1996

جنوری ۱۹۹۶ء

بلبلاتا ہوا انسانی معاشرہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
انسانی اخلاق کی چار بنیادیںحضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ 
انسانی حقوق کا اسلامی تصورمولانا مفتی فضیل الرحمٰن ہلال عثمانی 
انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہابو صباحت 
اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اسلامی تعلیماتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیہ پر ایک نظرمولانا مفتی عبد الشکور ترمذی 
انسانی حقوق کے چارٹر کی بعض متنازعہ شقیںمولانا مشتاق احمد 
انسانی حقوق اور سیرتِ نبویؐمولانا مفتی محمد تقی عثمانی 
انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
مغربی میڈیا، انسانی حقوق، اسلامی بنیاد پرستی اور ہمڈاکٹر صفدر محمود 
حقوقِ نسواں اور خواتین کی عالمی کانفرنسیںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحالمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
حاجی عبد المتین چوہان مرحوممولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
معدے کی تیزابیت دور کرنے کے لیے موسمی کا ناشتہحکیم عبد الرشید شاہد 
’’الشریعہ‘‘ کا نیا دورمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
دنیا و آخرت کی فلاح حضرت شاہ ولی اللہؒ کی نظر میںحضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ 

بلبلاتا ہوا انسانی معاشرہ

عقل و خواہش کی حکمرانی کا ڈراپ سین

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلام دین فطرت ہے اور نسل انسانی کے لیے ان تعلیمات و ہدایات کی نمائندگی کرتا ہے جو خالق کائنات نے حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کے ذریعے نازل فرمائی ہیں۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس امر کی صراحت موجود ہے کہ قرآنی تعلیمات نئی نہیں بلکہ حضرات انبیاء کرامؑ پر نازل ہونے والی سابقہ وحی کی مصدق و موید اور اس کی مکمل ترین شکل ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے کہ انبیاء کرامؑ پر نازل ہونے والی کتابوں اور ان کی تعلیمات کا کوئی ذخیرہ اگر آج تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ترین صورت میں موجود ہے تو وہ صرف قرآن کریم اور جناب رسول اکرمؐ کی سنت و سیرت ہے، اس لیے اس وقت دنیا میں آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی نمائندگی کا حق صرف اور صرف قرآن و سنت کو ہے۔ اور انسانی معاشرہ کی قیادت اور راہنمائی کے لیے وحی اور عقل کے درمیان جو معرکہ آخری اور فیصلہ کن دور میں داخل ہو چکا ہے اس میں عقلِ انسانی کی بنیاد پر تشکیل پانے والی سولائزیشن اور نظام ہائے حیات کا اصل مقابلہ قرآن و سنت سے ہی ہے۔

انسانی معاشرہ کی راہنمائی کے لیے عقل اور خواہشات کا ہمیشہ سے گٹھ جوڑ رہا ہے۔ خواہشات انسانی سوسائٹی میں باہمی ٹکراؤ کا باعث بنتی ہیں، فساد اور بد اَمنی کو جنم دیتی ہیں اور خرابیاں پیدا کرتی ہیں۔ جبکہ عقل ان خواہشات کی نگرانی اور کنٹرول کی دعویدار ہے، لیکن یہ ایسا کمزور نگران ہے جو خود کو خواہشات کے منہ زور گھوڑے کی پشت پر بے بس پا کر اکثر اوقات اپنے آپ کو بھی اسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے اور یوں معاشرہ خواہشات کے خوفناک عفریت کے ہاتھوں فتنہ و فساد کی آماجگاہ بن کر رہ جاتا ہے۔ نسلِ انسانی کی تاریخ گواہ ہے کہ عقل کی کمزور لگام خواہشات کے منہ زور گھوڑے کو کسی دور میں بھی کنٹرول نہیں کر سکی اور انسانی خواہشات نے صرف اس وقت فطرت کے دائرے میں رہنا قبول کیا جب ان پر وحی الٰہی کی حکمرانی قائم ہوئی۔

وحی، عقل اور خواہشات کی طویل کشمکش کی پوری تاریخ پر نظر ڈال لیجئے، عقل کو انسانی خواہشات پر کنٹرول میں اسی وقت کامیابی ہوئی ہے جب اس نے وحی کی راہنمائی کو قبول کر کے اس کے معاون کے طور پر خواہشات کا مقابلہ کیا ہے۔ اور جب بھی عقل نے وحی الٰہی سے بے نیاز ہو کر انسانی خواہشات کا سامنا کرنے کی کوشش کی ہے اسے شکست اور رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ آج کا انسانی معاشرہ اس کی مکمل تصویر پیش کر رہا ہے۔ عقل نے آزادی، مساوات اور سولائزیشن کے نام پر انسانی خواہشات کو قواعد و ضوابط کے ایک دائرے کا پابند کرنا چاہا اور آسمانی تعلیمات اور وحی کو ذاتی عقیدہ، عبادت اور اخلاق کے حصار میں بند کر کے زندگی کے اجتماعی شعبوں میں اس کی عملداری کو مسترد کر دیا، لیکن عقل کی اس تین صدیوں پر محیط جدوجہد کا نتیجہ کیا سامنے آیا؟ آج پوری دنیا میں انسانی معاشرے پر خواہشات کی حکمرانی ہے اور جس قوم، طبقہ، گروہ یا فرد کی رسائی طاقت اور عقل کے ہتھیاروں تک ہو جاتی ہے قاعدے، ضابطے، اصول، نظریات اور اخلاق اس کے نزدیک بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔

عقل کا اس کے سوا کوئی کردار باقی نہیں رہ گیا کہ وہ خواہشات کی حکمرانی کے لیے جواز کے دلائل پیش کرتی رہے اور وحشیانہ خواہشات کا شکار ہونے والے مظلوم انسانوں کو یہ کہہ کر تسلی دیتی رہے کہ چونکہ انسان کی ہر خواہش کا پورا ہونا اس کا حق ہے اور جس خواہش پر سوسائٹی کی اکثریت کا اتفاق ہو جائے اسے قانون کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے، اس لیے ۴۹ فیصد کا کام صرف یہ ہے کہ وہ ۵۱ فیصد کی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بنیں اور خاموشی کے ساتھ انہیں پورا کرتے رہیں۔ قتل و غارت، لوٹ مار، بھوک، جہالت، نسل، زبان اور علاقہ کی بنیاد پر منافرت، کنواری ماؤں اور ناجائز بچوں میں مسلسل اضافہ، خاندانی زندگی کی تباہی، رشتوں کے تقدس کی پامالی اور عزت و عفت کی بے حرمتی کے جو مظاہر آج انسانی معاشرہ میں ہر طرف دکھائی دے رہے ہیں وہ کس کے پیدا کردہ ہیں؟ انہیں خواہشات نے جنم دیا ہے اور عقل انہیں جواز کے دلائل فراہم کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکی۔

عقل اور خواہشات کے گٹھ جوڑ نے وحی کو انسانی زندگی سے بے دخل کرنے کا جو ڈرامہ تین صدیاں قبل شروع کیا تھا وہ تکمیل کو پہنچ گیا ہے اور اس کا ڈراپ سین انسانی سوسائٹی کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے۔ قرآن کریم نے اس کشمکش کا ذکر چودہ سو برس قبل ان الفاظ سے کر دیا تھا ان یتبعون الی الظن وما تھوی الانفس ولقد جاءھم من ربھم الھدٰی (النجم) ’’یہ لوگ صرف ظن (انتہائے عقل) اور خواہشات کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آچکی ہے‘‘۔

اسلام عقل کے کردار اور ضرورت سے انکار نہیں کرتا بلکہ قرآن کریم نے بار بار غور و فکر اور تدبر کی دعوت دی ہے اور عقل کے استعمال کی تلقین کی ہے۔ اسلام حکمت و دانش کا دین ہے اور فقہ و اجتہاد اس کے بنیادی اصولوں میں شامل ہیں لیکن عقل کو حکمران کی نہیں بلکہ معاون کی حیثیت دی ہے۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ عقل کو کبھی حکمران کا درجہ حاصل نہیں رہا، وہ اگر وحی کی معاون نہیں بنی تو اسے طاقت یا خواہشات کی چاکری کرنا پڑی ہے۔ قدرت نے اسے معاونت کے لیے پیدا کیا ہے اور وہ ہمیشہ وحی، طاقت یا خواہشات میں سے کسی کی معاون رہی ہے۔ اس لیے عقل کا صحیح کردار یہی ہے کہ وحی کے دائرے میں پابند ہو اور اس کے احکام کی تعمیل کے لیے معاونت کرے۔

اسلام خواہشات سے بھی انکار نہیں کرتا بلکہ وہ ترکِ خواہشات اور رہبانیت کو عبادت کا درجہ دینے کا روادار نہیں ہوا۔ اسلام نے انسان کی ہر فطری خواہش کو تسلیم کیا ہے اور اس کی تکمیل کا حق دیا ہے لیکن خواہشات کی بے لگامی کو اسلام قبول نہیں کرتا اور خواہشات کو آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی ہدایات کا پابند دیکھنا چاہتا ہے۔ کیونکہ اس پابندی کے بغیر خواہشات کو کنٹرول کرنے کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے اور خواہشات کو کنٹرول کے دائرے میں رکھے بغیر معاشرہ میں امن و سلامتی کا قیام نہیں ہو سکتا۔ اسلام انسان پر خواہشات کی حکمرانی کا نہیں بلکہ خواہشات پر انسان کی حکمرانی کا قائل ہے۔ اور اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جو انسان اپنی خواہشات پر کنٹرول نہیں کر سکتا وہ انسانی فطرت پر قائم نہیں رہا۔ اور خواہشات پر حکمرانی عقلِ محض کے ذریعے نہیں بلکہ وحی و عقل کے امتزاج اور توفیق الٰہی سے ہی قائم ہو سکتی ہے۔

آج انسانی معاشرہ کا سب سے بڑا مسئلہ بے لگام اور روز افزوں خواہشات پر کنٹرول حاصل کرنا ہے کیونکہ اس کے بغیر امن، خوشحالی، سلامتی اور سکون کا حصول ممکن نہیں ہے۔ گزشتہ تین صدیوں کے تلخ تجربہ نے یہ بات ایک بار پھر ثابت کر دی ہے کہ انسانی خواہشات کو کنٹرول کرنا عقلِ محض کے بس کی بات نہیں ہے۔ عقل کو زود یا بدیر وحی کے سائے میں آنا پڑے گا اور آسمانی تعلیمات کی بالادستی قبول کرنا ہوگی۔ اور انسانی تاریخ کے ریکارڈ پر یہ آسمانی تعلیمات صرف اور صرف قرآن و سنت کی تعلیمات کی صورت میں موجود ہیں جو وحی، عقل اور خواہشات کے خوبصورت امتزاج اور توازن کی علمبردار ہیں۔ عقلِ انسانی اس حقیقت کا جس دن ادراک کر لے گی وہ انسانی معاشرہ میں ایک صحت مند، خوشگوار اور فطری انقلاب کا یومِ آغاز ہوگا۔

انسانی اخلاق کی چار بنیادیں

حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

ہمارے نزدیک شاہ ولی اللہؒ حکیم و صدیق ہیں جنہوں نے سارے ادیان، مذاہب اور شریعتوں کا اصلاً‌ ایک ہونا ثابت کیا اور پھر ان بنیادی اصولوں کا تعین بھی کیا جو ہر دین کا مقصودِ حقیقی تھے اور ہر مذہب اور شریعت ان کو پورا کرنا اپنا فرض سمجھتی رہی۔ شاہ صاحب ’’ہمعات‘‘ میں لکھتے ہیں: اس فقیر پر یہ بات روشن کی گئی ہے کہ تہذیبِ نفس کے سلسلے میں جو چیز شریعت میں مطلوب ہے، وہ چار خصلتیں ہیں۔ حق تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو انہی چار خصلتوں کے لیے بھیجا۔ تمام ملل حقہ میں انہی چار خصلتوں کا ارشاد اور ان کے حاصل کرنے کی ترغیب و تحریص ہے۔ ’’بر‘‘ یعنی بھلائی انہی چار خصلتوں کا حاصل ہے اور گناہ سے مراد وہ عقائد و اعمال اور اخلاق ہیں جو انہی چار خصلتوں کی ضد ہیں۔
ان چار خصلتوں میں سے ایک طہارت ہے۔ اس کی حقیقت اور اس کی طرف میلان ہر سلیم الفطرت انسان کے اندر ودیعت کیا گیا ہے۔ یہ گمان نہ کر لینا کہ یہاں طہارت سے مراد محض وضو اور غسل ہے، بلکہ طہارت کا اصل مقصود وضو اور غسل کی روح اور ان کا نور ہے۔ جب آدمی نجاستوں میں آلودہ ہو اور میل کچیل اور بال اس کے بدن پر جمع ہوں، بول و براز اور ریح نے اس کے معدے میں گرانی پیدا کی ہو، تو ضروری اور لازمی بات ہے کہ وہ انقباض، تنگی اور حزن اپنے اندر پائے گا۔ اور جب وہ غسل کرے گا اور زائد بالوں کو دور کرے گا اور صاف لباس زیب تن کرے گا اور خوشبو لگائے گا تو اسے اپنے نفس میں انشراح، سرور اور انبساط کا احساس ہوگا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ طہارت یہی وجدانی کیفیت ہے جو انس اور نور سے تعبیر کی جا سکتی ہے۔
دوسری خصلت اخبات (خدا تعالیٰ کے لیے خضوع) یعنی نهایت درجے کی عجز و نیاز مندی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ایک سلیم الفطرت شخص جب طبعی اور خارجی تشویشوں سے فراغت کے بعد صفاتِ الہٰی، اس کے جلال اور اس کی کبریائی میں غور کرتا ہے تو اس پر ایک حیرت اور دہشت کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ یہی حیرت اور دہشت خشوع و خضوع یعنی نیاز مندی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک سوچنے والا انسان جب کائنات کی اس گتھی کو حل کرنے سے عاجز آ جاتا ہے، اور اس عجز اور افتادگی کی حالت میں وہ کسی اور قوت کے سامنے اپنے آپ کو بے دست و پا پاتا ہے، تو اس کی یہ بے دست و پائی اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے سے بلند تر کسی اور قوت کو مانے۔ ایک سائنس دان نے اسے مادے سے تعبیر کیا ہے، فلسفی نے اسے عقلِ کُل مانا، اور مذہبی اسے خدا کہتا ہے۔ بہر حال انسان کہیں نہ کہیں اس کائنات کے سامنے اپنے آپ کو ضرور مجبور پاتا ہے اور یہی مجبوری اسے خضوع کی طرف لے جاتی ہے۔
تیسری خصلت سماحت (فیاضی) ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ نفس طلبِ لذت، حبِ انتقام، بخل اور حرص وغیرہ سے مغلوب نہ ہو۔ اس کے ذیل میں عفت، جدوجہد، صبر و عفو، سخاوت، قناعت اور تقویٰ تمام آ جاتے ہیں۔ شکاور فرج (شرمگاہ) کی خواہش کے قبول نہ کرنے کا نام عفت ہے۔ آسائش اور ترکِ عمل کی خواہش کو قبول نہ کرنے کا نام جدوج ہے، اور جزع و فزع (رونا پیٹنا) کو روکنا صبر ہے، اور انتقام کی خواہش کو دبانا عفو، اور خواہش بخل کو چھوڑ دینے کا نام سخاوت، اور حرص کو قبول نہ کرنا قناعت ہے، شریعت کی بنائی ہوئی حدوں سے تجاوز نہ کرنا تقویٰ ہے۔ 
چوتھی فصلت عدالت ہے۔ سیاسی اور اجتماعی نظاموں کی روح رواں یہی خصلت ہے۔ ادب، کفایت، حریت، سیاستِ مدنیہ اور حسنِ معاشرت وغیرہ سب عدالت کی شاخیں ہیں۔ اپنی حرکات و سکنات پر نگاہ رکھنا، عمدہ اور بہتر وضع اختیار کرنا اور دل کو ہمیشہ اس کی طرف متوجہ رکھنا ادب ہے۔ جمع اور خرچ، خرید و فروخت اور تمام معاملات میں عقل و تدبر سے کام لینا کفایت ہے۔ خانہ داری کے کاموں کو بخوبی انجام دینا حریت ہے اور شہروں اور لشکروں کا اچھا انتظام کرنا سیاستِ مدنیہ ہے۔ بھائیوں میں نیک زندگی بسر کرنا، ہر ایک کے حق کو پہچاننا اور ان سے الفت و بشاشت سے پیش آنا حسنِ معاشرت ہے۔ 
یہی چار اخلاق ہیں جن کی تکمیل سے انسانیت کو ترقی ملتی ہے اور ان کے چھوڑنے سے انسان قعرِ مذلت (ذلت کے گڑھے) میں گرتا ہے۔ اس دنیا میں جتنے بھی تمدن بنے، اور جس قدر بھی فکری ادارے قائم ہوئے، اور جو بھی شریعتیں معرضِ وجود میں آئیں، اگر ان کے پیشِ نظر انسانوں کو اٹھانا اور ان کی حالت کو درست کرنا تھا تو انہوں نے انہی چار اخلاق کو سنوارنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں اسلام، عیسائیت اور یہودیت کا معاملہ تو بالکل ظاہر ہے، لیکن اگر چینی فلسفۂ اخلاق، ہندوؤں کے مذہبی فکر، ایرانیوں کے نظامِ حیات، یونانیوں کی حکمت، اور قدیم مصریوں کے مذہب کا بغور مطالعہ کریں تو آپ کو کسی نہ کسی صورت میں ان چار اخلاق کی درستی اور ان کی ضدوں سے بچنے کی تاکید ملے گی۔ 
ایرانی حکم بزر جمهر اقوال، افلاطون کا اپنی کتاب ’’ریاست‘‘ میں عدالت کو زندگی کی بنیاد ثابت کرنا، قدیم مصریوں کا مذہبی صحیفہ ’’کتاب الموتی‘‘ کے ارشادات، ہندوؤں کے ویدوں اور گیتا کا پُرحکمت کلام، اور چینیوں کے اخلاقی فلسفے ’’کنفوشس‘‘ کی تعلیمات، ان سب کا حاصل کم و بیش یہی تھا کہ انسانیت کے ان چار بنیادی اخلاق کو ترقی دی جائے، اور تمام رسول اس لیے مبعوث ہوئے اور تمام حق شناس حکیم اور صدیق اپنی اپنی قوموں کو یہی پیغام سناتے رہے۔
لہٰذا اگر ہم اس حقیقت کو سمجھ جائیں تو پھر مسلمانوں اور غیر مسلموں کے نظریہ اخلاق میں اصولی نزاع نہ رہے گا اور ہم میں فراخ دلی اور رواداری بھی پیدا ہو جائے گی۔ بے شک سماج کے چھوٹے طبقوں میں تو چپقلش موجود رہے گی، لیکن ایسے ہی جیسا کہ ایک ہی ملت کے مختلف فرقوں میں مخصوص رجحانات اور استعدادوں کی بنا پر ذہنی اور مذہبی اختلافات ہوتے ہیں، لیکن جہاں تک اصحابِ عقل و رُشد کا تعلق ہے، ان کو آفتابِ نبوت سے پھوٹی ہوئی شعاؤں اور حکیم کے دماغ سے نکلے ہوئے اخلاقی نظام میں فرقِ مراتب تو ضرور نظر آئے گا لیکن وہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضد نہ سمجھیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ صالح غیرمسلم اور صالح مسلمان ایک دوسرے کی خوبیوں کو بحیثیت انسان کے نظرِ انصاف سے جانچنے کے قابل ہوں گے۔ 
ہمارے خیال میں یہ تصور کُل بنی نوع انسان کو موجوہ خلفشار سے نکال سکتا ہے۔ ہر قوم کے عقل مند طبقوں کا رجحان اب اس طرف ہو رہا ہے اور وہ کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے اپنے فکری نظاموں کو عالم گیر انسانیت کا ترجمان بنا کر پیش کریں۔ لیکن کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ وہ دین جو صحیح معنوں میں ساری انسانیت کا دین تھا، اور وہ کتاب جو کُل نوعِ انسانی کی ہدایت کی علمبردار تھی، اور وہ ملّت جس نے سب قوموں کو ایک بنایا اور جس کا تمدن ساری انسانیت کی ’’باقیات صالحات‘‘ کا مرقع تھا۔ وہ دین، وہ کتاب اور وہ ملّت اور اس کا تمدن ایک فرقے کی جاگیر بن گیا ہے، اور وہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ اس وسعت پذیر دور میں جس میں کہ کرہ زمین کی سب دوریاں سکڑ گئی ہیں، ملکوں، قوموں اور براعظموں کی سرحدیں سمٹتی جا رہی ہیں، ریل، جہاز، طیاروں اور ریڈیو نے سب انسانوں کو اپنی کہنے اور دوسروں کی سننے کے لیے ایک انسانی برادری میں بدل دیا ہے، اس زمانے میں ایسی تعلیم کو جو صحیح معنوں میں عالم گیر اور انسانی تھی، ایک گروہ اور جماعت میں محدود کر دینا کتنا بڑا ظلم ہے۔ معلوم نہیں مسلمان اسلام کو کب سمجھیں گے اور قرآن کے اصل پیغام کو کب اپنائیں گے؟ 

انسانی حقوق کا اسلامی تصور

مولانا مفتی فضیل الرحمٰن ہلال عثمانی

انسانی طرزِعمل انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کیا ہونا چاہئے؟ قرآن کریم اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جواب میں زندگی کی پوری اسکیم کا عملی نقشہ ہمارے سامنے دیتے ہیں۔

اس پوری اسکیم کا بنیادی مقصد انسانی زندگی کے نظام کو معروفات پر قائم کرنا اور منکرات سے پاک کرنا ہے۔ یہ اسکیم سوسائٹی کے پورے نظام کو اس طرز پر ڈھالتی ہے کہ خدا کی بنائی ہوئی فطرت کے مطابق ایک ایک بھلائی اپنی پوری پوری صورت میں قائم ہو۔ ہر طرف سے اس کو پروان چڑھنے میں مدد ملے اور ہر وہ رکاوٹ جو کسی طرح اس کی راہ میں حائل ہو سکتی ہے، دور کی جائے۔ اسی طرح فطرتِ انسانی کے خلاف ایک ایک برائی کو چن چن کر زندگی سے نکالا جائے۔ اس کی پیدائش اور نشو و نما کے اسباب دور کیے جائیں۔ جدھر جدھر سے وہ زندگی میں داخل ہو سکتی ہے، اس کا راستہ بند کیا جائے اور اس سارے انتظام کے باوجود اگر وہ سر اٹھا ہی لے تو اسے سختی سے دبا دیا جائے۔ 

معروف و منکر کے متعلق یہ احکام ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ اسکیم ایک صالح نظام زندگی کا پورا نقشہ دیتی ہے اور اس غرض کے لیے فرائض اور حقوق کا ایک پورا نظام ہے، ایک مکمل نقشہ ہے، ایک پوری اسکیم ہے جس کا ہر حصہ دوسرے حصہ کے ساتھ اعضائے جسمانی کی طرح جڑا ہوا ہے۔

اس اسکیم کا ایک حصہ انسانی حقوق کا چارٹر ہے۔ عرب کے نبی اُمیؐ نے یہ چارٹر اس وقت پیش کیا تھا جب نہ کسی اقوام متحدہ کا وجود تھا اور نہ انسان مادی ترقی کی اس معراج پر پہنچا تھا جہاں آج نظر آتا ہے۔

۱۔ انفرادی حقوق

(۱) مذہبی آزادی

لا اكراه فى الدين قد تبين الرشد من الغى (قرآن مجید سوره بقره آیت نمبر ۲۵۶)
’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے، صحیح بات غلط خیالات سے چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔‘‘
ولو شاء ربك لاٰمن من فى الارض كلهم جميعا افانت تكره الناس حتى يكونوا مومنین (سوره یونس آیت ۲۹)
’’اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرماں بردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے، پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟‘‘

یعنی حجت اور دلیل سے ہدایت و ضلالت کا فرق کھول کر رکھ دینے کا جو حق تھا، وہ تو پورا پورا ادا کر دیا گیا ہے۔ اب رہا جبری ایمان تو یہ اللہ کو منظور نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ خود ہی انسانوں کو ایمان لانے یا نہ لانے اور اطاعت اختیار کرنے یا نہ کرنے میں آزاد رکھنا چاہتا ہے۔

(۲) عزت کے تحفظ کا حق

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو، ایمان لانے کے بعد فسق نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے، جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں۔‘‘ (سورہ حجرات، آیت ۱۱) 

ایک دوسرے کی عزت پر حملہ کرنا، ایک دوسرے کی دل آزاری، ایک دوسرے سے بد گمانی در حقیقت ایسے اسباب ہیں جن سے آپس کی عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر دوسرے اسباب سے مل کر ان سے بڑے بڑے فتنے جنم لیتے ہیں۔ اسلام ہر فرد کی بنیادی عزت کا حامی ہے جس پر حملہ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔

(۳) نجی زندگی کے تحفظ کا حق

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پر ہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں اور تجسس نہ کرو۔‘‘ (سورہ حجرات، آیت ۱۲)

یعنی لوگوں کے دل نہ ٹولو، ایک دوسرے کے عیب تلاش نہ کرو، دوسروں کے حالات اور معاملات کی ٹوہ نہ لگاتے پھرو، لوگوں کے نجی خطوط پڑھنا، دو آدمیوں کی باتیں کان لگا کر سننا، ہمسایوں کے گھر میں جھانکنا، اور مختلف طریقوں سے دوسروں کی خانگی زندگی یا ان کے ذاتی معاملات کی کھوج کرنا ایک بڑی بد اخلاقی ہے جس سے طرح طرح کے فساد رونما ہوتے ہیں، اس لیے ہر انسان کو اپنی نجی زندگی کے تحفظ کا حق دیا گیا ہے اور  دوسروں کو اس میں دخل اندازی سے روکا گیا ہے۔ 

(۴) صفائی پیش کرنے کا حق

’’تم چھپا کر ان کو دوستانہ پیغام بھیجتے ہو حالانکہ جو کچھ تم چھپا کر  کرتے ہو اور جو علانیہ کرتے ہو، ہر چیز کو میں بخوبی جانتا ہوں۔‘‘ (سورہ ممتحنہ آیت ۱) 

یہ اشارہ بدری صحابی حضرت حاطب بن بلتعہ کی طرف ہے۔ مشرکینِ مکہ کے نام ان کا ایک خط مکہ معظمہ پر حملہ کی خبر کے بارے میں پکڑا گیا تھا۔ مگر اس سنگین جرم کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کھلے عام اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا پورا موقعہ دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جرم کی نوعیت خواہ کچھ بھی ہو، صفائی کا موقع دیے بغیر سزا دینا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اسلام نے انسان کے اس بنیادی حق کی پاسبانی نازک سے نازک موقعہ پر بھی کر دکھائی ہے۔ 

(۵) اظہارِ رائے کی آزادی 

قرآن مجید کی سورہ شوریٰ کی آیت ۳۸ میں فرمایا کہ وہ اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں۔ دوسری جگہ سورہ آل عمران کی آیت ۱۵۹ اس طرح ہے کہ: 

’’(اے پیغمبر) ان کے قصور معاف کر دو، ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو۔ پھر جب تمہارا عزم (مشورے کے نتیجہ میں) کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو۔‘‘ 

مشاورت اسلامی طرزِ زندگی کا ایک اہم ستون ہے۔ مشاورت کا اصول اپنی نوعیت اور فطرت کے لحاظ سے اس کا متقاضی ہے کہ اجتماعی معاملات جن لوگوں کے حقوق اور مفادات سے تعلق رکھتے ہیں، انہیں اظہارِ رائے کی پوری آزادی حاصل ہو اور مشورہ دینے والے اپنے علم، ایمان اور ضمیر کے مطابق رائے دے سکیں۔

۲۔ سماجی حقوق

(۱) انسانی مساوات

’’کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملہ میں فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے معاملہ میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔‘‘ (سورہ احزاب آیت ۳۶)

یہ مذکورہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے حضرت زیدؓ کے لیے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینبؓ بنت جحش سے نکاح کا پیغام دیا تھا۔ حضرت زینبؓ کو اپنے نسلی اور خاندانی فخر کے باوجود اس حکم کے سامنے سر جھکانا پڑا اور اس طرح نسلی امتیاز کے بت کو توڑ کر انسانی مساوات کا بہترین عملی نمونہ کاشانۂ نبوت سے سماج کے سامنے پیش کیا گیا۔

(۲) اجر و ثواب میں مرد و زن کی برابری

’’جو مرد اور عورتیں اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے۔‘‘ (سورہ احزاب آیت ۳۵)

یہ اسلام کی وہ بنیادی قدریں ہیں جنہیں ایک فقرے میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ ان قدروں کے لحاظ سے مرد اور عورت کے درمیان دائرہ عمل کا فرق تو ضرور ہے مگر اجر و ثواب میں دونوں مساوی ہیں۔ 

(۳) والدین کے لیے حسنِ سلوک

’’ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے۔‘‘ (سورہ عنکبوت آیت ۸)

انسان پر مخلوقات میں سے کسی کا حق سب سے بڑھ کر ہے تو وہ اس کے ماں باپ ہیں، صاف ستھرے سماج کے قیام کے لیے یہ ایک اہم چیز ہے۔

(۴) انسانی جان کی حرمت

’’اور جو اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے۔‘‘ (سورہ فرقان آیت ۲۸)

ایک دوسری جگہ بلا خطا کسی کی جان لینے کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ انسانی جان کی حرمت سماج کے ان بنیادی حقوق میں سے ہے جس کے بغیر کوئی سماج زندہ نہیں رہ سکتا۔

(۵) ازدواجی زندگی

’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔‘‘ (سوره روم آیت ۲۱) 

ایک پاکیزہ سماج میں یہ ضروری ہے کہ شادی کے قابل لوگ زیادہ دیر مجرد نہ رہیں تاکہ بلاوجہ کی شہوانی لہر سماج کی فضا کو زہر آلود نہ کر سکے۔ شادی کے نتیجے میں ایک دوسرے کے لیے سکون و اطمینان کے ساتھ مودت و رحمت وہ بنیادی چیز ہے جو انسانی نسل کے برقرار رہنے کے علاوہ انسانی تہذیب و تمدن کے وجود میں آنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس کی بدولت گھر بنتا ہے، خاندان اور قبیلے وجود میں آتے ہیں، اور اس کی بدولت انسانی زندگی میں تمدن کا نشوونما ہوتا ہے۔ اس لیے ازدواجی زندگی ایک سماجی حق بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کے آخری نبی نے اس کو اپنی سنت اور طریقہ قرار دے کر اس کو عبادت کا تقدس بھی بخش دیا ہے۔

۳۔ سیاسی حقوق

(۱) اسلام کے سیاسی نظام کی اولین دفعہ 

’’اے ایمان لانے والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی، اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں۔‘‘ (سورہ نساء آیت ۵۹) 

قرآن مجید کی یہ آیت اسلام کے سیاسی نظام کی بنیادی اور اولین دفعہ ہے، اسلامی نظام میں اصل مطاع اللہ تعالیٰ ہے، اور رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت کی واحد عملی صورت ہے۔ رسول ہی ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم تک خدا کے احکام اور فرامین پہنچتے ہیں۔ اولوالامر کی اطاعت خدا اور رسول کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔

(۲) عمومی اور مقصدی تعلیم

اسلام کے سیاسی نظام میں عمومی اور مقصدی تعلیم کا ایک بنیادی حق ہے۔ ارشاد ہے: 

’’ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصہ سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقہ کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ غیر مسلمانہ روش سے پر ہیز کریں۔‘‘ (سورہ توبہ آیت ۱۲۱)

(۳) سیاسی ولایت کا حق

اسلام کے سیاسی نظام میں ولایت کا حق صرف ان باشندوں کو ہے جو اسلامی مملکت کی حدود میں ہوں، لیکن اخوت کا رشتہ بدستور ہے۔ اور بین الاقوامی ذمہ داریاں نیز اخلاقی حدود کا پاس رکھتے ہوئے مظلوم کی امداد مسلم حکومت کی ذمہ داری ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا: 

’’وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کر کے (دارالاسلام میں) نہیں آئے، تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت کر کے نہ آ جائیں۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملہ میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے، لیکن ایسی کسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے۔‘‘ (سورہ انفال آیت ۷۲)

(۴) سیاسی سربراہ منتخب کرنے کا حق

اسلام کے سیاسی نظام میں اس کی بڑی اہمیت ہے کہ قوم کے معاملات چلانے کے لیے قوم کا سربراہ سب کی مرضی سے مقرر کیا جائے۔ اور وہ قومی معاملات کو ایسے صاحبِ رائے لوگوں کے مشورے سے چلائے جن کو قوم قابلِ اعتماد سمجھتی ہو۔ اور وہ اس وقت تک سربراہ رہے جب تک قوم خود اسے اپنا سربراہ بنائے رکھنا چاہے۔ یہ چیز امرهم شوریٰ بینهم  (سوره شوریٰ آیت ۲۸) کا ایک لازمی تقاضا اور سیاسی نظام کی ایک اہم دفعہ ہے۔

(۵) بے لاگ انصاف کا حصول

’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں۔‘‘ (شوریٰ آیت ۱۵)

اسلام کے سیاسی نظام میں بے لاگ اور سب کے لیے یکساں انصاف مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے جس میں کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو سکے۔

(۶) حقوق کی یکسانیت

بہترین نظام وہ ہے جس میں ہر ایک کے حقوق یکساں ہوں۔ یہ نہیں کہ ملک کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر کے کسی کو مراعات و امتیازات سے نوازا جائے اور کسی کو محکوم بنا کر دبایا، پیسا اور لوٹا جائے۔ اسلامی نظامِ حکومت میں نسل، رنگ، زبان یا طبقات کی بنا پر کوئی امتیاز نہیں ہے، البتہ اصول اور مسلک کے اختلاف کی بنا پر سیاسی حقوق میں یہ فرق ہو جاتا ہے کہ جو اس کے اصولوں کو تسلیم کرے وہی زمامِ حکومت سنبھال سکتا ہے۔ 

قرآن مجید میں فرعون کی حکومت کی برائی ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:

’’واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا، ان میں سے ایک گروہ کو ذلیل کرتا تھا۔‘‘ (قصص آیت ۴)

۴۔ اقتصادی حقوق

(۱) قرآن کا معاشی نقطۂ نظر

’’تیرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے رزق تنگ کر دیتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور انہیں دیکھ رہا ہے۔ اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمھیں بھی۔‘‘ (بنی اسرائیل آیت ۳۰ و ۳۱) 

قرآن مجید کا معاشی نقطۂ نظر جو مذکورہ آیتوں سے واضح ہو جاتا ہے، یہ ہے کہ رزق اور وسائلِ رزق میں تفاوت بجائے خود کوئی برائی نہیں ہے، جسے مٹانا اور مصنوعی طور پر ایک بے طبقات سوسائٹی پیدا کرنا کسی درجہ میں بھی مطلوب ہو۔ صحیح راہِ عمل یہ ہے کہ سوسائٹی کے اخلاق و اطوار اور قوانینِ عمل کو اس انداز پر ڈھال دیا جائے کہ معاشی تفاوت کسی ظلم و بے انصافی کا موجب بننے کے بجائے ان بے شمار اخلاقی، روحانی اور تمدنی فوائد و برکات کا ذریعہ بن جائے جن کی خاطر ہی دراصل خالقِ کائنات نے اپنے بندوں کے درمیان یہ فرق و تفاوت رکھا ہے۔ 

کھانے والوں کو گھٹانے کی منفی کوشش کے بجائے افزائشِ رزق کی تعمیری کوششوں کی طرف انسان کو متوجہ کیا گیا ہے۔ اور تنبیہ کی گئی ہے کہ اے انسان رزق رسانی کا انتظام تیرے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ اس پروردگار کے ہاتھ میں ہے جس نے تجھے زمین میں بسایا ہے، جس طرح وہ پہلے آنے والوں کو روزی دیتا رہا ہے، بعد کے آنے والوں کو بھی دے گا۔ تاریخ کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ دنیا میں کھانے والی آبادی جتنی بڑھتی گئی اتنے ہی معاشی ذرائع وسیع ہوتے چلے گئے۔ 

(۲) دولت کی گردش

’’تا کہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔‘‘ (سورہ حشر آیت ۷)

اس آیت میں اسلامی معاشرے اور حکومت کی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہئے، ایسا نہ ہو کہ مال صرف مال داروں ہی میں گھومتا رہے، یا امیر روز بروز امیر تر اور غریب دن بدن غریب تر ہوتے چلے جائیں۔ 

اس مقصد کے لیے سود حرام کیا گیا ہے، زکوٰۃ فرض کی گئی، مالِ غنیمت میں خمس مقرر کیا گیا، صدقات کی تلقین کی گئی، مختلف قسم کے کفاروں کی ایسی صورتیں تجویز کی گئیں جن سے دولت کے بہاؤ کا رخ معاشرے کے غریب طبقات کی طرف پھر جائے۔ میراث کا ایسا قانون بنایا گیا کہ ہر مرنے والے کی چھوڑی ہوئی دولت زیادہ سے زیادہ وسیع دائرے میں پھیل جائے۔ اخلاقی حیثیت سے بخل کو سخت قابلِ مذمت اور فیاضی کو بہترین صفت قرار دیا گیا۔ غرض وہ انتظامات کیے گئے کہ دولت کے ذرائع پر مالدار اور بااثر لوگوں کی اجارہ داری قائم نہ ہو، اور دولت کا بہاؤ امیروں سے غریبوں کی طرف ہو جائے۔

انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ

ترجمہ : ابو صباحت

تمہید

ہر گاہ کہ نوع انسانی کے جملہ افراد کی فطری تکریم اور ان کے مساوی اور ناقابلِ انتقال حقوق دنیا میں آزادی، انصاف اور امن کی بنیاد ہیں۔ 
ہر گاہ کہ انسانی حقوق کو نظر انداز کرنے اور ان کے خلاف ورزی کرنے کا نتیجہ ایسے وحشیانہ اعمال کی صورت میں نکلا ہے، جنہوں نے انسانیت کے ضمیر کو روند ڈالا، اور یہ کہ اب باقاعدہ طور پر اس امر کا اعلان کر دیا گیا ہے کہ ایک عام آدمی کی سب سے بڑی تمنا ایک ایسی دنیا کی تخلیق ہے جس میں تمام انسان آزادئ رائے و عقیدہ سے اور خوف اور محتاجی سے آزاد زندگی سے لطف اندوز ہوں۔ 
ہر گاہ کہ اگر آخری چارۂ کار کے طور پر جبر اور استبداد کے خلاف انسان کو بغاوت پر اترنے کے لیے مجبور نہیں کرنا ہے، تو یہ ضروری ہے کہ قانون کی حکومت کے ذریعے انسانی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ 
ہر گاہ کہ یہ ضروری ہے کہ قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ دیا جائے۔ 
ہر گاہ کہ اقوام متحدہ کی اقوام نے منشور میں بنیادی انسانی حقوق پر، انسان کی تکریم و قدر و قیمت پر، اور مردوں و عورتوں کے مساوی حقوق پر اپنے ایمان کی توثیق کی ہے۔ اور تہیہ کیا ہے کہ سماجی ترقی اور بہتر معیارِ زندگی کو وسیع تر آزادی کے ساتھ فروغ دیا جائے۔ 
ہر گاہ کہ رکن ریاستوں نے باہم عہد کیا ہے کہ اقوام متحدہ سے تعاون کرتے ہوئے  انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا عالمگیر طور پر احترام اور ان کی پابندی کے عمل کو فروغ دیں گی۔
ہر گاہ کہ ان حقوق اور آزادیوں کے بارے میں عام مفاہمت انتہائی اہم ہے تاکہ اس عہد کو مکمل طور پر پورا کیا جائے۔ 
لہٰذا اب جنرل اسمبلی تمام اقوام کے لیے حصول کے عام معیار کے طور پر انسانی حقوق کے اس عالمگیر اعلامیہ کا اعلان کرتی ہے کہ ان حقوق اور آزادیوں کے لیے احترام کو فروغ دینے کے لیے بتدریج اقدامات کے ذریعے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہر فرد اور معاشرے کا ہر عضو، اس اعلامیہ کو ہمیشہ ذہن میں رکھتے ہوئے، تعلیم و تعلم کے ذریعے جدوجہد کرے گا۔ تا کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے مابین اور ان کے زیر تسلط علاقوں میں بھی، ان کو عالمگیر طور پر اور مؤثر طریقے سے تسلیم کیا جائے اور ان کی پابندی کی جائے۔

مساواتِ انسانی

ا۔ تمام انسان آزاد اور تکریم و حقوق کے لحاظ سے برابر ہوتے ہیں، انہیں پیدائشی طور پر عقل اور ضمیر عطا کیا جاتا ہے، اور انہیں ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ سلوک کرنا چاہئے۔

عدمِ امتیاز

۲۔ ہر شخص کسی بھی قسم کے امتیاز جیسے نسل، رنگ، جنس، زبان، مذہب، سیاسی یا دیگر رائے، قومی یا معاشرتی اصل، جائیداد، پیدائشی یا کسی دیگر حیثیت کے بغیر، اس اعلامیہ میں مذکور تمام حقوق اور آزادیوں کا مستحق ہے۔ 
مزید برآں اگر کوئی ملک یا علاقہ حاکمانہ اختیار رکھتا ہو، یا کسی اور بین الاقوامی حیثیت کا مالک ہو، خواہ یہ ملک یا علاقہ آزاد ہو، یا اقوام متحدہ کے زیر انتداب ہو، یا غیر حکومت خود اختیاری میں ہو، یا محدوداً‌ خودمختار ہو، تو ان سب سے تعلق رکھنے والوں میں سے کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔

ذات اور آزادی کا تحفظ

۳۔ ہر شخص زندگی، آزادی اور اپنی ذات کے تحفظ کا حق رکھتا ہے۔

انسدادِ غلامی

۴۔ کسی شخص کو غلام کی حیثیت سے یا غلامی میں نہیں رکھا جائے گا، غلامی اور غلامی کی تجارت اپنی تمام صورتوں میں ممنوع ہوگی۔

تشدد کا خاتمہ 

۵۔ کسی شخص کو تشدد اور ظلم کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ اور کسی شخص کے ساتھ غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک نہیں کیا جائے گا، یا ایسی سزا نہیں دی جائے گی۔ 

فرد کی حیثیت سے شناخت

۶۔ ہر شخص ہر جگہ قانون کے سامنے ایک فرد کی حیثیت سے پہچانے جانے کا حق رکھتا ہے۔

قانونی مساوات

۷۔ قانون کی نظر میں سب مساوی حیثیت رکھتے ہیں اور کسی امتیاز کے بغیر مساوی قانونی تحفظ کا حق رکھتے ہیں، ان کو اس اعلامیہ کی خلاف ورزی کی صورت میں کسی امتیاز کے بغیر تحفظ حاصل ہے اور اس امتیاز پر اشتعال پیدا کرنے کی صورت میں بھی۔

مؤثر دادرسی

۸۔ دستور یا قانون نے جو بنیادی حقوق عطا کیے ہوں، ان کی خلاف ورزی کرنے پر متازه شخص کو مجاز قومی عدالتوں سے مؤثر دادرسی حاصل کرنے کا حق ہے۔

ناجائز جبس و جلا وطنی

۹۔ کسی شخص کو من مانے طور پر محبوس یا جلا وطن نہیں کیا جائے گا۔

منصفانہ سماعت

۱۰۔ ہر شخص مکمل مساوات کے ساتھ اس امر کا مستحق ہے کہ آزاد اور غیر جانبدار عدالت میں اس کے حقوق اور فرائض کے تعین میں اور اس کے خلاف فوجداری جرم میں منصفانہ اور کھلے بندوں سماعت کی جائے۔

دفاع کے لیے ضروری سہولتیں

۱۱۔ (۱) ہر شخص، جس پر کسی تعزیری جرم کا الزام لگایا جائے، اس امر کا حق رکھتا ہے کہ اسے اس وقت تک بے گناہ سمجھا جائے، جب تک کھلی عدالت میں قانون کے مطابق وہ قصور وار ثابت نہ ہو جائے، جب کہ اس عدالت میں دفاع کے لیے اسے ضروری سہولتوں  کی ضمانت میسر ہو۔ 
(۲) کسی شخص کو ایسے فعل یا ترکِ فعل کی وجہ سے تعزیری جرم کا مجرم قرار نہیں دیا جائے گا، جو ایسے جرم کے ارتکاب کے وقت کسی قومی یا بین الاقوامی قانون کی رو سے تعزیری جرم کی حیثیت نہیں رکھتا تھا، نہ ہی اس سے شدید سزا دی جائے گی جو ارتکابِ جرم کے وقت اطلاق پذیر تھی۔

خلوت میں مداخلت

۱۲۔ من مانے طور پر کسی شخص کی خلوت، خاندان، گھر یا خط و کتابت میں مداخلت نہیں کی جائے گی، اور نہ ہی اس کی عزت اور شہرت پر کوئی حملہ کیا جائے گا۔ ہر شخص کو ایسی مداخلت یا حملے کے خلاف قانون کے تحفظ کا حق حاصل ہو گا۔ 

نقل و حرکت و رہائش کی آزادی

۱۳۔ (۱) ہر شخص کو اس کے ملک کے حدود میں نقل و حرکت اور رہائش کی آزادی کا
حق ہو گا۔
(۲) ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ بشمول اپنے ملک کے کسی ملک کو چھوڑ سکتا ہے
اور اپنے ملک میں واپس آ سکتا ہے۔

پناہ کا حق

۱۴۔ (۱) ہر شخص ایذا رسانی سے بچنے کے لیے دوسرے ملکوں میں پناہ لے سکتا ہے اور اس پناہ سے مستفید ہو سکتا ہے۔ 
(۲) یہ حق اس صورت میں استعمال نہیں ہو سکے گا جب غیر سیاسی جرائم کے نتیجے میں دی جانے والی اذیت جائز طور پر دی جائے، یا اقوام متحدہ کے مقاصد اور اصولوں کے خلاف افعال کے ارتکاب کے نتیجے میں دی جانے والی اذیت جائز طور پر دی جائے۔

قومیت

۱۵۔ (۱) ہر شخص کو کوئی قومیت اختیار کرنے کا حق حاصل ہے۔ 
(۲) کسی شخص کو اس کی قومیت سے من مانے طور پر محروم نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اس کے قومیت تبدیل کرنے کے حق سے انکار کیا جائے گا۔ 

آزاد مرضی سے شادی

۱۶۔ (۱) پوری عمر کے مردوں اور عورتوں کو نسل، قومیت یا مذہب کی کسی تحدید کے بغیر باہم شادی کرنے اور خاندان کی بنیاد رکھنے کا حق حاصل ہے۔ شادی، دورانِ شادی اور اس کی تنسیخ کے سلسلے میں وہ مساوی حقوق رکھتے ہیں۔
(۲) شادی کے خواہش مند جوڑوں کی آزاد اور پوری مرضی سے ہی شادی کی جا سکے گی۔
(۳) خاندان معاشرے کا قدرتی اور بنیادی اکائی گروپ ہے اور معاشرے اور ریاست کی طرف سے تحفظ کا حق رکھتا ہے۔

جائیداد کا حصول 

۱۷۔ (۱) ہر شخص کو خود اپنے لیے اور دوسرے کی شرکت کے ساتھ جائیداد حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ 
(۲) کسی شخص کو من مانے طور پر اس کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جائے گا۔

آزادئ ضمیر و آزادئ عقیدہ

۱۸۔ ہر شخص کو آزادئ خیال، آزادئ ضمیر اور آزادئ مذہب کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں اپنا مذہب یا عقیدہ تبدیل کرنے، اور انفرادی اور اجتماعی طور پر علیحدگی میں یا سب کے سامنے، اپنے مذہب یا عقیدے کی تعلیم، اس پر عمل، اس کے مطابق عبادت کرنے اور اس کی پابندی کرنے کی آزادی کا حق شامل ہے۔ 

آزادئ رائے و آزادئ اظہار

۱۹۔ ہر شخص کو آزادئ رائے اور آزادئ اظہار کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں بلا مداخلت رائے رکھنے کی آزادی اور بلا لحاظ علاقائی حدود کسی بھی ذریعے سے اطلاعات اور نظریات تلاش کرنے، حاصل کرنے، اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کی آزادی شامل ہے۔

اجتماع و جماعت سازی

۲۰۔ (۱) ہر شخص کو پر امن اجتماع اور جماعت سازی کی آزادی کا حق حاصل ہے۔ 
(۲) کسی شخص کو کسی جماعت سے ملحق ہونے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔

حکومت اور ملازمت میں حصہ

۲۱- (۱) ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ براہ راست یا آزادی سے منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنے ملک کی حکومت میں حصہ لے۔
(۲) ہر شخص کو اپنے ملک کی سرکاری ملازمتوں میں مساوی رسائی کا حق حاصل ہے۔ 
(۳) عوام کی مرضی حکومت کے اقتدار کی بنیاد ہوگی۔ یہ مرضی وقفے وقفے سے اور ایسے صحیح انتخابات کے ذریعے ظاہر کی جائے گی جو عالمگیر اور مساوی رائے دہندگی پر مبنی ہوں اور خفیہ یکساں آزاد رائے دہی کے طریقے پر عمل میں آئے گی۔

معاشرتی حقوق

۲۲۔ معاشرے کے رکن کی حیثیت سے ہر شخص کو معاشرتی تحفظ کا حق حاصل ہے۔ اور قومی کوششوں اور بین الاقوامی تعاون کے ذریعے اور ہر ریاست کی تنظیم اور ذرائع کے مطابق ایسے معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق، جو اس کی شخصیت کی تکریم اور آزاد نشوونما کے لیے ضروری ہوں، حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے۔

روزگار

۲۳۔ (۱) ہر شخص کو کام، ملازمت کا آزادانہ انتخاب، کام کے منصفانہ اور موافق حالات اور بے روزگاری کے خلاف تحفظ کا حق حاصل ہے۔
(۲) ہر شخص کو بلا امتیاز مساوی تنخواہ اور مساوی کام کا حق حاصل ہے۔
(۳) ہر شخص جو کام کرتا ہے، ایسے منصفانہ اور موافق معاوضے کا حق رکھتا ہے جو اس کو اور اس کے خاندان کو زندہ رکھے، اسے انسانی تکریم کے قابل بنائے، اور اگر ضروری ہو، معاشرتی تحفظ کے دیگر ذرائع سے اس میں اضافہ کرے۔ 
(۲) ہر شخص اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ٹریڈ یونین بنانے اور اس میں شامل ہونے کا حق رکھتا ہے۔

آرام و تفریح

۲۴۔ ہر شخص آرام و تفریح کا حق رکھتا ہے، اس حق میں اوقات کار اور باتنخواہ موقت  تعطیل کے بارے میں تحدید کا حق شامل ہے۔ 

بہتر معیارِ زندگی اور ماں و بچے کے حقوق

۲۵۔ (۱) ہر شخص کو ایسے معیارِ زندگی کا حق حاصل ہے جو اس کی اور اس کے خاندان کی صحت اور بہودی، بشمول غذا، لباس، رہائش، طبی دیکھ بھال، اور ضروری سماجی خدمات کے حصول کے لیے کافی ہو۔ اور وہ بے روزگاری، بیماری، معذوری، بیوگی پیرانہ سالی، یا اس کے اختیار سے باہر کے حالات میں واقع ہونے والی عدمِ روزگار کی دیگر صورت حال میں تحفظ کا حق رکھتا ہے۔ 
(۲) ماں اور بچے کو خصوصی توجہ اور مدد کا حق حاصل ہے۔ تمام بچے، خواہ وہ شادی کے نتیجے میں پیدا ہوں یا بغیر شادی کے پیدا ہوں، یکساں سماجی تحفظ سے بہرہ ور ہونے کا حق رکھتے ہیں۔

تعلیم

۳۶۔ (۱) ہر شخص کو تعلیم کے حصول کا حق حاصل ہے۔ تعلیم مفت ہوگی، کم از کم ابتدائی اور بنیادی سطح پر۔ ابتدائی تعلیم لازمی ہوگی، تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم عمومی طور پر میسر کی جائے گی، اور اعلیٰ تعلیم تک اہمیت کے مطابق یکساں طور پر ہر شخص کی رسائی ہوگی۔ 
(۲) تعلیم کا مقصد انسانی شخصیت کی مکمل نشوونما اور انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے احترام کی پختگی کا حصول ہو گا۔ تعلیم تمام اقوام، نسلی اور مذہبی گروہوں میں مفاہمت، رواداری اور دوستی کو فروغ دے گی، اور قیامِ امن کے لیے اقوام متحدہ کی سرگرمیوں کو آگے بڑھائے گی۔
(۳) والدین کو اپنے بچوں کو دی جانے والی تعلیم کے انتخاب کا ترجیجی حق حاصل ہو گا۔

ثقافتی و تخلیقی حقوق

۲۷۔ (۱) ہر شخص کو آزادنہ طور پر معاشرے کی ثقافتی زندگی میں حصہ لینے، فنونِ لطیفہ سے حظ اٹھانے، اور سائنسی ترقی اور اس کے فوائد سے مستفید ہونے کا حق حاصل ہے۔ 
(۲) ہر شخص سائنسی، ادبی اور فنونِ لطیفہ کی تخلیقات، جس کا کہ وہ شخص خالق ہو، کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے اخلاقی اور مادی فوائد کے تحفظ کا حق رکھتا ہے۔ 

حقوق کے حصول کے لیے سازگار حالات

۲۸۔ هر شخص ایسے معاشرتی اور بین الاقوامی نظم کا حق رکھتا ہے جس میں اس اعلامیہ میں مندرج حقوق اور آزادیوں کو پورے طور پر حاصل کیا جا سکے۔

حقوق کے سلسلے میں فرد کی ذمہ داری

۲۹۔ (۱) ہر شخص ایسے معاشرے کے قیام کا ذمہ دار ہے جس میں اس کی شخصیت کی آزاد اور مکمل نشوونما ممکن ہو۔ 
(۲) اپنے حقوق اور آزادیوں سے استفادہ کرتے ہوئے ہر شخص صرف ایسی پابندیوں کی متابعت کرے گا جو قانون کے ذریعے مقرر کی جائیں گی۔ اور ان قوانین کا صرف یہ مقصد ہوگا کہ دوسروں کے حقوق اور آزادیوں کے احترام کو تسلیم کرایا جائے، اور ایک جمہوری معاشرے میں اخلاق، نظمِ عامہ اور بہبودئ عامہ کے منصفانہ تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ 
(۳) ان حقوق اور آزادیوں کو اقوام متحدہ کے مقاصد اور اصولوں کے خلاف کاموں میں استعمال نہیں کیا جائے گا۔

اعلامیہ ہذا کی تعبیر

۳۰۔ اس اعلامیہ میں کسی امر کی ایسی تعبیر نہیں کی جائے گی جس سے کسی ریاست، گروہ یا فرد کو یہ حق ملے کہ وہ اس میں شامل حقوق اور آزادیوں کو تباہ کرنے کے مقصد سے کوئی سرگرمی یا فعل انجام دے سکے۔
(بشکریہ ماہنامہ نوائے قانون اسلام آباد) 

اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اسلامی تعلیمات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے ۷ اپریل ۱۹۹۵ء کو مسجد صدیقیہ سیٹلائٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں فورم کی ماہانہ فکری نشست اور ۱۷ اپریل ۱۹۹۵ء کو مرکزی جامع مسجد شادمان لاہور میں مسلم ہیومن رائٹس سوسائٹی کی فکری نشست سے مندرجہ بالا موضوع پر تفصیلی خطاب کیا۔ دونوں خطابات کو یکجا ترتیب کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔ ادارہ الشریعہ)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج ہماری گفتگو کا عنوان ہے ’’اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اسلامی تعلیمات‘‘ جس کے تحت ہم اس فکری اور نظریاتی کشمکش کا جائزہ لینا چاہتے ہیں جو اس وقت عالمی سطح پر انسانی حقوق اور ان کی تعبیر و تشریح کے حوالے سے جاری ہے۔

’’انسانی حقوق‘‘ آج کی دنیا میں سب سے زیادہ زیربحث آنے والا موضوع ہے اور یہ مغرب کے ہاتھ میں ایک ایسا فکری ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ مسلم ممالک اور تیسری دنیا پر مسلسل حملہ آور ہے۔ مغرب نے انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے چارٹر کو مسلمہ معیار کا درجہ دے کر کسی بھی معاملہ میں اس سے الگ رویہ رکھنے والے تیسری دنیا اور عالم اسلام کے ممالک کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دینے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ اور اس سلسلہ میں اسے عالمی ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ عالم اسلام اور تیسری دنیا میں اپنی ہم نوا لابیوں کا بھرپور تعاون حاصل ہے جبکہ اس نظریاتی و فکری یلغار میں ملت اسلامیہ کے عقائد و احکام اور روایات و اقدار سب سے زیادہ مغربی دانشوروں، لابیوں اور ذرائع ابلاغ کے حملوں کی زد میں ہیں۔

اس کشمکش میں جب ہم اسلام کے عقائد و احکام پر مغربی دانشوروں کے حملوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ یلغار عقائد و احکام اور معاشرت کے تمام شعبوں پر محیط نظر آتی ہے۔ اگر آپ گزشتہ ایک دہائی کے دوران پیش آنے والے واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے حالات کا تجزیہ کریں گے تو آپ کو صورتحال کا نقشہ کچھ یوں نظر آئے گا۔

  • سلمان رشدی کو مغربی ممالک اور ذرائع ابلاغ نے صرف اس ’’کارنامے‘‘ پر آزادیٔ رائے کا ہیرو بنا کر پیش کیا ہے کہ اس نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ مسلمانوں کے بے پایاں عشق و محبت پر ضرب لگانے کی کوشش کی اور ملت اسلامیہ کے اس اجماعی عقیدہ کا دائرہ توڑنا چاہا کہ جناب رسول اللہؐ ہر قسم کے اختلاف، اعتراض اور تنقید سے بالاتر اور غیر مشروط اطاعت کا مرکز ہیں۔
  • تسلیمہ نسرین صرف اس ’’جرأت رندانہ‘‘ پر مغرب کی آنکھوں کا تارا بن گئی ہے کہ اس نے قرآن کریم کے ناقابل تغیر و تبدل ہونے کے عقیدہ پر یہ کہہ کر ضرب لگانے کی کوشش کی کہ آج کے حالات کی روشنی میں قرآن کریم میں ترامیم کی ضرورت ہے۔
  • معاشرتی جرائم کی اسلامی سزاؤں ہاتھ کاٹنے، سنگسار کرنے اور کوڑے مارنے کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیا گیا ہے، پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں مجرم کو کھلے بندوں سزا دینے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی گردانا گیا ہے اور پاکستان میں برائے نام نافذ چند اسلامی تعزیری قوانین کو ختم کرنے کے لیے امریکہ کی طرف سے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
  • توہینِ رسالتؐ پر سزا کے قانون کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیا گیا ہے اور اس قانون کے خاتمہ کے لیے دباؤ ڈالنے کے ساتھ ساتھ مغربی حکومتوں کی طرف سے توہین رسالتؐ کے مرتکب افراد کی حوصلہ افزائی اور پشت پناہی کا سلسلہ جاری ہے۔
  • قادیانیت کو اسلام سے الگ مذہب قرار دینے اور قادیانیوں کو اسلام کا نام اور مسلمانوں کے مذہبی شعائر کے استعمال سے روکنے کے قانونی و آئینی اقدامات کو بھی انسانی حقوق کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ اور قادیانیوں کو مظلوم قرار دے کر امریکہ کی طرف سے ان کے خلاف مذکورہ اقدامات واپس لینے پر زور دیا جا رہا ہے۔
  • اسلام کے معاشرتی اور خاندانی نظام کو معاشرت کے موجودہ عالمی نظام کے منافی قرار دیا جا رہا ہے اور خاندانی زندگی کے بارے میں بیشتر مسلم ممالک میں مروجہ قوانین کو عالمی معیار کے مطابق بدل دینے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ جس میں شادی کے لیے مذہب کی شرط کو ختم کرنے، آزادانہ جنسی تعلقات کے بھرپور مواقع کی فراہمی، ہم جنس پرستی کو قانونی طور پر تسلیم کرنے اور بن بیاہی ماؤں اور ناجائز بچوں کو سماجی تحفظ فراہم کرنے کے تقاضے شامل ہیں۔
  • اسلام کے عقائد و احکام کے ساتھ مسلمانوں کی غیر مشروط اور وفادارانہ وابستگی کو ’’بنیاد پرستی‘‘ قرار دیا جا رہا ہے اور ایسی دینی تحریکات پر بھی ’’دہشت گردی‘‘ کا لیبل چسپاں کر کے انہیں عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مسلسل کردار کشی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جو متعدد مسلم ممالک میں اسلامی عقائد و احکام کے ساتھ وابستگی کی بنا پر ریاستی تشدد کا نشانہ بننے کی وجہ سے اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئی ہیں، یا غیر مسلم ممالک میں موجود مسلم اقلیتوں کی آزادی اور ان کے اسلامی تشخص کے تحفظ کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دے رہی ہیں۔

یہ ہے ایک سرسری خاکہ مغرب کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں سامنے آنے والے اعتراضات اور تقاضوں کا جو گزشتہ ایک عشرہ کے دوران منظم مہم اور مربوط نظریاتی جنگ کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور جن کے سامنے مسلم ممالک کی بیشتر حکومتیں ’’سپر انداز‘‘ ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ چنانچہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزیراعظم نے اپنے حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران یہ کہہ کر مسلم حکمرانوں کے اسی رجحان کی نشاندہی کی ہے کہ وہ ’’انٹرنیشنلزم پر یقین رکھتی ہیں‘‘۔ اس انٹرنیشنلزم کا تصور مغرب کے نزدیک یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے منشور کو پوری دنیا کا مشترکہ دستور تسلیم کر کے تمام ممالک اقوام متحدہ کی بالادستی کے سامنے جھک جائیں، اور اقوام متحدہ کو کنفیڈریشن طرز کی مشترکہ حکومت قرار دے کر ساری دنیا ایک عالمی برادری کی شکل اختیار کر لے۔ گویا وہ مغرب جس نے گزشتہ ایک سو سال کے دوران نیشنلزم اور قومیت کے نام پر عالم اسلام کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے خلافتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، اب انہی ٹکڑوں کو ’’انٹرنیشنلزم‘‘ کے نام پر وہ اپنی بالادستی میں ویسٹرن سولائزیشن میں ضم کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اس اسکیم کے تانے بانے پوری طرح بنے جا چکے ہیں۔

معزز شرکاء محفل! اس نظریاتی معرکہ اور فکری جنگ میں بنیادی حیثیت اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور جنیوا انسانی حقوق کمیشن کے فیصلوں اور قراردادوں کو حاصل ہے۔ ’’انسانی حقوق کا چارٹر‘‘ متن ہے جبکہ جنیوا کنونشن کے فیصلے اور قراردادیں اس کی شرح ہیں جو اس نظریاتی جنگ میں مغرب کے ہاتھ میں ایک مضبوط ہتھیار کا کام دے رہی ہیں۔ مغرب کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی رکنیت اختیار کرنے والے تمام ممالک نے انسانی حقوق کے اس چارٹر پر دستخط کر کے اسے تسلیم کر لیا ہے اس لیے وہ اس کے پابند ہیں۔ اور جن ممالک میں اس چارٹر کے منافی قوانین نافذ ہیں وہ اس بین الاقوامی معاہدہ کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، اس لیے یہ ضروری ہے کہ تمام ممالک خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم اس عالمی معاہدہ کی پابندی کریں اور اپنے اپنے ملک میں رائج قوانین میں ترامیم کر کے انہیں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے ساتھ ہم آہنگ کریں۔

ہمیں مغرب کے اس موقف اور اس کی پشت پر کار فرما عزائم کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا ہوگا۔ محض جذباتی طور پر اسے مسترد کر دینے سے بات نہیں بنے گی اور ’’ہم نہیں مانتے‘‘ کا خالی نعرہ دنیا بھر کے ان اربوں انسانوں اور عالم اسلام کے ان کروڑوں مسلمانوں کو ہمارے موقف کے بارے میں مطمئن نہیں کر سکے گا جو ورلڈ میڈیا کی براہ راست زد میں ہیں اور جن کی آنکھوں اور کانوں کو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کے پراپیگنڈے کا روز مرہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ مسلم علماء، دانشور اور دینی ادارے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور جنیوا انسانی حقوق کنونشن کی قراردادوں اور فیصلوں کا علمی بنیاد پر جائزہ لیں اور مغرب کے اعتراضات و خدشات کا منطق و استدلال کے ساتھ سامنا کر کے انسانی حقوق کے حوالہ سے ملت اسلامیہ کا موقف سامنے لائیں۔ ہمیں انسانی حقوق کے بارے میں معروضی حالات اور انسانی معاشرہ کو درپیش مسائل کی روشنی میں اپنے موقف کا واضح طورپر تعین کرنا ہوگا اور اسے علم اور منطق و استدلال کی بنیاد پر افہام و تفہیم کے جذبہ کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ ورنہ ہم اس خوفناک نظریاتی جنگ میں اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہو سکیں گے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور اس کی تشریح میں جنیوا انسانی حقوق کنونشن کی قراردادوں اور فیصلوں کا جائزہ ہمیں دو مرحلوں میں لینا ہوگا۔

  • پہلے مرحلہ میں ان دونوں کا گہری نظر سے مطالعہ کر کے اور بحث و مذاکرہ کے عمل سے گزر کر ان دونوں کے ان حصوں کی نشاندہی کرنا ہوگی جو ہمارے خیال میں اسلام کے عقائد و احکام سے متصادم ہیں اور جن کو قبول کرنے کی صورت میں ہمیں اپنے دینی عقائد، احکام اور معاشرتی اقدار سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ انسانی حقوق کے چارٹر اور جنیوا کنونشن کی قراردادوں کے اسلام سے متصادم حصوں کی متعین طور پر نشاندہی کے بعد دنیا بھر کو وسیع پیمانے پر ان سے آگاہ کرنا ہوگا اور عالمی سطح پر ان کی تشہیر کرنا ہوگی تاکہ پوری دنیا کے اہل دانش ہمارے موقف کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔
  • جبکہ دوسرے مرحلے پر ہمیں علمی اور منطقی طور پر اسلام کے ان احکام و قوانین اور روایات و اقدار کی بہتری اور افادیت کو ثابت کرنا ہوگا جنہیں انسانی حقوق کے منافی قرار دیا جا رہا ہے اور جو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر سے متصادم نظر آرہے ہیں۔

سامعین محترم! ان گزارشات کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ چنانچہ بحث کے آغاز کے طور پر ہم اس چارٹر کے بعض حصوں کا ابتدائی اور سرسری طور پر جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ یہ چارٹر اقوام متحدہ نے ۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو جاری کیا تھا اور اس وقت ہمارے سامنے اس کا اردو متن ہے جو اسلام آباد کے ماہنامہ ’’نوائے قانون‘‘ نے دسمبر ۱۹۹۴ء کے شمارے میں شائع کیا ہے۔ انسانی حقوق کے اس چارٹر کی ۳۰ دفعات ہیں اور اس میں اجتماعی زندگی کے کم و بیش تمام شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔

چارٹر کے ابتدائی مطالعہ میں ہم نے اس کی چند دفعات گفتگو کے لیے منتخب کی ہیں جو ہمارے خیال میں بعض اسلامی قوانین و احکام کو انسانی حقوق کے منافی قرار دینے کا باعث بن رہی ہیں لیکن ان دفعات کو زیر بحث لانے سے پہلے چارٹر کی اعتقادی اور فکری بنیاد کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ چارٹر دراصل مغربی فلسفہ حیات اور ویسٹرن سولائزیشن کا نقطۂ عروج ہے جس کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ مذہب کا تعلق صرف عقیدہ، عبادت اور اخلاقیات سے ہے جس میں ہر انسان آزاد ہے کہ وہ عقیدہ، عبادت اور اخلاقیات میں جو رجحان چاہے اختیار کرے اور یہ اس کا ذاتی معاملہ سمجھا جائے جس سے ریاست یا کوئی اور اتھارٹی کسی قسم کا تعرض نہ کرے۔ البتہ انسانی زندگی کے اجتماعی معاملات مثلاً سیاست، قانون، ایڈمنسٹریشن، تجارت، زراعت، اور معیشت کے ساتھ مذہب کا کوئی واسطہ نہیں ہے اور ان امور میں ہر قوم اپنے اجتماعی یا اکثریتی رجحانات کے مطابق کوئی بھی نظام اختیار کر سکتی ہے اور وہ نظام مذہب کی کسی بھی قید یا چھاپ سے آزاد ہوگا۔

اسے اصطلاحی طور پر سیکولرازم سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسی سیکولر ازم کو قبول کرنے کا ہم سے تقاضہ کیا جا رہا ہے۔ سیکولرازم کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ یورپ میں بادشاہ، کلیسا اور جاگیردار کے اتحاد ثلاثہ نے جب غریب عوام پر زندگی کا دائرہ تنگ کر دیا اور بادشاہت اور جاگیرداری کے خلاف بے بس عوام کی بغاوت میں کلیسا اور پادری نے عوام کا ساتھ دینے کی بجائے بادشاہ اور جاگیردار کا ساتھ دیا تو عوامی انقلاب نے بادشاہت اور جاگیرداری کے ساتھ کلیسا اور پادر کی بساط اقتدار بھی الٹ کر رکھ دی اور مذہب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کر کے اس کا دائرہ کار کلیسا کی چار دیواری کے اندر محدود کر دیا۔ لیکن اس تاریخی پس منظر کے پہلو بہ پہلو ایک اعتقادی اور فکری بنیاد بھی ہے جو سیکولرازم اور مغربی جمہوریت کو نظریاتی قوت فراہم کر رہی ہے۔

حضرات مکرم! مغرب کے مادہ پرستانہ فلسفے کی بنیاد نظریہ ارتقاء پر ہے جس کا خاکہ کچھ اس طرح ہے کہ اس دنیا میں جو کسی پیدا کرنے والے اور چلانے والے خدا کے بغیر خود بخود وجود میں آگئی ہے، انسانی نسل حیوانی ارتقاء کا نتیجہ ہے جو کیچڑ سے جنم لینے والے کیڑے سے شروع ہو کر مختلف زمانوں میں شکلیں بدلتا ہوا انسان کی صورت اختیار کر گیا ہے اور یہ اس کی آخری اور حتمی شکل ہے۔ اسی طرح انسانی معاشرہ بھی ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے جو جنگلوں اور غاروں سے شروع ہوا اور مختلف شکلیں بدلتا ہوا اور معاشرت کے مختلف طریقے، قوانین اور نظام آزماتا ہوا جمہوریت، سیکولرازم اور ویسٹرن سولائزیشن کی موجودہ شکل اختیار کر گیا ہے اور یہ انسانی معاشرت کی آخری اور مکمل شکل ہے جس میں اب مزید بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے۔ گویا جس طرح نسلی اعتبار سے انسان آخری منزل میں ہے اور اب اس کے نئی کئی شکل اختیار کرنے کا امکان نہیں ہے، اسی طرح معاشرتی لحاظ سے بھی ویسٹرن سولائزیشن آخری منزل ہے اور اب اس سے بہتر کوئی معاشرتی ڈھانچہ سامنے آنے کا امکان نہیں ہے۔ اسے ’’اینڈ آف ہسٹری‘‘ سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور مغربی دانشور اب ارتقاء کے عمل کے مزید آگے بڑھنے کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے مکمل تباہی کو انسانی زندگی کی اگلی منزل قرار دے رہے ہیں۔

اس طرح جب موجودہ انسانی معاشرہ نہ صرف انسانیت بلکہ پوری کائنات ارضی کی آخری، مکمل اور ترقی یافتہ شکل قرار پاتا ہے اور یہی کائنات وجود کا حاصل ہے تو خیر و شر کا آخری معیار بھی یہی ہے۔ اس لیے جسے یہ انسانی معاشرہ خیر قرار دے دے وہی خیر ہے اور جو اس معاشرہ کے نزدیک شر قرار پائے وہی شر ہے۔ اس کے علاوہ خیر اور شر کو ماپنے اور جانچنے کا کوئی اور پیمانہ موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر کسی چیز یاکام کے خیر یا شر ہونے کا فیصلہ کیا جا سکے۔

مگر اسلام اس تصور کو سرے سے قبول نہیں کرتا بلکہ اس کے برعکس قرآن و سنت پر یقین رکھنے والے ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ یہ کائنات کسی حادثہ کی پیداوار نہیں ہے بلکہ اسے کائنات کے مالک و خالق اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور وہی اسے ایک نظم کے ساتھ چلا رہا ہے۔ اسی طرح انسانی نسل کسی ارتقائی عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک مستقل مخلوق کے طور پر پیدا کیا ہے اور اشرف المخلوقات ٹھہرایا ہے۔ پھر انسانی زندگی کا ایک معاشرہ کی شکل اختیار کر جانا بھی خودرو ارتقائی عمل کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ قرآن کریم کے مطابق نسل انسانی کا پہلا فرد ’’حضرت آدم علیہ السلام‘‘ علم، قانون، شرم و حیا، لباس اور مکان کی سہولتوں سے بہرہ ور تھا۔ اس کے ساتھ ہی ہر باشعور مسلمان یہ عقیدہ بھی رکھتا ہے کہ نسل انسانی اس دنیاوی زندگی میں آسمانی ہدایات کی پابند ہے جو اس کے پاس اس کے خالق و مالک کی طرف سے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعہ آئی ہیں اور ان ہدایات کی آخری اور مکمل شکل جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں جن پر عملدرآمد زندگی کے اگلے اور آخری مرحلہ میں کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ اسلامی تعلیمات میں انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہے لیکن اس تفصیل کے ساتھ کہ اس کے لیے ’’احسن تقویم‘‘ کا خطاب بھی استعمال کیا گیا ہے اور اسے ’’اسفل سافلین‘‘ کے مقام کا مستحق بھی قرار دیا گیا ہے۔

گویا انسان اور انسانی معاشرہ کی موجودہ شکل آخری اور حتمی نہیں ہے، یہ امتحانی گزرگاہ ہے جس سے گزر کر اگلی زندگی میں اسے ’’احسن تقویم‘‘ یا ’’اسفل سافلین‘‘ کی منزل سے ہمکنار ہونا ہے اور وہی اس کا ’’اینڈ آف ہسٹری‘‘ ہوگا۔ اس لیے موجودہ انسانی معاشرہ جب آخری اور حتمی منزل نہیں ہے تو اس کی سوچ اور عقل بھی خیر اور شر کا آخری معیار نہیں ہے بلکہ خیر اور شر کا حتمی معیار آسمانی وحی ہے جس کی مکمل شکل جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی صورت میں موجود ہے۔

معزز شرکائے محفل! یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی پہلی دفعہ میں تمام انسانوں کو آزادی اور حقوق کے ساتھ ساتھ تکریم میں بھی برابر قرار دیا گیا ہے جبکہ اسلام تمام انسانوں کو تکریم کا یکساں مستحق تسلیم نہیں کرتا۔ اس کا اصول ’’ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم‘‘ ہے کہ جو اچھے کردار کا حامل ہے وہ تکریم کا مستحق ہے اور جس کا کردار انسانی اخلاق کے مطابق نہیں ہے وہ تکریم کا حقدار نہیں ہے۔

اس پس منظر میں چارٹر کی دفعہ ۵ کا جائزہ لیا جائے تو جرائم کی اسلامی سزاؤں کو غیر انسانی قرار دینے کی وجہ بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔ دفعہ نمبر ۵ کا عنوان ہے ’’تشدد کا خاتمہ‘‘ اور اس میں کہا گیا ہے کہ:

’’کسی شخص کو تشدد اور ظلم کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا اور کسی شخص کے ساتھ غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک نہیں کیا جائے گا یا ایسی سزا نہیں دی جائے گی۔‘‘

گویا اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق کسی مجرم کو دی جانے والی سزا کا تشدد اور تذلیل کی آمیزش سے خالی ہونا ضروری ہے اور جس سزا میں ان میں سے کسی کوئی عنصر موجود ہوگا وہ انسانی حقوق کے منافی قرار پائے گی۔ اسی بنا پر ہاتھ کاٹنے، کوڑے مارنے اور سنگسار کرنے کی سزاؤں کو انسانی حقوق کے خلاف قرار دیا جا رہا ہے اور اسی بنا پر پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں کسی مجرم کو کھلے بندوں سزا دینے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا جا چکا ہے۔ جبکہ اسلام میں جرائم پر سخت سزاؤں کا مقصد ہی یہ ہے کہ مجرم کو نصیحت ہو اور دیکھنے والے اس سے عبرت پکڑیں۔

اس کے بعد چارٹر کی دفعہ ۱۶ پر ایک نظر ڈال لیجئے جس میں کہا گیا ہے کہ:

’’پوری عمر کے مردوں اور عورتوں کو نسل، قومیت یا مذہب کی کسی تحدید کے بغیر باہم شادی کرنے اور خاندان کی بنیاد رکھنے کا حق حاصل ہے۔ شادی، دوران شادی اور اس کی تنسیخ کے سلسلہ میں وہ مساوی حقوق رکھتے ہیں‘‘۔

اس دفعہ میں اسلامی تعلیمات کی رو سے چند باتیں غور طلب ہیں۔ پہلی بات یہ کہ ’’پوری عمر‘‘ سے کیا مراد ہے؟ کیونکہ اسلامی احکام میں شادی کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ ’’مذہب کی کسی تحدید کے بغیر‘‘ کا مطلب واضح ہے کہ کوئی مسلمان مرد کسی بھی غیر مسلم عورت سے اور کوئی مسلمان عورت کسی بھی غیر مسلم مرد سے شادی کر سکتی ہے جبکہ یہ اسلامی تعلیمات کے یکسر منافی ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ شادی کی تنسیخ کے سلسلہ میں دونوں کے مساوی حقوق کا تصور بھی اسلامی احکام کے خلاف ہے۔ کیونکہ اسلام نے طلاق کے بارے میں واضح ترجیحات قائم کی ہیں اور دونوں کو یکساں حقوق بہرحال نہیں دیے ہیں۔

اس کے سات چارٹر کی دفعہ ۲۵ کی شق ۲ کو بھی شامل کر لیں جس میں کہا گیا ہے کہ:

’’ماں اور بچے کو خصوصی توجہ اور مدد کا حق حاصل ہے۔ تمام بچے خواہ وہ شادی کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہوں یا بغیر شادی کے پیدا ہوں یکساں سماجی تحفظ سے بہرہ ور ہونے کا حق رکھتے ہیں‘‘۔

اور ان دونوں دفعات کے ساتھ گزشتہ برس قاہرہ میں منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی بہبود آبادی کانفرنس کی سفارشات کو بھی سامنے رکھیں جن میں تمام ممالک سے تقاضہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے عوام کو آزادانہ جنسی اختلاط کے مواقع فراہم کریں، اسقاط حمل کی سہولتیں مہیا کریں، بن بیاہی ماؤں کو سماجی تحفظ سے بہرہ ور کریں اور ہم جنسی کو قانونی جواز کی سند عطا کریں۔

حضرات محترم! اب آپ ان تمام امور کے اشتراک کے ساتھ خاندانی زندگی سے متعلقہ قوانین کے بارے میں اس ’’عالمی معیار‘‘ کو سمجھنے کی کوشش کریں جسے اپنانے کی تمام ممالک کو تلقین کی جا رہی ہے اور یہ تقاضا کیا جا رہا ہے کہ اگر کسی ملک میں اس معیار کے خلاف عائلی قوانین نافذ ہیں تو وہ ان میں ترامیم کر کے انہیں اس عالمی معیار کے مطابق ڈھال لے۔

کم و بیش یہی صورتحال آزادیٔ ضمیر، آزادیٔ عقیدہ، آزادیٔ رائے اور آزادیٔ اظہار کے حوالہ سے انسانی حقوق کے مذکرہ چارٹر کی تصریحات کی بھی ہے جو چارٹر کی دفعہ ۱۸ اور ۱۹ میں ان الفاظ کے ساتھ بیان کی گئی ہیں:

’’ہر شخص کو آزادیٔ خیال، آزادیٔ ضمیر اور آزادیٔ مذہب کا حق حاصل ہے، اس حق میں اپنا مذہب اور عقیدہ تبدیل کرنے اور انفرادی و اجتماعی طور پر علیحدگی میں یا سب کے سامنے اپنے مذہب یا عقیدے کی تعلیم، اس پر عمل کرنے، اس کے مطابق عبادت کرنے اور اس کی پابندی کرنے کی آزادی کا حق شامل ہے‘‘۔

’’ہر شخص کو آزادیٔ رائے اور آزادیٔ اظہار کا حق حاصل ہے، اس حق میں بلا مداخلت رائے رکھنے کی آزادی اور بلا لحاظ علاقائی حدود کسی بھی ذریعے سے اطلاعات اور نظریات تلاش کرنے، حاصل کرنے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کی آزادی شامل ہے‘‘۔

ان دونوں دفعات پر ایک بار پھر غور کر لیجئے اور سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین، پاکستان کے چند مسیحی گستاخان رسولؐ اور قادیانیوں سمیت ان تمام طبقوں اور گروہوں کے مبینہ حقوق کا جائزہ لیجئے جن کی پامالی کا ڈھنڈورا پیٹ کر مغرب کی حکومتیں اور ذرائع ابلاغ انسانی حقوق کے حوالہ سے مسلمانوں کے طرز عمل کو مسلسل ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔

حضرات مکرم! بات زیادہ لمبی ہوتی جا رہی ہے اس لیے گفتگو سمیٹتے ہوئے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی بعض دفعات کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ بھی سرسری طور پر کسی لمبی بحث میں الجھے بغیر صرف اس غرض سے کہ ان اعتراضات و شبہات کی نوعیت کا کچھ اندازہ ہو جائے جو انسانی حقوق کے حوالہ سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کی طرف سے کیے جا رہے ہیں۔ تاکہ مغرب کے ان عزائم کو سمجھنا مشکل نہ رہے جو اس کشمکش میں اس کے اہداف کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ یہ ایک سرسری اور ابتدائی مطالعہ ہے جو علماء کرام اور دانشوروں کو مسئلہ کی سنگینی اور اہمیت کا احساس دلانے کے لیے ہے۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ:

  • علماء کرام اور اہل دانش اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور اس کی تشریح و تعبیر میں جنیوا انسانی حقوق کمیشن کی قراردادوں اور فیصلوں کا گہری نظر سے مطالعہ کریں اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کی ایک ایک شق کا تجزیہ کریں،
  • اس پر بڑے دینی اداروں اور مدارس میں مذاکروں اور علمی بحث و مباحثہ کا اہتمام کیا جائے،
  • قرآن کریم، حدیث نبویؐ اور فقہ کی تدریس و تعلیم میں اساتذہ ان موضوعات کو اپنی گفتگو کا حصہ بنائیں،
  • اور اہل قلم قومی اخبارات اور دینی جرائد میں ان مسائل پر اظہار خیال کریں۔

لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس تمام تر گفتگو اور مباحثہ میں سیاسی نعرہ بازی اور مناظرانہ اسلوب سے گریز کرتے ہوئے خالصتاً علمی زبان اور منطقی و استدلالی انداز اختیار کیا جائے تاکہ ہم دنیا پر اسلام کی حقانیت، افادیت اور ضرورت کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کی نئی نسل اور تعلیم یافتہ طبقہ کی غالب اکثریت کو غیر شعوری ارتداد سے بچا سکیں جو اسلام کے احکام و قوانین پر مغربی فلسفہ کے اعتراضات کے مسلسل یکطرفہ پراپیگنڈہ کا کوئی معقول جواب نہ پا کر دھیرے دھیرے اس کے دائرۂ اثر میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ خدا کرے کہ علمی شخصیات اور دینی ادارے وقت کے اس سب سے بڑے چیلنج کا صحیح طور پر ادراک کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔

انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیہ پر ایک نظر

مولانا مفتی عبد الشکور ترمذی

انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ زیر نظر ہے، اس پر تبصرے کے لیے مختصر طور پر یہ گزارش ہے انسانی حقوق کی تفصیل سے پہلے کہ وہ کون کون سے ہیں اور ان میں سے کون سا حق صحیح ہے اور کون سا غلط؟ اصولی طور پر اس کا فیصلہ کرنا اور اس کی تعیین ضروری ہے کہ ان حقوق کی تعیین کا حق کس کو ہے اور ان کی تعیین کا معیار کیا ہے؟ 
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ انسانی حقوق کی تعیین اور تفصیل عقلِ انسانی کے ذریعے ہو سکتی ہے اور یہی عقل ان انسانی حقوق کی تعیین کا معیار بن سکتی ہے۔ چنانچہ اسی کو معیار بنا کر انسانی حقوق کا ایک اعلامیہ اقوام متحدہ نے بھی جاری کر رکھا ہے، لیکن یہ معیار اور تعیینِ حقوق کا طریقہ خود عقل کے خلاف ہے، اس لیے کہ عقلِ انسانی میں خلقتًا بہت فرق ہے۔ کسی کی عقل کم اور کسی کی درمیانی درجہ کی اور کسی کی کامل درجہ کی ہوتی ہے، اور یہ بات مشاہدے سے بداہتاً‌ معلوم اور ثابت ہے۔ خود اس کا فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کہ فلاں شخص کی عقل کس درجہ کی ہے؟ ہر شخص دعویٰ کر سکتا ہے کہ میری عقل کامل درجے کی ہے۔ جب عقلِ انسانی کے اندر خلقی اور فطری تفاوت پایا جاتا ہے تو اس کو حقوقِ انسانی کی تعیین کے لیے کیسے معیار بنایا جا سکتا ہے؟
اس لیے اسلامی تعلیمات کے مطابق انسانی حقوق کی تعیین کا حق تمام کائنات اور انسانوں کے خالق صرف اللہ رب العزت کو ہی ہے۔ اور جو حقوق اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے معین اور مقرر کر دیے ہیں انہی حقوق کے وہ جائز طور پر مستحق ہیں۔ اپنی طرف سے عقلِ انسانی کے تجویز کیے ہوئے حقوق، حقوق کہلانے کے ہی مستحق نہیں ہیں۔ اب اس تجویز کی بنیاد پر کسی کے حقوق کا تحفظ کرنا، ایسے حقوق کے تحفظ کا دعویٰ کرنا ہے جو درحقیقت حقوق نہیں ہیں بلکہ کسی عقلِ انسانی کی خود تراشیدہ اور من گھڑت تجویزیں ہیں، جن کو وہ دوسرے انسانوں پر بجبر نافذ کرنا چاہتا ہے، اور ان کو اپنی عقل کا تابع اور غلام بنا کر دوسروں سے اپنی عقل کی خدائی منوانا چاہتا ہے۔ 
ایسے حقوق جس کو عقلِ انسانی نے تجویز کیا ہو، اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ ان کو تجویز کرنے والی عقل کس درجہ کی ہے، ان کو بغیر چوں و چرا تسلیم کر لینا خود عقل کے خلاف ہے، اور خالقِ کائنات کے بجائے عقلِ انسانی کو خالق کا درجہ دینے کے مترادف ہے۔ مقصد یہ ہے کہ عقلِ انسانی اول تو خود محدود اور ایک حد پر جا کر ختم ہو جاتی ہے۔ دوسرے عقلوں میں باہم اختلاف اور تضاد پایا جاتا ہے، دو انسانوں کی عقل بھی برابر و مساوی نہیں ہوتی اور اس اختلاف کو مٹایا نہیں جا سکتا، یہ فطری اور خلقی ہوتا ہے۔ اس لیے وہ حقوق کے متعین کرنے کے لیے نہ صرف یہ کہ کافی نہیں بلکہ نہایت درجہ مضرت رساں اور باعثِ فساد ہے۔ 
اب صرف ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ ذاتِ گرامی جس نے پوری کائنات کو پیدا کیا وہی ان کے حقوق بھی متعین کرے۔ وہی بتلائے کہ انسانی حقوق کون سے ہیں، اور ان کے تحفظ کا کیا طریقہ ہے۔ خالقِ کائنات کے بتلائے ہوئے حقوق اور ان کے تحفظ کے طریقے کو بلا چوں و چرا تسلیم کر لینا مخلوق پر اس کا حق ہے، ان کو تسلیم نہ کرنا خالق کی حق تلفی اور اس کی بغاوت ہے۔ اس لیے اللہ کو تسلیم کرنا عقل کا بھی تقاضا ہے۔ اور سطحی نظر سے دیکھنے والوں کو جو ان پر کچھ عقلی اشکالات پیش آتے ہیں وہ ان کی عقل کی کمی اور کج فہمی کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔
یہ اللہ تعالی کا بڑا کرم اور احسانِ عظیم ہے کہ اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اپنے حقوق کے ساتھ انسانوں کے بلکہ حیوانات کے بھی حقوق متعین کر دیے۔ خدا اور رسول کے بتلائے ہوئے ان حقوق پر عمل کرنا امنِ عامہ کا ضامن ہے۔ 
حقوقِ انسانی کے دعوے دار عام طور پر خدا اور رسول کی مقرر کردہ سزاؤں کو سخت بتلاتے ہیں۔ اس اعلامیہ میں بھی اس کو ’’تشدد‘‘ کہا گیا ہے اور ان کو حقوقِ انسانی کے خلاف کہتے ہیں۔ مگر جن جرائم پر یہ سزائیں مقرر کی گئی ہیں ان کے ارتکاب سے اللہ تعالیٰ اور حقوقِ انسانی کی کتنی حق تلفی اور خلاف ورزی ہوتی ہے، اس پر غور نہیں کرتے۔ گویا جرائم پیشہ لوگوں پر رحم کے آنسو بہاتے ہیں، مگر جن لوگوں کی زندگی ان جرائم پیشہ لوگوں کی وجہ سے خطرے میں ہے، نہ ان کی جان محفوظ، نہ ان کا مال محفوظ، نہ ان کی عزت کا پاس۔ ان پر ہمارے ان عقل پرستوں کو رحم نہیں آتا۔ 
حقیقت یہ ہے کہ ایک مجرم پر ترس کھانا اور اس سے رحم کا معاملہ کرنا پوری انسانیت پر ظلم کرنے کے مترادف اور امنِ عامہ کو تباہ کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ اسی لیے جب حدودِ شرعیہ کے احکام قرآن کریم میں نازل فرمائے گئے تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ  لاتاخذ كم بهما رافة فی دين الله (پ ۱۸) یعنی اللہ کی حدود جاری کرنے میں ان مجرموں پر ہرگز ترس نہ کھانا چاہئے۔ دوسری طرف قصاص کو عالمِ انسانی کے امن کی اساس قرار دیا۔ ولكم فی القصاص حيٰوة یا اولی الالباب (پ ۲)۔ 
واقعہ بھی یہی ہے کہ ایسی سخت اور عبرتناک سزا، جس کے نفاذ کے بعد اس کی ہیبت لوگوں کے دل و دماغ پر مسلط ہو جائے، اور اس جرم کے پاس جاتے ہوئے بھی بدن پر لرزہ پڑنے لگے، وہی سزا ہمیشہ کے لیے انسدادِ جرائم اور امنِ عامہ کا ذریعہ بنتی ہیں۔
اسلامی حدود کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے، معلوم ہوتا ہے کہ وہ جرائم کا انسداد اور امنِ عامہ کا قیام چاہتے ہی نہیں۔ جن ممالک میں حدودِ شرعیہ نافذ کی جاتی ہیں، ان کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آجائے گی کہ وہاں چوری، ڈاکہ، بے حیائی کا نام نظر نہیں آئے گا۔ سعودی عربیہ کے حالات کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ 
انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیہ میں دفعہ ۲۹ شق نمبر ۲ میں لکھا ہے:
’’اپنے حقوق اور آزادیوں سے استفادہ کرتے ہوئے ہر شخص صرف ایسی پابندیوں کی متابعت کرے گا جو قانون کے ذریعے مقرر کی جائیں گی۔ ان قوانین کا صرف یہ مقصد ہوگا کہ دوسروں کے حقوق اور آزادیوں کے احترام کو تسلیم کرایا جائے اور ایک جمہوری معاشرے میں اخلاق، نظمِ عامہ اور بہبودئ عامہ کے منصفانہ تقاضوں کو پورا کیا جائے۔‘‘
جب ان قوانین کا مقصد حقوق اور آزادیوں کے احترام کو تسلیم کرلیا جانا ہے، اور اخلاق، نظمِ عامہ اور بہبودِ عامہ کے منصفانہ تقاضوں کو پورا کیا جانا ہے، تو اسلامی شرعی سزاؤں پر اعتراض کا کیا موقع ہے؟ کیا قتلِ انسانی میں دوسرے کی جان کی حق تلفی، مال کی چوری، اور ڈاکہ میں دوسرے کی مالی حق تلفی، اور زنا میں دوسرے کی بے عزتی اور بے حیائی کا ارتکاب نہیں ہے؟ کیا اس سے معاشرے میں بد اخلاقی نہیں پھیلتی اور نظمِ عامہ میں خلل واقع نہیں ہوتا؟
اسی طرح مذہبِ اسلام سے ارتداد اور عقیدے کی تبدیلی سے کیا حقِ اسلام اور  معاشرۂ  اسلامی میں خلل اور نظمِ عامہ تباہ نہیں ہوتا؟ 
ہر شخص کو آزادء مذہب کا حق حاصل ہے، جو مذہب چاہے رکھے، کسی خاص مذہب کے اختیار کرنے پر کسی کو مجبور نہیں کیا جاتا۔ لا اکراہ فی الدین دین کے معاملے میں زبردستی نہیں کے یہی معنی ہیں۔ لیکن مذہب اسلام کو قبول کر لینے کے بعد پھر اس کو تبدیل کرنا یہ اسلام اور حکومتِ اسلام کی اہانت اور حق تعالیٰ کی بغاوت ہے۔ سرکاری اہانت اور بغاوت اس سزا کے لائق ہے کہ اس کو قتل کر دیا جائے، مگر اسلام کی رحمتِ عامہ نے صنفِ نازک عورت کو اس سزا سے مستثنیٰ کر کے حبسِ دوام کی سزا اس کے لیے تجویز کر دی۔
اعلامیہ میں اگر آزادئ ضمیر اور آزادئ عقیدہ (۱۸) کا یہ مقصد ہے کہ تبدیلئ مذہبِ اسلام اور ارتداد کا بھی حق ہے، تو قطعاً‌ حقِ اسلام کے خلاف اور اس کی پائمالی ہے۔ علمائے اسلام کی اس پر تحقیقات اور ازالہ شبہات تفصیل کے ساتھ شائع ہو چکی ہیں۔ 
اسی طرح آزاد مرضی سے شادی (۱۶)، شادی میں مذہب کی شرط نہ ہونے سے مراد اگر یہ ہے کہ کافر اور مسلم کا نکاح آپس میں ہو سکتا ہے تو یہ بھی قرآنی حکم کے خلاف ہونے کے ساتھ معاشرتی حقوق کے بھی خلاف ہے۔ اس عنوان کے تحت یہ جو لکھا ہے کہ ’’اس کی تنسیخ کے سلسلہ میں وہ مساوی حقوق رکھتے ہیں‘‘ اس سے مراد اگر یہ ہے کہ طلاق کا اختیار مرد کی طرح عورت کو بھی حاصل ہے تو یہ قطعی طور پر خلافِ اسلام ہے اور معاشرے میں فساد کا سبب ہے اور مرد کے حق پر ڈاکہ ہے۔ 
خلاصه گزارش یہ ہے کہ حقِ انسانی وہ ہے جسے اللہ تعالٰی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے مقرر فرما دیا ہے، کسی کی عقل کا چاہے، وہ شخصِ واحد ہو یا کوئی ادارہ ہو، مقرر کیا ہوا کوئی حق، حق نہیں ہوتا۔ وماذا بعد الحق الا الضلال۔

