کر ان کی حفاظت کی جاتی ہے۔ گویا قلعہ بنانے والا اور اس پر پہرہ دینے والا مرد ہے۔ اور وہ متاع عزیز جس کی حفاظت کے لیے قلعہ بنایا گیا ہے اور جس کو اس چار دیواری کے اندر رکھ کر اس کی حفاظت مقصود ہے وہ عورت ہے۔

اسی ایک لفظ سے خاندانی نظام کے اسلامی فلسفہ کی وضاحت ہو جاتی ہے اور خاندانی نظام کے حوالہ سے آج کی دنیا کو درپیش صورت حال کو سامنے رکھا جائے تو اسلام کے اس ’’فلسفہ احصان‘‘ کی اہمیت اور زیادہ اجاگر ہوتی ہے۔ کیونکہ آج مغربی دنیا کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ خاندانی نظام کے بکھر جانے اور فیملی سسٹم کے ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہو جانے کا ہے جس نے پوری مغربی دنیا کو پریشان کر رکھا ہے۔ اور یہ نتیجہ ہے اس سوچ کا کہ شادی محض ایک سماجی ضرورت ہے، اس لیے جس کی یہ ضرورت جہاں اور جس حد تک پوری ہو جاتی ہے اسے اس سے زیادہ اس حوالہ سے کسی اور بات سے دلچسپی نہیں رہ جاتی۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں شادی مقصد ہے، عبادت ہے اور مذہبی فرائض میں سے ہے جس کے لیے مذہب کے واضح احکام ہیں، رشتوں کا تقدس ہے اور باہمی حقوق و مفادات کا ایک متوازن نظام ہے جس نے مرد و عورت کے تعلقات کے گرد تحفظات کا ایک مضبوط حصار قائم کر رکھا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارا خاندانی نظام ابھی تک بحمد اللہ تعالیٰ محفوظ ہے اور اس قلعہ میں شگاف ڈالنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی۔ حتیٰ کہ امریکہ کی خاتون اول مسز ہیلری کلنٹن چند برس قبل جب اسلام آباد کے دورے پر آئیں تو ان کی طرف سے اخبارات میں ایک تبصرہ شائع ہوا کہ انہیں مشرق کا خاندانی نظام دیکھ کر رشک آتا ہے۔ یہی وہ قلعہ بندی ہے جسے قرآن کریم نے ’’احصان‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور اسی بات کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں یوں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’جس نے شادی کی اس نے اپنے نصف دین کو مکمل کر لیا اور اب اسے باقی نصف دین کی فکر کرنی چاہیے۔‘‘

اس موقع پر ایک دلچسپ تاریخی واقعہ ذکر کرنے کو جی چاہتا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ شادی کا سماج پر کیا اثر ہوتا ہے اور معاشرتی زندگی کے ساتھ شادی اور نکاح کا کیا تعلق ہے۔ بعض شادیاں ایسی ہوتی ہیں جو سوسائٹی پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں حتیٰ کہ بسا اوقات ایک شادی پوری سوسائٹی میں انقلاب کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اسی قسم کی ایک شادی کا تذکرہ گزشتہ دنوں تاریخ کی ایک کتاب میں نظر سے گزرا کہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے جب خلافت سنبھالنے کے بعد مقتدر طبقہ کے افراد اور شاہی خاندان کے لوگوں سے بیت المال اور قومی خزانے کے اثاثے اور رقوم واپس لینے کا فیصلہ کیا تو ہر طرف کھلبلی مچ گئی۔ مؤرخین کہتے ہیں کہ اس وقت بیت المال یعنی قومی خزانے کے اسی فیصد اثاثے اور اموال شاہی خاندان اور وی آئی پی لوگوں کے قبضے میں تھے جنہیں واپس لینے کے لیے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے سب سے پہلے اپنے گھر سے آغاز کیا۔ باغ فدک ان کے قبضہ میں تھا اسے واپس کیا، گھر آکر بیوی کے زیور اتروائے اور بیت المال کو بھجوا دیے، اپنی سواری کے لیے شاہی گھوڑوں کا دستہ واپس کر دیا اور اس کے بعد حکمران خاندان کا اجلاس طلب کر کے انہیں الٹی میٹم دیا کہ دو ہفتے کے اندر اندر بیت المال کے تمام اثاثے اور اموال قومی خزانے میں واپس کر دیے جائیں۔ چنانچہ انہیں سب کچھ واپس کرنا پڑا اور مؤرخین کے مطابق دو ہفتے کے اندر قومی خزانے کے تمام اموال پھر سے بیت المال میں جمع ہوگئے۔ اس پر خاندانِ خلافت میں خاصی ناراضگی کا اظہار کیا گیا حتیٰ کہ مسلمہ بن عبد الملکؒ کو جو سالار افواج تھے اور حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے برادر نسبتی بھی تھے ان سے گفت و شنید کے لیے بھیجا گیا۔ انہوں نے امیر المؤمنین سے سوال کیا کہ جو فیصلے ان سے پہلے خلفاء نے کیے ہیں انہیں وہ کیوں منسوخ کر رہے ہیں؟ مطلب یہ تھا کہ جو عطیات سابقہ حکمرانوں نے دیے ہیں انہیں واپس لینے کا انہیں اختیار نہیں ہے۔ اس پر امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے مسلمہ بن عبد الملکؒ سے دو سوال کیے:

اس پر مسلمہ کو خاموشی اختیار کرنا پڑی۔ خاندان والوں نے جب دیکھا کہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ پر ان کی کوئی بات اثر نہیں کر رہی تو باہمی مشورہ کر کے خاندان کی اس وقت کی سب سے بزرگ شخصیت فاطمہ بنت مروانؒ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا جو حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی پھوپھی تھیں اور اس وقت خاندان کی سب سے معمر خاتون تھیں۔ ان حضرات کا خیال تھا کہ پھوپھی محترمہ کے کہنے پر عمر بن عبد العزیزؒ اس معاملہ میں شاید نرمی اختیار کر لیں۔ لیکن جب پھوپھی محترمہ نے عمر بن عبد العزیزؒ کو بلا کر خاندان والوں کی شکایت سے آگاہ کیا اور کچھ نرمی کرنے کی تلقین کی تو انہوں نے اپنے موقف اور پوزیشن کی وضاحت کرتے ہوئے انہیں بھی خاموش کرا دیا۔ اس پر فاطمہ بنت مروانؒ نے خاندان والوں سے کہا کہ میں نے تو اس وقت ہی کہہ دیا تھا جب اس کے باپ یعنی عبد العزیز بن مروانؒ کا رشتہ حضرت عمر بن الخطابؓ کی پوتی سے کیا جا رہا تھا کہ یہ رشتہ سوچ سمجھ کر کرنا شاید تم سے نہ نبھ سکے لیکن کسی نے میری بات پر کان نہ دھرے اور آج اسی کے اثرات سب کے سامنے آرہے ہیں اس لیے میں عمر بن عبد العزیزؒ سے اس سے زیادہ اب کچھ نہیں کہہ سکتی۔

یہ رشتہ بھی عجیب تھا، معروف تاریخی واقعہ ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ایک رات مدینہ منورہ کی گلیوں میں گشت کر رہے تھے کہ ایک گھر کے اندر سے ماں اور بیٹی کی گفتگو سنائی دی۔ ماں اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی کہ دودھ میں تھوڑا سا پانی ڈال دو تاکہ بازار میں فروخت ہو تو چار پیسے زیادہ مل جائیں۔ بیٹی نے جواب دیا کہ امیر المؤمنینؓ نے سختی کے ساتھ اس سے منع کر رکھا ہے۔ ماں نے کہا کہ امیر المؤمنین کون سا اس وقت ہماری بات سن رہے ہیں۔ بیٹی نے جواب دیا کہ امیر المؤمنین نہیں سن رہے مگر اللہ تعالیٰ تو ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہماری باتیں سن بھی رہا ہے اس لیے میں دودھ میں پانی نہیں ملاؤں گی۔ حضرت عمرؓ گھر واپس تشریف لے گئے، صبح ماں بیٹی دونوں کو بلا لیا اور رات کے قصے کے بارے میں دریافت کیا، دونوں نے تصدیق کی تو حضرت عمرؓ نے اس نیک دل اور دیانت دار بیٹی کا رشتہ اپنے بیٹے حضرت عاصم بن عمرؓ کے لیے مانگ لیا جو طے ہوگیا۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی والدہ محترمہ انہی حضرت عاصمؒ اور ان کی اس نیک دل اہلیہ کی بیٹی تھیں اور فاطمہ بن مروانؒ نے اسی طرف اشارہ کیا تھا کہ اس نے رشتہ کرتے وقت کہہ دیا تھا کہ عمر بن الخطابؓ کی پوتی کو گھر میں لا کر اس کے اثرات بھی قبول کرنا ہوں گے اس لیے اب ان کے اقدامات پر شکایات کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اس سے آپ اندازہ کر لیں کہ سوسائٹی پر شادیوں کے اثرات کیا ہوتے ہیں اور بعض شادیاں کس طرح بڑی بڑی معاشرتی تبدیلیوں کا باعث بن جاتی ہیں۔ اس لیے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اگر اپنی شادیوں میں مقصدیت اور نیکی کے پہلوؤں کو غالب کریں گے اور عبادت و ثواب سمجھ کر ان کے تقاضوں کی تکمیل کریں گے تو ہمیں ان کی برکات بھی نصیب ہوں گی اور شادی کے جو فوائد اسلام نے بیان کیے ہیں وہ بھی ہمیں ضرور حاصل ہوں گے۔

مگر ہم نے تو شادی کو خرافات کا مجموعہ بنا کر رکھ دیا ہے اور شادی کی تقریبات میں اس قدر تکلفات و خرافات کو جمع کر لیا ہے کہ بسا اوقات ایسی تقریبات میں خطبہ اور ایجاب و قبول کی سنت کا بجا لانا بھی ماحول کے پس منظر میں اجنبی سا کام محسوس ہونے لگتا ہے۔ مجھے تو شادی کی ایسی تقریبات سے وحشت ہونے لگی ہے اور اکثر و بیشتر شادیوں میں شرکت سے صرف اس وجہ سے انکار کر دیتا ہوں کہ وہاں جا کر عجیب سی اجنبیت ذہن پر سوار ہو جاتی ہے۔ ان حالات میں ڈاکٹر اختر الزمان غوری صاحب نے اپنی سعادت مند بیٹی کے نکاح پر مسجد میں یہ باوقار اور سادہ سی جو تقریب منعقد کی ہے اسے دیکھ کر واقعتاً بہت خوشی ہوئی ہے اور میں اس پر ڈاکٹر صاحب بلکہ دونوں خاندانوں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت اس شادی کو میاں بیوی اور دونوں خاندانوں میں باہمی محبت اور اعتماد میں دن بدن اضافے کا ذریعہ بنائیں اور ہم سب کو خوشی کی ایسی تقریبات اسی طرح وقار اور سادگی کے ساتھ نیکی اور برکت کے ماحول میں منعقد کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

خواب اور اس کی تعبیر

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

خواب ایک صورت ہوتی ہے اور اس میں پنہاں ایک حقیقت ہوتی ہے جس کو تعبیر کہتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بظاہر خواب بڑا خوشنما اور مژدہ افزاء معلوم ہوتا ہے لیکن اس کی حقیقت اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بادی النظر میں خواب نہایت تاریک، اندوہناک اور وحشت انگیز دکھائی دیتا ہے مگر اس کا باطنی پہلو اور تعبیر بہت ہی خوش کن اور خوش آئند ہوتی ہے، اور تعبیر سامنے آ جانے کے بعد خواب دیکھنے والے کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ اس دوسری مد کے خوابوں کے بارے میں اختصارًا چند حوالے ملاحظہ فرمائیں:
(الف) آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و بارک وسلم کی چچی حضرت ام الفضل بنت الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک خواب دیکھا اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یارسول اللہ! آج رات میں نے ایک برا خواب دیکھا ہے (حلما منکرا)۔ آپؐ نے فرمایا کہ وہ کیا خواب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ بہت ہی سخت ہے (انہ شدید)۔ آپؐ نے فرمایا کہ بتائیں تو سہی وہ کیا ہے۔ حضرت ام الفضلؓ نے عرض کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گویا آپؐ کے جسم مبارک سے ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے (اس کی تعبیر یہ ہے) کہ ان شاء اللہ تعالیٰ میری لخت جگر بیٹی (سیدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے ہاں لڑکا پیدا ہو گا جو تمہاری گود میں کھیلے گا۔ چنانچہ (سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ) پیدا ہوئے اور میری گود میں کھیلے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا (مشکوٰۃ ج ۲ ص ۵۷۲ اصح المطابع)
ملاحظہ کیجئے کہ بظاہر کس قدر برا خواب تھا کہ خود حضرت ام الفضل رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس سے گبھرا رہی تھیں اور بتلانے پر بھی آمادہ نہ تھیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکرر استفسار پر انہوں نے آخر بیان کر ہی دیا، اور پھر جب آپؐ نے اس کی تعبیر بیان فرمائی تو وہ کس قدر خوش کن اور خالص خوشخبری تھی۔
(ب) اگر کوئی شخص خواب میں یہ دیکھے کہ اس کے پاؤں میں بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں تو وہ یقیناً اس سے گبھرائے گا اور ضرور پریشان ہو گا۔ لیکن سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ
احب القید و اکرہ الغل والقید ثبات فی الدین۔ (بخاری ج ۲ ص ۱۰۳۹ ۔ مسلم ج ۲ ص ۲۴۱، واللفظ لہ ۔ مستدرک ج ۴ ص ۳۹۰)
’’میں بیڑیوں کو پسند کرتا ہوں اور گردن کے طوق کو مکروہ سمجھتا ہوں، بیڑیاں دین کے معاملہ میں ثابت قدمی کی دلیل ہے۔‘‘
(ج) حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے خواب میں دیکھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مزارِ اقدس پر پہنچے اور وہاں پہنچ کر مرقد مبارک کو اکھاڑا (العیاذ باللہ تعالیٰ) پس اس پریشان کن اور وحشت انگیز خواب کی اطلاع انہوں نے اپنے استاد کو دی، اور اس زمانہ میں حضرت امام صاحب علیہ الرحمۃ مکتب میں تعلیم پاتے تھے۔ ان کے استاد نے فرمایا، اگر واقعی یہ خواب تمہارا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ تم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی پیروی کرو گے اور شریعت محمدیہ (علیٰ صاحبہا الف الف تحیۃ) کی پوری کھود کرید کرو گے۔ پس جس طرح ان کے استاد نے بیان کیا تھا، یہ تعبیر حرف بحرف اسی طرح پوری ہوئی۔ (تعبیر الرویا کشوری ص ۳۷۷)
اور مختلف الفاظ کے ساتھ یہ واقعہ تاریخ بغداد للخطیبؒ ج ۱۳ ص ۳۳۵ طبع مصر، اور الخیرات الحسان ص ۶۴ طبع مصر، کتاب الانساب بمعانی ورق ص ۱۹۶ طبع مصر، و مناقب کروریؒ ج ۱ ص ۳۳ طبع دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن، اور مفتاح السعادۃ ج ۲ ص ۸۲ طبع حیدرآباد دکن میں بھی موجود ہے۔
غور فرمائیں کہ اس خواب کی صورت کیا ہے! اور اس کی تہہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و بارک وسلم کی احادیث کی پیروی اور فقہی رنگ میں علمِ دین کی خدمت جو زریں خدمت کی خوشخبری اور بشارت موجود ہے وہ کیا ہے!
(د) تاریخ کی بعض کتابوں میں مذکور ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید علیہ الرحمۃ کی بیوی زبیدہ علیہا الرحمۃ نے خواب میں دیکھا کہ کثیر التعداد مخلوق جمع ہو کر سب باری باری اس سے مجامعت کرتی ہے۔ جب آنکھ کھلی تو وہ بے حد پریشان ہوئی، گبھراہٹ کی کوئی انتہا نہ تھی، آخرکار جب اس خواب کی تعبیر بتلائی گئی تو معلوم ہوا کہ ان سے کوئی ایسا کام ہو گا جس سے بے شمار مخلوق فیضیاب ہو گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، اس نے نہر زبیدہ کھدوائی جو عراق عرب کے ایک بہت بڑے حصہ کو سیراب کرتی ہے اور ایامِ حج میں مشرق و مغرب کے مسلمان اس سے فیضیاب ہوتے ہیں، جو اسی خواب کی تعبیر ہے۔ (محصلہ رشار الاخیا ص ۵۱ طبع جید برقی پریس ریلی)
(ہ) امام الحسینؓ بن بوجر الباوریؒ فرماتے ہیں کہ میں شہر الحان میں تھا کہ ایک شخص نے مجھ سے سوال کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و بارک وسلم کی وفات ہو گئی ہے۔ تو میں نے اس کے جواب میں کہا کہ اگر تیرا خواب سچا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ کوئی ایسا امام فوت ہو گا کہ اس زمانہ میں اس کی نظیر نہ ہو گی۔ اور ایسے ہی خواب حضرت امام شافعی، حضرت امام ثوری اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کی وفات کے وقت دیکھے گئے تھے۔ چنانچہ شام سے پہلے ہی یہ خبر آ گئی کہ شیخ الاسلام الحافظ ابو موسٰی المدینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (المتوفی ۵۸۱ھ) وفات پا چکے ہیں۔ تذکرۃ الحفاظ ج ۴ ص ۱۲۵ و ۱۲۶ للذہبیؒ)
یہ چند خواب ہم نے با حوالہ اس لیے نقل کیے ہیں تاکہ یہ بات آشکارا ہو جائے کہ بسا اوقات خواب کا ظاہر کچھ اور ہوتا ہے اور باطن کچھ اور ہوتا ہے۔ اور اس کو وہی حضرات سمجھ سکتے ہیں کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے علم و بصیرت کے ساتھ ساتھ فنِ تعبیر کی باریکیوں اور مضمر نکات حل کرنے کی توفیق سے نوازا ہوتا ہے، ہر کہ دمہ کی یہاں بات نہیں چلتی۔
؏ نہ ہر کہ سر بتراشد قلندری داند

تقدیر کی تین قسمیں

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

محدثین کرام تقدیر کی تین قسمیں بیان کرتے ہیں:
پہلی تقدیر کتابی ہے جو کہ لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے۔ گویا لوحِ محفوظ علمِ الٰہی کا ایک مظہر ہے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ لوح سے مراد ایسی تختی نہیں جو ہمارے تصور میں ہے بلکہ یہ ایک ایسی لوح ہے جس کی حقیقت کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، مگر ہے ضرور اور اس میں ہر چیز محفوظ ہے۔ آپ مثال کے ذریعے سمجھاتے ہیں کہ ایک حافظ قرآن کے دماغ میں قرآن پاک اول تا آخر محفوظ ہوتا ہے لیکن اگر اس کے دماغ کا آپریشن کیا جائے تو وہاں گوشت، خون اور رگوں کے سوا قرآن کا ایک حرف بھی نظر نہیں آئے گا۔ اسی طرح لوحِ محفوظ میں ہر چیز درج ہے جو اللہ کے علمِ تفصیلی کا ایک نمونہ ہے۔ اللہ نے کائنات کی تخلیق سے پہلے ہی ہر چیز لوحِ محفوظ میں درج کر دی تھی۔
تقدیر کی دوسری قسم تقدیرِ ارادی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات میں اول سے آخر تک جو بھی چیز ظاہر ہو رہی ہے یا جو آئندہ ہو گی وہ سب اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے ارادے سے واقع ہوتی ہے۔
اور تیسری قسم تقدیرِ علمی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہر چیز کو ازل میں جانتا تھا، آج بھی جانتا ہے اور آئندہ بھی جانتا رہے گا۔ اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو فلاں چیز کا علم نہیں تو وہ کافر سمجھا جائے گا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب کوئی چیز ظاہر ہوتی ہے تو اس وقت اللہ کو علم ہوتا ہے، اس سے پہلے نہیں۔ ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے علمِ تفصیلی کے منکر ہیں اور قطعی کافر ہیں۔ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی تقدیرِ کتابی اور تقدیرِ ارادی کے منکر ہیں، اگر ان کا انکار کسی تاویل کی بنا پر ہے تو گمراہ ہیں، اور اگر وہ سرے سے ہی انکار کرتے ہیں تو پھر کافر ہیں۔ کیونکہ حضور علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ توحیدِ رسالت، بعث بعد الموت اور تقدیر پر ایمان نہیں لاتا، اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی ہے ’’والذی قدر فھدٰی‘‘ (الاعلیٰ ۳) خدا تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے کائنات کی ہر چیز کا اندازہ ٹھہرایا۔ اور پھر اس کے لیے ہدایت کا انتظام بھی فرمایا۔ خدا تعالیٰ کی صفاتِ کاملہ میں سے ایک صفتِ تقدیر بھی ہے۔ تقدیر کے جو منکرین یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ ہم تمام اعمال اپنی مرضی سے انجام دیتے ہیں، وہ قدریہ فرقہ کہلاتا ہے۔ یہ فرقہ دوسری صدی میں پیدا ہو گیا تھا۔ اس کے بر خلاف جو لوگ انسان کو پتھر کی طرح مجبورِ محض سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انسان کو کچھ اختیار نہیں، وہ جبریہ فرقہ کہلاتا ہے، یعنی انسان ہر کام مجبورًا کرتا ہے، اس کو نہ کوئی اختیار ہے اور نہ یہ اپنے ارادے سے کرتا ہے، یہ بھی گمراہ فرقہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک حد تک اختیار دے کر اسے مکلف بنا دیا ہے، جس کی بنا پر اسے قانون کا پابند کر دیا گیا ہے۔ اگر یہ اختیار نہ ہوتا تو انسان پتھر کی طرح جامد ہوتا اور اس سے کوئی باز پرس بھی نہ ہوتی۔ لیکن انسان مختارِ مطلق بھی نہیں ہے کہ جو چاہے کرتا پھرے اور اس سے کوئی باز پرس نہ ہو۔ نہیں، بلکہ انسان کا اختیار محدود ہے جس سے آگے وہ نہیں جا سکتا۔ جہاں قانون کی پابندی کی ضرورت ہے وہاں تو اللہ نے اختیار دے دیا ہے تاکہ انسان اپنی مرضی اور ارادے سے قانون کی پابندی کرے یا اس کا انکار کر دے۔ اسی بنا پر انسان مکلف ہے اور قانون کی پابندی یا عدمِ پابندی کر کے ہی وہ جزا یا سزا کا مستحق بنتا ہے۔
البتہ اگر کسی جگہ اضطرار کی حالت پیدا ہو جائے تو وہاں مواخذہ نہیں ہو گا۔ مثلاً کوئی شخص رعشہ کا مریض ہے اور اسے اپنے ہاتھوں پر کنٹرول حاصل نہیں۔ اگر ایسی حالت میں اگر اس کے ہاتھ سے کوئی برتن وغیرہ گر کر ٹوٹ جاتا ہے تو اس کا مواخذہ نہیں ہو گا، یا اس کا ہاتھ کسی دوسرے کو لگ جاتا ہے تو اس کی مجبوری کی بنا پر اس سے انتقام نہیں لیا جائے گا۔ اور اگر کوئی شخص ارادتاً برتن توڑتا ہے یا کسی دوسرے شخص پر ہاتھ اٹھاتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ قابلِ مواخذہ سمجھا جائے گا۔
بہرحال انسان نہ تو مختارِ مطلق ہے اور نہ ہی مجبورِ محض۔ اللہ نے اسے ایک خاص حد تک اختیار دیا ہے جسے وہ اپنی مرضی اور ارادے سے استعمال کرتا ہے اور اسی پر اس کی جزا یا سزا کا دارومدار ہے۔

وثائقِ یہودیت (پروٹوکولز) کا مختصر تعارف

عبد الرشید ارشد

(ہمارے فاضل دوست اور ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن آف پاکستان کے وائس چیئرمین جناب عبد الرشید ارشد نے شہرہ آفاق وثائقِ یہودیت (پروٹوکولز) کا اردو ترجمہ کر کے اسے شائع کیا ہے جو عالمی نظام کے بارے میں یہودی عزائم کو بے نقاب کرنے کے لیے ایک اہم قومی خدمت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا تعارفی حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے، اس گزارش کے ساتھ کہ اس کا مطالعہ علماء کرام اور دینی کارکنوں کو بطور خاص پورے اہتمام کے ساتھ کرنا چاہیے، یہ کتابچہ جناب عبد الرشید ارشد سے جوہر پریس بلڈنگ جوہر آباد ضلع خوشاب کے ایڈریس سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ ادارہ)


وثائق (پروٹوکولز) کا تعارف

یہ شاہکار دستاویز روسی قدامت پسند چرچ کے پادری پروفیسر سرگ پی اے نیلس کی وساطت سے پہلی بار دنیا کے سامنے آئی جس نے ۱۹۰۵ء میں اسے روسی زبان میں شائع کیا۔ اس کے تعارف میں اس نے کہا کہ عبرانی سے یہ اصل ترجمہ مجھے ایک دوست کی وساطت سے ملا جس نے بتایا کہ یہ فری میسن کی ایک بہت با اثر راہنما خاتون نے فرانس میں، جو یہودی سازشوں کا گڑھ تسلیم کیا جاتا ہے، اعلیٰ سطحی اجلاس کے اختتام پر چرایا تھا۔ (اس کے بعد فری میسن میں عورتوں کی ممبرشپ ممنوع قرار دی گئی، ما سوائے لاج کی سماجی نوعیت کی سرگرمیوں میں خواتین کی شمولیت کے، جو بہت کم ہوتی ہیں)۔
پروفیسر نیلس کا کہنا ہے کہ یہ پروٹوکولز، ہوبہو اجلاسوں کی کاروائیاں نہیں ہیں بلکہ یہ فری میسن کے کسی با اثر فرد کی مرتب کردہ رپورٹ ہے جس کے بعض حصے غائب محسوس ہوتے ہیں۔ جنوری ۱۹۱۷ء میں اس نے ایک اور ایڈیشن تیار کیا مگر پروٹوکولز کے مارکیٹ میں آنے سے پہلے ہی زار روس کی حکومت کا کرنکسی حکومت نے تختہ الٹ دیا جس نے یہود نوازی کے سبب تمام کتب بازار سے اٹھوا کر ضائع کرا دیں تاکہ حکومت کے خلاف سازش سامنے نہ آ جائے۔ پروفیسر نیلس گرفتار ہوئے، بالشویکوں نے جیل میں ان پر تشدد کیا۔ بعد ازاں اسے ملک بدر کر دیا گیا اور وہ ۱۳ جنوری ۱۹۲۹ء کو ولادیمیر میں وفات پا گیا۔
کتاب اس قدر مقبول ہوئی کہ اسی سال ۱۹۱۷ء میں اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ بڑے وثوق سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ ۱۹۱۷ء میں ہی اس کا چوتھا ایڈیشن طبع ہوا اور ان طبع شدہ اشاعتوں کے ساتھ ساتھ ٹائپ شدہ نقول بھی عوام میں پھیلتی رہیں۔ رائس پیپر پر ٹائپ شدہ نقول سب سے زیادہ سائبیریا میں پھیلیں جہاں سے کسی نہ کسی طرح اگست ۱۹۱۹ء میں ولاڈی واسٹک کی بندرگاہ کے راستے امریکہ لے جائی گئیں اور اس کی طباعت عمل میں آئی۔ امریکی ایڈیشنوں میں گراں قدر ضمیمے بھی شامل ہیں۔ پروفیسر نیلس کے تیار کردہ ۱۹۰۵ء کے مسودہ کی ایک نقل ۱۰ اگست ۱۹۰۶ء کو برٹش میوزیم لائبریری میں موصول ہوئی جس کے ٹائٹل کے اندرونی صفحہ پر مہر کے ساتھ یہ بھی موجود ہے ’’۲۸ ستمبر ۱۹۰۵ء کو ماسکو میں سنسر نے پاس کیا‘‘۔
پروٹوکولز کو روسی زبان سے انگریزی میں ترجمہ کرنے کا کام ’’مارننگ پوسٹ‘‘ کے روس میں متعین برطانوی نامہ نگار مسٹر وکٹر ای مارسیڈن نے کیا۔ وہ عرصہ دراز تک روس میں مقیم رہا تھا اور اس نے ایک روسی دوشیزہ سے شادی کر رکھی تھی۔ نڈر نقاد ہونے کے ناطے وکٹر ای مارسیڈن نے ۱۹۱۷ء کے انقلاب کے اَن کہے حقائق سے پردہ اٹھایا تو اسے گرفتار کر کے پیٹرپال جیل میں ڈالا گیا۔ دو سال بعد جب اسے رہا کر کے وطن جانے کی اجازت ملی تو اس کی صحت تباہ ہو چکی تھی اور پھر جونہی اس کی توانائی بحال ہوئی اس نے برٹش میوزیم لائبریری میں بیٹھ کر پروٹوکولز کے ترجمہ پر اپنا وقت صرف کیا مگر بالشویک جیل سے جو بیماری وہ ساتھ لایا تھا اس نے اسے لمبی مہلت نہ دی اور وہ جلد ہی وفات پا گیا۔
نیلس کے پروٹوکولز کی کتابی شکل میں اشاعت سے قبل ہی یہ روسی اخبارات ’’نمجا‘‘ (SNAMJA) اور ’’موسکوز کی جی ویڈو موستی‘‘ (Moskowskiji Wiedomosti) میں (۱۹۰۲ء اور ۱۹۰۳ء) طبع ہو کر بے شمار لوگوں تک پہنچ چکے تھے۔
عیسائیت کے تمدن کے خلاف یہود کی خون منجمد کر دینے والی اس گھناؤنی سنگدلانہ سازش کو (پروٹوکولز میں) پڑھنے سے نیلس کو سخت صدمہ ہوا۔ اگرچہ یہ مسلّمہ امر ہے کہ صہیونی یہودی سازش ہر تہذیب و تمدن، خصوصاً اسلام کے نظریۂ حیات کے خلاف ایک مستقل جارحیت ہے، مگر وہ (نیلس) بالخصوص اس سازش سے عیسائیت کو بچانے کے لیے دلچسپی لے رہا تھا، حالانکہ یہودیت کی ہمہ جہت یورش کا عیسائیت کے حوالے سے یہ صرف ایک پہلو تھا۔
وثائقِ یہودیت (پروٹوکولز) تو دراصل پوری دنیا کو یہودی ’’پولیس اسٹیٹ‘‘ بنانے کے عملی پروگرام کا محض ضمیمہ ہیں، خاکہ ہیں، جس کی تکمیل کے لیے وہ زیرزمین عالمی سماج میں ’’بھائی چارہ‘‘ (فری میسن کی اصطلاح) منظم کرنے کی خاطر ہر وقت کوشاں ہیں۔
وثائقِ یہودیت میں بیان کردہ ’’پیش گوئیاں‘‘ اور روسی بالشویک انقلاب میں حیرت انگیز مماثلت اس قدر چونکا دینے والی تھی کہ عرصہ دراز تک انہیں نظرانداز کیے جانے کے باوجود پوری دنیا میں بہت تیزی کے ساتھ یہ وثائق ’’مشہور‘‘ (بدنام) ہوئے۔
وثائقِ یہودیت میں بالشویک ازم کے مقاصد کی تفصیلات اور موثر طریقہ نفاذ بیان کیا گیا ہے۔ ۱۹۰۱ء میں جب نیلس کی ان وثائق تک رسائی ہوئی، یہ طریقے استعمال کیے جا رہے تھے، مگر اس وقت یہ صرف مارکس کے کمیونزم کی حد تک تھے اور ابھی پوری سنگدلانہ قوت سے پولیس یا فوج کے ذریعے عملی نفاذ کا وقت نہ آیا تھا۔
گزرتا وقت اس بات کی شہادت فراہم کر رہا ہے کہ ۳۳ویں ڈگری (یہودی فری میسن کونسل میں بڑا رتبہ) کے یہودی راہنماؤں میں سے وثائق (پروٹوکولز) کے ’’نادیدہ مصنفین‘‘ نے جو کچھ لکھا، بین الاقوامی حالات و واقعات کی عملاً رونمائی نے کم و بیش انہیں درست ثابت کیا ہے۔ جنگیں، بحران، انقلابات، ضروریاتِ زندگی کی گرانی، مسلسل غیر مستحکم و متزلزل معیشت اور بداَمنی، دراصل چور دروازے سے دنیا پر فاتح بن کر چھا جانے کے یہودی حربے ہیں۔
بالشویک روس میں ان وثائقِ یہودیت کو اپنے قبضہ میں رکھنے کی سزا موت تھی، جو نہ صرف روس میں بلکہ روسی زیر تسلط ریاستوں میں آج بھی ہے۔ یہود کے زیراثر جنوبی افریقہ میں قانوناً وثائقِ یہودیت اپنے پاس رکھنا ممنوع ہے اور روس کی نسبت سزا بھی کم سخت ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر روس اور دنیا کے یہود ان وثائق کی عام اشاعت سے خوفزدہ کیوں ہیں؟
برسوں پر پھیلے لمبے عرصہ میں یہود کے بڑوں کے اجلاسوں میں طے کی گئی منصوبہ بندی کے ملخص کا نام دراصل وثائق (پروٹوکولز) ہے جن کی تعداد ۲۴ ہے۔ ان وثائق کو عام کتاب کے انداز میں پڑھنا بے فائدہ رہے گا۔ ان کے مندرجات دراصل بصیرت کے ساتھ تجزیہ اور کھوج لگا کر تہہ تک پہنچنے کا تقاضہ کرتے ہیں۔ ان میں بہت سی چیزیں عام قاری کو تضاد میں الجھا کر گمراہ کرنے والی بھی ہیں۔ ان وثائق کے مطالعہ کے دوران یہ بات ہر لمحہ پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ ان وثائق کے مخاطب وہ اعلیٰ رتبے والے یہودی ہیں جو حقیقی منصوبہ بندی کی جزیات تک سے با خبر ہیں اور جن کی راہنمائی کے لیے یہ ملخص مرتب کیا گیا ہے، اور جو اس اختصار کو تفصیل میں ڈھالنا جانتے ہیں۔ جبکہ دوسروں کے لیے یہ معمہ سے کم نہیں ہے۔ اس مقام پر ایک غیر یہودی قاری مشکل سے دوچار ہو جاتا ہے۔ یہ امر بھی واقع ہے کہ سبھی یہودی بھی ان وثائق سے مکمل طور پر آگہی نہیں رکھتے۔ یہ وثائق تو فی الواقع اونچے درجہ کی ایک ایسی دستاویز کے طور پر مرتب کیے گئے ہیں کہ یہ قوم (یہود) کے اندر جوش و جذبہ اور راہنمائی کا کام دیں کہ یہود کا عملی کام موثر انداز میں خوش اسلوبی سے آگے بڑھے تو قوم کو فکری غذا فراہم کرے گا۔
یہ وثائق پڑھنے والے سے سنجیدہ اور فکری مطالعے کا تقاضا کرتے ہیں۔ یہ بار بار پڑھی جانے والی دستاویز ہیں کہ ہر بار کا مطالعہ کئی اسرار و رموز سے پردہ اٹھاتا ہے۔ یہودیت کے ’’علامتی سانپ‘‘ پر لکھے گئے نوٹ سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ عیسائیت تو پہلے ہی یہود کی سنگدلانہ اور غیر انسانی زنجیر میں پھنس کر مغلوب ہو چکی ہے اور اب یہودیت اسلام کی جانب اپنا (مکروہ اور سازشی) سفر شروع کر چکی ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ یہود اپنے تمام مکر و فریب اور ہر ’’ہتھیار‘‘ سے مسلح (اسلام کے خلاف) پہلے ہی میدان میں موجود ہیں اور ان کے مقابلے میں ذرا سی غفلت و کوتاہی ملتِ مسلمہ کی آزادی و خودمختاری کے لیے کریہہ موت ہو گی۔ مسلمان یہود کا آخری (اہم) نشانہ ہیں مگر عقل و دانش اور مستعدی سے یہ ان کے مذموم خوابوں کی تعبیر کا شیرازہ بکھیر سکتے ہیں۔ اس راہ کی مشکلات اگرچہ مسلّمہ ہیں مگر یہ کام ہے ضروری۔ خطرہ جس قدر زیادہ ہے چیلنج بھی اسی قدر بڑا ہے۔ یقیناً اللہ کی مدد و نصرت سے یہ صہیونیت کے مکر و دجل کے مقابلے میں کامران رہیں گے۔ بلا شک و شبہ یہ بہت بڑا اعزاز ہے، سعادت کا موقعہ ہے کہ عالمی صہیونیت کے خلاف دامے درمے اور سخنے اس جہاد میں حصہ لیا جائے۔

نائجیریا میں عیسائی مسلم فسادات

ملک احمد اسرار

مسلم اکثریت کے حامل اور آبادی کے لحاظ سے براعظم افریقہ کے سب سے بڑے ملک نائجیریا میں مسلمان عیسائی انتہا پسندوں کے ہاتھوں مسلسل قتل ہو رہے ہیں۔ نائجیریا کی آبادی تقریباً ۱۲ کروڑ اور رقبہ ۳۵۶۶۶۷ مربع میل ہے۔ شمالی علاقوں میں مسلمان اور جنوب میں عیسائیوں کی اکثریت ہے۔ مجموعی طور پر مسلمان ۶۵ فیصد سے زیادہ ہیں اس کے باوجود ملک کا کوئی سرکاری مذہب نہیں۔ نائجیریا میں مجموعی طور پر ۲۵۰ قبائل آباد ہیں مگر یوروبا اور باؤسا قبائل سیاسی طور پر زیادہ اہم ہیں۔ یوروبا کی اکثریت عیسائیوں اور باؤسا کی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ نائجیریا کئی دہائیوں سے قبائلی اور لسانی فسادات کی لپیٹ میں ہے اور صرف گزشتہ ۹ ماہ میں ۱۲۰۰ سے زیادہ افراد ان لسانی فسادات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
نائجیریا براعظم افریقہ میں ہے مگر حکمران عیسائی ہیں، نائجیریا کے موجودہ صدر الوسی گن اوبسانجو بھی عیسائی ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانا عیسائی سیاستدانوں اور پادریوں کا بنیادی کام ہے۔ اسی نفرت کے نتیجے میں شمالی نائجیریا کے جن جن علاقوں میں عیسائی اکثریت میں ہیں وہاں ۱۹۸۷ء سے مسلمانوں کا مسلسل قتلِ عام ہو رہا ہے۔ فوج میں اگرچہ مسلمانوں کی اکثریت ہے مگر جرنیلوں اور دیگر فوجی افسروں میں عیسائی ہی غالب اکثریت رکھتے ہیں۔
صدر اوبسانجو سمیت دیگر عیسائی لیڈر اسلام کو نائجیریا کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر نائجیریا میں مسلمان منظم ہو گئے تو افریقہ میں ایک اور سوڈان پیدا ہو جائے گا بلکہ اس سے کہیں زیادہ طاقتور۔ براعظم افریقہ دنیا کا واحد براعظم ہے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں اور صلیبی دنیا اپنی تمام کوششوں کے باوجود اسے عیسائی براعظم بنانے میں ناکام ہو چکی ہے لیکن اس کی سازشیں جاری ہیں۔
چونکہ نائجیریا قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے بھی مالامال ہے، تیل پیدا کرنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے، اس کی اسی اہمیت کے باعث مغربی قوتوں نے اسے مستحکم نہیں ہونے دیا۔ مسلسل بغاوتیں اور لسانی جھگڑے اس ملک کا مقدر بنا دیے گئے ہیں۔ مغربی حکومتوں اور مغرب کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے یہاں کرپشن کے نفوذ اور تشدد پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اربوں ڈالر کا تیل برآمد کرنے کے باوجود لسانی فسادات اور کرپشن کے باعث یہ ملک ترقی اور خوشحالی کی منزل حاصل نہیں کر سکا۔ حکمران، جرنیلوں کا ٹولہ اور ان کے ساتھی یہاں کے امیر ترین لوگ ہیں، جبکہ نصف سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نچلی سطح پر زندگی گزار رہی ہے۔ ۱۹۸۰ء میں فی کس آمدنی ۱۰۰۰ ڈالر تھی جو اب ۲۵۰ ڈالر سالانہ سے بھی کم ہو چکی ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ کرپٹ جرنیل، جو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حصہ دار بھی ہیں، انتہاپسند عیسائیوں کو اسلحہ اور سرمایہ فراہم کرتے ہیں، مقصد مسلمانوں کو ہر حالت میں پسماندہ رکھنا ہے۔ مسلم کش پالیسی کے باعث مغربی طاقتوں نے نائجیریا کے حکمرانوں کو ’’سب اچھا‘‘ کا سرٹیفکیٹ دیا ہوا ہے۔
ترکی کے سابق وزیراعظم نجم الدین اربکان نائجیریا کی سیاسی و معاشی اہمیت سے آگاہ تھے اسی لیے انہوں نے نائجیریا کو ترقی پذیر ممالک کی تنظیم D-8 میں شمولیت کی دعوت دی۔ اس دعوت کا یہاں کے مسلمانوں نے خیرمقدم کیا مگر مغرب کی آلہ کار عیسائی اقلیت نے اسے پسند نہ کیا۔ D-8 کے سربراہی اجلاس میں نائجیریا کے سربراہ کے بجائے دوسرے افراد نے شرکت کی۔ یہاں کی عیسائی اقلیت اسلام کی اس قدر دشمن ہے کہ اسے کسی اسلامی تنظیم میں نائجیریا کا بطور مبصر شامل ہونا بھی پسند نہیں اور وہ اسے بھی ’’اسلامائزیشن‘‘ کے لیے خفیہ سازش سمجھتی ہے۔ یہاں کی مسلم اکثریت نے جب بھی اسلامی قانون کے نفاذ کے لیے آواز بلند کی اسے بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
اپریل ۱۹۹۱ء میں شمالی ریاست کاتسینہ (Katsina) میں اسلامی نظام کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں ۵۰۰ سے زیادہ افراد کو قتل کیا گیا۔ ۷ جنوری ۱۹۹۲ء کو ایک ایسے ہی مظاہرے میں ۴ افراد کو ہلاک ۲۹ کو زخمی اور ۲۶۳ کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایک دوسری شمالی ریاست کادونہ سے ۸۰ کلومیٹر دور زاویہ میں اسلامی سنٹر پر عیسائیوں نے حملہ کر کے لاتعداد افراد ہلاک کر دیے۔ کئی دیگر شہر اور قصبے بھی فسادات کی لپیٹ میں آگئے۔ مسلم کش فسادات کا یہ سلسلہ وقفوں وقفوں سے جاری رہا۔
یہ گزشتہ سال ۱۹ ستمبر کی بات ہے کہ ریاست زمفارا کے دارالحکومت گساؤ میں ایک بہت بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ریاست کے ۳۹ سالہ گورنر احمد ثانی نے کہا: ’’اللہ کا حکم ہے کہ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ، یہ نہیں کہ بعض باتوں کو مانو اور بعض کو چھوڑ دو۔‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے مجمع سے پوچھا کہ کیا آپ لوگ اسلامی شریعت کے نفاذ میں میرا ساتھ دیں گے؟ مجمع نے یک زبان ہو کر اعلان کیا کہ ہم ساتھ دیں گے۔ انہوں نے یہ بات ایک بار پھر پوچھی تو انہیں پہلے والا ہی جواب ملا اور پوری فضا ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھی۔ ریاست کی اسمبلی نے اکتوبر میں شرعی قوانین کے نفاذ کے بل پاس کر لیے۔ مسلم علاقوں میں شریعت نافذ کرنے کا اعلان مقبولیت حاصل کرنے کا آسان طریقہ ہے۔ زمفارا کے گورنر کی طرح کئی دیگر ریاستوں نے بھی عوام سے وعدہ کیا کہ وہ بھی شرعی قوانین نافذ کر دیں گے، ان ریاستوں میں نائجیریا، سکوٹو، گامے کادوانہ، کاستینہ وغیرہ شامل ہیں۔
ان اعلانات سے عیسائی اقلیت بھڑک اٹھی۔ عیسائی لیڈروں نے اسے آئین کے منافی اقدام قرار دیا، حالانکہ نائجیریا کے دستور کی دفعہ ۴، ۵ اور ۶ کے تحت ریاستوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی حدود میں عدل و انصاف کے لیے قانون سازی کر سکتی ہیں۔ زمفارا میں عیسائی لیڈر پیٹر ڈیمو نے کہا کہ احمد ثانی جب سے برسراقتدار آیا ہے عیسائیوں میں تشویش بڑھ گئی ہے۔ پادریوں، مقامی عیسائی تنظیموں، عیسائیوں کی عالمی تنظیم کرسچین سالیڈیٹری انٹرنیشنل اور امریکی کانگریس کے بعض اراکین نے ایک طوفان کھڑا کر دیا اور عیسائیوں نے مسلمانوں پر باقاعدہ حملے شروع کر دیے۔
زمفارا میں تو تقریباً ساری آبادی ہی مسلمان ہے اور عیسائی نہ ہونے کے برابر ہیں، جبکہ کادوانہ میں جہاں عیسائی اقلیت قابلِ ذکر تعداد میں ہے، شرعی قوانین کے نفاذ کے خلاف پرتشدد مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ ماہ فروری میں ہونے والے اس قتل عام میں تین سو سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا۔ حملہ آور عیسائی لاٹھیوں، ڈنڈوں اور چھروں اور خودکار ہتھیاروں سے مسلح تھے۔ مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو نذر آتش کرنے کے لیے وہ پٹرول کے ڈبے بھی ساتھ لائے تھے۔ یہ ایک منصوبہ بند حملہ تھا۔ سی این این کے مطابق وینگارڈ کے علاقہ میں یونیورسٹی کے قریب ۲۱۰ مسلمانوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔ شہر کی پولیس کے مطابق ۹۰ افراد کی لاشیں شہر کے اردگرد دیہاتوں، مسجدوں اور چرچوں سے برآمد ہوئی ہیں۔ سینکڑوں گھروں اور درجنوں مساجد کو بھی عیسائیوں نے نذر آتش کر دیا۔ شہر میں مسلمانوں کی آبادی عیسائیوں کے برابر ہے، مگر یہ حملہ اچانک تھا اس لیے انہیں بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ جب مسلمانوں نے دفاعی حملہ کیا تو سو کے قریب حملہ آور عیسائی جہنم واصل ہو گئے اور چند چرچ بھی مشتعل نوجوانوں کا نشانہ بن گئے۔
۲۹ فروری کی خبروں کے مطابق نائجیریا کے ایک اور شمالی شہر عابہ میں عیسائیوں نے ۴۵۰ سے زیادہ ہاؤسا قبیلہ کے مسلمانوں کو قتل کر دیا۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق عیسائی انتہاپسندوں نے مسلمانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کیا۔ سفارتی ذرائع اور مبصرین نے اسے ایک قتلِ عام قرار دیا۔ عیسائیوں نے ایک مسجد بھی جلا دی اور سڑکیں بلاک کر کے مسلمان عورتوں، بچوں اور مردوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا۔ عینی شاہدوں کے مطابق گلیاں لاشوں سے بھر گئیں۔
زمفارا میں نافذ کیے گئے شرعی قوانین کی حیثیت مسلمانوں کے پرسنل لاز سے زیادہ نہ تھی اور عیسائیوں پر ان کا اطلاق بھی نہ ہوتا تھا۔ عملاً یہ معاشرتی اصلاح کے قوانین تھے۔ زمفارا کے دارالحکومت گساؤ کے ایک دینی مدرسے کے پرنسپل سالم عثمان محمد کے مطابق شرعی قوانین کے نفاذ سے پہلے ریاست میں فسق و فجور عام تھا، چوریوں، شراب نوشی اور دوسری برائیوں کو روکنے والا کوئی نہ تھا، ان کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں اسلامی شریعت صدیوں نافذ رہی، مگر برطانیہ نے ہمارے معاشرے کو سیکولر بنانے کے لیے برائیوں کو عام کر دیا اور شرعی قوانین ختم کر دیے۔
گورنر احمد ثانی نے جسم فروشی کے خاتمے کی بھی کوشش کی اور پیشہ چھوڑنے والی طوائفوں کے لیے مراعات کا اعلان کیا۔ بیشتر طوائفیں اپنے اڈوں سے غائب ہو گئیں جبکہ ۳۰ نے پیشکش کا فائدہ اٹھایا۔ گورنر نے مخلوط تعلیم کے خاتمہ اور خواتین کے لیے الگ سفری ٹرانسپورٹ کے لیے بھی کئی اقدام کیے۔ مگر صلیبی صدر اوبسانجو کو اسلامی قوانین کا نفاذ کسی طور منظور نہ تھا، اس نے پہلا کام یہ کیا کہ خاموشی سے زمفارا میں عیسائی پولیس کمشنر لگا دیا جس نے آتے ہی یہ اعلان کیا کہ شرعی قوانین سے متعلق اسے کوئی ہدایات نہیں ملیں اور نہ ہی وہ کسی دوسرے کو یہ کام کرنے دے گا۔
صلیبی صدر اوبسانجو نے شرعی قوانین کے نفاذ کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ کسی کو سنگسار کرنا یا اس کے ہاتھ کاٹنا آئین کے خلاف ہے۔ اس نے کہا کہ شریعت کوئی مرتب قانون نہیں بلکہ یہ قرآن مجید اور دیگر کتب کے محض حوالے فراہم کرتی ہے کہ یہ قانون کون سی قسم کا ہے۔ صدر اوبسانجو بذاتِ خود امریکہ گیا اور صدر کلنٹن سے ہدایات لیں کہ شرعی قوانین نافذ کرنے والی ریاستوں سے کیسے نمٹنا ہے۔ مغربی میڈیا نے بھی اوبسانجو کا مکمل ساتھ دیا۔ نائجیریا کے مذہبی عیسائی رہنماؤں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ہسٹریا کے مریض ہوں، انہوں نے اشتعال انگیز تقریروں سے صلیبی اقلیت کو خونخوار بنا دیا۔ اینگلی کن چرچ نے اعلان کیا کہ شرعی قوانین کے نفاذ کو نہ روکا گیا تو نائجیریا ایک ’مسلم بنیاد پرست ریاست‘‘ بن جائے گا۔ پینٹی کوسٹل چرچ، رومن کیتھولک بشپ سب چیخنے لگے کہ شرعی قوانین کا فورًا قلع قمع کر دو، ورنہ یہ عیسائیت کی بقاء کے لیے بہت خطرہ بن جائیں گے۔ یہ بیانات پڑھنے اور تقریریں سننے کے بعد عیسائی خونخوار جنونی بن کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور صرف دو دنوں میں ایک ہزار کے قریب مسلمانوں کو شہید کر دیا، بیسیوں مسجدیں اور کروڑوں کی جائیدادیں جلا دیں۔ شرعی قوانین نافذ کرنے والی ریاستوں پر اس قدر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ ان قوانین کو واپس لینے پر مجبور ہو گئیں۔ الجزائر اور ترکی کے بعد صلیبی جمہوریت کا یہ ایک اور خوفناک چہرہ ہے۔ یہ جمہوری دہشت گردی کی بدترین شکل ہے۔ اہل مغرب کو سوچنا چاہیے کہ وہ کب تک ان گھٹیا ہتھکنڈوں، دہشت گردی اور سازشوں سے اللہ کی مخلوق کو اسلام سے دور رکھ سکیں گے۔
(بہ شکریہ روزنامہ پاکستان لاہور)

خواتین کی عالمی کانفرنسیں اور ان کے مقاصد

راحیل قاضی

چند سال پہلے قاہرہ اور بیجنگ میں منعقد ہونے والی خواتین کی عالمی کانفرنس کے بعد خواتین کے حقوق اور مرد و عورت میں مساوات کے عنوان سے اقوامِ متحدہ کے اداروں اور بین الاقوامی لابیوں کی مہم میں جو تیزی آئی ہے اس کے اثرات خاص طور پر مسلم ممالک میں محسوس کیے جا رہے ہیں جہاں نکاح، طلاق، وراثت اور دیگر معاملات میں قرآن و سنت کے احکام و قوانین کو تبدیل کر کے انہیں اقوامِ متحدہ اور مغربی ممالک کے معیار کے مطابق ڈھالنے کے لیے مسلم حکومتوں پر دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے اور کئی ممالک میں اس دباؤ کے تحت شرعی قوانین میں ردوبدل کا عمل شروع ہو گیا ہے۔
اس پس منظر میں ۵ سے ۷ جون ۲۰۰۰ء کو نیویارک میں منعقد ہونے والی خواتین کی عالمی کانفرنس کے حوالے سے راحیل قاضی کا یہ معلوماتی مضمون قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ عالمِ اسلام کے علمی و دینی اداروں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اس سلسلہ میں سنجیدہ طرزِ عمل اختیار کریں اور قاہرہ کانفرنس اور بیجنگ کانفرنس کے فیصلوں کو ازسرنو مطالعہ کر کے ان کی روشنی میں نیویارک کانفرنس سے قبل عالمی سطح پر ان مسائل پر ٹھوس علمی و دینی موقف کے اظہار کا اہتمام کریں۔
ادارہ


بیجنگ پلس ۵

یہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس خصوصی سیکشن کا نام ہے جس میں اقوامِ عالم کے خصوصی نمائندوں کو اس بات پر غور کرنے کے لیے اکٹھا کیا جاتا ہے کہ انہوں نے بیجنگ میں عورت کے لیے جو لائحہ عمل تجویز کیا تھا اس پر اقوامِ عالم نے کتنا عمل کیا ہے اور اس سلسلے میں کیا پیشرفت ہوئی ہے۔

عورت کے بارے میں عالمی کانفرنسیں

عورت کے بارے میں پہلی عالمی کانفرنس ۱۹۷۵ء میں، دوسری عالمی کانفرنس کوپن ہیگن میں ۱۹۸۰ء میں، تیسری عالمی کانفرنس ۱۹۸۵ء میں نیروبی میں، اور چوتھی عالمی کانفرنس ۱۹۹۵ء میں بیجنگ میں منعقد ہوئی۔

بیجنگ کا پلیٹ فارم فار ایکشن

بیجنگ میں ایک پلیٹ فارم فار ایکشن یعنی آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا گیا جس میں عورت کے حوالے سے ۱۲ میدانِ کار مختص کیے گئے جو مندرجہ ذیل ہیں: (۱) غربت (۲) تعلیم (۳) حفظانِ صحت (۴) عورتوں پر تشدد (۵) مسلح تصادم (۶) معاشی عدمِ مساوات (۷) اداروں کا نظام (۸) عورت کے انسانی حقوق (۹) مواصلاتی نظام خصوصاً ذرائع ابلاغ (۱۰) ماحول اور قدرتی وسائل (۱۱) چھوٹی بچی (۱۲) اختیارات اور فیصلہ سازی۔

کب اور کہاں

اب ۵ سے ۹ جون تک نیویارک میں بیجنگ پلس ۵ جو کہ بیجنگ کانفرنس کے ۵ سال بعد ایک کانفرنس منعقد ہو رہی ہے، اور اس میں اقوامِ متحدہ کے ممبر ملکوں کے حکومتی وفود کے علاوہ غیر سرکاری تنظیموں کے وفود بھی شریک ہو رہے ہیں۔ اگرچہ یہ اتنے بڑے پیمانے کی کانفرنس نہیں ہے جیسا کہ بیجنگ کانفرنس تھی مگر اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ اس میں سارے معاہدوں کی توثیق کی جائے گی۔

اس کانفرنس کا عنوان ہے

"Women 2000: Gender Equality, Development and Peace for the Twenty-first Century"
۲۰۰۰ء کی خواتین اور اکیسویں صدی میں صنفی مساوات، امن اور ترقی

کون شرکت کر سکتا ہے؟

چونکہ یہ اقوامِ متحدہ کا ایک خصوصی اجلاس ہے اس لیے اس میں اقوامِ متحدہ کے ممبر ملکوں کے وفود اور وہ غیر سرکاری تنظیمیں جو کہ Ecosoc Status کی اہل ہیں، وہ شرکت کر سکتی ہیں۔ Ecosoc اقوامِ متحدہ کی معاشی اور معاشرتی کونسل ہے جو کہ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آپ اس کانفرنس میں شریک ہونے  کے اہل ہیں یا نہیں۔

عالمی تیاریاں

اس کانفرنس کے لیے عالمی تیاریاں تو ۱۹۹۵ء کے بعد سے ہی شروع ہو گئی تھیں مگر ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۰ء کے شروع میں اس کی تیاریاں عروج پر پہنچ گئیں، جبکہ ہر مہینے اس سلسلے میں کوئی نہ کوئی علاقائی کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس سلسلے میں تیاریوں کی کانفرنس یعنی Prep-Com منعقد کی گئیں اور ایک آج کل نیویارک میں ہو رہی ہے۔
  1. پہلی (Prep-Com) ۱۵ سے ۱۹ مارچ ۱۹۹۹ء نیویارک منعقد کی گئی۔
  2. ایشیا پیسیفک میٹنگ ۱۱ سے ۱۲ جون پینانگ میں۔
  3. ساؤتھ ایشیا سب ریجنل NGO میٹنگ ۱۱ سے ۱۴ اگست کھٹمنڈو میں۔
  4. ایشی اپیسیفک NGO سپمپوزیم ۳۱ سے ۴ ستمبر بنکاک میں۔
  5. اور بڑی سطح کی وزارتی کانفرنس ۲۶ سے ۲۹ اکتوبر بنکاک میں۔
  6. Lobbying Training ورکشاپ ۲۸ سے ۲۹ جنوری ۲۰۰۰ء کھٹمنڈو میں۔
  7. اور دوسری (Prep-Com) ۲۷ فروری سے ۱۷ مارچ ۲۰۰۰ء تک نیویارک میں منعقد ہوئی ہے۔

مسلمان عورت کیا کرے؟

اگرچہ ان کانفرنسوں میں بڑی تعداد میں مسلمان عورتوں نے شرکت کی مگر بدقسمتی سے وہ اپنے دین کو اس انداز میں سمجھتی ہیں جیسا کہ مغرب ان کو سمجھانا چاہتا ہے۔ ان میں اکثریت اس بات سے لاعلم ہے کہ ہمیں دامِ فریب میں پھنسایا جا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کی خوبصورتی کو اپنی ان لاعلم بہنوں اور ساری دنیا کی سسکتی عورت کے سامنے لایا جائے کہ جن حقوق اور رعایتوں کے لیے آج تم ماری ماری در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہو وہ ۱۴۰۰ سال پہلے محسنِ انسانیت نے تمہاری جھولی میں ڈال دیے تھے۔ تمہیں وہ سارے حقوق بن مانگے ہی عطا کر دیے تھے جن کے لیے آج کشکولِ گدائی لیے پھر رہی ہو۔ مگر یہ زیادہ آسان کام نہیں۔ آج کی مسلمان عورت کو جدید علم کے ہتھیار سے مسلح ہو کر اپنے اسلاف سے رشتہ جوڑتے ہوئے جدید اور قدیم زمانوں کے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ پا پر اعتماد سے قدم اٹھانے ہوں گے تاکہ نئی صدی میں شیطان کے چیلنجوں کا مقابلہ کر کے اسے مسلمان عورت کی باوقار صدی بنا سکیں۔
اس سلسلے میں مزید معلومات مندرجہ ذیل ویب سائیٹس سے حاصل کی جا سکتی ہیں:
Official Documents
http://www.un.org/womenwatch
Preview 2000
http://www.gnapc.org/apewomen

چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا

پروفیسر میاں انعام الرحمن

’’دنیا میں کیا کچھ موجود ہے جس کی مجھے ضرورت نہیں ہے‘‘۔ ایتھنز کے بازاروں میں عیش و عشرت کا قیمتی ساز و سامان دیکھ کر یہ تاریخی الفاظ سقراط نے کہے تھے۔ اس فقرے میں مضمر دلالتوں اور ابدی صداقتوں نے ’’شہرِ ہجر‘‘ کی تفہیم کو Order کرنے اور نقد و تبصرہ کے لیے راستہ وا کرنے میں میری بڑی معاونت کی۔ میں حیران تھا، چناب کنارے گجرات جیسے زرخیز خطے میں رہنے والا شخص اپنے تخیل میں ’’صحرا‘‘ کیوں بسائے ہوئے ہے، نہ صرف صحرا بلکہ اس کے کچھ Shades، جیسے ریگ، لمحہ، رنج، وداع۔ صحرا میں رنگارنگی، رعنائی اور تنوع نہیں ہوتا، لیکن صحرا ہے وسعت کی علامت۔ اگر ہم سقراط کے محولا بالا مقولے سے مدد لینا چاہیں تو بات کچھ بنتی نظر آتی ہے کہ طارق اشیاء کا رسیا نہیں، اس کا وژن Cosmic ہے۔ وہ زمانی تناظر کی راہنمائی میں تدبر و تفکر کرتا ہے، معاشرتی زندگی کے مادی لوازمات پرکشش سہی، لیکن ہمارے شاعر کے تفکر کو پامال نہیں کر سکے کہ اس کے نزدیک ان کی چنداں اہمیت نہیں۔
اس کی دوسری وجہ، طارق کی ملتان میں سکونت ہو سکتی ہے۔ میرے علم کے مطابق ’’شہر ہجرت‘‘ کا خالق کچھ عرصہ ملتان میں رہائش پذیر رہا ہے۔ شاید طارق کے لیے شہر ملتان، شہر نگاراں بن گیا ہے۔ ملتان اگرچہ صحرائی علاقہ نہیں لیکن اس میں صحرائی ٹچ بہرحال موجود ہے۔ یہ صحرائی ٹچ ان کے تحت الشعور پر ڈیرہ جمائے بیٹھا ہے۔ طارق کی شاعری کا ایک اور عنصر، اس کے اس ملتانی حوالے کو تقویت دیتا ہے، کوئی ظاہر بین بھی بھانپ لے گا کہ ان کے کلام میں صوفیانہ رنگ بھرپور موجود ہے۔ ملتان کا اس ضمن میں تعارف کرانا ضروری معلوم نہیں ہوتا۔
اس کی تیسری وجہ پاکستان اور مسلم دنیا کی حالتِ زار بھی ہو سکتی ہے، کیونکہ ایسی ہی صورت حال تھی جب ٹی ایس ایلیٹ نے مغربی دنیا کے انہدام و شکست و ریخت کو Wasteland میں قلم بند کیا۔ طارق نے Wasteland کا ترجمہ صحرا کیا ہے۔
اس پس منظر میں ’’صحرا‘‘ طارق کی داخلی معروضیت کے اظہار کے ساتھ ساتھ استعارہ بن جاتا ہے۔ اگر آپ صحرا کو Depersonify کریں تو ’’رنج‘‘ ابھر آتا ہے۔ یوں صحرا کی ویرانی اور دہشت ’’رنج و وداع‘‘ جیسے لفظوں کو بار بار استعمال کرنے کا موجب بنتی ہے۔ ایسی صورت حال میں ہمارے شاعر کے لیے ایک راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ سخن طرازی کے لیے خود اپنی ذات میں جھانکے، اپنے اندر مجمع لگائے اور اس میں مضمر تنوع، ہمہ رنگی کا عرفان حاصل کرے تاکہ منصبِ تخلیق کے تقاضے پورے ہو سکیں اور پھر یہ تخلیق مغائرت محض Pure Alienation پر مبنی نہ ہو کہ انسانی ذات کی موضوعی صداقتیں اظہار و ابلاغ نہ پا سکیں۔ ہاں ہمارا شاعر ہر حالت، ہر کیفیت میں اپنی آنکھ کھلی رکھتا ہے اور یہ بنیادی پیغام دیتا ہے کہ اگر آپ دانش و فرزانگی کے متلاشی ہیں تو ادھر ادھر جھک مت مارئیے، اپنے سے بڑی دانش، آپ کو اپنے ہی اندر ملے گی۔ طارق کی تخیلی فکر کا یہ پیغام مجھے بے اختیار، ژونگ کا یہ فقرہ یاد دلاتا ہے ’’لاشعور کی دانش‘‘۔ یہیں پر ’’دید‘‘ بھی شہر ہجرت میں بنیادی حیثیت سے رونق افروز ہو جاتی ہے۔ صحرا کے حوالے سے صرف یہی شعر ملاحظہ فرمائیں ؎
جھلک رہا تھا کہیں دور صبح کا چہرہ
کسی کے دھیان میں صحرائے جاں سلگتا رہا
صحرائے جاں کی ترکیب نہایت خوبی سے استعارۃً استعمال کی گئی ہے۔ پہلے مصرعے میں ’’کہیں دور‘‘ نے شعر کے صحرائی ٹچ کو بہت نمایاں کیا ہے۔ ’’کہیں دور‘‘ اور ’’سلگتا رہا‘‘ لمحہ رواں معلوم ہوتے ہیں۔ ماضی، حال، مستقبل اس لمحہ رواں میں سمٹ آئے ہیں۔ پیکارِ مسلسل کی صورت میں ہمارا شاعر اس ’’لمحے‘‘ سے قربتیں بڑھاتا نظر آتا ہے ؎
یوں لمحہ لمحہ کٹتے ہوئے کٹ ہی جائے گی
طارق زمانوں کی یہ مسافت کسی گھڑی
اس شعر میں تقریباً تمام مترادفات استعمال کیے گئے ہیں۔ لمحہ، زمانوں، گھڑی، پھر مسافت اور کٹنا بھی ضمناً مترادفات میں آجائیں گے کیونکہ مسافت لمحوں کے بغیر ناممکن ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ طارق محدود الفاظ میں نہایت خوبصورت انداز سے بہت بامعنی بات کہہ سکتا ہے۔ یہ شعر دیکھئے ؎
لمحہ خواب وداع مانگنے آیا طارق
سایہ خواب نے اک عمر رفاقت چاہی
لفظ وداع بھی آپ کو اس شعری مجموعے میں بار بار ملے گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ طارق آئینِ نو سے ڈرتا نہیں۔ طرزِ کہن پر اڑتا نہیں، وداع انہی معنوں پر دلالت کرتا ہے۔ لمحہ خواب اور سایہ خواب پر غور کریں۔ غالباً لمحہ خواب خارجی اور متجسم معنوں میں استعمال ہوا ہے اور خواب داخلی اور تجریدی معنوں میں۔ کہتے ہیں چوٹ گرم ہو تو شدت کا احساس نہیں ہوتا۔ لمحہ خواب گرم چوٹ کی طرح ہے اور سایہ خواب ما بعد کی کیفیات جو نہ صرف دیرپا ہوتی ہیں بلکہ تکلیف بھی ہوتی ہیں۔ دید اور خواب کے حوالے سے یہ شعر ملاحظہ فرمائیں ؎
اک دید میں ہوتا ہے ودع یار اے طارق
اک دید میں دائم سبھی خواب گزراں ہیں
دائم کے ساتھ خواب گزراں بہت خوبی سے استعمال ہوا ہے۔ خواب ندی کی مانند متعین اور متحرک ہوتا ہے۔ ندی کے دو متوازی چلتے ہوئے کنارے جہاں ندی کو متعین کرتے ہیں وہیں مسلسل آگے بڑھتا ہوا پانی ہمہ وقت متحرک ہوتا ہے۔ خواب گزراں ایسا ہی بہتا ہوا پانی ہے اور آپ یہ تو جانتے ہیں کہ ایک ہی ندی میں دوبار نہیں نہایا جا سکتا۔
شہر ہجر کے بالاستیعاب مطالعہ سے طارق کی نفسی کیفیت کھل کر سامنے آتی ہے۔ جدت اور تخلیقی ایج کے باوجود ہمارا شاعر اپنی ذات سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ اس کے تفکر و تخیل میں داخلیت بھری پڑی ہے۔ صحرا کا استعارہ اسے اپنی ذات میں گم کرنے کا باعث بنتا ہے کہ خارجی واقعیت موافقِ حال نہیں  ؎
خود اپنے بجز کچھ نہیں اندوختہ میرا
جو بھی مری صدیوں کی بضاعت ہے میں خود ہوں
اگر سرسری نظر سے دیکھیں تو اس میں وجودی رنگ جھلکتا ہے لیکن ’’صدیوں کی بضاعت‘‘ سے صرف ماورائیت کا اظہار ہوتا ہے بلکہ ’’میں‘‘، ’’ہم‘‘ کا روپ دھار لیتا ہے۔ ہمارا شاعر داخلی سفر پر آمادہ ہے، اپنی ذاتی حیثیت سے نہیں بلکہ بحیثیت انسان ۔۔۔ کہ انسان کا اندوختہ انسان ہے  ؎
چھونے کو عالمِ انفس ہی کے آفاق بہت
سوئے انفس بھی اگر اپنی نظر جانے دو
اختباری روش سے محترز اپنا داخلی سفر جاری رکھتے ہوئے ہمارا شاعر ایک مقام پر بے اختیار کہتا ہے ؎
ہٹا کے خود سے نگاہیں میں اور کیا تکتا
ہر اک لحظہ تھا آشوبِ ذات کا لحظہ
یہ Self Knowing کی طرف پیش قدمی ہے۔ قدیم یونان کے سو فسطائیوں کا نعرہ تھا Assert Thyself ۔ ان کا مقابل سقراط جیسا نابغہ روزگار آیا اور ان کی آواز کو یوں پلٹایا Know Thyself ۔ آشوبِ ذات کی ترکیب اپنی تمام تر معنویت سمیت Self Knowing کے کٹھن سفر کا عنوان ہے۔ اس عنوان کے بین السطور Self Knowing کے تمام Shades بطورِ داستان موجود ہیں۔ اگر شعر کو انہماک سے پڑھیں تو یہ داستانِ سوزِ جگر اپنا طلسمی حصار قاری کے گرد قائم کر دیتی ہے اور قاری طارق کا شریکِ سفر ہو جاتا ہے۔ آشوبِ ذات کی المناکی اور کرب و اندوہ سے ہمارا شاعر مضمحل نہیں ہوتا کہ وہ ہر رنگ میں آنکھیں کھلی رکھتا ہے۔ اس کی یہ خصوصیت آشوبِ ذات کی جگر سوزی کو ارتفاعیت بخشتی ہے اور داخلی سفر کے اس مرحلے پر ہمارا شاعر اپنی کیفیت کا یوں اظہار کرتا ہے ؎
محال ہے کہ یہ صدیوں کی پیاس بجھ جائے
اتر گئے ہیں تہہ ریگ کتنے ہی دریا
ہاں Knowing Thyself قائم ہے اور قائم رہے گا، البتہ طارق ایک حل نکالتا ہے ؎
یہ پیاس وہ نہیں کہ دریا سے بجھ سکے
ہاں موجہ سراب اگر میزبان ہو
تاحال، داخلی سفر کا اختتام، علم و تیقن پر ہونا محال ہے۔ اگر کوئی سفر کی صعوبتوں سے تھک کر، اندرونی توڑپھوڑ سے بدحال ہو کر ’’موجہ سراب‘‘ کو میزبان بنا لے تو بنا لے کہ ہر شخص کی Limitations ہوتی ہیں جو بطور مسافر اس کے Potential کا تعین کرتی ہے۔ آخر وہی ہوتا ہے جو اکثر ہوتا آیا ہے  ؎
ہر کوئی اپنے لیے ہے ایک لا ینحل سوال
لفظ ہیں اور اپنے معانی ڈھونڈتے پھرتے ہیں ہم
میں خود ہوں؟ یا کوئی اور؟ یا کچھ بھی نہیں
کون ہے کس کی چاہت میں پھرتا ہوں میں
خلیل جبران کو بھی کہنا پڑا تھا کہ ’’میں کبھی لاجواب نہیں ہوا، لیکن اس شخص سے جس نے پوچھا، تم کون ہو؟‘‘۔ یہ تفکر و تدبر کا وہ مقام ہے جہاں فلسفہ ساتھ چھوڑ جاتا ہے اور تصور و سلوکیت انسان کے راہنما بن جاتے ہیں۔ ہمارا شاعر اب فلسفی نہیں رہتا۔ کیا، کیوں اور کیسے کے سوالوں سے نجات پانے کی سبیل دیکھ لیتا ہے اور کچھ یوں کلام کرتا ہے  ؎
چاک قمیص کی تو کرا لی رفوگری
اب کیوں نہ چاک دل کو بھی بازار لے چلو
یہاں لفظ ’’بازار‘‘ بہت ذو معنی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن شہر ہجراں کے مطالعہ سے مترشح ہوتا ہے کہ طارق عشق کے ابتذالی پہلو سے، جو آرائش خم و کاکل، بادہ و ساغر اور لب و رخسار کے قصوں سے مملو ہوتا ہے، بہت دور فکر و نظر کی بلندیوں پر متمکن ہے۔ ہمارے شاعر کے ہاں زندگی کی اعلیٰ قدروں کا حوالہ Mental Reservation کی حد تک ملتا ہے۔ اس حوالے میں دانستگی شامل نہیں۔ محبت، دل سوزی، کرب و اندوہ کا احساسِ شدید اور ان سب کا خالق ایک جذبہ محیط ۔۔۔ ابنائے جنس سے گہری ہمدردی و خلوص۔ سر آغاز سے اختتام تک، طارق کا یہ جذبہ قائم و دائم نظر آتا ہے۔ اس اعتبار سے ’’بازار‘‘ کے ابتذالی معنی خارج از امکان ہی سمجھے جا سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے ’’بازار‘‘ کے Refined اور Cultured معنوں میں استعمال کیا ہے۔ بازار سے مراد کوچہ عشق ہے اور دل کے چاک کی رفوگری محبوب حقیقی سے مطلوب ہے۔ اسی عالمِ کیف وجد میں ہمارا شاعر چند تقاضے کرتا ہے  ؎
دو گھڑی کو تو اٹھا لو یہ زمانے کا حجاب
دو گھڑی گردش افلاک ٹھہر جانے دو
تم مرے ہو تو مری ظلمتِ شب میں اک پل
اپنے پیکر کی صباحت کو بکھر جانے دو
آشوبِ ذات پر قائم کی ہوئی یہ ہمہ بینی و ہمہ دانی کی عمارت بہرحال نامکمل رہتی ہے کہ ہر معلوم ایک نامعلوم کی طرف دھکیل دیتا ہے  ؎
ازل سے محو جستجو ہوں
اے غایتِ زیست تو کہاں ہے
طارق کے کلام میں بہت تنوع ہے اور مکالمے جیسا انداز جھلکتا ہے۔ مکالمہ زندگی اور حقیقت کے قریب ہوتا ہے۔ ہمارا شاعر حقیقت پسند ہے، آنکھیں کھلی رکھتا ہے۔ اپنے فکری سفر کے ارتقاء میں کہیں پڑاؤ نہیں ڈالتا۔ سفر کو منزل کے طور پر لیتا ہے اور داستان رقم کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ شعر ملاحظہ فرمائیں  ؎
حقیقتِ نفس الامر سے کس کو آگہی ہے
باعتبارِ خیال ہے معنی ہو کہ صورت
یہ شعر خاصا پہلودار ہے۔ ایک نظر سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ طارق فلسفے کے ایک مکتبہ فکر میں شامل ہو رہا ہے جو کائنات کی تفہیم کے ضمن میں ’’خیال‘‘ کو برتر مانتے ہیں کہ خیال ہی حقیقت ہے۔ اگر دوسری نظر سے دیکھیں تو یہ معنی بنتے ہیں کہ نفس الامر کی حقیقت کو جاننے میں جو بھی کاوشیں ہیں وہ تو بس اپنے اپنے خیالات میں، ورنہ کسے معلوم حقیقت کیا ہے؟
طارق کے اشعار میں شدید نوعیت کے اتار چڑھاؤ بھی موجود ہے۔ بعض مواقع پر زیادہ اضافتیں ہونے سے شعر میں تیزی پیدا ہوئی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ خیال کے ورود میں شدت ہے جس سے ہمارا شاعر نبرد آزما ہے۔ پھر اظہار ہونے سے فورًا ہی اس جوش و جذبہ کی شدت میں ٹھہراؤ سا آ جاتا ہے اور یہ ٹھہراؤ خیال یا جوش و جذبے کی جزئیات کو بیان کرنے میں طارق کا ہم رکاب ہو جاتا ہے۔
شہر ہجر اردو شاعری کی کلاسیکل روایت کا نیا ایڈیشن ہے۔ یہ نیا ایڈیشن بہرحال کچھ Version بھی رکھتا ہے۔ اس اعتبار سے مجھ سے طفلِ مکتب کی شہرِ ہجر پر خامہ فرسائی جسارت ہی معلوم ہوتی ہے۔ طارق کے کلام کی معنویت، فکری بلندی، لفظوں کی ترتیب، تراکیب، استعارے، ایک بڑے نقاد کا تقاضا کرتے ہیں جو اردو شاعری کی کلاسیکل روایت سے مکمل آگاہی رکھتا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ سنجیدگی، غیر جانبداری، قوتِ استدلال اور اظہارِ رائے کی صفات سے متصف ہو۔ کیونکہ شہرِ ہجر، مروجہ مزاج سے خاصی مختلف ہے، اس لیے بقول نظیری یہی کہوں گا  ؎
مشتری گو رد کن و دلال گو در پا فگن
جنس گر خوب است خواہد کرد پیدا قیمتے
اگرچہ خریدار رد کرے اور دلال پامال کرے، اگر چیز اچھی ہو گی تو ضرور قیمت پائے گی۔

امریکی دباؤ کے خلاف پاکستان کی دینی جماعتوں کا مشترکہ موقف

ادارہ

۲۷ مارچ ۲۰۰۰ء کو منصورہ لاہور میں جماعتِ اسلامی پاکستان کے جناب امیر قاضی حسین احمد کی دعوت پر دینی جماعتوں کے راہنماؤں کا ایک مشترکہ اجلاس جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی کی زیرصدارت منعقد ہوا جس کے شرکاء میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے راہنما مولانا محمد اجمل خان، سپاہ صحابہؓ پاکستان کے راہنما مولانا محمد ضیاء القاسمی اور مولانا محمد احمد لدھیانوی، جمعیت علماء پاکستان (نیازی) کے راہنما انجینئر سلیم اللہ خان اور قاری عبد الحمید قادری، جمعیت علماء پاکستان (نورانی) کے راہنما مولانا شبیر احمد ہاشمی اور سردار محمد خان لغاری، جماعتِ اہلِ حدیث کے راہنما علامہ زبیر احمد ظہیر، مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے راہنما مولانا معین الدین لکھوی اور مولانا ضیاء اللہ شاہ بخاری، پاکستان شریعت کونسل کے راہنما مولانا زاہد الراشدی اور مخدوم منظور احمد تونسوی، جمعیت اتحاد العلماء پاکستان کے سربراہ مولانا عبد المالک خان، تحریکِ جعفریہ پاکستان کے سربراہ علامہ ساجد علی نقوی، سپاہ محمد پاکستان کے سربراہ غلام عباس، جمعیت علماء اسلام (س) کے راہنما مولانا خلیل الرحمٰن حقانی، جماعتِ اسلامی کے مرکزی راہنما لیاقت بلوچ، اور جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے راہنما میاں محمد نعیم بادشاہ بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔
اجلاس میں موجودہ ملکی اور عالمی صورت حال کے تناظر میں پاکستان کی دینی جماعتوں کے متفقہ موقف کے طور پر مندرجہ ذیل مشترکہ اعلامیہ کی منظوری دی گئی اور مختلف راہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے تمام دینی جماعتوں کو مشترکہ جدوجہد کا اہتمام کرنا چاہیے۔


مشترکہ اعلامیہ

جماعتِ اسلامی پاکستان کی دعوت پر پنجاب کی دینی جماعتوں اور مرکزی رہنماؤں کا نمائندہ قومی اجلاس اتفاقِ رائے سے اعلان کرتا ہے کہ
  • قرآن و سنت کی بالادستی اور شریعت کے نفاذ سے ہی ملک بحران سے نکل سکتا ہے۔ اسلام سے حکمرانوں کے منافقانہ رویہ نے ملک و ملت کو تباہی کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔ فوجی حکومت آئین کی اسلامی دفعات بحال کرے، خصوصاً تحفظِ عقیدہ ختم نبوت اور تحفظِ ناموسِ رسالت ایکٹ کے لیے دوٹوک پالیسی کا اعلان کر کے ملک میں پھیلے شکوک و شبہات کا خاتمہ کرے۔
  • ملک اندرونی و بیرونی دباؤ کا شکار ہے۔ امریکہ خطہ میں دخل اندازی کے اپنے عزائم رکھتا ہے، پوری ملت عزت و غیرت کے ساتھ زندہ رہنے کا حق رکھتی ہے۔ قومی سلامتی کے لیے ایٹمی صلاحیت ناگزیر ہے۔ بھارت کے جارحانہ اور غاصبانہ اقدامات کے توڑ کے لیے ایٹمی صلاحیت سدِ جارحیت ہے۔ پاکستان کو اپنے تحفظ اور اپنی بقا کا بندوبست خود کرنا ہو گا۔ فوجی حکومت رائے عامہ کا احترام کرے اور سی ٹی بی ٹی مسترد کر دے۔ سی ٹی بی ٹی پر دستخط امتِ مسلمہ کے مقام و منصب اور تشخص کو ختم کرنے کے مترادف ہو گا۔ سامراجی طاقتوں کے اثر و نفوذ سے نکلنا اور نئے عالمی اسلامی بلاک کی تشکیل وقت کا تقاضا ہے۔
  • ملک میں معاشی اور سماجی انقلاب کی ضرورت ہے۔ سود پر مبنی معیشت ناکام اور ظالمانہ نظام ہے۔ فوجی حکومت لیت و لعل سے کام لینے کی بجائے آئین، وفاقی شرعی عدالت، سپریم ایپلیٹ کورٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل کے احکامات و سفارشات کی روشنی میں سود کا خاتمہ کرے اور اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات کرے۔ قرضوں کی لعنت کا خاتمہ، خود کفالتی نظام، زرعی و صنعتی انقلاب، مزدور اور غریب عوام کے معاشی حقوق کا تحفظ ہی اسلامی معاشی نظام ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی تنخواہ دار ٹیم ملک کو اسلامی معیشت کی راہ پر نہیں چلا سکتی۔ حکومت علماء اور محبِ دین معاشی ماہرین کو اعتماد میں لے۔
  • جہاد ملتِ اسلامیہ کے لیے عزت و عظمت کا میدان ہے۔ عالمی استعمار کے جانبدار اور متعصب نظام کے مقابلہ میں جہادی زندگی نے مسلمانوں کو وقار سے جینے کا ڈھنگ سکھایا ہے۔ کشمیر، چیچنیا، فلسطین، بوسنیا میں جاری جہاد اور مجاہدین کی حمایت و امداد ہمارا دینی فریضہ ہے۔ فوجی حکومت آگاہ رہے کہ عوام جہاد کے پشتی بان ہیں۔ پاکستانی ملتِ افغانستان میں عالمی استعماری اور دین دشمن قوتوں کے اشاروں پر کسی مداخلت کو برداشت نہیں کریں گے۔
  • فرقہ واریت کا خاتمہ، دہشت گردی اور تخریب کاری سے پاک معاشرہ ،اہلِ بیتؓ، خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ کا احترام اور مقام کا تحفظ تمام دینی جماعتوں کا مشن ہے۔ قتل و غارت گری اور عبادت گاہوں پر محلے دشمن کا کھیل ہے۔ تمام دینی جماعتیں محرم الحرام میں امن اور باہمی احترام کو یقینی بنائیں گی۔ حکومت، انتظامیہ اور پولیس بھی نیک نیتی سے مکمل غیر جانبداری کے ساتھ امن و امان کے لیے انتظام کرے۔ سرکاری میڈیا تمام مسالک کے احترام اور توازن کو برقرار رکھے۔
  • امریکی صدر نے اپنے دورہ پاکستان کے موقعہ پر اپنے خطاب میں پاکستانی قوم کو غلامی یا زبردستی کا چیلنج دیا ہے جس کا مقابلہ خودکفالت کے ذریعے کیے جا سکتا ہے۔
  • امریکی صدر بل کلنٹن کا دورہ جنوبی ایشیا میں مسائل کے حل کے لیے کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔ پاک بھارت تعلقات کی بحالی کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔ لیکن امریکی صدر کوئی دوٹوک حکمتِ عملی نہیں دے سکے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے امریکی صدر مثبت حل تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ اعلانِ لاہور فرسودہ اور دو قومی نظریہ کے منافی معاہدہ ہے، نیز اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کو حقِ رائے شماری دینا اور بھارت کو کشمیر میں مظالم سے روکنا ہی عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔ تمام دینی جماعتیں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہیں۔ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں سکھوں کا المناک قتل عالمی ادارے کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔
  • ملک میں بڑھتی ہوئی فحاشی، بدتہذیبی اور مادرپدر آزاد معاشرت پر تمام دینی جماعتیں سخت احتجاج کرتی ہیں۔ سرکاری ذرائع ابلاغ فواحشات کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ اسلامی اخلاق اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے فروغ کے لیے تمام دینی جماعتیں مشترکہ جدوجہد کریں گے۔ حکومت سرکاری الیکٹرانک میڈیا کا قبلہ درست کرے۔ این جی اوز اور مغرب زدہ خواتین کی سرپرستی کر کے حکومت مسلمانوں کے اخلاقی بگاڑ کا مکروہ کھیل بند کرے۔ قوم فیڈرل شریعت کورٹ اور حدود آرڈیننس کے خلاف این جی اوز حکومت میں شامل کی سازشیں کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
  • فوجی حکومت آئین کو نہ چھیڑے۔ احتساب اور مکمل غیر جانبدار کڑے احتساب کا عمل محدود مدت میں تیز رفتاری سے مکمل کرے۔ آئین کی دفعہ ۶۲، ۶۳ کی روشنی میں جمہوریت کی بحالی کے لیے نظامِ انتخاب کی اصلاح کرے۔ بحالی جمہوریت کے لیے حکومت کا اعلانات مبہم، غیر واضح اور تضاد کا شکار ہیں۔
  • تمام دینی جماعتیں انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر یقین رکھتی ہیں۔ انسانی حقوق کے آڑ میں غیر ملکی تہذیب، مشنری اداروں کا پھیلاؤ، قومی اداروں کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حوالے کرنا، تعلیمی اداروں کو عیسائی مشنری اداروں کے سپرد کرنا، قادیانیوں کی سرگرمیوں کو کھلی چھٹی دینا، اور تحفظِ ناموسِ رسالت ایکٹ میں کسی نوعیت کی ترمیم اسلامیانِ پاکستان کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔
  • دینی جماعتوں کا اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ جمعہ کی چھٹی بحال کی جائے۔
بعض شرکاء اجلاس کی تجاویز پر مشترکہ اعلامیہ میں مندرجہ ذیل مطالبات کا اضافہ کیا گیا:
  • تمام مسلم حکومتیں افغانستان کی امارتِ اسلامی اور چیچنیا میں مجاہدین کی حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں۔
  • جہادی تحریکات اور دینی مدارس کے خلاف کردار کشی کی مہم کی مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ جہادی تحریکات اور دینی مدارس کے خلاف کوئی اقدام برداشت نہیں کیا جائے گا۔
  • حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ آئین کے مطابق سپریم کورٹ کا شریعت ایپلٹ بنچ تشکیل دیا جائے۔

اسلامی نظام نافذ کیا جائے، CTBT پر دستخط نہ کیے جائیں

ادارہ

پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی کی دعوت پر گوجرانوالہ کی مختلف دینی جماعتوں کے راہنماؤں کا ایک مشترکہ اجلاس ۲۰ فروری کو مرکزی جامع مسجد میں مولانا احمد سعید ہزاروی کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں جمعیۃ علماء اسلام (ف)، جمعیۃ علماء اسلام (س)، پاکستان شریعت کونسل، جماعتِ اسلامی، جماعتِ اہلِ سنت، مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت، جمعیۃ اشاعۃ التوحید والسنۃ، اور جمعیت شبانِ اہلِ سنت کے راہنماؤں نے شرکت کی۔
اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ
  • عبوری آئین کے مستقل فرمان کے ذریعے دستورِ پاکستان کی اسلامی دفعات بالخصوص قراردادِ مقاصد اور عقیدہ ختمِ نبوت سے متعلقہ دفعات کو بحال کیا جائے،
  • ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے،
  •  CTBT پر دستخط سے صاف انکار کیا جائے،
  • سود کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے،
  • اور ملک میں فحاشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو کنٹرول کیا جائے۔

اجلاس کے شرکاء میں مولانا زاہد الراشدی، علامہ محمد احمد لدھیانوی، مولانا غلام رسول راشدی، ڈاکٹر غلام محمد، مولانا جمیل احمد گجر، جناب امان اللہ بٹ، مولانا حبیب اللہ خان، حافظ محمد ثاقب اور میاں محمد اسماعیل اختر بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

آئین کی اسلامی دفعات اور قادیانی مسئلہ کے بارے میں سرکاری وضاحت

دستورِ پاکستان کے معطل ہونے کے بعد دستور کی اسلامی دفعات بالخصوص قراردادِ مقاصد اور عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ کے بارے میں آئینی شقوں کے حوالے سے دینی حلقوں کی طرف سے جن شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے ان کے جواب میں نیشنل سکیورٹی کونسل کے رکن ڈاکٹر محمود احمد غازی اور وزارتِ قانون کے ترجمان نے درج ذیل وضاحت کی ہے۔

اس وضاحت پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے کہا ہے کہ ۱۲ اکتوبر کو چیف ایگزیکٹو نے دستورِ پاکستان کو معطل کرنے کا جو اعلان کیا تھا اس میں قراردادِ مقاصد، عقیدۂ ختمِ نبوت اور دیگر اسلامی دفعات کی کوئی استثناء نہیں تھی۔ اس لیے اصولی طور پر اس حوالے سے دستوری خلا بدستور موجود ہے اور اس خلا کو چیف ایگزیکٹو کے باقاعدہ دستوری فرمان کے ذریعے ہی پُر کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی اور وزارتِ قانون کے ترجمان کی یہ وضاحت خوش آئند ہے لیکن ان کے ارشادات چیف ایگزیکٹو کے دستوری فرمان کا متبادل نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے مذکورہ دستوری ابہام دور ہوتا ہے۔

وزارتِ قانون کی وضاحت

اسلام آباد (ا پ پ) قادیانیوں کے بارے میں آئین کے آرٹیکل ۲۶۰ کی کلاز تھری بدستور نافذ العمل ہے جس کے تحت قادیانی گروپ اور خود کو احمدی کہنے والے لاہوری گروپ کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔ یہ بات وزارتِ قانون کے ایک ترجمان نے گزشتہ روز بتائی۔ ترجمان نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی متعلقہ اسلامی دفعات بشمول آرٹیکل ۲۶۰ کے کلاز تھری کی دفعات، ۱۴ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے آرڈر، اور عبوری آئینی حکم نمبر ایک، ۱۹۹۹ء سے ہرگز متاثر نہیں بلکہ یہ تمام دفعات اس وقت بھی نافذ العمل ہیں۔

وزارتِ قانون کے ترجمان نے بعض حلقوں کی طرف سے پھیلائے جانے والے اس تاثر کو قطعی غلط قرار دیا کہ ۱۴ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو ہنگامی حالت کے نفاذ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کو معطل قرار دینے کے بعد قادیانیوں سے متعلقہ آئینی دفعات نافذ العمل نہیں رہیں۔ ترجمان نے کہا کہ اس بارے میں پھیلائے گئے شکوک و شبہات بلاجواز ہیں۔ ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ۱۹۹۹ء کے عبوری آئینی حکم نمبر ۱ کے آرٹیکل ۲ میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعات معطل ہونے کے باوجود پاکستان کو ہر ممکن طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق ہی چلایا جائے گا۔

(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۲۵ فروری ۲۰۰۰ء)

ڈاکٹر محمود احمد غازی کے ارشادات

لاہور (نمائندہ جنگ) قومی سلامتی کونسل کے رکن ڈاکٹر محمود احمد غازی نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت صوبوں کی نئی تقسیم نہیں کر رہی البتہ نیا بلدیاتی نظام لایا جا رہا ہے جس کے تحت لوگوں کے مسائل کو مقامی سطح پر حل کرنے کے عمل کو یقینی بنایا گیا ہے۔ نئے بلدیاتی نظام کا اعلان چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف ۲۳ مارچ کو کریں گے۔

وہ گزشتہ روز قائد اعظم لائبریری باغِ جناح میں مولانا امین احسن اصلاحی کی یاد میں پہلے میموریل لیکچر کی تقریب سے خطاب کے بعد اخبار نویسوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل سکیورٹی کونسل اسلامی عقائد اور قراردادِ مقاصد کو سامنے رکھ کر ہی کوئی کام کرے گی، اس کے علاوہ کسی چیز پر عمل نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ دستور میں اسلامی شقیں معطل نہیں ہیں۔ قادیانی غیر مسلم ہیں اور غیر مسلم ہی رہیں گے۔

ڈاکٹر محمود غازی نے کہا کہ پاکستان میں شریعت ہی سپریم لاء ہے، کسی بھی اعلیٰ عدالت نے آج تک شریعت کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ PCO کے تحت آئین کی محض مخصوص دفعات کو معطل کیا گیا ہے، سارا آئین معطل نہیں۔ عدالتیں بدستور کام کر رہی ہیں، اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم نہیں کیا جا رہا، یہ ساری غلط فہمیاں ہیں، اس کے ممبران کی کم از کم تعداد ۵ موجود ہے، آئندہ چند دنوں میں نئے ارکان کی تقرری بھی کر دی جائے گی، ان کی سمری چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف کے پاس ہے۔

ڈاکٹر محمود غازی نے کہا کہ موجودہ حکومت پر قادیانی ازم پھیلانے کا الزام درست نہیں، یہ افواہیں ہیں۔ جن تین اہم شخصیات کے بارے میں قادیانی ہونے کا کہا گیا اس بارے تحقیقات کی گئی تو وہ درست ثابت نہ ہوا۔ انہوں نے مرزا طاہر احمد کی موجودہ حکومت کی تعریف کرنے کے بارے میں سوال پر کہا کہ یہ تو آپ مرزا طاہر سے پوچھیں، وہ اس کا جواب دیں گے۔

ڈاکٹر غازی نے جہادی تنظیموں پر دہشت گردی کے الزام کے حوالے سے سوال پر کہا کہ جہاد کرنا دینی اور شرعی فریضہ ہے، جہادی تنظیمیں اپنا یہ فرض ادا کرتی رہیں گی۔ انہوں نے کہا کہ جہاد کے حوالے سے مغربی میڈیا کا پروپیگنڈا ہے، ہماری تنظیموں کے دہشت گردی کے کوئی ثبوت نہیں ملے، اگر جہادی تنظیمیں دہشت گردی میں ملوث پائی گئیں تو ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔

ڈاکٹر محمود احمد غازی نے مولانا امین احسن اصلاحی کی دینی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ خالد مسعود نے مولانا امین احسن اصلاحی کی علمی تربیت، فکر و تفسیر، نظامِ قرآن، اصولِ فہمِ حدیث، حکمتِ قرآن، اسلامی قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مولانا کی یہ عظیم خدمت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم قرآن پر تدبر کے لیے ان کا دیا ہوا لائحہ عمل اپنائیں۔

(روزنامہ جنگ، لاہور ۔ ۲۸ فروری ۲۰۰۰ء)


امارتِ اسلامی افغانستان اور ڈاکٹر جاوید اقبال

ادارہ

علامہ اقبالؒ کے فرزند، سابق چیف جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال گزشتہ دنوں افغانستان کے دورے پر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے وہاں طالبان کے طرزِ حکومت کا مشاہدہ اور مطالعہ کیا اور وطن واپسی پر دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں طلباء کے ایک عظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں طالبان کی کامیابی عالمِ اسلام میں ایک بہترین مثال ہے اور یہ دنیا کے لیے ایک مثالی نمونہ ثابت ہو گا۔ طالبان نے افغانستان میں ایسا امن قائم کیا ہے جو کوئی اور نہیں کر سکتا۔
ڈاکٹر جاوید اقبال کی زبان سے یہ الفاظ سن کر بعض اصحاب کو ضرور حیرت ہو گی، وہ نفاذِ اسلام کے تو حامی رہے ہیں لیکن ان کے بارے میں یہ غلط فہمی بھی گردش کرتی رہی ہے کہ وہ سیکولر ذہن کے مسلمان دانشور ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بارے میں ایک ایسے دانشور کی رائے سن کر جس نے کیمبرج میں تعلیم پائی ہو، جو اجتہادی فکر و نظر کا دعوے دار ہو، اور علومِ جدیدہ کے فروغ میں گہری دلچسپی لے، تو عوام و خواص کو ضرور یقین آ جانا چاہیے کہ نفاذِ اسلام ہی دنیا کی فلاح کا راستہ ہے۔ اور اسوۂ اسلام پر لغوی اور معنوی طور پر عمل کیا جائے تو اس گئے گزرے زمانے میں بھی عوام کو امن و آشتی، مساوات اور انصاف فراہم کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال نے دلی خواہش ظاہر کی کہ وہ طالبان کو اس نظام کے استحکام کے لیے ممکنہ وسائل فراہم کرنے کے لیے آواز اٹھائیں گے۔ ہماری خواہش ہے کہ وہ افغانستان میں کامیاب تجربے کا مشاہدہ کر آئے ہیں اور نظامِ اسلام کی حقانیت کے قائل ہو گئے ہیں تو اسے اپنے ملک میں فروغ دینے کی سعی بھی فرمائیں، خدا کرے وہ روزِ سعید بھی آئے جب ڈاکٹر جاوید اقبال خود نفاذِ اسلام کا پرچم لے کر میدانِ عمل میں آ جائیں اور اس ملک کے گمراہ حکمرانوں کے ساتھ عوام کی بھی کایا پلٹ دیں۔
(ادارتی شذرہ روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۶ اپریل ۲۰۰۰ء)

عالمی منظر نامہ

ادارہ

دو ہزار سالہ گناہ اور پاپائے روم

روم (ا ف پ + ٹی وی رپورٹ) رومن کیتھولک رہنما پوپ جان پال دوم نے روم میں ایک تقریب کے دوران ماضی میں رومن کیتھولک چرچ کی جانب سے کی جانے والی غلطیوں پر معذرت کی۔ بی بی سی کے مطابق یہ ایک غیر مثالی واقعہ ہے کہ پوپ نے رومن کیتھولک مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگی ہو۔ ویٹی کن میں اپنے بیس منٹ کے خطاب میں پوپ نے دنیا چھوڑ جانے والوں اور زندہ رومن کیتھولک افراد کی غلطیوں اور گناہوں پر معذرت کی اور خاص طور پر دوسری عالمی جنگ کے بعد کی تباہ کاریوں میں یہودیوں سے بھی معافی مانگی۔ پوپ نے کہا کہ رومن کیتھولک چرچ کی ناکامی رہی کہ وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا اعتراف نہ کر سکا۔ یہ واقعہ تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ پوپ نے معافی مانگی ہو۔ انہوں نے چرچ کی طرف سے گزشتہ ۲۰۰۰ سال میں کی گئی تمام خطاؤں اور گناہوں پر سرعام معافی کی استدعا کی۔ پوپ نے اپنے خطاب میں کہا، تاریخ میں بعض موقعوں پر چرچ نے ایسے طرز عمل کا مظاہرہ کیا جس سے اس کی شہرت داغدار ہوئی۔ انہوں نے خصوصاً صلیبی جنگوں اور چرچ کی طرف سے تحقیقات کے دوران طرزعمل کی معافی طلب کی۔

بیت المقدس اور دیگر مقدس مقامات کو مسلمانوں سے حاصل کرنے کے لیے ۲۰۰ برس تک صلیبی جنگیں جاری رہیں۔ عدالتی احتساب کا عرصہ ۷۰۰ برس پر محیط تھا جس دوران چرچ نے ملحدین و بدعتیوں، جادوٹونے، کیمیا گری اور شیطانی عمل کرنے والوں کی باز پرس کی اور انہیں سزائیں سنائیں، ان پر تشدد کیا اور تقریباً ۳ لاکھ افراد کو زندہ جلا دیا گیا۔ پوپ نے امریکہ اور افریقہ میں جانے والی مشنری ٹیموں کے لیے بھی معافی مانگی۔ انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے مقامی لوگوں کی تہذیب اور مذہبی روایات کا استحصال کیا۔ پوپ نے لسانی یا نسلی بنیادوں پر امتیاز برتے جانے والوں سے بھی معافی مانگی۔ پوپ نے مسیحیوں سے کہا کہ وہ آج کے دور کی برائیوں اور خرابیوں کی ذمہ داریاں بھی قبول کریں۔

(بحوالہ مسیحی ماہنامہ شاداب لاہور ۔ مارچ ۲۰۰۰ء)

صومالیہ میں خانہ جنگی

دوبئی (انٹرنیشنل ڈیسک) صومالیہ میں طویل عرصے کی خاموشی کے بعد بیرونی سازش کے تحت مسلم تنظیموں کے درمیان ایک بار پھر خانہ جنگی کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔ تازہ واقعہ میں اسلامک کورٹ ملیشیا کے ممتاز رہنما جلال یوسفی سمیت ۹ افراد بارودی سرنگ کے دھماکے میں جاں بحق ہو گئے ہیں۔ حادثہ اس وقت پیش آیا جب وہ گاڑی میں موگا کی جانب جا رہے تھے۔

(ہفت روزہ الہلال، اسلام آباد ۔ ۳۱ مارچ ۲۰۰۰ء)

میکسیکو میں اسلام کی تبلیغ

میکسیکو سٹی (انٹرنیشنل ڈیسک) میکسیکو میں اسلام کی تبلیغ و ترویج کا کام تیزی سے جاری ہے اور حال ہی میں میکسیکو سٹی میں ایک ہی خاندان کے ۵۰ افراد نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ میکسیکو اسلامی مرکز مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسلامی مرکز قرآن مجید سمیت اسلامی کتب کے تراجم کے انتظامات کے علاوہ انٹرنیٹ اور سرکاری ریڈیو کے ذریعے اسلامی تعلیمات کی نشریات کا انتظام کر چکی ہے۔ سرکاری ریڈیو سے اسلام کی تبلیغ و ترویج غیر مسلم دنیا میں پہلی کامیاب کوشش ہے۔ 

(ہفت روزہ الہلال، اسلام آباد ۔ ۳۱ مارچ ۲۰۰۰ء)

اسرائیلی یہودیوں کا مطالبہ

اسلام آباد (انٹرنیشنل ڈیسک) یہودیوں کی بنیاد پرست اور دہشت گرد تنظیم ’’کاچ‘‘ کے زیر اہتمام گزشتہ دن اسرائیل میں ایک بڑی عوامی ریلی کا انعقاد کیا گیا جس میں تمام بنیاد پرست یہودیوں نے شرکت کی۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر تمام غیر یہودیوں کو فلسطین سے نکال دیں۔ کاچ تنظیم کی بنیاد امریکی یہودی میر کہانہ نے ۱۹۷۰ء میں رکھی، اس کا مقصد تمام عرب باشندوں کو اسرائیل سے نکالنا ہے۔ انہوں نے اسرائیلی حکومت کو دھمکی دی ہے کہ اگر الخلیل کا ایک انچ غیر یہودیوں کو دیا گیا تو ہم خون کا آخری قطرہ بہا دیں گے، یہ زمین ہمارے آباؤ اجداد کی ہے اور ہمارے نبی حضرت موسٰیؑ کی ہے۔

(روزنامہ اوصاف، اسلام آباد ۔ ۳۱ مارچ ۲۰۰۰ء)

افغانستان پر روسی حملہ اور یوکرائن

پشاور ــ(بیورو رپورٹ) یوکرائن نے افغانستان میں جارحیت کو روسی قیادت کی بہت بڑی غلطی قرار دیا، اور افغانستان کی تباہی میں روسی افواج کے ساتھ شمولیت کا ازالہ کرنے کے لیے جنگ کے دوران معذور اور زخمی ہونے والوں کے علاج معالجے اور افغانستان کے طول و عرض میں لاکھوں کی تعداد میں یوکرائنی فوجیوں کی مدد سے بچھائی گئی بارودی سرنگوں کو نقشوں کی مدد سے صاف کرنے کی پیشکش کی ہے۔

ہفتہ کے روز پشاور پریس کلب میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ویٹرنز افیئرز کمیٹی کے چیئرمین یوکرانی وزیر میجر جنرل ایس وی چرونو سکائی، یوکرائن کی ہلال احمر کمیٹی کے صدر ڈاکٹر آئی جی او سی چٹکو، ویٹرنز افیئرز کمیٹی کے ڈپٹی چیئرمین وائی جی زوبکو، اور اسلام آباد میں یوکرانی سفارت خانے کے ناظم الامور وی ایس یونومارینکو نے کہا کہ افغان جنگ کے دوران یوکرائن نے روس کا ایک حصہ ہونے کے ناطے حصہ لیا۔ تاہم اب یوکرائن ایک آزاد مملکت ہے اور مجبوری کی بنا پر افغان جنگ میں شمولیت کو بھول جانا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روسی افواج میں ۲۵ فیصد فوجی یوکرانی، ۵۰ فیصد رشین، اور باقی ۲۵ فیصد کا تعلق دیگر ۱۳ ریاستوں سے تھا۔

یوکرانی راہنماؤں نے کہا کہ افغان جنگ کے دوران ان کے ۷۲ فوجی ابھی تک لاپتہ ہیں جن کی تلاش کے لیے انہوں نے دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں کو متحرک کر دیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہ کیا یوکرائن اپنی غلطی پر افغان عوام سے معذرت کرے گا۔ یوکرائن کے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یوکرائن میں ہر قسم کی سیاسی و مذہبی آزادی ہے، کسی پر کوئی پابندی نہیں ہے، مسلمانوں کی اپنی ایک سیاسی جماعت بھی موجود ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یوکرائن ایٹمی ہتھیاروں کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے لیکن ہم ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے خلاف ہیں، ہم نے اپنے تمام میزائل ضائع کر دیے ہیں۔

(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۳ اپریل ۲۰۰۰ء)

مسلمان بچہ مسیحی ماں کی تحویل میں

لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس خواجہ محمد شریف نے ایک مسیحی خاتون نصرت کی رٹ درخواست منظور کرتے ہوئے اس کا مسلمان بچہ اس کی تحویل میں دے دیا۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ نابالغ بچے کی ماں ہی اس کی فطری سرپرست ہوتی ہے اس لیے درخواست گزار کے بچے کو اس کے حوالے کر دیا جائے۔

دورانِ سماعت درخواست گزار کا شوہر عاشق حسین اپنے بچے سمیت عدالت میں پیش ہوا اور بتایا کہ وہ اب مسلمان ہو چکا ہے اور اس نے اپنے بچے کو بھی دائرہ اسلام میں داخل کر لیا ہے اس لیے اس نے درخواست گزار کو چھوڑ دیا ہے اور اب وہ اپنے بچے کے ساتھ الگ زندگی بسر کر رہا ہے، چونکہ اس کا بچہ بھی اب مسلمان ہے اس لیے وہ اسے درخواست گزار کی تحویل میں نہیں دے سکتا، کیونکہ وہ اس کے بچے کا مذہب تبدیل کر دے گی۔

فاضل عدالت نے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا اور بچے کو درخواست گزار کی تحویل میں دینے کے احکام جاری کر دیے۔

(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۳۱ مارچ ۲۰۰۰ء)

امریکہ میں غلامی کا کاروبار

نیویارک (اے پی پی) سی آئی اے نے رپورٹ دی ہے کہ اس وقت امریکہ میں مختلف ممالک سے غلام بنا کر لائی گئی ۵۰ ہزار خواتین اور بچوں سے جنسی زیادتی کی جا رہی ہے اور ان سے جبری مشقت لی جا رہی ہے۔ ان خواتین اور بچوں کا تعلق ایشیا، لاطینی امریکہ اور مشرقی یورپ سے ہے۔ ان افراد کو غلامی کی جدید شکل میں امریکہ لایا گیا ہے جس کے باعث ان کے خلاف تفتیش اور قانونی چارہ جوئی انتہائی مشکل ہے۔ کیونکہ امریکی قوانین میں اس مسئلہ کو براہ راست زیربحث نہیں لایا گیا ہے جس کے باعث جرم ثابت ہونے پر بھی اپنی مرضی کے خلاف لائے گئے غیر ملکی افراد کو رکھنے والے افراد کو ہلکی سی سزا یا جرمانہ ہوتا ہے۔ نومبر میں مکمل ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو ماہ میں ایک لاکھ کو امریکہ میں لایا گیا ہے لیکن ان میں سے صرف ۲۵۰ کیسوں پر مقدمہ لڑا جا سکا ہے۔ حکومتی سطح پر یہ پہلی اتنی جامع رپورٹ ہے جس میں ۱۵۰ سے زائد سرکاری حکام، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام، ماہرین اور غلامی کے شکار افراد کے انٹرویو موجود ہیں۔

(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۳ اپریل ۲۰۰۰ء)

نیوزی لینڈ میں ہم جنس پرستوں کے لیے جائیدداد کے حقوق

ویلنگٹن (اے ایف پی) نیوزی لینڈ کی کابینہ نے گزشتہ روز ایک قانونی ترمیم کی تجویز منظور کر لی ہے جس کے مطابق ہم جنس پرست جوڑوں کو بھی جائیداد کے وہی حقوق حاصل ہوں گے جو میاں بیوی کو حاصل ہیں۔ نیوزی لینڈ ہرالڈ کی رپورٹ کے مطابق پارلیمنٹ آئندہ ماہ اس تجویز کے بارے میں عوامی رائے طلب کرے گی اور بعد ازاں آئندہ سال جولائی میں یہ ترمیم قانونی حیثیت حاصل کر لے گی۔ اٹارنی جنرل مارگریٹ ولسن نے کہا کہ اس ترمیم کے ذریعے ہم جنس پرستوں کو علیحدگی کی بنا پر جائیداد میں حصہ لینے کے حقوق حاصل ہوں گے لیکن ہم جنس پرستوں کو شادی کرنے کی اجازت دینے کا مسئلہ الگ ہے۔

(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۵ اپریل ۲۰۰۰ء)

نائجیریا میں جسم فروشی پر پابندی

کینو (ا ف پ) نائجیریا کی شمالی ریاست کینو نے جسم فروشی، شراب کی فروخت اور جوئے پر پابندی لگا دی، حکام کے مطابق یہ پابندی ریاست کے ڈپٹی گورنر عبد الحئی عمر گندوجے، نائجیریا عیسائی ایسوسی ایشن کے لیڈر اور کونسل آف یوتھ کے مابین ایک میٹنگ کے بعد لگائی گئی۔ حکام نے بتایا کہ ریاست میں ایڈز خطرناک حد تک پھیل رہا تھا جس بنا پر حکومت نے فیصلہ کیا کہ ریاست میں جسم فروشی پر پابندی لگا دی جائے اور ویسے بھی کوئی مذہب اس کام کی اجازت نہیں دیتا۔ چار گھنٹے جاری رہنے والی اس میٹنگ میں شرکاء کو ایڈز پر ایک دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی، حکام کے مطابق شرب اور منشیات پر پابندی کا مقصد معاشرتی برائیوں کی روک تھام ہے۔

(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۔ ۵ اپریل ۲۰۰۰ء)

بھارت میں مسلمانوں کا احتجاج

نئی  دہلی (ا پ پ) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے زیراہتمام کنونشن میں مذہبی عمارات اور مقامات سے متعلق اترپردیش حکومت کے بل اور بھارتی آئین پر نظرثانی کی تجویز پر احتجاج کیا گیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ مسلمان اس بل پر احتجاج کریں گے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ اس بل کے تحت لوگوں کو خصوصاً مسلمانوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اپنی زبان کو پھیلانے سے روک دیا جائے گا۔ حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ یہ بل واپس لے۔

(روزنامہ پاکستان ۔ ۲۷ مارچ ۲۰۰۰ء)

جمعیۃ علماء ہند کا مظاہرہ

گوہاٹی (اے ایف پی) شمالی بھارت کے پسماندہ علاقوں کے ۵۰ ہزار کے قریب مسلمانوں نے بی جے پی حکومت کی طرف سے مجاہدین کی مدد کرنے کے شبے میں خوفزدہ کیے جانے پر مظاہرہ کیا۔ مظاہرین گوہاٹی میں اکٹھے ہوئے اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ مولانا اسعد مدنی نے کہا کہ آسام حکومت اور بی جے پی حکومت کی طرف سے ان پر مجاہدین کی مدد کرنے کا الزام غلط ہے۔ مقررین نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بی جے پی حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کی زبردست مذمت کی۔

(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۲ اپریل ۲۰۰۰ء)

جامعہ ازہر میں احادیثِ نبویؐ پر انسائیکلوپیڈیا کی تیاری

قاہرہ (اے پی پی) مصر کے جامعہ الازہر کی اکادمی تحقیقاتِ اسلامی کے زیراہتمام حضور سرکار دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لاکھ ستر ہزار احادیث مبارکہ پر مشتمل ایک انسائیکلو پیڈیا تیار کیا جا رہا ہے جو بیک وقت عربی اور روسی زبانوں میں شائع کیا جائے گا۔ ہر جلد ایک ہزار احادیث پر مشتمل ہو گی۔

(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۲۷ مارچ ۲۰۰۰ء)

چیچن مجاہدین ایک بار پھر گروزنی میں

ماسکو (ریڈیو رپورٹ) چیچن مجاہدین روسی فوج کے خلاف مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق مجاہدین کا ایک دستہ چھاپہ مار کاروائیوں کے لیے دارالحکومت گروزنی میں داخل ہو گیا ہے اور اس نے شہر میں روسی فوج کی ایک چوکی پر حملہ کر کے وزارتِ دفاع کے ایک افسر کو ہلاک کر دیا، اس کے علاوہ متعدد روسی فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں اور چوکی کی عمارت کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ ادھر روسی حکام نے بھی اعتراف کیا ہے کہ ابھی تک سینکڑون چیچن مجاہدین گروزنی میں چھپے ہوئے ہیں۔

(ہفت روزہ ضرب مومن کراچی ۔ ۳۱ مارچ تا ۶ اپریل ۲۰۰۰ء)

شاہ عبد اللہ تجویز

واشنگٹن (خبری ذرائع) اردن کے شاہ عبد اللہ نے کہا ہے کہ میرے خیال میں بیت المقدس کو اسرائیلی اور مستقبل کی فلسطینی ریاست دونوں کا دارالحکومت بنا دینا چاہیے۔ ذرائع کے مطابق انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ بیت المقدس اتنا بڑا شہر ہے کہ جو دو ملکوں کا دارالحکومت بن سکتا ہے۔ مذہبی پہلو سے دیکھا جائے تب بھی کیا بیت المقدس کو سب کا مشترکہ شہر نہیں ہونا چاہیے؟ ذرائع کے مطابق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے بھی بیت المقدس کو دونوں ملکوں کا دارالحکومت بنانے کی حمایت کی اور ساتھ ہی روم کی مثال دی جو بیک وقت دو ریاستوں یعنی وٹیکن اور اطالوی حکومت کا دارالحکومت ہے۔

(ہفت روزہ ضرب مومن کراچی ۔ ۳۱ مارچ تا ۲۶ اپریل ۲۰۰۰ء)

بابری مسجد کا مقدمہ

لکھنؤ (این این آئی) بابری مسجد کو مسمار کرنے کے مقدمے کے ملزمان پر بچیس اپیل کو فردِ جرم عائد کی جائے گی جبکہ الٰہ آباد ہائی کورٹ ۴۹ میں سے ۳۳ ملزمان کی نظرثانی کی درخواست کی سماعت کرے گی۔ بھارتی تحقیقاتی ادارے ’’سی بی آئی‘‘ کی عدالت کے جج جے پی سری داستو نے بابری مسجد کو مسمار کرنے کے مقدمے میں فردِ جرم عائد کرنے کی تاریخ ۲۵ اپریل مقرر کر دی ہے۔ دریں اثنا الٰہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنؤ بینچ کے جج جسٹس جگدیش بھالا نے بابری مسجد مسمار کرنے میں نامزد ۴۹ ملزمان میں سے ۳۳ ملزمان کی جانب سے نظرثانی کی درخواست پر غور کرنے کے لیے سماعت ۳۱ تاریخ مقرر کی ہے۔

(روزنامہ جنگ راولپنڈی ۔ ۳۱ مارچ ۲۰۰۰ء)

اسلام سے متاثر ہوں

لندن (اے ایف پی) برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے کہا کہ وہ اسلام سے بہت متاثر ہیں اور اس سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ ماہنامہ نیوز کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ میر ےپاس قرآن مجید کے دو ترجمے موجود ہیں اور میں اسلام کے متعلق بہت پڑھ رہا ہوں، اس لیے خود کو قرآن کے دو تراجم کا پروفیسر کہہ سکتا ہوں۔ واضح رہے کہ ٹونی بلیئر ہائی چرچ اینگلی کسن کرسچین ہیں۔

(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۳۰ اپریل ۲۰۰۰ء)

انڈونیشیا میں خواتین کو پردے کی ہدایت

جکارتہ (آئی کے اے) انڈونیشیا کے جنبوی صوبے کالی متان کے ضلع بنیار میں نومنتخب ہونے والے ضلع سربراہ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی خواتین ملازمین کو ہدایت دی ہے کہ وہ برقعہ پہن کر دفاتر آئیں۔ ریدی عارفین نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ میں تمام اہل کار مسلمان ہیں اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے جسم کے علاوہ چہرہ چھپانا بھی ضروری ہے تاہم انہوں نے کہا کہ اگر کوئی خاتون نقاب نہیں اوڑھتی تو اس کے لیے اسے مجبور نہیں کیا جائے گا تاہم مجھے امید ہے کہ اس پالیسی کا احترام کیا جائے گا۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ضلعی انتظامیہ میں کتنی خواتین اہل کار ہیں تاہم زیادہ تر خواتین سٹاف نے کہا ہے کہ وہ نئی پالیسی کی پابندی کریں گی۔

(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۔ ۲۹ مارچ ۲۰۰۰ء)

انڈونیشیا میں مسلمانوں کا مظاہرہ

اسلام آباد (انٹرنیشنل ڈیسک) انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں گزشتہ روز ہزاروں مسلمانوں نے عیسائیوں کے خلاف جہاد شروع کرنے کے حق میں زبردست ریلی نکالی۔ رپورٹ کے مطابق ریلی کے شرکاء نے سفید چغے پہن رکھے تھے اور ان کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں۔ یہ ریلی جکارتہ کے مرکزی اسٹیڈیم میں نکالی گئی جس میں دس ہزار مسلمان جوانوں نے شرکت کی جبکہ ایک ہزار مسلمان جوانوں نے شرکت کی، جبکہ ۸۰۰ پولیس اہلکار حفاظت کے لیے موجود تھے۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مسلمان تنظیم کے رہنما ایپ صغیر الدین نے کہا کہ دس ہزار جوان جہاد کے لیے تیار رہیں اور ہم اپنے جہاد گروپ اپریل میں ملاکو بھیج دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ عیسائیوں کے خلاف جہاد کے لیے فنڈ اندرون اور بیرون ملک مسلمانوں نے اکٹھا کیا ہے تاہم انہوں نے واضح نہیں کیا کہ بیرون ملک فنڈ کہاں سے آیا ہے۔ صغیر الدین نے مزید بتایا کہ اگر حکومت نے ملاکو میں جہاد میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی تو ہم جزیرہ جاوا میں جہادی تحریک شروع کر دیں گے۔
(روزنامہ اوصاف، اسلام آباد ۔ ۷ اپریل ۲۰۰۰ء)

کلنٹن کے دورہ جنوبی ایشیا کے اخراجات

واشنگٹن (آن لائن) امریکی صدر بل کلنٹن کے حالیہ غیر ملکی دورے کو امریکی تاریخ کا مہنگا ترین اور غیر نتیجہ خیز قرار دیا جا رہا ہے جس پر پچاس ملین ڈالر سے زائد اخراجات آئے جو کہ کسی بھی امریکی سربراہ مملکت کے غیر ملکی دورے پر اٹھنے والے اخراجات میں سب سے زیادہ ہیں۔
امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز نے امریکی صدر کے بھارت پاکستان  بنگلہ دیش اور سوئٹزرلینڈ کے دورے کو مہنگا ترین قرار دیا ہے۔ اخبار کے مطابق وائٹ ہاؤس نے امریکی فضائیہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی صدر کے صرف دورہ برصغیر پاک و ہند پر پچاس ملین ڈالر سے ۷۵ ملین ڈالر کی لاگت آئی۔ تاہم دورے پر اٹھنے والے اصل اخراجات کا پتہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اخبار کے مطابق امریکی صدر سکیورٹی اہلکاروں اور دیگر سیاسی رہنماؤں کی نقل و حمل کے لیے ۷۶ چھوٹے بڑے طیارے استعمال کیے گئے جن میں ۲۶ سی ۵ اور ۱۷ مال بردار طیارے جبکہ پچاس دیگر امدادی طیارے شامل تھے۔
امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے سکیورٹی کے غیر معمولی اقدامات کیے تھے۔ امریکی صدر نے بھارتی شہر ممبئی سے اسلام آباد آمد کے لیے متعدد جہاز تبدیل کیے۔ اخبار کے مطابق امریکی ایئر فورس نے کہا ہے کہ انہیں دورے پر اٹھنے والے اخراجات پوشیدہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
امریکی صدر کا غیر ملکی دورہ قومی سلامتی سے مربوط ہوتا ہے۔ امریکی رکن سینٹ جان مکین نے امریکی صدر کے دورہ جنوبی ایشیا کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ دورہ صرف تصویری پہلو تک محدود رہا اور امریکی صدر پاکستان اور بھارت کو سی ٹی بی ٹی سمیت دیگر اہم امور پر قائل کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔
(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۔ ۶ اپریل ۲۰۰۰ء)

تعارفِ کتب

ادارہ

معارفِ ترمذی

محدثِ کبیر حضرت مولانا عبد الرحمٰن کامل پوریؒ اپنے دور کے نامور اساتذہ میں سے تھے جن کی علمی ثقاہت اور روحانی مرتبہ کے اظہار کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ محدثِ جلیل حضرت مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوریؒ نے ابوداؤد شریف کی معرکۃ کی شرح ’’بذل الجمہود‘‘ پر نظرثانی کا کام ان کے سپرد کیا، اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے انہیں بیعت سے قبل خلافت سے سرفراز فرما دیا۔ حضرت مولانا عبد الرحمٰن کامل پوریؒ کے ترمذی شریف کے درس نے اپنے دور میں بہت زیادہ شہرت حاصل کی، اور عارف باللہ حضرت مولانا حافظ محمد صدیق باندوی خلیفہ مجاز حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے بقول اس زمانہ میں سب علماء کا اتفاق تھا کہ اس دور میں حضرت مولانا عبد الرحمٰن کامل پوریؒ سے زیادہ بہتر ترمذی شریف پڑھانے والا اور کوئی استاذ نہیں ہے۔
حضرت کامل پوریؒ کے لائق فرزند مولانا قاری سعید الرحمٰن مہتمم جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈ راولپنڈی صدر نے ترمذی شریف کے درس کے دوران حضرتؒ کے افادات کو ضبطِ تحریر میں لانے والے مختلف لائق تلامذہ کی تحریرات کا موازنہ کر کے یہ افادات ’’معارفِ ترمذی‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں شائع کر دیے ہیں جو ترمذی شریف کے طلبہ اور اساتذہ دونوں کے لیے یکساں افادیت کے حامل اور بیش بہا تحفہ ہیں۔ پہلی جلد ساڑھے پانچ سو صفحات اور دوسری جلد چار سو صفحات پر مشتمل ہے، اور عمدہ کتابت و طباعت اور خوبصورت مضبوط جلد کے ساتھ جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈ راولپنڈی صدر نے انہیں پیش کیا ہے۔

تجلیاتِ رحمانی

مولانا قاری سعید الرحمٰن نے اپنے عظیم والد حضرت مولانا عبد الرحمٰن کامل پوریؒ کے حالاتِ زندگی اور افادات و خدمات پر ’’تجلیاتِ رحمانی‘‘ کے نام سے ایک خوبصورت مجموعہ کچھ عرصہ قبل شائع کیا تھا جس کا دوسرا ایڈیشن اس وقت ہمارے سامنے ہے اور اس میں سینکڑوں صفحات کا اضافہ بھی شامل ہے۔ ہمارے اکابر نے اس معاشرہ میں دین کے تحفظ و ترویج اور اسلاف کی علمی  و عملی جدوجہد کے تسلسل کو باقی رکھنے کے لیے جس خلوص، ایثار، وقار، سادگی اور استغنا کے ساتھ سعئ مسلسل کی ہے اس سے آگاہی کے لیے ’’تجلیاتِ رحمانی‘‘ کا مطالعہ بہت مفید ہے۔ اور ہمارے خیال میں نوجوان علماء کو اپنے عظیم اکابر و اسلاف کے حالات و خدمات پر مشتمل اس نوعیت کی مفید کتابوں کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے جن سے انہیں اپنے ماضی کا صحیح طور پر علم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی دینی و علمی ذمہ داریوں سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ پونے سات سو کے لگ بھگ صفحات کا یہ مجموعہ عمدہ کتابت و طباعت اور خوبصورت جلد کے ساتھ جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈ راولپنڈی صدر نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت دو سو پچاس روپے ہے۔

ضربِ درویش

گزشتہ سال افغانستان پر امریکی حملہ کی دھمکی کے بعد جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے جو جرأتمندانہ موقف اختیار کیا اور امریکی عزائم کے خلاف پاکستان کی رائے عامہ کو بیدار اور منظم کرنے کے لیے جو مہم چلائی اسے قوم کے ہر طبقہ نے سراہا اور ہر مکتبِ فکر کے دانشوروں اور قلم کاروں نے اپنے اپنے انداز میں اس کی حمایت میں کامل اور مضمون لکھے۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات حافظ محمد ریاض درانی نے اس سلسلہ میں قومی پریس میں شائع ہونے والے اہم مواد کو ’’ضربِ درویش‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں جمع کر دیا ہے جس میں مولانا فضل الرحمٰن کے بیانات اور انٹرویوز کے علاوہ ان کی حمایت میں لکھے جانے والے منتخب مضامین، کالم اور اداریے شامل ہیں اور اس طرح اس جدوجہد کے بارے میں ضروری مواد اکٹھا ہو گیا ہے جس سے علماء اور کارکنوں کے علاوہ تاریخ پر لکھنے والوں کو بھی فائدہ ہو گا۔ ساڑھے چار سو کے لگ بھگ صفحات کا یہ مجموعہ عمدہ کتابت و طباعت اور مضبوط جلد کے ساتھ جمعیۃ پبلیکیشنز متصل مسجد پائلٹ ہائی سکول وحدت روڈ لاہور نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت ایک سو اسی روپے ہے۔

عالمِ اسلام کی اخلاقی صورتحال

بھارت کے ممتاز دانشور جناب اسرار عالم کی اس تصنیف پر نامور عالمِ دین حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نے ان الفاظ سے تبصرہ کیا ہے:
’’ماضی میں اور دورِ حاضر میں چلنے والی سری تحریکات اور مستقبل پر پڑنے والے ان کے اثرات پر جیسی نظر اس کتاب کے مصنف کی ہے، اس کی مثال اس دور میں ملنا مشکل ہے۔ موصوف نے اس ذیل میں اسلامی نظام پر روشنی ڈالتے ہوئے عہدِ جدید میں یہودی سازش، صلیبی جنگوں کے اثرات، ہیومنزم اور ریشنلزم (عقلیت) کی شناخت اور ان کے اثرات، پھر تاریخی پس منظر، مسلم فلاسفہ اور متکلمین کے کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے سترہویں صدی سے بیسویں صدی تک کے حالات کا جائزہ لیا ہے۔ پھر انہوں نے ماڈلز (سانچوں) پر گفتگو کی ہے۔ اس ذیل میں سیکولرازم کے نظریہ، اس کی تاریخ، اس کے اصل مقاصد، اصول، اور عالمِ اسلام میں سیکولرائزیشن کے اثرات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔‘‘
اس جامع تبصرہ کے بعد اس کتاب کے بارے میں اور کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتے اور ہمارے نزدیک اس کتاب کا مطالعہ ہر اس عالمِ دین اور دینی کارکن کے لیے ضروری ہے جو اس دور میں اسلام کے نفاذ اور اسلام اور مغرب کی کشمکش میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کرنے کا جذبہ رکھتا ہے۔ یہ کتاب ساڑھے چار سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے اور عمدہ کتابت و طباعت، خوبصورت ٹائٹل، اور مضبوط جلد کے ساتھ اسے قاضی پبلشرز، ۳۵ بیسمنٹ، حضرت نظام الدین، ویسٹ نئی دہلی ۱۱ نے شائع کیا ہے۔

ماہنامہ لا نبی بعدی

مرزا غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت اور برطانوی استعمار کے زیرسایہ اس کی نشوونما کے خلاف برصغیر کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے اور تحریکِ ختم نبوت کے مختلف ادوار میں مختلف مکاتب فکر کے زعماء مشترکہ طور پر بھی جدوجہد میں شریک رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں قادیانی گروہ کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور نفوذ کو دیکھتے ہوئے بریلوی مکتب فکر کے سنجیدہ علماء کرام نے ’’تحریکِ تحفظِ ختم نبوت پاکستان‘‘ کے نام سے مستقل پلیٹ فارم قائم کیا ہے اور اس کے ترجمان کے طور پر ماہنامہ ’’لا نبی بعدی‘‘ کا اجرا کیا ہے جس کا تیسرا شمارہ اس وقت ہمارے سامنے ہے اور اس میں قادیانی نبوت کے تعارف اور قادیانی جماعت کے مکروہ عزائم کی نقاب کشائی کے حوالے سے معلومات اور مفید مضامین شریکِ اشاعت ہیں۔ تحریک ختم نبوت کے ممتاز راہنما اور ہمارے محترم دوست سردار محمد خان لغاری اس کے مدیر ہیں اور اس کا دفتر مدینہ مسجد ۱۰۸ راوی روڈ لاہور میں قائم کیا گیا ہے۔ ہم سردار صاحب موصوف اور ان کے رفقاء کو اس کاوش پر ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے اس مقدس مشن میں ان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔

فری میسنز کی اپنی مذہبی رسوم

خفیہ اور پس منظر میں رہ کر کام کرنے والی عالمی تنظیموں میں ’’فری میسنز‘‘ کا نام سرفہرست ہے، اور مختلف انقلابات اور معاشرتی تبدیلیوں کے پس منظر میں اکثر اس کی کارگزاریوں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ اس لیے ہر صاحبِ فکر شخص اس تنظیم اور اس کے طریق کار کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا خواہشمند ہے۔ ہمارے فاضل دوست اور ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن آف پاکستان کے نائب صدر جناب عبد الرشید ارشد آف جوہر آباد نے ’’فری میسنز‘‘ ہی کے ایک ذمہ دار رکن کی کتاب کا ترجمہ اردو میں پیش کر کے اس کام کو کافی حد تک آسان کر دیا ہے۔ یہ کتابچہ سو سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے اور اسے جوہر پریس جوہر آباد ضلع خوشاب پاکستان سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

کیا بائبل واقعی بدل گئی ہے؟

مسیحیت کے ممتاز ماہر مولانا عبد اللطیف مسعود نے اس رسالہ میں بائبل کا مکمل تعارف کرانے کے ساتھ ساتھ اس میں تحریف کے سلسلہ میں خود بائبل سے شہادتیں پیش کی ہیں۔ علماء اور طلبہ کے لیے اس کا مطالعہ بہت مفید ہے اور اسے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، حضور باغ روڈ، ملتان، یا جامع مسجد خضرٰی، ڈسکہ ضلع سیالکوٹ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

خلیفہ عبد الحمید اور قرہ صو آفندی

ادارہ

خلیفہ عبد الحمید کے زمانے میں صیہونی یہودیوں کا ایک وفد خلیفہ سے ملنے گیا۔ یہ ۱۹ویں صدی کے اواخر کی بات ہے۔ اس زمانے تک خلافتِ عثمانیہ مغربی طاقتوں کے مقابلہ میں نہایت کمزور ہو چکی تھی۔ اس کی مالی حالت خستہ تھی اور خلافت مقروض تھی۔ اس صیہونی وفد نے خلیفہ سے کہا کہ اگر آپ بیت المقدس کا علاقہ اور فلسطین ہمیں دے دیں تاکہ یہودی وہاں آباد ہو سکیں تو ہم یہودی سلطنتِ عثمانیہ کا سارا قرض ادا کر دیں گے اور مزید کئی ٹن سونا دیں گے۔ خلیفہ عبد الحمید نے دینی حمیت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے پاؤں کی انگلی سے زمین کی تھوڑی سی مٹی کرید کر کہا کہ اگر یہ ساری دولت دے کر تم لوگ بیت المقدس کی اتنی سی مٹی مانگو گے تو بھی ہم نہیں دیں گے۔
اس صیہونی وفد کا سربراہ ایک ترک یہودی قرہ صو آفندی تھا۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ چند ہی سالوں کے بعد جو شخص مصطفٰی کمال پاشا (اتاترک) کی طرف سے خلافت کے خاتمہ کا پروانہ لے کر خلیفہ کے پاس گیا وہ کوئی اور نہیں یہی یہودی قرہ صو آفندی تھا۔
(عالمِ اسلام کی سیاسی صورتحال ۔ از جناب اسرار عالم)

مئی ۲۰۰۰ء

الشریعہ اکادمی کے تعلیمی پروگرام کا آغازمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
شاہِ حبشہ ؓ کا قبولِ اسلامشیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
فیصلہ کن معرکہحامد میر
منکرینِ حدیث کے بارے میں مفتی اعظم سعودی عرب کا فتویٰڈاکٹر احمد علی سراج
حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ ۔ شخصیت اور خدماتمولانا محمد عیسٰی منصوری
پوپ جان پال اور یہودیوں کے تعلقات پر ایک اہم رپورٹادارہ
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کا تاریخی فتوٰیمولانا محمد طیب کشمیری
عالمی منظر نامہادارہ
توہینِ رسالت کی سزا کے قانون میں تبدیلیادارہ
تعارف و تبصرہادارہ

الشریعہ اکادمی کے تعلیمی پروگرام کا آغاز

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بحمد اللہ تعالیٰ الشریعہ اکادمی کنگنی والا گوجرانوالہ میں تعلیمی سلسلہ کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس سلسلہ میں ۲۳ اپریل ۲۰۰۰ء کو اکادمی میں صبح ساڑھے نو بجے ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی جس میں اکادمی کے سرپرست اعلیٰ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے پند و نصائح اور دعا کے ساتھ اکادمی کے تعلیمی پروگرام کا افتتاح فرمایا۔ جبکہ میونسپل کارپوریشن گوجرانوالہ کے ایڈمنسٹریٹر جناب محمد ایوب قاضی بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے اور شہر کے علماء کرام اور دینی احباب کی ایک بڑی تعداد نے تقریب میں شرکت کی۔

حضرت شیخ الحدیث مدظلہ نے اپنے خطاب میں دینی تعلیم کے اداروں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ مدارس دین کے قلعے ہیں اور آج کے معاشرہ میں دینی چہل پہل اور رونق انہی دینی مدارس کے دم قدم سے ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کو آج کی مروجہ زبانیں بالخصوص انگریزی زبان اور دیگر ضروری علوم بھی حاصل کرنے چاہئیں کیونکہ اس کے بغیر وہ دنیا تک خدا کا دین پہنچانے کا فریضہ مؤثر طریقہ سے سرانجام نہیں دے سکیں گے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنا ایک واقعہ سنایا کہ ۱۹۸۶ء میں انہیں بعض دینی کانفرنسوں میں شرکت کے لیے برطانیہ جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں کے دوستوں نے کچھ غیر مسلم انگریز دانش وروں سے ان کی ملاقات کا اہتمام کیا جن سے مختلف مسائل پر ترجمان کے ذریعہ گفتگو ہوئی۔ حضرت شیخ الحدیث نے کہا کہ اس موقع پر انہیں اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ وہ اگر انگریزی زبان سے واقف ہوتے تو زیادہ بہتر اندا ز میں ان کے سامنے اپنا نقطۂ نظر بیان کر سکتے تھے کیونکہ ترجمان کے ذریعے گفتگو اتنی مؤثر نہیں ہوتی۔

انہوں نے فرمایا کہ ایک انگریز نے ان سے سوال کیا کہ انہوں نے کئی دنوں تک برطانیہ کے مختلف شہروں کا دورہ کیا ہے تو یہاں کے بارے میں ان کے تاثرات کیا ہیں؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ کے ہاں جسم کی سہولت اور راحت کے لیے تو بہت انتظام اور سامان موجود ہے مگر روح کی راحت اور آرام کے لیے کوئی بندوبست نہیں ہے۔ اس انگریز دانشور نے اس کے جواب میں سرہلایا اور کہا کہ آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔ حضرت شیخ الحدیث نے فرمایا کہ جس طرح جسم کے لیے آرام اور راحت کی ضرورت ہے اسی طرح روح کے لیے بھی آرام اور راحت ضروری ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے دین پر چلنے سے حاصل ہوتی ہے، انسان کا تعلق جس قدر اللہ تعالیٰ کے ساتھ مضبوط ہوگا اس کی روح کو اسی قدر سکون اور اطمینان حاصل ہوگا۔

مہمان خصوصی جناب محمد ایوب قاضی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ اکادمی کے تعلیمی پروگرام میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ سکول اور کالج کے ضروری مضامین کی تعلیم بھی شامل کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دینی تعلیم ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے تاکہ ہم سب بحیثیت مسلمان اچھی زندگی گزار سکیں اور اپنے حقوق و فرائض سے پوری طرح آگاہ ہوسکیں لیکن اس کے ساتھ عصری علوم اور وقت کے تقاضوں سے آگاہی بھی حاصل ہونی چاہیے تاکہ ہم اپنے فرائض کو منظم طریقہ سے صحیح طور پر ادا کرسکیں۔ انہوں نے اکادمی کے تعلیمی پروگرام پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس اچھے تعلیمی پروگرام کے لیے کارپوریشن بھی تعاون کرے گی جو جی ٹی روڈ سے اکادمی تک راستہ کو ہموار کرنے کی صورت میں ہوگا۔

راقم الحروف نے شرکاء تقریب کو بتایا کہ مسجد خدیجۃ الکبریٰؓ میں پانچ وقت نماز باجماعت کاسلسلہ شروع ہوچکا ہے جبکہ محلہ کے بچوں اور بچیوں کو ناظرہ قرآن کریم کی تعلیم دینے کے لیے نماز فجر کے بعد ایک گھنٹہ اور عصر تا مغرب تعلیم کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ حفظ قرآن کریم کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے جس میں پرائمری پاس بچوں کو چار سال میں حفظ قرآن کریم اور ضروریات دین کی تعلیم کے ساتھ مڈل کے ضروری مضامین اور کمپیوٹر کی تعلیم بھی دی جائے گی۔ یہ کلاس مقامی بچوں کے لیے ہوگی جو صبح سات بجے اکادمی آکر عصر کے بعد گھر واپس چلے جائیں گے۔ راقم الحروف نے شرکاء کو تعمیری پروگرام کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا اور بتایا کہ تہہ خانہ کی چھت ڈالے جانے کے بعد مسجد کی تیاری کا کام جاری ہے، اس کے بعد مدرسۃ البنات کا (۲۴x۲۰) ہال اور اس کے ساتھ فری ڈسپنسری کا ہال مکمل کرنے کا پروگرام ہے اور اس کے بعد دیگر شعبوں کی طرف توجہ دی جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

راقم الحروف نے بتایا کہ تعمیری اخراجات احباب کے رضاکارانہ تعاون سے پورے کیے جا رہے ہیں اور اب تک ہونے والے اخراجات میں ایک بڑی رقم قرض کی مد میں حاصل کی گئی ہے جس کی بروقت واپسی ضروری ہے جبکہ تعمیر ی پروگرام میں ضروری پیش رفت کے لیے مزید رقم درکار ہے تاکہ رمضان المبارک تک ضروری تعمیر مکمل کر کے نئے تعلیمی سال سے دیگر کلاسوں کا آغاز کیا جاسکے۔ اس کے بعد حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کی دعا کے ساتھ تقریب اختتام پذیر ہوئی۔

قارئین سے درخواست ہے کہ الشریعہ اکادمی کے تعمیری اور تعلیمی پروگرام میں ترقی، مؤثر پیش رفت اور قبولیت و کامیابی کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں اور اصحاب خیر نقد رقم، تعمیری سامان، کتابوں، کمپیوٹر سیٹوں اور دیگر ضروری اشیاء کی صورت میں تعاون فرماکر کار خیر میں عملاً شریک ہوں کیونکہ دینی تعلیم کے یہ پروگرام اصحاب خیر کے مخلصانہ اور رضاکارانہ تعاون کے ساتھ ہی آگے بڑھتے ہیں۔

شاہِ حبشہ ؓ کا قبولِ اسلام

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

امام نسائیؒ اور امام بیضاویؒ نے حضرت انس ؓ سے روایت بیان کی ہے اور امام ابن جریرؒ نے حضرت جابرؓ سے نقل کیا ہے کہ نجران کے ۴۰ عیسائی ایمان قبول کر چکے تھے، حبشہ میں ۳۲ خوش نصیب ایمان کی دولت سے مالامال ہوئے، مدینے کے یہودیوں میں سے حضرت عبد اللہ بن سلامؓ سرفہرست تھے، اور حبشہ کے بادشاہ نجاشی خود ایمان لے آئے۔
امام نسائیؒ فرماتے ہیں کہ مکہ سے ہجرت کر کے دو قافلے حبشہ پہنچے۔ پہلے قافلہ میں تو مہاجرین کی تعداد کم تھی تاہم دوسرا ۸۰ افراد پر مشتمل تھا جس میں حضرت عثمانؓ بمع اپنی زوجہ اسماءؓ کے ساتھ اسی قافلے کے ہمراہ گئے۔ فرماتے ہیں کہ نجاشی نے حضرت عثمانؓ اور حضرت جعفرؓ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا، اسے حضور علیہ السلام کی ملاقات کا زیست بھر شوق رہا مگر اس کی یہ حسرت پوری نہ ہو سکی۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ ایک موقع پر نجاشی نے ۳۰ افراد پر مشتمل ایک وفد، جس میں اس کا اپنا بیٹا بھی تھا، حضور علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا تھا، یہ وفد بحری سفر کے دوران سمندری طوفان کی نذر ہو گیا، کشتی ڈوب گئی اور ان میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچ سکا، البتہ اس کے علاوہ ایک اور قافلہ وہاں سے مدینہ آیا اور ایمان قبول کیا۔
امام بغویؒ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ نجاشی کی وفات کے وقت وہاں پر ایک بھی مسلمان موجود نہیں تھا، اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے حضور علیہ السلام کو خبر دی کہ آج نجاشی فوت ہو گیا ہے، وہ صاحبِ ایمان تھا لہٰذا آپ اس کی نمازِ جنازہ ادا کریں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا عام اعلان فرمایا، لوگ باہر عید گاہ میں نکلے، دو بڑی بڑی صفیں بنیں اور نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ امام بغویؒ فرماتے ہیں کہ حقیقت میں یہ جنازہ غائبانہ نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے مدینے اور حبشہ کے درمیان موجود تمام پردے ہٹا دیے اور نجاشی کی میت حضور علیہ السلام کو نظر آنے لگی اور اس طرح یہ جنازہ گویا حاضر میت پر ہی پڑھا گیا۔

فیصلہ کن معرکہ

حامد میر

حق اور باطل آہستہ آہستہ ایک فیصلہ کن معرکے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اگر وہ چاہیں بھی تو اس معرکے سےپہلو نہیں بچا سکتے۔ احادیث نبویؐ میں اس معرکے کی جو نشانیاں ملتی ہیں وہ تیزی کے ساتھ ظاہر ہو رہی ہیں۔
  • نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا، میری امت کے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے دوزخ کی آگ سے محفوظ کر دیا ہے، ایک وہ جو ہند کے مقابلہ میں جہاد کرے گا اور دوسرا وہ جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ہمراہ جہاد میں شرکت کرے گا۔
  • حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہارا لشکر ہند کے خلاف جہاد کرے گا، اللہ تعالیٰ اس لشکر کو ہند پر فتح دے گا اور وہ ہند کے حکمرانوں کو ہتھکڑیوں اور زنجیروں میں طوق ڈال کر لائے گا، اللہ تعالیٰ اس لشکر کے گناہ معاف کر دے گا۔ جس وقت وہ لشکر کامیابی کے ساتھ واپس لوٹے گا اس وقت حضرت عیسٰیؑ ابن مریمؓ کو ملک شام میں دیکھے گا۔
  • حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، زمین کے اطراف میں خرابی اور بربادی نمودار ہو گی، پھر سندھ ہند کے ہاتھوں برباد ہو گا اور ہند کی بربادی چین کے ہاتھوں ہو گی۔
ان تینوں احادیث کو مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے اپنی کتاب ’’نزول المسیح علیہ السلام‘‘ میں اکٹھا کر دیا ہے۔ مولانا محمد سرفراز خان نے اپنی اس کتاب کا انتساب حضرت عیسٰیؑ کے نام کیا ہے اورامید ظاہر کی ہے کہ اگر وہ زندہ رہے تو ان شاء اللہ یہ کتاب خود حضرت عیسٰیؑ کی خدمت میں پیش کریں گے اور اگر زندہ نہ رہے تو ان کے متعلقین میں سے کوئی یہ کتاب حضرت عیسٰیؑ کی خدمت میں پیش کرے گا۔
سوال یہ ہے کہ مولانا صاحب کو حضرت عیسٰیؑ کا نزول قریب کیوں نظر آ رہا ہے؟ یقیناً اس کی ایک وجہ جہادِ کشمیر ہے جسے وہ جہادِ ہند سے تعبیر کرتے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ اس جہاد کا حتمی نتیجہ نکلنے کے فورًا بعد نزولِ مسیح ہو گا۔
جہادِ کشمیر کے باعث ہندوستان اور پاکستان میں ایک بڑی جنگ کے خطرات بڑھ رہے ہیں اور ہندوستان کی نظر سندھ پر ہے۔ دوسری طرف ہندوستان اور چین میں محاذ آرائی بھی بڑھ رہی ہے لہٰذا ہندوستان کی طرف سے سندھ کو نقصان پہنچنے اور چین کی طرف سے ہندوستان کو برباد کیے جانے کے آثار واضح ہو رہے ہیں۔
محمد ذکی الدین شرفی نے ’’رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئیاں‘‘ میں انجیل کا حوالہ بھی دیا ہے۔ وہ انجیل کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
’’اور میں اوپر آسمان پر عجیب کام اور نیچے زمین پر نشانیاں یعنی خون آگ اور دھوئیں کا بادل دکھاؤں گا۔ سورج تاریک اور چاند خون ہو جائے گا۔‘‘ (اعمال باب ۲ آیات ۱۷ تا ۲۱)
مسلمان انجیل کو تحریف شدہ سمجھتے ہیں لیکن اس کتاب کا یکسر ناقابلِ اعتبار ہونا ممکن نہیں۔ مولانا عطاء الرحمان فاروقی نے اپنی تصنیف ’’الخلیفہ المہدی‘‘ میں حضرت حذیفہؓ کے حوالے سے لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی یہ نشانیاں بتائیں (۱) دھواں (۲) دجال (۳) دابۃ الارض (۴) پچھم سے سورج کا نکلنا (۵) حضرت عیسٰیؑ کا نزول (۶) یاجوج ماجوج کا سامنے آنا (۷) تین مقامات پر لوگوں کا زمین میں دھنس جانا۔ یہ نشانیاں ایک ساتھ ظاہر نہیں ہوں گی بلکہ باری باری ظاہر ہوں گی۔
غور کریں تو جس دھوئیں کا ذکر انجیل اور احادیثِ نبویؐ میں ہے وہ دراصل کرۂ ارض پر پھیلنے والی ماحولیاتی آلودگی کی چادر ہے جسے اوزون بھی کہتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے یہ روایت بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں ایک مہدی ہو گا، میری امت اس کے زمانہ میں بہت خوشحالی دیکھے گی۔
مولانا مودودیؒ کی تفہیم القران کی جلد چہارم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیوں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ دجال کے ظہور کے لیے حالات پیدا ہو چکے ہیں جو یہودیوں کا ’’مسیح موعود‘‘ بن کر اٹھے گا۔ حضرت جابر بن عبد اللہ کی ایک حدیث کے مطابق حضرت عیسٰیؑ امام مہدیؒ کے ساتھ مل کر دجال کا خاتمہ اور نفاذِ اسلام کریں گے۔
احادیثِ نبویؐ اور آسمانی کتابوں کی روشنی میں ہند اور اسرائیل کے اتحاد کی وجوہات سمجھ آتی ہیں۔ کچھ لوگ ان باتوں کو مذاق میں ٹال دیں گے لیکن جو لوگ ان باتوں پر یقین رکھتے ہیں انہیں معرکے کے لیے تیار رہنا چاہئے جو آہستہ آہستہ قریب آ رہا ہے، اور تیاریوں کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے فرقہ وارانہ، نسلی اور علاقائی اختلافات مٹا کر متحد ہو جائیں۔
(بہ شکریہ اوصاف اسلام آباد)

منکرینِ حدیث کے بارے میں مفتی اعظم سعودی عرب کا فتویٰ

ڈاکٹر احمد علی سراج

سعودی عرب کے موجودہ مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن آل شیخ نے اپنے ایک حالیہ فتوٰی میں غلام احمد پرویز اور اس کی جماعت کو کافر و مرتد قرار دیتے ہوئے مسلم حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ مرتدین کے اس ٹولے کو شرعی سزا دیں تاکہ اسلام کے خلاف اس فتنہ کی سازش کا قلع قمع ہو۔ مفتی اعظم سعودی عرب کے فتوٰی کا متن درج ذیل ہے:


طلوعِ اسلام نامی جماعت کے عقائد و افکار کہ جن کو اس جماعت کے بانی غلام احمد پرویز اور اس کے پیروکاروں نے اپنی کتابوں اور مضامین کے ذریعے پھیلایا ہے، اور بہت سے اسلامی ملکوں میں اس جماعت کے خلاف علمائے مسلمین کی کثیر تعداد کی طرف سے جاری کیے گئے فتاوٰی کے بارے میں آگاہی کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ یہ جماعت متعدد گمراہیوں کا مجموعہ ہے جن میں سے اکثر یہ ہیں:
(۱) اطاعتِ رسول اللہ ﷺ کو نہ ماننا، اور سنت کی حجیت (شرعی حیثیت) کا انکار کرنا، اور یہ وہم کہ صرف قرآن ہی شریعت کا ماخذ ہے۔
(۲) ارکانِ اسلام میں تحریف کرنا جو کہ قرآن و سنت اور اجماعِ امت کے خلاف ہے۔ صلوٰۃ، زکوٰۃ اور حج کے ان کے نزدیک خاص معنی ہیں جیسا کہ باطنی فرقہ کے لوگ اسلام کے بارے کرتے ہیں۔
(۳) ارکانِ ایمان میں تحریف کرنا جو کہ قرآن و سنت اور اجماعِ امت کے خلاف ہے۔ ملائکہ ان کے نزدیک حقیقی دنیا نہیں ہیں بلکہ کائنات کی قوتوں کا حصہ ہیں اور قضا و قدر ان کے نزدیک مجوسی فریب ہے۔
(۴) جنت و دوزخ کا انکار جو کہ ان کے نزدیک حقیقی جگہیں نہیں ہیں۔
(۵) بحیثیت ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کے وجود کا انکار کہ ان کے نزدیک وہ ایک تمثیلی قصہ ہے، حقیقت نہیں۔
(۶) قرآن کریم کی تفسیر اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق کرنا، اور ان کا کہنا کہ احکامِ قرآن عبوری (وقتی) تھے، ابدی نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ اس جماعت نے بہت سے گمراہانہ عقائد و افکار اپنائے ہوئے ہیں جن کی طرف یہ دعوت دیتے ہیں۔ اور ان عقائد میں سے ایک ہی عقیدہ اس جماعت کو اسلام سے خارج کرنے کے لیے کافی ہے اور اسے مرتدین کے زمرہ میں شامل کر دیتا ہے، اور یہ تمام عقائدِ کفریہ تو اور زیادہ ان لوگوں کو اسلام سے خارج کرتے ہیں۔ سو جو مسلمان لوگ ان کے عقائد و افکار کے بارے میں غور و فکر کریں گے وہ اس جماعت کی ضلالت و کفریات کے جاننے کے بعد اس کے کافر و مرتد ہونے کا یقینی فیصلہ کریں گے۔ کیونکہ یہ جماعت اللہ اور اس کے رسول کی اتباع کو جھٹلاتی ہے اور مومنین کے راستے پر نہیں ہے اور معروف ضروریاتِ دین میں تحریف کرتی ہے۔ اور جو کچھ ـ(اس جماعت) کے بارے میں پیش کیا گیا ہے، اس بنا پر جو بھی اس جماعت کی اتباع کرتا ہے، یا اس کی طرف دعوت دیتا ہے، یا کسی بھی وسائل و ذرائع ابلاغ کے ذریعے لوگوں کی آراء (سوچ و فکر) کو متاثر کرتا ہے، وہ کافر ہے اور دینِ اسلام سے مرتد ہے۔ اور مسلم حکمران پر واجب ہے کہ وہ اس سے توبہ طلب کرے، اور اگر وہ تائب ہو جائے اور ایسی (کفریہ) حرکات سے باز آ جائے اور اسلام کی طرف لوٹ آئے تو ٹھیک، ورنہ ایسے کافر کو قتل کر دیا جائے۔
اور تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اس گمراہ جماعت اور اس جیسی دوسری اسلام سے منحرف جماعتوں مثلاً قادیانیوں بہائیوں وغیرہ سے بچیں اور لوگوں کو بچائیں۔ اور ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو وصیت کرتے ہیں کہ وہ قرآن و سنت اور اتباعِ صحابہؓ و تابعینؒ اور ان کے بعد ائمہ مہدینؒ جن کا علم اور دین سے وابستگی ان کی ہدایت یافتگی پر گواہ ہیں، کو تھامیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اسلام کے دشمنوں کو، جہاں کہیں بھی وہ ہوں، نیچا دکھائے اور ان کے مکر و فریب کا ابطال کرے۔ بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے اور ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ بہترین وکیل ہے اور تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔
وصلی اللہ وسلم علیٰ نبینا محمد وآلہ وصحبہ۔
سائنٹیفک ریسرچ و افتاء کی مستقل کمیٹی
مہر و دستخط
مفتی عام برائے حکومت سعودی عریبیہ
عبد العزیز بن عبد اللہ بن آل شیخ
فتویٰ نمبر ۲۱۱۶۸ مورخہ ۱۴۲۰/۱۱/۱۴ ہجری

حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ ۔ شخصیت اور خدمات

مولانا محمد عیسٰی منصوری

مفکرِ اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا خاندانی تعلق سادات کے مشہور حسنی سلسلہ سے ہے جو نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حضرت حسن رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔ ہندوستان میں اس خاندان کی علمی و ادبی اور دینی و ملی خدمات کا دائرہ صدیوں کو محیط ہے۔ آپ کے مورثِ اعلیٰ حضرت شاہ علم اللہؒ، پھر جدِ امجد حضرت سید احمد شہیدؒ، آپ کے نامور والد گرامی مولانا عبد الحئی لکھنوئیؒ جن کی مشہورِ زمانہ تالیف ’’نزہت الخواطر‘‘ پورے اسلامی کتب خانہ میں اپنی مثال آپ ہے جس میں برصغیر کے آٹھ سو سالہ دور کے ساڑھے چار ہزار سے زیادہ علماء، مشائخ، بزرگانِ دین اور مصنفین کا جامع تذکرہ ہے۔
آپ کا بچپن ایسے گھرانہ میں گزرا جہاں علم و فضل، زہد و تقوٰی، عبادت و ریاضت، سادگی و قناعت کی حکمرانی تھی۔ غرض آپ کو بچپن سے علمی، ادبی، دینی و روحانی اور مجاہدانہ ماحول نصیب ہوا۔ عربی آپ نے چوٹی کے عرب علماء اور انشا پرداز مولانا خلیل عربؒ اور مولانا تقی الدین ہلالیؒ مراکش سے پڑھی۔ حدیث شیخ الحدیث مولانا حیدر حسن ٹونکیؒ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے، تفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سے، اور انگریزی لکھنؤ یونیورسٹی میں ایک انگریز سے سیکھی۔ آپ کی اصل تربیت گاہ آپ کا اپنا گھر تھا جہاں بچپن سے ہی دعوت و عزیمت اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جانیں قربان کر دینے کی خاندانی روایات اور سینکڑوں داستانیں سنیں۔ جس زمانہ میں بچے طوطا مینا کی کہانیاں سنتے ہیں، آپ کے گھرانہ میں دورِ صدیقیؓ و فاروقیؓ کے جہاد کے کارناموں پر مشتمل واقدی کی ’’فتوح الشام‘‘ پڑھی جاتی تھی۔
آپ نے ایسے زمانہ میں آنکھیں کھولیں جب برصغیر پر انگریز کی حکمرانی پورے شباب پر تھی اور پورا عالمِ اسلام یورپ کی سیاسی، عسکری، تہذیبی، تعلیمی اور فکری غلامی میں جکڑا ہوا تھا۔ برصغیر اور عالمِ اسلام کے بیشتر مصنفین، مفکرین اور اہلِ قلم مغربی علوم و فنون اور تہذیب و تمدن کے سحر میں مبتلا تھے۔ خواہ مصر کے شیخ محمد عبدہ، رفاعہ، طہطاوی، قاسم امین ہوں، یا برصغیر کے سرسید احمد خان، منشی چراغ علی اور محمد علی لاہوری، سب اسی راہ پر چل رہے تھے۔ یہ حضرات مغربی تعلیم و تربیت کے اثرات اور انگریز حکومت کے دبدبہ کی وجہ سے غالباً یہ سمجھتے تھے کہ مغربی تہذیب و تمدن کی عظمت و شوکت ایک بدیہی و دائمی حقیقت ہے، اس میں نقد و نظر کی گنجائش نہیں، یہ انسانی عقل اور انسانی علم کی ترقی کا آخری زینہ ہے۔ ایسے ماحول میں آپ کے گھرانہ کی دینی، علمی، روحانی اور مجاہدانہ روایات و ماحول نے آپ کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں:
’’مجھ پر اللہ کی مہربانی تھی اور اس کی حکمت کہ ایسے ماحول میں نشوونما ہوا جو مغربی تہذیب و تمدن کی سحر طرازیوں اور دل فریبیوں سے محفوظ بلکہ اس کا باغی، افراط و تفریط سے دور، صحیح اسلامی عقائد و تعلیمات سے معمور تھا۔ پھر ایسے اساتذہ سے تلمذ کا شرف حاصل ہوا جو علمی مہارت کے ساتھ ذہنی و فکری آزادی، اخلاقی جرأت، نقد و نظر کی صلاحیت و ہمت سے بہرہ ور تھے۔ اس ماحول و تربیت کا نتیجہ تھا کہ ایسی تحریروں کے قبول کرنے پر طبیعت آمادہ نہیں ہوتی تھی جن میں کمزوری، شرمندگی یا شکست خوردگی کے اثرات ہوں، یا جو صرف دفاع پر مبنی ہوں۔‘‘ (پرانے چراغ حصہ ۳، صفحہ ۲۶ و ۲۷)
تئیس سال کی عمر میں آپ اچھوتوں کے سب سے بڑے لیڈر بابا امیتدکر کو اسلام کی دعوت دینے بمبئی تشریف لے گئے۔ اس کے بعد آپ کا دعوتی سفر اور پیغام نہ صرف برصغیر بلکہ عرب و عجم، مشرق و مغرب، مسلم و غیر مسلم ہر جگہ اور ہر وقت جاری و ساری رہا۔ آپ نے اپنی دعوت و فکر کا موضوع خاص طور پر عربوں کو بنایا۔ جب آپ نے دیکھا کہ مغرب کا جدید الحادی فتنہ اپنے تمدنی، علمی، فکری رنگ میں جدید عرب نسل کو غیر معمولی طور پر متاثر کر رہا ہے تو آپ تڑپ اٹھے۔ آپ نے اپنی خداداد بصیرت سے ابتدائی دور سے ہی مغربی فکر و فلسفہ کو اپنی تحریر و تقریر کا موضوع بنایا۔ جاذب اور دلکش عنوان ’’ردۃ ولا ابابکر لہا‘‘ آپ کی جدوجہد کا عنوان بن گیا۔ اس میں نہ صرف اس فتنہ کی پوری تاریخ کو سمو دیا بلکہ دین کا درد رکھنے والے عرب علماء و مشائخ کو تڑپا کر رکھ دیا۔ عالمِ عربی میں آپ کے اس مقالے کے لاتعداد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور اب بھی مسلسل شائع ہو رہے ہیں۔ یہ عنوان آپ نے اس لیے اختیار کیا کہ عرب اہلِ قلم، ادباء اور مفکرین مغرب کے فکر و فلسفہ اور نظامِ حیات و تمدن سے بے انتہا متاثر ہو چکے تھے، گویا یہ ایک جدید ارتداد تھا۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
’’مجھے ایسا لگتا ہے کہ عرب اہلِ قلم کے اسلوبِ تحریر اور طرزِ فکر پر سید جمال الدین افغانی کے اسکول نے بہت اثر ڈالا۔ وہ جب میدانِ سیاست میں آتے تو استعماری طاقتوں پر جرأت و ہمت کے ساتھ تنقید کرتے اور ان پر سخت حملے کرتے۔ نہ سزاؤں اور دھمکیوں سے ڈرتے، نہ قید و بند اور ملک بدر ہونے کو خاطر میں لاتے۔ لیکن وہی لوگ جب مغربی تہذیب و تمدن کو موضوع بناتے یا سیاسی نظام، اقتصادی فلسفوں اور عمرانی علوم پر لکھنے بیٹھتے تو ان کے قلم جیسے تھک جاتے، زبان لڑکھڑانے لگتی، اسلوب کمزور پڑ جاتا۔ ان کی تحریروں سے یہ جھلکنے لگتا کہ مغرب ہی ہر چیز میں مثالی نمونہ ہے، اور ترقی کا اعلیٰ معیار یہ ہے کہ کسی طرح ان کے مقام تک پہنچا جائے اور انہیں کی نقل کی جائے۔‘‘ (پرانے چراغ حصہ ۳ ص ۲۹)
تعلیم سے فراغت کے بعد جب آپ میدانِ عمل میں اترے تو آپ کے سامنے اپنا ملک ہی نہیں پورا عالمِ اسلام بلکہ پوری دنیائے انسانیت تھی۔ آپ کا پختہ عقیدہ اور یقینِ کامل تھا کہ جس طرح ماضی میں اسلام نے دنیا کی رہبری کر کے اسے کامیابی کی راہ دکھائی ہے، اسی طرح آج بھی صرف اسلام اور قرآن ہی سسکتی دم توڑتی انسانیت کے دکھوں کا مداوا بن سکتا ہے۔ صرف وہی موجودہ دور کی گمراہیوں، بحران و انتشار، انارکی و خودفریبی سے دنیا کو نجات دلا سکتا ہے۔ آپ نے عربوں کو اسی خواہش اور آرزو سے اپنا مخاطب بنایا کہ وہ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کا دامن تھام کر اپنے داعی ہونے کی اصل حیثیت اور مقام کو بحال کرا کے دنیا کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لیں۔
چنانچہ آپ نے اپنی تحریر و تصانیف کی ابتداء عربی زبان سے کی۔ ابتدائی عمر ہی میں آپ کے مضامین پر چوٹی کے عرب علماء و دانشور سر دھنتے۔ ۱۸ سال کی عمر میں آپ کا پہلا مضمون مصر کے مشہور معیاری رسالہ المنار میں نامور و ممتاز عالم و صحافی علامہ سید رشید رضا نے اہتمام سے شائع کیا، پھر آپ سے اجازت لے کر اس مضمون کو کتابچہ کی صورت میں الگ سے شائع کیا۔ آپ کا دوسرا مضمون مشہور عربی ترجمان ’’الضیاء‘‘ میں شائع ہوا تو اسے پڑھ کر عالمِ عرب کے عظیم انشا پرداز و ادیب و مفکر شکیب ارسلان نے بڑے بلند الفاظ میں مضمون کی ستائش و تعریف کی۔ ایک ممتاز عرب ادیب و دانشور ڈاکٹر انور الجندی لکھتے ہیں کہ:
’’سید ابو الحسن علی ندوی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے عربوں کی طرف اپنی توجہ مبذول کی، انہیں بیدار کیا، انہیں اپنے حقیقی منصب اور ذمہ داری سنبھالنے کی دعوت دی، اور انہیں یاد دلایا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سرفرازی اسلام کی بدولت عطا کی ہے اور قرآن نے انہیں دنیا کی قیادت کے لیے تیار کیا ہے۔‘‘
آپ نے بار بار عرب ممالک جا کر ان کے زعماء و مفکرین، علماء و دانشوروں سے مل کر ان کو جھنجھوڑا اور ریڈیو و ٹیلی ویژن کے ذریعے عوام و خواص، دانشوروں، سلاطین و شہزادگان کو بڑی جرأت و بے باکی سے ان کی کمزوریوں، مغربی تہذیب کے تحت آ جانے، سامراجی طرزِ تجدد و ترقی پسندانہ خیالات و نظریات اور رجحانات کے زیر اثر آ جانے پر سخت الفاظ میں تنقید کی۔ ’’اسمعیات‘‘ کے نام سے ہر ملک کو خطاب کیا۔ اسمعی یا مصر، اے مصر سن، اے سیریا سن، اے لالہ صحرا (کویت) سن، اے ایران سن۔ جزیرۃ العرب کا پیغام دنیا کے نام، دنیا کا پیغام جزیرۃ العرب کے نام۔ آپ نے عرب عوام، علماء، دانشوروں، حکمرانوں اور بادشاہوں تک کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر کہا کہ تمہارا وجود و پہچان صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کا رہینِ منت ہے۔ اگر ان دو چیزوں سے تعلق ختم ہو جاتا ہے تو پھر عربوں کے پاس کچھ بھی نہیں بچتا۔ غرض آپ نے نصف صدی تک عربوں کو جو پیغام دیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ   ؎
نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا
محمد ﷺ عربی سے ہے عالمِ عربی
نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عربوں کی کوئی حیثیت تھی اور نہ محمدِ عربیؐ سے بے گانہ ہو کر ان کی کوئی حیثیت رہ سکتی ہے۔
عصرِ حاضر کے ممتاز عالم، عظیم دانشور، نامور خطیب و رہنما علامہ یوسف قرضاوی لکھتے ہیں:
’’ہم نے شیخ ابو الحسن علی ندوی کی کتابوں اور رسالوں میں نئی زبان اور جدید روح محسوس کی، ان کی توجہ ایسے مسائل کی جانب ہوئی جن کی جانب ہماری نظر نہیں پہنچ سکی۔ علامہ ابو الحسن علی ندوی پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہمیں الفاظ و موقف کی اہمیت و قیمت سے روشناس کرایا اور ان سے متاثر ہو کر بعد میں دوسرے مصنفین نے لکھنا شروع کیا۔ عربی ادب میں ان کا نام مسلّم ہے۔ بلا مبالغہ اس وقت آپ کی سطح کا مؤرخ و ادیب عرب و عجم میں نایاب ہے۔ آپ کے علمی و فکری مباحث تو تسلیم شدہ ہیں ہی، آپ کی عربی تحریروں کا حال یہ ہے کہ خود عرب علماء و خطباء آپ کی عبارتوں کو رٹتے اور حفظ یاد کرتے ہیں، اور جمعہ کے خطبوں تک میں نقل کرتے ہیں، حتٰی کہ حرمین شریفین کے ائمہ آپ کی عبارتوں کو جمعہ کے خطبات میں نقل کرتے ہیں۔ آپ کی عربی کتابیں عرب ممالک کی یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں میں داخلِ نصاب ہیں۔ آپ کی تصنیفی زبان شروع ہی سے عربی رہی ہے۔ پھر دنیا کی مختلف زبانوں میں آپ کی کتابوں کے بے شمار ایڈیشن چھپے اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے۔‘‘
بلاشبہ آپ عالمِ عرب میں اس وقت محبوبیت و مقبولیت کے انتہائی عروج پر تھے۔ غرض آپ کو عالمِ عرب میں وہ مقام حاصل ہو گیا جو اس دور میں کسی غیر عربی کو حاصل نہ ہو سکا۔ یہ امتیاز و انفرادیت آپ کو اخلاص و للّٰہیت، بے لوثی و بے نیازی کے ساتھ عرب مسائل و مشکلات سے گہری واقفیت، ان سے دلی ہمدردی اور انہیں بروقت جدید فتنوں اور خطرات سے خبردار کرنے کی بدولت حاصل ہوئی۔ آپ کی جو کتاب اردو میں دس پندرہ ہزار میں چھپتی، وہ عربی میں لاکھوں کی تعداد میں چھپتی رہی۔ عربوں نے آپ کی حمیتِ دینی، غیرتِ اسلامی، ربانیت و روحانیت کی وجہ سے آپ کی بے انتہا قدردانی کی۔ انہوں نے کھلے دل سے آپ کی عظمت کا اعتراف کیا۔ بقول پروفیسر خورشید احمد صاحب کے، عرب دنیا آپ کی فصاحت و بلاغت کا لوہا مانتی ہے۔ غرض آپ کو عربوں میں ایسی مقبولیت اور ہر دل عزیزی حاصل تھی کہ جب کسی پڑھے لکھے عرب کی کسی ہندی مسلمان سے ملاقات ہوتی تو بسا اوقات اس کا پہلا سوال یہ ہوتا کہ ابو الحسن علی ندوی کیسے ہیں؟
تاریخ و تذکرہ آپ کے مطالعہ کا خصوصی موضوع رہا۔ آپ نے اسلامی تاریخ اور اکابرینِ اسلام کے احوال و سوانح پر اس قدر لکھا کہ اس دور میں پورے عالمِ اسلام میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ آپ کی تحریروں میں تاریخ و ادب ایک دوسرے سے ہم آغوش نظر آتے ہیں۔ آپ کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ دینی علمی موضوعات پر بھی نہایت دلکش اور افسانوی انداز میں خامہ فرسائی کی جا سکتی ہے اور دینی تحریروں میں بھی ادبی دلچسپی رکھ سکتی ہیں۔ آپ کے اسلوبِ بیان میں علم و فکر، سنجیدگی و متانت، اعتماد و ٹھہراؤ تو ہے ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی شعلہ کی سی لپک اور طوفان کا سا دبدبہ بھی محسوس ہوتا ہے۔ آپ کی تحریر سے ولولہ و ابتہاج کی لہریں دوڑ جاتی ہیں۔ آپ کے اسلوب نثر کی کشش انگیز توانائی خود آپ کی شخصیت کی مرہونِ منت ہے۔ آپ کی شخصیت بڑی متنوع اور ہمہ گیر ہے جس نے اپنے اندر گلشنِ دین و ادب کے بہت سارے پھولوں کا عطر کشید کر لیا ہے۔ آپ کی تحریروں اور اسلوب میں آپ کی شخصیت کی طرح مدرسہ و خانقاہ کی طمانیت و سکون بھی ہے، علمو ادب کی جاذبیت و حسن بھی، ساتھ ہی ساتھ تحریک و اجتماعیت کی حرارت و سرگرمی بھی ہے۔ یہی جامعیت آپ کی شخصیت کا خاص امتیاز ہے اور آپ کی تحریر کا بھی۔
آپ نے تاریخ و تذکرہ کو اپنے مطالعہ اور انشاء کا موضوع بنایا تاکہ نئی نسل اسلاف کے کارناموں سے روشنی و حرارت حاصل کر کے دعوت و عزیمت پر سرگرمِ عمل ہو جانے کا حوصلہ حاصل کرے۔ آپ کے طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ آپ کے یہاں بے جا جوش کہیں نہیں ملتا جبکہ زور ہر جگہ نظر آتا ہے۔ یہ زورِ بیاں درحقیقت آپ کے فکر و نظر کی دین ہے۔ آپ صاحبِ نظر بھی تھے اور صاحبِ دل بھی، جب فکر کے ساتھ ذکر بھی ہو تو کیا کہنا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریروں میں سنجیدہ و حسین انداز میں نہایت گہری باتیں ملتی ہیں۔ ’’از دل خیزد بر دل ریزد‘‘ کی جھلک آپ کی ہر تحریر و تقریر کا خاصہ ہے۔
آپ کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد ۱۷۷ ہے۔ بیشتر کتابوں کے ترجمے اردو، فارسی، ترکی، انگریزی اور دیگر زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ جب آپ کی پہلی عربی کتاب ’’ما ذا خسر العالم بانحطاط المسلمین‘‘ منظرِ عام پر آئی تو اس نے عرب دنیا میں ہلچل مچا دی۔ دمشق یونیورسٹی کے کلیہ الشرعیہ کے ممتاز اسکالر و نامور مصنف استاد پروفیسر محمد المبارکؒ نے اسے اس صدی کی بہترین کتاب قرار دیا اور کہا کہ اگر کسی نے یہ کتاب نہیں پڑھی تو اس کا مطالعہ ناقص رہے گا۔ اس کتاب کے متعلق ایسے ہی تاثرات بیشتر عرب زعماء و مفکرین کے ہیں۔ جیسے ڈاکٹر یوسف موسٰی، استاد محمد قطب شہیدؒ، علامہ الشام شیخ محمد بہجت البیطار، اور اخوان کے مشہور رہنما ڈاکٹر مصطفٰی سباعی، عظیم مفکر و عالم استاد علی طنطاوی وغیرہ وغیرہ۔ پوری عرب دنیا، سعودی عرب، مصر و شام اور فلسطین و عراق کے چوٹی کے زعماء و مفکرین نے اسے اس صدی کی بہترین کتاب قرار دیا۔ اس کتاب نے ۳۵ سال کی عمر میں آپ کی شہرت و ناموری کو عرب دنیا میں گھر گھر پہنچا دیا۔ مشہور و نامور فاضل، لندن یونیورسٹی میں مڈل ایسٹ سیکشن کے چیئرمین ڈاکٹر بکنگھم نے ان الفاظ میں اس کتاب کو خراجِ تحسین پیش کیا کہ
’’اس صدی میں مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ کی جو کوشش بہتر سے بہتر طریقہ پر کی گئی، یہ اس کا نمونہ اور تاریخی دستاویز ہے۔‘‘
مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کا ایک بڑا کارنامہ علامہ اقبال کی شاعری اور فکر سے عربوں کو روشناس کرنا ہے۔ آپ کی منفرد اور وقیع کتاب ‘‘روائع اقبال‘‘ (عربی) اور اس کے اردو ترجمہ ’’نقوشِ اقبال‘‘ کے بغیر سلسلہ اقبالیات کی فہرست مکمل نہیں سمجھی جا سکتی۔ اگرچہ آپ سے پہلے عزام اور عباس محمود نے عالمِ عربی میں اقبال کو متعارف کرنے کی کوشش کی مگر واقعہ یہ ہے کہ دونوں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ روائع اقبال کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ مولانا ندویؒ نے فکرِ اقبال کی بلندی، بلند حوصلگی اور وسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل کو اپنی زندگی کا حصہ اور مشن بنا لیا ہے۔ غالباً اسی کے پیشِ نظر جناب ماہر القادری مرحوم نے نقوشِ اقبال پر اپنے ماہنامہ رسالہ فاران میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’یہ کتاب اس مجاہدِ عالم کی لکھی ہوئی ہے جو اقبال کے مردِ مومن کا مصداق ہے، اس لیے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ نقوشِ اقبال میں خود اقبال کی فکر و روح اس طرح گھل مل گئی ہے جیسے پھول میں خوشبو اور ستاروں میں روشنی۔ پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے شبلی کا قلم، غزالی کی فکر اور ابن تیمیہؒ کا جوش و اخلاص اس تصنیف میں کارفرما ہے۔‘‘
واقعہ یہ ہے کہ دینی و عصری علوم کے شناور ہونے کے ناطے علامہ ندویؒ کی نگاہِ بصیرت نے علامہ اقبال کی خوبیوں اور کمالات کا صحیح ادراک کیا۔ آپ لکھتے ہیں:
’’میری پسند و توجہ کا مرکز وہ اس لیے ہیں کہ بلند نظری اور محبت و ایمان کے شاعر ہیں۔ ایک عقیدہ، دعوت و پیغام رکھتے ہیں۔ مغرب کی مادی تہذیب کے سب سے بڑے ناقد اور باغی ہیں۔ اسلام کی عظمتِ رفتہ اور مسلمانوں کے اقبالِ گزشتہ کے لیے سب سے زیادہ فکرمند، تنگ نظر قومیت و وطنیت کے سب سے بڑے مخالف، اور انسانیت و اسلامیت کے سب سے بڑے داعی ہیں۔ جو چیز مجھے ان کے فن و کلام کی طرف لے گئی وہ بلند حوصلگی، محبت اور ایمان ہے جس کا حسین امتزاج ان کے شعر و پیغام میں ملتا ہے۔ میں اپنی طبیعت و فطرت میں انہی تینوں کا دخل پاتا ہوں۔ میں ہر اس ادب و پیغام کی طرف بے اختیار بڑھتا ہوں جو بلند حوصلگی اور احیاء اسلام کی دعوت دیتا اور تسخیرِ کائنات اور تعمیر النفس و آفاق کے لیے ابھارتا ہے، جو مہر و وفا کے جذبات کو غذا دیتا اور ایمان و شعور کو بیدار کرتا ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور ان کے پیغام کی آفاقیت و ابدیت پر ایمان لاتا ہے۔‘‘

مارچ ۱۹۹۴ء میں جب یہ ناچیز رائے بریلی حاضر ہوا تو عشاء کی نماز کے بعد آدھی رات تک اقبالیات پر گفتگو فرماتے رہے اور برجستہ اردو فارسی کلام سناتے رہے۔ اندازہ ہوا کہ حضرت مولانا کو اقبال کا تقریباً سارا کلام ازبر ہے۔ مجھے اقبال کی مشہور نظم جس کا پہلا شعر

کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی
سماتی کہاں اس فقیری میں میری

سنا کر نوٹ کروائی، اور فرمایا آپ مغرب میں رہتے ہیں اس پر خوب غور و خوض کیجئے، اقبال نے اس میں پورے مغربی فکر و فلسفہ کو سمو دیا ہے۔

آپ اپنی علمی و فکری اور تصنیفی مشغولیت کے باوصف بھارتی مسلمانوں کی سیاسی و ملی خدمات سے کبھی غافل نہیں ہوئے، خاص طور پر آخری بیس سالوں میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے پلیٹ فارم سے بھارتی مسلمانوں کی مؤثر قیادت اور خدمات انجام دیں۔ آپ کو اپنے ہر دلعزیز اوصاف کی بنا پر تمام مکاتبِ فکر کا بھرپور اعتماد حاصل رہا۔ شاہ بانو کیس کی گتھی سلجھانے میں آپ کی رہنمائی نے اہم کردار ادا کیا۔ گزشتہ دنوں جب یوپی حکومت نے اسکولوں میں سرسوتی پوجا کا گیت لازمی قرار دے دیا تو آپ کے ایک جرأتمندانہ بیان نے ملک کے حالات بدل دیے اور حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ آپ صحیح معنی میں ایک ایسا روشن چراغ تھے جس کی لو سے ظلم و طغیان کے ایوانوں میں ہلچل ہی نہیں قیامت برپا ہو جاتی تھی۔

۱۹۸۰ء میں دیوبند کا صد سالہ اجلاس منعقد ہوا، اجلاس کیا تھا انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ اس اجلاس میں سب سے زیاہد برمحل، مؤثر، طاقتور اور مجاہدانہ تقریر، جو بھارتی مسلمانوں کی ترجمان کہی جا سکتی ہے، آپ ہی کی تھی۔ آپ کی یہ تقریر اس اجلاس کی جان اور پیغام سمجھی گئی، آپ نے بھارتی مسلمانوں اور حکومت کو مخاطب کر کے فرمایا:

’’ہم صاف اعلان کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ بھی اعلان کریں کہ ہم ایسے جانوروں کی زندگی گزارنے پر ہرگز راضی نہیں جن کو صرف راتب اور تحفظ (سکیورٹی) چاہیے کہ کوئی ان کو نہ مارے۔ ہم ہزار بار ایسی زندگی گزارنے اور ایسی حیثیت قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ ہم اس سرزمین پر اپنی اذانوں، نمازوں کے ساتھ رہیں گے بلکہ تراویح، اشراق، تہجد تک چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ ہم ایک ایک سنت کو سینے سے لگا کر رہیں گے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ طیبہ کے ایک نقطہ سے بھی دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ ہم کسی قومی دھارے سے واقف نہیں، ہم تو صرف اسلامیت کے دھارے کو جانتے ہیں، ہم تو دنیا کی قیادت و امامت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔‘‘

گزشتہ دنوں ۲۸، ۲۹، ۳۰ اکتوبر ۱۹۹۹ء مسلم پرسنل بورڈ کے اجلاس واقع بمبئی میں آپ کی اپنی صدارتی تقریر میں صاف فرمایا:

’’ہم اس کی بالکل اجازت نہیں دے سکتے کہ ہمارے اوپر کوئی اور نظامِ معاشرت، نظامِ تمدن اور عائلی قانون مسلط کیا جائے۔ ہم اس کو دعوتِ ارتداد سمجھتے ہیں اور ہم اس کا اسی طرح مقابلہ کریں گے جیسے دعوتِ ارتداد کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ یہ ہمارا شہری، جمہوری اور دینی حق ہے۔‘‘

آپ عالمِ اسلام اور خاص طور سے بھارتی مسلمانوں کو اکثر فاتحِ مصر حضرت عمرو بن عاصؓ کا انتباہ و آگہی یاد دلاتے ’’انتم فی رباط دائم‘‘ (تم مسلسل محاذِ جنگ پر ہو) تمہیں ہر وقت چوکنا اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ برصغیر کے طبقہ علماء میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن صاحبؒ کے بعد علامہ ابو الحسن علی ندویؒ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے ملکی حدود سے ماورا ہو کر پوری ملتِ اسلامیہ اور پوری انسانیت کی فکر کی۔

۱۹۸۰ء میں ایک رات پے در پے دو بار سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی جس میں سرور دو عالمؐ نے فرمایا میری حفاظت کا کیا انتظام کیا ہے؟ اس وقت آپ نے جنرل ضیاء الحق صاحب کو سرور دو عالمؐ کا پیغام پہنچا کر فرمایا کل قیامت کے روز دربارِ رسالتؐ میں آپ کا دامن ہو گا اور میرے ہاتھ کہ میں نے پیغام پہنچا کر اپنی ذمہ داری ادا کر دی تھی۔ آپ خلیج کی جنگ کے بعد سے سرزمینِ عرب پر امریکی فوجوں کی موجودگی پر سخت پریشان تھے، وفات سے چند ہفتہ پہلے جب یہ ناچیز حاضرِ خدمت ہوا اس وقت فالج کے حملہ کے بعد سے مسلسل نقاہت کے عالم میں تھے۔ کسی صاحب نے پاکستان کے فوجی سربراہ پرویز مشرف صاحب کا اخباری بیان سنا دیا جس میں انہوں نے ترکی کے مصطفٰی کمال اتاترک کو اپنا آئیڈیل و ہیرو بتا کر ان کے نقشِ قدم پر چلنے کا عندیہ ظاہر کیا تھا۔ اس پر آپ تڑپ اٹھے اور فرمایا:

’’اس صدی میں اسلام کو سب سے زیادہ نقصان جس شخص نے پہنچایا وہ اتاترک ہیں۔ کاش کوئی میری کتاب ’’اسلام و مغربیت کی کشمکش‘‘ کا انگریزی ایڈیشن ان تک پہنچا دے (جس میں اتاترک کے متعلق تفصیلی معلومات ہیں)‘‘۔

اس پر میں نے عرض کیا، پرسوں میرا پاکستان کا سفر ہے، ان شاء اللہ کتاب پہنچ جائے گی۔ اس پر خوش ہو کر فرمایا، میں صبح سے دعا کر رہا تھا اے اللہ! میرے اس کام کے انجام دینے کے لیے کسی شخص کو بھیج دے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیج دیا۔ اور فرمایا، ان شاء اللہ یہ کام آخرت میں آپ کی نجات کے لیے کافی ہو گا۔  اس کام کی انجام دہی کی اطلاع پر انتہائی مسرت اور بلند الفاظ میں گرامی نامہ تحریر فرمایا جو میرے پاس حضرت کا آخری گرامی نامہ ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ اس دور میں آپ کی ہستی پوری ملتِ اسلامیہ کے لیے ایک سایہ دار شجر اور اس شعر کی صحیح مصداق تھی ؎

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

جب بھی آپ نے ضرورت محسوس کی، نہ صرف بھارت کے حکمرانوں بلکہ عالمِ عرب اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کو کلمۂ حق جرأت کے ساتھ کہا۔ یہ اس دور میں صرف آپ کا امتیاز تھا، ورنہ اس زمانہ کے طبقۂ علماء و مشائخ میں یہ چیز ناپید ہو چکی ہے۔

علامہ ندویؒ کا سب سے نمایاں وصف آپ کا فکری کام ہے۔ آپ کی تحریروں میں مغرب کے گمراہ کن الحادی فکر و فلسفہ کا مسکت جواب اور مدلل رد موجود ہے۔ اس وقت دنیا اور خاص طور پر ملتِ اسلامیہ کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ اقوامِ عالم اور پوری انسانیت بدقسمتی سے مغرب کے ان افکار و نظریات کی اسیر بن چکی ہے۔ جس نے علم و فکر، تہذیب و تمدن اور ترقی و خوشحالی کے نام پر پوری انسانیت کو وحئ آسمانی سے ہٹا کر خواہشِ نفسانی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ برصغیر کے طبقۂ علماء میں جس چیز نے آپ کی شخصیت کو ممتاز کیا، وہ آپ کا یہی کارنامہ ہے۔ مغربی فکر و فلسفہ اور افکار و نظریات کے غلبہ نے عالمِ اسلام کے لیے بے شمار مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ اور جب تک مغرب کا فکری غلبہ موجود ہے، عالمِ اسلام کبھی سربلندی، عزت اور غلبہ نہیں پا سکتا۔ آپ ندوۃ العلماء کے طلبا کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اس وقت جس طبقہ کے ہاتھ میں زمامِ کار ہے، وہ مغربی تہذیب کو مثالی اور انسانی تجربات کی آخری منزل اور حرفِ آخر سمجھتا ہے۔ وہ اس کو زندگی کی تنظیم کی آخری کوشش سمجھتا ہے اور انسانی مسائل کے حل کا آخری کامیاب تجربہ سمجھتا ہے، اور اس کو اسلام کے نظام کے قائم مقام خیال کرتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اسلام کا نظام اپنی ساری افادیت کھو چکا ہے، اب اس کو دوبارہ کارگاہِ حیات میں لانے کی زحمت دینا صحیح نہیں۔

یہ ہے وہ زندہ سوال جو اس وقت ایک شعلہ کی طرح، ایک بھڑکی ہوئی آگ کی طرح تمام اسلامی ممالک میں پھیل چکا ہے۔ اور جس کے اثر سے کوئی طبقہ اور کوئی پڑھا لکھا انسان پورے طور پر محفوظ نہیں ہے۔ یہ ایک سازش چلی آ رہی ہے، فکری طور پر بھی، سیاسی و انتظامی طور پر بھی۔ ہمیں اسی طور پر اس کا مقابلہ کرنا ہے اور تعلیم یافتہ طبقہ کو مطمئن کرنا اور اسلام پر اس کا یقین واپس لانا، دوبارہ یقین پیدا کرنا ہے کہ اسلام اس زمانہ کا ساتھ دے سکتا ہے، قیادت کر سکتا ہے۔ یہ ہے آج کا اصل فتنہ کہ اسلام اس زمانہ کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ آپ کو ثابت کرنا ہو گا کہ اسلام اس زمانہ کو راہ پر لگا سکتا ہے، اس کے لیے آپ کو تیاری کرنی ہے۔۔۔

آج انڈونیشیا، مشرقِ وسطٰی سے مراکش تک امریکہ و یورپ کی سازش سے اسلام پر اعتماد متزلزل کر دیا گیا ہے۔ اسلام پر عمل کرنے کو فرسودگی، رجعت پسندی، فینڈامینٹل ازم سے تعبیر کیا جاتا ہے تاکہ ایک پڑھے لکھے آدمی کو شرم آنے لگے کہ حاشا و کلا وہ فنڈامینٹلسٹ نہیں۔ آپ کو وہ کام کرنا ہے کہ لوگ سینہ تان کر اور آنکھیں ملا کر یہ کہیں کہ ہاں ہم فنڈامینٹلسٹ ہیں، ہمارے نزدیک فنڈا مینٹل ازم ہی دنیا کو بچا سکتا ہے۔ ساری خرابی اور سارا فساد فنڈا مینٹل ازم نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ کوئی اصول نہیں، کوئی معیار نہیں، کوئی حدود نہیں، صرف نفس پرستی ہے، صرف خواہش پرستی ہے، صرف اقتدار پرستی ہے۔ اس لیے آپ کو تیاری کرنی ہے۔‘‘

اس کے بعد آپ مزید وضاحت سے عصرِ حاضر کی سب سے اہم ضرورت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے طلباء سے فرماتے ہیں:

’’اسلام کا مجدد کہلانے کا وہی مستحق ہو گا جو اسلامی شریعت کی برتری ثابت کرے، زندگی سے اس کا پیوند لگائے، اور ثابت کرے کہ اسلامی قانون وضعی قانون اور انسانوں کے تمام خودساختہ قوانین سے آگے ہے۔ زمانہ سے آگے کی چیز ہے، زمانہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اور دنیا نے خواہ کتنی ہی ترقی کی ہو لیکن اسلامی قوانین اس کی رہنمائی کی اب بھی صلاحیت رکھتے ہیں، اس کے تمام سوالات کے جوابات دینے اور انسانی زندگی کے پیدا ہونے والے مسائل کا حل ان کے اندر موجود ہے، اس میں ایک بالغ معاشرہ کی تنظیم کی بہترین صلاحیت ہے۔‘‘

مفکرِ اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی شخصیت کوئی معمولی شخصیت نہیں تھی۔ ایسی شخصیتیں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں اور ملت بلکہ پوری انسانیت کے لیے رحمت ثابت ہوتی ہیں۔ علی میاںؒ ایک فرد اور ایک ذات کا نام نہیں، ایک مشن، ایک تحریک اور ایک دعوت اور ایک انقلاب کا نام ہے۔ آپ کے انتقال سے علم و حکمت کا آفتاب غروب ہو گیا، وہ آفتاب جس کی روشنی سے عرب و عجم مستفید ہو رہے تھے۔ آپ ایک عظیم مفکر، مؤرخ، عالمِ دین، عربی زبان و ادب کے ماہر، اعلیٰ درجہ کے انشا پرداز، سوانح نگار تھے۔ مغرب کی جدید تہذیب و تمدن اور اس کے گمراہ کن افکار و نظریات پر گہری اور بسیط نظر رکھتے تھے۔ برصغیر کے واحد عالمِ دین تھے جن تحریروں میں مغربی فلسفہ و فکر کا رد، اس کے زہر کا تریاق بکثرت موجود ہے۔ مغرب کے برپا کیے ہوئے فساد اور گمراہ کن نظریات کے خلاف آپ کا بے باک، مدلل اور مؤثر قلم جراحت و مرہم دونوں کا کام کرتا تھا۔

عالمی مسائل و امور پر آپ کی نظر گہری اور عمیق، اور ملت کے اجتماعی مسائل سے دلی تعلق تھا۔ ملکی و عالمی، سیاسی و سماجی حالات و مسائل سے آپ کو وسیع و عمیق واقفیت تھی۔ علمی و فکری ہر موضوع پر آپ نے قلم اٹھایا۔ اور جس موضوع پر آپ نے جو لکھا وہ اس فن کے لیے اتھارٹی مانا گیا۔

برصغیر کے اس صدی کے اکابر علماء و اہل اللہ جیسے حضرت مولانا محمد الیاسؒ، مولانا احمد علی لاہوریؒ، مولانا حسین احمد مدنیؒ، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ، و دیگر علماء و اہل اللہ کے آپ ہمیشہ محبوب و منظورِ نظر رہے۔ آپ کے شیخ حضرت شاہ عبد القادر رائے پوریؒ کا مقولہ مشہور ہے کہ اگر خدا نے پوچھا کہ دنیا سے کیا لایا تو ’’علی میاں‘‘ کو پیش کر دوں گا۔ آپ کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ برصغیر کے اس صدی کے بیشتر اکابر علماء اور اہل اللہ کا تعارف آپ کے قلم سے ہوا۔

اس کے ساتھ ہی ’’تاریخِ دعوت و عزیمت‘‘ کی سات جلدیں لکھ کر اسلام کے چودہ سو سالہ مشاہیر اور اکابرینِ امت کا تذکرہ ایسے مؤثر، دلکش اور تعمیری انداز میں لکھا جس سے نئی نسل بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ آپ کی شخصیت جس طرح علماء و مدارس، صوفیاء کرام اور خانقاہوں میں مسلّم تھی، اسی طرح عصری طبقات، عصری تعلیم گاہوں، علی گڑھ، قاہرہ، مکہ، جنیوا، لندن اور نیویارک میں بھی مقبولیت رکھتی تھی۔ دنیا بھر کے علماء و زعماء، مفکرین و دانشور حتٰی کہ حکمران آپ کو عقیدت و عظمت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اپنے اخلاقِ عالیہ کی بدولت آپ ہر طبقہ میں مقبولیت رکھتے تھے۔

ندوۃ العلماء (لکھنؤ) کے ناظمِ اعلیٰ ہونے کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کی مجلسِ شورٰی کے رکن، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر، آل انڈیا ملی کونسل کے سرپرست، رابطہ ادبِ اسلامی (مکہ مکرمہ) کے سربراہ، مدینہ یونیورسٹی کی مجلسِ مشاورت کے رکن، آکسفرڈ یونیورسٹی کے اسلامی سنٹر کے سربراہ، جامعہ الہدٰی (نوٹنگھم)، کے سرپرست، دعوتِ اسلامی کی عالمی مجلسِ اعلیٰ (قاہرہ) کے ممبر، دارالمصنفین و شبلی اکیڈمی (اعظم گڑھ) کے صدر، عالمی یونیورسٹیوں کی انجمن واقع رباط (مراکش)، کے ممبر، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) کی ایڈوائزری کونسل کے ممبر۔ قاہرہ، دمشق اور اردن کی عربی اکیڈمی کے ممبر۔ اس کے علاوہ سینکڑوں علمی و دینی اداروں اور تنظیموں کے سرپرست تھے۔

آپ برصغیر کی واحد شخصیت تھے جنہیں دو بار خانہ کعبہ کی کنجی حوالے کی گئی۔ اسی طرح شاہ فیصل ایوارڈ، دبئی (امارات) کا عالمی شخصیت ایوارڈ، اور سلطان برونائی ایوارڈ سے نوازے گئے۔ آپ کے زہد اور دنیا سے بے نیازی کا یہ عالم کہ ان ایوارڈز کے کروڑوں روپیوں کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا بلکہ اسی وقت ساری رقم افغان مجاہدین، مساجد و مدارس اور دینی و تعلیمی اداروں میں تقسیم فرما دی۔

۱۹۹۶ء میں حکومتِ ترکیہ نے آپ کے اعزاز میں اور آپ کی شخصیت اور علمی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد کی جس میں دنیا بھر کے علماء کرام، دانشوروں اور چوٹی کے اسکالروں نے آپ کی علمی فکری و دینی خدمات پر مقالے پڑھے۔ دنیا بھر کی بیشتر دینی تحریکیں اور عالمی اسلامی تنظیمیں آپ کو اپنا سرپرست و مربی سمجھتی ہیں اور آپ کے قیمتی مشوروں اور رہنمائی کی طالب رہتی ہیں۔ جیسے برصغیر کی مشہور تبلیغی جماعت، عرب دنیا کی سب سے بڑی دینی تحریک اخوان المسلمین، انڈونیشیا کی ماشوی پارٹی اور جماعتِ اسلامی وغیرہ وغیرہ۔ دیوبند کے علاوہ دیگر تمام مکاتبِ فکر کے علماء مشاہیر بھی آپ سے محبت و عقیدت کا تعلق رکھتے تھے۔

۲۸ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس واقع بمبئی میں جب آپ نے اپنی علالت کے سبب استعفا پیش فرمایا تو اس ناچیز نے دیکھا کہ پورے اجلاس پر سناٹا چھا گیا اور کوئی بھی اسے قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھا۔ سب سے پہلے ملی کونسل کے سربراہ مولانا مجاہد الاسلام قاسمی نے کہا، جب کشتی طوفان اور منجدھار میں ہوتی ہے تو ملاح نہیں بدلا جاتا۔ شیعہ رہنما علماء کلب صادق نے کہا پرسنل لاء بورڈ کی صدارت حضرت مولانا کے لیے کوئی وجۂ عزت و افتخار نہیں بلکہ بورڈ کے لیے یہ اعزاز و فخر کی بات ہے کہ حضرت مولانا اس کے صدر ہیں۔ جماعتِ اسلامی کے امیر مولانا سراج الحسن صاحب نے کہا آج یہاں پورے ہندوستان کے مختلف مکاتبِ فکر کے رہنما موجود ہیں، اگر پوری دنیائے اسلام سعودی عرب، ترکی، پاکستان، انڈونیشیا، سوڈان وغیرہ وغیرہ کے زعماء و رہنما یہاں ہوتے تب بھی صدارت کے لیے سب کی زبان پر ایک ہی نام ہوتا اور وہ مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی کا ہوتا۔ اس کے بعد تمام مکاتبِ فکر کے رہنماؤں نے بیک زبان کہا، حضرت مولانا ہی بورڈ کے تاحیات صدر ہیں۔

اسی طرح بھارت کی تمام سیاسی پارٹیاں آپ کا احترام کرتیں، بھارت کے وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ آپ کے در دولت پر حاضری دیتے، بھارت کی حکومت نے دو بار آپ کو بھارت کا سب سے بڑا قومی ایوارڈ پرم بھوش اور بھرت رتن دینا چاہا مگر آپ نے قبول کرنے سے سختی سے انکار کیا۔

مسلم پرسنل لاء کی جدوجہد کے دوران شاہ بانو کیس کے موقع پر بھارتی حکومت نے اسلامی پرسنل لاء میں تبدیلی کرنے کا ذہن بنا لیا تھا۔ جب ایک نازک موقع پر مسلم وفد سے گفتگو کے دوران بھارتی پرائم منسٹر راجیو گاندھی نے اس دلیل کے ساتھ مسلم پرسنل لاء میں ترمیم کا ارادہ ظاہر کیا کہ متعدد عرب ممالک نے اسلامی پرسنل لاء میں ترمیم کی ہے، تو آپ نے فرمایا الحمد للہ ہم بھارتی مسلمان اسلام کے متعلق خودکفیل ہیں، کسی عرب ملک کے محتاج نہیں۔ جب راجیو صاحب نے اس مسئلہ میں جامع ازہر (مصر) کے علماء سے رجوع کرنے کا عندیہ ظاہر کیا تو حضرت مولانا نے فرمایا الحمد للہ یہاں ایسے علماء موجود ہیں کہ اگر ان کا نام جامع ازہر میں لیا جائے تو احترام میں ازہر کے چوٹی کے علماء کی گردنیں جھک جائیں۔ آپ نے مزید فرمایا بارہا ایسا ہوا ہے کہ دنیا بھر کے مسلم علماء کی سب سے بڑی تنظیم رابطہ عالمِ اسلامی (مکہ مکرمہ) میں پوری دنیا کے مسلم اسکالرز کی رائے ایک جانب اور آپ کے ملک کے ایک اسکالر کی دوسری جانب ہوتی تب آپ کے ملک کے اسی ایک شخص کی رائے پر فیصلہ کیا گیا اور ساری دنیا کے اسلامی اسکالرز نے آپ کے ملک کے اسکالر کی رائے کے سامنے سر جھکا دیا۔ یہ سن کر راجیو صاحب خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد جب انہیں پتہ چلا کہ وہ شخصیت انہیں کے حلقہ انتخاب (رائے بریلی) کی ہے تو انہوں نے اس پر کئی بار فخر کا اظہار کیا۔

حضرت مولانا کی گفتگو کے بعد راجیو صاحب نے اسلامی شریعت کی روشنی میں (مطلقہ کے نفقہ کے) مسئلہ کو معلوم کرنا چاہا، جب انہیں تشفی بخش جواب ملا تو انہوں نے بھارتی پارلیمنٹ میں اس مسئلہ پر بحث کے دوران کہا کہ میں نے امریکہ و یورپ سمیت دنیا بھر کے قوانین کا مطالعہ کیا ہے مگر ۱۴ سو سال پہلے قرآن اور اسلام نے عورت کو جو حقوق دیے ہیں وہ اب تک دنیا کا کوئی قانون نہیں دے پایا۔ بالآخر انہوں نے کانگریس کے ممبران کے نام حکم (لازمی حکم) جاری کر کے بھارتی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے مطالبہ کے مطابق بل پاس کروایا۔ اس طرح حضرت مولانا کی شخصیت کی بدولت مسلمان پارلیمنٹ میں پرسنل لاء بورڈ کی جنگ جیت گئے، غرض اس دور میں ایسی مقبولیت اور محبوبیت کی کوئی دوسرا نظیر نہیں ہیں۔

آپ کے سانحۂ ارتحال پر پوری ملتِ اسلامیہ نے جس طرح رنج و غم کا اظہار کیا، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ دنیا بھر کے اخبارات و رسائل و مجلدات کے اداریوں، اور جو مضامین و مقالات آپ کی شخصیت پر چھپ چکے ہیں، اگر صرف انہیں یکجا کیا جائے تو کئی ضخیم جلدیں تیار ہو سکتی ہیں۔ آپ کی زندگی، تالیفات اور علمی کاموں پر سیمیناروں، یادگاری جلسوں کا لامنتہی سلسلہ برابر جاری ہے۔ عربی اردو میں آپ کی متعدد سوانح آ چکی ہیں۔ دنیا بھر کی بیالیس یونیورسٹیوں میں آپ کی شخصیت اور آپ کے کام پر پی ایچ ڈی ہوا ہے۔ یہ آپ کی عند اللہ مقبولیت کی علامت ہے کہ جمعہ کی نماز سے پہلے انتقال فرمایا۔ اسی رائے رائے بریلی کے چھوٹے سے قصبہ میں تدفین عمل میں آئی مگر ڈیڑھ دو لاکھ افراد پروانہ وار پہنچ گئے۔ حرمین شریفین میں ۲۷ رمضان المبارک کو شبِ قدر میں، جبکہ حرم اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ بھرا ہوتا ہے، غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ اسی طرح جدہ، ریاض اور سعودی عرب کے دیگر شہروں، جامع ازہر (مصر)، استنبول (ترکی)، بغداد، کویت، متحدہ امارات، یورپ و امریکہ غرض دنیا کے کونے کونے میں کروڑوں مسلمانوں نے غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ ریڈیو اور ٹی وی پر وفات کی خبر نشر ہوتے ہی برصغیر اور عالمِ اسلام میں غم کے بادل چھا گئے۔ یہ سب آپ کی عند اللہ مقبولیت کی علامت ہے ورنہ محض کسی مفکر اسکالر انشا پرداز کسی تحریک کے لیڈر کے لیے ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ یہاں لندن سے شائع ہونے والے عربی روزناموں الحیاۃ اور الشرق الاوسط میں آپ کی شخصیت پر اس قدر لکھا گیا کہ شاید ہی کبھی کسی شخصیت پر لکھا گیا ہو۔ سعودی عرب کی مجلسِ شورٰی کے رکن ڈاکٹر احمد عثمانی تویجری نے لندن کے معروف روزنامہ الشرق الاوسط سے گفتگو کرتے ہوئے کہ:

’’علامہ ابو الحسن علی ندویؒ دعوت و اصلاح کے اماموں میں سے ایک امام تھے، ان کے اندر بیک وقت زہد و ورع، جہاد و سرمستی اور فکر و ادب کا حسین امتزاج پایا جاتا تھا۔‘‘

علامہ ابو الحسن علی ندویؒ گوناگوں تصنیفی، علمی و فکری، ملی و سیاسی مشاغل کے باوصف عصرِ حاضر کے مفکرین و رہنماؤں کی طرح کبھی اپنی باطنی اصلاح سے غافل نہیں ہوئے۔ آپ کی شخصیت تصوف و روحانیت میں بھی مسلّم تھی۔ آپ حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری کے خلیفۂ اجل تھے۔ دنیا بھر کے ہزارہا افراد آپ سے بیعت اور روحانی تربیت کا تعلق رکھتے تھے۔ آپ اس دور میں ؏

در کفے جام شریعت در کفے سندانِ عشق 

کا کامل نمونہ تھے۔ آپ کی وفات بھی زندگی کی طرح قابلِ رشک طریقہ پر ہوئی۔ رمضان المبارک کا مہینہ، جمعہ کا دن، عجلت کے ساتھ غسل کر کے نیا لباس پہن کر جمعہ کی تیاری فرمائی اور حسبِ معمول سورہ کہف پڑھنے لگے۔ درمیان میں ہی سورہ یاسین کی تلاوت شروع فرما دی اور روح خالقِ حقیقی سے جا ملی۔ آپ کے متعلق حضرت ابوبکر صدیقؓ کا وہ فقرہ جو انہوں نے سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر فرمایا تھا ’’طاب حیا و میتا‘‘ (زندگی و موت دونوں مبارک) پوری طرح صادق آتا ہے۔ آپ کی وفات عیسوی کیلنڈر کی صدی بلکہ ہزار سالہ تاریخ کے آخری دن، اور تدفین اس صدی اور ہزارویں سال کی آخری رات میں ہونا، یہ معنی خیز اشارہ ہے کہ یہ صدی علامہ ابو الحسن علی ندویؒ کی صدی تھی۔

علامہ ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے علماء کرام اور نئی نسل کے لیے بہت کچھ چھوڑا۔ ۸۰ کے قریب تصانیف، سینکڑوں مقالات و مضامین، لا تعداد تقاریر۔ آپ نے کام کی طلب رکھنے والوں کے لیے کئی راہیں بنائیں اور روشن کیں۔ ان راہوں پر پیش قدمی ضروری ہے۔ علامہ ندویؒ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا صرف یہی ایک طریقہ ہے۔


پوپ جان پال اور یہودیوں کے تعلقات پر ایک اہم رپورٹ

ادارہ

ایک دفعہ سوویت رہنما جوزف اسٹالین نے رومن پوپ کا مذاق اڑاتے ہوئے سوال اٹھایا تھا ’’اس پوپ نے کتنوں کو ایک دوسرے سے جدا کر کے ان میں تفرقہ ڈلوا دیا ہے!‘‘۔ بعد میں جب مشرقی یورپ کی کمیونسٹ ریاستوں میں دراڑیں پڑنا شروع ہوئیں تو کہا جانے لگا کہ ’’رومن پوپ نے ان ریاستوں کے حصے بخرے کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے‘‘۔
کہا جا سکتا ہے کہ اسٹالین کے قول کی مذاق کے علاوہ کوئی حقیقت نہیں۔ اسی طرح مشرقی یورپ کے حصے بخرے کرنے کا الزام رومن پوپ پر تھوپ دینا کسی حد تک اپنے اندر مبالغے کا پہلو سموئے ہوئے ہے۔ لیکن اگر مذاق اور مبالغے کی سرحدوں کے درمیان کھڑے ہو کر جائزہ لیا جائے تو یہ کہنے سے باز نہیں رہا جا سکتا کہ رومن پوپ اور وٹیکن کا بیسویں صدی کے بعض بڑے بڑے واقعات کے وقوع پذیر ہونے میں بنیادی کردار رہا ہے۔ اس لیے سوال یہ نہیں کہ رومن پوپ نے ان بڑے واقعات کے وقوع پذیر ہونے میں کوئی کردار ادا کیا ہے یا نہیں! بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ان واقعات کے وجود میں لائے جانے میں رومن پوپ کا کردار کس حد تک اور کس نوعیت کا رہا ہے؟
یہی وجہ ہے کہ رومن پوپ کے فلسطین کے دورے کی خبر کے گردش میں آتے ہی غزہ میں موجود فلسطین کے تحقیقی ادارے نے ’’وٹیکن اور عرب اسرائیل مخاصمت‘‘ کے عنوان سے ایک طویل تجزیاتی رپورٹ پیش کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق انقلابِ فرانس کو کلیسا کے روحانی تسلط میں سیاسی تسلط کا اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ کلیسا کی حیثیت کو محض روحانی قرار دیا جانا اب ایک زبانی کلامی نظریے کے سوا کچھ نہیں رہا۔ نئے واقعات نے ثابت کر دیا کہ وٹیکن کو مسیحیت کے پیروکاروں میں غیر معمولی اثر و رسوخ حاصل ہے۔ اس اثر و رسوخ کے سیاسی استعمال کے بہت سے شواہد روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ خصوصاً عرب اسرائیل جنگ میں اس کے سیاسی عمل دخل کے بارے میں دو آراء کی گنجائش ممکن نہیں۔

وٹیکن کی منظم سیاسی سرگرمیاں

مذکورہ رپورٹ میں پہلی عالمی جنگ کے بعد کلیسا کے بے جان جسد میں محسوس کی جانے والی پھرتی کا تذکرہ کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ کلیسا عالمی بساطِ سیاست کی تشکیل میں ایک اہم کردار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اپنی اس حیثیت کو محسوس کرنے کے بعد وہ بدلتے حالات کے مطابق اپنے رویے میں واضح تبدیلیاں پیدا کرنے تک کا خواہاں ہے۔
۱۱ فروری ۱۹۲۹ء کو روم کے تاریخی شہر میں ایٹالین رہنما مسولین اور پوپ کے خصوصی پرائیویٹ سیکرٹری بیوس الیونتھ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے میں روم اور وٹیکن کے درمیان تعلقات کو منظم کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا تھا، نیز پوپ کے تسلط کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والی ۴۴ ایکڑ اراضی کو وٹیکن ریاست کی تشکیل کے لیے وقف کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔
اس معاہدے کو وٹیکن کے لیے یورپی ممالک کے ساتھ مذاکرات اور معاہدوں کا نیا دور قرار دیا جا سکتا ہے، جس کے ذریعہ وہ کیتھولک اثر و رسوخ کا تحفظ بھی کر پایا اور اس کی مسلسل نگرانی کو اپنے مفادات کے لیے بھی استعمال میں لا سکا۔ بیوس الیونتھ چیکو سلاویہ، یوگو سلاویہ، روم، پرتگال وغیرہ کے ساتھ بھی اس نوعیت کے معاہدے کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ نئے عالمی حالات کے مطابق کیتھولک کلیسا کے اندر ضروری تبدیلیاں لانے کے لیے بھی کوششیں کرنے لگا۔
اس وقت پوپ کی سرگرمیوں کا کامیاب عنصر پوپ اور بعض مغربی ممالک کے درمیان میل ملاپ کی خصوصی کوششوں کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ اپنی ان ملاقاتوں کے دوران پوپ نے روس اور سوویت یونین کی دیگر ریاستوں میں سر اٹھانے والے نئے نظریات کے خطرے کی طرف مغربی دنیا کی توجہ مبذول کرائی۔ ۱۹۳۱ء کو پوپ نے تمام کیتھولک کلیساؤں اور دیگر عام کلیساؤں کے نام ایک خط لکھا جس میں کسی حد تک سرمایہ دارانہ نظام کی گوشمالی بھی کی گئی تھی۔
فلسطین کے تحقیقی ادارے کی رپورٹ کے مطابق سیاسی اثر و رسوخ کا حصول وٹیکن کی سرگرمیوں کا بنیادی ہدف رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے اس چھوٹی سی ریاست نے سفارت کاروں کی تیاری کے لیے ایک اہم ادارہ تشکیل دیا۔ اس ادارے سے تیار ہو کر نکلنے والے عام ڈپلومیٹس نہیں ہوتے، انہیں ’’کہانت‘‘ کی خصوصی تعلیم دی جاتی ہے۔ چار سال تک اس خصوصی تعلیم کے مرحلے میں زیر تربیت رہنے کے بعد آخری دو سال انہیں ڈپلومیسی کی تاریخ، اقسام اور ریاستی قانون وغیرہ کی تعلیم دلائی جاتی ہے۔

وٹیکن اور عرب اسرائیل جنگ

زیر بحث رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عرب اسرائیل جنگ میں وٹیکن کا موقف اس کی سیاسی قلابازیوں کو بے نقاب کر دیتا ہے۔ اس موقف کے ذریعہ یہود، عرب، اسلام اور بڑی طاقتوں کے ساتھ پوپ کے سیاسی رویے کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ نیز عرب اسرائیل چپقلش کو امن و امان میں تبدیل کرنے کے لیے کی جانے والی سرگرمیوں کو سمجھنے میں بھی خاصی مدد ملتی ہے۔
رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ اس چپقلش کے آغاز سے لے کر اب تک مشرقِ وسطٰی میں وٹیکن کی سیاست دو متوازی رخ اختیار کیے ہوئے ہے:
  • اس کا پہلا اقدام کیتھولک کلیسا اور عالمِ عرب کے درمیان تعلقات میں خیر سگالی کی فضا کا پیدا کرنا ہے اور اس کا بنیادی مقصد مشرقِ وسطٰی میں موجود عیسائی کمیونٹی کی حمایت کا حصول ہے۔ اس کے لیے مسلمانوں کے ساتھ مل کر کفر، الحاد اور بے دینی کے خلاف (جس سے ان کی مراد کمیونزم ہے) متحدہ پلیٹ فارم تشکیل دینا ہے۔
  • دوسرا اقدام، جو پہلے اقدام کے متوازی ہے، وہ یہودیت اور عیسائیت کے درمیان افہام و تفہیم کے تعلقات پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ حالانکہ مسیح علیہ السلام کو سولی چڑھانے کی پاداش میں روزِ اول سے ہی عیسائی یہودیوں کو اپنا دشمن گردانتے چلے آ رہے ہیں۔ اس کے باوجود اسرائیلی ریاست کے قیام کے ساتھ ہی باہمی سمجھوتے کے لیے عیسائی اقدامات ظہور میں آنا شروع ہو گئے۔ اس کی خاطر صدیوں سے تسلیم شدہ عیسائی مذہبی تصورات تک کو داؤ پر لگا دینے میں عار نہ سمجھا گیا۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد کیتھولک مفادات کے تحفظ کی خاطر اسرائیلی حکومت کے ساتھ غیر رسمی مذاکرات تک کی پیشکش کی گئی۔

دشمنی سے حلیفانہ تعلقات کی طرف پیشرفت کا آغاز

۱۵۱۸ء میں پوپ گریگوری کی جانب سے یہودیوں کے خلاف ایک مذہبی فرمان جاری ہوا جس میں مسیح علیہ السلام کا انکار کرنے والے اور انہیں سولی پر چڑھانے، انہیں اذیت دینے والے گروہ (مراد یہودی) کا گناہ ہر آنے والی نسل تک منتقل ہو کر شدید تر ہو جانے کی صراحت کی گئی تھی۔ اس کے بعد پوپ کے تمام جانشین اپنے اس موقف پر قائم رہے۔
۱۹۱۷ء میں پہلی صہیونی کانفرنس کے بعد وٹیکن کی طرف سے ایک بیان جاری ہوا جس میں کہا گیا:
’’نبوتِ مسیح علیہ السلام کو ایک ہزار آٹھ سو ستائیس برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کی رو سے قدس کی تباہی مقدر تھی۔ جہاں تک قدس کی تعمیرِ نو اور اس کا اسرائیلی ریاست کا مرکز ہونے کی بات ہے تو ہم یہ واضح کیے دیتے ہیں کہ یہ مسیح کی پیشین گوئی کے صریحاً منافی بات ہے۔‘‘
ہرٹزل نے جب اپنے ایک خط کے ذریعہ وٹیکن سے تعاون کی اپیل کی تو بیوس، پوپ کے دسویں جانشین، نے جواباً کہا کہ ہمارے لیے ناممکن ہے کہ ہم اس تحریک کے لیے اپنے دل میں کوئی نرم گوشہ رکھیں، بے شک ہم یہودیوں کو قدس کی طرف متوجہ ہونے سے باز نہیں رکھ سکتے، تاہم یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ ہم ان کی کوششوں کی تائید کریں۔ کلیسا کے نگران کی حیثیت سے تم مجھ سے کسی اور جواب کی توقع نہ رکھو کیونکہ یہودیوں نے ہمارے پیشوا کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے لیے بھی یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ ہم یہودی قوم کی حیثیت کو قبول کریں۔ تم لوگوں نے اگر فلسطین کی طرف پیش قدمی کی اور تمہاری قوم نے وہاں سکونت اختیار کی تو تمام عیسائی، چاہے وہ عام باشندے ہوں یا مذہبی رہنما، تمہارے رستے کی دیوار بن جائیں گے۔ بیوس نے اپنے جواب میں فلسطین کے اندر یہودی وطن کے قیام کی صریح مخالفت کرتے ہوئے اسے مسیحی عقائد کے منافی قرار دیا۔
۱۹۱۷ء میں بند کیت پوپ کے پندرہویں جانشین نے ’’مقدس سرزمین میں یہودیوں کی کوئی گنجائش نہیں‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ اس موقع پر وٹیکن نے بیلفور معاہدے کو تسلیم کرنے سے بھی صاف انکار کر دیا۔ ۱۹۲۱ء میں وٹیکن کا دورہ کرنے والے عربی وفد کا پوپ نے والہانہ استقبال کیا اور یہودیوں کو فلسطین کے اندر کسی قسم کے حقوق دینے سے صاف انکار کیا۔ ۱۵ مئی ۱۹۲۲ء کو جاری ہونے والے کارڈینال کے ایک خط میں اس صورتحال کی پوری وضاحت سے تحریری شکل دی گئی۔
اس دوران وٹیکن کا طرز عمل عرب عیسائیوں سے تعاون، اور عالمِ عرب میں صہیونی تحریک کے خلاف اٹھنے والی بغاوت کی پشت پناہی کے حوالے سے ممیز ہے۔ ۱۹۱۸ء میں تعاون اور پشت پناہی کی یہ کیفیت اپنے جوبن پر تھی۔ عربوں کی سیاسی تنظیموں میں مسیحی برادری نے بھرپور شرکت کر کے یہودی اقدامات کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
۱۹۴۶ء میں وٹیکن نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نام پیغام پہنچایا کہ فلسطین کو یہودیوں کے سپرد کرنے یا ان کے تسلط میں دینے کی صورت میں کیتھولک چرچ کی دینی حیثیت مجروح ہو کر رہے گی۔ وٹیکن اور دیگر کیتھولک ریاستوں کو اپنا موقف تبدیل کرنے کے لیے شدید تر دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، خصوصاً امریکہ کی طرف سے اس ضمن میں خصوصی دباؤ ڈالا گیا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ وٹیکن اور کیتھولک چرچ اپنے موقف سے دستبردار ہوتے چلے گئے۔
اس وقت جب ان کی طرف سے اسرائیل کا انکار سامنے آ چکا تھا، اور تقسیمِ فلسطین کی قرارداد کا انہوں نے سراسر انکار بھی کر دیا تھا، وٹیکن اور کیتھولک نے اپنے موقف میں اچانک واضح تبدیلی پیدا کر لی۔ تقسیم کی قرارداد کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس کے نفاذ کے لیے کوششوں کا آغاز کر دیا۔ خصوصاً القدس کو تینوں مذاہب کے لیے قابلِ قبول بنانے کی کوشش کو خوب سراہا۔
’’اسرائیلی ریاست‘‘ کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی وٹیکن کی طرف سے بیان جاری ہوا:
’’صہیونیت کو اسرائیل کی مجسم شکل قرار نہیں دیا جا سکتا (جیسا کہ تورات میں لکھا گیا ہے) صہیونیت تو ایک عصری تحریک ہے جو موجودہ دور کی پیداوار اور ایک جدید ریاست کی بنیاد بنی ہے۔ یہ نظریاتی اور سیاسی اعتبار سے مکمل سیکولر تحریک ہے۔ سر زمینِ مقدس اور مقدس مقامات کو مسیحی دنیا اپنا ہی علاقہ شمار کرتی ہے۔‘‘
اس پس منظر میں صہیونی ریاست کا قیام، جو در حقیقت وٹیکن کے لیے ایک چیلنج سے کم نہ تھا، کے عمل میں آتے ہی سرزمینِ مقدس سے عیسائیوں نے نقل مکانی شروع کر دی۔ وٹیکن نے ان کو سرزمینِ مقدس ہی میں سکونت رکھنے کی خصوصی ہدایت کی اور اس کے لیے خصوصی اقدامات بھی کیے۔ ۱۹۴۹ء میں ایک بڑی تعداد کی نقل مکانی کے دوران وٹیکن نے انہیں ہر طرح کی امداد فراہم کی خصوصاً پناہ گزینوں کی تعلیمی، ثقافتی اور دینی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کیے۔ ’’بیت الحم‘‘ یونیورسٹی کا قیام اس کی انہی کوششوں کا حصہ ہے۔
یہ سارے اقدامات واشنگٹن اور اسرائیل کو ناراض کرنے کے لیے کافی تھے۔ خصوصاً عرب اور صہیونیت کی چپقلش کے دوران وٹیکن کا طرزِ عمل اس کے جرم کا جواز بننے کے لیے کافی تھا۔ نازیوں کی حمایت کی وجہ سے بھی پوپ کی گدی بہت سے الزامات کا باعث بنی ہوئی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پوپ یوحنا نے صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے مذہبی رواداری، درگزر اور تمام مذاہب کے ساتھ رواداری کے بیانات دینے شروع کر دیے۔
۱۹۶۰ء میں صہیونی تنظیموں نے وٹیکن سے مطالبہ کیا کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کے خون کے الزام سے یہودیوں کو بری الذمہ قرار دے۔ چنانچہ وٹیکن نے بیان جاری کیا:
’’مسیح علیہ السلام کو سولی چڑھانے کے جرم کو اس زمانے کے تمام یہودیوں یا آنے والی نسلوں تک منتقل کر دینا زیادتی ہے۔‘‘
اسی طرح کیتھولک مراسم عبودیت کے دوران تلاوت کیے جانے والے ایک قطعے کو بھی حذف کر دیا گیا جس میں یہودیوں کو ملعون قرار دیا گیا تھا۔ دیگر دینی نصوص میں سے بھی ان حصوں کو حذف کر دیا گیا جن میں یہودیوں کے دھتکارے جانے اور رب کی نظرِ رحمت سے محروم ہو جانے کا تذکرہ موجود تھا۔
اس بیان کے جاری کیے جانے کے فورًا بعد کیتھولک عرب کلیسا اور مغربی کلیسا کے درمیان خوفناک تصادم کی کیفیت دیکھنے میں آئی۔ اس لیے کہ بیان جاری کیے جانے کا مطلب نہ صرف یہودیوں کی دینی حیثیت کو تسلیم کیا جانا تھا بلکہ ’’اسرائیلی ریاست‘‘ کے قیام کو تسلیم کرنا، مسیحی عقائد کا کھلم کھلا انکار کرنا، اور اپنے طرزِ عمل کو سیاسی اتار چڑھاؤ کے مطابق تشکیل دے کر نئے حالات سے سمجھوتہ کرنا اس میں شامل تھا۔ اسی دوران پوپ نے القدس کی زیارت کے لیے رختِ سفر باندھا، اپنے سفر کو خالص مذہبی نوعیت کا سفر قرار دیتے ہوئے سیاسی رنگ دینے سے انکار کر دیا، لیکن طرزِ عمل کی تبدیلی کے واضح اشارات سامنے آ چکے تھے لہٰذا صہیونی اور یہودی تنظیموں نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز تر کر دیا۔
۱۹۶۷ء کی جنگ اور پورے القدس کے یہودیوں کے قبضے میں چلے جانے کے واقعہ نے وٹیکن کو اپنی سیاست کو نئے رخ پر ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ اس وقت سے القدس کی حیثیت کو تینوں مذاہب کے لیے قابلِ قبول بنانے پر وٹیکن نے اپنی کوششیں مرکوز کر دیں۔ پوپ پولس کی تقاریر میں ہمیں اس کے واضح اشارات ملتے ہیں۔ ۱۹۷۵ء میں پوپ نے ایک بیان میں کہا:
’’اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق تسلیم کرتے ہوئے ان کا احترام کریں۔‘‘
اس دوران کے پوپ کے بیانات میں ’’یہودی قوم‘‘ کی اصطلاحات کا جابجا تذکرہ ملتا ہے، علاوہ ازیں اس نے اپنے بیانات میں یہودیوں کو پیش آئند مشکلات کا بھی جابجا تذکرہ کیا ہے۔ ۱۹۷۲ء میں اپنے ایک خط میں پوپ نے لکھا کہ مقدس سرزمین کے رہائشیوں کو ان تمام حقوق کا تحفظ حاصل ہونا چاہیے جو کسی سرزمین کے باشندوں کو اپنے وطن میں حاصل ہوتے ہیں۔ اس وقت تمام فلسطینی جن میں ایک بڑی تعداد مسیحیوں کی ہے، آزمائش کے مرحلے سے دوچار ہیں۔
اس دوران کے وٹیکن کے اخبارات بھی اسرائیل آبادکاری کی مہم کے خلاف سراپا احتجاج بنے نظر آتے ہیں۔ پوپ پولس کے القدس کو سیاسی اہمیت دینے کے رویے کو وٹیکن اسرائیل تعلقات کی بنیاد قرار دیا جا سکتا ہے۔ ۱۹۶۷ء میں اپنی ایک تقریر کے دوران پوپ نے مسئلہ کے سیاسی پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے تین نکات پر خصوصی توجہ دی:
(۱) مقدس سر زمین اور اس کے تاریخی اور دینی تشخص کی حفاظت۔
(۲) مقدس سر زمین اور القدس میں نافذ شدہ قانون کی حیثیت۔
(۳) فلسطین میں آباد گروہوں کے مدنی اور دینی حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات۔
فلسطین کے تحقیقی ادارے کی پیش کردہ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے وٹیکن کے طرزِ عمل کی بہت سی توجیہات کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً پوپ کے مذہبی جانشین ایسے ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں محتاط طرزِ عمل رکھنے میں اپنے تحفظات دیکھتے ہیں جن کی سرحدیں متنازعہ حیثیت کی حامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرب دنیامیں موجد مسیحی کلیسا (مارونی، قبطی) اسی طرزِ عمل کے حقدار سمجھے گئے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے دباؤ کے زیرِ اثر یہودی اور صہیونی کمیونٹی کے ساتھ تعلقات کو نیا رخ دینا وٹیکن کی مجبوری بن گیا۔ اسی دباؤ کے زیرِ اثر ۱۹۸۱ء سے یہ تعلقات دوستانہ اور حلیفانہ نوعیت کے بن چکے ہیں۔ ۱۹۹۴ء میں ببانگِ دہل ان کی حلیفانہ حیثیت کا اعتراف بھی کر لیا گیا۔

اعتراف کے بعد کا مرحلہ

۹ فروری ۱۹۸۱ء کو پہلی دفعہ پوپ نے یہودی ربی سے دوستانہ مصافحہ کیا  جسے صہیونی اور یہودی دنیا نے غیر معمولی تاریخی اہمیت دی۔ کیتھولک کلیسا اور یہود کے درمیان اس مصافحے کو دوستی کی دائمی شکل میں تبدیل کرنے کے لیے یہودی اور صہیونی تنظیموں نے اپنے اقدامات تیز تر کر دیے۔ اس سلسلے میں دباؤ کی پالیسی اختیار کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا اور وقتاً فوقتاً نازیوں کے حوالے سے وٹیکن کے موقف کی یاددہانی کرائی جاتی رہی۔
۱۹۸۵ء میں اس دباؤ کے زیرِ اثر وٹیکن کی طرف سے ایک اور بیان جاری ہوا جس میں کہا گیا کہ اسرائیل دراصل مذہب کے پیروکار یہودیوں اور اسرائیلی کمیونٹی کی مشترکہ ریاست ہے۔ صہیونی اور یہودی تنظیمیں جلد اس نتیجے پر پہنچ گئیں کہ ان کی جارحانہ پالیسیاں پھل لا رہی ہیں، چنانچہ انہوں نے ازسرنو دباؤ ڈالنا شروع کر دیا اور مطالبہ کیا گیا کہ مذکورہ بالا بیان میں اسرائیلی ریاست اور یہودی قوم کے درمیان تاریخی تعلق کو واضح نہیں کیا گیا۔ گویا مسیحیوں کے اسرائیلی ریاست کے ساتھ یہودیوں کے دینی تعلق کو تسلیم کر چکنے کے باوجود اصل مطالبہ یہ تھا کہ اس حیثیت کو محض دینی تسلیم کرنے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اسے عالمی برادری کے تسلیم شدہ اصولوں کے عین مطابق قرار دیا جائے۔
اب یہودی رہنماؤں کے ساتھ پوپ کی ملاقاتیں معمول کا حصہ بن چکی تھیں۔ ان کی گفتگو کا مرکزی  مضمون کیتھولک کی طرف سے اسرائیلی ریاست اور یہودیوں کے جائز تعلق کا اعتراف ہوتا تھا۔ تاہم ان میں پوپ کے بعض روایتی بیانات جن میں القدس کی دینی متنازعہ حیثیت، اسرائیل کے ساتھ تعلقات، امن معاہدے کی تائید وغیرہ بھی شامل ہوئے۔ علاوہ ازیں ان فلسطینیوں کے حقوق کا تذکرہ بھی ہوتا جن کی ایک بڑی تعداد وطن کے ہوتے ہوئے بے وطنی اور پناہ گزینی کی زندگی بسر کر رہی ہے۔
یہودی رہنماؤں کے ساتھ روز بروز بڑھتے ہوئے ان تعلقات کے دوران پہلی مرتبہ القدس کی مشہور مسیحی عرب شخصیت میثال صباح نے تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ یاد رہے کہ ۱۰۹۹ء کے بعد یہ پہلا مسیحی عرب ہے جس کی القدس کے معاملات میں ذمہ دارانہ حیثیت تسلیم شدہ ہے۔
القدس کے حوالے سے وٹیکن اپنے موقف پر قائم رہا اور اسے تینوں توحیدی مذاہب یہودیت، نصرانیت اور اسلام کے لیے قابلِ قبول حیثیت دلانے کی طرف توجہ دلاتا رہا۔ اس کے لیے اس نے ایسا قانون تشکیل دینے کا مطالبہ بھی کیا:
  • جس میں کسی ایک مذہب کی اجارہ داری نہ ہو اور تینوں مذاہب کے لیے یکساں رواداری برتی گئی ہو۔
  • القدس کے باشندے ہونے کی حیثیت سے تینوں گروہوں کے پیرووں کو مکمل شہری اور دینی حقوق کا تحفظ حاصل ہو۔
  • مسیحیوں اور مسلمانوں کے ساتھ یکساں برتاؤ روا رکھا جائے
مسلمانوں کے لیے یہ طرزِ عمل ایک نئی تبدیلی کا حامل تھا۔ ۱۹۸۷ء میں فلسطینی انتفاضہ کے نام سے بپا ہونے والی اسلامی تحریک کو پوپ نے اخلاقی پشت پناہی فراہم کی۔ تاہم اس دوران وٹیکن اپنی حیثیت کے متضاد پہلوؤں کو چھپا نہ سکا۔ چنانچہ جب کہا گیا کہ مغربی علاقے اور غزہ کی پٹی کے باشندے شدید ترین حالات کا شکار ہیں تو وٹیکن نے بیان جاری کیا کہ
’’اسرائیل ان باشندوں کو امن فراہم کرنے کے لیے بے چین ہے۔‘‘
ایک اور بیان کے الفاظ اس طرح ہیں:
’’فلسطین کے تمام باشندے آج آزمائش کے دور سے گزر رہے ہیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ اپنی ہی طرح مقدس سر زمین کے ساتھ تاریخ اور عقیدے کا تعلق رکھنے والی قوم کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں۔‘‘
بیانات میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی گہرائی کو بخوبی ناپا جا سکتا ہے۔ ۹ نومبر ۱۹۹۱ء کو امریکی صدر بش کے ساتھ پوپ کی ملاقات کے فورًا بعد بیان جاری ہوا:
’’مڈریڈ میں امن کانفرنس کے انعقاد کی روشنی میں وٹیکن کا یہ طرزِ عمل امریکہ کے اشاروں کے مرہونِ منت ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ وٹیکن نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں کبھی بھی مذہبی عقائد کو حائل نہیں ہونے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ وٹیکن نے ایک مرتبہ امریکہ کے بعض یہودی رہنماؤں کے سامنے کھڑے ہو کر اقرار کیا تھا: مسیحی تعلیمات کی رو سے ہمیں کہیں بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے سے باز نہیں کیا گیا۔‘‘
وٹیکن کے طرزِ عمل کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ نگار محمد السماک رقمطراز ہیں:
’’اسرائیل اور وٹیکن کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے میں چار اہم عوامل کارفرما ہیں:
  1. معاملے دینی پہلو سے قطع نظر موجودہ عالمی حالات کے مطابق وٹیکن کے لیے عالمی سیاست کے نئے تقاضوں کو نظرانداز کر کے تنہا رہ جانا نقصان دہ تھا۔
  2. خصوصاً عرب اسرائیل مذاکرات کے مختلف ادوار کے بعد اسے اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم کر لینے میں عافیت نظر آئی۔
  3. مشرق میں مسیحی دنیا کے حالات نے بھی وٹیکن کو اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا۔
  4. تاہم اس سلسلے میں سب سے اہم عنصر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی جانب سے وٹیکن پر تعلقات استوار کرنے کے لیے ڈالا جانے والا دباؤ ہے۔‘‘

امریکی دباؤ

امریکی دباؤ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ یہاں دباؤ سے مراد محض حکومتِ امریکہ کا دباؤ نہیں بلکہ اس میں وہ تمام امریکی کلیسا اور امریکی ادارے بھی شامل ہیں جن میں سے اکثر صہیونی مسیحیت کے علمبردار ہیں۔ ان میں سے اکثر اداروں اور کلیساؤں کو امریکہ کے سابق صدر ریگن کی خصوصی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ ان کلیساؤں کی عربوں اور مسلمانوں سے دشمنی صہیونیت اور یہودیت کو بھی مات ہے۔ یہ کلیسا صہیونی کمیونٹی کے ایک بہت بڑے عنصر کو اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہو گئے، اگرچہ ان میں اکثریت Protestants اور انجیلی فرقوں کی ہے، تاہم یہ اپنے ساتھ بہت سے کیتھولک کو شامل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ’’مسیحی وطن کانگریس‘‘ کی تشکیل کو ان کی کوششوں کا اہم باب قرار دیا جا سکتا ہے۔ ۱۹۸۰ء میں اس کانگریس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے تاسیسی اجتماع میں کیتھولک راہبوں اور کلیسا کے اہم مذہبی رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ کانگریس کا بنیادی ہدف یہودی وطن کے حصول کی خاطر تمام مسیحی گروہوں اور تنظیموں کو متحدہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا تھا۔
یہ تنظیمیں اور گروہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے امریکہ پر دباؤ ڈالتے ہیں، اور امریکہ وٹیکن پر دباؤ ڈال کر اپنا کام نکلواتا ہے۔ دباؤ کا مقصد چاہے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنا ہو یا کچھ اور، وٹیکن ابھی تک اس حقیقت سے تجاہلِ عارفانہ اختیار کیے ہوئے ہے کہ یہ مسیحی تنظیمیں خود مسیحیت کے لیے خطرہ بن چکی ہیں، اور انہوں نے یہودیوں کو مسیحیوں سے زیادہ مسیحیت اور مسیحی تعلیمات کا نام لیوا بنا کر مسیحیوں کے حقوق کا استحصال کیا ہے۔
حالات کی تمام تر پیشرفت کے ساتھ فلسطین کی تحریکِ آزادی اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے اوسلو معاہدے کے چند ہی ماہ بعد اسرائیل اور وٹیکن کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس میں القدس کے مسئلے کو قطعی طور پر نظر انداز کیا گیا تھا۔ معاہدے کی شقوں میں مختلف گروہوں کے درمیان تعصب کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اقدامات، مذہبی رواداری، وٹیکن سے تمام وقتی تنازعوں میں غیر جانبدارانہ رویے کی اپیل، خواہ ان تنازعوں کا تعلق مقبوضہ اراضی اور ان کی حدود کے تعین سے ہو یا کسی دیگر مسئلہ سے ہو، جیسے امور شامل تھے۔ یہودیوں اور صہیونیوں نے اس معاہدے کو یہودی قوم اور اسرائیلی ریاست کے لیے شاندار کامیابی قرار دیا۔ وٹیکن نے اس معاہدے کو مشرقِ وسطیٰ میں امن کی بحالی کی کوششوں کا اہم عنصر قرار دیا۔
۵ جون ۱۹۹۴ء کو مذکورہ معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ دونوں فریقوں کے درمیان ڈپلومیٹک تعلقات کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ خیر سگالانہ وفود کے تبادلے کی یقین دہانیاں کرائی گئیں۔ مذکورہ معاہدے کے بعد بھی قابلِ توجہ امور بدستور قائم رہے۔ القدس کی متنازعہ حیثیت قائم رہی اور اس حوالے سے وٹیکن اپنے سابقہ بیانات دہراتا رہا: ’’القدس کی تینوں مذاہب کے پیروکاروں کے لیے یکساں مقدس حیثیت ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف صہیونی بھی اپنے سابقہ بیان دہراتے رہے: ’’القدس اسرائیل کا جزوِ لاینفک ہے‘‘۔
معاہدے میں صراحت کی گئی کہ اس کا اطلاق وہاں تک ہو گا جہاں تک اسرائیلی قانون نافذ ہے۔ یعنی القدس کا مشرقی حصہ اس میں شامل ہے۔ مگر اس معاہدے کے دو ہی سال بعد ان تمام یقین دہانیوں کی حقیقت زمین بوس ہو گئی۔ استقرارِ امن، عدل، توازن کے الفاظ اپنے معنی کھو بیٹھے۔ اگرچہ اسرائیل کو مسیحیوں کا حامی اور ان کے حقوق کا محافظ ظاہر کیا گیا تھا لیکن ۱۹۹۹ء میں اس وقت اس دعوے کی قلعی کھل گئی جب فلسطین کے شہر ناصرہ پر یہودیوں کی یلغار نے ظلم و ستم کے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور وہاں پر موجود بشارہ نامی چرچ کے ساتھ بھی کسی قسم کی کوئی رعایت ملحوظ نہیں رکھی گئی۔
اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ اس میں کبھی بھی کسی گروہ کے لیے کسی رعایت کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مسیحیوں کو درپیش تمام تر جارحانہ رویوں کی خصوصی ذمہ داری اسرائیلی ریاست کے کارپردازوں ہی پر عائد ہوتی ہے۔ القدس کے پچاس ہزار عیسائیوں کی تعداد آج گھٹ کر صرف پانچ ہزار رہ گئی ہے۔ قابض قوتوں کی طرف سے مساجد اور گرجاگھروں کی یکساں بے حرمتی کے واقعات آئے روز منظرِ عام پر آ رہے ہیں۔ عیسائیوں میں پھوٹ ڈلوانے کے لیے قابض قوتوں کی طرف سے خصوصی منصوبہ بندی کی جاتی رہی ہے اور ناصرہ میں ہونے والے فسادات میں مذہبی تعصبات کی ہوا کو بھڑکانے میں سرکاری سرپرستی کو خصوصی عمل دخل حاصل ہے۔ مگر وٹیکن نے ان کھلے حقائق اور چشم دید واقعات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا اور گزشتہ دنوں اسرائیل سے ناصرہ میں زیر تعمیر مسجد کی تعمیر روکنے کی اپیل کی، اس کے عوض پوپ نے سر زمینِ مقدس کے دورے کو ملتوی کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
کیا وٹیکن کے رویے کو صرف اسرائیل کے ساتھ ڈپلومیٹک تعلقات کے استوار کرنے کی کوششوں کا نام دیا جاتا ہے، جس کے لیے وٹیکن القدس سے متعلق اپنے روایتی موقف سے دستبرداری تک اختیار کر سکتا ہے؟ تاہم یاد رہے کہ ڈپلومیٹک تعلقات آزمانے کے لیے کوئی صحیح انتخاب نہیں، خصوصاً ناصرہ میں کھیلی جانے والی آگ اور خون کی ہولی میں گرجاگھر کے ساتھ روا رکھے جانے والا سلوک اس رویے کی تبدیلی کا متقاضی ہے۔ اس موقع پر وٹیکن کو علاقے میں موجود اس قوم کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے سوچنے کا مشورہ دیا جا سکتا ہے جس نے صدیوں مسجد اور گرجاگھروں کو یکساں احترام کا مقام دیا، اور مسجد اور کلیسا صدیوں ایک دوسرے کے پڑوس میں امن و آشتی کی فضا دیکھتے رہے۔ ہو سکتا ہے رویے میں یہ تبدیلی مسئلے کے حل کے لیے کوئی قابلِ قبول صورت فراہم کر سکے۔
(بہ شکریہ پندرہ روزہ بیت المقدس اسلام آباد)

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کا تاریخی فتوٰی

مولانا محمد طیب کشمیری

آزاد کشمیر کے بزرگ اور مجاہد عالمِ دین امیرِ شریعت حضرت مولانا محمد عبد اللہ کفل گڑھیؒ کے لائق فرزند حضرت مولانا قاضی بشیر احمد صاحب نے حضرت مرحوم کے حالاتِ زندگی اور خدمات کو ’’حیاتِ امیرِ شریعت‘‘ کے نام سے مرتب کیا ہے جس میں ان کی علمی و دینی خدمات اور تحریکِ آزادی میں ان کے مجاہدانہ کردار کو مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ چار سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب دائرۃ المعارف کراچی نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ڈیڑھ سو روپے ہے۔ اس کتاب پر ہمارے فاضل دوست اور جامع مسجد سبیل گورو مندر چوک کراچی کے خطیب مولانا محمد طیب کشمیری فاضل نصرۃ العلوم نے کم و بیش ڈیڑھ سو صفحات کا وقیع مقدمہ تحریر کیا ہے جو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ سے حضرت مولانا عبد اللہ کفل گڑھیؒ تک کے مجاہدینِ آزادی کی مسلسل جدوجہد کے تاریخ کے مستند مآخذ کے حوالے سے مرحلہ وار تذکرہ پر مشتمل ہے۔ اور اس طرح انہوں نے تحریکِ آزادی میں علماء حق کے کردار کے بارے میں اچھا خاصا مواد یکجا کر دیا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ مقدمہ بجائے خود ایک مستقل کتاب کی حیثیت رکھتا ہے اور اگر اس کی الگ اشاعت کا اہتمام بھی ہو جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ اس مقدمہ کا پہلا حصہ جو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ کے دور سے متعلق ہے، ذیل میں نقل کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)


ہندوستان پر جب انگریزی حکومت نے تغلب کیا تو سب سے پہلے کون تھا جس نے قانونِ اسلام کی پیروی کرتے ہوئے ہندوستان کو دوبارہ دارالاسلام بنانے کی سعی کی؟ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر کے بعد جب ہندوستان کی حکومت کو گھن لگنا شروع ہوا اور اس میں ابتری پیدا ہوئی تو حضرت شاہ ولی اللہ نے نہ صرف یہ کہ اس کو محسوس کیا بلکہ اپنی تصانیف اور تحریرات کے ذریعے شہنشاہیت کے خلاف آواز بلند کی، اور سیاسی نظام کی اصلاح کے لیے پوری فراستِ ایمانی اور سیاست دانی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کے اسباب و علل پر بڑی دیدہ وری اور جامعیت کے ساتھ بحث کی، اور حکومت، امراء وزراء اور سوسائٹی کے دوسرے طبقات کو مخاطب کر کے ایک پروگرام دیا جس کا متن سید سلیمان ندویؒ کے الفاظ میں یہ ہے:

’’ہندوستان پر اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت ہوئی کہ عین تنزل اور سقوط کے آغاز میں شاہ ولی اللہؒ کے وجود نے مسلمانوں کی اصلاح کی دعوت کا ایک نیا نظام مرتب کر دیا تھا۔‘‘ (مولانا سندھیؒ کے افکار و خیالات پر ایک نظر ۔ ص ۹)

اس متن کی شرح مولانا موصوف ہی سے سننے کے لائق ہے:

’’دلی میں اسلامی حکومت کا آفتاب غروب ہو رہا تھا تو اسی کے مطلع سے ایک اور آفتاب طلوع ہو رہا تھا۔ یہ شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا خاندان تھا۔ سچ یہ ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ کی پیشین گوئی کے مطابق اس کے بعد جس کو ملا، اسی دروازہ سے ملا۔ ہندوستان میں ردِ بدعات کا ولولہ، ترجمۂ قرآن پاک کا ذوق، صحاحِ ستہ کا درس، شاہ اسماعیلؒ اور مولانا سید احمد بریلویؒ کا جذبۂ جہاد، فرقِ باطلہ کی تردید کا شوق، دیوبند کی تحریک، ان میں سے کون سی چیز ہے جس کا سررشتہ اس مرکز سے وابستہ نہیں!‘‘ (حیاتِ شبلی ص ۲۹۸)

پھر آپ کے بعد حضرت شاہ عبد العزیزؒ کے زمانہ میں دہلی کے حالات اور زیادہ بگڑے اور ’’حکومتِ شاہ عالم از دہلی تا پالم‘‘ کی مثل صادق آنے لگی۔ انگریزوں کا اقتدار اور ان کا ظلم و ستم اور اس کے بالمقابل لال قلعہ کے بادشاہ کی طاقت و قوت کا اضمحلال روز افزوں ہو گیا۔

اس صورتحال کے پیشِ نظر انگریز حکمرانوں کے خلاف سب سے پہلے جس شخص نے آواز بلند کی وہ شاہ عبد العزیزؒ تھے۔ جنہوں نے مسلمانوں کو ابھارا، ان کے جبن اور بزدلی کو دور کیا، ان کے اندر جذبۂ جہاد پیدا کیا، انہیں حوصلہ دیا، انہیں دلائل و براہین سے مسلح کیا، ان کی لکنت اور تھوتھلے پن کو دور کیا، بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے انہیں ہمت و جرأت سے آگے بڑھنے اور غصب شدہ حقوق حاصل کرنے کی تلقین کی، انہوں نے عوام کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ وہ اگر تیار ہو جائیں تو سارے مصائب کا علاج ممکن ہے۔

پھر حضرت شاہ صاحبؒ نے اسی ترغیب و تاکید اور تبلیغ پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں ہندوستان کے ’’دارالحرب‘‘ ہونے کا باضابطہ فتوٰی بھی دیا۔ اصل فتوٰی فارسی زبان میں ہے، اختصار کے پیشِ نظر اس وقت اس کے ترجمہ پر اکتفا کیا جاتا ہے، وہ پیشِ خدمت ہے:

’’یہاں رؤسا نصارٰی (عیسائی افسران) کا حکم بلا دغدغہ اور بے دھڑک جاری ہے۔ اور ان کا حکم جاری اور نافذ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ملک داری، انتظاماتِ رعیت، خراج، باج عشر و مال گزاری، اموالِ تجارت، ڈاکوؤں اور چوروں کے انتظامات، مقدمات کا تصفیہ، جرائم کی سزاؤں وغیرہ (یعنی سول، فوج، پولیس، دیوانی اور فوجداری معاملات، کسٹم اور ڈیوٹی وغیرہ) میں یہ لوگ بطور خود حاکم اور مختارِ مطلق ہیں، ہندوستانیوں کو ان کے بارے میں کوئی دخل نہیں۔ بے شک نمازِ جمعہ، عیدین، اذان اور ذبیحہ گاؤ جیسے اسلام کے چند احکام میں وہ رکاوٹ نہیں ڈالتے لیکن جو چیز ان سب کی جڑ اور حریت کی بنیاد ہے (یعنی ضمیر اور رائے کی آزادی اور شہری آزادی) وہ قطعاً بے حقیقت اور پامال ہے۔ چنانچہ بے تکلف مسجدوں کو مسمار کر دیتے ہیں۔ عوام کی شہری آزادی ختم ہو چکی ہے۔ انتہا یہ کہ کوئی مسلمان یا غیر مسلم ان کی اجازت کے بغیر اس شہر یا اس کے اطراف و جوانب میں نہیں آ سکتا۔ عام مسافروں یا تاجروں کو شہر میں آنے جانے کی اجازت دینا بھی ملکی مفاد یا عوام کی شہری آزادی کی بنا پر نہیں بلکہ خود اپنے نفع کی خاطر ہے۔ اس کے بالمقابل خاص خاص ممتاز اور نمایاں حضرات مثلاً شجاع الملک اور ولایتی بیگم ان کی اجازت کے بغیر اس ملک میں داخل نہیں ہو سکتے۔ دہلی سے کلکتہ تک انہی کی عملداری ہے۔ بے شک کچھ دائیں بائیں مثلاً حیدر آباد، لکھنؤ، رام پور میں چونکہ وہاں کے فرمانرواؤں نے اطاعت قبول کر لی ہے، براہِ راست نصارٰی کے احکام جاری نہیں ہوتے (مگر اس سے پورے ملک کے دارالحرب ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا)‘‘۔ (فتاوٰی عزیزی فارسی صفحہ ۱۷  بحوالہ علماء ہند کا شاندار ماضی جلد ۲ صفحہ ۸۰ ۔ و ۱۸۵۷ء کا تاریخی روزنامچہ ص ۱۰)

ایک دوسرے فتوٰی میں بھی حضرت شاہ عبد العزیز صاحبؒ نے مخالفوں کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے ہندوستان کا دارالحرب ہونا ثابت کیا۔ (فتاوٰی عزیزی فارسی ص ۱۰۵ بحوالہ شاندار ماضی ج ۲ ص ۸۰)

کسی ملک کے ’’دارالحرب‘‘ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اب اس ملک کی باگ ڈور اور اقتدار کافروں کے پاس جا چکا ہے، قانون سازی کے اختیارات کافروں کے پاس ہیں، اسلام اور شعائرِ اسلام کا احترام ختم ہو چکا ہے، مسلمانوں کے بنیادی حقوق کا خاتمہ ہو چکا ہے اور ان کی شہری آزادی سلب کر لی گئی ہے، اس لیے ان حالات میں مسلمانوں پر جہاد فرض ہو چکا ہے اور کافر حکمرانوں کا مقابلہ اور ان سے مقاتلہ اب مسلمانوں پر ضروری ہو گیا ہے۔

چنانچہ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف جتنی تحریکیں چلیں، معرکے ہوئے، جنگیں ہوئیں اور لڑائیاں لڑی گئیں، ان سب کی بنیاد یہی فتوٰی ہے۔ پروفیسر خلیق احمد نظامی اس تاریخی فتوے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’شاہ عبد العزیزؒ نے ہندوستان کو ’’دارالحرب‘‘ قرار دے کر غیر ملکی اقتدار کے خلاف سب سے پہلا اور سب سے زیادہ مؤثر قدم اٹھایا۔ اس فتوے کی اہمیت کو وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جو ’’دارالحرب‘‘ کے صحیح مفہوم کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی سیاست پر خاندانِ ولی اللہؒ کے اثرات کا بھی صحیح علم رکھتے ہوں۔ سید احمد شہیدؒ، مولانا اسماعیل شہیدؒ نے اپنے سیاسی فکر میں انگریزی اقتدار کو جو درجہ دیا تھا، اس کی بنیاد یہی فتوٰی تھا۔‘‘ (۱۸۵۷ء کا تاریخی روزنامچہ ص ۱۱)

جس طرح شہنشاہیت کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کے بانی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے شہنشاہیت کے خلاف ہر طبقہ کے لوگوں کو ابھارنے میں بنیادی کردار ادا کیا، اسی طرح ہندوستان کو دارالحرب قرار دینے والے حضرت مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ مجاہدِ اول ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اس فتوٰی کے ذریعے مسلمانوں میں جذبۂ جہاد پیدا کرنے کی سعئ بلیغ کی۔ وہاں اسی فتوٰی کے ذریعے مسلمانوں کو غلامی اور محکومی کا جوا اپنے کندھوں سے اتار پھینکنے کی تاکیدِ شدید بھی کی۔

مولانا مفتی نسیم احمد قاسمی مظفر پوری رفیق مجمع الفقہ الاسلامی (الہند) حضرت شاہ عبد العزیز صاحبؒ اور ان کے جاری کردہ فتوٰی کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

’’حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ شیخ الاسلام شاہ ولی اللہؒ کے چشم و چراغ اور ان کے علوم و معارف کے وارث و امین ہیں۔ شاہ ولی اللہؒ ہی  کے زمانہ میں خاندانِ مغلیہ زوال سے دوچار ہونے لگا تھا اور شاہ عبد العزیزؒ کے زمانہ میں خاندانِ مغلیہ کا چراغ ہمیشہ کے لیے بے نور ہو گیا اور ہندوستان کی قسمت اور اس کے تاجِ شاہی کی مالک ایک بدیسی قوم انگریز بن گئی تھی۔ جب انگریز پوری طرح ہندوستان پر قابض ہو گئے تو مفکر اسلام شاہ عبد العزیزؒ تڑپ اٹھے اور بلا خوف لومۃ لائم یہ فتوٰی دیا کہ ہندوستان انگریزوں کے تسلط کی وجہ سے دارالحرب بن گیا اور مختلف دلائل و شواہد سے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کو ثابت فرمایا۔ حضرت شاہ صاحب وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا نہایت مفصل فتوٰی صادر کیا۔

شاہ صاحب نے اپنے اس فتوٰی میں ہندوستان کی شرعی حیثیت کے تعین کے ساتھ ساتھ بہت سارے شکوک و شبہات کا ازالہ بھی کیا ہے اور دارالحرب کی تعریف بیان فرما کر واضح کیا کہ محض بعض احکامِ اسلام مثلاً جمعہ و عیدین، تلاوت اور گاؤ کشی پر پابندی عائدنہ کرنے کی وجہ سے دارالحرب دارالاسلام نہیں بنتا۔ جن لوگوں نے انگریزوں کے دورِ اقتدار میں بھی ہندوستان کو دارالاسلام قرار دیا ہے، ان سب نے اسی سے استدلال کیا ہے کہ بعض احکامِ اسلام مثلاً جمعہ و عیدین ہندوستان میں اس وقت بھی باقی اور جاری تھے، اور جب تک کسی ملک میں اسلام کے بعض احکام بھی جاری رہیں گے وہ ملک دارالحرب نہیں بنے گا۔ شاہ صاحبؒ نے اسے رد کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اقتدار اور ملک کی باگ ڈور غیر مسلموں کے ہاتھ میں ہے اور اس میں اس کے احکام جاری ہوتے ہیں تو وہ ملک دارالحرب قرار پائے گا، چاہے اس میں اسلام کے بعض احکام جاری ہوں۔‘‘ (مجلہ فقہ اسلامی سیمینار نمبر ۲ ص ۴۵۱)

اسی مسئلہ کو مزید وضاحت کے ساتھ حضرت مولانا حبیب الرحمٰن خیرآبادی مفتی دارالعلوم دیوبند مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

’’بہرحال کسی شہر یا ملک کے دارالاسلام یا دارالحرب ہونے کا مدار محض غلبہ و شوکت اور نظامِ احکام پر ہے۔ اگر وہاں مسلمانوں کا غلبہ ہے تو وہ دارالاسلام ہے، اور کفار و مشرکین کا غلبہ ہے تو وہ دارالحرب ہے۔ اگر کسی جگہ مسلمان بھی رہتے ہوں لیکن انہیں اقتدارِ اعلیٰ اور غلبہ و شوکت حاصل نہ ہو تو اسے دارالاسلام نہیں کہتے، ورنہ جرمنی، فرانس، روس اور چین کو بھی دارالاسلام کہا جائے گا۔ اسی طرح جمعہ و عیدین کفار و مشرکین کی اجازت سے ادا کیے جانے پر بھی اسے دارالاسلام نہیں کہیں گے۔ جس طرح دارالاسلام میں ذمی کفار اپنی تمام رسوم آزادی سے ادا کریں تو اسے دارالحرب نہیں کہیں گے۔‘‘ (ایضاً ص ۲۴۷)

اسی موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب مدظلہ صدر مفتی دارالعلوم دیوبند فرماتے ہیں:

’’وہ مملکت جہاں مسلمانوں کو اس قسم کا اقتدار (غلبہ و شوکت) حاصل نہ ہو خواہ مسلمان وہاں ہر طرح امن و اطمینان سے رہتے ہوں، وہاں کے سیاسی اور غیر سیاسی کاموں میں حصہ لیتے ہوں، اس کو اپنا وطن سمجھتے ہوں اور باشندہ ملک کی حیثیت سے اس کی حفاظت و ترقی کو بھی اپنا فرض سمجھتے ہوں، اس کے لیے ایثار و قربانی بھی کر دیتے ہوں، مسلمان کی حیثیت سے یا مسلمانوں کی اجتماعی طاقت کی بنا پر نہیں بلکہ ایک شہری کی حیثیت سے وہ اقتدارِ اعلیٰ میں حصہ لے سکتے ہوں، مثلاً رئیس جمہوریہ یا وزیراعظم بن سکتے ہوں، مگر احکامِ اسلام جاری نہ کر سکتے ہوں، جرم و سزا اور اقتصادی مسائل، کرنسی اور شرح تبادلہ وغیرہ کے سلسلے میں احکامِ اسلام کو قانون نہ بنا سکتے ہوں، بلکہ ان میں (یعنی ان مسائل وغیرہ میں) اس ملک کے قوانین کے پابند ہوں، تو وہ دارالاسلام نہیں ہے۔‘‘ (نظام الفتاوٰی ص ۱۹۹ ج ۲)

غرضیکہ غیر ملکی اقتدار کے خاتمے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے بنیادی کردار اگر کسی نے ادا  کیا ہے تو وہ خاندانِ ولی اللہ کا کردار ہے جس نے ہندوستان پر غیر ملکیوں کے قابض ہونے اور اس کی اسلامی حیثیت کے ختم ہونے پر سب سے پہلے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتوٰی دے کر مسلمانوں کے اندر غیر ملکیوں، غیر مسلموں، ظالموں اور سفاکوں کے خلاف جذبۂ جہاد پیدا کرنے اور عَلمِ بغاوت بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔


عالمی منظر نامہ

ادارہ

واشنگٹن میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے خلاف مظاہرے

واشنگٹن (ریڈیو نیوز / ٹی وی رپورٹ / اے ایف پی) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کے سالانہ اجلاس کے موقع پر دونوں مالیاتی اداروں کی پالیسیوں اور فیصلوں کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ واشنگٹن پولیس نے اب تک سات سو مظاہرین کو گرفتار کر لیا ہے، دس ہزار سے زیادہ مظاہرین نے آئی ایم ایف کے ہیڈ کوارٹرز کے سامنے انسانی ہاتھوں کی طویل زنجیر بنائی، امریکی صدر کی سرکاری قیام گاہ وائٹ ہاؤس کے قریب تین سو مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، چھ سو مظاہرین کو ہفتہ کے روز گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتار شدگان کو ہتھکڑیاں لگا کر قریب کھڑی سکول بسوں میں سوار کر کے واشنگٹن کے جنوبی علاقہ میں پولیس کے تربیتی اداروں لے جا کر رکھا گیا۔ پولیس نے اتوار کے روز ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران آنسو گیس برسانے کے ساتھ لاٹھی چارج بھی کیا اور مظاہرین کو ڈنڈوں سے بھی زدوکوب کیا۔ ہزاروں مظاہرین نے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر انسانی زنجیر بنائی۔ تشدد کے سلسلہ کا آغاز آئی ایم ایف کے ہیڈ کوارٹرز کے مشرق میں پانچ سو مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم سے ہوا۔ مظاہرین نے ایک زیر تعمیر عمارت سے آہنی سلاخیں اٹھا کر پولیس پر حملہ کرنے کی کوشش کی، پولیس نے جوابی کاروائی میں فوم کی گولیاں بھی برسائیں، مظاہرین آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اجلاس کی کاروائی میں کوئی خلل ڈالنے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔ مظاہرین کا اہتمام کرنے والے ایک گروپ کی جانب سے مظاہروں میں شریک افراد کی تعداد دس ہزار سے بیس ہزار بتائی گئی ہے۔
(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۱۸ اپریل ۲۰۰۰ء)

امریکی عدالت اور اسلامی قانون

نیویارک (نمائندہ خصوصی) امریکی ریاست ورجینیا کی عدالت نے حکومت کو دو مسلم خواتین کو فی کس سوا لاکھ ڈالر ہرجانے کی ادائیگی کا حکم دیا۔ ۱۹۹۶ء میں دونوں خواتین کو برقع پہن کر گھومنے پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ دونوں پر الزام تھا کہ انہوں نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پبلک مقام پر اپنا سر اور منہ چھپا رکھا تھا۔ اس ریاست میں ماسک اور نقاب پر پابندی ہے۔ جیوری نے فیصلہ دیا کہ اسلامی نقطہ نظر سے برقع اوڑھنے پر امریکی قانون لاگو نہیں ہوتا۔
(روزنامہ نوائے وقت ۲۰ اپریل ۲۰۰۰ء)

فلپائن کے مورو اسلامک لبریشن فرنٹ نے سرکاری فوج پر حملوں کا اعلان کر دیا

کوٹاباٹو: فلپائن (اے ایف پی) فلپائن کے سب سے بڑے حریت پسند گروپ مورو اسلامک لبریشن فرنٹ نے دو روز قبل حکومت کے ساتھ جاری امن مذاکرات ختم کر کے سرکاری فوج پر بھرپور حملوں کا اعلان کر دیا ہے اور اس سلسلے میں اپنی پہلی کاروائی کے دوران اس نے گزشتہ روز جنوبی شہر آلیوسان کے مضافات میں دو بستیوں پر قبضہ کرنے کے علاوہ ایک دوسرے حریت پسند گروپ کے کیمپ پر سرکاری فوج کے حملے کو بھی پسپا کر دیا۔
(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۳ مئی ۲۰۰۰ء)

توہینِ رسالت کی سزا کا قانون اور برطانوی ایم پی

لاہور (پ ر) صوبائی وزیر قانون و انسانی حقوق و اقلیتی امور ڈاکٹر خالد رانجھا نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں تمام مشنری ادارے مسیحیوں کو واپس کر دیے جائیں گے۔ اس پروگرام پر مرحلہ وار عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت غیر مسلموں کو اقلیت نہیں بلکہ پاکستانی کی حیثیت سے دیکھتی ہے۔ وہ برطانوی پارلیمنٹ کی ہیومن رائٹس کمیٹی کے وائس چیئرمین لارڈ ایرک ایوبری کے اعزاز میں اقلیتی مشاورتی کونسل پنجاب کی طرف سے دیے جانے والے ایک استقبالیے میں خطاب کر رہے تھے۔
برٹش پارلیمنٹ کی ہیومن رائٹس کمیٹی کے وائس چیئرمین لارڈ ایرک ایوبری نے کہا کہ ہم موجودہ حکومت کی اقلیتوں کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ کی صورتحال سے مطمئن ہیں۔ انہوں نے حکومت کی طرف سے مخلوط انتخابات کے فیصلے کو سراہتے ہوئے اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ چیف ایگزیکٹو نے توہینِ رسالت کے کیسوں میں پروسیجر کو بدلنے کے احکام جاری کر کے اقلیتوں کا دیرینہ مطالبہ پورا کر دیا ہے۔ لارڈ ایرک ایوبری نے کہا کہ وہ برطانیہ میں جا کر اپنی حکومت اور دیگر ممالک پر اس بات کا زور دیں گے کہ پاکستان کو کامن ویلتھ سے نہ نکالا جائے۔
پی پی آئی کے مطابق ایک انٹرویو میں لارڈ ایرک ایوبری نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں پر امید ہیں۔ بلدیاتی الیکشن کا اعلان اس حوالے سے پہلا قدم ہے۔ لارڈ ایرک نے انسانی حقوق کے حوالے سے جنرل پرویز مشرف کی تقریر کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں یہاں موجودہ نظام خالص جمہوری نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف کے لیے ابھی بحالئ جمہوریت کا ٹائم ٹیبل دینا ممکن نہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ ممکن ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سی ٹی بی ٹی پر دستخط کر دینا چاہیے۔
ـ(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۴ مئی ۲۰۰۰ء)

یہودی طالبہ مسلمان ہو گئی

نیویارک (نمائندہ خصوصی) امریکی ریاست نیو جرسی میں محبت کی شادی کی خاطر اسلام قبول نہ کرنے والی امریکن یہودی طالبہ نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔تفصیلات کے مطابق نیو جرسی ریاست میں ڈوٹی کو اپنے کلاس فیلو البانی مسلمان احمد سے محبت ہو گئی۔ جب بات شادی تک پہنچی تو لڑکے کے والدین نے غیر مسلم لڑکی سے شادی سے انکار کر دیا۔ احمد نے ڈوٹی سے کہا کہ وہ مسلمان ہو جائے تو محبت پروان چڑھ سکتی ہے لیکن ڈوٹی نے صاف انکار کر دیا کہ وہ شادی کی خاطر اپنا مذہب تبدیل نہیں کر سکتی۔ اسی وجہ سے دونوں میں جدائی کے سوا کوکئی چارہ نہ رہا۔
بعد ازاں ڈوٹی نے اسلام کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنی شروع کر دیں کہ احمد نے مذہب اسلام کے لیے مجھے ٹھکرا دیا ہے، آخر یہ مذہب کیا ہے؟ دوستوں سے معلومات اور کتابیں پڑھنے کے بعد ڈوٹی نے احمد کو خوشخبری سنائی کہ اس نے دائرہ اسلام میں آنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ شادی کی خاطر نہیں لیکن اس لیے کہ میرے ریسرچ کے بعد مجھے علم ہوا کہ دنیا میں یہی واحد مذہب ہے۔
نیو جرسی کے امام مسجد کے ہاتھوں مسلمان ہونے کے بعد ڈوٹی نے اپنا نام نور رکھ لیا جو عنقریب ماہ اکتوبر میں نور احمد بننے والی ہیں۔ ڈوٹی نے اسلام قبول کرنے کے بعد بتایا کہ وہ ایسا محسوس کر رہی ہے جیسے اس کی زندگی میں کوئی کمی تھی جو اب پوری ہو گئی ہے، دائرۂ اسلام میں آنے کے بعد وہ بہت سکون محسوس کرتی ہے، نماز اور قرآن پاک کا مطالعہ باقاعدگی سے کرتی ہے۔
(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۵ مئی ۲۰۰۰ء)

سعودی عرب میں اسماعیلیوں کا مظاہرہ

لندن (ریڈیو رپورٹ / اے ایف پی) سعودی عرب میں یمن کی سرحد کے قریب نجران کے مقام پر سینکڑوں اسماعیلی شیعہ مسلمانوں نے اپنی ایک مسجد بند کیے جانے کے خلاف گزشتہ روز احتجاجی مظاہرہ کیا۔ بی بی سی کے  مطابق سعودی عرب کی مذہبی پولیس اسماعیلی برادری کی مسجد میں داخل ہو گئی اور وہاں موجود کتابوں کو ضبط کر کے مسجد بند کرنے کا حکم دیا تو اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں مسلمان سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرہ کئی گھنٹے جاری رہا اور اس وقت ختم ہوا جب نجران کے گورنر شہزادہ مشعل بن سعود بن عبد العزیز نے مظاہرین کے وفد سے مذاکرات کیے۔
اے ایف پی کے مطابق سعودی وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ مظاہرے کے دوران سکیورٹی فورس کا ایک رکن ہلاک اور چار زخمی ہو گئے۔ ترجمان نے کہا، نجران میں ہنگامہ اس وقت ہوا جب سعودی عرب میں غیر قانونی طور پر مقیم ایک غیر ملکی کو ’’کالا جادو‘‘ کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ کئی افراد گورنر کی رہائش گاہ کے گرد جمع ہو گئے اور اس شخص کی رہائی کا مطالبہ کیا اور کئی کاروں کو آگ لگا دی۔ انہوں نے گورنر کی رہائش گاہ پر فائرنگ کی جس سے سکیورٹی فورس کا ایک رکن ہلاک اور تین زخمی ہو گئے۔ سکیورٹی فورس کا ایک اور رکن اس وقت زخمی ہوا جب گرفتار کیے جانے والے شخص کے گھر سے کسی نے گولی چلائی۔ ترجمان نے کہا کہ سکیورٹی فورس نے شہر میں امن بحال کر دیا ہے، تحقیقات شروع کر دی گئی ہین، مجرموں کو پکڑ کر پوچھ گچھ کے بعد اسلامی قانون کے مطابق مقدمہ چلایا جائے گا۔
(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۲۵ اپریل ۲۰۰۰ء)

امریکہ میں ماتم پر پابندی

نیویارک (نمائندہ خصوصی حفیظ کیانی) امریکہ کی نیویارک انتظامیہ نے مرحم کے موقع پر ۱۰ سال سے کم عمر بچوں کے ماتم کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس طرح اب چہلم کے موقع پر کم عمر بچے ماتم زنی اور زنجیر زنی نہیں کر سکیں گے۔ مقامی ادارے الخوئی سنٹر نے اعلان کیا کہ وہ ابتدائی مرحلے میں اس کے پابند ہوں گے تاہم وہ اس پابندی کو عدالت میں چیلنج کریں گے اور مذہب و عقائد کی جو آزادی ہے اس کو ضرور حاصل کریں گے۔ بتایا گیا ہے کہ نیویارک انتظامیہ نے یہ پابندی اس سال عائد کی۔
(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۔ ۲۹ اپریل ۲۰۰۰ء)

ہاشمی رفسنجانی کا الزام

تہران (آن لائن) ایران کے سابق صدر ہاشمی رفسنجانی نے اصلاح پسندوں پر اسلام منافی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اصلاح پسندوں کی شروع کردہ تحریک سے ۱۹۷۹ء کے اسلامی انقلاب کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سابق ایرانی صدر نے تہران یونیورسٹی میں خطاب کے دوران کہا کہ ملکی اصلاح پسند اور لبرل عناصر اسلامی قوانین کے خلاف کاروائی میں مصروف ہیں، اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ لبرل عناصر کھلم کھلا اسلامی معاشرہ اور انقلاب کے اصولوں کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ رفسنجانی نے بعض جدت پسند صحافیوں کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں متعصب اور غیر ملکی ایجنٹ قرار دیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ یہ عناصر طاغوتی طاقتوں کے ایران پر قبضے کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔
(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۳۰ اپریل ۲۰۰۰ء)

علامہ اقبالؒ کے خطوط اور قادیانی

لاہور کے ایک اشاعتی ادارہ فکشن ہاؤس نے ’’جدوجہد آزادی پر ایک نظر‘‘ کے عنوان سے پنڈت جواہر لعل نہرو کی کتاب A Punch of Old Letters کا اردو ترجمہ شائع کیا ہے۔اس کتاب میں مفکر پاکستان علامہ اقبال کے ایک خط کا ترجمہ بھی شائع کیا گیا ہے۔ علامہ اقبال نے اس خط میں قادیانیت کے بارے میں اپنی رائے کھل کر دی اور لکھا ہے کہ
’’احمدی اسلام اور ہند دونوں کے غدار ہیں‘‘۔
مترجم ملک اشفاق نے اس خط میں تحریف کر کے مفہوم یکسر الٹ دیا اور لکھا:
’’احمدیوں اور مسلمانوں میں زیادہ اختلاف نہیں ہے، نہ ہی احمدی اسلام اور نہ ہی ہندوستان کے لیے دہشت گرد ہیں۔‘‘
مستزاد یہ کہ مترجم نے اس خط کے چند اہم حصے جن میں قادیانیت کے بارے میں علامہ کے عقائد کی صحیح ترجمانی ہوتی ہے، حذف کر دیے ہیں۔ ہم نے فکشن ہاؤس کے ترجمے، علامہ اقبال کے انگریزی خط کے متن اور ممتاز صحافی اقبال احمد صدیقی کے ترجمے کا (جو اقبال اکادمی لاہور سے ۱۹۹۰ء میں شائع ہوا اور لاہور میں دستیاب ہوا) موازنہ کیا ہے اور یہ بالکل عیاں ہے کہ اس اشاعتی ادارہ اور پنڈت نہرو کی کتاب کے مترجم ملک اشفاق نے نہ صرف علامہ اقبال کے خط میں تحریف کی ہے بلکہ قادیانیت کے بارے میں علامہ اقبال کا نرم گوشہ رکھنے کا احساس دلانے کی کوشش بھی کی ہے۔
اس ارادی دھاندلی کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ یہ جسارت دانستہ اور شعوری ہے جس سے نہ صرف علامہ کا امیج خراب کیا گیا ہے بلکہ اقبال کے ارادت مندوں کے جذبات کو بھی مجروح کیا گیا ہے۔ متذکرہ بالا کتاب کھلے بندوں فروخت ہو رہی ہے۔ حیرت ہے کہ حکومت کے پریس ڈیپارٹمنٹ نے اس کا نوٹس تک نہیں لیا۔ امکان یہ ہے کہ سکولوں اور کالجوں کے بچوں کا ذہن خراب کرنے اور فروغِ قادیانیت ک ےمقصد کے تحت یہ کتاب کالجوں اور سکولوں کی لائبریریوں تک پہنچا دی گئی ہو گی۔
حکومتِ پنجاب کو اس کا فوری نوٹس لے کر اس کتاب کی فروخت ممنوع قرار دینی چاہیے اور اس کی تمام کاپیاں ضبط کرنے، لائبریریوں سے واپس لینے کے علاوہ مترجم و ناشر کے خلاف بھی ایکشن لینا چاہیے۔ علامہ اقبال کے خط کے متن میں تحریف ناقابل معافی جرم ہے۔
(ادارتی شذرہ روزنامہ نوائے وقت لاہور)

توہینِ رسالت کی سزا کے قانون میں تبدیلی

ادارہ

پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے کہا ہے کہ توہینِ رسالت کی سزا کے قانون کا طریق کار تبدیل کرنے کی سرکاری تجویز قانون و انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے اور اس طریقِ کار کو اس سے قبل ملک کے قانونی حلقے متفقہ طور پر مسترد کر چکے ہیں۔
جامعہ حنفیہ قادریہ باغبانپورہ میں پاکستان شریعت کونسل کے زیر اہتمام شہدائے بالاکوٹ کی یاد میں منعقد ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قتل کے جرم میں ایک عرصہ تک ہمارے ہاں یہ طریقِ کار رائج تھا کہ قتل کا مقدمہ سیشن کورٹ میں باضابطہ پیش ہونے اور ملزم پر فردِ جرم عائد کرنے سے پہلے درجہ اول کا مجسٹریٹ اس کیس کی چھان بین کرتا تھا اور اس کی طرف سے توثیق کے بعد وہ مقدمہ سیشن کورٹ میں پیش ہونے کے قابل سمجھا جاتا تھا۔ مگر ۱۹۷۲ء کی قانونی اصلاحات میں اس طریق کار کو قانون پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے ختم کر دیا گیا۔ جبکہ حکومت اسی طریق کار کو توہینِ رسالت کی سزا کے قانون میں اختیار کر کے ایف آئی آر کے اندراج کو ڈپٹی کمشنر کی منظوری کے ساتھ مشروط کر رہی ہے جو ۱۹۷۲ء کی قانونی اصلاحات کی رو سے انصاف کی راہ میں رکاوٹ کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ موت کی سزا صرف توہینِ رسالت کے جرم میں نہیں بلکہ قتل، ڈکیتی، منشیات فروشی اور دیگر کئی جرائم میں بھی موت کی سزا موجود ہے، اس لیے ان میں سے صرف توہینِ رسالت کی سزا کے قانون کا طریقِ کار تبدیل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بین الاقوامی دباؤ اور این جی اوز کے موقف کو قبول کرتے ہوئے اس شرعی قانون کو غیر مؤثر بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب توہینِ رسالت پر سزا کے قانون کو انسانی حقوق کے منافی قرار دے کر اس کی تبدیلی کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو فطری طور پر یہ سوال ذہنوں پر ابھرتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے سچے پیغمبروں کی توہین کرنا بھی انسانی حقوق میں شامل ہو گیا ہے؟ اس لیے مغربی قوتوں اور ناجائز دباؤ ڈالنے والی لابیوں سے ہمارا سوال ہے کہ انہوں نے توہین اور گستاخی کو کب سے انسانی حقوق کی فہرست میں شامل کر لیا ہے؟
مولانا زاہد الراشدی نے اس موقع پر شہدائے بالاکوٹ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ امیر المومنین سید احمد شہیدؒ، حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ اور ان کے قافلہ نے نہ صرف برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا بلکہ پشاور کے صوبہ میں اقتدار حاصل ہونے پر مکمل اسلامی نظام نافذ کر کے بتا دیا کہ مجاہدینِ آزادی کی جدوجہد اور قربانیوں کا اصل مقصد اس خطہ میں خلافتِ اسلامیہ کا احیا اور اسلامی نظام کا عملی نفاذ ہے۔ اس لیے جب تک پاکستان میں مکمل طور پر اسلامی  نظام کا نفاذ عمل میں نہیں آ جاتا اس وقت تک مجاہدینِ آزادی کی جدوجہد کا تسلسل قائم ہے اور ہماری ذمہ داری ہے کہ جہادِ آزادی کی نظریاتی تکمیل تک اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں۔
پاکستان شریعت کونسل صوبہ پنجاب کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری جمیل الرحمان اختر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علماء حق نے ہر دور میں کفر اور باطل کی قوتوں کو للکارتے ہوئے اسلام کی سربلندی اور حق کی بالادستی کے لیے جدوجہد کی ہے اور آج بھی ان کی یہ جدوجہد جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کی جدوجہد شہدائے بالاکوٹ کی عظیم تحریکِ آزادی کا ہی تسلسل ہے اور انہوں نے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی جدوجہد کو تکمیل تک پہنچایا، اس لیے علماء حق طالبان کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

تعارف و تبصرہ

ادارہ

شورٰی سے ولایتِ فقیہ تک

مشہور عرب دانشور اور محقق الاستاذ احمد الکاتب نے اہلِ تشیع کے سیاسی افکار و نظریات کا تاریخی اور علمی تجزیہ کرتے ہوئے ’’تطور الفکر السیاسی الشیعی من الشورٰی الی ولایۃ الفقیہ‘‘ کے عنوان سے ایک ضخیم تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے جس میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ اہلِ بیت کرام رضوان اللہ اجمعین کے بزرگوں نے عمومی شورٰی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے قرنِ اول میں جو سیاسی فکر پیش کیا تھا، وہ کس طرح رفتہ رفتہ اہلِ بیت کے دائرہ میں محدود، معصوم اور منصوص امامت کی شکل اختیار کر گیا اور اب اس نے ایران میں ولایتِ فقیہ کی دستوری حیثیت حاصل کر لی۔ یہ کتاب
51 Robert Owen House London SW66JB
نے چند برس بیشتر شائع کی تھی اور راقم الحروف کی شدید خواہش تھی کہ کوئی ادارہ اس کے اردو ترجمہ اور اس کی اشاعت کا اہتمام کر دے تو یہ اہلِ علم کے کام کی چیز ہے۔ بحمد اللہ تعالیٰ دارالشورٰی لندن نے ہی اس کا اہتمام کر دیا ہے اور یہ ترجمہ ساڑھے چھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل خوبصورت اور معیاری کتاب کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
اسلام کے سیاسی نظام اور اہلِ تشیع کے سیاسی موقف سے دلچسپی رکھنے والے اربابِ علم و دانش کے لیے یہ گراں قدر تحفہ ہے اور اس کے بارے میں پوسٹ بکس نمبر ۱۳۲۰ اسلام آباد کے ایڈریس سے بھی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

قادیانیت کش

تحریکِ ختم نبوت کے لیے سرگرمی سے کام کرنے والے پرجوش نوجوان جناب محمد طاہر رزاق قادیانیت کے حوالے سے وقتاً فوقتاً مختصر کتابچے اور پمفلٹ شائع کرتے رہتے ہیں جو عوامی سطح پر قادیانیت کو بے نقاب کرنے کے لیے بہت مفید ہیں اور ضروری معلومات پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے چند اہم رسالوں کو ’’قادیانیت کش‘‘ کے عنوان سے یکجا شائع کیا گیا ہے جس کے صفحات ڈیڑھ سو سے زائد ہیں اور یہ مجموعہ خوبصورت ٹائٹل اور مضبوط جلد کے ساتھ مزین ہے۔ اس کی قیمت ۸۰ روپے ہے اور اسے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حضوری باغ روڈ ملتان سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

تذکرہ علامہ اختر شاہ امروہیؒ

شیخ الہند حضرت مولانا احمد حسین دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز کے شاگردوں میں حضرت مولانا محمد اختر شاہ خان امروہیؒ کا تذکرہ تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے جنہوں نے میرٹھ کے مدرسہ امداد الاسلام میں مدتوں دینی علوم کی تدریس و تعلیم کی خدمات سرانجام دیں اور ان کا شمار اپنے دور کے ممتاز علماء، خطباء اور شعراء میں کیا جاتا ہے۔ ان کے شاگرد علامہ محمد اسحاق القاسمی میرٹھی نے ان کے حالاتِ زندگی اور فیوضات کو مرتب کر کے شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے اور اس میں حضرت مرحوم کا مجموعہ کلام بھی شامل ہے۔ ایک سو بیس صفحات پر مشتمل اس کتابچہ کی قیمت پچاس روپے ہے اور ملنے کا پتہ یہ ہے: المکتبہ القیمہ، ۴۰۸/۱ سی، سنٹرل کمرشل ایریا، پی ای سی ایچ ایس، کراچی، کوڈ نمبر ۷۵۴۰۰

احادیثِ شریفہ سے منتخب پیاری دعائیں

حضرت مولانا محمد اسحاق میرٹھی نے جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ شریفہ میں سے روز مرہ کا ڈیڑھ سو سے زائد دعاؤں کا ایک خوبصورت انتخاب پیش کیا ہے جس میں اہم مواقع اور ضروریات کے حوالے سے مسنون دعائیں شامل ہیں۔ اس کے صفحات ساٹھ ہیں اور اسے بھی مکتبہ قیمہ کے مندرجہ بالا ایڈریس سے منگوایا جا سکتا ہے۔

کیا مسیح خدا کا بیٹا ہے؟

ممتاز محققِ مسیحیت مولانا عبد اللطیف مسعود نے سولہ صفحات پر مشتمل اس پمفلٹ میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں مسیحیوں کے اس عقیدہ کا تحقیقی جائزہ لیا ہے کہ وہ (نعوذ باللہ) خدا کے بیٹے ہیں۔ مولانا موصوف نے بائبل کے مستند حوالوں سے یہ بات واضح کی ہے کہ ’’خدا کا بیٹا‘‘ ہونے کا یہ تصور مسیحی امت میں کیسے آیا اور بائبل میں کن کن حضرات کو خدا کا بیٹا کہا گیا ہے۔ یہ مضمون عالمی مجلسِ تحفظ ختم نبوت حضوری باغ روڈ ملتان سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

جون ۲۰۰۰ء

اسلام اور خواتین کے حقوقمولانا محمد برہان الدین سنبھلی
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور جہادِ آزادیشیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒمولانا مشتاق احمد
اکیسویں صدی اور اسلامڈاکٹر مراد ہوف مین
تنزانیہ کے حکمران خاندان کا قبولِ اسلاممنظور الحق، کامٹی
اقوامِ متحدہ کی تاریخ پر ایک نظرمولانا سخی داد خوستی
’’معالم العرفان فی دروس القرآن‘‘ پر ایک نظرمحمد حنیف قریشی ایم اے
عالمی منظر نامہادارہ
تعارف و تبصرہادارہ

اسلام اور خواتین کے حقوق

مولانا محمد برہان الدین سنبھلی

دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے استاذ تفسیر حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی نے یہ مقالہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک سیمینار میں پڑھا جسے پندرہ روزہ ’’تعمیرِ حیات لکھنؤ‘‘ کے شکریہ کے ساتھ ’’کلمہ حق‘‘ کے طور پر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

قوانینِ اسلام میں عورتوں کو جو حقوق دیے گئے ہیں ان کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ اس وقت ہو سکے گا جب اسلام کے علاوہ دیگر مذہبی، ملکی، قومی قوانین سے آگہی ہو اور دونوں کے درمیان موازنہ کیا جائے۔ جیسا کہ روشنی کی صحیح قدر اسے ہی ہوتی ہے یا ہو سکتی ہے جسے تاریکی سے واسطہ پڑا ہو۔ یا غذا کی افادیت کا اندازہ حقیقتاً وہی صحیح لگا سکتا ہے جو بھوک اور فاقہ کا شکار رہا ہو۔ اس لیے پہلے ہلکی سی جھلک غیر اسلامی نظام و قوانین کی دکھانا، نیز جاہلیت کے ان طریقوں کا ذکر کرنا مناسب لگتا ہے جو صنفِ نازک کے بارے میں دنیا بھر میں رائج تھے۔

رومن لاء

ہم یہاں سب سے پہلے رومن لاء کا مختصر جائزہ لیتے ہیں جسے عام طور پر قوانین کا جنم داتا اور انسانیت کا رکھوالا اور انصاف کا نمائندہ باور کیا اور کرایا جاتا ہے، اور جو عرصہ دراز تک سارے مغرب میں اور خاص طور پر یورپ میں دستوری حکمرانی کرتا رہا ہے۔ اس لاء میں کنبہ کے سربراہ کو کنبہ کے بقیہ افراد پر خواہ وہ بیوی ہو یا بہو، بیٹے بیٹی ہوں یا پوتے پوتی، فروخت کرنے، ہر طرح ایذائیں دینے حتٰی کہ قتل کرنے کا اختیار تھا۔ نیز بیوی کو ترکہ سے محروم رکھنے کا بھی اسے حق حاصل تھا۔ لڑکیاں حقِ ملک نہیں رکھتی تھیں اور اپنے باپ کے ترکہ سے بھی محروم ہوتی تھیں۔ دیکھئے المراۃ بین الفقہ و القانون ص ۱۵، ۱۶ ۔ طبقہ رابعہ ڈاکٹر مصطفٰی سباعی۔ الترکہ والمیراث فی الاسلام ص ۴۰ تا ۵۴ از ڈاکٹر محمد یوسف مصری (المطبعہ المعرفہ)۔

یونانی قانون

یونانی قانون میں مورث کی حیثیت معمولی سامان کی سی تھی جس کی بازار میں آزادانہ خرید و فروخت ہوتی۔ اسے نہ شہری حقوق حاصل تھے نہ آزادی۔ میراث بھی نہیں دی جاتی تھی۔ اسے ناپاک سمجھا جاتا تھا۔ پوری زندگی وہ کسی نہ کسی مرد کے شکنجہ میں گرفتار رہتی۔ شادی سے قبل سرپرست کے اور شادی کے بعد شوہر کے پنجہ استبداد میں رہتی۔ نہ اپنے مال میں تصرف کا حق رکھتی تھی نہ جان میں۔ باپ اپنی بیٹی کو فروخت کرتا تھا اور ہونے والا شوہر اسے خریدتا تھا۔ اس کے بعد اسے (شوہر کو) پورا اختیار ہوتا تھا کہ اسے چاہے اپنی زوجیت میں رکھے یا کسی اور کو سونپ دے۔ (مدیٰ حریت الزوجین ص ۲۷ از ڈاکٹر عبد الرحمٰن صابونی۔ نیز المراۃ بین الفقہ والقانون ص ۱۳)

مسیحی مذہب

مسیحی مذہب جسے دنیا کے مہذب ترین کہلانے والے ملکوں میں سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل ہے، اس کا حال اور اس کا ریکارڈ تو عورت کے بارے میں سب سے گیا گزرا ہے۔ اس بارے میں غیر عیسائیوں نے نہیں بلکہ خود عیسائیوں نے جو تفصیلات بتائی ہیں وہ عبرت کے لیے کافی ہیں۔ مثلاً ایک عیسائی انگریز فلسفی ہربرٹ سپنسر کہتا ہے، گیارہویں اور پندرہویں صدی (بعثتِ محمدیؐ کے کوئی آٹھ سو سال بعد تک) انگلستان میں عام طور پر بیویاں فروخت کی جاتی تھیں۔ عیسائی مذہبی عدالتوں نے ایک قانون کو رواج دیا جس میں شوہر کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کسی دوسرے کو جتنی مدت کے لیے چاہے عاریتاً بھی دے سکتا ہے۔ ان سب سے زیادہ شرمناک رواج یہ تھا (جسے ایک طرح سے قانون کا سا درجہ حاصل تھا) کسی کسان کی نئی نویلی دلہن کو مذہبی پیشوا یا حاکم کو چوبیس گھنٹے تک اپنے تصرف میں رکھنے اور اس کے جسم سے لطف اندوز ہونے کا حق حاصل تھا (المراۃ بین الفقہ والقانون ص ۲۱۱)۔ اور تو اور سولہویں صدی ۱۵۶۷ء میں بعثتِ نبویؐ سے تقریباً ایک ہزار سال بعد اسکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ نے یہ قانون پاس کیا تھا کہ عورت کو کسی بھی چیز پر ملکیت کا حق حاصل نہیں ہو گا۔ اور ان سب سے زیادہ تعجب خیز انگلستان کی پارلیمنٹ نے قانون پاس کیا جس میں عورت کے لیے انجیل پڑھنا حرام قرار دیا (المراۃ بین الفقہ والقانون ص ۲۱۱)۔
اس کا تذکرہ کرنے کے بعد ڈاکٹر سباعی صاحب نے بجا طور پر تقابل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں قرآن کو یکجا کر کے ایک مصحف تیار کیا تو وہ حضرت حفصہؓ کے پاس محفوظ کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ وہ خاتون تھیں۔
سب سے بڑھ کر عجیب تر یہ انکشاف ہے کہ ۱۸۰۵ء تک انگلستانی قانون کی رو سے شوہر بیوی کو فروخت کرنے کا پورا اختیار رکھتا، اور اس کی قیمت بھی جو قانوناً مقرر کی گئی تھی وہ اتنی حقیر تھی کہ اس کا ذکر باعثِ شرم ہے یعنی صرف چھ پنس (تقریباً آج کے دو روپیہ ہندوستانی) (المراۃ بین الفقہ والقانون ص ۲۱)
اس کے ساتھ ایک اور مسیحی یورپی ملک فرانس میں ایک کانفرنس کا حال یا روئیداد دل پر پتھر رکھ کر اور سن لیجئے جس میں اس بات پر بحث و مباحثہ ہوا کہ عورت انسان ہے یا کوئی اور جانور؟ اگرچہ آخر میں طے یہ پایا کہ انسان ہے۔ (معارف القرآن ج ۱ ص ۵۴۹ از مفتی محمد شفیع صاحبؒ)
علاوہ ازیں مسیحی مذہب قانون کی رو سے عورت ترکہ سے بہرصورت محروم رہتی تھی بلکہ اکثر اولاد میں بھی صرف بڑا لڑکا ہی استحقاق (ترکہ پانے کا) رکھتا تھا۔

یہودی مذہب

موجودہ یہودی مذہب (جو ظاہر ہے کہ محرف شکل میں ہے) میں عورتیں ترکہ کا استحقاق قطعاً نہیں رکھتی تھیں۔ چاہے بیوی ہو، بیٹی ہو یا ماں، بہن۔ البتہ بڑا لڑکا چھوٹے کے مقابلہ میں دوہرا حصہ اپنے باپ کے ترکہ میں سے پاتا۔ (الترکہ والمیراث ص ۴۱، ۴۲)

ہندو دھرم

ہم سب سے پہلے ’’انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجئن اینڈ ایتھکس‘‘ کے حوالہ سے ہندومت میں عورت کے حقوق وغیرہ کے بارے میں جو ملتا ہے اس کا مختصر تذکرہ کرتے ہیں۔ بعد ازاں خود ہندوؤں کی معتبر کتابوں سے اس موضوع پر تفصیلات پیش کریں گے۔ یہاں یہ بتانا بے محل نہ ہو گا کہ مذکورہ کتاب (اخلاق و مذہب کی انسائیکلو پیڈیا) دنیا بھر میں معتبر تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کا مقالہ نگار لکھتا ہے: سمرتی (ہندو مذہب کی معتبر کتاب) میں آٹھ قسم کی شادیوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ان میں ایک قسم کا نام ’’اسورا‘‘ ہے، یہ طریقہ جنگجو اور پچھلی ذات کے لوگوں میں رائج تھا جس میں عورت کو خریدا جاتا تھا۔ اسی طرح (نکاح کی) ایک قسم کا نام راکشش ہے جس میں عورت پر زبردستی قبضہ کر لیا جاتا تھا۔ (انسائیکلوپیڈیا ج ۸ ص ۴۵۱، ۴۵۲)
اب ہندو مذہب کی مشہور کتاب ’’منو سمرتی‘‘ (اردو ترجمہ شائع کردہ بھائی تارا چند چھمبریک سیلر لاہوری گیٹ لاہور) سے براہ راست کچھ دفعات نقل کرتے ہیں جس سے ہندو مذہب میں رشتہ ازدواج اور عورت کی حیثیت سے متعلق حقائق سامنے آتے ہیں۔
منو سمرتی ادھیائے ۹ سلسلہ ۲: رات دن عورت کو پتی کے ذریعہ بے اختیار رکھنا چاہیے۔
منو سمرتی ادھیائے ۹ سلسلہ ۵۸: اگر اولاد نہ ہو تو اپنے خاندان سے اجازت لے کر مالک (شوہر عام طور پر۔شوہر کے لیے ’’مالک‘‘ کا استعمال ملتا ہے، اس سے بھی عورت اور شوہر کی حیثیت کا پتہ لگانا آسان ہو جاتا ہے) خاندان کے رشتہ دار یا دیور سے اولاد پیدا کرے۔
منو سمرتی ادھیائے ۹ سلسلہ ۱۱۹: چھوٹا بھائی بڑے بھائی کی زوجہ سے بیٹا پیدا کرے تو اس بیٹے کے ساتھ چاچا لوگ برابر تقسیم حصہ کریں۔
ہندو مذہب میں شادی (دواہ) کے علاوہ بھی ایک اور عقد جائز تسلیم کیا گیا جسے ’’نیوگ‘‘ کہتے ہیں۔ اس میں شادی شدہ عورت سے بھی دوسرا شخص کچھ مدت کے لیے نکاح کر سکتا ہے۔ اس طریقے سے پیدا ہونے والی اولاد اصلی شوہر کی ہی سمجھی جاتی ہے، اور یہ دوسرے قسم کا نکاح (نیوگ) دس مردوں سے بھی ہو سکتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سوامی دیانند سرسوستی کے لیکچروں کا مجموعہ (اپدیشن منجری ص ۱۰۷ از سوامی دیانند سرسوتی، شائع کردہ سیکرٹری آریہ منڈل کیرانہ ضلع مظفر نگر)
واضح رہے کہ ایک مشہور یورپین مصنف جان ڈی مین نے ’’قانون رواج ہنود‘‘ نامی کتاب میں ’’نیوگ‘‘ کی یہ تعریف کی ہے: ’’دوسرے کی زوجہ سے بچہ جنانے کا عام رواج ’’نیوگ‘‘ کے نام سے موسوم تھا‘‘۔ (قانون رواج ہندو ج ۱۰ ص ۱۰۶ ترجمہ از مولوی اکبر علی بی اے آنرز شائع کردہ جامع عثمانیہ حیدرآباد ۱۹۴۱ء)
علاوہ ازیں ابھی چند سال پہلے ۱۹۹۶ء میں ایک رپورٹ ملک کے مشہور اخبارات میں شائع ہوئی جس میں بتایا گیا ہے: ’’ہندوستان سمیت کئی ملکوں میں ایک عورت کے ایک سے زائد شوہر ہونے کی رسم آج بھی موجود ہے‘‘۔ آگے چل کر کہا گیا ہے: ’’ہندوستان میں لداخ، ہماچل کے سرمور ضلع میں اونچی ذات والوں میں، اور اترپردیش کے دہرہ دون ضلع میں یہ رسم موجود ہے۔ لداخ کے کچھ فرقوں میں یہ رسم اس طرح موجود ہے کہ خاندان کے سبھی مردوں کی ایک ہی بیوی ہوتی ہے۔ خاندان کا بڑا بھائی کسی عورت سے شادی کرتا ہے اور بعد میں سبھی بھائی اس عورت کے ساتھ بیوی کے تعلقات قائم کرتے ہیں۔ یہ انکشافات مشہور ماہر سماجیات پروفیسر میش کمار راما نے ایک سروے کرنے کے بعد کیے ہیں جو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہماچل پردیش کے ضلع گزٹ کے مطابق یہ رسم خاص طور پر برہمنوں اور راجپوتوں میں اور کچھ نچلی ذاتوں میں پائی جاتی ہے۔ حال کے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ۹۸ شادیوں میں سے ۲.۴ فیصد کثیر شوہری تھیں۔ (قومی آواز لکھنؤ ۔ مورخہ ۱۱ جنوری ۱۹۹۶ء)
ہندو مذہب کے قانونِ وراثت میں عورتیں تو سب، اور بڑے بیٹے کے علاوہ بقیہ لڑکے بھی باپ کے ترکہ سے محروم ہوتے ہیں، جیسا کہ منو سمرتی میں ہے: ’’ماں باپ کی تمام دولت بڑا بیٹا ہی لیوے‘‘۔ (منو سمرتی، اردو ترجمہ ۱۸۱)

عرب کا زمانہ جاہلیت

قبل از اسلام عربوں میں عورت کی جو حالتِ زار تھی اس سے تو کم و بیش اکثر اہلِ علم واقف ہی ہیں کہ لڑکی پیدائش ہی سخت عار کی بات سمجھی جاتی تھی اور اس داغ کو مٹانے کے لیے اسے زندہ دفن کر دیا جاتا تھا جس کا قرآن مجید میں بھی بڑے بلیغ انداز میں تذکرہ ہے۔ سورۃ النحل آیت ۵۸ میں ہے:
واذا بشر احدھم بالانثٰی ظل وجھہ مسودًا وھو کظیم یتوارٰی من القوم من سوء ما بشر بہ ایمسکہ علیٰ ھون ام یدسہ فی التراب۔
عورت کو، چاہے بالغ ہی ہو، اپنا نکاح خود کرنے کا اختیار نہیں تھا، بلکہ اس کا ولی جس سے چاہے اس کی مرضی کے بغیر بھی نکاح کر سکتا تھا۔ پھر بیوی کی حیثیت بالکل باندی کی سی تھی جو صرف شوہر کی جنسی خواہش بلکہ ہوس کا شکار بننے کے سوا اور کوئی حق نہیں رکھتی تھی۔ بیوہ ہو جاتی تو اس کے شوہر کے ورثاء اس کے ساتھ مرنے والے کے ترکہ کا سا معاملہ کرتے۔ یعنی چاہے اپنے پاس رکھتے یا دوسرے سے نکاح کرتے۔ اسے شوہر کے ترکہ میں سے کچھ بھی نہ دیتے کیونکہ ترکہ کا استحقاق رجولیت اور قوت پر تھا۔ اس بنا پر کم عمر لڑکے بھی ترکہ سے محروم رکھے جاتے تھے اور لڑکیاں تو سب ہی محروم رہتیں۔ ان باتوں کی تفصیل بکثرت کتبِ حدیث، تفسیر و فقہ میں ملتی ہیں۔ بالعموم بڑا لڑکا ہی ترکہ کا مستحق سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ اسی اصول کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب کا ترکہ صرف حضرت ابو طالب کو ملا (شرح مسلم نووی ج ۲ ص ۴۳۶)۔

اسلام نے خواتین کو کیا دیا؟

اب آئیے دیکھیں کہ اسلام میں عورت کا کیا مقام ہے اور اس کے لیے کیسی کیسی شرعی قوانین میں رعایتیں دی گئی ہیں۔
عورت کے بارے میں قرآن مجید کی سورہ نساء آیت ۱ میں انسانیت کی مساوات کا خلقکم من نفس واحدۃ وجعل منھا زوجھا کے الفاظ میں صاف اعلان کر دیا گیا کہ عورت اور مرد دونوں ایک ہی نفس سے پیدا شدہ ہیں، اس لیے دونوں ہم جنس ہیں۔ ایسا نہیں کہ عورت کسی اور جنس سے ہو (مثلاً حیوان ہو) اور مرد دوسری جنس سے، بلکہ دونوں ہی انسانیت کے رشتہ سے برابر ہیں۔ اسی طرح حدیثِ نبوی میں النساء شقائق الرجال ’’عورت مرد کی پسلی ہے‘‘ (احمد و ابوداؤد ص ۲۵ بحوالہ المراۃ ص ۲۵) فرما کر اس کی تصریح و توضیح فرما دی گئی۔ چنانچہ اسلام کے تمام احکام میں صنفی اور طبعی فرق کا لحاظ کرتے ہوئے دونوں کے لیے یکسانیت برتی گئی ہے، بلکہ اسلام کے تمام قوانین پر اگر گہری نظر ڈالی جائے تو عورت کو کچھ زیادہ رعایتیں دی گئی معلوم ہوتی ہیں۔ عرب میں (جیسا کہ اوپر گزرا) لڑکیوں کی پیدائش سخت عیب کی بات سمجھی جاتی تھی۔ اس کے بالمقابل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہدایات دیں، مثلاً فرمایا:
من بلی ھذہ البنات شیئا فاحسن الیھن کن سترا من النار (صحیح بخاری ج ۲ ص ۸۸۷) یعنی جو شخص لڑکیوں کی بہترین طریقہ پر سرپرستی کرے (تربیت دے) اور اچھا برتاؤ کرے گا وہ جہنم میں نہ جائے گا۔
ایک اور حدیث میں یوں فرمایا من کانت لہ ثلاث بنات او ثلاث اخوات او ابنتان او اختان فاحسن مجنھن واتقی اللہ فیھن فلہ الجنۃ (ترمذی ج ۲ ص ۱۳ و ۱۴ مکتبہ رشیدیہ دہلی)۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں من عال جاریتین دخلت انا وھو الجنۃ کھاتین اشاریا صبعیہ (ترمذی ص ۱۳) یعنی جو شخص دو تین بہنوں یا لڑکیوں کی بہترین طریقہ پر تربیت کرے اور کسی طرح کی زیادتی نہ کرے وہ جنت میں جائے گا اور اللہ کے رسولؐ سے اتنا قریب ہو گا جتنی ایک ہاتھ کی دو برابر کی انگلیاں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس شوق انگیز اندازِ بیان کے بعد بھلا کون سچا مسلمان ہو گا جو لڑکیوں اور بہنوں کی پرورش میں کوتاہی کرے اور دلچسپی نہ لے گا۔ ان ہدایات کا یہ اثر ہوا کہ غیر شادی شدہ لڑکیاں اسی خطہ عرب میں جہاں زندہ درگور کی جاتی تھیں ’’کریمہ‘‘ (یعنی خاتون معزز و محترم) کہلائی جانے لگیں۔ مزید یہ کہ اس صنف کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا اور بھی متعدد پیرایہ بیان میں حکم دیا۔
مثلاً قرآن مجید سورہ النساء آیت ۱۹ میں فرمایا عاشروھن بالمعروف ’’عورتوں کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی گزارو‘‘۔ اور حدیث میں فرمایا استو صوابا النساء خیرا ’’عورت کے ساتھ بہتر برتاؤ کرنے میں میری صلاح مانو‘‘۔ بلکہ اسی کے ساتھ یہ بھی ہدایت دی کہ عورتوں سے اگر کوئی تکلیف بھی پہنچے تو یہ خیال کر کے کہ ان میں بہت سی خوبیاں بھی ہیں، طُرح دے جاؤ۔ غور کیجئے کہ یہ اندازِ بیان کتنا مؤثر ہے۔ الفاظِ حدیث یہ ہیں: لا یفرک مومن مومنۃ ان کرہ منھا خلقا رضی منھا آخر (صحیح بحوالہ مشکوٰۃ ج ۲ ص ۲۸۰)۔ درحقیقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ گرامی مستفاد ہے قرآن مجید کی سورہ النساء آیت ۱۹ فان کرھتموھن فعسٰی ان تکرھوا شیئا ویجعل اللہ فیہ خیرا کثیرا سے۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسولؐ نے فرمایا اکمل المومنین ایمانا احسنھم خلقا و خیارکم خیارکم لنسائھم ’’ایمانِ کامل اس شخص کا ہے جو خوش اخلاقی میں ممتاز ہو، اور تم سب سے اچھا وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں کے لیے اچھا ہو‘‘۔
انہی آیات و احادیث کی بنیاد پر امام غزالیؒ نے کیا خوب بات فرمائی، لیس حسن الخلق معھا کف الاذٰی عنھا بل احتمال الاذٰی والحلم عند طیشھا وغضبھا (احیاء علوم الدین ج ۲ ص ۳۹)۔ مطلب یہ ہے کہ عورت کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کے حکم کا تقاضا صرف یہ نہیں ہے کہ مرد عورت کو اذیت نہ پہنچائے، بلکہ اس کے اندر یہ بھی داخل ہے کہ اگر عورت کی طرف سے کوئی تکلیف دہ بات پیش آئے تو اسے برداشت کرے۔ امام غزالیؒ نے یہ بھی لکھا ہے (اور احادیثِ صحیحہ میں یہ واقعہ موجود ہے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات کے بالکل قریب، جبکہ زبان مبارک پورا ساتھ نہیں دے رہی تھی، اس وقت جو چند اہم نصائح امت کو فرمائے ان میں عورت کے ساتھ بہتر برتاؤ کرنے اور اس بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنے کی بھی تھی (احیاء علوم الدین ص ۳۷ و ۳۸ ج ۲)۔

عورت کے اخراجات

عورت کے ساتھ بہتر برتاؤ کرنے، اس کے ساتھ عزت و احترام کا بلکہ دلجوئی کا معاملہ کرنے کا حکم اس کی صنفی نزاکت کے لحاظ و رعایت کی بنا پر ہی ہے۔ کیونکہ نازک چیز کی رعایت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں انہیں قواریر ’’آبگینہ‘‘ فرما کر ان کی نزاکت کا اعتراف آخری درجہ میں کیا گیا ہے۔ جیسے صحیح بخاری ج ۲ ص ۹۱۷ میں ہے رفقاً بالقواریر۔
اس بنیاد پر اسے کسبِ معاش کی مشقتوں سے بچایا گیا اور اس کا نفقہ کسی نہ کسی مرد کے ذمہ کر دیا گیا۔ شادی سے قبل والد پر، والد نہ ہونے یا اس کے اخراجات برداشت کرنے کے لائق نہ ہونے کی صورت میں حسبِ اصولِ وراثت دادا، چچا، بھائیوں وغیرہ پر۔ شادی کے بعد شوہر پر۔ شوہر سے علیحدگی کی شکل میں عدت کے درمیان کے تمام اخراجات شوہر کے ذمہ۔ شیر خوار بچہ کی موجودگی میں عدت کے بعد بھی، جب تک بچہ ماں کا دودھ پیتا رہے، اس کے نیز بچہ کے اخراجات بھی اس کے سابق شوہر پر ہی ہیں۔ عدت کے بعد (شیر خوار بچہ نہ ہونے کی صورت میں) اولاد پر۔ اولاد نہ ہو تو پھر شادی سے قبل کی طرح والد یا دیگر رشتہ داروں پر لازم ہوتے ہیں۔ جن پر اخراجات لازم ہیں وہ رضاکارانہ نہیں بلکہ ان پر واجب ہوتے ہیں۔

