1995

جنوری ۱۹۹۵ء

مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت کی جدوجہدمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دینی مدارس، بنیاد پرستی اور انسانی حقوقمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دینی مدارس کے نظام کی بہتری کے لیے تجاویزادارہ
وفیاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جمعیت علماء اسلام کے دھڑوں کے درمیان اتحاد کی اپیلادارہ

مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت کی جدوجہد

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سوات ہمارے آباء و اجداد کا وطن ہے جہاں سے ہمارے بڑے کسی دور میں نقل مکانی کر کے ہزارہ کے وسطی ضلع مانسہرہ کے مختلف اطراف میں آباد ہوگئے تھے۔ اسی وجہ سے ہمارا تعارف سواتی قوم کے طور پر ہوتا ہے اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان صاحب زید مجدہم کے نام کے ساتھ سواتی کی نسبت مستقل طور پر شامل رہتی ہے۔ مگر مجھے زندگی میں اس سے قبل کبھی سوات جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ گزشتہ دنوں مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت کی جدوجہد کے حوالے سے اس خطہ کے حالات کا براہ راست جائزہ لینے کا داعیہ پیدا ہوا تو دو تین روز کے لیے سوات جانے کا پروگرام بن گیا اور ۱۰ دسمبر ہفتہ کی شام سے ۱۲ دسمبر پیر کی عصر تک ضلع سوات کے مختلف مقامات پر حاضری اور سرکردہ حضرات سے ملاقاتوں کا موقع ملا۔

اس دوران مینگورہ، سیدو شریف، خوازہ خیلہ، مٹہ اور بشام میں احباب کے ساتھ متعدد نشستیں ہوئیں، بالخصوص شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الرحمان، شیخ الحدیث حضرت مولانا فضل محمد، مولانا قاری عبد الباعث، مولانا محمد زمان، مولانا قاری حبیب احمد، حاجی سلطان یوسف، مولانا احمد اور جناب محمد ابراہیم حقیقت پسند کے علاوہ ہائیکورٹ کے وکیل جناب بشیر محمد ایڈووکیٹ اور سرکاری حکام میں سے ایک ذمہ دار شخصیت کے ساتھ ملاقاتیں بہت سودمند رہیں اور تحریک نفاذ شریعت کے پس منظر اور حالات کو سمجھنے میں خاصی مدد ملی۔

آج سے ربع صدی قبل تک سوات، دیر اور چترال پاکستان کے اندر مستقل ریاستوں کی حیثیت رکھتے تھے۔ سوات میں والی، دیر میں نواب اور چترال میں مہتر صاحبان اپنی ریاستوں کے اندرونی نظم و نسق میں خودمختار تھے اور ان کا عدالتی نظام بھی اپنا اپنا تھا۔ سوات کی صورتحال یہ تھی کہ قضاء شرعی کا نظام قائم تھا اور قاضی صاحبان شرعی قوانین کے مطابق مقدمات کے فیصلے کرتے تھے۔ اگرچہ مرور زمانہ کے ساتھ قضا کے اس نظام میں رشوت اور سفارش کے جراثیم سرایت کر آئے تھے اور اس دور کے بہت سے قاضی صاحبان کے بارے میں اچھی روایات سننے میں نہیں آتیں، تاہم لوگوں کو سستا اور فوری انصاف مل جاتا تھا اور مقدمات کے فیصلوں کے لیے زیادہ دیر تک پریشان نہیں رہنا پڑتا تھا۔ بالخصوص قصاص کے مقدمات بروقت نمٹ جاتے تھے اور فریقین زیادہ عرصہ تک کھینچا تانی کے عذاب میں مبتلا رہنے سے بچ جاتے تھے۔ اس کے ساتھ مختلف علاقوں میں والی سوات کے انتظامی نمائندوں کو بھی عدالتی اختیارات حاصل تھے اور وہ علاقائی رواج کے مطابق مقدمات کا فیصلہ کرتے تھے۔

یہ سسٹم اس وقت تک رہا جب ۱۹۶۹ء میں سوات، دیر اور چترال کی الگ حیثیت ختم کر کے تینوں ریاستوں کو پاکستان میں ضم کر لیا گیا اور دستور پاکستان کے مطابق ملک کے انتظامی اور عدالتی ڈھانچوں کا دائرہ ان ریاستوں تک وسیع کر دیا گیا۔ پاکستان میں ضم ہوجانے کے بعد پاکستان کے انتظامی اور عدالتی ضوابط کا ان علاقوں پر اطلاق ہوا اور تینوں ریاستوں کو الگ الگ ضلع کی حیثیت دے کر وہاں ڈپٹی کمشنر، ایس پی اور سیشن جج مقرر کر دیے گئے۔ اس طرح پاکستان کا عدالتی نظام جو برطانوی نوآبادیاتی حکومت کا ورثہ ہے اور عرف عام میں انگریزی عدالتی نظام کہلاتا ہے سوات، دیر اور چترال کے تین نئے اضلاع پر بھی لاگو ہوگیا۔

غالباً ۱۹۷۵ء میں دیر میں جنگلات کی رائلٹی کے حوالہ سے ایک عوامی تحریک اٹھی جس نے حکومت کے خلاف مسلح تصادم کی شکل اختیار کر لی، اس تحریک کے مطالبات میں سابقہ عدالتی سسٹم کی بحالی کا مطالبہ بھی شامل تھا جس کے نتیجے میں مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے ’’فاٹا ریگولیشن‘‘ کے تحت اس خطہ میں ایک نیا عدالتی نظام نافذ کر دیا۔ یہ ریگولیشن مالاکنڈ ڈویژن کی حدود میں نافذ کیا گیا جس میں سوات، دیر اور چترال کے تین اضلاع کے علاوہ مالاکنڈ کا صوبائی حکومت کے زیرانتظام علاقہ بھی شامل ہے۔ اس عدالتی نظام میں فوجداری اور دیوانی دونوں قسم کے مقدمات میں ڈپٹی کمشنر کو کلیدی حیثیت حاصل تھی اور عدالتی افسران کے تقرر اور اپیلوں کی سماعت میں اس کے فیصلے حتمی شمار ہوتے تھے۔ وکلاء صاحبان نے اس عدالتی نظام کو بنیادی حقوق اور آئینی تحفظات کے منافی قرار دیتے ہوئے فاٹا ریگولیشن کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا اور ایک طویل جنگ لڑی جس کے نتیجے میں ہائیکورٹ نے فاٹا ریگولیشن کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب جناب آفتاب احمد شیرپاؤ اپنے پہلے دور میں وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز تھے۔ ان کی حکومت نے ہائیکورٹ کا فیصلہ تسلیم کرنے کی بجائے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا جس کی وجہ سے ’’فاٹا ریگولیشن‘‘ کا عدالتی سسٹم اس کے بعد بھی بدستور اس علاقہ میں قائم و جاری رہا۔

فاٹا ریگولیشن وکلاء کی طرح علماء اور دینی حلقوں کے لیے بھی قابل قبول نہیں تھا اور وہ بھی اسے ظالمانہ قرار دیتے ہوئے اپنے دائرہ میں اس کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔ مگر فاٹا ریگولیشن کے خاتمہ پر متفق ہونے کے باوجود اس کے بعد کے عدالتی نظام کے بارے میں دونوں کے اہداف الگ الگ تھے۔ وکلاء یہ چاہتے تھے کہ فاٹا ریگولیشن کے خاتمہ کے بعد اس خطہ میں وہی عدالتی نظام رائج ہو جو پاکستان کے دوسرے علاقوں میں آئین کے تحت کام کر رہا ہے۔ جبکہ علماء کرام اور دینی حلقے پاکستان کے عدالتی نظام کو انگریزی عدالتی نظام سمجھتے ہوئے اس کی بجائے خالصتاً شرعی نظام کے نفاذ کے خواہاں تھے۔ چنانچہ فاٹا ریگولیشن کے خلاف خلاف دونوں طبقوں کی جدوجہد جاری رہی تاآنکہ سال رواں کے آغاز میں بارہ فروری کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے فاٹا ریگولیشن کو غیر آئینی قرار دینے کے بارے میں پشاور ہائیکورٹ کے فیصلہ کی توثیق کر دی اور اس کے ساتھ ہی فاٹا ریگولیشن اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔

یہ وہ مرحلہ تھا جب مالاکنڈ ڈویژن میں ’’تحریک نفاذ شریعت محمدی‘‘ جو اس سے قبل بھی فاٹا ریگولیشن کے خاتمہ اور شرعی نظام کے نفاذ کے مطالبات کے ساتھ دھیرے دھیرے عوامی حلقوں میں آگے بڑھ رہی تھی، ایک نئے جوش و جذبہ کے ساتھ ابھری اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے علاقہ کی سب سے بڑی عوامی قوت کی حیثیت اختیار کر لی۔ اس تحریک کے قائد مولانا صوفی محمد ہیں جو عالم دین ہیں، ایک عرصہ تک جماعت اسلامی سے وابستہ رہے ہیں، ڈسٹرکٹ کونسل دیر کے چیئرمین بھی رہے ہیں، مگر گزشتہ سات آٹھ برس سے کسی بھی جماعت سے متعلق نہیں ہیں بلکہ مختلف دینی جماعتوں کے وجود اور ووٹ کی سیاست کو حرام اور نفاذ اسلام کی راہ میں بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ ضلع دیر کی تحصیل لعل قلعہ میں دارالعلوم میران کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور قدیم وضع کی متصلب دینی شخصیت کے حامل ہیں۔

مولانا صوفی محمد کی زیرقیادت تحریک نفاذ شریعت محمدی کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت فاٹا ریگولیشن کے خاتمہ سے اس خطہ میں قانونی نظام کا جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پاکستان کے مروجہ عدالتی نظام کے ذریعے نہیں بلکہ خالص شرعی عدالتی نظام کے ذریعے پر کیا جائے اور مالاکنڈ ڈویژن میں مکمل شرعی قوانین کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔ اس مطالبہ پر اس علاقہ کے مسلمان جس طرح دیوانہ وار جمع ہوئے اور اپنا سب کچھ نفاذ شریعت کے ’’جہاد‘‘ کے لیے پیش کر دیا وہ ان غیور مسلمانوں کی دینی غیرت اور شریعت اسلامیہ کے ساتھ ان کی والہانہ وابستگی کا مظہر ہے۔ تحریک نفاذ شریعت محمدی میں مالا کنڈ ڈویژن اور باجوڑ ایجنسی کے عوام نے جو بے مثال قربانیاں دی ہیں ان کی تفصیلات ایک مستقل مضمون کی متقاضی ہیں اور مستقبل قریب میں مالاکنڈ ڈویژن کے دوسرے سفر کے بعد ان شاء اللہ قارئین کو ان سے آگاہ کیا جائے گا۔ تاہم اس موقع پر صورتحال کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ تحریک کی طرف سے روڈ بلاک کرنے کے فیصلے پر شدید سردی میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تیس سے چالیس ہزار افراد مسلسل سات روز تک کھلی سڑک پر بستر ڈالے پڑے رہے، لوگوں نے اپنی جائیدادیں اور عورتوں نے اپنے زیورات بیچ کر نفاذ شریعت کے جہاد میں شرکت کے لیے اسلحہ خریدا۔ اور اس خطہ کے عوام نے تحریک میں شرکت کے لیے بالکل اسی جذبہ اور جوش و خروش کے ساتھ تیاری کی جس طرح کسی دور میں باقاعدہ جہاد میں شریک ہونے کے لیے تیاری کی جاتی تھی۔

تحریک نفاذ شریعت کا موجودہ دور سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد شروع ہوا، لوگ سڑکوں پر آئے، روڈ بلاک کیے گئے، بعض مقامات پر سرکاری فورسز کے ساتھ تصادم بھی ہوا، متعدد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور مئی ۱۹۹۴ء کے دوران صوبائی حکومت نے وعدہ کر لیا کہ مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی قوانین کا نفاذ عمل میں لایا جائے گا۔ غالباً اس مقصد کے لیے چار ماہ کی مدت بھی متعین کی گئی مگر مدت ختم ہونے کے بعد بھی جب نفاذ شریعت کے کوئی آثار نظر نہ آئے تو لوگ دوبارہ سڑکوں پر آگئے، پھر سڑکیں بند کر دی گئیں، کچھ سرکاری افسران یرغمال بنائے گئے، بعض مقامات پر تصادم میں ایک ایم پی اے سمیت درجنوں افراد جاں بحق ہوئے، ہوائی اڈے سمیت بہت سی سرکاری عمارتوں پر تحریک کے کارکنوں نے قبضہ کر لیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ حکومت کو اپنا نظم و نسق بحال کرنے کے لیے فوج طلب کرنا پڑی۔

یہ نازک مرحلہ تھا جب دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ تحریک نفاذ شریعت محمدی کے بارے میں یہ تاثر دے رہے تھے کہ اس خطہ کے لوگوں نے شریعت کے نام پر پاکستان کے خلاف بغاوت کر دی ہے۔ اور بعض حلقے اس تاثر کو عام کرنے میں مصروف تھے کہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارتی ایجنسیوں نے مالاکنڈ ڈویژن میں یہ صورتحال پیدا کی ہے۔ ادھر علاقہ میں حالات کا منظر یہ تھا کہ تحریک کے ہزاروں کارکن مسلح تھے اور جہاد کے جذبہ کے ساتھ نفاذ شریعت کی جنگ لڑ رہے تھے۔ اس کیفیت میں جب امن و امان کی بحالی کے لیے فوج حرکت میں آئی تو سچی بات ہے کہ حساس دل لرزنے لگے اور مضطرب دلوں کے اضطراب میں کئی گنا اضافہ ہوگیا کہ پاکستان کی مسلح فوج اور تحریک نفاذ شریعت کے مسلح کارکن آمنے سامنے ہیں، خدا جانے نتائج کس قدر خوفناک ہوں گے۔ مگر بے ساختہ سلام عقیدت پیش کرنے کو جی چاہتا ہے تحریک نفاذ شریعت کے امیر مولانا صوفی محمد اور مسلح افواج کے علاقائی کمانڈر جنرل فضل غفور کو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی صحیح سمت راہنمائی کی اور ان دونوں نے کمال تدبر اور بصیرت کے ساتھ حالات کو اس طرح سنبھال لیا کہ پاکستان آرمی اور ملک کے دینی حلقوں کو آمنے سامنے تصادم کی کیفیت میں دیکھنے کے خواہشمند حلقوں کی آرزوئیں خاک میں مل گئیں۔

ہوا یوں کہ مولانا صوفی محمد نے حالات کی نزاکت اور سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے خود کو فوج کے حوالے کر دیا اور کہا کہ میں ہر طرح کا تعاون کرنے کو تیار ہوں مگر فوج اور عوام میں تصادم کسی صورت میں نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تصادم فوجی حکام بھی نہیں چاہتے تھے چنانچہ مولانا صوفی محمد نے فوجی حکام کے ہمراہ تحریک کے مراکز کا دورہ کیا اور جس طرح ممکن ہوا انہیں سمجھا بجھا کر گھروں میں واپس کیا۔ مولانا صوفی محمد ویسے بھی تحریک نفاذ شریعت محمدی میں تشدد کے رجحانات کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ افسران کو یرغمال بنانے اور گولی چلانے کے واقعات ان کی ہدایات اور مرضی کے بغیر ہوئے ہیں اور انہوں نے کھلم کھلا ان واقعات سے براءت اور بیزاری کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے کارکنوں کو اسلحہ او رجہاد کی ترغیب ضرور دی ہے لیکن جب تک حکومت پاکستان شریعت اسلامیہ کے وعدہ پر قائم ہے اور اس سے انکار نہیں کر دیتی اس وقت تک ہتھیار اٹھانے کا کوئی جواز نہیں ہے اور نہ ہی یہ ہتھیار اٹھانا جہاد کہلائے گا۔

الغرض کھلم کھلا تصادم کے خطرات ٹل جانے کے بعد تحریک نفاذ شریعت اور صوبائی حکومت کے درمیان مذاکرات کے نئے سلسلہ کا آغاز ہوا جس کے نتیجہ میں مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت کے لیے ایک معاہدہ طے پا گیا جو صوبائی سیکرٹری قانون جناب سلیم خان کے ایک تحریری مکتوب کے مطابق یوں ہے:

’’محترم حضرت مولانا صوفی محمد بن الحضرت حسن صاحب

السلام علیکم

آپ کو یاد ہوگا کہ ۲۲ نومبر ۱۹۹۴ء کو تیمرگرہ کے مقام پر صوبائی چیف سیکرٹری اور ہوم سیکرٹری اور آپ کے درمیان مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذ نظام شریعت ریگولیشن ۱۹۹۴ء کے بارہ میں بات چیت ہوئی۔ اس ریگولیشن کے تحت شریعت کی تعریف نفاذ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء کے مطابق کی گئی ہے۔ یعنی احکام اسلام قرآن و سنت کے مطابق اور اجماع اور قیاس کی روشنی میں۔ اس کے علاوہ تمام اسلامی قوانین کا اطلاق اس ریگولیشن کے تحت اس علاقہ میں کیا جائے گا۔ مزید کہ اسلامی قوانین پر عملدرآمد اسلامی عدلیہ کے نظام کے تحت کرنے کا بندوبست کیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں قاضی صاحب کے منصب کو بھی عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ ضلع قاضی کا منصب اس ریگولیشن میں شامل کیا گیا ہے۔

آپ نے ملاقات کے دوران اس بات پر زور دیا تھا کہ تحصیل قاضی کا کرنا اہم ضرورت ہے اور یہ کہ منصب قاضی پر فائز حضرات اسلامی فقہ پر دسترس رکھتے ہوں۔ حکومت نے غوروخوض کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ تحصیل قاضی منصب تسلیم کر لیا جائے، جن کے دائرہ اختیار میں دیوانی اور فوجداری دونوں اختیارات ہوں گے، اور یہ کہ اسلامی یونیورسٹی کے سند یافتہ لوگ قاضی کے منصب کے حقدار ہوں گے۔ اس کے لیے تقرری کے قوانین میں مناسب تبدیلی کی جا رہی ہے۔ قاضی صورۃً اور سیرۃً قرآن و سنت کے مطابق ہوگا۔ فوری اجرا کے لیے وہی عدالتی افسر قاضی کے منصب پر فائز ہوں گے جنہوں نے تسلیم شدہ شرعی کورس کیا ہوا ہو۔ قاضی کو وہ تمام اختیارات دیے گئے ہیں جن کی رو سے وہ پولیس اور انتظامیہ کو مقدمات اور معاملات کے شرعی فیصلہ کرنے میں اور جزا اور سزا کو عملی طور پر نافذ کرنے میں بروئے کار لا سکیں۔

مالاکنڈ ڈویژن میں قانونی خلا کو پر کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ میرا یقین ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن کا پاٹا نفاذ نظام شریعت ریگولیشن ۱۹۹۴ء کے نئے مسودہ میں ہر وہ عنصر موجود ہے جس کی بنا پر یہ علاقہ امن و امان اور خوشحالی کا گہوارا بن سکتا ہے۔ آپ سے استدعا ہے کہ آپ اسی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کریں جس کی قوم کو آپ سے توقع ہے اور اس نظام کو عملی جامہ پہنانے میں معاونت فرمائیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ تجربہ و مشاہدہ کے بعد اگر تغیرات کی ضرورت پڑے گی تو اس کے لیے بھی مناسب اقدامات کیے جائیں گے۔

حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ یہی نظام، کہ جس کا اہتمام مالاکنڈ ڈویژن میں کیا جائے گا، کوہستان ضلع میں بھی بیک وقت نافذ کیا جائے گا۔ ‘‘

مولانا صوفی محمد امیر تحریک نفاذ شریعت محمدی کے نام صوبہ سرحد کے سیکرٹری قانون جناب سلیم خان کے اس مکتوب پر ان دونوں حضرات کے علاوہ صوبائی سیکرٹری داخلہ جناب ایوب خان کے دستخط بھی موجود ہیں۔ اور یہ مکتوب ۲۶ نومبر ۱۹۹۴ء کا تحریر کردہ ہے۔ اس کے چار روز بعد یکم دسمبر ۱۹۹۴ء کو گورنر سرحد نے مندرجہ ذیل ریگولیشن جاری کیا۔


مالاکنڈ ڈویژن نفاذ شریعت ریگولیشن ۱۹۹۴ء


پشاور (نمائندہ خصوصی) حکومت صوبہ سرحد نے مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت ریگولیشن کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت ۲۲ قوانین مالاکنڈ ڈویژن میں نافذ کر دیے گئے ہیں جن میں ۱۴ جنرل ضیاء الحق مرحوم دور کے مرتب کردہ قوانین ہیں، ۶ نواز شریف دور میں تشکیل پا گئے تھے۔ جمعرات کے روز جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن کے مطابق گورنر سرحد میجر جنرل (ریٹائرڈ) خورشید علی خان کے جاری کردہ ریگولیشن میں کہا گیا ہے کہ

نمبر ۱

  1. یہ ریگولیشن صوبائی انتظام کے تحت قبائلی علاقہ جات (نفاذ شریعت) ریگولیشن ۱۹۹۴ء کہلائے گا۔
  2. یہ چترال، دیر، سوات (جس میں کالام شامل ہے)، بونیر اور مالاکنڈ محفوظ علاقہ پر مشتمل مالاکنڈ ڈویژن کے صوبائی انتظام کے تحت تمام قبائلی علاقہ جات پر وسعت پذیر ہوگا۔
  3. یہ فورًا نافذ العمل ہوگا۔

نمبر ۲

اس ریگولیشن میں، تاوقتیکہ سیاق و سباق عبارت سے کچھ اور مطلب نہ نکلتا ہو، مندرجہ ذیل الفاظ کے معنی وہی لیے جائیں گے جو بذریعہ ہذا ان کے لیے بالترتیب مقرر کیے گئے ہیں، یعنی:

(ا) عدالت سے مراد مالاکنڈ ڈویژن میں فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت قائم کردہ مجاز اختیار سماعت کی قانونی عدالت ہے۔

(ب) حکومت سے مراد حکومت شمال مغربی سرحدی صوبہ۔

(ج) عدالتی افسر سے مراد ہے کسی عدالت کی صدارت کے لیے باضابطہ طور پر متعین اور:

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ضلعی قاضی
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اضافی ضلع قاضی
سینئر سول جج اعلیٰ علاقہ قاضی
دیوانی سول جج علاقہ قاضی
دیوانی اور مجسٹریٹ علاقہ قاضی فوجداری

(د) معاونین قاضی سے مراد وہ اشخاص جن کا نام دفعہ ۶ کے تحت عدالت کی مرتبہ معاونین قاضی کی رواں فہرست میں درج ہوں۔

(ہ) مقررہ سے مراد ہے اس ریگولیشن کے تحت بنائے گئے قواعد سے مقرر کردہ۔

(و) جدول سے مراد ہے اس ریگولیشن سے منسلک کوئی جدول۔

(ح) شریعت سے مراد ہے قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام۔

نمبر ۳: مالاکنڈ ڈویژن میں بعض قوانین کا اطلاق

  1. جدول کے خانہ ۲ میں مصرحہ قوانین، اسی شکل میں جیسے کہ اس ریگولیشن کے آغاز نفاذ سے فوری پیشتر شمال مغربی سرحدی صوبہ میں نافذ العمل ہیں، اور ممکنہ حد تک تمام قواعد نوٹیفیکیشن اور احکام جو ان کے تحت بنائے یا جاری کیے گئے ہوں، مذکورہ علاقہ میں نافذ العمل ہوں گے۔
  2. مذکورہ علاقہ میں نافذ العمل تمام قوانین، بشمول ذیلی دفعہ (۱) میں ذکر کردہ قوانین کا اطلاق (۲) مستثنیات اور ترمیمات کے تابع ہوگا جس کی وضاحت اس ریگولیشن میں کی گئی ہے۔

نمبر ۴: بعض قوانین کی موقوفی کار

اگر اس ریگولیشن کے آغاز نفاذ سے فوری پیشتر مذکورہ علاقہ میں کوئی ایسی دستاویز نافذ العمل تھی یا رواج یا معمول نافذ العمل تھا جسے قانون کا درجہ حاصل تھا، اور جو اس ریگولیشن کے ذریعہ مذکورہ علاقہ میں نافذ کیے جانے والے کسی قانون کے امور کے مماثل پائے جائیں، تو اس آغاز نفاذ کے ساتھ ہی وہ قانونی دستاویز، رواج یا معمول مذکورہ علاقہ میں بے اثر ہو کر موقوف ہو جائے گا۔

نمبر ۵: عدالت ہا، عدالتی افسران اور ان کے اختیارات و کارہائے منصبی

  1. قوانین پر عملدرآمد کے لیے مذکورہ علاقہ میں عدالتوں کے عدالتی افسران ان عہدوں سے موسوم ہوں گے جو جدول دوئم کے خانہ ۳ میں مصرحہ ہیں۔
  2. فوجداری یا دیوانی مقدمات کی کارروائی اور کارکردگی سے متعلق وہ تمام اختیارات، کارہائے منصبی اور فرائض جو کسی فی الوقت نافذ العمل قانون کے تحت شمال مغربی سرحدی صوبہ میں عدالتی افسران کو عطا کردہ، منتقل کردہ یا عائد کردہ ہیں، اوپر مذکور طور پر عہدوں سے موسوم عدالتی افسران استعمال کریں گے، سرانجام دیں گے اور بجا لائیں گے۔

نمبر ۶

  1. حکومت سرکاری گرانٹ میں اعلان کے ذریعے ان مقدمات کی درجہ بندی کرے گی جن میں عدالت ایک یا زیادہ معاونین قاضی کو عدالت کی مدد کے لیے اپنے ساتھ شریک کار کرنے کے لیے کہہ سکے گی۔
  2. ذیلی دفعہ (۱) کے مقصد کے لیے حکومت وقتاً فوقتاً ہر ضلع یا علاقہ کے لیے تیس کی حد تک ایسے اشخاص کی فہرست مرتب کرے گی جو دیانتداری کی شہرت رکھتے ہوں اور اچھے کردار کے مالک ہوں جو معاونین قاضی جانے جائیں گے۔

نمبر ۷: مصلح مقرر کرنے کا اختیار

جہاں اس ریگولیشن کے تحت قابل سماعت تنازعہ کے فریقین رضامند ہوں، تو عدالت اس کو شریعت کے مطابق تصفیہ کے لیے فریقین کی باہمی رضامندی سے مقرر کردہ ایک یا زیادہ مصلحین کے حوالے کر سکے گی۔

نمبر ۸: عدالتی افسران کا طریق عمل

  1. جدول دوئم میں مصرحہ عدالتی افسران کا طریق عمل اسلامی اصولوں کے مطابق ہوگا۔
  2. حکومت وقتاً فوقتاً ذیلی دفعہ (۱) کے مقاصد کے لیے ایسی تدابیر اختیار کرے گی جو وہ ضروری تصور کرے گی۔

نمبر ۹: عدالت اور اس کے دستاویزات کی زبان

عدالت کے تمام حکمنامہ جات اور کارروائی بشمول عرضی دعویٰ و جواب دعویٰ، شہادت، حکم، بحث و فیصلہ اردو میں درج کیے اور زیرعمل لائے جائیں گے۔

نمبر ۱۰: قواعد بنانے کا اختیار

حکومت اس ریگولیشن کے مقاصد کے حصول کے لیے قواعد وضع کر سکے گی۔

نمبر ۱۱: تنسیخ

  1. صوبائی انتظام کے تحت قبائلی علاقہ جات فوجداری قانون (خاص امور)، ریگولیشن ۱۹۷۵ء (شمالی مغربی سرحدی صوبہ ۱۹۷۵ء کا ریگولیشن اول) اور صوبائی انتظام کے تحت قبائلی علاقہ جات دیوانی طریقہ کار (خاص امور)، ریگولیشن ۱۹۷۵ء (شمال مغربی سرحدی صوبہ ۱۹۷۵ء کا ریگولیشن دوئم)، لہٰذا منسوخ کیے جاتے ہیں۔
  2. اس دفعہ کی ذیلی دفعہ (۱) کے تحت منسوخی یا دفعہ (۴) کے تحت کسی قانون، کسی قانونی دستاویز، رواج یا معمول کی موقوفی کے باوجود تنسیخ یا موقوفی جیسی بھی صورت ہو۔
    1. کسی ایسی چیز کا احیا نہیں کرے گی جو اس وقت نافذ العمل یا موجود ہو جب تنسیخ یا موقوفی عمل میں آئے۔
    2. قانون، قانونی دستاویز، رواج یا معمول کے سابقہ عمل یا ان کے تحت باضابطہ کیے ہوئے فعل یا برداشت کردہ نقصان کو متاثر نہیں کرے گی۔
    3. قانون، قانونی دستاویز، رواج یا معمول کے تحت حاصل شدہ کسی حق، پیدا شدہ کسی استحقاق یا عائد شدہ کسی وجوب یا ذمہ داری کو متاثر نہیں کرے گی۔
    4. قانون، قانونی دستاویز، رواج یا معمول کے خلاف کسی جرم کے ارتکاب کی بنا پر عائد شدہ کسی تاوان، ضبطی یا سزا کو متاثر نہیں کرے گی۔
    5. کسی حق، استحقاق، وجوب، ذمہ داری، تاوان، ضبطی یا سزا کی بابت تفتیش، قانونی کارروائی یا چارہ جوئی شروع کی جا سکے گی، جاری رکھی جا سکے گی یا نافذ کی جا سکے گی۔ اور کوئی ایسا تاوان، ضبطی یا سزا اس طرح عائد کی جا سکے گی گویا قانون، قانونی دستاویز، رواج یا معمول منسوخ نہیں ہوگیا تھا، یا جیسی صورت ہو، موقوفی سے بے اثر نہیں ہوگیا تھا۔

جدول اول: بحوالہ تمہید، دفعہ ۲ (د) اور ۳ (۱) / اسمائے قوانین:

مغربی پاکستان تاریخی مساجد و زیارت گاہ سرہ بہ محبوب آرڈیننس ۱۹۶۰ء (مغربی پاکستان ۱۹۳۰ء کا آرڈیننس پنجم)۔ (الف):

  1. مغربی پاکستان عائلی عدالت ہائے ایکٹ ۱۹۶۴ء (مغربی پاکستان ایکٹ سہ دہ و پنجم)
  2. مجموعہ طریق کار دیوانی (ترمیمی) ایکٹ ۱۹۷۶ء (۱۹۷۶ء کا پانزنودھم)
  3. شمال مغربی سرحدی صوبہ انسداد قمار بازی آرڈیننس ۱۹۷۸ء (شمال مغربی سرحد صوبہ ۱۹۷۸ء کا آرڈیننس)
  4. مجموعہ طریقہ کار دیوانی (ترمیمی) آرڈیننس ۱۹۸۰ء (۱۹۸۰ء کا آرڈیننس دہم)
  5. جرائم برخلاف جائیداد (نفاذ حدود) (ترمیمی) آرڈیننس ۱۹۸۰ء (۱۹۸۰ء نودھم)
  6. جرم زنا (نفاذ حدود) (ترمیمی) آرڈیننس ۱۹۸۰ء (۱۹۸۰ء کا آرڈیننس بیستم)
  7. جرم قذف (نفاذ حد) (ترمیمی) آرڈیننس ۱۹۸۰ء (۱۹۸۰ء کا آرڈیننس بیست و یکم)
  8. مجموعہ طریق کار دیوانی (ترمیمی) آرڈیننس ۱۹۸۰ء (۱۹۸۰ء کا آرڈیننس شش دہ و سوئم)
  9. احترام رمضان آرڈیننس ۱۹۸۱ء (۱۹۸۱ء کا آرڈیننس کا بیست و سوئم)
  10. وفاقی قوانین (نظر ثانی و تصدیق نامہ) آرڈیننس ۱۹۸۱ء (۱۹۸۱ء کا آرڈیننس بیست ہشتم)۔ تا حد صرف دوئم اور دفعہ ۱، ۳ اور اس کے جدول دوئم کے نکتہ ۱۵)
  11. جرائم خلاف جائیداد (نفاذ حدود) (ترمیمی) آرڈیننس ۱۹۸۲ء (۱۹۸۲ء کا آرڈیننس دوئم)
  12. زکاۃ و عشر (ترمیمی) آرڈیننس ۱۹۸۳ء (۱۹۸۳ء کا آرڈیننس ہفتم)
  13. زکاۃ و عشر (دوسری ترمیم) آرڈیننس ۱۹۸۳ء (۱۹۸۳ء کا آرڈیننس دہم)
  14. زکاۃ و عشر (تیسری ترمیم) آرڈیننس ۱۹۸۳ء (۱۹۸۳ء کا آرڈیننس بیست و ششم)
  15. قادیانی گروہ کے لاہوری گروہ اور احمدیوں کے خلاف اسلام (انسداد و سزا) آرڈیننس ۱۹۸۴ء (۱۹۸۴ء کا آرڈیننس بیستم)
  16. زکاۃ و عشر (ترمیمی) آرڈیننس ۱۹۸۴ء (۱۹۸۴ء کا آرڈیننس چہار دہ و پنجم)
  17. شمال مغربی سرحدی صوبہ (نفاذ مخصوص امور قانون کے) ایکٹ ۱۹۸۹ء (۱۹۸۹ء کا ایکٹ دوئم)
  18. مجموعہ طریق کار دیوانی (ترمیمی) ایکٹ ۱۹۸۹ء (۱۹۸۹ء کا چہارم)
  19. زکاۃ و عشر (ترمیمی) ایکٹ ۱۹۹۱ء (۱۹۹۱ء کا بیست و سوئم)
  20. نفاذ شریعہ ایکٹ ۱۹۹۱ء (۱۹۹۱ء کا دہم)
  21. پاکستان بیت المال ایکٹ ۱۹۹۲ء (۱۹۹۲ء کا یکم)
  22. مجموعہ طریق کار دیوانی (ترمیمی) ایکٹ ۱۹۹۲ء (۱۹۹۲ء کا چہارم)

جدول دوئم: بحوالہ دفعات ۲ (ج)، ۵ (۱)، و ۸ (۱): ترتیبی عدد

مالاکنڈ ڈویژن کے پاٹا کے علاوہ شمال مغربی سرحدی صوبہ میں عدالتی افسران کا عہدہ مالاکنڈ کے پاٹا میں عدالتی افسران کا عہدہ
۱ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج / ضلع قاضی
۲ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج / اضافی ضلع قاضی
۳ سینئر سول جج سول جج / علاقہ قاضی دیوانی
۴ سول جج سول جج / علاقہ قاضی دیوانی
۵ مجسٹریٹ مجسٹریٹ / علاقہ قاضی فوجداری

(بشکریہ روزنامہ نوائے وقت، راولپنڈی ۔ ۲ دسمبر ۱۹۹۴ء)

گورنر سرحد کے جاری کردہ اس ریگولیشن کا دائرہ کار مالاکنڈ ڈویژن تک محدود ہے مگر روزنامہ جنگ لاہور ۲۰ دسمبر ۱۹۹۴ء میں شائع شدہ کمشنر ہزارہ ڈویژن مسٹر ندیم منظور کی پریس کانفرنس کے مطابق ہزارہ کے ضلع کوہستان کو بھی اس ریگولیشن کے دائرہ میں شامل کر لیا گیا ہے اور وہاں اس کے مطابق اقدامات شروع ہوگئے ہیں۔

تحریک نفاذ شریعت کے مطالبات، عوام کی بے پناہ قربانیوں اور صوبہ سرحد کے سیکرٹری قانون کی تحریری یقین دہانی کے بعد گورنر سرحد کے جاری کردہ ’’نفاذ شریعت ریگولیشن‘‘ کا ایک بار پر مطالعہ کیجئے اور داد دیجئے بیوروکریسی کی اس چابکدستی پر کہ کس کمال ہوشیاری اور عیاری کے ساتھ نفاذ شریعت کے بنیادی تقاضوں کو گول کرتے ہوئے پاکستان کے دوسرے حصوں میں کار فرما وہی عدالتی سسٹم مالاکنڈ ڈویژن میں بھی نافذ کر دیا ہے جس کے نفاذ کے لیے کسی قسم کی جدوجہد کی ضرورت نہ تھی اور ’’فاٹا ریگولیشن‘‘ کے خاتمہ سے پیدا ہونے والے خلاء بالآخر اسی عدالتی سسٹم کے ذریعے پر ہونا تھا۔

یہ سسٹم تحریک نفاذ شریعت کا تقاضا نہیں تھا بلکہ تحریک تو دراصل اس سسٹم کو روکنے کے لیے شروع ہوئی تھی۔ مگر خدا سمجھے اس بیوروکریسی سے کہ جس عدالتی سسٹم کے نفاذ کو روکنے کے لیے تحریک نفاذ شریعت کے ہزاروں کارکن سڑکوں پر آئے اور جان و مال کی بے پناہ قربانی دی گئی، وہی عدالتی سسٹم ’’نفاذ شریعت ریگولیشن‘‘ کے نام پر نافذ کر کے ان لوگوں پر احسان جتلایا جا رہا ہے کہ دیکھو ہم نے تمہارا مطالبہ پورا کر دیا ہے، ممکن ہے کچھ دوست اس ریگولیشن کی پیچیدہ زبان کو نہ سمجھ پائیں اس لیے اس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

اس ریگولیشن کو اگرچہ مولانا صوفی محمد اور ان کے رفقاء نے قبول نہیں کیا مگر عملاً یہ ریگولیشن نافذ ہو چکا ہے اور تحریک نفاذ شریعت کے راہنماؤں کے ساتھ ’’مذاکرات‘‘ کا سلسلہ جاری ہے جس کا پلڑا ہمیشہ بیوروکریسی کے حق میں رہتا ہے۔ جبکہ صوبائی حکومت اپنے طور پر اس ریگولیشن کے ذریعے مالاکنڈ ڈویژن اور کوہستان میں ’’شریعت‘‘ نافذ کر کے سرخرو ہو چکی ہے اور اس کے بعد اس سے کسی مزید پیش رفت کی توقع فضول ہے۔

اس مرحلہ میں تحریک نفاذ شریعت کے حوالہ سے تین چار اہم باتوں کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں:

  1. ایک یہ کہ میں نے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی ہے کہ تحریک کے راہنماؤں کی اکثریت دین اور دینی علم میں پختہ کار ہونے کے باوجود قانون، ڈپلومیسی اور آئین کی وہ زبان نہیں سمجھتی جس زبان میں حکومت کے ساتھ معاملات طے پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیوروکریسی اپنی چالوں میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ میرے لیے یہ بات انتہائی پریشان کن تھی کہ ۱۰ دسمبر سے ۱۲ دسمبر تک میری ملاقات تحریک نفاذ شریعت کی مجلس شوریٰ کے چار ذمہ دار حضرات سے ہوئی مگر ان میں سے کسی نے یکم دسمبر کو نافذ ہونے والے نفاذ شریعت ریگولیشن کا اس وقت تک مطالعہ نہیں کیا تھا بلکہ ان کے بقول یہ ریگولیشن شوریٰ کے اجلاس میں بھی نہیں پڑھا گیا تھا۔ یہ صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے۔ تحریک کے لیڈروں ذمہ داری تھی کہ وہ پاکستان کے ان علماء سے رابطہ کرتے جو آئین و قانون اور ڈپلومیسی کی زبان کو سمجھتے ہیں اور صوبائی حکومت کے ساتھ معاملات طے کرتے وقت ان علماء سے راہنمائی حاصل کی جاتی۔
  2. دوسری بات یہ کہ وکلاء اور قانون دان طبقے کو مکمل طور پر اس مہم سے لاتعلق رکھنا بھی تحریک کے مفاد میں نہیں ہے اور نہ ہی اس تحریک کو طبقاتی کشمکش میں تبدیل کر دینا حکمت و دانش کا تقاضا ہے۔ وکلاء کی ایک بڑی تعداد اسلامی قوانین کا نفاذ چاہتی ہے اور شرعی عدالتی نظام کے حق میں ہے۔ ان سے رابطہ کرنا، انہیں تحریک میں شریک کرنا اور قانونی معاملات میں ان کی مشاورت اور راہنمائی سے استفادہ کرنا تحریک نفاذ شریعت کے ناگزیر تقاضوں میں سے ہے۔
  3. تیسری بات یہ ہے کہ تحریک کے دوران جزوی اور ضمنی باتوں پر اس قدر زور دینا کہ وہ تحریک کے ماٹو اور عنوان کے طور پر متعارف ہو جائیں، فائدہ کی بجائے نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔ مثلاً تحریک کے دوران اس بات پر اس قدر زور دیا گیا کہ تحریک کے ایک کارکن نے میرے سامنے فخر کے ساتھ ذکر کیا کہ اس نے مینگورہ میں پورا ایک دن گاڑی دائیں ہاتھ چلا کر انگریزی قانون کو پامال کیا۔ یہ کوئی ضروری بات نہیں ہے، اگر اس کی کوئی شرعی حیثیت ہے تو بھی بہت جزوی اور ضمنی درجہ کی ہے۔ اس قسم کی باتوں کو تحریک کا عنوان بنا دینا تحریک کے لیے بدنامی کا باعث بن جاتا ہے۔ اسی طرح ڈاڑھی کا ذکر بھی بار بار ہوتا ہے۔ ڈاڑھی سنت نبویؐ ہے جس کی اتباع اور احترام ہر مسلمان پر ضروری ہے، لیکن اسے بے احترامی سے بچانا اور استہزاء کا ہدف بننے سے روکنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ ابھی چند روز قبل خبر آئی کہ تحریک نفاذ شریعت کے راہنماؤں کے تقاضے پر صوبائی حکومت ڈاڑھی والے افسران تلاش کر رہی ہے تاکہ انہیں مالاکنڈ ڈویژن میں تعینات کر سکے۔ ہمارے نزدیک یہ سنت رسولؐ کو مذاق کا نشانہ بنانے کے مترادف ہے کہ انتظامی اور عدالتی سسٹم تو وہی نوآبادیاتی رہے مگر کرسیوں پر ڈاڑھی والے افسران کو بٹھا دیا جائے تاکہ سارے سسٹم کی گندگی ان کی ڈاڑھیوں کے مقدس پردے میں چھپی رہے۔
  4. چوتھے نمبر پر تحریک کے قائدین کی خدمت میں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ اس وقت پوری دنیا کی نظریں عالم اسلام کی دینی تحریکات پر لگی ہوئی ہیں۔ کیونکہ مغربی جمہوریت اور کمیونزم کی ناکامی کے بعد دنیا ایک نئے نظام کی تلاش میں ہے اور عقل سلیم انسانی فہم و دانش کو فطری طور پر اسلام کا عادلانہ نظام کی طرف متوجہ کر رہی ہے جس کی دعوت لے کر عالم اسلام کی دینی تحریکات اس وقت سامنے آرہی ہیں۔ اس مرحلہ پر اسلام دشمن لابیوں اور مغربی قوتوں کا پورا زور اس بات پر صرف ہو رہا ہے کہ عالم اسلام کی دینی تحریکات کی کوئی اچھی تصویر دنیا کے سامنے نہ آنے پائے بلکہ انہیں انسانی حقوق و اخلاق کے تصور سے عاری، تشدد پسند، طبقاتی بالادستی کے خواہاں اورا نسانی حقوق کے دشمن کے طور پر متعارف کرایا جائے۔ تاکہ انسانی معاشرہ ان لوگوں کے بارے میں کوئی مثبت سوچ اختیار نہ کر سکے۔

    اس تاثر سے خود کو بچانا ضروری ہے اور اس مقصد کے لیے ہمیں کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات خلفاء راشدینؓ کی سنت ہمارے لیے کافی ہے۔ اگر ہم دور نبویؐ اور دور خلافت راشدہؓ میں لوگوں کو حاصل معاشرتی، سیاسی، عدالتی اور معاشی حقوق کا صحیح نقشہ اجاگر کر کے دنیا کو اس کی طرف دعوت دینے میں کامیاب ہو جائیں تو آنے والا دور نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اسلام کے غلبہ و نفاذ کا دور ہو سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے علم، دانش، تدبر اور حوصلہ کی ضرورت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا الہ العالمین۔

دینی مدارس، بنیاد پرستی اور انسانی حقوق

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

روزنامہ جنگ لاہور ۴ دسمبر ۱۹۹۴ء کے مطابق گورنر پنجاب چودھری الطاف حسین نے دینی مدارس کی کارکردگی پر کڑی نکتہ چینی کی ہے اور فرقہ وارانہ کردار کے حامل مدارس کی بندش کا عندیہ دیا ہے۔ اسی طرح بعض اخباری اطلاعات کے مطابق وفاقی وزارت داخلہ نے ملک میں نئے دینی مدارس کی رجسٹریشن اور پرانے مدارس کی رجسٹریشن کی تجدید کے لیے وزارت داخلہ سے پیشگی اجازت کی شرط عائد کر دی ہے، اور متعلقہ حکام کو ہدایت کر دی ہے کہ اس اجازت کے بغیر کسی نئے مدرسہ کو رجسٹرڈ نہ کیا جائے اور نہ ہی پہلے سے قائم کسی مدرسہ کی رجسٹریشن کی تجدید کی جائے۔ اس کے ساتھ ہی بہاولپور پولیس کے حوالہ سے یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ حکام بالا کی ہدایت پر پولیس دینی مدارس کا سروے کر رہی ہے تاکہ اس الزام کی حقیقت معلوم کی جا سکے کہ بعض مدارس میں بچوں سے جبری بیگار لی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں گزشتہ دنوں گوجرانوالہ میں وزیراعظم پاکستان کے ایک مشیر نے کسی مدرسہ کے بارے میں اخبارات میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کا ذکر کیا ہے کہ وہاں طلبہ کو زنجیروں سے باندھ کر قرآن کریم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کے بقول وزیراعظم نے اس سلسلہ میں انکوائری کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ اس کے علاوہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بارے میں بھی یہ خبر سامنے آچکی ہے کہ اس نے پاکستان کے دینی مدارس میں طلبہ پر مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالہ سے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔

دینی مدارس کے بارے میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس تحقیقات مہم کا پس منظر کیا ہے اور یہ سب کچھ کن مقاصد کے لیے کیا جا رہا ہے؟ اس سوال کا جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ دینی مدارس کے موجودہ نظام پر ایک نظر ڈال لی جائے تاکہ اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے دینی مدارس کے خلاف اس مہم کے مقاصد کو صحیح طور پر سامنے لایا جا سکے۔

دینی مدارس کا پس منظر

پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے طول و عرض میں لاکھوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے دینی مدارس و مکاتب کا موجودہ نظام ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا نتیجہ ہے۔ اس سے قبل پورے برصغیر میں درس نظامی کا یہی نصاب تعلیمی اداروں میں رائج تھا جو مغل بادشاہت کے دور میں اس وقت کی ضروریات اور تقاضوں کو سامنے رکھ کر مرتب کیا گیا تھا اور جو اب بھی ہمارے دینی مدارس میں بدستور رائج چلا آرہا ہے۔ فارسی اس دور میں سرکاری زبان تھی اور عدالتوں میں فقہ حنفی رائج تھی۔ اس لیے درس نظامی کا یہ نصاب اس دور کی دفتری اور عدالتی ضروریات کو پورا کرتا تھا اور دینی تقاضوں کی تکمیل بھی اس سے ہو جاتی تھی۔ اس لیے اکثر و بیشتر مدارس کا نصاب یہی تھا اور تقریباً تمام مدارس سرکار کے تعاون سے بلکہ سرکار کی بخشی ہوئی زمینوں اور جاگیروں کے باعث تعلیمی خدمات سرانجام دیتے چلے آرہے تھے۔

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد جب دہلی کا اقتدار ایسٹ انڈیا کمپنی سے براہ راست تاجِ برطانیہ کو منتقل ہوا اور انگریزی حکومت قائم ہوگئی تو سرکاری زبان فارسی کی بجائے انگریزی کر دی گئی اور عدالتی نظام سے فقہ حنفی کو خارج کر کے برطانوی قوانین نافذ کر دیے گئے جس سے ہماری تعلیمی ضروریات دو حصوں میں منقسم ہوگئیں۔ دفتری اور عدالتی نظام میں شرکت کے لیے انگریزی تعلیم ناگزیر ہوگئی،اور دینی و قومی ضروریات کے لیے درس نظامی کے سابقہ نظام کو برقرار رکھنا ضروری سمجھا گیا جبکہ مدارس و مکاتب کا سابقہ نظام ختم کر دیا گیا۔علماء کی ایک بڑی تعداد جنگ آزادی میں کام آگئی، باقی ماندہ میں سے ایک کھیپ کالاپانی اور دیگر جیلوں کی نذر ہوگئی اور پیچھے رہ جانے والے لوگ شکست کے اثرات کو سمیٹتے ہوئے مستقبل کے بارے میں سوچنے میں مصروف ہوگئے۔ مدارس و مکاتب کے لیے مغل حکمرانوں کی عطا کردہ جاگیریں ضبط کر لی گئیں اور اس طرح ۱۸۵۷ء سے پہلے کا تعلیمی نظام مکمل طور پر تتربتر ہوکر رہ گیا۔

نئے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیمی ضروریات کے دو حصوں میں تقسیم ہوجانے کے بعد اہل دانش نے مستقبل کی طرف توجہ دی۔ سرسید احمد خان مرحوم نے ایک محاذ سنبھال لیا اور دفتری و عدالتی نظام میں مسلمانوں کو شریک رکھنے کے لیے انگریزی تعلیم کی ترویج کو اپنا مشن بنا لیا، جبکہ دینی و قومی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے دینی تعلیم کا محاذ فطری طور پر علماء کرام کے حصہ میں آیا اور اس سلسلہ میں سبقت اور پیش قدمی کا اعزاز مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور ان کے رفقاء کو حاصل ہوا۔ سرسید احمد خان مرحوم اور ان کے رفقاء نے علی گڑھ میں انگریزی تعلیم کے کالج کا آغاز کیا اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور ان کے رفقاء نے دیوبند میں مدرسہ عربیہ کی بنیاد رکھی۔ اتفاق کی بات ہے کہ سرسید احمد خان مرحوم اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ دونوں ایک ہی استاد مولانا مملوک علی نانوتویؒ کے شاگرد تھے اور دونوں نے مختلف سمتوں پر تعلیمی سفر کا آغاز کیا جو آگے چل کر دو مستقل تعلیمی نظاموں کی شکل اختیار کر گئے۔ ابتداء میں سرسید احمد خان مرحوم کے انگریزی کالج اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے مدرسہ عربیہ دونوں کی بنیاد عوامی چندہ اور امداد باہمی کے طریق کار پر تھی، لیکن بعد میں کالج اور اسکول کے نظام کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوگئی اور رفتہ رفتہ پورا نظام سرکار کی تحویل میں آکر مصارف و اخراجات کے جھنجھٹ سے آزاد ہوگیا، جبکہ دینی مدارس سرکاری سرپرستی سے آزاد رہے جس کی وجہ سے انہیں اپنے اخراجات و ضروریات کے لیے ہر دور میں عوامی چندہ پر انحصار کرنا پڑا، اور آج بھی یہ صورتحال بدستور قائم ہے۔

دینی مدارس کے اس آزادانہ اور متوازی نظام کے بنیادی مقاصد درج ذیل تھے:

ان مقاصد کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ یہ مدارس سرکار کے اثر سے آزاد رہیں اور ایسا تعلیمی نصاب و نظام اختیار کریں کہ ان کے تیار کردہ افراد صرف ان کے مقاصد کے خانہ میں فٹ ہو سکیں۔ اس بات کو زیادہ بہتر طور پر واضح کرنے کے لیے ایک واقعہ بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو میں نے مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے خطیب حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کی زبانی سنا۔ ان کی روایت کے مطابق یہ اس دور کا واقعہ ہے جب دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے فرزند مولانا حافظ محمد احمدؒ تھے۔ اس دور میں دارالعلوم کے فارغ التحصیل کچھ نوجوان حیدرآباد دکن کی ریاست میں ملازمتوں پر فائز ہوئے اور کارکردگی اور صلاحیت کے لحاظ سے دوسرے ملازمین سے بہتر ثابت ہوئے۔ مولانا حافظ محمد احمدؒ کے دورہ حیدر آباد کے موقع پر نظام حیدر آباد نے ایک ملاقات میں ان سے اس بات کا ذکر کیا اور خواہش ظاہر کی کہ اگر دارالعلوم دیوبند کے فضلاء ہر سال سارے کے سارے حیدرآباد بھجوا دیے جائیں تو نظام حیدر آباد انہیں ملازمتیں دیں گے اور دارالعلوم کے سالانہ اخراجات کا بار، نظام خود اٹھائیں گے۔ مولانا حافظ محمد احمدؒ نے دیوبند واپسی پر یہ پیشکش دارالعلوم کے صدر مدرس شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے سامنے بیان کی اور ان سے مشورہ طلب کیا۔ مولانا محمود حسنؒ نے خود کوئی مشورہ دینے کی بجائے حافظ محمد احمدؒ کو دارالعلوم دیوبند کے سرپرست حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی خدمت میں بھیج دیا جو اس وقت بقید حیات تھے۔ انہوں نے مولانا حافظ محمد احمدؒ سے نظام حیدر آباد کی پیشکش کے بارے میں سن کر جو جواب دیا وہ حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحب کے الفاظ میں یوں تھا:

’’بھاڑ میں جائے حیدرآباد کی ریاست! ہم اس ریاست کو چلانے کے لیے طلبہ کو نہیں پڑھا رہے۔ ہم تو اس لیے پڑھاتے ہیں کہ مسجدیں اور قرآن کے مکاتب آباد رہیں اور مسلمانوں کو نمازیں اور قرآن کریم پڑھانے والے ائمہ اور استاذ ملتے رہیں۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ دینی مدارس میں انگریزی تعلیم کا داخلہ بند رہا اور علماء اور دینی طلبہ کو انگریزی تعلیم حاصل کرنے سے سختی سے منع کیا جاتا رہا۔ کیونکہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والے افراد لازماً سرکاری ملازمت کو ترجیح دیتے اور دینی مدارس سے فارغ ہونے والوں کی ایک بڑی کھیپ بھی اسی طرف منتقل ہو جاتی جس سے دینی مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد فوت ہو جاتا۔ جبکہ دینی مدارس کے نظام کا آغاز کرنے والوں کے ذہن میں سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ ایسی کھیپ تیار ہو جو قرآن کریم کے مکاتب کو آباد رکھے۔ اس لیے حکمت عملی کے تحت عملاً ایسا طریقہ اختیار کیا گیا کہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل حضرات مسجد و مدرسہ کے سوا کسی دوسری جگہ نہ کھپ سکیں۔ چنانچہ اس مقصد کے حوالہ سے یہ حکمت عملی کامیاب رہی اور اس کے نتیجہ میں برصغیر کے طول و عرض میں دینی مدارس و مکاتب کا جال بچھ گیا اور مساجد میں ائمہ و خطباء کی کھیپ بھی فراہم ہوتی رہی۔

دینی مدارس کے منتظمین نے ان مقاصد کے حصول کے لیے کیا کیا جتن کیے، یہ ایک الگ داستان ہے جس کی تفصیلات کی اس مضمون میں گنجائش نہیں ہے۔ تاہم اس قدر عرض کرنا ضروری ہے کہ انہوں نے سہولتوں کی زندگی ترک کر کے فقر و فاقہ اور تنگی و ترشی کی زندگی اختیار کی، لوگوں سے صدقات و خیرات مانگ کر مدارس کو آباد رکھا، بلکہ کچھ عرصہ پہلے تک تو محلہ کے ایک ایک گھر سے روٹیاں مانگنے کا سلسلہ بھی قائم رہا۔ اس لیے یہ بات بلا جھجھک کہی جا سکتی ہے کہ علماء کے اس طبقہ نے اپنی ’’عزت نفس‘‘ تک کی قربانی دے کر معاشرہ میں قرآن و حدیث کی تعلیم اور اسلامی عقائد و معاشرت کو برقرار رکھا۔ ورنہ عالم اسباب میں اگر یہ مدارس نہ ہوتے تو اسپین کی طرح برصغیر پاک و ہند میں بھی (نعوذ باللہ) اسلام ایک قصہ پارینہ بن چکا ہوتا۔ صدقہ و خیرات، گھر گھر سے مانگی ہوئی روٹیوں اور عام لوگوں کے چندوں کی بنیاد پر قائم ہونے والا دینی مدارس کا یہ نظام برطانوی استعمار کی نظریاتی، فکری اور تہذیبی یلغار کے مقابلہ میں مسلمانوں کے لیے ایک مضبوط حصار ثابت ہوا۔ اس نظام نے نہ صرف برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کے مسلمانوں کے عقائد وافکار، معاشرت اور اسلامی علوم و فنون کی حفاظت کی بلکہ تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کو نظریاتی راہ نماؤں اور کارکنوں کی کھیپ بھی فراہم کی جس میں مولانا محمود حسنؒ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ، مولانا حسین احمدؒ مدنی، مولانا شبیر احمدؒ عثمانی، مولانا عبد الحامدؒ بدایونی، مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ، سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور ان کے ہزاروں رفقاء بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد دینی مدارس کا کردار

دور غلامی میں دینی مدارس کی حکمت عملی دفاعی تھی جس کے لیے انہیں بہت سے تحفظات اختیار کرنے پڑے، اور اگر وہ ان تحفظات کے بارے میں سختی نہ کرتے تو اپنے بنیادی مقاصد کی طرف اس قدر کامیابی کے ساتھ پیش رفت نہ کر پاتے۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد صورتحال خاصی تبدیل ہوگئی اور آزادی کے حوالہ سے نئے تقاضے اور ضروریات سامنے آگئیں جن کے بارے میں دینی مدارس کی تمام تر مجبوریوں اور مشکلات کے باوجود بہرحال یہ کہنا پڑتا ہے کہ نئی ضروریات اور تقاضوں کو اپنے مقاصد میں شامل کرنے کے لیے وہ ابھی تک تیار نہیں ہوئے جس کے نقصانات قومی سطح پر بہت دیر تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ قیام پاکستان کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ مساجد و مدارس کے لیے رجال کار کی فراہمی اور اسلامی علوم کی ترویج و تحفظ کی ذمہ داری ریاستی نظام تعلیم کے سپرد کر دی جاتی اور دینی مدارس کے الگ نظام کی ضرورت ہی باقی نہ رہتی۔ لیکن ریاستی نظام تعلیم نے اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، بلکہ ریاستی نظام تعلیم نے تو قیام پاکستان کے بعد آزادی اور ایک اسلامی ریاست کے مقاصد کے حوالہ سے اس قدر مایوس کیا کہ آزاد قوموں کی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

قیام پاکستان کے بعد ریاستی نظام تعلیم کی ذمہ داری تھی کہ وہ:

لیکن ریاستی نظام تعلیم نے نہ صرف یہ کہ ان ذمہ داریوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا بلکہ عملاً یہ نظام سیکولر اور اسلام مخالف عناصر کی کمین گاہ ثابت ہوا۔ اور پاکستان میں اسلامی احکام و تعلیمات کی ترویج کو روکنے اور اس کی اسلامی حیثیت کو غیر مؤثر بنانے میں اس نظام تعلیم نے مضبوط مورچے کا کام دیا۔ جبکہ اس کے برعکس دینی مدارس نے جو ذمہ داریاں ۱۸۵۷ء کے بعد قبول کی تھیں ان پر وہ اب بھی پوری دل جمعی کے ساتھ گامزن ہیں اور ان کے طریق کار اور دائرہ عمل میں کوئی فرق نمودار نہیں ہوا۔ بلکہ اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے کہ اسلامی علوم کی حفاظت و ترویج اور مساجد و مدارس کے لیے ائمہ و اساتذہ کی فراہمی کے لیے دینی مدارس کے کردار کا تسلسل کسی خلا اور تعطل کے بغیر بدستور قائم ہے تو ریاستی نظام تعلیم کے ساتھ تقابل کے تناظر میں دینی مدارس کا یہ کردار بڑے سے بڑے قومی اعزاز کا مستحق ہے۔ کیونکہ آج بھی ان دو مقاصد کے حوالے سے معاشرہ کی ضروریات یہی دینی مدارس پوری کر رہے ہیں اور اگر دینی مدارس اپنا یہ کردار چھوڑ دیں تو مساجد و مدارس کے لیے ائمہ و اساتذہ کی فراہمی اور اسلامی علوم کی ترویج و حفاظت کے شعبہ میں جو خلا واقع ہوگا وہ کسی باشعور شہری کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔

دینی مدارس سے شکایات

دینی مدارس کے موجودہ کردار اور خدمات کے بارے میں عام طور پر شکایات کا اظہار کیا جاتا ہے اور شکوہ کرنے والوں میں ہم بھی شامل ہیں۔ لیکن ان شکایات اور دینی مدارس کی مشکلات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ صحیح صورتحال سامنے آسکے۔

دینی مدارس کا نصاب تعلیم

دینی مدارس سے سب سے بڑی شکایت یہ کی جاتی ہے کہ ان کے نصاب میں آج کے علوم شامل نہیں ہیں اور وہ اپنے طلبہ کو انگریزی، ریاضی، سائنس، انجینئرنگ اور دیگر عصری علوم کی تعلیم نہیں دیتے۔ یہ شکایت ایسی ہے جسے نہ تو پوری طرح قبول کیا جا سکتا ہے اور نہ مسترد کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ جہاں تک عصری علوم کی مکمل تعلیم کا سوال ہے وہ نہ تو دینی تعلیم کے نصاب کے ساتھ پوری طرح شامل کی جا سکتی ہے اور نہ ایسا کرنا ضروری ہی ہے۔ شامل اس لیے نہیں کی جا سکتی کہ مستند اور پختہ عالم دین کا مقام حاصل کرنے کے لیے فارسی و عربی، صرف و نحو، قرآن و حدیث، فقہ و اصول فقہ، معانی و ادب اور منطق و فلسفہ جیسے ضروری علوم کا ایک مکمل نصاب ہے جسے پوری طرح پڑھے بغیر کوئی شخص ’’عالم دین‘‘ کے منصب پر فائز نہیں ہو سکتا۔ اور یہ نصاب اس قدر بھاری بھر کم ہے کہ اس کے ساتھ کسی دوسرے علم یا فن کے مکمل نصاب کو شامل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اور اگر اس نصاب میں کمی کی جائے تو دینی علوم میں مہارت کا پہلو تشنہ رہ جاتا ہے۔ اور ضروری اس لیے نہیں ہے کہ یہ تخصصات اور اسپسلائزیشن کا دور ہے، اب ہر شعبہ کے لیے الگ ماہرین تیار ہوتے ہیں اور کسی ایک شعبہ کے ماہر کے لیے ضروری نہیں کہ وہ دوسرے شعبہ کی مہارت بھی رکھتا ہو۔ مثلاً کسی انجینئر کے لیے قطعی طور پر یہ ضروری نہیں کہ وہ میڈیکل سائنس کے علم سے بہرہ ور ہو، اور کسی ڈاکٹر کے لیے ضروری نہیں کہ اس نے انجینئرنگ کا علم بھی حاصل کر رکھا ہو۔ اسی طرح کسی عالم دین کے لیے بھی یہ ضروری نہیں کہ وہ میڈیکل سائنس ، انجینئرنگ یا کسی شعبہ کی مہارت بھی رکھتا ہو۔

تاہم ایک فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ جہاں تک کسی شعبہ میں پوری مہارت اور مکمل تعلیم کا تعلق ہے وہ تو کسی دوسرے شعبہ کے فرد کے لیے ضروری نہیں ہے، لیکن بنیادی اور جنرل معلومات ہر شعبہ کے بارے میں حاصل ہونی چاہئیں اور اس کی اہمیت و ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے جس طرح ہم یہ کہتے ہیں کہ کسی ڈاکٹر یا انجینئر کے لیے دین کا مکمل عالم ہونا ضروری نہیں مگر دین کی بنیادی معلومات و مسائل سے آگاہی ان کے لیے لازمی ہے تاکہ وہ اپنے شعبہ میں دینی احکام کے دائرہ کو ملحوظ رکھ سکیں، اسی طرح ایک عالم دین کے لیے ڈاکٹر یا انجینئر ہونا ضروری نہیں البتہ ان شعبوں کے بارے میں بنیادی معلومات علماء کو ضروری طور پر حاصل ہونی چاہئیں تاکہ وہ ان شعبوں کے افراد کی دینی راہنمائی صحیح طور پر کر سکیں۔

اسی طرح انگریزی آج کی بین الاقوامی زبان ہے، اسلام اور عالم اسلام کے خلاف صف آرا عالمی میڈیا کی زبان ہے اور پاکستان کی دفتری و عدالتی زبان ہے۔ اس لیے عربی کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان سے کماحقہ بہرہ ور ہونا علماء کے لیے آج کے دور میں ضروری ہے۔ اس بنا پر ہم دینی مدارس کے نصاب تعلیم میں کسی بنیادی تبدیلی یا تخفیف کی حمایت تو نہیں کریں گے البتہ اس میں انگریزی زبان اور میڈیکل سائنس، جنرل سائنس، انجینئرنگ اور دیگر عصری علوم کے بارے میں بنیادی معلومات کی حد تک نصاب کے اضافے کو ضروری سمجھتے ہیں اور دینی مدارس کو اس طرف ضرور توجہ دینی چاہیے۔

اس سلسلہ میں دینی مدارس کی مشکلات کو سامنے رکھنا بھی ضروری ہے۔ مثلاً ان کی ایک بنیادی مشکل یہ ہے کہ جو طلبہ انگریزی یا دیگر عصری علوم سے آراستہ ہو جاتے ہیں اور سرکاری اسناد حاصل کر لیتے ہیں ان کی اکثریت مساجد یا دینی مدارس کی بجائے ملازمت کے لیے سرکاری اداروں کا رخ کرتی ہے جس کی وجہ سے مساجد و مدارس کو ضرورت اور معیار کے مطابق ائمہ، خطباء اور مدرس میسر نہیں آتے۔ ظاہر بات ہے کہ مساجد و مدارس میں مشاہروں اور دیگر سہولتوں کا مروجہ معیار کسی طرح بھی اس درجہ کا نہیں ہے کہ کوئی خطیب، امام یا مدرس اطمینان کے ساتھ ایک عام آدمی جیسی زندگی بسر کر سکے۔ پھر یہاں ملازمت کا تحفظ بھی نہیں ہے اس لیے جسے سرکاری ملازمت میں جانے کا راستہ مل جاتا ہے وہ لازماً ادھر کا رخ کرے گا اور مساجد و مدارس کے لیے رجال کار کے فقدان اور خلاء کا مسئلہ پریشان کن صورت اختیار کر جائے گا۔

اس موقع پر حضرت مولانا مفتی محمود صاحب قدس اللہ سرہ العزیز کے ساتھ ایک گفتگو کا حوالہ دینا شاید نامناسب نہ ہو۔ یہ اس دور کی بات ہے جب جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے وفاقی شرعی عدالت کے قیام کے بعد ضلع اور تحصیل کی سطح پر شرعی قاضی مقرر کرنے کا پروگرام بنایا تھا اور قاضی کورس کے لیے آرڈیننس کے نفاذ کی تیاری ہو رہی تھی۔ حضرت مولانا مفتی محمودؒ راولپنڈی کینٹ کے ملٹری ہسپتال میں زیر علاج تھے، میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس سلسلہ میں اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ مجھے پریشانی یہ تھی کہ پاکستان بھر میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر مقرر کرنے کے لیے اس قدر تربیت یافتہ قاضی کہاں سے آئیں گے؟ اگرچہ اس زمانے میں بعض دینی اداروں نے قاضیوں کی تربیت کے لیے چار ماہ، چھ ماہ اور ایک سال کے کورس شروع کر رکھے تھے لیکن میں ان سے مطمئن نہیں تھا کہ قاضی بہرحال قاضی ہوتا ہے اور سال چھ ماہ کا کورس کسی شخص کو قاضی نہیں بنا سکتا۔ اور اگر ہم نے پاکستان میں قاضی کورس کا آغاز اس طرح کے نیم قاضیوں سے کیا تو اسلام کے عدالتی نظام کا پہلا تاثر ہی اپنے نتائج کے لحاظ سے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

چنانچہ میں نے مولانا مفتی محمودؒ سے سوال کیا کہ حضرت! یہ قاضی کہاں سے آئیں گے؟ مفتی صاحب نے جواب دیا کہ جن مدرسین نے دینی مدارس میں ہدایہ کی سطح تک کتابیں چار پانچ سال پڑھائی ہیں وہ نظام قضا کے مختصر کورس کے بعد قضا کا منصب سنبھال سکتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ میں اسے تسلیم کرتا ہوں لیکن پہلے یہ دیکھ لیجئے کہ ضلع اور تحصیل کی سطح پر قاضی مقرر کرنے کے لیے پاکستان کے اضلاع اور تحصیلوں کی تعداد کے مطابق اس سطح کے مدرسین مل جائیں گے یا نہیں؟ اور اگر ہمارے پاس اتنی تعداد میں اس معیار کے مدرسین مل بھی جائیں تو انہیں عدالتوں میں بھیج کر دینی مدارس میں ہدایہ کی سطح کی کتابیں کون پڑھائے گا؟ اس سوال کا جواب حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے اپنے مخصوص انداز میں ٹال دیا لیکن میں نے ان کے چہرے کی سلوٹوں سے اندازہ لگا لیا کہ اس سوال نے خود انہیں بھی پریشان کر دیا ہے۔

دینی مدارس کو ابھی تک اپنے وجود کے تحفظ اور اپنے کردار کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے تحفظات کی فضا کا سامنا ہے اور وہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اپنی تیار کردہ کھیپ کو دوسرے شعبوں کے حوالے کر کے اپنے کام کو جاری رکھ سکیں۔ اس لیے اگر دینی مدارس اپنے تیار کردہ افراد کو مسجد و مدرسہ تک محدود رکھنے کے لیے کچھ تحفظات اختیار کیے ہوئے ہیں تو ان کی اس مشکل کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