انسانی حقوق کے چارٹر کی بعض متنازعہ شقیں

مولانا مشتاق احمد

حق و صداقت کی ہمیشہ کفر و ضلالت سے ٹکر رہی ہے اور رہے گی، مسلمان جب تک دینِ اسلام کے تقاضوں کو سمجھتے اور ان پر عمل کرتے رہے، طاغوتی طاقتوں پر انہیں ہمیشہ غلبہ حاصل رہا، لیکن جیسے ہی مسلمانوں نے قرآن و سنت کو سمجھنا اور اس کے تقاضوں پر عمل کرنا چھوڑ دیا اور حرص و ہوس میں مبتلا ہو گئے، تب نفسانی خواہشات کی غلامی کے ساتھ ساتھ انہیں اغیار کی غلامی کا طوق بھی گلے میں ڈالنا پڑا۔ سامراجی طاقتوں نے مسلمانوں کو دام ہمرنگ زمیں میں ایسا پھنسایا اور ایسا میٹھا زہر کھلایا کہ مسلمان اسلامی فکر سے ہی محروم یا کمزور پڑتے چلے گئے۔ اس وقت بیشتر مسلم ممالک کے سربراہ سامراجی طاقتوں کے لیے فدویانہ جذبات رکھتے ہیں اور ان کے مفادات کی تکمیل کے لیے کام کرنا باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ؎
مچھلی نے ڈھیل پائی ہے، لقمے پہ شاد ہے 
صیاد مطمئن ہے کہ کانٹا نگل گئی
افسوس کا مقام ہے کہ مسلم ممالک نے بھی اقوام متحدہ کے اغراض و مقاصد اور چارٹر کو (جو سراسر سامراجی عزائم کی تکمیل کرتے ہیں) تقدس کا درجہ دے رکھا ہے۔ قاہرہ کانفرنس، بیجنگ کانفرنس وغیرہ عالمی کانفرنسوں میں مسلم ممالک کی پرجوش شرکت اور ان کے اختتام پر جاری کردہ اعلامیوں کی تکمیل کے وعدوں بلکہ ارادوں کو بے حمیتی کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے؟
اقوام متحدہ کے منشور کی بعض شقوں پر تنقید سے کسی کو چیں بچیں نہیں ہونا چاہئے کیونکہ انسانی حقوق کے زیر بحث چارٹر میں یہ لکھا ہے:
’’ان حقوق اور آزادیوں کو اقوام متحدہ کے مقاصد اور اصولوں کے خلاف کاموں کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔‘‘
ہماری گزارش ہے کہ بالکل اسی طرح ہم مسلمانوں کو یہ کہنے کا حق ملنا چاہئے کہ 
’’ان حقوق اور آزادیوں کو اسلام کے مقاصد اور اصولوں کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔‘‘
یہ ہماری دینی حمیت کا تقاضا اور قرآن و سنت کی روح ہے، مسلمانوں کو اس حق سے محروم کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

بنیاد ہی غلط ہے

اس چارٹر کی تمہید میں انسانی حقوق کے مرتب کرنے کی جو وجوہ لکھی ہیں، ان میں سے ایک شق یہ ہے:
’’ہرگاہ کہ اقوام متحدہ کی اقوام نے منشور میں بنیادی انسانی حقوق پر، انسان کی تکریم اور قدر و قیمت پر، اور مردوں و عورتوں کے مساوی حقوق پر، اپنے ایمان کی توثیق کی ہے اور تہیہ کیا ہے کہ سماجی ترقی اور بہتر معیارِ زندگی کو وسیع تر آزادی کے ساتھ فروغ دیا جائے۔‘‘
مردوں اور عورتوں کے مساوی حقوق کا نعرہ سراسر غیر اسلامی ہے اور غیر اسلامی نعرہ کی بنیاد پر ترتیب پانے والا منشور اسلامی کیسے ہو سکتا ہے؟ مرد و زن کے درمیان مساوات جاری کرنے سے یورپ جس جنم میں جل رہا ہے وہ کسی صاحبِ شعور پر مخفی نہیں۔ خاندانی نظامِ حیات تلپٹ ہو چکا ہے۔ زنا، چوری، ڈکیتی، قتل وغیرہ کی وارداتیں روز افزوں ہیں۔ اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ جرائم کے یہ ’’تحفے‘‘ اب یورپ و امریکہ، اقوام متحدہ کی وساطت سے مسلم ممالک کو ارسال کرنا چاہتے ہیں بلکہ تدریجاً‌ ارسال کر رہے ہیں۔

شادی کی آزادی

اس بارے میں دو شقیں ہیں:
’’پوری عمر کے مردوں اور عورتوں کو نسل، قومیت یا مذہب کی کسی تحدید کے بغیر باہم شادی کرنے اور خاندان کی بنیاد رکھنے کا حق حاصل ہے۔ شادی، دورانِ شادی اور اس کی تنسیخ کے سلسلہ میں وہ مساوی حقوق رکھتے ہیں۔‘‘
’’شادی کے خواہش مند جوڑوں کی آزاد اور پوری مرضی سے ہی شادی کی جا سکے گی۔‘‘
یہ دونوں شقیں سراسر غلط ہیں۔ اس فلسفہ کی بنیاد مرد و زن میں مساوات کے غیر اسلامی نظریہ پر رکھی گئی ہے۔ یہ بناء الفاسد علی الفاسد ہے۔ اسلام مسلمان مرد کو صرف مسلمان عورت یا کتابی عورت سے شادی کی اجازت دیتا ہے۔ اسی طرح مسلمان عورت صرف مسلمان مرد سے نکاح کر سکتی ہے۔ علی الاطلاق مذہب کی قید اٹھا دینا قطعاً‌ درست نہیں ہے۔ کسی مسلمان مرد یا عورت کا مذہبِ اسلام کی قید اٹھا کر شادی کے جواز کا نظریہ رکھنا کفرِ محض اور قرآن مجید کا انکار ہے۔
اسلام شادی میں اگرچہ جبر کا قائل نہیں ہے، زوجین کی مرضی سے نکاح کرنا ضروری ہے، لیکن اس مرضی کو اتنی وسعت دینا کہ مذہب کا خیال ہی نہ رہے، بالکل غلط ہے۔

بدکاری کا تحفظ

اس شق کے الفاظ یہ ہیں:
’’ماں اور بچے کو خصوصی توجہ اور مدد کا حق حاصل ہے، تمام بچے خواہ وہ شادی کے نتیجہ میں پیدا ہوں یا بغیر شادی کے پیدا ہوں، یکساں سماجی تحفظ سے بہرہ ور ہونے کا حق رکھتے ہیں۔‘‘
یہ درست ہے کہ بچہ کو بہرحال سماجی تحفظ ملے گا کیونکہ ولدالحلال یا ولدالحرام ہونے میں اس کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ہاں اس کا نسب ضرور مجروح ہو گا، لیکن اسلامی معاشرہ میں کسی عورت کو بغیر شادی کے بچہ پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اور اگر کوئی عورت ایسا کرتی ہے تو اسے اسلامی حدود کے تحت سزا ملے گی، ایسی بدکار عورت کو اسلام کوئی تحفظ فراہم نہیں کر سکتا۔

ثقافتی حقوق

اس کے تحت حسبِ ذیل دو شقیں ہیں:
’’ہر شخص کو آزادانہ طور پر معاشرے کی ثقافتی زندگی میں حصہ لینے، فنونِ لطیفہ سے حظ اٹھانے، اور سائنسی ترقی اور اس کے فوائد سے مستفید ہونے کا حق حاصل ہے۔‘‘
’’ہر شخص سائنسی، ادبی اور فنونِ لطیفہ کی تخلیقات، جس کا وہ خالق ہو، کے نتیجہ میں ظاہر ہونے والے اخلاقی اور مادی فوائد کے تحفظ کا حق رکھتا ہے۔‘‘
نسیم اللغات ص ۶۸۳ پر فنون لطیفہ کے یہ معانی لکھے ہیں: 
’’جمالیات، مصوری، شاعری، رقاصی، موسیقی۔‘‘
اسلام میں مصوری، رقاصی و موسیقی ممنوع ہے۔ ماڈرن اسلام کے دعوے دار اور جدیدیت کے مدعی حضرات کی روش قابلِ توجہ نہیں ہے۔ اس بارے میں صرف متدین علمائے کرام کا فتویٰ قابلِ قبول ہے۔ اسلامی احکامات کی خلاف ورزی اگر ضرور ہی کرنی ہو تو گناہ سمجھ کر ہی کرنی چاہئے۔ انہیں قرآن و حدیث کا لبادہ پہنا کر تحفظ فراہم کرنے سے بچتا چاہئے کیونکہ اس سے ایمان ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔

آزادئ مذہب کا حق

اقوام متحدہ کے چارٹر میں الفاظ یہ ہیں:
’’ہر شخص کو آزادئ خیال، آزادئ ضمیر اور آزادئ مذہب کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں اپنا مذہب اور عقیدہ تبدیل کرنے اور انفرادی و اجتماعی طور پر علیحدگی میں یا سب کے سامنے اپنے مذہب یا عقیدے کی تعلیم، اس پر عمل، اس کے مطابق عبادت کرنے اور اس کی پابندی کرنے کی آزادی کا حق شامل ہے۔‘‘
اسلامی تعلیمات کی رو سے کسی غیر مسلم کو تو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مثلاً‌ عیسائی سے یہودی، یہودی سے کمیونسٹ، ہندو سے سکھ، مجوسی سے دہریہ ہو جائے، یا اللہ تعالٰی اگر توفیق دے تو مسلمان ہو سکتا ہے، لیکن یاد رکھیں کہ مسلمان ہونے کا مطلب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حلفِ وفاداری ہے اور ترکِ اسلام کا مطلب اللہ تعالٰی بغاوت ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی حاکم، اپنے ملازمین کو باغی ہونے اور بغاوت پر جمے رہنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اگر وہ سمجھانے پر بغاوت سے باز نہ آئیں تو ان کے لیے سزائے موت تجویز کی جاتی ہے۔ 
اسی طرح شریعتِ محمدیہ میں ہر شخص کو یہ آزادی حاصل ہے کہ مسلمان ہو یا نہ ہو، کوئی زبردستی نہیں ہے، لیکن مسلمان ہونے کے بعد جبکہ وہ خدا اور رسول اللہ سے حلف وفا داری اٹھا چکا ہے، اسے دینِ اسلام چھوڑ کر باغی ہونے کی اجازت ہرگز نہیں ہے۔ اگر وہ سمجھانے پر بھی باز نہیں آتا تو ایسے باغی کے لیے فرمانِ نبویؐ ہے من ارتد فاقتلوه  جو دینِ اسلام سے پھر جائے اسے قتل کر دو (بخاری و مسلم)۔ اس لیے کسی مسلمان کو تبدیلی مذہب کی اجازت نہیں ہے۔ 
نیز یہ بھی ملحوظِ خاطر رہنا چاہئے کہ ایک اسلامی سلطنت میں غیر مسلم اقلیتی گروہ کو اپنی مرضی کے مطابق عبادت کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس بارے میں اسلام خاصا فراخ دل ہے، حتیٰ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کو مسجد نبویؐ میں اپنے طریقہ پر نماز پڑھنے کی اجازت دی تھی (کتب سیرۃ)۔ لیکن کسی غیر مسلم کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ آزادئ رائے اور آزادئ اظہار کے نام پر مسلمانوں کو دعوت و تبلیغ اور مرتد بنانے کا کام  شروع کر دے۔ یہ آزادئ اظہار نہیں بلکہ آزادئ اظہار کے نام پر مسلمانوں کے معاملات میں مداخلت ہے جو کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ 

آزادئ رائے اور آزادئ اظہار کا حق

اس شق کے الفاظ یہ ہیں: 
’’ہر شخص کو آزادئ رائے اور آزادئ اظہار کا حق حاصل ہے، اس حق میں بلا مداخلت رائے رکھنے کی آزادی اور بلا لحاظ علاقائی حدود کسی بھی ذریعے سے اطلاعات و نظریات تلاش کرنے، حاصل کرنے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کی آزادی شامل ہے۔‘‘
آج کے دور میں اسلام دشمن قوتیں آزادئ رائے، آزادئ اظہار کے نعروں کو مسلمانوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ اس جدید فتنہ کے بارے میں اقبال مرحوم نصف صدی قبل ہی کہہ گئے تھے:
اس قوم میں ہے شوخی اندیشہ خطرناک 
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد 
گو فکرِ خداداد سے روشن ہے زمانہ 
آزادئ افکار ہے ابلیس کی ایجاد
آزادئ رائے و اظہار کے علمبرداروں سے ایک سوال ہے کہ آپ کی آزادئ رائے و اظہار سے مراد کیا ہے؟ اس آزادئ رائے و اظہار کے لیے کوئی شرائط و قیود بھی ہیں یا نہیں؟ اگر شرائط و قیود ہیں تو کیا ہیں؟ ظاہر ہے کہ کسی کو بھی مادر پدر آزاد قسم کی آزادئ رائے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ کسی بھی مہذب ملک میں آزادئ رائے و اظہار کے لیے حسبِ ذیل شرائط عائد کی جاتی ہیں (یاد رہے آزادئ اظہار میں آزادئ تقریر و تحریر اور تنظیم سازی کی آزادی شامل ہے):
۱۔ آزادئ رائے کو حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے لیے استعمال نہ کرے۔ 
۲۔ ایسی کارروائیاں نہ کرے جس سے امنِ عامہ کا مسئلہ پیدا ہو۔ 
۳۔ اس سے لوگوں کا امن و سکون غارت نہ ہونا چاہئے۔ 
۴۔ کسی کے نجی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ 
۵۔ کوئی ایسی تنظیم نہ بنائے جو ملکی قوانین کے خلاف ہو۔
۶۔ ایسی تحریر و تقریر جس سے اکثریت کے جذبات مجروح ہوتے ہوں، اجتناب کرے۔ 
دنیا کے بیشتر ممالک میں مذکورہ شرائط کے ساتھ رائے و اظہار کی آزادیاں حاصل ہیں اور اسے انسانی حقوق میں شامل کیا جاتا ہے، اور مذکورہ شرائط کی خلاف ورزی کرنے والوں پر تعزیری قوانین نافذ کیے جاتے ہیں۔ لیکن اگر مسلمان ممالک میں سے کوئی ملک اپنی دینی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے شرائطِ مذکورہ کی خلاف ورزی کرنے والے کسی گروہ پر کوئی قدغن لگاتا ہے تو اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے۔
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی 
تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں ہے
اس پر اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور وائٹ ہاؤس کے ذریعے مسلم ممالک پر دباؤ ڈالا جاتا ہے، ان کی اقتصادی و فوجی مدد بند کی جاتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلام کا نام لینا، اسلام کی سرحدوں کا تحفظ کرنا مغرب و امریکہ کی نظر میں بہت بڑا جرم ہے، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات اسی تعصب کا شاخسانہ ہیں۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانوں میں 
کہ اکبر خدا کا نام لیتا ہے اس زمانے میں
اس سوال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ:
  • مقبوضہ کشمیر میں آزادئ رائے و اظہار پر مکمل پابندی ہے، پاکستان پر لگائی جانے والی پابندیاں وہاں کیوں نہیں؟
  • الجزائر میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک فوجی انقلاب کی پشت پناہی کیوں کر رہے ہیں؟ وہاں انتخابات کے نتائج کو کیوں ہائی جیک کیا گیا؟ کیا یہ آزادئ رائے و اظہار کے حق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ 
  • مصر میں دینی تنظیموں پر طویل عرصہ سے پابندی ہے اور دینی رہنما پابند سلاسل ہیں جس کی وجہ سے وہ زیر زمین سرگرمیوں میں مشغول ہو گئے ہیں جو کہ بہر حال ناپسندیدہ ہے، اس سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا، لیکن سوال یہ ہے کہ ان کو اس انتہا پسندی تک کس نے پہنچایا؟ ۲۰-۳۰ برس سے ان کے انسانی حقوق غصب ہو رہے ہیں لیکن عالمی طاقتیں خاموش تماشائی ہیں، آخر کیوں؟ 
  • امریکہ کا لے پالک اسرائیل فلسطینیوں کے حقوق کئی برسوں سے غصب کیے بیٹھا ہے، اس پر کوئی پابندی نہیں بلکہ الٹا اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
  • بوسنیا اور برما میں ہزاروں مسلمان قتل اور لاکھوں دربدر ہو چکے ہیں، انسانی حقوق کے ٹھیکے دار وہاں کیا کر رہے ہیں؟ 

  • در اصل امریکہ اور اقوام متحدہ کا مسلم ممالک کے لیے اور غیر مسلم ممالک کے لیے جدا جدا معیار ہے، جدا جدا ترازو ہیں۔ ہر مسلمان کو اس پر غور و فکر کرنا چاہئے اور ان کے دلکش نعروں والے پروگراموں کی اصلیت کا پتہ لگاتے رہنا چاہئے۔

حکومت اور ملازمت میں حصہ

اس عنوان کے تحت دو شقیں ہیں:
’’ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ براہ راست یا آزادی سے منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنے ملک کی حکومت میں حصہ لے۔‘‘
’’ہر شخص کو اپنے ملک کی سرکاری ملازمتوں میں مساوی رسائی کا حق حاصل ہے۔‘‘
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اسلامی مملکت میں ہر شخص کو انتخاب میں حصہ لینے اور سرکاری ملازمت حاصل کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن وہ عہدے جن سے اسلامی مملکت کے راز معلوم ہوتے ہوں یا دفاعی نوعیت کے حساس معاملات ہوں یا صدر، وزیر اعظم کا منصب ہو، اس پر کسی غیر مسلم کو فائز نہیں کیا جا سکتا۔

انسانی حقوق اور سیرتِ نبویؐ

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی


ماہنامہ الشریعہ جنوری ۱۹۹۴ء میں شامل خطاب کی مکرر اشاعت 

مضمون ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں





انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۲۷ و ۲۸ نومبر ۱۹۹۴ء کو مظفر آباد میں حکومت آزاد کشمیر کے زیراہتمام منعقدہ سیرت کانفرنس میں پڑھا گیا)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ صدر ذی وقار، معزز مہمان خصوصی اور قابل صد احترام شرکاء سیرت کانفرنس! جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ اسلام کی دعوت اور پیغام کو مخاطب کی زبان میں اس کی ذہنی سطح اور نفسیات کے مطابق پیش کیا جائے۔ مکہ مکرمہ کے قریشی سردار جب جناب رسول اللہؐ کی دعوت توحید کے اثرات سے پریشان ہو کر جرگے کی صورت میں آنحضرتؐ کے پاس آئے اور پوچھا کہ آخر آپؐ کی دعوت کا مقصد کیا ہے اور آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ تو رسول اکرمؐ نے ان کے مزاج و نفسیات اور ذہنی سطح کو سامنے رکھتے ہوئے یہ جواب دیا کہ

’’میں ایک ایسا کلمہ تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں کہ اگر تم اسے قبول کر لو تو عرب و عجم تمہارے تابع ہوں گے۔‘‘

جناب نبی اکرمؐ کو معلوم تھا کہ یہ لوگ غلبہ، قوت اور اقتدار کے سوا کسی اور زبان کو نہیں سمجھتے اس لیے آپؐ نے انہی کی زبان میں دعوت اسلام کے نتائج و فوائد سے انہیں آگاہ کیا۔ اور یہ بات خلاف واقعہ بھی نہ تھی اس لیے کہ اسلام کی دعوت کو قبول کرنے کے بے شمار نتائج و منافع میں سے ایک منفعت یہ بھی تھی۔ چونکہ سوال کرنے والوں کے ہاں اس منفعت کی اہمیت زیادہ تھی اس لیے آنحضرتؐ نے اسی کا حوالہ دے کر ان کے سوال کا جواب مرحمت فرمایا۔

اس پس منظر میں آج کے دور میں دعوتِ اسلام کی ضروریات اور تقاضوں کا جائزہ لیا جائے اور جناب رسالت مآبؐ کی سیرت طیبہ کو نسل انسانی کے سامنے پیش کرنے کے لیے ترجیحات پر غور کیا جائے تو ضروری معلوم ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کے بارے میں قرآن کریم کی تعلیمات اور رسول اکرمؐ کے ارشادات و احکام کو زیادہ اہمیت کے ساتھ منظر عام پر لایا جائے۔ اور انسانی معاشرہ کو بتایا جائے کہ انسانی حقوق کے تعین اور تحفظ کا جو معیار اور دائرہ کار اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر نے کم و بیش ڈیڑھ ہزار سال قبل دنیا کے سامنے پیش کیا تھا، انسانی عقل تدریج و ترقی کے تمام مراحل طے کرنے اور مختلف نظام ہائے زندگی کا تجربہ کرنے کے باوجود اس کا کوئی متبادل سامنے نہیں لا سکی، اور انسانی معاشرہ ایک بار پھر پریشانی اور اضطراب کے عالم میں اپنے مسائل و مشکلات کے حل کے لیے کسی مسیحا کے انتظار میں ہے۔

آج کی دنیا میں ’’انسانی حقوق‘‘ کی زبان سب سے زیادہ توجہ کے ساتھ سنی جانے والی زبان ہے، جبکہ ورلڈ میڈیا اور لابیوں نے اسے صرف زبان کی حد تک نہیں رہنے دیا بلکہ وقت کا موثر ترین ہتھیار بنا دیا ہے جو عالم اسلام اور تیسری دنیا کی اقوام کے خلاف مغرب کے ہاتھوں میں کامیابی کے ساتھ استعمال ہو رہا ہے۔ اور مغرب جسے چاہتا ہے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور جنیوا کنونشن کی قراردادوں کے شکنجے میں جکڑ کر انسانی حقوق کی چھری کے ساتھ ذبح کر دیتا ہے۔

حضراتِ محترم! مغرب انسانی حقوق کے حوالہ سے جتنے بلنگ بانگ دعوے کر لے، مگر انسانی حقوق اور فری سوسائٹی کے مغربی تصور پر مبنی سولائزیشن نے نتائج و ثمرات کے لحاظ سے آج جو روپ دھار لیا ہے اس نے خود مغربی دانش وروں کو حیران و ششدر کر دیا ہے اور مغربی معاشرہ میں جنسی انارکی اور فیملی سسٹم کی تباہی نے گورباچوف جیسے مدبر کو یہ لکھنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہم نے عورت کو گھر سے نکال کر غلطی کی ہے اور اب اسے گھر واپس لے جانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔

دراصل مغرب حقوق و فرائض میں توازن قائم رکھنے اور ان کے درمیان حد فاصل قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ جبکہ جناب رسول اللہؐ نے حقوق اور فرائض کو نہ صرف یکجا ذکر کیا بلکہ ان کے درمیان ایسا حسین توازن قائم کر دیا جو گاڑی کے دو پہیوں کی طرح انسانی زندگی کا یکساں بوجھ اٹھا سکتا ہے اور اسے لے کر کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ سکتا ہے۔ مگر مغرب نے حقوق و فرائض کو آپس میں گڈمڈ کر دیا اور ان کے درمیان کوئی خط امتیاز قائم نہ رہنے دیا جس کی وجہ سے انسانی معاشرہ ذہنی انتشار اور فکری انارکی کی آماجگاہ بن کر رہ گیا ہے۔ مثلاً

یہ چند مثالیں یہ بات واضح کرنے کے لیے پیش کی گئی ہیں کہ مغرب نے ’’حقوق و فرائض‘‘ کو خلط ملط کر کے انسانی معاشرہ کی گاڑی کے دونوں پہیوں کا توازن بگاڑ دیا ہے جس کی وجہ سے گاڑی مسلسل لڑکھڑاتی چلی جا رہی ہے۔ جبکہ جناب رسالت مآبؐ نے حقوق و فرائض میں توازن قائم کیا اور اس کا عملی نمونہ خلافت راشدہ کی صورت میں پیش کر کے دنیا کو دکھا دیا ۔

سامعین گرامی قدر! مغرب سے انسانی حقوق کے حوالہ سے دوسری بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ حقوق کے تعین کا معیار قائم کرنے میں اس کی نگاہ انسانی معاشرے کی وسیع تر ضروریات کا احاطہ نہ کر سکی۔ مغرب نے حق کے تعین میں معیار یہ پیش کیا کہ ہر شخص کو اپنی مرضی پر عمل کرنے کا حق ہے، جب تک کہ دوسرے شخص کی آزادی متاثر نہ ہو۔ اس طرح مغرب نے حق و ناحق اور جائز و ناجائز کے تعین میں شخصی مفادات و ضروریات میں ہم آہنگی یا ٹکراؤ کو بنیاد بنایا اور اس سے آگے نسل انسانی اور انسانی معاشرہ کی اجتماعی ضروریات و مفادات تک اس کی نگاہ نہ جا سکی جس کا خمیازہ مغرب کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مثلاً

ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ جناب رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ کے حوالہ سے ہمیں آج کھلے دل و دماغ کے ساتھ انسانی حقوق کے مغربی تصور کا جائزہ لینا چاہیے اورا س کے وسیع تر پراپیگنڈہ سے مرعوب ہونے کی بجائے اس کے کھوکھلے پن کو تقابلی مطالعہ کے ساتھ سامنے لا کر اسلامی تعلیمات و احکام کو واضح کرنا چاہیے۔ تاکہ مشکلات و مصائب کے صحرا میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کی اسوۂ حسنہ کے شفاف اور خوش ذائقہ سرچشمۂ حیات کی طرف راہنمائی کی جا سکے۔

حضرات گرامی قدر! مغرب اور انسانی حقوق کے حوالہ سے گفتگو چلی ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کے فلسفہ کی فکری بنیادوں سے ہٹ کر اس کے واقعاتی پہلوؤں پر بھی کچھ معروضات پیش کر دی جائیں۔ بالخصوص اس تضاد اور دوعملی کے پس منظر میں جو مغرب نے عالم اسلام کے بارے میں اختیار کر رکھا ہے۔ اور جس نے یہ بات پوری طرح واضح کر دی ہے کہ مغرب کے نزدیک ’’انسانی حقوق‘‘ کسی فلسفہ یا اصول کا نام نہیں بلکہ یہ محض ایک ہتھیار ہے جو اس نے مخالف اقوام پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے اختیار کر رکھا ہے، ورنہ

چنانچہ مسلم علماء اور دانشوروں کو چاہیے کہ وہ حوصلہ اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھیں اور دنیا کو منطق و استدلال کے ساتھ بتائیں کہ انسانی حقوق کا حقیقی فلسفہ اور متوازن نظام وہی ہے جو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور آج بھی انسانی معاشرہ کی فلاح و کامیابی اسی نظام کو اپنانے پر منحصر ہے۔

(ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ ۔ فروری ۱۹۹۵ء)

مغربی میڈیا، انسانی حقوق، اسلامی بنیاد پرستی اور ہم

ڈاکٹر صفدر محمود

موجودہ دور میڈیا کا دور ہے۔ غور کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ مغرب محض مؤثر اور طاقتور میڈیا کے ذریعے ہمارے ذہنوں پر حکومت کر رہا ہے۔ یہاں ہم سے مراد صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پاکستان جیسے وہ ممالک بھی اس فہرست میں شامل ہیں جہاں سیاسی شعور کا فقدان ہے، جہالت عروج پر ہے اور تعلیم یافتہ طبقہ ہر قسم کی راہنمائی کے لئے مغرب کی جانب دیکھتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ ایک طرح سے ہمارے پڑھے لکھے طبقے کا احساسِ کمتری ہے کہ وہ مغرب کے ایجاد کردہ ہر لفظ، اصطلاح اور محاورے کو یوں قبول کر لیتا ہے جیسے یہ الہامی بات اور مقدس لفظ ہو۔ چنانچہ اس طرح مغربی میڈیا وقتاً فوقتاً نئے نئے شوشے چھوڑتا رہتا ہے جن کا مقصد ہماری سوچ کو متاثر کرنا اور ہماری فکر کو ایک خاص رخ پر ڈالنا ہوتا ہے۔ 
یاد رکھئے کہ یہ دور جسمانی غلامی کا نہیں، ذہنی غلامی کا ہے۔ ماضی میں جب ضعیف قوموں کو غلام اور کمزور ملکوں کو تجارتی مقاصد کے لئے کالونی بنایا جاتا تھا تو مغربی ممالک نے پسماندہ اقوام کی ایک بڑی تعداد کو اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ اس دور میں انسانی حقوق کا کہیں ذکر نہیں تھا کیونکہ انسانی حقوق کا فلسفہ مغربی استعمار کے مفادات کے منافی تھا بلکہ مغربی استعمار کی نفی کرتا تھا۔ اس طرح مغربی ممالک صدیوں تک پسماندہ ممالک کو اپنی کالونیاں بنا کر ان کے وسائل کو اپنی صنعتی و تجارتی ترقی کے لئے استعمال کرتے رہے۔ اگر آپ لندن، پیرس اور روم جیسے خوبصورت شہروں کی بڑی بڑی شاہراہوں، عمارات اور صنعتی مراکز کی بنیادوں میں جھانکیں تو ان میں سے آپ کو اپنے بزرگوں کے خون اور پسینے کی خوشبو آئے گی۔ 
جب ان استعماری قوتوں کو آزادی کی تحریکوں کے سامنے ہتھیار ڈال کر غلام ممالک سے رخصت ہونا پڑا تو اس کے ساتھ ہی انہیں جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کا خیال آیا۔ چنانچہ انسانی حقوق کے دفاع کے لئے عالمی سطح پر انجمنیں بنائی گئیں۔ کل تک انسانوں کو حیوانوں سے کم تر سمجھنے والے چند ہی برسوں میں انسانی حقوق کے ٹھیکے دار بن گئے۔ گویا پرانا شکاری نیا جال لے کر آگیا۔ اس وقت بعض ممالک میں یہ انجمنیں بہت مفید کام کر رہی ہیں لیکن لطف یہ ہے کہ جن ممالک میں اولادِ آدم کو مغربی اقوام کی ملی بھگت سے کچلا جا رہا ہے وہاں بھی انسانی حقوق کی انجمنین موجود ہیں جو بے کار ہیں اور غیر موثر ہیں۔ 
گزشتہ چند برسوں سے اولاد آدم کے انسانی حقوق کی حفاظت کی اجارہ داری امریکہ کے پاس  ہے۔ ادھر مغربی میڈیا نے انسانی حقوق کو ایک آئیڈیالوجی بلکہ مذہب کا درجہ دے دیا ہے، جس سے امریکہ کو یہ استحقاق حاصل ہو گیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے ملک کے اندرونی معاملات میں دخل دے سکتا ہے بلکہ اسے دہشت گرد قرار دے کر سزا کا حقدار ٹھہرا سکتا ہے، جہاں انسانی حقوق پر زد پڑتی ہو۔ کس ملک میں انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں؟ اس کا فیصلہ بھی امریکہ ہی کرے گا۔ چنانچہ امریکہ عراق پر بمباری کر کے سینکڑوں معصوم شہریوں کو موت کی نیند سلا دے تو وہ انسانی حقوق کے حوالے سے درست اقدام قرار دیا جاتا ہے، لیکن بوسنیا میں ہزاروں معصوم مسلمان سربیائی ظلم کی بھینٹ چڑھ جائیں تو امریکہ کے ضمیر میں خلش نہیں ہوتی کیونکہ بوسنیا مسلمان ملک ہے۔ اسی طرح پاکستان اگر کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی اخلاقی مدد کرے تو وہ سزا کا مستحق ہے، لیکن بھارت اگر ہزاروں مسلمانوں کو گولی کا نشانہ بنا دے، اس سے چشم پوشی برتی جائے گی۔ 
انسانی حقوق کے حوالے سے مجھے ایک دلچسپ واقعہ یاد آیا۔ جون ۱۹۹۱ء میں ایک بین الاقوامی سیمینار کے ضمن میں مجھے سان فرانسکو جانے کا موقعہ ملا۔ اس سیمینار میں ایشیائی ممالک کے سکالرز کے علاوہ مختلف امریکی یونیورسٹیوں سے بھی ممتاز پرفیسر صاحبان بلائے گئے تھے۔ سیمینار کے آغاز سے ایک روز قبل میں نے ٹیلی ویژن آن کیا تو ایک دلچسپ خبر بمعہ تبصرہ سننے کو ملی۔ کیلی فورنیا کی ریاست میں جنگلات کے وسیع ذخیرے پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ وہاں عمارات کی تعمیر میں لکڑی کا عمل جاری رہتا ہے۔ خبر یہ تھی کہ کٹائی کے دوران ماہرین جنگلات کو اچانک پتہ چلا کہ اس جنگل میں ایک الو صاحب نے اپنا مستقل ’’گھر‘‘ بنا رکھا ہے اور جب سے درختوں کی کٹائی کا سلسلہ شروع ہوا ہے الو صاحب اداس رہنے لگے ہیں۔ الو کی اداسی کی خبر سے اس علاقے میں احتجاج ہوا اور کیلی فورنیا کی حکومت نے جنگل کی کٹائی روک دی جس سے لکڑی کی قیمت میں اضافہ ہو گیا اور گھروں کی تعمیر قدرے مہنگی ہو گئی۔ میں نے یہ ساری خبر اور اس پر تبصرہ ٹیلی ویژین پر سنا اور گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
اگلے دن سیمینار کے دوران چائے کا وقفہ ہوا تو میں نے ممتاز امریکی پروفیسر صاحبان سے اس خبر کا تذکرہ کیا۔ وہ پہلے ہی اس سے آگاہ تھے لیکن جب میں نے ان سے ذکر کیا تو ان کے چہرے خوشی سے گلاب کی مانند کھل گئے۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے یہ سوال داغ دیا کہ آپ نے ایک پرندے کی اداسی کی خاطر جنگل کی کٹائی روک کر لکڑی کی قیمت میں اضافہ برداشت کر لیا لیکن چار پانچ ماہ قیل عراق کے معصوم شہریوں پر بموں کی بارش کی جا رہی تھی تو آپ کیوں خاموش رہے؟ کیا آپ کو ایک جانور مسلمان کی زندگی سے زیادہ عزیز ہے؟ میرے اس سوال سے چہروں کے رنگ اڑ گئے۔ اس ایک واقعے سے آپ امریکہ کی انسانی حقوق سے کمٹ منٹ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
بات یہاں سے چلی تھی کہ آج کا دور میڈیا کا دور ہے۔ میڈیا بد قسمتی سے یہودیوں کے قبضے میں ہے اور یہودیوں کا نشانہ بہر حال اسلام اور مسلمان ہیں۔ اب جب کہ مغربی ممالک غیر ترقی یافتہ ممالک سے بوریا بستر لپیٹ کر رخصت ہو چکے ہیں تو انہوں نے ان ممالک پر حکمرانی کا ایک نیا طریقہ وضع کیا ہے، اور وہ طریقہ ہے میڈیا کے زور پر ذہنوں پر حکومت کرنا۔ نصف صدی قبل جسمانی غلامی کا دور تھا جب کہ موجودہ زمانہ ذہنی غلامی کا زمانہ ہے۔ جسمانی غلامی بھی ہمارا مقدر تھی اور ذہنی غلامی بھی ہماری ہی قسمت کا حصہ ہے۔ سوچئے تو سہی کہ اس کی وجوہ کیا ہیں؟ 
اسی پس منظر میں مغربی میڈیا جب چاہتا ہے کوئی نئی اصطلاح اور کوئی نیا شوشہ چھوڑ دیتا ہے۔ دنیا کے بہترین رسائل جن میں ادبی تحقیقی اور سیاسی پرچے شامل ہیں، مغربی ممالک سے شائع ہو کر ساری دنیا میں پھیل جاتے ہیں۔ ان رسائل میں اکثر اوقات ایک خاص نقطہ نظر پیش کیا جاتا ہے جو مغربی دنیا کے مفادات کے عین مطابق ہوتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ عالمی شہرت کے رسالے ٹائم، اکانومسٹ اور نیوزویک پر یہودی لابی غالب ہے۔ یہ رسالے ہر ہفتے بین الاقوامی سیاست پر تبصرے کرتے اور تجزیے شائع کرتے ہیں جنہیں ہم من وعن مقدس تحریر سمجھ کر یوں قبول کر لیتے ہیں کہ ان کے سیاق و سباق پر غور ہی نہیں کرتے۔ پھر ہر محفل میں ان کے حوالے دے کر حاضرین محفل کو متاثر کیا جاتا ہے۔ لطف یہ کہ خود حاضرین بھی ان تبصروں کو ٹائم اور نیوزویک کے حوالے سے حرف آخر سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔ 
ہم نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ عراق ہو، ایران ہو یا بوسنیا، یہ رسائل اپنے تجزیوں میں ڈنڈی ضرور ماریں گے اور کسی نہ کسی طرح اسلام اور مسلمان سے اس طرح چنکی ضرور لیں گے کہ قاری کو محسوس بھی نہ ہو اور الفاظ اپنا کام بھی کر جائیں۔ عراق کویت جنگ اور انقلابِ ایران کے دوران ان رسائل نے اپنا بھرپور کردار سر انجام دیا اور عالمی رائے عامہ کو اپنی ضروریات کے سانچے میں ڈھالا۔ 
صرف میڈیا ہی کا کمال ہے کہ کوئی بھی اسلامی ملک اپنے موقف میں کتنا ہی حق بجانب کیوں نہ ہو، عالمی سطح پر معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اور وہ سربراہانِ حکومت جو مغربی مفادات کے خلاف کام کرتے ہیں انہیں تمسخر کا نشانہ بنادیا جاتا ہے۔ غور کیجئے تو محسوس ہو گا کہ یہ ایک طرح سے ہماری غلامانہ ذہنیت کی علامت ہے۔ 
کبھی کبھی یوں بھی ہوا ہے کہ جب کسی ناقابلِ قبول حکمران کو بدلنا مقصود ہوتا ہے تو میڈیا سے ہراول دستے کا کام لیا جاتا ہے، وہ اس طرح کہ مغربی میڈیا بڑی طاقتوں کی خفیہ ایجنسیوں کی ملی بھگت سے ایسے حکمرانوں کی ذاتی زندگی اور قومی کردار کے بارے میں من گھڑت کہانیاں شائع کرتا ہے، اور آزادئ اظہار کے نام پر ان شخصیات کی اس طرح کردار کشی کی جاتی ہے کہ نہ صرف عالمی سطح پر ان کا امیج خراب ہوتا ہے بلکہ خود ان ممالک کے عوام بھی اپنے حکمرانوں سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ آپ نے اکثر مشاہدہ کیا ہو گا کہ بڑی طاقتوں کے لئے ’’نا پسندیدہ حکمرانوں‘‘ کے بارے میں عجیب و غریب خفیہ داستانیں پھیلائی جاتی ہیں، جب کہ اپنے حواری اور پسندیدہ حکمرانوں کی ایسی حرکات چھپائی جاتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں میڈیا کا کردار فیصلہ کن حیثیت اختیار کر گیا ہے، اور جو مقاصد ماضی میں فوجی یلغار سے حاصل کئے جاتے تھے وہ مقاصد اب میڈیا کی یلغار سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
مغربی میڈیا کی مہربانی سے ایک مردہ اصطلاح میں جان ڈالی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک متروکہ اصطلاح پوری دنیا میں مقبول ہو گئی۔ وہ اصطلاح ہے ’’فنڈامینٹلزم‘‘ یعنی ’’بنیاد پرستی‘‘۔ امریکہ اور انگلستان میں شائع شدہ انگریزی لغات کے مطابق فنڈامینٹلزم کا مطلب ہے:
’’عیسائیت کے پرانے اعتقادات پر یقین رکھنا۔‘‘
’’موجودہ عیسائیت جو سائنس سے متاثر ہے، اس کے مقابلے میں پرانی تعلیمات اور بائیل کے اصل الفاظ کو ماننا۔‘‘
عیسائیت میں تو بنیاد پرستی سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ عیسائیت میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خاصی تبدیلی آئی ہے بلکہ خود بائبل بھی اصلی حالت میں موجود نہیں رہی، لیکن جہاں تک اسلام کا تعلق ہے ہمارا ایمان ہے کہ اسلام بدلا ہے نہ قرآن، اور نہ ہی قرآن قیامت تک بدلے گا۔ اسلام کے بنیادی عقائد وہی ہیں جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے تھے۔ اگرچہ اسلام میں مذہبی فرقوں کی کمی نہیں لیکن اختلاف تفصیلات پر ہے نہ کہ بنیادی عقائد پر۔ چنانچہ اسلام میں دراصل بنیاد پرستی کا تصور اس طرح موجود نہیں جس طرح عیسائیت میں ہے۔ لیکن مغربی میڈیا نے اسلام میں بنیاد پرستی کی اصطلاح ایجاد کر کے ان مسلمانوں کو نفرت اور تضحیک کا نشانہ بنایا ہے جو عملاً‌ مسلمان ہیں۔ 
میرے نزدیک اسلام میں بنیاد پرستی کا مطلب اسلام کے بنیادی عقائد پر عمل کرنا ہے، یعنی ہر وہ مسلمان جو نماز پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے، اور زکوۃ ادا کرتا ہے، اسے مغربی میڈیا بنیاد پرست مسلمان کہے گا۔ ہمارے ایک بزرگ دوست کے بقول اگر مسلمان نماز پڑھتا ہے تو وہ بنیاد پرست ہے لیکن اگر وہ تہجد پڑھتا ہے تو پھر وہ بہرصورت ’’دہشت گرد‘‘ ہے۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ یہ اصطلاح چند برس قبل افغانستان کی جنگ کے حوالے سے استعمال ہونی شروع ہوئی، اور چند ہی برسوں میں اس نے دنیائے اسلام کو معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ مغربی میڈیا نے نہایت ہوشیاری سے بنیاد پرستی کا مطلب جاہل، ترتی دشمن، دہشت گرد، دقیانوی اور کٹر نظریات کے مفہوم کے طور پر پیش کیا۔ بلکہ اس قدر زور و شور سے اس کا شور مچایا کہ ہر مسلمان ہاتھ باندھ کر کہنے لگا کہ حضور میں بنیاد پرست نہیں ہوں۔ حالانکہ بنیاد پرستی کا مطلب فقط اسلام کے بنیادی عقائد پر عمل کرتا ہے اور اس کا مطلب ہرگز دہشت گردی یا دقیانوسی نہیں۔ چنانچہ اب جب بھی کوئی مغربی صحافی اسلامی ممالک میں جاتا ہے اور سربراہان حکومت یا دوسری اہم ملکی شخصیات سے یہ سوال پوچھتا ہے کہ کیا آپ بنیاد پرست ہیں؟ تو جواب ملتا ہے کہ ہم بالکل بنیاد پرست نہیں، ہم اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اسلام کے بنیادی اراکین پر یقین رکھتے ہیں نہ عمل کرتے ہیں۔ 
خود مغربی میڈیا بنیاد پرستی کا لیبل لگانے میں کس قدر انصاف سے کام لیتا ہے، اس کا اندازہ صرف اس ایک مثال سے لگائیے کہ جب تک گلبدین حکمت یار افغانستان میں روی قبضے کے خلاف لڑ رہا تھا جس سے امریکی مفادات حاصل ہوتے تھے، تو وہ جنگِ آزادی کا ہیرو تھا۔ لیکن جب روس کی شکست کے بعد اس نے امریکی لائن پر چلنے سے انکار کیا تو مغربی میڈیا نے اسے بنیاد پرست کمه کر مسترد کر دیا۔ گویا مغربی ممالک اپنے میڈیا کو ایک طرح سے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں جو ایٹم بم سے کم خطرناک نہیں ہے۔
مغربی میڈیا نے اسلامی بنیاد پرستی کے تصور کو جس طرح مسخ کیا ہے اور اس کا مفہوم بدل کر دنیائے اسلام کو معذرت خواہ بنا لیا ہے، اس کی ایک تازہ مثال پاکستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی وہ رپورٹ ہے جس کا ایک حصہ بعض اردو اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ مجھے یہ رپورٹ پڑھنے کا موقعہ نہیں ملا لیکن اس کے ایک فقرے نے مجھے چونکا دیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اپنی تحقیق کی وضاحت کی ہو اور اپنے نتائج کے حق میں دلائل دیئے ہوں لیکن بہر حال یہ فقره قابلِ غور ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ میڈیا کس طرح اسلامی بنیاد پرستی کا حلیہ بگاڑ رہا ہے۔ اخبارات کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 
’’خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی وجہ اسلامی بنیاد پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔‘‘
اب ذرا اس کا تجزیہ کیجئے کہ اسلامی بنیاد پرستی کے رجحان کا مطلب کیا ہے۔ اسلامی بنیاد پرستی کا مطلب انسان کا مذہبی ہونا اور شریعت کا پابند ہوتا ہے۔ گویا اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مذہب کا رجحان بڑھ رہا ہے جس کے سبب عورتوں سے زیادتی کے مقدمات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غور کیجئے کہ کس قدر خطرناک ہے یہ بات۔
اس کے بر عکس ہم سمجھتے ہیں کہ صحیح اور سچا مسلمان، جسے عاقبت کا خوف ہو، جو شریعت کا پابند ہو، اور جسے یومِ حساب کا احساس ہو، وہ ایسا فعل کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا، کجا یہ کہ اس میں برائی کا رجحان بڑھے۔ اسی طرح وہ اسلامی ممالک جہاں اسلامی شرعی سزائیں نافذ ہیں اور جنہیں بنیاد پرستی کا طعنہ دیا جاتا ہے، ان معاشروں میں عورت جس قدر محفوظ ہے اس کا تصور بھی مغرب کے آزاد معاشرے میں نہیں کیا جاسکتا ۔ سعودی عرب میں عورتوں سے زیادتی کے واقعات بہت ہی کم ہوتے ہیں، جب کہ نیویارک میں ہر پانچ منٹوں کے بعد عورت سے زیادتی کی واردات رپورٹ ہوتی ہے۔ کیا امریکہ بھی بنیاد پرست ہے کہ وہاں عورتوں سے زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر ایسا نہیں تو مغربی ممالک میں تمام تر مادر پدر آزادی کے باوجود عورتوں سے زیادتی کے واقعات اتنی بڑی تعداد میں کیوں ہوتے ہیں؟
میں اسی پہلو پر مزید لکھ کر رپورٹ کے بارے میں غلط فہمیاں نہیں کرنا چاہتا۔ مقصد فقط یہ ثابت کرنا تھا کہ موجودہ دور میڈیا کا دور ہے، میڈیا کی لگام مغرب کے ہاتھ میں ہے، اور وہ میڈیا کے زور پر ہمارے ذہنوں پر چھایا ہوا ہے۔ بنیاد پرستی کا پراپیگنڈہ اس مہم کا حصہ ہے حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ مغرب اسلام کے احیاء اور اسلامی ممالک میں عوامی سطح پر ابھرتی ہوئی مذہبی لہر سے خوف زدہ ہے، جس کا مقابلہ کرنے کے لئے مغربی میڈیا نے بنیاد پرستی کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ مغرب سے اس قدر متاثر ہے کہ وہ مغربی نظریات، تصورات اور اصطلاحیں آنکھیں بند کر کے قبول کر لیتا ہے۔ گویا ہم نے مغرب سے جسمانی غلامی سے تو نجات کر لی ہے لیکن ذہنی غلامی سے نہیں۔ ذہنی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لئے بھی اسی طرح تحریکیں چلانے کی ضرورت ہے جس طرح ہم نے آزادی کے حصول کے لئے تحریکیں چلائی تھیں۔
(بشکریہ ’’جنگ‘‘ لاہور ۲۲ جنوری ۱۹۹۳ء)

حقوقِ نسواں اور خواتین کی عالمی کانفرنسیں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بیجینگ (چین) میں اقوام متحدہ کی چوتھی خواتین عالمی کانفرنس کا آغاز ہو چکا ہے جس میں خواتین کے حقوق اور مختلف معاشروں میں انہیں درپیش مسائل و مشکلات پر غور ہو رہا ہے اور ان کے حل کے لیے تجاویز تیار ہو رہی ہیں۔ گزشتہ سال قاہرہ (مصر) میں بھی اس نوعیت کی کانفرنس منعقد ہو چکی ہے جس کی منظور کردہ سفارشات اور تجاویز کو سامنے رکھتے ہوئے بیجنگ کی خواتین کانفرنس کے بنیادی اہداف و مقاصد کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان کانفرنسوں کا اصل مقصد تیسری دنیا اور عالم اسلام کی خواتین کو معاشرتی لحاظ سے اس مقام اور حیثیت پر لانا ہے جو مغربی معاشرہ میں عورت کو حاصل ہے اور جسے خواتین کے حقوق کے حوالے سے آئیڈیل مقام قرار دیا جا رہا ہے۔

جہاں تک خواتین کے جائز حقوق اور ان کے صحیح اور شایان شان معاشرتی مقام و مرتبہ کا تعلق ہے تو یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ دنیا میں اس وقت کسی جگہ بھی مجموعی طور پر خواتین کو معاشرہ میں وہ مقام و حیثیت حاصل نہیں ہے جو حوا کی ان بیٹیوں کا جائز اور فطری حق ہے۔ ہمارے نزدیک اس معاملہ میں مغرب کے ترقی یافتہ ممالک، تیسری دنیا کے ممالک، اور عالم اسلام کے ترقی پذیر و پسماندہ ممالک سب ہی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ یکساں طور پر قصوروار ہیں۔ اس لیے اگر خواتین کی ان عالمی کانفرنسوں کا مقصد صرف یہ ہو کہ خواتین کے ساتھ ہونے والی معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی جائے اور کسی سوسائٹی کا امتیاز کیے بغیر عورت کے جائز اور فطری معاشرتی مقام و مرتبہ کی بحالی کے لیے جدوجہد کی جائے تو یہ انتہائی خوش آئند بات ہوگی۔ اور اس صورت میں ملت اسلامیہ کے اہل علم و دانش کی بھی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس جدوجہد میں شریک ہوں اور اس کے حق میں عالم اسلام کی رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن قاہرہ کانفرنس کی سفارشات کا مقصد عورتوں کے حقوق و مقام کے تعین اور اس کے لیے جدوجہد کا نہیں بلکہ خواتین کے حوالے سے ویسٹرن سولائزیشن کو آئیڈیل اور معیار قرار دینے اور دنیا بھر کے انسانی معاشروں کو اس کی پیروی پر مجبور کرنے کا بن گیا ہے۔ یہ وہ دوراہا ہے جہاں تیسری دنیا اور عالم اسلام کے دانشوروں کا راستہ مغربی دانشوروں اور میڈیا کاروں سے الگ ہو جاتا ہے، اور وہ ان کانفرنسوں کو خواتین کے حقوق کی بحالی کی بجائے ویسٹرن سولائزیشن کی بالادستی قائم کرنے کی جدوجہد کا ایک حصہ قرار دے کر ان سے اختلاف کر رہے ہیں۔

عالم اسلام کی بدقسمتی یہ ہے کہ ایک آدھ کی جزوی استثنا کے ساتھ اس کے تمام ممالک پر ابھی تک دورِ غلامی کے اثرات کا غلبہ ہے اور عالمی استعمار کی مداخلت اور سازش کی وجہ سے مسلم ممالک کا معاشرتی نظام اسلامی اصولوں پر استوار نہیں ہو سکا۔ چنانچہ دنیا میں کہیں بھی اسلامی معاشرہ کا وہ مثالی ڈھانچہ موجود نہیں ہے جسے بطور نمونہ پیش کیا جا سکے۔ اس لیے مغربی میڈیا کار اس بات میں آسانی محسوس کر رہے ہیں کہ مسلم ممالک کے موجودہ معاشرتی ڈھانچوں کو اسلام کا نمائندہ قرار دے کر ان تمام ناانصافیوں اور حق تلفیوں کو اسلام کے کھاتے میں ڈال دیں جو ان ممالک میں سیاسی، معاشرتی، اور معاشی طور پر روا رکھی جا رہی ہیں۔ ورنہ جہاں تک حقوق کا تعلق ہے، معاشرے کے کسی طبقہ کو سامنے رکھ لیں، اس کے حقوق اور ذمہ داریوں میں اسلام نے جو توازن قائم کیا ہے دنیا کا کوئی دوسرا نظام اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اور آج مغرب اپنی آزادی کی بے اعتدالیوں کے فطری نتائج دیکھنے کے بعد اسی توازن کی تلاش میں سرگرداں دکھائی دے رہا ہے۔

عورت ہی کو لے لیجیے، اسلام نے اسے معاشرہ میں بیٹی، بہن، بیوی، اور ماں کے طور پر شفقت، محبت، اور احترام کا مقام دیا۔ مگر ان چار جائز رشتوں سے ہٹ کر ’’پانچواں رشتہ‘‘ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جو کہ آج ویسٹرن سولائزیشن کا طرۂ امتیاز ہے۔ اور جسے جائز تسلیم کرانے اور قانونی تحفظ دلانے کے لیے عالمی سطح پر خواتین کی کانفرنسوں کا اہتمام ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ لیکن مغرب خود اس بارے میں کنفیوژن کا شکار ہے۔ ایک طرف مسٹر گورباچوف کا کہنا ہے کہ ہم نے عورت کو گھر سے نکال کر دفتر اور فیکٹریاں تو آباد کر لیں لیکن اپنا فیملی سسٹم تباہ کر لیا اور اب عورت کو واپس گھر لے جانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ امریکہ کی خاتون اول مسز ہیلری کلنٹن نے اپنے دورۂ اسلام آباد میں کھلم کھلا کہا کہ امریکی معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ لڑکی کا کنوارپن میں ماں بن جانا ہے۔ اور برطانوی وزیراعظم جان میجر ’’بنیادوں کی طرف واپسی‘‘ (Back to basics) کا نعرہ لگا کر ان خواتین کی حوصلہ افزائی کے لیے پالیسیاں وضع کر رہے ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال کے لیے گھروں میں رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ لیکن اس سب کچھ کے ساتھ دوسری طرف مغربی دانشور ان خواتین کانفرنسوں کے ذریعے تیسری دنیا اور عالم اسلام کو اسی دلدل میں آگے بڑھنے کی دعوت بھی دے رہے ہیں جس سے نکلنا خود ان کے لیے مشکل تر ہوگیا ہے۔

اسلام کا ’’قصور‘‘ یہ ہے کہ اس نے عورت کو ان زائد ذمہ داریوں کا سزاوار نہیں ٹھہرایا جو اس کے فطری فرائض سے متصادم ہیں، اور بچے کی پیدائش و پرورش اور خانہ داری کے فرائض کے بعد معاشی کفالت کا بوجھ اس پر نہیں ڈالا۔ مگر مغرب نے معاشی کفالت کے لیے ملازمت اور محنت مزدوری کو ڈیوٹی اور فرائض کی فہرست سے نکال کر حقوق کی فہرست میں شامل کر دیا اور یوں معاشی مساوات کے پر فریب نعرے کے ساتھ عورت کو دوہری ذمہ داریوں کے شکنجے میں کس دیا۔ جبکہ بے چاری عورت خوش ہے کہ اس نے مرد کے برابر معاشرتی حقوق حاصل کر لیے ہیں۔ اب بیجنگ کانفرنس میں ایسی ہی آزادی اور حقوق حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے جس نے رشتوں کا تقدس ختم کر کے آزادی اور مساوات کے نام پر ایسے طرز معاشرت کی داغ بیل ڈالی اور مرد و عورت کے آزادانہ اختلاط کو فروغ دیا۔ جس کے منطقی اور فطری نتائج یہ ہیں کہ کنواری ماؤں اور ناجائز بچوں کے تناسب میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، فیملی سسٹم تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے، اور ماں باپ کی شفقت سے محروم بچوں میں نفسیاتی امراض روز مرہ سامنے آرہے ہیں۔ بلکہ اس لحاظ سے مغرب کی عورت انسانی معاشرہ کی مظلوم ترین عورت ہے کہ لڑکپن سے جوانی تک جب اسے تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ جنسی ہوسناکیوں کا شکار گاہ بنتی رہتی ہے، اور جوانی ڈھل جانے کے بعد جب خدمت اور احترام اس کی ضرورت ہوتی ہے تو اسے اولڈ پیپلز ہوم میں دھکیل دیا جاتا ہے جہاں وہ سال کے ان مخصوص دنوں کے انتظار میں زندگی گزارتی ہے کہ کب اس کے جوان بیٹے اور بیٹیاں کاغذی پھولوں کا گلدستہ لیے اسے دیکھنے آئیں گے۔

گزشتہ سال قاہرہ میں ہونے والی خواتین کی عالمی کانفرنس میں جو سفارشات کی گئیں ان میں اسقاط حمل کو قانونی تحفظ دینے ، کنڈوم کی کھلم کھلا اور عام فراہمی کو یقینی بنانے، بن بیاہی ماں کو سماجی تحفظ فراہم کرنے، اور ہم جنس پرستی کو قانونی طور پر تسلیم کرنے کی سفارشات شامل ہیں۔ حالانکہ یہ وہی اسباب ہیں جنہوں نے مغربی معاشرہ کو رشتوں کے تقدس اور خاندانی نظام سے محروم کیا ہے۔ حتیٰ کہ گورباچوف، ہیلری کلنٹن، اور جان میجر جیسے لیڈر بھی اس تباہ کاری پر چیخ اٹھے ہیں۔ مگر عالم اسلام اور تیسری دنیا کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ ان اسباب کو اختیار کریں اور جنسی انارکی کی دلدل میں پھنس کر رشتوں کے تقدس اور خاندانی زندگی کو مغرب کی خواہشات پر قربان کر دیں۔

چنانچہ بیجنگ کی ’’عالمی خواتین کانفرنس‘‘ میں اقوام متحدہ کے پالیسی سازوں اور خواتین کے حقوق کی جنگ لڑنے والے اداروں و دانشوروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ خواتین کے حوالے سے اپنی مہم کے اہداف اور ترجیحات پر نظر ثانی کریں اور اسے ویسٹرن سولائزیشن کی بالادستی کی جنگ بنانے کی بجائے انسانی معاشرہ اور عالمی برادری میں خواتین کے جائز اور فطری مقام و حیثیت کے تعین اور اس کی بحالی کی جدوجہد کا درجہ دیں۔ لیکن اگر ’’بیجنگ کانفرنس‘‘ کی سفارشات و تجاویز کا تانابانا بھی ’’قاہرہ کانفرنس‘‘ کی سفارشات سے ہی بنا گیا تو ہمارے نزدیک یہ ساری تگ و دو عالم اسلام اور تیسری دنیا کو ان کے کلچر سے محروم کرنے، بالخصوص مسلم دنیا کو خاندانی زندگی کے بارے میں ان کے بنیادی مذہبی احکام سے منحرف کرنے کی عالمی مہم کا حصہ متصور ہوگی۔ اور عالم اسلام کے دینی ادارے اس قسم کی سفارشات و تجاویز کو مسلم معاشرہ میں نفوذ کا راستہ دینے کے لیے کسی صورت بھی تیار نہیں ہوں گے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ کا جائزہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

روزنامہ جنگ لندن ۸ جولائی کی ایک خبر کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں اپنی اس سال کی رپورٹ میں بھی توہین رسالتؐ کی سزا کے قانون اور قادیانیوں کو اسلام کا نام اور اسلامی اصطلاحات کے استعمال سے روکنے کو موضوع بحث بنایا ہے اور ان تمام قوانین کے ضمن میں درج مقدمات اور گرفتاریوں کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان میں قادیانیوں اور مسیحیوں کے انسانی حقوق کی پامالی کا تذکرہ کیا ہے۔

مغربی ذرائع ابلاغ اور بین الاقوامی تنظیمیں کسی ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں رپورٹ کی تیاری میں کیا طریق کار اختیار کرتی ہیں، اس کی ایک جھلک حال ہی میں پاکستان میں چائلڈ لیبر کے استعمال کے حوالے سے مغربی میڈیا اور لابیوں کی مہم کے ضمن میں سامنے آچکی ہے جس میں بعض مناظر کو فلمانے کے لیے جعلی ماحول پیدا کرنے کے واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اور یہ بات بھی منکشف ہو چکی ہے کہ بھارت کے تجارتی اداروں نے تجارتی مقاصد کے لیے اس مہم کے تانے بانے بنے اور مغربی میڈیا اور لابیاں اس میں ان کی شریک کار بنیں یا کم از کم اس مہم کے حق میں استعمال ہوئیں۔

اسی طرح جن دوستوں نے بی بی سی ۲ سے اس سال کے آغاز میں ’’ایسٹ‘‘ کے نام سے دکھائی جانے والی سیریز کے وہ حصے دیکھے ہیں جن میں پاکستان کے مذہبی حلقوں اور اداروں کی تصویر کشی کی گئی ہے، ان کے لیے اس تکنیک اور طریق واردات تک پہنچنا مشکل نہیں ہے جو پاکستان اور اس کے اسلامی تشخص کی تصویر خراب کرنے کے لیے مغرب کی لابیاں اور ذرائع ابلاغ ایک عرصہ سے استعمال کر رہے ہیں۔

مگر اس پس منظر سے قطع نظر ہم ان دونوں قوانین کا ایک سرسری جائزہ پیش کرنا چاہتے ہیں جو سالہا سال سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹوں کا موضوع ہیں اور جنہیں انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے ان کی تبدیلی پر مسلسل زور دیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ چند ماہ قبل پاکستان کی امور کشمیر کمیٹی کے سربراہ نوابزادہ نصر اللہ خان کے دورۂ جنیوا کے موقع پر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انہیں پیش کی جانے والی یادداشت میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور انسانی جانوں کے ضیاع کو پاکستان میں قادیانیوں اور مسیحیوں کے انسانی حقوق کی مبینہ پامالی کے ساتھ جوڑ دیا تھا اور ان قوانین کی تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا۔

جہاں تک قادیانیوں کی اسلام کے نام پر سرگرمیوں کی ممانعت کا تعلق ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ قادیانی گروہ ایک نئے مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کا پیروکار ہے اور اپنے پیشوا کی ہدایات کو وحی الٰہی پر مبنی تسلیم کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا بھر کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے متفقہ فیصلہ کی رو سے یہ گروہ ملت اسلامیہ کا حصہ نہیں ہے اور قرآن کریم اور جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے دعوے کے باوجود بالکل اسی طرح مسلمانوں سے الگ ایک نئے مذہب کا پیروکار ہے۔ جس طرح حضرت موسٰی علیہ السلام اور توراۃ پر ایمان کے باوجود عیسائی صرف اس لیے یہودیوں سے الگ ایک نئے مذہب کے پیروکار سمجھے جاتے ہیں کہ وہ ایک نئے پیغمبر حضرت عیسٰی علیہ السلام اور ان کی وحی کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ یا حضرت موسیٰ اور حضرت عیسٰی علیہما السلام اور توراۃ و انجیل دونوں پر ایمان کے باوجود مسلمان ان دونوں سے الگ ایک نئے مذہب کے پیروکار کہلاتے ہیں کہ وہ قرآن کریم اور جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔

یہ آسمانی مذاہب کے درمیان ایک طے شدہ اصول ہے جس کے تحت سچ جھوٹ سے قطع نظر قادیانی گروہ مسلمانوں سے الگ ایک نئے مذہب کا پیروکار قرار پاتا ہے اور ان کے لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے لیے نیا نام اختیار کرے اور مسلمانوں سے الگ نئی مذہبی اصطلاحات اور شعائر کو متعارف کرائے۔ مگر قادیانی گروہ اس مسلمہ حقیقت اور طے شدہ اصول کو قبول کرنے سے گریز کر رہا ہے اور اپنی نئی نبوت اور نئی وحی کو اسلام کے نام پر دنیا کے سامنے پیش کرنے پر مصر ہے۔ اس پر مسلمانوں کو اعتراض ہے اور اسی اعتراض کو دور کرنے کے لیے پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے ایک متفقہ آئینی ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک غیر مسلم اقلیت قرار دیا ہے۔ اور اس کے بعد قادیانیوں کو اسلام کا نام اور اسلامی اصطلاحات کے استعمال سے قانوناً روکنے کا قانون بھی اسی آئینی فیصلے کا منطقی تقاضا اور اس پر عملدرآمد کی طرف پیش رفت ہے۔

یہ ہے مسلم قادیانی تنازعہ کا اصل پس منظر جس کی بنیاد قادیانیوں کو شہری حقوق دینے یا ان سے محروم کرنے پر نہیں بلکہ مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان مذہبی امتیاز اور جداگانہ تشخص قائم کرنے پر ہے جو بہرحال دونوں کی مشترکہ ضرورت ہے۔ لیکن انتہائی حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ قادیانی مبادیات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے منطقی نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی پر وحی نازل ہوئی تھی اور اس وحی پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے دنیا بھر کے ایک ارب سے زائد مسلمان ان کے ہم مذہب نہیں ہیں، لیکن مسلمانوں اور قادیانیوں کے مذہب کو الگ الگ تسلیم کرتے ہوئے بھی وہ اپنے مذہب کے لیے الگ نام اور اصطلاحات اختیار نہیں کرنا چاہتے۔ صرف اس لیے کہ اشتباہ اور التباس کی فضا قائم رہے اور وہ اس سے فائدہ اٹھا کر ملت اسلامیہ میں انتشار پیدا کر سکیں۔

اس قسم کی صورتحال اس سے قبل ایران کے بہائیوں کے حوالہ سے بھی پیش آئی کیونکہ بہائی بھی مرزا محمد علی الباب اور بہاء اللہ شیرازی کی تعلیمات کا راستہ وحی الٰہی سے جوڑتے ہیں۔ لیکن انہوں نے قادیانیوں کی طرح دھوکے اور اشتباہ کو قائم رکھنے کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ مذاہب کے مسلمہ اصول کا احترام کرتے ہوئے اپنے لیے الگ نام اختیار کیا اور مسلمانوں سے اپنی اصطلاحات اور تشخص کو الگ کر لیا جس کی وجہ سے ان کے ساتھ مسلمانوں کا قادیانیوں کی طرز کا کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ حتیٰ کہ کسی مسلم پارلیمنٹ کو انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اگر قادیانی گروہ بھی معروضی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے بہائیوں کی طرح الگ نام اور الگ شناخت کا راستہ اختیار کر لے تو مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان تنازعہ کی موجودہ کشیدگی اور منافرت ایک دوسرے کو برداشت کر لینے کی حد تک کم ہو سکتی ہے۔ ویسے بھی قادیانیوں کے لیے اصولی اور منطقی طور پر دو ہی راستے ہیں:

  1. یا تو وہ نئی نبوت اور نئی وحی کو چھوڑ کر ملت اسلامیہ کے اجتماعی دھارے میں واپس آجائیں،
  2. اور یا پھر اپنے لیے الگ نام اور الگ شناخت اختیار کریں۔

تیسرا کوئی راستہ بھی جائز اور معقول نہیں ہے اور جو راستہ انہوں نے اختیار کیا ہے وہ تنازعہ اور کشیدگی کا راستہ ہے جو اختیار بھی انہوں نے کیا ہے اور اس کے نتائج بھی انہی کو بھگتنا ہیں۔

مسلم قادیانی تنازعہ کے اس پس منظر میں اگر حقوق کی پامالی کا سوال کہیں پیدا ہوتا ہے تو وہ مسلمانوں کے حقوق کا ہے نہ کہ قادیانیوں کے حقوق کا۔ کیونکہ اپنی شناخت اور امتیاز کا تحفظ مسلمانوں کا حق ہے جو قادیانیوں کے غلط طرز عمل کی وجہ سے مجروح ہو رہا ہے۔ اس کشمکش میں اصل خطرہ مسلمانوں کو درپیش ہے کہ ان کا نام اور ان کی شناخت کا استعمال ایک ایسے گروہ کے لیے ہو رہا ہے جو ان کے وجود کا حصہ نہیں ہے اور ان سے الگ مذہبی وجود رکھتا ہے۔

اس لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر مغربی اداروں کو چاہیے کہ وہ اگر واقعی انصاف کے علمبردار ہیں تو اپنے طرزعمل پر نظر ثانی کریں اور واقعات کی یک طرفہ تصویر پیش کر کے اس پر فیصلے صادر کرنے کی بجائے مسلمانوں کے موقف او رمشکلات کا جائزہ لیں اور ان کے حقوق کے لیے بھی آواز اٹھائیں۔

یہی صورتحال توہین رسالتؐ کی سزا کے قانون کے بارے میں بھی ہے کہ واقعات کی یکطرفہ تصویر کو مسلسل سامنے لایا جا رہا ہے اور اس قانون کو تبدیل کرانے یا بے اثر بنانے کے لیے مغرب کے ذرائع ابلاغ، لابیاں بلکہ حکومتیں دباؤ ڈال رہی ہیں۔ اس سلسلہ میں یہ کہا جاتا ہے کہ قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے اس لیے اس میں تبدیلی ضروری ہے اور قانون کے غلط استعمال کے ثبوت کے طور پر رحمت مسیح اور سلامت مسیح کیس کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اس کیس کے سلسلہ میں مغربی ذرائع ابلاغ نے اب تک جو کچھ کہا ہے وہ یک طرفہ ہے۔ دوسری طرف کا موقف کیس سے متعلقہ حضرات سے معلوم کرنے کی آج تک کسی مغربی تنظیم، حکومت یا نشریاتی ادارے نے زحمت گوارا نہیں کی۔ راقم الحروف ان افراد میں شامل ہے جو سیشن کورٹ کے فیصلے تک اس کیس کی پیروی میں مختلف سطح پر شریک رہے ہیں اس لیے اس حیثیت سے مندرجہ ذیل حقائق کو ریکارڈ پر لانا ضروری سمجھتا ہے کہ

ان حالات میں اس کیس کے بارے میں عالمی سطح پر جو یک طرفہ پراپیگنڈا ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اور سیشن کورٹ کی طرف سے ملزموں کو قانون کے مطابق سزائے موت سنانے کے بعد ہائی کورٹ میں جس تیز رفتاری کے ساتھ اپیل کے مراحل طے کیے گئے اور جو طریق کار اختیار کیا گیا اس کی روشنی میں ملزموں کی بریت، رہائی اور بیرون ملک روانگی پر کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ تاہم اس کیس کے حوالے سے قانون کے غلط استعمال کے سلسلہ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے الزام کو قطعی طور پر مسترد کرتے ہوئے گوجرانوالہ کے علماء کرام کی طرف سے یہ پیشکش دہرائی جاتی ہے کہ ہم اس کیس کے اصل حقائق کو سامنے لانے کے لیے مسلمان اور مسیحی راہنماؤں پر مشتمل مشترکہ انکوائری کمیٹی کے ذریعے آج بھی پبلک انکوائری کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ وہ معروف معنوں میں انکوائری ہو اور پہلے کی طرح انکوائری کے نام پر یک طرفہ کاروائی نہ ہو۔

پھر کسی قانون کے غلط استعمال کے امکان کو قانون کی تبدیلی کے لیے وجہ جواز قرار دینا بجائے خود محل نظر ہے۔ قوانین کا غلط استعمال تناسب کی کمی بیشی کے ساتھ دنیا کے ہر ملک میں ہوتا ہے لیکن کہیں بھی ایسے تحفظات اختیار نہیں کیے جاتے جو ضرورت کے وقت قانون کے صحیح استعمال کے امکان کو ہی مخدوش بنا دیں۔ کیونکہ جہاں قانون کے غلط استعمال کی روک تھام ضروری ہے وہاں اس کے صحیح استعمال کی ضمانت بھی قانون کا تقاضا ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں توہین رسالتؐ کی سزا کے قانون کے نفاذ کے طریق کار میں تبدیلی کے لیے جو ترامیم تجویز کی گئی ہیں وہ اس معیار پر پورا نہیں اترتیں۔ ان ترامیم میں کہا گیا ہے کہ توہین رسالتؐ کے قانون کے تحت ایف آئی آر کا اندراج ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی پیشگی انکوائری کے ساتھ مشروط کر دیا جائے اور اگر مدعی اپنے الزام کے لیے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے اطمینان کے مطابق ثبوت فراہم نہ کر سکے تو اسے جھوٹے الزام کی سزا میں دس سال کے لیے قید کر دیا جائے۔ اس صورت میں قانون کے عملی نفاذ کے امکانات مخدوش ہونے کے ساتھ ساتھ قانون پر عملدرآمد کا انحصار کسی عدالتی سسٹم کی بجائے فرد واحد (ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ) کی صوابدید پر رہ جاتا ہے جو انصاف کے مسلمہ اصولوں کے منافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ترامیم کو پاکستان کی رائے عامہ نے مسترد کر دیا ہے اور ملی یکجہتی کونسل کی اپیل پر ۲۷ مئی ۱۹۹۵ء کو ملک گیر ہڑتال کر کے ان ترامیم کے خلاف عوامی فیصلہ صادر کر دیا ہے۔

ان گزارشات کے علاوہ دو اور پہلو بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل کے پیش نظر رہنے چاہئیں:

  1. ایک یہ کہ قادیانیوں کو ملت اسلامیہ کا حصہ تسلیم نہ کرنے اور ان سے اپنے لیے الگ نام اور شناخت کا مطالبہ کرنے کا تعلق مسلمانوں کے مذہبی عقائد سے ہے۔ اسی طرح ناموس رسالتؐ کا تحفظ اور توہین رسالتؐ پر موت کی سزا بھی مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہے اور یہ صرف اسلام کا حکم نہیں بلکہ متعدد تصریحات کی رو سے بائبل نے بھی اللہ تعالیٰ کے کسی سچے پیغمبر کی توہین پر موت ہی کی سزا بیان کی ہے۔ اس لیے دنیا بھر کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں سے مطالبہ کرنا کہ وہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے طے کردہ انسانی حقوق کا معیار پورا کرنے کے لیے اپنے مسلمہ مذہبی عقائد سے منحرف ہو جائیں، کسی بھی طرح قرین انصاف نہیں ہے۔ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل ایسا مطالبہ کر کے مسلمانوں کے مذہبی عقائد میں مداخلت کی مرتکب ہو رہی ہے۔
  2. دوسری بات پاکستان کے حوالہ سے ہے کہ یہ دونوں قوانین پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ کے منظور کردہ ہیں اور ان کے پیچھے رائے عامہ کا براہ راست دباؤ بھی موجود ہے جس کا اظہار ۲۷ مئی کو ایک بار پھر ہو چکا ہے۔ اس طرح ان قوانین کو منتخب پارلیمنٹ کی منظوری کے ساتھ ساتھ رائے عامہ کی پشت پناہی اور ملک کی اعلیٰ عدالتوں کی مکمل تائید حاصل ہے۔ اس لیے ان قوانین کی تبدیلی کا باہر سے مطالبہ کرنا رائے عامہ اور پارلیمنٹ کے فیصلوں کی توہین ہے جو مسلمہ جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کا موجودہ طرزعمل بلاشبہ جمہوری اقدار اور اصولوں سے انحراف کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔

اس بنا پر ہم پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اس سال کی رپورٹ کے ان حصوں کو حقیقت پسندانہ تسلیم نہیں کرتے جن کا تعلق اسلام کے نام پر قادیانیوں کی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون اور توہین رسالتؐ کی سزا کے قانون سے ہے۔ کیونکہ ہماری رائے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان معاملات میں جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے اور اصل حقائق تک پہنچنے یا انہیں منظر عام پر لانے میں سنجیدگی سے کام نہیں لیا۔

حاجی عبد المتین چوہان مرحوم

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ہمارے ایک پرانے دوست اور رفیق کار حاجی عبد المتین چوہان گزشتہ ماہ اچانک حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ ہمارے پرانے جماعتی بزرگ حاجی محمد ابراہیم صاحب عرف حاجی کالے خان کے فرزند تھے۔ حاجی کالے خان جمعیت علمائے اسلام اور مدرسہ نصرۃ العلوم کے قدیمی معاونین میں سے ہیں اور حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ، والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر، اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی کے قریبی رفقاء میں شمار ہوتے ہیں۔
عبد المتین مرحوم کے ساتھ راقم الحروف کا تعلق حفظ قرآن کریم کے دور سے تھا جب ہم دونوں مدرسہ نصرۃ العلوم میں استاذ محترم حضرت قاری محمد یاسین صاحب مرحوم سے پڑھتے تھے۔ یہ غالباً سن ۱۹۵۸ء یا ۱۹۵۹ء کی بات ہے۔ عبد المتین مرحوم قرآن کریم یاد نہ کر سکے لیکن علمائے کرام اور جماعتی امور کے ساتھ ان کا تعلق آخر دم تک قائم رہا۔ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ، اور حضرت سید نفیس شاہ صاحب کے ساتھ عقیدت و محبت کا خصوصی تعلق تھا اور جمعیت علمائے اسلام اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے کاموں میں بطور خاص دلچسپی کے ساتھ حصہ لیا کرتے تھے۔ طباعت و اشاعت کا خصوصی ذوق تھا، پوسٹرز، اسٹیکرز اور کارڈز کی اچھی سے اچھی طباعت کی کوشش کرتے اور ان کاموں پر اچھی خاصی رقم صرف کر دیتے۔
مجلس آرائی بھی عبد المتین مرحوم کا محبوب مشغلہ تھا، نجی محفلوں کا اہتمام بھی کرتے جہاں دوستوں میں گپ شپ ہوتی، بے تکلفی ہوتی اور ہنسی مزاح میں زمانے کی ستم ظریفیوں اور پریشانیوں سے تھوڑی دیر کے لیے نجات مل جاتی، جبکہ عمومی محافل کے لیے بھی کوشاں رہتے۔ ابھی وفات سے چند روز قبل مدرسہ اشر ف العلوم گوجرانوالہ میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے سیکرٹری جنرل قاری محمد یوسف عثمانی کے ساتھ مل کر ایک خوبصورت محفل حمد و نعت کا اہتمام کیا جس کے تذکرے خاصی دیر تک گوجرانوالہ کی محفلوں میں ہوتے رہیں گے۔ طبیعت ہنس مکھ تھی، ظرافت اور مزاح کے ہتھیاروں سے ہر وقت مسلح رہتے تھے، دوستوں کو نشانہ بنا کر لطف لیتے اور خود نشانہ بن کر محظوظ ہوتے، مزاج میں حد درجہ بے تکلفی تھی۔
بازار سید نگری گوجرانوالہ میں البدر جنرل اسٹور ان کی دکان ہے، کبھی کبھار مسائل و مصائب کے ہجوم سے طبیعت زیادہ پریشان ہوتی تو دکان پر ان کے پاس چلا جاتا اور چائے کی پیالی کے ساتھ گپ شپ اور ہنسی مزاح کے ایک چھوٹے سے دور میں طبیعت کی ساری پریشانی کافور ہو جاتی۔ اب تو دوستوں کی وہ محفل ہی اجڑ گئی ہے جہاں کبھی کبھار زمانے کی پریشانیوں سے بھاگ کر پناہ لے لیا کرتے تھے۔ اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائیں، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور حاجی کالے خان صاحب اور ان کے خاندان کو صبر و حوصلہ کے ساتھ اس صدمہ سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

معدے کی تیزابیت دور کرنے کے لیے موسمی کا ناشتہ

حکیم عبد الرشید شاہد

موسمی مالٹے کی خوش ذائقہ میٹھی قسم ہے، جو دنیا بھر میں شوق سے کھائی جاتی ہے، اس دل فریب پھل میں ۸۰ فیصد صاف پانی اور ۲۰ فیصد تک گوشت بنانے والے روغنی اور شاستہ دار اجزا کے ساتھ سوڈیم، پوٹاشیم اور فاسفورس کی آمیزش ہے۔ موسمی کا مزاج گرم اور تر ہے۔ ایک عمدہ غذا ہونے کے علاوہ یہ قبض کشا اور عمدہ پیشاب آور ہے۔ تین بڑی موسمی میں دو چپاتیوں کے برابر غذا ہے۔ معدہ میں داخل ہوتے ہی یہ معدی ہاضم مرطوبات کی تراوش بڑھا دیتی ہے اور معدہ کی تیزابیت دور کر دیتی ہے۔ 
آج کل گیس کی شکایت اکثر پائی جاتی ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق ستر فیصد آبادی ہاضمہ کی خرابی کا رونا روتی ہے، ریح اور بائے بادی کی وجہ سے اکثر اصحاب غذا کھا کر گھٹنوں تک کلیجہ جلنے کی شکایت کرتے ہیں اور دن بدن پیٹ بڑا ہونے کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ ایسے مریض جو آٹھ بجے تین موسمی ناشتہ کے طور پر کھا لیں، پانچ دن کے بعد ایک بجے بطور غذا استعمال فرمائیں اور کھانا حسب معمول جاری رکھیں ، مگر اس پھل کا رس، گودہ اور پتلا چھلکا، سوائے اوپر کے سخت زرد چھلکے کے سب چٹ کر جائیں، ان شاء اللہ شکم سیری کے علاوہ گیس کم، طبیعت ہلکی، پیٹ نرم اور پاخانہ با فراغت خارج۔
 سونے سے پہلے چند روزه استعمال پر وزن بھی کم ہونا شروع ہو جائے گا۔ اکثر نوجوان بازاروں میں اس کا جوس شوق سے پیتے ہیں۔ صرف جوس پینے سے معدے کی تیزابیت دور ہوتی ہے، اور بدنی فضلات پیشاب کے ذریعے خارج ہو جاتے ہیں، مگر گودہ زود ہضم ہونے کے علاوہ دائمی قبض کا بے ضرر شافی علاج بھی ہے۔ 
ایک خاص نقطہ اور بھی عرض کرتا چلوں کہ جو حضرات اس کا جوس پیتے ہیں وہ اس کو غٹاغٹ حلق سے انڈیلنے کے بجائے اگر اس کو چائے کی طرح چسکی لگا کر پئیں گے تو فائدہ زیادہ ہو گا، اس لیے کہ چکی لگا کر پینے سے منہ کا لعاب زیادہ شامل ہو گا جو ہضم ہونے میں زیادہ مدد دے گا۔ 
جب جوڑوں میں یورک ایسڈ ہونے سے چھوٹے بڑے جوڑوں میں درد اور سوج ہو جائے تو سورنجاں شیریں، سنڈھ ، کالی مرچ برابر وزن کوٹ کر سفوف بنا کر تین سے چھ ماشہ روزانہ موسی پر لگا کر کھائیں، چند دنوں میں یورک ایسڈ پیشاب کے راستے خارج ہو گا۔ درد اور سوجن ٹھیک ہو گی، 
موسمی کے بیج اور زرد کوڈی برابر وزن لے کر عرق گلاب میں ۲۵ گھنٹے کھرل کر کے سرمہ بنا کر رکھ لیں، آنکھوں میں لگا لیں تو جالا کٹ جائے اور نظر تیز ہو جاتی ہے۔ 
اس کا اوپر والا زرد چھلکا خشک کر کے آگ پر جلالیں، سیاہ رنگ کی جلی ہوئی راکھ ۳ ماشہ اور خالص شہد ایک تولہ میں ملا کر بار بار چائے ہے گلے کی خراش دور، کھانسی کافور اور بلغم باسانی خارج ہو کر سانس کی تنگی بفضل خدا دور ہو جاتی ہے۔ 
موسمی میں رطوبت زیادہ ہونے کی وجہ سے بعض ٹھنڈے مزاج والوں اور بوڑھوں کو اس کے استعمال سے بدن میں دردیں ہونے لگتی ہیں تو دردوں کی وجہ عوام الناس اس کو ٹھنڈا سمجھنے لگتے ہیں، حالانکہ اس کا مزاج گرم تر ہے، ایسے حضرات اس کو کھا کر دوپہر اجوائن دیسی اور پودینہ خشک کا قہوہ بنا کر پئیں تو بجائے نقصان کے بہت فائدہ ہو گا۔

’’الشریعہ‘‘ کا نیا دور

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہنامہ الشریعہ نے اپنے سفر کا آغاز اکتوبر ۱۹۸۹ء میں کیا تھا۔ حالات کی نامساعدت کے باوجود محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ جریدہ اپنی زندگی کے سوا چھ سال اور چھ جلدیں مکمل کر چکا ہے اور زیر نظر شمارہ سے ساتویں جلد کا آغاز ہو رہا ہے۔

اس دوران الشریعہ نے اسلامائزیشن، مغربی میڈیا اور لابیوں کی اسلام دشمن مہم کے تعاقب، اور عالمی استعمار کی فکری اور نظریاتی یلغار کے حوالے سے دینی حلقوں کی آگاہی و بیداری کے لیے اپنی بساط کی حد تک خدمات سرانجام دی ہیں۔ اور اہل علم و نظر کے ہاں پسندیدگی اور قبولیت کے روز افزوں رجحانات سے یہ اطمینان ہوتا ہے کہ ہمارا سفر صحیح سمت اور وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے، فالحمد للہ علٰی ذٰلک۔

البتہ اصحاب خیر و ثروت کے ہاں پذیرائی حاصل کرنے میں ہم کامیاب نہیں ہو سکے، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ فکری و نظریاتی محاذ کی جدوجہد کو ہمارے ہاں ابھی دینی تقاضوں میں شمار نہیں کیا جاتا، اور اسی بنا پر فکری و نظریاتی محنت کو وہ وسائل حاصل نہیں ہو پاتے جو آج کے دور میں ناگزیر ضروریات کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ وسائل و اخراجات میں ضروری تعاون کے فقدان اور الشریعہ کو بلامعاوضہ اور اعزازی طور پر حاصل کرنے کے عمومی ذوق کے ہاتھوں بے بس ہو کر اس سے قبل دو بار سائز اور صفحات میں کمی کی گئی تھی۔ اور اب اسی وجہ سے ایک اور تبدیلی کے ذریعے الشریعہ کو ماہوار جریدہ کی بجائے سہ ماہی مجلہ کی شکل دی جا رہی ہے، جس کا پہلا نمونہ زیر نظر مجلہ کی صورت میں آپ کے سامنے ہے۔ پروگرام کے مطابق سال میں الشریعہ کے چار شمارے (جنوری، اپریل، جولائی، اکتوبر) میں شائع ہوں گے۔ ہر شمارہ کم از کم ایک سو صفحات پر مشتمل ہو گا اور کسی ایک عنوان کے لیے مخصوص ہوگا۔ اس طرح سال کے مجموعی صفحات اور قیمت میں کوئی کمی نہیں ہوگی، البتہ وقفہ اشاعت بڑھ جائے گا اور متنوع مضامین کی بجائے ہر شمارہ میں کسی ایک عنوان پر منتخب مضامین پیش کیے جائیں گے۔

اس پروگرام کے مطابق الشریعہ کا اگلا شمارہ اپریل ۱۹۹۶ء کے آغاز میں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا اور اس کا عنوان ’’پاکستان میں نفاذ شریعت میں ناکامی کے اسباب‘‘ ہو گا، ان شاء اللہ تعالٰی۔ امید ہے کہ احباب اس سلسلہ میں تعاون اور سرپرستی میں بخل سے کام نہیں لیں گے۔

دنیا و آخرت کی فلاح حضرت شاہ ولی اللہؒ کی نظر میں

حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

حضرت شاہ ولی اللہ دنیا اور آخرت کی فلاح کا سارا دارو مدار ان چار بنیادی اخلاق کو قرار دیتے ہیں: 
(۱) طہارت (پاکیزگی) 
(۲) اخبات (اعلیٰ و برتر ذاتِ خداوندی کے حضور میں خشوع و خضوع)
(۳) سماحت (ضبط نفس) 
(۴) عدالت 
ان چار اخلاق میں مرکزی حیثیت عدالت کو حاصل ہے۔ کسی سوسائٹی میں عدل و انصاف قائم نہیں ہو سکتا جب تک رزق کمانے والی جماعتوں پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنے سے احتراز کلی نہ برتا جائے۔ نزول قرآن کے زمانے میں کسری و قیصر نے متمدن دنیا کے اکثر حصے کو اقتصادی پریشانی میں مبتلا کر کے اخلاق سے محروم کر دیا تھا، اس لیے قرآن عظیم کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ کسری و قیصر کا زور توڑ کر ایسا نظام نافذ کر دیا جائے جس سے اقوام عالم کو اس مصیبت سے نجات حاصل ہو۔

اپریل ۱۹۹۶ء

دینی حلقے اور قومی سیاست کی دلدلمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
نفاذ شریعت کی اہمیت اور برکاتشیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ 
تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام کے طے کردہ ۲۲ متفقہ دستوری نکاتادارہ 
خلافتِ اسلامیہ کے احیا کی اہمیت اور اس کے تقاضےمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
نفاذِ اسلام کی راہ روکنے کے لیے امریکی منصوبہ بندیوائس آف امریکہ 
عدالتِ عظمیٰ کی نوازشاتادارہ 
نفاذ شریعت کی جدوجہد اور مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی ذمہ داریاںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
نفاذِ اسلام اور ہمارا نظامِ تعلیممولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
نفاذ شریعت ایکٹ کی خلافِ اسلام دفعاتادارہ 
شریعت بل کی دفعہ ۳ کے بارے میں علماء کرام کے ارشاداتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ۔ نفاذ اسلام کی جدوجہد میں معاون یا رکاوٹ؟مولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
علماء اور قومی سیاستمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
دوسری سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنسادارہ 
تعارف و تبصرہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
قافلۂ معادمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
خربوزہحکیم عبد الرشید شاہد 
قراردادِ مقاصدادارہ 
۱۹۷۳ء کے دستور کی اہم اسلامی دفعاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 

دینی حلقے اور قومی سیاست کی دلدل

دینی سیاست کے علمبرداروں کے لیے لمحۂ فکریہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ملکی سیاست میں حصہ لینے والی مذہبی جماعتیں اس وقت عجیب مخمصے میں ہیں اور ریگستان میں راستہ بھول جانے والے قافلے کی طرح منزل کی تلاش بلکہ تعین میں سرگرداں ہیں۔ مروجہ سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کرتے وقت مذہبی جماعتیں یقیناًاپنے اس اقدام پر پوری طرح مطمئن نہ تھیں اور وہ خدشات وخطرات اس وقت بھی ان کے ذہن میں اجمالی طور پر ضرور موجود تھے جن سے انہیں آج سابقہ درپیش ہے لیکن ان کا خیال یہ تھا کہ مروجہ سیاست میں شریک کار بنے بغیر ملکی نظام میں تبدیلی کی کوشش نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی اور مروجہ سیاست کی خرابیوں پر وہ مذہبی قوت اور عوامی دباؤ کے ذریعے سے قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس لیے مذہبی جماعتوں نے مروجہ سیاست کی دلدل میں کود پڑنے کا رسک لے لیا لیکن آج ووٹ، الیکشن اور دباؤ کی مروجہ سیاست ان کے گلے کا ہار بن گئی ہے کہ نہ تو انہیں اس کے ذریعے سے دینی مقاصدکے حصول کا کوئی امکان نظر آ رہا ہے، نہ وہ اس سے کنارہ کش ہونے کا حوصلہ رکھتی ہیں، نہ اس مروجہ سیاست کے ناگزیر تقاضوں کا پورا کرنا ان کے بس کی بات ہے اور نہ ہی وہ قومی سیاست میں اپنے موجودہ مقام اور بھرم کو باقی رکھنے میں کام یاب ہو رہی ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ قومی سیاست کی ریت دینی رہنماؤں کی مٹھی سے مسلسل پھسلتی جا رہی ہے اور قومی سیاست میں بے وقعت ہونے کے اثرات معاشرے میں ان کے دینی وقار ومقام کو بھی لپیٹ میں لیتے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس صورت حال کا ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ سنجیدہ تجزیہ کیا جائے اور ان اسباب وعوامل کا سراغ لگایا جائے جو ملکی سیاست میں مذہبی جماعتوں کی ناکامی کا باعث بنے ہیں تاکہ ان کی روشنی میں دینی سیاسی جماعتیں اپنے مستقبل کو حال سے بہتر بنانے کی منصوبہ بندی کر سکیں۔ 

