1994

جنوری ۱۹۹۴ء

متوقع دستوری ترامیم ۔ ارکان پارلیمنٹ کے نام کھلا خطمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دین خیر خواہی کا نام ہےشیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر
انسانی حقوق اور سیرتِ نبویؐمولانا مفتی محمد تقی عثمانی
صومالیہ! مشرقی افریقہ کا افغانستانمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
رتہ دوہتڑ توہین رسالتؐ کیس ۔ ابتدائی مطالعاتی جائزہادارہ
مولانا حکیم نذیر احمدؒ آف واہنڈو / چوہدری محمد خلیل مرحوممولانا ابوعمار زاہد الراشدی

متوقع دستوری ترامیم ۔ ارکان پارلیمنٹ کے نام کھلا خط

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

معزز ارکان سینٹ و قومی اسمبلی، اسلامی جمہوریہ پاکستان!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

گزارش ہے کہ ان دنوں قومی حلقوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے حوالے سے مختلف امور زیر بحث ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق وفاقی کابینہ کی خصوصی کمیٹی دستور کا تفصیلی جائزہ لے رہی ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ پارلیمنٹ میں حکومت کی طرف سے چند روز تک آئینی ترامیم کا ایک نیا بل سامنے آنے والا ہے۔ اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ زیر بحث امور کے بارے میں دینی نقطۂ نظر سے چند ضروری گزارشات آپ کی خدمت میں پیش کی جائیں تاکہ پاکستان کے اسلامی تشخص اور دستور پاکستان کی نظریاتی بنیاد کے تحفظ کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے آپ پورے شعور و ادراک کے ساتھ اس اہم بحث میں شریک ہو سکیں۔ امید ہے کہ یہ معروضات آپ کی سنجیدہ توجہ سے محروم نہیں رہیں گی۔

آٹھویں آئینی ترمیمی بل

آٹھویں آئینی ترمیمی بل کی منسوخی کے بارے میں بعض سیاسی حلقوں کی طرف سے زور دیا جا رہا ہے اور وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے اس ترمیم کے تحت صدر مملکت کو قومی اسمبلی توڑنے کا غیر مشروط اختیار حاصل ہے جس کے استعمال کا نشانہ گزشتہ تین اسمبلیاں بن چکی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ صدر کے ان خصوصی اختیارات پر نظر ثانی کر کے صدر اور وزیراعظم کے درمیان اختیارات کا توازن قائم کیا جائے۔

جہاں تک اختیارات کے توازن کا تعلق ہے اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ بات پیش نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ آٹھویں ترمیم کے خاتمہ اور سابقہ پوزیشن کی بحالی سے یہ توازن قائم نہیں ہوگا بلکہ الٹ جائے گا۔ کیونکہ اس صورت میں وزیراعظم مطلق العنان اور صدر بے اختیار ہو جائے گا جو کہ سربراہ مملکت کے منصب اور وقار کے منافی ہے۔ اس لیے صدر اور وزیراعظم کے اختیارات میں حقیقی توازن کے قیام کے لیے اعتدال کی راہ اختیار کرنا ہی قومی مفاد کا تقاضہ ہے۔

آٹھویں آئینی ترمیم کے حوالہ سے یہ بات بھی ارکان پارلیمنٹ کے پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ یہ ترمیم دراصل صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دورِ اقتدار میں ان کی طرف سے کیے جانے والے آئینی و قانونی اقدامات کو دستوری تحفظ فراہم کرنے کے لیے کی گئی تھی جن میں

  1. قراردادِ مقاصد کو دستور کا باقاعدہ حصہ بنانا،
  2. قذف اور زنا کی شرعی حد کا نفاذ،
  3. چوری اور ڈاکہ کی شرعی حد کا نفاذ،
  4. اسلامی قانون شہادت،
  5. زکوٰۃ و عشر آرڈیننس،
  6. احترام رمضان آرڈیننس،
  7. امتناع قادیانیت آرڈیننس،
  8. جداگانہ الیکشن کا قانون،
  9. اور وفاقی شرعی عدالت کا قیام شامل ہیں۔

ان اقدامات کو آٹھویں ترمیم کی وجہ سے دستوری تحفظ حاصل ہے اور اس ترمیم کے خاتمہ کی صورت میں یہ تمام امور کالعدم ہو جائیں گے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ نفاذ اسلام کی سمت ہونے والی اس پیش رفت کو بچایا جائے اور آٹھویں ترمیم کے عنوان سے کوئی غیر محتاط قدم اٹھانے سے گریز کیا جائے۔

پارلیمنٹ کی خودمختاری

دستور پاکستان کے حوالے سے پارلیمنٹ کی خودمختاری بحال کرنے کا مسئلہ بھی زیر بحث ہے اور پارلیمنٹ کی خودمختاری کے منافی آئینی دفعات کو ختم کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اپنے ایمان و عقیدہ کی رو سے قرآن و سنت کے احکامات کو قبول کرنے کے پابند ہیں اور دستور میں شامل ’’قرارداد مقاصد‘‘ کی رو سے بھی خدا تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی مقرر کردہ حدود اور قرآن و سنت کے احکام کی پابندی کی ضمانت دی گئی ہے جس کی روشنی میں پارلیمنٹ کی مطلق خودمختاری کے مغربی تصور کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قرارداد مقاصد کے علاوہ پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کا پابند بنانے والی آئینی دفعات اور وفاقی شرعی عدالت کا قرآن و سنت کے منافی قوانین کو کالعدم قرار دینے کا اختیار بھی پارلیمنٹ کی غیر مشروط بالادستی کی راہ میں حائل ہے۔ غالباً انہی دفعات کو غیر موثر بنانے کے لیے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا غیر مشروط اختیار دینے کی دفعہ آئین میں شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو خدانخواستہ کامیاب ہوگئی تو پاکستان اور دستور پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت ختم ہو جائے گی اور پاکستان ایک سیکولر ریاست کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔ اس لیے اس بارے میں انتہائی تدبر، احتیاط اور بیدار مغزی سے مجوزہ آئینی ترمیمات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

آئین کے تضادات

کہا جاتا ہے کہ آئین میں تضادات ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات درست ہے کیونکہ آئین میں خدا تعالیٰ کی حاکمیت اور قرآن و سنت کی بالادستی کو تسلیم کیے جانے کے باوجود ایسے تحفظات موجود ہیں جو انگریزی دور کی منحوس یادگار نوآبادیاتی نظام کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اس لیے دستور کے حوالہ سے اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ نوآبادیاتی نظام کو پناہ دینے والے دستوری تحفظات کی نشاندہی کر کے ان سے نجات حاصل کی جائے تاکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک صحیح عملی اسلامی ریاست کی شکل دی جا سکے اور مملکت خداداد میں ایک فلاحی اور اسلامی معاشرہ کا قیام ممکن ہو۔

امید ہے کہ آپ ان گزارشات کو سنجیدہ توجہ سے نوازیں گے، بے حد شکریہ۔

ابوعمار زاہد الراشدی

خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ

چیئرمین ورلڈ اسلامک فورم لندن

دین خیر خواہی کا نام ہے

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

حضرت تمیم دارمیؓ (المتوفیٰ ۴۰ھ) سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دین خیر خواہی کا نام ہے۔ ہم نے کہا کس کی خیر خواہی؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی، اس کی کتاب، اس کے رسول، مسلمانوں کے حکام اور عام مومنوں کی خیرخواہی‘‘ (مسلم ج ۱ ص ۵۴)۔
صحیح ابو عوانہ (جلد ۱ ص ۳۷) میں ہے کہ آپ نے تین دفعہ ’’انما الدین النصیحۃ‘‘ کا جملہ دہرایا۔ اور اسی طرح ابوداؤد (جلد ۲ ص ۳۲۰) میں ہے۔
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ نصیحت اور خیر خواہی دین ہے۔ اس حدیث کی شرح اور تفسیر میں علمائے اسلام نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ بھی ملاحظہ کر لیں۔
امام ابو سلیمان احمد بن محمد الخطابی الشافعیؒ (المتوفیٰ ۳۸۸ھ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ
’’اللہ تعالٰی کے لیے نصیحت کا معنی یہ ہے کہ اس کی وحدانیت کے بارے میں اعتقاد صحیح ہو اور اس کی عبادت میں نیت خالص ہو۔ اس کی کتاب کے حق میں نصیحت یہ ہے کہ اس کی کتاب پر ایمان لائے اور جو کچھ اس میں درج ہے اس پر عمل کرے۔ اس کے رسول کی نصیحت کا یہ مطلب ہے کہ اس کی نبوت کی تصدیق کرے اور جس چیز کا انہوں نے حکم دیا اور جس چیز سے منع کیا ہے اس سلسلہ میں ان کی اطاعت کرے۔ اور ائمہ مسلمین کی نصیحت یہ ہے کہ حق کی بات میں ان کی فرمانبرداری کرے اور جب وہ ظلم پر کمربستہ ہوں تو ان کے خلاف تلوار لے کر خروج نہ کرے (یعنی ویسے زبانی جہاد کرے)۔ اور عامۃ المسلمین کی نصیحت یہ ہے کہ ان کے مصالح میں ان کی رہنمائی کرے۔‘‘ (معالم السنن ج ۷ ص ۲۷ طبع مصر)
اس کا مطلب یہ ہو اکہ لفظ نصیحت ایک ایسا جامع لفظ ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات مقدس سے لے کر عامۃ المسلمین تک ہر مقام پر حسبِ حال چسپاں ہوتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نصیحت اور خیرخواہی کو دین فرمایا ہے۔
حافظ زین الدین ابوالفرج عبد الرحمٰن ابن رجب الحنبلیؒ (المتوفٰی ۶۹۵ھ) اس حدیث کی شرح میں امام تقی الدین ابو عمرو عثمان المعروف بابن اصلاح الشافعیؒ (المتوفٰی ۶۴۳ھ) سے نقل کرتے ہیں کہ
’’نصیحت للہ یہ ہے کہ اس کی وحدانیت کا اقرار کیا جائے اور صفات کمال و جلال کے ساتھ اس کو موصوف سمجھا جائے، اور جو صفات ان کے برعکس ہیں ان سے اس کی ذات کو منزہ سمجھا جائے، اور اس کی نافرمانی سے گریز کیا جائے، اور اس کی اطاعت کی پابندی کی جائے، اور کمال اخلاص کے ساتھ اس کی محبت کی جائے، اور اس کی رضا کے لیے دوسروں سے محبت اور عداوت کی جائے، اور جو کافر باللہ ہے اس سے جہاد کیا جائے، اور جو امور ان کے مشابہ ہوں اور ان جملہ امور کی طرف دعوت دینا اور ان لوگوں کو آمادہ کرنا وغیرہ۔
اور نصیحت لکتابہ یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے، اور اس کی تعظیم کی جائے، اور اس کو غلط تاویلات سے بچایا جائے، اور اس کی تلاوت کی جائے، اور اس کے اوامر و نواہی پر وقوف حاصل کیا جائے، اور اس کی آیات پر تدبر کیا جائے، اور اس کی طرف دعوت دی جائے، اور غالی لوگوں کی تحریف سے اس کی مدافعت کی جائے، اور ملحدوں کے طعن سے اس کو محفوظ کیا جائے۔
اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت اور خیرخواہی کا معنٰی بھی اس کے قریب قریب ہے کہ ان پر اور جو چیز وہ لے کر آئے ہیں اس پر ایمان لائے، اور ان کی توقیر و تعظیم کی جائے، اور ان کی اطاعت پر پابندی کی جائے، اور ان کی سنت کو زندہ کیا جائے، اور آپ کے دشمنوں سے عداوت کی جائے، اور جو لوگ آپ سے اور آپ کی سنت سے محبت کرتے ہیں ان سے محبت کی جائے، اور آپ کے طور و طریق اور آداب کی پیروی کی جائے، اور آپ کی آل اور آپ کے اصحاب سے محبت کی جائے، اور اس کی مانند اور چیزیں عمل میں لائی جائیں۔
اور ائمۃ المسلمین کی نصیحت کا یہ مطلب ہے کہ حق میں ان کی امداد اور اطاعت کی جائے، اور نرمی اور شفقت کے ساتھ ان کو حق پر چلنے کی یاددہانی اور تنبیہ کی جائے، اور ان کی مخالفت سے کنارہ کشی کی جائے، اور ان کے حق میں توفیق کی دعا کی جائے، اور دوسروں کو اس پر آمادہ کیا جائے۔
اور عامۃ المسلمین کے حق میں نصیحت کا یہ مطلب ہے کہ ان کے مصالح میں ان کی رہنمائی کی جائے، اور ان کو دین و دنیا کے امور کی تعلیم دی جائے، اور ان کی پردہ پوشی کی جائے، اور ان کی حاجت براری کی جائے، اور ان کی دشمنوں کے مقابلہ میں امداد و مدافعت کی جائے، اور ان کے ساتھ مکر و حسد سے اجتناب کیا جائے، اور ان کے لیے وہی کچھ پسند کیا جائے جو اپنے لیے پسند کیا جاتا ہے، اور وہی کچھ ان کے لیے ناپسند کیا جائے جو اپنے لیے ناپسند کیا جاتا ہے، اور جو دیگر امور اس طرح کے ہوں۔‘‘
(جامع العلوم والحکم ص ۷۰ طبع مصر)
اس تفصیلی عبارت میں بھی نصیحت کا مطلب و مفہوم خوب آشکارا کیا گیا ہے اور اعلٰی ذات سے لے کر ادنٰی مخلوق تک کی ہمدردی اور بہی خواہی کا طریقہ بتلایا گیا ہے۔ امام محی السنۃ ابو زکریا یحیٰی بن شرف النووی الشافعیؒ (المتوفٰی ۲۷۶ھ) ’’النصیحۃ لکتابہ‘‘ کی شرح میں یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ
’’اور تلاوت میں اس کے حرفوں کو درستی کرنا، اور محرفین کی تاویل کی اس سے مدافعت کرنا، اور اس پر طعن کرنے والوں کے طعن کا رد کرنا، اور جو کچھ اس میں ہے اس کی تصدیق کرنا، اور اس کے احکام پر وقوف حاصل کرنا، اور اس کے علوم کو سمجھنا۔‘‘
اور ’’النصیحۃ لرسولہ‘‘ کی شرح میں ارقام فرماتے ہیں کہ
’’آپ کی رسالت کی تصدیق کرنا، اور تمام ان احکام پر ایمان لانا جو آپ (منجانب اللہ) لائے ہیں، اور آپ کے امر و نہی میں آپ کی اطاعت کرنا، اور آپ کی زندگی میں اور بعد از وفات مدد کرنا، اور آپ کے دشمنوں سے دشمنی کرنا، اور آپ کے دوستوں سے دوستی کرنا، اور آپ کے حق کو بڑا سمجھنا، اور آپ کی توقیر کرنا، اور آپ کے طریقہ اور سنت کو زندہ کرنا، اور آپ کی دعوت کو پھیلانا، اور آپ کی شریعت کی نشرواشاعت کرنا، اور آپ کی شریعت پر (ملحدین) کی تہمت کو دور کرنا۔‘‘
(نووی شرح مسلم جلد ۱ ص ۵۴)
ان اقتباسات کے پیشِ نظر دیگر امور کے علاوہ عامۃ المسلمین کی خیر خواہی اور ان کے رشد و ہدایت کی فکر دین ہے۔ کیونکہ جب صحیح دین اور قرآن و سنت کے مطابق اعمال ان کے سامنے پیش کیے جائیں گے اور غلط اور باطل امور کی نشاندہی کی جائے گی تو عوام کے حق میں یہ نصیحت اور خیرخواہی ہو گی۔ کیونکہ وہ اپنے عقائد و اعمال کو درست کریں گے اور راہ راست پر گامزن ہو کر تقرب خداوندی حاصل کریں گے اور عذابِ الٰہی سے نجات پائیں گے، اور ان کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر عمل پیرا ہو کر دنیا و آخرت کی خوشیاں نصیب ہوں گی اور آپ کی مخالفت سے بچ کر آتش دوزخ سے رستگاری ملے گی، اور حضراتِ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کا یہی محبوب مشغلہ تھا کہ وہ ہر وقت مخلوقِ خدا کی بھلائی اور ان کی خیرخواہی کو ملحوظ رکھتے تھے، اور ہر دور کے علمائے حق کا یہی فریضہ رہا ہے۔

انسانی حقوق اور سیرتِ نبویؐ

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

(۳۱ اگست ۱۹۹۳ء کو اسلامک سنٹر (سیلون روڈ، اپٹن پارک، لندن) میں ورلڈ اسلامک فورم کے زیراہتمام سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان پر جلسہ عام منعقد ہوا جس کی صدارت مولانا مفتی عبد الباقی نے کی اور مولانا زاہد الراشدی، مولانا منظور الحسینی، مولانا محمد عیسٰی منصوری اور مولانا عبد الرشید رحمانی کے علاوہ جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی نے ’’سیرت النبی اور انسانی حقوق‘‘ کے عنوان پر درج ذیل مفصل خطاب کیا۔)
حضرات علمائے کرام، جناب صدر محفل اور معزز حاضرین! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ہمارے لیے یہ بڑی سعادت اور مسرت کا موقع ہے کہ آج اس محفل میں، جو نبی کریم سرور دو عالمؐ کے مبارک ذکر کے لیے منعقد ہے، ہمیں شرکت کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر جمیل انسان کی اتنی بڑی سعادت ہے کہ اس کے برابر اور کوئی سعادت نہیں۔ کسی شاعر نے کہا ہے ؏
ذکرِ حبیب کم نہیں وصلِ حبیب سے
اور حبیب کا تذکرہ بھی حبیب کے وصال کے قائم مقام ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس ذکر کو یہ فضیلت عطا فرمائی ہے کہ جو شخص ایک مرتبہ نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے دس رحمتیں اس پر نازل ہوتی ہیں۔ تو جس مجلس کا انعقاد اس مبارک تذکرہ کے لیے ہو اس میں شرکت، خواہ ایک مقرر اور بیان کرنے والے کی  حیثیت میں ہو یا سامع کی حیثیت میں، ایک بڑی سعادت ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی برکات ہمیں اور آپ کو عطا فرمائے۔
تذکرہ ہے نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا۔ اور سیرتِ طیبہ ایک ایسا موضوع ہے کہ اگر کوئی شخص اس کے صرف ایک پہلو کو بھی بیان کرنا چاہے تو پوری رات بھی اس کے لیے کافی نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باوجود میں اللہ جل جلالہ نے تمام بشری کمالات، جتنے متصور ہو سکتے تھے، وہ سارے کے سارے جمع فرمائے۔ یہ جو کسی نے کہا تھا کہ ؎
حسنِ یوسف دمِ عیسٰی یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
تو یہ کوئی مبالغے کی بات نہیں تھی۔ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس انسانیت کے لیے اللہ جل جلالہ کی تخلیق کا ایک ایسا شاہکار بن کر تشریف لائے تھے کہ جس پر کسی بھی حیثیت سے، کسی بھی نقطہ نظر سے غور کیجئے تو وہ کمال ہی کمال کا پیکر ہے۔ اس لیے آپ کی سیرت طیبہ کے کسی پہلو کو آدمی بیان کرے، کس کو چھیڑے، انسان کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہے ؎
زفرق تا بقدم ہر کجا کہ مے نگرم
کرشمہ دامن دل مے کشد کہ جا اینجا است
اور غالب مرحوم نے کہا تھا ؎
کہ غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم
کاں ذات پاک مرتبہ دان محمد است
انسان کے تو بس ہی میں نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف کا حق ادا کر سکے۔ ہمارے یہ ناپاک منہ، یہ گندی زبانیں اس لائق نہیں تھیں کہ ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینے کی بھی اجازت دی جا سکتی، لیکن یہ اللہ جل و جلالہ کا کرم ہے کہ اس نے نہ صرف اجازت دی بلکہ اس سے راہنمائی اور استفادے کا بھی موقع عطا فرمایا۔ اس واسطے موضوعات تو سیرت کے بے شمار ہیں لیکن میرے مخدوم اور محترم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب، اللہ ان کے فیوض کو جاری و ساری فرمائے، انہوں نے حکم دیا کہ سیرتِ طیبہ کے اس پہلو پر گفتگو کی جائے کہ نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم انسانی حقوق کے لیے کیا راہنمائی اور ہدایت لے کر تشریف لائے؟ اور جیسا کہ انہوں نے ابھی فرمایا، اس موضوع کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں پروپیگنڈا کا بازار گرم ہے کہ اسلام کو عملی طور پر نافذ کرنے سے ہیومن رائٹس مجروح ہوں گے، انسانی حقوق مجروح ہوں گے، اور یہ پبلسٹی کی جا رہی ہے کہ گویا ہیومن رائٹس کا تصور پہلی بار مغرب کے ایوانوں سے بلند ہوا اور سب سے پہلے انسان کو حقوق دینے والے یہ اہلِ مغرب ہیں، اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات میں انسانی حقوق کا معاذ اللہ کوئی تصور موجود نہیں۔
تو یہ موضوع جب انہوں نے گفتگو کے لیے عطا فرمایا تو ان کی تعمیلِ حکم میں اسی موضوع پر آج اپنی گفتگو کو محصور کرنے کی کوشش کروں گا۔ لیکن موضوع ذرا تھوڑا سا علمی نوعیت کا ہے اور ایسا موضوع ہے کہ اس میں ذرا زیادہ توجہ اور زیادہ حاضر دماغی کی ضرورت ہے، تو اس سلسلہ میں آپ حضرات سے درخواست ہے کہ موضوع کی اہمیت کے پیشِ نظر اور اس کی نزاکت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ذرا براہ کرم توجہ کے ساتھ سماعت فرمائیں، شاید اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے دل میں اس سلسلہ کے اندر کوئی صحیح بات ڈال دے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے، جس کا جواب دینا ضروری ہے، کہ آیا اسلام میں انسانی حقوق کا کوئی جامع تصور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں ہے یا نہیں؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ یہ اس دور کا عجیب و غریب رجحان ہے کہ انسانی حقوق کا ایک تصور پہلے اپنی عقل، اپنی فکر، اپنی سوچ کی روشنی میں خود متعین کر لیا کہ یہ انسانی حقوق ہیں، یہ ہیومن رائٹس ہیں اور ان کا تحفظ ضروری ہے۔ اور (پھر) اپنی طرف سے خودساختہ جو سانچہ انسانی حقوق کا ذہن میں بنایا اس کو ایک معیارِ حق قرار دے کر ہر چیز کو اس معیار پر پرکھنے اور جانچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پہلے سے خود متعین کر لیا کہ فلاں چیز انسانی حق ہے اور فلاں چیز انسانی حق نہیں ہے۔ اور یہ متعین کرنے کے بعد اب دیکھا جاتا ہے کہ آیا اسلام یہ حق دیتا ہے کہ نہیں دیتا؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حق دیا کہ نہیں دیا؟ اگر دیا تو گویا ہم کسی درجہ میں اس کو ماننے کے لیے تیار ہیں، اگر نہیں دیاتو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لیکن ان مفکرین اور دانشوروں سے اور ان فکر و عقل کے سورماؤں سے میں ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ یہ آپ نے جو اپنے ذہن سے انسانی حقوق کے تصورات مرتب کیے، یہ آخر کس بنیاد پر کیے؟ یہ کس اساس پر کیے؟ یہ جو آپ نے یہ تصور کیا کہ انسانی حقوق کا ایک پہلو یہ ہے، ہر انسان کو یہ حق ضرور ملنا چاہیے، یہ آخر کس بنیاد پر آپ نے کہا کہ ملنا چاہیے؟
انسانیت کی تاریخ پر نظر دوڑا کر دیکھیے تو ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک انسان کے ذہن میں انسانی حقوق کے تصورات بدلتے چلے آئے ہیں۔ کسی دور میں انسان کے  لیے ایک حق لازمی سمجھا جاتا تھا، دوسرے دور میں اس حق کو بے کار قرار دے دیا گیا، تیسرے کسی ماحول کے اندر، ایک خطے میں ایک حق قرار دیا گیا، دوسری جگہ اس حق کو ناحق قرار دے دیا گیا۔  تاریخ انسانیت پر نظر دوڑا کر دیکھیے تو آپ کو یہ نظر آئے گا کہ جس زمانے میں بھی انسانی فکر نے حقوق کے جو سانچے تیار کیے ان کا پروپیگنڈا، ان کی پبلسٹی اس زور و شور کے ساتھ کی گئی کہ اس کے خلاف بولنے کو جرم قرار دے دیا گیا۔
حضور نبی کریم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت دنیا میں تشریف لائے تو اس وقت انسانی حقوق کا ایک تصور تھا اور وہ تصور ساری دنیا کے اندر پھیلا ہوا تھا اور اسی تصور کو معیار حق قرار دیا جاتا تھا، ضروری قرار دیا جاتا تھا کہ یہ حق لازمی ہے۔ مثلاً میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں کہ اس زمانے میں انسانی حقوق ہی کے حوالے سے یہ تصور تھا کہ جو شخص کسی کا غلام بن گیا تو غلام بننے کے بعد صرف جان و مال اور جسم ہی اس کا مملوک نہیں ہوا بلکہ انسانی حقوق، انسانی مفادات کے ہر تصور سے وہ عاری ہو گیا۔ آقا کا یہ بنیادی حق ہے کہ اپنے غلام کے گردن میں طوق ڈالے اور اس کے پاؤں میں بیڑیاں پہنائی جائیں۔ یہ ایک تصور تھا، آپ کو اس کے اوپر پورا لٹریچر مل جائے گا اس زمانے کے اندر جنہوں نے اسے Justify کرنے (جائز قرار دینے) کے لیے اور اس کو مبنی بر انصاف قرار دینے کے لیے فلسفے پیش کیے تھے۔ یہ دور کی بات ہے، اسے جاہلیت کا زمانہ کہہ لیجئے کہ چودہ سو سال پہلے کی بات ہے، لیکن ابھی قریب سو ڈیڑھ سو سال پہلے کی بات لے لیجئے جب جرمنی اور اٹلی میں فاشزم نے اور نازی ازم نے سر اٹھایا۔ آج فاشزم اور نازی ازم کا نام گالی بن چکا اور دنیا بھر میں بدنام ہو چکا لیکن آپ ان کے فلسفے کو اٹھا کر دیکھیے جس بنیاد پر انہوں نے فاشزم کا تصور پیش کیا تھا اور نازی ازم کا تصور پیش کیا تھا۔ اس فلسفے کو خالص عقل کی بنیاد پر اگر آپ رد کرنا چاہیں تو آسان نہیں ہو گا۔ انہوں نے یہ تصور پیش کیا تھا کہ جو طاقتور ہے اس کا ہی یہ بنیادی حق ہے کہ وہ کمزور پر حکومت کرے۔ اور یہ طاقتور کے بنیادی حقوق میں شمار ہوتا ہے اور کمزور کے ذمہ واجب ہے کہ وہ طاقت کے آگے سر جھکائے۔ یہ تصور ابھی سو ڈیڑھ سو سال پہلے کی بات ہے۔
تو انسانی افکار کی تاریخ میں انسانی حقوق کے تصورات یکساں نہیں رہے، بدلتے رہے۔ کسی دور میں کسی ایک چیز کو حق قرار دیا گیا اور کسی دور میں کسی دوسری چیز کو حق قرار دیا گیا۔ اور جس دور میں جس قسم کے حقوق کے سیٹ کو یہ کہا گیا کہ یہ انسانی حقوق کا حصہ ہے، اس کے خلاف بات کرنا زبان کھولنا ایک جرم قرار پایا۔ تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آج جن ہیومن رائٹس کے سیٹ کو کہا جا رہا ہے کہ ان ہیومن رائٹس کا تحفظ ضروری ہے، یہ کل کو تبدیل نہیں ہوں گے؟ کل کو ان کے درمیان انقلاب نہیں آئے گا؟ اور کون سی بنیاد ہے جو اس بات کو درست قرار دے سکے؟
حضور نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا انسانی حقوق کے بارے میں سب سے بڑا کنٹریبیوشن (Contribution) یہ ہے کہ آپؐ نے انسانی حقوق کے تعین کی صحیح بنیاد فراہم فرمائی۔ وہ اساس فراہم فرمائی جس کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ کون سے ہیومن رائٹس قابلِ تحفظ ہیں اور کون سے ہیومن رائٹس قابلِ تحفظ نہیں۔ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی اور آپ کی ہدایت کو اساس تسلیم نہ کیا جائے تو اس دنیا کے پاس، اس کائنات کے پاس کوئی بنیاد نہیں ہے جس کی بنیاد پر وہ کہہ سکے کہ فلاں انسانی حقوق لازماً قابلِ تحفظ ہیں۔
میں آپ کو ایک لطیفے کی بات سناتا ہوں۔ آج سے تقریباً ایک سال پہلے یا کچھ مدت زیادہ ہو گئی ایک دن میں مغرب کی نماز پڑھ کر گھر میں بیٹھا ہوا تھا تو باہر سے کوئی صاحب ملنے کے لیے آئے۔ کارڈ بھیجا تو دیکھا اس کارڈ پر لکھا ہوا تھا کہ یہ ساری دنیا میں ایک مشہور ادارہ ہے جس کا نام ایمنسٹی انٹرنیشنل ہے، جو سارے انسانی بنیادی حقوق کے تحفظ کا علمبردار ہے، اس ادارے کا ایک ڈائریکٹر پیرس سے پاکستان آئے تھے وہ ملنا چاہتے تھے۔ خیر میں نے بلا لیا، پہلے سے کوئی اپوائنٹمنٹ نہیں تھی، کوئی پہلے سے وقت نہیں لیا تھا، اچانک آگئے اور پاکستان کی وزارت خارجہ کے ایک ذمہ دار افسر بھی ان کے ساتھ تھے۔
آپ کو یہ معلوم ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل وہ ادارہ ہے جو انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اور آزادیٔ تقریر و تحریر کے لیے علمبردار کہا جاتا ہے اور پاکستان میں جو بعض شرعی قوانین نافذ ہوئے یا مثلاً قادیانیوں کے سلسلے میں پابندیاں عائد کی گئیں تو ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے اس پر اعتراضات و احتجاجات کا سلسلہ رہا۔
تو یہ صاحب تشریف لائے، انہوں نے آ کر مجھ سے کہا کہ میں آپ سے اس لیے ملنا چاہتا ہوں کہ میرے ادارے نے مجھے سا بات پر مقرر کیا ہے کہ میں آزادیٔ تحریر و تقریر اور انسانی حقوق کے سلسلے میں ساؤتھ ایسٹ ایشیا کے ممالک کی رائے عامہ کا سروے کروں، یعنی یہ معلوم کروں کہ جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمان انسانی حقوق، آزادیٔ تحریر و تقریر اور آزادیٔ اظہارِ رائے کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں اور وہ کس حد تک اس معاملہ میں ہم سے تعاون کرنے پر آمادہ ہیں۔ اس کا سروے کرنے کے لیے میں پیرس سے آیا ہوں اور اس سلسلے میں آپ سے انٹرویو چاہتا ہوں۔ ساتھ ہی انہوں نے معذرت بھی کہ کہ چونکہ میرے پاس وقت کم تھا اس لیے میں پہلے وقت نہیں لے سکا لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے چند سوالات کا آپ جواب دیں تاکہ اس کی بنیاد پر اپنی رپورٹ مرتب کر سکوں۔
تو میں نے ان صاحب سے پوچھا کہ آپ کب تشریف لائے؟ کہا کہ میں کل ہی پہنچا ہوں۔ میں نے کہا، آئندہ کیا پروگرام ہے؟ فرمانے لگے کہ کل مجھے اسلام آباد جانا ہے۔ میں نے کہا، اس کے بعد؟ کہا کہ اسلام آباد ایک یا دو دن ٹھہر کر پھر میں دہلی جاؤں گا۔ میں نے کہا کہ وہاں کتنے دن قیام فرمائیں گے؟ کہا، دو دن۔ میں نے کہا، پھر اس کے بعد؟ کہا کہ اس کے بعد مجھے ملائیشیا جانا ہے۔ تو میں نے کہا، کل آپ کراچی تشریف لائے اور آج شام کو اس وقت میرے پاس تشریف لائے، کل صبح آپ اسلام آباد چلے جائیں گے، آج کا دن آپ نے کراچی میں گزارا، تو آپ نے کیا کراچی کی رائے عامہ کا سروے کر لیا؟ تو اس سوال پر وہ بڑا سٹپٹائے۔ کہنے لگے اتنی دیر میں واقعی پورا سروے تو نہیں ہو سکتا تھا لیکن اس مدت کے اندر میں نے کافی لوگوں سے ملاقات کی اور تھوڑا بہت اندازہ مجھے ہو گیا۔ تو میں نے کہا، آپ نے کتنے لوگوں سے ملاقات کی؟ کہا کہ پانچ افراد سے میں ملاقات کر چکا ہوں، چھٹے آپ ہیں۔ میں نے کہا، چھ افراد سے ملاقات کرنے کے بعد آپ نے کراچی کا سروے مکمل کر لیا۔ اب اس کے بعد کل اسلام آباد تشریف لے جائیں گے اور وہاں ایک دن قیام فرمائیں گے، چھ آدمیوں سے وہاں پھر آپ کی ملاقات ہو گی۔ چھ آدمیوں سے ملاقات کے بعد اسلام آباد کی رائے عامہ کا سروے ہو جائے گا، اس کے بعد دو دن دہلی تشریف لے جائیں گے، دو دن دہلی کے اندر کچھ لوگوں سے ملاقاتیں کریں گے تو وہاں کا سروے آپ کا ہو جائے گا۔ تو یہ بتائیے کہ یہ سروے کا کیا طریقہ ہے؟ تو وہ کہنے لگے آپ کی بات معقول ہے، واقعتاً جتنا وقت مجھے دینا چاہیے تھا اتنا میں دے نہیں پا رہا۔ مگر میں کیا کروں کہ میرے پاس وقت کم تھا۔ تو میں نے کہا معاف فرمائیے، اگر وقت کم تھا تو کس ڈاکٹر نے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ آپ سروے کریں؟ اس لیے کہ اگر سروے کرنا ہے تو پھر ایسے آدمی کو کرنا چاہیے جس کے پاس وقت ہو، جو لوگوں کے پاس جا کر مل سکے، لوگوں سے بات کر سکے، اگر وقت کم تھا تو پھر سروے کی ذمہ داری لینے کی ضرورت کیا تھی؟ تو کہنے لگے کہ بات تو آپ کی ٹھیک ہے لیکن بس ہمیں اتنا ہی وقت دیا گیا تھا اس لیے میں مجبور تھا۔
میں نے کہا، معاف فرمائیے مجھے آپ کے اس سروے کی سنجیدگی پر شک ہے، میں اس سروے کو سنجیدہ نہیں سمجھتا لہٰذا میں اس سروے کے اندر کوئی پارٹی بننے کے لیے تیار نہیں ہوں اور نہ آپ کے کسی سوال کا جواب دینے کے لیے تیار ہوں۔ اس لیے کہ آپ پانچ چھ آدمیوں سے گفتگو کرنے کے بعد یہ رپورٹ دیں گے کہ وہاں پر رائے عامہ یہ ہے۔ اس رپورٹ کی کیا قدر و قیمت ہو سکتی ہے؟ لہٰذا میں آپ کے کسی سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔ وہ بڑا سٹپٹائے اور انہوں نے کہا کہ آپ کی بات ویسے ٹیکنیکلی صحیح ہے لیکن یہ کہ میں چونکہ آپ کے پاس ایک بات پوچھنے کے لیے آیا ہوں تو میرے کچھ سوالوں کا جواب آپ ضرور دے دیں۔ میں نے کہا نہیں، میں آپ کے کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا، جب تک مجھے اس بات کا یقین نہ ہو جائے کہ آپ کا سروے واقعتاً علمی نوعیت کا ہے، سنجیدہ ہے اور علمی شرائط پوری کرتا ہے، تو میں اس سروے کے اندر کوئی پارٹی بننے کے لیے تیار نہیں ہوں، آپ مجھے معاف فرمائیں، میرے مہمان ہیں، میں آپ کی خاطر تواضع جو کر سکتا ہوں وہ کروں گا، باقی کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا۔ میں نے کہا، بتا دیجئے اگر میری بات میں کوئی غیر معقولیت ہے تو مجھے سمجھا دیجئے کہ میرا موقف غلط ہے اور فلاں بنیاد پر غلط ہے۔ کہنے لگے بات تو آپ کی معقول ہے لیکن میں آپ سے ویسے برادرانہ طور پر چاہتا ہوں کہ آپ کچھ جواب دیں۔ میں نے کہا میں جواب نہیں دوں گا، البتہ آپ مجھے اجازت دیں تو میں آپ سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا میں آپ سے اجازت طلب کر رہا ہوں اگر آپ اجازت دیں تو میں سوال کر لوں گا، اگر اجازت نہیں دیں گے تو میں بھی سوال نہیں کروں گا اور ہم دونوں کی ملاقات ہو گئی، بات ختم ہو گئی۔ کہنے لگے، نہیں آپ سوال کر لیجئے۔
تو میں نے کہا میں سوال آپ سے یہ کرنا چاہتا ہوں کہ آپ آزادیٔ اظہار ِ رائے اور انسانی حقوق کا عَلم لے کر چلے ہیں تو میں ایک بات آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ آزادیٔ اظہارِ رائے جس کی آپ تبلیغ کرنا چاہتے ہیں اور کر رہے ہیں اور جس عَلم کو لے کر چلے ہیں، یہ آزادیٔ اظہارِ رائے Absolute یعنی مطلق ہے؟ اس پر کوئی قید کوئی پابندی کوئی شرط عائد نہیں ہوتی؟ یا یہ کہ آزادیٔ اظہارِ رائے پر کچھ قیود و شرائط بھی عائد ہونی چاہئیں؟ کہنے لگے میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔ تو میں نے کہا، مطلب تو الفاظ سے واضح ہے۔ میں یہ آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ جس آزادیٔ اظہارِ رائے کی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں تو کیا وہ ایسی ہے کہ جس شخص کی جو رائے ہو اس کا برملا اظہار کرے، اس کی برملا تبلیغ کرے، برملا اس کی طرف دعوت دے، اور اس پر کوئی روک ٹوک کوئی پابندی عائد نہ ہو؟ یہ مقصود ہے؟
اگر یہ مقصود ہے تو فرمائیے کہ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ میری رائے یہ ہے کہ یہ دولت مند افراد انہوں نے بہت پیسے کما لیے اور غریب لوگ بھوکے مر رہے ہیں، لہٰذا ان دولت مندوں کے گھروں پر ڈاکہ ڈال کر اور ان کی دکانوں کو لوٹ کر غریبوں کو پیسہ پہنچانا چاہیے۔ اگر کوئی شخص دیانتدارانہ یہ رائے رکھتا ہو اور یہ رائے رکھ کر اس کی طرف تبلیغ کرے اور اس کا اظہار کرے، لوگوں کو دعوت دے کہ آپ آئیے اور میرے ساتھ شامل ہو جائیے۔ اور یہ جتنے دولت مند لوگ ہیں، روزانہ ان پر ڈاکہ ڈالا کریں گے، ان کا مال لوٹا کریں گے اور مال لوٹ کر غریبوں میں تقسیم کیا کریں گے؟ تو آپ ایسی اظہارِ رائے کی آزادی کے حامی ہوں گے یا نہیں؟ اور اس کی اجازت دیں گے کہ نہیں؟
کہنے لگے اس کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ لوگوں کا مال لوٹ کر دوسروں میں تقسیم کر دیا جائے۔ تو میں نے کہا یہی میرا مطلب تھا کہ اگر اس کی اجازت نہیں دی جائے گی تو اس کا معنی یہ ہے کہ آزادیٔ اظہارِ رائے اتنی Absolute اتنی مطلق نہیں ہے کہ اس پر کوئی قید کوئی شرط کوئی پابندی عائد نہ کی جا سکے۔ کچھ نہ کچھ قید، شرط لگانی پڑے گی۔ کہنے لگے، ہاں کچھ نہ کچھ تو لگانی پڑے گی۔
تو میں نے کہا، مجھے یہ بتائیے کہ وہ قید و شرط کس بنیاد پر لگائی جائے گی اور کون لگائے گا؟ کس بنیاد پر یہ طے کیا جائے کہ فلاں قسم کی رائے کا اظہار کرنا تو جائز ہے اور فلاں قسم کی رائے کا اظہار کرنا جائز نہیں ہے؟ فلاں قسم کی تبلیغ جائز ہے اور فلاں قسم کی تبلیغ جائز نہیں ہے؟ اس کا تعین کون کرے گا اور کس بنیاد پر کرے گا؟ اس سلسلہ میں آپ کے ادارے نے کوئی علمی سروے کیا ہو اور علمی تحقیق کی ہو تو میں اس کو جاننا چاہتا ہوں۔ کہنے لگے کہ اس نقطۂ نظر سے پہلے ہم نے غور نہیں کیا۔ تو میں نے عرض کیا کہ دیکھیے! آپ اتنے بڑے مشن کو لے کر چلے ہیں، پوری انسانیت کو آزادیٔ اظہارِ رائے دلانے کے لیے، ان کو حقوق دلانے کے لیے، لیکن آپ نے بنیادی سوال نہیں سوچا کہ آخر آزادیٔ اظہارِ رائے کس بنیاد پر طے ہونی چاہیے؟ کیا اصول ہوں؟ کیا پرنسپلز ہوں؟ کیا شرطیں اور کیا قیود ہوں؟ تو کہنے لگے اچھا آپ ہی بتا دیجئے۔ تو میں نے کہا میں تو پہلے عرض کر چکا ہوں کہ میں کسی سوال جواب دینے بیٹھا ہی نہیں۔ میں تو آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ آپ مجھے بتائیے کہ کیا قیود و شرائط ہونی چاہئیں اور کیا نہیں۔ میں نے تو آپ سے سوال کیا ہے کہ آپ کے نقطۂ نظر سے، آپ کے ادارے کے نقطۂ نظر سے کیا ہونا چاہیے؟
کہنے لگے میرے علم میں ابھی تک ایسا کوئی فارمولا نہیں ہے، ایک فارمولا ذہن میں آتا ہے کہ صاحب! ایسی آزادیٔ اظہارِ رائے جس میں Violence ہو جس میں دوسرے کے ساتھ تشدد ہو تو وہ نہیں ہونی چاہیے۔ میں نے کہا یہ تو آپ کے ذہن میں آیا کہ وائیلنس کی پابندی ہونی چاہیے، کسی اور کے ذہن میں کوئی اور بات بھی آ سکتی ہے کہ فلاں چیز کی آزادی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ کون طے کرے گا اور کس بنیاد پر طے کرے گا کہ کس قسم کی اظہارِ رائے کی کھلی چھٹی ہونی چاہیے، کس کی نہیں؟ اس کا کوئی فارمولا کچھ نہ کچھ معیار ہونا چاہیے۔ کہنے لگے، آپ سے گفتگو کے بعد یہ اہم سوال میرے ذہن میں آیا ہے اور میں اپنے ذمہ داروں تک اس کو پہنچاؤں گا اور اس کے بعد اس پر اگر کوئی لٹریچر ملا تو آپ کو بھیجوں گا۔ تو میں نے کہا ان شاء اللہ میں منتظر رہوں گا کہ اگر آپ اس کے اوپر کوئی لٹریچر بھیج سکیں اور اس کا کوئی فلسفہ بتا سکیں تو میں ایک طالب علم کی حیثیت میں اس کا مشتاق ہوں۔
جب وہ چلنے لگے، ان کو مجھ سے کوئی بات نہیں ملی تو اس وقت میں نے ان سے کہا کہ میں سنجیدگی سے آپ سے کہہ رہا ہوں، یہ بات مذاق کی نہیں ہے، سنجیدگی سے چاہتا ہوں کہ اس مسئلے پر غور کیا جائے، اس کے بارے میں آپ اپنا نقطۂ نظر بھیجیں، لیکن ایک بات میں آپ کو بتا دوں کہ جتنے آپ کے نظریات اور فلسفے ہیں، ان سب کو مدنظر رکھ لیجئے، کوئی ایسا متفقہ فارمولا آپ پیش کر نہیں سکیں گے جس پر ساری دنیا متفق ہو جائے کہ فلاں بنیاد پر اظہارِ رائے کی آزادی ہونی چاہیے اور فلاں بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے۔ تو یہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں اور اگر پیش کر سکیں تو میں منتظر ہوں۔ آج ڈیڑھ سال ہو گیا ہے کوئی جواب نہیں آیا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ مجمل نعرے، یہ اجمالی نعرے کہ صاحب! ہیومن رائٹس ہونے چاہئیں، آزادیٔ اظہارِ رائے ہونی چاہیے، تحریر و تقریر کی آزادی ہونی چاہیے، یہ اجمالی نعرے، ان کی ایسی کوئی بنیاد جس پر ساری دنیا متفق ہو سکے اور جس کے بارے میں معقولیت سے کہا جا سکے کہ یہ ہے وہ بنیاد جو اس کو طے کر سکے، یہ کسی کے پاس نہیں ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ کیوں؟ اس واسطے کہ جو کوئی بھی یہ بنیادیں طے کرے گا وہ اپنی سوچ اور اپنی عقل کی بنیاد پر کرے گا۔ اور کبھی دو انسانوں کی عقل یکساں نہیں ہوتی، دو زمانوں کی عقلیں یکساں نہیں ہوتیں، دو گروپوں کی عقلیں یکساں نہیں ہوتیں، لہٰذا ان کے درمیان اختلاف رہا ہے، رہے گا، اور اس اختلاف کو ختم کرنے کا کوئی راستہ نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ انسانی عقل اپنی ایک لمیٹیشن رکھتی ہے، اس کی حدود ہیں، اس سے آگے وہ تجاوز نہیں کر پاتی۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پوری انسانیت کے لیے سب سے بڑا احسانِ عظیم یہ ہے کہ سرکار دو عالمؐ نے ان تمام معاملات کو طے کرنے کی وہ بنیاد فراہم کی ہے کہ کون سا حق قابلِ تحفظ ہے اور کون سا حق قابلِ تحفظ نہیں۔ اس کی واحد بنیاد یہ ہے کہ وہ ذات جس نے اس پوری کائنات کو پیدا کیا، وہ ذات جس نے انسانوں کو پیدا کیا، اسی سے پوچھو کہ کون سے انسانی حقوق قابلِ تحفظ ہیں اور کون سے انسانی حقوق قابلِ تحفظ نہیں؟ وہی بتا سکتا ہے، اس کے سوا کوئی نہیں بتا سکتا۔ اور اس ذات کے ساتھ، اس خالقِ کائنات کے ساتھ رشتہ جوڑا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ اور رشتہ جوڑا وحی کا، وہ مقام جہاں پر انسان کی عقل آ کر ناکارہ ہو جاتی ہے، بے کار ہو جاتی ہے، صحیح جواب نہیں دیتی، اس مقام پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی لے کر آتے ہیں اللہ جل جلالہ کی۔ اور وہ بتاتے ہیں کہ یہ ہے وہ بنیاد جس کی روشنی میں تم اپنے مسائل حل کر سکتے ہو۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ پہلے ہمیں یہ بتاؤ کہ اسلام ہمیں کیا حقوق دیتا ہے، پھر ہم اسلام کو مانیں گے۔ میں نے کہا، اسلام کو تمہاری ضرورت نہیں۔ اگر اسلام کو اس وجہ سے ماننا کہ حقوق پہلے اپنے ذہن میں طے کر لیے کہ یہ حقوق جہاں ملیں گے وہاں جائیں گے، اور اس کے بعد پھر اسلام میں اس خاطر آتے ہو کہ یہ حقوق چونکہ اسلام میں مل رہے ہیں اس واسطے میں جا رہا ہوں، تو یاد رکھو اسلام کو تمہاری ضرورت نہیں۔ اسلام کا مفہوم یہ ہے کہ پہلے اپنی عاجزی، درماندگی اور شکستگی پیش کرو کہ ان مسائل کو حل کرنے میں ہماری عقل عاجز ہے اور سوچ عاجز ہے، ہمیں وہ بنیاد چاہیے جس کی بنیاد پر ہم مسائل کو حل کریں۔ جب آدمی اس نقطہ نظر سے اسلام کی طرف رجوع کرتا ہے تو پھر اسلام ہدایت و راہنمائی پیش کرتا ہے۔ ’’ھدًی لِلمتقین‘‘ یہ ہدایت متقین کے لیے ہے۔ متقین کے کیا معنی؟ متقین کے معنی یہ ہیں کہ جس کے دل میں طلب ہو، یہ ہو کہ ہم اپنی عاجزی کا اقرار کرتے ہیں، درماندگی کا اعتراف کرتے ہیں، پھر رجوع کرتے ہیں اپنے مالک اور خالق کے سامنے کہ آپ ہم بتائیے کہ ہمارے لیے کیا راستہ ہے۔ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ پیغام لے کر آئے۔ لہٰذا یہ جو آج کی دنیا کے اندر ایک فیشن بن گیا کہ صاحب! پہلے یہ بتاؤ کہ ہیومن رائٹس کیا ملیں گے تب اسلام میں داخل ہوں گے، تو یہ طریقہ اسلام میں داخل ہونے کا نہیں ہے۔
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس امت کو پیغام دیا، دعوت دی تو آپ نے جتنے غیر مسلموں کو دعوت دی، کسی جگہ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ اسلام میں آجاؤ تمہیں فلاں فلاں حقوق مل جائیں گے۔ بلکہ یہ فرمایا کہ میں تم کو اللہ جل جلالہ کی عبادت کی طرف دعوت دیتا ہوں ’’قولوا لا الٰہ الا اللہ تفلحون‘‘ یہ مادی منافع، مادی مصلحتوں اور مادی خواہشات کی خاطر اگر کوئی اسلام میں آنا چاہتا ہے تو درحقیقت اخلاص کے ساتھ صحیح راستہ تلاش نہیں کر رہا۔ پہلے وہ اپنی عاجزی کا اعتراف کرے کہ ہماری عقلیں ان مسائل کو حل کرنے سے عاجز ہیں۔
اور یاد رکھیے! یہ موضوع بڑا طویل ہے کہ عقلِ انسانی بیکار نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں عقل عطا فرمائی یہ بڑی کارآمد چیز ہے۔ مگر یہ اس حد تک کارآمد ہے جب تک اس کو اس کی حدود میں استعمال کیا جائے، اور حدود سے باہر اگر اس کو استعمال کرو گے تو وہ غلط جواب دینا شروع کر دے گی۔ اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک اور ذریعۂ علم عطا فرمایا ہے، اس کا نام وحی الٰہی ہے، جہاں عقل جواب دے جاتی ہے اور کارآمد نہیں رہتی، وحیٔ الٰہی اسی جگہ آ کر رہنمائی کرتی ہے۔
دیکھو! اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں آنکھ دی، کان دیے، یہ زبان دی۔ آنکھ سے دیکھ کر ہم بہت سی چیزیں معلوم کرتے ہیں، کان سے سن کر بہت سی چیزیں معلوم کرتے ہیں، زبان سے چکھ کر بہت ساری چیزیں معلوم کرتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کا اپنا ایک فنکشن رکھا ہے، ہر ایک کا اپنا عمل ہے، اس حد تک وہ کام دیتا ہے، اس سے باہر نہیں دیتا۔ آنکھ دیکھ سکتی ہے، سن نہیں سکتی، کوئی شخص یہ چاہے کہ میں آنکھ سے سنوں تو وہ احمق ہے۔ کان سن سکتا ہے دیکھ نہیں سکتا، کوئی شخص یہ چاہے کہ کان سے میں دیکھنے کا کام لوں تو وہ بے وقوف ہے، اس واسطے کہ یہ اس کام کے لیے پیدا نہیں ہوا۔ اور ایک حد ایسی آتی ہے جہاں نہ آنکھ کام دے رہی ہے نہ کان کام دے رہے ہیں نہ زبان کام دے رہی ہے۔ اس موقع کے لیے اللہ تعالیٰ نے عقل عطا فرمائی ہے کہ عقل انسان کی راہنمائی کرتی ہے۔
دیکھیے یہ کرسی ہمارے سامنے رکھی ہے، آنکھ سے دیکھ کر معلوم کیا کہ اس کے ہینڈل زرد رنگ کے ہیں، ہاتھ سے چھو کر معلوم کیا کہ یہ چکنے ہیں۔ لیکن تیسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آیا خودبخود وجود میں آ گئی یا کسی نے اس کو بنایا؟ تو وہ بنانے والا میرے آنکھوں کے سامنے نہیں ہے، اس واسطے میری آنکھ بھی اس سوال کا جواب نہیں دے سکتی، میرا ہاتھ بھی اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا، اس موقع کے لیے اللہ تعالیٰ نے تیسری چیز عطا فرمائی ہے جس کا نام عقل ہے۔ عقل سے میں نے سوچا کہ یہ جو ہینڈل ہے، یہ بڑے قاعدے کا بنا ہوا ہے، یہ خود سے وجود میں نہیں آ سکتا۔ کسی بنانے والے نے اس کو بنایا ہے۔ یہاں عقل نے میری راہنمائی کی ہے۔ لیکن ایک چوتھا سوال آگے چل کر یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کرسی کو کس کام (موقع) میں استعمال کرنا چاہیے، کس میں نہیں کرنا چاہیے؟ کہاں اس کو استعمال کرنے سے فائدہ ہو گا کہاں نقصان ہو گا؟ یہ سوال جو ہے اس سوال کا حل کرنے کے لیے عقل بھی ناکام ہو جاتی ہے۔
اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ایک چوتھی چیز عطا فرمائی اور اس کا نام ہے وحیٔ الٰہی۔ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتی ہے، وہ خیر اور شر کا فیصلہ کرتی ہے، وہ نفع اور نقصان کا فیصلہ کرتی ہے، جو بتاتی ہے کہ اس چیز میں خیر ہے اس میں شر ہے، اس میں نفع ہے اس میں نقصان ہے۔ وحی آتی ہی اس مقام پر ہے جہاں انسان کی عقل کی پرواز ختم ہو جاتی ہے۔ لہٰذا جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم آ جائے اور وہ اپنی عقل میں نہ آئے، سمجھ میں نہ آئے تو اس کی وجہ سے اس کو رد کرنا کہ صاحب! میری تو عقل میں نہیں آ رہا لہٰذا میں اس کو رد کرتا ہوں، تو یہ درحقیقت اس عقل کی اور وحیٔ الٰہی کی حقیقت ہی سے جہالت کا نتیجہ ہے۔ اسے سمجھ میں اس لیے نہیں آ رہا کہ اگر سمجھ میں آتا تو وحی آنے کی ضرورت کیا تھی؟ وحی تو آئی ہی اس لیے کہ تم اپنی تنہا عقل کے ذریعے اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے تھے، اللہ تبارک تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے تمہاری مدد فرمائی۔ تو اس واسطے اگر عقل سے خودبخود فیصلہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ایک حکم نازل کر دیتے بس کہ ہم نے تمہیں عقل دی ہے، عقل کے مطابق جو چیز اچھی لگے وہ کرو اور جو بری لگے اس سے بچ جاؤ۔ نہ کسی کتاب کی ضرورت نہ کسی رسول کی ضرورت نہ کسی پیغمبر کی ضرورت نہ کسی مذہب اور دین کی ضرورت۔ عقل دی اور اس عقل کے مطابق کام کرو۔ جب اللہ نے اس عقل دینے کے باوجود اس پر اکتفا نہیں فرمایا، رسول بھیجے، کتابیں اتاریں، وحی بھیجی، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ تنہا عقل انسان کی راہنمائی کے لیے کافی نہیں تھی، اس کے بعد وحیٔ الٰہی اس لیے آئی۔
آج کل لوگ کہتے ہیں کہ صاحب ہمیں چونکہ اس کا فلسفہ سمجھ میں نہیں آیا لہٰذا ہم نہیں مانتے۔ تو وہ درحقیقت دین کی حقیقت ہی سے ناواقف ہیں، حقیقت سے جاہل ہیں، سمجھ میں آ ہی نہیں سکتا۔ اور یہیں سے ایک اور بات کا جواب مل جاتا ہے جو آج کل بڑی کثرت سے لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے چاند پر جانے کا کوئی طریقہ نہیں بتایا، خلا کو فتح کرنے کا کوئی فارمولا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں بتایا، یہ سب قومیں اس قسم کے فارمولے حاصل کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گئیں اور ہم قرآن بغل میں رکھنے کے باوجود پیچھے رہ گئے، تو قرآن اور سنت نے یہ فارمولے کیوں نہیں بتلائے؟ جواب اس کا یہی ہے کہ اس لیے نہیں بتایا کہ وہ چیز تمہارے عقل کے دائرے کی تھی، اپنی عقل سے اور اپنے تجربے اور محنت سے جتنا آگے بڑھو گے اس کے اندر تمہیں انکشافات ہوتے چلے جائیں گے، وہ تمہارے عقل کے دائرے کی چیز تھی، عقل اس کا ادراک کر سکتی تھی۔ اس واسطے اس کے لیے نبی بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی، اس کے لیے رسول بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی، اس کے لیے کتاب نازل کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن کتاب اور رسول کی ضرورت تھی وہاں جہاں تمہاری عقل عاجز تھی۔ جیسے کہ انٹرنیشنل ایمنسٹی والے آدمی کی عقل عاجز تھی کہ بنیادی حقوق اور آزادیٔ تحریر و تقریر کے اوپر کیا پابندیاں ہونی چاہئیں، کیا نہیں ہونی چاہئیں۔
 اس معاملے میں انسان کی عقل عاجز تھی، اس کے لیے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ آپؐ نے بتایا کہ یہ حق ہے انسان کا جس کا تحفظ ضروری ہے، اور فلاں حق ہے جس کے تحفظ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تو اس لیے پہلے یہ سمجھ لو کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا انسانی حقوق کے سلسلے میں سب سے بڑا کنٹریبیوشن یہ ہے کہ انسانی حقوق کے تعین کی بنیاد فراہم فرمائی کہ کونسا انسانی حق پابندی کے قابل ہے اور کونسا نہیں۔
یہ بات اگر سمجھ میں آجائے تو اب سنیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا حقوق انسان کو عطا فرمائے۔ کن حقوق کو Recognize (تسلیم) کیا، کن حقوق کا تعین فرمایا اور پھر اس کے اوپر عمل کر کے دکھایا۔ آج کی دنیا میں ریکگنائز کرنے والے تو بہت، اور اس کا اعلان کرنے والے بہت، اس کے نعرے لگانے والے بہت، لیکن ان نعروں پر اور ان حقوق کے اوپر جب عمل کرنے کا سوال آ جائے تو وہی ڈھنڈورچی، جو یہ کہتے ہیں کہ انسانی حقوق قابلِ تحفظ ہیں، جب ان کا اپنا معاملہ آ جاتا ہے، اپنے مفاد سے ٹکراؤ پیدا ہو جاتا ہے تو دیکھیے پھر انسانی حقوق کس طرح پامال ہوتے ہیں۔
انسانی حقوق کا ایک تقاضا یہ ہے کہ اکثریت کی حکومت ہونی چاہیے۔ جمہوریت، سیکولر ڈیموکریسی۔ آج امریکہ کی ایک کتاب دنیا بھر میں بہت مشہور ہو رہی ہے ’’دی اینڈ آف ہسٹری اینڈ دی لاسٹ مین‘‘ آج کل کے سارے پڑھے لکھے لوگوں میں مقبول ہو رہی ہے، اس کی ساری تھیسس یہ ہے کہ انسان کی ہسٹری کا خاتمہ جمہوریت کے اوپر ہو گیا اور اب انسانیت کے عروج اور فلاح کے لیے کوئی نیا نظریہ وجود میں نہیں آئے گا۔ یعنی ختمِ نبوت پر ہم اور آپ یقین رکھتے ہیں، (لیکن ان کے خیال میں) اب یہ ختمِ نظریات ہو گیا کہ ڈیموکریسی کے بعد کوئی نظریہ انسانی فلاح کا وجود میں آنے والا نہیں ہے۔ ایک طرف تو یہ نعرہ ہے کہ اکثریت جو بات کہہ دے وہ حق ہے، اس کو قبول کرو، اس کی بات مانو، لیکن وہی اکثریت اگر الجزائر میں کامیاب ہو جاتی ہے اور انتخابات میں اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو اس کے بعد جمہوریت باقی نہیں رہتی، پھر اس کا وجود جمہوریت کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔
تو نعرے لگا لینا اور بات ہے لیکن اس کے اوپر عمل کر کے دکھانا مشکل ہے۔ یہ نعرے لگا لینا بہت اچھی بات ہے کہ سب انسانوں کو ان کے حقوق ملنے چاہئیں، ان کو آزادیٔ اظہارِ رائے ہونی چاہیے اور لوگوں کو حقِ خودارادی ملنا چاہیے، اور یہ سب کچھ۔ لیکن جن لوگوں کا حقِ خودارادی پامال کر کے ان کے سر سے لے کر پاؤں تک ان کو جبر و تشدد کی چکی میں پیسا جا رہا ہے، ان کے بارے میں آواز اٹھاتے ہوئے زبان تھراتی ہے۔ اور وہی جمہوریت اور آزادی کے مناد، منادی کرنے والے، وہ ان کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں۔ تو بات صرف یہ نہیں ہے کہ زبان سے کہہ دیا جائے کہ انسانی حقوق کیا ہیں؟ بات یہ ہے کہ جو بات زبان سے کہو اس کو کر کے دکھاؤ۔ اور یہ کام کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ آپ نے جو حق دیا اس پر عمل کر کے دکھایا۔
غزوۂ بدر کا موقع ہے اور حضرت حذیفہ بن یمانؓ اپنے والد ماجد کے ساتھ سفر کرتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے مدینہ جا رہے ہیں۔ راستے میں ابوجہل کے لشکر سے ٹکراؤ ہو جاتا ہے اور ابوجہل کا لشکر کہتا ہے ہم تمہیں محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جانے نہیں دیں گے اس لیے کہ تم جاؤ گے تو ہمارے خلاف ان کے لشکر میں شامل ہو گے، ہمارے خلاف جنگ کرو گے۔ یہ بیچارے پریشان ہوتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے جانا تھا اور انہوں نے روک لیا۔ آخرکار انہوں نے کہا اس شرط پر تمہیں چھوڑیں گے کہ ہم سے وعدہ کرو۔ اس بات کا وعدہ کرو کہ جاؤ گے اور جانے کے بعد ان کے لشکر میں شامل نہیں ہو گے، ہم سے جنگ نہیں کرو گے۔ اگر یہ وعدہ کرتے ہو تو ہم تمہیں چھوڑتے ہیں۔ حضرت حذیفہؓ اور ان کے والدؓ نے وعدہ کر لیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف زیارت کریں گے، ان کے لشکر میں شامل ہو کر آپ سے لڑیں گے نہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے، جب کفار کے ساتھ جنگ کا وقت آیا۔ اور کیسی جنگ؟ ایک ہزار مکہ مکرمہ کے مسلح سورما اور اس کے مقابلے میں ۳۱۳ نہتے، جن کے پاس آٹھ تلواریں، دو گھوڑے، ستر اونٹ۔ آٹھ تلواروں کے سوا تین سو تیرہ آدمیوں کے پاس اور تلوار بھی نہیں تھی، کسی نے لاٹھی اٹھائی ہوئی ہے، کسی نے پتھر اٹھایا ہوا ہے۔ اس موقع پر ایک ایک آدمی کی قیمت تھی، ایک ایک انسان کی قیمت تھی۔ کسی نے کہا یا رسول اللہ! یہ نئے آدمی ہیں، آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے ہیں اور ان سے زبردستی معاہدہ کرایا گیا ہے، یہ وعدہ زبردستی لیا گیا کہ تم جنگ میں شامل نہیں ہو گے تو اس واسطے ان کو اجازت دے دیجئے کہ جہاد میں شامل ہو جائیں۔ اور جہاد بھی کونسا؟ یوم الفرقان، جس کے اندر شامل ہونے والا ہر فرد بدری بن گیا۔ جس کے بارے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کے سارے گناہ اگلے پچھلے معاف فرمائے ہیں۔ اتنا بڑا غزوہ ہو رہا ہے، حذیفہ بن یمانؓ چاہتے ہیں، دل مچل رہا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہو جائیں۔
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب یہ ہے کہ نہیں، ابو جہل کے لشکر سے وعدہ کر کے آئے ہو کہ جنگ نہیں کرو گے تو مومن کا کام وعدہ کی خلاف ورزی نہیں ہے، لہٰذا تم اس جنگ میں شامل نہیں ہو سکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ میں شامل ہونے سے روک دیا۔ یہ ہے کہ جب وقت پڑے، اس وقت انسان اصول کو نبھائے۔ یہ نہیں کہ زبان سے تو کہہ دیا کہ ہم انسانی حقوق کے علمبردار ہیں اور ہیروشیما اور ناگاساکی پر بے گناہ بچوں کو بے گناہ عورتوں کو تہہ و بالا کر دیا کہ ان کی نسلیں تک معذور پیدا ہو رہی ہیں، اور جب جنگ کا اپنا وقت پڑ جائے تو اس میں کوئی اخلاق کوئی کردار دیکھنے والا نہ ہو۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی حقوق بتائے بھی اور عمل کر کے بھی دکھایا۔ کیا حقوق؟ سنیے!
انسانی حقوق میں سب سے پہلا حق انسان کی جان کا حق ہے۔ ہر انسان کی جان کا تحفظ انسان کا بنیادی حق ہے کہ کوئی اس کی جان پر دست درازی نہ کرے ’’لا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق‘‘ کسی بھی جان کے اوپر دست درازی نہیں کی جا سکتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دے دیا۔ اور کیا حکم دے دیا؟ کہ جنگ میں جا رہے ہو، کفار سے مقابلہ ہے، دشمن سے مقابلہ ہے، اس حالت میں بھی تمہیں کسی بچے پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں، کسی عورت پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں، بوڑھے پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں۔ عین جہاد کے موقع پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ یہ پابندی ایسی نہیں ہے کہ صرف زبانی جمع خرچ ہو، جیسا کہ میں نے ابھی بتایا کہ صاحب! زبانی طور پر تو کہہ دیا اور تہس نہس کر دیا سارے بچوں کو بھی اور عورتوں کو بھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار صحابہ کرامؓ نے اس پر عمل کر دکھایا۔ ان کا ہاتھ کسی عورت پر نہیں اٹھا، ان کا ہاتھ کسی بچے پر نہیں اٹھا، ان کا ہاتھ کسی بوڑھے پر نہیں اٹھا، عمل کر کے دکھایا۔ یہ ہے جان کا تحفظ۔
مال کا تحفظ انسان کا دوسرا بنیادی حق ہے۔ ’’لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل‘‘ باطل کے ساتھ ناحق طریقے سے کسی کا مال نہ کھاؤ۔ اس پر عمل کر کے کیسے دکھایا؟ یہ نہیں ہے کہ تاویل کر کے، توجیہ کر کے مال کھا گئے کہ جب تک اپنے مفادات وابستہ تھے اس وقت تک بڑی دیانت تھی، بڑی امانت تھی، لیکن جب معاملہ جنگ کا آ گیا، دشمنی ہو گئی تو اب یہ ہے کہ صاحب تمہارے اکاؤنٹس منجمد کر دیے جائیں گے، تمہارے اکاؤنٹس فریز کر دیے جائیں گے۔ جب مقابلہ ہو گیا تو اس وقت میں حقوقِ انسانی غائب ہو گئے، اب مال کا تحفظ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مثال پیش وہ عرض کرتا ہوں۔ غزوہ خیبر ہے، یہودیوں کے ساتھ لڑائی ہو رہی ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ کے ساتھ خیبر کے اوپر حملہ آور ہیں اور اس خیبر کے گرد محاصرہ کیے ہوئے ہیں۔ آنحضرتؐ کی آرمی پڑی ہوئی ہے خیبر کے قلعہ کے اردگرد، خیبر کے اندر ایک بے چارا چھوٹا سا چرواہا جو اجرت پر بکریاں چرایا کرتا تھا، اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ خیبر سے باہر آنحضرتؐ کا لشکر پڑا ہوا ہے تو جا کر دیکھوں تو سہی، آپؐ کا نام تو بہت سنا ہے محمدؐ، وہ کیا کہتے ہیں اور کیسے آدمی ہیں؟ بکریاں لے کر خیبر کے قلعے سے نکلا اور آنحضرتؐ کی تلاش میں مسلمانوں کے لشکر میں داخل ہوا۔ کسی سے پوچھا کہ بھائی محمدؐ کہاں ہیں؟ تو لوگوں نے بتایا کہ فلاں خیمے کے اندر ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ مجھے یقین نہیں آیا کہ اس خیمے کا اندر ،یہ کھجور کا معمولی سا خیمہ جھونپڑی، اس میں اتنا بڑا سردار اتنا بڑا نبی، وہ اس خیمے کے اندر ہے؟ لیکن جب لوگوں نے بار بار کہا تو اس میں چلا گیا۔ اب جب داخل ہوا تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، جا کر کہا کہ یا رسول اللہ! آپؐ کیا پیغام لے کر آئے ہیں؟
آپؐ نے مختصرًا بتایا، توحید کے عقیدے کی وضاحت فرمائی۔ کہنے لگا اگر میں آپ کے اس پیغام کو قبول کر لوں تو میرا کیا مقام ہو گا؟ تو آنحضرتؐ نے فرمایا ہم تمہیں سینے سے لگائیں گے، تم ہمارے بھائی ہو جاؤ گے اور جو حقوق دوسروں کو حاصل ہیں وہ تمہیں بھی حاصل ہوں گے۔ کہنے لگا، آپ مجھ سے ایسی بات کرتے ہیں، مذاق کرتے ہیں، ایک کالا بھجنگ چرواہا سیاہ فام، میرے بدن سے بدبو اٹھ رہی ہے، اس حالت کے اندر آپ مجھے سینے سے لگائیں گے؟ فرمایا کہ ہاں ہم تہیں سینے سے لگائیں گے۔ کہا، یہاں تو مجھے دھتکارا جاتا ہے، میرے ساتھ اہانت آمیز برتاؤ کیا جاتا ہے، تو آپ یہ جو مجھے سینے سے لگائیں گے تو کس وجہ سے لگائیں گے؟ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ کی مخلوق، اللہ کی نگاہ میں سب بندے برابر ہیں، اس واسطے ہم تمہیں سینے سے لگائیں گے۔ کہا کہ اگر میں آپ کی بات مان لوں، مسلمان ہو جاؤں تو میرا انجام کیا ہو گا؟ تو سرکار دو عالمؐ نے فرمایا کہ اگر اسی جنگ کے اندر مر گئے تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تمہاری اس چہرے کی سیاہی کو تابانی سے بدل دے گا اور تمہارے جسم کی بدبو کو خوشبو سے بدل دے گا، میں گواہی دیتا ہوں۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا، اس اللہ کے بندے کے دل پر اثر ہوا کہ اگر آپؐ یہ فرماتے ہیں تو ’’اشھد ان لا الٰہ الا اللہ واشھد ان محمدًا رسول اللہ‘‘ عرض کیا میں مسلمان ہو گیا اب جو حکم آپ دیں وہ کرنے کو تیار ہوں۔
سنیے! سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلا حکم اس کو کیا دیا؟ یہ نہیں دیا کہ نماز پڑھو، یہ نہیں دیا کہ روزہ رکھو، پہلا حکم یہ دیا کہ جو کسی کی بکریاں تم چرانے کے لیے لے کر آئے ہو یہ تمہارے پاس امانت ہیں، پہلے ان بکریوں کو واپس دے کر آؤ اور اس کے بعد آ کر پوچھنا کہ مجھے کیا کرنا ہے؟ بکریاں کس کی؟ یہودیوں کی۔ جن کے اوپر حملہ آور ہیں، جن کے ساتھ جنگ چھڑی ہوئی ہے، جن کا مالِ غنیمت چھینا جا رہا ہے۔ لیکن فرمایا کہ یہ مالِ غنیمت جنگ کی حالت میں چھیننا تو جائز تھا لیکن تم لے کر آئے ہو ایک معاہدہ کے تحت، اور اس معاہدے کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے مال کا تحفظ، معاہدے کا تحفظ کیا جائے، یہ ان کا حق ہے لہٰذا ان کو پہنچا کر آؤ۔ اس نے کہا کہ یا رسول اللہ! بکریاں تو ان دشمنوں کی ہیں جو آپ کے خون کے پیاسے ہوئے ہیں اور پھر آپ واپس لوٹاتے ہیں؟ فرمایا کہ ہاں، پہلے ان کو واپس لوٹاؤ۔ چنانچہ بکریاں واپس لوٹائی گئیں۔
کوئی مثال پیش کرے گا عین میدانِ جنگ میں، عین حالتِ جنگ کے اندر انسانی مال کے تحفظ کا حق ادا کیا جا رہا ہو؟ جب بکریاں واپس کر دیں تو عرض کیا اب کیا کروں؟ فرمایا کہ نہ تو نماز کا وقت ہے کہ تمہیں نماز پڑھواؤں، نہ رمضان کا مہینہ ہے کہ روزے رکھواؤں، نہ تمہارے پاس مال ہے کہ زکوٰۃ دلواؤں، ایک ہی عبادت اس وقت ہو رہی ہے جو کہ تلوار کے چھاؤں کے نیچے ادا کی جاتی ہے، وہ ہے جہاد، اس میں شامل ہو جاؤ۔ چنانچہ وہ اس میں شامل ہو گیا۔ اس کا اسود راعی نام آتا ہے۔ جب جہاد ختم ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جنگ ختم ہونے کے بعد دیکھنے جایا کرتے تھے کہ کون زخمی ہوا، کون شہید ہوا، تو دیکھا کہ ایک جگہ صحابہ کرامؓ کا مجمع لگا ہوا ہے، آپس میں صحابہؓ پوچھ رہے ہیں کہ یہ کون آدمی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ تو صحابہ کرامؓ نے بتلایا کہ یہ ایسے شخص کی لاش ملی ہے کہ جس کو ہم میں سے کوئی پہچانتا نہیں۔ آپؐ نے قریب پہنچ کر دیکھا اور فرمایا تم نہیں پہچانتے، میں پہچانتا ہوں اور میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کو جنت الفردوس کے اندر کوثر و تسنیم سے غسل دیا ہے اور اس کے چہرے کی سیاہی کو تابانی سے بدل دیا ہے، اس کے جسم کی بدبو کو خوشبو سے تبدیل فرما دیا ہے۔
یہ بات کہ مال کا تحفظ ہو، محض کہہ دینے کی بات نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھایا ،کافر کے مال کا تحفظ، دشمن کے مال کا تحفظ، جو معاہدے کے تحت ہو، یہ مال کا تحفظ ہے۔
تیسرا انسان کا بنیادی حق یہ ہے کہ اس کی آبرو محفوظ ہو۔ آبرو کے تحفظ کا نعرہ لگانے والے بہت ہیں لیکن یہ پہلی بار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ انسان کی آبرو کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ پیٹھ پیچھے اس کی برائی نہ کی جائے، غیبت نہ کی جائے۔ آج بنیادی حقوق کا نعرہ لگانے والے بہت، لیکن کوئی اس بات کا اہتمام کرے کہ کسی کا پیٹھ کے پیچھے ذکر برائی سے نہ کیا جائے؟ غیبت کرنا بھی حرام، غیبت سننا بھی حرام، اور فرمایا کہ کسی انسان کے دل کو نہ توڑا جائے۔ یہ انسان کے لیے گناہِ کبیرہ ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ افقہ الصحابہؓ حضورؐ کے ساتھ بیت اللہ شریف کا طواف فرما رہے ہیں، طواف کے دوران آنحضرتؐ نے کعبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے بیت اللہ! تو کتنا مقدس ہے، کتنا مکرم کتنا معظم ہے۔ یہ الفاظ فرمائے، پھر عبد اللہ بن مسعودؓ سے خطاب کر کے فرمایا کہ اے عبد اللہ! یہ کعبۃ اللہ بڑا مقدس بڑا مکرم بڑا معظم ہے، لیکن اس کائنات میں ایک چیز ایسی ہے کہ اس کا تقدس اس کعبۃ اللہ سے بھی زیادہ ہے اور وہ چیز کیا ہے؟ ایک مسلمان کی جان، مال اور آبرو، کہ اس کا تقدس کعبہ سے بھی زیادہ ہے۔ اگر کوئی شخص دوسرے کی جان پر، مال پر، آبرو پر ناحق حملہ آور ہوتا ہے تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ کعبہ کے ڈھا دینے سے بھی زیادہ بڑا جرم ہے، یہ نبی کریمؐ نے حق دیا۔
جو انسان کے بنیادی حقوق ہیں وہ ہیں جان، مال اور آبرو، ان کا تحفظ ضروری ہے۔ پھر انسان کو دنیا میں جینے کے لیے معاش کی ضرورت ہے، روزگار کی ضرورت ہے۔ اس کے بارے میں فرمایا، کسبِ معاش کا تحفظ۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کا جو حق بتایا، کہا کسی انسان کو اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اپنی دولت کے بل بوتے پر دوسروں کے لیے معاش کے دروازے بند کرے۔ نبی کریمؐ نے یہ اصول بیان فرمایا۔ ایک طرف تو یہ فرمایا جس کو کہتے ہیں ’’فریڈم آف کنٹریکٹ‘‘ معاہدے کی آزادی، جو چاہے معاہدہ کرو۔ لیکن فرمایا کہ ہر وہ معاہدہ جس کے نتیجے میں معاشرے کے اوپر خرابی واقع ہوتی ہو، ہر وہ معاہدہ جس کے نتیجے میں دوسرے آدمی پر رزق کا دروازہ بند ہوتا ہو، وہ حرام ہے۔ فرمایا ’’لا یبیع حاضر لباد‘‘ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال فروخت نہ کرے۔ ایک آدمی دیہات سے مال لے کر آیا مثلاً زرعی پیداوار، ترکاریاں لے کر آیا شہر میں فروخت کرنے کے لیے تو فرمایا کہ شہری اس کا آڑھتی نہ بنے اس کا وکیل نہ بنے۔ بھائی کیا حرج ہے اگر دو آدمیوں کے درمیان آپس میں معاہدہ ہوتا ہے کہ میں تمہارا مال فروخت کروں گا، تمہارے سے اجرت لوں گا تو اس میں کیا حرج ہے؟ لیکن نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتلایا کہ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ جو شہری ہے وہ جب مال لے کر بیٹھ جائے گا تو احتکار کرے گا اور بازار کے اوپر اپنی موناپلی قائم کرے گا اجارہ داری قائم کرے گا۔ اس اجارہ داری قائم کرنے کے نتیجے میں دوسرے لوگوں پر معیشت کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ اس واسطے فرمایا ’’لا یبیع حاضر لباد‘‘۔
تو کسبِ معاش کا حق ہر انسان کا ہے کہ کوئی بھی شخص اپنی دولت کے بل بوتے پر دوسرے کے لیے معیشت کے دروازے بند نہ کرے۔ یہ نہیں کہ سود کھا کھا کر، قمار کھیل کھیل کر، گیمبلنگ کر کر کے، سٹہ کھیل کھیل کر آدمی نے اپنے لیے دولت کے انبار جمع کر لیے اور دولت کے انباروں کے ذریعے سے وہ پورے بازار کے اوپر قابض ہو گیا۔ کوئی دوسرا آدمی کسبِ معاش کے لیے داخل ہونا چاہتا ہے تو اس کے لیے دروازے بند ہیں، یہ نہیں۔ بلکہ کسبِ معاش کا تحفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انسانوں کا بنیادی حق قرار دیا اور فرمایا ’’دعوا الناس یرزق اللہ بعضھم ببعض‘‘ لوگوں کو چھوڑ دو کہ اللہ ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعے رزق عطا فرمائیں گے۔ یہ کسبِ معاش کا تحفظ ہے۔ جتنے میں حقوق عرض کر رہا ہوں یہ نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین فرمائے اور متعین فرمانے کے ساتھ ساتھ ان پر عمل کر کے بھی دکھایا۔
عقیدے اور دیانت کے اختیار کرنے کا تحفظ، کہ اگر کوئی شخص کوئی عقیدہ اختیار کیے ہوئے ہے تو اس کے اوپر کوئی پابندی نہیں کہ کوئی زبردستی جا کر مجبور کر کے اسے دوسرا دین اختیار کرنے پر مجبور کرے ’’لا اکراہ فی الدین‘‘ دین میں کوئی زبردستی نہیں، دین کے اندر کوئی جبر نہیں۔ اگر ایک عیسائی ہے تو عیسائی رہے، ایک یہودی ہے تو یہودی رہے، قانوناً اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔ اس کو تبلیغ کی جائے گی، دعوت دی جائے گی، اس کو حقیقتِ حال سمجھانے کی کوشش کی جائے گی، لیکن اس کے اوپر یہ پابندی نہیں ہے کہ زبردستی اس کو اسلام میں داخل کیا جائے۔ ہاں البتہ اگر ایک مرتبہ اسلام میں داخل ہو گیا اور اسلام میں داخل ہو کر اسلام کے محاسن اس کے سامنے آ گئے، تو اب اس کو اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ دارالاسلام میں رہتے ہوئے ہو اس دین کو برملا چھوڑ کر ارتداد کا راستہ اختیار کرے۔ اس واسطے کہ اگر وہ ارتداد کا راستہ اختیار کرے گا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ معاشرے میں فساد پھیلائے گا اور فساد کا علاج آپریشن ہوتا ہے، لہٰذا اس فساد کا آپریشن کر دیا جائے گا اور معاشرے میں اس کو فساد پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کسی کی عقل میں بات آئے یا نہ آئے، کسی سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔
میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ان معاملات کے اندر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنیاد فراہم فرمائی ہے، حق وہ ہے جسے اللہ مانے، حق وہ ہے جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مانیں، اس سے باہر حق نہیں ہے۔ اس لیے ہر شخص عقیدے کو اختیار کرنے میں شروع میں آزاد ہے، ورنہ اگر یہ حکم نہ ہوتا، مرتد ہونے کی سزا کا  حکم نہ ہوتا، مرتد ہونا جرم نہ ہوتا تو اسلام کے دشمن اسلام کو بازیچہ اطفال بنا کر دکھلاتے۔ کتنے لوگ تماشا دکھانے کے لیے اسلام میں داخل ہوتے اور نکلتے؟ قرآن کریم میں ہے، لوگ یہ کہتے ہیں صبح کو اسلام میں داخل ہو جاؤ اور شام کو کافر ہو جاؤ۔ تو یہ تماشا بنا دیا گیا ہوتا۔ اس واسطے دارالاسلام میں رہتے ہوئے ارتداد کی گنجائش نہیں دی جائے گی، اگر واقعتاً دیانتداری سے تمہارا کوئی عقیدہ ہے تو پھر دارالاسلام سے باہر جاؤ، باہر جا کر جو چاہو کرو، لیکن دارالاسلام میں رہتے ہوئے فساد پھیلانے کی اجازت نہیں۔
تو غرض موضوع بڑا طویل ہے لیکن پانچ مثالیں میں نے آپ حضرات کے سامنے پیش کی ہیں (۱) جان کا تحفظ (۲) مال کا تحفظ (۳) آبرو کا تحفظ (۴) عقیدے کا تحفظ (۵) کسبِ معاش کا تحفظ۔ یہ انسان کی بنیادی ضروریات ہیں۔ یہ پانچ مثالیں میں نے پیش کیں لیکن ان پانچ مثالوں میں جو بنیادی بات غور کرنے کی ہے وہ یہ ہے کہ کہنے والے تو اس کے بہت ہیں لیکن اس کے اوپر عمل کر کے دکھانے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلام ہیں۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور کا واقعہ ہے کہ بیت المقدس میں غیر مسلموں سے جزیہ وصول کیا جاتا تھا۔ اس لیے کہ ان کے جان و مال و آبرو کا تحفظ کیا جائے۔ تو ایک موقعہ پر ضرورت پیش آئی بیت المقدس سے فوج بلا کر کسی اور محاذ پر بھیجنے کی۔ زبردست ضرورت داعی تھی۔ حضرت فاروق اعظمؓ نے فرمایا کہ بھائی بیت المقدس میں جو کافر رہتے ہیں ہم نے ان کے تحفظ کی ذمہ داری لی ہے، اگر فوج کو یہاں سے ہٹا لیں گے تو ان کا تحفظ کون کرے گا؟ ہم نے ان سے اس کام کے لیے جزیہ لیا ہے۔ لیکن ضرورت بھی شدید ہے۔ تو سارے غیر مسلموں کو بلا کر کہا کہ بھائی ہم نے تمہاری ذمہ داری لی تھی، اس کی خاطر تم سے یہ ٹیکس بھی وصول کیا تھا، اب ہمیں ضرورت شدید پیش آ گئی ہے جس کی وجہ سے ہم تمہارا تحفظ کماحقہ نہیں کر سکتے اور فوج کو یہاں نہیں رکھ سکتے لہٰذا فوج کو دوسری جگہ ضرورت کی خاطر بھیج رہے ہیں، تو جو ٹیکس تم سے لیا گیا تھا وہ سارا تم کو واپس کیا جاتا ہے، یوں ذمہ داری ادا کی جا رہی ہے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ صحابی ہیں جن پر کہنے والے ظالموں نے کیسے کیسے بہتانوں کی بارش کی ہے، ان کا واقعہ ابوداؤد میں موجود ہے کہ روم کے ساتھ لڑائی کے دوران معاہدہ ہو گیا، جنگ بندی ہو گئی، ایک خاص تاریخ تک یہ طے ہو گیا کہ سیز فائر رہے گا، جنگ بندی رہے گی، کوئی آپس میں ایک دوسرے پر حملہ نہیں کرے گا۔ حضرت معاویہؓ بڑے دانشمند بزرگ تھے، انہوں نے یہ سوچا کہ جس تاریخ کو معاہدہ ختم ہو رہا ہے، اس تاریخ کو فوجیں لے جا کر سرحد کے پاس ڈال دیں کہ ادھر آفتاب غروب ہو گا اور تاریخ بدلے گی، ادھر حملہ کر دیں گے۔ کیونکہ ان کا خیال یہ تھا کہ دشمن کو یہ خیال ہو گا کہ جب جنگ بندی کی مدت ختم ہو گی، کہیں دور سے چلیں گے، چلنے کے بعد یہاں پہنچیں گے تو وقت لگے گا تو اس واسطے انہوں نے سوچا کہ پہلے فوج لے جا کر ڈال دیں۔ چنانچہ وہاں فوج لے جا کر ڈال دی اور ادھر اس تاریخ کا آفتاب غروب ہوا جو جنگ بندی کی تاریخ تھی اور ادھر انہوں نے حملہ کر دیا، روم کے اوپر یلغار کر دی۔ اور وہ بے خبر اور غافل تھے اس واسطے بہت تیزی کے ساتھ فتح کرتے چلے گئے، زمین کی زمین، خطے کے خطے فتح ہو رہے ہیں۔ جاتے جاتے جب آگے بڑھ رہے ہیں تو پیچھے سے دیکھا گھوڑے پر ایک شخص سوار دور سے سرپٹ دوڑا چلا آ رہا ہے اور آواز لگا رہا ہے ’’قفوا عباد اللہ قفوا عباد اللہ‘‘ اللہ کے بندو رکو! اللہ کے بندو رکو! حضرت معاویہؓ رک گئے، دیکھا کون ہے تو معلوم ہوا کہ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ ہیں۔
حضرت عمرو بن عبسہؓ قریب تشریف لائے تو فرمایا ’’وفاء لا غدر‘‘ مومن کا شیوہ وفاداری ہے غداری نہیں۔ حضرت معاویہؓ نے فرمایا میں نے تو کوئی غداری نہیں کی، جنگ بندی کی مدت ختم ہونے کے بعد حملہ کیا۔ تو حضرت عمرو بن عبسہؓ نے فرمایا میں نے ان کانوں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ’’من کان بینہ و بین قوم عھد فلا یحلنہ ولا یشدنہ حتی یمضی امدہ او ینبذہ علی سواء‘‘ کہ جب کسی قوم کے ساتھ معاہدہ ہو تو اس معاہدے کے اندر کوئی ذرا سا بھی تغیر نہ کرے، نہ کھولے نہ باندھے، یہاں تک کہ اس کی مدت نہ گزر جائے اور یا ان کے سامنے کھل کر بیان نہ کر دے کہ آج سے ہم تمہارے معاہدے کے پابند نہیں ہیں۔ اور آپ نے معاہدہ کے دوران سر پر فوجیں لا کر ڈال دیں اور شاید اندر بھی تھوڑا بہت گھس گئے ہوں، تو اس واسطے آپ نے یہ معاہدے کی خلاف ورزی کی اور یہ جو آپ نے علاقہ فتح کیا ہے یہ اللہ کی مرضی کے مطابق نہیں ہے۔
اب اندازہ لگائیے کہ حضرت معاویہؓ فتح کے نشے میں جا رہے ہیں، علاقے کے علاقے فتح ہو رہے ہیں، لیکن جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سنا، ساری فوج کے لیے حکم جاری کر دیا کہ ساری فوج واپس لوٹ جائے اور مفتوحہ علاقہ خالی کر دیا جائے۔ چنانچہ پورا مفتوحہ علاقہ خالی کر دیا۔ دنیا کی تاریخ اس کی مثال نہیں پیش کر سکتی کہ کسی فاتح نے اپنے مفتوحہ علاقے کو اس وجہ سے خالی کیا ہو کہ اس میں معاہدے کی پابندی کے اندر ذرا سی اوچھ رہ گئی تھی، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے، انہوں نے یہ کر کے دکھایا۔
بات تو جتنی بھی طویل کی جائے ختم نہیں ہو سکتی لیکن خلاصہ یہ ہے کہ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی حقوق کی بنیادیں فراہم کی ہیں کہ کون انسانی حقوق کا تعین کرے گا کون نہیں کرے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ آنحضرتؐ نے جو حقوق بیان فرمائے ان پر عمل کر کے دکھایا، حقوق ہی وہ متعین کیے گئے جن پر عمل کیا جائے، کہنے کے لیے نہیں۔
آج کہنے کے لیے ہیومن رائٹس کے بڑے شاندار چارٹر چھاپ کر دنیا میں تقسیم کر دیے گئے کہ جی یہ ہیومن رائٹس چارٹر ہیں، لیکن یہ ہیومن رائٹس چارٹر کے بنانے والے اپنے مفادات کی خاطر مسافر بردار طیارہ جس میں بے گناہ افراد سفر کر رہے ہیں، اس کو گرا دیں، اس میں ان کو باک نہیں ہوتا۔ اور مظلوموں کے اوپر مزید ظلم و ستم کے شکنجے کسے جائیں، اس میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ ہیومن رائٹس اسی جگہ پر مجروح ہوتے نظر آتے ہیں جہاں اپنے مفادات کے اوپر کوئی زد پڑتی ہو اور جہاں اپنے مفادات کے خلاف ہو تو وہاں ہیومن رائٹس کا کوئی تصور نہیں آتا۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہیومن رائٹس کے قائل نہیں ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی رحمت سے ہمیں اس حقیقت کو صحیح طور پر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ جو باطل پروپیگنڈہ ہے اس کی حقیقت پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔
یاد رکھیے کہ بعض لوگ اس پروپیگنڈے سے مرعوب ہو کر مغلوب ہو کر یہ معذرت خواہانہ انداز، ہاتھ جوڑ کر یہ کہتے ہیں کہ نہیں صاحب! ہمارے ہاں تو یہ بات نہیں ہے، ہمارے ہاں تو اسلام نے فلاں حق دیا ہے، اور اس کام کے لیے قرآن کو، سنت کو توڑ مروڑ کر کسی نہ کسی طرح ان کی مرضی کے مطابق بنانے کی کوشش کرتے ہیں، تو یاد رکھیے ’’ولن ترضٰی عنک الیہود ولا النصارٰی حتٰی تتبع ملتھم۔ قل ان ھدی اللہ ھو الھدٰی‘‘ جب تک اس پر نہیں آ جاؤ گے، اس اعتماد کے اوپر نہیں آجاؤ گے کہ کتنا ہی کوئی اعتراض کرے لیکن ہدایت تو وہی ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے عطا فرمائی، جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے، کبھی ان نعروں سے مرعوب نہ ہوں، کبھی ان نعروں سے مغلوب نہ ہوں، اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق نصیب فرمائے، واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