پھر ایک اور پہلو سے بھی اس مسئلہ کا جائزہ لینا مناسب ہوگا۔ وہ یہ کہ اس وقت پاکستان بھر کی مساجد میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے والے افراد میں مستند و غیر مستند کا تناسب کیا ہے؟ اگر اس کا غیر جانبدارانہ سروے کیا جائے تو غیر مستند ائمہ و خطباء کا تناسب مستند حضرات سے کہیں زیادہ ہوگا۔ اور ہمارے ہاں مذہبی معاملات میں خرابیوں کی ایک بڑی وجہ یہی ہے جس کی طرف اکثر حضرات کی توجہ نہیں ہے۔ اور جو اہل دانش اس کا ادراک رکھتے ہیں وہ کسی فتوے کی زد میں آجانے کے خوف سے اس کا اظہار نہیں کرتے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے جسے تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے اور اسلامی نظریاتی ریاست ہونے کے ناتے سے اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح دوسرے شعبوں میں اَن کوالیفائیڈ افراد کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے کوالیفائیڈ افراد کی فراہمی پر زور دیا جاتا ہے ، امامت و خطابت اور دینی تعلیم کے شعبہ میں بھی اَن کوالیفائیڈ افراد کا تناسب کم سے کم کرنے اور بالآخر اسے ختم کرنے کی پالیسی اختیار کی جائے۔ اور جس طرح ملک میں عمومی خواندگی کا تناسب بہتر بنانے کے لیے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور ایک معقول بجٹ اس کام کے لیے مخصوص کیا جاتا ہے، دینی شعبہ میں کوالیفائیڈ افراد کا تناسب بڑھانے کے لیے دینی مدارس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور قومی تعلیمی بجٹ میں ان کے لیے معقول حصہ مختص کیا جائے۔

ریاستی اداروں کے لیے رجال کار کی فراہمی

دینی مدارس سے دوسر ی شکایت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے مختلف شعبوں بالخصوص عدلیہ میں مطلوبہ معیار کے رجال کار کی فراہمی کو دینی مدارس کے نظام نے اپنے مقاصد میں شامل نہیں کیا۔ یہ کام اگرچہ اصلاً ریاستی نظام تعلیم کا تھا لیکن ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ ریاستی نظام تعلیم نے اس سمت سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی اور اس کے بعد اس خلا کو پر کرنے کے لیے لوگوں کی نظریں بہرحال دینی مدارس کی طرف اٹھتی ہیں۔ اگر دینی مدارس اپنے نصاب تعلیم کا ازسرنو جائزہ لے کر اسلام کو بطور نظام زندگی دوسرے مروجہ نظاموں کے ساتھ تقابل کے ساتھ پڑھانے کا اہتمام کرتے اور اجتماعی زندگی سے تعلق رکھنے والے حدیث و فقہ کے ابواب کو ضروری اہمیت کے ساتھ پڑھایا جاتا تو دینی مدارس سے فارغ ہونے والے علماء کرام اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کے تربیت یافتہ اور شعوری کارکن ثابت ہوتے۔ اور اس کے ساتھ اگر تجارت، عدالت، انتظامیہ اور دیگر شعبوں کے افراد کے لیے ہلکے پھلکے کورسز تیار کر کے انہیں دینی مدارس کے تعلیمی دائرہ میں شریک کر لیا جاتا تو اسلامی نظام کے لیے رجال کار کی فراہمی کی ایک اچھی بنیاد مل سکتی تھی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اورا اس کے نتائج آج معاشرہ میں فکری انتشار اور اخلاقی انارکی کی صورت میں سب کے سامنے ہیں۔

مغربی لابیوں اور ورلڈ میڈیا کا چیلنج

دینی مدارس سے تیسری شکایت اسلام کے بارے میں مغربی لابیوں اور ورلڈ میڈیا کے منفی پراپیگنڈا کی صورت میں سامنے آنے والے چیلنج کو نظر انداز کرنے کی ہے۔ آج اقوام متحدہ کے چارٹر، جنیوا انسانی حقوق کمیشن کی قراردادوں اور بنیادی حقوق کے مغربی تصورات کے حوالہ سے اسلامی احکام اور قوانین کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ جرائم کی شرعی سزاؤں کو انسانی حقوق کے منافی قرر دیا جا رہا ہے، ارتداد اور توہین رسالتؐ پر قدغن کے بارے میں اسلامی قوانین کو آزادی رائے کے بنیادی حق سے متصادم کہا جا رہا ہے، اور دنیا میں کسی بھی جگہ اسلامی معاشرہ کے قیام کو قرون وسطیٰ کے ظالمانہ دور کی طرف واپسی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

اس چیلنج کا سامنا کرنے اور آج کی زبان میں اسلام کو انسانی حقوق کے علمبردار اور محافظ نظام کے طور پر پیش کرنے کے لیے لوگوں کی نظریں دینی مدارس اور اداروں کی طرف اٹھتی ہیں۔ اور عام مسلمان یہ توقع کرتا ہے کہ جس طرح دینی مدارس کے نظام نے برطانوی استعمار کے دور میں اعتقادی اور معاشرتی فتنوں کا دل جمعی سے مقابلہ کیا تھا، آج بھی وہ مغربی فلسفہ کی نئی اور تازہ دم یلغار کے سامنے خم ٹھونک کر میدان میں آئے گا۔ مگر چند استثناؤں کو چھوڑ کر دینی مدارس میں اس چیلنج کے ادراک کی فضا ہی سرے سے موجود نہیں جو بلاشبہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔

نیا دور اور ہمارا روایتی اسلوب

دینی مدرس سے چوتھی شکایت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اساتذہ اور طلبہ کو گفتگو اور مباحثہ کے نئے اسلوب اور ہتھیاروں سے روشناس نہیں کرایا۔ فتویٰ اور مناظرہ کی زبان قصہ پارینہ بن چکی ہے مگر دینی مدارس بلکہ ہمارے منبر و محراب پر بھی ابھی تک اسی زبان کا سکہ چلتا ہے۔ اخبارات پڑھنے والوں اور ٹی وی دیکھنے والوں کے لیے ہماری زبان اور اسلوب بیان دونوں اجنبی ہو چکے ہیں مگر ہم کوئی پروا کیے بغیر اسی ڈگر پر قائم ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اکثر و بیشتر دینی مجالس میں تعلیم یافتہ لوگوں کا تناسب دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے۔

آج کی زبان منطق و استدلال کی زبان ہے، مشاہدات کی زبان ہے، کسی بھی مسئلہ کو اس کے پس منظر اور تنائج کے ساتھ پیش کرنے کی زبان ہے، اور انسانی حقوق کے حوالے سے گفتگو کی زبان ہے۔ مگر دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کی اکثریت اس زبان سے ناآشنا ہے اور ستم بالائے ستم کہ اچھا بولنے اور اچھا لکھنے والوں کا تناسب جو دینی حلقوں میں پہلے ہی بہت کم تھا، مزید کم ہوتا جا رہا ہے۔ انگلش اور عربی تو رہی ایک طرف، اردو زبان میں اپنے مافی الضمیر کو اچھی تحریر کی صورت میں پیش کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ایک پختہ کار عالم دین نے شکایت کی کہ فلاں قومی اخبار کو میں نے درجنوں مضامین بھجوائے ہیں ان میں سے ایک بھی شائع نہیں ہوا۔ میں نے اس اخبار کے ایڈیٹر سے بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ جو مضمون ہمیں پورے کا پورا ازسرنو لکھنا پڑے، اسے شائع کرنے کا تکلف ہم کس طرح کر سکتے ہیں؟

دینی و اخلاقی تربیت

دینی مدارس سے پانچویں شکایت یہ ہے کہ دینی اور اخلاقی تربیت کا جو ماحول کچھ عرصہ پہلے تک ان مدارس میں قائم رہا ہے، وہ ختم ہوتا جا رہا ہے اور گنتی کے چند اداروں کے سوا دینی مدارس کی اکثریت ایسی ہے جن میں طلبہ کی فکری، دینی اور اخلاقی تربیت کا نظام موجود نہیں ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مدارس سے فارغ ہونے والے فضلاء کی اکثریت کے ذہنوں میں مشنری جذبہ کے طور پر کوئی واضح اور متعین مقصد زندگی نہیں ہوتا، اور اگر کسی کے ذہن میں کوئی مقصد ہو بھی تو اس کے مطابق اس کی تربیت نہیں ہوتی اور اس کے نقصانات بھی قدم قدم پر سامنے آرہے ہیں۔

معیاری اور غیر معیاری ادارے

دینی مدارس سے چھٹی شکایت یہ ہے کہ ان کا باہمی ربط و مشاورت کا نظام انتہائی کمزور ہے۔ پہلے تو بالکل نہیں تھا مگر کچھ عرصہ سے تمام مذہبی مکاتب فکر کے مدارس نے اپنے اپنے وفاق قائم کر لیے ہیں جو اگرچہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہیں لیکن اپنے اپنے مکتب فکر کی حد تک انہوں نے باہمی ربط کا ایک نظام قائم کر لیا ہے جس سے امتحانات کی صورتحال بہتر ہوئی ہے اور کچھ دیگر فوائد بھی سامنے آئے ہیں۔ لیکن معاشرہ میں دینی مدارس کی کارکردگی اور اثرات کا دائرہ جس قدر وسیع ہے اس کے مطابق موجودہ ربط و نظم قطعی طور پر ناکافی ہے جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ مدارس کے قیام میں کوئی منصوبہ بندی اور ترجیحات نہیں ہیں۔ جہاں جس کا جی چاہتا ہے ضروریات اور تقاضوں کو ملحوظ رکھے بغیر کسی بھی معیار اور سائز کا دینی ادارہ قائم کر لیتا ہے۔ اور چونکہ اوپر چیکنگ کا کوئی نظم موجود نہیں ہے اس لیے کارکردگی اور اخراجات کا دائرہ شخص واحد یا زیادہ سے زیادہ اس کے منظور نظر چند افراد تک محدود رہتا ہے۔ ان خودرو دینی مدارس میں ایک بڑی تعداد ایسے اداروں کی ہے جو تعلیمی اداروں کی بجائے ’’مذہبی دکانیں‘‘ کہلانے کے زیادہ حقدار ہیں اور ان میں مالی بدعنوانیوں کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔

ضیاء الحق مرحوم کے دور میں سرکاری زکوٰۃ کا ایک حصہ دینی مدارس کے لیے مخصوص کیا گیا تو اس کے حصول کے لیے دنوں میں کئی مدرسے وجود میں آگئے۔ اور پھر سرکاری زکوٰۃ کی رقم حاصل کرنے کے لیے رشوت، سفارشات اور بدعنوانیوں کے جو دروازے کھلے انہوں نے دینی اداروں کو بھی دیگر سرکاری محکموں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ اس حوالہ سے دینی مدارس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

  1. ایک حصہ وہ معیاری دینی ادارے ہیں جنہوں نے سرکاری زکوٰۃ کی وصولی سے گریز کیا اور اپنی چادر کے دائرے میں پاؤں پھیلانے کے باوقار طریق کار پر گامزن رہے۔
  2. دوسرے نمبر پر وہ دینی ادارے ہیں جو اپنی کارکردگی اور معاملات میں دیانت اور اعتماد کے معیار پر پورا اترتے ہیں اور انہوں سرکاری زکوٰۃ وصول کر کے اسے صحیح مصرف پر صرف کیا۔
  3. اور تیسرے نمبر پر وہ مدارس ہیں جنہوں نے سرکاری زکوٰۃ وصول اور خرچ کرنے میں کسی دینی اور اخلاقی معیار کی پابندی کا تکلف گوارا نہیں کیا۔ بدقسمتی سے سرکاری ریکارڈ میں تیسری قسم کے مدارس کی فہرست زیادہ لمبی ہے اور دینی مدارس کے مجموعی نظام کے بارے میں سرکاری محکموں کی رائے قائم ہونے میں یہی فہرست بنیاد بن رہی ہے۔

پھر چند بڑے اور معیاری دینی مدارس کو چھوڑ کر اکثر و بیشتر دینی مدارس نے عوامی چندہ کے حصول کے لیے جو طریقے کچھ عرصہ سے اختیار کر لیے ہیں انہوں نے چندہ دینے والے اصحاب خیر کو پریشان کر دیا ہے اور اس سے مدارس کی نیک نامی اور اعتماد مجروح ہو رہا ہے۔ کراچی، فیصل آباد اور گوجرانوالہ جیسے کاروباری شہروں میں رمضان المبارک کے دوران مساجد اور دکانوں پر دینی مدارس کے سفیروں کی جو یلغار ہوتی ہے اور لوگوں کی توجہ زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لیے گفتگو کا جو اسلوب اختیار کیا جاتا ہے اس سے دینی اداروں کے اعتماد اور وقار کا گراف تیزی کے ساتھ نیچے جا رہا ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ کی بات نہیں کہ کاروباری شہروں میں بہت سے دکاندار رمضان المبارک کے دوران سفیروں کی یلغار کے خوف سے خود اپنی دکانوں پر بیٹھنے سے کترانے لگے ہیں اور مساجد میں نمازوں کے بعد کھڑے ہو کر اپیل کرنے والے سفیروں کو اب نمازیوں نے ٹوکنا شروع کر دیا ہے۔

اس سلسلہ میں سب سے پریشان کن صورتحال پاکستان سے باہر لندن میں دیکھنے میں آتی ہے جہاں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے مدارس کے سفراء نماز کے بعد کھڑے ہو کر اپنے مدرسے کے لیے اپیل کرتے ہیں اور پھر دروازے پر رومال بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں جہاں نمازی گزرتے ہوئے پاؤنڈ اور سکے پھینکتے جاتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ میرے جیسے حساس دینی کارکن کی نظریں شرم سے زمین پر گڑ جاتی ہیں۔ ابھی چند ماہ قبل جنگ لندن میں ایک مسلم نوجوان کا مراسلہ شائع ہوا جس میں اس نے بتایا کہ برطانیہ میں پلنے بڑھنے والے مسلمان نوجوانوں کی اکثریت مساجد میں اس لیے نہیں آتی کہ ایک تو ائمہ اور خطباء کی زبان ان کی سمجھ میں نہیں آتی، دوسرے جن موضوعات پر وہ گفتگو کرتے ہیں ان سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے، تیسرے ہر نماز کے بعد کسی نہ کسی مدرسہ کا سفیر چندہ کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور ان کے پاس ہر آدمی کو دینے کے لیے اتنے پیسے نہیں ہوتے۔ یہ صورتحال برطانیہ کی مساجد کی ہے جو ہزاروں میل دور اور اکثر مدارس کے سفراء کی دسترس سے باہر ہے۔ جب وہاں کا یہ حال ہے تو اپنے ملک کی مساجد کا کیا حال ہو سکتا ہے؟ اور قیاس کرنے کی ضرورت کیا ہے، سارا منظر تو ہم رمضان المبارک میں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ یہ بات نہیں کہ لوگ دینی مدارس سے تعاون نہیں کرتے اس لیے مدارس کو مجبورًا ایسے طریقے اختیار کرنا پڑتے ہیں۔ بیسیوں ایسے اداروں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جن کا سالانہ بجٹ لاکھوں سے متجاوز ہے اور بعض کا کروڑوں کی حدود میں قدم رکھ رہا ہے، وہ مدارس نہ سرکاری امداد لیتے ہیں اور نہ ہی ان کے سفیر اس طرح چندہ کے لیے گھومتے پھرتے ہیں مگر ان کا بجٹ صاحب خیر مسلمانوں کے تعاون سے باوقار طریقہ سے فراہم ہو جاتا ہے۔

سیکولر عناصر کا پراپیگنڈا

یہ ہے دینی مدارس کا ماضی اور حال جسے اب پاکستان کی وزارت داخلہ اور اس سے بڑھ کر بین الاقوامی سطح پر ایمنسٹی انٹرنیشنل اپنی تحقیقات اور سروے کی بنیاد بنا کر دنیا کو ان کی منفی تصویر دکھانے کے درپے ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا تو یہ نظریاتی محاذ ہے، وہ ان مغربی حکومتوں اور لابیوں کی نمائندہ ہے جن کا موقف یہ ہے کہ اسلام آج کے دور میں بطور ’’نظام زندگی‘‘ قابل عمل نہیں ہے اور اسلامی احکام و قوانین انسانی حقوق کے منافی ہیں۔ اس لیے عالم اسلام میں دینی بیداری کی تحریکات کو ناکام بنانا ضروری ہے ورنہ قرون وسطیٰ کا وحشیانہ دور پھر واپس آسکتا ہے جس سے ویسٹرن سولائزیشن اور تہذیب و ترقی سب کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس لیے مغربی حکومتیں اور ان کے مفاد میں کام کرنے والی لابیاں عالم اسلام میں دینی بیداری کے سرچشموں کو بند کرنا چاہتی ہیں، ان کی نظر میں پاکستان دنیا کا سب سے بڑا بنیاد پرست ملک ہے اور پاکستان کی بنیاد پرستی کا سرچشمہ دینی مدارس ہیں، اس لیے دینی مدارس کو غیر مؤثر بنانا اور عوام کے ساتھ ان کے اعتماد کے رشتے کو ختم کرنا ضروری ہے۔ اسی بنیاد پر علماء کرام اور دینی مدارس کی کردار کشی اور انہیں منتشر رکھنے پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اس مہم کو لے کر آگے بڑھنا چاہتی ہے اور پاکستان کے غیر معیاری اور برائے نام دینی مدارس کو بنیاد بنا کر ایک رپورٹ دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کر رہی ہے جس میں دکھایا جائے گا کہ پاکستان کے دینی مدارس میں طلبہ کو آج کے تقاضوں سے بے خبر رکھا جاتا ہے، انہیں مارا جاتا ہے، زنجیروں سے باندھا جاتا ہے، ان سے جبری بیگار لی جاتی ہے، ان کی خوراک، رہائش اور صفائی کا معیار ناقص ہے، انہیں ان مدارس میں آزادی رائے اور دیگر بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں، انہیں جان بوجھ کر ناقص رکھا جا رہا ہے تاکہ وہ قومی زندگی کے کسی شعبے میں کھپ نہ سکیں، ان کے نام پر چندہ کر کے مدارس کے منتظمین کھا پی جاتے ہیں اور طلبہ کو انتہائی تنگی کی حالت میں رکھ کر خود عیش کی زندگی بسر کرتے ہیں اور ان مدرس میں طلبہ کو اسلحہ کی ٹریننگ دے کر دہشت گرد بنایا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ کا حصہ ہوگا جو اگلے سال جون تک منظر عام پر آرہی ہے اور اس کے لیے بطور خاص ایسے غیر معیاری مدارس کو سروے کی بنیاد بنایا جا رہا ہے جہاں یہ کچھ ہوتا ہے تاکہ رپورٹ پر ’’غیر حقیقت پسندانہ‘‘ اور ’’خلاف واقعہ‘‘ ہونے کا الزام عائد نہ کیا جا سکے۔ اس سروے مہم میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کوئی ٹیم معیاری دینی مدارس میں نہیں جائے گی اور نہ ہی رپورٹ میں ان کا تذکرہ ہوگا۔ پاکستان کی وزارت داخلہ اور دیگر محکمے اس مہم میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے معاون ہیں اور دینی مدارس کے خلاف اس مہم میں ان کے مقاصد بھی اس سے مختلف نہیں ہیں۔

آئندہ کے لیے لائحہ عمل

کسی بھی طبقہ کی کمزوریاں ہمیشہ اس کے خلاف دشمن کا ہتھیار بنتی ہیں اور دینی مدارس کے نظام سے نالاں قوتوں نے اس کے خلاف ان کمزوروں کو ہتھیار بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس لیے دینی مدارس اور دینی مدارس کے وفاقوں کو خوداحتسابی کا ایک مضبوط نظام قائم کرنا ہوگا اور اپنی کمزوریوں کو خود اپنے ہاتھوں دور کرنے کا اہتمام کرنا ہوگا۔ ورنہ یہ کمزوریاں ان کے خلاف صرف مغربی لابیوں کی پراپیگنڈا مہم کا ہتھیار نہیں ہوں گی بلکہ ان مدارس پر ریاستی کنٹرول کی مہم میں بھی معاون ثابت ہوں گی۔ اس لیے ہم دینی مدارس کے ارباب حل و عقد کی خدمت میں عرض کریں گے کہ

ہمیں امید ہے کہ دینی مدارس کے ارباب حل و عقد ان گزارشات پر ہمدردانہ غور فرما کر اصلاح احوال کی ضروری تدابیر اختیار کریں گے تاکہ دینی مدارس کا یہ نظام ماضی کی طرح مستقبل میں بھی اسلامی علوم کی حفاظت اور اسلامی معاشرہ کی تشکیل میں مفید اور مؤثر کردار ادا کر سکے۔

دینی مدارس کے نظام کی بہتری کے لیے تجاویز

ادارہ

وطنِ عزیز میں مدارسِ دینیہ فی الحقیقت اسلام کا قلعہ اور مصالحِ امتِ مسلمہ کے تحفظ کی آخری امید ہیں، اور ضروری وسائل کی شدید کمی اور حکومت کی بے توجہی کے باعث یہ مدارس انتہائی کسمپرسی کے عالم میں ہیں۔ ان مدارس کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے اور مدارس کے مجموعی نظام کو ترقی دینے کی غرض سے متحدہ علماء کونسل پاکستان اور ’’ہیئۃ الاغاثہ الاسلامیہ العالمیہ‘‘ کے تعاون سے ایک ادارہ یعنی ’’ہیئۃ تنسیق المدارس الدینیہ باکستان‘‘ تشکیل دیا گیا ہے جس کے تحت ایک منصوبہ پر کام کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
مدارس کے مسائل کا جائزہ لینے، نصاب، نظام اور معیارِ تعلیم بہتر بنانے اور مدارس کے مہتمین حضرات سے اس ضمن میں تجاویز اور سفارشات کے حصول کے لیے دو روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا۔ ۲، ۳ نومبر ۱۹۹۴ء کو اسلام آباد میں مولانا مفتی ظفر علی نعمانی امیر متحدہ علماء کونسل پاکستان کی زیر صدارت یہ ورکشاپ منعقد ہوئی۔ جس میں تمام مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے وفاقات یعنی تنظیم المدارس (بریلوی)، وفاق المدارس (دیوبندی)، وفاق المدارس السلفیہ (اہل حدیث)، رابطۃ المدارس (جماعتِ اسلامی)، اور متحدہ علماء کونسل پاکستان کے اعلیٰ عہدیداران شریک ہوئے۔ یہ ورکشاپ دو روز تک اسلام آباد کے ایک خوبصورت ہوٹل میں نہایت خوشگوار فضا میں جاری رہی۔ پاکستان بھر سے آئے ہوئے مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام نہایت ہم آہنگی اور اعتماد سے اپنے اپنے مسائل اور تجاویز پیش کرتے رہے۔
اجلاس میں دینی مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب، تعلیمی معیار اور نظامِ امتحانات کو بہتر بنانے کے بارے میں تجاویز اور سفارشات پیش کی گئیں۔ دو دن کے غور و فکر کے دوران تین کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، جن میں نصاب کمیٹی، امتحانات کمیٹی اور کمیٹی برائے غیر نصابی سرگرمیاں شامل تھیں۔ ان کمیٹیوں نے درج ذیل سفارشات پیش کیں جو متفقہ طور پر منظور کر لی گئیں:

نصاب کمیٹی

کمیٹی کا اجلاس جناب ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر کی زیرصدارت مورخہ ۳ نومبر ۱۹۹۴ء کو منعقد ہوا۔ آغاز مولانا حافظ فضل رحیم کی تلاوت سے ہوا۔ شرکاء درج ذیل تھے:
۱۔ سید مظفر حسین ندوی
۲۔ مولانا رفیق اثری (دارالحدیث محمدیہ، جلال پور بیروالہ، ملتان)
۳۔ مولانا حافظ فضل رحیم (جامعہ اشرفیہ، لاہور)
۴۔ مولانا حبیب الرحمٰن بخاری (جامعہ سلفیہ، اسلام آباد)
۵۔ جناب زاہد اشرف (جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ، فیصل آباد)
۶۔ ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی (جامعہ نعیمیہ، لاہور)
۷۔ مولانا مختار احمد ضیاء
۸۔ الشیخ ابوعمار محمد غسان (ہیئۃ الاغاثہ الاسلامیہ العالمیہ، اسلام آباد)
۹۔ مولانا پیر سیف اللہ خالد، لاہور
۱۰۔ مولانا عبد الغفار حسن، اسلام آباد

سفارشات

۱۔ تمام وفاقوں پر مشتمل ایک وفاق قائم کیا جائے۔
۲۔ مدارس میں درجہ بندی قائم کی جائے۔
۳۔ ذی استعداد اصحابِ علم پر مشتمل ایک بورڈ تشکیل دیا جائے جو مروجہ دینی نصاب سے غیر ضروری کتب کے اخراج اور جدید مفید کتب کے اضافے کی نشاندہی کرے اور مطلوبہ کتب کی تدوین کرے۔
۴۔ معہد تدریب المعلمین کا قیام عمل میں لایا جائے۔
۵۔ عصری علوم کو مناسب مراحلِ تعلیم میں پڑھایا جائے۔
۶۔ شہادۃ عالمیہ کے لیے تحقیقی مقالے کو عربی زبان میں لازمی قرار دیا جائے۔
۷۔ عربی، اردو اور تحریر و تقریر کی مشق کا خصوصی اہتمام کیا جائے اور اس مقصد کے لیے جدید ذرائع سے استفادہ کیا جائے۔ بالخصوص جدید صحافت کے اصول طالب علم کو ذہن نشین کرائے جائیں۔ اس مقصد کے لیے فارغ التحصیل طلبہ کے لیے ایک سالہ نصاب تشکیل دیا جائے۔
۸۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کی دینی تربیت کا ٹھوس نظام وضع کیا جائے۔

امتحانات کمیٹی

اجلاس کی کارروائی مورخہ ۳ نومبر ۱۹۹۴ء کو ۱۱.۳۰ بجے ہوئی۔ تلاوتِ کلامِ پاک کے ساتھ باقاعدہ آغاز ہوا۔ شرکاء درج ذیل تھے:
۱۔ مولانا مفتی عبد القیوم ہزاروی (ناظمِ اعلیٰ تنظیم المدارس البریلویہ)
۲۔ مولانا غلام محمد سیالوی (کراچی)
۳۔ مولانا حافظ محمد امین (گوجرانوالہ)
۴۔ حافظ مسعود عالم (جامعہ سلفیہ، فیصل آباد)
۵۔ مولانا خورشید احمد گنگوہی (لاہور)
۶۔ مولانا محمد بن عبد اللہ (جامعہ سلفیہ، اسلام آباد)
۷۔ مولانا قاری محمد طاہر
۸۔ حافظ محمد منیب (اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد)
۹۔ مصباح الرحمٰن یوسفی (دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد)
تلاوتِ کلام پاک کے بعد چاروں مسلّمہ وفاقات کے امتحانی نظام کا جائزہ لیا گیا اور متفقہ طور پر طے کیا گیا کہ یہ نظام واقعی مثالی اور قابلِ عمل ہیں۔ ان نظاموں کو سراہا گیا۔ البتہ مزید اصلاح اور بہتری کے لیے درج ذیل سفارشات تجویز کی گئیں:

سفارشات

۱۔ شہادۃ عالمیہ کے تحریری امتحان کے بعد ایک منتخب ثقہ اور متبحر عالمِ دین طالب علم کا باقاعدہ انٹرویو اور اس کی علمی استعداد اور شخصی تعارف کے بارے میں جانچ پڑتال کرے۔ اور کامیابی یا سفارش کیے جانے کی صورت میں ہی سند جاری کی جائے۔
۲۔ عالمیہ کے امتحان میں مقالہ نویسی لازمی قرار دی جائے اور ایک ماہر استاذ کی نگرانی میں اس کو تیار کرایا جائے۔
۳۔ ثانویہ عامہ، خاصہ، عالیہ اور عالمیہ کے امتحانات مسلسل ہوں اور ہر زیریں امتحان میں کامیابی کے بعد ہی قریبی بالا امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے اور کامیابی کے بعد وفاق سند جاری کرے۔
۴۔ امتحانات کے بارے میں جو قواعد و ضوابط وفاقات کے ہاں طے شدہ ہیں ان کی سختی سے پابندی کروائی جائے۔ اور نقل، دھوکہ، ناجائز سفارشات، پرچے آوٹ ہونے یا غلط مارکنگ کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جائے اور مرتکبین کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
۵۔ چاروں تسلیم شدہ وفاقات میں سے معتمد نمائندہ افراد پر مشتمل ایک مشترکہ بورڈ تشکیل دیا جائے جو جملہ امتحانات کی نگرانی کا فریضہ انجام دے۔

کمیٹی برائے غیر نصابی سرگرمیاں

کمیٹی کا اجلاس مولانا عبد المالک کی سربراہی میں منعقد ہوا جس میں درج ذیل علماء کرام نے شرکت فرمائی:
۱۔ مولانا فضل سبحان
۲۔ مولانا عبد الرحمٰن سلفی (جامعہ ستاریہ، کراچی)
۳۔ مولانا نعیم احمد (جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ، فیصل آباد)
۴۔ مولانا فضل ربی
۵۔ مولانا عبد الرحمٰن راشد
۶۔ مولانا فضل ربی درانی
۷۔ مولانا عبد القیوم
۸۔ مولانا عبد الہادی (جامعہ اثریہ، پشاور)
۹۔ مولانا عبد الحئی ابڑو (اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد)
۱۰۔ الشیخ ابو الجود
۱۱۔ الشیخ محمد شکری الفیومی (المدرسۃ الاسلامیہ، دوبئی)
۱۲۔ پروفیسر عبد اللطیف انصاری نے سیکرٹری کے فرائض انجام دیے۔
مدارسِ علومِ دینیہ کے لیے قرار پایا کہ طلباء کو اپنی جملہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے پورے پورے مواقع فراہم کیے جائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر ادارے میں مختلف النوع مجالس اور سرگرمیوں کا اس طرح اہتمام کیا جائے کہ ہر طالب علم اپنی پسند اور فطری میلان و رجحان کے مطابق ان میں حصہ لے کر اپنی صلاحیتوں اور جذبوں کا اظہار کر سکے۔ ان سرگرمیوں کے انعقاد میں نظم و ضبط اور باقاعدہ کو پیش نظر رکھا جائے۔

سفارشات

۱۔ مدرسہ کے درس و تدریس کے نظامِ اوقات میں سب سے پہلے صبحی اجتماع کا انعقاد عمل میں لایا جائے جس کا دورانیہ ۱۵ منٹ سے ۳۰ منٹ ہو۔ اس اجتماع (مارننگ اسمبلی) میں مدرسہ کے تمام طلباء اور اساتذہ شامل ہوں گے۔ تلاوتِ قرآن پاک کے بعد حالاتِ حاضرہ، ملکی مسائل، شخصی حفظانِ صحت، اور دیگر موضوعات پر مشتمل باہمی مشاورت سے پورے سال کے لیے مستقل نصاب مرتب کیا جائے۔ اس اجتماع میں ملکی، عالمی حالات، حالاتِ حاضرہ، اسلامی تعلیمات، نظریہ پاکستان، اور اسلامی نظامِ حیات کے مختلف عنوانات پر اساتذہ کرام باری باری تقریر کریں اور وقتاً فوقتاً ممتاز علماء اور اکابرینِ ملت اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو بھی خطاب کی دعوت دی جائے۔
۲۔ ہر جمعرات کو درس و تدریس کے اوقات کے بعد بزمِ ادب کا اجلاس منعقد ہونا چاہیے، جس میں تمام طلبہ کی شرکت لازمی قرار دی جائے۔ اساتذہ میں سے ایک دو کو اس کا ذمہ دار نگران بنایا جائے۔
۳۔ پورے سال کے لیے موضوعات کی فہرست مرتب کی جائے۔
۴۔ ہر طالب علم کو بزم ادب کے پروگرام میں حصہ لینے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
۵۔ بزمِ ادب میں حالاتِ حاضرہ، عالمِ اسلام کے مسائل، ملکی حالات اور اسلامی نظامِ حیات سے متعلقہ عنوانات پر طلبہ تقریر کریں یا مضامین پڑھیں۔ اور کم از کم ایک طالب علم عربی زبان میں ضرور تقریر کرے۔
۶۔ مہینہ میں کم از کم ایک اجلاس مدرسہ کے اساتذہ کا بھی ہونا چاہیے، جس میں گزشتہ ماہ کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے۔
۷۔ مدرسہ کی تعمیر و ترقی کے امور پر تبادلہ خیالات کیا جائے۔ مختلف موضوعات پر تحقیق کے بارے میں مشاورت کی جائے۔
۸۔ مدرسہ کے تمام طلباء کو کم از کم چار ہاؤسز میں تقسیم کر دیا جائے۔ کسی استاد کو ہر ہاؤس کا انچارج بنا دیا جائے۔ ان ہاؤسز کے لیے ہر سال حسنِ قراءت، خطابت، تقریر مقابلے، سیمینارز، مباحثوں اور کھیلوں میں مقابلوں کا اہتمام کیا جائے۔ ہاؤسز کے درمیان دینی عنوانات پر ذہنی آزمائش، شعر و شاعری، بیت بازی کے مقابلے بھی منعقد کیے جائیں۔ ہر ہاؤس کا انچارج اپنے اپنے ہاؤس کے طلبہ کے حالات و کوائف کا ریکارڈ بھی رکھے۔
۹۔ روزانہ کم از کم ایک نماز کے بعد مختصر خطاب ہو۔ ایک طالب علم کے لیے تمام حاضرین کو خطاب کرنا ضروری قرار دیا جائے تاکہ کسی اجتماع سے خطاب کرنے کی جھجھک دور ہو جائے۔ یہ خطاب بھی روزانہ کسی نہ کسی استاد کی نگرانی میں ہو اور اس کے لیے موضوع کا تعین کیا جائے۔
۱۰۔ مہینے میں ایک نفلی روزہ رکھنے اور شب بیداری کا بھی گاہے بگاہے اہتمام ہونا چاہیے۔
۱۱۔ مدرسہ کی اعلیٰ جماعتوں کے طلباء پر مشتمل گروپ تشکیل دیے جائیں جن کو فقہ، حدیث اور تفسیر میں تحقیق کی تربیت دی جائے۔ تاکہ دن میں وہ لائبریری سے حوالہ جات تلاش کر کے متفقہ حل پیش کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکیں۔
۱۲۔ تمام طلباء کو خوش نویسی اور کچھ طلبہ کو خطاطی اور کتابت کی تربیت بھی دی جائے تاکہ وہ اچھا لکھنے کی صلاحیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ضرورت پڑنے پر مدرسہ کے لیے بینرز لکھ سکیں اور چاکنگ بھی کر سکیں۔
۱۳۔ وقتاً فوقتاً طلباء کے تعلیمی دوروں کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔ ملک کی مشہور جامعات کے حالات و کوائف رکھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
نماز کے بعد چند منٹ کے لیے اورادِ مسنونہ کا اہتمام کیا جائے۔
۱۴۔ عصر سے مغرب کے دوران تمام مدارس میں کھیلوں، ریاضتِ جسمانیہ کا اہتمام کرنا چاہیے۔ تمام مدارس اپنے اپنے حالات کے مطابق کھیلوں میں جن کا چاہیں انتظام کریں لیکن اس امر کا خیال رکھیں کہ تمام طلباء ریاضتِ جسمانی اور کھیلوں میں حصہ لیں۔ مثلاً فٹ بال، والی بال، جوڈو کراٹے، کشتی، باڈی بلڈنگ، جمناسٹک، اتھلیٹکس، تیراکی، بنوٹ، نیزہ بازی، گھوڑ سواری وغیرہ۔ عصر سے مغرب کے دوران سول ڈیفنس، فائر فائٹنگ (آگ پر قابو پانا)، فرسٹ ایڈ، عسکری تربیت اور فنونِ حرب کی تربیت کا بھی اہتمام کیا جائے۔ اساتذہ کرام کی مشاورت سے ہم نصابی سرگرمیاں منظم کی جائیں اور علمی تبادلۂ خیالات کا اہتمام کیا جائے۔ علومِ دینیہ کے طلباء کے لیے لباس، یونیفارم مقرر ہونا چاہیے۔
اجتماع کے آخر میں ایک خصوصی قرارداد بھی منظور کی گئی جس میں حکومت کی طرف سے دینی مدارس کی رجسٹریشن پر پابندی عائد کرنے اور سکولوں میں عربی مضمون کی لازمی حیثیت ختم کرنے کی پرزور مذمت کی گئی اور حکومت سے ان اقدامات کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔
دو روزہ ورکشاپ میں جن علماء کرام اور اسکالر حضرات نے شرکت فرمائی، ان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
مولانا مفتی ظفر علی نعمانی (امیر متحدہ علماء کونسل پاکستان)
مولانا مفتی عبد القیوم ہزاروی (لاہور)
مولانا فضل الرحیم (جامعہ اشرفیہ، لاہور)
مولانا حبیب الرحمٰن شاہ بخاری (جامعہ سلفیہ، اسلام آباد)
مولانا محمد حنیف جالندھری (جامعہ خیر المدارس، ملتان)
مولانا غلام محمد سیالوی (کراچی)
ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر (جامعۃ العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹاؤن، کراچی)
ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی (لاہور)
حافظ مسعود عالم (جامعہ سلفیہ، فیصل آباد)
مولانا زاہد الراشدی (شاہ ولی اللہ یونیورسٹی، گوجرانوالہ)
جناب زاہد اشرف (جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ، فیصل آباد)
مولانا عبد المالک (دارالعلوم منصورہ، لاہور)
مولانا عبد الغفار حسن (سابق رکن اسلامی نظریاتی کونسل، اسلام آباد)
مولانا محمد عبد اللہ (جامعہ فریدیہ، اسلام آباد)
مولانا مظفر حسین ندوی (مظفر آباد)
پروفیسر عبد اللطیف انصاری (مظفر آباد)
پیر سیف اللہ خالد (لاہور)
مولانا عبد الرحمٰن سلفی (جامعہ ستاریہ، کراچی)
مولانا محمد رفیق اثری (دارالحدیث محمدیہ، ملتان)
مولانا عبد الہادی (پشاور)
ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری (ڈائریکٹر جنرل ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد)
مولانا عبد الرؤف ملک (سیکرٹری جنرل متحدہ علماء کونسل پاکستان)
پروفیسر محمد یحییٰ (ناظم ہیئۃ تنسیق مدارس دینیہ پاکستان)
مولانا نعیم احمد (فیصل آباد)
جناب سردار شاہ (کیبنٹ ڈویژن، اسلام آباد)
حافظ محمد عمار خان ناصر (الشریعہ اکیڈمی، گوجرانوالہ)
جناب محمد شکری احمد الفیومی (مدرسہ اسلامیہ، دوبئی)
الشیخ محمد غسان ابو عمار (مندوب ہیئۃ الاغاثہ الاسلامیہ العالمیہ، اسلام آباد)
اور متعدد علماء کرام۔
ورکشاپ کو کامیاب بنانے میں جن کارکنان اور حضرات کا بھرپور تعاون حاصل رہا ان کے اسماء گرامی یہ ہیں:
جناب علی احمد مہر۔ جناب مصباح الرحمٰن یوسفی۔ جناب عبد الحئی ابڑو۔ جناب محمود مہدی۔ جناب ایاد عدنان۔ جناب شبیر حسین۔ مولانا خورشید احمد گنگوہی۔ جناب احمد حسن۔ عبد الستار۔ محمد احسن۔ محمد عبد اللہ الغنی۔ اور محمد عارف۔
مولانا مفتی ظفر علی نعمانی (امیر متحدہ علماء کونسل پاکستان) کی دعا پر یہ دو روزہ ورکشاپ اختتام کو پہنچی۔

وفیات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

شہیدِ راہِ وفا محمد صلاح الدینؒ

وہ دن بلاشبہ پاکستان کی صحافتی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جب ہفت روزہ تکبیر کراچی کے مدیر اعلیٰ محمد صلاح الدینؒ سفاک قاتلوں کی دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ محمد صلاح الدینؒ بے لاگ تجزیہ نگار اور بے باک قلمکار ہی نہیں بلکہ معاشرہ میں شر کی قوتوں کو چیلنج کرنے اور ظلم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارنے والے بے خوف راہنما بھی تھے۔ انہوں نے لفافے، بریف کیس اور کلاشنکوف کے اس دور میں صحافت اور سچائی کے رشتے کو قائم کیا اور اسلام و پاکستان کے پرچم کو سربلند رکھا اور بالآخر اسی راہِ وفا میں اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیا۔

راقم الحروف محمد صلاح الدین شہیدؒ کا پرانا قاری اور ان کی حق گوئی کا معترف رہا ہے۔ مختلف مجالس میں ان سے ملاقات بھی ہوتی رہی ہے مگر اسی سال اگست میں ان کے ساتھ چند روز کی رفاقت کا موقع ملا تو یہ بات مشاہدہ کا حصہ بنی کہ قلم کا محمد صلاح الدینؒ اور عمل کا محمد صلاح الدینؒ دونوں ایک ہی شخصیت ہیں۔ وہ اگست ۱۹۹۴ء میں ورلڈ اسلامک فورم کی دعوت پر چند روز کے لیے لندن تشریف لے گئے، فورم کے سالانہ تعلیمی سیمینار میں ’’اسلامی نظام تعلیم و تربیت میں ذرائع ابلاغ کا کردار‘‘ کے موضوع پر پرمغز مقالہ پیش کیا جو الشریعہ کے گزشتہ شمارے میں شائع ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ نوٹنگھم اور لیسٹر میں فورم کے زیراہتمام مختلف اجتماعات سے خطاب کیا۔ جنوبی افریقہ سے پروفیسر ڈاکٹر سید سلمان ندوی اور اسلام آباد سے ڈاکٹر محمود احمد غازی کے علاوہ ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے مولانا محمد عیسیٰ منصوری، مولانا مفتی برکت اللہ اور راقم الحروف بھی ان نشستوں میں شریک رہے۔ کسے خبر تھی کہ یہ یادگار ملاقاتیں زندگی کی آخری ملاقاتیں ثابت ہوں گی۔

آج کے دور میں جبکہ معاشرہ کے ہر طبقہ میں بھرم قائم رکھنے کے لیے ریڈی میڈ میک اپ کا سامان ہر وقت جیب میں رکھنا ضروری سمجھا جا رہا ہے اور شخصی زندگی اور قومی زندگی کے درمیان تفاوت کی دیوار کلچر کا حصہ بنتی جا رہی ہے، ایک ہی چہرے کے ساتھ سب سے نباہ کرنے والا ’’محمد صلاح الدین‘‘ یقیناً پرانے دور کی شرافت، وضع داری اور سچائی کی علامت بن گیا تھا جو بے قید امنگوں کے ساتھ اکیسویں صدی کی طرف بڑھنے والے مادر پدر آزاد جذبوں کے لیے ناقابل برداشت ہوگئی تھی۔

محمد صلاح الدین نے اسلامی اقدار کی سربلندی اور ملکی سالمیت اور قومی خودمختاری کی جنگ میں بے دلیل دشمن کو گولی کا سہارا لینے پر مجبور کر دیا جو ان کی اخلاقی فتح ہے۔ اور اگر راہِ وفا کے راہرو ’’اخلاقی فتح‘‘ کا یہ پرچم تھامے حوصلہ اور جرأت کے ساتھ آگے بڑھتے رہے تو اسے عملی فتح کی منزل سے ہمکنار کرنا بھی کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند فرمائیں اور اہل قلم کو ان کی طرح قلم کی آبرو کا تحفظ کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا الٰہ العالمین۔

حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ

برصغیر کے نامور فقیہ حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ گزشتہ دنوں ۹۲ برس کی عمر میں انتقال فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حضرت مفتی صاحب مرحوم، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے تربیت یافتہ اور ان کے عزیز تھے۔ افتاء میں انہیں بلند مقام حاصل تھا اور اہلِ علم مشکل امور میں ان سے رجوع کرتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے جامعہ اشرفیہ لاہور کے شعبہ افتاء کے سربراہ تھے اور اپنے وقت کے اہل اللہ میں سے تھے۔

حضرت مولانا عبد الرؤفؒ

مدرسہ مفتاح العلوم (گھاس مارکیٹ، حیدر آباد، سندھ) کے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الرؤف بھی گزشتہ دنوں طویل علالت کے بعد انتقال فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حضرت مرحوم حافظ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ میں سے تھے اور انتہائی نیک دل، متواضع اور خدا ترس بزرگ تھے۔ انہیں دیکھ کر پرانے دور کے اہلِ علم و فضل کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔

ڈاکٹر عنایت اللہ نسیم سوہدرویؒ

ملک کے معروف دانشور اور طبیب ڈاکٹر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدرویؒ بھی گزشتہ ماہ کے دوران انتقال فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم امام الہندؒ مولانا ابو الکلام آزادؒ اور بابائے صحافت مولانا ظفر علی خانؒ کے خوشہ چینوں میں سے تھے اور خود بھی ممتاز اصحابِ قلم میں شمار ہوتے تھے۔ اسلام دوست اور محبِ وطن دانشور تھے اور باعمل اور باکردار شخصیت کے حامل تھے۔

اللہ تعالیٰ مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا الٰہ العالمین۔

جمعیت علماء اسلام کے دھڑوں کے درمیان اتحاد کی اپیل

ادارہ

اس وقت ملک کے حالات جو رخ اختیار کر رہے ہیں اور دینی اقدار کے خلاف جو سازشیں بین الاقوامی اور ملکی سطح پر منظم انداز میں آگے بڑھ رہی ہیں، ان کے پیشِ نظر اسلام کی سربلندی، ملکی سالمیت اور قومی خودمختاری کیلئے علماء حق کی جدوجہد کے تسلسل کو باقی رکھنے کی غرض سے اکابر اہلِ حق کی روایات کی امین اور علماء حق کی نمائندہ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا اتحاد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے، اور ملک بھر کے علماء کرام اور جماعتی کارکنوں کے دلوں کی آواز ہے۔
اس لیے ہم جمعیۃ علماء اسلام کے دونوں دھڑوں کے ذمہ دار حضرات سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ خدا کے لیے وقت کی سنگینی کا احساس کریں اور باہم مل بیٹھ کر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کیلئے عملی اقدامات کریں۔ ہم اس سلسلہ میں جماعتی اتحاد کیلئے اپنے تعاون کا یقین دلاتے ہیں، اور دونوں جمعیتوں کے ذمہ دار حضرات سے فوری اور مؤثر پیش رفت کی اپیل کرتے ہیں۔
جماعتی اتحاد میں جو رکاوٹیں ہیں، انہیں دور کرنے کیلئے دونوں جمعیتوں کے ذمہ دار حضرات مل بیٹھ کر کوئی راستہ نکالیں اور اس کارِ خیر میں تاخیر نہ فرمائیں۔
نیز اس موقع پر اس امر سے بھی خبردار کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ جمعیت کے متحد نہ ہونے کی صورت میں پاکستان میں دینی جدوجہد کو جو بھی نقصان ہو گا، اس کی ذمہ داری دونوں جمعیتوں کے ذمہ دار حضرات پر ہو گی، اور وہ عند اللہ اور عند الناس اس ذمہ داری سے سرخرو نہیں ہو سکیں گے۔
ہمیں امید ہے کہ ذمہ دار اور متعلقہ حضرات اس کے مثبت جواب سے جلد نوازیں گے۔
اس سلسلہ میں دونوں جمعیتوں کے ذمہ دار حضرات سے رابطہ کیلئے ہماری طرف سے وفد تشکیل دیا جا رہا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اتحاد و اتفاق اور اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

دستخط شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف خان
امیر آل جموں و کشمیر جمعیۃ علماء اسلام

دستخط شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صفدر
شیخ الحدیث نصرۃ العلوم گوجرانوالہ، پاکستان

فروری و مارچ ۱۹۹۵ء

اسلام، دہشت گردی اور مغربی لابیاںادارہ
وفیاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
یہ صحافتی اخلاق و دیانت کے منافی ہےادارہ
-ادارہ
رمضان المبارک، ارشاداتِ رسول ﷺ کی روشنی میںادارہ
رمضان المبارک کی حکمتیں اور فضائلحکیم عبد الرشید شاہد
شاہ ولی اللہؒ اور اسلامی حدودڈاکٹر محمد امین
انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرتِ طیبہؐ کی روشنی میںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
میں، مغرب اور مغرب پرست طبقہعمران خان
ماہِ صیامسرور میواتی
مدرسہ نصرۃ العلوم: تعارف، خدمات، ضروریاتادارہ
تعارف و تبصرہادارہ
اسلامی احکام و اعمال کی حکمتمولانا ابوالکلام آزادؒ

اسلام، دہشت گردی اور مغربی لابیاں

ادارہ

سابق سوویت یونین کے آخری صدر گورباچوف نے یورپ اور یورپ کے ذرائع ابلاغ کو اسلام اور مغرب کے درمیان ٹکراؤ کی فضا پیدا کرنے سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دنیا کے امن و سلامتی کے لیے اسلام اور مسلمانوں کو خطرہ بتانے کی جو مہم چلی ہوئی ہے دراصل اس کے پیچھے ان شرپسند عناصر کا ہاتھ ہے جو یورپ کے ذرائع ابلاغ اور پالیسی ساز اداروں پر قابض ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا اور بعض مغربی سیاستدانوں کے لیے اپنے افکار و نظریات اور عزائم کی تکمیل کے لیے عوام کی تائید حاصل کرنے کی غرض سے کسی خارجی دشمن کا ہوّا کھڑا کرنا ایک محبوب مشغلہ اور پسندیدہ عمل بنا ہوا ہے۔ انہوں نے اس سیاست کو تمام مذاہب و ادیان کے ماننے والوں کے درمیان باہمی میل جول اور آپسی تعلق و تعاون کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اسلام کو دشمن بنا کر پیش کرنے کی سیاست سے دنیا دو دینی اور مذہبی متحارب کیمپوں میں بٹ جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا مشرق و مغرب کے درمیان سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد ایک بار پھر ایسی جنگ میں داخل ہو گی جس میں ایک طرف اسلام ہو گا اور دوسری طرف یورپ۔
گورباچوف نے، جو اپنے عرب امارات کے دورہ کے موقع پر کثیر الاشاعت انٹرنیشنل ہفت روزہ ’’المسلمون‘‘ سے گفتگو کر رہے تھے، کہا کہ انسانی تہذیب و تمدن کے لیے اسلام اور مسلمان کبھی بھی خطرہ نہیں رہے ہیں، بلکہ انسانی تمدن اور انسانی علوم و فنون کی حفاظت و ترقی میں انہوں نے نہایت اہم رول ادا کیا ہے۔ یورپ کو یہ احسان کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ مسلمانوں نے اپنے دورِ عروج میں علم و تہذیب کو روشنی دی ہے۔
سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے گورباچوف نے کہا، یہ کہنا کہ اسلام دہشت گردی کی ہمت افزائی کرتا ہے اور دہشت گرد جماعتیں اس دینی شدت پسندی کا شاخسانہ ہیں جو مسلم معاشروں میں فروغ پا رہی ہے، ایسا کہنا حقیقت اور انصاف کے سراسر خلاف ہے۔ انہوں نے کہا، اسلام صلح و آشتی کا دین ہے، اس کی تعلیمات قوموں اور افراد کے مابین یگانگت و بھائی چارگی پر زور دیتی ہیں۔ انسانیت کی تاریخ میں وہ دن بہت مبارک تھے جب اسلام کی قدریں غالب تھیں۔ اس کے نتیجہ میں خوشحالی، امن و سلامتی، تہذیب و تمدن اور علم و فن کے قافلوں نے صدیوں کی مسافت طے کی ہے۔
گورباچوف نے ان کوششوں کی مذمت کی جو اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی غرض سے بعض مغربی لیڈروں، جن کو میڈیا کا پورا تعاون حاصل ہے، کی طرف سے ہو رہی ہیں۔ انہوں نے اسے ایک خطرناک سیاست قرار دیتے ہوئے کہا، اس سے عظیم فتنہ جنم لے گا اور انسانی تاریخ پیچھے چلی جائے گی۔ انہوں نے سوال کیا کہ مسلمانوں کو کس منہ سے دہشت گرد کہا جا رہا ہے؟ جبکہ خود یورپ اور مسیحی دنیا کے بہت سے ممالک میں دہشت گردی ایک مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، روز نئی دہشت گرد تنظیموں کا انکشاف ہوتا ہے جن کا تعلق مختلف مذاہب اور مختلف ممالک سے ہوتا ہے، لیکن کیا ان کی وجہ سے ان قوموں کو بھی دہشت گرد قرار دیا جائے گا جن سے ان کا تعلق ہے؟
(بشکریہ تعمیرِ حیات لکھنؤ)

وفیات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ملک میں دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور قیمتی جانیں اس کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔
  • گزشتہ دنوں چیچہ وطنی ضلع ساہیوال کے معروف عالم دین پیر جی عبد العلیمؒ رائے پوری اپنے ایک ساتھی کے ساتھ دہشت گردی کا شکار ہو گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ پیر جی عبد العلیمؒ حق گو اور بے باک عالم تھے، مجلسِ احرارِ اسلام کے راہنماؤں میں سے تھے اور بزرگ عالمِ دین حضرت مولانا پیر جی عبد اللطیف رائے پوریؒ کے فرزند تھے۔
  • اسی طرح سپاہ صحابہؓ ضلع منڈی بہاؤ الدین کے سربراہ مولانا محمد اسلم عابدؒ بھی دہشت گردی کا نشانہ بن گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
  • کراچی میں متعدد مساجد کے باہر دہشت گردی کی فائرنگ سے درجنوں افراد جاں بحق ہو گئے، جن میں ہمارے حقیقی پھوپھی زاد بھائی مولانا سید نور الحسن شاہؒ بھی شامل ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
  • علاوہ ازیں سعودی عرب میں ریاض کے قریب تمیر کے مقام پر جناب قاری فدا محمد ضیاء ٹریفک کے حادثہ میں جاں بحق ہو گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ قاری صاحب مرحوم راقم الحروف کے حفظِ قرآن کریم کے ساتھی تھے اور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے سابق مدرس تھے۔ ان کی نمازِ جنازہ مسجد نبوی میں ادا کی گئی اور انہیں جنت البقیع میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔
اللہ تعالیٰ مرحومین کو جنت الفردوس میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا الٰہ العالمین۔

یہ صحافتی اخلاق و دیانت کے منافی ہے

ادارہ

بحمد اللہ تعالیٰ ’’الشریعہ‘‘ میں شائع ہونے والے مضامین علمی حلقوں میں پسند کیے جاتے ہیں اور پاکستان و بھارت کے متعدد جرائد ان میں سے اہم مضامین کو اپنے صفحات میں نقل کرتے ہیں جو ہمارے لیے مسرت و افتخار کی بات ہے، البتہ بعض جرائد کے ذمہ دار حضرات مضامین نقل کرتے ہوئے الشریعہ کا حوالہ دینے کی زحمت نہیں فرماتے جس پر ہم بجا طور پر شکوہ کا حق رکھتے ہیں۔ مگر لاہور سے ایک دینی ادارے کے زیراہتمام شائع ہونے والے ماہوار جریدہ ’’روحِ منظور‘‘ نے جلد ۵ شمارہ ۱ (جنوری) میں ’’شیعہ سنی کشمکش‘‘ کے حوالہ سے ’’الشریعہ‘‘ کے مدیر اعلیٰ کا مضمون نقل کیا ہے اور مضمون نگار کے طور پر محمد یونس حداد کا نام تصویر کے ساتھ شائع کر دیا ہے۔ ہم اسے ایک اتفاقی غلطی پر محمول کرتے ہوئے جریدہ کے ذمہ داران کو توجہ دلانے پر اکتفا کر لیتے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ مذکورہ جریدہ کے اسی شمارے میں مدیر اعلیٰ الشریعہ کے مضمون کے علاوہ درج ذیل تین مضامین بھی اصل مضمون نگاروں کے بجائے جعلی ناموں کے ساتھ شائع کیے گئے ہیں:
(۱) ’’بھارت کا میزائل سازی کا جنون‘‘ کے عنوان سے ماہنامہ صدائے مجاہد اسلام آباد کے ایک گزشتہ شمارے میں شائع ہونے والا مضمون ایم اے شیدا ایڈووکیٹ کے نام سے۔
(۲) ’’کس قیامت کے یہ بل۔۔۔‘‘ کے زیر عنوان ایک معاصر روزنامہ میں چھپنے والا کالم مسعود اختر قریشی کے نام سے۔
(۳) اور ’’جہیز اور شادی کے فضول اخراجات‘‘ کے موضوع پر ماہنامہ اصلاحِ معاشرہ لاہور میں شائع ہونے والا مضمون مولانا سرفراز احمد خان کے نام سے۔
اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ مضامین کی چوری کا یہ عمل باقاعدہ اہتمام کے ساتھ انجام دیا گیا ہے۔ یہ صریحاً صحافتی بددیانتی ہے جس پر ہم شدید احتجاج کرتے ہیں اور یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ آئندہ ایسی حرکت کے اعادہ پر قانون کا دروازہ کھٹکھٹانا ہمارے لیے ضروری ہو جائے گا۔

-

ادارہ

(۱) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں۔‘‘ (متفق علیہ)

(کمپوزنگ جاری)

رمضان المبارک، ارشاداتِ رسول ﷺ کی روشنی میں

ادارہ

  1. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں‘‘۔ (متفق علیہ)
  2. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحابؓ کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا: ’’تمہارے پاس رمضان کا یہ مبارک مہینہ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں تم پر روزے فرض کیے ہیں۔ اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو بیڑیاں ڈال دی جاتی ہیں۔ اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو شخص اس رات کے خیر سے محروم رہا، اس کو ملا ہی کیا؟‘‘ (مسند احمد، نسائی، بیہقی)
  3. حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب رمضان کی پہلی رات شروع ہوتی ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، پھر ان میں سے کوئی دروازہ پورے مہینے بند نہیں کیا جاتا۔ اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، پھر ان میں سے کوئی دروازہ پورے مہینے کھولا نہیں جاتا۔ اور سرکش جنات کو بیڑیاں ڈال دی جاتی ہیں۔ اور آسمان سے ایک پکارنے والا رات کو طلوعِ فجر تک پکارتا رہتا ہے کہ اے خیر کے طلبگار! آگے بڑھ۔ اور اے شر کے چاہنے والے! پیچھے ہٹ جا اور سنبھل جا۔ ہے کوئی معافی مانگنے والا کہ اسے معاف کیا جائے؟ ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ اللہ اس کی توبہ قبول کرے؟ ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا قبول کی جائے؟ ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے عطا کیا جائے؟ اور اللہ تعالیٰ رمضان میں ہر شام افطاری کے وقت ساٹھ ہزار انسانوں کو آگ سے آزاد کرتے ہیں، پھر جب یوم الفطر (عید کا دن) آ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ (اس ایک دن میں) اتنے انسانوں کو آزاد کرتا ہے جتنے اس نے سارے مہینے میں آزاد کیے، ساٹھ ہزار انسان تیس مرتبہ۔‘‘ (بیہقی)
  4. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین اشخاص ایسے ہیں کہ جن کی دعا رد نہیں کی جاتی۔ ان میں سے ایک روزہ دار ہے جب تک کہ وہ روزہ افطار نہ کر لے۔‘‘ (مسند احمد، ترمذی، ابن حبان)
  5. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر عمل کا بدلہ ایک مقرر حد تک ہے، سوائے روزے کے، کیونکہ روزہ صرف اللہ کے لیے ہے اور وہی اس کا (بے حساب) اجر عنایت کرے گا۔‘‘ (بخاری، مسند احمد)
  6. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے، اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ اور جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے لیلۃ القدر کا قیام کرے، اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘ (متفق علیہ)
  7. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن روزہ اور قرآن آدمی کے لیے سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا اے رب! میں نے اسے کھانے پینے اور دیگر خواہشات سے دن بھر روکے رکھا، پس تو اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما۔ اور قرآن کہے گا اے اللہ! میں نے اسے رات کو سونے سے روکے رکھا، پس تو اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما۔ چنانچہ ان دونوں کی سفارش اس بندے کے حق میں قبول کی جائے گی۔‘‘ (مسند احمد، مستدرک حاکم، معجم طبرانی کبیر)
  8. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انسان کے ہر (اچھے) عمل کا بدلہ کئی گنا زیادہ دیا جاتا ہے۔ ایک نیکی کا بدلہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک یا اس سے بھی زیادہ جتنا اللہ چاہے دیا جاتا ہے۔ مگر (اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ) روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں بذاتِ خود اس کا (بے حساب) اجر عطا کروں گا، کیونکہ اس بندے نے میرے لیے اپنا کھانا پینا اور خواہشات ترک کی رکھیں۔ اور روزے دار کے لیے دو خوشیاں مقدر ہیں: ایک تو جب وہ روزہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے۔ اور دوسری جب وہ (قیامت میں) اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو (روزے کا اجر و ثواب پا کر) نہال ہو جائے گا۔ اور روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے۔ روزہ (جہنم سے بچاؤ کے لیے) ڈھال ہے، روزہ (جہنم سے بچاؤ کے لیے) ڈھال ہے۔‘‘ (متفق علیہ)
  9. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین آدمی ایسے ہیں کہ ان کے کھانے کا حساب نہیں ہو گا جب کہ وہ حلال ہو، ان میں سے ایک روزہ دار ہے۔‘‘ (بزار، طبرانی)
  10. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں کسی نے روزہ رکھا ہو تو نہ زبان سے کوئی بری بات کہے، نہ کوئی برا کام ہی کرے، اور اگر کوئی اس کے ساتھ گالی گلوچ یا لڑائی کی کوشش کرے تو وہ (اپنے نفس کو) یہ کہہ کر (جواب دینے سے روک دے کہ) میں روزے سے ہوں۔‘‘ (متفق علیہ)
  11. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے جھوٹے قول و عمل اور گناہ کو نہ چھوڑا، اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا بند کرنے سے کوئی غرض نہیں ہے‘‘ (بخاری، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد)
  12. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بہت سے (بے عمل) روزے دار ایسے ہیں کہ ان کو روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا، اور بہت سے رات کو قیام کرنے والے (بے عمل) ایسے ہیں کہ ان کو رات کے قیام سے سوائے جاگنے کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ (مسند احمد، ابن ماجہ)
  13. حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال ہے، جب تک کہ اس کو توڑا نہ جائے۔ پوچھا گیا کہ روزے کو توڑنا کیسے ہوتا ہے؟ فرمایا، جھوٹ یا غیبت کے ساتھ۔‘‘ (نسائی، طبرانی فی الاوسط، ابن خزیمہ)
  14. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کا ایک روزہ کسی عذر کے بغیر چھوڑا تو وہ عمر بھر روزے رکھ کر بھی اس کا کفارہ ادا نہیں کر سکتا۔‘‘ (مسند احمد، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)

رمضان المبارک کی حکمتیں اور فضائل

حکیم عبد الرشید شاہد

جس طرح بعض موسموں کو بعض چیزوں سے مناسبت ہوتی ہے، جب وہ موسم آتا ہے تو ان چیزوں میں فراوانی نظر آتی ہے، اسی طرح رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی جود و سخا کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں اس کی جود و سخا بارش کی طرح برستی ہے۔ اس ماہِ مبارک میں انوار و تجلیات سایہ فگن ہوتی ہیں، رحمتوں اور برکتوں کی بارش ہوتی ہے، گناہ گاروں کے لیے اس میں سامانِ مغفرت ہے اور اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے نارِ جہنم کے مستحق بننے والوں کو آزادی کا پروانہ دیا جاتا ہے۔ اس ماہ میں ایمان و عمل کی بہار آتی ہے۔ گناہوں کی سیاہی سے زنگ آلود دلوں کی صفائی کا سامان کیا جاتا ہے۔ جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ ’’اے خیر کے طلب گار! آگے بڑھ، اے شر کے چاہنے والے! پیچھے ہٹ جا‘‘ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں۔ اس میں دن کو روزہ فرض کیا گیا تاکہ نفسِ امارہ کو اس کی خواہشات اور مرغوبات سے دور رکھ کر زیورِ تقویٰ سے آراستہ کیا جائے۔ اور رات کو قرآن کی تلاوت سے دلوں کو جِلا دینے کا حکم دیا گیا ہے۔
اس ماہِ مقدس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کس قدر بے پایاں ہوتی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اس ماہ میں نفل کا ثواب فرض کے برابر، اور ایک فرض کا ستر فرضوں کے برابر ملتا ہے۔ اس مہینہ کو ہمدردی اور خیر خواہی کا مہینہ قرار دیا گیا ہے کہ جب ایک شخص پورا دن بھوکا پیاسا رہتا ہے تو اسے ان فقراء اور مساکین کی حالت کا احساس ہوتا ہے جو نان شبینہ کے محتاج ہوتے ہیں اور کئی کئی دن فاقے میں گزارتے ہیں۔ ان کے لیے قدرتی طور پر اس کے دل میں ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔
اس مہینہ کے پہلے حصہ کو رحمت، دوسرے کو مغفرت، اور آخری حصہ کو جہنم سے آزادی کا ذریعہ کہا گیا ہے۔ اس لیے ان تینوں حصوں میں اطاعت و عبادت سے اللہ کی رحمت و مغفرت اور جہنم سے آزادی کا پروانہ حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اور اس وعید سے بچنا چاہیے جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعا کی اور حضرت جبریل علیہ السلام نے اس پر آمین کہی کہ ’’ہلاک ہو وہ شخص جو رمضان کا مہینہ پائے اور اپنی مغفرت نہ کرائے۔‘‘
اس ماہِ مبارک میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت و رہنمائی اور تزکیہ و اصلاح کے لیے قرآن کریم کی صورت میں ایک نسخہ کیمیا امتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا السلام والتحیہ کو عطا کیا۔ تاکہ اس کی رہنمائی میں یہ امت صراطِ مستقیم پر گامزن ہو اور اپنے اس مقصدِ زندگی کے حصول میں کامیاب وہ کامران ہو۔ قرآن کریم نے انسان کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا، چنانچہ اس نعمتِ عظمیٰ کی شکرگزاری کے لیے اس ماہ میں روزہ، تراویح اور اعتکاف کی اہم عبادتیں رکھی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ روزے کا مقصد بھی واضح کر دیا گیا کہ بھوکا پیاسا رکھنا یا خواہشاتِ نفسانی سے روکنا مقصود نہیں، بلکہ اس کے ذریعے تقویٰ کے ساتھ متصف کرنا مقصود ہے۔
روزہ پورے سال کے ایک مہینے میں فرض کیا گیا ہے تاکہ معدہ اور مادہ کی شقاوت اور سختی دور ہو۔ کچھ دن مادیت پرستی میں تخفیف ہو اور نفسِ انسانی میں روحانیت اور ایمان کی اتنی مقدار شامل ہو جائے جس سے اس کی زندگی اعتدال پر آجائے۔ وہ نفسِ امارہ کا مقابلہ کر سکے اور رزق کی فراوانی کے باوجود بھوکا پیاسا رہ کر وہ لذت و نشان حاصل کر سکے جو انواع و اقسام کے لذیذ کھانوں سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ اسی چیز کو قرآن کریم ’’تقویٰ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے، تاکہ تم متقی اور پرہیزگار بن جاؤ‘‘ (البقرہ)
علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں‘
’’روزے سے مقصود یہ ہے کہ انسانی خواہشات اور عادات کے شکنجہ سے نفس آزاد ہو، اس کی شہوانی قوتوں میں اعتدال اور توازن پیدا ہو، اور وہ اس کے ذریعے سے سعادتِ ابدی کے گوہرِ مقصود تک رسائی حاصل کر سکے۔ بھوک اور پیاس سے اس کی ہوس کی تیزی اور شہوت کی حدت میں تخفیف پیدا ہو، اور یہ بات یاد آئے کہ کتنے مسکین ہیں وہ لوگ جو نان شبینہ کے محتاج ہوتے ہیں۔ وہ شیطان کے راستوں کو تنگ کر دے اور اعضا و جوارح کو ان چیزوں کی طرف مائل ہونے سے روک دے جن میں دنیا و آخرت دونوں کا نقصان ہو۔‘‘
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’چونکہ دل کی اصلاح اور استقامت اللہ کی طرف چلنے اور جمعیتِ خاطر پر منحصر ہے، اور مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع پر اس کا مدار ہے۔ اس لیے پراگندہ خاطری اس کے حق میں سخت مضر ہے۔ کھانے پینے کی زیادہ مقدار، لوگوں سے میل جول، ضرورت سے زیادہ گفتگو، یہ تمام چیزیں جن سے دل منتشر ہوتا ہے اور جمعیتِ باطنی پر اثر پڑتا ہے، اور انسان اللہ تعالیٰ سے علیحدہ اور جدا ہو کر مختلف راستوں میں بھٹکنے لگتا ہے، ان باتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تقاضا تھا کہ اپنے بندوں پر روزہ فرض کرے اور اس کے ذریعے سے کھانوں کی زائد مقدار اور خواہشات کی زیادتی کا ازالہ ہو سکے۔ جس کی وجہ سے وصول الی اللہ سے محرومی ہو جاتی ہے، اور اس طرح وہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ فائدہ اٹھا سکے۔‘‘ (زاد المعاد)