جہاں تک قومی سیاست میں حصہ لینے او رمروجہ سیاسی عمل کے ذریعے سے ملکی نظام کی تبدیلی اور نفاذ اسلامی کی جدوجہد کا تعلق ہے، اس میں کلام نہیں ہے کہ تمام تر خدشات وخطرات کے باوجود آج بھی دینی جماعتوں کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ دینی حلقوں کا واحد ہدف نظام کی تبدیلی ہے۔ وہ موجودہ اجتماعی نظام کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں جو یقیناًغیر اسلامی ہے اور دینی حلقے اس نظام کو ختم کر کے اس کی جگہ اسلام کا عادلانہ نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہربات ہے کہ نظام کی تبدیلی کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ طاقت کے بل پر موجودہ نظام کو بیخ وبن سے اکھاڑ دیا جائے اور دوسرا یہ کہ رائے عامہ کو ساتھ ملا کر اس کے ذریعے سے نظام کی تبدیلی کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔

طاقت اگر موجود ہو اور کافرانہ نظام کا تحفظ کرنے والی طاقتوں سے نظام کی باگ ڈور چھین لینے کی سکت رکھتی ہو تو نظام کی تبدیلی کا یہ راستہ سب سے زیادہ موثر اور محفوظ ہے بلکہ شرعی اصولوں کی روشنی میں ایسی صورت حال میں طاقت کا استعمال دینی فریضہ کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ ہماری دلی دعا اور خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کی دینی قوتوں کو ایسی طاقت فراہم کرنے کا شعور، حوصلہ اور مواقع نصیب فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔ لیکن موجودہ حالات میں ایسی طاقت دینی قوتوں کے پاس موجود ہے نہ مستقبل قریب میں فراہم ہونے کے امکانات ہیں اس لیے متبادل اور محفوظ راستہ میسر آنے تک پاکستان کے دینی حلقوں کے پاس صرف یہی ایک طریقہ باقی رہ جاتا ہے کہ وہ مروجہ سیاسی عمل کے ذریعے سے ملکی نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کرتی رہیں۔ البتہ قومی سیاست میں حصہ لینے والی دینی جماعتوں کو ان عوامل کا ضرور تجزیہ کرنا چاہیے جو اب تک سیاست میں ان کی ناکامی یا کمزوری کا باعث بنے ہوئے ہیں اور اسی ضمن میں بحث وتمحیص کے آغاز کے لیے چند گزارشات پیش کی جا رہی ہیں۔

ہمارے خیال میں دینی سیاسی جماعتوں کی ناکامی کی ایک وجہ یہ ہے کہ نفاذ اسلام کے لیے ان کا ہوم ورک نہیں ہے۔ ان کے بیشتر کارکنوں بلکہ رہنماؤں کو بھی نفاذ اسلام کے فکری اور عملی تقاضوں کا ادراک نہیں ہے اور نہ ہی ان نظریاتی اور واقعاتی رکاوٹوں سے آگاہی ہے جو نفاذ اسلام کی راہ روکے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے سوا کسی اور جماعت کے پاس رہنماؤں اور کارکنوں کی فکری، علمی اور عملی تربیت کا سرے سے کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے اور جماعت اسلامی کے تربیتی نظام کی بنیادی بھی اجتماعی فکر کے بجائے شخصی فکر پر ہے جس سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو رہے اور نہ ہی وہ شخصی فکر دینی حلقوں کا اعتماد حاصل کر سکا ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ دینی سیاسی جماعتوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ملک کی دو بڑی سیاسی قوتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نفاذ اسلام کے معاملہ میں یکساں سوچ اور طرز عمل کی حامل ہیں، صرف سیٹوں کے حصول، اخبارات میں کوریج اور سیاسی اہمیت میں وقتی اضافے کی خاطر انہی میں سے کسی کے ساتھ سیاسی وابستگی کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ کوئی مذہبی جماعت پیپلز پارٹی کے ساتھ تمام تر طعنوں کو سہتے ہوئے بھی وقتی مفاد کی خاطر جا بیٹھتی ہے اور کوئی جماعت مسلم لیگ سے بارہا ڈسے جانے کے باوجود اسی بل میں پھر گھس جانے میں عافیت سمجھتی ہے۔ اس طرز عمل نے دینی سیاسی جماعتوں کے تشخص اور وقار کو جس بری طرح پامال کیا ہے، اس کے تصور سے بھی باشعور دینی کارکنوں کو جھرجھری آ جاتی ہے لیکن راہ نمایان گرامی منزلت اس قدر احساس پروف واقع ہوئے ہیں کہ ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ 

تیسری وجہ یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں نے ابھی تک آپس میں مل بیٹھنے اور دینی حلقوں کے باہمی اتحاد کی ضرورت وافادیت کو محسوس نہیں کیا۔ کبھی کبھار عوامی دباؤ سے بے بس ہو کر وقتی طور پر مل بیٹھتے ہیں تو الیکشن میں بڑے سیاسی اتحادوں کی طرف سے سیٹوں کی سبز جھنڈی بلند ہوتے ہی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ادھر کو لپک پڑتے ہیں جبکہ ملتا وہاں سے بھی کچھ نہیں ہے۔ دینی سیاسی جماعتوں کے قائدین آج تک اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کر سکے کہ ان کی اصل قوت ان کے باہمی اتحاد میں ہے اور ان کے متحد ہونے کی صورت میں عوام نے انہیں کبھی مایوس نہیں کیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد ملک کی دینی جماعتوں نے حقیقی سیاسی اتحاد کا مظاہرہ صرف ایک مرتبہ ۷۷ء میں کیا ہے اور اس کے ثمرات آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ انہی ثمرات کی وجہ سے ملک کی حقیقی حکمران قوتوں نے ہمیشہ کے لیے یہ حکمت عملی طے کر لی ہے کہ پاکستان کے دینی حلقوں اور جماعتوں کو کبھی کسی عملی اور حقیقی سیاسی اتحاد کی منزل تک پہنچنے نہ دیا جائے۔

دینی سیاسی جماعتوں کی قومی سیاست میں ناکامی کی ایک وجہ ان کا فرقہ وارانہ تشخص اور ترجیحات بھی ہیں۔ ملک کی کوئی دینی سیاسی جماعت ایسی نہیں جو صرف ایک ہی مذہبی مکتب فکر کی نمائندگی نہ کرتی ہو۔ جماعت اسلامی نے اس دائرے سے نکل کر ہمہ گیر ہونے کا تصور دیا لیکن طریق کار ایسا اختیار کیا کہ عملاً ملک میں پہلے سے موجود مذہبی مکاتب فکر میں ایک نئے نیم مکتب فکر کا عنوان بن گئی۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ ہماری دینی سیاسی جماعتوں کی تشکیل مذہبی مکاتب فکر کی بنیاد پر ہے اور ان کے ہاں کارکنوں کی تربیت، قیادت کے چناؤ اور پالیسیوں کے تعین کا دارومدار بھی فرقہ وارانہ ترجیحات پر ہے۔ پھر بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے دینی تعلیمی اداروں میں کارکنوں کی تربیت کے لیے دوسرے مذہبی مکاتب فکر کے خلاف ان کی ذہن سازی کا جو معیار قائم کر دیا گیا ہے، لادین اور سیکولر لابیوں کے خلاف ان کی ذہن سازی اس کا دسواں حصہ بھی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ دینی سیاسی جماعتوں کے کارکن سیکولر اور منافق سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھنا تو اس قدر معیوب نہیں سمجھتے لیکن آپس میں دوسرے مذہبی مکاتب فکر کے کارکنوں کے ساتھ مل بیٹھنے میں ان کا حجاب بدستور قائم رہتا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ جمعیت علماء اسلام پاکستان، جمعیت علماء پاکستان ، جمعیت اہل حدیث پاکستان، جماعت اسلامی اور دوسری دینی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو انفرادی طور پر اور باہم مل بیٹھ کر ان اسباب وعوامل کا ضرور جائزہ لینا چاہیے اور ان منفی عوامل سے گلو خلاصی کے لیے ٹھوس حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ ہماری رائے آج بھی یہی ہے کہ ملک کی دینی سیاسی جماعتوں کے سامنے ملکی نظام کو تبدیل کرنے اور نفاذ اسلام کے لیے مروجہ سیاسی عمل کے ذریعے سے جدوجہد ہی موجودہ حالات میں واحد راستہ ہے اور اگر وہ باہمی منافرت، بے اعتمادی اور فرقہ وارانہ ترجیحات پر قابو پاکر آپس میں حقیقی سیاسی اتحاد کی کوئی مستحکم بنیاد قائم کر سکیں تو نہ صرف مروجہ سیاست کی خرابیوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں بلکہ اسے دینی تقاضوں کے سانچے میں ڈھالنے کی سکت بھی ان میں موجود ہے۔

(جنوری ۱۹۹۲ء)

نفاذ شریعت کی اہمیت اور برکات

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ الكريم، اما بعد۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: للہ ملک السموات والارض کہ آسمانوں اور زمینوں کا ملک صرف اللہ تعالٰی کے لیے ہے کیونکہ وہی خالق وہی مالک اور وہی متصرف ہے، تو یہ بات فطرت اور انصاف کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کماحقہٗ ماننے والوں کے ملک میں قانون کسی اور کا نافذ ہو۔ 

سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی سے بڑھ کر کوئی بھی علیم و خبیر نہیں اور اس سے زیادہ کوئی حکیم و رحیم بھی نہیں۔ اس نے جو احکام دیے ہیں سب حق اور صحیح ہیں اور کوئی بھی حکم مصلحت و حکمت سے خالی نہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کو کیا جانیں؟ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا؟ اللہ تعالیٰ کو رحمٰن و رحیم اور حکیم تسلیم کر لینے کے بعد اس کا کوئی حکم بھی ظالمانہ، جابرانہ اور وحشیانہ نہیں نظر آئے گا۔ ایسا نظریہ صرف ان لوگوں کا ہو سکتا ہے جن کا اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں اور وہ مغربیت زدہ ذہن رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ڈاکہ، چوری، زنا، قذف وغیرہ جرائم کی واضح الفاظ میں سزائیں اور حدود بیان کی ہیں تاکہ کوئی کسی پر ظلم اور زیادتی نہ کرے اور امن و امان کے ساتھ ہر آدمی پر سکون زندگی بسر کر سکے۔ 

اگر یہ سزائیں نہ دی جائیں تو آج ہم اپنی آنکھوں کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور روزانہ ملکی اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ نہ تو کسی کی جان محفوظ ہے، نہ مال محفوظ ہے اور نہ عزت و آبرو محفوظ ہے۔ ڈاکوؤں، چوروں اور بد معاشوں کا دور دورہ ہے اور وہ دندناتے پھرتے ہیں، اور جب پکڑے جاتے ہیں تو بڑی آسانی اور آنکھوں کے اشاروں سے مک مکاؤ ہو جاتا ہے، اور اگر کوئی قدرے اکڑ جائے تو اس کو پولیس مقابلہ میں ختم کر دیا جاتا ہے۔ کوئی محکمہ رشوت اور گھپلوں سے خالی نہیں، عوام ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور بعض تو پیٹ بھر کر کھانے سے بھی محروم ہیں۔ اور بلوں اور ٹیکسوں کی اتنی بھرمار ہے کہ عوام بیچارے سوئی گیس، بجلی، ٹیلیفون اور پانی وغیرہ کے بل ادا کرتے بھی بلبلاتے ہیں، اور حکمران طبقہ ہے جو صم بکم عمی کا مصداق ہے۔ عوام کی خیر خواہی کے لیے کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی، اور ان کو حلال و حرام کی تمیز سے بالا تر ہو کر دولت جمع کرنے اور لوٹنے کھوٹنے کی فکر ہے۔ موت، قبر آخرت اور یوم الحساب کی فکر سے اکثریت بے نیاز ہے۔ اور سب کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے جس کے حاصل کرنے کا مقصد ہی اسلام اور صرف اسلام تھا اور بچہ بچہ جانتا ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ۔ مگر صد افسوس ہے کہ اللہ تعالیٰ کے واضح اور صریح احکام کو رد کر کے امریکہ بہادر کی مرضی کو ترجیح دی جا رہی ہے جس پر ہر مسلمان درد مند ہے۔

میرے درد کی حقیقت میرے آنسوؤں سے پوچھو 
میرے قہقہوں کی دنیا میری ترجماں نہیں ہے

اسلام میں ظلم کا تصور بھی نہیں

مذہب اسلام نے کسی مرحلہ میں بھی کسی پر رتی برابر ظلم کو روا نہیں رکھا۔ خود ظلم کرنا تو درکنار، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ظالموں کے ساتھ میل جول بھی نہ رکھو۔ ارشاد ہے: 

ولا تركنوا الی الذين ظلموا فتمسكم النار وما لكم من دون اللہ من اولياء ثم لا تنصرون (پ ۱۳، ہود ۱۰) 
’’اور مت جھکو ان کی طرف جو ظالم ہیں پھر تم کو لے گی آگ اور کوئی نہیں تمہارا اللہ کے سوا مددگار پھر کہیں مدد نہ پاؤ گے (ترجمہ از شیخ الہندؒ)

اس کی تفسیر میں وہ بزرگ جس نے اپنے مبارک ہاتھوں سے پاکستان کا جھنڈا لہرایا تھا، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانیؒ (المتوفی ۱۳۶۹ھ) فرماتے ہیں:

’’پہلے لا تطغوا میں حد سے نکلنے کو منع کیا تھا، اب بتلاتے ہیں کہ جو لوگ ظالم (حد سے نکلنے والے) ہیں ان کی طرف تمہارا ذرا سا میلان اور جھکاؤ بھی نہ ہو۔ ان کی موالات، مصاحبت، تعظیم و تکریم، مدح و ثنا، ظاہری تشبہ، اشتراکِ عمل ہر بات سے حسبِ مقدور محترز رہو، مبادا آگ کی لپیٹ تم کو نہ لگ جائے، پھر نہ خدا کے سوا تم کو کوئی مددگار ملے گا اور نہ خدا کی طرف سے کچھ مدد پہنچے گی۔‘‘ (فوائد عثمانیہ ص ۳۰۳ ف ۵)

آج ظالموں اور اللہ تعالٰی کے نافرمانوں کا جو تعاون ہو رہا ہے اور ان کی مدح و ثنا کے جو گیت گائے جا رہے ہیں جن کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ اور ہے، وہ کسی بھی اہلِ حق اور منصف مزاج سے مخفی نہیں ہے۔

سفر کی سمت کا کوئی تعین ہو تو کیسے ہو؟ 
غبارِ کارواں کچھ، راستہ کچھ اور کہتا ہے

عورت کی حکمرانی (جو شرعاً‌ ناجائز ہے) میں جو قتل و غارت، گرانی اور ملکی فسادات برپا ہیں وہ بالکل ختم ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ظاہری سزا ہے کہ قوم نے اپنے ووٹ کی گواہی اور شہادت سے نااہل لوگوں کو عوام پر حکمرانی کا حق دیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 

الا لہ الخلق والامر تبارك اللہ رب العالمين۔
’’ سن لو اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا، بڑی برکت والا ہے اللہ جو رب ہے سارے جہان کا۔‘‘ (ترجمہ حضرت شیخ الہندؒ) 

مولانا شبیر احمد صاحب اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: 

’’پیدا کرنا خلق ہے اور پیدا کرنے کے بعد تکوینی یا تشریعی احکام دینا امر ہے اور دونوں اسی کے قبضہ و اختیار میں ہیں۔ اس طرح وہ ہی ساری خوبیوں اور برکتوں کا سرچشمہ ہے۔‘‘ (فوائد عثمانیہ ص ۲۰۴) 

نفاذ شریعت کی برکات

دنیا و مافیہا کے تمام خزانوں کا خالق، مالک اور متصرف صرف اور صرف اللہ تعالٰی ہے اور سب کچھ اس کے قبضہ میں ہے۔ وہ جیسے چاہتا ہے ان میں تصرف اور تدبیر کرتا ہے۔ جب وہ راضی ہوتا ہے تو تمام اشیاء میں برکت ہی برکت ہوتی ہیں، اور جب وہ ناراض ہوتا ہے اور زمین میں گناہوں کی وجہ سے اس کی نافرمانی ہوتی ہے تو وہ ناراض ہو کر اپنی رحمت اور برکت روک لیتا ہے۔ حافظ عماد الدین ابو الفداء اسماعیل بن کثیر (المتوفی ۷۷۴ھ) مشہور مفسر ابو العاليہ (الریاحی رفیعؒ بن مہرانؒ المتوفی (۹۳ھ) ـ سے ظہر الفساد فہ البر والبحر (الایہ) کی تفسیر میں نقل کرتے ہیں: 

من عصی اللہ فی الارض فقد افسد فی الارض لان صلاح الارض والسماء بالطاعۃ ولہذا جاء فی الحدیث الذی رواہ ابو داؤد لحد یقام فی الارض احب الی اہلہا من ان یمطروا اربعین صباحاً‌  والسبب فی ہذا ان الحدود اذا اقیمت انکف الناس او اکثرہم او کثیر منہم عن تعاطی المحرمات واذا ترکت المعاص عن سبباً‌ فی حصول البرکات من السماء والارض و لہذا اذا نزل عیسی بن مریم علیہما السلام فی آخر الزمان یحکم بہذہ الشریعۃ المطہرۃ فی ذلک الوقت من قتل الخنزیوکسر الصلیب ووضع الجزیۃ وہو ترکہا فلا یقبل الا الاسلام او السیف فاذا اہلک اللہ فی زمانہ الدجال واتباعہ ویاجوج وموج قیل للارض اخرجی برکتک فیاکل من الرمانۃ الفئام من الناس ویستظلون بقحفہا ویکفی لبن اللقحۃ الجماعۃ من الناس وما ذالک الا ببرکۃ تنفیذ شریعۃ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فکلما اقیم العدل کثرت البرکات والخیر ولہذا ثبت فی الصحیحین ان الفاجر اذا مات یستریح منہ العباد والبلاد والشجر والدواب وقال احمد بن حنبل حدثنا محمد والحسین قالا حدثنا عوف عن ابی مخذم قال وجد رجل فی زمان زیاد او ابن زیاد صرۃ فیہا حب یعنی من بر امثال النوی مکتوب فیہا ہذا نبت فی زمان کان یعمل فیہ بالعدل (تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۴۳۵)
’’جس شخص نے زمین میں اللہ تعالی کی نافرمانی کی تو اس نے زمین میں فساد برپا کیا کیونکہ زمین و آسمان کی اصلاح اطاعت سے ہے، اور اسی لیے ابوداؤد کی حدیث میں آتا ہے کہ زمین پر شرعی طور پر ایک حد کا قائم کرنا زمین کے باشندوں کے لیے چالیس (۴۰) دن کی (مناسب) بارش سے زیادہ محبوب و بہتر ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب حدود قائم کی جائیں گی تو لوگ یا ان میں سے اکثر حرام کاریوں سے رک جائیں گے اور گناہ ترک کر دیے جائیں گے تو آسمان و زمین کی برکات حاصل ہوں گی۔ اور یہی وجہ ہے کہ آخر زمانہ میں جب حضرت عیسیٰ بن مریمؑ نازل ہو کر اس پاکیزہ شریعت کے مطابق فیصلے صادر فرمائیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو توڑیں گے (اور یہود و نصاریٰ کی قوت ختم کر ڈالیں گے) اور جزیہ لینا موقوف کر دیں گے اور اسلام اور جہاد بالسیف کے بغیر کوئی چیز قبول نہیں کریں گے تو ان کے دور میں اللہ تعالی دجال اور اس کے پیروکاروں اور یا جوج ماجوج کو ہلاک کر دے گا اور زمین کو حکم ہوگا کہ اپنی برکات نکال۔ اس وقت ایک انار کو کئی گھرانے کھائیں گے اور اس کے چھلکے کے سایہ میں کئی لوگ بیٹھ سکیں گے، اور ایک اونٹنی کا دودھ لوگوں کی خاص جماعت کو کفایت کرے گا۔ اور یہ سب کچھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے نفاذ کی برکت سے ہو گا۔ اور جب بھی عدل قائم کیا جائے اس کی برکات اور خیر زیادہ ہوتی ہے، اسی واسطے بخاری (ج ۱) اور مسلم (ج ۱ ص ۳۰۸) کی روایت میں آتا ہے کہ جب کوئی نافرمان مرتا ہے تو اس سے بندوں کو، شہروں کو، درختوں کو، اور جانوروں کو راحت حاصل ہوتی ہے۔ امام احمدؒ بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ ہم سے محمدؒ اور حسینؒ دو راویوں نے بیان کیا، وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عوفؒ نے بیان کیا، وہ ابو مخذمؒ  سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ زیاد یا ابن زیاد کے زمانہ میں ایک تھیلہ ملا جس میں کھجور کی گھٹلیوں کے برابر (ایک گھٹلی کا وزن نو ماشے اور تولہ بھی نکلا ہے) گندم کا ایک ایک دانہ تھا۔ ان پر لکھا ہوا تھا کہ یہ اس زمانہ کے دانے ہیں جس میں عدل و انصاف پر عمل ہوتا تھا۔‘‘

ابو داؤد کی جس روایت کا حوالہ حافظ ابن کثیرؒ نے دیا ہے یہ روایت حضرت ابوہریرہؓ سے نسائی ج ۲ ص ۲۲۳ اور ابن ماجہ ص ۱۸۵ وغیرہ کتب حدیث میں موجود ہے۔ امام سیوطیؒ (المتوفی ۹۱۱ھ) فرماتے ہیں صحیح ہے (الجامع الصغیر ج ا ص ۱۸۷)۔ مادہ پرست اور ظاہر بین جنہوں نے اپنے قلوب و اذہان کو مغربی تہذیب و تمدن کے ہاں گروی رکھ دیا ہے، ان نفس الامری باتوں کا مذاق اڑائیں گے مگر اہل ایمان، اہل خرد اور پختہ عقیدہ رکھنے والے مسلمان ایسے واقعات کو بلا چون و چرا تسلیم کرتے ہیں اور ان شاء اللہ العزیز کرتے رہیں گے۔

وہی بالا ہیں دنیا میں جو اپنا نیک و بد سمجھیں 
یہ نکتہ وہ ہے جس کو اہلِ دل اہلِ خرد سمجھیں

عدل و انصاف کے دور کی تَر اور سنگترہ

جس زمانہ میں عدل و انصاف ہوتا تھا اس زمانہ میں سبزیوں اور پھلوں وغیرہ ہر چیز میں برکت ہوتی تھی۔ امام ابوداؤد (سلیمان بن اشعث السجستانیؒ (المتوفی ۲۷۵ھ) فرماتے ہیں کہ

شبرت قثاءۃ بمصر ثلاثۃ عشر شبرا و رایت اترجۃ علی بعیر قطعت وصیرت علی مثل عدلین (ابو داؤد ج ۱ ص ۲۲۶) 
’’میں نے مصر میں ایک تر کو ماپا تو وہ تیرہ (۱۳) بالشت لمبی نکلی اور ایک سنگترہ اتنا بڑا دیکھا کہ اس کو دو حصے کر کے ایک اونٹ پر دو طرف لادا گیا۔‘‘

 اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کوئی چیز خارج اور بعید نہیں ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر یقین رکھتے ہیں وہ اہلِ نظر ایسی چیزوں کے ماننے میں تامل نہیں کرتے۔ ضد، عناد اور حق سے انکار کا مخلوق کے پاس کوئی علاج نہیں ہے:

اے اہلِ نظر! ذوقِ نظر خوب ہے لیکن 
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا؟

عدل و انصاف کی برکت سے فقر و فاقہ اور ڈاکہ اور بدی مٹتی ہے

حضرت عدیؓ بن حاتم (المتوفی (۲۸ھ) فرماتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص آیا اور اس نے فقر و فاقہ کا شکوہ کیا۔ اس کے بعد ایک دوسرا آیا اور اس نے ڈاکہ کا ذکر کیا۔ آپؐ نے فرمایا اے عدیؓ تو نے حیرہ دیکھا ہے؟ میں نے کہا کہ دیکھا تو نہیں لیکن اس کے بارے مجھے یہ خبری دی گئی ہے کہ حیرہ (کوفہ کے قریب ایک مشہور شہر تھا جس کو نعمان نامی شخص نے آباد کیا تھا) ہے۔ آپؐ نے فرمایا اگر تیری زندگی لمبی ہوئی تو تو ضرور دیکھے گا کہ اونٹ کے کجاوہ میں سوار عورت حیرہ سے چل کر کعبہ اللہ کا طواف کرے گی اور اللہ تعالی کے سوا اسے کسی کا خوف اور ڈر نہ ہو گا۔ حضرت عدیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں کہا کہ بنو طے (حاتم طائی کا خاندان جو سخاوت میں مشہور تھا اور حضرت عدیؓ کا والد تھا) کے غنڈے بدمعاش اور ڈاکو اس وقت کہاں ہوں گے جنہوں نے شہروں میں فتنہ و فساد اور شرارت کی آگ جلا رکھی ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ اگر تیری زندگی طویل ہوئی تو کسریٰ (ایران کا بادشاہ تھا) کے خزانے ضرور فتح کیے جائیں گے۔ میں نے کہا کسریٰ بن ہرمز کے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں کسریٰ بن ہرمز کے۔ پھر آپؐ نے فرمایا اگر تیری زندگی زیادہ ہوئی تو تو دیکھے گا کہ آدمی ہاتھ بھر کر سونا اور چاندی (زکوٰۃ اور صدقہ کے طور پر) لیے لیے پھرے گا مگر اسے کوئی لینے والا نہیں ملے گا۔ 

(پھر آگے حضرت عدیؓ نے فرمایا) میں نے آنکھوں کے ساتھ کجاوہ سوار عورت کو دیکھا کہ حیرہ سے چل کر بیت اللہ کا طواف کر رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا اسے کسی کا خوف نہیں، اور کسریٰ بن ہرمز کے خزانوں کے فتح کرنے والوں میں، میں بھی شریک تھا۔ آگے فرمایا، اے سامعین! اگر تمہاری زندگی لمبی ہوئی تو تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی صداقت بھی دیکھ لو گے کہ اوکھ (بک) بھرا ہوا مال بھی کوئی وصول نہیں کرے گا۔ (بخاری ج ا ص ۵۰۷ و ۵۰۸ و مختصراً‌ ج ا ص ۱۹۰) 

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (المتوفی ۸۵۲ھ) فلا يجد احدا يقبلہ کی شرح میں کہتے ہیں کہ

ای لعدم الفقراء فی ذلک الزمان تقدم فی الزکوۃ قول من قال ان ذٰلک عند نزول عیسی بن مریم علیہما السلام ویحتمل ان یکون ذالک اشارۃ الی ما وقع فی زمن عمر بن عبد العزیز وبذلک جزم البیہقی و اخرج فی الدلائل من طریق یعقوب بن سفیان بسندہ الی عمر بن اسید بن عبدالرحمن بن زید بن الخطاب قال انما ولی عمر بن عبدالعزیز ثلاثین شہرا الا واللہ ما مات حتی جعل الرجل یاتینا بالمال العظیم فیقول اجعلوا ہذا حیث ترون فی الفقراء فما یبرح حتی یرجع بمالہ یتذکر من یضعہ فیہ فلا یجدہ قد اغنی عمر الناس الخ (فتح الباری ج ۶ ص ۳۱۲ واللفظ لہ، والبدایہ والنہایہ ج ۵ ص ۶۴ لحافظ ابن کثیرؒ) 
’’فقراء اس زمانہ میں نہ ہوں گے اس لیے مال لینے والا بھی کوئی نہ پایا جائے گا۔ پہلے کتاب الزکوٰۃ میں ان حضرات کا قول بیان ہو چکا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ کارروائی حضرت عیسی بن مریمؑ کے نزول کے بعد ہوگی، اور اس کا بھی احتمال ہے کہ اس میں اس کی طرف اشارہ ہو جو حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دور میں ہوا اور امام بیہقیؒ نے اس پر اعتماد کیا ہے اور اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں یعقوبؒ بن سفیانؒ سے ان کی سند کے ساتھ عمرؒ بن اسیدؒ بن عبد الرحمٰن بن زیدؓ بن الخطاب سے روایت کی ہے کہ حضرت عمرؒ بن عبد العزیزؒ کو صرف تمہیں ماہ ہی خلافت کرنے کا موقع ملا لیکن بخدا ان کی اس وقت تک وفات نہیں ہوئی جب تک کہ آدمی (زکوٰۃ کا) کثیر مال لیے لیے پھرتا تھا اور کہتا تھا کہ اس مال کو جہاں مناسب سمجھو فقراء میں تقسیم کر دو اور اسی لگن میں وہ مصارف کو ڈھونڈنے اور تلاش کرنے میں لگا رہتا تھا مگر اس کو لینے والا کوئی نہ ملتا کیونکہ حضرت عمرؒ نے لوگوں کو مال دار کر دیا تھا تو وہ مال واپس لے کر گھر آ جاتا۔‘‘

 اس سے خلیفہ راشد و عادل حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا عدل، حسنِ انتظام اور عوام کی خیر خواہی کا واضح ثبوت ملتا ہے کہ زکوٰۃ و صدقات کے وصول کرنے والوں کا ڈھونڈنے کے باوجود بھی نشان نہیں ملتا تھا اور دینے والے افسردہ ہو کر گھر کو واپس ہوتا۔ 

حافظ ابن حجرؒ ہی علامہ ابن التينؒ (عبد الواحدؒ بن التينؒ شارح بخاری کے حوالے سے لکھتے ہیں:

قال ابن التینؒ انما یقع بعد نزول عیسی بن مریم علیہما السلام حین تخرج الارض برکاتہا حتی تشبع الرمانۃ اہل البیت ولا یبقی فی الارض کافر اھ (فتح الباری ج ۳ ص ۲۸۲)
’’امام ابن التینؒ فرماتے ہیں کہ یہ کارروائی حضرت عیسی بن مریمؑ کے نزول کے بعد ہوگی جس وقت کہ زمین اپنی تمام برکات نکالے گی یہاں تک کہ ایک انار سے ایک گھرانا سیر شکم ہو جائے گا اور زمین میں کوئی کافر باقی نہ رہے گا۔‘‘

امام ابو عبید القاسم بن سلامؒ (المتوفی ۲۲۴ھ) اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ حضرت معاذؓ بن جبل (المتوفی ۱۸ھ جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۰ھ میں یمن کے ایک صوبہ کا گورنر بنا کر بھیجا تھا اور وہ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں بھی یمن کے گورنر تھے) نے وہاں کے صدقات کا تیسرا حصہ مدینہ طیبہ ارسال کر دیا۔ حضرت عمر نے فرمایا: ولکن بعثنک لتاخذ من اغنیاء الناس فتردہا علی فقرائہم لیکن میں نے تو تجھے اس لیے (یمن) بھیجا تھا تاکہ تو اغنیاء سے مال لے کر ان کے محتاجوں پر تقسیم کرے۔ حضرت معاذؓ نے جواب دیا کہ یمن میں فقراء پر تقسیم کرنے کے بعد جو بچ گیا ہے، وہ مرکزی بیت المال میں جمع کرانے کے لیے ارسال ہے۔ دوسرے سال حضرت معاذؓ نے نصف صدقہ مدینہ طیبہ بھیج دیا۔ حضرت عمرؓ نے پھر وہی سوال کیا اور حضرت معاذ نے بھی پھر وہی جواب دیا۔ تیسرے سال حضرت معاذؓ نے یمن میں اپنے صوبے کا سارا صدقہ مدینہ طیبہ بھیج دیا۔ حضرت عمرؓ نے (غالباً‌ ذرا سختی سے)  سوال کیا تو حضرت معاذؓ نے جواب دیا کہ یمن کے لوگ (اسلام کے اقتصادی اور معاشی نظام کی بدولت) اس قدر خوشحال اور آسودہ ہو گئے ہیں کہ یہاں ایک شخص بھی اب ایسا نہیں رہا جس کو میں صدقہ دوں۔ (کتاب الاموال ص ۵۹۶)

صرف اس ایک واقعہ سے خلافت راشدہ کے سنہری دور کی برکات اور اسلام کے عادلانہ اور منصفانہ اقتصادی اور معاشی نظام کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پورے صوبہ میں ایک بھی فقیر و محتاج اور صدقات کا مصرف نہ رہا، اور اس سے لینے والوں کے ضمیر خودداری اور خدا خوفی کا اندازہ بھی ہو سکتا ہے۔ خدانخواستہ ہمارا زمانہ ہوتا تو غیر مستحق اور غیر مصرف لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا پھیلا کر خود زکوٰتیں اور صدقات مانگتے اور سب کچھ ناجائز طور پر ہڑپ کر جاتے اور صدقات کی رقموں سے اپنی گلی نالی اور سڑک ٹھیک کرتے بلکہ الیکشن میں صرف کر دیتے۔ بہت قربانی اور ایثار سے کام لیتے تو ہسپتال اور برائے نام رفاہ عام کے کاموں کی عمارات اور مشینوں پر صَرف کر دیتے۔ 

راقم اثیم کہتا ہے کہ ان بظاہر مختلف اقوال میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ اسلام کے عدل و انصاف اور اقتصادی نظام کی برکت سے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دور میں ایسا ہو چکا ہے اور حضرت عیسیٰ کے نزول کے بعد بھی ضرور ایسا ہوگا۔ 

انار کی جس حدیث کی طرف اشارہ ہے وہ حضرت ابوہریرہؓ سے مرفوعاً  مروی ہے جس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ 

ثم قال (ای اللہ تعالی) للارض انبتی ثمرک وردی برکتک فیومئذ یاکل العصابۃ من الرمانۃ ویستظلون بقحفہا ویبارک فی الرسل حتی ان اللقحۃ من الابل لتکفی الفئام من الناس واللقحۃ من البقر تکفی القبیلۃ واللقحۃ من الغنم تکفی الفخذ (الحدیث، مسلم ج ۲ ص ۴۰۲۔ ترمذی ج ۲ ص ۴۷۔ ابن ماجہ ص ۳۰۷- مستدرک ج ۴ ص ۴۹۳۔ قال الحاکم والذہبی صحیح علیٰ شرطہما) 
’’پھر اللہ تعالی زمین سے فرمائے گا اپنے پھل اگاؤ اور اپنی برکات لوٹاؤ، سو اس وقت ایک انار کو ایک جماعت کھائے گی اور اس کے چھلکے کے نیچے ایک جماعت بیٹھے گی اور دودھ میں برکت کرے گا حتیٰ کہ ایک اونٹنی کا دودھ لوگوں کی متعدد جماعتوں کو اور ایک گائے کا دودھ ایک قبیلہ کو اور ایک بکری کا دودھ ایک خاندان کو کافی ہوگا۔‘‘

اس صحیح اور صریح حدیث سے عدل کی برکت سے پھلوں اور دودھ وغیرہ تمام اشیاء میں برکت کا ثبوت ہے اور حضرت ابوہریرہؓ سے ایک اور مرفوع حدیث میں یوں آتا ہے:

فیدق الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویدعو الناس الی الاسلام فیہلک اللہ فی زمانہ المسیح الدجال ویقع الامنۃ علی اہل الارض حتی ترعی الاسود مع الابل والنمور مع البقر والذئاب مع الغنم ویلعب الصیبان بالحیات لا تضرہم فیمکث اربعین سنۃ ثم یتوفی ویصلی علیہ المسلمون (المستدرک ج ۲ ص ۵۹۵ - قال الحاکم والذہبی صحیح)
’’حضرت عیسٰیؑ صلیب توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ لینا بند کر دیں گے اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے دور میں مسیح دجال کو ہلاک کرے گا اور زمین میں امن ہوگا یہاں تک کہ شیر اونٹوں کے ساتھ اور چیتے بیلوں اور گایوں کے ساتھ اور بھیڑیے بھیڑ بکریوں کے ساتھ اکھٹے چریں گے اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے، وہ ان کو کوئی ضرر نہ دیں گے اور حضرت عیسٰیؑ نازل ہونے کے بعد چالیس (۴۰) سال رہیں گے، پھر ان کی وفات ہوگی اور اہل اسلام ان کا جنازہ پڑھیں گے۔‘‘

عدل و انصاف کا اثر موذی حیوانات پر بھی ہوتا ہے

شیر چیتا اور بھیڑیا کیسے موذی درندے ہیں۔ عام آدمی تو ان کے نام سن کر ہی بد حواس ہو جاتا ہے اور بیچارے کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں مگر جب زمین پر عدل و انصاف ہو تو نہ تو درندے کسی کو تکلیف دیتے ہیں اور نہ مال مویشی ان سے کتراتے ہیں۔ حضرت عیسٰیؑ کے نزول کے بعد عدل کے دور میں بچوں کا سانپوں سےکھیلنا اور بچوں کا ان سے نہ ڈرنا اور ان کا بچوں کو نہ کاٹنا صحیح احادیث کے حوالہ سے پڑھ چکے ہیں۔ حضرت عیسٰیؑ تو پیغمبر ہیں۔ رسول اور نبی کا درجہ تو بہت ہی بلند ہوتا ہے اور ان کی برکات بھی بے حد و بے حساب ہوتی ہیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ جو صحابی بھی نہ تھے بلکہ تابعی تھے مگر خلیفہ راشد تھے، ان کے مبارک دور کے بعض تاریخی واقعات ملاحظہ فرمائیں:

(۱) الامام الفقیہ ابو محمد عبد اللہؒ بن مسلمؒ بن قتیبہ الدینوریؒ (المتوفی ۲۷۶ھ) اپنی کتاب الامامہ والسیاسہ میں نقل کرتے ہیں (ضروری نوٹ: بعض نام نہاد محققین نے الامامہ والسیاسہ کو امام ابن قتیبہ الدینوریؒ کی تالیف ماننے سے رکیک وجہ کی بنا پر انکار کیا ہے جیسے ثروت عکاشہ مصری وغیرہ، مگر ہمیں ان کی رائے سے اتفاق نہیں ہے):

وفد قوم من اہل المدینۃ الی الشام فنزلوا برجل فی اوائل الشام موسع علیہ تروح علیہ ابل کثیرۃ وابقار واغنام فنظروا الی شی لا یعلمونہ غیر ما یعرفون من غضارۃ العیش اذ اقبل بعض رعاتہ فقال ان السبع عدا الیوم علی غمنی فذہب منہا بشاۃ فقال الرجل انا للہ وانا الیہ راجعون ثم جعل یتاسف اسفاً‌ شدیداً‌ فقلنا بعضنا لبعض ما عند ہذا خیر یتاسف ویتوجع من شاۃ اکلہا السبع فکلمہ بعض القوم وقال لہ ان اللہ وسع علیک فما ہذا التوجع والتاسف قال انہ لیس مما ترون ولکن اخشی ان یکون عمر بن عبد العزیزؒ قد توفی الیلۃ واللہ ما تعدی السبع علی الشاۃ الا لموتہ فاثبتوا ذلک الیوم فاذا عمرؒ قد توفی فی ذلک الیوم (الامامہ والسیاسہ ج ۲ ص ۱۲۳ طبع مصر) 
’’مدینہ طیبہ سے کچھ لوگ بطور وفد کے ملک شام کی طرف روانہ ہوئے۔ شام کے ابتدائی حصہ میں ایک امیر آدمی کے ہاں ٹھہرے جس کے پاس کثیر تعداد میں اونٹ بیل اور گائیں اور بھیڑ بکریاں دن کو چر کر رات کو گھر آتیں۔ ان مہمانوں نے اس میزبان میں کوئی کمی نہ دیکھی، یہی دیکھا کہ اس کو آسودہ زندگی حاصل ہے۔ اسی حالت میں تھے کہ اس کے چرواہوں میں سے ایک آیا اور اس نے کہا کہ آج ایک درندے نے میری بکریوں پر حملہ کیا ہے اور ایک بکری لے گیا ہے۔ اس کے مالک نے انا للہ وانا اليہ راجعون پڑھا پھر بہت ہی سخت افسوس کرنے لگا۔ ہم میں سے بعض نے بعض سے کہا کہ اس شخص کے پاس کوئی خیر اور حوصلہ نہیں ہے۔ ایک بکری کے لیے ایسا افسوس اور غم کر رہا ہے جس کو درندہ کھا گیا ہے۔ بعض ساتھیوں نے اس سے گفتگو کی کہ اللہ تعالٰی نے آپ کو تو اتنی وسعت اور فراخی عطا فرمائی ہے، ایک بکری کے لیے اتنا غم اور افسوس کیوں؟ اس نے کہا کہ تم جو میری پریشانی دیکھ رہے ہو یہ بکری کی وجہ سے نہیں بلکہ مجھے خوف ہے کہ اس رات کہیں حضرت عمر بن عبد العزيزؒ وفات نہ پا گئے ہوں۔ بخدا درندے نے حملہ نہیں کیا مگر ان کی موت کے بعد ۔ انہوں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ واقعی اسی دن حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی وفات ہوئی۔‘‘

اس سے عیاں ہوا کہ عدل وانصاف کا اثر صرف انسانوں اور مکلف مخلوق تک ہی محدود نہیں بلکہ موذی قسم کے درندوں پر بھی اس کا اثر ہوتا ہے کہ عادل کے مرنے کے بعد ہی ان کو حوصلہ ہوا۔ 

(۲) حافظ ابن کثیرؒ سند کے ساتھ موسٰیؒ بن ایمن الراعیؒ سے نقل کرتے ہیں:

وکان یرعی الغنم لمحمد بن عیینۃ (وکان یرعی بکرمان) قال کانت الاسود والغنم والوحش ترعی فی خلافۃ عمر بن عبدالعزیزؒ فی موضع واحد فعرض ذات یوم لشاۃ منہا ذئب فقلت انا للہ وانا الیہ راجعون ما اری الرجل الصالح الا قد ہلک (البدایہ والنہایہ ج ۹ ص ۲۰۳) 
’’انہوں نے فرمایا کہ میں (علاقہ کرمان میں) محمدؒ بن عیینہ کی بکریاں چراتا تھا اور فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی خلافت میں شیر، وحشی جانور اور بھیٹر بکریاں ایک ہی جگہ پر چرتی تھیں۔ ایک دن ایک بھیڑیا ایک بکری پر حملہ آور ہوا تو میں نے انا للہ وانا اليہ راجعون پڑھا اور کہا کہ میں یہی سمجھتا ہوں کہ مرد صالح فوت ہو گیا ہے۔‘‘

یعنی جس وقت تک خلیفہ راشد و عادل زندہ تھا، بھیڑیوں کو بھی بکریوں پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ علامہ ابن سعدؒ اپنی سند کے ساتھ موسٰیؒ بن اعین الراعیؒ کے حوالہ سے لکھتے ہیں: 

کان لمحمد بن ابی عیینۃ قال کنا نرعی الشاء بکرمان فی خلافۃ عمر بن عبد العزیزؒ فکانت الشاء والذئاب والوحش ترعی فی موضع واحد فبینا نحن ذات لیلۃ اذ عرض الذئب لشاۃ فقلنا ما نری الرجل الصالح الا قد ہلک (طبقات ابن سعدؒ ج ۵ ص ۳۸۷ طبع بیروت)
’’جو محمدؒ بن عیینہ کے چرواہے تھے، وہ کہتے ہیں کہ ہم کرمان میں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دور خلافت میں بھیڑ بکریاں چراتے تھے۔ اس زمانہ میں بھیڑ بکریاں بھیڑیے اور وحشی جانور ایک جگہ چرتے تھے، اس حالت میں ہم تھے کہ ایک رات بھیڑیا بکری پر حملہ آور ہوا۔ ہم نے کہا کہ ہم یہی خیال رکھتے ہیں کہ نیک آدمی وفات پا گیا ہے۔’’

 آگے لکھا ہے کہ تحقیق کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ واقعی حضرت عمر بن عبد العزیزؒ اس رات وفات پاگئے تھے۔ یہ واقعہ حافظ ابن کثیرؒ نے بھی تھوڑے سے تغیر الفاظ کے ساتھ البدایہ والنہایہ ج ۹ ص ۲۰۳ میں نقل کیا ہے۔

الحافظ ابو نعیم احمدؒ بن عبد اللہ الاصبہانیؒ (المتوفی ۴۳۰ھ) اپنی سند کے ساتھ جسر القصابؒ (ميمون الكوفی ابوحمزۃ القصاب) کے حوالہ سے لکھتے ہیں: 

قال کنت احلب الغنم فی خلافۃ عمرؒ بن عبدالعزیزؒ فمررت براع وفی غنمہ نحو من ثلاثین ذئبا فحسبتہا کلابا ولم اکن رایت الذئاب قبل ذلک فقلت یا راعی ما ترجو بہذہ الکلاب کلہا؟ فقال یا بنی انہا لیست کلابا انما ہی ذئاب فقلت سبحان اللہ ذئب فی غنم لا تضرہا؟ فقال یا بنی اذا صلح الراس فلیس علی الجسد باس وکان ذلک فی خلافۃ عمر بن عبدالعزیزؒ (حلیہ الاولیاء ج ۵ ص ۲۵۵ طبع بیروت)
’’وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؒ بن عبد العزیزؒ کے دورِ خلافت میں بکریوں کا دودھ دوہیا کرتا تھا۔ میں نے ایک چرواہے کی بھیڑ بکریوں میں تیس (۳۰) بھیڑیے دیکھے مگر میں ان کو کتے سمجھا اور میں نے اس سے قبل بھیڑے نہیں دیکھے تھے۔ میں نے اس چرواہے سے کہا کہ اتنے کتوں سے تم کیا امید رکھتے ہو؟ اس نے کہا اے پیارے بیٹے! یہ کہتے نہیں یہ تو بھیڑیے ہیں۔ میں نے کہا سبحان اللہ بکریوں میں بھیڑے ان کو ضرر نہیں دیتے؟ اس نے کہا اے پیارے بیٹے! جب سر (یعنی بادشاہ)  درست ہو تو باقی جسم (یعنی رعیت) پر کوئی حرج نہیں۔ اور یہ واقعہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دورِ خلافت کا ہے۔‘‘

جب بادشاہ اور حکمران عادل ہوں تو پھر شیر، چیتے، ریچھ، وحشی جانور اور بھیڑیے بھی بھیڑ بکریوں کو کچھ نہیں کہتے۔ حضرت عمرؒ بن عبدالعزیزؒ کا عدل و انصاف اور دینی امور میں احتیاط تاریخِ اسلام میں سنہرے حروف سے مرقوم ہے۔ حضرت عمرؒ بن عبد العزیز کی خلافت دو سال اور پانچ ماہ تھی (طبقات ابن سعد ج ۵ ص ۴۰۷) اور پانچ ماہ سے بھی دس دن کم تھے (ايضاً‌ ج ۵ ص ۳۴۶) اور اس قلیل مدت میں انہوں نے خدا خوفی، موت، فکر آخرت اور احتیاط کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ چند واقعات ملاحظہ ہوں:

(۱) جب رات کو وہ عوام اور پبلک کا کام کرتے تو بیت المال کا چراغ استعمال کرتے لیکن جب اپنا ذاتی اور گھریلو معاملہ اور گفتگو ہوتی تو اپنا ذاتی چراغ جلاتے۔ (طبقات ابن سعدؒ ج ۵ ص ۳۹۹)

(۲) ولید نے ان کو ایک نگینہ دیا تھا جو انہوں نے اپنی انگوٹھی میں لگا لیا تھا۔ جب خلافت کا بوجھ سر پر پڑا تو وہ نگینہ بھی واپس کر دیا اور فرمایا کہ ولید نے یہ مجھے ناحق دیا تھا۔ (البدایہ والنہايہ ج ۹ ص ۲۰۸)

(۳) ایک مرتبہ اپنے غلام کو تھوڑا گوشت دیا۔ وہ جلدی میں بھون لایا۔ فرمایا کہ اتنی جلدی میں بھون لائے؟ اس نے کہا کہ نادار مسلمانوں کے لیے جہاں مطبخ میں کھانا پکتا ہے میں اس میں بھون لایا ہوں۔ فرمایا کہ اس گوشت کو تو کھا، تو مستحق ہے۔ اس مطبخ میں میرا کوئی حق نہیں۔ (ایضاً‌ ص ۲۰۲) 

(۴) ایک دفعہ وضو کا پانی اس مطبخ کی آگ سے گرم کر کے دیا گیا تو حضرت عمرؒ بن عبد العزیزؒ نے ایک درہم کا ایندھن اس کے عوض میں وہاں بھیجا۔ (ایضاً‌) 

(۵) ریاحؒ بن عبیدہؒ کہتے ہیں کہ بیت المال کے خزانہ سے ایک دفعہ کستوری نکالی گئی اور ان کے سامنے رکھی گئی تو انہوں نے فوراً‌ اپنی ناک بند کر لی اس خوف سے کہ خوشبو نہ محسوس ہو۔ مجلس میں حاضر ایک شخص نے کہا امیر المومنین! اگر کستوری کی خوشبو سونگھ لیتے تو کیا نقصان ہوتا؟ تو فرمایا کہ کستوری سونگھنے کی ہی تو چیز ہے (میں کیوں استفادہ کروں)۔ (طبقات ابن سعد ج ۵ ص ۳۶۸)

حضرت عمرؒ بن عبد العزیزؒ نے اپنے حکام کو یہ لکھا:

ان اقامۃ الحدود عندی کاقامۃ الصلوۃ والزکوۃ (طبقات ابن سعد ج ۵ ص ۳۷۸) 
’’کہ بے شک حدود کا قائم کرنا میرے نزدیک ایسا ہی (ضروری) ہے جیسے نماز و زکوٰۃ کا ادا کرنا۔‘‘

اور یہ شرعی حدود کے اجرا کی برکت ہی تھی کہ بکریاں، بھیڑیں اور بھیڑیے اکٹھے رہتے تھے اور ملک میں زکوٰۃ لینے والا کوئی غریب نہیں ملتا تھا اور سب کی جانیں، اموال اور آبرو میں محفوظ تھیں۔ اور اگر اِس دور کے حکمرانوں کی طرح گھپلے بازی، رشوت ستانی، اقربا نوازی اور احکام شرع سے تنفر ہوتا تو پھر یہ برکات کہاں ہوتیں؟ اور آج ہم خالق اور خلق کے ساتھ وعدہ خلافی اور حدود و تعزیرات کے عدم اجرا کی وجہ سے ذیل کی مصیبتوں میں مبتلا ہیں جن کے ازالہ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ 

حدود و تعزیرات اسلامی کو نافذ نہ کرنے کی نحوست 

اس سے قبل آپ نے احکامِ خداوندی اور حدودِ شرعیہ کے اجرا و نفاذ کی برکات ملاحظہ کیں، اب عدمِ اجراء کی نحوست بھی دیکھ لیں۔ حضرت عبد اللہؒ بن عمرؒ سے ایک طویل حدیث مروی ہے جس میں یہ الفاظ بھی ہیں:

فقال النبی صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم یا معشر المہاجرین خمس ان ابتلتیم بہن ونزل فیکم واعوذ باللہ ان تدرکوہن: 
(۱) لم تظہر الفاحشۃ فی قوم قط حتی یعملوہا الا ظہر فیہم الطاعون والاوجاع التی لم تکن مضت فی اسلافہم 
(۲) ولم ینقصوا المکیال والمیزان الا اخذوا بالسنین وشدۃ المونۃ وجور السلطان۔ 
(۳) ولم یمنعوا الزکوۃ الا منعوا المطر من السماء ولو لا البہائم لم یمطروا۔ 
(۴) ولم ینقضوا عہد اللہ وعہد رسولہ الا سلط اللہ علیہم عدوہم من غیرہم واخذوا بعض ما کان فی ایدیہم۔
(۵) وما لم یحکم ائمتھم بکتاب اللہ الا القی اللہ باسہم بینہم (الحدیث) (مستدرک ج ۴ ص ۵۴۰ قال الحاکم والذہبیؒ صحیح)
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (جبکہ مجلس میں مہاجرین کی اکثریت تھی اور خلافت بھی انہیں کو ملنی تھی) اے مہاجرین کے گروہ! پانچ چیزیں ہیں جبکہ تم ان میں مبتلا ہو گے اور یہ تم پر وارد ہوں گی اور میں اللہ تعالی سے پناہ لیتا ہوں کہ یہ چیزیں تم میں ظاہر ہوں:
(۱) جب بھی کسی قوم میں بے حیائی ظاہر ہوگی اور وہ اس میں آلودہ ہوگی تو اس قوم میں طاعون کی بیماری اور ایسے درد ظاہر ہوں گے جو اس سے پہلے اس کے بڑوں میں نہ تھے اور 
(۲) جب وہ ماپ اور تول میں کمی کرے گی تو وہ مہنگائی، سخت تکلیف اور حکمرانوں کی طرف سے ظلم و جبر میں مبتلا ہوگی اور 
(۳) جب بھی (پوری) زکوۃ ادا نہیں کرے گی وہ خشک سالی کا شکار ہو گی، اگر حیوانات نہ ہوں تو اس قوم پر بارش نہ برسے اور 
(۴) جب بھی کوئی قوم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کو نظر انداز کرے گی تو اللہ تعالیٰ اس پر اس کے دشمنوں کو مسلط کرے گا اور وہ دشمن اس کے ملک کے بعض حصہ پر قبضہ کر لے گا اور 
(۵) جب حکمران طبقہ اللہ تعالیٰ کی کتاب (اور اس کے قانون) کو ترک کرے گا تو اللہ تعالی ان میں آپس کے اختلافات پیدا کر دے گا۔‘‘

اس صحیح حدیث کا ایک ایک حرف دیگر مسلمانوں کے ملکوں پر عموماً‌ اور پاکستان پر خصوصاً‌ فٹ آتا ہے جس کے بنانے کا مقصد ہی اسلام کا نفاذ تھا مگر صد افسوس ہے پاکستان بنانے والوں میں بغیر چند بھولے بھالے سادہ بزرگوں کے کوئی بھی اسلام کے نفاذ کے لیے مخلص نہ تھا، صرف بعض مصلحتوں کے پیش نظر ملک کا اقتدار ہی حاصل کرنا تھا۔ اور نصف صدی گزرنے کے باوجود بھی اسلام کے نفاذ کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھا اور عوام کو طفل تسلیوں میں الجھا دیا گیا۔ بعض سطحی ذہن رکھنے والوں کو جمعہ کی چھٹی کا مژدہ سنا کر خوش کیا گیا جبکہ بین الاقوامی یہودی کمپنی نے (یوم السبت) اپنے ہفتہ کے دن کی چھٹی بھی حکمران طبقہ سے منوا لی۔ اور نادان حکمرانوں کے ذریعہ رافضیوں کو زکوٰۃ اور عشر سے مستثنیٰ کر کے اہل اسلام کے دینی مدارس کو زک پہنچانے کی ناپاک سعی کی گئی۔ مگر اس سے کیا حاصل ہوا یا ہو گا یا ہو سکتا ہے؟ واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون۔

نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن 
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا 

بحمد اللہ تعالیٰ باوجود شدید پابندیوں کے پہلے سے دینی مدارس بھی زیادہ ہیں، معلمین کی تعداد بھی زیادہ ہے، اور متعلمین بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔ ان ناجائز پابندیوں کا اہلِ اسلام اور اہلِ حق پر کوئی اثر نہیں پڑا اور نہ ان شاء اللہ العزیز پڑے گا کیونکہ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم پاک زبان سے یہ الفاظ نکلے ہیں: 

ولن تزال ہذہ الامۃ قائمۃ علی امر اللہ لا یضرہم من خالفہم حتی یاتی امر اللہ (بخاری ج ا ص ۱۶) ’’
’’اور ہمیشہ یہ امت اللہ تعالیٰ کے دین پر قائم رہے گی قیامت تک اس کو کوئی مخالف ضرر اور نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے آج تک اور قیامت تک یہ ارشاد برحق و برقرار رہے گا دنیا کی کوئی طاقت اس کو ٹال نہیں سکتی۔

عدل و انصاف کی بدولت زمین و آسمان قائم ہیں

محرم ۷ھ میں جب خیبر فتح ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کو وہاں کا ظاہری اقتدار عطا فرمایا تو آپؐ نے حضرت عبد اللہؓ بن رواحہ کو (جو غزوہ موتہ ۸ھ میں شہید ہو گئے تھے) محصل (زمینوں اور باغات کی پیداوار کا ٹیکس اور خراج وصول کرنے کے لیے) بنا کر بھیجا تاکہ وہ اندازہ اور تخمینہ لگا کر یہودیوں سے خراج وصول کر کے مدینہ طیبہ لائیں۔ تو خیبر کے یہودیوں نے

فجمعوا لہ حلیا من حلی نسائہم فقالوا ہذا لک وخفف عنا وتجاوز فی القسم فقال عبد اللہؓ بن رواحۃ یا معشر الیہود واللہ انکم لمن أبغض خلق اللہ الی وما ذلک بحاملی علی ان احیف علیکم فاما ما عرضتم من الرشوۃ فانما ہی سحت وانا لا ناکلہا فقالوا بہذا قامت السموات والارض (موطا امام مالک ۲۹۳ و معناہ موارد الضمان ص ۴۱۲)
’’ان کے لیے اپنی عورتوں کے زیورات میں کچھ زیور جمع کیے اور حضرت عبد اللہؓ بن رواحہ سے کہا کہ یہ آپ کے لیے (ہدیہ) ہے، ہمارے خراج اور ٹیکس میں تخفیف اور کمی کریں۔ انہوں نے فرمایا، اے یہود کے گروہ! بخدا تم اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں میرے نزدیک مبغوض تر ہو مگر یہ بغض مجھے اس پر آمادہ نہیں کرتا کہ میں تم پر زیادتی کروں۔ اور جو کچھ تم نے پیش کیا ہے، یہ رشوت اور حرام ہے اور ہم حرام نہیں کھاتے۔ یہود نے کہا کہ اسی عدل و انصاف کی بدولت آسمانوں اور زمینوں کا نظام قائم ہے۔‘‘

امام ابو جعفر احمدؒ بن محمدؒ بن سلامہ الطحاویؒ (المتوفی ۳۲۱ھ) اپنی سند کے ساتھ یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہؒ بن رواحہ نے فرمایا:

یا معشر الیہود انتم ابغض الخلق الی قتلتم الانبیاء و کذبتم علی اللہ ولیس یحملنی بغضی ایاکم ان احیف علیکم الخ (طحاوی ج ا ص ۲۶۶) 
’’اے گروہ یہود! اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے تم مجھے زیادہ مبغوض ہو۔ تم نے حضرات انبیاء کرامؑ کو قتل کیا اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا ( مثلاً‌ یہ کہ حضرت عزیزؑ اللہ تعالی کے بیٹے ہیں) لیکن تمہارے ساتھ میرا یہ بغض مجھے اس پر آمادہ نہیں کرتا کہ میں تم پر ظلم کروں۔‘‘

قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن یہودی ہیں لتجدن اشد الناس عداوۃ للذین آمنوا الیہود (الایہ) مگر مسلمانوں کے بد ترین دشمن بھی یہ کہنے اور ماننے پر مجبور ہیں کہ اسلامی عدل و انصاف سے ہی زمین و آسمان کا نظام قائم ہے۔ اگر یہ عدل نہ ہو تو اللہ تعالیٰ ناراض ہو کر نظامِ عالم کو تہ و بالا کر دے اور ہر جاندار کو موت کے گھاٹ اتار دے اور جو موت سے بھاگتے پھرتے ہیں ان کو بھی موت کا مزہ چکھا دے۔ 

نہ سمجھے تھے کہ اس جان جہاں سے یوں جدا ہوں گے 
یہ سنتے گو چلے آتے تھے اک دن جان جانی ہے


تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام کے طے کردہ ۲۲ متفقہ دستوری نکات

اسلامی مملکت کے بنیادی اصول

ادارہ

(یعنی ۲۲ متفقہ نکات) جنہیں پاکستان کے تمام اسلامی مکاتب فکر کے جید اور معتمد علماء کرام نے اپنے اجتماع منعقدہ کراچی بتاریخ ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵ ربیع الثانی ۱۳۷۰ھ مطابق ۲۱، ۲۲، ۲۳، ۲۴ جنوری زیر صدارت مفکر اسلام مولانا سید سلیمان ندویؒ اتفاقِ رائے سے طے کیا۔)



اسلامی مملکت کے دستور میں حسب ذیل اصول کی تصریح لازمی ہے:

  1. اصل حاکم تشریعی وتکوینی حیثیت سے اللہ رب العالمین ہے۔
  2. ملک کا قانون کتاب وسنت پر مبنی ہوگا اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جا سکے گا، نہ کوئی ایسا انتظامی حکم دیا جا سکے گا جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔
    (تشریحی نوٹ): اگر ملک میں پہلے سے کچھ ایسے قوانین جاری ہوں جو کتاب وسنت کے خلاف ہوں تو اس کی تصریح بھی ضروری ہے کہ وہ بتدریج ایک معینہ مدت کے اندر منسوخ یا شریعت کے مطابق تبدیل کر دیے جائیں گے۔
  3. مملکت کسی جغرافیائی، نسلی، لسانی یا کسی اور تصور پر نہیں بلکہ ان اصول ومقاصد پر مبنی ہوگی جن کی اساس اسلام کا پیش کیا ہوا ضابطہ حیات ہے۔
  4. اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ قرآن وسنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرے، منکرات کو مٹائے اور شعائر اسلامی کے احیا واعلا اور مسلمہ اسلامی فرقوں کے لیے ان کے اپنے مذہب کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کا انتظام کرے۔
  5. اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ وہ مسلمانان عالم کے رشتہ اتحاد واخوت کو قوی سے قوی تر کرنے اور ریاست کے مسلم باشندوں کے درمیان عصبیت جاہلیہ کی بنیادوں پر نسلی ولسانی، علاقائی یا دیگر مادی امتیازات کے ابھرنے کی راہیں مسدود کر کے ملت اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ واستحکام کا انتظام کرے۔
  6. مملکت بلا امتیاز مذہب ونسل وغیرہ تمام ایسے لوگوں کی لابدی انسانی ضروریات یعنی غذا، لباس، مسکن، معالجہ اور تعلیم کی کفیل ہوگی جو اکتساب رزق کے قابل نہ ہوں یا نہ رہے ہوں یا عارضی طو رپر بے روزگاری، بیماری یا دوسرے وجوہ سے فی الحال سعی اکتساب پر قادر نہ ہوں۔
  7. باشندگان ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو شریعت اسلامیہ نے ان کو عطا کیے ہیں، یعنی حدود قانون کے اندر تحفظ جان ومال وآبرو، آزادیٔ مذہب ومسلک، آزادیٔ عبادت، آزادیٔ ذات، آزادیٔ اظہار رائے، آزادیٔ نقل وحرکت، آزادیٔ اجتماع، آزادیٔ اکتساب رزق، ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق۔
  8. مذکورہ بالا حقوق میں سے کسی شہری کا کوئی حق اسلامی قانون کی سند جواز کے بغیر کسی وقت سلب نہ کیا جائے گا اور کسی جرم کے الزام میں کسی کو بغیر فراہمی موقع صفائی وفیصلہ عدالت کوئی سزا نہ دی جائے گی۔
  9. مسلمہ اسلامی فرقوں کو حدود قانون کے اندرپوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ انھیں اپنے پیرووں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا حق حاصل ہوگا۔ وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کر سکیں گے۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کے اپنے فقہی مذہب کے مطابق ہوں گے اور ایسا انتظام کرنا مناسب ہوگا کہ انھی کے قاضی یہ فیصلہ کریں۔
  10. غیر مسلم باشندگان مملکت کو حدود قانون کے اندر مذہب وعبادت، تہذیب وثقافت اور مذہبی تعلیم کی پوری آزادی حاصل ہوگی اور انھیں اپنے شخصی معاملات کا فیصلہ اپنے مذہبی قانون یا رسم ورواج کے مطابق کرانے کاحق حاصل ہوگا۔
  11. غیر مسلم باشندگان مملکت سے حدود شرعیہ کے اندر جو معاہدات کیے گئے ہوں، ان کی پابندی لازمی ہوگی اور جن حقوق شہری کا ذکر دفعہ نمبر ۷ میں کیا گیا ہے، ان میں غیر مسلم باشندگان ملک اور مسلم باشندگان ملک سب برابر کے شریک ہوں گے۔
  12. رئیس مملکت کامسلمان مرد ہونا ضروری ہے جس کے تدین، صلاحیت اور اصابت رائے پر جمہور اور ان کے منتخب نمائندوں کو اعتماد ہو۔
  13. رئیس مملکت ہی نظم مملکت کا اصل ذمہ دار ہوگا، البتہ وہ اپنے اختیارات کا کوئی جزو کسی فرد یا جماعت کو تفویض کر سکتا ہے۔
  14. رئیس مملکت کی حکومت مستبدانہ نہیں بلکہ شورائی ہوگی، یعنی وہ ارکان حکومت اور منتخب نمائندگان جمہور سے مشورہ لے کر اپنے فرائض انجام دے گا۔
  15. رئیس مملکت کو یہ حق حاصل نہ ہوگا کہ وہ دستور کوکلاً یا جزواً معطل کر کے شوریٰ کے بغیر حکومت کرنے لگے۔
  16. جو جماعت رئیس مملکت کے انتخاب کی مجاز ہوگی، وہی کثرت آرا سے اسے معزول کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔
  17. رئیس مملکت شہری حقوق میں عامۃ المسلمین کے برابر ہوگا اور قانونی مواخذہ سے بالاتر نہ ہوگا۔
  18. ارکان وعمال حکومت اور عام شہریوں کے لیے ایک ہی قانون وضابطہ ہوگا اور دونوں پر عام عدالتیں ہی اس کو نافذ کریں گی۔
  19. محکمہ عدلیہ، محکمہ انتظامیہ سے علیحدہ اور آزاد ہوگا تاکہ عدلیہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہیئت انتظامیہ سے اثر پذیر نہ ہو۔
  20. ایسے افکار ونظریات کی تبلیغ واشاعت ممنوع ہوگی جو مملکت اسلامی کے اساسی اصول ومبادی کے انہدام کا باعث ہوں۔
  21. ملک کے مختلف ولایات واقطاع مملکت واحدہ کے اجزاء انتظامی متصور ہوں گے۔ ان کی حیثیت نسلی، لسانی یا قبائلی واحدہ جات کی نہیں، محض انتظامی علاقوں کی ہوگی جنھیں انتظامی سہولتوں کے پیش نظر مرکز کی سیادت کے تابع انتظامی اختیارات سپرد کرنا جائز ہوگا، مگر انھیں مرکز سے علیحدگی کا حق حاصل نہ ہوگا۔
  22. دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہوگی جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔

خلافتِ اسلامیہ کے احیا کی اہمیت اور اس کے تقاضے

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۱۵ جنوری ۱۹۹۴ء کو ورلڈ اسلامک فورم کی ماہانہ فکری نشست جامع مسجد صدیقیہ سیٹلائیٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں جمعیت اہل سنت کے زیراہتمام منعقد ہوئی جس میں مولانا زاہد الراشدی نے مندرجہ ذیل خطاب کیا۔ مولانا حافظ گلزار احمد آزاد نے سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیے۔ ادارہ الشریعہ)



بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج کی نشست کے لیے گفتگو کا عنوان طے ہوا ہے ’’خلافتِ اسلامیہ کا احیا اور اس کا طریق کار‘‘۔ اس لیے خلافت کے مفہوم اور تعریف کے ذکر کے بعد تین امور پر گفتگو ہوگی:

  1. خلافت کا اعتقادی اور شرعی پہلو کہ ہمارے عقیدہ میں خلافت کی اہمیت اور اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
  2. خلافت کا تاریخی پہلو کہ اس کا آغاز کب ہوا تھا اور خاتمہ کب اور کیسے ہوا؟
  3. اور یہ سوال کہ آج کے دور میں خلافتِ اسلامیہ کے احیا کے لیے کون سا طریق کار قابل عمل ہے۔

خلافت کا مفہوم

سب سے پہلے یہ دیکھیں گے کہ خلافت کا مفہوم کیا ہے اور جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد کیا ہوتی ہے؟ خلافت کا لفظی معنی ہے نیابت، یعنی کسی کا نائب ہونا۔

قرآن کریم نے خلافت کا لفظ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کے حوالہ سے نسل انسانی کے لیے استعمال کیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ ’’میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘ (البقرہ)۔ یہاں خلیفہ سے مراد حضرت آدمؑ اور ان کی نسل ہے۔ یعنی اس کائنات ارضی کا نظام اللہ رب العزت نے نسل انسانی کے سپرد فرمایا ہے اور وہ اس نظام کو چلانے میں اللہ تعالیٰ کی نائب ہے۔ خلیفہ کا لفظ قرآن کریم میں حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں بھی بولا گیا ہے جو بنی اسرائیل کے پیغمبر اور بادشاہ تھے۔ چنانچہ اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں ’’اے داؤد! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے، پس لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلے کیا کر اور خواہش کی پیروی نہ کرنا‘‘ (ص)۔ بہرحال خلافت کا معنی نیابت ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ نسل انسانی اس کائنات ارضی میں خودمختار اور آزاد نہیں بلکہ نائب ہے جو اپنے دائرہ کار اور اختیارات میں مقرر کردہ حدود کا پابند ہوتا ہے۔

قرآن کریم نے اس مفہوم کو ایک اور انداز سے بھی بیان کیا ہے۔ جب حضرت آدمؑ اور حضرت حوا کو جنت سے زمین پر اتارا گیا تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’تم دونوں زمین پر اتر جاؤ، پس ہماری طرف سے تمہارے پاس ہدایات آئیں گی، جس نے ان کی پیروی کی وہ غم اور خوف سے نجات پائے گا اور جس نے انکار کر دیا وہ آگ کا ایندھن بنیں گے‘‘ (البقرہ)۔ یہ بھی خلافت ہی کی ایک تعبیر ہے کہ نسل انسانی دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے مطلقاً آزاد و خودمختار نہیں بلکہ آسمانی ہدایات کی پابند ہے جو حضرات انبیاء کرامؑ کے ذریعے سے نازل ہوتی رہی ہیں اور جو وحی کی صورت میں حضرت آدمؑ سے شروع ہو کر حضرت محمدؐ پر مکمل ہو گئی ہیں۔

جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد ارشادات میں خلافت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اور بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق اس کا پورا سسٹم یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت انبیاء کرام علیہم السلام کے ہاتھ میں تھی، جب ایک نبی دنیا سے چلا جاتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا۔ اور میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے البتہ میرے بعد خلفاء ہوں گے‘‘۔ اس ارشاد گرامی میں جناب رسول اکرمؐ نے خلافت کو سیاسی قیادت اور حکمرانی کے معنی میں بیان فرمایا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ میرے بعد یہ سیاسی قیادت اور حکمرانی خلفاء کے ہاتھ میں ہوگی۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ نے اپنی معروف کتاب ازالۃ الخفاء میں خلافت کی جو تعریف کی ہے اس میں خلافت کو جناب نبی اکرمؐ کی نیابت سے تعبیر کیا ہے۔ چنانچہ وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’خلافت اس اقتدارِ عمومی کا نام ہے جو معاشرہ میں اقامتِ دین کا اہتمام کرے، امن و امان کا بندوبست کرے، لوگوں کو انصاف فراہم کرے، احکامِ اسلام کے نفاذ کی ذمہ داری قبول کرے اور فریضۂ جہاد کی ادائیگی کا اہتمام کرے‘‘۔ اسی کے ساتھ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ نیابتاً علی النبی کہ یہ اقتدارِ عمومی جناب نبی اکرمؐ کی نیابت کے طور پر ہوگا۔ گویا ہمارے ہاں خلافت کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی سیاست، قیادت اور حکمرانی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب کے طور پر کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ’’خلیفۃ رسول اللہ‘‘ کہا جاتا تھا جبکہ امیر المؤمنین کی اصطلاح ان کے بعد حضرت عمرؓ کے دور میں اختیار کی گئی۔

تاریخی کشمکش

اس موقع پر مناسب ہوگا کہ اس تاریخی کشمکش پر ایک نظر ڈال لی جائے جو نسل انسانی کے آغاز سے ہی خلافت اور انسانی ذہن کی کاوشوں کے درمیان شروع ہو گئی تھی اور اب تک پورے شدومد کے ساتھ جاری ہے۔ نسل انسانی کے آغاز سے اب تک انسانی معاشرہ پر جن قوانین اور ضابطوں کی حکمرانی رہی ہے وہ بنیادی طور پر دو طرح کے ہیں:

  1. ایک طرف وہ نظام ہائے حیات ہیں جنہیں خود انسانی ذہن نے تشکیل دیا اور مختلف صورتوں میں انسانی معاشرہ پر ان کی حکمرانی رہی۔ ان میں خاندانی بادشاہت بھی ہے اور شخصی ڈکٹیٹرشپ بھی، جماعتی آمریت بھی ہے اور طبقاتی بالادستی بھی۔ اسی طرح بعض قوموں کا خود کو حکمرانی کے لیے مختص کر لینا بھی اس میں شامل ہے۔ یہ سب نظام انسانی ذہن کی پیداوار ہیں، کہیں شخصی ذہن کارفرما ہے، کہیں اجتماعی ذہن دخل انداز ہے اور کہیں گروہی اور طبقاتی ذہن نے بالادستی قائم کر رکھی ہے۔ اور ان تمام مراحل سے گزرتے ہوئے اب انسانی ذہن مغربی جمہوریت اور سولائزیشن کی صورت میں اپنے نقطۂ عروج سے ہمکنار ہو چکا ہے جو ان تمام مرحلہ وار نظاموں کی ترقی یافتہ اور آخری شکل ہے۔ اور خود مغربی مفکرین کے بقول اب اس کے بعد انسانی ذہن سے اس سے بہتر کسی اور نظام کی توقع نہیں کی جا سکتی، جسے وہ ’’اینڈ آف ہسٹری‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
  2. دوسری طرف وحی الٰہی پر مبنی نظام ہے جس کا آغاز حضرت آدمؑ سے ہوا اور حضرت محمدؐ پر نازل ہونے والی وحی کی صورت میں وہ نظام مکمل ہوگیا اور اس کی عملی تعبیر خلافتِ راشدہ ہے۔

یہ دونوں نظام مکمل ہو چکے ہیں، اپنی انتہا کو پہنچ چکے ہیں اور اب ان دونوں کے درمیان آخری راؤنڈ ہونے والا ہے، فائنل مقابلہ ہونے والا ہے، ان میں سے جو جیتے گا وہی انسانی معاشرہ پر حکمرانی کرے گا۔ یہ تاریخ کا فیصلہ ہے، تاریخ کا عمل ہے جسے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ ہمارا ایمان ہے کہ اس مقابلہ میں جیت اسلام کی ہوگی، خلافت کے نظام کی ہوگی، وحی الٰہی کی ہوگی اور جناب نبی اکرمؐ کے ارشاد کے مطابق اس مقابلہ کے بعد اسلام کا غلبہ ہوگا اور ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب روئے زمین پر لا الہ الا اللہ پڑھنے والوں کے سوا کوئی موجود نہیں ہوگا۔ یہ بہرحال ہوگا اور جناب نبی کریمؐ کا ارشاد پورا ہو کر رہے گا لیکن اس سے قبل طویل کشمکش اور تاریخی ٹکراؤ کا آخری اور فیصلہ کن مرحلہ آنے والا ہے جس سے گزر کر ہم خلافت کے دو رمیں داخل ہوں گے۔

خلافت کا شرعی حکم

خلافت کے مفہوم اور تاریخی کشمکش کے تذکرہ کے بعد اب ہم اس کے شرعی حکم کی طرف آتے ہیں جسے فقہاء کرام نے وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، بالخصوص امام ولی اللہ دہلویؒ نے اس پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ فقہاء کرام نے خلافت کے قیام کو واجب قرار دیا ہے اور امام ابن حجر مکیؒ نے اپنی کتاب ’’الصواعق المحرقہ‘‘ میں اسے ’’اہم الواجبات‘‘ فرمایا ہے یعنی تمام واجبات سے زیادہ واجب۔ ان کا کہنا ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ کے نزدیک یہ واجب اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ انہوں نے اسے جناب رسول اللہؐ کی تجہیز و تکفین سے بھی مقدم سمجھا اور حضورؐ کے وصال کے بعد پہلے خلیفہ کا انتخاب کیا پھر آنحضرتؐ کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہوئے۔

حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ازالۃ الخفاء میں اسے قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے فرض کفایہ قرار دیا ہے، یعنی اگر دنیا کے کسی بھی حصہ میں خلافت کا نظام موجود نہ ہو تو دنیا بھر کے مسلمان گنہ گار قرار پائیں گے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ شرعاً خلافت کے قیام کے واجب ہونے پر تین دلائل پیش کرتے ہیں:

  1. پہلی دلیل یہ کہ جناب نبی اکرمؐ کی وفات کے بعد صحابہ کرامؓ کا سب سے پہلا اجماع خلافت کے قیام پر ہوا تھا اور انہوں نے جناب رسالت مآب کی تجہیز و تکفین سے بھی پہلے اس فریضہ کی ادائیگی کا اہتمام کیا۔
  2. دوسری دلیل کے طور پر وہ جناب نبی اکرمؐ کے اس ارشاد گرامی کو پیش کرتے ہیں کہ ’’جو شخص اس حالت میں مر گیا کہ اس کی گردن میں بیعت نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے‘‘۔ حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ یہاں بیعت سے مراد خلافت کی بیعت لیتے ہیں اور اسے ہر مسلمان کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔
  3. اور ان کی پیش کردہ تیسری دلیل یہ ہے کہ جو کام کسی فرض کی ادائیگی کے لیے ضروری ہو وہ خود بھی فرض ہو جاتا ہے۔ مثلاً وضو بذات خود فرض نہیں ہے لیکن چونکہ نماز اس کے بغیر نہیں ہوتی اس لیے نماز کے لیے وضو کرنا بھی فرض ہے۔ اسی طرح مسلم معاشرہ میں ارکان اسلام کا قیام، جہاد کا اہتمام، قضا کے نظام کا قیام، امن قائم کرنا اور علوم اسلامیہ کا احیا سب فرائض ہیں اور ان فرائض کی ادائیگی خلافت کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے خلافت کا قیام بھی ان مقاصد کے لیے اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز کے لیے وضو فرض ہے۔

خلافت کی سیاسی اہمیت

خلافت کے شرعی حکم کے ساتھ ساتھ اس کی سیاسی اہمیت کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے اور اس سلسلہ میں ایک واقعہ پیش خدمت کرنا چاہتا ہوں جو میں نے اپنے بعض اساتذہ سے سنا ہے۔ وہ یہ کہ جن دنوں تحریک آزادی کے عظیم راہنما شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ مالٹا جزیرے میں نظر بند تھے، ان کے ساتھ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی بھی گرفتار تھے ، جبکہ ایک انگریز فوجی افسر بھی کسی جرم میں وہاں سزا کاٹ رہا تھا۔ یہ دور وہ تھا جب ترکی کی خلافت عثمانیہ جس نے کم و بیش پانچ سو سال تک عالم اسلام کی خدمت کی ہے آخری دموں پر تھی اور برطانیہ، فرانس اور اٹلی سمیت پورا یورپ اس خلافت کے خاتمہ کے لیے سازشوں میں مصروف تھا۔ ایک روز ملاقات میں مولانا مدنی نے اس انگریز فوجی افسر سے پوچھا کہ آپ لوگ ایک کمزور اور برائے نام سی حکومت کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں اور خلافتِ عثمانیہ سے آخر آپ کو خطرہ کیا ہے؟ اس نے جواب میں کہا کہ بات اتنی آسان نہیں ہے جتنی آپ کہہ رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ خلافتِ عثمانیہ اس وقت ایک کمزور سی حکومت ہے جس کا رعب و دبدبہ اور قوت و شوکت قصہ پارینہ ہو چکی ہے لیکن ایک قوت اس کے پاس اب بھی باقی ہے اور وہ خلافت کا لفظ ہے اور امیر المؤمنین کی اصطلاح ہے۔ کیونکہ خلیفہ کے لفظ میں آج بھی اتنی طاقت ہے کہ اگر خلیفہ کی طرف سے دنیا کے کسی خطہ میں کسی کافر قوم کے خلاف جہاد کا اعلان ہو جائے تو دنیا بھر کے مسلمان نوجوانوں میں ہلچل مچ جاتی ہے اور ایک جذباتی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ہم اس قوت سے خائف ہیں اور اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ انگریز خلافتِ عثمانیہ کے خلاف سازش کر کے اسی قوت کو توڑنا چاہتے تھے اور اسے انہوں نے توڑ دیا جس کے بعد مسلمانوں کی سیاسی مرکزیت کا کوئی عنوان باقی نہیں رہا اور ہم انتشار و افتراق کا شکار ہوگئے۔

خلافت کا تاریخی پہلو

خلافتِ اسلامیہ کا ایک تاریخی پہلو بھی ہے جسے سامنے رکھنا ضروری ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تیس سال خلافتِ راشدہ کا دور رہا جو خلافت کا مثالی دور ہے، اس کے بعد خلافتِ عامہ کا دور شروع ہوگیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا کہنا ہے کہ خلافت راشدہ کا دور تیس سال تک ہی چل سکتا تھا کیونکہ اس کے بعد ان کڑی شرائط کے حامل لوگ موجود نہیں رہے تھے۔ اس کے بعد خلافتِ عامہ کا دور ہے جس پر خلافتِ راشدہ کا اطلاق نہیں کیا گیا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ خلافتیں غیر اسلامی تھیں بلکہ یہ خلافتیں بھی اسلامی تھیں جنہیں علماء امت نے ہر دور میں تسلیم کیا ہے، ان میں:

  1. بنو امیہ کی خلافت ہے جو حضرت معاویہؓ سے شروع ہوئی اور ۹۰ سال تک قائم رہی۔
  2. اس کے بعد اموی خلیفہ مروان ثانی سے عباسیوں نے خلافت چھین لی۔ اور اموی خاندان ہسپانیہ منتقل ہوگیا جہاں اس نے کم و بیش آٹھ سو سال تک خلافت کا پرچم لہرائے رکھا۔ جبکہ عباسیوں کی خلافت کا آغاز سفاح سے ہوا اور تقریباً پانچ سو برس تک اس کا تسلسل قائم رہا۔ حتیٰ کہ معتصم باللہ کے دور میں ہلاکو خان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور بنو عباس کی خلافت کا خاتمہ ہو گیا۔
  3. اس کے بعد بنو عثمان نے خلافت کا پرچم اٹھایا، یہ ترک تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لیے چن لیا تھا۔ سلطان عثمان اولؒ نے خلافت کے قیام کا اعلان کیا اور انہی کے نام سے یہ خلافتِ عثمانیہ کہلائی۔ خلافت کا یہ دور بھی کم و بیش پانچ سو سال کو محیط ہے اور اس سلسلہ کے آخری خلیفہ سلطان عبد الحمید مرحوم ہیں جنہیں ۱۹۲۴ء میں جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک نے جلاوطن کر کے خلافت کے خاتمہ کا اعلان کر دیا۔

جس زمانے میں یورپ ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے لیے بے چین تھا اور اس کی سازشیں منظر عام پر آرہی تھیں، ہمارے ہاں برصغیر پاک و ہند میں خلافت کی حمایت کے لیے ایک پرجوش تحریک اٹھی جو تحریک خلافت کے نام سے تاریخ کا یادگار حصہ ہے، لیکن مصطفیٰ کمال کے ہاتھوں خلافت کے خاتمہ کے بعد یہ تحریک خلافت بھی ٹھنڈی پڑ گئی۔ خلافتِ عثمانیہ کے خلاف یورپ کی سازشیں اب ایک ایک کر کے بے نقاب ہو رہی ہیں اور اس پر لٹریچر آرہا ہے کہ یورپ نے کس طرح خلافت عثمانیہ کے سقوط کی راہ ہموار کی، ترکی جیسے عالم اسلام کے بازوئے شمشیر زن کو سیکولر ازم کی طرف مائل کیا اور مسلمانوں کی سیاسی مرکزیت کا خاتمہ کر دیا۔

الغرض خلافت راشدہ کے تیس سالہ دور کے بعد حضرت معاویہؓ سے شروع ہونے والی خلافتِ عامہ ۳ مارچ ۱۹۲۴ء تک قائم رہی۔ اس دوران اچھے حکمران بھی آئے اور برے حکمران دیکھنا بھی عالمِ اسلام کو نصیب ہوئے لیکن مجموعی طور پر خلافت کا تسلسل بہرحال قائم رہا۔ بالخصوص بعض ادوار کی تمام تر خرابیوں کے باوجود خلافتِ عامہ کے اس تیرہ سو سالہ طویل دور میں عدالتی نظام کا ریکارڈ شاندار رہا ہے اور عدالتوں میں قرآن و سنت کے احکام پر عملدرآمد کا سلسلہ بلاخوف لومۃ لائم چلتا رہا ہے۔ اسی طرح جہاد کا تسلسل بھی ہر دور میں قائم رہا ہے جو دنیا میں مسلمانوں کے رعب و دبدبہ کا ذریعہ بنا رہا۔ اس دوران خلافت راشدہ کا دارالحکومت مدینہ منورہ اور کچھ عرصہ کے لیے کوفہ تھا۔ بنو امیہ کا دارالخلافہ دمشق رہا، بنو عباس نے بغداد کو دارالخلافہ بنایا، اور بنو عثمان کا دارالخلافہ قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اسی تاریخی شہر میں ۱۹۲۴ء تک قائم رہا۔

خلافت کے احیا کی ضرورت

حضرات محترم! اب ہم اس نکتہ کی طرف آتے ہیں کہ آج کے دور میں خلافتِ اسلامیہ کے احیا کی اہمیت کیا ہے اور اس کے لیے عملی طریق کار کیا ہو سکتا ہے؟ خلافت کے احیا کی پہلی صورت تو یہ ہے کہ یہ ہمارا اجتماعی شرعی فریضہ ہے جس کی ادائیگی کے بغیر ہم دنیا بھر کے تمام مسلمان گناہ گار ہیں اور شرعی فرض کے تارک ہیں۔ پھر صرف اس ایک فرض کے تارک نہیں بلکہ خلافت کے ذریعے احکام اسلامی کے نفاذ، اقامت دین، جہاد اور شرعی قضا کے جو فرائض بجا لائے جا سکتے ہیں ہم ان کے بھی تارک ہیں اور ان سب فرائض کو نظر انداز کرنے کا بوجھ ہم پر ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں سیاسی وحدت اور مرکزیت کے قیام کا واحد ذریعہ صرف اور صرف خلافت ہے اور گزشتہ صدی کے تجربات نے واضح کر دیا ہے کہ سیاسی وحدت اور مرکزیت کے بغیر عالم اسلام تمام تر وسائل اور صلاحیتوں کے باوجود اپنا ایک مسئلہ بھی حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، اس لیے آج عالم اسلام کا سب سے بڑا اور سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ خلافت کے احیا و قیام کی کوئی عملی صورت پیدا کی جائے۔

عملی طریق کار

خلافت کے انعقاد و قیام کی جو صورتیں فقہاء اسلام نے بیان کی ہیں وہ بنیادی طور پر پانچ ہیں:

  1. عام مسلمانوں کی رائے سے خلیفہ کا انتخاب کیا جائے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتخاب ہوا تھا۔
  2. خلیفۂ وقت کسی اہل شخص کو اپنا جانشین نامزد کر دے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کو نامزد کیا تھا۔
  3. خلیفۂ وقت کی نامزد کردہ خصوصی کمیٹی خلیفہ کا انتخاب کرے، جس طرح حضرت عثمان غنیؓ کا انتخاب عمل میں لایا گیا تھا۔
  4. مجلسِ شورٰی خلیفہ کو چنے، جیسے حضرت علیؓ چنے گئے تھے۔
  5. کوئی اہل شخص اقتدار پر بزور قوت قبضہ کر لے اور امت اسے قبول کر لے، جیسے حضرت حسنؓ کی بیعت کے بعد حضرت معاویہؓ کی خلافت پر امت کا اجماع ہوگیا تھا۔

آج کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ان میں سے دوسرا، تیسرا اور چوتھا طریقہ تو سرِدست قابل عمل نہیں ہے کیونکہ اس وقت کوئی شرعی خلیفہ موجود نہیں ہے جو کسی کو نامزد کر سکے، خصوصی کمیٹی بنا سکے یا مجلس شورٰی قائم کر سکے۔ اس کے بعد پہلا اور پانچواں طریق کار ہی قابل عمل رہ جاتا ہے اور اس کی عملی صورت یہ ہوگی کہ کسی مسلمان ملک کی منتخب پارلیمنٹ اپنے ملک کے دستور پر نظرثانی کر کے شرعی بنیادوں پر خلافت کے احیا کا اعلان کرے اور عام آدمیوں کی رائے سے خلیفہ وقت کا انتخاب کیا جائے۔ یا کوئی طاقتور گروہ طاقت کے زور سے اقتدار پر قبضہ کر لے اور ان میں سے خلافت کے اہل شخص کو خلیفہ کے طور پر قبول کر لیا جائے۔ اس کے علاوہ فقہاء اسلام کی بیان کردہ صورتوں میں سے خلافت اسلامیہ کے احیا اور قیام کی کوئی اور صورت موجودہ حالات میں قابل عمل نہیں ہے۔

ایک اہم قابل توجہ نکتہ

اس مرحلہ میں ایک اہم نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ۱۹۲۴ء تک خلافت کے جیسے کیسے تسلسل کو قبول کرنے کے باوجود ہمیں خلافت کے نظام کی تشکیل و تدوین میں خلافتِ راشدہ ہی کو معیار بنانا ہوگا۔ بعد کے خلافتی نظام اس بارے میں ہماری راہنمائی نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی خلافت راشدہ کے اصولوں کی طرف براہ راست رجوع کیے بغیر ہم مغربی جمہوریت اور ویسٹرن سولائزیشن کا مقابلہ کر سکیں گے۔ حکومت کی تشکیل میں عام آدمی کا حصہ، حاکمِ وقت پر تنقید کا حق، آزادیٔ رائے اور خلیفہ وقت سے اپنا حق کھلے بندوں طلب کرنے کا جو معیار خلافت راشدہ کے دور میں قائم ہوا وہ آپ کو بعد کے ادوار میں نہیں ملے گا اور یہی معیار ہے جسے عملاً سامنے لا کر مغربی جمہوریت کے کھوکھلے پن کو ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ بالخصوص دو معاملات میں خلافت راشدہ کے طرزعمل کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا:

  1. ایک حکومت کی تشکیل اور خلیفہ کے انتخاب میں عام آدمی کی رائے کی اہمیت، جسے حضرت عمرؓ نے بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق یوں بیان فرمایا کہ ’’خبردار! لوگوں کے مشورہ کے بغیر خلیفہ کی بیعت کا نام نہ لینا اور جس نے ایسا کیا اس کی بات کو قبول نہ کرنا‘‘۔
  2. اور دوسرا نظمِ مملکت چلانے میں لوگوں کے ساتھ مشاورت کا نظام، جس کا اہتمام خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور آپ کی سنت مبارکہ ہے کہ اجتماعی معاملات میں لوگوں کو مشاورت میں شریک کیا کرتے تھے، جیسا کہ بدر، احد اور احزاب کے غزوات کے حوالہ سے احادیث موجود ہیں۔ حتیٰ کہ غزوہ حنین کے قیدیوں کی واپسی کے سلسلہ میں مشاورت کے موقع پر لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث عرفاء یعنی لوگوں کے نمائندوں کے ذریعے سے ان کی رائے معلوم کر کے آنحضرتؐ نے فیصلہ فرمایا۔

اس لیے خلافت کا سیاسی نظام طے کرتے وقت ہمیں خلافت راشدہ کو مشعلِ راہ بنانا ہوگا، اسی صورت میں ہم آج کی دنیا کو مغربی جمہوریت سے بہتر نظام دے سکتے ہیں اور وقت کے چیلنج کا سامنا کر سکتے ہیں۔

حضراتِ محترم! میں آخر میں اس فکری نشست کے انعقاد پر جمعیت اہل سنت کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ سب دوستوں سے اس دعا کی درخواست کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں کہ اللہ رب العزت عالمِ اسلام کو خلافت کے حقیقی نظام سے ایک بار پھر بہرہ ور فرمائیں اور ہمیں اس کے لیے مؤثر اور نتیجہ خیز محنت کی توفیق دیں، آمین یا الہ العالمین۔


نفاذِ اسلام کی راہ روکنے کے لیے امریکی منصوبہ بندی

وائس آف امریکہ

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ’’قومی سلامتی کونسل‘‘ نے ۱۹۹۱ء کے دوران عالم اسلام اور مشرق وسطیٰ کے حوالہ سے ایک منصوبہ طے کیا تھا جو وائس آف امریکہ سے نشر ہوا اور روزنامہ جنگ لاہور نے ۱۵ جولائی ۱۹۹۲ء کو اس کا اردو ترجمہ شائع کیا۔ ربع صدی کے بعد اسے ارباب فکر و دانش کی خدمت میں اس گزارش کے ساتھ ایک بار پھر پیش کیا جا رہا ہے کہ اس امر کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس منصوبے پر عملدرآمد کی اب تک کی صورتحال کیا ہے اور اس وقت ہم کس مرحلہ سے گزر رہے ہیں۔ عملاً ہم کچھ کرنا چاہیں یا نہیں یا کچھ کر سکیں یا نہیں، کم از کم ہمیں اس حوالہ سے اپنی موجودہ صورتحال کا علم اور ادراک تو ہونا چاہیے۔ (راشدی)