صومالیہ! مشرقی افریقہ کا افغانستان

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کمیونزم کے تارو پود بکھرے تو اس عمل سے صومالیہ بھی متاثر ہوا جو افریقہ کا ایک مسلمان ملک ہے۔ آبادی ایک کروڑ سے زائد بیان کی جاتی ہے اور یہ ملک کئی اعتبار سے افغانستان سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی کہ صومالیہ مشرقی افریقہ میں داخلہ کا دروازہ ہے اور اس کی بندرگاہ موغادیشو کو علاقہ میں کلیدی حیثیت حاصل ہے اور اس طور پر بھی کہ آبادی کی غالب اکثریت مسلمان ہے جس کی اسلام کے ساتھ وابستگی اس قدر گہری ہے کہ مسیحی تبلیغ کے مشنری ادارے اس خطہ کے مسلمانوں کو عیسائی بنانے میں واضح ناکامی محسوس کرتے ہوئے اپنے کئی مشن بند کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ پھر افغانستان کی طرح صومالیہ کا معاشرہ بھی قبائلی طرز کا ہے جس میں باہمی کشمکش بسا اوقات خانہ جنگی کی افسوسناک صورت اختیار کر لیتی ہے اور سب سے بڑھ کر صومالیہ کے علماء بھی ’’ہتھیار آشنا‘‘ ہیں اور حالیہ کشمکش میں ان کے کئی مسلح گروپ برسر پیکار ہیں۔

صومالیہ غلامی کے دور میں تین حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک پر برطانیہ کی عملداری تھی، دوسرا حصہ فرانس کے قبضہ میں تھا، جبکہ تیسرے پر اٹلی کی آقائی کا پرچم لہرا رہا تھا۔ آزادی کے بعد برطانوی و صومالی لینڈ نے مشترکہ جمہوریت قائم کر لی جبکہ فرانسیسی صومالیہ بدستور الگ حیثیت رکھتا ہے۔ صومالیہ کا اکثر علاقہ بنجر ہے، کچھ حصہ کاشت ہوتا ہے، کیلا زیادہ پیدا ہوتا ہے، مویشیوں اور کھالوں کی تجارت بھی ہوتی ہے، اور اب کچھ معدنی ذخائر اور تیل کا سراغ لگا ہے جو ابھی تحقیقی و تجزیہ کے مراحل میں ہے۔

جہاد افغانستان کے ہاتھوں سوویت یونین کی پسپائی کے وقت صومالیہ پر سید بارے کی حکومت تھی جو بائیں بازو کے لیڈر اور مشرقی افریقہ میں روسی مفادات کے نگہبان کے طور پر متعارف ہیں۔ کلہ جب تک مضبوط رہا ان کی حکمرانی کا سکہ چلتا رہا مگر سوویت یونین کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد سید بارے کے لیے بھی اقتدار کو برقرار رکھنا مشکل ہوگیا اور صومالیہ خانہ جنگی کی راہ پر چل پڑا۔ خانہ جنگی میں سید بارے کی فوج کے ایک بڑے افسر جنرل محمد فرح عدید اور علی محمد نے قوت پکڑی اور اقتدار کی کشمکش نے قبائلی خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لی۔ خانہ جنگی نے ملک کی جو تھوڑی بہت پیداوار تھی اسے بھی متاثر کر دیا جس کے نتیجے میں قحط سالی اور بھوک نے صومالیہ کو لپیٹ میں لے لیا۔ کہا جاتا ہے کہ تین لاکھ کے لگ بھگ افراد اس خانہ جنگی اور قحط کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے صومالیہ کے عوام کو خانہ جنگی اور قحط کے اثرات سے بچانے کے لیے مداخلت کا فیصلہ کیا اور مشترکہ فوج وہاں اتاری جس میں پاکستانی فوج کے دستے بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی فوج کو صومالیہ میں جنرل فرح عدید کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جن کا گروپ اس خانہ جنگی میں سب سے بڑے اور طاقتور گروپ کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ پاکستان کے فوجی دستوں سے بھی اس گروپ کی جھڑپ ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں طرفین کے متعدد افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ جنرل عدید نے اقوام متحدہ کی فوج کی آمد کو صومالیہ کے معاملات میں امریکی مداخلت قرار دیتے ہوئے اس کی مزاحمت کی اور حالات پر اپنی گرفت قائم رکھنے میں کامیاب رہے۔ حتیٰ کہ اب امریکہ ان کا وجود تسلیم کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر ان سے مفاہمت کے لیے پیش رفت کر رہا ہے۔

اسی دوران صومالیہ کے مذہبی گروپ بھی متحد ہوگئے جو اس سے قبل الگ الگ متحرک تھے۔ یہ بھی مسلح کشمکش میں شریک ہیں اور اپنی پوزیشن کو بہتر بنانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ان کا ہدف یہ ہے کہ صومالیہ کو ایک اسلامی نظریاتی ریاست کی حیثیت دے دی جائے جبکہ فرح عدید ایک سیکولر اور قوم پرست راہنما ہیں۔ صومالیہ کے مذہبی گروپوں کا موقف یہ ہے کہ اس صورتحال میں پاکستانی فوج کے دستوں کا وہاں بھیجا جانا درست نہیں ہے بالخصوص ایسے حالات میں کہ پاک فوج کو صومالیہ کے مختلف گروپوں کے ساتھ تصادم کے لیے بقول ان کے ایک ایسی حکمت عملی کے تحت استعمال کیا جا رہا ہے جس سے پاکستان کے بارے میں صومالیہ اور افریقہ کے مسلمانوں کا محبت و اعتماد کا رشتہ کمزور ہو رہا ہے اور پاکستان کے بارے میں شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ صومالیہ کے علماء اور دینی راہنماؤں نے اس سلسلہ میں پاکستان کی دینی جماعتوں کے قائدین کو پیغامات بھجوائے اور خطوط ارسال کیے کہ ان کے موقف سے آگاہی حاصل کی جائے اور ان کی مشکلات کو کم کرنے میں تعاون کیا جائے۔

اس پس منظر میں ۱۹ نومبر ۱۹۹۳ء کو جناب مجیب الرحمان شامی مدیر زندگی لاہور، مولانا عبد الرؤف ملک سیکرٹری جنرل متحدہ علماء کونسل، اور مولانا محمد مسعود اظہر سیکرٹری جنرل حرکۃ الانصار کے ہمراہ نیروبی جانے کا اتفاق ہوا جہاں ہمارا قیام تین روز تک رہا۔ نیروبی مشرقی افریقہ کے ملک کینیا کا دارالحکومت ہے جو صومالیہ کے جنوب میں واقع ہے اور صومالیہ کے داخلی حالات مخدوش ہونے کے باعث وہاں سے رابطہ کے لیے قریب ترین مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ کینیا ہمارے ہاں چائے کے حوالہ سے متعارف ہے کیونکہ وہاں کی سب سے بڑی پیداوار چائے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں استعمال ہونے والی کل چائے کا پچاس فیصد کے لگ بھگ حصہ کینیا سے آتا ہے۔ خط استوا کے قریب ہونے کی وجہ سے دن اور رات کا تناسب تقریباً سارا سال یکساں رہتا ہے اور سورج کے طلوع و غروب کے اوقات میں زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ مگر سطح سمندر سے بلندی پر ہونے کے باعث گرمی زیادہ نہیں پڑتی، معتدل موسم رہتا ہے اور بارش بھی اکثر ہوتی رہتی ہے۔ اس لحاظ سے نیروبی کا موسم پسند آیا کیونکہ موسم کا سارا سال اعتدال میں رہنا اور دن رات کے اوقات کا توازن بھی قائم رہنا اس سے قبل کہیں اور دیکھنے میں نہیں آیا۔

کینیا کی آبادی دو کروڑ کے قریب ہے جس میں مسلمانوں کا تناسب تیس فیصد بیان کیا جاتا ہے۔ انڈیا اور پاکستان سے آکر بس جانے والے مسلمانوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ نیروبی کے وسط میں مغل طرز تعمیر کی جامع مسجد دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، یہ وسیع مسجد ۱۹۲۵ء میں تعمیر ہوئی جس کے ساتھ ایک بڑا اسلامک سنٹر ہے جہاں مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور تعلیم کے امور کی نگرانی کی جاتی ہے۔ وہیں فیصل آباد کے مولانا مطیع الرسول سے ملاقات ہوئی جو حضرت السید مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کے شاگرد ہیں اور ایک عرصہ سے نیروبی میں مقیم ہیں بلکہ اب تو وہاں کے شہری ہیں اور مسلمانوں کی دینی تعلیم، دعوت اسلام اور نوجوانوں کے فلاحی امور کی طرف ہمہ تن متوجہ رہتے ہیں۔ نیروبی سے باہر بھی ایک تعلیمی ادارہ انہوں نے قائم کر رکھا ہے جو اپنے مقاصد کی طرف کامیابی کے ساتھ گامزن ہے۔ وقت کی کمی کے باعث وہ ادارہ نہ دیکھا جا سکا مگر اس کی کارکردگی کے بارے میں معلومات حاصل کر کے بے حد مسرت ہوئی۔

کینیا بھی ہماری طرح برطانوی استعمار کی نوآبادی رہا ہے اس لیے بود و باش اور عام طرز زندگی میں کچھ زیادہ فرق محسوس نہیں ہوا۔ البتہ عام زندگی اور دفتری زندگی میں نظم کی صورتحال ہم سے بہتر نظر آئی۔ کینیا کا سکہ شلنگ کہلاتا ہے۔ جس روز ہم وہاں پہنچے نیروبی ایئرپورٹ پر کرنسی کے تبادلہ میں ایک امریکی ڈالر کے عوض ۶۵ شلنگ ملے۔ گویا پاکستانی روپے کے مقابلہ میں کینیا کا شلنگ تقریباً نصف قیمت کا حامل ہے۔ پہلی رات ہمیں وسط شہر کے ایمبسڈر ہوٹل میں ٹھہرنا پڑا جس کا کرایہ پینتالیس ڈالر فی کمرہ تھا مگر دوسرے روز اپنے میزبانوں کے ساتھ رابطہ و ملاقات کی سہولت کے پیش نظر ملیمانی روڈ کے ہرن کورٹ ہوٹل میں منتقل ہوگئے جس کا کرایہ ۱۳ ڈالر فی کمرہ تھا۔ ہوٹل کچھ زیادہ معیاری نہ تھا مگر میزبانوں کے ساتھ رابطہ کی سہولت کے باعث ہم بقیہ دو دن وہیں ٹھہرے ۔

اس ہوٹل میں ایک پاکستانی نوجوان سے ملاقات ہوئی جو کافی دنوں سے وہاں قیام پذیر تھا۔ اس نے اپنے قیام کا مقصد کاروبار بتایا مگر معلوم ہوا کہ اس کے علاوہ اور پاکستانی نوجوان بھی ہیں جو بہت دنوں سے اس قسم کے ہوٹلوں میں مقیم ہیں۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو امریکہ اور یورپ جانے کے شوق میں ٹریول ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو انہیں مختلف راستوں سے منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے فن کا کمال دکھاتے ہیں۔ میں اس قسم کے نوجوان بڑی تعداد میں استنبول اور تاشقند میں بھی دیکھ چکا ہوں۔ ان میں سے بہت سے نوجوانوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ ایجنٹ اپنے پیسے کھرے کر کے انہیں اسی قسم کے کسی درمیانی منزل پر چھوڑ کر رفوچکر ہو جاتے ہیں اور وہ ’’پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘ کے مصداق اپنی قسمت کو کوستے رہتے ہیں۔

ایمبیسڈر ہوٹل سے ملیمانی ہوٹل منتقل ہوتے وقت جس ٹیکسی سے ہم نے سفر کیا اس نے اپنے وطن کے ساتھ مشابہت کے احساس کو اور زیادہ اجاگر کر دیا۔ ٹیکسی شکل و صورت کے لحاظ سے برطانوی تھی کہ اسی قسم کی ٹیکسیاں وہاں چلتی ہیں۔ اسے دیکھ کر خیال ہوا کہ شاید اس معاملہ میں کینیا والے ہم سے کچھ آگے ہیں لیکن ٹیکسی میں بیٹھنے کے بعد اطمینان کی ایک لہر دل و دماغ پر چھا گئی کہ خیر ہے معاملہ اپنے جیسا ہی ہے۔ یعنی صرف اوپر کا خول اور باڈی انگلش تھا باقی سب کچھ اپنی طرح کا ہی تھا۔ ہمارے ٹیکسی میں بیٹھتے ہی ڈرائیور نے اردگرد کھڑے کچھ لوگوں کو اشارہ کیا اور وہ گاڑی کو دھکا دینے کے لیے متحرک ہوگئے۔ یہ ٹیکسی ہمارے اجتماعی نظام کی ہوبہو تصویر تھی کہ ظاہری ڈھانچہ مغربی طرز کا لیکن اندر سے پوری مشینری دھکا سٹارٹ۔ جبکہ دھکا لگانے والے بھی ورلڈ بینک کے ڈائریکٹروں کی طرح ہماری بے بسی پر ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے، آپس میں اشارے کر رہے تھے اور ہمیں دھکا دے رہے تھے۔ خدا خدا کر کے گاڑی اسٹارٹ ہوئی لیکن چند قدم چلی اور اچانک رک گئی۔ معلوم ہوا کہ گاڑی میں تیل ہی نہیں تھا اور ڈرائیور کسی طرح ’’اللہ توکل‘‘ پٹرول پمپ تک پہنچ جانا چاہتا تھا مگر پٹرول پمپ سے چند قدم پیچھے ’’دوچار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا‘‘ گاڑی نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ ڈرائیور ٹیکسی سے اترا، ڈگی سے ایک خالی ڈبہ نکالا اور پٹرول پمپ کی طرف چل پڑا۔ وہاں سے پٹرول لا کر گاڑی میں ڈالا اور پھر دھکا سٹارٹ کے مرحلہ سے دوچار ہونا پڑا۔ دھکا لگانے والے یہاں بھی آسانی سے مل گئے ہمیں نہیں اترنا پڑا۔ مگر اب کیفیت یہ تھی کہ گاڑی میں ہم لوگ تشریف فرما تھے، کچھ لوگ گاڑی کو دھکا دے کر اسٹارٹ کرانے کی کوشش کر رہے تھے اور دونوں طرف چھوٹے چھوٹے افریقی بچے ساتھ ساتھ چلے جا رہے تھے جو اپنی زبان میں ہم سے سوال کر رہے تھے اور کچھ نہ ملنے پر ہمارا منہ چڑا رہے تھے، دانت نکوس رہے تھے اور عجیب و غریب اشارے کر رہے تھے۔ اس شان و شوکت کے ساتھ ہمارا جلوس نیروبی کے ایک کھلے بازار میں فرلانگ ڈیڑھ فرلانگ تو چلا ہی ہوگا مگر جب انگلش گاڑی نے ہم ایشیائیوں کو افریقہ میں ساتھ لے کر آگے بڑھنے سے انکار کر دیا تو ڈرائیور نے ایک اور ٹیکسی والے سے ہمارا سودا کر کے ہمیں اس میں منتقل کر دیا اور خدا خدا کر کے ہم ہرن کورٹ ہوٹل پہنچے۔ دوسری ٹیکسی بھی انگلش طرز کی تھی لیکن کچھ شریف النسل لگتی تھی اس نے پریشان کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

اس کے بعد جتنے دن ہم وہاں رہے انگلش ٹیکسی سے واسطہ نہیں پڑا۔ جمعہ کی نماز ہم نے اسی جامع مسجد میں ادا کی جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ امام صاحب نے مقامی زبان میں خطاب کیا۔ کینیا کی مقامی زبان سواحلی ہے لیکن انگریزی بھی سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ امام صاحب کی زبان تو ہمیں سمجھ نہیں آرہی تھی البتہ گفتگو کا مفہوم ہم بخوبی سمجھ رہے تھے۔ ان کا موضوع عالم اسلام کی حالت زار تھا، انہوں نے فلسطین اور افغانستان کا ذکر کیا، عالم اسلام کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا اور مغربی ممالک کے تسلط و بالادستی سے نجات کے احساس کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ مولانا مطیع الرسول کے دفتر میں امام صاحب سے ہماری ملاقات بھی ہوئی، اسلام کی بالادستی اور عالم اسلام کے اتحاد کا جذبہ رکھنے والے مخلص بزرگ ہیں اور ملت اسلامیہ کے احوال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ نماز جمعہ کے بعد مسجد کے گیٹ پر کچھ پاکستانی احباب مل گئے۔ جناب مجیب الرحمان شامی ہمارے ملک کے معروف صحافی اور کالم نگار ہیں، روزنامہ جنگ میں ’’جلسہ عام‘‘ کے عنوان سے ان کا کالم قارئین کا وسیع حلقہ رکھتا ہے، نیروبی میں بھی انہیں دیکھ کر پہچاننے والوں کی کمی نہیں تھی۔ چنانچہ اس حوالہ سے متعدد حضرات سے ملاقات ہوئی جن میں پاک فوج کے ایک افسر بھی تھے۔ وہیں ڈاکٹر فاروق صاحب سے ملاقات ہوئی جو گوجرانوالہ میں ہمارے محلہ ایمن آبادی گیٹ کے رہنے والے ہیں اور ایک عرصہ سے نیروبی میں مقیم ہیں۔ ان کے ایک عزیز ریٹائرڈ میجر محمد علی بٹ چند روز قبل نیروبی میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل ہوگئے ہیں۔ یہاں قتل اور ڈاکہ زنی کی وارداتیں عام ہیں، راہ چلتے لوگوں سے سامان اور رقم چھین لینا عام معمول ہے۔ پولیس کے سپاہی بڑے بڑے ڈنڈے اٹھائے ہر وقت گھومتے رہتے ہیں مگر وارداتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ محمد علی بٹ مرحوم نیروبی میں ایک ہوٹل چلا رہے تھے، شام کے وقت ہوٹل سے باہر نکلے تو ڈاکوؤں نے انہیں گولی مار دی اور گاڑی چھین کر فرار ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

نیروبی میں ہماری ملاقات راؤ محمد اختر صاحب سے بھی ہوئی۔ یہ پاکستانی بزرگ ہیں جو ایک عرصہ سعودی عرب میں رہے ہیں اور اب نیروبی میں ہیں۔ رابطہ عالم اسلامی سے بھی تعلق ہے اور نیروبی میں ایک رفاہی ادارہ چلا رہے ہیں۔ انہوں نے ہماری واپسی کے روز اپنی رہائش گاہ پر پرتکلف دعوت کا اہتمام کیا اور پھر ایئرپورٹ پر چھوڑنے آئے بلکہ جہاز پر سوار ہونے تک ساتھ رہے۔ ان کا خصوصی ذوق مساجد کا قیام ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کینیا کی حکومت مسلمانوں کو مسجد کے لیے جگہ بلامعاوضہ دیتی ہے اور اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ کینیا کے مختلف حصوں میں مسجدیں بنا چکے ہیں۔ راؤ محمد اختر صاحب کے ساتھ ملاقات بڑی معلومات افزا رہی۔

پاک فوج کے بعض افسروں کے علاوہ صومالیہ کی مسلح تنظیموں کے نمائندوں، جامع مسجد نیروبی کے امام صاحب، اور صومالیہ کے معاملات میں دلچسپی رکھنے والے بعض عرب راہنماؤں سے بھی ملاقات ہوئی جن کے ساتھ صومالیہ کے حالیہ تنازعہ کے حوالے سے تفصیلی گفت و شنید ہوئی۔ ان ملاقاتوں اور سفر کے دیگر مشاہدات کے حوالہ سے کم از کم میرے تاثرات یہی ہیں کہ صومالیہ کے دینی حلقوں کے اس موقف کو بے وزن قرار دینا مشکل ہے کہ امریکہ نے صومالیہ میں اپنے مقاصد کے لیے اقوام متحدہ کی چھتری استعمال کی ہے اور پاک فوج کو جان بوجھ کر ایسا کردار دیا جا رہا ہے جس سے پاکستان اور افریقی مسلمانوں کے درمیان محبت کے رشتے کمزور ہوں اور شکوک و منافرت کی فضا قائم ہو۔ ان کے بقول امریکہ صومالیہ کے ذریعہ مشرقی افریقہ کو اپنی گرفت میں رکھنا چاہتا ہے، سوڈان اور ایتھوپیا کی اسلامی تحریکات کو دبانا چاہتا ہے، صومالیہ کو ایک نظریاتی اسلامی ریاست بننے سے باز رکھنا چاہتا ہے، اور متوقع تیل اور معدنی ذخائر کا کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے۔ صومالیہ کے دینی راہنماؤں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور اس کی فوج کو ان امریکی مقاصد کے لیے آلہ کار نہیں بننا چاہیے اور اپنے موجودہ کردار پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ صومالیہ کے دینی راہنماؤں کا یہ موقف سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے اور حکومت پاکستان، حزب اختلاف اور مذہبی راہنماؤں کو اس صورتحال کا پوری متانت کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔

رتہ دوہتڑ توہین رسالتؐ کیس ۔ ابتدائی مطالعاتی جائزہ

ادارہ

ماسٹر عنایت اللہ صاحب تھانہ کوٹ لدھا کے گاؤں کوٹ لالہ کے رہنے والے ہیں، زمیندار خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ۵۷ سال کے لگ بھگ ان کی عمر ہے، میٹرک، جے وی، ادیب اردو، عالم اردو، منشی فاضل اور ادیب پنجابی کی اسناد رکھتے ہیں اور گاؤں کے پرائمری سکول کے استاد ہیں۔ وہ حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سے بیعت کا تعلق رکھتے ہیں، پابند صوم و صلوٰۃ اور خوفِ خدا انسان ہیں۔ مذہبی معاملات میں انتہائی پرجوش ہیں۔ ۱۹۵۳ء کی تحریکِ ختمِ نبوت میں حصہ لے چکے ہیں اور گاؤں میں دو دفعہ قادیانی لاشیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے میں رکاوٹ بن چکے ہیں اور ان کی وجہ سے ہی کوٹ لدھا میں قادیانیوں کو اپنا قبردستان مسلمانوں سے الگ کرنا پڑا۔ متعدد بار گرفتار ہو چکے ہیں اور ’’انجمن اصلاح اسیراں‘‘ کے صدر بھی رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ان پر قادیانیوں کی طرف سے قاتلانہ حملہ بھی ہوا ہے، مقدمہ درج ہو گیا تھا لیکن حملہ آور قادیانی کے مسلمان ہو جانے پر انہوں نے اسے معاف کر دیا۔
تھانہ کوٹ لدھا کے گاؤں پھوکرپور کے ایک مسیحی رحمت مسیح ولد نانک مسیح جو تعلیم یافتہ ہے اور اردو انگلش پر اچھا عبور رکھتا ہے، اس کے ساتھ گاؤں کے مسلمانوں کا اکثر تنازعہ رہتا ہے۔ رحمت مسیح قرآن کریم کے اوراق کی بے حرمتی کے متعدد واقعات میں ملوث پایا گیا مگر علاقہ کے معززین کی مداخلت پر آئندہ محتاط رہنے کی یقین دہانی پر درگزر کر دیا گیا۔ رحمت مسیح مذکور سے علاقہ کے مسلمانوں کو یہ شکایت بھی رہی ہے کہ گرجا پر لاؤڈ اسپیکر لگا کر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے بارے میں نازیبا گفتگو کرتا ہے۔ ایک بار تھانہ تک نوبت گئی، علاقہ کے معززین درمیان میں آگئے اور معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔ دوسری بار علاقہ مجسٹریٹ جناب محمد اسلم قاسمی تک معاملہ پہنچا، ان کے سامنے علاقہ کے پادری حضرات نے تحریری یقین دہانی کرائی کہ رحمت مسیح مذکور آئندہ محتاط رہے گا اور لاؤڈ اسپیکر بھی استعمال نہیں کرے گا، اس پر اسے پھر درگزر کر دیا گی، یہ واقعہ ۷ مارچ ۱۹۹۲ء کا ہے۔
رحمت مسیح مذکور کے گاؤں پھوکرپور سے ایک میل کے فاصلہ پر ’’رتہ دوہتڑ‘‘ نامی گاؤں میں سات آٹھ ماہ قبل یہ صورتحال پیش آئی کہ گاؤں کی جامع مسجد میں پرچیاں پھینکی جاتیں جن میں جناب رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی بلکہ معاذ اللہ ننگی گالیاں درج ہوتیں لیکن کچھ پتہ نہ چلتا کہ یہ پرچیاں کون وہاں پھینکتا ہے۔ ۹ مئی ۱۹۹۳ء کو جامع مسجد کے خطیب حافظ محمد فضل حق اور ان کے دو ساتھیوں محمد بخش گوجر نمبردار اور حاجی محمد اکرم نے مبینہ طور پر تین افراد کو ایک دیوار پر اسی قسم کی گستاخانہ باتیں لکھتے ہوئے پکڑ لیا۔ یہ رحمت مسیح، منظور مسیح اور سلامت مسیح تھے جن میں آخر الذکر دونوں پکڑے گئے اور رحمت مسیح بھاگ گیا۔
گاؤں کے لوگ تھانہ گئے مگر پولیس نے مقدمہ درج کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا، دونوں ملزموں کو تھانہ میں بند کر لیا گیا مگر پرچہ درج نہ ہوا۔ اس پر گاؤں کے لوگ کوٹ لالہ میں ماسٹر عنایت اللہ کے پاس گئے اور تعاون کی درخواست کی۔ ماسٹر عنایت اللہ نے علاقہ کے مسلمانوں کو جمع کیا اور تھانہ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ علاقہ کے مسلمان واقعہ کے بارے میں باخبر ہوتے ہی تھانہ کے پاس جمع ہوتے گئے، انہوں نے تھانہ کا گھیراؤ کر لیا اور ٹریفک بلاک کر دی گئی جس پر پولیس نے مجبور ہو کر ۱۱ مئی کو پرچہ درج کیا، جس کے بعد دونوں گرفتار ملزم جیل بھیج دیے گئے۔ مگر رحمت مسیح روپوش ہو گیا اور اس کے بارے میں مشہور ہو گیا کہ وہ گوجرانوالہ کے ایک عیسائی ایم پی اے کے پاس ہے اور اسے امریکہ بھیجا جا رہا ہے۔ ماسٹر عنایت اللہ اور گوجرانوالہ کے علماء نے ضلعی حکام سے بات چیت کی اور بالآخر چند روز کے بعد رحمت مسیح کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ ملزمان کی طرف سے اپنی گرفتاری کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جو جسٹس خلیل الرحمٰن نے ۲۰ جون کو خارج کر دی۔ اسی طرح ایڈیشنل سیشن جج گوجرانوالہ جناب پرویز چاولہ کی عدالت میں بھی ضمانت کی درخواست دائر کی گئی جو انہوں نے ۱۰ جولائی کو عدم پیروی کی بنا پر خارج کر دی۔
اس دوران گوجرانوالہ اور گاؤں رتہ دوہتڑ میں بیرون ملک سے افراد کی آمد شروع ہو گئی۔ ایک امریکی صحافی نے سیشن جج سے بھی ملاقات کی اور ضلعی حکام پر ملزمان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مبینہ طور پر امریکی سفارت خانہ کے افسران بھی متحرک ہو گئے اور گاؤں میں مختلف وفود گئے اور علاقہ کے سادہ عوام پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ آل انڈیا ریڈیو نے ۱۱ جولائی اور پھر ۱۳ نومبر کو اس کیس کے بارے میں مفصل پروگرام نشر کیے جن میں ملزمان کی بے گناہی، توہین رسالت کے قانون پر تنقید اور ماسٹر عنایت اللہ کی کردارکشی کی گئی۔ بی بی سی نے ۲۹ نومبر کو اس قسم کا پروگرام نشر کیا، اس کے علاوہ متعدد جرائد میں کیس کے بارے میں مضامین کا سلسلہ چلتا رہا۔
لاہور سے عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ، نعیم شاکر ایڈووکیٹ اور حنا جیلانی ایڈووکیٹ نے گوجرانوالہ آ کر ملزمان کی ضمانت کے لیے دوبارہ درخواست دائر کی جو ایڈیشنل سیشن جج جناب عبد الرشید خان کی عدالت میں لگی، انہوں نے ضمانت منظور کرنے سے انکار کر دیا، جس پر کہا گیا کہ تین ملزموں میں سے ایک سلامت مسیح نابالغ ہے اس لیے اس بنیاد پر اس کی ضمانت لی جائے۔ سلامت مسیح کی عمر کے بارے میں حافظ آباد چرچ کا ایک سرٹیفیکیٹ عدالت میں پیش کیا گیا جس کے مطابق اس کی عمر چودہ برس سے زائد بنتی ہے، جبکہ مدعیان اس سرٹیفکیٹ کو مبنی برحقیقت قرار نہیں دیتے اور ان کا کہنا ہے کہ سلامت مسیح نابالغ نہیں ہے اور اس کا فیصلہ میڈیکل معائنہ کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال اس بنیاد پر بالآخر ایڈیشنل سیشن جج مذکور کو سلامت مسیح کی ضمانت منظور کرنا پڑی۔
اس ضمانت کے سلسلہ میں اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق امریکی حکام اور پاکستانی حکومت کی طرف سے ضلع گوجرانوالہ کی انتظامیہ اور سیشن کورٹ پر مسلسل دباؤ بھی ڈالا گیا۔ چنانچہ روزنامہ مساوات لاہور ۸ نومبر ۱۹۹۳ء کی خبر کے مطابق امریکہ کی نائب وزیر خارجہ مسز رابن رافیل نے وزیراعظم پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں یہ مسئلہ اٹھایا اور سیکرٹری خارجہ نے بتایا کہ سلامت مسیح کو ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔ جبکہ روزنامہ نوائے وقت لاہور ۲۴ نومبر ۱۹۹۳ء کی خبر کے مطابق امریکی حکام کے کہنے پر حکومتِ پنجاب کے ایک اعلیٰ افسر کو سلامت مسیح کی ضمانت کے انتظامات پر مامور کیا گیا اور سلامت مسیح کی ضمانت بھی گوجرانوالہ کی ضلعی انتظامیہ کے ایک عہدہ دار نے دی۔
سلامت مسیح کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ نابالغ ہے اور اَن پڑھ ہے، مدعیان ان دونوں باتوں کی تردید کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ لکھ پڑھ سکتا ہے اور اس کے بالغ ہونے کی تصدیق بھی طبی معائنہ سے ہو سکتی ہے۔ مزید برآں مدعیان کے مطابق سلامت مسیح کے والد نے، جو کراچی میں رہتا ہے، متعدد تحریرات میں تسلیم کیا ہے کہ اس کے لڑکے نے یہ حرکت کی ہے، اس سے رحمت مسیح نے پیسے دے کر یہ حماقت کرائی ہے، اس لیے اس کے بارے میں نرمی کی جائے۔ مدعیان کا کہنا ہے کہ وہ تحریرات ضرورت پڑنے پر عدالت میں پیش کر سکتے ہیں۔
گوجرانوالہ کے علماء نے رتہ دوہتڑ کیس میں امریکی حکومت اور دیگر غیر ملکی لابیوں کی مداخلت کے باعث کیس کی منظم پیروی کے لیے ’’تحفظ ناموس رسالتؐ ایکشن کمیٹی‘‘ قائم کر لی ہے جس کے چیئرمین مولانا عبد العزیز چشتی اور سیکرٹری ڈاکٹر غلام محمد ہیں، جبکہ کمیٹی میں مولانا حکیم عبد الرحمٰن آزاد، مولانا محمد نواز بلوچ، مولانا محمد اعظم، مولانا عبید اللہ عبید اور دیگر علماء شامل ہیں۔ ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے ’’رتہ دوہتڑ توہینِ رسالتؐ کیس‘‘ کے واقعات کی پبلک انکوائری کے لیے ریٹائرڈ سیشن جج جناب محمد افضل سہیل کی سربراہی میں تحقیقات کمیٹی قائم کر دی ہے جس میں دیگر ماہرین قانون اور علماء بھی شامل ہیں اور ممتاز مسیحی راہنما فادر روفن جولیس ایم این اے سے بھی کمیٹی میں شامل ہونے کی درخواست کی گئی ہے۔ یہ کمیٹی ماہِ رواں کے دوران اپنی رپورٹ مکمل کر لے گی اور اسے فورم کی طرف سے بین الاقوامی پریس اور دیگر متعلقہ اداروں کو بھجوایا جائے گا۔
اب تک اس کیس کی پیروی میں ’’عالمی مجلس تحفظِ ختم نبوت‘‘ علاقہ کے مسلمانوں اور ماسٹر عنایت اللہ کی معاون ہے اور اس سلسلہ میں مولانا حکیم عبد الرحمٰن آزاد، قاری محمد یوسف عثمانی اور حافظ محمد ثاقب پیش پیش ہیں۔ مجلس کے امیر حکیم عبد الرحمٰن آزاد کا کہنا ہے کہ ایکشن کمیٹی کی تشکیل کے بعد بھی کیس کے سلسلہ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حسبِ سابق اپنا کردار جاری رکھے گی۔