شاہ ولی اللہؒ اور اسلامی حدود

ڈاکٹر محمد امین

حضرت شاہ ولی اللہ الدہولی برصغیر کی اسلامی تاریخ ہی کے نہیں پورے عالم اسلام کے وہ مایہ ناز دانشور ہیں جنہوں نے اسلامی احکام کے اسرار و رموز اور حکمتوں کی بھرپور وضاحت کی ہے۔ ان کی تصنیف لطیف حجۃ اللہ البالغہ اپنی نوعیت کی ایک بے نظیر چیز ہے اور اپنے موضوع پر سند کا درجہ رکھتی ہے۔ اسلامی حدود کی حکمتوں کو بھی شاہ صاحب نے اپنی اس کتاب میں خوب نمایاں کیا ہے اور معاشرے پر ان کے پاکیزہ اور مفید اثرات کی تعریف کی ہے۔ بدقسمتی سے شاہ صاحب کی ایک عبارت کو سمجھنے میں علامہ شبلی سے معمولی تساہل ہوا، اور پھر جو شبلی نے نہیں کہا تھا وہ بھی بعض لوگوں نے ان کے سر منڈھ دیا، بلکہ اسے ہی علامہ اقبال کا موقف بھی قرار دے ڈالا، کیونکہ اقبال نے اپنے چھٹے خطبے میں شاہ ولی اللہ صاحب کی اسی عبارت سے استشہاد کیا تھا۔ لہٰذا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب کی مذکورہ عبارت کا دقتِ نظر سے جائزہ لیا جائے اور شبلی و اقبال کی آراء کی بھی تنقیح کی جائے تاکہ حقیقتِ حال واضح ہو سکے۔
شاہ ولی اللہؒ نے حجۃ اللہ البالغۃ کے سترہویں باب میں اس امر پر بحث کی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت انسانیت ذہنی، روحانی اور تمدنی ارتقاء کے حوالے سے اس سطح تک پہنچ چکی تھی کہ اب ایک ایسی شریعت نازل کر دی جاتی جو سابقہ شریعتوں کی ناسخ ہوتی، اور اب یہی شریعت قیامت تک کے لیے نافذ العمل رہتی۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو شریعت نازل ہوئی وہ اپنے اندر یہ صلاحیت رکھتی تھی کہ وہ تاقیامت انسانوں کے مسائل حل کر سکتی۔ شریعتِ اسلامی میں یہ خوبی کیسے پیدا ہوتی ہے اور اس میں ناقابلِ تغیر اور قابلِ تغیر احکام کس حکمت کے ساتھ سموئے گئے ہیں اس پر بحث کرتے ہوئے شاہ صاحب لکھتے ہیں:
’’وھذا الامام الذی یجمع الامم علی ملۃ واحدۃ یحتاج الی اصول اخری غیر الاصول المذکورہ فیما سبق۔ منھا ان یدعو قوما الی السنۃ الراشدہ، ویزکیہم، ویصلح شانہم، ثم یتخذھم بمنزلۃ جوارحہ، فیجاحد اہل الارض، ویفرقہم فی الافاق، وھو قولہ تعالی کنتم خیر امت اخرجت للناس ۔۔۔۔۔ وذٰلک لان ھذا الامام نفسہ لا یتانی منہ مجاھدہ امم غیر محصورۃ، واذا کان کذلک وجب ان تکون مادۃ شریعتہ ما ھو بمنزلۃ المذھب الطبیعی لاھل الاقالیم الصالحۃ عربہم و عجمھم ثم ما عند قومہ من العلم والارتفاتات، ویراعی فیہ حالہم اکثر من غیرھم، ثم یحمل الناس جمیعا علی اتباع تلک الشریعۃ لانہ لاسبیل الی ان یفوض الامر الی کل قوم او الی ائمۃ کل عصر، اذ لا یحصل منہ فائدۃ التشریع اصلا، ولا الی ان ینظر ما عند کل قوم، ویمارس کلا منہم، فیجعل لکل شریعۃ، اذ الاحاطۃ بعاداتہم و ما عندھم علی اختلاف بلدانہم و تباین ادیانہم کالممتنع، وقد عجز جمہور الرواۃ عن روایۃ شریعۃ واحدۃ، فما ظنک بشرائع مختلفۃ، والاکثر انہ لا یکون انقیاد الاخرین الا بعد عدد و مدد لا یطول عمر النبی الیہا، کما وقع فی الشرائع الموجودہ الان فان الیہود والنصاری والمسلمین ما آمن من اوائلم الا جمع، ثم اصبحوا ظاھرین بعد ذلک فلا احسن ولا ایسر من ان یعتبر فی الشعائر والحدود والارتفاتات عادۃ قومہ المبعوث فیہم ولا یضیق کل التضییق علی الاخرین الذین یاتون بعد، ویبقی علیہم فی الجملۃ ۔۔۔ (۱)
’’اس رہنما (پیغمبر) کو، جو مختلف قوموں کو ایک ملت کی صورت میں جمع کرتا ہے، ایسے اصولوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اول الذکر اصولوں سے مختلف ہوں (یعنی اس پیغمبر کے اصولوں سے جو کسی ایک قوم کی طرف مبعوث ہوا ہو)۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ (پہلے) ایک قوم کو مخاطب کرتا اور اس کی تربیت و اصلاح کرتا ہے، اور پھر اس کے ذریعے سے دوسری قوموں کی اصلاح کی جدوجہد کرتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں کہا گیا ہے (کنتم خیر امت اخرجت للناس ۔۔۔ (اے مسلمانو!) تم وہ بہترین امت ہو جسے دوسرے لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہے تاکہ تم انہیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم دو اور ۔۔۔۔)۔ اس لیے (بھی) کہ یہ ایک فرد کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ سارے عالم کی ذاتی طور پر اصلاح کرے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس پیغمبر کی شریعت ایسی ہو اور ایسے فطری مذہبی اصولوں پر مبنی ہو جو عرب و عجم سب کے لیے موزوں ہو، اور اس میں اس کی اولین مخاطب قوم کے علوم اور اعراف کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہو۔ پھر سب لوگوں کو اسی ایک شریعت کی پیروی کا حکم دیا جائے۔ کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہر عہد کے لوگوں کو یہ چھوٹ دے دی جائے کہ وہ اپنے قوانین (شریعت) خود بنا لیں کہ اس سے تو شریعتِ الٰہی کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ اور نہ یہ ممکن ہے کہ ایسی شریعت میں ہر ایک قوم کے رسم و رواج کا لحاظ رکھا جائے اور (گویا) ہر قوم کے لیے الگ شریعت بنا دی جائے، کیونکہ ہر قوم دوسری سے الگ علاقائی اور مذہبی پس منظر رکھتی ہے۔ (اور ہر قوم کے لیے الگ شریعت مقرر کرنے والی بات اس لیے بھی ممکن نہیں ہے) کہ ایک شریعت کی روایت (بعد والی نسلوں تک اس کا صحیح طور پر پہنچانا) ہی مشکل ہے۔ چہ جائیکہ (ایک دین کے اندر) کئی شریعتوں کا روایت کیے جانا (جس سے معاملات خلط ملط ہو کر رہ جائیں گے) کیونکہ دوسری قومیں عام طور پر پیغمبر کی اپنی زندگی میں اس کی اطاعت قبول نہیں کرتیں۔ جیسا کہ موجودہ شریعتوں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں میں سے بھی (پیغمبر کی زندگی میں) کم ہی ایمان لائے اور (دوسری قوموں پر) غلبہ انہیں بعد میں حاصل ہوا۔ (ان حالات میں) بہترین اور آسان طریقہ یہی ہے کہ وہ (پیغمبر) شعائر (دینی)، حدود (اللہ) اور اجتہادی اداروں کی تشکیل میں (فطری مذہبی اصولوں کے علاوہ) اس قوم کی عادات کا ہی خیال رکھے جس میں وہ مبعوث ہوا ہے۔ اور بعد میں آنے والوں پر ان معاملات (یعنی جو اس خاص قوم کی عادات پر مبنی ہیں اور یونیورسل نوعیت کے نہیں) پر عمل میں سختی نہ کی جائے، اگرچہ بحیثیت مجموعی وہ ان پر لاگو ہی ہوں گے۔‘‘
اگرچہ قوسین میں دیے گئے الفاظ سے ترجمہ کافی واضح ہو گیا ہے لیکن شاہ صاحب کے مدعا کو مزید واضح کرنے کے لیے عرض ہے کہ ایک پیغمبر جو صرف ایک مخصوص قوم کی طرف نازل ہوتا ہے، اس کی شریعت میں اسی قوم کے احوال و اعراف کا خیال رکھا جاتا ہے۔ لیکن ایک ایسا پیغمبر جس کی شریعت کو قیامت تک کے لیے مختلف زمان و مکان میں رہنے والے لوگوں کے لیے نافذ العمل رہنا ہو، یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کی شریعت میں صرف اولین مخاطب قوم کے احوال و اعراف کا خیال رکھا جائے، کیونکہ اگر ایسا ہو تو ایسی شریعت بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے قابلِ عمل نہ رہے گی جو اس سے مختلف احوال و اعراف رکھتے ہوں۔ اس کا حل شارع یہ اختیار فرماتا ہے کہ اس پیغمبر کی شریعت کی بنیاد ان اصول و اقدار پر رکھی جاتی ہے جو انسان کی سعید فطرت اور طبعی انصاف پر مبنی ہوتی ہیں۔ جو نہ صرف پیغمبر کی اولین مخاطب قوم کی اقدار و اعراف پر مبنی ہوتی ہیں بلکہ ماضی میں بھی بحیثیت مجموعی (یعنی ضروری تفاصیل سے قطع نظر) ان پر عمل رہا ہوتا ہے، اور آنے والے وقتوں اور معاشروں کے لیے بھی وہ صالح ہوتی ہیں۔ اور یہی وہ اصول و اقدار ہیں جو شریعت کا بنیادی ڈھانچہ بناتی ہیں اور انہی پر شریعت کے اکثر احکام (عبادات و معاملات وغیرہ) مبنی ہوتے ہیں۔
رہے وہ معاملات جن میں زمان و مکان کی تبدیلی سے تغیر واقع ہو سکتا ہے تو یہاں شارع یہ حکیمانہ طریقہ اختیار فرماتا ہے کہ وہ ایسے امور میں محض پالیسی کے اصول بیان فرما دیتا ہے، اور تفصیلات ہر زمانے اور علاقے کے مسلمان اہلِ علم اور اہلِ حل و عقد پر چھوڑ دیتا ہے کہ وہ شریعت کے اصولوں کی روشنی میں ان تفصیلات کو طے کر لیں۔ تاہم ان دو بڑے دائروں سے بچ کر کچھ احکام ایسے بھی ہو سکتے ہیں جن میں پیغمبر کی اولین مخاطب امت اور اس کے خصوصی و مقامی احوال و ظروف کا ہی خیال رکھا گیا ہو۔ اور یہ ایسے احوال و اعراف ہوں جو آفاقی نوعیت کے نہ ہوں۔ ظاہر ہے کہ بعد میں آنے والی امتوں پر یہ احکام بعینہ نافذ نہ ہوں گے۔ اصولی طور پر تو یہ ان پر بھی لاگو ہوں گے لیکن ان کا جو جزء مقامی عرف پر مبنی ہو گا بعد میں آنے والوں کے لیے اس پر عمل ضروری نہ ہو گا کہ اس میں ان کے لیے تنگی ہے۔ جب کہ شریعت آسانی کی داعی ہے اور اس کی ضامن بھی۔ مزید وضاحت کے لیے تشریع کے ان تینوں دائروں کی ایک ایک مثال ملاحظہ ہو:
(۱) ان امور کی حفاظت کے لیے، جن کے بغیر کوئی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا اور نہ فرد اطمینان اور خوشی کی زندگی بسر کر سکتا ہے، شارع نے سخت سزائیں اپنی طرف سے مقرر کر دیں۔ جیسے جان کی حفاظت (قصاص)، مال کی حفاظت (قطع ید)، نسل و آبرو کی حفاظت (کوڑے اور رجم)، دین کی حفاظت (حدِ ارتداد)، اور عقل کی حفاظت (حدِ شرب خمر) وغیرہ۔ اب یہ ایسے امور ہیں جن کی حفاظت و حرمت کے بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں۔ ہر صاحبِ عقل یہ دیکھ سکتا ہے کہ اگر ان پانچ مقاصد کی حفاظت نہ کی جائے تو کوئی معاشرہ بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ اس لیے ان مقاصد کی حفاظت کے لیے ہر زمانے میں اور ہر قوم میں سخت قوانین بنائے گئے۔
قرآن بتاتا ہے کہ ان مقاصد کے خلاف جرائم کی سزائیں پہلی قوموں میں بھی نافذ تھیں اور آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہر معاشرے نے ان امور کی حفاظت کے لیے سخت قوانین بنا رکھے ہیں۔ لہٰذا ان مقاصد کی حفاظت کے لیے شارع نے سزائیں خود مقرر فرما دیں۔ اور جب تک انسانی معاشرہ باقی ہے، یہ مقاصد بھی باقی رہیں گے، لہٰذا یہ سزائیں بھی باقی رہیں گی، اور شریعت نے ان سزاؤں میں جن مقداروں کا تعین کیا ہے وہ بھی ہمیشہ کے لیے باقی رہیں گی۔ یہ سزائیں ماضی میں بھی نافذ رہی ہیں، آج بھی نافذ ہونی چاہئیں، اور مستقبل میں بھی۔ کیونکہ ان کا تعلق ایسی اقدار اور ایسے مقاصد سے ہے جو عارضی نوعیت کے نہیں اور نہ ان کا تعلق کسی خاص معاشرے یا زمانے سے ہے۔
(۲) دوسرے دائرے کی مثال سیاسی نظام کی ہے۔ شارع نے اپنی سیاسی تعلیمات میں پالیسی کے بنیادی اصول تو بیان کر دیے لیکن اپنی رحمت و مہربانی سے تفصیلات کا تعین نہیں کیا، تاکہ بدلتے ہوئے زمان و مکان میں لوگ اپنی ضرورت کے مطابق تفصیلات کا تعین خود کر لیں۔ مثلاً شارع نے مسلمانوں کو سیاسی معاملات میں مشاورت کا حکم دیا لیکن مشاورت کی کوئی خاص شکل معین نہیں کی۔ فرض کیجئے کہ عہد رسالت مآبؐ میں کوئی خاص شکل معین کر دی جاتی تو یقیناً آج اس پر عمل ناممکن ہوتا۔ اس لیے لوگوں کو تنگی سے بچانے کے لیے شارع نے ایسے امور امت (کے اہلِ علم اور اہلِ حل و عقد) پر چھوڑ دیے کہ منصوص بنیادی اصولوں کی روشنی میں اپنے حالات و ضروریات کے مطابق تفصیلات کا تعین وہ خود کر لیں۔
(۳) تیسرے دائرے کی مثال دیت میں عاقلہ کا تصور ہے۔ عربوں میں دیت کا رواج تھا۔ اسلامی شریعت نے اسے باقی رکھا کیونکہ یہ انسانی فطرت اور طبعی انصاف کے اصولوں کے عین مطابق ہے کہ اگر کسی شخص سے بغیر ارادے کے انسانی جان کا ضیاع ہو جائے تو وہ متاثرہ خاندان کو مالی تاوان ادا کرے۔ لیکن دیت کے لیے عاقلہ کا تصور یہ ہے کہ اگر ملزم خود مالی تاوان ادا نہ کر سکے تو عاقلہ اس کی مدد کرے۔ عاقلہ وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ ملزم اپنے معاشرتی اور معاشی مفاد میں بندھا ہوا ہے۔ عہدِ رسالت مآبؐ کے معاشرتی نظام میں عاقلہ قبائلی نظام تھا۔ آج کے پاکستانی معاشرے میں قبائلی نظام باقی نہیں رہا لہٰذا آج یہ ممکن نہیں ہے کہ ہمارے ہاں پائی جانے والی برادریاں اور خاندان ملزم کی جگہ دیت ادا کریں۔ ہمارے ہاں عاقلہ ڈرائیوروں کی یونین ہو سکتی ہے یا کوئی انشورنس کمپنی ہو سکتی ہے، اور کل کلاں کوئی دوسرا ادارہ ہو سکتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ عاقلہ کا حکم من حیث الجملہ باقی رہے گا، لیکن عاقلہ کون ہے؟ اس کا حکم زمان و مکان کے بدلنے سے بدل جائے گا۔
اس وضاحت کے بعد اب شاہ ولی اللہ صاحب کا موقف سمجھنے میں کوئی دقت باقی نہیں رہتی۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ دینی شعائر، اسلامی حدود (حدود سے مراد یہاں حدود و تعزیرات والی اصطلاحی و شرعی حدود مراد نہیں، یعنی مقاصد حصولِ خمسہ کے لیے شارع کی طرف سے معین کردہ سزائیں قطع ید و رجم وغیرہ۔ بلکہ اس سے مراد وہ حدیں ہیں جو شریعت نے ہر معاملے میں قائم کی ہیں، یعنی یہ چیز جائز ہے وہ ناجائز ہے، یہ غلط ہے اور وہ صحیح ہے۔ مثلاً وضو کس وقت ٹوٹ جاتا ہے، روزہ کس وقت افطار کرنا چاہیے، حج کس چیز سے فاسد ہوتا ہے، حلال کمائی کب حرام ہوتی ہے وغیرہ۔ گویا یہاں حدود سے مراد وہ حدیں ہیں جو اسلام نے مختلف امور میں مقرر کی ہیں۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ یہاں اسلامی حدود سے مراد ہیں اسلامی احکام) اور معاشرتی و معاشی اداروں کی تنظیم کے لیے دی گئی تعلیمات کے وہ حصے جن کا تعلق ایسے مقامی احوال و اعراف سے ہو جو یونیورسل نوعیت کے نہ ہوں، ان پر بعینہ عمل بعد کے زمانے میں ضروری نہیں ہوتا، بلکہ وہ احکام اصولی طور پر تو باقی رہتے ہیں لیکن ان کے ایسے اجزاء کا تعین جو خالص مقامی اعراف و احوال پر مشتمل تھے، نئے سرے سے کر لیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے امور کا تعلق احکام کے اس تیسرے دائرے سے ہے جس کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں، اور یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ دین کے اکثر و بیشتر احکام کا تعلق پہلے اور دوسرے دائرے سے ہے۔ چند بچی کھچی چیزیں ہی اس تیسرے دائرے میں آتی ہیں۔
اسلامی تشریع کے حوالے سے شاہ ولی اللہ صاحب کا موقف سمجھنے کے بعد آئیے اب دیکھیں کہ علامہ شبلی کو شاہ صاحب کا موقف سمجھنے میں کیا تسامح پیش آیا؟ علامہ شبلی برصغیر کے مشہور عالم اور ادیب ہیں۔ ’’الکلام و علم الکلام‘‘ ان کی عظیم تصنیف ہے۔ الکلام میں ’’انبیاءؑ کی تعلیم و ہدایت کا طریقہ‘‘ کے عنوان سے انہوں نے ان اصول و قواعد کا ذکر کیا ہے جن پر انبیاءؑ کی تعلیمات مبنی ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے چھ اصول بیان کیے ہیں، اور اس کے بعد یہ کہا ہے کہ ان اصولوں کا اطلاق اپنے عموم کے لحاظ سے ہر نبی کی تعلیم پر ہوتا ہے، لیکن اس نبی کا معاملہ ان سے مختلف ہوتا ہے جس کی شریعت کو ہمیشہ کے لیے باقی رہنا ہو۔ اور یہاں وہ شاہ ولی اللہ صاحب کا ذکر کردہ یہ اصول بیان کرتے ہیں کہ وہ احکام جو نبی کی اولین مخاطب قوم کے مقامی اور خصوصی احوال و اعراف پر مبنی ہوں، بعد کے زمانے میں ان کی بعینہ پیروی ضروری نہیں ہوتی بلکہ ان کی تفصیلات میں حسبِ ضرورت تغیر کر لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے شاہ ولی اللہ صاحب کی وہ عبارت نقل کی ہے جو ہم نے اس مقالے کے ابتدا میں درج کی ہے اور اس کا ترجمہ دیا ہے۔ اور اس کے بعد اس اصول پر یہ تبصرہ کیا ہے:
’’اس اصول سے یہ بات ظاہر ہو گی کہ شریعتِ اسلامی میں چوری، زنا، قتل کی جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں ان میں کہاں تک عرب کی رسم و رواج کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اور یہ کہ ان سزاؤں کا بعینہا اور بخصوصہا پابند رہنا کہاں تک ضروری ہے۔‘‘ (۳)
اس کے باوجود کہ شبلی نے شاہ ولی اللہ صاحب کی عبارت میں لفظ ’’حدود‘‘ کا ترجمہ تعزیرات کیا ہے، ان کے مذکورہ بالا جملے مجمل بلکہ مبہم ہیں۔ انہوں نے واضح لفظوں میں یہ نہیں کہا کہ اسلامی حدود عربوں کے خالص مقامی اعراف پر مبنی تھیں، اور یہ کہ آئندہ زمانوں میں ان پر بعینہ عمل نہیں ہو گا۔ بلکہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس اصول کی روشنی میں یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا اسلامی حدود ایسے مقامی اعراف و احوال پر مبنی تھیں جو خالص مقامی نوعیت کے تھے، اور یونیورسل شریعت کا جزو نہیں بن سکتے تھے؟ یا پھر اسلامی حدود ایسے اعراف پر مبنی تھیں جو یونیورسل نوعیت کے تھے اور وہ ہمیشہ کے لیے باقی رہنے والی شریعت کا جزو بن سکتے تھے؟
شبلی کے ان الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ محض دعوتِ فکر دے رہے ہیں، کوئی فیصلہ نہیں کر رہے۔ اور ان الفاظ کا وہی مفہوم سمجھنا چاہیے جو شاہ ولی اللہؒ کا اور امت کے دیگر اہلِ علم کا موقف ہے۔ اور یہی سمجھنا اولیٰ ہے کیونکہ علامہ شبلی کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ حدود کے باب میں شاہ ولی اللہؒ کے موقف سے واقف نہ تھے (جو انہوں نے حجۃ اللہ البالغہ‘‘ ہی میں دوسری جگہوں پر وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، یا یہ کہ خود علامہ شبلی کا موقف ساری امت سے الگ تھا اور وہ حدودِ اسلامی کو قابلِ تغیر سمجھتے تھے، تو یہ علامہ شبلی سے سوءِ ظن بلکہ ان پر محض ایک اتہام اور دعوٰی بلا دلیل ہے۔
تاہم علامہ شبلی سے یہاں یہ تسامح ضرور ہوا ہے کہ انہوں نے حدود کا ترجمہ تعزیرات کرنے کے باوجود مثال دیتے ہوئے یہاں حدود کو شرعی اور اصطلاحی حدود سمجھ لیا ہے، حالانکہ عبارت کا سیاق و سباق اس کا تقاضا کرتا ہے کہ یہاں حدود کو اسلامی احکام کے معنی میں لیا جائے (جیسا کہ علامہ اقبال نے کیا ہے) نہ کہ شرعی اور اصطلاحی حدود کے معنی میں۔
معروف اصطلاحی معنوں میں حدود سے مراد وہ سزائیں ہیں جو شارع نے خود مقرر کی ہیں اور جنہیں امت تبدیل نہیں کر سکتی۔ پھر یہاں علامہ شبلی کو یہ وضاحت بھی کرنی چاہیے تھی کہ شریعتِ محمدی کی یہ اضافی خوبی اس کی تشریع کا کوئی بنیادی اصول نہیں بلکہ، جیسا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے، شریعتِ محمدی کے اکثر و بیشتر احکام تو تشریع کے پہلے دو دائروں پر مبنی ہیں۔ تیسرا دائرہ مختصر اور تنگ دائرہ ہے جس میں بہت کم احکام آتے ہیں۔ تاہم، ہماری ان ساری وضاحتوں کے باوجود اگر کوئی علامہ شبلی کے الفاظ کی اس توجیہ پر اصرار کرے کہ شبلی نے یہاں شاہ ولی اللہ صاحب کی یہ رائے بیان کی ہے کہ اصطلاحی حدود پر بعد کے ادوار میں عمل نہیں ہو گا، تو ہم اسے کہیں گے کہ وہ اصطلاحی اور شرعی حدود کے باب میں حجۃ اللہ البالغہ ہی میں بیان کیے گئے شاہ صاحب کے موقف کو جان لے تو شاید اس کا اطمینان ہو جائے۔
حجۃ اللہ البالغہ میں شاہ ولی اللہؒ شرعی حدود کی حکمتیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جس معصیت کے ارتکاب پر شرع نے حد مقرر کی ہے وہ متعدد مفاسد پر مشتمل ہوتی ہے۔ مثلاً وہ کوئی ایسی معصیت ہو جو نظامِ تمدن میں خلل انداز ہونے کے علاوہ مسلمانوں کے لیے طمانیت اور سکونِ قلب کے زوال کا باعث ہو۔ لوگوں کے دلوں میں بار بار اس کے کرنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہو، اور اس کے دو چار مرتبہ عمل میں لانے سے اس کی لت پڑ جاتی ہو، جس سے کہ پیچھا چھڑانا مشکل ہو جائے، کیونکہ اس کے اثرات اعماقِ قلب میں سرایت کر جاتے ہیں۔ اس قسم کی معصیت میں ایک خرابی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ مظلوم جو اس کا نشانہ بنتا ہے، عموماً آپ اپنی حمایت کرنے سے عاجز ہوتا ہے۔ مزید برآں وہ ایک کثیر الوقوع ہوتی ہے۔ اس نوعیت کی معصیت کے لیے صرف عذابِ آخرت کی وعید و تہدید کافی نہیں بلکہ یہ نہایت ضروری ہے کہ اس کے ارتکاب پر اس دنیا میں بھی کوئی سخت عبرتناک سزا مقرر ہو، اور اس کا مرتکب اپنی سوسائٹی میں سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے، تاکہ ان نتائج کے پیشِ نظر بہت کم اشخاص اس کے ارتکاب پر اقدام کرنے کی جرأت کر سکیں۔
اس کی ایک واضح مثال کسی محترم خاتون کی عصمت دری کرنا ہے۔ کیونکہ اس کا محرک صنفی خواہش کا غلبہ ہوتا ہے، اور صنفِ نازک کے حسن و جمال سے اس جذبہ کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ جیسے کہ ہم کہہ چکے ہیں یہ وہ برا فعل ہے جس کے ایک دو بار کرنے سے اس کا چسکا پڑ جاتا ہے۔ اس خاتون کے شوہر اور اس کے دیگر اقربا کے ماتھے پر اس کلنک کا بدنما ٹیکہ ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جاتا ہے اور وہ کسی کو اپنا منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔ یہ ایک ایسا فعل ہے جس کو انسان کی فطری غیرت ہرگز گوارا نہیں کرتی، الاّ یہ کہ کسی کی فطرت مسخ ہو چکی ہو۔ علاوہ ازیں اس سے کئی قسم کے تنازعات پیدا ہوتے ہیں جس کا نتیجہ کشت و خون ہوتا ہے۔ اکثر یہ فعل قبیح فریقین کی رضامندی سے واقع ہوتا ہے اور اس کا محلِ ارتکاب عموماً کوئی پوشیدہ جگہ ہوتی ہے جو لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو۔ اب اگر اس کے لیے شریعت میں سخت اور عبرتناک سزا مقرر نہ ہو تو اس فعلِ شنیع کے عام طور پر پھیل جانے میں ذرہ بھی شک نہیں‘‘ (۴)
اس کے بعد شاہ صاحب نے چوری، رہزنی، شراب خوری اور قذف کا ذکر کیا ہے اور ان جرائم کی سخت سزاؤں کی حکمتیں بیان کی ہیں۔ بعد ازاں شاہ صاحب نے حدود کے اس باب میں یہ لکھا ہے کہ یہ ایسے شنیع جرائم ہیں کہ سابقہ انبیاءؑ کی شریعتوں میں بھی ان کے لیے ایسی ہی سخت سزائیں مقرر تھیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
’’ہم سے پہلے جو شریعتیں تھیں ان کا حکم یہ تھا کہ اگر کوئی شخص قتل کا مرتکب ہو تو اس کو قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے، زنا کی سزا رجم مقرر تھی، اور چوری کے ارتکاب پر مجرم کا ہاتھ کاٹا جاتا۔ یہ تینوں سزائیں انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں میں متوارث چلی آتی تھیں۔ جملہ انبیائے سابقین کی شریعتوں میں ان جرائم کے لیے یہی سزائیں مقرر تھیں اور ان کی امتوں میں انہی احکام پر عمل درآمد ہوتا تھا۔ یہ حدود اور شرائع اس قابل تھے کہ شریعتِ محمدیہ میں بھی انہی کو برقرار رکھا جائے۔ اتنی بات ضرور ہے کہ شریعتِ ہٰذا نے ان کی مناسب اصلاح کی‘‘۔ (۵)
اس کے بعد شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ ان سخت سزاؤں کو تبدیل کر کے ہلکی سزائیں مقرر کرنا دین میں تحریف ہے۔ اور یہ کہ حدود کی سزائیں بغیر کسی مداہنت کے سختی سے نافذ کرنی چاہئیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
’’یہودیوں میں جب اپنی شریعت کی پابندی کے بارے میں تساہل آ گیا تو وہ ہر کہہ و مہ پر رجم کا، جو زنا کی شرعی سزا تھی، اجراء نہ کر سکے۔ اور انہوں نے اس کو تجبیہ اور تسحیم سے بدل دیا (یعنی مجرم کا منہ کالا کر کے اور گدھے پر سوار کر کے شہر کے بازاروں اور گلی کوچوں میں پھرانا)۔ یہ علماء یہود کی تحریف تھی‘‘ (۶)
آگے چل کر فرماتے ہیں:
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سخت تاکید فرمائی کہ حدودِ شرعیہ کی تعمیل اور اجراء میں کسی سے بھی مداہنت اور نرمی کا برتاؤ نہ کیا جائے بلکہ حکمِ شرعی کی موبمو تعمیل کی جائے۔ اغنیاء اور اصحابِ عز و جاہ کے ساتھ کسی قسم کی رو رعایت تشریعِ حدود کے منافی ہے، اور اس سے شرائعِ الٰہیہ کا ابطال اور ان کی بے وقعتی ہوتی ہے۔‘‘ (۷)
اب آئیے اقبال کی طرف۔ اقبال کی ’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ کے چھٹے خطبے کا موضوع اسلام کا حرکی تصور اور اجتہاد ہے۔ یہاں انہوں نے اسلامی قانون کے ماخذ پر بھی مختصر بحث کی ہے اور اس ضمن میں قرآن، سنت، اجماع اور قیاس پر گفتگو کی ہے۔ سنت کے ماخذِ قانون ہونے کی حیثیت سے جب وہ گفتگو کرتے ہیں تو کہتے ہیں:
For our present purposes, however, we must distinguish traditions of a purely legal import from those which are of a non-legal character. With regard to the former, there arises a very important question as to how for they embody the Pre-Islamic usages of Arabia which were in some cases left intact, and in others modified by the Prophet. It is difficult to make this discovery, for our early writers do not always refer to Pre-Islamic usages. Nor is it possible to discover that usages, left intact by express or tacit approval of the Prophet, were intended to be universal in their application. Shah Waliullah has a very illuminating discussion on the point. I reproduce here the substance or his view. The Prophetic method of teaching, according to Shah Waliullah, is that, generally speaking, the law revealed by a Prophet takes especial notice of the habits, ways, and peculiarities of the People to when he is specifically sent.  The Prophet who aims at all-embracing principles, however, can neither reveal different principles for different people, nor leaves them to workout their own rules of conduct. His method is to train one particular people, and to use them as a nucleus for the building up of a universal Shariah. In doing so he accentuates the principles under lying the social life of all mankind, and applies them to concrete cases in the light of the specific habits of the people immediately before him. The Shariah values (Ahkam) resulting from this application (e.g. rules relating to penalties for crimes) are in a sense specific to that people; and since their observance is not an end in itself, they cannot be strictly enforced in the case of future generations". 
(۳) اس عبارت کا ترجمہ نذیر نیازی صاحب نے یوں کیا ہے:
’’لیکن جہاں تک مسئلہ اجتہاد کا تعلق ہے، ہمیں چاہیے ان احادیث کو، جن کی حیثیت سر تا سر قانونی ہے، ان احادیث سے الگ رکھیں جن کا قانون سے کوئی تعلق نہیں۔ پھر اول الذکر کی بحث میں بھی ایک بڑا اہم سوال یہ ہو گا کہ ان میں عرب قبلِ اسلام کے اس رسم و رواج کا، جسے جوں کا توں چھوڑ دیا گیا، یا جس میں حضور رسالت مآبؐ نے تھوڑی بہت ترمیم  کر دی، کس قدر حصہ موجود ہے۔ لیکن یہ وہ حقیقت ہے جس کا اکتشاف مشکل ہی سے ہو سکے گا، کیونکہ علماء متقدمین شاذ ہی اس رسم و رواج کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ہمیں تو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ جس رسم و رواج کو جوں کا توں چھوڑ دیا گیا، خواہ حضور رسالت مآبؐ نے اس کی بالصراحت منظوری دی، یا خاموشی اختیار فرما لی، اس پر کیا سچ مچ ہر کہیں اور ہر زمانے میں عمل کرنا مقصود تھا؟ شاہ ولی اللہ نے اس مسئلے میں بڑی سبق آموز بحث اٹھائی ہے۔ ہم اس کا مفاد ذیل میں پیش کریں گے۔‘‘
’’شاہ ولی اللہ کہتے ہیں انبیاء کا عام طریقِ تعلیم تو یہی ہے کہ وہ جس قوم میں مبعوث ہوتے ہیں ان پر اسی قوم کے رسم و رواج اور عادات و خصائص کے مطابق شریعت نازل کی جاتی ہے۔ لیکن جس نبی کے سامنے ہمہ گیر اصول ہیں، اس پر نہ تو مختلف قوموں کے لیے مختلف اصول نازل کیے جائیں گے، نہ یہ ممکن ہے کہ وہ ہر قوم کو اپنی اپنی ضروریات کے لیے الگ الگ اصولِ عمل متعین کرنے کی اجازت دے۔ وہ کسی ایک قوم کی تربیت کرتا اور پھر ایک عالمگیر شریعت کی تشکیل میں اس سے تمہید کا کام لیتا ہے۔
(یہاں شاہ صاحب کی عبارت سے ایک غلط فہمی کا اندیشہ ہے لہٰذا اس امر کی صراحت ناگزیر ہو جاتی ہے۔ قرآن پاک میں تو یہی عالمگیر شریعت نازل ہوئی جس کی طرف شاہ صاحب اشارہ فرما رہے ہیں۔ رہا اس کے اطلاق میں قوموں کے احوال اور خصائص کا مسئلہ، سو یہ قانون کا مسئلہ ہے، شریعت کا نہیں۔ قرآن پاک کا صاف و صریح ارشاد ہے: شرع لکم من الدین ما وصٰی بہ نوحا والذی اوحینا الیک و ما وصینا بہ ابراھیم و موسیٰ و عیسٰی ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ (۸ الف)۔)
لیکن ایسا کرنے میں وہ اگرچہ انہی اصولوں کو حرکت دیتا ہے جو ساری نوعِ انسانی کی حیاتِ اجتماعیہ میں کارفرما ہیں، پھر بھی ہر معاملے اور ہر موقع پر عملاً ان کا اطلاق اپنی قوم کی مخصوص عادات کے مطابق ہی کرتا ہے۔ لہٰذا اس طرح جو احکام وضع ہوتے ہیں (مثلاً تعزیرات) ایک لحاظ سے اس قوم کے لیے مخصوص ہوں گے۔ پھر چونکہ احکام مقصود بالذات نہیں، اس لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ ان کو آئندہ نسلوں کے لیے بھی واجب ٹھہرایا جائے۔‘‘ (۹)
اقبال نے یہاں یہ مسئلہ اٹھایا ہے کہ جو قوانین احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ماخوذ ہیں ان کے بارے میں آج تیقن سے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ کسی خالص مقامی نوعیت کے عرف پر مبنی ہیں، یا پھر ایسے عرف پر مبنی ہیں جو یونیورسل نوعیت کا ہے، کیونکہ راویوں نے عام طور پر اس کو بیان کرنے کی طرف توجہ نہیں دی۔ اس لیے اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ ان احکام کو (جن کے بارے میں خیال ہو کہ وہ یونیورسل نوعیت کے مقامی اعراف پر مبنی نہیں) آئندہ زمانے میں بعینہ نافذ نہ کیا جائے۔ یہاں حدود کا ترجمہ اقبال نے بجا طور پر احکام اور Sharia Values کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی قوسین میں یہ بھی کہہ دیا ہے ’’مثلاً جرائم کی سزاؤں سے متعلق احکام‘‘۔ یہاں اگر ’’جرائم کی سزاؤں سے متعلق احکام‘‘ سے مراد تعزیری احکام ہیں، جیسا کہ اس کا ترجمہ نذیر نیازی صاحب نے کیا ہے، تو یہ بالکل صحیح ہے۔ کیونکہ تعزیری احکام مقصود اصطلاحی حدود ہیں تو اس پر وہی اعتراض وارد ہو گا جو اس سے پہلے ہم علامہ شبلی کے بارے میں بیان کر چکے ہیں۔ لیکن چونکہ اقبال نے یہاں حدود کا لفظ استعمال نہیں کیا اس لیے اسلامی حدود کا لفظ خواہ مخواہ اقبال کے سر کیوں منڈھا جائے؟
موضوع زیر بحث کی رعایت سے ہم یہاں احادیث کی شرعی حیثیت کے حوالے سے ایک ضروری بات کہنا چاہیں گے اور وہ یہ کہ احادیث، خواہ احکامی ہوں یا غیر احکامی، ہمارے لیے حجت ہیں۔ کسی حدیث کے بارے میں علمی اور فنی لحاظ سے تو یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ وہ قولِ رسولؐ ہے یا نہیں، لیکن ایک دفعہ یہ ثابت ہو جانے کے بعد کہ یہ حکمِ رسولؐ ہے، اس کے حجت اور قابلِ اتباع ہونے کے بارے میں کوئی مسلمان سوال نہیں اٹھا سکتا۔ کیونکہ قرآن کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کی اطاعت سے انکار آج بھی اس طرح موجبِ گمراہی و کفر ہے جس طرح وہ حضورؐ کی زندگی میں تھا (۱۰)۔ قرآن اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ حضورؐ جو کچھ فرماتے ہیں وہ مبنی بر وحی ہوتا ہے، وہ اپنے پاس سے کچھ نہیں کہتے (۱۱)۔
پھر ساتھ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جب تک حضورؐ زندہ تھے اور آپؐ پر وحی آتی تھی تو یہ آپؐ کے احکام کے صحیح ہونے کی ضمانت تھی۔ خواہ وہ احکام وحی خفی پر مبنی ہوں یا آپؐ کے اجتہادات ہوں۔ کیونکہ اس صورت میں اگر آپؐ خدانخواستہ غلطی کرتے تو وحی کے ذریعے فورًا آپؐ کی تصویب کر دی جاتی۔ جیسا کہ قرآن مجید کی کئی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ حضورؐ کے بعض افعال و احکام کو جب اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے مرتبۂ کمال کے مناسب نہ سمجھا تو تنبیہ کر دی (۱۲)۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ حضورؐ جب عربوں کے کسی ایسے عرف کو مسلمانوں کے لیے ایک آفاقی شریعت کے طور پر حکم فرماتے تھے تو اس کے پیچھے وحی کی سند موجود ہوتی تھی۔
مثلاً عربوں میں نکاح کے کئی طریقے مروج تھے۔ اب نبی کریمؐ نے نکاح کے جس طریقے کو پسند فرمایا اور وہ امت کو تعلیم فرمایا، وہ ہمیشہ کے لیے ساری امت کے لیے شریعت بن گیا، تو آج اس کے بارے میں یہ سوال نہیں اٹھایا جا سکتا کہ یہ تو عربوں کا طریقہ تھا، اور آج صدیوٖں بعد کسی غیر عرب معاشرے کے لیے یہ موزوں نہیں ہے۔ کیونکہ نکاح کا یہ طریقہ اگر یونیورسل شریعت کا جزو بننے کے لیے موزوں نہ ہوتا، جبکہ حضورؐ ایسا قرار دے چکے تھے، تو ضروری تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔ وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ اس کی تصحیح کر دیتے۔ لیکن چونکہ ایسی کوئی تصحیح نہیں کی گئی، لہٰذا آج یہ سوال ہی خارج از امکان ہے کہ آیا یہ محض مقامی نوعیت کے عرف پر مبنی ہونے کی وجہ سے خالص مقامی حکم تھا، یا ایسے عرف پر مبنی جو آفاقی نوعیت کا تھا۔
پھر یہ بھی ذہن میں رہے کہ جن معاملات کے بارے میں فقہ و اصولِ فقہ کے ماہرین نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ یہ مقامی نوعیت کے ہیں اور آفاقی نوعیت کے نہیں، ان کے بارے میں بھی یہ فیصلہ انہوں نے محض اپنی رائے سے نہیں دیا بلکہ احادیث کی داخلی شہادتوں پر دیا ہے۔ مثلاً کسی کے بارے میں انہوں نے یہ کہا ہے کہ یہ حضورؐ کا عمومی حکم نہیں بلکہ بطور حکمران کے آپؐ نے یہ انتظامی فیصلہ کیا ہے۔ مثلاً بنجر زمینوں کو آباد کرنے پر حقِ ملکیت حاصل ہونا۔ یا بطور قاضی کوئی فیصلہ دیا ہے مثلاً بیوی کو شوہر کے مال میں بغیر اجازت کفاف کی حد تک تصرف کا حق دینا۔ یا احکام کی نوعیت ہی بتا دیتی ہے کہ یہ کوئی مستقل حکم نہیں بلکہ عارضی حکم ہے، مثلاً حضورؐ کا یہ فرمان کہ ’’حکمران قریش سے ہوا کریں گے‘‘۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ قیامت تک ساری دنیا میں مسلمانوں کے حکمران صرف قریش ہی ہوں گے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت جزیرہ نما عرب میں قریش کو سیاسی بالادستی اور قوت حاصل تھی اور ان کی موجودگی میں کسی دوسرے قبیلے کو حکومت سازی کا اختیار دینا ایک ایسی بات ہوتی جو چل نہ سکتی بلکہ الٹا معاشرے کو نقصان پہنچاتی۔ اس کا یہ مطلب بھی لیا جا سکتا ہے کہ جب تک قریش کو عربوں میں یہ سیاسی قوت، رسوخ اور بالادستی حاصل رہے گی یہ ضروری ہے کہ حکمران انہی میں سے ہوں۔ لیکن اس حدیث کا یہ مطلب کسی نے بھی نہیں لیا کہ قیامت تک مسلمانوں کے حکمران قریشی ہوں گے اور نہ ہی امت کا اس پر عمل ہے۔
اور جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ایسے امور کا تعلق اسلام کے عمومی احکام سے نہیں بلکہ اکثر و بیشتر تشریع کے پہلے اور دوسرے دائرے میں آجاتے ہیں۔ اور اس تیسرے دائرے کی تنگنائے میں محض چند استثنائی احکام رہ جاتے ہیں۔ مثلاً فوجیوں میں تقسیمِ غنیمت، دیت میں عاقلہ کا تصور، بیوی کا شوہر کے مال میں بغیر اجازت تصرف، بنجر زمینوں کو آباد کرنے پر حقِ ملکیت، اور حکومت کا قریش میں محدود ہونا وغیرہ۔ یہی وہ چند احکام ہیں جو فقہاء نے عموماً اس ضمن میں بیان کیے ہیں۔
دینی علوم سے بے بہرہ جو دانشور شاہ ولی اللہ، علامہ شبلی، یا علامہ اقبال کی مذکورہ عبارات کے حوالے سے یہ کہتے ہیں کہ اتنی سخت اور وحشیانہ سزائیں تو اس وقت کے عرب بدوؤں کے لیے تھیں، آج کے ’’مہذب‘‘ معاشرے میں یہ نافذ نہیں کی جا سکتیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ اس طرح کی اکثر و بیشتر سزائیں خود قرآن میں مذکور ہیں۔ یہ اصلاً حضور اکرمؐ کی مقرر کردہ نہیں کہ ان پر مقامی عرف ہونے کے حوالے سے تنقید کی جا سکے۔ چنانچہ دیکھیے قرآن میں مندرجہ ذیل سزائیں مذکور ہیں:
چوری کی سزا: ہاتھ کاٹنا (۱۳)
زنا (غیر محصن) کی سزا: ۱۰۰ کوڑے (۱۴)
قتلِ عمد کی سزا: قتل (۱۵)
قذف کی سزا: ۸۰ کوڑے (۱۶)
حرابے (ڈکیتی، خللِ امن) کی سزا: قتل یا سولی یا ہاتھ پاؤں کا کاٹنا یا ملک بدری (۱۷)
باقی رہیں زانی محصن کی سزا یا شربِ خمر اور ارتداد و توہینِ رسالتؐ کی سزا تو بلاشبہ یہ حضور ختمی المرتبتؐ سے ثابت ہیں جو اللہ کے مقرر کردہ شارع ہیں۔ لیکن اہلِ علم جانتے ہیں کہ یہ سزائیں بھی دراصل قرآن ہی سے مستنبط ہیں اور وحی خفی و جلی کی اتھارٹی کی وجہ ہی سے ہمارے لیے حجت ہیں۔
ہم یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ مغربی فکر و تہذیب اور قانون سے مرعوب یہ دانشور اسلامی سزاؤں کو سخت اور وحشیانہ کیوں کر کہتے ہیں۔ جب کہ ان کے قبلہ و کعبہ مغرب میں کیفیت یہ ہے کہ آج بھی امریکہ جیسے متمدن اور مہذب معاشرے میں ۵۱ جرائم ایسے ہیں جن کی سزا موت ہے (۱۸)۔ جب کہ اسلام میں تو صرف تین چار جرائم کی سزا شارع نے موت مقرر کی ہے۔

حواشی

(۱) حجۃ اللہ البالغہ ص ۹۳ مطبع الخیریہ بمصر طبع ۱۳۸۶ھ
(۲) آل عمران: ۱۱۰
(۳) الکلام و علم الکلام، شبلی نعمانی، ص ۱۱۵ طبع لکھنؤ ۱۹۲۶ء
(۴) حجۃ اللہ البالغہ، اردو ترجمہ مولانا عبد الرحیم، طبع قومی کتب خانہ، ص ۶۳۵، ۶۳۶
(۵) ایضاً ص ۶۳۸
(۶) ایضاً ص ۶۳۹
(۷) ایضاً ص ۶۶۰
(۸) Allama Mohammad Iqbal, the Reconstruction of Religious Thought in Islam, Published jointly by Iqbal Academy and Institute of Islamic Culture, Lahore, 1989 Edition p 136, 137
(۹) تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، ترجمہ نذیر نیازی، مطبوعہ بزمِ اقبال کلب روڈ لاہور، طبع سوئم مئی ۱۹۸۶ء، ص ۲۶۴ ۔ ۲۶۶
(۱۰) آل عمران ۳۲، النساء ۸۰، ۶۵، ۵۹، محمد ۳۳، الاحزاب ۳۶ وغیرہ
(۱۱) النجم ۳، ۴
(۱۲) التوبہ ۴۳، التحریم ۱، عبس ۱ ۔ ۱۰ وغیرہ
(۱۳) المائدہ ۳۸
(۱۴) النور ۲
(۱۵) البقرہ ۱۷۸
(۱۶) النور ۴، ۵
(۱۷) المائدہ ۳۲
(۱۸) "Times" July 22, 1991
(بشکریہ سہ ماہی ’’فکر و نظر‘‘ اسلام آباد)

انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرتِ طیبہؐ کی روشنی میں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۲۷ و ۲۸ نومبر ۱۹۹۴ء کو مظفر آباد میں حکومت آزاد کشمیر کے زیراہتمام منعقدہ سیرت کانفرنس میں پڑھا گیا)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ صدر ذی وقار، معزز مہمان خصوصی اور قابل صد احترام شرکاء سیرت کانفرنس! جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ اسلام کی دعوت اور پیغام کو مخاطب کی زبان میں اس کی ذہنی سطح اور نفسیات کے مطابق پیش کیا جائے۔ مکہ مکرمہ کے قریشی سردار جب جناب رسول اللہؐ کی دعوت توحید کے اثرات سے پریشان ہو کر جرگے کی صورت میں آنحضرتؐ کے پاس آئے اور پوچھا کہ آخر آپؐ کی دعوت کا مقصد کیا ہے اور آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ تو رسول اکرمؐ نے ان کے مزاج و نفسیات اور ذہنی سطح کو سامنے رکھتے ہوئے یہ جواب دیا کہ

’’میں ایک ایسا کلمہ تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں کہ اگر تم اسے قبول کر لو تو عرب و عجم تمہارے تابع ہوں گے۔‘‘

جناب نبی اکرمؐ کو معلوم تھا کہ یہ لوگ غلبہ، قوت اور اقتدار کے سوا کسی اور زبان کو نہیں سمجھتے اس لیے آپؐ نے انہی کی زبان میں دعوت اسلام کے نتائج و فوائد سے انہیں آگاہ کیا۔ اور یہ بات خلاف واقعہ بھی نہ تھی اس لیے کہ اسلام کی دعوت کو قبول کرنے کے بے شمار نتائج و منافع میں سے ایک منفعت یہ بھی تھی۔ چونکہ سوال کرنے والوں کے ہاں اس منفعت کی اہمیت زیادہ تھی اس لیے آنحضرتؐ نے اسی کا حوالہ دے کر ان کے سوال کا جواب مرحمت فرمایا۔

اس پس منظر میں آج کے دور میں دعوتِ اسلام کی ضروریات اور تقاضوں کا جائزہ لیا جائے اور جناب رسالت مآبؐ کی سیرت طیبہ کو نسل انسانی کے سامنے پیش کرنے کے لیے ترجیحات پر غور کیا جائے تو ضروری معلوم ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کے بارے میں قرآن کریم کی تعلیمات اور رسول اکرمؐ کے ارشادات و احکام کو زیادہ اہمیت کے ساتھ منظر عام پر لایا جائے۔ اور انسانی معاشرہ کو بتایا جائے کہ انسانی حقوق کے تعین اور تحفظ کا جو معیار اور دائرہ کار اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر نے کم و بیش ڈیڑھ ہزار سال قبل دنیا کے سامنے پیش کیا تھا، انسانی عقل تدریج و ترقی کے تمام مراحل طے کرنے اور مختلف نظام ہائے زندگی کا تجربہ کرنے کے باوجود اس کا کوئی متبادل سامنے نہیں لا سکی، اور انسانی معاشرہ ایک بار پھر پریشانی اور اضطراب کے عالم میں اپنے مسائل و مشکلات کے حل کے لیے کسی مسیحا کے انتظار میں ہے۔

آج کی دنیا میں ’’انسانی حقوق‘‘ کی زبان سب سے زیادہ توجہ کے ساتھ سنی جانے والی زبان ہے، جبکہ ورلڈ میڈیا اور لابیوں نے اسے صرف زبان کی حد تک نہیں رہنے دیا بلکہ وقت کا موثر ترین ہتھیار بنا دیا ہے جو عالم اسلام اور تیسری دنیا کی اقوام کے خلاف مغرب کے ہاتھوں میں کامیابی کے ساتھ استعمال ہو رہا ہے۔ اور مغرب جسے چاہتا ہے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور جنیوا کنونشن کی قراردادوں کے شکنجے میں جکڑ کر انسانی حقوق کی چھری کے ساتھ ذبح کر دیتا ہے۔

حضراتِ محترم! مغرب انسانی حقوق کے حوالہ سے جتنے بلنگ بانگ دعوے کر لے، مگر انسانی حقوق اور فری سوسائٹی کے مغربی تصور پر مبنی سولائزیشن نے نتائج و ثمرات کے لحاظ سے آج جو روپ دھار لیا ہے اس نے خود مغربی دانش وروں کو حیران و ششدر کر دیا ہے اور مغربی معاشرہ میں جنسی انارکی اور فیملی سسٹم کی تباہی نے گورباچوف جیسے مدبر کو یہ لکھنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہم نے عورت کو گھر سے نکال کر غلطی کی ہے اور اب اسے گھر واپس لے جانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔

دراصل مغرب حقوق و فرائض میں توازن قائم رکھنے اور ان کے درمیان حد فاصل قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ جبکہ جناب رسول اللہؐ نے حقوق اور فرائض کو نہ صرف یکجا ذکر کیا بلکہ ان کے درمیان ایسا حسین توازن قائم کر دیا جو گاڑی کے دو پہیوں کی طرح انسانی زندگی کا یکساں بوجھ اٹھا سکتا ہے اور اسے لے کر کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ سکتا ہے۔ مگر مغرب نے حقوق و فرائض کو آپس میں گڈمڈ کر دیا اور ان کے درمیان کوئی خط امتیاز قائم نہ رہنے دیا جس کی وجہ سے انسانی معاشرہ ذہنی انتشار اور فکری انارکی کی آماجگاہ بن کر رہ گیا ہے۔ مثلاً

یہ چند مثالیں یہ بات واضح کرنے کے لیے پیش کی گئی ہیں کہ مغرب نے ’’حقوق و فرائض‘‘ کو خلط ملط کر کے انسانی معاشرہ کی گاڑی کے دونوں پہیوں کا توازن بگاڑ دیا ہے جس کی وجہ سے گاڑی مسلسل لڑکھڑاتی چلی جا رہی ہے۔ جبکہ جناب رسالت مآبؐ نے حقوق و فرائض میں توازن قائم کیا اور اس کا عملی نمونہ خلافت راشدہ کی صورت میں پیش کر کے دنیا کو دکھا دیا ۔

سامعین گرامی قدر! مغرب سے انسانی حقوق کے حوالہ سے دوسری بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ حقوق کے تعین کا معیار قائم کرنے میں اس کی نگاہ انسانی معاشرے کی وسیع تر ضروریات کا احاطہ نہ کر سکی۔ مغرب نے حق کے تعین میں معیار یہ پیش کیا کہ ہر شخص کو اپنی مرضی پر عمل کرنے کا حق ہے، جب تک کہ دوسرے شخص کی آزادی متاثر نہ ہو۔ اس طرح مغرب نے حق و ناحق اور جائز و ناجائز کے تعین میں شخصی مفادات و ضروریات میں ہم آہنگی یا ٹکراؤ کو بنیاد بنایا اور اس سے آگے نسل انسانی اور انسانی معاشرہ کی اجتماعی ضروریات و مفادات تک اس کی نگاہ نہ جا سکی جس کا خمیازہ مغرب کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مثلاً

ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ جناب رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ کے حوالہ سے ہمیں آج کھلے دل و دماغ کے ساتھ انسانی حقوق کے مغربی تصور کا جائزہ لینا چاہیے اورا س کے وسیع تر پراپیگنڈہ سے مرعوب ہونے کی بجائے اس کے کھوکھلے پن کو تقابلی مطالعہ کے ساتھ سامنے لا کر اسلامی تعلیمات و احکام کو واضح کرنا چاہیے۔ تاکہ مشکلات و مصائب کے صحرا میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کی اسوۂ حسنہ کے شفاف اور خوش ذائقہ سرچشمۂ حیات کی طرف راہنمائی کی جا سکے۔

حضرات گرامی قدر! مغرب اور انسانی حقوق کے حوالہ سے گفتگو چلی ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کے فلسفہ کی فکری بنیادوں سے ہٹ کر اس کے واقعاتی پہلوؤں پر بھی کچھ معروضات پیش کر دی جائیں۔ بالخصوص اس تضاد اور دوعملی کے پس منظر میں جو مغرب نے عالم اسلام کے بارے میں اختیار کر رکھا ہے۔ اور جس نے یہ بات پوری طرح واضح کر دی ہے کہ مغرب کے نزدیک ’’انسانی حقوق‘‘ کسی فلسفہ یا اصول کا نام نہیں بلکہ یہ محض ایک ہتھیار ہے جو اس نے مخالف اقوام پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے اختیار کر رکھا ہے، ورنہ

چنانچہ مسلم علماء اور دانشوروں کو چاہیے کہ وہ حوصلہ اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھیں اور دنیا کو منطق و استدلال کے ساتھ بتائیں کہ انسانی حقوق کا حقیقی فلسفہ اور متوازن نظام وہی ہے جو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور آج بھی انسانی معاشرہ کی فلاح و کامیابی اسی نظام کو اپنانے پر منحصر ہے۔

میں، مغرب اور مغرب پرست طبقہ

عمران خان

میں اس وقت سوچ میں پڑ جاتا ہوں جب میڈیا کا ایک مخصوص گروپ ایسے روایتی مغرب مخالف بنیاد پرست کے طور پر میری تصویر کشی کرتا ہے جو سیاسی قوت حاصل کرنے کے لیے پند و نصائح کر رہا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے پہلے مرحلے کی تکمیل کے لیے آخری ۱۲ کروڑ جمع کرنے کی غرض سے مجھے عوام کے پاس جانا پڑا۔ اگر تاجر برادری اقتصادی بدحالی کی شکایت نہ کرتی، یا بال ٹمپرنگ کا تنازعہ کھڑا نہ ہوتا، تو مجھے ملک کے طول و عرض میں ۴۵ دن کا وعدہ کر کے عوام، دکانداروں اور طالب علموں، جو میری اصل قوت ہیں، سے مدد مانگنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اس دورے کے دوران میں نے اپنے آپ کو طالب علموں کے لیے ایک مثالی کردار کے طور پر استعمال کیا تاکہ انہیں اپنی ثقافت پر فخر ہو اور انہیں قومی عزتِ نفس کا احساس دیا جائے۔ اس کام کے لیے میں نے ’’براؤن صاحب‘‘ کے کلچر پر حملہ کیا جو سامراجی باقیات اور ایک گہری جڑوں والے احساس کمتری سے نمو پذیر ہوا۔ میں نے اپنے نوجوانوں کو یہ احساس دینے کی کوشش کی کہ زندگی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جب تک آپ اپنی عزت نہیں کریں گے کوئی آپ کی عزت نہیں کرے گا۔
چنانچہ اگر ہمارا مغربیت پرست طبقہ مغربی ثقافت کی نقل کرتا ہے اور اپنے ہی لوگوں سے نالاں ہے تو وہ دنیا میں وقار حاصل کرنے کی توقع کیسے کر سکتا ہے؟ کسی حقیقی نمونۂ مصوری کی نقل چاہے کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو وہ ہمیشہ نقل ہی کہلائے گی۔ اگر ہم یہ فرض کریں کہ برطانوی اعلیٰ طبقہ عربوں کی طرح کا لباس پہننا شروع کر دے، ان کی زبان بولے، اور اپنی ثقافت کو تحقیر کی نظر سے دیکھے، اور اپنے ہم وطنوں کو ادنیٰ سمجھے تو ہم ان کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ جب میں اپنے نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلش کو بطور زبان سیکھیں لیکن انگریز بننے کی کوشش نہ کریں، تو میں انگلش یا مغرب پر حملہ نہیں کر رہا ہوتا بلکہ میں انہیں صرف عزتِ نفس کا احساس دلانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہوں۔
میں نے مغرب میں زندگی کی ۲۰ بہاریں گزاریں، میں ان کی ثقافت کی کمزوریوں اور استحکام کو سمجھتا ہوں۔ میں ’’براؤن صاحبان‘‘ سے وہاں پر مختلف ہو جاتا ہوں کیونکہ میں انہیں اپنے سے برتر یا اپنا آقا نہیں سمجھتا۔ میرے خیال میں ان کے ساتھ ہمارا رشتہ آقا اور غلام کی بجائے پروفیسر اور طالب علم جیسا ہونا چاہیے۔ جیسے یورپی لوگوں نے مسلم اسپین کی یونیورسٹیوں سے علم سیکھا اور وہی علم ان کی نشاۃِ ثانیہ کا باعث بنا۔ اسی طرح ہمیں بھی مغرب سے انسانی حقوق، اہلیت، قابلیت اور صلاحیتوں کی قدر دانی کا وطیرہ سیکھنا چاہیے نہ کہ وی آئی پی کلچر۔
اس کے ساتھ ہمیں خدا کی بجائے مادیت کی پرستش جیسی کمزوریوں کو بھی جاننا چاہیے، اور خصوصاً خاندانی نظام کے ٹوٹنے کو جب جان میجر ’’اساس کی جانب مراجعت‘‘، یا جارج بش خاندانی اقدار کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو دراصل وہ دونوں ہی خاندانی اکائی ٹوٹنے کے تباہ کن اثرات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ میرے خیال میں جب ۱۹۶۰ء کی دہائی کی لذت پرستانہ جنسیت، منشیات، راک این رول کلچر، اور غیر اخلاقی پن کی تحسین شروع ہوئی تو خاندان کی اکائی ٹوٹ گئی۔ جبکہ وکٹورین انگلینڈ کے دوران برطانیہ خوفِ خدا رکھنے والا اخلاقی معاشرہ تھا۔
میں اپنی نوجوان نسل کو بتانا چاہتا ہوں کہ غیر اخلاقی پن میں اضافے کو ترقی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ میری خواہش ہے کہ وہ بھی پاپ کلچر کی چکاچوند کے پس پردہ دیکھیں، جیسے میں دیکھتا ہوں، انہیں گمشدہ جذبوں کی ایک داستان ملے گی۔ میں پاکستانی خواتین کو بھی خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ وہ بھی آزادئ نسواں کے درآمد شدہ تصورات کے بارے میں بات کرتے ہوئے تنقیدی رویہ اختیار کریں۔ انہیں اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ ماں، جو اسلام میں نہایت قابلِ عزت ہے، کے رتبے کی تحقیر کر کے آزادئ نسواں کی تحریکوں اور مردوں کی ہمسری کرنے کی کوشش نے مغرب میں خاندانی نظام کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ کچھ مغربی خواتین کے مطابق سر پر چادر لینے کا مطلب عورت کی آزادی سلب کر لینا ہے، لیکن کیا اس وقت عورت کا استحصال نہیں ہوتا جب مصنوعات فروخت کرنے کے لیے اسے نیم عریاں ہو کر بل بورڈز پر جانا پڑتا ہے؟ اگر مختصر ترین کپڑے پہننا ہی ترقی ہے تو زمانہ قبل از تاریخ کی عورتیں کہیں زیادہ جدید تھیں، کیونکہ وہ بالکل برہنہ تھیں۔
اگر ہمارے مغربیت پرست طبقے ایسے احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوتے، اور اسلام کے بارے میں ان کا علم ناکافی نہ ہوتا، تو ہو سکتا تھا کہ خاندان بحال کرنے کی لڑائی میں ہم مغربی معاشرے کی مدد کرنے کے قابل ہوتے۔ مشاہدہ سے یہ پتہ چلا ہے کہ بچوں کے ذہن پر طلاق کے کیسے خوفناک اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور وہ تعلیم میں ان بچوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں جو ایک مضبوط خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جنوبی کوریا اور جاپان میں تعلیمی نتائج دنیا بھر میں سب سے بہتر ہیں، اور تحقیق سے پتہ چلا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں خواتین اعلیٰ بنیادی تعلیم یافتہ ہیں اور اس وقت تک گھروں ہی میں رہتی ہیں جب تک بچے سکول جانے کی عمر تک نہیں پہنچ جاتے۔
اگر ترقی کا راز کسی اجنبی ثقافت کی نقل کرنے میں مضمر ہے تو ترکی کو اس وقت سپر طاقت ہونا چاہیے تھا۔ اتاترک نے شاندار ماضی کے ساتھ ترکوں کے بندھن کو زیادہ مضبوط نہیں کیا، اور نتیجتاً اسے دوسرے درجے کی یورپی قوم بنا دیا گیا، حالانکہ بار بار درخواست کے باوجود آج بھی اسے یورپی براری میں شامل کرنے کے قابل نہیں خیال کیا جاتا۔ میں نے عزتِ نفس کے بارے میں بات کی ہے جس کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ تاہم مغرب کی مخالفت کر کے بھی ترقی کرنا ممکن نہیں۔
شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال نے یہ عیاں کر دیا کہ پاکستانی عوام قومی مقاصد کی حمایت کریں گے۔ اور میں یہ واضح طور پر محسوس کرتا ہوں کہ ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہیے۔ مجھے اس وقت شدید نفرت محسوس ہوتی ہے جب ہمارے بعض لیڈر یا اعلیٰ طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ غیر ممالک کے تلوے چاٹ کر ہمیں کچھ امداد مل جائے گی اور ہم ترقی کر لیں گے۔ ہمیں بھارت کی جانب دیکھنا اور سمجھنا چاہیے کہ سرد جنگ کے دوران سوویت روس کا حامی ہونے کے باوجود مغرب اس کی مدد کر رہا ہے (اس کی تازہ ترین مثال ڈگلس ہرڈ کا بھارت کے حق میں حالیہ بیان ہے)۔ اس کی وجہ بھارت کی خود انصاری ہے۔ اگر ہم خود کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں تو یہ مغرب کا قصور نہیں، دوستی تو برابری کی سطح پر ہوتی ہے، کیا کوئی گداگروں کو دوست بناتا ہے؟
مجھے یہ معلوم نہیں کہ میری روحانی وابستگی کی وجہ سے مخصوص حلقوں کو اتنی تشویش کیوں لاحق ہوئی ہے۔ علامہ اقبال کے تصورِ شاہین کی طرح میں یہ سمجھتا ہوں کہ اسلام کو گہرائی میں جا کر سمجھنے کے بعد میں اپنی ذاتی خواہشات پر قابو پانے کے قابل ہو گیا ہوں، اور یوں میری حقیقی اہلیت ظاہر ہو گئی ہے۔ ہم زندگی میں اپنی اہلیت کو محدود کر لیتے ہیں، ہم اس وقت تک اقبال کا شاہین نہیں بن سکتے جب تک ہماری دنیا ہماری ذاتی خواہشات کے تابع ہے۔ یہ خدا پر اعتقاد ہی ہے جو انسان کو ایک مثالیت پسند اور ناممکنات سے لڑنے کے قابل بناتا ہے۔ الحاد ظاہر پرستی کی جانب لے جاتا ہے جس کا نتیجہ قنوطیت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ ماضی میں کسی بھی مرحلے پر میں نے شاہین یا درویش ہونے کا دعوٰی نہیں کیا، صرف زندگی کی صحیح راہ دکھانے پر خدا کا شکر ادا کیا۔ میرا اسلام دوسروں کے نظریات کو برداشت کرتا ہے اور قرآن کی اس آیت پر یقین رکھتا ہے ’’دین میں کوئی زبردستی نہیں‘‘۔ اگر اسلام کو پھیلانا مقصود ہے تو اس کے لیے خود مثال بننا پڑے گا، جیسا کہ ہمارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا برصغیر کے عظیم بزرگانِ دین نے کیا، جو عظیم انسان تھے۔ پاکستان کے مغربیت پرست آزاد رو ملحدوں کے لیے میرے پاس حقارت کے سوا کچھ نہیں، جو اسلام کے بارے میں بات کرنے والوں کو برداشت نہیں کرتے۔ اس کی وجہ ان کا احساسِ کمتری، درآمد شدہ خیالات اور رویے ہیں۔
آخر میں، میں مخصوص حلقوں کی جانب سے اپنی اس تصویر کشی کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں جس میں مجھے جنرل حمید گل کے ہاتھوں ایک روبوٹ کے طور پر پیش کیا گیا۔ جہاں تک جنرل حمید گل کا تعلق ہے تو میں ان کے بارے میں بہت اچھی رائے رکھتا ہوں۔ کیونکہ چار سال قبل کور کمانڈر ملتان کی حیثیت سے انہوں نے شوکت خانم میموریل ہسپتال کے لیے نہ صرف فنڈ جمع کرنے کا بندوبست کیا بلکہ اپنی ایک ماہ کی تنخواہ بھی بطور عطیہ دی۔ اگر افغانستان میں سوویت روس کے خلاف ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے جرمن انہیں ’’دیوارِ برلن کی اینٹ‘‘ قرار دے سکتا ہے، تو میں ان کا ہم وطن ہونے کے ناتے ان پر فخر کیوں نہیں کر سکتا؟ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں ان کے ہاتھوں استعمال ہو رہا ہوں۔
۱۹۸۷ء کے بعد سے مجھے مختلف سیاسی دھڑوں کے ہاتھوں استعمال ہونے کے متعدد مواقع میسر آئے۔ اگر میں نے ایسا کرنا ہوتا تو تب ہی کر لیتا۔ اور کیا میں اتنا کم عقل ہوں کہ یہ بھی نہیں سمجھتا کہ سیاست میں جانے کے لیے مجھے کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں۔ خاص طور پر ’’فالتو سامان اٹھائے ہوئے لوگوں کی‘‘ یا جو خود میرے اوپر بوجھ بن سکتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ میں ایک ایسے سیاسی نظام میں شامل نہیں ہو سکتا جس میں کسی کو انتخاب لڑنے کے لیے بھاری رقم کی ضرورت ہو۔ میں امریکی نظام سے بھی متفق نہیں ہوں جہاں ایک سینٹر کو بھی انتخاب لڑنے کے لیے ۱۴ ملین ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بعد میں اسے یہ رقم پوری بھی کرنا ہے، عموماً اصولوں کی قربانی پر۔ میں پارلیمانی جمہوریت میں پارٹی سسٹم سے بھی پوری طرح مطمئن نہیں کیونکہ اس میں پارٹی ڈسپلن کے نام پر سچائی کو چھپانا یا عوام کو جھوٹ بتانا پڑتا ہے۔ اور یوں بھی جتنی عزت، محبت اور احترام، عوام کا اعتماد اور شناخت مجھے آج میسر ہے، کیا وزارتِ عظمیٰ کے بعد اس میں اضافہ ممکن ہے؟ کیا اس ملک میں کوئی ایسا وزیر اعظم تھا یا ہے جس کی اپیل پر لوگ اس طرح لبیک کہیں اور اپنے پیٹ کاٹ کر کروڑوں پیش کر دیں؟
چنانچہ میں فلاحی کاموں میں اپنے لوگوں کی خدمت کر سکتا ہوں، اور حکومتوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ مجھ سے خوف کھانے کی بجائے میری مدد کریں۔ ’’براؤن صاحبان‘‘ کے لیے میں صرف یہ تنبیہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر مغربیت کا شکار اعلیٰ طبقے اور عوام کے درمیان حائل خلیج بہت زیادہ وسیع ہو گئی تو ہمیں الجیریا اور ایران کی صورتحال کو ذہن میں رکھنا چاہیے جہاں انقلابات بنیادی طور پر تو کلچرل تھے لیکن ان کا اظہار اسلام کی صورت میں ہوا۔
(بشکریہ روزنامہ جنگ، لاہور ۔ ۲۰ جنوری ۱۹۹۵ء)