عورت کے اختیارات

اوپر کی تفصیلات سے اسلام میں عورت کے عزت و احترام نیز حقوق کا اندازہ کر لینا مشکل نہ رہا ہو گا۔ اس کے بعد اب ایک جھلک ہم اس کے اختیارات کی دکھاتے ہیں۔ عورت بالغ ہونے کے بعد (مرد ہی کی طرح) اپنے جان و مال، نکاح، مالی لین دین وغیرہ کے بارے میں قانونِ شریعت کے لحاظ سے پوری طرح مختار ہوتی ہے۔ اپنے مال کی پوری طرح مالک ہوتی ہے جس طرح کہ مرد، کہ جہاں چاہے اور جتنا چاہے خرچ کرے۔ (بس جس طرح مردوں کے لیے کچھ پابندیاں مثلاً فضول خرچی نہ کریں اور حرام جگہ پر خرچ نہ کریں اسی طرح عورت کے لیے بھی ہیں)۔ اس بات کے لیے حوالے پیش کرنے کی چنداں ضرورت معلوم نہیں ہوتی۔ علاوہ اس کے کہ ہر متعلقہ کتاب میں اس کی صراحت موجود ہے۔ عام طور پر یہ معروف حقیقت بھی ہے۔ سب سے نازک مسئلہ اس کے ازدواجی تعلق کا ہے، اس میں (کم سے کم فقہ حنفی میں، ظاہر ہے کہ وہ بھی شریعت ہی کی ترجمان ہے) بالغ عورت مختار ہے کہ جس سے نکاح کرنا چاہے کر سکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض شکلوں میں اولیاء کو اعتراض کا حق دیا گیا ہے اور اولیاء کی اجازت و سرپرستی میں ہونے والے نکاح کو پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ عورت از خود اولیاء کے بغیر نکاح کر لیتی ہے تو نکاح منعقد ہو جاتا ہے (اگرچہ پسندیدہ نہیں) (بدائع الصنائع ج ۲ ص ۲۴۱ ۔ طبعہ اولیٰ للعلامہ الکاسانیؒ ف ۵۸۷ھ)۔ اور اس کے لیے احادیثِ نبویہؐ سے استدلال کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے الا یم احق بنفسھا من ولیھا (ابوداود ج ۱ ص ۲۸۶ مطبع مجیدی کانپور)۔ مطلب یہ ہے کہ غیر شادی شدہ عورت اپنے نکاح کے بارے میں اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے (کہ جس سے چاہے نکاح کرے)۔ اس کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ ایک کنواری (بالغ) لڑکی کا نکاح اس کے والد نے لڑکی کی مرضی کے بغیر کر دیا تھا تو اس لڑکی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ اس پر اسے اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ چاہے تو نکاح برقرار رکھے اور نہ چاہے تو نکاح ختم کر دے (ایضاً)۔ اور اس کے علاوہ آنحضرتؐ نے یہ بھی صاف صاف فرما دیا کہ لا تنکح الثیب حتٰی تستامر ولا البکر الا بذتھا (ابوداؤد ج ۱ ص ۲۸۵ مطبع مجیدی ۔ کانپور) مطلب یہ کہ شوہر رسیدہ عورت کی شادی اس کے صریح حکم کے بغیر نہ کی جائے۔ اور کنواری لڑکی کا بھی نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ علاوہ ازیں قرآن مجید میں بھی اولیاء کو صاف طور پر اس سے منع کیا گیا ہے کہ وہ عورتوں کی پسند کے شخص سے انہیں اپنا نکاح کرنے میں رکاوٹ ڈالیں۔

عورت کا ترکہ میں شرعی استحقاق

گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ دنیا کے کسی بھی مذہب، ملک اور قوم نے عورت کو ترکہ کا مستحق نہیں قرار دیا ہے لیکن اسلام نے بالکل مرد ہی کی طرح عورت کو بھی ترکہ کا مستحق بنایا ہے۔ اور اس بارے میں عمر اور نمبر کا فرق بھی نہیں کیا (مثلاً پہلی ہی اولاد کو ترکہ ملتا، یا نرینہ کو ہی ملتا بقیہ کو نہ ملتا)۔ کیونکہ جب سبب استحقاق میں سب اولاد برابر ہے تو اس کی بنیاد پر ملنے والے حق میں فرق کیوں ہو۔
زمانہ جاہلیتِ قدیمہ میں عرب ہی نہیں، جاہلیتِ جدیدہ میں بھی ترقی یافتہ سمجھے جانے والی بہت سی یورپین اور دوسری قومیں بڑے لڑکے کو ہی ترکہ کا واحد مستحق قرار دیتی ہیں۔ حالانکہ عقلِ سلیم اور مزاجِ مستقیم کے لحاظ سے یہ بالکل الٹی منطق معلوم ہوتی ہے۔ یعنی اولاد کے درمیان اگر فرق کیا جانا ہی ناگزیر ہوتا تو معکوس ترتیب ہوتی کہ چھوٹوں سے چھوٹے کو ملتا۔ سچ کہا ہے، چھٹی صدی ہجری کے ایک مشہور مالکی عالم قاضی ابوبکر ابن العربی (ف ۵۴۳ھ) نے:
ان الورثۃ الصغار الضعاف کانوا احق بالمال من القوی فنکسوا الحکم وابطلوا الحکمۃ۔ (احکام القرآن لابن العربی ج ۱ ص ۱۲۶ ۔ الطبعۃ الاولیٰ مطبعۃ السعادۃ مصر)
’’یعنی کمزور اور کم عمر ورثہ تو قوی وارثوں کے مقابلہ میں مال کے زیادہ ضرورت مند و مستحق ہوتے ہیں، لیکن جاہلوں نے ترتیب الٹ کر رکھ دی تھی۔‘‘
بہرحال اسلام نے سب اولاد کو استحقاقِ ترکہ میں برابر قرار دیا ہے (یہ الگ بات ہے کہ مصالح کی بنا پر مقدار میں فرق کیا ہے)۔

اسلامی نظامِ وراثت کی بنیاد

جیسا کہ امام غزالیؒ (ف ۵۰۵ھ) نے بتایا ہے، نسب اور سبب پر ہے (الوجیز ص ۲۶۰ ۔ مطبوعہ ۱۳۱۷ھ مطبعہ الاداب)۔ اس نظام کی رو سے عورتوں میں ماں، بیٹی، بیوی، کسی حال میں ترکہ سے محروم نہیں رہ سکتیں۔ ان کے علاوہ بہت سی صورتوں میں پوتی، دادی، نانی، بہن (ان کی تینوں قسمیں حقیقی، علاتی، اخیاتی) بلکہ بعض صورتوں میں پھوپھی نواسی بھی ترکہ پانے کی مستحق ہوتی ہیں (تفصیلات کتب فرائض مثلاً سراجی میں دیکھی جائیں)۔

ایک سطحی اعتراض

اسلامی نظامِ وراثت پر بادی النظر میں ایک اعتراض یہ کیا جا سکتا ہے بلکہ سطحی نظر رکھنے والوں نے پورے اسلامی نظام پر نظر نہ ہونے کی وجہ سے بعض نے کیا بھی ہے کہ عورت کو اکثر صورتوں میں (اگرچہ بعض صورتوں میں مثلاً بہن بھائی کو برابر ملتا ہے) مرد سے نصف حصہ ملتا ہے۔ حالانکہ قانون کے سب پہلوؤں پر نظر ہو تو اعتراض کی گنجائش نہ رہے۔ مثلاً حقیقت سامنے ہو کہ عورت پر اسلامی قانون کی رو سے کوئی خرچ، حتٰی کہ اپنا خرچ بھی نہیں ہے (تفصیل اوپر گزر چکی ہے)۔ اس لیے اسے جو کچھ ملتا ہے محض اس کی دلجوئی اور عزت افزائی کے لیے ملتا ہے۔ اکثر اس کے ’’بینک بیلنس‘‘ بڑھانے یا زیورات بنوانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس کے برخلاف مرد پر اکثر حالات میں نہ صرف اس کے اپنے بلکہ دیگر اقارب کے اخراجات کا بار بھی ہوتا ہے۔ اور بیوی، نیز لڑکیوں اور نابالغ لڑکوں کے بلکہ معذور بالغوں کے بھی اخراجات اس کے ذمہ ہوتے ہیں۔
علاوہ ازیں عورت نکاح کرتی ہے تو وہ اپنے شوہر سے مہر پانے کی، جو اکثر اوقات میں بڑی رقم ہوتی ہے، حقدار ہوتی ہے۔ اور مرد نکاح کرتا ہے تو اسے مہر ادا کرنا پڑتا ہے۔ اسے ایک مثال سے سمجھنا آسان ہو گا مثلاً ایک شخص کا انتقال ہوا، اس نے ترکہ میں تیس ہزار روپے اور صرف ایک لڑکا اور ایک لڑکی وارث چھوڑے۔ اب ازروئے قانونِ اسلامی لڑکے کو بیس ہزار روپیہ، لڑکی کو دس ہزار ملے۔ بعد ازاں دونوں نے شادیاں کیں۔ اور فرض کیجئے دونوں کا مہر دس دس ہزار روپے مقرر ہوا۔ اب صورتِ واقعہ یہ بنی کہ لڑکے کے پاس دس ہزار روپیہ مہر کے نکل گئے، اور لڑکی کے پاس دس ہزار (اس کے شوہر سے ملے ہوئے) آ گئے۔ اس طرح لڑکی کے پاس بیس ہزار ہو گئے، اور لڑکے کے پاس دس ہزار ہی رہ گئے، اور وہ بھی بیوی وغیرہ کے اخراجات میں جلد صرف ہو جائیں گے اور باقی نہ رہیں گے۔ اس کے بر خلاف لڑکی کے پاس بالعموم رکھے ہی رہیں گے۔
ان تمام پہلوؤں پر گہری نظر جس کی ہو گی وہ بھلا اس حکیمانہ قانون پر اعتراض کر سکے گا؟ بلکہ عجب نہیں کہ اس کے برعکس عورت کو زیادہ حصہ ملنے اور مرد کو کم ملنے کی شکایت کرنے لگے۔ لیکن مرد کو خداوند تعالیٰ کی طرف سے کسبِ معاش کی جو صلاحیتیں اور مواقع دیے گئے ہیں ان کے پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ شکایت بھی باقی نہ رہے گی۔

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور جہادِ آزادی

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ۶ ذوالقعدہ ۱۲۴۴ھ سوموار کے دن چاشت کے وقت قصبہ گنگوہ ضلع سہارنپور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد حضرت مولانا ہدایت احمد صاحبؒ ۳۵ ویں پشت پر سیدنا حضرت ابو ایوب خالد بن زید انصاری الخزرجیؓ سے جا ملتے ہیں۔ آپ کے والد ماجد نے بہ عمر پینتیس سال ۱۲۵۲ھ میں گورکھپور میں انتقال فرمایا۔ اس وقت قطبِ عالم حضرت مولانا رشید احمد صاحب علیہ الرحمہ کی عمر صرف سات سال کی تھی۔ مولانا کے دو حقیقی بھائی تھے۔ ایک بڑے، حضرت مولانا عنایت احمد صاحبؒ جو فارسی کی ابتدائی کتابوں میں مولانا کے استاد بھی تھے، اور دوسرے چھوٹے سید احمد جو نو سال کی عمر میں انتقال کر گئے، اور دو بہنیں تھیں۔ ایک حقیقی مسماۃ فصیحاً اور دوسری سوتیلی جن کا نام امۃ الحق تھا۔
حضرت مولانا علیہ الرحمہ کا ایک لڑکا ولادت کے بعد چند ایام ہی کی عمر میں فوت ہو گیا تھا، اور دوسرا صاحبزادہ مولانا حکیم مسعود احمد صاحبؒ ۱۴ جمادی الثانی ۱۲۷۸ھ کو پیدا ہوا، اور ایک لڑکی بنام ام ہانی تین چار سال کی عمر میں انتقال کر گئیں، اور دوسری صاحبزادی صفیہ خاتون تھیں جو حافظ محمد یعقوب صاحبؒ کی والدہ تھیں۔
مولانا نے نو عمری ہی میں فارسی کی کتابیں کرنال میں اپنے ماموں حضرت مولانا محمد تقی صاحبؒ سے پڑھیں جو فارسی کے قابل ترین استاد تھے۔ علم فارسی سے فارغ ہونے کے بعد آپ کو عربی کا شوق ہوا۔ آپ نے ابتدائی صرف و نحو کی کتابیں حضرت مولانا محمد بخش صاحب رامپوریؒ سے پڑھیں۔ استاد کی ترغیب سے آپ نے بہ عمر سترہ سال ۱۲۶۱ھ میں دہلی کا سفر کیا اور حضرت مولانا قاضی احمد الدین صاحب جہلمیؒ سے تعلیم شروع کی۔ قاسم العلوم و الخیرات حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ سے، جو دہلی میں اجمیری دروازہ کے قریب صدر مدرس تھے، تعلیم شروع کی۔ اور پھر دونوں حجۃ الاسلام حضرت نانوتویؒ اور قطب الارشاد حضرت گنگوہیؒ ہم سبق ہو گئے اور بہت تھوڑے عرصہ میں کتابیں ختم کر لیں اور حفظ قرآن پاک کی نعمتِ عظمٰی سے بہرہ ور ہوئے۔ آپ کا نکاح خدیجہ خاتون علیہا الرحمہ سے ہوا۔ حضرت مولانا حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکیؒ کے ہاتھ پر سلاسل اربعہ میں بیعت کی۔
ظالم برطانیہ کے خلاف جب رمضان المبارک ۱۲۷۳ھ، مئی ۱۸۵۷ء میں ہندوستان میں تحریکِ آزادی شروع ہوئی تو اس جہاد میں (جس کو کم بخت مورخ غدر لکھنے سے نہیں چوکتے) حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی، حضرت مولانا نانوتوی، حضرت مولانا گنگوہی اور حضرت حافظ محمد ضامن صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم نے بھرپور حصہ لیا۔ موخر الذکر تو جہادِ شاملی میں شہید ہو گئے۔ اس جہاد کی پرزور تحریک کئی وجوہ کی بنا پر ناکام ہو گئی اور سابق تینوں حضرات کے خلاف حکومتِ برطانیہ نے وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور گرفتار کرنے والوں کے لیے صلہ اور انعام تجویز کیا۔ اس لیے طالبِ دنیا لوگ ان کی تلاش میں ساعی اور ان کو گرفتار کروانے کی تگ و دو میں سرگرداں رہے۔ حضرت حاجی صاحبؒ اپنے مرید صادق جناب راؤ عبد اللہ خان صاحبؒ کے اصطبل اسپاں میں پنجاماسہ ضلع انبالہ میں روپوش ہو گئے۔ کسی بدبخت مخبر نے حکومت کو خبر کر دی اور سرکاری عملہ آ پہنچا اور راؤ صاحبؒ سے گھوڑوں کی دیکھ بھال کے بہانہ سے پورے اصطبل کا محاصرہ کر کے تلاشی لی مگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت مولانا کو ان کی نگاہ سے اوجھل رکھا اور وہ خائب و خاسر ہو کر بے نیل مرام واپس چلے گئے۔
لیکن برطانیہ ظالم کی آتشِ انتقام اس سے کب ٹھنڈی ہو سکتی تھی۔ مولانا گنگوہیؒ کا تعاقب اور تلاش بدستور جاری رہی۔ مولانا ظالموں کی نگاہوں سے بچ کر رامپور پہنچے اور حضرت حکیم ضیاء الدین صاحبؒ کے مکان میں ٹھہرے اور وہیں سے ۱۲۷۶ھ کے شروع میں گرفتار کیے گئے اور سہارنپور کے جیل خانہ میں پہنچا کر جنگی پہرہ کی نگرانی میں دے دیے گئے۔ تین چار دن آپ کو کال کوٹھڑی میں اور پھر پندرہ دن جیل خانہ کے حوالات میں مقید رکھا گیا۔ اس کے بعد پیدل ہی براستہ دیوبند مظفر نگر کے جیل خانہ میں منتقل کر دیا گیا اور تقریباً چھ ماہ وہاں رہے۔
بالآخر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے باعزت رہائی نصیب ہوئی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ظالم برطانیہ کے قدم مضبوط ہو چکے تھے اور کوئی خطرہ باقی نہ رہا تھا اس لیے مسلمانوں کی ایک مقتدر شخصیت کو رہا کر کے ہی ملکی شورش کو ختم کرنا مناسب سمجھا گیا۔ اور مولانا گنگوہیؒ، مولوی ابو النصر علیہ الرحمہ اور ان کے والد مولوی عبد الغنی صاحب علیہ الرحمہ متعلقین و احباب کی معیت میں گنگوہ پہنچے اور گنگوہ میں ۱۳۱۴ھ تک ایک کم پچاس سال تک برہما، سندھ، بنگال، پنجاب، مدراس، دکن، برار اور افغانستان وغیرہ اطراف و اکناف کے طلبہ دین آپ سے مستفید ہوتے رہے۔
۱۲۸۰ھ میں اللہ تعالیٰ نے حج کی سعادت نصیب فرمائی اور یہ حجِ فرض تھا۔ دوسرا حج ۱۲۹۴ھ میں نصیب ہوا جو حجِ بدل تھا اور تیسرا حج ۱۲۹۹ھ میں کیا، یہ بھی حجِ بدل تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو صالح اولاد سے بھی نوازا اور بے شمار دینی خدمات آپ سے لیں اور لاتعداد تلامذہ، خلفاء اور اولاد کے صدقہ جاریہ کے علاوہ فتاوٰی رشیدیہ، اوثق العرای، ہدایہ الشیعہ، سبیل الرشاد، امداد السلوک، القطوف الدانیہ، زبدۃ المناسک، لطائف رشیدیہ، رسالہ تراویح، رسالہ وقف، فتوٰی ظہر احتیاطی، فتوٰی میلاد، ہدایت المعتدی، رسالہ خطوط وغیرہ، علمی ذخیرہ چھوڑ کر ۱۳۲۳ھ میں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ

مولانا مشتاق احمد

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لا ساقی
مخدوم العلماء حکیم العصر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کو آج نور اللہ مرقدہ لکھتے ہوئے دل خون کے آنسو رو رہا ہے، قلم لرز رہا ہے۔ حضرت کی پاکیزہ ادائیں، مومنانہ فراست، دلنشین فرمودات دل و دماغ میں امنڈتے چلے آ رہے ہیں۔ قادیانیت کے خلاف حضرت کی للکار سے باطل تھرا رہا ہے۔ مولانا لدھیانویؒ ایک بھرپور مجاہدانہ زندگی گزار کر اللہ جل شانہ کے حضور پہنچ گئے لیکن فتنہ قادیانیت کے خلاف جو عوامی شعور انہوں نے پیدا کیا وہ الحمد للہ برقرار ہی نہیں روز افزوں بھی ہے۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے اور مختلف شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے اپنے بعد کام سنبھالنے کے لیے ایک ٹیم تیار کر دی ہے جو کہ ان شاء اللہ ان کے مشن کو آگے بڑھائے گی اور مولانا لدھیانوی کا نام زندہ رہے گا۔
لہرا چکی وہ برق مگر اس کی تاب سے
ذروں میں زندگی ہے غزل خواں اسی طرح
ردِ قادیانیت پر بلامبالغہ سینکڑوں نہیں ہزاروں علماء کرام نے قلم اٹھایا ہے۔ ان میں وہ بھی تھے جنہوں نے مشکل اور علمی انداز اختیار کیا۔ وہ بھی تھے جن کا اندازِ تحریر دل نشین بھی تھا اور عوامی بھی، عام فہم بھی تھا اور علمی دلائل سے بھرپور بھی، منفرد بھی تھا اور الہامی بھی۔ حضرت مولانا لدھیانویؒ دوسری قسم کے علماء کرام سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت کے اندازِ تحریر کو مختصر طور پر سہل ممتنع کہا جا سکتا ہے۔ احقر کا حضرت سے تعارف ان کی تحریروں کے واسطہ سے ہوا۔ ان کی علمیت، ان کا دل نشین اور منفرد انداز احقر کو ان کا شیدائی بناتا چلا گیا۔ حضرت کے مضامین کا ایک مجموعہ ’’حسنِ یوسف‘‘ کے نام سے شائع ہوا جو کہ واقعی اس نام کا مستحق تھا۔ ان کے اس معنوی حسن نے ہر کہ و مہ کو اپنا گرویدہ کر رکھا تھا۔ احقر بھی ردِ قادیانیت کے شعبہ کا ایک طالب علم ہے اور حضرت ٹھہرے اس فن کے امام۔ ان سے استفادہ کی خاطر چند بار خط و کتابت ہوئی۔ حضرت نے بڑی فراخ دلی سے جوابات سے نوازا۔
ان سے شعبان ۱۴۲۰ھ میں چناب نگر میں براہ راست پہلی اور آخری ملاقات ہوئی۔ محترم مولانا اللہ وسایا صاحب نے تعارف کرایا کہ یہ مولانا منظور احمد چنیوٹی کے مدرسہ میں شعبہ ردِ قادیانیت کے استاذ ہیں اور آپ سے مولانا چنیوٹی کی کتاب پر تقریظ لکھوانے آئے ہیں۔ حضرت نے بے ساختہ اس ناکارہ کو اپنے سینہ سے لگا لیا، معانقہ فرمایا اور چند منٹ اسی کیفیت میں دعاؤں سے نوازتے رہے۔ احقر ان کی اپنے معاصرین کے متعلق صاف دلی، چھوٹوں سے حوصلہ افزائی، بزرگانہ شفقت سے بہت متاثر ہوا۔ اسی سفر میں حضرت کا طلباءِ ردِ قادیانیت کو اس سے مدلل خطاب بھی سننے کا موقع ملا جو کہ احقر کے لیے ان کی زندگی کا آخری خطاب تھا۔
خواب بن کر رہ گئی ہیں کیسی کیسی محفلیں
خیال بن کر رہ گئے ہیں کیسے کیسے آشنا

احقر کے خیال میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی نور اللہ مرقدہ میں علمی اعتبار سے دو خصوصیات ایسی تھیں جو کہ اپنے ہم عصروں سے انہیں ممتاز کرتی تھیں:

(۱) عصرِ حاضر میں اسلامی دنیا اور سامراجی طاقتوں کے تعلقات کے اتار چڑھاؤ پر ان کی گہری نظر تھی۔ دورِ حاضر کے تمام فتنوں سے بھی وہ بخوبی آگاہ تھے۔ ان فتنوں کے پس منظر، تہہ منظر اور پیش منظر کے موضوع پر مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔ ان کی تحریریں اس دعوٰی کا واضح ثبوت ہیں۔

(۲) ردِ قادیانیت کے موضوع پر وہ تمام نزاکتوں سے آگاہ تھے۔ قادیانیوں کے جتنے داؤ پیچ وہ جانتے تھے، بہت کم علماء ان کی ہم سری کا دعوٰی کر سکتے ہیں۔ قادیانیت سے متعلقہ فنی باریکیوں پر ان کی گرفت نہایت مضبوط تھی۔ قادیانی دلائل کے جوابات بخدا کم از کم احقر کو تو الہامی معلوم ہوتے تھے۔ وہ مومنانہ بصیرت جو کہ ’’تحفہ قادیانیت‘‘ سے آشکارا ہے، محض کتابوں کے پڑھنے سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ محض الٰہی انعام تھا ان کی ذات پر۔ ان سے براہ راست استفادہ کا موقع نہ مل سکنے کے باوجود احقر ردِ قادیانیت کے حوالے سے ان کو اپنا استاذ سمجھتا ہے، ان کا جب بھی خیال آتا ہے دل سے بے اختیار دعائیں نکلتی ہیں۔ 

۱۸ مئی ۲۰۰۰ء کو بوقتِ ظہر حضرت کی شہادت کی خبر حواس پر بجلی بن کر گری۔ دل و دماغ کوئی بھی کام کرنے سے انکاری تھے۔ ایک سکتہ کی سی کیفیت طاری تھی جو کہ رات گئے تک برقرار رہی۔ بار بار یہ سوال ذہن میں گھومتا رہا کہ ملک و ملت کے اس بہی خواہ، اسلامی سرحدوں کے اس نظریاتی محافظ، جہادی تحریکوں کے اس سرپرست کا قصور کیا تھا؟ انہیں کس جرم کی سزا ملی ہے؟ ہماری حکومت اور خفیہ ایجنسیاں کہاں سو رہی ہیں؟ علماء کرام کے خون سے کب تک ہولی کھیلی جاتی رہے گی؟

مولانا لدھیانویؒ عاش سعیدا و مات شہیدا کا مصداق تھے۔

وہ حلم و تواضع اور وہ طرزِ خود فراموشی
خدا بخشے جگر کو لاکھ انسانوں کا انسان تھا


اکیسویں صدی اور اسلام

ڈاکٹر مراد ہوف مین

(الجزائر اور مراکش میں جرمنی کے سابق سفیر نامور نومسلم جرمن دانشور ڈاکٹر مراد ہوف مین نے گزشتہ دنوں انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کے زیراہتمام کراچی میں ’’اکیسویں صدی اور اسلام کے پھیلاؤ کے امکانات‘‘ کے حوالے سے ایک لیکچر دیا جس کا ترجمہ اور تلخیص جناب ذوالقرنین اور جناب امجد عباسی نے کیا ہے۔ اسے ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور کے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)

بنی نوع انسان کی تاریخ کا کوئی بھی معروضی مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کو لامحالہ ان سوالات سے سابقہ پیش آتا ہے:

  • میں کہاں سے آیا ہوں؟
  • میں یہاں کیوں موجود ہوں؟
  • مجھے یہاں سے آگے کہاں جانا ہے؟

یہ ناگزیر سوالات ہم میں سے ہر کسی کو فلسفی بنا دیتے ہیں، خواہ ہمیں اس کا شعور ہو یا نہ ہو۔ مذہب ان بنیادی سوالات کا جواب دیتا ہے۔ قدیم دور میں تاؤمت، ہندومت اور بدھ مت نے، اور اس کے بعد یہودیت، عیسائیت اور اسلام نے ان سوالات کے جوابات دیے اور انسانی تاریخ کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کیا۔

نظریات کی صدی

۱۸ویں صدی کے بعد ہم ایک ایسے دور میں داخل ہوئے جسے آئیڈیالوجیکل کہا جا سکتا ہے۔ یہ عقلیت اور جدیدیت کے تصورات کا دور تھا۔ ایک ایسے دور میں مذہب کا تصور عوامی شعور سے محو ہو گیا اور عملاً نظریات نے مذہب کی جگہ لے لی۔ سیکولر نظریوں نے، جن کا مذہب سے کوئی رشتہ نہیں تھا، خود مذاہب کی شکل و صورت اختیار کر لی۔

مارکس، اینگلز اور لینن کے ہاتھوں تشکیل پانے والی مارکس ازم کی آئیڈیالوجی وہ آئیڈیالوجی سمجھی جا سکتی ہے جس نے پہلی بار یہ شکل اختیار کی۔ مارکس ازم نے مذہب کی طرح اپنے پیروکاروں کو مکمل طور پر اپنے سانچے میں ڈھالنے اور کنٹرول کرنے کی کوشش کی اور ان سے اخلاقی طور پر اس کا پابند رہنے کا تقاضا کیا۔

اٹلی، جرمنی، اسپین، پرتگال اور یونان میں فسطائیت کی مختلف شاخوں نے اسی اشتراکی ویژن میں نسل پرستی پر مبنی شاؤنزم کی تیز خوراک بھی شامل کر دی تاکہ اس کی مدد سے یہودیوں جیسی نسل کے لوگوں اور مشرقی یورپ کی سلاف نسل کے خلاف شرمناک جرائم کا جواز پیدا کیا جا سکے اور لوگوں کو متحرک کیا جا سکے۔ ہر موقع پر مذہب موجود رہا۔ ’’میری جدوجہد‘‘ جرمنی میں مقدس دستاویز اور ہٹلر کی شخصیت نجات دہندہ قرار پائی۔ ہٹلر کے بارے میں یہ خیال راسخ کیا گیا کہ وہ ملک کو ایک خوشحال دور میں لے جائے گا اور یہ ایمپائر ۱۰۰۰ سال تک قائم رہے گی۔ یہاں بھی نازی پارٹی کا وجود چرچ کی مانند موجود تھا، اور اسی کو یہ بتانے کا اختیار حاصل تھا کہ کیا حق ہے اور کیا باطل۔ اور ایس ایس فوجی دستوں کو مذہبی تنظیموں کے اسلوب میں منظم کیا گیا تھا۔

مارکس ازم اور فاشزم کے ردعمل میں دوسرے نظریات پوری قوت کے ساتھ ابھرے۔ میری مراد مغربی لبرل ازم سے ہے، جس میں سرمایہ داری (کیپٹل ازم) اور فرانسیسی طرز کا فاشزم شامل ہیں، جس کی رو سے اجتماعی زندگی سے مذہب کی جڑ کاٹنا ضروری ہے۔ نوآبادیاتی دور کے بعد عرب دنیا میں نیشنلزم، لبرلزم، فاشزم اور سوشلزم غرض یہ کہ تمام مغربی نظریات کو آزمایا گیا لیکن سب بری طرح ناکام ہو گئے۔

اس پس منظر میں بیسویں صدی کو نظریات کی صدی (Ideological Century) کہا جا سکتا ہے۔

اسلام، ایک نظریہ حیات

اب ہم اپنی توجہ اس مشترک عنصر پر مرکوز کرنا چاہیں گے جو ۱۹ویں صدی اور ۲۰ویں صدی کے تمام نظریات کی پہچان ہے۔ یہ سب نظریات مادیت پر مبنی تھے، ان کا مطمح نظر سیکولر تھا، اور ان کی بصیرت وحی و الہام سے خالی تھی۔ یہی سبب ہے کہ ان میں سے کوئی نظریہ بھی بنیادی انسانی سوالات کا جواب نہ دے سکا، یعنی انسان کہاں سے آیا، کیوں آیا، اور کس طرف جا رہا ہے؟

عقلیت پسندی کے دور میں اور اس کے بعد، جلد بعد، عمانویل کانٹ، آگسٹے کومٹے اور فریڈرک ہیگل جیسے فلسفیوں کا خیال تھا کہ انسان مذہب سے آزادی حاصل کرنے کے بعد تنہا اپنی عقلی صلاحیتوں کی مدد سے اپنی دنیا کا آقا بن سکتا ہے۔ عقلیت پسندی بالآخر انسان کو خوشحال، پُراَمن اور انسانیت دوست دنیا کی ضمانت دیتی ہے۔

اب ہم زیادہ بہتر جانتے ہیں اور اس پر حیران نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جدیدیت صرف عقل کے ذریعے انسان کی تخریبی جبلتوں پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ مذہب کو ترک کر کے جنت ارضی کی بجائے ہمیں ناقابلِ یقین حد تک وحشیانہ عالمی جنگوں، کیمیائی اور ایٹمی جنگی اسلحہ، قتل و غارت اور نسلی صفائی جیسے مصائب اور تباہیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمیں اس پر کوئی حیرانی نہیں، اس لیے کہ بدیہی طور پر صرف مذاہب ہی انسان کو اس بلند سطح تک لے جا سکتے ہیں جہاں سے وہ نسلی جبلتوں، شہوانی جذبات اور انا پرستی پر قابو پا سکے۔ جب خدا کو بادشاہت کے مقام سے اتار کر خود انسان ہر چیز کا معیار بن بیٹھا تو تمام قوانین اس کی صوابدید پر منحصر ٹھہرے۔ اس عمل میں الوہی قانون کا نظریہ رد کر دیا گیا لیکن سب کو ایک کھونٹے سے باندھ کر رکھنے والے ’’فطری قانون‘‘ کو تلاش کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔

ذہانت سے زندگی کا مشاہدہ کرنے والے مغربی افراد ایک نسل قبل اس تلخ نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر انسان مذہب کی بازیافت نہ کر سکا تو بنی نوع انسان نہ صرف اپنے آپ کو تباہ کر لے گی بلکہ اپنے ساتھ کرہ ارض کو بھی لے ڈوبے گی۔

دونوں اہلِ دانش نے اس بدیہی حقیقت کو دریافت کر لیا ہے کہ کوئی انسانی تہذیب کبھی روحانیت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکی۔

اس پس منظر میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ ۲۰ویں صدی کے ساتویں عشرے سے اسلام غیر متوقع لیکن نمایاں طور پر عالمی منظر پر ابھر رہا ہے۔ ایک ایسے مذہب سے کوئی توقع نہیں کی جا سکتی تھی جس پر شیخ سرہندی، شاہ ولی اللہ، اور محمد بن عبد الوہاب جیسی شخصیتوں کے باوجود ۴۰۰ برس سے جمود کی حالت طاری رہی ہو، اور جس کے تمام ماننے والوں کو یورپی اقوام نے اپنی نوآبادیات میں شامل کر لیا ہو۔

مغربی مستشرقین کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، وہ تو اسلام کا مطالعہ ایسے کر رہے تھے جیسے ماہرینِ حیوانات ان انواع کا مطالعہ کرتے ہیں جن کا وجود تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ اسلام ان کے لیے تاریخ کے ایک دلچسپ موضوع سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ میکس ہینگ نے ۱۹۰۱ء میں جرمن زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھا:

’’بظاہر اسلام کا سیاسی کردار ختم ہو چکا۔‘‘

ہر شخص کا یہی خیال تھا، کوئی یہ نہیں سمجھتا تھا کہ الافغانی اور محمد عبدہ اسلامی احیا کا پیغام لائیں گے۔ کوئی شخص یہ پیشگوئی نہیں کر سکتا تھا کہ علامہ محمد اقبال، حسن البنا، سید قطب، یا ابو الاعلیٰ مودودی اور محمد اسد جیسے لوگ دعوتِ اسلامی کو مشرق و مغرب میں پھیلانے کا ذریعہ بن جائیں گے۔ حیرت ہے کہ آج آئس لینڈ سے نیوزی لینڈ اور کوریا سے کولمبیا تک دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جس میں سرگرم و فعال مسلمان موجود نہ ہوں۔ ۱۰۰ سال پہلے جو تعداد کے اعتبار سے دنیا کا ساتواں حصہ تھے، اب ان کی تعداد دنیا کی آبادی کا ۲۰ فیصد ہے۔ اب لندن، پیرس، روم، ویانا، لزبن، زغرب، نیویارک اور لاس اینجلس جیسے شہروں میں نمائندہ مساجد قائم ہیں۔ مزدور کارکنوں کی نقل مکانی اور مغربی یونیورسٹیوں کی دلکشی کی بدولت لاکھوں مسلمان یورپ اور امریکہ میں سرگرمِ عمل ہیں۔ ہر کہیں اسلام دوسرا سب سے بڑا مذہبی گروہ بنتا جا رہا ہے۔ آج کوئی اخبار یا ٹی وی چینل ایسا نہیں جس میں اسلامی موضوعات شامل نہ ہوں۔ اور صرف حال ہی میں یہ ممکن ہوا ہے کہ تمام یورپی زبانوں میں کلاسیکل اسلامی لٹریچر دستیاب ہے۔ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کا سب سے زیادہ ترجمہ کیا جا رہا ہے اور زمین پر جس کی تلاوت سب سے زیادہ کی جاتی ہے۔

چونکہ یہ سب کچھ ۲۰ویں نظریاتی صدی میں ہوا ہے، اس لیے بعض اسلامی تحریکیں بنیادی طور پر سیاسی مقاصد کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ صرف مایوسی کے باعث تشدد کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے اسلام کا حوالہ بھی اکثر ایک آئیڈیالوجی کے طور پر دیا جاتا ہے۔ یہ بات اس لحاظ سے تو درست ہے کہ اسلام بھی دنیا کے امور چلانے کے لیے تصورات کا ایک مجموعہ پیش کرتا ہے، لیکن ہمیں اپنے عقیدے کا حوالہ ایک آئیڈیالوجی کے طور پر دینے سے گریز کرنا چاہیے، اس لیے کہ اصطلاح سے سیاست اور ایسے دنیاوی تصور کا گمان ہوتا ہے جس میں آخرت شامل نہیں۔

مذہب کا مستقبل

صورتحال کچھ بھی ہو، یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ تیسرے ہزاریے کے آغاز پر صرف دو نقطہ ہائے نظریاتی رہ گئے ہیں جو مغرب کے انسان کے دل و دماغ کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں۔ یعنی جدیدیت کے بعد سیکولرازم اور اسلام۔ ان کے علاوہ کوئی تیسرا متبادل نظر نہیں آتا۔ اگرچہ مغربی دانشوروں میں خال خال ایسے افراد بھی ہیں جو بدھ مت میں کشش محسوس کرتے ہیں مگر وہ شاید کسی دوسرے جنم میں موقع ملنے کا انتظار کریں گے۔

لہٰذا اب نہایت اہم سوال یہ ہے کہ مستقبل کس کا ہو گا؟ علاوہ ازیں کوئی نتیجہ نکالنے سے پہلے اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ہو گا  کہ کیا ۲۱ویں صدی مذہبی ہو گی یا نہیں؟

موجودہ دور میں بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ مذاہب معاشرے سے خارج ہو رہے ہیں۔ اور یہ کیفیت امریکہ سے زیادہ یورپ میں پائی جاتی ہے۔ لوگ گروہ در گروہ مسیحی چرچوں کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ یہ چرچ بھی ہمارے عہد کی روح فیشنوں کے مطابق یکے بعد دیگر مصالحتیں کرتے چلے جا رہے ہیں۔ لہٰذا ہم جنس پرستوں کے پادری پیدا ہو چکے ہیں، لوگ جب اور جیسے چاہیں اسقاطِ حمل کی اجازت لے سکتے  ہیں، خواتین بشپ بھی ہیں، اور روزہ رکھنے کی عملاً کوئی مدت مقرر نہیں۔ یقین کیجئے کہ اس طرح چرچ تیزی سے منحرف ہو رہے ہیں۔  چنانچہ اب یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ مسیحیت پر ایمان رکھنے والوں کی اکثریت (حتٰی کہ بعض پروٹسٹنٹ پادری بھی) مسیحؑ کی الوہیت اور موت کے بعد دوبارہ بعثت میں یقین نہیں رکھتی۔

بہرحال یہ صورتحال کی مکمل تصویر نہیں، ابھی تک نجی رویوں کا تابع، بے قاعدہ مذہب ادھر ادھر پھیلا ہوا ہے۔ مذہب مسلّمہ چرچوں سے ہٹ کر اپنے وجود کے لیے نئے سہارے تلاش کر رہا ہے۔ آپ مغربی دنیا کی کسی بک شاپ میں چلے جائیے، آپ دیکھیں گے کہ مذہب کے مقابلے میں اسرار و رموز اور طلسمات پر مشتمل کتب کا سیکشن کہیں بڑا ہو گا۔ لوگ آج بھی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کا مستقبل کیا ہے؟ وہ ہر قسم کے رازوں کو جاننا اور خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ بنیادی طور پر انہی مذہبی خواہشوں نے تمام صنعتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا ہے۔ لوگ کسی بھی چیز کا تجربہ کرنے کے لیے  آمادہ ہیں۔ خواہ وہ دشمن پرستی ہو یا جنتر منتر، شیطان پرستی ہو یا ہندو گرو۔

میری تشخیص یہ ہے کہ یہ لوگ جن کی اکثریت نئی نسلوں سے تعلق رکھتی ہے، عبوری طور پر مذہب کے لیے سرگرداں ہیں۔ بے معنویت اور روحانیت سے خالی زندگی سے ان کا دل اچاٹ ہو چکا ہے اور وہ اس حقیقت کی تلاش میں ہیں کہ کیا واقعی کوئی دنیا ایسی ہے جس میں ’’ہر چیز چلی جاتی ہے‘‘۔ ان کی پرورش پابندیوں سے آزاد ماحول میں ہوئی ہے اور ان کے دلوں میں قیادت، حقیقی اقدار اور حق و باطل کے قابلِ اعتماد معیارات کو پا لینے کی شدید خواہش موجزن ہے۔ مختصر یہ کہ ان لوگوں میں بے پناہ مذہبی امکانات موجود ہیں جو اکیسویں صدی کو مذہبی دور میں بدل سکتے ہیں۔

چنانچہ سوال یہ ہے کہ کیا ماضی کی نسبت آج عیسائیت کے مقابلے میں اسلام کو بہتر متبادل تصور کیا جائے گا یا نہیں؟ اور کیا اس وقت رائج نجی نوعیت کے مذہب کے مقابلے میں اجتماعی عبادت کو ترجیح دی جائے گی یا نہیں؟

جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ یورپ میں مسیحیت ناقابلِ اصلاح ہے۔ اسی طرح مجھے یقین ہے کہ اہلِ مغرب ایک نیا مصنوعی مذہب بنانے کے لیے بھی اپنی کوششوں کو یکجا نہیں کر سکتے۔ ایسا مذہب چل نہیں سکے گا، اس لیے کہ مذہب کے لیے ایک ایسی ہستی کا تصور ناگزیر ہے جو شک و شبے سے بالا ہو۔ صرف وحی و الہام پر ہی مذہب کی تعمیر ممکن ہے۔ 

جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے، میں زیادہ پُر امید ہوں۔ نوجوان نسل آپس کے تعلقات کو عزیز رکھتی ہے اور بڑھاپے میں تنہائی اور مجرد زندگی کے تصور کے بارے میں بہت فکرمند ہے۔ فی الواقع یہ نوجوانوں کے لیے ایک اہم اثاثہ ہے کہ اسلام اپنے ساتھ خاندان، امت اور اخوت کے تصورات لاتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں مغربی مسیحیوں کے درمیان اپنے ہمسائے سے محبت کے تصور کے مقابلے میں اخوت کا رشتہ کہیں زیادہ حقیقی طور پر قائم ہے۔ اگر مغربی معاشروں کی جذباتی سردمہری ایک حقیقت ہے تو اسلامی امہ کی محبت اور گرمجوشی ہم عصر مغربی بچوں کی ایک بنیادی ضرورت پورا کر سکتی ہے۔

نے ایک ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے جس میں ہر عام امریکی کم از کم ایک بار نفسیاتی معالج سے مشورے پر مجبور ہے۔ ایسے لوگ اس بدیہی حقیقت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ مسلمانوں کی اکثریت اپنی ذات سے مطمئن ہے، نفسیاتی بوجھ سے بے نیاز اور عجلت پسند نہیں۔ مختصر یہ کہ وہ اپنے اللہ کی رضا پر راضی اور اپنے ماحول اور اپنی ذات سے مطمئن لوگ ہیں۔

ان تمام اسباب کی بنا پر میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ بہت سے لوگ جو اپنی روز مرہ زندگی کی بھاگ دوڑ سے تنگ آ چکے ہیں، اسلام کے بارے میں زیادہ جاننے کی جانب مائل ہوں گے۔

اسلام کے امکانات

(۱) اس سوال کا جواب کہ کیا لوگ اسلام کو دریافت کر سکیں گے یا نہیں؟ اس بات پر منحصر ہے کہ مسلمان اسلام کو درست طور پر پیش کرتے ہیں یا اس کی غلط ترجمانی کرنے لگتے ہیں۔ سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی جنہیں چاہتا ہے سیدھی راہ پر چلاتا ہے۔ سان فرانسسکو کے جیفرے لینگ کی طرح بہت سے نومسلم صرف قرآن کریم پڑھ کر مسلمانوں کے حلقے میں شامل ہو گئے، حالانکہ اس سے قبل ان کا مسلمانوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا، لیکن بحیثیت مجموعی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو داعی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔

(۲) پہلے میں اس بات پر بحث کرنا چاہوں گا کہ مسلمانوں کو اشاعتِ اسلام کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ اس تجویز کو اس ایک جملے میں سمیٹا جا سکتا ہے کہ

’’اسلام کو مغربی معاشرے اور تہذیب کی صحتمندی کے لیے ایک اہم علاج کے طور پر پیش کیجئے، ان امراض کے مداوا کے طور پر جو مغرب کو ہلاک کرنے والے ہیں۔‘‘

میں سمجھتا ہوں کہ پورے ادعا اور فعال انداز میں دعوت پیش کرنے کی ضرورت ہے، معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ دعوت کا انداز ایسا نہیں ہونا چاہیے جیسے کوئی چیز طلب کی جا رہی ہو، بلکہ ایسا ہونا چاہیے جو کسی کو کچھ پیش کرتے وقت اختیار کیا جاتا ہے۔ اور دینے کے لیے ان باتوں کے علاوہ، جن کا ذکر میں قبل ازیں کر چکا ہوں، ہمارے پاس بہت کچھ ہے:

(الف)

مسلمانوں کا تصورِ الٰہ، بے مثل خدائے واحد کا تصور، جو بیک وقت ہر کہیں موجود ہے لیکن سب سے ماورا ہے، جسے حدودِ زمان و مکان میں مقید نہیں کیا جا سکتا۔ وہ واحد ہستی جو مطلق وجود رکھتی ہے، اللہ کا یہ وہ واحد تصور ہے جو جدید تعلیم یافتہ انسان کو مطمئن کر سکتا ہے۔ توحید یعنی ہر قسم کی آلائش سے پاک یہ تصور کہ اللہ ایک ہے، ہمارا بڑا اثاثہ ہے۔

(ب) دنیا کی کوئی تہذیب خاندان کا ڈھانچہ ٹوٹ جانے کے بعد دیر تک زندہ نہیں رہ سکتی۔ موجودہ دور میں بالفعل خاندان شدید حملے کی زد میں ہے۔ اور ریاست بھی اس میں شامل ہے جو رشتہ ازدواج کے بغیر تعلقات کو فروغ دینے کے لیے ہر ممکن کام کر رہی ہے۔ طلاق کی شرح خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ بڑے بڑے شہروں میں آدھے گھر مجرد افراد چلا رہے ہیں، جن میں وہ عورتیں بھی شامل ہیں جو بچہ تو چاہتی ہیں، شوہر نہیں۔ بچوں کی ایک بڑی تعداد باپ کے بغیر پرورش پا رہی ہے۔ بہت سے بچے کس قدر عدمِ توازن کا شکار ہیں، اس کا اندازہ تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان سے کیا جا سکتا ہے۔ ان کے دل میں بزرگوں اور خاندان کا احترام اتنا کم ہو چکا ہے کہ اب امریکہ میں ناپسندیدہ والدین سے نجات کے لیے بچے قانونی دعوٰی بھی کر سکتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ مسلمان خاندان گلوبلائزیشن اور اقتصادی مجبوریوں اور ٹیلی ویژن کے زیر اثر شدید دباؤ میں ہیں۔ تاہم عمومی طور پر مسلمان خاندان مضبوط تانے بانے میں منسلک ہیں اور عام مغربی گھرانوں کے مقابلے میں زیادہ تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے اس اثاثے کا تحفظ کرنا چاہیے۔

(ج) مغربی معاشرے کو اپنے وجود میں دوسرا بڑا خطرہ ہر قسم کی منشیات سے درپیش ہے۔ جن میں سگریٹ، کوکین، ایل ایس ڈی اور دوسری نشہ آور ادویہ شامل ہیں۔ بلکہ ٹی وی اور انٹرنیٹ کو بھی ان میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ کسی مبالغے کے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ نشہ مغربی معاشرے کے پورے وجود میں سرایت کر چکا ہے۔ بڑے صدمے کی بات ہے کہ  لوگ جام، گولی اور خاص سگریٹ کے بغیر جی نہیں سکتے۔ ایسے لوگ بالفعل شرک کی ایک جدید قسم پر عمل پیرا ہیں۔ وہ خدا کے سوا کسی دوسری چیز کے غلام بن چکے ہیں۔ اور اگر کہیں انہیں روزے کے قواعد کی پابندی کرنی پڑے تو یہ بات اور واضح ہو جائے گی، وہ ایسا نہیں کر سکیں گے اس لیے کہ وہ اپنے وجود کے مالک نہیں رہے۔ 

مسلمان اس امر پر فخر کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے وجود میں سنجیدہ فطرت ہیں۔ وہ ہر لمحے مستعد اور چوکس رہتے ہیں اور کبھی مخمور نہیں ہوتے۔ نہ نشے کے زیراثر مہلک حادثات کے قصوروار ہوتے ہیں۔ شاید ہی کوئی دوسری بات اتنی صراحت کے ساتھ یہ ثابت کر سکے گی کہ اسلام ایک متبادل طرزِ حیات ہے جو مغرب کو حالتِ نیم خوابیدگی میں تباہی سے بچا سکتا ہے۔

(د) تمام مغربی معاشروں کو اپنے اندر مختلف قسم کے گروہی تعصبات، نسل پرستی، شاؤنزم اور دوسرے مذاہب کے خلاف امتیازی سلوک جیسے خطرات لاحق ہیں۔ ان کی غلامی کی تاریخ کا آج بھی امریکہ میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ ماضی قریب تک جتنی جنگیں یورپ اور امریکہ میں لڑی گئیں وہ اسی قسم کے تعصبات کی وجہ سے برپا ہوئیں۔

اس پس منظر میں جب ذمہ دار مغربیوں کو معلوم ہو گا کہ اسلام نظری اور عملی دونوں اعتبار سے ایک ایسا مذہب ہے جس نے رنگ و نسل کے بجائے تقویٰ کو معیار بنا کر، ہر انسان کو امت میں قبول کر کے، اور خلوصِ دل سے دوسرے مذاہب کو برداشت کر کے، نسل پرستی اور کثیر المقاصد معاشرے کا مسئلہ حل کر دیا ہے تو وہ اسے جنتِ گم گشتہ خیال کریں گے۔ جب میلکم ایکس کو معلوم ہوا کہ امت میں سب نسلیں شامل ہو سکتی ہیں تو اس کے لیے یہ ایک بڑا انکشاف تھا۔

آئیے ہم اس قدر کو عملی زندگی کا حصہ بناتے ہوئے اپنی صفوں میں رنگ، نسل، زبان اور اسی طرح کے دوسرے امتیازات کو مٹا ڈالیں اور اس سے بہترین فائدہ اٹھائیں۔ امریکہ کے لاکھوں افریقی النسل لوگوں نے اسلام قبول کیا کہ حضرت بلالؓ سیاہ فام تھے۔ دوسرے لاکھوں لوگوں کو بھی انہی مقاصد کے تحت کیوں نہ ان کی پیروی پر آمادہ کیا جائے؟ بین المذاہب رواداری کا منشور بھی اسی طرح مساوی افادیت کا حامل ہے جسے سورہ المائدہ کی آیت ۴۸ اور سورہ البقرہ کی آیت ۲۵۶ میں بیان کیا گیا۔ یہ بنیادی رواداری جس پر عالمی مسیحی اتحاد کی تحریک سے پہلے ۱۴ سو برس تک عمل کیا گیا، مغربی لوگوں کی نظر میں اس قدر غیر معمولی ہے کہ وہ اس کی تحسین کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔

ہماری جانب سے اس بات کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے کہ ترکوں کی حکمرانی کے دور میں ۵۰۰ برس تک یونان آرتھوڈکس رہا، لیکن سوال یہ ہے کہ ۸۰۰ برس تک اسپین میں بسنے والے مسلمان کہاں گئے؟

(ہ) نوجوان نسل اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتی ہے اور اپنی آزادی برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ وہ وراثت میں ملنے والی پیشوائی، پادریوں کی مذہبی رسوم، پراسرار عقائد، اور ہر اس چیز سے نفرت کرتے ہیں جو انہیں چرچ کے ادوار کی یاد دلاتی ہے۔ ایسے لوگ اس وقت خوشگوار حیرت میں گم ہو جاتے ہیں جب انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام چرچ، پوپ، رسوم، تجسیمِ خداوندی، تثلیث، صلیب پر نجات، اور ورثے میں ملنے والے گناہوں جیسے پریشان کن تصورات کو تسلیم نہیں کرتا۔ جب انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان سے زیادہ پابندیوں سے آزاد اہلِ ایمان کوئی اور نہیں تو وہ حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے لیے یہ بات باعثِ حیرت ہے کہ وہ کوئی درمیانی وسیلہ قبول نہیں کرتے، خواہ وہ پادریوں اور سینٹ کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو۔ وہ اپنی عبادات میں مکمل انفرادی حیثیت میں اللہ کے روبرو پیش ہوتے ہیں۔ وہ یقیناً اس خبر سے بھی بہت متاثر ہوں گے کہ ہر مسلمان اپنے مرتبے سے قطع نظر امام کے فرائض انجام دینے کا اہل ہے۔

(د) شاید آپ کو یہ بات سن کر حیرانی ہو کہ جنسی معاملات میں مسلمانوں کا ضابطہ آج کل بہت سے نوجوانوں کو مثبت طور پر متاثر کرتا ہے جو ’’اقدار کی قدامت پسندی‘‘ کے جدید نظریے کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں۔ متعدد مغربی خواتین جو گلیوں بازاروں میں سامانِ جنس کے طور پر مردوں کا نشانہ بننے کو توہین آمیز سمجھتی ہیں، ان مسلمان عورتوں کی مداح ہیں جن کا لباس اور رکھ رکھاؤ واضح اشارہ دیتا ہے کہ وہ کوئی ارزاں جنس نہیں ہیں۔ فحش لٹریچر اور فلموں، فیشن شو، حسن کے مقابلوں، اور عریاں جنسی اشتہارات سے عورت کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں آزادئ نسواں کی حامی بہت سی مغربی عورتیں بھی اب سمجھنے لگی ہیں کہ ان کی مسلمان بہنیں بھی اسی مقصد یعنی عورت کے وقار کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں اور وہ یہ کام زیادہ کامیابی سے انجام دے رہی ہیں۔

اسقاطِ حمل کے بارے میں مسلمانوں کے اس موقف کو، کہ اس کی اجازت صرف اسی صورت میں دی جا سکتی ہے جب ماں کی زندگی خطرے میں ہو، ’’حامئ حیات‘‘ حلقوں میں بڑی عزت کا مقام دیا جاتا ہے۔ یہ حلقے اس امر پر نالاں ہیں کہ کیتھولک بشپ بھی ہر طرح کی وجوہ کی بنیاد پر اسقاطِ حمل کی اجازت دینے لگے ہیں۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلام بچے کی زندگی کے حق میں واضح موقف کا حامل ہے۔

مغرب کی خاموش اکثریت ہم جنس پرستی کے خلاف بھی مسلمانوں کے موقف کا احترام کرتی ہے۔ یہ خاموش اکثریت مغرب کی نئی پالیسی کی مذمت کرتی ہے، جس کے تحت ایک ہی جنس کے افراد کے درمیان تعلقات کو ایک طرزِ زندگی سمجھ کر قبول کر لیا گیا ہے۔ مغرب کے بہت سے دانشوروں کو خدشہ ہے کہ عوامی سطح پر ہم جنس پرستی کا مرتبہ بڑھانا، جس میں ہم جنسوں کی شادیاں بھی شامل ہیں، انحطاط اور زوالِ تہذیب کی علامت ہے۔ یہ لوگ اس بات پر شرم محسوس کرتے ہیں کہ سان فرانسسکو میں شہر کے دو حصے ہم جنس پرستوں پر مشتمل ہیں۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ ایسے لوگ مسلم رویے کو پسند کرتے ہیں جس کے تحت بظاہر ’’پیدائشی‘‘ ہم جنس پرستوں کو قابلِ رحم سمجھا جاتا ہے، جبکہ ہم جنس پرستی کو زندگی کا معمول تسلیم کرنے سے انکار کیا جاتا ہے۔

مغرب میں بیک وقت دو انتہائی رویے نظر آتے ہیں: ایک جانب جنس سے مکمل اجتناب ہے تو دوسری جانب بے لگام جنسی آزادی۔ اس لیے مغرب کے صاحبِ نظر لوگ مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے متاثر ہیں جو جنسی جبلت کی حقیقت اور آدمی کی ضروریات کے بارے میں زیادہ متوازن اور باوقار ہے۔ اسلام شادی کے تقدس کو عیسائیت کی رسمی سطح پر نہیں لے جاتا، بلکہ عقلِ سلیم کے مطابق یہ سمجھتا ہے کہ یہ معاہدہ غیر مستقل بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسلام فریقین کے درمیان متاہلِ زندگی کو عبادت قرار دیتا ہے۔

(ز) اقتصادیات کے میدان میں بھی اسلام  کو باعثِ رحمت سمجھا جا سکتا ہے۔ پہلی نظر میں ربا کی ممانعت بے معنی اور ناقابلِ عمل لگتی ہے۔ لیکن بغور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ممانعت نجی کاروبار کو، جس پر سرمایہ داری کی عمارت تعمیر کی گئی ہے، تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔ جب سرمایہ بیشتر نقصان سے محفوظ کاروبار میں صرف کیا جانے لگتا ہے تو اسلام نفع و نقصان کی بنیاد پر کاروبار پر زور دیتا ہے اور سرمائے کے جمود کو توڑنے کی  کوشش کرتا ہے۔

(ح) اسلام کے چند اور پہلو بھی مغربی لوگوں کے لیے کشش رکھتے ہیں جن میں صحت کے اعتبار سے رمضان کے روزے بھی شامل ہیں۔

لیکن آخری تجزیے میں یہ عوامل مغرب اور مشرق کے درمیان سب سے زیادہ اہم اختلاف کی صورت میں سمٹ جاتے ہیں۔ یعنی زندگی کی کوالٹی، جس کے بارے میں مقدار اور معیار کے اعتبار سے دونوں کے رویے مختلف ہیں۔ مغرب واضح طور پر مقداری پہلو کو اس حد تک عزیز رکھتا ہے کہ جب تک کسی چیز کی مقدار یا اس کے شمار کا تعین نہ کیا جا سکے، وہ اس کے نزدیک کسی قدر و قیمت کی حامل نہیں۔ فی الحقیقت مغرب میں ان اقدار سے انکار کا رجحان عام ہے جن کی مادی مقدار (مادی پہلو) کا تعین نہیں کیا جا سکتا، اور وہ صرف روحانی سچائیاں ہیں۔

اسلامی دنیا سمیت مشرق نئی نئی اشیائے صرف کے استعمال سے حاصل ہونے والی خوشیوں کی طرف راغب ہے، جو گلوبلائزیشن کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ رہی ہیں۔ لیکن آج بھی اس خطے میں زندگی کی کوالٹی کے پہلوؤں کو مقداری پہلو کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اسلام زندگی کی کوالٹی کو جس میں سکونِ قلب، فرصت، غور و فکر، دوست داری اور مہمان نوازی شامل ہیں، خصوصی اہمیت دیتا ہے۔ یہ حقیقت مغرب کے بہت سے لوگوں کے لیے باعثِ توجہ ہونی چاہیے جو احمقانہ مادیت سے خوفزدہ ہیں۔

راہ کی رکاوٹیں

جیسا کہ ہم نے دیکھا، اسلام کو متعدد وجوہ کی بنا پر مغرب کی بیشتر کمزوریوں کے لیے تریاق سمجھا جا سکتا ہے، اور سمجھا جانا چاہیے۔ چنانچہ اسلام ۲۱ویں صدی کی رہنما آئیڈیالوجی بن سکتا ہے۔ لیکن بعض عوامل ایسے بھی ہیں جو مخالف سمت میں کام کر رہے ہیں۔

(۱) مسلمان ابھی تک کسی جگہ ایک حقیقی مسلم معاشی نظام قائم نہیں کر سکے۔ جمہوریت، انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق جیسے فیصلہ کن مسائل پر بھی مسلمانوں کی پوزیشن ابھی تک ابہام کا شکار ہے، اور ان کے تعلیمی نظام کئی پہلوؤں سے اب تک دورِ وسطٰی سے تعلق رکھتے ہیں۔

(۲) علاوہ ازیں، اکثر مسلمانوں کا طرزِ عمل دعوت و تبلیغ کی کوششوں کو بے اثر کر دیتا ہے۔ مغرب میں آ کر بسنے والے بہت سے مسلمان خصوصاً جو اَن پڑھ ہیں، اپنے عقیدے کو پیش کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ نتیجتاً وہ کم تر درجے کی بستیوں (Ghettos) میں نسلی گروہوں کی صورت میں رہنے لگتے ہیں۔ اپنے وطن کی ثقافت، اس کی خوراک، لباس، موسیقی، معاشرتی رسوم و رواج اور زبان کے تحفظ کے لیے وہ اپنے قومی تصورات اور رسم و رواج کے مجموعے کو اسلام کے طور پر پیش کرنے لگتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر ان تارکینِ وطن کی اصل دلچسپی اپنے آبائی ملک سے ہوتی ہے جہاں وہ جلد سے جلد لوٹ جانا چاہتے ہیں۔ جرمنی میں آباد ایک ترک، جو ترکی میں اسلام کا احیا چاہتا ہے، بلاشبہ مہمان ملک میں دعوت کے کاموں کے لیے کسی کام کا نہیں رہتا۔

جہاں تک ان چند لوگوں کا تعلق ہے جو مغرب میں اشاعتِ اسلام کی کوشش کر رہے ہیں، وہ اسے اتنا بے لچک، قانونی اور فقہی بنا ڈالتے ہیں کہ مغربی لوگ روحانیت کے عدمِ وجود سے چونک اٹھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ظاہری شکل و صورت کو اصل پر فوقیت دی گئی ہے، اور اکثر فروعی مسائل کو بنیادی اور مرکزی موضوعات کے برابر اہمیت دی جاتی ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر مہمان مسلم کارکن اپنے مغربی پڑوسیوں پر مذہب کے حوالے سے بہت کم اثرانداز ہوتے ہیں۔

(۳) اس کے علاوہ ایک اور بڑا عامل جو اسلام کو غالب آنے سے روکتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان با آسانی حقائق سے منہ موڑنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ ایک بیمار آدمی کو نہ صرف یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ بیمار ہے، بلکہ اسے تجویز کردہ گولی میز پر رکھ دینے کے بجائے اسے نگلنا بھی چاہیے۔ بصیرت کی اہمیت اپنی جگہ لیکن یہ عمل کی متبادل نہیں بن سکتی۔ جرمنی کے ایک صدر کے بقول ہمارا مسئلہ علم کا نہیں، اطلاق کا ہے۔

قرآن میں ان قدیم اقوام کی کہانیاں بکثرت بیان کی گئی ہیں جنہوں نے نوشتۂ دیوار پڑھنے سے انکار کر دیا اور تنبیہات پر کان نہ دھرا، حتٰی کہ ان کی تہذیب المناک انجام کو پہنچ گئی۔ عین ممکن ہے کہ ہم عصر مغربی دنیا بھی تباہی تک پہنچنے سے قبل اپنا راستہ تبدیل کرنے اور اسلامی طرزِ زندگی اختیار کرنے کا حوصلہ اور عزم پیدا نہ کر سکے۔ اگر ایسا ہوا تو حال ہی میں کمیونزم پر فتح پانے کے بعد مغرب پر بھی خودفراموشی کی ایک ایسی کیفیت طاری ہو جائے گی جس کا انجام ہلاکت کے سوا کچھ نہیں۔ مغربی دنیا اپنے اندرونی تضادات کا شکار ہے اور ان تضادات میں سب سے زیادہ مہلک یہ ہے کہ انسان کو دیوتا بنا لیا گیا ہے۔ ہلاکت مغرب کا ناگزیر انجام ہے۔ اگر مغربی دنیا اس انجام سے بچنا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ ازسرِنو وجودِ باری تعالیٰ کی مقدس اور الہامی حقیقت کو تسلیم کرے اور قرآنی اقدار اور احکامِ الٰہی کے مطابق، جنہیں اللہ کے آخری نبیؐ کی سنت سے مستحکم کر دیا گیا ہے، زندگی بسر کرنا شروع کر دے، واللہ اعلم۔


تنزانیہ کے حکمران خاندان کا قبولِ اسلام

منظور الحق، کامٹی

تنزانیہ کے سابق صدر اور حکمران پارٹی کے موجودہ سربراہ جولیس نریرے کا خاندان جب دارالسلام میں رابطہ عالم اسلامی کے نمائندے شیخ مصطفیٰ عباس کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوا تب یہ خبر جہاں عالم اسلام کے لیے ایک حیرت انگیز مژدہ عظیم تھی، وہیں عیسائی دنیا کے لیے بہت ہی المناک اور مایوس کن تھی۔ کیونکہ نریرے کی اسلام دشمنی اور مسلم بیزاری کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ نریرے وہ سخت گیر اور متعصب عیسائی رہا ہے جس نے اپنے دور اقتدار میں مسلمانوں پر بے تحاشا مظالم ڈھائے، گویا وہ جدید دور کا فرعون صفت حکمران تھا۔

تنزانیہ براعظم افریقہ میں ایک غالب مسلم اکثریت والا ملک ہے جس کی مجموعی آبادی کا ۷۸ فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے جبکہ بمشکل ۲۰ فیصد آبادی عیسائیوں کی ہوگی۔ باقی غیر مسلم جنگلی قبائلی ہیں جن کا کوئی معلوم مذہب نہیں ہوتا۔ ۷۸ فیصد مسلم اکثریتی آبادی والے اس ملک میں نریرے نے نام نہاد سوشلزم کی آڑ میں انتہائی متعصب اور ظالم عیسائی حکومت قائم کر رکھی تھی۔ اپنے دور اقتدار میں اس نے مسلم اکثریت کو ختم کرنے اور عیسائی اکثریت قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی جس میں اسے بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ دارالسلام کا نام بدل کر ایک سیکولر نام رکھنے کی کوشش کی گئی جس پر مسلمانوں کے شدید احتجاج اور غیر معمولی ردعمل کی وجہ سے مجبورًا اپنا ارادہ ترک کرنا پڑا اور دارالحکومت کے لیے نیا شہر بسانے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ دارالسلام سے صرف دس کلو میٹر دور تنزانیہ کے نئے دارالحکومت کی تعمیر شروع کی گئی۔ تنزانیہ کے دارالحکومت کو جو ایک خوبصورت شہر ہے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا کیونکہ دارالسلام کی نوے فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور سو فیصد کاروبار بھی مسلمانوں ہی کے پاس ہے۔ اس وقت شہر میں صفائی وغیرہ کا کوئی معقول انتظام نہیں، سڑکوں پر جگہ جگہ غلاظت کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں اور شہر کی بڑی بڑی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی حالت میں ہیں جن کی مرمت وغیرہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ الغرض نریرے نے مسلمانوں کی دل آزاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

نریرے وہ شخص ہے جس نے تنزانیہ کے مسلمانوں کے ساتھ پڑوسی مسلم ممالک کے حکمرانوں اور مسلمانوں کو بھی چین کا سانس لینے نہیں دیا۔ چنانچہ اس نے یوگنڈا کے عیدی امین کی حکومت کا تختہ الٹ کر وہاں ایک نیم پادری جنرل اجوئے کو اقتدار پر بٹھایا اور یوگنڈا کے مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام کرایا جس کے نتیجے میں کمپالا اور دیگر شہروں سے مسلمان پڑوسی ملکوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں مسلمان نقل وطن کر کے پڑوسی ملکوں میں جا کر پناہ گزین ہوئے۔ ایشیائی مسلمانوں کی اکثریت جو کاروبار پر چھائی ہوئی تھی وہ انتہائی بے چارگی کے عالم میں جان بچا کر یوگنڈا سے نکل گئی اور خالی ہاتھ اپنے اپنے وطن کو روانہ ہوئی۔ تنزانیہ کی فوج نے جو فاتح بن کر یوگنڈا میں داخل ہوئی تھی بڑی بے دردی کے ساتھ مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ یہ لوگ مسلمانوں کے بیش قیمت اثاثے اپنی فوجی گاڑیوں میں بھر بھر کر اپنے ساتھ لے گئے۔

یہ نریرے ہی تھا جس نے زنجبار کی آزاد و خودمختار عرب سلطنت کو ختم کر کے اسے زبردستی تنزانیہ کی سوشلسٹ یونین میں شامل کیا اور سوشلسٹ اصلاحات کے نام پر زنجبار سے عرب اور مسلم تشخص کو ختم کرنے کی مذموم کوشش کی۔ زنجبار میں ۱۹۶۳ء سے قبل سرکاری زبان عربی تھی اور ذریعہ تعلیم بھی عربی ہی تھا۔ سب سے پہلے اس نے سرکاری دفاتر اور اسکولوں سے عربی زبان کو ختم کیا۔ سواحلی زبان جس کا رسم الخط عربی تھا اسے عربی کے بجائے انگریزی رسم الخط میں تبدیل کیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سواحلی زبان پر عربی کا اثر بہت زیادہ ہے، اس کے ستر فیصد الفاظ عربی کے ہیں۔ خصوصاً گنتی مکمل طور پر عربی ہی ہے، انداز گفتگو بھی عربی ہی ہے۔ اگر کوئی شخص عربی سے اچھی طرح واقف نہ ہو تو اندازہ نہ کر پائے گا کہ دو شخص باہم عربی میں گفتگو کر رہے ہیں یا سواحلی میں۔ مسلم خواتین کے لیے برقع کے استعمال کو قانوناً جرم قرار دیا اور عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کی شادی کی سرپرستی سرکاری سطح پر کی۔

یوگنڈا سے عیدی امین کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس نے کمپالا میں پادریوں کی ایک عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ آئندہ دس سالوں میں تنزانیہ سے مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل کر ہی دم لوں گا۔ چنانچہ اس نے عالمی کلیساؤں کی مدد سے اپنے اس دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کی تھیں لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔

نریرے کے قبول اسلام کی تفصیلات بیان کرنے سے قبل اس کے قبول اسلام کے ان حالات کو بیان کرنے سے ہمارا مقصد واضح کرنا تھا کہ دنیا یہ دیکھ لے کہ عیسائی حضرات غیر عیسائی لوگوں بالخصوص اسلام اور مسلمانوں کے حق میں کس قدر متعصب اور ظالم ہوا کرتے ہیں۔ جبکہ دنیا بھر میں وہ اور ان کے پادری حضرات اپنی امن پسندی اور انصاف کا ڈھنڈورا پیٹتے پھرتے ہیں اور دیگر غیر مسلم حضرات انہیں اپنا مسیحا سمجھ کر ان کی باتوں میں آکر مسلمانوں کے ساتھ دشمنانہ رویہ اپنا لیا کرتے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہود و ہنود کی نفرت کی طرح عیسائیوں کی نفرت اب ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے اور اس کی نمایاں مثالیں برطانیہ، فرانس، روس، اور جرمنی سے آنے والی خبروں میں دکھائی دیتی رہتی ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ جدید نظاموں کے خوبصورت نام پر قائم ہونے والی حکومتوں کے نام پر ہوتا ہے جس کی وجہ سے عوام یہ نہیں سمجھ پاتے کہ پس پردہ عیسائیت ہی کارفرما ہے۔

خیر اب ہم آگے مسٹر نریرے کے قبول اسلام کی حیرت انگیز تفصیلات سے آگاہ کریں گے جسے پڑھ کر ایسا ہی محسوس ہوا جیسے یہ جدید دور کا ایک معجزہ ہے کہ کسی جدید فرعون نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ عین اس وقت جب کہ وہ تنزانیہ میں عیسائیت کے لیے سرگرداں تھا اور عیسائی مشنریوں کی ہر ممکن مدد کر رہا تھا، اس کے بچے اسلام کے گہرے مطالعے میں مصروف تھے اور بتدریج اسلام کی طرف مائل ہو رہے تھے۔ اس کے بچے امریکہ اور کینیڈا کے مختلف کالجوں میں زیر تعلیم تھے کہ اسی دوران اسلام کی دعوت سے متاثر ہوئے۔ سب سے پہلے نریرے کی بہو مسلمان ہوئی پھر یکے بعد دیگرے تین بیٹے اور دونوں بیٹیاں بھی مسلمان ہوگئیں۔ نریرے کے بچوں کا قبول اسلام کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا بلکہ عیسائی دنیا کے لیے ایک بہت بڑا دھماکہ تھا۔ یہودی اور عیسائی پریس نے مکمل طور پر ان خبروں کا بائیکاٹ کیا کیونکہ ماضی میں بھی یہودی پریس کا یہی رویہ رہا ہے۔ اگر کسی قابل ذکر شخصیت نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو اسے کوئی اہمیت نہیں دی گئی اور قطعاً نظر انداز کر دیا گیا اور اگر کہیں دنیا کے کسی دور دراز گوشے میں بھی غیر معروف دو چار اشخاص نے عیسائیت قبول کی تو اسے دنیا بھر میں اخبارات کی زینت بنایا گیا۔ اس سلسلے میں مسلم پریس نے بھی بالکل خاموشی اختیار کر لی۔ ہاں تحریکات اسلامی سے تعلق رکھنے والے بعض جریدوں نے اپنے طور پر تحقیقات کر کے اس خبر کو عام کیا۔

نریرے کے بچوں کے قبول اسلام کے بعد دارالسلام اور دیگر اہم شہروں میں تہلکہ سا مچ گیا تھا اور کافی دنوں تک اس کا چرچا رہا۔ لیکن باقاعدہ طور پر ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے اس کی تشہیر کو روکنے کی پوری پوری کوشش کی گئی۔ لہٰذا عوام الناس اسے افواہ سے زیادہ کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ باقاعدہ طور پر اس وقت عام لوگوں کو اس پر یقین نہ آیا جب تک خود نریرے کے بچوں نے دارالسلام میں عیسائیت کے خلاف جہاد نہ چھیڑ دیا۔ چنانچہ انہوں نے عیسائیت کے خلاف ایک بڑے مناظرے کا انعقاد کیا اور براعظم افریقہ کے تمام پادریوں کو چیلنج کیا اور وسیع پیمانے پر اس کی تشہیر کی۔ سواحلی زبان میں بڑے بڑے پوسٹر دیواروں اور اہم سرکاری دفاتر کے دروازوں پر آویزاں کیے گئے۔ مناظرے کی تاریخ سے تقریباً ایک ماہ پہلے ہی مساجد اور چرچوں کے دروازے پر کھڑے ہو کر مسلم نوجوانوں نے اس مناظرے سے متعلق پمفلٹس تقسیم کیے۔

تنزانیہ کی سرزمین پر یکایک عیسائیت کے خلاف مسلمانوں کی یہ زبردست یلغار عوام الناس کے لیے انتہائی حیران کن اور بالکل خلاف توقع تھی۔ کیونکہ نریرے کی سخت گیر ڈکٹیٹرشپ اور عیسائیت نواز پالیسی کی موجودگی میں اتنی بڑی جسارت ’’ہماری جیل میں سرنگ‘‘ کے مترادف بات تھی۔ لہٰذا ان سرگرمیوں کی وجہ سے مسلمان دانشور طبقہ بھی حیرت و استعجاب کا شکار تھا کیونکہ مناظرے سے ایک دو روز قبل تک کسی کو پتہ نہیں تھا کہ عیسائیت کے خلاف اس اچانک اٹھنے والی زبردست تحریک کے پیچھے خود جناب صدر مملکت کے صاحبزادگان کارفرما ہیں۔

تنزانیہ کی تاریخ میں یہ بالکل پہلا موقع تھا جب مسلمانوں نے عیسائی مشنریوں کو کھلے عام للکارا تھا۔ چنانچہ عام لوگوں میں اس عظیم مناظراتی اجتماع میں شرکت سے دلچسپی پیدا ہوئی اور پورے تنزانیہ میں اس کا چرچا ہونے لگا۔ لوگ اس میں شرکت کی تیاری کرنے لگے۔ بلکہ شیخ احمد دیدات کے تین تربیت یافتہ شاگردوں کے نام تھے جو اہل تنزانیہ کے لیے بالکل غیر معروف اور نئے تھے۔ ان تینوں مبلغین نے شیخ احمد دیدات سے ڈربن جنوبی افریقہ میں رہ کر تربیت حاصل کی تھی اور بائبل کے مختلف اور متضاد نسخوں کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ نریرے کے بچوں کا ان سے بڑا گہرا دوستانہ تھا لہٰذا یہ نوجوان مبلغین بھی آپس میں ملتے تو تنزانیہ میں اسلام کی تبلیغ اور عیسائی مشنریوں کے مقابلے کے لیے صلاح مشورہ کرتے۔ آخر انہوں نے یہ طے کیا کہ اس مناظرے کا اہتمام کھلے میدان میں کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کو دیکھ سکیں اور خود فیصلہ کریں کہ حق کس کے ہاتھ میں ہے اور برسر باطل کون ہے۔

حسب مشورہ اور پروگرام دارالسلام کے سب سے وسیع و عریض اور خوبصورت میدان جمہوری پارک میں یہ مناظرہ شروع ہو کر دو دن تک چلا۔ درمیان میں نمازوں اور کھانے پینے وغیرہ کے لیے وقفہ ہوتا تھا۔ یہ دیکھ کر حاضرین کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ نریرے کے تینوں لڑکے مسلم مبلغین کے دوش بدوش بیٹھے اور ان کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ تینوں مبلغین کے نام درج ذیل ہیں:

(۱) غریباں شیخ موسیٰ فونڈی

(۲) شیخ احمد کامیمبا

(۳) شیخ محمد متانا

ان تینوں میں غریباں شیخ موسیٰ فونڈی سب سے زیادہ چاق و چوبند اور حاضر دماغ و حاضر جواب ہیں۔ مشرقی افریقہ کے مبلغین کے سربراہ بھی یہی ہیں، ان کی تبلیغی کوششوں کی وجہ سے عیسائی پادریوں کی نیند حرام ہو چکی ہے کیونکہ یہ تینوں مبلغین بالکل نوجوان اور صحت مند ہیں، ان کی عمریں بالترتیب تیس، بتیس اور پینتیس سال کی ہیں۔ شیخ احمد دیدات کے یہ تینوں تلامذہ اصل افریقی باشندے ہیں اور مقامی سواحلی زبان کے ماہر اور اچھے ادیب ہیں۔ یہ حضرات مناظرہ بھی سواحلی زبان ہی میں کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ تینوں مبلغین پورے مشرقی افریقہ کے پادریوں کے لیے ایک چیلنج بنے ہوئے ہیں۔

اس مناظرے میں شیخ موسیٰ فونڈی کے ساتھیوں کے مقابلے میں دو پادریوں اور راہبہ نے حصہ لیا۔ مسلم مبلغین کے انداز بیان اور طرز تخاطب سے سامعین بخوبی سمجھ رہے تھے کہ فاتح کون اور مفتوح کون؟ حق کس کے ساتھ اور برسر باطل کون۔ مقابلے میں شیخ اور ان کے ساتھیوں کا انداز دلچسپ اور جارحانہ تھا جبکہ عیسائی حضرات کو معذرت خواہانہ اور مدافعانہ پوزیشن لینی پڑی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق شرکا کی تعداد تقریباً ستر ہزار سے بھی زائد تھی۔ تیسرے دن ۱۵ فروری کی شام کو جب مناظرہ اختتام کو پہنچا تو تین سو لوگوں نے اجتماعی طور پر اسلام قبول کیا اور پوری فضا اللہ اکبر کی صدا سے گونج اٹھی۔

اسلام اور مسلمانوں کے متعلق اچانک اس نرم پالیسی کے اختیار کرنے کی وجہ سے نریرے کے تعلق سے عیسائی حیران و پریشان تھے کہ اس سخت گیر پالیسی میں یکایک یہ غیر معمولی تبدیلی کیسے آگئی کہ اس قسم کے پروگراموں کی اجازت مل گئی اور خود مسلمان بھی حیران تھے۔ دراصل نریرے کو جب معلوم ہوا کہ خود اس کے بچے اسلام قبول کرنے والے ہیں تو وہ بھی اسلام میں دلچسپی لینے لگا۔ اسی وقت اس نے عہدۂ صدارت سے دستبردار ہونے کا فیصلہ بھی کر لیا تھا اور عہدۂ صدارت کے لیے تنزانیہ کے سب سے معروف مسلم رہنما شیخ علی حسن مونٹے کو نامزد بھی کیا۔ صدارت کے لیے علی حسن مونٹے کی نامزدگی سے ہی لوگوں کو معلوم ہوا کہ نریرے کی پالیسی میں تبدیلی آرہی ہے اور مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں اس نے اپنی روش تبدیل کر دی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ کی گئی ناانصافیوں اور مظالم کی تلافی کے لیے اس نے شیخ علی حسن مونٹے جیسے عالم فاضل شخص کو صدر نامزد کیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی تاریخ پر ایک نظر

مولانا سخی داد خوستی

اقوامِ متحدہ کا اصلی نام جو امریکہ کے سابق صدر روز ویلٹ نے تجویز کیا تھا اور متفقہ طور پر منظور ہوا تھا ’’یونائیٹڈ نیشنز آرگنائزیشن‘‘ ہے جسے مختصراً ’’یو این او‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور لفظ ’’اقوامِ متحدہ‘‘ جو اردو میں مشہو ہوا ہے اس کا ترجمہ ہے، جیسا کہ عربی میں اممِ متحدہ اور پشتو میں مللِ متحدہ سے اس کی تعبیر کی جاتی ہے۔ پہلی جنگِ عظیم (۱۹۱۴ء تا ۱۹۱۸ء) کے بعد ’’لیگ آف نیشنز‘‘ قائم کی گئی۔ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ آئندہ اقوامِ عالم کو آپس میں جنگی تصادم سے روکا جائے تاکہ پھر جانی و مالی نقصان نہ ہونے پائے۔ گویا لیگ آف نیشنز، اقوامِ متحدہ کی ابتدائی شکل تھی۔ یہ ادارہ دوسری جنگِ عظیم (۱۹۳۹ء تا ۱۹۴۵ء) کو نہ روک سکا اس لیے یہ ادارہ اپنی موت آپ مر گیا۔
پھر ۱۹۴۱ء میں جبکہ جنگِ عظیم دوم اپنے عروج پر تھی اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم چرچل اور امریکی صدر روز ویلٹ بحرِ اوقیانوس میں کہیں مل بیٹھے، انہوں نے ایک منشور پر رضامندی کا اظہار کیا جس کو منشور اوقیانوس کا نام دیا گیا۔ اس منشور کا مرکزی نقطہ ایسے نظام کا قیام تھا جو دنیا میں  جنگ کو روک سکے اور بین الاقوامی امن کو یقینی بنا سکے۔ پھر انہی دو لیڈروں کی دعوت پر ۱۶ جمادی الاولیٰ ۱۳۶۴ھ بمطابق ۲۵ اپریل ۱۹۴۵ء امریکہ کے ایک شہر سان فرانسسکو میں پچاس ملکوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس میں اقوامِ متحدہ کی بنیاد رکھی گئی اور اسی منشورِ اوقیانوس میں چند ترامیم و اضافات کر کے اسے اقوامِ متحدہ کا منشور قرار دیا جسے آج یو این او کے چارٹر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس چارٹر پر پچاس ملکوں نے ۱۵ رجب ۱۳۶۴ھ بمطابق ۲۶ جون ۱۹۴۵ء کو دستخط کیے، مگر حکومتوں نے ۲۴ اکتوبر ۱۹۴۵ء سے اسے باضابطہ شکل دی اور اس ادارے نے باقاعدہ کام کا آغاز اسی تاریخ سے کیا۔ اس لیے ہر سال ۲۴ اکتوبر کا دن ’’یومِ اقوامِ متحدہ‘‘ کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔
جب پہلی جنگِ عظیم میں بے شمار جانیں ضائع ہوئیں، پھر اکیس سال کے وقفے کے بعد دوسری جنگِ عظیم چھڑ گئی اور اس میں بھی لاکھوں انسان اور بے حساب اموال اور اثاثے تباہ ہو گئے، تو آئندہ نسلِ انسانی کو ایسی ہولناک جانی و مالی تباہ کاریوں سے بچانے، پوری دنیا میں امن و آشتی کی فضا پیدا کرنے، ملکوں کے درمیان رشتوں کو فروغ دینے، اور بین الاقوامی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی مسائل کو حل کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ وجود میں آئی۔
ابتداء میں اقوامِ متحدہ کی سرکاری زبانیں صرف پانچ رکھی گئیں۔ انگریزی، فرانسیسی، چینی، روسی اور ہسپانوی۔ (یاد رہے کہ ہسپانوی زبان ریاستہائے متحدہ امریکہ کی دوسری بڑی زبان ہے)۔ انتیس سال تک اقوامِ متحدہ کی سرکاری زبانیں یہی پانچ رہیں۔ پھر ۱۹۷۳ء میں پاکستان سمیت ۳۵ ملکوں نے ایک قرارداد پیش کی کہ عربی کو اقوامِ متحدہ کی چھٹی سرکاری زبان قرار دیا جائے، اور اقوامِ متحدہ کی ایک کمیٹی نے بھی یہ سفارش پیش کی تو اس کے بعد بڑی مشکل سے عربی بھی یو این او کی سرکاری زبانوں میں شامل کر لی گئی۔ مگر عربی چونکہ اسلامی زبان ہے اس لیے اب بھی وہ چھٹے نمبر پر ہے۔ دفتری کاروائی صرف انگریزی اور ہسپانوی میں ہوتی ہے۔
چارٹر کی رو سے اقوامِ متحدہ کے بنیادی مقاصد کا لبِ لباب یہ ہے:
(الف) نسلوں کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانا۔
(ب) بین الاقوامی امن و سلامتی کے قیام اور فروغ کے لیے اجتماعی تدابیر اختیار کرنا۔
(ج) بنی نوع انسان کے حقوق اور خودمختاری کے اصولوں کا احترام کرتے ہوئے قوموں کے مابین دوستانہ تعلقات استوار کرنا۔
(د) بین الاقوامی اشتراکِ عمل کی بدولت دنیا سے جہالت، غربت اور بیماری کو دور کرنا۔
(ھ) نسل، رنگ اور مذہب کی بنا پر تفریق کو ختم کر کے انسانیت کی بنا پر اجتماعیت پیدا کرنا۔
(و) اقوامِ متحدہ کو ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں مداخلت سے روکنا۔
(ز) بین الاقوامی قوانین مرتب کر کے قوموں کے باہمی تنازعات انہی قوانین کے ذریعہ حل کرنا۔
اقوامِ متحدہ کے منشور میں اس تنظیم کے مقاصد، بنیادی اصول، تنظیمی ڈھانچہ اور طریق کار کی وضاحت کی گئی ہے۔ پھر مقاصد میں بڑا مقصد انسانی حقوق کا حصول اور تحفظ ہے، اس لیے انسانی حقوق کا الگ چارٹر مرتب کر کے ۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو جاری کیا گیا جس کا اردو ترجمہ ماہنامہ ’’نوائے قانون‘‘ اسلام آباد نے دسمبر ۱۹۹۴ء کے شمارے میں  شائع کیا ہے۔ انسانی حقوق کا چارٹر تیس دفعات پر مشتمل ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مندرجہ ذیل چھ اہم ادارے ہیں:

(۱) جنرل اسمبلی

یہ اقوامِ متحدہ کا سب سے بڑا ادارہ ہے، تمام ممبر ممالک اس کے رکن ہوتے ہیں اور ہر ممبر ملک پانچ نمائندے بھیج سکتا ہے، لیکن اسے صرف ایک ووٹ دینے کا حق ہوتا ہے۔ اس کا باقاعدہ اجلاس ستمبر میں ہوتا ہے۔ اس ادارے میں ہر مسئلے پر بحث ہو سکتی ہے جو چارٹر کے دائرۂ اختیار میں ہو۔

(۲) سلامتی کونسل

یہ ادارہ پندرہ ارکان پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں پانچ ممالک مستقل ممبر ہیں یعنی امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین۔ اور دس ممالک غیر مستقل ممبران ہیں جن کا انتخاب دو سال کے لیے جنرل اسمبلی کرتی ہے۔ سلامتی کونسل کا اجلاس کسی وقت بھی طلب کیا جا سکتا ہے۔ اس کا صدر انگریزی حروفِ تہجی کے اعتبار سے ہر ماہ مقرر کیا جاتا ہے تاکہ تمام ممبران کو سلامتی کونسل کی صدارت کا موقع مل سکے۔

(۳) سیکرٹریٹ

اس کا سربراہ سیکرٹری جنرل ہوتا ہے جس کا تقرر سلامتی کونسل کی سفارش پر جنرل اسمبلی کرتی ہے۔ سیکرٹریٹ مندرجہ ذیل دفاتر پر مشتمل ہوتا ہے:
  • سیکرٹری جنرل کا دفتر
  • خصوصی سیاسی معاملات کے انڈر سیکرٹریوں کے دفاتر
  • قانونی امور کا دفتر
  • کنٹرولر کا دفتر
  • کانفرنس سروس کا دفتر
  • جنرل سروسوں کا دفتر
  • سیاسی اور تحفظاتی امور کا محکمہ
  • اقتصادی اور سماجی امور کا محکمہ
  • تولیتی اور غیر خودمختار علاقوں کا محکمہ
  • اطلاعاتِ عامہ کا محکمہ

(۴) اقتصادی و معاشرتی کونسل

اس کے اراکین کی تعداد ۵۴ ہے جنہیں جنرل اسمبلی ۳ سال کے لیے منتخب کرتی ہے۔ مگر اس ترتیب سے کہ ہر سال ایک تہائی حصہ ممبران کی میعاد رکنیت ختم ہوتی ہے۔ ان کی جگہ جنرل اسمبلی نئے ارکان کا انتخاب کرتی ہے۔

(۵) تولیتی کانفرنس

یہ ان علاقوں کے انتظام کی نگرانی کرتی ہے جن کو ممبر ممالک نے اپنی تولیت یا نگرانی میں لے رکھا ہے، اور تولیتی علاقوں کا انتظام چلانے والے ممالک اس کونسل کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ تولیتی کونسل کے ارکان تین قسم کے ہوتے ہیں:
  • اول، سلامتی کونسل کے مستقل ممبران۔
  • دوم، جنرل اسمبلی کی طرف سے تین سال کے لیے منتخب شدہ ممبران۔
  • سوم، وہ ممالک جو تولیتی علاقوں کا انتظام چلا رہے ہیں۔

(۶) عالمی عدالتِ انصاف

یہ ادارہ پندرہ ججوں پر مشتمل ہوتا ہے جو سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی ۹ سال کے لیے منتخب کرتی ہیں، اور ایک ملک سے ایک وقت میں ایک سے زیادہ جج نہیں بن سکتے۔
ان چھ اہم اداروں کے علاوہ اقوامِ متحدہ کے تیس ادارے اور ہیں جن میں چھ بہت مشہور ہیں، وہ یہ ہیں:
  • بچوں کا عالمی فنڈ (یونیسیف)۔
  • تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارہ (یونیسکو)۔
  • عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او)۔
  • ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او)۔
  • اقوامِ متحدہ کی کمشنری برائے مہاجرین (یونسر)۔
  • عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور عالمی بینک

اقوامِ متحدہ کے اداروں کے صدر دفاتر کہاں ہیں؟

اقوامِ متحدہ ’’عالمی عدالتِ انصاف‘‘ کے سوا باقی تمام بنیادی اہم اداروں کے صدر دفاتر نیویارک (امریکہ) میں ہیں، صرف عالمی عدالتِ انصاف کا صدر دفتر ہیگ (ہالینڈ) میں ہے۔
اور مخصوص اداروں میں سے بھی تین اداروں یعنی (۱) یونیسف، (۲) اقوامِ متحدہ دارالحکومت ترقیاتی فنڈ، اور (۳) اقوام متحدہ کا ادارہ برائے تربیت و تحقیق کے صدر دفاتر نیویارک میں ہیں۔
اور پانچ اداروں کے صدر دفاتر امریکہ کے شہر واشنگٹن میں ہیں: (۱) بین الاقوامی ترقیاتی انجمن (۲) عالمی تنظیمِ تجارت (۳) بین الاقوامی مالیاتی کمیشن (۴) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (۵) عالمی بینک۔
اور مخصوص اداروں کے چودہ صدر دفاتر جنیوا (سویٹزرلینڈ) میں ہیں: (۱) بین الاقوامی ادارہ محنت (۲) عالمی ادارہ صحت (۳) اقوامِ متحدہ کی ہائی کمشنری برائے مہاجرین (۴) تنظیمِ ورثہ دانش (۵) عالمی مواصلاتی یونین (۶) بین الاقوامی مواصلاتی تجارتی یونین (۷) عالمی ادارہ موسمیات (۸) تجارت و محاصلات کا بین الاقوامی ادارہ (۹) اقوامِ متحدہ کا کمیشن برائے تجارتی قانون (۱۰) انسانی آباد کاری برائے بہتر رہائش (۱۱) بین الاقوامی یونین برائے تحفظِ قدرتی وسائل (۱۲) اقوامِ متحدہ فنڈ برائے آبادیاتی سرگرمیاں (۱۳) اقوامِ متحدہ ترقیاتی پروگرام (۱۴) اقوامِ متحدہ کا تباہی سے بچاؤ کا ادارہ۔
اور عالمی ڈاک یونین کا صدر دفتر سویٹزرلینڈ ہی کے شہر برن میں ہے۔ اور عالمی ادارہ خوراک و بین الاقوامی فنڈ برائے زرعی ترقیات کے صدر دفاتر روم (اٹلی) میں ہیں۔ اور اقوام متحدہ کا بین الاقوامی ادارہ و اقوامِ متحدہ کا صنعتی ترقیاتی ادارہ کے صدر دفاتر ویانا (آسٹریا) میں ہیں، اور ایک ایک ادارے کے صدر دفتر مندرجہ ذیل ملکوں میں ہیں: جاپان کے شہر ٹوکیو میں اقوامِ متحدہ کی یونیورسٹی، کینیا میں اقوامِ متحدہ کا ماحولیاتی پروگرام، اور کینیڈا کے شہر مونٹریال میں عالمی ادارہ شہری ہوا بازی، فرانس کے شہر پیرس میں یونیسکو، اور برطانیہ کے شہر لندن میں بین الحکومتی بحری مشاورتی کونسل۔
یاد رہے کہ مذکورہ ممالک یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، جاپان، اٹلی، سویٹزرلینڈ، ہالینڈ، آسٹریا، کینیڈا وغیرہ سب غیر مسلم ممالک ہیں، اور صورتحال یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے اداروں میں سے کسی ایک ادارے کا صدر دفتر کسی مسلم ملک میں نہیں ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مرکزی عہدہ داران اکثر و بیشتر یہودی ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس تنظیم کے دس اہم اداروں میں ان کے اہم ترین عہدوں پر ۷۳ یہودی فائز ہیں۔ صرف نیویارک کے دفتر میں بائیس شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں۔ یعنی یونیسکو کے ۹ شعبوں میں اور آئی ایل او کے ۳ شعبوں میں اور ایف اے او کے ۱۰ شعبوں کی سربراہی یہودیوں کے پاس ہے۔ نیز واشنگٹن کے دفاتر میں ۱۷ شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں، ۶ عالمی بینک کے اور ۱۱ آئی ایم ایف میں۔ اور یہ سترہ عہدہ داران وہ لوگ ہیں جن کا تعلق یہودیوں کی عالمی تنظیم سے ہے۔
یہ ہے اقوامِ متحدہ کی ماہیت اور اس کا تعارفی خاکہ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی اقوامِ متحدہ، اقوامِ عالم کا ایک مشترکہ ادارہ ہے یا عالمی استعمار اور غیرمسلم قوتوں کے لیے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف سازشوں کی ایک کمین گاہ؟ اس کا جائزہ لینے کے لیے ایک مستقل مضمون کی ضرورت ہے۔ البتہ سرِدست یہ بات پیشِ نظر رہے کہ اقوامِ متحدہ کی بنیاد رکھنے والی کانفرنس میں پچاس ملکوں میں سے صرف چار مسلمان ملک شریک تھے یعنی سعودی عرب، شام، مصر اور لبنان۔ باقی سب غیر مسلم ممالک تھے۔ ترکی اور ایران بھی اگرچہ اس تاسیسی کانفرنس میں شریک ہوئے تھے مگر ترکی واضح طور پر سیکولر ملک تھا اور ایران بھی ملتِ اسلامیہ کے اجتماعی دھارے سے کٹا ہوا ہونے کی وجہ سے ملتِ اسلامیہ کی نمائندگی نہیں کر رہا تھا۔
اس پس منظر میں اقوامِ متحدہ نے گزشتہ نصف صدی میں مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں کیا طرزِ عمل اختیار کیا؟ اس کی کچھ تفصیل آئندہ ایک الگ مضمون کی شکل میں پیش کی جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

’’معالم العرفان فی دروس القرآن‘‘ پر ایک نظر

محمد حنیف قریشی ایم اے

گزشتہ چودہ صدیوں سے دنیا کی متعدد زبانوں میں قرآن پاک کے تراجم اور تفاسیر شائع ہو رہی ہیں۔ برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں سب سے پہلے بارہویں صدی ہجری میں امام الہند حکیم الامت حضرت مولانا شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اس وقت کی دفتری اور تعلیمی زبان فارسی میں کلام پاک کا ترجمہ کیا۔ بعد ازاں ان کے بڑے صاحبزادے حضرت مولانا شاہ عبد العزیزؒ نے ’’تفسیرِ عزیزی‘‘ میں پہلے سوا پارے اور آخری دو پاروں کی تفسیر فارسی زبان میں ہی لکھی۔ اس کے بعد شاہ صاحبؒ کے دوسرے صاحبزادے حضرت مولانا شاہ رفیع الدینؒ نے کلامِ پاک کا اردو زبان میں تحت اللفظ ترجمہ کیا۔ یہ ترجمہ آج رائج ہے۔ اسی زمانے میں شاہ صاحب کے تیسرے صاحبزادے حضرت مولانا شاہ عبد القادرؒ نے کلامِ پاک کا بامحاورہ اردو ترجمہ ’’موضح القرآن‘‘ کے تاریخی نام سے ۱۲۰۵ھ مطابق ۱۷۹۱ء میں شائع کیا۔ یہ ترجمہ اب بھی کثرت سے رائج ہے اور بے حد مقبول ہے۔
گزشتہ دو صدیوں میں اس برصغیر میں جتنے بھی تراجم اور تفاسیر شائع ہوئی ہیں ان میں سے بیشتر کی بنیاد یہی تراجم ہیں۔ تفسیر ’’معالم العرفان فی دروس القرآن‘‘ جو حال ہی میں گوجرانوالہ میں بیس جلدوں میں منظر عام پر آئی ہے اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس تفسیر کے مصنف حضرت مولانا صوفی عبد الحمید صاحب سواتی مدظلہ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ کو شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے شرفِ تلمذ اور روحانی نسبت کے ساتھ امامِ اہلِ سنت حضرت مولانا عبد الشکور صاحب فاروق لکھنوی کے ادارہ سے بھی سندِ فضیلت حاصل ہے۔
آپ نے گوجرانوالہ میں ۱۹۵۲ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم کی بنیاد رکھی اور اسی وقت سے درس و تدریس، تصنیف و تالیف، تبلیغ، تحقیق کے شعبوں میں گرانقدر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ مدرسہ نصرۃ العلوم کے جاری ہونے کے وقت سے ہی آپ نے ہفتہ میں چار دن درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ تفسیر ’’معالم العرفان فی دروس القرآن‘‘ دراصل صوفی صاحب مدظلہ کے ان ارشادات کا ہی مجموعہ ہے جو آپ نے چالیس برس سے زیادہ عرصہ پر محیط ان دروس میں بیان فرمائے۔ ابتدا ہی سے ان دروس کو ریکارڈ کرنے کا بندوبست کر لیا گیا تھا۔ اس طرح قرآن پاک کی مکمل تفسیر چار سو پچھتر کیسٹوں میں پوری ہوئی۔ اس کی طباعت کا سلسلہ رمضان المبارک ۱۴۰۰ھ مطابق اگست ۱۹۸۱ء میں شروع کیا گیا جو رمضان المبارک ۱۴۱۶ھ مطابق جنوری ۱۹۹۶ء میں بیس جلدوں میں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔
  • تفسیر ’’معالم العرفان فی دروس القرآن‘‘ اب تک کی موجودہ تمام بڑی تفاسیر کے نکات اور مضامین کا ایک نہایت عمدہ خلاصہ ہے۔
  • اس کی زبان بالکل سادہ اور عام فہم ہے، یہاں تک کہ معمولی اردو خوان بھی اس سے پوری طرح استفادہ کر سکتا ہے۔
  • ہر ایک جلد کی ابتدا میں جلد کی سورتوں کا مختصر تعارف کرایا گیا ہے جس میں سورت کے مضامین کا مختصراً ذکر کر دیا گیا ہے۔
  • پوری تفسیر میں ربطِ آیات کا خصوصیت سے خیال رکھا گیا ہے۔
  • اہلِ علم حضرات کے لیے مشکل علمی اور تحقیقی مسائل کو احسن طریقہ سے حل کیا گیا ہے، اس طرح ایک قاری کو بڑی تفاسیر کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
  • اس تفسیر میں قرآن پاک کے حقائق و معارف اور اللہ جل و شانہ کے ابدی پیغام کو نہایت سہل اور سادہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
  • تفسیر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں قرآن پاک کی تعلیمات اور مفہوم و مطالب کو حضراتِ خلفائے راشدینؓ، صحابہ کرامؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ، ائمہ کرامؒ، سلف صالحینؒ اور بزرگان دینؒ خصوصاً محدثین کرامؒ کے مرتب کردہ اصولوں اور رہنمائی میں بیان کیا گیا ہے۔
  • توحید، رسالت، ختمِ نبوت، عظمتِ صحابہؓ اور معاد جیسے اہم موضوعات کو نہایت آسان الفاظ میں قاری کے ذہن نشین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
  • کفر و شرک و بدعات اور ادیانِ باطلہ اور ان سے متعلق تحریکات کا نہایت مفید اور عمدہ طریقہ سے رد کیا گیا ہے۔
  • تفسیر میں امام الہند حکیم الامت حضرت مولانا شاہ ولی اللہ کے گراں قدر جواہرات کو نہایت آسان اور عام فہم الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
  • ان سب خوبیوں کے ساتھ ضروری مسائل کی تشریح بالکل سادہ زبان میں کی گئی ہے جو بے حد مفید ہے۔
  • علاوہ ازیں علمائے حق کے نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے غلط افکار اور باطل فرقوں کی مکمل بیخ کنی کی گئی ہے۔
  • دورِ حاضر کے باطل نظامات مثل سرمایہ داری، سوشلزم، کمیونزم اور اس طرح کی دیگر تحریکات اور نظریات کی خامیاں بیان کی گئی ہیں۔
  • حکمتِ ولی اللہ کی روشنی میں قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت اور لازوال حکمتِ عملی کی وضاحت کے ساتھ معاشی اور اقتصادی مسائل کا حل پیش کیا گیا ہے۔
  • جدت پسند طبقوں کے ذہنوں میں اسلام کے متعلق پائے جانے والے شکوک و شبہات کو نہایت عمدہ انداز میں رفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
  • برصغیر کی سیاسی و دیگر تحریکوں اور رہنماؤں پر بھی کہیں کہیں تبصرہ کیا گیا ہے۔
  • اور موجودہ ماحول کی خرابیوں کی نشاندہی کے ساتھ ان کا حل اور علاج قرآن پاک اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کی روشنی میں بتایا گیا ہے۔
تفسیر ’’معالم العرفان فی دروس القرآن‘‘ طالب علموں، خطیبوں، علمائے کرام اور عوام الناس کے لیے یکساں مفید اور معلومات افزا ہے۔ اور اپنی تمام معنوی خوبیوں کے ساتھ ظاہری خوبیوں یعنی عمدہ کتابت، اعلیٰ کاغذ، بہترین طباعت اور دیدہ زیب جلد بندی سے بھی مزین ہے۔ کل صفحات تقریباً ۱۳۰۰۰ جبکہ قیمت ۳۱۵۵ روپے ہے۔ ناشر: مکتبہ دروس القرآن، فاروق گنج، گوجرانوالہ۔
(مطبوعہ روزنامہ پاکستان لاہور ۔ ۲۸ اپریل ۲۰۰۰ء)

عالمی منظر نامہ

ادارہ

خواتین کے بارے میں اقوامِ متحدہ کا ’’فرمانِ مقدس‘‘

مغربی دنیا میں عورت کے حق میں پہلا آئینی قدم ۱۸۸۲ء میں اٹھایا گی اور یہ فرمان جاری کیا گیا کہ عورتیں اپنی مزدوری کی رقم اپنے پاس رکھ سکتی ہیں۔
اس کے بعد اقوامِ متحدہ کی سرکردگی میں ۱۹۷۵ء میں میکسیکو، ۱۹۸۰ء میں کوپن ہیگن، ۱۹۹۰ء میں نیروبی، اور ۱۹۹۵ء میں بیجنگ میں گیارہ روزہ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ۱۸۹ ممالک کے پانچ ہزار چار سو مندوبین اور ۴۰ ہزار خواتین پر مشتمل غیر سرکاری مندوبین نے شرکت کی۔
اب ۵ جون سے بیجنگ پلس فائیو کے نام سے نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا خصوصی اجلاس ہو رہا ہے جو ۹ جون تک جاری رہے گا۔ اس اجلاس کا عنوان یہ رکھا گیا ہے:
’’خواتین ۲۰۰۰ء: ۲۱ویں صدی کے لیے جنسی مساوات، ترقی اور امن‘‘۔
اس اجلاس میں ڈیڑھ ہزار مندوبین سرکاری طور پر اور ۲۰ سے ۲۵ ہزار خواتین غیر سرکاری طور پر شرکت کر رہی ہیں۔ اس اجلاس کے ایجنڈے کو ’’فرمانِ مقدس‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس فرمانِ مقدس کے ذریعے عورت کے حقوق کے نام پر معاشرے میں اختلاطِ مرد و زن، جنسی انارکی، خاندانی نظام کی تباہی کو عام کیا جائے گا، اور اس کانفرنس میں عورت کی معاشرے میں ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی حیثیت کے بجائے محض اسے شمعِ محفل بنا کر رکھ دینے کے قانونی تحفظ کے ساتھ ساتھ جو معاملات خصوصاً زیرِ غور رہیں گے وہ درج ذیل ہیں:
  1. جنس، نسل، مذہب، عقیدہ، جسمانی معذوری، عمر، یا جنسی رجحان کی بنیاد پر امتیاز کی ممانعت کرنے اور ختم کرنے کے لیے قوانین تیار کرنا اور نافذ کرنا (H-120)۔
  2. وہ قوانین جو ہم جنس پرستی کو جرم قرار دیتے ہیں، ان کا جائزہ لینا اور انہیں منسوخ کرنا (J-102)۔
  3. خواتین پیداواری اور تولیدی، دونوں سرگرمیوں میں مصروف ہیں، اس لیے انہیں ہر گھریلو کام اور تولیدی کام، دونوں کا معاوضہ ملنا چاہیے تاکہ دنیا سے غربت ختم ہو سکے (J101)۔
  4. طوائفوں کو جنسی کارکن کا خطاب دینا اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے دنیا کو اپنے احکامات سے مجبور کرنا۔
  5. گھریلو ذمہ داریوں کا شماریاتی تجزیہ ناممکن ہونے کی بنا پر خواتین پر نامناسب بوجھ پڑنے کی وجہ سے جو عدمِ توازن ہے، اس کے لیے قانون سازی کرنے کی کوشش کرنا (J-103)۔
  6. گھریلو کام کرنے سے انکار کرنے پر ابھارنا۔
  7. ازدواجی عصمت دری کے لیے عائلی عدالتیں قائم کرنا۔
  8. عائلی تشدد اور جنسی بدسلوکی جیسے مجرمانہ معاملات کے لیے قانون سازی کرنا (M-56 C-103)۔
  9. قومی سطح پر قانونی اور انتظامی اصلاحات کے ذریعے عورتوں کو معاشی وسائل، جائیداد اور حقوقِ وراثت ایسے تمام معاملات میں مردوں کے مساوی حقوق دینا۔
  10. عورتوں کو زنا اور اسقاطِ حمل کا قانونی حق دینا۔
  11. خواتین کے خلاف ہر طرح کا امتیازی سلوک ختم کرنا (D-102)۔
  12. خواتین کے سلسلے میں تمام موجودہ اور مستقبل کی قانون سازی کا جائزہ لینا تاکہ اس کنونشن سے مطابقت اور مکمل تعمیل کو یقینی بنایا جائے (E-102)۔
نیویارک میں اس کانفرنس میں جو بھی منظور کیا جائے گا وہ بین الاقوامی قانون کی حیثیت اختیار کر لے گا، اور اقوامِ متحدہ کے ممبر ممالک کی ذمہ داری ہو گی کہ ان سفارشات پر عملدرآمد کریں۔ تاہم ہنوز یہ بات منظرِ عام پر نہیں آئی کہ جو ممالک ان احکامات کو نہیں مانیں گے ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جائے گا۔
(روزنامہ انصاف لاہور ۔ ۸ جون ۲۰۰۰ء)

پاکستان دستخط نہیں کرے گا

لاہور (خبر نگار خصوصی) وفاقی حکومت نے لاہور ہائیکورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ حکومتِ پاکستان اقوامِ متحدہ کی کسی ایسی دستاویز پر دستخط نہیں کرے گی جو اسلام کے منافی ہو۔ یہ بات ڈپٹی اٹارنی جنرل شیر زمان خان نے عورتوں کی جنسی آزادی کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پیش کردہ قرارداد پر پاکستان کو دستخط کرنے سے روکنے کے لیے دائر درخواست میں بتائی۔
یہ درخواست ورلڈ مسلم جیورسٹس پاکستان کے چیئرمین محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ نے دائر کی تھی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان جنرل اسمبلی کی قرارداد کی ہر اس آئٹم کی مخالفت کرے گا جو اسلام کے منافی ہو گی۔ جنرل اسمبلی کا اجلاس جس معاملہ پر غور کر رہا ہے پاکستان اس کی مخالفت کرے گا اور اس مقصد کے لیے وفد کو بھی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھیجا جائے گا۔ عدالت نے وفاقی حکومت کے جواب کے بعد درخواست نبٹا دی۔
(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۹ جون ۲۰۰۰ء)

کوسووو میں مسلمانوں اور سربوں کی جھڑپیں

کوسووو (اے این این) کوسووو میں سربوں اور مسلمانوں کے درمیان دوبارہ جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں۔ تازہ جھڑپوں میں آٹھ افراد شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق کوسووو کے قصبے قارچ نیشہ میں مسلمانوں اور سربوں کے درمیان جھڑپوں میں شدت پیدا ہو گئی ہے۔ تازہ جھڑپیں قصبے کے ایک بازار میں دستی بموں کے دھماکے کے بعد شروع ہوئیں۔
علاوہ ازیں ایک سال قبل سرب فوج کے کوسووو سے انخلا کے باوجود علاقے میں اب تک امن قائم نہیں ہو سکا۔ سرب باشندوں اور مسلمانوں میں منقسم شہر مترویشیا میں جھڑپیں ابھی بھی جاری ہیں۔ مسلمان مطالبہ کر رہے ہیں کہ سرب باشندے اس علاقے کو خالی کر کے اپنے علاقے میں واپس چلے جائیں۔
(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۔ ۸ جون ۲۰۰۰ء)

بھارتی مسلمان اور سکیورٹی فورسز

گوربائی (اے ایف پی) آسام کے سینئر مسلمان وزیر عبد المحیب مجمعدار نے کہا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کو سکیورٹی فورسز پاکستانی جاسوس ہونے کے الزام میں ہراساں کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا، آسام میں جس کی بھی ڈاڑھی ہو اور سر پر ٹوپی ہو اسے آئی ایس آئی کا مخبر سمجھ لیا جاتا ہے۔ انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پوری مسلمان برادری کو پولیس نے کٹہرے میں کھڑا کر رکھا ہے، ان کی تذلیل کی جاتی ہے اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے حقوق کے لیے لڑنا ہو گا۔
(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۸ جون ۲۰۰۰ء)

کراچی میں مسیحی مشنریوں کی سرگرمیاں

کراچی (خبری ذرائع) عیسائی مشنریوں نے شہر کے متمول علاقوں کو ہدف بنا کر مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی زبردست مہم شروع کر دی ہے۔ انگریزی خواندہ ایک مرد اور ایک عورت پر مشتمل گروپس بڑے پیمانے پر گلشن اقبال، کلفٹن جیسے علاقوں میں گھر گھر دستک دے کر اخلاقیات کے فروغ کے نام پر عیسائیت کی دعوت دے رہے ہیں اور یہ سلسلہ عالمی نیٹ ورک کا حصہ ہے۔
تفصیلات کے مطابق واچ ٹاور ’’بائبل اینڈ ڈسٹرکٹ سوسائٹی نیویارک‘‘ نے پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں عیسائی نظریات کو فروغ دینے کے لیے مشنریز کا جال بچھا دیا ہے اور اس کام کا سب سے بڑا اور مؤثر ذریعہ Awake نامی سہ ماہی جریدہ ہے جو دنیا کی ۸۲ زبانوں میں دو کروڑ سے زائد تعداد میں شائع ہو رہا ہے۔ اس رسالے کی مفت تقسیم کے لیے مرد و خواتین گھر گھر پہنچتے ہیں اور انگریزی زبان اور متاثر کرنے کے لیے دیگر ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اخلاقیات، انسانیت، حقوق، روشنی، اچھائی جیسے الفاظ کا استعمال کر کے پس پردہ عیسائیت کی تبلیغ کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ یوحنا ۱۷ : ۳ میں جابجا حضرت عیسٰی علیہ السلام کی فرضی تصاویر بھی شائع کی گئی ہیں۔
(ہفت روزہ ضربِ مومن کراچی ۔ ۱۵ جون ۲۰۰۰ء)

اقوامِ متحدہ میں قادیانیوں کی درخواست

نیویارک (نمائندہ خصوصی) قادیانی اسلام اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں اور مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ متحرک رہتے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار پاکستان مسلم لیگ علماء مشائخ ونگ کے صدر پیر آف بھیرہ شریف سید امین الحسنات شاہ نے مسلم لیگ یو ایس اے کی جانب سے اپنے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے احمدیہ ایسوسی ایشن آف لندن کی طرف سے پاکستان کے خلاف اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی میں دائر کردہ اپیل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس اپیل میں بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ پاکستان میں قادیانیوں کو سرکاری ملازمت نہیں ملتی، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ پر پابندی ہے، اور ایک دوسرے کو سلام کہنے کی اجازت نہیں، اور دنیا میں بسنے والے ۴ کروڑ قادیانیوں پر ظلم ہو رہا ہے، قادیانی جیلوں میں سڑ رہے ہیں، لہٰذا مغربی ممالک، اقوامِ متحدہ اور امریکہ خصوصی طور پر اس کا نوٹس لے۔
پیر امین الحسنات شاہ نے کہا کہ یہ سراسر جھوٹا پراپیگنڈا ہے، ہر کوئی جانتا ہے کہ قادیانی ہمیشہ پاکستانی حکومتوں میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے ہیں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ ان پر کوئی پابندی نہیں۔
مسلم لیگ یو ایس اے کی جانب سے احمدیہ ایسوسی ایشن کی مذکورہ اپیل کی خبر کی کاپیاں حاضرینِ جلسہ میں تقسیم کی گئیں۔ آخر میں پنجاب اسمبلی کے سابق رکن سہیل ضیاء بٹ، مسلم لیگ کے صدر آغا افضل اور دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔
(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۴ جون ۲۰۰۰ء)

فلپائن میں مجاہدین کے خلاف کاروائی

منیلا (این این آئی) فلپائن میں سرکاری فوج نے مسلم عسکریت پسندوں کے ایک ٹھکانے پر حملہ کر کے گیارہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا۔ سرکاری فوج کے ترجمان کرنل ہمیوجینس نے یہاں اپنے ایک بیان میں کہا کہ سرکاری فوج نے گزشتہ روز موگودینو نامی صوبے میں کونابانو کے شہر میں مسلم عسکریت پسندوں کے ایک ٹھکانے پر اچانک دھاوا بول دیا۔ ترجمان کے مطابق کیمپ عثمان نامی ٹھکانے پر حملے میں گیارہ عسکریت پسند ہلاک ہو گئے جبکہ فوج نے کیمپ پر قبضہ کر لیا۔ ترجمان کے مطابق مسلم عسکریت پسندوں کے خلاف اس وقت تک مسلح کاروائی جاری رہے گی جب تک ملک میں متوازی حکومت کا نام نشان نہیں مٹ جاتا۔
(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۔ ۵ جون ۲۰۰۰ء)

احمد شاہ مسعود کے لیے روسی حمایت

ماسکو (پی پی آئی) روس کی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری سرگئی ایوانوف نے کہا ہے کہ طالبان کے خلاف لڑائی میں روس کھل کر احمد شاہ مسعود کی حمایت کرے گا۔ روسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق انہوں نے کہا کہ وہ مسعود کی افواج کو اسلحے کی فراہمی کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ روس چاہتا ہے کہ افغانستان سے طالبان کی یلغار کو روکنے کے لیے ایک مضبوط فوج تشکیل دی جائے جو طالبان کی انتہاپسندی کو وسطِ ایشیائی ریاستوں کرغیستان اور ازبکستان تک پہنچنے سے روکا جا سکے۔
(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۴ جون ۲۰۰۰ء)

پاکستان سے سودی نظام کے خاتمہ کی نوید

کراچی (نمائندہ جنگ) سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت سودی نظام کے خاتمے کے لیے مرحلہ وار پیشرفت جاری ہے، کئی غیر اسلامی قوانین کو کالعدم قرار دے کر ان کی جگہ اسلامی قوانین نافذ کر دیے گئے ہیں، اور ۳۱ دسمبر ۲۰۰۰ء کو ایک آرڈیننس کے ذریعے غیر سودی نظام کا خاتمہ ہو جائے گا۔ 
یہ باتیں ممتاز اسکالر اور قومی سلامتی کونسل کے رکن ڈاکٹر محمود احمد غازی نے فاران کلب انٹرنیشنل کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتائیں، جس سے کلب کے بانی و نگرانِ اعلیٰ عبد الرحمان چھاپرا، صدر شیخ غلام احمد، شمس الدین خالد اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔
ڈاکٹر محمود غازی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مخلوط انتخابات کا طریقہ رائج کرنے سے ان ممالک میں مسلم تحریکوں کے موقف کو نقصان پہنچے گا جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ پاکستانی پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں نے نفاذِ اسلام کی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ پاکستانی دستور کے تحت اسلام سے متصادم کوئی قانون نہیں بن سکتا، لیکن یہ المیہ ہے کہ غیر اسلامی قوانین کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔
پوری اسلامی دنیا پاکستان کو اپنا وطن سمجھتی ہے اور اس کی فوج سے محبت کرتی ہے کیونکہ یہ نظریۂ اسلامی کی علمبردار ہے، فجی جیسے جزائر سمیت دنیائے اسلام کے ہر گوشے میں پاکستانی افواج سے مسلمانوں کی عقیدت و محبت کا یہ عالم ہے کہ لوگوں نے اپنے گھروں میں پاکستانی جنرلوں اور میجر عزیز بھٹی جیسے شہید فوجیوں کی تصاویر آویزاں کر رکھی ہیں۔
ڈاکٹر غازی نے کہا کہ قیامِ پاکستان سے قبل ہی قراردادِ پاکستان میں ریاست کے آئینی و قانونی تصورات کا تعین کر دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سودی نظام کے خاتمہ کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے پہلے مرحلے میں کام مکمل ہو گیا ہے جس کے تحت کئی غیر اسلامی قوانین کو کالعدم قرار دے کر ان کی جگہ اسلامی قوانین نافذ کر دیے گئے ہیں، جبکہ دوسرے مرحلے پر کام جاری ہے اور ۳۰ جون تک یہ کام مکمل ہو جائے گا، جبکہ تیسرا مرحلہ ۳۱ دسمبر ۲۰۰۰ء تک پورا ہو گا اور ایک قانون کے ذریعے پورے بینکنگ نظام کو اسلامی اصولوں کے مطابق کر دیا جائے گا۔ قائد اعظم نے کہا تھا کہ پاکستان اسلامی دنیا کا بیس کیمپ ہو گا، اس لیے پوری دنیا کی نگاہیں پاکستان پر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلام کے عدلِ اجتماعی نظام کے قیام میں ناکامی کے ذمہ دار صحافی، فوجی، اہلِ علم، دانشور اور سیاستدانوں سمیت بحیثیت مجموعی پوری قوم ہے۔ این این آئی کے مطابق محمود احمد غازی نے کہا ہے کہ حکومتی سطح پر اگر شریعت کے خلاف کوئی بات ہوئی تو میں اس کے خلاف آواز اٹھاؤں گا۔
انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ کشمیر میں جہاد فرض ہے کیونکہ مسلمانوں کے لیے حکم ہے کہ جب دشمن اس کے کسی علاقے پر قبضہ کر لے تو جہاد فرض ہو جاتا ہے، اور حکم ہے کہ جہاد کے لیے بیٹا اس سلسلے میں باپ کا حکم تسلیم نہ کرے، شوہر روکے تو بیوی اس کی اطاعت نہ کرے، اور غلام آقا کا حکم نہ مانے۔
(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۵ جون ۲۰۰۰ء)

چیچنیا کی امن تجاویز مسترد

ماسکو (ا ف پ) روس نے چیچن لیڈروں کی امریکہ کو پیش کی گئی امن تجاویز کو یکسر مسترد کر دیا اور کہا کہ روس صرف علیحدگی پسندوں کے ہتھیار ڈالنے کی صورت میں امن کا قیام تسلیم کرے گا۔ صدر ویما ریمرپوئن کے ترجمان سرجیو سیرز مسیکی نے بتایا کہ ہم ان تجاویز سے متفق نہیں ہیں اور یہ بے سود کوشش ہے اور ہم صرف یہ چاہیں گے کہ علیحدگی پسند ہتھیار ڈال دیں۔
اتاطاس نیوز ایجنسی کے مطابق چیچن وزیر خارجہ الیاس افمادوف نے دو صفحات پر مشتمل امن تجاویز واشنگٹن کو پیش کی تھیں اور فوری سیزفائر اور مذاکرات کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ تجاویز وزیرخارجہ میڈیلین البرائیٹ کو دورۂ مشرقِ وسطٰی کے دوران پیش کی گئی تھیں۔
(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۔ ۷ جون ۲۰۰۰ء)

عالمی سربراہوں کا سب سے بڑا اجتماع

اقوامِ متحدہ (اے پی) اس سال ستمبر میں منعقد ہونے والا اقوامِ متحدہ کا میلینیم سربراہی اجلاس عالمی راہنماؤں کا سب سے بڑا اجتماع ہو گا۔ ۶ سے ۸ ستمبر تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں اقوامِ متحدہ کے تمام ۱۸۸ رکن ممالک کے سربراہوں کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے، جس میں ۲۱ویں صدی کی دنیا اور اقوامِ متحدہ کو درپیش بڑے چیلنجوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اقوامِ متحدہ کے ترجمان فیڈافرد نے کہا کہ اجلاس میں شرکت کے لیے ۱۴۴ سربراہانِ مملکت، ۴۶ سربراہانِ حکومت، ۵ نائب صدر اور ولی عہد نے اظہار کیا ہے۔
(روزنامہ جنگ لاہور ۲ جون ۲۰۰۰ء)

انڈونیشیا میں مذہبی فسادات

جکارتہ (اے ایف پی) انڈونیشیا کے قصبہ یوسو میں مذہبی فسادات میں ۱۲۰ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ایک انڈونیشی ملٹری کمانڈر نے جمعرات کو بتایا کہ وہاں سے آنے والی رپورٹ کے مطابق ان فسادات میں سینکڑوں افراد زخمی ہو گئے۔ فسادات کے بعد پوسو میں ماکسار سے ایک بٹالین نیم فوجی دستے اور ۴ بکتر بند گاڑیاں بھیج دی گئی ہیں، جبکہ مزید ایک بٹالین فورس ۱۰ جون تک ۵ فوجی گاڑیوں کے ہمراہ پوسو پہنچ جائے گی۔ نئی فورس کے آتے ہی پوسو اور پالو کے درمیان زمینی راستہ دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔
(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۹ جون ۲۰۰۰ء)

ابوسیاف اور فلپائنی حکومت میں مذاکرات

جولو، فلپائن (اے ایف پی) فلپائن میں حکومت اور ۲۱ غیر ملکیوں کو یرغمال بنانے والے حریت پسند گروپ ابو سیاف میں دوبارہ مذاکرات شروع ہو گئے۔ بدھ کی صبح ۹ رکنی حکومتی وفد جزیرہ جولو پہنچا جہاں اس نے ابو سیاف گروپ کے رہنماؤں سے مذاکرات شروع کر دیے۔ آخری اطلاعات تک مذاکرات ابھی جاری تھے۔
(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۸ جون ۲۰۰۰ء)

سعودی عرب اور انسانی حقوق

مکہ مکرمہ (نمائندہ خصوصی) سعودی عرب کسی بھی حالت میں شریعت پر کوئی سودے بازی نہیں کرے گا اور نہ اسے ترک کرے گا۔ اس عزم کا اظہار سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے برسلز میں یورپی یونین اور جی سی سی وزرائے خارجہ  کے مشترکہ اجلاس میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کے نمائندہ کو انسانی حقوق کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس موضوع پر اصولی اور منصفانہ موقف اختیار کرنا چاہیے تھا، سعودی عرب کے حقائق سے آنکھیں موند کر اور اس کے عدالتی اور سیاسی نظام سے ناواقفیت کے عکاس بیان دینا افسوسناک امر ہے۔
انہوں نے جی سی سی وزرائے خارجہ وفد کے سربراہ کی حیثیت سے کہا کہ سعودی عرب انسانی حقوق سے بڑھتی ہوئی دلچسپی کا خیرمقدم کرتا ہے کیونکہ ہمارا مذہب انسانی حقوق کے تحفظ پر زور دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اسلامی ہدایات کا مذاق اڑانے یا ان کی آفاقیت کو نظرانداز کرنے کی کسی بھی کوشش کو برداشت نہیں کرے گا۔
سعودی وزیرخارجہ نے کہا کہ تعجب انگیز امر یہ ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ ہمارے ہاں انسانی حقوق کے تعارف سے متعلق غیر سرکاری خودمختار قومی ادارہ اور وزیراعظم کے ماتحت سرکاری قومی ادارہ کی تشکیل کے لیے اقدامات کیے جا رہے تھے، انسانی حقوق کے عالمی فنڈز میں رضاکارانہ طور پر حصہ لیا جا رہا تھا، انسدادِ تشدد کے معاہدے میں شمولیت اختیار کر لی گئی تھی، ایسے حالات میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے من گھڑت الزامات کی مہم چلانا سمجھ سے بالاتر ہے۔
(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۵ جون ۲۰۰۰ء)

دو لڑکوں کی شادی ۔ نکاح خواں گرفتار

شکارپور (نامہ نگار) شکارپور کے علاقہ گڑھی یاسین میں دو محبت کرنے والے لڑکوں نے آپس میں شادی کر لی۔ نکاح کی تقریب کے سلسلے میں باقاعدہ اہتمام کیا گیا۔ مولوی نے وکیل اور گواہوں کی موجودگی میں دونوں لڑکوں کا نکاح پڑھوایا۔ نکاح کی تقریب میں شریک مہمانوں میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔
تفصیلات کے مطابق ممتاز خان رائس مل گڑھی یاسین میں کام کرنے والے دو لڑکے اعجاز اور ببلو جمالی کی آپس میں محبت چلی آ رہی تھی۔ آخرکار دونوں نے اپنے دوستوں سے مشورہ کرنے کے بعد آپس میں شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس طرح مل کے مزدوروں نے دولہا اعجاز جھکر اور دلہن ببلو جمالی کی آپس میں شادی کے سلسلے میں رائس مل میں ایک تقریب کا اہتمام کر کے نکاح پڑھانے کے لیے مولوی غلام حیدر شیخ اور وکیل کریم ڈنو کو خاص طور پر بلایا۔
اگلے ہی دن دو لڑکوں کی آپس میں شادی کی اطلاع جیسے ہی پولیس کو ملی، پولیس نے فوری طور پر کاروائی کرتے ہوئے دو لڑکوں کا آپس میں نکاح پڑھانے والے مولوی غلام حیدر شیخ اور شادی کے وکیل کریم ڈنو کو گرفتار کر لیا۔ پولیس نے دولہا اور دلہن لڑکوں کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا مگر وہ دونوں فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۷ جون ۲۰۰۰ء)

سیکولر سٹیٹ اور دینی مدارس پر کنٹرول ۔ وزیر داخلہ کا نیا ایجنڈا

واشنگٹن (این این آئی) وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے کہا ہے کہ پاکستان کو ترقی پسند، جدید اور متحمل مزاج سیکولر سٹیٹ ہونا چاہیے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ امریکی ایجنڈا نہیں بلکہ ہماری اپنی پالیسی ہے۔ حکومت واضح طور پر فیصلہ کر چکی ہے کہ ان ہزاروں مدارس کو کنٹرول کیا جائے گا جن میں سے بعض مغرب کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں اور بعض کشمیر، افغانستان، بوسنیا اور چیچنیا میں جہاد کے لیے نوجوان تیار کر رہے ہیں۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے نمائندہ جوڈتھ ملر کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق وزیر داخلہ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان میں حکومت نے عسکریت پسندوں کا نیٹ ورک بتدریج ختم کرنے کے لیے مہم شروع کر دی ہے کیونکہ ان کے باعث پاکستان میں فرقہ واریت پھیل رہی ہے اور لوگوں کے ذہن زہرآلود کیے جا رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اپیل پر افغانستان میں طالبان نے متعدد پاکستانی اور عرب ملک بدر کیے ہیں جو اپنی حکومتوں کو دہشت گردی کی سرگرمیوں میں مطلوب تھے۔ طالبان نے رشکاور میں کابل کے قریب ایک کیمپ کا بھی سراغ لگایا ہے جہاں عسکری تربیت دی جاتی تھی۔
وزیر داخلہ نے اس امر پر زور دیا کہ قومی سلامتی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے لیے ایک اچھا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہم کسی کے ایجنڈے پر کام نہیں کر رہے۔ پاکستان کو ایک پروگریسو، جدید اور متحمل مزاج سیکولر سٹیٹ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام ایک رات میں نہیں ہو سکتا اور اس سے بہت سے لوگ اپ سیٹ ہوں گے۔ تاہم حکومت ان پر قابو پانے اور بتدریج رول بیک کرنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان میں چار ہزار کے قریب دینی مدارس رجسٹرڈ ہیں۔ وہ ان دینی مدارس کے سربراہوں سے ملاقات کر کے ان پر زور دے چکے ہیں کہ وہ ان مدارس میں ریاضی اور کمپیوٹر کی تعلیم کو بھی اپنے نصاب میں شامل کریں۔ وہ صرف ایک قسم کے لوگ پیدا نہ کریں بلکہ متبادل شخصیات پیدا کریں۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکہ نے وزیر داخلہ کے انٹرویو کے حوالے سے پاکستان کے دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے تازہ ترین اقدامات کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ یہ اقدامات کامیاب ہوں گے، اور کہا ہے کہ ہمیں پاکستان کی حکومت سے اسی قسم کے اقدامات کی امید ہے۔
امریکی نائب وزیرخارجہ برائے جنوبی ایشیا کارل انڈرفرتھ نے وزیر داخلہ کے ایکشن پلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اس کا خیرمقدم کرتا ہے۔ اگرچہ پاکستان نے امریکہ کو باقاعدہ طور پر ان اقدامات سے آگاہ نہیں کیا تاہم ہمیں پاکستان سے ایسی ہی امید ہے اور ہم اسی قسم کے اعلانات کے منتظر ہیں، امید ہے کہ پاکستان اس میں کامیاب ہو گا۔ ایک اور امریکی عہدیدار نے کہا کہ لگتا ہے پاکستان پہلے سے زیادہ اقدامات کر رہا ہے۔
(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۱۱ جون ۲۰۰۰ء)

وزارتِ داخلہ کی وضاحت

اسلام آباد (این این آئی) وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے ہرگز یہ نہیں کہا کہ پاکستان کو ایک سیکولر سٹیٹ بنایا جائے، اخبار نے غلط بیانی کی ہے۔
اتوار کو جاری ہونے والے ایک بیان میں ترجمان نے نیویارک ٹائمز کے حوالے سے پاکستانی پریس میں شائع ہونے والے وزیر داخلہ کے انٹرویو کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نیویارک ٹائمز نے وزیر داخلہ اور انٹرویو کرنے والے کے خیالات کو خلط ملط کر دیا ہے جس سے قارئین کے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
ترجمان نے کہا کہ انٹرویو کے دوران وزیر داخلہ کے خیالات بالکل واضح اور ٹھوس تھے، انہوں نے پاکستان کو سیکولر سٹیٹ بنانے کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ ترجمان نے کہا کہ وزیر داخلہ متعدد مرتبہ واضح کر چکے ہیں کہ حکومت کا مقصد پاکستان کو ایک معتبر، جدید، پروگریسو اور متحمل مزاج سٹیٹ بنانا ہے۔ جہاں تک پاکستان کو سیکولر سٹیٹ بنانے کا تعلق ہے یہ معاملہ آزادی کے وقت ہی طے ہو گیا تھا کیونکہ پاکستان ایک مسلم ملک کی حیثیت سے ہی اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔ لہٰذا اسلام ہی پاکستان کا سرکاری مذہب ہے اور پاکستان کے عوام اسلام کے سیاسی، معاشی اور اخلاقی قدروں اور سنہرے اصولوں سے مستفید ہوتے رہیں گے۔۔۔
(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۱۲ جون ۲۰۰۰ء)

تعارف و تبصرہ

ادارہ

خطباتِ سواتی (جلد ششم)

حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی دامت برکاتہم مہتمم مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے دروس القرآن اور خطبات سے علماء کرام، خطباء اور دیگر پڑھے لکھے حضرات جس طرح استفادہ کر رہے ہیں وہ بارگاہِ ایزدی میں ان کی قبولیت کی علامت ہے اور بحمد اللہ تعالیٰ اس کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے۔
’’خطباتِ سواتی‘‘ کے نام سے حضرت صوفی صاحب کے خطباتِ جمعہ کا چھٹا مجموعہ اس وقت ہمارے سامنے ہے جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے متعدد اہم عنوانات پر معلوماتی اور پُر اَثر خطبات پر مشتمل ہے اور خطابت و تدریس سے متعلقہ حضرات کے لیے بطور خاص قابلِ قدر تحفہ ہے۔
صفحات ۴۸۰ ۔ عمدہ طباعت و کتابت ۔ مضبوط جلد ۔ قیمت ایک سو تیس روپے ۔ ملنے کا پتہ: مکتبہ دروس القرآن، فاروق گنج، گوجرانوالہ۔

ہدایہ اور صاحبِ ہدایہ

جامعہ ابوہریرہؓ، خالق آباد، نوشہرہ، صوبہ سرحد کے مہتمم اور معروف مصنف مولانا عبد القیوم حقانی نے ہدایہ کی مسلسل تدریس کے دوران زیرِ بحث آنے والے اہم علمی نکات اور صاحبِ ہدایہ کی سیرت و سوانح کے بارے میں اہم معلومات کو مندرجہ بالا عنوان کے تحت ایک کتابچہ میں جمع کر دیا ہے جو مدرسین اور طلبہ کے لیے بہت فائدہ کی چیز ہے۔
صفحات ۸۰ ۔ کتابت و طباعت معیاری ۔ قیمت درج نہیں ۔ ملنے کا پتہ: القاسم اکیڈمی جامعہ ابوہریرہؓ، خالق آباد، ضلع نوشہرہ، صوبہ سرحد۔

عقائدِ علماء دیوبند

علماء دیوبند کے عقائد کی وضاحت میں حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ کا تحریر فرمودہ کتابچہ ’’المہند علی المفند‘‘ ایک تاریخی دستاویز ہے جسے اکابر علماء دیوبند کے ساتھ ممتاز عرب علماء کی تصدیق بھی حاصل ہے۔ حضرت مولانا مفتی عبد الشکور ترمذی دامت برکاتہم نے اسی کی بنیاد پر اردو میں ’’عقائدِ علماء دیوبند‘‘ کے نام سے کتابچہ تحریر فرمایا ہے جسے علماء دیوبند کے علمی حلقوں میں پسند کیا گیا ہے۔ اب انہی کے فرزند مولانا مفتی عبد القدوس ترمذی نے اس کا خلاصہ خوبصورت پاکٹ سائز کتابچہ کی صورت میں عمدہ کتابت و طباعت کے ساتھ شائع کیا ہے جسے جامعہ حقانیہ ساہیوال ضلع سرگودھا سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

ہماری نماز (اردو و انگلش)

حضرت مولانا شاہ مسیح اللہ خان صاحبؒ کے خلیفہ مجاز حضرت مولانا محمد فاروق صاحبؒ نے ’’ہماری نماز‘‘ کے عنوان سے نماز اور اس سے متعلقہ مسائل اور ایمانیات وغیرہ ضروری معلومات پر مشتمل ایک جامع مجموعہ مرتب فرمایا تھا جسے مبین ٹرسٹ پوسٹ بکس ۴۷۰ اسلام آباد ۴۴۰۰۰ نے اردو اور انگلش میں الگ الگ کتابچوں کی صورت میں شائع کیا ہے۔ دونوں کی کتابت و طباعت عمدہ ہے اور انگلش ایڈیشن بطور خاص آرٹ پیپر پر شائع کیا گیا ہے اور مغربی ممالک میں مقیم مسلمان بچوں اور بچیوں کے لیے بہت کارآمد چیز ہے۔
جن حضرات کے رشتہ دار اور عزیز مغربی ممالک میں رہتے ہیں، ہم ان سے خصوصی طور پر گزارش کریں گے کہ وہ نماز، ضروری دعاؤں اور ایمانیات کے عربی متن اور ان کے انگلش ترجمہ پر مشتمل یہ کتابچہ اپنے ان عزیزوں کو بھجوانے کا اہتمام کریں تاکہ ان کے بچے نماز جیسے اہم فریضہ کی تعلیم آسانی کے ساتھ حاصل کر سکیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتیں اور ان کا شکر

حضرت مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ کے فرزند و جانشین اور مرکزی جامع مسجد اسلام آباد کے خطیب مولانا عبد العزیز صاحب نے انسان کے وجود اور اردگرد ماحول میں بکھری ہوئی اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے روزمرہ مشاہدہ میں آنے والی کچھ نعمتوں کو اس کتابچہ میں انتہائی دلنشین اور مؤثر انداز میں قلمبند کیا ہے، اور قرآن و سنت کے حوالوں کے ساتھ ساتھ مشاہدات و تاثرات کی صورت میں ان نعمتوں کی شکرگزاری کے احساس کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
ایک سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ خوبصورت کتابچہ جامعہ فریدیہ، ای سیون، اسلام آباد سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

صدر کلنٹن کے نام مراسلہ اور اس کا جواب

مسیحیت کے ممتاز محقق جناب محمد اسلم رانا نے امریکی صدر کلنٹن کے نام پاکستان کی ایک مسیحی تنظیم کے مراسلہ کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کا جواب تحریر کیا ہے اور یہ بات واضح کی ہے کہ پاکستان میں مسیحیوں کے حقوق کی  پامالی کے بارے میں عالمی سطح پر جو پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے، حقائق کی دنیا سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اور صرف پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے یہ شور مچایا جا رہا ہے۔
۳۲ صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ دفتر ماہنامہ ’’المذاہب‘‘ ملک پارک، شاہدرہ، لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

میں ایک احمدی تھا

ایک معروف قادیانی دانشور پروفیسر منور احمد ملک نے کچھ عرصہ قبل قادیانیت کو خیرباد کہتے ہوئے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ہے، اور ایک مضمون میں اپنے قبولِ اسلام کے اسباب و وجوہ اور قادیانی جماعت کے ناگفتہ بہ اندرونی حالات پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ مضمون روزنامہ اوصاف اسلام آباد میں شائع ہوا تھا اور اب اسے ہمارے محترم دوست جناب عبد الرشید ارشد نے رائٹرز فورم، جوہر پریس بلڈنگ، جوہر آباد، ضلع خوشاب کی طرف سے پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا ہے جو احباب میں تقسیم کے لیے ان سے منگوایا جا سکتا ہے۔

جولائی ۲۰۰۰ء

انسانی حقوق اور اسوۂ نبویؐمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
خاندانی منصوبہ بندی کی اخلاقی تباہ کاریاںعبد الرشید ارشد
بیجنگ پلس فائیو کانفرنسپروفیسر ثریا بتول علوی
گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن کے پس پردہ عزائمادارہ
ضلعی حکومتوں کا عالمی استعماری منصوبہعلی محمد رضوی
ضلعی حکومتیں: پاکستانی ریاست کے خلاف خطرناک سازشڈاکٹر جاوید اکبر انصاری
اقوامِ متحدہ کے مقاصد اور چارٹر پر ایک نظرمولانا سخی داد خوستی
عالمی منظر نامہادارہ
تعارف و تبصرہادارہ

انسانی حقوق اور اسوۂ نبویؐ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۳ جولائی ۲۰۰۰ء کو ۱۱ بجے دن ڈسٹرکٹ کونسل ہال گوجرانوالہ میں محکمہ اوقاف پنجاب کے زیر اہتمام سالانہ ڈویژنل سیرت کانفرنس منعقد ہوئی جس کی صدارت محکمہ اوقاف کے زونل ایڈمنسٹریٹر نے کی جبکہ کمشنر گوجرانوالہ ڈویژن جناب خوشنود اختر لاشاری مہمان خصوصی تھے۔ کانفرنس سے مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے علاوہ مدیر الشریعہ مولانا زاہد الراشدی نے بھی خطاب کیا، ان کے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ الشریعہ)



بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سب سے پہلے محکمہ اوقاف پنجاب کا شکر گزار ہوں کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور حیات مبارکہ کے حوالہ سے منعقد ہونے والی اس تقریب میں شرکت اور آپ حضرات سے گفتگو کا موقع فراہم کیا۔ سیرت نبویؐ پر گفتگو کرنے والا اپنی بات شروع کرنے سے پہلے اس الجھن میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اس وسیع و عریض چمنستان کے سدا بہار پھولوں میں سے کس کا انتخاب کرے اور کسے چھوڑے کیونکہ اس باغ کے ہر پھول کی خوشبو نرالی ہے اور کسی ایک کو چھوڑ کر آگے نکل جانے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ اسی کشمکش میں، میں نے آج کے دور میں زیر بحث آنے والے سب سے بڑے موضوع کے حوالہ سے سیرت طیبہ کے صرف ایک پہلو پر کچھ عرض کرنے کا ارادہ کیا ہے اور وہ ہے ’’انسانی حقوق‘‘ کا موضوع جو آج کا سب سے اہم عنوان ہے اور دنیا بھر میں اس پر گفتگو اور بحث و مباحثہ کا سلسلہ جاری ہے۔

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاف اور شفاف سیرت مبارکہ کو ہم نہ آج کی دنیا کے سامنے تحریر و تقریر کی صورت میں صحیح طور پر پیش کر رہے ہیں اور نہ ہی ہماری عملی زندگی میں اس کی کوئی جھلک پائی جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ خود ہم مسلمانوں کا وجود اسلامی تعلیمات اور جناب رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ تک نسل انسانی کی رسائی میں رکاوٹ اور حجاب بن کر رہ گیا ہے۔ بہرحال آج کی دنیا کا سب سے اہم موضوع ’’انسانی حقوق‘‘ ہے اور مغرب آج کی نسل کیانسانی کو یہ باور کرانے میں مصروف ہے کہ اس نے انسانوں کو حقوق کا شعور بخشا اور ان کے حقوق کا تعین کیا ہے۔ لیکن تاریخ کے میزان پر یہ بات درست ثابت نہیں ہوتی اس لیے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے عنوان سے حقوق کا جو تعارف اور تفصیلات قرآن کریم میں چودہ سو برس پہلے سامنے آچکی ہیں آج کا کوئی نظام خدا اور اس کے بندوں کے درمیان اور پھر خود انسانوں کے باہمی حقوق کے بارے میں اس طرح کا جامع تصور اور نظام پیش کرنے سے قاصر ہے۔

جناب سرور کائناتؐ کی سیرت طیبہ میں بے شمار واقعات ہیں جن میں آنحضرتؐ نے انسانوں بلکہ جانوروں تک کے حقوق کی وضاحت کی ہے، ان کی ادائیگی کی تلقین کی ہے اور اپنے حقوق کی پاسداری کے جذبہ کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ آج کی مجلس میں انہی میں سے چند واقعات کا تذکرہ کرنا چاہ رہا ہوں۔

ابو داؤد شریف کی روایت ہے کہ جناب رسول اللہؐ ایک دفعہ مدینہ منورہ کے کسی باغ میں تشریف لے گئے، وہاں ایک کمزور اور لاغر سا اونٹ کھڑا تھا، رسول اکرمؐ کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ اپنی زبان میں کچھ شکایت کرنے لگا۔ نبی کریمؐ نے دریافت کیا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ ایک انصاری نوجوان نے آگے بڑھ کر کہا کہ یا رسول اللہ! یہ اونٹ میرا ہے۔ اس پر آپؐ نے اسے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اس جاندار کے حقوق میں کوتاہی نہ کرو۔ پھر فرمایا کہ اس اونٹ نے تمہارے بارے میں دو شکایتیں کی ہیں۔ ایک یہ کہ تم اس سے کام اس کی ہمت سے زیادہ لیتے ہو اور دوسری یہ کہ اسے اس کی ضرورت کے مطابق خوراک نہیں دیتے۔ یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے، اس پر ہمت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو اور ضرورت کے مطابق خوراک مہیا کرو۔ اس سے اندازہ کر لیجئے کہ جناب نبی اکرمؐ نے نہ صرف انسانوں کے بلکہ جانوروں کے حقوق بھی بیان فرمائے ہیں اور ان میں کوتاہی کو ظلم قرار دیا ہے۔

ابوداؤد شریف ہی کی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز پیدل کسی جگہ تشریف لے جا رہے تھے، ایک صحابیؓ نے جو گدھے پر سوار تھے، دیکھا تو حضورؐ کے پاس آکر آپ سے درخواست کی کہ اس کے ساتھ گدھے پر سوار ہو جائیں۔ یہ کہہ کر وہ صحابی گدھے پر اپنی جگہ سے پیچھے ہٹے تاکہ نبی اکرم ان سے آگے بیٹھ جائیں۔ مگر جناب رسول اکرمؐ نے یہ کہہ کر آگے بیٹھنے سے احتراز فرمایا کہ ’’صاحب الدابۃ احق بصدرھا‘‘ جانور کا مالک آگے بیٹھنے کا زیادہ حقدار ہے۔ صحابیؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں بخوشی اپنے اس حق سے دستبردار ہوتا ہوں تو اس کے بعد آپؐ گدھے پر اس کے آگے بیٹھ گئے۔ یہ بات بظاہر ایک عام اور معمولی سی لگتی ہے لیکن اس میں نبی کریمؐ کی یہ سنت اور تعلیم موجود ہے کہ باہمی حقوق کا احترام کس قدر ضروری ہے اور حقوق کے بارے میں بڑے چھوٹے کی کوئی ترجیح نہیں ہے۔

بخاری شریف کی روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ تشریف فرما تھے، آپ کے دائیں جانب حضرت عبد اللہ بن عباسؓ بیٹھے تھے اور بائیں جانب حضرت خالد بن ولیدؓ تھے۔ یہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی تھے اور ام المؤمنین حضرت میمونہؓ ان کی حقیقی خالہ تھیں اس لیے دونوں آنحضرتؐ کے بھانجے بھی لگتے تھے۔ اس مجلس میں جناب نبی اکرمؐ کی خدمت میں کوئی مشروب پیش کیا گیا جو آپؐ نے نوش فرمایا جس کا کچھ حصہ بچ گیا تو وہ بائیں جانب بیٹھے ہوئے حضرت خالد بن ولیدؓ کو دینا چاہا جبکہ یہ حق دائیں جانب والے کا بنتا تھا جو حضرت عبد اللہ بن عباسؓ تھے، جو اگرچہ چھوٹے بچے تھے اس لیے کہ رسول اکرمؐ کی وفات کے وقت حضرت عبدا للہ بن عباسؓ کی عمر صرف پندرہ برس تھی۔ لیکن اس کے باوجود آپؐ نے ان سے اجازت مانگی اور پوچھا کہ تم اجازت دو تو یہ بچا ہوا مشروب بائیں جانب والے کو دے دوں؟ مگر حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے یہ کہہ کر اجازت دینے سے انکار کر دیا کہ میں آپ کے تبرک کے بارے میں خود پر کسی کو ترجیح نہیں دیتا۔ یہ جواب سن کر حضورؐ نے پیالہ انہی کو دیا لیکن روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’تلہ فی یدہ‘‘ پیالہ زور سے ان کے ہاتھ میں تھما دیا جس کے بارے میں شارحین کہتے ہیں کہ اس انداز میں ناگواری کا پہلو جھلکتا تھا۔ اس واقعہ پر غور کر کے نتیجہ اخذ کیجئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جی بائیں جانب پیالہ دینے کو چاہتا تھا لیکن جس کا حق تھا اس سے اجازت مانگنا ضروری سمجھا، اور اجازت نہ دینے پر اگرچہ ناگواری بھی ہوئی مگر پیالہ دیا اسی کو جس کا حق تھا خواہ وہ چھوٹا بچہ ہی تھا۔ اس سے زیادہ دوسرے کے حق کے احترام اور اپنے حق کے لیے اڑ جانے کے جذبہ کی حوصلہ افزائی کی اور کیا مثال ہو سکتی ہے۔

یہ واقعہ بھی بخاری شریف میں مذکور ہے اور اس کی تفصیلات حدیث کی دوسری کتابوں میں موجود ہیں کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک لونڈی خرید کر آزاد کر دی جس کا نام بریرہؓ تھا۔ وہ لونڈی ہونے کی حالت میں مغیثؓ نامی ایک نوجوان کے نکاح میں تھی۔ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ اگر لونڈی کا اس کے مالک نے کسی سے نکاح کر دیا ہو اور اس کے بعد کسی مرحلہ پر وہ لونڈی آزاد ہو جائے تو اسے یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ اگر وہ اپنے خاوند کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو اس سے علیحدگی اختیار کر لے۔ بریرہؓ کو یہ مسئلہ معلوم تھا اس لیے اس نے اپنا یہ حق استعمال کرتے ہوئے مغیثؓ سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ مغیثؒ کو پتہ چلا تو بہت پریشان ہوا کہ اچھا خاصا گھر اجڑ رہا ہے۔ اس نے مختلف طریقوں سے بریرہؓ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ فیصلے پر نظر ثانی کر لے مگر بریرہؓ نے کوئی بات سننے سے انکار کر دیا۔ روایات میں آتا ہے کہ مغیثؓ کی پریشانی اس حالت تک پہنچ گئی کہ وہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں دیوانہ وار آنسو بہاتا پھرتا تھا اور لوگوں سے کہتا تھا کہ خدا کے لیے کوئی بریرہؓ کو اس فیصلہ پر نظر ثانی کے لیے آمادہ کرے۔ حتیٰ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابیؓ کے سامنے اس تعجب کا اظہار کیا کہ اس کی محبت دیکھو کہ وہ گلیوں میں آنسو بہاتا پھر رہا ہے اور بریرہؓ کی نفرت دیکھو کہ وہ اس کا نام سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ صورتحال دیکھ کر خود جناب نبی اکرمؐ نے بریرہؓ سے مغیثؓ کی سفارش کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے بلا کر اس خواہش کا اظہار فرمایا۔ آنحضرتؐ کی زبان مبارک سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی بات سن کر بریرہؓ نے ایک سوال کیا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ حکم ہے یا محض سفارش؟ سوال پوچھنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ مومنہ تھی اور صحابیہؓ تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اگر حکم ہوا تو اس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرما دیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کسی بات کا حکم دے دیں تو پھر کسی مومن مرد یا عورت کا یہ حق باقی نہیں رہ جاتا کہ وہ اس کے بعد اپنا اختیار استعمال کریں۔ اس لیے بریرہؓ نے اس کی وضاحت چاہی اور جب نبی کریمؐ نے فرمایا کہ یہ حکم نہیں بلکہ صرف سفارش ہے تو اس نے فورًا کہہ دیا کہ مجھے اس (مغیثؓ) کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

آپ غور فرمائیے کہ سفارش کرنے والے کون ہیں؟ کائنات میں اس سے بڑی اور کوئی سفارش نہیں ہو سکتی۔ لیکن اپنے حق پر اڑتے ہوئے اس سفارش کو قبول نہ کرنے والی کون ہے؟ ایک عام خاتون جو چند روز پہلے تک کسی کی لونڈی تھی اور اب خود جناب نبی کریمؐ کی زوجہ محترمہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کی خادمہ ہے۔ لیکن کیا مجال کہ اس کے اس فیصلے پر آنحضرتؐ کی پیشانی پر کوئی بل آیا ہو یا آپؐ نے اس کے بعد اسے کبھی جتلایا بھی ہو حالانکہ وہ بطور خادمہ اکثر حضرت عائشہؓ کے پاس ہی رہتی تھی۔ آج ہمارا کوئی ماتحت ہماری سفارش رد کر کے دیکھے کہ پھر اس کے ساتھ ہمارا کیا معاملہ ہوتا ہے۔ لیکن جناب رسول اکرمؐ نے اس کے بعد کبھی اس کا ذکر تک نہ کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے نہ صرف حقوق کا تعین کیا ہے، ان کی وضاحت کی ہے اور ان کی ادائیگی کی تلقین کی ہے بلکہ اپنے حق کے لیے اڑ جانے والے کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے اور کسی کو اس کی راہ میں حائل ہونے کی اجازت نہیں دی۔