مولانا حکیم نذیر احمدؒ آف واہنڈو / چوہدری محمد خلیل مرحوم

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ضلع گوجرانوالہ کے بزرگ عالم دین اور تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن مولانا حکیم نذیر احمدؒ ۲۲ نومبر ۱۹۹۳ء کو واہنڈو میں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی عمر اَسی برس تھی اور زندگی کا بیشتر حصہ انہوں نے دین کی تعلیم و تبلیغ میں بسر کیا۔ مولانا حکیم نذیر احمدؒ کی ولادت ۱۹۱۳ء میں واہنڈو میں ہوئی، زمیندار گھرانے سے تعلق تھا۔ دینی تعلیم انہوں نے ہنجانوالی نامی گاؤں میں مولانا حافظ عبد الغفور صاحب سے حاصل کی جو اس زمانہ میں علاقہ میں دینی تعلیم کا ایک بڑا مرکز شمار ہوتا تھا اور اس درسگاہ کا تعلق اہل حدیث مکتب فکر سے تھا۔ مولانا حکیم نذیر احمد نے اس کے بعد شیرانوالہ لاہور میں حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور انہی سے بیعت بھی کر لی اور پھر واہنڈو میں خطابت اور تدریس کی ذمہ داریوں میں منہمک ہوگئے۔ بے نیاز اور متوکل قسم کے بزرگ تھے، دینی خدمات کا سلسلہ پوری زندگی بے لوث طور پر کسی معاوضہ اور تنخواہ کے بغیر جاری رکھا۔ تھوڑی سی زمین تھی جس پر گزر بسر کرتے رہے۔

مولانا حکیم نذیر احمد نے واہنڈو کی جامع مسجد تعمیر کرائی اور اسی میں آخر وقت تک دینی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ سماجی خدمات میں بھی پیش پیش رہے، قیام پاکستان سے پہلے علاقہ کی پنچایت کے رکن تھے اور علاقہ کی سربرآوردہ شخصیات میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ سابق صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں بی ڈی نظام کے تحت واہنڈو یونین کونسل کے چیئرمین بھی رہے۔ بے باک اور دبنگ قسم کے بزرگ تھے کسی کو خاطر میں نہ لاتے اور پورے وقار اور دبدبے کے ساتھ رہتے۔

حکیم صاحبؒ نے تحریک پاکستان میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کی راہنمائی میں سرگرم حصہ لیا اور علاقہ میں تحریک پاکستان کو منظم کرنے میں محنت کی۔ اس کا ذکر اکثر مجالس میں کرتے رہتے تھے کہ ہم نے مولانا شبیر احمدؒ عثمانی کے کہنے پر پاکستان بنانے کی جدوجہد میں حصہ لیا لیکن پاکستان بننے کے بعد اسلامی معاشرہ کے قیام اور اسلامی نظام کے نفاذ کی منزل حاصل نہ ہوئی۔ سیاسی طور پر جمعیۃ علمائے اسلام سے وابستہ تھے۔ ضلع گوجرانوالہ میں جمعیۃ علمائے اسلام کو منظم کرنے میں آپ کی خدمات قابل قدر ہیں۔ ایک عرصہ تک تحصیل گوجرانوالہ کے امیر اور پھر بعد میں ضلعی نائب امیر رہے۔ سیاسی و دینی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بھٹو مرحوم کے دور میں لاہور میں اس وقت کے گورنر جناب غلام مصطفیٰ کھر کے اقدامات کے خلاف بحالیٔ جمہوریت کی تحریک چلی اور متعدد سیاسی راہنماؤں اور کارکنوں نے گرفتاریاں پیش کیں۔ اس دور کی بات ہے کہ مولانا نذیر احمد مرحوم دو بار میرے پاس تشریف لائے کہ میں گرفتاری پیش کرنا چاہتا ہوں، میں نے بہت مشکل سے واپس بھیجا کہ آپ بزرگ ہیں گھر تشریف رکھیں، گرفتاریوں کے لیے ابھی ہمارے پاس بہت کارکن ہیں۔ ایک روز میں لاہور میں جمعیۃ کے مرکزی دفتر میں گیا تو وہاں بیٹھے ہوئے تھے کہ گرفتاری دینے کے لیے آیا ہوں۔ انہیں سمجھا بجھا کر واپس بھیجا۔ ایک بار جمعیۃ کا ضلعی اجلاس میرے پاس جامع مسجد گوجرانوالہ میں تھا، اتفاق سے اس روز بسوں کی ہڑتال ہوگئی اور اکثر ساتھی اجلاس میں نہ آسکے۔ میں اور ڈاکٹر غلام محمد صاحب بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک مولانا حکیم نذیر احمد پسینے میں شرابور تشریف لائے اور کہا کہ جمعیۃ کا اجلاس تھا اور مجھے بس نہیں ملی اس لیے سائیکل پر ہی آگیا ہوں۔ گویا انہوں نے گرمی کے موسم میں واہنڈو سے گوجرانوالہ تک تئیس میل کی مسافت سائیکل پر صرف اس جذبہ سے طے کی کہ اجلاس میں غیر حاضری نہ ہو۔ یہ احساس ذمہ داری کی ایک قابل تقلید مثال ہے۔

مولانا مرحوم اچھے حکیم تھے، ایک زمانہ میں واہنڈو کے بازار میں دکان بھی شروع کی۔ لوگوں کا اس قدر رجوع ہوا کہ اردگرد کے دیگر طبیبوں کے ڈیرے ویران ہوگئے۔ وہ اپنی اپنی شیشیاں بوتلیں اٹھا کر حکیم نذیر احمد صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ ہماری دکانیں تو ویران ہوگئی ہیں آپ یہ شیشیاں اور بوتلیں بھی بیچ دیں۔ انہوں نے اسی روز دکان بند کر دی اور پھر اپنے مکان کی بیٹھک میں ہی تھوڑا بہت کام کرتے رہے۔ ان کے فرزند اور جانشین مولانا عطاء الرحمان کا کہنا ہے کہ ان کی عادت یہ تھی کہ جس وقت گھر کی ہانڈی کا خرچہ نکل آتا بیٹھک بند کر کے نکل جاتے۔

حکیم صاحب صاحب مطالعہ تھے، کتابیں جمع کرنے اور مطالعہ کرنے کا ذوق عمر بھر رہا۔ اکثر ان کے پاس نایاب کتابیں نظر آتیں، کئی کتابیں میں نے بھی ان سے حاصل کر کے مطالعہ کیں۔ متعدد اہل علم کے ساتھ ان کا تعلق تھا، مطالعہ کے لیے کتابوں کا تبادلہ کرتے رہتے اور اکثر اوقات مطالعہ میں مستغرق رہتے۔ پرانی طرز کے وضعدار بزرگ تھے، وضعداری اور وقار کے ساتھ دینی و سماجی خدمات میں مگن رہے۔ آخر میں شوگر کا عارضہ تھا مگر کوئی پروا کیے بغیر معمولات میں مصروف رہے۔ آخری دن بھی صبح معمول کے مطابق اٹھے، نماز ادا کی اور تھوڑی دیر کے بعد انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے فرزند مولانا عطاء الرحمان نے اب ان کی جگہ خدمات سنبھال لی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور ورثا کو صبر و حوصلہ کے ساتھ حسنات میں ان کی پیروی کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

چوہدری محمد خلیل مرحوم

گجرات میں ہمارے پرانے بزرگ دوست چوہدری محمد خلیل گزشتہ دنوں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے ساتھ تعارف اس دور میں ہوا جب مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری نے حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلہ پر تفرد کی راہ اختیار کی اور اسے اپنے مواعظ و خطابات کا موضوع بنا کر جمہور علمائے امت کے خلاف فتوٰی بازی کی زبان استعمال کرنا شروع کر دی۔ تو ان کے ایک رفیق مولانا نذیر اللہ خان مرحوم نے ان سے علیحدگی اختیار کر کے مسجد حیات النبیؐ میں الگ ’’مورچہ‘‘ قائم کر لیا۔ چوہدری محمد خلیل مرحوم اس محاذ پر مولانا نذیر اللہ خان مرحوم کا دست و بازو بنے اور فعال ساتھی رہے۔

چوہدری صاحب دراصل مجلسِ تحفظ ختم نبوت کے کارکن تھے اور وہی محاذ ان کی سرگرمیوں کی سب سے بڑی جولانگاہ تھی۔ باضابطہ عالم دین نہیں تھے لیکن قادیانیوں کے بارے میں اس قدر معلومات اور گفتگو کا ملکہ رکھتے تھے کہ متعدد مناظروں میں قادیانی حضرات کو ان کے سامنے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنے گھر کے قریب ختمِ نبوت کے عنوان سے مسجد اور مکتب قائم کیا اور عمر کا آخری حصہ اسی کی خدمت میں بسر کیا۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کے ضلعی امیر تھے اور جمعیۃ علماء اسلام کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

فروری و مارچ ۱۹۹۴ء

افغانستان میں عالم اسلام کی آرزوؤں کا خونمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اقبالؒ کا تصورِ اجتہادڈاکٹر محمد آصف اعوان
اسلام اور مغرب کی کشمکش ۔ برطانوی ولی عہد کی نظر میںادارہ
پاکستان کے بارے میں امریکی عزائم کی ایک جھلکڈاکٹر محمود الرحمٰن فیصل
اکیسویں صدی اور اسلام ۔ مغرب کیا سوچتا ہے؟محمد عادل فاروقی
شہیدانِ بالاکوٹحضرت شاہ نفیس الحسینی
امریکی عزائم: ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام پہلا علماء کنونشنادارہ
امریکی عزائم: ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام دوسرا علماء کنونشنادارہ
علمائے دیوبند اور ترجمۂ قرآنِ کریمسید مشتاق علی شاہ

افغانستان میں عالم اسلام کی آرزوؤں کا خون

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

افغانستان میں روسی استعمار کے تسلط کے خلاف غیور افغانوں نے جہاد کے مقدس عنوان پر علم بغاوت بلند کیا تو دنیائے اسلام کے دینی حلقوں میں جوش و جذبہ کی ایک لہر دوڑ گئی کہ جہاد کا بابرکت عمل جو ایک عرصہ سے مغربی استعمار کی سازشوں کے باعث ملت اسلامیہ کی عملی زندگی سے نکل چکا تھا ایک بار پھر نظریاتی بنیادوں پر سفرِ نو کا آغاز کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاد افغانستان کے دوران نہ صرف پورے عالم اسلام کے دل افغان مجاہدین کے ساتھ دھڑکے بلکہ دنیا کے ہر خطہ سے پرجوش مسلم نوجوانوں نے افغانستان کی سرزمین پر پہنچ کر اس جہاد میں عملاً حصہ لیا اور اس طرح جہاد افغانستان عالم اسلام کی نظریاتی یکجہتی اور دینی تحریکات میں وحدت و اشتراک کے عنوان کے طور پر دنیا بھر کی توجہات کا مرکز بن گیا۔

جہاد افغانستان کی کامیابی اور کابل میں مجاہدین کی مشترک حکومت کے قیام کے بعد دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کو یہ امید تھی کہ اب افغانستان میں ایک نظریاتی اسلامی حکومت قائم ہوگی اور مجاہدین کی جماعتیں اور قائدین مل جل کر افغانستان کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ اسلام کے عادلانہ نظام کا ایک مثالی عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں گے جو دیگر مسلم ممالک میں نفاذ اسلام کی تحریکات کے عزم و حوصلہ میں اضافہ کا باعث ہوگا۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، بعض افغان راہنماؤں کی ناعاقبت اندیشی اور ہوسِ اقتدار نے عالم اسلام کی آرزوؤں کا سربازار خون کر دیا ہے اور کابل کی خوفناک خانہ جنگی نے دنیا بھر کی دینی تحریکات کی امیدوں کو خاک میں ملا دیا ہے۔

یہ درست ہے کہ اس خانہ جنگی کے پس منظر میں بیرونی لابیاں کام کر رہی ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس وقت دنیا کا واحد ٹھیکیدار امریکہ افغانستان کے مختلف گروپوں کے پاس موجود اسلحہ کی بھاری مقدار کو کابل کی مشترکہ کمان کی تحویل میں نہیں دیکھنا چاہتا کیونکہ اس کے خیال میں اس صورت میں کابل اس قدر طاقتور ہو جائے گا کہ اردگرد کی دیگر ریاستوں پر اثر انداز ہو سکے گا۔ اس لیے امریکہ اس اسلحہ کو خانہ جنگی میں اسی طرح ضائع کرا دینا چاہتا ہے جس طرح اس نے ایران میں اپنا چھوڑا ہوا اسلحہ عراق ایران جنگ کی صورت میں ضائع کرا دیا تھا۔

اسی طرح امریکہ افغانستان میں ایک نظریاتی اسلامی حکومت اور اسلامی نظام کے عملی نفاذ کو بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ یہ سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظاموں کی ناکامی کے بعد عالم اسلام اور اسلام کے عادلانہ اور متوازن فلاحی معاشرہ کا آغاز ہوگا جسے آگے بڑھنے سے روکا نہیں جا سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ چند ماہ قبل جنرل رشید دوستم کے دورۂ امریکہ کے موقع پر حکمت عملی یہ طے کر لی گئی تھی کہ یا تو جنرل دوستم کے اشتراک کے ساتھ کابل میں ایک ڈھیلی ڈھالی حکومت بنوا دی جائے اور یا پھر افغانستان کو تقسیم کر کے وسطی ایشیا کی نو آزاد مسلم ریاستوں اور افغانستان کے درمیان ایک نئی بفر اسٹیٹ قائم کر دی جائے تاکہ کابل کی حکومت ان ریاستوں پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ یہ ساری باتیں تسلیم، مگر سوال یہ ہے کہ اس سب کچھ کے لیے آلۂ کار کون ہے اور امریکہ ان مقاصد کے لیے استعمال کسے کر رہا ہے؟ پروفیسر برہان الدین ربانی، انجینئر حکمت یار اور انجینئر احمد شاہ مسعود اگر اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر اس سوال کا جواب تلاش کر سکیں تو یہ ان کا پوری امت پر احسان ہوگا۔

اس ساری صورتحال اگر کوئی بات کسی حد تک اطمینان بخش ہے تو وہ یہ ہے کہ اس افسوسناک خانہ جنگی میں علماء کی جماعتیں براہ راست شریک نہیں ہیں اور افغان مسلمانوں کا بے مقصد اور بے گناہ خون بہانے کے اس شرمناک عمل میں مولانا محمد نبی محمدی، مولانا محمد یونس خالص، مولانا جلال الدین حقانی، اور مولانا ارسلان رحمانی کا نام سامنے نہیں آرہا۔ گویا اس کشمکش میں دینی مدارس کی تربیت یافتہ قیادت کا کردار نسبتاً متوازن اور معتدل ہے۔ لیکن ان چاروں بزرگوں کی خدمت میں ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ افغان مجاہدین کی خانہ جنگی میں ان کا فریق کے طور پر سامنے نہ آنا ایک اچھا عمل ہے جس پر وہ بلاشبہ تحسین کے مستحق ہیں لیکن یہ کردار کافی نہیں ہے۔ انہیں خانہ جنگی کو رکوانے کے لیے مصالحت کنندہ کا کردار ادا کرنا چاہیے اور آگے بڑھ کر ان لوگوں کو ان کے منفی طرز عمل کے سنگین نتائج کا احساس دلانا چاہیے جو محض شخصی انا یا گروہی ترجیحات کی خاطر شعوری یا غیر شعوری طور پر عالمی استعمار کا آلۂ کار بن کر افغانستان کو تباہ کرنے پر تل گئے ہیں۔

اقبالؒ کا تصورِ اجتہاد

ڈاکٹر محمد آصف اعوان

(۹ نومبر ۱۹۹۳ء کو گوجرانوالہ بار ایسوسی ایشن کے ہال میں علامہ اقبالؒ کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریب میں یہ مقالہ پڑھا گیا۔)

علامہ محمد اقبالؒ کو بلاشبہ بیسویں صدی کا ایک عظیم مفکر اور اسلام کا ممتاز ترین ترجمان کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا طویل عرصہ اسلامی تاریخ، اسلامی تہذیب و ثقافت اور اصول و قوانین کے مطالعہ میں گزارا، جس سے انہیں اسلام کی اصل روح کو سمجھنے اور جاننے کے لیے گہری بصیرت حاصل ہوئی۔ اقبال اسلام کی حقانیت اور ابدیت پر کامل یقین اور پختہ ایمان رکھتے تھے، لیکن اس کے ساتھ انہیں اس بات کا  بھی احساس تھا کہ زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ اسلامی اصول و قوانین کی نئی تشریح و تعبیر کی بھی سخت ضرورت ہے تاکہ اسلام جدید دنیا کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے اور دنیا پر یہ حقیقت واضح ہو کہ اسلام کسی ایک عہد اور زمانے کے لیے ہی نہیں تھا بلکہ اس کے اصول و قوانین میں اتنی لچک اور پھیلاؤ ہے کہ یہ ہر دور کا ساتھ دے سکے اور ہر مسئلے کا  حل پیش کر سکے۔
اقبال حرکت و حرارت کا پیامبر ہے، جمود اس کے نزدیک شر اور حرکت سب سے بڑی خیر ہے۔ بقول خلیفہ عبد الحکیم ’’اقبال کے لیے ہر وہ تحریک خوش آئند تھی جو زندگی کے جمود کو توڑ دے‘‘1 چنانچہ اقبال نے اپنے دور میں ترکی اور ایران میں اٹھنے والی نئی سیاسی اور معاشرتی تحریکوں کا  بھرپور ساتھ دیا اور ان کی تعریف کی۔ اقبال کا خیال یہ ہے کہ
’’تہذیب و ثقافت کی نظر سے دیکھا جائے تو بحیثیت ایک تحریک، اسلام نے دنیائے قدیم کا یہ نظریہ تسلیم نہیں کیا کہ کائنات ایک ساکن و جامد وجود ہے، برعکس اس کے وہ اسے متحرک قرار دیتا ہے۔‘‘2
اقبال چاہتے تھے کہ اسلام کے اصول و قوانین کا ازسرنو جائزہ لے کر زمانۂ حال کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی مسائل کا حل پیش کیا جائے۔ کیونکہ اسی طریقے سے اسلامی اصول و قوانین کی ابدیت کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اقبال کو اس بات کا پورا احساس تھا کہ اگر موجودہ دور کے تقاضوں کا احساس نہ کیا گیا اور اسلامی اصول و قوانین کی تدوینِ نو کر کے موجودہ مسائل کا حل پیش نہ کیا گیا تو ہو سکتا ہے کہ لوگوں کا اسلام کے مکمل ضابطۂ حیات ہونے سے ایمان اٹھ جائے، اور وہ جدید مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے اسلام کی رائے سنے یا اس کا انتظار کیے بغیر مغربی طریقوں اور اصولوں کو اپنا لیں۔ پروفیسر محمد عثمان اپنی کتاب ’’فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’جو لوگ صدی، نصف صدی زندہ رہنے کی خواہش رکھتے ہوں، ان کی بات اور ہے، مگر جو قومیں اور تہذیبیں صدیوں تک یا تا قیامت صفحۂ ہستی پر اپنے آپ کو قائم دائم دیکھنے کی آرزومند اور دعویدار ہوں، ان کے لیے اور باتوں کے علاوہ ایک نہایت اہم بات یہ ہے کہ وہ ثبات اور تغیر کے باہمی ربط اور ان کی حقیقت کو واضح طور پر جانیں۔ زندگی نہ محض ثبات ہے اور نہ محض تغیر ہے ۔۔۔۔ مستقل اقدار کی مسلسل حفاظت کرنا اور بدلنے والے پہلوؤں میں تبدیلی قبول کرنا بقا و دوام کی شرطِ اول ہے۔‘‘3
حضرت علامہ اقبالؒ اسلام کی بقا اور استحکام کے پرجوش مبلغ اور علمبردار تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے اس حقیقت کو محسوس کیا کہ جب تک مسلمانوں میں فکری سطح پر تعطل اور جمود کو دور نہ کیا جائے گا ان کا دنیا میں تری کرنا اور آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ علامہ اقبال کا مشہور و معروف انگریزی خطبہ

The Principle of Movement in the Structure of Islam

فقہ اسلامی کی تدوینِ نو کے ضمن میں عالمِ اسلام کی بہترین رہنمائی کرتا ہے۔ سید نذیر نیازی نے اس انگریزی لیکچر کا ترجمہ ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ اقبال اپنے خطبے میں فرماتے ہیں کہ اسلام میں ثبات اور تغیر دونوں پہلو موجود ہیں، لیکن ابدی اصول و قوانین سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ تغیر کے ہر امکان کو رد کرتا ہے بلکہ حرکت اور تغیر ہی خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اقبال فرماتے ہیں:
’’اسلام کے نزدیک حیات کی یہ روحانی اساس ایک قائم و دائم وجود ہے، جسے ہم اختلاف اور تغیر میں جلوہ گر دیکھتے ہیں۔ اب اگر کوئی معاشرہ حقیقت مطلقہ کے اس تصور پر مبنی ہے تو پھر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ثبات اور تغیر دونوں خصوصیات کا لحاظ رکھے۔ اس کے پاس کچھ تو اس قسم کے دوامی اصول ہونے چاہئیں جو حیاتِ اجتماعیہ میں نظم و انضباط قائم رکھیں، کیونکہ مسلسل تغیر کی اس بدلتی ہوئی دنیا میں ہم اپنا قدم مضبوطی سے جما سکتے ہیں تو دوامی اصولوں ہی کی بدولت۔ لیکن دوامی اصولوں کا یہ مطلب تو ہے نہیں کہ اس سے تغیر اور تبدیلی کے جملہ امکانات کی نفی ہو جائے، اس لیے کہ تغیر وہ حقیقت ہے جسے قرآن پاک نے اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی آیت ٹھہرایا ہے۔ اس صورت میں تو ہم اس شی کو، جس کی فطرت ہی حرکت ہے، حرکت سے عاری کر دیں گے۔‘‘4
پھر اقبال خود ہی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ
’’سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کی ہیئتِ ترکیبی میں وہ کون سا عنصر ہے جو اس کے اندر حرکت اور تغیر قائم رکھتا ہے؟‘‘5
اور ساتھ ہی اس کا جواب دیتے ہیں کہ
’’اس کا جواب ہے، اجتہاد‘‘6
اقبال اجتہاد پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’فقہ اسلامی کی اصطلاح میں اس کا مطلب ہے وہ کوشش جو کسی قانونی مسئلے میں آزادانہ رائے قائم کرنے کے لیے کی جائے۔‘‘7
گویا روزمرہ زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے لیے قوانین وضع کرنے، اور ایسے مسائل جن میں شک و شبہ کا امکان ہو، قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کے لیے قوانین مرتب کرنے کا نام اجتہاد ہے۔ ارشاد رب العزت ہے:
’’جو لوگ ہمارے بارے میں کوشش کرتے ہیں ہم ان کو اپنے راستے دکھائیں گے۔‘‘
اقبال اجتہاد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک حدیث کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ حضرت معاذؓ کو جب یمن کا حاکم مقرر کیا گیا تو ان کی روانگی کے وقت نبی کریمؐ نے ان سے دریافت کیا کہ اے معاذ! معاملات کا فیصلہ کیسے کرو گے؟ تو حضرت معاذؓ نے عرض کیا کہ اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلے کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا، اگر کتاب اللہ سے تمہاری رہنمائی نہ ہو تو پھر کیا کرو گے؟ معاذؓ نے جواب دیا، تو رسول اللہ کی سنت کے مطابق۔ آپؐ نے فرمایا، اگر سنتِ رسول سے بھی رہنمائی میسر نہ ہو تو پھر؟ حضرت معاذؓ نے جواب دیا، تو پھر میں خود ہی کوئی رائے قائم کرنے کی کوشش کروں گا۔8
گویا نئے ماحول اور حالات میں نئی ضروریات اور تقاضوں کا ساتھ دینے کے لیے قرآن و حدیث کے مطابق فیصلے کرنا ضروری ہے، لیکن اگر قرآن و حدیث کسی خاص معاملے میں خاموش ہوں تو پھر قرآن و سنت اور اجتماعی اسلامی مزاج کا لحاظ رکھنا قانون سازی کرتے ہوئے لازمی ہے۔
اگر اقبال کے خطبے ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ کا دقتِ نظر سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال اس خطبے میں خاص طور پر اسلامی ممالک اور ان میں پیش آنے والے مسائل سے گفتگو کر رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ خطبہ مختلف اسلامی ممالک میں اجتہادی کوششوں کے ضمن میں ایک Guideline کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ علامہ نے ترکوں کی اجتہادی کوششوں کی ہمیشہ تعریف کی ہے۔ اقبال ترکوں کے متعلق لکھتے ہیں کہ
’’دراصل یہ صرف ترک ہیں جو اممِ اسلامیہ میں قدامت پرستی کے خواب سے بیدار ہو کر شعورِ ذات کی نعمت حاصل کر چکے ہیں۔ یہ صرف ترک ہیں جنہوں نے ذہنی آزادی کا حق طلب کیا ہے اور جو ایک خیالی دنیا سے نکل کر اب عالمِ حقیقت میں آ گئے ہیں۔ لیکن یہ وہ تغیر ہے جس کے لیے انسان کو ایک زبردست دماغی اور اخلاقی کشاکش سے گزرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا یہ ایک طبعی امر تھا کہ ایک ہر لحظہ حرکت اور وسعت پذیر زندگی کی روز افزوں پیچیدگیوں سے انہیں نئے نئے حالات اور نئے نئے نقطہ ہائے نظر سے سابقہ پڑتا اور وہ ان اصولوں کی ازسرنو تعبیر پر مجبور ہو جاتے، جو ایک ایسی قوم کے لیے جو روحانی وسعتوں کی لذت سے محروم ہے، خشک بحثوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔‘‘9
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ ترکوں نے ایک نہایت جرأتمندانہ اقدام کر کے اپنی سیاسی اور تہذیبی زندگی میں اپنی اجتہاد پسندی کا ثبوت دیا ہے اور زندگی کے نئے تقاضوں اور ضروریات کا ساتھ دیا  ہے۔ اگر ہم یعنی ہندوستان کے لوگ بھی اسلامی اصول و قوانین کو موجودہ دور میں مؤثر بنانا چاہتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ اپنے ذہنی اور فکری ورثے کا ازسرنو جائزہ لے کر اسے موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق بنایا جائے۔ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ
’’اگر اسلام کی نشاۃِ ثانیہ ناگزیر ہے، جیسا کہ میرے نزدیک قطعی طور پر ہے، تو ہمیں بھی ترکوں کی طرح ایک نہ ایک دن اپنے عقلی اور ذہنی ورثے کی قدر و قیمت کا جائزہ لینا پڑے گا۔‘‘10
اقبالؒ کی نظر میں اجتہاد ہی اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا ضامن ہے اور اسی کی مدد سے ہر دور میں اسلام اپنے پیروکاروں کو اپنے فیوض و برکات سے مستفید کر سکتا ہے۔ تاہم جہاں اقبال اجتہاد کی ضرورت و اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہیں اور عالمِ اسلام کو اجتہاد کی دعوت دیتے ہیں، وہاں انہیں اس بات کا بھی مکمل احساس ہے کہ اس معاملے میں ذرا سی زیادتی بھی مسلمانوں کو دین و ایمان سے دور پھینک سکتی ہے۔ آزادیٔ افکار کی گو اپنی اہمیت ہے، تاہم فکر و تدبر کا سلیقہ اس سے بھی اہم تر اور ضروری ہے کیونکہ ؎
ہو فکر اگر خام تو آزادیٔ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ:
’’علامہ اقبال کو فقہ اسلام کی تاریخ و تدوین کی اہمیت کا پورا احساس رہا۔ انہیں آج کے علمی و فکری ماحول میں اسلام کے اصولوں کی صداقت و افادیت ثابت کرنے پر اصرار رہا۔ بلاشبہ اس تدوینِ نو میں اجتہاد کی ضرورت اور بحث بھی آجاتی ہے، لیکن وہ اجتہاد کی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ تھے، کیونکہ اس کے لیے وافر اور فراواں اہلیت، تقوٰی اور تبحرِ علمی درکار ہے۔ اس کے علاوہ وہ اس خدشے سے بھی غافل نہ تھے کہ بلا قید اور بلا شرط اجتہاد سے انتشار پیدا ہو کر ملت کا شیرازہ بکھر بھی سکتا ہے۔‘‘12
علامہ اقبال اپنے انگریزی خطبے میں رقمطراز ہیں:
’’ہم اس تحریک کا، جو حریت اور آزادی کے نام پر عالمِ اسلام میں پھیل رہی ہے، دل سے خیرمقدم کرتے ہیں۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے، آزاد خیالی کی یہی تحریک اسلام کا نازک ترین لمحہ بھی ہے۔ آزاد خیالی کا رجحان بالعموم تفرقہ اور انتشار کی طرف ہوتا ہے۔ لہذا نسلیت اور قومیت کے یہی تصورات جو اس وقت دنیائے اسلام میں کارفرما ہیں، اس وسیع مطمح نظر کی نفی بھی کر سکتے ہیں جس کی اسلام نے مسلمانوں کو تلقین کی ہے۔ پھر اس کے علاوہ یہ بھی خطرہ ہے کہ ہمارے مذہبی اور سیاسی رہنما حریت اور آزادی کے جوش میں، بشرطیکہ اس پر کوئی روک عائد نہ کی گئی، اصلاح کی جائز حدود سے تجاوز کر جائیں۔‘‘13
علامہ اقبال اگرچہ نئے فقہی فیصلوں کے حق میں تھے اور چاہتے تھے کہ زمانہ جدید کی مخصوص ضرورتوں کے تحت بنیادی ماخذ کی روشنی میں اسلامی اصول و قوانین کی تدوینِ نو کی جائے، تاہم ان کی اعتدال پسند طبیعت اس بات کو قطعاً گوارا نہیں کرتی تھی کہ اجتہاد اور تجدد کے نام پر ایسے تجاوزات عمل میں لائے جائیں جو اسلامی تعلیمات کی روح سے عاری ہوں۔ حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ کے نام ایک خط میں البانیہ کے مسلمانوں سے متعلق وہ اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’میں نے سنا ہے کہ البانیہ کے مسلمانوں نے وضو اڑا دیا اور ممکن ہے نماز میں بھی کوئی ترمیم کی ہو۔‘‘14
اگرچہ اقبالؒ نے ترکوں کے اجتہاد کی ہر جگہ تعریف کی ہے مگر وہ اس اجتہاد کے ان پہلوؤں کا احتساب بھی کرتے ہیں جن سے اسلام کے بنیادی اصول و قوانین کے خلاف بغاوت کی بو آتی ہے۔ مثال کے طور پر اقبال کہتے ہیں کہ ترکی کی نیشنلسٹ پارٹی کا موقف یہ ہے کہ
’’ریاست ہی حیاتِ قومی کا بنیادی جزو ہے اور اس لیے باقی سب اجزا کی نوعیت اور وظائف بھی ریاست ہی سے متعین ہوں گے۔‘‘15
لیکن اقبال فرماتے ہیں کہ
’’ذاتی طور پر مجھے اس سے اختلاف ہے کہ اسلام کی توجہ تمام تر ریاست پر ہے اور ریاست ہی کا خیال اس کے باقی تمام تصورات پر حاوی۔‘‘16
اقبال واضح طور پر کہتے ہیں کہ
’’دراصل ترک وطن پرستوں نے ریاست اور کلیسا کی تفریق کا اصول مغربی سیاست کی تاریخ افکار سے اخذ کیا  ہے۔‘‘17
اقبال ایک ترک شاعر ضیا کی ان نظموں کا بھی سختی سے محاسبہ کرتے ہیں جن میں اس نے نماز، اذان اور تلاوتِ قرآن کو عربی کے بجائے ترکی زبان میں ادا کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اقبال، ضیا کی نظم کے ایک بند کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
’’وہ سرزمین جہاں ترکی میں اذان دی جاتی ہے، جہاں نمازی اپنے مذہب کو جانتے اور سمجھتے ہیں، جہاں قرآن پاک کی تلاوت ترکی زبان میں کی جاتی ہے، جہاں پر چھوٹا بڑا احکامِ الٰہیہ سے واقف ہے، اے فرزندِ ترکی! وہ ہے تیرا آبائی وطن۔‘‘18
حضرت علامہ، ترک شاعر ضیا کے اس اجتہاد کو، کہ نماز ترکی زبان میں ادا کی جائے، اذان ترکی زبان میں دی جائے، اور قرآن پاک کی ترکی زبان میں تلاوت کی جائے، مناسب خیال نہیں کرتے اور فرماتے ہیں کہ
’’عربی کو ترکی سے بدلنے کا یہ خیال مسلمانانِ ہند کی غالب اکثریت کو ناگوار گزرے گا اور وہ اس کی مذمت کریں گے۔‘‘19
اپنی نظم کے ایک بند میں ضیا نے مساواتِ مرد و زن کے خیال کو بڑے پرجوش انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اسلام کے عائلی نظام میں بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں تاکہ عورت کے ساتھ عدل و انصاف ہو سکے۔ اس کے خیال میں جب تک عورت کو جائیداد میں آدھا حصہ ملے گا، اسے گواہی دینے کے  معاملے میں بھی آدھا انسان ہی تصور کیا جائے گا، ترک شاعر ضیا کہتا ہے کہ
’’جب تک عورتوں کی صحیح قدر و قیمت کا احساس نہیں ہو گا، حیاتِ ملی نامکمل رہے گی۔ اہل و عیال کی پرورش میں عدل و انصاف پر عمل کرنا چاہیے اور اس کے لیے تین چیزیں ہیں جن میں مساوات ناگزیر ہے: طلاق میں، علیحدگی میں، وراثت میں۔‘‘20
اقبال، ترک شاعر کے ان خیالات کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’رہا ترکی شاعر کا مطالبہ، سو میں سمجھتا ہوں وہ اسلام کے قانونِ عائلہ سے کچھ بہت زیادہ واقف نہیں۔ وہ نہیں سمجھتا کہ قرآن پاک نے وراثت کے بارے میں جو قاعدہ نافذ کیا ہے اس کی معاشی قدر و قیمت کیا ہے۔ شریعتِ اسلامی میں نکاح کی حیثیت ایک عقد اجتماعی کی ہے۔ اور بیوی کو یہ حق حاصل ہے کہ بوقتِ نکاح شوہر کا حقِ طلاق بعض شرائط کی بنا پر خود اپنے ہاتھ میں لے لے۔ یوں امرِ طلاق میں تو مرد و زن کے درمیان مساوات قائم ہو جاتی ہے۔ رہی وہ اصلاح جو شاعر نے قانونِ وراثت میں تجویز کی ہے، سو اس کی بنا غلط فہمی پر ہے۔ اگر قانون کے کچھ حصوں میں مساوات نہیں کی گئی تو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے، اس لیے کہ یہ خیال تعلیماتِ قرآن کے منافی ہے۔ قرآن مجید کا صاف و صریح ارشاد ہے ’’ولھن مثل الذی علیھن (بقرہ ۲۲۸) لہٰذا لڑکی کا حصہ متعین ہوا تو کسی کمتری کی بنا پر نہیں بلکہ ان فوائد کے پیشِ نظر جو معاشی اعتبار سے اسے حاصل ہیں۔‘‘21
اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اگرچہ اقبال عصری تقاضوں کے پیشِ نظر قوانینِ اسلامی کی تدوینِ نو کے قائل ہیں اور اسے وقت کی ضرورت خیال کرتے ہیں، تاہم وہ بے اعتدالی اور کسی بھی معاملے میں کسی کی بھی کورانہ تقلید کے ہرگز قائل نہیں۔ اقبال اسلام کے بنیادی اور ابدی ماخذ میں کسی قسم کی بھی تبدیلی کے حق میں نہیں۔ ان کے نزدیک بنیادی ماخذ ہمارے ماضی کا شاندار علمی ورثہ ہیں، جن سے منہ موڑ کر اور انہیں پسِ پشت ڈال کر ہم کبھی بھی صحیح نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس اسلامی قوانین کے لیے چار بنیادی ماخذ ہیں: (۱) قرآن (۲) حدیث (۳) قیاس (۴) اجماع۔

(۱) قرآن مجید

قرآن کو اسلامی قوانین کا اولین ماخذ قرار دیا جاتا ہے لیکن قرآن قانونی ضابطوں کی کتاب نہیں ہے بلکہ معاملاتِ زندگی سے متعلق عام لیکن بنیادی اصولوں کی طرف ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ
’’قرآن کوئی قانونی ضابطہ نہیں، اس کا حقیقی منشا، جیسا کہ ہم اس سے پہلے عرض کر آئے ہیں، یہ ہے کہ ذہنِ انسانی میں اس تعلق کا، جو اسے کائنات اور خالقِ کائنات سے ہے، اعلیٰ اور بہترین شعور پیدا کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن پاک میں قانونی نوعیت کے کچھ عام اصول اور قواعد و ضوابط موجود ہیں ۔۔۔‘‘22
اقبالؒ ملتِ اسلامیہ کی توجہ قرآن پاک کے اس خاص انداز اور اسلوب کی طرف دلا رہے ہیں کہ قرآن پاک کی جامعیت اور ابدیت اسی میں ہے کہ اس نے انسان کی رہنمائی کے لیے بنیادی اصول فراہم کر دیے ہیں جن کے اندر رہتے ہوئے ہم ہر زمانے اور ہر دور میں نئی ضروریات اور بدلتے ہوئے تقاضوں کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ گویا اس طرح اگر ہم غور کریں تو قرآن اپنے اندر ایک حرکی تصورِ حیات رکھتا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں:
’’ظاہر ہے کہ جس کتاب کا مطمح نظر ایسا ہو گا اس کی روش ارتقا کے خلاف کیسے ہو سکتی ہے؟‘‘23
حرکی تصورِ حیات کا یہ مطلب ہیں کہ اس میں ثبات کا کوئی بھی پہلو نہیں، بلکہ اقبال کے تصورِ حیات میں ایک Element of Permanence بھی ہے جس کا دمن کبھی بھی ہاتھ سے چھوڑا نہیں جا سکتا۔ اقبال فرماتے ہیں:
’’ہمیں نہیں بھولنا چاہیے تو یہ کہ زندگی محض تغیر ہی نہیں، اس میں حفظ و ثبات کا ایک عنصر بھی موجود ہے۔‘‘24
اور پھر اقبال بڑے واضح انداز میں فرماتے ہیں کہ
’’تعلیماتِ قرآن کی یہی وہ جامعیت ہے جس کا لحاظ رکھتے ہوئے جدید عقلیت کو اپنے ادارات کا جائزہ لینا ہو گا۔ دنیا کی کوئی قوم اپنے ماضی سے قطع نظر نہیں کر سکتی، اس لیے کہ یہ ان کا ماضی ہی تھا جس سے ان کی موجودہ شخصیت متعین ہوئی۔‘‘25

(۲) حدیث

قرآن پاک کے بعد اسلامی قوانین کا سب سے بڑا ماخذ احادیثِ رسولؐ ہیں۔ ہمیں قانونی حیثیت کی حامل احادیث اور دوسری احادیث میں امتیاز کرنا ہو گا۔ بقول علامہ اقبال:
’’جہاں تک مسئلہ اجتہاد کا تعلق ہے، ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو، جن کی حیثیت سراسر قانونی ہے، ان احادیث سے الگ رکھیں جن کا قانون سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘26
احادیث کی قانونی حیثیت کا ذکر کرتے ہوئے علامہ اقبال، حضرت شاہ ولی اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے بہت سے احکام عربوں کی مقامی روایات اور ان کے قومی مزاج کو سامنے رکھ کر دیے تھے، جن کی اطاعت دوسری قوموں کے افراد کے لیے ضروری نہیں، کیونکہ آئندہ نسلوں کا مزاج، روایات اور ماحول عربوں سے مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ حضرت علامہ اپنے انگریزی خطبے میں شاہ ولی اللہ کے حوالے سے رقمطراز ہیں:
’’انبیاء کا عام طریقِ تعلیم تو یہی ہے کہ وہ جس قوم میں مبعوث ہوتے ہیں ان پر اسی قوم کے رسم و رواج اور عادات و خصائص کے مطابق شریعت نازل کی جاتی ہے۔ لیکن جس نبی کے سامنے ہمہ گیر اصول ہیں، اس پر نہ تو مختلف قوموں کے لیے مختلف اصول نازل کیے جائیں گے، نہ یہ ممکن ہے کہ وہ ہر قوم کو اپنی اپنی ضروریات کے لیے الگ الگ اصولِ عمل متعین کرنے کی اجازت دے۔ وہ کسی ایک قوم کی تربیت کرتا اور پھر ایک عالمگیر شریعت کی تشکیل میں اس سے تمہید کا کام لیتا ہے۔ لیکن ایسا کرنے میں وہ اگرچہ انہی اصولوں کو حرکت دیتا ہے جو ساری نوعِ انسانی کی حیاتِ اجتماعیہ میں کارفرما ہیں۔ پھر بھی ہر معاملے اور ہر موقع پر عملاً ان کا اطلاق اپنی قوم کی مخصوص عادات کے مطابق ہی کرتا ہے۔ لہٰذا اس طرح جو احکام وضع ہوتے ہیں (مثلاً تعزیرات) ایک لحاظ سے اسی قوم کے لیے مخصوص ہوں گے۔ پھر چونکہ احکام مقصود بالذات نہیں، اس لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ ان کو آئندہ نسلوں کے لیے بھی واجب ٹھہرایا جائے۔‘‘27
علامہ اقبالؒ امام ابوحنیفہؒ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام صاحب نے اپنی فقہ میں ایسی احادیث کا خاص طور پر استعمال ہیں کیا جن کا ایک خاص زمانے سے اور لوگوں کے مزاج سے تعلق تھا۔ علامہ فرماتے ہیں:
’’شاید یہی وجہ تھی کہ امام ابوحنیفہؒ نے، جو اسلام کی عالمگیر نوعیت کو خوب سمجھ گئے تھے، ان احادیث سے اعتنا نہیں کیا۔‘‘28
یہاں ’’ان احادیث‘‘ سے مراد ایسی احادیث ہیں جن کا (تعلق) مخصوص زمانے سے اور اس زمانے کے لوگوں کے مخصوص عادات و کردار اور مزاج سے تھا۔ چنانچہ اقبال فرماتے ہیں:
’’اگر آزادیٔ اجتہاد کی وہ تحریک جو اس وقت دنیائے اسلام میں پھیل رہی ہے، احادیث کو بلا جرح و تنقید قانون کا ماخذ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تو اس سے اہل سنت والجماعت کے ایک امام الائمہ ہی کی پیروی مقصود ہے۔‘‘29
یہاں بعض لوگوں کو یہ احتمال گزر سکتا ہے کہ اقبال، خدانخواستہ، احادیث کو کم اہمیت دیتے تھے یا یہ کہ وہ منکرِ حدیث تھے، لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ اگر اقبال کا ایسا خیال ہوتا تو وہ قانون سازی کے عمل میں احادیث کا قرآن کے بعد ذکر ہی نہ کرتے۔ اقبالؒ تو محض Indiscriminate use of Traditions کے خلاف ہیں، ورنہ تو حضرت علامہ رقمطراز ہیں:
’’سب سے بڑی خدمت جو محدثین نے شریعتِ اسلامیہ کی سرانجام دی ہے، یہ ہے کہ انہوں نے مجرد غور و فکر کے رجحان کو روکا اور اس کی بجائے ہر مسئلے کی الگ تھلگ شکل اور انفرادی حیثیت پر زور دیا۔‘‘30
اقبالؒ قانون سازی کے عمل میں احادیث کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’احادیث کا مطالعہ اگر اور زیادہ گہری نظر سے کیا جائے اور ہم ان کا استعمال یہ سمجھتے ہوئے کریں کہ وہ کیا روح تھی جس کے تحت آنحضرتؐ نے احکامِ قرآن کی تعبیر فرمائی، تو اس سے ان قوانین کی حیاتی قدر و قیمت کے فہم میں اور بھی آسانی ہو گی جو قرآن پاک نے قانون کے متعلق قائم کیے ہیں۔ پھر یہ ان اصولوں کی حیاتی قدر و قیمت ہی کا پورا پورا علم ہے جس کی بدولت ہم اپنی فقہ کے بنیادی ماخذ کی ازسرنو تعبیر اور ترجمانی کر سکتے ہیں۔‘‘31

(۳) اجماع

فقہ اسلامی کا تیسرا بڑا ماخذ اجماع ہے۔ مولانا محمد حنیف ندوی اپنی کتاب ’’مسئلہ اجتہاد‘‘ میں اجماع کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’اصطلاح کی رو سے اجماع اس سے تعبیر ہے کہ مجتہدین اور اربابِ حل و عقد آنحضرتؐ کے بعد کسی عصر و زمانہ میں کسی امرِ دینی پر متفق ہو جائیں ۔۔۔۔ جب کوئی مسئلہ مخصوص اسباب کی بنا پر ابھرے اور ائمہ و مجتہدین کے سامنے آئے تو اس کے فیصلہ میں اس دور کے مجتہدین و اربابِ اختیار میں اختلافِ رائے نہ پایا جاتا ہو۔‘‘32
علامہ کو اس بات پر افسوس ہے کہ ’’اجماع‘‘ باوجود اسلامی قانون سازی کا ایک بہت بڑا اور اہم ماخذ ہونے کے، علمی صورت اختیار نہ کر سکا۔ اقبال کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع اسلام میں مطلق العنان سلطنتیں قانون سازی کی مجالس کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے خطرہ تصور کرتی تھیں۔ اقبال لکھتے ہیں کہ
’’اموی اور عباسی خلفاء کا فائدہ اسی میں تھا کہ اجتہاد کا حق بحیثیت افراد مجتہدین ہی کے ہاتھ میں رہے، اس کی بجائے کہ اس کے لیے ایک مستقل مجلس قائم ہو، جو بہت ممکن ہے انجام کار ان سے بھی زیادہ طاقت حاصل کر لیتی۔‘‘33
حضرت علامہؒ اس بات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں کہ اب اسلامی ممالک میں مجالس قانون ساز اور جمہوریت   کا فروغ ہو رہا ہے اور اجماع کے لیے بہتر صورت پیدا ہو رہی ہے۔ اقبال موجودہ زمانہ میں اجماع کی ممکنہ صورت پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’مذاہبِ اربعہ کے نمائندے جو سردست فردًا فردًا اجتہاد کا حق رکھتے ہیں، اپنا یہ حق مجالسِ تشریعی کو منتقل کر دیں گے۔ یوں بھی مسلمان چونکہ متعدد فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، اس لیے ممکن بھی ہے تو اس وقت اجماع کی یہی شکل۔ مزید برآں غیر علماء بھی، جو ان امور میں بڑی گہری نظر رکھتے ہیں، اس میں حصہ لے سکیں گے۔ میرے نزدیک یہی ایک طریقہ ہے جس سے کام لے کر ہم زندگی کی اس روح کو، جو ہمارے نظاماتِ فقہ میں خوابیدہ ہے، ازسرنو بیدار کر سکتے ہیں۔ یونہی اس کے اندر ایک ارتقائی مطمح نظر پیدا ہو گا۔‘‘34
اقبالؒ دورِ جدید میں ترکوں کی مثال دیتے ہیں جنہوں نے منصبِ اجتہاد کو افراد کی ایک جماعت بلکہ منتخب شدہ مجلسِ قانون ساز کے سپرد کر دیا۔ اقبال کے نزدیک ترکوں کا یہ اقدام قابلِ استحسان ہے، لیکن یہاں ایک خدشہ اقبال کے ذہن میں جنم لیتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ جو افراد منتخب ہو کر اسمبلی میں آئیں اور قانون سازی کریں، وہ اسلامی اصول و قوانین سے نابلد  ہوں۔ چنانچہ اقبال کی نظر میں:
’’اس قسم کی مجالس شریعت کی تعبیر میں بڑی بڑی شدید غلطیاں کر سکتی ہیں۔ ان غلطیوں کے ازالے یا کم سے کم امکان کی صورت کیا ہو گی؟‘‘35
اقبال کے نزدیک اس قسم کی غلط تعبیرات کی روک تھام کا واحد طریقہ یہ ہے کہ علماء کا ایک مشاورتی بورڈ قائم کیا جائے جو اسمبلی کی معاونت اور رہنمائی کر سکے۔ اقبال لکھتے ہیں:
’’انہیں چاہیے، مجالسِ قانون ساز میں علماء کو بطور ایک مؤثر جزو شامل تو کر لیں، لیکن علماء بھی ہر امرِ قانون میں آزادانہ بحث و تمحیص اور اظہارِ رائے کی اجازت دیتے ہوئے اس کی رہنمائی کریں۔ بایں ہمہ شریعتِ اسلامی کی غلط تعبیرات کا سدباب ہو سکتا ہے تو صرف اس طرح کہ بحالتِ موجودہ بلادِ اسلامیہ میں فقہ کی تعلیم جس نہج پر ہو رہی ہے، اس کی اصلاح کی جائے۔ فقہ کا نصاب مزید توسیع کا محتاج ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ جدید فقہ کا مطالعہ بھی باحتیاط اور سوچ سمجھ کر کیا جائے۔‘‘36

(۴) قیاس

اقبالؒ کے نزدیک اجتہاد کا چوتھا اور آخری ماخذ قیاس ہے۔ قانون سازی میں مماثلتوں کی بنا پر استدلال سے کام لینا قیاس کہلاتا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں:
’’چوتھا ماخذ قیاس ہے، یعنی قانون سازی میں مماثلتوں کی بنا پر استدلال سے کام لینا۔‘‘37
قیاس کرتے ہوئے اسلام کے بنیادی تقاضوں اور روح کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے اور ان کی روشنی میں نئے احکام اور اصول و قوانین مرتب کیے جاتے ہیں۔ قیاس کی تین صورتیں ہیں:
(۱) کوئی ایسا حکم جو قرآن مجید میں ہو، اس پر کسی دوسرے غیر مذکور حکم کو قیاس کرنا۔
(۲) کوئی ایسا حکم جو حدیث میں ہو، اس پر کسی غیر مذکور حکم کو قیاس کرنا۔
(۳) کوئی ایسا حکم جو اجماع سے ثابت ہو، اس پر قیاس کرنا۔
اقبال کا واضح نقطہ نظر یہ ہے کہ قیاس صرف اسی موقع پر عمل میں آئے گا جہاں قرآن، سنتِ رسولؐ اور اجماع رہنمائی نہ کرے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ
’’قیاس کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر کام میں لایا جائے تو، جیسا کہ امام شافعی کا ارشاد ہے، وہ اجتہاد ہی کا دوسرا نام ہے۔ اور اس لیے نصوصِ قرآنی کی حدود کے اندر ہمیں اس کے استعمال کی پوری پوری آزادی ہونی چاہیے۔ پھر بحیثیت ایک اصولِ قانون اس کی اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے ہو جاتا ہے کہ بقول قاضی شوکانی زیادہ تر فقہاء اس امر کے قائل تھے کہ حضور رسالتمابؐ کی حیاتِ طیبہ میں بھی قیاس سے کام لینے کی اجازت تھی۔‘‘38
علامہؒ زندگی کو ایک مسلسل تخلیقی بہاؤ قرار دیتے ہیں۔ اس میں جمود، سکونت اور ٹھہراؤ نہیں بلکہ روانی، حرکت اور ارتقا اس کی فطرت ہے۔ اس لیے ہر زماں اپنے قانونی نظام کا ازسرنو جائزہ لینا اور اسے Reconstruct کرنا لازمی ہے۔ زندگی کے اندر بڑھنے اور پھلنے پھولنے کی وہی طاقت ہے جو بیج میں درخت بننے کی قوت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر خالد مسعود اپنی کتاب ’’اقبال کا تصورِ اجتہاد‘‘ میں اجتہاد کے تصور کے حوالے سے رقمطراز ہیں:
’’یہ بحرِ حیات کی موجوں کا اضطراب ہے۔ رمِ زندگی ہے، ولولۂ شوق ہے۔ لذتِ پرواز ہے۔ جراتِ نمو ہے۔ یہ طوفانِ زندگی سے نبرد آزمائی کا عزم ہے۔ یہ تندیٔ باد مخالف کے تھپڑوں کا مقابلہ کرنے کا شاہینی شکوہ ہے۔ عزیمت کی راہ ہے۔ نغمۂ تارِ حیات ہے اور کشمکشِ انقلاب ہے۔‘‘39
گویا زندگی ہر دم منزلِ نو کی طرف گامزن ہے۔ جمود اور سکون اس کی سرشت میں نہیں۔ تغیر و ارتقا اس کے لیے وجۂ ثبات ہے۔ تو ضرورت ہے کہ رمِ آہو کی مانند ہر دم نئے راستوں اور راہوں پر گامزن حیاتِ مسلسل کے لیے کچھ ایسے ابدی اصول و قوانین ہوں جو زندگی کے تغیرات کی رہنمائی کر سکیں۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے اپنے خطبہ ’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ میں اسی امر کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ہم جدید دور میں نئے حالات اور ماحول کی روشنی میں زندگی کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر اجتہادی فکر کا پیدا کرنا ازبس ضروری ہے۔ حضرت علامہ کا خطبہ ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ ممالک اسلامیہ کے لیے ایک Guideline ہے جس سے استفادہ کر کے مسلمان نہ صرف اپنے آپ کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکتے ہیں بلکہ ترقی یافتہ قوموں کی صف میں اپنا ایک منفرد مقام بھی بنا سکتے ہیں۔

حوالہ جات

  1. ’’فکرِ اقبال‘‘ ص ۱۴۹ ۔ خلیفہ عبد الحکیم ۔ بزمِ اقبال، لاہور ( ۱۹۶۸ء) ۔
  2. ’’تشکیلِ جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ ص ۲۲۳ ۔ ترجمہ: سید نذیر نیازی ۔ بزمِ اقبال، لاہور (۱۹۸۶ء) ۔
  3. ’’فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو‘‘ ص ۱۵۱، ۱۵۲ ۔ پروفیسر محمد عثمان ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور (۱۹۸۷ء) ۔
  4. ’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ ص ۲۲۷، ۲۲۸۔
  5. ایضاً ص ۲۲۸
  6. ایضاً۔
  7. ایضاً۔
  8. ’’فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو‘‘ ص ۱۵۳، ۱۵۴۔
  9. ’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ ص ۲۵۰۔
  10. ایضاً ص ۲۳۶۔
  11. ’’کلیاتِ اقبال‘‘ ۔ اقبالؒ ۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور (۱۹۸۲ء)۔
  12. ’’مطالعۂ اقبال کے چند نئے رخ‘‘ ص ۱۲۱، ۱۲۲ ۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ ۔ بزمِ اقبال لاہور (۱۹۸۲ء)۔
  13. ’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ ص ۲۵۱، ۲۵۲۔
  14. ’’اقبال نامہ‘‘ (حصہ اول) ص ۱۴۴ ۔ محمد اقبال ۔ مرتبہ: شیخ عطاء اللہ ۔ ناشر: شیخ محمد اشرف، لاہور۔
  15. ’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ ص ۲۳۶۔
  16. ایضاً ص ۲۳۷۔
  17. ایضاً ص ۲۳۹۔
  18. ایضاً ص ۲۴۸۔
  19. ایضاً۔
  20. ایضا۔ ص ۲۴۹۔
  21. ایضاً ص ۲۶۱، ۲۶۲۔
  22. ایضاً ص ۲۵۵، ۲۵۶۔
  23. ایضاً ص ۲۵۷۔
  24. ایضاً۔
  25. ایضاً ص ۲۵۷، ۲۵۸۔
  26. ایضاً ص ۲۶۴۔
  27. ایضاً ص ۲۶۵، ۲۶۶۔
  28. ایضاً۔
  29. ایضاً۔ ص ۲۶۶، ۲۶۷۔
  30. ایضاً۔
  31. ایضاً۔
  32. ’’مسئلہ اجتہاد‘‘ ص ۱۰۱، ۱۰۲ ۔ مولانا محمد حنیف ندوی ۔ ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، لاہور (۱۹۸۳ء)۔
  33. ’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ ص ۲۶۷، ۲۶۸۔
  34. ایضاً ص ۲۶۸۔
  35. ایضاً ص ۲۷۰۔
  36. ایضاً ص ۲۷۱۔
  37. ایضاً۔
  38. ایضاً ص ۲۷۴۔
  39. ’’اقبال کا تصورِ اجتہاد‘‘ ص ۲۳۶ ۔ ڈاکٹر خالد مسعود ۔ مطبوعاتِ حرمت، راولپنڈی (۱۹۸۵ء)۔