ماہِ صیام

سرور میواتی

علتِ عصیاں کی لے کر ادویہ ماہِ صیام

مرحبا صد مرحبا لو آگیا ماہِ صیام


جس قدر ممکن ہو اس کی میہمانی کیجئے

آگیا قسمت سے مہمانِ خدا ماہِ صیام


طاعت و زہد و ریاضت میں گزارو رات دن

مغفرت کا لے کے مژدہ آگیا ماہِ صیام


خالقِ کونین کی جانب سے ہر ہر خیر کا

دینے آیا ہے صلہ صدہا گنا ماہِ صیام


اس کی بدبختی پہ روتے ہیں زمین و آسماں

ذہن سے اپنے دیا جس نے بُھلا ماہِ صیام


کذب و غیبت سے لیا جس شخص نے دامن بچا

اس کا دامن رحمتوں سے بھر گیا ماہِ صیام


پاک کر لیں آنسوؤں سے دامن تر دامنی

دینے آیا ہے ندامت کا صلہ ماہِ صیام


خالقِ کونین کے الطاف و انعامات سے

ہے بھرا از ابتدا تا انتہا ماہِ صیام


اک شب قدر اس کی بہتر ہے ہزاروں ماہ سے

مصطفٰیؐ کی ہے دعاؤں کا صلہ ماہِ صیام


جس نے استغفار و توبہ میں گزارے روز و شب

کر گیا دارین میں اس کا بھلا ماہِ صیام


مومنوں کے دل میں بھر جاتا ہے آ کر ہر برس

طاعتِ یزداں کا جوش و ولولہ ماہِ صیام


کوئی لمحہ بھی نہ گزرے دیکھ بے یادِ خدا

دے رہا ہے تجھ کو سرور یہ ندا ماہِ صیام

مدرسہ نصرۃ العلوم: تعارف، خدمات، ضروریات

ادارہ

مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ شہر میں قرآن و سنت، فقہ اسلامی اور دیگر دینی علوم و فنون اور اخلاقی تعلیم و تربیت کا ایک بڑا مثالی مرکز اور عظیم درسگاہ ہے جو شرک و بدعت، بے دینی، مغربیت کے ملعون الحاد و دہریت سے متاثرہ ماحول میں، نیز سرمایہ داری کے تکبر و تعیش اور اشتراکیت کی اباحیت و بے راہروی اور شرائع الٰہیہ سے انکار کے طوفانی فتنوں میں گھرے ہوئے گرد و پیش میں قرآن و سنت، خلفائے راشدینؓ، صحابہ کرامؓ، ائمہ دینؒ و سلف صالحینؒ، اولیائے امتؒ اور علماء حق کی روش پر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے گزشتہ ۴۳ سالوں سے خدمت سر انجام دے رہا ہے۔ یہ دینی مرکز تمام متدین اور مخلص مسلمانوں سے جو قرآن و سنت اور صحابہ کرامؓ و سلف صالحینؒ کے طرز و فکر کو جاری رکھنے کی آرزو رکھتے ہیں، ایسے تمام اہلِ حق سے نصرۃ العلوم تعاون کا طلبگار ہے جس کی ابتدا سے آج تک مختصر روئیداد حسبِ ذیل ہے:

مدرسہ کا آغاز

آج سے ۴۳ سال قبل ۱۳۷۲ھ بمطابق ۱۹۵۲ء میں نہایت بے سروسامانی کی حالت میں محض اللہ رب العزت کے توکل پر والد محترم مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی مدظلہ العالی (فاضل دارالعلوم دیوبند و فاضل دارالمبلغین لکھنؤ و فاضل نظامیہ طیبہ کالج حیدر آباد دکن) نے مدرسہ نصرۃ العلوم و جامع مسجد نور کی بنیاد رکھی۔

مدرسہ کے شعبہ جات

ابتدائی چند سالوں میں ابتدائی اور وسطانی تعلیم ہوتی رہی، اللہ تعالیٰ نے اس کو شرفِ قبولیت بخشا اور تھوڑے ہی عرصہ یعنی چار سال بعد ۱۹۵۶ء میں دورۂ حدیث کا آغاز ہوا تو اس وقت سے آج تک درسِ نظامیہ کی مکمل تعلیم ہوتی ہے، اور ساتھ ہی تجوید اور حفظِ قرآن کریم کی تعلیم بھی کافی وسیع پیمانہ پر ہوتی ہے، اور چوبیس (۲۴) سال سے بچیوں کے لیے شعبہ تعلیم النسواں کام کر رہا ہے جو پہلے پرائمری تک تھا اور اب مڈل تک ہو چکا ہے۔ اسی طرح بچوں کے لیے بھی انیس (۱۹) سال سے شعبہ تعلیم الاطفال کام کر رہا ہے۔ یہ پہلے پرائمری تک تھا اور اب مڈل ہو چکا ہے۔ ۱۹۸۶ء سے مدرسہ میں مقامی بچیوں کے لیے بھی قرآن پاک، تفسیر و حدیث اور ضروری درسِ نظامیہ کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ ۱۹۷۶ء سے سالانہ تعطیلات، شعبان و رمضان میں دورۂ تفسیر کا آغاز ہوا اور آج تک اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ دورۂ تفسیر قرآن کریم امام اہلِ سنت شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا محمد سرفراز خان صاحب صفدر مدظلہ پڑھاتے ہیں۔ ہر سال دورۂ حدیث شریف سے تقریباً ساٹھ ستر حضرات علماء کرام فارغ ہو کر سندِ فراغت حاصل کرتے ہیں۔

مدرسہ کی تعلیمی خدمات

اس لحاظ سے اب تک تقریباً ساٹھ ہزار (۶۰۰۰۰)  سے زائد طلباء و طالبات نے مدرسہ نصرۃ العلوم میں تعلیم حاصل کی ہے، جن میں پاکستان کے علاوہ سعودی عرب، برطانیہ، چین، ایران، بنگلہ دیش، برما، افغانستان، ملائیشیا، بھارت، روس، مقبوضہ کشمیر، تھائی لینڈ، جنوبی افریقہ، آئی لینڈ، ترکی، تیونس، تاجکستان وغیرہ ممالک کے طلباء بھی کثیر تعداد میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔

مدرسہ میں مختلف شعبہ جات سے مکمل فراغت حاصل کرنے والوں کی تعداد درج ذیل ہے: دورۂ تفسیر (۴۴۰۰)، دورۂ حدیث (۱۰۲۱)، تجوید (۲۶۶)، حفظِ قرآنِ مجید (۲۵۲)، پرائمری لڑکے (۳۵۰)، پرائمری لڑکیاں (۴۳۰)، مڈل لڑکے (۳۰۰)، مڈل لڑکیاں (۴۸)، درسِ نظامی لڑکیاں ۱۶۲۔

اس وقت مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی کل تعداد سولہ سو (۱۶۰۰) سے متجاوز ہے۔

مدرسہ کی عمارت

مدرسہ نصرۃ العلوم کی تین منزلہ عمارت ہے جس میں بیرونی طلباء کی اقامت کے لیے تقریباً پچاس (۵۰) کمرے ہیں اور دارالحدیث والتفسیر، دارالافتاء، دارالاہتمام، کتب خانہ، مہمان خانہ، باورچی خانہ اور مدرسہ میں مقیم طلباء کے اکٹھے کھانا کھانے کے لیے ایک وسیع ہال بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ تعلیم الاطفال مڈل کے لیے تین منزلہ ایک مستقل عمارت ہے اور تعلیم النسواں مڈل کے لیے بھی ایک تین منزلہ عمارت ہے۔ اسی طرح تعلیم النسواں درسِ نظامی کے لیے بھی ایک مستقل عمارت ہے۔

داالافتاء

مدرسہ میں دارالافتاء کا شعبہ بھی ہے جس میں اس وقت دو فاضل مفتی صاحبان اندرون و بیرون ممالک سے آئے ہوئے سوالات کے جوابات میں فتاویٰ جاری کرتے ہیں۔ اب تک مدرسہ سے درج شدہ چھ ہزار (۶۰۰۰) فتوے جاری ہو چکے ہیں۔

ادارہ نشر و اشاعت

مدرسہ کے تحت ایک ادارہ نشر و اشاعت بھی ہے جس کے تحت اب تک اسی (۸۰) سے زائد علمی و تبلیغی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ یہ کتب بہت مفید ہیں اور بعض کتب کے اب تک کافی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا ابو الزاہد محمد سرفراز خان صاحب صفدر مدظلہ کی بیشتر علمی و تحقیقی کتب جو فرق باطلہ، ضالہ، مبتدعہ کے رد میں ہیں، ابتداءً ادارہ نشر و اشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم سے ہی شائع ہوئی تھیں۔ ان کے علاوہ امام اعظم ابوحنیفہؒ، امام طحاویؒ، امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ، شاہ عبد العزیزؒ، شاہ رفیع الدینؒ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، مولانا ابو الکلام آزادؒ، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، اور حضرت مولانا حسین علیؒ آف واں بچھراں جیسے اکابر اہلِ علم کی مختلف کتابوں کے تراجم، اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید صاحب سواتی مدظلہ، مولانا عبد القدیر محدث کیمبل پوریؒ، مولانا حافظ حبیب اللہ ڈیروی مدظلہ، مولانا ابوعمار زاہد الراشدی مدظلہ اور مولانا محمد فیاض خان سواتی کی تصنیفات بھی ادارہ نشر و اشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم کے زیر اہتمام شائع ہو چکی ہیں۔ اکابر و اسلاف کی علمی و تحقیقی اور نایاب کتب کو شائع کرنے میں مدرسہ نصرۃ العلوم کو تمام مدارس پاکستانیہ پر فوقیت حاصل ہے۔ آئندہ بھی اس قسم کی کتب کی اشاعت ہمارے پروگرام میں داخل ہے۔ اسی سلسلہ میں امام شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کی مشہور زمانہ تفسیر عزیزی فارسی کا بعض نایاب قلمی حصہ (تقریباً پانچ پارے از سورۃ المومنون تا سورۃ یس مکمل) بھی ادارہ نشر و اشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم شائع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

لائبریری

مدرسہ میں ایک تین منزلہ لائبریری بھی ہے جس میں علماء و طلباء کے مطالعے کے لیے دس ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں۔

مدرسہ کا تعلیمی و انتظامی عملہ اور اخراجات

درس نظامی کے اساتذہ (۱۵)، حفظ و تجوید کے اساتذہ (۷)، شعبہ تعلیم الاطفال مڈل کے اساتذہ (۹)، شعبہ تعلیم النسواں مڈل کی معلمات (۹)، شعبہ تعلیم النسواں درس نظامی کی معلمات (۵)۔ ان کے علاوہ ناظم، محاسب، سفارت، باورچی، چوکیدار، ڈرائیور وغیرہ کے عملہ میں پچیس (۲۵) افراد کام کرتے ہیں۔ جبکہ مدرسہ کا کل عملہ ۷۰ افراد پر مشتمل ہے جن کا ماہانہ خرچ اوسطاً ڈیڑھ لاکھ (۱۵۰۰۰۰) روپے ہے۔ مدرسہ نصرۃ العلوم میں اڑھائی تین صد بیرونی طلباء کو مدرسہ سے دو وقت کھانا دیا جاتا ہے۔ کھانا تیار کرنے کے لیے ایک باورچی خانہ ہے جس میں تین باورچی اور ایک قصاب کام کرتا ہے۔ باورچی خانہ کا ماہانہ خرچ اوسطاً پچاس ہزار (۵۰۰۰۰) روپے ہے۔ کھانے کے علاوہ طلباء کرام کو نقد ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے جو کہ ماہانہ اوسطاً تیس ہزار (۳۰۰۰۰) روپے بنتا ہے۔ علاوہ ازیں ان طلباء کو تعلیم کے علاوہ رہائش کی سہولتیں، سالانہ دو جوڑے کپڑے اور کتب بھی عاریتاً فری مہیا کی جاتی ہیں، اور بیماری کی صورت میں طلباء کا علاج معالجہ بھی کرایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے مدرسہ کا سالانہ خرچہ تقریباً پینتیس لاکھ (۳۵۰۰۰۰۰) روپے ہے جو محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور آپ حضرات کے پُرخلوص تعاون سے پورا ہوتا ہے۔ تاہم اب بھی وقت کی ناسازگاری، مہنگائی اور وسائل کی انتہائی کمی کے باعث بہت سی اہم ضرورتیں پوری نہیں ہو رہیں، مثلاً :

یہ تمام امور وسائل کے قلیل ہونے کی وجہ سے تشنۂ تکمیل ہیں۔


تعارف و تبصرہ

ادارہ

دروس الحدیث

حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی دامت برکاتہم کو اللہ رب العزت نے حکمتِ ولی اللٰہی کی روشنی میں اسلامی عقائد و احکام کی وضاحت کا جو خصوصی ذوق عطا فرمایا ہے وہ اس دور میں دینی مطالعہ کے شائقین کے لیے نعمتِ خداوندی ہے، اور مدرسہ نصرۃ العلوم کے طلبہ اور گوجرانوالہ کے شہریوں کے علاوہ ملک بھر کے ہزاروں علماء کرام اور دیگر مسلمان اس چشمۂ فیض سے سیراب ہو رہے ہیں۔

حضرت صوفی صاحب مدظلہ کا درسِ قرآن کریم ’’معالم العرفان فی دروس القرآن‘‘ کی صورت میں مرتب ہو چکا ہے جس کی بیشتر جلدیں شائع ہو کر باذوق حضرات کے زیر مطالعہ ہیں۔ اور معالم العرفان کے مرتب الحاج لعل دین ایم اے نے اسی طرز پر حضرت صوفی صاحبؒ کے دروسِ حدیث کو مرتب کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں حضرت صوفی صاحب مدظلہ کا معمول رہا ہے کہ جب تک صحت نے اجازت دی ہے وہ نمازِ فجر کے بعد ہفتہ میں چار دن قرآن کریم اور دو دن حدیثِ نبویؐ کا درس دیتے رہے ہیں اور قرآن کریم کی طرح حدیث کی مختلف کتابوں کا بھی تسلسل اور ترتیب کے ساتھ درس ہوتا رہا ہے۔ یہ دروس ریکارڈ ہو چکے ہیں جنہیں الحاج لعل دین صاحب مرتب کر کے ’’دروس الحدیث‘‘ کے نام سے سامنے لانے کا عزم رکھتے ہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے دروس الحدیث کی تین جلدیں ہیں جو ’’مسند امام احمد بن حنبل‘‘ کی ساڑھے چار سو سے زائد روایات پر مشتمل ہیں، جبکہ ان کی مجموعی ضخامت ایک ہزار صفحات کے لگ بھگ ہے اور تینوں جلدیں عمدہ کتابت و طباعت اور مضبوط جلد کے ساتھ مزین ہیں۔

حضرت صوفی صاحب مدظلہ کا اندازِ بیان عام مجالس میں سادہ اور عام فہم ہوتا ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ دقیق علمی اور تحقیقی مباحث سے گریز کرتے ہوئے سامعین کو زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں مسائل و احکام ذہن نشین کرائے جائیں۔ یہ رنگ دروس الحدیث میں بھی جھلکتا ہے جس کی وجہ سے یہ مجموعۂ احادیث علماء و خطباء کے ساتھ ساتھ عام پڑھے لکھے حضرات کے لیے بھی بھرپور افادیت کا حامل ہے۔

دروس الحدیث کی دو سو تیس صفحات پر مشتمل پہلی جلد کی قیمت پچھتر روپے، چار سو سے زائد صفحات پر مشتمل دوسری جلد کی قیمت نوے روپے، اور اسی ضخامت کی تیسری جلد کی قیمت بھی نوے روپے ہے، جو کاغذ اور کتابت و طباعت کے ہوشربا اخرجات کے اس دور میں بہت واجبی ہے اور ’’مکتبہ دروس القران مدرسہ نصرۃ العلوم محلہ فاروق گنج گوجرانوالہ‘‘ کے احباب کی طرف سے کسی منفعت کے بغیر دروس القرآن اور دروس الحدیث کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے عزم کا عملی اظہار ہے۔ (مدیر اعلٰی)

ریڈیائی تقریریں

تقاریر: مولانا کبیر الدین فاران مظاہری

ناشر: خلافتِ راشدہ اکادمی، اردو بازار، لاہور

صفحات: ۱۳۲

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ارکانِ اسلام، روزہ، عید، قربانی، داستانِ کربلا، مذہب اور انسان، اور انصاف وغیرہ کے عنوانات پر یہ مولانا کبیر الدین فاران مظاہری کی ان تقاریر کا مجموعہ ہے جو مختلف اوقات میں انڈیا کے مختلف ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر ہوتی رہیں۔ کتاب کی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس پر مقدمہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے تحریر فرمایا ہے۔ مستند حقائق و واقعات پر مشتمل یہ مجموعہ دینی ادب میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔

آئینہ عملیات

مصنف: صوفی عزیز الرحمٰن پانی پتی

ناشر: اسلامی کتب خانہ لاہور

صفحات: ۲۶۴

عملیات و تعویذات کی بے شمار کتب مارکیٹ میں بک رہی ہیں جو پیشہ ور عاملوں کے لیے تو روپیہ کمانے کی مشین ہیں مگر عوام الناس کے لیے قطعی غیر سنجیدہ بلکہ نقصان دہ ہیں۔ کیونکہ عملیات کے لیے جن شرائط کی ضرورت ہے وہ اکثر و بیشتر مفقود ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے اثرات ظاہر نہیں ہوتے اور ان کی اعتقادی پوزیشن کمزور ہوتی ہے۔ اپنے مقام پر ان عملیات و تعویذات کی تاثیر سے انکار نہیں لیکن بہرحال یہ ہر ایک کے بس کی بات بھی نہیں۔ ایک طرف تو غلط مقاصد کے لیے ان کا استعمال بڑھ گیا ہے، اور دوسری طرف کتاب خریدنے والا ہر آدمی حُب اور دشمنی کے باب کھولے بیٹھا ہے۔

ان خطرات و نقائص کی بنا پر ہم عملیات و تعویذات کی کتب کے مارکیٹ میں لانے کے حق میں نہیں ہیں۔ ہاں البتہ وظائف و اوراد کی کتب میں کچھ مضائقہ نہیں۔ مذکورہ کتاب بھی عملیات کے موضوع پر ہے، بلاشبہ اس میں مستند و قابل اعتماد عملیات مذکور و منقول ہیں، لیکن بہرحال عوام خریدنے سے گریز کریں۔ البتہ کتاب کے صفحہ ۱۵ پر عملیات کے لیے جو قواعد منقول ہیں ان کو ملاحظہ کر لینے کے بعد اگر ان کی پابندی ممکن ہو تو بے شک خرید لیں۔

انتخابِ لاجواب (جلد اول)

مرتب: مولانا محمد امجد خان

ناشر: مکتبہ اشاعتِ اسلام، عبد الکریم روڈ، قلعہ گوجر سنگھ، لاہور

صفحات : ۲۴۰

یہ کتاب مولانا قاری محمد اجمل خان کے مرتبہ مضامین کا مجموعہ ہے جو ہفت روزہ خدام الدین اور ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور میں بالاقساط شائع ہو چکے ہیں۔ اس میں ایمان افروز واقعات بھی ہیں اور نصیحت آموز مشاہدات بھی۔ قرآنی و حدیثی وظائف و عملیات بھی ہیں اور طبی نسخہ جات بھی۔ مناقب و فضائل بھی ہیں اور اشعار و لطائف بھی۔ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اور ذہن و فکر میں انقلاب پیدا کرنے والی ہے۔

اسلامی احکام و اعمال کی حکمت

مولانا ابوالکلام آزادؒ

ہم دیکھتے ہیں کہ جب تک مجالس نہ ہوں، اجتماعات نہ ہوں، انجمنیں نہ ہوں، کانفرنسیں نہ ہوں، کوئی قومی عمل انجام نہیں پا سکتا، نہ اتحاد و تعاون کی برکت حاصل ہو سکتی ہے۔ پس ہم آج کل کے مجلسی طریقوں کے مطابق انجمنیں بناتے ہیں، کانفرنسیں منعقد کرتے ہیں، مگر ہم میں سے کسی کو بھی اس کا خیال نہیں آتا کہ اسی مقصدِ اجتماع و تعاون کے لیے اسلام نے پانچ وقت کی نماز با جماعت، جمعہ و عیدین، اجتماعِ حج کا حکم دیا ہے، اور اس کا نظام و قوام درہم برہم ہو گیا ہے، سب سے پہلے اسے کیوں نہ درست کر لیں!

ہم دیکھتے ہیں کہ جب تک کوئی قومی فنڈ نہ ہو، اس وقت تک قومی اعمال انجام نہیں پا سکتے، پس ہم نئے نئے فنڈ قائم کرتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے، مگر کاش کوئی یہ بھی سوچے کہ خود شریعت نے اسی ضرورت کو رفع کرنے کے لیے زکوٰۃ و صدقات کا حکم دیا ہے، اس کا نظم ٹھیک قائم ہے یا نہیں؟ اگر وہ قائم ہو جائے تو پھر کبھی کسی چندہ یا فنڈ کی ضرورت نہ ہو گی۔

ہم دیکھتے ہیں کہ قوم کی تعلیمِ عام کے لیے مجمع و محافل کی ضرورت ہے، ہم اس کے لیے نئی نئی تدبیریں کرنے لگتے ہیں، مگر کبھی یہ حقیقت ہمارے دلوں کو بے قرار نہیں کرتی کہ عین اسی مقصد سے شریعت نے خطبۂ جمعہ کا حکم دیا تھا، اور ہم نے اس کی برکتوں کا دروازہ اپنے اوپر بند کر لیا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی قومی و اجتماعی کام انجام نہیں پا سکتا جب تک اس میں نظم و انضباط نہ ہو، اور یہ نہیں ہو سکتا جب تک اس کا کوئی رئیس و قائد مقرر نہ کیا جائے۔ پس ہم تیار ہو جاتے ہیں کہ جلسوں کےلیے صدر تلاش کریں، لیکن اگر یہی حقیقت شریعت کی ایک اصطلاح ’’امامت‘‘ کے لفظ میں ہمارے سامنے آتی ہے تو ہمیں تعجب و حیرانی ہوتی ہے اور اس کے لیے ہم تیار نہیں ہوتے۔

اپریل ۱۹۹۵ء

’’ملی یکجہتی کونسل پاکستان‘‘مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری کی تشریف آوریادارہ
سنتِ نبویؐ کی اہمیت و ضرورتشیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر
قربِ قیامت کی نشانی، علم کا اٹھ جاناشیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
بنی اسرائیل مصر میںمحمد یاسین عابد
اپنے قومی تشخص کا احیاء کیجئےعمران خان
علمائے کرام کی خدمت میں چند گزارشاتحضرت مولانا نذیر احمد
دینی مدارس کا ایک نیا وفاقادارہ
عظیم افغان کمانڈر مولانا نصر اللہ منصورؒعید محمد افغان
قافلۂ معادادارہ
ورلڈ اسلامک فورم کی سرگرمیاںادارہ
سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنسقاری عبید الرحمٰن ضیاء
الشریعہ ایجوکیشنل ویلفیئر سوسائٹی کا قیامادارہ
یرقانحکیم عبد الرشید شاہد
امریکی طالبات کا سب سے بڑا مسئلہادارہ
ایک ضروری عرضداشتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’ملی یکجہتی کونسل پاکستان‘‘

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جمعیت علماء اسلام کے راہنما سینیٹر مولانا سمیع الحق کی دعوت پر گزشتہ روز اسلام آباد میں ملک کی بڑی دینی جماعتوں کے سربراہوں کا اجلاس ہوا جس میں فرقہ وارانہ کشیدگی پر قابو پانے کے لیے ’’ملی یکجہتی کونسل‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ کونسل میں تمام شریک پارٹیوں کے سربراہ شامل ہیں جبکہ مولانا شاہ احمد نورانی کو کونسل کا سربراہ اور مولانا سمیع الحق کو سیکرٹری جنرل چنا گیا ہے۔

دینی جماعتوں کا کسی ایک پلیٹ فارم پر مجتمع ہونا اور ملکی و قومی امور میں مشترکہ موقف اور پالیسی اختیار کرنا اس ملک کے باشعور شہریوں کی دیرینہ آرزو ہے۔ اس آرزو کے پیچھے جہاں دین کے ساتھ لوگوں کی محبت اور اسلام کے غلبہ و بالادستی کی خواہش کارفرما ہے وہاں معروضی حالات میں اسلام، پاکستان اور پاکستانی قوم کو درپیش خطرات و مشکلات کے حوالہ سے دینی قوتوں کے کردار کا واضح طور پر نظر آنے والا خلاء بھی اس کا محرک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس اتحاد کا ہر سطح پر خیرمقدم کیا گیا ہے اور اس کی کامیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بین الاقوامی اور ملکی سطح پر جس صورتحال کا سامنا ہے وہ انتہائی گھمبیر ہے۔ پاکستان کا اسلامی تشخص اور اس کے دستور کی نظریاتی بنیادیں ان عالمی قوتوں کو مسلسل کھٹک رہی ہیں جو کمیونزم کے خاتمہ کے بعد اسلام کو ویسٹرن سولائزیشن اور مغرب کی بالادستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی ہیں اور اسلامی قوتوں کو بنیاد پرست اور دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ ان قوتوں کی خواہش اور کوشش یہ ہے کہ عالم اسلام بھی کھلے دل کے ساتھ مغرب کے مادہ پرستانہ فلسفہ، اجتماعیات سے مذہب کی لاتعلقی، اباحت مطلقہ پر مبنی فری سوسائٹی اور بے قید معاشرت کو قبول کر لے اور اسلام کی ان تعلیمات و احکامات سے آنکھیں بند کر لے جو ویسٹرن سولائزیشن کو قبول کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اس کی تشریح میں جنیوا کے ہیومن رائٹس کمیشن کے فیصلے اور قراردادیں مغرب کے ہاتھ میں سب سے بڑا ہتھیار ہیں۔ اسلام کا جو حکم اور ضابطہ ان کی زد میں آتا ہے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے کر اس کے خاتمہ کے لیے پورے وسائل استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔ چنانچہ اسلامی حدود و تعزیرات کو وحشیانہ قرار دینے، توہین رسالتؐ کی سزا کے قانون کو انسانی حقوق کے منافی گرداننے اور خاندانی زندگی کے بارے میں اسلامی احکام و قوانین کو بین الاقوامی معیار کے منافی قرار دے کر مسلم حکومتوں پر ان میں رد و بدل کے لیے زور دینے کی حالیہ کاروائیوں کا پس منظر یہی ہے اور ان کاروائیوں کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے۔

عالمی پریس کے ذریعے سامنے آنے والی بعض خبروں کے مطابق اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر انسانی حقوق کے چارٹر کے پرچم تلے اس وقت جو شعبے سب سے زیادہ توجہات اور سرگرمیوں کا مرکز ہیں وہ پرائمری تعلیم، خاندانی زندگی، خاندانی منصوبہ بندی، اور آزادیٔ رائے کے مغربی تصور کی بالادستی کے شعبے ہیں۔ اس سلسلہ میں مسلم ممالک پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ

دنیابھر کے دیگر مسلم و غیر مسلم ممالک کی طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی ان امور کے حوالہ سے اقوام متحدہ، امریکہ اور مغربی طاقتوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی زد میں ہے اور اس دباؤ کی شدت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف قومی معاملات کے ضمن میں پاکستان کے گرد سازشوں کا حصار جس طرح دن بدن تنگ ہوتا جا رہا ہے وہ بھی کسی باشعور شہری سے مخفی نہیں ہے۔

اس صورتحال میں جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی خودمختاری خطرے میں ہے، ملکی سالمیت پر سازشوں کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں، ملک کی نظریاتی اور اسلامی حیثیت کو ختم کرنے کے درپے قوتیں بتدریج آگے بڑھ رہی ہیں، اور اسلام اور عالم اسلام کے لیے پاکستان کے متوقع کردار سے اسے مکمل طور پر محروم کر دینے کے منصوبے تکمیل کے مراحل میں ہیں، ملک کے عام شہری کا اضطراب اور بے چینی نہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ بالخصوص اس پس منظر میں کہ ملک کی دو بڑی سیاسی قوتوں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی میں سے کوئی بھی خود کو اس چیلنج کا سامنا کرنے کا اہل ثابت نہیں کر سکی اور اقتدار کے منصب پر فائز ہونے کے بعد دونوں کی قیادت اور ارکان نے انتقام، لوٹ کھسوٹ اور نا اہلیت کے اظہار کے سوا کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا۔

ان حالات میں ملک کے باشعور شہریوں اور بہی خواہوں کی نگاہیں فطری طور پر دینی قوتوں کی طرف اٹھتی ہیں کہ شاید یہاں سے قوم کو کوئی ایسی قیادت میسر آجائے جو ملک و قوم کی کشتی کو چاروں طرف سے بپھرے ہوئے طوفان سے سلامتی کے ساتھ نکال کر کامیابی کی منزل کی طرف گامزن کر سکے۔ لیکن دینی قوتوں کا خلفشار، ملک و قوم کے حقیقی مسائل کا عدم ادراک، اور قومی معاملات میں سنجیدہ دلچسپی کے فقدان ایسے موذی امراض ہیں جنہوں نے ملک کی دینی قیادت کو قومی سیاست کا عضو معطل بنا کر رکھ دیا ہے۔ اور سچی بات یہ ہے کہ قوم کی مایوسیوں میں اضافہ کرنے کی دوڑ میں ہماری دینی قیادت بھی سیاسی لیڈرشپ سےکسی طرح پیچھے نہیں ہے۔

اس پس منظر میں دینی جماعتوں کے سربراہوں کا مل بیٹھنا اور ’’ملی یکجہتی کونسل‘‘ کے نام سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم قائم کرنا یقیناً امید کی ایک کرن ثابت ہو سکتا ہے بشرطیکہ یہ کونسل ماضی کے کئی مذہبی اتحادوں کی طرح محدود اور وقتی مقاصد کی اسیر ہو کر نہ رہ جائے اور اس کا دائرہ عمل دفتر، فائل، اخباری بیانات، اور وقتاً فوقتاً مل بیٹھنے کی رسمی کاروائیوں کا حصار توڑ کر عملی جدوجہد اور مسلسل ورک کے تقاضے پورے کر سکے۔ ’’الشریعہ‘‘ کے قارئین گواہ ہیں کہ ہم نے ان صفحات میں ہمیشہ اسی خواہش کا اظہار کیا ہے کہ دینی جماعتوں کے قائدین مل بیٹھیں، وقت کے مسائل اور تقاضوں کو سمجھیں، اقتدار کی سیاست اور گروہی سیاسی کشمکش سے بالاتر ہو جائیں، اسلام اور پاکستان کو مغرب کی طرف سے درپیش چیلنجز کا ادراک حاصل کریں، اور قیادت کی ترجیحات سے بے نیاز ہو کر ’’ٹیم ورک‘‘ کے ساتھ قوم کو متبادل اور متوازن نظریاتی قیادت فراہم کریں۔ اس لیے آج جب اس سمت سفر کا آغاز ہوا ہے تو ہم

بہت دیر کی مہرباں آتے آتے

کے شکوہ کے ساتھ ’’ملی یکجہتی کونسل پاکستان‘‘ کا خیرمقدم کرتے ہیں اور مکمل تعاون کا یقین دلاتے ہوئے یہ گزارش ضروری سمجھتے ہیں کہ اگرچہ کونسل کے قیام کا وقتی محرک شیعہ سنی کشیدگی کا مسلح تصادم کی شکل اختیار کر جانا ہے کیونکہ اسی نے قائدین کو بالآخر مل بیٹھنے پر مجبور کیا ہے لیکن خدا کے لیے کونسل کے دائرہ عمل کو صرف اس حد تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ عالم اسلام اور پاکستان کے مجموعی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے دینی قیادت کی ذمہ داریوں کا جائزہ لیا جائے اور ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے عملی پیش رفت کا اہتمام کیا جائے تاکہ دینی جماعتیں معروضی حالات میں اسلام اور پاکستان کو درپیش چیلنجز کے حوالہ سے اپنا کردار صحیح طور پر ادا کر سکیں۔

ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری کی تشریف آوری

محترم ڈاکٹر سلمان شاہجہانپوری ملک کے معروف دانشور اور صاحبِ قلم ہیں جو ایک عرصہ سے کراچی میں تحریکِ آزادی اور اکابر علماء حق کی جدوجہد کے حوالے سے علمی و تحقیقی کام کر رہے ہیں۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، اور حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی خدمات اور جدوجہد ان کا خصوصی موضوع ہے، اور وہ انتہائی خاموشی کے ساتھ ان اکابر کی جدوجہد کے نقوش کو تاریخ کے صفحات پر اجاگر کرنے میں مگن ہیں۔
ڈاکٹر صاحب موصوف گزشتہ دنوں جناب شبیر احمد میواتی کے ہمراہ گوجرانوالہ تشریف لائے، ان کے اعزاز میں ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے فکری نشست کا اہتمام کیا گیا تھا، مگر موسم کی خرابی کی وجہ سے وہ بروقت نہ پہنچ سکے، البتہ تشریف آوری پر انہوں نے رات قیام فرمایا اور ان کے ساتھ بہت سے امور پر مفید مشاورت ہوئی۔ آج کے دور میں جبکہ علم و تحقیق کا ذوق ماند پڑتا جا رہا ہے اور سیاسی و گروہی مقاصد کے لیے تاریخ کو مسخ کرنے کا رجحان ترقی پذیر ہے، ڈاکٹر صاحب جیسے اہلِ علم کا وجود غنیمت ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و عافیت کے ساتھ اپنے مشن میں کامیابی سے ہمکنار فرمائیں، آمین۔


ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری کی تشریف آوری

ادارہ

محترم ڈاکٹر سلمان شاہجہانپوری ملک کے معروف دانشور اور صاحبِ قلم ہیں جو ایک عرصہ سے کراچی میں تحریکِ آزادی اور اکابر علماء حق کی جدوجہد کے حوالے سے علمی و تحقیقی کام کر رہے ہیں۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، اور حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی خدمات اور جدوجہد ان کا خصوصی موضوع ہے، اور وہ انتہائی خاموشی کے ساتھ ان اکابر کی جدوجہد کے نقوش کو تاریخ کے صفحات پر اجاگر کرنے میں مگن ہیں۔
ڈاکٹر صاحب موصوف گزشتہ دنوں جناب شبیر احمد میواتی کے ہمراہ گوجرانوالہ تشریف لائے، ان کے اعزاز میں ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے فکری نشست کا اہتمام کیا گیا تھا، مگر موسم کی خرابی کی وجہ سے وہ بروقت نہ پہنچ سکے، البتہ تشریف آوری پر انہوں نے رات قیام فرمایا اور ان کے ساتھ بہت سے امور پر مفید مشاورت ہوئی۔ آج کے دور میں جبکہ علم و تحقیق کا ذوق ماند پڑتا جا رہا ہے اور سیاسی و گروہی مقاصد کے لیے تاریخ کو مسخ کرنے کا رجحان ترقی پذیر ہے، ڈاکٹر صاحب جیسے اہلِ علم کا وجود غنیمت ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و عافیت کے ساتھ اپنے مشن میں کامیابی سے ہمکنار فرمائیں، آمین۔

سنتِ نبویؐ کی اہمیت و ضرورت

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت پر عمل پیرا ہونے اور اس کو مضبوطی سے پکڑنے کی اشد تاکید فرمائی ہے، اور اس کی پیروی نہ کرنے پر نہایت ناراضگی فرمائی ہے۔
(۱) حضرت عرباضؓ بن ساریہ (المتوفی ۷۵ھ) کی روایت میں اس کی تصریح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’تمہارے اوپر لازم ہے کہ تم میری سنت کو اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو معمول بناؤ اور اپنی ڈاڑھوں کے ساتھ مضبوطی سے اس کو پکڑو، تم نئی نئی باتوں سے پرہیز کرو کیونکہ (دین میں) ہر نئی چیز بدعت ہے۔‘‘
(مستدرک ج ۱۱ ص ۹۶ ۔ قال الحاکمؒ والذہبیؒ صحیح)
یہ صریح روایت اس امر کو بیان کرتی ہے کہ ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اور حضرات خلفاء راشدین کی سنت کو خوب مضبوطی سے پکڑے اور اس کو اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اور جملہ محدثات اور بدعات سے کنارہ کشی کرے کیونکہ ہر ایک بدعت گمراہی اور ضلالت ہے۔
(۲) حضرت عبد اللہؓ بن عباسؓ (المتوفی ۶۸ھ) سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے جناب نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا:
’’اے لوگو! میں نے تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑی ہیں، اگر تم نے ان کو مضبوطی سے پکڑا تو ہرگز تم گمراہ نہ ہو گے، ان میں سے ایک کتاب اللہ اور دوسری سنتِ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے۔‘‘
(مستدرک ج ۱ ص ۹۳)
(۳) حضرت عائشہ صدیقہؓ (المتوفاۃ ۵۷ھ) روایت کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’چھ قسم کے لوگ ہیں جن پر میں بھی لعنت بھیجتا ہوں، اللہ تعالیٰ بھی ان پر لعنت نازل کرے، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو میری سنت کو چھوڑ دے۔‘‘
(مستدرک ج ۱ ص ۳۶ ۔ قال الحاکمؒ والذہبیؒ صحیح)
(۴) حضرت انسؓ بن مالک (المتوفی ۹۳ھ) روایت کرتے ہیں کہ ایک خاص موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے میری سنت سے اعراض کیا وہ میرا نہیں۔‘‘
(بخاری ج ۲ ص ۷۵۷)
اس سے بڑھ کر تارکِ سنت کی بدبختی اور کیا ہو سکتی ہے کہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ میرا (امتی) نہیں ہے، گو وہ اپنے مقام پر آپ کا محب بنتا رہے مگر اس کی رائے کا کیا اعتبار ہے؟
(۵) حضرت حذیفہؓ بن الیمانؓ (المتوفی ۳۶ھ) جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:
’’میرے بعد کچھ رہبر اور پیشوا ایسے ہوں گے جو میری سیرت پر نہیں چلیں گے اور میری سنت پر عمل نہیں کریں گے۔ ان میں کچھ ایسے لوگ کھڑے ہوں گے جن کے دل شیطانوں کے دل ہوں گے مگر شکل اور صورت انسانی ہو گی۔‘‘
(مسلم ج ۲ ص ۱۲۷)
اتباعِ سنت کے بارے میں کتبِ احادیث میں اس قدر ذخیرہ موجود ہے کہ آسانی کے ساتھ اس کا شمار نہیں ہو سکتا، مگر بطور نمونہ کے ہر عاقل کے لیے یہ پیش کردہ روایات کافی ہیں، لیکن جو عمداً غافل رہنا چاہتا ہے اس کے لیے دنیا میں کوئی علاج موجود نہیں ہے، ایسے شخص کے لیے فیصلہ یہی ہے کہ ’’نولہ ما تولیٰ‘‘۔
حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ (المتوفی ۱۱۷۶ھ) لکھتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ دین کا انتظام اس بات پر موقوف ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا اتباع کیا جائے۔ (حجۃ اللہ ج ۱ ص ۱۷۰)

قربِ قیامت کی نشانی، علم کا اٹھ جانا

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

امام بغویؒ نے حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ’’لوگو! قرآن کو سیکھو اور اس پر عمل کرو قبل اس کے کہ اسے اٹھا لیا جائے‘‘۔
اس کی تفسیر میں قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ فرماتے ہیں کہ قرآن کے اٹھائے جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن کے الفاظ اٹھا لیے جائیں گے بلکہ صحیحین کی روایت کے مطابق ’’ان اللہ لا یقبض العلم انتزاعا ولکن یقبض العلماء‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں کے سینوں سے نہیں اٹھائے گا بلکہ نیک اور اچھے علماء کو اٹھا لے گا۔
جب دین کا صحیح علم رکھنے والے نہیں ہوں گے تو لوگ جاہلوں کو عالم، مفتی اور قاضی کا درجہ دیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ لوگ بغیر علم کے فتوے دیں گے، خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے، اور اس طرح دنیا سے علم کو چھین لیا جائے گا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک موقع پر حضور علیہ السلام نے کوئی بات بیان کی اور پھر فرمایا کہ ایسا اس وقت ہو گا ’’حین ذہاب العلم‘‘ جب علم چلا جائے گا۔
حضور علیہ السلام کے ایک صحابی زیاد بن لبیدؓ نے عرض کیا کہ علم کیسے چلا جائے گا جبکہ ہم ان سے قرآن پڑھتے ہیں اور آگے دوسروں کو پڑھاتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں تجھے کم پائے زیاد، میں تو تجھے مدینے کا سمجھدار آدمی سمجھتا تھا مگر تم نے تو بے سمجھی کی بات کی ہے۔ کیا تم یہود و نصاریٰ کا حال نہیں دیکھتے؟ ان کے پاس کتابیں موجود ہیں مگر وہ ان پر عمل نہیں کرتے، ایسے علم کا کیا فائدہ؟ یہی ذہابِ علم ہے۔
ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں ’’تعلموا العلم‘‘ لوگو! علم سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ۔ ’’تعلموا الفرائض‘‘ فرائض سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ ’’فیقبض العلم‘‘ کیونکہ علم قبض کر لیا جائے گا اور فتنے برپا ہوں گے، جہالت برپا ہو گی، حتیٰ کہ دو آدمی ایک فریضہ میں جھگڑا کریں گے مگر ان کو بتلانے والا کوئی نہیں ہو گا۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا ’’انی امرء مقبوض‘‘ میں تمہارے درمیان ہمیشہ نہیں رہوں گا بلکہ مجھے بھی اٹھا لیا جائے گا۔
تو قاضی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ علم چھن جانے کی صورت یہ ہو گی کہ سب سے پہلے لوگوں میں سے عمل اٹھا لیا جائے گا، ان سے عمل کی توفیق ہی سلب ہو جائے گی، جیسا کہ آج کل نظر آ رہا ہے۔ علم بہت ہے، کتابوں کی لائبریریاں بھری ہوئی ہیں، مگر عمل مفقود ہے۔ آپ دیکھ لیں، ہر سال سیرتِ طیبہ پر ہزاروں کتابیں شائع ہوتی ہیں، ان پر انعامات بھی تقسیم ہوتے ہیں، مگر کروڑوں کی آبادی میں ان کتابوں پر عمل کرنے والے دس آدمی بھی نہیں ملیں گے۔ تو حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق سب سے پہلے عمل کی توفیق سلب کر لی جائے گی، اس کے بعد اچھے اچھے علماء اٹھا لیے جائیں گے، اور تیسرا مرحلہ قربِ قیامت میں پیش آئے گا، لوگ سو کر اٹھیں گے تو علم کی کوئی بات سینوں میں محفوظ نہیں ہو گی، اور کتابوں کے حروف مٹ چکے ہوں گے۔

بنی اسرائیل مصر میں

محمد یاسین عابد

مصر میں آمد کے وقت بنی اسرائیل کی تعداد

پیدائش ۴۶ : ۸ تا ۲۷ کے مطابق مصر میں آمد کے وقت یعقوبؑ سمیت بنی اسرائیل کی تعداد ۷۰ تھی۔ حضرت یعقوبؑ کے کل ۱۲ بیٹے تھے جو کہ آپ کی دو بیویوں لیاہ اور راخل اور دو لونڈیوں زلفہ اور بلہاہ سے پیدا ہوئے۔
’’لیاہ کے بیٹے یہ تھے: روبن یعقوب کا پہلوٹھا اور شمعون اور لاوی اور یہوداہ اور اشکار اور زبولون۔ اور راخل کے بیٹے یوسف اور بن یامین تھے، اور راخل کی لونڈی بلہاہ کے بیٹے دان اور نفتالی تھے، اور لیاہ کی لونڈی زلفہ کے بیٹے جد اور آشر تھے۔‘‘ (پیدائش ۳۵ : ۲۳ تا ۲۶)
پیدائش ۴۶ : ۸ تا ۲۷ میں یعقوبؑ کے ۱۲ بیٹوں کی تمام اولاد کے نام درج ہیں۔ یعقوبؑ اور ان کی بیٹی دینہ کو ملا کر کل تعداد ستر بنتی ہے۔ خروج ۱ : ۵ میں لکھا ہے:
’’سب جانیں جو یعقوبؑ کے صلب سے پیدا ہوئیں، ستر تھیں۔‘‘
واضح ہو کہ یہاں یعقوبؑ کو شمار نہیں کیا گیا، اگر یعقوبؑ کو بھی شامل کر لیا جائے تو تعداد ۷۱ ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر ہم انجیل شریف کا مطالعہ کریں تو تعداد میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:
’’یوسف نے اپنے باپ یعقوب اور سارے کنبے کو، جو پچھتر جانیں تھیں، بلا بھیجا۔‘‘ (اعمال ۷ : ۱۴)
انجیل کی اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یوسفؑ اور اس کے دونوں بیٹوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو تعداد ۷۵ + ۳ = ۷۸ ہو جاتی ہے۔

بنی بن یامین کی تعداد

توراۃ کے مطابق بن یامین کے ۱۰ بیٹوں کو شامل کر کے بنی اسرائیل کی کل تعداد ۷۰ بنتی ہے (پیدائش ۴۶ : ۲۱)۔ لیکن ۱۔تواریخ ۸ : ۱، ۲ کے مطابق بن یامین کے بیٹوں کی تعداد پانچ عدد ہے۔ یوں بنی اسرائیل کی تعداد ۷۰ سے کم ہو کر ۶۵ رہ جاتی ہے۔ تعداد میں مزید کمی ہوتی ہے جب ہم ۱۔تواریخ ۷ : ۶ میں بن یامین کے بیٹوں کی کل تعداد صرف تین دیکھتے ہیں۔ یوں مصر میں آمد کے وقت بنی اسرائیل کی کل تعداد صرف ۶۳ بنتی ہے۔ اب نہیں معلوم کہ بنی اسرائیل کی تعداد ۶۳ تھی یا ۶۵ یا ۷۰ یا ۷۱ یا ۷۸؟

مصر میں قیام کی مدت

خدا نے ابرہام سے کہا:
’’یقین جان کہ تیری نسل کے لوگ ایسے ملک میں، جو ان کا نہیں، پردیسی ہوں گے اور وہاں کے لوگوں کی غلامی کریں گے اور وہ چار سو برس تک ان کو دکھ دیں گے۔‘‘ (پیدائش ۱۵ : ۱۳)
لیکن افسوس کہ بنی اسرائیل کو خدا کے وعدہ سے ۳۰ برس زیادہ مصریوں کی غلامی کرنا پڑی، جیسا کہ بائبل مقدس میں ہے:
’’بنی اسرائیل کو مصر میں بود و باش کرتے ہوئے ۴۳۰ برس ہوئے تھے اور ان چار سو تیس برسوں کے گزر جانے پر ٹھیک اسی روز خداوند کا سارا لشکر ملک مصر سے نکل گیا۔‘‘ (خروج ۱۲ : ۴۰، ۴۱)

وعدۂ برکت اور نزولِ شریعت کا درمیانی عرصہ

انجیل میں ہے:
’’جس عہد کی خدا نے پہلے سے تصدیق کی تھی اس کو شریعت چار سو تیس برس کے بعد آ کر باطل نہیں کر سکتی کہ وعدہ لاحاصل ہو۔ کیونکہ اگر میراث شریعت کے سبب سے ملی ہے تو وعدہ کے سبب سے نہ ہوئی، مگر ابرہام کو خدا نے وعدہ ہی کی راہ سے بخشی۔‘‘ (گلتیوں ۳ : ۱۶ تا ۱۸)
یعنی وعدۂ برکت اور نزولِ توراۃ کے درمیان ۴۳۰ برس کا عرصہ ہے۔ آئیے بائبل کی روشنی میں اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ وعدۂ برکت کے وقت ابراہیمؑ کی عمر ۷۵ سال تھی (ایضاً ۱۲ : ۴)۔ ولادتِ اسحاقؑ کے وقت آپ کی عمر ۱۰۰ سال تھی (ایضاً ۲۱ : ۵)۔ یعنی وعدۂ برکت سے ولادتِ اسحاقؑ تک ۲۵ برس بنتے ہیں۔ ولادتِ اسحاقؑ سے ولادتِ یعقوبؑ تک ۶۰ برس کا عرصہ ہے (ایضاً ۲۵ : ۲۶)۔ یعنی وعدۂ برکت سے ولادتِ یعقوبؑ تک ۲۵ + ۶۰ = ۸۵ برس ہوئے۔ اور مصر میں بنی اسرائیل کی آمد کے وقت حضرت یعقوب علیہ السلام کی عمر ۱۳۰ برس تھی (پیدائش ۴۷ : ۹)۔ یعنی وعدۂ برکت سے مصر میں آمد تک ۸۵ + ۱۳۰ = ۲۱۵ برس بنتے ہیں۔ مصر میں قیام کی مدت، جیسا کہ اوپر گزرا، ۴۳۰ برس ہے۔ یعنی وعدۂ برکت سے لے کر مصر سے خروج تک ۲۱۵ + ۴۳۰ = ۶۴۵ برس بنتے ہیں۔
اس تفصیل کی رو سے انجیل کا یہ بیان کہ شریعت وعدۂ برکت کے ۴۳۰ سال بعد نازل ہوئی، غلط ٹھہرتا ہے، کیونکہ توراۃ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نزولِ توراۃ کا سلسلہ بنی اسرائیل کے مصر سے خروج کے کافی عرصہ بعد شروع ہوا۔ بالفرض اگر یہ مان لیا جائے کہ خروج کے روز ہی شریعت کا نزول شروع ہو گیا تھا، تب بھی وعدۂ برکت اور نزولِ شریعت کے درمیان ۶۴۵ برس کا عرصہ بنتا ہے۔ وعدۂ برکت سے مصر میں آمد تک ۲۱۵ سال + مصر میں قیام کی مدت ۴۳۰ سال = ۶۴۵
اور اگر انجیل کا یہ بیان درست مان لیا جائے تو توراۃ کا یہ بیان غلط ٹھہرتا ہے کہ بنی اسرائیل مصر میں چار سو تیس برس رہے۔ اس صورت میں مصر میں ان کے قیام کا عرصہ ۲۱۵ برس ماننا پڑے گا، کیونکہ اوپر ہم یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وعدۂ برکت سے مصر میں آمد تک کا عرصہ ۲۱۵ برس ہے۔ اس کے بعد شریعت کے نزول کے عرصہ (۴۳۰ برس) تک، مصر میں قیام کی مدت ۲۱۵ برس ہی بنتی ہے۔ چنانچہ توراۃ اور انجیل دونوں کے بیانات بیک وقت کسی طرح درست نہیں ہو سکتے۔

عمرام و یوکبد

حضرت موسٰی علیہ السلام کے والد کا نام عمرام اور والدہ کا نام یوکبد تھا (خروج ۶ : ۲۰)۔ یوکبد یعقوبؑ کے بیٹے لاوی کی بیٹی تھی جو مصر میں آمد کے بالکل تھوڑے عرصے بعد پیدا ہوئی تھی (گنتی ۲۶ : ۵۹)۔ گو کہ بائبل میں یہ تصریح نہیں کہ یوکبد اور عمرام کی پیدائش مصر میں آمد کے کتنی دیر بعد ہوئی، لیکن توراۃ کے بنظر عمیق مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یوکبد اور عمران کی پیدائش مصر میں آمد کے بعد جلد ہی ہو گئی تھی، کیونکہ یوسفؑ کے بیچے جانے سے کافی عرصہ قبل جب دینہ کی بے حرمتی کی گئی (پیدائش ۳۴ : ۱ تا ۳) تو شمعون اور لاوی نے اس طرح بدلہ لیا کہ
’’اپنی اپنی تلوار لے کر ناگہاں شہر پر آ پڑے اور سب مردوں کو قتل کیا، حمور اور اس کے بیٹے سکم کو بھی تلوار سے قتل کر ڈالا، اور سکم کے گھر سے دینہ کو نکال لے گئے، اور یعقوبؑ کے بیٹے مقتولوں پر آئے اور شہر کو لوٹا، اس لیے کہ انہوں نے ان کی بہن کو بے حرمت کیا تھا، انہوں نے ان کی بھیڑ بکریاں اور گائے بیل اور گدھے اور جو کچھ شہر اور کھیت میں تھا، لے لیے، اور ان کی سب دولت لوٹی اور ان کے بچوں اور بیویوں کو اسیر کر لیا اور جو کچھ گھر میں تھا سب لوٹ کھسوٹ کر لے گئے۔‘‘ (پیدائش ۳۴ : ۲۵ تا ۲۹)
صرف دو آدمیوں کا پورے شہر کو ملیامیٹ کر دینا، کھیتوں کو اجاڑ دینا، اتنی بڑی لوٹ کھسوٹ کر کے بچوں اور عورتوں کو اسیر کر لینا اس امر پر دال ہے کہ شمعون اور لاوی اس وقت بچے نہیں تھے بلکہ زبردست طاقت کے مالک جوان تھے، اور عورتوں کا اسیر کرنا ان کے شادی شدہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اغلب ہے کہ شمعون اور لاوی اس وقت صاحبِ اولاد تھے، کیونکہ ان کی سب سے چھوٹی بہن دینہ بھی اس وقت پوری جوان تھی۔ حمور کے بیٹے سکم کی دینہ سے عشقیہ میٹھی میٹھی باتیں دینہ کے جوان ہونے پر دال ہیں (ایضاً ۳۴ : ۳)۔ اس لیے کئی گنا بڑا بھائی لاوی تو ضرور اس وقت بچوں والا ہو گا۔
اس واقعہ کے کافی عرصہ بعد بن یامین کی پیدائش اور راخل کی وفات ہوئی (ایضاً ۳۵ : ۱۸، ۱۹)۔ پھر اس کے بعد روبن کا اپنی ماں کے ساتھ زنا کا واقعہ پیش آیا (پیدائش ۳۵ : ۲۲)۔ اس کے کافی عرصہ بعد یوسفؑ کو فروخت کیا گیا (ایضاً ۳۷ : ۲۸ تا ۳۶)۔ اس کے بعد لاوی کے چھوٹے بھائی یہوداہ نے عدلامی حیرہ کی مدد سے سوع کنعانی کی بیٹی سے بیاہ کر لیا (ایضاً ۳۸ : ۱، ۲)۔ پھر یکے بعد دیگرے یہوداہ کے تین بیٹے (۱) عیر (۲) اونان (۳) سیلہ پیدا ہوئے۔ اغلب ہے کہ لاوی اس وقت تک بوڑھا ہونے کے قریب ہو گا۔ اس کے کافی عرصہ بعد عیر جوان ہوا اور اس کی شادی یسوع مسیحؑ کی مشہور دادی تمر سے ہوئی (پیدائش ۳۸ : ۶ ، متی ۱ : ۳ ، روت ۴ : ۱۲)۔ پھر تمرہ بیوہ ہوئی تو اسے اونان سے بیاہ دیا گیا۔ پھر کافی عرصہ بعد اونان بھی مر گیا۔ اس وقت تک سیلہ نابالغ تھا، جب سیلہ بالغ ہوا تو تمر نے اپنے سسر یہوداہ سے زنا کروا لیا اور فارص کو جنم دیا (پیدائش ۳۸ : ۱۳ تا ۳۰)۔ اس وقت تک یہوداہ کے دو بیٹے جوان ہو کر مر چکے تھے اور تیسرا سیلہ جو اونان کی موت کے وقت ابھی بچہ تھا (ایضاً) ۳۸ : ۱۱) وہ بھی جوان ہو چکا تھا۔
لہٰذا ضروری امر ہے کہ لاوی کے بیٹے (۱) جیر سون (۲) قہات (۳) صراری بھی صاحبِ اولاد ہوں گے، کیونکہ لاوی یہوداہ سے بھی بڑا تھا اور یہوداہ سے بہت دیر پہلے شادی شدہ تھا۔ اغلب ہے کہ فارص کی پیدائش تک قہات ضرور ہی جوان بلکہ شادی شدہ ہو گا اور لاوی بوڑھا ہو چکا ہو گا۔ پھر فارص بھی پل کر جوان ہوا، شادی شدہ ہوا، پھر یکے بعد دیگرے دو بیٹے حصرون اور حمول پیدا ہوئے (پیدائش ۴۶ : ۱۲)۔ مصر میں آمد کے وقت یہ حصرون اور حمول یعقوبؑ کے ساتھ تھے۔ یعنی ہجرتِ مصرت کے وقت لاوی خوب بوڑھا ہو چکا تھا۔ اس لیے گمان غالب یہی ہے کہ بوڑھے لاوی سے موسٰیؑ کی والدہ یوکبد کی پیدائش مصر میں آمد کے بعد جلد ہی ہوئی ہو گی (گنتی ۲۶ : ۵۹)۔ قہات جو کہ عیر اور اونان سے بھی بڑا تھا، مصر میں آمد کے وقت ادھیڑ عمر ہو گا۔ کنعان سے مصر آنے والے بنی اسرائیل میں قہات کے بیٹے عمرام کا کوئی ذکر نہیں۔ اس لیے ظاہر ہے کہ عمرام بھی اپنی پھوپھی یوکبد کا ہم عمر تھا۔ یعنی عمرام اور یوکبد کنعان سے مصر ہجرت والے سال پیدا ہوئے تھے۔
اس طرح اگر مصر میں بنی اسرائیل کے قیام کی مدت ۴۳۰ برس تسلیم کر لی جائے (خروج ۱۲ : ۴۰، ۴۱) تو موسٰیؑ کی ولادت کے وقت عمرام اور یوکبد کی عمر ۳۵۰ برس ماننی پڑے گی۔ کیونکہ حضرت موسٰی علیہ السلام ۸۰ برس کے تھے جب بنی اسرائیل نے مصر سے خروج کیا (خروج ۷ : ۷)۔ ادھر بائبل سے ثابت ہے کہ عمرام کی کل عمر ۱۳۷ تھی (خروج ۶ : ۲۰)۔ اور اگر مصر میں بنی اسرائیل کا قیام ۲۱۵ برس تسلیم کیا جائے (جیسا کہ گلتیوں ۳ : ۱۶ تا ۱۸ کی بحث سے ثابت ہوتا ہے) تو ولادتِ موسٰیؑ کے وقت عمرام اور یوکبد کی عمر ۲۱۵ - ۸۰ = ۱۳۵ برس بنتی ہے جو کہ بالکل ناقابل قبول بات ہے۔ کیونکہ بائبل کے مطابق نوے برس کی عورت اس قابل نہیں ہوتی کہ اس کے اولاد ہو (پیدائش ۱۸ : ۱۱)۔ اس لیے ماننا پڑے گا کہ ولادت ِموسٰیؑ کے وقت یوکبد جوان عورت تھی، زیادہ سے زیادہ ۴۰ برس کی۔
خروج ۲ : ۱ و ۲ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عمرام نے موسٰیؑ کی ولادت سے بالکل تھوڑی مدت پہلے اپنی پھوپھی یوکبد سے نکاح کر لیا تھا۔ ہارون اور مریم چونکہ موسٰی سے بڑے تھے اس لیے ولادت ِموسٰی سے تقریباً سات یا آٹھ برس قبل دونوں پھوپھی بھتیجے کا بیاہ ہوا ہو گا۔ اور پھر خروج ۲ : ۷ تا ۱۰ بھی یوکبد کے جوان ہونے پر دال ہے کیونکہ موسٰیؑ کی والدہ محترمہ فرعون کے گھر میں دایہ کے فرائض سر انجام دیتی تھیں (پیدائش ۲: ۷ تا ۹)۔ جوان عورت ہی زچہ ہونے کے ساتھ ساتھ دایہ کے فرائض بھی انجام دے سکتی ہے۔ اگر موسٰی کی پیدائش ۱۳۵ سالہ بوڑھی یوکبد سے معجزانہ بھی ہوئی ہوتی تو فرعون کی بیٹی موسٰیؑ کو دودھ پلانے کے لیے اتنی بوڑھی دایہ کو کیونکر قبول کر سکتی تھی؟ چنانچہ ماننا پڑے گا کہ ولادتِ موسٰیؑ کے وقت یوکبد زیادہ سے زیادہ ۴۰ برس کی جوان عورت تھی۔ مصر سے خروج کے وقت موسٰیؑ کی عمر ۸۰ برس تھی۔ اگر ولادتِ موسٰیؑ کے وقت یوکبد کی عمر ۴۰ برس بھی تسلیم کر لی جائے تو مصر میں بنی اسرائیل کے قیام کی مدت ۴۰ + ۸۰ = ۱۲۰ برس بنتی ہے۔
مفسر پادری رس ارون صاحب کی تحقیق کے مطابق حضرت موسٰی علیہ السلام کی ولادت حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات کے ۶۴ برس بعد ہوئی (تفسیر کتاب پیدائش، ناشر مسیحی اشاعت خانہ لاہور، ص ۱۰)۔ حضرت یوسفؑ کی وفات تک بنی اسرائیل کے مصر میں قیام کی مدت ۷۰ برس تھی کیونکہ حضرت یوسفؑ کی ولادت کے وقت حضرت یعقوبؑ کی عمر ۹۰ برس تھی (قاموس الکتاب ص ۱۱۷۳ کالم ۲)۔ اور مصر میں آمد کے وقت حضرت یعقوبؑ کی عمر ۱۳۰ برس تھی (پیدائش ۴۷ : ۹)۔ یعنی مصر میں بنی اسرائیل کی آمد کے وقت یوسفؑ کی عمر ۱۳۰ - ۱۹۰ = ۴۰ برس تھی۔ یوسف کی کل عمر ۱۱۰ برس ہوئی (ایضاً)۔ یعنی یوسفؑ کی وفات تک مصر میں بنی اسرائیل کے قیام کی مدت ۱۱۰ - ۴۰ = ۷۰ برس بنتی ہے۔ لہٰذا ولادتِ موسٰیؑ تک مصر میں قیام کا عرصہ ۷۰ + ۶۴ = ۱۳۴ برس بنتا ہے۔ خروج کے وقت چونکہ موسٰیؑ کی عمر ۸۰ برس تھی اس لیے مصر میں آمد سے خروج تک ۱۳۴ + ۸۰ = ۲۱۴ برس کا عرصہ بنتا ہے۔