  1. مستقبل میں قیام امن کے نفاذ میں دیگر ممالک مثلاً فرانس، برطانیہ، اٹلی اور روس کو شامل کیا جانا چاہیے۔
  2. ایران اور ترکی ایسے غیر عربی ممالک کو ان ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار کیا جانا چاہیے جنہوں نے ہمارے ساتھ مل کر عراق کے خلاف جنگ لڑی مثلاً خلیجی ریاستیں، مصر، شام اور مراکش۔
  3. ایران اور عراق میں ہونے والے واقعات کے پیش نظر ہماری مستقبل میں سیاست یہ ہوگی کہ ایک ایسی فوج تیار کی جائے یا موجود رکھی جائے جو کسی بھی دوسری فوجی طاقت کا مقابلہ کر سکے، اس طرح اس منطقہ (مشرق وسطیٰ) میں طاقت کا توازن بھی قائم رہے گا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوگا کہ کسی عرب ریاست یا ترکی یا ایران یا ایتھوپیا (حبشہ) کو (علاقہ کا پولیس مین بنا کر اسے یہ اجازت بھی دی جائے کہ وہ) امریکی مفادات کے لیے خطرہ بن سکے۔
  4. خلیجی ریاستوں کی دفاعی طاقت (نہ کہ جنگی صلاحیت) کو بہتر بنایا جائے اور یہاں فوجی خدمات کو لازمی بنایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ملحوظ رکھا جائے کہ ان ریاستوں کے ہمسایہ ممالک میں سے کسی کو بھی فوجی اعتبار سے اس قدر طاقتور نہ بننے دیا جائے کہ وہ ان پر حملہ آور ہو سکے۔
  5. جارحانہ اور مکمل تباہ کن جنگی ساز و سامان کی فروخت عربی اور اسلامی ممالک کو کرنا ہی پڑے تو درج ذیل امور کو مدنظر رکھنا ہوگا۔
    • ایسا اسلحہ زیادہ مقدار میں نہ دیا جائے۔
    • اس قسم کا اسلحہ نہ دیا جائے جو تیزی کے ساتھ حرکت میں لایا جا سکے یا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکے۔
    • فاضل پرزہ جات پوری مقدار میں نہ دیے جائیں۔
    • اس اسلحہ کا سودا پانچ عرب ریاستوں (غالباً سعودی عرب، عرب امارات، شام، مصر اور مراکش) کی نگرانی میں کیا جائے۔
    • بعض مخصوص اقسام کا اسلحہ فروخت نہ کیا جائے بلکہ کرایہ پر دیا جائے۔
  6. شام، مصر اور بعض دوسری چھوٹی غیر عرب ریاستوں مثلاً ایران، ترکی اور ایتھوپیا کی معمولی نمائندگی کے اشتراک سے ایک مشترکہ امن فوج تیار کی جائے۔
  7. خلیجی ریاستوں کی دولت جو ان پر حملوں کا سبب بنی ہوئی ہے، کی مناسب تقسیم ایک بینک برائے تعمیر کے ذریعے عمل میں لائی جائے گی مگر اس بینک کی اصل پالیسی امریکہ، برطانیہ اور فرانس وضع کریں گے۔ اس بینک کی نمایاں ترجیحات یہ ہوں گی۔
    • مشترکہ امن فوج کا کنٹرول سنبھالنا۔
    • ایسے ممالک میں بڑے منصوبوں کی تعمیر و تکمیل کے لیے فنڈ مہیا کرنا جو (مذکورہ بالا) مشترکہ فوج کے معاون ہوں مثلاً شام۔
    • اس طرح ان بعض غیر عرب ممالک میں ایسے منصوبوں کی تکمیل کے لیے فنڈات مہیا کرنا جو اس منطقہ میں امن کے لیے ایک بڑا رول ادا کر سکتے ہیں مثلاً ایران، ترکی اور حبشہ۔
    • بعض غیر اہم اور غریب حکومتوں مثلاً یمن، تیونس اور سوڈان کی مالی معاونت کرنا۔ البتہ ان حکومتوں کی اس طرح مدد کرتے وقت ان باتوں کو زیر غور رکھنا ہوگا۔
      • یہ مالی مدد صرف معمولی قسم کی تعمیر و ترقی کے لیے ہو۔
      • اس کے بدلے ان سے مضبوط تعلقات کی استواری کی توقع کرنا۔
      • اس مالی مدد کا مقصد ان حکومتوں سے امریکی پالیسی کی ہمنوائی حاصل کرنا ہوگا۔
  8. تمام عرب ملکوں کے ایسے حکومتی نظاموں کی تبدیلی جو امریکی پالیسی سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ اس منصوبہ کی بعض تفصیلات یوں ہوں گی۔
    خلیجی ریاستیں:
    ان ریاستوں کے حکومتی نظام میں ردوبدل کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ہمیشہ امریکی پالیسی کی پرجوش حامی رہی ہیں اور رہیں گی۔ ان کے اس حکومتی نظام کو باقی رکھنا ہی امریکی مفادات کا تحفظ ہے۔ البتہ یہ کوششیں جاری رکھی جائیں کہ ان ریاستوں میں زمام اقتدار ایسے افراد کے ہاتھوں میں آئے جو مغرب کے تعلیم یافتہ ہیں اور ایسی کوششیں بھی کی جائیں جن کی بدولت ان ریاستوں کی مذہبی ثقافت کو بدل دیا جائے۔
    دیگر ممالک:
    شام: شام کے حکمران حافظ الاسد ہمیں قبول ہیں، انہیں اس منطقہ میں کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ شام کو ترقی کے اس مقام پر لے جانا چاہیے جو حافظ الاسد کو اس خطہ کا مرد آہن بنا سکے کیونکہ انہوں نے (عراق کے خلاف جنگ میں) عملاً ثابت کر دیا ہے کہ ان پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔
    مصر: اگرچہ مصر کی موجودہ قیادت نے (امریکی پالیسی کے اتباع میں) صحیح اور قابل قبول رویہ اختیار کیا لیکن یہ حکومت مصری رائے عامہ کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔ لہٰذا ہمیں اس کے بارے میں جدید خطوط پر سوچنا ہوگا۔ دراصل جمال عبد الناصر اور انور السادات کے دو رمیں آزادیٔ رائے پر پہرہ لگا دیا گیا تھا جس کے جمہوریت پر منفی اثرات ظاہر ہوئے۔ اب ضروری ہے کہ مصر میں جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا جانا چاہیے تاکہ ہر شخص آزادی کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکے اور اسلامیین (بنیاد پرستوں) کو راہ سے ہٹانے کا یہی ایک طریقہ ہے۔
    فلسطین اور اسلامی تحریکات: اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو روکنے اور فلسطین کے قبضہ پر مسلمانوں کے (دینی، اخلاقی اور نفسیاتی) دباؤ کو کم کرنے کے لیے ان خطوط پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔
    • مسلمانوں کو ان کے فروعی اختلافات میں الجھا کر ایک دوسرے سے لڑانا تاکہ وہ اپنی طاقت کا آپ مقابلہ کرتے رہیں۔ جیسے مصر کے محمد الغزالی نے اسلام میں عورت کے مقام کے موضوع کو چھیڑ کر باہمی منافرت کی جنگ کو بھڑکایا۔
    • وہ خلیجی ریاستیں جو اسلامی شریعت کے نفاذ پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہیں یا اس کے نفاذ کے بارے میں غور کر رہی ہیں، ان کی حکومتوں کو تبدیل کرنا۔ جب کوئی حکومت اسلامی شریعت کا نفاذ کرے، اس کے خاتمہ کے لیے پوری کوشش کرنا۔ مثلاً سعودی عرب میں شرعی حدود کا نفاذ ہے، اس لیے ان کے بعض شیوخ کو ورغلانا اور ان کی سرگرمیوں کو معطل کرنا چاہیے۔ اس طرح تمام اسلامی تحریکات اور مظاہر پر کاری ضرب لگانا ضروری ہے۔
    • جہاں اسلامی ذہن رکھنے والی حکومتوں کے بدلنے سے ایسے شرعی قوانین سے چھٹکارا حاصل ہو جائے گا وہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہوگی کہ وہ علماء اسلام جو رائے عامہ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ان کے خیالات کی عوام تک رسائی میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہوں گی۔
    • حساس قسم کے حکومتی اداروں میں اسلامی ذہن رکھنے والوں کو ملازمت کے مواقع نہیں ملنا چاہئیں۔ یہ پالیسی صرف خلیجی ریاستوں تک ہی محدود نہ ہوگی بلکہ اس کا دائرہ کار تمام اسلامی ریاستوں تک بڑھانا ہوگا۔ اسلامی فکر کو آگے بڑھانے والوں کو تعلیم و تربیت اور ابلاغ عامہ کے ذریعے اپنے خیالات عوام الناس تک پہنچانے سے روکنا ہوگا۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کی بدولت اسلام کی ترویج و ترقی کے لیے کام کرنے والوں کو رائے عامہ کو متاثر کرنے کا موقع ملتا ہے اور یوسف القرضاوی نے انہی ذرائع (تعلیم و تربیت اور ابلاغ عامہ) سے عوام الناس میں پذیرائی پائی۔ اسی طرح سعودی عرب میں مناع القطان نے اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔
    • اسلامیین کو (ان کے اپنے ممالک میں بھی) اقتصادی اور اجتماعی معاملات میں نمایاں مقام پیدا کرنے سے باز رکھنا ہوگا، ورنہ وہ ان کے توسط سے اپنے ممالک سے باہر بھی اثر انداز ہوں گے۔
  9. بہت ہی قابل توجہ معاملہ عرب اور مسلمان ممالک سے افرادی قوت کا خلیجی ریاستوں میں آنے کا ہے، اس کا روکنا نہایت ضروری ہے۔ ان کے مقابل افرادی قوت کا سری لنکا، فلپائن اور تھائی لینڈ سے لانا ضروری ہے کیونکہ ان ممالک سے لائی گئی غیر مسلم افرادی قوت اسلامی اعتقادات اور اقدار پر منفی اثرات چھوڑے گی۔ اگر ان تینوں ملکوں کی افرادی قوت ضرورت کا معیار یا مقدار پوری کرنے سے قاصر ہو اور دیگر ممالک (اسلامیہ اور عربیہ) سے لوگ منگوانا ہی پڑیں تو پھر یہ ضرور ملحوظ رکھنا ہوگا کہ وہ پاکستان یا بنگلہ دیش سے نہ ہوں۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ دیگر (غیر مسلم) ممالک سے رابطہ کیا جائے (تاکہ بوقت ضرورت وہاں سے افراد بلائے جا سکیں)۔
  10. ضروری ہوگیا ہے کہ (مسلم ممالک) کے نظام تعلیم اور ثقافت کو تبدیل کیا جائے اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں کا وقت بڑھایا جائے۔
  11. اسلامی اور دینی جماعتوں مثلاً سلفی اور اخوانی کے مابین اختلافات کی حوصلہ افزائی کر کے انہیں زیادہ بڑھایا جائے۔
  12. اسلامی فکر و کردار رکھنے والی حکومتوں مثلاً پاکستان اور سوڈان کو پسماندگی اور مشکلات کا شکار رہنے دیا جائے۔

(مطبوعہ روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۱۵ جولائی ۱۹۹۲ء)

عدالتِ عظمیٰ کی نوازشات

ادارہ

O …  قرار داد مقاصد میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ مطلقہ کا اقرار کرتے ہوئے مملکت و حکومت کو اس کی مقرر کردہ حدود کا پابند قرار دیا گیا ہے۔ یہ قرارداد مقاصد ہر دستور میں بطور دیباچہ شامل رہی ہے جبکہ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے سپریم کورٹ کے تقویض کردہ اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے قرارداد مقاصد کو دستور کا واجب العمل حصہ قرار دے دیا تھا، جس پر ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلوں میں دستور کے قرار داد مقاصد سے متصادم حصوں کو غیر موثر قرار دے کر قرآن وسنت کی دستوری بالا دستی کی راہ ہموار کر دی۔ مگر سپریم کورٹ کے فل بنچ نے جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کرتے ہوئے قرار داد مقاصد کی ترجیحی حیثیت کے اصول کو مسترد کر دیا اور یہ فیصلہ صادر کیا کہ قرارداد مقاصد بھی آئین کی دوسری دفعات کے مساوی درجہ رکھتی ہے، اور آئین کی کسی دوسری دفعات کے ساتھ قرار داد مقاصد کے تصادم کی صورت میں عدالت عظمی خود کوئی فیصلہ کرے گی، یا زیادہ سے زیادہ پارلیمنٹ کو توجہ دلا سکے گی۔
O … سابق وفاقی وزیر قانون جناب ایس ایم ظفر نے قومی کشمیر کمیٹی کے دورہ یورپ کے موقع پر ہالینڈ میں پاکستانی سفارت خانے میں ایمنسٹی انٹرنیشل اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے یہ بتایا کہ
’’جدا گانہ نمائندگی کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے ایس ایم ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کی تشریح کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنا دیا ہے کہ اقلیتوں کو اب دو دوٹوں کا حق ہو گا۔ وہ جنرل نشستوں پر بھی ووٹ ڈال سکیں گے اور براہ راست اپنے نمائندے بھی چن سکیں گے۔‘‘(روزنامہ جنگ لاہور، ۱۴ اپریل ۹۴ء)
O … اعلیٰ عدالتوں میں ایڈ ہاک ججوں کی تقرری کے بارے میں اپنے حالیہ تاریخی فیصلہ میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب سجاد علی شاہ نے وفاقی شرعی عدالت کو آئین کے بنیادی ڈھانچے کے لیے اّن فٹ قرار دے دیا ہے۔ جبکہ اس فیصلہ سے پیدا ہونے والی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت نے سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ کے دو ایڈ ہاک ججوں جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی اور جسٹس پیر محمد کرم شاہ از ہری کو فارغ کر کے شریعت ایپلٹ بنچ کو عملاً غیر موثر بنا دیا ہے۔

نفاذ شریعت کی جدوجہد اور مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی ذمہ داریاں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(مدیر الشریعہ مولانا زاہد الراشدی ۱۹۹۰ء میں شمالی امریکہ کے دورہ کے موقع پر شکاگو بھی گئے جہاں انہوں نے ۲ دسمبر کو مسلم کمیونٹی سنٹر کے ہفتہ وار اجتماع سے ’’شریعت بل اور پاکستان‘‘ کے موضوع پر مندرجہ ذیل خطاب کیا۔)



بعد الحمد والصلوٰۃ۔ 

محترم بزرگو، دوستو اور قابل صد احترام بہنو! ابھی تھوڑی دیر قبل شکاگو پہنچا ہوں اور مجھے ہدایت کی گئی ہے کہ آپ حضرات کے سامنے پاکستان میں شریعت اسلامیہ کے نفاذ کی جدوجہد کے بارے میں کچھ معروضات پیش کروں۔ اس عزت افزائی پر مسلم کمیونٹی سنٹر کے ذمہ دار حضرات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آپ سب احباب سے اس دعا کا خواستگار ہوں کہ اللہ رب العزت کچھ مقصد کی باتیں کہنے اور سننے کی توفیق دیں اور حق کی جو بات بھی علم اور سمجھ میں آئے، اللہ تعالیٰ اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا الہ العالمین۔

حضرات محترم! پاکستان کا قیام اس مقصد کے لیے عمل میں آیا تھا اور قیام پاکستان کی بنیاد اس امر کو ٹھہرایا گیا تھا کہ مسلمان ایک الگ قوم کی حیثیت رکھتے ہیں اور اپنے مذہب، اقدار و روایات اور نظریات و عقائد پر عمل درآمد کے لیے مسلمانوں کو الگ خطۂ زمین کی ضرورت ہے۔ اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ‘‘ کے نعرے کے ساتھ یہ ملک قائم کیا گیا تھا۔ لیکن قیامِ پاکستان کو تینتالیس سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک ہم اپنے ملک کے نظام اور اجتماعی ڈھانچے کو اسلامی عقائد و احکام کے سانچے میں ڈھالنے کی منزل حاصل نہیں کر سکے۔ اور شریعتِ اسلامیہ کی بالادستی اور نفاذ کا جو خواب پاکستان کے قیام سے پہلے اس خطہ کے مسلم عوام نے دیکھا تھا وہ ابھی تک تشنۂ تعبیر ہے۔

اس سے پہلے کہ میں ان رکاوٹوں کا ذکر کروں جو پاکستان میں اسلام کے نفاذ اور شریعت کی بالادستی کی راہ میں حائل ہیں، نفاذِ شریعت کے حوالہ سے اس تدریجی پیش رفت سے آپ کو آگاہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس کی رفتار اگرچہ بہت سست ہے لیکن بہرحال ایک پیش رفت موجود ہے اور اس سلسلہ میں عملی کام ہوا ہے جسے آگے بڑھانے کی کوشش مسلسل جاری ہے۔

اس سلسلہ میں سب سے پہلا اور بنیادی کام ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کی منظوری ہے جو ۱۹۴۹ء میں دستور ساز اسمبلی کے رکن حضرت علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کی جدوجہد کے نتیجہ میں متفقہ طور پر پاس ہوئی۔ اس قرارداد میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے یہ طے کیا گیا ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے دائرہ میں رہتے ہوئے ملک کا نظام چلائیں گے۔ یہ ایک اصولی فیصلہ تھا جس سے ملک کی نظریاتی بنیاد متعین ہوگئی اور اس امر کا فیصلہ ہوگیا کہ پاکستان سیکولر ریاست نہیں بلکہ نظریاتی اسلامی مملکت ہے۔ قراردادِ مقاصد اب تک نافذ ہونے والے ہر دستور میں شامل رہی ہے اور موجودہ آئین میں بھی، جو ۱۹۷۳ء کا دستور کہلاتا ہے، شامل ہے۔ لیکن اس قرارداد کی روشنی میں جو عملی اقدامات ہونا چاہیے تھے ان کی رفتار سست رہی بلکہ ایک لحاظ سے نہ ہونے کے برابر تھی۔

دوسرا مرحلہ ۱۹۷۳ء کے دستور کی تشکیل کا تھا۔ اس وقت دستور ساز اسمبلی میں مولانا مفتی محمودؒ، مولانا عبد الحقؒ، مولانا شاہ احمدؒ نورانی، پروفیسر غفور احمد اور ان کے رفقاء کی جدوجہد سے ایک اور اہم دستوری فیصلہ ہوگیا کہ اسلام کو پاکستان کا سرکاری مذہب قرار دے دیا گیا اور ملک میں نافذ قوانین کو اسلامی احکام کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل کے ساتھ اس کام کے لیے وقت کی ایک حد طے کر دی گئی۔

تیسرے مرحلے میں جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دورِ اقتدار میں ہونے والے وہ اقدامات شامل ہیں جن کے تحت بعض شرعی قوانین کے نفاذ کے علاوہ وفاقی شرعی عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ وفاقی شرعی عدالت ممتاز علماء کرام اور جسٹس صاحبان پر مشتمل ہے اور اسے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ملک کے کسی بھی قانون کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے کر حکومت کو قانون کی تبدیلی کا نوٹس دے سکتی ہے۔ اگرچہ دستوری دفعات، عدالتی نظام، مالیاتی قوانین اور عائلی قوانین کو وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا لیکن اس کے باوجود بہت سے امور شرعی عدالت کی دسترس میں تھے اور اس نے اس ضمن میں متعدد اہم فیصلے بھی کیے ہیں۔

چوتھا مرحلہ ’’شریعت بل‘‘ کے نفاذ کی جدوجہد کا ہے۔ شریعت بل سینٹ آف پاکستان کے دو ارکان مولانا سمیع الحق اور مولانا قاضی عبد اللطیف نے ۱۹۸۵ء میں پیش کیا تھا جس کے لیے گزشتہ پانچ سال سے جدوجہد اور بحث و تمحیص ہر سطح پر ہو رہی ہے۔ مختلف ایوانوں کے علاوہ قومی اخبارات اور عوامی حلقوں میں بھی اس کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل سینٹ نے شریعت بل کو متفقہ طور پر منظور کر لیا تھا لیکن قومی اسمبلی ٹوٹ جانے کے باعث یہ بل اس میں پیش نہ ہو سکا اور اب پھر سینٹ میں دوبارہ منظوری کے لیے زیر بحث ہے۔

حضراتِ گرامی! اس وقت شریعت بل کی تمام دفعات کی وضاحت کرنے کی تو گنجائش نہیں ہے کیونکہ وقت بہت مختصر ہے مگر بعض اہم دفعات کا تذکرہ ضروری ہے تاکہ آپ حضرات یہ سمجھ سکیں کہ اس بل کا بنیادی مقصد کیا ہے:

برادرانِ محترم! اس مختصر تعارف سے آپ کے ذہن میں یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ شریعت بل کے نفاذ سے اصل مقصد کیا ہے۔ یہ دراصل نظام کی تبدیلی کی جدوجہد ہے اور خاص طور پر ملک کے عدالتی نظام کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی جنگ ہے جس میں اس وقت ہم مصروف ہیں اور آپ حضرات سے کامیابی کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ تعاون اور حوصلہ افزائی کے بھی طلبگار ہیں۔

اب میں اس سوال کی طرف آتا ہوں جو آپ کے ذہنوں میں ضرور اٹھ رہا ہوگا کہ آخر اسلام کے نام پر بننے والے ملک اور مسلم اکثریت کے معاشرہ میں اس وقت شریعت بل پر آخر پانچ سال سے صرف بحث و تمحیص کیوں ہو رہی ہے اور یہ نافذ کیوں نہیں ہو جاتا؟ پھر یہ سوال بھی آپ حضرات کے ذہنوں کو پریشان کر رہا ہوگا کہ نفاذِ اسلام کے جن تدریجی اقدامات کا میں نے ذکر کیا ہے ان سب کے باوجود حالات میں تبدیلی کیوں نہیں آرہی اور عملاً اسلامی احکام و قوانین کا نفاذ اور کارفرمائی کیوں دکھائی نہیں دے رہی؟

ان سوالات کے جواب میں مناسب تو یہ تھا کہ ان رکاوٹوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر اور تجزیہ کیا جاتا جو نفاذِ شریعت کی راہ میں حائل ہیں۔ لیکن وقت مختصر ہے اس لیے میں اس سلسلہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کا حوالہ دینے پر اکتفا کروں گا جو تمام رکاوٹوں کا سرچشمہ ہے اور جس رکاوٹ کو راستہ سے ہٹانے کے لیے ہم گزشتہ تینتالیس سال سے اس کے ساتھ سر پھوڑ رہے ہیں۔ وہ رکاوٹ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اجتماعی قیادت کی باگ ڈور جن عناصر کے ہاتھ میں ہے وہ نہ صرف مغربی تعلیم گاہوں کے تربیت یافتہ اور مغربی تہذیب و ثقافت سے مرعوب ہیں بلکہ اپنے معاشرہ میں مغربی نظریات و اقدار کی فکری اور تہذیبی نمائندگی کو مقصد زندگی سمجھے ہوئے ہیں۔ ویسٹرن میڈیا اسلام کے بارے میں جو شوشہ چھوڑتا ہے وہ ان کا منشور بن جاتا ہے۔ مغرب والے اگر نفاذِ اسلام کی جدوجہد پر بنیاد پرستی کی پھبتی کستے ہیں تو ہمارے یہ بھائی بھی بنیاد پرستوں سے لاتعلقی کے اظہار کو ضروری سمجھ لیتے ہیں۔ اور مغرب میں اگر اسلامی قوانین کو فرسودہ، وحشیانہ اور ظالمانہ کہا جاتا ہے تو ان لوگوں کی زبانیں بھی انہی الفاظ کا ورد کرنے لگتی ہیں۔

میرے محترم دوستو! آپ حضرات تو خود مغرب میں رہتے ہیں، یہاں کی قیادت اور میڈیا کا مزاج آپ سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے؟ آپ کے سامنے سب کچھ ہوتا ہے، عالم اسلام کے خلاف یہاں سے جو سازشیں ہوتی ہیں آپ ان سے بے خبر نہیں ہیں اور آپ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ پاکستان بلکہ تمام مسلم ممالک میں نفاذ شریعت کی تحریکات کو جن عناصر سے مقابلہ درپیش ہے ان کی پشت پر مغرب خود کھڑا ہے۔ یہ صرف پاکستان کی بات نہیں، جن دوسرے مسلم ممالک میں اسلام کی بالادستی اور شریعت کے نفاذ کی جدوجہد ہو رہی ہے، مصر میں، مراکش میں، انڈونیشیا میں، ملائیشیا میں، الجزائر میں، تیونس میں اور دیگر مسلم ممالک میں دینی بیداری کی تحریکات کام کر رہی ہیں اور نفاذ اسلام کی جدوجہد ہو رہی ہے، ان سب کا مقابلہ ایک ہی قسم کے طبقے سے ہے جو مغرب سے مرعوب ہے اور مغرب پوری طرح اس طبقہ کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ آپ حضرات یقیناً اس امر سے باخبر ہوں گے کہ امریکہ میں ایک باقاعدہ انسٹیٹیوٹ کام کر رہا ہے جس کا مقصد عالم اسلام میں دینی بیداری کی تحریکات کا کھوج لگانا، ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اور انہیں ناکام بنانے کے منصوبے تیار کرنا ہے۔ اس انسٹیوٹ کی سربراہی امریکہ کے سابق صدر نکسن کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے مسلم بنیاد پرستی کی تحریکات کے تعاقب کو اپنا مشن بنایا ہوا ہے۔ ہمارا مقابلہ ان قوتوں کے ساتھ ہے، ہماری رفتار اگرچہ بہت سست ہے لیکن قدم بہرحال آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم آپ سے دعا کے خواستگار ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کام کی صحیح رفتار نصیب فرمائیں اور نفاذ شریعت کی جدوجہد میں کامیابی سے ہمکنار کریں، آمین یا الہ العالمین۔

حضراتِ محترم! ان گزارشات کے بعد ایک بات اور بھی آپ حضرات کی خدمت میں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ آپ حضرات جو مغربی ممالک بالخصوص امریکہ میں آباد ہیں، عالم اسلام اور پاکستان میں نفاذ شریعت کی تحریکات کے حوالہ سے آپ پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ کون سے عملی کام ہیں جو اس سلسلہ میں آپ کر سکتے ہیں؟ آپ کا کام صرف دعا کرنا اور نیک خواہشات کا اظہار کرنا نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر آپ کو عملی جدوجہد میں شریک ہونا چاہیے جس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں:

بہرحال میں نے مسلم ممالک میں نفاذ شریعت کی تحریکات کے ساتھ مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کی عملی وابستگی کی تین صورتیں عرض کی ہیں:

  1. آپ حضرات نفاذِ اسلام کی تحریکات کی زیادہ سے زیادہ سیاسی و اخلاقی مدد کریں۔
  2. مغربی ممالک میں اسلام کے خلاف کام کرنے والی منظم لابیوں کے منظم مقابلہ کا اہتمام کریں۔
  3. اس معاشرہ میں آپ کو جن شرعی قوانین پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے ان کے نفاذ اور عملدرآمد کی کوئی عملی صورت ضرور نکالیں۔

اللہ رب العزت مجھے اور آپ سب کو شریعتِ اسلامیہ کی بالادستی اور نفاذ کی جدوجہد میں زیادہ سے زیادہ محنت کرنے کی توفیق دیں اور عالم اسلام کو شریعت کے نفاذ کی منزل سے جلد ہمکنار فرمائیں، آمین۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ تعالیٰ علیٰ رسولہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین۔

نفاذِ اسلام اور ہمارا نظامِ تعلیم

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام ایک صحت مند اور مثالی معاشرہ کی تشکیل کے لیے عمل میں لایا گیا تھا اور اس سلسلہ میں قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم سمیت بانیانِ پاکستان کے واضح اعلانات تاریخ کا انمٹ حصہ ہیں جن میں اسلام کے مکمل عادلانہ نظام کے نفاذ اور قرآن و سنت کی بالادستی کو پاکستان کی حقیقی منزل قرار دیا گیا ہے۔ لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ دنیا کے نقشے پر اس نظریاتی ملک کو نمودار ہوئے نصف صدی کا عرصہ گزرنے کو ہے مگر ابھی تک ہم اسلامی نظام کی منزل سے بہت دور ہیں بلکہ اب تو پاکستان کی نظریاتی حیثیت کو ختم کرنے اور اسے سیکولر ممالک کی صف میں شامل کرنے کے لیے عالمی قوتیں اور ان کی نمائندہ لابیاں پوری قوت کے ساتھ مصروفِ عمل نظر آتی ہیں۔ اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیا بلکہ عالمِ اسلام کے حوالہ سے عالمی قوتوں کے ایجنڈے کا سب سے اہم نکتہ یہی مسئلہ بن گیا ہے کہ پاکستان اور پاکستانی قوم کو ہر قیمت پر اسلامی شناخت اور کردار سے محروم کر کے ویسٹرن سولائزیشن اور سیکولرازم کی پٹری پر چڑھا دیا جائے۔ تاکہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والا یہ ملک اسلام کی نشاۃِ ثانیہ، ملتِ اسلامیہ کی وحدت اور اسلامی فلاحی معاشرے کے احیا کے لیے کوئی کردار ادا نہ کر سکے۔

حالات کا اگر تھوڑی سی گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو اسلامی نظام کے نفاذ کے بارے میں ہمارا کم و بیش پچاس سالہ اجتماعی طرزِ عمل اس ضمن میں عالمی سیکولر قوتوں کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث بنا ہے، اس لیے صرف انہی کو الزام دینے اور کوستے رہنے کی بجائے ہمیں اپنے قومی طرزِ عمل اور کردار کا بھی حقیقت پسندانہ جائزہ لینا چاہیے، اور ان اسباب کا کھلے دل کے ساتھ تعین اور اعتراف کرنا چاہیے جو ہماری قومی زندگی کو اس تذبذب اور دوراہے پر لانے کا باعث بنے ہیں۔ ہم پاکستان کے قیام کے بعد نصف صدی تک اسلامی نظام کی منزل کی طرف عملی پیشرفت کیوں نہیں کر سکے؟ وقت آگیا ہے کہ اس سوال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا جائے اور قوم کا ہر طبقہ گریبان میں جھانک کر اپنے رویے اور کردار میں اس ناکامی کی جڑیں تلاش کرے تاکہ ہم گزشتہ کوتاہیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی نظام کی منزل کی طرف پیشرفت کر سکیں۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مناسبت سے نفاذِ اسلام کے قومی سفر میں ’’نظامِ تعلیم‘‘ کے کردار پر ایک نظر ڈال لی جائے کیونکہ قوموں کی ذہنی نشوونما، فکری ارتقا اور تہذیبی ترقی میں نظام تعلیم کا رول سب سے اہم اور بنیادی ہوتا ہے۔ اور اس نقطۂ نظر سے جب ہم اپنے نظام تعلیم کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک بات نکھر کر سامنے آتی ہے کہ اپنی پالیسیوں اور ترجیحات کے لحاظ سے نفاذِ اسلام کبھی ہمارے نظام تعلیم کے مقاصد میں شامل ہی نہیں رہا۔ اسلامی نظام کے نفاذ میں معاشرہ کے چار طبقات کا کردار سب سے اہم اور بنیادی ہوتا ہے: (۱) مقننہ (۲) عدلیہ (۳) انتظامیہ (۴) اور علماء کرام۔ آج کے دور میں کسی معاشرہ میں قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی، قوانین کی تطبیق و تشریح، ان پر عملدرآمد اور ان معاملات میں علمی و فکری راہنمائی انہیں چار طبقات کا کام ہے۔ اور اگر ہم فی الواقع اسلامی اقدار و احکام کو معاشرہ میں رائج کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ان طبقات کی تعلیم و تربیت، ذہن سازی اور کام کی نوعیت کے مطابق ان کی تیاری ناگزیر ہے، لیکن ہمارے ہاں صورتحال اس سے قطعی مختلف رہی ہے۔

مقننہ میں جانے والے افراد کی ایک بڑی تعداد اور عدلیہ و انتظامیہ کے تمام افراد ہمارے ریاستی نظامِ تعلیم کے تربیت یافتہ ہیں جسے عصری نظام تعلیم سے موسوم کیا جاتا ہے، جبکہ علماء کرام اس پرائیویٹ نظامِ تعلیم سے گزر کر آتے ہیں جسے دینی مدارس کا نظام تعلیم کہا جاتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہمارا قومی المیہ ہے کہ اب تک دونوں نظام ہائے تعلیم نے اپنے تیار کردہ افراد کی تعلیم و تربیت کو نفاذِ اسلام کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کی اکثریت کو دین کی ضروری تعلیم سے آراستہ نہیں کیا جا سکا اور علماء کرام کی اکثریت آج کے سسٹم اور نظام کو سمجھنے کی استعداد و صلاحیت سے بہرہ ور نہیں ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ طبقاتی بُعد کے ساتھ ساتھ ذہنی منافرت اور فکری انتشار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس سب کچھ کی ذمہ داری ہمارے ان دو نظام ہائے تعلیم پر عائد ہوتی ہے۔ اور اس کا حل اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ تعلیمی نظاموں کے اہداف اور ترجیحات پر نظرِثانی کے ساتھ ساتھ دینی و عصری تعلیم اور عملی و اخلاقی تربیت کے تقاضوں کو یکجا کر کے ایک نظام میں سمو دیا جائے۔

عصری علوم و فنون اور اسلامی تعلیمات کو یکجا کرنے کی سوچ نئی نہیں ہے اور علی گڑھ اور دیوبند کی طرح اس سوچ کی تاریخ بھی کم و بیش سوا صدی کو محیط ہے۔ ندوۃ العلماء لکھنو، جامعہ ملیہ دہلی اور جامعہ عباسیہ بہاولپور کے پیچھے یہی سوچ کارفرما تھی اور اب بھی ملک کے مختلف حصوں میں یہ سوچ تجربات کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ لیکن اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں کہ ابھی تک اس سوچ کو قومی تحریک کی شکل نہیں دی جا سکی حالانکہ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ایک ایسے نظامِ تعلیم کی ہے جو نئی نسل کو آج کے ضروری علوم و فنون کی مہارت کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کی بنیادی تعلیمات اور دینی و اخلاقی تربیت سے پوری طرح آراستہ کر سکے، کیونکہ نصف صدی کی تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ قومی زندگی کی گاڑی انہی دو پہیوں کے توازن کے ساتھ صحیح رخ پر آگے بڑھ سکتی ہے اور اگر ہم ان دونوں پہیوں کا باہمی توازن قائم نہ کر سکے تو قومی زندگی کو لڑکھڑاہٹ کی موجودہ کیفیت سے نکالنا ممکن نہیں ہوگا اور نہ ہی نفاذِ اسلام کی منزل تک سفر جاری رکھا جا سکے گا۔

نفاذ شریعت ایکٹ کی خلافِ اسلام دفعات

وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ

ادارہ

شریعت درخواست نمبر ۱۱۸ / ایل / ۱۹۹۱ ء درخواست دہندہ محمد اسماعیل قریشی نے وفاقی حکومت پاکستان بذریعہ سیکرٹری قانون و پارلیمانی امور اسلام آباد کے خلاف ۲۸ نومبر ۱۹۹۱ء کو دائر کی۔
شریعت درخواست نمبر ۱۲۳ / ایل / ۱۹۹۱ء درخواست دہندہ محمد اسماعیل قریشی نے وفاقی حکومت پاکستان بذریعہ سیکرٹری قانون و پارلیمانی امور اسلام آباد کے خلاف ۲۲ دسمبر ۱۹۹۱ء کو دائر کی۔
علاوہ ازیں شریعت درخواست نمبر ۱۴ / ایل / ۱۹۹۲ء منجانب ایم خالد فاروق بخلاف وفاقی حکومت پاکستان ۹ اپریل ۱۹۹۲ ء کو دائر ہوئی اور شریعت درخواست نمبر ۱۵ / ایل / ۱۹۹۲ء منجانب ایم خالد فاروق بخلاف وفاقی حکومت پاکستان ۹ اپریل ۱۹۹۲ء کو دائر ہوئی۔ 
مندرجہ بالا چاروں شریعت درخواستوں کی سماعت ۱۲ مئی ۱۹۹۲ء کو ہوئی، عدالت نے ان کا فیصلہ ۱۳ مئی ۱۹۹۲ء کو سنایا۔ ان چاروں درخواستوں کو ایک ہی فیصلہ کے ذریعے نمٹایا گیا۔ درخواستوں کی سماعت جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن چیف جسٹس، جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خان، اور جسٹس میر ہزار خان کھوسو نے کی اور فیصلہ جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن نے لکھا۔ 
شریعت درخواست ۱۱۸ / ایل / ۱۹۹۱ء اور ۱۵ / ایل / ۱۹۹۲ء میں نفاذِ شریعت ایکٹ ۱۹۹۲ء کی دفعہ ۳ کی ذیلی دفعہ (۲) کو اس بنا پر چیلنج کیا گیا کہ یہ قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ 
شریعت درخواست نمبر ۱۲۳ / ایل / ۱۹۹۱ء اور ۱۴ / ایل / ۱۹۹۲ء میں نفاذِ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء کی دفعہ ۱۹ کو اس بنا پر چیلنج کیا گیا کہ یہ قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ محمد اسماعیل قریشی نے اپنی درخواست میں کہا کہ اگرچہ نفاذ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء کی مین دفعہ ۳ ذیلی دفعہ (۱) میں شریعت کو اعلیٰ قانون (سپریم لاء) قرار دیا گیا ہے، لیکن دفعہ ۳ کی ذیلی دفعہ (۲) نے موجودہ سیاسی نظام بشمول مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں) اور موجودہ حکومتی نظام کو شریعت کے اعلیٰ قانون کے تحت رکھنے سے انکار کر دیا ہے، حالانکہ ان کو احکام اسلام سے بالا نہیں رکھا جا سکتا۔ لہٰذا انفرادی اور اجتماعی طور پر اختیار کے استعمال کو اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا چاہیے۔ کیونکہ صرف اللہ ہی قانون دہندہ ہے اور قانون سازی کا مطلق اختیار اسی کو حاصل ہے۔ 
درخواست دہندہ نے درج ذیل نکات پر مشتمل وجوہ کی بنا پر دفعہ ۳ (۲) کو چیلنج کیا:
۱۔ قومی یا صوبائی اسمبلیاں یا حکومت آزادانه قانون سازی نہیں کر سکتے، نہ ہی وہ کسی ایسے قانون کو بدل سکتے ہیں، نہ اس میں ترمیم کر سکتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسولوں نے دیے ہیں۔
۲۔ اگر حکومت، قومی یا صوبائی اسمبلیاں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو نظر انداز کریں یا اس سے روگردانی کریں تو وہ احکامِ اسلام کی خلاف ورزی کریں گی۔ اس صورت میں ایک سیاسی ایجنٹ کی حیثیت سے اپنی اطاعت کرانے کا استحقاق کھو بیٹھیں گی۔ چونکہ دفعہ ۳ (۲) میں یہی صورت ہے، اس لیے دفعہ ۳ (۱) میں قرآن وسنت کو اعلیٰ قانون قرار دینے کا اعلان محض ایک فراڈ ہے، جو شریعت، دستور اور قانون کے ساتھ کیا گیا ہے اور دستور کی خلاف ورزی ہے۔
۳۔ دفعہ ۳ کی ذیلی دفعہ (۲) حکومت، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو مغربی جمہوریت کی طرز پر، جس میں اقتدار اعلیٰ پارلیمنٹ کو حاصل ہے، قانون سازی کا لامحدود اختیار دیتی ہے۔ 
۴۔ نفاذ شریعت ایکٹ دستور کے آرٹیکل ۲ (جس میں اسلام کو پاکستان کا سرکاری مذہب قرار دیا گیا ہے) اور آرٹیکل ۱۲ (جس نے قرارداد مقاصد کو دستور کا جزو اصلی بنا دیا ہے) کے احکام پر حاوی نہیں ہو سکتا۔ - 
۵۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ نے اسلام کی تعریف کی ہے کہ اسلام اللہ کے احکام کی مکمل پابندی ہے۔
۶۔ شاہ ولی اللہؒ نے حجتہ اللہ البالغہ میں کہا کہ برسر اقتدار طاقت کے احکام مومنوں پر واجب الاطاعت نہیں رہیں گے اگر یہ احکام معصیت ہوں۔ یہ اصول رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث پر مبنی ہے۔
۷۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے قرآن کریم کا ایک اور اصول اپنی کتاب ’’اسلامی قانون اور دستور‘‘ میں بیان کیا ہے کہ کوئی شخص، جماعت، یا گروہ، بلکہ ریاست کی پوری آبادی مجموعی طور پر بھی اقتدار اعلیٰ کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ صرف اللہ ہی مقتدر اعلیٰ ہے، باقی سب اس کی رعایا ہیں۔
۸۔ ہارون خان شروانی، ایک سیاسی عالم، نے اپنی کتاب ’’مسلم سیاسی افکار اور نظام و نسق‘‘ میں کہا ہے کہ اللہ کا قانون اعلیٰ اور کائناتی تصور کیا جاتا ہے۔
درخواست دهنده ایم خالد فاروق نے بھی ایک شریعت درخواست ۱۵ / ایل / ۱۹۹۲ء میں نفاذ شریعت ایکٹ کی دفعہ ۳ کی ذیلی دفعہ (۲) کو اس بنا پر چیلنج کیا کہ یہ قرآن وسنت کے احکام کے خلاف ہے۔ درخواست دہندہ نے متعدد آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبویؐ کے حوالے دیتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ ذیلی دفعہ اللہ کی حاکمیت کی صاف طور پر نفی کرتی ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ ہدایت ہے اور سیاست کو اسلام کے دائرے سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ 
نیز محمد صلاح الدین بنام حکومت پاکستان (پی ایل ڈی ۱۹۹۰ء وفاقی شرعی عدالت ۱) کے فیصلہ میں عدالت ہذا موجودہ سیاسی نظام کے ایک جزو عوامی نمائندگی ایکٹ ۱۹۷۶ء کی دفعات ۱۳، ۱۴، ۳۸ (۴)سی، ۴۹، ۵۰ اور ۵۲ کو خلافِ اسلام ہونے کی وجہ سے کالعدم قرار دے چکی ہے۔ علاوہ ازیں ذیلی دفعہ زیر اعتراض آئین کے آرٹیکل ۲، ۱۲ اور ۲۲۷ (۱) کے منافی ہے۔ اور یہ ذیلی دفعہ اسی دفعہ کی ذیلی دفعہ (۱) کے موثر ہونے کے عمل کو کم کرتی ہے۔ 
درخواست دہندہ نے متعدد آیاتِ قرآنی اور احادیثِ رسول ﷺ سے اپنے موقف کو مضبوط بنایا۔
درخواست دہندہ مسٹر محمد اسمعٰیل قریشی نے اپنی شریعت درخواست نمبر ۱۲۳ / ایل / ۱۹۹۱ء میں نفاذ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء کی دفعہ ۱۹ کو اس بنا پر چیلنج کیا کہ یہ دفعہ احکامِ اسلام کے خلاف ہے۔ قرآن وسنت میں سود کو واضح طور پر حرام قرار دیا گیا ہے، جب کہ اس دفعہ میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔ درخواست دہندہ نے اپنے موقف کے حق میں متعدد قرآنی آیات اور احادیثِ رسولؐ پیش کیں۔ درخواست دہندہ نے دفعہ ۱۹ کو آئین کے آرٹیکل ۲، ۱۲، اور ۲۲۷ کے خلاف قرار دیا۔
درخواست دہندہ ایم خالد فاروق نے اپنی شریعت درخواست نمبر ۱۴ / ایل / ۱۹۹۲ء میں اسی دفعہ ۱۹ کو اس بنا پر چیلنج کیا کہ یہ احکامِ اسلام کے خلاف ہے۔ درخواست دہندہ نے متعدد آیات و احادیث کو اپنے موقف کے حق میں پیش کیا۔ نیز کہا کہ یہ دفعہ (دفعہ ۱۹) آئین کے آرٹیکل ۲، ۱۲ اور ۲۲۷ (۱) کے منافی ہے۔ کیونکہ آئین کے ان آرٹیکلوں میں قرآن وسنت کے اعلیٰ ترین ہونے کی ضمانت دی گئی ہے، جب کہ نفاذ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء کی دفعہ ۱۹ اس حیثیت کو ختم کرتی ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ نفاذ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء کی دفعہ ۳ (۲) آئین سے متصادم ہے، کیونکہ:
(۱) دفعہ ۳ (۲) نے پاکستان میں موجودہ سیاسی نظام کو شریعت کے اطلاق سے مستثنیٰ کر دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و سنت میں موجود احکام اسلام ملک کے سیاسی نظام کو منضبط نہیں کر سکیں گے ، جبکہ آئین نے اس نظام کو یہ استثناء نہیں دیا۔
(۲) آرٹیکل ۲۰۳ بی (سی) کی رو سے قانون کی تعریف میں نفاذ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء شامل ہے، اس لیے وفاقی شرعی عدالت اور شریعہ اپیل پنج عدالتِ عظمیٰ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، اور جو اختیار آئین نے دیا ہو اسے کوئی قانون چھین نہیں سکتا۔
عدالت نے نفاذ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء کی دفعہ ۳ (۲) کو قرآن و سنت کے احکام کے خلاف قرار دیا۔ عدالت نے آیاتِ قرآنی المائده ۳، البقره ۸۵،  ۲۰۸ پر انحصار کیا اور ان آیات کی تشریح میں علامہ محمد اسد، سید ابو الاعلیٰ مودودی اور علامہ شبیر احمد عثمانی کی آراء کا حوالہ دیا۔ 
جہاں تک نفاذ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء کی دفعہ ۱۹ کا تعلق ہے، عدالت نے قرار دیا کہ قرآن و سنت نے معاہدات کی پابندی پر بہت زور دیا ہے اور اس دفعہ میں گزشتہ معاہدات کی پابندی کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن ان معاہدات میں وہ معاہدات شامل نہیں جو احکامِ قرآن وسنت کے خلاف ہوں۔ چونکہ ربا قرآن  و سنت کی رو سے حرام ہے، اس لیے ربا سے متعلق معاہدات کی پابندی ناجائز ہو گئی، لہٰذا دفعہ ۱۹ قرآن وسنت کے احکام کے منافی ہے۔ عدالت نے اس کے لیے قرآن وسنت سے متعدد دلائل کے حوالے دیے۔
نتیجتاً‌ شریعت درخواست ہائے نمبر ۱۱۸ / ایل / ۱۹۹۱ء، ۱۲۳ / ایل / ۱۹۹۱ء، ۱۴ / ایل / ۱۹۹۲ء اور ۱۵ / ایل ۱۹۹۲ء منظور کر لی گئیں اور نفاذ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء کی دفعات ۳ (۲) اور ۱۹ کو احکامِ اسلام کے خلاف، جیسے کہ وہ قرآن و سنت میں مذکور ہیں، قرار دیا گیا۔ 
عدالت نے مقننہ کی رہنمائی کے لیے قرآن کریم کی حسب ذیل آیات کا حوالہ دیا: 
’’اور کسی مومن یا مومنہ کے لیے جائز نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول ﷺ ان کے لیے کوئی فیصلہ کر دے تو اپنی مرضی سے کوئی اور راستہ اختیار کرے۔‘‘ (الاحزاب : ۳۶)
’’اور جو کوئی اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ دے وہی لوگ نافرمان ہیں۔‘‘ (المائدہ : ۵۰) 
(بشکریہ ’’نوائے قانون‘‘ اسلام آباد)

شریعت بل کی دفعہ ۳ کے بارے میں علماء کرام کے ارشادات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے ’’شریعت بل‘‘ کے عنوان سے حال ہی میں ایک مسودہ قانون کی منظوری دی ہے جس کی دفعہ ۳ میں شریعت اسلامیہ کی بالادستی کو ان الفاظ کے ساتھ تسلیم کیا گیا ہے۔

’’شریعت یعنی اسلام کے احکام جو قرآن و سنت میں بیان کیے گئے ہیں، پاکستان کا بالادست قانون (سپریم لاء) ہوں گے بشرطیکہ سیاسی نظام اور حکومت کی موجودہ شکل متاثر نہ ہو۔‘‘ (بحوالہ جنگ لاہور ۱۹ مئی ۱۹۹۱ء)

وضاحت طلب امر یہ ہے کہ کیا کسی مسلم شخص یا ادارہ کے لیے شرعی احکام کی بالادستی کو مشروط طور پر قبول کرنے کی گنجائش ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو مذکورہ بالا کارروائی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ امید ہے کہ آنجناب خالصتاً شرعی نقطۂ نظر سے اس امر کی وضاحت فرما کر اپنی دینی و قومی ذمہ داری سے عند اللہ و عند الناس سبکدوش ہوں گے۔

المستفتی: ابوعمار زاہد الراشدی

ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ


جوابات

جامعہ اشرفیہ لاہور

گنجائش نہیں، یہ تو بالادستی نہیں توہین ہو رہی ہے جو گناہ ہے۔ شرعی حیثیت حرام ہونے کی ہے۔ (منجانب دارالافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور)

جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور

’’بشرطیکہ سیاسی نظام اور حکومت کی موجودہ شکل متاثر نہ ہو‘‘ کی قید بالکل غلط اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت کے مترادف ہے۔ اس قید کو لازماً حذف ہونا چاہیے۔ (از مولانا مفتی عبد اللطیف، جامعہ نظامیہ رضویہ اندرون لوہاری گیٹ لاہور)

دارالعلوم تعلیم القرآن راولپنڈی

قرآن و سنت کے مبینہ احکام کی بالادستی کو کسی شرط سے معلق کرنا غلط ہے اور گمراہی کی علامت ہے۔ (از مولانا قاضی حبیب الرحمان، مفتی تعلیم القرآن)

ہفت روزہ الاعتصام لاہور

اس دفعہ کے آخری الفاظ نے یقیناً قرآن و حدیث کی بالادستی کو ختم کر کے عملاً پارلیمنٹ کی بالادستی کو قائم کر دیا ہے۔ کہنے کو یہ ایک سطری عبارت ہے لیکن اپنے مفہوم و نتائج کے اعتبار سے نفاذ شریعت کی راہ میں سد سکندری اور کوہ ہمالیہ سے بھی بڑی رکاوٹ ہے۔ (از مولانا حافظ صلاح الدین یوسف)

سیال شریف

یہ شرط غلط ہے، اگر اس شرط کو قائم رکھا گیا تو فیصلہ جات بجائے شریعت اقدس کی اتباع میں دیے جانے کے سیاسی، حکومتی اور غیر شرعی صورتوں میں ہو کر نہ صرف اسلامی معاشرہ کو تباہ کیا جائے گا بلکہ شریعت اسلامیہ سے مذاق ہوگا۔ (از مولانا غلام اللہ)

مدرسہ انوار العلوم ملتان

قرآن و سنت کی بالادستی کو مشروط طور پر تسلیم کرنا کتاب و سنت کے ساتھ سنگین مذاق کے مترادف ہے۔ (از مولانا مفتی غلام مصطفیٰ رضوی)

جامعہ رحمانیہ لاہور

یہ شرط سیکولر ذہن کی عکاسی کرتی ہے جو قرآن و سنت کی بالادستی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے لیکن اس سے انکار کا حوصلہ بھی نہیں رکھتا۔ کوئی مسلمان ایسی بات نہیں کر سکتا۔ (از مولانا محمد اجمل خان)

مدرسہ نجم المدارس کلاچی

وہ لوگ جنہوں نے اکثریت کے بل بوتے پر یہ شرط لگا دی ہے کہ موجودہ سیاسی نظام اور حکومت کی موجودہ شکل بہرصورت متاثر نہیں ہوگی، ان میں جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ سیاسی نظام اور اسلامی حکومت کی موجودہ شکل اسلام کے خلاف ہے اور اس کے باوجود یہ اسلام کے سیاسی نظام اور اسلامی حکومت کی تشکیلات سے بہتر ہے معاذ اللہ تو یہ عقیدہ اسلام کی نفی ہے اور اس عقیدے کے باوجود ان کا مسلمان ہونے کا دعویٰ الحاد اور زندقہ ہے۔ اور اگر یہ سمجھتے ہوں کہ اسلام کے خلاف تو ہے مگر ہم اسے اپنانے پر دنیوی مفادات وغیرہ کی بنا پر مجبور ہیں تو یہ فسق و فجور ہے اور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں بہ اختیار خود زمام اقتدار دینا بالکل ناجائز ہے بشرطیکہ دوسرا ان سے نسبتاً کم درجہ کا فاسق ہو۔ (از مولانا قاضی عبد الکریم)

بیر شریف لاڑکانہ

اس سے ایمان ضائع ہوگا۔ (از مولانا عبد الکریم قریشی)

جامعہ مدنیہ لاہور

اس (شرط) کے یہ معنی ہیں کہ سیاسی نظام اور حکومت کی موجودہ شکل اصل الاصول ہے اور اسلام کے احکام ثابتہ من القرآن والحدیث اس کے تابع ہیں۔ جو احکام اسلام اس اصل الاصول سے متصادم ہوں گے وہ اس اصل الاصول سے منسوخ سمجھے جائیں گے۔ یہ صریح کفر ہے۔ ایک تو یہ کہ اسلام کو اپنے خود ساختہ قوانین کے تابع کیا گیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام بجمیع احکامہ اصل الاصول اور حکومت و سیاسی نظام کے جمیع خود ساختہ قوانین اس کے تابع ہیں۔ اس کے جو قوانین اسلام سے متصادم ہوں وہ کالعدم ہوں کیونکہ متصادم خود بڑی معصیت ہیں۔ اسلامی احکام پر کسی بھی دوسری چیز کو ترجیح دینا اور اسلام کے مقابلہ میں ان کو تسلیم کرنا عین کفر ہے۔ الاسلام یعلو ولا یعلی۔ (از مولانا مفتی عبد الحمید)

دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک

اس تسلیم کی لپیٹ میں جو دجل ہے اس کا سمجھنا سیاست دان لوگوں کا منصب ہے۔ میرے خیال میں یہ الفاظ معھودہ استثناء الکل من الکل کی طرح بہ ظاہر تسلیم اور اقرار ہے اور درحقیقت انکار اور فرار ہے۔ (از مولانا مفتی محمد فرید)

دارالعلوم تعلیم القرآن پلندری

ایک مسلمان کے لیے بطور عقیدہ کے تو شریعت کو سپریم لاء تسلیم کرنا لازمی ہے۔ اگر عملی طور پر اس سے کوئی کوتاہی ہوتی ہے تو وہ بھی سہوًا یا اضطرارًا صرف نظر کے لائق ہو سکتی ہے مگر عمدًا یہ بھی قابل مواخذہ ہوگی۔ (از مولانا محمد یوسف خان)

جامعہ محمدی شریف جھنگ

اسلامی احکام کو قبول کرنے کے لیے یہ شرط لگانا بالکل غلط ہے۔ احکام اسلام جو قرآن و سنت پر مبنی ہیں ان تمام کا تسلیم کرنا مسلمان پر علی اطلاق واجب ہے۔ اسلامی احکام کسی شرط کے ساتھ مشروط نہیں۔ (از مولانا محمد نافع)

مرکزی جامع مسجد گجرات

صورت مسئولہ صریح منافقت ہے اور قرآن و سنت کے آئین و قانون سے کھلی بغاوت ہے۔ (از مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری)

مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ

شرعی احکام کی بالادستی کو مشروط طور پر قبول کرنا دراصل شریعت کی بالادستی سے انکار کے مترادف ہے اور الحاد و زندقہ اسی کو کہتے ہیں۔ (از مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان)

مرکزی جامع مسجد چکوال

مندرجہ دفعہ میں شریعت کی بالادستی کو مشروط کر کے اس کی بالادستی کی نفی کر دی گئی ہے اور معاملہ برعکس ہوگیا ہے۔ گویا کہ اصل بالادستی مروجہ سیاسی نظام اور حکومت کی موجودہ شکل کو حاصل ہے، العیاذ باللہ۔ (از مولانا قاضی مظہر حسین)

خدام الدین لاہور

حکومت نے دفعہ ۳ میں شرط عائد کر کے پورے شریعت بل پر بلڈوزر پھیر دیا ہے اور قرآن کریم کی واضح آیات کی روشنی میں ایسی شرط کفر کے مترادف ہے۔ (از مولانا حمید الرحمٰن عباسی)

جامع مسجد گلبرگ پشاور

اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و سنت مغربی نظام سے متصادم ہونے کی صورت میں ملک کے لیے سپریم لاء نہیں۔ اس میں مغربی نظام کو قرآن و سنت پر فوقیت دی گئی ہے جو ظلم اور کفر کے مترادف ہے۔ (از پروفیسر محمد امین درانی)

تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ۔ نفاذ اسلام کی جدوجہد میں معاون یا رکاوٹ؟

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی


ماہنامہ الشریعہ فروری ۱۹۹۰ء میں شامل مضمون کی مکرر اشاعت
مضمون ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں


علماء اور قومی سیاست

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(ورلڈ اسلامک فورم کی ماہانہ فکری نشست اکتوبر ۱۹۹۳ء کو بعد نماز عشاء جامع مسجد صدیقیہ سیٹلائیٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں جمعیت اہل سنت کے زیراہتمام منعقد ہوئی جس میں فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے ’’علماء اور قومی سیاست‘‘ کے موضوع پر مندرجہ ذیل خطاب کیا۔ ادارہ)



بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں سب سے پہلے جمعیت اہل سنت گوجرانوالہ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے آپ حضرات سے ملاقات و گفتگو کا موقع فراہم کیا۔ مولانا حافظ گلزار احمد آزاد کے ساتھ آج کی اس گفتگو کے لیے ’’علماء اور قومی سیاست‘‘ کا موضوع طے ہوا ہے اور میں اس کے حوالہ سے کچھ ضروری گزارشات آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ معروضات بنیادی طور پر تین پہلوؤں پر مشتمل ہو گی:

  1. سیاست کے ساتھ علماء کا تعلق کیا ہے؟
  2. قومی سیاست میں اب تک علماء کا رول کیا ہے اور اس کے ثمرات و نتائج کیا ہیں؟
  3. آئندہ سیاسی محاذ پر علماء کے آگے بڑھنے کے امکانات کیا ہیں؟

جہاں تک علماء اور سیاست کے باہمی تعلق کا سوال ہے تو یہ بات بطور اصول پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ سیاست کے ساتھ علماء کا تعلق دینی اور نظریاتی بھی ہے اور عملی اور واقعاتی بھی۔ دینی اور نظریاتی تعلق یہ ہے کہ علمائے کرام اپنے منصب اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کی نیابت و وراثت کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔ اور بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:

’’بنی اسرائیل کی سیاسی قیادت انبیاء کرامؑ کرتے تھے، جب ایک نبی دنیا سے چلا جاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ آجاتا۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا بلکہ خلفاء ہوں گے۔‘‘

گویا سیاسی قیادت حضرات انبیاء کرامؑ کے منصبی فرائض میں شامل تھی اور چونکہ جناب نبی اکرمؐ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ہیں اور ان کے بعد کسی نئے نبی نے نہیں آنا اس لیے ان کی سیاسی قیادت والی ذمہ داری خلفاء کو منتقل ہو گئی ہے۔ جبکہ اس وقت دنیا میں کسی جگہ بھی خلافت اسلامیہ کا نظام موجود نہیں ہے اس لیے جہاں دوسرے بہت سے امور میں علمائے کرام جناب نبی کریمؐ کی نیابت و وراثت کے ذمہ دار ہیں، امت کی سیاسی راہنمائی بھی وارثینِ نبوت ہونے کے حوالے سے علمائے کرام کے فرائض میں شامل ہے اور وہ اس بارے میں مسئول اور ذمہ دار ہیں۔

سیاست کے ساتھ علماء کے واقعاتی تعلق پر برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کی تاریخ شاہد ہے۔ یہاں علمائے کرام نے امت مسلمہ کی سیاسی راہنمائی جس جرأت و استقلال کے ساتھ کی ہے وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ حضرت مجدد الفؒ ثانی کو دیکھ لیجئے ! انہوں نے کس عزیمت و استقامت کے ساتھ اکبر بادشاہ کے خودساختہ ’’دینِ الٰہی‘‘ کے خلاف جدوجہد کی اور بالآخر اسے شکست دینے میں کامیاب ہوگئے۔ امام ولی اللہ دہلویؒ اور ان کے خانوادہ کی سیاسی جدوجہد پر ایک نظر ڈال لیجئے! حضرت شاہ ولی اللہؒ نے مسلمانوں کے گرتے ہوئے اقتدار کو کس طرح سہارا دینے کی کوشش کی اور ان کے بگڑے ہوئے نظام کی اصلاح کے لیے کیا کیا جتن کیے۔ مرہٹوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی تباہی کے آثار دیکھ کر احمد شاہ ابدالیؒ کو آواز دی جس نے آکر پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کا زور توڑا۔ پھر فرنگی اقتدار قائم ہونے پر شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے اس کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا اور انہی کی ہدایت و تربیت کے باعث سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ نے حریت کے لیے پہلا مسلح معرکہ بپا کیا۔ اس کے بعد ۱۸۵۷ء کے جہاد آزادی میں علماء نے قائدانہ کردار ادا کیا جس کے نتیجہ میں انہیں فرنگی کے وحشیانہ انتقام کا نشانہ بننا پڑا۔ پھر حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ کی تحریک ریشمی رومال، تحریک خلافت، جمعیت علماء ہند، مجلس احرار اسلام اور دیگر حوالوں سے آزادی کی جدوجہد میں علماء نے قربانیوں کی ایک تاریخ رقم کی۔

یہ ایک تاریخی تسلسل ہے جس کی تفصیل بیان کرنا اس وقت مقصود نہیں ہے، صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس خطۂ زمین میں جسے برصغیر کہا جاتا ہے، سیاسی جدوجہد اور تحریک آزادی میں علماء نے ایثار و قربانی کا جو شاندار حصہ ادا کیا ہے، ملت کا کوئی اور طبقہ اس بارے میں ان کی برابری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اور اس سلسلہ کی آخری کڑی تحریک پاکستان میں علامہ شبیر احمدؒ عثمانی، مولانا اطہر علیؒ، مولانا ظفر احمدؒ عثمانی، مولانا عبد الحامدؒ بدایونی اور مولانا ابراہیم میرؒ سیالکوٹی کی قیادت میں علماء کے ایک بہت بڑے طبقہ کا متحرک کردار ہے جس کے بغیر تحریک پاکستان کا تذکرہ مکمل نہیں ہو سکتا۔

الغرض سیاست کے ساتھ علماء کا تعلق دینی بھی ہے کہ امت مسلمہ کی سیاسی راہنمائی ان کے مذہبی فرائض میں شامل ہے، اور واقعاتی بھی ہے کہ ان کے اسلاف نے سیاسی محاذ پر جدوجہد اور قربانیوں کا ایک ایسا مربوط تسلسل قائم کیا ہے جس کے ساتھ عملی وابستگی قائم رکھے بغیر علماء اپنے ماضی قریب کے بزرگوں کے ساتھ بھی تعلق کا اظہار نہیں کر سکتے، اور یہی علماء اور سیاست کے باہمی تعلق کا سب سے زیادہ واضح اور روشن پہلو ہے۔

حضراتِ محترم! اب میں گفتگو کے دوسرے نکتہ کی طرف آتا ہوں کہ پاکستان کی قومی سیاست میں علماء کا اب تک کیا رول رہا ہے اور اس کے ثمرات و نتائج کیا ہیں؟ قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلا مرحلہ اس مملکت خداداد کی نظریاتی حیثیت کے تعین کا تھا کیونکہ برصغیر کی تقسیم اور پاکستان کے نام سے ایک نئی مملکت کے وجود کا جواز ہی صرف یہ پیش کیا گیا تھا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور ان کے لیے اپنے مذہب اور تہذیب و تمدن کے مطابق زندگی بسر کرنا ضروری ہے جو الگ وطن کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی نظریہ پر تحریک منظم ہوئی اور قیام پاکستان عمل میں آیا لیکن پاکستان قائم ہوتے ہی اس کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں سیکولر دستور کی باتیں شروع ہوگئیں۔ یہ ایک نازک مرحلہ تھا اور افسوسناک صورتحال تھی جس کا سامنا اسمبلی کے اندر شیخ الاسلام علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کو کرنا پڑا اور اسمبلی سے باہر مولانا مودودیؒ اور دیگر علماء نے اس فتنہ کا مقابلہ کیا اور بالآخر مولانا شبیر احمدؒ عثمانی دستور ساز اسمبلی میں ’’قراردادِ مقاصد‘‘ منظور کرانے میں کامیاب ہوگئے جس میں خدا تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت اور پارلیمنٹ کے لیے یہ کردار متعین کیا گیا کہ وہ خدا تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے ملک کا نظام چلائیں گی۔ یہ پاکستان کی نظریاتی حیثیت کا تعین تھا جس نے طے کر دیا کہ پاکستان سیکولر نہیں بلکہ اسلامی ریاست ہے۔

اس کے بعد فرنگی کے خودکاشتہ پودے قادیانیت کی سازشوں کے خلاف تحریک ختم نبوت کا مرحلہ پیش آیا جس میں علماء اور عوام نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ پھر ۱۹۵۶ء اور ۱۹۶۲ء کے دستور کے حوالہ سے مذہبی جماعتوں کی جدوجہد ہے۔ اور اس کے بعد ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں قائم ہونے والی دستور ساز اسمبلی کا معرکہ ہے جس میں مولانا مفتی محمودؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا عبد الحقؒ، مولانا محمد ذاکرؒ، مولانا شاہ احمدؒ نورانی، مولانا عبد المصطفٰی الازہریؒ، پروفیسر غفور احمد اور ان کے رفقاء کو ایک ایسی اکثریتی پارٹی کا سامنا تھا جو اسلام کو صرف مذہب کے خانے تک محدود رکھتے ہوئے سیاست میں جمہوریت اور معیشت میں سوشلزم کو اپنا مقصود و منزل قرار دیے ہوئے تھی۔ اس لیے انہیں یہ جنگ بڑی جرأت و استقامت کے ساتھ لڑنا پڑی، اسمبلی کی کاروائی کا بائیکاٹ ہوا اور اسمبلی سے باہر رائے عامہ کی قوت کو حرکت میں لانا پڑا اور اسٹریٹ پاور کو منظم کرنا پڑا تب کہیں جا کر ان راہنماؤں کو دستور کا قبلہ درست رکھنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ چنانچہ ۱۹۷۳ء کے دستور میں ملک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیتے ہوئے اسلام کو ملک کا سرکاری مذہب تسلیم کیا گیا اور ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کا دستوری وعدہ قوم کے ساتھ کیا گیا۔ اس پر عملدرآمد ہوا یا نہیں، یہ الگ بات ہے، لیکن ملک کی اسلامی نظریاتی حیثیت کا تحفظ ہوگیا اور علماء اسمبلی میں اقلیت میں ہونے کے باوجود اپنی جدوجہد میں سرخرو ہوئے۔

یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ علماء اس ملک میں کبھی انتخابی قوت نہیں رہے، اسمبلیوں میں علماء کا وجود نمائندگی کی حد تک محدود رہا ہے، ان کی اصل قوت ہمیشہ رائے عامہ اور اسٹریٹ پاور رہی ہے۔ اور یہ رائے عامہ کی قوت ہی تھی جس نے علماء کو اسمبلی میں تھوڑی تعداد میں ہونے کے باوجود اکثریت پر کامیابی دلائی۔ حتیٰ کہ مولانا مفتی محمودؒ جب صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ تھے اس وقت بھی ان کے پاس چالیس کے ایوان میں صرف چار یا پانچ سیٹیں تھیں لیکن اس کے باوجود وہ حکومت بنانے اور اس کی پالیسی کو کنٹرول کرتے ہوئے بعض اسلامی اصلاحات نافذ کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور کی تشکیل کا مرحلہ آپ کے سامنے ہے، اس کے بعد ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں بھی ایسا ہوا۔ اسمبلی میں علماء کی قوت تھوڑی تھی، چند ارکان تھے، لیکن اسمبلی سے باہر رائے عامہ کی قوت ان کی پشت پر تھی، اسٹریٹ پاور ان کے ساتھ تھی اس لیے انہیں اس محاذ پر بھی کامیابی ہوئی اور وہ قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم قرار دلوانے میں کامیاب ہوگئے۔

پاکستان میں علماء اور دینی قوتوں کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ انہوں نے رائے عامہ کی قوت پر اپنی گرفت قائم رکھی ہے اور اسمبلی میں نمائندگی کی حد تک موجود رہے ہیں۔ اس حکمت عملی کے باعث انہیں قرارداد مقاصد، ۱۹۷۳ء کے دستور کی اسلامی دفعات اور ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں کامیابی حاصل ہوئی۔ لیکن اب کچھ عرصہ سے صورتحال تبدیل ہوتی جا رہی ہے بلکہ ہو چکی ہے۔ اسٹریٹ پاور ان کی گرفت میں نہیں رہی اور اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کے بعد وہ اپنی انتخابی قوت میں بھی اضافہ نہیں کر پائے۔ انتخابی قوت جوں کی توں ہے بلکہ کچھ کم ہوئی ہے جبکہ رائے عامہ کی قوت ہاتھ سے نکل گئی ہے، یہ ایک بڑا المیہ ہے جس کے اسباب کا جائزہ لینا ہوگا۔

حضراتِ محترم! حقائق تلخ ہوتے ہیں اور میری یہ کمزوری ہے کہ دوٹوک بات کرنے کا عادی ہوں اس لیے میری کسی گزارش سے کسی دوست کو تکلیف پہنچے تو اس کے لیے پیشگی معذرت خواہ ہوں لیکن جس بات کو صحیح سمجھتا ہوں اسے نہیں چھپاؤں گا اور اپنے دل کا درد آپ حضرات کے سامنے ضرور رکھوں گا۔ اصل قصہ یہ ہے کہ ہم نے یعنی سیاسی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے والے علماء نے اپنے موقف، پالیسی اور کردار پر اعتماد کی فضا قائم نہیں رہنے دی۔ پہلے یہ بات نہیں تھی، لوگ ہم سے اختلاف رکھتے تھے لیکن ہماری راست گوئی، استقامت اور دیانت پر اعتماد بھی کرتے تھے اور اسی اعتماد کے باعث ہمارا ساتھ دیتے تھے۔ لیکن جب سے ہم نے قلابازیاں کھانی شروع کر دی ہیں اعتماد کی یہ فضا ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہم آج ایک مسئلہ کے بارے میں کچھ کہہ رہے ہوتے ہیں تو ہمیں قطعاً یاد نہیں ہوتا کہ اسی مسئلہ کے بارے میں تین ماہ قبل اس سے کچھ مختلف بات ہم کہہ چکے ہیں، اور اس کا بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ دو ماہ بعد شاید کچھ اور کہنا پڑ جائے۔ ان قلابازیوں نے ہمارا اعتماد مجروح کیا ہے۔ عام آدمی تو بے چارہ عام آدمی ہے خود ہمارے ورکر کو اکثر اوقات یہ سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے کہ وہ لیڈر کی کون سی بات کو اصل سمجھے اور کس بات کو وقتی حالات کا تقاضا قرار دے۔ پھر لابیوں کی سیاست نے ہمارے کردار اور دیانت پر بھی اعتماد قائم نہیں رہنے دیا۔ ہماری پہچان اب سعودیہ اور لیبیا کی لابیوں کے حوالے سے ہونے لگی ہے۔ اس صورتحال نے غریب کارکن اور نظریاتی ورکر کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے، وہ اندر سے بکھر گیا ہے اور اس کا دل کرچی کرچی ہو کر رہ گیا ہے۔

’’شریعت بل‘‘ کا معرکہ تو آپ کو یاد ہوگا کہ اس کا حشر ہمارے راہنماؤں کے ہاتھوں کیا ہوا؟ شریعت بل کی بنیادی دفعہ قرآن و سنت کو ملک کا بالاتر قانون (سپریم لاء) قرار دلوانا تھا۔ یہ سامنے آیا تو اس کے پیش کرنے والے بھی علماء تھے اور سب سے پہلے اس کی مخالفت بھی علماء نے کی۔ اسے ’’شرارت بل‘‘ قرار دینے والے بھی علماء تھے۔ اکثر دینی جماعتوں کا ایک دھڑا شریعت کی بل کی حمایت اور ہر جماعت میں اس کا متوازی دھڑا شریعت بل کی مخالفت کر رہا تھا، ایک عرصہ تک لوگ یہ تماشا دیکھتے رہے۔ پھر خدا خدا کر کے ایک وقت آیا کہ تمام مذہبی جماعتیں شریعت بل پر متفق ہوئیں اور سینٹ نے شریعت بل کا متفقہ مسودہ منظور کر لیا۔ یہ پیپلز پارٹی کا دور تھا جس میں مسلم لیگ نے سینٹ میں اپنی اکثریت کے باعث اسے منظور کرا دیا لیکن قومی اسمبلی میں یہ بل مقررہ وقت کے اندر پیش نہ ہو سکا اور اس سے پہلے قومی اسمبلی ٹوٹ گئی۔ پھر مسلم لیگ کی اپنی حکومت آئی، اس نے خود سینٹ میں اپنے منظور کردہ شریعت بل کا تیاپانچہ کر کے رکھ دیا۔ اس نے سینٹ کا منظور کردہ شریعت بل مسترد کر دیا جس کی منظوری کے لیے سینٹ میں اسی مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اب اپنی حکومت آنے پر مسلم لیگ نے قومی اسمبلی میں شریعت بل کا ایک نیا مسودہ پیش کر دیا جس میں شریعت بل کی بنیادی دفعات کو مسخ کر دیا گیا تھا۔ اس پر ملک کی تمام مذہبی جماعتوں کا اجلاس منصورہ میں ہوا، تمام جماعتیں شریک ہوئیں، حتیٰ کہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ بھی شریک ہوئی اور سب نے مل کر متفقہ فیصلہ کیا مسلم لیگی حکومت کے پیش کردہ سرکاری شریعت بل پر بات نہیں ہوگی اور سینٹ کے منظور کردہ متفقہ شریعت بل کے لیے جدوجہد کی جائے گی۔ یہ فیصلہ تحریری شکل میں موجود ہے اور اس پر تمام مذہبی جماعتوں کے قائدین کے دستخط بھی موجود ہیں۔ لیکن عملاً کیا ہوا؟ ابھی اس فیصلہ پر ہونے والے دستخطوں کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ اسمبلی میں خود ان جماعتوں نے اس فیصلہ کی دھجیاں اڑا دیں۔ سرکاری شریعت بل پیش ہوا، صرف ایک جماعت کے ارکان اسمبلی نے اس مسودہ کا بائیکاٹ کیا جبکہ باقی تمام جماعتیں اس پر بحث میں شریک ہوئیں، رسمی اختلاف بھی کیا اور منظوری میں شرکت ہو گئی۔ اس سرکاری شریعت بل میں کیا ہے؟ سراسر کفر و ارتداد ہے اور اس میں وہ رسوائے زمانہ دفعہ بھی شامل ہے جس میں قرآن و سنت کی بالادستی سے ملک کے سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچے کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ شریعت بل کے سرکاری مسودہ کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد شریعت بل کی جدوجہد کا حشر یہ ہوا کہ اس جدوجہد کے دو ذمہ دار بزرگوں نے مسلم لیگ کے ووٹوں سے سینٹ کی ممبر شپ حاصل کر لی۔ ایک بزرگ وزارت مذہبی امور پر فائز ہوگئے اور ایک نے بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی کے مصداق اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت پر ہی قناعت کر لی۔ میں یہ تو کر سکتا ہوں کہ اس صورتحال پر اپنی رائے نہ دوں لیکن واقعات کی ترتیب کو بدلنا میرے بس کی بات نہیں ہے، نہ واقعات کے درمیان فاصلوں کو لمبا کر سکتا ہوں اور نہ ایک کارکن کو، جو پہلے سے زیادہ سیاسی شعور اور کھلی آنکھیں رکھتا ہے، واقعات کی اس ترتیب پر رائے قائم کرنے سے روک سکتا ہوں۔

حضراتِ محترم! یہ ہے میرے دل کا درد جسے میں نے آج آپ کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے اور اب میں آتا ہوں حالیہ انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے رول کی طرف جو آج ملک کا سب سے اہم موضوع گفتگو ہے اور کم و بیش ہر مجلس میں اس پر اظہارِ خیال ہو رہا ہے:

اس کے بعد علماء سے توقع رکھنے کی کون سی بات باقی رہ گئی تھی؟ اور یہ بات بھی نہیں کہ میاں محمد نواز شریف نے یہ سب کچھ کسی مجبوری کے تحت کیا ہو بلکہ یہ سب کچھ ان کی پالیسی کا حصہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ الیکشن میں انہوں نے اسلام اور شریعت کا نام تک اپنی انتخابی مہم میں نہیں لیا۔ اس کے برعکس وہ یہ کہتے رہے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہی اسلام ہے۔ اس کے علاوہ ان کے منشور میں، ان کی انتخابی تقریروں میں اسلام کے نفاذ کا، شریعت کی بالادستی کا اور قرآن و سنت کے احکام کی عملداری کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں تھا۔ اس لیے اگر علماء نے اور مذہبی جماعتوں نے اس الیکشن میں نواز لیگ کا ساتھ نہیں دیا تو کوئی غلط کام نہیں کیا بلکہ اپنی ذمہ داری کو نبھایا ہے۔ اس کے برعکس اگر دینی جماعتیں اس ساری صورتحال کے باوجود الیکشن میں میاں محمد نواز شریف کا ساتھ دیتیں تو میرے نزدیک یہ دینی بے حمیتی کا مظاہرہ ہوتا۔

البتہ مذہبی جماعتوں کا اصل قصور کچھ اور ہے جس نے انہیں موجودہ مقام تک پہنچایا ہے اور وہ قومی سیاست میں عبرت کا عنوان بن کر رہ گئی ہیں۔ اس میں اور کسی کا کوئی قصور نہیں ہے، جو کچھ ہے سب مذہبی جماعتوں کا اپنا کیا دھرا ہے۔ میں اس الیکشن کے دوران ملک میں موجود نہیں تھا، جون کے آغاز میں برطانیہ چلا گیا تھا اور اکتوبر کے وسط میں واپس آیا ہوں لیکن الیکشن سے لاتعلق نہیں رہا، اپنا حصہ ادا کر کے گیا ہوں اور اسے اب آپ کے سامنے لانا چاہتا ہوں تاکہ ریکارڈ میں آجائے۔ پاکستان کی تاریخ یہ ہے کہ اس ملک کے عوام نے مذہبی قوتوں کو کبھی مایوس نہیں کیا لیکن اس وقت جب مذہبی قوتیں متحد ہو کر سامنے آئی ہیں۔ ایسا بار بار ہوا ہے کہ کسی دینی اور قومی مسئلہ پر مذہبی قوتیں متحد ہوئیں تو پوری قوم ان کی پشت پر آکھڑی ہوئیں۔ لیکن مذہبی جماعتیں متحد نہ رہ سکیں جس کی وجہ سے اب ان کے اکٹھے ہونے پر بھی لوگ آسانی سے اعتماد نہیں کرتے۔

اس سال جب جناب غلام اسحاق خان نے پہلی بار قومی اسمبلی توڑی اور میر بلخ شیر مزاری صاحب نے نگران وزیراعظم کی حیثیت سے ملک میں عام انتخابات کا اعلان کیا ہے تو میں پاکستان میں تھا۔ اس موقع پر لاہور میں متحدہ علماء کونسل کے دفتر میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ حضرات کا اجتماع ہوا، میں بھی اس میں شریک تھا۔ اس بات پر غوروخوض ہوا کہ الیکشن میں مذہبی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کرنے کی کوئی صورت کی جائے۔ ہمارا تجزیہ یہ تھا کہ اگر مذہبی قوتیں متحد ہو کر ایک پرچم تلے اس الیکشن میں حصہ لیتی ہیں تو قومی اسمبلی میں بیس سے پچیس تک سیٹیں ان کے پاس ہوں گی، اس طرح توازن کی قوت ان کے ہاتھ میں ہوگی اور وہ حکومت سازی اور قانون سازی میں مؤثر کردار ادا کر سکیں گی۔ اور اگر وہ اس کے بعد اگلے الیکشن تک متحد رہنے کا کارنامہ سرانجام دے سکیں تو اگلے انتخابات میں فیصلہ کن پوزیشن حاصل کرنا بھی ان کے لیے مشکل نہیں ہوگا۔ اس تجزیہ کو بنیاد بنا کر ہم نے دینی جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں کرنے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلا وفد جو پندرہ سولہ ذمہ دار حضرات پر مشتمل تھا منصورہ میں جناب قاضی حسین احمد صاحب سے ملا۔ وفد نے متکلم کی ذمہ داری مجھے ہی سونپ دی اور میں نے قاضی صاحب موصوف کے ساتھ اپنے تعلقات کی گرم جوشی بلکہ ایک حد تک بے تکلفی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی تمہید کے بغیر کھلی کھلی گزارشات پیش کر دیں۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں بلکہ قوم چاہتی ہے کہ مذہبی جماعتیں متحد ہو کر ایک پلیٹ فارم سے انتخاب میں حصہ لیں اور اس سلسلہ میں ہم آپ کے پاس یہ درخواست لے کر آئے ہیں کہ مہربانی فرما کر آپ پروٹوکول چھوڑ کر دینی جماعتوں کے قائدین کے پاس خود تشریف لے جائیں اور کسی عنوان سے بھی انہیں یکجا بٹھا کر اس اتحاد کے لیے مل جل کر کوئی عملی صورت نکالیں، اگر آپ فرمائیں تو ہم بھی اس کام لیے آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں۔ قاضی صاحب نے ہمارے موقف سے اصولی طور پر اتفاق کیا اور فرمایا کہ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ ان دنوں اسی مسئلہ پر بحث کر رہی ہے اس کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جس کے اجلاس جاری ہیں، میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد آپ حضرات کو اعتماد میں لے کر اس سلسلہ میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ ہم قاضی صاحب موصوف سے یہ بات سن کر اطمینان کے ساتھ گھروں میں آگئے کہ اب اگلا مرحلہ قاضی صاحب کی طرف سے ہمیں اعتماد میں لینے کے بعد سامنے آئے گا لیکن چند ہی دنوں بعد قاضی حسین احمد صاحب کی طرف سے ’’پاکستان اسلامک فرنٹ‘‘ کے قیام کا اعلان سامنے آگیا جس کے لیے نہ کسی اور مذہبی جماعت سے مشورہ کی ضرورت محسوس کی گئی تھی اور نہ ہمارے ساتھ ہمیں اعتماد میں لینے کا وعدہ پورا کیا گیا تھا۔

پاکستان اسلامک فرنٹ کس طرح بنا، اسے آگے بڑھانے کے لیے کون سے طریقے اختیار کیے گئے اور الیکشن میں اس کا کیا حشر ہوا، یہ ایک الگ موضوعِ گفتگو ہے۔ لیکن اس مرحلہ میں اتنی گزارش ضرور کرنا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک قاضی صاحب کی اس حکمت عملی کے دو مقاصد تھے، ایک میں وہ کامیاب ہوئے ہیں جبکہ دوسرے میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک طرف انہوں نے میاں محمد نواز شریف کو یہ بتانا چاہا کہ میاں صاحب جماعت اسلامی کے بغیر وزیراعظم کے منصب تک نہیں پہنچ سکتے کیونکہ جماعت اسلامی میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی نہ سہی لیکن مسلم لیگ کی پندرہ بیس سیٹیں خراب کرنے کی صلاحیت ضرور موجود ہے اور انتخابی نتائج گواہ ہیں کہ قاضی صاحب کو اس مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ جبکہ دوسری طرف قاضی صاحب کا مقصد مذہبی جماعتوں پر یہ واضح کرنا تھا کہ جماعت اسلامی ملک کی سب سے بڑی مذہبی قوت ہے اس لیے دوسری مذہبی جماعتیں جماعت اسلامی کے ساتھ برابر کی جماعتوں کی حیثیت کا اظہار نہ کریں بلکہ اسی کے پیچھے چل کر اپنا سیاسی مستقبل اس کے ساتھ وابستہ کر لیں۔ اس میں قاضی صاحب کو مکمل ناکامی ہوئی ہے اور ان کے تمام اندازے اور خوش فہمیاں نقش برآب ثابت ہوئی ہیں۔

قاضی حسین احمد صاحب کے علاوہ ہم اور رہنماؤں سے بھی ملے۔ مولانا عبد الستار خان نیازی سے ملاقات کی، مولانا فضل الرحمان سے ملے، مولانا سمیع الحق کی خدمت میں حاضری دی اور مولانا اعظم طارق کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا مگر مذہبی جماعتوں کو انتخابات کے لیے ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کا کوئی دروازہ ہمیں کھلا دکھائی نہ دیا۔

حضراتِ محترم! اگر آپ اجازت دیں تو تھوڑی سی گھر کی بات بھی کر لوں۔ جمعیت علماء اسلام میرا گھر ہے اور گھر کے حوالہ سے بھی دل کے زخموں کو کریدنا چاہتا ہوں۔ مولانا عبد الحفیظ مکی ہمارے محترم دوست ہیں، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحبؒ کے خلیفہ مجاز ہیں اور مکہ مکرمہ میں رہتے ہیں۔ وہ مکہ مکرمہ سے تشریف لائے تو ہم دونوں اکٹھے مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق سے ملے اور جماعتی اتحاد کے لیے گزارش کی۔ دونوں کا جواب ایک ہی تھا، اندازِ بیان میں فرق ہو سکتا ہے لیکن مفہوم و مقصد ایک ہی تھا کہ جمعیت علماء اسلام کا اتحاد کوئی قابل عمل تجویز نہیں ہے۔ دونوں راہنماؤں سے ہماری دوسری گزارش یہ تھی جو میں نے ’’اضعف الایمان‘‘ کہہ کر ان کی خدمت میں پیش کی کہ کم از کم انتخابی نشستوں پر ہی مفاہمت کر لیں کیونکہ ۱۹۹۰ء کے الیکشن میں جمعیت کے دونوں دھڑوں کے باہمی مقابلہ کی وجہ سے کئی نشستیں ضائع ہو گئی تھیں۔ دونوں راہنماؤں نے اس پر اتفاق کیا کہ سیٹوں پر انتخابی مفاہمت ہو سکتی ہے اور ہم اس کے لیے کوئی عملی صورت ضرور اختیار کر لیں گے۔ لیکن بدقسمتی ہم پر غالب آگئی اور ایسا بھی نہ ہو سکا۔ میں اپنے جماعتی راہنماؤں کی سیاسی بصیرت کو آخر کن الفاظ سے تعبیر کروں کہ جو سیٹیں ۱۹۹۰ء کے الیکشن میں باہمی مقابلہ کی وجہ سے ضائع کی گئی تھیں، وہ اور ان کے ساتھ کچھ اور سیٹیں اس الیکشن میں بھی اسی گروہی کشمکش کی وجہ سے ضائع کر دی گئی ہیں۔ انتخابی نتائج کے مطابق اگر جمعیت کے دونوں دھڑے ہی انتخابی مفاہمت کر لیتے تو اس وقت قومی اسمبلی میں جمعیت کے پاس ایک درجن سے زائد نشستیں ہوتیں لیکن راہنماؤں کی شخصی انا اور دھڑے بندی کی ترجیحات نے غریب کارکنوں کی محنت اور آرزوؤں کا سربازار خون کر دیا ہے اور کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ہے۔

حضراتِ محترم! اب میں آخری نکتہ کی طرف آتا ہوں کہ آئندہ کیا ہوگا؟ اس سلسلہ میں دوٹوک بات عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں ایک بات کا گہری سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا ہوگا کہ کیا ابھی ہم نے انتخابی سیاست کے میدان میں مزید کچھ عرصہ رہنا ہے؟ اگر رہنا ہے تو اس کے تقاضے پورے کرنا ہوں گے اور اس کا سب سے بڑا تقاضا یہی ہے کہ دینی جماعتیں شخصی انا اور گروہی ترجیحات کے حصار سے باہر نکلیں اور ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے متحد ہو کر دینی سیاست کا جداگانہ تشخص قائم کریں۔ اس کے سوا اب کوئی راستہ نہیں ہے اور اگر اب بھی دینی جماعتیں اپنی موجودہ روش پر قائم رہیں تو یہ بات نوٹ کر لیں کہ رائے عامہ اور اسٹریٹ پاور تو آپ کے ہاتھ سے پہلے ہی نکل چکی ہے، اگلے دو انتخابات میں رہی سہی انتخابی نمائندگی کا مسئلہ بھی صاف ہو جائے گا اور یورپ کے عیسائی پادری کی طرح پاکستان کے علماء کے لیے بھی اجتماعی زندگی کے معاملات شجر ممنوعہ بن کر رہ جائیں گے۔ حالات کا رخ اسی منزل کی طرف ہے اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے حالات کے سفر کو روکا نہیں جا سکتا۔ اور اگر ملک کی مذہبی جماعتیں اور دینی قائدین یہ نہیں کر سکتے اور ان کے لیے شخصی انا اور گروہی تحفظات دین و ملت کے ہر تقاضے سے بالاتر ہو چکے ہیں تو پھر خدا کے لیے انتخابی سیاست چھوڑ دیں، یہ آپ کے بس کا روگ نہیں ہے۔ اپنی رہی سہی قوت کو دھیرے دھیرے گمنامی کے سمندر میں دھکیلنے کی بجائے اس قوت سے کوئی اور کام لے لیں۔

انتخابی سیاست کوئی حرف آخر تو نہیں ہے، یہ ایک طریق کار تھا جو ہمارے اکابر نے اپنے وقت اور زمانہ کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اختیار کیا تھا۔ یہ وحیٔ الٰہی نہیں ہے، جدوجہد کے اور بھی طریق کار ہو سکتے ہیں اور پھر یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ اس انتخابی سیاست کی خاطر ہمیں کہاں کہاں قربانی دینا پڑی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کی فضا مکدر ہو گئی ہے، تعلیمی نظام تباہ ہوگیا ہے، علمی استعداد کا بیڑہ غرق ہوگیا ہے، اخلاقی قدریں پامال ہو گئی ہیں اور نئی نسل کی تربیت اور ذہن سازی کے ناگزیر تقاضے غارت ہوگئے ہیں۔ اتنی بڑی قربانی کے ساتھ انتخابی سیاست کا راستہ اختیار کرنے کے بعد بھی ہم اگر اس کے تقاضے پورے نہ کر سکیں تو تف ہے ہماری سیاست پر اور نفریں ہے ہماری سیاسی بصیرت پر۔

حضراتِ محترم! میں انتخابی سیاست کا اب بھی مخالف نہیں ہوں بشرطیکہ اس کے تقاضے پورے کیے جائیں لیکن دینی جماعتوں اور قائدین کی موجودہ سیاسی روش کو سامنے رکھتے ہوئے دکھی دل کے ساتھ یہ عرض کر رہا ہوں کہ قائدین اگر اپنی اصلاح کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو انتخابی سیاست کا طوق گلے سے اتار دیں اور کارکنوں کو کھلا چھوڑ دیں کہ جس سیاسی جماعت میں ان کے سینگ سمائیں اس میں چلے جائیں۔ وہ اس کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں؟ وقت گزرتا جا رہا ہے اور وہ وقت اب زیادہ دور نہیں ہے جب آپ کے ہاتھ میں یہ اختیار بھی باقی نہیں رہے گا اور وہ دن علماء کی سیاسی جدوجہد کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہوگا، اللہ تعالیٰ اس سے بچائیں، آمین۔