حضرات محترم ! یہ چند واقعات میں نے انسانی حقوق کے حوالہ سے جناب رسول اکرمؐ کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ کی طرف توجہ دلانے کے لیے عرض کیے ہیں اور آخر میں پھر یہی عرض کرتا ہوں کہ یہ آج کی دنیا کی ضرورت ہے اور ہماری ذمہ داری ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور اسوۂ حسنہ کو دنیائے انسانیت کے سامنے صحیح طور پر پیش کرنے کے لیے ہم سنجیدگی کے ساتھ محنت کریں کیونکہ آج نسل انسانی کو جو مشکلات اور مسائل درپیش ہیں ان کا حل اسی میں ہے۔

خاندانی منصوبہ بندی کی اخلاقی تباہ کاریاں

عبد الرشید ارشد

ماضی اس بات پر گواہ ہے کہ آج سے نصف صدی قبل تک لڑکے لڑکیوں میں ’’کچھ ہو جانے‘‘ کا خوف انہیں اخلاقی بے راہ روی سے بہت دور رکھتا تھا۔ برائی کی آٹے میں نمک سے بھی کم شرح اگر تھی بھی تو انتہائی زیرزمین تھی۔ مگر بتدریج جوں جوں قوم کے قدم ’’ترقی‘‘ کی طرف بڑھتے گئے، قوم مغربی آقاؤں کے ’’فیض‘‘ سے فیضیاب ہوتی گئی۔ اور تعلیم و صحت کے لیے نہیں بلکہ تعلیم و صحت بذریعہ خاندانی منصوبہ بندی کی چھت پھاڑ امداد کاہن برسنا شروع ہوا۔ اسی تدریج کے ساتھ قوم اخلاقی زوال کے راستے کی راہی بنتی چلی گئی۔ اور آج پہلے ’’کچھ ہو نہ جائے‘‘ کو اس خاندانی منصوبہ بندی نے ’’کچھ نہ ہو گا‘‘ کے یقین میں بدل دیا۔ اس تبدیلی سے جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہو رہا ہے اس پر قومی اخبارات سے بڑھ کر کس کی گواہی معتبر ہو سکتی ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی کے ’’محفوظ طریقوں‘‘ نے قوم کے نوجوانوں میں بے راہ روی کو محلوں، گلی، کوچوں تک پھیلایا اور یوں ملک میں اخلاقی بے راہ روی کا سیلاب آ گیا۔ جس کے افراد پر انفرادی حیثیت میں اور معاشرہ پر اجتماعی حیثیت سے بدترین نتائج مرتب ہوئے۔ اس پر گواہی درکار ہو تو ہسپتالوں سے ہٹ کر چھوٹے ذاتی کلینکوں اور دائیوں کے خصوصی کیسوں کا محتاط سروے کر لیجئے، اس بھیانک تصویر کا شاید آپ نے کبھی تصور نہ کیا ہو گا۔ اسی پہلو سے ذرا ماہرین کی آرا پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے تاکہ آپ مذکورہ سطور کو ملاں کی دقیانوسیت کہہ کر رد نہ کر دیں۔ فطری بات ہے کہ جب ’’کچھ نہ ہونے‘‘ کا یقین ہو تو لذتیت کی جبلت بے قابو ہونے لگتی ہے۔ خصوصاً جب چاروں طرف بے ہودہ فحش لٹریچر اور ٹی وی چینل مصروفِ عمل ہوں۔
’’مانع حمل ذرائع کا علم، ہو سکتا ہے کہ شرح مناکحت کو بڑھا دے لیکن اس کے ساتھ ساتھ (یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ) یہ بیرونِ نکاح جنسی تعلق کے مواقع کو بھی عام کر دیتا ہے، جن کا عام چلن خود ہمارے اپنے زمانے میں شادی کے تنگ و تاریک مستقبل کا ایک اور مظہر سمجھا جاتا ہے۔‘‘
Dr. Westermark Future of Marriage in the West
’’مرد کی زوجیت کا رخ اگر کلیتاً نفسانی خواہشات کی بندگی کی طرف پھر جائے اور اس کو قابو میں رکھنے کے لیے کوئی (اخلاقی) قوت ضابطہ نہ رہے تو اس سے جو حالت پیدا ہو گی وہ اپنی نجاست و دنائیت اور زہریلے نتائج میں ہر اس نقصان سے کہیں زیادہ ہو گی جو ’’بے حد و حساب بچے پیدا کرنے‘‘ سے رونما ہو سکتی ہے۔‘‘
(بحوالہ اسلام اور ضبطِ ولادت — Dr. Faster)
’’خاندانی منصوبہ بندی کے طور طریقوں نے دراصل ملک میں زنا کے محفوظ لائسنس جاری کیے ہیں۔ مگر اس کے باوجود کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں پر اور گندے نالوں سے ’’پھول‘‘ برآمد ہونے کی خبریں روز مرہ کا معمول ہیں۔ ان (مانع حمل ذرائع) کے سبب لذت پرستی بڑھ گئی ہے بلکہ یہ وبا کی طرح چہارسو پھیلتی نظر آتی ہے۔ بچوں کے درمیان جس غیر فطری (کیونکہ فطری وقفہ قدرت کا طے کردہ ہے) وقفے پر زور دے کر ’’خوشحال اور صحتمند گھرانے کی خوشخبری‘‘ اکثر دی جاتی ہے اس پر ان کے اپنے طبی ماہرین کی رائے کیا ہے؟ آپ بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔ یہ لوگ عمرانیات اور نفسیات کے شعبے میں برسہا برس تجربہ کی بنا پر یہ رائے رکھتے ہیں: ’’قریب العمر بچوں (بہن بھائیوں) کی کمی، منجملہ اور چیزوں کے، بچے کو مشکلات میں مبتلا کر دیتی ہے اور وہ چیخنے چلانے یا تخریبی نوعیت کے کام کرنے میں لگ جاتے ہیں۔‘‘
Arnold W. Green The Middle Class Child and Neurosis
’’اگر بچوں کے درمیان عمر کا بہت فرق ہو تو بڑے بچے میں قریب العمر ساتھی نہ ہونے کی وجہ سے ذہنی خلل تک واقع ہو جاتا ہے، بلکہ بعض ماہرین اس پر بھی متفق ہیں کہ بچے کا ذہنی ارتقا رک جاتا ہے۔‘‘
Dr. David M. Lavy  — Maternal Over-Protection
اختصار کے نکتہ نظر سے ہم مذکورہ چار آرا پر اکتفا کرتے ہیں، اور یہ آرا بھی مغربی آقاؤں کی ہیں کہ ہمارے نزدیک بالعموم ’’سچ ہے ان کا فرمایا ہوا‘‘ معتبر ٹھہرتا ہے۔ ورنہ کیا یہ امرِ واقع نہیں ہے، جسے خود ہمارا قلب قبول کرتا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کا تعارف جوں جوں بڑھ رہا ہے توں توں ہماری سماجی، معاشرتی اور اخلاقی اقدار دم توڑتی جا رہی ہیں۔ ہمہ جہت اقدار کا معیاری سرمایہ رکھنے والی ملتِ مسلمہ اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہی نہیں، ہر طرح  کی اقدار سے ہاتھ دھو بیٹھی۔

خاندانی منصوبہ بندی اور ملکی دفاع

خاندانی منصوبہ بندی کے داعی ’’کم بچے خوشحال گھرانہ‘‘ کی مالا جپتے نہیں تھکتے کہ اس ’’وِرد‘‘ پر انہیں مغربی آقاؤں نے لگایا ہے۔ عقل کے اندھے اس خیر خواہی کی تہہ میں چھپی بدخواہی کی تہہ تک نہیں پہنچتے، یا دانستہ پہنچنا نہیں چاہتے، انہیں خاندانی منصوبہ بندی کی ٹافی دینے والے اپنے لیے یہ رائے رکھتے ہیں:
’’آبادی میں عظیم اضافہ۔ ایسا اضافہ جو بے ضبط و بے لگام تھا۔ یورپ کو دنیا کی درجہ اول کی طاقت بنانے میں فیصل کن تھا۔ یورپ کی آبادی کے اس دھماکہ کے ساتھ پھٹ پڑنے ہی کا نتیجہ تھا کہ ملک میں نئی صنعتی معیشت کو چلانے کے لیے کارندے بھی مل گئے اور دوسری طرف یورپ سے باہر پھیل کر حکمرانی کرنے کے لیے فوج میسر آئی جس کے دائرہ میں دنیا کے رقبے کا نصف اور آبادی کا تہائی حصہ آ گیا۔‘‘
(بحوالہ اسلام اور ضبطِ ولادت، صفحہ ۱۱۷ — Population Explosion)
جنگ ایٹمی ہو یا کنوینشنل ہتھیاروں سے، نیوی اور ہوائی فوج کتنی ہی مؤثر کاروائی کرے، ہر کاروائی کو مؤثر اور مستحکم بنانے کا بنیادی کردار بری فوج ہی ادا کرتی ہے۔ اور یہ بات کس سے چھپی ہے کہ بری فوج کی عددی برتری ہر ملک کی بنیادی ضرورت ہے۔ اہلِ ایمان اس عددی برتری کی کمی دولتِ ایمان اور جذبۂ جہاد سے پوری کرتے ہیں، مگر جذبۂ جہاد اور ایمان کے تقاضوں میں یہ کہیں شامل نہیں ہے کہ ان کی بنیاد پر فوج کی تعداد لازماً کم رہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کے خالق دو اہم باتوں کے سبب ہمیں ’’منصوبہ بندی کی محفوظ اور مہر لگی تصدیق شدہ‘‘ گولی کھلانے پر مصر ہیں کہ
  1. عالمِ اسلام میں صرف پاکستان ہے جس سے یہود و نصارٰی کے عالمی مفادات کو حقیقی خطرہ ہے۔ اور اس کی بڑھتی آبادی لمحہ لمحہ خطرے میں اضافہ کر رہی ہے۔ لہٰذا ہر قیمت پر ان کی آبادی کو بالخصوص، اور دیگر مسلم ممالک کی آبادی کو بالعموم روکنے کے لیے معاشی، سماجی، تعلیمی اور ثقافتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
  2. عالمِ اسلام قدرتی ذرائع سے مالامال ہے اور یہ زرعی، صنعتی اور معدنی وسائل ان ممالک کی آبادی سے چھین کر یورپ و امریکہ کی کفالت پر خرچ ہونے چاہئیں۔ لہٰذا ہر حربہ استعمال کر کے ان کی آبادی میں کمی کی جائے اور جو آبادی ابھی آبادی نہیں بنی، مستقبل کی آبادی ہے، اس کے سامنے خاندانی منصوبہ بندی کا بند باندھا جائے۔ جس سے آبادی بھی کم ہو گی اور فحاشی، بے حیائی بھی جیتے جی خاتمہ کر دے گی۔
مذکورہ بالا مقاصد کے حصول کے لیے یہ آقا
  1. مسلم ممالک میں اپنی ایجنسیوں کے ذریعے یو این او اور اس کے ذیلی اداروں کی چھتری تلے کاروائی کرتے ہوئے کبھی آیوڈین ملا نمک کھلانے مصر ہیں۔
  2. عراق کو زہرآلود گندم سپلائی کی جاتی ہے (اس کا انکشاف بھی امریکی اخبارات نے ہی کیا)۔
  3. زرعی ادویات کی بھرمار، جو دشمن کیڑوں کے ساتھ دوست کیڑے اور پرندے بھی ختم کر دیں، بلکہ بتدریج معیاری زمین کو بانجھ کر رہی ہیں۔ جو باغات اور سبزیوں پر سپرے ہو کر پھلوں اور سبزیوں کے ذریعے ’’سلو پائزن‘‘ بن کر انسان میں پیچیدہ بیماریوں کو جنم دیتی ہیں۔
  4. اپنے ممالک میں عرصہ دراز سے متروک ادویات ملٹی نیشنل کمپنیوں یا امپورٹرز کے ذریعے انسانی علاج کے لیے ایکسپورٹ کر رہے ہیں۔ ادویات جن کے اثراتِ بد پر زمانہ گواہ ہے، ’’گاڑی کی چابی‘‘ کے ساتھ مشروط ہو کر مریضوں کے حلق تک پہنچتی ہیں۔ کیا یہ امرِ واقع نہیں کہ افراد سے قوم بنتی ہے، اور بیمار افراد سے بیمار قوم ہی تشکیل پا سکتی ہے۔ اور بیمار قوم کے افراد نہ اپنا دفاع کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور نہ قومی سطح پر وطن کا۔ بیمار جسم کے اندر طاقتور ایمان اور جذبۂ جہاد ٹھکانہ کرے تو آخر کس بنیاد پر؟ یہی کچھ ہم سے اقوامِ غرب چھین لینے کی فکر میں شب و روز کوشاں ہیں۔
گزشتہ دنوں ملک کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر نے ٹی وی پر خاندانی منصوبہ بندی کی وکالت کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ ملک کی آبادی بہت ہو چکی، اب پیدائش روک دینی چاہیے۔ ہم نے ڈاکٹر صاحب کو اخبار کے ذریعے اور ذاتی طور پر بھی خط لکھ کر سوال کیا کہ ایٹم چلانے کے بعد پابندی کا بم بھی اگر چلا لیں گے اور نتیجتاً ملک کی افواج میں بتدریج بھرتی ختم ہوتی جائے گی تو پھر ایٹم چلانے کے لیے آپ نے کس ملک کو ٹھیکہ دینے کا فیصلہ کیا ہے؟ ابھی تک موصوف کی طرف سے جواب موصول نہیں ہوا۔ آبادی نہ ہو گی تو دفاع کے لیے ٹھیکہ ناگزیر ہو گا۔
خاندانی منصوبہ بندی سرے سے معاشی خوشحالی کا مسئلہ نہیں ہے۔ فلپائن میں ہر گھرانے میں اوسطاً دس بارہ بچے ہیں، وہاں تو آج تک قحط نہیں پڑا۔ ہمیں فلپینیوں کے ساتھ برسوں اکٹھے رہنے کا بھی موقع ملا ہے، ہم نے ان کے چہروں پر محنت کی عظمت اور اطمینان ہی دیکھا۔ کسی ایک کے منہ سے ہائے وائے نہیں سنی، بلکہ ان کا کہنا تو یہ ہے کہ گھر میں دس بچے یکدم تو نہیں آگئے۔ جو پہلے پیدا ہوئے انہوں نے پہلے کمانا شروع کر کے والدین کا ہاتھ بٹایا۔ پھر چھوٹے بڑے بنتے گئے، کماتے گئے اور بیس سال بعد جب سب کی آمدنی آنے لگی تو خوشحالی نے ہمارے گھر میں ڈیرے ڈال دیے۔
ہمیں الٹ پٹی پڑھائی جا رہی ہے اور ہم عقل و شعور کو زحمت دیے بغیر گردن ہلائے جا رہے  ہیں۔ ہم نے جان بوجھ کر — ہلانا نہیں لکھا، ورنہ ہماری وفاداری کا ثبوت ہے تو اس سے بھی بڑھ کر ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

بیجنگ پلس فائیو کانفرنس

پروفیسر ثریا بتول علوی

۵ تا ۹ جولائی نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے نمائندوں کے ذریعے یہودیوں کا ایک خوفناک شیطانی منصوبہ پیش کیا گیا۔ جس میں دنیا کے مختلف ممالک کے ہم خیال شیطانی دماغ مل کر بیٹھے اور خواتین ۲۰۰۰ء اکیسویں صدی میں صنعتی مساوات، امن اور ترقی کے نام پر چند فیصلے کیے گئے جن کو یو این او کے پلیٹ فارم کے ذریعے ممبر ممالک میں نافذ کیا جانا تھا۔ اس طرح یہ خواتین کے سلسلے میں گویا پانچویں عالمی کانفرنس تھی۔

خواتین کے بارے میں عالمی کانفرنسیں

اس سے قبل حقوقِ نسواں کے نام پر خواتین کی چار عالمی کانفرنسیں منعقد ہو چکی ہیں:
  • پہلی بین الاقوامی کانفرنس ۱۹۷۵ء میکسیکو میں
  • دوسری بین الاقوامی کانفرنس ۱۹۸۰ میں کوپن ہیگن میں
  • تیسری بین الاقوامی کانفرنس ۱۹۸۵ء میں نیروبی میں
  • چوتھی عالمی کانفرنس ۱۹۹۵ء میں بیجنگ میں
بیجنگ کانفرنس میں خواتین کی ترقی اور صنفی مساوات کے سلسلے میں ایک بارہ نکاتی ایجنڈا طے کیا گیا تھا، یہ نکات درج ذیل ہیں: (۱) غربت (۲) تعلیم (۳) حفظانِ صحت (۴) عورتوں پر تشدد (۵) مسلح تصادم (۶) معاشی عدمِ مساوات (۷) مختلف اداروں میں مرد و عورت کی نمائندگی کا تناسب ۳۳ فیصد تک (۸) عورت کے انسانی حقوق (۹) مواصلاتی نظام خصوصاً ذرائع ابلاغ (۱۰) ماحول اور قدرتی وسائل (۱۱) چھوٹی بچی (۱۲) اختیارات اور فیصلہ سازی۔ اس طرح سادہ الفاظ میں ان کانفرنسوں کا اصل مقصد ان کے خیال میں ایسا عالمی نظام متعارف کروانا تھا جس میں عورتوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔

خواتین کی پانچویں عالمی کانفرنس جولائی ۲۰۰۰ء

بیجنگ میں طے کردہ بارہ نکاتی ایجنڈا رکن ممالک کو عملدرآمد کے لیے دیا گیا تھا۔ چنانچہ اس ایجنڈے پر کہاں تک عمل ہو سکا؟ اسی کا جائزہ لینے کے لیے اب ۵ جولائی سے ۹ جولائی تک بیجنگ کانفرنس کے پانچ سال بعد یہ نیویارک والی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس لیے اس کا نام بیجنگ پلس ۵ قرار دیا گیا کہ یہ بیجنگ کانفرنس کے پانچ سال بعد ہو رہی تھی۔ اس کانفرنس کا اصل عنوان تھا: ’’۲۰۰۰ء کی خواتین اور اکیسویں صدی میں صنفی مساوات، امن اور ترقی‘‘۔
Women 2000: gender equality, development and peace for the twenty-first century

اس کانفرنس میں اقوامِ متحدہ کے ممبر ممالک جہاں سرکاری طور پر شامل ہوئے وہیں این جی اوز کے کثیر تعداد میں وفود بھی شامل ہوئے۔ اگرچہ بیجنگ کانفرنس کے شرکاء اور مندوبین کی تعداد اس کانفرنس کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی، مگر یہ کانفرنس بہت زیادہ اہمیت کی حامل اس لحاظ سے تھی کہ اس میں بیجنگ کانفرنس کے دوران طے کیے گئے بارہ نکاتی ایجنڈوں کی توثیق اقوامِ متحدہ کی طرف سے ہو کر اسے تمام ممبر ممالک پر حکماً نافذ کرنے کا پروگرام تھا۔ اور اس کی خلاف ورزی پر اقوامِ عالم ’’مجرم ملک‘‘  کے خلاف ایکشن لینے کی مجاز قرار دی گئی تھیں۔

کانفرنس کے درپردہ مضمرات

(۱) امریکہ اپنے نیو ورلڈ کو مستحکم کرنے کی غرض سے اپنے ممکنہ حریف اسلام کے کردار کو ختم کرنا چاہتا ہے۔

(۲) اپنی عالمی نیشنل کمپنیوں کو مضبوط بنانے اور اس کے استحکام دینے کے لیے مغرب کو ہر جگہ سستی لیبر اور خام مال چاہیے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جنسی آزادی والا معاشرہ پیدا کر کے مرد و عورت کی تمیز کے بغیر ان کو ہر جگہ کم داموں پر لیبر، سو فیصد مزدور اور تربیت یافتہ افرادی قوت میسر آجائے، ساتھ ہی مزاحمت کرنے والی دینی قوت بھی غیر مؤثر ہو کر رہ جائے۔

اس کانفرنس کے لیے تیاریاں

بیجنگ پلس فائیو کانفرنس نیویارک کی تیاریاں تو بیجنگ کانفرنس کے فوراً بعد ہی سے شروع ہو گئی تھیں مگر یہ ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۰ء میں پورے عروج کو پہنچ گئی تھیں۔ اس کے لیے دنیا کے مختلف علاقوں میں وقتاً فوقتاً علاقائی کانفرنسیں منعقد ہوتی رہیں۔ ان میں پہلے تیاری کانفرنس Prep-Com تو ۱۵ مارچ سے ۱۹ مارچ ۱۹۹۹ء میں نیویارک ہی میں منعقد ہوئی۔ پھر نیویارک میں ایک اور کانفرنس ۲۷ فروری سے ۱۷ مارچ تک دوبارہ منعقد ہوئی۔ اس کے علاوہ کھٹمنڈو، بنکاک و دیگر مقامات پر بھی علاقائی کانفرنسیں منعقد ہوتی رہی تھیں۔

اس کانفرنس میں خصوصی ایجنڈا یہ تھا: خاتونِ خانہ کی گھریلو ذمہ داریوں پر اور پھر اس کی تولیدی خدمات پر اس کو باقاعدہ معاوضہ دیا جائے۔ ازدواجی عصمت دری پر قانون سازی کی جائے اور فیملی کورٹس کے ذریعے مرد کو سزا دلوائی جائے۔ طوائف کو جنسی کارکن قرار دینا۔ ممبر ممالک میں جنسی تعلیم اور کنڈوم کے استعمال پر زور دینا۔ اسقاطِ حمل کو عورت کا حق قرار دینا۔ ہم جنس پرستی کا فروغ۔ چنانچہ اپنی تجویزوں کو رسمی طور پر پانچ دس منٹ کی نمائشی تقریروں کے بعد منظور کر لینے کا پروگرام تھا۔

شیطان بیجنگ کانفرنس سے لے کر اب تک اپنے منصوبہ پر عملدرآمد کے لیے مسلسل متحرک تھا مگر افسوس کہ مسلم ممالک میں اس آنے والے فتنہ کا بجا طور پر نوٹس نہ لیا گیا۔ قاہرہ کانفرنس ۱۹۹۴ء کے انعقاد کے بعد مصر میں نئے عالمی قوانین متعارف کرائے گئے۔ بعد ازاں مراکش اور دیگر مسلم ممالک میں بھی یجنگ ڈرافٹ کے نتیجے میں مین فیملی لاز میں تبدیلیاں لائی گئیں۔ مگر کسی جگہ کوئی قابل ذکر احتجاج دیکھنے میں نہ آیا۔ البتہ مراکش میں دو تین ماہ قبل جب فیملی لاز تبدیل کیے گئے تو وہاں کی دس لاکھ مسلم خواتین نے ان نئے قوانین کے خلاف باپردہ مظاہرہ کیا، اس طرح ایک نئی مثال قائم کی۔ اگر اسی قسم کے مظاہرے مختلف مسلم ممالک میں ہوئے ہوتے تو پھر اس موقع پر عالمِ اسلام متفقہ موقف اختیار کر کے ہم جنس پرستی کے شیطانی منصوبہ کا مؤثر سدباب کر سکتا تھا۔

پاکستان میں اس کانفرنس کی تیاری

چھ سال قبل قاہرہ میں ۱۹۹۴ء میں منعقد ہونے والی بہبود آبادی کانفرنس کے نتیجے میں پاکستان میں بہت سی این جی اوز (غیر سرکاری تنظیمیں) وجود میں آئیں۔ بیجنگ کانفرنس کے بعد ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ملک میں فیملی پلاننگ کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی۔ جگہ جگہ بہبود آبادی سنٹر کھل گئے۔ ستارہ اور چابی والی گولیاں (مانع حمل ادویات) ملک میں عام ہوئیں۔ ایڈز سے بچانے کے بہانے ملک میں ہم جنس پرستی کے بارے میں وسیع پراپیگنڈا کیا گیا۔ وطنِ عزیز میں بے حیائی و فحاشی کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک ذرائع ابلاغ، ٹی وی، ڈش، کیبل، انٹرنیٹ، فحش لٹریچر، ماڈلنگ، ویڈیو گیمز وغیرہ کے ذریعے فحاشی کے مظاہرے بہت زیادہ بڑھ گئے۔ اغوا، عصمت دری پھر گینگ ریپ اور گھروں سے دوشیزاؤں کے فرار کے واقعات میں معتد بہ اضافہ ہوا۔ اسی پس منظر میں ’’صائمہ ارشد لو میرج کیس‘‘ بھی منظر عام پر آیا، جس نے مغرب کی ثقافتی یلغار کو وطنِ عزیز میں اور فروغ دیا۔ پھر خواتین کے بینک اور پولیس اسٹیشن بھی قائم کیے گئے۔

۱۹۹۴ء میں حکومتِ پاکستان نے خواتین کی اصلاح و ترقی کے نام پر ایک ’’خواتین تحقیقاتی کمیشن‘‘ ترتیب دیا تھا۔ اس کے ممبران میں زیادہ تر این جی اوز کے نمائندے شامل تھے۔ خصوصاً ایڈووکیٹ عاصمہ جہانگیر جیسے لوگ یہ رپورٹ تیار کر رہے تھے۔ ۱۹۹۷ء میں انہوں نے جو رپورٹ پیش کی تھی اس میں پاکستانی خواتین کے لیے بیجنگ کانفرنس والا ایجنڈا ہی پیش کر دیا۔ اس کے بعد ان خواتین نے غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے خلاف اس زور سے دہائی دی کہ موجودہ حکومت نے ۲۰ اپریل ۲۰۰۰ء کو ہونے والی انسانی حقوق کانفرنس میں ایسے قتل کو قتلِ عمد ٹھہرا کر اس کی سزا موت قرار دے دی۔

علاوہ ازیں موجودہ حکومت نے بلدیاتی انتخابات میں عورتوں کو ۵۰ فیصد نشستیں دینے کا اعلان کر کے اسی ایجنڈے پر عملدرآمد کیا۔

سرکاری سطح پر کانفرنس کے لیے جو پاکستانی وفد نیویارک گیا اس میں سماجی بہبود اور خواتین کی وزیر شاہین عتیق الرحمان، ڈاکٹر یاسمین راشد، زریں خالد، ثمینہ پیرزادہ اور ڈاکٹر رخسانہ شامل تھیں۔ وفاقی وزیر تعلیم زبیدہ جلال اس سرکاری وفد کی سربراہ تھیں۔ اس کے علاوہ کئی دانشور خواتین بطور مبصر بھی شامل ہوئیں۔ عاصمہ جہانگیر بھی کئی این جی اوز کے ہمراہ گئی ہوئی تھیں۔

اس طرح پاکستان میں بھی ان اقدامات کے نتیجے میں بہت کم ردعمل دیکھنے میں آیا۔ پھر پاکستانی این جی اوز نے پاکستان کی طرف سے ایک باقاعدہ رپورٹ یو این او کو درج کرائی جس میں نکتہ وار بیجنگ کانفرنس کے بارہ موضوعات پر پاکستان میں ہونے والی پیشرفت اور متعلقہ رکاوٹوں کا جائزہ پیش کیا گیا۔ انہوں نے یہ رپورٹ بھی دی کہ بے نظیر صاحبہ کے دورِ حکومت میں ان کا کام جاری رہا مگر نواز شریف حکومت کے دوران ترقی کے تمام معاملات جامد رہے۔

علماء کرام اور بہی خواہوں کا مسلمانوں اور خصوصاً مسلم حکمرانوں کو انتباہ

مسلم ورلڈ جیورسٹس ایسوسی ایشن کے صدر جناب اسماعیل قریشی نے لاہور ہائیکورٹ میں اس کانفرنس کے غیر شرعی اور غیر اسلامی نکات کے خلاف رٹ دائر کی۔ نیز انہوں نے زبیدہ جلال وفاقی وزیر تعلیم کی سربراہی میں وفد بھیجنے کی بھی مخالفت کی۔ جبکہ زبیدہ جلال کی مغرب نوازی کی بنا پر دوسری دینی جماعتیں بھی موصوفہ پر شدید تنقید کر رہی تھیں۔ آخر حکومت نے لاہور ہائیکورٹ کو یقین دلایا کہ ہمارا وفد اسلام کے خلاف نکات کی اس کانفرنس میں مخالفت کرے گا۔ مگر وفد کی سربراہ محترمہ زبیدہ جلال ہی کو بنایا گیا۔

اسی طرح رابطہ العالم الاسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبد اللہ بن صالح العبید نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے نام بالعموم اور رائے عامہ کے نمائندوں کے نام بالخصوص ایک خط لکھا جس میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ۵۴ویں اجلاس کی جانب توجہ دلائی جو ۵ تا ۹ جولائی نیویارک میں ہو رہا ہے۔ یہ خواتین کے بارے میں اس کا ۲۳واں سیشن ہو گا جس کے لیے ’’اکیسویں صدی میں خواتین کے لیے مساوات، ترقی اور امن‘‘ کا عنوان اختیار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان سب خواتین کانفرنسوں کا مقصد خاندان کے ادارے کو ختم کرنا اور خواتین بلکہ نوجوان نسل میں اخلاقی بے راہ روی اور والدین سے بغاوت پیدا کرنا ہے۔ اللہ نے مسلمانوں کو نیک کاموں میں تعاون کرنے اور برے کاموں سے الگ رہنے کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا اقوامِ متحدہ کی چھتری تلے نئے عالمی نظام کے منظم حملے کے خلاف سوچنا اور تدبیر کرنا تمام مسلم امہ کی ذمہ داری ہے۔ یہ حملہ صرف مسلم اقدار کے خاتمے کے خلاف سازش نہیں بلکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے پردے میں تمام انسانی رشتوں بلکہ خود انسان کی پہچان کو تبدیل کر دینے کے مترادف ہے۔

سابق صوبائی وزیر اطلاعات پیر بنیامین رضوی نے امریکہ میں ہونے والی اس کانفرنس کو اسلام کے خلاف شرمناک سازش قرار دیا جس میں ہم جنس پرستی کو جائز، اسقاطِ حمل کو فروغ اور طوائفوں کو جنسی کارکن قرار دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ این جی اوز کی نمائندہ وفاقی وزیر زبیدہ جلال کو حکومت فوراً واپس بلائے، نیز اس کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کرے۔ بلکہ انہوں نے اسلامی ممالک کے تمام سربراہوں سے بھی اپیل کی کہ وہ فوری طور پر اپنے نمائندے اس کانفرنس سے واپس بلا کر اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دیں۔

اور اسی طرح پاکستان کی تمام دینی جماعتوں نے بھی فرداً فرداً اس کانفرنس کو اپنے مذہب، ایمان اور اقدار کی تباہی کے یہودی منصوبے کے خلاف ڈٹ جانے کی تلقین کی۔

شدید تنقید کی وجہ

یہ ساری تنقید اس بنا پر تھی کہ یو این او کے نمائندے نے اہم نوٹس جاری کیا تھا: ’’یہ کانفرنس پہلی تمام پیشرفت کا جائزہ لے گی‘‘۔ بستی پلیٹ فارم فار ایکشن کے ۱۲ نہایت اہم نکات کا جائزہ لے کر انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ افسوس لوگوں پر ابھی تک روایتی جنسی شناخت طاری ہے، اور عورت کے خلاف جنس کی بنا پر امتیازی سلوک مرد و زن کی مساوات قائم کرنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ پھر حکومتوں نے بھی ایسے اقدامات پر توجہ نہ دی، نہ ہی انہوں نے اس امر پر زور دیا جس سے عورتوں کے تولیدی حقوق اور جنسی صحت کے متعلقہ حقوق پر عملدرآمد ممکن ہو سکے۔ اس لیے اب یو این او بین الاقوامی تنظیموں، مہذب معاشروں، سیاسی جماعتوں، ذرائع ابلاغ، نجی شعبہ، سب کو یکساں ذمہ دار قرار دیتی ہے کہ وہ ایسی عوامی بحث کا آغاز کریں اور باقاعدہ مہم چلائیں جس سے جنس سے متعلقہ امور پر کھلے عام بات چیت ہو، عمومی رویے زیربحث آئیں، نئے تصورات جنم لیں۔ اور جائزہ لیا جائے کہ مرد و عورت کی مساوات پر کس حد تک عمل ہو سکتا ہے۔ پھر شعبہ تعلیم میں کام کرنے والوں کو رسمی و غیر رسمی ذرائع اختیار کر کے یہ بیداری پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی طرح بین الاقوامی تنظیموں آئی ایم ایف، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، گروپ آف سیون اور دیگر بین الاقوامی اداروں کو جنس کی مساوات کو فیصلہ سازی کا اہم حصہ بنانا چاہیے۔

تجزیہ

خواتین کے اختیار و اقتدار میں اضافہ، ہر فورم پر ان کی پچاس فیصد نمائندگی، اسقاطِ حمل کا حق، تولیدی خدمات اور گھریلو خدمات پر معاوضہ طلب کرنا، ہم جنس پرستی کو قانونی جواز مہیا کرنا، اور مساواتِ مرد و زن کا نعرہ — کیا یہ سب بیسویں صدی کے پرفریب نعرے نہیں ہیں؟ عورت آخر کونسا اقتدار مانگ رہی ہے؟ کیا ماں کی حیثیت سے وہ معاشرے کا قومی ترین کردار نہیں ہے؟ کیا بیوی کی حیثیت سے وہ اپنے خاوند کی مشیر اور شریکِ سفر نہیں ہے۔ وہ تو گھر کی مالکہ ہے۔ بہن اور بیٹی  کی محبت تو بڑے بڑے سنگدلوں کو پگھلا کر موم کر دیا کرتی ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ مسلمان خاتون طاقتور نہیں ہے، یا مرد برتر ہے اور عورت کم تر۔

یہ سارے مسائل مغربی معاشروں کے تو ہو سکتے ہیں، مگر دینِ اسلام تو بذاتِ خود محسنِ نسوانیت ہے۔ وہ تو ۱۴۰۰ برس قبل عورت کو بن مانگے اتنے بڑے حقوق عطا کر چکا ہے جس کے لیے مغربی عورت ابھی تک کشکولِ گدائی لیے ماری ماری پھر رہی ہے۔ مظاہروں، ہڑتالوں، جلوسوں، سیمیناروں اور کانفرنسوں کے ذریعے اپنے جائز حقوق مانگتے مانگتے بے راہ روی کی بگٹُٹ راہ پر نکل کھڑی ہوئی ہے۔ لہٰذا ہمارے ہاں کی خواتین کی حق تلفیوں اور ان کے حقوق سے بہرہ ور کرنے کی باتیں بہت دلسوزی سے جو کی جا رہی ہیں یہ دراصل اسلام کے خاندانی نظام اور اخلاقی اقدار کو بیخ و بن سے اکھاڑ کر کفر کے نظام کو ان پر مسلط کرنے کی سازش ہے اور یہ باتیں کرنے والے بھی اہل ِمغرب کے ایجنٹ ہیں۔

دراصل کانفرنس کے محرکین کو عورت کے معاملات سے کوئی ہمدردی نہیں۔ اگر فی الواقع ایسا ہوتا تو کشمیر، فلسطین، چیچنیا، بوسنیا، کوسووو، اراکان اور دیگر خطوں میں ہونے والی خواتین کی جبری عصمت دری کے خلاف ضرور آواز بلند کی جاتی۔ اسی طرح خواتین کے اور بھی کئی حقیقی مسائل ہیں مگر وہ ان کے ایجنڈے پر نہیں تھے۔ ان کی توجہ تو صرف ان خرافات پر مبذول رہی جس سے خود خواتین بھی تباہ و برباد ہوں اور ساتھ معاشرہ بھی درہم برہم ہو کر رہ جائے۔ حیرت تو اس بات کی ہے کہ مغرب کی پریشان عورت اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں تلے پناہ ڈھونڈ رہی ہے، مگر خود مسلمان عورت کو اسی تباہی کی راہ پر جبراً اور حکماً ڈالا جا رہا ہے۔

خواتین کی تمام اداروں میں پچاس فیصد نمائندگی بھی اسی طرح ایک ناقابلِ عمل تجویز ہے۔ مثلاً اس حکم کے تحت جنرل پرویز مشرف صاحب نے بلدیاتی کونسل میں خواتین کی پچاس فیصد نمائندگی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ خواتین کی عدمِ شرکت کی صورت میں یونین کونسل میں ان کی چاروں نشستیں خالی رکھی جائیں گی۔ دوسرے الفاظ میں یونین کونسل کے ۸ افراد کے بجائے صرف ۵ (مرد) افراد سے کام چلایا جائے گا۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر عام قصبوں اور دیہات میں عورت کسی دفتر، بینک، ڈاکخانے، ریلوے آفس وغیرہ میں نظر نہیں آتی۔ پھر یونین کونسل کے ممبر کی ذمہ داریاں اس نوعیت کی ہوتی ہیں کہ عموماً عورت ان سے بخوبی عہدہ برآ نہیں ہو سکتی، اس سے ترقی کی رفتار بھی سست ہو گی، مگر ساتھ مخلوط معاشرت سے بہت سی نئی الجھنیں پیدا ہوں گی۔

مسلم ممالک کو تو چھوڑیے، خود مغربی ممالک کا کیا حال ہے؟ امریکہ کے پورے دور میں اب آ کر ایک خاتون میڈین البرائٹ وزیر خارجہ بن سکی ہے اب تک کوئی خاتون امریکی صدر نہیں بن سکی۔ امریکہ کے ایوانِ نمائندگان میں بھی عورتوں کا تناسب صرف ۲ فیصد ہے اور جرمن پارلیمنٹ میں صرف ۷ فیصد۔ برطانیہ میں تناسب صرف ۳ فیصد ہے۔ اس طرح انتہائی ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ معاشروں میں مجموعی طور پر عورت کی شرکت کی کثرت ہو گئی ہے مگر مغربی ممالک میں تو نقشہ اس سے بہت بدلا ہوا ہے۔ جب حقائق کی دنیا اس فریب کا پردہ چاک کر رہی ہے تو اس کو پھر زبردستی یو این او کے کفر پر مبنی یہودی نظام کو مسلم ممالک پر مسلط کرنا بہت بڑی گمراہی نہیں تو اور کیا ہے؟

خاتونِ خانہ کے گھریلو کاموں اور تولیدی خدمات پر محنت کا معاوضہ

یہ مطالبہ بھی انتہائی شرمناک ہے۔ عورت اپنے گھر کی مالکہ ہے تو مرد مشکل ترین کام کرتا ہے۔ یعنی باہر کے گرم سرد موسم کی تلخیاں اور صعوبتیں برداشت کر کے کما کر اپنی محنت مزدوری عورت کے ہاتھ پر لا کر رکھ دیا ہے کہ وہ اس کو اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرے، سرا نظم و نسق چلائے۔ کیا مرد اس کو اپنا مزدور سمجھ کر وہ رقم اس کے حوالے کرتا ہے؟ عورت اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہے، ان کو جنم دیتی ہے تو اس کی اپنی نفسیات تسکین پاتی ہے۔ ہر عورت بچوں کے بغیر اپنے آپ کو غیر مکمل اور ادھوری سمجھتی ہے۔ اس کی مامتا کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ اس کے ہاں بچہ پیدا ہو، اس طرح اس کی ذات کی تکمیل ہو سکے۔ پھر اس کے بچے کو کوئی اور کیوں پالے؟ وہ اس کا لختِ جگر ہے، اس کا گوشت پوست ہے، بچے کی خوشی اس کی اپنی ماں کی خوشی ہے۔ بچے کی بیماری سے خود عورت پژمردہ اور مضمحل ہو جاتی ہے۔ آخر وہ اپنے بچے کو جنم دینے اور پرورش کرنے میں اور اس کی تعلیم و تربیت کرنے میں جو فرحت اور سچی خوشی محسوس کرتی ہے، دنیا کی کونسی چیز ان کا نعم البدل بن سکتی ہے؟ کیا آپ حقیقی والدہ کو نوکر بنا کر رکھ دینا چاہتے ہیں؟ جذباتی مطالبے کرنا، تحریریں اور مضمون لکھ دینا تو اور چیز ہے مگر زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔ خصوصاً پاکستانی عورت تو اپنے معاشرے میں بہت زیادہ غالب اور ہمہ مقتدر ہے کہ مرد اپنی ساری کمائی لا کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے اور پھر اپنی چھوٹی موٹی ضرورت کے لیے بھی عورت سے وقتاً فوقتاً مانگتا رہتا ہے۔

اب خود سوچ لیں کہ مسلمان خاتون کے لیے ماں بننے کا اعزاز، پھر تربیتِ اطفال کی ذمہ داری دنیا میں سکون و طمانیت کا باعث ہے اور عاقبت میں عظیم اجر و ثواب کا باعث۔ اس کی جگہ دفتروں میں ملازمت کر کے یا مرد سے اس خدمت کا معاوضہ طلب کر کے چند سکے حاصل کر لینا باعث فخر و اعزاز ہے، یا اس کی مامتا کے منہ پر زبردست طمانچہ؟

اور یہ جو سیکس فری معاشرہ قائم کرنے کی بات ہے، کیا وہ مرد ہونے یا عورت ہونے کا شعور ہی ختم کر دینا چاہتے ہیں؟ یہ شعور یا جبلت تو حیوانوں میں بھی موجود ہے۔ نر جانور مادہ جانور کو خوب جانتا پہچانتا ہے، مادہ جانور اپنی خلقی و جبلی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوتی ہے۔ اور اگر اس سے یہ مراد ہے کہ عورت ہر وہ کام کر سکتی ہے جو مرد کرتا ہے اس لیے ان میں کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہیے تو پھر بھی یہ ایک مہمل اصطلاح ہے۔

یا پھر اس سے مراد خواتین ہم جنس پرست، مرد ہم جنس پرست، اور شادی کیے بغیر ساتھ رہنے والے جوڑے ہیں، جو جنس کی ہر ذمہ داری سے آزاد رہنا چاہتے ہیں؟ کم از کم راقمہ کو اس اصطلاح کا مفہوم سمجھ میں نہیں آ سکا۔ یا اس سے مراد مخنث حضرات کا معاشرہ پیدا کرنا مقصود ہے جو صرف ناچ گانا اور اچھل کود ہی جانتا ہو، نہ وہ مردوں کی سی ذمہ داریاں ادا کر سکے، نہ عورتوں کے فرائض انجام دے سکے، اور اس طرح تمدن کو زبردست تباہی سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ غالباً اسی لیے زنا کی آزادی اور اسقاطِ حمل کی آزادی طلب کی جا رہی ہے اور ہم جنس پرستی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

دستاویز کا ایک نادر نکتہ شوہروں کے ہاتھوں بیویوں کی جبری عصمت دری ہے جس کو وہ Marital Rape کا نام دیتے ہیں۔ پھر شوہر کے ہاتھوں بیوی پر جنسی زیادتی سے نبٹنے کے لیے فیملی کورٹس کے ذریعے مناسب قانون سازی کر کے مردوں کو سزا دلوانے کی سفارش کی گئی ہے۔

پھر انہوں نے اسلام کے قانونِ وراثت پر خطِ تنسیخ پھیرنے کا سامان کیا ہے۔ دستاویز میں واضح طور پر ہدایات موجود ہیں کہ قانون سازی اور اصلاحات کے ذریعے جائیداد اور وراثت میں مرد و زن کے مساوی حقوق یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں، یعنی عورت کو لازماً مرد کے مساوی وراثت دی جائے۔

پاکستانی وفد سے غیرت کے قتل کے بارے میں بحث مباحثہ ہوا۔ مگر پاکستانی وفد نے غیرت کے قتل کو جرم تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ مغرب میں بھی تو جذباتیت کے تحت قتل ہوتے ہیں مگر ان کو جرم تسلیم نہیں کیا جاتا۔ بعینہ ہمارے ہاں اس جذبات والے قتل کو غیرت کا قتل قرار دیا جاتا ہے لہٰذا یہ جرم نہیں ہو سکتا۔

کیا عورت ۔۔۔ عورت ہے جسے مرد کے بالمقابل کھڑا کیا جا رہا ہے اور اس کے دل میں مرد کے خلاف زبردست نفرت ٹھونسی جا رہی ہے۔ حالانکہ مرد اس کا باپ ہے، بھائی ہے، شوہر ہے اور بیٹا ہے۔ کیا وہ اپنے ان عزیز ترین رشتوں سے دستبردار ہونے کو تیار ہے؟ کیا وہ خود ہی باپ، بھائی، بیٹے کے کردار ادا کر لے گی؟ اس کی نفسیات اور اس کا جسمانی نظام تو پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ایسا ہونا ناممکن ہے، تو پھر یہ ساری اچھل کود کیوں؟

مغرب نے اس بے روک ٹوک جنسی آزادی کے کچھ نتائج تو دیکھ ہی لیے ہیں، گھر برباد ہو گئے، بوڑھے ماں باپ اولڈ ہومز کی زینت بنے۔ بچے ڈے کیئر سنٹرز میں پلنے لگے۔ بحرِ محبت دریاؤں کے کنارے ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ ہوٹل اور پارک آباد ہوئے۔ ہسپتالوں نے ولادت اور موت کا فریضہ سنبھال لیا۔ یہ تو صرف آزادئ نسواں کا کچھ اعجاز ہے۔ اب عورت کو پچاس فیصد نمائندے دے کر اور اسقاطِ حمل و ہم جنس پرستی کا مزید بنیادی حق دے کر اسے طاقتور بنانا مقصود ہے تو پھر یہ ڈراما کیا سین دکھائے گا؟ بقول اقبال ؎

نسوانیتِ زن کا نگہبان ہے فقط مرد

اب عورتیں مرد کو درمیان سے نکال کر چند سکے تو کما لیں گی مگر یہ سکے اس کی عزت، آبرو، ناموس، تمدن، ثقافت، عفت و عصمت اور شرم و حیا جیسی اعلیٰ اقدار کا گلا گھونٹ دیں گے اور عالمِ انسانیت وسیع ترین جنگل کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔ مغرب میں تو یہ تمام بربادی فطری انداز میں آئی ہے مگر اب وہ اس تمام خانماں بربادی کو یو این او کے ذریعے ساری دنیا پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، یہ کتنا بڑا ظلم اور نا انصافی ہے؟

کانفرنس کا انعقاد

کانفرنس کا ایجنڈا تو سارا پہلے ہی تیار ہو چکا تھا۔ اس موقع پر تو صرف پانچ تا دس منٹ کی نمائشی تقریروں میں اس ایجنڈے کی توثیق کرنا مقصود تھا۔ بہرصورت یہ کانفرنس ۵ سے ۹ جولائی تک منعقد ہوئی۔ اس میں مسلم ممالک شامل ہوئے۔ روزنامہ نوائے وقت ۱۰ جولائی نے اس کے بارے میں لکھا:

’’نیویارک میں عورتوں کے جنسی حقوق کے مسئلے پر اسلامی ممالک اور رومن کیتھولک ممالک ایک ہو گئے۔ جنسی حقوق (جن کا نام بیجنگ کانفرنس میں بدل کر بنیادی انسانی حقوق قرار دیا گیا تھا) میں اسقاطِ حمل اور مرضی سے بچے جننے کا حق بھی  شامل ہے۔ ایران، لیبیا، سوڈان اور پاکستان کے علاوہ رومن کیتھولک ملکوں کی طرف سے بھی اس کانفرنس میں شدید تنقید کی گئی۔ محض اس لیے کہ انہوں نے اس دستاویز کی مخالفت کیوں کی؟ غیرت کے قتل کے موضوع پر بھی خوب بحث ہوئی مگر بہرحال اس کو جرم تسلیم کرنے کی بھرپور مخالفت کی گئی۔‘‘ (روزنامہ نوائے وقت ۔ ۱۰ جولائی ۲۰۰۰ء)

چنانچہ یہ کانفرنس شدید مخالفت کے باعث کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر ہی ختم ہو گئی۔ صرف عورتوں کی تعلیم اور بہتر صحت کی سہولتوں پر ہی اتفاق رائے ہو سکا۔ حسنِ اتفاق یہ ہے کہ خود رومن کیتھولک چرچ نے بھی ابتدا ہی سے بیجنگ کانفرنس کے ایجنڈے کی مخالفت کی تھی۔ چنانچہ اس کانفرنس میں بھی انہوں نے جنسی آزادی اور اسقاطِ حمل جیسے فضول ایجنڈے کی کھل کر مخالفت کی۔ علاوہ ازیں جمہوریہ چین نے بھی ان سفارشات کی مخالفت کی۔ چنانچہ کانفرنس سے واپسی پر خواتین کی صوبائی وزیر شاہین عتیق الرحمان نے رپورٹ پیش کی:

’’چین اور کیتھولک عیسائی ممالک نے بھی مسلم ممالک کے موقف کی اس بنیاد پر بھرپور حمایت کی  کہ عالمی کانفرنس میں مسلم ممالک کی حمایت سے مغربی این جی اوز کی اسقاطِ حمل اور جنسی آزادی کی سفارشات مسترد کروائی گئیں۔ لابنگ سے پاکستانی عورت کے خلاف کیا جانے والا پروپیگنڈا غلط ثابت کیا۔ ہمارے وفد کو ہر سطح پر بھرپور نمائندگی ملی۔ بھارت کے مقابلے میں ہمارا سرکاری وفد اگرچہ مختصر تھا مگر اپنی کارکردگی کی بدولت یہ وفد کانفرنس پر چھایا رہا۔ ہم نے کانفرنس میں بتایا کہ پاکستانی عورت پر تشدد اور دباؤ کے الزامات بالکل غلط ہیں۔ یہ محض پروپیگنڈا کا حصہ ہیں۔ ہماری عورت ترقی  کی دوڑ میں شامل ہے۔ اسے تمام بنیادی حقوق اور شہری آزادیاں حاصل ہیں۔

این جی اوز پروگرام کی کاروائی میں حصہ لینے کے بجائے ذاتی گفتگو میں مصروف رہنے کے باعث ناکام ہو گئیں۔‘‘ (روزنامہ نوائے وقت ۔ ۱۶ جون ۲۰۰۰ء)

بہرحال اس پانچ روزہ کانفرنس میں ۱۸۰ ممالک شامل ہوئے۔ پورا وقت طویل بحث مباحثے ہوتے رہے۔ بیشتر مندوبین کو جنسی آزادی، اسقاطِ حمل اور نوخیز نابالغ بچوں کو جنسی تعلیم دینے کے نکتوں پر اتفاق نہ تھا۔ اس طرح منتظمین کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی کہ وہ تمام شقوں پر جلد ہی ممبر ممالک سے دستخط کرا لیں گے۔ چنانچہ اس موقع پر این جی اوز نے اتفاقِ رائے سے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، اور جن امور کو آج متنازعہ فیہ قرار دیا گیا ہے بالآخر وہ دنیا بھر سے ان مطالبات کو منوانے میں جلد کامیاب ہو جائیں گے۔

مقامِ غور و فکر

گزشتہ خواتین کانفرنسوں میں اسلامی حکومت کے نمائندوں نے اپنی مذہبی تعلیمات، عقیدے اور ایمان کے صریحاً منافی احکام کی مزاحمت نہیں کی تھی بلکہ چند تحفظات کا اظہار کر دینا کافی  خیال کیا۔ جبکہ موجودہ کانفرنس کا ایجنڈا اس کفریہ نظام کو جبراً رکن ممالک پر مسلط کرنا تھا۔ لہٰذا دینی جماعتوں، علماء اور امت کے اہلِ فکر و نظر اصحاب نے اپنی اپنی حکومتوں کو خوب سمجھایا اور بغیر سوچے سمجھے اس کانفرنس کے ایجنڈے پر دستخط کرنے کے خطرناک عواقب سے ان کو آگاہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی مدد بھی آن پہنچی۔ اس طرح یہ شیطانی اور یہودی منصوبہ وقتی طور پر اپنی موت آپ مر گیا، فللّٰہ الحمد۔

مگر اس کے خلاف طول منصوبہ بندی کرنا بہت ضروری ہے۔ اقوامِ متحدہ کے نمائندے بار بار اس ایجنڈے کو ہمارے سروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ جس طرح اقلیتوں کے مسئلے پر، توہینِ رسالت کے موضوع پر، قتلِ غیرت کے نام پر، دہشت گردی کے خاتمے کے عنوان سے بار بار ہم سے مطالبے کیے جاتے ہیں۔ اور ان موضوعات پر ہونے والی پیشرفت کا سوال بار بار مختلف فورمز پر اٹھایا جاتا ہے۔ بعینہ جنسی آزادی، اسقاطِ حمل اور پچاس فیصد خواتین کی نمائندگی کے مسائل بار بار اٹھائے جاتے رہیں گے۔ لہٰذا ہمیں مسلسل بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔

(۱) اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہمارے ہاں غور و فکر کے مختلف فورم بنیں، جہاں محض تقاریر نہ ہوں، ان عالمی اداروں میں پیش آنے والے عالمی چیلنجز کا جواب ہم ٹھوس انداز میں دے سکیں۔ یہ فرض ہم پر امتِ مسلمہ کے فرد کی حیثیت سے بھی عائد ہوتا ہے اور ایک عام مسلمان کی حیثیت سے بھی۔ ٹھوس بنیادوں پر کام کرنے کے سوا ہم ان طوفانوں کا رخ نہیں موڑ سکتے۔ اگر مؤثر مزاحمت نہ ہوئی تو یہ انسانیت دشمن ایجنڈا ’’تمہاری بربادی کے مشورے ہیں یو این او کے ایوانوں میں‘‘ کے مصداق ہماری موت کا پیغام ہو گا، جب مسلمانوں کو جبراً اسلام اور اسلامی تعلیمات سے روک کر عالمی سطح پر نیست و نابود کر دیا جائے گا۔ عراق و کیوبا جیسی اقتصادی پابندیاں، طاقت کا استعمال جیسے ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں گے کہ ؎

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

وہ نیکی، بدی، گناہ، ثواب، حلال حرام کے بجائے نئے عالمی فرمان کے مطابق وہی صواب ماننا پڑے گا جسے امریکہ صحیح کہے گا، اور جسے وہ غلط کہے گا سب اسے غلط ماننے پر مجبور ہوں گے۔

(۲) ہمارے ہاں ہندوانہ رسم و رواج کی وجہ سے بلاشبہ عورت بہت سے مصائب کا شکار ہے، ضرورت ہے کہ اس کی محرومیاں دور کی جائیں اور اسلام نے عورت کو جو حقوق دیے ہیں ان کے بارے میں رائے عامہ بیدار کی جائے۔ عورت کے ساتھ عمومی رویے بہتر بنائے جائیں۔ تعلیم، صحت، وراثت، حقِ ملکیت، حسنِ سلوک، انتخابِ زوج جیسے حقوق جو اسلام نے اسے عطا کیے ہیں فی الواقع عورت کو یہ حقوق دے کر اس کی عزت و آبرو کا احترام کیا جائے۔ اس کے مقام و مرتبہ کو معاشرے میں بحال کیا جائے۔

(۳) اسلام نے عورت کو جو بہترین حقوق دیے ہیں، خود اپنے معاشروں میں اور بین الاقوامی فورمز میں ان کی وضاحت اور خوبصورتی سے پیش کی جائے۔ آج کی مسلمان عورت کو اپنے دین، اخلاقی اقدار اور علم کے ہتھیار سے مسلح ہو کر اپنے اسلاف سے رشتہ جوڑتے ہوئے اعتماد سے قدم اٹھانا ہوں گے، تاکہ آنے والی صدی میں خواتین سے متعلقہ چیلنجز کا علمی اور عملی دونوں سطح پر مؤثر جواب دیا جا سکے۔

(۴) نیو ورلڈ آرڈر جاری کرنے کے بعد سے امریکہ ہر ممکن مسلم ممالک کو الگ الگ دبا رہا ہے۔ اس کو احساس ہے کہ اس کے اس آرڈر کو صرف اسلام ہی چیلنج کر سکتا ہے۔ اس لیے امریکہ اور یہودی مسلمانوں کو مسلسل کمزور کرنے اور تقسیم در تقسیم کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ لہٰذا جلد از جلد مسلمانوں کو متحد ہو کر اپنی یونین قائم کرنی چاہیے۔ یا تو سلامتی کونسل میں اپنی اکثریت کی بنا پر دو تین مستقل ووٹ حاصل کریں، وگرنہ پھر اپنا مسلم بلاک الگ تشکیل دیں۔ اپنے کردار اور جہاد کے ذریعے اپنا لوہا منوائیں۔ اور اتحاد کے ذریعے نہ صرف اپنے دین کا تحفظ کریں بلکہ دکھی انسانیت تک اسلام کا جان بخش اور روح پرور پیغام پہنچائیں۔ اسلام کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کا توڑ کریں۔ اپنی نیوز ایجنسی قائم کریں، اپنا مسلم ٹیلی ویژن نیٹ ورک قائم کریں۔ مظلوم بھائیوں کی مدد کے لیے بین الاقوامی مسلم فوج تشکیل دے کر ہر جگہ دشمن کا بھرپور مقابلہ کریں۔ یہی راستہ ہمارے لیے سرخروئی اور کامیابی کا ضامن ہے۔

مقامِ مسرت ہے کہ اس موقع پر پاکستان کا سرکاری وفد اس بات پر ڈٹا رہا کہ وہ اپنی اسلامی روایات کے خلاف کوئی ایجنڈا قبول نہیں کرے گا۔ کیونکہ اسلام میں خواتین کی سیاسی و معاشی ترقی کے لیے نمایاں کردار موجود ہے۔ محترمہ زبیدہ جلال نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ ہم اس مسئلے پر او آئی سی کے تمام رکن ممالک کو بھی اعتماد میں لے رہے ہیں تاکہ اس معاشرے کی روایات ہم پر مسلط نہ کی جا سکیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اپنے اس عزم پر قائم رہتے ہوئے پوری اسلامی دنیا کو مغرب کی بڑھتی ہوئی ثقافتی اور تہذیبی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرے اور یہ وعدے صرف صفحۂ قرطاس کی زینت نہ بنیں بلکہ ان کو عملی جامہ پہنا کر مسلم امت کی حقیقی فلاح و بہبود کا کام سرانجام دیا جائے۔

(بہ شکریہ: ماہنامہ افکارِ معلم لاہور)


گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن کے پس پردہ عزائم

ادارہ

ماہنامہ ساحل کراچی نے گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن کی موجودہ عالمی مہم اور پاکستان میں حکومتی اختیارات کی مقامی سطح پر منتقلی کے  پروگرام کا جائزہ لیتے ہوئے اس سلسلہ میں دو اہم تجزیاتی رپورٹیں شائع کی ہیں جنہیں ’’ساحل‘‘ کے شکریہ کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ دینی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں سے بطور خاص ہماری گزارش ہے کہ وہ ان رپورٹوں کا گہری سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کریں اور اس اہم مسئلہ پر رائے عامہ کی راہنمائی کی طرف فوری توجہ دیں۔ (ادارہ)

عصرِ حاضر کے مغربی استعمار کی دو نئی اصطلاحات ’’گلوبلائزیشن‘‘ اور ’’لوکلائزیشن‘‘ اس وقت پاکستان کے ہر پڑھے لکھے فرد کا موضوعِ گفتگو ہیں۔ ان اصطلاحات کی ایک خاص تاریخ، خاص پسِ منظر، خاص فلسفہ اور خاص تہذیب ہے۔ اس پس منظر سے واقفیت کے بغیر یہ اصطلاحات بظاہر نہایت بے ضرر، غیر مہلک، تیر بہ ہدف اور نہایت کارآمد نظر آتی ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں لکھنے پڑھنے کی روایت مدتوں پہلے دم توڑ چکی ہے، لہٰذا میدانِ صحافت میں اب دانشور باقی نہیں رہے بلکہ اب صرف ڈھنڈورچی اور طبلچی قسم کے لوگ باقی رہ گئے ہیں۔ جو ہر نئے خیال، نئی لہر، نئے لفظ، نئی اصطلاح کو بے سوچے سمجھے اس بدقسمت قوم کی روٹھی ہوئی قسمت سے وابستہ کر دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ’’مقامیت‘‘ کی اصطلاح کے ضمن میں ہمارے اخبارات جنرل تنویر نقوی کی حمایت سے بھرے پڑے ہیں۔ حمایت کرنے والوں کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ ضلعی حکومتیں کس قیامت کی خبر لائیں گی اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی قومی ریاست کیسے ریزہ ریزہ ہو گی۔

’’ساحل‘‘ ان اصطلاحوں کے حوالے سے خصوصی اشاعت پیش کر رہا ہے تاکہ قارئین کو ان اصطلاحات کا تاریخی پس منظر، اس کا فلسفہ، اس کے مقاصد، اہداف اور منزل کی بابت تفصیل سے معلومات مہیا  کر دی جائیں۔ لوکلائزیشن اور گلوبلائزیشن کے عالمی استعماری منصوبے نئے نہیں ہیں، تاریخ کے سفر میں وقتاً فوقتاً ایسے منصوبے ماضی میں بھی ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔

انیسویں صدی میں انگریز نے بالکل اسی طرح پر پہلے ہماری مرکزی ریاست کو کمزور اور بالآخر تباہ کیا تھا۔ اس صدی کے نوابوں اور راجاؤں کی پالیسیوں اور راجوڑوں کو مغل سلطنت کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا تھا۔ مرکزی ریاست سے اختیار چھین کر نوابوں کو با اختیار بنانے کی حکمتِ عملی کے ذریعے اصل اختیارات ریاستوں کو منتقل نہیں ہوئے بلکہ انگریزی استعمار کو منتقل ہوئے۔ اس طرح آج پاکستانی ریاست سے اختیارات چھین کر مقامی سطح پر منتقل کرنے سے مقامی حکومتیں مضبوط نہیں ہوں گے بلکہ یہ اختیارات اصل میں عالمی استعمار اور اس کے اداروں کو منتقل ہو جائیں گے۔ ضلعی حکومت ایک کاروباری ادارے کی طرح کام کرے گی جس میں حاکم آجر، اور عوام خریدار ہوں گے۔

لوکلائزیشن کا مطلب یہ ہے کہ مرکزی ریاست تمام خدمات کی فراہمی کے عمل سے دستبردار ہو جائے اور اس کی ذمہ داری ضلعی اور تحصیل کی سطح کی مقامی حکومتوں کو منتقل کر دی جائے۔ مقامی حکومتیں ان خدمات کو منافع کے حصول کے لیے انجام دیں اور حکومت کے بجائے تجارتی ادارہ بن جائیں۔ جکارتہ میں پانی کا نظام ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے خرید لیا ہے جس کے بعد پانی بھی منافع پر بیچا جا رہا ہے اور لوگ مہنگا پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ ضلعی حکومت کے نتیجے میں اختیارات مرکزی حکومت سے نچلی سطح پر منتقل ہونے کے بجائے تمام اختیارات ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بین الاقوامی بینکوں کو منتقل ہو جاتے ہیں۔

گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ کیونکہ دونوں اعمال کے ذریعے اصل اختیارات مرکزی ریاست سے عالمی استعماری اداروں اور ملکوں کو منتقل کر دیے جاتے ہیں۔

حکومت نے ضلعی حکومتوں کے قیام کے پہلے مرحلے میں ملک کے منتخب اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے۔ ضلعی حکومتیں کیا ہیں؟ اس نظامِ حکومت کا فلسفہ کا ہے؟ اس کی تاریخ کیا ہے؟ اسے سمجھنے کے لیے ہمیں عالمی استعمار امریکہ اور اس کی حلیف عالمی مالیاتی طاقتوں یعنی آئی ایم ایف، عالمی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں کے فلسفے، اصطلاحات، اور مغربی تہذیب اور اس کے فلسفہ تاریخ کو اچھی طرح سمجھنا ہو گا۔ اسے سمجھے بغیر ہم ضلعی حکومت جیسے بظاہر بے ضرر معاملات کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے۔

عموماً ہمارے دینی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے ضلعی حکومت کے منصوبے کی منظم اور مضبوط مخالفت ابھی تک نہیں کی گئی، بلکہ اسے اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم کے مغربی فلسفے کے تناظر میں ایک عظیم الشان پیش قدمی سمجھا جا رہا ہے۔ مگر دینی جماعتوں کی جانب سے ضلع کی سطح پر مرد اور خواتین کے لیے مساوی نشستوں کے اعلان کی بھرپور مذمت کی گئی ہے جس کا مقصد Effeminization کے ذریعے خاندانی نظام کو تہس نہس کرنا ہے۔ مغرب کے کسی ملک میں نچلی سطح پر کسی انتخابات میں بھی جنس کی بنیاد پر نشستوں کی تقسیم نہیں ہے، ہر جنس کو اختیار ہے کہ وہ انتخابات میں آزادانہ حصہ لے۔ مگر ہمارے حکمران مغرب سے کئی قدم آگے بڑھ کر ریاستی جبر کی طاقت سے عورت اور مرد و ایک دوسرے کے مد مقابل لا کر مقابلے کی کیفیت پیدا کر کے معاشرے سے اخلاقی اقدار کو رخصت کرنا چاہتے ہیں۔ عورتوں کو گھروں سے جبراً نکال کر ترغیب و تحریص کے تحت اپنے جال میں گرفتار کر کے انہیں مردوں کے شانہ بشانہ لانے کا بنیادی مقصد گاؤں اور تحصیل کی سطح پر آج بھی موجود مضبوط خاندانی نظام کو تہہ و بالا کرنا ہے جس کے نتیجے میں مغربی تہذیب کو غلبہ حاصل ہو ۔۔۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری اور علی محمد رضوی کے مضامین معلومات کے نئے دریچے وا کرتے ہیں، ان مضامین سے صورتِ حال کا ایک ایسا رخ سامنے آئے گا جو ابھی تک خاص و عام لوگوں سے مخفی ہے۔

(ماہنامہ ساحل کراچی)

ضلعی حکومتوں کا عالمی استعماری منصوبہ

علی محمد رضوی

اس مضمون میں ہم گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن کے استعماری منصوبوں کو اس طرح سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ پاکستانی ریاست کو تباہ کرنے کی استعماری کوششیں ہم پر واضح ہو سکیں۔ آخر میں ہم استعمار کے ان منصوبوں کا مقابلہ کرنے کے لیے چند تجاویز بھی پیش کریں گے۔

استعمار کا منصوبہ کیا ہے؟

اکیسویں صدی کا مغربی استعمار چاہتا ہے کہ قومی ریاستیں کمزور ہوں۔ قومی ریاست کو کمزور کرنا استعمار کے معاشی اور دفاعی استحکام کے لیے ضروری ہے۔ یہ حکمتِ عملی بیسویں صدی کی استعماری حکمتِ عملی سے مختلف ہے۔ بیسویں صدی میں استعمار نے تیسری دنیا میں مضبوط ریاستوں کے قیام کو برداشت ضرور کیا تھا، آج استعمار مضبوط قومی ریاستوں کو برداشت نہیں کر سکتا:
  • اس کی معاشی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ داری کے لیے سرمایہ کا بلا روک ٹوک بہاؤ آج انتہائی اہم ہو چکا ہے۔ مضبوط ریاست سرمایہ کے اس بہاؤ پر روک ٹوک عائد کر سکتی ہے۔ اس قسم کی پابندیاں سرمایہ داری نظام کی بلند و بالا عمارت کو انتہائی آسانی کے ساتھ زمین بوس کر سکتی ہے۔
  • اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ آج مغربی ممالک میں نوجوانوں کی تعداد انتہائی کم ہو چکی ہے۔ آج مغربی آدرشوں کے لیے جان دینے والا کوئی نہیں رہا ہے۔ ایسے میں مغرب لمبی زمینی جنگیں لڑنے کے لیے نا اہل ہوتا جا رہا ہے۔ مضبوط قومی ریاستوں کا وجود مغرب کے لیے دفاعی خطرہ بن چکا ہے۔

ان ہی دو وجوہات کی بنیاد پر آج کا استعمار مضبوط قومی ریاستوں سے خائف ہے اور انہیں کمزور کرنا چاہتا ہے۔ موجودہ دور میں کسی بھی ریاست کی قوت کے دو سرچشمے ہوتے ہیں: (۱) اعلیٰ سیاست (۲) ادنٰی سیاست۔

  1. اعلٰی سیاست (High Politics): اعلیٰ سیاست سے مراد ہے ریاست کا اندرونی و بیرونی معاملات، تعلقات کی ہر سطح پر مکمل کنٹرول ہے۔ دراصل سیاست علیا کا مطلب کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی، معاشی پالیسی اور دفاعی پالیسی ہے۔ کوئی بھی ریاست اسی حد تک قوی یا کمزور ہوتی ہے جس حد تک وہ اپنی خارجہ پالیسی، معاشی پالیسی اور دفاعی پالیسی کو مشکّل کرنے، چلانے اور ان کو عملی جامہ پہنانے میں آزاد ہوتی ہے۔
  2. ادنیٰ سیاست (Low Politics) پر ریاست کا مکمل کنٹرول: سیاستِ ادنیٰ میں وہ تمام خدمات شامل ہیں جو تمام جدید ریاستیں کچھ عرصہ قبل تک اپنے عوام کو فراہم کرنا اپنے مقصدِ وجود کا حصہ سمجھتی تھیں۔ ان خدمات میں بجلی و پانی کی فراہمی سے لے کر سڑکوں کی تعمیر تک تمام خدمات شامل ہیں۔ ریاست ان خدمات کی فراہمی منافع کے حصول کے لیے اور مارکیٹ کے نقطۂ نظر سے نہیں کرتی ہے بلکہ اس کو بنیادی ذمہ داری اور بنیادی خدمت سمجھ کر بجا لاتی ہے۔ کسی بھی ریاست کو (موجودہ دور میں) اپنے عوام پر کنٹرول اور ان کی تابعداری اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب تک وہ یہ خدمات اپنے عوام کو فراہم کرتی رہتی ہے۔ اگر کسی ریاست سے یہ بنیادی خدمات فراہم کرنے کی ذمہ داری چھین لی جائے تو اس ریاست کا اپنے عوام پر کنٹرول اور ان کی تابعداری کا حصول ناممکن ہو جائے گا۔

موجودہ ریاست کی طاقت اور کمزوری کے جو دو بنیادی اصول ہم نے اوپر بیان کیے ہیں ان کا تعلق ریاست کے وظائف سے ہے۔ اب اگر ساختی اور ہیئتی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو موجودہ دور میں وہی ریاستیں مضبوط اور طاقتور ریاستیں ہوں گی جو جغرافیائی لحاظ سے وسیع ہوں، آبادی کے اعتبار سے گنجان اور پھلتی پھولتی ہوں۔ آبادی کے لحاظ سے اور جغرافیائی لحاظ سے چھوٹے ممالک موجودہ دور میں کمزور ممالک ہوں گے اور وہ بیرونی معاشی اور دفاعی مخالفین کے آگے بے بس ہوں گے۔

مندرجہ بالا تمہید کے نتیجہ میں اب ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ استعمار کے ان منصوبوں کو کوئی نام دے سکیں۔ استعمار کے مندرجہ ذیل تین منصوبے ہیں: (۱) گلوبلائزیشن (۲) لوکلائزیشن (۳) شہری حکومتوں کا قیام۔

(۱) گلوبلائزیشن کیا ہے؟

گلوبلائزیشن کا مقصد یہ ہے کہ مرکزی ریاست سیاستِ علیا (High Politics) سے دستبردار ہو جائے۔ مثلاً اگر پاکستان کے تناظر میں اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو گلوبلائزیشن کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ پاکستانی ریاست خارجہ پالیسی، معاشی پالیسی اور دفاعی پالیسی کی تشکیل کے اپنے حق سے دستبردار ہو جائے اور ان ذمہ داریوں کو امریکی استعمار اور اس کی گماشتہ آلہ کار تنظیموں، منصوبوں اور معاہدوں مثلاً ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ڈبلیو ٹی او، سی ٹی بی ٹی وغیرہ کو منتقل کر دے۔ ظاہر ہے کہ خارجہ پالیسی، معاشی پالیسی اور دفاعی پالیسی کی تشکیل کے وظائف استعمار کو منتقل کر دینے کے بعد پاکستانی ریاست ایک مجبور، لاچار اور لاغر بے بس ریاست رہ جائے گی، جو استعمار کے کسی بھی منصوبہ کی مخالفت کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔ پاکستان انہی معنوں میں استعمار کی باج گزار اور محتاج ریاست بن جائے گی جن معنوں میں آج خلیج کی ریاستیں استعمار کی باج گزار اور محتاج ریاستیں بن چکی ہیں۔

(۲) لوکلائزیشن کیا ہے؟

لوکلائزیشن کا مطلب یہ ہے کہ مرکزی ریاست خدمات کی فراہمی کے عمل سے دستبردار ہو جائے اور اس کی ذمہ داری ضلعی اور تحصیل کی سطح کی مقامی حکومتوں کو منتقل کر دی جائے۔ ان مقامی حکومتوں کو چلانے کی ذمہ داری محض منتخب نمائندوں کی نہ ہو، بلکہ ورلڈ بینک کی ڈیویلپمنٹ رپورٹ برائے ۲۰۰۰ء کے مطابق اس میں پرائیویٹ سیکٹر، این جی اوز اور سول سوسائٹی کے دوسرے عناصر (مثلاً سیکولر مفکرین، مدبرین اور ماہرین حضرات) کو بھی شامل ہونا چاہیے۔ اسی لیے جنرل مشرف کے پروگرام میں عورتوں اور غیر مسلموں کے لیے مخصوص نشستیں اتنی بڑی تعداد میں رکھی گئی ہیں۔

دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ مقامی حکومتیں ان خدمات کو بطور خدمت کے انجام نہ دیں بلکہ منافع کے حصول کے لیے دیں۔ مقامی حکومتیں منافع کے حصول کے لیے کمپنیاں بن جائیں جن کا مقصد:

  • شہریوں کو بنیادی سہولتیں نفع نقصان کے اصول سے بالاتر ہو کر دینا نہ ہو، بلکہ زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول ہو۔
  • مقامی حکومتیں اپنے شیئر اور بانڈ دوسری کمپنیوں کی طرح مارکیٹ میں بیچنے کے لیے پیش کریں گی۔
  • خدمات کے سارے نظام کو پرائیویٹائز کیا جائے گا اور اس کے بڑے خریدار ملٹی نیشنل کمپنیاں ہوں گی۔ اس کی مثال جکارتہ میں ہمارے سامنے آئی ہے جہاں فراہمئ آب کا سارا نظام ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے خریدا ہوا ہے۔

اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اختیارات مرکزی حکومت سے فی الواقع مقامی ضلعی حکومتوں کو منتقل نہیں ہوتے ہیں، بلکہ اصل اختیارات ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اور بین الاقوامی بینکوں کو منتقل ہوتے ہیں۔

انہی معنوں میں ہم کہتے ہیں کہ گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، کیونکہ دونوں اعمال کے ذریعے اصل اختیارات مرکزی ریاست سے استعمار کو منتقل ہوتے ہیں۔

(۳) شہری حکومتوں کا قیام

گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن کا حتمی ہدف سنگاپور اور ہانگ کانگ کے طرز کی شہری حکومتوں کا قیام ہے۔ سنگاپور، ہانگ کانگ، پاناما، مکاؤ، کوسٹاریکا جیسے علاقے شہری ریاستوں/حکومتوں کی حقیقت واضح کرتے ہیں۔ یہ تمام شہری مقامی حکومتیں عالمی سرمایہ داری کی تابع مہمل ہوتی ہیں۔ اور اعلیٰ سیاست یعنی خارجہ پالیسی، دفاعی پالیسی، اور عمومی معاشی پالیسی کے مسائل سے ان حکومتوں کے قیام کے ساتھ ہی ان کی ریاستوں اور ان کے شہریوں سے کوئی دلچسپی نہیں رہتی ہے۔ یہ شہری ریاستیں، حکومتیں کم اور منافع کے حصول میں تگ و دو کرنے والی کمپنیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ اور ان کے شہری، شہری کم اور خریدار زیادہ ہوتے ہیں۔ کراچی، لاہور، حیدرآباد، پشاور کو مضبوط پاکستان کا دل و جگر نہیں ہونا چاہیے جو جہادِ کشمیر، جہادِ افغانستان اور استعمار کے خلاف جدوجہد کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکیں، بلکہ ان کو ایسی کمپنیوں کا روپ دھارنا چاہیے جو سرمایہ داری کے شیطانی کھیل کا ایک حصہ ہوں۔

شہری حکومتوں کے قیام کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ملکوں کو توڑا جائے، بلکہ اختیارات عالمی اداروں اور مقامی سطح پر اس طرح منتقل کیے جائیں کہ مرکزی ریاست صرف نام کی ریاست رہ جائے گی جس کا واحد مقصد عالمی اداروں کی پالیسیوں کا نفاذ رہ جائے گا۔

طریقہ کار

گلوبلائزیشن، لوکلائزیشن، اور شہری حکومتوں کے قیام کے اس استعماری منصوبے کو سمجھنے کے بعد اب موقع ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے کیا ذرائع ہیں۔ ذیل میں ہم مختصراً ان عملی اقدامات کو ترتیب وار بیان کریں گے جو استعمار اور اس کے ذیلی ادارے ہماری ریاستوں کو کمزور کرنے کے لیے ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں:

  • استعمار اور اس کے گماشتے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کے یہ استعماری منصوبے اس وقت تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتے جب تک حرص و حسد ہمارے معاشرے میں قابلِ قبول نہ بن جائیں۔ حرص و حسد کو عام کرنے کا سب سے اہم ذریعہ حقوقِ انسانی ہیں۔ حقوقِ انسانی کے ذریعے ان اجتماعی اداروں، صف بندیوں اور برادریوں کو منتشر کیا جاتا ہے جو روایتی طور پر ہمارے معاشروں میں حرص و حسد کے فروغ میں حائل رہی ہیں، اور جو ہمارے معاشروں میں قربانی، ایثار اور وفا کا سرچشمہ ہے۔ خاندان کے تباہ ہونے کے نتیجہ میں ہر فرد معاشرہ میں یکا و تنہا رہ جاتا ہے، ایسا شخص حرص و حسد کے جال میں با آسانی پھنس جاتا ہے۔ ایسے افراد کے لیے سرمایہ کا بندہ بن جانا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ استعمار ہمارے معاشروں میں ایسے ہی افراد کی تشکیل کے لیے کوشاں ہے۔ اس سلسلہ میں استعمار کی پروردہ این جی اوز خاص کردار ادا کر رہی ہیں۔
  • خاندانی نظام کو تباہ کرنے کا سب سے اہم ہتھیار حقوقِ نسواں کی تحریک ہے۔ عورتوں کو حرص و حسد کا بندہ بنائے بغیر اور انہیں گھر سے نکالے بغیر استعمار کے لیے ناممکن ہے کہ ہمارے معاشرے میں سرمایہ اور استعمار کی بالادستی قائم کر سکے۔ حقوقِ نسواں کی تمام تحریکیں ہمارے معاشرے اور ثقافت کو تباہ کرنے کی تحریکیں ہیں۔ حقوقِ نسواں کی تمام تحریکیں ہمارے معاشرے میں محبت، ایثار و وفا کو ختم کر کے حرص و حسد کو عام کرنے کی تحریکیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ استعمار کی گماشتہ این جی اوز کو حقوقِ نسواں کی سب سے زیادہ فکر ہے۔ جنرل مشرف کی موجودہ حکومت اس معاملے میں استعمار کی کھلی حلیف ہے۔ اس نے آزادئ نسواں کی حامی استعمار کی گماشتہ خواتین کو اپنی سکیورٹی کونسل اور کابینہ میں شامل کیا ہے اور پیش آمدہ بلدیاتی انتخابات میں کثیر تعداد میں خواتین کی نشستیں مخصوص کی ہیں۔ خواتین کو بازار و سیاست کی رونق بنا کر ہمارے معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کی جا رہی ہیں اور ہمیں استعمار کے لیے نوالۂ تر بنایا جا رہا ہے۔ عورتوں کو سرمایہ کا غلام بنانے کے لیے اہم ترین پروگرام فیملی پلاننگ اور عورتوں کی معاشرتی ترقی کے پروگرام ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ عورت ماں بننے سے انکار کر دے اور بازار میں عام اجناس کی طرح اس کی بولی لگائی جائے تاکہ سرمایہ داری پاکستانی معاشرے میں اپنے اثرات گہرے کر سکے۔
  • دفاعی اور خارجہ پالیسی کے محاذ پر استعمار کی یہ کوشش ہے کہ پاکستان اپنا نیو کلیئر پروگرام ترک کر دے۔ پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے پاک علاقہ (Nuclear Free Zone) بنا دیا جائے۔ دفاعی اخراجات میں ہر سال مسلسل کمی کی جائے۔ جنرل مشرف نے ہندوستان کے دفاعی بجٹ میں تیس فیصد اضافہ کے مقابلے میں پاکستانی بجٹ میں کٹوتی کی ہے۔ فنانشل ٹائمز کے نامہ نگاروں کے مطابق جنرل صاحب نے دفاعی بجٹ میں سے سات ارب روپیہ کاٹ کر اپنی غربت مٹاؤ مہم کے لیے مختص کر دیا ہے۔ یہ سب کچھ دراصل آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ایجنڈے کے عین مطابق ہے جس کا مقصد ریاست و معاشرت کی ہیئت کو تبدیل کرنا ہے۔
  • چونکہ امریکہ علاقہ میں چینی بالادستی کو کم کرنے کے لیے بھارت کو مضبوط کرنا چاہتا ہے، اس لیے استعمار پاکستان کی حکومت پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ کشمیر کے جہاد سے دستبردار ہو جائے اور علاقہ میں بھارت کی بالادستی قبول کر لے۔
  • اس طرح امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان جہادِ افغانستان اور کسی قسم کی جہادی سرگرمیوں کی اعانت میں ملوث نہ ہو۔ ’’دہشت گردی‘‘ کے خاتمے کے لیے امریکی کوششوں سے معاونت کرے۔ جہادی تحریکوں پر پابندی لگائی جائے۔ مساجد و مدارس سے جہاد کا درس ختم کر کے سرکاری اسلام کا پرچار کیا جائے جو امریکہ کے لیے قابلِ قبول ہو۔
  • پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کرنے اور اسے استعمار کا باج گزار بنانے کے لیے اسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی معاشی پالیسیوں کو اپنانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اس معاشی پالیسی کے اہم نکات یہ ہیں کہ ① آزاد مارکیٹ اور آزاد تجارت کے اصولوں کو قبول کر لیا جائے، ② ملکی اثاثوں کو کوڑیوں کے دامن فروخت کر دیا (اس کا نام پرائیویٹائزیشن ہے)، ③ معاشی پالیسی پر سے حکومت کا کنٹرول ختم کر دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی بینک کی آزاد معیشت کی پالیسیاں کسی بھی ملک کی معیشت کی تباہی کا سامان ہیں۔ لاطینی امریکہ اور افریقہ کے دسیوں ممالک میں ان پالیسیوں پر عمل کیا گیا اور اس کے ذریعے پھلتی پھولتی معیشتوں کو تباہ کر دیا گیا۔ عالمی بینک کی ان پالیسیوں پر عمل کرتے رہنے کا واحد مطلب معاشی خودکشی کا ارتکاب ہو گا جس کا واحد نتیجہ پاکستانی معیشت اور پاکستانی ریاست کی تباہی کی صورت میں منتج ہو گا۔
  • شہری قوتوں کو مرکزی ریاست کے مقابلے میں کھڑا کر کے مرکزی ریاست کو کمزور کرنا۔ خدمات کی فراہمی کے سارے نظام کو مرکزی حکومت سے لے کر مقامی شہری حکومتوں کو سونپ دینا۔
  • ڈبلیو ٹی او کے قوانین قبول کر کے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو یہ حق دینا کہ وہ اندرونی ذرائعِ وسائلِ خدمات (Domestic Services Resources) کا بلاروک ٹوک استعمال کر سکیں۔
  • ماحولیاتی قوانین کے نفاذ کے نام پر پانی، بجلی اور دوسری خدمات کا نظام ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سپرد کر دیا جائے۔ مقامی حکومتیں سرمایہ داری اور استعمار کی آلۂ کار بن جائیں۔
  • لوگوں کو سرمایہ داری کا حلقہ بگوش بنانے کے لیے ’’غربت مکاؤ پروگرام نما‘‘ فلاحی ادارے بنائے جائیں۔
  • گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن کے نام پر ریاست کی مرکزی شکست و ریخت کے اس سارے عمل کو ایک نئے آئین کے ذریعے تحفظ فراہم کیا جائے جس کو بدلنے کا اختیار کسی کو حاصل نہ ہو۔

ہماری مرکزی ریاست کو کمزور کرنے کے یہ تازہ منصوبے کوئی نئے منصوبے نہیں ہیں۔ انیسویں صدی میں انگریز نے بالکل اسی طرز پر پہلے ہماری مرکزی ریاست کو کمزور اور بالآخر تباہ کیا تھا۔ انیسویں صدی کے نوابوں اور راجاؤں کی پالیسیوں اور جواڑوں کو مغل سلطنت کے مقابلے میں لا کھڑا کیا گیا تھا اور اس طرح انتظامی اختیارات مرکزی ریاست سے ان راجوڑوں اور ریاستوں کو منتقل ہونے لگے تھے۔ اسی طرح انگریز نے مرکزی ریاست کی اعلیٰ سیاست یعنی خارجہ پالیسی، دفاعی پالیسی، اور معاشی پالیسی کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ ان دونوں ذرائع سے اختیارات اصل میں انگریز کو ہی منتقل ہو رہے تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ مرکزی ریاست سے اختیار چھین کر نوابوں کو با اختیار بنانے کی حکمتِ عملی کے ذریعے اصل اختیارات ریاست کو منتقل نہیں ہوئے بلکہ استعمار کو منتقل ہوئے ہیں۔ 

اسی طرح آج پاکستانی ریاست سے اختیار چھین کر مقامی سطح پر منتقل کرنے سے مقامی حکومتیں مضبوط نہیں ہوں گی بلکہ یہ اختیارات اصل میں استعمار کو منتقل ہوں گے۔ جس کی بنا پر پاکستان کی ریاست استعمار کی مخالفت کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔

ایک مضبوط پاکستان کیوں؟

ہم لوکلائزیشن اور گلوبلائزیشن کے نام پر پاکستانی ریاست کو تباہ کرنے کے ان استعماری منصوبوں کو یکسر طور پر رد کرتے ہیں۔ ہم پاکستان کو ایک مضبوط جہادی اور اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں جو

  • جہادِ افغانستان کی پشتیبان ہو،
  • کشمیر میں جہاد کی حمایت کرتی ہو،
  • استعمار کی ہر چال کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔

اس لیے کہ پاکستانی کوئی قوم نہیں ہے بلکہ پاکستان ملتِ اسلامیہ کا ہراول دستہ ہے۔ پاکستان کو قومی ریاست بنانا اور پاکستانیوں کو قوم بنانا پاکستان کی تباہی کا سامان ہے۔ گلوبلائزیشن، لوکلائزیشن، شہری حکومتوں کا قیام وغیرہ سیکولرازم کا جدید مظہر ہیں۔ جبکہ پاکستان اور سیکولرازم دو متضاد عمل ہیں جن کے ملاپ کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کو ایک سیکولر قومی ریاست بنانے کی تمام کوششیں پاکستان کو تباہ کرنے اور استعمار کی طفیلی ریاست بنانے کا ذریعہ ہیں۔ اسرائیلی رہنما بن گوریان نے فلسطین کو نہیں، عربوں کو نہیں، بلکہ پاکستان کو اسرائیل کا دشمن نمبر ایک قرار دیا تھا۔ استعمار کے دل میں جس طرح پاکستان کھٹکتا ہے کوئی اور ملک نہیں کھٹکتا۔ کیونکہ پاکستان یہود و ہنود کی راہ میں حائل ایک مضبوط چٹان ہے۔

پاکستانی ریاست کو تباہ کرنے کے ان استعماری عزائم کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک عوامی تحریک (جس کی رہنمائی متحدہ اسلامی قیادت کرے) جلد از جلد برپا کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس قیادت کا معاشی لائحہ عمل ان اصولوں پر مشتمل ہو:

  • غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی سے فوری انکار کر دیا جائے۔
  • ایک جہادی معیشت کا قیام جس کی بنیادی حکمتِ عملی دفاعی پیداوار کے لیے مجموعی پیداوار میں اضافہ کو بنیاد کے طور پر استعمال کرنا ہو۔
  • تمام مالی اداروں کو اسلامی و جہادی اصولوں کے ماتحت کرنا،
  • آزاد زرعی پالیسی کا خاتمہ،
  • سرمایہ کی گردش پر کڑی نگرانی کا قیام،
  • غذائی اجناس کی پیداوار میں جلد از جلد خود کفالت۔

ریاستی لائحۂ عمل

  • بلدیاتی انتخابات کا متفقہ اور شرح صدر کے ساتھ بائیکاٹ ہو۔
  • جمہوری اداروں اور جمہوری عمل سے براءت کا اعلان ہو۔
  • اسلامی انقلاب کی عوامی سطح پر پیش بندی اور پیش رفت ہو۔

سماجی لائحۂ عمل

  • مسجد و مدرسہ کو عوامی سطح پر فعال بنایا جائے۔
  • مسجد کی تھانہ پر بالادستی کو قائم کیا جائے۔
  • حکومتی عملداری سے آزاد متفقہ دارالافتاء کا قیام

۔۔۔


ضلعی حکومتیں: پاکستانی ریاست کے خلاف خطرناک سازش

ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری

اس مضمون میں تحریکاتِ اسلامی کے کارکنان اور قائدین کی خدمت میں دو گزارشات پیش کی گئی ہیں:
  1. تمام اسلامی جماعتیں متفقہ طور پر بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کریں۔
  2. تمام اسلامی جماعتیں لوکلائزیشن کے پروگرام کو اصولاً رد کر کے مرکزی ریاست کو کمزور بنانے کی اس استعماری چال کو ناکام بنائیں۔
تمام اسلامی جماعتیں نفاذِ شریعت اور اعانت ِجہاد کے دو نکاتی پروگرام پر متفق ہو کر عوامی مہمات کے ذریعے اہلِ دین کو متحرک اور منظم کریں۔

ہم کہاں کھڑے ہیں؟

۱۹۸۷ء میں جماعتِ اسلامی اور جمعیت علماء پاکستان نے قومی اور صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ ایک بالکل درست اور نہایت مفید فیصلہ تھا، اس کے تین بہت بڑے فائدے حاصل ہوئے۔
اسلامی سیاسی قوتیں موجودہ مقتدر سیاسی قوتوں سے الگ ہو گئیں۔ آج جب ہم یہ بات کہتے ہیں کہ ہمارا موجودہ ظالم سیاسی اور معاشی نظام میں کوئی حصہ نہیں تو اس بات کو جھٹلانا مشکل ہو جاتا ہے۔ انقلاب کی کامیابی کی ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ نئی انقلابی قوتیں عوام کی نگاہ میں موجودہ نظامِ اقتدار میں ملوث نہ ہوں۔ صرف اسی صورت میں نئی انقلابی قوتوں سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک نیا نظامِ اقتدار مرتب کرنے کی اہل ہیں۔ ایرانی انقلاب اور تحریکِ نفاذِ نظامِ مصطفٰیؒ میں یہی بنیادی فرق تھا کہ آیت اللہ خمینی کی ۱۹۶۲ء سے جاری جدوجہد کے نتیجے میں ایرانی علماء شاہ کے نظام سے تقریباً یکسر کٹ گئے تھے۔ جب کہ پی این اے (پاکستان نیشنل الائنس) میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو مقتدر طبقے کا جزوِ لاینفک سمجھے جاتے تھے۔
۱۹۹۷ء کے انتخابات کے بائیکاٹ کے فیصلے کے نتیجے میں آج ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں تحریکِ اسلامی ایران ۱۹۷۰ء کے اوائل میں تھی۔ ۱۹۹۷ء کے بعد جماعتِ اسلامی پاکستان، جمعیت علماء پاکستان، سپاہ صحابہؓ اور بہت سی دیوبندی تنظیموں نے ثابت کر دیا کہ اقتدار سے باہر رہ کر اسلامی قوتوں کو مجتمع کر کے حکومت پر مؤثر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ نیو کلیئر پروگرام، جہادِ کشمیر اور افغان جہاد کا تحفظ اس ہی وجہ سے ممکن ہوا کہ اسلامی قوتیں ریاستی اقتدار سے باہر منظم تھیں اور اپنی طاقت متحرک کرنے کے لیے انہیں ریاستی ذرائع کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر اسلامی قوتیں ریاستی اقتدار میں ملوث ہوتیں تو نہ Mass Organization ممکن ہو سکتی اور نہ Mass Mobilization۔
۱۹۹۷ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کر کے ہم نے پہلی مرتبہ جماعتی سطح پر جمہوریت کی حقیقت کا ادراک حاصل کیا۔ ۱۹۳۰ء سے جب جمعیت علماء ہند قائم ہوئی، برصغیر کی تمام اسلامی سیاسی جماعتوں نے ـ(سوائے جماعتِ اسلامی ہند) جمہوری عمل کو Mass Mobilization کا مؤثر ترین ذریعہ تصور کیا۔ ۱۹۹۷ء کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ جمہوری عمل میں شمولیت کے ذریعے رسوائی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جمہوری عمل کو رد کر کے ہی وسیع تنظیمی اور وسیع عوامی پذیرائی اسلامی بنیادوں پر ممکن ہو سکتی ہے۔ آج بہت سے علماء اور زعماء اس بات کے قائل ہیں اور سپاہ صحابہؓ اور تحریکِ احرار نے اصولاً جمہوریت کو رد کیا ہے اور جمعیت علماء اسلام میں بھی  متعدد علماء جمہوری عمل کے مضر ہونے کا برملا اظہار فرماتے ہیں۔
استعمار اور اس کے پاکستانی حلیف اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اسلامی قوتیں متحد ہو کر انقلابی سیاسی راہ اختیار کر رہی ہیں۔ اسلامی جماعتوں پر زور ڈالا جا رہا ہے کہ وہ مرکزی حکومت میں شامل ہوں۔ معیشت کو کاغذی سطح پر اسلامیانے کی مذموم سازش میں دینی مدارس اور تبلیغی جماعتوں کو ملوث کیا گیا ہے۔ بلدیاتی انتخابات اور لوکلائزیشن کا ایک اہم عنصر یہ ہے کہ اسلامی جماعتوں کو جمہوری عمل میں دوبارہ ملوث کیا جائے۔ اگر استعماری اور سیکولر قوتیں اس میں کامیاب ہو گئیں تو اسلامی جماعتوں کو ان کی موجودہ پوزیشن سے اس مقام پر پھینک دیں گی جہاں اسلامی جماعتیں ۱۹۷۸ء میں ضیاء حکومت میں شمولیت کے وقت کھڑی تھیں۔ یہ ہماری ایک بڑی شکست ہو گی اور ہم عوامی حمایت کھو بیٹھیں گے، اور عظیم وسعت پذیر تنظیمی کام اور عظیم عوامی پذیرائی کا کام مشکل سے مشکل تر ہو جائے گا۔

ڈیولوشن Devolution کیا ہے؟

پاکستانی ڈیولوشن منصوبہ، عالمی استعمار کے گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن پروگرام کا حصہ ہے۔ لوکلائزیشن پروگرام کی حقیقت اور پاکستانی ریاست کو اس سے لاحق ہونے والے خطرات اس سلسلہ کے پہلے مضمون (ضلعی حکومتیں از علی محمد رضوی) میں بیان کیے گئے ہیں۔ یہاں جنرل مشرف کی ڈیولوشن اسکیم کی خصوصیات بیان کی جاتی ہیں:
  • ریاستی اقتدار کو چار سطحوں پر تقسیم کیا جائے گا۔ وفاق، صوبہ، ڈسٹرکٹ اور یونین کونسل۔
  • رائے دہندگان کی عمر ۲۱ سے ۲۸ سال کر دی جائے گی۔
  • ہر ڈسٹرکٹ اسمبلی مالی طور پر خودمختار ہو گی اور اس کے پاس آمدنی حاصل کرنے کے اختیارات ہوں گے۔ ڈسٹرکٹ حکومت مالی طور پر خودکفیل بنائی جائے گی۔
  • ہر ڈسٹرکٹ اسمبلی میں دو غیر مسلم ممبر ہوں گے۔
  • ہر ڈسٹرکٹ اسمبلی اپنی علیحدہ مانیٹرنگ کمیٹی تشکیل دے گی تاکہ عوام حکومتی عوامل میں شامل کیے جا سکیں۔
  • ڈسٹرکٹ اسمبلی کے تحت مندرجہ ذیل شعبے ہوں گے: (۱) صحت (۲) تعلیم (۳) تجارت و صنعت (۴) قانون (۵) رابطہ (۶) زراعت (۷) مالیات (۸) بجٹ اور منصوبہ بندی (۹) ماحولیات (۱۰) جمہوری اداروں کا ارتقاء جمہوریت سازی (۱۱) اطلاعات
  • ڈسٹرکٹ حکومت ایک کاروباری ادارے کی طرح کام کرے گی، اس کے حاکم آجر کی حیثیت اختیار کر جائیں گے اور عوام کو خریدار سمجھا جائے گا۔
  • ہر وہ شخص ڈسٹرکٹ، تحصیل اور یونین کونسل کا ممبر منتخب ہو سکے گا جو (۱) ۲۵ سال سے زائد عمر کا ہو (۲) نادہندہ نہ ہو (۳) کنگال ہو (۴) مجرم یا سزا یافتہ نہ ہو۔
جیسا کہ امیر جماعتِ اسلامی قاضی حسین احمد نے کہا ہے کہ یہ اسکیم خالصتاً غیر ملکی مشیروں اور این جی اوز کی ترجیحات کی غماز ہے۔ استعمار کی خواہش ہے کہ عوام کی توجہ مِلی اور نظریاتی مسائل سے ہٹ جائے، اور اغراض کی سیاست پورے معاشرتی اور ریاستی نظام کو اپنی گرفت میں لے لے۔ یہ معاشرہ اور ریاست کو سیکولر بنانے کا نہایت کارگر طریقہ ہے۔ اس حکومتی نظام کے نفاذ کے نتیجے میں مقامی آبادیوں کو غرض کی بنیاد پر منظم اور متحرک کیا جائے گا۔ ہر شخص اور گروہ اپنے مادی مفادات کی جستجو کو اولیت دے گا، اور پورا معاشرہ اور پورا سیاسی نظام سرمایہ دارانہ ذہنیت کو اپنا لے گا۔ حاکم آجر ہوں اور محکوم خریدار۔ ظاہر ہے کہ جہاں سیاست کو اس طریقہ سے بازاری بنا دیا جائے وہاں نظریاتی جماعتوں کا کوئی مستقبل نہیں ہو سکتا اور انہیں کوئی عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہو سکتی۔
انڈونیشیا، ترکی اور ہندوستان کے دو صوبوں کرناٹک اور تامل ناڈو میں اس نوعیت کے بلدیاتی، سیاسی اور انتظامی نظام کا تجربہ کیا گیا ہے۔ ہر جگہ اس کا نتیجہ یہ رہا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں، مغربی بینکوں، اور عالمی سٹہ بازوں کی گرفت ان صوبوں اور شہروں پر نہایت مستحکم ہو گئی ہے:
  • جکارتہ کا پورا شہری ترسیلِ آب کا نظام ایک امریکی یہودی کمپنی کے قبضہ میں ہے۔
  • کرناٹک کی صوبائی حکومت اپنے اخراجات کا ۳۰ فیصد عالمی سٹہ بازاروں (Bond Markets) میں میونسپل بانڈ بیچ کر پورے کرتی ہے۔
  • ترکی کے دو صوبے آئی ایم ایف سے اپنے Structural Adjustment Programmes طے کر رہے ہیں جو مرکزی حکومت کی معاشی حکمتِ عملی سے اصولاً متصادم ہیں۔
اسی نوعیت کی معاشی خودمختاری موجودہ پاکستانی ڈیولوشن پروگرام میں تجویز کی گئی ہے۔ اگر یہ نافذ ہوتی ہے تو ڈسٹرکٹ اسمبلی District Assemblies کے اہل کاروں کا زیادہ وقت ملٹی نیشنل کمپنیوں اور مغربی بینکوں کی خوشامد کرتے گزرے گا، کیونکہ یہی ادارے وہ وسائل فراہم کر سکتے ہیں جو بلدیاتی اداروں اور ڈسٹرکٹ میونسپل کمیٹیوں کی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ اس نوعیت کی انتظامی تبدیلی کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتیں بتدریج وسائل کی فراہمی بھی کم کر دیں گی۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں این جی اوز کی قوت بے اندازہ طور پر بڑھ جائے گی۔
ڈیولوشن پاکستان توڑنے اور امریکہ کی غلامی قبول کرنے کا پروگرام ہے۔ اس کے نتیجہ میں وفاق کمزور ہو گا کیونکہ دینی اور نظریاتی بنیادوں پر لوگوں کو منظم اور متحرک کرنے کے مواقع معدوم ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ وفاق کے مالی مسائل بھی محدود ہوں گے اور وفاق کے اختیارات بھی کم کیے جائیں گے۔ ایک فعال اور جہادی خارجہ پالیسی کا تو ان حالات میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کے پاس وہ وسائل ہی نہیں ہوں گے جن سے اعانتِ جہاد یا ریاست کا دفاع ممکن ہو۔ اسی کے ساتھ وہ عوامی تائید سے بھی محروم ہو جائے گی جو جہادی خارجہ پالیسی کو جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے۔  اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام تو اغراض کی سیاست کے مکمل اسیر ہو چکے ہوں گے اور اپنے نمائندوں پر مسلسل یہ زور ڈال رہے ہوں گے کہ ملٹی نیشنل اداروں اور مغربی بینکوں اور ساہوکاروں سے اپنے سودے کریں جن سے بلدیاتی مسائل حل ہوں اور علاقہ میں خوشحالی آئے۔
اگر اسلامی جماعتوں نے آنے والے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا تو وہ اپنا دینی تشخص کھو بیٹھیں گی۔ وہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں ملکی شمولیت کا اسلامی جواز فراہم کریں گی، ان کے کارکن حقوق اور اغراض کی سیاست کے آلۂ کار بن جائیں گے۔ وہ عوام سے قربانیاں مانگنے کے قابل نہ رہیں گے۔ کیونکہ وہ تو خودغرضی، مطلب پرستی، حرص و حسد کو فروغ دینے والے بن جائیں گے۔ اسلامی کارکن دعوٰی کریں گے کہ ایم کیو ایم، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ہم سے زیادہ اس بات کے اہل نہیں کہ عوام کے حقوق کا تحفظ کریں، اور ان جماعتوں کی بہ نسبت اسلامی جماعتیں ملٹی نیشنل کمپنیوں، مغربی بینکوں اور آئی ایم ایف کے ساتھ زیادہ بہتر سودے کر سکتے ہیں۔ یہ اسلام کو نفس پرستی کا ذریعہ بنانے کا عمل ہے۔ اگر ہم نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا تو ہم وہ تمام فوائد کھو دیں گے جو ہم نے ۱۹۹۷ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کر کے حاصل کیے تھے۔ اسلامی تحریکات آج سے بیس سال پیچھے دھکیل دی جائیں گی۔

اسلامی جماعتیں کیا کر رہی ہیں؟

اس کی تفصیل یونس قادری کے مضمون غیر سیاسی دینی جماعتیں اور سیاسی جماعتوں والے مضمون میں پیش کی گئی ہے۔ اجمالاً تین باتیں عرض ہیں:
(۱) وقت کی اہم ترین ضرورت اسلامی جماعتوں میں اتحاد ہے۔ یہ اتحاد ایک دو نکاتی پروگرام پر ہو۔ ایک یہ کہ فی الفور نفاذِ شریعت اور دوسرا اعانتِ جہاد۔
(۲) اس اتحاد میں اولاً جمعیت علماء پاکستان، جماعتِ اسلامی، جمعیت علماء اسلام، تحریکِ احرار اور سپاہ صحابہؓ شامل ہوں۔ کوشش کی جائے کہ ایک سال کے اندر دیگر تمام اسلامی جماعتیں بھی اس اتحاد میں شریک ہوں۔
(۳) سی ٹی بی ٹی پر کامیاب ریفرنڈم نے ثابت کر دیا ہے کہ عوام کی اسلامی عصبیت کو بروئے کار لانے کے لیے قومی مہمات نہایت کارگر ہو سکتی ہیں۔ ہمیں اگلی مہم غیر ملکی قرضوں کی تنسیخ کے لیے فی الفور شروع کر دینی چاہیے۔ یہ قرضہ دسمبر ۲۰۰۰ء میں ری شیڈول ہو گا۔ ہمیں ریاست پر زور ڈالنا چاہیے کہ وہ قرضوں کو ری شیڈول نہ کرے بلکہ ان کو Repudate (فسخ) کر دے۔ اس طرح عالمی سرمایہ دارانہ گرفت کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔
(۴) اتحادِ اسلامی کو قیادت کی سطح تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ مساجد و مدارس کو بنیاد بنا کر محلہ کی سطح پر حلال رزق کی فراہمی کی اسکیمیں شروع کی جائیں۔ یہ اسی نوعیت کی ہوں جو دارالارقم (ملائیشیا)، حزب اللہ (لبنان)، اور جماعتِ اسلامی (ہند) مختلف اسلامی خطوں میں چلا رہی ہیں۔ ان اسکیموں کی دو خصوصیات ہیں: (۱) یہ روحانی ارتقاء اور سیاسی جدوجہد سے محترم ہوتی ہیں (۲) یہ سود اور سٹہ کے بازار کا بدل پیش کرتی ہیں۔ ان کا مقصد تحریکات کے کارکنوں کو مالی طور پر خودکفیل بنانا ہے۔ جو لوگ تحریکات میں باضابطہ شامل نہیں ہیں ان کو ان اسکیموں میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ معاشرتی صف بندی کے کام کو روحانی تطہیر کے کام اور سیاسی جدوجہد کے کام سے مربوط کرتی ہیں، اور معاشرتی کام کو سوشل ورک بننے سے روکتی ہیں۔ اغراض کی بنیاد پر عوامی تحریک Mass Mobilization کو رد کرنے کا یہ مؤثر ذریعہ ہے۔
تحریکاتِ اسلامی کو معاشرتی سطح پر ایسے ادارے بنانے چاہئیں جو ریاستی اداروں پر بالادستی حاصل کر سکیں۔ جمہوری اداروں میں شامل ہو کر یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہمیں پورے شرح صدر کے ساتھ جمہوری اور دستوری عمل کو رد کر دینا ہے، کیونکہ جمہوریت اور دستوریت ہی انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
اگر اسلامی جماعتوں نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا تو وہ یقیناً ناکام ہوں گے۔ اس کی دو وجوہات ہیں:
  1. ایک یہ کہ جو لوگ اغراض کی بنیاد پر متحرک ہوتے ہیں وہ دینی قوتوں کی طرف فطرتاً توجہ نہیں کرتے، اور نہ اپنی مرضی کو اولیت کی بنا پر اسلامی جماعتوں کی طرف رجوع مند ہو سکتے ہیں۔ مشرف کی ڈیولوشن کی اسکیم میں کوئی ایسی چیز نہیں جو عام قوم پرست، جاگیردار اور سرمایہ دار افراد کو نئے نظام میں شمولیت سے روکتی ہو۔ یہی  لوگ اہلِ غرض کے فطری نمائندے ہیں اور ان ہی غرض مندوں کو بھاری تعداد میں منتخب کیا جائے گا۔
  2. دوسری وجہ یہ ہے کہ برصغیر کی اسلامی جماعتیں حضرت قطب العالم امداد اللہ مہاجر مکی قدس سرہ کے فیض کا تسلسل ہے۔ حضرت حاجی صاحبؒ ہمارے متفق علیہ شیخ الطائفہ ہیں۔ آپؒ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ برصغیر کی تمام اسلامی جماعتیں محفوظ جماعتیں ہیں۔ یہ سیکولر نظام کو مستحکم کرنے کا ذریعہ نہیں بن سکتیں۔ حضرت شیخؒ امیرِ جہاد ۱۸۵۷ء تھے، اور آپؒ نے بھی تحریک برپا فرمائی جو ۱۸۵۷ء سے ۱۹۲۰ء تک انگریز کی تمام دستوری اور جمہوری انتظامات کو رد کرتی رہی اور جہاد کو زندہ رکھنے کے لیے بیش بہا قربانیاں پیش کرتی رہی ہے۔ پاکستان کی اسلامی جماعتوں کا مستقبل بھی صرف اور صرف احیائے جہاد میں ہے۔ اگر ہم نے یہ راہ ترک کر دی تو
؎ ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

اقوامِ متحدہ کے مقاصد اور چارٹر پر ایک نظر

مولانا سخی داد خوستی

اقوامِ متحدہ کے مقاصد میں جو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ پوری دنیا میں جنگ روکنا اور امن آشتی کی فضا پیدا کرنا وغیرہ، یہ خوشنما عناوین صرف لوگوں کو ورغلانے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ درحقیقت بات یہ تھی کہ دوسری جنگِ عظیم میں چھ سال مسلسل بڑی طاقتیں اتحادی ممالک سمیت کرائے کے سپاہیوں اور تباہ کن اسلحہ کے ذریعے سے انسانیت کو بربادی کا پیغام دیتی رہیں، بالآخر ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر قیامتِ صغرٰی برپا کر کے تصادم کو ختم کیا۔ اس کے بعد دوسری جنگِ عظیم کے فاتحین نے اپنی فرعونیت کو برقرار رکھنے اور پوزیشن کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ایک تنظیم کی ضرورت محسوس کی تو اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے ’’اقوامِ متحدہ‘‘ کی تنظیم بنائی۔ اس وجہ سے انہوں نے ’’ویٹو پاور‘‘ کو اپنے لیے مخصوص کر لیا اور یومِ تاسیس سے امروز تک اقوامِ متحدہ کو اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کا قانون ہے کہ اس کے ارکان میں پانچ بڑی طاغوتی ممالک یعنی امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین سلامتی کونسل کے مستقل ممبر ہوں گے اور انہی کو ’’ویٹو پاور‘‘ کا حق حاصل ہو گا۔ ویٹو پاور کے معنی ہیں فیصلہ کن انکار کی قوت۔ یعنی ان ممالک میں سے اگر کوئی ملک کسی قرارداد کے خلاف ووٹ دے دے تو اسے منظور نہیں کیا جا سکتا۔ یا بالفاظ دیگر ویٹو پاور کا مقصد یہ ہے کہ اگر دنیا کی تمام اقوام مل کر کسی مسئلہ پر متفق ہو جائیں لیکن ان پانچ ملکوں میں سے ایک انکار کرے تو پوری دنیا کی رائے کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ گویا یہ پانچ مستقل ممبر دنیا کے کلی طور پر حکمران ہیں، سب قومیں ان کی یرغمالی ہیں۔
ویٹوپاور کا حق اکثر اسلامی ممالک کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک عالمِ اسلام کا کوئی مسئلہ اقوامِ متحدہ کے ذریعے حل نہیں ہوا ہے۔ بلکہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کے سیاسی مسائل میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بھی پانچ بتوں کی عبادت کرتی تھی، افسوس کا مقام ہے کہ آج اسلامی ممالک نے بھی اقوامِ متحدہ کے پانچ غاصبوں کے ویٹو پاور کو تسلیم کر کے اللہ تعالیٰ کے سپرپاور ہونے کا عملی طور پر انکار کر دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان نے ۱۹۶۸ء میں ایٹم کے عدمِ پھیلاؤ کے عنوان سے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کو این پی ٹی کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن ممالک نے ۱۹۶۸ء سے قبل ایٹمی قوت حاصل کی ہے صرف انہی کو ایٹمی قوت تسلیم کیا جائے گا۔ اس کے بعد یہ صلاحیت حاصل کرنے والے ممالک کو بطور ایٹمی قوت تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ اس معاہدے میں، نیز ویٹوپاور کو صرف پانچ بڑی قوت والے ملکوں کو دینے میں کیا حکمت ہے اور اس کے جواز کی کیا دلیل ہے؟ تو اس سوال کے جواب دینے سے پانچ بڑی طاقتوں سمیت دنیا بھر کے طواغیت قاصر ہیں۔ سوائے اس کے کہ وہ طاقتور ہیں اور دنیا کے معاملات میں اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے ہیں اور اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں ہیں، اگرچہ ان کی بات انتہائی غلط ہو۔ حالانکہ یہ معاہدہ جنگ روکنے کے بالکل منافی ہے کیونکہ یکطرفہ قوت ہی جنگ کی دعوت دینے کا ذریعہ ہے۔ مثلاً ماضی قریب میں امریکہ نے افغانستان پر کروز میزائل پھینکے تو افغانستان کے پاس بھی اگر ایسے بحری جہاز اور اس طرح کے میزائل ہوتے تو امریکہ ہرگز ایسا نہ کرتا، تو اس جارحیت کا سبب صرف مدمقابل کی کمزوری تھا۔ اس لیے جنگ روکنے کے لیے ہر ملک کے پاس ایٹمی قوت موجود ہونا ضروری ہے تاکہ قوت کے توازن کی وجہ سے تصادم نہ آجائے، جیسے کہ جنگِ عظیم دوم کے بعد بڑی قوتوں کے آپس میں براہ راست تصادم نہ آنے کی وجہ یہی ہے کہ ہر ایک کے پاس ایٹمی ہتھیار کے انبار ہیں۔

حقوقِ انسانی چارٹر اور اسلام

اقوامِ متحدہ کے حقوقِ انسانی چارٹر اسلام کے نصوص کے صریح خلاف ہے۔ چند نمونے ملاحظہ ہوں:
چارٹر دفعہ نمبر ۱: تمام انسان تکریم میں برابر ہیں۔
اسلام: قرآن مجید میں ہے: ترجمہ: ’’بے شک تم میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ اکرام کا مستحق وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے‘‘۔ تو معلوم ہوا کہ اسلام میں متقی اور غیر متقی تکریم میں برابر نہیں۔
چارٹر دفعہ نمبر ۴: غلامی اور غلامی کی تجارت اپنی تمام صورتوں میں ممنوع ہو گی۔
اسلام: غیر مسلم اقوام کے وہ افراد جو خالص اسلام دشمنی کی بنا پر مسلمانوں سے برسرپیکار ہوں اور معرکۂ جہاد میں پکڑے جائیں تو وہ ازروئے شریعت غلام ہیں، ان کی تجارت بالکل جائز ہے۔ اور ان غلاموں سے اسلام کے بے شمار مسائل و فضائل وابستہ ہیں جو قرآن و حدیث میں مفصل بیان ہوئے ہیں۔
چارٹر دفعہ نمبر ۵: کسی شخص کو تشدد اور ظلم کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا اور کسی شخص کے ساتھ غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک نہیں کیا جائے گا، یا ایسی سزا نہیں دی جائے گی۔
اسلام: چور کا ہاتھ اور ڈاکو کا ایک ہاتھ ایک پاؤں کاٹنا، شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا، قتلِ عمد میں قاتل کو قصاصاً قتل کرنا، شرابی اور قاذف کو شریعت کی طرف سے متعین کوڑے لگانا، اور اس قسم کے دیگر حدود جو شریعت نے مقرر کیے ہیں ان سب کا نفاذ اسلامی حکومت پر ضروری ہے۔
چارٹر دفعہ نمبر ۱۶: پوری عمر کی مردوں اور عورتوں کو نسل، قومیت یا مذہب کی کسی تحدید کے بغیر باہم شادی کرنے اور خاندان کی بنیاد رکھنے کا حق حاصل ہے۔ شادی، دورانِ شادی اور اس کی تنسیخ کے سلسلے میں وہ مساوی حقوق رکھتے ہیں۔
اسلام: مسلمان مرد کو صرف مسلمان عورت یا کتابی عورت سے شادی کرنا، اور مسلمان عورت کو صرف مسلمان مرد سے نکاح کرنا جائز ہے بس۔ نیز تنسیخِ نکاح، جس کو شریعت کی اصطلاح میں طلاق کہا جاتا ہے، کا حق صرف مرد کو حاصل ہے، عورت کو ہرگز حاصل نہیں۔
چارٹر دفعہ نمبر ۱۸: ہر شخص کو آزادئ خیال، آزادئ ضمیر اور آزادئ مذہب کا حق حاصل ہے۔
اسلام: اتنی آزاد خیالی اور آزادئ ضمیر ممنوع ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کی مقدس کتابوں اور اس کے پاک فرشتوں اور اس کے معصوم انبیاءؑ اور صحابہ کرامؓ کی توہین و تنقید تک بات پہنچے۔ نعوذ باللہ منہا۔ نیز مسلمان کو اسلام چھوڑ کر دوسرے مذہب کو اختیار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ خدانخواستہ اگر کوئی مسلمان مرتد ہو جائے اور سمجھانے پر بھی باز نہیں آتا تو فرمانِ نبویؐ کے مطابق اسے قتل کیا جائے گا۔
چارٹر دفعہ نمبر ۱۹: ہر شخص کو آزادئ رائے اور آزادئ اظہار کا حق حاصل ہے۔
اسلام: ایسی تقریر و تحریر قطعاً ممنوع ہے جس سے اکثریت کے جذبات مجروح ہوتے ہوں اور امن و سکون غارت ہوتا ہو۔ نیز اسلامی ریاست میں غیر مسلم کو یہ اجازت نہیں کہ وہ مسلمانوں کو کفر کی دعوت دے کر مرتد بنائے۔
چارٹر دفعہ نمبر ۲۱ (۱): ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ براہِ راست یا آزادی سے منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنے ملک کی حکومت میں حصہ لے۔
اسلام: اسلامی ریاست میں غیر مسلم کو کلیدی عہدہ و منصب پر فائز کرنا جائز نہیں ہے۔۔۔
چارٹر دفعہ نمبر ۲۱ (۳): عوام کی مرضی حکومت کے اقتدار کی بنیاد ہو گی۔ یہ مرضی وقفے وقفے سے اور ایسے صحیح انتخابات کے ذریعے ظاہر کی جائے گی جو عالمگیر اور مساوی رائے دہندگی پر مبنی ہو۔
اسلام: اسلامی ریاست کی بنیاد مغرب سے درآمد شدہ  جمہوریت پر رکھنا حرام ہے، بلکہ اس کی بنیاد امارت و شورائیت پر ہو گی جس میں عوام کالانعام کی رائے کا کوئی اعتبار نہیں، اور نہ ہی اس میں کوئی متعین وقفہ ہے، بلکہ امیر کا انتخاب غیر  متعین وقت کے لیے صائبِ رائے افراد کریں گے۔
چارٹر دفعہ نمبر ۲۵ (۲): ماں اور بچے کو خصوصی توجہ اور مدد کا حق حاصل ہے، تمام بچے خواہ شادی کے نتیجے میں پیدا ہوں یا بغیر شادی کے پیدا ہوں، یکساں سماجی تحفظ سے بہرہ ور ہونے کا حق رکھتے ہیں۔
اسلام: کسی عورت کو بغیر شادی کے بچے پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر کوئی عورت ایسا کرتی ہے تو اسے اسلامی حدود کے تحت سزا ملے گی، ایسی بدکار عورت کو اسلام کوئی تحفظ فراہم نہیں کرتا۔
چارٹر دفعہ نمبر ۲۷ (۱): ہر شخص کو آزادانہ طور پر معاشرے کی ثقافتی زندگی میں حصہ لینے، فنونِ لطیفہ (مصوری، رقاصی، موسیقی، سے حظ اٹھانے ۔۔۔۔) کا حق حاصل ہے۔
اسلام: اسلام میں مصوری، رقاصی اور موسیقی حرام ہونے کی وجہ سے ان سے حظ اٹھانے کا کوئی حق کسی کو حاصل نہیں، بلکہ یہ افعال قطعی ممنوع ہیں، کرنے والے تعزیر کے مستحق ہوں گے۔

عالمی منظر نامہ

ادارہ

مسلم ممالک  کا تجارتی بلاک قائم کیا جائے

کوالالمپور (اے ایف پی) اسلامی کانفرنس کے سیکرٹری جنرل عز الدین لاراکی نے کہا ہے کہ اسلامی کانفرنس کے رکن ممالک کو محض مشترکہ مذہب پر اکتفا کرنے سے آگے بڑھنا چاہیے، جو وقت کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے مسلمان ممالک کا تجارتی بلاک قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے کچھ مشترکہ مفادات بھی ہونے چاہئیں۔ ان کے درمیان اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں تعاون سے اتحاد بھی بڑھے گا۔
انہوں نے اسلامی ممالک کو خبردار کیا کہ غالب نوعیت کے عالمی اقتصادی بلاکوں کا قیام اسلامی ملکوں پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پسند کریں نہ کریں ہمیں مسلم بلاک کے تصور پر قائم رہنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اقتصادی اور تجارتی تعاون سے فوائد کا حصول اسلامی کانفرنس تنظیم کے تحفظ کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اگرچہ اسلامی کانفرنس تنظیم کمزور ہے مگر اتحاد میں بہرحال ایک قوت پائی جاتی ہے اور مسلمان ممالک کو بہرحال تعاون اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ انہوں نے اسلامی مشترکہ منڈی کے قیام کے لیے اقدامات پر زور دیا۔ 
بتایا گیا ہے کہ اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں جمعہ کے روز جس قرارداد کے مسودے پر غور کیا اس میں اسلامی مشترکہ منڈی کے قیام کے لیے مسلمان ملکوں میں اقتصادی روابط پر زور دیا گیا ہے۔ مسودہ قرارداد پر معیشت کی عالمگیریت کے منفی اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے مؤثر حکمتِ عملی اپنانے پر بھی زور دیا گیا، اور اس بات پر زور دیا گیا کہ اس کے فوائد تمام ممبر ملکوں کے لیے یکساں طور پر پہنچنے چاہئیں۔
(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ یکم جولائی ۲۰۰۰ء)

فلپائنی حریت پسندوں کا مطالبہ

منیلا (اے ایف پی) فلپائن میں متحرک مسلمان تنظیم ’’ابو سیاف‘‘ نے دو استانیوں کی رہائی کے بدلے صوبہ سولو کے مقامی سکولوں میں غیر اسلامی اقدار ختم کرنے اور زیادہ سے زیادہ مسلمان اساتذہ بھرتی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ابو سیاف کے ایک سینئر رہنما دولان ساہیرون نے سکول سپروائزروں سے کہا ہے کہ تمام  مسلمان طالبات کو نقاب پہنایا جائے۔ جبکہ کرسمس پارٹیاں اور ہائی سکول میں ڈانس کی کلاسوں کو ختم کیا جائے۔ سرکاری فوج کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے ان مطالبات پر فوری عملدرآمد کے لیے کہا ہے کہ ابو سیاف نے مارچ میں باسیلان کے ۲ سکولوں سے ۵۰ افراد کو یرغمال بنایا تھا جن میں دو استانیاں بھی شامل ہیں۔ جن میں سے اب تک ۱۵ طلبہ کو فوج رہا کرا چکی ہے جبکہ ۶ فوجی آپریشن کے دوران قتل کر دیے گئے تھے۔
(روزنامہ نوائے وقت ۔ ۲۷ جون ۲۰۰۰ء)

بابری مسجد شہید کرانے والا مسلمان ہو گیا

کراچی (پ ر) بابری مسجد کو شہید کرنے والے ہزاروں انتہاپسند اور جنونی ہندووں کے لشکر کی قیادت کرنے والے بجرنگ دل کے کمانڈر انچیف شیوپرساد نے اسلام قبول کر لیا ہے اور اس کا اسلامی نام محمد مصطفٰی رکھا گیا ہے۔ پاسبانِ امارات کے آرگنائزر ارسلان ہاشمی کو نو مسلم محمد مصطفٰی نے بتایا کہ بابری مسجد کو شہید کرنے کی کاروائی کے دوران جو لوگ سب سے پہلے مسجد کے گنبد پر چڑھے وہ ’’شیوسینا‘‘ کے کارکن تھے اور شیوپرساد نے ان کے دلوں میں مسجد کو تباہ کرنے کے لیے  جنون کی حد تک آگ لگا دی تھی۔ جب بابری مسجد کا مینار گرنے لگا تو شیوسینا کا کہنا ہے کہ ہم نے جئے رام کے زوردار نعرے لگائے اور بھجن گائے اور میں تو خوشی سے پاگل ہو گیا۔
شیوپرساد نے ارسلان ہاشمی کو بتایا کہ اب تو اس واقعہ کو سات برس سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے اور میں الحمد للہ مسلمان ہو گیا ہوں، لیکن جیسے ہی مینار گرا اور جو خوشی اور مسرت حاصل ہوئی وہ چند دنوں بعد ہی کافور ہو گئی۔ میرے رگ و پے میں ایک انجانے خوف کی لہر دوڑنے لگی، میں ایک عجیب و غریب پریشانی کا شکار ہو گیا، میرا ضمیر مجھے ملامت کرنے لگا، میں ذہنی خلفشار میں  مبتلا رہنے لگا، اور جلد ہی مجھے اس احساس نے آن دبوچا کہ میں نے شاید کوئی بہت بڑا گناہ کیا ہے اس کی تلافی اب ممکن نہیں، شاید میں دنیا کے کروڑوں مسلمانوں کا دل دکھانے والی کاروائی کا سبب بنا ہوں، اب اگر میں کتنے ہی جنم لوں، کتنے ہی اشنان کر لوں، میرا وجود اس گناہ سے اتنا بدبودار ہو گیا ہے کہ اب پاک ہونا میرے لیے ممکن ہیں۔ میں نے فیصلہ کر لیا  کہ میں ہندوستان میں نہیں رہوں گا، شاید یہاں سے دور ہو کر مجھے کھویا ہوا سکون مل جائے۔ بالآخر میں شارجہ پہنچ گیا۔ یہاں مجھے نوکری مل گئی لیکن میری بے چینی بڑھتی گئی۔ بالآخر میں نے سوچ سمجھ کر ایک فیصلہ کیا اور پھر میرے قدم کچھ روز قبل مسجد کی جانب اٹھ گئے اور میں نے اسلام قبول کر لیا۔ اس فیصلے سے میرا وجود ہلکا ہو گیا اور گناہوں کا بھاری بوجھ میرے سر سے اتر گیا ہے۔
نو مسلم محمد مصطفٰی نے بتایا کہ ماضی میں میرے طرزِ عمل سے اور میری کاروائیوں سے مسلمانوں کو جو دکھ، رنج اور صدمہ پہنچا ہے، دنیا بھر کے مسلمانوں کی جو دل آزاری ہوئی ہے، میں اس پر شرمندہ ہوں، نادم ہوں، اور اللہ رب العزت اور مسلمانوں سے معافی اور رحمت کا طلبگار ہوں۔ میں اپنے سابقہ مذہب کے تمام پیروکاروں اور ہندو دوستوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں سے تعصب چھوڑ دیں۔ میں پاسبان کی دعوت پر بہت جلد پاکستان آنا چاہتا ہوں۔
(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۳ جولائی ۲۰۰۰ء)

ادارہ علومِ اسلامی اسلام آباد کا اعزاز

اسلام آباد (اوصاف رپورٹر) وفاقی دارالحکومت کے نواحی علاقے بھارہ کہو ٹول پلازہ مری روڈ پر واقع دینی  مدرسے ادارہ علومِ اسلامی کے دو طلبہ نے فیڈرل بورڈ کے حالیہ امتحان برائے میٹرک میں دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کر کے اس تاثر کی نفی کر دی کہ دینی مدارس میں فرقہ واریت یا دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ادارے کے دو طلبہ حافظ جنید خان اور حافظ محمد اعظم نے فیڈرل بورڈ میں پوزیشن حاصل کی، جبکہ مجموعی طور پر ادارہ علومِ اسلامی کا نتیجہ سو فیصد رہا۔
گزشتہ روز ادارہ علومِ اسلامی میں ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی جس میں روزنامہ اوصاف کے ایڈیٹر حامد میر مہمانِ خصوصی تھے، انہوں نے ادارے کے مختلف شعبوں کا دورہ کیا اور طلبہ کو بیک وقت دینی علوم اور عصری علوم کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے حافظ جنید خان اور حافظ محمد اعظم سے ملاقات کی اور ادارے میں لیے جانے والے امتحانات کے دوران ان کے انگریزی کے پرچے چیک کیے۔ دونوں طلبہ کی انگریزی کئی پرائیویٹ انگلش میڈیم سکولوں کے طلبہ سے بہتر تھی۔
بعد ازاں ایک خصوصی تقریب ہوئی جس میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ دینی مدارس کے طلبہ کو دینی علوم کے ساتھ انگریزی زبان بولنے، پڑھنے اور لکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ عالمِ اسلام کے خلاف اکثر سازشیں انگریزی میں ہوتی ہیں، لہٰذا ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے انگریزی زبان پر عبور حاصل کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ انگریزی اور دیگر مغربی زبانوں پر عبور رکھنے والے علماء اسلام کا پیغام یورپ و امریکہ میں بڑی آسانی سے پھیلا سکتے ہیں۔
حامد میر نے کہا کہ اسلام کو جہاد کے بغیر غلبہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہمیں بندوق کے ساتھ ساتھ قلم اور زبان سے بھی جہاد کرنا ہے اور دنیا کو بتانا ہے کہ جہاد ظلم کے خلاف مزاحمت کا نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہادی کردار کے ساتھ ساتھ سوچ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ دینی مدارس کے طلبہ فرقہ واریت سے دور رہیں تو وہ معاشرے کے لیے اعلیٰ کردار کا نمونہ بن سکتے ہیں۔
تقریب سے ادارے کے سربراہ مولانا فیض الرحمان عثمانی نے بھی خطاب کیا جبکہ مولانا شریف ہزاوی نے دعا کروائی۔
(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۔ ۲ جولائی ۲۰۰۰ء)

آزاد فلسطینی ریاست کا اعلان

نابلوس (کے پی آئی) فلسطین کے صدر یاسر عرفات نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان چند ہفتوں میں کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کو بیت المقدس، غزہ، اور مغربی کنارے کا علاقہ خالی کرنے پر مجبور کرے۔
یہاں فلسطینیوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یاسر عرفات نے کہا ہے کہ فلسطینی مملکت کے قیام کا اعلان آئندہ چند ہفتوں میں کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ چند ہفتے ہمارے لیے بڑے اہم ہیں۔ اگر فریقین کسی سمجھوتے پر نہ بھی پہنچے تو فلسطینی مملکت کے قیام کا اعلان کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اسرائیلی مشرقی بیت المقدس اور غزہ سمیت مغربی کنارے کا علاقہ اس طرح خالی کر دے جس طرح اس نے صحرائے سینا کا علاقہ خالی کیا ہے۔
(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۔ ۲۷ جون ۲۰۰۰ء)

انڈونیشیا میں مسلم مسیحی فسادات

جکارتہ (آن لائن) انڈونیشیا عیسائی مسلم فسادات کا خونی سلسلہ جاری ہے اور دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان تازہ جھڑپوں میں ۹ افراد ہلاک ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق تازہ جھڑپوں کا مرکز ملاکو جزائر کا مرکزی شہر ایمبوں ہے جہاں عیسائیوں نے مسلم آبادی پر حملہ کر کے ۹ مسلم باشندوں کو ہلاک کر دیا۔ عینی شاہدین اور علاقے کے رہائشیوں کے مطابق شہر کے مختلف علاقوں میں فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے جبکہ شہر میں ایک چرچ کو نذرِ آتش کر دیا گیا ہے۔ ایک نواحی علاقے تالک میں دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے کئی مکان جلا ڈالے۔
ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ انڈونیشیائی فوج نے بھی ملاکو جزائر میں مارشل لاء کے نفاذ کے مطالبے کی حمایت کر دی ہے کیونکہ امن و امان کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے تاہم صدر عبد الرحمان واحد مارشل لاء کے نفاذ کی مخالفت کر رہے ہیں۔
(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۲۷ جون ۲۰۰۰ء)

بھارتی مسلمانوں پر تشدد

نئی دہلی (این این آئی) جمعیت العلماء ہند نے کہا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں کو پُرتشدد حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جمعیت کے صدر مولانا سید اسعد مدنی نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ راجھستان، مدھیہ پردیش اور مغربی بنگال میں مسلمانوں کا قافیۂ حیات تنگ کرنے کے لیے عبادت گاہوں پر حکومتی کنٹرول کے متنازعہ قانون سے مسلمانوں میں اشتعال پایا جاتا ہے اور ان میں اپنے حقوق کے تحفظ کا احساس اجاگر ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم دشمنی پر مبنی رویے کی وجہ سے ہی بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دیتے ہوئے انہیں ملک سے نکالنے کی کاروائیاں جاری ہیں۔

جمعیت العلماء ہند کے صدر نے مطالبہ کیا کہ اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں پر انتہاپسند ہندو تنظیموں کے حملوں اور دوسری تخریبی سرگرمیوں کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں۔ کیونکہ واجپائی حکومت اقلیتوں پر ہونے والے پُرتشدد حملوں کی غیرجانبدارانہ تحقیق و تفتیش کرائے تو بھارت میں فرقہ وارانہ حالات خراب کرنے کے مرتکب عناصر بے نقاب کیے جا سکتے ہیں۔

سید اسعد مدنی نے اعلان کیا کہ یکم جولائی کو جمعیت مجلسِ عاملہ کے اہم اجلاس میں مسلمانوں کے خلاف حملوں اور مسلمانوں کو تنگ کرنے کے امتیازی قوانین پر غور کرتے ہوئے آئندہ حکمتِ عملی ترتیب دی جائے گی۔

(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ یکم جون ۲۰۰۰ء)

اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات

اسلام آباد (کے پی آئی) اسلامی نظریاتی کونسل نے حکومت سے سفارش کی ہے کہ ملک بھر میں ایسے علاقوں، شہروں اور قصبوں کو ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے ترجیح دی جائے جہاں کی آبادی کی اکثریت نماز کی پابندی کرتی ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری ملازمتوں اور ترقی کے لیے نماز کی پابندی کرنے والے ملازمین کو ترجیح دی جائے۔ اور اگر کوئی سرکاری ملازم نماز کی پابندی نہ کرے، اسے وارننگ دینے، جرمانہ کرنے، اور پھر بھی نماز کی پابندی نہ کرنے پر اسے ملازمت سے برطرف کر دینے کا قانون بنایا جائے۔

یہ سفارشات نظریاتی کونسل کی تیار کردہ حتمی رپورٹ میں کی گئی ہیں۔ رپورٹ میں سرکاری دفاتر میں سادگی اپنانے سے متعلق سفارشات کی گئی ہیں کہ بیوروکریسی کے افسروں کے دفاتر میں غیر ضروری فرنیچر اور آرائش نہ کی جائے، اور انہیں بڑی بڑی محل نما کوٹھیوں کی بجائے چھ چھ سو گز کے مکانات میں رہائش فراہم کی جائے۔ 

رپورٹ میں سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین کی کم از کم اجرت ایک تولے سونے کی قیمت کے مساوی مقرر کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ ملک میں علم و تحقیق اور معاشرے کی فکری راہنمائی کرنے والے اسکالر اور دیگر افراد کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں گولڈ میڈل، اور ملک میں صوبائی عصبیت، مذہبی منافرت ختم کرنے والے افراد کو ستارہ امتیاز اور وی آئی پی ایوارڈ دیا جائے۔

حتمی رپورٹ میں بیرون ملک پاکستانی سفارت خانوں میں کمرشل، پریس اتاشی کے ساتھ ساتھ اسلامی امور کے وزیر کی بھی آسامیاں پیدا کرنے کی سفارش کی گئی ہے اور اس پر عالمِ دین کی تقرری کی جائے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت مغربی معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ کے عمل کو نظر میں رکھ کر ملک میں ایسے اقدامات کرے کہ ملک میں مغربیت اور مادیت کے خلاف منظم مہم کے نتیجہ میں معاشرہ ایسے نظریات سے دور رہے۔ اس بارے میں قانون سازی کی سفارش کی گئی ہے۔

کونسل کی حتمی رپورٹ میں معاشرے میں منشیات اور چرس اور سگریٹ نوشی کے رجحان پر قابو پانے کے لیے بھی قانون سازی کرنے کے لیے سفارش کی گئی ہے۔ منشیات بنانے والی فیکٹریاں چلانے والوں کی جائیداد ضبط کی جائے، وہاں کام کرنے والے کاریگروں کو قید، جرمانے اور کوڑوں کی سزا دینے کے لیے قانون بنایا جائے۔ ۲۵ سال سے کم عمر کے تعلیمی اداروں میں کنٹین پر سگریٹ فروخت کرنے والے ٹھیکیداروں کے ٹھیکے منسوخ کر کے زر ضمانت اور اثاثوں کو ضبط کر لیا جائے۔ علاوہ ازیں دفاتر اور پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔

(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۳۰ جون ۲۰۰۰ء)

شمال آئرلینڈ کے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں میں ایک مرتبہ پھر کشیدگی

ڈبلن (آن لائن) شمالی آئرلینڈ میں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک فرقوں کے درمیان ایک بار پھر شدید کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔ یہ کشیدگی برطانیہ کے حامی پروٹسٹنٹ کی طرف سے مارچ کے فیصلے کے بعد پیدا ہوئی کیونکہ مارچ کے شرکاء کیتھولک آبادی والے علاقے سے گزرنا چاہتے تھے۔ دونوں گروپوں میں کئی جگہوں پر شدید جھڑپیں ہوئی ہیں، حکومت نے کشیدگی کم کرنے کے لیے علاقے میں پولیس تعینات کر دی ہے۔ گزشتہ سالوں میں اس علاقے میں کئی مرتبہ شدید جھڑپیں ہو چکی ہیں۔

(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۴ جولائی ۲۰۰۰ء)

انڈونیشیا میں امریکی سفارتخانے کے سامنے مسلمان   طالبات کا احتجاجی مظاہرہ

جکارتہ (این این آئی) انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں مسلمان طالبات نے امریکی سفارتخانے کے سامنے ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرے میں شریک پردہ نشین لڑکیوں نے انڈونیشیا میں ہونے والے مسلم عیسائی فسادات میں امریکہ کے منفی کردار کی مذمت کرتے ہوئے امریکہ اور صدر کلنٹن  کے خلاف نعرے لگائے اور امریکہ سے اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ طالبات نے ہاتھوں میں امریکہ مخالف نعروں والے بینر اور پوسٹر اٹھا رکھے تھے۔ اس موقع پر امریکی سفارت خانے کے گرد سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے۔

(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۲ جولائی ۲۰۰۰ء)

امریکی ریاست ورمونٹ نے ہم جنس پرست جوڑوں کو عام شادی شدگان جیسے حقوق دے دیے

نیویارک (اے ایف پی) امریکہ کی ریاست ورمونٹ کی انتظامیہ نے ایک قانون نافذ کیا ہے جس کے تحت ہم جنس پرست جوڑوں کو وہی سہولتیں دی جائیں گی جو عام شادی شدہ جوڑوں کو دی گئی ہیں۔ نئے قانون کی رو سے ہم جنس پرست کو شادی شدگان جیسے حقوق اور فوائد حاصل ہوں گے۔ نئے متنازعہ بل کے مخالفین ریاستی اسمبلی میں بحث کے دوران بل کی منظوری روکنے میں ناکام رہے۔ ہم جنس پرستوں کو یونین بنانے کی اجازت بھی دے دی گئی۔

(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۲ جولائی ۲۰۰۰ء)

تیسری عالمی جنگ پانی کے مسئلے پر ہو گی

لاہور (مانیٹرنگ سیل) تیسری عالمی جنگ پانی کے مسئلے پر ہو گی۔ اس وقت دنیا میں ایک سے زائد لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ نصف آبادی کو نکاسِ آب کی سہولتیں میسر نہیں۔ اگلے ۲۵ برسوں میں دنیا کے ایک تہائی افراد ۲ ارب ۷۹ کروڑ کو ضرورت کے مطابق پانی میسر نہیں ہو گا۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آئندہ دس برسوں سے پانی کی کمی کے باعث مختلف غذائی اجناس میں ایک کروڑ ۱۰ لاکھ ٹن کی کمی ہو گی، جو ۲۰۲۰ء تک بڑھ کر ؟؟ کروڑ ٹن ہو جائے گی۔ ۲۰۲۵ء میں آبادی ۲۰ کروڑ ۸۰ لاکھ ہو چکی ہو گی لہٰذا غذائی قلت کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ آبادی میں اضافے کے باعث مزید ۴۶ فیصد پانی کی ضرورت پڑے گی۔ اس وقت پاکستان کی آبپاشی کے لیے ۱۰۶ ملین ایکڑ فٹ پانی درکار ہوتا ہے۔ یہ ضرورت ۲۰۲۵ء میں بڑھ کر ۱۵۷ ملین ایکڑ فٹ ہو جائے گی جو کل دریائی پانی سے ۱۰ فیصد زیادہ ہے، جس کے نتیجے میں زیر زمین آبی ذخائر کم ہوتے ہوتے ختم ہو جائیں گے۔

بی بی سی کے مطابق پانی کے مسئلے پر کئی ممالک کے درمیان اختلافات پیدا ہو رہے ہیں۔ کئی ممالک ایک دوسرے کو جنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ تیسری عالمی جنگ پانی کے مسئلے پر ہو گی۔

دینی مدارس سروے فارم ہرگز پُر نہ کریں

راولپنڈی (این این آئی) تحفظِ مدارسِ دینیہ کی مرکزی رابطہ کمیٹی نے دینی مدارس کے حوالے سے حکومتی اعلانات کو متضاد اور پالیسیوں کو انتہائی غیر تسلی بخش اور تشویشناک قرار دیتے ہوئے دینی مدارس کا سربراہ اجلاس تیرہ جولائی کو طلب کر لیا ہے جس میں مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ اور دینی مدارس سے کوائف حاصل کرنے کے لیے فارم تقسیم کرنے کے اقدام کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے دینی مدارس کو یہ فارم ہرگز پُر نہ کرنے اور اس ضمن میں مرکزی رابطہ کمیٹی سے مسلسل رابطے رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ رابطہ کمیٹی نے اس موضوع پر رابطہ مہم شروع کرنے اور اہم شہروں میں کنونشن منعقد کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ اس پروگرام کی منظوری سربراہ اجلاس میں دی جائے گی۔

تحفظِ مدارسِ دینیہ کی مرکزی رابطہ کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ دینی مدارس کے آزادانہ نظام اور تعلیمی پروگرام میں کسی قسم کی مداخلت قبول نہیں کی جائے گی۔ اور اگر حکومت نے اس سلسلہ میں کوئی پروگرام زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کی تو اس کی پوری قوت کے ساتھ مزاحمت کی جائے گی۔

مرکزی رابطہ کمیٹی کا اجلاس گزشتہ روز جامعہ اسلامیہ راولپنڈی صدر میں درالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم مولانا سمیع الحق کی دعوت پر منعقد ہوا جس کی صدارت جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے مہتمم شیخ الحدیث حضرت مولانا نذیر احمد نے کی۔ اجلاس میں مولانا زاہد الراشدی گوجرانوالہ، مولانا زرولی خان کراچی، مولانا ارشد عبید لاہور، مولانا سعید یوسف خان آزاد کشمیر، مولانا قاری سعید الرحمان راولپنڈی، مولانا شیر علی شاہ اکوڑہ خٹک، مولانا انوار الحق اکوڑہ خٹک، قاضی عبد اللطیف کراچی، مولانا سید یوسف شاہ، مولانا مفتاح اللہ کراچی، اور دیگر جید علماء نے شرکت کی۔ سربراہی اجلاس کی جگہ کے تعین اور رہنماؤں سے رابطہ کا اختیار مولانا سمیع الحق کو دے دیا گیا ہے۔

(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۳ جولائی ۲۰۰۰ء)


تعارف و تبصرہ

ادارہ

تقصیراتِ تفہیم

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے افکار و نظریات کے بارے میں علماء اہل سنت کو شروع سے یہ اعتراض رہا ہے کہ انہوں نے متعدد اسلامی عقائد و احکام کی تشریح و تعبیر میں اہل سنت کے مسلّمہ اصول و ضوابط کو ملحوظ نہیں رکھا اور آزادانہ روش اختیار کی ہے۔ اس حوالے سے ان کے مختلف افکار و نظریات پر سرکردہ علماء کرام نے نقد و جرح کی ہے اور اس سلسلہ میں اچھا خاصا لٹریچر موجود ہے۔ مولانا مودودی کی دیگر کتب و رسائل کی طرح ان کی تفسیرِ قرآنِ کریم ’’تفہیم القرآن‘‘ کے بہت سے مقامات پر بھی اہلِ علم نے گرفت کی ہے اور ان کی تعبیرات و تشریحات کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ بھارت کے بزرگ عالمِ دین حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمان بجنوریؒ نے اسی پس منظر میں ’’تفہیم القرآن‘‘ کا تفصیلی جائزہ لے کر اس کے قابلِ اعتراض مقامات پر ایک تبصرہ تحریر فرمایا تھا جو مندرجہ بالا عنوان کے ساتھ انڈیا سے شائع ہوا اور اب اسے زمزم پبلشرز اردو بازار کراچی نے شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ دو سو ستر صفحات پر مشتمل یہ کتاب معیاری کتابت و طباعت اور مضبوط جلد کے ساتھ پیش کی گئی اور اس کی قیمت ایک سو روپے ہے۔

تحقیقات و تاثرات

ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی ملک کے معروف صاحبِ قلم اور محقق و مؤرخ دانشور ہیں، تاریخ ان کا خاص موضوع ہے۔ تاریخی واقعات کے بارے میں پائی جانے والی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا تحقیقی جائزہ لیتے رہتے ہیں، اور ان کے تنقیدی مضامین ملک کے علمی حلقوں میں اہمیت کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں۔ ان کے اسی نوعیت کے چالیس سے زائد مضامین کا مجموعہ مندرجہ بالا عنوان کے ساتھ ادارہ علم و فن ۱۰۸۔۱۸ الفلاح، ملیرہالٹ، کراچی ۷۵۲۱۰ نے شائع کیا ہے۔ جس میں تاریخ و سیاست، شخصیات و سوانح، دینی افکار اور دیگر حوالوں سے مختلف تاریخی واقعات و مسائل کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا انداز تحقیقی اور زبان شستہ ہے اور ان کے یہ مضامین بلاشبہ اہلِ علم کے مطالعہ اور استفادہ کے لیے قابلِ قدر تحفہ ہیں۔ صفحات ۵۴۴، کتابت و طباعت معیاری، خوبصورت ٹائٹل، مضبوط قیمت ۲۵۰ روپے۔
۔۔۔

قرآن مجید ایک عظیم نعمت

مبین ٹرسٹ پوسٹ بکس ۴۷۰ اسلام آباد کی طرف سے مختلف دینی موضوعات پر معلوماتی کتابچے خوبصورت انداز میں عمدہ کاغذ پر معیاری طباعت و کتابت کے ساتھ شائع کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور زیر نظر رسالہ قرآن کریم کی عظمت اور اس کی برکات کے بارے میں چالیس منتخب احادیثِ نبویہ علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام پرمشتمل ہے جن کے ساتھ دیگر مفید معلومات بھی شامل ہیں۔ آرٹ پیپر پر شائع ہونے والے پچاس سے زائد صفحات کے اس رسالہ کا ہدیہ صدقہ جاریہ کے طور پر صرف پندرہ روپے رکھا گیا ہے۔

صبح صادق و شفق کی تحقیق

برطانیہ میں ایک عرصہ سے علماء کرام میں یہ علمی بحث جاری ہے کہ وہاں سال کے جن مہینوں میں غروبِ آفتاب کے بعد شفق خاصی دیر سے غائب ہوتی ہے یا سرے سے غائب ہی نہیں ہوتی، ان مہینوں میں نمازِ عشا، نمازِ فجر اور سحری وغیرہ کے اوقات کے تعین کے لیے کیا صورت اختیار کی جائے؟ اس سلسلہ میں معروف محقق عالمِ دین حضرت مولانا محمد یعقوب قاسمی زید مجدہم آف ڈیوزبری نے شرعی دلائل اور ممتاز مفتیان کرام کے فتاوٰی کی روشنی میں اس مسئلہ کا تحقیقی جائزہ لیا ہے اور آفتاب کے طلوع و غروب کے حوالے سے مختلف ممالک کی واقعاتی صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے متعلقہ مسائل کا شرعی حل پیش کیا ہے۔
مصنف کی کاوش قابلِ دید ہے اور اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے علماء و طلباء کے لیے یہ کتاب گراں قدر افادیت کی حامل ہے۔ صفحات ۳۲۴، کتابت و طباعت معیاری، مضبوط جلد، قیمت درج نہیں۔ ملنے کا پتہ: مجلسِ تحقیقاتِ شرعیہ
34 Warren Street Savile Town Dewsbury WF129LX (U.K.)