اپنے قومی تشخص کا احیاء کیجئے

عمران خان

برطانوی نوآبادیاتی نظام برصغیر میں اپنی بالادستی قائم کرنے کی ایک کوشش تھی جو یورپی سامراج نے ان نوآبادیاتی نظاموں سے (جس کا تجربہ فرانس کے تحت شمالی افریقہ کے ممالک، اور ہالینڈ کے تحت انڈونیشیا کے عوام کر رہے تھے) اپنی نوعیت کے اعتبار سے زیادہ مؤثر، گہرا اور دور رس نتائج کا حامل، اور سختی اور تشدد کے لحاظ سے نسبتاً کمتر درجے کا تھا۔ لیکن اس کے باوجود برطانوی نوآبادیاتی نظام نے اس خطے میں اپنے غلاموں کے ذہنوں پر پائیدار اثرات چھوڑے ہیں۔ چنانچہ آج پاکستان اپنے دورِ غلامی کے ناخوشگوار تجربات سے اتنے مختلف طریقوں سے چمٹا ہوا ہے کہ ہمارے شرفاء کو اس کا اندازہ تک نہیں، اور نہ ہی کبھی انہوں نے یہ جاننے کی پرواہ کی ہے کہ ’’تحقیق و تشویش‘‘ کا یہ فقدان دراصل خود بھی ہمارے عوام کی نوآبادیاتی نظام سے متاثرہ ذہنیت کا ورثہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سرکاری زبان آج بھی انگریزی ہے، جس سے ہم ماضی کی ایک علامت سمجھ کر آسانی سے صَرفِ نظر کر جاتے ہیں، اور اس طرح ایک ایسی حقیقت سے چشم پوشی کر جاتے ہیں جس کا تجزیہ دقتِ نظر سے کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کا معزز طبقہ انگریزی بولتا ہے، لندن اور نیویارک کی سیر کرتا ہے، مغربی لباس زیب تن کرتا ہے، وہاں کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے کی آرزوئیں اس کے دل میں مچلتی رہتی ہیں۔ مختصر یہ کہ ہمارا اونچا طبقہ اس قدر وسیع المشرب بننے کی کوشش کرتا ہے جو ہمارے ان سابقہ آقاؤں کی خوشنودی کا باعث ہو، جو کچھ عرصہ قبل ہی یہ ملک چھوڑ کر گئے ہیں۔ یعنی وہی دو ہزار انگریز افسر جنہوں نے برصغیر کے چالیس کروڑ مقامی باشندوں پر حکومت کی۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ انگریز ایک ایسا طبقہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو لارڈ کرومر کے الفاظ میں رنگ اور نسل کے اعتبار سے تو بے شک ہندوستانی میں ہو، لیکن انڈین سول سروس میں آنے کے بعد اپنے طور اطوار، مزاج، اور اندازِ فکر و نظر میں انگریز بن جائے۔ لیکن آج جو چیز ہمیں نوآبادیاتی تجربے کی کامیابی کی علامت دکھائی دیتی ہے، وہ دراصل اس احساسِ کمتری اور احساسِ ندامت کی غمازی کرتی ہے جو ہمارے سابق حکمران ہمارے ذہنوں پر مرتسم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہمارے نوآبادیاتی تجربے نے جو انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، انگریزی زبان اس کا صرف ایک نقش ہے۔
دوسری نشانی لباس ہے، چنانچہ ہمارے معززین یعنی گندمی رنگ کے صاحب لوگ نہ صرف اپنے سابق حکمرانوں کی زبان کی نقالی پر نازاں و فرحاں ہیں، بلکہ انہوں نے شلوار قمیص اور پگڑی سے بھی جان چھڑا کر تھری پیس سوٹ اور سفاری لباس اپنا لیا ہے جس کو برطانوی دور میں حکومت میں نچلے طبقے کے مقامی یعنی ’’کمی کمین‘‘ پہنتے تھے، اور کسی زمانے میں وہ ہمارے نوابوں اور مہاراجاؤں کا لباس ہوا کرتا تھا۔ اس کے برعکس ہمارے براؤن صاحبان کا ابھرتا ہوا طبقہ فوراً ٹائی اور پتلون پہننے لگا۔ یہ طبقہ مقامی لباس صرف ان مواقع پر استعمال کرنے لگا جو بالکل مقامی نوعیت کے ہوتے، مثال کے طور پر تمام افسر جو برطانوی عہد میں انڈین سول سروس میں شامل ہوتے، انہوں نے اپنے حکامِ بالا والا لباس پہننا شروع کر دیا۔ اسی طرح جو مقامی لوگ فوج اور پولیس میں شامل ہوئے انہوں نے بھی انگریزوں والی وردی پہننی شروع کر دی۔
اس طرح علامت کے طور پر ایک نئی طبقاتی تقسیم وجود میں آ گئی۔ جہاں تک نچلے عملے کا تعلق ہے جیسے چوکیدار، بیرے، یا اسی قسم کے وہ ملازم جو چھوٹے موٹے کام کرتے تھے، وہ مختلف قسم کا مقامی لباس استعمال کرتے جو شلوار قمیص اور پگڑی پر مشتمل ہوتا، اور یہی لباس ہمارے مقامی نوابوں اور جاگیرداروں کا تھا۔ اس طرح انگریزوں نے غیر ارادی طور پر نہ صرف ہمارے مقامی لباس کی ایک گونہ توہین کی بلکہ ہمارے مقامی نوابوں کو بھی ان کے نمایاں تشخص سے محروم کر دیا۔
اس طرح انگریزوں نے جو طبقاتی تقسیم متعارف کرائی وہ نہایت سادہ خطوط پر استوار تھی۔ وہ مقامی لوگ جنہوں نے زبان اور لباس میں آقاؤں کی تقلید کی، وہ شرفاء (ایلیٹ) کہلائے۔ جو تقلید نہ کر پائے وہ متروک و مردود قرار پائے۔ یہ متروک طبقہ لاہور اور دہلی جیسے شہروں کے پسماندہ علاقوں میں کسمپرسی کی حالت میں دھکیل دیا گیا، جبکہ مسابقت کی دوڑ میں ہمارے شرفاء (براؤن صاحب) نواحی کنٹونمنٹ میں نوتعمیر کوٹھیوں میں منتقل ہو گئے۔ تاہم انہوں نے ’’مقامیت‘‘ کا لبادہ پوری طرح تار تار نہیں کیا بلکہ مقامی تشخص کے ساتھ ان کا ارتباط ایسی ایک شعوری کوشش کی صورت میں رہا، جو ان کے لیے ایک طرح کی قابلِ نفرت چیز تھی۔ مختصر یہ کہ ہم اپنے آپ کو ایسے قدیم باشندے سمجھنے لگے جو جدید اور مہذب بننے کی کوشش میں وادی پرخار میں آبلہ پا ہو رہے ہوں۔
انگریز جس وقت ہندوستان کو ’’مہذب‘‘ بنانے میں مصروف تھے، اس دوران انہوں نے تہذیب کے بعض ایسے پہلوؤں کا گلا گھونٹنا شروع کر دیا جنہیں تازہ زندگی بخشنے کی ضرورت تھی۔ اس میں شک نہیں کہ کوئی تہذیب یا ثقافت ہر لحاظ سے مکمل نہیں ہوتی، اور اس کے بعض پہلو ایسے ہوتے ہیں جن کی اصلاح اور درستی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ہماری تہذیب و ثقافت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھی اور نہ اب ہے۔ تاہم انگریزوں نے ہماری ثقافت کے بعض ایسے پہلوؤں کو بہتر بنانے کا اہتمام کیا جن پہلوؤں کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرنا ہم پر چھوڑ دینا چاہیے تھا۔ اس طرح انہوں نے ہمیں قومی شعور و افتخار سے محروم کر دیا۔ چنانچہ ہم اصلاح کے لیے خودکار دائمی عمل سے گزرنے کی بجائے کورانہ تقلید کی دلدل میں کھو کر رہ گئے۔ حالانکہ اپنی اصلاح خود کرنے کا حق ہر معاشرے کو حاصل ہونا چاہیے۔
اس استحقاق سے محروم کیے جانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے بسا اوقات اپنی عظیم ثقافت، ورثے اور تہذیب کی طرف دیکھنے اور اس کی اصلاح کی بجائے اسے مسترد کر دیا، اور اس طرز زندگی اور اس عمل کی نقالی شروع کر دی جو ہمارے لیے اجنبی تھا۔ اس کے نتیجے میں ہم ذہنی اور نفسیاتی خلفشار کا شکار ہو گئے ہیں، ایک لمحہ میں ہم انگریز بن جاتے ہیں اور دوسرے لمحے مسلمان، البتہ بالادستی انگریزی تشخص کو ہی حاصل ہوتی رہی۔ اگر کبھی کبھار ہم پر مقامی تشخص اجاگر کرنے کا دورہ پڑتا ہے تو وہ جلد ہی کورانہ تقلید، جو اَب ہمارے لیے ایک فطری عمل بن چکا ہے، کی دھند میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ ہم اپنے ان راہنماؤں کا منہ تو چڑاتے ہیں جو نہ تو صاف ستھری انگریزی بول سکتے ہیں اور نہ ہی مغربی محاوارت اور روز مرہ کی سدھ بدھ رکھتے ہیں (اس سلسلہ میں فرائیڈے ٹائمز میں اتفاق نامہ خود تحقیری کے بہترین نمونے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے) لیکن ہم اپنے ان راہنماؤں سے اغماض برتتے ہیں جو اردو بھی صحیح نہیں بول سکتے اور خود اپنے ہی وطن میں اجنبی بن چکے ہیں۔
آج جبکہ ہماری تیسری نسل قومی قیادت سنبھالنے کے لیے پر تول رہی ہے، ہماری ثقافتی پراگندگی کم تو کیا ہوتی بلکہ الٹا اس نے منافقتوں کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے، جن سے ہمارا معاشرہ سر تا پا آلودہ ہے۔ کسی ثقافت سے اس کی اچھی چیزیں اخذ کر لینا کوئی بری بات نہیں، البتہ ذہنی غلامی ضرور بری بات ہے۔ ہمارے سامنے اس وقت انتخاب کے لیے بہت سے راستے کھلے ہیں اور ایک ایسا ورثہ بھی ہمارے سامنے ہے جس پر قابو پانا مشکل ہے۔ لیکن تبدیلی کا جو عزم بتدریج آگے بڑھ رہا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کا صحیح اور واضح تصور ہمارے ذہن میں ہو۔ اب تک تو ہم انتہاؤں کے درمیان لڑکھتے رہے ہیں، یا پھر ہم جن چیزوں میں سے صاف انتخابات کر سکتے تھے، ان کے بارے میں بھی گومگو کی کیفیت میں رہے ہیں۔
پاکستان کے بارے میں گورے اور کالے کے حوالے سے سوچنے کی بجائے ہمیں مغربی اور مشرقی تہذیب کے حسین امتزاج سے پیدا ہونے والے نظام کے مختلف پہلوؤں کا بغور جائزہ لینا چاہیے، کیونکہ
  • اگر ہمیں نوآبادیاتی ادارے ہی برقرار رکھنا ہیں تو پھر ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ انہیں ایک جدید پاکستان کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کس طرح بہتر بنا سکتے ہیں۔
  • اگر ہمیں اپنے اندازِ حکومت میں اسلام کا نفوذ کرنا ہے تو پھر ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم انسانی آزادی کو متاثر کیے بغیر ایسا کس طرح کر سکتے ہیں۔
  • اسی طرح اگر ہمیں تحریر و تقریر میں انگریزی کو ہی برقرار رکھنا ہے تو پھر ہمیں سوچنا ہو گا کہ اس سے جو طبقاتی تقسیم پیدا ہوتی ہے اسے کس طرح مٹایا جائے۔
  • اقتصادیات میں اگر سرمایہ داری ہی کو برقرار رکھنا ہے تو دیکھنا ہو گا کہ ہم بہتر منصفانہ معاشرہ تشکیل دینے کی جو خواہش رکھتے ہیں اس کے ساتھ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کو کیسے ہم آہنگ کیا جائے۔ 
یہ ایسے سوالات ہیں جن کا صرف ہمیں ہی سامنا نہیں بلکہ ان سب ممالک کو بھی یہی سوال درپیش ہیں جو نوآبادیاتی نظام کے تحت رہ چکے ہیں۔
پاکستان میں یہ تعمیری اور اصلاحی عمل اس وجہ سے شروع نہیں ہو سکا کہ ہم من حیث القوم اس عیاش اور دوسروں کا خون چوسنے والے کالے صاحب کو طویل عرصے سے برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں، جس کے لیے جوں کا توں برقرار رہنا ہی فائدہ مند ہے۔ تاہم دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے ہمیں خود ہی اپنی اصلاح کا عمل شروع کر دینا چاہیے، اور یہ ایک ایسا عمل ہے جو خود اپنے اندر سے اور معاشرے کے اندر سے شروع کیا جا سکتا ہے۔
آئیں ہم صراطِ مستقیم کی تلاش میں نکلیں اور اس تلاش میں دوسروں سے راہنمائی حاصل کرنے کی بجائے خود اپنی کاوش سے اور اپنے شعور سے اپنے لیے سیدھا راستہ بنائیں، اور اس کے لیے ہمیں خارجی مثالوں سے انحراف بھی کرنا پڑے تو دریغ نہ کریں۔ یہ آسان کام نہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی کام جس کے لیے انسان جان کی بازی لگا سکتا ہے، آسان نہیں ہوتا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تعمیرِ ملت اور تشکیلِ تشخص کا کام ولولہ انگیز کام ہے۔ اور وہ چیز جسے ہم پسند نہیں کرتے اسے بہتر بنانے یا اسے یکسر تبدیل کرنے کے لیے کوشش تو بہرحال ہم کر ہی سکتے ہیں۔

علمائے کرام کی خدمت میں چند گزارشات

حضرت مولانا نذیر احمد

دینی مدارس کے متعلق حکومت کے عزائم اخبارات میں آپ ملاحظہ فرما چکے ہوں گے۔ تمام وفاقوں اور تنظیموں کی اپیل پر احتجاج کے پہلے مرحلے کے طور پر جمعوں میں احتجاجی بیانات ہو چکے ہیں۔ اس سلسلہ میں مزید اقدامات کی تجویز مرکزی تنظیموں کی قیادتیں کریں گی۔ سرِدست مجالس اور جمعوں کی تقریروں میں کیا انداز رکھنا چاہیے اس میں علمائے کرام اور خطبائے عظام دامت برکاتہم اپنے علم، دانش اور حکمت کے پیش نظر کسی رہنمائی کے محتاج نہیں، تاہم اذہانِ مبارکہ کو اس طرف متوجہ کرنے کے لیے بطور مشورہ بیانات کے چند عنوانات پیش خدمت کیے جاتے ہیں، جمعہ کی تقریروں میں اس طرف توجہ ہو جائے تو مفید ہو گا:
  • ہمارا اصل سرمایہ رجوع الی اللہ تعالیٰ ہے۔ اوقاتِ مخصوصہ میں انفرادی و اجتماعی دعائیں بکثرت کی جائیں۔
  • اپنے اپنے دائرہ اثر میں مدارس کو اکابر کے معیارِ تعلیم و تقویٰ پر لانے کے لیے مؤثر کردار ادا کیا جائے۔
  • حکومت کے عزائمِ قبیحہ کے سد کے لیے بھرپور مساعی ضروری ہیں۔ اس سے بھی زیادہ یہ بات ضروری ہے کہ عوام اور مخیر طبقہ کے ذہنوں میں مدارس کی ضرورت، اہمیت اور عظمت بٹھائی جائے۔ مخالف طبقہ کی طرف سے جو اشکالات پیدا کیے جا رہے ہیں، اپنی اپنی وسعت کے مطابق تقریراً و تحریراً ان کے موقر جوابات دیے جائیں۔ عنواناتِ ذیل بھی اسی مقصد کے لیے پیش کیے جا رہے ہیں۔
  • حافظ، قاری، عالم، مفتی، مناظر، امام، خطیب، صحیح مصنف، اور مدرس غرضیکہ دینی خدمات سرانجام دینے والی ہر شخصیت مدارس کی پیداوار ہے۔
  • مناصبِ مذکورہ ملک و ملت اور اس عظیم اسلامی مملکت کی سب سے بڑی اور بنیادی ضرورت ہیں، جسے یہ مدارس اچھے نظم سے پورا کر رہے ہیں۔
  • اعتقادی، نظریاتی، عملی، اخلاقی، معاشرتی اور معاملاتی اصلاحات کے لیے جتنی جماعتیں، ادارے، خانقاہیں اور افراد کام کر رہے ہیں، یہ سب انہی مدارس کے آثارِ حسنہ اور ثمراتِ طیبہ ہیں۔
  • پورے عالم میں جذبۂ جہاد، اسلامی و ایمانی لہر، جس سے بڑی اسلام دشمن طاقتیں خوفزدہ ہیں، یہ انہی مدارس کے نتائج ہیں۔
  • تمام دنیوی محکموں اور اداروں میں احساسِ ذمہ داری رکھنے والے سچے، دیانتدار، ضوابط کے پابند افراد کی نمایاں اکثریت انہی مدارس اور خانقاہوں سے نسبتِ استفادہ رکھنے والوں کی ہے۔
  • ہمارے اکابر کے دور کے معیارِ تعلیم، تربیت اور تقویٰ کے اعتبار سے موجودہ مدارس میں بہت تقصیرات ہیں، لیکن حکومتی خرچ اور نظم سے چلنے والے اداروں سے امن و سکون، معیارِ تعلیم و تربیت، معیارِ حسنِ امتحانات وغیرہا کے اعتبار سے یہ مدارس اتنے اونچے ہیں کہ ان میں کوئی نسبت ہی نہیں۔
  • مدارس اتنے بڑے صدقاتِ جاریہ ہیں جن کا سلسلہ اتنا طویل اور دراز اور شاخ در شاخ ہو جاتا ہے جس کی کوئی حد ہی نہیں۔ ایک عالم کی خدمات اس کے بلاواسطہ اور بالواسطہ شاگردوں اور متوسلین اور ہم نشینوں کی خدمات کا پھیلاؤ ہمارے تصور سے زیادہ ہے۔ جن لوگوں کے اخراجات سے پہلا عالم تیار ہوا تھا، یہ اس کی وسعتوں کے ثواب میں باقاعدہ شریک ہوں گے۔ دوسرے رفاہی کاموں میں حصولِ اجر کی یہ شان ہرگز نہیں ہے۔
  • علومِ اسلامیہ کی نشر و اشاعت کے لحاظ سے تو یہ مدارس صدقہ جاریہ ہیں، ان میں صدقہ جاریہ کے اور بھی متنوع پہلو ہیں۔ درسگاہیں، دارالاقامے (ہاسٹل)، مطبع، وضو خانے، غسل خانے، کپڑے، کھانے پینے اور ادویات کا انتظام کرنا، یہ سب کچھ خدمتِ خلق اور تصدق اور رفاہِ عام کے پہلو ہیں، جن سے نفع اٹھانے والے اکثر اتقیاء، صلحاء اور عباد و زہار ہوتے ہیں۔ ایسے نیک دوسرے رفاہی اداروں سے استفادہ کرنے والوں میں کم ہوتے ہیں۔
  • مدارس میں بھی اکا دکا باہمی کشمکش کے واقعات ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں، لیکن اکثر بلکہ تقریباً سب مدارس اس بداَمنی اور بے سکونی کے دور میں دوسرے اداروں کی نسبت امن و سکون کے مرکز ہی نہیں بلکہ اس کے داعی اور علمبردار ہیں۔
  • مدارس کے متعلق یہ خیال مجالس میں گردش کرتا رہتا ہے کہ اس سے ڈاکٹر، انجینئر وغیرہ پیدا نہیں ہوتے۔ اس کے متعلق عرض ہے کہ واقعی ایسے افراد پیدا ہیں ہوتے، لیکن یہ سوال جدید فنون کے اداروں پر بھی ہے۔ میڈیکل کالج سے صرف ڈاکٹر پیدا ہوتے ہیں، نہ وکیل بنتے ہیں نہ انجینئر بنتے ہیں، نہ ماہر معاشیات وغیرہ۔ اصل بات یہ ہے کہ آدمی متخصص (اسپیشلسٹ) کسی ایک ہی فن میں ہو سکتا ہے، اس کو کسی دوسرے فن کی طرف لگانا اس کے اصل فن میں اسے ناقص رکھنے کی اسکیم کے مترادف ہے۔ ایسے ہی علومِ اسلامیہ اپنے اندر جو اہمیت، ضرورت اور وسعت رکھتے ہیں، ان کو دوسری طرف لگانے کا مشورہ دینے کا منشا تو علومِ اسلامیہ کی اہمیت و ضرورت سے جہالت ہے، یا ان کو ان علوم میں ناقص رہنے کا مشورہ دینا ہے۔

دینی مدارس کا ایک نیا وفاق

ادارہ

علم ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے، علم کے ذریعے ہی انسان اپنے معبودِ حقیقی کی معرفت حاصل کرتا ہے اور خود اپنے آپ کو بھی پہچان سکتا ہے، بلکہ علم کی وجہ سے انسان کو باقی مخلوق حتیٰ کہ فرشتوں پر فضیلت حاصل ہوئی ہے۔ اور یہ کہنا کسی طرح بھی بے جا نہ ہو گا کہ علم کے بغیر خود انسان نامکمل رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں علم کی ترویج و ترقی کے لیے ہر ممکن کوششیں بروئے کار لائی گئیں۔ خصوصاً اسلام نے تو اپنے تمام عقائد و تعلیمات کی بنیاد علم پر رکھی ہے۔ خود پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اپنے متعلق ’’انما بعثت معلما‘‘ کا جملہ ارشاد فرمایا، وہاں ’’طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم‘‘ کہہ کر ہر مسلمان کے لیے حصولِ علم کو فرض قرار دیا۔ چنانچہ مسلمانوں نے علم کی اہمیت کو محسوس کیا اور پوری دنیا میں علم کی اشاعت کے لیے وہ کوششیں سرانجام دیں کہ تمام اقوام آج مسلمانوں کے اس سلسلہ کی مرہونِ منت ہیں۔ اب بھی مسلمان امت تعلیم و تعلم کے اس فریضہ کو بجا لانے میں پوری طرح مصروف ہے۔

تعلیم پاکستان میں

مملکتِ خداداد پاکستان میں اس وقت دو طرح کے تعلیمی نظام رائج ہیں:
(۱) قدیم دینی و عربی نصاب کی تعلیم کا محور و مرکز مساجد اور دینی مدارس ہیں، اور اس نظام نے یہاں دینی و اعتقادی ضروریات پوری کرنے کا فرض نبھایا، اور آج جو کچھ بھی دینی زندگی اور ایمانی حمیت یہاں موجود ہے، وہ اسی نظامِ تعلیم کا نتیجہ ہے۔ اخلاق و کردار اور ایمان و عمل میں جو رونقیں نظر آتی ہیں، وہ مساجد و مدارس کے ماحول میں ہونے والی مساعی کے دم قدم سے ہیں۔
(۲) جدید حکومتی نصابِ تعلیم کا مرکز سکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں، اور اس نصاب نے ریاست کے امور چلانے والے افراد تیار کیے اور دنیوی شعبوں میں کام کرنے کی استعداد پیدا کی۔ اس حکومتی نصاب میں قرآن مجید ناظرہ کی تعلیم اور اسلامیات کی صورت میں کسی حد تک اسلامی عقائد و احکام کا ایک حصہ شامل ہے، لیکن یہ ایک مسلمان کی دینی ضروریات کے لیے ناکافی ہے۔ اس پر المیہ یہ ہے کہ اس حصہ کو عملاً تعلیم کے سلسلہ میں کوئی اہمیت نہیں دی گئی، جس کے نتیجہ میں جہاں ان اداروں میں تعلیم کا معیار انتہائی پست ہے، وہاں نقل اور ناجائز ذرائع سے امتحانی کامیابی کا حصول کوئی عیب نہیں رہا۔ اور ان اداروں میں نوجوان نسل کی تربیت اس انداز سے ہو رہی ہے کہ کلاشنکوف کلچر، گروپ بندی اور دوسری تمام اخلاقی خرابیوں نے ان درسگاہوں کے تصور کو بھی بھیانک بنا دیا ہے اور والدین انتہائی پریشان ہیں، لیکن ان کے سامنے تعلیم و تربیت کا ایسا کوئی متبادل نظام موجود نہیں جس پر وہ اپنی اولاد کے معاملہ میں اعتماد کر سکیں۔
مندرجہ بالا صورتحال اور پاکستان میں تعلیم کے دونوں نظاموں میں پائے جانے والے خلا کو پر کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ کسی طرح ان دونوں نظاموں کی خوبیوں کو جمع کر دیا جائے، اور اس طرح ایسی نسل تیار کی جائے جو بیک وقت دینی تعلیمات سے آگاہ ہونے کے ساتھ جدید دور کے فنون سے بھی پوری طرح واقف ہو۔ اس سلسلہ میں مسلمان زعماء اور دردمند اکابر ہمیشہ کوشش میں مصروف رہے ہیں، لیکن یہ کوششیں انفرادی درجہ کی حامل تھیں، جبکہ اب ملک و ملت کی اس ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے دردمند علماء کے ایک اجلاس میں ان کوششوں کو اجتماعی شکل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اور اس کے لیے ’’نظامتِ تعلیماتِ اسلامیہ پاکستان‘‘ کے نام سے کام کرنے کا عزم کیا گیا اور طے کیا گیا کہ ایک ایسا نظامِ تعلیم اور نصاب وضع کیا جائے جس میں دونوں نصابوں کی اہم ضروریات ملحوظ رکھی جائیں۔ اور تعلیم و تربیت کا ایسا پروگرام طے کیا جائے جس کے ذریعے ایسی مسلمان نسل تیار ہو جو بیک وقت دینی تعلیم اور اخلاقی و روحانی تربیت بھی رکھتی ہو، اور انتظامی و ریاستی امور سرانجام دینے کی بھی پوری طرح اہل ہو۔

نظامت کے مقاصد

  • دینی علوم اور عصری فنون پر مشتمل نصاب کی تدوین
  • ملحقہ مدارس کے امتحانی اور تربیتی نظام کی نگرانی
  • اعلیٰ اسلامی تعلیم و تربیت اور ملکی نظام میں اپنا کردار ادا کرنے کی حامل نسل تیار کرنے کی جدوجہد
  • ایسے طریقۂ تدریس کا استعمال جس میں ایسے مبلغین اسلام تیار ہوں جو عربی، فارسی اور انگریزی زبان پر عبور رکھتے ہوں، اور پوری دنیا میں تبلیغِ دین کا فرض بھی ادا کر سکیں، اور عصرِ حاضر کے تمام الحادی اور غیر اسلامی فتنوں کا تعاقب کر کے اسلام دشمن تحریکوں کی سرکوبی کر سکیں۔

نظامت کا قیام اور عملی اقدام

  • مندرجہ بالا مقاصد کے حصول کے لیے نظامتِ تعلیماتِ اسلامیہ پاکستان کے نام سے اس ادارہ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
  • نظامت کا مرکزی دفتر جامعہ منظور الاسلامیہ، عید گاہ صدر روڈ، لاہور چھاؤنی میں قائم کیا گیا ہے۔
  • حضرت مولانا محمد طیب صاحب حنفی کو نظامت کا امیر منتخب کیا گیا ہے، جبکہ مولانا عبد الرؤف فاروقی کو ناظمِ اعلیٰ نامزد کیا گیا ہے۔
  • حضرت مولانا عبد الرحمٰن ظفر کی سربراہی میں تدوینِ نصاب کمیٹی نے پرائمری پاس طلباء کے لیے گیارہ سالہ نصاب ترتیب دیا ہے، جس میں ترجمۂ قرآن مجید، تفسیر، اصولِ تفسیر، حدیث، اصولِ حدیث، فقہ، اصولِ فقہ، عقائد، ادب، صرف، نحو اور منطق پر مشتمل دینی و قرآنی علوم کے ساتھ چھٹی سے بی اے تک کا حکومتی نصاب شامل ہے۔
  • طے کیا گیا ہے کہ جو مدارس نظامت کے ساتھ الحاق کریں گے اور نظامت کا مرتب کردہ نصاب رائج کریں گے، ان کے امتحانات اور تعلیمی و تربیتی نظام کی نگرانی نظامت کرے گی، اور نتائج کے مطابق اسناد بھی جاری کرے گی۔
  • نظامت نے طے کیا ہے کہ طلباء میں عربی و دینی علوم کی استعداد پیدا کرنے کے لیے فنون کی بعض ابتدائی کتابیں مرتب کر کے انہیں شائع کیا جائے۔
  • نظامت نے طے کیا ہے کہ ملحقہ مدارس کا بنیادی مشن علومِ نبوت کی تعلیم و ترویج ہو گا اور وہ اسی مقصد کو اہمیت دیں گے، جبکہ حکومتی نصاب سے ریاستی امور اور تبلیغِ اسلام کے لیے صلاحیت پیدا کرنا مقصود ہو گا اور اسی درجہ میں اس کو اہمیت حاصل ہو گی۔

عظیم افغان کمانڈر مولانا نصر اللہ منصورؒ

عید محمد افغان

حضرت مولانا نصر اللہ منصور بن غلام محمد خان سہاکھ گاؤں زرمت کے علاقہ میں صوبہ پکتیکا میں ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے جس کو علاقہ کے لوگ فضل الرحمٰن کے گھرانے کے نام سے جانتے ہیں۔ ابتدائی تعلیم زرمت پکتیکا پغمان کے مختلف علاقوں میں حاصل کی اور جامعہ نور المدارس الفاروقیہ ولایت غزنی میں علومِ عالیہ کی تحصیل کے لیے داخل ہوئے اور ایسی علمی اور روحانی فضا میں تربیت پائی جہاں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی صدائیں بلند ہوتی تھیں اور قال اللہ جل جلالہ اور قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آوازیں آتی تھیں۔ اس جامعہ سے مولانا منصور شہیدؒ نے علومِ عالیہ تفسیر، حدیث، اصول، عقائد، کلام اور فقہ وغیرہ حاصل کیے۔ اس جامعہ کا شمار افغانستان کے بڑے مدارس میں ہوتا ہے۔ طالب علمی کے دور میں مولانا شہیدؒ ذہین و فہیم طلباء میں شمار ہوتے تھے۔
پڑھائی کے دوران ہی مولانا منصورؒ کا تعلق شیخ المشائخ المجددی نور اللہ مرقدہ سے ہو گیا اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ان کا دل خوشی سے اصلاحِ باطن کی طرف مائل ہوا اور طیب خاطر سے شیخ مجددی نور اللہ مرقدہ کے حلقہ بگوش ہو کر شغف بالذکر کرنے لگے۔ ان کے شیخ معمولی شیخ نہ تھے بلکہ پورے افغانستان کے علماء اور عوام الناس کے شیخ الکل تھے۔ پس شیخ کی مبارک روحانی بیعت نے اس طالب علم کے اندر عجیب و غریب اثرات پیدا کر دیے جو ان کی آنے والی زندگی کے لیے سنگِ بنیاد کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس دوران مولانا منصور شہیدؒ نے ’’جمعیت خدام الفرقان‘‘ کی بنیاد رکھی اور اس کے ساتھ ساتھ علمی مشاغل کو بھی برقرار رکھا۔ مولانا منصورؒ نے جمعیت کے لیے ایک منشور مرتب کیا۔ جمعیت وہ پہلی جماعت تھی جس نے اپنی تمام تر کوششیں روسی کمیونسٹوں کے خلاف وطنِ عزیز افغانستان میں صرف کیں، اور افغانستان کی جملہ مسلم جماعتیں اس عظیم جمعیت کے ساتھ متفق اور متحد تھیں۔ اور یہ جمعیت محمد اسماعیل مجددی، جنہوں نے محمود غزنویؒ کے پوتوں کو سرکش ظالموں کی سرکوبی کے لیے تیار کیا تھا، کی قیادت میں سرگرم عمل تھی۔
مولانا منصور شہیدؒ نے جامعہ نور المدارس سے فراغت حاصل کی اور ممتاز درجہ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اسلامی علوم سے فراغت کے بعد مولانا منصورؒ علم کے حقوق کی ادائیگی میں لگ گئے، یعنی دینی علوم کی تدریس اور تعلیم میں مصروف ہو گئے۔ کمیونسٹ روسی چونکہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں کثیر تعداد میں تھے، لہٰذا انہوں نے اس بطلِ حریت کو ہر طرح کے حیلے کر کے قید کرنا چاہا۔ کیونکہ وہ روسی کمیونسٹوں کے گندے عزائم کے سامنے سدِ سکندری تھے۔ ان حالات میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم ’’ارض اللہ واسعۃ فتہاجروا فیہا‘‘ کو بسر و چشم قبول کیا۔ وطنِ عزیز کو خیرباد کہہ کر شاہی کوٹ چلے آئے جو کہ مجاہدینِ اسلام افغانستان کا مرکز اور معسکر تھا، اور وہاں پہنچ کر نوجوانوں کو اسلامی تعلیم کے ساتھ روسیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرتے رہے۔ شاہی کوٹ میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ بھی بے سروسامانی کے عالم میں خیموں میں جاری رہا۔ باوجود اس کے کہ کبھی کبھار تند ہوا سے خیموں کی رسیاں ٹوٹی جاتی تھیں، منصورؒ نوجوانوں کو روسیوں کے مقابلہ کے لیے بلند ہمتی کے ساتھ تیار کرتے رہے۔
روسی جارحیت کے کچھ ہی عرصہ بعد پاکستان کے علاقہ میران شاہ میں آگئے تاکہ اللہ تعالیٰ، اس کے دین اور مجاہدینِ اسلام کے دشمنوں کے مکروہ قید و بند تکالیف سے نجات حاصل کر کے ان کی بری تدابیر کا سدباب کیا جائے۔ روسی اگرچہ افغانستان کے مختلف شہروں اور صوبوں میں موجود تھے لیکن علماء اور عوام پر اپنا تسلط قائم نہ کر سکے، اور انہی دنوں منصور شہیدؒ نے اپنا نام تبدیل کر لیا تاکہ روسی سازشوں سے محفوظ رہیں۔
روسی کمیونسٹ انقلاب کے بعد جب تراکئی اور حفیظ اللہ امین کرسی اقتدار پر بیٹھے تو انہوں نے کمیونسٹ روسی نظام کو افغانستان کی سرزمین پر مسلط کرنا چاہا۔ علماء کرام اس نظام کے خلاف سرگرم عمل ہوئے تو حکومت نے علماء کو جیلوں میں بند کرنا شروع کر دیا۔ اسی پاداش میں منصورؒ کو بھی کابل جیل میں بند کر دیا گیا اور دوسرے مشائخ کو، مثلاً جمعیت خدام الفرقان جو کہ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے بنائی گئی، اس جمعیت کے بانی مرشد المشائخ مجددی بن نور المشائخ اور حضرت مولانا فضل عمر مجددی کو بھی قید میں ڈالا گیا۔ تاہم کابل جیل کا جیلر منصورؒ کا ہم وطن تھا، چنانچہ اس نے مولانا شہید کو رہا کر دیا۔
اس کے بعد منصور شہیدؒ شیخ محمد بن محمدی کے ساتھ پاکستان آئے اور فقیہ العصر مولانا مفتی محمودؒ قدس سرہ سے مشاورت کی۔ ’’حرکت الانقلابیہ الاسلامیہ‘‘ کے نوجوانوں نے شریعت کے نفاذ کے لیے قربانیاں دیں تاکہ مذکورہ قیادت کے زیرسایہ افغانستان میں ایک اسلامی حکومت قائم ہو جائے۔ اس لیے کہ مسلمان مجاہدین کا مطمح نظر ایک ہی تھا کہ افغانستان میں دین کا پرچم سربلند ہو۔ اور حرکت کی انتھک کوششوں سے قریب تھا کہ روسی حکومت کا خاتمہ ہو جائے، لیکن روس نے تازہ دم فوج ’’جیش احمر‘‘ (Red Army) کو مجاہدین کی سرکوبی کے لیے بھیج دیا، لیکن حرکت کے نوجوانوں نے، جو کہ منصور شہیدؒ کی کمان میں لڑ رہے تھے، ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دین کی سربلندی کے لیے خون کو بہایا اور ہزاروں علماء کرام نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔
ان مجاہدین میں سے سینکڑوں نے جام شہادت نوش کیا جن میں صوبہ پکتیکا کے حضرت مولانا پیر محمد الوقفی شہیدؒ، صوبہ پغمان کے مولوی عبد الرحیم الحنفی شہیدؒ، غزنی کے قاری عبد اللہ دانش شہیدؒ، ہلمند کے مولانا محمد نسیم شہیدؒ، زابل کے مولوی مدد خانؒ اور مولوی محمد موسیٰ کلیم شہیدؒ، اور کابل کے مولوی شفیع اللہ شہیدؒ شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے جور رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آمین۔
اسی دوران پاکستان کے مرد مجاہد بطل حریت حضرت مولانا ارشاد احمد شہیدؒ نے ’’حرکت الجہاد الاسلامی العالمی‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ یہ پہلے مرد مجاہد تھے جنہوں نے دین کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کیا اور کفر کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اس کو لرزہ خیز کر دیا اور اسی کشمکش میں رب العالمین کا پڑوس حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جب مولانا ارشاد شہیدؒ نے جہاد کی مہم شروع کی تو حضرت مولانا عبد الحق رحمہ اللہ تعالیٰ رئیس دارالعلوم الحقانیہ اکوڑہ خٹک سے مشورہ کیا۔ انہوں نے ارشاد شہیدؒ کو مولانا منصور شہیدؒ کی رفاقت اختیار کرنے کے لیے فرمایا اور ارشاد شہیدؒ کا منصور شہید سے بڑا گہرا تعلق تھا، اور حرکت الجہاد الاسلامی العالمی بھی منصور شہید کے زیر اثر برسرپیکار رہی ہے۔
منصور شہیدؒ حلیم الطبع اور نرم خو شخصیت کے حامل تھے اور فیصلہ کرنے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر بن عبد العزیزؓ کی اقتدا کرتے تھے۔ اس کی نمایاں مثال ایک واقعہ ہے کہ ان کی جماعت کے ایک ذیلی امیر نے گیارہ آدمیوں کو ناحق قتل کر دیا۔ منصور شہیدؒ نے مقتول کے ورثا اور عامۃ الناس کو جمع کیا تاکہ امیر سے قصاص لیا جائے۔ مجاہدین نے اصرار کیا کہ امیر کو قصاص میں قتل نہ کیا جائے ورنہ رسوائی ہو گی، اور اگر نہ چھوڑا گیا تو ہم تمہارا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ منصور شہیدؒ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو اختیار کرتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے حالات کی پروا کیے بغیر اللہ تعالیٰ کے احکام حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے قصاص کا فیصلہ کر دیا۔
منصور شہیدؒ افغانستان کے جہاد ہی کے ذمہ دار نہ تھے بلکہ اتحاد اسلامی کے خصوصی رکن بھی تھے۔ اور افغانستان کی آزادی کے لیے کوشاں حرکت الانقلاب الاسلامیہ کے نائب رئیس بھی تھے۔ اس کے علاوہ سات متحدہ افغانی جماعتوں کے سیکرٹری بھی تھے۔ آزادئ افغانستان کے بعد حرکت الانقلاب الاسلامیہ کے نائب بن گئے اور زندگی کے آخری ایام میں مجلس الاعلیٰ للقضاء کے رئیس تھے اور گردیز کے والی بھی بن گئے۔ گویا منصور شہیدؒ تمام جماعتوں میں مشترک حیثیت رکھتے تھے۔
ظالم کمیونسٹوں نے منصورؒ کے خلاف سازش کی، وہ قافلہ کی صورت میں کابل سے گردیز کی طرف سفر کر رہے تھے کہ ان کی گاڑی میں نصب کیا جانے والا بم پھٹ گیا۔ منصور شہیدؒ کے ساتھی انجینئروں نے انہیں بتایا تھا کہ آپ اپنی گاڑی چھوڑ دیں، لیکن وہ نہ مانے، انہیں گمان بھی نہیں تھا کہ ان کے ساتھ یہ کچھ ہو جائے گا۔ منصور شہیدؒ کی گاڑی میں چھ محافظوں کے علاوہ ولایت لوگر کے مولوی ضبطو خان بھی موجود تھے جو کہ حرکت الانقلاب الاسلامیہ کے قائدین میں سے تھے۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد انہوں نے کسی چیز کی بدبو محسوس کی لیکن سمجھ نہ سکے کہ کیا چیز ہو سکتی ہے۔ گاڑی کو روکا، اترے اور دیکھا لیکن کسی چیز کو نہ پایا، چنانچہ سفر جاری رکھا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر گاڑی سے دھواں اٹھتا ہوا محسوس ہوا تو ارادہ کیا کہ گاڑی کو کسی پانی والی جگہ پر روک کر تفتیش کریں۔ مگر چند لمحوں بعد ہی بم پھٹ گیا اور گاڑی کے پرخچے اڑ گئے اور منصور شہیدؒ اپنے ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہماری اور تمام امتِ مسلمہ کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے اور جنت نعیم میں ان کا ٹھکانہ بنائیں، آمین ثم آمین۔

قافلۂ معاد

ادارہ

حضرت مولانا مفتی ولی حسنؒ

پاکستان کے ممتاز مفتی اور فقیہ حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکیؒ گزشتہ ماہ طویل علالت کے بعد کراچی میں انتقال فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کے معتمد رفقاء میں سے تھے اور انہوں نے طویل عرصہ تک جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی میں تدریس و افتاء کی خدمات سرانجام دیں۔ وہ ایک مشفق استاذ، بیدار مغز مفتی، اور حق گو عالمِ دین تھے اور ہمیشہ اعتقادی و معاشرتی فتنوں کے خلاف سرگرم عمل رہتے تھے۔

مولانا نیاز محمدؒ

جمعیۃ علماء اسلام کے سابق مرکزی ناظم اور بلوچستان کے سابق صوبائی وزیر مولانا نیاز محمد گزشتہ ماہ مکہ مکرمہ میں حرکت ِقلب بند ہو جانے سے انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا تعلق زیارت کے علاقہ کواس سے تھا اور وہ جمعیۃ کے متحرک راہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ راقم الحروف کے حالیہ سفرِ حجاز کے دوران مسجد حرام میں مولانا مرحوم سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے بڑے دردِ دل کے ساتھ جمعیۃ علماء اسلام کے معاملات کی اصلاح کے لیے کردار ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی، مگر اس کے دو تین روز بعد جب کراچی پہنچا تو ’’جنگ‘‘ میں خبر پڑھی کہ مولانا نیاز محمدؒ کا مکہ مکرمہ میں حرکتِ قلب بند ہو جانے سے انتقال ہو گیا ہے۔

مولانا محمد انذر قاسمیؒ

جمعیۃ علماء اسلام کے ایک اور سرگرم راہنما اور سیالکوٹ کے متحرک عالم دین مولانا محمد انذر قاسمیؒ رمضان المبارک کے دوران جبکہ وہ نماز تراویح ادا کرنے کے بعد گھر جا رہے تھے، سفاک قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ ایک حساس و مضطرب دل کے حامل نوجوان عالم دین تھے، اور انہوں نے اپنی مختصر زندگی میں تحریک ختم نبوت اور تحریک نفاذ شریعت کے لیے جو گراں قدر خدمات سرانجام دیں وہ بلاشبہ نوجوان علماء کے لیے قابل تقلید اور لائق رشک ہیں۔ دینی معاملات میں ان کی مسلسل محنت و مشقت اور ان کی حق گوئی کی یادیں ایک عرصہ تک ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔

حافظ سید مقصود میاںؒ

حضرت مولانا سید حامد میاں قدس اللہ سرہ العزیز کے چھوٹے فرزند حافظ سید مقصود میاں رمضان المبارک کے دوران جامعہ مدنیہ لاہور میں نماز تراویح میں قرآن سناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ ایک علمی خاندان کے ہونہار فرزند تھے۔

جناب انوار احمدؒ

مکتبہ مدنیہ اردو بازار لاہور کے جناب انوار احمد کو کسی شقی القلب قاتل نے ان کی دکان پر فائرنگ کر کے شہید کر دیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم مسلکی معاملات میں ہمیشہ سرگرم رہتے تھے اور قلبی احساس و جذبہ سے بہرہ و ر دینی کارکن تھے۔

پروفیسر محمد سرفرازؒ

سیالکوٹ کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا حافظ منظور احمد سیالکوٹی کے فرزند پروفیسر محمد سرفراز گزشتہ دنوں تبلیغی چلہ لگانے کے بعد واپس آتے ہی لاہور میں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون، وہ ایک صالح اور باعمل نوجوان تھے۔
ہم ان تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندئ درجات کے لیے دعاگو ہیں اور پسماندگان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ مرحومین کو جوار رحمت میں جگہ دیں اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق ارزانی فرمائیں، آمین یا الٰہ العالمین۔

ورلڈ اسلامک فورم کی سرگرمیاں

ادارہ

مولانا محمد عیسیٰ منصوری کا دورۂ جنوبی افریقہ

ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے گزشتہ ماہ فورم کے سیکرٹری تنظیمی امور مولانا محمد اسماعیل پٹیل کے ہمراہ جنوبی افریقہ کا دورہ کیا اور مختلف شہروں میں علماء کرام اور دینی کارکنوں کے اجتماعات سے خطاب کیا۔
ڈربن میں جمعیت علماء نٹال کے سربراہ مولانا محمد یونس پٹیل کی طرف سے طلب کردہ علماء کرام کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مولانا منصوری نے علماء پر زور دیا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ کے منفی پراپیگنڈا کے اثرات کا جائزہ لیں اور اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔
انہوں نے کہا کہ مغربی ذرائع ابلاغ کمیونزم کی شکست کے بعد مسلسل یہ پراپیگنڈا کر رہے ہیں کہ اسلام انسانی حقوق کی راہ میں رکاوٹ ہے اور مسلم بنیاد پرستی سے عالمی امن اور مغربی تہذیب کو خطرہ ہے، اس لیے مسلم بنیاد پرستی کو کچلنے کے لیے مغربی حکومتیں اور لابیاں اپنا پورا زور صرف کر رہی ہیں۔ لیکن علماء کرام کے حلقوں میں ابھی اس چیلنج کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش نہیں کی جا رہی، جس کا ملتِ اسلامیہ کو نقصان ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے اسلاف کی یہ روایت رہی ہے کہ انہوں نے دین اور قوم کو پیش آنے والے فتنوں سے ہمیشہ بروقت خبردار کیا ہے، اور ان کے مقابل میں ملت کی راہنمائی کی ہے، لیکن آج یہ روایت اپنے تسلسل سے محروم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ انہوں نے علماء کرام پر زور دیا کہ وہ ابلاغ کے جدید ذرائع سے بھرپور استفادہ کریں اور اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لیے میدانِ عمل میں آئیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلام دینِ فطرت ہے اور یہ صلاحیت صرف اسی میں ہے کہ وہ انسانی معاشرے کے پیچیدہ مسائل کو حل کرے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ علماء کرام اسلام کے اجتماعی کردار کا ادراک حاصل کریں اور اسے دنیا کے سامنے آج کی زبان میں پیش کریں۔
مولانا منصوری نے جنوبی افریقہ کے متعدد شہروں میں جمعیت علماء افریقہ کے راہنماؤں اور دینی اداروں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کیں اور فورم کے پروگرام پر ان سے تبادلۂ خیال کیا۔ انہوں نے ورلڈ اسلامک فورم کے سرپرست ڈاکٹر سید سلمان ندوی سے بھی ملاقات کی اور فورم کے آئندہ سال کے پروگراموں کے بارے میں ان سے صلاح مشورہ کیا۔

مسلم ہیومن رائٹس سوسائٹی پاکستان کا قیام

جامع مسجد خضراء سمن آباد لاہور کے خطیب مولانا عبد الرؤف فاروقی کی دعوت پر ۲۶ مارچ ۱۹۹۵ء کو چند اہل دانش کا ایک اجلاس ان کی رہائشگاہ پر منعقد ہوا جس میں ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے اسلامی احکام و عقائد کے خلاف مغربی ذرائع ابلاغ کے مسلسل پراپیگنڈا کا جائزہ لینے اور اسلامی تعلیمات کو صحیح طور پر سامنے لانے کے لیے ’’مسلم ہیومن رائٹس سوسائٹی پاکستان‘‘ کے نام سے علمی و فکری کام کا آغاز کیا جائے۔ چنانچہ مولانا عبد الرؤف فاروقی کو سوسائٹی کا کنوینر منتخب کیا گیا اور طے پایا کہ ۱۷ اپریل ۱۹۹۵ء بروز پیر بعد نماز عصر مرکزی جامع مسجد شادمان لاہور میں ایک فکری نشست ہو گی جس میں ممتاز علماء اور دانشور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر پر اظہار خیال کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

مولانا محمد عیسیٰ منصوری انڈیا کے دورے پر

ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسیٰ منصوری ان دنوں انڈیا کے دورے پر ہیں، وہ بھارت کے مختلف شہروں میں سرکردہ علماء کرام سے ملاقاتیں کریں گے اور واپسی پر حرمین شریفین میں حاضری دیتے ہوئے اپریل کے آخر تک لندن پہنچیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

مولانا زاہد الراشدی کا سفرِ حجاز

ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے گزشتہ ماہ ۱۱ فروری سے ۲۱ فروری تک حرمین شریفین میں حاضری دی اور مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور جدہ میں سرکردہ علماء کرام سے عالمِ اسلام کے مسائل پر گفتگو کی۔ فورم کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا سید اسد اللہ طارق گیلانی بھی ان دنوں لندن سے مکہ مکرمہ آئے ہوئے تھے، چنانچہ دونوں راہنماؤں نے ورلڈ اسلامک فورم کے پروگرام اور مقاصد کے حوالے سے سرکردہ حضرات سے ملاقاتیں کیں۔ واپسی پر مولانا زاہد الراشدی نے دو روز کراچی میں قیام کیا اور متعدد دینی اجتماعات میں شرکت کی۔

فورم کی ماہانہ فکری نشست

ورلڈ اسلامک فورم کی ماہانہ فکری نشست ۲۷ جنوری ۱۹۹۵ء کو بعد نماز عشا مسجد نور سیٹلائیٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں ہوئی جس کے لیے گوجرانوالہ کے سرگرم دوست حافظ نفیس الرحمٰن (حافظ الیکٹرک سٹور) نے دلچسپی اور محنت کے ساتھ احباب کو جمع کرنے کا اہتمام کیا۔ فکری نشست میں مولانا زاہد الراشدی نے دینی مدارس کے بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ کے منفی پراپیگنڈا اور دینی مدارس کے مروجہ نصاب کے حوالے سے حکومتِ پاکستان کے مبینہ عزائم کا جائزہ پیش کیا اور حاضرین کے سوالات کے جوابات دیے۔
سال رواں میں فورم کی دوسری ماہانہ فکری نشست ۱۵ مارچ کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں مولانا مفتی محمد عیسیٰ گورمانی کی زیر صدارت منعقد ہوئی جس میں صدر اجلاس کے علاوہ مولانا زاہد الراشدی اور پروفیسر حافظ محمد شریف نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کا ابتدائی جائزہ پیش کیا۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی تعلیمات و احکام کے حوالے سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور جنیوا کنونشن کی قرارداد کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے، اور اس مقصد کے لیے دینی حلقوں اور اداروں کو منظم کام کرنا چاہیے۔
دریں اثنا فورم کی سالِ رواں کی تیسری ماہانہ فکری نشست ۷ اپریل بروز جمعہ بعد نماز عشا مسجد صدیقیہ بمبے براس سیٹلائیٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں منعقد ہو گی جس میں مولانا زاہد الراشدی ’’اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اسلامی تعلیمات‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ فکری نشست میں موضوع سے دلچسپی رکھنے والے احباب سے شرکت کی اپیل ہے۔

شاہ ولی اللہ یونیورسٹی میں مولانا راشدی کی نئی ذمہ داری

مولانا زاہد الراشدی نے، جو شاہ ولی اللہ یونیورسٹی اٹاوہ گوجرانوالہ کے سرپرست، ٹرسٹی، اور تعلیمی کونسل کے چیئرمین ہیں، ۱۱ مارچ سے یونیورسٹی کے ایڈمنسٹریٹر کی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں، اور وہ روزانہ صبح ساڑھے آٹھ سے ساڑھے گیارہ بجے تک (جمعہ کے علاوہ) یونیورسٹی آفس میں بیٹھتے ہیں۔

سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس

قاری عبید الرحمٰن ضیاء

یومِ پاکستان کے موقع پر ۲۳ مارچ ۱۹۹۵ء کو شاہ ولی اللہ یونیورسٹی اٹاوہ گوجرانوالہ میں الشریعہ اکیڈمی مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے زیر اہتمام ایک روزہ سالانہ ’’الشریعہ تعلیمی کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی جس میں گوجرانوالہ شہر اور ضلع سے تعلیمی شعبہ سے تعلق رکھنے والے حضرات کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کانفرنس کی صدارت شاہ ولی اللہ یونویرسٹی کے چیئرمین الحاج میاں محمد رفیق نے کی۔ جبکہ اس سے الشریعہ ایجوکیشنل ویلفیئر سوسائٹی کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی، جامعہ اسلامیہ کامونکی کے مہتمم مولانا عبد الرؤف فاروقی، معارفِ اسلامیہ اکادمی گکھڑ کے ڈائریکٹر قاری حماد الزہراوی، گورنمنٹ ڈگری کالج گوجرانوالہ کے پروفیسر غلام رسول عدیم، شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے پرنسپل پروفیسر چودھری نصیر احمد، اور شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے سال چہارم کے طالب علم فیصل محبوب نے خطاب کیا۔
الشریعہ ایجوکیشنل ویلفیئر سوسائٹی گوجرانوالہ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر حافظ محمد الیاس نے سوسائٹی کا پروگرام پیش کیا اور گورنمنٹ ہائر اسکینڈری اسکول گوجرانوالہ کے استاذ سید احمد حسین زید نے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیے۔ اس موقع پر ڈاکٹر حافظ محمد الیاس نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام اس سال چار سالہ میٹرک کلاس کا آغاز کیا جا رہا ہے جس میں حافظ قرآن یا پرائمری پاس طلبہ کو چار سال میں میٹرک کا امتحان دلانے کے علاوہ عربی گرائمر کے ساتھ قرآن کریم کا ترجمہ پڑھایا جائے گا اور کمپیوٹر ٹریننگ دی جائے گی۔ جبکہ حافظ قرآن طلبہ کو تجوید کا کورس اور غیر حافظ طلبہ کو قرآن کریم ناظرہ اور آخری دو پارے حفظ کرائے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اگلے سال سے درس نظامی کی کلاس کا بھی آغاز کیا جائے گا جس میں طلبہ درس نظامی کے مکمل نصاب کے ساتھ ایف اے اور بی اے کے باضابطہ امتحانات بھی دیں گے۔
کانفرنس میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس محمد رفیق تارڑ نے بطور مہمان خصوصی شرکت کرنا تھی مگر جسٹس خلیل الرحمٰن خان کے فرزند کی حادثاتی وفات کی وجہ سے وہ تشریف نہ لا سکے، البتہ اسے موقع پر انہوں نے جو تحریری خطاب کرنا تھا، وہ ان کی طرف سے اسٹیج سیکرٹری نے کانفرنس میں پڑھ کر سنایا۔

جسٹس محمد رفیق تارڑ کا خطاب

بعد الحمد والصلوٰۃ! صدر محترم اور قابل احترام شرکائے محفل! میں الشریعہ اکیڈمی اور شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے منتظمین کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے آج کی اس محفل میں شرکت اور آپ حضرات کے ساتھ گفتگو کی دعوت دی۔ اس بہانے مجھے شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا موقع ملا اور یہ معلوم کر کے بے حد مسرت ہوئی کہ پرائیویٹ سیکٹر میں کسی سرکاری اور بیرونی امداد کے بغیر اتنا بڑا تعلیمی منصوبہ تعمیر و ترقی کے مراحل طے کر رہا ہے، جو گوجرانوالہ کے زندہ دل شہریوں کے دینی جذبہ اور شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے منتظمین کے عزم و حوصلہ کی علامت ہے۔
حضرات محترم! تعلیم کے حوالے سے بہت کچھ کہنے کی ضرورت ہے اور قومی تعلیمی ضروریات اور مروجہ تعلیمی نظاموں اور نصابوں کے درمیان مسلسل عدم توازن نے ہمیں علمی اور فکری طور پر جس انتشار اور خلفشار سے دوچار کر دیا ہے اس کے تمام پہلوؤں پر تفصیلی بحث و تمحیص وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے، کیونکہ کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں اس کا نظامِ تعلیم بنیادی اہمیت رکھتا ہے، اور بدقسمتی سے ہم حصولِ آزادی اور قیامِ پاکستان کے بعد سے اپنے نظامِ تعلیم کو قومی ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی طرف کوئی سنجیدہ پیشرفت نہیں کر پائے۔ جس کے تلخ نتائج و ثمرات آج ہمارے سامنے ہیں اور پاکستان کا ہر باشعور شہری ملکی سالمیت، قومی وحدت اور ملک کی نظریاتی حیثیت کے بارے میں مجسم سوال بن کر رہ گیا ہے۔
شرکائے محفل! اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام برصغیر میں مسلم قوم کے جداگانہ تشخص کی بنیاد پر اس عزم کے ساتھ عمل میں لایا گیا تھا کہ ملتِ اسلامیہ اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق اجتماعی زندگی بسر کر سکے، اور مسلم معاشرہ میں اسلامی احکام و اقدار کی عملداری ہو۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ قیام پاکستان کے بعد پورے کے پورے تعلیمی نظام کو ازسرنو نظریاتی بنیادوں پر استوار کیا جاتا، تاکہ قومی زندگی کے ہر شعبہ میں تربیت یافتہ رجال کار فراہم ہوتے، اور پاکستان اپنے مقصدِ قیام کی طرف عملی پیشرفت کرتا۔ مگر ایسا نہ ہو سکا بلکہ ہمارا نظامِ تعلیم بدعنوانی، نا اہلیت اور بے مقصدیت کی آماجگاہ بن کر رہ گیا، جس کی وجہ سے ان نظریاتی تخریب کاروں کو تعلیمی نظام میں در آنے کا موقع ملا جو ربع صدی قبل پاکستان کو دولخت کرنے میں کامیاب ہونے کے بعد اب باقی ماندہ پاکستان کو لسانی، علاقائی، فرقہ وارانہ اور نسلی عصبیتوں کا شکار بنا کر پاکستانی قوم کو اس کے اسلامی تشخص کے رہے سہے اثرات سے بھی محروم کرنے کے درپے ہیں۔
حضرات مکرم! ان حالات میں کچھ اصحابِ خیر کا اس طرف متوجہ ہونا اور تعلیمی نظام کی اصلاح کے لیے سرگرمِ عمل ہو کر مسائل و مشکلات کی پروا کیے بغیر سفر کا آغاز کر دینا یقیناً امید کی ایک ایسی کرن ہے جو قوم کے بہتر مستقبل کے لیے نوید بن سکتی ہے۔ اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصلاحِ احوال کے راستے ابھی مکمل طور پر بند نہیں ہوئے بلکہ اصحابِ عزم و ہمت اپنے ارادوں کو روبہ عمل لانے کا تہیہ کر لیں تو تذبذب اور مایوسی کی دلدل سے قوم کو نکالا جا سکتا ہے۔
ان گذارشات کے ساتھ الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ کی طرف سے سالانہ ’’الشریعہ تعلیمی کانفرنس‘‘ کے آغاز اور حافظ قرآن و پرائمری پاس بچوں کے لیے قرآن کریم کے ترجمے اور کمپیوٹر ٹریننگ کے ساتھ میٹرک کلاس کے پروگرام کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ اور دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت اس پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کریں اور اسے ملک بھر میں تعلیمی نظام کی اصلاح اور بہتری کا مؤثر ذریعہ بنائیں، آمین یا رب العالمین۔

الشریعہ ایجوکیشنل ویلفیئر سوسائٹی کا قیام

ادارہ

۲۳ مارچ ۱۹۹۵ء کو شاہ ولی اللہ یونیورسٹی میں الشریعہ اکیڈمی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی سالانہ تعلیمی کانفرنس میں الشریعہ ایجوکیشنل ویلفیئر سوسائٹی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر حافظ محمد الیاس نے مندرجہ ذیل خطاب کیا۔
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم۔ اہلِ علم و دانش کے اس اجتماع سے مخاطب ہو کر کچھ معروضات پیش کرنا جہاں میرے لیے انتہائی فخر اور سعادت کی بات ہے، وہاں مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس بھی دلاتا ہے، اس لیے گفتگو کو کسی تفصیل میں لے جائے بغیر صرف الشریعہ ایجوکیشنل ویلفیئر سوسائٹی کے قیام کے بارے میں آپ حضرات کی خدمت میں کچھ گزارشات پیش کرنے پر اکتفا کروں گا۔
محترم دوستو! آج ہم عالمی اور قومی سطح پر جس ذہنی اور معاشرتی افراتفری کا شکار ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ ہمارے تعلیمی اور تربیتی نظام کا صحیح خطوط پر منظم نہ ہونا ہے، اور کم و بیش سب اہلِ علم و دانش اس بات پر متفق ہیں کہ تعلیم و تربیت کا نظام درست کیے بغیر ہم اپنی ملی و قومی زندگی میں اصلاح کے کسی عمل کو آگے نہیں بڑھا سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں فکر و احساس رکھنے والے حضرات تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے اپنے اپنے ذوق کے مطابق جدوجہد میں مصروف ہیں اور ہمارے شہر گوجرانوالہ میں شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے نام سے عظیم تعلیمی منصوبہ بھی اسی سلسلہ کی ایک اہم کڑی ہے۔
شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے منصوبے کے آغاز کے بعد سے ہی اس امر کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی کہ تعلیمی نظام کی اصلاح اور دینی و عصری تعلیم کو یکجا کرنے کے اس پروگرام کو یونیورسٹی اور کالج کی سطح سے ہٹ کر اسکول کی سطح پر منظم کرنا بھی انتہائی صروری ہے۔ اور اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے الشریعہ ایجوکیشنل ویلفیئر سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کے تحت الشریعہ اکیڈمی کو منظم طریقہ سے چلایا جائے گا۔
ہمارا پروگرام یہ ہے کہ اس سال ہم مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں کلاس کا آغاز کر رہے ہیں جو چار سال کی کلاس ہو گی اور اس میں حافظ قرآن یا پرائمری پاس طلبہ شریک ہو سکیں گے۔ ہم ان طلبہ کو چار سال میں میٹرک کا امتحان دلائیں گے، حافظ طلبہ کو تجوید کا کورس پڑھائیں گے، غیر حافظ طلبہ کو قرآن کریم ناظرہ کے ساتھ آخری دو پارے حفظ کرائیں گے، تمام طلبہ کو عربی گرائمر کے ساتھ قران کریم کا ترجمہ پڑھائیں گے اور کمپیوٹر کی ٹریننگ دیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اگلے سال سے ہمارا پروگرام درسِ نظامی کی کلاس شروع کرنے کا ہے اور اس پروگرام کے تحت درس نظامی کا مکمل نصاب اس ترتیب کے ساتھ پڑھایا جائے گا کہ طلبہ دورہ حدیث تک پہنچنے سے پہلے میٹرک، ایف اے اور بی اے کا باضابطہ امتحان دیں اور اس کے بعد دورہ حدیث میں شریک ہوں۔
محترم حضرات! اس وقت ہماری تعلیمی سرگرمیاں مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں جاری ہیں، اور اس سال میٹرک کی کلاس بھی وہیں ہو گی، جبکہ الشریعہ اکیڈمی کے باقاعدہ قیام کے لیے شاہ ولی اللہ ٹرسٹ نے ہمیں شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے ساتھ چار کنال بطور عطیہ دی ہے جس کے لیے ہم ٹرسٹ کے چیئرمین الحاج میاں محمد رفیق اور ان کے رفقاء کے شکرگزار ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہو  گی کہ رمضان المبارک سے قبل ضرورت کے مطابق عمارت کی تعمیر کر کے اگلے تعلیمی سال کا آغاز اکیڈمی کی اپنی عمارت میں کریں، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس کے لیے ہم آپ سب دوستوں سے تعاون کے خواستگار ہیں۔ یہ تعاون مالی صورت میں بھی ہو سکتا ہے اور مشورہ اور راہنمائی کی صورت میں بھی، کیونکہ اس عظیم تعلیمی منصوبہ کی تکمیل کے لیے دونوں کی یکساں اہمیت و ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس منصوبہ کو خیر و کامیابی کے ساتھ مکمل کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین ثم آمین۔
آخر میں الشریعہ ایجوکیشنل ویلفیئر سوسائٹی کے عہدہ داروں اور ارکان کے اسماء گرامی سے آپ کو آگاہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
سرپرست شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر  
سرپرست حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی  
چیئرمین مولانا زاہد الراشدی مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ
ڈپٹی چیئرمین جناب زین الدین شاہ ولی اللہ یونیورسٹی گوجرانوالہ
ڈپٹی چیئرمین جناب عثمان عمر ہاشمی پیپلز کالونی گوجرانوالہ
سیکرٹری جنرل ڈاکٹر حافظ محمد الیاس سیٹلائیٹ ٹاؤن گوجرانوالہ
ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر فضل الرحمٰن گوجرانوالہ
رابطہ سیکرٹری حافظ محمد یحیٰی میر بازار تھانے والا گوجرانوالہ
سیکرٹری تعلیم حافظ محمد عمار خان ناصر مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ
سیکرٹری اطلاعات حافظ محمد شفیق گوجرانوالہ
رکن محمد عاصم بٹ گوجرانوالہ
رکن محمد لقمان میر گوجرانوالہ
رکن محمد تبسم شفیق گوجرانوالہ
رکن حافظ نفیس الرحمٰن گوجرانوالہ
رکن جناب فضل الرحمٰن چغتائی گوجرانوالہ


یرقان

حکیم عبد الرشید شاہد

کیفیت

یرقان کے مریض کی آنکھیں زرد یعنی پیلی ہو جاتی ہیں۔ شدید حالت میں مریض کو ہر چیز زرد دکھائی دیتی ہے۔ سب سے پہلے پیشاب کا رنگ سرخی زردی مائل ہوتا ہے، پھر آنکھیں زرد ہو جاتی ہیں اور پاخانہ سفید رنگ کا آتا ہے۔

اسباب

موسم کی یکدم تبدیلی، گرمی خشکی کا بڑھ جانا، گرم خشک اشیا مثلاً تیز مسالادار بھنے ہوئے سالن، انڈے، ساگ، گوشت، بینگن، کریلے، مچھلی، ٹماٹر وغیرہ کا کثرت سے استعمال یرقان کا سبب بنتا ہے۔

علاج

حسبِ ذیل نسخہ بنا کر استعمال کریں:

نسخہ

 قلمی شورہ ۲۰ تولہ، پھٹکڑی ۲۰ تولہ، ہیرا کسیس ۲۰ تولہ۔
تینوں کو ایک مٹی کی کوجی میں ڈال کر منہ اور ساری کوجی کو چکنی مٹی سے اچھی طرح بند کر لیں، اور خشک کر کے کوجی کو ۵ سیر اوپلوں کے درمیان رکھ کر آگ لگا دیں۔ صبح ٹھنڈا ہونے پر نکال کر کوجی کے ساتھ جو کچھ سرخی مائل تہہ جمی ہو، اتار لیں، اور اچھی طرح پیس کر محفوظ کر لیں۔
خوراک: ۳ ماشہ ہمراہ شربت زرشک ۷ تولہ حسبِ ضرورت پانی ملا کر استعمال کریں۔

شربت

زرشک ۵ تولہ، پھول گلاب ۵ تولہ، آلو بخارا ۵ تولہ۔ رات کو ۲ کلو پانی میں بھگو دیں، صبح آگ پر جوش دیں۔ جب پانی ایک کلو رہ جائے تو ہاتھوں کے ساتھ مل کر چھان لیں، اور پانی کو دوبارہ آگ پر رکھ کر ڈیڑھ کلو چینی ڈال کر شربت تیار کر لیں۔

امریکی طالبات کا سب سے بڑا مسئلہ

ادارہ

امریکی خاتونِ اول مسز ہیلری کلنٹن (اپنے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران) اسلام آباد کالج فار گرلز کی اساتذہ اور طالبات کے ساتھ گھل مل گئیں اور ان سے ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک بے تکلفانہ گفتگو کی۔ ہیلری کلنٹن نے طالبات سے ان کے مسائل دریافت کیے۔ طالبات نے دوستانہ انداز میں کلنٹن کی اہلیہ کو سب مسائل بتائے۔
فورتھ ایئر کی طالبہ نائیلہ خالد نے امریکی خاتونِ اول سے پوچھا کہ امریکی طالبات کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟ اس پر امریکہ کی خاتونِ اول نے کھل کر گفتگو شروع کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی طالبات کا مسئلہ تعلیم کی مناسب سہولیات کا فقدان ہے، تعلیمی اداروں میں فنڈز کی کمی کا مسئلہ ہے، مگر امریکہ میں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں بغیر شادی کیے طالبات اور لڑکیاں حاملہ بن جاتی ہیں۔ اس طرح بے چاری لڑکی ساری عمر بچے کو پالنے کی ذمہ داری نباہتی ہے۔
ایک دوسری طالبہ وجیہہ جاوید نے کہا کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟ اس پر ہیلری کلنٹن نے کہا کہ اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو، خواہ وہ عیسائی ہوں یا مسلمان، اپنے مذہب اور معاشرتی اقدار سے بغاوت نہیں کرنی چاہیے، مذہبی و سماجی روایات اور اصولوں کے مطابق شادی کے بندھن میں بندھنا چاہیے، اپنی اور اپنے والدین کی عزت و آبرو اور سکون کو غارت نہیں کرنا چاہیے۔ مسز ہیلری کلنٹن نے کہا کہ وہ اسلام اور عیسائیت کی شادی کے خلاف نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مذہبی روایات کا احترام کرتے ہوئے شادی ہوتی ہے اس لیے یہاں لڑکیوں کے مسائل کم ہیں۔
(روزنامہ جنگ لاہور  ۲۸ مارچ ۱۹۹۵ء)

ایک ضروری عرضداشت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مکرمی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ مزاج گرامی؟

گزارش ہےکہ ملک میں سنی شیعہ کشیدگی میں مسلسل اضافہ اور دونوں طرف سے قیمتی افراد کے روز مرہ قتلِ عام نے ہر ذی شعور شہری کو پریشان اور مضطرب کر دیا ہے۔ اس مسلح تصادم کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے جو ملکی سالمیت اور قومی وحدت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ اس کشیدگی کی روک تھام کے لیے حقیقت پسندانہ بنیاد پر عملی اقدامات کیے جائیں۔ اس سلسلہ میں میری تجویز یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج صاحبان پر مشتمل ایک عدالتی تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا جائے جو کھلی تحقیقات کے ذریعے سنی شیعہ کشیدگی میں حالیہ برسوں میں اضافہ اور اس کے مسلح تصادم کی صورت اختیار کر جانے کے اسباب و عوامل کی نشاندہی کرے۔ اور ان اسباب و عوامل کو دور کر کے اس کشیدگی و اشتعال کی روک تھام کے لیے قومی سطح پر متفقہ عملی کارروائی کا اہتمام کیا جائے۔

اسی سلسلہ میں ایک اہم واقعہ کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ۲۵ نومبر ۱۹۹۴ء کو لاہور میں تحریک جعفریہ کی عظمت اسلام کانفرنس میں شرکت کے بعد واپس جانے والی ایک بس پر کھاریاں کے قریب فائرنگ ہوئی جس میں متعدد افراد جاں بحق ہوگئے۔ یہ ایک انتہائی افسوسناک سانحہ ہے لیکن اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس کیس میں ضلع جہلم اور ضلع گجرات سے جمعیۃ علمائے اسلام، سپاہ صحابہؓ اور تحریک خدام اہل سنت کے ذمہ دار راہنماؤں مولانا قاری خبیب احمد عمر، مولانا قاری محمد اختر، مولانا عبد الغفور قاسمی، حافظ خالد محمود اور ان کے دیگر رفقاء کو مبینہ طور پر بلاوجہ ملوث کر دیا گیا ہے جن کے بارےمیں جہلم کے عام شہریوں کا تاثر یہ ہے کہ چونکہ گورنر پنجاب چودھری الطاف حسین کا تعلق جہلم شہر سے ہے اور چونکہ ان حضرات کا شمار چودھری صاحب موصوف کے سیاسی مخالفین میں ہوتا ہے اس لیے انہیں سیاسی دباؤ اور انتقام کے طور پر اس کیس میں ملوث کرایا گیا ہے۔ جیسا کہ بعد میں سامنے آنے والے متعدد شواہد نے اس کی تصدیق بھی کر دی ہے۔

کھاریاں بس فائرنگ کیس کے سلسلہ میں بعد میں گرفتار ہونے والے ایک گروہ نے پولیس کے ریکارڈ کے مطابق اعتراف جرم بھی کر لیا ہے لیکن اس کے باوجود مذکورہ بالا حضرات ابھی تک زیر حراست ہیں اور انہیں مقدمہ میں گنہگار ٹھہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جبکہ مقدمہ کی تفتیش میں گرفتار شدگان کو انصاف کے معروف تقاضوں سے محروم رکھنے کے لیے مبینہ طور پر گورنر پنجاب انتظامیہ و پولیس پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس صورتحال کا فوری طور پر نوٹس لیا جائے۔ اس سلسلہ میں میری تجویز یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے کسی جج کے ذریعے اس کیس کی کھلی تحقیقات کرائی جائے اور گورنر پنجاب کے خلاف جہلم کے شہریوں کے الزامات کی غیر جانبدارانہ انکوائری کے ذریعے اصل حقائق کو منظر عام پر لا کر انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔

آنجناب سے گزارش ہے کہ اس سلسلہ میں اپنا اثر و رسوخ بھرپور طور پر استعمال میں لا کر گجرات اور جہلم کے شریف شہریوں کو انصاف دلانے میں تعاون فرمائیں۔

بے حد شکریہ، والسلام
ابوعمار زاہد الراشدی
خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ
چیئرمین ورلڈ اسلامک فورم
۱۰ فروری ۱۹۹۵ء

مئی ۱۹۹۵ء

دفاعی بجٹ میں کمی، قومی خودکشی کے مترادفمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مجاہدین کی عالمی تنظیم ’’حرکۃ الانصار‘‘مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
قربانی، تقرب الی اللہ کا ذریعہشیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اسلامی تعلیماتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اسلامائزیشن کی راہ میں بڑی رکاوٹیں، انگریز پولیس افسر کی نظر میںادارہ
توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کا قانون اور حکمرانوں کی حیلہ سازیاںابو الانجم برلاس
ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا ضابطۂ اخلاقادارہ
حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کا سفر ِبنگلہ دیشادارہ
ورلڈ اسلامک فورم کی سرگرمیاںادارہ

دفاعی بجٹ میں کمی، قومی خودکشی کے مترادف

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ان دنوں عالمی طاقتوں اور اداروں کی طرف سے پاکستان کو مسلسل یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے دفاعی اخراجات میں کمی کرے اور جدید ہتھیاروں کی تیاری سے گریز کرنے کے علاوہ فوج کی تعداد بھی گھٹائے۔ خود ہمارے بعض دانشور بھی اسی خیال کا اظہار کر رہے ہیں اور دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ پاکستان کی اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے لیے دفاعی اخراجات کو کم سے کم کرنا ضروری ہے۔ لیکن ایسا کرنے والے حضرات دو باتوں کو بھول جاتے ہیں یا جان بوجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔

  1. ایک یہ کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے اور اس ناتے سے اسے دنیا بھر کی اسلام دشمن قوتوں سے خطرہ ہے،
  2. دوسری یہ کہ پاکستان کا سابقہ بھارت سے ہے جس کی تنگ نظر ہندو اکثریت کے ساتھ مسلمانوں کی گزشتہ ایک ہزار برس سے مسلسل محاذ آرائی ہے۔ اور کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے تب بھی اس تاریخی پس منظر کے ہوتے ہوئے اس کشیدگی اور محاذ آرائی کا ختم ہونا ممکن نہیں ہے۔