دوسری سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس

ادارہ

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی دوسری سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس ۱۴ مارچ ۹۶ء بروز جمعرات مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں انعقاد پذیر ہوئی۔ کانفرنس کی پہلی نشست کی صدارت الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر جنرل مولانا زاہد الراشدی نے کی اور بزرگ عالم دین شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے خطاب کیا، جبکہ دوسری نشست کی صدارت مولانا مفتی محمد عیسی خان گورمانی نے کی اور سپریم کورٹ کے سابق حج جسٹس محمد رفیق تارڑ بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے، اور ان کے علاوہ مولانا زاہد الراشدی، پروفیسر غلام رسول عدیم، جناب شکور طاہر، پروفیسر عطاء الرحمن عتیق اور الحاج محمد اسلم رانا نے اس نشست سے خطاب کیا۔ کانفرنس میں شہر اور ضلع کے مختلف تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور علماء کرام کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور گورنمنٹ ظفر علی خان ڈگری کالج وزیر آباد کے پروفیسر حافظ منیر احمد نے نظامت کے فرائض سر انجام دیے۔
کانفرنس کی پہلی نشست کا آغاز قاری احمد علی شاہد نے تلاوت کلام پاک سے کیا اور اس کے بعد الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر حافظ محمد عمار خان ناصر نے معزز مہمانوں اور شرکاء کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ قومی مقاصد اور اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے حوالہ سے مروجہ تعلیمی نظاموں کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ ریاستی نظامِ تعلیم اور دینی تعلیم دونوں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے مؤثر کردار ادا نہیں کر رہے، اور ان کی ترجیحات میں انقلابی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ دینی و عصری تعلیم کو یکجا کرنا وقت کا سب سے اہم تقاضا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں ملک کے مختلف حصوں میں تجربات کرنے والے اداروں اور شخصیات کو چاہیے کہ وہ اپنے تجربات اور جدوجہد کو مشاورت کے ایک مربوط نظام کے ساتھ منسلک کریں تاکہ اس جدوجہد کو ایک قومی تحریک کی شکل دی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ’’سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس‘‘ کے اہتمام کا مقصد بھی اسی احساس کو اجاگر کرنا ہے۔ 
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں مادی ترقی اور بدن کی آسائش کے لیے بہت کچھ ہو رہا ہے اور سائنسی علوم و فنون اس مقصد کے لیے وقف ہو کر رہ گئے ہیں، مگر روحانی سکون اور موت کے بعد آنے والی ابدی زندگی کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اسباب و وسائل کی فراوانی اور سائنسی ترقی کے عروج کے باوجود انسانی معاشرہ اطمینان اور سکون سے محروم ہے اور انسان قلبی اطمینان اور ذہنی سکون کے لیے مصنوعی سہارے تلاش کرنے پر مجبور ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی نظام کے بنیاد بدن اور روح دونوں کی ضروریات پر رکھی جائے اور ذہنی سکون اور قلبی اطمینان کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسولؐ کی تعلیمات کی طرف رجوع کیا جائے۔ 
انہوں نے دینی خدمات کے حوالہ سے دینی مدارس کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دینی مدارس نے اسلامی علوم کی حفاظت و ترویج میں مجاہدانہ خدمات سرانجام دی ہیں لیکن اب چونکہ بین الاقوامی رابطوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور دنیا سمٹ رہی ہے اس لیے علماء کرام کو انگریزی اور دیگر بین الاقوامی زبانوں سے بھی واقف ہونا چاہے تاکہ وہ اسلام کی تعلیم و تبلیغ کا فریضہ زیادہ بہتر اور مؤثر طور پر سر انجام دے سکیں۔ انہوں نے اپنے جنوبی افریقہ اور برطانیہ کے اسفار کا حوالہ دیا اور کہا کہ ان اسفار میں انہوں نے محسوس کیا ہے کہ اگر وہ انگریزی زبان سے بھی واقف ہوتے تو وہاں کے لوگوں کو زیادہ بہتر طریقے سے اپنی بات سمجھا سکتے تھے اور مافی الضمیر کا زیادہ مؤثر اظہار کر سکتے تھے۔ 
انہوں نے علماء کرام کو تلقین کی کہ وہ گفتگو اور خطاب میں لوگوں کی ذہنی سطح اور ان کی کمزوریوں کا لحاظ رکھیں کیونکہ سختی کے ساتھ بات کرنا اور طنز و تشنیع کا انداز اختیار کرنا قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون جیسے باغی اور سرکش کے پاس حضرت موسٰیؑ اور حضرت ہارونؑ جیسے جلیل القدر پیغمبروں کو بھیجا تو انہیں یہ ہدایت کی کہ اس کے ساتھ نرمی سے بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت قبول کر لے۔ 
کانفرنس کی دوسری نشست نماز ظہر کے بعد قاری ملک عبد الواحد کی تلاوت کلام پاک سے شروع ہوئی اور ماہنامہ المذاہب لاہور کے ایڈیٹر الحاج محمد اسلم رانا نے مسیحی مشنری تعلیمی اداروں کی کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے گفتگو کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ مسیحی تعلیمی ادارے بہتر معیار اور اچھے برتاؤ کے ذریعے ہمارے معاشرہ میں اثر و نفوذ بڑھا رہے ہیں اور اچھے اچھے گھرانے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے مشنری اداروں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جبکہ یہ مشنری ادارے مسلمان بچوں کو مسیحیت کی طرف راغب کرنے یا کم از کم اپنے مذہب سے بے گانہ کر دینے کو اپنا مشنری ہدف بنائے ہوئے ہیں، اور اس مقصد کے لیے وہ بظاہر غیر محسوس انداز میں مختلف طریقوں سے کام لیتے ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ مسلمان خاندانوں کو اس صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے منظم جدوجہد کی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے اچھے اور معیاری تعلیمی ادارے بھی وسیع پیمانے پر قائم کیے جائیں تاکہ مسلمان خاندان اپنے بچوں کو مشنری اداروں میں بھیجنے کی ضرورت محسوس نہ کریں۔
 گورنمنٹ ڈگری کالج گوجرانوالہ کے پروفیسر غلام رسول عدیم نے ’’پاکستان میں خواندگی کی شرح اور دینی مراکزژژ کے موضوع پر مقالہ پیش کیا جس میں بین الاقوامی رپورٹوں کے حوالہ سے پاکستان میں خواندگی کے تناسب کا ذکر کرتے ہوئے دینی مدارس اور مراکز پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بھی خواندگی کی شرح میں اضافہ کو اپنی ترجیحات میں مناسب جگہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ جناب رسول اللہ پر نازل ہونے والی وحی کا آغاز ہی ’’اقرا‘‘ کے لفظ سے ہوا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کا نقطۂ آغاز تعلیم ہے اور معاشرہ میں تعلیم اور خواندگی کا فروغ ہماری دینی ذمہ داری بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں خواندگی کی شرح افسوسناک حد تک ہے جس کا ایک سبب یہ ہے کہ جس رفتار سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کی مناسبت سے تعلیمی اداروں کی تعداد نہیں بڑھ رہی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قومی بجٹ میں تعلیم کے لیے جتنی رقم مختص ہونی چاہیے ، وہ نہیں ہو پاتی۔ اور تیسری وجہ یہ ہے کہ مروجہ تعلیمی نظام میں نا اہلی، کرپشن اور کام چوری نے راہ پالی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جتنا کام اس نظام سے لیا جا سکتا ہے وہ بھی پورا نہیں ہو رہا۔ 
انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے دینی مدارس و مکاتب لکھنے پڑھنے کی استعداد کی حد تک خواندگی کے فروغ کو اپنی ترجیحات میں دینی شامل کر لیں اور گرد و پیش کے مختلف طبقات کے لوگوں کو اپنے ہاں یہ سہولت فراہم کریں تو اس سے نہ صرف یہ کہ خواندگی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا بلکہ دینی مدارس کا حلقہ اثر بھی وسیع ہوگا اور وہ زیادہ لوگوں تک دین کا پیغام اور تعلیمات پہنچا سکیں گے۔ 
گورنمنٹ ڈگری کالج گوجرانوالہ کے پروفیسر عطاء الرحمٰن عتیق نے ’’اکیسویں صدی کے تعلیمی تقاضے‘‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے عقلی علوم، دینی تعلیمات اور روحانی تربیت کے مراکز کو الگ الگ کر کے اسکول، مدرسہ اور خانقاہ کی تثلیث قائم کر رکھی ہے جو ہمارے مسائل کی اصل جڑ ہے۔ جبکہ ایک انسان کو صحیح معنوں میں انسان بنانے کے لیے ان تینوں تعلیمات کی یکساں ضرورت ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ دنیا میں ترقی کے ذرائع، مادی وسائل اور علوم و فنون کی فراوانی کے باوجود مار دھاڑ، افراتفری اور اضطراب و بے چینی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جو اس امر کا ثبوت ہے کہ اصل ضرورت انسان کو انسان بنانے کی ہے اور صحیح انسانی اخلاق و کردار سے آراستہ ہو کر ہی علوم، ترقی اور وسائل سے مثبت استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اکیسویں صدی کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ ہم اسے صحیح انسان فراہم کریں، اور صحیح انسان فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسکول، دینی مدرسہ اور خانقاہ کی تثلیث کو ختم کر کے ان تینوں نظاموں کا یکجا کیا جائے اور ان کی خامیوں کو دور کر کے ان سے نئی نسل کی صحیح تعلیم و تربیت کا کام لیا جائے۔ 
پاکستان ٹیلی وژن اکیڈیمی اسلام آباد کے جناب شکور طاہر نے ’’فروغِ تعلیم میں الیکٹرانک میڈیا کا کردار‘‘ کے موضوع پر معلوماتی اور پرمغز مقالہ پیش کیا جسے مہمان خصوصی اور شرکاء نے بے حد سراہا۔ انہوں نے ریڈیو، ٹیلی وژن، آڈیو کیسٹ، ویڈیو کیسٹ، سیٹلائیٹ چینل، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ای میل، فیکس اور فوٹو اسٹیٹ مشین کے کردار اور طریق کار پر تفصیلی روشنی ڈالی اور شرکاء کانفرنس کو بتایا کہ الیکٹرانک میڈیا کے ان مختلف شعبوں کا دائرہ اثر کیا ہے اور وہ کس طریقہ سے لوگوں کے ذہنوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں یہ بات بالکل درست کی جاتی ہے کہ یہ میڈیا کا دور ہے اور کوئی گروہ، ادارہ یا قوم میڈیا کے ان ذرائع تک رسائی کے بغیر دنیا کے لوگوں تک اپنا پیغام اور پروگرام پہنچانے میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ ان ذرائع کا ایک بڑا حصہ فحاشی کے فروغ اور دیگر غلط اور منفی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ذرائع بہت بڑے دائرہ میں تعلیمی مقاصد کے لیے بھی کام میں لائے جا رہے ہیں، بالخصوص ترقی یافتہ ممالک نے ان ذرائع کی مدد سے اپنے تعلیمی نظاموں کو بہت زیادہ مؤثر، آسان اور ہمہ گیر بنا لیا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے تعلیمی پروگراموں میں ان ذرائع سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں۔  انہوں نے کہا کہ میڈیا کے ان مؤثر ترین ذرائع کے منفی استعمال کی روک تھام کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ ان کے مثبت استعمال کو فروغ دیا جائے اور نئی نسل کی صحیح تعلیم و تربیت کے لیے انہیں مؤثر طور پر کام میں لایا جائے۔
ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد جب فرنگی حکمرانوں نے اس وقت کے مروجہ تعلیمی نظام کو مکمل طور پر تہہ و بالا کر دیا تھا تو دینی علوم کی حفاظت کے لیے دیوبند اور نئی تعلیم سے مسلمانوں کو آراستہ کرنے کے لیے علی گڑھ نے اس کردار کو ادا کیا تھا۔ اور علماء کرام نے مسلمانوں کے عقائد و اعمال اور دین و اخلاق کے تحفظ کے لیے دینی مدارس کا جال پھیلا دیا تھا جس کی وجہ سے فرنگی حکمران یہاں دینی علوم کو ختم کرنے کے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ 
جبکہ آج اسی طرز پر ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، یونیسیف اور دیگر بین الاقوامی ادارے اس بات کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں کہ پاکستان کے ریاستی نظام تعلیم میں اسلامی تعلیمات کے موجودہ حصے کو بے اثر بنا دیا جائے اور دینی مدارس کے نظام کی کردار کشی اور ان پر ریاستی تسلط کی راہ ہموار کر کے اسے مکمل طور پر سبوتاژ کر دیا جائے، جس کا علامتی آغاز بلوچستان کے پرائمری اسکولوں کے نصاب سے حمد باری کو خارج کرنے کے اقدام سے ہو چکا ہے۔ اور پاکستان میں امریکہ اور بین الاقوامی اداروں کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے خلاف مزاحمتی قوتیں جس تیزی سے پسپا ہو رہی ہیں، اس کے پیش نظر استعماری قوتوں کا خیال یہ ہے کہ وہ ۱۸۵۷ء کی طرح اب بھی پاکستان میں دینی تعلیم کے نظام کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ 
انہوں نے دینی مدارس پر زور دیا کہ وہ اس صورت حال پر گہری نظر رکھیں اور آنے والے وقت میں نئی ذمہ داریوں کے لیے تیار رہیں کیونکہ استعماری قوتوں کے ان مذموم عزائم کی خدانخواستہ کامیابی کی صورت میں قوم کو دینی تعلیم کا متبادل نظام فراہم کرنے کا فریضہ مسجد کی چٹائی کو ہی سر انجام دینا ہو گا۔
مہمان خصوصی جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد رسوائے زمانہ میکالے نے ایک شیطانی نظام تعلیم مرتب کر کے دعویٰ کیا کہ اس سے ایسا طبقہ پیدا ہو گا جو خون اور رنگ کے اعتبار سے ہندوستانی مگر خیالات و تمدن میں انگریز ہو گا۔ اس نظام تعلیم کے نفاذ سے دو مقاصد کا حصول اس کے پیش نظر تھا (۱) دفتروں کے لیے کلرک پیدا کرنا اور (۲) مسلمانوں کو ان کے دین سے بیگانہ کر کے دینی اقدار محروم کرنا۔ 
چنانچہ نوآبادیاتی دور کے ڈیڑھ صدیوں پر محیط لمبے دورانیے میں فرنگی نے مسلمانوں میں اپنے کاسہ لیس وطن فروش ٹوڈیوں کے خاندانوں کی اس طرح تربیت کی کہ وہ اپنی چال ڈھال، نشست و برخواست اور بودوباش میں آج تک مغربی معاشرہ کی نقل مطابق اصل ہیں، اور وطن عزیز میں قیادت کا تاج گزشتہ پچاس برس سے انہیں خاندانوں کے افراد کے سروں پر سجتا چلا آ رہا ہے۔ ٹوڈیوں کی اس نسل کے ذریعے ایک طرف تو عصری نظام تعلیم کو بد سے بد تر شکل میں ڈھالا جا رہا ہے، اور دوسری طرف نیو ورلڈ آرڈر کے سب سے بڑے ہدف دینی مدارس پر یلغار اور مار دھاڑ کے ارادے بن رہے ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ اس نظام تعلیم کی حامل اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل لوگ اس وقت اس بدقسمت ملک پر حکمران ہیں اور ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد کے حوالہ سے ان کی کارکردگی کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں بلکہ اسے بھگت رہے ہیں۔ یہ یہودیوں اور عیسائیوں کے مرتب کردہ نیو ورلڈ آرڈر کو آگے بڑھانے کی شرط پر اپنے اپنے عہدوں پر قائم ہیں۔ ان سے یا انہی جیسے دوسرے تعلیم یافتہ لوگوں سے نفاذ اسلام کی توقع کرنا ایسے ہی ہے جیسے تھوہر کے پودے سے انگور کے خوشوں کی آرزو کرنا۔ 
انہوں نے معاشرہ میں دینی مدارس کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دینی اداروں کی وجہ سے عام طاغوتی سازشوں اور کوششوں کے باوجود اب بھی ملک کی بڑی بھاری اکثریت دینی اقدار سے جذباتی وابستگی رکھتی ہے اور وقت آنے پر جان تک کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ اس لحاظ سے دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں جن سے ہدایت کی روشنی پھیلتی اور ظلمت دم توڑتی ہے۔ دینی مدرسوں کا یہ کردار ابلیسی قوتوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے اور وہ عالم اسلام میں اپنے گماشتوں کے ذریعے انہیں ختم کرنے کے درپے ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ آنے والا دور اسلام کا دور ہے اور اسلامی انقلاب بہرحال آئے گا جسے کوئی نہیں روک سکتا اور ان شاء اللہ یہی دینی مدارس اس کا ہر اول دستہ ہوں گے۔ جسٹس تارڑ نے اس بات پر زور دیا کہ دینی و عصری تعلیم کی یکجائی کو فروغ دیا جائے اور اس مقصد کے لیے کام کرنے والے اداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔

تعارف و تبصرہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہنامہ ’’دینی صحافت‘‘ اسلام آباد

مدیر : سجاول خان رانجھا
ناشر : انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، نصر چیمبرز، بلاک ۱۹، مرکز ایف سیون، اسلام آباد 
برصغیر کی اردو صحافت میں دینی جرائد کا سلسلہ بھی اردو صحافت کے آغاز ہی سے چلا آ رہا ہے اور مختلف ادوار میں ممتاز علمی شخصیات اور اداروں کے جرائد اردو صحافت میں وقیع حیثیت کے حامل رہے ہیں جن میں تہذیب الاخلاق، الہلال، معارف اور برہان جیسے علمی جرائد کا بطور خاص تذکرہ کیا جا سکتا ہے۔ 
قیام پاکستان کے بعد دینی جرائد کا دائرہ نوع اور توسیع کے لحاظ سے تو بہت پھیلا ہے لیکن مقصدیت اور معیار کے نقطۂ نظر سے معدودے چند جرائد ہی اس سمت سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم غنیمت ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے سینکڑوں جرائد اپنے اپنے نقطۂ نظر سے دین حق کا پیغام لوگوں تک پہنچانے میں مصروف ہیں اور میدان بالکل خالی نہیں ہے۔ 
ایک عرصہ سے اس امر کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ دینی جماعتوں، اداروں اور شخصیات کی طرف سے شائع ہونے والے جرائد کے درمیان رابطہ اور مفاہمت کی کوئی صورت پیدا ہو، تاکہ ان کی مساعی میں اجتماعیت کا رنگ ابھرے اور افادیت و مقصدیت میں اضافہ ہو۔ انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد نے دو سال قبل ماہنامہ ’’دینی صحافت‘‘ کا آغاز کر کے اس مقصد کی طرف اہم پیش رفت کی ہے۔ 
یہ جریدہ ملک بھر سے شائع ہونے والے دینی جرائد سے قارئین کو متعارف کراتا ہے اور عرق ریزی کے ساتھ ان کا مطالعہ کر کے اہم عنوانات پر ان کی آراء کا نچوڑ پیش کرتا ہے، جس سے دینی صحافت کے مجموعی موقف اور رجحانات سے آگاہی حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ماہنامہ دینی صحافت نے مغربی نظریات و افکار کو وقت کی ضروریات کے مطابق قارئین کے سامنے لانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے جو دینی جرائد کی بھی ایک مفید خدمت ہے۔
گزشتہ دو سال کے دوران اس موقر جریدہ نے اپنے معیار اور افادیت کو بڑھانے کی جس طرح محنت کی ہے، اس پر جریدہ کی ادارتی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت دینی صحافت کو اپنے نیک مقاصد میں کامیابی سے ہمکنار کریں، آمین۔

’’حقوق العباد احادیث مطہرہ کے آئینے میں‘‘

یہ رسالہ ممتاز شاعر جناب سرور میواتی نے ترتیب دیا ہے اور ایک مخیر بزرگ حاجی محمد شریف مغل صاحب، الپائن انڈسٹریل کون لمیٹڈ، ۳۰۵ جی ٹی روڈ باغبانپورہ لاہور سے چھپوا کر اسے مفت تقسیم کر رہے ہیں۔ دو روپے کے ڈاک ٹکٹ بھیج کر یہ معلوماتی رسالہ منگوایا کا سکتا ہے۔ 

’’احادیثِ نماز‘‘

اس رسالہ میں مولانا محمد یوسف فقیر دہلویؒ نے نماز کے بارے میں احادیث کا ایک مجموعہ پیش کیا ہے۔ مدرسہ ناصر العلوم مانگا منڈی ضلع لاہور سے یہ رسالہ ایک روپے کے ڈاک ٹکٹ بھیج کر منگوایا جا سکتا ہے۔

’’خلاصہ مضامین سور القرآن‘‘

مولانا قاری حمید الرحمٰن صاحب خطیب جامع مسجد عمر فاروقؓ منگرال راولپنڈی نے قرآن کریم کے مضامین کا خلاصہ قلم بند کیا ہے اور ہر رکوع کا الگ الگ مفہوم بیان کیا ہے جس سے ایک عام قاری کے لیے بھی قرآن کریم کے مضامین کو سمجھنا آسان ہو گیا ہے۔ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس اللہ سرہ العزیز کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے اور زبان عام فہم ہے۔ بالخصوص جو حضرات رمضان المبارک میں تراویح کے دوران قرآن کریم کی قراءت کے ساتھ ساتھ اس کا خلاصہ بیان کرنے کا ذوق رکھتے ہیں، ان کے لیے یہ بیش بہا تحفہ ہے۔
صفحات ۷۰۲، کتابت و طباعت عمدہ، مضبوط جلد سے مزین، ناشر: السید انٹرپرائزز، الفضل مارکیٹ، ۱۷ اردو بازار لاہور ۵۴۰۰۰

’’خطبات سواتی (جلد دوم)‘‘

حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی دامت برکاتہم کے دروس اور خطبات اب ملک کے دینی و علمی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں رہے اور ہزاروں علماء و طلبہ ان سے استفادہ کر رہے ہیں۔ 
زیر نظر مجموعہ ’’خطباتِ سواتی جلد دوم‘‘ ہے جس میں محرم الحرام، صحابہؓ اور اہل بیتؓ سے عقیدت، رضائے الہٰی کے حاملین، امت کی مرکزی جماعتیں، آخرت میں ناکامی کے اسباب، اسلام کا نظام عفت و عصمت، اجتماعیت کی ضرورت و اہمیت، عقل معاش اور معاد، قرآن کریم سے اعراض کا نتیجہ، تقویٰ اور اس کے تقاضے، عید الفطر اور عید الاضحٰی جیسے اہم موضوعات پر حضرت صوفی صاحب مدظلہ کے گراں قدر خطبات شامل ہیں۔ صفحات ۴۱۶، کتابت و طباعت عمدہ، مضبوط جلد، قیمت ۱۱۰ روپے اور ملنے کا پتہ مکتبہ دروس القرآن فاروق گنج گوجرانوالہ۔

’’ماہِ فضل و کمال‘‘

جامعہ قاسم العلوم فقیر والی ضلع بہاولنگر کے بانی حضرت مولانا فضل محمد نور اللہ مرقدہ ملک کے بزرگ علماء میں سے تھے، جنہوں نے دینی تعلیمات کے فروغ اور عام مسلمانوں کے عقائد و اصلاح کے لیے سلف صالحینؒ کی طرز پر خلوص اور سادگی کے ساتھ محنت کی اور وہ بلا شبہ اپنے عظیم اکابر کا نمونہ تھے۔ جناب شاہ ابن مسعود قریشی نے اس مرد درویش کے حالاتِ زندگی اور دیگر ضروری متعلقات کو اس مجموعہ میں پیش کیا ہے۔ اس کے صفحات پانچ سو سے زائد ہیں اور قیمت ایک سو پچھتر روپے ہے جبکہ اسے القاسم اکیڈیمی ۲۸۵ جی ٹی روڈ باغبان پورہ لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ 

’’چودہ میزائیل‘‘

مولانا منظور احمد چنیوٹی تحریک ختم نبوت کے سرگرم راہ نماؤں میں سے ہیں اور ان کی ساری زندگی فتنہ قادیانیت کے تعاقب میں گزری ہے، انہوں نے مختلف مراحل پر قادیانیت کے بارے میں مؤثر کتا بچے تحریر فرمائے جو قادیانیت کے دجل و فریب کو بے نقاب کرنے کا ذریعہ بنے۔ ان میں سے چودہ کتابچوں کو ایک مجموعہ کی شکل میں شائع کیا گیا ہے جو قادیانیت سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے ایک قابل قدر ذخیرہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ صفحات ۴۰۸، کتابت و طباعت معیاری، مضبوط جلد، قیمت ۱۵۰ روپے۔ ملنے کا پتہ ادارہ مرکز یہ دعوت و ارشاد چنیوٹ پاکستان۔ 

’’تھوڑا جیہا ہس لو‘‘

شاعرِ اسلام الحاج سید امین گیلانی اور ان کے فرزند سید سلمان گیلانی کو قدرت نے شعر و ادب کے عمدہ ذوق کے ساتھ حق کی ترجمانی کے جذبہ سے بھی نوازا ہے اور ملک بھر کی دینی مجالس میں ان کا کلام اہل حق کے دلوں کو گرمانے کا باعث بنتا ہے۔ ان کے کلام کے متعدد مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔
زیر نظر مجموعہ سید سلمان گیلانی کے مزاحیہ کلام پر مشتمل ہے جو ان کی بے تکلفانہ مجلسی گفتگو کی طرح ہی بے ساختہ ہے۔ صفحات ۱۴۴ قیمت ۷۰ روپے، ملنے کا پتہ ادارة السادات شرقپور روڈ شیخوپورہ۔

’’حرمتِ متعہ‘‘

دورِ جاہلیت کے جن معاشرتی اقدار کو اسلام نے شرفِ انسانی کے منافی سمجھتے ہوئے مٹایا، ان میں ’’متعہ‘‘ بھی ہے۔ یعنی وقت مقررہ کے لیے معاوضہ پر کسی عورت کے ساتھ جنسی تعلقات کا استحقاق جو جاہلیت کے دور میں نکاح کی طرح جائز شمار ہوتا تھا، مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا اور وہ اسلام میں قطعی حرام پایا۔ اس کی حرمت پر اہلِ سنت کا چودہ سو برس سے اجماع چلا آ رہا ہے، البتہ اہل تشیع ابھی تک اس کے جواز پر اڑے ہوئے ہیں۔ 
جامعہ ابراہیمیہ سیالکوٹ کے مہتمم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد علی جانباز نے اس مسئلہ پر فریقین کے موقف اور استدلال کا محققانہ جائزہ لیتے ہوئے اہل سنت کی حقانیت کو واضح فرمایا ہے۔ صفحات ۳۷۵، کتابت و طباعت عمدہ، مضبوط جلد، قیمت ۹۰ روپے۔ ملنے کا پتہ: شعبہ نشر و اشاعت جامعہ ابراہیمیہ، ناصر روڈ، سیالکوٹ۔

قافلۂ معاد

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

الشيخ جاد الحق على جاد الحقؒ

عالم اسلام کی ممتاز علمی شخصیت اور جامعہ ازہر کے سربراہ معالى الدكتور الشيخ جاد الحق علی جاد الحق گزشتہ دنوں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم اسلامی دنیا کی محترم دینی شخصیت، متبحر عالم دین اور جامعہ ازہر کی باوقار روایات کے امین تھے۔ ’’الشریعہ‘‘ نے اکتوبر ۱۹۸۹ء میں اپنے سفر کا آغاز کیا تو اسلامی نظام کے نفاذ کے حوالہ سے راقم الحروف کے چند سوالات کے جواب میں ان کا تحریر فرمودہ مقالہ ہماری جدوجہد کے اس نئے دور کا نقطۂ آغاز بنا جو ان کے تبحر علمی اور وسعت نظر کا آئینہ دار ہے۔ ان کی وفات عالم اسلام کے دینی و علمی حلقوں کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مغفرت فرمائیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا الہ العالمین۔ 

الشيخ محمد الغزالیؒ

عالم اسلام کی ایک اور ممتاز علمی شخصیت فضیلۃ الشيخ محمد الغزالی بھی گزشتہ دنوں رحلت فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم اخوان المسلمون کے ابتدائی راہ نماؤں میں سے تھے اور ان کا شمار ممتاز اصحاب قلم اور محققین میں ہوتا تھا، ان کی تصنیفات و مقالات سے اسلامی دنیا ایک عرصہ تک استفادہ کرتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور اپنی رضا و خوشنودی سے نوازیں، آمین یا الہ العالمین۔ 

حکیم محمد سلیم چوہدری مرحوم

گوجرانوالہ کے معروف طبیب اور سماجی راہ نما حکیم محمد سلیم چوہدری گزشتہ روز انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم ہمارے اچھے دوستوں میں سے تھے۔ ان کا تعلق سیاسی طور پر پیپلز پارٹی سے تھا مگر تحریک ختم نبوت اور دیگر دینی تحریکات میں ہمیشہ دل چسپی لیتے اور سرگرم کردار ادا کرتے رہے۔ طب یونانی کی ترقی اور اطباء کی فلاح و بہبود کے لیے مسلسل سرگرم رہے اور اس مقصد کے لیے پاکستان طبی کانفرنس کی بنیاد رکھی۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا الہ العالمین۔

خربوزہ

حکیم عبد الرشید شاہد

غذائیت سے بھرپور خربوزہ ایک عجیب پھل ہے جس کا گودہ، مغز اور چھلکا سب غذائی اور دوائی ضرورت کے کام آتے ہیں۔ خربوزہ، گرما، سردا سب ایک ہی خاندان کے پھل ہیں جو آب و ہوا کے اثر سے مختلف دلکش شکلوں میں ہمارے دستر خوان کی رونق بنتے ہیں۔ گرمی کے موسم میں جب مخلوق گرم لو کی تپش سے تربیتی اور بے قرار ہو جاتی ہے تو اس سے ستا، خوش مزہ اور تسکین دینے والا شاید ہی کوئی پھل مارکیٹ میں ہمیں مل سکے۔ جس طرح ایک ننھے سے بیج کے ذریعہ خربوزہ کی ہری بھری نازک شاخیں سیروں وزنی رنگا رنگ خوبصورت نقش و نگار والے متعدد پھل زمین پر پھیلا دیتی ہیں، اس کے استعمال سے بدنی خشکی دور ہوتی ہے، رگ پٹھوں کی قدرتی چک بحال ہوتی اور ہماری بھوک کو تسکین ہو جاتی ہے۔ 
میٹھا خربوزہ گرم تر، ترش سرد تر، اور پھیکا معتدل مزاج رکھتا ہے۔ تندرست معدہ اس کو ڈیڑھ دو گھنٹے میں ہضم کر لیتا ہے۔ رطوبت کی زیادتی کی وجہ سے ٹھنڈے مزاج بوڑھوں کو تین چار گھنٹے اس کے ڈکار آتے رہتے ہیں۔ آدھ سیر خربوزہ میں دو روٹیوں کے برابر غذائیت ہوتی ہے۔ خربوزہ معدہ، آنتوں اور غذا کی نالی کی خشکی دور کر کے ان میں رکے ہوئے زہریلے فضلات خارج کرتا ہے، قبض دور کرتا ہے اور بدن کا رنگ نکھارتا ہے۔ 
قدرت نے یورک ایسڈ اور دوسرے جمنے والے زہریلے فضلات پیشاب کے ذریعے خارج کرنے کی خاصیت بھی اس میں شامل فرمائی ہے۔ اس کا کثرت استعمال گردوں کو صاف کرتا ہے اور ان میں جمی ہوئی کثافتوں کو باہر نکال پھینکتا ہے۔ مثانہ، گردوں کی معمولی ریگ اور پتھری بھی اس کے ذریعہ خارج ہو جاتی ہے۔ 
نوجوان لڑکیوں میں پیٹرو کے مقام پر بوجھ، پیشاب کی جلن، سوزش اور خاص ایام کی خرابی دور کرنے کے لیے دوا بھی ہے اور لذیذ غذا بھی۔ روزانہ دو تین خربوزے ایک دو ماہ استعمال کرنے سے ایام کی خرابی دور ہونے کے علاوہ چہرہ کے داغ دھبے بھی صاف ہو جاتے ہیں۔ دودھ دودھ پلانے والی عورتوں میں اس کے استعمال سے دودھ کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ 
دردِ گردہ کے تڑپتے ہوئے مریض کو اس کے خشک چھلکے ایک تولہ، تین چھٹانک عرق گلاب میں ایک جوش دے کر چھان کر تین ماشہ نمک سیاہ ملا کر پلانا فوری تسکین کا باعث بنتا ہے۔ اس کا چھلکا ایک تولہ، ایک پاؤ گوشت میں پکاتے وقت ملا دینے سے گوشت جلدی گل جاتا ہے۔

قراردادِ مقاصد

ادارہ

۷ مارچ ۱۹۴۹ء کو پاکستان کے سب سے پہلے وزیر اعظم قائد ملت جناب لیاقت علی خان مرحوم نے ملک کی مجلس دستور ساز میں حسب ذیل قرارداد پیش کی۔ ۱۲ مارچ کو یہ قرارداد منظور کی گئی۔ یہ تاریخی قرارداد ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کے نام سے مشہور ہے:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ 
چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کُل کائنات کا بلا شرکتِ غیر حاکمِ مطلق ہے، اور اس نے جمہور کی وساطت سے مملکتِ پاکستان کو اختیارِ حکمرانی اپنی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کے لیے نیابتاً‌ عطا فرمایا ہے، اور چونکہ یہ اختیارِ حکمرانی ایک مقدس امانت ہے، لہٰذا جمہورِ پاکستان کی نمائندہ یہ مجلسِ دستور ساز فیصلہ کرتی ہے کہ آزاد و خودمختار مملکتِ پاکستان کے لیے دستور مرتب کیا جائے: 
  • جس کی رو سے مملکت کے جملہ حقوق و اختیاراتِ حکمرانی جمہور کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے سے استعمال کرے۔ جس میں اصولِ جمہوریت و حریت و مساوات و رواداری اور عدلِ عمرانی کو، جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے، پورے طور پر ملحوظ رکھا جائے۔
  • جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ انفرادی و اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و متقضیات کے مطابق، جو قرآن مجید اور سنتِ رسولؐ میں متعیّن ہیں، ترتیب دے سکیں۔ 
  • جس کی رو سے وہ علاقے جو فی الحال پاکستان میں داخل ہیں یا شامل ہو گئے ہیں، اور ایسے دیگر علاقے جو آئندہ پاکستان میں داخل یا شامل ہو جائیں، ایک وفاقیہ بنائیں، جس کے ارکان مقررہ حدودِ اربعہ و متعینہ اختیارات کے ماتحت خودمختار ہوں۔
  • جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے۔ اور ان حقوق و اخلاقِ عامہ کے ماتحت مساواتِ حیثیت و مواقع؛ قانون کی نظر سے برابری؛ عمرانی، اقتصادی اور سیاسی عدل؛ خیال، اظہار، عقیدہ، دین، عبادت اور ارتباط کی آزادی شامل ہو۔ 
  • جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ اور پست طبقوں کے جائز حقوق کے تحفظ کا وافی انتظام کیا جائے۔ 
  • جس کی رو سے نظامِ عدل کی آزادی کامل طور پر محفوظ ہو۔ 
  • جس کی رو سے وفاقیہ کے علاقوں کی صیانت، اس کی آزادی اور اس کے جملہ حقوق کا، جن میں اس کے بر و بحر اور فضائیہ پر سیادت کے حقوق شامل ہیں، تحفظ کیا جائے۔ 
تاکہ اہلِ پاکستان فلاح و خوشحالی کی زندگی بسر کر سکیں، اقوامِ عالم کی صف میں اپنا جائز اور ممتاز مقام حاصل کر سکیں، اور امنِ عالم کے قیام اور بنی نوع انسان کی ترقی و بہبودی میں کماحقہٗ اضافہ کر سکیں۔

۱۹۷۳ء کے دستور کی اہم اسلامی دفعات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قراردادِ مقاصد ۱۹۷۳ء کے دستور میں دیباچہ کے طور پر شامل کی گئی تھی جسے صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے ۸۵ء میں آئین میں ترمیم کے صدارتی آرڈر کے ذریعہ آئین کا قابلِ عمل حصہ قرار دے دیا۔ 
دستور کی دفعہ ۲ میں اسلام کو پاکستان کا ریاستی مذہب قرار دیا گیا ہے۔ 
دفعہ ۳۱ کے تحت اس امر کو حکومت کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جن سے پاکستان کے مسلمان انفرادی و اجتماعی زندگی قرآن و سنت کے مطابق گزار سکیں۔ انہیں قرآن و سنت کی تعلیمات اور عربی زبان کی تعلیم حاصل کرنے کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اسلام کی اخلاقی تعلیمات کی پابندی اور اسلامی اتحاد کا اہتمام کیا جائے۔ زکوٰۃ و عشر، اوقاف اور مساجد کی مناسب تنظیم و انتظام کیا جائے اور قرآن کریم کی صحیح اشاعت کا تحفظ مہیا کیا جائے۔ 
۱۹۷۴ء میں ہونے والی آئینی ترمیم کے ذریعہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے اور مسلمان کی آئینی تعریف متعین کی گئی ہے۔
وفعہ ۴۱ کے تحت صدر کے لیے مسلمان ہونا شرط قرار دیا گیا ہے۔ 
دفعہ ۲۲۷ کے تحت ضمانت دی گئی ہے کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جائے گا، اور موجودہ تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق بنا دیا جائے گا۔ 
دفعہ ۲۲۸ کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا کام قوانین پر نظر ثانی کر کے ان کے خلافِ اسلام حصوں کی نشاندہی کرنا اور حکومت کو رپورٹ پیش کرتا ہے۔ کونسل ہر سال عبوری رپورٹ پیش کرے گی اور اپنی تشکیل کے بعد سات سال کے اندر تمام قوانین کے بارے میں حتمی رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہوگی۔ کونسل کی رپورٹ متعلقہ اسمبلیوں میں پیش کر کے اس کے مطابق قانون سازی کی جائے گی۔
۷۹ ء اور ۸۰ء میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے دو صدارتی احکامات کے ذریعہ آئین کی دفعہ ۲۰۳ میں ترمیم کر کے ’’وفاقی شرعی عدالت‘‘ تشکیل دی، جسے اختیار دیا گیا کہ وہ کسی بھی قانون کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے کر حکومت کو اس میں ضروری ترمیم کے لیے کہہ سکتی ہے۔ مگر وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار سے آئین، عائلی قوانین، دستوری پروسیجر اور دس سال کے لیے مالیاتی قوانین کو مستثنٰی قرار دے دیا گیا۔

جولائی ۱۹۹۶ء

حکومت اور دینی مدارس کی کشمکش کا ایک جائزہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
تعلیمِ کتاب و حکمت: سنتِ نبویؐشیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ 
اجتماعی اجتہاد کی ضرورت اور اس کے تقاضےمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
جدید نظریاتی چیلنج اور علمائے کراممولانا محمد عیسٰی منصوری 
دینی مدارس، پس منظر اور مقاصد و خدماتمولانا حافظ صلاح الدین یوسف 
دینی مدارس، بنیاد پرستی اور انسانی حقوقمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
برق گرتی ہے تو بیچارے ملاؤں پرخورشید احمد گیلانی 
تعلیم کے فروغ میں الیکٹرانک میڈیا کا کردارشکور طاہر 
شرح خواندگی میں اضافہ اور دینی مراکزپروفیسر غلام رسول عدیم 
دوسری سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس سے جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ کا خطابجسٹس محمد رفیق تارڑ 
خیر مقدمڈاکٹر محمد عمار خان ناصر 
تعارف و تبصرہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
موسم برسات میں ہیضہ سے بچاؤ کے لیے خصوصی تدابیرحکیم عبد الرشید شاہد 
دینی مدارس اور زمانے کے تقاضےمولانا ابوالکلام آزادؒ 
دینی تعلیم کے مراکز اور آج کے تقاضےشیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ 
انگریزی زبان اور علمِ نافعشیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ 

حکومت اور دینی مدارس کی کشمکش کا ایک جائزہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’دینی مدارس، انسانی حقوق اور مغربی لابیاں‘‘ کے عنوان سے ’’الشریعہ‘‘ کی خصوصی اشاعت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ ہم نے اس شمارے میں شامل کرنے کے لیے مضامین کے انتخاب میں اس ضرورت کو پیش نظر رکھا ہے کہ دینی مدارس کے خلاف مغربی لابیوں اور میڈیا کی موجودہ مہم کے پس منظر اور مقاصد کو آشکارا کرنے کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے تقاضوں کے حوالہ سے دینی مدارس کے نصاب و نظام میں ناگزیر تبدیلیوں اور تعلیم کے جدید ذرائع اور مواقع سے دینی تعلیم کے لیے استفادہ کے امکانات کا جائزہ بھی قارئین کے سامنے آجائے، تاکہ اس موضوع سے دلچسپی رکھنے اور اس محاذ پر کام کرنے والے حضرات کو زیادہ وسیع تناظر میں اپنے موقف، طریق کار اور ترجیحات کے تعین کا موقع مل سکے۔

اس کے ساتھ ہی ان سطور میں اس کشمکش پر ایک نظر ڈال لینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے جو دینی مدارس کی حیثیت، اسناد اور ان کے مستقبل کے بارے میں حکومتی حلقوں اور مدارس کے درمیان موجود ہے۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے اس کی ہمیشہ سے یہ خواہش اور کوشش رہی ہے کہ ملک بھر کے پھیلے ہوئے ہزاروں دینی مدارس اگر سرکاری تحویل میں نہیں آتے تو کم از کم مالیاتی نگرانی اور امتحانات کے شعبوں میں ان پر ریاستی کنٹرول ضرور قائم ہو جائے۔ حکومتی حلقے اس کے لیے یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس سے دینی تعلیم کے نظام میں یکسانیت پیدا ہوگی، فرقہ واریت کی شدت میں کمی آئے گی، مالی بدعنوانیوں کے الزامات سے مدرسین کے منتظمین محفوظ ہو جائیں گے، نصاب میں عصری علوم شامل ہونے سے علماء کی تعلیم کا معیار بہتر ہوگا اور امتحانات کا ایک معیاری نظام قائم ہو جائے گا۔جہاں تک ان مقاصد کا تعلق ہے ان کی افادیت سے کوئی باشعو رانکار نہیں کر سکتا لیکن حکومت کو اس مہم میں کامیابی اب تک حاصل نہیں ہوئی اور نہ ہی مستقبل قریب میں حاصل ہونے کا کوئی امکان نظر آتا ہے جس کے اسباب ہمارے نزدیک یہ ہیں:

ان واقعات سے دینی حلقوں کا یہ ذہن مزید پختہ ہوگیا ہے کہ دینی مدارس پر ریاستی کنٹرول سے حکمرانوں کا مقصد یہ ہے کہ یہ مدارس یا تو جامعہ عثمانیہ اوکاڑہ کی طرح بالکل ختم ہو جائیں اور اگر ختم نہیں ہوتے تو جامعہ عباسیہ بہاولپور کی طرح سرکاری تعلیمی نظام میں ضم ہو کر اسی کا حصہ بن جائیں۔ اس وجہ سے بھی دینی مدارس اور ان سے وابستہ دیندار عوامی حلقے مدارس پر ریاستی کنٹرول یا سرکاری محکموں سے کسی درجہ کے تعلق کا ’’رسک‘‘ لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

حکومت پاکستان نے ایک دور میں دینی مدارس کی اسناد کو سرکاری سطح پر تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے دینی مدارس کی آخری سند (شہادۃ العالمیہ) کو ایم اے اسلامیات و عربی قرار دینے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا جسے ملک کی بعض یونیورسٹیوں نے تسلیم کیا اور اس کی بنیاد پر فضلائے درس نظامی کو ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے کے مواقع فراہم کیے۔ لیکن پنجاب یونیورسٹی اور محکمہ تعلیم کی نوکرشاہی نے اسے تسلیم نہ کیا اور اسے غیر مؤثر بنانے کی مسلسل تگ و دو ہوتی رہی۔ پنجاب یونیورسٹی نے اس سند کو تسلیم کرنے کے لیے پانچ سو نمبر کے بی اے کی شرط لگا دی لیکن یہ بھی محض رسمی کارروائی تھی کیونکہ خود ہم نے شاہ ولی اللہ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں اس بنیاد پر فضلائے درس نظامی کو ۵۰۰ نمبر کا بی اے کا امتحان دلانے اور اس کے بعد ایم اے اور پی ایچ ڈی کرانے کا نظام بنایا جس کے تحت فضلاء کی دو کلاسوں نے بی اے کا امتحان دیا۔ پنجاب یونیورسٹی نے امتحان لیا، رزلٹ کارڈ جاری کیے لیکن ڈگری دینے سے انکار کر دیا جس سے شاہ ولی اللہ یونیورسٹی گوجرانوالہ کا درس نظامی کے فضلاء کو عصری تعلیمی نظام کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کے حوالے سے سارا منصوبہ فلاپ ہوگیا جبکہ اس کے بعد بھی دینی مدارس کی اسناد کے بارے میں حکومتی پالیسی کے تذبذب کی وجہ سے ابھی تک کوئی متبادل پروگرام نہیں طے پا سکا۔

اس سلسلہ میں محکمہ تعلیم کی بیوروکریسی کی پالیسی مکمل طور پر حوصلہ شکن چلی آ رہی ہے اور ہمارے ایک محترم دوست نے، جو ملک بھر کے انٹرمیڈیٹ بورڈ کے چیئرمینوں کی مشترکہ کمیٹی کے سیکرٹری رہے ہیں اور ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، سرکاری کرسی پر بیٹھے ہوئے ہم سے صاف کہہ دیا تھا کہ ’’مولوی صاحب! دینی مدارس کی اسناد کی سرکاری حیثیت کی بات آپ بھول جائیں۔ یہ ضیاء الحق کا ڈنڈا تھا جس کی وجہ سے ہم خاموش ہوگئے تھے اور کچھ دیر بات چل گئی تھی۔ اب اگر آپ ڈگری کی بات کرتے ہیں تو آپ کو سرکاری نظام کے تحت پراپرچینل آنا ہوگا ورنہ ڈگری وگری کی بات ذہن سے نکال دیں، ایسا کبھی نہیں ہوگا۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ سرکاری کالجوں اور سکولوں میں ’’درس نظامی گروپ‘‘ کے نام سے وفاقی محکمۂ تعلیم کا وہ منصوبہ بھی شکوک و شبہات کی نذر ہوتا دکھائی دے رہا ہے جس کی تیاری میں محکمہ تعلیم کے ایسے افسران شامل ہیں جن کی دینداری اور دینی حمیت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ سرکاری کالجوں اور سکولوں میں ’’’درس نظامی گروپ‘‘ کے نام سے دینی تعلیم کا یہ پروگرام وفاقی وزارت تعلیم نے تیار کیا جسے انٹرمیڈیٹ بورڈوں کی مشترکہ کمیٹی کے اجلاس میں ملک بھر کے انٹرمیڈیٹ بورڈز کے چیئرمینوں نے منظور کر لیا اور میٹرک اور ایف اے کے درجہ تک نصاب کی تفصیلات طے کر کے اس کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا جا چکا ہے۔ اس نوٹیفیکیشن کا نمبر (F-۱-۲/۹۳-IF-II) ہے اور ۲۷ ستمبر ۱۹۹۴ء کو وفاقی وزارت تعلیم کے اسسٹنٹ ایجوکیشنل ایڈوائزر جناب محمد حنیف کے دستخطوں سے جاری ہوا ہے۔ اس کے مطابق میٹرک میں ۱۰۰ نمبر کی انگریزی، ۱۰۰ نمبر کی اردو، ۷۵ نمبر کا مطالعہ پاکستان، ۱۰۰ نمبر کی جنرل سائنس اور ۱۰۰ نمبر کی جنرل ریاضی کے ساتھ ۱۰۰ نمبر کا ترجمہ قرآن کریم (الفاتحہ تا النساء)، ۱۰۰ نمبر کی حدیث و سیرت، ۱۰۰ نمبر کی صرف و نحو (علم الصیغہ، شرح مائۃ عامل، ہدایہ النحو) اور ۷۵ نمبر کی فقہ (قدوری) شامل کر کے میٹرک کے ساڑھے آٹھ سو نمبر مکمل کیے گئے ہیں۔ جبکہ ایف اے میں نصاب کی تفصیل یوں ہے: انگلش ۱۰۰ نمبر، اردو ۱۰۰ نمبر، مطالعہ پاکستان ۵۰ نمبر، ترجمہ قرآن کریم (المائدہ تا الکہف) ۱۵۰ نمبر، حدیث اور اصول حدیث ۱۰۰ نمبر، فقہ ۱۰۰ نمبر، اصول فقہ ۱۰۰ نمبر، صرف و نحو ۱۰۰ نمبر، عربی ادب ۱۰۰ نمبر، منطق ۱۰۰ نمبر، تاریخ اسلام ۱۰۰ نمبر۔ اور اس طرح ایف اے کے گیارہ سو نمبر مکمل کیے گئے ہیں۔

اسی طرح ایک دائرہ میں وہ دینی مدارس شامل ہیں جنہوں نے درس نظامی کے ساتھ میٹرک، ایف اے اور بی اے کی ریگولر تعلیم اور امتحانات کو اپنے نظام میں شامل کر لیا ہے اور ’’نظامت تعلیمات اسلامیہ‘‘ کے نام سے ایک الگ وفاق قائم کر کے اس بنیاد پر کام شروع کر دیا ہے۔ اس وفاق کا ہیڈکوارٹر جامعہ منطور الاسلامیہ عیدگاہ لاہور چھاؤنی میں قائم ہے۔ ان حضرات نے اس مقصد کے لیے درس نظامی کے مروجہ نصاب میں تخفیف کی ہے جو بعض اہل علم کے نزدیک محل نظر ہے لیکن بہرحال ایک تجرباتی کام کا آغاز ہوگیا ہے۔ دوسرے حصہ میں وہ حضرات ہیں جو درس نظامی کے نصاب اور سکولوں کالجوں کے نصاب کو گڈمڈ کر دینے کے قائل نہیں ہیں اور سکول و کالج کے نصاب کو بنیاد بنا کر اس میں دینی تعلیم کو اس حد تک سمو دینا چاہتے ہیں کہ اس نصاب سے گزرنے والا طالب علم قرآن و حدیث سے استفادہ کی اہلیت حاصل کر سکے اور دین کے بارے میں ضروری معلومات رکھنے والا مسلمان ہو۔ اس کے ساتھ ہی وہ درس نظامی کے فضلاء کے لیے کسی ایسے نظام کے خواہشمند ہیں کہ ان میں سے ذہین اور باصلاحیت حضرات عصری تعلیم کے ضروری مراحل سے گزر کر قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں داخل ہوں تاکہ عدلیہ اور انتظامیہ میں دینی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور رجال کار کی کمی کا خلا کم سے کم کیا جا سکے۔ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے قیام کا بنیادی ہدف یہی ہے جو ابھی تجربات کے مد و جزر سے گزر رہی ہے۔

ہمارے نزدیک پروفیسر محمد طاہر القادری، ڈاکٹر اسرار احمد، پیر محمد کرم شاہ الازہری، مولانا محمد اکرم اعوان اور ان جیسے دیگر ارباب فکر و دانش کے قائم کردہ مختلف تعلیمی نظام اسی تیسرے عنصر کے دائرے میں شامل ہیں اور ان کے علاوہ بھی ملک بھر میں عربک سکولوں، اکیڈمیوں اور اداروں کا ایک وسیع سلسلہ دن بدن بڑھ رہا ہے۔ اور اگر ان سب کے درمیان مفاہمت و مشاورت کا کوئی نظام قائم ہو جائے تو قومی سطح پر ایک مستقل نظام تعلیم کا مضبوط نیٹ ورک سامنے آسکتا ہے۔

آخر میں ہم ایک اور عنصر کی نشاندہی بھی ضروری سمجھتے ہیں اور وہ دینی مدارس کے وہ فضلاء ہیں جو وفاق ہائے دینی مدارس کی اسناد کی نیم دلانہ سرکاری حیثیت کی بنیاد پر سرکاری سکولوں اور کالجوں میں گئے، وہاں مسائل کا شکار ہوئے، ماحول میں اپنے لیے اجنبیت محسوس کی، سرکاری اہل کاروں کے ہاں دوسرے درجے کے ملازمین قرار پائے اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ایسوسی ایشنیں قائم کر لیں۔ یہ حضرات دینی مدارس کے فضلاء ہیں، دینی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور ہیں، ملازمت کے حوالہ سے دینی مقاصد اور مشنری جذبہ رکھتے ہیں لیکن مشکلات اور رکاوٹوں کا شکار ہیں۔ مختلف شہروں میں ان کی تنظیمیں قائم ہیں، گزشتہ ماہ ڈیرہ غازی خان میں ایسے ہی دوستوں کی ایک تنظیم ’’رابطہ فضلائے اسلامی‘‘ کے کنونشن میں ہمیں بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔ اس کے کنوینر مولانا محمد ادریس (پوسٹ بکس ۵۴ ڈیرہ غازی خان) ہیں اور فضلائے درس نظامی کو متحد و منظم کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ کنونشن میں ہم نے دینی مدارس کے بارے میں بہت سی گزارشات کیں جن کا ایک حصہ اس مضمون میں آگیا ہے۔ اور یہ بھی گزارش کی کہ اس رخ پر کام کرنے والے فضلاء کی تنظیموں کو باہمی مشاورت و رابطہ کے ساتھ ملکی سطح پر اپنا کوئی مشاورتی نظام قائم کرنا چاہیے۔ اب پھر ان سطور میں ہم اس گزارش کو دہرا رہے ہیں کہ دینی مدارس کے فضلاء کی مختلف شہروں میں کام کرنے والی تنظیمیں قومی سطح پر اپنا کوئی نظام قائم کر سکیں تو یہ نہ صرف ان کے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے مفید بات ہوگی بلکہ عمومی دینی جدوجہد میں بھی وہ ایک مؤثر اور فعال عنصر کے طور پر شریک ہو سکیں گے۔

یہ ہے ایک ہلکا سا نقشہ قومی زندگی میں دینی تعلیم کے سلسلہ میں مختلف سطحوں پر پائی جانے والی فکری و عملی کشمکش کا جس کا قارئین کے سامنے آنا ضروری تھا۔ اور ان معروضات کا اختتام ہم اس گزارش پر کر رہے ہیں کہ دینی تعلیم کے لیے کام کرنے والے حضرات جس رخ پر بھی کام کریں اور جو طریق کار بھی اپنائیں یہ ان کی صوابدید کی بات ہے لیکن باہمی رابطہ و مشاورت کی فضا ضرور قائم کریں، اس سے ان کے کام کی افادیت اور وزن دونوں میں اضافہ ہوگا اور وہ معاشرہ میں دینی تعلیم و تربیت کے فروغ کے مشترکہ مقصد میں زیادہ اعتماد اور دلجمعی کے ساتھ پیش رفت کر سکیں گے۔

تعلیمِ کتاب و حکمت: سنتِ نبویؐ

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

مفتی محمد جمیل خان

(دورۂ جنوبی افریقہ کے موقع پر دارالعلوم زکریا جوہانسبرگ کی جامع مسجد میں طلبہ سے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کا خطاب)

انبیاء کرام علیہم السلام کا درجہ دنیا میں سب سے بڑا ہے اور انبیاء کرام میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ سب سے زیادہ اور اس کے بعد حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر فرمائی تو اللہ تعالٰی سے بہت سی دعائیں فرمائیں۔ ان میں سے ایک دعا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے متعلق ہے۔ اس دعا کے ضمن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آپؐ کی ذمہ داریوں کی نشاندہی بھی فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں: میری اس دنیا میں تشریف آوری کی تین وجوہات ہیں:
(۱) میں حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کی دعا کا ثمرہ ہوں، 
(۲) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت کا نتیجہ ہوں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا میرے بعد ایک پیغمبر تشریف لائیں گے جن کا اسم گرامی احمد ہو گا۔ بخاری شریف میں ایک حدیث ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں عاقب ہوں۔ اور عاقب کا معنی ہے کہ جس کے بعد کوئی اور نہ ہو۔ 
(۳) تیسری وجہ: میں اپنی والدہ کے سچے خواب کی تعبیر ہوں۔ میری والدہ نے خواب دیکھا تھا کہ ان کے پیٹ سے ایک روشنی نکلی جس نے شام کے محلات کو روشن کر دیا۔ 
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا میں فرمایا، اے اللہ! میری اولاد میں ایک رسول بھیج جو ان کو تیری آیات پڑھ کر سنائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم عطا فرمایا کہ وہ قرآن مجید کی آیات تلاوت کریں، لوگوں کو سنائیں تاکہ وہ صحیح معنوں میں قرآن مجید کی تلاوت کر سکیں اور ان کو پاک و صاف کرے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد لوگوں کا تزکیہ نفس تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم کو پاک و صاف کیا اور پھر حکم دیا کہ جو ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اتباع کرے گا وہ ہدایت پر ہو گا۔ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا، نجات کا راستہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا جس پر میں اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر و انعام ہے کہ اس نے ہمیں انسان بنایا اور پھر مزید احسان کہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا پیغمبر عطا فرمایا اور اس کا امتی بنایا۔ کروڑ بار شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا دنیا میں سب سے بڑی دولت ہے۔ ہمیں یہ دولت گھر بیٹھے مل گئی، اس لیے قدر نہیں ہے۔ پوری دنیا اور آسمان سب کے سب ملک بھی ایمان کی قیمت ادا نہیں کر سکتے۔ 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تزکیہ نفس کی ذمہ داری امت کے اوپر رکھی گئی ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنا تزکیہ نفس کریں۔ قرآن مجید میں ہماری دو ذمہ داریاں رکھی گئی ہیں۔ اے ایمان والو، بچاؤ اپنے آپ کو جہنم سے اور اپنے اہل کو۔ آج ہم ایک ذمہ داری تو پوری کرتے ہیں، اپنے آپ کو جہنم سے بچاتے ہیں لیکن اپنی اولاد کی اور اپنے اہل کی فکر نہیں کرتے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے بچے کی دنیا اچھی ہو جائے، اس کا کاروبار اچھا ہو جائے، اس کا اچھا گھر بن جائے، وہ دنیا میں محتاجی اور ذلت سے بچ جائے، اس کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو، اس کے لیے مقدور جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں، لیکن اس کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ 
آج دنیا میں اگر کسی میں ذرا برابر بھی انسانیت ہے، کسی بھی انسان کو آگ میں جلتا ہوئے دیکھے تو آگ بجھانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن ہم مسلمان دیکھ رہے ہیں کہ ہماری اولاد جہنم کا ایندھن بن رہی ہے لیکن ہمیں ان کی فکر نہیں۔ اگر آج آپ نے اپنی اولاد کی دین کی حفاظت نہیں کی تو یہ بے دین یا کافر ہو جائے گی تو اس کا وبال آپ پر پڑے گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے، اس سے اس کی رعایا، اولاد، بیوی، والدین، بہن، بھائی، عزیز و اقارب کے بارے میں سوال ہو گا۔ ایک فریضہ اپنے کو جہنم سے بچانے کا تو پورا کر رہے ہیں۔ دوسرا فریضہ اولاد اور اہل کو جہنم سے بچاؤ، اس میں کوتاہی کر رہے ہیں۔ یہ کسی طور مناسب نہیں۔ جب نماز کے لیے آؤ تو اپنی اولاد کو بھی مسجد میں لاؤ، ان کی قرآن مجید کی تعلیم کا انتظام کرو، ان کو مسائل سے آگاہ کرو، تاکہ تمہارے بعد یہ تمہارے لیے صدقہ جاریہ بن جائے۔ 
دوسرا فریضہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امت کا تزکیہ نفس کرتے ہیں۔ تیسرا فریضہ، قرآن مجید کی تعلیم دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی تعلیم دینا بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری تھی۔ صحابہ کرام عربی دان تھے، قرآن مجید کا ترجمہ سمجھتے تھے لیکن قرآن مجید کی آیات کا مطلب کیا تھا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے بغیر سمجھ میں آنا مشکل ہے۔ اسی لیے ہمارا عقیدہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث شریفہ قرآن مجید کی تفسیر ہیں۔ 
قرآن مجید کی آیت ’’من يعمل سوءً‌ا يجز بہ‘‘ جب نازل ہوئی تو خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہم میں کون ایسا ہے جو کوئی نہ کوئی برائی نہ کرتا ہو تو سب کو بدلہ دیا جائے گا تو پھر ہم کیسے عذاب سے بچیں گے۔ انہوں نے یجز بہ سے قبر کا عذاب مراد لیا، اس وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ابوبکر! تمہارے سر میں کبھی درد نہیں ہوتا، تم کو کبھی تکلیف نہیں ہوتی؟ انہوں نے فرمایا، ہوتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس آیت میں یہ مراد ہے کہ جو برائی کرتا ہے، دنیا میں ان تکالیف کی صورت میں اس کو بدلہ دے دیا جاتا ہے۔ 
تعلیمِ کتاب سے اس قسم کی تعلیم مراد ہے۔ اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔ حکمت سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں ہیں۔ نماز، روزہ اور دیگر عبادات کے مسائل اور اخلاقِ حسنہ کی تعلیم، اخلاقِ رزیلہ سے بچنے کی تلقین۔ یہ سب حکمت میں داخل ہے اور اس حکمت کی جب تک آپ نے وضاحت نہیں فرمائی، اس کا سمجھنا بہت مشکل ہے۔ دو مثالیں ہیں اس سے اس کی وضاحت کرتا ہوں۔ 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جس کے دل میں رائی کے برابر بھی کبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت پریشان ہوئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، یا رسول اللہ ! ہم میں سے کون شخص ایسا ہے جو یہ نہ چاہتا ہو کہ اچھے سے اچھے کپڑے پہنے، بالوں کو خوبصورت بنائے، اچھے جوتے پہنے، تو ہم سب اس حدیث کا مصداق بن گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، نہیں، تکبر یہ ہے کہ انسان حق کو قبول نہ کرے اور دوسرے انسان کو حقیر سمجھے۔ ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، انسان کے جسم میں ۳۶۰ جوڑ ہیں اور ہر جوڑ کے شکرانے کے طور پر ضروری ہے کہ وہ روزانہ ایک ایک صدقہ کرے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت زیادہ پریشان ہو گئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کس کی اتنی استطاعت ہے کہ اتنے زیادہ صدقہ کرے، ہمارے پاس تو کچھ نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مال دینا بھی صدقہ ہے لیکن صدقہ کی دوسری اقسام بھی ہیں جو ہر شخص دے سکتا ہے۔ سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے، الحمد للہ کہنا صدقہ ہے، اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے، مسلمان کو سلام کرنا صدقہ ہے، مسلمان سے خندہ پیشانی سے ملنا صدقہ ہے، اور اگر تم چاہتے ہو کہ ۳۶۰ صدقے ایک وقت میں ادا کر دو تو چاشت کے وقت دو رکعت ادا کرو ۳۶۰ صدقے ادا ہو جائیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال تزکیہ نفس، تلاوتِ کتاب اللہ ، تعلیمِ کتاب اللہ، تعلیمِ حکمت کی ذمہ داری اب امت پر ہے، اس کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہیے۔

اجتماعی اجتہاد کی ضرورت اور اس کے تقاضے

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(’’بنوں فقہی کانفرنس‘‘ منعقدہ ۱۷ و ۱۸ اپریل ۱۹۹۶ء کے لیے لکھا گیا۔)


الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ جمیع الانبیاء والمرسلین خصوصاً علیٰ سید الرسل خاتم النبین وآلہ واصحابہ اجمعین۔

المرکز الاسلامی بنوں کے سربراہ برادرم مولانا سید نصیب علی شاہ صاحب زید مجدہم کا شکر گزار ہوں کہ ان کی عنایت سے ’’بنوں فقہی کانفرنس‘‘ میں اہل علم و فکر کے اس اجتماع کے سامنے کچھ طالب علمانہ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دیں، کانفرنس کو کامیابی سے نوازیں اور کچھ مقصد کی باتیں شرکائے کانفرنس کے گوش گزار کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا الہ العالمین۔

شاہ صاحب موصوف گزشتہ دنوں فقہی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دینے کے لیے اپنے معزز رفقاء کے ہمراہ گوجرانوالہ تشریف لائے تو ان کے پاس کانفرنس میں پیش کیے جانے والے مضامین و مقالات کے مجوزہ عنوانات کی فہرست میں سے ایک عنوان کا میں نے خود انتخاب کیا جو فہرست کے مطابق یوں تھا: ’’تقلید و اجتہاد کی حدود کا تعین اور اجتماعی اجتہاد کے تصور کا علمی جائزہ‘‘۔ لیکن جب قلم و کاغذ سنبھالے خیالات کو مجتمع کرنا چاہا تو محسوس ہوا کہ یہ ایک نہیں دو الگ الگ عنوان ہیں اور ہر عنوان اپنی جگہ مستقل گفتگو کا متقاضی ہے۔ اس لیے ان میں سے ثانی الذکر کا انتخاب کرتے ہوئے اسے ’’اجتماعی اجتہاد کی ضرورت اور اس کے تقاضے‘‘ کی شکل دے کر اس پر کچھ معروضات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ اور گفتگو کے آغاز سے پہلے ایک وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ گزارشات کسی علمی تحقیق و مطالعہ پر مبنی نہیں ہیں اور نہ ہی خود کو اس کا اہل سمجھتا ہوں بلکہ یہ اس وقت دنیا بھر میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے والی نظریاتی اور تہذیبی کشمکش کی فضا میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد کے ایک نظریاتی کارکن کے احساسات و تاثرات ہیں جو کسی علمی ترتیب کے بغیر آپ حضرات کے سامنے آرہے ہیں اور انہیں اسی پس منظر میں سماعت فرمانے کی آپ سب بزرگوں سے استدعا ہے۔

معزز شرکائے کانفرنس! اجتہاد احکامِ شرعیہ کے چار بنیادی مآخذ میں سے ہے جسے قرآن کریم میں ’’لعلمہ الذین یستنبطونہ منہم‘‘ کی صورت میں بیان فرمایا گیا ہے اور جناب سالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبلؓ کی طرف سے ’’اجتھد برایی‘‘ کے عزم کے اظہار پر ان کی حوصلہ افزائی اور تصویب فرما کر اسے سند توثیق بخشی ہے۔ پھر یہ جناب نبی اکرمؐ پر نبوت و رسالت کے مکمل اور ختم ہونے کا ناگزیر تقاضا بھی ہے کہ قیامت تک وحی کے عدمِ نزول کے دور میں پیش آنے والے واقعات و مسائل کا وحی کے ساتھ رشتہ قائم رکھنے کی کوئی صورت ضرور موجود ہو تاکہ نسل انسانی ان امور میں وحی الٰہی کی راہنمائی سے محروم نہ رہے۔ چنانچہ جناب رسول اکرمؐ پر مکمل ہوجانے والی آسمانی وحی اور قیامت تک نسل انسانی کو پیش آنے والے مسائل و مشکلات کے درمیان اسی علمی ارتباط کا نام ’’اجتہاد‘‘ ہے جس کی بدولت اسلام دنیا کے ہر خطہ، نسل اور زمانہ کے لوگوں کے لیے ایک قابل عمل بلکہ واجب العمل نظام حیات کی حیثیت رکھتا ہے۔

اجتہاد کا یہ عمل جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں شروع ہوگیا تھا لیکن نبی اکرمؐ کے اجتہادات کو چونکہ وحیٔ الٰہی کی تائید یا سکوت کی صورت میں خود وحی الٰہی کا درجہ حاصل ہے اس لیے اصطلاحی معنوں میں اجتہاد کا آغاز حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے شمار کیا جاتا ہے جو اس وقت سے مسلسل جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ اجتہاد کے بارے میں ایک بات تسلسل کے ساتھ کہی جا رہی ہے کہ پہلی تین یا چار صدیوں کے بعد اجتہاد کا دروازہ علماء نے بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے اس کے بعد سے کوئی مستقل مجتہد سامنے نہیں آرہا، لیکن یہ غلط فہمی علوم و فنون کی تشکیل و تدوین کے فطری مراحل سے بے خبری کا نتیجہ ہے ورنہ اجتہاد کا دروازہ کسی دور میں بند نہیں ہوا اور تمام تر کمزوریوں کے باوجود یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ البتہ اجتہاد کے اصول و قواعد کی ترتیب و تدوین کا باب ضرور بند ہوا ہے اور یہ ایک منطقی اور فطری عمل ہے۔ دنیا میں مختلف علوم و فنون کے آغاز، تشکیل اور ترقی و کمال کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایک بات سب میں مشترک نظر آتی ہے کہ انسانی معاشرہ کی کوئی نہ کوئی ضرورت، مناسبت رکھنے والے ذہن میں داعیہ پیدا کرتی ہے جو رفتہ رفتہ ذوق کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ پھر کچھ عرصہ تک اس ذوق کا انفرادی اظہار ہوتا ہے اور مختلف جہات سے سامنے آنے والا یہ ذوق بتدریج ایک علم اور فن کی صورت اختیار کر جاتا ہے، یہی صورتحال ’’اجتہاد‘‘ کے ساتھ بھی پیش آئی۔ اجتہاد ایک شرعی ضرورت تھی جس نے اجتہادی صلاحیت سے بہرہ ور ذہنوں میں داعیہ پیدا کیا، کچھ عرصہ تک اس ذوق کا انفرادی اظہار ہوتا رہا، پھر اصول و ضوابط وضع ہوئے، استنباط و تطبیق کے قواعد ترتیب پائے، مختلف شخصیات کی طرف سے وضع کردہ اصول و قواعد نے توافق و تقابل کے مراحل سے گزرتے ہوئے رفتہ رفتہ ایک باضابطہ علم کی حیثیت اختیار کر لی اور متعدد فقہی مکاتب فکر وجود میں آگئے۔

اس پس منظر میں مجتہدینِ مطلق یا مستقل مجتہدین جو اجتہاد کے اصول و قواعد وضع کرتے ہیں، ان کے ظہور کا دور وہی تھا جب بنیادی قواعد و ضوابط تشکیل پا رہے تھے۔ اور اس دور میں بیسیوں مستقل مجتہدین سامنے آئے اور انہوں نے اپنے فقہی حلقے قائم کیے جن میں سے چار، یا ظواہر کو شامل کر کے پانچ مکاتب فکر کو امت نے قبول کر لیا اور باقی فقہی حلقے فطری عمل کے مطابق تاریخ کی نذر ہوگئے۔ اس کے بعد کسی مستقل مجتہد کی ضرورت باقی نہیں رہی اور اس علم کے بنیادی قواعد و ضوابط کی تشکیل و ترتیب کا باب بند ہوگیا۔ بالکل اسی طرح جیسے مثلاً علم نحو کے قواعد و ضوابط کی ترتیب کا ایک دور تھا، اس دور میں مختلف ائمہ نے قواعد و ضوابط وضع کیے جو قیامت تک اس علم کی بنیاد بن گئے۔ اب ان بنیادی قواعد و ضوابط کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کی تشریح و تعبیر، ترمیم و اضافہ اور اضافی قواعد کی تدوین کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھلا ہے اور ہر باصلاحیت کا حق ہے کہ وہ اس جولانگاہ میں اپنے رہوارِ فکر کو جہاں تک اس کے بس میں ہو دوڑاتا چلا جائے، لیکن اگر وہ نحو کے بنیادی قواعد مثلاً ’’الفاعل مرفوع والمفعول منصوب والمضاف الیہ مجرور‘‘ کو تبدیل کرنے کی خواہش کا اظہار کرے گا تو کوئی ذی ہوش شخص اسے یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ اس لیے اگر علوم و فنون کی تشکیل و تدوین کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں اجتہاد کے بنیادی قواعد و ضوابط کے وضع و تدوین کا باب بند ہوا ہے تو اسے علماء یا فقہاء نے بند نہیں کیا بلکہ اس کے پیچھے فطری عمل اور تاریخ کا تسلسل کارفرما ہے۔

معزز شرکائے محفل! اصل مسئلہ اجتہاد کے باب کا کھلا ہونا یا بند ہو جانا نہیں بلکہ آج کے دور میں انسانی معاشرہ کو درپیش مسائل اور اجتہادی عمل کے درمیان پائی جانے والی وہ خلیج ہے ہو ہر باشعور شخص کو واضح طور پر نظر آرہی ہے اور ہر شخص اپنے ذوق اور ذہن کے مطابق اس کی تعبیر کر رہا ہے۔ اس خلیج کا باعث اجتہاد کی بندش نہیں بلکہ اجتہاد کے جاری و ساری عمل کو صحیح طور پر استعمال میں نہ لانا ہے۔ اور میری ناقص طالب علمانہ رائے میں مسائل حاضرہ اور اجتہادی عمل کے درمیان پائی جانے والی خلیج کے اہم اسباب یہ ہیں:

  1. اب سے تیرہ صدیاں قبل اسلامی اعتقادات پر یونانی فلسفہ کی یلغار کے دور میں ہمارے علماء نے اس فلسفہ کی ماہیت اور مضرات کا صحیح طور پر بروقت ادراک کر لیا تھا اور اس سے کماحقہ واقفیت حاصل کر کے اسی کی زبان میں اس کے توڑ اور مقابلہ کی فضا پیدا کر دی تھی جس کی وجہ سے یونانی فلسفہ اسلامی اعتقادات پر حملہ میں کامیابی حاصل نہ کر سکا۔ مگر اب سے کم و بیش دو سو برس پہلے سائنسی ایجادات و انکشافات، صنعتی ترقی اور مغرب کے لادینی فلسفۂ حیات کی بیک وقت پیش رفت کے موقع پر ہمارے علمی ادارے اس سہ جہتی یلغار کی نوعیت اور نفع و نقصان کا صحیح طور پر اندازہ نہ کر سکے اور رازیؒ، غزالیؒ، ابن رشدؒ اور ابن تیمیہؒ کی طرح مخالف فلسفہ کا برابر کی سطح پر مقابلہ کرنے کی بجائے دفاعی پوزیشن اختیار کر لی۔ جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ مغرب کا فلسفہ لادینیت امت مسلمہ کے مختلف طبقات کے ذہنوں میں غیر شعوری ارتداد کی کمین گاہیں قائم کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ اگر اس دوران ہمارے علمی ادارے اور دینی مراکز سائنسی علوم، صنعت و حرفت اور مغربی فلسفہ سے واقفیت اور اس کی تعلیم کے دروازے بند نہ کر لیتے اور خوداعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہی علوم کے ہتھیاروں کو ان سے مقابلہ کے لیے اختیار کرتے تو آج مغرب کا لادینی فلسفہ مسلمانوں کے اعتقادی، نظریاتی، قانونی، معاشرتی اور تہذیبی ڈھانچے کے لیے اس قدر کھلا چیلنج نہ بن پاتا۔
  2. کوئی نظام جب تک معاشرہ میں نافذ العمل رہتا ہے، معاشرہ کی بدلتی ہوئی صورتحال پر نظر رکھنا اور نئے پیش آمدہ مسائل اور قانون میں مطابقت پیدا کرتے رہنا قانون اور اس سے متعلق اداروں کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ مگر بیشتر مسلم ممالک پر استعماری قوتوں کے تسلط کے دور میں یہ صورت قائم نہ رہ سکی۔ ان ممالک کے قانون و نظام بدل گئے، قضا کا منصب افتا کی صورت اختیار کر گیا اور اسلامی احکام و قوانین پر عمل کی حیثیت ایک اختیاری عمل کی سی رہ گئی۔ جس کی وجہ سے معاشرہ کی ضروریات کا جائزہ لینا اور قانون کے ساتھ ان کی تطبیق کی صورتیں پیدا کرنا قضا و حکم سے تعلق رکھنے والے افراد اور اداروں کی ذمہ داری نہ رہا بلکہ یہ ذمہ داری عام مسلمان کو منتقل ہوگئی کہ وہ کسی معاملہ میں شرعی حکم معلوم کرنا چاہتا ہے تو کسی مفتی سے دریافت کر لے۔ اس ’’تنزل‘‘ نے احکام و قوانین کی اجتماعیت کا تصور مجروح کر دیا، انفرادیت اور محدود سوچ اجتہادی عمل پر غالب آگئی اور معاشرہ کے اجتماعی مسائل و مشکلات کو اجتہاد کے ذریعے حل کرنے کا کوئی مربوط نظام باقی نہ رہا۔
  3. دورِ غلامی میں دینی مدارس اور ان کے نظامِ تعلیم کا بنیادی ہدف اسلامی عقائد، دینی علوم اور مسلم معاشرت کا تحفظ تھا جس میں انہیں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی اور برصغیر میں دینی مدارس کے ہاتھوں فکری اور تہذیبی شکست مغربی فلسفہ کے علمبرداروں کے لیے ابھی تک سوہانِ روح بنی ہوئی ہے، لیکن بنیادی ہدف چونکہ تحفظ تھا اس لیے دینی مدارس کے نصاب و نظام کی ترجیحات اسی ’’تحفظ‘‘ کے گرد گھومتی رہیں۔ اور معاشرہ میں شرعی احکام و قوانین کی تطبیق و تنفیذ ان کے اہداف میں نہیں تھی اور نہ ہی دور غلامی میں اس کے بارے میں سوچا جا سکتا تھا اس لیے فطری طور پر تطبیق و تنفیذ سے متعلقہ اجتہادی عمل دینی مدارس کی ترجیحات میں جگہ نہ پا سکا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دینی مدارس سے فارغ ہونے والے علماء کی غالب اکثریت اجتہاد کی اہمیت و ضرورت، معاشرہ میں اس کے حقیقی کردار اور اس کی صلاحیت و استعداد کے تقاضوں سے یکسر بے خبر ہے۔

اجتہاد کا عمل اس دوران بند نہیں ہوا بلکہ اس کا دائرہ محدود ہوگیا تھا۔ مختلف مکاتب فکر کے بڑے بڑے دارالافتا اس دوران جو کام کرتے رہے اس کا بیشتر حصہ اجتہاد کے زمرہ میں آتا ہے۔ لیکن معاشرہ میں شرعی احکام و قوانین کی تطبیق و تنفیذ کا عمل اجتہاد کے دائرے میں شامل نہ رہا اور مغربی فلسفۂ حیات کی ہمہ جہتی یلغار کا صحیح طور پر ادراک نہ کرتے ہوئے اس کے مقابلہ کے لیے بروقت پیش بندی کی ضرورت محسوس نہ کی گئی جس کی وجہ سے مسائلِ حاضرہ اور اجتہادی عمل کے درمیان وہ خلیج نظر آرہی ہے جس نے نہ صرف اصحابِ فکر و نظر کو مسلسل پریشان کر رکھا ہے بلکہ مسلم ممالک بالخصوص پاکستان میں اسلامی نظام کے عملی نفاذ میں ایک بڑی رکاوٹ کی حیثیت بھی اختیار کیے ہوئے ہے۔

حاضرینِ مکرم! اجتہاد کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے ایک اور سوال کا جائزہ لینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے اور وہ ہے اجتہاد کی اہلیت کا مسئلہ جس نے علمائے دین اور جدید اہل دانش کے درمیان باقاعدہ ایک تنازعہ کی صورت اختیار کر لی ہے۔ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے بعض خطبات کا سہارا لیتے ہوئے ان کے فرزند جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال اور ان کے ساتھ قانون دانوں کا ایک طبقہ یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہے کہ علمائے کرام چونکہ آج کے علوم و فنون اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مسائل اور ان کے اسباب و نتائج سے براہِ راست واقف نہیں ہوتے اس لیے ان میں اجتہاد کی اہلیت نہیں ہے اس لیے اجتہاد کا یہ حق پارلیمنٹ کو منتقل ہوجانا چاہیے۔ جبکہ علمائے کرام کا موقف یہ ہے کہ فقہاء نے شرعی اجتہاد کے لیے جن علوم کی مہارت کو شرط قرار دیا ہے مثلاً (۱) قرآن کریم (۲) سنتِ رسولؐ (۳) اجماع امت (۴) اقاویل سلف (۵) علوم عربیت ، چونکہ پارلیمنٹ اور دیگر آئینی ادارے ان علوم سے آگاہی نہیں رکھتے اس لیے ان کے لیے اجتہاد کا حق تسلیم کرنے سے تحریفِ دین کا دروازہ کھل جائے گا۔

ہماری ناقص رائے میں ان دونوں موقفوں کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ اجتہاد کے مسلمہ اصولوں کے مطابق مجتہد کے لیے ماخذ اور محل دونوں کے ساتھ اجتہادی درجہ کی واقفیت ضروری ہے۔ ماخذ سے مراد وہ علوم شرعی ہیں جن سے آگاہی کو فقہاء نے اجتہاد کے لیے شرط ٹھہرایا ہے، او رمحل سے مراد اس شعبہ زندگی کے مروجہ قواعد و ضوابط، روایات اور عرف ہے جس سے متعلقہ مسئلہ درپیش ہے۔ ماخذ اور محل سے کماحقہ آگاہی اور ان دونوں کے درمیان تطبیق کی صلاحیت کے تین اجزا سے اجتہاد کا عمل ترتیب پاتا ہے۔ اور اس اجتماعی تناظر میں دیکھا جائے تو دونوں طبقوں کے موقف کی واقعاتی بنیاد کسی نہ کسی حد تک ضرور موجود ہے اور ان میں سے کسی ایک کو یکسر نظر انداز کر دینا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہوگا۔

جدید اہلِ دانش کا خیال ہے کہ زمانے کے حالات، متعلقہ شعبۂ زندگی کے قواعد و روایات اور عرف سے آگاہی اصل ہے جبکہ قرآن کریم کے تراجم و تفاسیر، احادیث کی شروح و تراجم اور فقہی احکام کے ذخیرے اردو زبان میں وافر مقدار میں میسر ہونے کی وجہ سے ماخذ سے عدم واقفیت کا خلا کسی حد تک پر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ مطالعہ کا علم کسی بھی علم کی باقاعدہ تعلیم کا متبادل تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اور کسی بھی علم میں لٹریچر کی فراوانی اور عام افراد کی اس تک رسائی کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ لٹریچر تک رسائی رکھنے والے شخص نے محض اس بنیاد پر اس علم میں اس درجہ کی مہارت بھی حاصل کر لی ہے جو کسی بھی علم میں اجتہادی عمل کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ آج ملک میں بہت سے افراد ایسے مل جائیں گے جن کا آئین و قانون کا مطالعہ اور ان کی تشریح کی صلاحیت متوسط درجہ کے وکلاء سے زیادہ ہے لیکن ملک کی کوئی عدالت ایسے کسی شخص کو کسی آئینی اور قانونی معاملہ میں رائے کا باقاعدہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ یہ اصول اور ضابطہ کی بات ہے جس سے کسی شعبۂ زندگی میں انحراف نہیں کیا جا سکتا۔

دوسری طرف علمائے کرام کا یہ طرز عمل بھی محلِ نظر ہے کہ محل سے ناواقفیت یعنی متعلقہ مسئلہ کے ’’مالہ و ما علیہ‘‘ اور اس کے حوالہ سے مروجہ عرف و روایات سے عدمِ آگاہی کے خلا کو متعلقہ شعبہ کے کچھ افراد سے پوچھ گچھ کے ذریعے پر کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ اور حالات زمانہ اور مروجہ عرف و روایات سے اس درجہ کی ’’عملی ممارست‘‘ کو ضروری نہیں سمجھا جا رہا جو کسی زمانے میں ہمارے فقہاء کا طرۂ امتیاز ہوتی تھی۔ مثال کے طور پر نماز میں لاؤڈ اسپیکر کے جواز اور عدم جواز کی بحث پر ایک نظر ڈال لیجئے جس میں طویل بحث و مباحثہ کے بعد کسی حتمی نتیجہ تک پہنچنے میں ہمیں کم و بیش ربع صدی کا وقت لگا۔ اور اگر اس کے اسباب کا تجزیہ کریں گے تو سب سے بڑا سبب وہی لاؤڈ اسپیکر کے تکنیکی معاملات سے عملی ممارست کا فقدان قرار پائے گا جس نے ہمیں ربع صدی تک تکنیکی بحث میں الجھائے رکھا۔

اس کے ساتھ مسئلہ کا یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ علمائے کرام کے لیے زندگی کے تمام شعبوں کے ساتھ اس درجہ کی عملی ممارست کو شرط قرار دینا اور انہیں اس کے لیے مجبور کرنا بجائے خود محلِ نظر ہے۔ یہ تخصصات کا دور ہے، ماخذ کے اعتبار سے سب علوم شرعیہ پر یکساں مہارت رکھنے والے حضرات کا ملنا ہی مشکل ہوتا جا رہا ہے اور اگر محل کے لحاظ سے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے اطوار و عرف سے واقفیت کو بھی ساتھ شامل کر لیا جائے تو بات اور زیادہ پیچیدہ ہو جائے گی۔ قدیم فقہاء نے ماخذ کے لحاظ سے تو ’’تجزی فی الاجتہاد‘‘ کے عنوان سے اس کا حل پیش کیا تھا کہ ایک شخص ایک شعبہ میں اجتہاد کی اہلیت سے بہرہ ور ہے اور دوسرے شعبہ میں نہیں ہے، تو یہ صورت جمہور فقہاء کے نزدیک قابل قبول ہے۔ اور اگر ’’تجزی فی الاجتہاد‘‘ کو محل کے نقطۂ نظر سے بھی تسلیم کر لیا جائے تو معاملات میں توسع اور تنوع کا دائرہ مزید پھیلتا چلا جائے گا۔

حضراتِ محترم! اصحابِ فکر و نظر نے اس مشکل کا حل ’’اجتماعی اجتہاد‘‘ کی صورت میں تجویز کیا ہے۔ اور یہ کوئی نئی تجویز نہیں ہے بلکہ امام اعظم ابوحنیفہؒ کے طرزِ اجتہاد کا احیا ہے جس میں فقہاء اور ماہرین کی ایک بڑی جماعت مشاورت اور اجتماعی بحث و مباحثہ کی صورت میں مسائل کے استنباط و استخراج کے مراحل کو تکمیل تک پہنچاتی تھی۔ اور اسی اجتماعی اجتہاد کے ذریعے مستنبط ہونے والے احکام و مسائل فقہ حنفی کا بنیادی ذخیرہ ہیں۔ اس لیے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ امام اعظمؒ کے طرزِ اجتہاد کو زندہ کرتے ہوئے اہلِ علم اور ماہرین کی ایک ایسی کونسل قائم کی جائے جو نہ صرف یہ کہ غیر سرکاری ہو بلکہ اقتدار کی کشمکش اور گروہی سیاست کی ترجیحات سے بے نیاز اور بالاتر ہو۔ اس میں دینی علوم کے مختلف شعبوں کے چوٹی کے ماہرین کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں سے عملی تعلق رکھنے والے تجربہ کار ماہرین کو بھی شریک کیا جائے اور باہمی بحث و تمحیص اور اجتماعی مشاورت کے ذریعے مسائلِ حاضرہ کا حل تلاش کیا جائے۔

آخر میں مسئلہ کے ایک اور پہلو کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ دور جہاں علم و فن کے لحاظ سے تخصصات میں تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر رہا ہے وہاں معاشرت کے تخصصات و امتیازات دن بدن کم ہوتے جا رہے ہیں۔ انسانی معاشرہ نیشنلزم کا حصار توڑ کر انٹرنیشنل ازم کی طرف عازمِ سفر ہے۔ فاصلے سمٹتے جا رہے ہیں اور انسانی زندگی تیزی کے ساتھ ایک مشترک بین الاقوامی معاشرت (گلوبل ویلج) کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ان حالات میں ہمیں اجتہاد کی اہلیت کی شرائط میں (۱) ماخذ سے آگاہی (۲) محل سے واقفیت (۳) اور تطبیق کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ (۴) بین الاقوامی رجحانات سے شناسائی کی شرط کا اضافہ بھی کرنا ہوگا، اور اجتماعی معاملات میں بین الاقوامی امور کے ماہرین کے علم و تجربہ سے استفادہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ اسی صورت میں ہم مستقبل کے انسانی معاشرہ اور اجتہاد کے اسلامی اصولوں کے درمیان وہ حقیقی رشتہ جوڑ سکیں گے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی اہمیت کا پہلے سے زیادہ احساس دلا رہا ہے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