اسلام اور مغرب کی کشمکش ۔ برطانوی ولی عہد کی نظر میں

ادارہ

(آکسفورڈ (برطانیہ) میں اسلامی تعلیمات کے مطالعہ کا  مرکز ’’آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز‘‘ کے نام سے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی دامت برکاتہم کی سرپرستی اور نگرانی میں قائم ہے جس کے ڈائریکٹر معروف دانشور ڈاکٹر فرحان احمد نظامی ہیں جو برصغیر کے نامور محقق و مصنف جناب پروفیسر خلیق احمد نظامی کے فرزند اور صاحبِ فکر و بصیرت استاذ ہیں۔ برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس نے ستمبر ۱۹۹۳ء کے دوران اس سنٹر میں اسلام اور مغرب کے تعلقات کے حوالہ سے ایک تقریب میں مفصل خطاب کیا، ہم اس خطاب کا مکمل متن اور مصدقہ اردو ترجمہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا، ان شاء اللہ العزیز، سرِدست ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور میں اس کا شائع شدہ خلاصہ ادارہ ترجمان القرآن کے شکریہ کے ساتھ نذرِ قارئین ہے۔ ادارہ)
عالمِ اسلام اور مغربی دنیا کے درمیان روابط آج جتنی اہمیت رکھتے ہیں پہلے کبھی نہ رکھتے تھے۔ آج کی باہم منحصر دنیا میں دونوں کو ساتھ رہنے اور ساتھ کام کرنے کی ضرورت شدید ہے لیکن دونوں کے درمیان سنگین غلط فہمیاں موجود ہیں اور ان میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ مغرب کی غلط فہمیوں کی وجہ اسلام اور مسلمانوں سے ناواقفیت نہیں، آخر مسلمان ہمارے ہی آس پاس رہتے ہیں، خود برطانیہ میں پانچ سو مسجدیں ہیں اور ۱۹۷۶ء کے ’’فیسٹیول آف اسلام‘‘ کی یادیں ابھی تازہ ہیں۔
نوے کے عشرے میں، سرد جنگ کے بعد، امن کے امکانات اس صدی میں کسی دوسرے دور سے زیادہ ہونا چاہیے تھے، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ سابق یوگوسلاویہ میں، صومالیہ، انگولا اور سوڈان میں، اور سابق سوویت جمہوریتوں میں نفرت اور تشدد نے لوگوں کو مصیبت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ بوسنیا کے مسلمانوں پر خوفناک مظالم نے اس خوف اور بداعتمادی کو نئی زندگی دی ہے جو ہماری دو دنیاؤں کے درمیان پہلے سے موجود ہیں۔
کشمکش اور تنازع کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کی بات نہ سمجھ پا رہے ہوں۔ ہمیں باہمی خوف اور انتشار کے ایک نئے دور میں محض اس لیے نہ داخل ہو جانا چاہیے کہ حکومتیں، عوام، مذاہب اور مختلف طبقات ایک سکڑتی ہوئی دنیا میں پُراَمن زندگی گزارنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ جو مشترک امور اسلام اور مغرب کو قریب کرتے ہیں، وہ ان سے بہت زیادہ طاقتور ہیں جو دونوں کو دور کرتے ہیں۔ مسلمان، عیسائی اور یہودی اہلِ کتاب ہیں۔ اسلام اور عیسائیت ایک خدا پر، اس دنیاوی زندگی کے عارضی ہونے پر، اپنے اعمال کی جوابدہی پر اور اخروی زندگی پر یقین رکھنے میں یکساں ہیں۔ احترام، علم و عدل، محروموں سے حسنِ سلوک، اور خاندانی زندگی کی اہمیت ہماری مشترک اقدار ہیں۔ اپنی ماں اور اپنے باپ کی عزت کرنا، یہ قرآن کا بھی حکم ہے۔
مسئلہ کی ایک جڑ یہ ہے کہ ہماری چودہ سو سال کی تاریخ باہمی کشمکش اور تصادم کی تاریخ ہے۔ اس نے خوف اور بد اعتمادی کی ایسی روایت کو جنم دیا ہے کہ ہم تاریخ کو متضاد نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ مغرب کے سکول کے طالب علموں کے لیے صلیبی جنگوں کے دو سو برس اس دلیرانہ جدوجہد کی داستان ہیں جو یورپ کے بچے بچے نے یروشلم کو ’’کافر‘‘ مسلمانوں سے آزاد کرانے کے لیے کی۔ لیکن مسلمانوں کے لیے صلیبی جنگیں مغرب کے ’’کافر‘‘ سپاہیوں کے ظلم و ستم اور لوٹ کھسوٹ کی داستان ہیں جس کی بدترین علامت وہ قتل و غارت ہے جو ۱۰۹۹ء میں اسلام کے تیسرے مقدس ترین شہر کو واپس لیتے ہوئے صلیبیوں نے برپا کی۔ ہمارے لیے مغرب میں ۱۴۹۲ء وہ اہم سال ہے جب کولمبس نے امریکہ کی نئی دریافت کی۔ مسلمانوں کے لیے یہ ایک المیہ کا سال تھا جب فرڈیننڈ اور ازابیلا کے آگے غرناطہ سرنگوں ہوا اور یورپ میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ تہذیب کا خاتمہ ہوا۔ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ سچ کیا ہے، بلکہ یہ ہے کہ دنیا، اس کی تاریخ اور اس میں اپنے کردار کے بارے میں ہم دوسروں کا نقطۂ نظر نہیں سمجھ پاتے۔
اس کا یہ نتیجہ ہے کہ ہم ماضی میں اسلام کو فاتح کی حیثیت سے ایک خطرہ سمجھتے رہے، اور اب جدید دور میں اسے عدمِ رواداری، انتہا پسندی اور تشدد کا منبع تصور کرتے ہیں۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ۱۴۵۳ء میں جب قسطنطنیہ سلطان محمد کے آگے سرنگوں ہو گیا اور ۱۵۲۹ء اور ۱۶۸۳ء میں جب ترکی وی آنا کے دروازوں تک پہنچ گئے تھے تو یورپ کے حکمرانوں پر کیوں لرزہ طاری ہو گیا تھا۔ عثمانیوں کے دور میں بھی بلقان میں ظلم کی ایسی مثالیں سامنے آئیں جو مغرب کے شعور پر ثبت ہو گئیں، مگر یہ یکطرفہ نہ تھا۔ ۱۷۹۸ء میں مصر پر نپولین کے حملہ اور اس کے بعد انیسویں صدی کی فتوحات نے حالات کو پلٹ دیا، اور تقریباً تمام عرب دنیا مغربی طاقتوں کے استعمار کا شکار ہو گئیں۔ سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کے ساتھ اسلام پر یورپ کی فتح مکمل ہو گئی۔
فتوحات کا دور تو گزر گیا لیکن اب بھی اسلام کے بارے میں ہمارا رویہ درست نہیں ہوا ہے۔ ہماری نظروں میں جو اسلام ہے وہ یہ ہے جسے انتہا پسندوں نے ’’اغوا‘‘ کیا ہوا ہے۔ مغرب میں ہم میں سے بیشتر، اسلام کو لبنان کی خانہ جنگی اور شرقِ اوسط کے انتہا پسند گروہوں کی جانب سے قتل اور بم پھینکنے کی وارداتوں، جسے اب عام طور پر اسلامی بنیاد پرستی کہہ دیا جاتا ہے، کے آئینہ میں دیکھتے ہیں۔ غیر معمولی انتہاؤں کو معمول قرار دے کر ہم نے اسلام کے بارے میں اپنی رائے کو مسخ کر دیا ہے، یہ بڑی سنگین غلطی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم برطانوی معاشرے میں قتل، عصمت دری، نشہ بازی اور بچوں پر ظلم کے واقعات سے یہاں کی زندگی کے بارے میں رائے قائم کریں۔ انتہاؤں کا وجود کہاں نہیں ہوتا، لیکن اگر انہیں کسی معاشرے کے بارے میں فیصلہ کرنے کی بنیاد بنا لیا جائے تو حقائق مسخ ہو جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر، اس ملک میں اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ٍشرعی قوانین ظالمانہ ہیں، اور ہمارے اخبارات بھی ان تعصبات کو بہت شوق سے آگے بڑھاتے ہیں۔ حقیقت یقیناً اس سے بہت مختلف ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہاتھ کاٹنے جیسے انتہائی اقدامات پر شاذ ہی عمل ہوتا ہے۔ اسلامی قانون کی روح اور راہنما اصول اگر قرآن سے براہ راست اخذ کیے جائیں تو ہمدردی اور انصاف ہونا چاہیے۔ اپنا فیصلہ دینے سے پہلے ہمیں ان کے عملی نفاذ کی صورتحال کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرنا چاہئیں۔ اس وقت خود اسلامی دنیا میں زیر بحث ہے کہ اسلامی قانون کہاں تک آفاقی یا ابدی ہے، اور کہاں تک اس میں نفاذ کے حوالے سے تبدیلی اور ارتقا ہونا چاہیے۔ ہمیں اسلام اور بعض اسلامی ممالک کے رسوم و رواج میں بھی فرق کرنا چاہیے۔
مغرب کا ایک واضح تعصب اسلامی معاشرہ میں خواتین کے مقام کے حوالے سے ہے۔ حالانکہ مصر، ترکی اور شام نے سوئٹزرلینڈ سے بہت پہلے ہی عورتوں کو ووٹ کا حق دیا۔ چودہ سو سال پہلے قرآن نے خواتین کو جائیداد، وراثت، تجارت اور طلاق کی صورت میں بعض تحفظات کے حقوق دیے، خواہ ان پر ہر جگہ عمل نہ کیا گیا ہو۔ برطانیہ میں یہ حقوق میری دادی اور ان کے اہل خاندان کے لیے بھی نئے تھے۔ خالدہ ضیا اور بے نظیر بھٹو اپنے روایتی معاشروں میں اس وقت وزیراعظم بنیں جب برطانیہ کی تاریخ میں پہلی خاتون وزیراعظم کا انتخاب ہوا۔
اسلامی معاشرے میں عورت خودبخود دوسرے درجے کی شہری نہیں بن جاتی۔ بہت زیادہ قدامت پسند ملک میں عورت کے مقام کو دیکھ کر اسلامی معاشروں میں اس کے مقام کا اندازہ نہیں لگانا چاہیے۔ پردہ کا رواج بھی تمام اسلامی ممالک میں نہیں ہے۔ مجھے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ پردہ کی ابتدا بازنطینی اور ساسانی ادوار میں ہوئی، پیغمبرؐ اسلام کے دور سے نہیں۔ بعض مسلمان خواتین سرے سے پردہ نہیں کرتیں، بعض نے اسے ترک کر دیا ہے۔ حالیہ دور میں بعض نے، خصوصاً نوجوان نسل نے پردہ اختیار کیا ہے تو اپنی اسلامی شناخت کے اظہار کے لیے۔
ہمیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ اسلامی دنیا ہمارے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے۔ اگر ہم یہ جاننے سے انکار کر دیں کہ اسلامی دنیا یورپ کی مادی ثقافت کو اپنی اقدار اور طرزِ حیات کے لیے خطرہ تصور کرتی ہے تو اس سے ہمیں نقصان زیادہ اور فائدے کم ہوں گے۔ اسی طرح بعض اسلامی اقدار کے بارے میں یورپی لوگوں کے ردعمل کا اسلامی دنیا میں سمجھا جانا ضروری ہے۔
ہمیں بنیادی پرستی کے لیبل کے بارے میں بھی محتاط ہونا چاہیے۔ ہمیں احیائے اسلام کے ان علمبرداروں میں جو اپنے مذہب پر مکمل طور پر عمل کرنا چاہتے ہیں، اور ان جنونی انتہا پسندوں میں فرق کرنا چاہیے جو اس تعلق کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ احیائے اسلام کو تحریک درحقیقت اس احساس سے ملی ہے کہ مغرب نے جو کچھ مادی حوالے سے دیا ہے وہ ناکافی ہے اور حقیقی معنوں میں زندگی کو تسکین دراصل اسلامی عقیدہ ہی سے ملتی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ انتہا پسندی کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے، عیسائیت سمیت یہ دوسرے مذاہب میں بھی موجود ہے۔ مسلمانوں کی عظیم اکثریت، جو ذاتی طور پر نیک ہے، سیاست میں معتدل روش اختیار کرتی ہے۔ پیغمبرِ اسلامؐ خود انتہا پسندی کو ناپسند کرتے تھے، یہ مذہب اعتدال کا مذہب ہے۔
ہماری تہذیب اور تمدن پر اسلامی دنیا کے جو احسانات ہیں ہم ان سے بڑی حد تک ناواقف ہیں۔ وسطِ ایشیا سے بحرِ اوقیانوس کے ساحلوں تک پھیلی ہوئی اسلامی دنیا علم و دانش کا گہوارہ تھی۔ لیکن اسلام کو ایک دشمن مذہب اور اجنبی تہذیب قرار دینے کی وجہ سے ہمارے اندر اپنی تاریخ پر اس کے اثرات کو نظرانداز کرنے یا مٹانے کا رجحان رہا۔ ہم نے اسپین میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی تہذیب کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ مغرب میں احیائے تہذیب کی تحریک پر مسلم اسپین نے گہرے اثرات ڈالے۔ یہاں علوم کی ترقی سے یورپ نے صدیوں بعد تک فائدہ اٹھایا۔ دسویں صدی میں قرطبہ یورپ کا مہذب ترین شہر تھا۔ حکمران کی لائبریری میں موجود چار لاکھ کتب پورے یورپ کی لائبریریوں کی کتب کی تعداد سے زائد تھیں۔ یہ اس لیے ممکن ہوا کہ غیر مسلم یورپ سے چار سو سال پہلے مسلمانوں نے چین سے کاغذ بنانے کی مہارت حاصل کر لی تھی۔
جدید یورپ آج جن باتوں پر فخر کرتا ہے اس نے مسلم اسپین سے حاصل کیں۔ سفارت کاری، آزاد تجارت، کھلی سرحدیں، علمی تحقیق کے طریقے، ایٹیکیٹ، فیشن، ہسپتال، ادویات، سب کچھ اس عظیم شہر سے ہی آتے تھے۔ اپنے وقت میں اسلام رواداری کا مذہب تھا جس نے یہودیوں اور عیسائیوں کو ان کے عقائد کے مطابق عمل کی آزادی دی اور ایسی مثال پیش کی جس پر بدقسمتی سے کئی صدیوں تک یورپ عمل نہ کر سکا۔ یہ بات حیرتناک ہے کہ اسلام کو یورپ میں، پہلے اسپین میں اور پھر بلقان میں، اتنا طویل عرصہ دخل رہا۔ اس نے ہماری تہذیب کی تعمیر میں، جسے ہم اکثر غلطی سے صرف مغربی قرار دیتے ہیں، اپنا حصہ ادا کیا۔ دراصل اسلام ہمارے ماضی اور حال کا حصہ ہے، اس نے جدید یورپ کی تعمیر میں اپنا حصہ ادا کیا ہے، اسلام ہمارا ورثہ ہے۔
اس دنیا میں  مل جل کر رہنے کے لیے اسلام کے دامن میں وہ کچھ ہے جو اب عیسائیت کے پاس نہیں ہے۔ اسلام کا کائنات اور انسان کا تصور ایک جامع، ہمہ گیر تصور ہے جو زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے، اسلام میں پوری زندگی ایک اکائی ہے۔ مغرب کی ساری ترقی یک رخی ہے، اگر ہم نے زندگی کے ہمہ جہتی انداز کو نہ سمجھا تو ہو سکتا ہے کہ ہم اس دھارے میں بہہ جائیں جہاں ہمارا علم ہمیں محض کارِ جہاں سکھائے اور ہم دنیا کے حسن اور توازن کو بگاڑ دیں۔ دنیا کے بارے میں احساسِ مسئولیت اور اس کی نگرانی و بہبود کی ذمہ داری کا جو تصور اسلام نے دیا ہے، ہم مغرب میں اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ زندگی کے مادی اور روحانی پہلو میں جو توازن ہم کھو چکے ہیں وہ ہمیں دوبارہ حاصل کرنا ہے، یہ نہ ہوا تو ہم تباہی تک پہنچ جائیں گے۔
آج ہم رسل و رسائل و ابلاغ کی ایک ایسی دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں جس کا تصور بھی ہمارے آباؤ اجداد نہ کر سکتے تھے۔ عالمی معیشت باہم منحصر ایک وحدت کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔ معاشرہ کے مسائل، زندگی کا معیار، ماحول، یہ سب اپنے اسباب و نتائج کے حوالہ سے عالمی نوعیت اختیار کر چکے ہیں۔ ہم میں کوئی صرف خود انہیں حل نہیں کر سکتا۔
اسلامی اور مغربی دنیا کو مشترک مسائل کا سامنا ہے۔ ہم اپنے معاشروں میں آنے والی تبدیلیوں سے کس طرح اپنے آپ کو ہم آہنگ کرتے ہیں؟ ہم ان نوجوانوں کی کیا مدد کر سکتے ہیں جو معاشرہ کی اقدار اور والدین سے دور ہونے کا احساس رکھتے ہیں؟ ہم منشیات، ایڈز اور خاندانی نظام کے بکھر جانے کا کس طرح مقابلہ کرتے ہیں؟ ہمارے اندرون شہر کے مسائل قاہرہ اور دمشق کے مسائل کی طرح نہیں ہیں لیکن انسانی تجربات میں مماثلت ضرور ہے۔ منشیات کا بین الاقوامی کاروبار، اور ماحول کو ہم جو نقصان پہنچا رہے ہیں، یہ بھی ہمارے مشترک مسائل ہیں۔ جس طرح بھی ہو، ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنا ہو گا۔ ہمیں اپنے بچوں کو درست تعلیم دینا ہو گی تاکہ ان کا نقطۂ نظر اور سوچ ہم سے مختلف ہو اور وہ ایک دوسرے کو سمجھیں۔ مشترک مسائل کے حل کے سلسلہ میں اسلامی اور مغربی دنیا ایک دوسرے سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتے۔
ہمارے لیے یہ ممکن نہیں ہے اور نہ مناسب، کہ ماضی کی سیاست اور علاقائی تلخیوں کو دوبارہ زندہ کریں۔ ہمیں اپنے تجربات میں ایک دوسرے کو شریک کرنا ہو گا۔ باہم تبادلہ خیال کرنا ہو گا۔ ثقافتی ورثہ میں جو کچھ مشترک ہے اسے اپنانا ہو گا۔ ہمیں تدبر کی اہمیت کو محسوس کرنا ہو گا تاکہ ہمارے ذہن کشادہ ہوں اور دلوں کے قفل بھی کھلیں۔ یقیناً عالم اسلام اور مغرب ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ایسا نہیں چاہیے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہیں، ضروری نہیں کہ ان میں تصادم ہو، اسلام اور مغرب ایک دوسرے کو بہت کچھ دے سکتے ہیں۔ ہم دونوں کو مل کر بہت کچھ کرنا ہے۔ باہمی نفرت کو ختم کرنے اور خوف و بد اعتمادی کی لعنت کو دور کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ کیا جانا ہے۔ ہم اس راہ پر جتنا آگے بڑھیں گے آنے والی نسلوں کے لیے اتنی ہی بہتر دنیا بنا سکیں گے۔

پاکستان کے بارے میں امریکی عزائم کی ایک جھلک

ڈاکٹر محمود الرحمٰن فیصل

السلام علیکم!
اتفاق سے آپ کی دوسری وزارتِ عظمٰی سیاستِ دوراں میں کچھ تیزی لانے کا باعث بنی ہے۔ یہ حکومت بنانے میں کامیابی کا شاخسانہ ہے کہ آپ نے انتخابات کو آزادانہ، منصفانہ اور شفاف قرار دیا ہے۔ اس سبب سے جہاں الیکشن کمیشن، فوج اور عدلیہ شکریہ کے مستحق قرار پائے ہیں وہاں سب سے زیادہ خراجِ تحسین نگران وزیر اعظم معین قریشی کو ملنا چاہیے جو آپ سے وزارتِ عظمٰی کے بدلہ میں پھولوں کا گلدستہ وصول کر کے سیدھے واشنگٹن واپس پہنچے، وہ اس مشن کی تکمیل کامیابی سے کر چکے تھے جسے پورا کرنے کے لیے انہیں درآمد کیا گیا تھا۔
قبل ازیں پاکستان کو امریکی نوآبادیاتی نظام (Neo-colonialism) کا حصہ سمجھا جاتا تھا اور امریکی سفیر کو یہاں وائسرائے بہادر کا درجہ حاصل تھا۔ لیکن اب بات اس سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے اور انکل سام اپنے احکامات پر حرف بحرف عملدرآمد کرانے پر بضد ہے۔ نگران حکومت نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی ریکوری ٹیم کا کردار ادا کیا۔ معین قریشی نے ایک تحلیل کنندہ (Liquidator) کی طرح پاکستان کی عوام کا خون نچوڑ کر سود کی رقم بدیشی آقاؤں کی خدمت میں پیش کر دی۔ امریکہ جن اقتصادی پابندیوں کے ذریعے ایران، لیبیا، عراق اور سوڈان کو نیچا دکھا کر عالمِ اسلام کو کمزور کرنے کا سلسلہ شروع کر چکا تھا، پاکستانی کرنسی کی قیمت کم کر کے وہی مقاصد حاصل کر لیے گئے۔ بنیادی ضروریاتِ زندگی کو مہنگائی کے ذریعے عام آدمی کی دسترس سے دور کر دیا گیا۔ پاکستانی باشندوں کو مقدمہ چلانے کے لیے امریکہ کے حوالے کر کے ملک کی عزت و ناموس کو نیلام کیا گیا۔ منشیات کے نام پر موت کی سزا کا آرڈیننس جاری کر کے ثابت کیا گیا کہ جو سزا امریکی شہریوں کو نہیں دی جا سکتی وہ پاکستان میں اس لیے نافذ کی گئی کہ یہ غلاموں کا ملک ہے، امریکی جنرل ہوور کو سیاچن جیسے علاقے کا دورہ کرایا گیا۔
نام نہاد عالمی مبصرین کی ٹیمیں بھی ایک سازش کے تحت پاکستان آئی تھیں۔ امریکی قانون ساز ادارے نے ۱۹۹۰ء سے ’’پاکستان کی امداد‘‘ کے ممبران سے یہ شرط عائد کر رکھی ہے کہ پاکستان کی اقتصادی امداد، فوجی امداد اور تعلیم و تربیت کے پروگرام اس شرط پر جاری رکھے جائیں گے کہ پاکستان میں انتخابات عالمی نگرانی میں (Internationally Monitored)  منعقد ہوں گے اور خصوصی عدالتیں ان کی راہ میں مزاحمت نہیں ہوں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ان ٹیموں سے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے سرٹیفکیٹ حاصل کیے گئے۔ یہ ملکی معاملات میں بیرونی مداخلت کی بہترین مثال تھی۔ صہیونی لابی کی اس سے بھی بڑی سازش پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ختم (Roll back) کرنا ہے۔ عالمی نظامِ نو (نیو ورلڈ آرڈر) کی کامیابی کے لیے بھارت اور اسرائیل کے تعاون سے اس فریضہ کو سرانجام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
فحاشی اور عریانی کا فروغ اخلاق باختہ مغرب کی اندھادھند پیروی سے ہو رہا ہے۔ یہودی گماشتے عیسائی دنیا کو فحاشی کا دلدادہ بنا کر اب باقی ماندہ اقوام کو بھی اسی دلدل میں گھسیٹ رہے ہیں تاکہ انہیں ناکارہ بنا کر اپنے دامِ پُرفریب میں لا سکیں اور اپنے نئے عالمی نظام کو دنیا پر مسلط کر سکیں۔ اگر اس کے حل کی طرف فوری توجہ نہ دی گئی تو ایڈز کی وبا مسلم ممالک کا رخ کرے گی۔
نفاذِ شریعت (Islamaization) سے دراصل اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اور اس کا احیا مراد ہے۔ درباری ملاؤں کی تخمین و ظن سے دامن بچاتے ہوئے اسلام کے ازلی، ابدی اور آفاقی اصولوں پر مبنی نظام کا قیام ضروری ہے۔ آپ کی سابقہ کابینہ کے ایک اجلاس میں شرعی قوانین کو فرسودہ (Archaic) اور وحشیانہ (Barbaric) کہا گیا تھا جس کا نوٹس سپریم کورٹ نے بھی لیا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ آئندہ مغربی پراپیگنڈے سے متاثر ہوئے بغیر سابقہ روش کو خیرباد کہا جائے۔
آئین میں چند اسلامی دفعات نمائشی طور پر شامل کر دی گئی ہیں لیکن انہیں دیگر دفعات پر کوئی فوقیت نہیں دی گئی۔ وزارتِ قانون پر غیر اسلامی قوانین بنانے پر کوئی قدغن نہیں۔ یہ عوام پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ اگر فارغ ہوں تو اپنے وسائل خرچ کر کے ان غیر اسلامی قوانین کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کر سکتے ہیں۔ اگر عدالت انہیں غیر اسلامی قرار دے بھی دے تو حکومت حسبِ عادت سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دیتی ہے۔ سالہا سال کے بعد اگر فیصلہ ہو جائے تو سرکار کارپرداز معمولی ردوبدل کے بعد وہی قانون دوبارہ نافذ کر دیتے ہیں اور معترضین کو ایک بار پھر وفاقی شرعی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
پارلیمنٹ کے اکثر ممبران بنیادی اسلامی تعلیمات سے نابلد ہوتے ہیں اور آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ کے تقاضے پورے نہ کرتے ہوئے بھی پارلیمان میں جا بیٹھتے ہیں۔ لہٰذا قوانین وہ نہیں بناتے، بلکہ وزارتِ قانون میں بیٹھا ہوا ایک ڈرافٹس مین تیار کرتا ہے۔ پارلیمنٹ کا کام صرف ان پر انگوٹھا لگانا ہوتا ہے۔ اتنے اہم معاملہ سے حکومت کا اغماض، غفلت شعاری کے زمرہ میں آتا ہے اور اس غیر ذمہ داری پر اسے معاف نہیں کیا جا سکتا۔
سب سے بڑی مثال سود کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ ہے، جس پر عملدرآمد کرنے کی بجائے سابقہ حکومت اپیل میں چلی گئی۔ یہ فیصلہ راقم الحروف کی درخواست پر دیا گیا اور اب اس کی اپیل ’’وفاق پاکستان بنام ڈاکٹر محمود الرحمٰن فیصل‘‘ سپریم کورٹ میں سماعت کی منتظر ہے۔ سود کے خاتمہ کے لیے آئین میں موجود دفعات پر کاربند ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ تمام علماء، عامۃ الناس، دینی و سیاسی جماعتوں کے متفقہ مطالبہ کے باوجود اس فیصلہ کو من و عن تسلیم نہیں کیا گیا اور نہ سپریم کورٹ سے یہ اپیل واپس لی گئی۔ یہ سود کا وبال تھا جو سابقہ حکومت کی کشتی ڈبو گیا، اب گیند آپ کی کورٹ میں ہے، اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کو پسِ پشت ڈالنا کسی طرح بھی آپ کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں قرآن کی سرزنش ملاحظہ ہو:
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اگر تم مومن ہو تو باقی ماندہ سود کو ختم کر دو۔ اگر تم ایسا نہیں کرتے تو اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘ (البقرہ ۲۷۸ و ۲۷۹)
سود کی ممانعت صرف دینِ اسلام میں ہی نہیں بلکہ دیگر آسمانی ادیان بشمول عیسائیت و یہودیت میں بھی سود کا لین دین منع ہے۔ لہٰذا اس ضمن میں معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جدید ماہرینِ معاشیات سود کے ظالمانہ نظام کی تباہ کاریوں سے واقف ہو چکے ہیں، اسی لیے لارڈ کینز نے دورِ حاضر میں صفر شرح سود (Zero Rate of Interest) کو مثالی قرار دیا ہے اور اس طرح سود کے خاتمہ کو اپنا آئیڈیل بنایا ہے۔ دنیا بھر میں پائی جانے والی غربت، مہنگائی، افراطِ زر اور معاشی ناہمواری سود کی مرہون منت ہے۔ ہر سال کی جانے والی خسارے کی سرمایہ کاری اور انڈیکیشن سود کی مرہون منت ہے۔ اس کا خاتمہ ہو جائے تو پوری دنیا سکھ کا سانس لے گی۔ اگر عالمی مالیاتی نظام مختلف ہے تو ہم اس کے پابند نہیں۔ ابتدا میں قربانی بھی دینا پڑے تو ایک نظریاتی مملکت ہونے کی بنا پر پاکستان کو اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
کشمیر کا مسئلہ انتہائی نازک معاملہ ہے۔ آپ کے انتخاب پر سب سے پہلے بھارتی وزیر اعظم نرسیماراؤ نے مبارکباد بھجواتے ہوئے کشمیر کے بارے میں مذاکرات کی پیشکش کی۔ بھارتی حکمران آپ کی حکومت سے کچھ زیادہ ہی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں کیونکہ ماضی کا تجربہ ان کے سامنے ہے۔ بھارت نے اپنی بڑی کامیابی شملہ معاہدہ کی صورت میں پہلے ہی حاصل کر رکھی ہے، جس کی رو سے کشمیر کا مسئلہ کے حل کے لیے عالمی ادارے بشمول اقوامِ متحدہ مداخلت کے لیے مجاز نہیں ہیں۔
پاک فوج کا تشخص بہتر بنانے اور امیج بحال کرنے کی جانب کافی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ۱۹۷۱ء کے بعد آرمی کا مورال بلند کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے بعد فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کی پوری کوشش کی گئی اور اسے مستقل سیاسی کردار دیے جانے کی بات ہوئی۔ فوج کے ایک سربراہ کو آپ نے تمغۂ جمہوریت بھی دیا۔ آپ کی پارٹی کے پہلے دورِ حکومت میں سول مارشل لاء کی بدعت ڈالی گئی جس کے اثرات آمرانہ سول حکومت کی صورت میں سامنے آئے۔ جمہوریت ہنوز اس قابل نہیں ہو سکی کہ فوج کی مدد کے بغیر اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے۔
خلیج کی جنگ کے تلخ تجربہ کے بعد اسلامی، آئینی اور اخلاقی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر پاک فوج کو ایک مرتبہ پھر امریکی کمان میں صومالیہ میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ امریکی صہیونی شاطروں نے صومالیہ میں پاک فوج کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے اسے بدنام کیا، اور اپنے عالمی نظام کی توسیع اور سوڈان سمیت افریقہ کے مسلم ممالک میں اسلامی احیا کی تحریک کو روکنے کے لیے مہرے کے طور پر استعمال کیا۔ تقریباً سو فیصد مسلم آبادی والے ملک صومالیہ میں قحط زدگان کے لیے امدادی سرگرمیوں کو پسِ پشت ڈال کر وہاں کے سیاسی نظام میں مداخلت اور عوام کے قتلِ عام کا کوئی جواز نہیں تھا۔ خود امریکہ میں صومالیہ سے فوجیں واپس بلانے کا مطالبہ زور پکڑنے کے باوجود ہمارے اربابِ اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ صومالیہ میں امریکی مداخلت کے عزائم مندرجہ ذیل تھے جو اس نے بڑی حد تک حاصل کر لیے ہیں:
(۱) اسلامی ملک صومالیہ کے حصے بخرے کرنا، (۲) بحیرہ احمر اور بحر ہند میں آبی راستوں کا کنٹرول حاصل کرنا، (۳) صومالیہ میں خام لوہے اور یورانیم کے ذخائر پر قبضہ کرنا، (۴) سوڈان میں مداخلت کے لیے راہ ہموار کرنا، (۵) بھارت کو اسرائیل کے اتحادی کی حیثیت سے صومالیہ کے معاملات میں لانا، (۶) پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کرنا اور پاک فوج کو نقصان پہنچانا، (۷) دنیا بھر میں آئندہ فوجی مداخلت کے لیے جواز فراہم کرنا، (۸) عیسائی قوتوں اور حلیف مسلمانوں کو صومالیہ کی اسلامی ریاست تباہ کرنے کے لیے استعمال کرنا، (۹) صومالیہ کا تشخص اور اسلامی نظریہ تباہ کرنا، (۱۰) بڑی تعداد میں صومالی باشندوں کا انخلا اور ہجرت، (۱۱) اور عالمی اسلامی تحریک کو نقصان پہنچانا۔
ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کی اہم ذمہ دری یہ ہے کہ آئندہ کسی بھی فوجی مہم میں پاک فوج کو سوچے سمجھے بغیر ملوث نہ کیا جائے تاکہ اس کی کردارکشی کی نوبت نہ آئے۔ بوسنیا کے حالات اس امر کے زیادہ متقاضی تھے کہ افواج وہاں بھجوائی جاتیں۔
فلسطین کے حالیہ واقعات انتہائی تشویش کا باعث ہیں۔ یاسر عرفات کا اسرائیل سے معاہدہ کوئی معجزہ نہیں بلکہ ایک بزدلانہ اقدام ہے۔ یہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطین کو فروخت کر دینے کے مترادف ہے۔ یہ معاہدہ کم اور اعلامیہ زیادہ ہے۔ اسرائیل کی شروع سے کوشش تھی کہ اسے اپنے وجود کا جواز مل جائے۔ محدود پیمانے پر بلدیاتی اختیارات کے حصول کی اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کے اہلِ فلسطین کبھی متحمل نہیں ہو سکتے۔ اسلامی ممالک کو یہ معاہدہ ہرگز تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان، جس نے جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین کے لیے سفیر کا تقرر بھی کر دیا تاکہ اسرائیلی حدود میں سفارتخانہ کھولا جا سکے، امریکی دباؤ کا مظہر ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنا یا اس کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات رکھنا پاکستانی حکمرانوں کے لیے ناممکن ہو گا کیونکہ ایسا کرنا نظریۂ پاکستان کی نفی، قبلۂ اول سے غداری اور عالمِ اسلام پر یہودی تسلط کے مترادف ہے۔
پاکستانی سیاست میں وراثت اور تجارت کے داخلہ سے نظامِ حکومت جمود کا شکار ہے۔ سیاستدان اس ملک کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھتے ہیں اور تجارت کرنے کے نظریہ سے سیاست میں آئے ہیں۔ وراثت کا عنصر اس قدر مضبوط ہے کہ اگر آپ بھٹو کی بیٹی نہ ہوتیں تو کبھی پاکستان کی وزیراعظم نہ بن سکتیں۔ یہاں لوگوں کی قدر و منزلت ان کی اہلیت کی بنا پر نہیں کی جاتی۔ نااہلی کا یہ حال ہے کہ صدر سے لے کر چپڑاسی تک کوئی بھی اپنی اہلیت یا میرٹ کی بنا پر اپنے عہدے تک نہیں پہنچا۔ ہمارے ہاں پائی جانے والی جمہوریت کا مغربی ایڈیشن بڑے پیمانے پر اصلاح طلب ہے۔ اگرچہ آپ دخترِ مشرق کہلاتی ہیں لیکن آپ کی تعلیم و تربیت آکسفورڈ اور ہارورڈ جیسے سکہ بند مغربی اداروں میں ہوئی ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کا یہ سب سے عظیم المیہ ہے کہ یہاں مغرب کی حکومت ہے۔
یہاں کی سیاست میں لوٹے، لفافے، ڈبے اور بریف کیس بھی شامل ہو چکے ہیں۔ آپ نے خود تسلیم کیا ہے کہ جمہوری نظام بجائے خود آخری منزل نہیں بلکہ حصولِ مقصد کی طرف ایک قدم ہے۔ الیکشن ۱۹۹۳ء میں ۶۵ فیصد عوام نے ووٹ نہ ڈال کر اس نظام سے بیزاری کا اظہار کر دیا ہے۔ چند فیصد ووٹ حاصل کرنے والے خود فیصلہ کریں کہ وہ جمہوری اصول کی بنیاد پر سو فیصد عوام کی نمائندگی کا حق ادا کر رہے ہیں اور کس مینڈیٹ کی بات کرتے ہیں۔ اکثریت کی حکومت کا اصول غلط ثابت ہو چکا ہے۔ نیز یہ انتخابات کسی قومی معاملہ (Issue)  کی بجائے شخصیات کی بنیاد پر منعقد ہوئے۔ لہٰذا یہ ثابت کرنا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کوئی ایشو نہیں، انصاف پر مبنی نہیں۔ ان انتخابات میں اسلامی جماعتوں کا حصہ لینا مناسب نہیں تھا۔ بعض اسلام پسندوں نے تیر بے ہدف (Misguided Missile) کا کام کیا لہٰذا الیکشن کا نتیجہ ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ اسمبلیوں میں ہندسوں کا کھیل (Game of Numbers) شروع ہوا، کوئی بھی پارٹی تنِ تنہا حکومت بنانے کے قابل نہیں تھی۔ بات پھر وہیں ہارس ٹریڈنگ تک جا پہنچی۔ لہٰذا سپورٹس مین سپرٹ، اپوزیشن کو جائز مقام دینے، مخالفت برائے مخالفت نہ کرنے، اقتدار کی میوزیکل چیئر کا کھیل جاری نہ رکھنے، اکھاڑ پچھاڑ نہ کرنے کی بات اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔
موجودہ نظامِ انتخابات اور اس میں ہونے والے اسراف و تبذیر کے شیطانی عمل کو وفاقی شرعی عدالت غیر اسلامی قرار دے چکی ہے۔ لیکن حکومت حسبِ عادت اپیل میں چلی گئی اور اب تک اس فرسودہ نظام کو باقی رکھے ہوئے ہے۔ الیکشن کمیشن کے اختیارات محدود ہیں۔ آئینی تقاضے پورے کرنے کے لیے مناسب قانون سازی نہیں کی گئی۔ امیدوار کی تعلیمی اہلیت اور دیانتداری کا اعلیٰ معیار نہیں پرکھا جاتا۔ ووٹر کی صرف عمر کی حد مقرر کرنے کی بجائے اس کی ذہنی استعداد اور اخلاقی حالت کو جانچنا ضروری ہے۔ امیدوار کے علاوہ ووٹر کا معیار بھی مقرر کیا جائے۔ مزراعت، برادری اور سرداری نظام کے اثرات کو ختم کیا جائے۔ دھن، دھونس اور دھاندلی کے امکانات کا سدباب کیا جائے۔ انتخابی اخراجات امیدوار کے ذمہ نہ ہوں بلکہ اس کا تعارف ذرائع ابلاغ کے ذریعے الیکشن کمیشن کے زیرانتظام کرایا جائے۔ دور رس انتخابی اصلاحات کے بغیر موجودہ نظام جمہوری کہلانے کا مستحق نہیں۔ سیاسی نظام ہی نہیں بلکہ سماجی اور اقتصادی میدانوں میں بھی اسلامی بنیادوں پر انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
عارضی حدبندیوں کے ٹوٹنے اور نوعِ انسانیت کے قریب آجانے کی بنا پر آپ نے جس عالمی گاؤں (Global Village) اور نئے عالمی نظام کا ذکر کیا ہے وہ ظالمانہ صہیونی نظام میں جکڑا ہوا ہے۔ تیسری دنیا کے عوام کو اس میں ایک ’’پینڈو‘‘ سے زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہے، بلکہ اقوامِ متحدہ کا روبہ زوال ادارہ بھی یہودی عزائم کی تکمیل کے لیے بنایا گیا ہے اور اسی کو وہ اپنی عالمی حکومت (World Government) کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس ادارہ میں مسلمان ممالک کی اکثریت کے باوجود انہیں ویٹو کا حق حاصل نہیں ہے۔ انسانی بنیادی حقوق کے اپنے ہی چارٹر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس نے متعدد ممالک پر اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جن کے نقصان دہ اور مہلک اثرات بے گناہ عوام کو برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ اس تناظر میں دنیا بھر کی مظلوم اقوام خصوصاً اسلامی ممالک کو اپنے لیے علیحدہ لائحہ عمل اور اپنے الگ عالمی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کرہ ارض کی یہ عظیم بستی واقعی انسانوں کے بسنے کے قابل بن سکے۔ اس ضمن میں پاکستان کیا کردار ادا کرتا ہے، اس کا انتظار ہے۔
آخر میں، میں آپ کے اس عندیہ کی جانب آتا ہوں جس میں امریکہ سے تعلقات کی بحالی کی خواہش ظاہر کی گئی ہے۔ امریکی حکمرانوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کسی اسلامی ملک سے ہمدردانہ رویہ رکھیں گے، قطعاً عبث ہے۔ روس کے زوال کے بعد اب دنیا یکطرفہ ہو کر طاقت کا توازن کھو چکی ہے، طاقت کا یہ توازن اسلامی دنیا اپنے اتحاد کے ذریعے قائم کر سکتی ہے بشرطیکہ اس مقصد کے حصول کے لیے خلوص دل سے کام کیا جائے۔
والسلام، ڈاکٹر محمود الرحمٰن فیصل

(بشکریہ، ماہنامہ محقق لاہور ۔ دسمبر ۱۹۹۳ء)

اکیسویں صدی اور اسلام ۔ مغرب کیا سوچتا ہے؟

محمد عادل فاروقی

۲۱ ویں صدی کی اصل سپرپاور مسجد ہے یا گرجا؟ بلاشبہ یہ وہ نئی سرد جنگ ہے جو اب بھرپور انداز میں مشرق اور مغرب کے درمیان شروع ہو چکی ہے۔ اس جنگ کے اصل حریف مسلمان اور عیسائی ہیں۔ مغربی مفکر جان آسپوزیٹو نے اپنی نئی ریسرچ میں اسلام اور عیسائیت کی نئی محاذ آرائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب تقریباً تقریباً وہی حالات پیدا ہو چکے ہیں جو آج سے ۷۵ سال پہلے سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کے وقت تھے۔ جس طرح سلطنتِ عثمانیہ کمزور ہوئی تھی اس طرح آج کلیسا پر زوال کے گہرے سائے پڑ چکے  ہیں۔ جان کا کہنا ہے کہ جس طرح اس زمانے میں مسلمانوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ ان کا سورج ڈوبنے والا ہے، اس طرح آج عیسائی دنیا کو محسوس نہیں ہو رہا کہ ان کی پے در پے غلطیوں کے باعث عیسائی متعدد اداروں کو زوال آ رہا ہے۔
جان کی تحقیق کا مقصد عیسائیوں کو بتانا ہے کہ خلیجی جنگ اور اس علاقے کے اختلافات نے دراصل مسلمانوں کو اسی انداز میں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے جس طرح صلیبی جنگوں کے وقت عیسائی سوچ رہے تھے۔ جان کا کہنا ہے کہ اب مسلمانوں کو بے وقوف خیال کرنا عیسائیت کی سب سے بڑی غلطی ہے کیونکہ اگر مسلمان ناسمجھ یا نادان ہوتے تو وہ ایٹم بنانے کی کوشش نہ کرتے۔ پاکستان، سعودی عرب اور دوسرے عرب اور اسلامی ممالک مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے اسلامی بم بنانے کے بارے میں عملی طور پر غور نہ کرتے۔ آج اگر پاکستان، عراق اور ایران نے ایٹمی میدانوں میں صلاحیتیں حاصل کی ہیں تو اس کی صرف ایک ہی وجہ تھی کہ عیسائی ممالک ان ملکوں کو پسماندہ ہی خیال کرتے رہے، حالانکہ ان ملکوں کے حالات خراب ضرور ہیں لیکن ان کے افراد دماغ اور ذہانت کے لحاظ سے پسماندہ نہیں۔
’’اسلامک تھرٹ‘‘ کے مصنف نادر جوزف نے کہا کہ آج کلیسا کے زوال کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ عیسائیت کا پرچار اسلامی تبلیغ کے مقابلے میں انسانوں کو مطمئن کرنے کے فائنل راؤنڈ میں جا چکا ہے۔
ویٹی کن پادریوں کا کہنا ہے کہ آج ہماری بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ ہم مسلم مبلغ احمد دیدات کے مقابلے میں کوئی مستند پادری نہیں لا سکے جو لوگوں کو مذہب کے بارے میں اس طرح مطمئن کرے جس طرح احمد دیدات کرتا ہے۔ پادری البرٹ کا کہنا ہے کہ عیسائیت کا اس سے بڑھ کر کیا نقصان  ہو گا کہ جہاں احمد دیدات عیسائیوں سے مناظرہ کرنے آتا ہے وہاں پادریوں کی شکست کے بعد پیدائشی عیسائیوں کی اکثریت اسلام قبول کر لیتی ہے۔ پادری البرٹ نے مغرب کو خبردار کیا ہے کہ اگر مغربی حکومتوں نے خود نوٹس نہ لیا تو امریکہ سمیت مغرب کے تمام بڑے بڑے ملکوں کے کٹر عیسائی باشندے، جو مغرب کی اصل طاقت ہیں، پادریوں کی نالائقی کے باعث دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں گے۔
لندن کے معروف پادری فادر ملٹن کا کہنا ہے کہ روسی بٹوارے کے بعد امریکہ کے ورلڈ اسٹیج پر اکیلا رہ جانے سے مسلمان ’’دنیا‘‘ پر ہولڈ کرنے کی پوزیشن میں آتے جا رہے ہیں۔ فادر ملٹن نے واشنگٹن میں عیسائیوں کے بہت بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے برطانیہ اور امریکہ پر تنقید کی کہ وہ سیکولر بننے کے چکر میں مسلمانوں کے مفادات پورے کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی امداد اور اداروں کی خدمات عیسائیت والے ملکوں کو دینے کی بجائے اسلامی ملکوں کو دے رہے ہیں۔ فادر ملٹن نے آبدیدہ ہوتے ہوئے کہا کہ اگر امریکہ پاکستان، ایران اور سعودی عرب کو دفاع کے لحاظ سے تکنیکی امداد نہ دیتا تو آج یہ ملک مغرب کو آنکھیں دکھانے کی پوزیشن میں نہ آتے۔ فادر ملٹن نے تو اسلامی بم بننے کا ذمہ دار بھی امریکہ اور دوسری مغربی سپر طاقتوں کو قرار دیا ہے۔
ایک برطانوی ریٹائرڈ جرنیل نے، جس نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا، ایک بین الاقوامی میگزین میں مسلم اور عیسائی طاقت کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستانی، اردنی، مصری اور ۔۔۔۔۔۔۔ برطانیہ نے ترتیب دے کر خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی دے ماری ہے۔ جرنیل نے لکھا ہے کہ لوگ جب اپنی افواج کی مقتدر حیثیت میں  آتے تو ان ملکوں کی بنیاد پرست حکومتوں کے اشارے پر یہ امریکہ اور برطانیہ کے سکھائے ہوئے طریقوں سے ہی انہیں ’’خرچ‘‘ کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کو محسوس نہیں کریں گے۔ جرنیل نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ اسلامی دنیا میں جہاد، شہادت اور غازی کا جذبہ ایسی طاقت ہے جس کا مقابلہ آسانی سے صلیبی نشان رکھنے والے نہیں کر سکتے۔ جرنیل نے اپنے مشاہدے کے تجربات لکھتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح مسلمانوں کے فوجیوں کو میدانِ جنگ یا فوجی نوعیت کے مقامات پر ڈیوٹی کے دوران مرنے کا شوق ہے اس طرح کا شوق عیسائی فوجیوں میں نہیں۔ عیسائی فوجی صرف ہتھیار اور صلاحیت پر یقین رکھتے ہیں جبکہ اسلامی فوجی جذبات کو ہتھیار اور صلاحیت پر فوقیت دیتے ہیں اور یہ چیز جنگوں میں فتح دلاتی ہے۔
غیر ملکی جریدے رائزے ویسٹ نے اپنے مارچ کے شمارے میں ایک پورا ایڈیشن اسلامی گوسٹ ’’اسلامی بھوت‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے جس کا نچوڑ یہ ہے کہ اس صدی میں مغرب والوں کو ہتھیار بنانے، اسلحہ بڑھانے، ایٹم بم مارنے یا عالمی سیاست کرنے کی بجائے مسلمانوں کی ایٹمی طاقت کو فورًا دبانے کے لیے ہنگامی نوعیت کے اقدامات کرنے چاہئیں۔
جریدے یو ایس نیوز نے اپنے ایک حالیہ شمارے میں عیسائیت کو خبردار کرتے ہوئے اپنے اداریے اور مضامین میں کہا ہے کہ پاکستان، ایران، عراق، مصر، اردن اور عرب ممالک کی آج کی فوجی طاقت کسی وقت بھی اچانک بپھر کر سارے یورپ میں عیسائیت کے پچھلے اقتدار کا فیوز اڑا سکتی ہے۔
غیر ملکی اخبارات میں عیسائی مشنریوں کے شائع ہونے والے تبلیغی اشتہاروں سے حاصل ہونے والے مواد میں صاف صاف لفظوں میں لکھا گیا ہے کہ مسلمانوں میں پڑی پھوٹ کو ختم کرنے کی بجائے عیسائیوں کو خود کو متحد اور مضبوط کرنا ہو گا ورنہ اسلام کے جنونی کچھ عرصہ بعد دنیا میں اپنا اقتدار قائم کر لیں گے۔
دی ڈیلی انڈیپینڈینٹ نے اپنے مارچ کے ایک روزنامے میں مسلم عیسائی طاقت کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ چند برسوں میں جو عالمی سطح پر تبدیلیاں ہوئی ہیں وہ زیادہ تر مسلمانوں کے فائدے میں جا رہی ہیں۔ اس نے عیسائی لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو اب نظرانداز کرنے کا انداز چھوڑ دیں اور مسلمانوں کی اصل ترقی کے محرکات کے بارے میں غور کریں اور دیکھیں آج کل مسلمان پھر سے کیسے سر اٹھا رہے ہیں۔
سی آئی اے نے بھی اپنی حالیہ رپورٹ میں واضح طور پر یہ کہہ دیا ہے کہ امریکی مفادات کو سب سے بڑا خطرہ اسلامی بنیاد پرستی سے ہے۔ سی آئی اے نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اب صدام اتنا خطرناک نہیں رہا جتنا خطرناک مجاہدین کی تحریکوں میں حصہ لینے والے مسلمان ہیں۔
ایک اور اہم مغربی مفکر جان لیفن نے اپنی تحقیقی کتاب ’’دی ڈینجر آف اسلام‘‘ کے بعد انکشاف کیا ہے کہ مغربی دانشور مسلمانوں کی موجودہ سیاسی اور مذہبی قیادت کو نہ سمجھ کر بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ لیفن نے کہا کہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ لیبیا، سعودی عرب، ایران اور پاکستان اس وقت اسلامی بنیاد پرستوں کی نمائندگی کر رہے ہیں کیونکہ کشمیر، افغانستان، بوسنیا اور جہاں جہاں بھی مسلمان آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں، ان ملکوں کے باشندے ہی زیادہ تر وہاں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔۔۔ سپوزیٹو کے حوالے سے اخبار لکھتا ہے کہ مسلمان ممالک اور اسلامی تحریکیں اب دقیانوسی طور طریقے چھوڑ کر جدید انداز میں اپنے مفادات کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب اسلامی تحریکیں مذہبی نعروں کی بجائے جمہوری، معاشی اور سیاسی سہولتوں کا فائدہ دے کر اپنے لوگوں کو اسلام کے پھیلانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ مغرب میں سیکولرازم کا زبانی جمع خرچ ہو رہا ہے جبکہ عملی طور پر سیکولرازم اسلامی ممالک اختیار کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے اسلامی ملکوں کی غیر مسلم اقلیتیں بھی عیسائیت سے آخری جنگ میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گی۔۔۔۔ سپوزیٹو کا کہنا ہے کہ اسلام کی کامیابی صرف اور صرف ایک نکتہ میں ہے کہ اسلام میں عیسائیت کے مقابلے میں موجودہ حالات و واقعات کے مطابق خود کو تبدیل اور جدید رجحان اپنانے کی بے پناہ صلاحیت ہے۔ شاید اسی وجہ سے آئندہ صدی میں عیسائیت اسلام سے مات کھا جائے گا۔
ویسٹ ورلڈ نامی جریدے نے لکھا ہے کہ دراصل صدر بش نے خلیجی جنگ میں اپنی تھانیداری دکھا کر درحقیقت گرجے کو کمزور اور مسجد کو مضبوط کیا ہے۔ وہ امریکی فوج جس کے بارے میں ساری اسلامی دنیا ڈرتی رہتی تھی، اس کو اسلامی دنیا کے فوجیوں میں مکس کر کے اسلامی فوجیوں کو بتا دیا کہ امریکی فوج اصل میں کتنے پانی میں ہے اور آئندہ کبھی جنگ ہوئی تو اس فوج کو کیسے شکست دینی ہے۔ ویسٹ ورلڈ نے کہا کہ صدر کلنٹن بھی بش کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔
مسلمانوں کی اقتصادی اور معاشی صورتحال کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے ’’اکنامک‘‘ غیر ملکی جریدے نے لکھا ہے کہ گزشتہ دس سالوں کے دوران مسلم اور عرب ممالک نے مغرب کی پالیسیوں کو اختیار کر کے اپنی دولت کے استعمال سے مکمل آگاہی حاصل کر  لی ہے، جو اب آئندہ سالوں میں مغرب کو اقتصادی موت دینے کے مترادف ہو گا۔
مغربی تاریخ دان مائیکل ہورن ہائے کا کہنا ہے کہ اب فطرت اور قدرتی طور پر بننے والے حالات و واقعات، وہ تمام علاقے جو عیسائی دنیا نے فراڈ سے اسلامی دنیا سے چھین لیے تھے، لوٹا رہی ہے۔ اس کی مثال اس نے وسطی ایشیائی ریاستوں سے دی۔ افغانستان، بوسنیا اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں جیسے جیسے اسلامی بنیاد پرست مستحکم ہوتے گئے ویسے ویسے وہ عیسائی دنیا کو اپنے نرغے میں لیتے جائیں گے۔ مائیکل نے عیسائیوں اور مسلمانوں کے موجودہ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اب عیسائیوں میں وہ تمام قباحتیں آ چکی ہیں جو مسلمانوں کے دنیائے عالم سے اقتدار مٹانے کا سبب بنی تھیں۔
تقریباً تمام غیر ملکی جرائد گزشتہ چھ ماہ سے اپنے اداریوں اور مضامین میں یہ دہائی دینے لگ پڑے ہیں کہ کلیسا اور حکومتی ایوانوں میں عورتوں کو مقتدر حیثیت دے کر عیسائیوں نے گرجے کی بنیادی خود کھوکھلی کر دی ہیں۔
’’دی رائزنگ ہیرلڈ‘‘ نے اپنے فروری کے ایشو میں لکھا ہے کہ اسلامی ممالک کو ان کے ایٹمی پروگراموں سے باز نہ رکھنے میں ناکامی نے جنگ سے پہلے ہی مغرب کو شکست اور مشرق کو فتح دلائی ہے۔ رائزنگ نے مسلم دنیا کو اوپر اٹھانے کا کریڈٹ شاہ فیصل مرحوم، ذوالفقار علی بھٹو مرحوم، شہنشاہ ایران، صدر اسحاق، امام خمینی، کرنل قذافی، صدام حسین اور ڈاکٹر قدیر کو دیا ہے اور ان کی تصاویر بھی شائع کی ہیں۔
(بشکریہ ’’جنگ‘‘ لندن ۔ ۱۴ اکتوبر ۱۹۹۳ء)

شہیدانِ بالاکوٹ

حضرت شاہ نفیس الحسینی

قبائے نور سے سج کر، لہو سے باوضو ہو کر

وہ پہنچے بارگاہِ حق میں کتنے سرخروہو کر

فرشتے آسماں سے ان کے استقبال کو اترے

چلے ان کے جلو میں با ادب، با آبرو ہو کر

جہانِ رنگ و بو سے ماورا ہے منزلِ جاناں

وہ گزرے اس جہاں سے بے نیازِ رنگ و بو ہو کر

جہادِ فی سبیل اللہ نصب العین تھا ان کا

شہادت کو ترستے تھے سراپا آرزو ہو کر

وہ رُہباں شب کو ہوتے تھے تو فُرساں دن میں رہتے تھے

صحابہؓ کے چلے نقشِ قدم پر ہو بہو ہو کر

مجاہد سر کٹانے کے لیے بے چین رہتا ہے

کہ سراَفراز ہوتا ہے وہ خنجر در گلُو ہو کر

سرِ میداں بھی استبالِ قبلہ وہ نہیں بھولے

کیا جامِ شہادت نوش انہوں نے قبلہ رو ہو کر

زمین و آسماں ایسے ہی جانبازوں پہ روتے ہیں

سحابِ غم برستا ہے شہیدوں کا لہو ہو کر

شہیدوں کے لہو سے ارضِ بالاکوٹ مُشکِیں ہے

نسیمِ صبح آتی ہے اُدھر سے مُشکبو ہو کر

نفیس ان عاشقانِ پاک طینت کی حیات و موت

رہے گی نقشِ دہر اسلامیوں کی آبرو ہو کر


امریکی عزائم: ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام پہلا علماء کنونشن

ادارہ

عالمِ اسلام کے بارے میں امریکہ کے عزائم اور پاکستان کے داخلی معاملات میں بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت کے خلاف ورلڈ اسلامک فورم نے علمائے کرام کے اجتماعات کے سلسلہ کا آغاز کر دیا ہے۔ اس سلسلہ میں پہلا علماء کنونشن ۲۶ دسمبر ۱۹۹۳ء کو مسجد باب الرحمت (پرانی نمائش، کراچی) میں مولانا فداء الرحمٰن درخواستی کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں کراچی کے مختلف حصوں سے علماء کرام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ العالی، خطیب اسلام مولانا محمد اجمل خان، مولانا اللہ وسایا، مولانا نظام الدین شامزئی اور سید سلمان گیلانی نے خطاب کیا۔ جبکہ مولانا محمد انور فاروقی نے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیے۔ کنونشن کا آغاز قاری مفتاح اللہ نے تلاوت کلامِ پاک سے کیا اور اس کے بعد ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے کنونشن کے اغراض و مقاصد پر مشتمل مندرجہ خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔

استقبالیہ کلمات

قابلِ صد احترام علمائے کرام، مشائخ عظام و راہنمایانِ ملت!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے آپ سب بزرگوں کا شکرگزار ہوں کہ انتہائی مختصر نوٹس پر آپ حضرات اس اجتماع میں تشریف لائے، اللہ پاک آپ کو جزائے خیر سے نوازیں، آمین۔
حضراتِ محترم! آج کے اس علماء کنونشن کے دعوت نامہ سے آپ حضرات کو علم ہو چکا ہے کہ یہ اجتماع عالمِ اسلام اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معاملات میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی مداخلت اور اس کے روز افزوں منفی اثرات سے پیدا شدہ صورتحال کا خالصتاً دینی نقطۂ نظر سے جائزہ لینے کے لیے منعقد کیا جا رہا ہے اور اس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ اکابر اہلِ علم علمائے حق کی تاریخی روایات کا تسلسل قائم رکھتے ہوئے اس نازک اور حساس مسئلہ پر شرعی اصولوں کی روشنی میں امتِ مسلمہ کی راہنمائی کریں تاکہ علماء اور دینی کارکن اس کی بنیاد پر اپنی آئندہ جدوجہد اور تگ و تاز کی راہیں متعین کر سکیں۔
راہنمایانِ قوم! علمائے حق کی تاریخ شاہد ہے کہ امت مسلمہ کو اجتماعی طور پر جب بھی بیرونی قوتوں کی دخل اندازی اور سازشوں سے سابقہ پڑا ہے، علمائے امت نے آگے بڑھ کر ملتِ اسلامیہ کی راہنمائی کی ہے۔ تاتاری یورش کے خلاف شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی جدوجہد، اکبر بادشاہ کے دینِ الٰہی کے خلاف حضرت مجدد الف ثانیؒ کا نعرۂ حق، مرہٹوں کی بڑھتی ہوئی یلغار کے مقابلہ میں حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ کی مومنانہ تدبیریں، اور فرنگی استعمار کے تسلط کے خلاف حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ کا فتوٰی جہاد علمائے حق کی اسی جدوجہد کے سنگ ہائے میل ہیں جو آج بھی اسلام کی بالادستی اور امتِ مسلمہ کی خودمختاری کی منزل کی طرف ہماری راہنمائی کرتے ہیں اور تاریخ کے اسی تسلسل کے ساتھ حال کا رشتہ جوڑنے کے لیے آپ حضرات کو اس کنونشن میں شرکت کی زحمت دی گئی ہے۔
زعمائے ملت! امریکہ جو اس وقت سب سے بڑی عالمی قوت اور اسلام کے خلاف کفر کی تمام قوتوں کا نقیب ہے، عالمِ اسلام میں دینی بیداری کی تحریکات کو سبوتاژ کرنے اور بے اثر بنانے کے لیے جو جتن کر رہا ہے وہ آپ جیسے اصحابِ دانش و فراست سے مخفی نہیں ہیں، اور اس کے یہ مقاصد اب کسی پر پوشیدہ نہیں رہے کہ
  • عالمِ اسلام کے کسی ملک میں اسلامی نظریاتی حکومت قائم نہ ہونے پائے،
  • کوئی مسلم ملک معاشی خود کفالت اور اقتصادی خودمختاری کی منزل حاصل نہ کر سکے،
  • کوئی مسلم ملک ایٹمی توانائی سمیت دفاع کی کوئی جدید تکنیک مہیا نہ کر سکے،
  • عالمِ اسلام کے اتحاد اور سیاسی یکجہتی کی کسی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار نہ ہونے دیا جائے۔
اس مقصد کے لیے نہ صرف دنیائے کفر کی تمام قوتیں بلکہ عالمِ اسلام کی سیکولر لابیاں اور لادین قوتیں بھی امریکہ کے ساتھ شریکِ کار ہیں۔
اسی طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان کے داخلی معاملات میں امریکہ کی مداخلت بھی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ یہ مداخلت جو پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی اب بڑھتے بڑھتے یہ کیفیت اختیار کر گئی ہے کہ پاکستان عملاً امریکہ کی نوآبادی بن کر رہ گیا ہے، اور اس کی قومی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں امریکہ کی رضامندی کے بغیر اعلٰی سطح کا کوئی فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ اس وقت عملی صورتحال یہ ہے کہ
  • امریکہ نے پاکستان کی امداد کو ۱۹۸۷ء میں جن شرائط کے ساتھ مشروط کیا تھا، روزنامہ جنگ لاہور (۵ مئی ۱۹۸۷ء) میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق ان میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور اسلامی اصطلاحات کے استعمال سے روکنے کے اقدامات واپس لینے کے علاوہ اسلامی قوانین کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے ان کے نفاذ سے باز رہنے کی شرائط بھی شامل ہیں، جن پر امریکہ بدستور قائم ہے اور پورا کرانے کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے۔
  • ماہنامہ محقق لاہور (دسمبر ۱۹۹۳ء) کے انکشاف کے مطابق صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے آخری دور میں ’’شریعت آرڈیننس‘‘ جاری کیا تو امریکی حکومت نے اس قدر سخت باز پرس کی کہ حکومتِ پاکستان کو اس پر عملدرآمد نہ ہونے کی یقین دہانی کرانا پڑی اور امریکہ کو سرکاری طور پر مطلع کرنے کے علاوہ دنیا بھر کے پاکستانی سفارتخانوں کو بھی ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ ان حکومتوں کو اس سے آگاہ کر دیں۔ اس کے ساتھ ہی سرکاری طور پر منظور کرائے جانے والے ’’شریعت بل‘‘ میں قرآن و سنت کی بالادستی سے حکومتی ڈھانچے اور سیاسی نظام کو مستثنٰی قرار دینے جانے پر اسلام آباد میں متعین امریکی سفیر نے کھلم کھلا جس طرح اطمینان کا اظہار کیا وہ اس سلسلہ میں امریکی پالیسیوں کے رخ کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔
  • پاکستان کو ایٹمی توانائی کے حصول سے روکنے اور اپنے دفاع کے لیے خاطرخواہ انتظام کے شرعی اور جائز حق سے محروم کرنے کے لیے امریکہ جو کچھ کر رہا ہے وہ آپ بزرگوں کے سامنے ہے، اور پاکستان کو اقتصادی طور پر محتاج اور اپاہج بنائے رکھنے کی امریکی پالیسی روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔
  • کشمیر کو تقسیم کر کے امریکی فوجی اڈہ بنانے کا منصوبہ منظرِ عام پر آ چکا ہے اور امریکہ نے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت پاکستان کی فوج کو صومالیہ میں الجھا کر وہاں کی مسلم آبادی سے پاک فوج کو لڑانے اور افریقی مسلمانوں میں پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی راہ ہموار کی ہے اور اس کے اثرات بتدریج سامنے آ رہے ہیں۔
ان حالات میں آپ بزرگوں کو زحمت دی گئی ہے کہ اسلام کی بالادستی، عالمِ اسلام کے اتحاد، مسلمانوں کی خودمختاری، مذہبی آزادی اور قومی وقار کے تحفظ کے لیے امتِ مسلمہ کی راہنمائی فرمائیں اور دینی جماعتوں، علماء اور کارکنوں کے لیے ایک ایسا واضح لائحہ عمل متعین فرمائیں جو امریکی استعمار کے تسلط سے عالمِ اسلام اور پاکستان کی حقیقی آزادی کی جدوجہد کی دینی بنیاد ثابت ہو۔
میں ایک بار پھر تشریف آوری پر آپ سب بزرگوں کا شکرگزار ہوں، فجزاکم اللہ احسن الجزاء۔

مولانا مفتی نظام الدین شامزئی

اس کے بعد جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ الحدیث مولانا مفتی نظام الدین شامزئی نے خطاب کیا اور عالمِ اسلام کے حوالہ سے امریکی عزائم کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ عوام اور دینی حلقوں کو اس سلسلہ میں بیدار کرنے کی ضرورت ہے اور علمائے کرام کو اس مقصد کے لیے سب سے اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ عالمِ اسلام میں اپنے ایجنٹوں اور لابیوں کے ذریعے فکری انتشار بپا کیے ہوئے ہے، اسلام کے اجتماعی نظام کے نفاذ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے، دینی قوتوں کو منتشر رکھنا چاہتا ہے، کشمیر کو تقسیم کر کے وہاں اپنا فوجی اڈا  قائم کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے، پاکستان کے آئین میں بنیادی تبدیلیاں کر کے اسے ایک سیکولر ریاست کی حیثیت دینے کے درپے ہے، اور قادیانیت جیسے گمراہ گروہوں کی آبیاری کر رہا ہے۔ ان حالات میں اگر علماء نے اپنی ذمہ داری محسوس نہ کی اور مسلمانوں کو منظم و بیدار کرنے کی محنت نہ کی تو وہ اپنے دینی فرائض سے عہدہ برآ نہیں ہو سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں مستحکم اسلامی حکومت کے قیام میں رکاوٹ ہے، فلسطین میں تحریکِ آزادی کو کچلنے کے لیے یاسر عرفات سے سازباز کر چکا ہے، صومالیہ میں اپنے استعماری مقاصد کے لیے پاکستان کی فوج کو استعمال کر رہا ہے، اور عالمِ اسلام کے کسی ملک کو ایٹمی قوت کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتا۔ یہ صورتحال علماء اور دانشوروں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے اور انہیں آگے بڑھ کر اس سلسلہ میں امت مسلمہ کی راہنمائی کرنی چاہیے۔

مولانا اللہ وسایا

عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت کے مرکزی راہنما مولانا اللہ وسایا نے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کی طرف سے قادیانیوں کی پشت پناہی اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی مداخلت کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ پاکستان کی طرح بنگلہ دیش اور دیگر مسلم ممالک میں بھی امریکہ اپنے مقاصد کے لیے قادیانیوں کو آگے بڑھا رہا ہے اور ان کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی عزائم کے بارے میں مولانا زاہد الراشدی نے جو تجزیہ کیا ہے وہ بالکل درست ہے اور وقت کی آواز ہے، اس لیے تمام دینی جماعتوں کو اس مہم میں ورلڈ اسلامک فورم کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔

حضرت شیخ الحدیث مدظلہ

علماء کنونشن کے مہمانِ خصوصی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے  خطاب کرتے ہوئے قرآن کریم کے اس ارشاد کا حوالہ دیا جس میں مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست نہ بنائیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بیان کیا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔ انہوں نے فرمایا کہ اللہ رب العزت کو معلوم تھا کہ یہی وہ دو گروہ آئندہ چل کر مسلمانوں کے خلاف فریق بنیں گے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی سازش کریں گے اس لیے شروع میں ہی ان سے بچنے کی ہدایت فرما دی۔ لیکن ہم اس ہدایت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آج یہودیوں اور عیسائیوں کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اس وقت عالمِ اسلام کے سب سے بڑے دشمن کے طور پر سامنے آیا ہے اور وہ مسلمانوں کو دینی اعتبار سے کچل دینا چاہتا ہے۔ اس لیے ہمیں امریکی سازشوں کے مقابلہ میں اپنے دینی تشخص کے تحفظ کے لیے جو کچھ بس میں ہو کر گزرنا چاہیے۔
انہوں نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں پھینکا گیا تو ایک بلبل اپنی چونچ میں پانی لے کر آگ پر پھینکتی رہی، اس کے اس عمل سے آگ نہ بجھ سکتی تھی لیکن اس کے جذبہ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ محبت کا اس سے ضرور اظہار ہوتا ہے۔ ہمیں اس بلبل سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور نتائج سے بے نیاز ہو کر اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے اس مہم میں ہر ممکن حصہ ڈالنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی عزائم کو بے نقاب کرنے اور عالمِ اسلام کو اس کے خلاف منظم کرنے کے لیے خطباء کو زبان کی قوت، اہلِ قلم کو قلم کی قوت، اور اہلِ مال کو مال کی قوت استعمال کرنی چاہیے اور ایک دوسرے سے تعاون کر کے مہم کو منظم کرنا چاہیے۔