ان تاریخی حقائق کے ہوتے ہوئے پاکستان کو دفاعی اخراجات میں کمی اور فوج کو گھٹانے کا مشورہ یقیناً پاکستان کی خیر خواہی نہیں ہے۔ پھر اسلامی نقطۂ نظر سے اس مسئلہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ مشورہ اسلامی تعلیمات کے بھی یکسر منافی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ

’’دشمن کے مقابلہ میں جتنی قوت تمہارے بس میں ہو مہیا کرو تاکہ دشمن پر تمہارا رعب قائم رہے۔‘‘ (سورۃ الانفال)

گویا حکمِ خداوندی کا منشا یہ ہے کہ مسلمانوں کی دفاعی قوت اتنی ضرور ہونی چاہیے کہ دشمن کے مقابلہ میں طاقت کا توازن ان کے حق میں ہو کیونکہ اس کے بغیر دشمن پر رعب قائم ہونا اور دشمن کا مسلمانوں کی قوت سے مرعوب ہونا ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے امت اس امر پر متفق ہیں کہ جدید ترین ہتھیاروں کی تیاری اور مکمل دفاعی ٹیکنالوجی کا حصول مسلمانوں کے دینی فرائض میں سے ہے اور اس معاملہ میں کوتاہی کر کے مسلمان حکومتیں اپنی شرعی ذمہ داری سے کوتاہی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔

اس کے علاوہ قرآن کریم میں ایک اور مقام پر بھی اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو اس معاملہ کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے جہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ

’’اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘ (سورۃ البقرۃ)

اس آیت کریمہ کی تشریح میں امام ترمذیؒ نے صحیح سند کے ساتھ ایک واقعہ نقل کیا ہے جس سے ملک کی عمومی اقتصادی صورتحال اور دفاعی اخراجات کے درمیان توازن و تناسب کے سلسلہ میں اسلام کے مزاج اور ہدایات کا پتہ چلتا ہے۔ قصہ یوں ہے کہ معروف صحابی حضرت ابو ایوب انصاریؓ جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کے موقع پر مسجد نبویؐ اور اس کے ملحقہ حجروں کی تعمیر تک رسول اکرمؐ کے میزبان رہے، اور حضرت امیر معاویہؓ کے دور خلافت میں اس وقت کی ایک بڑی قوت سلطنت روما کے خلاف جہاد میں حصہ لینے کے شوق میں بڑھاپے اور ضعف کے باوجود اصرار کر کے لشکر میں شامل ہوئے، ان کی قبر رومی سلطنت کے دارالحکومت قسطنطنیہ (استنبول) میں ہے۔ وہ رومیوں کے خلاف جنگ کے دوران ایک محاذ پر تھے جہاں مسلمانوں اور رومیوں کا آمنا سامنا ہوا اور ایک پرجوش مسلمان مجاہد مسلمانوں کی صف سے نکل کر اکیلا ہی دشمن کی صفوں میں گھس گیا جس پر کسی صاحب نے قرآن کریم کی یہ آیت بلند آواز سے پڑھی ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس نوجوان نے اکیلے دشمن کی صفوں میں گھس کر غلطی کی ہے جو اس آیت کریمہ کی منشا کے خلاف ہے۔

حضرت ابو ایوب انصاریؓ بھی اس موقع پر موجود تھے انہوں نے لوگوں کی زبان سے اس آیت کریمہ کا حوالہ سن کر ان کو ٹوکا اور فرمایا کہ تم نے آیت کا مطلب صحیح نہیں سمجھا کیونکہ اس آیت کا مفہوم یہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ آیت ہم انصار مدینہؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس میں ہمیں ایک غلط سوچ پر تنبیہ کی گئی ہے۔ پھر حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے اس کا پس منظر یوں بیان فرمایا کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو ہم انصار مدینہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آپؐ کی نصرت و رفاقت میں مصروف ہوگئے۔ ہجرت کے دوسرے سال ہی غزوات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور مسلسل چند برس ایسے گزرے کہ ہم اپنے کاروبار، کھیتی باڑی اور معاشی حالات کی طرف توجہ نہ دے سکے جس سے ہماری معاشی صورتحال ناگفتہ بہ ہوگئی۔ لیکن چند برسوں کے بعد جب مسلمان مضبوط ہوگئے اور کفار کی پے در پے شکستوں کے باعث کچھ استحکام کی صورتحال نظر آنے لگی تو بعض انصارؓ نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب حالات خاصے بدل گئے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری اس طرح کی مدد کی ضرورت نہیں رہی اس لیے ہمیں جہاد کے معاملات سے تھوڑا سا صرف نظر کر کے اپنے معاشی حالات بہتر بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے اور کھیتی باڑی اور کاروبار کے معاملات کی طرف دوبارہ متوجہ ہونا چاہیے۔ اس پر آیت کریمہ نازل ہوئی کہ

’’اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘

اس لیے اس آیت میں ہم انصار مدینہ کو اس سوچ پر تنبیہ کی گئی ہے اور اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو تم سمجھے ہو۔ آیت کریمہ کے مطابق ہلاکت کا راستہ یہ ہے کہ جہاد پر خرچ کرنے سے ہاتھ روک لیا جائے جس کا نتیجہ لازماً یہ ہوگا کہ مسلمانوں کی فوجی طاقت کمزور ہوگی اور طاقت کا توازن دشمن کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔

حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی اس وضاحت کے ساتھ یہ بات پوری طرح روشن ہو جاتی ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں معاشی خوشحالی اور اقتصادی ترقی کے ساتھ فوجی اور دفاعی قوت کا توازن و تناسب اس طور پر قائم رکھنا ضروری ہے کہ دشمن کے مقابلہ میں فوجی قوت کا توازن بگڑنے نہ پائے۔ اس کے بغیر مسلمانوں کی فوجی قوت میں کمی کرنا قرآن کریم کی زبان میں ’’قومی خودکشی‘‘ کہلائے گا۔

اس پس منظر میں جب ہم آج پاکستان کو درپیش صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف عالمی سازشوں اور بھارت کی فوجی طاقت میں مسلسل اضافہ پر نظر ڈالتے ہیں تو یقیناً پاکستان کی فوجی قوت میں کمی کے مشورے وطن عزیز کے مفاد کے منافی دکھائی دیتے ہیں۔ بلکہ قرآن کریم کے مذکورہ بالا دونوں احکام یعنی وقت کی جدید ترین فوجی قوت کے حصول کا حکم اور فوجی اخراجات میں کمی کو ہلاکت کا راستہ قرار دینا ہماری فوجی اور دفاعی پالیسی کو واضح طور پر یہ رخ دیتے ہیں کہ ہم دفاع کے لیے ایٹمی قوت کے حصول کی کوشش کریں اور انصار مدینہؓ کی طرح ہر قسم کی تنگی ترشی اور معاشی نقصانات برداشت کرتے ہوئے پاکستان کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ایک مستحکم اور ناقابل شکست فوجی قوت بنانے کی طرف توجہ دیں۔

مجاہدین کی عالمی تنظیم ’’حرکۃ الانصار‘‘

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

افغانستان میں مسلح روسی جارحیت کے بعد اس خطہ کے غیور علماء اور مسلمانوں نے جہاد کا آغاز کیا تو اس میں دنیا بھر کے غیرت مند مسلمانوں کے ساتھ پاکستان کے علماء اور دینی کارکنوں نے بھی پورے جوش و جذبہ کے ساتھ شمولیت اختیار کی۔ پاکستان کے دینی مدارس میں جہاد افغانستان کے لیے علماء اور طلبہ کو منظم کرنے کے کام کا آغاز فیصل آباد کے مجاہد عالم دین مولانا ارشاد احمد شہیدؒ نے کیا اور ’’حرکۃ الجہاد الاسلامی‘‘ کے نام سے مجاہدین کی جماعت تیار کی جس نے مختلف محاذوں پر افغان مجاہدین کے شانہ بشانہ جہاد میں عملی حصہ لیا۔ مولانا ارشاد احمد شہیدؒ کی شہادت کے بعد یہ جماعت دو حصوں میں بٹ گئی۔ مولانا سیف اللہ اختر کی قیادت میں ’’حرکۃ الجہاد الاسلامی‘‘ کے پلیٹ فارم پر کام ہوتا رہا اور مولانا فضل الرحمان خلیل کی سربراہی میں ’’حرکۃ المجاہدین‘‘ منظم ہوگئی۔ دونوں جماعتوں نے افغانستان کے مختلف محاذوں کے علاوہ تاجکستان، کشمیر اور دیگر علاقوں میں جہاد میں پرجوش حصہ لیا۔ ان کے ذریعے ہزاروں علماء اور طلبہ نے جہاد کی تربیت حاصل کی، سینکڑوں نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا اور ملک کے دینی مدارس میں جہاد کی فضا قائم ہوگئی۔

دو سال قبل اکابر علماء کرام کی محنت سے دونوں جماعتوں میں اتحاد کی راہ ہموار ہوئی اور دونوں تنظیموں کے راہنماؤں نے حرکۃ الجہاد الاسلامی اور حرکۃ المجاہدین کی بجائے ’’حرکۃ الانصار‘‘ کے نام سے ایک نئے مشترکہ پلیٹ فارم پر کام شروع کر دیا جو اس وقت مقبوضہ کشمیر اور دیگر خطوں میں اپنی جرأت مندانہ جہادی سرگرمیوں کے باعث عالمی سطح پر متعارف ہے اور دینی بیداری کی مسلح تحریکات میں ایک باوقار اور منظم جماعت کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل چند غیر مطمئن دوست حرکۃ الجہاد الاسلامی کے دوبارہ احیاء کی طرف متوجہ ہوئے اور مولانا سیف اللہ اختر کی سربراہی میں اس سمت عملی پیش رفت کا آغاز ہوگیا تو اکابر علماء نے صورتحال کا بروقت نوٹس لیا اور مجاہدین کے اس وسیع حلقہ کو ایک نئے خلفشار سے بچا لیا۔ اس سلسلہ میں دو عظیم افغان کمانڈروں حضرت مولانا محمد ارسلان رحمانی اور حضرت مولانا جلال الدین حقانی کے ساتھ انٹرنیشنل اسلامک مشن کے سربراہ مولانا عبد الحفیظ مکی کی توجہات اور مساعی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ان بزرگوں نے شبانہ روز کی محنت کے ساتھ حرکۃ الانصار اور نو تشکیل شدہ حرکۃ الجہاد الاسلامی کے راہنماؤں میں پیدا ہوجانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کرتے ہوئے ان سب کو حرکۃ الانصار کے پلیٹ فارم پر دوبارہ مجتمع کر دیا جس کے نتیجہ میں نہ صرف حرکۃ الانصار کی متفقہ قیادت کا چناؤ عمل میں آگیا ہے بلکہ نیا دستور اور مجلس شوریٰ بھی طے پا گئی ہے۔

ہم اس مثبت اور مبارک پیشرفت پر مولانا ارسلان رحمانی، مولانا جلال الدین حقانی، مولانا عبد الحفیظ مکی اور حرکۃ الانصار کے تمام راہنماؤں اور کارکنوں بالخصوص مولانا قاری سیف اللہ اختر اور مولانا فضل الرحمان خلیل کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے ان کی بھرپور کامیابی کے لیے دعاگو ہیں، اللہم ربنا آمین۔

قربانی، تقرب الی اللہ کا ذریعہ

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

فلاح کا دوسرا اصول فرمایا ’’وانحر‘‘ یعنی قربانی کریں۔ ’’نحر‘‘ اونٹ کی قربانی کو کہتے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضورؐ نے عید الاضحیٰ کے خطبے میں فرمایا، آج کے دن ہمارا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ نماز پڑھیں ’’ثم نرجع فننحر‘‘ پھر پلٹ کر قربانی کریں گے۔ قربانی محض گوشت کھانے کا نام ہی نہیں بلکہ یہ تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے ’’لن ینال اللہ لحومہا ولا دماءہا‘‘ اللہ تعالیٰ کے پاس قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا ’’ولکن ینالہ التقویٰ منکم‘‘ بلکہ تمہارا تقویٰ بارگاہِ رب العزت میں پہنچتا ہے۔ قربانی انسان کے عقیدۂ توحید کی علامت ہے۔ مشرکین اپنے معبودانِ باطلہ کے نام پر قربانی کیا کرتے تھے جو کہ شرک اور بہت بڑا جرم ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک مومن اللہ کے نام پر قربانی دیتا ہے جس سے اس کے ایمان اور عقیدۂ توحید کا اظہار ہوتا ہے۔
’’وانحر‘‘ کا معنیٰ بعض نے نماز میں سینے کے نیچے ہاتھ باندھنا بھی کیا ہے، مگر یہ روایت ضعیف ہے۔ بعض نے اس کا معنیٰ سینہ قبلہ کی طرف پھیرنا کیا ہے، مگر یہ بھی ضعیف روایت ہے، اس مقام پر ’’وانحر‘‘ کا صحیح معنیٰ قربانی کرنا ہی ہے۔
قربانی کو اکثر ائمہ سنتِ موکدہ قرار دیتے ہیں۔ صرف ہمارے امام ابوحنیفہؒ اس کو واجب کہتے ہیں۔ قربانی نماز، حج، زکوٰۃ وغیرہ کی طرح فرائض میں تو داخل نہیں ہے، محض سنت موکدہ یا واجب ہے، مگر اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ قربانی کا اس کے وقت پر ادا کرنا تعلق باللہ درست کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ انسان کے عقیدۂ توحید کا اظہار اسی عمل سے ہوتا ہے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ قربانی ’’بہیمۃ الانعام‘‘ یعنی پالتو جانور کی ہی ہو سکتی ہے۔ یہ چار قسم کے جانور ہیں جن میں اونٹ، بھیڑ، بکری، گائے، بھینس شامل ہیں۔ یہ جان کا بدل ہے اور قربانی کے لیے جانور بھی وہی ٹھہرائے گئے ہیں جن سے انسان عام طور پر مناسبت رکھتے ہیں اور ان سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ ان کا گوشت، دودھ، چمڑا، چربی وغیرہ استعمال کرتے ہیں اور ان پر سواری بھی کرتے ہیں۔ زمین کی خدمت بھی انہیں جانوروں سے لی جاتی ہے جو انسان کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کی خدمت کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ لہٰذا قربانی بھی انہی جانوروں کی مقرر کی گئی ہے۔ یہ انسانی جان کا بدل ہے، کوئی شخص قربانی کے طور پر اپنی اولاد یا اپنے غلام کی قربانی نہیں کر سکتا، یہ حرام ہے۔ جان اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، اللہ تعالیٰ نے اس پر کسی کو اختیار نہیں دیا۔
اگر کوئی شخص انسانی جان کی نذر مان لے، جیسے یوں کہے کہ میں بیٹے کی قربانی دوں گا، تو اس کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ جانور کی قربانی کرے۔ انسانی جان کی قربانی نہیں ہو سکتی۔ ابھی آپ نے اخبارات میں پڑھا کہ راولپنڈی کے کسی شخص نے اپنے بیٹے کی قربانی کی نذر مانی اور پھر اسے ذبح کر دیا، اس کی ٹانگیں تو دفنا دیں مگر دوسرا گوشت دیگ میں پکا کر حضرت امام حسینؒ کی نیاز کے طور پر لوگوں کو کھلایا۔ دیکھو! یہ کتنا بڑا جرم اور حماقت ہے۔ نیاز دینے والے لوگ کہاں سے کہاں تک جا پہنچے۔ اول تو نیاز بغیر اللہ تعالیٰ کے ویسے ہی حرام ہے، اور پھر بیٹے کو ذبح کر دیا۔ بدبخت نے دوسرے لوگوں کو بھی اس جرم میں شریک کیا۔ ایسے لوگوں کو عبرتناک سزا ملنی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیلؑ کی جان کا بدلہ بھی جانور ہی بھیجا تھا، اور اسے ذبح عظیم کے لقب سے یاد کیا۔ گویا قربانی کے لیے یہ عظیم دستور مقرر فرما دیا کہ انسانی کی قربانی قطعاً روا نہیں۔ ہندوؤں کے ہاں انسانی قربانی کا تصور پایا جاتا ہے، وہ اسے بلیدان کا نام دیتے ہیں۔ کبھی وہ انسان کو کالی دیوی کی بھینٹ چڑھاتے ہیں، کبھی کسی دیوتا کے نام پر بچوں کو ذبح کر دیتے ہیں، یہ سب ناجائز اور حرام ہے۔ قربانی صرف اللہ کے نام پر ہی ہو سکتی ہے اور وہ بھی پالتو جانور کی، کسی جنگی وحشی جانور کی قربانی نہیں ہو سکتی۔

اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اسلامی تعلیمات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے ۷ اپریل ۱۹۹۵ء کو مسجد صدیقیہ سیٹلائٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں فورم کی ماہانہ فکری نشست اور ۱۷ اپریل ۱۹۹۵ء کو مرکزی جامع مسجد شادمان لاہور میں مسلم ہیومن رائٹس سوسائٹی کی فکری نشست سے مندرجہ بالا موضوع پر تفصیلی خطاب کیا۔ دونوں خطابات کو یکجا ترتیب کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج ہماری گفتگو کا عنوان ہے ’’اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اسلامی تعلیمات‘‘ جس کے تحت ہم اس فکری اور نظریاتی کشمکش کا جائزہ لینا چاہتے ہیں جو اس وقت عالمی سطح پر انسانی حقوق اور ان کی تعبیر و تشریح کے حوالے سے جاری ہے۔

’’انسانی حقوق‘‘ آج کی دنیا میں سب سے زیادہ زیربحث آنے والا موضوع ہے اور یہ مغرب کے ہاتھ میں ایک ایسا فکری ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ مسلم ممالک اور تیسری دنیا پر مسلسل حملہ آور ہے۔ مغرب نے انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے چارٹر کو مسلمہ معیار کا درجہ دے کر کسی بھی معاملہ میں اس سے الگ رویہ رکھنے والے تیسری دنیا اور عالم اسلام کے ممالک کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دینے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ اور اس سلسلہ میں اسے عالمی ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ عالم اسلام اور تیسری دنیا میں اپنی ہم نوا لابیوں کا بھرپور تعاون حاصل ہے جبکہ اس نظریاتی و فکری یلغار میں ملت اسلامیہ کے عقائد و احکام اور روایات و اقدار سب سے زیادہ مغربی دانشوروں، لابیوں اور ذرائع ابلاغ کے حملوں کی زد میں ہیں۔

اس کشمکش میں جب ہم اسلام کے عقائد و احکام پر مغربی دانشوروں کے حملوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ یلغار عقائد و احکام اور معاشرت کے تمام شعبوں پر محیط نظر آتی ہے۔ اگر آپ گزشتہ ایک دہائی کے دوران پیش آنے والے واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے حالات کا تجزیہ کریں گے تو آپ کو صورتحال کا نقشہ کچھ یوں نظر آئے گا۔

یہ ہے ایک سرسری خاکہ مغرب کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں سامنے آنے والے اعتراضات اور تقاضوں کا جو گزشتہ ایک عشرہ کے دوران منظم مہم اور مربوط نظریاتی جنگ کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور جن کے سامنے مسلم ممالک کی بیشتر حکومتیں ’’سپر انداز‘‘ ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ چنانچہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزیراعظم نے اپنے حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران یہ کہہ کر مسلم حکمرانوں کے اسی رجحان کی نشاندہی کی ہے کہ وہ ’’انٹرنیشنلزم پر یقین رکھتی ہیں‘‘۔ اس انٹرنیشنلزم کا تصور مغرب کے نزدیک یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے منشور کو پوری دنیا کا مشترکہ دستور تسلیم کر کے تمام ممالک اقوام متحدہ کی بالادستی کے سامنے جھک جائیں، اور اقوام متحدہ کو کنفیڈریشن طرز کی مشترکہ حکومت قرار دے کر ساری دنیا ایک عالمی برادری کی شکل اختیار کر لے۔ گویا وہ مغرب جس نے گزشتہ ایک سو سال کے دوران نیشنلزم اور قومیت کے نام پر عالم اسلام کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے خلافتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، اب انہی ٹکڑوں کو ’’انٹرنیشنلزم‘‘ کے نام پر وہ اپنی بالادستی میں ویسٹرن سولائزیشن میں ضم کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اس اسکیم کے تانے بانے پوری طرح بنے جا چکے ہیں۔

معزز شرکاء محفل! اس نظریاتی معرکہ اور فکری جنگ میں بنیادی حیثیت اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور جنیوا انسانی حقوق کمیشن کے فیصلوں اور قراردادوں کو حاصل ہے۔ ’’انسانی حقوق کا چارٹر‘‘ متن ہے جبکہ جنیوا کنونشن کے فیصلے اور قراردادیں اس کی شرح ہیں جو اس نظریاتی جنگ میں مغرب کے ہاتھ میں ایک مضبوط ہتھیار کا کام دے رہی ہیں۔ مغرب کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی رکنیت اختیار کرنے والے تمام ممالک نے انسانی حقوق کے اس چارٹر پر دستخط کر کے اسے تسلیم کر لیا ہے اس لیے وہ اس کے پابند ہیں۔ اور جن ممالک میں اس چارٹر کے منافی قوانین نافذ ہیں وہ اس بین الاقوامی معاہدہ کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، اس لیے یہ ضروری ہے کہ تمام ممالک خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم اس عالمی معاہدہ کی پابندی کریں اور اپنے اپنے ملک میں رائج قوانین میں ترامیم کر کے انہیں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے ساتھ ہم آہنگ کریں۔

ہمیں مغرب کے اس موقف اور اس کی پشت پر کار فرما عزائم کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا ہوگا۔ محض جذباتی طور پر اسے مسترد کر دینے سے بات نہیں بنے گی اور ’’ہم نہیں مانتے‘‘ کا خالی نعرہ دنیا بھر کے ان اربوں انسانوں اور عالم اسلام کے ان کروڑوں مسلمانوں کو ہمارے موقف کے بارے میں مطمئن نہیں کر سکے گا جو ورلڈ میڈیا کی براہ راست زد میں ہیں اور جن کی آنکھوں اور کانوں کو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کے پراپیگنڈے کا روز مرہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ مسلم علماء، دانشور اور دینی ادارے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور جنیوا انسانی حقوق کنونشن کی قراردادوں اور فیصلوں کا علمی بنیاد پر جائزہ لیں اور مغرب کے اعتراضات و خدشات کا منطق و استدلال کے ساتھ سامنا کر کے انسانی حقوق کے حوالہ سے ملت اسلامیہ کا موقف سامنے لائیں۔ ہمیں انسانی حقوق کے بارے میں معروضی حالات اور انسانی معاشرہ کو درپیش مسائل کی روشنی میں اپنے موقف کا واضح طورپر تعین کرنا ہوگا اور اسے علم اور منطق و استدلال کی بنیاد پر افہام و تفہیم کے جذبہ کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ ورنہ ہم اس خوفناک نظریاتی جنگ میں اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہو سکیں گے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور اس کی تشریح میں جنیوا انسانی حقوق کنونشن کی قراردادوں اور فیصلوں کا جائزہ ہمیں دو مرحلوں میں لینا ہوگا۔

سامعین محترم! ان گزارشات کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ چنانچہ بحث کے آغاز کے طور پر ہم اس چارٹر کے بعض حصوں کا ابتدائی اور سرسری طور پر جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ یہ چارٹر اقوام متحدہ نے ۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو جاری کیا تھا اور اس وقت ہمارے سامنے اس کا اردو متن ہے جو اسلام آباد کے ماہنامہ ’’نوائے قانون‘‘ نے دسمبر ۱۹۹۴ء کے شمارے میں شائع کیا ہے۔ انسانی حقوق کے اس چارٹر کی ۳۰ دفعات ہیں اور اس میں اجتماعی زندگی کے کم و بیش تمام شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔

چارٹر کے ابتدائی مطالعہ میں ہم نے اس کی چند دفعات گفتگو کے لیے منتخب کی ہیں جو ہمارے خیال میں بعض اسلامی قوانین و احکام کو انسانی حقوق کے منافی قرار دینے کا باعث بن رہی ہیں لیکن ان دفعات کو زیر بحث لانے سے پہلے چارٹر کی اعتقادی اور فکری بنیاد کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ چارٹر دراصل مغربی فلسفہ حیات اور ویسٹرن سولائزیشن کا نقطۂ عروج ہے جس کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ مذہب کا تعلق صرف عقیدہ، عبادت اور اخلاقیات سے ہے جس میں ہر انسان آزاد ہے کہ وہ عقیدہ، عبادت اور اخلاقیات میں جو رجحان چاہے اختیار کرے اور یہ اس کا ذاتی معاملہ سمجھا جائے جس سے ریاست یا کوئی اور اتھارٹی کسی قسم کا تعرض نہ کرے۔ البتہ انسانی زندگی کے اجتماعی معاملات مثلاً سیاست، قانون، ایڈمنسٹریشن، تجارت، زراعت، اور معیشت کے ساتھ مذہب کا کوئی واسطہ نہیں ہے اور ان امور میں ہر قوم اپنے اجتماعی یا اکثریتی رجحانات کے مطابق کوئی بھی نظام اختیار کر سکتی ہے اور وہ نظام مذہب کی کسی بھی قید یا چھاپ سے آزاد ہوگا۔

اسے اصطلاحی طور پر سیکولرازم سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسی سیکولر ازم کو قبول کرنے کا ہم سے تقاضہ کیا جا رہا ہے۔ سیکولرازم کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ یورپ میں بادشاہ، کلیسا اور جاگیردار کے اتحاد ثلاثہ نے جب غریب عوام پر زندگی کا دائرہ تنگ کر دیا اور بادشاہت اور جاگیرداری کے خلاف بے بس عوام کی بغاوت میں کلیسا اور پادری نے عوام کا ساتھ دینے کی بجائے بادشاہ اور جاگیردار کا ساتھ دیا تو عوامی انقلاب نے بادشاہت اور جاگیرداری کے ساتھ کلیسا اور پادر کی بساط اقتدار بھی الٹ کر رکھ دی اور مذہب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کر کے اس کا دائرہ کار کلیسا کی چار دیواری کے اندر محدود کر دیا۔ لیکن اس تاریخی پس منظر کے پہلو بہ پہلو ایک اعتقادی اور فکری بنیاد بھی ہے جو سیکولرازم اور مغربی جمہوریت کو نظریاتی قوت فراہم کر رہی ہے۔

حضرات مکرم! مغرب کے مادہ پرستانہ فلسفے کی بنیاد نظریہ ارتقاء پر ہے جس کا خاکہ کچھ اس طرح ہے کہ اس دنیا میں جو کسی پیدا کرنے والے اور چلانے والے خدا کے بغیر خود بخود وجود میں آگئی ہے، انسانی نسل حیوانی ارتقاء کا نتیجہ ہے جو کیچڑ سے جنم لینے والے کیڑے سے شروع ہو کر مختلف زمانوں میں شکلیں بدلتا ہوا انسان کی صورت اختیار کر گیا ہے اور یہ اس کی آخری اور حتمی شکل ہے۔ اسی طرح انسانی معاشرہ بھی ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے جو جنگلوں اور غاروں سے شروع ہوا اور مختلف شکلیں بدلتا ہوا اور معاشرت کے مختلف طریقے، قوانین اور نظام آزماتا ہوا جمہوریت، سیکولرازم اور ویسٹرن سولائزیشن کی موجودہ شکل اختیار کر گیا ہے اور یہ انسانی معاشرت کی آخری اور مکمل شکل ہے جس میں اب مزید بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے۔ گویا جس طرح نسلی اعتبار سے انسان آخری منزل میں ہے اور اب اس کے نئی کئی شکل اختیار کرنے کا امکان نہیں ہے، اسی طرح معاشرتی لحاظ سے بھی ویسٹرن سولائزیشن آخری منزل ہے اور اب اس سے بہتر کوئی معاشرتی ڈھانچہ سامنے آنے کا امکان نہیں ہے۔ اسے ’’اینڈ آف ہسٹری‘‘ سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور مغربی دانشور اب ارتقاء کے عمل کے مزید آگے بڑھنے کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے مکمل تباہی کو انسانی زندگی کی اگلی منزل قرار دے رہے ہیں۔

اس طرح جب موجودہ انسانی معاشرہ نہ صرف انسانیت بلکہ پوری کائنات ارضی کی آخری، مکمل اور ترقی یافتہ شکل قرار پاتا ہے اور یہی کائنات وجود کا حاصل ہے تو خیر و شر کا آخری معیار بھی یہی ہے۔ اس لیے جسے یہ انسانی معاشرہ خیر قرار دے دے وہی خیر ہے اور جو اس معاشرہ کے نزدیک شر قرار پائے وہی شر ہے۔ اس کے علاوہ خیر اور شر کو ماپنے اور جانچنے کا کوئی اور پیمانہ موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر کسی چیز یاکام کے خیر یا شر ہونے کا فیصلہ کیا جا سکے۔

مگر اسلام اس تصور کو سرے سے قبول نہیں کرتا بلکہ اس کے برعکس قرآن و سنت پر یقین رکھنے والے ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ یہ کائنات کسی حادثہ کی پیداوار نہیں ہے بلکہ اسے کائنات کے مالک و خالق اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور وہی اسے ایک نظم کے ساتھ چلا رہا ہے۔ اسی طرح انسانی نسل کسی ارتقائی عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک مستقل مخلوق کے طور پر پیدا کیا ہے اور اشرف المخلوقات ٹھہرایا ہے۔ پھر انسانی زندگی کا ایک معاشرہ کی شکل اختیار کر جانا بھی خودرو ارتقائی عمل کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ قرآن کریم کے مطابق نسل انسانی کا پہلا فرد ’’حضرت آدم علیہ السلام‘‘ علم، قانون، شرم و حیا، لباس اور مکان کی سہولتوں سے بہرہ ور تھا۔ اس کے ساتھ ہی ہر باشعور مسلمان یہ عقیدہ بھی رکھتا ہے کہ نسل انسانی اس دنیاوی زندگی میں آسمانی ہدایات کی پابند ہے جو اس کے پاس اس کے خالق و مالک کی طرف سے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعہ آئی ہیں اور ان ہدایات کی آخری اور مکمل شکل جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں جن پر عملدرآمد زندگی کے اگلے اور آخری مرحلہ میں کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ اسلامی تعلیمات میں انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہے لیکن اس تفصیل کے ساتھ کہ اس کے لیے ’’احسن تقویم‘‘ کا خطاب بھی استعمال کیا گیا ہے اور اسے ’’اسفل سافلین‘‘ کے مقام کا مستحق بھی قرار دیا گیا ہے۔

گویا انسان اور انسانی معاشرہ کی موجودہ شکل آخری اور حتمی نہیں ہے، یہ امتحانی گزرگاہ ہے جس سے گزر کر اگلی زندگی میں اسے ’’احسن تقویم‘‘ یا ’’اسفل سافلین‘‘ کی منزل سے ہمکنار ہونا ہے اور وہی اس کا ’’اینڈ آف ہسٹری‘‘ ہوگا۔ اس لیے موجودہ انسانی معاشرہ جب آخری اور حتمی منزل نہیں ہے تو اس کی سوچ اور عقل بھی خیر اور شر کا آخری معیار نہیں ہے بلکہ خیر اور شر کا حتمی معیار آسمانی وحی ہے جس کی مکمل شکل جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی صورت میں موجود ہے۔

معزز شرکائے محفل! یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی پہلی دفعہ میں تمام انسانوں کو آزادی اور حقوق کے ساتھ ساتھ تکریم میں بھی برابر قرار دیا گیا ہے جبکہ اسلام تمام انسانوں کو تکریم کا یکساں مستحق تسلیم نہیں کرتا۔ اس کا اصول ’’ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم‘‘ ہے کہ جو اچھے کردار کا حامل ہے وہ تکریم کا مستحق ہے اور جس کا کردار انسانی اخلاق کے مطابق نہیں ہے وہ تکریم کا حقدار نہیں ہے۔

اس پس منظر میں چارٹر کی دفعہ ۵ کا جائزہ لیا جائے تو جرائم کی اسلامی سزاؤں کو غیر انسانی قرار دینے کی وجہ بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔ دفعہ نمبر ۵ کا عنوان ہے ’’تشدد کا خاتمہ‘‘ اور اس میں کہا گیا ہے کہ:

’’کسی شخص کو تشدد اور ظلم کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا اور کسی شخص کے ساتھ غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک نہیں کیا جائے گا یا ایسی سزا نہیں دی جائے گی۔‘‘

گویا اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق کسی مجرم کو دی جانے والی سزا کا تشدد اور تذلیل کی آمیزش سے خالی ہونا ضروری ہے اور جس سزا میں ان میں سے کسی کوئی عنصر موجود ہوگا وہ انسانی حقوق کے منافی قرار پائے گی۔ اسی بنا پر ہاتھ کاٹنے، کوڑے مارنے اور سنگسار کرنے کی سزاؤں کو انسانی حقوق کے خلاف قرار دیا جا رہا ہے اور اسی بنا پر پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں کسی مجرم کو کھلے بندوں سزا دینے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا جا چکا ہے۔ جبکہ اسلام میں جرائم پر سخت سزاؤں کا مقصد ہی یہ ہے کہ مجرم کو نصیحت ہو اور دیکھنے والے اس سے عبرت پکڑیں۔

اس کے بعد چارٹر کی دفعہ ۱۶ پر ایک نظر ڈال لیجئے جس میں کہا گیا ہے کہ:

’’پوری عمر کے مردوں اور عورتوں کو نسل، قومیت یا مذہب کی کسی تحدید کے بغیر باہم شادی کرنے اور خاندان کی بنیاد رکھنے کا حق حاصل ہے۔ شادی، دوران شادی اور اس کی تنسیخ کے سلسلہ میں وہ مساوی حقوق رکھتے ہیں‘‘۔

اس دفعہ میں اسلامی تعلیمات کی رو سے چند باتیں غور طلب ہیں۔ پہلی بات یہ کہ ’’پوری عمر‘‘ سے کیا مراد ہے؟ کیونکہ اسلامی احکام میں شادی کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ ’’مذہب کی کسی تحدید کے بغیر‘‘ کا مطلب واضح ہے کہ کوئی مسلمان مرد کسی بھی غیر مسلم عورت سے اور کوئی مسلمان عورت کسی بھی غیر مسلم مرد سے شادی کر سکتی ہے جبکہ یہ اسلامی تعلیمات کے یکسر منافی ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ شادی کی تنسیخ کے سلسلہ میں دونوں کے مساوی حقوق کا تصور بھی اسلامی احکام کے خلاف ہے۔ کیونکہ اسلام نے طلاق کے بارے میں واضح ترجیحات قائم کی ہیں اور دونوں کو یکساں حقوق بہرحال نہیں دیے ہیں۔

اس کے سات چارٹر کی دفعہ ۲۵ کی شق ۲ کو بھی شامل کر لیں جس میں کہا گیا ہے کہ:

’’ماں اور بچے کو خصوصی توجہ اور مدد کا حق حاصل ہے۔ تمام بچے خواہ وہ شادی کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہوں یا بغیر شادی کے پیدا ہوں یکساں سماجی تحفظ سے بہرہ ور ہونے کا حق رکھتے ہیں‘‘۔

اور ان دونوں دفعات کے ساتھ گزشتہ برس قاہرہ میں منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی بہبود آبادی کانفرنس کی سفارشات کو بھی سامنے رکھیں جن میں تمام ممالک سے تقاضہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے عوام کو آزادانہ جنسی اختلاط کے مواقع فراہم کریں، اسقاط حمل کی سہولتیں مہیا کریں، بن بیاہی ماؤں کو سماجی تحفظ سے بہرہ ور کریں اور ہم جنسی کو قانونی جواز کی سند عطا کریں۔

حضرات محترم! اب آپ ان تمام امور کے اشتراک کے ساتھ خاندانی زندگی سے متعلقہ قوانین کے بارے میں اس ’’عالمی معیار‘‘ کو سمجھنے کی کوشش کریں جسے اپنانے کی تمام ممالک کو تلقین کی جا رہی ہے اور یہ تقاضا کیا جا رہا ہے کہ اگر کسی ملک میں اس معیار کے خلاف عائلی قوانین نافذ ہیں تو وہ ان میں ترامیم کر کے انہیں اس عالمی معیار کے مطابق ڈھال لے۔

کم و بیش یہی صورتحال آزادیٔ ضمیر، آزادیٔ عقیدہ، آزادیٔ رائے اور آزادیٔ اظہار کے حوالہ سے انسانی حقوق کے مذکرہ چارٹر کی تصریحات کی بھی ہے جو چارٹر کی دفعہ ۱۸ اور ۱۹ میں ان الفاظ کے ساتھ بیان کی گئی ہیں:

’’ہر شخص کو آزادیٔ خیال، آزادیٔ ضمیر اور آزادیٔ مذہب کا حق حاصل ہے، اس حق میں اپنا مذہب اور عقیدہ تبدیل کرنے اور انفرادی و اجتماعی طور پر علیحدگی میں یا سب کے سامنے اپنے مذہب یا عقیدے کی تعلیم، اس پر عمل کرنے، اس کے مطابق عبادت کرنے اور اس کی پابندی کرنے کی آزادی کا حق شامل ہے‘‘۔

’’ہر شخص کو آزادیٔ رائے اور آزادیٔ اظہار کا حق حاصل ہے، اس حق میں بلا مداخلت رائے رکھنے کی آزادی اور بلا لحاظ علاقائی حدود کسی بھی ذریعے سے اطلاعات اور نظریات تلاش کرنے، حاصل کرنے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کی آزادی شامل ہے‘‘۔

ان دونوں دفعات پر ایک بار پھر غور کر لیجئے اور سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین، پاکستان کے چند مسیحی گستاخان رسولؐ اور قادیانیوں سمیت ان تمام طبقوں اور گروہوں کے مبینہ حقوق کا جائزہ لیجئے جن کی پامالی کا ڈھنڈورا پیٹ کر مغرب کی حکومتیں اور ذرائع ابلاغ انسانی حقوق کے حوالہ سے مسلمانوں کے طرز عمل کو مسلسل ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔

حضرات مکرم! بات زیادہ لمبی ہوتی جا رہی ہے اس لیے گفتگو سمیٹتے ہوئے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی بعض دفعات کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ بھی سرسری طور پر کسی لمبی بحث میں الجھے بغیر صرف اس غرض سے کہ ان اعتراضات و شبہات کی نوعیت کا کچھ اندازہ ہو جائے جو انسانی حقوق کے حوالہ سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کی طرف سے کیے جا رہے ہیں۔ تاکہ مغرب کے ان عزائم کو سمجھنا مشکل نہ رہے جو اس کشمکش میں اس کے اہداف کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ یہ ایک سرسری اور ابتدائی مطالعہ ہے جو علماء کرام اور دانشوروں کو مسئلہ کی سنگینی اور اہمیت کا احساس دلانے کے لیے ہے۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ:

لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس تمام تر گفتگو اور مباحثہ میں سیاسی نعرہ بازی اور مناظرانہ اسلوب سے گریز کرتے ہوئے خالصتاً علمی زبان اور منطقی و استدلالی انداز اختیار کیا جائے تاکہ ہم دنیا پر اسلام کی حقانیت، افادیت اور ضرورت کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کی نئی نسل اور تعلیم یافتہ طبقہ کی غالب اکثریت کو غیر شعوری ارتداد سے بچا سکیں جو اسلام کے احکام و قوانین پر مغربی فلسفہ کے اعتراضات کے مسلسل یکطرفہ پراپیگنڈہ کا کوئی معقول جواب نہ پا کر دھیرے دھیرے اس کے دائرۂ اثر میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ خدا کرے کہ علمی شخصیات اور دینی ادارے وقت کے اس سب سے بڑے چیلنج کا صحیح طور پر ادراک کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔

اسلامائزیشن کی راہ میں بڑی رکاوٹیں، انگریز پولیس افسر کی نظر میں

ادارہ

قیام پاکستان کے بعد مغربی پنجاب کی حکومت نے عوام کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے ایک محکمہ ’’محکمہ احیائے ملتِ اسلامیہ‘‘ کے نام سے قائم کیا جس کے تحت ایک علمی و فکری مجلہ ’’عرفات‘‘ کا آغاز ہوا۔ عرفات کے پہلے شمارہ میں مغربی پنجاب کی بارڈر پولیس کے کمانڈنٹ جناب ای این ایڈورڈز کا مندرجہ ذیل مراسلہ شائع ہوا جو عرفات کے مدیر جناب محمد اسد کے نام ہے اور ۱۰ فروری ۱۹۴۸ء کا تحریر کردہ ہے۔ مراسلہ نگار نے پاکستان میں اسلامائزیشن کے حوالے سے علمی و فکری رکاوٹوں کا جس خوبصورتی سے تجزیہ کیا ہے وہ ہمارے دینی راہنماؤں اور کارکنوں کے لیے بطور خاص قابل توجہ ہے۔ (ادارہ)


مکرمی اسد صاحب! -------- لاہور چھاؤنی ۔ ۱۰ فروری ۱۹۴۸ء
محکمہ احیائے ملتِ اسلامیہ کے متعلق آپ کا پمفلٹ دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی اور میں نے بڑے غور و خوض سے مطالعہ کیا۔ میں سمجھتا ہوں آپ کا مقصد یہ بھی ہے کہ منجملہ دوسری باتوں کے رفتہ رفتہ مساجد اور مدارس کے ذریعے عامۃ الناس کی تربیت کریں، لہٰذا اس خیال کے پیش نظر چند باتیں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں:
آپ کو شاید خود بھی احساس ہو گا کہ جو لوگ دینی تعلیم و تربیت کے ایک باقاعدہ نظام کے ماتحت دنیا کو پھر اللہ کے راستے پر واپس لانے کے آرزومند ہیں، ان کے لیے دو خطرے ہیں:
  1. پہلا خطرہ وہ ردعمل ہے جو، ایسی حالت میں جب کسی ملت کو دینی اَحیا کے ایک زبردست دور سے گزرنا پڑے، ہمیشہ سامنے آ جاتا ہے۔ ذہنِ انسانی کی ترکیب ہی کچھ ایسی ہے کہ اس ردعمل سے بچنا محال ہے۔ دنیا کی ہر تہذیب کو اس سے سابقہ پڑا اور تاریخ کے ہر عہد اس میں ظہور ہوا۔ انگلستان ہی کو دیکھ لیجئے، عہد مابعد وکٹوریا کے اخلاقی انتشار میں یہ ردعمل صاف صاف نمایاں ہے، پھر چند صدیاں اور پیچھے چلے جائیے تو پیورے ٹن (Puritan) عہد کے خاتمے پر جو فسق و فجور پھیلا، اسی ردعمل کی بدولت۔ اس افراط و تفریط سے مفر کی بہرحال کوئی صورت نہیں، لہٰذا ناممکن ہے کہ پاکستان اس سے مستثنیٰ رہے۔
  2. دوسرا خطرہ ہے ان لوگوں کے غرور کا جو بعض کچی پکی علمی معلومات کی بنا پر اپنا شمار ’’اہلِ فکر‘‘ میں کرنے لگتے ہیں۔ بلکہ ہمیں کہنا چاہیے کہ اس استہزا طائفے کا طعن و تشنیع تو ابھی سے سننے میں آ رہا ہے۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ موجودہ ریاست کی ازسرنو تعمیر میں، جب ہمیں اور زیادہ سختی اور درشتی سے کام لینا پڑے گا، تو اس قسم کے خام اور کچے پکے اہلِ فکر کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
میرے نزدیک اس دوسرے خطرے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ کیونکہ دنیا میں کوئی چیز اتنی خطرناک نہیں جتنی نیم علمی یا جہل مرکب۔ کتنے لوگ ہیں جن کو یہ معلوم ہے کہ اس زمانے کے اکابر سائنسدان مذہب کے حق میں ہیں؟ اور کتنے ہیں جو اس بات کو سمجھ کر اس کے نتائج کا اندازہ کر سکتے ہیں؟ اصل میں مشکل یہ ہے کہ عام تعلیم کا قدم سائنس کے اکتشافات اور تحقیق و تفتیش سے ہمیشہ پچاس برس پیچھے رہا۔
لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آئندہ دس بیس برس میں بھی تعلیم یا اخبارات و رسائل کے ذریعے اس ملک میں عام طور سے جو معلومات پھیلیں گی، ان سے تشکیک اور بے یقینی کا وہی دور دورہ شروع ہو گا جس میں سردست یورپ مبتلا ہے۔ اور جو اَب کہیں جا کر انیسویں صدی کی ان مادی تعلیمات کو سمجھ رہا ہے جو اس زمانے کے علمائے طبعیات نے پھیلائی تھیں۔ حالانکہ جدید افکار و خیالات نے پھر سے خدا کی ہستی کو تسلیم کر لیا ہے، اور لطف یہ کہ خود زمانہ بھی اس امر کا متقضی ہے کہ ہم پھر بچوں کے سے بھولے پن کے ساتھ خدا پر اعتماد کرنا سیکھیں، جیسا کہ پہلے کبھی کیا کرتے تھے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آیا پاکستان اس درمیانی زمانہ کی المناک صورتحال سے محفوظ رہ سکتا ہے؟ کیوں نہیں! بشرطیکہ وہ دونوں خطرات جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے ہمارے سامنے رہیں۔
پھر اسلام میں دو خوبیاں ایسی ہیں جن سے آپ کو اس کام میں بالخصوص مدد ملے گی:
  1. اول یہ کہ اس نے بچوں کے سے بھولے پن کے ساتھ رضائے الٰہی پر چلنا، جو واحد سرچشمہ حکمت و دانائی کا، مسلّمات میں سے ٹھہرایا۔ اور ایک مخصوص ضابطے کی مدد سے ذہن کو اس کی قبولیت پر آمادہ کیا۔
  2. ثانیاً اس کی تعلیمات صرف نج کی زندگی تک محدود نہیں، بلکہ حیاتِ اجتماعیہ کا ایک نظام بھی پیش کرتی ہیں۔
ممکن ہے آپ یہ کہیں کہ جب میں عیسائی ہوں تو ان باتوں کا اقرار کیوں کر رہا ہوں۔ یہ اس لیے کہ میرے نزدیک عیسائیت صرف ایک مسلکِ حیات ہے، یہ نہیں کہ ایک ہر لحظہ بڑھتی ہوئی روحانی زندگی کی تحریک کرے۔ لہٰذا وہ صرف اہلِ فکر یا ان لوگوں کا مذہب ہے جن کے شکم پُر ہیں، اور جن کے پاس اتنا وقت ہے کہ داخلی اور مجرد افکار کا لطف اٹھا سکیں۔ عیسائیت نے نفسِ انسانی کا بالکل خیال نہیں رکھا، یہی وجہ ہے کہ اس نے شر کی حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے بھی انسان کے بے بس دل و دماغ پر کوئی ایسا عملی ضابطہ عائد نہیں کیا، جس کی بدولت وہ خود اپنے ضمیر اور اپنی طبعیت میں نظم و ضبط و تہذیب و شائستگی کا جوہر پیدا کر سکتا۔
لہٰذا اپنے اس عقیدہ کے ماتحت کہ نوعِ انسانی کی مشعلِ نجات صرف اسلام کے ہاتھ میں ہے، کیونکہ وہ مذہب کے ایک عملی نظام، ایک روحانی ضابطے، اور اجتماعی غور و تفکر سب کو باہم جمع کر دیتا ہے۔ میری دلی آرزو ہے کہ اس کی قوتوں کے استحکام کی دل و جان سے کوشش کی جائے۔
لہٰذا گزارش ہے کہ ملت کی تعلیم و تربیت میں صرف مستقبل کا خیال رکھتے ہوئے کہیں موجودہ تخریبی دور سے اپنی آنکھیں بند نہ کر لیجئے گا۔ مسلمانوں کو اس غلطی سے بچتے رہنا چاہیے جو مسیحی اولیاء نے کی، یعنی اپنے وقت کی تحریکوں سے جان بوجھ کر اغماض، خواہ وہ علمی ہوں یا فلسفیانہ۔ اس سے بھی زیادہ اہم ایک گھٹیا سی مادیت کا وہ خطرہ ہے جو سائنس میں تھوڑی بہت شد بد رکھنے سے پیدا ہو جاتی ہے، اور جس سے غفلت نہیں برنی چاہیے۔
تاریخ بتلاتی ہے کہ جب کبھی نیم علمی کا تصادم مذہب سے ہوا، فتح ہمیشہ نیم علمی کی ہوئی۔ کیونکہ عام آدمی کا غورِ نفس مجبور کر دیتا ہے کہ ہم ان غیر مذہبی معلومات ہی کو ترقی کا مترادف قرار دیں جن سے وہ خود آگے نہیں بڑھ سکا۔ اہلِ مذہب نے اس حقیقت کو ہمیشہ نظر انداز کیا، اور اس سے زیادہ اور کسی بات سے اسے نقصان بھی نہیں پہنچا۔ یوں عام آدمی اپنے غرورِ نفس میں مبتلا رہے اور اربابِ مذہب اپنے۔ لہٰذا شیطان کو اس سے زیادہ مسرت کیا ہو سکتی تھی کہ دانائی جہالت سے آنکھیں پھیر لے۔
اندریں صورت آپ کے لیے صحیح طریق کار یہ ہو گا کہ جو کچھ کیجئے ان باتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے کیجئے جو اس وقت عام علمی معلومات کے ذریعے پھیل چکی ہیں۔ پھر جب میں علمی معلومات کا نام لیتا ہوں تو اس کا اشارہ صرف علومِ طبعی (سائنس) کی طرف نہیں، بلکہ اخلاقی، معاشی اور فلسفیانہ علوم کی طرف بھی ہے۔ علم و حکمت کی تشریح بہرحال ضروری ہے، اس کے ظاہراً اور نادانی کے ’’اختلافات‘‘ کو، جن پر سطحی قسم کے انسان ہمیشہ کڑھتے رہتے ہیں، یونہی ٹال دینا اتنا اچھا نہیں، جتنا ان میں اور وحئ الٰہی کی تعلیمات میں مفاہمت پیدا کرنا۔ ہم علم و حکمت کے مراتبِ عالیہ سے بے پروا کیسے گزر سکتے ہیں؟ ہمیں چاہیے کہ اس کا دامن مذہبی تعلیمات سے جوڑ دیں، بلکہ اگر آپ پسند کریں تو یہ کہوں کہ خود علم و حکمت کو مذہب میں شامل کر لیں۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ پر مسلّم ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ان میں سے بعض آپ کے زیر غور آ چکی ہیں۔ اس سے پیشتر کہ میں ان کو ایک عام اور فرسودہ انداز میں آپ کے سامنے پیش کرتا، مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ میں جو کچھ عرض کر رہا ہوں صرف اس اس مخلصانہ خواہش کی بنا پر کہ آپ کی کوششوں کو آج ہی نہیں، آگے چل کر بھی کامیابی ہو۔ ہماری عظمت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم کس حد تک شر کا استیصال کر سکتے ہیں؟ اور کیا شیطان سے لڑنے میں ویسے ہی زیرک اور ہوشیار ثابت ہوتے ہیں جیسا کہ خود وہ۔ لہٰذا خلقِ خدا کی تعلیم و تربیت میں ان لوگوں کی نفسیات ہی سے باخبر ہونا ضروری نہیں جن کی اصلاح کا ہم نے بیڑا اٹھایا ہے، ہمارا فرض ہے کہ اس سبق پر بھی زور دیتے رہیں جو تاریخ سے ہمیں ملتا ہے اور جس کے لیے ہمیں بڑی زبردست اور خوفناک قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔
اندریں صورت میں پھر عرض کروں گا کہ آپ تربیتِ عوام کے لیے جو لائحہ عمل مرتب کریں بڑی احتیاط، باربار کی نظرثانی، تنقیح اور تفحص سے کریں۔ بلکہ اگر ممکن ہو تو مساجد اور مدارس کا نصابِ تعلیم بھی اس میں شامل کر لیجئے۔ انسان کی نجات کا فریضہ خدا کے نیک بندوں کی انفرادی کوششوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ فریضہ کسی شخص کے زیر ہدایت  اور ایک مرکزی نظام کے ماتحت ادا ہو۔ 
زیادہ آداب، تسلیمات اور اس امر کی معذرت کہ میں نے آپ کا اتنا وقت لیا، مجھے امید ہے کہ آپ کی کوششیں بارآور ہوں گی اور خدا ان کو برکت دے گا۔

توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کا قانون اور حکمرانوں کی حیلہ سازیاں

ابو الانجم برلاس

توہینِ رسالتؐ کے مرتکب کو سزا سے بچانے کے لیے جو حیلے اختیار کیے جا رہے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جرم ثابت نہ ہونے پر مدعی کو دس سال تک قید کی سزا دی جائے گی۔ ہمارے ہاں عدلیہ کا کردار روز روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں مخلص مسلمان بھی مدعی بننے سے ہچکچائیں گے۔ چنانچہ نئے نئے رشدی سامنے آتے رہیں گے۔ یہ شیطانی مکر و فریب کی پہلی مثال نہیں ہے۔
عباسی خلیفہ منصور جس نے امام ابوحنیفہؒ کو بھی درے لگوائے تھے، ایک دفعہ اپنی مذموم اقربا پروری کی خاطر اسی قسم کا حیلہ اختراع کیا تھا۔ عسکری کے ’’اوائل‘‘ میں ہے کہ ابن ہبرمہ بہت بڑا شرابی تھا۔ ایک دفعہ منصور کے پاس آ کر اس کی مدح سرائی میں کچھ اشعار پڑھے، منصور خوشی سے پھول گیا۔ پوچھا، کیا چاہتا ہے؟ شرابی نے کہا، آپ حاکمِ مدینہ کو لکھ دیجئے کہ جب وہ مجھے نشہ میں دیکھے تو مجھ پر حد جاری نہ کرے۔ منصور نے کہا، میں خداوند تعالیٰ کی حدود میں دخل اندازی نہیں کر سکتا۔ اس نے کہا، تو پھر میرے لیے کوئی حیلہ بنا دیجئے۔ چنانچہ منصور نے حاکمِ مدینہ کو لکھا کہ جب کوئی شخص ابن ہبرمہ کو نشہ کی حالت میں پکڑ کر لائے تو اسے لانے والے کو سو درے مارے جائیں، جبکہ ابن ہبرمہ کو قانونِ شرعی کے مطابق اَسی درے ہی مارے جائیں۔ اس حکم کے بعد اگر حاکم (عون) خود بھی اس کو نشہ کی حالت میں دیکھتا تو یہ کہہ کر صَرفِ نظر کر لیتا کہ کون اسے اَسی درے لگوانے پر خود سو درے کھائے!
تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ان خلفاء کے ایسے کردار کے ردعمل میں اُس دور میں عدلیہ کے کردار کی ایسی روشن مثالیں قائم ہوئیں جو رہتی دنیا تک امت کے لیے مشعلِ راہ کا کام دیتی رہیں گی۔ آج بھی حکمرانوں کا وطیرہ وہی رخ اختیار کر رہا ہے، چنانچہ آج بھی امت کے دینی جذبات کے تحفظ کی ذمہ داری ہماری عدلیہ پر عائد ہوتی ہے۔ جب تک عدلیہ کا کردار مثالی نہیں ہوتا اسی طرح کے منفی حیلے ہتھکنڈے جنم دینے کے لیے حکمرانوں کو شہ ملتی رہے گی۔
اسلامی تاریخ اس بات کی گواہ ہے، جس نے بھی اسلامی شعائر کی توہین کی اور جن حلقوں نے ان کی سرپرستی کرنے کی کوشش کی، ان کے نام تاریخ کے سیاہ باب کی نذر ہو چکے ہیں۔ توہینِ رسالتؐ کا ارتکاب کرنے والا شخص دنیا اور اس کی عدالتوں سے تو محفوظ رہ سکتا ہے لیکن قہرِ خداوندی سے نہیں۔ رسول اسے کہتے ہیں جو خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہو، اور خدا ہی اس کی حرمت کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کے لیے کبھی غازی خدا بخش اور کبھی غازی علم الدین شہید وسیلہ بنتے ہیں۔
(بشکریہ روزنامہ خبریں لاہور ۲۱ اپریل ۱۹۹۵ء)

ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا ضابطۂ اخلاق

ادارہ

پاکستان کے تمام مذہبی مکاتبِ فکر کے قائدین پر مشتمل ملی یکجہتی کونسل نے ۲۳ اپریل ۱۹۹۵ء کو لاہور کے ایک ہوٹل میں مولانا شاہ احمد نورانی کی زیرصدارت مرکزی اجلاس میں مذہبی مکاتبِ فکر کے درمیان ضابطۂ اخلاق کی منظوری دے دی ہے۔ اجلاس میں مولانا محمد اجمل خان، پروفیسر ساجد میر اور علامہ ساجد نقوی سمیت تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ مذہبی قائدین نے شرکت کی۔ جبکہ ضابطۂ اخلاق کا اعلان کونسل کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی نے پریس کانفرنس میں کیا۔
ضابطۂ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ اختلافات اور بگاڑ دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام مکاتبِ فکر نظمِ مملکت اور نفاذِ شریعت کے لیے ایک بنیاد پر متفق ہوں۔ اس مقصد کے لیے ہم ۳۱ سرکردہ علماء کے ۲۲ نکات کو بنیاد بنانے پر متفق ہیں۔
ہم ملک میں مذہب کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت گری کو اسلام کے خلاف سمجھتے ہیں۔ کسی بھی اسلامی فرقہ کو کافر قرار دینا یا کسی مکتبِ فکر سے متعلق شخص کو واجب القتل قرار دینا غیر اسلامی اور قابلِ نفرت فعل ہے۔
توہینِ رسالتؐ کے قانون میں تبدیلی کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ توہینِ رسالتؐ کی سزا صرف موت ہے۔
عظمت ِصحابہؓ، عظمتِ اہلِ بیتؓ، عظمتِ ازواج ِمطہرات ایمان کا جزو ہے، ان کی تکفیر کرنے والا دائرۂ اسلام سے خارج اور ان کی توہین و تنقیص حرام اور قابلِ مذمت و تعزیر جرم ہے۔
ایسی ہر تقریر و تحریر سے گریز و اجتناب کیا جائے گا جو کسی بھی مکتبِ فکر کی دل آزاری اور اشتعال کا باعث بن سکتی ہے۔ شر انگیز اور دل آزار کتابوں، پمفلٹوں اور تحریروں کی اشاعت، تقسیم و ترسیل نہیں کی جائے گی۔ اشتعال انگیز اور نفرت انگیز مواد پر مبنی کیسٹوں پر مکمل پابندی ہو گی اور ایسی کیسٹیں چلانے والا قابل سزا ہو گا۔ دل آزار، نفرت انگیز اور اشتعال انگیز نعروں سے مکمل احتراز کیا جائے گا۔ دیواروں، ریل گاڑیوں، بسوں اور دیگر مقامات پر دل آزار نعروں اور عبارتوں پر مکمل پابندی ہو گی۔
تمام مسالک کے اکابرین کا احترام کیا جائے گا۔ تمام مکاتبِ فکر کے مقاماتِ مقدسہ اور عبادت گاہوں کے احترام و تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ جلسوں، جلوسوں، مساجد اور عبادت گاہوں میں اسلحہ خصوصاً غیر قانونی اسلحہ کی نمائش نہیں ہو گی۔ عوامی اجتماعات اور جمعہ کے خطبات میں ایسی تقریریں کی جائیں گی جن سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرنے میں مدد ملے۔ عوامی سطح پر ایسے اجتماعات منعقد کیے جائیں گے جن سے تمام مکاتبِ فکر کے علماء بیک وقت خطاب کر کے ملی یکجہتی کا عملی مظاہرہ کریں۔
مختلف مکاتبِ فکر کے متفقات اور مشترکہ عقائد و نکات کی تبلیغ اور نشر و اشاعت کا اہتمام کیا جائے گا۔ باہمی تنازعات کو افہام و تفہیم اور تحمل و رواداری کی بنا پر طے کیا جائے گا۔
ضابطۂ اخلاق کے عملی نفاذ کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی بورڈ تشکیل دیا جائے گا جو اس ضابطہ کی خلاف ورزی کی شکایات کا جائزہ لے کر اپنا فیصلہ صادر کرے گا، اور خلاف ورزی کے مرتکب کے خلاف کاروائی کی سفارش کرے گا۔

حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کا سفر ِبنگلہ دیش

ادارہ

بنگلہ دیش کے علماء کی ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کی بنگلہ دیش میں تشریف آوری ہو اور علماء و طلبہ کو ان سے استفادہ کا موقع ملے۔ حضرت شیخ الحدیث مدظلہ اس سے قبل متحدہ پاکستان کے زمانے میں ایک بار جمعیت علماء اسلام پاکستان کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکہ تشریف لے جا چکے ہیں۔ دسمبر ۱۹۹۳ء میں بھی ڈھاکہ کی عظیم الشان ختمِ نبوت کانفرنس میں شرکت کا پروگرام طے پا چکا تھا۔ ویزا اور سیٹ کی کنفرمیشن کے مراحل طے ہو چکے تھے، اور حضرت شیخ الحدیث مدظلہ اپنے فرزند اکبر مولانا زاہد الراشدی کے ہمراہ ڈھاکہ جانے کے لیے کراچی پہنچ چکے تھے کہ اچانک بنگلہ دیش حکومت کی طرف سے ختمِ نبوت کانفرنس کے انعقاد پر پابندی کی خبر کے باعث سفر کا پروگرام معطل کرنا پڑا۔ بعد میں بنگلہ دیش کے غیور مسلمانوں کے پرجوش احتجاج کے باعث حکومتی پابندی غیر مؤثر ہو گئی اور کانفرنس پورے جوش و خروش کے ساتھ منعقد ہوئی مگر حضرت شیخ الحدیث مدظلہ اور مولانا زاہد الراشدی اس میں شرکت نہ کر سکے۔
گزشتہ ماہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے نائب مہتمم مولانا فضل الرحیم نے حضرت شیخ الحدیث مدظلہ سے رابطہ قائم کیا کہ بنگلہ دیش کے سب سے قدیمی دینی ادارہ مدرسہ معین الاسلام ہاٹ ہزاری چاٹگام کی صد سالہ تقریبات منعقد ہو رہی ہیں جس میں قدیم و جدید فضلاء کی دستاربندی ہو گی، اور وہاں کے علماء کی شدید خواہش ہے کہ اس موقع پر وہ تشریف آوری کی زحمت فرمائیں۔ اگرچہ ان کی عمر اور صحت کے لحاظ سے یہ سفر بظاہر مشکل تھا، اس لیے کہ حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کی عمر اس وقت ہجری لحاظ سے چوراسی برس کے لگ بھگ ہے اور وہ گھٹنوں کے درد سمیت مختلف عوارض کا شکار ہیں۔ لیکن علماء کے اصرار کے باعث انہوں نے یہ دعوت قبول کر لی اور سرکردہ علماء کرام کے ایک وفد کے ہمراہ بنگلہ دیش تشریف لے گئے۔
مدرسہ معین الاسلام ہاٹ ہزاری کی صد سالہ تقریبات میں پاکستان سے شریک ہونے والے علماء کرام میں حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کے علاوہ وفاق المدارس العربیہ کے سربراہ مولانا سلیم اللہ خان، جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے سربراہ مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار، جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے نائب مہتمم مولانا انوار الحق، بادشاہی مسجد لاہور کے خطیب مولانا عبد القادر آزاد، جامعہ اشرفیہ لاہور کے نائب مہتمم مولانا فضل رحیم، سیالکوٹ کے بزرگ عالم دین مولانا حکیم عبد الواحد، اور مولانا قاری سیف اللہ اختر بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ جبکہ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے شعبہ حفظ کے استاذ قاری محمد عبد اللہ صاحب حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کی رفاقت اور خدمت کے جذبہ کے ساتھ وفد میں شامل ہو گئے اور اپنے ذاتی خرچہ سے انہوں نے سفر میں رفاقت اختیار کی۔
پاکستانی علماء کا وفد ۸ اپریل کی شام کو ڈھاکہ پہنچا اور چونکہ اپوزیشن کی طرف سے پورے بنگلہ دیش میں ۹ اپریل سے چار روزہ ہڑتال کا اعلان تھا اس لیے تھوڑی دیر ٹھہر کر بذریعہ ٹرین چاٹگام روانہ ہو گیا۔ ڈھاکہ ایئرپورٹ پر مرکز اسلامی ڈھاکہ کے سربراہ مولانا شہید الاسلام نے اپنے رفقاء کے ہمراہ علمائے کرام کا خیرمقدم کیا اور ڈھاکہ میں قیام کے دوران مرکز اسلام ہی معزز مہمانوں کی قیام گاہ رہا۔
مدرسہ معین الاسلام ہاٹ ہزاری چاٹگام بنگلہ دیش کا سب سے قدیمی دینی مدرسہ ہے۔ ہاٹ ہزاری، چاٹگام سے دس بارہ میل کے فاصلہ پر ہے۔ اور مدرسہ معین الاسلام، جو بنگلہ دیش کے مدارس میں ام المدارس کہلاتا ہے، اپنے قیام کو لگ بھگ ایک صدی مکمل کر چکا ہے، ۱۰ اپریل سے اس کی صد سالہ تقریبات کا آغاز تھا جس میں قدیم و جدید فضلاء کی دستاربندی کا پروگرام بھی شامل تھا۔ لیکن اپوزیشن کی طرف سے چار روزہ ملک گیر ہڑتال کے باعث عوامی سطح پر اس طرز کا اجتماع نہ ہو سکا جو بنگلہ دیش کی روایات کا حصہ ہے۔ البتہ جن فضلاء کی دستاربندی ہونا تھی وہ ہڑتال کے خدشہ کے پیش نظر پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے اور تقریباً تیس ہزار افراد کی دستاربندی اس اجتماع میں عمل میں لائی گئی۔ مدرسہ معین الاسلام کے مہتمم اس وقت مولانا احمد شفیع ہیں، جبکہ اس سال پانچ ہزار طلبہ مدرسہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن میں ایک ہزار کے قریب طلبہ دورۂ حدیث میں شریک ہیں۔
مدرسہ کی دو روزہ تقریبات میں شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ العالی کے علاوہ مولانا سلیم اللہ خان، مولانا عبد القادر آزاد، مولانا فضل رحیم، مولانا حکیم عبد الواحد، مولانا حبیب اللہ مختار، مولانا انوار الحق، مولانا قاری سیف اللہ اختر اور دیگر پاکستان علمائے کرام نے بھی خطاب کیا۔ جبکہ بھارت سے تقریبات میں شرکت کے لیے دارالعلوم دیوبند کے صدر مفتی حضرت مولانا مفتی محمود الحسن گنگوہی دامت برکاتہم تشریف لائے ہوئے تھے اور یہ تقریبات انہی کی سرپرستی میں منعقد ہوئیں۔
مدرسہ معین الاسلام ہاٹ ہزاری میں خطاب اور دستاربندی کے علاوہ حضرت شیخ الحدیث مدظلہ جامعۃ العربیۃ الاسلامیۃ جیری چاٹگام، اور مدرسہ مظاہر العلوم چاٹگام میں بھی تشریف لے گئے، اور ڈھاکہ میں واپسی پر مرکز اسلامی کے علاوہ مدرسہ عربیہ بنات الاسلام میر پور ۱۲ کا بھی معائنہ کیا جہاں چھ سو سے زائد طالبات دینی تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور دورہ حدیث بھی ہوتا ہے۔ حضرت شیخ الحدیث مدظلہ نے بعض طالبات سے عبارت سن کر ان کی علمی استعداد پر مسرت کا اظہار کیا۔
۱۳ اپریل جمعرات کا دن حضرت شیخ الحدیث مدظلہ نے ڈھاکہ میں گزارا اور مرکزِ اسلامی کے مختلف شعبوں کا معائنہ کیا۔ اس موقع پر مرکز اسلامی کے سربراہ مولانا شہید الاسلام نے، جو جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن کراچی کے فاضل ہیں، بتایا کہ مرکزِ اسلامی ایک تعلیمی اور رفاہی ادارہ ہے جس کے تحت نہ صرف بنگلہ دیش کے مختلف حصوں میں دینی مدارس و مکاتب کام کر رہے ہیں بلکہ خدمتِ خلق کا شعبہ بھی منظم طور پر سرگرمِ عمل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بنگلہ دیش میں مسیحی مشنریاں منظم طریقہ سے کام کر رہی ہیں اور ان کا کام عورتوں میں سب سے زیادہ ہے۔ عیسائی مشنریوں کا ہدف یہ ہے کہ دس سال میں بنگلہ دیش کو عیسائی اکثریت کا ملک بنا لیا جائے، اور وہ رفاہی اداروں اور امدادی کاموں کے ذریعے اپنے اثرات کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ اس لیے علمائے کرام نے بھی اس نہج پر کام شروع کیا ہے اور اس وقت المرکز الاسلامی بنگلہ دیش کے ایک بڑے رفاہی ادارہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس کے پاس ۱۱ ایمبولینس ہیں اور ۷۵ بیڈ کا ہسپتال زیرتعمیر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ۱۹۹۱ء کے سیلاب میں امدادی کاموں کے لیے سب سے پہلے مرکز اسلامی کے کارکن سیلاب زدہ علاقوں میں پہنچے اور کم و بیش ایک کروڑ روپے کا سامان تقسیم کیا، اور متاثرین کے کیمپوں میں امدادی سرگرمیوں کے علاوہ چھ سو خاندانوں کو مکان تعمیر کر کے دیے، اور چار سو بیواؤں کی کفالت کی ذمہ داری قبول کی۔ انہوں نے بتایا کہ اس کام کے لیے ہم حکومت سے کوئی امداد نہیں لیتے بلکہ عوام کے تعاون سے اخراجات پورے کرتے ہیں اور سب سے زیادہ تعاون پاکستان کے مخیر حضرات سے حاصل ہوتا ہے۔
حضرت شیخ الحدیث مدظلہ نے مرکز اسلامی کی سرگرمیوں پر مسرت کا اظہار کیا اور ان مساعی کی کامیابی کے لیے دعا فرمائی، اور اس طرح بنگلہ دیش میں چھ روزہ قیام کے بعد ۱۴ اپریل کو صبح گوجرانوالہ واپس پہنچ گئے۔