جدید نظریاتی چیلنج اور علمائے کرام

مولانا محمد عیسٰی منصوری

موجودہ دور کا سب سے بڑا مسئلہ ان افکار و نظریات کا ہے جو اس زمانہ میں مذہب کی جگہ لے چکے ہیں۔ اسلام ایک واضح فکر و عقیدہ کا نام ہے جو اپنی سادگی، حقانیت، فطرت اور عقلِ سلیم کے عین مطابق ہونے کی وجہ سے اپنے اندر زبردست کشش و قوت رکھتا ہے۔ دشمنانِ اسلام ہمیشہ اسلام کی دعوت و فکر کی طاقت سے خوفزدہ رہے۔ یورپ صلیبی جنگوں کے بعد یہ حقیقت سمجھ چکا تھا کہ اسلام کو نہ نظریہ و فکر کے میدان میں شکست دی جا سکتی ہے اور نہ عسکری میدان میں، اس صدیوں کے غور و فکر مطالعہ و تحقیق کے بعد مسلمانوں کو رام کرنے کے لیے ایسا راستہ اختیار کیا جس سے مسلمان اپنی پوری تاریخ میں نا آشنا تھے۔ اسلام کے شاطر دشمنوں نے خلافِ اسلام افکار و نظریات کو خوشنما بنا کر جدید انداز میں اس طرح مسلمانوں کے دل و دماغ میں اتار دیا کہ جن کے قبول کرنے کے بعد خودبخود اسلام کی صداقت و حقانیت میں شکوک و شبہات پیدا ہو کر انسان اسلام کی بنیادی صداقتوں اور اسلامیات سے بے گانہ ہو جاتا ہے۔ 
اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ کسی بھی پہلو سے اسلام کا کھلم کھلا حریف بننے کے بجائے مذہب کا ایسا تصور پیش کر دیا جائے اور اس پر چاروں طرف سے ایسے افکار و نظریات کی یلغار کر دی جائے جو اسلام کے بنیادی عقائد و نظریات کو متزلزل کر دے، اور مسلمان کو اس بات کا شبہ تک نہ ہو کہ وہ اسلام کی مخالف سمت میں جا رہا ہے۔ کیونکہ دشمن اس حقیقت سے بخوبی واقف تھا کہ مسلمان اپنے مذہب کے بارے میں انتہائی ذکی الحس واقع ہوا ہے، اور اسلام کی چھوٹی چھوٹی بات کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنا اس کے لیے معمولی چیز ہے۔ اس لیے گزشتہ ڈیڑھ دو صدی سے اس کا حملہ ایک ایسی سمت سے ہو رہا ہے جس سے پوری تاریخ میں مسلمان ناواقف رہے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ آہستہ آہستہ اسلام سے بیگانہ ہو کر ایسے افکار و نظریات کو اپنا چکے ہیں جس کے نتیجے میں انسان اسلام کے بنیادی عقائد و افکار سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ یہ خاموش فکری حملہ گزشتہ صدیوں کے دوران عالمِ اسلام پر یورپ کی عسکری و سیاسی ساخت کے پس پشت تعلیم، جدید افکار کے نام پر اسلام سے تصادم کیے بغیر اس خاموشی سے داخل ہو گیا کہ مسلم علماء و مفکرین کو عرصہ تک اس کا احساس تک نہیں ہو سکا کہ اس سے کتنی تباہی آئی ہے۔ 
اب بھی مغرب کی یلغار برابر جاری ہے، اس کی تکنیک اور طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ اسلام کے مقابلہ پر نہیں آتا اور نہ صراحتاً‌ اسلام کی تردید کرتا ہے، بلکہ بظاہر اسلام سے بالکل لاتعلق و اجنبی نظر آتا ہے اور اسلام سے اس طرح قطع نظر کرتا ہے گویا وہ جانتا ہی نہیں کہ یہ سب کچھ اسلام کے عین ضد اور مقابل ہے۔ وہ علم و تحقیق، عقلی استدلالات، اور جدید نظریات کے نام پر انسان اور کائنات کی ایسی تشریح و توضیح کرتا ہے جس سے خدا، رسالت و آخرت اور سرے سے مذہب کی کوئی گنجائش و ضرورت نہیں رہی۔ کسی مسلمان کو ذرہ برابر شک نہیں ہوتا کہ ان افکار و نظریات کا قائل ہوتا اور تسلیم کرنا اسلام کے انکار کو مستلزم ہے۔ 
عالمِ اسلام یورپ کی سائنسی و ٹیکنالوجی ترقی اور دیگر عصری علوم کے میدان میں اس کی متواتر کامیابیوں اور سبقت سے مرعوبیت کے سبب علم و عقل کی اور شریعت کی کسوٹی پر کسے بغیر ان اوہام و خرافات کو علم و عقل، شعور و آگہی اور ترقی کے نام پر قبول کر چکے ہیں۔ جب مسلمان ان افکار و نظریات کو اختیار کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ علم و آگہی، ترقی یافتہ نظریات، اور جدید فلسفوں کو اختیار کر رہا ہے۔ اس طرح یہ خلافِ اسلام باطل افکار اس طرح قبول کر لیے جاتے ہیں کہ ان کے دل میں اس بات کی کھٹک تک نہیں ہوتی کہ ان کے قبول کرنے سے اسلام کی نفی ہو رہی ہے۔ غرض یہ بات حرف بحرف صحیح ہے کہ اس پیمانے پر اس نوعیت کا فتنہ جسے بجا طور پر ایک جدید ارتداد کہا جا سکتا ہے، اسلام کی پوری تاریخ میں کبھی رونما نہیں ہوا۔ 
اس ماڈرن ارتداد کی تکنیک اور طریقہ واردات سے عام مسلمان تو کجا، ہمارے مذہبی رہنما اور علمائے کرام تک اتنے بے خبر اور ناواقف ہیں کہ انہیں اس کی اتنی بھی فکر نہیں ہوتی جتنی گزشتہ زمانہ میں چند مسلمانوں کے عیسائی یا ہندو ہو جانے سے ہوتی تھی۔ معلوم ہوتا ہے وہ اس طوفان کی زہرناکی، منفی اثرات، گہرائی و گیرائی کا کماحقہ شعور و احساس نہ کر سکے۔ علم و جدید فکر کی اس نظریاتی یلغار کو بجا طور پر جدید ارتداد کہا جا سکتا ہے۔ 
مذاہب اور ارتداد کی تاریخ کا بہ نظر غائر مطالعہ بتاتا ہے کہ کسی معاشرہ میں ارتداد دفعتاً‌ نہیں آتا بلکہ اس کے اثرات تدریجاً‌ رونما ہوتے ہیں۔ پہلے باطل نظریات و افکار سے دل و دماغ متاثر ہوتا ہے، اسلام کے بنیادی عقائد و تصورات سے اعتماد متزلزل ہوتا ہے، ایمانیات میں شکوک و شبہات در آتے ہیں، پھر اس کے اثرات عمل پر پڑتے ہیں، اجتماعی معاملات (اقتصادیات، سیاست، نظم و نسق اور قانون) میں اسلام ناقابل عمل نظر آتا ہے۔ پھر عبادت، نماز، روزہ وغیرہ میں ضعف اور اضمحلال پیدا ہوتا ہے۔ اس کے آخر میں زبان پر بھی آتا ہے۔ یعنی لسانی سے پہلے قلبی و عملی ارتداد آتا ہے۔ 
اب مغرب کے جدید تکنیک و طریقہ واردات نے یہ سہولت بھی مہیا کر دی ہے کہ زبان پر لانے کی ضرورت ہی نہیں۔ اس کے نزدیک مسلم معاشروں میں داخل رہ کر ہی اس کی بہترین خدمت انجام دی جا سکتی ہے۔ پہلے زمانہ میں جب کوئی مسلمان کسی باطل مذہب کے اثرات قبول کرتا تھا تو ضروری تھا کہ وہ کسی گرجا یا مندر میں جا کر شدھی یا بپتسمہ کی رسمی کارروائی سے گزرے۔ گلے میں صلیب ڈالے یا ماتھے پر قشقہ لگائے۔ اس کے بعد وہ مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہو جاتا اور اسلام سے اس کی دشمنی آشکارا ہو جاتی اور دوسرے مسلمان اس کی طرف سے ہوشیار اور چوکنا ہو جاتے۔ لیکن اسلام پر یہ نیا حملہ کسی مذہب کے نام پر نہیں بلکہ علم و عقل، شعور و آگہی، فلسفہ و نظریات کے نام پر ہوا ہے اور اس نے اپنے پرستاروں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی عقائد و افکار و نظریات سے الگ ہو کر بھی مسلمانوں کے معاشرہ میں مسلمان بن کر رہیں، ان ہی میں شادی بیاہ کریں، دوستی، رشتہ داری، میل ملاپ اور کھانے پینے کے تعلقات قائم رکھیں۔ کبھی کبھی رسمی طور پر ان کی عبادات (جمعہ، عیدین) میں بھی شریک ہوں۔ ان لوگوں کو مسلم معاشرہ میں ان کے تمول اور تعلیم و سیاست میں امتیاز کی وجہ سے خصوصی عزت و توقیر کا مستحق سمجھا جاتا ہے اور سوسائٹی میں امتیازی درجہ دیا جاتا ہے، وہ بڑی شان و شوکت سے مسلم گھرانوں میں شادی رچاتے ہیں، مرنے کے بعد بڑے بڑے مجمع ان کا جنازہ پڑھتے ہیں، مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہوتے ہیں۔ 
یہ اسلام کے ماڈرن مرتد فقط اپنی ذات تک ہی ایسی راہ اختیار نہیں کرتے جو اسلام کے بالکل برعکس سمت میں جاتی ہے، بلکہ آگے بڑھ کر یہ حضرات تعلیم و سیاست میں ممتاز ہونے کی وجہ سے سیاست و حکومت، کونسلوں اور اسمبلیوں، وزارتوں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو کر اور اونچی اونچی کرسیوں پر براجمان ہو کر مسلمانوں کے اعلانیہ نمائندے کہلاتے ہیں۔ بلکہ ان کے حساس ترین اور کلیدی مسائل کو اپنے نظریات و صوابدید کے مطابق طے کرتے ہیں۔ دشمنانِ اسلام (یہود و نصاری، ہنود) سے سیاست و حکمرانی، ثقافت و کلچر، اقتصادیات و تجارت، تعلیم و آرٹ کے حوالہ سے قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ بیرونی اسلام دشمن طاقتیں انہیں اپنا نمائندہ بنا کر جوش و خروش سے ان کا استقبال کرتی ہیں کیونکہ فی الحقیقت یہ لوگ اپنی بڑی طاقتوں کا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ مغربی میڈیا انہیں مسیحا بنا کر پیش کرتا ہے اور بڑی طاقتیں ان کے واسطے سے ترقی و خوشحالی کے نام پر مسلم ملکوں اور معاشروں میں اپنی پالیسیاں، نظریات، ثقافت و کلچر پوری آزادی و سہولت سے نافذ کرتی ہیں۔ اور ان لوگوں کے واسطے سے مسلم ملکوں کی اقتصادیات، تجارت، تعلیمی و تمدنی مراکز، معاشرت، غرض ہر ہر میدان میں اپنا اثر و نفوذ بڑھاتی جاتی ہیں۔ 
ان بیرونی طاقتوں کے لیے یہ راستہ براہ راست مسلم قوموں و ملکوں کو غلام بنا کر ان پر کنٹرول کرنے کی ہزاروں دقتوں اور پریشانیوں کی نسبت آسان و کم خرچ اور بے خطر نظر آتا ہے۔ جب کبھی یہ اسلام دشمن طاقتیں یہ دیکھتی ہیں کہ ان لوگوں میں کوئی اپنے عوام پر گرفت کھو چکا ہے اور اس کے واسطے سے اپنی تجارتی و معاشی، تہذیبی و تمدنی، فکری و نظریاتی پالیسیاں جاری رکھنی دشوار ہو گئی ہیں، یہ عام لوگ ان سے بیزار ہو کر اسلام کی طرف دیکھنے لگے ہیں، تو بڑی چابک دستی و ہوشیاری سے وہ اس مہرہ کو ہٹا کر دوسرا مہرہ لے آتی ہیں جو ان کی حسب ہدایت وقتاً‌ فوقتاً‌ اسلام بھی پڑھتا ہے اور ضرورت پڑے تو عمرے بھی کرتا ہے، ہاتھ میں تسبیح پکڑ لیتا ہے، پھر دوبارہ عالمی میڈیا (جس پر اسلام دشمن طاقتوں کی مکمل اجارہ داری ہے) اس کا امیج بنانے میں جت جاتا ہے۔ اس طرح مسلم قوم اور ملک اس دوسرے مہرے کے ساتھ چلنے لگتے ہیں۔
استعماری طاقتوں سے سیاسی آزادی حاصل کرنے کے بعد ہر مسلم ملک کی یہی مسلسل کہانی ہے کہ ان کے حکمرانوں اور سربرآوردہ طبقہ کے دل و دماغ پر قرآن اور محمدؐ کے بجائے مغربی افکار و نظریات کی حکمرانی رہی۔ مسلم دنیا کی بھاری اکثریت جو اسلام اور قرآن پر غیر متزلزل یقین و ایمان رکھتی ہے، وہ اپنی سادگی و سادہ لوحی سے یہ سمجھتی ہے کہ پہلے چند سال ملک کو معاشی استحکام و خوشحالی ہو جائے تو ہمارے حکمران خودبخود قرآن و سنت کی شاہراہ پر لے چلیں گے۔ اس خوش فہمی میں قوم ان کے قدم بقدم ساتھ چلتی رہتی ہے۔ 
مسلم ملکوں میں اگرچہ مغربی تہذیب و افکار کے نمائندوں کی تعداد ۲-۴ فیصد سے زیادہ سے زائد نہیں، مگر ان افراد کی طاقت اور وسعتِ اختیار کا یہ حال ہے کہ وہ سیاست و حکومت، تجارت و معیشت، تعلیم و ذرائع ابلاغ پر پوری طرح حاوی و قابض ہونے کی وجہ سے بآسانی اسلام کا درد و فکر رکھنے والی جماعتوں، تنظیموں اور علماء کو کچل دیتے ہیں۔ اور جدید ذرائع ابلاغ کے پراپیگنڈے کے زور پر انہیں علم و سائنس اور ترقی و خوشحالی کا دشمن ظاہر کر کے پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ دینی جماعتیں اور علماء ذرائع ابلاغ میں اپنا نقطۂ نظر تک پیش نہیں کر پاتیں اور اس گھناؤنے طریقے پر ان کی کردارکشی کی جاتی ہے کہ وہ دیوار سے لگ جاتے ہیں۔ اور اس سارے عمل میں انہیں بیرونی اسلام دشمن طاقتوں اور عالمی میڈیا کی بھر پور آشیر باد حاصل رہتی ہے۔ پھر اطمینان سے یہ لوگ اپنے بیرونی سرپرستوں اور آقاؤں کے مفادات پورے کرنے لگ جاتے ہیں۔ 
یہ بات پورے وثوق سے کی جا سکتی ہے کہ تاریخ میں اس سے پہلے کبھی اسلام کو اس صورت حال سے اور اس نوعیت کے فکری و نظریاتی حملہ سے سابقہ نہیں پڑا تھا۔ یہ فکری یلغار جتنی عام اور ہمہ گیر تھی، بظاہر اتنی ہی سادہ اور مذہب سے بے تعلق دکھائی دیتی تھی۔ بدقسمتی سے مذہبی طبقہ اور علمائے کرام گزشتہ کئی صدیوں سے علمی و فکری اعتبار سے دورِ زوال میں ہیں، انہوں نے خود اپنے اوپر علم و تحقیق و اجتہاد کے دروازے بند کر لیے ہیں۔ وہ قرونِ وسطی کی اُن لایعنی لفظی بحثوں کے امیر ہو کر رہ گئے ہیں جن کی اس دور میں کوئی افادیت و اہمیت باقی نہیں رہ گئی، خاص طور پر گزشتہ دو صدیاں عالمِ اسلام کے لیے انتہائی نکبت و ادبار، شکستگی و مایوسی، غلامی و غیروں کی نقالی میں گزری ہیں۔ ان میں علماء کا جمود و حالات سے بے خبری، عصری علوم سے ناواقفیت، جدید افکار و نظریات سے بے تعلقی اس انتہا کو پہنچ گئی تھی کہ وہ اپنے زمانہ کے تقاضوں کو سمجھنے کی بصیرت و شعور سے دور جا پڑے تھے۔ اس لیے وہ ان جدید افکار و نظریات کی چھان پھٹک کر کے انہیں قرآن و سنت اور علم و عقل کی میزان پر تولنے کے قابل نہیں رہ گئے تھے۔ 
اس طرح علمائے کرام اس نئے آنے والے فکری طوفان سے بڑی حد تک غافل اور بے خبر رہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ اب تک اس نئے حملے کی نوعیت و گہرائی کو سمجھ نہیں پائے کیونکہ اسلام کے فکری نظام اور بنیادی عقائد پر تیشہ چلانے والے یہ کفریہ افکار و نظریات کسی مذہب کے نام پر نہیں بلکہ عقل و دانش اور جدید تھیوری و فلسفوں کے نام سے داخل ہوئے تھے۔ ان کے اثر و نفوذ کا یہ عالم ہے کہ کروڑہا مسلمان اس کی زد میں بہہ کر اسلام کی اساسیات اور بنیادی عقائد سے بیگانہ ہو گئے، اور خبر تک نہیں ہوئی کہ ماڈرن نظریات کے نام پر کتنی زبر دست تباہی ملتِ اسلامیہ میں آئی ہے۔ 
اس مسئلہ کی طرف نصف صدی پیشتر غالباً‌ سب سے پہلے جدید طبقہ میں ڈاکٹر رفیع الدین صاحب مرحوم نے توجہ دلائی تھی اور طبقہ علماء میں مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے اس پر لکھا۔ ان کے بعد مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی ندویؒ نے دمشق سے نکلنے والے ’’اخوان المسلمین‘‘ کے آرگن رسالہ ’’المسلمون‘‘ میں ’’ردۃ جديدۃ‘‘ کے نام سے دو قسطوں میں ایک مضمون لکھا جس کا اردو ترجمہ اس وقت ’’الفرقان‘‘ میں مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی نے ’’نیا طوفان اور اس کا مقابلہ‘‘کے نام شائع کیا۔ اس کے بعد پھر مسلسل خاموشی ہے، حالانکہ مرض کی صحیح نشاندہی کے بعد اس عرصہ میں کئی علمی و تحقیقی ادارے جدید تعلیم یافتہ ذہنوں کو سامنے رکھ کر عصری اسلوب میں طاقتور لٹریچر اور جدید علمِ کلام کا پورا کتب خانہ وجود میں آ جانا چاہیے تھا۔ 
میں معذرت کے ساتھ پھر وہی بات کہوں گا کہ عالمِ اسلام کی سیاسی آزادی کے بعد بھی ہمیں علمی و فکری غلامی سے نجات نہ مل سکی۔ اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری علمائے کرام پر عائد ہوتی ہے، ضرورت ہے کہ وہ اس خول سے باہر نکلنے کی جرأت کریں جو انہوں نے قرونِ وسطیٰ میں قرآن و سنت کی تعبیر و تفہیم کے لیے یونانی و اشراقی باطل افکار کا حصار اپنے گرد بنا رکھا ہے۔ اس طرح وہ اب تک ان لفظی موشگافیوں اور لایعنی فرسودہ افکار کے دھندلکے کی وجہ سے عصرِ حاضر کو نہیں دیکھ پا رہے ہیں، اور بزعم خود یہ سمجھ رہے ہیں کہ ارسطو و جالینوس، فارابی و بو علی سینا کے افکار و نظریات کی تردید سے انہیں خودبخود آج کے جدید افکار و نظریات کا بھی جواب مل جاتا ہے، اس لیے انہیں ان کے مطالعہ و تحقیق اور تجزیہ کی زحمت اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ حالانکہ وقت کا تقاضا ہے کہ جدید نظریات سے آنکھیں چرانے کے بجائے جرأت سے ان کا سامنا کریں اور انہیں قرآن و سنت اور علم و عقل کی کسوٹی پر پرکھیں اور ان کا پوسٹ مارٹم کر کے ان سے غیر اسلامی اجزاء کو اس طرح خارج کریں جس طرح ان کے اسلاف نے تیسری صدی ہجری میں یونانی و اشراقی افکار کا کیا تھا۔ 
ہمارے نزدیک صورت حال کا حل صرف اور صرف یہ ہے کہ علمائے کرام اس فاصلہ کو ختم کریں جو گزشتہ کئی صدیوں سے ان کے اور نئی نسل کے درمیان، بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں ان کے اور عصری علوم و تقاضوں کے درمیان پیدا ہو گیا ہے۔ اور عصری علوم و افکارت بے خبری کو ختم کریں۔ موجودہ فکری و نظریاتی چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ضروری ہے کہ یورپین زبانوں، سائنٹفک طرز تحریر، جدید ترین ذرائع ابلاغ، عصری تکنیک و اسلحہ سے پوری طرح واقف ہوں، اور قرونِ وسطیٰ کے فلسفہ اور منطق اور یونانی و ایرانی افکار کے ماحول سے باہر نکلیں جو اُس وقت ایک وقتی ضرورت کے تحت اختیار کیے گئے تھے۔ تو انہیں قرآن و سنت سے عصری گمراہیوں اور فکری چیلنجوں کا علمی و فکری میدان میں جواب دینے کی پوری رہنمائی ملے گی، اس لیے کہ قرآن و سنت ہر ہر دور کی کجی و بے راہ روی اور فکری و نظریاتی ضلالت و گمراہی سے نکل کر شاہراہِ علم و حقیقت، فوز و کامرانی پر گامزن کرنے کے لیے بالکل کافی ہے، شرط یہ ہے کہ دل و دماغ کے دروازے کھلے رکھے جائیں۔

دینی مدارس، پس منظر اور مقاصد و خدمات

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف

سوویت یونین کے بکھر جانے اور روس کے بحیثیت سپر طاقت کے زوال کے بعد امریکہ واحد سپر طاقت رہ گیا ہے جس سے اس کی رعونت میں اضافہ اور پوری دنیا کو اپنی ماتحتی میں کرنے کا جذبہ مزید توانا، بالخصوص عالم اسلام میں اپنے اثر و نفوذ اور اپنی تہذیب و تمدن کے پھیلانے میں خوب سرگرم ہو گیا ہے۔ نیوورلڈ آرڈر (نیا عالمی نظام) اس کے اسی جذبے کا مظہر اور عکاس ہے۔ 
امریکہ کے دانش ور جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ان کی حیا باختہ تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب اپنے حیاء و عفت کے پاکیزہ تصورات کے اعتبار سے بدرجہا بہتر اور فائق ہے۔ اس لیے یہ اسلامی تہذیب ہی اس کے نئے عالمی نظام اور اس کی عالمی چودھراہٹ کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، اسے ختم یا کمزور کیے بغیر وہ اپنا مقصد اور عالمی قیادت حاصل نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اس نے اسلامی تہذیب و تمدن کو ختم کرنے کے لیے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ یہ مذموم کوششیں ویسے تو ایک عرصے سے جاری ہیں اور مختلف جہتوں اور محاذوں سے یہ کام ہو رہا ہے، بعض محاذوں پر اس کی پیش قدمی نہایت کامیابی سے جاری ہے، مثلاً‌
  • حقوقِ نسواں کے عنوان سے مسلمان عورتوں میں اپنے مذہب سے نفرت و بیگانگی اور بے حیائی و بے پردگی کی اشاعت، جس میں وہ بہت کامیاب ہے۔ چنانچہ سعودی معاشرے کے علاوہ بیشتر اسلامی ملکوں کی مسلمان عورتوں کو اس نے اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس پردے کی پابندی سے آزاد اور حیاء و عفت کے اسلامی تصورات سے بے نیاز کر دیا ہے۔
  • مخلوط تعلیم کا، مخلوط سروس اور مخلوط معاشرت کا فتنہ، اور مساواتِ مرد و زن کا مغربی نظریہ ہے جو ہر اسلامی ملک میں اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ گویا اس محاذ پر بھی مغرب کی سازشیں اپنا رنگ دکھا رہی ہیں۔ 
  • نرسری سے لے کر کالج اور یونیورسٹیوں کی سطح تک نصابِ تعلیم میں لارڈ میکالے کی وہ روح کار فرما ہے جو اس انگریزی نظام تعلیم کا موجد تھا اور جس نے کہا تھا کہ ’’اس سے ایسا طبقہ پیدا ہو گا جو خون اور رنگ کے اعتبار سے ہندوستانی، مگر خیالات اور تمدن میں انگریز ہو گا۔‘‘ یہ بات اس نے ۱۸۳۴ء میں کہی تھی جب متحدہ ہندوستان انگریزوں کے زیرنگیں تھا، لیکن آزادی کے بعد بھی چونکہ یہی نصابِ تعلیم بدستور جاری ہے، اس لیے خیالات اور تمدن میں انگریز بننے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ انگریزی زبان کے تسلط اور برتری سے بھی وہ اپنے مذکورہ مقاصد حاصل کر رہا ہے اور ہم نے اس کی زبان کو بھی سینے سے لگا رکھا ہے۔ اور یوں اس کے استعماری عزائم اور اسلام دشمنی بلکہ اسلام کش منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اس کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔
  • اقتصاد و معیشت میں بھی ہم نے اس کی پیروی اختیار کر رکھی ہے اور سودی نظام کو، جو لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات کا حکم رکھتا ہے، ہم نے اسے مکمل تحفظ دیا اور اسے ہر شعبے میں بری طرح مسلط کیا ہوا ہے، جس کی وجہ سے اقتصادی ناہمواری عروج پر ہے۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر بنتا جا رہا ہے۔ نو دولتیوں کا ایک ایسا طبقہ الگ معرض وجود میں آچکا ہے جو پوری طرح مغربیت کے سانچے میں ڈھل چکا ہے۔ اس کا رہن سہن، بود و باش، طور اطوار حتیٰ که لہجہ و زبان تک سب کچھ مغربی ہے، وہ اسی مغربی تہذیب کا والہ و شیدا اور پرستار ہے اور اس کے شب و روز کے معمولات مغربی معاشرے کے عین مطابق ہیں۔ 
  • سیاست و نظمِ حکومت میں بھی ہم نے جمہوریت کو اپنایا ہوا ہے، جو مغرب ہی کا تحفہ ہے۔ یہ پودا مغرب میں ہی پروان چڑھا، وہاں کی آب و ہوا شاید اسے راس ہو، لیکن اسلامی ملکوں کے لیے تو جمہوریت اسلام سے محروم کرنے کی ایک بہت بڑی سازش ہے، جس کے دام ہم رنگ زمین میں بیشتر اسلامی ملک پھنس چکے ہیں۔ کچھ تو اس کی ’’برکت‘‘ سے اسلامی اقدار و روایات سے بالکل بیگانہ ہو چکے ہیں، جیسے ترکی ہے۔ کچھ سخت جان ہیں تو وہاں اسلامی اقدار اور مغربی اقدار میں سخت کشمکش برپا ہے۔ برسراقتدار حکمران مغربی تہذیب و تمدن کو مسلط کرنے پر تلے ہوئے ہیں، جب کہ اسلامی تہذیب سے محبت کرنے والا ایک گروہ اس کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے۔ تاہم عوام کی بہت بڑی اکثریت بیشتر اسلامی ملکوں میں دینی جذبہ و احساس اور شعور سے محروم ہونے کی وجہ سے الناس علیٰ دین ملوکہم کے تحت مغرب کی حیا باختہ تہذیب ہی کو اپنا رہی ہے۔ 
  • ہماری صحافت بالخصوص روزنامے مغربی ملکوں کے روزناموں سے بھی زیادہ بے حیائی پھیلانے میں مصروف ہیں۔ یہ چند ٹکوں کی خاطر مسلمان عورت کو روزانہ عریاں اور نیم عریاں کر کے پیش کرتے ہیں تاکہ عوام کی ہوس پرستی اور جنسی اشتہا کی تسکین کر کے ان کی جیبوں سے پیسے بھی کھینچے جائیں اور انہیں دولت ایمان سے بھی محروم کر دیں۔ ان غارت گرانِ دین و ایمان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان مہ وشوں، سیمیں تنوں اور رہزنانِ تمکین و ہوش کی رنگین اور شہوت انگیز تصویروں سے عوام کے اخلاق و کردار کس بری طرح بگڑ رہے ہیں۔ بے حیائی اور بے پردگی کو کس طرح فروغ مل رہا ہے اور فحاشی کا سیلاب کس طرح ہر گھر کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ انہیں صرف اپنی کمائی سے غرض ہے، اس کے علاوہ ہر چیز سے انہوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
ان مایوس کن، ایمان شکن اور روح فرسا حالات میں صرف دینی تعلیم و تربیت کے وہ ادارے اور مراکز امید کی ایک کرن ہیں جنہیں دینی مدارس اور مراکز اسلامیہ کہا جاتا ہے۔ جہاں محروم طبقات کے بچے یا دینی جذبات سے بہرہ ور لوگوں کے نوجوان، دین کے علوم حاصل کر کے مسلمان عوام کی دینی رہنمائی بھی کرتے ہیں اور ان کی دینی ضروریات کا سروسامان بھی۔ ان کی وجہ سے ہی تمام مذکورہ شیطانی کوششوں کے باوجود اسلامی اقدار و روایات ایک طبقے کے اندر موجود ہیں، معاشرے کے اندر اسلامی تشخص کسی نہ کسی انداز سے زندہ ہے، اور اسلامی عبادات و شعائر کا احترام لوگوں کے دلوں میں ہے۔ اس لحاظ سے یہ دینی مدارس اپنی تمام تر کوتاہیوں، محرومیوں اور کسمپرسی کے باوجود جیسے کچھ بھی ہیں، اسلام کے قلعے اور اس کی پناہ گاہیں ہیں، دینی علوم کے سر چشمے ہیں، جن سے طالبانِ دین کسبِ فیض کرتے اور تشنگانِ علم سیراب ہوتے ہیں، اور دین کی مشعلیں ہیں جن سے کفر و ضلالت کی تاریکیوں میں ہدایت کی روشنی پھیل رہی ہے اور اس کی کرنیں ایک عالم کو منور کر رہی ہیں۔ 
ان کی یہ خوبی ہی دشمن کی آنکھ میں کانٹا بن کر کھٹک رہی ہے۔ اسلام دشمن استعماری طاقتیں جنہوں نے عالمِ اسلام کو مذکورہ حسین جالوں میں پھنسا رکھا ہے اور جو اسے اسلام کی باقیات سے بالکل محروم کر دینا چاہتی ہیں، اب ان کا ہدف اسلامی جماعتیں اور دینی مدرسے ہیں۔ اسلامی جماعتوں کو وہ بنیاد پرست اور دہشت گرد قرار دلوا کر انہیں ملکی سیاست سے باہر نکالنا چاہتی ہیں تاکہ انتخابات کے مرحلے میں بھی اسلام کا نام لینا جرم بن جائے۔ مسلمان سربراہوں کی حالیہ کانفرنس میں، جو کاسابلانکا میں ہوئی، وہ اس قسم کی ایک قرارداد پاس کروانے میں کامیاب بھی ہو گئی ہیں۔ اور اس کے بعد اب یہ استعماری طاقتیں عالمِ اسلام میں برسر اقتدار اپنی پٹھو حکومتوں کے ذریعے سے دینی مدرسوں کو بھی ان کے اصل کردار سے محروم کرنا چاہتی ہیں۔ 
چنانچہ مغرب کی آلہ کار حکومتیں اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اب اس محاذ پر سرگرم ہو گئی ہیں، اور دینی مدارس کے خلاف بیان بازی کے بعد فرقہ واریت کی آڑ میں ان میں مداخلت کے لیے پر تول رہی ہیں، تاکہ انہیں ان کے اس تاریخی کردار سے محروم کر دیا جائے جو وہ ڈیڑھ دو صدی سے انجام دے رہے ہیں۔ اور یہاں سے بھی اسلام کے داعی و مبلغ، مفسر و محدث اور مفتی و فقیہ پیدا ہونے کی بجائے وہی مخلوق پیدا ہو جو کالج اور یونیورسٹیوں میں پیدا ہو رہی ہے، جس نے معاشرے سے اس کا امن اور سکون چھین لیا ہے، جو میڈونا اور مائیکل جیکسن کی پرستار ہے، اور اسلامی اقدار و روایات کے مقابلے میں مغربی اقدار و روایات کی شیدا اور اس کی تہذیب پر فریفتہ ہے۔

دینی مدارس: پس منظر اور مقاصد و خدمات

یہ مدارس دینی عربیہ، جن میں قرآن و حدیث اور ان سے متعلقہ علوم کی تعلیم دی جاتی ہے، صدیوں سے اپنے ایک مخصوص نظام و مقصد کے تحت آزادانہ دین کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ ان دینی مدارس کے پس منظر، غرض و غایت اور ان کی عظیم دینی خدمات سے ناواقف لوگ ان کے متعلق مختلف قسم کی باتیں بناتے رہتے ہیں۔ کبھی ان مدارس کو بے مصرف اور ان میں پڑھنے والے طلباء و علماء کو ’’یادگارِ زمانہ‘‘  کہا جاتا ہے، کوئی انہیں ملائے مکتب اور ابلہ مسجد قرار دیتا ہے، جو ان کی نظر میں زمانے کی ضروریات اور تقاضوں سے نا آشنائے محض ہیں، اور کوئی ’’اصلاح‘‘ کے خوشنما عنوان سے اور ’’خیر خواہی‘‘ کے دلفریب پردے میں باز و شکرے کے روایتی قصے کی طرح انہیں ان کی تمام خصوصیات سے محروم کر دینا چاہتے ہیں۔ اور اب ایک مخصوص گروہ کو سامنے رکھتے ہوئے، جن کا کوئی تعلق دینی مدارس سے نہیں ہے، انہیں ’’دہشت گرد‘‘ بھی باور کرایا جا رہا ہے۔ غرض یہ مدارس اور ان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء ’’جتنے منہ اتنی باتیں‘‘ کے مصداق ہر کِہ و مِہ کی تنقید کا نشانہ اور اربابِ دنیا کے طعن و تشنیع کا ہدف ہیں، بلکہ اب بین الاقوامی استعمار کی خاص ’’نگاہِ کرم‘‘ بھی ان پر مبذول ہے۔ 
لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ مدارس اپنے مخصوص پس منظر اور خدمات کے لحاظ سے اسلامی معاشرے کا ایک ایسا اہم حصہ ہیں جس کی تاریخ اور خدمات سنہرے الفاظ سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ ان میں پڑھنے پڑھانے والے نفوس قدسیہ نے ہر دور میں باوجود بے سر و سامانی کے دین اسلام کی حفاظت و صیانت کا قابل قدر فریضہ انجام دیا ہے۔ ان مدارس کے قیام کا پس منظر یہی تھا کہ جب حکومتوں نے اسلام کی نشر و اشاعت میں دلچسپی لینا بند کر دی، اور اسلامی تعلیم و تربیت میں مجرمانہ تغافل برتا، تو علمائے اسلام نے ارباب حکومت اور اصحاب اختیار کی اس کوتاہی کی تلافی یوں کی کہ دینی تعلیم و تربیت کے ادارے قائم کیے جو عوام کے رضا کارانہ عطیات اور صدقات و خیرات سے چلتے تھے۔ 
یہ دینی ادارے بالعموم سرپرستی سے محروم ہی رہے ہیں اور اس میں ان کے تحفظ و بقا کا راز مضمر ہے۔ بالخصوص برطانوی ہند میں، جب کہ انگریزوں نے لارڈ میکالے کے نظریہ تعلیم کے مطابق انگریزی تعلیم کو رواج دیا اور مسلمان عوام ملازمت اور دیگر مناصب و مراعات کے لالچ میں کالج اور یونیورسٹیوں کی طرف دیوانہ وار لپکے، اور دینی تعلیم اور دینی اقدار سے بے اعتنائی و بیگانگی برتنے لگے، تو علماء اور اصحابِ دین نے اس دور میں متحدہ ہندوستان کے قریہ قریہ اور گاؤں گاؤں دینی مدارس کا جال پھیلا دیا۔
انگریزوں نے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے جس انگریزی نظام تعلیم کو نافذ کیا تھا، اس کے دو بڑے مقصد تھے: ایک دفتروں کے لیے کلرک اور بابو پیدا کرنا۔ دوسرا مسلمان کو اس کے دین اور اس کے شعائر و اقدار سے بیگانہ کر دینا۔ بدقسمتی سے دورِ غلامی کا یہ مخصوص نظامِ تعلیم اپنے مخصوص مقاصد سمیت تاحال قائم ہے۔ اسی لیے دینی مدارس کی ضرورت بھی محتاجِ وضاحت نہیں۔ بنا بریں علماء جب سے اب تک ان مدارس کے ذریعے سے دین کی نشر و اشاعت اور دینی اقدار و شعائر کی حفاظت کا فریضہ نا مساعدت احوال اور انتہائی بے سروسامانی کے باوجود سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ انہی مدارس کا فیض ہے کہ ملک میں اللہ و رسول کا چرچا ہے، حق و باطل کا امتیاز قائم ہے، دینی اقدار و شعائر کا احترام و تصور عوام میں موجود ہے، اور عوام اسلام کے نام پر مرمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
دینی مدارس کے اس پس منظر، غرض و غایت اور خدمات سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے قیام کا مقصد ڈاکٹر، وکیل، انجینئر، صنعتکار اور کلرک و بابو پیدا کرنا نہیں بلکہ دینی علوم کے خادم، دینِ اسلام کے مبلغ و داعی، قرآن کے مفسر احادیث کے شارح، اور دین متین کے علم بردار تیار کرنا ہے۔ ان کا نصابِ تعلیم اسی انداز کا ہے جن کو پڑھ کر وارثانِ منبر و محراب ہی پیدا ہوتے ہیں، کیونکہ ان کا مقصد ایسے ہی رجال کار پیدا کرنا ہے، نہ کہ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں کھپ جانے والے افراد۔ اس لیے بنیادی طور پر ان کے نصابِ تعلیم میں تبدیلی یا ان کی آزادانہ حیثیت میں تغیر دونوں چیزیں ان کے مقصدِ وجود کی نفی کے مترادف ہیں۔ 
نصابِ تعلیم میں بنیادی تبدیلی سے دینی مدارس سے فارغ ہونے والے طلباء نہ دین کے رہیں گے نہ دنیا کے۔ اگر کسی محدود سے مفاد کے ساتھ وہ دنیوی شعبے میں کھپنے کے لائق ہو بھی گئے تو بہرحال یہ تو واضح ہے کہ دینی علوم اور مذہبی تبلیغ سے ان کا رابطہ ختم ہو جائے گا، یا اگر رہے گا بھی تو اس انداز کا نہیں رہے گا جو اسلامی علوم کی نشر و اشاعت اور اس کی تبلیغ کے لیے مطلوب ہے۔ اس طرح ان مدارس سے دین کے وہ خدام تیار ہونے بند ہو جائیں گے جن کے ذریعے سے قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں، ائمہ و خطباء،  حفاظ و قراء اور مدرسین و مولفین پیدا ہو رہے ہیں جن سے مختلف دینی شعبوں کی تمام ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ 
اگر نصابِ تعلیم کی تبدیلی سے یہی نتیجہ نکلا اور یقیناً یہ نکلے گا تو ظاہر بات ہے کہ دینی مدارس کی مخصوص حیثیت ختم ہو جائے گی اور وہ بھی عام دنیوی اداروں (اسکول، کالج، یونیورسٹی وغیرہ) کی طرح ہو جائیں گے۔ حالانکہ دنیوی تعلیم کے یہ ادارے پہلے ہی ہزاروں کی تعداد میں ہر چھوٹی بڑی جگہ پر موجود ہیں اور حکومت ان پر کروڑوں روپیہ خرچ کر رہی ہے۔ بنا بریں دینی مدارس کے نصاب میں بنیادی تبدیلی کے پیچھے خواہ کتنے ہی مخلصانہ جذبات اور خیر خواہانہ محرکات کار فرما ہوں، تاہم یہ جذبات و محرکات بالغ نظری کی بجائے سطحیت کا شاخسانہ ہیں اور اس سے دینی تعلیم اور دینی ضروریات کا سارا نظام تلپٹ ہو سکتا ہے۔ اور مختلف عنوانات سے اس میں مداخلت کرنے والوں کا مقصد بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ لا قدرھا اللہ۔ 
اسی طرح ان دینی مدارس کی آزادانہ حیثیت ختم کر کے ان کو سرکاری سرپرستی میں دے دینا بھی سخت خطرناک ہو گا۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، بالخصوص آج کل جب کہ کسی حکومت کو قرار و ثبات نہیں اور نظریاتی انتشار، فکری بے راہ روی اور مغربیت سے مرعوبیت عام ہے، ہو سکتا ہے ایک حکومت مخلص ہو اور وہ فی الواقع دینی مدارس کو اپنی سرپرستی میں لے کر دینی علوم کی زیادہ سے زیادہ نشر و اشاعت کرنا چاہتی ہو۔ لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل کلاں کو انتقالِ اقتدار کا مرحلہ آیا اور حکومت کسی دین دار آدمی کی بجائے کسی سیکولرسٹ، ابن الوقت اور ملحد کے ہاتھ میں آگئی تو وہ ان مدارس کو اپنے مخصوص مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرے گا یا وہ ان کی دینی حیثیت کو تبدیل نہیں کرے گا۔ بنا بریں دینی اداروں کو سرکاری سرپرستی سے بچا کر رکھنا بھی ان کی دینی افادیت و حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ سرکاری سرپرستی کسی موقع پر ان کے لیے دست غیب کی بجائے دست اجل بھی ثابت ہو سکتی ہے، جس طرح ترکی میں مصطفیٰ کمال پاشا کے دور میں ہوا کہ دینی اداروں کا وجود بالکل ختم کر دیا گیا۔ 
اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اس محاذ پر حکومت کا سرگرم اور فکر مند ہونا صحیح نہیں۔ ہم حکومت سے عرض کریں گے کہ وہ دینی مدارس کو ان کے حال پر چھوڑ دے۔ یہ ٹھیک ہے کہ دینی اداروں میں بہت سی چیزیں اصلاح طلب ہیں، اس سے انکار نہیں، لیکن حکومت اس شعبے کو کم از کم اپنے اصلاحی اقدامات سے خارج کر دے۔ زندگی کے اور دیگر تمام شعبے سخت اصلاح طلب ہیں، حکومت اپنی توجہ تمام تر اس طرف مبذول کرے۔ اگر دینی تعلیم کے اہتمام کا زیادہ ہی شوق ہے تو وہ اپنا یہ مقصد اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں ضروری تبدیلی کر کے حاصل کر سکتی ہے اور حکومت کو یہ مقصد دنیوی تعلیم کے اداروں کی ہی اصلاح کر کے اور ان کے ذریعے سے ہی حاصل کرنا چاہیے۔ کیونکہ دینی ادارے، گو کتنے ہی اصلاح طلب ہوں، تاہم وہ ملک میں اخلاقی انار کی فکری بے راہ روی اور نظریاتی انتشار نہیں پھیلا رہے، جب کہ اسکول و کالج وغیرہ یہ کام بڑی سرگرمی سے انجام دے رہے ہیں، اس لیے اصل ضرورت اسکول و کالج اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں تبدیلی، ان کے انتظامی معاملات میں دخل اندازی، اور ان کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنے کی ہے۔ نہ کہ دینی مدارس کے نصاب یا نظم و نسق میں دخل اندازی کی۔
دوسری طرف دینی مدارس کے ارباب انتظام اور مسند نشینان درس و افتاء سے بھی ہم عرض کریں گے کہ ان کی اصل پونجی اعتماد علی اللہ ہے۔ اب تک تو توکلاً‌ علی اللہ ہی تمام دینی مدارس اپنا کام کرتے آئے ہیں اور انتہائی بے سر و سامانی کے عالم میں بھی انہوں نے دینی علوم کی خدمت کا علم سرنگوں نہیں ہونے دیا ہے، اور کچھ نہ ہونے کے باوجود اپنے دائروں میں بہت کچھ کیا ہے۔ اس موقع پر جب کہ حکومت ان کی ’’امداد‘‘ اور ’’سرپرستی‘‘ کے لیے کچھ پَر تول رہی ہے، بہت تدبر اور فراست سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اور انہیں تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد ہی حکومت کی امداد و سرپرستی یا اس کی دخل اندازی کے قبول یا عدمِ قبول کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ محض حکومت کی گرانٹ ہی (جس کی حلت بھی مشکوک ہے) ان کے لیے باعث کشش، یا دینی مدارس سے فارغ ہونے والے طلباء کا سرکاری اداروں میں ملازمت کی توقع ہی ان کا مرکزِ توجہ نہ ہو۔ بلکہ اصل چیز ان کی وہ تاریخی حیثیت ہے جس کی رو سے وہ آزادانہ طور پر دین و علم اور ملک و ملت کی خدمات سرانجام دیتے آئے ہیں اور بحمداللہ اب تک دے رہے ہیں۔ کسی عاجلانہ اقدام یا نافعانہ خواہش سے اگر وہ اپنے اس تاریخی کردار سے محروم ہو گئے تو یہ بہت بڑا المیہ ہوگا۔
اب ہم ان اعتراضات و شبہات کی طرف آتے ہیں جو دینی مدارس کے بارے میں مختلف اطراف سے سامنے آ رہے ہیں۔

دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی کا مسئلہ

ان میں سب سے اہم مسئلہ نصابِ تعلیم کا ہے۔ اس پر گفتگو کرنے والے اپنے اور بیگانے دوست اور دشمن دونوں قسم کے لوگ ہیں۔ بعض لوگ بڑے اخلاص سے دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی کا مشورہ دیتے اور اس میں تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں، لیکن ہم عرض کریں گے کہ نصاب میں بنیادی تبدیلی کے پیچھے چاہے کتنے ہی مخلصانہ جذبات ہوں، تاہم وہ دینی مدارس کے اصل مقاصد سے (جس کی وضاحت گزشتہ سطور میں کی جا چکی ہے) مناسبت نہیں رکھتی بلکہ وہ ان کے لیے سخت نقصان دہ ہوگی۔
نصاب کی تبدیلی کی دو صورتیں ہیں:
ایک تبدیلی کی صورت یہ ہے کہ دینی مدارس عربیہ کا نصاب معمولی سے فرق کے ساتھ سکول، کالج اور یونیورسٹی والا کر دیا جائے، ان کی ڈگریاں بھی میٹرک ایف اے، بی اے اور ایم اے کے برابر ہوں اور ان کے ڈگری یافتہ اصحاب سرکاری اداروں میں ملازمتیں کر سکیں۔ 
دوسری تبدیلی کی صورت یہ ہے کہ عصرِ حاضر کے فتنوں، تحریکوں اور ازموں کو سمجھنے کے لیے دینی مدارس کی صرف آخری کلاسوں میں بعض ضروری جدید علوم کی تدریس کا انتظام بھی کیا جائے، تاکہ ایک طرف دینی علوم کی تحصیل میں کوئی رخنہ نہ پڑے (جیسا کہ پہلی صورت میں یہ متوقع ہی نہیں، یقینی ہے) اور دوسری طرف علماء زیادہ مؤثر انداز اور زیادہ بہتر طریقے سے عصر ِحاضر کے فتنوں کا مقابلہ اور اسلام کا دفاع کر سکیں۔ 
پہلی تبدیلی کا مقصد اور نتیجہ علماء کے دینی کردار کا خاتمہ اور دینی مدارس کے مقصدِ وجود کی نفی ہے۔ اس سے دینی مدارس سے امام و خطیب، مصنف و مدرس اور دین کے مبلغ و داعی بننے بند ہو جائیں گے جو دینی مدارس کا اصل مقصد ہے۔ اور یہاں سے بھی کلرک، بابو اور زندگی کے دیگر شعبوں میں کھپ جانے افراد ہی پیدا ہوں گے جیسے دنیوی تعلیم کے اداروں سے پیدا ہو رہے ہیں۔ جب کہ دینی مدارس کے قیام اور ان کے الگ وجود کا مقصد شریعت کے ماہرین اور صرف دین اور دینی ضروریات کے لیے کام کرنے والے رجال کا پیدا کرنا ہے۔ اس اعتبار سے ان مدارس کی حیثیت تخصیصی شعبوں کی طرح ہے، جیسے میڈیکل کا، انجینئرنگ کا، معاشیات کا، اور دیگر کسی علم کا شعبہ ہے، ان میں سے ہر شعبے میں صرف اسی شعبے سے تعلق رکھنے والی تعلیم کا اہتمام ہوتا ہے، دیگر علوم کی تعلیم کی نہ صرف ضرورت نہیں سمجھی جاتی، بلکہ اسے اصل تعلیم کے لیے سخت نقصان دہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ عجیب طرفہ تماشہ ہے کہ دین کی مخصوص تعلیم کے اداروں کے لیے دنیا بھر کے علوم کی تعلیم کو ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ ان ھذا لشیءٌ عجاب۔
اور اگر مقصد دوسری قسم کی تبدیلی ہے تو اس سے یقیناً‌ علمائے کرام کے کردار کو زیادہ مؤثر اور مفید بنایا جا سکتا ہے جس کے علماء اور اصحاب مدارس قطعاً‌ مخالف نہیں ہیں، بلکہ حسبِ استطاعت بعض بڑے مدارس میں ان کا اہتمام بھی ہے اور اس میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس تبدیلی اور اہتمام سے دینی مدارس کا اصل نصاب متاثر نہیں ہوتا بلکہ اس کی تکمیل ہوتی ہے، اور اس سے دین اور اسلام کی برتری کا وہ مقصد ہی حاصل ہوتا ہے جو دینی مدارس کا اصل مقصد ہے۔ 
تبدیلی کی ایک بڑی حسین صورت یہ بھی تجویز کی جاتی ہے کہ جدید و قدیم تعلیم کا ایک ملغوبہ تیار کیا جائے تاکہ ایسے افراد پیدا ہوں جن میں قدیم و جدید کا امتزاج اور دونوں علوم میں ان کو مہارت ہو۔ یہ تصور یقیناً‌ بڑا خوش کن اور مسرت آگیں ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ تجربہ کئی جگہ کیا گیا ہے لیکن کہیں بھی مبینہ مقصد حاصل نہیں ہو سکا۔ اس طرح کے اداروں سے فارغ ہونے والے نہ دین کے رہیں گے نہ دنیا کے۔ علومِ شریعت میں بھی وہ خام ہوں گے جس کی وجہ سے وہ دینی اور علمی حلقوں میں درخور اعتناء نہیں سمجھے جائیں گے، اور دنیاوی تعلیم میں بھی وہ ادھورے اور ناقص ہوں گے، اس لیے زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی ان کی کھپت مشکوک رہے گی۔ وہ آدھے تیتر اور آدھے بٹیر، یا نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملّا خطرہ ایمان ہی کا مصداق ہوں گے۔
علاوہ ازیں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ دینی مدارس تو اپنے مقاصد اور طاقت کے مطابق نونہالانِ قوم کی دینی تعلیم و تربیت اپنے اپنے دائروں میں کر رہے ہیں، جس سے قوم کی دینی ضروریات پوری ہو رہی ہیں، اور جس سے معاشرے میں دینی اقدار و روایات کا شعور اور احترام بھی موجود ہے (گو عمل میں کوتاہی کا سلسلہ بہت وسیع ہے جس کے دیگر عوامل و اسباب ہیں) گویا دینی مدارس سے وہ مقاصد حاصل ہو رہے ہیں جو ان کے قیام و وجود سے وابستہ ہیں۔ اس کے برعکس سکول و کالج اور یونیورسٹیاں ہیں، کیا ان میں تعلیم پانے والے بچے اور بچیاں اپنے مذہب کا صحیح شعور رکھتی ہیں؟ ان سے فارغ ہونے والی نسل کے ذہن میں اسلامی تہذیب و تمدن سے کوئی وابستگی ہے؟ وہ عمل اور نظریے کے اعتبار سے صحیح مسلمان ہیں؟ 
اگر جواب نفی میں ہے اور یقیناً‌ نفی میں ہے تو کیا بحیثیت مسلمان ہونے کے ہماری حکومتوں کی اولین ذمے داری یہ نہیں ہے کہ وہ سب سے پہلے ان تعلیمی اداروں کے نصاب میں ایسی بنیادی تبدیلی کریں کہ ان میں تعلیم پانے والے بچے اپنے مذہب کا تو صحیح شعور حاصل کر سکیں، انجینئر ڈاکٹر، صحافی، ماہر معیشت، جو بھی بنیں، وہ ساتھ ساتھ مسلمان بھی رہیں، اسلام پر عمل کرنے کا جذبہ بھی ان میں توانا ہو۔ یہ ادارے تو اس کے برعکس مسلمانوں کی نوجوان نسل کو نامسلمان بنا رہے ہیں، انگریزی تہذیب کا والہ و شیدا بنا رہے ہیں اور مائیکل جیکسن اور میڈونا کا پرستار پیدا کر رہے ہیں۔ 
نصابِ تعلیم میں تبدیلی کی ضرورت تو ان اداروں میں ہے جہاں تعلیم کے نام پر مسلمانوں کی نسلِ نو کو اخلاق و کردار سے، حیاء و عفت سے، اور ایمان و تقویٰ سے محروم کیا جا رہا ہے۔ نہ کہ ان دینی مدارس کے نصاب میں جہاں کے فارغین بہت سی کوتاہیوں کے باوجود بہرحال اسلام کے احکام و فرائض کی پابندی کو ضروری سمجھتے ہیں، اخلاق و کردار کے زیور سے آراستہ ہیں، اور معاشرے کی ظلمتوں میں دین کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔ 

فرقہ وارانہ تصادم اور نصاب

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ان کا نصاب فرقہ وارانہ ہے اور ان سے فرقہ وارانہ تصادم میں اضافہ ہو رہا ہے، اس لیے اس کے نصاب میں تبدیلی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ہماری گزارش یہ ہے کہ یہ نصاب صدیوں سے دینی مدارس میں پڑھایا جا رہا ہے اور علماء پڑھتے آ رہے ہیں۔ لیکن ان کے مابین اس طرح فرقہ وارانہ تصادم کسی دور میں نہیں ہوا جس طرح چند سالوں سے دیکھنے میں آرہا ہے۔ اگر یہ قصور نصابِ تعلیم کا ہوتا تو یہ تصادم تو ہر دور میں ہونا چاہیے تھا، پاکستان کے علاوہ دیگر اسلامی ملکوں میں بھی ہوتا، اور پاکستان میں چند سال قبل بھی ہوتا۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے، دیگر اسلامی ملکوں میں یہ تصادم نہیں ہے جب کہ دینی مدارس وہاں بھی ہیں، ان کا نصاب بھی تقریبا" وہی ہے جو پاکستان کے دینی مدارس کا ہے، اسی طرح پاکستان میں بھی اس تصادم کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے، بلکہ چند سالوں سے ہی یہ الم ناک صورت حال سامنے آ رہی ہے۔ 
اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اس کا تعلق دینی مدارس کے نصاب سے نہیں ہے، بلکہ اس کے دیگر اسباب ہیں جو باخبر حضرات سے مخفی نہیں ہیں۔ حکومت اگر اس تصادم کے روکنے اور اس کے سدباب میں مخلص ہوتی تو یقیناً‌ وہ اس کو روک سکتی تھی۔ جو دو گروہ آپس میں متصادم ہیں اور اس تصادم کے جو اسباب ہیں، حکومت ان دونوں باتوں سے آگاہ ہے۔ لیکن با خبر لوگوں کا کہنا تو یہ ہے کہ اس کے پس پردہ بھی اصل ہاتھ حکومت کا ہے۔ یہ متحارب گروہ حکومت کے زیر اثر ہیں، لیکن حکومت نے ان کو باہم کشت و خوں ریزی کی چھوٹ دے رکھی ہے۔ شاید اس میں کار فرما مقصد یہی ہو کہ حکومت اس طرح تمام دینی طبقوں کو متشدد اور متحارب و متصادم باور کرا کر ان سب کی آزادی و خود مختاری کو سلب کر لینا چاہتی ہے۔ ورنہ حکومت کے لیے دو فریقوں کو خونی تصادم سے روک دینا اور ان سے تمام اسلحہ برآمد کر لینا کوئی مشکل معاملہ نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں اس بات سے اتفاق نہیں ہے کہ دینی مدارس کا نصابِ تعلیم فرقہ وارانہ تصادم کا اصل سبب ہے۔
تاہم اس حقیقت کا ہمیں اعتراف ہے کہ فرقہ واریت کے نقطہ نظر سے نصاب اصلاح اور نظرثانی کا محتاج ہے۔ یہ فرقے، قرآن کریم کی تعلیم ولا تفرقوا کے خلاف ہیں۔ اس لیے ان اسباب و عوامل کا تجزیہ کر کے، جو ان فرقوں کے معرضِ وجود میں آنے کا سبب ہیں، ان کے سدباب کے لیے مخلصانہ مساعی ہونی چاہئیں، جن میں نصاب پر نظرثانی بھی شامل ہے۔ تاہم یہ ایک الگ موضوع ہے جس کی تفصیلات کا یہ موقع نہیں۔ یہاں اس کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود صرف یہ ہے کہ فرقہ واریت کے نقطہ نظر سے یقیناً اصلاح کی گنجائش ہے جس پر علماء کو ضرور سوچنا چاہیے اور اس کے سدباب کے لیے جو ممکن تدابیر ہوں، انہیں پورے اخلاص سے بروئے کار لانے کی سعی کرنی چاہیے تاکہ حکومت کو اس بہانے سے دینی مدارس میں مداخلت کا موقع نہ ملے۔ 
گو اس نصاب سے تصادم و تحارب تو نہیں ہوتا جیسا کہ عرض کیا گیا ہے تاہم فرقہ وارانہ ذہنیت ضرور فروغ پاتی ہے، جب کہ اسلام کا مطلوب اتحادِ امت ہے نہ کہ افتراقِ امت۔ ان فرقوں کو تقدس کا درجہ دے کر ان کی اصلاح کے لیے کوشش نہ کرنا اور باہم اتحاد و قربت کی راہیں تلاش نہ کرنا شرعی لحاظ سے پسندیدہ امر نہیں ہے۔ اس محاذ پر علماء کا جمود ایک مجرمانہ فعل ہے، جس کا ارتکاب کو صدیوں سے ہوتا آ رہا ہے، لیکن وہ بہرحال جرم ہے، جس کی اصلاح علماء کا فریضہ اور اس سے اعراض و گریز ان کی کوتاہی ہے۔ 

تشدد کی تربیت اور اسلحہ کی ٹریننگ — ایک خلط مبحث 

بعض لوگ کہتے ہیں کہ مدارس میں تشدد کی تربیت اور اسلحہ چلانے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا الزام ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر کسی مدرسے میں ایسا ہوتا ہے تو حکومت کا آہنی پنجہ اس کو اپنی گرفت میں کیوں نہیں لیتا؟ اور حکومت اگر تمام تر وسائل کے باوجود کسی ایک مدرسے کا بھی سراغ نہیں لگا سکی جس میں اس قسم کی ٹریننگ دی جاتی ہو تو تسلیم کر لینا چاہیے کہ کسی بھی مدرسے میں ایسا نہیں ہوتا۔
تاہم اس کے ساتھ اس حقیقت کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے کہ افغانستان میں روس کی جارحیت اور مداخلت کے بعد جو جہاد، افغانستان کی دینی جماعتوں نے شروع کیا، اس میں پاکستان کی دینی جماعتوں نے بھی حصہ لیا، دینی مدرسوں میں زیر تعلیم طلباء نے اس جہاد میں حصہ لیا اور بہت سے دین دار لوگوں نے بھی حصہ لیا۔ یہ حصہ مالی بھی تھا اور جانی بھی۔ یعنی پاکستان کی دینی جماعتوں اور دین دار لوگوں نے اپنا مال بھی جہاد افغانستان میں خرچ کیا اور اپنی جانیں بھی پیش کیں۔ اور جہاد میں حصہ لینے کے لیے اسلحہ کی ٹریننگ ناگزیر ہے۔ چنانچہ علماء و طلبائے دینی مدارس نے یہ ٹریننگ لی۔ لیکن کہاں؟ مدرسوں میں نہیں بلکہ افغانستان کے محاذوں پر مورچہ زن ہو کر اور وہاں قائم تربیتی کیمپوں میں، جہاں ہر وقت جان کا خطرہ رہتا تھا۔ چنانچہ جذبہ جہاد سے سرشار ان علماء و طلباء و اہل دین نے ٹریننگ کے ساتھ اور ٹریننگ کے بعد جہاد افغانستان میں حصہ لیا اور بہت سے علماء و طلباء اور نوجوان عروسِ شہادت سے ہم کنار ہوئے، اور افغانستان میں ان جہادی قوتوں کی حکومت کے قیام اور ان کی آپس میں خانہ جنگی کے بعد پاکستان کے یہ اہل دین اور جذبہ جہاد سے سرشار نوجوان کشمیر کے محاذ پر کشمیری مجاہدین اور حریت پسندوں کے ساتھ داد شجاعت دے رہے ہیں اور وہاں بھی متعدد پاکستانی جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔
ظاہر بات ہے کہ یہ جنگی تربیت اور پھر عملاً اپنی جان ہتھیلی میں رکھ کر جہاد میں حصہ لینا، یہ بالکل الگ مسئلہ ہے، جو اگرچہ ایک واقعہ اور حقیقت ہے، مگر اس کا کوئی تعلق دینی مدارس میں اسلحے کی یا تشدد کی ٹریننگ سے نہیں ہے۔ کیونکہ کسی مدرسے میں بھی ایسی ٹریننگ نہیں دی جا رہی ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاد میں سرگرم یہ دینی طلباء اور نوجوان ملک میں فرقہ وارانہ تشدد اور تصادم میں قطعاً‌ ملوث نہیں ہیں، ان میں ان کا ایک فی صد حصہ بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ جو گروہ اس تصادم کا باعث ہیں، حکومت انہیں اچھی طرح جانتی ہے، لیکن اس کی مصلحتیں اسے ان پر ہاتھ ڈالنے سے روکے ہوئے ہے بلکہ حکومت ان کی محافظ اور پشتیبان بنی ہوئی ہے، تاکہ ان کی آڑ میں تمام دینی قوتوں پر وار کرنے کا جواز مہیا کیا جا سکے۔ ان متصادم گروہوں کو بنیاد بنا کر اگر محاذ جنگ پر قائم جنگی کیمپوں، تربیتی اداروں کو ختم کرنے کی مذموم کوشش کی گئی تو یہ دراصل جہاد سے مسلمانوں کو ہٹانے کی مذموم کوشش ہوگی جو امریکہ بہادر کو خوش کرنے کی ایک بدترین حرکت ہوگی۔ اس سے کشمیر کا موجودہ جہاد بھی سخت متاثر ہو گا اور ان مسلمانوں پر بھی ظلم عظیم جو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے جہاد کے عظیم مشن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ نوجوان، دہشت گرد اور تشدد پسند نہیں، بلکہ اسلام کا عظیم سرمایہ ہیں ، جنہوں نے اپنی قربانیوں سے جہاد کے اس فراموش شدہ جذبے کو زندہ کیا ہے جو مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی بحالی اور ان کی عزت و سرفرازی کا واحد ذریعہ ہے۔ اس سے مظلوم مسلمانوں کو کفار کے ظلم و ستم سے نجات دلائی جا سکتی ہے اور اس جہاد سے ہی امریکہ کے استعماری عزائم کو ناکام بنایا جا سکتا ہے، جیسا کہ اسی جہاد سے سوویت یونین کو پیوند خاک کیا گیا ہے۔

بیرونی امداد اور اس کی حقیقت

جہاں تک ’’بیرونی امداد‘‘ کا تعلق ہے، اس کے بارے میں بھی اصل حقیقت یہ ہے کہ اہلِ سنت کے تینوں مکاتبِ فکر کے کسی مدرسے کو بھی اس طرح بیرونی امداد نہیں ملتی جو اس کا متبادر مفہوم ہے۔ یعنی کوئی حکومت اپنے مخصوص مقاصد کے لیے انہیں امداد دے اور ان سے وہ کام لے جو وہ لینا چاہتی ہو۔ اس طرح کا بیرونی سہارا کسی بھی سنی مدرسے کو حاصل نہیں ہے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ دینی مدرسوں کو بیرونی امداد ملتی ہے اور وہ اسے لیتے اور استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ بیرونی امداد بالکل ایسے ہی ہے جیسے ملک کے بہت سے رفاہی اداروں کو بیرونی امداد خالص انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ملتی ہے اور وہ اسے قبول کرتے ہیں۔
دینی مدرسوں کو بھی یہ بیرونی امداد یقیناً ملتی ہے لیکن کسی بھی دنیاوی یا سیاسی مصلحت کے لیے نہیں بلکہ صرف دین کی نشر و اشاعت اور اس کی تعلیم و تدریس کی غرض سے ملتی ہے۔ رفاہی اداروں کو تو پھر بھی بعض حکومتوں کی طرف سے بھی امداد ملتی ہے، لیکن دینی اداروں کو جتنی بھی امداد ملتی ہے، وہ کسی بھی حکومت سے نہیں ملتی، صرف ان افراد سے انفرادی طور پر ملتی ہے جو پاکستان ہی کے باشندے ہیں اور وہ اللہ کی رضا کے لیے اپنی زکوٰۃ و صدقات کا مصرف پاکستان میں تلاش کرتے ہیں اور اپنی معلومات کے مطابق مستحق اداروں کو اپنی امداد کرتے ہیں کہ پاکستان، ہماری نسبت غریب ملک ہے، اور وہاں دینی ادارے کسمپرسی کا شکار ہیں اور اپنے تعلیمی و تبلیغی مقاصد کی تکمیل کے لیے بجا طور پر امداد کے مستحق ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ پوری طرح تصدیق کرنے کے بعد تعاون کرتے ہیں۔ اور بعض عرب اہل دین تو خاص طور پر خود پاکستان آتے ہیں، ادارے کی کارکردگی کو دیکھنے اور مختلف ذرائع سے اس کی بابت تحقیق کرتے ہیں اور مطمئن ہونے کے بعد محض اللہ کی رضا کے لیے ان کی امداد کرتے ہیں۔ اس میں ایک فیصد بھی کوئی دوسری غرض شامل نہیں ہوتی، دینے والوں کے دل میں، نہ لینے والوں کے دل میں۔ 
اس طرح کی بیرونی امداد سے یقیناً‌ پاکستان کے دینی ادارے فیض یاب ہو رہے ہیں اور اس سے خیر اور بھلائی کے بہت سے کام ہو رہے ہیں، یتیموں کی سرپرستی اور کفالت ہو رہی ہے، بہت سی جگہوں پر ہسپتال قائم ہیں جہاں غریبوں اور ناداروں کو علاج کی سہولتیں حاصل ہیں، اور دین کی تعلیم و تدریس اور تبلیغ و دعوت کا کام ہو رہا ہے۔ خود حکومت کے زیر سایہ اسلام آباد میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کیا ہے؟ کیا اس کے بیشتر اخراجات عرب حکومتیں مہیا نہیں کر رہی ہیں؟ فیصل مسجد کی تعمیر میں، جس میں یہ یونیورسٹی قائم ہے، جو اربوں روپیہ خرچ ہوا ہے، وہ کس نے مہیا کیا ہے؟ کیا وہ سعودی حکومت نے مہیا نہیں کیا؟ کیا سعودی حکومت نے اس سے کوئی سیاسی مفاد حاصل کرنے کی کبھی کوشش کی ہے؟ بعض ہسپتال حکومت کی سرپرستی میں عرب حکومتوں کے تعاون سے چل رہے ہیں، کیا انہوں نے کبھی کوئی سیاسی یا کسی اور قسم کا مفاد حاصل کیا ہے؟ نہیں، یقیناً‌ نہیں۔ وہ یہ سارے کام صرف اللہ کی رضا کے لیے کر رہے ہیں۔ 
پھر آخر ’’بیرونی امداد‘‘ کے نام پر اس شور و غوغا کا کیا جواز ہے؟ جس کی حقیقت اس کے سوا کوئی نہیں جو ابھی مذکور ہوئی ہے۔ الحمد للہ اہل سنت کے مدارس نے اس بیرونی امداد کو، جو حکومت کی بجائے صرف افراد سے وصول ہوتی ہے، دینے والوں کی نیت کے مطابق دینی مقاصد پر ہی خرچ کی ہے اور کرتے ہیں۔ اس سے نہ اسلحہ خریدا جاتا ہے، نہ طلباء کو تشدد کی ٹریننگ دی جاتی ہے، نہ فرقہ واریت کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اس امداد کو انہوں نے استعمال کیا ہے تو صرف اور صرف دین اور دینی مقاصد ہی کے لیے استعمال کیا ہے۔ 
البتہ اہل تشیع کا معاملہ اس سے مختلف ہے، ان کو بھی ایک ہمسایہ ملک سے امداد ملتی ہے، اور ہماری معلومات کے مطابق یہ امداد انفرادی طور پر نہیں، حکومت کی طرف سے ملتی ہے۔ اہل تشیع نے اس امداد کو جس طرح استعمال کیا ہے اور اس کے بل پر بعض مواقع پر انہوں نے تشدد، تصادم، دھمکیاں اور دھرنا مارنا وغیرہ کا جو راستہ اپنایا ہے، وہ یقیناً‌ قابلِ غور ہے۔ اس میں یہ نکتہ تحقیق طلب ہے کہ اس ایرانی امداد میں للٰہیت کتنی ہے اور مخصوص مقاصد کی کار فرمائی اور فرقہ وارانہ تصادم و محاذ آرائی کتنی؟ اسلحے کی فراوانی بھی انہی کے ہاں ہے جو عام طور پر فساد کا باعث بنتی ہے۔ اہل سنت میں سے کسی کے پاس اسلحہ نام کی کوئی چیز ہی سرے سے نہیں ہے۔ اب اگر اہل سنت کے بعض لوگوں نے اس کا تھوڑا بہت اہتمام کیا ہے تو وہ صرف حکومت کے اس فرقے سے اغماض کی وجہ سے اپنے تحفظ و دفاع کی غرض سے ہے۔ اگر حکومت اس فرقے کو اسلحے سے پاک کر دے تو کوئی اہل سنت اپنے پاس اسلحہ رکھنے کا روادار نہیں ہوگا، جیسا کہ پہلے ہی وہ اس سے سخت بیزار ہے۔

آمد و خرچ کا حساب کتاب اور اس کا آڈٹ

جہاں تک دینی مدارس کی آمد و خرچ کے حساب کتاب کا تعلق ہے، اس کی بابت عرض ہے کہ تمام بڑے بڑے دینی مدرسے اور ادارے اپنا مکمل حساب رکھتے ہیں بلکہ سالانہ آڈٹ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ حکومت کا منظور شدہ کوئی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ یہ کام سرانجام دیتا ہے وہ اپنے آڈٹ کی رپورٹ دیتا ہے۔ اس اعتبار سے بھی ان کا کردار صاف اور بے غبار ہے، اگر ایسا نہ ہو تو لوگ انہیں کبھی اپنا تعاون پیش نہ کریں، لوگ اس اعتماد کے بعد ہی ان سے تعاون کرتے ہیں کہ ان کی دی ہوئی رقم صحیح مصرف پر ہی خرچ ہو رہی ہے اور ایک ایک پائی کا حساب ان کے ہاں موجود ہے۔ 
لیکن یہ دینی ادارے حساب کتاب میں حکومت کی مداخلت کے اس لیے خلاف ہیں کہ جس حکومت کے اپنے ہاتھ صاف نہیں ہیں، انہیں دوسروں کا حساب کتاب دیکھنے کا حق کیوں کر دیا جا سکتا ہے؟ حکومت پہلے زندگی کے دوسرے شعبوں میں اپنی صحیح کارکردگی پیش کرے، اہلِ ملک کے بارے میں اپنی خیر خواہی کا ثبوت مہیا کرے اور اپنی غیر جانبداری تسلیم کرائے تو پھر دینی مدارس بھی یقیناً ’’آں را کہ حساب پاک است، از محاسبہ چہ باک است‘‘ کے مصداق حکومت کا حقِ احتساب تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔

دینی مدارس کے خلاف عالمی استعمار کی سازش

موجودہ حالات میں تو وہ کسی طرح بھی اپنے معاملات میں حکومت کو دخل اندازی کا حق دینا پسند نہیں کرتے اور واقعتاً‌ حکومت اس حق کی اہل بھی نہیں ہے۔ کیونکہ وہ بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس کے بارے میں حکومت کی ہاہاکار، یہ کسی کے اشارہ ابرو کا نتیجہ ہے۔ حکومت صرف اداکار ہے، ہدایت کار کوئی اور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی مدارس کے بارے میں حکومت کے کارندوں کا شور و غوغا صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے، بلکہ چونکہ یہ بین الاقوامی استعمار کی سازش کا ایک حصہ ہے اس لیے بیشتر ملکوں میں ان کے خلاف سرگرمیوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ 
پاکستان کے ساتھ ہی ہندوستان ہے، جہاں پاکستان ہی کی طرح وہاں کے ہر شہر اور قصبے میں دینی مدارس کا جال پھیلا ہوا ہے اور وہاں بھی پاکستان کی طرح دینی مدارس ہی دین کی نشر و اشاعت اور اس کے تحفظ و بقا کا واحد ذریعہ ہیں، اس لیے وہاں متشدد ہندو تنظیمیں ان کے خلاف سرگرم ہو گئی ہیں۔ چنانچہ ۲۴ دسمبر ۱۹۹۴ء کو لکھنو میں ’’وشو ہندو پریشد‘‘ اور تشدد پسند ہندو تنظیموں کے تعاون سے ایک عظیم اجتماع ہوا جس میں اشتعال انگیز تقریروں کے ساتھ شعلہ بار پمفلٹ، فولڈر اور ہینڈ بل تقسیم کیے گئے۔ اس تقسیم کیے گئے ایک فولڈر میں حکومت ہند سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ 
”دینی مدارس جو دہشت گردی، تشدد پسندی اور بنیاد پرستی کا گڑھ ہیں، جو قومی یکجہتی میں مانع ہیں، حکومت ان کے ساتھ کوئی نرمی کا معاملہ نہ کرے اور وہاں سے ان سرگرمیوں کو موقوف کرے جو مسلم قومیت کی انفرادیت کی بقاء و استحکام میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔‘‘
 اس قسم کے نعرے بھی لگائے گئے کہ اگر ان مدارس سے حکومت نے مصالحانہ رویہ اختیار کیا تو ہم دیش کی اکھنڈتا اور مریادا کے لیے خود یہ فریضہ سر انجام دیں گے۔ (ماہنامہ ’’بانگ درا‘‘ لکھنؤ، جنوری ۱۹۹۵ء ص ۳) 
دیکھ لیجئے، اس میں ان دینی مدارس کا ’’قصور‘‘ یہی بتلایا گیا ہے کہ یہ ’’مسلم قومیت کی انفرادیت کی بقاء اور استحکام کے ضامن ہیں‘‘۔ ان کا یہی ’’جرم‘‘ ہے جو عالمی استعمار کے لیے ناقابل برداشت ہے اور وہ اپنی پٹھو حکومتوں کے ذریعے سے ان پر کاری ضرب لگوانا چاہتا ہے۔ قاتلھم اللہ انیٰ یؤفکون۔

دینی مدارس، بنیاد پرستی اور انسانی حقوق

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی


ماہنامہ الشریعہ جنوری ۱۹۹۵ء میں شائع ہونے والے مضمون کی مکرر اشاعت
مضمون ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں




برق گرتی ہے تو بیچارے ملاؤں پر

خورشید احمد گیلانی

موقر روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کی اشاعت ۱۸ اپریل میں ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ 
’’حکومت کے ایماء پر یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے ذریعے تمام یونیورسٹیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ کسی ایسے طالب علم کو اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ نہ دیں جو دینی مدارس کے تشکیل شدہ کسی بھی بورڈ کا سند یافتہ ہو۔ اس نوٹیفیکیشن کے مطابق دینی مدارس کی سند شہادۃ العالمیہ کو ایم اے عربی اور ایم اے اسلامیات کے مساوی تسلیم نہ کرے۔‘‘
حکومت کے اس انتہائی ناروا اور مکروہ فیصلے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ جو ممکنہ وجوہ سمجھ میں آسکتی ہیں، وہ یہ ہیں:
۱۔ حکومت کے متواتر اعلانات اور بیانات کہ ہم پاکستان کو بنیاد پرستوں کا گڑھ نہیں بنے دیں گے، اور دینی مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں۔ شاید اس بنا پر یہ فیصلہ کیا گیا۔
۲۔ دینی تعلیم کے معیار کا مسئلہ یعنی شہادۃ العالمیہ کی سند رکھنے والے علماء تعلیمی اعتبار سے وہ اہمیت نہیں رکھتے جو ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی والوں کی ہوتی ہے۔ شہادۃ العالمیہ کی سند تسلیم نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔
۳۔ چونکہ یہ فیصلہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں (۱۷ نومبر ۱۹۸۲ء) ہوا تھا اور موجودہ حکومت ضیاء دور کی ہر علامت، نشانی، حکم اور فیصلے کو مٹانے پر تلی ہوئی ہے، یہ فیصلہ بھی شاید اسی پس منظر میں کیا گیا ہے۔ 
جہاں تک پہلی وجہ کا تعلق ہے تو وہ اس لیے قابلِ فہم ہے کہ حکومت کا معیارِ تہذیب و تمدن اور مدارِ عقیدہ و اصول چونکہ اللہ و رسول ﷺ نہیں بلکہ مغرب ہے، حق صرف وہی ہے جسے مغرب حق سمجھے اور باطل وہ ہے جسے مغرب ٹھکرا دے، اچھی قدر وہی ہے جسے مغرب کی مہر لگی ہوئی ہو اور بری روایت وہ ہے جس پر یورپ کا ٹھپہ نہ ہو، چونکہ ’’بنیاد پرستی‘‘ کے لفظ سے یورپ اور امریکہ کو آج کل خاص طور سے سخت کھجلی مچتی ہے، اس لیے ہماری حکومت کو بھی اس لفظ سے بہت الرجی ہے۔ 
اور یہ کہ دینی مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں، یہ بات حقائق کی میزان میں تو کوئی وزن نہیں رکھتی اور نہ واقعات کے تناظر میں درست ثابت ہوئی ہے، تاہم مغرب اور امریکہ چونکہ بنیاد پرستی اور دہشت گردی کو ہم معنی اور جڑواں سمجھ رہے ہیں، اس لیے ہماری حکومت کی کیا مجال کہ وہ ان سے مختلف مفہوم نکالے، طنبورہ مغرب کے سر میں سر ملانا ہماری حکومتوں کا بہت پرانا شیوہ رہا ہے، لیکن اس واہمے کو جواز بنا کر دینی مدارس کے سند یافتہ لوگوں کو ایم اے کی ڈگری سے محروم کرنا اور مزید اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند کر دینا سراسر حماقت ماب اور کراہت آمیز فیصلہ ہے۔ کیوں کہ واقعات کی دنیا میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ بنیاد پرستی ہو یا دہشت گردی، یہ سب اصطلاحات مغرب والوں نے محض خوئے بد را بہانہ بسیار کے مصداق اہلِ اسلام کو دبانے اور اپنی شرائط پر معاملہ طے کرنے کے لیے وضع کی ہیں، ورنہ ان کا اہل مغرب کے دماغ کے علاوہ خارج میں کہیں وجود نہیں، اپنے حق کے لیے لڑنا یورپ اور امریکہ کے نزدیک دہشت گردی اور دوسرے کی آزادی و استقلال اور خود مختاری پر دن دیہاڑے حملہ آور ہونا قیامِ امن ہے۔ 
آئے دن یورنیورسٹیوں اور کالجوں پر پولیس کے چھاپے پڑتے ہیں اور بے اندازہ اسلحہ برآمد ہوتا ہے مگر آج تک کسی دینی مدرسے سے (فی الواقع وہ دینی مدرسہ ہو، حکومت خواہ مخواہ کسی جگہ چھاپہ مار کر اسے دینی مدرسے کا نام نہ دے) دہشت گردی کے کوئی آلات اور تخریب کاری کے لوازم برآمد نہیں ہوئے۔
دوسری بات جو اس فیصلے کو جواز فراہم کر سکتی ہے، وہ یہ کہ مدارس کے فارغ التحصیل حضرات وہ تعلیمی معیار نہیں رکھتے جو ایم اے اسلامیات / عربی کے لیے ضروری ہے تو یہ مسئلہ خالصتاً‌ فنی اور علمی ہے۔ اس میں کسی نوع کی سیاست کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے مدارس عربیہ کے مختلف امتحانی بورڈز ہیں، ان کا ایک اپنا نظام ہے اور الگ الگ ادارے ہیں، مثلاً‌ وفاق المدارس، تنظيم المدارس، رابطہ المدارس وغیرہ۔ ان کے تحت سالانہ امتحانات ہوتے ہیں اور آخر میں جا کر شہادۃ العالمیہ کی سند جاری کی جاتی ہے اور اسی سند کو ایم اے (اسلامیات /  عربی) کے مساوی قرار دیا گیا، اور اسی بنیاد پر بعض علماء کو تعلیمی اداروں میں ملازمتیں ملیں اور مزید اعلیٰ تعلیم (پی ایچ ڈی وغیرہ) کی سہولت اور اجازت دی گئی۔ 
اس کے لیے مناسب اور موزوں یہ ہے کہ مدارس کے تعلیمی معیار کی چھان بین کی جائے، امتحانات کا نظام درست کیا جائے، نہ یہ کہ سہولت واپس لی جائے۔ ویسے کالجوں اور جامعات کے علوم اسلامیہ اور عربی میں ایم اے کرنے والے حضرات سے ان دونوں مضامین میں مدارس کے فارغ التحصیل علماء کا معیار عمومی طور پر بلند اور بہتر ہوتا ہے، البتہ دونوں طرف سے کچھ اصحاب اس سے مستثنیٰٰ ہیں۔ ۸۲ ء سے اب تک متعدد علماء نے اسی سہولت کی بنیاد پر جامعہ پنجاب، جامشورو یونیورسٹی، جامعہ کراچی، اور گومل یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، اور اس وقت بھی کئی علماء کے پی ایچ ڈی کے مقالے زیر ترتیب ہیں۔ یہ سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان لوگوں میں وہ اہلیت موجود ہے جو ایم اے کے لیے مطلوب اور پی ایچ ڈی کرنے کے لیے ضروری ہے، بنا بریں اس فیصلے کو اس تناظر میں دیکھ کر صادر کیا جائے۔ 
جس دن یہ خبر شائع ہوئی ہے، اسی روز صدر مملکت کا ایک خطاب بھی چھپا ہے جو انہوں نے مردان کے فضل حق کالج میں کیا کہ ’’روٹی، کپڑا اور مکان سے بھی بڑھ کر عوام کو تعلیم کی ضرورت ہے‘‘۔ نیز ’’مذہب ہمیں علم سیکھنے اور سکھانے کا درس دیتا ہے‘‘۔ یعنی ایک طرف تعلیم کی رغبت پیدا کرنے کا یہ عالم ہے اور دوسری طرف علم کے فروغ کے راستے میں یہ رکاوٹ ایک مخمصہ پیدا کرنے والی بات ہے، اور ساتھ ہی یہ کہ مذہب علم سیکھنے اور سکھانے کا درس دیتا ہے لیکن مذہبی تعلیم اربابِ حکومت کی نظر میں ایک فالتو چیز ہے جسے وہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ 
جہاں تک تیسری وجہ کا تعلق ہے یعنی ضیاء الحق کے عہد کا ہر فیصلہ موجودہ حکومت کی آنکھ میں کانٹا بن کر کھٹکتا ہے، تو یہ وجہ بھی انتہائی بودی اور لغو ہے۔ اگر ضیاء صاحب کے خاص الخاص لوگوں کو بڑی خوشی بلکہ گرمجوشی سے قبول کیا جا سکتا ہے تو ایک بے ضرر سے دینی اور تعلیمی فیصلے پر اس قدر رد عمل کیوں کر مناسب کہا جا سکتا ہے، کیا کسی کو معلوم نہیں کہ قومی اسمبلی کے سپیکر کون ہیں؟ گورنر پنجاب کس کے دستِ راست رہے ہیں؟ متعدد وفاقی وزراء ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کی زینت بنے رہے، ان کی کابینہ میں رہے۔ اگر یہ سب کچھ قابلِ قبول ہے تو گلے کی پھانس صرف وہ فیصلہ ہے جس سے رجالِ دین کو ذرا سا فائدہ پہنچتا ہو؟

تعلیم کے فروغ میں الیکٹرانک میڈیا کا کردار

شکور طاہر

(۱۴ مارچ ۹۶ء کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں الشریعہ اکیڈیمی کی دوسری سالانہ تعلیمی کانفرنس میں پڑھا گیا۔)

جس طرح انسان اور انسانی معاشرے کی بقا، اپنی ذات اور دوسروں پر ظلم سے احتراز، قوانینِ فطرت کی پابندی اور عدل و انصاف، توازن اور اعتدال کے اصولوں پر کاربند رہنے میں ہے؛ اسی طرح فرد اور معاشرے کے ارتقاء، نشوونما اور تعمیر و ترقی کا انحصار بنیادی طور پر علم، معلومات و اطلاعات اور سوچ بچار کی صلاحیت اور پھر اس علم اور صلاحیت کو بروئے کار لانے پر ہے۔ جس طرح ظلم تخریب، انتشار، انحطاط اور اکائیوں، اداروں اور اقدار کی ٹوٹ پھوٹ اور بربادی کا باعث ہے؛ اسی طرح جہالت پسماندگی، تنزل، ذہنی افلاس اور قوتِ عمل سے محرومی کی بڑی وجہ ہے۔ 
دینِ فطرت اسلام نے انسان اور انسانی معاشرے کی بقا اور ترقی کے لیے ظلم اور جہالت کے خاتمے، اور عدل و انصاف اور علم کے فروغ پر زور دیا ہے، تاکہ انسان اپنی ذات اور اپنے گرد پھیلی ہوئی کائنات میں قدرت کی نشانیوں اور مظاہرِ فطرت پر غور و فکر کر کے حقیقی کامیابی، حق و صداقت اور اپنی بھلائی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ طلبِ علم کو فریضہ بھی قرار دیا گیا، مہد سے لحد تک تعلیم کی اہمیت بھی اجاگر کی گئی، اور حصولِ علم کے شوق کو فراواں کرنے کے لیے یہ بھی تلقین کی گئی کہ اگر علم کی خاطر چین جیسے دور افتادہ دیارِ غیر تک بھی جانا پڑے تو گریز نہ کیا جائے، اور غریب الوطنی اور سفر کی مشقت برداشت کر کے بھی تعلیم حاصل کی جائے۔
در حقیقت علم دو ہی ہیں: علم الادیان اور علم الابدان۔
پہلا علم اس لامتناہی کائنات میں انسان کی اپنی حیثیت کے ادراک اور خالقِ کائنات کے ساتھ اپنے تعلق اور رشتے کے شعور کا نام ہے؛ اور دوسرا علم انسان کا اپنی ذات کی مختلف پرتوں، اور دوسری جاندار اور نامیاتی اور غیر نامیاتی اشیا کے حقائق، کیفیات اور اثرات کو جاننا، اور ان دونوں کے باہمی تعامل کی حقیقت کو سمجھنا ہے۔ تا کہ جب وہ اپنی ذات اور اپنے ماحول پر پہلے علم کا عملی اطلاق کرے تو اسے کسی بھی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے بلکہ زندگی اس کے لیے سہل اور آسودہ ہو جائے۔ علم کی باقی شاخیں، شعبے اور مضامین، خواہ آپ انہیں فنون اور سائنس کا نام دیں، یا انہیں عمرانی (Social) اور طبیعی علوم کے خانوں میں بانٹ دیں، انہی دو بنیادی علوم کے خادم ہیں، تا کہ ان کی معاونت سے ان بنیادی علوم کے اسرار و رموز اور کمالات تک رسائی ہو سکے۔ 
حصولِ علم کا پہلا زینہ خواندگی ہے۔ وہی کلیدی لفظ (Keyword) اقراء جو خدا کے آخری پیغام کا نقطۂ آغاز ہے۔ اس وقت خواندگی سے عمومی مراد یہ لی جاتی ہے کہ انسان میں پڑھنے لکھنے کی تھوڑی بہت صلاحیت پیدا ہو جائے۔ تاہم، ماہرین اب خواندگی کی تعریف نئے سرے سے متعین کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چند الفاظ یا جملے پڑھ لینا اور چند حرف لکھ لینا خواندہ ہونے کے لیے کافی نہیں۔ ان کے نزدیک خواندگی کا بنیادی عنصر (Thoughtfulness) ہے، یعنی انسان کسی بھی معاملے پر غور و فکر کر کے اپنے مسائل کا تجزیہ کر سکے، اور اس تجزیے کی روشنی میں ان مسائل کے حل تک پہنچ سکے۔ گویا وہی چیز جسے ہمارے دین نے تفکر اور تدبر کا نام دیا ہے۔ تفکر، تدبر اور سوچ بچار اور غور و فکر کی یہ صلاحیت تعلیم سے ہی جلا پاتی ہے۔ 
تعلیم کا ایک انداز تو بلا واسطہ یا براہ راست (Direct) ہے، یعنی سیدھے سُبھاؤ کوئی کتاب یا مضمون پڑھایا جائے یا سبق دیا جائے، اس میں ایک رکھ رکھاؤ اور کسی حد تک تکلف کا ماحول ہوتا ہے اور پڑھنے والے اور پڑھانے والے میں شاگرد اور استاد کا رشتہ ہوتا ہے۔ 
لیکن تعلیم کا ایک دوسرا انداز یا طریقہ بھی ہے۔ وہ یہ کہ کتاب پڑھا کر جو چیزیں ذہن نشین کرانا تھیں، یا سبق کے ذریعے جو باتیں سمجھانا مقصود تھیں، وہی باتیں درسی ماحول کی بجائے بے تکلف دوستانہ ماحول میں، عام گفتگو اور بات چیت کے انداز میں، اشارے کنائے میں، ضرب الامثال اور حکایات کے سہارے، شعر و شاعری کے لطیف اسلوب سے، یا تمثیل کے پیرائے میں واضح کر دی جائیں۔ اس طرح عقل کی وہی بات جو کتاب یا درس کے ذریعے بتانا مقصود تھی، ہلکے پھلکے انداز میں مخاطب کے ذہن پر نقش کر دی جاتی ہے تاکہ وہ آئندہ زندگی میں اس سے کام لے سکے۔ تعلیم کا یہ بالواسطہ (Indirect) انداز ہے۔ اطلاعات اور معلومات کی فراہمی اس بالواسطہ تعلیم کا سب سے اہم پہلو ہے، کیونکہ روز مرہ کی یہی معلومات اور اطلاعات، علم میں بتدریج اضافے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ 
بالواسطہ اور بلا واسطہ تعلیم کی یہ بات تو علم سکھانے اور معلومات بہم پہنچانے کے طریقے اور انداز کے حوالے سے تھی۔ فروغِ تعلیم کا ایک اور حوالہ  ذرائع تعلیم کا بھی ہے۔ اس حوالے سے ذرائع تعلیم کو منضبط اور غیر منضبط، یا رسمی (Formal) اور غیر رسمی (Non-Formal) دو شعبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ سکول، کالج، مکاتب اور مدارس رسمی ذرائع تعلیم ہیں؛ اور دوسرے سمعی، بصری اور معاون ذرائع، جو باضابطہ نظامِ تعلیم کے دائرے سے باہر ہوں، غیر رسمی ذرائع میں شمار کیے جاتے ہیں۔
ذرائع تعلیم کی یہ تقسیم اتنی جامد یا غیر لچک دار نہیں کہ انہیں ہمیشہ کے لیے دو جدا جدا خانوں میں مقید کیا جا سکے۔ ایک واضح فرق کے باوجود دونوں شعبوں کے ذرائع میں انتہائی قریبی رابطہ، ہم آہنگی اور اشتراک و تعاون ہے۔ اور غیر رسمی ذرائع رسمی ذرائع کی تکمیل، ان کے پیغام کی ترویج اور مقاصد کی تحصیل کا باعث ہیں۔ 
آج تعلیم اور خواندگی کے لحاظ سے وطنِ عزیز کی جو حالت اور مقام ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ تمام تر کوششوں اور بلند بانگ وعدوں کے باوجود ہمارے ملک کا شمار پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے، اور تعلیم اور خواندگی کے لحاظ سے کئی ترقی پذیر قومیں بھی ہم سے بہت آگے ہیں۔ اس پسماندگی کی وجوہ کئی ایک ہیں۔ لیکن ایک بڑی وجہ جدید ذرائع، وسائل اور طریقوں سے ناواقفیت اور ان کی کم یابی یا عدمِ استعمال بھی ہے۔ 
عہدِ حاضر کو ذرائع ابلاغ یا میڈیا کا دور کہا جاتا ہے اور بجا طور پر کہا جاتا ہے کیونکہ ان ذرائع ابلاغ نے پوری دنیا کو سمیٹ کر یا آپس میں مربوط کر کے ایک گاؤں بنا دیا ہے۔ جہاں ہر گھرانہ اور ہر گھرانے کا ہر فرد دوسرے گھرانوں اور ان کے افراد کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے، اور جو کچھ نہیں جانتا اسے جاننے کا ہر وقت خواہش مند رہتا ہے۔ ان ذرائع ابلاغ میں الیکٹرانک میڈیا (Electronic Media) یعنی ریڈیو، ٹیلی ویژن، نشریاتی سیارے یا سیٹلائیٹ کمپیوٹر اور ان کے ہم قبیل ذرائع اور ان کے انصار و اعیان شامل ہیں۔ 

ریڈیو (Radio)

ریڈیو کو صوتی یا سمعی ذریعہ ابلاغ کہا جاتا ہے جو آواز کے جادو سے سننے والے کو مسحور کرتا ہے۔ اس صدی کے تیسرے عشرے میں الیکٹرانک میڈیا کا باقاعدہ آغاز ریڈیو نشریات سے ہوا تو کم و بیش ہر ملک میں ریڈیائی لہروں کے ذریعے پیغام کی ترسیل کے تین اساسی مقاصد قرار پائے: اطلاعات، تعلیم اور تفریح۔ ان میں سے پہلے دونوں مقاصد باہم منسلک اور مربوط ہیں۔ اطلاعات اور معلومات اگر تعلیم کی روح نہیں تو اس کے اعضا اور جوارح اور ممد و معاون ضرور ہیں۔ تعلیم کے لیے روزمرہ اطلاعات اور معلومات کی حیثیت وہی ہے جو انسان کے جسمانی نظام کے لیے لحمیات، معدنیات، حیاتین اور دوسرے قوت بخش اجزا کی ہے۔ درحقیقت اطلاعات اور معلومات بالواسطہ غیر رسمی تعلیم کا سب اہم اور مؤثر ذریعہ ہیں۔
دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی ریڈیو کا تنظیمی ڈھانچہ قائم ہونے کے کچھ عرصے بعد باضابطہ تعلیمی پروگرام شروع کر دیے گئے تھے۔ اس وقت ریڈیو پاکستان کے مختلف مراکز سے خالص تعلیمی پروگراموں کے علاوہ ایسے بالواسطہ پروگرام بھی پیش کیے جا رہے ہیں جن سے مختلف سماجی اور قومی مسائل کے بارے میں شعور بیدار اور احساس اجاگر ہو۔ 
ریڈیو کا دائرہ اثر اتنا وسیع ہے کہ اس دور میں کم ہی گھرانے ایسے ہوں گے جہاں ریڈیو نہ ہو۔ شہروں ہی میں نہیں، دیہات میں بھی ریڈیو عام ہے۔ اس عمومی مقبولیت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ قیمت کے لحاظ سے ریڈیو دوسرے ذرائع ابلاغ سے کہیں ستا ہے، اور پھر اس کے لیے بجلی کی محتاجی بھی نہیں۔ بیٹری کے سیل (Cell) ڈالیں اور ریڈیو چلا لیں۔ ٹیلی ویژن کی طرح ریڈیو سننے کے لیے کہیں بندھ کر بیٹھنا نہیں پڑتا۔ چھوٹا سا ٹرانسسٹر جیب میں ڈالیں اور کہیں بھی چلے جائیں۔ وقت اور مصروفیات کی کوئی بندش نہیں، کسی بھی کام میں مصروف ہوں، ریڈیو کی آواز کان میں آتی رہتی ہے اور ذہن پر اپنے نقش چھوڑتی چلی جاتی ہے۔ انہی خصوصیات کی بنا پر ریڈیو کو مؤثر اور ہمہ گیر ذریعہ ابلاغ قرار دیا گیا ہے۔ 

آڈیو کیسٹ (Audio Cassette)

آڈیو کیسٹ اور ٹیپ ریکارڈر بھی صوتی یا سمعی ذریعہ ابلاغ کا حصہ ہیں۔ اثر آفرینی کے لحاظ سے آڈیو کیسٹ ریڈیو سے کم نہیں۔ سستا اتنا کہ چند پیالی چائے اور چند سگریٹ نہ پیے اور کیسٹ خرید لی۔ استعمال اتنا آسان کہ بچہ بھی لگا سکے- اور یہ سہولت سب سے بڑھ کر کہ آپ کچھ بھی کر رہے ہوں، کیسٹ کی آواز سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ ان خوبیوں اور اثر پذیری کی وجہ سے آڈیو کیسٹ تعلیمی معاون کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ نصابی کتابوں کو سمجھنے کے لیے تشریحی لیکچر درکار ہوں تو بھی، اور اگر کوئی غیر ملکی زبان سیکھنا چاہیں تو بھی آڈیو کیسٹ سے کام لیا جا ہے۔ یہ کیسٹ اس طرح زبان سکھاتے ہیں گویا کوئی اہلِ زبان استاد بڑی محنت کے ساتھ اس زبان کے قواعد، صَرف و نحو تراکیب، اور تلفظ سکھاتا اور لب و لہجہ سنوارتا ہو۔ یہی نہیں آڈیو کیسٹ پر کتابیں بھی دستیاب ہیں۔ جن لوگوں کو کتاب پڑھنے کی فرصت نہیں، وہ گاڑی میں آتے جاتے کتاب سن سکتے ہیں۔ یہ کتابیں کسی خاص موضوع تک محدود نہیں، کلاسیکی ادب ہو یا جدید فن پارے، شعری مجموعہ ہو یا نثری شاہکار، تاریخ ہو یا فلسفہ، سائنسی موضوعات ہوں یا اقتصادیات جیسا خشک مضمون، آڈیو کتابیں موجود ہیں۔
تعلیمی مقاصد کے لیے ان سمعی ذرائع کو استعمال کرتے وقت انسانی ذہن کی قوت انجذاب، دماغ کے مختلف حصوں کی ساخت اور کارکردگی، اور نفسیات کے تمام متعلقہ پہلوؤں کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تعلیم سے سیکھنے کے عمل میں دماغ کا دایاں اور بایاں دونوں حصے استعمال ہوتے ہیں۔ انسانی دماغ کا بایاں حصہ تجزیے، تحلیل، حساب کتاب، اور منطقی نتائج اخذ کرنے کی فطری صلاحیت رکھتا ہے۔ جبکہ دایاں حصہ طبع زاد خیالات، جدت و ندرتِ فکر، موسیقی اور شاعری کا منبع سمجھا جاتا ہے۔ اگر دماغ کے ان دونوں حصوں کو اس طرح بیدار کیا جائے کہ ان کے درمیان توازن اور ہم آہنگی بھی برقرار رہے، اور دونوں حصے بیک وقت سیکھنے کے عمل میں بھی شریک ہوں، تو ذہن کی قوتِ جاذبہ بڑھ جاتی ہے، سیکھنے کی رفتار تیز ہو جاتی ہے، پڑھی یا سیکھی ہوئی بات نسبتاً‌ زیادہ دیر تک یاد رہتی ہے، اور مسائل کا تجزیہ کر کے عقل و دانش کی روشنی میں ان کا حل تلاش کرنے کی صلاحیت کو نمو ملتی ہے۔ پڑھنے اور سیکھنے کے اسی عمل کو ملحوظ رکھتے ہوئے سمعی ذرائع ابلاغ کے لیے تعلیمی پروگرام یا ایسے پروگرام، جن سے بالواسطہ تعلیم ملے، ترتیب دیے جاتے ہیں۔

فلم (Film)

ریڈیو کا ہم عصر ایک اور ذریعہ ابلاغ فلم ہے۔ اس خالص تفریحی ذریعے کو بھی محدود پیمانے پر اطلاعات کی فراہمی اور تعلیم کے فروغ کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ زندگی اور اس کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرنے والی ایسے معلوماتی فلموں کو دستاویزی فلموں کا نام دیا گیا۔ دستاویزی فلمیں ہر خیال ہر جذبے اور ہر موضوع پر مبنی ہیں اور نہایت پرکشش اور اثر انگیز ہوئی ہیں۔ جنگ کے دوران یہی فلم ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہوئی اور اس کے ذریعے قومی نقطۂ نظر کی ترجمانی اور دشمن کے خلاف پراپیگنڈا کیا گیا تاکہ اپنے عوام کے حوصلے بلند رہیں اور دشمن قوم کو نفسیاتی زک پہنچائی جائے۔ زمانہ امن میں یہی ہتھیار سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے ہاتھ میں ہے جس کے ذریعے وہ اپنی مصنوعات کی تشہیر کر کے اپنے کاروبار کو ترقی دیتے ہیں۔ 
خالص پراپیگنڈے اور تشہیری اور دستاویزی فلموں کے علاوہ ایسی فلمیں بھی تیار کی جاتی ہیں جن کے ذریعے طلبہ کو نصابی تعلیم یا پیشہ ورانہ تربیت دی جائے۔ یہ تعلیمی (Instructional) فلمیں، کلاس روم میں استاد کے لیے ایک سمعی و بصری معاون اور لیبارٹری میں گائیڈ کا کام دیتی ہیں۔ بعض صنعتی ادارے بھی اپنے کارکنوں کو ہنر سکھانے، یا ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے تعلیمی اور دستاویزی فلموں سے کام لیتے ہیں۔