ستمبر ۲۰۰۰ء

دینی مدارس کو درپیش چیلنجز کے موضوع پر ایک اہم سیمینارمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دینی نظامِ تعلیم ۔ اصلاحِ احوال کی ضرورت اور حکمتِ عملیمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اسوۂ نبویؐ کی جامعیتشیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر
مسجد کا احترام اور اس کے آدابشیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
سیکولرازم، عالمِ اسلام اور پاکستانبریگیڈیر (ر) شمس الحق قاضی
دیرپا ترقی، فطرت کے ساتھ ساتھشہزادہ چارلس
پانی کا متوقع عالمی بحران اور استعماری منصوبےمنو بھائی
عالمی منظر نامہادارہ
تعارف و تبصرہادارہ

دینی مدارس کو درپیش چیلنجز کے موضوع پر ایک اہم سیمینار

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اسلام آباد نے ۳ اگست ۲۰۰۰ء کو ’’دینی مدارس اور درپیش چیلنجز‘‘ کے عنوان سے ایک مجلس مذاکرہ کا اہتمام کیا جس میں ملک کے منتخب ارباب علم و دانش نے شرکت کی اور دینی مدارس کے حوالہ سے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیا۔ مجلس مذاکرہ کی تین نشستیں ہوئیں۔ پہلی نشست کی صدارت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر ایس ایم زمان، دوسری نشست کی صدارت قومی اسمبلی کے سابق رکن مولانا گوہر رحمان اور تیسری نشست کی صدارت نیشنل سکیورٹی کونسل کے رکن ڈاکٹر محمود احمد غازی نے کی۔ مجلس مذاکرہ کی کارروائی مجموعی طور پر تقریباً سات گھنٹے جاری رہی اور اس میں مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کرنے والوں میں پروفیسر خورشید احمد، مولانا عبد المالک خان، ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی، ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی، پروفیسر افتخار احمد بھٹہ، ڈاکٹر محمد میاں صدیقی، مولانا محمد صدیق ہزاروی، مولانا محمد حنیف جالندھری، سید ریاض حسین نقوی، جناب خالد رحمان، ڈاکٹر ممتاز احمد اور مولانا سید معروف شاہ شیرازی بطور خاص قابل ذکر ہیں جبکہ ڈاکٹر خالد علوی اور پروفیسر یاسین ظفر کے مضامین پڑھ کر سنائے گئے۔ دیگر شرکاء میں ڈربن یونیورسٹی (جنوبی افریقہ) کے شعبہ اسلامیات کے سابق سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سید سلمان ندوی نمایاں تھے جوتحریک پاکستان کے عظیم راہنما حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کے فرزند ہیں۔

مجلس مذاکرہ میں راقم الحروف کو بھی اظہار خیال کی دعوت دی گئی اور میں نے ’’دینی نظام تعلیم: اصلاح احوال کی ضرورت اور حکمت عملی‘‘ کے عنوان سے اپنی گزارشات تحریری صورت میں پیش کیں جو قارئین اسی کالم میں ملاحظہ کر چکے ہیں۔ ان معروضات کو کم و بیش سب شرکاء نے پسند کیا اور پروفیسر خورشید احمد نے اعلان کیا کہ ان گزارشات کو مجلس مذاکرہ کی مجموعی سفارشات کی حیثیت دی جا رہی ہے۔

مجلس مذاکرہ میں اظہار خیال کرتے ہوئے مقررین نے جن خیالات کا اظہار کیا ان میں معاشرہ میں دینی تعلیم کو باقی رکھنے اور اسلامی علوم و روایات کے تحفظ میں دینی مدارس کے کردار کا اعتراف نمایاں تھا، اور دینی مدارس کی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے بھی سب حضرات کے جذبات یکساں تھے۔ البتہ آزادانہ کردار اور خودمختاری کو برقرار رکھتے ہوئے دینی مدارس کے نظام و نصاب میں دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق اصلاح و ترمیم کی ضرورت کی طرف اکثر حضرات نے توجہ دلائی اور دینی مدارس کے وفاقوں پر زور دیا کہ وہ اس ضرورت کا احساس کریں اور دینی مدارس کے معاشرتی کردار کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے بہی خواہ اور مخلص حلقوں کی طرف سے پیش کی جانے والی سفارشات و تجاویز کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں۔

بعض اربابِ دانش نے اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی کہ ملک کے نظام کو چلانے اور صالح رجال کار فراہم کرنے کے لیے دینی مدارس پر جو زور دیا جا رہا ہے اس کی اصل ذمہ داری تو ریاستی نظام تعلیم پر عائد ہوتی ہے۔ جبکہ نصف صدی گزر جانے کے باوجود ریاستی نظام تعلیم میں کوئی بامقصد تبدیلی سامنے نہیں آئی اور ملک کے ریاستی نظام تعلیم کے ارباب حل و عقد سرے سے اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کر رہے۔ بلکہ اگر ملک کے مروجہ ریاستی نظام تعلیم میں اسلامی مقاصد اور ضروریات کو شامل کرنے کی طرف کسی جانب سے توجہ دلائی جاتی ہے تو اسے یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین جناب ڈاکٹر ایس ایم زمان کا یہ انکشاف بطور خاص قابل توجہ ہے کہ انہوں نے کچھ عرصہ قبل لاء گریجویٹس کے لیے ایل ایل بی کے نصاب میں اسلامی قوانین کے اضافہ کے ساتھ نصاب کا دورانیہ دو سال کی بجائے تین سال کر دینے کی تجویز پیش کی، مگر ان سفارشات کا جائزہ لینے والی کمیٹی نے جس میں متعدد لاء کالجز کے پرنسپل حضرات بھی شامل تھے کورس کا دورانیہ دو سال سے تین سال کرنے کی تجویز تو منظور کر لی مگر اسلامی قوانین کے جس نصاب کو اس میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی تھی اس کا بمشکل پانچ فیصد حصہ کورس میں شامل کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک کے مروجہ نظام تعلیم کو اسلامی مقاصد و ضروریات کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اس نظام تعلیم کے کار پردازان کی دلچسپی کا عالم کیا ہے۔

چنانچہ اسی بنیاد پر مولانا گوہر رحمان نے زور دے کر یہ بات کہی کہ دینی مدارس کے نصاب میں ضروری اصلاحات سے ہمیں انکار نہیں اور ہم بتدریج ایسا کر بھی رہے ہیں لیکن اس سے بات نہیں بنے گی اور ملک کے سیاسی، انتظامی، عدالتی اور عسکری شعبوں کو دینی لحاظ سے تربیت یافتہ افراد کار مہیا کرنے کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔ بلکہ اس کے لیے ملک کے ریاستی نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور سرکاری نصاب تعلیم کو مکمل طور پر تبدیل کر کے اسے قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنا ضروری ہے کیونکہ یہ ذمہ داری بنیادی طور پر اسی نظام کی ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس نظام میں تبدیلی کی طرف تو کوئی توجہ نہیں دے رہا اور دینی مدارس کے نظام و نصاب میں تبدیلی کے لیے چاروں طرف سے شور مچایا جا رہا ہے۔

بعض مقررین نے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ دینی مدارس کے طلبہ اور عصری کالجز کے طلبہ میں اجنبیت کو دور کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے اور اس کے لیے اس نوعیت کے پروگراموں کا اہتمام ہونا چاہیے کہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ عصری کالجوں میں جا کر جدید علوم کی تعلیم حاصل کر سکیں، اور کالجوں کے فاضل نوجوانوں کو دینی مدارس میں جا کر درس نظامی کا کوئی مختصر کورس کرنے کی سہولت حاصل ہو۔ اس کے علاوہ طلبہ کے وفود کے باہمی تبادلہ، تعلیمی اداروں کے دوروں اور مشترکہ مجالس کے اہتمام کے ذریعے بھی اس سلسلہ میں مؤثر پیش رفت ہو سکتی ہے۔

مجلس مذاکرہ میں دینی مدارس کے دائرہ میں وسعت اور پھیلاؤ کا ذکر کیا گیا کہ مختلف اطراف سے مخالفت کے باوجود دینی مدارس کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور طلبہ و طالبات کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ ایک مقرر نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ ریاستی نظام تعلیم اپنے مقاصد کے حوالہ سے ناکام ہو چکا ہے کیونکہ لاکھوں ڈگری یافتہ افراد بے روزگاری کا شکار ہیں اس لیے اب نوجوان ادھر سے مایوس ہو کر دینی تعلیم کی طرف آرہے ہیں تاکہ اگر دنیا کا فائدہ نہ ہو تو کم از کم دین تو ہاتھ میں رہے۔ انہوں نے کہا کہ خود ان کی زیرنگرانی ایک ہائی اسکول سے گزشتہ سال بیس طالبات نے میٹرک پاس کیا جن میں سے صرف پانچ طالبات کالج میں گئی ہیں جبکہ باقی پندرہ طالبات نے مزید تعلیم کے لیے دینی مدارس کو ترجیح دی ہے۔

انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کی مجلس مذاکرہ میں پاکستان میں دینی مدارس کی تعداد کے بارے میں ایک سروے رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ وفاقی وزارت تعلیم کی سروے مہم کے نتیجہ میں جو معلومات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق ملک میں دینی مدارس کی تعداد اس وقت چھ ہزار سے زیادہ ہے جن میں مجموعی طور پر ساڑھے دس لاکھ کے قریب طلبہ اور طالبات قرآن و سنت، فقہ اسلامی اور دیگر اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، دینی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے، بیرونی ممالک کے اٹھائیس ہزار کے قریب طلبہ ان مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جبکہ اساتذہ کی تعداد تیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔سروے رپورٹ کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ محکمہ تعلیم کی طرف سے ان مدارس کی امداد کے لیے جو رقم مختص کی جاتی ہے اس کا آغاز ایک لاکھ روپے سالانہ سے ہوا تھا اور اب یہ پندرہ لاکھ روپے سالانہ تک پہنچی ہے۔ اس سلسلہ میں یہ دلچسپ واقعہ بھی بتایا گیا کہ جس دور میں سید فخر امام صاحب وزیرتعلیم تھے دینی مدارس کی امداد کے لیے محکمہ تعلیم کی طرف سے دس لاکھ روپے کی منظوری دی گئی اور وزارت کے افسران کے ایک اجلاس میں وفاقی وزیرتعلیم کی طرف سے افسران پر زور دیا گیا کہ رقم کی تقسیم میں مدارس کے معیار اور کوالٹی کا لحاظ رکھا جائے۔ اس پر اجلاس میں موجود وزارت تعلیم کے ایک افسر نے وزیر تعلیم موصوف سے گزارش کی کہ جناب والا اس وقت دینی مدارس میں طلبہ کی جتنی تعداد تعلیم حاصل کر رہی ہے اس کے حساب سے محکمہ تعلیم کی عطا کردہ دس لاکھ روپے کی اس رقم کو تقسیم کیا جائے تو فی طالب علم پچیس پیسے سالانہ بنتے ہیں۔ وزیرتعلیم نے اس کا کوئی جواب نہ دیا مگر ان کا یہ اصرار قائم رہا کہ رقم تقسیم کرتے ہوئے مدارس کے معیار اور کوالٹی کا بہرحال لحاظ رکھا جائے۔

مجلس مذاکرہ میں امریکہ کی ہیمپٹن یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر ممتاز احمد بھی شریک تھے جو جنوبی ایشیا کے دینی مدارس کے بارے میں سروے کر رہے ہیں اور حال ہی میں بنگلہ دیش کا دورہ کر کے واپس آئے ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں بنگلہ دیش کے دینی مدارس کے بارے میں اپنی سروے رپورٹ کا خلاصہ پیش کر کے شرکائے محفل کو چونکا دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں دینی تعلیم دینے والے مدارس کی تعداد اس وقت اٹھارہ ہزار سے زائد ہے جن میں ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ طلبہ اور طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان میں ساڑھے چھ ہزار مدارس وہ ہیں جو عوامی چندہ سے چلتے ہیں، ان مدارس کی تعداد بھی کم و بیش اتنی ہی ہے جنہیں حکومت کی طرف سے امداد دی جاتی ہے جو مختلف مدارج میں اخراجات کے اسی فیصد تک بھی جا پہنچتی ہے، جبکہ کچھ دینی مدارس ایسے ہیں جو صرف حکومت کے خرچہ پر قائم ہیں۔ اور اس سال بنگلہ دیش کی حکومت نے اپنے بجٹ میں دینی مدارس کے لیے جو رقم مخصوص کی ہے اس کی تعداد پانچ ارب ٹکہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب الرحمان کی حکومت نے ان دینی مدارس کو بند کرنے کا پروگرام بنایا تھا، ان مدارس پر الزام تھا کہ انہوں نے پاکستان کی حمایت کی ہے اور ان سے فارغ ہونے والے علماء بنگلہ قومیت کی بجائے اسلام کی بات کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ایک کمیشن قائم کیا گیا جس نے رپورٹ میں یہ سفارش کی کہ ان مدارس کو بند کر دیا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی مجیب حکومت نے ایک عوامی سروے کا بھی اہتمام کیا جس کی رپورٹ حیران کن تھی کیونکہ اس کے مطابق ملک کے نوے فیصد عوام نے جن میں جدید پڑھے لکھے حضرات کی اکثریت تھی دینی مدارس کو بند کر دینے کی تجویز کی سختی کے ساتھ مخالفت کی تھی اور حکومت سے کہا تھا کہ وہ دینی مدارس کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہ کرے۔ ڈاکٹر ممتاز احمد نے بتایا کہ اس سلسلہ میں بنگلہ دیش کے عوامی حلقوں میں یہ روایت بھی مشہور ہے کہ اسی دوران ایک روز مولانا عبد الحمید بھاشانی نے شیخ مجیب الرحمان کی گاڑی کو ایک سڑک پر جاتے ہوئے راستہ میں رکوا کر ان سے کہا کہ آپ کی بہت سی باتیں برداشت کرتا رہا ہوں اور اب بھی کر رہا ہوں مگر دینی مدارس بند کرنے کی بات برداشت نہیں کروں گا اور اگر اس سلسلہ میں کوئی قدم اٹھایا گیا تو اس کی مزاحمت کے لیے میں خود میدان میں آؤں گا۔ چنانچہ شیخ مجیب الرحمان نے دینی مدارس پر ہاتھ ڈالنے کا ارادہ ترک کر دیا اور بنگلہ دیش میں دینی مدارس پوری آزادی اور پہلے سے زیادہ وسعت کے ساتھ دینی خدمات میں مصروف ہیں۔

اس موقع پر پروفیسر خورشید احمد نے ترکی کے تجربہ کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ ترکی میں اتاترک کے دور میں دینی مدارس کو بالکل بند کر دیا گیا تھا اور دینی تعلیم ہر سطح پر ممنوع قرار دے دی گئی تھی جو کم و بیش پینتیس سال تک مسلسل ممنوع رہی۔ جبکہ ساٹھ کی دہائی میں وزیر اعظم عدنان میندریس شہیدؒ نے یہ پابندی اٹھا کر ابتدائی اور ثانوی سطح پر دینی تعلیم کی اجازت دے دی جس کے بعد دینی مدارس قائم ہوئے اور ان مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان سول اور فوج کے مختلف محکموں میں جانے لگے جس کا نتیجہ عظیم فکری اور ذہنی انقلاب کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے کہ ترکی میں اسلامی بیداری کی لہر نے پوری قومی زندگی کا احاطہ کر لیا ہے اور اسی سے پریشان ہو کر سیکولر فوج نے اب پھر ترکی کے مدارس میں قرآن و سنت کی تعلیم کو ممنوع قرار دے دیا ہے۔ لیکن دینی تعلیم کا پہلا دور اپنا اثر دکھا چکا ہے اور ترکی میں اب اسلامی بیداری کو دبانا ممکن نہیں رہا۔

مجلس مذاکرہ کے اختتامی خطاب میں نیشنل سکیورٹی کونسل کے رکن ڈاکٹر محمود احمد غازی نے بتایا کہ حکومت دینی مدارس کی آزادی اور خود مختاری پر یقین رکھتی ہے اور اس کا اس میں کسی قسم کی مداخلت کا پروگرام نہیں ہے۔ البتہ وہ دینی مدارس کے نظام و نصاب میں اس قسم کی ترمیم و اصلاح ضرور چاہتی ہے کہ دینی مدارس کے فضلاء آج کے دور کے تقاضوں کو سمجھیں اور ان سے ہم آہنگ ہو کر آج کے عالمی تناظر میں اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اسلامی علوم کی ترویج و اشاعت کا فریضە سرانجام دے سکیں۔ انہوں نے کہ اکہ حکومت دینی مدارس کے نظام میں کسی قسم کا دخل دیے بغیر دینی تعلیم کا ایک مستقل بورڈ قائم کرنے اور تعلیمی کونسل تشکیل دینے کا پروگرام بنا رہی ہے جس کے ساتھ رضاکارانہ طور پر منسلک ہونے کی دینی مدارس کو دعوت دی جائے گی۔ اور اس کے ساتھ ہی حکومت بڑے شہروں میں ماڈل دارالعلوم قائم کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے جس کے لیے نصاب ترتیب دیا جا چکا ہے اور بہت جلد اس سلسلہ میں عملی پیش رفت کی جا رہی ہے۔

دینی نظامِ تعلیم ۔ اصلاحِ احوال کی ضرورت اور حکمتِ عملی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(یہ مقالہ اگست ۲۰۰۰ء کے دوران انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے سیمینار میں پڑھا گیا۔)

محترم پروفیسر خورشید احمد صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے دینی مدارس کے حوالہ سے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کی مجلس مذاکرہ میں منتخب ارباب علم و دانش کے ساتھ ملاقات و گفتگو کا موقع فراہم کیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازیں اور ہماری اس ملاقات و گفتگو کو دین و ملت کے لیے افادیت کا حامل بنائیں، آمین یا رب العالمین۔

جنوبی ایشیا کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے جن دینی مدارس کے بارے میں آج ہم بحث و گفتگو کر رہے ہیں وہ اس وقت عالمی سطح کے ان اہم موضوعات میں سے ہیں جن پر علم و دانش اور میڈیا کے اعلیٰ حلقوں میں مسلسل مباحثہ جاری ہے۔ مغرب اور عالم اسلام کے درمیان تیزی سے آگے بڑھنے والی تہذیبی کشمکش میں یہ مدارس اسلامی تہذیب و ثقافت اور علوم و روایات کے ایسے مراکز اور سرچشموں کے طور پر متعارف ہو رہے ہیں جو مغربی تہذیب و ثقافت کے ساتھ کسی قسم کی مصالحت اور ایڈجسٹمنٹ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بلکہ یہ مدارس ملت اسلامیہ کے ایک بڑے اور مؤثر حصے کو اس بے لچک رویہ اور غیر مصالحانہ طرز عمل پر قائم رکھنے کا باعث بن رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کے مختلف طبقات اور اداروں میں یہی ادارہ مغرب کی تنقید اور کردارکشی کی مہم کا مرکزی ہدف قرار پایا ہے اور گلوبل سولائزیشن وار میں اس ادارہ کو امت مسلمہ کے سپرانداز ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ گردانتے ہوئے اسے راستہ سے ہٹانے کے مختلف منصوبے وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہ اسی کا ردعمل ہے کہ دینی مدارس خود کو حالت جنگ میں سمجھتے ہوئے اپنی موجودہ صف بندی میں کسی قسم کے رد و بدل پر آمادہ نہیں ہیں اور ان کے نظام و نصاب میں ترمیم و تبدیلی کی کوئی بھی تجویز ان کے ذہنوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہی۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں دینی مدارس کے نظام و نصاب میں اصلاح احوال کے حوالہ سے بھی کوئی بات کہتے ہوئے ان کی اس مجبوری کو سامنے رکھنا ہوگا اور ان تحفظات کا لحاظ کرنا ہوگا جن کے باعث دینی مدارس کے ارباب حل و عقد خود کو اردگرد کے ماحول سے بیگانہ رکھنے اور منہ کان لپیٹ کر اس فضا سے گزر جانے پر مجبور پا رہے ہیں۔ اس لیے اپنی گزارشات کو آگے بڑھانے سے قبل دینی مدارس کے تحفظات میں سے دو اہم امور کا تذکرہ اس مرحلہ پر ضروری خیال کرتا ہوں۔

  1. دینی مدارس یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرہ میں عام مسلمان کا تعلق دین کے ساتھ قائم رکھنے، دینی علوم کی ترویج و اشاعت، اور اسلامی اقدار و روایات کے تحفظ کے لیے ان کے مسلمہ کردار کی اثر خیزی کی اصل وجہ ان کا آزادانہ کردار اور انتظامی و مالی خودمختاری ہے جسے وہ عام مسلمانوں کے رضاکارانہ تعاون کے ذریعہ قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اور ان کا خیال ہے کہ سرکاری اور ریاستی اداروں کو کسی بھی درجہ میں دینی مدارس کے نظام میں دخل اندازی کا موقع دیا گیا تو وہ اپنے اس کردار یا کم از کم اس کے اثر انداز ہونے کی صلاحیت سے محروم ہو جائیں گے۔
  2. دینی مدارس کے ارباب حل و عقد یہ سمجھتے ہیں کہ ان مدارس کے قیام و وجود کا سب سے اہم مقصد معاشرہ میں مسجد و مدرسہ کے ادارہ کو قائم رکھنا اور اسے رجال کار فراہم کرتے رہنا ہے جو کہیں اور سے فراہم نہیں ہو رہے۔ اس لیے وہ اپنے نصاب کو اسی دائرہ میں محدود رکھنا چاہتے ہیں تاکہ دینی مدارس سے تیار ہونے والی کھیپ صرف ان کی اپنی ضروریات میں کھپتی رہے اور اس شعبہ سے افرادی قوت کا انخلا اس انداز سے نہ ہو کہ معاشرہ میں مسجد و مدرسہ کا بنیادی ادارہ ضرورت کے افراد کی کمی کے باعث تعطل کا شکار ہونے لگے۔ ہمارے نزدیک ان دینی مدارس میں جدید سائنسی علوم کے داخلہ کا دروازہ بند رکھنے کی بنیادی وجہ یہی چلی آرہی ہے کہ جدید علوم اور مروجہ فنون سے آراستہ ہونے کے بعد کسی فاضل کو مسجد و مدرسہ کے ماحول میں محدود رکھنا ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ہو جائے گا۔ جبکہ مسجد و مدرسہ کے نظام کو باقی رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایک اچھی خاصی تعداد خود کو دوسرے تمام کاموں سے فارغ کر کے اسی کام کے لیے وقف کر دے۔

چنانچہ اب تک کا تجربہ و مشاہدہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ دینی مدارس کے ارباب حل و عقد کی یہی حکمت عملی جنوبی ایشیا کے مسلمانوں میں اب تک دینی حمیت و وابستگی کو باقی رکھنے بلکہ اسے پوری دنیائے اسلام میں امتیازی حیثیت پر فائز کرنے کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دینی مدارس کے نظام و نصاب میں اصلاح کی ضرورت نہیں ہے اور اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اسے ’’سب اچھا‘‘ کہہ کر ہمیں خاموش ہو جانا چاہیے۔ بلکہ دینی مدارس کے اس نظام و نصاب میں اصلاح کی ضرورت خود ان دینی مدارس کے سنجیدہ اکابر ایک عرصہ سے محسوس کر رہے ہیں اور اس کا اظہار وقتاً فوقتاً ہوتا رہا ہے۔ لیکن عملاً یوں ہوتا ہے کہ اصلاح احوال کے لیے ان کی مخلصانہ آواز کو جب کچھ دوسرے حلقے ’’کیچ‘‘ کر کے اس کی آڑ میں اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ آواز بھی وقتی طور پر مصلحت کے تحت دب جاتی ہے اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتی۔

اس پس منظر میں دینی مدارس کے نظام تعلیم میں اصلاح احوال کی ضرورت اور حکمت عملی پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں دینی مدارس کے تحفظات اور ان کے ارباب حل و عقد کے ذہنوں میں موجود خطرات و خدشات کو پوری طرح ملحوظ رکھنا ہوگا۔ چنانچہ اسی مجموعی تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ حالات میں دینی مدارس کے نظام و نصاب میں جن اصلاحات، ترامیم اور اضافوں کی ضرورت عام طور پر محسوس کی جا رہی ہے انہیں اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

  1. دینی مدارس میں مروجہ زبانوں پر اس درجہ کے عبور کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی کہ ایک فارغ التحصیل عالم دین کسی مسئلہ پر اپنا مافی الضمیر انگلش، عربی یا کم از کم اردو میں ہی شستہ انداز میں قلم بند کر سکے یا اس کا زبانی طور پر کسی علمی محفل میں سلیقہ کے ساتھ اظہار کر سکے۔ اس لیے دینی مدارس میں ایسا نظام قائم کرنا انتہائی ضروری ہے کہ اردو اور عربی دونوں زبانوں میں تحریری اور تقریری طور پر مافی الضمیر کے اظہار پر فضلاء کو دسترس حاصل ہو اور انگلش بھی کم از کم اس درجہ میں لازمی ہے کہ لکھی ہوئی چیز پڑھ اور سمجھ کر وہ اس کے بارے میں اپنی زبان میں اظہار خیال کر سکیں۔
  2. درس نظامی کے مروجہ نصاب میں تاریخ بالخصوص عالم اسلام کی تاریخ کے بارے میں قابل ذکر مواد موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے ایک فارغ التحصیل عالم دین عام طور پر تاریخی تسلسل اور اہم واقعات کی ترتیب تک سے بے خبر رہ جاتا ہے اور یہ بات خود دینی رہنمائی کے تقاضوں کے منافی ہے۔
  3. دوسرے ادیان و مذاہب، معاصر فلسفہ ہائے حیات اور نظام ہائے زندگی کا تقابلی مطالعہ دینی مدارس کے فضلاء کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اور موجودہ عالمی تہذیبی کشمکش کے پس منظر اور مرحلہ وار پیش قدمی سے بھی علماء کا باخبر ہونا لازمی ہے۔ ورنہ موجودہ عالمی تناظر میں اسلام کی صحیح ترجمانی کا فریضہ سرانجام دینا ممکن ہی نہیں ہے۔
  4. ملت اسلامیہ کے اندرونی فقہی مذاہب اور مسالک کی تاریخ اور جدوجہد کے ادوار سے واقفیت بھی ایک عالم دین کے لیے ناگزیر ہے لیکن مناظرانہ انداز میں نہیں بلکہ تعارف اور بریفنگ کے انداز میں۔ تاکہ اصل تقابلی تناظر سامنے رہے اور اپنے فقہی مذہب اور مسلک کی خدمت کرتے ہوئے بھی شعور و ادراک کے ساتھ ایک عالم دین کا رشتہ استوار رہے۔
  5. دینی مدارس میں اس وقت مختلف علوم و فنون میں جو کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں وہ بہت مفید اور ضروری ہیں۔ لیکن ان کتابوں کے لکھے جانے کے بعد کی صدیوں میں علوم و فنون میں جو نئی تحقیقات ہوئی ہیں اور ہر علم میں نئے نئے شعبوں اور ابواب کا اضافہ ہوا ہے ان سے علماء کرام کو لاتعلق رکھنا ان کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ انہی علوم و فنون میں نئی لکھی جانے والی مفید کتابوں کا انتخاب کیا جائے اور انہیں بھی شامل نصاب کیا جائے۔
  6. ہمارے ہاں درس نظامی میں عام طور پر کتاب کی تعلیم دی جاتی ہے جس سے طالب علم میں استعداد تو پیدا ہوتی ہے اور اس کی مطالعہ و استنباط کی صلاحیت میں اضافہ بھی ہوتا ہے لیکن اس کی نظر متعلقہ علم و فن کے وسیع تر تناظر اور افق کی بجائے کتاب کے دائرہ میں محدود ہو کر رہ جاتی ہے جبکہ علم و فن کے تمام پہلوؤں سے اس کی شناسائی نہیں ہوتی۔ اس لیے طریق تدریس میں اتنی تبدیلی ضروری ہے کہ کسی علم یا فن کی ضروری کتابوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس علم و فن کے تعارف، تاریخ، ضروری مباحث اور جدید معلومات پر محاضرات کا بھی اہتمام کیا جائے تاکہ طلبہ اپنے اساتذہ کے علوم و مطالعہ سے زیادہ بہتر انداز میں فیضیاب ہو سکیں اور علوم و فنون کی فطری پیشرفت کے ساتھ ان کا تعلق قائم رہے۔
  7. ہمارے ہاں نظری، فقہی اور فروعی مباحث میں ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کے احترام اور برداشت کا معاملہ خاصا ناگفتہ بہ ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ خالصتاً فروعی حتیٰ کہ اولیٰ غیر اولیٰ کے جزوی اختلافات بھی بحث و مباحثہ میں اس قدر شدت اختیار کر لیتے ہیں کہ کفر و اسلام میں معرکہ آرائی کا تاثر ابھرنے لگتا ہے۔ یہ صورتحال بہت زیادہ توجہ کی طالب ہے اور دینی مدارس کے ارباب حل و عقد کو اس سلسلہ میں سنجیدہ اقدامات کی ضرورت محسوس کرنی چاہیے۔
  8. ہمارے ہاں درس نظامی میں اساتذہ کی تربیت کا کوئی نظام و نصاب موجود نہیں ہے۔ حالانکہ تمام نظام ہائے تعلیم میں اس کی ضرورت و افادیت مسلم ہے مگر درس نظامی کے مدارس میں عملاً یہ ہوتا ہے کہ اچھی استعداد اور ذوق رکھنے والا فاضل کسی نہ کسی مدرسہ میں تدریس کی جگہ حاصل کر لیتا ہے مگر اس کے بعد طلبہ کی ذہن سازی، تربیت اور ان کی فکری ترجیحات کے تعین میں وہ کسی اصول، ضابطہ و قانون اور متعین اہداف کا پابند نہیں ہوتا بلکہ یہ معاملات خالصتاً اس کے ذاتی ذوق اور رجحانات پر منحصر ہوتے ہیں جس کے اثرات لازماً طلبہ پر بھی پڑتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ دینی مدارس کے وفاقوں کی سطح پر اساتذہ کی تربیت کے کورس طے کیے جائیں اور بتدریج اس سلسلہ کو اس طرح آگے بڑھایا جائے کہ کسی مدرسہ میں تدریس کا منصب حاصل کرنے کے لیے یہ کورس شرط سمجھا جانے لگے۔
  9. قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کی عمومی تعلیم کے ساتھ ساتھ آج کے دور میں یہ بھی ضروری ہے کہ اسلامی نظام حیات کو ایک مستقل مضمون اور باضابطہ نصاب کے طور پر پڑھایا جائے اور اسلامی احکام و قوانین پر فکر جدید کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات اور شبہات و شکوک کو سامنے رکھتے ہوئے طلبہ کو شعوری طور پر اسلامی نظام کی ترجمانی اور نفاذ کے لیے تیار کیا جائے۔
  10. ابلاغ عامہ کے تمام میسر ذرائع مثلاً پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور کمپیوٹر و انٹرنیٹ کے ساتھ دینی مدارس کے طلبہ و فضلاء کی اس درجہ کی شناسائی اور مہارت ضروری ہے کہ وہ ان کے استعمال کی صلاحیت سے بہہرہ ور ہوں اور ان ذرائع سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والے کام کی نوعیت اور دائرہ کار کا ادراک کرتے ہوئے اس کے توڑ کے لیے کچھ نہ کچھ کردار ضرور ادا کر سکیں۔
  11. درس نظامی کے نصاب کی اس انداز میں درجہ بندی ہونی چاہیے کہ تمام طلبہ کے لیے قرآن و حدیث فقہ اور عربی گرامر کی یکساں ضرورت کی ایک حد متعین کر کے اس کے بعد طلبہ کی جداگانہ صلاحیتوں اور ذوق کا لحاظ رکھتے ہوئے مختلف علوم و فنون میں گروپ بندی کا اہتمام کیا جائے تاکہ ہر طالب علم اپنے ذوق اور استعداد کے مطابق تعلیمی میدان میں آگے بڑھ سکے۔
  12. دینی مدارس کو اپنے اردگرد رہنے والے عام شہریوں بالخصوص سکولوں اور کالجوں کے طلبہ کے لیے بھی مناسب اوقات میں مختصر کورسز کا اہتمام کرنا چاہیے جن کے ذریعے وہ ضروری عربی گرامر کے ساتھ قرآن کریم کا ترجمہ اور ضروریات زندگی کے حوالہ سے حدیث و فقہ کا منتخب نصاب پڑھ سکیں۔
  13. دینی مدارس کے وفاقوں یا بڑے دینی مدارس کی سطح پر باصلاحیت اور ذہین فضلاء درس نظامی کے لیے تخصص کے ایسے کورسز کا اہتمام ضروری ہے جن کے ذریعہ انہیں مروجہ بین الاقوامی زبانوں مثلاً عربی، انگلش، فرنچ اور فارسی وغیرہ میں تحریر و گفتگو کی مہارت حاصل ہو۔ موجودہ عالمی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں اسلام کی دعوت، ترجمانی اور دفاع کے لیے تیار کیا جائے اور ان میں بریفنگ، لابنگ اور دفتری کام کی جدید ترین تکنیک کو سمجھنے اور اسے استعمال کرنے کی صلاحیت و استعداد پیدا کی جائے۔
  14. طلبہ میں تحریر و تقریر اور مطالعہ و تحقیق کا ذوق بیدار کرنے کے لیے وفاقوں اور مدارس کی سطح پر خطابت اور مضمون نویسی کے انعامی مقابلوں کا اہتمام کیا جائے۔

یہ تو ان ضروریات اور تقاضوں کی ایک سرسری فہرست ہے جو مروجہ حالات میں دینی مدارس کے روایتی کردار کو زیادہ مؤثر بنانے اور انہیں اپنے پہلے سے طے شدہ اہداف و مقاصد سے قریب تر کرنے کے لیے ضروری سمجھے جا رہے ہیں۔ لیکن اس کے لیے دینی مدارس اور ان کے وفاقوں کے ارباب حل و عقد کو آمادہ کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے؟ اس ضمن میں چند عملی تجاویز پیش کر رہا ہوں۔

مجھے امید ہے کہ اگر اس انداز سے سنجیدگی کے ساتھ کام کا آغاز ہو جائے تو ہم دینی مدارس کو ریاستی اداروں کی مداخلت کے خطرات اور بنیادی مقاصد سے انحراف کے خطرات سے محفوظ رکھتے ہوئے انہیں ان ضروری اصلاحات و ترامیم کے لیے تیار کر سکیں گے جو تیزی کے ساتھ بدلتے ہوئے عالمی حالات میں اسلام اور ملت اسلامیہ کے مفاد کے لیے دینی مدارس کے نظام و نصاب کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے ناگزیر ہو چکے ہیں۔

میں آپ سب حضرات کی طویل سمع خراشی پر معذرت خواہ ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ ان امور پر آپ جیسے ارباب علم و دانش کی گراں قدر آراء و تجاویز دینی مدارس کے مقاصد، مستقبل اور پہلے سے زیادہ مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے یقیناً مفید اور بارآور ثابت ہوں گی۔

اسوۂ نبویؐ کی جامعیت

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

دیگر انبیاء کرام علیہم السلام میں سے ہر ایک کی زندگی خاص خاص اوصاف میں نمونہ اور اسوہ تھی، مگر سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اعلیٰ و ارفع زندگی تمام اوصاف و اصناف میں ایک جامع زندگی ہے۔ آپؐ کی سیرت مکمل اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ ایک مکمل ضابطۂ حیات اور دستور ہے۔ اس کے بعد اصولی طور پر کسی اور چیز کی سرے سے کوئی حاجت ہی باقی نہیں رہ جاتی اور نہ کسی اور نظام اور قانون کی ضرورت ہی محسوس ہو سکتی ہے ؎
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد
اگر آپ بادشاہ اور سربراہِ مملکت ہیں تو شاہِ عرب اور فرماں روائے عالم کی زندگی آپ کے لیے نمونہ ہے۔ اگر آپ فقیر و محتاج ہیں تو کمبلی والے کی زندگی آپ کے لیے اسوۂ حسنہ ہے جنہوں نے کبھی دقل (ردی قسم کی کھجوریں) بھی پیٹ بھر کر نہ کھائیں، اور جن کے چولہے میں بسا اوقات دو دو ماہ تک آگ نہیں جلائی جاتی تھی۔ اگر آپ سپہ سالار اور فاتحِ مُلک ہیں تو بدر و حنین کے سپہ سالار اور فاتحِ مکہ کی زندگی آپ کے لیے بہترین سبق ہے، جس نے عفو و کرم کے دریا بہا دیے تھے اور ’’لا تثریب علیکم الیوم‘‘ کا خوش آئند اعلان فرما کر تمام مجرموں کو آنِ واحد میں معافی کا پروانہ دے کر بخش دیا تھا۔ اگر آپ قیدی ہیں تو شعبِ ابی طالب کے زندانی کی حیات آپ کے لیے درسِ عبرت ہے۔ اگر آپ تارکِ دنیا ہیں تو غارِ حرا کے گوشہ نشین کی خلوت آپ کے لیے قابلِ تقلیدِ عمل ہے۔ اگر آپ چرواہے ہیں تو مقامِ اجیاد میں آپ کو چند قراریط (ٹکوں) پر اہلِ مکہ کی بکریاں چراتے دیکھ کر تسکینِ قلب حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ معمار ہیں تو مسجدِ نبویؐ کے معمار کو دیکھ کر ان کی اقتدا کر کے خوشی محسوس کر سکتے ہیں۔ اگر آپ مزدور ہیں تو خندق کے موقع پر اس بزرگ ہستی کو پھاوڑا لے کر مزدوروں کی صف میں دیکھ کر، اور مسجد نبویؐ کے لیے بھاری بھر کم وزنی پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے ہوئے دیکھ کر قلبی راحت حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ مجرد ہیں تو اس پچیس سالہ نوجوان کی پاکدامن اور عفت مآب زندگی کی پیروی کر کے سرورِ قلب حاصل کر سکتے ہیں جس کو کبھی کسی بدترین دشمن نے بھی داغدار نہیں کیا اور نہ کبھی اس کی جرأت کی ہے۔ اگر عیال دار ہیں تو آپ متعدد ازواجِ مطہرات کے شوہر کو ’’انا خیرکم لاھلی‘‘ فرماتے ہوئے سن کر جذبۂ اتباع پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر آپ یتیم ہیں تو حضرت آمنہؓ کے لعل کو یتیمانہ زندگی بسر کرتے دیکھ کر آپؐ کی پیروی اور تاسی کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ماں باپ کے اکیلے بیٹے ہیں اور بہنوں اور بھائیوں کے تعاون و تناصر سے محروم ہیں تو حضرت عبد اللہؒ کے اکلوتے بیٹے کو دیکھ کر اشک شوئی کر سکتے ہیں۔ اگر آپ باپ ہیں تو حضرت زینبؓ، رقیہؓ، ام کلثومؓ، قاسمؓ اور ابراہیمؓ کے شفیق و مہربان باپ کو ملاحظہ کر کے پدرانہ شفقت پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ تاجر ہیں تو حضرت خدیجہؓ کے تجارتی کاروبار میں آپ کو دیانتدارانہ سعی کرتے ہوئے معائنہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ عابد شب خیز ہیں تو اسوۂ حسنہ کے مالک کے متورم قدموں کو دیکھ کر اور ’’افلا یکون عبداً شکورا‘‘ فرماتے ہوئے آپؐ کی اطاعت کا ذریعۂ قُربِ خداوندی اختیار کر سکتے ہیں۔ اگر آپ مسافر ہیں تو خیبر و تبوک وغیرہ کے مسافر کے حالات پڑھ کر طمانیت قلب کا وافر سامان مہیا کر سکتے ہیں۔ اگر آپ امام اور قاضی ہیں تو مسجدِ نبوی کے بلند رتبہ امام اور فصلِ خصومات کے بے باک اور منصفِ مدنی کو بلا امتیاز قریب و بعید اور بغیر تفریقِ قوی و ضعیف فیصلہ صادر فرماتے ہوئے مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اور اگر آپ قوم کے خطیب ہیں تو خطیبِ اعظم کو منبر پر جلوہ افروز ہو کر بلیغ اور مؤثر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے غافل قوم کو ’’انا نذیر العریان‘‘ فرما کر بیدار کرتے ہوئے ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
الغرض زندگی کا کوئی قابلِ قدر اور مستحقِ توجہ پہلو اور گوشہ ایسا باقی نہیں رہ جاتا جس میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی معصوم اور قابلِ اقتدا زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ، عمدہ ترین اسوہ، اور اعلیٰ ترین معیار نہ بنتی ہو۔

مسجد کا احترام اور اس کے آداب

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ مشرکینِ مکہ نے عبادت کے کئی خودساختہ طریقے ایجاد کر رکھے تھے جو بذاتِ خود آدابِ مسجد کے خلاف تھے۔ مثلاً ان کے دل میں شیطان نے یہ بات ڈال دی تھی کہ جن کپڑوں میں ہم گناہ کرتے ہیں، ان کپڑوں کے ساتھ ہم بیت اللہ جیسے پاک مقام کا طواف کیسے کر سکتے ہیں؟ چنانچہ جن لوگوں کو قریشِ مکہ اپنے کپڑے عاریتاً دے دیتے تھے وہ ان کپڑوں کے ساتھ طواف کر لیتے تھے، اور باقی حاجیوں کی غالب اکثریت اپنے کپڑوں میں طواف کرنے کی بجائے بالکل برہنہ طواف کرنے کو ترجیح دیتی تھی۔ چنانچہ مرد دن کے وقت بیت اللہ کا طواف کرتے اور عورتیں رات کے وقت۔ وہ بدبخت اس شنیع فعل کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے کہتے تھے کہ ہم اس کے حکم سے ایسا کرتے ہیں۔ حالانکہ گزشتہ سورۃ اعراف میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان گزر چکا ہے ان اللہ لا یامر بالفحشاء یعنی اللہ تعالیٰ تو اس بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔ ایسے عمل کو اللہ تعالیٰ یا شریعت کی طرف منسوب کرنا تو بہت بڑی زیادتی کی بات ہے۔

آدابِ مسجد

مفسرینِ کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ جب خود حضور علیہ السلام یا آپ کا کوئی صحابیؓ بیت اللہ شریف کے پاس نماز کے لیے  کھڑا ہوتا تو مشرک لوگ دخل اندازی کے لیے سیٹی بجانا شروع کر دیتے تھے جو کہ نہایت ہی بے ادبی اور گستاخی کی بات تھی۔ مسجدوں کے آداب کے متعلق سورۃ نور میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے فی بیوت اذن اللہ ان ترفع ویذکر فیھا اسمہ اللہ تعالیٰ نے تو مساجد کو اللہ کا نام بلند رکھنے اور ان میں اس کا ذکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ مگر یہ لوگ وہاں سیٹی بجاتے اور تالیاں پیٹتے ہیں کہ اللہ کے بندوں کو وہاں پر عبادت سے روک سکیں۔
جب بیت اللہ شریف کی عمارت حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کے ہاتھوں تکمیل کو پہنچی تو اللہ نے اپنے دونوں انبیاء سے وعدہ لیا ان طھرا بیتی للطائفین والعاکفین والرکع السجود (البقرہ) وہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں، اور رکوع سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں گے۔ اس حکم میں ظاہری طہارت بھی آتی ہے کہ اللہ کا گھر ظاہری نجاست سے بالکل پاک صاف ہو، اور باطنی طہارت بھی کہ وہاں پر کفر، شرک، بے ادبی اور گستاخی کی کوئی بات نہ ہو۔ حضور علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ اپنے گھر میں بھی جو جگہ نماز کے لیے متعین کی جائے وہ بھی مسجد کا حکم رکھتی ہے اور اس کو بھی پاک صاف رکھنا ضروری ہے۔ 
صحاح ستہ میں یہ حدیث موجود ہے کہ ایک شخص نے مسجد کے صحن میں پیشاب کر دیا، حضور علیہ السلام کے صحابہؓ اسے مارنے کے لیے دوڑے مگر آپ نے اس پر زیادتی کرنے سے منع فرمایا۔ پھر اس شخص کو اپنے پاس بلا کر بات سمجھائی کہ اللہ کے گھر اس لیے نہیں ہوتے کہ یہاں گندگی پھینکی جائے، یہ مقام تو اللہ کی عبادت، نماز اور ذکر کے لیے ہوتے ہیں۔ آپ نے بڑی نرمی سے سمجھایا پھر مسجد کو صاف کرایا۔
غرضیکہ مسجد میں تالیاں بجانا، سیٹی مارنا، دوڑنا، گندگی پھیلانا، سب آداب کے خلاف ہیں۔ اسی طرح پتنگ اڑانا، لڑائی جھگڑا کرنا، سامان بیچنا اور گمشدگی کا اعلان کرنا بھی خلافِ ادب ہے۔ حتٰی کہ مسجد میں ہتھیار برہنہ کرنے اور حدود جاری کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ مسجد کا ادب اور خاص طور پر بیت اللہ شریف کا ادب ہمیشہ ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے۔
اللہ نے فرمایا کہ مشرکین کی نماز یہ ہے کہ بیت اللہ کے نزدیک سیٹی اور تالیاں بجائیں۔ حضرت سعید ابن جبیرؓ فرماتے ہیں کہ تصدیہ سے مراد وہ آواز ہے جو ہاتھ پاؤں مارنے سے پیدا ہوتی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے تالیاں بجانے سے منع فرمایا ہے۔ اور صد کا معنی روکنا بھی ہوتا ہے۔ ۶ھ میں مشرکینِ مکہ نے عمرہ کے لیے آنے والے مسلمانوں کو مکہ سے باہر ہی روک دیا تھا اور شہر میں داخل نہیں ہونے دیا تھا۔ اسی طرح مکاء کا معنی منہ میں انگلی ڈال کر آواز نکالنا یا بنی بنائی سیٹی بجانا ہے۔ مکاء اس پرندے کو بھی کہتے ہیں جو سیٹی کی سی آواز نکالتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرکین نے اسباب تو ایسے جمع کر رکھے ہیں کہ یہ فوری سزا کے مستحق ہیں مگر دو وجوہات سے ان پر عذاب رکا ہوا ہے: جب تک حضور علیہ السلام مکے میں موجود رہے اور جب تک مشرکین استغفار کرتے رہے ان کی سزا رکی رہی۔ پھر جب حضور علیہ السلام ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو صرف ڈیڑھ سال کے عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے بدر کے مقام پر ان پر عذاب نازل فرمایا اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے انہیں ذلیل و خوار کیا۔ کفار کے ستر سرکردہ آدمی قتل ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے جنہیں فدیہ لے کر چھوڑا گیا۔ اللہ نے فرمایا فذوقوا العذاب بما کنتم تکفرون اب سزا کا مزا چکھو جو کہ تمہارے کفر کا بدلہ ہے۔

سیکولرازم، عالمِ اسلام اور پاکستان

بریگیڈیر (ر) شمس الحق قاضی

پاکستان کے لیے سیکولرازم کی حمایت کرتے ہوئے ایئرمارشل اصغر خان نے حالیہ اخباری بیان میں فرمایا ہے کہ پاکستان کے نام سے اسلام کو نکال دینا چاہیے تاکہ یہاں پر مکمل سیکولر معاشرہ قائم ہو سکے۔ واضح رہے کہ ماضی میں صدر ایوب خان نے بھی یہی ارادہ کیا تھا لیکن پھر ۱۹۶۵ء کی جنگ شروع کرتے ہوئے آپ کو کلمہ طیبہ کا ہی سہارا لینا پڑا تھا۔ چنانچہ حال ہی میں نوائے وقت کے ایک فاضل کالم نگار نے لکھا ہے کہ بنیادی طور پر اصغر خان بھی اسلام پسند ہیں اور اسی لیے آپ نے بھٹو کی ترغیب کے باوجود صرف اس لیے پیپلز پارٹی میں شمولیت سے انکار کر دیا تھا کہ پارٹی کے بنیادی اصولوں میں سوشلزم کو اسلام پر فوقیت دی گئی تھی۔
ہم نے اصغر خان کی استقلال پارٹی میں تقریباً دس سالہ شمولیت کے دوران مشاہدہ کیا ہے کہ جناب اصغر خان بڑی خوبیوں کے مالک ہیں، اور آپ کی بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ دوسرے کا نقطۂ نظر بڑے صبر و تحمل سے سنتے ہیں اور بلکہ بعض اوقات قبول بھی کر لیتے ہیں، اور دوسری طرف اپنا نقطۂ نظر صاف صاف بیان کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ سیاست اقتدار تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے، اس لیے آج کل اکثر سیاستدان مقصد کے حصول کے لیے اپنے نقطۂ نظر میں خاص لچک رکھتے ہیں۔ بہت سارے واقعات میں سے صرف دو مثالیں قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کی جاتی ہیں:
جنرل ضیاء الحق کے کئی ایک فرضی میں سے ایک کی تیاری کے لیے یہاں ہماری ہمسائیگی میں رفیع بٹ کے گجرات ہاؤس میں تحریک استقلال کی انتخابی میٹنگ کے دوران ایئر مارشل کی ہدایت پر محمود علی قصوری نے بھٹو والے آخری الیکشن کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام پسندوں کے مقابلہ میں اسلام مخالف ووٹ بہت زیادہ تھے۔ اس پر اصغر خان نے فرمایا کہ اس سے صاف ظاہر ہے کہ الیکشن جیتنے کے لیے ہمیں سیکولرازم سے کام لینا ہو گا۔ بلکہ اس طرح ہمیں سارے اقلیتی ووٹ بھی مل جائیں گے۔ واضح رہے کہ اس زمانہ میں بھٹو نے مخلوط انتخاب رائج کر رکھا تھا۔ بہرحال کچھ مندوبین نے بیان کیا کہ اقلیتی ووٹ تو پیپلز پارٹی کے سکہ بند ووٹ ہیں اس لیے ہمیں ان سے زیادہ توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ اسی دوران سیکولرازم کے حق میں نئی پارٹی لائن سے ناراض ہو کر علامہ احسان الٰہی ظہیر نے استقلال پارٹی کا ساتھ چھوڑ دیا۔ چند دنوں بعد پارٹی کے بانی سیکرٹری جنرل رضوی سے کرنل تصدق کے گھر میں ملاقات ہوئی تو آپ نے تجویز پیش کی کہ نئی پارٹی لائن کے خلاف اسلام پسند فارورڈ بلاک قائم کیا جائے۔ میں نے کہا کہ ہمیں فوجی ڈسپلن نے سکھایا ہے کہ کمانڈر سے اختلاف کی صورت میں بغاوت کی بجائے استعفٰی دے دینا چاہیے، لیکن ہم نے استعفٰی دیا تو پارٹی پر سیکولر گروپ مکمل قبضہ کر لے گا، اس لیے بہتر ہو گا کہ ہم لوگ پارٹی کے اندر رہتے ہوئے لادینیت کا مقابلہ کریں۔
دوسرا واقعہ یوں ہوا کہ جب روس کو افغانستان میں زبردست ناکامیوں کا سامنا تھا تو پاکستان میں جہادِ افغانستان کی حمایت کم کرنے کے لیے روس کو پاکستانی سیاستدانوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ وہ لوگ اصغر خان کو کابل لے گئے۔ واپس آنے پر آپ نے پریس کانفرنس بلائی۔ راقم اور نوجوان صحافی ظفر حجازی پہلی صف میں بیٹھے تھے۔ اپنے خطاب میں ایئر مارشل نے فرمایا کہ کابل میں بالکل امن و امان ہے، وہاں افغانستان میں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ میں نے خود کابل کی جامع مسجد میں نہایت سکون سے نمازِ جمعہ ادا کی ہے، اور یہ صرف حکومتِ پاکستان ہے جس نے یہاں پاکستان کے اخباروں میں جعلی جنگی جنون برپا کر رکھا ہے۔ اس پر ایک یورپی صحافی نے پوچھا کہ ایئرمارشل اگر آپ کا کہنا صحیح ہے تو پھر پچاس لاکھ افغان مہاجرین آپ نے کیوں پاکستانی کیمپوں میں قید کر رکھے ہیں۔ اصغر خان نے اس کا جواب نہیں دیا۔
بہرحال اب ۱۲ اکتوبر کے انقلاب کے بعد کے کچھ حالات و واقعات کی وجہ سے بعض حلقوں کو دوبارہ امید ہو گئی ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں اب وہ سیکولرازم کے راستہ سے امریکہ کو خوش کر کے اقتدار تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہاں پر ہم کسی کی نیت پر شک نہیں کرتے، اس لیے کہ سیکولرازم کے حامی حلقوں کا خیال ہے کہ اس طرح ہم ملک کو مالی ترقی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔
یہاں پر ہمارا بنیادی اختلاف یہ ہے کہ پاکستان کے مطالبہ میں اسلامی معاشرہ قائم کرنے کی آرزو کی گئی تھی، اور اسلامی معاشرہ میں زندگی کی دوسری آسائشیں بھی حاصل ہو جائیں، جیسا کہ ماضی میں ہوا، تو یہ اللہ کی مزید نعمت ہو گی۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک صحابیؓ نے مکان میں روشندان بناتے ہوئے عرض کیا کہ اس کا مقصد مکان کو روشنی اور ہوا مہیا کرنا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم یوں کہتے کہ اذان سننے کے لیے روشندان رکھ رہا ہوں تو اس نیت کا تمہیں ثواب مل جاتا، اور ہوا اور روشنی تو رک نہیں سکتی تھی پھر بھی مہیا رہتی۔
یہاں پر بعض لوگ قائد اعظم کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر میں اقلیتوں کو تحفظ دینے والے حصہ سے ثابت کرتے ہیں کہ قائد اعظم بھی سیکولرازم کے حامی تھے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے بعض لوگ علامہ اقبال کے سارے کلام کے سیاق و سباق بلکہ علامہ کی ساری زندگی کو ایک طرف رکھ کر ان کے ’’خوشہ گندم‘‘ والے شعر سے ثابت کرتے ہیں کہ علامہ اقبال اصل میں کمیونسٹ تھے۔ راقم نے تحریک پاکستان کے اہم ترین آخری تین سال دلی میں گزارے ہیں۔ مسلم لیگ کے چوٹی کے لیڈروں کو قریب سے دیکھا ہے۔ قائد اعظم سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ہمیں اس میں ذرا برابر بھی شک نہیں کہ تحریکِ پاکستان کا مقصد پاکستان میں دنیا بھر کی رہنمائی کے لیے ایک مثالی اسلامی معاشرہ قائم کرنا تھا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ایک مختصر سا واقعہ بیان کرتا ہوں۔
میجر ڈاکٹر محمود احمد دلی میں شیر شاہ روڈ آفیسرز میس میں میرے ہمسایہ تھے۔ آپ علی گڑھ میں فلسفہ پڑھا رہے تھے، وہیں سے فوج کے ایجوکیشن محکمہ میں بھرتی ہو گئے۔ پاکستان بننے کے بعد کراچی اور بیروت یونیورسٹیوں میں فلسفہ کے پروفیسر رہے۔ آپ اسلام کے شیدائی اور صوفی منش تھے۔ ایک روز فرمایا، قاضی! آپ کے مسلم لیگ ہائی کمان کے ساتھ روابط ہیں، میں یقین کرنا چاہتا ہوں کہ مسلم لیگ والے واقعی پاکستان میں اسلامی معاشرہ قائم کریں گے۔ میں ان کو سوجان سنگھ پارک میں ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کے پاس لے گیا۔ الطاف حسین نے بتایا کہ قائد اعظم تواتر سے یہی فرما رہے ہیں کہ پاکستان میں قرآن و سنت پر مبنی معاشرہ قائم کیا جائے گا، مگر میجر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر پاکستان نہ بنا تو کیا پنڈت نہرو آپ کے لیے ہندوستان میں شریعت نافذ کر دے گا۔ ارے یار پاکستان بننے تو دو۔ کچھ کمی کاہلی دیکھی تو تم خود وہاں اسلام نافذ کر لینا۔ یعنی پاکستان کے ہر شہری کا فرض ہو گا کہ وہاں ایسی حکومت قائم کرنے کی کوشش کرے جو پاکستان کے بنیادی مقاصد کی تکمیل میں مخلص ہو۔
سیکولرازم کے حامیوں سے ہمارا دوسرا اختلاف یہ ہے کہ ہمارے نزدیک مذہبی وابستگی ترقی کی راہ میں ہرگز رکاوٹ نہیں بنتی۔ اسرائیل کی مثال ہم ایک سابقہ مضمون میں دے چکے ہیں۔ آج ہم امریکہ کی ایک مثال دیں گے۔
۱۹۵۵ء میں امریکہ قیام کے دوران ہم نے ایک امریکی دوست سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ کا امریکہ تو مادی ترقی کی معراج پر ہے جبکہ آپ کی ہمسائیگی میں چند ہی قدم دور گرینڈی دریا کے اس پار میکسیکو پاکستان سے بھی زیادہ پسماندہ ہے۔ تو اس نے جواب دیا کہ جنوبی امریکہ کا کیتھولک مذہب ان کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ میں نے حیرت سے جواب دیا کہ فرانس بھی تو کیتھولک ہے مگر امریکہ کے برابر ترقی یافتہ ہے، جبکہ اس کی ہمسائیگی میں کیتھولک ہسپانیہ میکسیکو ہی کی طرح پسماندہ ہے۔ تو امریکی دوست سوچ میں پڑ گیا اور بولا واقعی یہ مذہبی وابستگی نہیں بلکہ کاہلی اور اخلاقی پستی ہے جو معاشرہ کو پسماندہ رکھتی ہے۔
اب ہم قارئین کی دلچسپی کے لیے نہ صرف برصغیر میں بلکہ عالمِ اسلام میں مادی ترقی کے نام پر سیکولرازم کی دراندازی کا جائزہ لیتے ہیں۔
زمانہ حال میں سب سے پہلے حضرت خواجہ حسن نظامیؒ کا ۱۹۱۱ء کا سفرنامہ شام و حجاز میں سیکولرازم کی دراندازی کا دلچسپ پس منظر بیان کرتا ہے۔ خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ بیت المقدس میں ان کو شیخِ حرم ابراہیم حسن اور دوسرے عرب زعماء نے بڑے دکھ کے ساتھ بتایا کہ ہم عرب لوگ سلطان عبد الحمید ثانی سے بے پناہ محبت کرتے تھے کیونکہ سلطان اتحاد بین المسلمین کا حامی تھا، اور بالخصوص فلسطین میں یورپی اور یہودی اثر و رسوخ کا شدید مخالف تھا، اور اس لیے اسلام دشمنوں نے نوجوان ترک افسروں سے بغاوت کرا کے ۲۸ اپریل ۱۹۰۹ء میں سلطان کو معزول کر کے ملک بدر کرا دیا۔ واضح رہے کہ اس بغاوت کے بعد نوجوان باغی افسروں کے لیے Young Turks کی اصطلاح کو انگریزی زبان میں شامل کر دیا گیا۔
بہرحال شیخِ حرم نے سلطان کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے بتایا کہ سلطان نے شام و حجاز ریلوے کا منصوبہ بنایا تو بغیر قرضہ لیے محض عالمِ اسلام کی امداد اور حجاز ریلوے اسمپ جاری کر کے منصوبہ مکمل کر لیا۔ اور اس طرح ستمبر ۱۹۰۰ء میں شروع کر کے ۱۹۰۸ء مدینہ منورہ تک ریلوے سروس جاری کر دی۔ اور خود خواجہ حسن نظامی نے ۱۹۱۱ء میں اس ریلوے پر مدینہ منورہ تک سفر کیا۔ بعد میں ینگ ترکس کی پارٹی انجمن اتحاد و ترقی، جو کہ ترک نسل پرستی اور سیکولرازم کی داعی تھی، نے نئی پارلیمنٹ قائم کی جس کو عرب زعماء عربوں کی مخالف سمجھتے تھے۔ چنانچہ اس دوران ۱۰ جولائی ۱۹۱۱ء کو القدس میں انجمن اتحاد و ترقی کا اجلاس بلایا گیا جس کا مقصد غلط فہمیاں دور کر کے ترکوں اور عربوں کے درمیان صلح کرانا تھا۔ خواجہ حسن نظامی کو بھی خاص آبزرور کے طور پر شامل کیا گیا۔ وہاں استنبول سے ۳۰۰ مندوبین آئے لیکن ان میں سے چند ایک مسلمانوں کو چھوڑ کر سب نصرانی اور یہودی تھے، اس لیے عرب نمائندوں نے شمولیت سے انکار کر دیا۔ جس کی وجہ سے اجلاس کو ملتوی کرنا پڑا اور اس طرح ترکوں اور عربوں میں مزید ناراضگی پیدا ہوئی۔
بہرحال یہ تو تھے ۱۹۱۱ء کے حالات و واقعات جبکہ ترکی میں سیکولرازم کا پودا نیا نیا کاشت ہوا تھا۔ اسی دوران ۱۹۱۴ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو فرانس اور برطانیہ نے شام و فلسطین پر حملہ کر دیا اور اس طرح سیکولرازم کو برگ و بار نکالنے کا موقع فراہم ہو گیا۔
اس کے بعد ایک دوسری دلچسپ اور عجیب کہانی شروع ہوتی ہے، وہ اس طرح کہ ۱۹۷۳ء میں میرے پاس ایک کیپٹن ریٹائرڈ الطاف حسین ملازمت کی تلاش میں آئے اور اپنی قابلیت اور تجربہ کے ثبوت میں اپنا کتابچہ ’’اسلام اور جاسوسی نظام‘‘ پیش کیا۔ یہ کتابچہ اس وقت میرے سامنے ہے، پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس کا نام ’’اسلام کے خلاف جاسوسی نظام‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ مؤلف نے بتایا کہ پہلی جنگِ عظیم میں وہ ۶ النسر رسالہ میں سپاہی بھرتی تھا، وہیں سے انٹیلی جنس ٹریننگ کے بعد جاسوسی کے کام پر مامور ہوا، اور اس کا دعوٰی ہے کہ فرانس کے گاؤں Fritville میں اس نے مشہورِ عالم جاسوس عورت ماتاہری کو گرفتار کرایا۔ بعد میں ان کی یونٹ کے کپتان بارلے اور کپتان لارنس جو کہ عربی زبان اور کلچر کے ماہر تھے، شام و حجاز میں جاسوسی اور تخریب کاری پر مامور ہوئے، تو پنجابی مسلمانوں کا جو فوجی دستہ ان کو دیا گیا اس میں مؤلف بھی شامل تھا اور اس طرح اس نے لارنس کے سارے آپریشنز میں حصہ لیا۔ واضح رہے کہ یہ کیپٹن لارنس بعد میں کرنل لارنس آف عریبیا مشہور ہوا۔
مؤلف کا بیان ہے کہ لارنس نے اپنے فوجی دستہ اور ینگ ترکس کی انجمن اتحاد و ترقی کے ستائے ہوئے عربوں کو ساتھ ملا کر حجاز ریلوے کو تخریب کاری کے ذریعے سے جگہ جگہ سے ناکارہ بنا دیا تھا۔ اسی دوران دیہات میں بدوؤں کے درمیان لارنس کو کئی اسلامی ناموں سے شیخ المشائخ اور ایک بڑی روحانی ہستی کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ بہرحال لارنس نے حجاز ریلوے کو تباہ کر کے سلطان عبد الحمید ثانی کی دس سالہ محنتِ شاقہ کو خاک میں ملا دیا اور پھر آج تک یہ ریلوے سروس بحال نہیں کی جا سکی۔
مؤلف کا بیان ہے کہ کیپٹن بارلے کو سفارتکاری کے ذریعے عرب زعماء کو ترکوں کے خلاف بغاوت پر اکسانے کا کام دیا گیا تھا۔ چنانچہ جب ۱۹۱۴ء میں حکومتِ برطانیہ کے دباؤ کے باوجود شریفِ مکہ نے انگریزوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تو یہ کام کیپٹن بارلے کے سپرد ہوا۔ ۱۹۱۶ء میں کیپٹن بارلے کی قیادت میں لارنس کے دستہ کے دو مسلمان صوبیداروں کے وفد نے بھاری رقم اور عراق سے شام تک سارے عرب علاقہ کی بادشاہی کی تحریری ضمانت پر شریفِ مکہ سے ترکوں کے خلاف بغاوت کرا دی۔ چنانچہ لارنس کے دستوں نے شریفِ مکہ کے بدوؤں کو لے کر مدینہ منورہ پر حملہ کر دیا لیکن ترک گریژن کمانڈر سے منہ کی کھائی اور اس طرح اختتامِ جنگ تک مدینہ منورہ کفار کے ناپاک قدموں سے محفوظ رہا۔ دوسری طرف مدینہ منورہ میں ناکامی کے بعد شریف کے بدوؤں اور کرنل لارنس کے ۳۲ عدد پنجابی مسلمان مشین گن دستہ نے، جن میں مؤلف بھی شامل تھا، مکہ مکرمہ پر حملہ کر کے شہر پر قبضہ کر لیا۔
یہاں پر راقم نے مؤلف سے پوچھا کہ یہ کہاں تک سچ ہے کہ اس آپریشن میں پنجابی مسلمان فوجیوں نے کعبۃ اللہ پر گولیاں چلائی تھیں؟ تو مؤلف نے بتایا کہ یہ غلط ہے، البتہ کعبۃ اللہ کے اطراف شہر میں فائرنگ ہوتی رہی۔ مجھے اس بیان پر شک نہیں ہوا کیونکہ مؤلف تو میرے سامنے تندرست و توانا بیٹھا تھا جبکہ شریف مکہ کے خاندان کو اس بے حرمتی پر اللہ تعالیٰ نے عبرتناک سزا دی۔ وہ خود تو سعودیوں سے شکست کھا کر جلاوطنی کی موت قبرص میں مرا، ایک بیٹا عراق میں حادثہ کا شکار ہوا، دوسرے کو بغداد ہی میں عبد الکریم قاسم نے خاندان سمیت قتل کیا، اور تیسرا اردن کا شاہ عبد اللہ بیت المقدس میں قتل ہوا۔ اب اس شریفِ مکہ کی باقیات میں صرف نوجوان عبد اللہ بچا ہے جو آج کل اردن کا بادشاہ ہے۔
بہرحال مؤلف کا بیان ہے کہ اس کے بعد کرنل لارنس نے پیر کرم شاہ کے نام سے افغانستان میں شاہ امان اللہ کے خلاف بغاوت کرائی۔ جبکہ آفیشل ریکارڈ کے مطابق جنگ کے بعد شہرت سے تنگ آ کر کرنل لارنس کی درخواست پر اسے کراچی میں ایئرفورس میں Ross کے نام سے سپاہی بھرتی کر لیا گیا۔ بعد میں وہ Shaw کے ذومعنی نام سے کراچی ہی میں آرمی میں شامل ہو گیا جس کی وجہ سے آج کل پاکستان کے اخباروں میں آیا ہے کہ نیلام گھر والے طارق عزیز کے مطابق کرنل لارنس نے شاہ کے نام سے نیڈوز ہوٹل لاہور کے مالک کی بیٹی مس نیڈو سے شادی کی تھی جس سے فاروق عبد اللہ پیدا ہوا۔ مس نیڈو بعد میں سری نگر میں اکبر جہاں کے نام سے شیخ عبد اللہ کی بیوی بنی، اور حال ہی میں سری نگر میں ۸۴ سال کی عمر میں فوت ہوئی۔ تاریخی لحاظ سے نیڈو عرف اکبر جہاں کی شادی کرنل لارنس سے ممکن ہے، کیونکہ کرنل ایڈورڈ تھامس لارنس عرف Shaw یا شاہ ۱۹۳۵ء میں کراچی موٹر سائیکل حادثہ میں مرا۔ اس وقت اس کی عمر ۴۷ سال اور مس نیڈو کی عمر ۱۹ سال تھی۔ دوسری طرف علم الانساب کے ماہرین کی رائے میں فاروق عبد اللہ کی شکل شیخ عبد اللہ سے بالکل نہیں ملتی، جبکہ وہ کرنل لارنس کی صحیح کاربن کاپی یا ماڈرن اصطلاح میں ہوبہو ’’کلون‘‘ لگتا ہے۔
اب ہم ترکی میں سیکولر راج کی ’’برکتوں‘‘ کی طرف آتے ہیں۔ جنگِ عظیم میں ترکوں کی شکست کی وجہ سے خلافتِ اسلامیہ خطرہ میں پڑ گئی تو برصغیر کے مسلمانوں نے خلافت کو بچانے کے لیے ایک ہمہ گیر تحریک شروع کی جس کی عام مقبولیت کو دیکھ کر اسلام دشمن ہندو لیڈر مسٹر گاندھی، پنڈت مدن موہن مالویہ، اور بدنام زمانہ سوامی شردھانند بھی خلافت موومنٹ میں شامل ہو گئے۔ دوسری طرف جب تحریک اپنے عروج پر پہنچی تو اچانک ہی مصطفٰی کمال نے خلیفہ عبد المجید کو معزول کرتے ہوئے خلافتِ اسلامیہ کو ختم کر دیا اور اس کی جگہ سیکولر حکومت قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ہم ان ’’اصلاحات‘‘ کا مختصر سا ذکر کریں گے جن کو مصطفٰی کمال نے سیکولرازم کے نام سے ترکی میں نافذ کیا اور جن کو یہاں پاکستان میں ایوب خان، بھٹو اور اب اصغر خان نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ یہ عجیب اتفاق ہے کہ سیکولرازم نافذ کرنے کے لیے مصطفٰی کمال نے جو سیاسی پارٹی قائم کی تھی اس کا نام بھی پیپلز پارٹی (خلق فرقہ سی) ہی رکھا تھا۔ اب ہم ان ’’اصلاحات کو نمبروار بیان کرتے ہیں:
  1. ترکی قوم کی ترقی کے لیے یورپی تہذیب اپنائی جائے۔
  2. نئے جمہوری آئین میں جہاں اسلام کو ترکی کا سرکاری مذہب قرار دیا ہے اس سے یہ شق اب خارج کر دی گئی۔
  3. دینی مدرسے بند کر دیے گئے۔
  4. عام سکولوں میں مذہبی تعلیم کی ممانعت کر دی۔
  5. اسلامی قوانین منسوخ کر کے نئے رومن طرز کے قوانین نافذ کر دیے۔
  6. عورتوں کے لیے اسلامی پردہ کی ممانعت کر دی گئی۔
  7. حکومت کے لیے لازمی کر دیا کہ عورتوں مردوں کے مشترکہ کلبوں اور اجتماعات کی ترغیب دے۔
  8. سب لوگوں کو یورپی لباس پہننے اور سر ننگا رکھنے کی ہدایت کر دی گئی۔
  9. فیض ٹوپی (نوابزادہ نصر اللہ والی) پہننا ممنوع قرار دیا۔
  10. بزرگوں کے مزاروں پر حاضری ممنوع قرار دی۔
  11. تکیوں اور صوفیانہ حلقوں کو بند کر کے پیری مریدی کو ممنوع قرار دیا۔
  12. کسی نماز، تہوار، عید وغیرہ قومی رسم پر مخصوص لباس پہننا ممنوع قرار دیا۔
  13. ہجری کیلنڈر منسوخ کر کے اکیلے عیسوی کیلنڈر کو نافذ کیا۔
  14. جمعہ کی بجائے اتوار کی چھٹی رائج کی۔
  15. قرآن مجید، اذان، نماز صرف ترکی زبان میں پڑھنے کا حکم دیا۔
  16. تاریخِ اسلام میں ترکوں کے مقام کو کم کرنے کے لیے ترکی قوم کی نئی تاریخ لکھنے کا حکم دیا، اور ہدایت دی کہ سلطان عثمان سے شروع کرنے کی بجائے قدیم زمانہ سے شروع کر کے عثمانی دور کی اہمیت کو کم کیا جائے۔
  17. قومی ترقی کے لیے بیرونی قرضہ کو لازمی اور بے ضرر قرار دیا۔
  18. رسم الخط کو عربی سے رومن حروف میں نافذ کر دیا۔
تمام بین الاقوامی مبصرین متفق ہیں کہ مصطفٰی کمال کی نام نہاد اصلاحات میں سب سے زیادہ نقصان رسم الخط کی تبدیلی نے دیا کیونکہ اس طرح ساری قوم کو اپنے تاریخی اور کلچرل ورثہ سے محروم کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ ایوب خان بھی رسم الخط کو رومن حروف میں تبدیل کرنے کے لیے بڑی سنجیدگی سے سوچ رہے تھے لیکن ان کی حکومت زیادہ دیر وفا نہ کر سکی۔ قارئین کو علم ہو گا کہ ان نام نہاد اصلاحات کے نتیجہ میں مصطفٰی کمال نے حج پر پابندی لگا دی تھی جو کہ بعد میں عدنان میندرس کی حکومت کے دوران اٹھائی گئی۔ استنبول میں چند ایک مسجدوں کو چھوڑ کر باقی سب پر تالہ بندی کر دی تھی۔ اور سب سے بڑی جامعہ آیا صوفیہ کو اور بزرگوں کے اہم مزاروں کو، جن میں قونیہ شریف میں حضرت مولانا رومؒ اور ان کے مرشد شمس تبریزؒ کے مزار بھی شامل تھے، ان کو عجائب گھر بنا دیا تھا۔ اور یہ تمام نام نہاد سیکولرازم کی اصلاحات قومی ترقی کے نام پر نافذ کی گئی تھیں۔
آج کل بے نظیر اور اصغر خان بھی قومی ترقی ہی کے نام پر پاکستان میں سیکولرازم نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ جاپان اور چین کے علاوہ مشرقی ایشیا کے بہت سارے ممالک نے اپنی زبان، کلچر اور تاریخ کو سینے سے لگائے ہوئے بھی ترقی کے میدان میں یورپ کو جا لیا ہے۔ تو پھر ہم ذرا غور سے دیکھتے ہیں کہ ۱۹۲۴ء میں خلافتِ اسلامیہ کو ختم کرنے کے بعد مصطفٰی کمال کے سیکولرازم نے ترکی کو کیا ترقی دی ہے۔
راقم کو ۱۹۶۹ء میں ترکی کا تفصیلی دورہ کرنے کا موقع ملا جبکہ سیکولرازم انقلاب کی تقریباً نصف صدی گزر چکی تھی۔ مجھے وہاں کوئی قابل ذکر ترقی نظر نہیں آئی۔ کوئی قابل ذکر صنعتی شہر یا کوئی بڑا انڈسٹریل کمپلیکس نظر نہیں آیا۔ بڑی بڑی گرینڈ ٹرنک سڑکیں بھی Dirt Road یعنی کچی تھیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوا کہ روس ۱۹۱۷ء کے انقلاب کے صرف پچیس سال بعد اتنا ترقی کر چکا تھا کہ اس نے اپنے ہی ملک میں تیار کردہ جہازوں، ٹینکوں اور توپوں سے جرمنی جیسے سپر صنعتی ملک کو عبرتناک شکست دی تھی۔ البتہ جس بات نے مجھے بہت متاثر کیا وہ ترکوں کی ہم پاکستانیوں سے بے پناہ محبت و عقیدت تھی۔ سرحد شام پر پہلی چوکی اور بستی کا نام اتفاق سے ریحانہ تھا جو کہ صدر ایوب خان کے آبائی گاؤں کا نام بھی ہے۔ کسٹم حکام نے پاکستانی پاسپورٹ دیکھتے ہی ہمیں بغیر چیکنگ جانے دیا۔ دیہات، شہر اور بازار جہاں بھی ہم گئے لوگ بڑی محبت سے پیش آئے۔ وجہ یہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں حملہ آور برطانوی فوج کے بہت سارے ہندوستانی مسلمان فوجی بھاگ کر ترکوں سے مل گئے تھے اور کئی ایک دہلی میں بھی گئے ہیں۔ پھر برصغیر کے مسلمانوں نے ترکی کو امدادی چندہ دیا، میڈیکل مشن بھیجے اور آخر میں خلافتِ اسلامیہ کے تحفظ کے لیے ہمہ گیر تحریک چلائی۔ تو ان سب کی وجہ سے ترک عوام پاکستانیوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔
اور حقیقت یہ ہے کہ مصطفٰی کمال کا سیکولرازم ترکوں کے دل سے اسلام کے لیے محبت مٹا نہیں سکا اور اب بھی سیکولرازم صرف حکومتی ایوانوں میں پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں ایک خاتون ممبر اسمبلی کو سر ڈھانپنے کے جرم پر اسمبلی سے نکال دیا گیا تھا۔ اور پھر چند ماہ بی بی سی نے بتایا کہ ترکی فوج میں اسلامی نظریہ کی بیخ کنی پروگرام کے تحت ۵۹ افسروں کو محض صوم و صلاۃ کا پابند ہونے کے جرم میں فوج سے نکال دیا گیا۔ واضح رہے کہ ترک عوام کے دل ہمیشہ کی طرح اب بھی اسلام کے لیے دھڑکتے ہیں اور اسی لیے ترک عوام مصطفٰی کمال سے ایک گونہ نفرت محسوس کرتے ہیں۔ مثلاً ایک گاؤں کے دیہہ خدا نے ہمیں بتایا کہ مصطفٰی کمال نے بس یہی کمال کیا کہ ہماری عورتوں کو بے پردہ و نیم لباس کر دیا۔ اتاترک کے مزار پر ٹورسٹ گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ یہ مسلمان نہیں تھا اس لیے اسے کعبہ رو نہیں دفنایا گیا۔ واللہ اعلم، کیونکہ ہمیں وہاں سمتوں کا ادراک نہیں تھا۔
قونیہ شریف میں حضرت مولانا رومؒ کے مزار کا عجائب گھر ابھی کھلا نہیں تھا اس لیے ہم وقتی طور پر سامنے ٹورسٹ آفس چلے گئے۔ مینیجر کی کرسی کے سامنے اتاترک کی تصویر آویزاں تھی جیسے ہمارے ہاں دفتروں میں قائد اعظم کی تصویر سجانے کا رواج ہے۔ مینیجر بطور خاص ہمیں تصویر کے قریب لے گیا اور کہا ’’ہذا کافر‘‘ یعنی یہ شخص کافر تھا۔ ہم نے ۱۹۶۹ء میں جو کچھ دیکھا وہ من و عن قارئین کے سامنے پیش کر دیا ہے، اگر کسی نے بعد کے دور میں ترکی کا مختلف روپ دیکھا ہو تو اپنے تاثرات قارئین کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مصطفٰی کمال کا سیکولرازم ترک عوام کے دلوں سے اسلام اور مسلمانوں کے لیے محبت نہیں نکال سکا، اور دوسری طرف اپنے ملک میں کوئی نمایاں مادی ترقی بھی نہیں لا سکا۔ ۱۹۶۹ء میں بلکہ اب بھی پاکستان کی طرح لاکھوں کی تعداد میں مزدور برآمد کر کے روٹی پانی چلا رہا ہے۔ یورپی تہذیب و تمدن کو اپنانے کی کوشش کے باوجود یورپی اقوام یا حالیہ یورپی یونین میں ترکی کے لیے برابری کی سطح پر قبولیت حاصل نہیں کی جا سکی۔ دوسری طرف خلافتِ اسلامیہ کو ختم کر کے ترکی نے عالمِ اسلام میں اپنی مرکزیت اور لیڈرشپ کو خود ہی کھو دیا، بلکہ پوری ملتِ اسلامیہ کو ایک محترم و مکرم مرکز سے محروم کر کے اتنا بے اثر کر دیا ہے کہ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی ہونے کے باوجود آج مسلمان اقوامِ متحدہ میں ایک سکیورٹی کونسل سیٹ نہیں حاصل کر سکتے ؎
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
(بہ شکریہ نوائے وقت)

دیرپا ترقی، فطرت کے ساتھ ساتھ

شہزادہ چارلس

گزشتہ ۴۰ برس سے بی بی سی اپنے ڈائریکٹر ریٹھ (ـJohn Reith) کی یاد میں اہم موضوعات پر ریٹھ لیکچر کا اہتمام کر رہی ہے۔ اس سال دیرپا ترقی (Sustained Development)  کے موضوع پر چھ خطبے دیے گئے۔ پانچ نامور سائنسدانوں کے بعد آخری خطبہ پرنس چارلس نے دیا، اس کی اہمیت کے پیش نظر ہم اس کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)

دنیا بھر میں لاکھوں سننے والوں کی مانند میں بھی ’’دیرپا ترقی‘‘ کے بارے میں پانچ انتہائی ممتاز مقررین کی امیدوں، خدشات اور خیالات سے مستفید ہوا ہوں۔ یہ سب خیالات ان مقررین نے اپنے اپنے تجربات کی روشنی میں پیش کیے ہیں۔ پانچوں تقاریر انتہائی خیال انگیز اور سوچ و فکر کی دنیا کے لیے چیلنج کا درجہ رکھتی ہیں۔ کسی نے زیربحث موضوع کے ایک پہلو پر زیادہ زور دیا اور کسی نے دوسرے پر، تاہم ان کے مابین کئی ایک امور پر اتفاقِ رائے بھی موجود ہے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دیرپا ترقی، بلند مقاصد کی خاطر ذاتی مفاد کا معاملہ ہے۔ دو مقررین نے تو اظہار خیال کے دوران اس اصطلاح کو استعمال کیا، جب کہ میں نہیں سمجھتا کہ بقیہ تین کو اس سے کوئی اختلاف تھا، خود میں بھی اس خیال کے ساتھ متفق ہوں۔
ذاتی مفاد ہم سب کے اندر ایک طاقتور جذبے اور محرک کے طور پر کارفرما رہتا ہے۔ اگر ہم کسی طرح اپنے آپ کو اس بات پر قائل کر لیں کہ دیرپا ترقی ہمارے اپنے مفاد میں ہے تو ہم اس کے حصول کی جانب پہلا اہم قدم اٹھا لیں گے۔ لیکن ذاتی مفاد کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ باہم متقابل صورتوں میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ سب صحیح منزل کی جانب لے جانے والی بھی ہوں، نہ ان سب میں یہ امکان پایا جاتا ہے کہ آنے والی کئی نسلوں کی کئی جہتوں پر مشتمل ضروریات اور تقاضوں سے پوری طرح عہدہ برآ ہو سکیں۔ لہٰذا مجھے یقین ہے کہ دیرپا ترقی کی طویل شاہراہ پر گامزن رہنے کے لیے ہمیں جن مشکلات کا سامنا ہے، ان سے صحیح معنوں میں نمٹنے کے جذبے کو اپنے اندر بیدار کرنے کے لیے کسی تاخیر کے بغیر زیادہ گہرائی میں اتر کر ایک اخلاقی نصب العین کو اختیار کرنا ہو گا۔ اگرچہ اس دور میں انسانی زندگی کی روحانی جہتوں کے بارے میں بات کرنا فیشن کے بہت زیادہ خلاف ہو گیا ہے، لیکن آج میں یہی کرنا چاہتا ہوں۔
یہ تصور کہ بنی نوع انسان اور خالقِ کائنات کے مابین روزِ اول سے ایک مقدس عہد چلا آ رہا ہے، جس کے تحت ہم انسانوں کو روئے ارض پر قیادت کے مقام پر فائز کیا گیا ہے، تاریخ کے ہر دور میں بیش تر مذاہب اور روحانی افکار کا اہم باب رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ بھی، جن کے عقائد میں خالق کا کوئی وجود نہیں ملتا، اخلاقی اور روحانی بنیادوں پر یہی موقف اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ تو تھوڑے عرصے کی بات ہے کہ سائنسی عقلیات کے دھارے نے اس رہنما اصول کو اٹھا کر دور پھینک دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمیں دیرپا ترقی واقعی حاصل کرنا ہے تو پہلے عالمِ فطرت کے ساتھ، اور ایک دوسرے کے ساتھ معاملات میں روحانیت کے احساس کی بازیافت کرنا ہو گی، اور اس کی اہمیت کو دوبارہ تسلیم کرنا ہو گا۔ اگر ہم ان باتوں کو ضعیف الاعتقادی پر مبنی، یا خلافِ عقل قرار دینے کی روش پر قائم رہیں گے، اور اپنے لیے مقدس نہیں جانیں گے، تو پھر اس کائنات کی ہمارے لیے اس سے زیادہ کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے کہ یہ حیاتِ انسانی کے لیے امکانی طور پر دیرپا اور تباہ کن نتائج سے بھرپور ایک بہت بڑی تجربہ گاہ ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ روحانیت کے صحیح ادراک سے ہمیں یہ تسلیم کرنے میں مدد ملے گی کہ عالمِ فطرت کے اندر پایا جانے والا حسنِ توازن، نظم، اور ہم آہنگی، سب مل کر ہمارے عزائم کو ان حدود سے آشنا کرتے ہیں جن کے اندر رہتے ہوئے دیرپا ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہا جا سکتا ہے۔ چند معاملات ایسے ہیں جن میں سائنسی عقلیات کی سطح پر بھی حدود و فطرت سے آگاہ ہوا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر
  • ہم جانتے ہیں کہ دامنِ کوہ پر یکدم بہت زیادہ بھیڑوں کو گھاس چرنے کے لیے کھلا چھوڑ دینا، آخر کار بھیڑوں اور دامنِ کوہ میں سے کسی ایک یا دونوں کے لیے معکوس نتائج کا باعث ہو سکتا ہے۔
  • یا جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جراثیم کش اور اینٹی بائیوٹک ادویات کی کثرتِ استعمال سے قوتِ مدافعت کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
  • اب تو ہمیں کرہ ارض کی فضاؤں میں ضرورت سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے کے مکمل اور ہولناک نتائج کا شعور بھی حاصل ہونا شروع ہو گیا ہے۔
تاہم وہ اقدامات جو حدودِ فطرت کی پامالی سے جنم لینے والے نقصانات کے تدارک کے لیے کیے جا رہے ہیں، دیرپا نتائج کے حصول کے لیے ناکافی ثابت ہو رہے ہیں۔ اس کے باوجود ابھی تک بہت سے حلقے یہ رائے رکھتے ہیں کہ چونکہ پودوں اور جانوروں میں مصنوعی طریقوں کے ساتھ حیاتیاتی تبدیلیاں لانے کے نقصانات ٹھوس سائنسی سطح پر سامنے نہیں آئے لہٰذا ایسے کاموں کو جاری رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
اس طرح کے اور ایسے ہی امکانی طور پر دیگر نقصان دہ حالات میں محتاط روش اختیار کرنے کو بے پناہ عوامی حمایت حاصل ہے، لیکن حکومتی سطح پر مخالفت کا سامنا ہے۔ شاید اس لیے کہ ایسے کسی امکان کو تسلیم کر لینا کمزوری کی علامت اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی خواہش تصور کیا جائے گا۔ اس کے برعکس مجھے اس بات کا یقین ہے کہ بظاہر یہ ہماری داخلی قوت اور عقل و بصیرت کا مظہر ہو گا۔
بظاہر اس امر کی سائنسی شہادت کے باوجود کہ ہم اپنے ماحولیات کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ہم صورتحال کی اصلاح کے لیے کچھ زیادہ نہیں کر رہے، لیکن جب ہمارے پاس ایسی کوئی شہادت بھی نہ ہو تو ظاہر ہے خطرات کی موجودگی کے باوجود ہم سے کچھ نہ ہو پائے گا۔ اس طرزعمل کی ایک وجہ یہ غالب رجحان بھی ہے جو حیاتِ انسانی سمیت پورے عالمِ فطرت کو ایک میکانکی عمل سے زیادہ کا درجہ نہیں دیتا ہے۔ اگرچہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں فطری الٰہیات کے ماہرین مثلاً تھامس مارگن نے عالمِ فطرت کے کامل اتحاد، نظم، بصیرت اور ڈیزائن کی جانب توجہ دلائی تھی، لیکن برٹرینڈرسل جیسے سائنسدانوں نے اس پورے تصور ہی کو نامعقول کہہ کر مسترد کر دیا۔ رسل نے لکھا:
’’میرے خیال میں یہ کائنات منتشر اجزا کا مجموعہ ہے جن میں بغیر کسی تسلسل، ہم آہنگی یا نظم کے اتھل پتھل جاری ہے۔‘‘
سر جولین ہکسلے نے Creation - A Modern Synthesis میں لکھا ہے:
’’جدید سائنس کو نظریۂ تخلیق یا خدائی رہنمائی کو مسترد کر دینا چاہیے۔‘‘
لیکن آخر کیوں؟ جیسا کہ برسٹل یونیورسٹی کے پروفیسر ایلن لٹن نے تحریر کیا ہے:
’’نظریۂ ارتقاء انسانی ذہن کا وضع کردہ وہ تصور ہے جس میں کرہ ارض پر زندگی کے وجود میں آنے اور تسلسل کے ساتھ قائم رہنے کے عمل کی توجیہ کسی خالق کے بغیر پیش کی گئی ہے۔‘‘
کائنات میں کسی رہنما ہستی کو تسلیم کرنے سے ہمارا انکار یا اس میں کوتاہی کی وجہ سے عالمِ فطرت ہمارے لیے ایسا نظام ہو گیا ہے جس میں سہولت کی خاطر تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں، یا ایک ایسی جھنجھٹ ہے جس سے بچنے کے لیے تدابیر کی جائیں، اور جس میں رونما ہونے والے واقعات کا رخ ٹیکنالوجی اور انسانی علم کی مدد سے اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیں۔
فرٹز شمچر نے اس نقطۂ نظر میں پنہاں خطرات کا ادراک کر کے ہی یہ کہا تھا کہ:
’’سائنس دو طرح کی ہے: ایک تصرفات کی سائنس اور دوسری فہم و آگہی کی سائنس۔‘‘
ٹیکنالوجی کے اس عہد میں ہم اس حقیقت کو بڑی آسانی کے ساتھ فراموش کر چکے ہیں کہ بنی نوع انسان عالمِ فطرت کا حصہ ہے نہ کہ اس سے الگ کوئی چیز۔ اسی لیے ضروری ہو گیا ہے کہ ہم جو کچھ بھی کریں وہ جوہرِ فطرت (Gain of Nature) کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہو۔ جیسا کہ ماہر اقتصادیات ہرمن ڈلی نے نشاندہی کی ہے کہ عالمِ فطرت ہی وہ ماحول ہے جو معیشت کو حدود میں رکھتا ہے، اسے برقرار رکھتا ہے اور اس کی ضروریات پورا کرتا ہے، نہ کہ اس کے مخالف۔
ان میں سے آپ کے نزدیک کون سی دلیل غالب رہے گی؟ ایک زندہ واحد دنیا، یا ایسی دنیا جو منتشر اجزا سے محض اتفاقاً وجود میں آ گئی ہے، اور اسی وجہ سے ترقی کے نام پر اس کا رخ جدھر چاہے موڑ دیا جائے تو وہ جائز ہو گا۔ میرے نزدیک اس سوال پر دیرپا ترقی کا حقیقی انحصار ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم ازسرنو اپنے اندر عالمِ فطرت کے لیے احترام کے جذبات پیدا کریں، قطع نظر اس سے کہ یہ ہمیں فائدہ مند نظر آتا ہے یا نہیں۔ فلپ شیراڈ کے الفاظ میں
’’ہمیں خدا، انسان اور کائنات کے درمیان باہمی تعلق کے بارے میں زیادہ آگاہ ہونا چاہیے۔‘‘
سب سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہمیں اس دانائی اور حکمت کا پورا احترام و لحاظ کرنا چاہیے جو عالمِ فطرت کے سارے نظام کے پس پردہ کارفرما ہے اور جو لاکھوں سال کے تجربات کی بھٹی میں کندن بنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم فطرت کے عمل کو سمجھنے کے لیے سائنس کا استعمال احتیاط سے کریں، نہ یہ کہ فطرت ہی کو بدل کر رکھ دیں، جیسا کہ جنیاتی انجینئری کے ذریعے حیاتیاتی ارتقا کے عمل کو ایک نیا روپ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ نظریہ کہ کائنات کے مختلف اجزا ضبط و توازن کے ایک پیچیدہ نظام کے ذریعے منسلک ہیں، بڑی آسانی سے یہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ اب یہ غیر متعلقہ بات ہے۔ خواہ اس نظام میں بگاڑ پیدا کر کے ہم خود کو خطرے میں ڈالتے ہوں۔ چنانچہ اس عہد میں جب ہمیں یہ سبق دیا جاتا ہے کہ سائنس کے پاس ہر چیز کا جواب موجود ہے، تو جوہرِ فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر چلنے کا بھلا کیا امکان ہے؟ جوہرِ فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کی ایک مثال میں سمجھتا ہوں یہ ہے کہ جنیاتی انجینئری کے ذریعے فصلوں کو ترقی دینے کے لیے جو سرمایہ لگایا جا رہا ہے، اگر اس کا معمولی سا حصہ بھی زراعت کے اس روایتی نظام کو سمجھنے اور اسے مفید بنانے پر صرف کیا جائے جو آج تک وقت کی اہم تر آزمائش پر پورا اترتا ہے، تو کہیں زیادہ بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ اس بات کی تو بہت زیادہ شہادتیں سامنے آ چکی ہیں کہ متنوع فصلوں کی کاشت میں زیادہ علم اور کم کیمیائی مرکبات کے استعمال سے کیا کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب حقیقی طور پر قابل عمل طریقے ہیں، اگرچہ یہ ان طریقوں سے دور ہیں جو اس کلچر پر مبنی ہیں جس میں بڑے پیمانے پر تجارتی استحصال کو روا رکھا جا رہا ہے۔
ہمارے ممتاز ترین سائنس دانوں کو اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ ہماری دنیا میں بہت کچھ ہے جو ہم ابھی نہیں جانتے۔ ہمیں ایسی بہت سی مخلوقات کے بارے میں بھی علم نہیں جو اسی کائنات میں زندگی بسر کر رہی ہیں۔ جیسا کہ برطانیہ کے شاہی ماہر فلکیات سر مارٹن ریس کا کہنا ہے کہ:
’’اشیا کی پیچیدگی، نہ کہ ان کا سائز، انہیں سمجھنے میں مشکلات پیدا کرتی ہے۔‘‘
انہوں نے یہ بات ایسی مثال سے سمجھائی ہے جسے صرف ایک ماہر فلکیات ہی پیش کر سکتا ہے۔ سر مارٹن کا کہنا ہے کہ:
’’ایک تتلی سے آگہی حاصل کرنا نظامِ کائنات کو سمجھنے سے زیادہ بڑا حوصلہ شکن علمی چیلنج ہے۔‘‘
دوسرے سائنس دانوں نے، مثلاً ریچل کارسن نے بڑی وضاحت سے ہمیں یاد دلایا:
’’ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ گھاس کا ایک پتا کس طرح بنائیں؟‘‘
جب کہ سینٹ ماتھیو نے یہ اپنی بصیرت کی بنا پر کہا تھا:
’’سلیمان بھی اپنی تمام تر جاہ و حشمت کے ساتھ میدانوں میں کھلنے والے گل سوسن کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔‘‘
جب اتنی نامعلوم باتوں کا سامنا ہو تو نظامِ فطرت میں اپنے مقام کے بارے میں عجز، تحیر اور رعب کا احساس نہ ہونا مشکل ہے۔ یہ احساس قلبِ انسانی کی اس دانش سے جنم لیتا ہے جو ہم کو بعض وقت ۔۔۔ بتاتی ہے کہ ہم زندگی کے اسرار میں گرفتار ہیں، اور ضروری نہیں کہ ہر سوال کا جواب پا لیں۔ پھر شاید اس کی ضرورت بھی نہیں کہ ہر سوال کا جواب ہمیں لازماً ملے۔ قبل اس کے کہ ہم تعین کریں کہ خاص خاص حالات میں ہمیں کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟
اس حقیقت کو سترہویں صدی میں بلیس پاسکل نے یوں بیان کیا تھا:
’’یہ انسانی قلب ہے جو وجودِ خداوندی سے آشنائی کے تجربے سے گزرتا ہے نہ کہ عقل‘‘۔
تو کیا آپ کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہم میں سے ہر ایک کے دل کی اتھاہ گہرائیوں میں وہ وجدانی آگہی پائی جاتی ہے جس سے، اگر ہم اسے اجازت دیں، یہ قابلِ اعتماد رہنمائی ملے گی کہ ہماری سرگرمیاں کرہ ارض اور ضروریاتِ حیات کے طویل المیعاد مفاد میں ہیں یا نہیں؟ یہ آگہی، یہ قلب کی دانش، چاہے پتوں کی سرسراہٹ کی طرح دور دراز سر کی مدھم یاد سے زیادہ نہ ہو، لیکن ہمیں یہ یاد دلانے کے لیے کافی ہے کہ ہماری یہ زمین بڑی منفرد ہے اور اس کی دیکھ بھال ہمارا فرض ہے۔ دانش، ہمدردی اور رحم دلی ایسے اوصاف ہیں جن کا تجرباتی دنیا میں کوئی مقام نہیں۔ تاہم روایتی بصیرت یہ سوال ضرور اٹھاتی ہے۔ کیا ان اوصاف کو اپنائے بغیر ہم واقعی انسان ہیں؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔ سقراط سے جب دانش کی تعریف کرنے کو کہا گیا تو اس نے اپنا نتیجۂ فکر یہ پیش کیا:
’’جب آپ کو اس بات کی معرفت حاصل ہو جائے کہ آپ کچھ نہیں جانتے۔‘‘
میرے یہ کہنے کا کہ دیرپا ترقی کے حصول کے لیے ہمیں دل سے اٹھنے والی عقلِ سلیم کی جانب زیادہ متوجہ ہونا چاہیے، یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سائنسی تحقیق سے حاصل ہونے والی معلومات ہمارے لیے بنیادی اہمیت نہیں رکھتیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ میرے نزدیک تو ضرورت اس بات کی ہے کہ قلب سے اٹھنے والی فطری بصیرت اور سائنسی تجزیے پر مبنی عقلی بصیرت میں توازن پیدا کیا جائے۔ ان دونوں میں سے اگر ایک کو نظرانداز کر کے محض دوسری پر انحصار کیا گیا تو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ لہٰذا اپنے قلب و ذہن اور فطرت کے وجدانی اور عقلی، دونوں حصوں کو یکجا کر کے ہی اس مقدس عہد کا حق ادا کر سکیں گے جو خالقِ کائنات یا رب (Sustainer) نے (جیسا کہ عہدِ قدیم میں خالق کو کہا جاتا تھا) ہمیں ودیعت کیا ہے۔ جیسا کہ گرو ہارلم برنڈٹ لینڈ نے ہمیں توجہ دلائی کہ دیرپا ترقی کا تعلق محض عالمِ فطرت کے ساتھ نہیں بلکہ انسانوں کے ساتھ بھی ہے۔ اس اصول کا اطلاق ہر طرح صورتحال پر ہوتا ہے، خواہ ہم ان لاتعداد لوگوں پر نظر دوڑائیں جنہیں مناسب غذا اور صاف پانی میسر نہیں، یا وہ جو غربت زدہ ہیں اور بے روزگاری کا شکار ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ عالمگیریت اپنے جلو میں فوائد لے کر آئی ہے لیکن خطرات بھی لائی ہے۔ سر جان براؤن نے اپنے ’’نظریہ مربوط معیشت‘‘ یعنی ایسی معیشت جو اس سماجی اور ماحولیاتی حوالے کو تسلیم کرتی ہے جس کے اندر وہ روبہ عمل ہوتی ہے۔۔۔میں جس انکسار اور انسانیت کا اظہار کیا ہے، اس کے باوجود، یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ غریب ترین اور کمزور ترین عناصر ترقی سے نہ صرف بہت کم فائدہ اٹھائیں گے بلکہ اس سے بھی بدتر صورت حال سے دوچار ہو جائیں گے۔ یعنی اپنے روزگار اور کلچر دونوں سے محروم ہو جائیں گے۔
لہٰذا اگر ہم دیرپا ترقی کے بارے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ آگے کی جانب بڑھنے کے لیے قدم اٹھائیں تو تاریخ کے سبق اہم ہو جاتے ہیں۔ بلاشبہ ایک ایسے عہد میں جب اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت تک کسی بھی شے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی جب تک اس پر ’’ماڈرن‘‘ ہونے کی مہر نہ لگی ہو، ماضی کے سبق کا تذکرہ کرنا بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔ کیا یہ سبق ایک ایسے عہد میں سیکھے اور سکھائے جا سکتے ہیں جب علم کا اس طرح کا ذخیرہ منتقل کرنا ’’ترقی‘‘ کی راہ میں اکثر رکاوٹ گردانا جاتا ہے؟
اس میں شک نہیں کہ ہماری آنے والی نسلوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم میں ہمارے حاشیہ خیال سے بھی زیادہ مہارت حاصل ہو جائے گی۔ لیکن کیا ان کے اندر وہ بصیرت اور ضبطِ نفس بھی پیدا ہو گا جو اس مہارت کو، ہماری کامیابیوں اور ناکامیوں سے سبق حاصل کر کے، حکمت کے ساتھ استعمال کرنے کے لیے ضروری ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ نسلیں اس وقت تک اس سے محروم رہیں گی جب تک زیادہ کوشش کے ساتھ تعلیم کے لیے وہ نقطۂ نظر وضع نہیں کر لیا جاتا جس میں وجدان اور تعقل کا توازن پایا جاتا ہو۔ اس کے بغیر دیرپا ترقی کا خواب پریشان ہو کر رہ جائے گا۔ یہ محض ایسا بے معنی کھوکھلا منتر ہو جائے گا جسے مریضانہ طور پر بار بار پڑھا جائے تاکہ ہم اپنی حالت بہتر محسوس کریں۔
یقیناً ہماری سب سے بڑی ضرورت لوگوں کو تعلیم دینے میں ایسے توازن کو پیدا کرنا ہے جس میں ماضی کی عملی اور وجدانی بصیرت کو آج کی ٹیکنالوجی اور علوم کے ساتھ اس طرح ہم آہنگ کر دیا جائے کہ ایسی تعلیم کو حاصل کرنے والا انسان مرئی اور غیر مرئی دونوں دنیاؤں کے شعور سے فیضیاب ہو جائے، اور اس کی آگہی پورے کون و مکان کو اپنے احاطہ علم میں لینے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو۔
مستقبل میں ہمیں ایسے افراد کی ضرورت ہے جو اس حقیقت سے آشنا ہوں کہ
  • دیرپا ترقی محض ٹیکنالوجی کے مناسب اطلاق کا نام نہیں ہے۔
  • نہ اس چیز کا نام دیرپا ترقی ہے کہ انسانوں کا نقشہ بدل کر رکھ دیا جائے۔
  • اور نہ اس کو ترقی کہا جا سکتا ہے کہ حیاتیاتی انجینئری کے ذریعے عالمِ فطرت کو عالمگیر صنعتی ضروریات کے تحت بدلا جائے۔
  • بلکہ کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم عالمِ فطرت کے ساتھ دوبارہ منسلک ہو جائیں اور اس کی دیکھ بھال کا وہ گہرا فہم حاصل کریں جس کا طویل المیعاد بنیادوں پر ہمارا قائدانہ کردار تقاضا کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اپنے وسیع تر ماحول کو تباہی سے بچانے کے لیے ہمیں سیکولرازم اور روایتی مذہب کے درمیان تخریبی شگاف پر پل تعمیر کرنا ہو گا۔ اور اس کے لیے مادی اور روحانی دنیاؤں کی ایسی وحدت اور نظم کو دوبارہ دریافت کرنا ہو گا جیسا مربوط طب کی نامیاتی زراعت میں یا کسی عمارت کی تعمیر میں ہوتا ہے۔ میں وہ دن نہیں دیکھنا چاہتا جب ہمارے پوتے پوتیاں اور نواسے اٹھ کر ہم سے یہ سوال کریں کہ ہم نے اپنے قلوب کی بصیرت اور عقلی تجزیے کی دانش کی آواز کو کیوں نہیں سنا؟ ہم نے زندگی کے تنوع اور روایتی انسانی آبادیوں کے تحفظ پر زیادہ توجہ کیوں نہ دی؟ یا خلق کی رہنمائی کے حوالے سے اپنے کردار کے بارے میں زیادہ کھل کر کیوں نہیں سوچا؟ حیاتِ انسانی کے بارے میں محتاط رویے کو اختیار کرنے یا اس کے اندر توازن حاصل کرنے کا کوئی شوقیہ متبادل نہیں۔ اگر دیرپا ترقی کا حصول مقصود ہے تو واحد راہِ عمل یہی ہے۔
(بہ شکریہ ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور)



تھامس مورگن Thomas Morgan
سر جولین ہکسلے Sir Julian Huxley
فرٹز شمچر Firtz Schamacher
ہرمن ڈلی Herman Daly
فلپ شیراڈ Philip Sherrad
مارٹن ریس Martin Rees
ریچل کارسن Rachel Carson
سینٹ ماتھیو Saint Matthew
بلیس پاسکل Blaise Pascal
گرو ہارلم برنڈٹ لینڈ Gro Harlem Brundtland
سر جان براؤن Sir John brown

پانی کا متوقع عالمی بحران اور استعماری منصوبے

منو بھائی

یہ عالمی بینک کی پیشین گوئی نہیں دعوٰی ہے کہ آئندہ عالمگیر جنگ پانی کے تنازع پر ہو گی اور اگر خدانخواستہ اس میں ایٹمی اسلحہ استعمال ہوا تو یہ آخری انسانی جنگ بھی ثابت ہو سکتی ہے کہ جس کو یاد رکھنے والا بھی کوئی نہیں بچے گا۔
میرے فرخ سہیل گوئندی جیسے مہربانوں اور ای میلوں اور ویب سائٹوں کے سراغ رسانوں کے فراہم کردہ حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ کرہ ارض نہایت تیزی سے زندگی کے سب سے بڑے وسیلے یعنی تازہ پانی سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ مگر یہ پانی پیاسے انسانوں اور جانداروں کی پیاس نہیں بجھا رہا۔ انسانی مصیبتوں پر پلنے والے عالمی سرمایہ داری نظام کی بھوک مٹانے کے کام آ رہا ہے، اور ساتھ ہی بھوک بھڑکانے کا سامان بھی پیدا کر رہا ہے۔ اس نظام کی کوکھ سے جنم لینے والی ملٹی نیشنل کارپوریشنیں یہ سوچ سوچ کر خوش ہو رہی ہیں کہ وہ وقت کچھ زیادہ دور نہیں ہو گا جب پینے کا پانی تیل سے بھی زیادہ قیمتی ہو جائے گا۔ اور دریاؤں، جھیلوں، ندیوں اور نالوں کی نج کاری ہو جائے گی اور انہیں محض ملٹی نیشنل کمپنیاں ہی خرید سکیں گی۔ اور پھر ضرورتمند ملکوں کے ہاتھ منہ مانگے داموں فروخت کریں گی اور لوگ دو گھونٹ پانی کے عوض اپنا سب کچھ لٹانے پر تیار ہوں گے۔ چنانچہ انہوں نے ابھی سے اس کی تیاریاں شروع کر دی ہیں جن کا آگے چل کر ذکر آئے گا۔
یہ مفروضہ بالکل غلط ہے کہ دنیا میں پانی کے بے پناہ وسائل موجود ہیں۔ درحقیقت دنیا بھر کے آبی وسائل کا ایک فیصد حصے کا نصف تازہ پانی ہے جو انسانی استعمال میں آ سکتا ہے۔ باقی پانی سمندروں کی تحویل میں، قطبین کے برف زاروں کے قبضے میں، اور کوہستانی گلیشیروں کی قید میں ہے۔ استعمال شدہ پانی کی تجدید اور حیاتِ نو صرف بارشوں کی مرہونِ منت ہے۔ مگر پانی کے استعمال کی رفتار اس کی تجدید کی رفتار سے کہیں زیادہ ہے۔ خاص طور پر پانی کے صنعتی استعمال کے بعد اس کے استعمال میں ہر بیس سال کے بعد دوگنا اضافہ ہو رہا ہے جو انسانی آبادی میں اضافے کی رفتار سے دوچند ہے۔
تازہ ترین معلومات کے مطابق اس زمین پر موجود نوے فیصد تازہ پانی گلوبل انڈسٹری، ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ، کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور زرعی صنعتوں کے لیے زیادہ سے زیادہ خام مال فراہم کرنے والی مشینی کاشت میں استعمال ہو رہا ہے، اور صرف ۱۰ فیصد تازہ پانی انسانی استعمال میں آ رہا ہے۔ دنیا کے چھ ارب انسانوں میں سے ایک ارب بدنصیبوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ ۶۵ فیصد تازہ پانی صرف مشینی کاشت پی جاتی ہے جو چھوٹی، خودکفیل، روایتی زراعت کے مقابلے میں تین گنا زیادہ پانی استعمال کرتی ہے۔ ۲۵ فیصد تازہ پانی ہائی ٹیک اور کمپیوٹر انڈسٹری میں استعمال ہوتا ہے، کیونکہ سلیکان چپس کی تیاری میں بے پناہ صاف پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جتنا تازہ پانی سلیکان چپس کو پلایا جاتا ہے اتنا اس کرہ ارض پر بسنے والے چھ ارب انسانوں کو نہیں ملتا۔
کچھ عرصہ پہلے یہی باتیں بائیں بازو کے دانشوروں کے قلم سے نکل کر سامراجی حلقوں کو تکلیف پہنچاتی تھیں مگر اب وہی باتیں خود سامراجی یونیورسٹیوں کے پروفیسر لکھ رہے ہیں کہ جو صنعتی کثافت گلوبل وارمنگ کی صورت میں دنیا میں تباہی مچا رہی ہے وہی ہوسِ زر کرہ ارض کا پانی بھی نچوڑ رہی ہے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ پانی کو صنعتی جنس بنانے والے صنعتی ممالک آئندہ ۲۵ سالوں میں پانی کے  صنعتی استعمال میں دوگنا اضافہ کر دیں گے، جبکہ دنیا کی دو تہائی آبادی پیاس کی شدت سے تڑپ رہی ہو گی۔ اور اقوامِ غالب کی ملٹی نیشنل کارپوریشنیں دنیا بھر کے آبی وسائل کو کمرشلائز کرنے کے لیے ان پر قبضہ کر چکی ہوں گی، اور انسانی مصائب کے ذریعے کھربوں ڈالر کمانے کا سوچ رہی ہوں گی۔ جیسے کہ انہوں نے تیل کے بحران کے دنوں میں تیل استعمال کرنے کے علاوہ اس کی کمائی کو بھی استعمال کی اور اب بھی کر رہی ہیں۔
امریکی کمپیوٹر ٹیکنالوجی محض سستی لیبر کی تلاش میں ہندوستان اور دیگر ایشیائی ملکوں کا رخ کر رہی ہے تاکہ اپنے منافعوں کی شرح برقرار رکھ سکے۔ اب اس کی کارپوریشنیں ایشیا کی ہائی ٹیک انڈسٹریز اور سلیکان ویلی کو پانی فراہم کرنے کا ٹھیکہ لینے کا پروگرام بھی بنا رہی ہیں، کہ جیسے اور جہاں سے بھی کچھ نچوڑا جا سکتا ہے نچوڑ لیا جائے۔ 
چنانچہ بہت جلد چشم زمانہ کو یہ منظر دیکھنے کو ملے گا کہ شمالی امریکہ کی جھیلوں کا پانی بحر الکاہل سے ایک بہت بڑے سپر ٹینک کی صورت میں گزر رہا ہو گا اور اس کے پیچھے ایک بہت بڑے غبارے میں جھیلوں کا پانی بھرا ہوا ہو گا، جو ایشیا میں سلیکان چپس کی تیاری میں استعمال ہونے جا رہا ہو گا، اور اس قدر مہنگا ہو گا کہ کمپیوٹر فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور خرید کر نہیں پی سکیں گے اور اپنے خشک ہوتے ہوئے جوہڑوں سے رجوع کریں گے۔ یہ باتیں مضحکہ خیز لگتی ہیں نا! مگر ان باتوں سے عالمی سرمایہ داری نظام کی ہوس زر جھلکتی ہے اور بتاتی ہے کہ اس نظام کے یہی ادارے اس کی موت کو اور زیادہ قریب لا رہے ہیں۔
امریکنائزیشن عرف گلوبلائزیشن کے خلاف میرے بعض کالم پڑھ کر بائیں بازو کے اکثر سابق انقلابی اور حال ’’این جی او آئز‘‘ دوست یہ پھبتی کستے ہیں کہ اس میدانِ عرفات میں شیطان کو کنکریاں مارنے والے تم تنہا رہ گئے ہو۔ مگر میرے خیال میں میرے ان انقلابی دوستوں نے ماسکو اور بیجنگ کو قبلہ بنا کر جو حماقت فرمائی تھی ویسی ہی غلطی انہوں نے یہ کی ہے کہ انقلابی سے اصلاحی بننے کے لیے بہت ہی غلط وقت چنا ہے۔ کیونکہ جیسے ایک خاص حد عبور کر جانے والے گناہ گاروں کے لیے توبہ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں، ویسے ہی تباہی کے کنارے پہنچ جانے والوں کے لیے اصلاح کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔ اور مغربی سامراجی نظام بھی اب وہاں پہنچ چکا ہے، اور ثبوت اس کا یہ ہے کہ ہماری این جی اوز کے ڈونرز مغربی صنعتی ملکوں کے اپنے دانشوروں نے بھی وہی کچھ کہنا اور لکھنا شروع کر دیا ہے جو ساٹھ کی دہائی میں بائیں بازو کے دانشور لکھ کر زیرعتاب آ جاتے تھے۔
یہ میں نہیں کہہ رہا خود مغربی دانشور کہہ رہے ہیں کہ مغربی صنعتی ملکوں نے گلوبلائزیشن کی آڑ میں دنیا بھر کی منڈیوں پر قبضہ جمانے کے لیے اپنی پیداواری قوت کو حد سے زیادہ بڑھاتے ہوئے کرہ ارض کو جس ظالمانہ طریقے سے کاربن ڈآئی آکسائیڈ میں لپیٹ کر گلوبل وارمنگ کے جہنم میں دھکیل دیا ہے، اور پھر مشینی کاشت، مصنوعی کھاد، کیڑے مار دوائیوں کے زہر سے گرم زرعی ملکوں کی زرخیز زمینوں کو جس بے دردی سے بانجھ بنایا، اسی ہوسناک طریقے سے پینے کے صاف اور تازہ پانی کو صنعتی استعمال میں لا کر کرہ ارض پر زندگی اور ہریالی کے مستقبل کو اور بھی زیادہ تاریک کر دیا ہے۔
دائیں بازو کے مغربی دانشور اور پروفیسر حضرات اب یہ بھی لکھتے ہیں کہ گزشتہ صدی میں دریاؤں کے بند باندھنے، ڈیم تعمیر کرنے اور نہریں کھودنے کے ذریعے پانی کے قدرتی وسائل کو بری طرح متاثر کیا گیا ہے۔ اور اب ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ، گلوبل انڈسٹریز اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں تازہ پانی کے بے دریغ استعمال نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ سرمایہ داری نظام اور سامراجیت کے اتصال سے پیدا ہونے والی اور گلوبلائزیشن کے گہوارے میں پلنے والی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے آئندہ ارادے عالمی سطح پر آبی وسائل پر قبضہ کرنے، ان کی اجارہ داریاں قائم کرنے، انہیں کرشلائز کرنے، اور ایک ملک کا پانی دوسرے ملکوں میں بیچنے اور اس کے ذریعے کھربوں ڈالر کمانے کے ہیں، اور ان کے ان ارادوں پر عملدرآمد بھی شروع ہو چکا ہے۔ اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن WTO جو کہ UNO جیسا امریکہ کا بغل بچہ ہے، پانی جیسی قدرتی نعمت کو صنعتی ملکوں کی دولت میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کرتے ہوئے پانی کو صنعتی اور تجارتی جنس قرار دے چکا ہے۔ چنانچہ اب اگر پاکستان کی حکومت چاہے تو غیر ملکی قرضے ادا کرنے کے لیے ’’نیسلے‘‘ کے ہاتھ دریائے سندھ بھی فروخت کر سکتی ہے۔ کس کے بعد ’’واپڈا‘‘ کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ذوالفقار علی خان کو کالاباغ ڈیم کے لیے پانی مذکورہ ملٹی نیشنل کارپوریشن سے خریدنا پڑے گا، یا پھر بارانِ رحمت کی امید میں آسمان کی طرف دیکھنا پڑے گا۔ وہ بھی اس صورت میں کہ کسی ملٹی نیشنل کارپوریشن نے بادلوں کا سودا نہ کر لیا ہو، اور بادلوں کو حرکت میں لانے والی ہواؤں پر اجارہ داری قائم نہ کر لی ہو۔ اندیشہ ہے کہ اس وقت تک کوئی کارپوریشن سورج کی دھوپ پر بھی قبضہ کر چکی ہو گی۔ چنانچہ پوری دنیا بھٹہ مزدوروں سے لے کر ’’پاسکو‘‘ تک اور وزارتِ خوراک و زراعت سے واپڈا تک سب آسمانوں کی بجائے ان کارپوریشنوں کا منہ دیکھنے پر مجبور ہو گی، جن کے بارے میں قرآن پاک میں آیا ہے کہ وہ زمین پر خدا بن بیٹھے اور اپنے انجام کو آواز دی۔
اوپر بتایا جا چکا ہے کہ دنیا بھر کے موجودہ آبی وسائل کے ایک فیصد حصے کا آدھا پانی انسانی استعمال کے قابل ہے۔ اس نصف فیصد صاف پانی اور تازہ پانی میں سے نوے فیصد دنیا کی بڑی صنعتوں اور مشینی کاشت میں استعمال ہوتا ہے، اور صرف دس فیصد دنیا کے پانچ ارب انسانوں کے کام آتا ہے، جبکہ ایک ارب لوگوں کو پینے کا صاف پانی نصیب نہیں ہوتا۔ اس وقت سپرپاور کے اپنے پانی کی صورتحال یہ ہے کہ امریکہ کے دریاؤں کا صرف دو فیصد پانی وہاں کے ۶۳۷۵ ڈیموں سے باہر رہ گیا ہے۔ سعودی عرب میں پینے کا جو پانی رہ گیا ہے وہ صرف پچاس سالوں کے لیے ہے۔ ۴۰۱۰ ڈیموں کے ملک ہندوستان میں لوگوں کو پینے کا پانی ان کی ۲۵ فیصد کمائی خرچ کرنے کے عوض ملتا ہے۔ اس وقت جنگل کی آگ کی زد میں آئے ہوئے امریکہ کی پچاس فیصد جھیلیں خشک ہو چکی ہیں۔ میکسیکو کے دریاؤں کا سارا پانی مشینی کاشت اور صنعتی پیاس بجھاتا ہے، اور بچے کوکاکولا اور پیپسی پر گزارہ کرتے ہیں۔ زیرزمین پانی کے بہت زیادہ خارج ہو جانے کی وجہ سے بنکاک کا شہر زمین میں دھنس رہا ہے۔ انگلستان کے دریاؤں کی گہرائی ایک تہائی رہ گئی ہے۔
مغرب کے دائیں بازو کے دانشور تو یہی کہہ سکتے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ تسلیم کرو کہ پانی تمام مخلوق کی زندگی ہے۔ کرہ ارض کے تمام قدرتی وسائل اس پر بسنے والوں کی مشترکہ ملکیت ہے۔ قدرت کی نعمتوں کو دولت کمانے والی جنس نہیں بنایا جا سکتا۔ پانی، ہوا، بادل، دھوپ، چاندنی پر کسی کی اجارہ داری قائم نہیں ہو سکتی۔ منڈی کی معیشت سے زیادہ اہم ضرورت کی معیشت ہے، مگر مغربی دانشور یہ نہیں بتا سکتے کہ ان کے ان مطالبات پر کون غور کرے گا اور ان سے یہ بھی کوئی نہیں پوچھے گا کہ کیا یہی وہ باتیں نہیں تھیں جو کارل مارکس نے پچھلی صدی کے ایسے ہی موسم میں کہی تھیں اور ان پر عملدرآمد کا طریقہ بھی بتایا تھا کہ لوگوں کے مطالبات بھیک کی صورت میں نہیں مانے جاتے۔
(بہ شکریہ جنگ)

عالمی منظر نامہ

ادارہ

جنوبی افریقہ نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کر دی

پریٹوریا (کے پی آئی) جنوبی افریقہ نے فلسطینی مملکت کے اعلان کے بارے میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر یاسر عرفات کے منصوبے کی حمایت کر دی ہے۔ جنوبی افریقہ کے صدر تھابو نے جمعرات کے روز یہاں یاسر عرفات سے ملاقات میں کہا کہ اب فلسطین کی آزادی کے اقدام کی حمایت کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ مسٹر عرفات نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ امن کا سمجھوتہ ہو یا نہ ہو، انہیں تیرہ ستمبر کو فلسطینی مملکت کا اعلان کرنے کا حق حاصل ہے۔ جنوبی افریقہ کے صدر نے یاسر عرفات کو یقین دلایا ہے کہ میرا ملک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرے گا۔ یاسر عرفات نے مسٹر منڈیلا سے بھی ملاقات کی۔ منڈیلا نے کہا کہ گزشتہ سال اسرائیلی حکومت نے امن کی تجویز مسترد کر دی تھی جو میں نے پیش کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ مصر، فرانس، امریکہ، برطانیہ اور سعودی عرب کے رہنماؤں کو ٹیلی فون کریں گے اور ان پر زور دیں گے کہ وہ قیامِ امن کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے مربوط کوشش کریں۔
(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۴ اگست ۲۰۰۰ء)

کسوو کے جنگی مجرم

مترویشیا (اے این این) کوسووا کے سنگین جنگی جرائم میں ملوث تین سرب باشندے اقوامِ متحدہ کی تحویل سے فرار ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق ان تینوں ملزمان کو اقوام متحدہ کی امن فوج نے مسلمانوں کے قتل عام کے جرم میں گزشتہ سال کوسووا سے گرفتار کیا تھا۔ گزشتہ ایک مہینے سے بیمار ہونے کے باعث منقسم شہر مترویشیا کے سرب کنٹرول والے حصے کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے اور ہسپتال کے اس حصے میں فوج کا سخت پہرا تھا۔ اقوام متحدہ کے ترجمان نے کہا کہ آئندہ جنگی جرائم میں ملوث افراد کو اس ہسپتال میں نہیں لایا جائے گا۔
(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۶ اگست ۲۰۰۰ء)

بھارتی حکومت اور حزب المجاہدین میں مذاکرات کا آغاز

سری نگر (اے ایف پی + رائٹر + اے پی) بھارتی حکومت اور حزب المجاہدین فائربندی کے لیے سمجھوتہ کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں اور اس ضمن میں چھ رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے جس کا اجلاس جلد سری نگر میں ہو گا۔ اس امر کا اظہار بھارت کے داخلہ سیکرٹری کمل پانڈے نے یہاں نہرو گیسٹ ہاؤس میں حزب المجاہدین کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد ایک بیان میں کیا۔ انہوں نے حزب کے رہنماؤں کے ساتھ اپنی ستر منٹ کی بات چیت کو مثبت قرار دیا اور دیگر مجاہد گروپوں سے بھی کہا کہ وہ امن کے عمل میں شریک ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم نے امن کے عمل کی بنیاد کے لیے طریقہ کار طے کرنے سے اتفاق کیا ہے، اور جو عناصر اس کی مخالفت کریں گے وہ تنہا رہ جائیں گے۔ بھارتی سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ مجاہدین کے ساتھ مذاکرات کے نتیجہ میں بنائی گئی کمیٹی ہم آہنگی اور تعاون کے جذبہ سے کام کرے گی اور جنگ بندی پر مؤثر عملدرآمد کے لیے طریقہ کار کو حتمی شکل دے گی۔ کمل پانڈے نے کہا کہ اس وقت پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ فریقین نے چھ چھ رکنی کمیٹیاں بنانے سے اتفاق کیا ہے۔
واضح رہے کہ بھارتی خارجہ سیکرٹری کے ساتھ مذاکرات سے چند گھنٹے قبل پاکستان میں حزب المجاہدین کے ترجمان سلیم ہاشمی نے کہا تھا کہ اگر بھارت نے ۸ اگست کو شام ۵ بجے تک غیر مشروط سہ فریقی مذاکرات کے لیے کوئی اقدام نہ کیا تو جنگ بندی ختم کر دی جائے گی اور نتائج کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہو گی۔
(روزنامہ جنگ ۔ ۴ اگست ۲۰۰۰ء)

انڈونیشیا میں مسلم مسیحی فسادات

جکارتہ (اے این این) انڈونیشیا میں عیسائی مسلم فسادات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ تازہ فسادات میں ۲۸ افراد ہلاک اور درجنوں شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق انڈونیشیا کے شورش زدہ جزیرے ملوکا میں حالات کشیدہ ہو گئے ہیں اور تازہ فسادات عیسائیوں کی جانب سے مسلمانوں کے مختلف گاؤں پر حملوں کے بعد خونریز جنگ کی شکل اختیار کر گئے۔ عیسائیوں کی جانب سے مسلمانوں کے گاؤں پر حملے کے بعد مسلم جانبازوں نے ملوکا کے بڑے شہر امبوں کے شمال مشرق میں ۴۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع عیسائیوں کے گاؤں وبائی پر حملہ کر کے ۱۸ عیسائیوں کو ہلاک کر دیا جبکہ حملے میں ۱۰ مسلمان بھی شہید ہوئے۔ علاوہ ازیں سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ اس حملہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔ ادھر کشیدہ حالات کے پیش نظر علاقے میں کرفیو لگا دیا گیا ہے۔
(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۔ ۵ اگست ۲۰۰۰ء)

جانباز ۷ ہزار : روسی فوج نے ۱۴ ہزار شہید کر دیے

ماسکو (اے ایف پی) روسی فوج کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف جنرل ویلاری مانیلوو نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک برس کے دوران روسی فوج نے داغستان اور چیچنیا میں ۱۴ ہزار جانبازوں کو شہید کر دیا۔ مانیلوو کے مطابق ساڑھے ۱۳ ہزار جانباز ۲ اگست ۱۹۹۹ء سے ۲ اگست ۲۰۰۰ء کے درمیان مارے گئے۔ اے ایف پی نے بتایا کہ مرنے والوں کی تعداد اس سے دگنا ہے جو تعداد روسی حکام چیچنیا میں متحرک جانبازوں کی بتاتے رہے ہیں۔
(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۳ اگست ۲۰۰۰ء)

فرانس نے عراق پر عائد پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کر دیا

پیرس (آن لائن) فرانس نے عراق پر عائد اقتصادی پابندیوں کو ظالمانہ قرار دیتے ہوئے انہیں فوری طور پر اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ فرانس کے وزیرخارجہ ہوبرٹ و ذرائن نے کہا کہ یہ پابندیاں ظالمانہ، غیر مؤثر اور خطرناک ہیں جس سے سینکڑوں عراقی لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ بھوک و افلاس کا شکار عراقی عوام اور عراق کی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے ان پابندیوں کو اٹھا لے۔
واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل فرانس نے عراق پر امریکی اور برطانوی فضائی حملوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے انہیں بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ فرانس اور روس عراق پر اقوام متحدہ کی امریکی حمایت یافتہ اقتصادی پابندیوں کے خلاف ہیں اور ان کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ یہ پابندیاں عراق کے کویت پر حملہ کی وجہ سے امریکہ نے عائد کر رکھی ہیں، جس سے اب تک سینکڑوں عراقی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے عراقی امور کے انچارج آج کل عراق کے دورے پر ہیں جہاں وہ اقوام متحدہ کے آپریشن کی انسپیکشن کر رہے ہیں۔
(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۔ ۴ اگست ۲۰۰۰ء)

قازقستان کی ایٹمی تجربہ گاہ تباہ کر دی گئی

الماتا (مانیٹرنگ ڈیسک) دنیا کے چوتھے بڑے ایٹمی ملک میں قائم دنیا کی سب سے بڑی ایٹمی تجربہ گاہ کو امریکی خواہش پر ہفتہ کے روز بین الاقوامی سائنس دانوں نے تباہ کر دیا۔ اس مقصد کے لیے ۱۰۰ ٹن دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔ امریکی ادارے پینٹاگون کے اہلکار نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ نے سابقہ سوویت یونین کے سیمی پلانٹک میں واقع سب سے بڑی اور آخری ایٹمی تجربہ گاہ کو تباہ کر دیا ہے جہاں ۱۹۴۹ء سے لے کر ۱۹۸۹ء تک ۵۰۰ ایٹمی تجربات زیر زمین کیے گئے۔ امریکہ نے اس تجربہ گاہ کو تباہ کرنے کے لیے ۱۹۹۰ء میں قازقستان کو ۷۰ کروڑ ۲۰ لاکھ ڈالر امداد دی تھی۔
واضح رہے کہ امریکہ ساری دنیا پر یہودی تسلط کا خواہاں ہے اور اس خواہش کی تکمیل کے لیے نیو ورلڈ آرڈر کے تحت وہ اپنے علاوہ کسی دوسرے ملک کے پاس ایٹمی قوت نہ ہونے کا خواہاں ہے۔
(ہفت روزہ الہلال اسلام آباد ۔ ۴ اگست ۲۰۰۰ء)

بیت المقدس میں امریکی سفارتخانہ

تل ابیب (کے پی آئی) اسرائیل کے وزیر اعظم ایہود بارک نے کہا ہے کہ امریکہ نے ۲۰ جنوری کو اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسرائیلی ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے ایہود بارک نے کہا کہ امریکہ ۲۰ جنوری تک بیت المقدس میں جگہ خرید کر اپنا سفارتخانہ منتقل کرے گا۔ سفارت خانے کی یہ منتقلی اس دن عمل میں آئے گی جس دن صدر کلنٹن کی صدارت کی میعاد ختم ہو گی۔
جب تصدیق کے لیے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویکٹوریہ ڈی لانگ اور وائٹ ہاؤس کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا، لیکن امریکہ اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرے گا اور اس کے بارے میں موجودہ سال کے آخر تک فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ ایہود بارک نے کہا کہ مشرقی وسطیٰ امن مذاکرات کی ناکامی کے  بعد سفارتخانے کی منتقلی کا فیصلہ ایک مثبت پیشرفت ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے یہ بیان سخت گیر عناصر کو خوش کرنے کے لیے دیا ہے جو کیمپ ڈیوڈ مذاکرات کے دوران ایہود بارک سے بہت نالاں ہو گئے تھے۔ کلنٹن کے سفارتخانے کو منتقل کرنے کے اعلان کے بعد اسلامی جہادی تنظیموں خاص کر حماس اور حزب اللہ کے اہلکاروں نے دھمکی دی ہے کہ اگر امریکہ نے سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کیا تو اسے ملبے کا ڈھیر بنا دیا جائے گا اور امریکی سفارت کاروں کی لاشیں امریکہ بھیج دی جائیں گی۔
کیمپ ڈیوڈ مذاکرات کی ناکامی کے بعد صدر کلنٹن نے یاسر عرفات کو فلسطینی خودمختاری کا اعلان کرنے سے منع کر دیا تھا لیکن یاسر عرفات نے عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ۳۱ ستمبر کو فلسطینی آزادی کا اعلان کرنے والے ہیں۔
(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۔ ۳ اگست ۲۰۰۰ء)

فلپائن میں مسلم حریت پسندوں کی کاروائیاں

منیلا (آن لائن) فلپائن کے جنوبی جزیرے مندانیو میں مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے علیحدگی پسندوں اور سرکاری فوج کے درمیان مختلف جھڑپوں میں سولہ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ سرکاری فوج کے ترجمان کے مطابق مورو اسلامک لبریشن فرنٹ (ایم آئی ایل ایف) کے سو کارکنوں نے کیمپ راجموڈا کی فوجی ٹریننگ بیس پر قبضہ کرنے کے لیے اچانک حملہ کر دیا۔ سرکاری فوج نے اس حملے کو ناکام بنانے کے لیے توپ خانہ اور ہیلی کاپٹر گن شپ کا استعمال کیا۔ فریقین کے درمیان کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی جھڑپ کے دوران سات سرکاری فوجی اور چھ آزادی پسند ہلاک ہو گئے۔ تاہم مسلم آزادی پسند ٹریننگ بیس پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے۔ ترجمان کے مطابق کارمن نامی قصبے میں مسلم گوریلوں اور سرکاری فوج کے درمیان ایک علیحدہ جھڑپ میں پانچ سرکاری فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔
(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۔ ۳ اگست ۲۰۰۰ء)

اسامہ بن لادن کو امریکی وارننگ

واشنگٹن (رائٹرز) امریکہ کی وزیر خارجہ میڈین البرائٹ نے کہا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پابندیوں سمیت تمام اقدامات جاری رکھے گا۔ گزشتہ روز اسپین کے وزیرخارجہ جوزف پک کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، آخرکار اسامہ اور ان کے ساتھیوں کے لیے زمین تنگ کر دی جائے گی اور انہیں بھاگنے یا چھپنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ دہشت گردوں کو سر نگوں کرنے کے لیے اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر کوششیں جاری رکھے گا اور ایک دن آئے گا جب ہماری کوششوں کو محدود کرنے والی کوئی قوت موجود نہیں ہو گی اور ہم جس حد تک چاہیں انہیں تعاون پر آمادہ کر سکیں گے۔
(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۵ اگست ۲۰۰۰ء)

ایرانی ایڈیٹر اور عالمِ دین گرفتار

تہران (اے ایف پی) ایرانی پولیس نے ایرانی ماہنامہ ’’ایران فردا‘‘ کے ایڈیٹر اور ممتاز عالم دین حسن یوسفی عشق دری کو ملکی سلامتی اور اسلام کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کے الزام میں گزشتہ روز بیرون ملک سے واپسی پر گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔ الزامات ثابت ہو گئے تو انہیں دس سال قید کے علاوہ زمرہ علماء سے خارج کیا جا سکتا ہے۔
ادھر ایک اور اعتدال پسند ہفت روزہ ’’توانا‘‘ کو علماء اور سیاست دانوں کے کارٹون شائع کرنے کے الزام میں بند اور اس کے ایڈیٹر ایرج راستگر کو چارج شیٹ کر دیا گیا ہے۔
(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ؟ اگست ۲۰۰۰ء)

شام میں علماء اہل سنت کی رہائی

دمشق (فارن ڈیسک) شام کے نئے صدر بشیر الاسد کے حکم پر ملک بھر کی جیلوں سے سینکڑوں قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے جن میں درجنوں سیاسی و مذہبی رہنما بھی شامل ہیں۔ الخلیج کی رپورٹ کے مطابق نئے صدر کے حکم پر ۱۸ سال سے قید اسلامی جماعتوں کے رہنماؤں اور کمیونسٹ کارکنوں کو بھی رہائی ملی ہے۔ رہا ہونے والوں میں اخوان المسلمون کے ممتاز رہنما صباح کریمی اور احیائے اسلام کے ابو عبد اللہ بھی شامل ہیں جنہیں ۱۹۸۲ء میں اہل سنت کے خلاف بڑے آپریشن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ اخبار کے مطابق اب بھی شام کی جیلوں میں سینکڑوں اہل سنت رہنما اور دینی قائدین قید ہیں۔
ـ(ہفت روزہ الہلال اسلام آباد ۔ ۴ اگست ۲۰۰۰ء)

افغانستان میں پوست کی کاشت پر پابندی

ڈیرہ اسماعیل خان (کے پی آئی) افغانستان میں افیون (پوست) کی کاشت پر طالبان حکومت کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں کے ضمن میں طالبان کے زیرکنٹرول صوبوں کے گورنرز کو باضابطہ طور پر سرکلر جاری کر دیے گئے ہیں جس میں اس پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزائیں دینے کا حکم دیا گیا۔
اس سلسلہ میں طالبان کے سپریم لیڈر ملا محمد عمر کی جانب سے ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں آئندہ کوئی افیون کاشت نہیں کرے گا۔ اعلامیہ میں فیصلے کو حتمی قرار دیتے ہوئے تمام افغان کاشتکاروں کو سختی سے متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ ملا محمد عمر کے اعلامیہ میں واضح کیا گیا ہے کہ اس فیصلے کا اطلاق تمام افغانستان پر ہو گا اور فیصلے کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں گی۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مخالفین کے علاقوں پر طالبان کے کنٹرول کے بعد وہاں بھی یہ فرمان فوری طور پر نافذ العمل ہو گا اور ان علاقوں میں افیون کاشت تلف کر دی جائے گی۔ اعلامیہ میں افغان صوبوں کے گورنروں کو اور وزارتِ زراعت کو افغانستان میں افیون کے متبادل کاشت کے منصوبوں پر کام شروع کرنے کا حکم بھی ملا محمد عمر کی جانب سے دیا گیا۔
واضح رہے کہ طالبان تحریک کے سپریم لیڈر کا یہ اعلامیہ ایک ایسے موقع پر جاری ہوا ہے جب افیون کی کاشت میں محض ایک ماہ باقی ہے۔
(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۔ ۶ اگست ۲۰۰۰ء)

یوسف کذاب کو سزائے موت

لاہور (اپنے نامہ نگار سے) ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج میاں محمد جہانگیر نے توہین رسالت کے مقدمات میں ملوث محمد یوسف علی کو سزائے موت، ۳۵ سال قید اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا کا حکم سنایا ہے۔ ملزم کے خلاف ۲۹ مارچ ۱۹۹۷ء کو مجلس تحفظ ختم نبوت لاہور کے جنرل سیکرٹری مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی نے تھانہ ملت پارک میں مقدمہ درج کرایا تھا کہ یوسف علی نے نبوت کا دعویٰ کر رکھا ہے اور اس حوالے سے وہ قابلِ اعتراض تقاریر کرتا ہے۔
گزشتہ روز فاضل عدالت نے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کو دفعہ ۲۹۵۔سی کے تحت سزائے موت، ۲۹۵۔اے کے تحت ۱۰ سال قید اور ۵۰ ہزار روپے جرمانہ، دفعہ ۲۹۸۔اے کے تحت ایک سال قید سخت اور ۱۰ ہزار روپے جرمانہ، دفعہ ۲۹۸۔اے کے تحت ۳ سال قید اور ۲۰ ہزار روپے جرمانہ، دفعہ ۵۰۵۔۲ کے تحت سات سال قید اور ۳ ہزار روپے جرمانہ، اور دفعہ ۴۰۶ کے تحت ۷ سال قید اور ۲۰ ہزار روپے جرمانے کی سزا کا حکم سنایا ہے۔ جرمانے کی عدم ادائیگی پر ملزم کو مزید ۲۲ ماہ قید بھگتنا ہو گی۔ تمام دفعات میں دی گئی سزائیں یکے بعد دیگرے شروع ہوں گی۔
فاضل عدالت نے گزشتہ روز صبح آٹھ بج کر پانچ منٹ پر فیصلہ سنایا۔ اس وقت سیشن کورٹ کی عمارت اور عدالت کو پولیس کی بھاری نفری نے گھیر رکھا تھا۔ کسی ممکنہ گڑبڑ کے پیش نظر پولیس حکام فیصلے سے چند منٹ قبل ملزم کو عدالت میں لائے اور فیصلے کے فوری بعد اسے واپس جیل لے گئے۔
یاد رہے کہ فاضل عدالت نے ۳ روز قبل ملزم کی ضمانت منسوخ کر دی تھی جس پر اسے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ یہ کاروائی ڈسٹرکٹ اٹارنی کی درخواست پر عمل میں لائی گی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ملزم ۳۱ جولائی کو ضمانت پر ہونے کی وجہ سے مقدمے کی سماعت کے لیے عدالت حاضر نہیں ہوا تھا، اس لیے خطرہ ہے کہ کہیں وہ فیصلے سے قبل فرار نہ ہو جائے۔ فاضل عدالت نے اس درخواست پر فریقین کے دلائل سننے کے بعد ملزم کو جیل بھجوا دیا تھا۔ ملزم کی جانب سے محمد سلیم عبد الرحمٰن اور رخسانہ لون نے پیروی کی، جبکہ مدعی کی جانب سے محمد اسماعیل قریشی نے عدالت کی معاونت کی۔ 
یاد رہے کہ  ۲۹۵۔سی توہین رسالت کی سزائے موت کا قانون مسٹر اسماعیل قریشی سینئر ایڈووکیٹ اور ظفر علی راجہ ایڈووکیٹ کی معاونت سے فیڈرل شریعت کورٹ میں ۵ سال تک مقدمہ لڑنے کے بعد منظور ہوا جو سپریم کورٹ میں بحال رہا۔ اس پٹیشن میں سابق وزیرقانون ایس ایم ظفر، سپریم کورٹ کے سابق جج زیڈ بی کیکاؤس، سابق اٹارنی جنرل شیخ غیاث محمد، جسٹس (ر) بشیر الدین اور جسٹس (ر) چودھری محمد صدیق بھی بطور درخواست گزار شامل تھے۔
(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۶ اگست ۲۰۰۰ء)

اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اور حکمران طبقہ

لاہور (ندائے ملت رپورٹ) اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر ایس ایم زمان نے کہا ہے کہ اسلام نے کسی خاص نظام حکومت کے بارے میں کوئی ہدایت نہیں کی۔ نظام صدارتی ہو یا پارلیمانی یا کوئی اور، اسلام کو اس سے کوئی غرض نہیں، تاہم اسلام کی رو سے حکومت کا سربراہ یا اس کے دوسرے ارکان سرکاری خزانے سے اپنے ذاتی اخراجات کے لیے کوئی رقم حاصل نہیں کر سکتے، نہ ہی کوئی حاکم سرکاری خزانے سے عیدی وغیرہ تقسیم کر سکتا ہے۔
ہفت روزہ ندائے ملت کے تازہ شمارہ میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر ایس ایم زمان نے کہا کہ حکومتوں نے اسلامی نظریاتی کونسل اور اس کی سفارشات کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ۱۹۹۶ء میں سینٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان کو ان کی نشستوں پر اسلامی نظریاتی کونسل کی بھرپور رپورٹ کی کاپیاں پہنچائی گئیں مگر تقریباً تمام ارکان نے اس رپورٹ کو اٹھانا ہی گوارا نہیں کیا اور اس کی کاپیاں اپنی نشستوں پر ہی چھوڑ کر چلے گئے۔ حالت یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی ۲۰ میں سے ۱۵ نشستیں پچھلے سات ماہ سے خالی پڑی ہیں۔ حکومت کو بہت عرصہ پہلے مختلف ناموں کی سفارش بھی کر دی گئی تھی مگر اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک یہ نشستیں پُر کرنے کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ کونسل کے چیئرمین نے کہا کہ ٹیلی ویژن پر سگریٹوں کے اشتہار کے بعد سگریٹ نوشی کے مضرِ صحت ہونے کا اعلان کرنا منافقت اور بے بصیرتی کی انتہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت مذہبی امور کا اسلامی نظام کے قیام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے کوٹا سسٹم کو اسلامی اصولوں اور احکام کے منافی قرار دیا تھا مگر میاں نواز شریف حکومت نے کونسل کی سفارش کو نظرانداز کر کے کوٹہ سسٹم میں ۲۰ برس کی توسیع کر دی۔
(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۳ اگست ۲۰۰۰ء)

شمالی افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی

کابل (اے ایف پی) طالبان نے گزشتہ روز افغانستان کے ایک اہم قصبہ اشکاش پر زبردست حملہ کر کے اس پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔ اس لڑائی میں اپوزیشن اتحاد کے کئی درجن فوجی جاں بحق ہو گئے۔
اپوزیشن اتحاد کے ترجمان محمد یونس قانونی کے مطابق ملیشیا نے شمالی مشرقی صوبہ تخار میں گزشتہ روز زبردست حملہ کیا اور اپوزیشن اتحاد کی فرنٹ لائن عبور کر کے قصبہ اشکاش پر قبضہ کر لیا لیکن اپوزیشن اتحاد بدستور بعض اہم اور حساس علاقوں پر قابض ہے اور طالبان کے قبضہ میں جو علاقے ہیں انہیں واگزار کرانے کے لیے جوابی حملے کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی اس علاقہ میں دونوں پارٹیوں کی فوج کے درمیان شدید جنگ جاری ہے۔ پاکستان اسلامک پریس کے مطابق کمانڈر احمد شاہ مسعود کے کئی درجن حامی اس جنگ میں جاں بحق ہو گئے اور بعض کو قیدی بنا لیا گیا۔

تعارف و تبصرہ

ادارہ

عالمِ اسلام کی اخلاقی صورتحال

بھارت کے ممتاز دانشور جناب اسرار عالم موجودہ عالمی تناظر میں ملتِ اسلامیہ کو درپیش چیلنجز اور اسلام کے خلاف کام کرنے والی عالمی تحریکات سے مسلمانوں کو آگاہ کرنے میں جس تندہی کے ساتھ مصروفِ عمل ہیں، اسے اللہ تعالیٰ کی خصوصی توفیق اور عنایت سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں ان کی متعدد تحقیقی و تجزیاتی کاوشیں منظر عام پر آ کر اہلِ علم و دانش سے داد وصول کر چکی ہیں، جن میں سے ساڑھے چار سو صفحات کی ایک ضخیم تصنیف مندرجہ بالا عنوان کے ساتھ اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ بزرگ عالم دین حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کے بقول:
’’ماضی میں اور دور حاضر میں چلنے والی سری (خفیہ) تحریکات اور مستقبل پر پڑنے والے ان کے اثرات پر جیسی نظر اس کتاب کے مصنف کی ہے، اس کی مثال اس دور میں ملنا مشکل ہے۔ موصوف نے اس ذیل میں اسلامی نظام پر روشنی ڈالتے ہوئے عہد جدید میں یہودی سازش، صلیبی جنگوں کے اثرات، ہیومنزم اور ریشنلزم (عقلیت) کی شناخت اور ان کے اثرات، پھر تاریخی پس منظر، مسلم فلاسفہ اور متکلمین کے کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے سترہویں صدی سے بیسویں صدی تک کے حالات کا جائزہ لیا ہے۔ پھر انہوں نے ماڈلز (سانچوں) پر گفتگو کی ہے اور اس ذیل میں سیکولرازم کے نظریہ، اس کی تاریخ، اس کے اصل مقاصد، اصول اور عالمِ اسلام میں سیکولرائزیشن کے اثرات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔‘‘
ہمارے خیال میں اسلام اور مغربی فلسفہ و تہذیب کی موجودہ کشمکش کو صحیح تناظر میں سمجھنے کے لیے ہر عالم دین اور دینی کارکن کو اس کتاب کا ضروری مطالعہ کرنا چاہیے۔ عمدہ کتابت و طباعت اور مضبوط جلد کے ساتھ یہ کتاب ’’قاضی پبلشرز اینڈ ڈسٹربیوٹرز، ب۔۳۵ بیسمنٹ، حضرت نظام الدین ویسٹ، نئی دہلی ۱۳، انڈیا‘‘ نے شائع کیا ہے اور قیمت درج نہیں ہے۔

حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے خطبات و مواعظ

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس اللہ سرہ کی تصانیف کے ساتھ ساتھ ان کے مواعظ و خطبات بھی عام مسلمانوں کے عقائد و اخلاق کی اصلاح اور دینی و روحانی تربیت کے لیے بے پناہ افادیت و تاثیر کے حامل ہیں، اور امت کا ایک بڑا حصہ ان سے مسلسل استفادہ کر رہا ہے۔ ان مواعظ کو عام لوگوں کے لیے قدرے آسان زبان میں پیش کرنے کا سلسلہ حضرتؒ کی زندگی میں ہی ان کی نظرثانی کے ساتھ شروع کیا گیا تھا۔ ’’تسہیل المواعظ‘‘ کے نام سے ان کا مجموعہ کئی جلدوں میں شائع ہو چکا ہے۔
اب انہی مواعظ کو الگ الگ عنوانات کے ساتھ چھوٹے کتابچوں کی صورت میں شائع کرنے کا سلسلہ ’’انجمن احیاء السنہ نفیر آباد، باغبان پورہ، لاہور‘‘ نے شروع کیا ہے۔ اور ان میں سے (۱) تکبر کا علاج (۲) پاکیزہ زندگی (۳) آخری عشرہ کے احکام (۴) رمضان کا خالص رکھنا (۵) حاضری کا خوف (۶) ایصال ثواب اور اس کے احکام و مسائل (۷) التہذیب (۸) نگاہ کی حفاظت اور (۹) صوم اور عید کی تکمیل، کے عنوان سے خطبات اس وقت ہمارے سامنے ہیں، اور انہیں عمدہ کتابت و طباعت اور خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ دیدہ زیب بنانے میں اچھے ذوق کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ یہ خطبات ’’یادگار خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، جامع مسجد قدسیہ، نزد چڑیا گھر، لاہور‘‘ سے بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

اقوالِ سلف

بھارت کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا محمد قمر الزمان الٰہ آبادی نے محنتِ شاقہ کے ساتھ ’’اقوالِ سلف‘‘ کے نام سے سلف صالحین رحمہم اللہ تعالیٰ کے ہزاروں اقوال کو جمع فرمایا ہے جو ان بزرگانِ دین کی زندگی بھر کے مطالعہ و تجربات کا نچوڑ ہیں، اور اصلاح و تربیت کے لیے بے پناہ افادیت کے حامل ہیں۔ حصہ اول میں حضراتِ صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور اتباع تابعینؒ میں سے نمایاں شخصیات سمیت تیسری صدی تک کے اہم بزرگوں کے اقوال جمع کیے گئے ہیں، جو سوا تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہیں۔ ’’قاسم اکیڈمی جامعہ ابوہریرہ، خالق آباد، نوشہرہ، صوبہ سرحد‘‘ نے پاکستان میں اس روحانی ذخیرہ کی اشاعت کی سعادت حاصل کی ہے۔ اور انڈیا میں اسے ’’مکتبہ دارالمعارف ۴۰۷/۴۶۶ بخشی بازار، الٰہ آباد‘‘ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

معرفتِ الٰہیہ مع اضافات جدیدہ

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خلیفہ مجاز اور بزرگ عالم دین حضرت مولانا شاہ عبد الغنی پھول پوریؒ کے حالاتِ زندگی، دینی و روحانی خدمات اور افادات کو حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب مدظلہ نے اپنے مخصوص والہانہ انداز میں مرتب کیا ہے، اور سوا چھ سو کے لگ بھگ صفحات کا یہ روحانی خزینہ ’’کتب خانہ مظہری، گلشن اقبال، پوسٹ بکس ۱۱۱۸۲ کراچی‘‘ نے شائع کیا ہے۔

نامور خطباء کے خطیبانہ شہہ پارے

جامعہ اشرفیہ لاہور کے فاضل مولانا ابو طلحہ محمد اظہار الحسن محمود نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدینؓ سمیت امت کے اکابر کے خطبات میں سے شہہ پاروں کا انتخاب کیا ہے اور انہیں اس مجموعہ کی صورت میں پیش کر دیا ہے۔ اس میں سلف صالحین کے ساتھ ساتھ دور حاضر کے نامور خطباء کے مواعظ و خطبات میں سے بھی اقتباسات دیے گئے ہیں اور مصنف کی یہ محنت قابل داد ہے۔ سوا دو سو سے زائد صفحات کا یہ مجموعہ ’’القلم پبلشرز ۱۶۵ حبیب پارک ملتان چونگی لاہور ۱۸‘‘ نے شائع کیا ہے اور اس کی  قیمت ایک سو روپے ہے۔

چہل حدیث

مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع قدس اللہ سرہ العزیز نے چالیس احادیث نبویہ علیٰ صاحبہا التحیہ والسلام کا ایک جامع انتخاب کیا تھا جو عام مسلمانوں کے روز مرہ مسائل اور ضروریات کے متعلق ہے۔ اسے ’’مبین ٹرسٹ، پوسٹ بکس ۴۷۰، اسلام آباد ۴۴۰۰۰‘‘ نے شائع کیا ہے اور تقسیم کے لیے وہاں سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

اکتوبر ۲۰۰۰ء

عورت: ثقافتی جنگ میں مغرب کا ہتھیارمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اسلام اور مغرب میں عالمی تہذیبی کشمکشمولانا محمد یعقوب قاسمی
بچیوں کی پرورش اور سنتِ نبویؐمولانا عصمت اللہ
گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن کے پروگرام کا شرعی جائزہادارہ
دیوبندی مکتبِ فکر کی جماعتوں کے باہمی اشتراک و تعاون کیلئے مجوزہ ضابطۂ اخلاقادارہ
امتِ مسلمہ کے لیے لمحۂ فکریہمولانا سخی داد خوستی
حضرت شیخ الحدیث دامت برکاتہم کو دوہرا صدمہادارہ
عالمی منظر نامہادارہ
تعارف و تبصرہادارہ

عورت: ثقافتی جنگ میں مغرب کا ہتھیار

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن نارتھ کراچی میں ۱۴ ستمبر ۲۰۰۰ء کو پاکستان شریعت کونسل کے زیر اہتمام ’’اسلام میں عورت کا مقام اور مغربی دنیا‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار منعقد ہوا جس کی صدارت پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمٰن درخواستی نے کی اور اس سے ممتاز دانشور جناب اقبال احمد صدیقی، مولانا عبد الرشید انصاری، مولانا احسان اللہ ہزاروی، مولانا حافظ اقبال اللہ، مولانا لیاقت علی شاہ، مولانا چراغ الاسلام اور دیگر حضرات کے علاوہ پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے بھی خطاب کیا۔ سیمینار میں اجتماعی قرارداد کے طور پر دو باتوں کی طرف بطور خاص توجہ دلائی گئی:

  1. ایک یہ کہ ٹی وی، اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ میں عریانی اور فحاشی کو جو مسلسل فروغ حاصل ہو رہا ہے اسے کنٹرول کرنے کے لیے سرکاری سطح پر سنجیدہ اقدامات اور ایک ’’ضابطۂ اخلاق‘‘ کی ضرورت ہے اور حکومت کو اس کی طرف فوری توجہ دینی چاہیے۔
  2. دوسری بات یہ کہ مجوزہ بلدیاتی اداروں میں عورتوں کی نصف نمائندگی کا فارمولا قطعی طور پر ناقابل عمل ہے۔ حتیٰ کہ عورت کی آزادی اور مرد و عورت میں مکمل مساوات کے علمبردار مغربی ممالک میں بھی یہ تناسب موجود نہیں ہے، اور اس سے ہماری معاشرتی اقدار اور خاندانی ڈھانچے کے سبوتاژ ہو جانے کا شدید خطرہ ہے۔ اس لیے حکومت اس تجویز پر نظرثانی کرے اور اس سلسلہ میں دینی حلقوں کو اعتماد میں لے۔
سیمینار سے مولانا راشدی کے خطاب کا خلاصہ درج ذیل ہے:

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اس وقت عالم اسلام اور مغرب میں فلسفۂ حیات اور کلچر و ثقافت کی جو کشمکش جاری ہے اور جسے خود مغرب کے دانشور ’’سولائزیشن وار‘‘ قرار دے رہے ہیں اس میں مغرب کا دعویٰ ہے کہ وہ جس کلچر اور ثقافت کا علمبردار ہے وہ ترقی یافتہ اور جدید ہے اس لیے ساری دنیا کو اسے قبول کر لینا چاہیے۔ لیکن مغرب کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کیونکہ جدید تہذیب کی اقدار و روایات میں کوئی ایک بات بھی ایسی شامل نہیں ہے جسے نئی قرار دیا جا سکے بلکہ یہ سب کی سب اقدار و روایات وہی ہیں جو ’’جاہلیت قدیمہ‘‘ کا حصہ رہ چکی ہیں اور اسلام نے جاہلی اقدار قرار دے کر انسانی معاشرہ کو ان سے نجات دلائی ہے۔ ان اقدار و روایات پر ایک نظر ڈالیں: (۱) سود (۲) زنا (۳) ناچ گانا (۴) کہانت (۵) لواطت (۶) جوا (۷) شراب نوشی (۸) بت پرستی (۹) بے پردگی و عریانی (۱۰) اور نسلی و لسانی عصبیت آج کے تمدن کی نمایاں علامات ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں ہے جو نئی کہلانے کی مستحق ہو اور جسے جاہلیت قدیمہ کے ساتھ کشمکش کے موقع پر اسلام نے شکست نہ دی ہو۔ حتیٰ کہ ان اقدار و روایات کے حوالہ سے جو دلائل ان کے جواز کے لیے آج پیش کیے جا رہے ہیں وہ بھی وہی ہیں جو جاہلیت قدیمہ کے علمبردار پیش کیا کرتے تھے، مثلاً:

اس لیے اس تہذیبی کشمکش میں ہمیں کسی گھبراہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ بعینہ اسی تہذیب اور کلچر کو ہم ایک بار پہلے مکمل شکست دے چکے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کا اعلان کیا تھا اس وقت عرب معاشرہ میں یہ ساری چیزیں موجود تھیں لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’حجۃ الوداع‘‘ کے موقع پر اپنے مشن کی کامیابی کا اعلان فرمایا تو عرب معاشرہ ان تمام خرابیوں سے پاک ہو چکا تھا۔ لہٰذا تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے تاریخ عالم کے پورے نشیب و فراز کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ کل کی طرح آج بھی اس ’’جاہلیت جدیدہ‘‘ کو شکست ہوگی اور نسل انسانی کا مستقبل اسی تمدن اور ثقافت پر استوار ہوگا جس کی بنیاد آسمانی تعلیمات پر ہے اور جس کی نمائندگی اس وقت اسلام کر رہا ہے۔

دوسری بات جو میں اس موقع پر عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ ’’فری سوسائٹی‘‘ یا اباحیت مطلقہ کا یہ فلسفہ جس پر مغربی تہذیب کی عمارت استوار ہے جائز و ناجائز اور حلال و حرام کے تمام دائرے توڑ کر اپنے عروج اور انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ اس کا اندازہ مغربی ممالک کی اسمبلیوں اور عدالتوں کے ان فیصلوں سے لگایا جا سکتا ہے جو گزشتہ ربع صدی سے مسلسل سامنے آرہے ہیں اور جائز و ناجائز کے ان دائروں اور حدود کو پامال کرنے کی مہم میں اسمبلیوں اور عدالتوں کے ساتھ اب چرچ بھی شامل ہوگیا ہے۔ اس سلسلہ میں دو تین حالیہ فیصلوں کا حوالہ دینا چاہتا ہوں:

اس حوالہ سے آپ حضرات کی خدمت میں تیسری گزارش یہ ہے کہ مغربی حکومتیں اور عالمی ادارے اس کلچر کو ہم پر مسلط کرنے کے لیے مسلسل دبا۔ ڈال رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی خواتین کانفرنسوں، اقوام متحدہ کے منشور، جنیوا انسانی حقوق کمیشن کی قراردادوں، انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں اور عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے ہم سے بار بار یہ تقاضا کیا جا رہا ہے کہ اسلام کے نکاح، طلاق اور وراثت کے قوانین آج کے مروجہ بین الاقوامی قوانین سے متصادم ہیں اس لیے ان میں رد و بدل کیا جائے اور انہیں تبدیل کر کے اقوام متحدہ کے چارٹر اور مروجہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق بنایا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نکاح، طلاق اور وراثت کے متعدد اسلامی قوانین اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کی بنیاد پر تشکیل پانے والے بین الاقوامی قوانین سے متصادم ہیں اور اسی وجہ سے عالم اسلام کی حکومتیں اس سلسلہ میں تذبذب اور گومگو کی کیفیت سے دوچار ہیں:

اسلام میں عورت کو جو مقام دیا گیا ہے اور اس کے حقوق کے بارے میں قرآن و سنت کی جو واضح ہدایات موجود ہیں ان کے بارے میں میرے پیش رو مقررین نے تفصیل سے گفتگو فرمائی ہے اس لیے میں اس پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے آج کے اس سیمینار کے موضوع کے دوسرے پہلو پر کچھ گزارشات پیش کی ہیں کہ مغرب نے عورت کو اس ثقافتی جنگ اور سولائزیشن وار میں اپنا ہتھیار بنا کر اس کی تذلیل کا جو سامان فراہم کر رکھا ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلہ میں صحیح صورتحال کا ادراک کریں اور مطالعہ و تحقیق کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مدارس کے طلبہ، مساجد کے نمازیوں اور اخبارات و جرائد کے قارئین کی ذہن سازی اور راہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے میں کوئی کوتاہی روا نہ رکھیں۔

اسلام اور مغرب میں عالمی تہذیبی کشمکش

مولانا محمد یعقوب قاسمی

مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ۳۰ جولائی ۲۰۰۰ء کو سپورٹ سنٹر ڈیوزبری برطانیہ میں مسلم کمیونٹی فورم ڈیوزبری کے زیراہتمام ایک عالمی سیمینار منعقد ہوا جس سے حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی (بھارت)، حضرت مولانا محمد تقی عثمانی (پاکستان)، محترم ڈاکٹر تقی الدین ندوی (متحدہ عرب امارات)، حضرت مولانا عبد اللہ کاپودروی (کینیڈا)، الشیخ نادر عبد العزیز (کویت)، حضرت مولانا احمد خانپوری (بھارت)، حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی (لکھنؤ)، ڈاکٹر مزمل الحق صاحب صدیقی (امریکہ)، مفتی زبیر بھیات (جنوبی افریقہ)، حضرت مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی (لندن)، حضرت مولانا محمد عیسٰئ منصوری (چیئرمین ورلڈ اسلامک فورم، لندن)، اور مجلس تحقیقاتِ شرعیہ برطانیہ کے سربراہ مولانا محمد یعقوب قاسمی آف ڈیوزبری نے خطاب کیا۔ مولانا قاسمی موصوف کا مقالہ پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)


بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اس فانی دنیا میں مخلوق میں سے کسی کو بھی ہمیشگی و دوام نہیں۔ جو دنیا میں ماں کی گود میں آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن قبر کی گود میں ضرور جانا ہے۔ حی القیوم صرف باری تعالیٰ کی ذات ہے۔ جو ذی روح دنیا یں آیا اسے کم و بیش وقت گزار کر اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ وقت پر آخرت کی طرف منتقل ہونا ہے۔ خالقِ کائنات کے اس اصول سے کوئی مستثنٰی نہیں، چاہے وہ حیوانات ہوں یا انسان۔ اور انسانوں میں سب سے افضل و اعظم انبیاء و رسل علیہم السلام کی ہستیاں، اور ان میں بھی افضل الرسل و سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس فانی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ طبعی عمر پوری کرنے پر ’’اللھم بالرفیق الاعلیٰ‘‘ کا ورد کرتے ہوئے اپنے رب ذوالجلال کی بارگاہ میں اس دنیا کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے تشریف لے گئے۔ زندگی کے ساتھ موت اس عالم کا اٹل قانون ہے۔ اسی کے تحت روزانہ ہر آن کرۂ زمین پر اس کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے اور زندہ لوگ اس کا مشاہدہ ہی نہیں کرتے، اپنے ہاتھوں اپنے عزیز و رشتہ داروں کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر زمین میں دفن کر دیتے ہیں۔
کرۂ زمین پر اشرف المخلوقات انسان اور اس میں انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی جماعت و گروہ کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی  فلاح و کامرانی کی رہبری کے لیے منتخب فرمایا، جن کی ربانی تعلیمات سے اپنے اپنے دور میں دنیا سے شرک و ضلالت کی ظلمت ختم ہو کر دنیا منور ہوئی۔ جب دنیا اپنی طبعی عمر کو پہونچی تو ایک ایسی روشنی اور ابدی تعلیم و ہدایت کی دنیا متلاشی اور ضرورتمند تھی کہ جو قیامت تک کے لیے انسانیت کی رہبری و ہدایت کی ضامن ہو۔
چنانچہ اس آخری ہدایت کو لے کر سرتاجِ انبیاء فخر المرسلین سیدنا و مولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ نے ’’قد جاءکم من اللہ نور و کتاب مبین‘‘ فرما کر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا‘‘ فرما کر اپنی عالمی و ابدی نبوت کا اعلان کیا۔ رب ذوالجلال نے ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اللہ وخاتم النبیین وکان اللہ بکل شئی علیما‘‘ کے ذریعے آپ پر نبوت ختم ہونے کا اعلان فرمایا کہ اب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور آپ کی لائی ہوئی تعلیمات قیامت تک کے لیے ہر دور اور ہر زمانہ میں انسانیت کی رہبری کے لیے کافی ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم کی صورت میں ابدی معجزہ دے کر ہمیشہ کے لیے انسانیت کی فوز و فلاح کو اس سے وابستہ کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ترکت فیکم امرین ان تمسکتھم بھما لن تضلوا کتاب اللہ و سنتی‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد امت کی رہبری کے لیے علماء امت کو اپنی تعلیمات کا وارث بناتے ہوئے فرمایا ’’العلماء ورثۃ الانبیاء‘‘۔ اب قیامت تک کے لیے احیائے دین اور کتاب و سنت کی ترویج و اشاعت، اور ان کی روشنی میں امت کی رہبری و قیادت کے ذمہ دار علماء امت قرار دیے گئے۔ چنانچہ ہر دور میں امت کے علماء ربانی نے اپنی اس ذمہ داری کو مخلصانہ طور پر نبھایا اور پورا فرمایا۔ اور ذمہ داری کی ادائیگی میں اپنے اور پرایوں کی طرف سے پہنچنے والی مشقتوں و اذیتوں اور تکالیف کو برداشت ہی نہیں کیا بلکہ ان کو اپنی سعادت تصور و یقین کرتے ہوئے اپنی جانوں تک کے نذرانے پیش کر کے خوشی محسوس کی۔
شمسی تقویم انیس سو ننانوے کی آخری تاریخ ۳۱ دسمبر ۱۹۹۹ء جمعہ کا دن ملتِ اسلامیہ بالخصوص ملتِ اسلامیہ ہند کے لیے ایک بجلی اور صاعقہ بن کر ظاہر ہوا۔ برطانیہ کے صبح کے تقریباً نو بجے ہوں گے کہ فون کی گھنٹی بجی اور کہنے والے نے یہ غمناک اور الم انگیز خبر کی اطلاع دی کہ آج ہندی وقت کے مطابق قبل جمعہ تقریباً ۱۲ بجے قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے مفکر اسلام ملت کے ہمدرد و غمخوار حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی اللہ کی جوار رحمت میں پہونچ گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جنہیں آج مرحوم اور قدس سرہ لکھتے ہوئے قلم جھجھکتا ہے، مگر مومن کی ایسے موقع پر ہی اسلامی تعلیم نے دست گیری کرتے ہوئے رضاء بالقضاء اور راضی برضائے مولا کی تلقین کی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا، جس کی توضیح علماء امت نے اس طرح کی ہے کہ اکابر علماء اللہ کو پیارے ہو جائیں گے اور ان جیسے علم میں پختہ کار لوگ پیدا نہیں ہوں گے تو جہل و جہالت کی بادشاہت ہو جائے گی۔ ہر زمانہ میں اہلِ علم و فضل کی موت سے علم کا نقصان ہوتا رہا ہے، لیکن اسلاف کے زمانہ میں ان کے شاگرد اور اخلاف مسلسل علمی محنت و مجاہدہ سے ان کی خالی جگہوں کو پُر کرتے رہے ہیں۔ مگر اب عصرِ حاضر میں علمی شوق کی کمی، محنت و مطالعہ کے فقدان، سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے طویل علمی راستوں سے وحشت و اجتناب، اور پراپیگنڈا کے ہتھیاروں اور سیاست کے طریقوں سے جلد شہرت و عظمت کے میناروں تک رسائی کی امنگ کی وجہ سے آج جب کسی عظیم عالمی و داعی کا وصال ہوتا ہے تو پھر اس جیسی شخصیت کا دوبارہ پیدا ہونا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں عالم اسلام جن نامور اور عظیم ہستیوں سے محروم ہوا ہے ان کا نعم البدل تو کیا بدل ملنا بھی دشوار ہے۔
  • عظیم عالمی داعئ اسلام جامعہ ازہر کے مشہور عالم اور امام حسن بنا شہیدؒ کے خصوصی تربیت یافتہ فضیلۃ الشیخ محمد غزالیؒ،
  • جامعہ ازہر کے عظیم عالم و مفکر، صحابہ و خلفاء رسول کے سیرت نگار الاستاذ خالد محمد خالدؒ،
  • شیخ الازہر فضیلۃ الامام الاکبر شیخ جاد الحق علی جادؒ،
  • دور حاضر کے عظیم محقق شیخ عبد الفتاح ابو غدہؒ،
  • اور مسجد نبوی کے واعظ شیریں بیان اور مدینہ منورہ کے قاضی علامہ شقیطیؒ کی نشانی شیخ عطیہ محمد سالمؒ،

پھر ۱۹۹۹ء میں دنیائے علم نے جن مذہبی رہنماؤں اور ریسرچ اسکالروں کو الوداع کہا ہے ان میں ہر شخص مینارہ نور اور اپنے فن کا نایاب لعل و گوہر تھا۔

  • شیخ ابو زہرہؒ،
  • علامہ شعراویؒ،
  • شیخ عبد القادر شہیدؒ کے بعد جو فقیہ عصر ِ حاضر باقی رہ گیا تھا اور فقہ و قانون کو جس پر ہزار ناز تھا یعنی ڈاکٹر مصطفٰی احمد زرقاءؒ،
  • میدانِ دعوت والی اللہ کے بہادر اور جری سپاہی، توحید کا پرستار اور حق پرست و حق گو مفتی اعظم عبد العزیز بن عبد اللہ بن بازؒ،
  • محافظِ حدیثِ رسولؐ محدث و محقق ناصر السنہ شیخ ناصر الدین البانیؒ،
  • اور سال کے آخری دن عظیم داعئ اسلام، علم و تحقیق و ادب کا شاہکار علی میاں رحمہم اللہ رحمۃ واسعۃ اللہ کو پیارے ہو گئے۔
حضرت مولانا سید ابو الحسن حسنی ندویؒ (جنہیں محبت و اپنائیت کی وجہ سے علی میاں کہا جاتا تھا) عصرِ حاضر کی عظیم شخصیات میں سے ایک تھے۔ آپ کی ولادت، ابتدائی حالات، تعلیم و تربیت، دعوت الی اللہ سے بھرپور زندگی، آپ کی علمی و تحقیقی مصروفیات، آپ کے سفر و حضر کے مشغلے، آپ کی تقریریں، اور ہمہ جہات حیاتِ طیبہ کے حسین و جمیل پہلوؤں پر تفصیل پیش کرنا راقم کے مختصر مقالے کا موضوع نہیں ہے، کیونکہ حضرت مولانا مرحوم نے اپنے قلم سے قدرے مفصل بلکہ مطول اپنی داستانِ زندگی بعنوان ’’کاروانِ زندگی‘‘ ۸ جلدوں میں تحریر فرما دی ہے۔ جس میں اپنے عصر کی تاریخ سے لے کر دعوت الی اللہ کے سفروں تک کی کلی و جزوی روداد موجود ہے۔ نیز آپ کے شاگردوں، دوستوں اور آپ کی حیاتِ طیبہ پر لکھنے والوں نے بھی اکثر و بیشتر آپ کی خود نوشت سوانح سے نقل و اقتباس کے ذریعے بہت سے مضامین لکھے ہیں۔
مولانا مرحوم کی تحریروں کے تجزیے، دعوت الی اللہ کے اصولوں پر گفتگو، آپ کی علمی و تحقیقی و اجتہادی آراء پر سیر حاصل بحث، مجھ سے کم علم کے بس کی بات نہیں۔ راقم اس مختصر مضمون میں مولانا کی مغربی تہذیب پر تنقید اور اسلامی تہذیب کی برتری پر گفتگو کرے گا، مولانا کے عہد میں مختصر تصویر اور بعض تحریروں کا اختصار پیش کرے گا، پھر مولانا کی مغرب (میں) کی ہوئیں تقریروں خصوصاً ۱۹۶۹ء میں شیفیلڈ یونیورسٹی اور شیفیلڈ کے تبلیغی اجتماع کی تقریروں سے اس موضوع پر سیر حاصل اقتباس پیش کرے گا۔ یہ تقریریں آج بھی مغربی ممالک میں رہنے والوں کے لیے تاریخی دستاویز و یورپین تہذیب پر صحیح اور ناقدانہ تبصرہ ہیں۔ اور ایسا تریاق ہے جس کے ذریعے تہذیبِ حاضر کے زہریلے جراثیم سے بچا جا سکتا ہے۔ صرف اسلام وہ نسخۂ شفا ہے جسے قلب و نظر اور عقل و ضمیر سے ماننا ہو گا، پھر عملی زندگی میں اس کو اپنانا ہو گا، اور زبانی و عملی دونوں طریقوں سے مغرب کے اندھیروں میں اس روشنی کو پھیلانا ہو گا۔

مولانا کا عہد

مولانا کی ولادت ۱۹۱۴ء میں ہوئی۔ اس سال پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی۔ اس سے پہلے انگریزوں کی دراندازی مشرقی ممالک میں شروع ہو چکی تھی۔ ہندوستان میں پہلے تجارتی کمپنی کے ذریعے، پھر باقاعدہ حکومت کی شکل میں ۱۸۵۷ء کی تحریکِ آزادی کے ناکام ہو جانے پر انگریز سامراج نے اپنا ہمہ جہتی تسلط قائم کر لیا۔ شرعی قوانین و حدود کو ختم کیا۔ انگریز اپنے ساتھ پادریوں کی ایک بڑی کھیپ بھی لائے تھے اور یونیورسٹی کے اسکالروں کی ایک بہت جماعت بھی، جس کا محبوب ترین مشغلہ اسلامی اصولوں کے خلاف نیش زنی، اور اسلامی عقائد و افکار پر اعتراضات، اور مسلمانوں کی شاندار طویل تاریخ کو جھوٹ اور پُرفریب تحقیق کے نام پر داغدار کرنا تھا۔ اس لیے ہندوستان کے باشندوں کے ذمہ دو کام تھے:
  1. ایک تو ملک کی آزادی کی جدوجہد، اس میں علماء اسلام نے ہم وطنوں کے ساتھ مل کر سیاسی طریقوں اور جدوجہد، اور جان و مال کی عظیم قربانیاں دے کر آخرکار ملک کو آزاد کروا لیا۔
  2. دوسرا اہم کام مسلمانوں کو اکیلے کرنا تھا، یعنی اسلام کے عقائد و افکار کے خلاف انگریزوں نے جس منظم طریقہ پر علم و ریسرچ کے نام پر جو اعتراضات کیے، اور پورے ملک میں مغربی تہذیب کو پھیلانے کا جو منظم پروگرام بنایا، اس کے خلاف محاذ بنانا۔
اس سلسلے میں علماء دیوبند و ندوہ اور دوسرے لوگوں نے بھی کام کیے۔ تاکہ مسلمانوں کے ذہن و دماغ سے مرعوبیت نکلے اور انگریزوں کے علمی مراجع کی بے ثباتی ظاہر ہو جائے۔ اس سلسلہ میں اللہ کی توفیق سے علامہ شبلی نعمانیؒ نے بڑا کارنامہ انجام دیا۔ انگریزوں کے مراجع کی غلطی، ان کے استدلال کی کمزوری، اور ان کے جھوٹ اور فریب کا پردہ چاک کیا۔ ان کے مضامین، ’’کتب خانہ اسکندریہ‘‘، ’’اورنگزیب عالمگیر‘‘، اور آخر میں ’’سیرۃ النبیؐ‘‘ نے تعلیم یافتہ طبقے سے انگریز مرعوبیت کو دور کیا۔ اس سلسلہ میں ہمارے محترم و مخلص دوست بھوپال کے مشہور عالم دین مولانا حبیب ریحان ندوی ازہری کا مقالہ ’’مغربی افکار کی یورش اور شبلیؒ کا کارنامہ‘‘ ملاحظہ کے قابل ہے جو ماہنامہ معارف اعظم گڑھ نومبر ۱۹۹۶ء میں چھپا تھا۔
جس سال مولانا علی میاںؒ کی پیدائش ہوئی اسی سال علامہ شبلیؒ کا وصال ہوا۔ جب مولانا سنِ شعور کو پہونچے تو شبلی کا شہرہ تھا اور ان کے علمی استدلال اور مستشرقین کے جوابات سامنے تھے۔ مولانا ندوہ میں تھے جہاں شبلی کے افکار اور تحریروں کا زور تھا، اور شبلی کے جانشین مولانا سید الملت سید سلیمان ندویؒ کی علمی تحقیقات کا لوہا مانا جاتا تھا۔ اسی وقت شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ شعر کی زبان میں مغربی تہذیب کے فاسد عناصر پر زبردست تنقید کر رہے تھے۔ مولانا علی میاںؒ کو شروع ہی سے علامہ اقبال سے قلبی لگاؤ تھا اور مغربی تہذیب کے مضر اثرات سے نفرت تھی۔ علامہ اقبال سے آپ کا غیر معمولی لگاؤ اور تاثر اس وجہ سے ہے کہ شاعرِ اسلام نے اسلامی نظریۂ حیات کی بہترین تشریح کر کے روحِ جہاد کو میدانِ عمل میں کامیابی کی کلید بتایا ہے، اور مغربی تہذیب کو غارت گر اقوام و اخلاق ثابت کیا ہے۔ قلبی و فکری ہم آہنگی ہی کی وجہ سے مولانا نے ’’روائع اقبال‘‘ کے نام سے اقبال کے کلام کا عربی ترجمہ کر کے عربی دنیا کو پہلی مرتبہ علامہ اقبال سے متعارف کرایا۔
اسی زمانہ میں بعض دوسرے دانشور و مفکرین بھی مغربی افکار اور بے راہ روی، الحاد، نسلی تفوق، جنسی انارکی پر نثر میں پُرزور تنقیدیں کر رہے تھے، اور اس کے بالمقابل اسلام اور اس کی شریعت و قانون پر کامل اعتماد کے ساتھ اس کی برتری پر مدلدل و ؟؟ دلائل پیش کیے جا رہے تھے۔ اور اسلامی نظامِ حیات سے متعلق کتابیں اور مضامین نشر ہو رہے تھے، اور مغربی تہذیب کے ایک ایک طلسم کو مضبوط استدلالی و منطقی پیرایہ میں توڑا جا رہا تھا۔ اور مدافعانہ و معذرت خواہانہ انداز کے بجائے جارحانہ اور ہجوی انداز میں مغربی تہذیب کے علمبرداروں سے اس کی ناکامی کے متعلق سوالات اور اعتراضات کیے جا رہے تھے، جس کے نتیجہ میں تعلیم یافتہ مسلمانوں کے دماغوں سے مغرب کا تفوق اور مرعوبیت کم ہو رہا تھا۔ قدرتی بات ہے کہ مولانا اپنے زمانہ کی اس قسم کی ساری ہی تحریرات سے متاثر ہوئے اور ان کو سراہا، کیونکہ وہ ان کے دل کی بات تھی۔

غلبۂ اسلام اور مغربی تہذیب

حضرت مولانا علی میاںؒ نے دعوتِ اسلام کی خوبیوں کو نشر کرنے اور صالح قیادت کے ماتحت خالص اسلامی قانون و شریعت پر مبنی نظامِ شریعت برپا کرنے کی بات اپنی سب سے پہلی تصنیف ’’سیرتِ سید احمد شہیدؒ‘‘ میں تفصیل سے لکھی ہے۔ اور راہِ خدا میں جہادِ نفس کو عظیم خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ مولانا علی میاںؒ نے مغربی تہذیب بلکہ تمام قدیم و جدید جاہلی تہذیبوں اور تمدنوں کی خامیوں پر اپنی مشہور کتاب ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر‘‘ میں بحث کی ہے، اور مسلمانوں کے عالمی قیادت سے ہٹ جانے اور علمی و فوجی ترقی میں پیچھے رہ جانے کے تفصیلی اسباب بیان کیے ہیں، اور دنیائے انسانیت کو اس کی وجہ سے جو روحانی اور تہذیبی نقصانات اٹھانے پڑے ہیں، ان کو بیان کیا ہے۔

اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش

مولانا نے اپنی اہم کتاب ’’اسلامی ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش‘‘ میں، جو ۱۹۶۴ء میں لکھنؤ سے شائع ہوئی ہے، مغربی تہذیب و اقدار پر سخت تنقید کی ہے، اور ہندوستان و اسلامی ممالک میں مغربی تہذیب کی آمد اور رواج پذیر ہونے کی تفصیلی تاریخ اپنے مخصوص نقطۂ نظر سے بیان کی ہے۔ نیز ان اشخاص اور نقطہ ہائے نظر کی وضاحت بھی کی ہے جنہوں نے اس تہذیب کو درآمد کیا، اس کے پھیلانے میں پوری جدوجہد کی، ان پر مولانا نے بھرپور تنقید کی۔ اور ان مومنانہ کردار اشخاص اور تحریکوں کا بھی تذکرہ کیا جنہوں نے مغرب کے کھوکھلے مادی نظامِ زندگی کی ہلاکت خیزیوں کو بے نقاب کر کے اس کے بالمقابل اسلام کا دفاع کیا اور اسلام کے عادلانہ قانونِ حیات کی تفصیلات پیش کیں، اور ان کی طرف واپسی کی کوششیں کیں۔
مولانا نے مغربی نظامِ تعلیم، مغرب کے الحاد و لا دینی، جنسی انارکی اور جرائم کی داستان بھی بیان کی۔ اور مشرق و مغرب کی سرمایہ داری اور اشتراکیت کی پھیلائی ہوئی زہریلی بیماریوں کا علاج صرف اور صرف اسلام کی تعلیمات میں بتایا۔ اور یہ کہ مسلمان خیر امت ہے، اور امتِ دعوت ساری انسانیت کو سعادتِ دارین سے ہم کنار کرنے کے منصب پر فائز کی گئی ہے۔ مولانا کا نظریہ یہ ہے کہ پختہ عقیدے اور روح کی سرمستی اور اخلاص و جہد کے ساتھ مادی ترقی کے بہترین اور فائدہ مند اقدار سے استفادہ کے ساتھ انسانیت کی گاڑی صحیح طریقہ پر چل سکتی ہے۔
مولانا کی اکثر کتابوں اور کتابچوں، مضامین اور تقاریر کا مرکزی نقطۂ فکر مغربی تہذیب کی بے راہ روی پر شدید تنقید و تبصرہ اور اسلام پر کامل یقین و اعتماد کے ساتھ اس کی دعوت کو عام کرنا ہے۔
اب راقم قدرے تفصیل سے مولانا کی لیڈز یونیورسٹی میں ۲۶ جون ۱۹۶۹ء کو کی گئی تقریر کے اقتباس پیش کرے گا۔ برطانیہ کے اس سفر میں مولانا نے متعدد مقامات پر تقریریں کی تھیں، راقم کی سعادت ہے کہ راقم جسم و جان اور ہوش و گوش کے ساتھ ان تقریروں میں شریک رہا۔ اس تقریر کی قلمی تصویر راقم کے پاس ہے۔ لیکن چونکہ یہ مولانا کی کتاب ’’مغرب سے کچھ صاف صاف باتیں‘‘ میں کچھ حذف و اختصار کے ساتھ چھپ چکی ہے، اس لیے مناسب یہ ہے کہ اقتباس اسی سے لے لیے جائیں۔ یہ ایک جامع تقریر ہے جو مغربی تہذیب کی صحیح ترجمانی کرتی ہے، اور اسلام کی جامع تصویر پیش کرتی ہے۔ تقریر کے بہت سے عنوانات ہو سکتے ہیں، کتاب میں اس کا عنوان ہے ’’سیاسی آزادی لیکن تہذیبی غلامی‘‘۔

مشرق سے مغرب کا تعارف

مغرب کا مشرق سے تجارتی تعلق تو پرانا ہے، لیکن اصل تعلق اس وقت ہوا جب مغربی قوموں کے پاس جارحانہ فوجی طاقت ہوئی اور انہوں نے مشرقی ممالک کو تسخیر کرنا چاہا۔ خلافتِ عثمانیہ کے بعض مقامات پر مغربی طاقتیں بیڑہ ڈال چکی تھیں لیکن مولانائے مرحوم کے نزدیک یہ زیادہ قابل ذکر نہیں، بلکہ مغربی تہذیب کا اصل تعارف مولانا کی نظر میں اس طرح ہے:
’’مغربی تہذیب کا اصل تعارف اس وقت ہوا جب ہندوستان، مصر، اور ترکی براہ راست ایک عظیم مغربی قوم کے تسلط میں آئے۔ ہندوستان، مصر اور ترکی یہ تین ممالک ایسے تھے جو مختلف حیثیتوں سے نہ صرف دنیائے اسلام میں بلکہ اس وقت کی معاصر دنیا میں بڑی اہمیت رکھتے تھے۔
ہندوستان کی اہمیت یہ تھی کہ وہ ایک کثیر تعداد مسلمان قوم کا وطن تھا۔ مسلمان وہاں بڑی تعداد میں رہتے تھے اور بڑی شان و شوکت کے ساتھ صدیوں تک وہاں حکومت کر چکے تھے۔ انہوں نے اسلامی علوم میں بہت بڑا اضافہ کیا تھا۔ انہوں نے اپنی ذہانت، اپنے علم و فضل، اپنے علمی شغف اور اپنی صلاحیت کا مختلف میدانوں میں بڑا ثبوت دیا تھا۔ ۱۸۵۷ء میں جب باقاعدہ انگریزی حکومت کا اقتدار ہندوستان پر قائم ہو گیا، اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے بجائے وہاں پر منظم اور باقاعدہ حکومت قائم ہو گئی، تو یہ سمجھا جانے لگا کہ اب ہندوستان انگریزی اقتدار کے قبضہ میں رہے گا۔
مصر کی اہمیت یہ تھی کہ وہ عربی زبان، عربی علوم کا بہت بڑا مرکز تھا۔ وہاں جامع ازہر موجود تھا اور وہاں کے علماء، ادباء، شعراء اور وہاں کی کتابیں عالمِ اسلام میں بہت وقعت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں۔
ترکی کے متعلق بھی مجھے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں، وہ خلافت کا مرکز تھا اور بڑی حوصلہ مند، باصلاحیت اور جواں مرد قوم وہاں رہتی تھی جس نے دنیا کی تاریخ میں بہت بڑا کردار ادا کیا تھا۔
ان تینوں ملکوں کا جب مغربی تہذیب سے تعارف ہوا تو ان کے لیے ایک نیا تجربہ اور تاریخ کا ایک نیا موڑ تھا۔ اس کو آپ خوش قسمتی کہیے یا بدقسمتی، بلکہ شاید خوش قسمتی بھی تھی اور بدقسمتی بھی۔ بدقسمتی اس لحاظ سے کہ یہ تینوں ممالک قریب قریب ایک ہی وقت میں انگریزی اقتدار سے متاثر ہوئے۔ ہندوستان پر تو براہ راست انگریزوں کا قبضہ ہو گیا، اور مصر میں بھی انتداب کے نام سے اور قرض وصول کرنے کے عنوان سے انگریزوں نے اپنے نمائندے مسلط کر دیے۔ ترکی پر براہ راست اثر تو نہیں پڑا لیکن انگریزی سیاست کا یہ ملک بھی بڑا شکار ہوا۔ اس لیے حقیقت میں مشرق کا تعارف مغربی تہذیب سے اسی قوم کے ذریعے ہوا جس قوم کا یہ وطن ہے، جہاں آج ہم آپ جمع ہیں۔
آج مورخین اسی قوم کے متعلق یہ بات کہہ رہے ہیں کہ مشرق کو پہلا زخم اس سے لگا۔ اس کو اپنی پستی، اپنی پسماندگی اور سیاسی و فوجی کمزوری کا احساس اسی قوم کے ذریعے ہوا۔‘‘
یہ انیسویں صدی کے اوائل کا ذکر تھا، اس کے بعد مولانا نے مختصر بتایا کہ آزادی کی تحریکیں شروع ہوئیں، یہ ایک غیر فطری بات تھی کہ سات سمندر پار سے کوئی قوم آئے اور وسیع رقبے اور کثیر آبادی والے ملکوں پر ہمیشہ قابض رہے، اس لیے قدرتی طور پر یہ نظام ختم ہوا اور ملکوں کو جسمانی آزادی ملی۔

سیاسی آزادی، لیکن تہذیبی غلامی

مولانا اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:
’’ان ملکوں نے سیاسی آزادی تو حاصل کر لی ۔۔۔ لیکن اس تہذیب کی ذہنی، اخلاقی اور دماغی غلامی سے ابھی تک نجات نہیں حاصل ہوئی ۔۔۔ سیاسی آزادی حاصل کرنے کے بعد ذہنی غلامی اور علمی غلامی کی زنجیریں اور زیادہ مضبوط ہو گئیں۔ اس کے اسباب کیا تھے، یہ بحث طویل ہے ۔۔۔ یہ واقعہ ہے کہ جتنے ممالک آزاد ہوتے جا رہے ہیں وہ سیاسی طور پر تو آزاد ہو رہے ہیں لیکن ذہنی، فکری اور علمی طور پر زیادہ غلام ہوتے جا رہے ہیں۔ اور فکری، علمی، سیاسی اور اقتصادی حیثیت سے انہوں نے اپنے کو مغرب کا ایسا دست نگر بنا دیا ہے کہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اُس ملک میں اِس ملک کی رہنے والی قوم حکومت کر رہی ہے۔‘‘
راقم کا خیال ہے کہ یہ ایک فطری صورت حال ہوتی ہے کہ جب تک دشمن اپنی زمین پر رہتا ہے، اس سے نفرت ہوتی ہے۔ اور اگر اپنے عقائد، روحانی تصورات اور تہذیبی اقدار پر مکمل یقین و اعتماد نہ ہو، اور دانشمند دشمن نے اپنے تہذیبی ورثہ کو دل پسند اور مستحسن بنا کر پیش کیا ہو، تو اس کے جانے کے بعد اس کی دشمنی کا احساس ختم ہو جاتا ہے، اور مرعوبیت کی وجہ سے اس کی تقلید شروع ہو جاتی ہے۔ اور اس کی صنعتی و مادی و سائنسی ترقی کو دیکھتے ہوئے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اس کی تہذیب و اخلاق بھی بلند ہو گا۔ یہ واقعہ ہے کہ انگریزی زبان، لباس اور مختلف تہذیبی مظاہر آج آزادی کے بعد کچھ زیادہ ہی رواج پذیر ہیں۔ اس کی وجہ مولانا کی نظر میں یہ ہے کہ ہم زندگی کے معیار اور دینی نظریات تک میں مغرب کے دست نگر ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہم علم مغرب سے لیتے ہیں، زندگی کا معیار مغرب سے لیتے ہیں، یہاں تک کہ ہم دینی نظریات اور دینی تحقیقات بھی مغرب سے لیتے ہیں۔ اس وقت علومِ اسلامیہ میں بھی انہی مغربی یونیورسٹیوں کی نظر دیکھی جاتی ہے۔ مستشرقین کا لوہا نہ صرف مغرب میں بلکہ مشرق میں بھی مانا جاتا ہے، اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ مستشرقین جو کہہ دیں وہ حرفِ آخر ہے اور اس پر تبصرہ کا کوئی جواز نہیں۔
یہ وہ صورت حال ہے جس سے اس وقت کوئی اسلامی ملک مستثنٰی نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حقیقی آزادی کا فائدہ اٹھانے کا ان ملکوں اور قوموں کو ابھی تک موقع نہیں مل سکا۔ ان کے دماغوں پر مغرب کے تفوق، مغرب کے نظریات، اور زندگی کے مغربی نقطۂ نظر کا اتنا بڑا بوجھ رکھا ہوا ہے کہ اس بوجھ کے نیچے یہ قومیں دبی بلکہ کچلی جا رہی ہیں۔ بعض ایسے بھی خوش قسمت ملک ہیں کہ وہاں کی کل آبادی مسلمان ہے، لیکن انہوں نے ابھی تک زندگی کا کوئی ایسا نقشہ نہیں بنایا جو ان کے معتقدات اور ان کی مسلّمات (یعنی جن چیزوں کو وہ تسلیم کرتے ہیں اور طے شدہ عقیدہ سمجھتے ہیں اس) کے وہ مطابق ہو۔ وہ ایسے ذہنی انتشار میں مبتلا ہیں جس کا نتیجہ سوائے کمزوری اور پراگندگی اور سوائے بے اعتمادی اور کشمکش کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔‘‘

فاسد قیادت

تعلیمی نظام کے مغربی اور مادی نہج کی وجہ سے تعلیم یافتہ اور قیادت کرنے والا طبقہ ملک کے سیاسی تخت پر متمکن ہو کر مغربی نظریات کی سرپرستی اور توسیع کا کام کرتا ہے، اور اسلامی اقدار اور ناموس شریعت کے تحفظ سے دست کش ہو جاتا ہے، اور سیدھے سادے مسلم عوام کو گمراہ کرتا ہے، حضرت مولانا مرحوم کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیے:
’’ایک بڑی کشمکش ان ملکوں میں یہ برپا ہے کہ ان ملکوں کی زمامِ قیادت یعنی ان کی باگ دوڑ جن کے ہاتھ میں ہے وہ مغربی نظریات پر پورا پورا عقیدہ رکھتے ہیں۔ گو ان کا نام مسلمانوں کا ہے، ان کی رگوں میں مسلمانوں کا خون ہے، وہ بہت اچھے قابل فخر خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان کو اسلام سے انکار بھی نہیں، لیکن ان کا ذہن، ان کا عقیدہ بالکل مغربی سانچہ میں ڈھلا ہوا ہے۔
اور جن قوموں سے ان کا واسطہ ہے ان کی بدقسمتی کہیے یا خوش قسمتی کہ وہ قومیں سیدھی سادی مسلمان ہیں، وہ اللہ و رسول پر عقیدہ رکھتی ہیں، ان کو یہ یقین ہے کہ مرنے کے بعد ایک زندگی آنے والی ہے، وہاں جنت دوزخ ہے، وہاں ہر عمل کا حساب دینا ہو گا، یہاں کا عیش بھی فانی، یہاں کی راحت بھی فانی اور یہاں کی تکلیف بھی فانی ہے۔ ان کے سامنے وہ مقاصد ہیں جو مادی مقاصد سے بالاتر ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ صرف کھا پی لینا اور صرف اچھی مُرفّہ الحال اور آسودہ زندگی گزار لینا منزلِ مقصود نہیں۔ بلکہ اچھا انسان بننا، خدا سے ڈرنا، نیکی اختیار کرنا، برائی سے بچنا اور صاف ستھری پاکیزہ زندگی اختیار کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور شریعت کے مطابق عمل کرنا، ان کے اسوہ اور نمونہ پر چلنا، انسانیت کی خدمت کرنا، ساری دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچانا، انسانیت جن مشکلات سے دوچار ہے اس میں اس کی مدد کرنا، وہ اصل کام ہے جو ایک مسلمان کے شایانِ شان ہے۔
لیکن جن لوگوں کے ہاتھ میں حکومت کی باگ دوڑ ہے، وہ زندگی کا بالکل ایک دوسرا نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ بہت سی اسلامی حقیقتوں پر سے متزلزل ہو چکا ہے۔ ان کو بہت سی چیزوں میں شک ہے۔ یہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں (کہ) اس کے پیچھے کوئی اور دنیا ہے، اس شہود کے پیچھے کوئی غیب ہے، اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی ہے، اور ان چیزوں کے علاوہ جن سے آدمی کو لذت و عزت حاصل ہو رہی ہے کچھ اور حقیقتیں ہیں، جن سے آدمی کو لذت حاصل ہو سکتی ہے، جن سے اس کو سکون اور خوشی حاصل ہو سکتی ہے۔ اس قسم کی کوئی چیز ان کے سامنے نہیں۔‘‘

صحیح رہنمائی اور ایمان کی طاقت

اگر عالمِ اسلام کو مومنانہ قیادت نصیب ہو جائے جو عوام الناس کی صحیح رہنمائی کرے، ان کی خفتہ قوتوں کو بیدار کر دے، اور ان میں ایمان کا جذبہ اور اس کی ناقابل تسخیر صلاحیت بیدار کر دے تو ان ملکوں کا نقشہ بدل جائے۔ مولانا فرماتے ہیں:

’’ہماری مشرقی قومیں وہ ہیں کہ اگر ان کو صحیح قیادت مل جائے اور صحیح رہنما میسر آجائیں جو ان کی اندرونی صلاحیتوں سے واقف ہوں، ان کے اندر خدا نے جو ناقابل تسخیر طاقتیں رکھی ہیں، ان کے اندر زندگی کا جو جوش ہے، قربانی کا جو جذبہ ہے، ایثار کا جو مادہ ہے، جس چیز کو یہ صحیح سمجھ لیں اس پر مٹ جانے کی جو صلاحیت ہے، اگر ہمارے ان ممالک کے رہنما ان کی ان مخفی اور پوشیدہ طاقتوں سے واقف ہو جائیں، اور وہ اس سے باخبر ہوں کہ ان قوموں کا مزاج کیا ہے؟ ان کا خمیر کیا ہے؟ تو یہ اتنی بڑی طاقت بن سکتی ہے کہ اس طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔

ان مشرقی ممالک میں اگر کوئی طاقت ہے تو وہ ایمان کی طاقت ہے، وہ طاقت اس بات کی ہے کہ خدا کا نام لے کر ان سے بڑے سے بڑا کام لیا جا سکتا ہے۔ خدا کے نام میں اب بھی ان کے لیے اتنی کشش ہے کہ یہ قومیں اس پر اپنی جان، اپنی اولاد، اپنا گھربار سب کچھ قربان کر سکتی ہیں۔ خدا کے نام میں، شہادت میں، جہاد کے لفظ میں، اسلام کی خدمت کے نعرہ میں، ان کے اندر اتنی کشش ہے اور ایسی مقناطیسی طاقت ہے کہ اس موقع پر ان کو اپنا ہوش باقی نہیں رہ سکتا اور اس وقت ان کا مقابلہ آسان نہیں ہوتا۔ لیکن افسوس ہے کہ جو لوگ ان یونیورسٹیوں سے تیار ہو کر جاتے ہیں، وہ سب سے واقف ہوتے ہیں لیکن خود اپنی قوموں کی صلاحیتوں سے واقف نہیں ہوتے۔‘‘

جدید علوم کا حصول ضروری ہے

علم انسانی زندگی کی طرح نمونہ پذیر چیز ہے۔ علم میں کوئی تعصب یا گروہ بندی نہیں۔ ہر مفید علم کے حصول کی کتاب و سنت نے ترغیب دی۔ ہمارے اسلاف عظام نے تمام جدید سے جدید تر علوم حاصل کیے۔ مولانا نے یورپ میں موجود طلباء کو علمی قابلیت پیدا کرنے پر ابھارا لیکن یہ نصیحت بھی کی کہ مقصد اور وسائل کے فرق کو نہ بھولیں۔ مولانا فرماتے ہیں:

’’میں ہرگز یہ پوزیشن اپنے لیے قبول نہیں کر سکتا کہ میں جدید علوم کی مخالفت کروں۔ آپ کو ان یونیورسٹیوں سے زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرنا چاہیے۔ بلکہ ہم تو آپ کو آپ کے والدین کو مبارکباد دیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے مسلمان نوجوان کو جدید عمل میں بڑے سے بڑے مرتبہ حاصل کرنا چاہیے۔ ان میں اتھارٹی بننا چاہیے اور بڑے محقق کا درجہ حاصل کرنا چاہیے۔ یہ موجودہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

لیکن میرے عزیز اور دوستو! آپ جانتے ہیں کہ مقصد اور وسیلہ میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ میری یہ چھڑی بڑی کارآمد چیز ہے، میں اس سے ٹیک لگاتا ہوں، یہ مجھے سہارا دیتی ہے، میں اس سے مدافعت بھی کر سکتا ہوں۔ مگر چھڑی بجائے خود مقصد نہیں، اگر اس سے بہتر چیز مجھے ملے یا میں اس سے بے نیاز ہو سکوں تو میں خودبخود اس کو چھوڑ دوں گا۔ ایک زمانہ میں اس سے ہتھیار کا کام لیا جاتا تھا، لیکن اس سے زیادہ کارگر اور مؤثر ہتھیار ایجاد ہوئے تو لوگوں نے اسے چھوڑ کر بندوق لے لی۔ اس لیے یہ جدید اور قدیم علم کی تقسیم بالکل غلط ہے، علم ہمیشہ تازہ ہی ہوتا ہے، وہ جس کو آپ قدیم کہہ رہے ہیں اپنے زمانہ میں بالکل جدید تھا۔ اور جسے آپ جدید کہہ رہے ہیں، بالکل ممکن ہے وہ پچاس برس بعد ایسا قدیم ہو جائے کہ اس کا نام لینا بھی بڑے عیب اور شرم کی بات ہو جائے۔ آپ زبانوں میں مہارت پیدا کریں، علوم میں کمال پیدا کریں۔ یہاں کے جتنے شعبے ہیں، کیمسٹری سے لے کر انجینئری تک، اور آرٹ، تاریخ، فلسفہ اور نفسیات سب میں بہت شوق سے آپ کمال پیدا کریں، لیکن آپ اس کو ایک ذریعہ سمجھیں۔‘‘

علم کا مقصد اور فائدے

علم کا مقصد و غایت یہ ہونا چاہیے کہ دنیاوی و اخروی نجات اور سعادت حاصل ہو۔ انسانیت کی فتح ہو، ظلمتوں کا پردہ چاک ہو، ظلم و نا انصافی دور ہو، ہر چہار سو روشنی پھیلے، اور سکون کی دولت سے دل بہرہ مند ہو۔ لیکن جدید تعلیم اور مادی و صنعتی اور صرف دنیاوی فلاح پر قائم مغربی سوسائٹی آج مادی فلاح اور سکون سے بھی محروم ہے، کیونکہ خدا، کائنات اور انسان کی ہستی سے بے خبر ہیں۔ اس سلسلہ میں مولانا فرماتے ہیں:

’’اصلی اور بنیادی حقیقت یہ ہے کہ انسان کیا ہے؟ اور انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ انسان کس طرح زندگی گزار سکتا ہے؟ اس معاملہ میں یہ قومیں بالکل مفلس ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج یہ تمام فتوحات بچوں کا کھیل بن کر رہ گئیں۔ مغربی تہذیب ایک ڈرامہ کھیل رہی ہے۔ جیسے شکسپیئر کے ڈرامے ہوتے تھے، ہم اور آپ تماشائی ہیں، دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ واہ واہ کیا ہوا میں اڑے اور کیا پانی پر چلے۔ لیکن ہوا کیا؟ انسان نے کتنی ترقی کی؟ دنیا میں امن کتنا پھیلا؟ محبت اور بھائی چارہ کتنا عام ہوا؟ انسان ایک دوسرے سے کتنا قریب ہوا؟ انسان نے انسان کو کتنا پہچانا؟ دل کتنے روشن ہوئے؟ قلب کو سکون کتنا حاصل ہوا؟ انسان کو اپنی منزل کا کتنا پتہ چلا؟

انسان کے اخلاق درست ہوئے یا نہیں؟ اس کے اندر جو خراب اخلاق تھے، دوسروں کو پھاڑنا اپنے بچوں کو پالنا، دوسرے کے گھروں کو لوٹ کر اپنے گھروں کو بھرنا، دوسروں کی جیب کاٹ کر اپنی جیب بھرنا، دوسروں کو ذلیل اور غلام بنا کر خوش ہونا اور اپنی فتح کے جھنڈے اڑانا، اس میں کتنی کمی آئی؟ ان قوموں نے اس دنیا کو منڈی سمجھ لیا ہے یا اقبال کے الفاظ میں ایک قمار خانہ اور جوا خانہ سمجھ لیا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں پہلی اور دوسری دو عظیم جنگیں ہوئیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ آخر اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ ان ساری فتوحات سے انسانیت کو کیا حاصل ہوا؟ کیا دنیا کو امن و سکون حاصل ہوا؟ اور انسان نے اپنے حقیقی مقصد میں کتنی کامیابی حاصل کی؟

آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ قوموں کی باہمی عداوتیں کم نہیں ہوئیں بلکہ ایسی شدید نا انصافیاں ہو رہی ہیں جسے کہتے ہیں ہاتھی نگل جانا۔ ایک فلسطین کا مسئلہ لے لیجئے، زبردستی ترقی یافتہ قوموں نے اس سرزمین کے اصلی رہنے والوں کو جلا وطن کر کے ایک ایسی قوم کو وہاں لا کر بسایا اور قومی وطن بنانے کا موقع دیا جو سینکڑوں نہیں ہزاروں برس سے اس ملک سے باہر ٹھوکریں کھا رہی تھی۔‘‘

انسانیت کو نجات دینے والی امت

قدیم تاریخ شاہد ہے کہ امتِ اسلامیہ نے انسانیت کی ڈوبتی کشتی کو ساحلِ مراد سے ہمکنار کیا تھا۔ آج بھی یہ امت اور اس کے صالح افراد قرآن و سنت کے پیغام برحق کے ذریعے انسانیت کے نجات دہندہ بن سکتے ہیں۔ مولانا مرحوم نے حاضرین کو اس طرح عزم و حوصلہ اور ہمت کا سبق دیتے ہوئے فرمایا:

’’آپ اس قوم کے فرد ہیں جس نے ایک زمانہ میں عام دنیا کی قیادت کی ہے، جس نے انسانیت کی ڈوبتی کشتی کو ترایا ہے۔ میں کل ہی اپنے عرب دستوں سے کہہ رہا تھا کہ جس وقت انسانیت کی کشتی ڈوب گئی اور دلدل میں پھنس گئی اور کوئی اس کا نکالنے والا نہ تھا تو یہی امت ِمسلمہ اور یہی عرب جو سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے تھے، آگے بڑھے اور انہوں نے اس کشتی کو دلدل سے نکالا، اور آج ہم آپ اس کشتی میں بیٹھے ہوئے اپنا سفر طے کر رہے ہیں۔ اب مشرقی قوموں کی پست ہمتی کہ ہم نے علوم کے میدان میں ترقی نہیں کی، اس کے برخلاف یورپ نے اس میں خاطر خواہ فتوحات حاصل کیں۔ یہ ہماری بدقسمتی تھی ورنہ اصل میں دنیا کی رہنمائی اور دنیا کی اتالیقی اور نگرانی ہمارے سپرد تھی، اور میں دعوٰی کے ساتھ آپ سے کہتا ہوں کہ آج بھی صرف مسلمان ہی اس قابل ہیں کہ وہ دنیا کی رہنمائی کریں۔‘‘

یورپ سے علوم سیکھئیے لیکن انہیں حقائقِ زندگی سکھائیے

مولانا نے تقریر کے اخیر میں ایک عنوان اس طرح باندھا ہے ’’اگر ہم یورپ سے کچھ لے سکتے ہیں تو اس سے بہتر دے بھی سکتے ہیں‘‘۔ اور واقعہ یہ ہے کہ یورپ نے جو مادی و صنعتی اور سائنسی ترقی کی ہے اس سے استفادہ کرنا اور اسے سیکھنا یقیناً ضروری ہے، لیکن ہمارے بعض نوجوان ان علوم کے ساتھ ہر کس و ناکس کی اطوار و عادات، خصلتیں اور تہذیب و تمدن کو اختیار کر لیتے ہیں۔ اسلام میں ہمیں اس کی اجازت نہیں، زندگی کا نصب العین اور دنیا و آخرت کے یقینی حقائق ہمارے پاس ہیں۔ اس لیے درآمد برآمد کے اصول کے تحت ہم یہ روحانی سکون اور دنیا و آخرت کی فلاح کے ضامن حقائق ہمیں دوسروں کو سکھانا ہو گا۔ اس سلسلہ میں مولانا فرماتے ہیں:

’’آپ جن قوموں سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا ایک معیار، ایک مقصدِ زندگی ہے، کچھ عقائد ہیں، ان کے سامنے ایک منزل ہے۔ وہ اس مغربی تہذیب پر کبھی مطمئن نہیں ہو سکتے۔ بے شک آپ اہلِ مغرب سے علوم حاصل کیجئے ۔۔۔ اسلامی علوم کے بارے میں بھی آپ ان کے نظریات معلوم کیجئے، اس سے بھی آپ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن آپ یہ نہ سمجھئے یہ امام برحق ہیں اور آخری مثال ہیں اور دنیا ان کی رہنمائی کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اور مشرق کی جاہل، نیم وحشی اور پسماندہ اقوام کے لیے یہ فرشتہ رحمت ہیں، انہوں نے ہم کو سکھایا اور آدمی بنایا۔ اگر آپ ایسا سمجھیں گے تو آپ سے بڑھ کر آپ کا اپنے اوپر، اور جن سے آپ کا انتساب ہے، کوئی ظلم اور قوموں اور اپنی تاریخ کے ساتھ اس سے بڑی کوئی نا انصافی نہ ہو گی۔

آپ بے شک ان سے وہ چیزیں لیجئے جو آپ کو وہاں نہیں مل سکیں گی، لیکن آپ یہاں رہتے ہوئے بھی یہ سمجھئے کہ یہ بہت سی چیزوں میں کھوکھلے ہیں، اور جیسے ہم ان سے بہت سی چیزیں سیکھ سکتے ہیں، یہ بھی ہم سے بہت سی چیزیں سیکھ سکتے ہیں۔ جو چیزیں ہم ان کو سکھاتے ہیں وہ زیادہ قیمتی اور اہم ہیں۔ اور جو چیزیں ہم ان سے سیکھتے ہیں وہ بہت غیر اہم اور حقیر ہیں۔ لیکن میں اس موقع پر اتنا ضرور کہوں گا کہ دو چیزیں ہم ان سے سیکھ سکتے ہیں، تو دو چیزیں ہم ان کو سکھا بھی سکتے ہیں۔ اور یہ بھی میں بہت نیچے اتر کر کہہ رہا ہوں، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ دو چیزیں ہم ان سے سیکھ سکتے ہیں تو چار چیزیں ہم ان کو سکھا بھی سکتے ہیں۔ اس لیے کہ آپ جو اُن کو دے سکتے ہیں اس سے ان کی زندگی یہاں بھی کامیاب ہو سکتی ہے اور آخرت میں بھی کامیاب ہو سکتی ہے (اس پر ہمارا عقیدہ ہے، اور عیسائیوں کا بھی عقیدہ ہے)۔ اور یہ جو ہم کو دے رہے ہیں، اگر یہ نہ ملے تو زیادہ سے زیادہ ہمارا سفر ذرا دیر میں طے ہو گا، ہم کو تھوڑی دقتیں ہوں گی، ہمارا وقت ذرا زیادہ صرف ہو گا۔  یہ حاصل ہے ان کے دین کا اور وہ نتیجہ ہے ہمارے دین کا۔ اب آپ ہی انصاف کیجئے کہ ہماری دین بڑھی ہوئی ہے یا ان کی؟‘‘

یورپ جانے والوں سے مطالبہ

مولانا علی میاںؒ نے ۱۹۶۱ء میں ایک مضمون اسلامک سنٹر جنیوا کی فرمائش پر لکھا جو عربی رسالہ ’’المسلمون‘‘ میں چھپا تھا، جس میں اسلام کے عالمگیر امتیازات بتانے کے بعد مسلمان نوجوانوں سے مولانا نے تین مطالبے کیے تھے۔ مختصر طور پر ہم ان کو یہاں نقل کرتے ہیں تاکہ یورپ و امریکہ وغیرہ ممالک میں رہنے والے اور مغربی تہذیب میں پلنے والے ان سے فائدہ اٹھائیں:

  1. آپ اسلام کا ازسرنو مطالعہ کریں۔ اور ان خصوصیات اور اس کے روشن امتیازات کی روشنی میں ۔۔۔ آپ نئے طرز، نئے انداز اور جدید خطوط پر اسلام کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کے مطالعہ میں اپنی سنجیدہ فکر کا استعمال کریں ۔۔۔ آپ قرآن مجید پڑھیں کہ وہ کوئی قدیم آسمانی کتاب نہیں بلکہ اس دور کے لیے نازل ہوئی ہے اور آپ ہی اس کے مخاطب ہیں۔ آپ سیرت نبویؐ اور حدیث شریف کے مطالعہ میں اپنا قیمتی وقت صرف کریں۔ اور صاحبِ سیرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شخصی محبت اور ذاتی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ یہ تعلق مطالعہ، تحقیق، محبت، جذبات، تکریم و تعظیم اور اتباع و تقلید کی پاکیزہ بنیادوں پر قائم ہو۔
  2. اس کے بعد آپ پر فرضِ عین ہے کہ آپ یورپ میں اسلام کی صحیح نمائندگی کریں، اسلامی عقائد کا اظہار پوری جرأت سے کریں اور اس کی صحیح تصویر پیش کریں۔ اسلام کے دیے ہوئے فرائض، اخلاق اور شعائر کی حفاظت کریں۔ آپ ایسے دین کے نمائندے ہیں جو خیر الادیان اور موجودہ معاشرہ اور تہذیب کے لیے موزوں ہے اور اسے آپ کی ضرورت ہے۔
  3. آپ کو اپنے دوستوں اور ہم عمر مسلمان نوجوانوں کو، جو اسلام کی نمائندگی میں شرم محسوس کرتے ہیں، ان کے سامنے اس کی شکل اچھی پیش کرنا ہے۔ اسلامی ملکوں ۔۔۔ عربی مراکز کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے نوجوان جو اسلام کے اظہار سے کنارہ کش رہتے ہیں، ان کے لیے ایک اچھی مثال قائم کرنا ہے، اور اس کے لیے یقیناً آپ کے واسطے ایک مستقل اور مسلسل اجر کا وعدہ ہے۔ اس پاکیزہ اسلامی زندگی کے ساتھ، جو صلاح و تقویٰ، صدق و امانت، ذکر و عبادت، رضا و قناعت، نشاط و قوت، روحانی بالیدگی اور پُرکیف جذبات سے معمور ہے، آپ اپنے دوست و احباب، اساتذہ اور پاس پڑوس کے رہنے والوں کو اسلام کی طرف کھینچ سکتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس طریقہ پر اسلام نے سینکڑوں دانشمندوں کو اپنی گود میں پناہ دی ہے، اور بغیر کسی لشکر کے، فوج کشی اور مجاہد کی تلوار کی جنبش کے، ملکوں اور قوموں نے اس سرمایۂ حیات کو سینے سے لگایا ہے۔ آپ ان حالات میں اپنی اہمیت اور قیمت کو محسوس کریں اور اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اس کے حقوق کو پورا کریں۔‘‘

مضمون ختم کرنے سے پہلے راقم مرحوم کی ایک تقریر جو ۲۸ جون ۱۹۶۹ء میں شیفیلڈ کے تبلیغی اجتماع میں کی ہے، سے چند باتیں پیش کرنا چاہے گا۔ یہ تقریر راقم کے پاس تحریری شکل میں موجود ہے، کہیں چھپی ہے یا نہیں مجھے اس کا علم نہیں۔ مولانا نے تقریر آیتِ کریمہ ’’ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ‘‘ کے تحت فرمائی اور دین کی خدمت و نصرت و تبلیغ سے کنارہ کش کو ہلاکت سے تعبیر کرتے ہوئے ناصحانہ انداز میں ارشاد فرمایا:

’’دوستو! اللہ تعالیٰ نے آپ حضرات کو اس سرزمین پر پہنچایا ہے، اب میں آپ کو صاف کہتا ہوں کہ آپ کے لیے خودکشی کیا ہے؟ اور آپ کے لیے اپنے اوپر احسان کیا ہے؟ آپ کے لیے تنزل کا راستہ کیا ہے؟ اور ترقی کا راستہ کیا ہے؟ ہلاکت اور خطرہ کا راستہ کیا ہے؟ اور حفاظت و ضمانت کا راستہ کیا ہے؟

اگر آپ یہاں صرف کاروبار اور پیسہ کمانے میں مشغول رہے اور آپ کی ساری تگ و دو اسی پر صرف ہو گئی تو آپ یاد رکھیئے یہ ایک اجتماعی اور عمومی خودکشی ہو گی جو قوموں کے لیے بہت خطرناک ہوتی ہے ۔۔۔ اگر آپ یہاں نہ آتے اور انگریز قرآن پاک و سیرتِ رسولؐ پڑھ کر اسلام کی طرف مائل ہوتے تو وہ سوچتے کہ یہ امت کیسی ہو گی۔ وہ تو بس مقدس انسان ہوں گے، ہر چیز میں نمونہ اور آئیڈیل ہوں گے، ان کی ہر چیز سیرتِ نبویؐ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہو گی۔ فرض شناس، صادق الوعد اور صادق القول ہوں گے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا انہیں خیال ہو گا۔

اس لیے اگر آپ نے اسلامی زندگی کا اچھا نمونہ پیش نہ کیا، آپ کو اللہ کے احکام اور شریعت کے حلال و حرام کے معلوم کرنے کی فرصت نہ ہوئی، اپنی اصلاح کی فکر نہ ہوئی، اور دوسروں میں تبلیغِ دین کی فرصت نہ ہوئی، اپنی ہدایت اور جس ملک میں رہے رہے ہیں اس کے باشندوں کی ہدایت کی فکر نہ ہوئی، تو آپ کا بھی نقصان ہے اور انسانیت کی راہ راست تک رسائی نہ ہونے سے دنیا کا بھی بھاری نقصان ہے۔

آج الحمد للہ قدیم گرجے خرید کر ان میں مسجدیں بن رہی ہیں جن سے اللہ کا نام بلند ہو رہا ہے، ’’اشہد ان محمدًا رسول اللہ‘‘ کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں جو عقیدۂ تثلیث پر ضرب لگا رہی ہیں۔ یہاں تمہاری خصوصیت، قابلیت اور ضرورت اس لیے ہے کہ یہاں کی زندگی ہدایت کی پیاسی ہے۔ یہاں کی فضائیں اذانوں کی منتظر ہیں۔ تم یہ عہد کرو کہ ہم یہاں اسلام کو پھیلائیں گے، چمکائیں گے، اپنی زندگیوں سے بھی اور اپنی تبلیغی و دعوتی سرگرمیوں سے بھی۔ تو اللہ تعالیٰ تمہیں فتح و نصرت عطا کریں گے اور تمہاری اور آل اولاد اور تجارتوں کی بھی حفاظت کریں گے۔ تمہیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ تم اس سرزمین کے لیے مفید ہو، اس قوم کو تمہاری ضرورت ہے، تم اس کے معالج ہو، اس کو ہدایت کا راستہ بتانے والے ہو۔  خدا ہمارے قلوب کو ہدایت کی طرف موڑے اور ہم سے اپنے دین کی حفاظت کا کام لے  (آمین)۔ ‘‘


بچیوں کی پرورش اور سنتِ نبویؐ

مولانا عصمت اللہ

اسلام نے جس قدر عورت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے اس کی مثال کسی مذہب، تہذیب، تمدن اور ملک میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ یہ اسلامی تعلیمات ہی ہیں جس نے عورت کی زندگی کو عمر کے مختلف حصوں، شعبوں میں تقسیم کیا ہے اور پھر ہر شعبہ زندگی کی نسبت سے حقوق، احکام و مسائل اور ضرورتِ زندگی کی تفصیلات بیان کر دی گئی ہیں۔
بچی جب پیدا ہوتی ہے تو بالغ ہونے تک کے لیے الگ احکام اور تعلیمات ہیں۔ بالغہ ہونے کے بعد الگ احکامات ہیں۔ اسی طرح شادی سے قبل کی زندگی، شادی کے بعد کی زندگی کے احکامات کی تفصیلات موجود ہیں۔ تیسری تقسیم اس طرح کی جا سکتی ہے کہ بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کے لحاظ سے اسلامی تعلیمات میں الگ الگ تفصیلات اور ہر حیثیت کے تعین کے اعتبار سے علیحدہ علیحدہ حقوق موجود ہیں۔
اسلامی تعلیمات میں عورت کی زندگی کی اس طرح الگ الگ حیثیات کا تعین اور زندگی کے درجات کی تفصیل اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام نے عورت کو مکمل اہمیت دی ہے۔ اس کی زندگی کے کسی شعبہ کو حقوق سے خالی نہیں چھوڑا۔ زندگی کے پورے سفر میں اس کی حفاظت و نگرانی، عفت و عصمت اور دیکھ بھال پر کسی نہ کسی کو ضرور مقرر کر رکھا ہے۔ بیٹی ہے باپ کی ذمہ داری اور نگرانی میں، بیوی ہے تو شوہر کی حفاظت میں، ماں ہے تو اولاد کے لیے، اس کے قدموں تلے جنت کی بشارت سنا دی ہے اور اولاد کو ماں کی خدمت پر لگا دیا ہے۔
اس کے برعکس انسانی زندگی کی تاریخ پر نظر ڈالیں۔ مذاہبِ عالم کی تعلیمات کا مطالعہ کریں۔ مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں پر نگاہ دوڑائیں۔ خواہ اس کا تعلق تہذیبِ حاضر سے ہو یا ماضی کے ظالمانہ اور بے ربط نظاموں سے، کہیں بھی عورت کے لیے حقوق کی وہ تفصیلات، انوثت کی وہ اہمیت، اور اس کی عفت کے ایسے انتظامات نظر نہیں آتے جو اسلامی تعلیمات میں ملتے ہیں۔
انسانی تمدن کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ عورت ننگ و عار کا باعث سمجھی جاتی تھی۔ بچی کی پیدائش باعثِ عزت نہیں تھی بلکہ باعثِ ذلت و رسوائی، شر و فساد اور موجبِ نحوست و عیب تصور کی جاتی تھی۔ جس تہذیب کی عمارت ہی بچی کی پیدائش پر ایسے غلط نظریات سے تعمیر کی گئی ہو، وہاں اس کی پیدائش پر خوشی و مسرت کی لہر کیسے دوڑ سکتی تھی؟ اس کی عفت و عصمت کا انتظام کیونکر کیا جا سکتا تھا؟ اس کی تعلیم و تربیت، کفالت و پرورش اور اچھی دیکھ بھال پر جنت کی بشارت، دوزخ سے آڑ اور رحمت و برکت کی خوشخبری کیونکر سنائی جا سکتی تھی۔
مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’ہندومت میں عورتوں پر ویدوں کی تعلیم کا دروازہ سرے سے ہی بند کر دیا گیا تھا۔ بدھ مت میں بھی اس کا کوئی انتظام نہ تھا۔ یہودیت، مسیحیت ویسے ہی عورت کو گناہ کی بانی و مبانی قرار دیتی تھیں۔ اسی طرح روم، ایران، چین اور مصر کی تہذیب و ثقافت کے مراکز میں عورت کی تعلیم و تربیت کا کہیں نام و نشان تک نظر نہیں (آتا) تھا۔‘‘ (پردہ ص ۱۱)
اور عرب میں بچی کی پیدائش پر باپ اور ماں کا جو حال ہوتا تھا، قرآن اور عرب کے قدیم شعراء نے اس کی کیفیت بیان کی ہے۔ جب کسی کے ہاں بیٹی ہونے کی خبر دی جاتی تو باپ کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا، وہ غصے کے گھونٹ پیتا، مارے عار اور ذلت کے لوگوں سے چھپتا پھرتا کہ اس کو اپنے پاس رہنے دے یا اس کو مٹی میں دبا دے۔ (النحل آیت ۷)
قرآن کریم نے کوئی افسانوی یا خیالی و فرضی بات بیان نہیں کی بلکہ یہ ایک نفس الامری اور وجودی حقیقت کی نقاب کشائی کی ہے۔
علامہ سید سلیمان ندویؒ نقل کرتے ہیں:
’’ایک شخص نے آ کر خدمتِ اقدس میں عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ جاہلیت والے تھے، بتوں کو پوجتے تھے اور اولاد کو مار ڈالتے تھے۔ میری ایک لڑکی تھی، جب میں اس کو بلاتا تو وہ دوڑ کر میرے پاس آتی۔ ایک دن وہ میرے بلانے پر خوش خوش دوڑی آئی، میں آگے بڑھا وہ میرے پیچھے چلی آئی، میں آگے بڑھتا چلا گیا۔ جب میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کنویں میں ڈال دیا، وہ ابا ابا کہہ کر پکارتی رہی اور یہی اس کی زندگی کی آخری پکار تھی۔
رحمتِ کونینؐ اس پُردرد افسانہ کو سن کر آنسو ضبط نہ کر سکے۔ ایک صحابیؓ نے ان صاحب کو ملامت کی کہ تم نے حضورؐ پاک کو غمگین کر دیا۔ فرمایا، اس کو چھوڑ دو کیونکہ جو مصیبت اس پر پڑی ہے وہ اس کا علاج پوچھنے آیا ہے۔ پھر ان صاحب سے فرمایا، میاں تم اپنا قصہ پھر سناؤ۔ اس نے دوبارہ پھر بیان کیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت ہوئی کہ روتے روتے ریش مبارک تر ہو گئی۔ پھر فرمایا، جاؤ! جاہلیت کے گناہ اسلام کے بعد معاف ہو گئے، اب نئے سرے سے اپنا عمل شروع کرو۔‘‘ (سیرۃ النبی ص ۱۲۲ ج ۶)
قبیلہ بنی تمیم کے قیص بن عاصمؓ اسلام لائے تو عرض کیا، یا رسول اللہ! میں نے اپنے ہاتھ سے آٹھ لڑکیاں زندہ دفن کی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا، ہر لڑکی کے بدلہ میں ایک غلام آزاد کرو۔ عرض کیا، میرے پاس اونٹ ہیں۔ فرمایا، ہر لڑکی کے بدلہ میں ایک اونٹ کی قربانی کرو۔
تعجب تو یہ ہے کہ اسلام سے پہلے والدین اپنی مرضی اور خوشی سے بچیوں پر ایسے مظالم ڈھاتے تھے، اپنے بتوں اور دیوتاؤں کی خوشی کے لیے ان کو ذبح کر ڈالتے تھے، منت مانتے تھے کہ میرا فلاں کام ہو گا تو بچے کی قربانی کروں گا۔ یہ رسم صرف عرب میں ہی نہیں تھی بلکہ بہت سی بت پرست قوموں میں جاری تھی۔ رومۃ الکبریٰ کے عظیم الشان قانون میں اولاد کو مار ڈالنے کا باپ کو مکمل اختیار تھا، اس پر کوئی باز پرس کرنے والا نہ تھا۔
ہندوستان کے راجپوتوں میں یہ دردناک منظر لڑکیوں کی شادی کی شرم و عار سے بچنے اور بیواؤں کی ستی کی صورت میں اور لڑائیوں میں جوہر کی صورت میں رائج تھا۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ بتوں اور دیوتاؤں کی خوشی اور نذرانے کے لیے ان معصوموں کی جانیں بہت آسانی سے لی جاتی تھیں۔ (سیرۃ النبی ص ۱۲۵ ج ۶)
اسلام سے پہلے اس قسم کی رسومات کے انسداد کا کوئی انتظام کسی ملک کے قانون یا کسی قوم کی تہذیب میں نہ تھا۔ سوائے ایک یا دو نیک آدمیوں کے جن کی فطرت اور طبعی افتاد میں یہ جذبہ موجود تھا۔
چنانچہ اس سلسلہ میں ایک مشہور شاعر فرزدق کے دادا صعصعہ نے ۳۶۰ لڑکیوں کو خرید کر موت سے بچا لیا تھا۔ اسلام لانے کے بعد انہوں نے خدمتِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا، تم کو اس پر ثواب ملے گا اور خدا نے تم کو مسلمان بنا کر احسان کیا ہے۔
دوسرے شخص زید بن عمرو بن نفیل تھے جو ملت ِابراہیمیؑ پر تھے۔ حضرت امام بخاریؒ ان کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی بیٹی کو زندہ درگور کرنے کا ارادہ کرتا تو زید بن عمرو اس کے اس ارادے کے درمیان حائل ہو جاتے۔ اس کو کہتے ’’لا تقتلھا انا اکفیکھا مونتھا‘‘ (بخاری شریف ص ۵۴۰ ج ۱) ’’اس کو قتل نہ کر میں تیری طرف سے اس کی پرورش کی مشقت برداشت کر لوں گا‘‘۔ چنانچہ اس بچی کو لے لیتے، تربیت کرتے، جب بڑی ہو جاتی تو اس کے باپ کو کہتے ’’اگر تو چاہے تو میں اس کو تیرے سپرد کر دیتا ہوں، اور اگر میرے پاس ہی رہنے دینا چاہتا ہے تو میں اس کے لیے بھی تیار ہوں۔‘‘
یہ انفرادی اور شخصی کوشش تھی ورنہ عموماً لوگ لڑکیوں کے وجود کو مصیبت اور بلا خیال کرتے تھے۔ یہ اسلامی تعلیمات اور ارشاداتِ نبویہؐ کا کرشمہ ہے کہ اس بلا اور مصیبت کو ایسی رحمت بنا دیا کہ یہ نجاتِ اخروی کا ذریعہ بن گئی۔
چنانچہ امام نوویؐ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں:
’’حضرت انس ؓ رسول اکرمؐ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا، جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ دونوں بلوغ تک پہنچ گئیں، میں اور وہ قیامت کے دن اس طرح ساتھ ساتھ آئیں گے جس طرح یہ دو انگلیاں‘‘۔ (ریاض الصالحین ص ۱۳۶)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان انقلابی تعلیمات کا اثر یہ ہوا کہ عرصے سے زنگ آلود ذہن پاک اور صاف ہو گئے، منفی سوچیں مثبت خیالات میں بدل گئے، دلوں میں نرمی پیدا ہو گئی، سفاک اور شقی مزاج رحیم و شفیق بن گئے، بچیوں سے نفرت و کراہت محبت و پیار میں تبدیل ہو گئی۔ تھوڑا ہی عرصہ پہلے جو لوگ بچی کی کفالت سے دور بھاگتے تھے اب اس کی پرورش کو سعادت سمجھنے لگے، اس کی تربیت پر جھگڑے ہونے لگے۔ بچی کا گھر میں ہونا، پالنا، دیکھ بھال کرنا، تعلیم و تربیت پر مشقت اٹھانا انتہائی آسان ہو گیا۔ یہ سب اسلامی تعلیمات کی سحر آفرینی تھی۔
چنانچہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ذی القعدہ ۶ھ کو مکہ کی طرف عمرہ کی ادائیگی کے لیے روانہ ہوتے ہیں، اہلِ مکہ آپ کو مکہ میں دخل نہیں ہونے دیتے، آخر کار کچھ شرائط پر طے پاتا ہے کہ آپ آئندہ سال عمرہ کے لیے حاضر ہو سکیں گے۔ جب اگلے سال آپؐ مکہ سے عمرہ کی ادائیگی کے بعد واپس لوٹتے ہیں تو حضرت حمزہؓ کی بیٹی امامہ ’’چچا چچا‘‘ کہتے ہوئے آپؐ کے پیچھے دوڑی آتی ہے۔ حضرت علیؓ اس کو ہاتھوں میں اٹھا لیتے ہیں اور حضرت خالدؓ ان سے کہتے ہیں یہ لو تمہارے چچا حمزہ کی بیٹی ہے۔ حضرت علیؓ، زیدؓ اور جعفرؓ کے درمیان اس کے بارے میں سرکار دو عالمؐ کے سامنے بحث شروع ہو جاتی ہے۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے، لہٰذا اس کی پرورش میں کروں گا، یہ مجھے ملنی چاہیے۔ حضرت جعفر طیارؓ دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے، لہٰذا اس کی کفالت کی سعادت میں لینا چاہتا ہوں، یہ مجھے دے دیں۔ حضرت زیدؓ عرض کرتے ہیں کہ یہ میرے مذہبی بھائی حمزہؓ کی بیٹی ہے لہٰذا اس کی ذمہ داری میں اٹھانا چاہتا ہوں، آپؐ اسے میرے سپرد کر دیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلمؐ نے یہ ارشاد فرما کر کہ ’’الخالۃ بمنزلۃ الام‘‘ خالہ ماں کے قائم مقام ہے، حضرت جعفر طیارؓ کے سپرد کر دیتے ہیں۔ (بخاری شریف ص ۶۱۰ ج ۲)
یہ سارے جذبات کس کی تعلیم و تربیت کے اثر سے پیدا ہوئے؟ ورنہ یہ تو وہی بچی ہے جس کی پیدائش کو ننگ و عار سمجھا جاتا تھا، اسے زندہ زمین میں دبا دیا جاتا تھا، اس کی پرورش پر اس کے خون سے ہاتھ رنگنے کو ترجیح دی جاتی تھی، اس کی ولادت پر چہرے سیاہ پڑ جاتے تھے، باپ لوگوں سے چھپتے پھرتے تھے، دم گھٹنے لگتے تھے، اس کے گھر آنے پر صفِ ماتم بچھ جاتی تھی۔ ذرا غور کریں کہ یکدم اس بچی کی پیدائش رحمت کا پیغام کیوں بن جاتی ہے اور اس کی پرورش پر دخولِ جنت کی خوشخبری پنہاں خیال کی جاتی ہے۔ اب اس کی پیدائش پر صفِ ماتم نہیں بچھتی، دم نہیں گھٹتے، چہرے سیاہ نہیں پڑتے، باپ لوگوں سے چھپتے نہیں بلکہ فرحت و مسرت کا اظہار کرتے ہیں، سرور و خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں، اس کی تعلیم و تربیت کو دوزخ سے بچاؤ کا سبب سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس کو تربیت میں لینے پر بحث و مباحثہ شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا اثر ہی تو ہے۔ ورنہ یہاں اکراہ و جبر کا تو نام و نشان تک نہیں ہے۔ کوئی دنیوی اغراض و مقاصد بھی نظر نہیں آتے، یقیناً یہ احساسات قرآنی افکار، دینی سوچ اور اسلامی تعلیمات کا کرشمہ ہی تو ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:
’’ایک مرتبہ میرے پاس ایک عورت آئی، اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں۔ وہ عورت غریب و بے کس تھی، اس نے مجھ سے کچھ سوال کیا، لیکن اس وقت میرے پاس ایک کھجور کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔ میں نے اس عورت کے حوالے وہی ایک کھجور کر دی، وہ کھجور تو اس نے لے لی لیکن اس کو دو برابر حصوں میں تقسیم کیا اور اپنی دونوں بیٹیوں کو ایک ایک پھانک دے دی اور خود اس میں سے کچھ بھی نہ کھایا، پھر وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور واپس چلی گئی۔ کچھ دیر بعد امام الانبیاءؐ تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے آپؐ سے سارا واقعہ بیان کیا تو آپؐ نے فرمایا، جو شخص ان بیٹیوں کی وجہ سے مشقت جھیلتا ہے، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرتا ہے، تو وہ لڑکیاں اس شخص کے لیے دوزخ سے آڑ اور ڈھال بن جائیں گی۔‘‘ (متفق علیہ)
یعنی بچیوں کی اچھی تربیت کرنے والا دوزخ میں نہ جائے گا۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ایک اور واقعہ بیان کرتی ہیں:
’’ایک اور مرتبہ میرے پاس ایک ضرورتمند اور بے سہارا عورت آئی، اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں۔ اس نے سوال کیا تو میرے پاس اس دفعہ تین کھجوریں تھیں۔ میں نے ان کو دے دیں۔ اس نے ان کو اس طرح تقسیم کیا کہ دونوں کو ایک ایک کھجور دے دی اور ایک اپنے کھانے کے لیے رکھ لی۔ جب اس کی لڑکیوں نے اپنی اپنی کھجور کھا لی، ان کی ماں کھانے کے لیے ابھی منہ تک ہی لائی تھی کہ اس کی لڑکیوں نے وہ بھی مانگ لی، ماں کی محبت دیکھئے کہ اپنے حصہ کی کھجور کھائی نہیں بلکہ اس کے دو ٹکڑے کیے اور وہ آدھی آدھی پھر دونوں کو دے دی۔
حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ مجھے اس عورت کی یہ بات بڑی اچھی لگی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپؐ کے سامنے اس کا تذکرہ کیا۔ آپؐ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے ان کی وجہ سے اس عورت کے لیے جنت واجب کر دی اور اس کو دوزخ کی آگ سے آزاد کر دیا۔‘‘ (ریاض الصالحین ص ۱۳۶)
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں: ’’والباقیات الصالحات خیر عند ربک ثواباً و خیر املاً‘‘ (الکہف) ’’اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے ہاں بہتر ہیں بدلہ میں اور بہتر ہیں توقع میں۔‘‘
عبید بن عمرؓ نے فرمایا کہ باقیات صالحات نیک لڑکیاں ہیں کہ وہ اپنے والدین کے لیے سب سے بڑا ذخیرۂ ثواب ہیں۔ اس پر حضرت عائشہؓ کی ایک روایت دلالت کرتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ میں نے اپنی امت کے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کو دوزخ میں لے جانے کا حکم دے دیا گیا تو اس کی نیک لڑکیاں اس کو چمٹ گئیں اور رونے اور شور کرنے لگیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کی کہ یا اللہ! انہوں نے دنیا میں ہم پر بڑا احسان کیا اور ہماری تربیت میں محنت اٹھائی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم فرما کر بخش دیا۔ (معارف القرآن ص ۵۸۴ ج ۵)
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کو کتنی اہمیت دی ہے اور جاہلیت کی دختر کش روایات و اقدار کو مسترد کرتے ہوئے بچیوں کی پیدائش کو خدا کی رحمت اور ان کی پرورش کو باعثِ نجات قرار دے کر صنفِ نازک پر کس قدر احسان کیا ہے۔

گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن کے پروگرام کا شرعی جائزہ

ادارہ

سوال

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
جناب مفتیان کرام دامت برکاتکم و اطال اللہ بقاء کم!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیانِ شرعِ متین اس پیچیدہ مسئلہ میں کہ مستقبل قریب میں جو بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں وہ اکیسویں صدی میں مغربی غلبہ کا ایک ذریعہ ہے، اس کے ذریعے پاکستانی ریاست جو کہ اسلام کا قلعہ ہے، اس کو کمزور کر کے اس کو مغربی استعمار کے نرغہ میں دینے کا منصوبہ ہے، استعمار کے پاکستان میں غلبہ کے تین منصوبے ہیں: (۱) گلوبلائزیشن (۲) لوکلائزیشن (۳) شہری حکومتوں کا قیام-

(۱) گلوبلائزیشن کیا ہے؟

گلوبلائزیشن کا مقصد اعلیٰ سیاست سے مرکزی حکومت کی دستبرداری اور اس اعلیٰ سیاست کو امریکی استعمار اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں (آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک) اور بین الاقوامی کمپنیوں (سٹی بینک وغیرہ) کے سپرد کر دینا ہے۔ پاکستانی تناظر میں اگر اس کو دیکھیں تو پاکستانی ریاست خارجہ پالیسی، اقتصادی پالیسی، دفاعی پالیسی کی تشکیل سے دستبردار ہو کر ان کو امریکی استعمار اور ان کے گماشتوں کے حوالے کر دے گی، اس طرح پاکستانی ریاست ایک مجبور، لاچار، لاغر اور بے بس ریاست بن کر استعمار کی باج گزار ریاست بن جائے گی۔

(۲) لوکلائزیشن کیا ہے؟

لوکلائزیشن کا مطلب یہ ہے کہ مرکزی حکومت خدمات کی فراہمی کے عمل سے دستبردار ہو جائے اور اس کی ذمہ داری ضلعی اور تحصیلی سطح پر مقامی حکومتوں کو منتقل کر دی جائے۔ ان مقامی حکومتوں کو چلانے کی ذمہ داری محض منتخب نمائندوں کی نہ ہو بلکہ ورلڈ بینک کی ڈیویلپمنٹ رپورٹ برائے ۲۰۰۰ء و ۲۰۰۱ء کے مطابق اس میں پرائیویٹ سیکٹر، این جی اوز اور دیگر سیکولر عناصر مدبرین اور ماہرین شامل ہیں۔ اسی طرح غیر مسلموں کے لیے بھی کافی تعداد میں نشستیں رکھی گئی ہیں۔
دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ مقامی حکومتیں ان خدمات کو بطور خدمت نہیں بلکہ منافع کے حصول کے لیے انجام دیں۔ گویا مقامی حکومتیں منافع کے حصول کے لیے کمپنیاں بن جائیں اور ان کی خدمت کا سارا نظام پرائیویٹ کر دیا جائے اور اس کے بڑے خریدار ملٹی نیشنل کمپنیاں ہوں گی اور سود اور سٹہ کو عام کر دیا جائے گا۔

(۳) شہری حکومتوں کا قیام

گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن کا حتمی ہدف سنگاپور اور ہانگ کانگ کے طرز کے شہری حکومتوں کا قیام ہے۔ یہ شہری حکومتیں کم اور منافع کے حصول میں تگ و دو کرنے والی کمپنیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ اور ان کے شہری، شہری کم اور خریدار زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، لاہور، حیدر آباد، پشاور کو مضبوط پاکستان کا دل و جگر نہیں رہنے دیں گے، جو جہاد کشمیر اور جہاد افغانستان کے لیے اور استعمار کے خلاف جدوجہد کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکیں، بلکہ یہ ایسی کمپنیاں بن جائیں گی جو اپنے منافع اور غرض کو ملحوظ خاطر رکھ کر اس کی گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن کے لیے موجودہ حکومت بلدیاتی اور ضلعی انتخابات کا کھیل رچانا چاہتی ہے، جس کے خدوخال جنرل صاحب نے یوں وضع کیے ہیں:
  • ریاستی اقتدار کو چار سطحوں پر تقسیم کیا جائے گا: وفاق، صوبہ، ڈسٹرکٹ اور یونین کونسل۔
  • رائے دہندگان کی عمر ۲۱ سے ۱۸ سال کر دی جائے۔
  • وفاق اور صوبوں کے اختیارات کم کر دیے جائیں گے۔
  • ہر ڈسٹرکٹ اسمبلی میں دو غیر مسلم ممبر ہوں گے۔
  • ہر ڈسٹرکٹ اسمبلی اپنی علیحدہ مانیٹرنگ کمیٹی تشکیل دے گی تاکہ عوام حکومتی عمل میں شامل کیے جا سکیں، وغیرہ وغیرہ۔

مذکورہ عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے، نیز اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ جمعیت علماء اسلام نے ان انتخابات کے بائیکاٹ کے اعلان کا ارادہ کیا ہے، یہ بتائیں کہ ہونے والے انتخابات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ نیز اہلیانِ پاکستان کے لیے عموماً اور دینی جماعتوں اور علماء کرام کے لیے خصوصاً ان انتخابات میں حصہ لینا کیسا ہے؟ نیز موجودہ حالات میں اس انتخابات کے لیے عوام اور علماء کرام کے لیے کیا ذمہ داریاں ہیں؟

براہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں مجموعی نظام کو دیکھتے ہوئے شرعی حکم واضح فرمائیں تاکہ اہلیانِ پاکستان اس سے رہنمائی حاصل کر سکیں۔

واجرکم علی اللہ

المستفتی: محمد جاوید اکبر انصاری، کراچی


الجواب و منہ الصدق والصواب

واضح رہے کہ دشمنانِ اسلام ہر زمانہ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف، اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے کئی تدبیریں کرتے رہے ہیں۔ شروع میں مسلمانوں کو بزور طاقت مٹانے کی کوشش کی، اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔ پھر اسلامی عقائد و تعلیمات میں شبہات پیدا کر کے اسلام کو مٹانے کی کوشش کی، اس میں بھی ان کو ذلت و رسوائی اور خفت اٹھانی پڑی۔ تو دشمنانِ اسلام نے اسلام اور مسلمانوں پر وار کرنے کا طریقہ کار تبدیل کر دیا ہے۔ اب موجودہ دور میں انسانی حقوق کی علمبرداری اور حقوقِ نسواں کے تحفظ کی تحریکوں کے ذریعے سے مسلمانوں میں بے راہ روی اور دین سے بیزاری کا طریقہ اپنایا گیا۔ اس میں کسی حد تک کامیابی حاصل کرنے کے بعد مکمل کامیابی حاصل کرنے کے لیے نظامِ حکومت کی تبدیلی اور معاشی پالیسیوں کی تبدیلی کے ذریعے مسلمان حکومتوں اور مسلم عوام کو خوشنما نعروں کے فریب میں اپنی غلامی کے شکنجے میں جکڑنے کی تدبیریں تیار کی جا چکی ہیں۔ اور ہمارے دینی غیرت سے عاری حکمران ظاہری چمک دمک سے متاثر ہو کر بے وقوف مکھی کی طرح مکڑی کے جال میں پھنستے جا رہے ہیں۔

مسلمان عوام اور مسلمان حکومتوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ غیر مسلم عوام اور حکومتوں کے ساتھ محبت کے تعلق اور میل جول رکھیں، اور ان کے ساتھ مسلمان عوام اور مسلمان حکومتوں کے بالمقابل معاملات میں ترجیحی سلوک کریں، اور ان کی طرز زندگی اور طرز حکومت کو اپنائیں۔ ایسا کرنا ان کے دین اور دنیا دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے ساتھ تعلقات کے بارے میں قرآن پاک میں واضح ہدایات دی ہیں۔ قرآن پاک کی چند آیات پیشِ خدمت ہیں:

(۱) ترجمہ: اے ایمان والو! مت بناؤ یہود اور نصاریٰ کو دوست، وہ آپس میں دوست ہیں ایک دوسرے کے، اور جو کوئی تم (میں) سے دوستی کرے ان سے تو وہ انہی میں ہے، اللہ ہدایت نہیں دیتا ظالم لوگوں کو۔ (سورہ مائدہ پارہ ۶ آیت ۵۱)

(۲) ترجمہ: اے ایمان والو! مت بناؤ ان لوگوں کو جو ٹھہراتے ہیں تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل، وہ لوگ جو کتاب دیے گئے تم سے پہلے، اور نہ کافروں کو اپنا دوست، اور ڈرو اللہ سے اگر ہو تم ایمان والے۔ (سورہ مائدہ پارہ ۶ آیت ۵۷)

(۳) ترجمہ: اے ایمان والو! نہ بناؤ کسی کو صاحبِ خصوصیت اپنوں کے سوا، وہ کمی نہیں کرتے تمہاری خرابی میں۔ (سورہ آل عمران پارہ ۴ آیت ۱۱۸)

(۴) ترجمہ: اے ایمان والو! نہ بناؤ میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست، تم ان کو پیغام بھیجتے ہو دوستی کے اور وہ منکر ہوئے ہیں اس سے جو تمہارے پاس آیا سچا دین، نکالتے ہیں رسول کو اور تم کو اس بات پر کہ تم مانتے ہو اللہ کو جو رب ہے تمہارا۔ (سورہ ممتحنہ پارہ ۲۸ آیت ۱)

(۵) ترجمہ: اور مت جھکو ان کی طرف جو ظالم ہیں، پھر تم کو لگے گی آگ اور کوئی نہیں تمہارا اللہ کے سوا مددگار، پھر کہیں مدد نہ پاؤ گے۔ (سورہ ہود پارہ ۱۲ آیت ۱۱۳)

چند احادیث بھی ملاحظہ کریں:

(۱) ترجمہ: انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، قیامت کب ہے؟ آپؐ نے فرمایا، تو نے قیامت کے لیے کیا سامان کیا ہے؟ وہ بولا، اللہ اور اس کے رسول کی محبت۔ آپؐ نے فرمایا تو اس کے ساتھ ہو گا جس سے محبت رکھے۔ (مسلم شریف ص ۳۳۱ ج ۲)

(۲) ترجمہ: عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور بولا یا رسول اللہ! آپ کیا فرماتے ہیں اس شخص کے باب میں جو محبت رکھے ایک قوم سے اور اس قوم کے سے عمل نہ کرے۔ آپؐ نے فرمایا، آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے محبت کرے۔ (مسلم شریف ص ۲۳۳ ج ۲)

غیر مسلم استعمار مسلمان ملکوں کو اپنے شکنجے میں جکڑنے کے لیے نت نئی تدابیر اور اسکیمیں بروئے کار لاتے رہتے ہیں۔ انہی دشمنِ اسلام تدابیر و تجاویز میں سے طرز حکومت اور معاشی درستگی اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے منصوبے ہیں۔ ان میں سے زیادہ اہم تین منصوبے ہیں: (۱) گلوبلائزیشن (۲) لوکلائزیشن (۳) شہری حکومتوں کا قیام۔ اب ہم ان تینوں کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لیتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک میں کس قدر دینی و دنیوی نقصانات ہیں۔ ہر ایک منصوبہ ایک دوسرے سے بڑھ کر خوفناک نتائج لیے ہوئے ہیں۔

گلوبلائزیشن (عالمگیریت)

جس کا مفہوم یہ ہے کہ

(۱) تمام ممالک ایک جیسی پالیسی اپنائیں اور اس میں کسی کی اپنی علیحدہ پالیسی نہیں ہو گی۔ بظاہر اتحاد کی بات کی گئی ہے لیکن عملاً اس میں بڑے بڑے سرمایہ دار ملکوں کی مرضی اور منشا نافذ ہو گی۔ چھوٹے ملک اپنی خارجہ پالیسی، معاشی پالیسی سے دستبردار ہو کر اپنے آپ کو غیر مسلم بڑے ملکوں کے حوالے کر دیں گے۔

(۲) مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس کے کسی مسلمان ملک کے ساتھ خصوصی تعلق کا تصور یکدم ختم ہو جائے گا۔

(۳) کوئی اسلامی ملک اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کی ذمہ داری پوری نہیں کر سکے گا۔ جبکہ این جی اوز کے نام سے لوگوں کو عیسائی بنانے یا دیگر مذاہب اختیار کرنے کی ترغیبات پر کوئی روک ٹوک نہیں لگائی جا سکے گی۔

(۴) عالمگیریت کے نام سے آئندہ مکہ اور مدینہ کو کھلا شہر قرار دلوا کر اس میں یہودیوں، عیسائیوں کے داخلہ کا راستہ ہموار کر کے یہودیوں کے مدینہ پر قبضہ کے خواب کی تکمیل کی کوشش کرنا ہے۔

(۵) جبکہ حکومت تمام ملکی پالیسیوں میں آئی ایم ایف وغیرہ کی دست نگر بن کر خود لاچار بے بس ریاست بن کر رہ جائے گی۔

لوکلائزیشن

کسی بھی حکومت و سلطنت کی مضبوطی اس کی رفاہی اور سماجی خدمات اور عام رعایا کو زیادہ سے زیادہ مہیا کرنے پر ہوتا ہے۔ جس قدر حکومت کی طرف سے رعایا کی خدمت ہو گی اسی قدر اس کی جڑیں عوام کے اندر راسخ ہوں گی۔ لوکلائزیشن سے مرکزی حکومت خدمات کی انجام دہی سے دستبردار ہو کر مقامی حکومتوں کے سپرد کر دے گی، اور مقامی حکومتیں اس ذمہ داری سے عہدہ برآ نہ ہو سکیں گی۔ جس کی بنا پر یہ تمام خدمات کی فراہمی پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کی جائیں گی اور ان کی بڑی خریدار ملٹی نیشنل کمپنیاں ہوں گی جو خدمات کو تجارت کا ذریعہ بنائیں گی۔ اور مقامی حکومتوں کے نام سے انہی غیر مسلم دشمنِ اسلام کمپنیوں کی حکومت ہو گی، اور غیر مسلم یقیناً مسلمان اور اسلام کے خیرخواہ نہیں ہو سکتے۔ یہ کمپنیاں زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کے لیے عوام پر ناجائز بوجھ ڈال کر ان کو پریشان کیا جائے گا۔ اس تجارتی طریق کار سے آپس میں ایک دوسرے کو نفع رسانی، ہمدردی اور غمگساری کے جذبات کو ختم کر کے صرف دنیا کے مطمع نظر بنا کر انسانیت کا جنازہ نکال دیا جائے گا۔

شہری حکومتوں کا قیام

یہ منصوبہ بھی اپنے مجوزہ طریق کار کے مطابق بے شمار دینی اور دنیاوی نقصانات سے لبریز ہے۔ چند نقصانات کا تذکرہ کیا جاتا ہے:

(۱) شہری حکومتیں تمام خدمات کی فراہمی کی ذمہ دار ہوں گی۔ جس کے لیے فنڈ کی کمی، جو کہ یقینی ہے، کی صورت میں غیر ملکی سکوں اور مالیاتی اداروں سے سود پر رقوم کی فراہمی کی جائے گی، جو قوم کو مزید قرضہ کے شکنجہ میں جکڑنے کا ذریعہ ہو گا۔

(۲) ہر ایک کونسل میں دو غیر مسلم ممبران کا تقرر باوجود عددی معدومی کے غیر مسلم کی شان کو بلند کرنا ہے۔

(۳) مجوزہ منصوبہ کے مطابق آدھی سیٹیں صنفِ نازک کے لیے مخصوص ہوں گی۔ اس پر عملدرآمد سے گھریلو خاندانی نظام، جو کہ پہلے سے زوال پذیر ہے، حرفِ غلط کی طرح مٹ جائے گا۔

(۴) جمہوری نظام کی بنا پر عورت کو کسی بھی مقامی کونسل کا سربراہ بنایا جا سکے گا، جو کہ فطرت کے خلاف ہے۔

(۵) عورتوں کا بے پردہ مردوں کے ساتھ اجلاس میں شریک ہونا بھی ناجائز امر کا مرتکب ہونا ہے۔

(۶) عورتوں کی اس قدر کثیر تعداد میں اس سیاسی نظام میں دخل اندازی سے گھریلو نظام تباہ ہو جائے گا، جس سے سکون نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔

(۷) عورتوں کی اتنی کثیر تعداد کی اس مصروفیت کی بنا پر بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی تربیت کا نظام شدید متاثر ہو گا، جس سے نسلِ جدید میں جہالت اور بے راہ روی بڑھے گی، جو کہ معاشرہ کی تباہی لائے گا۔ یہ خرابیاں اپنے اندر کئی خرابیاں لے کر آئیں گی۔ ملکی سالمیت اور اس کے اسلامی تشخص کو ناقابلِ تلافی نقصان کا ذریعہ اور سبب ہوں گی۔

ان امور کی بنا پر تمام دیندار عوام، اسلامی تنظیموں، دینی، سیاسی جماعتوں اور علماء کی ذمہ داری ہے کہ ملک کی تباہی کے اس مجوزہ منصوبہ اور تدابیر کے لیے سد راہ بن جائیں اور ان منصوبوں پر عملدرآمد کو ہر ممکن طریقہ سے روکنے کی کوشش کریں۔

اللھم وفقنا و وفق ولاۃ امورنا۔

فقط واللہ اعلم

کتبہ: مفیض الرحمٰن چاٹگامی

متخصص فی الفقہ الاسلامی، جامعہ العلوم الاسلامیہ، علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی

۱۶۔۴۔۱۴۲۱ھ بمطابق ۱۹۔۷۔۲۰۰۰ء

الجواب صحیح (مفتی) نظام الدین شامزئی

رئیس دارالافتاء جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی


دیوبندی مکتبِ فکر کی جماعتوں کے باہمی اشتراک و تعاون کیلئے مجوزہ ضابطۂ اخلاق

ادارہ

۷ ستمبر ۲۰۰۰ء کو دفتر مجلس احرار اسلام پاکستان مسلم ٹاؤن لاہور میں دیوبندی مکتب فکر کی مختلف جماعتوں کے سرکردہ زعماء کا ایک مشترکہ اجلاس حضرت مولانا قاضی عبد اللطیف صاحب آف کلاچی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں طے پایا کہ ’’علماء کونسل‘‘ کے نام سے دیوبندی جماعتوں کے درمیان اشتراک و مفاہمت کے فروغ کی کوششوں کو آگے بڑھایا جائے اور اس کے لیے ایک ضابطۂ اخلاق پر اتفاق کر کے مشترکہ جدوجہد کے لیے راہ ہموار کی جائے۔ ضابطۂ اخلاق کا متن اور اس پر دستخط کرنے والے زعماء کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء دیوبند کی جماعتوں اور مراکز میں مفاہمت اور رابطہ کار کو بڑھانے کے لیے مثبت اور عملی پروگرام کو آگے بڑھایا جائے اور پہلے مرحلہ میں ایک ضابطۂ اخلاق پر اتفاق کیا جائے تاکہ اس کے دائرہ میں اہلِ حق کی وحدت اور اشتراکِ عمل کو مستحکم بنانے کے لیے تمام جماعتیں اور حلقے کام کر سکیں۔

ضابطۂ اخلاق کے لیے چند ابتدائی تجاویز

(۱) مشترکہ مقاصد اور اہداف کے حوالے سے بلائے جانے والے عوامی اجتماعات میں ہر جماعت دوسری دیوبندی جماعتوں کے راہنماؤں کو بھی دعوت دے گی۔
(۲) مختلف مراکز میں متعلقہ جماعتوں کی مشاورت سے وقتاً فوقتاً مشترکہ اجتماعات کا ’’علماء کونسل‘‘ کی طرف سے بھی اہتمام کیا جائے اور ان اجتماعات میں جماعتی تشخصات اور نعروں کو ابھارنے سے گریز کیا جائے۔
(۳) باہمی اختلافات کو عمومی اجتماعات اور کارکنوں کے عمومی اجلاسوں میں بیان کرنے سے گریز کیا جائے۔
(۴) کوئی شکایت پیدا ہو تو متعلقہ جماعت کے ذمہ دار حضرات سے رابطہ کر کے اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ اور اگر باہمی رابطہ سے کوئی مسئلہ حل نہ ہو سکے تو اس کے حل کے لیے علماء کونسل سے رجوع کیا جائے۔
(۵) تمام جماعتیں ’’علماء کونسل‘‘ کو باہمی رابطہ کے فورم کے طور پر باضابطہ تسلیم کریں اور باہمی اختلافات میں مفاہمت و مصالحت کا اسے اختیار دیا جائے۔
(۶) یہ واضح اعلان کیا جائے کہ ’’علماء کونسل‘‘ کوئی مستقل جماعت نہیں بلکہ علماء دیوبند سے متعلقہ جماعتوں اور مراکز میں مفاہمت اور رابطہ کار کے ایک مشترکہ فورم کے طور پر کام کرے گی۔
(۷) جماعتیں اپنے جلسوں میں بھی دوسری جماعتوں کے راہنماؤں کو بھی حسبِ موقع دعوت دیں۔
(۸) علماء کونسل کے اجلاسوں میں ہونے والی گفتگو اور باہمی بحث و مباحثہ کو امانت سمجھا جائے اور اسے اجلاس سے باہر بیان کرنے سے گریز کیا جائے، سوائے ان امور کے جنہیں شائع کرنے کا خود اجلاس میں فیصلہ ہو جائے۔

دستخط کنندگان

مولانا قاضی عبد اللطیف (جمعیت علماء اسلام پاکستان (س))، مولانا محمد ضیاء القاسمی (سپاہ صحابہؓ پاکستان)، مولانا عزیز الرحمٰن جالندھری (عالمی مجلس تحفظِ ختم نبوت)، مولانا قاری سعید الرحمٰن (جمعیت اہلِ سنت والجماعت)، مولانا محمد نعیم اللہ فاروقی (جمعیت علماء اسلام (س))، مولانا بشیر احمد شاد (جمعیت علماء اسلام (س))، مولانا قاضی عصمت اللہ (جمعیت اشاعت التوحید والسنہ)، ابوعمار زاہد الراشدی (پاکستان شریعت کونسل)، پیر جی سید عطاء المہیمن شاہ بخاری (مجلس احرار اسلام پاکستان)، مولانا عبد الکریم ندیم (مجلس علماء اہل سنت پاکستان)، مولانا قاضی نثار احمد (تنظیم اہلِ سنت شمالی علاقہ جات)، مولانا محمد اعظم طارق (سپاہ صحابہؓ پاکستان)، مولانا سید حبیب اللہ شاہ (حرکۃ الجہاد الاسلامی)، مولانا سید امیر حسین گیلانی (جمعیت علماء اسلام (ف))، مولانا منظور احمد چنیوٹی (انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ)، مولانا سید مزمل حسین شاہ (حرکۃ المجاہدین)، چوہدری ثناء اللہ بھٹہ (مجلس احرار اسلام)، مولانا اشرف علی (دارالعلوم تعلیم القرآن راولپنڈی)، مولانا سید کفیل شاہ بخاری (مجلس احرار اسلام پاکستان)، اور مولانا مفتی محمد جمیل خان (رابطہ سیکرٹری علماء کونسل)

امتِ مسلمہ کے لیے لمحۂ فکریہ

مولانا سخی داد خوستی

ظلم و ستم کے یہ چند واقعات ’’مشت نمونہ از خروارے است‘‘ ورنہ دنیا میں کافروں نے مسلمانوں پر ماضی قریب میں ظلم و بربریت کے جو پہاڑ ڈھائے ہیں وہ داستانیں ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔

حضرت شیخ الحدیث دامت برکاتہم کو دوہرا صدمہ

ادارہ

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے فرزند اور مولانا زاہد الراشدی کے چھوٹے بھائی قاری محمد اشرف خان ماجد کا دو ماہ قبل انتقال ہو گیا تھا۔ اور اب قاری صاحب مرحوم کا جواں سال بیٹا محمد اکمل بھی کار کے حادثہ میں شدید زخمی ہو کر گزشتہ بدھ کو جاں بحق ہو گیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کی گاڑی ہر روز صبح حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کو لانے کے لیے گکھڑ جاتی ہے۔ قاری ماجد صاحب مرحوم کا بیٹا محمد اکمل (عمر ۱۵ سال) اور بیٹی حافظہ رقیہ (عمر ۱۷ سال) مدرسہ نصرۃ العلوم کے قریب اپنے ننھیال آئے ہوئے تھے۔ دونوں بہن بھائی گکھڑ واپس جانے کے لیے مدرسہ کی گاڑی میں سوار ہوئے مگر شہر سے باہر نکلتے ہی گاڑی جی ٹی روڈ پر شاہین آباد بائی پاس چوک کے جنگلے سے پوری رفتار کے ساتھ ٹکرا گئی جس سے ڈرائیور جناب محمد حنیف صاحب موقع پر جاں بحق ہو گئے، جبکہ محمد اکمل اور رقیہ کو شدید زخمی حالت میں سول ہسپتال گوجرانوالہ اور پھر جنرل ہسپتال لاہور پہنچایا گیا جہاں محمد اکمل چند روز مسلسل بے ہوش رہنے کے بعد وفات پا گیا جبکہ حافظہ رقیہ جس کی ٹانگ اور جبڑے کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے، مسلسل زیر علاج اور صاحبِ فراش ہے۔ محمد اکمل شہیدؒ کو نماز جنازہ کے بعد گکھڑ میں آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمٰن درخواستی اور دیگر راہنماؤں، مولانا منظور احمد چنیوٹی، مولانا قاری سعید الرحمٰن، مولانا اکرام الحق خیری، مولانا عبد الرشید انصاری، مولانا سیف الرحمٰن ارائیں، مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر، مخدوم منظور تونسوی، مولانا محمد حسن کاکڑ، مولانا سخی داد خوستی، مولانا حافظ محمد میانوالوی، مولانا صلاح الدین فاروقی اور مولانا محمد نواز بلوچ نے اس حادثہ پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے حضرت شیخ الحدیث مدظلہ مولانا زاہد الراشدی اور دیگر اہل خاندان سے تعزیت کی ہے اور دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومین کو جنت الفردوس میں جگہ دیں، پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں اور زخمی حافظہ رقیہ ماجد کو صحت کاملہ و عاجلہ سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

مولانا زاہد الراشدی کے خالہ زاد بھائی کا انتقال

جامع مسجد نور بختے والا گوجرانوالہ کے خطیب مولانا عبد الحمید قریشی کے فرزند اور مولانا زاہد الراشدی کے خالہ زاد بھائی مولانا خالد حمید قریشی گزشتہ ہفتہ طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
قارئین سے ان سب مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کی درخواست ہے۔

عالمی منظر نامہ

ادارہ

پاکستان کے بارے میں امریکی خدشات

اسلام آباد (این این آئی) امریکہ کے نائب وزیرخارجہ کارل انڈرفرتھ نے کہا ہے کہ طالبان دوسروں کے لیے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے افغانستان کے ایک بڑے حصے کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے طالبان جو اقدامات کر رہے ہیں ان کے پیشِ نظر ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ طالبان دوسروں کے لیے ہی نہیں بلکہ خود پاکستان کے لیے بھی خطرہ بن چکے ہیں۔ ہمیں اس امر پر گہری تشویش ہے کہ پاکستان بھی طالبانائزیشن کا شکار ہو کر ایک بنیاد پرست ملک بن سکتا ہے۔
امریکی نائب وزیر خارجہ نے نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے تاکہ دہشت گردوں کی سرپرستی، منشیات، اور خواتین سے سخت سلوک جیسے مسئلے حل کیے جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جو اسلام رائج ہے وہ افغانستان میں رائج نہیں ہے۔ میلسٹ اسلام اور معتدل اسلام میں واضح فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اسلام اور افغان عوام کا بڑا احترام کرتے ہیں۔ ہمیں شکایت صرف طالبان کے اقدامات اور پالیسیوں سے ہے۔
مسٹر انڈرفرتھ نے کہا کہ ہمیں اس پر اعتراض نہیں کہ پاکستان نے طالبان کی امداد کی ہے۔ اس وقت طالبان حکومت کے جو عہدے دار ہیں ان میں سے بیشتر نے پاکستان کے مدارس میں مذہبی تربیت حاصل کی ہے۔ طالبان یہ وعدہ کر کے اقتدار میں آئے تھے کہ وہ افغانستان میں امن و استحکام لائیں گے اور یہی پاکستان چاہتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ طالبان نے اسامہ بن لادن کو پناہ دے رکھی ہے جبکہ امریکہ کا مطالبہ ہے کہ انہیں امریکی شہریوں کے قتل کے الزام میں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ امریکہ کے بار بار مطالبے کے باوجود طالبان کا اصرار ہے کہ اسامہ بن لادن ان کا معزز مہمان ہے جس نے سوویت قبضے کے خلاف جہاد میں اہم کردار ادا کیا، اور اس جہاد میں پاکستان اور دیگر ملکوں کے علاوہ امریکہ نے بھی ان کی بھرپور مدد کی تھی۔ امریکی نائب وزیر نے کہا کہ ہم نے طالبان پر واضح کیا ہے کہ اسامہ بن لادن ان کا معزز مہمان نہیں بلکہ وہ افغانستان کے لیے بدنامی کا سبب بن رہا ہے۔ اس نے معصوم لوگوں کو قتل کیا جو قرآنی تعلیمات کے منافی اقدام ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اسے افغانستان سے نکالا جائے لیکن بدقسمتی سے طالبان نے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی کاروائی نہیں کی۔
(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۳ ستمبر ۲۰۰۰ء)

اسامہ بن لادن کو کسی کے سپرد نہیں کیا جائے گا

کابل (آن لائن) طالبان کے سپریم کمانڈر ملا محمد عمر نے کہا ہے کہ طالبان اسامہ بن لادن کو افغانستان چھوڑنے پر مجبور نہیں کریں گے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اسامہ بن لادن افغانستان میں پر اَمن زندگی گزار رہے ہیں اور وہ کسی کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کرنے میں ملوث نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسامہ بن لادن پر الزامات عائد کرنے کا مقصد طالبان حکومت اور اسلام کو بدنام کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسامہ بن لادن ہمارے مہمان ہیں اور یہ بات ہماری روایات کے خلاف ہے کہ اپنے مہمان کو ملک بدر کریں یا کسی کے حوالے کریں۔
دریں اثنا بھارتی ٹیلی ویژن زی نیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ اسامہ بن لادن افغانستان سے چیچنیا منتقل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ زی نیوز نے روسی فوج کے ایک سینئر اہل کار کے حوالے سے بتایا کہ اسامہ بن لادن چیچنیا کی جنگ میں کافی دلچسپی لے رہے ہیں اور اب تک سینکڑوں کی تعداد میں اپنے آدمیوں کو جدید اسلحہ سمیت چیچنیا بھیج چکا ہے۔ روسی افسر نے الزام عائد کیا کہ اسامہ بن لادن نے چیچنیا کی لڑائی میں حصہ لینے کے لیے سینکڑوں افراد کو تربیت دے رکھی ہے اور وہ ان کو بھی اپنے ساتھ چیچنیا منتقل کریں گے۔ کسی اور ذرائع نے زی نیوز کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی۔
(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۱۰ ستمبر ۲۰۰۰ء)

تمام مذاہب کو یکساں قرار دینے کا تصور انسانیت کے لیے خطرناک ہے ۔ ویٹی کن

روم (این این آئی) ویٹیکن نے کہا ہے کہ تمام مذاہب کو یکساں قرار دینے کا تصور انسانیت کے لیے خطرناک ہے۔ ویٹیکن نے رومن کیتھولک چرچ کی فوقیت کی کوششوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ رومن کیتھولک چرچ کا تمام مذاہب کو یکساں قرار دینے کا موقف انسانیت کے لیے مہلک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔
(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۸ ستمبر ۲۰۰۰ء)

ترک فوج کی دھمکی

انقرہ (کے پی آئی) ترک فوج کے سربراہ نے حکومت کو دھمکی دی ہے کہ اگر سول سروسز میں گھسے ہوئے ہزاروں اسلام پسندوں کو برطرف کرنے کے لیے قانون منظور نہ کیا تو فوج از خود کوئی اقدام تجویز کرے گی۔ تفصیلات کے مطابق ترکی کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل حسین نے کہا ہے کہ ہزاروں عسکریت پسند مسلمان سرکاری شعبوں میں گھس کر ترک ریاست کے سیکولر ڈھانچے کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ یہ عناصر گورنروں کے دفاتر، عدلیہ سمیت نوکر شاہی کی مختلف سطحوں اور شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب حکومت کے قابل اعتماد ہونے کا دارومدار ترک پارلیمنٹ میں اس مسودۂ قانون کی منظوری پر ہے جو حکومت کو سول سروس کے ایسے ملازمین برطرف کرنے کا اختیار دے گا جن پر انتہاپسند اسلامی تنظیموں اور علیحدگی پسند کردوں سے رابطے کا الزام ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے اس سلسلے میں کوئی اقدام نہ کیا تو فوج کو کوئی اقدام تجویز کرنا پڑے گا۔
ترکی کے نئے صدر احمد نجوت نے اگست کے شروع میں دو بار ایک ایسے فرمان پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کا مقصد حکومت کو اس قسم کے اختیارات دینا تھا کہ اس سے قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور یہ اقدام قانون کی بالادستی کے حصول سے مطابقت نہیں رکھتا۔
وزیر اعظم مسٹر ایجوت نے کہا کہ فرمان پر دستخط کرنے سے صدر کے انکار نے مذہبی بنیاد پر عسکری سرگرمیوں کے خلاف حکومت کی کوششوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اب وہ اس فرمان کو پارلیمنٹ میں اس وقت پیش کریں گے جب اکتوبر میں اس کا دوبارہ اجلاس شروع ہو گا۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق حکومت کو اس مسودہ قانون کی حمایت حاصل کرنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا ہو گا۔ مجوزہ قانون پر ارکانِ پارلیمنٹ، ذرائع ابلاغ دونوں نے تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ غیر جمہوری ہے، اس کے ناجائز طور پر استعمال کیے جانے کا خطرہ ہے۔ ترک کے جنرل، مسلمان عناصر کو بدستور ملک کو درپیش سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں۔
(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۔ ۲ ستمبر ۲۰۰۰ء)

اٹلی کی سپریم کورٹ کا فیصلہ

لندن (نمائندہ جنگ) اٹلی کی عورتوں کو یہ حق حاصل ہو گیا ہے کہ وہ دن کے وقت ازدواجی زندگی سے باہر تعلقات قائم کر سکتی ہیں لیکن رات کو انہیں گھر آنا ہو گا تاکہ ان کے خاوند کی عزت مجروح نہ ہو۔ یہ فیصلہ اٹلی کی سپریم کورٹ نے دیا۔ مرد ججوں نے ایک ماتحت عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اٹلی میں عورتیں دن کے وقت خاوندوں سے بیوفائی تو کر سکتی ہیں لیکن اگر رات کو گھر لوٹ آئیں تو وہ ’’زنا‘‘ کی مرتکب نہیں ہوتیں۔ اٹلی میں ۱۹۶۸ء تک دوسرے مردوں سے جنسی تعلقات مجرمانہ اقدام تھا لیکن جب رومن کیتھولک اثر کم ہوا تو اسے آئینی عدالت نے آئین سے خارج کر دیا۔
(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۰ء)

سوڈان میں عورتوں کی ملازمت پر پابندی

خرطوم (اے ایف پی + اے پی) سوڈان کی حکومت نے دارالحکومت میں خواتین کو عوامی مقامات پر ملازمت کرنے سے روک دیا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ ایسی جگہوں پر خواتین کا کام کرنا غیر اسلامی ہے۔ خرطوم کے گورنر مجذوب الخلیفہ نے حکمنامہ جاری کیا ہے جس کے تحت خواتین پر گیس پمپنگ سٹیشن، ہوٹلوں اور کیفے ٹیریا میں بطور ویٹرس ملازمت پر پابندی ہو گی۔ حکمنامہ میں مزید کہا گیا ہے کہ خواتین ہوٹلوں کی روم سروس میں بھی صرف اس صورت میں کام کر سکتی ہیں جب وہاں مہمان بھی عورتیں ہوں۔ گورنر نے پولیس اور مقامی حکومتوں سے کہا کہ وہ یہ قانون فوی طور پر عملدرآمد کروائیں۔
(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۱۷ ستمبر ۲۰۰۰ء)

یوسف کذاب کی رہائی کا مطالبہ

اسلام آباد (رائٹرز) حقوقِ انسانی کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان میں توہینِ رسالتؐ کے جرم میں سزائے موت پانے والے یوسف علی کو ’’ضمیر کا قیدی‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ایمنسٹی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسے قوانین جو مذہبی بحث کو زندگی موت کا مسئلہ بنا دیں، انہیں ختم کیا جائے۔
(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۸ ستمبر ۲۰۰۰ء)

وسطی ایشیا میں مجاہدین کی سرگرمیاں

بشکیک (انٹرنیشنل ڈیسک) کرغستان سے ملنے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مجاہدین کے تاجکستان کی سرحد کے قریب وادی فرغانہ کے پہاڑی سلسلہ کے اہم درے اراشخ کا کنٹرول سنبھال لیا ہے جہاں سے کرغستان کے نیم فوجی دستے فرار ہو گئے ہیں۔ مجاہدین کی اس پیش قدمی کے بعد اس حساس علاقے میں سرکاری فوج مکمل طور پر پسپا ہو چکی ہے۔
دوسری جانب کرغستان میں وسطِ ایشیا کے کمیونسٹ سربراہوں کا اجلاس ختم ہو گیا ہے۔ ازبک صدر اسلام کریموف کی روسی فوج کی آمد کی تجویز پر اتفاق نہ ہو سکا۔ کرغستان کے صدر عسکرائیوف نے مجاہدین کی حمایت کرنے پر تاجکستان کے اسلام پسندوں اور طالبان پر فضائی حملہ کا مطالبہ کیا ہے۔
(ہفت روزہ الہلال اسلام آباد ۔ ۲۵ تا ۳۱ اگست ۲۰۰۰ء)

بیت المقدس پر سودابازی کی مذمت

اسلام آباد (انٹرنیشنل ڈیسک) اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کے چیئرمین مجاہد شیخ احمد یاسین نے القدس اور فلسطین کی تقسیم پر یاسر عرفات کی طرف سے رضامندی پر شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بھی کلمہ گو مسلمان القدس کو تقسیم کر کے یہودیوں کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پورا فلسطین اسلامی وقف ہے، کسی فردِ واحد کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اس کا سودا کرے۔ انہوں نے کہا کہ حماس جانبدارانہ امن مذاکرات کی پہلے بھی خلاف تھی، اب بھی مزاحمت کرے گی۔ پہلے بھی ہم نے اوسلو معاہدے کو نہیں مانا، اب بھی کسی معاہدے کو نہیں مانیں گے۔ انہوں نے کہا کہ القدس پر تمام دنیا کے علماء میں اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے پاس ہونا چاہیے، اس کی تقسیم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اللہ کی نصرت و تائید کے ساتھ القدس اور فلسطین کے ایک ایک انچ کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ القدس پر کنٹرول مسلمانوں کا ہونا چاہیے جس میں براق کی دیوار بھی شامل ہے۔
مفتی اعظم فلسطین اور مسجد اقصیٰ کے خطیب عکرمہ صابری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ القدس مسلمانوں کا ورثہ ہے اور اسلامی وقف کی یہ بات دنیا پر روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ یہ سرے لائن ہے۔ یہودی مسجد اقصیٰ سے دور رہیں، اس کے قریب آنے کی کوشش نہ کریں۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو نا ختم ہونے والا خونی سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
گزشتہ دنوں یہودی رہبروں کا ایک اجلاس ہوا جس میں مسجد اقصیٰ میں معبد تعمیر کرنے کے آخری مرحلہ کا جائزہ لیا گیا۔ شیخ عکرمہ صابری نے کہا کہ یہودیوں کی پوری کوشش ہے کہ مسلمانوں کے اس تیسرے مقدس مقام کو مکمل طور پر یہودیوں کا شہر بنا دیا جائے، اس کے لیے وہ دن رات ایک کر رہے ہیں۔ ہزاروں تنظیمیں اسرائیل سے باہر اس مقصد کے لیے کام کر رہی ہیں، مگر یہ خواب پورا نہیں ہونے دیں گے۔
(روزنامہ اوصاف، اسلام آباد ۹ ستمبر ۲۰۰۰ء)

فلپائن: امریکی قیدی کے بدلے میں امریکہ میں قید تین مجاہدین کی رہائی کا مطالبہ

واشنگٹن (خصوصی رپورٹ) پیر کے روز فلپائنی مجاہدین کے ہاتھ لگنے والے امریکی جیفری کے بارے میں مجاہدین نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ امریکی جاسوس ہے جس کی رہائی کے بدلے امریکہ میں قید تین مجاہدین کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ وائس آف امریکہ نے ان تینوں کی نشاندہی نہیں کی تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ ان میں سے دو شیخ عمر عبد الرحمٰن اور یوسف رمزی ممکنہ طور پر ہو سکتے ہیں۔ امریکہ نے مطالبہ ماننے سے انکار کیا ہے جبکہ مجاہدین نے امریکی جاسوس کو قتل کرنے کی دھمکی دی ہے۔
(ہفت روزہ ضرب مومن کراچی ۔ یکم تا ۷ ستمبر ۲۰۰۰ء)

امریکی وزارت خارجہ کی رپورٹ

نیویارک (آن لائن) امریکی محکمہ خارجہ نے چین، برما، ایران، عراق اور سوڈان کو مذہبی انتہاپسند ملک قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ ان ملکوں کے شہریوں کو مذہبی آزادی میسر نہیں۔ بین الاقوامی مذہبی آزادی کے حوالے سے شائع اپنی دوسری سالانہ رپورٹ میں محکمہ خارجہ نے سعودی عرب کو ایسا ملک قرار دیا ہے جہاں مذہبی آزادی کا وجود نہیں۔ جرمنی، فرانس، آسٹریلیا، بیلجیم اور چیک ری پبلک ایسے ممالک ہیں جہاں مذہبی جماعتوں کے خلاف اطلاعاتی مہم حکومتی سرپرستی میں چلائی جاتی ہے۔ رپورٹ وزیرخارجہ میڈلین البرائٹ نے نیویارک میں میڈیا کے حوالے کی۔
رپورٹ کے مطابق چین میں حقوقِ انسانی کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے جبکہ مذہبی گروپوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جاتے ہیں۔ برما میں بدھ مت کے پیروکاروں کو گرفتار کر کے جیلوں میں اذیت ناک سزائیں دی جاتی ہیں۔ بدھ مت کے مذہبی مقامات تباہ کر دیے جاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق عراق میں بعض مذہبی جماعتوں کے خلاف مخاصمانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ عراقی شیعہ مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایران میں ایسی پالیسیاں اختیار کی جاتی ہیں جن کا مقصد مذہبی گروپوں کو دبانا ہے۔
رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ سوڈان میں حکومتی پالیسیوں سے انحراف کرنے والے مذہبی گروپوں پر زندگی تنگ کر دی جاتی ہے۔
(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۔ ۷ ستمبر ۲۰۰۰ء)

ترک عالمِ دین پر حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں فردِ جرم عائد کر دی گئی

انقرہ (کے پی آئی) ترکی کی ایک عدالت نے سرکردہ عالم دین فتح اللہ بلند پر اسلامی مملکت کے قیام کے لیے موجودہ حکومت کا تختہ الٹنے کے اقدام میں فرد جرم عائد کر دی ہے۔ الزام ثابت ہونے کی صورت میں انہیں دس سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۲ ستمبر ۲۰۰۰ء)

پاکستان میں خواتین کے بارے میں نئے قوانین

اسلام آباد (این این آئی) قومی کمیشن برائے وقار خواتین کی چیئرپرسن ڈاکٹر شاہین سردار علی نے کہا ہے کہ خواتین کے حقوق کے منافی جو قوانین بنائے گئے ہیں ان کی بعض شقوں کو ایک آرڈیننس کے ذریعے تبدیل کیا جائے گا تاکہ خواتین کو تحفظ اور عزت مل سکے۔ غیرت کے نام پر قتل جہاں کہیں بھی ہوں گے اس میں فوری طور پر سرکار پارٹی بنے گی اور دفعہ ۳۰۲ کے تحت غیرت پر قتل کرنے والوں کے خلاف مقدمہ چلے گا۔
میں علماء حضرات کی بہت قدر اور عزت کرتی ہوں، وہ اسلامی قوانین کی روح کے مطابق غیرت اور قتل کے بارے میں اپنی قیمتی آرا سے آگاہ کریں۔ گزشتہ روز این این آئی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کمیشن کے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے ۲۰ ممبران ہیں، ان کی مدت تین سال ہے۔ کمیشن کا مقصد خواتین کو ان کے جائز حقوق دلوانا اور ان کو معاشی و اقتصادی طور پر مضبوط کرنا ہے۔
(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۱۸ ستمبر ۲۰۰۰ء)

تعارف و تبصرہ

ادارہ

الکنز المتواری فی معادن لامع الدراری و صحیح البخاری

صحیح بخاری پر قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے افادات ’’لامع الدراری‘‘ کے نام سے کافی عرصہ قبل منظر عام پر آئے تھے جن سے اہل علم استفادہ کر رہے ہیں، اور صحیح بخاری کے مشکل مقامات کی تشریح میں حضرت گنگوہیؒ کے خصوصی فقہی و تحقیقی ذوق سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے چند تلامذہ نے بخاری شریف اور لامع الدراری کے ساتھ حضرت شیخ الحدیث قدس اللہ سرہ العزیز کے افادات کو شامل کر کے انہیں بخاری شریف کی مکمل شرح کی صورت میں متن کے ساتھ شامل کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے جو بلاشبہ بہت بڑی علمی خدمت ہے، اور اس سے حضرت شیخ الحدیثؒ کی گراں قدر علمی کاوشوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ آج کی علمی دنیا میں اکابر علماء دیوبندؒ کے تعارف اور ان کے خصوصی علوم و فیوض کی اشاعت کا مقصد بھی حاصل ہو گا۔
دین کے اصول و فروع کی تشریح و تعبیر میں اکابر علماء دیوبند کا معتدل اور متوازن ذوق گزشتہ ڈیڑھ صدی کے دوران جس امتیازی شان کے ساتھ اہل علم کے سامنے آیا ہے اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ اکابر کے علوم و فیوض اور علمی افادات کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے جو کام ہونا چاہیے تھا وہ بدقسمتی سے نہیں ہو پایا۔ اور اب اس سلسلہ میں حضرت شیخ الحدیثؒ کے تلامذہ نے پیشرفت کی ہے تو یہ انتہائی خوشی کی بات ہے اور اس پر اس کارخیر میں شریک سب حضرات بالخصوص حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اس وقت ہمارے سامنے ’’الکنز المتواری‘‘ کی تین جلدیں ہیں جو بالترتیب ۵۱۰، ۴۰۸ اور ۳۵۶ صفحات پر مشتمل ہیں۔ پہلی جلد بطور مقدمہ کے ہے جس میں علمِ حدیث کے ضروری مباحث کے ساتھ ساتھ برصغیر پاک و ہند کے ممتاز محدثین کی خدمات اور ان کی خصوصیات کا تذکرہ ہے۔ جبکہ دوسری اور تیسری جلد ’’کتاب التیمم‘‘ تک کے مباحث پر مشتمل ہے۔ ہر صفحہ کے آغاز میں بخاری شریف کی حدیث کا متن، اس کے بعد ’’لامع الدراری‘‘ کے نام سے حضرت گنگوہیؒ کے افادات، اور اس کے بعد حضرت مولانا محمد زکریا صاحبؒ کے افادات درج کیے گئے ہیں۔
عمدہ ٹائپ اور طباعت اور مضبوط جلد کے ساتھ یہ کتاب ’’المکتبۃ الامدادیۃ، باب العمرۃ مکہ مکرمہ‘‘ کی طرف سے شائع کی جا رہی ہے اور پاکستان میں ’’مکتبہ کشمیر، چنیوٹ بازار، فیصل آباد‘‘ سے طلب کی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں اسلامی قانون سازی کا جائزہ

وفاقی شرعی عدالت کے سابق چیف جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن صاحب نے اسلامی احکام و قوانین کی تدوین و تشریح اور تنفیذ کے لیے مختلف حیثیتوں سے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں، اور پاکستان میں نفاذِ اسلام کے سلسلہ میں ان کی علمی جدوجہد کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے زیر نظر مقالہ میں گزشتہ نصف صدی کے دوران پاکستان میں نفاذِ شریعت کے سلسلہ میں منعقد ہونے والی جدوجہد کے مختلف مراحل کا جائزہ لیا ہے، اور اسلام کی بالادستی اور عملداری کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی کی ہے۔ جس سے دستور و قانون کے محاذ پر نفاذِ اسلام کی جدوجہد کا ایک مجموعی تناظر سامنے آجاتا ہے۔ 
۳۶ صفحات پر مشتمل یہ مقالہ ’’صدیقی ٹرسٹ، پوسٹ بکس ۶۰۹، کراچی‘‘ نے شائع کیا ہے۔ نفاذِ اسلام کے لیے محنت کرنے والی دینی جماعتوں اور مراکز سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اس کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کریں اور خاص طور پر جدید تعلیم یافتہ حلقوں، ججوں اور وکلاء میں اس کی عمومی تقسیم کا اہتمام کریں۔

زکوٰۃ و عشر کے مسائل اور ان کا حل

حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کو اللہ تعالیٰ نے دینی مسائل کی تفہیم کا خصوصی ذوق عطا فرمایا تھا اور روزنامہ جنگ میں ان کا کالم ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ لاکھوں مسلمانوں کی راہنمائی کا ذریعہ بنا ہے۔
’’مبین ٹرسٹ، پوسٹ بکس نمبر ۴۷۰، اسلام آباد ۴۴۰۰۰‘‘ نے زکوٰۃ و عشر کے بارے میں مختلف سوالات کے حوالے سے حضرت مولانا محمد لدھیانوی شہیدؒ کے جوابات کا ایک جامع انتخاب انتہائی خوبصورت انداز میں شائع کیا ہے، اور شرعی احکام سے ناواقفیت کے اس دور میں اس بات کی ضرورت ہے کہ اس رسالہ کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے۔ ۸۰ صفحات کا یہ رسالہ آرٹ پیپر پر شائع ہوا ہے اور قیمت درج نہیں ہے۔

فتنہ قادیانیت کو پہچانیے

فتنہ قادیانیت کے تعاقب میں جناب محمد طارق رزاق جس ذوق اور محنت کے ساتھ مسلسل مصروف کار ہیں وہ بلاشبہ لائقِ رشک ہے اور ان کی بعض تحقیقی کاوشیں دیکھ کر دل سے بے ساختہ ان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔ انہوں نے قادیانیت کے تعارف اور اس کے اصل خدوخال کو بے نقاب کرنے کے لیے اکابر امت کی تحریرات میں سے ایک جامع انتخاب مندرجہ بالا عنوان کے ساتھ پونے پانچ سو صفحات کی ضخیم کتاب کی صورت میں پیش کیا ہے جس میں علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ، علامہ محمد اقبالؒ، مولانا احمد رضا خان بریلویؒ، مولانا عبد الشکور لکھنویؒ، مولانا لال حسین اخترؒ، مفتی ولی حسن ٹونکیؒ، مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ، علامہ خالد محمود، مولانا منظور احمد چنیوٹی، مولانا عبید اللہ عفیف، مفتی عبد القیوم خان، اور مولانا اللہ وسایا کی تحریرات بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ یہ کتاب ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، حضوری باغ روڈ، ملتان‘‘ نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ایک سو پچاس روپے ہے۔‘‘

نومبر ۲۰۰۰ء

کیا اسلامی نظام صرف مولویوں کا مسئلہ ہے؟مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اسلام کے راستے میں ظاہری رکاوٹیںشیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ اور فقہ اسلامیمولانا عتیق احمد
علامہ اقبال اور عصری نظامِ تعلیمڈاکٹر محمود الحسن عارف
تعلیم کی سیکولرائزیشنغطریف شہباز ندوی
میڈیا کے ذریعے اسلامی دعوتمحمد ارشد امان اللہ
مغربی تہذیب کا ارتقائی جائزہادارہ
شمالی علاقہ جات کے دینی حلقوں کی عرضداشتمولانا قاضی نثار احمد
اور اب پاکستان میں بھیمیجر (ر) ٹی ناصر
ممتاز کشمیری دانشور پروفیسر سید بشیر حسین جعفری کا مکتوب گرامیپروفیسر سید بشیر حسین جعفری

کیا اسلامی نظام صرف مولویوں کا مسئلہ ہے؟

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

وزیر داخلہ جناب معین الدین حیدر نے یہ کہہ کر اسلامی نظام اور اس کی علمبردار دینی قوتوں کے خلاف ایک بار پھر وہی گھسی پٹی دلیلیں دہرائی ہیں جو اس سے قبل پچاس سال سے ہم سن رہے ہیں کہ ’’الگ الگ جھنڈے اٹھا کر مذہبی جماعتیں ملک میں کون سا اسلام نافذ کرنا چاہتی ہیں اور اگر دینی جماعتیں واقعی موزوں، مفید اور مناسب طور پر یہ کام کر رہی ہیں تو وہ اب تک کے الیکشنوں میں اچھے نتائج کیوں نہیں دکھا پائیں؟‘‘

یہ بات پاکستان کے قیام کے بعد ہی سیکولر حلقوں نے کہنا شروع کر دی تھی کہ ملک میں مختلف دینی مکاتب فکر ہیں اور اسلام کی الگ الگ تعبیر و تشریح کر رہے ہیں، اس لیے یہاں کون سا اسلام نافذ کیا جائے گا؟ لیکن تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام نے تحریک پاکستان کے عظیم راہنما علامہ سید سلیمان ندوی کی زیر صدارت اسلامی نظام کی ۲۲ متفقہ دستوری بنیادیں طے کر کے اس بات کو رد کر دیا تھا اور قوم کو یہ بتا دیا تھا کہ مختلف مکاتب فکر اور فقہی مذاہب میں فروعات، جزئیات اور تعبیرات میں جو اختلافات موجود ہیں ان کا اسلامی نظام (کے نفاذ) سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسلامی نظام کے اصولوں، طریق کار اور احکام و قوانین کے ضوابط پر وہ سب متفق ہیں۔ اس اتفاق و اجتماع میں اہل السنۃ والجماعۃ اور اہل تشیع دونوں شامل تھے۔ اہل سنت کے تمام مکاتب فکر دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور جماعت اسلامی کے اکابر شریک تھے اور کوئی مسلمہ مذہبی مکاتب فکر اس سے باہر نہیں تھا۔ اس لیے یہ دلیل اسی وقت دم توڑ گئی تھی کہ ملک میں کون سا اسلام نافذ کیا جائے اور کس مذہبی مکتب فکر کی تعبیر و تشریح کو نفاذ اسلام کی بنیاد بنایا جائے؟

جناب معین الدین حیدر کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ان دستوری نکات اور خاکہ پر آج بھی ملک کے تمام مکاتب فکر متحد ہیں اور کسی مذہبی فرقہ کو ان سے کوئی اختلاف نہیں ہے اس لیے اگر وزیر داخلہ اور ان کے رفقاء ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے اصولوں سے متفق ہیں تو انہیں ’’کون سا اسلام‘‘ کی بے جا رٹ چھوڑ کر تمام مکاتب فکر کے متفقہ ۲۲ دستوری نکات کو دستور پاکستان میں سموکر ان کی بنیاد پر نفاذ اسلام کا آغاز کر دینا چاہیے۔

پھر یہ دلیل اس وقت بھی دہرائی گئی تھی جب ۱۹۷۳ء کے دستور کے لیے دستور ساز اسمبلی میں بحث ہو رہی تھی اور دستور ساز اسمبلی میں مولانا مفتی محمودؒ، مولانا عبد الحقؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ، مولانا عبد المصطفٰی ازہریؒ، مولانا محمد ذاکر اور پروفیسر غفور احمد سمیت تمام بڑے مکاتب فکر کے نمائندے موجود تھے۔ اس وقت حکمران کیمپ کی طرف سے چیلنج کیا گیا تھا کہ یہ علماء تو مسلمان کی قانونی تعریف پر متفق نہیں ہو سکتے اس لیے اسلامی نظام کی متفقہ تعبیر کہاں سے لائی جائے گی مگر ان علماء کرام نے دستور ساز اسمبلی میں نہ صرف مسلمان کی متفقہ تعریف پیش کی بلکہ دستور میں اسلامی نکات کی شمولیت کے لیے متحد ہو کر پارلیمانی جنگ لڑی جس کے نتیجے میں حکمران کیمپ کو اسلام کو ملک کا سرکاری مذہب قرار دینا پڑا اور ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھال دینے کی ضمانت دینا پڑی۔ اسمبلی میں موجود علماء کے اس موقف کو اسمبلی سے باہر کے تمام علماء کرام اور مکاتب فکر کی تائید حاصل تھی اور پوری قوم اس پر متفق تھی لیکن دستوری ضمانت کے باوجود ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہو ا اور قوم بدستور انتظار میں ہے۔

وزیر داخلہ جناب معین الدین حیدر سے گزارش ہے کہ اسی دستور نے اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی ہے جس میں نہ صرف تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام شامل ہیں بلکہ عصری قانونی نظام کے نمائندے بھی موجود ہیں۔ اس کونسل نے ملک کے قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے جو مسودات مرتب کیے ہیں اور جو سفارشات پیش کی ہیں ان پر تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کا اجماع اور اتفاق ہے۔ اور ۲۲ دستور ی نکات کی اصولی اور آئینی دستاویز کے بعد ملکی قوانین کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی یہ جامع اور مکمل رپورٹ دوسری بڑی دستاویز ہے جو متفقہ ہے جس سے ملک کے کسی مسلمہ مذہبی مکتب فکر کو اختلاف نہیں اور اس میں تمام مروجہ قوانین کے بارے میں تفصیلی تجزیہ اور سفارشات موجود ہیں۔ اس لیے جب دستور اور قانون دونوں معاملات میں قائم مذہبی جماعتوں کا اتحاد موجود ہے اور ریکارڈ پر ہے تو ہمارے وزیر داخلہ محترم علماء کرام سے اور کس قسم کے اتحاد کا تقاضا کر رہے ہیں اور انہیں مذہبی جماعتوں کے الگ الگ جھنڈوں میں کون سا ایسا اختلاف نظر آرہا ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ میں رکاوٹ بن سکتا ہو؟

وزیرداخلہ صاحب نے دوسری بات یہ کی ہے کہ اگر مذہبی جماعتیں مفید ہیں تو انہیں الیکشن میں عوامی حمایت حاصل کیوں نہیں ہوتی؟ ہمارا ان سے سوال یہ ہے کہ اگر عوامی حمایت ہی واحد معیار ہے اور انہوں نے سارے فیصلے اس کی کسوٹی پر پرکھ کر کرنے ہیں تو ان کے پاس بھاری عوامی مینڈیٹ رکھنے والی حکومت اور قومی اسمبلی کو توڑنے کا کیا جواز ہے؟ بے شک عوام نے مولویوں کی حمایت نہیں کی تھی مگر اس اسمبلی کو تو ووٹ دیے تھے، اسے توڑ کر جناب معین الدین حیدر وزارت داخلہ کا قلمدان کس اصول کے تحت سنبھالے ہوئے ہیں؟ ہماری گزارش کا یہ مطلب نہیں کہ ہم موجودہ حکومت کے قانونی اور اخلاقی جواز کو چیلنج کر رہے ہیں بلکہ ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کا وجود اور اس میں جناب معین الدین حیدر کا وزارت داخلہ کے منصب کو سنبھالنا اس بات کی دلیل ہے کہ قومی معاملات میں عوامی حمایت اور ووٹنگ پاور واحد معیار نہیں ہے بلکہ اس کے ہوتے ہوئے بھی بعض دیگر امور کی طرف دیکھنا اور انہیں ملحوظ رکھنا ضروری ہو جاتا ہے اور بسا اوقات قومی مفاد کے دیگر معاملات عوامی حمایت اور ووٹنگ پاور سے زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں حتیٰ کہ ان کی خاطر عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والی اسمبلیوں اور حکومتوں کو برطرف کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی نظام کے نفاذ کا معاملہ بھی ان اہم ترین قومی امور اور ملی معاملات میں سے ہے جنہیں صرف اس لیے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس کا پرچم اٹھانے والی جماعتوں کو الیکشن میں ووٹ نہیں ملتے۔ یہ ہمارے ایمان کا معاملہ ہے، پاکستان کی نظریاتی بنیاد کا مسئلہ ہے اور ملکی بقا و استحکام کا تقاضا ہے اور اسے اسی حوالہ سے دیکھنا ہوگا۔ ہم مانتے ہیں کہ دینی جماعتوں میں اختلافات موجود ہیں جو اسلامی دستور اور قوانین کے کسی مسئلہ یا ان کے نفاذ کے طریق کار پر نہیں ہیں بلکہ غیر متعلقہ امور اور قیادت کی ترجیحات پر ہیں، اور ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ دینی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کی یہ باہمی معاصرت اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر آگے بڑھنے کی کشمکش نفاذ اسلام کی جدوجہد کے لیے سخت نقصان دہ ہے اور اسی وجہ سے انہیں انتخابات میں عوامی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔ ورنہ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی دینی قوتیں متحد ہوئی ہیں عوام نے ان کے پرچم تلے مجتمع ہونے میں کبھی دیر نہیں لگائی۔

لیکن اس سب سے قطع نظر ہم جناب معین الدین حیدر سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ الگ الگ جھنڈے اٹھانے والی مذہبی جماعتوں کو ایک طرف رہنے دیں، انہیں آپس میں لڑنے جھگڑنے دیں، انہیں بھول جائیں اور صرف یہ دیکھیں کہ اسلام ہماری ملی ضرورت اور قومی تقاضا ہے۔ آپ خود مسلمان ہیں، قرآن و سنت پر ایمان رکھتے ہیں اور اسلامی نظام و قوانین کی ضرورت و اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں، اس لیے جب آپ کے پاس اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت جیسے دستوری اداروں کے مرتب کردہ اسلامی قوانین کے مسودات موجود ہیں تو پھر آپ کو انتظار کس بات کا ہے؟ آپ انہیں نافذ کیوں نہیں کر دیتے اور دنیا کو یہ کیوں نہیں بتا دیتے کہ یہ مذہبی جماعتیں تو خود کو اس کا اہل ثابت نہیں کر سکیں مگر ہم نے پاکستان میں اسلامی نافذ کر دیا ہے اور نو آبادیاتی دور کے استحصالی نظام سے ملک کی جان چھڑا کر قرآن و سنت کے عادلانہ قوانین و احکام کی عملداری قائم کر دی ہے۔ اور اگر وزیر داخلہ صاحب ناراض نہ ہوں تو ڈرتے ڈرتے ان سے یہ پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ کیا اسلامی نظام صرف مولویوں اور مذہبی جماعتوں کا مسئلہ ہے، آپ کا مسئلہ نہیں ہے؟ اور اگر یہ آپ کا مسئلہ بھی ہے تو پھر بال کو مولویوں کی کورٹ میں پھینک کر آپ خود کو ہر ذمہ داری سے بری الذمہ ظاہر کرنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟

اسلام کے راستے میں ظاہری رکاوٹیں

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

اسلام کے راستے میں ظاہری رکاوٹوں کا دائرہ بڑا وسیع ہے۔ ایک رکاوٹ تو ظاہری ہے کہ جہاں پر کفر کا غلبہ ہو وہاں اہلِ ایمان کو شعائرِ دین پر عمل کرنے سے روک دیا جائے۔ جیسے پوری تاریخ انبیاء میں اس قسم کے واقعات ملتے ہیں کہ انبیاء اور ان کے پیروکاروں کو خدا کی عبادت کرنے اور دین کی تبلیغ کرنے سے جبراً روک دیا گیا۔
حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کا ذکر سورۃ الشعراء میں موجود ہے۔ ’’قالوا لئن لم تنتہ یا نوح لتکونن من المرجومین‘‘ (آیت ۱۱۶) ’’اے نوح! اگر تم نے ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہنا نہ چھوڑا تو ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی آپ کے باپ نے یہی کہا کہ اے ابراہیم! تو ہمیں ہمارے معبودوں سے دور کرنا چاہتا ہے، اگر تو ان حرکات سے باز نہ آیا ’’لارجمنک واھجرنی ملیا‘‘ (مریم ۴۶) ’’تو میں تمہیں پتھر مار مار کر ہلاک کر دوں گا، لہٰذا میری نظروں سے دور ہو جا۔‘‘
جب حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو ہم جنسی سے منع کیا تو وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے ’’اخرجوھم من قریتکم انھم اناس یتطھرون‘‘ (الاعراف ۸۲) کہ ’’لوط علیہ السلام اور اس کے چند پیروکار بڑے پاکباز بنے پھرتے ہیں، ان کو اپنی بستی سے نکال باہر کرو۔‘‘
شعیب علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو ماپ تول میں کمی بیشی سے منع فرمایا۔ نیز انہیں راستوں میں بیٹھ کر لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے سے منع کیا تو قوم کے سرکردہ لوگ کہنے لگے کہ اے شعیب! ہم تمہیں اور تمہارے پیروکاروں کو اپنی بستیوں سے نکال دیں گے ’’او لتعودن فی ملتنا‘‘ (الاعراف ۸۸) ’’اگر یہاں رہنا ہے تو اپنا دین چھوڑ کر ہمارے دین میں واپس آ جاؤ‘‘۔
خود حضور علیہ السلام کی تبلیغ کے راستے میں ہر قسم کے روڑے اٹکائے گئے۔ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو طرح طرح کی تکالیف پہنچائی گئیں۔ آپ کو لالچ دیا گیا کہ ہم آپ کو اپنا بادشاہ تسلیم کر لیتے ہیں۔ مال و دولت آپ کے قدموں میں ڈھیر کر دیتے ہیں۔ خوبصورت ترین عورت نکاح میں دے دیتے ہیں۔ آپ ہمارے بتوں کو برا بھلا کہنا چھوڑ دیں۔ مگر اللہ کے مقرب انبیاء دشمنان کے کسی رعب اور لالچ میں نہ آئے اور اپنا مشن جاری رکھا۔
راہ حق میں روکنے کا دوسرا طریقہ سازشوں کا جال ہے، جس کے ذریعے اہل ایمان کو اس دینِ حق سے بدظن کیا جاتا ہے اور نئے آنے والوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کر کے اسلام قبول کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں ماضی قریب میں روسیوں کا کردار ہے جنہوں نے کسی بھی مذہبی تبلیغ پر سخت پابندی عائد کر رکھی تھی۔ ان کے آئین کے مطابق مذہب کے خلاف تو پراپیگنڈا کیا جا سکتا ہے مگر مذہب کے حق میں کوئی زبانی یا عملی تحریک جائز نہیں۔ اس آڑ میں کتنے ہی بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔ یہودی اور عیسائی مشنریاں دین حق سے روکنے کے سلسلے میں زیادہ پیش پیش ہیں۔ وہ کبھی سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر کر کے اور ایڈ دے کر لوگوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ افریقہ اور جنوبی ایشیا کے پسماندہ ممالک میں یہی حربہ استعمال کر کے لاکھوں لوگوں کو عیسائی بنایا جا چکا ہے۔
کبھی زمانہ تھا کہ خود مسلمان دوسروں کے ساتھ ہمدردی کا صحیح سلوک کیا کرتے تھے، مگر آج دیگر اقوام ہیں جو نام نہاد ہمدردی کے جال میں پھنسا کر لوگوں کو بے دین بنا رہی ہیں۔ ساتویں صدی میں مسلمانوں پر زوال آنا شروع ہوا اور پھر ان کے قدم نہیں سنبھل سکے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ پچاس سے زیادہ مسلمان حکومتوں کے باوجود دنیا میں مسلمانوں کو کوئی حیثیت حاصل نہیں ہے، بلکہ یہ دوسروں کے دستِ نگر بنے ہوئے ہیں۔ مغربی ممالک سازش کے ذریعے مسلمانوں کو آپس میں ٹکراتے رہتے ہیں اور پھر ان کی مدد کی آڑ میں بندر بانٹ شروع کر دیتے ہیں۔ آج مسلمانوں کی نہ کوئی اپنی سوچ ہے اور نہ کوئی نظریہ، جس پر چل کر وہ ترقی کی منازل طے کر سکیں۔
ایک امریکی مصنف نے پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے پر مسلمانوں کے حالات پر مبنی ایک کتاب The New World of Islam (جدید دنیائے اسلام) لکھی۔ یہ کتاب امیر شکیب ارسلان (المتوفی ۱۹۴۶ء) کے پاس بھیجی گئی۔ اس کا عربی ترجمہ ’’حاضر العالم الاسلامی‘‘ کے نام سے پروفیسر عجاب نویہض نے کیا۔ اس پر تین ضخیم جلدوں میں مقدمہ اور تقریظ امیر شکیبؒ نے لکھی جس میں مسلمانوں کے زوال کی وجوہات درج کیں۔ آپ شام کے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ترکی میں ہسپتالوں کے انچارج رہے، خود بالفعل انگریزوں اور اٹلی والوں کے خلاف جنگ میں شریک رہے، اور آخر میں بے کسی کے عالم میں شام میں وفات پائی۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ عیسائی اور یہودی طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کی اس قدر دشمن ہیں کہ وہ دین اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن کے خلاف چھ لاکھ کتابیں اور پمفلٹ شائع کر چکے ہیں، ان کا مقصد یہ ہے کہ کسی طرح مسلمان دینِ حق سے بیزار ہو جائیں، قرآن کا دامن چھوڑ دیں اور پھر سے کفر و الحاد کی بھول بھلیاں میں بھٹکتے پھریں۔

مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ اور فقہ اسلامی

مولانا عتیق احمد

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت بڑی ہمہ جہت اور ہشت پہل ہے۔ بیسویں صدی کے نصف آخر کی اسلامی تاریخ پر ان کے اثرات اس قدر وسیع اور گہرے ہیں کہ ان کے تذکرے کے بغیر ہر تاریخ ادھوری رہے گی۔ خواہ فکرِ اسلامی کی تاریخ ہو یا ادبِ اسلامی کی یا علومِ اسلامی کی یا تحریکاتِ اسلامی کی۔ عالمِ اسلام کے ہر خطہ کو اور زندگی کے ہر میدان کو انہوں نے کم و بیش متاثر کیا۔ برصغیر ہند و پاک تو ان کا وطن تھا، وہ اسلامیانِ ہند کی آبرو اور ان کی زبان و ترجمان تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان میں اسلام کی جڑیں مستحکم کرنے اور تشخصِ اسلامی کی حفاظت میں ان کا بنیادی کردار رہا۔ بلادِ عربیہ اور بلادِ اسلامیہ میں ان کی دعوت دور دور تک پہنچی اور ان کے افکار و پیغام کو انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ عالمِ اسلام کی سیاسی، سماجی تبدیلیوں پر ان کی نظر بہت گہری تھی، خطرات کا احساس بہت پہلے کر لیا کرتے تھے، اور ’’نذیر عریاں‘‘ کی طرح صاف لفظوں میں خطرات سے آگاہ کرتے، ان سے تحفظ کی تدبیر بتاتے۔ دنیا میں جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں (خواہ یورپ ہو، امریکہ، آسٹریلیا ہو یا افریقہ) حضرت مولانا علی میاںؒ کی تصنیفات و افکار کی خوشگوار روشنی وہاں تک پہنچی ہے اور ہر ملک کے تعلیم یافتہ طبقہ کے دل و دماغ پر مولانا محروم نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔

حضرت مولاناؒ کی شخصیت کی شاہ کلید

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کیا کچھ نہیں تھے؟ آپ بلند پایہ مفکر، زبردست داعی الی اللہ، شہرۂ آفاق مصنف، مؤرخ، مفسر، ادیب و انشاء پرداز، سحر بیان مقرر و خطیب اور ممتاز ترین مربی و عالمِ ربانی تھے۔ لیکن میری نظر میں ان کی شخصیت کی شاہ کلید دعوت الی اللہ ہے۔ ان کا دعوتی پہلو تمام دوسرے پہلوؤں پر حاوی اور غالب ہے۔ جب وہ سیرت نگاری کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو تاریخ اسلامی کی ان شخصیات کا انتخاب کرتے ہیں جن کی حیات اور کارناموں میں دعوت و عزیمت کا پہلو بہت نمایاں ہے۔
’’السیرۃ النبویہ‘‘ میں لکھتے ہیں تو حیاتِ نبویؐ کے دعوتی پہلو سب سے زیادہ اجاگر کرتے ہیں، نصابی کتابیں مرتب کرنے میں انبیاء کرامؑ کے ایمان افروز قصوں کو اپنی توجہات کا مرکز بناتے ہیں اور ’’قصص النبیین‘‘ جیسی البیلی کتاب وجود میں آتی ہے جس کی سطر سطر میں ادب کی چاشنی اور دعوت کی تڑپ ہے۔ مختارات میں ادبِ عالی کا انتخاب کرنے بیٹھتے ہیں تو عربی ادبیات سے ایسے شہ پارے تلاش کر کے لاتے ہیں جن میں دعوتی برق و رعد پنہاں ہیں۔ ’’ماذا خسر العالم‘‘ میں امتِ مسلمہ کے عروج و زوال کی داستان سناتے ہیں تو امت ِمسلمہ کو اس کا کھویا ہوا داعیانہ و قائدانہ مقام یاد دلاتے ہیں۔ ہندوستان کے مقامی حالات میں ان کا داعیانہ ذہن ’’پیامِ انسانیت‘‘ کے نام سے ایک نیا عنوان تراشتا ہے اور پیامِ انسانیت کے غلاف میں اسلام کی دعوت برادرانِ وطن تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ غرضیکہ ان کی تمام تحریروں اور تحریکوں میں دعوت کی روح رچی بسی ہوئی ہے۔ اس لیے میرے خیال میں حضرت مولانا علی میاںؒ سب سے اول اور سب سے آخر میں جلیل القدر عالم ربانی اور داعی الی اللہ تھے۔ ان کے سارے کاموں اور کارناموں کو اگر ہم ایک لفظ میں کشید کر لینا چاہیں تو وہ لفظ ’’دعوت‘‘ ہے۔
داعی کا لفظ اس دور میں بڑا ہلکا اور پامال سا ہو گیا ہے حالانکہ یہ لفظ بڑا پُر عظمت ہے۔ انبیاء کرامؑ کی کوششوں کا سر عنوان دعوت الی اللہ ہے۔ صحابہ کرامؓ کی دینی جدوجہد کا خلاصہ دعوت الی اللہ ہے۔ داعی انبیاء کرامؑ کا وارث و امین ہوتا ہے۔ اس کے دل میں انبیاءؑ والا سوز و گداز ہوتا ہے۔ اس کے دل و دماغ میں تمام انسانیت کے لیے خلوص و محبت، فکر مندی و دل سوزی کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ داعی الی اللہ بڑا حساس و زیرک ہوتا ہے۔ زمانہ کی حرکت و رفتار کا نباض، حقیقت آگاہ اور حق آشنا ہوتا ہے۔ خلوص و محبت کے ساتھ حکمت و دانائی اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ اس کی لغت میں مایوسی اور پست ہمتی کے الفاظ نہیں ہوتے، وہ نا امیدوں میں امید کے چراغ جلاتا ہے۔ ایک بلند پایہ داعی مفکر بھی ہوتا ہے۔ اپنے دور کی فکری گتھیوں کو اسلامی بنیادوں پر سلجھاتا ہے۔ امت کی ذہنی و فکری رہنمائی کرتا ہے۔ اس لیے علومِ اسلامیہ سے وابستہ معرکہ الآراء فکری مسائل میں بھی اسے اپنا موقف واضح کرنا ہوتا ہے۔