مولانا محمد اجمل خان

خطیبِ اسلام مولانا محمد اجمل خان نے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اکابر نے انگریزی استعمار کا مقابلہ کیا اور اسے شکست دی۔ امریکہ بھی اس کا جانشین ہے اور انہی مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے، اس لیے ہم اس کا بھی مقابلہ کریں گے اور عالمِ اسلام کے بارے میں اس کے مکروہ مقاصد کو پورا نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب انسانی حقوق اور جمہوریت کی بات کرتا ہے لیکن اس نے دوہرا معیار اختیار کر رکھا ہے۔ افغانستان کے عوام جب تک روس کے خلاف نبرد آزما تھے، انہیں مجاہدین کہا جاتا تھا۔ لیکن روس کے سامنے ہٹتے ہی اب افغان مجاہدین مغرب کی نظر میں دہشت گرد بن گئے ہیں اور امریکہ ان ’’دہشت گردوں‘‘ کی حکومت قائم ہونے میں مسلسل رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک نے بوسنیا، صومالیہ، فلسطین اور کشمیر بارے میں جو طرزعمل اختیار کر رکھا ہے اس سے ان کی جمہوریت پسندی اور انسانی حقوق کی قلعی کھل گئی ہے اور وہ اب زیادہ دیر تک دنیا کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی جمہوریت ایک غیر فطری نظام ہے جس نے انسانی معاشرہ کو اخلاقی انارکی سے دوچار کر دیا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اسلام کے عادلانہ نظام کو دنیا کے سامنے لایا جائے۔

اظہارِ تشکر

ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے علماء کنونشن میں شرکت پر اکابر علماء اور کراچی کے احباب کا، جبکہ میزبانی کے فرائض سرانجام دینے پر مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت کراچی کے راہنماؤں بالخصوص مولانا سعید احمد جلال پوری، مولانا محمد جمیل خان اور مولانا محمد انور فاروقی کا شکریہ ادا کیا۔

امریکی عزائم: ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام دوسرا علماء کنونشن

ادارہ

عالمِ اسلام کے بارے میں امریکہ کے منفی عزائم اور پاکستان کے داخلی معاملات میں بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت کے خلاف رائے عامہ کو ہموار اور منظم کرنے کی غرض سے ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام علماء اور دینی کارکنوں کا دوسرا کنونشن ۱۲ جنوری ۱۹۹۴ء کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں منعقد ہوا جس میں موسم کی خرابی کے باوجود علماء اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کنونشن کی پہلی نشست کی صدارت پیر طریقت حضرت مولانا سید نفیس الحسینی مدظلہ العالی نے کی اور دوسری نشست شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کی زیرصدارت منعقد ہوئی۔ کنونشن سے ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی کے علاوہ مولانا عبد الحمید قریشی، علامہ محمد احمد لدھیانوی، ڈاکٹر غلام محمد، ماسٹر عنایت اللہ اور دیگر حضرات نے بھی خطاب کیا اور شاعرِ اسلام سید سلمان گیلانی نے اپنے پرجوش کلام سے حاضرین کو گرمایا۔
کنونشن میں رتہ دوہتڑ توہینِ رسالت کیس کی تازہ ترین صورتحال کا بھی جائزہ لیا گیا اور اس سلسلہ میں بیرونی لابیوں اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے اس پروپیگنڈا کو بے بنیاد قرار دیا گیا کہ یہ کیس ذاتی دشمنی کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے۔ شرکاء کو بتایا گیا کہ گوجرانوالہ کے علماء کی قائم کردہ ’’تحفظ ناموس رسالت ایکشن کمیٹی‘‘ کے سیکرٹری ڈاکٹر غلام محمد اور مولانا علی احمد جامی نے خود مذکورہ گاؤں رتہ دوہتڑ جا کر واقعات کی انکوائری کی ہے اور علاقہ کے عوام نے اس بارے میں مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ کیس میں گرفتار ملزمان نے مبینہ طور پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں شرمناک گستاخی کا ارتکاب کیا ہے۔ کنونشن میں فیصلہ کیا گیا کہ کیس کے ملزمان کی ضمانت پر رہائی کے خلاف ہائی کورٹ کے فل بینچ سے اپیل کی جائے گی اور لاہور کی سطح پر کیس کی پیروی کے لیے لاہور کے علمائے کرام کا ایک اجتماع بہت جلد منعقد کیا جائے گا۔
کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے کہا کہ قرآن کریم نے یہود و نصارٰی کے ساتھ مسلمانوں کی دوستی کو نقصان دہ قرار دیا ہے اور اس سے منع کیا ہے، لیکن ہم نے اس حکمِ خداوندی کو نظرانداز کرتے ہوئے دوستی کے تعلقات قائم کیے جس کا خمیازہ آج ہم یہ بھگت رہے ہیں کہ پورا عالمِ اسلام یہودیوں اور عیسائیوں کی معاندانہ سازشوں میں جکڑا جا چکا ہے اور دنیائے کفر کی قیادت کرتے ہوئے امریکہ مسلمانوں کے خلاف کھلم کھلا اقدامات میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اکابر نے برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی تھی اور انہی کی قربانیوں کے نتیجہ میں برصغیر آزاد ہوا ہے لیکن آج برطانیہ کا جانشین امریکہ دوستی کے پردے میں ہم پر غلامی مسلط کر چکا ہے۔ اس لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ اکابر کے مشن اور روایات کو زندہ کرتے ہوئے امریکی تسلط کے خلاف جدوجہد کریں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت عالمِ اسلام میں اسلام کے احکام کے عملی نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ موجودہ حکمران طبقہ ہے جو مغربی نظامِ تعلیم کا پروردہ ہے اور مغرب کے مفادات کا محافظ ہے۔ اس کے سامنے جب حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے دورِ حکومت کی مثال پیش کی جاتی ہے اور خلفائے راشدین کی سادگی اور قناعت کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس طبقہ کو اپنا موجودہ طرز زندگی اور مفادات خطرہ میں دکھائی دیتے ہیں اور وہ اپنے تعیش اور طبقاتی مفادات کو بچانے کے لیے نفاذِ اسلام کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام کے نفاذ کی راہ میں فرقہ واریت حائل ہے، یہ بات درست نہیں ہے، اس لیے کہ فرقہ وارانہ اختلافات اسلام کے نفاذ کے مسائل پر نہیں ہیں، اور اس لیے بھی کہ یہ فرقہ واریت تو صرف برصغیر کے ممالک میں ہے اور اگر یہی نفاذ اسلام میں رکاوٹ ہے تو دنیا کے بیشتر مسلم ممالک جہاں فرقہ واریت نہیں ہے وہاں اسلام کیوں نافذ نہیں ہو رہا ہے؟ حالانکہ بعض مسلم ممالک کا تو یہ حال ہے کہ وہاں علمائے کرام جمعہ کا خطبہ بھی حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں دے سکتے، لیکن اسلام وہاں بھی مکمل طور پر نافذ نہیں ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نفاذ اسلام کی راہ میں فرقہ واریت نہیں بلکہ حکمرانوں کے مفادات حائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرہ میں اسلام کے احکام کے نفاذ کے لیے پرخلوص جدوجہد کریں اور اس سلسلہ میں جو کچھ ان کے بس میں ہے اس سے گریز نہ کریں۔
حضرت شیخ الحدیث مدظلہ نے رتہ دوہتڑ کیس اور پاکستان کے داخلی معاملات میں امریکی مداخلت کا بطور خاص ذکر کیا اور علمائے کرام پر زور دیا کہ وہ اس سلسلہ میں امریکی عزائم کو بے نقاب کرنے کے لیے محنت کریں اور عوام کو ذہنی طور پر اس کے لیے تیار کریں۔
مولانا زاہد الراشدی نے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر کا مقصد عالمِ اسلام کو سیاسی وحدت اور نفاذِ اسلام سے روکنا ہے، اور مغربی ممالک متحد ہو کر امریکہ کی قیادت میں ملتِ اسلامیہ کو نظریاتی استحکام، معاشی خود کفالت، ایٹمی توانائی اور سیاسی وحدت کی منزل سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ ایک طرف انسانی حقوق کا واویلا کر رہا ہے اور دوسری طرف مسلم ممالک کو ایٹمی توانائی سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین، کشمیر، صومالیہ اور بوسنیا میں مغربی ممالک کا دوہرا کردار سامنے آ چکا ہے اور انہیں ان خطوں کے مظلوم مسلمانوں کے انسانی حقوق دکھائی نہیں دے رہے۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ اسلامک فورم نے امریکہ کے عزائم اور کردار کو بے نقاب کرنے کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں علماء اور دینی کارکنوں کے اجتماعات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جو مسلسل جاری رہے گا، اور ہم جماعتی سیاست اور انتخابی سیاست سے الگ تھلگ رہتے ہوئے رائے عامہ کو امریکی عزائم کے خلاف منظم کرنے کی جدوجہد جاری رکھیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

علمائے دیوبند اور ترجمۂ قرآنِ کریم

سید مشتاق علی شاہ

(۱) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجم: مولانا عبد الحق حقانیؒ

یہ ترجمہ تفسیر فتح المنان کے ساتھ ۸ جلدوں میں شائع ہوا ہے۔ پہلی سات جلدیں ۱۳۰۵ھ سے لے کر ۱۳۱۳ھ کے عرصہ میں اور آٹھویں جلد، جو پارہ عم پر مشتمل ہے، ۱۳۱۸ھ میں مطبع مجتبائی دہلی سے شائع ہوئی۔ یہ تفسیر ’’تفسیر حقانی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔

(۲) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجم: مولانا عاشق الٰہی میرٹھی

یہ ترجمہ ۱۳۲۰ھ میں پہلی مرتبہ مطبع خیر المطابع لکھنؤ میں چھپا۔ اب پاکستان میں تاج کمپنی نے بھی شائع کیا ہے۔ اس کے ساتھ کہیں کہیں مختصر حواشی بھی ہیں۔ حضرت شیخ الہندؒ نے اپنے مقدمہ قرآن میں اس کی تعریف کی ہے۔

(۳) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجم: حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ

یہ ترجمہ بامحاورہ ہے اور علماء و عوام دونوں کے لیے یکساں مفید ہے۔ یہ ترجمہ مولانا نے اپنی مشہور تفسیر بیان القرآن کے ضمن میں کیا ہے۔ اسے پہلی مرتبہ ۱۳۳۶ھ میں مطبع مجتبائی دہلی نے بارہ جلدوں میں شائع کیا تھا۔ تفسیر کے علاوہ صرف ترجمہ مع مختصر فوائد بھی کئی قسموں میں تاج کمپنی اور کئی دوسری کمپنیوں نے شائع کیا ہے۔ شاہ عبد القادرؒ اور شاہ رفیع الدینؒ کے ترجمہ کے بعد سب سے زیادہ مقبول ہے۔ کثرتِ اشاعت کے اعتبار سے اس کا نمبر دوم ہے۔ حضرت شیخ الہندؒ نے مقدمہ قرآن میں اس کی بھی تعریف کی ہے۔

(۴) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجم: شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ

حضرت شیخ الہندؒ نے اس ترجمہ کی ابتدا ۱۳۲۷ھ میں کر دی تھی لیکن تکمیل بحیرۂ روم کے جزیرہ مالٹا میں بزمانہ اسارت ہوئی۔ مولانا کا انتقال ۱۳۳۹ھ میں ہوا۔ انتقال کے بعد مدینہ پریس بجنور (انڈیا) کے مالک مولوی مجید حسن صاحب مرحوم نے شیخ الہندؒ کی اہلیہ مرحومہ سے اس کے حقوقِ اشاعت لے کر ۱۳۴۲ھ میں شائع کیا۔

(۵) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجم: مولانا فتح محمد صاحب جالندھریؒ

یہ ترجمہ اردو صرف و نحو کی مشہور کتاب ’’مصباح القواعد‘‘ کے مصنف کا ہے۔ ترجمہ عام فہم اور سلیلس ہے اور علمائے کرام کے نزدیک بھی معتبر اور مفید ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے لاہور کے مشہور ہندو تاجر کتب عطر چند کپور نے بھی اس کا ایڈیشن چھاپا تھا۔ اب تاج کمپنی پاکستان نے بھی اعلٰی معیار پر شائع کیا ہے۔ اس ترجمہ کا نام ’’فتح الحمید‘‘ ہے۔

(۶) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجم: مولانا محمد احمد سعید صاحب دہلویؒ

یہ ترجمہ مفتی محمد کفایت اللہ صاحبؒ کی سرپرستی میں علماء کی ایک جماعت کے مشورے سے کیا گیا ہے۔ ترجمہ کا نام ’’کشف الرحمٰن‘‘ ہے۔ یہ ترجمہ سلیلس اور عام فہم ہے اور معمولی استعداد رکھنے والا شخص بھی اس کو سمجھ سکتا ہے۔ پندرہ پندرہ پاروں کی دو جلدوں میں دینی بکڈپو دہلی نے شائع کیا ہے اور پاکستان میں اس کی اشاعت مکتبہ رشیدیہ کراچی نے کی ہے۔

(۷) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجم: شیخ التفسیر مولانا احمد علی صاحب لاہوریؒ

یہ ترجمہ پہلی مرتبہ ۱۹۲۷ء میں شائع ہوا۔ انجمن خدام الدین شیرانوالہ گیٹ لاہور نے اسے شائع کیا۔ ترجمہ بہت ہی آسان ہے۔

(۸) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجم: مولانا فیروز دین صاحب لاہوریؒ

یہ ترجمہ اردو لغت کی مشہور اور مقبول کتاب ’’فیروز اللغات‘‘ کے مرتب مولانا فیروز دینؒ کا ہے اور فیروز سنز نے ہی اسے شائع کیا ہے۔ ترجمہ مقبول ہے۔

(۹) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجم: مولانا سید ممتاز علیؒ دیوبندی

یہ ترجمہ قرآن کی توقیفی ترتیب کے مطابق نہیں ہے لیکن مکمل ہے۔ مترجم نے قرآن مجید کے علوم و مضامین کی ایک فہرست ’’تفصیل البیان فی مقاصد القرآن‘‘ کے نام سے برسوں محنت و مشقت کر کے ترتیب دی تھی۔ یہ ترجمہ اسی فہرست کے ضمن میں گیلانی پریس سے ۱۳۴۹ھ میں شائع ہوا۔ ترجمہ ابھی نامکمل تھا کہ مؤلف کا انتقال ہو گیا۔ باقی کام مولانا نجم الدین صاحب سیوہاروی نے مکمل کیا۔ یہ کتاب پہلے چھ جلدوں میں شائع ہوئی تھی، اب دو جلدوں میں دہلی سے شائع ہوئی ہے۔

(۱۰) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجم: مولانا عبد الحق عباسؒ

یہ ترجمہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں پہلے ہر آیت کے الفاظ کا ترجمہ الگ الگ کیا گیا ہے جس سے عام قاری یہ جان سکتا ہے کہ کس لفظ کا کیا معنی ہے۔ پھر سہولت کے لیے دوسری سطر میں بامحاورہ اردو ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔ مکتبہ علمیہ لاہور نے اسے نہایت اعلٰی معیار پر شائع کیا ہے۔ یہ الگ الگ پاروں کی صورت میں بھی شائع ہو رہا ہے۔

(۱۱) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجم: مولانا عبد الشکور لکھنؤیؒ

اس ترجمہ کا ذکر مولانا عبد الصمد صارم نے تاریخ التفسیر میں اور مولانا زاہد الحسینی نے تذکرۃ المفسرین میں کیا ہے۔

(۱۲) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجمین: (۱) مولانا خواجہ عبد الحئی فاروقیؒ، شیخ التفسیر جامعہ ملیہ دہلی (۲) حافظ نذر احمد (۳) حافظ مرغوب احمد (۴) حاجی عبد الواحد۔

یہ ترجمہ ’’درسِ قرآن‘‘ کے ساتھ ۷ جلدوں میں ادارہ اصلاح و تبلیغ آسٹریلوین بلڈنگ لاہور سے شائع ہوا ہے۔ اس میں ہر آیت کا لفظی اور بامحاورہ ترجمہ الگ الگ کیا گیا ہے۔

(۱۳) ترجمہ قرآن مجید (کشمیری)

مترجم: مولانا سید میرک شاہ اندرابی تلمیذ علامہ انور شاہ کشمیری

اس ترجمہ کا ذکر ’’تعارف قرآن‘‘ از کرنل فیوض الرحمٰن میں موجود ہے۔

(۱۴) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجم: مولانا عبد الماجد دریابادی

یہ ترجمہ ’’تفسیرِ ماجدی‘‘ کے ساتھ ہی شائع ہوا۔

(۱۵) ترجمہ قرآن مجید (انگلش)

مترجم: مولانا عبد الماجد دریابادی

یہ ترجمہ ’’تفسیرِ ماجدی‘‘ (انگلش) کے ساتھ شائع ہوا ہے۔

(۱۶) ترجمہ قرآن مجید (سندھی)

مترجم: مولانا سید تاج محمود امروٹیؒ

یہ ترجمہ شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ نے شائع کرایا تھا۔ کئی بار چھپ چکا ہے اور سندھ میں بڑی عقیدت و محبت کے ساتھ پڑھا جا رہا ہے۔

(۱۷) ترجمہ قرآن مجید (سندھی)

مترجم: مولانا محمد مدنی سندھی

یہ ترجمہ کئی بار شائع ہو چکا ہے اور مقبول ہے۔

(۱۸) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجم: مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ

یہ ترجمہ تفسیر ’’معالم القرآن‘‘ کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ ابھی تک دس جلدوں میں دس پاروں کا ترجمہ شائع ہوا ہے۔

(۱۹) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجم: علامہ سید عبد الدائم الجلالی

یہ ترجمہ صاف، سلیس، بامحاورہ اور عام فہم ہے اور تفسیر ’’بیان السبحان‘‘ کے ساتھ شائع ہوا ہے۔

(۲۰) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجم: مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمی

یہ ترجمہ تفسیر ’’ہدایت القرآن‘‘ کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ ترجمہ عام فہم ہے۔ اسے مکتبہ حجازیہ دیوبند ضلع سہارنپور نے شائع کیا ہے۔

(۲۱) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجم: مولانا حبیب احمد کیرانوی

یہ ترجمہ دو جلدوں میں کتب خانہ امدادیہ دیوبند سے شائع ہوا ہے۔

(۲۲) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجم: مولانا قاضی عبید اللہ ڈیرویؒ

یہ تفسیر عبیدیہ کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ ابھی اس کی صرف جلد اول شائع ہوئی ہے۔

(۲۳) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجم: مولانا قاضی اطہر مبارکپوری

یہ ترجمہ مکمل قرآن کا ہے لیکن راقم کی نظر سے نہیں گزرا۔ خیال ہے کہ ابھی تک شائع نہیں ہوا۔ اس کا ذکر ’’تعارفِ قرآن‘‘ میں موجود ہے۔

(۲۴) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجم: مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی

یہ ترجمہ ’’تفسیر معالم العرفان فی دروس القرآن‘‘ کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ ابھی تک پندرہ جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ تفسیر کے ساتھ ترجمہ عام فہم بامحاورہ اور تمام خوبیوں کا حامل ہے اور عوام و خواص میں یکساں مفید اور مقبول ہے۔ یہ ترجمہ شاہ ولی اللہؒ، شاہ عبد القادرؒ، شاہ رفیع الدینؒ، شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے تراجم کا خلاصہ اور نچوڑ ہے۔

(۲۵) ترجمہ قرآن مجید (پشتو)

مترجم: مولانا فضل الرحمٰن پشاوری

اس کے بارے میں زیادہ تفصیل معلوم نہیں ہو سکی۔ اس کا ذکر ’’تذکرۃ المفسرین‘‘ میں موجود ہے۔

(۲۶) ترجمہ قرآن مجید (انگلش)

مترجمہ: اہلیہ حضرت مولانا عزیر گلؒ

یہ ترجمہ مولانا عزیر گلؒ اور ان کی اہلیہ نے تقریباً تیس سالہ محنت شاقہ اور مطالعہ کے بعد انگریزی زبان میں کیا جو دوسرے انگریزی تراجم سے کئی وجوہ سے ممتاز ہے۔ یہ ترجمہ فیروز سنز لاہور سے شائع ہو چکا ہے۔

(۲۷) ترجمہ قرآن مجید (انگلش)

مترجم: محمد طفیل فاروقیؒ

یہ ترجمہ تفسیر کے ساتھ شائع ہو رہا تھا کہ ۱۰ شعبان ۱۳۹۹ھ کو مترجم کا انتقال ہو گیا۔ ترجمہ کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ قرآن کی آیات کو اصل متن کے ساتھ رومن رسم الخط میں بھی تحریر کیا گیا ہے۔ اس کے حاشیہ پر مختصر نوٹس بھی موجود ہیں۔

(۲۸) ترجمہ قرآن مجید (گجراتی)

مترجم: مولانا عبد الرحیم صادقؒ

(۲۹) ترجمہ قرآن مجید (پشتو)

مترجمین: مولانا فضل ودود ۔ مولانا گل رحیم اسماری

مولانا فضل ودود نے پہلے ۱۵ پاروں کا ترجمہ و تفسیر لکھی ہے اور باقی ۱۵ پاروں کا ترجمہ و تفسیر مولانا گل رحیم اسماری نے کی ہے (بحوالہ الرشید، دارالعلوم دیوبند نمبر)۔

(۳۰) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجم: مولانا شائع احمد عثمانی تلمیذ حضرت شیخ الہندؒ

یہ صرف پارہ عم کا ترجمہ ہے جو مطبع رحمانیہ مونگیر (بہار) سے ۱۹۱۷ء میں شائع ہوا۔ کرنل فیوض الرحمٰن نے پارہ عم کے علاوہ پارہ ۲۹، سورہ فاتحہ اور دیگر کئی سورتوں کا ذکر بھی کیا ہے۔

(۳۱) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجم: مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ

یہ ترجمہ سلیس، عام فہم اور بامحاورہ ہے۔ اس کی دو جلدیں شائع ہو چکی ہیں جو دو ابتدائی پاروں پر مشتمل ہیں۔ یہ ترجمہ ’’الطاف الرحمٰن بتفسیر القرآن‘‘ کے ساتھ شیخ الطاف الرحمٰن قدوائی نے ترتیب دے کر نامی پریس لکھنؤ سے ۱۹۲۵ء میں شائع کیا ہے۔

(۳۲) ترجمہ قرآن مجید (گجراتی)

مترجم: مولانا غلام صادق

یہ مولانا غلام صادق راندیری کی سعی ہے جو ترجمہ و تفسیر پر مشتمل ہے۔ یہ ترجمہ ۱۹۶۴ء میں مسلم گجرات پریس سورت سے شائع ہوا۔ دراصل یہ ترجمہ و تفسیر مولانا شمس الدین بڑودی کی محنت کا نتیجہ ہے۔ اس ترجمے میں دو کالم کیے گئے ہیں، ایک میں عربی متن، دوسرے کالم میں ترجمہ ہے۔ فٹ نوٹس میں تفسیری فوائد ہیں۔ ترجمہ تمام تر شیخ الہندؒ اور حضرت تھانویؒ کے ترجموں سے مستفاد ہے۔ تفسیری فوائد مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کے تفسیری حواشی سے ماخوذ ہیں۔ یہ ترجمہ دو جلدوں پر مشتمل ہے اور ۱۴۶۰ صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ ابتدا میں ۱۱۸ صفحات پر مقدمہ ہے۔ ترجمے کی زبان رواں دواں اور ہلکی پھلکی ہے۔ گجراتی کے دوسرے تراجم کے مقابلے میں یہ سب سے زیادہ مقبول ہے (جائزہ تراجم قرآنی)۔

(۳۳) ترجمہ قرآن مجید (تلیگو)

مترجم: مولانا عبد الغفور کرلولی، فاضل دیوبند

تلیگو زبان میں یہ واحد تفسیر ہے۔ اس میں پہلے تلیگو رسم خط میں متنِ قرآن ہے، اس کے نیچے آیت متعلقہ کا ترجمہ ہے، پھر اس کی تفسیر کی گئی ہے۔ اس تفسیر کے تین پارے پہلی بار ۱۹۴۱ء میں شائع ہوئے تھے۔ اس کے بعد نواب مقصود جنگ افسر الاطبا کے پیش لفظ کے ساتھ مکمل دو جلدوں میں ۱۹۴۹ء میں شائع ہوئی (جائزہ تراجم قرآنی)۔

(۳۴) ترجمہ قرآن مجید (کنڑی)

مترجم کا نام معلوم نہیں

یہ ترجمہ اصل میں مولانا اشرف علی تھانویؒ کا ہے جس کو کنڑی زبان میں منتقل کیا گیا ہے۔ ۱۶ پارے دارالاشاعت بنگلور سے ۱۹۶۶ء میں شائع ہوئے (جائزہ تراجم قرآنی)۔

(۳۵) ترجمہ و تفسیری نوٹس (فرانسیسی)

مترجم: ڈاکٹر حمید اللہ

اس کے مترجم ڈاکٹر حمید اللہ حیدرآبادی ہیں، آج کل پیرس میں مقیم ہیں، یہ ترجمہ اور تفسیری نوٹس ۱۹۹۰ء میں شائع ہوئے (جائزہ تراجم قرآنی)۔

(۳۶) ترجمہ قرآن مجید (اردو)

مترجم: حافظ نذر احمد

یہ ترجمہ عام فہم اور عربی سے ناواقف حضرات کے لیے بہت مفید ہے۔ اس میں پہلے ہر ہر لفظ کا الگ الگ ترجمہ اور پھر بامحاورہ ترجمہ کیا گیا ہے۔ الگ الگ پاروں کے علاوہ مکمل ایک جلد میں بھی مسلم اکادمی محمد نگر لاہور سے شائع ہو چکا ہے۔

نوٹ:

تراجم کی مذکورہ تعداد مرتب کے علم کے مطابق ہے۔ اگر اہلِ علم کے پاس مزید معلومات ہوں تو وہ مطلع فرما کر شکریہ کا موقع عنایت کریں۔

مراجع و ماخذ

(۱) تاریخِ قرآن، قاری شریف احمد، مکتبہ رشیدیہ کراچی۔

(۲) تعارفِ قرآن، کرنل قاری فیوض الرحمٰن،  مکتبہ مدنیہ لاہور۔

(۳) تاریخِ تفسیر، عبد الصمد صارم ازہریؒ، لاہور۔

(۴) تذکرۃ المفسرین، مولانا قاضی زاہد الحسینی، دارالارشاد اٹک شہر

(۵) منازل العرفان فی علوم القرآن، مولانا محمد مالک کاندھلویؒ، لاہور

(۶) ماہنامہ الرشید لاہور، دارالعلوم دیوبند نمبر۔

(۷) جائزہ تراجم قرآنی، مجلس معارف القرآن، دیوبند (انڈیا)

اپریل ۱۹۹۴ء

مسئلہ کشمیر پر قومی یکجہتی کے اہتمام کی ضرورتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بدعت اور اس کا وبالشیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر
انسان کی دس فطری چیزیںشیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
مولانا سندھیؒ کا پچاس سالہ یومِ وفاتڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری
ایسٹر سنڈے ۔ نظریات اور رسوم کا ایک جائزہمحمد یاسین عابد
مشہد میں مسجد کی شہادتادارہ
افریقہ میں عیسائی مشنریوں کی سرگرمیاںادارہ
گستاخِ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کا قانونادارہ
میڈیا کی جنگ اور اس کے تقاضےادارہ
ڈاکٹر سید سلمان ندوی کا دورہ برطانیہادارہ
شاہ ولی اللہ یونیورسٹی گوجرانوالہ کی سالانہ تقریبادارہ
تعارف و تبصرہمحمد عمار خان ناصر
سیرت النبیؐ پر انعامی تقریری مقابلہادارہ

مسئلہ کشمیر پر قومی یکجہتی کے اہتمام کی ضرورت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جنیوا کے انسانی حقوق کمیشن میں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی قرارداد کی واپسی ان دنوں قوم حلقوں میں زیر بحث ہے۔ یہ قرارداد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی کی مذمت کے لیے پیش کی گئی تھی لیکن ووٹنگ سے قبل چین اور ایران کے کہنے پر واپس لے لی گئی۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ قرارداد کا مقصد مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنا تھا جو ووٹنگ کے بغیر حاصل ہوگیا ہے اور چین اور ایران جیسے دوست ممالک کے مشورہ کو نظر انداز کرنا مشکل تھا اس لیے قرارداد موخر کر دی گئی۔ جبکہ اپوزیشن کے راہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت نے قرارداد واپس لے کر مسئلہ کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور ان مجاہدین کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے جو اس وقت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ظلم و تشدد کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ حکومتی حلقوں اور اپوزیشن کی اس کشمکش سے قطع نظر بین الاقوامی پریس کا یہ تجزیہ بھی قابل توجہ ہے کہ قرارداد کے لیے جو محنت ضروری تھی پاکستان کی وزارت خارجہ اس کا اہتمام نہیں کر سکی حتیٰ کہ قرارداد کی حمایت میں مسلم ممالک سے روابط اور انہیں قائل کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی جس کی وجہ سے انسانی حقوق کمیشن میں قرارداد کی منظوری کے امکانات مخدوش تھے اور پاکستان نے شکست سے بچنے کے لیے قرارداد کو واپس لینے یا موخر کرنے میں عافیت سمجھی ہے۔

بہرحال جو ہوا اس کے اسباب کچھ بھی ہوں اس سے مجاہدین کشمیر کو نقصان پہنچا ہے، پاکستان کی ساکھ مجروح ہوئی ہے اور بھارت کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ اسے اپنی سفارتی فتح قرار دے کر پاکستان کو اپنی شرائط پر دوبارہ مذاکرات کی دعوے دے رہا ہے۔ اور اس بات میں بھی شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی ہے جس کا نوٹس قومی سطح پر لیا جانا ضروری ہے۔

اس مرحلہ پر چین اور ایران کا طرز عمل بھی سنجیدہ غور و فکر اور تجزیہ کا متقاضی ہے کہ یہ دونوں ملک مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کے ہمیشہ حامی رہے ہیں اور ان کی حمایت پاکستان اور کشمیری حریت پسندوں کے لیے تقویت کا باعث رہی ہے، لیکن اب انسانی حقوق کمیشن میں پیش کردہ قرارداد بھی انہی کے کہنے پر پاکستان کو واپس لینا پڑی ہے۔ اس کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ انہوں نے پاکستان کو واضح شکست سے بچانے کے لیے قرارداد واپس لینے کا مشورہ دیا ہو لیکن ہم اس مسئلہ کے ایک اور پہلو کو سامنے لانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ جب سے امریکی حلقوں کی طرف سے کشمیر یا اس کے ایک بڑے حصے کو خودمختار ملک کی حیثیت دینے کی تجویز سنجیدگی کے ساتھ سامنے آئی ہے اور کشمیر میں رائے شماری کے لیے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے علاوہ خودمختاری کا تھرڈ آپشن شامل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے اس وقت سے یہ خدشات بڑھتے جا رہے ہیں کہ امریکہ دراصل خودمختار کشمیر کو اپنے فوجی اڈے کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے جس کا مقصد چین کے متوقع عالمی کردار سے نمٹنا ہے۔

اس صورتحال میں اگر مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے چین کے طرز عمل میں تبدیلی آتی ہے تو اسے اس کے قومی مفادات سے الگ کر کے دیکھنا مناسب نہیں ہوگا۔ ایران کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ ان حالات میں جبکہ ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین اور نہتے کشمیری عوام پر بھارتی افواج کے مظالم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے بین الاقوامی اور علاقائی طور پر دوست ممالک کی ترجیحات میں واضح تبدیلیاں دکھائی دے رہی ہیں، وزارت خارجہ کی سست روی اور مسئلہ سے نمٹنے کے لیے روایتی طرز عمل پر قناعت انتہائی تکلیف دہ بات ہے۔ اور اس سے زیادہ اذیت ناک بات یہ ہے کہ حکومتی پارٹیوں اور اپوزیشن نے مسئلہ کی نزاکت کا احساس کرنے اور مسئلہ کشمیر پر مشترکہ قومی موقف اختیار کرنے کی بجائے اس نازک قومی مسئلہ کو باہمی کشمکش اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔

ہم حکومت اور اپوزیشن سے گزارش کریں گے کہ وہ اپنے اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کریں اور مل بیٹھ کر مسئلہ کشمیر پر مشترکہ موقف اور پالیسی اختیار کریں تاکہ اہل پاکستان آزادیٔ کشمیر کے سلسلہ میں اپنی قومی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کر سکیں۔

جناب محمد مسعود اظہر کی گرفتاری

ماہنامہ صدائے مجاہد کراچی کے مدیر جناب محمد مسعود اظہر کو گزشتہ دنوں سری نگر میں گرفتار کر لیا گیا۔ وہ باقاعدہ ویزا پر بھارت گئے تھے اور مقبوضہ کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے وہاں پہنچے ہی تھے کہ گرفتار کر لیے گئے اور مبینہ طور پر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر یا دنیا کے کسی بھی خطہ میں حالات کا جائزہ لینا اور وہاں کی صورتحال سے اپنے قارئین کو باخبر رکھنا ہر صحافی کی پیشہ وارانہ ذمہ داری ہے اور کسی بھی صحافی کو اس کے اس حق سے محروم کرنا صحافت کے مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ ہم انسانی حقوق کے عالمی اداروں، مسلم حکومتوں اور بین الاقوامی پریس سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی صحافی محمد مسعود اظہر کی گرفتاری کا نوٹس لیں اور انہیں بھارت کی مسلح فورسز کے تشدد سے بچانے اور ان کی رہائی کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔

بدعت اور اس کا وبال

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

جوں جوں زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرونِ مشہود لہا بلاخیر سے دور ہوتا جا رہا ہے، دوں دوں امورِ دین اور سنت میں رخنے پڑتے جا رہے ہیں۔ ہر گروہ اور ہر شخص اپنے من مانے نظریات و افکار کو خالص دین بنانے پر تلا ہوا ہے، اور تمام نفسانی خواہشات اور طبعی میلانات کو ایڑی چوٹی کا زور لگا کر دین اور سنت ثابت کرنے کا ادھار کھائے بیٹھا ہے، الا ما شاء اللہ، اور ایسی ایسی باتیں دین اور کارِ ثواب قرار دی جا رہی ہیں کہ سلف صالحینؒ کے وہم و گمان میں بھی وہ نہ ہوں گی، حالانکہ دین صرف وہی ہے جو ان حضرات سے ثابت ہوا ہے اور انہی کے دامنِ تحقیق سے وابستہ رہنے میں نجات منحصر ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح شرک و بدعت کی تردید فرمائی ہے اتنی تردید کسی اور چیز کی نہیں فرمائی، اور تمام بدعات اور مخترعات سے باز رہنے کی سختی سے تاکید فرمائی ہے اور خصوصاً وہ بدعات جو قیامت کے قریب رونما ہوں گی۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
’’آخر زمانہ میں کچھ ایسے دجال اور کذاب ہوں گے جو تمہارے سامنے ایسی حدیثیں اور باتیں پیش کریں گے جو نہ تو تم نے سنی ہوں گی اور نہ تمہارے آبا و اجداد نے۔ پس تم ان سے بچو اور ان کو اپنے قریب نہ آنے دو تاکہ وہ تمہیں نہ تو گمراہ کر سکیں اور نہ فتنے میں ڈال سکیں۔‘‘ (مسلم ج ۱ ص ۱۰ و مشکوٰۃ ج ۱ ص ۲۸)
اور ان کی ایک اور روایت میں ہے:
’’تمہارے پاس وہ گھڑ گھڑ کر حدیثیں پیش کریں گے۔‘‘ (البدع والنہی عنہا، امام محمد بن وضاح قرطبی اندلسیؒ، ص ۲۷ طبع مصر)
اہلِ بدعت کے جتنے فرقے ہیں وہ اپنے مزعوم افعال کی بنیاد ایسی بے سروپا احادیث پر رکھتے ہیں جن کا معتبر کتب حدیث میں کوئی وجود نہیں، اور اگر کہیں ہے بھی تو محدثین نے ان کو ضعیف اور معلول قرار دیا ہوتا ہے۔ اور اہلِ بدعت ایسی ایسی بدعات آئے دن نکالتے رہتے ہیں کہ پہلے ان سے کوئی شناسا نہ تھا، اور جیسے جیسے قیامت نزدیک آتی رہے گی نئی نئی بدعات جنم لیتی رہیں گی اور سنتِ مظلومہ اٹھتی چلی جائے گی، فوا اسفاً۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ
’’جو نیا سال لوگوں پر آئے گا اس میں وہ کوئی نہ کوئی نئی بدعت گھڑیں گے اور سنت کو مٹا دیں گے حتٰی کہ بدعتیں زندہ کی جائیں گی اور سنتیں مٹ جائیں گی۔‘‘ (البدع والنہی عنہا، ص ۳۸)
یہ حدیث اگرچہ موقوف ہے لیکن حکماً مرفوع ہے اور یہ جو کچھ فرمایا بالکل بجا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ
’’تمہاری کیا حالت ہو گی جبکہ تم پر فتنہ چھا جائے گا، اس فتنہ میں بچے بڑے ہوں گے اور عمر رسیدہ بوڑھے ہو جائیں گے۔ اور اپنی طرف سے ایک سنت گھڑی جائے گی جس پر عمل ہوتا رہے گا، جب اس کو بدلنے کی کوشش ہو گی تو کہا جائے گا ہائے سنت بدل دی۔ دریافت کیا گیا اے ابو عبد الرحمٰن! یہ کب ہو گا؟ فرمایا کہ جب تمہارے قاری زیادہ ہو جائیں گے اور فقیہ کم ہوں گے اور مال زیادہ ہو گا اور امین کم ہوں گے اور آخرت کے عمل کے بدلہ میں دنیا طلب کی جائے گی اور دین کا علم محض دنیا کمانے کا ذریعہ بن جائے گا۔‘‘ (البدع والنہی عنہا ص ۸۹)
اور ایک روایت میں آتا ہے کہ
’’آخر زمانہ میں جاہل عابد ہوں گے اور فاسق قاری ہوں گے۔‘‘ (الجامع الصغیر جلد ۲ ص ۲۰۶ طبع مصر)
حضرت ابن مسعودؓ کی روایت حکماً مرفوع ہے اور اس میں بدعت کے بعض اسباب کا خوب نقشہ کھینچا گیا ہے۔
حضرت معاذؓ بن جبل سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ
’’ایسا فتنہ برپا ہو گا جس میں مال زیادہ ہو جائے گا اور قرآن اس میں کھول کر پڑھا جائے گا۔ یہاں تک کہ مومن و منافق اور عورت و مرد اور چھوٹے اور بڑے تقریباً سبھی قرآن پڑھیں گے۔ سو ان میں ایک شخص آہستہ قرآن پڑھے گا تو اس کی پیروی نہیں کی جائے گی تو وہ کہے گا کہ کیوں میری بات نہیں مانی جاتی، بخدا میں بلند آواز سے قرآن پڑھوں گا، تو وہ چلّا چلّا کر قرآن پڑھے گا۔ پھر بھی لوگ اس کی طرف مائل نہ ہوں گے تو وہ الگ مسجد بنائے گا اور ایسی ایسی بدعت کی باتیں ایجاد کرے گا کہ قرآن و سنت میں نہ ہوں گی۔ تو تم ان سے بچو اور اس کو اپنے نزدیک نہ آنے دو کیونکہ اس کی یہ کارروائی بدعتِ ضلالہ ہو گی (تین مرتبہ یہ الفاظ فرمائے)۔‘‘ (البدع والنہی عنہا ص ۲۶)
اور یہ روایت ان سے ان الفاظ سے بھی مروی ہے:
’’قریب ہو گا کہ کہنے والا کہے گا کہ لوگ میری طرف مائل نہیں ہوتے حالانکہ میں بھی قرآن پڑھتا ہوں۔ کیوں یہ لوگ میری پیروی نہیں کرتے؟ یہاں تک کہ وہ ان کے لیے بدعت گھڑے گا تاکہ لوگ اس کی طرف مائل ہوں۔ سو تم اس کی بدعت سے بچنا کیونکہ اس کی کارروائی نری بدعتِ ضلالہ ہو گی۔‘‘ (ابوداؤد ج ۲ ص ۲۷۶)
الغرض بدعت اور بدعتی سے بچنے کی اشد تاکید آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے ثابت ہے۔ اور بدعت کی ایسی نحوست پڑتی ہے کہ دنیا میں توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوتی اور آخرت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محرومی ہوتی ہے (العیاذ باللہ)۔ چنانچہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر بدعتی پر توبہ کا دروازہ بند کر دیا ہے۔‘‘ (البدع والنہی عنہا ص ۵۵ و مجمع الزوائد ج ۱۰ ص ۱۸۹)
ایک تو بدعت کی نحوست سے دل کی بصیرت اور نیکی کی استعداد مفقود ہو جاتی ہے اور دوسرے جب بدعتی بدعت کو دین اور کارِ ثواب سمجھے گا تو توبہ کیوں کرے گا؟ حضرت بکر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
’’میری شفاعت میری ساری امت کے لیے ثابت ہو گی مگر بدعتی کے لیے نہیں ہوگی۔‘‘ (البدع والنہی عنہا ص ۳۶)
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ کبیرہ گناہ کے مرتکب کے لیے تو آپ کی شفاعت ہو گی لیکن بدعتی کے لیے نہیں ہو گی۔ اس سے معلوم ہوا  کہ شریعت میں بدعت کبیرہ گناہ سے بھی بدتر ہے، اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو تمام گناہوں سے اور خصوصاً شرک و بدعت سے محفوظ رکھے۔



حضرت درخواستیؒ کی علالت

شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی دامت برکاتہم کافی عرصہ سے علیل ہیں اور ان دنوں کراچی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ احباب دعا فرمائیں کہ اللہ رب العزت حضرت مدظلہ کو صحت کاملہ و عاجلہ سے نوازیں اور ان کے وجود و برکات سے عالمِ اسلام کو تادیر مستفیذ ہونے کی توفیق دیں، آمین۔

انسان کی دس فطری چیزیں

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

عن عمار بن یاسر ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قالہ ان من الفطرۃ (او الفطرۃ) المضمضۃ والاستنشاق و قص الشارب والسواک و تقلیم الاظفار وغسل البراجم ونتف الابط والاستحداد والاختتان والانتضاح۔
’’حضرت عمارؓ بن یاسرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، دس چیزیں فطرت میں سے ہیں (یا فطرت ان دس چیزوں پر بھی مشتمل ہے) کلی کرنا، ناک صاف کرنا، مونچھوں کو کاٹنا، مسواک کرنا، ناخنوں کو کاٹنا، ہاتھوں کی چنٹوں کو صاف کرنا، بغل کے بالوں کو اکھاڑنا، زیرناف بالوں کو صاف کرنا، ختنہ کرنا اور استنجا کرنا۔‘‘
فطرت سے مراد وہ حالت ہے جو بنی نوع انسان میں قدرتاً پائی جاتی ہے، تمام نبیوں کے طریق میں جاری رہی ہے اور خود نبیوں نے بھی ان کی تعلیم دی ہے۔ جب کوئی شخص اپنی فطرت پر قائم ہو گا تو وہ ان دس چیزوں پر ضرور عمل کرے گا:

(۱) المضمضہ

کُلّی، یعنی منہ میں پانی ڈال کر منہ کو صاف کرنا۔ انسان کھانا کھاتا ہے یا سو کر اٹھتا ہے تو منہ میں آلائش ہوتی ہے، اس کو صاف کرنے کے لیے کُلی کرنا سنت انبیاءؑ ہے۔

(۲) الاستنشاق

یعنی ناک جھاڑنا۔ ناک میں پانی ڈال کر اس کو اچھی طرح صاف کرنا بھی فطری امر ہے۔ اگر ناک صاف نہ ہو تو قرآن پاک کی تلاوت یا دیگر عبادات کی ادائیگی کے دوران خلل واقع ہوتا ہے۔ انسان عام گفتگو بھی اچھے طریقے سے نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ناک کی صفائی بھی ضروری ہے۔ حضور علیہ السلام کا فرمان ہے کہ جب نیند سے بیداری ہو تو ناک میں پانی ڈال کر اس کو خوب جھاڑو۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ رات کو جب سوتے وقت انسانی جسم کے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں تو صرف ناک کا راستہ کھلا ہوتا ہے، لہٰذا شیطان اس میں گھس کر بیٹھ جاتا ہے اور رات بھر انسان کے دماغ میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔ جب بیدار ہو کر آدمی ناک جھاڑتا ہے تو شیطان کا یہ اڈہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ یہ کام بھی نبیوں کی سنت اور فطرتِ انسانی میں داخل ہے۔

(۳) قص الشارب

مونچھوں کا کاٹنا بھی سنتِ انبیاءؑ ہے، ان کو کتروانا چاہیے۔ دوسری حدیث میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ داڑھی کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کاٹو۔ لمبی مونچھیں مجوسیوں، یہودیوں اور ہندوؤں کی علامت ہیں، لہٰذا مسلمانوں کے لیے حکم ہے کہ ان کو کاٹو۔

(۴) السواک

یعنی مسواک کرنا۔ یہ منہ کو پاک کرنے والا عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ عام نیکی کا اجر تو دس گنا ملتا ہے تاہم جو عبادت مسواک کرنے کے بعد کی جائے اس کا اجر ستر گنا بڑھ جاتا ہے۔ مسواک کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پائیوریا وغیرہ جیسی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے، گویا مسواک مادی لحاظ سے بھی مفید چیز ہے۔

(۵) تقلیم الاظفار

ناخنوں کا ترشوانا بھی فطری امور میں سے ہے۔ لمبے ناخنوں میں میل کچیل جمع ہو کر بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے۔ ہفتہ عشرہ بعد ناخنوں کو ضرور کٹوا دینا چاہیے تاہم چالیس دن سے زیادہ کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔

(۶) غسل البراجم

ہاتھوں کی چنٹوں کو صاف کرنا۔ ان میں بھی بعض اوقات میل کچل جم جاتی ہے لہٰذا صفائی ضروری ہے کہ یہ بھی سنتِ انبیاءؑ اور فطری امر ہے۔

(۷) نتف الابط

یعنی بغلوں کے بالوں کو اکھاڑنا بھی فطرتِ انسانی میں داخل ہے۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ اصل سنت تو یہی ہے لیکن میں اس کو برداشت نہیں کر سکتا۔ لہٰذا اگر ان بالوں کو اکھاڑنے میں دقت پیش آتی ہو تو استرے یا پاؤڈر وغیرہ سے صاف کر دینا بھی درست ہے۔

(۸) الاستحداد

زیرِ ناف مستورہ مقامات سے بالوں کو صاف کرنا بھی سنت ہے۔ یہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ضروری ہے۔ اگرچہ عورتوں کے لیے بھی استرا وغیرہ استعمال کرنا جائز ہے تاہم اگر وہ پوڈر وغیرہ استعمال کریں تو بہتر ہے۔ دوسری روایت میں حضور علیہ السلام نے زیرِ ناف بالوں کی صفائی کے لیے چالیس دن کی تحدید فرمائی ہے کہ یہ بال اس عرصہ سے زیادہ دیر تک نہیں رہنے چاہئیں۔ اگر کوئی شخص بلاعذر چالیس دن سے زیادہ عرصہ تک بال صاف نہیں کرتا تو اس کی نماز مکروہ ہوتی ہے۔ البتہ بیمار آدمی یا جس کے اس حصہ جسم میں کوئی تکلیف ہو وہ مستثنٰی ہے۔

(۹) الاختتان

ختنہ کرنا بھی فطری امر اور سنتِ انبیاءؑ میں سے ہے۔ سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام نے ختنہ کیا اور آپ کے بعد یہ تمام انبیاءؑ کی سنت ہے اور ہماری امت میں بھی جاری ہے۔

(۱۰) الانتضاح

استنجا کرنا بھی ضروری ہے۔ عام حالات میں ڈھیلے سے اور اگر نجاست زیادہ ہو تو پانی استعمال کرنا واجب ہو جاتا ہے۔
یہ تمام امور سارے نبیوںؑ کی سنت میں داخل ہیں کیونکہ یہ انسان کی فطرت کا حصہ ہیں۔

مولانا سندھیؒ کا پچاس سالہ یومِ وفات

ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری

مولانا عبید اللہ سندھیؒ ہماری قومی زندگی کی ایک بلند پایہ شخصیت اور ملتِ اسلامیہ ہند و پاکستان کا سرمایہ افتخار تھے۔ انہوں نے لیلائے وطن کی آزادی کے عشق میں اور ملتِ اسلامیہ کی سرخروئی کے لیے وطنِ مالوف میں مقیم زندگی کے عیش و راحت کے مقابلے میں غربت اور جلاوطنی کی چوبیس سالہ زندگی کو قبول کیا تھا اور اس زندگی میں ہر طرح کے آلام و مصائب کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کر لیا تھا۔ وہ جنگِ آزادی کے سورما، انقلابی رہنما، بلند پایہ عالمِ دین، تفسیرِ قرآن میں ایک خالص دبستانِ فکر کے بانی تھے، اور اس دور میں امام ولی اللہ دہلویؒ کے علوم و معارف کے سب سے بڑے شارح اور محقق تھے۔ ان کے افکار کا سرچشمہ قرآنِ حکیم اور علوم و معارفِ ولی اللّٰہی تھے۔
وہ سیال کوٹ (پنجاب) کے ایک سکھ خاندان میں پیدا ہوئے تھے لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد سندھ کے بزرگوں نے ان کے لیے سایۂ عاطفت فراہم کیا تھا۔ اس لیے ان کی محبت میں مولانا نے سندھ کو اپنا وطن بنا لیا تھا۔ اس طرح آبائی سندھی (Son of Soil) نہ ہونے کے باوجود وہ سندھ کے ایک نامور اور قابلِ فخر سپوت تھے۔ ان کی زندگی، افکار اور سیرت میں اہلِ وطن کے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے۔ اسلام قبول کر لینے کے بعد انہوں نے مسلمانوں کی تہذیب و روایات اور تاریخ سے اپنا رشتہ جوڑ لیا تھا لیکن وہ جدید دور کے ایک اعلٰی دماغ، روشن خیال اور بلند فکر انسان بھی تھے۔
وہ مسلمانوں کی انفرادی زندگی کی اصلاح، فکر کی تربیت، اخلاق کی تہذیب، سیرت کی تشکیل، اور اجتماعی قومی زندگی کی تنظیم سے لے کر متحدہ انسانیت کے قیام تک کے لیے ایک جامع فکر کی حامل شخصیت تھے۔ ان کے انقلابی افکار میں ملک کی تعمیر و ترقی، قومی حکومت کے قیام، اور معاشی، اقتصادی، مذہبی فرقہ وارانہ مسائل کے حل کے لیے وقت کی سب سے بڑی رہنمائی پوشیدہ ہے۔ اس وقت پاکستان میں لسانی اور علاقائی قومیتوں کے بڑھتے ہوئے رجحانات، مذہبی جنون کے پھیلتے ہوئے زہر، لاقانونیت کے نشو و ارتقا پاتے ہوئے عفریت، علیحدگی پسندی کے پھیلتے ہوئے تباہ کن نظریات، اور بے دینی کے پھوٹ پڑنے والے فساد کا کوئی تریاق، اور بھوک، افلاس، جہالت اور ہر طرح کے علاقائی، صوبائی اور بین الملکی مسائل کا کوئی حل موجود ہے تو امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی کے افکار ہیں۔
مولانا سندھی مرحوم کے افکار اور ان کی بنیاد پر سماجی اور قومی زندگی کی تشکیل ہی پاکستان کو ایک دینی اسٹیٹ رکھتے ہوئے تمام ملکی و قومی مسائل کو حل کر سکتی ہے اور اقوامِ عالم میں پاکستان کے بلند مقام کی ضمانت ثابت ہو سکتے ہیں۔ مولانا سندھی کے افکار کو اپنائے بغیر نہ طبقاتی کشمکش کا حل دریافت کیا جا سکتا ہے، نہ فرقہ واریت کے فتنے کا سدباب ممکن ہے، اور نہ پاکستان کے رفاہی و فلاحی مملکت کے نصب العین کا حصول ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
انہی خیالات کے پیشِ نظر اس سال ۲۲ اگست ۱۹۹۴ء کو امامِ انقلاب مولانا سندھی کے پچاس سالہ یومِ وفات کی تقریب سے مرحوم کے عقیدت کیشوں اور ارادت مندوں نے عزم کیا ہے کہ مولانا سندھی کے افکار اور سرچشمۂ افکار قرآنِ حکیم اور علوم و معارف ولی اللّٰہی کے مطالعہ و تحقیق کے ایک نئے دور کا آغاز کیا جائے اور اس سلسلے میں:
(۱) مولانا عبید اللہ سندھی کے افکار، ان کے سرچشموں، مولانا مرحوم کے سوانح، سیرت اور خدمات کے پہلوؤں پر کتاب کی تالیف و تدوین کا انتظام کیا جائے۔
(۲) اخبارات و رسائل کی خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا جائے۔
(۳) ملک کے تمام صوبوں کے مرکزی شہروں میں سیمیناروں اور مذاکروں کا انعقاد کیا جائے۔
(۴) مولانا عبید اللہ سندھی سے عقیدت اور ان کے افکار اور ان کے سرچشموں سے استفادے کا ذوق رکھنے والوں میں ربط پیدا کر کے ملک و قوم کی عملی خدمت کی ایک مستقل تحریک پیدا کر دی جائے۔
اس سلسلے میں پاکستان و ہندوستان کے تقریباً ایک سو روزناموں، ہفت روزوں اور ماہناموں کو اردو، انگریزی اور سندھی مضامین کی فراہمی کے انتظامات، نیز کراچی، حیدرآباد، لاہور، پشاور (اور کسی اور شہر میں بھی) سیمیناروں اور سمپوزیم (مذاکروں) کے انعقاد کے انصرامات، اور سندھی، اردو اور انگریزی زبانوں میں کتابوں کی اشاعت کے مسائل درپیش ہیں۔ تجویز یہ ہے کہ
(الف) مختلف شہروں میں جہاں امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی کے معتقدین خاصی تعداد میں موجود ہوں، وہ باہم صلاح و مشورہ سے شہری/علاقائی، انتظامی کمیٹیاں تشکیل دے لیں۔
(ب) سیمینار اور مذاکرے جس شہر میں منعقد ہوں وہاں کی کمیٹیاں اپنے حالات و وسائل کے مطابق ان کا انتظام کریں۔
(ج) مولانا سندھی مرحوم کی یاد میں مقامی (شہری/علاقائی) اخبارات و رسائل کے خصوصی نمبروں اور کتابوں کی اشاعت کا انتظام کریں۔ ’’مولانا عبید اللہ سندھی نیشنل کمیٹی پاکستان‘‘ کے پیشِ نظر تین طرح کی تالیفات پیشِ نظر ہیں:
(۱) مولانا سندھی پر تالیفات،
(۲) مولانا سندھی کی تصنیفات، تراجم اور آثارِ علمیہ باقیہ،
(۳) مولانا سندھی کی یاد میں (دوسری شخصیات، ملی تحریکات اور علمی و فکری موضوعات پر) تصنیفات و تالیفات۔
(د) اس وقت تک مندرجہ ذیل تالیفات تیار ہو چکی ہیں اور صرف نظرِثانی میں اصلاح و ترمیم و اضافہ کا بہت تھوڑا کام باقی ہے۔

مولانا سندھی پر کتابیں

(۱) امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی ۔ ایک مطالعہ (۲) تحریک ریشمی خطوط اور سندھ (۳) معارف عبید اللّٰہی ۔ ایک کتابیاتی جائزہ (۴) مولانا عبید اللہ سندھی اور دارالعلوم دیوبند سے ان کا اخراج ۔ پس منظر کے واقعات و شخصیات پر ایک نظر (۵) مولانا عبید اللہ سندھی ۔ شخصیت و سیرت (سندھی)

مولانا سندھی کے افادات

(۶) مولانا عبید اللہ سندھی کے سیاسی مکتوبات (۷) مولانا عبید اللہ سندھی کا انقلابی منصوبہ ۔ آزاد وطن کے بارے میں مولانا سندھی کا سروراجی پروگرام

مولانا سندھی کی یاد میں

(۸) شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ۔ ایک سیاسی مطالعہ (۹) کلیاتِ شیخ الہند ۔ مولانا محمود حسن دیوبندی کے اردو، فارسی کلام کا مجموعہ۔
اس سلسلے میں اور بھی کئی چیزیں ہیں جو شائع کی جا سکتی ہیں۔ مذکورۃ الصدر میں ۱ تا ۵ اور نمبر ۷ مولانا عبید اللہ سندھیؒ اکیڈمی (کراچی) کی، نمبر ۶ ندوۃ المصنفین (لاہور) کی، اور ۸، ۹ مجلسِ یادگار شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ (کراچی) کی تالیفات ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی اشاعت کا انتظام ہو گیا ہے۔
(ہ) پاکستان (اور ہندوستان) کے تقریباً سو اخبارات و رسائل کی خصوصی اشاعتوں کے لیے اردو، سندھی اور انگریزی کے قریباً چار سو مضامین کی فراہمی، ان میں کچھ مضامین کے مختلف زبانوں میں تراجم کروانے، ان کے فوٹو اسٹیٹ بنوانے اور انہیں ہر شہر کے اخبارات و رسائل کو ڈاک یا کارکنان کے ذریعے بجھوانے کے انتظامات کرنا ہیں۔
(ر) اگر کوئی صاحبِ قلم یا ناشر اپنے طور پر کوئی کتاب شائع کریں تو ان سے گزارش ہے کہ وہ مولانا عبید اللہ سندھیؒ نیشنل کمیٹی پاکستان کو اپنے عزم سے مطلع فرمائیں اور اپنی تصنیف و تالیف کے لیے نیشنل کمیٹی کا یادگاری صفحہ یا اس کا مضمون اور سلسلہ مطبوعات کا نمبر حاصل کر لیں تاکہ ان کے مساعی بھی اس یادگاری پروگرام سے مربوط ہو جائیں۔
(ز) امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی کے پچاس سالہ یومِ وفات کے حوالے سے نیشنل کمیٹی کے پیشِ نظر بعض ضروری کاموں/تالیفات کی تکمیل ابھی باقی ہے۔
اس سلسلے میں:
(۱) انگریزی زبان میں ایک تصنیف، تالیف یا مجموعہ مضامین کی اشاعت ہونی چاہیے۔ یہ مضامین پہلے سے لکھے ہوئے مہیا ہو جائیں، نئے لکھوائے جائیں، یا اردو، سندھی سے ترجمہ کروا لیے جائیں۔
(۲) اردو، سندھی میں کئی اور اہم موضوعات پر بھی کتابیں آنی چاہئیں، ان میں سے چند یہ ہو سکتی ہیں:
(الف) مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کے شیوخ و اساتذہ: اس کتاب میں سید العارفین حضرت امروٹی، حضرت دین پوری، حضرت شیخ الہند، حضرت گنگوہی، مولانا سید احمد، حافظ محمد احمد، میاں نذیر حسین، لکھنؤ اور رام پور وغیرہ کے بعض اساتذہ، پیر جھنڈا کے بعض بزرگ اور دیگر شخصیات جن سے استفادۂ دروس کا اعتراف اور ذکر مولانا سندھی نے عقیدت اور احترام کے ساتھ کیا ہے۔
(ب) مولانا سندھی اور ان کے معاصرین: اس کتاب میں مولانا سندھی کے تعلقات، افکار اور علمی، دینی، سیاسی ذوق کی ہم آہنگی کے حوالے سے ان اکابر شخصیات کا تذکرہ ہونا چاہیے: مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ محمد اقبال، ڈاکٹر ذاکر حسین، اللہ بخش سومرو شہید، مولانا محمد صادق، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا محمد علی، مسٹر محمد علی جناح، بعض غیر مسلم کانگریسی رہنماؤں (مثلاً سوبھاش چندر بوس، جواہر لال نہرو، گاندھی جی وغیرہ) کے علاوہ بعض اور شخصیات کو شامل کیا جا سکتا ہے۔
(ج) مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کے تلامذہ: یہ بہت بڑا اور اہم موضوع ہے، اور اگر اس کے عنوان میں ’’اور ان کی علمی، دینی اور ملی خدمات‘‘ کا اضافہ کر لیا جائے تو یہ پی ایچ ڈی کے لیے ایک عظیم الشان موضوع قرار پائے گا۔ اس کتاب میں میرے علم اور سرسری مطالعے کے مطابق بہ ترتیبِ عہد اِن حضرات کا تذکرہ ہونا چاہیے:
(۱) ابتدائی دور کے تلامذہ: مولانا عبد القادر دین پوری، مولوی کمال الدین (بھرچونڈی)، مولوی محمد اکرم ہالانی، مولوی عبد الوہاب کولاچی، مولانا محمد (نہری)، پیر ضیاء الدین راشدی (پیرجھنڈا)، مولانا احمد علی لاہور، اور مولوی محمد علی و عزیز احمد (اخوان)، مولوی امید علی جیکب آبادی، مولانا عبد الرزاق بستی خیرا، مولانا عبد اللہ لغاری۔
(۲) دورانِ قیامِ دیوبند و دہلی کے تلامذہ: مولوی مظہر الدین شیرکوٹی، مولانا خواجہ عبد الحی فاروقی، مولوی انیس احمد، قاضی ضیاء الدین، پیر مصباح الدین اور دیگر حضرات۔
(۳) افغانستان کے قیام کے دور کے تلامذہ: ظہیر حسن ایبک، خوشی محمد، محمد وارث بٹ، شیخ عبد القادر، عبد النبی۔
(۴) تاشقند کے سفر کے دوران میں علامہ موسٰی جار اللہ نے بعدہ مولانا کے قیامِ مکہ کے زمانے میں استفادہ کیا۔
(۵) مکہ مکرمہ کے روز قیام کے تلامذہ: علامہ موسٰی جار اللہ، مولانا محمد طاہر پنج پیری، مولوی عبد الوہاب مکی، مرشد محمد نور مکی، شیخ عمر فاروق حبشی، مولوی عبد اللہ عمر پوری، مولوی محمد اسماعیل گودھروی، ایک نامعلوم الاسم، ایک انڈونیشی، شیخ محمد بن عبد الرزاق، داد شاہ بن ریحان الحق، پروفیسر محمد سرور، ڈاکٹر فیروز الدین، ایک برطانوی جاسوس جو دو سال تک قرآن پڑھتا رہا۔
(۶) وطن واپسی کے بعد کے تلامذہ: ان حضرات نے کراچی، پیرجھنڈا، لاہور، دہلی وغیرہ میں مولانا سندھی کے سامنے زانوئے ادب تہ کیا تھا: مولانا غلام مصطفٰی قاسمی، مولوی عسل محمد کاکے بوتو، مولانا عبد الحق ربانی، مولوی خلیل احمد، مولوی نور محمد نور، مولوی محمد وارث دل، مولوی شیخ عبد المجید امجد، مولوی عزیز اللہ جروار، میاں ظہیر الحق دین پوری، بشیر احمد لودھیانوی، مقبول احمد، غازی خدا بخش، پیر وہب اللہ شاہ راشدی، ڈاکٹر خواجہ عبد الرشید، مولوی دین محمد وفائی، مولوی محمود، مولوی عبد الغفور، مولوی محمد یوسف ندوی، مولانا عبید اللہ انور، قاضی مولوی عبد الرزاق، علامہ محمد صدیق بہاول پوری۔
(۷) غیر رسمی طور پر بھی مولانا سندھی کے درس و افادہ سے فیضیاب ہونے والوں کی ایک طویل فہرست ہے، مثلا: مولانا محمد اسماعیل غزنوی، مولانا غلام رسول مہر، مولانا سعید احمد اکبر آبادی، خواجہ عبد الوحید، سردار محمد امین خان کھوسو۔
اس کتاب میں ہر تلمیذ کو اتنی ہی جگہ ملنی چاہیے جتنی جگہ کا وہ اپنی تلمیذانہ حیثیت کے مطابق مستحق ہے۔ اس کتاب کی شخصیات کے حالات، ان کی تلمیذانہ حیثیت اور ان کے علمی و عملی کاموں پر نقد و تبصرہ میں متعدد حضرات حصہ لے سکتے ہیں۔ لیکن مجلسِ علمی (اکیڈمک کمیٹی) کسی صاحبِ قلم کے مضمون یا اس کے کسی حصے کو رد بھی کر سکتی ہے، اور اس کے مضمون کے صرف کسی حصے کو اس کی علمی کاوش کے اعتراف کے ساتھ لے سکتی ہے۔ کتاب کو متوازن اور ایک خاص ضخامت میں رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ البتہ اپنے طور پر شائع کرنے کے لیے ہر صاحبِ علم اور ناشر قطعاً آزاد ہو گا۔
اس پروگرام کو کامیاب بنانے اور اس موقع پر پاکستان اور ہندوستان میں ہونے والے تمام کاموں کو مربوط کرنے کے لیے نیشنل کمیٹی کو مولانا سندھی کے تمام عقیدت مندوں کے تعاون اور اربابِ وسائل اور اصحابِ عزائم و ہمم کی سرپرستی و رہنمائی کی ضرورت ہے۔ امامِ انقلاب مولانا سندھی مرحوم پر مصنفین اور مقالہ نگار اور ان پر تصنیفات و تالیفات شائع کرنے کے خواہشمند (ناشرین) حضرات بھی کمیٹی سے رجوع فرمائیں۔ کمیٹی کی جانب سے بھی اہلِ قلم اور اربابِ فکر و نظر سے رجوع کیا جائے گا۔
ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری
ڈائریکٹر مولانا عبید اللہ سندھی اکیڈمی پاکستان
آرگنائزر مولانا عبید اللہ سندھی نیشنل کمیٹی پاکستان
رابطہ کے لیے: 9/1 علی گڑھ کالونی، کراچی 75800