ٹیلی وژن (Television)

ہوا کی لہروں پر ریڈیو کی اجارہ داری کو ٹیلی ویژن نے ختم کیا۔ تقریباً‌ پچاس سال پہلے امریکہ میں ٹیلی وژن کی نشریات کا آغاز ہوا۔ دیکھتے دیکھتے ہر ملک میں ٹیلی وژن کمپنیاں قائم ہو گئیں اور اس مؤثر تر ذریعہ ابلاغ نے چند سال کے اندر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس ذریعہ ابلاغ کے اثر کی سب سے بڑی وجہ اس کا تصویری پہلو ہے۔ چین کی ایک قدیم کہاوت ہے کہ ’’ایک تصویر ہزار الفاظ سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے‘‘۔ اس کہاوت کی سچائی کا ثبوت ٹیلی وژن ہے جس نے سمعی اور طباعتی ذرائع یعنی آڈیو اور پرنٹ (Print) میڈیا کی قوت کو یکجا کر دیا۔
دسمبر ۱۹۶۴ء میں پاکستان میں ٹیلی وژن نشریات کے آغاز کے کچھ عرصے بعد پاکستان ٹیلی وژن میں تعلیمی شعبہ قائم کر دیا گیا اور براہ راست اور بالواسطہ تعلیمی پروگرام پیش کیے جانے لگے۔ تاہم ان پروگراموں کی تعداد کم اور دورانیہ (Duration) محدود تھا۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں ٹیلی وژن کے تعلیمی چینل پر کام شروع ہوا اور ساڑھے تین سال پہلے، نومبر ۱۹۹۲ء میں تقریباً‌ تریسٹھ کروڑ روپے کی لاگت سے تعلیمی ٹیلی وژن کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا۔ اس منصوبے کے لیے پچاس کروڑ روپے سے زیادہ رقم جاپان نے امداد کے طور پر دی تھی۔ اس منصوبے کے تحت اسلام آباد میں ایک تعلیمی ٹیلی وژن مرکز اور ملک کے مختلف علاقوں میں سولہ چھوٹے ری براڈ کاسٹ (Rebroadcast) سٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔ 
پہلے مرحلے میں ملک کے چوبیس فی صد علاقے میں چھپن فی صد آبادی، یعنی ساڑھے چھ کروڑ افراد تک عام ٹیلی وژن کے ذریعے تعلیمی نشریات پہنچتی ہیں۔ دوسرے مرحلے میں لاہور اور کراچی میں دو نئے تعلیمی ٹیلی وژن مراکز اور اٹھائیس چھوٹے براڈ کاسٹ سٹیشن قائم کیے جائیں گے۔ اس طرح پاکستان کے چھہتر فی صد علاقے تک عام ٹیلی وژن سگنل کے ذریعے تعلیمی نشریات پہنچ سکیں گی، جس سے ملک کی پچانوے فی صد آبادی یعنی گیارہ کروڑ اسی لاکھ افراد مستفید ہوں گے۔ 
نشریاتی سیارے یعنی سیٹلائٹ کے ذریعے تعلیمی نظریات اس وقت بھی پاکستان کے علاوہ بتیس دوسرے ممالک کے کروڑوں افراد تک پہنچ رہی ہیں اور وہ تمام لوگ جنہوں نے ڈش (Dish) گا رکھی ہے، ان تعلیمی پروگراموں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ تعلیمی چینل کی نشریات روزانہ تقریبا' سات گھنٹے ہوتی ہیں۔ جو پروگرام نشر کیے جاتے ہیں، ان میں مختلف مدارج کے نصابی موضوعات، سائنسی تجربات، کمپیوٹر، پیشہ ورانہ تربیت، فنی مہارت اور صنعت، کاروبار اور زراعت کے بارے میں بلا واسطہ تعلیمی پروگرام شامل ہیں۔ بالواسطہ تعلیمی پروگراموں میں ذہنی آزمائش کے مقابلے، مباحثے اور تقاریر اور دیگر معلوماتی اور دستاویزی پروگرام شامل ہیں۔ ٹیلی وژن کے بعض دوسرے پروگراموں میں بھی جو براہ راست تعلیمی افادیت نہیں رکھتے، معلوماتی پہلو ملحوظ رکھے جاتے ہیں۔ 
سمعی اور بصری ذرائع کا امتزاج اور ان کی مشترکہ قوت کا مظہر ہونے کی وجہ سے ٹیلی وژن کی اثر آفرینی بے پناہ ہے۔ سیٹلائٹ یا نشریاتی سیاروں نے ٹیلی وژن کی اس قوت میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے۔ لیکن اگر اس قوت کو مفید انداز میں اور مثبت مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے تو اس کی ہلاکت آفرینی بھی بے پناہ ہے۔ یہ ایٹمی قوت کی طرح ہے جس کا قاعدے قرینے سے استعمال دنیا میں آسائشات اور خوشیوں کے پھول بھی بکھیر سکتا ہے اور بیمار انسانیت کو زندگی بھی بخش سکتا ہے، لیکن اس کا غیر ذمے دارانہ استعمال موت کی قہر سامانی کے سوا کچھ نہیں۔یا پھر اس کی مثال کثیر الاثر زہر جیسی ہے جسے اگر سوچ سمجھ کر طبی اصولوں کے مطابق اور حکمت کے ساتھ استعمال کیا جائے تو کار تریاقی کرتا ہے، اور اگر بغیر سوچے سمجھے نگل لیا جائے تو بد ترین موت کا باعث بنتا ہے۔ 
ٹیلی وژن کی تباہ کاریوں کی داستان صرف ہمارے معاشرے تک محدود نہیں، امریکہ جیسے مادر پدر آزاد معاشرے میں بھی جہاں بہت سی اخلاقی اقدار دم توڑ چکی ہیں، لوگوں کو شکایت ہے کہ ٹیلی وژن پروگراموں میں عریانی، فحاشی اور تشدد بہت ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ایک مطالعے کے نتائج منظر عام پر آئے ہیں۔ امریکہ کے تیس ٹیلی وژن چینلز سے بیس ہفتے کی مدت کے دوران پیش کیے جانے والے دو ہزار سات سو پروگراموں کے تجزیے سے پتہ ہے چلا ہے کہ ستاون فی صد پروگراموں میں کسی نہ کسی حد تک تشدد کا عنصر تھا۔ ماہرین کے مطابق یہ تشدد اس طرح کا تھا جو بچوں کے ذہن پر اثر انداز ہو سکے اور انہیں بھی کسی نہ کسی صورت میں تشدد کی طرف راغب کرے۔ 
تاہم اب امریکی عوام نے عریانی اور تشدد کے خلاف تنقید اور شکایات کے مرحلے سے گزر کر ایک عملی قدم بھی اٹھایا ہے۔ وہاں ایک قانون منظور ہوا ہے جس کے تحت اگلے دو سال کے دوران ہر نئے ٹیلی وژن سیٹ میں ایک پرزہ لگا ہو گا جس کے ذریعے والدین کو ہر پروگرام کے بارے میں معلوم ہو سکے گا کہ وہ عربانی اور تشدد کے لحاظ سے کس درجے کا ہے۔ ٹیلی وژن چینل اپنے پروگراموں کی اس طرح درجہ بندی کریں گے جس سے پتہ چل سکے کہ پروگرام میں عریانی اور تشدد کا تناسب کیا ہے۔ اس طرح والدین کو یہ فیصلہ کرنے میں سہولت ہوگی کہ وہ کس پروگرام کو اپنے بچوں تک پہنچنے دیں اور کس پروگرام سے بچوں کو محفوظ رکھیں۔ یہ پرزہ جسے وی چپ (V-Chip) کا نام دیا گیا ہے، دراصل کمپیوٹر کا ایک پرزہ ہے اور یہ زیادہ مہنگا بھی نہیں۔ اس کی قیمت صرف ایک ڈالر ہو گی۔ یہ روش امریکہ سے چلی ہے تو پوری دنیا میں پھیلے گی اور ہمارے ہاں تو ضرور آئے گی۔ اس طرح کسی حد تک ٹیلی وژن کی تباہ کاری کے آگے چھوٹا موٹا بند باندھا جا سکے گا۔

وڈیو (Video)

ٹیلی وژن سے ملتی جلتی چیز وڈیو کیسٹ ہے۔ جس طرح سمعی ذریعہ ابلاغ کی حیثیت سے ریڈیو کے فوائد آڈیو کیسٹ سے لیے جا سکتے ہیں، اسی طرح بصری ذریعہ ابلاغ کی حیثیت سے ٹیلی وژن کے فوائد وڈیو کیسٹ سے مل سکتے ہیں۔ طالب علم نے اکیلے پڑھنا ہو، یا کلاس روم میں طلبہ کے پورے گروپ کو، دونوں صورتوں میں وڈیو کیسٹ بہت اچھے تعلیمی معاون کا کام دیتا ہے۔ ریموٹ (Remote)، ری پلے (Replay)، اور منظر کو ساکت (Still) کرنے جیسی سہولتوں کی بدولت وڈیو کی افادیت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ اس وقت پاکستان میں لاکھوں لائسنس یافتہ اور غیر لائسنس یافتہ وی سی آر موجود ہیں۔ تا ہم اس حد تک اس مؤثر ذریعے سے کام نہیں لیا جا رہا جس حد تک استعداد موجود ہے۔ 
شہروں کے ہر گلی محلے اور اکثر و بیشتر دیہات میں گھریلو استعمال کے وڈیو کیمرے (VHS Cameras) اور کیمرا مین دستیاب ہیں جو عموماً‌ شادی بیاہ اور دوسری سماجی تقریبات کی عکس بندی کرتے ہیں۔ سکول، کالج اور مکاتب ایسے وڈیو کیمروں اور وی سی آر سے فائدہ اٹھا کر اپنے تعلیمی پروگرام وضع کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے غیر سرکاری شعبے میں ایسی مجالس یا سٹڈی فورم (Study Forum) تشکیل دیے جاسکتے ہیں جو نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں کی وڈیو کیسٹ تیار کرنے اور اسے طلبہ کو دکھانے کا اہتمام کریں۔ ایسی تعلیمی سرگرمیوں سے وی سی آر کے غلط استعمال اور بھارتی فلموں اور بیہودہ پروگراموں سے بھی نوجوانوں کی توجہ ہٹے گی اور یہ ایک قومی خدمت ہوگی۔

فوٹوسٹیٹ اور فیکس

فروغِ تعلیم کے ضمن میں، فوٹو کاپی کرنے والی مشین اور فیکس (FAX) مشین کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پہلے جو کتابیں اور مضامین، یا ان کے اجزاء ہفتوں میں ہاتھ سے نقل ہوتے تھے، یا پریس میں چھپتے تھے، اب ان کی نقلیں فوٹو سٹیٹ مشین سے ہاتھوں ہاتھ مل جاتی ہیں۔ اور اگر یہ مضامین یا کتاب کا کوئی باب ایک جگہ سے دوسری جگہ درکار ہو تو فیکس کی سہولت موجود ہے۔ اِدھر صفحہ مشین پر رکھیں اور ٹیلی فون کا نمبر گھمائیں، اُدھر چند سیکنڈ میں نقل دستیاب۔ یہ دونوں مشینیں اب تعلیمی اداروں کی ضرورت بن چکی ہیں۔ 

کمپیوٹر

الیکٹرانک میڈیا میں سب سے زیادہ انقلاب آفرین چیز کمپیوٹر ہے۔ اس ایجاد نے نہ صرف زندگی کا چلن اور رفتار بدل دی ہے بلکہ انسانی تہذیب و تمدن اور ثقافتی رویوں پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ انسانی ذہن سے مشابہ یہ مشین صنعت و حرفت، تجارت، زراعت، طب، سائنس، ہوا بازی، جہاز رانی، امورِ مملکت، دفاع، اطلاعات و نشریات، تعلیم، غرض زندگی کے ہر شعبے میں انسان کی خدمت کے لیے سرگرم عمل ہے۔ اس کی صلاحیت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ عام کمپیوٹر انسان کے مقابلے میں دس لاکھ گنا تیزی سے کام کرتا ہے، اور (Super) پر کمپیوٹر ایک ارب گنا زیادہ تیزی سے۔ ریاضی کے جس پیچیدہ مسئلے کو انسان کاغذ اور قلم کی مدد سے سو سال میں حل کر سکتا تھا، وہ عام کمپیوٹر سے ایک دن میں اور سپر کمپیوٹر کے ذریعے ایک سیکنڈ میں حل کیا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں سپر کمپیوٹر نے ایک انتہائی پیچیدہ مسئلہ ایک ہفتے میں حل کیا ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کاغذ قلم کے ذریعے اور جمع، تفریق، ضرب، تقسیم کے روایتی طریقوں سے یہ مسئلہ حل کرنے میں پندرہ ارب سال لگتے جو غالباً‌ کائنات کے آغاز سے اب تک کی مدت ہے۔ 
دنیا میں اس وقت چار سو سے زیادہ ایسے پر کمپیوٹر موجود ہیں۔ کمپیوٹر تعلیم کے فروغ کا ایک ذریعہ بھی ہے اور بذاتِ خود تعلیم کا موضوع بھی ہے۔ طلبہ انفرادی سطح پر بھی کمپیوٹر سے استفادہ کر سکتے ہیں اور کلاس روم اور لیبارٹری میں بھی اس سے مدد لے سکتے ہیں۔ طالبعلم اپنے نوٹس (Notes) کمپیوٹر میں مرتب کر سکتا ہے، اپنی تحریر کی اصلاح اور تدوین کمپیوٹر کے ذریعے کر سکتا ہے، مارکیٹ سے اپنی ضرورت کی ڈسک (Disk) خرید کر اپنے علم میں اضافہ کر سکتا ہے، اور خالی ڈسک پر اپنی معلومات ذخیرہ کر سکتا ہے۔ آج طباعت، اشاعت اور نشریات کا زیادہ تر کام پرانی مشینوں کی بجائے کمپیوٹرز یا کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر مبنی مشینوں سے کیا جاتا ہے۔

موڈیم (Modem)

اس کمپیوٹر کے ساتھ اگر ایک مشین موڈیم لگا دی جائے تو کمپیوٹر میں ذخیرہ کیا جانے والا مواد (Material) ایک جگہ سے دوسری جگہ اس طرح منتقل کیا جا سکتا ہے کہ مشین سے کاپی اترتے ہی اس سے چھپائی ہو سکتی ہے۔ مثلاً لاہور سے شائع ہونے والا کوئی اخبار اگر کراچی سے بھی اپنا ایڈیشن بیک وقت چھاپنا چاہے تو لاہور سے اس اخبار کے صفحات موڈیم کے ذریعے تھوڑے سے وقت کے اندر کراچی منتقل کر دیے جائیں گے اور وہاں بھی وہی اخبار بیک وقت چھپ سکے گا۔ اسی طرح مختلف سکول اور کتب بھی تعلیمی مقاصد کے لیے موڈیم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

الیکٹرانک کلاس روم (Electronic Classroom)

الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کی ان وسعتوں اور صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کے سکولوں اور کالجوں میں الیکٹرانک کلاس روم بنائے جاتے ہیں۔ ایسے کلاس رومز میں طلبہ کے پاس کمپیوٹر اور ان کے سامنے مائیکرو فون ہوتے ہیں۔ ایک طرف ریموٹ کنٹرول سلائیڈ پروجیکٹر یا ایسی مشین لگی ہوتی ہے جس کے ذریعے سکرین پر تصویریں، گراف اور نقشے دکھائے جا سکیں۔ اس کے ساتھ ہی دی سی آر لگا ہوتا ہے اور کمرے میں دو یا تین کیمرے بھی نصب ہوتے ہیں۔ ان سب مشینوں اور کیمروں کے بٹن استاد کے سامنے میز پر لگے ہوتے ہیں اور وہی انہیں کنٹرول کرتا ہے۔ استاد کے قریب ہی ٹیلی فون اور فیکس مشین ہوتی ہے۔ 
کلاس روم میں ہونے والی تمام کارروائی اس نظام سے منسلک تمام سکولز میں بیک وقت دیکھی جا سکتی ہے۔ ان میں سے کسی بھی سکول کے کسی بچے کو کوئی سوال کرنا ہو تو وہ فون یا فیکس کے ذریعے سوال کر سکتا ہے۔ جب استاد بچوں کا امتحان لیتا ہے تو ہر سکول کے بچے اپنا اپنا امتحانی پرچہ فیکس کے ذریعے استاد کو ارسال کر دیتے ہیں۔ 
الیکٹرانک کلاس روم کے دو بڑے فائدے ہیں : ایک تو یہ کہ طلبہ کو جدید ترین ذرائع سے تعلیم دی جاتی ہے، اور دوسرا یہ کہ جن سکولوں میں بعض مضامین کے اساتذہ موجود نہیں، وہاں طلبہ الیکٹرانک کلاس روم کے لیکچر سے فائدہ اٹھا کر وہ مضامین پڑھ سکتے ہیں۔

ملٹی میڈیا (Multi Media)

کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا جدید ترین مرحلہ ملٹی میڈیا کا ہے جس میں کمپیوٹر، آڈیو، وڈیو، اور معلومات یا Digital Data کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ اس طرح طالب علم آواز، بصری مواد اور کمپیوٹر کی صلاحیت سے بیک وقت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی اس پیش رفت سے ویسے تو زندگی کے ہر شعبے میں کام لیا جا رہا ہے لیکن تعلیم کے فروغ میں اس کی خصوصی اہمیت ہے۔ حال ہی میں اس ٹیکنالوجی کو ایک نئی جہت ملی ہے۔ سائنس دانوں نے آواز، تصویر اور معلومات Data کو دبا کوٹ کر، یا Compress کر کے کم سے کم جگہ میں پیک کیا ہے اور اسے پیکٹ (Packet) ویڈیو کے نام سے پیش کیا ہے۔ اس طرح ملٹی میڈیا کے استعمال میں سہولت ہو گئی ہے۔ ایک منصوبے کے تحت اگلے چند سال کے دوران امریکہ کے زیادہ تر سکولوں کو پیکٹ وڈیو نظام کے ساتھ منسلک کر دیا جائے گا۔

الیکٹرانک پبلشنگ (Electronic Publishing)

تعلیم کے فروغ میں کمپیوٹر کے کردار کا غالباً‌ سب سے روشن پہلو الیکٹرانک اشاعت یا پبلشنگ ہے۔ اب بڑی بڑی کتابیں، بلکہ کتابیں ہی نہیں پوری پوری لائبریریاں کمپیوٹر ڈسک پر دستیاب ہوں گی۔ بات کو واضح کرنے کے لیے ایک ہی مثال کافی ہے۔
کوئی دو سو سال پہلے برطانیہ کے شہر ایڈنبرا میں پڑھے لکھے لوگوں کی ایک انجمن بنی تھی جس نے مختلف موضوعات پر ایک قاموس ’’انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا‘‘ (Encyclopedia Britannica) کے نام سے مرتب کر کے شائع کی۔ وقفے وقفے سے اس کتاب پر نظر ثانی ہوتی رہی، اس کے موضوعات کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور ضخامت بڑھتی گئی۔ ۱۹۲۰ء میں اس کتاب کی اشاعت کے حقوق امریکہ کے شہر شکاگو کی ایک کمپنی نے حاصل کر لیے اور مختلف وقفوں سے یہ کتاب چھپتی رہی، لیکن اس کی اشاعت بتدریج کم ہوتی گئی۔ ۱۹۹۰ء میں بتیس ضخیم جلدوں پر مشتمل اس کتاب کے ایک لاکھ سترہ ہزار نسخے اور پچھلے سال صرف اکاون ہزار نئے فروخت ہوئے۔ لیکن پچھلے سال ہی ایک کمپیوٹر فرم نے سرمایہ لگا کر اس انسائیکلو پیڈیا کا الیکٹرانک ایڈیشن جاری کر دیا ہے۔ اس الیکٹرانک ایڈیشن میں پورا انسائیکلو پیڈیا یعنی اصل کتاب کی تمام جلدوں کے چار کروڑ چالیس لاکھ الفاظ شامل ہیں، اور کتاب کے متن کے ساتھ ساتھ ان کی تشریح اور سمعی و بصری معاونت کے لیے تصویریں، نقشے، ویڈیو اور آوازیں بھی شامل ہیں۔ عموماً‌ ایک کتاب ہلکی پھلکی ڈسک پر جاری کی جاتی ہے جو بہت کم جگہ گھیرتی ہے۔ یوں سینکڑوں الماریوں کی جگہ پوری لائبریری ایک چھوٹے سے بریف کیس میں آجاتی ہے، اور علم کے اس ذخیرے کا وزن منوں یا ٹنوں میں نہیں، چند کلو گرام ہو گا۔ 

ڈیجیٹل ٹرانسمیشن (Digital Transmission)

علم کا ذخیرہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لیے ایک تکنیک معلومات کی برق رفتار منتقلی کی ہے۔ جب تار برقی یا ٹیلی گراف کا سلسلہ شروع ہوا تھا تو پیغام کا ایک ایک حرف مختلف صوتی اشاروں کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جاتا تھا۔ ذرا ترقی ہوئی تو ٹیلی پرنٹر کے ذریعے پیغامات نسبتاً‌ تیز رفتاری سے منتقل ہونے لگے، یعنی حرفوں کی کھٹ کھٹ کی جگہ پورے لفظ، پھر پورے پورے جملے، اور پھر پورے پورے پیرا گراف منتقل ہونے لگے۔ ترقی کا اگلا مرحلہ یہ تھا کہ آپریٹر (Operator) کئی صفحوں کا پیغام ٹیلی پرنٹر (Tele Printer) پر ٹائپ کر کے محفوظ کر لیتا اور پھر جونہی وہ ٹرانسمیشن کے لیے مشین کا بٹن دباتا تو کئی صفحوں پر مشتمل پیغام چند لمحوں کے اندر دوسری جگہ منتقل ہو جاتا۔ اب ٹیکنالوجی کی نئی وسعتوں اور خاص طور پر بال جیسے باریک تار آپٹک فائبر (Optic Fiber) کے ذریعے یہ پیغامات بلکہ یوں کہئے کہ کتابوں کی کتابیں پلک جھپکتے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کا ایک اور پہلو مطبوعہ معلومات ٹیلی وژن سکرین کے ذریعے ناظرین تک پہنچاتا ہے جسے ٹیلی ٹیکسٹ (Tele Text) کہتے ہیں۔ 

انٹرنیٹ (Internet)

الیکٹرانک میڈیا کی طلسماتی دنیا کا تازہ ترین شاہکار انٹرنیٹ ہے۔ انٹرنیٹ کو سمجھنے کے لیے ایک چھوٹی سی مثال پیش خدمت ہے۔ 
ہماری زمین نظامِ شمسی کا حصہ ہے۔ اس نظامِ شمسی میں کرۂ ارض کے علاوہ اور بھی کئی سیارے ہیں جو بیک وقت اپنے اپنے مدار میں، اور سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ سورج جیسے اور اربوں ستارے ہیں جن کے گرد سیاروں کا جھرمٹ ہے۔ اربوں سیاروں اور ستاروں کے یہ سارے جھرمٹ مل کر ہماری کہکشاں (Galaxy) بنتے ہیں، جسے آسان کا Milky Way کہا جاتا ہے۔ اب تک کی معلومات اور تخمینوں کے مطابق کائنات میں ہماری کہکشاں جیسی تقریباً‌ ایک کھرب کہکشائیں ہیں اور خالقِ کائنات کی تخلیق کا عمل اب بھی جاری ہے۔ 
انٹرنیٹ کی مثال کمپیوٹروں کی کائنات جیسی ہے۔ بہت سے کمپیوٹر مل کر ایک کہکشاں یا جال یعنی Network بناتے ہیں۔ اور بہت سی کمپیوٹر کہکشائیں جب بین الاقوامی سطح پر آپس میں مربوط ہو جاتی ہیں اور ایک بہت بڑا جال بن جاتا ہے تو اسے انٹرنیٹ کہتے ہیں۔ یوں سارے کمپیوٹر اس جال یا نظام کے ساتھ منسلک ہو سکتے ہیں اور ایک کمپیوٹر دنیا کے کسی بھی گوشے میں موجود دوسرے کمپیوٹر سے رابطہ قائم کر کے مطلوبہ معلومات لے سکتا ہے۔ 
اس وسیع و عریض جال یا کمپیوٹر نیٹ ورک کی داغ بیل اس طرح پڑی کہ پچیس سال پہلے امریکی محکمہ دفاع نے کچھ اس طرح کا انتظام کرنا چاہا کہ اگر امریکہ پر ایٹمی حملے میں محکمہ دفاع کا کمپیوٹر نظام تباہ بھی ہو جائے تو بھی فوجی ماہرین اور یونیورسٹیوں کے سائنس دان جنگی سرگرمیوں سے متعلق اپنا تحقیقی کام جاری رکھ سکیں۔ آہستہ آہستہ امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں، سرکاری محکموں اور بہت سے صنعتی اداروں کو نیٹ ورک سے منسلک کر دیا گیا۔ اس کمپیوٹر نظام کے لیے تکنیکی معاونت اور اخراجات بھی ان تعلیمی، سرکاری اور صنعتی اداروں نے برداشت کیے۔ 
جن سائنس دانوں کو اس کمپیوٹر جال یا انٹرنیٹ سے مفت استفادہ کرنے کی اجازت ملی، انہوں نے محسوس کیا کہ تحقیقی سرگرمیوں اور سرکاری کام نمٹانے کے علاوہ بھی یہ نظام کئی اور کام کر سکتا ہے۔ انہوں نے اس کمپیوٹر نظام کے ذریعے ایک دوسرے کو ذاتی پیغامات اور مراسلے بھیجنے شروع کر دیے۔ کمپیوٹر کے ذریعے اس طرح کی خط و کتابت کو الیکٹرانک ڈاک یا E-mail کہا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر استعمال کرنے والے دوسرے لوگوں نے بھی اس کمپیوٹر جال یا نظام کے ساتھ رابطہ کرنا شروع کر دیا اور یہ جال یوں وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ اس نظام کو استعمال کرنے والوں نے خود ہی اپنے ضابطے اور آداب وضع کر لیے اور نئے آنے والے کے لیے ان ضابطوں اور آداب کی پابندی لازمی قرار دی۔
انٹرنیٹ، ریڈیو اور ٹیلی وژن کی طرح یک طرفہ ذریعہ ابلاغ نہیں کہ ’’وہ کہیں اور سنا کرے کوئی‘‘ یہ تو دو طرفہ ابلاغ کا ذریعہ ہے جس کی بدولت آپ دنیا میں کسی بھی کمپیوٹر استعمال کرنے والے کے ساتھ ہم کلام ہو سکتے ہیں۔ اور اس کا طریقہ بھی آسان ہے۔ جس شخص کے پاس کمپیوٹر ہو، وہ کسی بھی کمپیوٹر نیٹ ورک سروس سے رابطہ کر سکتا ہے اور اس کے ذریعے انٹرنیٹ سے اپنی الیکٹرانک ڈاک منگوا بھی سکتا ہے اور بھیج بھی سکتا ہے۔ اسی طرح انٹرنیٹ کی آف لائین اور آن لائین سروس (Off Line / On Line Service) سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے ٹیلی فون رابطہ بھی ہو سکتا ہے اور دوسرے کمپیوٹروں سے معلومات اور دستاویزات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ 
مثلاً پاکستان میں کسی ڈاکٹر کو بلڈ پریشر کے بارے میں کسی پیچیدہ سوال کا جواب چاہیے تو وہ انٹرنیٹ کے ذریعے اس شعبے کے ماہرین سے رابطہ کرے گا، اور اگر اسے اپنے سوال کا تسلی بخش جواب نہیں ملتا تو وہ اپنے کمپیوٹر کے ذریعے اپنا سوال پھر انٹرنیٹ پر بھیج دے گا۔ بالکل ایسے جیسے کوئی بچہ بہتی ندی میں کاغذ کی ناؤ ڈال دے۔ یہ ناؤ جس پر سوال لکھا ہے، ندی میں تیرنے والے یا کنارے پر کھڑے کسی دوسرے بچے کے ہاتھ لگے اور وہ اس سوال کا جواب دے دے۔ اس طرح انٹرنیٹ سے منسلک کوئی بھی کمپیوٹر اس سوال کا جواب دے دے گا۔ یہ جواب مفت بھی ہو سکتا ہے اور وہ اس کا معاوضہ بھی طلب کر سکتا ہے۔ اس طرح کسی ملک کا کوئی تعلیمی ادارہ کسی بھی دوسرے ملک کے تعلیمی اداروں یا لائبریریوں سے رابطہ قائم کر کے اپنی مطلوبہ معلومات یا دستاویزات حاصل کر سکتا ہے، اور یوں علم کی ایک شمع سے دوسری شمع روشن ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس وقت دنیا کے مختلف ملکوں میں کروڑوں افراد انٹرنیٹ سے استفادہ کر رہے ہیں۔ 

آن لائین پبلشنگ (On Line Publishing) 

 انٹرنیٹ کی آن لائین سروس کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اب بہت سے جرائد انٹرنیٹ پر شائع ہوتے ہیں۔ صرف پچھلے سال امریکہ میں ڈیڑھ سو سے زیادہ ایسے رسالے شروع ہوئے جو انٹرنیٹ پر شائع ہوتے ہیں۔ یہ جرائد مختلف موضوعات پر ہیں۔ اگر خریدار چاہے تو انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے کمپیوٹر پر یہ رسالہ خرید سکتا  ہے۔ اخبار نویسی کی اس قسم کو انٹرنیٹ صحافت کا نام دیا گیا ہے۔ 

شاہراہ اطلاعات (Information Highway)

ملٹی میڈیا کی ان سہولتوں کو بڑی تیزی سے ترقی دے کر شاہراہِ اطلاعات تعمیر کی جا رہی ہے۔ معلومات کی ایسی شاہراہ جو دنیا کے ہر ملک اور ہر گوشے کو ایک دوسرے سے منسلک کر دے گی۔ ایسی شاہراہ جس پر اطلاعات کی چھوٹی بڑی لاکھوں سڑکیں اور کروڑوں راستے اور پگڈنڈیاں آملیں۔ یہ شاہراہ علم کے فروغ اور معلومات کے تبادلے کے لیے بھی استعمال ہوگی اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی اس سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔ اندازہ ہے کہ اس شاہراہ کی بدولت صرف کیبل ٹیلی وژن کے پانچ سو چینل دستیاب ہوں گے۔ دفتری اور کاروباری امور نمٹانے، بنکوں سے پیسے نکلوانے، فضائی کمپنیوں سے سفر کے معاملات طے کرنے، دوستوں کے ساتھ گپ شپ، ڈاکٹر اور وکیل سے مشورہ کرنے، اور ثقافتی اور تفریحی سرگرمیوں کے لیے بھی یہ شاہراہ کام دے گی۔ 
الیکٹرانک میڈیا کے یہ سارے کمالات اور ان کی افادیت کے سارے امکانات آپ کے سامنے ہیں، اپنے نظریات اور مقاصد بھی آپ پر واضح ہیں، اور ان کے فکری، علمی اور عملی تقاضوں سے بھی آپ باخبر ہیں۔ اس پس منظر میں ان جدید ذرائع ابلاغ سے تعلیم کے فروغ میں کیا اور کس طرح کام لیا جا سکتا ہے؟ اس پر غور کرنے اور اقدامات تجویز کرنے کی ضرورت ہے۔

شرح خواندگی میں اضافہ اور دینی مراکز

پروفیسر غلام رسول عدیم

(۱۴ مارچ ۹۶ء کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں الشریعہ اکیڈیمی کی دوسری کا سالانہ تعلیمی کانفرنس میں پڑھا گیا۔)

صدر گرامی قدر اور سامعین کرام! علم و تعلیم کی فضیلت اور اہمیت کے بارے میں کسی دور میں بھی دو رائیں نہیں رہیں۔ جب سے انسان نے شعور کی آنکھ کھولی ہے انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی دوائر میں بھی تعلیم و تعلم کا عمل جاری رہا ہے۔ 
قرآنی مضامین میں علم اور اہلِ علم کی قدر افزائی خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ قرآن اہلِ علم کو رفیع الدرجات قرار دیتا ہے يرفع اللہ الذين آمنوا منكم والذين اوتوا العلم درجات ’’اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جن کو علم عطا کیا گیا بلند درجوں پر فائز کرے گا‘‘ (المجادلہ ۱۱) 
قرآن استفهام انکاری کے انداز میں استفسار کرتا ہے ھل يستوى الذين يعلمون والذين لا يعلمون ’’کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ لوگ جن کے پاس علم نہیں ہے، برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘(الزمر ۹) 
سب سے بڑھ کر یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان فیض ترجمان سے جو دعائیں ادا کرائی گئیں، پورے قرآن میں کسی ایک میں بھی بجز علم کے اضافہ و زیادت کے الفاظ نہیں ملتے، صرف علم ہی کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس کے لیے کہلوا لیا گیا  قل رب زدنی علما ’’اے میرے رب! مجھے مزید علم عطا فرما‘‘ (طہ ۱۱۴) 
اگر فرموداتِ رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نظر جائزہ لیں تو تعلیم و تعلم سے متعلق ہمیں بیش قیمت جواہر ریزے ملتے ہیں۔ طلبِ علم کے ضمن میں ارشاد ہوتا ہے من خرج فی طلب العلم فہو فی سبيل اللہ حتی يرجع ’’جو شخص علم کی تلاش میں نکلا وہ اللہ کے راستے میں ہے یہاں تک کہ واپس آ جائے‘‘ (ترمذی جلد ۲ ص ۹۳)
بمقابلہ عابد ایک عالم کی شان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا فضل العالم علی العابد كفضلی علیٰ ادناکم ’’عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسے کہ میری فضیلت تم میں سے ادنیٰ آدمی پر‘‘ (ترمذی جلد ۲ ص ۹۸)
علم کی کمی کو آثارِ قیامت میں سے قرار دیا گیا: ان من اشراط الساعۃ ان يقل العلم (بخاری جلد ۱ ص ۱۸)
یہ ایک حقیقتِ ثابتہ ہے کہ آپؐ اُمّی تھے اور اُمّی ہونا آپ کا طرۂ امتیاز تھا، تاہم آپؐ نے تعلیم و تعلم کے ساتھ ساتھ تحریر و کتابت کی بھی حوصلہ افزائی فرمائی۔ بروایت ابی ہریرۃؓ جب ایک صحابئ رسول نے آپؐ سے خطبہ لکھوانے کی درخواست کی تو فرمایا اكتبوا لابی شاہ (ابو شاہ کو لکھ دو)۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے عبداللہ بن عمروؓ کی برتری کو تحریر ہی کی وجہ سے فانہ يكتب ولا اكتب ’’وہ لکھ لیتے ہیں اور میں لکھتا نہیں ہوں‘‘ (بخاری ص ۲۲) کہہ کر تسلیم کیا۔ 
صدر گرامی مرتبت! یہ حقائق جو قرآن و حدیث کی روشنی میں علم و ضبطِ علم سے متعلق آپ کے سامنے رکھے گئے ہیں، اسلام کی علمی اساس اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے علمی ذوق کا پتہ دیتے ہیں۔ 
آج ہم جس دور میں زندگی گزار رہے ہیں، وہ علمی جلالتوں اور فنی کمالات کا دور ہے۔ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں جو علوم و فنون پڑھائے اور سکھائے جاتے ہیں، ان کا ایک اجمالی جائزہ بتاتا ہے کہ کچھ علوم طبیعی: فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، فلکیات، جغرافیہ، علم طبقات الارض اور ان کی اَن گنت شاخیں ہیں۔ دوسری طرف علومِ معاشرت جیسے اقتصادیات، سیاسیات، عمرانیات، فلسفہ، نفسیات، انسانیات اور ان کی بہت سی شاخیں ہیں۔ علوم السنہ دنیا بھر کی ہزاروں زبانوں کے بڑے بڑے آٹھ خاندانوں کو محیط ہیں اور پھر ان کے علومِ آلیہ (Instrumental Learnings) الگ اپنی حیثیت رکھتے ہیں۔  دینی علوم جو اسلام، یہودیت، نصرانیت جیسے الہامی اور ہندو مت، بدھ مت، جین مت، زرشتی مذاہب اور تاؤازم جیسے غیر الہامی مذاہب پر مشتمل ہیں، مستقلاً فکری دھاروں کے رخ متعین کرتے ہیں۔ ان پر مستزاد جدید ٹیکنالوجی کے معرکے، جس نے مادے کو تبدلات کی بھٹی سے گزار کر انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے، جوہری توانائی اور الیکٹرانک کی نادرہ کاریوں نے تو محیر العقول معجزے کر دکھائے ہیں۔ 
لیکن حضرات یہ تصویر کا ایک رخ ہے جو بظاہر بڑا دل آویز ہے، مگر ہم ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ایک طرف تو ابن آدم علم و حکمت اور دانش و بینش کے فلک الافلاک کو چھو رہا ہے۔ دوسری طرف اسی بنی نوع انسان کا ایک بہت بڑا طبقہ علمی وجاہت تو کیا معمولی نوشت و خواند سے بھی محروم ہے۔ ایسی بلندی، ایسی پستی! العجب ثم العجب ثم العجب!!! آج کی نشست میں ہم اسی ہولناک خلا کی نشاندہی کر کے پاکستانی معاشرے میں دینی مراکز کے حوالے سے چند تجاویز سامنے لائیں گے۔ 
صدر والا قدر! مجھے اجازت دیجئے کہ میں خواندگی کے بارے میں بھی کچھ عرض کرتا چلوں۔ خواندگی کا لفظ بظاہر محض پڑھنے کے معنی دیتا ہے۔ تاہم اس کا انگریزی متبادل لفظ Literacy ہے جو اپنی اصل کے اعتبار سے لاطینی Littera (انگریزی Letter) یعنی حروف تہجی سے ماخوذ ہے، یوں Literacy کے معنی بھی حرف شناسی کے ہیں۔ تاہم دور حاضر میں خواندگی یا Literacy محض پڑھنے تک ہی محدود نہیں رہی، اس میں لکھنا اور حساب کرنا بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ اس موضوع پر انسائیکلوپیڈیا امریکانا کا مقالہ نگار لکھتا ہے:
Literacy is the ability to read and write. This ability or lack of it, illiteracy, can be defined in several ways. People can be called literate if they can read a few lines and sign their names. Many authorities feel that more realistic criterion involves writing useful letters, reading materials such as newspapers and dealing with business firms  — that is, being functionally literate.  Reducing illiteracy is one of the major tasks of education around the world.
معلوم ہوا کہ تعلیم (Education) کا ایک بہت بڑا کام ناخواندگی کو دور کرنا بھی ہے۔ حضرات! ناخواندگی دور کرنے کے ڈانڈے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور فرخ فال سے جا ملتے ہیں۔ امام بخاری اپنی شہرہ آفاق صحیح بخاری جلد اول کے ص ۷ا پر تفقہوا قبل ان تسودوا والی حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں  قال ابو عبد اللہ قد تعلم اصحاب النبی بعد كبر سنہم۔ ظاہر ہے کہ کوئی شخص اپنی عمر رسیدگی میں جب جسمانی قویٰ بہت حد تک مضمحل ہو چکے ہوتے ہیں، وہ علمی شکوہ تو حاصل نہیں کر سکتا جو اوائل عمر سے حصولِ علم کے لیے کوشش کرنے والوں کو حاصل ہوتا ہے۔ یوں امام بخاریؒ کے اس قول سے خواندگی اور بالخصوص تعلیم بالغاں کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے۔ 
حضرات! جہاں تک پاکستان کے تعلیمی مسائل کا تعلق ہے، ان کا تفصیلی تذکرہ اس مقالے کے موضوع سے خارج ہے۔ وہ تعلیمِ نسواں کا مسئلہ ہو یا پیشہ ورانہ اخلاق کا، طلبہ میں ضبط و نظم کے فقدان کا مسئلہ ہو یا معیارِ تعلیم کے انحطاط کا، تعلیم میں یکساں مواقع کی عدمِ فراہمی کا مسئلہ ہو یا تعلیم اور روزگار میں عدمِ توازن کا، وہ ترکِ تعلیم کے وجوہ ہوں یا ناخواندگی یا خواندگی میں کمی کا مسئلہ، ماہرین تعلیم میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ خواندگی کا مسئلہ سب سے زیادہ گھمبیر بھی ہے اور سنگین بھی۔ پاکستان میں خواندگی کی شرح حیرت ناک ہی نہیں، اندوہ ناک حد تک کم ہے۔
ایک نظر ان اعداد و شواہد پر ڈالئے تو حقائق اظہر من الشمس ہو جائیں گے۔
سال — شرح خواندگی
۱۹۴۷ء — ۱۵٪ (قیامِ پاکستان کے وقت)
۱۹۵۱ء — ۴ء۱۶٪
۱۹۶۱ء — ۶ء۱۳٪ 
۱۹۷۲ — ۷ء۲۱٪ 
۱۹۸۱ء — ۲ء۲۶٪  (مردوں میں ۱ء۳۵٪  اور عورتوں میں ۱ء۱۶٪  ہے)
اگر پاکستان اور دنیا کے دوسرے ملکوں کا شرح خواندگی کے اعتبار سے موازنہ کیا جائے تو اندیشہ ناک حقائق سامنے آتے ہیں۔ صرف ایک سال ۱۹۸۸ء کے اعداد و شمار ملاحظہ کیجئے۔ پاکستان ۳۰ بز (ساتویں منصوبے کے تحت) یعنی ۷۰% عوام ناخواندہ ہیں قومی ترقی میں کیا حصہ لے سکیں گے۔ 
پاکستان — ۳۰٪ (ساتویں منصوبے کے تحت) یعنی ۷۰٪  عوام ناخواندہ ہیں، قومی ترقی میں کیا حصہ لے سکیں گے؟
بنگلہ دیش — ۱ء۳۳٪ 
بھارت — ۵ء۴۳٪ 
ایران — ۸ء۵۰٪ 
انڈونیشیا — ۷۴٪ 
ترکی — ۲ء۷۴٪ 
فلپائن — ۴ء۸۵٪ 
سری لنکا — ۱ء۸۷٪ 
تھائی لینڈ — ۹۱٪ 
عوامی کوریا — ۹۳٪ 
جاپان — ۳ء۹۹٪
یہ صرف ایشائی ممالک میں سے بعض کی جھلک ہے، مغربی دنیا سے اس سلسلے میں مقابلہ ہی نہیں۔
حضرات! اگر خواندگی میں کمی کے وجوہ کا جائزہ لیا جائے تو کئی اسباب سامنے آئیں گے جن میں سے چند یہ ہیں:
۱۔ آبادی میں روز بروز اضافہ: پاکستان کی آبادی ۳٪ سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے یعنی ۳۵ لاکھ بچوں کے لیے سالانہ تعلیمی سہولتیں مطلوب ہوتی ہیں۔ آبادی میں تو اضافہ ہو رہا ہے اور سکولوں کی تعداد میں اس شرح سے اضافہ نہیں ہو رہا۔ 
۲۔ تعلیم پر خرچ:  یونیسکو (UNESCO) کی سفارش کے مطابق ترقی پذیر ممالک کو کم از کم مجموعی قومی آمدنی کا ۴٪ تعلیم پر خرچ کرنا چاہیے جبکہ پاکستان صرف ۲٪ خرچ کرتا ہے۔ 
۳۔ تعلیم کی اہمیت:  چونکہ کثیر تعداد ناخواندہ افراد پر مشتمل ہے اس لیے وہ تعلیم کی اہمیت ہی کو نہیں سمجھتے۔
۴۔ پرائمری سکولوں میں داخلہ:  پاکستان میں ۵ سے ۱۰ سال کی عمر کے بچوں کی تعداد کا صرف ۴۵٪ حصہ سکولوں میں داخلہ لے پاتا ہے۔ اس میں بھی ۶۶٪ لڑکوں اور ۳۳٪ لڑکیوں کو داخلہ ملتا ہے۔ 
۵۔ ترک تعلیم:  ساتویں پانچ سالہ منصوبے کے مطابق ۶۴٪ بچے سکولوں میں داخلہ لیتے ہیں۔ باقی ۳۶٪ ناخواندگی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں اور داخلہ لینے والوں میں ۵۰٪ پرائمری پاس کر کے تعلیم چھوڑ دیتے ہیں۔
۶۔ معاشی مجبوریاں:  غریب والدین بالکل چھوٹی عمر میں بچوں کو کام پر لگا دیتے ہیں۔ وہ تعلیم سے یکسر محروم رہ کر ناخواندگی میں اضافے کا موجب بنتے ہیں۔ 
۷۔ ناقص منصوبہ بندی: تعلیمِ عام کے حکومتی منصوبوں میں انتظامی اور ناقص منصوبہ بندی کے بڑے بڑے خلا ہیں۔ 
حکومت نے بلاشبہ کسی حد تک خواندگی کی شرح بڑھانے کی طرف پیش رفت کی ہے مگر تاحال مقاصد حاصل نہیں ہو سکے۔  سہ پہری سکول، کچی آبادی پراجیکٹ، رضا کار معلم پراجیکٹ، مسجد سکول، محلہ سکول، نئی روشنی سکول، سپاہ تدریس پراجیکٹ جیسے منصوبے زیر عمل آئے مگر نتائج کچھ نہیں نکلے۔ سکولوں اور کالجوں میں بھی میٹرک، ایف اے اور بی اے کے طلبہ میں خاص منصوبے کے تحت یہ مہم چلائی گئی مگر وہی ’’ڈھاک کے تین پات‘‘۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ دینی مراکز اس سمت میں کیا رول ادا کر سکتے ہیں۔ 
حضرات! یہ بات تو آپ حضرات سے پوشیدہ نہیں کہ قرآن مجید کا آغازِ نزول ہی لفظ اقرا سے ہوتا ہے اور ن والقلم میں قلم کی عظمت کا اعتراف قسم کے لہجے میں صاف نظر آتا ہے۔ جہاں دینی مراکز کا فریضہ تہذیبی و تمدنی اقدار کا فروغ ہے، جہاں ان کا کام ہے کہ وہ اسلامی تراث کا احیا کریں، وہاں ان پر بہت بڑی ذمہ داری یہ بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش میں ناخواندگی کا قلع قمع کر کے پورے ماحول کو علم و دانش اور تفقہ فی الدین کے نور سے جگمگا دیں۔ یہ مراکز منارہ ہائے نور ہیں مگر کتنی الم انگیز صورت حال ہے کہ انہیں کے سائے میں نوشت و خواند اور حرف شناسی سے بے بہرہ محروم القسمت بھی موجود ہیں۔
میری رائے میں:
(۱) دینی مراکز کے اساتذہ، جو علم و فضل کے کوہ ہائے گراں ہیں، اپنے طلبہ میں خواندگی کی اہمیت اجاگر کریں۔ وہ ان کے ذہن میں یہ نقش مرتسم کر دیں کہ وہ خود تو دینی علوم کے حصول کے لیے شبانہ روز محنت میں سرگرمِ عمل رہتے ہیں، انہیں اَن پڑھ لوگوں کی بھی خبر لینا چاہیے۔ کیونکہ ایسے لوگ دینی فرائض کو بوجوہ احسن ادا نہیں کر سکیں گے۔ یوں طلبہ میں ذہنی طور پر ایک مثبت فکر اور دلی طور پر ایک داعیہ پیدا کر دیا جائے کہ وہ اس میدان میں ناخواندگی اور جہالت کے خلاف سپاہی بن کر اٹھ کھڑے ہوں۔ 
(۲) دینی درسگاہیں ناخواندگی کے ازالے کے لیے جو اہم کام کر سکتی ہیں، وہ یہ کہ عامتہ الناس میں نوشت و خواند کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے کلاسوں کا اہتمام کریں۔ دینی مدارس کے طلبہ اپنی تعلیم سے کچھ وقت نکال کر ان ناخواندہ لوگوں کو تعلیم دیں۔ اپنے ٹائم ٹیبل میں اس کار خیر کے لیے گنجائش پیدا کریں۔
(۳) ہر طالب علم اپنی نجی حیثیت میں Each one teach one (ایک پڑھائے ایک) کے Slogan کے ساتھ ایک سال میں کم از کم ایک ناخواندہ فرد کو خواندگی کی حد تک با صلاحیت کر دے۔ وہ ناخواندہ افراد کو باور کرا دیں کہ نعم الانيس اذا خلوت كتاب۔
(۴) تشویق و ترغیب میں قدرے اجباری پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے دینی مراکز کے مہتمم حضرات کسی طالب علم کو سند فراغ اس وقت جاری کریں جب وہ یہ ثابت کر دے کہ اس نے دورانِ سال میں کم از کم ایک ناخواندہ شخص کو پڑھنے لکھنے کے قابل بنا دیا ہے۔ 
(۵) دینی درسگاہوں کے طالب علم کچھ وقت کے لیے معاشرے کے مختلف طبقوں سے ارتباط پیدا کریں اور ناخواندہ افراد کو تلاش کر کے ان کو تعلیم دیں۔ اس تجویز سے دوہرے فائدے کا حصول ممکن ہے۔ جب وہ اپنے مخصوص اور محدود ماحول سے نکل کر خواندگی کے مراکز قائم کریں گے تو ایک تو وہ خواندگی میں اضافہ کر رہے ہوں گے، دوسرے اپنے زیر اثر افراد میں اپنے نقطہ نگاہ کا پرچار کر رہے ہوں گے۔ یوں تبلیغ و دعوت کا فریضہ بھی انجام پذیر ہو گا۔ اس ارتباط و اختلاط سے ایک اور فائدے کی بھی توقع کی جا سکتی ہے کہ دینی درسگاہوں کے طلبہ جو کئی سال دینی مرکز ہی میں گزار کر باہر نکلتے ہیں تو معاشرے میں اپنے آپ کو Unfit نہ سہی Misfit ضرور پاتے ہیں۔ یوں وہ معاشرے میں اپنے گرد و پیش کے محاسن و معایب سے خوب باخبر ہو سکیں گے۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ انہیں لوگوں میں کامیاب زندگی گزار سکیں گے جن کی انہیں مستقبل میں رہنمائی کرناہے۔ 
(۶) حکومت نے بھی ناخواندگی کے خلاف کچھ منصوبے شروع کر رکھے ہیں مگر وہ انتظامی کمزوریوں اور روایتی حکومتی التوائی حیلوں کی نذر ہو رہے ہیں۔ اگر دینی مراکز کے اہل حل و عقد اس طرف توجہ فرمائیں تو ان حکومتی منصوبوں میں ہاتھ بٹا کر انہیں فعال بنا سکتے ہیں۔ دینی مراکز کے ارباب بست و کشاد اگر اپنے اندر قدرے لچک پیدا کر لیں تو ان کے پاس جو سرمایہ ہے، یعنی ان کے طالب علم، قوم و ملک کا سرمایہ افتخار بن سکتے ہیں۔ 
(۷) حکومت اور فلاحی ادارے بھی اس سمت میں اگر ان طلبہ کی خدمات لینا چاہیں تو وہ ان کی صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس کے لیے وہ انہیں فنڈ مہیا کر سکتے ہیں۔ اپنے وسائل کو بروئے کار لا کر دینی مراکز کے انتظامی، علمی، تعلیمی، تدریسی اور فکری پروگرام میں دخیل ہوئے بغیر وہ ان سے کام لے سکتے ہیں۔ اور یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ جس تڑپ، لگن اور خلوصِ نیت سے دینی مراکز کے خدا ترس اور تقویٰ شعار لوگ اس صلاحی و فلاحی کام میں حصہ لیں گے، دوسرے لوگ نہیں لے سکتے۔
حضرات! حرفِ آخر کے طور پر عرض کروں گا کہ اگر ان تجاویز پر عمل کیا جائے، یا ان کو زیر بحث لاکر مزید رائے زنی کر کے کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیار کر لیا جائے تو پاکستان میں افسوسناک شرح خواندگی میں حوصلہ افزا حد تک اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

دوسری سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس سے جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ کا خطاب

جسٹس محمد رفیق تارڑ

اس وقت وطنِ عزیز میں تعلیم کے دو نظام چل رہے ہیں۔ ایک نظام دینی مدارس کا ہے اور دوسرا دنیوی درسگاہوں کا جو آگے چل کر کئی حصوں میں تقسیم ہے جیسے انگلش میڈیم، اردو میڈیم، جاگیرداروں اور رؤسا کے بچوں کے سکول اور عام آدمی کے بچوں کے لیے تعلیمی ادارے وغیرہ۔ انگریز نے برصغیر کی حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اور ۱۸۵۷ء میں بھی مسلمان ہی جنگ آزادی کا ہراول دستہ تھے اس لیے فرنگی اسلام، اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کے خلاف شدید جذبات رکھتا تھا۔ اس پس منظر میں رسوائے زمانہ میکالے نے ایک شیطانی نظامِ تعلیم مرتب کر کے دعویٰ کیا کہ اس سے ایسا طبقہ پیدا ہو گا جو خون اور رنگ کے اعتبار سے ہندوستانی عمر خیالات و تمدن میں انگریز ہو گا۔ اس نظامِ تعلیم کے نفاذ سے دو مقاصد کا حصول اس کے پیش نظر تھا: دفتروں کے لیے کلرک پیدا کرنا، اور مسلمانوں کو ان کے دین سے بے گانہ کر کے دینی اقدار سے محروم کرنا۔
نظامِ تعلیم ہی کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے ولیم ہنٹر نے اسلام اور اسلامی تعلیمات پر انتہائی رکیک حملے کیے اور نظامِ اسلام کا تمسخر اڑایا۔ نوآبادیاتی دور کے ڈیڑھ دو صدیوں پر محیط لمبے دورانیے میں فرنگی نے مسلمانوں میں اپنے کاسہ لیس، وطن فروش ٹوڈیوں کے خاندانوں کی اس طرح تربیت کی کہ وہ اپنی چال ڈھال، نشست و برخاست اور بود وباش میں آج تک مغربی معاشرہ کی ’’نقل مطابق اصل‘‘ ہیں اور وطن عزیز میں قیادت کا تاج گذشتہ ۵۰ برس سے انہیں خاندانوں کے افراد کے سروں پر سجتا چلا آرہا ہے۔ ٹوڈیوں کی اس نسل کے ذریعہ ایک طرف تو عصری نظامِ تعلیم کو بد سے بدتر شکل میں ڈھالا جا رہا ہے، اور دوسری طرف نیو ورلڈ آرڈر کے سب سے بڑے ہدف دینی مدارس پر یلغار اور مار دھاڑ کے ارادے بن رہے ہیں۔ 
گزشتہ دنوں اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر تھی کہ بلوچستان میں ابتدائی جماعتوں کی کتاب سے حمد باری تعالیٰ نکال باہر کی گئی ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ایسا تو انگریز کے دور میں بھی نہیں ہوا تھا۔ ان دنوں ہر سکول میں پڑھائی شروع ہونے سے پہلے مختلف منظوم دعاؤں میں سے کوئی ایک دعا پڑھی جایا کرتی تھی جس میں تمام بچے خواہ ان کا تعلق کسی مذہب سے ہو، شریک ہوا کرتے تھے۔ ایک دعائیہ نظم کا بند اب تک یاد ہے جو یوں تھا:
بحر عصیاں کا کوئی کنارہ نہیں 
غرق ہونے کو ہیں، کوئی چارہ نہیں 
بے تیرے کوئی بھی سہارا نہیں
اپنی رحمت سے ہم سب کو مولا بچا
ہم ہیں بندے تیرے تو ہمارا خدا
یہ قریب قریب آیت مبارکہ ربنا ظلمنا انفسنا (وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن) من الخاسرين کا ترجمہ ہے۔ 
فرنگی کے مسلط کردہ نظامِ تعلیم کے متعلق علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم 
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
یہ نظام ہمیں اپنے ماضی سے کاٹتا اور طاغوت سے جوڑتا ہے:
انگریز کی تعلیم نے رکھا نہ کہیں کا
مذہب کا نہ ملت کا نہ دنیا کا نہ دیں کا 
طفل میں بو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی 
دودھ ڈبوں کا پیا تعلیم ہے سرکار کی 
اس نظامِ تعلیم کی حامل اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل لوگ اس بد قسمت ملک پر حکمران ہیں، ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد کے حوالہ سے ان کی کارکردگی کھلی آنکھوں دیکھ بلکہ بھگت رہے ہیں۔ یہ یہودیوں اور عیسائیوں کے مرتب کردہ نیو ورلڈ آرڈر کو آگے بڑھانے کی شرط پر اپنے اپنے عہدوں پر قائم ہیں۔ ان سے یا ان جیسے دوسرے تعلیم یافتہ سے نفاذ اسلام کی توقع ایسے ہی ہے جیسے تھوہر کے پودے سے انگور کے خوشوں کی لوگوں آرزو کرنا۔
جمہوریت ایک ایسا طاغوتی نظام ہے جو ایک چھٹے ہوئے بدمعاش اور شیخ الاسلام کی رائے کو برابر کا درجہ دیتا ہے، اور اب تو سونے پر سہاگہ ہونے کو ہے کہ قادیانیوں سمیت ہر غیر مسلم کی رائے دو مومنوں کے برابر کرنے کا اہتمام ہو رہا ہے۔ مغربی تعلیم یافتہ دانش ور یہ دلیل دیتے ہیں کہ پاکستان کو وجود میں لانے کے لیے تو جداگانہ انتخاب ضروری تھا مگر اس کے استحکام کے لیے مخلوط طریق انتخاب ضروری ہے۔ یعنی وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بچے کی پیدائش تک تو ماں کی ضرورت تھی لیکن اس کی نشوونما اور اچھی پرورش کے لیے ماں سے مختلف یا متضاد شخصیت کی حامل خاتون زیادہ بہتر ہوگی۔
بریں عقل و دانش بباید گریست
کرہ ارض اسلام کے دورِ حکمرانی اور اس کی برکتوں سے ان شاء اللہ پھر مستفیض ہو گا مگر جمہوریت سے نہیں بلکہ اسلامی انقلاب کے ذریعہ۔ ویسا ہی پُرامن انقلاب جیسا مکہ معظمہ کے مظلوموں نے حضور سرور کائناتؐ کی قیادت میں ظلم و جور، جہالت، گمراہی اور بے راہ روی کی قوتوں کے خلاف برپا کر کے کرہ ارض کی تقدیر بدل دی تھی۔ ایسے انقلاب کے لیے امریکہ فرانس وغیرہ سے اسلحہ کی بھیک مانگنے کی نہیں بلکہ انسان سازی کی ضرورت ہے۔ 
جب اسلام کے خلاف ایک نئے نظامِ تعلیم کے ذریعے میکالے، ہنٹر اور ان کے گماشتے سازش کر رہے تھے تو اس وقت کے علماء حق نے مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی قیادت میں انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں جگہ جگہ دینی مدارس قائم کر کے اسلام کے تحفظ اور دفاع کا حق ادا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں ان پر اور ان کے جانشینوں پر جو انسان سازی کا فریضہ انتہائی نامساعد اور ابتر حالات میں سر انجام دے رہے ہیں۔ ان کے زیر اہتمام چلنے والے دینی اداروں کی وجہ سے تمام طاغوتی سازشوں اور کوششوں کے باوجود اب بھی ملک کی بڑی بھاری اکثریت دینی اقدار سے جذباتی وابستگی اور محبت رکھتی ہے۔ اور وقت آنے پر جان تک کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتی، اس لحاظ سے یہ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں جن سے ہدایت کی روشنی پھیلتی اور ظلمت دم توڑتی ہے۔ دینی مدارس کا یہ کردار اسلام دشمن ابلیسی قوتوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے اور وہ عالمِ اسلام میں اپنے گماشتوں کے ذریعہ انہیں ختم کرنے کے درپے ہیں۔ 
علامہ اقبال کی نظم ’’ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘‘ اس صورت حال کی کتنی صحیح عکاسی کرتی ہے جس میں ابلیس اپنے سیاسی فرزندوں سے یوں مخاطب ہے کہ:
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
رُوحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیّلات
اسلام کو حِجاز و یمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
مُلّا کو اُن کے کوہ و دمن سے نکال دو
اہلِ حرم سے اُن کی روایات چھِین لو
آہُو کو مرغزارِ خُتن سے نکال دو
اقبالؔ کے نفَس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو!
ان شاء اللہ اسلامی انقلاب آئے گا اور ضرور آئے گا، اسے کوئی نہیں روک سکتا اور دینی ادارے اس کا ہراول دستہ ہوں گے۔ البتہ اس بات کی ضرورت ہے کہ دینی و عصری تعلیم کے درمیان فاصلوں کو کم کیا جائے اور ان اداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو نئی نسل کے لیے دینی و عصری علوم کے متوازن امتزاج کے ساتھ ایک ایسے تعلیمی نظام کے تصور کو آگے بڑھا رہے ہیں جو ہماری دینی اور قومی ضرورتوں اور آج کی عالمی صورت حال میں ملّی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کوششوں کو بار آور کریں تاکہ ہم پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک مثالی اسلامی ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر سکیں، آمین، وما علینا الا البلاغ المبین۔

خیر مقدم

ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

دوسری سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس منعقدہ ۱۴ مارچ ۹۶ء بمقام مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ


نحمدہ و نصلی علی رسوله الكريم اما بعد!
معزز مہمانان گرامی و شرکاء محفل!  السلام عليكم و رحمۃ اللہ وبركاتہ۔
ہمارے ملک میں دینی اور دنیاوی تعلیم کے جو دو نظام اس وقت رائج ہیں، ان کے بارے میں یہ بات اب مانی جا چکی ہے کہ وہ قومی سطح پر ہماری فکری، علمی، دینی اور دنیاوی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔
(۱) عصری تعلیم کی درس گاہوں میں جو نظام رائج ہے، اس کی بنیاد پچھلی صدی میں برصغیر کے انگریز حکمرانوں نے رکھی تھی۔ اس کی لادینی حقیقت اور اس کے پیش نظر استعماری مقاصد خود اس کے بنانے والوں نے واضح کر دیے تھے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اس قوم کو اس کی دینی بنیاد، علمی و فکری ورثے، اخلاقی اقدار اور تہذیب و معاشرت سے لاتعلق کر کے اس پر فرنگی فکر و تہذیب کی غلامی مسلط کر دی جائے۔ چنانچہ اہل نظر کی حقیقت شناس نگاہوں نے اسی وقت یہ محسوس کر لیا تھا کہ اہلِ کلیسا کا یہ نظام تعلیم ؏
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
اہلِ فکر و دانش کی بحثوں کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو اس نظام کے تین بنیادی نقائص سامنے آتے ہیں: 
پہلا یہ کہ یہ ایک خالص مادہ پرستانہ نظامِ تعلیم ہے جو اپنے طالب علموں کے ذہنوں میں ملحدانہ افکار و نظریات کی آبیاری کرتا اور ان کے خیالات کی اس طرح سے تشکیل کرتا ہے کہ وہ اگر خدا اور مذہب کا زبان سے انکار نہ بھی کر سکیں تو اپنی زندگی کے شب و روز میں انہیں کہیں کوئی جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اسلامیات کی تعلیم جس مقدار اور جس انداز میں اس میں شامل کی گئی ہے، اس کی حیثیت ایک پیوند کی ہے جس سے طلبہ کے فکر و ذہن کو مسلمان بنانے اور انہیں دینی حقائق سے روشناس کرانے میں کوئی مدد نہیں مل سکتی۔
دوسرا یہ کہ اس نظام میں اردو اور انگریزی ذریعہ تعلیم کی تفریق؛ معاشرے کے مختلف طبقات کے لیے تعلیم، معیار اور ماحول کے لحاظ سے مختلف تعلیمی اداروں کے قیام؛ اور اس طرح کے دوسرے اقدامات کے ذریعے سے ملت کے افراد کو مختلف خانوں میں بانٹ دیا گیا ہے؛ اور ان کی سوچ، کردار، معاشرت اور اقدار میں اس قدر بُعد و تضاد پیدا کر دیا گیا ہے کہ جس کے بعد ان سے یہ توقع ہی نہیں کی جا سکتی کہ وہ ایک ’’ملتِ واحدہ‘‘ کے افراد بن کر رہ سکیں گے۔
تیسرا یہ کہ اس میں طلبہ کے اخلاق و کردار کی تہذیب اور ان کی تربیت کا سرے سے کوئی اہتمام نہیں۔ استاد یہاں محض انتقالِ علم کا ایک ذریعہ ہے، طلبہ اس کی سیرت اور کردار میں اپنے لیے کوئی نمونہ نہیں پاتے، اور نہ یہاں ان بنیادوں کا وجود ہے جن پر استاد اور شاگرد کے مابین شفقت اور احترام کا تعلق استوار ہو سکتا ہے۔
اس سے واضح ہے کہ رائج عصری نظامِ تعلیم افرادِ ملت کی تباہی اور ان کی علمی و اخلاقی پستی میں اضافہ کے سوا کوئی کردار ادا نہیں کر رہا۔ 
(۲) دوسری طرف دینی مدارس جس تعلیمی نظام کے تحت کام کر رہے ہیں، اس کے ذریعے سے قرآن و سنت اور ان سے متعلقہ دینی علوم کی تعلیم کا کام اگرچہ ایک حد تک انجام پا رہا ہے، لیکن انگریزی زبان اور عصری علوم سے لا تعلقی اور غلط تعلیمی ترجیحات کی بنا پر ان کا دائرہ اثر نہایت محدود ہے۔ اور یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ عصرِ حاضر کے علمی و عملی تقاضوں سے بالکل بے خبر اپنی ہی دنیا میں مگن ہیں۔ چنانچہ جدید عقلی دور میں دین کی تفہیم اور اس کے مطابق ایک نظریاتی اسلامی مملکت کی تشکیل میں یہ مدارس کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کر رہے۔ 
قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک اس صورت حال کی اصلاح کے لیے مختلف حکومتوں کی طرف سے کاغذی سطح پر اگرچہ متعدد بار پیش رفت ہوئی ہے لیکن عملی طور پر کسی بہتری اور اصلاح کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ چنانچہ ایک عرصہ سے اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ سرکاری سطح پر تعلیمی اصلاحات کے لیے جدوجہد کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سطح پر پورے ملک میں ایسے تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں جہاں طلبہ کو ان کی دینی و عصری ضروریات پر محیط معیاری تعلیم مہیا کی جائے اور ان کے اخلاق و کردار کی بھی بہتر تربیت کا اہتمام کیا جائے۔
چنانچہ اس مقصد کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں اہلِ درد اپنے اپنے دائروں میں دینی و عصری تعلیم اور فکری و اخلاقی تربیت کے امتزاج کی بنیاد پر تعلیمی جدوجہد میں مصروف ہیں، اور گوجرانوالہ میں شاہ ولی اللہ یونیورسٹی، الشریعہ اکیڈیمی، اور الشریعہ پبلک اسکول کا قیام بھی انہی عزائم کا آئینہ دار ہے۔ 
اس کے ساتھ اس امر کی ضرورت بھی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے کہ اس رخ پر کام کرنے والے اداروں اور شخصیات کے درمیان مفاہمت و مشاورت کا بھی وقتاً فوقتاً اہتمام ہو تاکہ ان مساعی کو زیادہ مفید اور بار آور بنایا جا سکے۔ گزشتہ سال اس غرض کے لیے الشریعہ اکیڈیمی مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے تحت شاہ ولی اللہ یونیورسٹی میں تعلیمی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا، اور اب آپ بزرگوں کو دوسری سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس میں شرکت کی زحمت دی گئی ہے، جس کا عنوان ’’خواندگی، تعلیم اور دینی اقدار کا فروغ‘‘ تجویز کیا گیا ہے۔ 
ہم آپ سب حضرات اور مہمانان گرامی کا خیر مقدم کرتے ہوئے تشریف آوری پر آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور اس تعلیمی جدوجہد میں راہنمائی، مشاورت، تعاون اور خصوصی دعاؤں کے خواستگار ہیں۔

تعارف و تبصرہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’ماہنامہ نقیبِ ختمِ نبوت امیرِ شریعت نمبر ( جلد دوم)‘‘

ماہنامہ نقیب ختم نبوت (دار بنی ہاشم، مہربان کالونی، ملتان) اس سے قبل امیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری نور اللہ مرقدہ کے حالات اور جدوجہد کے حوالہ سے امیر شریعت نمبر کی ایک ضخیم جلد پیش کر کے ملک بھر کے علمی و دینی حلقوں سے دادِ تحسین پا چکا ہے۔ اور یہ اس کی دوسری جلد ہے جو پونے چھ سو صفحات پر مشتمل اور عمدہ کتابت و طباعت اور مضبوط جلد کے ساتھ مزین ہے۔
 تذکرہ حضرت شاہ جیؒ کا ہے اور لکھنے والوں میں ماسٹر تاج الدین انصاریؒ، شیخ حسام الدینؒ، آغا شورش کاشمیریؒ، مولانا مجاہد الحسینی، سید عطاء الحسن بخاری، حکیم محمود احمد ظفر، ملک اسلم حیاتؒ، پروفیسر خالد شبیر احمد، حافظ عبدالرشید ارشد، حفیظ رضا پسروری، اور جانباز مرزاؒ جیسے اہلِ قلم شامل ہیں۔ 
سید کفیل بخاری مبارک باد کے مستحق ہیں کہ وہ اپنے عظیم المرتبت نانا کے حالاتِ زندگی کی صورت میں تاریخ کے ایک ناقابلِ فراموش باب سے نئی نسل کی شناسائی کا اہتمام کر رہے ہیں۔ 

’’ماہنامہ البنوریہ (حضرت جیؒ نمبر)‘‘

ماہنامہ البنوریہ (جامعہ بنوریہ سائٹ کراچی) نے امیر تبلیغ حضرت مولانا انعام الحسن کاندھلوی نور اللہ مرقدہ کے حالاتِ زندگی اور خدمات پر خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا ہے جو علامہ سید سلمان ندویؒ، حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مولانا سید محمد ثانی حسنیؒ، مولانا مفتی احمد الرحمانؒ، مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مولانا وحید الدین خان، مولانا تقی الدین ندوی، مولانا محمد رابع حسنی، مولانا محمود الحسن اعظمی، مولانا شمس الحق ندوی اور مفتی محمد جمیل خان جیسے اصحابِ قلم کی نگارشات پر مشتمل ہے۔ اور حضرت جیؒ کے حالاتِ زندگی کے ساتھ ساتھ دعوت و تبلیغ کی عالمی تحریک کے اصول و طریق کار کے بارے میں بیش قدر معلومات کا احاطہ کیے ہوئے ہے، کم و بیش ساڑھے تین سو صفحات کے اس ضخیم نمبر کی قیمت ایک سو روپے ہے۔

’’معالم العرفان فی دروس القرآن (جلد ۱۷)‘‘

حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی دامت برکاتہم کے دروس قرآن کا سلسلہ جو ایک عرصہ سے جاری ہے اور ملک بھر کے علماء و خطباء ان سے مسلسل استفادہ کر رہے ہیں، یہ اس کی آخری کڑی ہے، اور اس کے ساتھ ہی قرآن کریم کے عام فہم ترجمہ و تشریح کا یہ سلسلہ مکمل ہو گیا ہے۔ یہ جلد سورۃ الواقعہ تا سورۃ التحریم پر مشتمل ہے جبکہ آخری پارہ کے دروس اس سے قبل شائع ہو چکے ہیں۔ 
حضرت صوفی صاحب مدظلہ کے ان دروس کی امتیازی خصوصیت ہے کہ قرآن کریم کے عام فہم ترجمہ و تشریح کے ساتھ فلسفہ ولی اللٰہی کے مطابق دورِ حاضر کے مسائل و مشکلات کا حل پیش کرتے ہیں، اور کفر و الحاد کے فتنوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے زہر کا تریاق بھی ان میں موجود ہوتا ہے، جو اس دور میں عام پڑھے لکھے احباب اور علماء و مدرسین کے لیے بیش بہا ذخیرہ ہے۔ 
دروسِ قرآن کا مکمل سیٹ بیس جلدوں پر مشتمل ہے جس کا مجموعی ہدیہ اکتیس سو پچپن (۳۱۵۵) روپے ہے، اور مکتبہ دروس القرآن، مدرسہ نصرۃ العلوم، فاروق گنج، گوجرانوالہ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

’’تفسیر آیت النور‘‘

حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلویؒ کا رسالہ تفسیر ’’آیت النور‘‘ حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی مدظلہ کے مقدمہ و تحقیق اور حضرت مولانا حافظ عزیز الرحمٰن ایم اے کے اردو ترجمہ کے ساتھ اداره نشر و اشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم فاروق گنج گوجرانوالہ نے شائع کیا ہے، جس کے بارے میں دور حاضر کے عظیم مفسر قرآن کریم حضرت علامہ شمس الحق افغانی کا ارشاد ہے کہ 
’’زیر تقریظ رسالہ کو جو میں نے دیکھا تو اس سے میں نے استفادہ کیا جس کی بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آیت نور کے متعلق تفاسیر کا جس قدر ذخیرہ موجود ہے، یہ چھوٹا سا رسالہ ان سب پر بھاری ہے۔‘‘
 ایک سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل اس رسالہ کی قیمت ۳۹ روپے ہے۔

’’سفرِ دیدہ نم‘‘

تحریکِ ختم نبوت کے باہمت راہنما حضرت مولانا تاج محمود رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرزند و جانشین صاحبزادہ طارق محمود صاحب با ذوق دانش ور ہیں جو جہد و عمل اور تحریر و تقریر دونوں جگہ اپنے والد مرحوم کی روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ۹۴ء میں انہیں حرمین شریفین کی حاضری کی سعادت حاصل ہوئی تو انہوں نے اپنے مشاہدات و تاثرات کو قلمبند کر کے دیگر احباب کو بھی شریکِ جذبات کرنے کا اہتمام کر لیا۔ یہ صرف سفرنامہ نہیں بلکہ متعلقہ مقامات کے بارے میں معلومات کا ذخیرہ بھی ہے جو صاحبزادہ کے ذوق اور محنت کا آئینہ دار ہے۔ صفحات ۱۴۰، عمده کمپوزنگ و طباعت، خوبصورت مضبوط جلد، قیمت ۷۰ روپے، ملنے کا پتہ: مکتبہ ہفت روزہ لولاک، جامع مسجد محمود، ریلوے کالونی، فیصل آباد۔

’’تصوف و سلوک‘‘

پیر طریقت حضرت مولانا غلام حبیب نقشبندی قدس اللہ سرہ العزیز کے خلیفہ مجاز حضرت مولانا حافظ ذوالفقار احمد نقشبندی زید مجدہم نے اس کتاب میں علمِ تصوف کے تعارف اور تصوف و سلوک کے آداب و اسباق پر مشتمل معلومات کو ایک اچھی ترتیب کے ساتھ جمع کیا ہے، اور تصوف و سلوک کے بارے میں مختلف حلقوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے شبہات و سوالات کا بھی جائزہ لیا ہے۔ صفحات ۲۳۲، کمپوزنگ و طباعت معیاری، خوبصورت مضبوط جلد، قیمت درج نہیں۔

’’خطباتِ دین پوری (جلد سوم)‘‘

پاکستان کے معروف خطیب حضرت مولانا عبد الشکور دین پوری رحمہ اللہ تعالٰی کے خطبات کے دو مجموعے اس سے قبل منظر عام پر آچکے ہیں، اور یہ ان کے خطبات کی تیسری جلد ہے جس میں عظمتِ قرآن، صحابہ کرامؓ کا عشقِ رسولؐ، شادی و نکاح، فاروقؓ و حسینؓ، موت و حقوقِ والدین، فکرِ آخرت، جہاد فی سبیل اللہ، اور کلمہ طیبہ جیسے اہم عنوانات پر مولانا دین پوری کے خطبات کو جمع کیا گیا ہے۔ 
خطبات کے مرتب مولانا قاری جمیل الرحمان اختر ہیں جو ان معلوماتی خطبات کو خوبصورت ترتیب کے ساتھ پیش کر کے خطباء کرام کا کام آسان کر رہے ہیں اور ان کی دعائیں لے رہے ہیں۔ صفحات پونے چار سو، عمدہ کمپوزنگ و طباعت، مضبوط جلد، قیمت ایک سو چالیس روپے، ملنے کا پتہ: جامعہ حنفیہ قادریہ، ۲۸۵ جی ٹی روڈ باغبانپورہ، لاہور۔

’’معارف التجويد‘‘

شعبہ تجوید معارفِ اسلامیہ اکادمی، گکھڑ ضلع گوجرانوالہ کے صدر مدرس قاری حبیب الرحمان ہزاروی صاحب نے زیر نظر کتاب میں تجوید کے مسائل و احکام مرتب کیے ہیں اور فنی مسائل کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی جمع و ترتیب اور قراء عشرہ کے تعارف کے بارے میں مفید معلومات بھی شامل کر دی ہیں۔ تجوید و قراءۃ کے نصاب کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔ صفحات ۱۳۰، قیمت درج نہیں، ملنے کا پتہ: ندوۃ المعارف، گکھڑ ضلع گوجرانوالہ۔

’’نصیر المنطق‘‘

یہ فنِ منطق میں اردو کا ایک مختصر اور جامع رسالہ ہے جو مدرسہ مطلع العلوم بنارس (انڈیا) کے استاد حضرت مولانا محمد یوسف عباسی پشاوری کی تالیف ہے اور مکتبہ شجاعت خان راحت آباد ڈاک خانہ فارسٹ کالج پشاور کی طرف سے فاضل نوجوان مولانا شمس الرحمان نعمانی نے شائع کیا ہے۔ ستر کے لگ بھگ صفحات کے اس رسالہ کی عام قیمت ۱۴ روپے جبکہ طلبہ کے لیے ۱۲ روپے ہے اور اسے جامعہ مظاہر العلوم جی ٹی روڈ گوجرانوالہ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

’’تحریفِ بائبل بزبانِ بائبل (حصہ انجیل متی)‘‘

مولانا عبد اللطیف مسعود بائبل کے مطالعہ کا خصوصی ذوق رکھتے ہیں اور بائبل ہی کی زبان میں بائبل کے تحریف شدہ ہونے پر مسلسل مقالات و مضامین پیش کرنے کے علاوہ ’’تحریفِ بائبل بزبانِ بائیل‘‘ کے عنوان سے تقریباً ایک ہزار صفحات کی ضخامت پر مشتمل ایک بیش قیمت اور معلوماتی کتاب بھی تالیف کر چکے ہیں۔ یہ کتاب ابھی کتابت کے مرحلہ میں ہے اور اس کا ایک حصہ انہوں نے زیر نظر رسالہ کی صورت میں الگ شائع کیا ہے جس میں انجیل متی کے حوالے سے بائبل کے تضادات اور تحریفات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ صفحات ۶۸، ناشر: عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ڈسکہ۔  ملنے کا پتہ: جامع مسجد خضری، ڈسکہ ضلع سیالکوٹ۔

’’مسئلہ توحید قرآن مجید اور کتبِ سابقہ کی روشنی میں‘‘

مولانا عبد اللطيف مسعود نے زیر نظر رسالہ میں مسئلہ توحید کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کی ہے اور قرآن کریم کے ساتھ ساتھ کتبِ سابقہ کے حوالے اور عبارات پیش کر کے عقیدہ توحید کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ صفحات ۳۶، ملنے کا پتہ: جامع مسجد خضریٰ، ڈسکہ ضلع سیالکوٹ۔

’’اسلامی انقلاب کی جدوجہد‘‘

ملک کے معروف دانشور ڈاکٹر محمد فاروق خان نے اسلام کی دعوت و تبلیغ اور دین کے غلبہ و نفاذ کے لیے کام کرنے والی مختلف تحریکات کے افکار و نظریات اور طریق کار کا جائزہ لیا ہے اور زیر نظر کتابچہ میں ان کی کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ’’انقلاب کا صحیح لائحہ عمل‘‘ کے عنوان سے اپنا نقطہ نظر وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ صفحات ۱۶۸، قیمت ۳۰ روپے، ناشر: المورد ۹۸/ای، ماڈل ٹاؤن، لاہور۔

’’جب حضور ﷺ آئے‘‘

محمد متین خالد صاحب باہمت اور خوش ذوق نوجوان ہیں جو ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالتؐ کے محاذ پر مسلسل سرگرم رہتے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں انہوں نے جناب رسالت مآب ﷺ کی ولادت با سعادت کے بارے میں مختلف مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام اور اصحاب قلم کی منتخب نگارشات کا ایک حسین گلدستہ پیش کیا ہے جو ان کی محبتِ رسولؐ کے عمدہ ذوق کا آئینہ دار ہے۔ صفحات ۲۲۴، خوبصورت مضبوط جلد، قیمت ایک سو پچاس روپے، ناشر: مکتبہ تعمیر انسانیت، اردو بازار، لاہور۔

موسم برسات میں ہیضہ سے بچاؤ کے لیے خصوصی تدابیر

حکیم عبد الرشید شاہد

جب کھایا پیا معدہ میں ہضم نہ ہو اور خراب ہو کر دست اور قے کے ذریعہ خارج ہونے لگے تو اسے سوء ہضم، بدہضمی اور تخمہ کا نام دیتے ہیں۔ ہاضمہ کی یہ خرابی ہر موسم، عمر اور ملک کے آدمی کو کبھی نہ کبھی ہوتی رہتی ہے اور اس کا علاج بھی آسان ہے۔ 

علامات

ہیضہ شروع ہوتے ہی پیٹ میں درد اور دست، قے جاری ہو جاتے ہیں۔ دستوں میں پہلے کھائی ہوئی چیزیں اور بعد میں چاولوں کی پیچ جیسا فضلہ خارج ہوتا ہے۔ قے ہو تو غذا کے بعد زرد اور سفید پے در پے آتی ہے۔ دوسرے درجے میں دست اور قے شدت اختیار کر لیتے ہیں۔ بے چینی اور پیاس کی زیادتی، ہاتھ پاؤں میں تشنج (کھچاوٹ)، اور پانی پیتے ہیں تو فورً‌ا نکل جاتا ہے۔ تیسرے درجے میں خون ملا پانی قے کے ذریعے ظاہر ہونے لگتا ہے، آنکھیں اندر کو دھنس جاتی ہیں، بولنا مشکل ہو جاتا ہے۔ 
علاج میں قوتِ ارادی کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔ مریض کو ہر دم تسلی دیں۔ کھلی ہوا میں رکھیں، تیمار داروں کا ہجوم نہ ہونے دیں، مریض کے بستر پر سبز پودینہ اور کافور رکھیں، ان کی خوشبو سے مریض کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔

علاج

شدتِ پیاس میں برف کے ٹکڑے چوستے رہیں، غذا بالکل بند کر دیں۔ دست اور قے میں کمی ہونے پر بھوک ستائے تو یخنی، شوربہ، یا دال مونگ کا شوربہ پودینہ اور سبز ٹماٹر ملا کر پکائیں۔

ہو الشافی

(۱) چائے والی پتی کا قہوہ بنا کر نصف لیموں نچوڑ کر دن میں تین مرتبہ پلائیں، ان شاء اللہ پہلی خوراک سے ہی نمایاں فرق ہو گا۔ 
(۲) سبز پودینہ تولہ، زرشک شیریں ۲ تولہ، املی ایک چھٹانک، تین پاؤ پانی میں دو جوش دے کر چھان کر سرد کر کے میٹھا ملا کر گھونٹ گھونٹ پلاتے رہیں۔ 
(۳) کالی مرچ تولہ، نمک سیاه تولہ، ادرک تازه تولہ، الائچی بڑی تولہ، پودینہ خشک تولہ کوٹ چھان کر رکھ لیں۔ ہر گھنٹے کے بعد دوچنے کے برابر جوانوں کو اور چنے کے برابر بچوں کو دیں۔ 
نوٹ: اگر مریض کا جسم بالکل بے جان ہو گیا ہو تو دونوں بغلوں کے نیچے ایک پیاز چھیل کر نصف نصف رکھ دیں، پندرہ منٹ بعد نکال دیں، عجیب چیز ہے۔

دینی مدارس اور زمانے کے تقاضے

مولانا ابوالکلام آزادؒ

وہ تعلیم کہ جس تعلیم سے ملک کے بہترین مدبر، ملک کے بہترین منتظم، اور ملک کے بہترین عہدہ دار پیدا ہوتے تھے، آج ان ہی مدرسوں کو یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہ بالکل نکمے ہیں، ان مدرسوں سے نکلنے کے بعد مسجدوں میں بیٹھ کر یہ لوگ بس خیرات کی روٹیاں توڑ لیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں، انہوں نے حقیقت کو نہیں سمجھا ہے، لیکن ہمیں یہ ماننا پڑے گا اور اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہم زمانے سے دور ہو گئے ہیں۔ 
میرے پاس ایک بہت ہی جچی تلی بہتر طریقے سے لکھی ہوئی ایک تحریر آئی کہ چونکہ آپ گورنمنٹ آف انڈیا کے صیغہ تعلیم میں موجود ہیں، تو کیا یہ توقع کی جائے کہ جو عربی فارسی علوم کے مدرسے موجود ہیں، جہاں سے بہتر سے بہتر مستند طلبا فارغ ہو کر ڈگریاں حاصل کر کے نکلتے ہیں، کون سی وجہ ہے کہ ان کے لیے ملک کی انتظامی زندگی میں وہ دروازے کھلے نہ ہوں جو انگریزی تعلیم کے حاصل کیے ہوئے اور پڑھے ہوئے لوگوں کے لیے ہیں؟ کون سی وجہ ہے کہ جس تعلیم کو حاصل کر کے فتح اللہ شیرازی اور ٹوڈرمل پیدا ہوتے تھے، آج اس تعلیم سے جو لوگ نکلے ہیں ان پر ملک کے انتظامی دروازے بندے ہوں؟ 
مجھے ان کے جواب دینے کی مہلت نہیں ہوئی۔ لیکن میں آپ سے کہتا ہوں کہ اس کا جواب اسی میں موجود ہے۔ آپ نے کبھی اس کی کوشش نہیں کی کہ آپ اپنے مدرسوں کو زمانہ کی چال کے ساتھ جوڑ سکیں۔ زمانہ چلتا رہا اور ترقی پر پہنچ گیا اور آپ وہیں رہے جہاں تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی تعلیم کو زمانہ کی مانگوں سے کوئی رشتہ نہیں رہا۔ اور زمانہ نے آپ کے خلاف آپ کو نکما سمجھ کر فیصلہ کر دیا۔ زمانہ نے آپ کو بیکار سمجھا ہے، آپ کو نکما سمجھا ہے۔ 
مدرسہ میں عربی ان کو پڑھنا ہے تو یہ مجبوری ہے کہ کسی نہ کسی مولوی کو رکھ لیا، لیکن کوئی حقیقی وقعت آپ کے دل میں مولوی کی نہیں ہے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے۔ آپ کے دل میں اس کی عزت ہونی چاہئے۔ تو میں آپ سے کہتا ہوں کہ اس کی تہ میں جو چیز ہے، وہ زمانے کی ناقدر شناسی ہے۔ ہم کو اپنی جگہ اس کے ساتھ یہ بھی جاننا چاہئے کہ ہمارا فرض تھا کہ ہم زمانے کے تقاضوں کا ساتھ دیتے، مگر ہم نے زمانے کا ساتھ نہیں دیا۔
(خطبات مولانا ابوالکلام آزادؒ)


دینی تعلیم کے مراکز اور آج کے تقاضے

شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

خدا کا شکر ہے جمعیت علماء ہند کی اس تجویز کو مسلمانوں کی تائید حاصل ہوئی۔ ماتحت جمعیتوں نے جگہ جگہ شبینہ مکاتب قائم کیے۔ مرکزی جمعیت علماء ہند کی طرف سے تباہ شدہ اور پس ماندہ علاقوں میں مکاتب قائم کیے گئے۔ ترتیبِ نصاب کے لیے ایک تعلیمی کمیٹی بنائی گئی جس نے ابتدائی درجات کا ایسا نصاب مرتب کیا کہ اگر پانچ سال تک بچوں کو ایک گھنٹہ یومیہ تعلیم دی جائے تو بچہ تجوید و قراءت کے ساتھ قرآن کریم بھی ختم کر سکتا ہے اور حسبِ ضرورت عقائد، عبادات اور سیرت و اخلاق اور اسلامی تہذیب سے بھی پوری واقفیت حاصل کر سکتا ہے۔ اور اگر نصاب کی ہدایات پر حضرات اساتذہ عمل کریں تو بچہ کی اخلاقی اور مذہبی تربیت بھی کافی حد تک ہو سکتی ہے، لیکن اس جدوجہد کے باوجود کامیابی کی منزل بہت دور ہے اور اس کے لیے لا محالہ عام مسلمانوں اور اسلامی اداروں کے تعاون کی شدید ضرورت ہے۔ 
اس پر آشوب دور میں اگر جمعیت علماء ہند کی تمام شاخوں کی جدوجہد اور دوسرے اسلامی اداروں کے تعاون سے مسلمانوں میں اسلامی تعلیم کا مذاق پیدا ہو جاتا ہے، اور ہر ایک مسلمان اپنے فرض کو پوری طرح محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ ایک ’’معلم‘‘ ہے اور سید الانبیاء ﷺ کے ارشاد گرامی (بعثت معلما میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں) کو ہر ایک مسلمان اپنی زندگی کا لائحہ عمل قرار دینے لگتا ہے تو ملتِ اسلامیہ ہر ایک خطرہ سے محفوظ ہو جاتی ہے۔
حضرات کرام! ابتدائی مذہبی تعلیم کی جدوجہد کے ساتھ وہ تعلیمی مرکز اور علومِ شرقیہ کے کامیاب ادارے نظر انداز نہ ہونے چاہئیں جن کی جلیل القدر علمی خدمات ہماری تاریخ کا روشن باب بن چکی ہیں۔ یہ مسلمانوں کا گرانقدر سرمایہ ہیں اور ایک مقدس امانت ہیں جس کو ہمارے بزرگوں نے ہمارے سپرد کیا ہے۔ اس امانت کو محفوظ رکھنا اور اس سرمایہ کو ترقی دینا ہماری دینی و ملّی حمیت کا گراں بہا فرض ہے جو ایثار و اخلاص کا مطالبہ کرتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی پاک نہیں ہے کہ ایک زندہ جماعت ایثار میں کبھی کوتاہی نہیں کرتی۔ یؤثرون علیٰ انفسہم ولو كان بہم خصاصۃ (سورہ حشر) 
ہمارے تعلیمی پروگرام کا ایک ضروری حصہ یہ بھی ہے کہ مسلمان اپنی ذمہ داری پر ایسے ابتدائی مدارس قائم کریں جن میں اردو زبان اور ابتدائی مذہبی تعلیم و تربیت کے ساتھ سرکاری پرائمری سکولوں کے تمام ضروری مضامین بھی نصاب میں شامل کیے جائیں۔
(خطبہ صدارت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ ۱۹۵۱ء، حیدر آباد، دکن)

انگریزی زبان اور علمِ نافع

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

بے شک ہمارے ملک میں اردو زبان کو اس ملک کی ہمہ گیر زبان ہونا چاہئے اور اس کے مقابلہ میں انگریزی کو ثانوی درجہ حاصل ہونا چاہئے۔ انگریزی زبان کو بالکل نظر انداز کرنا اچھا نہ ہوگا کیونکہ اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور ہمہ گیر زبان میں بھی سائنسی علوم اور جدید انکشافات کی تعبیر و تشریح کا سوال جب بھی پیدا ہو گا انگریزی زبان کی ضرورت پڑے گی۔
تمدن جدید نے انسان کو از حد خود غرض، استحصال پسند، طامع اور بے رحم بنا دیا ہے۔ آرام طلبی اور تعیش نے انسانیت کو بہت ہی غلط راستے پر ڈال دیا ہے۔ انسان اصلی اور مصنوعی ضروریات میں فرق نہیں کر سکتا اور بہت سی مصنوعی خود ساختہ ضرورتوں کو اصلی اور بنیادی ضروریات کی طرح سمجھتا ہے۔ اب اس کا علاج بغیر عمل اور اخلاص اور پختہ ایمان و ایثار کے کیسے ہو سکتا ہے؟ تعلیم کا حال بھی اسی طرح ابتر ہے اور نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے دینی مدارس ہوں یا دنیاوی، کالج ہوں یا یونیورسٹیاں، بڑے چھوٹے تعلیمی اداروں میں پوری طرح شیطان گھسا ہوا ہے اور اس نے اپنا پورا تسلط جمایا ہوا ہے۔ 
ہماری ناقص رائے میں سب سے پہلے تو تعلیم اور صحت دونوں کی بنیاد دینی اقدار پر رکھنی ضروری ہے، اس لیے کہ خدا شناسی اور خود شناسی دونوں ضروری ہیں۔ ذہنی، دماغی اور روحی تطہیر کا ہونا ضروری ہے اور جب تک ہمارا مطمح نظر علمِ نافع کا حصول نہ ہو، اصلاحِ حال ناممکن ہو گا ’’اللھم انی اعوذ بک من علم لا ينفع‘‘ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا فرمان مبارک ہے، اے اللہ! میں تیری ذات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں، دنیا میں اور عقبی میں جو علم ضرر رساں ہو، اس سے میں پناہ چاہتا ہوں۔ 