مولانا علی میاںؒ اور علومِ اسلامیہ

علومِ اسلامیہ میں حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کو سب سے زیادہ دلچسپی قرآن سے تھی۔ تفسیرِ قرآن سے مناسبت پیدا کرنے کے لیے انہوں نے حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے درسِ قرآن میں شرکت کی اور امتیازی کامیابی حاصل کی۔ حضرت مولانا مرحوم نے ایک مدت تک بڑے ذوق و شوق سے تفسیرِ قرآن کا درس دیا۔ قرآن کی تلاوت اور قرآن میں تفکر و تدبر آخری عمر تک ان کا محبوب ترین مشغلہ رہا۔ ایک بار میں نے ان سے بذریعہ خط مشورہ چاہا کہ کن تفسیروں کو مطالعہ میں رکھا جائے، تو انہوں نے تحریر فرمایا:
’’تفسیر کے سلسلے میں میرا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ متن ِقرآن زیادہ سے زیادہ پڑھیں اور اس سے ذاتی ربط پیدا کریں۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کا رسالہ ’’الفوز الکبیر‘‘ ضرور مطالعہ میں رکھیں، باقی کسی ایک تفسیر کا مشورہ دینا بہت مشکل ہے۔‘‘
ان کی تحریروں اور تقریروں کا سب سے بڑا سرچشمہ قرآن کریم تھا۔ آیاتِ قرآنی سے تذکیر و استنباط میں ان کا ذہن اخاذ اور رسا تھا۔ اپنی برجستہ تقریروں میں انہوں نے آیاتِ قرآنی اور مضامینِ قرآنی کا جس کثیر اور لیاقت کے ساتھ استعمال کیا ہے اس سے ان کے تبحرِ علمی، دقیقہ سنجی اور نکتہ رسی کا اندازہ ہوتا ہے۔
احادیثِ نبویہؐ سے انہیں بہت مناسبت تھی۔ فنِ حدیث انہوں نے بڑے جلیل القدر اساتذہ سے سیکھا۔ ان میں نمایاں ترین نام حضرت مولانا حیدر حسن خان صاحبؒ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کے ہیں۔ کچھ دنوں انہوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں صحیح بخاری اور دیگر کتبِ حدیث کا درس بھی دیا۔
علمِ فقہ کی تحصیل بھی انہوں نے ماہر فنِ اساتذہ سے کی ،لیکن اس علم سے تدریسی اشتغال کا انہیں زیادہ موقع نہیں ملا۔ اس لیے مسئلہ بتانے اور فتویٰ دینے سے وہ ہمیشہ گریز فرماتے تھے۔ کوئی اگر مسئلہ پوچھتا تو مفتی صاحب ندوۃ العلماء یا کسی دوسرے استاذِ فقہ کے پاس بھیج دیتے۔ استفتاء پر مشتمل خطوط دارالافتاء، ندوۃ العلماء یا مجلسِ تحقیقاتِ شرعیہ کو بھجوا دیتے۔

ائمہ مجتہدین اور فقہ اسلامی مولاناؒ کی نظر میں

بیسویں صدی میں متجددین کا ایک طبقہ پوری اسلامی فقہ کو ائمہ مجتہدین کی ذاتی رائے قرار دے کر مسترد کر دینے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ شریعت کا جوا کندھے سے اتار پھینکا جائے۔ یہ طبقہ فقہائے مجتہدین کے کارناموں کا استخفاف کر رہا تھا اور ان کے خلاف زبانِ طعن دراز کر رہا تھا۔ اس پس منظر میں حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ نے فقہ اسلامی اور فقہائے اسلام کا زبردست دفاع کیا۔ اپنی متعدد تحریروں میں فقہائے مجتہدین کے کارناموں کو خراجِ تحسین پیش کیا اور نئی نسل کے دل و دماغ میں فقہ اسلامی اور فقہاء کے اجتہادی کارناموں کی اہمیت جاگزیں کر دینے کی کوشش کی۔ حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’اسلام جزیرۃ العرب سے (جہاں زندگی سادہ اور تمدن انتہائی محدود تھا) نکل کر مصر و شام، عراق و ایران اور دوسرے وسیع، زرخیز اور سرسبز و شاداب خطوں میں پہنچ گیا تھا۔ جہاں کا انتظامِ تمدن و معیشت، تجارت، انتظامِ ملکی سب بہت وسیع اور پیچیدہ شکلیں اختیار کر گئے تھے۔ اس وقت ان نئے حالات و مسائل میں اسلام کے اصول کی تطبیق کے لیے بڑی اعلیٰ ذہانت، معاملہ فہمی، باریک بینی، زندگی اور سوسائٹی سے وسیع واقفیت، انسانی نفسیات اور اس کی کمزوری سے باخبری، قوم کے طبقات اور زندگی کے مختلف شعبوں کی اطلاع، اور اس سے پیشتر اسلام کی تاریخ، روایات اور روحِ شریعت سے گہری واقفیت، عہدِ رسالت اور زمانۂ صحابہؓ کے حالات سے پوری آگاہی، اور اسلام کے پورے علمی ذخیرہ (قرآن و حدیث اور سنت و قواعد) پر کامل عبور کی ضرورت تھی۔ 
یہ اللہ کا بڑا فضل تھا اور اس امت کی اقبال مندی کہ اس کارِ عظیم کے لیے ایسے لوگ میدان میں آئے جو اپنی ذہانت، دیانت، اخلاص اور علم میں تاریخ کے ممتاز ترین افراد ہیں۔ پھر ان میں سے چار شخصیتیں امام ابوحنیفہ (م۱۵۰ھ)، امام مالک (م۱۷۹ھ)، امام شافعی (م۲۰۴ھ)، امام احمد بن حنبل (م۲۴۱ھ) جو فقہ کے چار دبستان فکر کے امام ہیں، اور جن کی فقہ اس وقت تک عالمِ اسلام میں زندہ اور مقبول ہے، اپنے تعلق باللہ، للّٰہیت، قانونی فہم، علمی انہماک اور جذبۂ خدمت میں خاص طور پر ممتاز ہیں۔ ان حضرات نے اپنی پوری زندگی اور اپنی ساری قابلیتیں اس بلند مقصد اور اس اہم خدمت کے لیے وقف کر دی تھیں۔ انہوں نے دنیا کے کسی جاہ و اعزاز اور کسی لذت و راحت سے سروکار نہیں رکھا تھا۔
امام ابوحنیفہ کو دو بار عہدہ قضاء پیش کیا گیا اور انہوں نے انکار کیا، یہاں تک کہ قید خانہ میں ہی آپ کا انتقال ہوا۔ امام مالکؒ نے ایک مسئلہ کے اظہار میں کوڑے کھائے اور ان کے شانے اتر گئے۔ امام شافعیؒ نے زندگی کا بڑا حصہ عسرت میں گزارا اور اپنی صحت قربان کر دی۔ امام احمدؒ نے تن تنہا حکومتِ وقت کے رجحان اور اس کے ’’سرکاری مسلک‘‘ کا مقابلہ کیا اور اپنے مسلک اور اہلِ سنت کے طریقہ پر پہاڑ کی طرح جمے رہے۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے موضوع پر تن تنہا کام کیا اور مسائل و تحقیقات کا اتنا بڑا ذخیرہ پیدا کر دیا جو بڑی بڑی منظم جماعتیں اور علمی ادارے بھی آسانی سے نہیں پیدا کر سکتے۔
اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ان ائمہ فن اور صاحبِ اجتہاد علماء کا پیدا ہو جانا اس دین کی زندگی اور اس امت کی کارکردگی کی صلاحیت کی دلیل تھی۔ ان کی کوششوں اور ذہانتوں سے اس امت کی عملی معاملاتی زندگی میں ایک نظم اور وحدت پیدا ہو گئی، اور امت اس ذہنی انتشار اور معاشرتی بے نظمی اور ابتری سے محفوظ ہو گئی جس کی دوسری قومیں اپنے ابتدائی عہد میں شکار ہو چکی ہیں اور وہ تدریجی طور پر ایسے لا دینی راستے پر پڑ گئیں کہ ان کے لیے لا دینی نظامِ زندگی اختیار کرنا ضروری ہو گیا۔ یا پھر ایسے غیر اسلامی قوانین کو انہیں اختیار کرنا پڑتا جو اس کی دینی روح اور اصول و مبادی سے متصادم ہوں۔ اور وہ مسیحی یورپ کے نظریۂ دین و سیاست کی تفریق کے ان اصولوں کو اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے جو خاص حالات و ماحول اور مسیحی مذہب کی مخصوص وضع اور ساخت کا نتیجہ تھا۔
اگر خدانخواستہ علمائے متقدمین فقہی اجتہاد، احکام اور مسائل کے استنباط و استخراج میں کسلمندی اور سستی اور ڈھیل سے کام لیتے اور جدوجہد کے بجائے راحت و آرام کو اختیار کرتے، یا ان کے علمی کارنامے اہمیت کے حامل نہ ہوتے اور ان کے فطری ملکہ اور صلاحیت میں جمود و تعطل پیدا ہو جاتا، تو اس وقت کی حکومت عملی زندگی اور وقت کے مطالبات و تقاضوں سے مجبور ہو کر رومی اور ایرانی قوانین کو اسلامی دنیا پر منطبق نہ کر دیتی؟ اس لیے کہ نئے حالات و مسائل سے مسلمانوں کا مقابلہ تھا، تجارت و زراعت، جزیہ و خراج، محکومین اور مفتوحہ ممالک کے نئے نئے مسائل درپیش تھے۔ قدیم عادات و رواج کا بہت بڑا ذخیرہ اور نئی نئی ضروریات تھیں جو مسلمانوں کی قوتِ فیصلہ اور اسلامی احکام کی منتظر تھیں۔ ان میں سے نہ کسی ضرورت کو ٹالا جا سکتا تھا اور نہ سرسری طور پر ان سے گزرا جا سکتا تھا۔ حکومت مفصل و مکمل آئین و قانونِ سلطنت کی طالب تھی، حکومت کی انتظامی مشین کو روکا نہیں جا سکتا تھا۔ اور قانونِ اسلامی کی ترتیب میں تاخیر ہوتی تو وہ رومی یا ایرانی قانون کو اختیار کرنے پر مجبور تھیں۔ جس کا نتیجہ وہ ہوتا جو اس وقت نام نہاد اسلامی سلطنتوں کا ہوا ہے۔ علماء کی ذرا سی غفلت اور محافظینِ سنت کی دماغی کاہلی اور راحت پسندی اس امت کو ہزاروں برس کے لیے اسلامی معاشرت اور اس کے اجتماعی قوانین کی برکت سے محروم کر دیتی۔
؏  یک لحظہ بودم و صد سالہ را ہم دو رشد
اور مساجد میں تھوڑے وقت اور محدود وقت کے لیے دینداری کی زندگی گزارنا اور اپنے گھروں، بازاروں اور عدالتوں میں زیادہ وقت جاہلی یا لادینی زندگی گزارنا اس کے لیے نوشتۂ تقدیر بن جاتا۔ جیسا کہ اس وقت ان ملکوں اور حکومتوں کا حال ہے جس کا سرکاری مذہب تو عیسائیت ہے لیکن ان کے پاس مسیحی قانونِ شریعت موجود نہیں۔ یا جیسا کہ (انتہائی شرمندگی اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے) ان ملکوں اور حکومتوں کا حال ہے جو عقیدے اور عبادات کی حد تک تو مسلمان کہلاتی ہیں لیکن اسلام کو قانونِ شریعت کے طور پر قبول نہیں کرتیں۔ اگر یہ بات اس مسیحیت کے لیے قابلِ قبول اور گوارا ہے جو دستور اور قانون سازی کے سرچشہ سے محروم ہے، اور دین کو زندگی پر منطبق کرنے پر اس کو اصرار بھی نہیں، لیکن یہ کسی طرح بھی اس اسلام کے لیے قابلِ قبول نہیں ہو سکتا جو دین و دنیا اور عبادت و سیاست کا جامع ہے۔
چنانچہ امتِ اسلامیہ اپنی زندگی کے انتہائی سنگین مرحلہ سے گزر رہی تھی بلکہ وہ ایک ایسے دوراہے پر کھڑی تھی جہاں ایک غلطی یا معمولی لغزش بھی اس کے رشتۂ حیات کو اسلامی نظام اور قانون سے کاٹ کر رکھ دیتی، اور آنے والی نسلوں کو ایسی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیتی جس میں دین و مذہب کی ہلکی سے ہلکی پرچھائیں بھی نہ پائی جاتی۔
اسی طرح اس بات کی شدید ضرورت تھی کہ عبادات کے احکام و مسائل بیان کیے جائیں تاکہ سہو و نسیان اور انسانی بھول چوک اور شریعت کی ناواقفیت کی وجہ سے جو باتیں پیش آتی ہیں ان کو حل کیا جائے۔ جو لوگ نئے نئے اسلام کے دائرے میں داخل ہوئے ہیں ان کے مسائل کا حل، نماز میں بھول چوک، رکعات میں کمی زیادتی، روزہ دار کے احکام و مسائل، زکوٰۃ کب اور کن چیزوں پر کتنی مقدار میں فرض ہے، اسی طرح حج جیسی عبادت جس کی ادائیگی میں خاصا وقت صرف ہوتا ہے اور ایک بڑے رقبہ میں حاجی کو شعائرِ حج ادا کرنے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی ضرورت پیش آتی ہے اور قدم قدم پر سنت اور اسوۂ نبویؐ کا لحاظ اس کو رکھنا پڑتا ہے۔ ان تمام امور میں فوری احکام اور بروقت فیصلہ کی ضرورت تھی۔ کسی ادنیٰ تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں تھی، اور نہ ہی اس بات کی ضرورت کہ ہر کس و ناکس کو قرآن و سنت سے براہ راست رجوع کر کے مسائل اخذ کرنے کا مشورہ دیا جائے۔
اس لیے ضروری تھا کہ احکام و جزئیات کا وجود ہو اور فقہی ذخیرہ آسانی کے ساتھ ہر ایک کو میسر آ سکے۔ ایسے سرآمد روزگار علماء اور ماہرینِ شریعت کی موجودگی بھی ضروری تھی جو عوام کی رہنمائی کے لیے ہر وقت مستعد ہوں۔ اسی بنا پر اسلام دیگر مذاہب کی طرح تاریخی یادگاروں کا ایسا میوزیم بننے سے محفوظ ہو گیا جہاں ہر طرح کی عبادات اور طرح طرح کی حرکات و سکنات پائی جاتی ہیں۔ اس کا مشاہدہ ہمیں ان مذاہب کے ماہانہ یا سالانہ تہواروں میں اچھی طرح ہو جاتا ہے جن کے ماننے والوں میں عملی وحدت اور یکجہتی کا فقدان ہوتا ہے اور نہ ہی ان میں روحانی اخلاقی و دینی رنگ پایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی مساجد، حج کے مقامات اور شعائر کی ادائیگی، سب میں یکسانیت، نظم و وحدت، ہم آہنگی اور باہمی ربط و اتحاد پایا جاتا ہے۔ ان میں عقیدے اور عبادات کی وحدت ہوتی ہے کہ ایک ہی شریعت کے آگے سب سرنگوں ہوتے ہیں۔ اس کے دو بنیادی اسباب ہیں: ایک تو یہ کہ دینی تعلیمات میں حیرت انگیز وحدت و اصالت ہے۔ دوسرے محدثین اور فقہاء کا کمال اور ان کا عظیم احسان ہے کہ انہوں نے اپنی غیر معمولی جدوجہد سے اسلامی شریعت کے ذخیرہ کو نہ صرف محفوظ اور باقی رکھا بلکہ قرآن و سنت اور یکساں دینی نظام سے اس کو مربوط کر دیا۔
اسلامی فقہ کی تدوین و ترتیب اور شرعی احکام و مسائل کے استنباط میں جس اجتہادی بصیرت کا ثبوت دیا گیا وہ انتہائی بروقت، مناسب اور برمحل تھا، اور فطری و منطقی تقاضوں اور اس انسانی، عالمی اور ابدی دین کی خصوصیات کے عین مطابق ۔۔۔ جس طرح صرف و نحو عربی زبان و بیان کے قواعد کی بنیاد قرآن مجید، عربی اشعار اور اولین عرب کے کلام پر رکھی گئی اور ان کا تدریجی ارتقاء ہوا، اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ فقہ کی تدوین انتہائی ضروری تھی کہ عرب و عجم پر دین حاوی تھا اور اس کے دائرے میں داخل ہونے والا ہر مسلمان اس کا مکلف ہے۔ اس لیے بھی کہ فقہ کا تعلق مسلمان کی پوری زندگی سے ہوتا ہے اور عقیدہ و عبادت سے اس کا غیر معمول ربط و تعلق اور اُخروی عذاب و ثواب، نجات و ہلاکت اور سعادت و شقاوت کا دارومدار ان فقہی احکام پر ہی ہے۔‘‘ 1

دورِ حاضر اور اجتہاد

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے اجتہاد و تقلید کے معرکۃ الآراء مسئلہ میں بھی نقطۂ اعتدال کی طرف امت کی رہبری کی۔ اپنے اپنے حدود و قیود میں دنوں کو ضروری قرار دیا۔ دور ِحاضر میں اجتہاد کی ضرورت و اہمیت تسلیم کرنے کے ساتھ وہ اس طبقہ پر سخت نکیر کرتے ہیں جو اجتہاد کے نام پر شریعتِ اسلامی کے حقائقِ ثابتہ سے کھلواڑ کرنا چاہتا ہے۔ ایک جگہ حضرت مولانا تحریر فرماتے ہیں:
’’اس دور میں اجتہاد کی باتیں بہت ہو رہی ہیں اور یہ نعرہ لگایا جا رہا ہے کہ اس زمانہ میں اجتہاد کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اجتہاد کا نعرہ لگانا ایک طرح سے ترقی پسندی کی علامت بن گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اجتہاد اس زمانہ کی حاجت اور اس دین کی ضرورت ہے جو زندگی کے قافلے کی رہنمائی اور قیادت کرتا ہے۔ خصوصاً اس زمانہ میں اور بھی اس کی ضرورت ہے جب کہ تمدن اور صنعت و تجارت نے ایسی غیر معمولی اور حیرت انگیز ترقی کر لی ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جدید تجارتی معاملات اور معاہدوں میں ایسے فقہی احکام اور فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اسلامی فقہ کے اصولوں اور شریعت ِاسلامی کے مقاصد سے ہم آہنگ ہوں۔
لیکن شرعی مسائل اور جدید عصری ایجادات کے بارے میں جو لوگ اجتہاد کا نعرہ لگاتے رہتے ہیں وہ اسلامی دنیا کے وہ قائدین و مفکرین اور مغربی دانشگاہوں کے فضلاء ہیں جنہوں نے خود مغربی تہذیب و تمدن کا سامنا پورے عزم و ارادے اور ایمان و یقین سے کرنے میں اپنی مہارت اور ذہانت و ذکاوت کا ثبوت نہیں دیا ہے۔ حالانکہ ان کا فرض تھا کہ مغربی تہذیب و تمدن اور اس کی سائنسی ایجادات اور ترقی، اس کی خوبیوں اور خامیوں کے درمیان تمیز کر کے وہی چیزیں لیتے جو مشرقی قوموں اور ان کے دین و مذہب اور تہذیب و مزاج سے میل کھائیں اور ان قوموں کو بھی روشنی دکھاتے جو مادیت کا شکار ہو چکی ہیں۔ وہ مغرب سے جو کچھ حاصل کرتے پہلے اس سے اس غبار کو جھاڑ دیتے جو قرونِ مظلمہ ہی سے ان کا جز بن گئی ہیں، اور اب بھی اس کی وجہ سے نفسیاتی کشمکش اور اعصابی تناؤ میں مبتلا ہیں۔ مغربی دانشگاہوں کے ان فضلاء کو اس کا کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اس دور میں وہ ان علوم سے فائدہ اٹھائیں۔ اس لیے کہ جن میدانوں میں انہوں نے تخصص کیا ہے اور جو ان کا خاص موضوع رہا ہے اس میں بھی انہوں نے اپنے رول کو ادا نہیں کیا۔ اور نہ ہی نظامِ تعلیم و تربیت کو آزاد اسلامی نظامِ تعلیم کے سانچے میں انہوں نے ڈھالنے کی کوشش کی۔ حالانکہ یہ کام بھی اجتہاد ہی کی طرح ہے۔ لیکن انسان کی ہمیشہ سے یہ خصوصیت رہی ہے کہ وہ خود کچھ نہیں کر پاتا تو دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے اور اس سے مطالبہ کر بیٹھتا ہے۔
اس گرفت اور احتساب کے باوجود یہ بات بہرحال اپنی جگہ صحیح ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اجتہاد کی ضرورت اپنی جگہ پر ہے، اس مسئلہ پر کوئی اختلاف نہیں۔ جو لوگ علومِ شریعت میں بصیرت اور اس پر دسترس رکھتے ہیں وہ اس میدان میں اپنا قائدانہ کردار ادا کریں، اور اصولِ فقہ جیسے قیمتی خزانہ سے، جس کی کوئی نظیر قوموں اور ملکوں میں نہیں ملتی، احکام و مسائل کے استنباط میں فائدہ اٹھائیں۔ فقہ کا یہ ذخیرہ عرصہ سے صرف تاریخ بن کر رہ گیا ہے، جس سے ہمیں صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے دور کے مجتہدین کس طرح احکام و مسائل کا استنباط کیا کرتے تھے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ لیکن وقت کی گھڑی کو نہ تو اپنی جگہ روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کو معطل کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ اسلام ایسی قوموں اور معاشرہ کا دین ہے جو ان مسائل و مشکلات کے ساتھ ساتھ چلتا ہے بلکہ ان کا سامنا کرتا ہے۔

اجتہاد کے معطل ہونے کی وجہ

مختلف ادوار، ملکوں اور شہروں میں امت نے اجتہاد کو اختیار کیا اور علماء اس پر گامزن رہے، مذاہبِ اربعہ کی کتابیں ان مثالوں سے بھری پڑی ہیں۔ لیکن تاتاری حملہ کے بعد مذاہبِ اربعہ (جدید مفہوم میں ہم اس کو علمی اکیڈمی یا ادارے سے تعبیر کرتے ہیں) پر کسی قدر پژمردگی اور کمزوری چھا گئی، اس لیے کہ تاتاری حملے نے خوداعتمادی اور ذہانت کے سوتوں کو خشک کر دیا تھا۔
جو قومیں تاتاری قوموں کے ماتحت ہوئیں ان کے اندر مسلح اور غیر مسلح لشکر کے مقابلے کی جرأت ختم ہو کر رہ گئی۔ چنانچہ اسلامی دنیا کے مشرقی حصے کے علماء نے اس خاص وقفہ میں اجتہاد کی سرگرمیوں پر کسی حد تک پابندی لگانے ہی میں عافیت سمجھی۔ اس لیے کہ انہیں اندیشہ ہونے لگا کہ اگر اجتہاد کی اجازت دے دی گئی تو حکّام اور والیان ِسلطنت کے سیاسی اور انفرادی مصالح کا اس میں خیال رکھا جائے گا اور اس سے نفع کے بجائے نقصان زیادہ ہو گا۔ اس کا بھی امکان ہے کہ دین میں تحریف کا سبب انفرادی اجتہاد بن جائے، یا اس امت کی رفتار میں انحراف اور کجی پیدا ہو جائے۔ اگرچہ ان علماء کا یہ خیال وقتی طور پر پابندی کے لیے تھا جس کی بنیاد فقہ کے اس اصول پر رکھی گئی تھی کہ جلبِ منفعت پر دفعِ ضرر کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ 
اب اگر اجتہاد کا دروازہ کھولنا ہی ضروری ہے تو ضرور کھولا جائے، لیکن اصولِ فقہ کی کتابوں میں اس کے لیے جو شرائط بیان کی گئی ہیں ان کا لحاظ ضروری ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ انفرادی طور پر اجتہاد کے بجائے اجتماعی طور پر اجتہاد کیا جائے۔ وہ اس طرح کہ شریعت کے ماہرین کی ایک اکیڈمی ہو جس میں کسی مسئلہ پر طویل غور و فکر، بحث و مباحثہ اور تبادلۂ آراء اور قرآن و سنت اور فقہ و اصولِ فقہ کے پورے ذخیرے کے بھرپور جائزے کے بعد فیصلہ کیا جائے تاکہ کسی سازش یا کسی سیاسی قوت یا استبدادی حکومت کا عکس نہ پڑنے پائے۔

اجتہاد کے حدود اور اس کا میدان

جدید طبقہ کے لوگ اجتہاد کی دعوت دیتے ہیں۔ خصوصاً عصری دانشگاہوں کے پُرجوش جذباتی نوجوان اور اسلامی ملکوں کے بعض سربراہ۔ ان کی اس دعوت سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ ہر مسئلہ میں اجتہادِ مطلق کی دعوت دے رہے ہیں۔ وہ مغربی اقدار و قیم اور عصری پیمانوں کو جوں کا توں لینے پر مُصر ہیں، گویا کہ زمانہ پہلے اسلامی دور کی طرح ہو گیا ہے جب اسلام نیا نیا آیا تھا اور انسانی سوسائٹی مکمل طور پر انقلاب سے دوچار ہو چکی تھی، اور گزشتہ دور میں فقہاء اور مجتہدین نے جو نتائج نکالے اور علم و تحقیق اور مطالعہ کے بعد جو اصول انہوں نے بنائے تھے، وہ اپنی قیمت اور اہمیت کھو چکے ہیں، اور اب موجودہ زمانہ اور قوم کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں۔
اس میں زیادہ سطحیت، لاپروائی، نام نہاد ترقی پسندانہ ادب کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈے کا اثر ہے۔ اس ادب نے نوجوانوں کے سامنے زمانہ کی ایسی تصویر کھینچی ہے جیسے یہ دور بالکل نیا ہے اور گزشتہ زمانہ سے یہ دور کسی طرح بھی ہم آہنگ نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ تصویر تخیلات پر مبنی ہے اور اس میں ذرہ برابر حقیقت نہیں، واقعیت و منطقیت سے زیادہ اس میں جذباتیت سے کام لیا گیا ہے۔

اسلام ایک تغیر پذیر دنیا میں

یہاں پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقالہ کا اختتام اس تقریر کے اقتباس پر کروں جو میں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ایک سیمینار بہ عنوان ’’اسلام ایک تغیر پذیر دنیا میں‘‘ کی تھی۔
’’زمانہ اپنی تغیر پذیری اور زیادہ صحیح الفاظ میں تغیر پرستی، یا اقبال کے الفاظ ’’تازہ پسندی‘‘ کے لیے بدنام زیادہ ہے اور بد کم ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زمانہ تغیر پذیری ہی کا نام ہے۔ زمانہ ثبات اور تغیر کے متوازن مرکب اور مجموعے کا نام ہے۔ اور جب کبھی اس کا تناسب بگڑے گا یعنی ٹھہراؤ تغیر پر غالب آجائے گا، یا تغیر ٹھہراؤ پر غالب آجائے گا تو زمانے، سوسائٹی اور تہذیب کا قوام بگڑ جائے گا۔ ان دونوں کے تناسب کا معاملہ کیمیاوی اجزاء کے تناسب سے بھی کہیں زیادہ نازک ہے۔ زمانہ جہاں تغیر کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کو بدلنا چاہیے، اس لیے کہ بدلنا زندگی کی کوئی کمزوری، کمی یا عیب نہیں، وہ زندگی کا عین مزاج ہے، اور زندگی کی تعریف ہے ؏
جاوداں پیہم دواں ہر دم جواں ہے زندگی
وہ زندگی، زندگی کہلانے کی مستحق نہیں جس میں نمو کی صلاحیت مفقود ہو چکی ہو، وہ درخت شاداب اور پُر ثمر نہیں کہلایا جا سکتا جو اپنی نمو کی صلاحیت کھو دے۔
تغیر پذیری یا اس کے بجائے اگر آپ اس کو نمو یا ترقی کا نام دیں تو میرے خیال میں آپ اس کے ساتھ زیادہ انصاف کر سکیں گے۔ زمانہ تغیر قبول کرنے کے ساتھ مقابلہ کی بھی ایک طاقت رکھتا ہے۔ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ زمانہ کتنا بدل گیا اور اس تبدیلی کے مظاہر بھی ہم کو صاف نظر آتے ہیں۔ لیکن زمانے نے اپنی اندرونی صلاحیتوں کو باقی رکھنے اور اپنے صالح اجزا و عناصر کو محفوظ رکھنے کے لیے کتنی کشمکش کی اور کس قوتِ مقابلہ سے کام لیا، عام حالات میں ہم اس کو نہیں دیکھ پاتے۔ اس کے لیے ایک خاص طرح کی خوردبین کی ضرورت ہے۔
ایک دریا ہی کو آپ لے لیں جو روانی اور حرکت کے لیے سب سے بہتر مثال ہو سکتا ہے۔ دریا کی کوئی موج اپنی پہلی موج کے بالکل عین اور مماثل نہیں ہوتی۔ لیکن دریا اپنی گزرتی ہوئی موجوں کے باوجود اپنے نام کے ساتھ، اپنے حدود کے ساتھ، اپنی بہت سی خصوصیات کے ساتھ ہزاروں برس سے قائم ہے۔ دجلہ و فرات آج بھی دجلہ و فرات کہلائیں گے اور گنگ و جمن آج بھی گنگ و جمن کہلاتے ہیں۔
زمانے کا اندر ٹھہراؤ بھی ہے اور بہاؤ بھی۔ اگر زمانہ ان دونوں خصوصیتوں اور صلاحیتوں میں سے کسی ایک سے محروم ہو جائے تو وہ اپنی افادیت کھو دے گا۔ اسی طرح کائنات میں جتنے بھی وجود، شخصیتیں اور ہستیاں ہیں، سب کے اندر مثبت اور منفی لہریں برابر اپنا کام کرتی رہتی ہیں۔ اور دونوں لہروں کے ملنے سے وہ فریضہ ادا ہو جاتا ہے اور وہ منصب پورا ہوتا ہے جو ان کے سپرد کیا گیا ہے۔

مذہب زندگی کا نگراں ہے

جہاں تک مذہب کا تعلق ہے، مذہب کے ایک پیرو اور طالب علم کی حیثیت سے میں مذہب کے لیے یہ پوزیشن قبول نہیں کر سکتا، اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ حضرات بھی مذہب کے لیے یہ پوزیشن پسند نہیں کریں گے کہ مذہب ہر تغیر کا ساتھ دے۔ یہ کسی تھرمامیٹر کی تعریف تو ہو سکتی ہے کہ وہ درجہ حرارت و برودت بتلائے، یہ مرغ بادنما (Weathercock) کی بھی تعریف ہو سکتی ہے جو کسی اونچی عمارت یا ہوائی اڈے پر لگایا گیا ہے، صرف یہ معلوم کرنے کے لیے کہ ہوا کس طرف کی چل رہی ہے، لیکن مذہب کی تعریف یہ نہیں ہو سکتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ حضرات میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہو گا کہ مذہب کو اس کے بلند مقام سے اتار کر تھرمامیٹر یا مرغ بادنما کا مقام دینا چاہتا ہو کہ مذہب کا کام یہ ہے کہ وہ صرف زمانے کی تبدیلیوں کی رسید دیتا ہے، اکنالج (Acknowledge) کرتا رہے یا اس کی عکاسی کرتا رہے۔
صحیح آسمانی مذہب کے تو کیا کسی نام نہاد مذہب کے پیرو یا اس کے نمائندے بھی اس پوزیشن کو قبول کر لینے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔
مذہب تغیر کو ایک حقیقت مانتا ہے اور اس کے لیے وہ ساری گنجائشیں رکھتا ہے جو ایک صالح، صحیح، فطری اور جائز تغیر کے لیے ضروری ہوں۔ مذہب زندگی کا ساتھ دیتا ہے، لیکن یہ محض ساتھ دینا یا محض رفاقت اور پیروی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مذہب کا فریضہ یہ بھی ہے کہ وہ اس کا فرق کرے کہ یہ صالح تغیر ہے یا غیر صالح تغیر ہے، یہ تخریبی رجحان ہے اور یہ غیر تخریبی رجحان ہے۔ اس کا نتیجہ انسانیت کے حق میں یا کم از کم اس مذہب کے پیروؤں کے حق میں کیا ہو گا۔ مذہب جہاں رواں دواں زندگی کا ساتھ دینے والا ہے وہاں وہ زندگی کا محتسب نگران، گارڈین (Guardian) اور زندگی کا اتالیق بھی ہے۔
گارڈین کا کام یہ نہیں ہے کہ جو ہستی اس کی اتالیقی میں ہے اس کے ہر صحیح و غلط رجحان کا ساتھ دے اور اس پر مہرِ تصدیق ثبت کر دے۔ مذہب ایسا سسٹم نہیں ہے کہ جہاں ایک قسم کی مہر رکھی ہوئی ہے، ایک ہی طرح کی روشنائی ہے اور ایک ہی طرح کا ہاتھ ہے، جو دستاویز اور تحریر آئے، مذہب کا کام یہ ہے کہ وہ اس پر مہرِ تصدیق ثبت کر دے۔ مذہب پہلے اس کا جائزہ لے گا اور پھر اس پر اپنا فیصلہ صادر کرے گا، اور ترغیب اور بعض اوقات مجبوراً ترہیب کے ذریعے اس سے باز رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اور اگر کوئی غلط دستاویز اس کے سامنے آتی ہے جس سے اس کو اتفاق نہیں، یا جس کو وہ انسانیت کے حق میں مہلک اور تباہ کن سمجھتا ہے، تو نہ صرف یہ کہ وہ اس پر مہرِ تصدیق ثبت کرنے سے انکار کرے گا بلکہ اس کی بھی کوشش کرے گا کہ وہ اس کی راہ میں مزاحم ہو۔
یہاں اخلاقیات اور مذہب میں ایک فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ مذہب اپنی ذمہ داری اور فرض سمجھتا ہے کہ غلط رجحان کو روکے۔ ماہرِ اخلاقیات و نفسیات کی ڈیوٹی صرف یہ ہے کہ وہ غلط رجحانات کی نشاندہی کرے یا اپنا نقطۂ نظر ظاہر کر دے۔ لیکن مذہب اس کی کوشش کرے گا کہ وہ اس کا راستہ روک کر کھڑا ہو جائے۔
اگر ہم نے اس باریک بینی، گہرائی و گیرائی، امانت و احساسِ ذمہ داری، اس دین کے مزاج اور اس کے پیغام سے گہری واقفیت کا ثبوت دیا، اور اسی کے ساتھ ہم نے موجودہ زمانہ کے مزاج و خصوصیات کو سمجھا، جس میں نمو اور تغیر کی صلاحیت ہے اور ثبات و استقامت بھی، اور اس نے قدیم صالح عناصر کو باقی بھی رکھا ہے۔ اگر ہم نے ان خصوصیات کو اچھی طرح سمجھ لیا تو فقہ اسلامی کی ضرورت (وسیع معنوں میں) کو ہم پوری کر سکتے ہیں، اور ہم اسلامی سوسائٹی کی بھی ضرورتوں کو پورا کر سکتے ہیں، اور اسلامی احکام اور دینی تعلیمات پر ہم اس مہذب اور ترقی یافتہ زمانہ میں بھی عمل کر کے دکھا سکتے ہیں، اور اس زندگی کا بھی ساتھ دے سکتے ہیں جو تیزی اور انتہائی سرعت کے ساتھ ترقی کرتی جا رہی ہے۔‘‘2

تقلید کے بارے میں مولاناؒ کا نقطۂ نظر

تقلید کے مسئلہ میں بھی حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ بہت معتدل نقطۂ نظر رکھتے تھے۔ اس سلسلہ میں ان کا نقطۂ نگاہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے نقطۂ نگاہ سے ہم آہنگ تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے نقطۂ نظر کو حضرت مولانا علی میاںؒ نے بہت تفصیل کے ساتھ تحسین و استحسان کے انداز میں بیان فرمایا ہے۔ مولانا مرحوم رقم طراز ہیں:
’’شاہ صاحب غایتِ انصاف اور حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے ایسے شخص کو تقلید کے بارے میں معذور سمجھتے ہیں جو کسی مذہبِ فقہی یا معیّن امام کا مقلّد تو ضرور ہے لیکن اس کی نیت محض صاحبِ شریعت کی پیروی اور اتباعِ نبویؐ ہے۔ لیکن وہ اپنے اندر اس کی اہلیت نہیں پاتا کہ وہ حکمِ شرعی اور جو چیز کتاب و سنت سے ثابت ہے اس تک براہِ راست پہنچ جائے۔ اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ مثلاً وہ عامی شخص ہے، یا اس کے پاس براہ راست تحقیق کرنے کے لیے وقت اور فرصت نہیں، یا ایسے وسائل (علم و تحقیق) حاصل نہیں جن سے وہ نصوص کا خود پتہ چلائے، یا ان سے مسئلہ استنباط کرے۔ شاہ صاحبؒ علامہ ابن حزمؒ کا یہ قول نقل کرنے کے بعد کہ تقلید حرام ہے اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے قول کو بلا دلیل قبول کر لے، تحریر فرماتے ہیں:
’’ابن حزم کے قول کے مصداق وہ شخص نہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے علاوہ کسی کو اپنے لیے واجب الطاعت نہیں سمجھتا۔ وہ حلال اسی کو گردانتا ہے جس کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے حلال کیا، اور حرام اسی کو مانتا ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا، لیکن چونکہ اس کو براہ راست آنحضرتؐ (کے قول و احوال) کا علم حاصل نہیں، اور وہ آپ کے مختلف اقوال میں تطبیق دینے کی صلاحیت اور آپ کے کلام سے مسائل استنباط کرنے کی قدرت نہیں رکھتا، وہ کسی خدا ترس عالم کا دامن پکڑ لیتا ہے، یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ صحیح بات کہتا ہے، اور اگر مسئلہ بیان کرتا ہے تو اس میں وہ محض سنتِ نبویؐ کا پیرو اور ترجمان ہوتا ہے۔ جیسے ہی اس کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا یہ خیال صحیح نہیں تھا، اسی وقت وہ بغیر کسی بحث و اصرار کے اس کا دامن چھوڑ دیتا ہے، بھلا ایسے آدمی کو کوئی کیسے مطعون کرے اور اس کو سنت و شریعت کا مخالف قرار دے گا؟
سب کو معلوم ہے کہ استفتاء اور افتاء کا سلسلہ عہدِ نبویؐ سے لے کر برابر چلتا رہا ہے، اور دونوں میں فرق ہے کہ آدم ہمیشہ ایک سے فتویٰ لیتا ہے، یا کبھی ایک سے فتویٰ لیتا ہے کبھی دوسرے سے۔ ایسی حالت میں کہ اس کا ذہن صاف ہے، اس کی نیت سلیم ہے، اور وہ صرف اتباعِ شریعت چاہتا ہے، یہ بات کیسے جائز نہیں؟ جب کہ کسی فقیہ کے بارے میں ہمارا یہ ایمان نہیں ہے کہ اللہ نے اس پر آسمان سے فقہ اتاری اور ہم پر اس کی اطاعت فرض ہے۔‘‘3
ایک دوسری جگہ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ اجتہاد و تقلید کے بارے میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے معتدل نقطۂ نظر کی تمہید بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حضرت شاہ صاحب کے ان وہبی کمالات اور تجدیدی امتیازات میں سے جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو خاص طور پر نوازا تھا، وہ متوازن اور معتدل مسلک اور وہ نقطۂ اعتدال ہے جو انہوں نے اجتہاد و تقلید کے درمیان اختیار کیا۔ اور جو ان کے طبع سلیم، ذوقِ صحیح اور حقیقت پسندی کا بہترین مظہر ہے۔
ایک طرف وہ لوگ تھے جو ہر مسلمان کو خواہ وہ عام ہو یا خاص، براہ راست کتاب و سنت پر عمل کرنے اور ہر معاملہ میں وہیں سے احکام حاصل کرنے کا مکلف قرار دیتے تھے اور تقلید کی مطلق حرمت کے قائل تھے۔ اگر ان کے کلام میں اس کی صراحت نہیں ملتی تو ان کے طرز عمل اور ان کی تحریروں سے قدرتی طور پر یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے۔ اس گروہ میں متقدمین میں علامہ ابن حزم پیش پیش نظر آتے ہیں، لیکن یہ بالکل ایک غیر عملی بات ہے، اور اس کا ہر مسلمان کو مکلف قرار دینا تکلیف مالایُطاق ہے۔
دوسری طرف وہ گروہ تھا جو تقلید کو اسی طرح ہر مسلمان پر واجب قرار دیتا تھا اور اس کے تارک کو سخت فقہی احکام ’’فاسق‘‘ اور ’’ضال‘‘ سے یاد کرتا تھا، جیسا کہ پہلا گروہ مقلدین اور کسی خاص مذہبِ فقہی کے متبعین کو۔ یہ گروہ اس حقیقت کو بھول جاتا ہے کہ تقلید عوام کو نفسانیت اور خودرائی سے بچانے، مسلم معاشرہ کو انتشار و فوضویت (انارکی) سے محفوظ رکھنے، دینی زندگی میں وحدت و نظم پیدا کرنے، اور احکامِ شریعت پر بسہولت عمل کرنے کا موقع دینے کی ایک انتظامی تدبیر ہے۔ لیکن انہوں نے اس انتظامی عمل کو تشریعی عمل کا درجہ دے دیا اور اس پر اس شدت سے اصرار کیا جس نے اس کو ایک مذہبِ فقہی اور مسئلہ اجتہادی کے بجائے منصوص اور قطعی عمل اور مستقل دین کا درجہ دے دیا۔‘‘4
حضرت مولانا علی میاںؒ جس طرح اجتہاد کے نام پر شریعت کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے بارے میں سخت ترین نکیر کرتے ہیں، اسی طرح تقلید میں غلو و انحراف کا سختی کے ساتھ نوٹس لیتے ہیں، تقلید کی جائز اور فطری شکل کی وضاحت کرنے کے بعد اس میں غلو و انحراف کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’رفتہ رفتہ عوام میں جہالت نے اثر کیا اور کہیں کہیں ائمہ کی حیثیت وسائط اور وسائل کے بجائے مقصود، اور ایک طرح سے شارع و مطاع کی پیدا ہو گئی۔ لوگوں کو ان مذاہب سے بالذات دلچسپی اور ان کی اس درجہ عصبیت پیدا ہو گئی کہ وہ کسی حال میں ان کے ایک شوشہ یا نقطہ سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس سلسلے میں عوام تو زیادہ قابلِ الزام نہیں ہیں کہ انہوں نے ان مذاہب کو سنت کی پیروی سمجھ کر اختیار کیا تھا، اور ان کے مطابق ترکِ مذہب یا ایک مذہب سے دوسرے مذہب کی طرف انتقال مشکل بھی تھا اور خطرناک بھی۔ لیکن بہت سے علماء کی یہ حالت تھی کہ ان کو اگر اپنے امام یا مذہب کے کسی مسئلہ کا حدیث و سنت کے خلاف ہونا ثابت ہو جائے، اور اس کا قطعی علم حاصل ہو جائے کہ اس مسئلہ میں اپنے امام کا مسئلہ مرجوح اور دوسرے امام یا مذہب کا مسئلہ راجح اور حدیث و سنت کے مطابق ہے، اور اپنے مذہب اور عمل کے خلاف کیسی ہی صحیح و صریح احادیث ملیں، تب بھی وہ اس مسئلہ کو ترک کرنے اور احادیث پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور ان کی طبیعت اس کے لیے منشرح نہیں ہوتی۔‘‘5
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ اس بات کے داعی تھے کہ تمام فقہی مسالک کو امتِ مسلمہ کا مشترکہ سرمایہ تصور کیا جائے، تمام ائمہ فقہ کا احترام کیا جائے، بیجا تعصب و تشدد سے گریز کیا جائے اور نئے مسائل کے حل میں کتاب و سنت کے ساتھ تمام فقہی مسالک سے استفادہ کیا جائے۔
فقہ اسلامی پر حضرت مولانا علی میاںؒ کی تحریریں مختصر ہیں لیکن جتنی بھی ہیں بڑی پُرمغز اور فکر انگیز ہیں۔ آپ کی کتاب ’’ارکانِ اربعہ‘‘ احکامِ شریعت کے اسرار و حکم پر لاثانی کتاب ہے۔ اس موضوع پر امام غزالیؒ اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے جو کارنامہ انجام دیا تھا، اس کتاب کے ذریعے اس کام کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ اجتہاد کے موضوع پر حضرت مولاناؒ کا ایک مختصر رسالہ ہے۔ ’’تاریخِ دعوت و عزیمت‘‘ کی جلد اول، دوم، پنجم میں فقہ اسلامی کی وکالت و ترجمانی میں طاقتور تحریریں ہیں۔ نئے مسائل کے حل کے لیے حضرت مولاناؒ نے ’’مجلسِ تحقیقاتِ شرعیہ‘‘ قائم فرمائی۔ اس ادارہ نے نئے مسائل کے حل میں خاصی پیشرفت کی۔ حضرت مولانا ’’مجمع الفقہ الاسلامی ( مکہ مکرمہ)‘‘ کے رکن اور ’’مجمع الفقہ الاسلامی (الہند)‘‘ کے سرپرست تھے۔ مجمع الفقہ الاسلامی ہند کے متعدد سیمیناروں میں موصوف نے گراں قدر خطبات پیش فرمائے جنہیں ’’اجتماعی اجتہاد‘‘ کے نام سے شائع کر دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی تربت کو انوار سے بھر دے اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔


حوالہ جات

  1. مجلہ بحث و نظر فقہی سیمینار جلد نمبر ۲ شمارہ ۶ ص ۵۰ تا ۵۴
  2. ایضاً ص ۵۹ تا ۶۵
  3. تاریخِ دعوت و عزیمت ج ۵ ص ۲۰۸، ۲۰۹
  4. ص ۲۰۴، ۲۰۵
  5. ایضاً ج ۲ ص ۳۳۷، ۳۳۸

علامہ اقبال اور عصری نظامِ تعلیم

ڈاکٹر محمود الحسن عارف

دورِ جدید کے جو مسائل مسلم امہ کی فوری توجہ کے منتظر ہیں ان میں مسلمانوں کے نظامِ تعلیم کا مسئلہ سب سے اہم ہے۔ تعلیم کے مسئلے کی یہ اہمیت آج سے نہیں بلکہ اس وقت سے ہے جب سے انگریزوں نے ہندوستان میں قدم رکھا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک اس گتھی کو سلجھانے اور اس مسئلے کے تصفیہ طلب حل کے لیے متعدد تعلیمی کمیشن نامزد کیے جا چکے ہیں۔ ان میں سے قدیم کمیشن لارڈ میکالے کی سربراہی میں ۱۸۳۴ء میں اس وقت بٹھایا گیا تھا جب انگریز مفتوحہ ملک ہندوستان میں انقلابی تبدیلی لانا چاہتا تھا۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور نامعلوم کب تک جاری رہے گا۔ مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ کوئی کمیشن اس مسئلے کا اطمینان بخش حل تلاش کرنے میں کامیاب و کامران نہیں ہو سکا ہے۔
اس مسئلے کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ لارڈ میکالے کی وضع کردہ تعلیمی پالیسی ہے جس سے چھٹکارا پانے کی اب تک کوئی بھی وقیع اور سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔ ہر تعلیمی کمیشن کنویں سے ڈول نکالنے کی تو پُرزور سفارش کرتا ہے مگر اس تعلیمی کنویں سے لارڈ میکالے کا مار کر پھینکا ہوا مردہ چوہا باہر نکالنے کی کوئی بھی سفارش نہیں کرتا۔ جس کا نتیجہ ہے کہ کنواں بدستور گندا اور پلید ہے۔ بھلا اس قوم کے ذہن و فکر میں بالیدگی اور بالغ نظری کیسے پیدا ہو سکتی ہے جس قوم کی رگ رگ میں میکالے کی تعلیمی پالیسی کا زہر بھرا ہوا ہو۔ لارڈ میکالے کی تعلیمی پالیسی پر اکبر الٰہ آبادی نے کیا خوب تبصرہ کیا تھا:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
کالج، مدرسہ، یونیورسٹی اور اسکول کسی سنگ و حجر کی عمارت کا نام نہیں بلکہ ان کا نظامِ تعلیم یا ان میں رائج ان کا تعلیمی طور طریق (Educational system) ہوتا ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ ان عمارتوں کی پیشانی پر اتنے ماہ و سال گزر جانے کے باوجود آج بھی ’’لارڈ میکالے‘‘ کی یہ تعلیمی رپورٹ جلی حروف میں لکھی ہوئی ہے کہ
We must at present do our best to form a class who may be interpreters between us and the millions whom we govern. A class of persons; Indian in blood and colour but English in taste, in opinion, in motives and in intellect.
ترجمہ: ’’ہمیں لازماً اس وقت ایسی جماعت بنانی چاہیے جو ہم میں اور کروڑوں رعایا میں واسطہ ہو۔ اور یہ جماعت ایسی ہونی چاہیے جو خون اور رنگت کے اعتبار سے ہندوستانی ہو مگر مذاق، رائے، اخلاق و کردار اور سمجھ بوجھ کے اعتبار سے انگریز ہو۔‘‘
ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہدِ حکومت میں جو ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی تک جاری رہا، تعلیمی منصوبہ بندی اور وسیع پیمانے پر عیسائی مشنز کی ہندوستان آمد وغیرہ کے واقعات اس بات کی علامت تھے کہ انگریزوں نے جس طرح عیاری سے ملک کے مختلف حصوں پر آہستہ آہستہ اپنا اثر و اقتدار قائم کر کے اہلِ ہند کی قوتِ مدافعت کو کمزور کر دیا تھا، اب اسی طرح نہایت چالاکی اور ہوشیاری سے افرادِ ملت کے قلب و ذہن کا آپریشن شروع ہونے والا ہے۔ بقول اکبر الٰہ آبادی؎
توپ کھسکی پروفیسر پہونچے
جب بسولا ہٹا تو رندا ہے
حسبِ توقع یہ آپریشن ہوا اور اس دھوم دھام سے ہوا کہ پہلے ہلے میں ہی پورا ہندوستان نشتر کی چبھن سے بلبلا اٹھا۔ اس کے خلاف ۱۸۵۷ء میں بھی شدت سے ردعمل ہوا مگر انگریزوں نے جلد اپنے ہندوستانی نمک خواروں کی مدد سے آزادی کی اس آگ کو پوری قوت سے دبا دیا اور ہندوستان ’’ملکہ بارطانیہ‘‘ کے زیر تسلط آ گیا اور اس طرح مذکورہ بالا تعلیمی پالیسی پر عملدرآمد کی رفتار اور بھی تیز ہو گئی۔
سامراجی تعلیمی مقاصد اور قومی احساس و فکر میں تصادم و تخالف نے قدیم و جدید تعلیم یافتہ طبقوں کے درمیان ایک وسیع کشمکش پیدا کر دی جو دن بدن رو بہ ترقی رہی۔ اس تصادم کے نتیجے میں مسلمانوں میں کوئی بھی متحدہ قومی سوچ پیدا نہ ہو سکی اور مسلمانوں کی توانائیاں آپس کی اس جنگ کی نذر ہو گئیں۔ اس تفریق نے مسلمانوں میں واضح طور پر دو گروہ پیدا کر دیے:
  1. ایک مسلمانوں کے قدیم علوم و فنون کا دلدادہ مگر جدید علوم سے بے بہرہ تھا،
  2. دوسرا جدید علوم اور انگریزی تہذیب و ثقافت کا والہ و شیدا مگر قدیم علوم کی اہمیت سے نابلد تھا۔
دن بدن دونوں گروہوں میں اختلاف کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی، تاہم صالح فطرت انسان ہر جگہ ہوتے ہیں، یہ قدرت کا عجیب و غریب کرشمہ ہے کہ وہ بیگانوں سے اپنوں کا کام لیتی ہے۔ بقول اقبال ؎
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
اس جدید تعلیم اور نصابِ تعلیم کی قدیم علماء کی جانب سے جو مخالفت کی جاتی تھی، اسے رجعت پسندی اور دقیانوسی اندازِ فکر قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا تھا۔ اس لیے اللہ رب العزت نے ہندوستان میں اس تعلیمی پالیسی کے خلاف آواز بلند کرنے کا کام جدید تعلیم یافتہ لوگوں سے لیا۔ اس گروہ کے سرخیل اکبر الٰہ آبادی اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ہیں جو دونوں ہی جدید تعلیم یافتہ بزرگ ہیں۔
شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنے وقت کی بہترین جدید تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ بیک وقت انگلستان اور جرمنی کی تعلیم گاہوں سے فیض تعلیم یافتہ تھے۔ اور پھر تعلیم بھی اپنی نوعیت کے مشکل مضمون یعنی فلسفہ میں حاصل کی تھی جس کا گہرا مطالعہ انسان کو وادئ تشکیک میں لے جاتا ہے، مگر یہاں تو حالت ہی مختلف تھی۔ انہوں نے قیامِ ولایت میں ولایت کو نہایت قریب سے اور نہایت گہرائی سے دیکھا تھا۔ آپ کی نظر ایک عام شخص کی نظر نہ تھی، بلکہ ایک ایسے شخص کی نظر تھی جس کے دل میں قومی اور ملی درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے یورپ کو جب قریب سے دیکھا تو وہ اس سے حد درجہ متنفر ہو گئے۔ وہ تنفر سطحی اور عام نوعیت کا نہیں بلکہ نہایت گہرا اور پائیدار تھا۔
آپ نے یورپ اس زمانے میں دیکھا تھا جب اسے کسی عالمگیر جنگ (World war) کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ جب لندن اور پیرس کی تہذیب کی چمک دمک نگاہوں کو خیرہ کرتی تھی، انگریز قوم پوری طرح چوکنا اور بیدار تھی۔ مگر اس کے باوجود علامہ اقبال نے ان کی تہذیب و طرزِ معاشرت پر آئندہ پڑنے والی دراڑوں کو بڑی عمدگی اور گہرائی سے دیکھ لیا تھا۔ اور علامہ اقبال نے اسے دیکھ کر ہی اپنی یہ الہامی پیشگوئی فرمائی تھی ؎
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا۔
علامہ اقبال صرف یورپی تہذیب و معاشرت کے ہی مخالف نہ تھے بلکہ آپ ان کے طرزِ تعلیم اور نصابِ تعلیم دونوں کے بھی یکسر خلاف تھے۔ کیونکہ اسی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں معاشرتی اور سماجی بگاڑ پیدا ہو رہا تھا اور اسی طرزِ تعلیم سے مسلمان اپنے مذہب اور اپنے دین سے دور ہی نہیں بلکہ اس سے بیزار ہو رہے تھے۔ اسی تعلیم نے مسلمانوں میں خوئے غلامی کو راسخ کر دیا تھا کہ وہ اپنی آقائی اور حکمرانی کا زمانہ بھول کر سات سمندر پار کی اس قوم کی مدح و ستائش کا دم بھرنے لگے تھے۔ اس طرزِ تعلیم نے مسلمانوں میں تنگ نظری اور جمود پیدا کر دیا تھا اور وہ کنویں کے مینڈک بن کر رہ گئے تھے۔ اسی نظامِ تعلیم کا یہ نتیجہ تھا کہ مسلمانوں میں اعلیٰ پائے کے مفکر، سائنسدان، ادیب اور دانشور پیدا ہونے کی بجائے محض دفتروں کے کلرک پیدا ہو رہے تھے جس پر اکبر الٰہ آبادی کو یہ کہنا پڑا ؎
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا
اسی تعلیم کے یہ ثمرات تھے کہ قوم کی بہو بیٹیوں سے حجاب اور پردہ داری کی روایت ختم ہو رہی تھی، اور مخلوط تعلیم کی ’’برکات‘‘ کے نتیجے میں آزادانہ میل جول کے مواقع اب محدود اور شاذ نہ تھے، بلکہ یہ مواقع عام اور وسیع تھے جس پر علامہ اقبال کو یہ کہنا پڑا ؎
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا
گزر گیا اب وہ دور ساقی کا کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان میخانہ ہر کوئی بادہ خوار ہو گا
اور یہ اسی طرزِ تعلیم کے ’’فوائد‘‘ تھے کہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں میں بے دینی اور الحاد بڑھ رہا تھا۔ پہلے جن چیزوں کو چھپ چھپا کر منہ لگایا جاتا تھا، اب انہیں دھڑلے سے پیا جاتا تھا، اور ایسے پینے والوں کو نہ تو محتسب کا ڈر رہا تھا اور نہ قاضی کی گرفت کا۔ الغرض اس تعلیم نے مسلمانوں کی نئی نسل کو طرح طرح کے مسائل سے دوچار کر دیا تھا۔ اور بعینہ یہی مسائل، قدیم و جدید کا یہ تفاوت، ذہنوں کی یہ تشکیک ابھی تک جوں کی توں باقی ہے، بلکہ اس میں کسی قدر اضافہ ہی ہوا ہے۔
انہی وجوہ کی بنا پر شاعرِ مشرق کو دوسرے شعبوں کے ساتھ تعلیم و تربیت کے اس شعبے کو اپنی توجہ اور فکر کا مرکز بنانا پڑا۔ علامہ اقبال چونکہ ان تمام حالات کے چشم دید گواہ تھے، اسی لیے ان سے بہتر ان حالات اور ان مقامات کے تجزیے کا اور کسے حق پہنچتا تھا۔ بہرحال علامہ اقبال نے اس طرزِ تعلیم کا تجربہ کیا اور نہایت عمدہ تجزیہ کیا۔ اور اس تجزیے اور نقد و تبصرہ کو اپنی اردو اور فارسی کی شاعری کا موضوع ٹھہرایا۔ اس بحث میں علامہ اقبال کی آواز جہاں اونچی اور گونجدار ہے وہاں اس میں کاٹ اور تیزی بھی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی ظریفانہ شاعری اور سنجیدہ شاعری دونوں میں اس عنوان پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ پہلے ملاحظہ ہوں علامہ اقبال کی مزاحیہ شاعری کے چند اشعار۔ لڑکیوں کی تعلیم پر آپ نے کیا خوبصورت تبصرہ فرمایا ہے ؎
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روش مغربی ہے مدِ نظر
وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
تعلیمِ مغربی کے نتیجے میں طالب علموں میں جو لفاظی اور ’’تنگ آبی‘‘ پیدا ہو جاتی ہے اس کا ذکر یوں کیا گیا ہے ؎
تعلیمِ مغربی ہے بہت جرأت آفریں
پہلا سبق ہے بیٹھ کے کالج میں مار ڈینگ
بستے ہیں ہند میں جو خریدار ہی فقط
آغا بھی لے کے آئے ہیں اپنے وطن سے ہینگ
اس تعلیم کے حصول کے لیے جس طرح ٹیوشن لینے کا سلسلہ چل نکلا تھا اور ابھی تک جاری ہے، بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اگر کوئی طالب علم ٹیوشن نہ پڑھے تو وہ عتاب کا شکار ہو جاتا ہے، اس پر یوں تعریض کرتے ہیں ؎
تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ؟
دفعِ مرض کے واسطے پل پیش کیجئے
تھے وہ بھی دن کہ خدمتِ استاد کے عوض
دل چاہتا تھا ہدیۂ دل پیش کیجئے
بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ ’’بل‘‘ پیش کیجئے
اس ظریفانہ تلمیحات اور تعریضات کے ساتھ علامہ اقبال نے اپنی سنجیدہ شاعری اور نثر میں بھی اس مسئلے کو اپنا مرکزِ توجہ بنایا ہے۔
علامہ اقبال بجا طور پر مسلم ذہن و فکر رکھنے والے فلسفی شاعر تھے، اس بنا پر ان کا مسلمانوں کے نظریات سے متاثر ہونا بدیہی تھا۔ اس کے علاوہ علامہ نے جن لوگوں سے خاص طور پر استفادہ کیا ان میں الغزالی جیسے اکابر بھی شامل ہیں۔ شاعرِ مشرق کے کلام میں اکابرِ اسلام سے استفادہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ انہی تاثرات کے زیر اثر علامہ اقبال کا نظریۂ تعلیم اسلامی اصولوں پر استوار تھا۔ ان کے خیال میں صحیح اور بہتر تعلیم وہ ہے کہ جس میں جسمانی و ظاہری نشوونما کے ساتھ روحانی اور معنوی صحت و تندرستی کا بھی خیال رکھا جائے۔ علامہ کے خیال میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم ایسا ہونا چاہیے کہ جس کے ذریعے اسلامی عقائد و خیالات کو راسخ اور مستحکم کیا جائے۔ اس کے برعکس جس تعلیم و تربیت کے نتیجے میں مذہبِ اسلام سے طالب علموں کا تنفر بڑھے وہ تعلیم نہ مسلمانوں کو زیبا ہے اور نہ مسلم ممالک کو۔ بانگِ درا میں علامہ ’’مسلمان اور جدید تعلیم‘‘ کے عنوان سے فرماتے ہیں ؎
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما
لے کے آئی ہے مگر تیشہ فرہاد بھی ساتھ
مسلمانوں کے ممالک سے جو طالب علم فراغت حاصل کرتے ہیں ان سے بجا طور پر مسلمانوں کو توقعات اور امیدیں ہوتی ہیں، لیکن اگر تعلیم کے ذریعے ان کے باطن میں چھپے ہوئے ’’مردِ مومن‘‘ کو جاں بحق تسلیم کر لیا جائے تو پھر وہ توقعات کہاں سے اور کیونکر پوری ہوں گی، علامہ فرماتے ہیں ؎
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا اللہ
علامہ اقبال کے نزدیک وہ مسلمان ہی کیا ہے جس کا سینہ گرمئ قرآن اور جس کا فکر نورِ ایمان سے منور نہ ہو۔ علامہ اقبال ’’جاوید نامہ‘‘ میں نئی نسل سے یوں خطاب فرماتے ہیں ؎
سینہ ہا از گرمی قرآن تہی
از چنیں مرداں چہ امید بہی
؎
گر خدا سازد ترا صاحب نظر
روز گارے را کہ می آید نگر
عقل ہا بے باک و دل ہا بے گداز
چشم ہا بے شرم و غرق اندر مجاز
علم و فن دین و سیاست عقل و دل
زوج زوج اندر طواف آب و گل
عقل و دین و دانش و ناموس و ننگ
بستۂ فتراکِ لُردانِ فرنگ
تا ختم پر عالم افکار او
بردریدم پردۂ اسرار او
علامہ اقبال کے نزدیک تعلیم سمیت مسلمانوں کے ہر شعبۂ حیات کا طرۂ امتیاز یہ ہونا چاہیے کہ اس کی منزلِ مقصود ذاتِ رسالتمآبؐ ہو ؎
مصطفٰیؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر باو نہ رسیدی تمام بولہبی است
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دنیا کو قرآن حکیم کی جو عظیم نعمت ملی، علامہ اقبال تعلیم میں اسے بنیادی اور اساسی اہمیت دینے کے قائل تھے ؎
گر تو می خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن
علامہ اقبال ایسی تعلیم و تربیت کے سخت مخالف تھے جس کے نتیجے میں مسلمانوں میں عقائد کی تشکیک اور تذبذب جیسی مذموم و مسموم امراض پیدا ہوتی ہیں۔ ایک مقام پر آپ فرماتے ہیں ؎
جب پیر فلک نے ورق ایام کا پلٹا
آئی یہ صدا پاؤ گے تعلیم سے اعزاز
آیا ہے مگر اس سے عقیدوں میں تزلزل
دنیا تو ملی طائر دیں کر گیا پرواز
دیں ہو تو مقاصد میں بھی پیدا ہو بلندی
فطرت ہے جوانوں کی زمیں گیر و زمیں تاز
علامہ اقبال مسلمان نوجوانوں میں سطحیت اور عمومیت کے بجائے ان کے علم و فکر میں گہرائی اور گیرائی دیکھنا چاہتے تھے۔ اور آپ اس بات کے متمنی تھے کہ مسلم نوجوان صرف ’’دفتروں کے کلرک‘‘ بننے پر قانع نہ ہوں بلکہ اپنے اسلاف کی وہ وراثت یعنی علم و فن حاصل کرنے کی تگ و دو کریں جو یورپ نے مسلمانوں سے ہتھیا لی تھی۔ علامہ ایک پُردرد نظم میں جوانانِ اسلام سے یوں ہمکلام ہوتے ہیں ؎
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئین مسلّم سے کوئی چارا
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا
اس نظم کے اختتام پر اس شعر سے تضمین کی ہے ؎
غنی روز سیاہ پر کنعاں را تماشا کن
کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را
گویا مسلمانوں کی علمی میراث (یوسف) نے یورپ (زلیخا) کی آنکھ کو جا کر منور کیا ہے مگر اس کے حقیقی حقدار مسلمان اس سے محروم و درماندہ ہیں۔
علامہ اقبال مسلمان طالب علموں سے بجا طور پر یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ مسلمانوں کی اس متاعِ گم گشتہ کو واپس لانے کی پوری کوشش کریں گے اور ان کی تعلیم ادھوری اور سطحی نہیں بلکہ علم و فن کی گہرائی اور تہہ تک پہنچنے والی ہو گی۔ شاعرِ مشرق مسلمان طالب علموں کو یوں دعائیہ انداز میں فہمائش کرتے ہیں ؎
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں
طالب علم کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت کا پہلو بھی علامہ کے مدنظر رہا ہے۔ علامہ مسلم اساتذہ اور ماہرینِ تعلیم سے بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ’’لعل بدخشاں‘‘ کی تربیت میں ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اندازِ بیان کی خوبی ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں ؎
مقصد ہو اگر تربیت لعل بدخشاں
بے سود ہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پرتو
دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار
کیا مدرسہ کیا مدرسہ والوں کی تگ و دو
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو
مسلمانوں کی تعلیم گاہیں، مدارس، یونیورسٹیاں اور کالج بھی مثالی ہونے چاہئیں۔ ان کی تعلیم ان کے ماحول اور اخلاق و رویے کا انداز ایسا خوش کن ہو کہ اس میں طالب علموں کی صحیح تربیت ہونا ممکن ہو سکے۔ علامہ کے خیال میں جن تعلیم گاہوں میں رٹے رٹائے الفاظ اور کتابیں پڑھا دی جاتی ہیں اور طالب علموں کو فطرت، مناظرِ فطرت اور مظاہرِ فطرت سے آشنا نہیں کیا جاتا وہ تعلیم گاہیں اپنے ’’مقصدِ حیات‘‘ سے ابھی بہت پیچھے ہیں۔ انہیں وقت اور زمانے کا ساتھ دینا چاہیے، فرماتے ہیں ؎
عصرِ حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی روح تری دے کے تجھے فکرِ معاش
اس جنوں سے تجھے تعلیم نے بے گانہ کیا
جو یہ کہتا تھا خرد سے کہ بہانے نہ تراش
مدرسے نے تری آنکھوں سے چھپایا جن کو
خلوتِ کوہ و بیاباں میں وہ اسرار ہیں فاش
الغرض علامہ اقبال ہر اعتبار سے مسلمانوں کے نصابِ تعلیم، نظامِ تعلیم اور طریقۂ تعلیم کو خوب سے خوب تر بنانے کے قائل تھے۔ ان کے خیال میں مسلمانوں کی تعلیم جیسے مسئلے کو ’’غیروں‘‘ کے ہاتھ میں دے دینا اپنی نسل اور ملت کے ساتھ دھوکا دینے کے مترادف ہے۔

حکومت کے لے لمحۂ فکریہ

اس مقام پر بے جا نہ ہو گا کہ اگر مملکتِ خداداد پاکستان کے نظامِ تعلیم پر ذرا ایک نظر ڈال لی جائے۔ مملکتِ خداداد پاکستان کو قائم ہوئے تقریباً ۴۳ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، اور یہ اتنا طویل عرصہ ہے کہ اس میں کسی بھی نظامِ تعلیم کو پرکھنے اور اس کے اثرات کے جائزے کا بخوبی موقع مل سکتا ہے۔ اس وقت دفتروں، تعلیم گاہوں اور حکومتی اداروں میں جو کھیپ کام کر رہی ہے، یہ خالصتاً پاکستانی تعلیم گاہوں کی تیار کردہ کھیپ ہے، مگر کیا وجہ ہے کہ ہر محکمے اور ہر شعبے کی کارکردگی ترقی پذیر ہونے کے بجائے روبہ زوال اور روبہ پستی ہے؟ تحقیق و تفتیش کے میدان سے لے کر علمی، فکری اور سیاسی سطح تک ’’مُسلم تشخص‘‘ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا۔ اس کی وجہ محض اور محض یہ ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم ابھی تک مکمل طور پر اسلامی اصولوں پر استوار نہیں ہو سکا ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ اس مروّجہ پالیسی کو بدلا جاتا، مگر بدلنے کے بجائے اسے دن بدن مستحکم اور مضبوط تر بنایا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم زندگی کے ہر شعبے میں دوسروں سے پیچھے اور ان کے دست نگر ہیں۔
آخر میں بڑے افسوس اور دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری تعلیمی حالت آج بھی ویسی ہی ہے جو آزادی سے پہلے تھی۔ علامہ اقبال کے حسبِ ذیل قطعہ کو پڑھیے اور سر دھنیے ؎
کل ایک شوریدہ خواب گاہِ نبیؐ پہ رو رو کے کہہ رہا تھا
کہ مصر و ہندوستاں کے مسلم بِنائے ملّت مِٹا رہے ہیں
یہ زائرانِ حریمِ مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے ناآشنا رہے ہیں
غضب ہیں یہ ’’مُرشدانِ خود‘‘ بیں، خُدا تری قوم کو بچائے!
بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں
سُنے گا اقبالؔ کون ان کو، یہ انجمن ہی بدل گئی ہے
نئے زمانے میں آپ ہم کو پُرانی باتیں سنا رہے ہیں!
مجھے رہ رہ کر یہ رنج دہ تجربہ ہو رہا ہے کہ مسلمان طالب علم جو اپنی قوم کے عمرانی، اخلاقی اور سیاسی تصورات سے نابلد ہیں، روحانی طور پر بھی بمنزلہ ایک بے جان لاش کے ہیں۔

تعلیم کی سیکولرائزیشن

غطریف شہباز ندوی

اقبال نے کہا تھا ؎
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
تعلیم ایک با مقصد سماجی عمل ہے، اس کے ذریعے نئی نسل کو معاشرہ میں مقبول افکار و اطوار سکھائے جاتے ہیں جو معاشرہ میں پہلے سے موجود اور رائج ہوتے ہیں اور اساتذہ کے ذہنوں میں راسخ ہوتے ہیں۔ انہیں افکار و خیالات اور روایات کے مجموعہ سے اس معاشرہ کے تعلیمی اقدار کی تشکیل ہوتی ہے۔ پورا درسی نظام انہی اقدار پر مبنی ہوتا ہے۔ ماہرینِ تعلیم، اساتذہ، درسی لٹریچر وغیرہ سب اسی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہ اقدار ہر نظامِ تعلیم میں پائے جاتے ہیں۔ معاشرہ کی مخصوص فضا و ماحول نیز روایات کے اعتبار سے ان میں باہم فرق ہوا کرتا ہے۔
دیکھا جاتا ہے کہ مغرب کے تعلیمی اقدار مشرق سے مختلف ہیں اور مشرق کی سماجی و اخلاقی روایات مغربی ذہن و فضا سے یکسر الگ۔ پھر چونکہ کوئی معاشرہ مشرقی ہو یا مغربی، اسلامی ہو یا غیر اسلامی، صرف انسانی بھیڑ کا نام نہیں ہے بلکہ وہ ایک جسم نامی (Organism) ہوا کرتا ہے، جس کے لیے ایک مرکزی خیال کا ہونا ضروری ہے جو اس کے لیے روح کا کام کرے، جس سے اس کے تمام اعضاء جوارح غذا پائیں۔ مثلاً اسلامی معاشرہ میں وہ بالعموم انسانی زندگی کے بنیادی حقائق (انسان، کائنات، خدا اور آخرت) کے بارے میں فکر و تخیل کا مجموعہ ہوتا ہے۔ یہی مجموعۂ فکر و خیال آئیڈیالوجی (Ideology) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہی آئیڈیالوجی دراصل معاشرے کی روح اور اس کی ترجمان ہوتی ہے۔ اور چونکہ کوئی بھی نظامِ تعلیم باہر سے تھوپی جانے والی چیز نہیں ہوتی، اس لیے کسی بھی معاشرہ میں وہی نظامِ تعلیم فروغ پا سکتا ہے جو اس آئیڈیالوجی سے ہم آہنگ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ غیر اسلامی اقدار و مقاصد پر مبنی نظامِ تعلیم، چاہے مغربی برانڈ کا ہو یا مشرقی ٹرینڈ رکھتا ہو، کسی مسلم معاشرہ کے لیے نہ عملاً مفید ہو سکتا ہے نہ وہاں پنپ سکتا ہے، کہ غیر اسلامی نظام کے مسلّمہ تعلیمی اقدار بالکل الگ ہیں اور اسلامی نظامِ تعلیم کے اصول ان سے یکسر مختلف۔ غیر اسلامی تناظر میں اس کے مقاصد کچھ اور ہوں گے، اسلامی تناظر میں کچھ اور۔
غیر اسلامی نظامِ تعلیم نے اپنے مقاصد اس طرح متعین کیے ہیں:
  • فلاحِ عام،
  • مسرت کا حصول،
  • افادیت پرستی،
  • زیادہ سے زیادہ لذت و آسائش کا حصول۔
اس کے برخلاف اسلامی نظامِ تعلیم کے مقاصد میں:
  • انسان کو دنیا و آخرت میں کامیاب بنانا،
  • اس کا مادی و روحانی ارتقاء،
  • اس کے نفس کا تزکیہ اور اخلاق و معاملات کی تربیت،
  • اسی کے ساتھ وہ انسان کو مادی ترقی سے بھی نہیں روکتا بلکہ سائنٹیفک مزاج کو بڑھاوا دیتا ہے۔
چنانچہ تاریخ کی شہادت ہے کہ اسلامی تہذیب کے دورِ عروج میں تعلیم بہت زیادہ عام رہی اور ہر طرح کی سائنسی، عقلی اور تہذیبی و علمی ترقیاں بھی ہوئیں۔ تاہم اس کا بڑا امتیاز یہ تھا کہ اس عہد میں انسان کا رابطہ خدا سے نہیں ٹوٹا۔ جبکہ آج مغربی نظامِ تعلیم کے غالب ہو جانے کے بعد ہر طرف خدا بیزاری اور مذہب سے لاتعلقی کا رجحان پایا گیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب ہے نظامِ تعلیم کا سیکولر بنیادوں پر قائم ہو جانا، جس کے لیے باطل قوتیں گزشتہ تین صدیوں سے کام کر رہی ہیں، اور بالآخر وہ تعلیم کو سیکولرائز کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ مغربی دنیا اور عالمِ اسلام کے کامیاب تجربوں کے بعد اب وہ اسی تجربہ کو ہندوستان میں بھی دوہرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ یہاں تعلیم کو سیکولرائز کرنے کی زبردست کوششیں کی جا رہی ہیں اور اس کے خاص پیٹرن ہیں:
  1. تعلیم کو ہندوانہ بنانا (Hinduisation)،
  2. اور تعلیم کو قومی یا انڈین بنانا (Indianisation)۔
جہاں تک تعلیم کے سیکولرائزیشن کی بات ہے تو اس سلسلے میں پہلے سیکولرازم اور سیکولرائزیشن کے بارے میں چند بنیادی حقائق سامنے لانا ضروری ہے۔ سیکولرازم کی مختلف تعبیریں کی جاتی ہیں۔ مغرب میں اس کو دوسرے انداز سے ڈیفائن کیا جاتا ہے، مشرق میں اس کی تعریف دوسری ہے۔ بالخصوص ہندوستان کے تناظر میں اس کی مختلف تشریحات کی جاتی ہیں۔ ایک تشریح وہ ہے جو کانگریس کرتی ہے، دوسری تعبیر مارکس وادی اور سوشلسٹ عناصر کرتے ہیں، ان سب سے مختلف تعبیر سنگھ پریوار پیش کرتا ہے۔ ان میں کوئی مذہب مخالف ہے، کوئی غیر جانبدار اور مذہب کو فرد کی زندگی تک محدود کرتے ہیں، تاہم یہ حقیقت واضح ہے کہ یہ ساری تعبیریں بظاہر متضاد اور مختلف نظر آتی ہیں، لیکن اپنی حقیقت اور روح کے اعتبار سے تقریباً سب یکساں ہیں۔ جو اختلافات ہیں وہ بس لفظی اور شکلی اختلاف ہے، یا حکمتِ عملی اور طریقہ کار کا اختلاف ہے۔
سیکولرازم دراصل ریگولرازم (ضابطہ و شریعت کی پابندی) کے خلاف ہے۔ بعض جگہوں پر سیکولرازم کا وہ ایڈیشن بھی ملتا ہے جو مذہب کو تسلیم کرتا ہے، مثلاً ہندوستانی سیکولرازم، لیکن یہ ایڈیشن بھی معاشرہ کی شدید مذہبی وابستگی کو دیکھ کر ایک اسٹریٹیجی کے طور پر اپنایا گیا ہے، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ سیکولر کا مطلب ہوا ریگولر کی ضد یعنی متشرع کا ضد۔ گویا وہ بنیادی طور پر خدا اور مذہب کے خلاف ہے۔ انسانی زندگی کے سبھی شعبوں کو لامذہبی بنیاد پر کھڑا کر دینا اور اس کے مطابق ڈھال دینے کی کوشش کو سیکولرائزیشن کہا جاتا ہے، جس کا عمل دنیا میں صدیوں سے جاری ہے اور جس نے پوری دنیا پر بالعموم اور عالمِ اسلام پر بالخصوص گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ یہ لادینی نظریہ ایک دو دن میں نہیں پنپ گیا تھا بلکہ اس کے پیچھے صدیوں جاری رہنے والی تحریکات تھیں۔ ماسوئیت نے اسے آگے بڑھایا، میومنزم اور ریشنلزم کے فلسفوں نے اس کو عقلی بنیادیں فراہم کیں، یونانی علوم کی طرف رجعت نے اسے مہمیز دی، اس نظریہ کے علمبرداروں نے زندگی کے ہر میدان میں بے پناہ عقلی و فکری کاوشیں کیں اور اس کے فروغ میں نمایاں رول ادا کیا۔ جن میں خاص ہیں بوکاشیو (Boccaccio)، پیتراکو، رینزو (Renzo)، میڈیسی (Medici)، دیکاٹ زونگلی (Zongli)، روسو (Rousseau)، کانٹ (Cant)، ہیگل (Hegal)، میکیاولی اور آدم اسمتھ ولی ارون انس کی جدوجہد سے مغربی نشاۃ ثانیہ کی داغ بیل پڑی۔ (ملاحظہ ہو ص ۶۷، اسرار عالم، عالمِ اسلام کی اخلاقی صورتحال)
ڈیکارٹ (Decartes) نے روح کو مادی اجزاء سے اور ذہن کو جسم سے الگ قرار دیا، اور بلا کسی تحقیق کے مادہ و جسم کو اصل اہمیت دے دی۔ اسی طرح لوائے زر (Lavoisier) نے دعویٰ کیا کہ مادہ شکلیں بدلتا ہے، فنا نہیں ہوتا۔ اور اس سے منفی طور پر یہ نتیجہ نکالا کہ یہ دنیا غیر فانی ہے، لہٰذا مذہب کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ کائنات فانی ہے۔ اسحاق نیوٹن (Isaac Newton) کی تحقیقات نے ثابت کیا کہ دنیا چند قوانین کے تحت وجود میں آئی ہے، انہیں کی بنیاد پر چل رہی ہے، لہٰذا اسے خالق و صانع کی ضرورت نہیں ہے۔ ان خیالات نے جدید سائنٹیفک نظریہ کو جنم دیا۔ یہودیوں کی آلہ کار مغربی قوتوں نے مذہب و کلیسا پر کاری ضرب لگانے اور نئی نسلوں کو لامذہب بنانے کے لیے سب سے زیادہ کلچر اور تعلیم کا استعمال کیا۔ بطور خاص تعلیم ان کے لیے ایک بے انتہا کار آدم ذریعہ ثابت ہوا اور اس میدان میں اس نظریے نے بڑے دور رس اور خطرناک اثرات پیدا کیے کہ ؏
دل بدل جائیں گے تعلیم کے بدل جانے سے
جن قوموں، علاقوں اور تہذیبوں کو سیاسی اور فوجی محاذوں پر شکست نہ دی جا سکی اور انہوں نے استعمار کے آگے سخت مزاحمت (Resistance) سے کام لیا، انہیں تعلیم کے ذریعے سے بہت آسانی سے شکار کر لیا گیا۔ اب تک پوری دنیا میں مختلف قوموں اور ملکوں میں تعلیم کو تہذیبِ نفس اور تطہیرِ فکر کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ اور اس رجحان کو اسلام نے خصوصی طور پر تقویت دی اور اسے اتنا ارتقاء دیا کہ اس سے زیادہ ممکن نہ تھا، اس کے تہذیبی ارتقاء کے دور میں سارا تعلیمی نظام اسی نکتہ پر چلتا رہا۔
لیکن جدید دور میں صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی۔ جدید تعلیم کے ایک اہم ستون بیکن (Francis Bacon) نے تعلیم کو فضائل سے آراستہ کرنے کا ذریعہ بنانے کے بجائے اسے مادی غلبہ کے حصول کا ذریعہ بتایا۔ روسو جدید تعلیم کا امام ہے، اس کا کہنا تھا کہ تعلیم واقعی اور مثبت ہونی چاہیے، جس کا مقصد بچہ کی ذہنی قوتوں کی پرورش ہو نہ کہ باہر سے تھوپی جانے والی مذہبی و اخلاقی تعلیم۔ آدم اسمتھ جدید معاشیات میں ایک بڑا نام ہے، اس نے تعلیم کا مقصد ملکی پیداوار میں اضافہ قرار دیا۔ اس نظریہ کا حاصل تھا کہ ’’انسان دنیا کے لیے، نہ کہ دنیا انسان کے لیے‘‘۔ نتیجتاً تعلیم انتہائی شکل میں معاش سے وابستہ کر دی گئی۔
انیسویں صدی کے آخر میں پوری دنیا پر مغربی سامراجیت کا تسلط قائم ہو گیا، اور اب سرکاری زور کے ساتھ اس سیکولر نظامِ تعلیم کو پوری دنیا میں رائج کرنے کی کوشش ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ پوری دنیا پر چھا گیا۔ مذکورہ بالا افکار کی روشنی میں مغربی نظامِ تعلیم نے اپنے تعلیمی اقدار اس طرح متعین کیے:

(۱) مذہب کا انکار

مذہب کا انکار اس نظام کی مسلّمہ قدر ٹھہری، ما بعد الطبیعات کے انکار کو یہاں اصولِ موضوعہ کی حیثیت حاصل ہو گئی، سرکاری سطح پر بھی مذہب کی تعلیم ممنوع قرار پائی۔ چنانچہ ۱۸۲۸ء میں امریکہ میں تعلیمی ایکٹ نافذ کیا گیا جس کی رو سے سرکاری تعلیم گاہوں میں مذہبی تعلیم کا داخلہ بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد انگلینڈ و فرانس نے بھی اسی طرح کے قدم اٹھائے۔ عالمِ اسلام میں ترکی نے اس میں سبقت لی اور اپنے سفید آقاؤں سے بھی بازی لے گیا، اذان عربی میں ممنوع ہو گئی، ترکی زبان کا رسم الخط بھی عربی زبان سے بدل کر لاطینی کر دیا گیا۔ ہندوستان میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ گاندھی کی تعلیمی اسکیم ’’واردھا اسکیم‘‘ بھی سیکولرائزیشن کی انہیں کوششوں کا ایک حصہ تھی جو اب بھی جاری ہے۔

(۲) غیر جانب داریت

مغرب کا کہنا ہے کہ ہر فرد کو مذہب و اخلاق کے بارے میں اپنی رائے خود وضع کرنے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ کسی خاص مذہب یا کسی خاص شخصیت کا عقیدت مند بنانا ٹھیک نہیں ہے۔ تعلیم پورے طور پر غیر جانبدار ہو اور وہ طالب علم کو معروضی انداز میں محض معلومات دے دے، اس کے بعد اس کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ دیکھنے میں تو یہ خیال بڑا حسین اور خوشنما ہے، لیکن حقیقت میں بالکل بے بنیاد ہے۔ ظاہر ہے کہ دنیا میں غیر جانب داریت کا وجود کہیں نہیں پایا جاتا ہے۔ ہر انسان اپنے معاشرہ، ماحول اور زمانہ کی پیداوار ہوتا ہے اور ان تینوں عناصر سے وہ گہرا اثر قبول کرتا ہے۔ اس لیے مطلقاً غیر جانب داریت ایک وہم ہے۔

(۳) مطلق آزادی

آزادی انسان کا فطری حق ہے۔ اظہارِ رائے کی آزادی، عقیدہ کی آزادی وغیرہ کا اسلام نے زبردست احترام کیا ہے۔ حتٰی کہ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ
’’تم نے لوگوں کو کب غلام بنا لیا، جب کہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا ہے۔‘‘
یہ قول دراصل آزادئ فرد کے سلسلہ میں ٹھیٹھ اسلامی نقطۂ نظر کی ترجمانی ہے۔ آج روسو کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ
’’انسان آزاد پیدا کیا گیا تھا لیکن وہ ہر جگہ زنجیروں میں بند ہے۔‘‘
وہ اصلاً حضرت عمرؓ کے قول سے ہی ماخوذ ہے۔ لیکن مغرب میں فرد کی آزادی کا تصور مطلق آزادی کا ہے۔ سماجی رسوم، روحانی قدروں، اخلاقی ضابطوں، سب سے آزادی ہونی چاہیے۔ اور اسی لیے وہ مذہب و اخلاق کا انکار ضروری سمجھتا ہے۔

(۴) فطرت پرستی

اس کا مطلب ہے مادر پدر آزادی۔ انسان کی خواہشات اور آرزوئیں ہی سب کچھ ہیں اور اسے انہیں پورا کرنے کی لامحدود چھوٹ ہونی چاہیے۔ اس قدر کے خلیے ڈارون، فرائڈ، ڈور کائم اور جان پال سارتر کے آراء و نظریات سے تیار ہوئے ہیں۔

(۵) زمانہ پرستی

اس کا مفہوم ہے کہ ہر نئی چیز اچھی ہے، ہر پرانی چیز ٹھکرائے جانے کے قابل ہے۔ اور دنیا میں ہر چیز تغیر پذیر ہے، مادیات میں بھی معنویات میں بھی۔ آج جو سچ ہے کل وہ جھوٹ ہو سکتا ہے۔ جو اخلاقی ہے وہ غیر اخلاقی ہو سکتا ہے۔ اس لیے انسان کو اپنے ماحول کے مطابق بدلتے رہنا چاہیے۔ عقائد و اخلاق میں بھی ہمیشہ تبدیلی آتی رہتی ہے، گویا ؎
چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی

(۶) افادیت پسندی

ہر وہ چیز جو انسان کو مادی نفع اور فائدہ پہنچائے خیر ہے، اور جو مادی نقصان پہنچائے وہ شر ہے۔ چنانچہ زر اس کے لیے قابلِ قدر ہے اور اس کا حصول ہی آج مغرب بلکہ پور دنیا کی غایت الغایات (Summum Bonum)  ہے۔ حقیقت میں یہ خود غرضی کا ہی ایک مہذب نام ہے۔ جس نے آج ایسے جملہ کو رواج دیا ہے کہ Money is God۔

(۷) قوم پرستی

اپنے وطن اور قوم سے محبت ہر ایک کو ہوتی ہے، اور یہ ایک فطری چیز ہے جسے اسلام تسلیم کرتا ہے۔ لیکن مغرب میں اس کی بنیاد نسل پرستی، وطن اور زبان کی یکسانیت پر رکھی گئی ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ ہے کہ ہر قوم اپنی شرافت اور بڑائی کے نعرے لگاتی اور دوسروں کی تحقیر کرتی ہے۔ یہ وہ دیوی ہے جس کی بھینٹ پوری تاریخِ انسانیت ہی نہیں بلکہ انیسویں اور بیسویں صدی میں کروڑوں معصوم انسان چڑھا دیے گئے اور انسانی خون کی ندیاں بہہ گئی ہیں۔
سیکولرائزیشن کے عمل کے ذریعے یہودی اور سامراجی قوتوں نے پورے مشرق اور بالخصوص عالمِ اسلام کو ہر سطح پر سیکولرائز کرنے کی کوشش کی۔ جس کے مختلف و متنوع حربے، طریقے اور پیٹرنز اپنائے گئے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں اسرار عالم، عالم اسلام کی اخلاقی صورت حال، باب ۱۲ ص ۳۱۷ اور باب ۱۳ ص ۳۴۳)
تعلیم کے پورے عمل کو اپنے حق میں مفید بنانے کے لیے انہوں نے صحافت، اشتہارات، زبان و ادب سب کو سیکولرائز کیا۔ زبانوں میں ترکی رسم الخط کو لاطینی کر دیا گیا۔ عربی میں فصحی کی جگہ عامی کو رواج دینے کا ہنگامہ کیا۔ اردو کو اس کے رسم الخط سے محروم کرنے کی سازش ہوئی۔ عربی اور اردو کے جدید ادب میں فحاشی اور جنسیت، اباحیت اور غیر اسلامی اقدار کا سیلاب لا دیا گیا۔ اردو میں ترقی پسند ادب اور عربی میں ادب المھجر اسی آلودگی کی علامتیں ہیں۔ اردو میں ترقی پسند تحریک نے فحش لکھنے والوں مثلاً سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی کو پیدا کیا۔ تنقید کے جدید مکاتب فکر کے نام پر اسلامی قدروں اور اخلاقی و روحانی عناصر کو ایک ایک کر کے نکال پھینکا گیا۔ حتٰی کہ موجودہ اردو ادب پر پورے طور پر اباحیت پسند اور لادینی ٹولہ کی اجارہ داری قائم ہو گئی ہے۔
سیکولرائزیشن کا یہ عمل تعلیمی نظام کو مخصوص نہج اور محتویات کے ساتھ مرتب کر کے پورا کیا گیا۔ ان میں تین امور اہم ہیں: (الف) نصاب تعلیم (ب) محلِ تعلیم (ج) اضافی نصاب یعنی اکسٹرا کریکولر اشغال (Extra Curricular Activities)۔
نصابِ تعلیم اس طرح مرتب کیا گیا کہ وہ از خود تعلیمِ توحید، رسالت اور آخرت سے عاری بنا دے۔ اس کی گہرائی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ سیکولر تعلیم کے ۸۰ فیصد پر مخلص مسلمان یقین نہیں کر سکتا۔ تعلیم کی یہ ترتیب بڑے دور رس نتائج پیدا کر رہی ہے۔ نصاب میں یہ عمل تقریباً تمام علوم و فنون کو محیط ہے۔ فلسفہ، جغرافیہ، عمرانیات، تاریخ، طبیعات، طب، کوئی اس سے خالی نہیں۔
محلِ تعلیم سے مراد تعلیم گاہ میں نشست و برخاست کا مخصوص نظم ہے۔ مخلوط تعلیم گاہ بنانا اور نیچے سے اعلیٰ ترین تعلیم گاہ تک مخلوط تعلیم پر اصرار کرنا ایسی چیز ہے جس نے اکثر جگہوں پر مسلمانوں کو ایک دوراہے پر ڈال دیا کہ یا تو دنیا کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے سیکولرائز ہونا پسند کر لیں یا مسلمان بن کر رہیں، لیکن زندگی کی دوڑ میں اعلیٰ صلاحیتوں کے استعمال سے دست کش ہو جائیں۔
اضافی نصاب سے مراد وہ تعلیمی سرگرمیاں ہیں جن کو نصابی تعلیم میں نہیں رکھا جاتا۔ ان سرگرمیوں میں لازماً ہر سرگرمی بری نہیں تھی۔ لیکن ان کا Orientation سیکولرائزیشن کے لیے کیا گیا۔ آج بھی یہ طریقہ عام ہے اور سیکولرائزیشن کے مؤثر طریقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
سیکولرائزیشن کے وسائل میں تین چیزوں کا زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔
  1. جدید و قدیم کا ہوّا کھڑا کیا گیا۔ پھر قدیم علوم اور ان کے حاملین کو رفتہ رفتہ زندگی کی دوڑ سے الگ کر دینے کی کوششیں ہوئیں۔ ان پر سرکاری نوکری کے دروازے بند کر دیے گئے۔ ان کے اوقاف ضبط کر لیے گئے اور آخر انہیں معاشرہ سے الگ تھلگ ہو جانے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی معاشی و تعلیمی اعتبار سے کمر توڑنے اور انہیں صدیوں سے دھکیلنے کے اس طریقہ کا استعمال انگریزی دور کی وحشیانہ پن اور بے رحمی کے ساتھ ہوا، وہ ہماری تاریخ کا ایک خوں چکاں باب ہے۔
  2. معروضی تحقیق اور غیر جانبدارانہ مطالعہ کے نام پر ہر چیز کو تنقید کے قابل بنا دیا گیا۔ چنانچہ اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بھی نقد کا نشانہ تھی اور صحابہ کرامؓ کی زندگیاں بھی۔ قرآنیات پر بھی حملے ہوئے، حدیث بھی ہدفِ ملامت بن گئی۔
  3. علومِ اسلامیہ پر اجارہ داری: دورِ زوال میں امت کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر مستشرقین کی فوجوں نے علومِ اسلامیہ کے قلعوں پر شب خون مارے اور یکے بعد دیگرے قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، لغت، ادب و تاریخ غرض یہ کہ ہر فن پر انہوں نے دست رس حاصل کی۔ نئے مخطوطے دریافت کیے، تحقیقات شائع کیں، انڈکس تیار کیے، فہارس اور مفاہم اور لغت ترتیب دیے۔ یورپ کے تقریباً ہر ملک میں اعلیٰ درجہ کی یونیورسٹیاں اور ریسرچ اکیڈمیاں اسلامی علوم پر تحقیق کے لیے قائم ہوئیں۔ یورپ کی حکومتیں ان کا ساتھ دے رہی تھیں۔ حتٰی کہ انیسویں صدی آنے تک ان کی اجارہ داری قائم ہو گئی اور عالمِ اسلام اپنے ہی ثقافتی و فکری سرمایہ کے لیے ان کا دست نگر بن گیا۔
مذکورہ مقاصد کو پانے کے لیے انہوں نے پروپیگنڈہ کے فن کا بھرپور استعمال کیا اور اس میں صحافت کے تینوں شعبوں مقروء (Rreadable)، منظور (Visible) اور مسموع (Audible) نے زبردست رول ادا کیا۔ یہ سازشیں اب بھی جاری ہیں اور اب ان میں مزید وسعت اور تنوع جدید مواصلاتی انقلاب اور انٹرنیٹ کی ایجاد نے بپا کر دیا ہے۔ اور اس طرح تعلیم کو سیکولر بنا کر معاشرہ کو بتدریج اسلامی تعلیمات سے دور کرنے اور ان سے اجنبی بنانے کا مقصد کامیابی کے ساتھ حاصل کر لیا گیا، اور جو نئی نسل کو مختلف سطحوں سے آج بھی سیکولرائز کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، بالخصوص اس لیے بھی کہ اس میں کسی ردعمل کا خطرہ بھی کم سے کم ہوتا ہے۔
(بہ شکریہ ماہنامہ ’’مِلی اتحاد‘‘ دہلی)

میڈیا کے ذریعے اسلامی دعوت

محمد ارشد امان اللہ

بنیادی طور پر میڈیا کی دو قسمیں ہیں۔ پیپر میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا۔ میڈیا کا جدید ترین اور سب سے مؤثر وسیلہ انٹرنیٹ ہے۔ ذیل میں اسی انٹرنیٹ کے بارے میں کچھ عرض کیا گیا ہے۔

انٹرنیٹ کیا ہے؟

انٹرنیٹ دراصل کئی چھوٹے چھوٹے کمپیوٹر نیٹ ورک اور مواصلاتی نظام کا مجموعہ ہے۔ اس کے ذریعے لمحوں میں دنیا بھر کی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں اور اس نظام سے منسلک ہر کمپیوٹر والے سے رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ انٹرنیٹ دنیا کا سب سے بڑا کمپیوٹر نیٹ ورک ہے جس سے تقریباً ۱۶۰ ملکوں کے ۵۰ ملین افراد براہ راست جڑے ہوئے ہیں۔
انٹرنیٹ مختلف نظاموں سے مربوط کرنے والا محض ایک مواصلاتی نظام ہی نہیں بلکہ اس کے ذریعے اپنے افکار و خیالات کی نشر و اشاعت عالمی پیمانے پر کی جا سکتی ہے، اپنے پیام کو دنیا کے ہر فرد تک پہنچایا جا سکتا ہے، دوسروں کی فکر پر اثر انداز ہوا جا سکتا ہے اور ان کی ذہن سازی کی جا سکتی ہے۔ سائنس کے اس کرشمے نے جغرافیائی حدود کو بے معنی اور پوری دنیا کو گھر کا آنگن بنا دیا ہے۔ یہ نظام درحقیقت ایک ایسے نظام کا پیش خیمہ ہے جو انسان کے طرزِ معاشرت کو ہی بدل کر رکھ دے گا۔

دعوت کے میدان میں انٹرنیٹ کا استعمال

لگتا ہے کہ اکیسویں صدی انٹرنیٹ کی صدی ہو گی۔ انفارمیشن سپر ہائی وے (Information Super Highway) کے اس دور میں دعوتِ حق کے لیے اس کا منظم استعمال ناگزیر ہے۔ اس کے لیے درج ذیل طریقے اپنائے جا سکتے ہیں:
عالمی نیٹ ورک (Wrold Wide Web)
انٹرنیٹ کی مشہور ترین اور سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی سروس ہے، اس کے ذریعے معلومات نشر کرنے کے لیے ہوم پیج (Web page) کام میں لایا جاتا ہے جن میں آڈیو، ویڈیو اور گرافکس کی شکل میں معلومات بھر دی جاتی ہیں۔ ہوم پیج پڑھنے کے لیے ایک خاص قسم کا پتہ (Address) ہوتا ہے جس کو کمپیوٹر میں دیتے ہی تمام معلومات اس کمپیوٹر میں آ جاتی ہیں۔ ایسے ہوم پیج بھی بنائے جا سکتے ہیں جن کے مخصوص حصے پر ان کا آپریٹر اپنے ملاحظات و سوالات لکھ سکتا ہے۔
دعوت کے میدان میں سرگرم افراد اور تنظیمیں اس سروس کا استعمال یوں کر سکتی ہیں:
  1. ہر زندہ زبان میں ایسے ویب پیجز (Web pages) تیار کیے جائیں جن میں عقائد، عبادات، جدید ذہن میں اسلام کے تعلق سے جنم لینے والے شبہات اور اس پر کیے جانے والے اعتراضات کا تشفی بخش جواب، عالم اسلام کو درپیش خطرات کے بارے میں مفصل معلومات ڈال دی جائیں۔
  2. ایسے ویب پیجز تیار کیے جائیں جن میں لوگوں کے ذہن میں اسلام کے بارے میں پیدا ہونے والے سوالوں کو حاصل کرنے کا خاص انتظام ہو تاکہ ماہر و تجربہ کار علماء کے پاس بھیج کر کتاب و سنت کی روشنی میں ان کا جواب معلوم کیا جا سکے۔
  3. حجرہ ہائے مذاکرہ (Studios) پر مشتمل ایسے ویب پیجز تیار کیے جائیں جن میں فوری مذاکرے (Chat shows) کرانے کا اہتمام ہو۔

انٹرنیٹ پر اسلام مخالف محاذ

عصر حاضر میں اسلام کی دعوت پیش کرنے کے لیے اسلام کی جانکاری کے ساتھ ساتھ دور حاضر کے تقاضوں سے مکمل آگاہی بھی ناگزیر ہے۔ چونکہ انٹرنیٹ کی حیثیت اب ’’لسان العصر‘‘ کی سی ہو گئی ہے اس لیے دعوت کے میدان میں انٹرنیٹ کا منصوبہ بند اور دانش مندانہ استعمال اس وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔ اگر ہم نے یہ ضرورت نہ پوری کی تو اس کے بھیانک نتائج ہمیں صدیوں بھگتنے ہوں گے، خصوصاً اس لیے بھی کہ باطل نے بڑی ہوشیاری سے انٹرنیٹ پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چھیڑ رکھی ہے۔ الازہر کے سنٹر فار اسلامک اکانومی کے ڈائریکٹر جنرل کا بیان ہے کہ اب تک انٹرنیٹ پر آنے والے ۲۷ ایسے پروگراموں کا پتہ چل چکا ہے جو اسلام کے خلاف غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں۔ اس نفرت انگیز مہم کے حجم اور ابعاد (Dimensions) کا اندازہ ذیل کی مثالوں سے لگایا جا سکتا ہے۔
  1. اگست ۱۹۹۷ء میں امریکہ میں متعصب عیسائیوں نے ایک فورم تشکیل دیا، اس کا نام ’’تلوار کے مقابلے میں قلم‘‘ رکھا۔ یہ فورم ’’اسلام کے بارے میں انکشافِ حقائق‘‘ کے عنوان سے عربی، انگریزی، فرانسیسی اور ہسپانوی زبانوں میں انٹرنیٹ پر اپنا پروگرام پیش کرتا ہے۔ پروگرام کے عنادین کچھ یوں ہوتے ہیں:
    • اسلام کے مخفی چہرے کی نقاب کشائی،
    • اسلام کے بارے میں حقائق اور جعل سازیاں،
    • حقائقِ حیات قرآن کی نظر میں،
    • ہیبت ناک تعلیمات،
    • کیا آپ کسی مسلمان کی بیوی بننا پسند کریں گی؟ وغیرہ
  1. امریکہ آن لائن (America Online) انٹرنیٹ پر اپنی خدمات پیش کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے، اس کے چینل پر ۲۵ ستمبر ۱۹۹۷ء سے دو اسلام مخالف پروگرام شروع کیے گئے، ان میں سے ایک کا آغاز تو آیت کریمہ ’’و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ‘‘ ’’(قرآن کی شکل میں) جو کچھ ہم نے اپنے بندے (محمدؐ) پر نازل کیا ہے، اگر اس (کے منزل من اللہ ہونے) میں تمہیں شک ہے تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ‘‘ کے انگریزی ترجمے سے ہوتا تھا۔ اس کے بعد قرآنی آیات کے وزن پر نصرانی الفاظ سے بنی چار سورتیں پیش کی جاتی تھیں۔ مقصد یہ باور کرانا ہوتا تھا کہ ان جعلی سورتوں کے ذریعے قرآن کے اس چیلنج کو قبول کر لیا گیا۔ ان سورتوں کے نام یہ ہیں: الایمان، التجسد، المسلمین، الوصایا۔
مسلمانوں نے احتجاجی خطوط لکھے تو کمپنی نے یہ دونوں پروگرام بند کر دیے مگر ’’جیو سٹیز‘‘ اور ’’ٹرائی‘‘ نامی کمپنیوں کے چینلوں پر مجرم نے پھر وہی حرکت کی۔ دوبارہ احتجاج کیا گیا تو ٹرائی بورڈ نے اپنے چینل پر نشر ہونے والے پروگرام کو بند کر دیا لیکن جیو سٹیز نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔

عالمِ اسلام کیا کرے؟

مسئلے کی نزاکت سمجھنے کے لیے یہ دونوں مثالیں کافی ہیں۔ دعوت کے میدان میں اگر جلد ہی انٹرنیٹ کا منصوبہ بند استعمال نہ کیا گیا تو مسلمانانِ عالم کو اپنے دین و ایمان اور ملی تشخص کی خیر منانی پڑے گی۔ کیونکہ انفارمیشن سپر ہائی وے کے اس دور میں اس میڈیائی طوفان کا مقابلہ روایتی ذرائع ابلاغ سے ناممکن ہے۔ یہاں تو نا معلوم فرد یا گروہ کا سامنا ہے، اگر ہم ایک پروگرام بند کراتے ہیں تو کئی دوسرے پروگرام شروع کر دیے جاتے ہیں۔ اس لیے مثبت خطوط پر سوچنے اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ
  1. دعوتِ دین کے لیے انٹرنیٹ کے منصوبہ بند طرزِ استعمال کے بارے میں سنجیدگی سے سوچیں اور انٹرنیٹ پر اپنے پروگرام پیش کریں۔
  2. تمام دعوتی مراکز کو انٹرنیٹ سے جوڑنے کی کوشش کریں۔
  3. اس کے لیے باضابطہ کمپنیاں اور تنظیمیں بنائیں بلکہ حکومتوں کو اس جانب متوجہ کریں کیونکہ یہ کسی فردِ واحد کے بس کی بات نہیں۔

لائقِ تحسین اقدام

انٹرنیٹ پر آنے والے اسلام مخالف مذکورہ پروگرام کا اتنا فائدہ تو ضرور ہوا کہ انٹرنیٹ کی افادیت اور بے پناہ تاثیر سے مسلمانانِ عالم بخوبی واقف ہو گئے۔ خوشی کی بات ہے کہ بعض اسلامی تنظیموں اور حکومتوں نے اس سمت میں پیش قدمی شروع کر دی۔
  • اس میدان میں پہل کرنے کا شرف سعودی عرب کو حاصل ہے۔ گزشتہ حج سے پہلے ہی ٹیلی ویژن کمپنی سی این این (Cable News Network) اور بی بی سی لندن کے اسٹار ٹی وی سے سعودی حکومت نے یہ معاہدہ کیا کہ تجربے کے طور پر حج کے تمام مناظر کو پوری دنیا میں ٹی وی پر دکھایا جائے۔ بعد میں رفتہ رفتہ اس کی مدت بڑھا دی جائے۔
  • اسی طرح قطر میں ’’خدمت الاسلام علیٰ انترنت‘‘ نامی ایک پراجیکٹ ڈاکٹر حامد الانصاری کی نگرانی میں شروع ہو رہا ہے۔ یہ پراجیکٹ پہلے عربی، انگریزی، ملاوی اور پھر تمام زندہ زبانوں میں انٹرنیٹ پر اپنے پروگرام پیش کرے گا۔ اس میں غیر مسلموں، نو مسلموں اور فتاویٰ کے لیے الگ الگ چینل قائم کیے جائیں گے۔ مؤثر اسلوب میں جاذب معلومات کی تیاری کے لیے متخصصین کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔
  • ڈاکٹر محمد عبدہ یمانی کی صدارت میں ’’اقرا‘‘ نامی ایک فلاحی ادارے نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر ’’اعلام الاسلام‘‘ (مشاہیر اسلام) کے نام سے ایک پروگرام پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اس کا ہیڈ کوارٹر شکاگو میں ہے۔
  • انٹرنیٹ پر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے ترکی کی ایک اسلامی تنظیم ’’موسسۃ الموسوعۃ الاسلامیۃ‘‘ کے تعاون سے ایک پراجیکٹ شروع کرنے جا رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ ان تنظیموں کو اپنے مقصد میں کامیاب کرے، آمین۔
(بہ شکریہ ’’تعمیرِ حیات‘‘ لکھنؤ)

مغربی تہذیب کا ارتقائی جائزہ

ادارہ

مغربی تہذیب کے بارے میں ہمارے ہاں عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اس کی ہر شے خراب ہے اور اس میں گندگی ہی گندگی ہے۔ اس کا صحیح تجزیہ (Analysis) وہ ہے جو علامہ اقبالؒ نے کیا ہے۔ علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ اس تہذیب کا Inner core خالص قرآنی ہے۔ اس تہذیب کا آغاز اسلام کے عطا کردہ اصولوں پر ہوا۔ اسلام نے جو بنیادی اصول دیے تھے ان میں اولین اصول جسے اس تہذیب نے بنیاد بنایا، یہ ہے کہ اپنے موقف کی بنیاد توہمات پر نہ رکھو بلکہ علم پر رکھو۔
’’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہیں۔ یقیناً آنکھ، کان اور دل ہی کی بازپرس ہونی ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل ۳۶)
اسی طرح استخراجی منطق (Deductive logic) کی تنگنائیوں میں بال کی کھال اتارتے رہنے کی بجائے کائنات کا وسیع تر مشاہدہ کرو۔
کھول آنکھ، زمین دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
یقیناً آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کو ذرا دیکھ آنے میں، ان کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے، پھر اس کے ذریعے سے مردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے، اور (اپنے اسی انتظام کی بدولت) زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق کو پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، ان لوگوں کے لیے بے شمار نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ (البقرہ ۱۶۴)
گویا یہ وسیع تر صحیفۂ کائنات تمہارے سامنے ہے، اس میں آیاتِ الٰہی کا مشاہدہ کرو۔ اسے Induction (استقراء) کہتے ہیں۔ توہمات کی بیخ کنی اور Deduction (استخراج) کی بجائے Induction (استقراء) پر انسان کی سوچ کو استوار کرنا، یہ عالمِ انسانیت کے لیے اسلام کی دین ہے۔ اسی سے پھر سائنسی طریقہ کار کا آغاز ہوا۔ یعنی اشیاء کو دیکھ کر، مطالعہ کر کے نتیجہ نکالو۔ ان کے خواص (Properties) کیا ہیں، ان سے آپ کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، کیسے Exploit کر سکتے ہیں۔ یہ دنیا تمہارے لیے مسخر کی گئی ہے، ان میں سے کوئی شے دیوی یا دیوتا نہیں ہے، نہ سورج دیوتا ہے، نہ چاند دیوتا ہے، نہ جل دیوی ہے، نہ کوئی آگ دیوتا ہے، بلکہ یہ تمام چیزیں تو تمہارے لیے مسخر کی گئی ہیں، یہ تمہاری خدمت میں لگا دی گئی ہیں۔ اس بات کو سمجھو اور ان کا تجزیہ کرو۔ جو ان میں حقیقتیں مخفی ہیں ان کی تلاش کرو، جستجو کرو۔
پھر قرآن نے انسان کو یہ شعور دیا ہے کہ انسان پر انسان کی حاکمیت غلط ہے، بلکہ ان الحکم الا للہ ’’حاکمیت صرف اللہ کی ہے‘‘۔ انسان کے لیے حاکمیت کا تصور نہیں ہے، اس لیے کہ تمام انسان پیدائشی اعتبار سے  مساوی ہیں۔ کوئی پیدائشی طور پر اونچا نہیں، کوئی نیچا نہیں، کوئی اعلیٰ نہیں، کوئی ادنیٰ نہیں، کوئی گھٹیا نہیں اور کوئی بڑھیا نہیں۔ یہ سارے تصورات درحقیقت اسلام نے دیے ہیں۔
پھر دورِ عباسی میں انہی تصورات کے نتیجے میں مسلمانوں نے یونان کی سائنس اور فلسفے کو ازسرنو زندہ کیا اور اس میں اضافے کیے۔ پھر مسلمانوں نے سائنسی عمل کا آغاز کیا اور بہت سی ایجادات کیں۔ پھر ہوا یہ کہ ہسپانیہ کی یونیورسٹیوں سے یہ علم یورپ کو منتقل ہوا۔ ہسپانیہ کے بالکل ساتھ تین سرحدی ملک ہیں۔ سب سے پہلے فرانس آتا ہے، پھر جرمنی ہے اور پھر نیچے اٹلی کی ٹانگ کی سی صورت بنتی ہے۔ یہ سمجھیے کہ سنٹرل روپ ہے، جہاں سے نوجوان ہسپانیہ کی یونیورسٹیوں میں یہ تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے- قرطبہ اور غرناطہ کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں وہ آ کر تعلیم حاصل کرتے تھے اور روشن خیالی لے کر جاتے تھے۔ اسی تعلیم اور روشن خیالی کے زیراثر یورپ میں احیاء العلوم (Renaissance) اور اصلاح مذہب (Reformation) کی تحریکیں چلیں۔ ان تحریکوں کا نقطۂ آغاز درحقیقت اسلام ہے، جس کو علامہ اقبالؒ قرآنی Inner core کہتے ہیں۔
البتہ دو عوامل ایسے تھے جن کے شدید ردعمل کے نتیجے میں انتہاپسندی پیدا ہو گئی۔ یورپ کے تاریک ادوار (Dark ages) میں وہاں دو طرح کا جبر تھا: ایک تو وہاں بادشاہوں کی حکومت تھی اور بادشاہوں کے حقوق کو خدائی حقوق (Divine rights) سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے یہ کہ یورپ اور کلیسا کا اختیار خدائی اختیار (Divine authority) مانا جاتا تھا۔ گناہوں کا معاف کرنا اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔
’’اللہ کے سوا کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہو؟‘‘ (آل عمران ۱۳۵)
لیکن یہ اختیار بھی پوپ کو حاصل تھا۔ وہ کوئی نذرانہ لیں گے اور لکھ کر دے دیں گے تو گناہ معاف ہو جائے گا۔ یہ پوپ کے پاس خدائی اختیار ہے۔ اسی طرح حلت و حرمت اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے، وہ طے کرتا ہے کہ حلال کیا ہے، حرام کیا ہے، لیکن
’’انہوں نے تو اپنے احبار و رہبان کو اللہ کے سوا رب بنا لیا‘‘ (التوبہ ۳۱)
بایں معنیٰ کہ جس شے کو وہ حرام کہہ دیں وہ ان کے ہاں حرام ہے اور جس شے کو وہ حلال کہہ دیں وہ ان کے نزدیک حلال ہے۔ حالانکہ تحلیل و تحریم تو اللہ کے اختیار میں ہے۔
یہ دو جبر تھے جس کے زیراثر واقعہ یہ ہے کہ پورا یورپ ایک عرصے سے تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اب اس تاریکی کے خلاف جب روشن خیالی آئی، جب علم پھیلا اور جدید نظریات نے انسانی شعور کو حیاتِ نو عطا کی، اور یہ نظریات جب ہسپانیہ سے ہو کر ان ممالک کے اندر پہنچے تو وہاں پر ایک شدید ردعمل پیدا ہو گیا اور مذہب اور پاپائیت کے خلاف بالعموم بغاوت پیدا ہو گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ شہنشاہیت کے خلاف بھی نفرت کے جذبات پروان چڑھنے لگے۔ ظاہر بات ہے کہ جب ردعمل ہوتا ہے تو نیوٹن کے تیسرے قانونِ حرکت کی رو سے ہر عمل کا اس کے مساوی اور مخالف سمت میں ردعمل ہوتا ہے۔ چنانچہ وہاں جتنا جبر تھا اس کے خلاف اس کا ردعمل بھی اتنا ہی شدید تھا۔
اس ضمن میں یہ بات بہت اہم ہے، اس کو سمجھ لیجئے کہ ایک طرف تو عیسائی یورپ ردعمل کی طرف جا رہا تھا، دوسری طرف یہودیوں نے عیسائیوں کی پشت میں چھرا گھونپنے کے لیے ہسپانیہ کے ذریعے یورپ میں جو خیر جا رہا تھا اس میں شر کی آمیزش کر دی۔ آپ کے علم میں ہو گا کہ مسلم ہسپانیہ میں یہودیوں کو بڑی مراعات حاصل تھیں اور اس دور کے بارے میں بن گوریان نے کہا ہے کہ
Muslims Span was the goldean era of our diaspora.
۷۰ء سے یہودیوں کا جلاوطنی اور انتشار کا دور شروع ہوا تھا کہ انہیں فلسطین سے نکال کر پوری دنیا میں منتشر کر دیا گیا تھا کہ جدھر تمہارے سینگ سمائیں چلے جاؤ۔ ان کا جو یہ Diaspora کا دور تھا یہ ۱۹۱۷ء میں بالفور ڈکلیریشن کے ذریعے ختم ہوا ہے۔ اس طرح اس انتشار کو تقریباً ۱۹۰۰ برس ہو گئے۔ اس کے بارے میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے یہودی عیسائیوں کے ہاتھوں شدید تشدد کا شکار تھے۔ یورپ کے عیسائیوں کی اکثریت ان سے شدید نفرت کرتی تھی۔ لہٰذا عیسائی انہیں بری طرح ستاتے تھے۔ انہیں پیٹتے تھے، ان پر تھوکتے تھے اور انہیں اپنے شہروں میں آنے نہیں دیتے تھے۔ اس شدید ظلم کے ردعمل میں یہودیوں نے مسلمان حملہ آور طارق بن زیاد کی مدد کی۔ اس پر مسلمانوں نے انہیں اپنا محسن سمجھتے ہوئے مسلم اسپین میں ان کی سرپرستی کی اور انہیں بہترین مراعات دیں اور انہوں نے وہاں بیٹھ کر عیسائیت کی پیٹھ میں چھرے گھونپے۔ وہ جو کسی نے بڑے خوبصورت الفاظ میں کہا ہے ’’کون سیاہی گھول رہا ہے وقت کے بہتے دریا میں‘‘۔ یہ جو علم، شعور اور آگہی کا دریا ہسپانیہ سے یورپ کی طرف رواں تھا ان یہودیوں نے اس میں سیاہی گھولنے کا کام بہت گہری سازش کے ساتھ کیا۔
چنانچہ آزادی کو انہوں نے مادر پدر آزادی بنا دیا کہ ہر شے کی آزادی اور ہر شے سے آزادی، حتیٰ کہ خدا اور مذہب سے بھی آزادی۔ چنانچہ اس آزادی نے ’’زندگی برائے زندگی‘‘ اور ’’بابر بہ عیش کوش کہ علام دوبارہ نیست‘‘ کی صورت اختیار کی۔ اسی طرح یہودیوں نے Protestants کے ذریعے سے سود کی اجازت حاصل کی اور بینک قائم کیے۔ ورنہ یورپ میں جب تک پوپ کا اختیار تھا تو بہت سی خرابیوں کے ساتھ ساتھ ایک بھلائی بھی تھی کہ سود کو حرام سمجھا جاتا تھا اور کسی بھی سطح پر سودی لین دین کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن ’’اصلاحِ مذہب‘‘ کی تحریک اور مذہبی بغاوت کے نتیجے میں جب پوپ کا اختیار ختم ہوا اور پروٹسٹنٹ مذہب فروغ پذیر ہوا تو تمام مذہبی پابندیوں کا خاتمہ ہو گیا۔ یہودیوں نے جس طرح حضرت عثمانؓ کے دور میں اسلام کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا، اسی طرح عیسائیت کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور اسے دولخت کر دیا۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں ’’الفتنۃ الکبریٰ‘‘ یہودیوں ہی کا برپا کیا ہوا تھا۔ یہ عبد اللہ بن سبا یہودی کی سازش تھی اور آج تک اس زخم سے خون بہہ رہا ہے۔ اسلام میں شیعہ سنی تفرقے کا آغاز حقیقت میں اس وقت عبد اللہ بن سبا کے ذریعے سے ہی ہوا تھا۔ ایسے ہی یورپ میں یہودیوں نے عیسائیت کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور اسے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ میں تقسیم کر دیا۔ اور پروٹسٹنٹس کے ذریعے سے سود کی اجازت حاصل کر کے بینکنگ کا زبردست نظام قائم کر لیا۔ بینکنگ کے اس نظام پر علامہ اقبالؒ کے یہ دو شعر ملاحظہ ہوں ؎
ایں بنوک ایں فکر چالاک یہود
نور حق از سینہ آدم ربود
تا تہہ و بالا نہ گردد ایں نظام
دانش و تہذیب و دیں سودائے خام
یہ بینکنگ نظام کیا ہے؟ یہ یہودیوں کی چالاکی اور مکاری والے فکر کا مظہر ہے۔ ان بینکوں نے انسانوں کے سینوں سے نورِ حق یعنی روح ربانی (Divine spark) کو ختم کر دیا اور انسان کو بھیڑیا بنا کر رکھ دیا ہے۔ جب تک بینکوں کا یہ نظام تہہ و بالا نہیں ہوتا، اس کو بالکل نسیاً منسیاً نہیں کر دیا جاتا، دانش و تہذیب اور مذہب و اخلاق سب کہنے کی باتیں ہیں، یہ محض خام خیالی ہے۔ اس نظام کی موجودگی میں یہ چیزیں آ ہی نہیں سکتیں۔
پھر مساواتِ مرد و زن کا نظریہ دیا گیا کہ مرد اور عورت بالکل برابر ہیں۔ ان کے بالکل برابر کے حقوق ہیں اور انہیں کندھے سے کندھا ملا کر چلنا چاہیے۔ جس نے آگے بڑھ کر مساواتِ نسواں (Feminism) کی تحریک کی صورت اختیار کی۔ جس سے واقعہ یہ ہے کہ عائلی نظام کا خاتمہ کر دیا کہ ان کا خاندانی نظام تباہ و برباد ہو گیا۔ اور بینکنگ کے نظام کے ذریعے ان کا معاشی استحصال کر کے ان کی گردن پر سوار ہو کر بیٹھ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبالؒ اس صدی کے آغاز میں یورپ جا کر یہ دیکھ آئے تھے کہ ؏
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے
یہ در حقیقت اس تہذیب کی انتہاپسندی کے دو اسباب ہیں۔ ورنہ اس کا آغاز اور اس کا Inner core خالص اسلامی تھا۔ اس کا آغاز مسلمانوں کے زیراثر ہسپانیہ کی یونیورسٹیوں سے ہوا ہے، اور اس تہذیب میں اگر کوئی خیر ہے تو وہ اسلام سے مستعار لیا گیا ہے۔ جیسے کہ علامہ اقبالؒ کہتے ہیں ؎
ہر کجا بینی جہان رنگ و بو
آن کہ از خاکش بروید آرزو
یا زنور مصطفٰیؐ او را بہا است
یا ہنوز اندر تلاش مصطفٰیؐ است
یعنی اگر آج دنیا میں کوئی خیر موجود ہے تو وہ یا تو نورِ محمدیؐ سے مستعار لیا گیا ہے، یا یہ کہ ابھی انسان اس مقامِ محمدیؐ تک رسائی کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔

شمالی علاقہ جات کے دینی حلقوں کی عرضداشت

مولانا قاضی نثار احمد

شمالی علاقہ جات کے دینی حلقوں کی عرضداشت

بحضور عالی جناب جنرل پرویز مشرف صاحب،
منتظم و سالارِ اعلیٰ اسلامی جمہوریہ پاکستان


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ جناب عالی!

آنجناب کی خدمتِ عالیہ میں انتہائی اہم گزارش ایک ایسے خطے کے باشندے ہونے کے ناطے پیش کر رہے ہیں جو پسماندہ ہونے کے باوجود مذہبی اور جغرافیائی حوالے سے بڑا حساس علاقہ ہے اور توقع رکھتے ہیں کہ ہماری معروضات پر اپنے منصب و مقام کے مطابق ہمدردانہ توجہ فرمائیں گے۔

صاحبِ شمشیر و سنان اور مملکتِ خداداد پاکستان کے منتظمِ اعلیٰ کی حیثیت سے آپ نے اپنے پیش رو منتظمینِ مملکت کے برعکس عالمی برادری کے سامنے جس جرأت اور حسنِ تدبیر سے ملی و ملکی موقف پیش کیا ہے اس کی مثال ماضی قریب میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ اسی طرح ملک و ملت کی بہتری و خوشحالی کے لیے آنجناب نے جن بنیادی اصلاحات کا اعلان فرمایا تھا کہ آئندہ کوئی بد دیانت، کرپشن اور دہشت گردی میں ملوث فرد اور ملک و ملت کا بدخواہ شخص اقتدار کے منصب پر نہ صرف یہ کہ بیٹھنے نہ پائے گا بلکہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکے گا۔جناب کے اس تاریخی اور یادگار اعلان سے پورے ملک میں بالعموم اور شمالی علاقہ جات میں بالخصوص ایک اچھا تاثر پیدا ہوا۔

ان حسین اور خوبصورت تاثرات اور تصورات کے تاج محل میں اس وقت ایک بڑا دھماکہ ہوا جب شمالی علاقہ جات سے پورے ملک کے لیے ایک بدنام زمانہ دہشت گرد، حد درجہ فرقہ پرست اور انتہائی متنازعہ فیہ شخص سید رضی الدین رضوی کو چیف ایگزیکٹو ایجوکیشنل معائنہ کمیشن کے لیے ممبر چن کر مراعات سے نوازا گیا۔ اس چناؤ سے شمالی علاقہ جات کے ہر مکتبہ فکر کو بالعموم اور اہل سنت والجماعت کو بالخصوص سخت تشویش لاحق ہو چکی ہے۔ مذکورہ شخص کے بابت چند ضروری معلومات اور حقائق سے آنجناب کو آگاہ کرنا ہم اپنا مذہبی فریضہ، ملکی سالمیت اور علاقائی امن و امان کے لیے لازمی تقاضہ سمجھتے ہیں جو کہ پیش خدمت ہے:

  1. سید رضی الدین اور ان کے بھائی سید ضیاء الدین خطیب امامیہ جامع مسجد گلگت جو کہ رضی برادران کے نام سے پہچانے جاتے ہیں، دونوں بھائیوں نے بڑی ہوشیاری سے شمالی علاقہ جات کے ہر نئے آفیسر کو بلیک میل کرنے کے لیے یہ طریقہ اپنایا ہوا ہے کہ اول منبر و محراب کو متعلقہ آفیسر کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، پھر سیاسی سطح پر مک مکاؤ کیا جاتا ہے، جس پر کئی زندہ شواہد پیش کیے جا سکتے ہیں۔
  2. ماضی میں انہی برادران اور انہی کی سرپرستی میں کام کرنے والے دہشت گردوں کے گروپ نے نہ صرف یہ کہ ہندوستان زندہ باد کا نعرہ لگایا بلکہ دھڑلے سے پاکستان مردہ باد جیسے شنیع اور قبیح نعرے بھی لگائے۔
  3. رضی الدین اور اس گروپ نے گزشتہ سال چیف سیکرٹری شمالی علاقہ جات کے دفتر کے سامنے اپنی طاقت کے زعم میں ایک اعلیٰ اور معمر سرکاری آفیسر فنانس سیکرٹری جناب احمد خان کے دفتر میں گھس کر نہ صرف یہ کہ اسے لہولہان کر دیا تھا بلکہ قتل کی دھمکی بھی دی تھی۔
  4. یہی برادران اپنی گرتی ساخت کو بچانے اور بعض خفیہ عزائم کی تکمیل کے لیے حضرات خلفائے راشدین، صحابہ کرام اور امہات المؤمنین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی شان میں گستاخی کرنے سے بھی نہیں چوکے، گزشتہ ماہ محرم الحرام ان کے سیاہ کرتوت پر شاہد عدل ہیں۔
  5. حال ہی میں اسی رضی الدین اور اس کے کارندوں نے گزشتہ نصف صدی سے رائج پاکستانی قومی تعلیمی نصاب کمیٹی کی منظور شدہ نصاب کی تحریری طور پر تبدیلی نصاب کا مطالبہ کر کے اسلام کے بنیادی عقائد اور تواتر سے ثابت شدہ احکاماتِ الٰہی اور شعار اسلام کا کھلے بندوں انکار کیا، جس کے تحریری ثبوت موجود ہیں۔
  6. اس کے علاوہ رضی الدین گزشتہ دور حکومت میں شمالی علاقہ جات کے مشیر زراعت و خوراک کی حیثیت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کالا دھن یعنی کیمیکل کی سمگلنگ میں بھی بھرپور طور پر ملوث رہے ہیں۔ مملکت کا دل، کان، دماغ کہلائے جانے والے مؤقر اور باخبر ادارے اس بابت صحیح طور پر نشاندہی کر سکتے ہیں۔
  7. یہ شخص ۱۵ سے زائد فوجداری مقدمات اور بے شمار معاشرتی جرائم میں ملوث ہے۔ خود اپنے فرقے میں بھی یہ شخص انتہائی متنازعہ ہے۔ علاوہ ازیں سب سے بڑھ کر ان بھائیوں (ضیاء الدین اور رضی الدین) کے ہاتھ اور دامن کئی مظلوم اور بے گناہ مسلمانوں کے خون سے رنگین ہیں۔ ایسے شخص کی تقرری خود محکمہ تعلیم کی کارکردگی پر بدنما داغ ثابت ہو گی۔ اس سب کچھ کے باوجود ایک ایسے شخص کو تعلیم کے فروغ اور ترقی کا ذمہ دار بنانا کہاں کا انصاف ہے؟

حقیقت پر مبنی ان معروضات میں ہم آنجناب سے یہ مطالبہ نما درخواست کرنے میں حق بجانب ٹھہرتے ہیں کہ

  1. اس گھناؤنے کردار کے حامل شخص کی تقرری اور انتخاب کو فی الفور منسوخ کیا جائے۔
  2. نہ صرف شمالی علاقہ جات کی اہمیت و حساسیت بلکہ پورے ملک کی سالمیت کے پیش نظر ایسے کسی بھی فرد کا تقرر اتنے بڑے عہدے کے لیے ممنوع قرار دیا جائے جو کہ ملک و ملت کا بدخواہ ہو اور جن کے زیر زمین مخصوص عزائم ہوں۔
  3. واضح ہو کہ اس تقرری سے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کے تاریخی موقف پر بڑی زک پہنچنے کا بھی قوی احتمال ہے۔

ہم آنجناب سے یقین کی حد تک توقع رکھتے ہیں کہ ہماری یہ معروضات ہوا میں تحلیل ہو کر نہ رہ جائیں بلکہ ترجیحی بنیاد پر اس اہم مسئلے کی طرف بھرپور توجہ دی جائے گی تاکہ ان اہم اور حساس علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور فسادات پھر ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر نہ اٹھیں کہ شاہ ہستی می توانی۔ جزاکم اللہ خیرا۔

والسلام، آپ کا مخلص

قاضی نثار احمد

امیر تنظیم اہل سنت والجماعت شمالی علاقہ جات بشمول کوہستان

مرکزی خطیب جامع مسجد گلگت

اور اب پاکستان میں بھی

میجر (ر) ٹی ناصر

فیصل آباد سے شائع ہونے والے ایک جریدے کے سرورق کے اندرونی صفحہ پر ایک آزاد نظم بعنوان ’’پینل کوڈ ۳۷۷‘‘ شائع کی گئی ہے، نظم کا آخری حصہ یوں ہے:

میں نسلِ انسانی کا وہ راز ہوں جو کسی پر منکشف نہیں ہو سکا

اس لیے مجھے غیر فطری قرار دے کر

جرم دفعہ ۳۷۷ بنا دیا گیا

تم میرے فطری تقاضے کو غیر فطری کیوں کہتے ہو

یہ حق تمہیں کس نے دیا ہے

پاکستان پینل کوڈ ۳۷۷ یا تعزیراتِ پاکستان ۳۷۷ غیر فطری فعل کے خلاف ہے۔ یعنی ہم جنس پرستی، عورت سے غیر فطری فعل، اور جانور سے غیر فطری فعل قابلِ تعزیر جرم ہے۔ تعزیراتِ پاکستان دفعہ ۳۷۷ ’’قوانین بائبل‘‘ یا حکمِ الٰہی کے عین مطابق ہے۔ معاشرے سے شاعر نے پوچھا ہے کہ اس کے فطری تقاضے یعنی ہم جنس پرستی کے فعل کو غیر فطری کہنے کا حق ہمیں کس نے دیا ہے؟ یہ شاعر جس کا نام افتخار نسیم ہے اور جو شکاگو، امریکہ میں مقیم ہے، یہ نہیں جانتا کہ اس کے غیر فطری تقاضے جسے یہ سدوم اور عمورا کے لوگوں کی طرح فطری کہتا ہے، اس کو روکنے اور اس کے تحت سزا دینے کا حق مذہب، معاشرہ اور پاکستانی قانون دیتا ہے۔ اس کی سزا کم از کم ۷ برس اور زیادہ سے زیادہ عمر قید ہے اور اس کے ساتھ جرمانہ بھی ہو سکتا ہے، یا قید و جرمانہ دونوں سزائیں ایک ساتھ ہو سکتی ہیں (دیکھیے تعزیراتِ پاکستان دفعہ ۳۷۷)

ایک مذہبی جریدے میں ایسی بے شرمی سے کیے ہوئے اقرارِ گناہ کی اشاعت ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ کیتھولک قیادت کو اس شرمناک نظم کی اشاعت سے گریز کرنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ چونکہ کیتھولک قیادت ملکی سیاست میں خود کو ملوث کیے ہوئے ہے، مذہب کی طرف دھیان ہی کہاں؟ بڑے افسوس کا مقام، دکھ اور شرم کی بات ہے۔

(بہ شکریہ مسیحی ماہنامہ کلامِ حق)

ممتاز کشمیری دانشور پروفیسر سید بشیر حسین جعفری کا مکتوب گرامی

پروفیسر سید بشیر حسین جعفری

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

مولانا، میں شکرگزار ہوں کہ آپ نے الشریعہ کے دو شمارے اور ’’مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی دینی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان سے بروشر بذریعہ ڈاک بھجوایا۔ میں نے اس سارے لٹریچر کو اچھی طرح دیکھا۔ اگرچہ الشریعہ میں شائع ہونے والے مواد کو اوصاف کے صفحات پر بھی پڑھا مگر یہاں یک جا دیکھ کر یوں لگا کہ ریچھ کو یکبارگی شہد کا پورا چھتا ہاتھ لگ گیا ہو۔

الشریعہ میں آپ نے ہلکے پھلکے، دلچسپ، موزوں اور اہم مضامین، موضوعات کو گلدستہ میں پرویا ہے۔ بات وہی ہوتی ہے کہ بیان کرنے کا سلیقہ، طریقہ، اٹھان اور اندازِ بیان کسی موضوع میں جان ڈال دیتا ہے۔ تنوع کا بھی ایک مقام ہے۔ اکثر و بیشتر علماء عموماً ثقیل یا روایتی زبان لکھتے ہیں۔ جدید معلومات سے نابلد رہنے کے سبب ان کے بیان میں Information نہیں ہوتی۔ زیادہ زور محض احادیث کے Quotation سے سامنے آتا ہے۔ قرآن اور احادیث بے شک سرمایۂ ایمان ہے لیکن لوگوں کو ادھر لے جانے کے لیے علومِ حاضرہ سے کہانی ترتیب دینا پڑتی ہے۔ شاعری میں بھی اصل موضوع ’’محبت کا بیان‘‘ ہوتا ہے مگر شعراء کے ہاں ’’غزلوں‘‘ میں خیالات اور باریکیوں کا ایک انبوہ کثیر ہوتا ہے جس سے شعر لازوال ہو جاتا ہے۔ کشمیر کی خوبصورتی میں نے بھی دیکھی ہے بلکہ علامہ اقبالؒ سے زیادہ، مگر اقبالؒ کو الفاظ اور خیالات پر قدرت حاصل تھی اس لیے علامہ نے بیان کی ؎

پھول ہیں صحرا ہیں پریاں ہیں قطار اندر قطار
اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن

یا خوشی محمد ناظر نے ’’جوگی‘‘ نام کی نظم میں لکھا ؎

کل صبح کے مطلع تاباں سے جب عالم بقعہ نور ہوا
سب چاند ستارے ماند ہوئے خورشید کا نور ظہور ہوا
ہر وادی، وادئ ایمن تھی، ہر کوہ پہ جلوہ طور ہوا

بھلا ان الفاظ کا شکوہ اور دبدبہ کوئی کہاں سے لائے۔ ما شاء اللہ آپ دل آویز زبان لکھتے ہیں، وسیع و جاری مطالعہ نے آپ کے خیالات کو جلا بخشی ہے، اللہ اور توفیق دے، آمین۔

مخلص سید بشیر حسین جعفری

۲۱ اگست ۲۰۰۰ء

دسمبر ۲۰۰۰ء

پاکستان شریعت کونسل کے عزائممولانا ابوعمار زاہد الراشدی
سنت نبویؐ کی جامعیت و اہمیتشیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر
لباس کے چند ضروری مسائلشیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
مغرب میں آزادئ نسواں کے نتائجحکیم محمود احمد ظفر
حالتِ جنگ میں انسانی حقوق کی پاسداری اور اسلامی تعلیماتمولانا محمد عیسٰی منصوری
انسانی حقوق کے مغربی تصورات اور سیرتِ طیبہمولانا محمد عبد المنتقم سلہٹی
ملک کی عظیم دینی درسگاہ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہمولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی
امریکی عورت کا المیہمنو بھائی
عالمی منظر نامہادارہ
تعارف کتبادارہ
پاکستان میں ہر فرد پچیس ہزار روپے کا مقروض ہےادارہ
ورلڈ اسلامک فورم کا سالانہ اجلاسادارہ
قافلۂ معادادارہ
ٹینک کے مقابلے میں غلیل کی جیتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
یورپ میں مسلمانوں کی مذہبی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہےادارہ

پاکستان شریعت کونسل کے عزائم

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان شریعت کونسل نے ملک میں این جی اوز اور مسیحی مشنریوں کو واچ کرنے اور اسلام اور پاکستان کے خلاف ان سرگرمیوں کے تعاقب کے لیے تمام دینی جماعتوں سے رابطہ قائم کرنے اور جدوجہد کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں کیا گیا جو گزشتہ دنوں جامعہ انوار القرآن (آدم ٹاؤن، نارتھ کراچی) میں امیر مرکزیہ حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔

اجلاس میں ملک کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ انڈونیشیا میں این جی اوز اور مسیحی مشنریوں کی سرگرمیوں کے تلخ نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان میں این جی اوز اور مسیحی مشنریوں کی سرگرمیوں کا تعاقب وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس سلسلہ میں دیگر دینی جماعتوں سے رابطہ و مشاورت کے ساتھ جدوجہد کو منظم کیا جائے گا۔اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن قائم کیا جائے جو کھلی تحقیقات کے ذریعے این جی اوز اور مسیحی مشنریوں کی سرگرمیوں اور مالیات کا جائزہ لے اور اس کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں اسلام اور پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کرنے والے غیر سرکاری اداروں اور تنظیموں پر پابندی لگائی جائے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا میں مسلمانوں کے سب سے بڑے ملک انڈونیشیا میں مسیحی مشنریوں، قادیانی گروہ اور این جی اوز کے مشترکہ نیٹ ورک نے جو افراتفری اور انارکی کی صورتحال پیدا کر دی ہے ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور اسی طرز پر پاکستان کی نظریاتی اسلامی حیثیت کو ختم کرنے اور فکری و معاشرتی انتشار کو بڑھانے کے لیے جو منظم کام ہو رہا ہے اس کی روک تھام کے لیے بروقت اور مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں۔ قرارداد میں ملک کی تمام دینی جماعتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس مسئلہ کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لیں۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان شریعت کونسل کی ملک بھر میں تنظیم نو کی جائے گی اور اس سلسلہ میں مجلس شوریٰ نے امیر مرکزیہ مولانا فداء الرحمان درخواستی کو مکمل طور پر اختیار دے دیا ہے کہ وہ مرکزی اور صوبائی سطح پر نئے تنظیمی ڈھانچوں کا اعلان کریں اور ضرورت کے مطابق نئے عہدہ داروں کا تقرر کریں۔ اجلاس میں دیوبندی مکتب فکر کی جماعتوں اور مراکز کے درمیان رابطہ و مفاہمت کے لیے کام کرنے والے مشترکہ فورم ’’علماء کونسل‘‘ کی طرف سے تجویز کیے جانے والے ’’ضابطۂ اخلاق‘‘ کی توثیق کی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ ہم مسلک جماعتوں اور مراکز میں مفاہمت و اشتراک کے فروغ کے لیے مجلس عمل، علماء اسلام پاکستان اور علماء کونسل کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے گا۔

اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے وزیر داخلہ جناب معین الدین حیدر کی طرف سے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قانونی شکل دینے کے اعلان کا خیرمقدم کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر موجودہ حکومت اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق مروجہ قوانین میں ضروری تبدیلیاں کر دے تو یہ اسلامی نظام کے نفاذ کے حوالہ سے اس کا بہت بڑا کارنامہ ہوگا، اور اگر اس مقصد کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو مکمل طور پر قبول کر لیا جائے تو ملک میں نظام شریعت کے نفاذ کا مقصد حل ہو جائے گا اور پاکستان صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست بن جائے گا۔

ایک اور قرارداد میں ضلعی حکومتوں کے منصوبہ کو عالمی استعمار کی سازش قرار دیا گیا ہے جس کا مقصد پاکستان کو کمزور کر کے سے ایک سو سے زائد نیم خودمختار ریاستوں میں تبدیل کر دینا ہے تاکہ عالمی ادارے انہیں آسانی کے ساتھ کنٹرول کر سکیں اور ایک نظریاتی ریاست اور ایٹمی قوت کے طور پر پاکستان کو عالم اسلام میں قیادت کا جو مقام حاصل ہو رہا ہے اسے ختم کر کے مسلم ممالک پر عالمی قوتوں اور امریکی استعمار کے تسلط کو مستحکم کیا جائے اور مزاحمتی قوتوں کو مکمل طور پر کچل دیا جائے۔ قرارداد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس منصوبے کو فوری طور پر ترک کرنے کا اعلان کیا جائے۔
ایک اور قرارداد میں ٹی وی، کیبل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ کے ذریعے فحاشی اور عریانی کی بڑھتی ہوئی یلغار کو اسلامی ثقافت اور مشرقی معاشرت کے خلاف خوفناک سازش قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ سرکاری اداروں کو فحاشی کی اس مذموم مہم کی سرپرستی سے باز رکھا جائے اور خاندانی نظام کے حوالہ سے اس تباہ کن منصوبے کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔

ایک قرارداد میں دینی مدارس کو معاشرہ میں اسلامی علوم و روایات کے تحفظ و فروغ کے مراکز قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف مغربی میڈیا اور اداروں کی منفی مہم کی مذمت کی گئی اور اعلان کیا گیا کہ دینی مدارس کی خودمختاری اور آزدانہ کردار کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

ایک قرارداد میں ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں روز افزوں اضافے پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ مہنگائی بین الاقوامی معاشی اداروں کی سودی اور استحصالی پالیسیوں کا نتیجہ ہے اور اس سے صرف اس صورت میں چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے کہ سودی معیشت کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے، بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے چنگل سے گلوخلاصی حاصل کی جائے اور ٹیکس فری معیشت کے اسلامی اصولوں کو اپنا کر ملک کے معاشی ڈھانچے کو قرآن و سنت کے احکام کی بنیاد پر ازسرنو تشکیل دیا جائے۔

ایک قرارداد میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں افغانستان کے معزول صدر پروفیسر برہان الدین ربانی کو نمائندگی دینے پر شدید احتجاج کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ مسلمہ اصولوں اور روایات کے منافی ہے جس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ قرارداد میں اقوام متحدہ اور دنیا بھر کے تمام ممالک بالخصوص مسلم ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ افغانستان کے پچانوے فیصد علاقہ اور دارالحکومت پر کنٹرول رکھنے والی طالبان حکومت کو بلاتاخیر تسلیم کیا جائے جس نے افغان عوام کو خانہ جنگی سے نجات دلا کر امن قائم کیا ہے اور جہاد افغانستان کے نظریاتی اہداف کی تکمیل کرتے ہوئے اسلامی نظام نافذ کر دیا ہے۔

مجلس شوریٰ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی نے کہا کہ عرب ممالک کے بعد اب پاکستان میں بھی منظم طریقہ سے فحاشی کو پھیلایا جا رہا ہے جس کا مقصد نئی نسل کو بے راہ روی کا شکار بنا کر اسلامی روایات سے باغی کرنا ہے۔ اس لیے علماء کرام کو چاہیے کہ وہ جذباتی نعروں اور سطحی بیانات میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اسلام دشمن قوتوں کے عزائم کا ادراک حاصل کریں اور ان کو ناکام بنانے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ محنت کریں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے عوام کی ذہن سازی کی ضرورت ہے اور یہ کام علماء کرام ہی کر سکتے ہیں۔

راقم الحروف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس وقت مغرب کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں اور مغربی دانشوروں نے خود اسے ’’سولائزیشن وار‘‘ کا نام دے رکھا ہے جس کا مقصد پوری دنیا پر مغرب کے لا دین فلسفہ اور بے حیا ثقافت کو مسلط کرنا ہے۔ اور چونکہ اسلام اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اس لیے مغربی اداروں اور میڈیا کی منفی مہم کا سب سے بڑا ہدف اسلام ہے۔ لیکن ہمارے ہاں علماء کرام اور دینی حلقوں میں ابھی اس تہذیبی کشمکش کا شعور پوری طرح بیدار نہیں ہے اور ہم منظم انداز میں جنگ نہیں لڑ رہے۔ راقم الحروف نے دینی جماعتوں اور علمی مراکز سے اپیل کی کہ وہ اپنے کارکنوں کو ذہنی اور فکری طور پر اس جنگ کے لیے تیار کریں اور اسلامی تہذیب و ثقافت کو اس آخری حملہ سے بچانے کے لیے اپنے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متحد ہو جائیں۔

اجلاس میں مفتی عطاء الرحمان قریشی، مولانا غلام مصطفٰی، مولانا خادم حسین، مولانا محمد صدیق، مولانا محمد اقبال آصف، قاری فاروق احمد صدیقی، مولانا عبد الغفور شاکر، مولانا عبد المتین قریشی، مولانا سیف الرحمان ارائیں، مولانا حافظ اقبال اللہ، مولانا احسان اللہ ہزاروی، مولانا محمد حنیف، مولانا عبد العزیز محمدی، مولانا فیض محمد نقشبندی، مولانا قاری اللہ داد، مولانا محمد عمر قریشی، مولانا مطیع الرحمان درخواستی، مولانا جلیل الرحمان درخواستی، مولانا صوفی عبد الحنان، مولانا منظور احمد اور دیگر علماء کرام نے شرکت کی۔

سنت نبویؐ کی جامعیت و اہمیت

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

وحی غیر متلو اور حدیث

ہدایت کا دوسرا حصہ وہ ہے جس کو وحئ خفی یا وحئ غیر متلو اور حدیث کہا جاتا ہے۔ اور جس کی رہبری میں اور جس کے سانچے میں ڈھل کر آنحضرت ﷺ کی زندگی، جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں اور تمام شعبوں کی جامع ہے، ہر ایک کی رہبری کے لیے بہترین نمونہ اور عمدہ سامانِ ہدایت بن گئی ہے، اور اسی کو سنتِ رسولؐ کہا جاتا ہے۔ اور اس وحئ خفی کے ذریعہ دی ہوئی تعلیم کا نام قرآن مجید میں حکمت لیا گیا ہے ’’وانزل اللہ علیک الکتاب والحکمۃ‘‘۔ جس میں قرآن مجید کے علاوہ اور بھی بہت سی باتوں اور اعمال کی خدا تعالیٰ نے اپنی مصلحت کے موافق تعلیم فرمائی ہے۔
جس طرح احکامِ خداوندی سے بے نیازی نہیں ہو سکتی، اسی طرح اسوۂ رسولؐ اور سنتِ رسول اللہ سے بے پروائی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ سنتِ رسول اللہ کی اطاعت بھی ایسی ہی ضروری ہے جیسی کتاب اللہ کی۔ اس لیے کہ دونوں کی پیروی حکمِ الٰہی کی پیروی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول اللہ کی اطاعت دو مختلف چیزیں نہیں ہیں۔ تو جس طرح قرآن مجید کی اطاعت خود اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، اسی طرح جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی خود خدا تعالیٰ کی اطاعت ہے۔
ومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ (پ ۵ النساء رکوع ۱۱)
’’اور جو رسول اللہ کی اطاعت کرے، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘
یہ معلوم اور ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ثواب اور عذاب، نیکی اور بدی کا تعیّن، اور اس کا صحیح امتیاز، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی نہیں بتا سکتا۔ جس چیز کو آپ نے گناہ اور جرم قرار دیا ہو، دنیا میں کوئی شخص اس کی خوبی ثابت نہیں کر سکتا۔ اور جس چیز کو آپ نے نیکی قرار دیا ہو، دنیا کی کوئی طاقت اس کی برائی ثابت نہیں کر سکتی۔ تمام وہ اخلاقِ حسنہ جو اقوامِ عالم اور نسلِ انسانی میں مستحسن اور پسندیدہ سمجھے جاتے ہیں، وہ سب الہاماتِ الٰہیہ اور تعلیماتِ انبیاءؑ اور خصوصاً جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا نتیجہ ہیں۔ کیا خوب کہا گیا ہے ؎
چمکتی ہے جو ریگ اکثر، نشاں ہے مہ جبینوں کا
جسے ہم روندتے پھرتے ہیں، یہ سب خاکِ انساں ہے
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہنچائی ہوئی اور بتائی ہوئی ہر ایک تعلیم خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت ہوتی ہے۔ رسول کا کام صرف دین ِحق کی تبلیغ کرنا ہے، دین کا بنانا نہیں۔ اور اسی لیے وہ مطاع ہوتا ہے اور اس کی اطاعت ہر شخص پر فرض ہوتی ہے۔ اور اس کی پیش کردہ تعلیم کا انکار کرنے والا کافر ہوتا ہے۔ رسول کے سوا کسی دوسرے شخص کو اور اس کی پیش کردہ تعلیم کو ہرگز ہرگز یہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم عین فطرتِ انسانی کے موافق اور متوازی ہے، اور انسانی فطرت کے دبے اور چھپے ہوئے جملہ تقاضوں کی ترجمانی ہے، اور اس کی خلاف ورزی فطرت سے بغاوت ہے۔ ہادئ برحق، راہبرِ کامل، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت اور آئین جس توجہ کا مستحق ہے، اگر ویسی ہی توجہ اس کی طرف کی جائے تو آج بھی مسلمان وہی جوشِ ایمانی اور وہی مبہوت کن کارنامے دنیا کو پھر دکھا سکتا ہے جو حضراتِ صحابہ کرامؓ نے دکھائے تھے۔ مذہبِ اسلام اور سنتِ رسول اللہ ہی کے ذریعہ دنیا میں کامل اتحاد، صحیح عدل اور مکمل امن و امان قائم ہو سکتا ہے۔ نہ تو آپ جیسا رہبرِ کامل دنیا میں پیدا ہوا، اور نہ تا قیامت پیدا ہو گا، اور نہ کوئی نظام اور آئین ہی ایسا موجود ہے ؎
شراب خوشگوارم ہست و یار مہرباں ساقی
ندارد ہیچ کس یارے چنیں یارے کہ من دارم
ولادت سے لے کر وفات تک، خوشی سے لے کر غمی تک، زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبہ میں اس کی اصلاح کے لیے ہم کو صرف سنتِ رسول اللہ اور شریعتِ اسلامی کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا، جو ہر طرح سے محفوظ و موجود ہے۔ کسی دوسری شریعت، کسی دوسرے ہادی، کسی اور آئین، اور کسی رسم و رواج کی طرف نہ تو ہمیں نگاہ اٹھانے کی ضرورت ہے اور نہ گنجائش۔ بھلا جس کے گھر میں شمع کافوری روشن ہو اس کو فقیر کی جھونپڑی سے اس کا ٹمٹماتا ہوا چراغ چرانے کی کیا ضرورت اور حاجت ہے؟ ہاں اگر کوئی خوش نصیب اس کی طرف ہاتھ بھی بڑھائے، کوتاہ دست اور بدقسمت کو سنتِ رسول اللہ کے آبِ حیات سے کیا فائدہ؟