ایسٹر سنڈے ۔ نظریات اور رسوم کا ایک جائزہ

محمد یاسین عابد

ایسٹر مسیحی دنیا کا خاص تہوار ہے۔ مسیحی عقائد کے مطابق یسوع نے صلیب پر وفات پائی، جمعہ کے روز شام کو دفن ہوئے اور تیسرے روز اتوار کی صبح مردوں میں سے جی اٹھے (دیکھیے بالترتیب متی ۲۷: ۳۵ و ۶۰ اور لوقا ۲۴: ۵، ۶)۔ ایسٹر کا تہوار یسوع مسیح کے دوبارہ جی اٹھنے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ پادری ایف ایس خیر اللہ لکھتے ہیں:
’’اس کی تاریخ ۲۲ مارچ اور ۲۵ اپریل کے درمیان ہوتی ہے، یعنی موسمِ بہار کے اس دن کے بعد جب دن اور رات برابر ہوتے ہیں (۲۱ مارچ)، اس کی تاریخ معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے، ۲۱ مارچ یا اس کے بعد جس تاریخ کو پورا چاند ہو، اس کے بعد کا پہلا اتوار ایسٹر ہو گا، لیکن اگر پورا چاند اتوار کے دن ہو تو اس سے اگلا اتوار ایسٹر ہو گا۔‘‘ (قاموس الکتاب ص ۱۰۸ کالم ۲)۔
چنانچہ اس سال ۳ اپریل کو ایسٹر منایا جا رہا ہے۔

عقیدہ کفارہ

عیسائی نظریات کے مطابق یسوع کے مصلوب ہونے کی بنا عقیدہ کفارہ پر ہے، انجیل میں ہے:
’’مسیح جو ہمارے لیے لعنتی بنا اس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھڑایا کیونکہ لکھا ہے کہ جو کوئی لکڑی پر لٹکایا گیا وہ لعنتی ہے۔‘‘ (گلتیوں ۳: ۱۳)
بائبل کے قوانین کے مطابق کفارہ کا نظریہ بالکل باطل ہے۔
(الف) حضرت داؤد علیہ السلام خدا کے متعلق فرماتے ہیں:
’’اس کی کسی نعمت کو فراموش نہ کر وہ تیری ساری بدکاری کو بخشتا ہے۔‘‘ (زبور ۱۰۳: ۲، ۳)
اگر خدا توبہ کرنے والوں کی ساری گناہگاری اور بدکاری کو بخش دیتا ہے تو کفارے کی کیا ضرورت ہے؟ مزید فرمایا:
’’اس نے ہمارے گناہوں کے موافق ہم سے سلوک نہیں کیا اور ہماری بدکاریوں کے مطابق ہم کو بدلہ نہیں دیا، کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اسی قدر اس کی شفقت ان پر ہے جو اس سے ڈرتے ہیں۔‘‘ (زبور ۱۰۳ : ۱ تا ۱۱)
(ب) ایک کا گناہ دوسرے کے سر تھوپنے سے متعلق توریت میں ہے:
’’بیٹوں کے بدلے باپ مارے نہ جائیں، نہ باپ کے بدلے بیٹے مارے جائیں۔ ہر ایک اپنے ہی گناہ کے سبب سے مارا جائے۔‘‘ (استثنا ۲۴ : ۱۶ و ۲۔تواریخ ۲۵ : ۴ و یرمیاہ ۳۱ : ۱۹ و ۳۰ حزقی ایل ۱۸ : ۲۰ تا ۲۲)
(ج) انسان سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں جس کے لیے توریت میں مختلف طریقوں سے کفارہ ادا کر دینے کا حکم اور معافی مل جانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی (دیکھیے گنتی ۱۵ : ۲۲ تا ۲۹ و احبار ۱۴ : ۲۰ و ۸ : ۳۴)۔ پھر عام کفارہ کا بھی قانون مقرر کیا:
’’اور یہ تمہارے لیے ایک دائمی قانون ہو کہ ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو تم اپنی اپنی جان کو دکھ دینا اور اس دن کوئی، خواہ وہ دیسی ہو یا پردیسی جو تمہارے بیچ بود و باش رکھتا ہو، کسی طرح کا کام نہ کرے کیونکہ اس روز تمہارے واسطے تم کو پاک کرنے کے لیے کفارہ دیا جائے گا سو تم اپنے سب گناہوں سے خداوند کے حضور پاک ٹھہرو گے۔‘‘ (احبار ۱۶ : ۲۹ و ۳۰)
جب پوری قوم گناہوں سے پاک ہو گئی اور یہ دائمی حکم ٹھہرا اور ہر سال ایسا کرنے کو کہا پھر بھلا یسوع کو صلیب پر چڑھانے کی کیا ضرورت رہ گئی؟
(د) بائبل مقدس میں قانونِ خداوندی درج ہے کہ
’’شریر صادق کا فدیہ ہو گا اور دغا باز راست بازوں کے بدلہ میں دیا جائے گا۔‘‘ (امثال ۲۱ : ۱۸)
لہٰذا خدا نے بت پرست اقوام کو مار کر بنی اسرائیل کا کفارہ دیا:
’’میں نے تیرے فدیہ میں مصر کو اور تیرے بدلے کوش اور سبا کو دیا۔ چونکہ تو میری نگاہ میں بیش قیمت اور مکرم ٹھہرا اور میں نے تجھ سے محبت رکھی اس لیے میں تیرے بدلے لوگ اور تیری جان کے عوض امتیں دے دوں گا تو خوف نہ کرنا کیونکہ میں تیرے ساتھ ہوں۔‘‘ (یسعیاہ ۴۳ : ۳ تا ۵)
معلوم ہوا کہ کفارہ ایسے لوگوں کے لیے دیا جاتا ہے جو بیش قیمت اور مکرم ہوں، جن سے خدا کو محبت ہو اور جن کے ساتھ خدا ہو، اور کفارہ کے لیے ایسے لوگوں کو مارا جاتا ہے جو خدا کو پیارے نہیں، جو مکرم نہیں، جو شریر اور دغاباز ہوں اور خدا جن کے ساتھ نہ ہو۔ لہٰذا نصِ بائبل سے مسیح کا مصلوب ہونا درست نہیں کیونکہ یسوع راست باز تھا (متی ۲۷ : ۱۹، ۲۴ و لوقا ۲۳ : ۲۷ و اعمال ۳ : ۱۴)، نبی تھا (متی ۱۳ : ۵۷ اور ۱۴ : ۵ اور ۲۱ : ۱۱ و لوقا ۷ : ۱۶) اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا اس کے ساتھ تھا (یوحنا ۸ : ۲۹) پھر بھلا خدا اپنے محبوب بندے کو ایسی موت کیوں دیتا جو باعثِ رسوائی ہو؟ (گلتیوں ۳ : ۱۳)
(ہ) خدا نے عہدِ عتیق میں وعدہ فرمایا تھا کہ مسیح موجودہ دنیا اور آخرت میں با آبرو اور مقربوں میں سے ہو گا، چنانچہ زبور میں ہے:
’’خداوند تیری تمام درخواستیں پورے کرے اب میں جان گیا کہ خداوند اپنے ممسوح کو بچا لیتا ہے۔‘‘ (زبور ۲۰ : ۵ و ۶)
لہٰذا جب یسوع نے انتہائی دلسوزی اور تضرع کے ساتھ رو رو کر مصلوبیت سے بچنے کے لیے خدا کے حضور دعائیں کیں (متی ۲۶ : ۳۶ تا ۳۹، مرقس ۱۴ : ۳۵) تو خدا کے فرشتہ نے نازل ہو کر آپ کو تسلی دی کہ بے فکر رہیں آپ مصلوب نہ ہوں گے (لوقا ۲۲ : ۴۳) چنانچہ آپ کی اشک بار دعائیں اور التجائیں قبول ہوئیں اور خدا نے آپ کو مصلوبیت سے بچا لیا (عبرانیوں ۵ : ۷) اور سالم کے بادشاہ ملک صدق کی طرح (عبرانیوں ۵ : ۱) طویل زندگی عطا فرمائی (عبرانیوں ۷ : ۳)۔ حضرت داؤد علیہ السلام یوں نبوت فرماتے ہیں:
’’اس نے تجھ سے زندگی چاہی اور تو نے بخشی بلکہ عمر کی درازی ہمیشہ کے لیے۔‘‘ (زبور ۲۱ : ۴)
خدا نے خود بھی فرمایا تھا کہ
’’وہ مجھے پکارے گا اور میں اسے جواب دوں گا، میں مصیبت میں اس کے ساتھ رہوں گا، میں اسے چھڑاؤں گا اور عزت بخشوں گا، میں اسے عمر کی درازی سے آسودہ کروں گا۔‘‘ (زبور ۹۱ : ۱۵ و ۱۶)
خدا وعدہ خلافی نہیں کرتا لہٰذا خدا نے آپ کو مصلوب ہونے سے بچا لیا۔ مصلوبیت سے بچنے کے لیے مسیح کی دعائیں، التجائیں، رونا اور گڑگڑانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کفارہ بن جانا نہ چاہتے تھے بلکہ خدا کے حضور دعاگو تھے کہ بدکاروں، گناہگاروں اور لفنگوں کو سزا دی جائے، چنانچہ زبور میں ہے:
’’ان کی آنکھیں تاریک ہو جائیں تاکہ وہ دیکھ نہ سکیں اور ان کی کمریں ہمیشہ کانپتی رہیں، اپنا غضب ان پر انڈیل دے اور تیرا شدید قہر ان پر آ پڑے، ان کا مسکن اجڑ جائے ۔۔۔۔ ان کے گناہ پر گناہ بڑھا اور وہ تیری صداقت میں داخل نہ ہوں۔‘‘ (زبور ۶۹ : ۲۳، ۲۷)
رومن کیتھولک بائبل میں یہ عبارت مزمور ۶۸ : ۲۴ تا ۲۹ میں ہے، اور حاشیہ میں اس مزمور کو یسوع مسیح کے الفاظ قرار دیا ہے۔ اب آپ غور فرمائیں کہ حضرت مسیح کس بے قراری سے مجرموں سے ظالموں کے لیے عذابِ الٰہی مانگ رہے ہیں بلکہ یہاں تک دعا کر رہے ہیں کہ وہ خدا کی صداقت کو سمجھ تک نہ سکیں کیونکہ جو سچے دل سے خدا کا طالب ہو وہ فلاح پاتا ہے (یرمیاہ ۲۸ : ۱۳) لیکن مسیح چاہتے تھے کہ گنہگار حق کو نہ پہچان پائیں ایسا نہ ہو کہ سیدھے راستے پر چلیں اور سزا سے بچ جائیں (یوحنا ۱۲ : ۴ و ۲، تھسلینیکیوں ۲ : ۱۱) اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ مسیح نے دنیا جہان کے پاپیوں، گنہگاروں، زانیوں، لفنگوں اور تلنگوں کے لیے صلیب پر چڑھ کر جان دے دی۔

واقعہ تصلیب

اب ذرا اناجیل میں مذکور واقعہ تصلیب کی حقیقت ملاحظہ فرمائیے:
زبور میں یہ بشارت دے دی گئی تھی کہ مسیح گرفتار نہ ہو سکیں گے بلکہ فرشتے آپ کو اٹھا کر آسمان پر لے جائیں گے کہ آپ کے مبارک قدموں کو ٹھیس  تک نہ لگے (زبور ۹۱ : ۱۰ تا ۱۲ و متی ۴ : ۶)۔ حضرت مسیح کو بھی خدائی وعدوں پر مکمل بھروسہ تھا لہٰذا آپ نے لوگوں کو بتا دیا تھا کہ تم سب اسی رات میرے متعلق شک میں مبتلا ہو جاؤ گے (متی ۲۶ و ۳۱)۔ اور فرمایا کہ جس طرح  یوناہ تین رات تین دن مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا اور لوگ مردہ سمجھتے رہے اس طرح وہ بھی تین رات تین دن زندہ سلامت ہوں گے اور لوگ آپ کو مردہ سمجھتے رہیں گے (متی ۱۲  ۳۹ و ۴۰)۔ مسیح نے اس واقعہ کو اپنا واحد معجزہ قرار دیا اور فرمایا کہ یہود اپنے گناہ میں مرتے اور آپ کو ڈھونڈتے رہیں گے لیکن ڈھونڈ نہ پائیں گے کیونکہ یہود کی رسائی وہاں تک نہیں۔ یہود زمین پر رہیں گے اور  آپ آسمان پر تشریف لے جائیں گے (یوحنا ۸ : ۲۱ تا ۲۴ و ۷ : ۳۳ و ۳۵)۔
خدا نے مسیح کو یہ معجزہ عطا فرمایا کہ آپ جب چاہتے اچانک لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جایا کرتے تھے (یوحنا ۸ : ۵۹ اور ۱۲ : ۳۶ اور ۱۰ : ۳۹ و لوقا ۴ : ۲۹ و ۳۰ اور ۲۴ : ۳۱) لہٰذا جب حواریوں نے مسیح کی خاطر اپنی نیند تک کی قربانی نہ دی (متی ۲۶ : ۴ و مرقس ۱۴ : ۳۸) اور پکڑنے والے پہنچ گئے تو حضرت مسیح اچانک غائب ہو گئے جیسا کہ بائبل مقدس میں ہے کہ شریر اپنی ہی شرارت سے گر پڑے گا ۔۔ صادق مصیبت سے رہائی پاتا ہے اور شریر اس میں پڑ جاتا ہے (امثال ۱۱ : ۵ تا ۸)۔ کیتھولک بائبل میں ہے کہ شریر اس کی جگہ میں آجاتا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا صادق (مسیح) نے رہائی پائی اور شریر غدار یہوداہ اسکریوتی اسی مصیبت میں مبتلا ہو گیا اور معجزانہ طور پر مسیح کا ہم شکل بن گیا، جیسا کہ انجیل برنباس میں ہے:
’’تب اللہ نے ایک عجیب کام کیا پس یہوداہ بولا اور چہرے میں بدل کر یسوع کے مشابہ ہو گیا‘‘ (برنباس ۲۱۶ : ۳ و ۴) ’’پس سپاہیوں نے یہوداہ کو پکڑ لیا‘‘ (برنباس ۲۱۷ : ۱)

یہوداہ خوب رویا چلایا کہ وہ مسیح نہیں ہے لیکن اس کی کون سنتا تھا، تمام حواری جو سوئے پڑے تھے انہوں نے مسیح کے اچانک غائب ہو جانے اور یہوداہ کی شکل تبدیل ہو جانے کا منظر نہ دیکھا لیکن سپاہیوں اور یہوداہ اسکریوتی کے شور و غوغا کی وجہ سے جب ان کی آنکھ کھلی تو اپنے استاد یسوع کو گرفتار و پریشان پایا تو تمام حواری اپنے خیال کے مطابق یسوع مسیح کو گرفتاری کے عالم میں مار کھاتا پیٹتا چھوڑ کر بھاگ گئے (مرقس ۱۴ : ۵۰ و ۵۱ اور متی ۲۶ : ۵۲) ۔۔۔ مسیح نے فرمایا تھا کہ جب تم مجھے چھوڑ کر بھاگ جاؤ گے تو تب بھی میں اکیلا نہ ہوں گا بلکہ اللہ میرے ساتھ ہو گا اور میری حفاظت کرے گا (یوحنا ۱۶ :  ۳۲) پطرس جانتا تھا کہ مسیح غائب ہو چکے ہیں اور یہوداہ غدار پکڑا گیا ہے چنانچہ وہ فاصلہ رکھ کر پیچھے پیچھے ہو لیا کہ غدار یہوداہ اسکریوتی کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھے، کچھ لوگوں نے پطرس کو ملزم کا ساتھی قرار دیا تو پطرس نے گرفتار ہونے والے ملزم (یہوداہ اسکریوتی) پر لعنتیں بھیجیں اور اس کا ساتھی ہونے سے صاف انکار کر دیا (لوقا ۲۲ : ۵۷ و ۵۸ ، مرقس ۱۴ : ۲۶ تا ۷۱ ، متی ۲۶ : ۷۲ و ۷۳) اگر گرفتار ہونے والا یسوع ہوتا تو پطرس جیسا عظیم حواری اپنی گردن اتروا لیتا لیکن اپنے ہادی و مربی کا انکار نہ کرتا اور نہ ہی لعنت کرنے کی جرات کرتا۔ مصلوبیت کے وقت یہوداہ سمجھ گیا تھا کہ یسوع شکل تبدیل کیے اپنی پریشان ماں کے پاس کھڑا ہے کیونکہ حضرت مسیح کا یہ مشہور معجزہ تھا کہ بوقت ضرورت شکل تبدیل فرما لیا کرتے تھے (لوقا ۹ : ۲۹ اور ۲۴ : ۱۵ تا ۲۳ ، یوحنا ۲۰ : ۱۴ اور ۲۱ : ۴) چنانچہ مصلوب نے مقدسہ مریم کو پکار کر کہا کہ ’’اے عورت دیکھ تیرا بیٹا یہ ہے‘‘ (یوحنا ۱۹ : ۲۶ و ۲۷) اگر مصلوب ہونے والا یسوع ہوتا تو وہ ایسے وقت میں جبکہ ماں غم سے نڈھال تھی اس کو اے عورت کہہ کر تحقیر نہ کرتا اور مزید دکھی نہ کرتا۔

مسیحی حضرات کہتے ہیں کہ یسوع کے بعد مریم کا کوئی سہارا نہ تھا اس لیے آخری وقت میں اس نے بے سہارا ماں کو ایک شاگرد کے سپرد کیا۔ لیکن ہم عرض کریں گے کہ جبکہ یسوع جانتا تھا کہ اسے تیسرے روز جی اٹھنا ہے تو اسے اپنی ماں کو کسی کے حوالے کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ جی نہ اٹھنے کے بعد ہی کوئی انتظام کر دیا ہوتا بلکہ مصلوبیت سے پہلے ہی یہ کام کیا ہوتا کیونکہ انجیل کے مطابق یسوع کو سب کچھ پہلے ہی معلوم تھا (مرقس ۸ : ۳۱ ، متی ۱۶ : ۲۱) اور پھر یسوع کو ضرورت ہی کیا تھی کہ ماں کو ایک غیر محرم کے حوالے کر دیتا جبکہ مریم رشتے داروں والی تھی (لوقا ۱ : ۳۶) اور انجیل میں یہ بھی کہیں نہیں لکھا کہ یوسف نجار فوت ہو چکا تھا۔ عورت کے لیے شوہر سے بڑا اور کونسا سہارا ہو سکتا ہے؟ بالفرض مان لیا کہ یوسف فوت ہو چکا تھا لیکن ہم بر سبیل الزام کہتے ہیں کہ جب بھی مریم کو شاگرد کے ساتھ جانے کی کوئی ضرورت نہ تھی کیونکہ بقول انجیل مریم اور یوسف نجار کے اور بھی بیٹیاں تھیں اور یسوع کے سگے بھائی تھے، اس بات کو تقویت لفظ ’’پہلوٹھے‘‘ کے استعمال سے ہوتی ہے (لوقا ۲ : ۷)۔ متی ۱ : ۲۵ سے بھی یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ یسوع کی پیدائش کے بعد میاں بیوی کا ازدواجی تعلق قائم ہوا۔ چوتھی صدی میں اس نظریہ کی حمایت ہل ویڈیس (Helvidius) نے کی، لیکن راہبانہ تحریک کے بڑھتے ہوئے اثر نے، جو مقدسہ مریم کی دائمی دوشیزگی کی قائل تھی، اسے ایک بدعت قرار دیا۔ پروٹسٹنٹ کلیسیا کا بڑا حصہ اس عقیدے کا حامی ہے (قاموس الکتاب ص ۱۶۰ کالم ۲)۔ یعقوب کے خط کے مصنف کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’پروٹسٹنٹ اعتقاد کے مطابق یہ یعقوب یسوع مسیح کا سگا بھائی تھا‘‘ (ایضاً ص ۱۱۵۰ کالم ۲ سطر آخری)۔ مزید لکھا ہے: ’’یسوع مسیح کے خاندان کے بارے میں جو حوالجات ملتے ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح کے بعد مقدسہ مریم کے اور بچے بھی ہوئے (مرقس ۶ : ۳ ، متی ۱۲ : ۴۶ تا ۵۰)۔ پروٹسٹنٹ مسیحی یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا انکار کرنے کی پشت پر وہ جذبہ کارفرما ہے جس کے تحت دوشیزگی کے مقابلہ میں شادی کو گھٹیا تصور کیا جاتا ہے (ایضاً ص ۱۱۵۱ کالم ۱)۔ پس اتنے سارے بیٹے بیٹیاں اور اتنا بڑا خاندان ہوتے ہوئے حضرت مریمؑ کو ایک نامحرم غیر شخص کے ساتھ جانے کی کیا ضرورت تھی؟ لہٰذا ثابت ہوا کہ مریم کے پاس کھڑا ہوا شخص یسوع ہی تھا۔

صلیب دے دینے کے بعد بھی جنونی یہودیوں کے دل سے مسیح دشمنی کی آگ سرد نہ ہوئی لہٰذا اسی رات یہودی قبر سے لاش چرا کر لے گئے اور رات کے اندھیرے میں ہی لاش کو مسخ کر کے باہر کھیت میں گرا دیا۔ اب یہوداہ کی لاش اپنی اصل شکل و صورت میں تھی لیکن لاش چرانے والے اندھیرے اور گھبراہٹ کی وجہ سے پہچان نہ سکے، انہوں نے لاش کا سر کچل دیا اور پیٹ چاک کر کے انتڑیاں باہر نکال دیں، دن چڑھے جب لوگوں نے کھیت میں پڑی یہوداہ اسکریوتی کی مسخ شدہ لاش دیکھی تو مختلف قسم کی افواہوں نے جنم لیا۔ کچھ کا خیال تھا کہ وہ روپیوں کو مقدس میں پھینک کر چلا گیا اور جا کر اپنے آپ کو پھانسی دی (متی ۲۷ : ۵) لیکن بعض سوچتے تھے کہ اس نے کھیت میں خود کو کس طرح پھانسی دی؟ اور اگر پھانسی دی ہوتی تو اس کا سر کیسے پچک گیا اور اس کی انتڑیاں کیسے باہر آ گئیں؟ لہٰذا اکثر کا خیال تھا کہ اس نے بدکاری کی کمائی سے ایک کھیت حاصل کیا اور سر کے بل گرا اور اس کا پیٹ پھٹ گیا اور اس کی سب انتڑیاں نکل پڑی (اعمال ۱ : ۱۸)۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ شہر سے باہر کھیت میں یہوداہ اتنی زور سے سر کے بل کیسے گرا کہ اس کا سر پچک جائے اور پیٹ پھٹ جائے اور سب کی سب انتڑیاں باہر نکل آئیں؟ سر کے بل گر جانے کی وجہ سے پیٹ کا پھٹ جانا اور وہ بھی اس طرح کے ساری کی ساری انتڑیاں باہر نکل آئیں محال عقلی ہے۔ لہٰذا یہ حقیقت کے زیادہ قریب ہے کہ یہوداہ چونکہ مصلوب ہوا اس لیے لوگوں نے کھیت میں پڑی لاش کو دیکھ کر پھانسی کے آثار پائے اور لاش کو مسخ کیا ہوا اور انتڑیاں نکلی ہوئی دیکھیں تو بعض نے سمجھا کہ یہ سر کے بل گرا ہے اور پیٹ پھٹ گیا۔ بعد میں اس کھیت کا نام ’’ہقل دما‘‘ یعنی خون کا کھیت مشہور ہو گیا (متی ۲۷ : ۷، ۸ و اعمال ۱ : ۹)

جمعہ کے روز صلیب دی گئی، دوسرے روز ہفتہ (سبت) تھا، اس روز یہودی کوئی کام نہیں کرتے (خروج ۲۰ : ۸ تا ۱۱ اور احبار ۲۳ : ۳ و لوقا ۲۴ : ۱) اس لیے کوئی مرد یا عورت قبر پر نہ گیا۔ تیسرے دن یعنی اتوار کو جب قبر کو خالی پایا گیا تو افواہ مشہور ہو گئی کہ یسوع مردوں میں سے جی اٹھا ہے، لیکن راسخ الاعتقاد مسیحی جانتے تھے کہ مسیح مصلوب ہی نہیں ہوا پھر جی اٹھنے کا قصہ ہی غلط ہے۔ چنانچہ مسیح شکل تبدیل کیے لوگوں کے درمیان پھرتے رہے لیکن لوگ آپ کو پہچان نہ پائے (لوقا ۲۴ : ۱۵ تا ۳۲ ، یوحنا ۲۰ : ۱۴ اور ۲۱ : ۴، مرقس ۱۶ : ۱۲)۔

لاش کو قبر سے چرا کر مسخ کر کے کھیت میں پھینکنے والے یہودی حیران تھے کہ جس کی لاش کو انہوں نے پیٹ چاک کر کے اور سر کچل کر کھیت میں پھینکا تھا وہ یسوع کی بجائے یہوداہ اسکریوتی نکلا، پھر یسوع کہاں گیا؟ لہٰذا انہوں نے بزرگوں کے ساتھ جمع ہو کر مشورہ کیا اور سپاہیوں کو بہت سا روپیہ دے کر کہا کہ یہ کہہ دینا کہ رات کو جب ہم سو رہے تھے اس کے شاگرد آ کر اسے چرا لے گئے، اور اگر یہ بات حاکم کے کان تک پہنچی تو ہم اسے سمجھا کر تم کو خطرہ سے بچا لیں گے، پس انہوں نے روپیہ لے کر جیسا سکھایا گیا تھا ویسا ہی کیا، اور یہ بات آج تک یہودیوں میں مشہور ہے اور گیارہ شاگرد کلیل کے اس پہاڑ پر گئے جو یسوع نے ان کے لیے مقرر کیا تھا اور انہوں نے اسے دیکھ کر سجدہ کیا (یعنی تعظیم بجا لائے جیسا کہ عام رواج تھا، مثلاً دیکھو دانی ایل ۲ : ۴۶ ، پیدائش ۳۷ : ۷ و ۱۱ ، متی ۱۸ : ۲۶ و ۲۷ ، سموئیل ۹ : ۸ ۔ عابد) مگر بعض نے شک کیا، یسوع نے پاس آ کر ان سے باتیں کیں (متی ۲۸ : ۱۲ تا ۱۸) اور پورے چالیس دن تک یسوع چپکے چپکے شاگردوں سے ملتا اور احکاماتِ شریعت سمجھاتا رہا۔ یوں شاگردوں پر ثابت کر دیا کہ وہ زندہ ہے مرا نہیں تھا (اعمال ۱ : ۳ و متی ۲۸ : ۹ و مرقس ۱۶ : ۱۴ و لوقا ۲۴ : ۳۶)۔

لہٰذا حواریوں کا ایمان پختہ ہو گیا کہ مسیح مصلوب نہیں ہوئے، چنانچہ پطرس نے اپنی انجیل میں یہی بیان کیا ہے اور ڈوسیٹی کی انجیل اور برنباس کی انجیل (یہ دونوں انجیلیں دوسری صدی عیسوی تک رائج تھیں) میں لکھا ہے کہ مسیح کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا اور یہوداہ اسکریوتی کو مسیح کی جگہ مصلوب کیا گیا۔ ڈاکٹر کے ایل ناصر لکھتے ہیں کہ ۳۰۰ء کے باسیلائڈیز اور ناسٹک فرقوں کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو نہ قتل کیا گیا ہے اور نہ ہی مصلوب (ماہنامہ کلام حق بابت ماہ فروری ۱۹۸۹ء ص ۱۱ و ۱۲)

ایسٹر کا تہوار

قدیم دستاویزات و کتب کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ سب سے پہلے مسیحی مصلوبیت اور ایسٹر کو نہیں مانتے تھے۔ ایسٹر کا مختصر تاریخی مطالعہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:

ڈبلیو ای وائن بتاتے ہیں کہ

’’سن عیسوی کی تیسری صدی کے وسط تک کلیسیائیں مسیحی ایمان کے عقیدوں سے یا تو پھر گئیں یا (بگاڑ کر) ان کی نقل کی۔ برگشتہ کلیسیائی نظام کے اثر کو بڑھانے کے لیے غیر قوم لوگوں کے وسیلہ سے ان کی اصلاح کے بغیر ہی کلیساؤں کے اندر قبول کر لیا گیا اور ان کو زیادہ تر اپنے نشانوں اور علامتوں کے پابند رہنے دیا گیا۔‘‘ (بحوالہ ’’سچائی جو باعث ابدی زندگی ہے‘‘ ص ۱۴۳)

لہٰذا سورج پرست جب مسیحیت میں آئے تو اپنے ساتھ سورج دیوتا اور ایسٹر دیوی کی پوجا بھی ساتھ لے آئے اور اپنی رسوم کو مسیحی رسوم کا نام دیا۔ مشہور مسیحی جریدہ بیان کرتا ہے:

’’مسیحی ہونے سے پہلے وہ لوگ موسمِ بہار کی دیوی مانتے تھے اور اس دیوی کا نام ایسٹر تھا، مسیحیوں نے اس دیوی کو بھلا دینے کے لیے موسم بہار میں آنے والی مسیحی عید کا نام ایسٹر رکھ دیا اور یوں لفظ ایسٹر کے معنی تبدیل ہو گئے۔‘‘ (پندرہ روزہ کاتھولک نقیب لاہور ۔ ایسٹر نمبر ۱۹۸۶ء)

یعنی ایسٹر دیوی کے پجاری مسیحی ہوئے تو قیامت مسیح کی کہانی نے جنم لیا۔ رہا مسیحی جریدہ کا یہ کہنا کہ ’’موسمِ بہار میں آنے والی مسیحی عید کا نام ایسٹر رکھ دیا‘‘ تو یہ غلط ہے۔ کیونکہ جب صلیب کا واقعہ ہوا اس وقت سخت سردی کا موسم تھا نہ کہ موسمِ بہار، بلکہ اس موسم میں لوگ آگ تاپتے تھے۔ گرفتاری والی رات پطرس رسول بھی آگ تاپ رہا تھا اور سپاہی جاڑے کے سبب سے کوئلے دہکا کر تاپ رہے تھے (یوحنا ۱۸ و لوقا ۲۲ : ۸۸ و مرقس ۱۴ : ۶۷)۔ معلوم ہوا کہ صلیب کا واقعہ سخت سردی کے موسم غالباً وسط دسمبر میں پیش آیا ہو گا۔ پادری بشیر عالم نے لکھا ہے:

’’تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بہت سی رسوم معہ ایسٹر کلیسیا نے بت پرستوں اور غیر اقوام سے مستعار لی ہیں۔ بظاہر Easter انگریزی نام لگتا ہے اور اس کی نسبت غالباً East یعنی مشرق سے ہو گی۔ سورج مشرق سے طلوع ہو کر یعنی جنم لے کر مغرب میں غروب ہو جاتا یعنی دفن ہو جاتا ہے، اور پھر مشرق سے جنم لیتا ہے۔ شاید مسیح کی موت اور موت سے زندگی کو کسی مبارک شخص نے ایسٹر (Easter) سے نسبت قائم کر لی ہو۔ بعض کے نزدیک کے نزدیک جرمنی لفظ Astarte سورج کی دیوی سے اس کی نسبت ہے اور جرمن زبان میں یہ لفظ اوسٹرین، اوسٹور،  آسٹو، ایشتار مختلف طریقوں سے مستعمل ہے۔ جن کا ماخذ ایک ہی ہے اور سب کے معنی نورسمیں، طلوع آفتاب، نئی پیدائش وغیرہ ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ ایسٹر کی نسبت کہیں نہ کہیں سے East یعنی سورج سے جا ملتی ہے اور سورج کی پوجا کرنے والوں کی آج بھی دنیا میں کمی نہیں۔‘‘ (ماہنامہ قاصد جدید لاہور ص ۳ ۔ مارچ ۱۹۹۱ء)

ہر ایسٹر اتوار کے روز ہی منایا جاتا ہے، اس کی وجہ پادری بشیر عالم کے اس بیان سے عیاں ہے:

’’اتوار سورج کا دن ہے (یہ دن سورج کی عبادت کے لیے وقف تھا) جیسے بہت سے مسیحی مناتے ہیں ۔۔۔ اب یہ دن مسیح کے جی اٹھنے کی یاد میں منایا جاتا ہے‘‘ (قاصد جدید ص ۱۰ ۔ دسمبر ۱۹۹۲ء)

پادری صاحب مزید فرماتے ہیں:

’’توریم Phonician جن کا دارالخلافہ کارتھیج تھا، Ashtroth دیوی کے پجاری تھے جو سورج کی دیوی کہلاتی ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق یہ زرخیزی اور پیداوار اور نئی زندگی کی دیوی ہے۔ قدما ایشٹراتھ کو موسمِ بہار میں نئی زندگی کی عید سے منسوب کرتے تھے۔ اسی لیے انگریزی میں مقامِ طلوعِ آفتاب کو ایسٹ یا اوسٹ کہا جاتا ہے۔ پس اس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایسٹر کی نسبت سورج کی دیوی عستارات سے ہی ہے اور اس کا میلہ وغیرہ بھی بہار میں منایا جاتا تھا۔ چونکہ بہار سے پیشتر خزاں میں درخت بظاہر مردہ نظر آتے ہیں لیکن بہار انہیں نئی زندگی دیتی ہے، اس سے بھی مسیح کی موت اور قبر پر فتح کی نسبت عیاں ہے۔ عستارات دیوی جس کی نسبت سے ہمیں ایسٹر نام ملا ہے ۔۔۔ گو اس کا نام بگڑتے بگڑتے ایسٹر رہ گیا‘‘ (قاصد جدید ص ۳ تا ۴ ۔ مارچ ۱۹۹۱ء)

مذکورہ بالا اقتباسات سے ثابت ہوا کہ قیامت مسیح کی کہانی نے اس وقت جنم لیا جب سورج پرستوں نے مسیحیت کو قبول کیا۔ اس کی تصدیق جناب پادری بشیر عالم صاحب کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے:

’’قسطنطین رومی فرمانروا بھی اسی دیوی کا پجاری تھا، بلکہ اس وقت کے دستور کے مطابق وہ اس ہیکل میں بطور سردار کاہن بھی تھا ۔۔ وہ ۔۔ مسیحیت کا حلقہ بگوش ہو گیا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ عستارات کی محبت ساری عمر اس کے دل سے نہ گئی، اس نے مسیحیوں اور عستارات کے ماننے والوں کو متحد کرنے کے لیے حکماً کہا کہ ہفتہ وار عبادت اور قیامت مسیح اتوار کو منائی جایا کرے، آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کس طرح عستارات ایسٹر کا لازم و ملزوم انگ  بن گئی۔‘‘ (ایضاً ص ۴ کالم ۲)

مزید تفصیلات پادری ایف ایس خیر اللہ صاحب کی زبانی ملاحظہ کیجئے:

’’اس کی بیوی کا نام عستارات دیوی تھا، ان کی پوجا کی رسومات میں گھناؤنے زناکاری کے عمل بھی شامل تھے۔ روایت کے مطابق تموز کو ایک جنگلی سور نے مار دیا تھا جب وہ اپنی بھیڑ بکریوں کی رکھوالی کر رہا تھا۔ اس کی بیوی اسے پاتال سے بچا کر نکال لائی۔ جب سردی کے موسم کے شروع میں درخت اور سبزہ سوکھ جاتا ہے تو خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تموز کی موت کی علامت ہے، اور جب موسمِ بہار میں پودے پھر ہرے بھرے ہو جاتے ہیں تو سمجھا جاتا تھا کہ تموز جی اٹھا ہے ۔۔۔۔ تموز کا ذکر صرف حزقی ایل ۸ : ۱۴ میں ہے جہاں بتایا گیا ہے کہ کیسے ہیکل کے شمالی پھاٹک کے عین سامنے عورتیں بیٹھ کر تموز پر نوحہ کرتی تھیں ۔۔۔ اس دیوتا کا یونانی نام ادونیس Adonis تھا جو عبرانی اور فینیکی زبان کے لفظ سے نکلا جس کے معنی ہیں خداوند۔‘‘ (قاموس الکتاب ص ۲۶۲)

آپ غور فرمائیں، تموز کو ادونیس یعنی خداوند کہا جاتا تھا، عیسائیوں نے یسوع مسیح کو بھی یہی یعنی خداوند کہنا شروع کر دیا اور اسے الوہیت کا درجہ دیا۔ تموز کو جنگلی سور نے مار دیا اور وہ عالمِ ارواح میں اتر گیا لیکن پھر جی اٹھا۔ عیسائیوں نے اسی کہانی کو مسیح سے منسوب کر دیا کہ اسے یہودیوں نے صلیب پر چڑھا کر قتل کر دیا، یسوع بھی تین رات دن مردہ رہا اور پھر جی اٹھا۔ دونوں کا جی اٹھنا موسمِ بہار میں منایا جاتا ہے۔ تموز بھیڑیوں کی رکھوالی کرتا مارا گیا جبکہ یسوع اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی گلہ بانی کرتے ہوئے۔ عورتیں اپنے خاوند تموز کا ماتم کرتی تھیں (حزقی ایل ۸ : ۱۴)۔ عیسائیوں نے اپنے مسیح خداوند کا ماتم کیا (مرقس ۱۶ : ۱) اسی طرح صلیب مسیحیت کی خاص علامت ہے۔ ڈبلیو ای وائن بتاتے ہیں کہ

’’صلیب کی ابتدا قدیمی کلدان (بابل) میں ہوئی اور یہ معبود تموز کی علامت میں استعمال ہوتی تھی کیونکہ یہ رمزی TAU یا T شکل کی تھی جو اس کے نام کا ابتدائی  حرف تھا۔ لہٰذا TAU یا T کے آرے ٹکڑے کو نیچے کر کے اسے مسیح کی صلیب کی جگہ قبول کر لیا۔‘‘ (سچائی جو باعث ابدی زندگی ہے ۔ ص ۱۴۳ و ۱۴۴)

مسیحیوں کے دیگر معمولاتِ زندگی میں بھی سورج پرستی کی جھلک نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے سبت کے احکامات کو پس پشت ڈال کر اتوار کو مقدس ٹھہرایا۔ پاسٹر پیز صاحب بتاتے ہیں کہ اتوار سورج کی عبادت کا دن ہے (قاصد جدید ص ۱۴ ۔ اپریل ۱۹۹۲ء)۔ کتاب ’’سچائی جو باعث ابدی زندگی ہے‘‘ کا مصنف لکھتا ہے کہ

’’آپ نے شاید یہ نوٹ کیا ہو گا کہ یسوع مسیح کی بعض تصویروں میں اس کے سر کے چوگرد روشنی کا گول گھیرا ہوتا ہے، یہ اولیا کا نورانی تاج یا نور کا ہالہ کہلاتا ہے۔ اگر آپ اس کے انگریزی لفظ نمبس Nimbus کو کسی انسائیکلوپیڈیا میں دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ قدیم مصری اور یونانی اور رومی لوگ اسے اپنی غیر قوم مذہبی صنعت میں استعمال کرتے تھے۔ یہ نورانی ہالہ بابلیوں کی سورج پرستی سے جا ملتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ یہ بابلی معبودوں کی نمائندگی کرتا ہے۔‘‘ (ص ۱۴۶ ۔ مطبوعہ ریاستہائے متحدہ امریکا)

اور ایسٹر سے متعلق لکھا ہے:

’’مروجہ رسوم جو ابھی تک اس کی یادگاری کے عرصہ میں منائی جاتی ہیں وہ تاریخ کی اس شہادت کی کافی تصدیق کرتی ہے کہ اس کی سیرت بابلی ہے۔ گڈ فرائیڈے کے میٹھے کلچے جن پر کراس (صلیب) کا نشان بنا ہوتا ہے اور فصحی یا ایسٹر سنڈے کے رنگے ہوئے انڈے کلدانی (بابلی) مذہبی رسوم میں خوب نمایاں تھے، جیسے وہ اب نمایاں ہیں‘‘ (ایضاً ص ۱۴۹) ’’مسیحی دنیا کے خاص تہوار ایسٹر کو بائبل کے اندر کچھ حمایت نہیں ملتی، یہ غیر قوم اصل سے ہے اور اس لیے خدا کو ناپسند ہے‘‘ (ایضاً ص ۱۴۹)

آخر میں ہم پادری بشیر عالم صاحب کا مسیحیوں کے حق میں ایک مبنی بر انصاف قول نقل کر رہے ہیں:

’’انہوں نے کبھی بھی مسیحیت کو دل میں جگہ نہ دی، وہ سورج کی پوجا کرتے آئے تھے اور دوبارہ انہوں نے اسی کی پوجا شروع کر دی۔‘‘ (ماہنامہ قاصد جدید ص ۶ کالم ۱ ۔ بابت ماہ فروری ۱۹۹۳ء)’’


مشہد میں مسجد کی شہادت

ادارہ

ہمسایہ ملک ایران میں آج کل شہنشاہیت کے خاتمے اور نئے انقلاب کا جشن منایا جا رہا ہے جسے فجر کا نام دیا گیا ہے۔ جشن کے اس پُرمسرت موقع پر، جب ایرانی عوام انقلاب کی خوشیاں منا رہے ہیں، ایران کے عوام کی ایک بڑی تعداد جو سنی مسلک پر عمل پیرا ہے، اپنے گھروں پر کالے جھنڈے لہرانے اور اس مسجد کا سوگ منانے پر مجبور ہے جو ایران کے شہر مشہد میں ۱۳ جنوری کی رات حکومتِ ایران نے ظالمانہ انداز سے منہدم کر دی۔ ایک اطلاع کے مطابق اس مسجد کی جگہ، جو ایرانی رہنما خامنہ ای کے گھر کے نزدیک واقع تھی، اب ایک بڑا پارک بنایا جا رہا ہے۔
مسجد کی شہادت کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے والے ایرانی سنی علماء کے ایک وفد نے بتایا کہ مشہد میں ڈھائی جانے والی یہ مسجد تقریباً ۶۰ سال قبل اور بعض روایات کے مطابق سو سال قبل تعمیر کی گئی تھی۔ برصغیر کے ایک مسلمان شیخ فیض احمد نے اس مسجد کے لیے جگہ فراہم کی تھی جس کی بنا پر یہ جامع مسجد فیض کے نام سے مشہور تھی۔ ۶۴ سال قبل شاہ کی اجازت سے اس مسجد کی توسیع کی گئی۔ اور ایران کے حالیہ انقلاب کے بعد ایرانی حکومت کی اجازت سے چھ ماہ قبل مسجد میں مزید توسیع کی گئی، لیکن بعد ازاں نئی توسیع کو ناجائز قرار دے دیا گیا۔
ایک اطلاع کے مطابق تین سال قبل بھی اس مسجد کو منہدم کرنے کے لیے حملہ کیا گیا تھا لیکن لوگوں نے مزاحمت کی جس کی بنا پر اسے ڈھانے کی کوشش میں ناکامی ہوئی۔ بعد ازاں مسجد کی کل زمین فروخت کر دینے کے لیے بھی دباؤ ڈالا گیا لیکن مسجد کی انتظامیہ نے مسجد کی زمین فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ ۳۱ جنوری کی رات اچانک سرکاری اہلکاروں نے مسجد کو گھیرے میں لے لیا اور یوں رات رات تقریباً سو سال پرانی مسجد صفحہ ہستی سے مٹا دی گئی۔ اس موقع پر مزاحمت کرنے والے تقریباً گیارہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ مسجد کا خادم اور مؤذن مزاحمت کی کوشش میں بلڈوزر سے کچلا گیا۔
مسجد کی جگہ پر بڑے بڑے درخت لا کر لگائے جا رہے ہیں اور پورے علاقے کو سرکاری اہلکاروں اور پاسدارانِ انقلاب نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ایرانی حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ گویا یہاں کوئی مسجد نہیں تھی، حالانکہ مختلف اسلامی ممالک کے سفیر وہاں نماز پڑھ چکے ہیں۔ مسجد کی جگہ تیزی سے پارک بنایا جا رہا ہے اور وزارتِ اطلاعات نے مسجد کے انہدام کی خبر کو بیرونی ایجنسیوں کی سازش قرار دیتے ہوئے وقوعہ سے انکار کیا ہے۔ ایران کے اخبارات چونکہ مکمل طور پر ایرانی حکومت کے کنٹرول میں ہیں اس لیے اخبارات میں مسجد کے انہدام کی خبر شائع نہیں کی گئی لیکن بی بی سی، وائس آف امریکہ اور دیگر غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے مسجد کے انہدام کی خبر نشر ہونے کے بعد پورے ایران میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ ایران کے ان علاقوں میں جہاں سنی آبادی کی اکثریت ہے مثلاً ایرانی بلوچستان کے شہر سرادان، ایران شہر، خاش، چاہ بہار، نیک شہر، خراسان کے علاقے تربت جام، تربت حیدریہ، ترکمان صحرا، بندر عباس، کردستان اور زاہدان ہیڈکوارٹر میں مظاہرے اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
ایرانی وفد نے بتایا کہ یکم فروری کو جامع مسجد فیض کے انہدام پر احتجاج کی غرض سے لوگ زاہدان کی جامع مسجد مکی میں جمع ہو رہے تھے، پاسدارانِ انقلاب کی جانب سے انہیں دھمکیاں دی گئیں اور مسجد خالی کرنے کا حکم دیا گیا۔ لوگوں کی تعداد بڑھتی گئی تو رات ساڑھے دس بجے مکی مسجد پر حملہ کر دیا گیا اور فائرنگ سے تین افراد فوری طور پر شہید ہو گئے۔ یہ تین افراد مسجد کے اندر محراب میں تلاوت کر رہے تھے، فائرنگ سے مسجد کا مؤذن بھی زخمی ہو گیا۔ مسجد کی کھڑکیاں، دروازے اور شیشے توڑ دیے گئے، مدرسے پر بھی حملہ کیا گیا، امام مسجد مولانا عبد الحمید صاحب کے گھر کی تلاشی لی گئی اور وہاں موجود علماء سے بھی بدتمیزی کی گئی، سرکاری اہلکار جوتوں سمیت مسجد میں گھس گئے، تقریباً ڈیڑھ سو افراد اس پر موقع پر گرفتار کیے گئے جبکہ تین افراد ہلاک اور ستر افراد زخمی ہوئے تھے۔
پورے ایرانی بلوچستان میں اس واقعے کا شدید ردعمل ہوا اور اس ردعمل کے نتیجے میں پچیس افراد کو سڑکوں اور گلیوں میں ہلاک کیا جا چکا ہے جن میں پاسدارانِ انقلاب کی اکثریت ہے۔ گرفتاریوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے، مکی مسجد میں مظاہرے کے لیے جمع ہونے والے نوجوانوں اور مسجد کے آس پاس موجود نوجوانوں کی ویڈیو فلموں کی مدد سے گرفتاری کی جا رہی ہے۔
مکی مسجد کے امام مولانا عبد الحمید نے اس واقعے کے بعد جناب خامنہ ای سے ملاقات کی اور پورے واقعے سے آگاہ کیا، جنہوں نے مولانا عبد الحمید کو اس امر کا یقین دلایا کہ مکی مسجد زاہدان کا جو کچھ نقصان ہوا ہے اسے پورا کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ توڑ پھوڑ کے باعث مسجد میں چند دن سے نماز نہیں ہو سکی۔ وفد نے بتایا کہ اگرچہ جامع مسجد مکی زاہدان کا نقصان پورا کرنے کا ایرانی حکومت نے وعدہ کیا ہے لیکن افسوسناک واقعے پر معافی نہیں مانگی جبکہ مسجد فیض کے بارے میں تو ایرانی حکومت بات کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہے اور کہتے ہیں اسے بھول جاؤ۔
ایرانی وفد نے بتایا کہ ایران میں سنیوں کی تمام مساجد میں حکومتی اہلکار نماز اور خطبے میں شرکت کرتے ہیں اور ان خطبات کو ٹیپ کیا جاتا ہے تاکہ مساجد میں حکومت کے خلاف یا حکومتی فرقے کے خلاف یا اپنے مسلک کے حق میں کوئی بات نہ کی جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ پورے ایران میں کوئی کتاب، میگزین یا اخبار حکومت کی اجازت کے بغیر شائع نہیں کیا جا سکتا اور حکومت سنی مسالک کی کتابیں شائع کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ علاوہ ازیں تمام اسکولوں میں خواہ سرکاری ہوں یا پرائیویٹ ایک ہی نصاب پڑھایا جاتا ہے اور اس میں شیعہ مذہب کی اسلامیات پڑھائی جاتی ہے۔ عدالتوں میں سنیوں کے ازدواجی اور دیگر معاملات زندگی کے بارے میں شیعہ مسالک کے قوانین کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اصفہان، شیراز، تبریز، تہران وغیرہ میں سنیوں کو ایک مسجد بنانے کی بھی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی سنیوں کو سرکاری ملازمتوں میں رکھا جاتا ہے۔
وفد نے بتایا کہ شاہِ ایران کے دورِ حکومت میں سنی شیعہ اختلافات کی بات کرنا ممنوع تھا اور مذہبی منافرت پھیلانے پر سخت سزا دی جاتی تھی۔ ۱۹۷۶ء میں وہاں کے اخبار کیہان کے ایک مضمون میں حضرت عثمان غنیؓ کی شان میں گستاخی کی گئی تو اسی زاہدان میں عوام مسلح ہو کر سڑکوں پر نکلے اور اخبار کے خلاف مظاہرہ کیا۔ ساواک کا نمائندہ آیا، فوج آئی اور رہنماؤں نے مذاکرات کیے، پھر اس شخص کو جس نے گستاخی کی تھی گرفتار کیا، اس موقع پر ایک گولی بھی نہیں چلائی گئی۔ لیکن انقلاب کے بعد ایران کے سنی عوام مجموعی آبادی کا تیس فیصد ہونے کے باوجود مذہبی سہولیات تک سے محروم کر دیے گئے ہیں۔
وفد نے کہا کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس واقعے پر سخت احتجاج کرتے ہوئے حکومتِ ایران سے مسجد جامع فیض کی دوبارہ تعمیر کی درخواست کی جائے، بصورتِ دیگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ایران میں سنیوں کی کوئی مسجد باقی نہیں رہے گی۔
(بشکریہ ’’تکبیر‘‘ کراچی)

افریقہ میں عیسائی مشنریوں کی سرگرمیاں

ادارہ

رابطہ عالمِ اسلامی مکہ مکرمہ کے زیر اہتمام شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق افریقہ میں، جہاں 610 ملین (61 کروڑ) کی کل آبادی میں مسلمانوں کی تعداد 332 ملین (33 کروڑ) ہے، عیسائی مشنریوں کی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت افریقہ میں:
  •  104000 پادری اپنے 93000 معاونین کے ساتھ مصروفِ عمل ہیں،
  • 500 یونیورسٹیاں/کالجز،  2595 سیکنڈری اسکول،  83900 پرائمری اسکول، اور  11130 روضۃ الاطفال عیسائیوں کی سرپرستی میں کام کر رہے ہیں اور ان اداروں میں تعلیم پانے والے مسلمان طلبہ کی تعداد 6 ملین (60 لاکھ) ہے۔
  • افریقہ کے مختلف ممالک میں چرچ کے زیر انتظام جو رفاہی ادارے کام کر رہے ہیں ان میں 600 ہسپتال، بیماروں کے لیے 120 گھر، بیواؤں کے لیے 85 گھر، اندھوں کے لیے 115 سکول،یتیموں کے لیے 265 گھر، اور 5112 ڈسپنسریاں شامل ہیں۔
  • مشنریوں کے زیر اہتمام 75 اخبارات و جرائد شائع ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک اخبار نے لکھا ہے کہ عیسائی مشنریاں افریقہ میں اپنی سرگرمیوں پر اب تک 32 ملین ڈالر (3 کروڑ سے زائد) خرچ کر چکی ہیں۔

(بشکریہ ’’العالم الاسلامی‘‘ مکہ مکرمہ ۔ ۲۱ فروری ۱۹۹۴ء / ۱۱ رمضان ۱۴۱۴ھ)


گستاخِ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کا قانون

ادارہ

مکرمی جناب مولانا کوثر نیازی صاحب، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
عرض ہے کہ کچھ دنوں سے پبلک لا کمیشن اور اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے گستاخِ رسول کے لیے سزائے موت کے قانون پر نظرثانی اور ترمیم کی خبریں شائع ہو رہی ہیں، اس پر مذہبی حلقوں میں سخت بے چینی اور تشویش کی صورت پیدا ہو چکی ہے۔ توہینِ رسالت کا جرم کوئی معمولی جرم نہیں، اس لیے جہاں تک تحقیق کرنے اور کسی کو بلاوجہ مجرم بنانے کی بات ہے اس سے کسی مسلمان کو خوشی نہیں کہ خوامخواہ غیر مسلم افراد کو سزا دلوانے کے لیے جھوٹے مقدمات بنوا کر انہیں پریشان کیا جائے۔ مگر یہ بات بھی بڑی واضح ہے کہ پاکستان میں مسیحی اقلیت تمام غیر مسلموں کی نمائندگی کر رہی ہے، جس کے لیے مثالیں موجود ہیں۔
(۱) مسلمانوں نے شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ شامل کرنے کا مطالبہ کیا تو اس کے خلاف مسیحی اقلیت نے ملک بھر میں مظاہرے اور بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کر کے قومی شناختی کارڈ میں مذہب کے خانہ کے اندراج میں رکاوٹ کھڑی کی۔
(۲) گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سزائے موت کے خلاف جے سالک اور دیگر عیسائی نمائندوں نے کہا کہ ہم اس پارٹی کو ووٹ دیں گے جو گستاخِ رسولؐ کی سزا کو ختم کرے گی۔ اور بعض جگہوں پر قرآن پاک کی بے حرمتی بھی کی گئی جس کی مثال گوجرانوالہ کے تھانہ کوٹ لدھا کے گاؤں رتہ دوہتڑ کا مشہور واقعہ جس میں مرکزی حکومت نے مسز رابن رافیل کی پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد امریکی دباؤ میں آ کر سیشن کورٹ اور ہائیکورٹ کی کارروائی میں مداخلت کر کے ملزمان کی ضمانت پر رہائی کروا لی اور مسیحی قوم اور امریکی سرکار کی وفا کا حق ادا کیا ہے۔ اب اس کی اپیل سپریم کورٹ میں کی گئی ہے (آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا)۔
جناب والا! ان حالات کے پیشِ نظر آپ سے درخواست ہے کہ اس قانون میں کسی قسم کی ترمیم کر کے نرمی پیدا نہ کی جائے، اس سے ایک بہت بڑا مسئلہ پیدا ہو گا جو پھر شاید آپ اور آپ کی حکومت سے کنٹرول نہ کیا جائے۔ مسلمان امریکہ کی خوشنودی نہیں اللہ کی خوشنودی کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ ملازمت کی اپنی مجبوریوں میں آپ نے کوئی تبدیلی کر دی تو سلمان رشدی جیسے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو گی اور پھر غازی علم دین شہید کا کردار ادا کرنے کے لیے بھی بہت لوگ اٹھیں گے (ان شاء اللہ)۔
ڈاکٹر غلام محمد
ڈپٹی سیکرٹری جمعیۃ علماء اسلام (پنجاب)
جامع مسجد شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ
محترمی ڈاکٹر صاحب!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مورخہ ۲۶ فروری ۱۹۹۴ء کو موصول ہوا۔ شکریہ۔
توہینِ رسولؐ کے بارے میں آپ کے جذبات قابلِ قدر ہیں اور وہی ہر مسلمان کے ہونے چاہئیں، ہم اس سلسلے میں جو بھی ترمیم یا اضافہ کریں گے وہ علمائے کرام کے مشورے سے کریں گے اور انشاء اللہ ایسا کرتے وقت اسلامی شریعت کی حدود کو کاملاً ملحوظ رکھا جائے گا۔
(کوثر نیازی)

میڈیا کی جنگ اور اس کے تقاضے

ادارہ

لندن (پ ر) میڈیا کے متعلق ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ کا اجلاس ’’تحریکِ ادبِ اسلامی‘‘ کے کنوینر عادل فاروقی کی رہائشگاہ واقع (ہیرو، لندن) میں منعقد ہوا جس میں بڑی تعداد میں علماء، دانشور، صحافی، ادبا اور شعرا نے شرکت کی۔

برالٹن اسلامک سنٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر عبد الجلیل ساجد نے کہا کہ مسلمانوں کو مغرب میں میڈیا کی جنگ بہت ہوشمندی اور تیاری سے لڑنی ہے۔ میڈیا کی فکری و ثقافتی یلغار نے ہماری نئی نسل کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا میں ابھی تک ہم کوئی پیشرفت نہیں کر سکے، اس لیے ورلڈ اسلامک فورم کو الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے اسلام کے مثبت اور اتحادی پہلوؤں کو پیش کرنے کے لیے پروگرام ترتیب دینا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ الحمد للہ نارتھ امریکہ، ملیشیا، دبئی، مصر اور ساؤتھ افریقہ میں کچھ کام ہوا ہے، فورم اس کو سامنے رکھ کر اس سمت پیشرفت کرے۔
اسلامک کمپیوٹنگ سنٹر کے ڈائریکٹر مفتی برکت اللہ نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے علمائے کرام کی بڑی تعداد جدید تقاضوں اور آج کے دور کی معاشرتی ضرورت کا شعور نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک اس کے جواز و عدم جواز کی بحث میں الجھی ہوئی ہے۔ وقت تیزی سے نکلا جا رہا ہے، پورا مغربی میڈیا اسلام کی صورت بگاڑنے، اسلام کو بدنام کرنے، فحاشی و بے حیائی پھیلانے، ذہنی انارکی، بے راہ کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ لیکن جب اس میڈیا کو بچوں کی تعلیم و تربیت میں مدد لینے، اسلام کی اشاعت اور اس کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے استعمال کی بات آتی ہے تو ہم اس کے جواز و عدم جواز کی بحث چھیڑ دیتے ہیں۔ آج ہم میں سے کون ہے جس کا گھر اس میڈیا کی یلغار سے محفوظ ہو؟ ہمیں سنجیدگی سے اسلامی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے  میڈیا کے صحیح استعمال کا پروگرام ترتیب دینا ہو گا۔
تحریکِ ادبِ اسلامی کے کنوینر عادل فاروقی نے کہا، ہمیں ربع صدی سے زائد اس ملک میں ہو گئے، ہم نے آج تک انگریزی زبان کے کتنے ادیب، صحافی اور شاعر پیدا کیے؟ ہمارے بچے دن رات پاپ میوزک، ٹی وی، ریڈیو میں ڈوبے ہوئے ہیں، اسلامی تشخص ختم ہوتا جا رہا ہے، ان کا مزاج یہاں کی سوسائٹی کی سانچے میں ڈھل رہا ہے، ہمیں اپنی نئی نسل کو تیار کرنا ہو گا کہ ادب و صحافت میں امتیاز پیدا کریں۔
ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری نے کہا کہ جب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس ملک میں رہنا ہے اور بحیثیت مسلمان کے رہنا ہے تو ایسے اسلامی تشخص کے باقی رکھنے کی جدوجہد ہم پر فرض ہے۔ ہمیں میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے صحیح استعمال کے متعلق پروگرام بنانا ہو گا۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ کفر جس میدان میں اور جس انداز سے سامنے آیا، آپؐ نے اسی میدان میں اسے جواب دیا۔
غزوۂ خندق کے موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ کفارِ مکہ سے اب ہماری جنگ اسلحہ کے میدان میں نہیں بلکہ شاعری کے میدان میں ہو گی۔ یاد رہے کہ شاعری اس دور کا میڈیا تھا جس کے ذریعے آناً فاناً خیالات و افکار پورے عرب میں  پھیل جاتے تھے۔ چنانچہ جلیل القدر صحابہ کرامؓ نے اس چیلنج کو قبول کر کے شاعری کے میدان میں کفر کا مقابلہ کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان حضراتِ صحابہؓ نے اس فیلڈ میں بھی اسلام کی خدمت کا حق ادا کر دیا۔ اس طرح آج کا میڈیا صحافت ہے، ٹیلی ویژن اور سیٹلائٹ ہے، جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے اور مشتعل کرنے میں لگا ہوا ہے۔ ہمیں اس میڈیا کو خیر اور اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے استعمال کرنا ہو گا۔ 
مولانا منصوری نے کہا کہ ہمارے درسِ نظامی میں جو علوم و فنون پڑھائے جاتے ہیں: فلسفہ، علمِ کلام اور منطق وغیرہ، یہ فنون اس دور کے یونان و روم کے غیر اسلامی فنون تھے جو اسلام کی تیزرفتار اشاعت میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے۔ اس دور میں علماء نے ان علوم و فنون کو سیکھا، ان میں کامل مہارت حاصل کی، ان سے غیر اسلامی افکار و خیالات کو الگ کیا، انہیں ازسرِنو مدون کیا، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان علوم کو مسلمان بنایا، حتٰی کہ آج یہ سب علوم و فنون اسلامی علوم سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں آج کے ذرائع ابلاغ و میڈیا پر دسترس حاصل کرنا ہو گی، اسے خیر کے لیے استعمال کرنا ہو گا، بالفاظ دیگر اس میڈیا کو، اس ٹیلی ویژن اور سیٹلائٹ کو مسلمان بنانا ہو گا۔
آپ موجودہ میڈیا پر پابندی نہیں لگا سکتے البتہ اس کا صحیح استعمال کر سکتے ہیں۔ کسی شاہراہ پر نو انٹری کا بورڈ لگانے سے قبل آپ کو متبادل راستہ دینا ہو گا، ورنہ آپ کی بندش مؤثر نہیں ہو سکتی۔ اس طرح میڈیا کو حرام کہنے سے پہلے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کے صحیح اور مثبت استعمال کا ہم پروگرام بنائیں ورنہ یہ سیلاب بڑے بڑے دیندار، متقی پرہیزگار علماء اور مفتی صاحبان کی نسلوں کو بہا لے جائے گا۔
فورم پوری سنجیدگی سے جدید میڈیا کو تعلیمی مقاصد اور اسلام کی نشرواشاعت کے ذریعے کے طور پر استعمال کرنے کا پروگرام بنا رہا ہے۔ فورم نے اپنی جدوجہد سے علمائے کرام اور جدید طبقے کے دانشوروں کو یکجا کر دیا ہے، یہاں علماء بھی ہیں اور دانشور بھی، ادیب و صحافی بھی، ہم سب کو مل کر عصرِ حاضر کے اس چیلنج کو قبول کرنا ہے، جس طرح ہر دور میں ہمارے اسلاف نے کیا ہے۔ اس ضمن میں جلد ہی فورم کی طرف سے پروگرام پیش کیا جائے گا۔
اجلاس کے آخر میں مشہور شاعر و ادیب عبد الرحمٰن بزمی اور سلطان الحسن فاروقی اور عادل فاروقی نے اپنا تازہ نعتیہ کلام پیش کیا۔
(بشکریہ ’’جنگ‘‘ لندن ۔ ۲۶ جنوری ۱۹۹۴ء)