اکتوبر ۱۹۹۶ء

ورلڈ اسلامک فورم کی چار سالہ کارگزاریمولانا محمد عیسٰی منصوری 
فورم کے پہلے باضابطہ اجلاس کا دعوت نامہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 

ورلڈ اسلامک فورم کی چار سالہ کارگزاری

مولانا محمد عیسٰی منصوری

الحمد للہ ورلڈ اسلامک فورم ساڑھے تین سال سے تعلیم و میڈیا کے محاذ پر سرگرمِ عمل ہے۔ دین کے کئی شعبے ایسے ہیں جن میں قابلِ قدر کام ہو رہا ہے جیسے مکاتب، مساجد، جامعات اور دعوت و تبلیغ لیکن بہت سے شعبے ایسے بھی ہیں جن میں یا تو کام مفقود ہے یا بہت کم ہو رہا ہے اور ان میں کام کی اشد ضرورت بھی ہے۔ دراصل فورم کا ٹارگٹ یہی شعبے ہیں۔ ہر دور میں کسی نئے محاذ پر جن پریشانیوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، قدرتی طور پر وہ فورم کا بھی مقدر بنیں۔ بندہ نے کئی بار حالات سے گھبرا کر اس دور کے ایک بزرگ سے دعا کی استدعا کی تو فرمایا ’’اگر آپ کو ان پریشانیوں کا سامنا نہ ہوتا تو ہمیں اس کام کی حقانیت میں شبہ ہوتا۔‘‘
جس طرح عسکری جنگ کے کئی محاذ و پہلو ہوتے ہیں: بری، ہوائی، بحری، جاسوسی، پروپیگنڈہ وغیرہ وغیرہ، کسی ایک محاذ پر غفلت بھی ہزیمت سے دوچار کر سکتی ہے، اسی طرح قوموں کے وجود و بقا کی جنگ کسی ایک محاذ پر نہیں لڑی جاتی، اس کی بے شمار جہتیں اور محاذ ہوتے ہیں، کسی ایک محاذ پر غفلت ہی ساری محنت اور کوششوں پر پانی پھیر دیتی ہے۔ 
آج دنیا کے حالات اتنی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور دشمن نئے نئے محاذ اسلام کے خلاف کھولتا جا رہا ہے، ایسے دور میں دین کے خدمت گاروں کے لیے جتنا باخبر اور چوکنا رہنے اور دشمن و حالات پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے، وہ اہلِ نظر سے مخفی نہیں۔ مگر وائے افسوس! مسلمان بالخصوص مذہبی طبقہ جس جمود، بے حسی، شخصیت پرستی، گروہ بندی، علاقائی عصبیت کا شکار ہے، اس کے ساتھ عصری تقاضوں کے شعور کا فقدان اور مغربی فکر اور جدید میڈیا کی زہرناکی سے ناواقفیت نے کام کو دشوار تر بنا دیا ہے۔ 
فورم نے گزشتہ ساڑھے تین سال سے خدائے برتر کے بھروسے پر جن شعبوں میں پیش رفت کی ہے اس کی مختصراً‌ رپورٹ حاضر خدمت ہے، لیکن اس سے پہلے ذرا تفصیل سے موجودہ حالات کا جائزہ لیا ہے تاکہ جو لوگ ہمارے رفیق کار بنیں اور دستِ تعاون بڑھائیں، وہ ہم سے اور ہمارے طریقہ کار سے پوری طرح باخبر ہوں۔ اور علیٰ وجہ البصيرۃ دستِ تعاون بڑھائیں، وما توفیقی الا باللہ۔
بہ آں گروہ کہ از ساغر وفا مستند
سلام ما برسانید ہر کجا ہستند
یہ کائنات ازل سے ہی حق و باطل کی رزم گاہ رہی ہے اور تا قیامت حق و باطل یا اسلام و کفر کی معرکہ آرائی رہے گی۔ دنیا میں انسانوں کی حقیقی تقسیم صرف ایک ہے اور وہ تقسیم ہے ایمان اور کفر کی۔ ہر انسان یا مومن ہے یا کافر۔ خالقِ کائنات کے نزدیک بھی، قرآن حکیم اور تمام کتابوں کے نزدیک بھی، اممِ سابقہ میں بھی، آج بھی، قیامت تک انسانوں کی حقیقی تقسیم صرف یہی ہے اور رہے گی۔ اس کے علاوہ انسانوں کی جتنی تقسیمیں ہیں، خواہ وہ نسلی و قومی ہوں، ملکی و علاقائی ہوں یا لسانی، سب غیر حقیقی اور انسانوں کی خود ساختہ ہیں، یا اس قدر اہمیت نہیں رکھتیں۔ 
جس طرح اسلام کا سب سے بڑا مقصد شرک و کفر کو مٹانا ہے، اسی طرح دنیائے کفر کا سب سے بڑا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرتا ہے۔ اس کے لیے کفر اسلام کے خلاف ہر چیز سے سمجھوتہ کر سکتا ہے۔ جس طرح ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہود و نصاریٰ جو ہمیشہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اور جانی دشمن رہے ہیں، اسلام دشمنی میں ایک ہو چکے ہیں۔ اسی طرح کفر کی پوری دنیا خواہ وہ ہندو ہو یا بدھسٹ، کمیونزم ہو یا سرمایہ داری، سب کا اسلام کے خلاف اتحاد ہو چکا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ کفر نے (خواہ وہ کسی قسم کا ہو) اسلام کے ساتھ کبھی انصاف نہیں کیا، اس لیے کہ کفر کے معنی ہی ناشکری و بے انصافی کے ہیں اور اسلام کا اولین مطالبہ عدل و انصاف ہی رہا ہے۔
اسلام اور مغرب کا تعارف ہی میدانِ جنگ میں ہوا۔ عیسائیوں نے دورِ نبوت ہی میں رسولِ خدا کے قاصد کو قتل کر کے مسلمانوں سے عداوت کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اس کے بعد اسلام کی روز افزوں ترقی و اشاعت ہمیشہ عیسائی دنیا کی آنکھوں میں کھٹکتی رہی۔ جب مسلمان کچھ کمزور پڑے تو صدیوں تک صلیبی جنگوں کے ذریعہ یورپ اسلام کو ختم کرنے کی جدوجہد کرتا رہا۔ جب اسلام نے یورپ کو عسکری میدان میں ناکوں چنے چبوا دیے تو عیسائی دنیا نے ایک نیا محاذ کھول دیا۔ یورپ صدیوں تک اسلام کی صورت بگاڑنے، اسلامی تعلیمات مسخ کرنے، قرآن و سنت کو غلط معنی پہنانے، اور اسلام کو وحشت و بربریت کا مذہب ثابت کرنے میں مشغول رہا۔ اس عملی (علمی) بددیانتی اور قرآن و سنت کی تحریف کرنے میں ہزارہا یورپی مستشرقین نے اپنی زندگی صَرف کر دی جن کی بڑی تعداد مذہبی پادریوں پر مشتمل تھی۔ 
آج بھی مختلف انداز میں یہ کام جاری ہے۔ آج مغرب سمجھ رہا ہے کہ کمیونزم کے زوال کے بعد مغرب کی عالمی بالادستی کی راہ میں اسلام واحد رکاوٹ ہے۔ مغرب کے نزدیک اسلام کو ختم کرنے کا تاریخ میں اس سے بہتر موقع کبھی نہیں آیا تھا، اس لیے مغرب دنیا کی دیگر اقوام کو ساتھ ملا کر اسلام کو ختم کرنے پر تلا ہوا ہے۔
یوں تو اسلام کو ہر دور میں بڑے بڑے چیلنجوں کا سامنا رہا ہے مگر آج مغربی فکر کا حملہ اسلامی تاریخ کا سب سے شدید تر اور ہمہ گیر حملہ ہے۔ اسلام کی تاریخ میں اتنا نازک وقت اس سے پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ دوسری صدی ہجری میں یونانی فلسفہ کی یلغار اسلام کے نظامِ فکر و عقائد پر زبردست حملہ تھی، مگر اس سے متاثر ہونے والے ایک فی صد بھی نہیں تھے۔ چھٹی صدی ہجری میں تاتاریوں کا حملہ بہت بڑی ابتلا و آزمائش تھی مگر اس کی نوعیت محض عسکری تھی اور وہ عالمِ اسلام کے ایک حصہ تک محدود تھا۔ اِس صدی کے شروع میں کمیونزم کا فکری حملہ اسلامی تاریخ کا بدترین حملہ تھا، تاہم اس کی نوعیت صرف اقتصادی تھی، اس میں مذہب کی مخاصمت بعد میں بتدریج داخل ہوئی، وہ دراصل مغرب کے بے لگام سرمایہ دارانہ نظام کا ردعمل تھا۔ مگر آج مغرب کی طرف سے اسلام کو جو چیلنج درپیش ہے وہ ہمہ جہتی ہے۔ یہ علمی و فکری بھی ہے، معاشرتی و تمدنی بھی، اقتصادی و معاشی بھی، اور سیاسی د عسکری بھی۔ اور یہ کسی خطہ تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا کے چپہ چپہ کو محیط ہے۔ روس کی شکست و ریخت کے بعد مغرب نے سمجھ لیا ہے کہ اسلام کو ختم کر کے ہی وہ دنیا پر ہر طرح کی بالا دستی حاصل کر سکتا ہے، اس لیے آج دنیا میں اصل تصادم مغربی فکر اور اسلامی فکر کے درمیان برپا ہے۔
اس وقت اسلام اور مغرب کے درمیاں جو جنگ جاری ہے، وہ اسلحہ کی نہیں بلکہ علمی، فکری اور تہذیبی ہے۔ مغرب اچھی طرح سمجھتا ہے کہ اگر دنیا کے کسی حصہ میں اسلام کا تجربہ کامیاب ہو گیا تو کمیونزم کی طرح ویسٹرن سولائزیشن بھی ریت کی دیوار کی طرح ڈھے جائے گی۔ اس لیے وہ پیش بندی کے طور پر اسلام کے خلاف اتنا زہر پھیلانا چاہتا ہے اور اتنی نفرت پیدا کرنا چاہتا ہے کہ کوئی شخص اسلام کے قریب نہ آ سکے اور مسلمان خوفزدہ ہو جائیں۔ اس لیے اس نے طے کر لیا ہے کہ دنیا میں کسی جگہ مسلمانوں کو، اسلام کے معاشرتی، تعلیمی، معاشی، سیاسی نظام پر نہیں آنے دے گا۔ اس مقصد کی خاطر اس نے اسلام کے خلاف ’’میڈیا وار‘‘ شروع کر رکھی ہے جس کے ذریعہ وہ اسلام کو درندگی اور خون بہانے والا مذہب، انسانی حقوق کا دشمن، اور علم و ترقی کا مخالف ثابت کر رہا ہے۔ حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ اسلام و ایمان کے معنی ہی سلامتی و امن کے ہیں، اور دنیا میں اس وقت تک صحیح معنی میں امن قائم رہا جب تک اسلام بالادست طاقت رہا۔ 
آج مغرب دورِ نبوت کی جنگوں (غزوات و سرایا) کی انتہائی بھیانک تصویر پیش کر رہا ہے۔ جبکہ رسولِ خدا کی پوری حیاتِ طیبہ میں کام آنے والے مسلم و غیر مسلم ایک ہزار سے زائد نہیں تھے، جن میں ۲۴۱ مسلمان اور ۷۴۹ غیر مسلم تھے، اور اس کی بدولت ۱۰ لاکھ مربع میل کا علاقہ صحیح معنی میں امن کا گہوارہ بن گیا تھا۔ اس کے برخلاف مغرب نے اپنے ایک ایک نظریہ کے تجربہ کرنے میں کروڑوں انسانوں کا خون بہایا ہے۔ ماضی قریب میں کمیونزم کی خونی تاریخ گواہ ہے، ۲ کروڑ سے زائد انسان اس کی بھینٹ چڑھ گئے مگر مغربی میڈیا میں اس پر کبھی شور و غوغا نہیں سنائی دے گا۔ 
گذشتہ نصف صدی پچاس سال میں دنیا میں جتنا خون بہا ہے اور جتنے لوگ بے وطن ہوئے ہیں، خود مغرب کے مقرر کردہ اداروں کی مصدقہ رپورٹوں کے مطابق ان میں ۸۰ فیصد سے زائد مسلمان ہیں۔ اگر اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو اسلام کی ساڑھے تیرہ صدیوں میں اتنے مسلمان شہید نہیں ہوئے جتنے اس نصف صدی میں مغرب کی گندی سیاست کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ یہ مسئلہ گہرے غور و فکر اور سنجیدہ ریسرچ کا متقاضی ہے۔ اب ہر جگہ مسلم نوجوانوں کو ہوش آنے لگا ہے اور وہ انسانیت کے اصل مجرم کو پہچاننے لگے ہیں۔ مغرب کی اس میڈیا وار کے پس پشت یہی خوف کار فرما ہے کہ اسے اپنے بھیانک جرائم کا یوم الحساب سامنے نظر آ رہا ہے۔ 
آج دنیا میں عسکری، معاشی و تہذیبی طور پر چند نسل پرست گروہوں کا تسلط قائم ہو چکا ہے جن میں صہیونیت، مغرب کے طبقہ اشرافیہ، اور اب بھارت کے برہمن کو شامل کیا جا رہا ہے۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، یو این او جیسے ادارے عرصے سے ان سیاہ نسلی طاقتوں کے جال بن چکے ہیں اور مغرب سمیت دنیا بھر کے حکمران ان کے کارندے۔ اس وقت اس نسلی مثلث کا اصل نشانہ اسلام ہے، اس لیے کہ اسلام ہی اس شیطانی ٹرائینگل کا خاتمہ کر سکتا ہے اور مظلوم انسانیت کا نجات دہندہ بن سکتا ہے۔ 
یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ مغرب کے ۹۹ فی صد عوام ہماری ہی طرح اس دو منہ والے سانپ (صہیونیت و اشرافیہ) کے ڈسے ہوئے اور مظلوم ہیں اور ان کا اسلام سے کوئی جھگڑا نہیں۔ علامہ اقبالؒ نے ۱۹۱۲ء میں فلسطین میں صحیح فرمایا تھا کہ پوری انسانیت کی آخری پناہ گاہ بالآخر اسلام ہی ثابت ہو گا۔ یہ حقیقت مغرب جتنی جلد سمجھ لے مغرب کے لیے بھی بہتر ہو گا اور مشرق کے لیے بھی۔ علامہ اقبالؒ اپنی خداداد بصیرت سے پون صدی پہلے کہہ چکے ہیں کہ فرنگ کی رگِ جان پنجۂ یہود میں پھنس چکی ہے اور کلیسا کے متولی یہودی بن چکے ہیں۔ 
جس طرح کل کا سورج نکلنا یقینی ہے، اس سے زیادہ یقینی حقیقت یہ ہے کہ آنے والا کل اسلام کا ہے کہ اسلام ہی انسانیت کی نگہبانی کر سکتا ہے، اور دنیا کو امن و خوشحالی، مساوات، انسانی حقوق، اور اعلیٰ اخلاقی قدریں اور پاکیزہ معاشرہ عطا کر سکتا ہے۔ وہ وقت … نظر آ رہا ہے کہ خدائے لم یزل کا اسلام کے غلبہ کا وعدہ لیظہرہ علی الدين كلہ اور دنیا کے سب سے سچے انسان کی پیش گوئی ’’اے فاطمہؓ دنیا کے ہر کچے پکے گھر میں تیرے باپ کا کلمہ گونجے گا‘‘ پوری ہو۔ خوش نصیب ہے وہ شخص جسے قدرت اپنے اس مقدس مشن کی تکمیل کے لیے ذریعہ کے طور پر استعمال کر لے اور وہ دستِ قدرت کے آلہ کے طور پر استعمال ہو جائے، اس کے لیے ہمیں اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا۔ 
آج کا سب سے بڑا ہتھیار اور طاقت عصری علوم اور سائنس و ٹیکنالوجی ہے۔ مغرب ان علوم کو انسانیت کی تخریب کاری اور تباہی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ آج پوری انسانیت درد سے سسک رہی ہے۔ اگر ان شیطانی طاقتوں کو مزید مہلت دی گئی تو یہ پوری انسانیت پر بہت بڑا ظلم ہوگا۔ ہماری غفلت سے مغرب نے اتنی طاقت حاصل کر لی ہے جس سے پوری دنیا کو کئی بار تباہ کیا جا سکتا ہے اور ہر شہر و بستی کو ہیروشیما بنایا جا سکتا ہے۔ یہ پوری انسانیت کی بدقسمتی ہے۔ ظالم بوچر (قصاب) کے ہاتھ سے تلوار چھیننا وقت کی سب سے بڑی نیکی ہے۔ مسلمان آگے بڑھیں اور ان علوم کو انسانیت کی تعمیر کے لیے دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے استعمال کریں۔ یہی وقت کی پکار ہے۔
معمار حرم باز بہ تعمیر جہاں خیز
اگرچہ بیشتر مسلم ممالک بظاہر آزاد ہیں مگر ان کی آزادی محض جسمانی آزادی ہے۔ ان کے ذہن و فکر آج بھی غلام ہیں، ان پر مغرب کا مکمل تسلط ہے۔ ذہن و فکر کو غلام بنانے میں سب سے مؤثر کردار تعلیم اور میڈیا کا ہے۔ مغرب کا تعلیمی و فکری نظام خالص مادی خطوط پر استوار ہے۔ یورپ کے عوام صدیوں تک شہنشاہیت اور تھیوکریسی (مذہبی پادریوں) کے مظالم کی چکی میں پستے رہے۔ جب یہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور شروع ہوا اور عوام میں بیداری شروع ہوئی، اس وقت بدقسمتی سے چرچ و مذہب نے عوام کے بجائے بادشاہت کا ساتھ دیا اور علم سے انکار کی راہ اختیار کی۔ مذہبی احتساب کی عدالتیں قائم کی گئیں اور ہزارہا انسانوں کو سائنسی و علمی نظریات جیسے زمین کا گول ہونا (حرکت کرنا، کشش رکھنا) کی بنیاد پر زندہ جلانے، سولی چڑھانے اور طرح طرح کی اذیت ناک سزائیں دی گئیں۔ 
مشیتِ الٰہی سے سائنس و صنعت ترقی کرتی گئی۔ غرض جس رفتار سے سائنس کے انکشافات اور صنعت کی ایجادات بڑھتی گئیں اور انسان کائنات کی مخفی قوتوں کی تسخیر کر کے اس سے استفادہ کرتا گیا، اسی رفتار سے مذہب سے بیزاری و فساد بڑھتا گیا۔ مذہب و سائنس کی کشمکش کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس طرح یورپ سے شہنشاہیت و جاگیرداری نظام کا بستر لپیٹ دیا گیا، اسی طرح مذہب کو اجتماعی مسائل و معاملات سے بے دخل کر دیا گیا اور اسے چرچ کے اندر محدود کر دیا گیا۔ اور بائبل کے صرف وہ احکامات قابلِ توجہ قرار پائے جو عقائد، عبادات اور شخصی اخلاق سے تعلق رکھتے تھے۔ یوں اجتماعی معاملات (جیسے سیاست، معیشت، معاشرت، نظم و نسق و قانون) سے مذہب کو خارج کر دیا گیا۔ 
یہ ہے مغربی فکر کا خلاصہ۔ مذہب بیزاری اس کے ضمیر میں داخل ہے۔ مذہب محض ایک نجی پرائیویٹ معاملہ ہے جو عقائد اور عبادات کی چند رسموں تک محدود ہے، اس کو اجتماعی معاملات میں دخل دینے کی اجازت نہیں۔ غرض پادری اور مذہب کو چرچ کے اندر بند کر کے اجتماعی مسائل اور کارگاہِ حیات سے اس کا رشتہ کاٹ دیا گیا۔ یہ تعلیمی اور فکری نظام اسلام کی ابدیت و افادیت اور ہر دور میں قابل عملِ ہونے اور ہر دور کے مسائل کے حل کرنے کی صلاحیت کے متعلق نئی نسل کے ذہنوں میں تذبذب و شکوک کے کانٹے بو دیتا ہے۔ غرض آج مغرب کا تعلیمی نظام ہو یا فکری نظام، دونوں سے انسان کو خدا و مذہب سے کاٹنے اور دور کرنے کا کام لیا جا رہا ہے۔ یہ ہے مغربی فکر جس کا سیاسی نام سیکولرازم ہے۔ مغرب سیکولر ازم سے مسلم دنیا میں اسلام کا راستہ روکنے کا کام لے رہا ہے۔
مسلم دنیا کے حکمران اسی تعلیمی و فکری نظام کے پروردہ ہیں جس میں مذہب تاریک و پسماندہ دور کی فرسودہ روایات کا نام ہے، وہ آج کے ترقی یافتہ ماڈرن دور کی رہنمائی نہیں کر سکتا۔ یہ مسلم حکمران مذہب کو اجتماعی زندگی سے خارج کرنے میں مغرب کے ہم خیال و شریک کار ہیں۔ 
رہ گئے مذہبی افراد و جماعتیں، وہ شکست خوردہ اور منتشر، اور نئے دور کے سائنسی و صنعتی علوم سے بے بہرہ، اور عصری تقاضوں کو سمجھنے کی بصیرت و شعور سے اور عصری چیلنجوں کے مقابلہ کی صلاحیت سے دن بدن دور ہوتی جا رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی طبقہ ہندوستان میں ۱۸۵۷ء کی شکست کے بعد اب تک سنبھل نہیں پایا۔ ۱۸۵۷ء کے انقلاب میں علماء کی بڑی تعداد شہید کر دی گئی تھی۔ شاملی کے میدان میں شکست کے بعد حاجی امداد اللہؒ مکہ ہجرت کر گئے اور مولانا نانوتویؒ و گنگوہیؒ روپوش ہو گئے۔ اس وقت علماء نے محسوس کر لیا تھا کہ اب انگریز کا عسکری میدان میں مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر مزید میدان میں ٹھہرے تو انگریز کچل کر ختم کر دے گا۔ انہوں نے وقتی حکمتِ عملی کے طور پر تعلیم و تربیت کا میدان اختیار کیا تاکہ تیاری کر کے اور افراد سازی کر کے دوبارہ غلبہ حاصل کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے دیوبند اور گنگوہ جیسے چھوٹے قصبات میں دینی مراکز قائم کیے۔ 
حضرت شیخ الہندؒ فرمایا کرتے تھے کہ یہ مدرسہ (دیوبند) حضرت الاستاد (مولانا قاسم نانوتویؒ) نے درس و تدریس کے لیے قائم کیا تھا؟ نہیں! بلکہ دشمن کو دھوکہ دینے کے لیے علم کی چادر ڈال دی تاکہ تیاری کرنے اور افراد سازی کا موقع مل جائے۔ میدان سے ہٹنے پر جہاں یہ فائدہ ہوا کہ ہندوستاں دوسرا اسپین بننے سے بچ گیا اور برصغیرِ میں دین، علمِ دین اور مسلم معاشرہ کی حفاظت ہو گئی، وہیں نقصان بھی بہت عظیم ہوا۔ یہ کہ علماء زمانہ سے کٹ ہو گئے، وہ علمی و ذہنی طور پر ۱۸۵۷ء میں رہ گئے۔ گزشتہ صدی میں دنیا نے جو بے مثال علمی فکری ترقی اور سائنسی و صنعتی میدان میں پیش رفت کی ہے، اس سے بے گانہ رہ گئے۔ علم و فکر کا قافلہ ڈیڑھ دو صدی پہلے جہاں سے گزرا تھا، اب تک اسی بارڈر (سرحد) پر کھڑے ہیں۔ جس کی وجہ سے موجودہ دور کی بصیرت و شعور اور اس کے مسائل کا ادراک و چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت سے دور ہوتے گئے۔ اب جو دینی منصوبے بنائے ہیں، ان کی سوچ آج کے تقاضوں کے بجائے ڈیڑھ صدی قبل کے تقاضوں پر رہتی ہے۔ انہوں نے ۱۸۵۷ء میں دشمن کے مقابلہ کے لیے جو دفاعی حصار (ڈیفنس لائن) دینی مراکز کی شکل میں قائم کی تھی، وقت کے ساتھ ساتھ وہ مضمحل اور غیر مؤثر ہوتی جا رہی ہے، کیونکہ ڈیفنس شکست کا دوسرا نام ہے، اقدام ہی بہترین ڈیفنس ہے۔ 
اگرچہ آج ان دینی مراکز کی تعداد میں دسیوں نہیں پچاسوں گنا اضافہ ہو گیا، مگر معنوی اوصاف و صفات مسلسل گھٹ رہی ہیں۔ اس کے بنیادی طور پر دو سبب ہیں: 
(۱) علماء علمی و فکری طور پر زمانہ سے کٹ گئے ہیں، اس لیے وقت کے مسائل و تقاضوں کے شعور و ادراک اور صحیح منصوبہ بندی سے بڑی حد تک عاری ہو چکے ہیں۔ 
(۲) ان دینی مراکز کے قیام کے وقت جو دینی حمیت و جذبہ جہاد اور اسپرٹ تھی، اور اس کے ساتھ تعلق باللہ، للٰہیت، زہد و قناعت، تقویٰ و خلوص، بے لوثی و استغنا کے اوصاف میں دن بدن زوال اور کمی آتی جا رہی ہے۔ 
ادھر کچھ عرصہ سے ان کی صفوں میں کالی بھیڑیں داخل ہو گئی ہیں جنہوں نے ان دینی مراکز کو ظاہری کاروبار اور دوکانداری کے انداز میں چلانا شروع کر دیا ہے۔ گویا اسلام کے نام پر ذاتی جائیداد و ریاست بن رہی ہے جس پر نسل در نسل اولاد قابض ہوتی رہے۔ اس ذہنیت نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی جس کی وجہ سے ہمارے دینی مراکز بڑی حد تک بانجھ ہو چکے ہیں۔ اب ان میں افراد سازی کی بجائے افراد شماری ہو رہی ہے۔ دینی طبقہ مغرب کی یلغار کے مقابلہ پر دل چھوڑ بیٹھا ہے اور حوصلہ ہار چکا ہے۔ ذہنوں میں پستی چھا گئی ہے۔ نہ صرف سائنسی، مذہبی، سیاسی، اقتصادی و عسکری محاذ پر، بلکہ علمی و فکری محاذ پر بھی مغرب کے مقابلہ کی سکت نہیں پا رہا ہے۔ یہی نہیں مغربی فکر کے اثرات دوسرے طبقات کی طرح طبقہ علماء پر بھی حاوی ہوتے جا رہے ہیں۔ 
مغرب نے گزشتہ ڈیڑھ دو صدی مسلمانوں کو اسلام سے کاٹنے کے لیے تعلیم اور فکر کے محاذ پر منصوبہ بندی سے جو منظم جدوجہد کی ہے، اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہو گیا ہے۔ اس نے مذہبی طبقہ کو زمانہ سے کٹ دیا، اور ان کے ذہنوں سے جہاد و خلافت کے تصور کو دھندلا دیا، اور ان کا رشتہ اجتماعی مسائل اور کارِ حیات سے کاٹ دیا۔ اب مدارس میں جو دینی علوم پڑھائے جا رہے ہیں، ان میں سارا زور عقائد و عبادات یا زیادہ سے زیادہ شخصی اخلاق پر ہے۔ فقہ ہو یا حدیث پورا زورِ بیان کتاب الطہارت سے کتاب الحج تک ہوتا ہے۔ بہت ہو گیا تو کتاب النکاح اور کتاب الطلاق تک۔ حالانکہ حدیث و فقہ کی انہی کتابوں میں کتاب البیوع بھی ہے، کتاب الاجارہ بھی، کتاب المزارعہ بھی ہے اور کتاب الامارہ بھی۔ ان میں جہاد و سیاست، امورِ مملکت کے ابواب بھی ہیں اور تمام اجتماعی معاملات کی رہنمائی بھی، مگر ان ابواب سے اس طرح گزر جاتے ہیں گویا یہ سب منسوخ ہو چکے ہوں۔ 
مدارس میں دھواں دھار تقریریں ہوتی ہیں، ایک ایک مسئلہ پر چھ چھ دن بحث ہوتی ہے، جن کا حاصل صرف یہ نکلتا ہے کہ یہ اولیٰ ہے یا غیر اولیٰ۔ ایک صدی کے مسلسل طرز عمل کی وجہ سے یہ ذہن پختہ ہو گیا ہے کہ دین محض عقائد و عبادات اور شخصی اخلاق کا نام ہے، باقی چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں، اگر حاصل ہو جائیں تو بہتر، نہ ہو سکیں تو اتنی ضروری نہیں۔ مغربی فکر یا ویسٹرن سولائزیشن یہی ہے کہ مذہب کا عمل دخل صرف عقائد، عبادات اور شخصی اخلاق تک محدود رہے، اسے اجتماعی مسائل و معاملات میں دخل دینے کی اجازت نہ ہو۔ ان مدارس میں فکری و نظریاتی بحثیں بھی ہوتی ہیں، اسلام کی ابتدائی تین صدیوں میں جو فکری و نظریاتی حلقے پیدا ہوئے اور دور کے ساتھ ختم ہو گئے جیسے جبریہ، قدریہ، معتزلہ … ان فرقوں کے افکار و نظریات پر طویل بحثیں ہوتی ہیں اور قرآن وسنت سے انہیں رد کیا جاتا ہے، مگر آج کے دور کے باطل نظریات و نظاموں سے بحث نہیں کی جاتی، جیسے کمیونزم اور کیپٹل ازم۔ اسی طرح معاشی و اقتصادی نظریات میں طلباء کو یہ نہیں بتاتے کہ 
  • آج کے سیاسی نظاموں اور اسلام کے سیاسی نظام (خلافت) میں کیا فرق ہے؟ 
  • آج کی جنگوں اور جہاد میں کیا فرق ہے؟ 
  • آج کی تجارت اور اسلامی تجارت میں کیا فرق ہے؟ 
  • آج جو انسانی حقوق کا واویلا کیا جا رہا ہے وہ کیا ہے؟ اور اسلام نے انسانیت کو جو حقوق عطا کیے ہیں، کتنے جامع و ارفع ہیں۔ 
  • آج کے معاشی نظریات کیا ہیں اور اسلام کا معاشی نظام کیا ہے؟ 
  • اسلام کا معاشرتی نظام کتنا پاکیزہ اور مکمل ہے۔ 
  • سود اور مضاربت میں کیا فرق ہے؟ 
تاکہ مدارس کے طلبا خود کو آج کے دور میں محسوس کرتے اور آج کے مسائل و نظریات سے عہدہ برآ ہونے کی بصیرت و اہلیت ان میں پیدا ہوتی۔ اس طرز تعلیم نے عملاً مغرب کی دین و سیاست کی تفریق قبول کر لی ہے۔ علماء نے اجتماعی مسائل و معاملات کی سیادت و رہنمائی سے دست بردار ہو کر اسے لوگوں کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے۔ اب مذہبی طبقہ کا کام وعظ، عبادات و وظائف، مکتب میں بچوں کی دینی تعلیم، انفرادی و اجتماعی مصائب و حوادیث پر صبر کی تلقین یا دعائیں کرنا رہ گیا ہے، جس کا نتیجہ آنکھوں کے سامنے ہے۔ 
نصف صدی پہلے علماء کرام تعداد میں عشر عشیر بھی نہیں تھے مگر وہ سیاست، آزادئ وطن کی جدوجہد، خدمتِ خلق، ادب و صحافت، تصنیف و تالیف، ریسرچ و تحقیق سمیت زندگی کے بیشتر شعبوں پر حاوی تھے۔ اور آج کل ہر سال دینی جامعات سے اچھی خاصی تعداد فارغ ہونے کے باوجود ان تمام شعبوں میں علماء کی کارکردگی مسلسل جا رہی ہے۔ خود برطانیہ میں تین چار ہزار علماء ہیں جن کی کارکردگی معلوم ہے، ان کا احترام و عزت اور معاشرہ پر گرفت دن بدن کم ہو رہی ہے۔ کہا جاتا ہے اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ علماء بنگلہ دیش میں ہیں جن کی تعداد ۲۰ لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے مگر سیاست و معاشرہ پر ان کی گرفت معلوم ہے۔ اگر یہاں موجود جامعات سے اسی قسم کے چند ہزار علماء اور تیار کر لیے جائیں تو اس سے کیا فرق پڑے گا؟ 
اس مسئلہ پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جانا چاہیے اور چند برسوں سے کسی منصوبہ بندی کے بغیر فیکٹریوں کے انداز میں جامعات قائم ہو رہے ہیں جو شخصی یا فردِ واحد کے ادارے کہے جا سکتے ہیں۔ ان سے قدیم جامعات کی کارکردگی اور معیار کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ ضرورت ہے علماء اس مسئلہ پر اجتماعی طور پر غور و فکر کریں، ان کے معیار و کارکردگی کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ دینی تعلیم کے نظام کو یہاں کے مزاج و نفسیات اور تاریخی پس منظر کو ملحوظ رکھتے ہوئے ازسرنو مفید اور سائنٹفک طرز پر استوار کیا جائے اور قرونِ وسطیٰ کے فنون اور فرسودہ طرز سے نجات حاصل کی جائے۔ اور ہر عالم کے لیے ضروری قرار دیا جائے کہ وہ وہاں کی زبان و ادب میں دسترس حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے شعبہ کی جدید فنی مہارت بھی حاصل کرے۔ مطالعہ کا ذوق پیدا کیا جائے اور ریسرچ گاہیں قائم کی جائیں۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مدد دی جائے۔ انہیں سائنس و ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں آگے بڑھایا جائے۔ صحافت، کمپیوٹر اور دور کے ان تمام جدید ذرائع ابلاغ میں آگے بڑھایا جائے جو انسانی ذہنوں کو متاثر کرتے اور ان کی تشکیل میں کردار ادا کرتے ہیں۔ 
واقعہ یہ ہے کہ علماء کرام اسلام کے سپاہی اور علومِ نبوت اور فکرِ نبوت کے وارث ہیں۔ علماء نے ہر دور میں اسلام پر ہونے والے حملوں کا دفاع کیا اور ہر دور کے حملوں اور چیلنجوں کا مقابلہ کیا۔ وہ حملہ خواہ علمی و فکری ہو، معاشرتی و تمدنی ہو، یا سیاسی و عسکری۔ مغرب کا موجودہ فکری حملہ بڑی حد تک یونانی فلسفہ کے حملہ سے مماثلت رکھتا ہے۔ دوسری صدی ہجری میں جب یونانی فلسفہ حملہ آور ہوا اور علماء نے دیکھا کہ مسلمانوں کے ذہن و فکر پر اس کے اثرات پڑ رہے ہیں تو انہوں نے وقت کے چیلنج کو قبول کیا۔ یونانی علوم (منطق، فلسفہ، علمِ کلام) پر دسترس حاصل کی، اسے ازسرنو مدون کیا۔ اس سے غیر اسلامی چیزیں خارج کر کے اسے شرعی حدود میں لا کر اسلام کا معاون بنا لیا۔ دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے ان علوم و فنون کو مسلمان بنایا۔ آج یہ علوم و فنون اسلامی علوم سمجھے جا رہے ہیں حالانکہ ان کے نزدیک یہ یونانی علوم غیر اسلامی، سخت ناپسندیدہ بلکہ کفر و حرام کے درجہ میں تھے۔ 
علماء کرام اگر زمانہ سے کٹ نہ ہو گئے ہوتے اور مغربی فکر سے شکست خوردہ نہ ہو گئے ہوتے تو آج مغرب کے نظریات و افکار کا پوسٹ مارٹم کر کے ان سے فاسد اجزاء کو خارج کر کے انہیں اسلام کا معاون و مددگار بنا لیتے۔ انسانی ذہن و فکر کو متاثر کرنے والے اور ان پر غلط اثرات ڈالنے والے آج کے سمعی و بصری ذرائع ابلاغ: صحافت، ریڈیو، ٹی وی، کمپیوٹر، سیٹلائیٹ کو یونانی علوم کی طرح مشرف باسلام کرتے یعنی ان سے اسلام کی اشاعت و دعوت اور تعلیم و تربیت کا مثالی کام لیا جاتا۔ زمانہ میں سائنس و ٹیکنالوجی نے جو وسیع تر ذرائع عطا کر دیے ہیں، ان سے دینِ فطرت کی حقانیت ثابت کرنے، اسلام کے ہر دور کے لیے رہنمائی اور مسائل کے حل کی صلاحیت رکھنے کو ذہنوں میں اتارا جا سکتا تھا۔ 
آج کی سائنسی ترقی نے جو نئے نئے افق کھولے ہیں، اس نے اس قابل بنا دیا ہے کہ کسی کے دروازے پر دستک دیے بغیر آپ ہر گھر میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یہ بین حقیقت ہے کہ دنیا میں جو چیز وجود میں آتی ہے اسے دوبارہ دنیا سے آؤٹ (خارج) نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس سے آنکھیں بند کر لینا کوئی عقلمندی ہے، بلکہ صحیح راہ یہی ہے کہ اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ آج کا میڈیا اور ذرائع ابلاغ انسانی ذہنوں کو بدلنے اور ان تک رسائی حاصل کرنے کا سب سے مؤثر ہتھیار اور ذریعہ ہے، اس کی طاقت و قوت ایٹم بم سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ دنیا کا ذہنی و معاشرتی بگاڑ و فساد بھی انہیں کے غلط استعمال کی وجہ سے ہے۔ یہ ذرائع عموماً‌ فحش و منکرات کی اشاعت، ذہنوں کو پراگندہ و منتشر کرنے، شہوات و حیوانیت کے جذبات کو برانگیختہ کرنے، مذہب و اخلاق کی اعلیٰ قدروں کو مسمار کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ان پر پورا کنٹرول و قبضہ مغرب کی ان اسلام دشمن طاقتوں کا ہے جن کا دامن کسی صحیح دین و فکر سے خالی ہے، اور ان کے پاس انسانیت کے لیے نہ کوئی تعمیری پروگرام ہے نہ پیغام، نہ انسانیت کی بربادی پر آنسو بہانے والی آنکھیں، نہ تڑپنے والا دل، ان سے انسانیت کے کسی خیر و بہبود کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ 
واقعہ یہ ہے کہ اگر مسلمان علمی اعتبار سے پسماندہ نہ رہ گئے ہوتے تو ان چیزوں کی ایجاد کا سہرا انہی کے سر ہوتا، اور وہ اسے انسانیت کی فلاح و بہبود اور تعمیر کے لیے اور صحیح تعلیم و تربیت کے لیے استعمال کرتے۔ یاد رکھیے، راستے صرف دو ہیں: یا تو ہم ان وسائل و ذرائع پر کنٹرول کریں، یا پھر یہ ہم پر ہمارے ذہنوں پر اور ہماری نسلوں پر کنٹرول کر لیں گے، تیسری کوئی راہ نہیں۔ بدقسمتی سے ہم زمانہ کے فساد و خطرات کو دیکھ کر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپا کر اپنے کو محفوظ سمجھ رہے ہیں، اور ہم نے زندگی کے حقائق سے فرار کی راہ اختیار کی ہوئی ہے، جبکہ اسلام کی تعلیم ہی کائنات کی تسخیر اور آگے بڑھ کر قدرت کے عطا کردہ وسائل پر قبضہ کرنے کی ہے تا کہ اسے انسانیت کی بہبود کے لیے استعمال کیا جائے۔ 
ہر نئی چیز کو اسلام کی تقویت و فائدے کے لیے استعمال کرنا سنتِ نبویؐ ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ نے حضرت زیدؓ کو عبرانی (یہودیوں کی زبان) سیکھنے کا حکم دیا۔ سلمان فارسیؓ کے مشورہ پر خندق کھود کر اہلِ مکہ کو حیران کر دیا۔ جن علاقوں میں عمدہ تلواریں بنائی جاتی تھیں بعض صحابہؓ کو سیکھنے کے لیے وہاں بھیجا۔ غزوہ طائف میں منجنیق (اس دور کا ٹینک) ملاحظہ فرمائی تو حاصل کرنے کا حکم دیا۔ آپؐ نے طاقت و برتری کے حصول اور دور کے وسائل پر دستری و قبضہ کرنے کی مسلسل تاکید فرمائی۔ حضرت عقبہ بن نافعؓ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا آپؐ نے منبر نبویؐ سے خطبہ میں واعدوا لہم ما استطعتم…الخ آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا الا ان الرمی ہی القوۃ  سن لو رمی (تیر پھینکنا) قوت ہے۔ یہ لسانِ نبوت کا اعجاز ہے کہ آپؐ نے تلوار کے بجائے، جو اس دور کا اصل اسلحہ تھی، رمی فرمایا۔ جو جدید دور کے میزائل، راکٹ، بمبار طیاروں کو بھی شامل ہے۔ اگر ارشادِ نبوت کے مطابق ایک تیر پر تین آدمیوں کو جنت کی بشارت ہے (تیر کا بنانے والا، جلانے والا اور دینے والا) تو کیا یہ حدیث کی بشارت آج کے میزائل کو شامل نہیں؟ اسلام غالب ہونے کے لیے آیا ہے اور اس کے غالب کرنے کی جدوجہد مسلمان کا سب سے اہم فریضہ ہے۔ 
آنحضرتؐ کی زندگی میں اسلام ۱۰ لاکھ مربع میل کے علاقہ میں غالب قوت بن چکا تھا اور آپؐ کے بعد تقریباً ایک ہزار سال تک اسلام دنیا کی سپر پاور تھا۔ اس طرح ہزار سال تک مسلمان علوم و فنون کے افق پر چھائے ہوئے تھے۔ اس دور میں عموماً ہر مفید ایجاد مسلمان کرتے اور ساری دنیا اس سے مستفید ہوتی، جس طرح آج جاپان اور مغرب کرتا ہے۔ آج مغرب اعتراف کر رہا ہے کہ مغرب کی موجودہ سائنسی و علمی ترقی کی بنیاد اسپین کی اسلامی درس گاہوں میں رکھی گئی تھی۔ 
۱۴ سو سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو دو نظریات سے ہوا: ایک نظریہ دین و سیاست کی تفریق کا، جو موجودہ مغربی فکر کا خلاصہ ہے۔ اور دوسرا علم میں دینی و دنیادی ہونے کی تفریق سے ہوا۔ اسلام نے علم کو دین اور دنیا کے خانوں میں تقسیم نہیں کیا۔ انسان کی بقاء و تحفظ، ضرورت و ترقی کا یہ (ہر) علم جو قرآن و سنت کے دائرے میں ہو، دین ہے۔ تقریبا ۵۰۰ آیتیں احکامات و عبادات (نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) کی ہیں تو ہزارہا آیتوں میں غور و فکر و تدبر، تسخیرِ کائنات، قدرت کے ضوابط و نظام بیان کیا گیا ہے ۔ چنانچہ دورِ نبوت میں مسجد نبویؐ میں قرآن و سنت کے ساتھ طب، علم ہیئت، عسکری امور اور تمام ضروری معاشرتی امور کی تعلیم دی جاتی تھی۔ 
حضرت علیؓ کا مقولہ مشہور ہے کہ علوم پانچ ہیں: (۱) فقہ دین کے لیے (۲) طب میڈیکل بدن کے لیے (۳) ہندسہ (انجینئرنگ) تعمیر کے لیے (۴) نجوم ہیئت اوقات معلوم کرنے کے لیے (۵) نحو زبان دانی کے لیے۔ غور کیجئے اس دور کا کون سا علم باہر رہ گیا؟ اسی طرح دورِ خلفائے راشدینؓ میں مزید ترقی و اضافہ ہوا، چنانچہ صدیوں تک کیمسٹری، طب، جغرافیہ و تاریخ، فلکیات و نجوم، ریاضی و ہندسہ کے ماہرین علماء ہی ہوا کرتے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں میں دین و دنیا کی تفریق تاتاریوں کی یلغار کے بعد سے ہوئی جب شکست و تباہی سے مسلمانوں کے حوصلے پست ہو گئے۔ 
ہمارے عربی جامعات میں جو یونانی علوم پڑھائے جاتے ہیں، ان کی نسبت حکیم الامت مولانا تھانویؒ فرماتے ہیں: ہم جس طرح قرآن و حدیث، فقہ کو ثواب کی نیت سے پڑھتے پڑھاتے ہیں، اسی طرح منطق فلسفہ کو بھی، کیونکہ دونوں دین کے لیے ہیں۔ جائے غور ہے۔ کیا اسلام کی خاطر یورپی زبانوں کی تحصیل، جدید سائنس و ٹیکنالوجی، علومِ اسلحہ سازی، ذرائع ابلاغ، اجر و ثواب سے خالی ہوں گے؟ 
تقریباً ایک صدی پہلے بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ نے حج سے واپسی پر جہاز کے انگریز کپتان سے ترجمان کے ذریعہ بات کرنے پر انگریزی زبان سیکھنے کا عزم کیا تھا مگر زندگی نے وفا نہیں کی۔ اور یوں صدی پہلے محدث شہید مولانا انور شاہ کشمیریؒ دین کی امت کی فتنوں اور ارتداد سے حفاظت کے لیے علماء کو اردو اور انگریزی میں مہارت حاصل کرنے کی وصیت فرما چکے، تو یہاں جامعات میں اب تک انگریزی کے بجائے اردو ذریعہ تعلیم کیے جانے کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟
اسی طرح آج کے دور میں کمپیوٹر پر دستری کے بغیر کسی کتب خانہ سے استفادہ نہیں کیا جا سکتا۔ حال ہی میں ورلڈ اسلامک فورم کے سرپرست مولانا عبد اللہ صاحب نے بتایا کہ گزشتہ دنوں کینیڈا میں قیام کے دوران امریکہ کی آٹھ یونیورسٹیوں کی لائبریریوں کے معائنہ کا موقع ملا۔ ایک لائبریری میں کیٹلاگ (فہرست کتب) طلب کرنے پر اس میں کام کرنے والی لڑکی مجھے حیرت سے دیکھ کر کہنے لگی، آپ کسی دور کی بات کر رہے ہیں؟ اب یہاں فہرست نہیں ہوتی، وہ سامنے کمپیوٹر رکھا ہے، جو کتاب درکار ہو، اس سے معلوم کر لیں۔ فرمایا، یونیورسٹی کی اس لائبریری میں اسلامیات پر ساڑے چار لاکھ کتب، اور مخطوطات کے شعبہ میں ساڑھے نو ہزار قلمی مخطوطات ہیں۔ میں نے ہندوستان کے تقریباً تمام اہم کتب خانے دیکھے ہیں لیکن اس سے عشر عشیر بھی مخطوطات یکجا نہیں ہیں۔ چار پانچ صدیوں قبل کے گجرات (انڈیا) کے متعدد بزرگوں جیسے شیخ وجیہ الدین (احمد آباد) کی کتابوں کے قلمی نسخے وہاں پائے۔ اسی طرح حدیث کی کئی نایاب کتابوں کے نسخے ہیں۔ قرآن و تجوید پر ۱۶۵ کتابیں اور قرآن مجید کے رسم الخط پر ڈیڑھ سو کے قریب کتابیں تھیں۔ میں ان کی مائیکرو فلم ساتھ لایا ہوں۔ 
اسی طرح ایک بار پیرس میں مقیم ڈاکٹر حمید اللہ خان (حیدر آبادی) نے بتایا کہ پیرس کے ایک ایک کتب خانہ میں اسلامیات پر تین تین لاکھ کتابیں ہیں۔ یہی حال برطانیہ و جرمنی وغیرہ کا ہے۔ آج کمپیوٹر نے ان سے استفادہ اتنا آسان کر دیا ہے کہ آپ یہاں (لندن) میں بیٹھے معلوم کر سکتے ہیں کہ فلاں کتاب نیویارک، ٹورانٹو، پیرس، برلن کے کتب خانہ میں ہے یا نہیں؟ اور اگر اس کے کسی صفحے کی فوٹو کاپی درکار ہو تو چند منٹ میں فیکس کے ذریعہ حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ انسائیکلو (پیڈیا) آف برٹانیکا کی ۲۵ ضخیم جلدوں کو چند تولے کی ٹیپ بنا کر جیب میں رکھ سکتے ہیں۔ یہی نہیں پورے کتب خانہ کو چند تولے کی ڈبیہ میں مقید کر کے ہر وقت ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ 
غرض علمی کام کرنے والوں کے لیے کمپیوٹر ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔ اسی طرح کمپیوٹر نے تعلیمی نظام میں نئے نئے افق کھول دیے ہیں۔ مثلاً‌ ایک بچہ قرآن کا ابتدائی قاعدہ احسن القواعد آٹھ نو ماہ میں پڑھتا ہے۔ وہی اگر اسے کمپیوٹرائزڈ کر کے دیا جائے تو دس بارہ ہفتوں میں پڑھ لے گا۔ جب بچہ لفظوں کو جڑتے ٹوٹتے دیکھتا اور سنتا ہے تو اس کے لیے بہت آسان ہو جاتا ہے۔ وہ کھیل کھیل میں بہت کچھ پڑھ لے گا۔ اسے دین کی بہت سی تعلیم اور جنرل معلومات گیم کے ذریعہ کھیل کھیل میں دی جا سکتی ہیں۔ اس کے برخلاف مروجہ طریقہ تعلیم میں بچہ سات سال میں صرف قرآن مجید ناظرہ اور چند فقہی رسالے و کتب پڑھتا ہے۔ اگر نصابِ تعلیم کو کمپیوٹرائزڈ کر لیا جائے تو ۷ سال میں بچہ کو اتنا علم اور معلومات دی جا سکتی ہیں کہ اس کے پاس یونیورسٹی کا ڈپلومہ اور ڈگری ہو۔ 
اسی طرح موجودہ دور میں سیٹلائٹ نے نظامِ تعلیم میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ جگہ جگہ اوپن یونیورسٹیاں قائم ہو گئی ہیں۔ جہاں تاریخ، جغرافیہ، فلکیات و ہندسہ سے لے کر سرجری (آپریشن) تک کے اسباق ٹیلی کیمونیکیشن کے ذریعہ ہو رہے ہیں۔ ایک طرف طالب علم کے کالج آنے جانے کے اوقات کی بچت، دوسری طرف جس وقت اس کا ذہن حاضر ہو اس وقت وہ اسباق لے سکتا ہے۔ غرض سائنس کی جدید ٹیکنالوجی کی بدولت اتنے ہمہ گیر و وسیع ممکنات میسر آگئے ہیں کہ چند سال پہلے تک جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اگر دینی علوم کی تعلیم اور اسلام کی اشاعت و ابلاغ میں ان سے فائدہ اٹھایا جائے تو کئی گنا کام بڑھ سکتا ہے۔ 
مولانا ابو الکلام آزادؒ نے ۱۹۴۷ء میں علماء کے مجمع میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ آپ حضرات کو زمانہ کی ناقدری کی شکایت ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اسی نصابِ تعلیم نے فتح اللہ شیرازی پیدا کیا جس نے ہندوستان میں زمین کی پیمائش کا نظام وضع کیا۔ ایسے علماء پیدا کیے جنہوں نے احسن طریقہ پر حکومت کے نظام کو چلایا۔ مگر آپ یہ بھول جاتے ہیں، یہ ۱۹۴۷ء کا زمانہ تین سو سال آگے بڑھ چکا ہے۔ دنیا کا کوئی علم و فن جب تک اس کا زمانہ کے ساتھ پیوند نہ لگایا جائے اور دور کے تقاضوں سے اسے ملحق نہ کیا جائے تو قصور دور کا نہیں، پیچھے رہ جانے والوں کا ہو گا۔ آج کے دور میں قرونِ وسطیٰ کے فنی علوم کا، تعلیمی نصاب اور صَرف کی گردان رٹانے کا طرزِ تعلیم ایسے ہے جیسے ہم سترہویں صدی میں ہوں جب کپڑا چرنے سے کاتا جاتا تھا اور آگ چقماق سے پیدا کی جاتی تھی اور ڈاک گھوڑوں پر بھیجی جاتی تھی۔ اپنے اس طرز سے ہم ذہین و ذکی افراد کو ساتھ نہیں لے سکتے۔ 
گزشتہ سال انڈیا (بھوپال) سے میرے عزیز دوست مولانا حسان ابن مولانا عمران خانؒ سے ملاقات پر میں نے شکایت کی کہ آپ ڈیوزبری کے دینی اجتماع میں شریک ہونے کے بجائے لیسٹر میں طلبا کے سیمینار میں چلے گئے۔ تو فرمایا مجھے جس چیز کی جستجو تھی وہ وہاں تھی۔ دورانِ مباحثہ ضرورت پڑنے پر سوڈان، بوسنیا اور ملیشیا کے مفکرین و سیاست دانوں سے براہ راست ٹیلی کمیونیکیشن کے ذریعہ بات کرائی جاتی۔ ہم نہ صرف زیر بحث مسئلہ پر ان حضرات کی رائے سن سکتے بلکہ سامنے اسکرین پر انہیں دیکھ بھی سکتے تھے۔ میں نے وہاں کی آمد و رفت اور تین روز قیام و طعام کے اخراجات پچاس پاؤنڈ لندن سے قرض لے کر ادا کیے۔ جب کہ آپ مجھے مہمان بنا کر لے جاتے۔ اگر آپ مزید پچاس پاؤنڈ دیتے تب بھی میں معذرت کر دیتا کہ مجھے جن موضوعات پر معلومات درکار تھیں وہ آپ کے ساتھ نہیں مل سکتی تھیں۔ 
ہم یہ شکایت تو کرتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین طبقہ متوجہ نہیں، اس پر غور نہیں کرتے اس میں ہماری کوتاہیوں کا تو دخل نہیں؟ اسی طرح گزشتہ سال اسلام آباد بین الاقوامی یونیورسٹی کے ریکٹر جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی نے بتایا کہ پاکستان کے مشہور سائنس دان ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقیؒ (جو سال گذشتہ انتقال فرما گئے، جو نیوکلیئر کے سائنسدان تھے) نے ایک بار بتایا کہ ان کے پاس امریکہ سے ایک لیٹر (خط) آیا جس میں خود ان کی دو تصویر میں تھیں۔ وہ اپنے گھر میں کھڑکی کے پاس پشت کر کے بیٹھے ہیں اور شیشہ پر پردہ نہ ہو اور کوئی پیچھے سے تصویر بنا لے اور ان کے ہاتھ میں ایک خط تھا۔ کیمرہ قریب کر کے اس طرح تصویر لی جائے کہ خط کا مضمون پڑھا جا سکے۔ یہ تصاویر سیٹلائٹ کے ذریعہ لی گئی تھیں جو زمین سے تقریبا ۳۰ ہزار میل دور ہوتا ہے اور تین سیٹلائٹ پوری دنیا کو کور کر سکتے ہیں۔ ان تصاویر کے ذریعہ یہ میسج دینا تھا کہ آپ اپنے گھر میں ایک پرائیویٹ خط پڑھ رہے ہیں، اس کا مضمون ہمارے پاس ہے، تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ نیوکلیئر پر جو آپ کام کر رہے ہیں وہ ہمارے علم میں نہیں؟ 

دو اہم ترین طویل المیعاد منصوبے

اگرچہ دن بدن دینی تعلیم کے جامعات کی بہتات ہے مگر اسلامی علوم پر تحقیقی کتابوں کی شدید قلت ہے۔ اس صدی کے شروع میں گنتی کے چند افراد نے دار ا مصنفین (اعظم گڑھ) اور ندوۃ المصنفین (دہلی) نے جس معیار پر علمی و تحقیقی کام کیا ہے، اب اس پیمانہ پر بھی نظر نہیں آتا۔ غور کیا جائے تو اس نصف صدی میں شبلی نعمانی " کی الفاروق اور سیرۃ النبی کے معیار کی کتنی کتابیں اردو میں وجود میں آئیں؟ تو شدید مایوسی ہوگی۔ ریسرچ و تحقیق اقوال جمع کرنے کا نام نہیں کہ فلاں نے یہ کہا اور فلاں نے یہ اور نہ ہی دس میں کتابوں سے اقتباس جمع کر کے کوئی کتاب مرتب کر دینے کا نام ہے۔ آن کل دینی کتب کے نام پر یہی کچھ ہو رہا ہے۔ کسی موضوع پر یکسو ہو کر پانچ سات سال جان توڑ محنت کر کے کوئی تصنیف سامنے لائی جائے تب ہی موضوع کا حق ادا ہو سکتا ہے۔ اسی طرح دینی رسائل و جرائد کا معیار بھی دن بدن کرتا جا رہا ہے کہ ہم محنت کرنے کے لیے تیار نہیں اور کوئی کام بغیر پتہ مارے نہیں ہوتا۔ مغرب میں ٹائم نیوز ویک اور اکانومک جیسے ہفت روزہ رسالے جو لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں چھپتے ہیں، ان کے پیچھے سینکڑوں افراد کی جانفشانی ہوتی ہے اور ہر ہر شعبہ کے ماہرین کی ٹیم ہوتی ہے۔ اس بنا پر یہ رسالے پوری دنیا کے ذہنوں پر گہری چھاپ اور انہیں مخصوص رخ پر موڑنے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ہر ملک میں اعلیٰ صلاحیت رکھنے والے ذہین علماء کو معاشی طور پر فارغ کرے تحقیقی کاموں کی طرف متوجہ کیا جائے جو یکسو ہو کر ریسرچ و تحقیق کریں۔ کتب خانوں کو کھنگالیں، وقت نظر سے مسائل کا جائزہ لیں تا کہ مختلف دینی موضوعات پر تحقیقی و معیاری کتب و مضامین وجود میں آئیں جس سے نئی نسل کو حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے مداد و توانائی اور ذہنی فکری غذا فراہم ہو ، ملت کی رگوں میں تازہ خون اور انہیں نیا حوصلہ و اعتماد ملے، ان میں شعور و بصیرت پیدا ہو۔ اس کے لیے ابتدا اس طرح کی جا سکتی ہے کہ برصغیر ہند و پاک و بنگلہ دیش میں فارغ شدہ علماء کرام کے لیے ۳۲ سالہ کورس تیار کیا جائے جس میں دین کے ہر ہر شعبہ کے لیے ماہرین تیار کیے جائیں۔ تفسیر، فقہ، حدیث، تاریخ صحافت ادب اور دیگر فنی علوم۔ اس کام کے لیے فارغ شدہ علماء کا کڑی شرائط کے ساتھ انتخاب کیا جائے مثلاً‌ 
(۱) دینی جامعات سے امتیازی حیثیت سے فارغ ہوئے ہوں۔ 
(۲) عربی، انگریزی یا کسی بین الاقوامی زبان پر دسترس ہو۔ 
(۳) دینی علوم میں سے کسی ایک کے ساتھ مناسبت و خصوصی دلچسپی و لگاؤ ہو۔ 
فارغ ہونے والے علماء میں سے بمشکل ۳۲ فی صد ان شرائط پر پورے اتر سکیں گے۔ اسی طرح انہیں پڑھانے والے اساتذہ کا انتخاب کڑی شرائط کے ساتھ ہو۔ انہیں اپنی محنت کا مشاہرہ ہر ملک کی یونیورسٹی کے لیول کا دیا جائے اور ان طلباء کو بھی معقول وظیفہ دیا جائے جو کم از کم ہر ملک کے پرائمری اسکول کے ٹیچر کے مساوی ہو۔ اسی طرح اگر ہر شعبہ میں چند افراد بھی تیار ہو گئے تو یہ پورے ملک کی علمی و دینی ضرورت کو پورا کریں گے اور ہر شعبہ جو روبزوال ہے، اس میں ٹھہراؤ پیدا ہو کر ترقی کی طرف گامزن ہو جائے گا اور یہ علمی و تحقیقی کام طبقہ علماء کی اہمیت کے اظہار آبرو و وقار اور سر بلندی کا ذریعہ بنے گا۔ اس کی ایک اچھی ابتدا پاکستان (گوجرانوالہ) میں شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے نام سے ہو گئی ہے جس کے تعلیمی شعبہ کے سربراہ ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک کم از کمر ششماہی کورس درس و تدریس کی ٹریننگ یا تربیت المعلمین کا ہو جس میں پڑھانے والے اساتذہ کے لیے نصاب بنایا جائے۔ جس کے ذریعہ انہیں تدریس اور پڑھانے کی ٹریننگ دی جائے جس طرح عصری تعلیم گاہوں میں پرائمری تک کو پڑھانے کے لیے ۲ سالہ کورس لازمی ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف ہمارے دینی مدارس میں فضلاء جامعات سے فارغ ہو کر براہ راست پڑھنے پڑھانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی انحطاط کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ نیز ان علماء کرام کو ان کے شعبہ کے متعلق عصری علوم کا بھی مطالعہ کرایا جائے جیسے اس زمانہ میں مفتی کے لیے موجودہ اقتصادی و تجارتی نظام بینکنگ سسٹم اور جدید نظریات سے واقفیت ضروری ہے اور لائبریریوں سے استفادہ کے لیے کمپیوٹر سے بھی۔
اقامتی رہائش گاہوں کا قیام عالم اسلام کے جو نوجوان مغرب کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں یہ طبقہ ان ملکوں کی (CREAM) ہوتا ہے۔ یہ نوجوان اپنے ملکوں کے سب سے بااثر مہذب اور اعلیٰ خاندانوں کے چشم و چراغ ہوتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کی اولاد ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں ملک کی انتظامی، سیاسی، اقتصادی و تہذیبی باگ ڈور ہوتی ہے۔ جب یہ اعلیٰ تعلیم مکمل کر کے لوٹتے ہیں تو اپنے اپنے ملکوں کا نظام سنبھالتے ہیں۔ ملک کے سیاسی انتظامی تعلیمی قانونی تحقیقی شعبے اور ادارے ان کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔ یہ اعلیٰ ترین مناصب پر اور بے پناہ اثر و رسوخ اور اختیارات کے مالک ہوتے ہیں۔ ان میں جتنی دینداری و غیر یا بے دینی و برائی ہو گی، اس کے اثرات پورے ملک و معاشرہ پر ہوں گے۔ ان کا کردار و عمل سکہ رائج الوقت سمجھا جاتا ہے۔ مغرب ان پر پوری محنت کرتا ہے۔ ذہنی و فکری غذا فراہم کرتا ہے۔ اپنے نظریات کا ہمنوا بناتا ہے۔ انہیں اپنی معاشرت و کلچر میں ڈھالتا ہے تاکہ ان کے دل و دماغ سے اسلام اور مشرق کی اخلاقی قدروں کو کھرچ دیا جائے، اسلام کی افادیت و صلاحیت اور برتری کا نقش ان کے ذہنوں سے محو کر دیا جائے اور مسلم معاشرے کے بنے مجھے اثرات و عادات سے بے گانہ بنا دیا جائے۔ غرض تعلیم کے دوران ان کے ذہن و فکر کو مغرب کے سانچے میں ڈھال دیا جاتا ہے۔ حتی کہ جب یہ مسلم نوجوان تعلیم مکمل کر کے اپنے ملکوں کو لوٹتے ہیں تو ان کی معاشرت لباس پسند نا پسند، ترجیحات' سوچنے کا انداز مغرب کا ہوتا ہے۔ وہ مغرب کے دلدادہ بن چکے ہوتے ہیں اور مغرب کی نقالی کو ترقی کی معراج سمجھتے ہیں۔ اسلامی تہذیب و اقدار سے پورے طور پر بے تعلق ہو چکے ہوتے ہیں۔ گویا وہ مغرب کی مشنری کے پرزے مغرب کے مفادات کے نگہبان اور مکمل طور پر مغرب کے آل۔ کار بن کر لوٹتے ہیں۔ اگر ان نوجوانوں پر تھوڑی سی کوشش کر کے انہیں اسلامی ما اول دبی عقائد و نظریات پر پختگی، اسلام کے اعلیٰ اقدار و اساف سے آگاہی، قرآن و حدیث اور سیرت سے باخبر رکھنے کی سعی کر لی جائے تو اس کے بڑے دور رس اثرات ہو سکتے ہیں۔ تجربہ بتاتا ہے کہ بعض ملکوں کے نوجوان مغرب میں تعلیم کے دوران دینی جماعتوں اور تحریکات متاثر ہو کر لوٹے تو انہوں نے پورے ملک کے نظام میں بڑے خوشگوار اسلامی اثرات ڈالے اور ان کی بدولت اس ملک میں اسلامی ماحول کی جھلک و اثرات نمایاں ہوئے۔ اس قاصد کے لیے دین کا درد و فکر رکھنے والے حضرات تقریباً ایک صدی سے بہت سادہ قابل حمل اور کم مصارف کا منصوبہ پیش کر رہے ہیں۔ وہ یہ کہ مغربی ممالک میں یونیورسٹیوں نے قریب مسلم ہاسٹل (اقامت گاہیں) بنائی جائیں جہاں ان کو صاف ستھری اور تام خرچ پر رہائش گاہیں مہیا کی جائیں مثلا لندن میں ایک کمرے کا ویکلی کرایہ چالیس پاؤنڈ ہے تو ان سے تہیں بنتیں پاؤنڈ لیے جائیں۔ وہاں کا ماحول اپنا ہو، ایک بڑا کمرہ (ہال) مسجد کے طور پر مختص ہو ، نماز، ذکر و تلاوت کے ساتھ کبھی کبھی ثقافتی و ملی پروگرام بھی ہو جایا کریں' ہفتہ وار قرآن و حدیث کا درس ہو، وقتا فوقتا باہر سے آنے والے مسلم اسکالرز، علماء کرام و مفکرین کے پروگرام ہو جایا کریں، دینی کتب پر مشتمل لائبریری جس میں اسلامی فکر پر منتخب و معیاری کتب اور اسلامی میگزین (رسالے) رکھے جائیں تو آپ دیکھیں گے، اس کے اثرات انتہائی دور رس اور مسلم ممالک کے ماحول کو تدریجاً‌ اسلام کے حق میں تبدیل کرنے والے ہوں گے۔ صرف ایک بار تعمیر کے اخراجات کرنے ہوں گے ، اس کے بعد یہ ہاسٹل خود کفیل ہو کر مالی اعتبار سے دیگر دینی منصوبوں کے معاون بن جائیں گے۔ اور یہ ہاسٹل مغربی ملکوں میں اسلام کی پناہ گاہیں ثابت ہوں گے۔
غیروں میں اسلام کی دعوت و تبلیغ
عرصہ سے پوری دنیا میں مسلمانوں پر جو مصائب آ رہے ہیں اور خدا کا غضب آیا ہوا ہے، اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے خدا کے بندوں کو خدا کا پیغام پہچانا چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں صدیوں تک ایمان و اسلام کی دعوت پہنچانے کے بے انتہا مواقع عطا فرمائے مگر ہم غفلت اور دنیوی لذتوں میں ڈوبے رہے۔ ایک بار بمبئی (بھارت) میں صبح کے وقت ایک ہوٹل میں چائے پینے کے دوران اخبار سے ایک مسلم کش فساد کی خبریں پڑھی جا رہی تھیں جس میں حسب معمول بھارت کی پولیس و انتظامیہ نے فسادیوں کے ساتھ مسلمانوں کے قتل، زندہ جلانے اور عصمت دری میں شریک ہو کر مظالم توڑے تھے۔ پاس بیٹھے ہوئے ایک نو مسلم نے کہا پولیس اور انتظامیہ نے جس درندگی و حیوانیت کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے ہر سلیم الطبع انسان کو دکھ و تکلیف پہنچی ہے مگر آج میں آپ حضرات کو ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ آپ مسلمان تقریباً ایک ہزار سال سے اس ملک میں ہیں اور آپ لی نظروں کے سامنے روزانہ ہزاروں انسان کفر پر مرکز جہنم میں پانچ رہے ہیں۔ آپ نے ان غریبوں کو جنم سے بچانے کے لیے کیا کوشش کی ہے؟ آپ پر ان کا یہ حق نہیں تھا کہ دلسوزی و درد مندی سے انہیں جنم سے بچانے کی فکر کرتے مگر آپ مسلمان اپنی دنیا بنانے میں مست رہے۔ آپ نے ان پر رحم نہیں کھایا، اس کی سزا میں اللہ تعالیٰ نے انہی لوگوں کے ہاتھوں آپ کی دنیا کو جہنم بنا دیا۔ کیا مسلمان اس ملک میں دنیا بنانے اور مزے کرنے کے لیے آئے تھے ؟ جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے تکلیف دہ ہونے کے باوجود وہ اس کے حقدار ہیں۔ غور کیا جائے تو اس نو مسلم کی بات اگرچہ تلخ ضرور ہے مگر بالکل بچی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ خدا نے ہمیں صدیوں تک اس ملک کا مالک و مختار بنایا تھا۔ یہی نہیں اب بھی خدا کے بندوں تک خدا کا پیغام پہنچانے کے بے شمار مواقع ہیں۔ مگر ہم نے اپنی ذمہ داری سے غفلت برت کر اپنے کو خدا کے غضب کا مستحق بنا لیا ہے۔ یہی حال دنیا کے ہر ملک کا ہے۔ ہمیں صدیوں تک ہر ملک میں اسلام کی دعوت پہنچانے کے مواقع دیے گئے ریسرچ و تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ امریکہ میں کولمبس سے بہت پہلے عرب پہنچ چکے تھے۔ کولمبس کے جہاز کا ملاح بھی ایک عرب تھا۔ کاش کہ اس وقت امریکہ کو ایمان و اسلام کی نعمت پہنچانے کا فریضہ انجام دیا ہوتا تو آج امریکہ پورے عالم اسلام کا خون نہ نچوڑ رہا ہوتا۔ اسی طرح یورپ صدیوں تک اسپین کی اسلامی درس گاہوں سے استفادہ کرتا رہا اگر علوم و فنون کے ساتھ ساتھ یورپ کو ایمان پہنچانے کی تھوڑی سی فکر کر لی جاتی تو آج کا یورپ خدا کو پہچاننے والا یورپ ہوتا۔ یورپ جس جنسی انار کی ذہنی پراگندگی اور جرائم کی دلدل میں ڈوب کر خود کشی اور ہلاکت کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہاں کے دانشور نجات کی کوئی راہ نہیں پا رہے اور مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں، ان کے پاس ان تمام امراض سے شفا یاب ہونے کا یقینی نسخہ قرآن ہوتا۔ جس طرح ٹریفک پولیس کے اپنی جگہ چھوڑ دینے کی وجہ سے ایکسیڈنٹ ہو جائیں تو وہ مجرم قرار دیا جاتا ہے، اسی طرح مسلمان من حیث القوم مجرم ہیں کہ انسانیت جس زہر سے ہلاک ہو رہی ہے، اس کا تریاق جیب میں ڈالے خاموش بیٹھے ہیں۔
گزشتہ صدی تک سلطنت عثمانیہ نہ صرف یورپ بلکہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھی۔ یورپ کا بڑا حصہ اس کے زیر نگین اور باجگزار تھا۔ اگر اس فریضہ کی ادائیگی کی فکر کی ہوتی تو آج یورپ کی صلاحیت و توانائی انسانیت کی تخریب کاری کے بجائے انسانیت کی تعمیر و بہبود پر لگ رہی ہوتی۔ آج بھی خدا نے ہمیں بے شمار مواقع عطا فرمائے ہیں کہ ان غریبوں پر رحم کھا کر ان کو دنیا کے چین و سکون اور جنت کا وارث بنائیں۔ سنت ہے جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا۔ جانکہ جب تک ملت کی رگوں میں نیا خون نہیں آئے گا ملت ضعف اور مختلف امراض کی شکار رہے گی۔ اسلام کی تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور میں نئی نئی قوموں نے اسلام میں داخل ہو کر اسے توانائی و طاقت نیا حوصلہ و تازگی بخشی۔ ہمیشہ پشتی مسلمانوں کے بجائے نو مسلموں نے اسلام کے پیغام کو دنیا میں پہنچایا۔ اسلام کی تاریخ میں ہلاکو خان کی اولاد (ترکوں) نے سب سے طویل عرصہ تک (۷۰۰ سال) اسلام کی نگہبانی حفاظت اور علمبرداری کا فریضہ انجام دیا اور اسلام کے جھنڈے کو دنیا میں بلند رکھا۔ جب سے نیا خون آنا رک گیا ہے ملت اسلامیہ دن بہ دن ذلت و پستی، ضعف و انحطاط کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ جب تک مسلمان اجتماعی طور پر من حیث الامت اس فریضہ سے غفلت برتیں گے وہ خدا کی رحمتوں اور انعامات کے مستحق نہیں بن سکتے اور نہ موجودہ عذاب و سزا سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ غیروں کو اسلام کی دعوت پہنچانا نماز کی طرح فرض ہے۔ ضرورت ہے کہ دعوت کا ہر ممکن طریقہ اختیار کیا جائے اس کے لیے اولین اور سب سے مؤثر چیز خود مارا کردار و عمل ہے کہ ہم خود کو اسلام کا عملی نمونہ بنائیں نیز اس کے لیے تعلیم و میڈیا کے تمام وسائل بروئے کار لائیں۔ آج بھی بغیر کسی منتظم کوشش کے کثرت کے ساتھ پیاسی رو میں اسلام کی طرف لپک رہی ہیں، اگر ہم اپنے اخلاق اور معاشرہ کو اسلام کے مطابق بنا لیس اور اسلام نے ۱۴ سو سال پہلے انسانوں کو جو حقوق عطا کیے تھے، خاص طور پر عورت اور غلاموں (معاشرہ کے پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات کو آج کے اسلوب و زبان، سائنٹفک طور پر پیش کیا جا سکے تو آپ دیکھیں گے مغربی لوگ فوج در فوج اسلام کی طرف لپکیں گے۔ اور دوبارہ یدخلون فی دین اللہ افواجا کا منظر نظر آنے لگے گا۔ نبوت سے بہت پہلے رسول خدا کے عین دور شباب میں مکہ کے ایک شخص نے مکہ آنے والے ایک مسافر کے ہاتھ اپنا اونٹ فروخت کیا۔ اس سے اونٹ کی قیمت بھی لے لی اور اونٹ بھی حوالے نہیں کیا تو اس مسافر نے حرم کعبہ میں انصاف کی دہائی دی۔ اس پر مکہ مکرمہ کے انصاف پسند اور سلیم الطبع لوگوں نے مظلوم کی حمایت کرنے، ظالم کا ہاتھ روکنے ہر ضرورت مند کی مدد کرنے غرض ہر قسم کے فلاحی کاموں کا حلف اٹھایا۔ اسے تاریخ میں حلف الفضول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول خدا نے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جب مدینہ منورہ میں اسلام کی فلاحی ریاست قائم ہو گئی اس وقت بھی آپ اس حلف الفضول کو یاد فرمایا کرتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے آج بھی اس قسم کا کوئی معاہدہ ہو تو میں اس میں شریک ہونے کے لیے تیار ہوں۔ جب آپ پر پہلی وحی آئی اور آپ پر گھبراہٹ طاری ہوئی گھر پہنچ کر آپ نے حضرت خدیجہ سے فرمایا زملونی زملونی مجھے چاور اڑھا دو مجھے اپنی جان کا اندیشہ ہے۔ اس وقت ام المومنین حضرت خدیجہ نے آپ کو ان الفاظ میں تسلی دی کہ آپ قیموں کو سہارا دیتے ہیں، ضرورت مندوں کی حاجت روائی فرماتے ہیں بے کسوں کے کام آتے ہیں، اللہ آپ کو ضائع نہیں کرے گا۔ یہ ہے آپ کا اولین تعارف۔ کیا دنیا میں کسی جگہ ہم مسلمانوں کا بھی یہ تعارف ہے؟ عام مسلمانوں کو چھوڑیے جو ورثہ الانبیاء کہلاتے ہیں اور نبیوں والے کام کرنے کے دعویدار ہیں، کس جگہ ان کے بارے میں عام لوگوں میں یہ تاثر ہے؟ کہ یہ وہ لوگ ہیں جو قیموں، بے کسوں کی دستگیری اور خبر گیری کرتے ہیں؟ اسی طرح حضرات صحابہ کی عبادات و ریاضات کے نقص بیان کیے جاتے ہیں مگر اس پر روشنی نہیں ڈالی جاتی کہ انہوں نے انسانیت کی بہبود و فلاح کے لیے کیسے کارہائے نمایاں انجام دیے۔ ایک ایک فرد نے کتنے غلاموں کو غلامی سے خلاصی دلائی کتنے یتیم بیواؤں کی پرورش کی کتنے باغات لگائے کوفہ بصرہ جیسے کتنے شہر آباد کیے ، کتنی نہریں بنائیں۔ نہر سوئز کا پلان فاتح مصر حضرت عمرو بن عاصؓ کا تھا۔ آپ نے امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب کو لکھا کہ یہاں (مصر میں) زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے، اگر اسے کاٹ دیا جائے تو دو سمندر مل جائیں گے اور ہمارا یورپ پہنچنا آسان ہو جائے گا۔ مگر حضرت عمر نے اجازت نہیں دی۔ افسوس آج کل مسلمان فلاحی کاموں اور خدمت خلق کے کاموں میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں خاص طور پر مذہبی طبقہ نے نواقل و تلاوت ، ذکر و فکر اوراد و وظائف اور ہر سال حج و عمرہ ہی کو دین قرار دے دیا ہے۔ حالانکہ عبادات دین کا صرف ایک جز ہے جبکہ اسلامی اخلاق و معاشرت کی بنیاد ہی خلق خدا کی خدمت اور انہیں فائدہ پہنچانے پر ہے۔ قرآن عزیز نے قوموں کی بقا و ترقی کا فلسفہ ہی یہ بیان کیا ہے کہ غیر نافع بھاگ کی طرح فنا ہو جاتے ہیں اور جو انسانیت کے لیے نافع و فائدہ مند ہوتے ہیں، انہی کو دنیا میں استقرار و بقا و دوام حاصل ہوتا ہے اور سرور کائنات کا ارشاد گرامی ہے کہ ساری مخلوق خدا کا کنید (فیلی) ہے، اس کے نزدیک بہتر وہ ہے جو ان کو نفع پہنچانے والا ہو۔ غرض اسلام کے نزدیک اصلح و انفع کا مدار عبادات و ریاضات نہیں بلکہ انسانیت کے لیے نفع بخش ہوتا ہے۔ جب تک مسلمان انسانیت کو نفع پہنچاتے رہے لوگوں میں محبوب اور آنکھ کا تارا بن کر رہے۔ جب سے نفع پہنچانا چھوڑ دیا زمین پر بوجھ اور مفوض بن کر رہ گئے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور میں اسلام کی اشاعت کا سب سے بڑا ذریعہ اسلام کے اعلیٰ اخلاق، خلق خدا کی ہے لوث خدمت اور انسانوں کے دکھ درد میں ہاتھ بنانا رہا ہے۔ عیسائی مشنریوں نے اسلام کے اس زریں اصول کو اپنا کر ایشیا، افریقہ میں عیسائیت کا جال بچھا دیا ہے۔ ورلڈ اسلامک فورم اسلام کے اس اہم شعبہ کی طرف پیش رفت اپنے تیسرے سالانہ سیمینار میں ایک مستقل فلاحی ادارے کے قیام کے فیصلہ سے کر رہی ہے جس کے ذمہ دار (۱) مولانا مفتی برکت صاحب (۲) مولانا محمد عمران خان جہانگیری صاحب (۳) جناب فیض اللہ خان صاحب (۴) جناب محمد شفیق صاحب (۵) الحاج محمد اشرف خان اور (۶) مولانا قاری عبدالرشید رحمانی ہیں اور اس سلسلہ میں رابطہ مولانا عمران خان جہانگیری سے درج ذیل پتہ پر کیا جا سکتا ہے۔
13 ST. THOMAS,S ROAD, LONDON
(UK) TEL. 0171 226 9709
فلاحی امور میں فورم کی ترجیحات مندرجہ ذیل ہوں گی۔ (۱) کالج و یونیورسٹیوں کے ذہین و نادار طلبا کو وظائف دینا۔ (۲) علماء کرام کو تحقیقی و علمی کاموں کے لیے وظائف دینا۔ (۳) تیم بے سہارا اور نادار بچیوں کی شادیوں کا سادگی کے ساتھ انتظام کرنا۔ (۴) پسماندہ علاقوں میں دینی ماحول کے ساتھ مختلف ٹیکنیکل شعبے قائم کرنا تاکہ مسلمان بچے کو نئے ہنر سیکھا کر روزی روٹی کمانے کے قابل بنایا جا سکے۔ فورم نے ایک اسٹوڈنٹ کا سالانہ وظیفہ مبلغ (۱۰۰) پاؤنڈ اور ایک عالم دین کے لیے (۲۰۰) پاؤنڈ اور ایک نادار بچی کے شادی کے اخراجات مبلغ (۲۰۰) پاؤنڈ تجویز کیے ہیں۔ آپ اس معمولی سی رقم سے ایک اسٹوڈنٹ کا مستقبل روشن کر سکتے ہیں اور ایک عالم دین کی علمی و تحقیقی صلاحیت سے ملت اسلامیہ مستفید ہو سکتی ہے اور ایک غریب بچی کا گھر بس سکتا ہے۔ اسے آپ اپنی بیٹی بنا کر زندگی بھر دعائیں لے سکتے ہیں۔ اسی طرح ایسے پسماندہ علاقوں میں جہاں غربت و ناداری کفر تک پہنچا رہی ہے، پانچ ہزار پاؤنڈ کی رقم سے ایک ٹیکنیکل شعبہ قائم ہو سکتا ہے۔ نہ معلوم اس سے کتنے لوگ مستفید ہوں گے اور کتنے خاندانوں کے رزق حلال کا ذریعہ بنے گا اور ان کے دنیا و آخرت کے سنورنے کا سبب ہوگا۔ یہ صدقہ جاریہ حسب توفیق ایک فرد ایک خاندان یا چند خاندان مل کر بھی انجام دے سکتے ہیں۔ آپ چاہیں تو کسی ایک شعبہ کے مستقل نگران بن سکتے ہیں یا ایک فیملی کی طرف سے ایک رقم وقف کر کے اس کی آمدنی سے چلا سکتے ہیں۔ اس کار خیر میں آگے بڑھ کر اللہ زکوۃ و صدقات کی ۔ وضاحت کے ساتھ آفس سے رابطہ فرمائیں۔
خیرے کن اے فلاں و غمیت شمار عمر
زان پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نماند ترجمہ "اس سے پہلے کار خیر انجام دے لو کہ کہا جائے کہ آپ دنیا میں نہیں رہے"
مسلمان کی دولت کا صحیح مصرف قرآن عزیز نے سینکڑوں جگہ انفاق فی سبیل اللہ راہ خدا میں خرچ کی ترغیب و حکم دیا گیا۔ قرآن حکیم کی ابتدا ہی یہ ہے۔ الم ذالک الكتاب لا ريب فيہ ہدى للمتقين الذين يؤمنون بالغيب ويقيمون الصلوۃ ومما رزقنہم ينفقون۔ ترجمہ : اسلام کے عناصر ثلاثہ ا۔ ایمان بالغیب ۲۔ اقامت صلوۃ (تمام جسمانی (اعمال) - انفاق راہ خدا میں خرچ خدا کی رضا کے لیے جان مال خرچ کرنا و مٹانا گویا انفاق اسلام کا ایک ثلث ایک تہائی ہے، قرآن نے تقویٰ کی جہاں تفسیر کی ہے، وہاں عموماً یہ تین اجزاء بیان کیے ہیں۔ پھر قرآن نے ہر جگہ مال کے اتفاق کو جان کے اتفاق پر مقدم کیا ہے۔ وجاہدوا فی سبيل اللہ باموالكم وانفسکم اسی طرح قرآن نے جہاں کہیں مال کے مصرف بیان کیے ہیں ، وہ جیتے جاگتے انسان ہیں۔ و اتی المال علی حبہ ذوى القربی والیتمیٰ انما الصدقات للفقراء رشتہ دار فقراء، مساکین یتامی مسافر اسلامی ریاست کے کارپرداز اور وہ لوگ جن سے سلوک کر کے یا ان کی ضروریات پوری کر کے اسلام کی طرف راغب کیا جا سکتا ہو۔
نبوت کے ۲۳ سالہ دور میں یہی نظر آتا ہے کہ مال ہمیشہ ضرورت مند انسانوں پر خرچ کیا گیا۔ رسول خدا نے مسجد یا مدرسہ کے لیے کبھی اس طرح چندہ نہیں فرمایا۔ مسجد نبوی انتہائی سادگی سے آپ اور آپ کے صحابہ نے مزدور بن کر اپنے ہاتھوں سے تعمیر کی۔ جب انتہائی ثروت و مالداری آئی تب بھی سادگی کا یہی عالم رہا۔ دور نبوت میں سینکڑوں مساجد بن چکی تھیں اور ان میں تعلیم و تربیت کا اعلیٰ درجہ کا نظام قائم ہو چکا تھا۔ مگر آپ کو ان کے لیے مالی ترغیب و اپیل شاذ و نادر ہی ملے گی۔ اس کے برخلاف جہاد یا انسانوں کی ضرورتوں کے لیے مالی ترغیب و اپیل کی سینکڑوں ہزاروں روایات و واقعات بآسانی مل جائیں گے۔ مکہ مکرمہ میں ابتدائے اسلام میں بھی اسلام میں داخل ہونے والوں کی ضرورتوں کے لیے ہر وقت مالی ایثار کیا گیا اور مدینہ منورہ میں کبھی شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو کہ آپ نے انسانوں کے لیے مسجد نبوی میں ترغیب و اعلان نہ فرمایا ہو۔ ہر روز ہی باہر سے آنے والوں کو صحابہ مہمان بنا کر لے جاتے اور جو بچ رہتے، وہ رسول خدا کے مہمان ہوتے جب کبھی کسی علاقے کے ضرورت مند لوگ مدینہ منورہ آئے آپ نے فورا ان کے کپڑوں کے لیے ان کے کھانے کے لیے اور دیگر ضروریات کے لیے ترغیب دی اور چندہ کیا۔ جب کبھی آپ کو کسی علاقہ میں قحط یا کسی آفت کی خبر ملی، جو بھی بن پڑا آپ نے ان کی امداد کے لیے کوشش کی۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق بھی روا نہیں رکھی فتح مکہ سے پہلے جب مکہ میں قحط پڑا آپ نے کھانے پینے کی چیزوں اور نقد اموال سے مدد فرمائی باوجودیکہ آپ برسوں سے اہل مکہ کے ساتھ حالت جنگ میں تھے۔ غرض اسلام کا مزاج انسانوں پر خرچ کرنے کا ہے نہ کہ عمارتوں پر۔ اس کے برخلاف آج مسلمانوں کے اموال کا بڑا حصہ انسانوں کے بجائے اینٹ پتھر پر لگ رہا ہے۔ قیموں، بیواؤں، ناداروں بیماروں اور محتاجوں کا حق مار کر عالی شان مساجد و مدارس بن رہے ہیں اور ظلم یہ ہے کہ انہیں دین کے قلعے کہا جا رہا ہے۔ مختلف قسم کے حیلے کر کے چندوں کا بڑا حصہ تعمیر میں لگایا جا رہا ہے۔ اب تو کمیشن اور ولالی کے ذریعہ چندہ کرنے والے پیشہ ور لوگوں کا ایک نیا طبقہ وجود میں آچکا ہے۔ چندہ کے لیے ایسے ایسے رکیک و ذلیل طریقے ایجاد کیے جا رہے ہیں جس نے علم، علماء اور خود اسلام کو ذلیل کر رکھا ہے۔ یہ وبا زیادہ تر برصغیر کے لوگوں میں ہے جہاں اہل علم گھٹیا بھکاری کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ہماری عمارتیں جتنی بلند و بالا ہوتی جا رہی ہیں اہل علم کا احترام، وقار اور عزت اتنی ہی کرتی جا رہی ہے۔ رمضان میں غول کے غول نازل ہوتے ہیں۔ شریف لوگوں نے دوکان پر بیٹھنا چھوڑ دیا ہے۔ یہاں روزانہ ہی مساجد میں کپڑا بچھا کر مانگنے کا جو شرمناک منظر سامنے آتا ہے، ہر غیرت مند انسان شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے۔ پتہ نہیں یہ کون سا اسلام ہے جو اپنے کو علماء کو بلکہ خود اسلام کو ذلیل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ زکوۃ و صدقات جو ضرورت مند انسانوں کا حق تھا، اس کا بھی بڑا حصہ مختلف حیلوں کے ذریعہ عمارتوں میں لگ رہا ہے۔ ہندوستان کے غریب مسلمانوں کا سالانہ نہیں ہفتہ وار کروڑوں ان پر لگایا جاتا ہے۔ جبکہ اس بھارت میں ایک ایک شہر ایسا ہے جہاں ہزارہا یتیم بے سہارا غریب بچیاں صرف اسی لیے کنواری بیٹھی ہیں کہ ان کی شادی کے لیے چند سو روپیہ نہیں ہے۔ صرف ایک شہر حیدر آباد میں ایک سروے کے مطابق ۳۰ ہزار سے زائد ایسی بچیاں ہیں۔ لاکھوں مسلمان بچیاں گھر کی بنیادی ضرورتوں سے مجبور ہو کر ملازمت محنت و مزدوری کر رہی ہیں جن کی عصمت و آبرو ہر وقت خطرے میں ہے۔ کتنے ہی علماء کرام اور دین کے کام کرنے والے بڑھاپے میں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ نہ علاج کے لیے پیسے ہیں نہ بچوں کی شادی کے لیے۔ دنیا میں کروڑوں مسلمانوں کو زندگی کی بنیادی ضرورتیں میسر نہیں ہیں۔ روٹی دوا دارو اور نکاح انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ گزشتہ سالوں میں صومالیہ، یوگنڈا سوڈان، حبشہ میں لاکھوں مسلمان بھوک سے مر چکے ہیں مگر ہمارے ہاں اسلام اور دین کے نام پر عالیشان مساجد و مدارس کی تعمیر کی عیاشیوں پر کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ حرص اور بڑھ چکی ہے۔ ہر ہر کوئی اپنے گاؤں میں دین کے نام پر ایک تاج محل بنانے کا متمنی ہے۔ اس طرز عمل پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ دینداروں اور علماء کا یہ طرز عمل اسلام سے برگشتہ و بیزار کرنے کا ذریعہ تو نہیں بن رہا؟ ماضی قریب میں بخارا سمرقند و تاشقند میں الحاد و کمیونزم کا ایک بڑا سبب مالیات کا غلط صرف بھی تھا۔ نتیجہ جو نوجوان علماء کرام کے ہاتھ چوما کرتے تھے انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ان کی گردنیں اتاریں۔ بغداد کا زوال ہو یا اسپین کی تباہی، غور کیا جائے تو اس میں مالی بدعنوانیوں کا بھی بڑا دخل تھا۔ وہاں بھی انسانوں کی بنیادی ضرورتوں، علمی و دینی ضرورتوں کے بجائے عمارتوں کی عیاشیوں پر بے تحاشا دولت خرچ کی گئی۔ اس دور کے ایک عارف باللہ کا قول ہے مسلمانوں کے مال کے غلط خرچ پر خدا نے ان پر پوری دنیا میں دو عذاب مسلط کر دیے ہیں یعنی کمیونزم اور کیپٹل ازم۔ 
الخذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں

فورم کے پہلے باضابطہ اجلاس کا دعوت نامہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

باسمہ سبحانہ 
بگرامی خدمت ۔ زید لطفکم
السلام عليكم ورحمتہ اللہ وبركاتہ ۔ مزاج گرامی؟
گزارش ہے کہ کافی عرصہ سے اس امر کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغربی میڈیا اور اسلام دشمن لابیوں کے معاندانہ پراپیگنڈہ کا سائنٹفک انداز میں جائزہ لیا جائے اور اس کے توڑ کے لیے منظم کام کیا جائے۔ نیز یورپ میں مقیم مسلمانوں بالخصوص مشرقی یورپ کے کمیونزم سے آزاد ہونے والے ممالک کی مسلم اقلیتوں کی دینی ضروریات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر اس کے مطابق ضروری لٹریچر کی اشاعت و تقسیم کا اہتمام کیا جائے۔ 
اس مقصد کے لیے چند اصحابِ فکر ۲۲ نومبر ۱۹۹۲ء کو لیٹن سٹون لندن میں جناب الحاج غلام قادر صاحب کی رہائش گاہ پر جمع ہوئے اور حضرت مولانا مفتی عبد الباقی صاحب مدظلہ العالی کی زیر صدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مذکورہ بالا مقاصد اور دیگر متعلقہ دینی ضروریات کے لیے ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا جائے۔ 
اجلاس میں ورلڈ اسلامک فورم کے کنویز کی ذمہ داریاں راقم الحروف کے سپرد کی گئیں اور طے پایا کہ فورم کا پہلا مشاورتی اجلاس ۵ سمبر ۹۲ء بروز ہفتہ شام چار بجے ختم نبوت سنٹر، ۳۵ اسٹاک ویل گرین، لندن میں ہو گا۔ جس میں فورم کے پروگرام اور تنظیمی ڈھانچے کو حتمی شکل دی جائے گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔ 
اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ’’فورم‘‘ کو باضابطہ جماعت کی حیثیت نہیں دی جائے گی اور مذکورہ بالا مقاصد اور پروگرام سے اتفاق اور دلچسپی رکھنے والے تمام دینی حلقوں اور جماعتوں کے ساتھ یکساں تعلقات اور باہمی مشاورت و معانت کی بنیاد پر ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ کے مشن کو آگے بڑھایا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ 
۵ دسمبر کے کنونشن میں آنجناب کی شرکت از حد ضروری ہے۔ از راہ کرم اس پروگرام کے بارے میں اپنی رائے گرامی سے آگاہ فرمائیں اور کنونشن میں شرکت فرما کر مشکور ہوں۔ امید ہے کہ آنجناب کے مزاج بعافیت ہوں گے۔ 
والسلام
ابو عمار زاہد الراشدی 
کنونیز ورلڈ اسلامک فورم
C/O ختم نبوت سنٹر لندن
(۲۴ نومبر ۱۹۹۲ء)