ورلڈ اسلامک فورم کی سرگرمیاں

ادارہ

فضیلت الشیخ عبد الحفیظ مکی کی تشریف آوری

انٹرنیشنل اسلامک مشن کے سربراہ فضیلت الشیخ عبد الحفیظ مکی ۳۰ اپریل ۱۹۹۵ء کو حرکت الانصار کے سیکرٹری جنرل مولانا فضل الرحمٰن خلیل اور ناظم امورِ حرب مولانا عبد الجبار کے ہمراہ گوجرانوالہ تشریف لائے اور ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی سے ملاقات کر کے انہیں حرکت الانصار کو خلفشار سے بچانے کے لیے اکابر علماء کی کامیاب مساعی کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر جمعیت علماء اسلام پاکستان سے متعلقہ بعض امور اور دیگر اہم مسائل بھی زیرغور آئے اور مذکورہ بالا راہنماؤں نے ان معاملات پر باہمی تبادلۂ خیال کیا۔

مولانا محمد عیسیٰ منصوری کا دورۂ بھارت

ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے گذشتہ ماہ کے دوران بھارت کے مختلف شہروں کا دورہ کیا اور دینی جماعتوں کے راہنماؤں سے ملاقات کر کے ان سے عالمِ اسلام سے متعلقہ مسائل پر تبادلۂ خیال کیا۔ اس موقع پر متعدد اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ علمائے کرام اور طلبہ کو آج کے حالات اور جدید نظریاتی فتنوں سے مکمل آگاہی حاصل کرنی چاہیے تاکہ وہ اسلام کا پیغام صحیح طور پر دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ انہوں نے دینی مدارس کے تعلیمی نظام میں بہتری پیدا کرنے اور اس کے ساتھ ساتھ فکری اور اخلاقی تربیت کا مربوط نظام قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا، اور کہا کہ اس کے بغیر ہم وقت کے چیلنج کا سامنا نہیں کر سکیں گے۔ مولانا منصوری نے نئی دہلی سے فون پر فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی سے رابطہ کیا اور انہیں اپنے دورہ کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔

مسلم ہیومن رائٹس سوسائٹی کی فکری نشست

مسلم ہیومن رائٹس سوسائٹی پاکستان کی فکری نشست ۱۷ اپریل ۱۹۹۵ء کو مرکزی جامع مسجد شادمان لاہور میں ایڈیٹر ماہنامہ ’’المذہب‘‘ جناب محمد اسلم رانا کی صدارت میں منعقد ہوئی جس میں مولانا زاہد الراشدی، مولانا عبد الرؤف فاروقی، ریٹائرڈ کرنل جناب محمد ایوب خان اور ریٹائرڈ ایئر کموڈر جناب طارق مجید نے خطاب کیا اور انسانی حقوق کے حوالے سے مغربی لابیوں کی مہم پر روشنی ڈالی۔

حزب التحریر کے راہنماؤں سے ملاقات

لندن سے حزب التحریر کے راہنما جناب عبد الحی گذشتہ ماہ کے دوران پاکستان تشریف لائے اور ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی سے سیالکوٹ اور لاہور میں ملاقاتیں کیں۔ لاہور کی ملاقات میں جناب عبد الحی کے بعض دیگر رفقاء اور مسلم ہیومن سوسائٹی کے کنوینر مولانا عبد الرؤف فاروقی بھی شریک تھے۔ جناب عبد الحی نے مولانا قاضی محمد رویس خان سے بھی ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں میں عالمِ اسلام کے مسائل کے علاوہ ورلڈ اسلامک فورم اور حزب التحریر کے درمیان مختلف امور پر باہمی تعاون کے مسائل پر بھی گفت و شنید ہوئی۔

جناب اقبال احمد خان کی تشریف آوری

عجمان متحدہ عرب امارات میں پاکستانی کمیونٹی کے سرگرم راہنما جناب اقبال احمد خان گذشتہ دنوں تشریف لائے، انہوں نے مولانا زاہد الراشدی سے ملاقات اور مختلف امور پر تبادلۂ خیالات کے علاوہ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کا بھی معائنہ کیا اور اس عظیم تعلیمی منصوبے پر مسرت کا اظہار کیا۔

میٹرک کلاس کا آغاز

گزشتہ روز الشریعہ ایجوکیشنل ویلفیئر سوسائٹی کے زیر اہتمام الشریعہ اکیڈمی مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں میٹرک کی چار سالہ کلاس کا آغاز ہوا۔ یہ کلاس روزانہ چھ گھنٹے ہوتی ہے۔ اس میں طلبہ کو میٹرک کی مکمل تعلیم کے علاوہ عربی گرائمر کے ساتھ قرآن مجید کا ترجمہ پڑھایا جائے گا اور کمپیوٹر ٹریننگ دی جائے گی۔ کلاس میں اٹھائیس طلبہ شریک ہیں۔ افتتاحی تقریب میں سوسائٹی کے راہنماؤں میں مولانا زاہد الراشدی، جناب زین الدین، ڈاکٹر حافظ محمد الیاس، حافظ محمد یحیٰی میر، حافظ محمد عمار خان ناصر اور قاری عبید الرحمٰن ضیاء نے شرکت کی اور اس موقع پر کلاس کی کامیابی کے لیے دعا کی گئی۔

فورم کی ماہانہ فکری نشست

ورلڈ اسلامک فورم کی ماہانہ فکری نشست ۱۹ مئی بروز جمعۃ المبارک بعد نماز عصر مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ہو گی جس میں سرکردہ علماء کرام اور دانشور جداگانہ انتخابات اور انسانی حقوق کے موضوع پر اظہارِ خیال کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

جون ۱۹۹۵ء

تحریک ولی اللہ کا موجودہ دور اور معروضی حالات میں کام کی ترجیحاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا قاری محمد حنیفؒ ملتانی / مولانا قاری محمد اظہر ندیم شہیدؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دین کیلئے فقہاء کی خدماتشیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر
خلفاء راشدینؓ کا طرز حکمرانیمحسن الملک نواب مہدی علی خانؒ
توہینِ رسالتؐ کی سزا کے قانون میں مجوزہ ترامیم کے بارے میںادارہ
جداگانہ انتخابات اور انسانی حقوقادارہ
تعارف و تبصرہادارہ

تحریک ولی اللہ کا موجودہ دور اور معروضی حالات میں کام کی ترجیحات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(یہ مضمون فکر ولی اللہی سے وابستہ نوجوان دانشوروں کی سوسائٹی ’’مجلس مشاورت‘‘ کی فکری نشست منعقدہ ۲۸ اپریل ۱۹۹۵ء بمقام مدرسہ قاسم العلوم شیرانوالہ گیٹ لاہور میں پڑھا گیا۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ علماء حق کی وہ جماعت جس نے گزشتہ دو صدیوں کے دوران برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں دین اسلام کے تحفظ و بقا اور ترویج و اشاعت کی مسلسل جدوجہد کی ہے اور اسلامی عقائد و نظریات اور مسلم معاشرہ کو بیرونی اثرات سے بچانے کے لیے صبر آزما جنگ لڑی ہے، آج پھر تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے اور عالمی سطح پر اسلام اور اسلامی معاشرت کے خلاف منظم اور ہمہ گیر انداز میں لڑی جانے والی ثقافتی جنگ علماء حق کی اس جماعت سے نئی صف بندی، ترجیحات اور حکمت عملی کا تقاضا کر رہی ہے۔

اس جماعت کو ہم امام ولی اللہ دہلویؒ کی جماعت کہہ لیں، اہل حق کی چودہ سو سالہ جدوجہد کے تسلسل کا ایک حصہ قرار دے لیں، یا ماضی قریب کے حوالے سے علمائے دیوبند کے نام سے منسوب کر لیں، یہ ایک ہی گروہ کے تعارف کی مختلف صورتیں ہیں۔ اس گروہ کے حال یا مستقبل کے بارے میں گفتگو کرنے سے قبل اس کی سابقہ جدوجہد کے دو اہم ادوار کا پس منظر کے طور پر ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

  1. ایک دور وہ تھا جب جنوبی ایشیا کے اس مردم خیز خطہ میں ہندو تہذیب نے مسلم تہذیب و ثقافت کو اکبر اعظم کے دینِ الٰہی کے نام پر ہضم کرجانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے تو اس وقت کے علماء حق کے سرخیل حضرت مجدد الف ثانیؒ اس کے نتائج کی سنگینی کا بروقت اندازہ کرتے ہوئے اس کے سامنے ڈٹ گئے اور اپنی ایمانی قوت اور جرأت و استقامت کے ساتھ ہندو تہذیب کے اس خوفناک وار کو ناکام بنا دیا،
  2. اور دوسرا وہ دور ہے جب سات سمندر پار سے تجارت کے نام پر آنے والے انگریزوں نے اپنی تہذیب اور کلچر کو صنعتی اور تجارتی بالادستی کے زور پر اس سرزمین کے باشندوں پر مسلط کرنا چاہا تو امام ولی اللہ دہلویؒ کے جانشین شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کی قیادت میں اس وقت کے علماء حق نے اس چیلنج کو قبول کیا اور کم و بیش ڈیڑھ سو برس کی مسلسل کشمکش کے بعد بالآخر اسلامی عقائد و نظریات اور تہذیب و ثقافت کو فرنگی استعمار کے چنگل سے بچانے میں کامیاب ہوگئے۔

یہی وجہ ہے کہ اسلامی عقائد و نظریات کی پختگی اور قدیم وضع کی اسلامی معاشرت کے آثار پوری دنیا میں اگر سب سے نمایاں کسی خطہ میں نظر آتے ہیں تو وہ یہی برصغیر ہے۔ اس سرزمین کے مسلم باشندوں کی یہی ’’بنیاد پرستی‘‘ پوری دنیا پر تسلط کا خواب دیکھنے والے نئے استعمار کے لیے ’’سوہانِ روح‘‘ بنی ہوئی ہے۔

اس پس منظر میں جب ہم اسلام اور ملت اسلامیہ کو درپیش نئے چیلنجز کو دیکھتے ہیں تو ہمیں حال یا مستقبل کی یہ جنگ بھی اسی کشمکش کا ایک حصہ اور اس کا آخری و فیصلہ کن دور نظر آتی ہے جس کا مقصد دنیا سے اسلامی تہذیب و معاشرت کا خاتمہ اور ویسٹرن سولائزیشن کی بالادستی کا قیام ہے۔ البتہ اس جنگ کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے اور تکنیک بدل گئی ہے۔ پہلے دور میں مغربی استعمار نے ’’نیشنلزم‘‘ کے نام پر مسلمانوں کو ان کے مرکز خلافت سے محروم کیا، چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کیا اور ان کی پچاس سے زیادہ مستقل حکومتیں بنوا کر ان کے مفادات اور رجحانات کے دائروں کو الگ الگ کر دیا۔ اور اب دوسرے مرحلہ میں ’’انٹرنیشنلزم‘‘ کے نام پر ان چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو ایک ایسے عالمی نظام میں جکڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں ان کے لیے ویسٹرن سولائزیشن کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہ رہے اور وہ مغرب کی بالادستی اور قیادت میں ایک نئے عالمی نظام میں ضم ہو کر اپنی نظریاتی اور تہذیبی شناخت سے محروم ہو جائیں۔

یہ جنگ اصل میں تہذیب و معاشرت کی بالادستی کی جنگ ہے جبکہ سیاسی اقتدار اور معاشی بالادستی اس جنگ کے لیے ہمیشہ موثر ہتھیار کا کام دیتے رہے ہیں۔ اس لیے آج بھی مغربی استعمار نے عالم اسلام کی پچاس سے زیادہ اکائیوں کی سیاست و معیشت کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی طرف سب سے زیادہ توجہ مبذول کر رکھی ہے۔ اور ماضی کی طرح آج بھی انہی ہتھیاروں کے ذریعے وہ اسلامی تہذیب و معاشرت کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنے کے لیے بے تاب اور مضطرب دکھائی دے رہا ہے۔ اسلامی تہذیب و معاشرت کی سخت جانی گزشتہ ڈیڑھ ہزار برس سے پوری دنیا کے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہے کیونکہ یہ تہذیب دنیا کے جس خطہ میں گئی ہے اس نے وہاں کے کلچر میں ضم ہونے سے انکار کر دیا ہے اور اپنے اثرات اس مضبوطی کے ساتھ قائم کیے ہیں کہ علاقائی تہذیبیں اس کے لیے خود بخود راستہ چھوڑتی چلی گئی ہیں۔ ہندو تہذیب جو مختلف تہذیبوں کو ہضم کرنے میں اپنی مثال نہیں رکھتی، اسلامی تہذیب کے سامنے عاجز آگئی ہے اور مغربی تہذیب جس نے امریکہ، آسٹریلیا اور افریقہ میں جا کر وہاں کی تہذیبوں کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے، اسلامی تہذیب و معاشرت کو ہضم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے اور خود یورپ و امریکہ کی سوسائٹیوں میں اسلامی تہذیب و معاشرت کے بڑھتے ہوئے اثرات سے خوفزدہ دکھائی دیتی ہے۔

یہ تو ہے اس تاریخی کشمکش کا ایک نقشہ جو اب فیصلہ کن دور میں داخل ہوگئی ہے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے اس جماعت کے حالات پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہیے جس نے اس سے قبل ہر دور میں اس کشمکش میں امت مسلمہ کی فکری و عملی راہنمائی کی ہے اور جس سے امت کا سنجیدہ طبقہ آج بھی ماضی کی طرح جرأت مندانہ قیادت کی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے۔ جہاں تک ماضی کا تعلق ہے، تمام تر کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود مجموعی طور پر ولی اللہی جماعت کا کردار تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کے عقائد و افکار کے تحفظ کا میدان ہو، دینی علوم کی ترویج و اشاعت کا محاذ ہو، قرآن کریم اور مسجد کے ساتھ عام مسلمان کا تعلق قائم رکھنے کا مسئلہ ہو، یا عام معاشرتی زندگی میں بیرونی اثرات کی روک تھام کا شعبہ ہو، علماء حق کی جدوجہد ان سب کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اور بے سروسامانی اور کس مپرسی کے باوجود ان میں سے کسی محاذ پر انہوں نے پسپائی اختیار نہیں کی۔

مگر اس شاندار ماضی کے آئینے میں جب ہم حال پر نظر ڈالتے ہیں تو ظاہری صورتحال کو دیکھ کر ذہن و قلب کو ایک دھچکا سا لگتا ہے اور نئی عالمی جنگ میں دشمن کی تیاری، اس کے خوفناک ہتھیاروں اور لشکر جرار کے سامنے ہماری دینی قیادت کی بے بسی پریشانی اور اضطراب کا باعث بن جاتی ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس صورتحال کا کچھ سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے لیا جائے۔

پاکستان کے حوالے سے اس وقت حالات کا عملی نقشہ کچھ یوں ہے کہ ملک کی عمومی مذہبی قیادت بالعموم اور علماء دیوبند یا ولی اللہی جماعت بالخصوص باہمی خلفشار اور انتشار کا شکار ہے۔ اس جماعت کی نظریاتی و عملی قوت یکجا ہونے کی بجائے چھوٹی چھوٹی ٹکریوں میں بٹ کر رہ گئی ہے، یہ ٹکریاں بھی نظریاتی اور فکری حلقے کم اور شخصی عقیدتوں اور وابستگیوں کے دائرے زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ کارکنان میں نعرہ بازی، سطحیت اور جذباتیت کا عنصر سنجیدہ مزاج اور علمی ذوق پر غالب آگیا ہے، جبکہ وسائل و سہولتوں کے حصول کی خاطر مختلف لابیوں کے ساتھ وابستگی نے مذہبی قیادتوں کو مفادات اور سہل پسندی کی دلدل میں الجھا کر رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رائے عامہ اور ملک کی مذہبی قیادت کے درمیان اعتماد اور مفاہمت کا وہ رشتہ کمزور تر ہوتا جا رہا ہے جو اس سے قبل مذہبی لیڈرشپ کی بات میں وزن اور قوت کی بنیاد ہوا کرتا تھا۔

ہمارے نزدیک اس صورتحال کے یہاں تک پہنچنے کے اسباب و عوامل میں تین امور سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

  1. دینی جماعتوں اور علمی اداروں میں طلبہ اور علماء کی ذہن سازی اور فکری تربیت کا فقدان ہے جو انہیں وقت کے تقاضوں کا احساس دلا کر کسی مشن اور پروگرام کے لیے تیار کر سکے۔
  2. انتخابی سیاست کو، جو اس عظیم جدوجہد میں ہدف تک پہنچنے کے مختلف ذرائع میں سے ایک ذریعہ تھی، اس حد تک اوڑھنا بچھونا بنا لیا گیا ہے کہ وہ ذریعہ کی بجائے مقصد کا درجہ اختیار کر گئی ہے۔ اور یہ انتخابی سیاست جماعتوں اور ان کی قیادتوں کی تمام تر تگ و دو کا محور بن کر رہ گئی ہے۔
  3. ہم نے ماضی کی طرح نظریاتی اور تہذیبی کشمکش کے اس دور کو بھی مقامی اور ملکی سطح کی جنگ سمجھ لیا ہے اور اسی دائرہ میں اس کے لیے صف بندی اور حکمت عملی اختیار کرتے آرہے ہیں۔ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا ہے کہ اب یہ جنگ کسی ایک ملک کی نہیں بلکہ عالمی جنگ ہے جس کے لیے اسی سطح کی صف بندی، رابطوں، ترجیحات اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

جبکہ آج مغربی استعمار اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس عالمی جنگ میں جو تکنیک اختیار کیے ہوئے ہیں، مذہبی جماعتوں کے کارکن تو رہے ایک طرف، ان کی قیادتوں کی غالب اکثریت تک اس کے ادراک سے محروم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مغربی استعمار اور عالم اسلام میں ان کی ہمنوا قوتیں کسی بھی مسئلہ پر اطمینان کے ساتھ اپنا کام کر چکتی ہیں یا اس کے بیشتر مراحل سے گزر جاتی ہیں تو ہماری مذہبی قیادتوں کو کچھ کچھ احساس ہونے لگتا ہے۔ اور جتنی دیر میں وہ خود کو دفاع یا جواب کے لیے ذہنی طور پر تیار کر پاتی ہیں ’’چڑیاں کھیت چگ کر جا چکی ہوتی ہیں‘‘۔ دینی جماعتوں کی جدوجہد میں شریعت بل، شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے کے اندراج، اور توہین رسالتؐ کے مرتکب افراد کی بیرون ملک روانگی اور پذیرائی کے واقعات اگرچہ ہمارے نزدیک ضمنی اور جزوی حوالے ہیں، لیکن ان سے ہماری مذہبی قیادتوں کی اس نفسیاتی صورتحال کا اندازہ بخوبی ہو جاتاہے جس کی طرف ہم نے ابھی اشارہ کیا ہے۔

ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اصلاحِ احوال کی خواہش اور جذبہ رکھنے والوں کا سارا زور اس بات پر صرف ہو رہا ہے کہ قائدین اور کارکنوں کی اسی موجودہ کھیپ کو اس کام کے لیے تیار کر لیا جائے جس کے لیے ان کی تربیت نہیں ہوئی اور جو ان کی ذہنی سطح سے مختلف ہے۔ یہ بات فطرت کے خلاف ہے کیونکہ دو میل تک دوڑنے کی سکت رکھنے والے گھوڑے کو دس میل کی دوڑ میں شریک کیا جائے گا توا س کا حشر وہی ہوگا جو اس وقت ہماری مذہبی جماعتوں کا ہو رہا ہے۔ یا کسی مخصوص اسٹائل کی کشتی لڑنے والے پہلوان کو فری اسٹائل دنگل کے اکھاڑے میں کھڑا کیا جائے گا تو وہ اسی طرح عافیت کا گوشہ تلاش کرتا پھرے گا جیسے ہماری مذہبی لیڈرشپ تلاش کر رہی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حقائق کا کھلے دل سے اعتراف کیا جائے اور زمینی حقائق کو تسلیم کر کے ان کی بنیاد پر آئندہ حکمت عملی اور ترجیحات طے کی جائیں۔

ان گزارشات کے بعد ہم ان دوستوں کی خدمت میں، جو خلوص دل کے ساتھ اس سلسلہ میں کچھ کرنے کے خواہش مند ہیں، یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ معروضی حالات میں ولی اللہی جماعت کے کام اور کردار کو ازسرِنو منظم کرنے کے لیے ہمارے نزدیک چند امور انتہائی ضروری ہیں۔

اس گفتگو کے آخر میں اس امر کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ میں خود کو انتخابی اور گروہی سیاست کے لیے قطعی طور پر ان فٹ سمجھتے ہوئے اس سے چند سال قبل کنارہ کشی اختیار کر چکا ہوں اور اس پر آخری دم تک قائم رہنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ البتہ علمی و فکری محاذ پر مغربی استعمار کے خلاف اس جنگ میں بدستور شریک ہوں اور اپنے وسائل و بساط کی حد تک کسی کوشش سے حتی الوسع گریز نہیں کر رہا۔ میں نے ایک اصول حتمی طور پر طے کر لیا ہے کہ سنجیدہ علمی و فکری کام میں ہر ایک کا خادم ہوں جبکہ گروہی کشمکش میں کسی کا ساتھی نہیں ہوں۔ اس دائرہ میں رہتے ہوئے اگر دوست مجھ سے کسی خدمت کا تقاضہ کریں گے تو مجھے اس میں خوشی ہوگی اور ہو سکتا ہے ایسا ہی کوئی عمل آخرت میں نجات کا ذریعہ بن جائے، آمین یا رب العالمین۔

مولانا قاری محمد حنیفؒ ملتانی / مولانا قاری محمد اظہر ندیم شہیدؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ملک کے دینی حلقوں میں یہ خبر بے حد رنج و الم کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ معروف خطیب مولانا قاری محمد حنیفؒ ملتانی کا عید الاضحیٰ کے روز ملتان میں انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ قاری صاحب موصوف ملک کے مقبول خطباء اور واعظین میں شمار ہوتے تھے اور ایک عرصہ تک مذہبی اسٹیج پر ان کی خطابت کا طوطی بولتا رہا ہے۔ جامعہ قاسم العلوم ملتان کے فاضل اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی کے شیدائی تھے۔ آواز میں سوز و گداز تھا، وہ اپنے مخصوص انداز میں مصائب صحابہؓ اور قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر کرتے تو بڑے بڑے سنگدل لوگوں کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں۔ بلاشبہ ان کے مواعظ ہزاروں لوگوں کی اصلاح کا ذریعہ بنے اور خود بصارت سے محروم ہونے کے باوجود وہ اپنے معتقدین کی ایک عرصہ تک راہنمائی کرتے رہے۔

اسی طرح یہ خبر بھی بے حد صدمہ کا باعث ہے کہ لاہور میں ایک جواں ہمت عالم دین مولانا قاری محمد اظہر ندیمؒ گزشتہ دنوں سفاک قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا تعلق سپاہ صحابہؓ سے تھا اور وہ متعدد دینی کتابوں کے مصنف تھے۔ انہوں نے مختلف دینی تحریکات میں حصہ لیا اور انتہائی جوش و جذبہ کے ساتھ مذہبی کاموں میں شریک ہوتے۔

اللہ تعالیٰ مرحومین کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں، ان کی حسنات کو قبولیت سے نوازیں، سیئات سے درگزر فرمائیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دیں، آمین۔

دین کیلئے فقہاء کی خدمات

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

حضرت ابو موسیٰ الاشعری (المتوفی ۵۲ھ) سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو ہدایت و علم دے کر مبعوث فرمایا ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے زور کی بارش جو زمین پر برسی ہو، اور
  1. زمین کا ایک وہ بہترین اور قابلِ زراعت ٹکڑا ہے جس نے پانی کو خوب جذب کر لیا، اور ساگ پات اور گھاس و چارہ بکثرت اگایا (جس سے انسانوں اور جانوروں کی اکثر ضرورتیں پوری ہو گئیں)،
  2. اور زمین کا ایک حصہ وہ ہے جو سخت ہے، اس سے کوئی چیز اگتی تو نہیں لیکن اس حصہ میں پانی خوب جمع ہو گیا، اور اس جمع شدہ پانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو نفع بخشا کہ وہ خود بھی پیتے ہیں اور جانورں کو بھی پلاتے ہیں، اور کھیتی کو بھی سیراب کرتے ہیں،
  3. اور زمین کا ایک اور قطعہ ہے جو بالکل چٹیل ہے، نہ تو وہ پانی کو روک سکتا ہے، اور نہ گھاس و سبزہ اگانے کی صلاحیت اس میں موجود ہے۔

پھر ارشاد فرمایا کہ پس یہ مثال ہے اس شخص کی جس نے اللہ تعالیٰ کے دین میں فقاہت حاصل کی، اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اس چیز سے نفع عطا فرمایا جو مجھے اللہ تعالیٰ نے دے کر مبعوث کیا ہے، جس کو اس نے سیکھا اور سکھلایا۔ اور مثال ہے اس کی جس نے ہدایتِ خداوندی کی طرف، جس کو میں لے کر آیا ہوں، مطلقاً سر ہی نہ اٹھایا۔‘‘

(بخاری ج ۱ ص ۱۸ و مسلم ج ۲ ص ۲۴۷ و مشکوٰۃ ج ۱ ص ۲۸)
آخری چٹیل زمین کی مثال تو ما و شما کی ہے کہ نہ تو محدث ہیں، نہ فقیہ کہ نہ روحانی بارش کو محفوظ رکھا اور نہ اس کو جذب کر کے اس سے کوئی خوشگوار نتائج ہی برآمد کیے۔
اور دوسری مثال محدثین کرامؒ کی ہے جنہوں نے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی موسلا دھار بارش کو بحفاظت تمام اصلی شکل میں مَصون رکھا۔ لوگ آ کر ان سے اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں، لوگوں کو وہ مصفیٰ پانی پلا پلا کر سیراب کرتے ہیں۔ اپنے تو کیا جو غیر مسلم اور بیگانے اور ’’اولئک کالانعام‘‘ کا مصداق ہیں، ان کو بھی وحئ الٰہی کی بارش سے وہ سیراب کرنے کے درپے ہوتے ہیں، اور لوگوں کے دلوں کی اجڑی ہوئی بے آباد اور خشک کھیتیوں کو اس پانی کے ذریعہ سرسبز و شاداب کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ غرضیکہ ’’فشربوا وسقوا وزرعوا‘‘ کے ایک ایک لفظ پر پورا عمل کرتے ہیں۔
اور پہلی مثال فقہاء کرامؒ کی ہے جن کے دلوں کی سرزمین ’’طائفۃ طیبۃ‘‘ کا مصداق ہے۔ اور وہ اپنے سینوں اور دلوں میں اس روحانی بارش اور وحئ الٰہی کو اچھی طرح جذب کرتے ہیں۔ اور اگرچہ وہ بارش اس قطعۂ ارضی پر اصلی شکل پر تو نہیں رہتی مگر اسی کی وجہ سے اس عمدہ زمین سے ساگ پات، گھاس اور اناج، سبزی و ترکاری، پھل اور پھول اور دیگر مختلف اجناس کی شکل میں متعدد چیزیں اگتی اور پیدا ہوتی ہیں۔ جن کو انسان بھی اور حیوان بھی استعمال کرتے اور اپنے مصرف میں لا کر اپنی مختلف قسم کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔
اور ظاہر بات ہے کہ پانی بھی اپنے مقام میں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، مگر نرے پانی سے تمام ضرورتیں تو ہرگز پوری نہیں ہو سکتیں۔ اسی پانی کے ذریعے جب مختلف قسم کے سبزہ زار اور لہلہاتی ہوئی کھیتیاں معرضِ وجود میں آئیں گی تو اس سے جو فائدہ مرتب ہو گا وہ اظہر من الشمس ہے۔ اسی طرح فقہائے کرامؒ بھی اس وحئ الٰہی کو جذب کر کے اس سے سینکڑوں اور ہزاروں مسائل استنباط کرتے ہیں جن سے پوری دنیا کو عظیم فائدہ نصیب ہوتا ہے۔
اب اگر کوئی شخص زمین کے اس قطعہ پر یوں اعتراض اور حرف گیری کرے کہ اس نے تو پانی کو محفوظ ہی نہیں رکھا، یہ تو بڑی ناکارہ زمین ہے، تو اس اعتراض کی نقلی و عقلی دنیا میں ہرگز کوئی وقعت نہ ہو گی۔ بلکہ یہ کہنا عین انصاف ہے کہ اس زمین کی قدر و منزلت باقی حصوں سے بہت زیادہ ہے کیونکہ اس نے مختلف قسم کی ضروریات کی کفالت کی ہے، اور یہی حال فقہائے کرامؒ کی بے لوث خدمات کا ہے کیونکہ نصوصِ صریحہ تمام سعائل و نوازل کی جزئیات کے لیے ناکافی ہیں۔

خلفاء راشدینؓ کا طرز حکمرانی

محسن الملک نواب مہدی علی خانؒ

محسن الملک نواب مہدی علی خان مرحوم ان زعمائے ملت میں سے ہیں جنہوں نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد ملت اسلامیہ کو سہارا دیا اور علم و فکر کے میدان میں ان کی راہنمائی کی۔ وہ سرسید احمد خان مرحوم کے رفقاء میں سے تھے۔ زیر نظر مضمون میں انہوں نے خلفاء راشدین کے طرز حکومت پر بحث کی ہے۔ یہ مضمون ہم نے فیروز سنز کی مطبوعہ کتاب ’’جواہر پارے‘‘ (مرتبہ مقبول انور داؤدی مرحوم) سے اخذ کیا ہے۔ (ادارہ)

اسلام کو ہماری ذات سے دو قسم کا تعلق ہے۔ ایک متعلق عقائد کے، جس کو حکماً حکمتِ بالغہ یا کمالِ علمی کہتے ہیں۔ دوسرا متعلق اعمال کے، جس کو عقلاً قدرتِ فاضلہ اور کمال عملی سے تعبیر کرتے ہیں۔ پہلے امر کو، جو درحقیقت اصول ہے، کتاب و سنت نے ایسا صاف کر دیا ہے کہ اب کسی دوسرے سے پوچھنے بتلانے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ مراتبِ توحید اور نبوت اور معاد کی کامل تشریح کر دی ہے۔ دوسرے امر کو، جو در حقیقت فروع ہے، اس کے اصول بھی تصریح کے ساتھ بیان کر دیے ہیں۔ اس لیے ہم کو اپنی دونوں باتوں کو کتاب و سنت سے ملانا چاہیے، تب معلوم ہوگا کہ کتنی باتیں ہم میں اسلام کی ہیں اور کتنی اس سے خارج، اور کون کون سا عمل ہمارا موافق اس کے ہے، اور کون سا مخالف۔
ہمارے حالاتِ دنیوی بھی مذہب کے تعلق سے آزاد نہیں ہیں بلکہ ہر معاملہ میں، خواہ وہ سیاستِ مدن سے متعلق ہو، خواہ اس کو حکمتِ منزل سے علاقہ ہو، ہم کو شریعت کی پابندی ہی لازم ہے۔ ہمارا تمدن اور معاشرت اور برتاؤ آزادانہ یعنی بلاقیدِ شریعت کے نہیں ہو سکتا۔ جو برتاؤ دنیاوی ہمارا ہو گا وہ بھی مذہبی ہو گا اور ہماری ہر بات اور ہر چال اور ہر فعل اور ہر عمل میں جلوہ اسلام کا چمکے گا۔ اگر وہ برتاؤ مطابق شریعت کے ہے تو وہ نورِ اسلام ہے، اور اگر مخالف ہے تو وہ داغِ اسلام۔
شریعت نے ہم کو رہبانیت کی تعلیم نہیں کی، جوگی ہونے کی اجازت نہیں دی بلکہ فرمایا ہے کلو من الطیبات واعملوا صالحا اس لیے اگر دل بیار اور دست بکار ہو تو عین ثواب ہے۔ شریعت نے دائرۂ معیشت کو تنگ نہیں کیا، زینتِ دنیا سے ممنوع نہیں گردانا۔ ہم سب مسلمان محرمات سے بچ کر اپنی زندگی کو نہایت آرام سے بسر کر سکتے ہیں۔ اور اپنی اوقات کو اور اپنے مال کو اگر اپنے بھائیوں کی بھلائی میں صرف کریں تو کسی عبادت میں اس سے زیادہ ثواب کے مستحق نہیں ہو سکتے۔ لیکن ہم نے اپنی بدبختی سے دین کو شرک و بدعت کے عقیدوں سے خراب اور دنیا کو غفلت اور جہالت کے سبب سے برباد کر رکھا ہے۔ نہ دین کے ہوئے نہ دنیا کے۔
گئے دونو جہاں کے کام سے ہم
نہ اِدھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے
جب ہم خلفائے راشدین کے اصولِ سیاست اور طریقِ معاشرت و اخلاق اور عادات اور چال چلن اور برتاؤ کو دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھوں کے سامنے بہت سی عجیب و غریب چیزیں پھر جاتی ہیں اور بہت سے عقدے ہمارے حل ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ہم کچھ مختصر سا حال خلفائے راشدین کی خلافت کا لکھتے ہیں، لیکن صرف ان باتوں کو جو کہ متعلق سیاست اور معاشرت کے ہیں، تاکہ اس سے فوائدِ ذیل حاصل ہوں۔
  1. اول معلوم ہونا ان کے اصولِ سیاست کا کہ وہ کیسے تھے اور کن قواعد پر مبنی تھے۔
  2. دوسرے ظاہر کرنا ان کے اخلاق و عادات کا کہ وہ کیسی صفائی اور سچائی اور راستی ہر معاملہ میں رکھتے تھے۔ اور غیر مذہب والوں سے کس طور سے پیش آتے تھے۔
  3. تیسرے ظاہر کرنا ان کے مختلف قواعدِ انتظامیہ کا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ موافق ضرورتِ وقت اور حالِ زمانہ کے اصول سیاست اور تمدن اور معاشرت کے مقرر کرنا، اور وقتاً فوقتاً ان میں اصلاح کرنا، اور نئے نئے ضابطے جو پہلے جاری نہ تھے منضبط کرنا، اور امورِ مفیدِ عام کے اجراء میں کوشش کرنا (بشرطیکہ کوئی نص کتاب و سنت سے اس کے منع اور حرمت پر نہ ہو) ان کے نزدیک بدعت نہ تھا۔
  4. چوتھے مخالفت ان سلاطینِ اسلامیہ کی شریعت سے جنہوں نے اپنی حرکاتِ ظالمانہ اور افعالِ جابرانہ سے اپنے بے جا تعصب اور غلط غضب کو سلطنت کے کاموں میں دخل دیا، اور ناجائز طور سے اپنے اختیاراتِ شاہی کو برتا اور اسلام کو بٹہ لگایا۔
  5. پانچواں واقف کرنا اپنے بھائی مسلمانوں کو ان کے پیشواؤں کے اخلاق اور عادات سے، اور ان کے قواعدِ انتظامیہ اور قوانینِ حکمیہ سے، تاکہ ان کو معلوم ہو کہ وہ امورات ِ انتظامِ سلطنت میں کیسی استعداد رکھتے تھے، اور وہ تہذیب و شائستگی کی ترویج میں کیسی سعی بلیغ کرتے تھے۔

پہلا اصول

پہلا اصول جس پر بنا خلافت کی تھی، اجتماع تھا۔ یعنی امام اور خلیفہ کا مقرر ہونا تمام امت اور رعیت کی مرضی پر موقوف تھا۔ قرابت اور رشتہ اور اِرث کو اس میں کچھ دخل نہ تھا۔ چنانچہ جب وقتِ وفات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قریب ہوا تو لوگوں نے کہا کہ آپ اپنے بیٹے عبد اللہ کو اپنا جانشین کر دیجئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اس کا کچھ حق نہیں ہے۔

دوسرا اصول

دوسرا اصول خلیفہ کو آزادی اور خودمختاری کا حاصل نہ ہونا۔ امام اور خلیفہ اجرائے احکام اور انتظامِ اموراتِ سلطنت میں آزاد اور خودمختار نہ تھا، اور اپنی خواہشات اور ارادوں کو بلاقیدِ شریعت کے پورا کرنا کیسا، ظاہر بھی نہ کر سکتا تھا۔ کتاب و سنت کا پابند ہوتا تھا۔ چنانچہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے، جبکہ وہ خلیفہ مقرر ہوئے، جو پہلا خطبہ پڑھا وہ یہ تھا:
’’اے مسلمانو، میں آدمی ہوں ویسا ہی جیسے کہ تم ہو۔ نہ خطاؤں سے معصوم ہوں، نہ غلطیوں سے محفوظ۔ نہ تم سب سے بہتر اور اچھا ہوں۔ اس لیے تم میری خبرداری رکھنا۔ جو باتیں میرے خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے موافق ہوں، ان میں میری تبعیت کرنا، اور جن میں مجھے لغزش کرتے ہوئے دیکھنا، سنبھالنا۔‘‘

تیسرا اصول

تیسرا اصول رعایا کو آزادی حاصل ہونا۔ سوائے شریعت کے احکام کے رعایا کو کسی قسم کے امام اور خلیفہ کی طرف سے پابندی نہ تھی۔ اور خلیفہ کو کسی پر کچھ اختیار، سوائے اس کے جو قانونِ شریعت سے جائز تھا، حاصل نہ تھا۔ بلکہ ذاتی معاملات میں خلیفہ خود مدعی اور خود مدعا علیہ ہوتا تھا۔ اور کوئی عامل اور والئ صوبہ اس اصول کی پابندی سے اپنے اختیارات کو ناجائز طور سے استعمال میں نہیں لا سکتا تھا۔
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ فلاں حاکم نے مجھے بے قصور شرعی کوڑے مارے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے بعد ثبوت کے اس حاکم کو سو کوڑے مارنے کا حکم دیا۔ عمرو بن عاصؓ نے سفارش کی تب جواب دیا کہ جب پیغمبر خدا علیہا التحیۃ والشاء اپنی ذات کو قصاص اور احکامِ شرعی سے مستثنیٰ نہیں سمجھتے تھے، تو پھر میں یا یہ کون ہیں؟
آزادی کا درجہ یہاں تک پہنچا تھا کہ اگر خلیفہ کسی شخص کو شرعی جرم میں ماخوذ کرتے یعنی بغیر ضابطہ معین کے، تو مجرم عذر کرتا اور اپنے آپ کو بچا لیتا۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رات کو مدینہ کا گشت کرتے کرتے ایک ایسے گھر کے پاس پہنچے کہ وہاں سے آواز گانے کی آتی تھی۔ وہ اس گھر کے اندر دیوار کی راہ سے گھس گئے، وہاں ایک عورت کو دیکھا کہ شراب رکھی ہوئی ہے اور وہ گاتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو پکڑا، اس عورت نے کہا کہ میں نے اگر ایک گناہ کیا ہے تو تم نے تین جرم کیے ہیں:
  1. اول، خدا نے فرمایا ہے لا تجسسوا کہ تم تجسس نہ کرتے پھرو۔ سو تم نے تجسس کیا۔
  2. دوم، خدا نے فرمایا ہے لیس البر بان تاتوا البیوت من ظہورہا کہ دیوار کے پیچھے سے کسی مکان میں گھسنا اچھا نہیں ہے۔ اور تم دروازہ بند پا کر پشت مکان سے داخل ہوئے۔
  3. سوم، خدا فرماتا ہے لا تدخلوا بیوتا غیر بیوتکم کہ اپنے گھر کے سوا دوسرے کے گھر میں نہ جاؤ۔ اور تم بغیر میری اجازت کے چلے آئے۔
چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو چھوڑ دیا۔ حضرت عمرؓ باوجود اپنے زہد اور ورع کے کہ جس سے زیادہ خیال میں نہیں آ سکتا، عام لوگوں کو مباحات سے منع نہ کرتے تھے، اور کھانے پینے آرام کرنے میں وہ آزاد مطلق تھے۔ چنانچہ جب حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ نے انطاکیہ شہر کو فتح کیا، اور بہ سبب پاک صاف ہونے اس شہر کے اور اپنے عمدہ چیزوں کے مسلمانوں نے وہاں چند روز ٹھہرنے کا قصد کیا، تو انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ میں اس شہر میں ٹھہرنا پسند نہیں کرتا، ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں کو اس کی آب و ہوا پسند آوے اور محبت دنیا کی ان پر غالب ہو جائے۔ بجواب اس کے حضرت عمرؓ نے لکھا کہ خدا نے پاک چیزوں کو حرام نہیں کیا، تم کیوں حرام کرتے ہو؟

چوتھا اصول

چوتھا اصول شورٰی۔ اس کی اصل قرآن مجید سے ہے کہ خدائے عالم نے فرمایا ہے کہ وشاورہم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ کہ جو کام پیش آئے اس میں صلاح مشورہ کرنا اور پھر عزم مصمم ہو جائے تو خدا پر بھروسہ کر کے اس کو شروع کرنا۔ 
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس اصول کا ہمیشہ لحاظ رکھا اور نہایت خوبی سے اس کی پابندی کی۔ جب وہ کوئی کام کرتے تو سب سے مشورہ اور صلاح کرتے اور پھر سب کو میزانِ عقل میں تولتے اور بعدہ ایک رائے پر نہایت استقلال سے قائم ہو جاتے۔ اسی واسطے تدبیرِ مملکت میں انہوں نے دھوکا نہ پایا اور ان کی سب تدبیریں مفید پڑیں۔
حضرت عمرؓ کو اس اصول کا یہاں تک لحاظ تھا کہ اگر کسی فروعی مسئلہ میں وہ نصِ صریح کتاب و سنت کی نہ پاتے تو وہ مشورہ کرتے۔ یہ چوتھا اصول بھی دوسرے اصول کا ثمرہ ہے، اس لیے کہ جب بادشاہ کو آزادی اور خودمختاری نہ ہو گی تو لامحالہ وہ صرف اپنی مرضی سے کام نہ کر سکے گا۔ اور اس کی ضرورت ان لوگوں سے پوچھنے کی ہو گی جو صائب الرائے ہوں۔ یہ اصول وہی ہے جو کہ اب تربیت یافتہ قوموں میں یورپ کی جاری ہے، جس کو باختلافِ لغت اور زبان کے کونسل کہتے ہیں۔

پانچواں اصول

پانچواں اصول خلیفہ کو ملک کی آمدنی کا سوائے حقِ معین کے اپنے صَرف میں نہ لانا۔ ملک کی آمدنی خواہ وہ جزیہ کی ہوتی ہو یا خراج کی یا عشر کی، وہ سب بیت المال میں جمع ہوتی۔ خلیفہ کو کسی قسم کا اختیار اس پر نہ تھا۔ صرف روزینہ یا تنخواہ مقرری کے سوا وہ کچھ نہ لے سکتے تھے۔ ابتدائے عہدِ خلافت میں حضرت صدیق اکبرؓ کو صرف کھانا کپڑا ملتا تھا۔ اور جب آمدنی زیادہ ہوئی تب وہ دو ہزار پانسو درہم ملنے لگے۔ اور حضرت عمرؓ بھی اپنی ذات کے واسطے صرف اس قدر لیتے جس قدر اور مہاجرین و انصار کو دیتے تھے۔
جو آمدنی ملک کی ہوتی وہ خزانہ میں جمع ہوتی۔ اور فوج کے سرداروں اور سپاہیوں اور مہاجرین و انصار کو اس سے مشاہرہ مقررہ، اور فقراء اور مساکین کو آذوقہ کافی دیا جاتا۔ اور بوقتِ ضرورت عام فائدہ کے کاموں میں صرف کی جاتی جس طرح پر کوفہ اور بصرہ وغیرہ شہروں کی آبادی اور عمارت میں، یا وقتِ ایامِ قحطِ مدینہ کے جس کا نام قحطِ مادہ ہے۔ غلہ کے باہر سے منگانے میں صَرف کی گئی ملک کی آمدنی سے جس طرح مسلمان فقراء و مساکین کو حصہ دیا جاتا، اسی طرح پر اہلِ کتاب وغیرہ کو۔ کچھ تخصیص مسلمانوں کی نہ تھی۔
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک بڈھے یہودی کو ایک جگہ سوال کرتے دیکھا اور وقتِ استفسار کے معلوم ہوا کہ جزیہ کے مطالبہ کے واسطے سوال کرتا ہے۔ اسی وقت اس کا ہاتھ پکڑ کر نہایت اخلاق سے اپنے گھر لائے اور کچھ اس کو دیا۔ اور جزیہ کے تحصیل کرنے والوں کو حکم دیا کہ اس کا اور اس قسم کے لوگوں کا خیال رکھنا، یہ کون سا انصاف ہے کہ اس کی جوانی کی کمائی تو ہم کھائیں اور بڑھاپے میں اس کو ذلیل کریں اور اس کی کچھ بھی خبر نہ لیں۔ اس لیے آئندہ ایسے لوگوں سے مطالبہ نہ کرو اور ان کو جزیہ سے معاف جانو۔ اور بیت المال کے داروغہ کو حکم دیا کہ خدا نے فرمایا ہے انما الصدقات للفقراء اور یہ بھی مساکینِ اہلِ کتاب سے ہیں اس لیے ان کو دینا چاہیے۔

چھٹا اصول

چھٹا اصول وقتِ لشکر کشی کے کسی ملک پر مراعات اور حسنِ سلوک کا لحاظ رکھنا اور کسی پر بے جا زیادتی نہ کرنا اور جہاں تک ممکن ہو نرمی سے پیش آنا۔ جب کسی ملک کے فتح کرنے کے لیے لشکر بھیجا جاتا تھا تو اس لشکر کے سردار کو جو احکام دیے جاتے تھے ان میں امورِ مفصلہ ذیل پر نہایت تاکید کی جاتی تھی:
  1. کوئی عورت اور لڑکا اور بڈھا اور ضعیف نہ مارا جائے۔
  2. کسی کا ناک کان نہ کاٹا جائے۔
  3. عبادت کرنے والے گوشہ نشین قتل نہ کیے جائیں، اور ان کے عبادت خانے نہ کھودے جائیں۔
  4. کوئی درخت پھل دار نہ کاٹا جائے، کوئی کھیت نہ جلایا جائے۔
  5. کوئی عمارت اور آبادی ویران نہ کی جائے۔
  6. کسی جانور، بکری، اونٹ وغیرہ کی کونچیں نہ کاٹی جائیں۔
  7. کوئی کام بغیر صلاح و مشورہ کے نہ ہو۔
  8. ہر ایک کے ساتھ طریقۂ انصاف اور عدل کا برتاؤ کیا جائے، کسی پر ظلم اور جبر نہ کیا جائے۔
  9. جو عہد و پیمان غیر مذاہب والوں سے کیا جائے، اس میں بے وفائی نہ کی جائے اور وہ ٹھیک ٹھیک وفا کیا جائے۔
  10. جو لوگ اطاعت قبول کریں اور جزیہ دیں ان کی جان و مال مسلمانوں کی جان و مال کے برابر سمجھی جائیں، اور ان کے دشمنوں سے ان کی حفاظت کی جائے، اور تمام معاملات میں ان کے احکام مثل مسلمانوں کے تصور کیے جائیں۔
  11. جب تک اسلام کے قبول کرنے کی دعوت نہ دی گئی ہو ۔۔ لڑنا نہ چاہیے۔
ان احکام پر غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ مقابلہ اور لشکر کشی کے وقت کیسی نیکی اور رحم اور نرمی کی رعایت کی جاتی تھی۔ اور غدر، فریب اور بدعہدی پر کس قدر تہدید ہوتی تھی۔ کوئی بادشاہ نیک سا نیک اور رحیم سا رحیم کیوں نہ ہو، لشکر کشی کے وقت اس سے زیادہ نرمی نہیں کر سکتا۔

ساتواں اصول

اموراتِ ریاست اور انتظامِ سلطنت کے عمدہ انصرام کے لیے لائق عہدہ داروں اور اہل کاروں کا منتخب کرنا، ان کو وقت مقرر کرنے کے ہدایات خاص کرنا اور ہمیشہ ان کی نگرانی رکھنا۔ جس عامل کو حضرت عمرؓ مقرر کرتے اس کو احکامِ ذیل سناتے اور اس کی تعمیل کی تاکید کرتے:
  1. جوبدار اور حاجب نہ رکھنا۔ کسی مستغیث کو آنے کی روک ٹوک کا ذریعہ پیدا نہ کرنا۔ گویا یہ حکم تھا کہ درِ عدالت کو ہر وقت کھلا رکھنا۔
  2. جب کوئی استغاثہ کرے اس کو سننا۔ اور مدعی سے گواہ عادل اور منکر سے قسم لے کر اس کو فیصلہ کرنا۔ جس شخص پر حدِ شرعی جاری نہ ہوئی ہو، یا جھوٹی شہادت میں مشہور نہ ہو، یا اس پر محبت اور وراثت کی تہمت نہ ہو، وہ عادل سمجھا جائے گا۔
  3. مقدمات کا جلد فیصلہ کرنا تاکہ ایسا نہ ہو کہ مدعی دیر کے سبب سے اپنا دعویٰ چھوڑ بیٹھے۔
  4. باہم مصالحہ اور رضامندی کو منظور کرنا، بشرطیکہ اس سے تحلیل حرام اور تحریم حلال نہ ہو۔
  5. متخاصمین پر سختی اور درشتی اور غصہ نہ کرنا۔
  6. رعب قائم رکھنا مگر نہ اتنا کہ وہ منجربہ جبر ہو۔ اور اخلاق و نرمی کرنا مگر نہ اس قدر کہ حکومت میں سستی اور بد رعبی ہو۔
  7. ہمیشہ عدل اور انصاف کرنا اور حق بہ حق دار پہنچانا۔
عدل اور انصاف پر یہاں تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل رہتا تھا کہ وہ مسلمان اور کافر میں کچھ تفرقہ نہ کرتے تھے۔ چنانچہ سعید بن مسیبؓ سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک یہودی اور ایک مسلمان مخاصمہ کرتے ہوئے آئے، اور ان کے نزدیک حق یہودی کا ثابت ہوا، اسی کے حق میں فیصلہ کیا۔ وہ یہودی اس عدل کو دیکھ کر مدح و ثنا کرنے لگا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ جس طرح اپنے عاملوں کو تاکید کرتے تھے، اسی طرح رعایا کو بھی آگاہ کر دیا کرتے تھے کہ سوائے شریعت کے احکام کے کسی اعلیٰ سے اعلیٰ حاکم کو ادنیٰ سے ادنیٰ رعیت پر کچھ اختیار نہیں ہے کہ اگر کوئی عامل کچھ کسی پر جبر و زیادتی کرے میں اس کو اسی طرح مجرم سمجھوں گا جیسا کہ ادنیٰ رعیت کو سمجھتا ہوں اور اس کو سزا دوں گا۔ سب اپنی عزت اور جان اور مال میں سوائے احکامِ شرعی کے آزاد اور خودمختار ہیں اور حاکم اور رعیت سب برابر۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے عاملوں کو خودمختار اور آزاد نہ ہونے دیتے تھے، ان کی نگرانی کرتے، ہمیشہ ان کی تبدیلی کیا کرتے۔ ان سے اگر خطا ہو جاتی تو معزول کر دیا کرتے۔ جواب دہی کے لیے دارالخلافہ میں طلب کرتے، بعض قصوروں میں ان پر جرمانہ کرتے۔

آٹھواں اصول

امورِ مملکت کے انتظام کی نظیر سے قوانین اور ضوابطِ جدید کا جاری کرنا، اور وقتاً فوقتاً موقع اور مصلحتِ وقت دیکھ کر اس کی اصلاح و ترمیم کرنا، بشرطیکہ کوئی نصِ صریح اس کی حرمت پر کتاب و سنت کی موجود نہ ہو۔ 
آج کل کے زمانہ میں جہاں کسی نے کوئی نئی بات کی، گو اس کو ثواب اور عذاب سے علاقہ نہ ہو، لوگ بدعت کہنے لگتے ہیں اور اس کو حرام اور منع بتلاتے ہیں، اور یہ نہیں جانتے کہ جس بات کو شرع نے حرام کر دیا ہے اس کو چھوڑ کر سب چیزیں مباح ہیں۔ اس لیے الاصل فی الاشیاء الاباحہ اور یہ نہیں سوچتے کہ ان امور میں جو کہ متعلق سیاست، مدن اور معاشرت کے ہیں، ہمیشہ اختلافِ زمانہ سے اختلاف ہوتا رہتا ہے۔ اور ان کا ترمیم کرنا اور ان میں اصلاح دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ ان میں اسی قاعدہ کا لحاظ کرنا چاہیے جس کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں کیا۔ یعنی محرماتِ منصوصہ کو چھوڑ کر ان باتوں کو اختیار کرنے میں، جو کہ ان کے زمانہ کے مناسب حال تھیں، کچھ ذرا سا بھی تامل نہ کیا، اور کسی نے اس کو بدعت نہ کہا۔
پہلا نیا کام جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا وہ دفتر اور کچہری کا مقرر کرنا اور لشکریوں اور ملازموں اور روزینہ والوں کا نام لکھا جانا اور ان کی تنخواہیں مقرر کرنا ہے۔ قبل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جو مالِ غنیمت کا آتا تھا، ویسا ہی تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ نہ نام پانے والے کا، نہ تعداد اس مال کی لکھی جاتی تھی۔ مگر جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس قاعدہ میں ترمیم کی حاجت معلوم ہوئی تب مشورہ کیا۔ ولید ابن ہشامؓ نے کہا کہ میں نے پادشاہانِ شام کے ہاں دیکھا ہے کہ وہ دفتر رکھتے ہیں اور اس میں حساب کتاب تحریر رہتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو پسند کیا۔ اور عقیل ابن ابی طالبؓ اور ورقہ بن نوفلؓ اور جبیر بن مطعمؓ کو بطور منشی کے مقرر کیا۔ اور سب کے نام لکھنے کا ان کو حکم دیا اور یہ کام حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ۲۰ھ محرم کے مہینے میں کیا۔
دوسرا کام جو انہوں نے کیا، وہ تاریخِ ہجری کا جاری کرنا ہے۔ اس کا پہلے ان کے رواج نہ تھا۔
تیسرا کام ان کا خزانہ کا مقرر کرنا ہے۔ جس کو ہماری اصطلاح میں بیت المال کہتے ہیں۔
چوتھا کام ان کی تقسیمِ اختیارات اور عہدوں کا ہے۔ اس سے پہلے جو کام ہوتا تھا وہ ایک ہی شخص کرتا تھا۔ مگر بخیال اس کے کہ اس میں چند قباحتیں نظر آئیں، اس کو بدل دیا اور تین قسم کے عہدہ دار مقرر کیے۔ ایک امیر جس کے متعلق انتظام کُل امورِ ریاست کا ہوتا ہے، اور جس کے اختیار میں فوج رہتی تھی۔ دوسرا قاضی کا کام انفصالِ خصومات اور تصفیۂ حقوق تھا۔ تیسرا تحویل دار جس کے سپردگی میں خزانہ رہتا تھا۔ اور ایک دوسرے کے کام سے کچھ تعلق نہ تھا۔
پانچواں کام ان کا جو سننے والوں کو متعجب کرتا ہے، مقرر کرنا قواعدِ خراج اور محصول کا۔ محصول لینے کے چند طریقے رکھے گئے تھے۔ ایک جزیہ، اگر وہ برضامندی دینے والے کے ٹھہرتا تو اس میں کمی بیشی نہ ہوتی، ورنہ بشرح مختلف لیا جاتا، مگر درہم ماہواری سے زایدہ نہیں۔ دوسرا محصولِ تجارتی پر، جس کی شرح یہ تھی: ذمیوں سے پانچ روپیہ سینکڑہ اور حربیوں سے دس روپے سینکڑہ، لیکن یہ محصول سالانہ ہوتا تھا۔ اگر وہ مال سال بھر میں چند مرتبہ آوے تو پھر کبھی اس سے نہ لیا جاتا تھا۔ اور اگر کوئی تحصیل کنندہ غلطی سے لیتا تو وہ واپس کر دیا جاتا، جیسا کہ ایک عیسائی تاجر کو پھیر دیا گیا۔ تیسرا محصول زمین کا۔ اس محصول کے اس وقت باقاعدہ مقرر ہونے پر لوگوں کو تعجب ہو گا کہ وہ فی جریب شرح مقرر پر بعد پیمائش اراضی کے اکثر جگہ لیا جاتا تھا۔ چنانچہ جب ملک عراق فتح ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اس زمین کی پیمائش کی جائے۔ چنانچہ عثمان بن حنیفؓ اور حذیفہ ابن یمانؓ اس کام پر مقرر ہوئے۔ بعد پیمائش کے معلوم ہوا کہ کل اراضی تین کروڑ ساٹھ لاکھ جریب ہے۔ اس پر موافق حیثیت پیداوار اراضی کے شرح مقرر کی گئی۔ اور یہ صرف عراق میں جاری نہیں ہوا بلکہ شام اور دیگر جزائر میں بھی اسی طور پر کیا گیا۔ لیکن سب مقبوضہ میں اس کا رواج نہ ہونے پایا۔ محصول کے تحصیل کرنے میں نہایت آسانی کا حکم تھا۔ اور تکلیفِ جسمانی دینے کی سخت ممانعت تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وقتِ مراجعتِ سفرِ شام کے دیکھا کہ ایک قوم کی قوم کو تحصیل کرنے والے محصول کے ستاتے ہیں۔ آپ نے ان کو چھڑا دیا اور فرمایا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو لوگ دنیا میں عذاب دیتے ہیں وہ قیامت میں عذاب کیے جائیں گے۔ جو ملک فتح کیا جاتا اور مصالحہ کیا جاتا تو یہ شرطیں عہد نامہ میں داخل ہوتیں (۱) خراج کی تفصیل (۲) جو مسلمان ان کے ملک میں گزرے اس کی تین روز تک مہمانی کرنا (۳) راہ بتلانا (۴) دشمنوں سے سازش نہ کرنا (۵) مجرم کو پناہ نہ دینا۔
چھٹا کام ان کا زمین کی آبادی میں سعی کرنا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا کہ جو زمین بنجر کو مزرعہ کرے وہ زمین اسی کی ہو جائے گی۔ غرض اس حکم سے یہ تھی کہ لوگ زراعت کرنے لگیں۔
ساتواں کام ان کا شہروں کی آبادی تھی۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس جگہ پر جہاں اب بصرہ شہر آباد ہے، بنیاد آباد کرنے کی ڈالی اور بصرہ کو آباد کیا۔ قبل اس کے وہ مقام ایسا تھا کہ جہاں جہاز اور کشتیاں عجم اور ہند کی لنگر کرتی تھیں۔ بنظرِ حفاظت ملک کے دشمنوں سے اور بنظرِ فائدۂ تجارت کے اس شہر کو آباد کیا اور وہاں ایک فوج کی چھاؤنی مقرر کی۔ دوسرا کوفہ بھی آباد کیا ہوا ان کا ہے۔ اس کے آباد کرنے کا یہ سبب ہے کہ جب مسلمان شہر مداین میں بہت سے ہو گئے تو وہاں کی آب و ہوا بگڑ گئی اور لوگ بیمار ہو گئے۔ تب سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو عمدہ اور پھونس کے چھپر کا حکم دیا، لیکن پھر اس میں پختہ عمارت بنوانے کی اجازت دی۔
آٹھواں کام ان کا تجارت کی آزادی ہے۔ تمام لوگوں کو بِلحاظ مذہب اور دین کے تجارت کرنے کی اجازت تھی۔ بلکہ حربیوں کو حکمِ عام تھا کہ وہ مجاز ہیں کہ دارالاسلام میں آئیں اور مسلمانوں سے خرید و فروخت کریں۔ مدین شہر کے حربیوں نے درخواست کی کہ ہم کو عشر لے کر آنے کی اجازت ہو، چنانچہ ان کو اجازت دی گئی۔

توہینِ رسالتؐ کی سزا کے قانون میں مجوزہ ترامیم کے بارے میں

ادارہ

پاکستان سماجی اتحاد کے چیئرمین جناب محمد اکرم چوہان ایڈووکیٹ کی دعوت پر مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کرام اور دانشوروں کا ایک اجتماع مجلسِ مذاکرہ کے عنوان سے ان کی رہائشگاہ ۱۹ گورونانک پورہ گوجرانوالہ میں یکم مئی ۱۹۹۵ء کو منعقد ہوا جس کی صدارت ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر چودھری جلیل احمد خان ایڈووکیٹ نے کی۔ مجلس مذاکرہ کا عنوان تھا ’’توہینِ رسالتؐ کی سزا کے قانون میں مجوزہ ترامیم اور دینی حلقوں کی ذمہ داریاں‘‘۔
مجلسِ مذاکرہ سے ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی، مرکزی جمعیت اہل حدیث پنجاب کے امیر مولانا محمد اعظم، آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے راہنما سردار محمد عارف ایڈووکیٹ، جمعیت علماء پاکستان کے راہنما مولانا نصرت اللہ مجددی، جماعت مبلغین اہلِ سنت کے سربراہ مولانا محمد نواز بلوچ، تحریک منہاج القرآن کے راہنما مولانا رحمت اللہ نوری، اور جمعیت اہلِ حدیث کے راہنما مولانا محمد عمر فاروق نے خطاب کیا۔ جبکہ سابق صوبائی وزیر تعلیم جناب عثمان ابراہیم بار ایٹ لاء بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔ اور پاکستان سماجی اتحاد کے راہنما شیخ عبد الستار قادری نے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیے۔ مجلسِ مذاکرہ میں مذکورہ بالا راہنماؤں کے علاوہ مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔
جناب محمد اکرم چوہان ایڈووکیٹ نے مذاکرہ کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا تحفظ ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی بھی سچے پیغمبر کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ ہمارا ایمان ہے لیکن مغربی قوتیں ہمیں اس ایمان اور محبتِ رسولؐ سے محروم کر دینا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گستاخئ رسولؐ پر موت کی سزا کا قانون موجود ہے لیکن حکومتِ پاکستان مغربی قوتوں کے دباؤ پر اس قانون میں ترامیم کر کے اسے غیر مؤثر بنا دینا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گستاخئ رسولؐ کے سلسلہ میں کسی اطلاع کے درست ثابت نہ ہونے پر اطلاع دینے والے کو دس سال قید کی سزا اور مقدمہ کے اندراج سے قبل ڈپٹی کمشنر کی انکوائری کی شرط عملاً توہینِ رسالتؐ پر موت کی سزا کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ موجودہ عدالتی سسٹم میں اس صورت میں کوئی شخص گستاخئ رسولؐ کے واقعہ کی اطلاع دینے کا حوصلہ نہیں کر سکے گا، اور توہینِ رسالتؐ کے مقدمہ کا اندراج صرف ایک ڈپٹی کمشنر کی صوابدید پر موقوف ہو کر رہ جائے گا۔ اس لیے حکومتِ پاکستان کی مجوزہ ترامیم کو کسی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے علماء کرام اور وکلاء پر زور دیا کہ وہ اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کریں اور توہینِ رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون کو بے اثر بنانے کی اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے منظم جدوجہد کریں۔
مولانا محمد اعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت و محبت ہمارے ایمان کی بنیاد ہے اور اس کے بغیر کسی شخص کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ توہینِ رسالتؐ پر موت کی سزا کا قانون شریعتِ اسلامیہ کا قانون ہے جس کو ختم کرنے یا غیر مؤثر بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اور علماء کرام اس سلسلہ میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
مولانا محمد نواز بلوچ نے مجلسِ مذاکرہ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں مغرب کے اثرات میں مسلسل اضافہ اور ہمارے مذہبی معاملات میں مغربی حکومتوں کی مداخلت کے حوالے سے علمائے کرام کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے کیونکہ وہی اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا کر کے قوم کو اس بحران سے نکال سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علماء کرام کو گروہی انا اور فرقہ وارانہ کشمکش کے دائرے سے نکلنا ہو گا ورنہ وہ اپنا کردار صحیح طور پر ادا نہیں کر سکیں گے۔
مولانا رحمت اللہ نوری نے کہا کہ اصل ضرورت قوم میں وحدت کے جذبہ کو ابھارنے اور دینی غیرت  کو بیدار کرنے کی ہے۔ اور یہ کام علماء کرام اور دانشور مل کر کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام اور پاکستان کے خلاف مغرب کی سازشوں کو بے نقاب کرنا وقت کا سب سے ہم تقاضہ ہے۔
مولانا نصرت اللہ مجددی نے کہا کہ علماء کرام نے اس سے قبل بھی جب اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے، قوم نے ان کا ساتھ دیا ہے۔ اور اب بھی علماء کرام متحد ہو جائیں تو وہ بڑی سے بڑی طاقت کو شکست دے سکتے ہیں۔
مولانا محمد عمر فاروقی نے کہا کہ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کو برداشت نہیں کر سکتے، اس لیے حکومت کو مسلمانوں کے جذبات سے نہیں کھیلنا چاہیے۔
سردار محمد عارف ایڈووکیٹ نے کہا کہ مغربی قوتیں پاکستان کو اس کے اسلامی تشخص سے محروم کرنے کے لیے پوری طرح سرگرمِ عمل ہیں اور بے شمار لابیاں اس سلسلہ میں منظم کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مغرب والے ہم پر بنیاد پرست ہونے کا الزام لگاتے ہیں لیکن سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین اور پاکستان کے گستاخِ رسول عیسائیوں کو جس طرح مغربی حکومتوں نے پذیرائی بخشی ہے اس سے پوری طرح اندازہ ہو جاتا ہے کہ اصل بنیاد پرست کون ہے۔
مہمان خصوصی جناب عثمان ابراہیم بارایٹ لاء نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت مغرب کی سرپرستی میں کام کر رہی ہے اور مغرب کے اثرات کو ہمارے معاشرہ میں پھیلانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس لیے علماء اور دانشوروں کو چاہیے کہ وہ اس حکومت سے قوم کو نجات دلانے کے لیے جدوجہد کریں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکمرانوں کے کارناموں کی ذمہ داری میں وہ لوگ بھی برابر کے شریک ہیں جو اس حکومت کو برسراقتدار لانے کا باعث بنے ہیں۔ اس لیے عوام کو ان سے خبردار رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ اب عوام کے ہاتھ میں ہے اور عوام اگر اپنی رائے کا صحیح استعمال کریں تو موجودہ حکومت سے نجات حاصل کرنا مشکل نہیں ہے۔
مجلسِ مذاکرہ کے صدر جناب چودھری جلیل احمد خان ایڈووکیٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جو باتیں یہاں کہہ رہے ہیں ان پر عمل بھی کریں، کیونکہ جناب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں کامیابی عمل اور کردار کی بنیاد پر حاصل کی تھی، اور آپؐ نے اس بات کی تلقین فرمائی ہے کہ ہم جو کچھ زبان سے کہتے ہیں اس پر عمل کا اہتمام کریں۔
مجلسِ مذاکرہ سے ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے تفصیلی خطاب کیا اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغربی لابیوں کی مہم کا جائزہ لیتے ہوئے علمائے کرام اور دانشوروں پر زور دیا کہ وہ مغرب کے چیلنج کو سمجھنے کی کوشش کریں، جو کمیونزم کے ساتھ سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد اسلامی تہذیب و معاشرت کے خلاف مورچہ زن ہو گیا ہے۔ اور ’’انسانی حقوق‘‘ کے نام پر نہ صرف اسلامی احکام و قوانین کا مذاق اڑایا جا رہا ہے بلکہ عالمِ اسلام میں مغرب پرست مسلمان حکومتوں کے ذریعے اسلامی معاشرت کے اثرات کو مٹانے کے لیے بھی پوری قوت صَرف کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین اور پاکستان کے گستاخانِ رسولؐ کی پشت پناہی کر کے مغربی حکومتوں نے واضح کر دیا ہے کہ مغرب دراصل مسلمانوں کے خلاف عقیدہ کی جنگ لڑ رہا ہے، اور ملتِ اسلامیہ کو اس کے عقائد سے محروم کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی خوفناک نظریاتی جنگ ہے جس کا ادراک کرنا ضروری ہے کیونکہ مغربی حکومتیں اور لابیاں قادیانیوں اور گستاخانِ رسولؐ کی پشت پناہی کر کے صرف ہمارے عقیدۂ ختمِ نبوت اور محبتِ رسولؐ کو چیلنج نہیں کر رہیں بلکہ جرائم کی شرعی سزاؤں کو بھی وحشیانہ اور ظالمانہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اور نکاح و طلاق کے حوالے سے ہمارے مذہبی قوانین کو بین الاقوامی معیار کے منافی قرار دے کر انہیں تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم مغرب کی مہم کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں اور پورے حوصلہ، تدبر اور جرات کے ساتھ اس کے مقابلہ کا اہتمام کریں۔