ڈاکٹر سید سلمان ندوی کا دورہ برطانیہ

ادارہ

عالمِ اسلام کی ممتاز علمی شخصیت علامہ سید سلیمان ندویؒ کے فرزند اور ڈربن یونیورسٹی (جنوبی افریقہ) میں شعبہ اسلامیات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سید سلمان ندوی نے گزشتہ ماہ ورلڈ اسلامک فورم کی دعوت پر برطانیہ کا پانچ روزہ دورہ کیا اور لندن، بولٹن، باٹلی، ڈیوزبری، لیسٹر اور دیگر شہروں میں متعدد اجتماعات سے خطاب کیا۔ ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری بھی دورہ میں ان کے ہمراہ رہے۔
ڈاکٹر سلمان نے ان اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں اس سے پہلے بارہا برطانیہ آ چکا ہوں لیکن ہر مرتبہ میری آمد آکسفورڈ، کیمبرج اور اسلامک فاؤنڈیشن تک محدود رہی ہے۔ اس بار ورلڈ اسلامک فورم کی دعوت پر پہلی بار صحیح معنوں میں برطانیہ دیکھ رہا ہوں۔ مسلمانوں کے دینی ادارے، مساجد، علماء اور دانشوروں سمیت مختلف طبقات سے ملا ہوں، مجھے خوشی ہے کہ آپ حضرات نے یہاں ایمان کا چراغ جلا رکھا ہے۔
مغرب کی علمی و فکری برتری آج انسانیت کی تخریب کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ مغرب نے عالمِ اسلام پر اپنے خونی پنجے گاڑ رکھے ہیں اور مسلم حکمرانوں کو اسلام کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ مصر، الجزائر، عالمِ اسلام میں حکمرانوں کی جنگ اسرائیل سے نہیں، یورپ سے نہیں، کفر سے نہیں، بلکہ ان لوگوں سے جاری ہے جو اللہ کا کلمہ بلند دیکھنا چاہتے ہیں، جو اللہ کے دین پر جینا اور اسے نافذ کرنا چاہتے ہیں، اور اس جرم میں ہر روز مسلم نوجوانوں کو قتل اور پھانسی دیے جانے کی خبریں آ رہی ہیں۔ ان مسلم نوجوانوں کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ اسلام کو سربلند کرنا چاہتے ہیں۔
آپ حضرات کو یہاں مغرب میں مسلم ممالک سے کہیں بڑھ کر اسلام پر چلنے کی آزادی حاصل ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شاید اسلام کی نشاۃِ ثانیہ مغرب سے ہو، اس کے لیے آپ لوگوں کو پوری تیاری کرنی ہے۔ علمائے کرام کو چاہیے کہ انگریزی زبان میں پوری مہارت حاصل کریں، مغرب کی تاریخ کا مطالعہ کریں، نئی نسل سے براہ راست تعلق پیدا کریں۔ دین و دنیا کی تفریق اسلام کو زبردست نقصان پہنچا رہی ہے۔ مغرب کی پوری کوشش ہے کہ مسلمانوں میں دین و دنیا کی تفریق قائم رہے اور دو متوازی طبقے، جو ایک دوسرے سے متعلق ہوں، وجود میں آجائیں، اس طرح وہ نئی نسل کو نظریاتی فکری اعتبار سے اسلام سے کاٹ لے۔
انہوں نے کہا کہ آپ حضرات جن قوموں کے درمیان رہ رہے ہیں وہ اسلام کے متعلق شدید غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں۔ اس لیے کہ عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کا تعارف ہی میدانِ جنگ میں ہوا۔ صدیوں سے یورپ میں اسلام کو قتل و غارت گری، سفاکیت اور بے رحمی کے مذہب کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ آپ حضرات کو اپنے کردار سے ثابت  کرنا ہے کہ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے۔ اسلام دیگر مذاہب کی طرح ایک مذہب نہیں بلکہ ایک دین ہے۔ مذہب عبادت کی چند رسموں کا نام ہوتا ہے اور دین زندگی کے ہر شعبہ پر محیط نظامِ حیات ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے برطانیہ میں دیکھا کہ دینی مکاتب و مدارس کا نصاب و طرزِ تعلیم وہی چل رہا ہے جو ۷۰، ۸۰ سال پہلے برصغیر میں تھا۔ آپ حضرات کو چاہیے کہ اس ملک کے بیک گراؤنڈ (پس منظر)، آج کی معاشرتی ضرورتوں، اور یہاں کے بچوں کے مزاج و نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے نصاب ازسرنو مرتب کریں۔
انہوں نے کہا کہ روس کی شکست و ریخت کے بعد مغرب نے اسلام کے خاتمہ کو اپنا مقصد بنا لیا ہے۔ مغرب کو آپ کی نمازوں سے خطرہ نہیں ہے، آپ جتنی چاہے مسجدیں بنا لیں۔ مغرب یہی چاہتا ہے کہ اسلام مسجد میں بند رہے۔ مغرب لرز رہا ہے خالد بن ولید کے اسلام سے، صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم کے اسلام سے، کیونکہ ان کا اسلام عبادات کی چند رسموں تک محدود نہیں تھا بلکہ زندگی کے ہر شعبہ پر محیط تھا۔
جب آپ حضرات نے یہاں رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اپنی نسلوں کو ایمان و اسلام پر پابند رکھنے کا انتظام کرنا آپ پر فرض ہے۔ انہوں نے کہا کہ بوسنیا میں لاکھوں مسلمانوں کے قتلِ عام پر مغرب خاموش تماشائی بنا رہا، ان ہیومن رائٹس کے علمبرداروں کی اسلام دشمنی بوسنیا میں پوری طرح عیاں ہے۔ فرانس کا صدر اور برطانیہ کے پرائم منسٹر کھلے الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ یورپ کے دل میں کسی مسلمان ریاست کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں آپ کو اپنی بقا کی جنگ لڑنی ہے اور وہ جنگ ٹینک و میزائل سے نہیں، علمی و فکری محاذ پر لڑنی ہے۔ یہ اس وقت ہو گا جب آپ اپنی اولاد کو دینی و عصری تعلیم سے آراستہ کریں گے۔
ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری نے ان اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر سلمان ندوی فورم کے سرپرست اور بانی رہنماؤں میں ہیں۔ گزشتہ سال ساؤتھ افریقہ میں پروفیسر صاحب نے تجویز پیش کی تھی کہ یورپ کی سرزمین پر علمی و فکری کام کی ضرورت ہے۔ فورم نے بطور خاص دو مقاصد سامنے رکھے ہیں:
الحمد للہ ورلڈ اسلامک فورم دونوں محاذوں پر سرگرم عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی میڈیا اسلام اور مسلمانوں کی اتنی شرانگیز اور گھناؤنی تصویر پیش کر رہا ہے کہ اگر دنیا میں کہیں اسلام غالب ہو گیا تو انسانی حقوق، انسانی کلچر و تمدن اور انسانی ترقیات سب ختم ہو جائیں گی اور دنیا ظلم و تاریکی کے دور میں واپس لوٹ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ اسلامک فورم نے میڈیا کے محاذ پر کام کرنے کے لیے ’’ویسٹ واچ اسٹڈی گروپ‘‘ تشکیل دیا ہے، فورم جلد ہی ملک کے مختلف شہروں میں تربیتی کورس شروع کر رہا ہے۔

شاہ ولی اللہ یونیورسٹی گوجرانوالہ کی سالانہ تقریب

ادارہ

شاہ ولی اللہ یونیورسٹی اٹاوہ جی ٹی روڈ گوجرانوالہ کی سالانہ تقریب ۴ فروری ۱۹۹۴ء کو بعد نمازِ جمعہ یونیورسٹی کیمپس میں منعقد ہوئی جس میں عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت کے سربراہ حضرت مولانا خواجہ خان محمد مدظلہ العالی بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے، جبکہ دیگر مہمانانِ خصوصی میں سابق صوبائی وزیر چوہدری محمد اقبال ایم پی اے، جناب ایس اے حمید ایڈووکیٹ ایم پی اے، اور جناب عبد الرؤف مغل ایم پی اے شامل تھے۔ اور یونیورسٹی کے سرپرستِ اعلٰی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور سرپرست حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی بھی علالت اور ضعف کے باوجود تقریب میں شریک ہوئے۔ تقریب کی صدارت شاہ ولی اللہ ٹرسٹ کے چیئرمین الحاج میاں محمد رفیق نے کی اور تعلیمی کونسل کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی اور ٹرسٹ کے سیکرٹری جنرل الحاج محمد اشرف شیخ کے علاوہ پروفیسر غلام رسول عدیم اور یونیورسٹی کے طلبہ حافظ عبد الجبار اور فیصل محبوب نے بھی تقریب سے خطاب کیا۔
اس موقع پر سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس سال شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کی طرف سے ایف اے کی پہلی کلاس نے گوجرانوالہ بورڈ سے امتحان دیا ہے اور امتحان دینے والے تقریباً تمام طلبہ پاس ہو گئے ہیں۔ اسی طرح درسِ نظامی کے فضلاء کی پہلی کلاس نے پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان دیا ہے اور اس میں بھی سب شرکاء پاس ہو گئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کالج میں اس وقت فرسٹ ایئر، سیکنڈ ایئر اور تھرڈ ایئر کی تین کلاسیں زیر تعلیم ہیں، جبکہ درسِ نظامی کے فضلاء کی ایک کلاس ایم اے اور دوسری کلاس بی اے میں زیر تعلیم ہے۔ تمام طلبہ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہائش پذیر ہیں جن میں سے تقریباً بیس فیصد طلبہ فیس ادا کر رہے ہیں، جبکہ باقی تمام طلبہ کے اخراجات کی کفالت یونیورسٹی کے ذمہ ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ طلبہ کی رہائش کے لیے جگہ کی تنگی کے باعث دو سو طلبہ کے لیے ہاسٹل کی تعمیر شروع کر دی گئی ہے جس پر تقریباً اسی لاکھ روپے لاگت آئے گی اور اس کا سالِ رواں کے دوران مکمل ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح سولہ کنال پر مشتمل وسیع جامع مسجد فضل کی تعمیر کا آغاز بھی ہو گیا ہے جس کی تعمیر کے اخراجات گوجرانوالہ کے معروف تاجر الحاج شیخ سراج الدین برداشت کر رہے ہیں جو اس سے قبل قائد اعظم ڈویژنل پبلک اسکول اور گلشن اقبال (پارک) میں بھی مساجد تعمیر کرا چکے ہیں۔
تقریب میں امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ کو مہمانِ خصوصی حضرت مولانا خان محمد مدظلہ نے انعامات دیے۔
اس موقع پر حضرت مولانا خان محمد مدظلہ، حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر، اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی مدظلہ نے اپنے دستِ مبارک سے مسجد فضل کا سنگِ بنیاد رکھا اور یونیورسٹی کی جلد از جلد تعمیر اور مقاصد میں کامیابی کے لیے دعا فرمائی۔
تقریب میں شہر کے مختلف طبقات کے سرکردہ حضرات، علمائے کرام اور دانشوروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے پروگرام پر مسرت کا اظہار کیا۔

تعارف و تبصرہ

محمد عمار خان ناصر

’’عمدۃ البیان فی احکام رمضان‘‘

مصنف: مولانا محمد اجمل خان
صفحات ۲۴۴ قیمت ۶۰ روپے
ناشر: مکتبہ اشاعتِ اسلام، جامعہ رحمانیہ، عبد الکریم روڈ، قلعہ گوجر سنگھ، لاہور
رمضان المبارک اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا خاص مہینہ ہے۔ سال بھر کی غفلت کے بعد اس مہینہ میں اللہ کے بندے اپنے پروردگار کے ساتھ اپنا تعلق دوبارہ جوڑتے اور پورا مہینہ اللہ کو راضی کرنے اور خاص اہتمام کے ساتھ اس کی عبادت کرنے میں گزارتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی اس مہینہ میں اپنی رحمتوں کے خزانے کھول دیتے ہیں، بالخصوص عشرہ اخیرہ میں تو اس کی بے یاں رحمتیں اپنے عبادت گزار بندوں پر برس برس پڑتی ہیں۔
اس ماہِ مبارک میں  معمول کی عبادات کے علاوہ کچھ خاص عبادات بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے مقرر کی ہیں۔ دن کو روزہ، رات کو قیام، تراویح میں قرآن سننا اور سنانا، اعتکاف اور عشرہ اخیرہ کی طاق راتوں میں خصوصی عبادت کا اہتمام، یہ سب چیزیں اگر صحیح طریقے سے اور ان کی حکمت کو سمجھتے ہوئے ان پر عمل کیا جائے تو ’’تقوٰی‘‘ کے قالب میں ڈھالنے کے لیے بہترین ذرائع ہیں۔ یہ مبارک مہینہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق گزار لینا ایک مسلمان کے لیے واقعی نہایت خوشی اور مسرت کا موقع ہے۔ اس لیے رمضان کے اختتام پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’عید الفطر‘‘ منانے کا حکم دیا گیا ہے۔
زیرِ نظر کتاب رمضان المبارک کی انہی خاص عبادات کے احکام و مسائل، حکمتوں اور فوائد کے بیان میں نہایت جامعیت اور حسنِ ترتیب کے ساتھ لکھی گئی ہے۔ مصنف نے کتاب کے مضامین کو گیارہ حصوں میں تقسیم کیا ہے اور درج ذیل موضوعات کا بالترتیب احاطہ کیا ہے:
(۱) رمضان اور روزہ کے فضائل، فوائد اور دیگر معلومات (۲) روزہ کے مسائل (۳) سحری کے احکام (۴) افطاری کے احکام (۵) نمازِ تراویح کے فضائل اور تعدادِ رکعات (۶) رؤیتِ ہلال کے احکام (۷) لیلۃ القدر کا تعارف اور اس کی فضیلت (۸) اعتکاف کے مسائل (۹) نفلی روزوں کی تفصیلات اور احکام (۱۰) مکروہ اور حرام چیزوں کا بیان (۱۱) عید الفطر اور صدقۃ الفطر کے احکام و مسائل۔
کتاب خوبصورت جلد اور کمپیوٹر کمپوزنگ کے ساتھ عمدہ سفید کاغذ پر چھپی ہے اور طباعت کا معیار بھی اعلیٰ ہے۔ جدید تعلیم یافتہ لوگوں اور عوام الناس کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید ہے۔

’’حیاتِ امامِ اعظم ابوحنیفہؒ‘‘

مصنف: مولانا محمد اجمل خان
کتابت و طباعت عمدہ ۔ صفحات ۲۷۰ قیمت ۶۰ روپے
ناشر: مکتبہ اشاعتِ اسلام، لاہور
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ دنیائے فقہ و اجتہاد کی وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں کہ جن کی علمی خدمات اور فقہ و بصیرت کا اعتراف آپ کے معاصرین سے لے کر آج تک کے اکابر اہلِ علم نے ہمیشہ کیا ہے۔ مسلک و مشرب کا اختلاف رکھنے والے فقہاء اور اہلِ علم  نے بھی علمِ دین اور تقوٰی میں امام صاحب کے غیر معمولی مقام و مرتبہ کو تسلیم کیا ہے۔ ائمہ مجتہدین میں سے امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول مشہور ہے ’’الناس فی الفقہ عیال علی ابی حنیفہؒ‘‘۔
بدقسمتی سے گزشتہ صدی کے دوران میں ہمارے اس برصغیر میں کچھ لوگ ایسے نمودار ہوئے جنہوں نے فقہ، بالخصوص فقہ حنفی اور امام اعظمؒ کی ذاتِ گرامی کو طعن و تشنیع اور گستاخانہ اعتراضات کا ہدف بنایا اور عوام الناس میں یہ ذہنیت پیدا کرنے کی کوشش کی کہ فقہ حنفی قرآن و سنت کے مقابلہ میں ایک الگ شریعت ہے اور اس کے واضع اول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ گویا علمِ حدیث سے ناواقف اور عربیت سے کورے تھے۔ یہ طرزِ عمل، ظاہر ہے، ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے، جن کی اکثریت فقہ حنفی پر عامل تھی، ایک نہایت تکلیف دہ طرز عمل تھا۔ چنانچہ علمی سطح پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ذاتِ گرامی کے حوالہ سے بحث و تحقیق کا ایک نیا محاذ کھل گیا۔
ہمارے نزدیک اہلِ علم کے لیے دلائل کے ساتھ کسی بھی رائے سے اختلاف کا راستہ کھلا ہے لیکن جن لوگوں نے دین کی تحقیق اور تشریح میں واقعتاً گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ان کی خدمات کے اعتراف اور ان سے استفادہ کرنے سے گریز کی راہ بہرحال اہل علم کے شایان شان نہیں ہے۔ اس لیے امام اعظمؒ اور ان کے فقہی اجتہادات کے بارے میں جو لوگ بلاوجہ تعصب اور تنگ نظری کا شکار ہیں، ان سے ہماری گزارش ہے کہ اپنے طرزعمل پر نظرثانی کریں اور فقہ و حدیث کے اس عظیم المرتبت امام کو اس کا صحیح مقام دینے میں تعصب سے کام نہ لیں۔
زیرنظر کتاب میں امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کے انہی پہلوؤں کو موزوں ترتیب کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ کتاب میں امام صاحبؒ کے حالاتِ زندگی، علم و فضل اور تقوٰی و دیانت کے بارے میں مستند معلومات درج ہیں اور اہلِ حدیث اور فقہاء کے تعریفی اقوال کے علاوہ فقہ حنفی اور امام صاحبؒ کے شاگردوں کے بارے میں بھی قیمتی معلومات کو جمع کیا گیا ہے۔ امام صاحب کی شخصیت سے درست واقفیت کے لیے اس کتاب کا مطالعہ مفید ہے۔

’’رسول ﷺ پر درود و سلام‘‘

مولف: مولانا احمد سعید دہلویؒ
صفحات ۱۶ ، ناشر: ادارہ جمیلیہ، سلامت پورہ، رائے ونڈ، لاہور
ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے میں جہاں اللہ تعالیٰ کی توفیق اور عنایت کا محتاج ہے وہاں اللہ کے بھیجے ہوئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ممنونِ احسان ہوتا ہے کہ اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت اس تک اللہ کے رسولؐ ہی کے واسطے سے پہنچی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور شکرگزاری کے ساتھ ساتھ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت و محبت کا اظہار اور اللہ کے ہاں ان کی بلندی درجات کی دعا بھی ایک مسلمان کے لیے بالکل فطری امر ہے۔ اس کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجا جائے۔ اس حکم کی تشریح میں خود آنحضرتؐ نے مختلف صحابہؓ کو درود کے مختلف الفاظ یاد کرائے اور درود پڑھنے کے مختلف مواقع بھی بتائے۔
درود سے متعلق علمی مباحث (فضائل و احکام وغیرہ) پر علماء نے مستقل تصانیف بھی لکھی ہیں۔ اس سلسلہ میں حافظ سخاویؒ کی ’’القول البدیع‘‘، علامہ ابن القیمؒ کی ’’جلاء الافہام‘‘، اور خاص فضائل کے موضوع پر شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحبؒ کی ’’فضائلِ درود شریف‘‘ اہلِ علم میں متداول ہیں۔
زیرِ نظر مختصر رسالہ میں درود شریف کے ۶۸ فضائل اور درود پڑھنے کے ۴۵ مواقع احادیث اور اہلِ علم کی کتابوں سے تتبع کر کے جمع کیے گئے ہیں۔ کتابوں کے حوالہ جات اور احادیث کی صحت و سقم بیان کرنے کا اہتمام بالکل نہیں کیا گیا۔ فضائل کی روایات کا عمومی حال معلوم ہی ہے اور اس رسالہ میں تو اصولِ شرعی کے مناقض بعض روایات بھی درج ہیں، مثلاً صفحہ ۱۰، ۱۱ پر یہ روایت ہے: ’’جو شخص درود بکثرت پڑھتا رہتا ہے اس سے اگر بعض فرائض میں بھی کوتاہی ہو جائے تو بازپرس نہ ہو گی۔‘‘
ہمارے نزدیک صحیح طریقہ یہ ہے کہ عوام الناس کے سامنے صرف صحیح اور مستند روایات بیان کی جائیں، اور اگر کہیں ضعیف روایت بیان کی جائے تو اس کے ضعف کی نشاندہی بھی کی جائے تاکہ عوام کو اہلِ بدع و ہوٰی کے پھیلائے ہوئے اناپ شناپ روایات کے جال سے نکالا جا سکے۔
رسالہ سفید کاغذ پر کمپوٹر کمپوزنگ اور عمدہ طباعت کے ساتھ چھپا ہے اور ایک روپے کا ڈاک ٹکٹ بھیج کر مفت منگوایا جا سکتا ہے۔

سیرت النبیؐ پر انعامی تقریری مقابلہ

ادارہ

شاہ ولی اللہ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر انعامی تقریری مقابلہ ۲۷ جنوری ۱۹۹۴ء کو منعقد ہوا جس میں شاہ ولی اللہ یونیورسٹی، مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ، مدرسہ اشرف العلوم گوجرانوالہ، اور جامعہ حقانیہ گوجرانوالہ کے نو طلبہ نے حصہ لیا۔ وفاقی وزارتِ تعلیم حکومتِ پاکستان کے شعبہ نصاب کے ڈپٹی ایڈوائزر جناب پروفیسر افتخار احمد بھٹہ بطور مہمانِ خصوصی شریک ہوئے، جبکہ شاہ ولی اللہ ٹرسٹ کے چیئرمین الحاج میاں محمد رفیق نے تقریب کی صدارت کی اور پروفیسر عبد الستار غوری، پروفیسر غلام رسول عدیم اور حافظ خلیل الرحمٰن ضیا پر مشتمل پینل نے منصفین کے فرائض سرانجام دیے۔
طالب علم مقررین نے جناب رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر اچھے انداز میں روشنی ڈالی اور منصفین کی طرف سےمندرجہ ذیل مقررین کو اول، دوم، سوم اور چہارم درجہ پر انعامات کا مستحق قرار دیا گیا:
اول: مولوی عبد الکبیر برشوری (مدرسہ نصرۃ العلوم)
دوم: فیصل محبوب (شاہ ولی اللہ یونیورسٹی)
سوم: مولوی کفایت اللہ (جامعہ حقانیہ)
چہارم: مولوی عبد العزیز (مدرسہ اشرف العلوم)
کامیاب مقررین کو ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے بالترتیب پانچ سو روپے، چار سو روپے، تین سو روپے اور دو سو روپے کے انعامات دیے گئے جو مہمانِ خصوصی نے ان میں تقسیم کیے۔
اس موقع پر ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مدارس اور کالجوں کے طلبہ میں دینی موضوعات پر تحریر و تقریر کا ذوق بیدار کرنے کے لیے فورم کی طرف سے مختلف اداروں میں اس قسم کے انعامی تقریری مقابلوں کا وقتاً فوقتاً اہتمام کیا جائے گا۔

مئی ۱۹۹۴ء

پاکستان کے داخلی معاملات میں امریکی مداخلت اور مسیحی رہنماؤں سے مخلصانہ گزارشمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مغربی فلسفہ کی یلغار اور دینی صحافت کی ذمہ داریاںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
رسول اللہؐ کی محبت، ایمان کا اولین تقاضاشیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر
سات چیزوں سے پناہ کی دعاشیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
گستاخِ رسول کے لیے سزائے موت اور بائبلمحمد یاسین عابد
اسلام کو دہشت گردی کے حوالہ سے بدنام کرنا غلط ہے۔ مسیحی رہنماادارہ
امیر المومنین فی الحدیث امام محمد بن اسماعیل بخاریؒسید سلمان گیلانی
چلڈرن قرآن سوسائٹی لاہورشیخ احمد مختار
عالمِ اسلام کی قدیم ترین درسگاہ ۔ جامعہ الازہر مصرادارہ
ورلڈ اسلامک فورم کی فکری نشستیں اور علماء کنونشنادارہ
مقالاتِ سواتی (حصہ اول)پروفیسر غلام رسول عدیم
توہینِ رسالتؐ کی سزا کا قانون اور قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹیمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان کے داخلی معاملات میں امریکی مداخلت اور مسیحی رہنماؤں سے مخلصانہ گزارش

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(فلیٹیز ہوٹل لاہور میں مدیر اعلیٰ الشریعہ کا پریس کانفرنس سے خطاب۔ ادارہ الشریعہ)

امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے ۱۹۸۷ء میں پاکستان کی فوجی و اقتصادی امداد کے لیے شرائط عائد کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف جس نظریاتی اور اعصابی جنگ کا آغاز کیا تھا وہ اب فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہوگئی ہے۔ ان شرائط میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ اسلامی قوانین نافذ نہ کرنے کی ضمانت، جداگانہ طرز انتخاب کی منسوخی، اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے کے اقدامات کی واپسی کے مطالبات شامل تھے، اور ان میں اب گستاخ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کا قانون تبدیل کرنے کے تقاضہ کا اضافہ بھی ہوگیا ہے۔

امریکہ کی جانب سے ان شرائط اور مطالبات کا مقصد اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اس ملک میں اسلامی نظام کے عملی نفاذ کو روکنا، اسے اسلامی تشخص سے محروم کر کے ایک سیکولر ریاست کی حیثیت دینا، اور دفاعی طور پر کمزور اور بے بس بنا کر بھارت کے زیر اثر ممالک میں شامل کرنا ہے۔ ان شرائط و مطالبات کی تکمیل کے لیے امریکہ نہ صرف پاکستان کی فوجی و اقتصادی امداد کو روکے ہوئے ہے بلکہ عالمی ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعے سے پاکستان پر دباؤ میں مسلسل اضافہ کرتا جا رہا ہے اور پاکستان کے اندر مختلف طبقات بالخصوص اقلیتوں کو ابھار کر فکری انتشار پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ابھی چند روز قبل مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے مغربی ممالک کا دورہ کرنے والے پاکستانی وفد کے سامنے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جو مطالبات رکھے ہیں ان میں آٹھویں آئینی ترمیم کے خاتمہ، جداگانہ طرز انتخاب کی منسوخی، اور گستاخ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کے قانون کی تبدیلی کا بطور خاص ذکر کیا گیا ہے۔

امریکہ اور اس کی ہمنوا دیگر مغربی قوتیں و لابیاں اس مقصد کے لیے انسانی حقوق کا نعرہ بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہیں اور پاکستان میں ملک کے اسلامی تشخص کے تحفظ، دفاعی استحکام اور اسلامی قوانین کے نفاذ کے اقدامات کو نام نہاد ’’انسانی حقوق‘‘ کی خلاف ورزی قرار دے کر انہیں بلڈوز کر دینا چاہتی ہیں۔ انسانی حقوق کا یہ فلسفہ مغربی دنیا کا خودساختہ ہے جس کی تشکیل اور تشریح کے تمام اختیارات مغرب نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں جو اسلامی دنیا کے لیے قطعی طور پر ناقابل قبول ہے۔ کیونکہ ہم بحیثیت مسلمان اپنے انفرادی اور اجتماعی معاملات میں قرآن کریم اور جناب رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے پابند ہیں اور قرآن و سنت کے احکام کے خلاف کسی بھی فلسفہ کی بالادستی کو قبول کرنا اسلامی نظام کے اجتماعی کردار سے انحراف کے مترادف ہے۔ اس لیے ہم انسانی حقوق کے دائرہ کار کے تعین اور ان کی تشریح پر مغرب کی اجارہ داری کو قطعی طور پر مسترد کرتے ہیں اور امریکی حکومت اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطالبات کو اسلامیان پاکستان کے دینی معاملات اور مذہبی عقائد میں کھلی مداخلت قرار دیتے ہوئے ان کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

اس پس منظر میں جبکہ امریکہ اور اس کے حواری اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف جنگ کے فیصلہ کن راؤنڈ کا آغاز کر چکے ہیں، پاکستان کے سیاسی و دینی حلقوں کا طرز عمل انتہائی افسوسناک اور مایوس کن ہے۔ ملک کی دونوں بڑی سیاسی قوتیں اقتدار کے حصول اور تحفظ کے لیے امریکہ کی خوشنودی کو ہر قیمت پر برقرار رکھنے کی خاطر ’’خود سپردگی‘‘ کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں ہیں۔ جبکہ دینی حلقوں کے بیشتر قائدین نہ صرف صورتحال کی سنگینی کے احساس اور مسائل کے ادراک سے عاری ہو چکے ہیں بلکہ باہمی انتشار، بے اعتمادی اور غلط ترجیحات کے باعث عوام میں بد دلی اور مایوسی پھیلانے میں مصروف ہیں۔

ان حالات میں رائے عامہ کو امریکی عزائم کے خلاف بیدار کرنا اور پاکستانی عوام میں مذہبی آزادی اور قومی خودمختاری کے تحفظ کا شعور اجاگر کرنا سب سے اہم قومی ضرورت اور دینی تقاضہ ہے۔ اسی مقصد کے لیے ورلڈ اسلامک فورم نے گروہی اور انتخابی سیاست سے الگ تھلگ رہتے ہوئے ملک کے مختلف شہروں میں علماء کرام اور دینی کارکنوں کے فکری اجتماعات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس مقصد کے لیے کراچی میں ۲۶ دسمبر ۱۹۹۳ء کو اور گوجرانوالہ میں ۱۲ جنوری ۱۹۹۴ء کو علماء کنونشن منعقد ہو چکے ہیں۔ جبکہ اس سلسلہ کا تیسرا کنونشن ۱۸ اپریل ۱۹۹۴ء کو شیرانوالہ گیٹ ہری پور ہزارہ میں اور چوتھا کنونشن ۲۲ اپریل کو جامع مسجد انارکلی لاہور میں منعقد ہو رہا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ مذہبی آزادی اور قومی خودمختاری پر یقین رکھنے والے ہر شہری سے گزارش ہے کہ وہ اس مہم میں شریک ہو اور ہمارا ہاتھ بٹائے۔

اس موقع پر ’’رتہ دوہتڑ توہین رسالتؐ کیس‘‘ کے حوالہ سے کچھ گزارشات ضروری معلوم ہوتی ہیں۔ یہ کیس جسے بی بی سی، وائس آف امریکہ، وائس آف جرمنی اور آل انڈیا ریڈیو کے مسلسل پراپیگنڈہ نے عالمی شہرت دے دی ہے اب اسلامیان پاکستان کے دینی جذبات اور محبت رسولؐ کی علامت بن چکا ہے۔ مگر حکومت پاکستان کا طرز عمل یہ ہے کہ امریکہ کے دباؤ کے تحت گستاخ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کے قانون میں تبدیلی کی فکر کے ساتھ ساتھ اس کیس کے حوالہ سے بھی امریکہ کو ہر حال میں خوش رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جو کہ انتہائی افسوسناک اور پاکستانی عوام کے مذہبی جذبات کی توہین کے مترادف ہے۔

اس ضمن میں مسیحی اقلیت کے مذہبی پیشواؤں کا طرز عمل بھی قابل افسوس ہے جو گستاخ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کی مخالفت کر کے خود بائبل کے احکام سے انحراف کر رہے ہیں۔ کیونکہ بائبل میں انبیاء کرام علیہم السلام تو کجا مذہبی پیشوا کی گستاخی اور کتاب مقدس کے صندوق کی توہین پر بھی موت کی سزا کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لیے مسیحی اقلیت کے مذہبی پیشواؤں کی طرف سے اس سزا کی مخالفت ناقابل فہم ہے۔ البتہ ان کے اس مطالبہ کی ہم حمایت کرتے ہیں کہ اس قانون میں جناب محمد رسول اللہؐ کے ساتھ دیگر انبیاء کرامؑ کا بھی ذکر کیا جائے۔ کیونکہ ہم مسلمان اللہ تعالیٰ کے کسی بھی سچے پیغمبر کی توہین کو اسی طرح ناقابل معافی جرم سمجھتے ہیں جس طرح جناب نبی اکرمؐ کی شان اقدس میں گستاخی جرم ہے۔ اسی طرح ہم مسیحی اقلیت کے اس مطالبہ کی بھی حمایت کرتے ہیں کہ اس قانون کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے کسی بھی مقدمہ کے اندراج سے قبل مجسٹریٹ کی انکوائری کو ضروری قرار دیا جائے۔ ہمیں اقلیتوں سے کوئی عناد نہیں ہے اور انہیں اس قانون کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے ہر جائز تحفظ فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن گستاخ رسولؐ کے لیے موت کی سزا اٹل ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔

اس سلسلہ میں گستاخ رسولؐ منظور مسیح کے قتل کے الزام میں ماسٹر عنایت اللہ اور دیگر بے گناہ افراد کی گرفتاری بھی افسوسناک ہے اور ہم مسیحی اقلیت کے مذہبی پیشواؤں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ کسی گستاخ رسولؐ کی حمایت کر کے اپنی پوزیشن خراب نہ کریں اور نہ بے گناہ افراد کی گرفتاری کے لیے اپنی صلاحیتیں ضائع کریں۔ اگر مسیحی راہنما چاہیں تو ہم اس کے لیے تیار ہیں کہ رتہ دوہتڑ توہین رسالت کیس اور منظور مسیح قتل کیس کی انکوائری کے لیے ہائیکورٹ کے جج کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا جائے جس میں تحفظ ناموس رسالت ایکشن کمیٹی کے نمائندے اور مسیحی مذہبی راہنما بھی شامل ہوں۔ اور یہ کمیشن دونوں کیسوں کے بارے میں تحقیقات کر کے حقائق کی نشاندہی کرے تاکہ اصل حالات پاکستانی عوام اور عالمی رائے عامہ کے سامنے واضح ہو سکیں۔

ان گزارشات کے ساتھ ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ

  1. انسانی حقوق کے نام نہاد اور یکطرفہ مغربی فلسفہ کو مسترد کرنے کا اعلان کیا جائے،
  2. پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا دوٹوک اعلان کیا جائے،
  3. گستاخ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کا قانون تبدیل کرنے کا فیصلہ واپس لیا جائے،
  4. اور منظور مسیح قتل کیس میں گرفتار بے گناہ ماسٹر عنایت اللہ اور ان کے رفقاء کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔


مولانا نور محمد آف ملہو والیؒ / پیر بشیر احمد گیلانیؒ / مولانا عبد الرؤف جتوئیؒ

  • گزشتہ دنوں حضرت مولانا نور محمد ملہو والی کا انتقال ہو گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم بزرگ علماء میں سے تھے، نوے برس سے زیادہ عمر تھی، حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کاشمیریؒ کے تلامذہ میں سے تھے۔ ملہو والی ضلع اٹک میں طویل عرصہ تک تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے اور ان کے متعدد شاگرد مختلف علاقوں میں دینی خدمات میں مصروف ہیں۔
  • سیالکوٹ کی بزرگ شخصیت پیر سید بشیر احمد گیلانیؒ رحلت فرما گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم دینی تحریکات میں ہمیشہ پیش پیش رہے اور مذہبی جماعتوں کی ہمیشہ سرپرستی کرتے رہے ہیں۔
  • عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی مبلغ مولانا عبد الرؤف جتوئی کا بھی انتقال ہو گیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم انتہائی پرجوش مقرر اور انتھک کارکن تھے۔
اللہ تعالیٰ مرحومین کو جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین۔

مغربی فلسفہ کی یلغار اور دینی صحافت کی ذمہ داریاں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۱۹ و ۲۰ اپریل ۱۹۹۴ء کو مارگلہ موٹل اسلام آباد میں دعوہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی طرف سے ’’اکیسویں صدی کا چیلنج اور دینی صحافت‘‘ کے عنوان سے دو روزہ سیمینار منعقد ہوا جس میں مختلف مذہبی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے سرکردہ مدیران جرائد نے شرکت کی۔ ۱۹ اپریل کو سیمینار کے دوسرے اجلاس میں مولانا زاہد الراشدی نے مندرجہ ذیل مقالہ پیش کیا۔ اس نشست کی صدارت ادارہ تحقیقات اسلامی کے ڈائریکٹر محترم ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری نے کی۔)

مغرب کا مادی فلسفہ حیات جو سولائزیشن، انسانی حقوق، جمہوریت اور آزادی کے پر فریب نعروں کے ساتھ آج دنیا کے ایک بڑے حصے پر اپنی بالادستی کا پرچم اٹھائے ہوئے ہے، انسانی معاشرہ کے لیے کوئی نیا فلسفہ نہیں ہے بلکہ نسل انسانی کے آغاز سے چلے آنے والے اسی فلسفہ حیات کی ترقی یافتہ شکل ہے جسے قرآن کریم نے ’’ان یتبعون الا الظن وما تھوی الانفس‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی وہ فلسفہ جو وحی الٰہی اور علم یقینی کے بجائے انسانی خواہشات و مفادات اور عقل و شعور کے حوالے سے نسل انسانی کی راہ نمائی کا دعوے دار ہے۔

انسانی معاشرہ میں آج تک جتنے قوانین، ضابطوں اور اصولوں کی حکمرانی رہی ہے وہ بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہیں۔

  1. ایک حصہ ان اصولوں اور قوانین و ضوابط پر مشتمل ہے جن کی تشکیل خود انسانی ذہن کی ہے۔ شخصی آمریت، بادشاہت، طبقاتی حکمرانی اور جماعتی ڈکٹیٹرشپ کے مراحل سے گزرتے ہوئے انسانی ذہن آج سولائزیشن اور جمہوریت کے نام سے ارتقا کی آخری منزل سے ہمکنار ہو چکا ہے۔
  2. دوسرا حصہ اس نظام حیات کے تدریجی مراحل سے عبارت ہے جس کی بنیاد وحی الٰہی پر ہے اور جو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر مختلف مراحل طے کرتا ہوا جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی پر مکمل ہوگیا ہے۔ جبکہ خاتم النبیین حضرت محمدؐ کا پیش کردہ نظام حیات قرآن و سنت اور خلافت راشدہ کی صورت میں موجود ہے۔

مغرب کا دانشور دنیا کو یہ نوید دے رہا ہے کہ انسانی معاشرہ کی فلاح و بہبود کے لیے انسانی ذہن جو کچھ سوچ سکتا تھا وہ سوچ چکا ہے اور اس کی کاوشوں کی معراج آج کے مغربی معاشرہ کی شکل میں دنیا کے سامنے ہے، اب اس سے آگے بڑھنا انسانی ذہن کے بس میں نہیں ہے، اس لیے اس سے بہتر کسی نظام حیات کی توقع انسانی ذہن سے نہیں کرنی چاہیے۔ مغربی دانشور کا یہ کہنا بالکل درست ہے لیکن درست ہونے کے باوجود نامکمل ہے اس لیے کہ مغربی دانشور کے سامنے صرف انسانی ذہن کی کاوشیں ہیں اور وحی الٰہی کے تدریجی مراحل یا تو اس کی نظروں سے اوجھل ہیں یا اس نے جان بوجھ کر اس حقیقت سے گریز اختیار کر رکھا ہے۔ جبکہ حالات کی اصل تصویر یوں ہے کہ ایک طرف انسانی ذہن کے تشکیل کردہ نظام ہائے حیات ہیں جن کی آخری اور ترقی یافتہ شکل مغربی فلسفہ و تہذیب کی صورت میں دنیا کے ایک بڑے حصے پر تسلط جمائے ہوئے ہے، اور دوسری طرف وحی الٰہی کا پیش کردہ نظام حیات ہے جس کا مکمل نمونہ خلافت راشدہ کی صورت میں انسانی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش حصہ ہے۔ اب یہ دونوں نظام ہائے حیات اپنی کشمکش کے ایک فیصلہ کن دور میں داخل ہونے والے ہیں جس کی تیاریوں اور ریہرسل کے مناظر اس وقت بھی دنیا کے مختلف حصوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

مغرب کا فلسفہ حیات اس فکر میں ہے کہ اس نے گزشتہ دو صدیوں کے دوران انسانی معاشرہ پر جو تسلط قائم کیا ہے وہ کمزور نہ ہونے پائے بلکہ اس کے دائرے میں وسعت پیدا ہو۔ جبکہ وحی الٰہی کی بنیاد پر تشکیل پانے والا نظام حیات دنیا بھر کے اہل دین کی خواہشات اور آرزوؤں کی گہرائیوں سے ابھر کر سطح ارض پر جلوہ نمائی کے لیے بے تاب ہے اور کھلی آنکھیں رکھنے والے دور افق پر طلوع سحر کے آثار دیکھ رہے ہیں۔

مغربی فلسفہ حیات جو خود کو سیکولرزم، جمہوریت، سولائزیشن، آزادی اور انسانی حقوق کے دلکش لیبلز سے مزین کیے ہوئے ہے انسانی زندگی کے ساتھ وحی الٰہی کے ایسے تعلق کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے جو انسانی معاشرہ کے کسی بھی اجتماعی دائرہ کے لیے حدود کار کا تعین کرتا ہو۔ اور وہ زندگی کے اجتماعی امور کے حوالہ سے انسانی عقل ہی کو آخری اور فیصلہ کن اتھارٹی قرار دے کر اجتماعی عقل کی خدائی کے سامنے سجدہ ریز ہے۔ یہ فلسفہ دراصل اس یورپ کا فلسفہ ہے جس نے کلیسا، بادشاہت اور جاگیرداری کے مشترکہ مظالم کی چکی میں صدیوں تک پستے رہنے کے بعد اس گٹھ جوڑ کے خلاف بغاوت کی اور بادشاہت اور جاگیرداری کے حق میں کلیسا اور پادریوں کے جانبدارانہ و ظالمانہ کردار سے متنفر و دلبرداشتہ ہو کر رد عمل کے طور پر مذہب اور وحی الٰہی کی رہنمائی سے ہی انکار کر بیٹھا۔

آج دنیا کے پانچ آباد براعظموں میں سے تین یعنی امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا پر اس فلسفہ کی حکمرانی ہے۔ جبکہ ایشیا اور افریقہ میں تسلط قائم کرنے کے لیے اس کے پیروکار مسلسل ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ یورپ کے باشندوں نے کولمبس اور واسکوڈی گاما کی صورت میں دنیا کے دوسرے براعظموں میں آباد اور داخل ہونے کے لیے جس مہم کا آغاز کیا تھا اس کے نتیجہ میں امریکہ اور آسٹریلیا میں یورپی آباد کار مقامی آبادیوں کو پیچھے دھکیل کر اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ آج ان دو براعظموں پر یورپی آباد کار ہی حکمران ہیں جبکہ اصل اور قدیمی آبادی کا ان ممالک کے اجتماعی نظام کے ساتھ کوئی تعلق باقی نہیں ہے۔ مگر افریقہ اور ایشیا نے یورپی آبادکاروں کو واپس جانے پر مجبور کر دیا جس کی وجہ سے یورپین حکمرانوں کو ان براعظموں میں اپنے مفادات کی حفاظت اور یورپی فلسفہ کی حکمرانی کے لیے ایک درمیانی نسل جنم دینا پڑی جو افریقہ اور ایشیا کے ممالک پر اس وقت حکمران ہے اور مغربی آقاؤں کی خواہشات و ہدایات اور اپنے ممالک کے عوام کے مفادات و نظریات کے درمیان سینڈوچ بن کر رہ گئی ہے۔ آج ہمارا اصل المیہ یہی حکمران طبقے ہیں جو جسمانی اعتبار سے ایشیائی اور افریقی ہیں مگر ذہن، سوچ اور تربیت کے لحاظ سے یورپین ہیں۔ ان حکمرانوں کے ذریعے سے افریقہ اور ایشیا کے عوام سے یورپین آبادکاروں کو قبول نہ کرنے کا انتقام لیا جا رہا ہے۔

عالمی تناظر سے ہٹ کر وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حوالہ سے اس کشمکش کا جائزہ لیا جائے تو واقعات کی ترتیب کچھ یوں بنتی ہے کہ برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش پر برطانوی تسلط کے خلاف جنگ آزادی میں مسلمانوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا اور جنگ آزادی کے آخری مراحل میں اسلامی فلسفہ حیات کی حکمرانی کے لیے پاکستان کے نام سے الگ ملک کا مطالبہ کر کے تقسیم ہند کی راہ ہموار کی، اس طرح دنیا کے نقشہ پر پاکستان کا وجود نمودار ہوگیا۔ لیکن پاکستان کے قیام کے بعد اس وطن عزیز میں اسلامی فلسفہ حیات کی حکمرانی قائم کرنے کے بجائے مغربی فلسفہ کو ہی منزل قرار دے لیا گیا اور ملک میں مغربی جمہوریت اور سولائزیشن کی حکمرانی یا قرآن و سنت کی بالادستی کے لیے ایک طویل کشکش کا آغاز ہوگیا۔ اس کشمکش میں ایک طرف برطانوی حکمرانوں کی پیدا کردہ حکمرانوں کی دوغلی نسل ہے جو اپنی ہی طرح کا نظام پاکستان پر مسلط رکھنا چاہتی ہے اور اس کی پشت پر پورا مغرب اپنے تمام تر وسائل اور توانائیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ جبکہ دوسری طرف وہ نظریاتی حلقے اور کارکن ہیں جو جنگ آزادی اور قیام پاکستان کے اصل مقاصد کو نگاہوں سے اوجھل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ جمہوریت، سیکولرزم، سولائزیشن، انسانی حقوق اور آزادی کے حوالہ سے پیش کیے جانے والے مغربی فلسفہ کو مسترد کرتے ہوئے قرآن و سنت کی غیر مشروط بالادستی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

مغربی فلسفہ آج ہمارے معاشرے میں کس حد تک دخیل ہے اور اس کے پیروکار اسلامی فلسفہ حیات کو اجتماعی نظام سے بے دخل کرنے کے لیے کن کن مورچوں سے ہم پر حملہ آور ہیں؟ اس کے عملی نقشہ پر ایک نظر ڈال لینا مناسب معلوم ہوتا ہے، اس لیے واقعات کی ایک ترتیب پیش خدمت کی جا رہی ہے جس سے اس نقشہ کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

یہ ہے اس مسلسل اور مربوط محنت کی ایک جھلک جو ہمارے معاشرہ پر مغربی فلسفہ کی گرفت کو قائم رکھنے اور مستحکم کرنے کے لیے ایک عرصہ سے جاری ہے۔ اس محنت کے پیچھے امریکہ ہے، پورا مغرب ہے، بین الاقوامی ذرائع ابلاغ ہیں، انسانی حقوق کے نام پر کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیمیں ہیں، پاکستان میں نوآبادیاتی نظام کے محافظ طبقے ہیں، اسلامی نظام کے نفاذ سے اپنے مفادات کو خطرہ محسوس کرنے والے طاقتور گروہ ہیں، اور قومی زندگی کے مختلف اجتماعی شعبوں میں اہم حیثیت رکھنے والے افراد ہیں۔ ان سب کی مشترکہ تگ و دو کے اس نتیجہ کو ایک واقعی حقیقت کے طور پر قبول کرنے میں کسی ہچکچاہٹ سے کام لینے کی ضرورت نہیں ہے کہ دینی حلقے جو ۱۹۴۷ء کے بعد سے ۱۹۸۴ء تک اسلامائزیشن کے محاذ پر سست رفتار سہی مگر کچھ نہ کچھ پیش رفت کرتے دکھائی دے رہے تھے اب دفاعی پوزیشن پر آگئے ہیں۔ اور اس دفاعی لائن کے پیچھے بھی ان کی صفوں میں اشتراک و اتحاد نہیں ہے، ترتیب نہیں ہے، منصوبہ بندی نہیں ہے، مسائل کے ادراک و تجزیہ کا ذوق نہیں ہے اور ترجیحات کو درست کرنے کا احساس نہیں ہے۔

معافی کا خواستگار ہوں کہ اصل موضوع کی طرف آنے سے پہلے عالم اسلام اور پاکستان میں اسلامی نظام حیات اور مغربی فلسفہ کی کشمکش کا تعارف قدرے تفصیل کے ساتھ آپ حضرات کے سامنے لانا پڑا۔ لیکن جب مغربی فلسفہ کی یلغار کے حوالہ سے دینی صحافت کی ذمہ داریوں پر بحث مقصود ہے تو اس یلغار کے مالہ و ما علیہ پر ایک نظر ڈال لینا ضروری تھا۔ اس پس منظر میں دینی صحافت کی سب سے اہم اور بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ

یہ سارے وہ کام ہیں جو موجودہ حالات میں دینی صحافت کی ذمہ داریوں کے ضمن میں آتے ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ دینی صحافت کا موجودہ ڈھانچہ اپنی ہیئت اور ترجیحات کے حوالہ سے ان امور کو اہمیت نہیں دے پارہا جس کی ضرورت ہے۔ اس امر کی مزید وضاحت کے لیے ضروری ہے کہ دینی صحافت کے موجودہ دائرہ کار پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔ ہمارے ملک میں شائع ہونے والے دینی جرائد کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

  1. بعض جرائد مختلف دینی جماعتوں کے آرگن کے طور پر شائع ہوتے ہیں۔
  2. بعض جرائد اسلام کے حوالہ سے کام کرنے والی بعض شخصیات کے ترجمان ہیں۔
  3. بعض جرائد علمی اداروں کی نمائندگی کرتے ہیں۔
  4. اور بعض جرائد وہ ہیں جو مسالک اور مکاتب فکر کے حوالہ سے خدمات سر انجام دیتے ہیں۔

ظاہر بات ہے کہ ان کی ترجیحات بھی اپنے اپنے مقاصد کے حوالہ سے یقیناً مختلف ہیں۔ ایسے جرائد جو جماعت، شخصیت، ادارہ اور مسلک کی ترجیحات کے دائروں سے بے نیاز ہو کر عالم اسلام کی مشکلات و مسائل، مغربی فلسفہ کی یلغار، اسلامائزیشن کے تقاضوں اور سیکولر لابیوں کی سرگرمیوں کی بنیاد پر اپی ترجیحات کا آزادانہ تعین کر سکیں، ہمارے معاشرہ میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اور جو چند ایک ہیں خود ہمارے دینی حلقوں کا رویہ ان کے ساتھ حوصلہ افزائی کا نہیں ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ دینی جرائد جن دائروں میں کام کر رہے ہیں وہ خدانخواستہ غیر ضروری ہیں۔ ہرگز نہیں بلکہ ان میں سے ہر کام کی ضرورت اپنے دائرہ میں مسلم ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا البتہ ترجیحات کا معاملہ مختلف ہے۔ اور میں بصد احترام یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلام اور اسلامی تحریکات کے حوالہ سے مغربی فلسفہ اور لابیوں کی ہمہ جہت یلغار کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے دینی جرائد کی موجودہ ترجیحات مجموعی طور پر درست نہیں ہیں اور ہمیں ان پر بہرحال نظرثانی کرنی چاہیے۔

میں نے جب محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب، ڈائریکٹر دعوہ اکیڈمی کی خدمت میں دینی جرائد کے مدیران کے اس سیمینار کے انعقاد کی تجویز پیش کی تھی تو میرے پیش نظر یہی بات تھی کہ ہمیں اپنی ترجیحات اور طریق کار پر باہمی مشاورت کے ساتھ نظر ثانی کرنی چاہیے اور کھلے دل و دماغ کے ساتھ ان امور کا جائزہ لینا چاہیے کہ عالم اسلام اور پاکستان کے حوالہ سے دینی صحافت سے ایک باشعور مسلمان کی توقعات کیا ہو سکتی ہیں؟ وہ توقعات اور ضروریات ہم کہاں تک پوری کر رہے ہیں؟ اس راستہ کی مشکلات اور رکاوٹیں کیا ہیں؟ اور ضروریات اور کام کے درمیان جو خلا دکھائی دے رہا ہے اس کو پر کرنے کے لیے ہم کیا کچھ کرسکتے ہیں؟ میں ڈاکٹر غازی صاحب اور ان کے رفقاء کا بے حد شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری اس تجویز کو قبول کیا اور اس سیمینار کا اہتمام کر کے دینی جرائد کے باہمی رابطہ و ملاقات کے کار خیر کا آغاز کر دیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دیں اور ان کی اس کاوش کو قبولیت سے نوازتے ہوئے مثبت ثمرات سے بہرہ ور فرمائیں۔

اس موقع پر میں اپنی تجویز کا دوسرا حصہ سیمینار کے معزز شرکاء کی خدمت میں پیش کرنا مناسب سمجھوں گا جو دعوۃ اکیڈمی کے لیے نہیں بلکہ شرکائے سیمینار کے لیے ہے کہ مشاورت کو مستقل شکل دینے کی کوئی عملی صورت نکالنی چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ہم مختلف مقامات پر سال میں دو تین دفعہ جمع ہو کر مسائل اور ضروریات کا جائزہ لے لیا کریں تو باہمی مشاورت اور رابطہ کی برکت سے ہمارے کام کی ترجیحات اور تربیت کو خودبخود صحیح سمت مل جائے گی اور ہم اپنے موجودہ کام کی افادیت میں کئی گنا اضافہ کر سکیں گے۔

اس مقصد کے لیے اگر کوئی ہلکی پھلکی سی سوسائٹی تشکیل دے لی جائے تو مناسب رہے گا۔ سوسائٹی سے میری مراد ٹریڈ یونین طرز کی کوئی ایسی تنظیم نہیں ہے جو حقوق و مفادات اور مراعات کی دوڑ میں معاصر تنظیموں کے ساتھ شریک ہو۔ بلکہ خالصتاً علمی و فکری قسم کی سوسائٹی کا قیام مقصود ہے جو دینی جرائد کے درمیان مفاہمت اور اشتراک کی فضا پیدا کرے، ایک اسٹڈی سرکل کے طور پر پیش آمدہ مسائل کا تجزیہ کر کے دینی جرائد سے وابستہ افراد کی بریفنگ اور راہنمائی کا فریضہ سر انجام دے اور باصلاحیت نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کر کے دینی صحافت میں اچھا لکھنے والے افراد کا اضافہ کرے۔ میں توقع رکھتا ہوں کہ شرکائے سیمینار طویل سمع خراشی پر معذرت قبول کرتے ہوئے میری گزارشات اور تجویز کو سنجیدہ توجہ سے نوازیں گے۔

محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی، محترم محمد افتخار کھوکر، اور الدعوۃ اکیڈمی کے دیگر رفقاء کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتے ہوئے اس دعا کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں کہ اللہ رب العزت ہمیں اخلاص نیت کے ساتھ توفیق عمل عطا کریں اور اسلام و عالم اسلام کو درپیش مسائل و مشکلات میں امت مسلمہ کو صحیح سمت راہنمائی کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

رسول اللہؐ کی محبت، ایمان کا اولین تقاضا

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

مومن کے صاف اور شفاف دل میں سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر خالقِ کائنات، منعمِ حقیقی اور رب ذوالجلال کی محبت ہوتی ہے۔ اس کے دل کے اس خانہ میں کسی اور کی محبت کے لیے مطلقاً کوئی جگہ اور گنجائش ہی نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
والذین اٰمنوا اشد حب اللّٰہ۔ (البقرہ)
’’ اور وہ لوگ جو ایمان لائے ان کی سب سے بڑھ کر محبت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتی ہے۔‘‘
اس کے بعد مومن کے دل میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت گہرے سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مارتی ہے، اور اس محبت کے مقابلہ میں مخلوق میں سے کسی بھی فرد کی محبت اور عقیدت کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور نہ مومن اس کو قابلِ التفات ہی سمجھتا ہے۔ یہ محبت محض عشق و عقیدت کے درجہ کی نہیں بلکہ تصدیق و اذعان اور پختہ عقیدہ کی آخری حد ہے اور مدارِ ایمان اور باعثِ نجات ہے۔ اس محبت کا ظاہری طور پر اظہار آپ کی صحیح فرمانبرداری اور اطاعت سے ہوتا ہے، اور جس درجہ کی محبت دل میں موجزن ہوتی ہے اسی انداز کی اطاعت کا محب سے صدور ہوتا ہے۔ 
سیدنا حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ (المتوفٰی ۹۳ھ) سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’تم میں سے کوئی ایک شخص بھی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ اور اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ (بخاری ج ۱ ص ۷ ۔ مسلم ج ۱ ص ۴۹)
اس صحیح حدیث شریف میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن ہونے کے لیے ایک بنیادی شرط اور واضح علامت بیان فرمائی ہے کہ وہ آپ کی ذاتِ گرامی سے ماں، باپ، اہل و عیال اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبت کرے۔ اگر معاذ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں تو وہ مومن نہیں ہو سکتا۔
سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (المتوفٰی ۵۷ھ) کی روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی ایک شخص بھی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے ہاں میں اس کے ماں باپ اور اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ (بخاری ج ۱ ص ۷)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد قسم اٹھائے بغیر بھی بالکل سچا ہے مگر آپ نے یہ مضمون اور حکم موکد کرنے کے لیے قسم سے بیان فرمایا ہے۔
سیدنا حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (المتوفٰی ۲۳ھ) کی روایت میں ہے:
’’حضرت عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وبارک وسلم کے ساتھ تھے اور آپؐ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ حضرت آپ مجھے اپنے نفس کے بغیر ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اس وقت تک ایمان حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں تیرے نفس سے بھی زیادہ تجھے محبوب نہ ہو جاؤں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، اب آپ مجھے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وبارک وسلم نے ارشاد فرمایا، ہاں عمر! اب بات بن گئی۔‘‘ (بخاری شریف ج ۲ ص ۹۸۱)
امام نووی الشافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (المتوفٰی ۶۷۶ھ) سیدنا حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کی شرح میں محدث ابن بطال رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ
’’بلاشبہ جس نے دن کو مکمل کر لیا تو وہ یہ جانتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حق اپنے ماں باپ، اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ موکد ہے، کیونکہ ہم آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہی کی بدولت دوزخ سے بچے اور ہم نے آپ ہی کی وجہ سے گمراہی سے ہدایت حاصل کی۔‘‘ (شرح مسلم ج ۱ ص ۴۹)
مومن کی نگاہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے غضب، اس کی ناراضگی، اور آتشِ دوزخ سے بچنے اور گمراہی کے گڑھے سے نکل کر راہِ ہدایت پر آجانے سے بڑھ کر اور کیا خوشی اور کامیابی ہو سکتی ہے؟ بلاشبہ ماں باپ اور اولاد سے بسا اوقات بڑے بڑے فوائد و منافع حاصل ہوتے ہیں لیکن گمراہی کے عمیق اور گہرے کنوئیں سے نکل کر ہدایت کے سرسبز و شاداب چمن میں آ جانا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ اور گوناگوں عذاب سے بچ جانا بہت بڑی سعادت اور اعلیٰ ترین کامیابی ہے، اور یہ امتِ مسلمہ کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و بارک وسلم کی کوشش اور آپ ہی کی سعی سے حاصل ہوئی ہے۔ جب اتنی بڑی دولت آپ کے طفیل سے حاصل ہوئی ہے تو شرعی لحاظ سے تو ضروری ہے ہی، فطری طور پر بھی آپ سے محبت بہت ضروری ہے۔ اور یہ محبت تمام اعزہ و اقارب سے بڑھ کر آپ سے وابستہ ہونی لازم ہے۔ اور یہ محبت ایمان کی اصل الاصول بھی ہے اور مدار بھی۔ مخلوق میں باقی سب کا حق اس کے بعد ہے، مقدم صرف آپ ہی کا حق ہے، صلی اللہ علیہ و بارک وسلم۔
حضرت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ ہی جلیل القدر شارح حدیث علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ
’’ایمان کی حقیقت سوائے اس کے مکمل نہیں ہو سکتی اور ایمان اس کے بغیر صحیح ہی نہیں ہو سکتا جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت کو اپنے ماں باپ اور اولاد اور محسن اور مہربان سب پر بلند کرنا متحقق نہ ہو جائے، اور جس شخص نے یہ اعتقاد نہ کیا اور اس کے علاوہ کچھ اور اعتقاد رکھا تو وہ مومن نہیں ہے۔‘‘ (ایضاً ص ۴۹)
اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ماں باپ اور اعزہ و اقارب کے ساتھ محبت میں بالواسطہ یا بلاواسطہ نفس اور جسم کا تعلق ہوتا ہے لیکن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت اور لگاؤ جسم اور روح دونوں کے ساتھ وابستہ ہے۔ جس کے نتیجہ میں جہاں مومن کا یہ جہاں بنتا ہے وہاں آخرت کا ابدی جہاں بھی صرف بنتا ہی نہیں بلکہ خوب اجاگر ہوتا ہے اور اسی پر موقوف ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ مومن کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے جو نشاط و سرور اور وجد کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں وہ ظاہری حسن و جمال کے شیدائی کو کب حاصل ہو سکتی ہیں، جو انسانوں اور حیوانوں سے آگے نکل کر بہتی ہوئی ندیوں اور لہلہاتے ہوئے مرغزاروں، چہچہاتی ہوئی چڑیوں، کھلے ہوئے شگفتہ و نیم شگفتہ پھولوں، وادیوں کے نشیب و فراز، دامنِ کوہ کی ابھرتی ہوئی بلندیوں، اور ڈھلتی ہوئی پستیوں کی جمالی تجلیوں میں تلاش کرتا ہے۔ اور اسی محبت کی وجد آفریں کیفیت کو دشمنانِ اسلام مسلمانوں کے حافظہ سے مٹانا چاہتے ہیں، لیکن وہ بجائے مٹنے کے ہر دم تازہ سے تازہ ہو کر ابھرتی رہتی ہے۔ سچ ہے ؎
مجھے پستیوں کا گلہ نہیں کہ ملی ہیں ان سے بلندیاں
میرے حق میں دونوں مفید ہیں کہ نشیب ہی فراز ہے