لباس کے چند ضروری مسائل

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

قرآن و حدیث میں لباس کے متعلق بہت سے احکام وارد ہوئے ہیں۔ محدثین نے اپنی کتابوں میں ’’کتاب اللباس‘‘ کے نام سے باب باندھے ہیں جن میں اللہ اور اس کے رسول اکرمؐ کے احکام متعلقہ لباس بیان کیے ہیں۔ ویسے بھی عربی کا مقولہ ہے ’’الناس باللباس‘‘ لوگ لباس کے ساتھ ہی متمدن نظر آتے ہیں۔ انسان کی حیثیت، وقار اور شان و شوکت لباس ہی سے وابستہ ہوتی ہے۔ محدثین کرام فرماتے ہیں کہ جس لباس سے اعضائے مستورہ کی پردہ پوشی کی جاتی ہے وہ فرض ہے اور باقی لباس سنت ہے۔ چنانچہ عبادت کے لیے صاف ستھرا لباس ہونا چاہیے، خاص طور پر جمعہ اور عیدین کی نماز کے لیے۔ اگر نیا لباس میسر نہیں تو کم از کم دھلا ہوا تو ہونا چاہیے۔ خصوصاً صاحبِ ثروت آدمی کو اچھا لباس زیب تبن کرنا چاہیے، اگر پھٹا پرانا لباس پہنے گا تو ناشکرگزاری کا مرتکب ہو گا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک شخص کو میلے کچیلے کپڑے پہنے دیکھا، فرمایا، کیا تیرے پاس مال ہے؟ عرض کیا، ہاں، میرے پاس بھیڑ، بکریاں، گائے، بیل، اونٹ اور لونڈی غلام ہیں۔ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:
فلیریٰ اثر نعمۃ اللہ علیک و کرامتہ (احمد و نسائی)
’’تو پھر اللہ کے انعام و احسان اور اس کے فضل کا اثر تم پر نظر آنا چاہیے۔‘‘
(یعنی) پھٹا پرانا لباس تو مجبور آدمی پہنتا ہے، تو اچھا لباس پہنا کرو۔ بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے:
کل ما شئت و والبس ما شئت ما اخطاتک اثنتان سرف و مخیلۃ۔
’’جو جی چاہے کھاؤ اور پہنو جب تک کہ دو چیزیں نہ ہوں یعنی اسراف اور تکبر۔‘‘
یہ دونوں چیزیں مکروہ تحریمی میں داخل ہیں۔ کھانا پینا اور پہننا مباح ہے مگر ان دو شرائط کے ساتھ۔ شاہ عبد القادر محدث دہلویؒ اپنے ترجمۂ قرآن میں اس مقام پر حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ اس آیت سے اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ دشمن نے تم سے جنت کے کپڑے اتروا لیے، پھر ہم نے تمہیں دنیا میں لباس کی تدبیر سکھائی کہ لباس اس طرح بنا کر پہنو، چنانچہ اب وہی لباس پہننا چاہیے جس میں پرہیزگاری ہو۔
مرد کے لیے اس دنیا میں ریشمی لباس حرام ہے، البتہ جنت میں ’’ولباسھم فیھا حریر‘‘ (الحج) ان کے لیے ریشمی لباس ہو گا۔ اسی طرح اس دنیا میں شراب حرام ہے مگر جنت میں شرابِ طہور نصیب ہو گی۔ اس طرح اس جہان میں مرد صرف چاندی کی انگوٹھی پہن سکتا ہے، اس کے علاوہ سونا اور چاندی حرام ہے، مگر جنت میں اسے سونے اور چاندی کے زیورات پہنائے جائیں گے۔
لباس کے متعلق بعض اور بھی احکام ہیں۔ مثلاً مرد ریشمی لباس نہ پہنیں اور دامن دراز نہ کریں۔ ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا مکروہ ِتحریمی ہے۔ شلوار، تہبند، پتلون یا چادر ہو، مرد کے لیے ٹخنے ننگے ہونے چاہئیں وگرنہ نماز بھی مکروہ ہو گی۔ البتہ عورت کو اجازت ہے۔ صحیحین کی روایت میں ہے:
من جرثویہ خیلآء لم ینظر اللہ الیہ یوم القیامۃ۔
’’جو کوئی فخر کے طور پر اپنا کپڑا نیچے کرے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔‘‘
حضور علیہ السلام نے عورت کو باریک کپڑے پہننے سے بھی منع فرمایا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت اسماءؓ کو باریک دوپٹہ اوڑھے پہنے ہوئے دیکھا جس سے چھن کر بال نظر آ رہے تھے، آپؐ ناراض ہو گئے اور فرمایا، جب عورت بالغ ہو جاتی ہے تو اس کے چہرے اور ہاتھوں کے سوا جسم کا کوئی حصہ نظر نہیں آنا چاہیے۔
اور جوان عورت بلا وجہ چہرہ بھی نہ کھولے، تاہم یہ ستر میں داخل نہیں، ضرورت کے وقت منہ ننگا کر سکتی ہے۔ ایسی وضع قطع کا لباس پہننا جس سے جسم کے بعض حصے نظر آئیں، یہ بھی بے حیائی کی بات ہے۔ شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ عورت بہت باریک لباس نہ پہنے۔ نیز سورۃ نور کے احکام ’’ولا یبدین زینتھن‘‘ کے مطابق اپنی زینت کا اظہار نہ کرے سوائے خاوند یا دیگر محرم مردوں کے سامنے۔
بہرحال لباس فرض بھی ہے، سنت بھی ہے، حرام بھی ہے، مکروہ بھی ہے، اور مباح بھی ہے۔ فخر و تکبر والا لباس جائز نہیں۔ اسی طرح میلا کچیلا لباس مکروہ ہے۔ لباس کے معاملہ میں اسراف بھی نہیں ہونا چاہیے۔ باقی سب لباس مباح ہیں۔ ہر ملک کے باشندے مقامی وضع قطع، یا آب و ہوا، گرمی سردی کی مناسبت سے لباس پہن سکتے ہیں۔

مغرب میں آزادئ نسواں کے نتائج

حکیم محمود احمد ظفر

یہ درست ہے کہ عورت ایک طویل عرصہ سے مظلوم چلی آ رہی تھی۔ وہ اسلام سے قبل ہر قوم اور ہر خطہ میں مظلوم تھی۔ یونان، مصر، روم، عراق، چین اور ہندوستان و عرب میں ہر جگہ مظلوم تھی۔ ہر جگہ وہ ظلم و ستم کی چکی میں پس رہی تھی۔ بازاروں میں میلوں میں اس کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ اس سے حیوانوں سے بدتر سلوک ہو رہا تھا۔ اہلِ عرب اس کے وجود کو باعثِ ننگ و عار سمجھتے تھے بلکہ بعض شقی القلب لوگ اس کو زندہ درگور کرتے تھے۔ یونان میں عرصہ تک یہ بحث جاری رہی کہ اس کے اندر روح بھی ہے یا نہیں؟ ہندوستان میں یہ اپنے شوہر کے ساتھ چتا پر جل کر راکھ ہو جاتی تھی۔ کوئی اس کا پرسان حال نہیں تھا۔ کسی کے دل میں اس کے لیے رحم کے جذبات نہیں تھے۔ راہبانہ مذاہب اس کو معصیت اور گناہ کا سرچشمہ سمجھتے تھے۔ اس کا وجود مجسم پاپ اور گناہ سمجھا جاتا تھا۔ دنیا کی بیشتر تہذیبوں میں وہ ذلیل و حقیر سمجھی جاتی تھی۔ اس کی اپنی کوئی مرضی نہیں تھی۔ اس پر ظلم و ستم کی کوئی دادرسی نہیں ہوتی تھی۔ وہ معاشرہ میں مجبور و مقہور تھی اور اسے فریاد کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔ وہ باپ کی، پھر شوہر کی اور اس کے بعد اپنی اولاد کی محکوم اور تابع تھی۔
اسلام نے عورت کو ظلم کے گرداب سے نکالا۔ اس کو معاشرہ میں عزت اور سربلندی عطا کی۔ اس کا احترام سکھایا۔ اس کے ساتھ انصاف کیا۔ اس کی داد رسی کی۔ لیکن مغرب کی جو قومیں اسلام کے سایۂ رحمت میں نہ آ سکیں وہ اسلام کی ان برکات اور ثمرات سے محروم رہیں۔ ان میں عورتوں کے حقوق برابر پامال رہے۔ اور وہ ہر قسم کا ظلم و ستم سہتی رہی۔ موجودہ دور میں جب ان قوموں میں عورت کی آزادی اور مساوات کا تصور ابھرا تو انہوں نے یہ ثابت کرنا چاہا کہ صنفی اور نوعی اختلاف کے باوجود عورت مرد سے کم تر اور فرو تر نہیں ہے۔ وہ ہر وہ کام کر سکتی ہے جو مرد کر سکتا ہے۔ وہ مرد کی طرح ہر عہدہ اور منصب کی اہل ہے۔ لہٰذا مرد کی بالادستی اس پر سے ختم ہونی چاہیے اور اس کو وہ سارے حقوق ملنے چاہئیں جو مرد کو حاصل ہیں اور وہ ہر لحاظ سے آزاد ہے، اس پر کوئی قید نہیں ہے۔
عورت جو صدیوں سے مردوں کے ظلم و ستم سہہ رہی تھی، اس کے لیے آزادی کا یہ تصور بڑا دل خوش کن تھا۔ اس نے فوراً لبیک کہہ کر اس کو قبول کیا۔ جیسے فردوسِ گم گشتہ اسے مل گئی ہو۔ یورپ کے صنعتی انقلاب (Industrial Revolution) نے بھی ایک انگیخت کا کام کیا۔ چنانچہ وہ آہستہ آہستہ معاشی، معاشرتی، سماجی، تہذیبی اور تمدنی امور میں مرد کے شانہ بشانہ شریک بنتی گئی۔ وہ گھر کی چار دیواری سے نکل کر کارخانوں، دفتروں، اسکولوں اور کالجوں میں مرد کے دوش بدوش معاشی جدوجہد کر رہی تھی تو پارکوں، تفریح گاہوں، کلبوں اور کھیل کے میدانوں میں مردوں کے ساتھ کھیل کود اور عیش و تفریح میں بھی برابر حصہ لے رہی تھی۔
اب یہ ہوا کہ اس کا وجود ہر شعبۂ زندگی میں ضروری قرار پایا اور اس کے بغیر ہر شعبۂ حیات میں زندگی بے کیف اور بے لطف تصور کی جانے لگی۔ عورت اس کو ترقی کا نام دے کر اس کی طرف پیشرفت کرتی رہی اور اس تہذیب کے ظاہری حسن پر فریفتہ ہو گئی۔ لیکن اس کے بطن میں جو خرابیاں پنہاں تھیں، اپنی کم عقلی کی وجہ سے اس تک اس کی نظر نہ گئی، وہ یہ جان نہ سکی کہ جس تہذیب کے زینہ پر وہ چڑھ رہی ہے وہ ؎
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر ہے
عورت کی اس بے قید آزادی (Unristricted Freedom) نے مغرب کی پوری زندگی کا دھارا بدل کر رکھ دیا اور اس کے نہایت گھناؤنے اور خطرناک نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے جس سے اس کی معاشی، معاشرتی اور سماجی زندگی میں عدمِ توازن پیدا ہو گیا۔
سب سے پہلا خطرناک نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ زندگی کے ہر گوشہ میں مرد اور عورت کے بے باکانہ اور آزادانہ اختلاط نے پورے معاشرہ میں جنسی آوارگی کا رجحان پیدا کر دیا۔ فحاشی اور بدکاری کا عام چلن ہو گیا اور عورت کی اس آزادی کے بطن سے ایسی ننگی اور بے حیا تہذیب نے جنم لیا کہ اس کی عفونت اور سرانڈ سے شرم و حیا کا دم گھٹنے لگا اور اخلاق کا پھلتا پھولتا چمن اجڑ گیا۔ عورت جب چار دیواری سے نکل کر مجلسوں اور محفلوں کی زینت بنی تو جنسی آوارگی اس طرح پھیلی کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جو گندگی اور عفونت گھر کے بند کمروں میں بھی برداشت نہیں کی جا سکتی تھی وہ بازاروں اور سڑکوں میں سرعام پھیلنے لگی۔ انتہائی قابلِ احترام رشتے بھی اس گندگی سے محفوظ نہ رہ سکے۔ اور پھر جنسیات اور اخلاقی آوارگی کی ایسی ایسی داستانیں لوگوں میں پھیلنے لگیں جن کو سن کر آدمی شرم سے پانی پانی ہو جائے۔ بیواؤں اور رنڈیوں کا نام آرٹسٹ رکھ دیا گیا تاکہ ضمیر کا وہ کانٹا جو برے نام پر اندر خلش پیدا کرتا ہے، اس کو بھی نکال دیا جائے۔ آرٹ اور کلچر کے نام سے جنسی جذبات کی ترجمانی ہونے لگی۔ عریاں تصاویر کھنچنے لگیں اور وہ سر بازار بکنے لگیں تاکہ ان سے لوگوں کے جنسی جذبات کی تسکین ہو سکے۔ رقص اور موسیقی کے نام پر عورت سے لذت حاصل کی گئی۔ افسانہ، ڈرامہ، شاعری اور ادب کے ذریعہ جنسی اعمال و کیفیات کی تشریح ہونے لگی۔ اور عورت کا مقصد صرف اور صرف یہ رہ گیا کہ وہ مرد کے جنسی جذبات کی تکمیل اور تسکین کرے۔ غرضیکہ عورت مرد کے ہاتھ میں کھلونا بن کر رہ گئی اور اب وہ واپس گھر کی چار دیوار میں جانے کے قابل نہ رہی۔
اس بے قید آزادی کا دوسرا گھناؤنا نتیجہ یہ نکلا کہ خاندانی نظام تلپٹ ہو کر رہ گیا۔ خاندانی نظام عورت کی وجہ سے قائم تھا اور وہی اس کے نظم و نسق کو سنبھال رہی تھی۔ لیکن جب وہ گھر سے باہر کارخانوں، دفتروں اور دوسرے اداروں میں کام کرنے کے لیے گئی تو اس کی زندگی کی ساری تگ و دو گھر سے باہر ہونے لگی۔ بیرونی مصروفیات سے اس کا گھر عدمِ توجہی کا شکار ہو کر برباد ہو گیا۔ خاندان معاشرہ کا بنیادی پتھر ہوتا ہے، اس کی بربادی پورے سماج کی بربادی ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پورا معاشرہ درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ عورت اور مرد کے درمیان محبت کا رشتہ ختم ہو گیا۔ والدین اور اولاد کی محبت کا رشتہ کمزور پڑ گیا۔ اولاد سے والدین کی محبت کا مرکز چھن گیا اور نرسنگ ہاؤس (Nursing Houses) کے حوالے ہو گئے۔ والدین سے بڑھاپے کا سہارا چھن گیا۔ غرضیکہ وہ سارے رشتے اور تعلقات جو خاندان کی بقا اور مضبوطی کا باعث ہوتے ہیں ایک ایک کر کے ٹوٹ گئے۔ اور انسان اس سکون سے یک قلم محروم ہو گیا جو ایک خاندان ہی اسے فراہم کر سکتا ہے۔
تیسرا نقصان اس آزادی کا یہ ہوا کہ عورت کے حقوق اور ذمہ داریوں میں تناسب اور توازن قائم نہ رہا۔ کیونکہ عورت کی فطرت میں اللہ نے ماں بننا رکھا ہے تاکہ اس کی گود میں نسلِ انسانی پروان چڑھ سکے۔ اس کے لیے جن جذبات و احساسات اور جن صلاحیتوں اور قوتوں کی ضرورت ہے وہ بھی فطرت نے اس میں رکھے ہیں۔ لیکن کارخانوں اور دفتروں کی کارکردگی نے اس کے ان جذبات اور ان صلاحیتوں کو ضائع کر دیا۔ نسلِ انسانی کو آگے بڑھانا کوئی ہنگامی اور وقتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک طویل اور دشوار گزار عمل ہے۔ اس میں حمل، ولادت، رضاعت اور بچہ کی پرورش اور تربیت وغیرہ ایک طویل سلسلہ ہے۔ عورت کی بیرون خانہ مصروفیات کی وجہ سے اس کے پاس اس عمل کے لیے کوئی وقت نہ ہے۔ لہٰذا مغربی ملکوں میں اولاد کا سلسلہ کم ہو گی اور ملکی آبادی خطرناک حد تک گرنے لگی۔ یہاں تک کہ بعض حکومتوں کو بچے پیدا کرنے کے لیے لوگوں کو ترغیب (Incentive) دینا پڑی۔
چوتھا خطرناک نتیجہ اس بے قید آزادی سے یہ برآمد ہوا کہ عورت اور مرد کے درمیان باہمی محبت اور ہمدردی کا جذبہ، جو ایک فطری جذبہ تھا، حقوق کی اس جنگ اور مادرپدر آزادی نے اس فطری جذبہ کو مجروح بلکہ نیم جان کر دیا۔ اس جذبہ کے فقدان سے عورت کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا، اس لیے کہ صرف قانون اس کے مسائل حل نہیں کر سکتا۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان مساوات کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے کہ لیکن عملاً مساوات برتی نہیں جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ قانون نے اس کو جو معاشرتی اور سماجی حقوق دیے ہیں ان سے وہ پوری طرح بہرہ یاب نہیں ہو پاتی۔ اور اب حالت یہ ہے کہ عورت برسر بازار بکنے لگی۔ اس کی عزت و آبرو بے دریغ لٹ رہی ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قانونی طور پر یورپ اور امریکہ میں عورت کو بڑا تحفظ دیا گیا ہے۔ چنانچہ جب کبھی عورت اور مرد کا جھگڑا ہو کر مقدمہ عدالت میں جاتا ہے تو عدالت مرد کی نصف جائیداد اور دوسرے کئی حقوق کی رقم کی ڈگری عورت کے نام کر دیتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مرد اس فیصلہ سے سخت پریشان ہو جاتا۔ اب مردوں نے یہ صورت اختیار کی کہ بغیر نکاح کے اس نے عورت کے ساتھ زن و شوئی کے تعلق رکھنے شروع کر دیے۔ اور آج یورپ میں ۸۰ فیصد مرد اور عورت بغیر قانونی نکاح کے شوہر اور بیوی بن کر اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ اب اگر عورت کا مرد کے ساتھ کوئی تنازعہ پیدا ہو جاتا ہے تو قانون اس کو کوئی تحفظ نہیں دیتا کیونکہ وہ اس مرد کی داشتہ تھی، قانونی بیوی نہ تھی۔
مختصر یہ کہ عورت کتنے ہی قانونی حقوق کیوں نہ حاصل کر لے، ان سب کا اسے ملنا آسان نہیں۔ عورت مرد سے لڑ کر یہ حقوق حاصل نہیں کر سکتی۔ وہ صرف اس صورت میں اسے مل سکتے ہیں جب مرد اسے دینا چاہے۔ اور مرد اسی صورت میں اسے یہ حقوق دے سکتا ہے جب اس کے دل میں عورت کے بارہ میں ہمدردی اور محبت کا جذبہ ہو، اور وہ عورت کے ساتھ زیادتی کو گناہ اور جرم سمجھے۔
اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جس نے عورت کو وہ سب بنیادی حقوق دیے جن سے وہ عرصہ دراز سے یک قلم محروم چلی آ رہی تھی۔ اور اسلام ان حقوق کو صرف قانون کی زبان بیان کر کے خاموش نہیں ہو جاتا بلکہ وہ ترغیب و ترہیب کے ذریعہ مرد میں اس کی ادائیگی کا زبردست جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔ اسلام نے عورت کو دنیا میں پہلی بار سوسائٹی میں ایک اہم درجہ دیا۔ چنانچہ ایک مغربی دانشور مسٹر اینی بسنت (Mr. Annie Besant) نے لکھا ہے:
’’ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عورتوں کے متعلق اسلام کے قوانین ابھی حالیہ زمانہ تک انگلستان میں اپنائے جا رہے تھے۔ یہ سب سے زیادہ منصفانہ قانون تھا جو دنیا میں پایا جاتا تھا۔ جائیداد، وراثت کے حقوق اور طلاق کے معاملات میں یہ مغرب سے کہیں آگے تھا اور عورتوں کے حقوق کا محافظ تھا۔ (لیکن) یک زوجگی اور تعددِ ازدواج کے الفاظ نے لوگوں کو مسحور کر دیا ہے، اور وہ مغرب میں عورت کی اس ذلت پر نظر نہیں ڈالنا چاہتے جسے اس کے اولین محافظ سڑکوں پر صرف اس لیے پھینک دیتے ہیں کہ ان سے ان کا دل بھر جاتا ہے، اور پھر اس کی کوئی مدد نہیں کرتا۔‘‘
(Annie Besant: The Life and Teaching of Muhammad - 1932, p.3)

حالتِ جنگ میں انسانی حقوق کی پاسداری اور اسلامی تعلیمات

مولانا محمد عیسٰی منصوری

آج کل مغربی میڈیا اسلام کو سب سے زیادہ نشانہ انسانی حقوق کے حوالہ سے بنا رہا ہے۔ مغرب دنیا پر اپنی سیاسی، عسکری، علمی، فکری اور تمدنی بالادستی اور ذرائع ابلاغ پر مکمل تسلط کی بدولت بزعمِ خود انسانی حقوق کا چیمپئن بن بیٹھا ہے۔ اس کی پوری کوشش ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے کسی طرح اسلام کو ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے۔ ہم اس مضمون میں انسانی حقوق کے صرف ایک چھوٹے سے پہلو یعنی جنگی حالات میں انسانی حقوق کے حوالے سے علمی و تاریخی طور پر معروضی حقائق کی روشنی میں جائزہ لیں گے۔
اسلام نے جنگ کے متعلق جو اصلاحی و انقلابی نظریہ پیش کیا ہے اور حالتِ جنگ میں بنی نوع انسان کے حقوق کی جس طرح پاسداری و تحفظ کیا، اس کا ذکر کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ نزولِ قرآن کے وقت پوری دنیا میں جنگ کا جو تصور، طریقہ کار اور عملی صورتحال تھی اس پر ایک نظر ڈالیں، کیونکہ اس کے بغیر اسلام کی دور رس انقلابی اصلاحات کی اہمیت کماحقہ نہیں سمجھی جا سکتی۔

نزولِ قرآن کے وقت عرب کی حالت

اسلام سے پہلے عربوں کے نزدیک لڑائی سے زیادہ پسندیدہ اور مرغوب کوئی چیز نہیں تھی۔ عرب میدانِ جنگ کے علاوہ کہیں اور مرنے کو اپنے لیے عار اور ذلت سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک جنگوں کا مقصد قتل و غارت گری، لوٹ مار، اموال پر قبضہ، غلام باندی بنانے کا شوق، حسین لڑکیوں کا حصول، زرخیز علاقوں، باغات، چراگاہوں اور پانی کے چشموں پر قبضہ کرنا ہوتا تھا۔ اسلام سے پہلے عرب میں جتنی بھی بڑی لڑائیاں لڑی گئیں وہ عموماً اپنے تفاخر، غرور اور بڑائی کے اظہار سے شروع ہوئیں۔
عرب کی مشہور لڑائی حرب بسوس جو بنی تغلب اور بنی بکر بنی وائل کے درمیان چالیس برس تک جاری رہی صرف اس بات سے شروع ہوئی تھی کہ بنی تغلب کے سردار کلیب بن ربیعہ کی چراگاہ میں بنی بکر بنی وائل کے ایک مہمان کی اونٹنی گھس گئی تھی۔ جب تک دونوں قبائل پوری طرح تباہ نہیں ہو گئے ان کی تلواریں میان میں نہیں گئیں۔
دوسری بڑی لڑائی جو حرب داحس کے نام سے مشہور ہے محض اس بات سے شروع ہوئی تھی کہ بنی عبس کے سردار قیس بن زہیر کے دو تیز رفتار گھوڑے دوڑ کے مقابلہ میں بنی بدر کے سردار حذیفہ بن بدر سے آگے نکل رہے تھے۔ یہ جنگ بھی تقریباً نصف صدی تک جاری رہی، اس وقت تک نہیں رکی جب تک دونوں قبیلوں کے گھوڑوں اور اونٹوں کی نسل منقطع ہونے کے قریب نہیں پہنچ گئی۔
اسی طرح مدینہ منورہ کے دو بڑے قبیلوں اوس اور خزرج کی مشہور لڑائی جس کا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ پہنچنے تک تقریباً ایک صدی جاری رہا، اس بات پر شروع ہوئی تھی کہ بنی قینقاع کے بازار میں ایک قبیلہ نے تعلی اور فخر سے اعلان کر دیا کہ میرا حلیف قبیلہ زیادہ اشرف و افضل ہے۔
اسی طرح پہلی حرب فجار عکاظ کے میدان میں بنی کنانہ کے ایک شخص کے فخر و مباہات کے بڑے بول سے ہوئی جس سے نہ صرف کنانہ و ہوازن بلکہ دونوں کے حلیف قبائل عرصہ دراز تک لڑتے لڑتے بدحال ہو گئے۔

ایران اور روم کا طریقِ جنگ

جنگوں کے حوالے سے یہ تو جاہل وحشی عربوں کا حال تھا۔ اس وقت دنیا میں دو سپر طاقتیں تھیں جو اپنی تہذیب و تمدن پر نازاں تھیں۔ دونوں نے دنیا کے بڑے حصہ کی بندر بانٹ کر رکی تھی۔ ایک پرشین امپائر، دوسری رومن امپائر۔ دنیا کی اکثر اقوام (عرب، مشرقِ وسطیٰ، شمال بھارت، یورپ) ان دونوں میں سے کسی کے زیر اثر تھیں۔ ان کا حال بھی عربوں سے مختلف نہ تھا۔
شہنشاہِ ایران قباد (۵۰۱ء، ۵۳۱ء) کے زمانہ میں جب حکومتِ ایران کے ایما پر حیرہ کے بادشاہ منذر نے شام پر چڑھائی کی تو انطاکیہ میں چار سو راہبات (عیسائی مبلغہ) کو پکڑ کر اپنے بت عزیٰ پر ذبح کر دیا۔ اور جب خسرو پرویز نے سلطنتِ روم کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تو اپنی تمام مملکت میں مسیحی رعایا کے کلیسا مسمار کرا دیے اور مسیحیوں کو آتش پرستی پر مجبور کر دیا۔ سینٹ ہلینا اور قسطنطین کے عظیم الشان گرجاگروں کو آگ لگا کر خاکستر کر دیا۔ نوے ہزار عیسائیوں کو قتل و قید کیا۔ خود ایران میں جب مانی نے اپنے نظریات کا پرچار کیا تو شاہِ ایران بہرام نے ایسی شدید کاروائی کی کہ اس کے ایک ایک ماننے والے کو ڈھونڈھ ڈھونڈ کر قتل کیا اور خود مانی کو گرفتار کر کے اس کی کھال کھنچوا کر اس میں بھس بھروا کر جنڈی سابور کے دروازے پر لٹکا دیا۔ جب رومن شہنشاہ ہرقل کے سفیر صلح کا پیغام لے کر خسرو پرویز کے دربار میں پہنچے تو خسرو نے ان کے رئیس کی کھال کھنچوا ڈالی اور باقی سفیروں کو قید کر دیا۔ ہر قل کے نام جو خط لکھا وہ اس طرح شروع ہوتا ہے:
’’خداوند بزرگ و فرمانروائے عالم کی جانب سے اس کے احمق و کمینہ غلام ہرقل کے نام‘‘۔
اسی طرح عادل کہلانے والے ایرانی شہنشاہ نوشیرواں نے ۵۷۲ء میں جب شام پر حملہ کیا تو تقریباً ۳ لاکھ شامیوں کو پکڑ کر ایران بھیج دیا، اور ملک کی حسین لڑکیاں گرفتار کر کے ایلخان اتراک کے پاس بھیج دیں تاکہ وہ رومیوں سے اتحاد ختم کرے۔
دوسری جانب ۵۷۱ء میں جب رومی شہنشاہ ٹینوس نے بیت المقدس فتح کیا تو پورے علاقہ کی حسین لڑکیاں اس کے لیے چن لی گئیں، اور تمام بالغ لڑکے اور مرد پکڑ کر مصری کانوں میں مشقت کے لیے روانہ کر دیے گئے، اہرام ایسے عجائبات کے نیچے ایسے ہی ہزارہا بدقسمت غلاموں کی لاشیں دبی ہیں، اور ایمی تھیٹروں اور کلو رسیموں میں نمائش بینوں کے آگے جنگلی درندوں سے پھڑوانے اور شمشیر زنوں سے کٹوانے کے لیے بھیج دیے گئے۔ ستانوے ہزار قیدیوں میں سے گیارہ ہزار صرف اس وجہ سے مر گئے کہ نگہبانوں نے انہیں کھانے کو نہیں دیا۔ صرف بیت المقدس کے شہر میں جو لوگ قتلِ عام کی بھینٹ چڑھے ان کی تعداد ایک لاکھ پینتیس ہزار سات سو انچاس ہے۔ اس کے علاوہ دمشق، انطاکیہ، حلب وغیرہ دوسرے شہروں میں بھی انسانیت کا یہی حشر ہوا۔
قیصرِ روم قیصر جسٹنین نے جب افریقہ کے وانڈالوں پر چڑھائی کی تو پوری قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ ایک لاکھ ساٹھ ہزار نبرد آزما مردوں کے علاوہ کسی عورت، بچے، بوڑھے کو زندہ نہ چھوڑا۔ جب روک و ہیومن سیاح نے اس ملک میں قدم رکھا تو آبادی کی کثرت، تجارت، زراعت، خوشحالی دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گیا۔ اس کے بیس سال بعد قیصرِ روم نے ۵۰۸ء میں اس خوشحال ملک کی آبادی کو اس طرح فنا کے گھاٹ اتارا کہ یورپ کا مشہور مؤرخ گبن لکھتا ہے:
’’سارا ملک اس طرح تباہ ہوا کہ ایک سیاح سارا دن گھومتا مگر کسی آدم زاد کی شکل دکھائی نہ دیتی۔‘‘
خود یورپ میں گاتھوں کے ساتھ یہی سلوک کیا گیا۔ ان کی آبادی کو موت کے گھاٹ اتار کر ان کے بادشاہ ٹوٹیلا کو قتل کر کے اس کے تخت و تاج کے ساتھ بدن کے کپڑے تک اتار کر قیصرِ روم جسٹنین کے پاس بھیج دیے گئے۔
نزولِ قرآن تک بدقسمت مفتوح قوموں کے گرفتار شدہ مردوں (غلاموں) کا ایک مصرف فاتح اقوام کو کھیل و تفریح بہم پہنچانا بھی ہوتا تھا۔ رومیوں کے یہ تفریحی کھیل اتنے بڑے پیمانے پر منعقد ہوتے کہ ہزارہا آدمیوں کو بیک وقت تلواروں سے قتل ہونے کا تماشا دکھانا پڑتا۔ ڈیوس جسے مغرب میں نسلِ انسانی کا لاڈلا کہا جاتا ہے (Darling of the human race) نے ایک بار پچاس ہزار درندوں کو پکڑوا کر تفریح طبع کے لیے کئی ہزار یہودیوں کے ساتھ ایک احاطہ میں چھوڑ دیا۔ اسی طرح یورپ کے ٹراجان کے کھیلوں میں گیارہ ہزار درندے اور دس ہزار آدمی ایک ساتھ لڑائے جاتے تھے۔ یہ کھیل آخری شخص کے باقی رہنے تک جاری رہتے۔
اس دور میں شکست کھانے والی بدقسمت قوموں کے لیے قتل ہو جانا سب سے باعزت اور بہتر راستہ تھا۔ دوسرا راستہ غلامی کا تھا جو بقول فیرا وہ ذلت کے بچپن، مشقت کی جوانی اور بے رحمانہ غفلت کے بڑھاپے میں پیدائش سے موت تک کے مراحل طے کرتے۔ رومیوں کی فتوحات جب وسیع ہوئیں تو کروڑوں مقتولوں کے علاوہ غلاموں کی تعداد چھ کروڑ تک پہنچ گئی۔ رومی و یونانی اپنے علاوہ سب قوموں کو وحوش و برابرہ کہتے۔ ان قوموں کے لیے ان کے پاس قتل یا غلامی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ارسطو جیسا معلم اخلاق بے تکلف لکھتا ہے کہ قدرت نے برابرہ (غیر یونانی) اقوام کو محض غلامی کے لیے پیدا کیا۔ دوسرے مقام پر حصولِ دولت و ثروت کے جائز و معزز طریقے گناتے ہوئے کہتا ہے، ان اقوام (غیر یونانیوں) کو غلام بنانا بھی ان میں شامل ہے۔

اسلام سے پہلے جنگوں کا مقصد

اسلام سے پہلے مختلف قوموں، ملکوں یا مذاہب میں جو لڑائیاں ہوتی تھیں ان میں حکام و سلاطین کے سامنے جنگ کا کوئی مقصد یا اخلاقی نصب العین نہیں ہوتا تھا۔ محض اقتدار کو وسعت دینا اور اپنی برتری جتانا مقصود ہوتا۔ جنگ کے مواقع پر عام باشندوں کا جو انبوہِ عظیم ساتھ ہو جاتا، ان کا مقصد عیش و عشرت کے لیے مال و دولت، لونڈی غلام اور شہوت رانی کے لیے خوبصورت لڑکیاں حاصل کرنا ہوتا۔ اس لیے جب فوجیں کسی ملک پر حملہ آور ہوتیں تو بچے، بوڑھے، عورتیں، جانور، درخت، عبادت گاہیں، کوئی چیز ان کے دستِ ستم سے نہیں بچتی تھی۔ جو لوٹا جا سکتا تھا لوٹ لیا جاتا تھا، اور جو نہ لوٹا جا سکتا اسے توڑ پھوڑ اور جلا کر خاک کر دیا جاتا۔

یہودی اور ہندو مذہب میں جنگ کا مقصد اور طریق

اسلام سے پہلے دنیا میں جو بڑے مذاہب موجود تھے، ان میں عیسائیت اور بدھ مذہب میں تو سرے سے کسی بھی حالت میں جنگ کا تصور ہی نہیں۔ ان مذاہب میں انسان کی نجات نفس کشی اور رہبانیت یعنی کاروبارِ دنیا سے فرار اور کنارہ کشی اختیار کرنے میں رہی۔ یہ مذاہب شر و فساد، ظلم و طغیان کو ختم کرنے کی کوشش کے بجائے انسان کو اس سے فرار اختیار کرنے اور پہاڑوں، جنگلات میں بھاگ جانے کی تعلیم دیتے ہیں۔
البتہ یہودی اور ہندو مذہب میں نہ صرف جنگ کا تصور موجود ہے بلکہ ان کی بیشتر مذہبی کتابیں درحقیقت جنگوں کی رزمیہ داستانیں ہی ہیں۔
موجودہ توراۃ میں کثرت سے لڑائیوں کا ذکر آیا ہے اور جگہ جگہ لڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ توراۃ میں بہت سی جگہوں پر ہر مرد کو قتل کرنے، عورتوں، لڑکوں، مویشی اور دیگر مال و اسباب کو لوٹ لینے، ہر سانس لیتی چیز (جاندار) کو قتل کرنے، باغوں کو کاٹ دینے، عمارتوں، مندروں، معبدوں اور بتوں کو توڑ ڈالنے کا حکم ملتا ہے۔ کنواری لڑکیوں کے علاوہ سب کو موت کے گھاٹ اتار دینے، یا زیادہ سے زیادہ رحم کر کے غلام بنا لینے کا حکم ہے۔
اسی طرح ہندو مذہب کے بنیادی مآخذ (چاروں وید، بھاگوت، گیتا، منو، سمرتی) میں بکثرت دشمنوں کو جلا ڈالنے، برباد کرنے، ان کے مویشی خاص طور پر خوبصورت گھوڑوں اور گائیوں کے حصول، مال و خزانے کے حاصل ہونے کی دعائیں، اور دشمنوں (غیر آریہ) کے لیے بد دعاؤں کے سینکڑوں کلمات ملتے ہیں۔ یہی نہیں، دشمن کو ہلاک کر کے سر قلم کرنے، اس کی کھال کھینچ لینے، ہڈیوں کو توڑنے، کچلنے، ان کے جسم کی بوٹی بوٹی کرنے کی دعائیں ہیں۔
بھاگوت گیتا جو جنگ کے فلسفہ کا سب سے بڑا گرنتھ ہے، اس میں سری کرشن کے بھاشن (خطاب) کے ذریعہ لڑنے، قتل و غارت گری، خونریزی پر ابھارنے کی نہایت مؤثر و بلیغ الفاظ میں تعلیم و تلقین ہے۔ گیتا کے فلسفۂ جنگ کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی انسان کے قتل کرنے کو گناہ و جرم سمجھنا اور اس پر رنج کرنا محض جہالت اور دھرم کی حقیقت سے ناواقفیت ہے۔ کیونکہ روح کے لیے جسم کی حیثیت وہی ہے جو جسم کے لیے کپڑے کی، کسی انسان کا قتل کرنا ایسا ہی ہے جیسے جسم کے کپڑے پھاڑ دینا، جب انسان کو ایک دن مرنا ہی ہے تو اسے قتل کرنے میں کیا برائی ہے۔ نیک و بد کا امتیاز صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو گیانی (عارف) نہیں۔ گیان (عرفان) حاصل ہو جانے پر بد سے بدتر فعل (قتل خونریزی) انسان کے لیے گناہ نہیں رہتا۔
ایک طرف گیتا پوری طرح انسان کو قتل و خونریزی پر اکساتی ہے، دوسری طرف گیتا کے ابواب میں کسی ایک جگہ بھی نہ جنگ کا کوئی بہتر نصب العین و مقصد بتاتی ہے، اور نہ جنگ کے آداب و حدود، نہ کوئی اعلیٰ اخلاقی ہدایت۔ گیتا سے زیادہ سے زیادہ جنگ کا جو مقصد معلوم ہوتا ہے وہ ہے حکومت و سلطنت، مال و دولت، ناموری و شہرت کا حصول، اور شکست کی بدنامی و ذلت کا خوف۔ یہی حال یہودیوں کی توراۃ کا ہے، وہ بھی جنگ کے کسی اعلیٰ مقصد اور اخلاقی ہدایات سے یکسر خالی ہے۔
موجودہ دور میں بھارت زور و شور سے خود کو اہنسا (عدمِ تشدد و امن) کا پیامبر و معلم ظاہر کر رہا ہے اور جنگ کے حوالے سے الزام تراشی میں (اسلام پر) مغربی میڈیا کا ہمنوا ہے، جبکہ وید دھرم میں اہنسا کی تعلیم کہیں موجود نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے اہنسا کا تصور بدھ مذہب سے لیا ہے جو ایک زمانہ میں بھارت کی اکثریت کا مذہب تھا۔ مگر ساتویں صدی عیسوی میں ہندو مت کے پیروکاروں نے بدھ مذہب کے پیروکاروں کا قتل عام کر کے انہیں بہت معمولی اقلیت میں تبدیل کر دیا۔ بھارت کی تاریخ بتاتی ہے کہ مہاتما بدھ سے لے کر مہاتما گاندھی تک امن و اہنسا کی بات کرنے والے ہر شخص کو مار دیا گیا۔ ہندو مذہب کے جتنے بھی ہیروز ہیں وہ سب ہی جنگ کے ہیرو ہیں۔

اسلام میں جنگ کا مقصد اور نصب العین

ہم تفصیل سے ذکر کر آئے ہیں کہ اسلام سے پہلے دنیا میں ہر قوم و ملک و مذہب کے نزدیک جنگ کا مفہوم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ طاقتور کی خواہشِ زن و زمین و زر اور اقتدار کے حصول کے لیے وحشت و بربریت، شقاوت و سنگدلی، قتل و خونریزی اور لوٹ کھسوٹ کا وسیع سلسلہ شروع کر کے کمزور اقوام کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے یا انہیں غلام بنا لیا جائے۔ یہ تھی اس دور میں جنگ کی حقیقت۔
ایسے حالات میں اسلام نے جنگ کے نظریہ و مقصد، قوانین و ضوابط میں اعلیٰ و ارفع اصلاحات کا عَلم بلند کیا۔ جنگ کے متعلق اسلام کے نظریہ کا خلاصہ یہ ہے کہ بغیر کسی اعلیٰ و ارفع مقصد کے جنگ و قتال ایک معصیت اور گناہِ عظیم ہے۔ ہاں جب دنیا میں ظلم و طغیاں پھیل جائے اور خدا کے نا فرمان و سرکش لوگ خلقِ خدا کا جینا دوبھر کر دیں، ان کا امن و راحت چھین لیں تو محض دفعِ مضرت کے لیے جنگ کرنے کی اجازت بلکہ ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اس مقصد کو ایران کے سپہ سالار رستم کے دربار میں صحابئ رسولؐ ربیع بن عامرؓ نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا: ’’ہمارا مقصد یہ ہے کہ انسانوں کی غلامی سے نکال کر خدا کی بندگی میں، اور مذاہب کے ظلم و ستم سے اسلام کے عدل میں، دنیا کی تنگیوں سے نکال کر اس وسعت و فراخی میں داخل کریں۔‘‘
اس نظریہ کے مطابق جنگ کا مقصد چونکہ حریف و مقابل کو ختم کرنا یا تباہ کرنا نہیں، بلکہ محض اس کے ظلم و طغیان، شر و فساد اور نافرمانی کی طاقت کو ختم کر کے اس کے شر و ظلم کو دفع کرنا ہے، اس لیے اسلام یہ اصول پیش کرتا ہے کہ جنگ میں صرف اتنی ہی طاقت استعمال کرنی چاہیے جتنی دفعِ شر و طغیان کے لیے ناگزیر ہو۔ اس لیے جنگ اور اس کے ہنگامۂ کارزار کو ان لوگوں تک متجاوز نہیں کرنا چاہیے جن کا جنگی طاقت اور ظلم و طغیان کے بقاء سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسرے بے ضرر طبقات کو جنگ کے اثرات و تباہ کاریوں سے حتی الامکان محفوظ رکھنا چاہیے۔
جنگ کے اس مقصد اور اعلیٰ تصور کو ہر وقت پیشِ نظر رکھنے کی خاطر اسلام نے جنگ و لڑائی کے تمام رائج الوقت الفاظ کو چھوڑ کر جنگ کے لیے ایک ایسی اصطلاح پیش کی جو کہ اس کو وحشیانہ جنگ کے تصور سے بالکل الگ کر دیتی ہے، اور اسلام کے اعلیٰ و ارفع تصورِ جنگ پر ٹھیک ٹھیک دلالت کرتی ہے۔ وہ ہے ’’جہاد‘‘ یعنی کسی مقصد کے حصول کے لیے انتہائی کوشش صَرف کرنا۔ مگر کوشش کا لفظ بھی انسانی خیرخواہی و بہبودی کے پورے مفہوم کو ظاہر نہیں کرتا، کیونکہ کوشش نیکی اور بدی دونوں جہت میں ہو سکتی ہے۔ اس لیے اسلام نے جنگ کا اعلیٰ تصور و مقصد ہر وقت پیشِ نظر رکھنے کے لیے ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی قید لگا دی۔
اب ہر وہ لڑائی جو کسی ملک و قوم کی تسخیر، اقتدار کی ہوس، مال و دولت، یا کسی عورت کے حصول، ذاتی عداوت و دشمنی، یا شہرت و ناموری کی خاطر ہو، وہ جہاد سے خارج ہو گی، اسلام کے نزدیک جہاد نہیں کہلائے گی۔ جہاد صرف وہ جنگ ہے جو محض اللہ کی رضا کے لیے ہو، ظلم و شرک کو دفع کرنے کے لیے ہو، جس میں کوئی سی غرض یا خواہش کا شائبہ تک نہ پایا جائے۔

اسلام کا تصورِ جنگ و جہاد

جنگ کے اس ارفع اور پاکیزہ تصور کے تحت اسلام نے جنگ کا ایک مکمل ضابطہ اور قوانین وضع کیے۔ جس میں جنگ کے آداب، اخلاقی حدود، محاربین جنگ کا ایک مکمل ضابطہ اور قوانین و فرائض، مقاتلین و غیر مقاتلین کا امتیاز، قیدیوں کے حقوق، مفتوح قوموں کے حقوق، نہ صرف تفصیل سے بتائے بلکہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء راشدینؓ نے اپنے عمل سے برت کر اعلیٰ نمونے بھی قائم کر کے ہر دور کے لیے عملی نظائر اور مثال قائم فرما دی۔
بہت سی صحیح احادیث میں بتایا گیا کہ اگر کوئی شخص مالِ غنیمت کے حصول، فرمانروائی کی خواہش، شہرت و ناموری، اپنی شجاعت کے اظہار، حمیتِ قومی و ملکی، یا جوشِ انتقام میں لڑتا ہے تو وہ اسلام کے نزدیک ہرگز جہاد نہیں، بلکہ وہ شخص خدا کا بدتر نافرمان قرار پائے گا۔ اسلام نے جنگ کی اصلاح و تطہیر کے سلسلہ میں سب سے پہلی اصلاح یہ کی کہ دشمن کو دو طبقوں میں تقسیم کر دیا۔ اہلِ قتال اور غیر اہلِ قتال۔
  1. ایک وہ جو جنگ میں عملاً حصہ دار بنتے ہیں یا حصہ لینے کی قدرت رکھتے ہیں جیسے جوان تندرست مرد۔
  2. دوسرے وہ جو عرفاً و عقلاً عملی جنگ میں حصہ نہیں لیتے یا عام طور پر حصہ نہیں لیا کرتے۔ جیسے عورتیں، بچے، بیمار، زخمی، اپاہج، اندھے، عبادتگاہوں کے مجاور، کاروبارِ دنیا سے یکسو رہبان، اور ایسے ہی دیگر بے ضرر لوگ۔
اسلام نے جنگ میں صرف اول الذکر طبقہ کو قتل کرنے کی اجازت دی۔ اور ثانی الذکر طبقات کے قتل کرنے کو سختی سے منع کر دیا۔ غرض جو لوگ عادۃً معذور کے حکم میں ہیں یا لڑتے نہیں، جنگ میں ان سے تعرض نہ کیا جائے گا۔ البتہ اگر یہ لوگ عملاً اہلِ قتال بن جاتے ہیں، مثلاً بیمار یا زخمی کمانڈر جنگی چالیں بتا رہا ہو، یا عورت جاسوسی یا تخریب کاری کر رہی ہو، تو اس وقت وہ بھی اہلِ قتال کے حکم میں شامل ہو جائیں گے۔
پھر اہلِ قتال جن سے جنگ کرنا اور ان پر تلوار اٹھانا جائز ہے، ان پر بھی غیرمحدود حق حاصل نہیں ہے، بلکہ اسلام نے اس کے بھی حدود و آداب کا تعین کیا ہے جن کی پابندی لازمی ہے۔ نہایت اختصار کے ساتھ ہم انہیں ذکر کرتے ہیں۔

اسلام میں طریقۂ جنگ کی تطہیر و اصلاحات

(۱) اہلِ عرب کا قاعدہ تھا کہ رات کو جب لوگ بے خبر سو جاتے، اچانک قتل و غارت گری شروع کر دیا کرتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وحشیانہ طرز کی اصلاح فرمائی۔ آپ جب کسی دشمن پر رات کے وقت پہنچ جاتے تو جب تک صبح نہ ہو جاتی حملہ نہیں فرماتے ’’اذا جاء قوماً بلیل لم یغر علیہم حتیٰ یصبح‘‘۔
(۲) عربوں اور دیگر اقوام میں عام طور پر شدتِ انتقام میں دشمن کو زندہ جلانے کا رواج تھا۔ آنحضرتؐ نے اس وحشیانہ حرکت کو قطعاً ممنوع قرار دیا اور حکماً زندہ جلانے کی ممانعت فرما دی۔ ’’لا تعذبوا بعذاب اللہ لا یعذب بالنار الا رب النار‘‘ آگ میں جلانا صرف خدا کا حق قرار دیا۔
(۳) دشمن کو باندھ کر قتل کرنا بھی معمول تھا۔ پیغمبرِ اسلامؐ نے دشمن کو باندھ کر تکلیفیں دے دے کر یا تڑپا تڑپا کر مارنے سے منع فرما دیا۔ ایک صحابی عبد الرحمٰن بن خالدؓ نے لاعلمی میں چار دشمنوں کو باندھ کر قتل کر دیا۔ جب انہیں اسلام کے حکم کا علم ہوا تو اپنی غلطی کے کفارے کے طور پر چار غلام آزاد کیے اور سخت نادم ہوئے۔
(۴) میدانِ جنگ کے علاوہ لوٹ مار سے منع کر دیا۔ فتحِ خیبر کے وقت کچھ مسلمانوں نے مفتوح قوم کے ساتھ زیادتی شروع کر دی۔ آنحضرتؐ کو علم ہوا تو آپؐ نے اسی وقت سب کو جمع فرما کر اسلام کا حکم پہنچاتے ہوئے فرمایا، فتح کے بعد تمہارے لیے ہرگز جائز نہیں کہ بلاوجہ ان کے گھروں میں گھس جاؤ یا خواتین پر ہاتھ اٹھاؤ یا ان کے پھل کھا جاؤ۔ آپؐ نے اس حکم کو قرآن کی طرح بلکہ اس سے زیادہ واجب العمل قرار دیا۔
(۵) دشمن کے مویشی چھین لینے سے اسلام نے روک دیا۔ ایک جنگی سفر کے موقع پر اسلامی لشکر نے کچھ بکریاں چھین کر ان کا گوشت پکا لیا۔ جب پیغمبر اسلامؐ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے آ کر پکے ہوئے گوشت کی دیگچیاں الٹ دیں اور فرمایا ’’النہبہ لیست باحل من المیت‘‘ چھینا ہوا مال مردار کی طرح بدترین حرام ہے۔
(۶) اس دور کا عام دستور تھا کہ جب فوجیں نکلتیں تو ساری منزل اور راستوں میں پھیل جاتیں اور راہ گیروں کے لیے راستے تنگ یا بند ہو جاتے۔ پیغمبر اسلامؐ نے منادی کر ادی ’’من ضیق منزلاً او قطع طریقاً فلا جہاد لہ‘‘ یعنی جو کوئی منزل و راستوں کو تنگ کرے گا اور راہ گیروں کو لوٹے گا اس کا جہاد نہیں۔

فوجوں کو اخلاقی ہدایات کا رواج

انسانی تاریخ میں فوجوں اور لشکروں کو اخلاقی ہدایات دینے کا دستور آپؐ نے قائم فرمایا۔ جب آپ کسی لشکر کو روانہ فرماتے تو لشکر کو تقویٰ اور خدا کا خوف اختیار کرنے کی نصیحت کے بعد فرماتے ’’اغزوا بسم اللہ فی سبیل اللہ قاتلوا من کفر باللہ اغزوا ولا تغدروا ولا تغلوا ولا تمثلوا و لا تقتلوا ولیداً‘‘ جاؤ اللہ کا نام لے کر اللہ کی راہ میں لڑو ان لوگوں سے جو خدا سے کفر کرتے ہیں، جنگ میں کسی سے بدعہدی نہ کرنا، مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا، مثلہ (اعضا کاٹنا) نہ کرنا، اور کسی بچہ کو قتل نہ کرنا۔
اسی طرح خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب شام کی طرف فوجیں روانہ کیں تو ان کو دست ہدایات دیں جن کو تمام مؤرخین و محدثین نے نقل کیا ہے۔ وہ ہدایات یہ ہیں:
  1. عورتیں، بچے اور بوڑھے قتل نہ کیے جائیں۔
  2. مثلہ نہ کیا جائے (یعنی جسم کے اعضاء نہ کاٹے جائیں)۔
  3. راہبوں اور عابدوں کو نہ ستایا جائے اور نہ ان کے معابد مسمار کیے جائیں۔
  4. کوئی پھل دار درخت نہ کاٹا جائے، نہ کھیتیاں جلائی جائیں۔
  5. آبادیاں ویران نہ کی جائیں۔
  6. جانوروں کو ہلاک نہ کیا جائے۔
  7. بدعہدی سے ہر حال میں احتراز کیا جائے۔
  8. جو لوگ اطاعت کریں ان کی جان و مال کا وہی احترام کیا جائے جو مسلمانوں کی جان و مال کا ہے۔
  9. اموالِ غنیمت میں خیانت نہ کی جائے۔
  10. جنگ میں پیٹھ نہ پھیری جائے۔
ان احکامات کے ذریعے اسلام نے جنگ کو تمام وحشیانہ اور ظالمانہ افعال سے پاک کر دیا۔ اور جنگ کو ایک ایسی مقدس جدوجہد میں بدل دیا جس کے ذریعے ایک نیک شریف اور بہادر آدمی کم سے کم ممکن نقصان پہنچا کر دشمن کے شر و فساد کو دفع کر کے امن قائم کر سکے۔

جنگ میں انسانی حقوق کی پاسداری کی تلقین

اس دور میں حالتِ جنگ میں دشمن قیدیوں کے قتل عام، عمارتوں کی توڑ پھوڑ، آتش زنی کے ساتھ ساتھ فصلوں اور کھیتوں کو برباد کر دینا بھی جنگ کی عام روایت تھی۔ قرآن نے فصلوں اور نسلوں کی بربادی و قتل کو فساد قرار دے کر اس کو ممنوع و حرام قرار دیا (دیکھئے سورہ بقرہ آیت ۲۰۵)۔ البتہ جنگی ضرورت کے تحت درختوں کو کاٹنے کی اجازت ہے، جیسا کہ بنی نضیر کے محاصرہ کے وقت کیا گیا۔ اس وقت بھی قرآن کی تصریح کے مطابق صرف ایک قسم کے کھجور کے درخت جنہیں لیتہ کہا جاتا تھا کاٹے گئے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ بنی نضیر کھجوروں میں عجوہ و برنی بطور غذا استعمال کرتے تھے، لیتہ ان کی غذا نہیں تھی۔ یہ کاٹنا بھی محاصرہ کو مضبوط بنانے کے لیے جنگی ضرورت کے تحت تھا، لہٰذا شرعاً ناگزیر حالات میں جنگی ضرورت کے لیے درخت کاٹے جا سکتے ہیں، محض دشمن کا نقصان کرنے یا تخریب و غارت گری کے لیے نہیں۔

اسی طرح عرب کا یہ دستور بھی تھا کہ دشمن کے قتل پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ جوشِ غضب میں اس کا مثلہ کیا جاتا یعنی کان ناک اور دیگر اعضاء کاٹے جاتے۔ اسلام نے مثلہ کی سختی سے ممانعت کر دی اور دشمن کا صرف سر قلم کرنے پر اکتفا کرنے کا حکم دیا۔

اسی طرح قیدیوں کے متعلق قرآن نے صرف دو طرح کے سلوک کی اجازت دی’’اما مناً بعد واما فداءً‘‘ یا تو احسان کا برتاؤ کر کے بلامعاوضہ رہا کر دو، یا فدیہ (مالی معاوضہ) لے کر رہا کرو۔ البتہ قیدیوں میں جو شر و فساد کے ائمہ اور فتنہ عظیم اور قتل و غارت گری کے اصل ذمہ دار ہیں انہیں قتل کرنے کی اجازت ہے۔

اس دور میں سفیروں اور قاصدوں تک کو بے دریغ قتل کر دیا جاتا تھا خواہ وہ قاصد خود بادشاہ و وزیر ہی کیوں نہ ہو۔ اسلام نے مطلقاً قاصد کے قتل کو ممنوع قرار دیا۔ مسیلمہ کذاب کا قاصد عبادۃ بن حارث جس نے پیغمبر اسلامؐ کی خدمتِ اقدس میں نہایت گستاخانہ پیغام دیا تو آپ نے فرمایا ’’لو لا ان الرسل لا تقتل لضربت عنقل‘‘ اگر قاصدوں کا قتل (اسلام میں) ممنوع نہ ہوتا تو میں اسی وقت تیری گردن مار دیتا۔

فتح مکہ کے موقع پر جب اسلامی لشکر مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہا تھا  (جہاں رسول اللہؐ اور آپ کے ساتھیوں کو تیرہ سال تک شدید مصائب کا سامنا کرنا پڑا تھا) آپؐ کا حکم تھا ’’لا تجہزن علی جریح ولا یتبعن مدبر و لا یقتلن اسیراً من اغلق بابہ فہو امن‘‘ کسی زخمی پر حملہ نہ کیا جائے، کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے، کسی قیدی کو قتل نہ کیا جائے، اور جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے وہ امن میں ہے۔

اسلام کی اعلیٰ تعلیمات کے اثرات

جنگ کے متعلق اسلام کی اس اصلاحی اور اعلیٰ تعلیم نے عرب کی جاہل، وحشی اور خونخوار قوم، جو کسی قانون یا اخلاقی ضابطہ کی قائل نہیں تھی، ایسا زبردست ذہنی انقلاب پیدا کر دیا جس کی مثال پوری انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ جو وحشی لٹیرے تھے، اب دنیا میں بنی نوع انسان کی جان و مال، عزت و آبرو کے محافظ بن گئے۔ اس کا سب سے بڑا نمونہ خود فتح مکہ ہے۔ ایک ایسا شہر جس نے پیغمبر اسلامؐ اور آپ کے خاندان اور جانثار ساتھیوں پر اذیت رسانی، تکلیف دہی اور وحشیانہ ظلم و جور کے وہ تمام طریقے آزما لیے تھے جو انسانی بس میں ہو سکتے ہیں۔ مگر ان پر قابو پانے کے بعد نہ قتلِ عام کیا جاتا ہے، نہ لوٹ مار ہوتی ہے، نہ کسی کے مال و عزت سے تعرض ہوتا ہے۔ پورے شہر کی تسخیر و فتح میں صرف وہی ۲۴ آدمی مارے جاتے ہیں جو خود پیش قدمی کر کے حملہ آور ہوتے ہیں۔ ہبار بن اسود جس نے پیغمبر اسلامؐ کی بے قصور جواں بیٹی کو بے رحمی سے شہید کیا۔ وحشی بن حرب جس نے آپؐ کے محبوب چچا کو قتل کیا۔ ہندہ بنت عتبہ جس نے پیغمبر اسلامؐ کے چچا کے کان ناک کاٹے، کلیجہ نکال کر چبایا۔ سب سے بڑے دشمن ابو جہل کا بیٹا عکرمہ عبد اللہ بن سراح اور کعب بن زبیر جیسے پیغمبرؐ کے جانی دشمن تک کے قصور یکلخت معاف کر دیے جاتے ہیں۔

کیا اس کا ہزارواں حصہ بھی آج کی تہذیب کی علمبردار اور انسانی حقوق کی ٹھیکیدار مغربی اقوام پیش کر سکتی ہیں؟ یوں تو جنیوا کنونشن اور اقوامِ متحدہ نے حالتِ جنگ کے متعلق بڑے اچھے اچھے قوانین اور چارٹ بنا رکھے ہیں، لیکن اچھے اچھے الفاظ کا لکھ لینا اور چیز ہے اور عمل کارِ دیگر۔ کسی نے سچ کہا ہے ’’اخلاق کہنے کی نہیں کرنے کی چیز ہے‘‘۔

حالتِ جنگ میں انسانی حقوق کی پاسداری کی چند مثالیں

اسلام نے حالتِ جنگ میں انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے جو اصلاحات کیں، پیغمبر اسلامؐ نے کٹھن سے کٹھن حالات میں بھی ان پر عمل کرنے کی درخشاں روایت قائم رکھی۔ اختصار کی خاطر صرف تین مثالیں پیشِ خدمت ہیں۔

اسلام کی پہلی فیصلہ کن جنگِ بدر کے موقع پر کفارِ مکہ کے گیارہ سو کا لشکرِ جرار (جو جنگی ہتھیاروں سے پوری طرح مسلح تھا) کا مقابلہ محض تین سو تیرہ بے سروسامان اور نہتے مسلمانوں سے تھا۔ اس وقت ایک ایک شخص کی ضرورت و اہمیت تھی۔ ایسی حالت میں حضرت حذیفہ بن یمانؓ اپنے والد کے ساتھ میدانِ جنگ میں پہنچتے ہیں اور بتاتے ہیں ہمیں راستے میں دشمنوں کے لشکر نے روک لیا تھا، مجبورًا ہمیں یہ وعدہ کرنا پڑا کہ ہم آپؐ کے ساتھ مل کر ان کے خلاف نہیں لڑیں گے، آپؐ ہمیں ایسے اہم اور فضیلت کے موقع پر جنگ میں حصہ لینے کی اجازت دیں۔ مگر پیغمبر اسلامؐ نے اجازت نہیں دی اور ابوجہل جیسے سخت دشمنِ اسلام سے مجبوری کے عالم میں کیے ہوئے عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا۔

اسی طرح جنگِ خیبر کے موقع پر جب دشمنوں (یہود) کا سخت محاصرہ کے دوران قلعہ سے ایک چرواہا ان کی بکریاں چرانے کے لیے نکلتا ہے اور آنحضرتؐ سے سوال و جواب کے بعد مسلمان ہو جاتا ہے تو آنحضرتؐ اسے پہلا حکم یہ دیتے ہیں کہ اہلِ خیبر کی بکریاں واپس کر کے آؤ۔

اور آگے بڑھیے، حضرت معاویہؓ جو آپؐ کے صحابیؓ اور تمام مسلمانوں کے خلیفہ ہیں، بلادِ روم یعنی اہلِ یورپ سے معاہدہ کرتے ہیں۔ آپ صلح کی مدت ختم ہوتے ہی اچانک حملہ کرنے کے لیے اسلامی فوجوں کو اپنی سرحدوں پر جمع کرنا چاہتے ہیں تو ایک صحابی حضرت عمرو بن عبسہؓ اس کو بدعہدی سے تعبیر کرتے ہوئے پکار کر کہتے ہیں ’’اللہ اکبر وفاء لا غدرًا‘‘ فرماتے ہیں، ہمیں رسول اللہ نے حکم دیا ہے کہ جس کسی قوم (دشمن) سے معاہدہ ہو اس میں اتنی سی بھی خیانت نہ کی جائے (کہ دشمن سمجھے کہ اگر حملہ ہوا تو مسلمانوں کا لشکر مرکز سے چل کر اتنے دنوں میں سرحد تک پہنچے گا، اس لیے اسے پہلے معاہدہ کے ختم کرنے کا نوٹس دیا جائے)۔ اس پر حضرت معاویہؓ لشکر سرحد سے واپس بلا لیتے ہیں۔

کیا دنیا کی کوئی قوم  بشمول مغرب کے حالتِ جنگ میں عہد کی پاسداری کی ایسی ایک مثال بھی پیش کر سکتی ہے؟ کیا مغرب کی مہذب کہلانے والی اقوام حالتِ جنگ میں دشمن کے ساتھ ایسے اخلاقی برتاؤ کا تصور بھی کر سکتی ہے؟ ان انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں کا یہ حال ہے کہ حالت ِجنگ میں نہیں (سرد جنگ میں) لیبیا و ایران کے مسافر بردار طیاروں کو مار گراتی ہے۔ عراق، ایران، لیبیا کے کھربوں ڈالر کے بینک اثاثوں کو فریز کر کے بے دھڑک ہضم کر جاتی ہے اور ان کا ضمیر ذرہ برابر شرم و حیا محسوس نہیں کرتا۔

انسانی حقوق کی پاسداری میں مغربی اقوام اور مسلمانوں کا موازنہ

مسلمانوں کا حالتِ جنگ میں انسانی حقوق کی پاسداری کا ریکارڈ اتنا شاندار ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے تربیت یافتہ جماعت سینکڑوں جنگیں کرتی ہے، نصف سے زیادہ دنیا فتح کرتی ہے مگر کوئی ثابت نہیں کر سکتا  ان عظیم الشان فتوحات اور مسلسل جنگوں میں کبھی کسی عورت، بچے یا بوڑھے پر ہاتھ اٹھایا ہو۔ اس کے برخلاف اس صدی میں پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں تہذیب و تمدن کی دعویدار مغربی اقوام نے، جو خود کو انسانی حقوق کی چیمپئن کہتی ہیں، ایک دوسرے کے ملک میں گھس کر جو تباہیاں پھیلائیں اور کروڑوں بے قصور شہریوں کو جن بھیانک طریقوں سے ہلاک کیا، دشمن (جرمنی و جاپان) کے ہتھیار ڈالنے کی موثق اطلاعات کے باوجود محض اپنی ہیبت و طاقت کے مظاہرہ کے لیے (ہیروشیما پر ایٹم بم ڈال کر) جنگ کے اختتام کا وحشیانہ طریقہ اختیار کیا، اس سے کون ناواقف ہے؟ حال ہی میں بوسنیا اور کوسووا میں مغرب کے سرب درندوں ہی نے نہیں، بلکہ اقوامِ متحدہ کے محافظ دستوں میں شامل امریکہ یورپ کے فوجیوں نے ہزارہا مسلمان خواتین کے ساتھ جو کچھ کیا وہ طشت از بام ہو چکا ہے۔

جنگ میں اسلام کے اصلاحی اقدامات کے ثمرات و نتائج

جنگ میں انسانی حقوق کے متعلق اسلام کی عطا کردہ اعلیٰ اخلاقی تعلیمات کا نتیجہ اور اس کی برکت تھی کہ چند ہی سالوں میں نہ صرف جزیرۃ العرب و مشرقِ وسطیٰ کے ممالک بلکہ ایشیا، افریقہ کا بڑا حصہ اسلام کے سایۂ عاطفت میں پناہ گزین ہو گیا۔ یہ اقوام اتنی سرعت سے اسلام کی طرف آئیں کہ مؤرخین محوِ حیرت ہیں۔ ہم نہایت اختصار سے سرسری جائزہ پیش کرتے ہیں۔

عہدِ نبوی میں کل لڑائیوں (غزوات و سرایا) کی مقدار ۸۲ ہے جس کے نتیجہ میں تقریباً ۱۰ لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح ہوا۔ اور اس میں ایسا امن و امان قائم ہوا کہ مملکت کے آخری کنارے حیرہ (یمن) سے ایک حسین عورت سونے کے زیورات سے لدی نکلتی ہے اور بیت اللہ کا طواف کر کے واپس آجاتی ہے، ہزارہا میل کے طویل سفر میں کوئی متنفس اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ اس قدر عظیم اخلاقی و ذہنی انقلاب کے لیے طرفین کا جو جانی نقصان ہوا وہ یہ ہے۔ کل مسلمان شہید ہوئے ۲۵۹ اور کل غیر مسلم قتل ہوئے ۷۵۹۔ دس سالہ جنگوں میں کام آنے والے مسلم و غیر مسلم کا کل میزان ۱۰۱۸ بنتا ہے۔ آج اتنے انسان تو معمولی جھڑپوں میں ہلاک کر دیے جاتے ہیں۔

اور آگے بڑھیے۔ دورِ فاروقیؓ میں ۲۲ لاکھ مربع میل، دورِ عثمانیؓ میں ۴۴ لاکھ مربع میل اور دورِ معاویہؓ میں تقریباً ۶۵ لاکھ مربع میل کا علاقہ۔ یعنی اس دور کی معلوم دنیا (ایشیا، افریقہ و یورپ) کے بڑے حصہ پر اسلام کی عملداری قائم ہو جاتی ہے۔ اس میں صرف ۳۰ سال کا عرصہ لگتا ہے اور آدھی سے زیادہ دنیا کو فتح کرنے میں جانی نقصان اس قدر کم ہوتا ہے کہ اس پر آج تک مؤرخین محوِ حیرت ہیں۔ اس کے برعکس انسانی حقوق کی علمبردار مغربی اقوام نے گزشتہ نصف صدی میں جس قدر انسانوں کو قتل کیا اس پر بھی ایک نظر ڈالیں۔ الجزائر میں فرانس نے تقریباً دس لاکھ، صرف ویتنام میں امریکہ نے ۱۴ لاکھ، لیبیا میں اٹلی نے تقریباً ساڑھے تین لاکھ، افغانستان میں روس نے تقریباً ۱۵ لاکھ، دونوں جنگِ عظیم میں مغربی اقوام نے تقریباً ڈیڑھ کروڑ، روس اور چین کے کمیونسٹ انقلاب میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا میں کوئی بڑی جنگ نہ ہونے کے سبب اسے سرد جنگ یا امن کا دور کہا جاتا ہے۔ مگر اس سرد جنگ کے دوران گزشتہ ساٹھ سالوں میں جنگوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ ہے، اور تقریباً اتنی ہی تعداد وطن سے ہجرت پر مجبور ہونے والوں کی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق جنگوں میں مرنے اور ہجرت کرنے والوں میں تقریباً نصف کے قریب مسلمان ہیں۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا میں ۴۵ ملین (ساڑھے چار کروڑ) مہاجرین ہیں جن میں ۳۲ ملین (تین کروڑ بیس لاکھ) مسلمان ہیں۔ یعنی گزشتہ ساڑھے تیرہ سو سالوں میں اتنے مسلمان قتل نہیں ہوئے جتنے مغرب کے عطا کردہ امن کے ساٹھ سالوں میں۔ کہیں یہ فریضۂ جہاد کو چھوڑنے کی سزا تو نہیں؟

دنیا سے جنگوں کے خاتمہ اور انسانی حقوق کی بحالی کا واحد طریقہ

نزولِ قرآن کے وقت دنیا کو امن کی جس قدر ضرورت تھی آج پھر دنیا کو امن کی اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ پوری دنیا تباہی کے کنارے پر پہنچ چکی ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا سے جنگیں اور فساد کبھی اخلاقی وعظ و نصیحت سے ختم نہیں ہوا۔ سقراط سے ایک بار پوچھا گیا، انسان کو جنگوں سے نجات مل سکے گی؟ اس کا جواب تھا جنگیں اس وقت تک ناگزیر رہیں گی جب تک انسان دیوانگی میں مبتلا رہے گا۔ اس پر لوگوں نے سوال کیا، اور انسان کب تک دیوانگی میں مبتلا رہے گا؟ سقراط کا جواب تھا ’’ہمیشہ‘‘۔ امن کے شہزادے (حضرت عیسٰیؑ) کا اعلان تھا ’’وہ دنیا کو امن نہیں تلوار دینے آیا ہے‘‘۔ فنلے (Finly) لکھتا ہے ’’عیسائیت نے اہنسا کا خوشنما مژدہ ضرور سنایا مگر اس پر کبھی کسی رومی شہنشاہ نے عمل کیا نہ مذہبی پادریوں اور پوپ نے‘‘۔

آج بھی مسیحی دنیا کی ذہنی صلاحیت اور مادی وسائل کا بڑا حصہ دنیا کی تباہی و ہلاکت کے ذرائع کی ایجاد میں صرف ہو رہا ہے۔ یہی حال اہنسا کے علمبردار بھارت کا ہے۔ اہنسا کا تصور ہمیشہ ناقابلِ عمل رہا ہے۔ مشہور آسٹریلوی مدبر آرجی کیسے (R.G. Case) مسٹر گاندھی کے نظریۂ عدمِ تشدد پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے ’’یہ تو میری سمجھ میں آتا ہے کہ میں دوسروں کے خلاف تشدد نہ کروں، لیکن میں دوسروں کو اپنے خلاف تشدد سے کیسے باز رکھ سکتا ہوں؟‘‘

اسلام نے دنیا سے ظلم اور جنگوں کو ختم کرنے کے لیے ہی تلوار اٹھانے کا حکم دیا ہے، جیسے کوئی ماہرِ جراحت سرجن نشتر لے کر آپریشن روم میں جاتا ہے۔ اسلام کا فلسفۂ امن یہ ہے کہ طاقت اور ہتھیار نفس و خواہش پرست جنگ کے دلدادہ لوگوں کے بجائے انسانی حقوق کے پاسبان و محافظ جہاد کا تصور رکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہو۔ انسانی تاریخ شاہد ہے، دنیا میں امن صرف اسی وقت قائم ہو سکا جب تلوار خوفِ خدا رکھنے والوں کے ہاتھوں میں تھی۔ ماضی کی طرح مستقبل میں جب بھی دنیا میں صحیح معنٰی میں امن قائم ہو گا وہ اسلام کے ارفع فلسفۂ امن یعنی جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعہ ہی ہو گا۔


انسانی حقوق کے مغربی تصورات اور سیرتِ طیبہ

مولانا محمد عبد المنتقم سلہٹی

آج کی دنیا میں انسانی حقوق کی زبان سب سے زیادہ توجہ کے ساتھ سنی جاتی ہے، اور انسانی حقوق کے حوالے سے کی جانے والی گفتگو سب سے زیادہ مؤثر گفتگو سمجھی جاتی ہے۔ لیکن عام طور پر انسانی حقوق کا ایک ایسا صاف اور واضح تصور ذہنوں میں موجود نہیں ہے کہ جس سے قابلِ تحفظ حقوق کے تعیّن کی کوئی بنیاد فراہم ہوتی ہو، اور حقوق و فرائض کے درمیان حدِ فاصل قائم کرنے کی کوئی اساس مہیا ہو سکے۔ اس کھوکھلے پن کا نتیجہ یہ ہے کہ عقلی سوچ اور ذہنی تخیل کی روشنی میں انسانی حقوق کا کوئی خاکہ متعیّن کر لیا جاتا ہے اور اسی کو معیارِ حق قرار دے دیا جاتا ہے، اور پھر اسی خود ساختہ معیار پر ہر چیز کو پرکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
حالانکہ انسانی حقوق کے تعیّن میں اگر عقل کی بالادستی کو تسلیم کر لیا جائے تو حقوق کے تعیّن کی کوئی بنیاد فراہم نہیں ہوتی، کیونکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ابتدائے آفرینش سے آج تک انسانی حقوق کے بارے میں تصورات بدلتے چلے آئے ہیں۔ ایک دور میں انسان کے لیے کسی حق کو لازمی سمجھا گیا اور دوسرے دور میں اسی حق کو ناحق قرار دیا گیا۔ مثال کے طور پر نبی کریم سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت دنیا میں تشریف لائے اس وقت انسانی حقوق ہی کے حوالے سے یہ تصور پھیلا ہوا تھا کہ جو شخص کسی کا غلام بن گیا تو نہ صرف اس کے جان و مال مملوک ہو گئے بلکہ آقا کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ جس طرح چاہے غلام کو استعمال کرے، چاہے گردن میں طوق پہنچائے، اور چاہے پاؤں میں بیڑیاں ڈالے۔ تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے فاشزم نے یہ تصور پیش کیا تھا کہ جو طاقتور ہے اس کا ہی بنیادی حق ہے کہ وہ کمزور پر حکومت کرے، اور کمزور کے ذمہ واجب ہے کہ وہ طاقت کے آگے سر جھکائے۔
ذرا غور فرمائیے! غلامی کے جس تصور کو آقا کا بنیادی حق قرار دیا جاتا تھا، اسی کو آج جاہلیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کمزور پر جس حکمرانی کو طاقتور کا یکطرفہ حق سمجھا گیا، اسی کو بعد میں نہ صرف یہ کہ بدترین ظلم کے عنوان سے تعبیر کیا گیا بلکہ فاشزم کا نام خود گالی بن گیا ہے۔
انسانی حقوق کے تصورات کی اس تاریخی حقیقت کے پیشِ نظر یہ سوال بجا طور پر ذہن میں ابھرتا ہے کہ آج جن حقوق کو عقل کے فیصلہ پر انسانی حقوق کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں کیا ضمانت ہے کہ وہ کل بھی تسلیم کیے جائیں گے اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی؟ اور وہ کونسی بنیاد ہے جو اس فیصلہ کو حرفِ آخر قرار دے سکے گی؟
یہ وہ نازک سوال ہے جس کا حل پیش کرنے سے عقلِ انسانی عاجز ہے۔ کیونکہ عقل، حواسِ خمسہ کی طرح ایسا ذریعۂ علم ہے جس کا دائرہ کار ایک مخصوص حد میں جا کر ختم ہو جاتا ہے، جیسا کہ حواسِ خمسہ میں سے ہر ایک کی پرواز ایک متعیّن حد میں رک جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک گھر کو آنکھوں سے دیکھ کر یہ علم ہو جاتا ہے کہ اس کا رنگ کیا ہے؟ لیکن صرف آنکھوں سے دیکھ کر یا ہاتھوں سے چھو کر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس گھر کو کس انسان نے بنایا ہے؟ بلکہ اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے عقل کی ضرورت ہے۔ پھر آگے چل کر جو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس گھر کو کس طرح استعمال کرنا چاہیے؟ کس کام میں استعمال کرنے سے فائدہ ہو گا اور کس میں استعمال کرنے سے نقصان ہو گا؟ اس سوال کا حل پیش کرنے سے عقل بھی ناکام ہو جاتی ہے۔
یہ اور اس قسم کے سوالات کا جواب دینے کے لیے جو ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اس کا نام ’’وحی‘‘ ہے۔ وحی انسان کے لیے وہ اعلیٰ ترین ذریعۂ علم ہے جو اسے زندگی سے متعلق ان سوالات کا جواب مہیا کرتا ہے، جو عقل اور حواس کے ذریعہ تو حل نہیں ہو سکتے لیکن ان کا علم حاصل کرنا اس کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے عقل اور مشاہدہ کا محدود دائرۂ اثر ختم ہو جانے کے بعد وحئ الٰہی کے شفاف چشمۂ حیات سے رہنمائی حاصل کرنا ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ ورنہ انسانیت منزلِ مقصود کی راہ سے کوسوں دور چلی جاتی ہے اور ہر وقت مصائب و مشکلات کے صحرا میں بھٹکتی پھرتی ہے، لیکن اپنے سفرِ حیات کا وہ نشانِ راہ اسے نظر نہیں آتا جو منزلِ مقصود تک پہنچاتا ہو۔
انسانی حقوق کے حوالے سے جو تصورات آج مغرب کی طرف سے پھیلائے جا رہے ہیں، ان کی بنیاد بھی نری عقل پر ہے۔ جس کا نتیجہ آج مغرب میں معاشرتی بگاڑ، جنسی انارکی اور فیملی سسٹم کی تباہی کے جس خوفناک روپ میں ظاہر ہو رہا ہے اس نے خود مغربی دانشوروں کو حیران و ششدر کر دیا ہے۔
ان حقائق کے پس منظر میں اگر انسانی حقوق سے متعلق قرآن کریم کی تعلیمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و احکام کو سامنے لایا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انسانی حقوق کے تعیّن اور تحفظ کا جو معیار اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے وحئ الٰہی کے سرچشمۂ فیض سے پیش کیا تھا اور حقوق و فرائض کے درمیان جو خطِ امتیاز انہوں نے قائم فرمایا تھا، انسانی عقل تدریج و ترقی کے تمام مراحل طے کرنے اور مختلف نظام ہائے زندگی کا تجربہ کرنے کے باوجود اس کا متبادل سامنے نہیں لا سکی۔
سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا انسانی حقوق کے سلسلے میں سب سے بڑا کنٹریبیوشن (Contribution) یہ ہے کہ آپ نے قابلِ تحفظ حقوق کے تعیّن کی وہ بنیاد انسانیت کے سامنے پیش کی جو ایک ایسی اتھارٹی کی طرف سے عطا فرمائی گئی ہے جس کا علمِ کامل کائنات کے ایک ایک ذرہ پر محیط ہے، اور جو انسانوں کا بھی خالق و مالک ہے اور ان کی وسیع تر ضروریات کے بارے میں بخوبی وقف ہے۔ اسی قادرِ مطلق ذات نے اپنی حکمتِ بالغہ سے ’’وحی‘‘ کی صورت میں جو خالص اور قطعی علم اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا، وہی علمِ حقیقی انسانی حقوق کے تعیّن کے لیے واحد بنیاد اور منفرد معیار ثابت ہو سکتا ہے۔
لیکن مغرب نے وحئ الٰہی کی جگمگاتی ہوئی روشنی سے (کے ذریعے) راہِ نجات تلاش کرنے کے بجائے انسانی حقوق کے تعیّن و تحفظ کے لیے عقل کو نگران مقرر کیا اور اس پہلو پر غور نہ کیا کہ عقل کی کمزور لگام خواہشات کے منہ زور گھوڑے کو کنٹرول کرنے میں ہمیشہ ناکارہ ثابت ہوئی ہے۔ اور انسانی خواہشات نے صرف اس وقت فطرت کے دائرے میں رہنا قبول کیا جب ان پر وحئ الٰہی کی حکمرانی قائم ہوئی ہے۔ اس تاریخی حقیقت کو نظرانداز کر کے جو خمیازہ مغرب کو بھگتنا پڑ رہا ہے، اس کا اندازہ صرف ایک مثال سے ہو سکتا ہے۔
مغرب نے اپنی ’’خواہش پرست عقل‘‘ کے فیصلہ پر یہ تصور پیش کیا کہ مرد و عورت جس درجہ کے اختلاط پر باہم رضامند ہوں اس پر کسی تیسرے کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ دیکھیے! یہاں مغرب نے مرد اور عورت کی باہمی رضامندی تو دیکھ لی، مگر پورے معاشرے پر اس اختلاط کے اثرات کو نہ دیکھ سکا، جس کے نتیجے میں ناجائز بچوں کے تناسب میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور خاندانی نظام تباہی کی آخری حدود کو چھو رہا ہے۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کی بنیاد پر مرد و عورت کی اس باہمی رضامندی کو بھی جرم قرار دیا ہے جو معاشرے کے لیے منفی نتائج کا باعث بن سکتی ہو۔ چنانچہ آپؐ نے مرد و عورت کے باہمی اختلاط کے لیے رشتۂ ازدواج کے فطری اور پُر مسرت تعلق کو جائز رکھا اور باقی ہر قسم کے میل جول سے منع فرما دیا۔
اسی طرح سود کے بارے میں مغرب نے یہ فلسفہ پیش کیا کہ جب سود دینے اور لینے والے آپس میں متفق ہیں تو پھر تیسرے کسی کو حقِ اعتراض حاصل نہیں ہونا چاہیے۔ یہاں بھی مغربی عقل نے اپنی کرشمہ سازی دکھائی اور حقوق کے تعیّن میں صرف دو افراد کی رضامندی کو بنیاد بنایا۔ جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے پر بحیثیت مجموعی سود کے منفی اثرات کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی حرمت کا اعلان فرمایا۔ آج سودی معیشت کے نتیجے میں جس طرح چند مخصوص گروہوں کی اجارہ داری کے شکنجے میں پوری دنیا کے انسان کسے جا رہے ہیں، اس سے اسلامی تعلیمات کی صداقت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مغرب جس طرح انسانی حقوق کے تعیّن میں غلطاں و پیچاں ہے اسی طرح حقوق و فرائض میں توازن قائم کرنے اور ان کے درمیان حدِ فاصل قائم کرنے میں بھی وہ ناکام رہا ہے۔ مغرب نے حقوق و فرائض کو آپس میں ایسا خلط ملط کر دیا کہ ان کے درمیان کوئی خطِ امتیاز قائم نہ رہا، لیکن وہ اپنے اس کھوکھلے فلسفے کا غلط پروپیگنڈا اس زور و شور سے کر رہا ہے کہ آج کا معاشرہ انسانی حقوق کے بارے میں مسلسل ذہنی انتشار اور فکری بے راہ روی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔
مثلاً حلال روزگار کے ذریعہ اہلِ خانہ کی کفالت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی رو سے فرائض کا حصہ ہے جو گھر کے سربراہ پر عائد ہوتا ہے۔ مگر مغرب نے روزی کمانے کے فریضے پر ’’حقوق‘‘ کا خوشنما لیبل چسپاں کر دیا اور اس طرح عورت کو مردوں کے شانہ بشانہ ’’مساوی حقوق‘‘ دینے کے لیے ورغلایا۔ اس دلچسپ نعرے سے عورت بیچاری بہت متاثر ہوئی اور یہ سمجھ کر خوش ہو گئی کہ اب میں مساوی حق سے بہرہ ور ہو رہی ہوں۔ لیکن حقوق و فرائض کے اس گڈمڈ فلسفہ نے نتائج و ثمرات کے لحاظ سے آج جو روپ دھار لیا ہے اس نے گوربا چوف جیسے مدبر کو یہ لکھنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہم نے عورت کو گھر سے نکال کر غلطی کی ہے اور اب اسے گھر واپس لے جانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ تعلیمات کی رو سے حکومت و اقتدار ایک نازک ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کی سنگینی اور نزاکت کے بارے میں آپ نے قدم قدم پر خبردار کیا ہے، جس کا ثمرہ حکمرانوں میں احساسِ ذمہ داری اور خوفِ خدا کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اور لوگ اقتدار کی دوڑ میں شریک ہونے کے بجائے اس سے بچنے میں عافیت محسوس کرنے لگے۔ مگر مغرب نے اقتدار کو حقوقِ انسانی کی فہرست میں شامل کیا، جس کا منطقی انجام حکمرانوں میں خودغرضی، نفس پروری اور ہوس پرستی کی ہولناک صورت میں سامنے آیا اور لیلائے اقتدار تک پہنچنے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربے کو زینہ بنا لیا گیا۔
ان چند مثالوں سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ مغرب نے نہ انسانی حقوق کے تعیّن کی کوئی بنیاد فراہم کی، اور نہ حقوق و فرائض کے درمیان کوئی خطِ امتیاز قائم کیا۔ جس کے نتیجے میں انسانی معاشرہ کو فکری اور عملی دونوں اعتبار سے تباہی و بربادی کا سامنا ہے۔ جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی حقوق کی حقیقی بنیاد فراہم کی اور انسانیت کو وحئ الٰہی کے شفاف اور خوش ذائقہ چشمۂ حیات کی طرف رہنمائی فرمائی۔

ملک کی عظیم دینی درسگاہ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ

مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

آپ حضرات کو بخوبی معلوم ہے کہ دینی مدارس اس وقت اسلام کے مضبوط قلعے اور مسلمانوں کے دینی تشخص کو برقرار رکھنے کا واحد مؤثر ذریعہ اور آخری پناہ گاہیں ہیں۔ آج پوری دنیا کی اسلام مخالف قوتیں دینی مدارس کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ حالانکہ ان مدارس میں قرآن و سنت اور دیگر علومِ اسلامیہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم کو اللہ تعالیٰ نے جہادِ کبیر سے تعبیر کیا ہے، اس سے کفر و شرک، بدعات و خرافات اور تمام برائیوں کے خلاف ہر وقت جہاد کیا جاتا ہے۔ گویا کہ اس کی تعلیم حاصل کرنا اور پھر اسے آگے دوسروں تک پھیلانا جہادِ اکبر ہے جو اِن دینی مدارس کے ذریعہ جاری و ساری ہے ۔
مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے دینی مدارس کی اہمیت کے متعلق فرمایا:
’’ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہی مدارس میں پڑھنے دو۔ اگر یہ مُلا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہو گا؟ جو کچھ ہو گا میں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔ اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہو گئے تو بالکل اسی طرح ہو گا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا۔ ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔‘‘
ان ہی دینی مدارس میں سے آپ کا مدرسہ نصرۃ العلوم بھی ہے جسے ۹۵۲ء میں ایک مردِ قلندر مفسرِ قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی مدظلہ العالی فاضل دارالعلوم دیوبند نے نہایت بے سروسامانی کی حالت میں اللہ رب العزت کی ذات پر توکل کرتے ہوئے موہن سنگھ نامی جوہڑ پر قائم فرمایا۔ آج پچاس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اہلیانِ گوجرانوالہ بخوبی جانتے ہیں کہ گزشتہ پچاس برسوں میں مدرسہ نصرۃ العلوم نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم، معاونین اور خیر خواہوں کی پُرخلوص دعاؤں اور تعاون سے اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق دینی خدمات سرانجام دی ہیں۔ جس کی بدولت اس وقت آپ کا یہ مدرسہ پاکستان کے درجہ اول کے مدارس کی صف میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے تعلیم یافتہ نہ صرف گوجرانوالہ اور پاکستان کے ہر علاقہ میں بلکہ دنیا کے کئی مختلف ممالک میں کتاب اللہ، سنتِ رسول اللہ اور دینی تعلیمات سے بنی نوع انسان کے قلوب کو منور کر رہے ہیں۔ جو یقیناً ایک صدقہ جاریہ ہے جس میں عامۃ المسلمین اور خصوصاً اہلیانِ گوجرانوالہ کا بھرپور حصہ ہے اور اس کا اجر و ثواب ان کو اخروی زندگی میں حاصل ہو گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اسی مناسبت سے رمضان المبارک کے موقع پر ہم ہر سال مدرسہ نصرۃ العلوم کے معاونین اور خیرخواہوں کی خدمت میں گزارش کیا کرتے ہیں کہ وہ اپنی حلال طیب کمائی میں سے مدرسہ کو فراموش نہ کریں اور حسبِ معمول اپنے پُرخلوص تعاون سے اس دینی کام کو رواں دواں رکھیں۔ اس کو مصر کے قومی شاعر احمد شوقی نے اس طرح کہا ہے ؎
فانصر بھمتک العلوم واھلھا
ان العلوم قلیلۃ الانصار
’’اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق علم اور اہلِ علم کی مدد کرو کیونکہ علوم کے مددگار لوگ دنیا میں کم ہی ہوتے ہیں۔‘‘
حضرت مجدد الف ثانیؒ کا قول بھی ہے:
’’دینی تعلیم میں پیسہ خرچ کرنا دیگر امور میں خرچ کرنے کی بنسبت دوہرا اجر پاتا ہے۔‘‘
اس لیے کہ ایک تو پیسہ مستحقین تک پہنچتا ہے اور دوسرا دینی تعلیم میں معاونت کا علیحدہ اجر و ثواب بھی حاصل ہوتا ہے۔ اس وقت وطنِ عزیز پاکستان شدید ترین معاشی، اقتصادی اور سیاسی زبوں حالی کا شکار ہے جس کے اثرات مہنگائی کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ بجلی اور سوئی گیس کے بھاری بھر کم بلز اور روزہ مرہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں ہوشربا زیادتی سے جہاں ایک عام آدمی متاثر ہوا ہے وہاں دینی مدارس کے بجٹ پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ایسے حالات میں قرآن و سنت کی تعلیمات کو جاری رکھنا جہاد ہی تو ہے، اور اس میں حصہ لینے والے خوش نصیب ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ ایسے حالات میں بھی نیکی کی توفیق دیتا ہے۔
مدرسہ نصرۃ العلوم میں اس وقت
لیکن فی الحال کئی اہم شعبہ جات وسائل کی کمی کے باعث التوا میں پڑے ہوئے ہیں جن کی اشد ضرورت ہے۔ مدرسہ نصرۃ العلوم چونکہ سرکاری گرانٹ حاصل نہیں کرتا اور اس کے بجٹ کا سارا دارومدار عوام الناس کے چندوں پر ہی منحصر ہے، اس لحاظ سے مدرسہ کا ماہانہ خرچ تقریباً چار لاکھ روپے ہے جو محض اللہ تعالیٰ کے کرم اور آپ حضرات کے پُرخلوص تعاون سے اب تک پورا ہوتا رہا ہے۔ لیکن چند ماہ قبل مدرسہ کی گاڑی کو حادثہ پیش آ جانے کی وجہ سے دو جانوں کے ضیاع کے ساتھ خاصا مالی نقصان بھی ہوا ہے جس کی وجہ سے مدرسہ زیربار ہے۔ اس لیے آپ حضرات سے پُرزور اپیل کی جاتی ہے کہ اپنے اموال زکوٰۃ و عشر، صدقات و خیرات، عطیہ، ہدیہ اور ماہانہ و سالانہ چندہ جات کی صورت میں مدرسہ کے ساتھ بھرپور تعاون فرمائیں اور کسی وقت فرصت نکال کر خود مدرسہ تشریف لا کر کام کا جائزہ لیں اور ضروریات دیکھیں۔ آپ کے تعاون سے صدقہ جاریہ کی صورت میں یہ دینی سلسلہ تا قیامِ قیامت جاری رہے گا اور ہم سب اس کے معاون و مددگار بن کر دنیا و آخرت میں سرخرو ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے جان و مال اور عزت و آبرو میں برکت نصیب فرمائے، آمین یا الٰہ العالمین۔

امریکی عورت کا المیہ

منو بھائی

نیویارک سے ہیوسٹن تک امریکہ کے چار بڑے شہروں میں ڈیڑھ ماہ سے زیادہ عرصہ قیام کے دوران سینکڑوں دوستوں، ہزاروں پاکستانیوں، ہندوستانیوں اور دیگر ایشیائی ملکوں کے محنت کشوں اور کاروباری لوگوں سے انفرادی اور اجتماعی ملاقاتوں، کم از کم ایک درجن بڑے جلسوں، ادبی محفلوں، مذاکروں میں شرکت، تین ٹیلی ویژن پروگراموں اور تین ریڈیو انٹرویوز میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کرنے اور یہاں کی شان و شوکت، گہماگہی اور رونق دیکھنے کے علاوہ میں نے امریکی معاشرے کے بعض انتہائی گھناؤنے پہلو بھی دیکھے ہیں۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا ؎
یاد ہے سیر چراغاں ناصر
دل کے بجھنے کا سبب یاد نہیں
مگر میں نے یہاں جو کچھ بھی دیکھا ہے اس میں سب سے نمایاں یہاں کی عورت کی حالتِ زار ہے اور مجھے سب سے زیادہ ترس بھی یہاں کی عورت پر ہی آیا ہے۔ میرے خیال میں سرمایہ دارانہ نظام اور منڈی کی معیشت یعنی معیشت بازار میں سب سے زیادہ اور سب سے سستے داموں فروخت ہونے والا ’’مال‘‘ عورت ہے اور سب سے زیادہ استحصال کا نشانہ بننے والی بھی عورت ہے۔
میرے اس خیال سے یہاں کے صوفی مشتاق، جوہر میر، منظور اعجاز اور افتخار نسیم جیسے دانشور دوستوں کو بھی اتفاق ہے کہ امریکہ میں کتوں اور بلیوں کا عورتوں سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ موٹر کاروں کے پہیوں اور انجنوں پر عورتوں سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ میرے ان دانشوروں کا یہ خیال بھی صحیح معلوم ہوتا ہے کہ بازاری معیشت کا نظامِ سرمایہ داری اگر اسٹاک مارکیٹ کے کریش کر جانے کے صدمے سے بچ بھی گیا تو عورت کی بے حرمتی کے ہاتھوں مارا جائے گا۔
یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ میں کوئی نیکوکار نہیں اور اخلاقیات کا علمبردار بننا بھی مجھے زیب نہیں دیتا، مگر انسان اور حیوان میں تمیز رکھتا ہوں اور یہاں امریکہ کے بڑے شہروں میں یعنی بڑی منڈیوں اور بازاروں میں، سڑکوں، پارکوں، ٹیوب اسٹیشنوں، دفتروں، نائٹ کلبوں، ہوٹلوں کے کمروں، لابیوں اور گھروں میں اچھے بھلے انسانوں کو حیوانوں میں تبدیل ہوتے دیکھ کر دکھی ہوتا ہوں۔ اور یہ سن کر بھی تکلیف ہوتی ہے کہ عورتوں کے لیے وہی الفاظ استعمال ہوتے ہیں جو کتوں اور بلیوں کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
دنیا کی پندرہ بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشنیں محض عورتوں کی آرائش و زیبائش کا سامان تیار کر کے اربوں ڈالر کماتی ہیں، مگر ان کی مصنوعات سے عورتوں کی صحت پر کوئی اچھا اثر نہیں پڑتا۔ یہ تمام مصنوعات لباس سے زیبائش اور میک اپ تک مردوں کے دل لبھانے کے لیے ہوتی ہیں، عورتوں کو دیدہ زیب بنانے اور انہیں بازار میں بٹھانے کے لیے ہوتی ہیں۔
یہ لکھتے وقت محسوس ہوتا ہے کہ بہت سی نیک دل خواتین کو میری یہ باتیں اچھی نہیں لگ رہی ہوں گی لیکن اگر انہوں نے نیویارک، واشنگٹن، لاس ویگاس اور ہیوسٹن کے نائٹ کلبوں میں، اسکولوں اور کالجوں کی طالبات اور دیگر ضرورتمند لڑکیوں کو تمام کپڑے اتار کر ناچتے تھرکتے اور بازی گری کے انتہائی بے ہودہ مظاہرے کرتے اور انتہائی مکروہ قسم کے لوگوں کی آغوشوں میں لوٹ پوٹ ہو کر بیلیں وصول کرتے دیکھا ہو تو ان کی آنکھیں بھیگ جائیں گی، یا پومیائی کا زلزلہ یاد آ جائے گا، یا طوفانِ نوح کا سبب بنے والی بارش امڈتی دکھائی دے گی۔ 
امریکی معاشرے میں مردانگی کا مضحکہ خیز گھمنڈ یورپ کے معاشروں سے بھی زیادہ ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی کمزوری بھی ہے۔ امریکی آئین، قوانین اور اقدار میں انسانی حقوق کی پاسداری کے بہت تذکرے ہیں مگر یہ تذکرے امریکی معیشت کی طرح کھوکھلے، بے جان اور بے روح ہیں۔ امریکہ میں عورت کی بے حرمتی کی وجہ سے خاندانوں کی طرح ازدواجی زندگی بھی وفات پا چکی ہے۔ بازاری معیشت نے یہاں کی اخلاقی قدروں کا بھی دیوالیہ نکال دیا ہے۔ اخلاقی افلاس سے جو قحط جنم لیتا ہے وہ تمام قحطوں سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے، امریکہ اس قحط سے دوچار ہو چکا ہے۔
(بشکریہ جنگ)

عالمی منظر نامہ

ادارہ

پاکستان کو ایک کے بدلے گیارہ ڈالر واپس کرنا پڑتے ہیں

لاہور (نمائندہ جنگ) پاکستان کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے جو قرضے ملتے ہیں ان کے ایک ڈالر کے گیارہ ڈالر واپس کرنا پڑتے ہیں۔ تمام غریب ممالک میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو قرضے واپس نہ کرنے کے بارے میں بحث زور و شور سے جاری ہے اور عنقریب یہ تحریک کی شکل اختیار کر لے گی۔
یہ باتیں آسٹریلیا کی ڈیموکریٹک سوشل پارٹی کی رہنما مس سوبل اور مزدور رہنما ٹم گڈن نے لاہور پریس کلب کے پروگرام ’’میٹ دی پریس‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کیں۔ انہوں نے کہا کہ قرضوں سے فرسٹ ورلڈ کے ممالک میں امیری اور تھرڈ ورلڈ کے ممالک میں غربت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا، دنیا سے غربت کے خاتمے کا حل ’’کیپٹل ازم‘‘ کا خاتمہ ہے۔ آسٹریلوی رہنماؤں نے کہا کہ ورلڈ ٹرڈ آرگنائزیشن اور آئی ایم ایف امیر ممالک کو مزید امید بنانے کے ادارے ہیں۔ غریب ممالک کے عوام میں ان اداروں کی بالادستی کے بارے میں شعور بڑھ رہا ہے۔ امیر ممالک اس نئی تحریک سے لرزاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈبلیو ٹی او کو اپنے اجلاس کے لیے جگہ نہیں مل رہی۔ مس سوبل اور ٹم گڈن نے کہا کہ پاکستان کے ذمے ۳۳ ارب ڈالر کا قرضہ ہے اور اسے ایک ڈالر کے بدلے میں گیارہ ڈالر ادا کرنا ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود آئی ایم ایف دباؤ ڈال رہا ہے کہ منافع بخش سرکاری ادارے، تیل، گیس، ایئرپورٹس، ٹیلی کمیونیکیشن وغیرہ فروخت کیے جائیں جس سے بے روزگاری پھیلے گی۔ (روزنامہ جنگ، کراچی ۔ ۲۰ نومبر ۲۰۰۰ء)

چرچ آف انگلینڈ کے بارے میں ایک رپورٹ

لندن (جنگ نیوز) ایک بشپ نے کہا ہے کہ چرچ آف انگلینڈ بحیثیت ادارہ نسل پرست ہے اور اس کے نسلی اقلیتی ارکان یکہ و تنہا اور الگ تھلگ ہیں۔ سنڈے انڈیپنڈنٹ کے مطابق آرچ بشپ آف کنٹر بری ڈاکٹر جارج کیری کو اس ہفتے ایک رپورٹ پیش کی جائے گی جو معروف سیاہ فام بشپ آف سٹپنی ڈاکٹر جان سنٹامو نے لکھی ہے۔ سنٹامو اسٹیون لارنس انکوائری کے رکن تھے اور جب اس کی رپورٹ شائع ہوئی تو انہوں نے آرچ بشپ کو بتایا کہ چرچ آف انگلینڈ ابھی تک معاشرتی اعتبار سے یک رنگ ثقافت کے ذریعے باہم مربوط ہے یعنی سفید فام کلچر۔ نئی رپورٹ بڑی تشویش کا سبب ہو گی۔ اس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نسلی اقلیتی برادریوں کی بہت کم تعداد چرچ آف انگلینڈ اٹینڈ کرتی ہے۔ رپورٹ میں چرچ کے طور طریقوں کو منجمد بتایا گیا ہے جہاں سیاہ فاموں کو مخصوص بندھے ٹکے انداز میں دیکھا جاتا ہے۔ برطانیہ کے بیشتر پیرش گرجاؤں میں اتوار کو فقط ایک فیصد سیاہ فام یا ایشیائی لوگ موجود ہوتے ہیں، جبکہ دوسرے چرچز خصوصاً ایونجیکل گرجاگھروں میں اقلیتی عبادت گزاروں کی بڑی تعداد ہوتی ہے۔ (روزنامہ جنگ لندن ۔ ۱۳ نومبر ۲۰۰۰ء)

ترکی میں اسلامی اقدار کی پامالی

لندن (سٹاف رپورٹر) سکارف اتارنے سے انکار پر پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم کی جانے والی نوجوان ترک خاتون ماروکاروچ نے کہا ہے کہ ترکیہ کی حکومت مذہبی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔ یہ خلاف ورزیاں ایسے وقت میں کی جا رہی ہیں جب ترکی نے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں اور وہ یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔
ہاؤس آف لارڈز (برطانیہ) کے موزز روم میں اپنے اعزاز میں لارڈ احمد کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ماروکاروچ نے کہا، حکومت نے مذہب پر عمل کرنے کی پاداش میں ۱۹۹۷ء اور ۲۰۰۰ء کے درمیان ۲۳ ہزار اساتذہ کو ملازمت سے فارغ کر دیا ہے، جبکہ سکارف پہننے پر ۳۳ ہزار سے زیادہ طالبات کو سکول سے خارج کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب جدید مغربی ملک میں، جو خود کو جمہوری کہتا ہے، ہو رہا ہے۔
ماروکاروچ نے کہا کہ مغربی ملک انسانی حقوق کے بارے میں دوہرا معیار اختیار کیے ہوئے ہیں، وہ افغانستان میں طالبان حکومت کی اس لیے مذمت کرتے ہیں کہ وہاں عورتوں کے حقوق مجروح کیے جا رہے ہیں، لیکن ان کی ناک کے نیچے ترکی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہے۔ ماروکاروچ نے سامعین کو اپنے مذہبی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی تفصیلات بھی بتائیں اور کہا کہ وہ مسلمان ہیں، ۱۹۸۶ء میں وہ امریکن سکول میں تھیں اور حجاب پہننے پر سکول سے نکال دی گئیں۔ انہوں نے امریکہ جا کر تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۹۹ء میں ان کی ویلفیئر پارٹی نے انہیں پارلیمانی امیدوار نامزد کیا۔ کل ۱۷ خواتین امیدوار تھیں جن میں بعض سکارف استعمال کرتی اور بعض نہیں کرتی تھیں۔ تین پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوئیں۔ انہوں نے کہ وہ الیکشن کمیشن میں سکارف پہن کر پیش ہوئیں، کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا۔ جب رکن منتخب ہوئیں تو حلف کے لیے بلایا گیا، حلف کے وقت صدر بھی موجود تھے، ان سے سکارف اتارنے کو کہا گیا لیکن انکار پر ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع ہو گئیں۔ دہشت گردی میں مدد دینے، ایجنٹ ہونے اور کئی دوسرے کیسز بنائے گئے۔ والدین کو ہراساں کیا گیا اور میڈیا کے چار بڑے مفاد پرست گروپوں کی طرف سے کردار کشی کروائی گئی۔ ترک شہریت ختم کر دی جو انہوں نے شادی کر کے دوبارہ حاصل کی۔
انہوں نے کہا کہ سکارف پہننا ان کا اپنا فیصلہ ہے۔ آئین میں سکارف نہ پہننے کی کوئی پابندی نہیں۔ انہوں نے مذہبی بنیادوں پر امتیاز کی متعدد دوسری مثالیں بھی دیں اور کہا کہ یہ سب کچھ ایک چھوٹا سا حکمران طبقہ کر رہا ہے جو عوام کے ووٹوں سے منتخب نہیں ہوتا، انہوں نے مذہب کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہب اور ثقافت کو خطرہ کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے اور ایک روز جیت کر رہیں گی۔ 
لارڈ احمد نے ماروکاروچ کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ انہوں نے آزادئ اظہارِ رائے اور آزادئ مذہب کے لیے برطانوی پارلیمنٹ میں پرائیویٹ ممبرز بل پیش کر رکھا ہے جسے تمام جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ حجاب کا اشو بنیادی حقوق میں آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں مذہبی حقوق اور عبادت کے حقوق پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ حجاب انسانی حقوق کا اشو ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی میں ۹۸ فیصد مسلمان ہیں، عورتیں سڑکوں پر حجاب استعمال کر سکتی ہیں لیکن پارلیمنٹ یا سرکاری دفتر میں اس کی اجازت نہیں۔ دو فیصد آبادی ۹۸ فیصد کو کس انداز میں کنٹرول کر رہی ہے۔
لارڈ ایوبری نے کہا کہ انسانی حقوق یورپ کنونشن کا حصہ ہے اور اگر ترکی یورپی یونین کا ممبر بننا چاہتا ہے تو اسے انسانی حقوق کی پاسداری کرنا پڑے گی۔ انہوں نے ماروکاروچ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنا کیس انٹر پارلیمانی یونین میں اٹھائیں۔ یوکے کے ارکان ان کی جانب سے اس مسئلہ کو آگے بڑھائیں گے۔
بیرونس وتیکر نے کہا کہ یورپی یونین کے حالیہ معاہدہ کے تحت ملازمتوں میں مذہبی یا دوسرے امتیاز غیر قانونی قرار دیے گئے۔ اور وہ اس حق میں ہیں کہ حکومت ایسا قانون پاس کرے جس کے تحت مذہبی بنیادوں پر امتیاز کی پابندی عائد کی جائے۔ (روزنامہ جنگ، لندن ۴ نومبر ۲۰۰۰ء)

امریکہ اور طالبان

واشنگٹن (این این آئی) امریکہ کے نائب وزیرخارجہ ٹامس پکرنگ نے کہا ہے کہ اگر طالبان امریکہ کو لاحق خدشات اور تشویش کا ازالہ کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں تو نہ صرف امریکی بلکہ عالمی برادری بھی ان کی ہر ممکن مدد کرے گی۔ وائس آف کو انٹرویو میں ٹامس پکرنگ نے کہا کہ پاکستان کو خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ آیا ایسی حکومت کی حمایت کرنی چاہیے جو دہشت گردی کی پشت پناہی اور منشیات کی پیداوار میں اضافہ کر رہی ہو اور ملکی استحکام اور مذاکرات کی خواہشمند نہ ہو۔
افغانستان میں براہ راست فوجی مداخلت کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمیں اور روس کو اس قسم کی بعض اطلاعات موصول ہوئی ہیں اور ہم نے اس مسئلے کو پاکستان کے سامنے اٹھایا ہے، جبکہ پاکستان نے اس قسم کے دعووں کی سخت تردید کی ہے۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ یہ اطلاعات درست ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے پاکستان کے تعلقات ان کے لیے خود مسئلہ ہیں، لیکن پھر بھی پاکستان میں موجود درسگاہوں میں طالبان کو تربیت دی جاتی ہے اور یہ طالبان پاکستان کے اندر کئی مسائل بھی پیدا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ متعدد اسلامی ملکوں میں رہ چکے ہیں جن میں عوام اس تناظر میں طالبان کی پالیسیوں سے مختلف زندگی بسر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اسلام کا مخالف نہیں ہے اور امریکہ میں اسلام بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اگر ہم اسلام کے خلاف ہوتے تو یہاں اسلام فروغ نہیں پاتا۔ انہوں نے کہا کہ منشیات صرف اسلام میں منع ہے تو ہم چاہتے ہیں کہ اس کی پیداوار ختم ہونی چاہیے اور اقوام متحدہ سے اس کے متبادل تعاون لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں اقوامِ متحدہ سے امداد وصول کی گئی لیکن افیون کی کاشت کو نہیں روکا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلے کے حل کے لیے امریکہ لویہ جرگہ سمیت ان تمام گروپوں کی حمایت کرتا ہے جو مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلہ کا حل ڈھونڈنا چاہتے ہیں۔ ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت افغانستان بعض چیزیں درآمد کر رہا ہے جو ضروریات کو پورا نہیں کر رہیں۔ اور یہی چیزیں پاکستان میں اسمگل ہو جاتی ہیں جس سے ان کی معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے تاہم اس کے باوجود پاکستان کی حمایت کر رہا ہے۔ (روزنامہ جنگ لندن ۴ نومبر ۲۰۰۰ء)

جمائما عمران اور یہودی پریس

لندن (جنگ نیوز) تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی اہلیہ جمائما کو اپنے ایک آرٹیکل کے باعث شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس میں انہوں نے مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے اسرائیل اور امریکہ پر کڑی تنقید کی تھی۔ برطانوی اخبار سنڈے ٹیلی گراف کے مطابق گولڈ سمتھ کے خاندانی وکیل تک نے جمائما کی نمائندگی کرنے سے انکار کر دیا۔ مسٹر سمپسن نے اپنے خط میں جمائما پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ گولڈ سمتھ کا صحیح مطلب تک سمجھنے سے قاصر ہیں۔
جمائما نے برطانوی اخبار گارجین میں اپنے آرٹیکل میں لکھا تھا کہ امریکہ میں ذرائع ابلاغ پر اسرائیلی لابی کا قبضہ ہے اور کلنٹن کی انتظامیہ میں بھی تقریباً تمام عہدے ایسے ہی لوگوں کے پاس ہیں، جبکہ مشرقِ وسطیٰ میں امن اسی صورت میں قائم ہو سکتا ہے جب امریکہ ایک غیر جانبدارانہ ثالث کا کردار ادا کرے اور ذرائع ابلاغ بھی جانبداری سے گریز کریں۔
مسٹر سمپسن کا موقف ہے کہ یہودی پس منظر رکھنے والے افراد کو ایسے معاملات پر اظہارِ خیال نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جمائما کی وفاداریاں منقسم ہیں لہٰذا انہیں خاموش ہی رہنا چاہیے۔
تاہم جمائما نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میرے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں، ماضی میں بھی دھمکی آمیز خطوط موصول ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں یہودی مخالف نہیں ہوں کیونکہ میرے خاندان کے بیشتر افراد اس عقیدے سے متعلق ہیں۔ جمائما نے بتایا کہ بی بی سی نے اس آرٹیکل پر ٹاک شو میں شرکت کی دعوت دی تھی تاہم عمران نے مجھے روک دیا۔ (روزنامہ جنگ، لندن ۱۳ نومبر ۲۰۰۰ء)

سندھو دیش کے لیے امریکہ سے مدد کی درخواست

جئے سندھ قومی محاذ سمیت متعدد قوم پرست جماعتوں نے سندھ کی علیحدگی اور سندھو دیش کے قیام کے لیے اقوامِ متحدہ اور امریکہ سے مدد طلب کر لی ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق ایک حساس ادارے نے حکومت کو حالیہ تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ حال ہی میں جسقم نے ایک طویل ترین برقیہ میں اقوامِ متحدہ اور امریکہ کو لکھا ہے کہ پاکستان اس وقت کرپشن اور بداَمنی کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔ یہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے تحت صوبے کے عوام کے حقوق غصب کر کے بنیاد پرستوں کی سرپرستی کے ذریعے مسلسل خطرہ ہے۔ علاوہ ازیں سندھ کی علیحدگی کے لیے سندھی عوام میں پوسٹرز اور ہینڈ بل تقسیم کرنے کے لیے تیار کر لیے گئے ہیں۔ امن و امان کو متاثر کرنے کی کوشش جاری ہے جس کی بنیاد پر سندھ میں کسی بڑے بحران اور خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔ (ہفت روزہ نوائے وقت اسکاٹ لینڈ ۳ تا ۹ نومبر ۲۰۰۰ء)

۷۲ فیصد امریکی مسلمانوں نے بش کو ووٹ دیا، سروے رپورٹ

واشنگٹن (نمائندہ جنگ) امریکہ میں مسلمانوں کی ۷۲ فیصد تعداد نے ریپبلکن صدارتی امیدوار جارج بش کو ووٹ دیا۔ مسلمان امریکی ووٹروں کے سروے کے نتائج کے مطابق ۷۲ فیصد نے ووٹ دینے کا اقرار کیا۔ یاد رہے کہ امریکی مسلمانوں کی تنظیم نے جارج بش کو ووٹ دینے پر زور دیا تھا۔ ۹۴ فیصد مسلمان ووٹروں نے کہا کہ وہ اس حمایت سے واقف تھے۔ اس سروے میں شامل ووٹروں میں ۶۱ فیصد مرد تھے اور ان کی عمر ۳۹ یا اس سے کم تھی۔ امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد ۶ ملین بتائی جاتی ہے۔ (روزنامہ جنگ لندن ۱۹ نومبر ۲۰۰۰ء)

بھارتی مسلمانوں کی صورتحال

نئی دہلی (این این آئی) بھارت کے سرکردہ مسلمان نمائندوں اور بھارت کے سیاسی رہنماؤں و دانشوروں نے مسلمانوں کی ابتر حالت کی ذمہ داری کانگریس اور بی جے پی پر عائد کی ہے۔
بھارتی سیاست میں مسلمانوں کے مستقبل کے موضوع پر نئی دہلی میں منعقدہ سیمینار میں بھارت کے دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں نے کہا، یہ تشویش کی بات ہے اور بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کی نمائندگی پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں کم ہوتی جا رہی ہے۔ انتخابات میں مسلم رائے دہندگان کے ووٹوں کا تناسب بھی تیزی سے کم ہو رہا ہے جو ۳۵ فیصد تک نیچے آ گیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمان بھارت کے سیاسی نظام پر مکمل عدمِ اعتماد کر رہے ہیں۔
سماج وادی پارٹی کے صدر ملائم سنگھ یادیو نے کانگریس پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا، کانگریس نے اپنے طویل دورِ اقتدار میں نام نہاد سیکولرازم پر عمل کیا جس سے بی جے پی جیسی ہندو انتہاپسند جماعت کو فائدہ پہنچا۔
صحافی جاوید اختر نے کہا کہ کانگریس کے دعوے اس کے عملی کردار سے مطابقت نہیں رکھتے۔ کانگریس سمیت کسی بھی جماعت نے مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے پر توجہ نہیں دی بلکہ مسلمانوں کو جان بوجھ کر ہر شعبہ زندگی میں پیچھے رکھا گیا۔ روزگار، خواندگی، سرکاری و نجی ملازمتوں اور سیاسی نمائندگی کے معاملات میں مسلمانوں کے حقوق غصب کیے گئے۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف بھارتی حکومتوں کی مخالفانہ کاروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کی صورتحال کے بارے میں ۱۹۸۰ء کے گوپال کمیشن کی رپورٹ آج تک پارلیمنٹ میں پیش نہیں کی گئی جس میں مسلمانوں کی حالت شودروں (اچھوتوں) جیسی بیان کی گئی ہے۔ سیمینار سے صحافی شاہد صدیقی، مولانا انوار الحق قاسمی، مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما سیتارام جیسوری اور ممتاز صحافی کلدیپ نیر نے بھی خطاب کیا۔ مقررین نے کہا کہ حالیہ برسوں میں بھارت کے تمام شعبوں میں مسلمانوں کی شراکت کم ہو رہی ہے اور اس صورتحال سے بھارت میں بسنے والے مسلمان اپنے حقوق کے لیے الگ راستہ اپنانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ مقررین نے کہا کہ بھارتی حکومتوں کو مسلمانوں کے ساتھ مخاصمانہ اور غیر مساویانہ سلوک ترک کر دینا چاہیے اور انہیں تمام شعبوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی اور ملازمتیں دی جانی چاہئیں تاکہ وہ بھارت کی ترقی میں بھرپور حصہ لے سکیں۔ (روزنامہ جنگ لندن ۱۹ نومبر ۲۰۰۰ء)

عائلی قوانین میں ترمیم کے بل پر عیسائی تنظیموں کا احتجاج

نئی دہلی (جنگ نیوز) بھارت کی عیسائی تنظیموں نے بھارتی حکومت کی مرکزی کابینہ کی طرف سے عیسائیوں کے لیے طلاق کے قوانین میں تبدیلی پر شدید تنقید کی ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بھارتی کابینہ نے جمعرات کو عیسائی مرد یا خواتین کی طرف سے طلاق حاصل کرنے کے قانون میں ترمیمی بل ۲۰۰۰ء پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کیتھولک بشپس کانفرنس آف انڈیا کے ترجمان ڈومینک امپانوئل نے کہا کہ حکومت بھارت کے ۸۷ فیصد عیسائیوں کی ترجمان تنظیم کی منظوری کے بغیر کس طرح ترمیم کا فیصلہ کر سکتی ہے؟ (روزنامہ جنگ لندن ۱۹ نومبر ۲۰۰۰ء)

تعارف کتب

ادارہ

ڈاکٹر مراد ولفورڈ ہوف مین کے خطبات

ڈاکٹر مراد ولفورڈ ہوف مین معروف جرمن دانشور ہیں جو جرمن وزارتِ خارجہ کے اہم عہدوں کے علاوہ نیٹو کے ڈائریکٹر انفارمیشن اور مراکش میں جرمنی کے سفیر کے منصب پر بھی فائز رہے ہیں۔ اور اسلام قبول کرنے کے بعد مغرب میں اسلام کے تعارف، اور اسلام اور مغرب کے درمیان موجودہ عالمی تہذیبی کشمکش کے حوالہ سے مسلسل اظہار خیال کر رہے ہیں۔ انہوں نے سالِ رواں کے دوسرے ماہ میں انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کی دعوت پر کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں انہی عنوانات پر چار لیکچر ارشاد فرمائے جن کا اردو ترجمہ انسٹیٹیوٹ آف پالیس اسٹڈیز نے اپنے سہ ماہی جریدہ ’’مغرب اور اسلام‘‘ کی خصوصی اشاعت میں شائع کر دیا ہے۔ یہ خطبات مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی دینی و تہذیبی صورتحال اور مغرب اور عالمِ اسلام کی ثقافتی کشمکش کے تاریخی و معروضی پس منظر کو سمجھنے کے لیے بہت مفید ہیں اور دینی تحریکات کے کارکنوں کو ان کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس شمارہ کی قیمت پینسٹھ روپے ہے اور بک ٹریڈرز بلاک ۱۹ مرکز ایف سیون اسلام آباد سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

چند نئے نصابی کتابچے

مولانا محمد اکرم ندوی ہمارے فاضل دوست ہیں، آکسفورڈ میں مقیم ہیں اور آکسفورڈ فار اسلامک اسٹڈیز میں علمی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے آج کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے دینی مدارس کے نصاب میں شامل کرنے کے لیے مختلف علوم و فنون میں بنیادی رسائل مرتب کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جو خاصا مفید اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اب تک مندرجہ ذیل کتابچے شائع ہوئے ہیں:
(۱) مبادی فی اصول التفسیر
(۲) مبادی فی اصول الحدیث والاسناد
(۳) مبادی فی علم اصول الفقہ
(۴) مبادی التصریف
(۵) مبادی النحو
ان رسائل میں مذکورہ علوم کے مختصر تعارف کے ساتھ ان کے ضروری مباحث کو ابتدائی درجہ کے طلبہ کے لیے عربی میں آسان انداز میں مرتب کیا گیا ہے۔ اور ہمارے خیال میں ان علوم میں بڑی کتابوں سے قبل ان کتابچوں کی تدریس طلبہ کو ذہنی طور پر ان علوم و فنون کے لیے تیار کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی استعداد میں اضافہ کا باعث بھی ہوں گے۔ اس لیے دینی مدارس کو ان سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔ ان رسائل کے حصول کے لیے مولانا محمد اکرم ندوی سے مندرجہ ذیل ایڈریس پر رابطہ کیا جا سکتا ہے:
34 Cranley Road Headington, Oxford, OX3 8BW, (UK)

جوابِ مقالہ

ایک مجلس میں تین طلاقوں کے واقع ہونے کے بارے میں جمہور فقہاء اور سلفی حضرات کے درمیان مناقشہ صدیوں سے جاری ہے۔ چاروں فقہی مذاہب کے جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ صراحتاً تین طلاقیں دینے سے تین ہی واقع ہوتی ہیں، مگر شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور ان کے پیروکاروں کا موقف تین طلاقوں کی صراحت میں بھی ایک طلاق واقع ہونے کا ہے۔
اس سلسلہ میں گوجرانوالہ کے اہلِ حدیث عالمِ دین مولانا محمد امین نے ’’مقالہ‘‘ کے عنوان سے اپنے دلائل پیش کیے ہیں اور جمہور فقہاء کے موقف کی تغلیط کے لیے دلائل دیے ہیں۔ جس کے جواب میں مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے استاذِ حدیث مولانا حافظ عبد القدوس قارن نے ’’جوابِ مقالہ‘‘ کے عنوان سے ان کے دلائل کا جواب دیا ہے اور جمہور فقہاء کے موقف کو قرآن و سنت اور ائمہ عظام کی تصریحات کے ساتھ واضح کیا ہے۔ ۱۷۲ صفحات پر مشتمل اس کتابچہ کی قیمت ۳۵ روپے ہے اور اسے عمر اکادمی نزد گھنٹہ گھر گوجرانوالہ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ

حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ اپنے دور کے عظیم مجاہد اور عارف باللہ تھے جنہوں نے سلوک و احسان کی مسند آباد کرنے کے ساتھ ساتھ فرنگی استعمار کے خلاف جہاد میں بھی حصہ لیا اور ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد ہجرت کر کے مکہ مکرمہ چلے گئے۔ حضرت حاجی صاحبؒ کو علماء دیوبند کے سب سے بڑے روحانی بزرگ اور پیشوا کا درجہ حاصل ہے اور علماء دیوبند سے ہٹ کر اس دور کے دیگر بڑے بڑے علماء اور مشائخ بھی حضرت حاجی صاحبؒ کے ساتھ تعلقِ ارادت رکھتے تھے۔
ہمارے فاضل دوست حافظ محمد اقبال رنگونیؒ نے حضرت حاجی صاحبؒ کے حالات اور ارشادات و فرمودات کے حوالہ سے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے مواعظ اور تحریرات میں سے ایک جامع اور خوبصورت انتخاب زیرنظر کتابچہ میں پیش کیا ہے۔ ۱۳۶ صفحات کے اس کتابچہ کی قیمت دو برطانوی پونڈ ہے اور اسے مندرجہ ذیل پتہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے:
Islamic Academy, 19 Chorltonterrece, Off Upper Brook Street, Manchester 13, (UK)

صحت اور جدید ریسرچ

حاصل پور کے جناب محمد زاہد راشدی نے انتہائی عرق ریزی اور محنت کے ساتھ اس موضوع پر معلومات کا ایک بیش بہا ذخیرہ جمع کر دیا ہے کہ اسلامی عبادات، تعلیمات اور اخلاقی اقدار میں انسان کی ذہنی، جسمانی اور روحانی امراض کا مؤثر علاج پوشیدہ ہے، اور اسلام ایسا دینِ فطرت ہے جس کے احکام و تعلیمات پر صدقِ دل سے عمل کر کے انسان نہ صرف اخروی نجات سے بہرہ ور ہوتا ہے بلکہ اس دنیا میں بھی ذہنی پریشانیوں، جسمانی بیماریوں اور اخلاقی ناہمواریوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے، اور انسانی معاشرہ کے پاس اپنے مسائل و مشکلات کے حل کے لیے اسلام کی ان فطری تعلیمات کی طرف واپسی کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ سوا چار سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب دارالمطالعہ بالمقابل جامع مسجد بازار والی حاصل پور ضلع بہاولپور نے عمدہ کتابت و طباعت اور خوبصورت جلد کے ساتھ پیش کی ہے اور اس کی قیمت ایک سو ساٹھ روپے ہے۔

قادیانیت پر دو معلوماتی کتابیں

جناب محمد طارق رزاق جس تندہی اور جوش و جذبہ کے ساتھ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیت کے تعاقب کے محاذ پر سرگرم عمل ہیں وہ بلاشبہ لائقِ رشک ہے۔ اور بعض مضامین و رسائل کی زبان اور اسلوب میں بے جا تندی و تلخی کے احساس کے باوجود ان کی مسلسل محنت پر ان کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔ اس وقت ہمارے سامنے ان کی دو نئی کتابیں ہیں۔
ایک میں ’’جنہیں ختمِ نبوت سے عشق تھا‘‘ کے عنوان سے انہوں نے عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ کے لیے کام کام کرنے والے مشائخ، علماء اور کارکنوں کے اس مشن کے ساتھ جذب و کیف کے واقعات کو جمع کیا ہے۔ اور دوسری کتاب میں ’’قادیانی غداروں کی تلاش‘‘ کے عنوان سے انہوں نے اسلام اور پاکستان کے خلاف مختلف مواقع پر قادیانی حضرات کی سازشوں کے بارے میں مفید معلومات کو یکجا کیا ہے۔ دونوں کتابوں کے صفحات دو سو سے زائد ہیں اور طباعت و کتابت نیز جلد معیاری ہے اور دونوں کی قیمت ۹۰، ۹۰ روپے ہے جو عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت، حضوری باغ روڈ، ملتان سے طلب کی جا سکتی ہیں۔

پاکستان میں ہر فرد پچیس ہزار روپے کا مقروض ہے

ادارہ

کراچی (نیشن نیوز) پاکستان کے ذمہ یکم جون ۲۰۰۰ء کو غیر ملکی قرضے کا بوجھ ۳۷.۳۰۴ بلین ڈالر (۳۷ ارب ۳۰ کروڑ ۴۰ لاکھ ڈالر) تھا۔ یہ بات اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کی ۱۴ کروڑ آبادی کا ہر بالغ فرد اوسطاً ۲۶۶ ڈالر سے زائد غیر ملکی رقم کا مقروض ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی حکومت پر اندرون ملک قرضے کا بوجھ بھی ۱۵۵۸.۸ بلین روپے (تقریباً ۵۵۹ ارب روپے) ہے جو پاکستان کے ہر فرد پر ۱۱۱۳۴ روپے کے قرضہ کے مساوی ہے۔
اسی طرح قرضوں کا بوجھ پاکستان کی مجموعی سالانہ پیداوار کے ۹۷.۵ فیصد کے برابر ہے جو کسی بھی آزاد ملک کے لیے باعثِ افتخار نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملکی قرضے مجموعی قومی پیداوار کا ۴۹.۱ فیصد اور غیر ملکی قرضے ۴۸.۴ فیصد کے مساوی ہے۔
رواں سال میں پاکستان کے روپے کی قیمت بتدریج اور مسلسل کمی کے سبب پاکستان پر غیر ملکی قرضے کا بوجھ بڑھتا گیا ہے جبکہ ملکی قرضے میں بھی رپورٹ کے مطابق غیر صحتمندانہ اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کو ان بھاری قرضوں پر سود کی بھی بھاری رقوم ادا کرنا پڑتی ہیں۔
چنانچہ ۳۰ جون کو ختم ہونے والے سال میں اس مد میں ۳۳۸.۲ بلین روپے ادا کیے گئے جو پاکستان کی آبادی کے اعتبار سے اوسطاً فی کس ۲۴۱۶ روپے کے مساوی ہے۔ ان میں سے ۱۴۸.۱ بلین روپے غیر ملکی مد میں اور ۱۸۹.۶ بلین روپے ملکی قرضوں کی مد میں ادا کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق غیر ممالک میں مقیم پاکستانی وطن کو جو رقوم بھیجتے ہیں ان میں گزشتہ پانچ سال سے مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ اب یہ مجموعی طور پر صرف ۹۱۳.۵ ملین ڈالر (۹۱ کروڑ) رہ گئی۔ ۱۹۹۶ء میں یہ رقم ۱۲۲۷.۵ ملین ڈالر (۱۲۳ کروڑ) تھی۔
اس دوران پاکستان کو سعودی عرب سے جو تعاون حاصل ہوا تو اس کی وجہ سے پاکستان کو ۸۰۰ ملین ڈالر کی قوم ادا کرنے میں بچت ہوئی۔ سعودی عرب کے تعاون کی شکل یہ تھی کہ اس نے تیل کی قیمت کی وصولی مؤخر کر دی تھی۔
ایک اور تشویشناک بات امریکہ اور برطانیہ میں موجود اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلِ زر میں کمی کا رجحان ہے۔ ان ممالک میں ہنڈی سسٹم متوازی طور پر ترسیلِ زر کا کام کر رہا ہے۔ مگر ان ممالک میں ہنڈی سسٹم چلانے والوں کو دیے جانے والے کی شرح خلیجی ممالک سے کہیں کم ہے۔
(ہفت روزہ نیشن، لندن ۔ ۱۰ تا ۱۷ نومبر ۲۰۰۰ء)

ورلڈ اسلامک فورم کا سالانہ اجلاس

ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کی مرکزی کونسل کا سالانہ اجلاس ۸ نومبر ۲۰۰۰ء کو جامعہ الہدیٰ نوٹنگھم برطانیہ میں مولانا محمد عیسیٰ منصوری کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں دیگر ارکان کے علاوہ مولانا زاہد الراشدی نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں ورلڈ اسلامک فورم کی سرگرمیوں کو ازسرنو منظم اور تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور آئندہ دو سال کے لیے فورم کے مندرجہ ذیل تنظیمی ڈھانچے کی منظوری دی گئی:
چیئرمین: مولانا محمد عیسٰی منصوری، لندن
ڈپٹی چیئرمین: مولانا مفتی برکت اللہ، لندن
سیکرٹری جنرل: مولانا رضاء الحق سیاکھوی، نوٹنگھم
رابطہ سیکرٹری: بیرسٹر منصور ملک، لندن
ارکان مرکزی کونسل: (۱) مولانا زاہد الراشدی، پاکستان (۲) ڈاکٹر اختر الزمان غوری، برمنگھم (۳) مولانا محمد قاسم رشید، کرائیڈن (۴) حاجی افتخار احمد، لندن (۵) مولانا محمد قاسم، برمنگھم (۶) مولانا قاری محمد عمران خان جہانگیری، لندن (۷) مولانا مشفق الدین، لندن (۸) حافظ حفظ الرحمٰن تاراپوری، لندن (۹) ڈاکٹر نذر الاسلام بوسی، لندن (۱۰) فیض اللہ خان، لندن (۱۱) حاجی غلام قادر، لندن۔
اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ دنیا بھر کی اسلامی تحریکات سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اسلام اور مغرب کی موجودہ تہذیبی کشمکش کے پس منظر میں اسلامی ثقافت کے تحفظ اور دعوتِ اسلام کے فروغ کے لیے باہمی رابطہ و مفاہمت کو فروغ دیں اور اسلام کو درپیش جدید فکری و علمی چیلنجز کا ادراک کرتے ہوئے نئی نسل کو ان کے مقابلہ کے لیے تیار کریں۔
ایک اور قرارداد میں بیت المقدس پر اسرائیل کے مسلسل قبضہ اور فلسطینی عوام پر روز افزوں تشدد کی مذمت کرتے ہوئے دوحہ کی مسلم سربراہ کانفرنس کے اعلانات کا خیرمقدم کیا گیا ہے اور مسلمان حکومتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ بیت المقدس کی بازیابی اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی بحالی کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی بھرپور حمایت کی جائے۔
ایک قرارداد میں افغانستان کی طالبان حکومت کے خلاف عالمی پابندیوں کو ناروا قرار دیتے ہوئے دنیا بھر کی مسلمان حکومتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ طالبان حکومت کو تسلیم کریں اور افغانستان کی تعمیر نو کے لیے طالبان حکومت کی بھرپور امداد کی جائے۔
ایک قرارداد میں اقوام متحدہ کے موجودہ کردار کو جانبدارانہ قرار دیتے ہوئے مسلمان حکومتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ مسلم ممالک کے متحدہ بلاک کی تشکیل کے لیے پیشرفت کریں۔ اور اقوام متحدہ کے ارکان مسلم ممالک مشترکہ دباؤ کے ذریعہ اقوام متحدہ میں اپنا صحیح مقام حاصل کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں، اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو اقوام متحدہ سے علیحدگی اختیار کر کے مسلم ممالک کی الگ اقوامِ متحدہ تشکیل دی جائے۔

قافلۂ معاد

ادارہ

اہلیہ حضرت درخواستیؒ

حافظ الحدیث حضرت مولانا عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ تعالیٰ کی اہلیہ محترمہ گزشتہ دنوں خانپور میں انتقال کر گئیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ نیک دل، عبادت گزار اور خدا ترس خاتون تھیں اور حضرت درخواستیؒ کی علمی و دینی جدوجہد میں ان کی شریک کار رہیں۔

حضرت مولانا سید فیض علی شاہؒ

دارالعلوم دیوبند کے سابق مدرس اور ہزارہ کے بزرگ عالمِ دین حضرت مولانا سید فیض علی شاہؒ کا گزشتہ دنوں مانسہرہ میں انتقال ہو گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز فضلاء میں سے تھے اور حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے انہیں خصوصی سند بھی عطا فرمائی تھی۔ عمر کا بیشتر حصہ درس و تدریس میں گزرا اور کچھ عرصہ گوجرانوالہ کے مدرسہ اشرف العلوم میں بھی تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ کئی برسوں سے برطانیہ کے شہر بولٹن میں مقیم تھے، ان کے فرزند مولانا سید اسعد شاہ برنلی (برطانیہ) کی جامع مسجد فاروق اعظمٌ میں خطابت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑویؒ

اہلِ سنت کے معروف مناظر حضرت مولانا محمد امین صفدرؒ کا گزشتہ دنوں انتقال ہو گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ عیسائیت اور قادیانیت کے محاذ پر ایک کامیاب مناظر تھے اور احناف کی عوامی سطح پر وکالت کا خصوصی ملکہ رکھتے تھے۔ انہوں نے اس شعبہ میں قابلِ قدر خدمات سرانجام دیں اور خاص طور پر نوجوان علماء کی تربیت کی طرف توجہ دی جو ان کا صدقہ جاریہ رہے گا۔

حضرت مولانا محمد لقمان علی پوریؒ

جمعیت علماء اسلام کے ممتاز راہنما حضرت مولانا محمد لقمان علی پوریؒ گزشتہ دنوں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ انہوں نے تحریکِ ختم نبوت اور تحریکِ نفاذ شریعت میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں اور کئی بار قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہوئے، اپنے علاقہ کے عوام کی سماجی خدمات میں پیش پیش رہتے تھے۔

مولوی عبد الغفورؒ

مولانا زاہد الراشدی کے ہم زلف قاری محمد اسلم شہزاد کے والد محترم مولوی عبد الغفور صاحب گزشتہ دنوں عمرہ کی ادائیگی کے بعد مدینہ منورہ جاتے ہوئے راستہ میں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ نیک دل اور خداترس بزرگ تھے اور گوجرانوالہ کچی پمپ والی کی ایک مسجد میں بے لوث خدمت سرانجام دیتے تھے۔
ہم دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت ان سب بزرگوں کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازتے ہوئے ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

ٹینک کے مقابلے میں غلیل کی جیت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسرائیلی فوج کے خلاف فلسطینی بچوں نے غلیل اور پتھر کا ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا تو بہت سے لوگوں کو یہ عجیب سی بات لگی۔ ایک طرف گولے اگلتے ہوئے ٹینک تھے، آگ برساتی ہوئی توپیں تھیں، اور تجربہ کار جنگجو نوجوان تھے۔ جبکہ دوسری طرف نہتے معصوم بچے ہاتھوں میں غلیلیں اور پتھر پکڑے ان کے سامنے سینہ تانے کھڑے تھے۔ اور تاریخ نے ایک بار پھر قوتِ ایمانی اور اسلحہ و ہتھیار کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر دیا تھا۔

میری نگاہوں کے سامنے ہزاروں سال پہلے کا ایک منظر گھومنے لگا۔ یہی فلسطین کی سرزمین تھی، دو فوجیں آمنے سامنے تھیں، ایک کی کمان جالوت کر رہا تھا جو وقت کا بہت بڑا جابر اور سفاک حکمران تھا، اور دوسری فوج کی کمان اللہ تعالیٰ کے ایک نیک بندے طالوت کے ہاتھ میں تھی۔ جالوت کے پرچم تلے ۸۰ ہزار کا لشکر جرار تھا اور طالوت کی کمان میں صرف ۳۱۳ افراد تھے۔ جالوت طاقت کے نشے میں میدانِ جنگ میں اترا اور آگے بڑھ کر اپنے مد مقابل کسی کو سامنے آنے کا چیلنج کر دیا۔ وہ سر سے پاؤں تک لوہے میں ڈوبا ہوا تھا، مضبوط لوہے کی موٹی چادروں نے اسے چاروں طرف سے ڈھانپ رکھا تھا، آنکھوں کے سامنے دو سوراخوں کے سوا جسم کی اور کوئی جگہ خالی نہیں تھی اور دونوں ہاتھوں میں تلواریں چمک رہی تھیں۔ اس کے سامنے ایک نوجوان جس کا نام داؤد تھا اور جو بعد میں حضرت داؤد علیہ السلام کے نام سے نبوت اور سلطنت کا تاجدار بنا، داؤد نوجوان کے جسم پر سادہ لباس تھا اور ہاتھ میں ایک کوپیا اور چھوٹے چھوٹے پتھر تھے۔ کوپیا ایک ڈوری کو کہتے ہیں جسے پتھر کے گرد لپیٹ کر اسے گھما کر نشانے پر پھینکتے ہیں تو وہ چھوٹا سا پتھر آج کی گولی کا کام کرتا ہے۔

دونوں آمنے سامنے کھڑے ہیں، ایک مکمل طور پر بکتر بند لباس میں ملبوس اور ہتھیار بند ہے، اور دوسرے سادہ کپڑوں میں ایک ڈوری اور چند پتھر ہاتھوں میں تھامے ہوئے اپنے حریف کی آنکھوں میں آنکھے ڈالے ہوئے ہں۔ تاریخ دم بخود ہے اور وقت نے سانس روک رکھی ہے مگر یہ مقابلہ چند لمحوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ بکتربند کی نظر نے تلوار کا وار کیا جسے پھرتیلے نوجوان داؤد نے اپنی پھرتی سے ضائع کر دیا، پھر داؤد نے ڈوری گھما کر جالوت کی آنکھ کا جو نشانہ لیا تو پلک جھپکتے ہی چھوٹا سا پتھر اس کی آنکھ سے گزر کر دماغ میں گھس گیا اور اپنے تمام تر جاہ و جلال، قوت و اقتدار اور ساز و سامان کے باوجود جالوت کو اس نوجوان پر دوسرے وار کی مہلت نہ مل سکی۔

تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرا رہی تھی اور بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کے مقابلہ میں پتھر بدست معصوم بچے کھڑے تھے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں عقل والوں کی عقل ان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور دانشوروں کی دانش خوف کے مارے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیتی ہے۔ یہاں سے جنون کے سفر کا آغاز ہوتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جہاں عقل اور دانش کی بریکیں فیل ہو جاتی ہیں وہاں سے جنون قوموں کی لگام تھام لیتا ہے۔ مجھ سے برطانیہ میں بعض دوستوں نے پوچھا کہ ان فلسطینیوں کا کیا ہو گا؟ کیا یہ اس طرح اسرائیل کو شکست دے سکیں گے؟ میں نے عرض کیا کہ قومیں جب آزادی کی جنگ لڑتی ہیں تو انہیں اس طرح کے دو چار سخت مقامات سے بھی گزرنا پڑتا ہے اور جو قومیں ان مقامات سے گزرنے کا حوصلہ کر لیتی ہیں وہ آزادی کی حقدار بھی ہو جایا کرتی ہیں۔ اس لیے ؎ ’’آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا‘‘۔

چنانچہ جب گرد بیٹھ رہی ہے اور پیڑیں ٹھنڈی ہو رہی ہیں تو ٹینک اور غلیل کی جنگ کے نتائج بھی رفتہ رفتہ سامنے آ رہے ہیں۔ آئیے آپ بھی اب تک کے ان نقد نتائج پر ایک نظر ڈال لیجئے:

  1. اسرائیلی حکومت اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ یاسر عرفات کے درمیان ہونے والے مذاکرات ’’زیرو پوائنٹ‘‘ پر واپس چلے گئے ہیں، ان پر وہ دستخط نہیں ہو سکے جن کے لیے امریکہ کی طرف سے یاسر عرفات پر دباؤ مسلسل بڑھ رہا تھا۔ حتیٰ کہ ایک موقع پر امریکی وزیر خارجہ مسز میڈیلین البرائٹ نے مذاکرات والے ہال کے دروازے حکماً بند کرا کے یاسر عرفات پر واک آوٹ کا راستہ بھی روک دیا تھا۔ مذاکرات کی تیز رفتاری اور میڈیلین البرائٹ کی چستی اور چابکدستی سے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ امریکہ بہادر دو چار روز میں یاسر عرفات سے اس معاہدہ پر دستخط کروا ہی لے گا، جس سے ’’مستقل امن‘‘ کے نام پر مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی غیر مشروط بالادستی کی راہ ہموار ہو جائے گی، مگر فلسطینی بچوں نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر یاسر عرفات کے ہاتھ سے دستخط کرنے والا قلم بھی چھین لیا۔
  2. ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پتھر پکڑ کر اسرائیلی ٹینکوں کے سامنے آنے والے معصوم فلسطینی بچوں نے عرب حکمرانوں اور مسلم حکمرانوں کی سوئی ہوئی غیرت کو جگایا۔ چنانچہ انہوں نے دوحہ میں جمع ہونے کا پروگرام بنا لیا۔ مسلم سربراہ کانفرنس کے انعقاد کا کے لیے قطر کو اسرائیل سے تعلقات ختم کرنا پڑے۔ مسلم سربراہ کانفرنس نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کے لیے تمام مسلم ممالک پر زور دیا، جس کے تحت مصر اور اردن نے اسرائیل سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں اور دیگر ممالک بھی ان تعلقات پر نظرثانی کر رہے ہیں۔
  3. سب سے بڑھ کر سعودی حکومت کے لہجے میں واضح تبدیلی نظر آنے لگی ہے۔ ولی عہد شہزادہ عبد اللہ جس لب و لہجہ میں بیت المقدس اور فلسطین کے مسئلہ پر اظہارِ خیال کر رہے ہیں اس سے شہید شاہ فیصلؒ کی یاد پھر سے تازہ ہونے لگی ہے۔ ابھی گزشتہ روز شہزادہ عبد اللہ نے ریاض میں عرب دانشوروں کے گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ہم بیت المقدس سے کسی قیمت پر دستبردار نہیں ہوں گے خواہ اس کے لیے ہمارے بچے بھی ذبح ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے علاقہ میں امن کی خاطر اسرائیل کے بارے میں نرم رویہ اختیار کر لیا تھا مگر اس کا مطلب غلط سمجھا گیا ہے۔ اسرائیل نے انسانیت اور اخلاقیات کی تمام حدود پامال کر دی ہیں اور وہ اپنے رویہ میں کوئی لچک پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ انہوں نے سخت لب و لہجہ میں امریکہ اور یورپی ممالک سے دریافت کیا ہے کہ وہ آخر کب تک اسرائیل کی حمایت کو جاری رکھ سکیں گے؟ شہزادہ عبد اللہ نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ یہ جنگ سو سال تک جاری رہے تب بھی عرب بیت المقدس سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
  4. اس کے ساتھ ہی صورتحال میں تبدیلی کے ایک اور پہلو پر بھی نظر ڈال لیجئے کہ مسجد نبویؐ کے ہر دلعزیز امام الشیخ علی عبد الرحمان الحذیفی اپنے منصب پر بحال ہو گئے ہیں۔ انہیں دو سال قبل مسجد نبویؐ میں خطبہ جمعۃ المبارک کے دوران امریکی پالیسیوں، یہودی تسلط، اسرائیلی مظالم اور مسلم حکمرانوں کے طرز عمل پر تنقید کی وجہ سے اس منصب سے الگ کر دیا گیا تھا۔ مگر وہ دوبارہ اپنے منصب پر واپس آ گئے ہیں اور ان کے ساتھ مسلمانوں کی محبت و عقیدت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ جب وہ بحالی کے بعد عشاء کی نماز پڑھانے کے لیے مسج دنبویؐ میں آئے تو لوگ انہیں دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور ایک دوسرے سے بغلگیر ہو کر مبارکباد دینے لگے اور بہت سے افراد فطرِ محبت سے زار و قطار رونے لگ گئے۔

یہ سب کچھ کیا ہے؟ یہ ان فلسطینی بچوں کے خون کی صدائے بازگشت ہی تو ہے جنہوں نے اسرائیلی ٹینکوں پر پتھر پھینک کر اپنے معصوم سینوں پر گولیاں کھائیں اور اپنے معصوم اور مقدس خون کی قربانی دے کر اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر دی۔ میں آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر زیرلب بڑبڑانے والے دانشوروں سے گزارش کروں گا کہ وہ آنکھوں سے ہاتھ ہٹائیں، آنکھیں کھولیں، ٹینک کے مقابلہ میں غلیل کی جیت کے اس خوشنما منظر کا کھلی آنکھوں کے ساتھ مشاہدہ کریں اور ان معصوم فلسطینی بچوں کو سلامِ عقیدت پیش کریں جنہوں نے بیت المقدس اور فلسطین کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کی مسلسل حکمتِ عملی کے حالیہ ’’راؤنڈ‘‘ کو ناکام بنا کر رکھ دیا ہے۔

یورپ میں مسلمانوں کی مذہبی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے

ادارہ

شہر کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب اور پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی برطانیہ کے ڈیڑھ ماہ کے دورہ کے بعد گوجرانوالہ واپس آ گئے ہیں۔ اس دوران انہوں نے لندن، برمنگھم، گلاسگو، مانچسٹر، نوٹنگھم، برنلی، لیسٹر، والسال، کراؤلی، چارلی اور دیگر شہروں میں دو درجن سے زائد دینی اجتماعات سے خطاب کیا۔ مرکزی جمعیت علماء برطانیہ کے زیر اہتمام بیت المقدس کے مسئلہ پر ہڈز فیلڈ میں منعقد ہونے والی ’’القدس کانفرنس‘‘ میں شرکت کی۔ نوٹنگھم کے معروف تعلیمی ادارہ جامعہ الہدیٰ کی تعلیمی کمیٹی کے سالانہ اجلاس کی صدارت کی، اور ورلڈ اسلامک فورم کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی۔

ورلڈ اسلامک فورم مولانا نے بھارت سے تعلق رکھنے والے عالم دین اور دانشور مولانا محمد عیسٰی منصوری کے ساتھ مل کر ۱۹۹۲ء میں قائم کیا تھا، اس کا ہیڈکوارٹر لندن میں ہے۔ ابتدائی پانچ سال مولانا زاہد الراشدی اس کے چیئرمین رہے ہیں، اس کے بعد سے مولانا محمد عیسٰی منصوری اس کے چیئرمین ہیں اور ان کے ساتھ مفتی برکت اللہ، بیرسٹر منصور ملک، مولانا رضاء الحق سیاکھوی، حاجی افتخار احمد، مولانا محمد عمران خان جہانگیری، حاجی غلام قادر اور ڈاکٹر نذر الاسلام بوس، فیض اللہ خان، مولانا محمد قاسم رشید، مولانا مشفق الدین، حافظ ذکاء الرحمٰن تاراپوری اور دیگر سرکردہ اہلِ دانش کی ایک ٹیم ہے جو برطانیہ میں مقیم مسلمانوں میں دینی بیداری کو فروغ دینے اور علماء کرام و دینی مراکز کو دعوت و تعلیم کے حوالہ سے آج کے دور کی ضروریات اور تقاضوں کی طرف متوجہ کرنے کے لیے مسلسل سرگرم عمل ہے۔ جبکہ میرپور آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے مولانا رضاء الحق سیاکھوی سیکرٹری جنرل کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

گوجرانوالہ واپس پہنچنے پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ اس سال معمول سے ہٹ کر دو نئی باتیں سامنے آئی ہیں جن کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایک تو امریکہ میں مسلم کمیونٹی کے ایک ممتاز راہنما ڈاکٹر عبید اللہ غازی سے ملاقات ہے جو اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے حوالہ سے برطانیہ کے شہر لیسٹر میں آئے ہوئے ہیں اور تھوڑی دیر کے لیے جامعہ الہدٰی نوٹنگھم میں بھی آئے۔ ڈاکٹر عبید اللہ غازی کا تعلق بھارت کے ممتاز علمی خاندان سے ہے، ان کے پردادا مولانا عبد الرحمٰن انصاری دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی کے داماد تھے اور علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے پہلے سربراہ تھے۔ ڈاکٹر غازی کے دادا مولانا منصور انصاری کا شمار برصغیر پاک و ہند کی تحریک آزادی کے نامور اور سرگرم رہنماؤں میں ہوتا ہے، وہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی کی تحریک کے اہم راہنما تھے اور انہوں نے مفکر انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے ساتھ کابل ہجرت کی تھی جہاں وہ مولانا سندھیؒ کے دستِ راست کی حیثیت سے افغانستان کی آزادی کے تحفظ اور متحدہ ہندوستان کی آزادی کے حصول کے لیے سرگرم رہے۔

اپنے حالیہ دورۂ برطانیہ کے حوالہ سے دوسری اہم بات مولانا راشدی نے یہ بتائی کہ برطانیہ اور دیگر یورپی شہروں میں مسلمانوں کی مسلسل دینی بیداری اور مذہبی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے حتیٰ کہ اب یہ بات کھلی بندوں کہی جانے لگی ہے کہ اپنے مذہب اور دینی روایات و ثقافت کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی بے لچک ہے جسے تبدیل یا کمزور نہیں کیا جا سکتا۔

گذشتہ دنوں فرانس کے بارے میں ایک رپورٹ بین الاقوامی پریس میں شائع ہوئی تھی کہ وہاں مسلمان آبادی میں دوسرے نمبر پر ہیں، یعنی سب سے بڑی اقلیت ہیں، لیکن مذہبی سرگرمیوں کے حوالے سے وہ فرانس کی سب سے زیادہ سرگرم کمیونٹی شمار ہوتے ہیں کیونکہ عیسائی اکثریت کو اپنے مذہب اور عبادت سے اتنی دلچسپی نہیں رہی کہ وہ روز مرہ مذہبی سرگرمیاں دکھا سکیں اور اپنے عبادت خانوں کو آباد رکھ سکیں۔ اس کے برعکس مسلمانوں میں نماز، روزہ، عید، قرآن کریم کی تعلیم، مذہبی شعائر کے ساتھ وابستگی اور ان پر عملدرآمد کا رجحان زیادہ ہے۔

اسی طرح کی صورتحال برطانیہ میں بھی ہے جہاں ایک محتاط اندازہ کے مطابق مسلمانوں کی تعداد چار ملین سے اوپر ہے، لیکن مدارس و مساجد کی روز مرہ سرگرمیوں اور مذہبی اقدار و روایات سے عملی وابستگی کے پس منظر میں وہ دیگر تمام مذاہب کے پیروکاروں سے زیادہ متحرک اور نمایاں نظر آتے ہیں اور اس بات کو اعلیٰ سطح پر بھی محسوس کیا جانے لگا ہے۔

چنانچہ گزشتہ ماہ وہاں ’’اسلام کے بارے میں بیداری اور آگہی‘‘ کا ہفتہ منایا گیا اور اس دوران دیگر سرگرمیوں کے علاوہ حکومت اور اپوزیشن کے سرکردہ حضرات نے اسلام کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور برطانوی معاشرہ میں مسلمانوں کی سرگرمیوں کا مختلف انداز میں تذکرہ کیا۔ اس ہفتہ کا آغاز پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک تقریب سے ہوا جس کا اہتمام ’’اسلامک سوسائٹی آف گریٹ بریٹن نے کیا تھا اور اس میں برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے نمائندہ کے طور پر ہوم سیکرٹری جیک اسٹرا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ مردم شماری میں مذہب کا خانہ رکھا جا رہا ہے جس سے برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی کا صحیح اندازہ ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے بارے میں غلط تاثر پھیلایا جاتا ہے اور انہیں مسلمان دہشت گرد کہا جاتا ہے لیکن آئرلینڈ میں دہشت گردی کرنے والوں کو کیتھولک دہشت گرد اور پروٹسٹنٹ دہشت گرد نہیں کہا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ ۹۹ فیصد مسلمان محنتی اور مخیر ہیں۔

جبکہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر رونا ولیم ہیگ نے اس توقع کا اظہار کیا کہ ’’ہفتہ آگہی اسلام‘‘ سے مقامی آبادی کو اسلام کے بارے میں بہت سی باتیں سمجھنے میں مدد ملے گی۔ تقریب سے ہاؤس آف لارڈز کے مسلمان ممبر لارڈ نذیر احمد اور دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا اور برطانوی معاشرہ میں مسلمانوں کی سرگرمیوں کے بارے میں اظہارِ خیال کیا۔

مولانا راشدی نے بتایا کہ برطانوی پارلیمنٹ ہاؤس آف لارڈز اور اسکاٹش پارلیمنٹ میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت سے تعلق رکھنے والے مسلمان ممبران کی تعداد نصف درجن تک پہنچ گئی ہے۔ جن میں پارلیمنٹ کے رکن گلاسگو کے محمد سرور اور ہاؤس آف لارڈز کے رکن رادھرم کے لارڈ نذیر احمد سب سے زیادہ متحرک ہیں۔ ان دونوں کا سابقہ تعلق پاکستان سے ہے اور وہ مسلمانوں اور عالم اسلام کے مسائل کے حوالہ سے متحرک کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ گذشتہ دنوں لارڈ نذیر احمد نے دیگر ممبران کے تعاون سے مختلف مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں طلب کیا جس میں مذہبی جماعتوں کے اہم رہنماؤں نے شرکت کی۔ یہ اجلاس رؤیتِ ہلال کے سلسلہ میں تھا جس پر برطانیہ میں ہر سال اختلاف ہوتا ہے اور رؤیتِ ہلال کے کسی فارمولا پر مذہبی جماعتوں کے متفق نہ ہونے کی وجہ سے دو دو بلکہ بسا اوقات تین تین عیدیں منائی جاتی ہیں۔ لارڈ نذیر احمد نے اس اجلاس میں کہا کہ اگر علماء کرام کسی متفقہ فارمولے پر آجائیں اور برطانیہ میں متفقہ طور پر ایک روز عید منائی جا سکے تو وہ حکومت اور بی بی سی وغیرہ کو اس پر آمادہ کر سکتے ہیں کہ عید کے روز مسلمانوں کے لیے باضابطہ چھٹی کا اعلان کیا جائے، اور بی بی سی و دیگر ذرائع ابلاغ سے عید کے اعلان کے ساتھ ساتھ خصوصی پروگرام نشر کی جائیں، جس کے لیے وہ متعلقہ حکام اور اداروں سے ابتدائی بات چیت کر سکتے ہیں۔ اس اجلاس میں ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسٰی منصوری نے بھی شرکت کی اور اجلاس میں تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے لارڈ نذیر احمد اور دوسرے مسلم ارکانِ پارلیمنٹ کے جذبہ کو سراہتے ہوئے متفقہ عید کے لیے سب حلقوں کے نزدیک قابلِ قبول فارمولا تلاش کرنے کی غرض سے باہمی رابطے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلہ میں اگلا اجلاس فروری ۲۰۰۱ء میں متوقع ہے اور قریبی حلقے پر امید ہیں کہ یہ کوششیں ضرور بار آور ہوں گی۔


(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۳۰ نومبر ۲۰۰۰ء)