جداگانہ انتخابات اور انسانی حقوق

ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کی ماہانہ فکری نشست ۱۹ اپریل ۱۹۹۵ء کو بعد نماز عصر مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں مولانا زاہد الراشدی کی زیرصدارت منعقد ہوئی جس میں متعدد رفقاء نے شرکت کی۔ جبکہ جناب محمد اقبال بھٹی ایڈووکیٹ، پروفیسر حافظ عبید اللہ عابد، راؤ مظفر حسین اور صدر نشست نے ’’جداگانہ انتخابات اور انسانی حقوق‘‘ کے عنوان پر اظہار خیال کیا۔
مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ بعض مخصوص لابیوں کی طرف سے پاکستان میں جداگانہ انتخابات کے قانون کو اقلیتوں کے انسانی حقوق کے منافی قرار دینے کی جو مہم جاری ہے وہ غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ کیونکہ اقلیتوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے اسمبلیوں میں جداگانہ نمائندگی کا حق ان کے سیاسی حقوق کے تحفظ کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر میں مسلمانوں نے اپنی سیاسی اور آئینی جدوجہد کا آغاز ہی جداگانہ تشخص اور جداگانہ انتخاب کے ذریعے علیحدہ نمائندگی کے مطالبات سے کیا اور اسی کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا۔
مقررین نے کہا کہ جداگانہ انتخابات کی نفی قیامِ پاکستان کے سیاسی پس منظر اور دو قومی نظریہ کی نفی ہے جس کی پاکستان میں اجازت نہیں دی جا سکتی۔
مقررین نے کہا کہ پاکستان میں سنجیدہ مسیحی تنظیمیں اب تک جداگانہ انتخابات کا مطالبہ کرتی رہی ہیں، اور امرِ واقعہ یہ ہے کہ جداگانہ انتخابات کے ذریعے مسیحی اقلیت کو اسمبلیوں میں جس قدر نمائندگی حاصل ہے، مخلوط الیکشن میں وہ اس کے چوتھے حصے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ لیکن بعض بین الاقوامی لابیوں کے اشارے پر چند ناعاقبت اندیش مسیحی لیڈر جداگانہ انتخابات کی مخالفت کر کے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔ 
مقررین نے کہا کہ جہاں تک سیاسی مفاد کا تعلق ہے ملک کی اسلامی مذہبی قوتوں کا مفاد اس میں ہے کہ مخلوط الیکشن ہوں کیونکہ اس صورت میں اقلیتوں کے اس قدر نمائندے اسمبلیوں میں آ ہی نہیں سکیں گے کہ وہ کسی مسئلہ میں مشکلات پیدا کر سکیں، یا ان کی آواز میں کوئی وزن ہو۔ لیکن اصول کا تقاضہ یہ ہے کہ مسیحیوں سمیت تمام اقلیتوں کو اسمبلیوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی کا حق دیا جائے، اور ایسا کرنا الیکشن کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
مقررین نے کہا کہ مسیحی اقلیت کے بعض لیڈروں کی طرف سے جداگانہ الیکشن کی مخالفت دراصل مسیحیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان کے اندر قادیانیوں کا اور عالمی سطح پر سیکولر لابیوں کا مسئلہ ہے، جس کے لیے یہ مسیحی لیڈر بلاوجہ استعمال ہو رہے ہیں، کیونکہ قادیانیوں نے اپنے بارے میں پاکستان کے دستور کا یہ فیصلہ ابھی تک تسلیم نہیں کیا کہ وہ مسلمانوں سے الگ ایک غیر مسلم اقلیت ہیں۔ اس لیے اگر وہ جداگانہ الیکشن کو تسلیم کر لیتے ہیں تو عملاً دستوری فیصلہ تسلیم ہو جاتا ہے اور وہ اقلیت کی پوزیشن میں چلے جاتے ہیں۔ جبکہ قادیانی خود کو اقلیت تسلیم نہیں کرتے اور وہ پاکستان کے دستور سے اس معاملہ میں منحرف ہیں۔ لیکن انہوں نے اس مسئلہ میں خود آگے آنے کی بجائے مسیحی اقلیت کے بعض لیڈروں کو ورغلا کر آگے کر دیا ہے اور خود پس منظر میں رہ کر جداگانہ الیکشن کے قانون کو ختم کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے شناختی کارڈ میں مذہب کے خانہ کے اضافہ کی اصل زد قادیانیوں پر پڑتی ہے کیونکہ انہیں اس صورت میں خود کو غیر مسلم ظاہر کرنا پڑتا ہے جو ان کے جماعتی موقف کے خلاف ہے۔ لیکن انہوں نے یہاں بھی مسیحی لیڈروں کو استعمال کرنے کی حکمتِ عملی اختیار کی اور مسیحی جماعتوں نے شور مچایا کہ شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے کا اضافہ ان کے بنیادی حقوق کے منافی ہے۔ حالانکہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں کسی بھی شخص کے تعارف میں اس کے مذہب کا ذکر کر دیا جائے تو اس کا کوئی انسانی حق متاثر نہیں ہوتا، سوائے اس شخص کے جو اپنے مذہب کو جان بوجھ کر چھپانا چاہتا ہے اور اپنا مذہب چھپانے کو بھی اپنا حق قرار دیتا ہے۔ ورنہ کوئی بھی شخص جو اپنے مذہب پر سچے دل سے یقین رکھتا ہے اسے اپنے مذہب کے اظہار اور مذہب کے حوالے سے اپنے تعارف پر کوئی حجاب نہیں ہو سکتا، اور نہ ہی اس سے اس کا کوئی انسانی حق پامال ہوتا ہے۔
مقررین نے کہا کہ جداگانہ الیکشن کے خلاف چند مسیحی لیڈروں کی منفی مہم کی دوسری وجہ بین الاقوامی سیکولر لابیاں ہیں جنہیں پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت اور دستور پاکستان کی اسلامی دفعات پر اعتراض ہے۔ اور وہ پاکستان کے اسلامی تشخص اور دستور پاکستان کی اسلامی دفعات کو ختم کرا کے پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتی ہیں، اور وہ اپنے سیکولر مقاصد کے لیے پاکستان کی مسیحی تنظیموں کو استعمال کر رہی ہیں۔
مقررین نے کہا کہ پاکستان میں جداگانہ الیکشن کا قانون ختم کرنے سے جہاں قیامِ پاکستان کے سیاسی اور نظریاتی پس منظر کی نفی ہو گی وہاں اس خدشہ کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ انتخابات میں مذہب کا حوالہ ختم کرنے کے بعد صدر پاکستان اور وزیر اعظم جیسی کلیدی اسامیوں کے لیے مسلمان ہونے کی شرط بھی ختم کر دی جائے۔ اور پھر ہارس ٹریڈنگ کے روایتی طریقوں سے کام لیتے ہوئے کسی غیر مسلم کو صدر یا وزیراعظم کے منصب پر مسلط کر دیا جائے، جو پاکستان کے خلاف مغربی قوتوں کے عزائم کی تکمیل بہتر طریقے سے کر سکے۔
مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ ملک کی مذہبی اور سیاسی جماعتیں اور اہلِ دانش اس مسئلہ کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں اور رائے عامہ کی راہنمائی کرتے ہوئے اس سلسلہ میں صورتحال کا صحیح تجزیہ لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ اور اس کے ساتھ سنجیدہ مسیحی لیڈروں سے رابطہ اور ملاقاتیں کر کے انہیں بھی یہ بات سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ وہ عالمی سیکولر لابیوں اور پاکستان کی قادیانی اقلیت کے مفادات کے لیے استعمال نہ ہوں اور جداگانہ انتخابات کی مخالفت کر کے اسمبلیوں میں مسیحیوں کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی کے مواقع کو ضائع نہ کریں۔

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’خطباتِ سواتی‘‘

حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی دامت برکاتہم گذشتہ نصف صدی سے جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں خطبات کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ اور شہر کا تعلیم یافتہ طبقہ خصوصیت کے ساتھ ان کے خطبات سے مستفید ہوتا ہے۔ دینی مسائل و احکام کی وضاحت، روزہ مرہ پیش آنے والے معاملات میں راہنمائی، اور باطل نظریات و عقائد کا رد ان خطبات کا خصوصی امتیاز ہے۔ حضرت صوفی صاحب مدظلہ کے دروسِ قرآن کریم اور دروسِ حدیث کے مرتب الحاج لعل دین ایم اے نے خطبات کو مرتب کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے جو بلاشبہ علوم و معارف کے ایک خزینہ کو جمع کرنے کی کوشش ہے اور علماء و خطباء پر بہت بڑا احسان ہے۔
زیر نظر مجموعہ ’’خطباتِ سواتی‘‘ کی پہلی جلد ہے جس میں ۲۱ مئی ۱۹۸۲ء سے ۱۵ اکتوبر ۱۹۸۲ء تک کے ۲۲ خطباتِ جمعہ کو ترتیب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اور یہ خطبات واقعہ معراج النبیؐ، شبِ برات، رمضان المبارک، عید مبارک، اکل بالباطل، اونچی گھاٹی پر چڑھنا، آزادی اور غلامی میں امتیاز، یہودی عوام و خواص کی خرابیاں، آخرت کا گھر، شرائطِ بیعت، اور قربانی کا فلسفہ جیسے اہم موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔ پہلی جلد پونے چار سو صفحات پر مشتمل ہے اور عمدہ کتابت و طباعت کے ساتھ مضبوط جلد سے مزین ہے۔ اسے مکتبہ دروس القرآن فاروق گنج گوجرانوالہ نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت صرف ۹۰ روپے ہے۔

’’پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور تحریکیں‘‘

حافظ تقی الدین صاحب ہمارے محترم دوست ہیں، مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے سابق خطیب محدثِ پنجاب حضرت مولانا عبد العزیز سہالوی نور اللہ مرقدہ کے فرزند ہیں، اور پرانے سیاسی کارکن ہیں۔ انہوں نے سیاسی زندگی کا آغاز جمعیت علمائے ہند سے کیا اور پھر خدائی خدمت گار تحریک اور نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ زیادہ ذہنی لگاؤ کے باعث اس کیمپ میں منتقل ہو گئے اور ساری عمر وفاداری کے ساتھ وہیں گزار دی۔
حافظ صاحب موصوف نے مذکورہ بالا عنوان کے تحت اپنی یادداشتوں کو مرتب کر کے تاریخ کے حوالے کیا ہے اور اس پر اچھی خاصی محنت کی ہے۔ تاریخ کا بنیادی مواد اسی قسم کی یادداشتیں ہوتی ہیں۔ اور اس طرح انہوں نے مستقبل کے مؤرخ کے لیے اپنی یادداشتوں کا ذخیرہ پیش کر دیا ہے۔ اس مجموعہ میں تقسیمِ ہند سے قبل کی سیاسی تحریکات اور قیام پاکستان کے بعد کی سیاسی جماعتوں اور تحریکات کا تذکرہ ہے۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے محنت و مشقت کے باوجود زیادہ انحصار اپنی یادداشت پر ہی کیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے مقامات پر واقعات کی ترتیب اور واقعیت معیاری نہیں رہی۔
مثلاً جمعیت علماء اسلام کے دورِ ثانی کے حوالے سے انہوں نے مولانا مفتی محمودؒ کی طرف سے ملتان میں بلائے گئے کنونشن کا ذکر کرتے ہوئے مفتی صاحب کو خیر المدارس کا مدرس لکھا ہے۔ کنونشن کے شرکاء میں مولانا احتشام الحق تھانویؒ کا نام شامل کر دیا ہے بلکہ انہیں جمعیت کا سیکرٹری جنرل لکھ دیا ہے۔ جبکہ مولانا غلام غوث ہزارویؒ کو مغربی پاکستان کا امیر قرار دیا ہے۔ اور کنونشن کا سن انعقاد ۱۹۵۴ء لکھا ہے۔ حالانکہ ان میں سے کوئی بات بھی درست نہیں ہے۔ اگر حافظ صاحب موصوف تھوڑی سی محنت واقعات کی ترتیب کو ریکارڈ کے حوالے سے درست کرنے پر صَرف کر لیتے تو ان کی اس کاوش کی افادیت دوچند ہو جاتی۔
بہرحال حافظ تقی الدین کی محنت قابلِ داد ہے اور دیگر سیاسی نظریاتی کارکنوں کے لیے اپنی یادداشتوں کو مرتب کرنے کی اچھی ترغیب ہے۔ چھ سو صفحات کی یہ ضخیم کتاب ’’فکشن ہاؤس ۱۸ مزنگ روڈ لاہور‘‘ نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت تین سو روپے ہے۔

’’سید امین گیلانی کی تصانیف‘‘

الحاج سید امین گیلانی کا شمار ملک کے ممتاز شعراء میں ہوتا ہے اور وہ بزم سے زیادہ رزم کے شاعر ہیں۔ تحریک آزادی، تحریک ختم نبوت، تحریک نفاذ شریعت اور دیگر دینی و قومی تحریکات میں انہوں نے جس انداز میں لوگوں کے دلوں کو گرمایا اور برمایا ہے، وہ ان تحریکات کی تاریخ کا ایک مستقل باب ہے۔ گیلانی صاحب کے متعدد شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ اور اس کے علاوہ وہ اکابر علماء حق کے ساتھ رفاقت کے دنوں کی یادیں صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے کا بھی ذوق رکھتے ہیں اور ان کی یادداشتوں کے کئی مجموعے چھپ چکے ہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے درج ذیل کتابچے ہیں:

(۱) ’’دو بزرگ‘‘

اس میں شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ اور حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ کے واقعات اور ان کے بارے میں یادداشتیں درج ہیں۔

(۲) ’’بخاریؒ کی باتیں‘‘

اس میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کے واقعات جمع کیے گئے ہیں۔

(۳) ’’صنم کدے میں اذان‘‘

یہ الحاج سید امین گیلانی کی نظموں کا مجموعہ ہے جن کے ذریعے وہ عام اجتماعات میں دینی حمیت کی جوت جگاتے رہے ہیں۔
یہ کتابیں ادارہ سادات، شرق پور روڈ، شیخوپورہ نے شائع کی ہیں۔

’’عبدہ و رسولہ‘‘

الحاج سید امین گیلانی کے فرزند سید سلمان گیلانی کو اللہ رب العزت نے ان کے والد محترم کا شعری ذوق منتقل کیا ہے اور وہ بالکل انہی کی طرز پر دینی و قومی اجتماعات میں توحید و رسالتؐ، ختمِ نبوت، مدحِ صحابہؓ اور اکابر علماء حق کی جدوجہد کے حوالے سے نغمے اور ترانے پیش کر رہے ہیں۔ زیر نظر مجموعہ ان کی نعتیہ نظموں پر مشتمل ہے جن میں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور نذرانۂ عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ یہ مجموعہ بھی ادارہ سادات، شرق پور روڈ، شیخوپورہ نے شائع کیا ہے۔

جولائی ۱۹۹۵ء

ملی یکجہتی کونسل کی اپیل پر ملک گیر ہڑتالمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اجتہاد کی شرعی حیثیتشیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ
غیر حنفی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا مسئلہمولانا مفتی محمد عیسی گورمانی
آہ! حضرت جی مولانا انعام الحسنؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ملی یکجہتی کونسل کی اپیل پر ملک گیر ہڑتال

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ملی یکجہتی کونسل پاکستان کی اپیل پر ۲۷ مئی کو ملک بھر میں مکمل ہڑتال ہوئی اور اخبارات کی رپورٹ کے مطابق اس روز پورے ملک میں کاروبار زندگی معطل رہا۔ راقم الحروف کو جنگ کراچی کے اقراء میگزین کے انچارج مفتی محمد جمیل خان کے ہمراہ راہوالی، گکھڑ، کامونکی، مریدکے اور لاہور میں شاہدرہ، ماڈل ٹاؤن، گلبرگ، قصور روڈ اور دیگر مقامات پر جانے اور ہڑتال کی صورتحال کا جائزہ لینے کا موقع ملا اور یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ کم و بیش ہر طبقہ کے لوگوں نے ہڑتال کی اپیل پر لبیک کہا ہے۔ نہ صرف کاروبار بلکہ ٹریفک بھی بند تھی اور ہر اہم مقام پر ملی یکجہتی کونسل کے کارکن اکا دکا چلنے والی گاڑیوں کو ہڑتال کی پابندی کی تلقین کے لیے کھڑے تھے۔ خود ہمیں بھی بعض مقامات پر روکا گیا مگر ہم یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے کہ ہمارا تعلق صحافت سے ہے اور ہم ہڑتال کا جائزہ لے رہے ہیں۔

ہڑتال کی اس طرح کامیابی کے اسباب میں سب سے بڑا سبب تو یہ تھا کہ ملی یکجہتی کونسل کی صورت میں پاکستان کے عوام کو اپنی اس پرانی اور دلی خواہش کی تکمیل کی جھلک نظر آرہی تھی کہ دینی مکاتب فکر کے قائدین متحد ہو کر قومی معاملات میں راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیں۔ اور دوسری بڑی وجہ پاکستان کے قومی و دینی معاملات میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی بڑھتی ہوئی مداخلت سے ملک کے عوام ازحد پریشان ہیں اور اس کے خلاف کسی مضبوط ردعمل کا اظہار چاہتے ہیں۔ چنانچہ ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے قانون میں حکومت کی طرف سے مجوزہ ترامیم کے خلاف ملی یکجہتی کونسل کی ہڑتال کی اپیل پر عوام نے متفقہ طور پر لبیک کہہ کر اس ردعمل کے اظہار کا آغاز کر دیا ہے۔

توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کا قانون ان مسائل میں سے ایک ہے جو امریکہ اور دیگر مغربی حکومتوں کی مسلسل مداخلت کا شکار ہیں۔ جب سے پاکستان میں شانِ رسالتؐ میں گستاخی پر موت کی سزا کا قانون نافذ ہوا ہے مغربی حکومتوں اور لابیوں کا اضطراب و احتجاج بڑھتا جا رہا ہے اور حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ اس قانون کو منسوخ کیا جائے۔ جبکہ پاکستان کی رائے عامہ کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا کسی بھی حکومت کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے حکومت پاکستان نے مغربی حکومتوں کو مطمئن کرنے کے لیے ایک درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کی کہ گستاخی رسولؐ پر موت کی سزا کو تو برقرار رکھا جائے لیکن مقدمہ کے اندراج کا طریق کار ایسا مشکل بنا دیا جائے کہ کسی گستاخ رسولؐ کو موت کی سزا تک پہنچانا عملاً ممکن نہ رہے۔ چنانچہ وفاقی کابینہ کے فیصلے کے حوالے سے یہ خبر سامنے آئی ہے کہ شانِ رسالتؐ میں گستاخی کے ارتکاب پر مقدمہ کا اندراج ڈپٹی کمشنر کی انکوائری کے ساتھ مشروط کر دیا جائے گا اور کسی پر توہین رسالتؐ کا غلط الزام لگانے والے شخص، یا اس شخص کو جس کا الزام پایہ ثبوت تک نہ پہنچ سکے، دس سال کی سزا دی جائے گی۔

یہ ترامیم اس قانون کو عملاً معطل کر دینے والی ترامیم ہیں اور اسی طرح کا حیلہ ہے جیسا تاریخ کی کتابوں میں عباسی خلیفہ منصورؒ کے حوالے سے مذکور ہے۔ مشہور مؤرخ عسکریؒ نے ’’اوائل میں لکھا ہے کہ منصور کے ایک شرابی دوست ابن شبرمہ کو شراب پینے پر بار بار کوڑے پڑنے لگے تو اس نے خلیفہ منصور سے مداخلت کی درخواست کی۔ منصور نے کہا کہ میں شراب نوشی کی شرعی سزا ۸۰ کوڑوں میں تو کوئی ترمیم نہیں کر سکتا، البتہ یہ حکم جاری کر دیتا ہوں کہ اگر کوئی شخص ابن شبرمہ کو شراب پینے کی حالت میں پکڑ کر حاکم کے پاس لائے تو ابن شبرمہ کو شریعت کے مطابق ۸۰ کوڑے ضرور لگائے جائیں مگر پکڑ کر لانے والے کو بھی سو کوڑے مارے جائیں۔ اس طرح خلیفہ منصور شرعی قانون میں مداخلت کے الزام سے بچ گیا مگر اس کے بعد کسی شخص کو ابن شبرمہ پر شراب نوشی کا الزام عائد کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔

گستاخ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کے قانون کے اندراج کے طریق کار میں وفاقی کابینہ کی تجویز کردہ ان ترامیم کو تحریک تحفظ ناموس رسالتؐ اور ملی یکجہتی کونسل نے مسترد کر دیا اور قوم نے ۲۷ مئی کو ہڑتال کی اپیل کی جس پر ملک بھر میں کاروبار زندگی معطل کر کے پاکستان کے عوام نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اس مسئلہ پر دینی جماعتوں کے ساتھ ہیں۔ اس ہڑتال سے جہاں دینی جماعتوں کو یہ حوصلہ ملا ہے کہ اگر آج بھی وہ متحد ہو کر دینی معاملات میں قوم کی راہنمائی کے لیے میدان عمل میں نکلیں تو قوم انہیں مایوس نہیں کرے گی، وہاں پاکستان کے عوام نے مغربی حکومتوں اور لابیوں کو بھی یہ الارم دے دیا ہے کہ مغربی لابیاں اور ورلڈ میڈیا اسلامی احکام و قوانین کے خلاف جس قدر چاہیں پراپیگنڈا کر لیں اور دینی جماعتوں کی کردار کشی کی جو صورت بھی چاہیں اختیار کر لیں پاکستانی قوم دینی معاملات میں بہرحال اپنی دینی قیادت کے ساتھ ہے۔

البتہ اس ہڑتال کے حوالہ سے دو حلقوں کا ردعمل جو ہڑتال کے بعد سامنے آیا ہے، قابل توجہ ہے۔ ایک اقلیتی محاذ برائے مساوی حقوق کا جس کے چیئرمین ضیاء کھوکھر صاحب کا بیان جنگ لاہور میں ۲۸ مئی کو شائع ہوا ہے۔ اس بیان میں انہوں نے ۲۷ مئی کی کامیاب ہڑتال پر مذہبی و دینی جماعتوں کے راہ نماؤں کو مبارک باد پیش کی ہے اور ساتھ ہی تعزیرات پاکستان کی دفعہ سی ۲۹۵ کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر اس دفعہ کو ختم نہ کیا گیا تو ملک بھر کی مسیحی تنظیمیں ایک دن کی مکمل ہڑتال کریں گی۔ اب معلوم نہیں کہ کھوکھر صاحب ان دونوں متضاد باتوں میں سے سنجیدہ کس بات پر ہیں؟ کیونکہ دفعہ سی ۲۹۵ اسی قانون کا عنوان ہے جس میں توہین رسالتؐ پر موت کی سزا مقرر کی گئی ہے اور ملی یکجہتی کونسل کی ۲۷ مئی کی ہڑتال اسی قانون کے تحفظ بلکہ اس کے طریق کار تک میں تبدیلی کے امکانات کو مسترد کرنے کے لیے ہوئی ہے۔ مگر ضیاء کھوکھر صاحب اس دفعہ کے تحفظ کے لیے کی جانے والی ہڑتال کی کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے اسی قانون کے خاتمہ کے لیے ہڑتال کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اب یا تو کھوکھر صاحب سی ۲۹۵ سے واقف نہیں ہیں یا انہیں ہڑتال کے مقاصد کا علم نہیں ہے، اگر وہ دونوں باتوں کو جانتے ہیں تو معلوم نہیں کہ اس بیان کے ذریعے وہ کس کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں؟

دوسرا ردعمل بعض مذہبی جماعتوں کے راہ نماؤں کی طرف سے سامنے آیا ہے جو کھوکھر صاحب موصوف کے بیان سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے۔ روزنامہ جنگ لاہور ۲۹ مئی میں شائع شدہ ایک خبر کے مطابق لاہور میں بعض مذہبی تنظیموں کا اجلاس ہوا جس کے شرکاء میں قاضی عبد القدیر خاموش، منیر حسین گیلانی، علامہ ریاض الرحمان یزدانی، مولانا محمد اصغر فاروق، سید حیدر فاروق مودودی، صاحبزادہ سید سعید شاہ گجراتی اور علامہ سعید الرشید عباسی کے نام نمایاں ہیں۔ اس اجلاس میں منظور کی جانے والی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ

’’ملی یکجہتی کونسل کی سرگرمیوں کا مقصد ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا ہے تاکہ حکومت اطمینان سے اقوام عالم کے ساتھ معاہدات کر کے ملک کو ایک فلاحی ریاست بنانے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ کر سکے۔‘‘

اجلاس میں ان ’’علمائے کرام‘‘ نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ ’’اسلام کو مولویت کی اجارہ داری سے نجات دلائی جائے‘‘۔ ہمارے خیال میں یہ علماء کرام اتنی بات کو صحیح سمجھے ہیں کہ ۲۷ مئی کی ہڑتال اقوام عالم کے ساتھ حکومت پاکستان کے ہونے والے معاہدات میں اطمینان کا عنصر غائب کرنے میں بہرحال کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ لیکن اقوام عالم کے ساتھ مجوزہ معاہدات سے شاید یہ بزرگ خود بھی واقف نہیں ہیں ورنہ اتنے شرح صدر کے ساتھ ہڑتال کے کریڈٹ کو ڈس کریڈٹ میں تبدیل کرنے کا اہتمام نہ فرماتے- ان حضرات کو شاید یہ خبر نہیں کہ اقوام عالم ہم اہل پاکستان سے جن امور پر معاہدات چاہتی ہیں اور جن کے لیے میڈیا اور لابنگ کی پوری صلاحیتیں صرف کی جا رہی ہیں ان کا تعلق دو دستاویزات سے ہے۔ ایک دستاویز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر پر مشتمل ہے جس کو من و عن قبول کرنے کا ہم سے مطالبہ کیا جا رہا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم اپنے وہ تمام قوانین منسوخ یا تبدیل کر دیں جو انسانی حقوق کے اس چارٹر سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس چارٹر کی اب تک مغربی حلقوں کی طرف سے کی جانے والی تشریح کے مطابق :

  1. توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کا قانون،
  2. ہاتھ کاٹنے، کوڑے مارنے، سنگسار کرنے، سولی دینے اور مجرم کو کھلے بندوں سزا دینے کے قوانین،
  3. قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے اور اسلام کا نام استعمال کرنے سے روکنے کے قوانین،
  4. اقلیتوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے جداگانہ الیکشن کے ذریعہ نمائندگی دینے کا قانون، اور دیگر بہت سے اسلامی احکام و قوانین انسانی حقوق کے منافی ہیں اور اقوام عالم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان قوانین کا خاتمہ ضروری ہے۔

دوسری دستاویز گزشتہ سال قاہرہ میں اقوام متحدہ کے زیراہتمام منعقد ہونے والی عالمی بہبود آبادی کانفرنس کی قراردادیں اور فیصلے ہیں جن میں دنیا بھر کی حکومتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ

  1. شادی کے بغیر جنسی تعلقات اور ناجائز بچے کے ساتھ ساتھ کنواری ماں کو بھی سماجی اور قانونی تحفظ فراہم کریں،
  2. ہم جنس پرستی (لواطت) کو قانونی تحفظ دیں،
  3. اور آزادانہ جنسی اختلاط اور مانع حمل اشیاء کی کھلے بندوں فراہمی کی ضمانت دیں۔

اس کے ساتھ ان علماء کرام کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ آج کل اقوام عالم کی طرف سے ہم پر شادی اور طلاق کے قوانین کو بین الاقوامی معیار کے مطابق تبدیل کرنے کے لیے بھی مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ اور نکاح و طلاق کا بین الاقوامی معیار اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق یہ ہے کہ

’’پوری عمر کے مردوں اور عورتوں کو نسل، قومیت یا مذہب کی کسی تحدید کے بغیر باہم شادی کرنے اور خاندان کی بنیاد رکھنے کا حق حاصل ہے۔ شادی، دوران شادی اور اس کی تنسیخ کے سلسلہ میں وہ مساوی حقوق رکھتے ہیں۔‘‘ (دفعہ ۱۶ چارٹر انسانی حقوق اقوام متحدہ)

اس لیے یہ بات درست ہے کہ موجودہ حکومت ’’اقوام عالم‘‘ کی ان خواہشات اور تقاضوں کو پورا کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے اور ایسے معاہدات کے لیے بے چین ہے جو پاکستان کو اقوام عالم کے مزعومہ معیار کے مطابق ڈھالنے میں مفید ثابت ہو سکیں۔ لیکن ملی یکجہتی کونسل کی سنجیدہ جدوجہد اور اس کی اپیل پر ۲۷ مئی کو پاکستانی قوم کی طرف سے ملک گیر مکمل ہڑتال نے بہرحال اس پیش رفت میں رکاوٹ ڈال دی ہے۔ اور اب اس سمت آگے بڑھنے سے قبل حکومت اور اقوام عالم دونوں کو اپنی حکمت عملی اور ترجیحات کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا کیونکہ رائے عامہ کی قوت کو نظر انداز کرنا آج کے دور میں کسی کے بس کی بات نہیں رہی۔ یہ قومی اور دینی مقاصد کی طرف ایک مثبت اور مؤثر پیش رفت ہے جس پر ملی یکجہتی کونسل کے قائدین بجا طور پر مبارکباد اور تحسین کے مستحق ہیں۔

اجتہاد کی شرعی حیثیت

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ انسانی ضروریات اور انسانی ماحول ایک حالت پر قائم رہنے والی چیز نہیں ہے، اور تمدنی ترقیات کے ساتھ ہی ساتھ انسانی ضروریات کا تبدیل ہونا ضروری امر ہے۔ لہٰذا آپؐ نے بہت سی فرعی باتوں سے متعلق خود احکام صادر فرمانے مناسب نہیں سمجھے، اور ان لوگوں کے فہم و فراست پر فیصلہ چھوڑ دیا ہے جو قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کی کتاب اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا آخری پیغمبر مانتے اور کتاب و سنت کے اصولی احکام کو واجب التعمیل جانتے ہیں۔
کتاب و سنت کے قوانین کو لازمی اور قابلِ عمل جاننے والوں کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اجتہاد و تفقہ سے کام لیں اور کتاب و سنت کی روشنی میں ضروری اور ہنگامی قانون بنائیں۔ اس کو فقہ اور قیاس کہتے ہیں۔ اور مجتہد مصیب بھی ہو سکتا ہے اور مخطی بھی۔ لیکن اگر صاحبِ اجتہاد نے اپنی پوری طاقت اور وسعت صَرف کی اور مع ہذا اس سے غلطی ہو گئی، تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے بلکہ وہ ماجور ہو گا اور اللہ تعالیٰ کی رحمتِ بے پایاں سے ثواب کا مستحق ہو گا۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا حکم الحاکم فاجتہد و اصاب فلہ اجران، واذا حکم فاجتہد واخطا فلہ اجر واحد۔ (بخاری ج ۲ ص ۱۰۹۲ و مسلم ج ۲ ص ۷۶ و مشکوٰة ج ۲ ص ۳۲۴)
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی فیصلہ کرنے والا فیصلہ کرے اور اجتہاد کرتے ہوئے درست فیصلہ کرے تو اس کو دوہرا اجر ملے گا۔ اگر اس سے خطا سرزد ہو تو اس کو ایک ہی اجر ملے گا۔‘‘
اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی محنت اور مشقت کو ہرگز رائیگاں نہیں کرتا، تو اجتہاد کرتے وقت جو تکلیف اور کاوش مجتہد کو ہوئی ہے اللہ تعالیٰ اس پر اس کو ضرور ایک اجر مرحمت فرمائے گا۔ اور اصابتِ رائے کی صورت میں ایک اجر اجتہاد کا اور ایک اصابتِ رائے کا اس کو حاصل ہو گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ مجتہد صحیح معنی میں مجتہد ہو۔ ورنہ ’’القضاۃ ثلاثہ‘‘ کی حدیث میں اس کی تصریح ہے کہ جاہل آدمی کا فیصلہ اس کو دوزخ میں لے جائے گا (رواہ ابوداؤد، ابن ماجہ، مشکوٰۃ ج ۲ ص ۳۲۴)۔
اس صحیح روایت سے اجتہاد کا درست ہونا، اور خطا کی صورت میں مجتہد کا معذور بلکہ ماجور ہونا صراحت سے ثابت ہوا۔ صرف بطور تائید و شاہد کے حضرت معاذ بن جبلؓ (المتوفی ۱۸ھ) کی روایت بھی سن لیجئے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو اس وقت آپؐ نے حضرت معاذ سے فرمایا کہ
کیف تقضی اذا عرض لک قضاء؟ قال اقضی بکتاب اللہ۔ قال فان لم تجد فی کتاب اللہ؟ قال فبسنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ قال فان لم تجد فی سنة رسول اللہ؟ قال اجتہاد برایی ولا آلو۔ قال فضرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی صدرہ و قال الحمد للہ الذی وفق رسول رسول اللہ لما یرضی بہ رسول اللہ۔ (رواہ الترمذی و ابوداؤد والدارمی و مشکوٰة ج ۲ ص ۳۲۴)
’’تو کس طرح فیصلہ کرے گا جب تیرے سامنے کوئی جھگڑا پیش ہوا؟ حضرت معاذؓ نے عرض کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر کتاب اللہ میں تجھے وہ بات نہ مل سکے؟ عرض کیا تو پھر سنتِ رسول اللہ کے موافق فیصلہ کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر سنتِ رسول اللہ میں بھی نہ ہو؟ تو حضرت معاذؓ نے عرض کیا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔ یہ سن کر آپؐ نے فرمایا کہ الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے قاصد کو اس چیز کی توفیق عطا فرمائی جس پر اللہ تعالیٰ کا رسول راضی ہے۔‘‘
حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (المتوفی ۷۷۴ھ) اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: باسناد جید کما ہو مقرر فی موضعہ (تفسیر ج ۱ ص ۳) ۔ اس روایت کی سند عمدہ اور کھری ہے جیسا کہ اپنے موقع پر ثابت ہے۔
اس روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کے اس جواب پر کہ اجتہد برایی (کہ میں قیاس اور رائے سے کام لوں گا) اللہ تعالیٰ کا شکر ادا فرمایا اور اظہارِ مسرت کیا۔ جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے فروعی قوانین کو منجمد رکھنا پسند نہیں فرمایا بلکہ ضرورت کے پیش نظر ایسے قوانین کو استقرائی رکھنا چاہا ہے۔ تاکہ انسان کے قوائے دماغیہ کی نشوونما اور انسانی ترقیات میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہو سکے۔ 
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ (المتوفی ۱۳ھ) کے پاس جب کوئی مقدمہ پیش ہوتا تھا تو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کو تلاش کرتے تھے، ورنہ اجتہاد سے کام لیتے تھے۔
ان ابابکرؓ اذا نزلت بہ قضیہ لم یجد لھا فی کتاب اللہ اصلاً ولا فی السنہ اثرا فقال اجتہد برایی فان یکن صوابا فمن اللہ وان یکن خطا فمنی واستغفر اللہ۔ (طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۱۳۶)
’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی مقدمہ پیش ہوتا تھا تو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اگر ان کو اس کی وضاحت نہ ملتی تو فرماتے: میں اپنی رائے سے اجتہاد کرتا ہوں، اگر درست ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کی عنایت ہو گی، ورنہ میری خطا ہو گی اور میں اللہ سے معافی چاہتا ہوں۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشہور تابعی قاضی شریحؒ (المتوفی ۸۵ھ) کو خط لکھا۔ اس میں کتاب و سنت اور اجماع کے بعد خاص طور پر اجتہاد کرنے کا ذکر ہے۔ (دیکھیے مسند دارمی ص ۳۴ و مثلہ فی کنز العمال ج ۳ ص ۱۷۴)
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بھی اجماع کے بعد قیاس اور اجتہاد کرنے کا حکم دیا کرتے تھے (مسند دارمی ص ۳۴)۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کا یہ معمول تھا کہ جب کتاب و سنت کے بعد حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ سے کوئی ثبوت نہ مل سکتا تو قال فیہ برایہ (مسند دارمی ص ۳۳ و مستدرک ج ۱ ص ۱۲۷ و قالا صحیح علی شرطہما) اپنی رائے سے کام لیتے تھے۔
الغرض جمہور اہلِ اسلام قیاسِ شرعی کو صحیح اور حجت تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’جمہور از صحابہؓ و تابعین و فقہاء و متکلمین باں رفتہ کہ اصلے از اصولِ شریعت است استدلال میرود بداں بر احکام واردہ بسمع و ظاہریہ انکارش کردہ اند۔‘‘ (افادۃ الشیوخ ص ۱۲۲)
’’جمہور صحابہؓ و تابعینؒ اور فقہاء و متکلمین اس کے قائل ہیں کہ قیاس شریعت کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے، اس کے احکام واردہ بسمع میں باقاعدہ استدلال صحیح ہے اور اہلِ ظاہر نے قیاس کا انکار کیا ہے۔‘‘
اہلِ ظاہر کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ انہوں نے غلطی سے یہ سمجھا کہ غیر نبی کو یہ مقام کیسے حاصل ہو گیا کہ وہ دین کی باتوں میں دخل دے۔ اعتراض بظاہر بڑا معقول اور وزنی ہے مگر حقیقت سے بالکل دور ہے۔ اس لیے کہ موجبِ حکم مجتہد اور قائس کا قیاس و اجتہاد نہیں ہے، بلکہ موجب اصل میں وہی شرعی دلیل ہے جو قرآن کریم اور حدیث وغیرہ سے تعبیر کی جاتی ہے۔ مجتہد کا کام صرف اتنا ہے کہ مسکوت عنہ جزئی کی کڑی دلیلِ شرعی سے جوڑ دیتا ہے اور بس۔ چنانچہ مشہور فیلسوفِ اسلام علامہ ابن رشد ابو الولید محمد بن احمد (المتوفی ۵۹۵ھ) لکھتے ہیں:
واما القیاس الشرعی فھو الحاق الحکم الواجب لشی ما بالشرع بالشی الذی اوجب الشرع لہ ذٰلک الحکم او لعلہ جامعہ بینھما۔ (بدایة المجتہد ج ۱ ص ۳)
’’قیاسِ شرعی اس کو کہتے ہیں کہ جو حکم شریعت میں کسی چیز کے لیے ثابت ہو چکا ہو، اس حکم کو اس چیز کے اوپر بھی چسپاں کیا جائے جو مسکوت عنہ ہے۔ یا تو اس لیے کہ یہ اس کے مشابہ ہے، اور یا اس لیے کہ ان دونوں میں علت جامعہ مشترک ہے۔‘‘
نواب صاحبؒ اس کی تعبیر یوں کرتے ہیں:
’’و اما قیاس پس در اصطلاح فقہاء حمل معلوم بر معلوم است در اثبات حکم یا نفی او بامر جامع میان ہر دو از حکم یا صفت و اختارہ جمہور المحققین‘‘۔ (افادۃ الشیوخ ص ۱۲۱)
مولانا حافظ محمد عبد اللہ صاحب روپڑی لکھتے ہیں:
’’جب انسان کو کوئی مسئلہ قرآن و حدیث سے صراحتاً نہیں ملتا تو وہ قرآن و حدیث میں اجتہاد و استنباط کرتا ہے۔ اور وہ اجتہاد و استنباط قرآن و حدیث سے الگ نہیں کہلاتا۔ اسی طرح صحابی کے اس قول کو، جو اجتہاد و استنباط کی قسم سے ہو، اس کو قرآن وحدیث سے الگ نہ سمجھنا چاہیے بلکہ قرآن و حدیث میں داخل سمجھنا چاہیے۔‘‘ (بلفظہ ضمیمہ رسالہ اہل حدیث ص ۷)

اجتہاد کی اہلیت

یہ بات طے شدہ ہے کہ اجتہاد کے لیے چند نہایت ضروری شرطیں ہیں، جن میں وہ نہ پائی جا سکیں ان کی بات ہرگز حجت نہیں ہو سکتی۔ حتیٰ کہ صوفیاء کرامؒ کی باتیں بھی شرعاً کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، الّا یہ کہ وہ شریعت کے موافق ہوں۔ چنانچہ علامہ قاضی ابراہیم الحنفی (المتوفی حدود ۱۰۰۰ھ) لکھتے ہیں:
’’اور جو عابد و زاہد اہلِ اجتہاد نہیں وہ عوام میں داخل ہیں۔ ان کی بات کا کچھ اعتبار نہیں۔ ہاں اگر ان کی بات اصول اور معتبر کتابوں کے مطابق ہو تو پھر اس وقت معتبر ہو گی۔‘‘ (نفائس الاظہار ترجمہ مجالس الابرار ص ۱۲۷)
’’مجالس الابرار‘‘ کی حضرت شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلویؒ نے بڑی تعریف کی ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے کیا ہی خوب ارشاد فرمایا ہے کہ
’’عملِ صوفیہ در حل و حرمت سند نیست۔ ہمیں بس است کہ ما ایشاں را معذور درایم و ملامت نہ کنیم و مر ایشاں را بحق سبحانہ و تعالیٰ مفوض داریم۔ اینجا قول امام ابوحنیفہؒ و امام ابو یوسفؒ و امام محمدؒ معتبر است، نہ عمل ابوبکر شبلیؒ و ابو حسن نوریؒ۔‘‘
’’صوفیاء کی بات حل و حرمت میں سند نہیں ہے۔ یہی کافی ہے کہ ہم ان کو ملامت نہ کریں اور ان کا معاملہ خدا کے سپرد کر دیں۔ اس جگہ حضرت امام ابوحنیفہؒ، امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کا قول معتبر ہو گا، نہ کہ ابوبکر شبلیؒ اور ابو حسن نوری جیسے صوفیاء کرام کا۔‘‘ (مکتوبات دفتر اول ص ۳۳۵ مکتوب ص ۲۲۶)
یہ بالکل ٹھیک ہے کہ دین کی تکمیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہو چکی تھی۔ مگر تکمیلِ دین کا یہ مطلب ہے کہ قواعد اور کلیاتِ دین پورے طور پر مکمل ہو چکے تھے۔ بعد کو پیش آنے والے واقعات اور حوادث کو ان اصول اور کلیات کے تحت درج کرنا، اور انہی جزئیات کو کلیات پر منطبق کرنے کا نام قیاس و اجتہاد ہے۔ لیکن بسا اوقات جزئیات کا کلیات میں داخل کرنا کسی خاص عارضہ کی وجہ سے بعض لوگوں پر مخفی رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فروعی مسائل میں فقہاء اسلام کا اختلاف رہا ہے۔ اور ایسے مواقع پر جو چیز اقرب الی الحق ہو، اس کو قبول کر لینا اور اس پر عمل کرنا نجات کے لیے کافی ہے۔ ہاں اگر قرآن وحدیث سے کوئی نص مل جائے، یا اجماع پر اطلاع ہو جائے، تو اس صورت میں قیاس سے رجوع کرنے میں ہرگز تامل نہیں ہونا چاہیے۔
(ماہنامہ الشریعہ جولائی ۱۹۹۵ء)

غیر حنفی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا مسئلہ

مولانا مفتی محمد عیسی گورمانی

(روزمرہ فقہی اختلافات پر بحث و تمحیص ’’الشریعہ‘‘ کے دائرۂ کار میں شامل نہیں ہے لیکن حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان نے زیرنظر مضمون میں دوسرے فقہی مذہب سے تعلق رکھنے والے امام کی اقتداء میں نماز پڑھنے کے مسئلہ پر اصولی بحث کی ہے، اس لیے ان کی خواہش پر اسے شائع کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)


نمازِ وتر میں دو رکعتوں پر سلام نہ کرنا، تینوں رکعتیں ملا کر پڑھنا اسے صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، یہ امام اعظمؒ کا مذہب ہے۔ تہجد کی دو رکعتوں پر سلام کر کے تیسری رکعت کو اس سے ملا کر سب کو وتر بنا دینا شروع میں جائز تھا، مستقل طور پر وتر کی تین رکعتیں مقرر ہوئیں تو عملاً اس سے منع کر دیا گیا۔
جو امام نمازِ وتر میں سلام سے فصل کرتا ہو، ایسے امام کی اقتداء میں وتر پڑھے جائیں یا نہ؟ اس سلسلہ میں دو رائیں سامنے آئی ہیں:
(۱) مقتدی کی رائے میں سلام کرنے سے امام کی نماز ٹوٹ گئی اور وتر مکمل نہ ہوئے۔ لہٰذا ایسے امام کی اقتداء نہیں کرنی چاہیے۔ علامہ شامیؒ نے اسے اصح کہا ہے۔ متون فقہ اور فتاویٰ کی عبارات میں اس مسئلہ کی وضاحت اسی طرح ملتی ہے۔
(۲) ابوبکر رازیؒ نے کہا ہے: ’’جو امام وتر میں سلام سے فصل کرتا ہو، حنفی کو اس اقتداء جائز ہے۔ بقیہ ماندہ رکعت کو امام کی معیت میں ادا کرے۔ امام کے سلام نے مقتدی کو نماز سے نہیں نکالا (مقتدی کی نماز فاسد نہیں ہوئی( کیونکہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔‘‘ (فتح القدیر ج ۲ ص ۳۱۱ طبع مصر)
گویا ابوبکر رازیؒ اقتداء کے مسئلہ میں امام کی رائے کو معتبر سمجھتے ہیں۔ امام کی رائے میں یہ سلام افضل ہے، سلام فراغت نہیں، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ایسے امام کی حنفی کو اقتداء کرنا جائز ہے۔ نہایہ میں اس رائے کو قرین قیاس قرار دیا گیا ہے۔ (شامی ج ۱ ص ۵۶۳)
اس وقت ہمیں درپیش اختیاری حالات نہیں کہ ہم فتویٰ دیں: ’’سلام سے قطع کرنے والے کی اقتداء میں وتر نہ پڑھے جائیں، حنبلی امام کی بجائے حنفی کی اقتداء کی جائے‘‘۔ بلکہ صورتحال یہ ہے کہ غیر حنفی امام کی اقتداء کے بغیر چارہ کار نہیں۔ ایک طرف جماعت کے فوت ہونے اور ثواب سے محرومی کا اندیشہ ہے۔ دوسری طرف بالکل نماز کے ضائع ہونے کا فکر۔ بالخصوص جبکہ یہ مشکل حرمین شریفین میں پیش آئے۔ نیز فرض نماز اور تراویح امامِ حرم کی اقتداء میں ادا کر کے وتر کے لیے صفوں کے حلقوں کو توڑ کر اعراض کی شکل اختیار کر لینا، یہ ایک ہنگامی حالت ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس نادر الوقوع اور ہنگامی صورتحال کے بارے میں فقہائے احناف نے ہماری کیا راہنمائی فرمائی ہے؟
علامہ ابن عابدین شامیؒ اس سلسلہ میں علماء کی آراء کا حاصل ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں‘
ان الاقتداء بالمخالف المراعی فی الفرائض افضل من الانفراد ادتم مجید غیرہ والا فالا اقتداء بالموافق افضل (ج ۱ ص ۵۶۳)
’’جو امام فرائض میں مقتدیوں کی رعایت کرتا ہو، ایسے غیر حنفی امام کی اقتداء میں نماز ادا کرنا علیحدہ پڑھنے سے بہتر ہے۔ ورنہ اگر موافق مذہب کی امامت میسر ہو تو اس کی اقتداء افضل ہے۔‘‘
البحر الرائق کے حاشیہ میں شیخ زملی حنفی کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں:
وکیف یکون الافضل ان یصلی منفردا مع وجود شافعی صالح تقی یراعی الخلاف بہ تحصل فضیلۃ الجماعۃ ما ۔۔ ان فقیہ نفس یقول بہ (ج ۲ ص ۴۶)
’’ایک صالح پرہیزگار شافعی عالم کی موجودگی میں جو خلافیات میں مقتدیوں کی رعایت کرتا ہو، جس کی بدولت جماعت کی فضیلت حاصل ہوتی ہو، الگ نماز پڑھنا کیسے افضل ہو گا؟ کسی فقیہ النفس عالم کے بارے میں مجھے اس قسم کا خیال نہیں جو یہ کہتا ہو۔‘‘
اب رہا یہ سوال کہ فرائض، جن کی پابندی امام پر ضروری ہے، ان سے کیا مراد ہے؟ اسی طرح وہ امام جو فرائض کے علاوہ واجبات اور سنن میں مقتدیوں کی رعایت نہ کرتا ہو، اس کا کیا حکم ہے؟ اس کے جواب میں علامہ شامیؒ یوں رقم طراز ہیں:
ای المرعاۃ فی الفرائض من شروط و ارکان فی تلک الصورۃ و ان لم یراع فی الواجبات والسنن کما ہو ظاہر سیاق کلام البحر (ج ۱ ص ۵۶۳)
’’اب امام جو حالیہ نماز میں فرائض یعنی شروط اور ارکان جیسے ضروری احکام کی پابندی کرتا ہو، اس کی اقتداء میں نماز جائز ہے، خواہ وہ واجبات اور سنن کی پابندی نہ کرتا ہو۔ جیسا کہ بحر الرائق کے سیاق سے ظاہر ہے۔‘‘
صورتِ مسئولہ میں جبکہ امام وتر میں سلام سے فصل کرتا ہے، اور یہ سلام بھی نماز سے فراغت کا سلام نہیں بلکہ سنت اور افضل سمجھ کر، تو اس میں کسی شرط یا رکن کا ترک لازم نہیں آتا۔ سنت کا، یا زیادہ سے زیادہ احناف کے نزدیک اس سے واجب کا ترک ہو گا۔ یہی قرینِ قیاس ہے، کیونکہ سہواً سلام کرنے میں شرط یا رکن چھوٹ جاتا تو نماز جاتی رہتی ہے، حالانکہ اس سے سجدۂ سہو کرنا پڑتا ہے اور یہ اس کے واجب ہونے کی علامت ہے۔
و ان توہم مصلی الظہر انہ اتمہا فسلم ثم علم انہ صلی رکعتین اتمہا و سجد للسہو (الشامی علیٰ ہامش البحر الرائق ج ۲ ص ۱۱)
’’اگر یہ خیال کر کے سلام کیا کہ اس نے ظہر کی چار رکعتیں پوری کر لی ہیں، پھر معلوم ہوا کہ اس نے ابھی دو رکعتیں پڑھی تھیں، تو دو اور رکعتیں پڑھے اور سجدہ سہو کرے۔‘‘
لہٰذا وتر میں سلام سے فصل کے باوجود حنفی کو غیر حنفی کی اقتداء جائز ہے۔ اس سے بلا حیل و حجت اس کے وتر ادا ہو جاتے ہیں۔ امام کے ساتھ سلامِ فصل نہ کرے، بغیر سلام کے اس کی معیت میں تیسری رکعت ادا کرے۔ اس لیے کہ ہمارے ہاں سلامِ فصل قطعی طور پر منسوخ ہے۔
مذکورہ بالا تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ وتر میں سلامِ فصل کے باعث فقہاء حنفیہ نے غیر حنفی امام کی اقتداء سے منع کیا ہے۔ اور حنفی امام نہ ملنے کی صورت میں شروط اور ارکان کے علاوہ واجبات اور سنن میں رعایت نہ کرنے والے امام کی اقتداء کو جائز قرار دیا ہے۔ علیحدہ نماز پڑھنے کی بجائے نماز باجماعت کو اس صورت میں افضل تسلیم کیا ہے۔ جس سے اتنی بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اختیاری اور عمومی حالات میں مسئلہ کا جواب اور ہے، غیر اختیاری اور مخصوص حال میں جواب کی نوعیت اس سے ذرا بدل جاتی ہے۔ ہر ایک جواب کا محمل ایک دوسرے سے جدا ہے۔

افادہ

ترکیوں کے دور میں حکومت میں جب شافعی امام حرمِ مکی میں پہلی امامت کرا لیتا تھا تو حنفیوں کو اس جماعت کی شرکت میں تردد پیدا ہوا۔ اول جماعت کی فضیلت کو پا لیا جائے یا اپنے حنفی امام کا انتظار کیا جائے؟
علامہ شامیؒ نے اس پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے اپنا نقطۂ نظر ان الفاظ میں ثبت کیا ہے، جس سے ہمارے زیر بحث مسئلہ میں بھی کافی مدد ملتی ہے:
والذی یمیل الیہ القلب عدم کراہۃ الاقتداء بالمخالف ما لم بین غیر مراع فی الفرائض لان کثیرا من الصحابۃ والتابعین کانوا ائمۃ مجتہدین و ہم یصلون خلف امام واحد مع تباین مذاہبہم۔ (ج ۱ ص ۶۴ عکس مصری طبع کراچی)
’’دل کا میلان اس طرف ہے کہ مخالف مذہب کی اقتداء مکروہ نہیں ہے، جب تک وہ فرائض میں مقتدیوں کی رعایت کرتا ہو۔ بہت سے صحابہ اور تابعین فروعی مسائل میں الگ الگ ہونے کے باوجود ایک امام کی اقتداء میں نماز پڑھتے تھے۔‘‘
غیر حنفی علماء جن کی اقتداء میں ہم حرمین شریفین میں وتر پڑھتے ہیں، ذرا ان کی آراء بھی مطالعہ میں آجائیں تو بہتر ہو گا۔
مذہب حنبلی کے ترجمان شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ جن کو موجودہ وقت کے حنابلہ اور سعودی حکومت امام کا درجہ دیتی ہے، اس باب میں لکھتے ہیں:
و لو کان الامام یری استحباب شئی والمامومون لا یستحبونہ فترکہ لاجل الاتفاق والائتلاف کان قد احسن۔ مثال ذلک الوتر فان للعلماء فیہ ثلاثۃ اقوال: احدھہما انہ لا یکون الابثلات متصلۃ کالمغرب کقول من قالہ من اہل العراق۔ والثانی انہ لا یکون الا رکعۃ مفصولۃ عما قبلہا کقول من قال ذٰلک من اہل الحجاز۔ والثالث ان الامرین جائز ان کما ہو ظاہر مذہب الشافعی واحمد وغیرہما وہو الصحیح و ان کان ہولاء یختارون فصلہ عما قبلہ فلو کان الامام یری الفصل فاختار المامومون ان یصلی الوتر کالمغرب فوافقہم علی ذلک تالیفا لقلوبہم کان قد احسن۔ (مجموع فتاویٰ ج ۲۲)
’’امام ایک عمل کو مستحب سمجھتا ہے، مقتدی نہیں، امام ان کے اتفاق اور دلداری کی غرض سے اس عمل کو ترک کر دے تو اچھا ہے۔ اس کی مثال وتر میں سمجھ لیجئے۔ علماء کے اس میں تین قول ہیں: (۱) نمازِ مغرب کی طرح اس کی تین رکعتیں متصل ہیں۔ اہلِ عراق کی طرح کچھ لوگ اس کے قائل ہیں۔ (۲) دو رکعتوں سے جدا وتر ایک رکعت ہے، اہلِ حجاز کی طرح لوگ کچھ اس کے قائل ہیں۔ (۳) سلام سے فصل کرنا یا وصل کرنا دونوں جائز ہیں۔ جیسا کہ امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کا ظاہر مذہب ہے اور یہ صحیح ہے۔ البتہ ان کے ہاں فصل کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے۔ امام فصل بالسلام کا قائل ہو اور مقتدیوں کی پاس خاطر کر کے وہ فصل کی بجائے تین رکعتیں اکٹھی پڑھ لے اور وصل کرے تو یہ ایک اچھا عمل ہے۔‘‘
شیخ الاسلامؒ کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کے ظاہر مذہب میں وسعت ہے۔ ان کے ہاں جواز اور عدمِ جواز کا مسئلہ نہیں بلکہ اولیٰ اور غیر اولیٰ کا ہے۔ یہی شیخ کا مطمح نظر ہے۔ بلکہ آپ نے تو اس حد تک اس میں اپنی فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے اور کہا ہے کہ امام کو چاہیے ’’مقتدیوں کے لیے فصل چھوڑ دے اور وصل کرے‘‘۔ والنعم ما قال الرومیؒ ؎
تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
واللہ تعالیٰ اعلم و علمہ اتم و احکم۔

(ضمیمہ) وتر میں ائمہ کا اختلاف

امام اعظمؒ کے نزدیک وتر واجب ہیں اور دیگر ائمہ کے نزدیک سنت ِموکدہ۔ حجۃ اللہ میں ہے:
والحق ان الوتر سنۃ وہو اوکد السنن۔
’’وتر سنت ہیں اور دوسری سنتوں کی نسبت زیادہ موکد ہیں۔‘‘
مجموع فتاویٰ میں ہے:
تنازع العلماء فی وجوبہ فاوحبہ ابوحنیفہ و طائفہ من اصحاب احمد والجمہور لا یوجبونہ کمالک والشافعی واحمد لکن ہو باتفاق المسلمین سنۃ موکدۃ لا ینبغی لاحد ترکہ (ج ۲۳ ص ۸۸ طبع الریاض)
’’علماء نے وتر کے وجوب میں اختلاف کیا ہے۔ ابوحنیفہؒ نے واجب کہا، اسی طرح احمدؒ کے کچھ احباب نے۔ جمہور اس کے وجوب کے قائل نہیں جیسے مالکؒ، شافعیؒ اور احمدؒ، لیکن سب مسلمان اس کے سنتِ موکدہ ہونے پر متفق ہیں، کسی کو اس کا ترک کرنا روا نہیں۔‘‘

ایک شبہ اور اس کا ازالہ

حنفی کی غیر حنفی کے پیچھے نماز کیسے درست ہو گی؟ حنفی وتر کو واجب مانتا ہے اور غیر حنفی سنت، جبکہ مقتدی کی نماز امام کی نماز سے زیادہ قوی ہے۔
الدر المختار میں احناف کا مذہب یوں لکھا ہے:
صح اقتداء متنفل بمتنفل و من یری الوتر واجبا لم یراہ  سنۃ۔ (علیٰ ہامش الشامی ج ۲ ص ۵۹۱)
’’امام اور مقتدی دونوں نفل ادا کر رہے ہوں تو یہ جائز ہے۔ اور وہ مقتدی جو وتر کو واجب سمجھتا ہے، اس شخص کی اقتداء کرے جو وتر کو سنت کہتا ہے، تو یہ جائز ہے۔‘‘
علامہ شامیؒ نے اس کی وجہ میں لکھا ہے:
ان ما اتی بہ کل واحد منہما ہو الوتر فی نفس الامر واعتقاد احدہما سنیۃ والاخر وجوبہ امر عارض لا یجوب اختلاف الفصلین۔ (ج ۱ ص ۵۱)
’’شافعی کی اقتداء میں حنفی نے جو نماز پڑھی ہے، دونوں کا مودیٰ اور مصداق وتر ہیں، اور حقیقت میں وہ ایک نماز ہے دو نہیں ہیں۔ ایک کا اسے سنت سمجھنا اور دوسرے کا واجب، یہ ایک عارضی امر ہے، فصل سنت اور فصل واجب میں اختلاف کا موجب نہیں ہے۔‘‘
علامہ شامیؒ کی اس تقریر و تعلیل سے ثابت ہوتا ہے کہ فصل سنت اور فصل واجب میں چنداں تفاوت نہیں بلکہ دونوں میں اتنا تقارب ہے کہ مقتدی اور امام کی نیت میں واجب اور سنت کے فرق سے بھی ان میں بُعد پیدا نہیں ہوتا۔
علامہ ابن نجیم مصریؒ نے البحر الرائق میں التجنیس لصاحب الہدایہ کے حوالے سے لکھا ہے:
وان الامام ان نوی الوتر وہو یراہ سنۃ جاز الاقتداء کمن صلی الظہر خلف من یری ان الرکوع سنۃ وان نواہ بنیہ التطوع لا یصح الاقتداء لانہ یصیر اقتداء المفترض بالمتنفل (ج ۲ ص ۴۰)
یعنی وتر کو جبکہ امام سنت اور مقتدی واجب سمجھتا ہو تو اس امام کی اقتداء جائز ہے جیسا کہ اس امام کی اقتداء میں نماز ظہر ادا کی جائے جو رکوع کو سنت سمجھتا ہو اور یہ جائز ہے۔ اور اگر امام وتر میں نفل کی نیت کرے تو اس کی اقتداء صحیح نہیں ہے، اس کی مثال ایسے ہو گی جیسے فرض نماز والا نفل والے کی اقتداء کرے۔

آہ! حضرت جی مولانا انعام الحسنؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تبلیغی جماعت کے امیر حضرت مولانا انعام الحسن ۹ جون کو دہلی میں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی وفات کی خبر آناً فاناً دنیا بھر کے تبلیغی مراکز میں پہنچ گئی اور دنیا کے کونے کونے میں دعوت و تبلیغ کے عمل سے وابستہ لاکھوں مسلمان رنج و غم کی تصویر بن گئے۔ مولانا انعام الحسن کو تقریباً تیس برس پہلے تبلیغی جماعت کے دوسرے امیر حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ کی وفات کے بعد عالمگیر تبلیغی جماعت کا امیر منتخب کیا گیا تھا۔ ان کی امارت میں دعوت و تبلیغ کے عمل کو عالمی سطح پر جو وسعت اور ہمہ گیری حاصل ہوئی وہ ان کے خلوص و محنت کی علامت ہے۔

دعوت و تبلیغ کا یہ عمل جو حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ نے کم و بیش پون صدی قبل میوات کے سادہ اور دین سے بے بہرہ مسلمانوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے آراستہ کرنے کے لیے شروع کیا تھا، آج عالم اسلام میں اسلامی تعلیمات کے فروغ اور دین کی بنیادی باتوں کی دعوت کی سب سے بڑی اور منظم جدوجہد کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اور اس میں مولانا انعام الحسنؒ کی پر خلوص محنت کا بہت بڑا حصہ ہے۔ یہ جدوجہد سادہ اور فطری طریق کار پر مبنی ہے جس میں اعتقادی، فکری اور فقہی مباحث سے مکمل طور پر گریز کرتے ہوئے عام مسلمان کو کلمہ طیبہ، نماز، قرآن کریم اور سنت نبویؐ کے ساتھ جوڑنے کی فکر کی جاتی ہے۔ اور اس بات کی محنت کی جاتی ہے کہ آج کے مسلمانوں میں قرون اولیٰ والے مسلمانوں کے اوصاف و اعمال کو زندہ کیا جائے۔ تبلیغی جماعت کے اکابرین کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے اندر قرونِ اولیٰ والے اعمال اور اوصاف زندہ ہو جائیں تو آج بھی انسانیت کو نجات کے راستے پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ مولانا انعام الحسنؒ بھی انہی تعلیمات کے داعی تھے اور تبلیغی جماعت کے دیگر اکابرین کی طرح کوئی الگ اور امتیازی بات کرنے کی بجائے وہی اجتماعی بات کرتے تھے جو سب تبلیغی اکابر عام طور پر کرتے ہیں۔ لیکن ان کا خلوص، تقویٰ اور لہجہ کی سادگی اس قدر پرکشش تھی کہ عام لوگ ان کی گفتگو سننے کے لیے کھنچے چلے آتے تھے اور دین دار مسلمان ان کی زیارت اور ان کے ساتھ دعا میں شرکت کو اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھتے تھے۔

مولانا انعام الحسنؒ کو تبلیغی حلقوں میں ’’حضرت جی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ رائے ونڈ میں نومبر کے دوران ہر سال منعقد ہونے والے عالمی تبلیغی اجتماع میں حضرت جی کی نصیحتیں سننے اور ان کے ساتھ دعا میں شریک ہونے کے لیے عام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بڑے علماء اور اہل اللہ بھی موجود ہوتے تھے اور دعا میں ان کے سادہ جملوں پر لاکھوں آنکھیں پرنم ہو جاتی تھیں۔ رائے ونڈ کے عالمی تبلیغی اجتماع کو یہ وسعت اور قبول عام بھی انہی کے دور میں حاصل ہوا کہ اسے حج بیت اللہ اور حرمین شریفین میں آخری عشرۂ رمضان المبارک کی حاضری کے بعد عالم اسلام کا سب سے بڑا سالانہ اجتماع شمار کیا جاتا ہے۔ اور اس اجتماع میں دنیا کے ہر خطہ اور براعظم سے تعلق رکھنے والے مسلمان نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ ان میں سے ہزاروں جماعتیں تشکیل پا کر دنیا بھر میں اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لیے نکل کھڑی ہوتی ہیں جو کسی حکومت یا ادارے پر بوجھ بنے بغیر اپنے ذاتی خرچہ پر دین سیکھنے اور دین پر عمل کی دعوت دینے کے جذبہ کے ساتھ قریہ قریہ بستی بستی گھومتی ہیں۔

راقم الحروف کو رائے ونڈ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر حضرت مولانا انعام الحسنؒ کے ارشادات سننے اور ان کے ساتھ دعا میں شرکت کا موقع کئی بار ملا لیکن زیارت نہ کر سکا۔ کیونکہ اتنے بڑے ہجوم میں اس قدر آگے گھسنا اور دھکم پیل کرنا میرے مزاج کے خلاف ہے، البتہ گزشتہ سال رب العزت نے یہ موقع بھی عنایت فرما دیا جب حضرت جیؒ ڈیوزبری برطانیہ میں یورپ کے سالانہ تبلیغی اجتماع میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ اس اجتماع میں شرکت کا مجھے بھی موقع ملا جو بلاشبہ مسلمانوں کا بہت بڑا اجتماع تھا اور ایک محتاط اندازے کے مطابق چالیس سے پچاس ہزار تک افراد اس میں شریک تھے۔ اجتماع کے بعد دہلی واپسی کے لیے ہیتھرو ایئرپورٹ پر پہنچے تو رخصت کرنے والوں میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔ حضرت جیؒ معذوروں کی کرسی پر بیٹھے تھے، جسم پر کمزوری اور نقاہت کے آثار تھے مگر چہرے کا نور دیکھ کر خدا یاد آرہا تھا۔ اس موقع پر رخصت کرنے کے لیے آنے والے سینکڑوں مسلمانوں کے ساتھ انہوں نے مختصر دعا کرائی۔ کیا خبر تھی کہ اس مردِ درویش کی یہ پہلی زیارت ہی آخری زیارت ثابت ہوگی۔

آج حضرت جیؒ اپنے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں عقیدت مندوں،بلکہ کروڑوں بھی کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہو، داغِ مفارقت دے کر اپنے خالق و مالک کے پاس جا چکے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا الٰہ العالمین۔

مولانا محمد غفران ہزارویؒ

استاذ الاساتذہ حضرت مولانا رسول خان ہزاروی نور اللہ مرقدہ کے فرزند اور مولانا قاری عبد الرشید رحمانی، خطیب اسلامک سنٹر سیلون روڈ اپٹن پارک لندن کے والد گرامی حضرت مولانا محمد غفران ہزارویؒ گزشتہ دنوں مکہ مکرمہ میں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ان کی عمر پچھتر برس تھی اور وہ دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے۔ کچھ عرصہ دارالعلوم اسلامیہ انارکلی لاہور میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ مولانا مرحوم رمضان المبارک کے دوران عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ گئے اور وہیں ان کا انتقال ہوگیا، انہیں حرم پاک میں نماز جنازہ کے بعد جنت المعلیٰ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یارب العالمین۔

مولانا عبد الرحیمؒ آف شکرگڑھ

گزشتہ ماہ کے دوران شکرگڑھ کے ممتاز عالم دین مولانا ڈاکٹر عبد الرحیم انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ انہوں نے عملی زندگی کا آغاز مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ کی حیثیت سے کیا اور کافی عرصہ تک گوجرانوالہ میں رہے۔ بعد میں انہوں نے شکرگڑھ میں مدرسہ رحیمیہ تعلیم القرآن کے نام سے دینی ادارہ قائم کیا اور آخر وقت تک اس کے ذریعے سے دینی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ وہ اپنے علاقہ میں جمعیۃ علماء اسلام کے سرگرم راہنماؤں میں شمار ہوتے تھے اور انہوں نے تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفیٰ اور تحریک نفاذ شریعت میں سرگرم کردار ادا کیا۔ مرحوم ہمارے انتہائی مہربان اور بزرگ دوست تھے اور ہمیشہ اپنی شفقت سے نوازتے رہے۔

الحاج بابو عبد الخالقؒ آف جہلم

اسی دوران جہلم کے سرگرم جماعتی بزرگ الحاج بابو عبد الخالق بھی دارِ آخرت کو سدھار گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم عالمِ دین نہیں تھے لیکن جماعتی اور مسلکی خدمات کے حوالے سے ہمیشہ علماء کی صف میں شمار ہوتے تھے۔ ایک عرصہ تک جمعیۃ علماء اسلام کے ضلعی امیر رہے، ان کا دستر خوان علماء اور جماعتی احباب کے لیے ہر وقت بچھا رہتا تھا۔ حضرت درخواستیؒ سے خصوصی تعلق تھا اور حضرت بھی ان پر خصوصی شفقت فرمایا کرتے تھے۔ انتہائی نیک دل اور خداترس بزرگ تھے، ان کی وفات سے دو تین روز قبل کی بات ہے کہ اسلام آباد سے واپسی پر تھوڑی دیر کے لیے جہلم رکا تو ان سے ملاقات ہوئی اور بہت سے معاملات پر گفتگو بھی ہوئی، کسے خبر تھی کہ یہ آخری ملاقات ہوگی؟

سچی بات ہے کہ ڈاکٹر عبد الرحیم صاحب اور بابو عبد الخالق صاحب جیسے مخلص دوستوں اور کرم فرما ساتھیوں کی جدائی نے دنیا کی بے ثباتی اور بے وفائی کا احساس اور زیادہ گہرا کر دیا ہے، رہے نام خدا کا۔

اللہ پاک دونوں حضرات کی مغفرت فرمائیں، ان کی حسنات کو قبولیت سے نوازیں، سیئات سے عفو و درگزر سے کام لیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں، آمین یارب العالمین۔

اگست ۱۹۹۵ء

ستمبر ۱۹۹۵ء

اکتوبر ۱۹۹۵ء

نومبر ۱۹۹۵ء

دسمبر ۱۹۹۵ء