توہینِ رسول کفر اور قابلِ گردن زدنی ہے

فقہائے اسلام نے نہایت وضاحت سے یہ بات کتابوں میں لکھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص و توہین اور سب و شتم اور تکذیب و عیب جوئی صریح طور پر کفر ہے۔ چنانچہ قاضی القضاۃ حضرت امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم الحنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (المتوفٰی ۱۸۲ھ) لکھتے ہیں کہ
’’جس شخص نے بھی مسلمان ہو کر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی یا آپ کی تکذیب کی یا آپ پر کوئی عیب لگایا، آپ کی تنقیص کی تو بلاشبہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کافر ہے اور اس کی بیوی اس سے بائن اور جدا ہو جائے گی، سو اگر وہ توبہ کر لے تو فبہا ورنہ اس کو قتل کیا جائے گا۔‘‘ (کتاب الخراج ص ۱۸۲)
اس سے بصراحت معلوم ہوا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رفیع کو گالی دینا یا آپ کی تکذیب و عیب جوئی کرنا یا توہین و تنقیص کرنا خالص کفر ہر جس سے اس کی بیوی اس پر حرام ہو جاتی ہے۔
مشہور مالکی امام قاضی عیاض بن موسٰی بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ (المتوفٰی ۵۴۴ھ) لکھتے ہیں کہ
’’حضرت امام محمد بن سحنون رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ تمام علماء کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب و شتم کرنے والا اور آپ کی تنقیص کرنے والا کافر ہے، اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کی وعید اس پر جاری ہے۔ اور امت کے نزدیک اس کا حکم یہ ہے کہ اس کو قتل کر دیا جائے اور جو شخص اس کے کفر اور عذاب میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔‘‘ (الشفاء ج ۴ ص ۱۹۰ طبع مصر)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ الحنبلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (المتوفٰی ۷۲۸ھ) لکھتے ہیں کہ
’’قاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے کہ جو شخص بھی جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب کرے، یا آپ کو عیب لگائے، یا آپ کی ذاتِ پاک، نسب یا دین یا آپ کی خصلتوں میں سے کسی خصلت میں کوئی عیب نکالے، یا کسی بھی شخص کو آپ کے متعلق سب و تنقیص یا بغض یا عداوت کے طور پر کوئی شبہ پیدا ہوا، تو وہ گالی ہی ہو گی اور ایسے شخص کا حکم وہی ہے جو گالی دینے والے کا ہے کہ اس کو قتل کیا جائے گا (جس کا انتظام اسلامی حکومت کرے گی)‘‘۔ (الصارم المسلول ص ۵۲۸ طبع دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن)
یہ تمام عبارات اپنے مفہوم اور مضمون کے اعتبار سے بالکل واضح ہیں، مزید کسی توضیح و تشریح کی محتاج نہیں ہیں۔

سات چیزوں سے پناہ کی دعا

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

عن ابی الیسر (رضی اللہ عنہ) ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یدعو بہؤلاء الکلم السبع: یقول اللھم انی اعوذبک من الھرم واعوذ بک من التردی اوعوذ بک من الغم والغرق والحرق و اعوذ بک ان یتخبطنی الشیطان عند الموت واعوذ بک ان اموت فی سبیلک مدبرا واعوذ بک ان اموت لدیغا۔ (مسند احمد، طبع بیروت، ج ۳ ص ۷۲۸)
حضرت ابو یسرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سات کلمات کے ساتھ دعا کیا کرتے تھے:

(۱) اللّٰھم انی اعوذ بک من الھرم

اے اللہ! میں تیری ذات کے ساتھ انتہائی بڑھاپے سے پناہ مانگتا ہوں۔ انسان عمر کے اس حصے میں پہنچ جائے جہاں چلنا پھرنا، کھانا پینا مشکل ہو جائے، حتٰی کہ عقل بھی ٹھکانے نہ رہے تو ایسی حالت سے پناہ مانگی گئی ہے۔

(۲) واعوذ بک من التردی

اے اللہ! میں کسی اونچی جگہ سے گر کر ہلاک ہونے سے بھی تیری پناہ پکڑتا ہوں۔ بعض اوقات انسان کسی پہاڑ کی چوٹی سے یا بلند عمارت سے گر پڑتا ہے یا کسی دیگر حادثے کا شکار ہو کر موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی پناہ مانگی ہے۔

(۳) واعوذ بک من الغم

اے اللہ! میں تیری ذات کے ساتھ غم سے پناہ مانگتا ہوں۔ کوئی غم لاحق ہو جائے تو دل و دماغ پر نہایت منفی اثرات پڑتے ہیں اور انسان سخت پریشان ہو جاتا ہے۔ ابن ماجہ شریف کی روایت میں آتا ہے ’’الھم نصف الھرم‘‘ یعنی غم آدھا بڑھاپا ہوتا ہے۔ غم دنیا کا بھی ہوتا ہے اور دین کا بھی۔ حضور علیہ السلام کو دین کا غم تھا جس سے آپ پناہ مانگتے تھے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا، مجھے سورۃ ہود، الشمس، کورت اور نبا نے بوڑھا کر دیا ہے۔ آپ کو دین کی اس قدر فکر تھی۔

(۴) والغرق والحرق

اے اللہ! میں تیری ذات کے ساتھ پانی میں ڈوب کر مرنے سے پناہ چاہتا ہوں۔ یہ بھی حادثاتی موت ہے جس کو پسند نہیں کیا گیا۔ اور آگ میں جل کر مرنے سے بھی پناہ چاہتا ہوں۔ یہ بھی بڑی تکلیف دہ موت ہے، اللہ اس سے بچائے۔

(۵) واعوذ بک ان یتخبطنی الشیطان عند الموت

اور اس چیز سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ موت کے وقت مجھے شیطان مخبوط الحواس بنا دے اور انسان ایمان کی دولت سے محروم ہو جائے۔ شیطان ہر انسان پر اس کے آخری وقت تک حملہ آور ہوتا رہتا ہے تاکہ اس کے ایمان پر ڈاکہ ڈال لے، لہٰذا حضور علیہ السلام نے اس چیز سے بھی پناہ مانگی ہے۔

(۶) واعوذ بک ان اموت فی سبیلک مدبرا

اے اللہ! میں تیری ذات کے ساتھ اس بات سے بھی پناہ چاہتا ہوں کہ میں تیرے راستے میں پشت پھیرنے والا بنوں۔ جب دشمن سے میدانِ جنگ میں مقابلہ ہو رہا ہو تو اس وقت پیٹھ پھیر کر بھاگنا سخت معیوب ہے کہ اس سے دوسروں کی بھی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ قرآن میں اللہ کا فرمان ہے کہ جہاد میں اگر دشمنوں کی تعداد اہل ایمان سے دگنی بھی ہو تو انہیں ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے اور بزدلی نہیں دکھانی چاہیے۔ ہاں اگر دشمن کی تعداد دو گنا سے بھی زیادہ ہو تو پھر مقابلے میں نہ آنے کی اجازت ہے۔ 

(۷) واعوذ بک ان اموت لدیغا

اے اللہ! کسی کیڑے مکوڑے کے کاٹنے سے مرنے سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں۔ بعض اوقات سانپ، بچھو وغیرہ کاٹ جاتے ہیں جس سے موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس قسم کی اچانک موت سے پہلے انسان نہ کوئی کلام کر سکتا ہے نہ وصیت کر سکتا ہے، علاج معالجہ بھی بہت مشکل ہوتا ہے، لہٰذا ایسی موت سے بھی پناہ طلب کی گئی ہے۔

گستاخِ رسول کے لیے سزائے موت اور بائبل

محمد یاسین عابد

حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ اقدس ہی سے اہلِ اسلام میں گستاخِ رسولؐ کے لیے سزائے موت مقرر ہے۔ فقہ و حدیث کی کتابوں میں اس قانون کی وضاحت کے علاوہ علماء کرام نے اس موضوع پر مستقل کتب بھی رقم فرمائی ہیں جن میں علامہ ابن تیمیہؒ کی ’’الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول‘‘، علامہ تقی الدین السبکیؒ کی ’’السیف المسلول علیٰ من سب الرسول‘‘ اور علامہ ابن عابدین شامیؒ کی ’’تنبیہہ الولاۃ والحکام علیٰ احکام شاتم خیر الانام اواحد اصحابہ الکرام‘‘ اہلِ علم میں معروف و متداول ہیں۔ اس لیے شاتمِ رسولؐ کے لیے سزائے موت کے اثبات کے لیے ہمیں قرآن و حدیث کی روشنی میں مضمون مرتب کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ البتہ کچھ عرصہ سے مسیحی حضرات کی طرف سے اس سزا کے خلاف مسلسل احتجاج و ہنگامہ جاری ہے، اس لیے ہم نے مناسب سمجھا کہ شاتمِ رسول کے لیے سزائے موت کا اثبات بائبل مقدس سے کر کے مسیحی حضرات کے سامنے رکھا جائے تاکہ وہ اپنا بلاوجہ احتجاج و ہنگامہ بند کریں۔
انجیل میں مسیحیوں کو حکومتی قوانین اور فیصلوں کی مخالفت سے باز رکھنے کے لیے بڑے سخت الفاظ میں وعید مرقوم ہے:
’’ہر شخص اعلیٰ حکومتوں کا تابعدار رہے کیونکہ کوئی حکومت ایسی نہیں جو خدا کی طرف سے نہ ہو اور جو حکومتیں موجود ہیں خدا کی طرف سے مقرر ہیں، پس جو کوئی حکومت کا سامنا کرتا ہے وہ خدا کے انتظام کا مخالف ہے اور جو مخالف ہیں وہ سزا پائیں گے۔‘‘ (رومیوں ۱۳ : ۱ و ۲۔پطرس ۲ : ۱)
مگر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ پاکستانی مسیحی انجیل جلیل کی تعلیمات کو بھول کر تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵سی کے خلاف بولتے نہیں تھکتے، بلکہ اکثر اوقات قانون شکنی کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔ مسیحی حضرات نے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵سی یعنی ’’گستاخِ رسولؐ کے لیے سزائے موت‘‘ کو ختم کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے (دیکھیے مسیحی پندرہ روزہ شاداب لاہور، نومبر ۱۹۹۳ء)۔ حالانکہ بائبل مقدس سے نہ صرف شاتمِ رسولؐ کے لیے بلکہ رسول کے علاوہ دوسری مقدس ہستیوں کے گستاخ کے لیے بھی موت کی سزا ثابت ہے، ایسے میں مسیحیوں کا اس قانون کی مخالفت کرنا بائبل کی مخالفت کے مترادف ہے۔

کاہن و قاضی کے گستاخ کی سزا موت

بائبل کی کتاب استثنا میں ہے:
’’اگر کوئی شخص گستاخی سے پیش آئے کہ اس کاہن کی بات جو خداوند تیرے خدا کے حضور خدمت کے لیے کھڑا رہتا ہے یا اس قاضی کا کہا نہ سنے تو وہ شخص مار ڈالا جائے اور تو اسرائیل میں سے ایسی برائی کو دور کر دینا اور سب لوگ سن کر ڈر جائیں گے اور پھر گستاخی سے پیش نہیں آئیں گے۔‘‘ (استثنا ۱۷ : ۱۲ و ۱۳)
اگر حاکم و قاضی و کاہن کی شان میں گستاخی کی سزا موت ہے تو نبی، جو کہ لاکھوں کاہنوں اور قاضیوں سے افضل ترین ہوتا ہے، کی شان میں گستاخی کرنے والا کیونکر بچ سکتا ہے۔ اور گستاخانِ رسالتؐ کی پشت پناہی کرنے والے امرا سے متعلق بائبل میں ہے:
’’ان کے امرا اپنی زبان کی گستاخی کے سبب سے تہ تیغ ہوں گے۔‘‘ (ہوسیع ۷ : ۱۶)
’’حکومت کو ناچیز جانتے ہیں وہ گستاخ اور خود رای ہیں اور عزت داروں پر لعن طعن کرنے سے نہیں ڈرتے ۔۔۔ یہ لوگ بے عقل جانوروں کی مانند ہیں جو پکڑے جانے اور ہلاک ہونے کے لیے حیوان مطلق پیدا ہوئے ہیں۔‘‘ (۲۔پطرس ۲ : ۱۰ تا ۱۲ ، یو ایل ۲ : ۲)

توریت کے گستاخ کی سزا موت

پوری قوم بنی اسرائیل کے پاس توریت کا صرف ایک ہی نسخہ تھا۔ توریت ہر سات برس بعد عوام کو صرف ایک بار عید خیام کے روز پڑھ کر سنائی جاتی تھی (استثناء ۳۱ : ۹ تا ۱۱)۔ اس کے علاوہ توریت کا وہی واحد نسخہ ہمیشہ ایک لکڑی کے صندوق میں رکھا رہتا تھا۔ اس صندوق کو عہد کا صندوق کہا جاتا تھا (خروج ۲۵ : ۱۰ تا ۲۲)۔ کوئی شخص اگر بھول کر اس صندوق کو ہاتھ لگاتا تو اسے صندوق کی شان میں گستاخی سمجھ کر ہاتھ لگانے والے کو قتل کر دیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ صندوق میں محض جھانک لینے کی گستاخی پر بیت شمس کے پچاس ۔۔۔ ستر آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ایک دفعہ مذکورہ بالا صندوق کو بیل گاڑی پر لاد کر لے جایا جا رہا تھا، بیل گاڑی کو عزہ ہانک رہا تھا کہ اچانک بیلوں نے ٹھوکر کھائی تو غیر ارادی طور پر عزہ کا ہاتھ مذکورہ صندوق کو لگ گیا، پھر کیا تھا، اسے عزہ کی طرف سے صندوق کی شان میں گستاخی قرار دے کر مار دیا گیا (۲۔ سموئیل ۶ : ۶ تا ۸)۔ صندوق مذکورہ کی مزید ہلاکت خیزیاں جاننے کے لیے ملاحظہ ہو ۱۔سموئیل ۵ : ۱ تا ۱۲۔

والدین کے گستاخ کی سزا موت

بائبل کے مطابق تو والدین کے گستاخ کی سزا بھی موت ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:
’’جو باپ یا ماں کو برا کہے وہ ضرور جان سے مارا جائے۔‘‘ (انجیل متی ۱۵ : ۴)
میں مسیحی حضرات سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ لوگ انبیائے بائبل کو اپنے باپ سے بھی کمتر سمجھتے ہیں؟ حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ اس شخص کا ایمان ہرگز قابلِ قبول نہیں جو والدین سے بھی زیادہ اپنے نبی کو عزیز نہ رکھتا ہو۔ جیسا کہ یسوع مسیح نے فرمایا تھا:
’’جو کوئی باپ یا ماں کو مجھ سے عزیز رکھتا ہے وہ میرے لائق نہیں۔‘‘ (متی ۱۰ : ۳۷ اور لوقا ۱ : ۲۶ و ۳۳)
صحیح بخاری میں سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سید الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’اس کی قسم جس کے  قبضہ میری جان ہے، تم میں سے اس وقت تک کوئی بھی پورا ایمان دار نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے بیٹے اور اس کے باپ سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں‘‘ (مشارق الانوار مطبوعہ لکھنؤ ۱۲۸۶ھ بمطابق ۱۸۷۰ء حدیث ۱۵۳۹)
مسیحی بھائیو! اگر ماں باپ کے گستاخ کی سزا قتل ہے تو پھر اس عظیم الشان نبیؐ کی شانِ مبارک میں گستاخی کرنے والے کو کیوں قتل نہ کیا جائے؟

گستاخِ رسول کی سزا موت

حضرت داؤد علیہ السلام کا نبی اللہ ہونا انجیل سے ثابت ہے (عبرانیوں ۱۱ : ۳۲)۔ معون کے رہنے والے نابال نامی ایک شخص نے حضرت داؤدؑ کے متعلق گستاخانہ الفاظ ادا کیے کہ ’’داؤد کون ہے اور یسی کا بیٹا کون ہے؟‘‘ اس کی خبر جب داؤد نبیؑ کو ہوئی تو زبانِ نبوت سے شاتِم رسول کے لیے قتل کے احکامات یوں صادر ہوئے:
’’تب داؤد نے اپنے لوگوں سے کہا اپنی تلوار باندھ لو، سو ہر ایک نے اپنی تلوار باندھی اور داؤد نے بھی اپنی تلوار حمائل کی۔ سو قریباً چار سو جوان داؤد کے پیچھے چلے۔‘‘ (۱۔سموئیل ۲۴۵ : ۲ تا ۱۳)
کسی طرح گستاخِ رسول نابال کی بیوی ابیجیل کو خبر ہو گئی کہ اس کا شوہر گستاخِ رسول ثابت ہوا ہے اور زبانِ نبوت سے اس کے لیے سزائے موت کا حکم صادر ہوا ہے تو اس عورت نے بہت ہی منت سماجی کر کے حضرت داؤد کو نابال کے قتل سے روک لیا۔ لیکن خدا نے نابال کو دس دن کے اندر اندر مار دیا کیونکہ خدا کو ایک شاتمِ رسول کی زندگی ہرگز گوارہ نہیں (۱۔سموئیل ۲۵ : ۲ تا ۳۸)۔
قارئین کرام ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ بائبل مقدس کے مطابق ماں باپ کا گستاخ واجب القتل ہے (خروج ۲۱ : ۱۶، متی ۱۵ : ۴ ، مرقس ۷ : ۱۰)۔ حاکم اور قاضی اور کاہن کا گستاخ بھی تہ تیغ ہونا چاہیے (استثنا ۱۷ : ۱۲ و ۱۳ ، ہوسیع ۷ : ۲۱۶ ، پطرس ۲ : ۱ تا ۱۲ ، یو ایل ۲ : ۲۰)۔ اور اللہ کے رسول کے گستاخ کی سزا بھی قتل ہے (۱۔سموئیل ۲۵ : ۲ تا ۳۸) جبکہ رسول عربیؐ کی شان پر کروڑوں سلاطین، قاضی و کاہن اور والدین قربان کیے جا سکتے ہیں۔

’’کلامِ حق‘‘ کا کلامِ حق

اس ضمن میں معروف مسیحی جریدہ ’’کلامِ حق‘‘ کا یہ بیان مسیحی حضرات کی انصاف اور دیانت کی طرف راہنمائی کرتا ہے:
’’ہم مسیحی قوم تعزیراتِ پاکستان دفعہ ۲۹۵سی یعنی گستاخِ رسولؐ کے مخالف نہیں۔ ہم صرف یہ درخواست کرتے ہیں کہ جو مسیحی اس الزام کے تحت پابندِ سلاسل ہیں یا آئندہ ہوں گے، ان کے لیے ایک خصوصی عدالتی کمیشن بنایا جائے جس کا سربراہ ہائی کورٹ کا جج ہو۔ مسلمان اور مسیحی قوم یا صوبائی نمائندے، مقامی انتظامیہ اور دونوں پارٹیاں مل کر غیر جانبدارانہ تحقیقات کریں اور اگر ملزم واقع مجرم ہو تو اس کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ بصورتِ دیگر رہا کیا جائے۔‘‘ (ماہنامہ کلامِ حق گوجرانوالہ ۔ صفحہ ۱۳ ۔ مارچ ۱۹۹۴ء)

اسلام کو دہشت گردی کے حوالہ سے بدنام کرنا غلط ہے۔ مسیحی رہنما

ادارہ

ویٹیکن سٹی میں ’’مسیحی مجلسِ مکالمہ بین المذاہب‘‘ کے شعبہ امورِ اسلامی کے سربراہ تھامس مائیکل نے کہا ہے کہ اسلام کو دہشت گردی کے حوالے سے بدنام کرنا ایک غلط عمل ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس طرح کے الزامات سے دنیا میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کلیسا لوگوں کو یہ بات سمجھائے گی کہ ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ ماضی میں عیسائیوں کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کو مسیحی دہشت گردی کا نام نہیں دیا گیا تھا۔ اسی طرح ہمیں مسلمانوں کی جانب سے کی جانے والی پرتشدد کارروائیوں کو اسلامی دہشت گردی کا نام نہیں دینا چاہیے۔
مسیحی مذہبی رہنما نے کہا کہ بعض لوگ غلطی سے اس خیال کی اشاعت کر رہے ہیں کہ اسلام ہمارا نیا دشمن ہے۔ ہمیں اس غلط فہمی کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ ہمیں ببانگِ دہل یہ کہنا چاہیے کہ اسلام ایک اعلیٰ اخلاقی زندگی کی دعوت دینے والا مذہب ہے۔
مسیحی رہنما نے کہا کہ دوسرے مذاہب کی طرح اسلام کو بھی غلط طور پر تشدد آمیز کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ ہندو، ہندومت کو استعمال کر رہے ہیں، اور اس سے پہلے صلیبی جنگوں میں مسیحی بھی یہی کچھ کر چکے ہیں۔
(بشکریہ ’’العالم الاسلامی‘‘  مکہ مکرمہ ۔ ۱۱ رمضان ۱۴۱۴ھ / ۲۱ فروری ۱۹۹۴ء)

امیر المومنین فی الحدیث امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ

سید سلمان گیلانی

جامعہ انوار القرآن (آدم ٹاؤن، نارتھ کراچی) میں بخاری شریف کے اختتام کی سالانہ تقریب ۲۵ دسمبر ۱۹۹۳ء کو منعقد ہوئی۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس دیا۔ ان کے علاوہ مولانا محمد اجمل خان، مولانا فضل الرحمٰن، مولانا زاہد الراشدی، مولانا فداء الرحمٰن درخواستی، مولانا اکرام الحق خیری اور دیگر علمائے کرام نے بھی تقریب سے خطاب کیا، اور اس موقع پر شاعرِ اسلام سید سلمان گیلانی نے امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کے حضور مندرجہ ذیل منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا۔

امت پہ ترا کتنا ہے احسان بخاریؒ

یکجا کئے سرکارؐ کے فرمان بخاریؒ

قرآن کی تفسیرِ حقیقی ہیں احادیث

گویا ہیں احادیث بھی قرآن بخاریؒ

مسلمؒ ہو کہ ہو ترمذیؒ، داؤدؒ کہ ماجہؒ

ممتاز ہے ان سب میں تیری شان بخاریؒ

ہر قولِ نبیؐ، کانِ جواہر کا ہے مظہر

ہر حرف ترا لؤلؤ و مرجان بخاری

اللہ رے احادیثِ نبیؐ سے تری الفت

کی زیست اسی راہ میں قربان بخاریؒ

موضوع ہے کیا، کیا ہے ضعیف اور حسن کیا

کر لیتا تھا اک آن میں پہچان بخاریؒ

پڑھتے ہوئے کیوں لطف نہ عشاق اٹھائیں

محبوبِ دو عالمؐ کا ہے فرمان بخاریؒ

تجھ سے بڑا دنیا میں محدث نہیں کوئی

سب متفق اس پر ہیں مسلمان بخاریؒ

دنیا میں ہزاروں ہی  مدارس ہیں کہ جن میں

صدیوں سے ہے جاری تیرا فیضان بخاریؒ

اس بات سے آگاہ ہیں سب غیر مقلد

سمجھے ہیں فقط پیر و نعمانؒ بخاری

احناف نے کی دہر میں تعلیمِ نبیؐ عام

احناف کا ہے دہر پہ احسان بخاریؒ

درخواستی کا عشقِ بخاری ذرا دیکھو

پیری میں بھی ہونٹوں پہ ہے ہر آن بخاری

اللہ شفا دے انہیں جلدی کہو آمین

اگر وہ پڑھائیں ہمیں سلمان! بخاریؒ

چلڈرن قرآن سوسائٹی لاہور

شیخ احمد مختار

چلڈرن قرآن سوسائٹی ۲۶ برس قبل ۱۹۶۷ء میں قائم ہوئی تھی۔ اس کے تخیل اور قیام کا سہرا خان بہادر محمد انعام اللہ خان مرحوم کے سر ہے۔ انہوں نے سوسائٹی کو اپنے خونِ جگر سے سینچا اور پروان چڑھایا۔ وہ بچوں کو طوطے اور جن بھوتوں کی کہانیوں کی بجائے احسن القصص قرآن مجید کے واقعات سنانے کے خواہشمند تھے۔ سوسائٹی نے اربابِ اقتدار اور نظامتِ تعلیم سے بھی مسلسل رابطہ قائم رکھا۔ سوسائٹی کی یہ کوشش بارآور ہوئی اور تمام سرکاری اور غیر سرکاری سکولوں میں قرآنِ حکیم کی ناظرہ تعلیم ۱۹۸۴ء میں لازمی قرار دی گئی اور بعض سپاروں کا ترجمہ بھی نصاب میں شامل کر دیا گیا تاکہ پڑھنے والوں کو قرآن مجید میں اللہ کے احکامات اور پیغام سمجھ میں آ سکیں۔

(۱) قرآن مجید کا آسان ترجمہ

سوسائٹی نے عوام کے لیے قرآن مجید کے بامحاورہ آسان اردو ترجمہ کے سپارے الگ الگ شائع کیے۔ یہ ملک میں بہت پسند کیے گئے اور لاکھوں کی تعداد میں قارئین کو پہنچ چکے ہیں۔ ایک صفحہ پر عربی متن ہے اور بالمقابل مکمل صفحہ اردو ترجمہ جلی الفاظ میں کمپیوٹر پر اعلیٰ معیار کا ٹائپ کیا گیا ہے۔ یہ انتہائی ارزاں ہیں۔ ۳۶ اور ۴۰ صفحات کے سپارے کی قیمت صرف ۲.۵۰ روپے ہے۔ مکمل قرآن کے ۳۰ سپارے ۷۵ روپے میں ملتے ہیں۔ یہ ترجمہ سوسائٹی کی مجلس عاملہ کے رکن ریٹائرڈ لفٹیننٹ کرنل ڈاکٹر محمد ایوب خان نے کیا ہے۔ سوسائٹی ان سپاروں کو مسجدوں، سکولوں اور عام گھروں میں پہنچانا چاہتی ہے تاکہ لوگ عربی متن کے ساتھ اردو ترجمہ بھی پڑھ سکیں اور قرآن حکیم کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہو سکیں۔
اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اس کے احکامات پر عمل کرنے سے ہوتا ہے۔ احکامات کو سمجھنے کے لیے ترجمہ والے سپاروں کی زیادہ سے زیادہ تعلیم اور فروغ کی ضرورت ہے۔ ہم وطن مسلمان بھائیوں سے التجا ہے کہ وہ خود بھی سپارے حاصل کریں، ترجمہ سے سمجھ کر پڑھیں، اور اپنے دوست احباب کو بھی ان کے حصول اور بغور مطالعہ کی ترغیب دیں۔ اپنی جیب سے ہدیہ دے کر زیادہ تعداد میں سپارے حاصل کیجئے اور مسجدوں، سکولوں اور کالجوں میں مفت تقسیم کیجئے اور سب کو عربی متن کے ساتھ اردو ترجمہ پڑھنے، اس کو سمجھنے، اس پر عمل کرنے اور دوسروں سے عمل کرانے کی ترغیب دیجئے۔

(۲) سوسائٹی کی مذہبی کتب

جب ہم بچے تھے تو رات کو سونے سے پہلے ہماری امی، دادی اور نانی ایسی کہانیاں سناتی تھیں جن سے دل میں مذہب سے محبت بڑھتی تھی، بہادری اور شجاعت کا جذبہ ابھرتا تھا، اور راہِ خدا میں جہاد کی تڑپ پیدا ہوتی تھی۔ لیکن اب زمانے نے عجیب کروٹ لی ہے اور معاشرہ اتھل پتھل ہو گیا ہے۔ آج کی مائیں، دادیاں اور نانیاں اپنے جگر گوشوں کو بڑے فخر کے ساتھ پریوں، جنوں اور جانوروں کی کہانیاں سناتی ہیں، یا بہت سا وقت ٹی وی کے پروگراموں کی نذر ہو جاتا ہے۔ چنانچہ بچوں کے دلوں میں خوف اور بزدلی کا تصور ابھرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نئی پود مذہب سے مزید بیگانہ ہوتی جا رہی ہے۔
سوسائٹی نے زیر تعلیم بچوں کی اخلاقی تربیت پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ ماہرینِ تعلیم سے مشاورت کے بعد ایسی کتب شائع کرنے کا اہتمام کیا جن سے نفسِ مضمون قرآن و سنت کی روشنی میں اخلاقی تربیت ہو۔ کتب مرتب اور شائع کرتے وقت یہ امر بھی  ملحوظ رکھا گیا کہ ہماری نئی پود کی اٹھان تعلیماتِ اسلامی پر اس طرح ہو کہ جب وہ میدانِ عمل میں اتریں تو سچے مسلمان اور پکے پاکستانی ہوں۔
سوسائٹی نے مختصر مدت میں اپنی یہ منزل بھی پا لی اور ۳۶ ایسی کتب شائع کیں جن کے مندرجات کی اساس صرف اور صرف قرآن و سنت ہے۔ ان کا کسی مسلک سے تعلق نہیں ہے۔ طلباء اپنی اسلامی تربیت کے تقاضے با آسانی پورے کر سکتے ہیں۔ ان میں سے ۲۴ عدد کتب چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور وفاق کے زیرانتظام علاقوں کے جملہ مدارس میں بطور معاون کتب منظور ہیں۔ تمام کتب افواج پاکستان کی لائبریریوں کے لیے اور ملک کے تمام اسکولز اور پبلک لائبریریوں کے لیے بھی منظور ہو چکی ہیں۔

(۳) رسالہ ’’ماہنامہ کوثر‘‘

چلڈرن قرآن سوسائٹی نے طلبا و طالبات کو معاشرے کے برے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی محدود بساط کے باوجود تگ و دو جاری رکھی ہے اور اس مقصد کے لیے بچوں کے لیے ماہنامہ کوثر جاری کیا ہے، جو حسنِ طباعت کے ساتھ ساتھ حسنِ معانی میں بھی شاہکار ہے۔ یہ ماہنامہ سکولوں کی لائبریریوں کے لیے  منظور ہے۔ بچوں کے ذہن کو صاف ستھرا اور اسلامی رنگ سے مزین کرنے کے لیے اچھا کام سرانجام دے رہا ہے۔ یہ بچوں اور بڑوں کے لیے یکساں مفید اور مناسب ہے۔ اس میں مذہبی تعلیم کے علاوہ سائنسی مضامین، تاریخی واقعات، سوالنامے اور دیگر معلومات بھی دلچسپ طریقے سے شامل کی جاتی ہیں۔ اس کا سالانہ چندہ ۵۰ روپے ہے لیکن طلبا کے لیے رعایتی چندہ صرف ۳۰ روپے سالانہ ہے۔ رابطہ کے لیے: ڈاکٹر نسیم الدین خواجہ، ۷۲ عمر دین روڈ، وسن پورہ، لاہور۔

(۴) لائف ممبر سوسائٹی

سوسائٹی سے ہمدردی رکھنے والے اور اس کے مقاصد کے حصول میں مدد کرنے والے لائف ممبر بن سکتے ہیں۔ لائف ممبر فیس ۱۵۰ روپے ہے۔ لائف ممبروں کو ۳۶ عدد کتب قیمتی ۱۹۰ روپے بلامعاوضہ ان کے گھر پہنچائی جاتی ہے۔ ہمارے لائف ممبروں کی تعداد خدا کے فضل و کرم سے دو ہزار آٹھ سو ہو چکی ہے۔ لائف ممبر بنانے کا مطلب سوسائٹی کے مقاصد اور تبلیغِ دین کو وسیع تر کرنا ہے۔ سوسائٹی یہ مہم آپ کے تعاون کے بغیر سر نہیں کر سکتی۔ آپ اپنے حلقہ احباب میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگوں کو اور خصوصاً طلبا کو سوسائٹی کا لائف ممبر بننے کی ترغیب دیجئے اور ثوابِ دارین حاصل کیجئے۔ اس طرح وہ سوسائٹی کی کتب مفت حاصل کریں اور مطالعہ کا موقع حاصل کر سکیں گے۔ لائف ممبران کو سوسائٹی کی کتب کی خرید پر قیمت میں ۳۰ فیصد رعایت دی جاتی ہے۔ سوسائٹی کی کتب اصل لاگت سے کم قیمت پر فروخت کی جاتی ہیں اور خسارہ مخیر حضرات کے عطیات سے پورا کیا جاتا ہے۔

(۵) گلدستہ نماز

نماز باترجمہ کا ایک کتابچہ ’’گلدستہ نماز‘‘ جس میں نماز کے جملہ ارکان اور ۶ کلمے باترجمہ شامل کیے ہیں تاکہ نماز ادا کرتے وقت الفاظ کو سمجھا جا سکے اور اللہ تعالیٰ سے رشتہ قائم ہو سکے، مفت جاری کرتی ہے۔ ایک روپیہ ڈاک خرچ بھیج کر منگوائیے۔

(۶) سوسائٹی کی شاخیں

سوسائٹی نے ملک بھر میں شاخیں کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دردمندوں اور دین سے شغف رکھنے والوں سے درخواست ہے کہ اللہ کے نور کو گھر گھر پہنچانے کے لیے اپنے اپنے علاقہ میں سوسائٹی کی شاخیں کھولیں۔ قواعد و ضوابط مطبوعہ شکل میں دفتر سوسائٹی سے دستیاب ہیں۔
(۷) عطیات
سوسائٹی کے عطیات محکمہ انکم ٹیکس کے قانون کے مطابق انکم ٹیکس سے مستثنٰی ہیں۔ اداروں کو کتب / قرآن ایک ماہ کی مدت کے کریڈٹ پر دی جاتی ہیں۔ ہر شہر میں سوسائٹی کی برانچیں قائم کی جا سکتی ہیں، اس کے قواعد و ضوابط منگوا سکتے ہیں۔ اسی طرح ہر شہر میں کتب فروش، سوسائٹی کی کتب کی ایجنسی بھی حاصل کر سکتے ہیں، ان کو ۳۳ فیصد کمیشن دیا جاتا ہے۔
رابطہ کے لیے:
شیخ احمد مختار ۔ جنرل سیکرٹری چلڈرن قرآن سوسائٹی
۱۴ وحدت روڈ، آب پارہ مارکیٹ لاہور۔

عالمِ اسلام کی قدیم ترین درسگاہ ۔ جامعہ الازہر مصر

ادارہ

مصر اسلامی اور دینی تعلیم کی ترویج و اشاعت اور ترقی کے لیے ہمیشہ سے اسلامی ممالک میں سرفہرست رہا ہے۔ اور اس مقصد کے لیے مصر میں مختلف تعلیمی اور دینی ادارے مصروفِ عمل ہیں، جن میں جامعہ الازہر سرفہرست ہے جس کی خدمات دنیا بھر میں معروف و مشہور ہیں۔ الازہر یونیورسٹی کا شمار دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔۔۔ طلبا دنیا بھر سے آ کر اس یونیورسٹی سے تعلیم پا رہے ہیں جن کے تمام تعلیمی اخراجات و لوازمات بشمول اقامت، خوراک و پوشاک اور کتب وغیرہ مصری حکومت کے ذمہ ہیں۔
اس کے علاوہ الازہر یونیورسٹی کے چیدہ چیدہ علماء اور اساتذہ دنیا میں اسلام، قرآن و حدیث اور عربی زبان کی تعلیمات مختلف مسلم ممالک، یورپ اور امریکہ میں سرانجام دے رہے ہیں۔ اس وقت ۶۵ سے زیادہ مصری اساتذہ پاکستان میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد اور دیگر تعلیمی اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں جن کے اخراجات مصری حکومت خود برداشت کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ ہزاروں لوگ الازہر یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم  حاصل کر کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ علماء فخر سے خود کو الازہری کہلاتے ہیں۔ ان میں سے کئی رؤسا اسلامی ممالک کے سربراہ بھی ہیں۔
مصر کی اسلامی تعلیمات کی اہمیت اس بات سے بھی واضح ہو جاتی ہے کہ صدر حسنی مبارک ہر سال دو مقدس موقعوں پر یعنی عید میلاد النبی اور رمضان المبارک میں لیلۃ القدر کی مناسبت سے کانفرنس منعقد کرتے ہیں جن میں دنیا بھر سے نمایاں اسلامی خدمات رکھنے والے علماء کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے اور ان کی اسلامی خدمات کو سراہتے ہوئے صدر حسنی مبارک خود ایوارڈ عطا کرتے ہیں۔ پاکستان سے بھی ہر سال ان کانفرنسوں میں شرکت کے لیے ایک وفد بلایا جاتا ہے۔
اس سلسلہ میں مصری سفارت خانہ اسلام آباد کے پریس آفس نے اس مبارک مہینے کے تناظر میں ایک کتابچہ ’’شعاع الاسلام‘‘ کے عنوان سے جاری کیا ہے جن میں مصر کے چیدہ چیدہ علماء کے مقالات، جو اسلامی موضوعات پر مبنی ہیں، شائع کیے گئے ہیں تاکہ پاکستانی بھائی اس مبارک مہینہ میں ان دینی مقالات سے استفادہ کر سکیں۔ یہ اسلامی آب پارے ان موضوعات پر مبنی ہیں:
  • رمضان کے روزے کی فضیلت
  • جوہرِ توحید و اطمینان
  • توحید مصدر علم
  • ارکانِ اسلام (محمد ﷺ پیغمبر خدا)
  • قرآن اور سائنس
  • اسلامی عمل کا مقصد
  • حکمت کی جڑیں (پیغمبرِؐ خدا کی حدیث)
  • کام کی عظمت
  • اسلام کی ازدواجی زندگی
  • عمر ابن خطاب (حالاتِ زندگی)
  • وغیرہ
حق تو یہ ہے کہ الازہر شریف کی دینی خدمات کو دنیا بھر کے مسلمانوں میں نہ صرف جانا اور پہچانا جاتا ہے بلکہ ایک اعلیٰ مقام دیا جاتا ہے۔

ورلڈ اسلامک فورم کی فکری نشستیں اور علماء کنونشن

ادارہ

لندن میں فورم کی فکری نشست

لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے اجلاس میں مقررین نے کہا ہے کہ کوئی بھی قوم میڈیا پر دسترس کے بغیر اپنے تشخص کی حفاظت نہیں کر سکے گی اور میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا جواب دینے کے لیے علمی و فکری طور پر صلاحیت کی ضرورت ہے۔ آل گیٹ ایسٹ میں منعقدہ اجلاس میں بڑی تعداد میں علماء، دانشور، صحافی اور ادبا و شعرا نے شرکت کی۔ اسلامک کمپیوٹنگ سنٹر کے ڈائریکٹر مفتی برکت اللہ اور تحریکِ ادبِ اسلامی کے کنوینر عادل فاروقی نے ویسٹ واچ اسٹڈی گروپ کی رپورٹ پیش کی۔
مفتی برکت اللہ نے کہا کہ ہمیں ذرائع ابلاغ میں قیامت خیز تبدیلی و ارتقا کا چیلنج درپیش ہے۔ میڈیا ایک دو دھاری تلوار ہے، میڈیا پر دسترس کے بغیر کوئی قوم اپنے تشخص اور مفادات کی حفاظت نہیں کر سکتی۔ آج عالمی میڈیا پر صہیونی اس طرح قابض ہیں کہ تیسری دنیا کی اقوام تو کجا خود مغربی اقوام اور ان کے سیاستدان ان سے ہر وقت خائف رہتے ہیں۔
عادل فاروقی نے کہا کہ ذرائع ابلاغ کے حملوں کا جواب بذریعہ مراسلے، مضامین، تقاریر اور الیکٹرونک میڈیا کے دینے کے لیے تمام مساعی کو باہم مربوط کر کے گہری حکمت عملی وضع کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے فورم کی طرف سے لوکل اخبارات میں کام شروع کر دیا ہے۔
ختم نبوت سینٹر کے سربراہ عبد الرحمٰن یعقوب باوا نے کہا کہ قادیانیوں کے سربراہ مرزا طاہر احمد نے سیٹلائٹ پر اپنا دورانیہ بڑھا کر ایشیا کے لیے روزانہ دو گھنٹے اور یورپ کے لیے تین گھنٹے کر دیا ہے۔ اب اسلام کے نام پر گمراہ کرنے کی دعوت دنیا کے ۵۲ ممالک میں براہ راست دی جا رہی ہے۔ فورم اس کا جواب دینے کے لیے فوری طور پر اقدام کرے اور پروگرام مرتب کرے۔
انڈین مسلم فیڈریشن کے رہنما انور شریف نے سن رائز ریڈیو کی شانِ رسالت میں دریدہ دہنی کے خلاف قرارداد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک سن رائز ریڈیو نے نہ کوئی تلافی کی ہے نہ معذرت کی ہے، ہمیں احتجاج کے لیے مؤثر طریقہ اپنانا چاہیے۔
ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری نے کہا کہ میڈیا کے ذریعے سے پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا جواب دینے کے لیے علمی و فکری طور پر اہلیت و صلاحیت پیدا کی جائے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست ہو یا صحافت، احتجاجی بن کر رہ گئی ہے۔ یہاں آپ جس کسی لائبریری میں چلے جائیں، رشدی جیسے پچاسوں دریدہ دہنوں کی کتابیں اور مضامین نظر آ جائیں گے۔ ہم کب تک ان کے تعاقب اور جواب دینے میں اپنی توانائیاں ضائع کرتے رہیں گے۔ ہمیں عملی طور پر اس کی وجوہات اور اس کے پس پردہ عوامل کا جائزہ لینا ہو گا۔ یورپ کے علمی و فکری حملہ کا جواب یہ نہیں ہے کہ ہم صفائی پیش کرنے یا جواب دینے بیٹھ جائیں، بلکہ (آج کے حالات کے تناظر میں) ہمیں اسلام کے مثبت اور فلاحی پہلو پیش کرنے ہوں گے اور ہر شعبہ میں تحقیقی کام کرنے والے ماہرین تیار کرنے ہوں گے۔ اگر ہم سیرت کے روشن اور افادی پہلو پیش کر سکیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہاں مغرب میں اسلام کو صحیح سمجھا جانے لگے گا۔
برالٹن اسلامک سنٹر کے ڈائریکٹر عبد الجلیل ساجد نے قرآن کے تراجم کے بارے میں مفصل اور تحقیقی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ۱۵۲۶ء سے اب تک کم و بیش دو ہزار کے قریب انگریزی زبان میں قرآن کے تراجم ہو چکے ہیں، جن کی اپنی اپنی خوبیاں تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزی یا کسی یورپی زبان میں قرآن پاک کے صحیح ترجمہ کو سمونے کی اہلیت ہی نہیں ہے۔ اس لیے کہ قرآن کے پیش کردہ اصطلاحات و تصورات کے صحیح مفہوم ادا کرنے والے الفاظ کی تلاش کار دشوار ہے۔ بہرحال آج کل جو تراجم رائج اور شیڈول ہیں، ان کی بنیادی خامی یہ ہے کہ یا تو ان کی زبان مشکل، پرانی اور غیرمانوس ہے، اور اگر زبان کلاسیکی اور سہل و آسان ہے تو قرآنی مفہوم ادا کرنے سے قاصر ہے۔
مولانا عتیق الرحمٰن (سابق مدیر ہفت روزہ ندائے ملت لکھنؤ و ماہنامہ الفرقان) نے کہا کہ گزشتہ دنوں بھارت میں تین طلاقوں کے فقہی مسئلہ پر ہم نے ایک دوسرے کے بارے میں جو غیر شائستہ زبان استعمال کی اس سے سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ کیا یہی اسلام کی تعلیم و اخلاق ہے؟ مولانا نے کہا کہ ہمیں عہد کر لینا چاہیے کہ ہم کسی مسلم جماعت و طبقہ کے خلاف کسی حال میں سوقیانہ طرز اختیار نہیں کریں گے اور ہم یہ کام غیر مشروط طور پر کریں گے۔ یہ رویہ ہماری طرف سے شروع ہو جانا چاہیے۔ آپ اس کے مبارک اثرات دیکھیں گے کہ تھوڑے ہی عرصے میں سامنے والا بھی اس طرز کے اپنانے پر مجبور ہو گا۔
اس کے بعد مشہور شاعر سلطان الحسن فاروقی اور عادل فاروقی نے اپنا تازہ کلام پیش کیا۔ ممتاز ادیب و شاعر افتخار اعظمی (میڈن ہیڈ) نے، جو اپنی اچانک علالت کے سبب تشریف نہ لا سکے تھے، فون پر نظمیں سنائیں، جسے مولانا منصوری نے پڑھ کر سنایا۔ 
اجلاس میں خاص طور سے نظام الدین اتحاد المسلمین پاکستان کے کنوینر حافظ شریف، ورلڈ اسلامک کونسل کے سربراہ لیسٹر سے پروفیسر عبد الکریم مکی والا، ممتاز ماہر تعلیم مولانا اقبال اعظمی (لیسٹر)، ماسٹر افتخار احمد (لندن)، مولانا عبد الرحمٰن (لیسٹر)، جامعہ اسلامیہ لندن کے مہتمم مولانا مفتی مصطفٰی، ڈاکٹر خالد اسلامی اکادمی ہیرو کے پریزیڈنٹ عبد اللہ قریشی، فورم کے خزانچی الحاج غلام قادر، الحاج عمر بھائی، عبد اللہ، کشمیری رہنما محمد اثیم اور الحق پبلشرز کے ڈائریکٹر محمد صدیق ناز نے بھی شرکت کی۔ مولانا منصوری کی دعا پر اجلاس اختتام پذیر ہوا۔
(بہ شکریہ ’’جنگ‘‘ لندن ۔ ۲۰ فروری ۱۹۹۴ء)

گوجرانوالہ میں فکری نشست

مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ورلڈ اسلامک فورم کی ماہانہ فکری نشست ۲۰ اپریل ۱۹۹۴ء کو بعد نماز عشاء مولانا زاہد الراشدی کی زیرصدارت منعقد ہوئی جس میں ماہنامہ المذاہب لاہور کے ایڈیٹر جناب محمد اسلم رانا نے اپنے حالیہ دورۂ بھارت کے تاثرات بیان کیے اور بھارتی مسلمانوں کی مظلومانہ حالت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ بڑھتی ہوئی ہندو انتہاپسندی کے تباہ کن اثرات سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ عالمِ اسلام اس مسئلہ پر سنجیدگی سے توجہ دے اور بھارتی مسلمانوں کی جان و مال اور آبرو کے تحفظ کے لیے ٹھوس حکمتِ عملی اختیار کی جائے۔
مجلسِ تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ کے سیکرٹری جنرل علامہ محمد یوسف عثمانی نے اپنے دورہ امریکہ کے حوالہ سے امریکی ممالک میں مقیم مسلمانوں کے دینی حالات پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ان ممالک میں مسلمانوں کی نئی نسل کے ایمان کو بچانے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان بچوں کی دینی تعلیم کے لیے خاطر خواہ انتظام نہیں ہے جس کی وجہ سے نئی پود اسلام کے بنیادی عقائد اور احکام سے بھی بے خبر ہے۔ انہوں نے بڑے دینی اداروں سے اپیل کی کہ وہ اس صورتحال کی طرف توجہ دیں اور مغربی ممالک میں دینی تعلیم کا مناسب اہتمام کیا جائے۔

لاہور اور ہری پور میں علماء کنونشن

ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام ۱۸ اپریل ۱۹۹۴ء کو جامع مسجد شیرانوالہ گیٹ ہری پور ہزارہ میں امریکی عزائم کے خلاف علماء کنونشن منعقد ہوا جس کی صدارت مولانا حکیم عبد الرشید انور نے کی اور مولانا قاری محمد بشیر، مولانا قاضی محمد طاہر الہاشمی، مولانا گل رحمان، جناب مطیع الرحمٰن اور دیگر حضرات نے خطاب کیا۔ جبکہ ہری پور اور اردگرد کے علماء کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی۔
۲۲ اپریل بروز جمعۃ المبارک بعد نماز عصر جامع مسجد (مولانا محمد ابراہیمؒ والی) انارکلی لاہور میں امریکی عزائم کے خلاف علماء کنونشن منعقد ہوا جس کی صدارت ماہنامہ الرشید کے مدیر جناب حافظ عبد الرشید ارشد نے کی اور اس سے ریٹائرڈ کموڈر جناب طارق امجد، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا میاں عبد الرحمٰن، جناب محمد اسلم رانا اور دیگر مقررین نے خطاب کیا اور لاہور کے مختلف حصوں سے علمائے کرام نے شرکت کی۔
ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے ان کنونشنوں سے خطاب کرتے ہوئے عالمِ اسلام اور پاکستان کے بارے میں امریکہ کے منفی عزائم کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا اور علماء پر زور دیا کہ وہ ان عزائم کے حوالہ سے رائے عامہ کی راہنمائی کریں اور قومی خودمختاری اور مذہبی آزادی کے تحفظ کے لیے قوم کی جرأتمندانہ قیادت کے لیے آئیں۔

مقالاتِ سواتی (حصہ اول)

پروفیسر غلام رسول عدیم

مقالہ نگاری ایک نہایت وقیع فن ہے۔ اس میں مقالہ نگار حشو و زوائد اور طوالت اور اطناب سے بچ بچا کر نہایت اختصار و اجمال کے ساتھ اپنا مدعا بیان کرتا ہے۔ وہ لفظوں کے اسراف سے بچتا ہوا کم گوئی مگر نغز گوئی کے ساتھ اپنی بات کہتا ہے اور نہ صرف یہ کہ کہتا ہے بلکہ سے منواتا ہے۔ مقالہ ایک مدلل اور بادرکن تحریر ہوتی ہے۔ کسی موضوع پر کتاب لکھنا بھی ایک عمدہ کام ہے، مگر ایک جامع مقالے میں اپنے خیالات کو سمو دینا اور پھر اپنے نقطہ نظر کو بڑی چابک دستی سے دوسرے کے دل میں اتار دینا عمدہ تر کام بھی ہے اور مشکل تر بھی۔
اساطینِ علم و ادب نے اپنی سوچوں، حاصلِ مطالعہ اور وسعتِ علمی کو مقالہ نگاری کے ذریعے سے قارئین کے سامنے پیش کر کے بسا اوقات بڑی علمی اور دقیق کتابوں کے مطالعے سے بے نیاز کر دیا ہے۔ مقالاتِ شبلی، مقالاتِ سرسید، مقالاتِ حالی، مقالاتِ مولوی محمد شفیع، مقالاتِ شیرانی وغیرہ اس سلسلے کی نہایت عمدہ کڑیاں ہیں۔ بعض حضرات نے تو اپنے علمی سرمائے کو شعوری سطح پر جمع کر کے عوام کے لیے مفید مطلب بنا دیا ہے، مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے جواہر ریزے ادھر ادھر بکھرے ہوتے ہیں، اگر کوئی جوہری ان کو اکٹھا کر کے نظر فروزی کا سامان کر دے تو ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، لیکن اگر وہ رشحاتِ قلم مختلف رسائل و اخبار ہی کی زینت رہیں تو مرور ایام کے ساتھ پردہ خفا میں چلے جاتے ہیں۔ یوں بسا اوقات وہ اہلِ علم کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔
بڑی خوشی کی بات ہے کہ ایسے ہی جواہر ریزوں کا ایک مجموعہ کتابی صورت میں زیرنظر ہے۔ یہ مجموعہ مقالات حضرت العلام استاذ الاساتذہ مولانا صوفی عبد الحمید سواتی کے گراں قدر مضامین پر مشتمل ہے۔ موصوف کے فرزند ارجمند حاجی محمد فیاض خاں سواتی مہتمم مدرسہ نصرۃ العلوم لائقِ تحسین ہیں کہ انہوں نے اپنے نامور بزرگوار کے قلم سے نکلے ہوئے ان جواہر پاروں کو مدون کر کے کتابی شکل دے دی۔ کتاب کے سرورق پر ’’حصہ اول‘‘ کی عددی ترکیب سے گمان غالب یہی گزرتا ہے کہ وہ مزید عرق ریزی کر کے رسائل و جرائد کی گرد جھاڑ کر بحرِ علم و حکمت کے اور بھی لولوئے لالا پیش کریں گے، اللہ تعالیٰ توفیق و ہمت ارزانی فرمائے۔
پیشتر اس کے کہ کتاب پر رائے زنی کروں، میں صاحبِ کتاب کے بارے میں ایک نہایت مختصر سا تعارف پیش کرنا چاہوں گا کیونکہ صاحبِ کتاب کی شخصیت کتاب کے ورق ورق میں پرتوفگن ہے۔
حضرت العلام سید الاساتذہ مولانا صوفی عبد الحمید سواتی عرصہ دراز تک مدرسہ نصرۃ العلوم کے مہتمم رہے ہیں۔ وہ اس دور کے ان فضلائے دیوبند میں سے ہیں جنہوں نے اکابر علمائے دیوبند سے کسب فیض کیا، برصغیر کی اس عظیم درسگاہ کے ممتاز اور نامور اساتذۂ دین و ادب کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، اور اس عظیم علمی روایت کے پاسباں کی  حیثیت سے برسوں سے وہ مسجد نور گوجرانوالہ میں علومِ دینیہ کے روشنی کے بلند مینار کی طرح اپنے ماحول کو جگمگا رہے ہیں۔ وہ ایک جید عالمِ دین اور جید تر معلّمِ علومِ اسلامیہ ہیں۔ ان کی فقہی بصیرت قابلِ اعتماد اور تقوٰی قابلِ رشک ہے۔ بڑے صاف گو اور حقیقت پسند ہیں۔ ان کا قلم تحقیق و تدقیق کے میدان میں بڑے بڑے نام نہاد محققین سے کہیں آگے ہوتا ہے۔ تحقیق ان کے ذوق کا خاصہ ہے تو عبارت فکر و نظر ان کی طبیعت کا رجحان۔ ان کے مزاج شناس اس حقیقت سے خوب باخبر ہیں۔
زیر نظر مقالات اسی صاحبِ قلم کے رشحاتِ خامہ اور شذراتِ فکر و نظر کا نتیجہ ہیں۔ کتاب کو ایک نظر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ۳۱ مقالات پر مشتمل ہے، کچھ مضامین پہلی مرتبہ منصہ شہود پر آئے، کچھ ایسے ہیں جو مختلف بلند پایہ علمی و تحقیقی جرائد میں چھپ چکے ہیں، تفصیل یہ ہے:
#
نام رسالہ  مقامِ اشاعت مقالہ
 (۱) الانوار
 میر پور (آزاد کشمیر) توحید کے چند دلائل
 ملتِ حنیفیہ کی حقیقت
 (۲)  تبصرہ  لاہور انسانیت کے چار بنیادی اخلاق (اخلاقِ اربعہ)
 (۳)  ترجمانِ اسلام
 لاہور  حصولِ علم کے ضروری آداب
علم اور اہلِ علم کا مرتبہ
اسلام کے حدود و تعزیرات کا ولی اللّٰہی روشنی میں اجمالی تذکرہ
 (۴)  الحق  اکوڑہ خٹک
 حضرت امامِ اعظم ابو حنیفہ ؒ کی چند وصیتیں (عربی سے اردو ترجمہ)
اسلام میں حلال و حرام کا تشریعی فلسفہ
ملتِ حنیفیہ کی حقیقت
مسئلہ توسل پر ایک نظر
 (۵) خدام الدین
 لاہور  مقامِ صحابہؓ
حضرت لاہوریؒ (حضرت لاہوریؒ نمبر)
 (۶)  الرحیم  حیدر آباد (سندھ)
 کائنات میں جانداروں کی تخلیق
حکمتِ ولی اللہ کے شارحین
شہروں کی بربادی اور آبادی کے اسباب
تحقیق وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود (ترجمہ)
وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود میں تطبیق
مسئلہ وحدۃ الوجود میں راہِ اعتدال
 (۷)  الشریعہ  گوجرانوالہ  اللہ رب العزت کی زیارت کیسے ہو گی؟
خواب میں رسالتمآب کی زیارت
حصولِ علم کے ضروری آداب
علمے کہ راہِ حق ننماید جہالت است
 (۸)  عزمِ نو
 لاہور  ایضاً

وہ مضامین جو پہلی مرتبہ اسی کتاب کی زینت بنے ہیں، درج ذیل ہیں:
(۱) رسول اللہ کی بعثت کے مقاصد،
(۲) اسلام کا نظامِ عبادت و نظافت،
(۳) معہدِ علم و دین، مرکزِ صدق و یقین دارالعلوم دیوبند،
(۴) تمدن کے بگاڑ کے اسباب اور ان کا علاج،
(۵) انسانیت کی تکمیل کے لیے اخلاقِ اربعہ کی اہمیت،
(۶) فرقہ ناجیہ اور نوابت میں فرق،
(۷) فتنے کس طرح پیدا ہوتے ہیں اور ان کا علاج،
(۸) بحالتِ صوم انجکشن کا حکم،
(۹) اکابر علمائے دیوبند اور نظریہ وحدۃ الوجود،
(۱۰) مودودی صاحب کے بعض نظریات دین کے لیے نقصان دہ ہیں،
(۱۱) باب الرؤیا۔
کتاب کو ایک نظر دیکھنے ہی سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ موصوف کی تحریروں میں ولی اللّٰہی فکر مرکزی نقطے کی حیثیت رکھتی ہے۔ موصوف نہ صرف فکرِ ولی اللّٰہی کے ایک سرگرم داعی ہیں بلکہ جس گہرائی و گیرائی کے ساتھ انہیں اس فکر پر دسترس حاصل ہے بہت کم لوگ اس سے بہرہ مند ہیں۔ ان مقالات کا ایک خصوصی وصف یہ ہے کہ تحریر کی شستگی کے ساتھ ساتھ یہ مصنف کی معنی آفرینی، علمی نبوغ اور فکری راستی کا بھی پتہ دیتے ہیں۔ تحریر کہیں کہیں تو خالص عالمانہ ہے، خصوصاً ان مقالات میں جہاں مسئلہ وحدت الوجود اور مسئلہ وحدت الشہود زیربحث ہے۔ ایسے مقالات میں اگرچہ شعوری کوشش یہی رہی ہے کہ ان مفاہیم کو سریع الفہم بنایا جائے مگر موضوع کی نزاکت تقاضا کرتی تھی کہ زبان عامیانہ نہ ہو بلکہ عالمانہ ہو۔ یوں بعض اصطلاحات کوشش بسیار کے باوجود عسیر الفہم ہو گئی ہیں۔
حضرت صوفی صاحب اگرچہ ایک عظیم المرتبت مفسرِ قرآن ہیں، ان کے دروس کا سلسلہ جو معالمِ العرفان کی صورت میں سامنے آ رہا ہے ان کے تفسیری ذوق کا پتہ دیتا ہے، لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ان کی تفسیر میں بھی فقہی رنگ نمایاں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کا تفقہ فی الدین اور رسوخ فی العلم دورِ حاضر میں انفرادی شان رکھتا ہے۔ زیر نظر مقالات میں تحقیقی مقالات کے ساتھ ساتھ فقہی مقالات اپنے موضوع پر حرفِ آخر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ’’بحالتِ صوم انجکشن کا حکم‘‘ اس ضمن میں آتا ہے۔
وہ دبستانِ دیوبند کے فیض یافتہ اور تربیت یافتہ ہیں، لہٰذا وہ اول تا آخر اس مکتبہ فکر کے نمائندہ ہیں۔ ان کی جملہ تحریریں اسی فکری جہت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ’’معہدِ علم و دین، مرکزِ صدق و یقین دارالعلوم دیوبند‘‘ ان کی اس عظیم درسگاہ و تربیت گاہ سے والہانہ شیفتگی اور گہری وابستگی کا مظہر ہے۔ حضرت صوفی صاحب کا ایک خاص مزاج ہے۔ وہ زہد و اتقا کے اس مقام پر فائز ہیں کہ بڑے بڑے نمائش کار پگڑی سنبھال کر ان کی منزلِ رفیعہ تک نگاہ ہی دوڑا سکتے ہیں۔ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا کے مصداق وہ دنیا و مافیہا سے اپنی خودگری، خودگیری اور خودداری کی وجہ سے بے نیاز ہیں۔ نہ نمائش، نہ ریا، نہ تمنائے داد و دہش۔ تحقیق و تدقیق، علمی اندازِ فکر، فقہی تیقن، اور سب سے بڑھ کر قرآن مجید سے بے پناہ وابستگی ان کی سیرت کے محامد و محاسن ہیں۔ 
زیر بحث کتاب فی الجملہ اہلِ علم کے لیے نہایت کارآمد مواد پیش کرتی ہے اور عامۃ الناس کے لیے بھی بہت حد تک مفید ہے۔ تاہم چند باتیں جو دورانِ مطالعہ میں مجھے کھٹکتی ہیں وہ اگرچہ اس قدر لائقِ اعتنا تو نہیں مگر اس پائے کے جید عالم کی تحریر اگر ان فروگزاشتوں سے پاک ہوتی تو اور اچھا ہوتا۔ جہاں تک فکری سطح کا تعلق ہے، کتاب اس مقام پر ہے کہ اسے روشنی کا مینار کہنا چاہیے یا نشانِ منزل، مگر کسی مفہوم کو جو لباس پہنایا جائے وہ بھی اگر معنی کے قد پر راست آئے تو تحریر شاندار بھی ہو جاتی ہے اور جاندار بھی۔ اکثر لغزشیں تو وہ ہیں جن کا حضرت العلام سے کوئی تعلق نہیں مثلاً سہوِ کتابت یا پروف ریڈر کے کھاتے میں ڈالنی چاہئیں، چند ایک کی نشاندہی کرتا ہوں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں غلط نامہ لگا لیا جائے۔
ص ۳۲۳ پر لفظ معتزلہ کو متزلہ لکھا گیا ہے۔
ص ۴۹ پر فی الیقظہ کو فی الیقضہ لکھا گیا ہے۔
ص ۱۰۹ پر قطب الرحی کو قطب الرجی لکھا گیا ہے۔
ص ۳۶۲ پر بے تکیف، بے تکلیف چھپ گیا ہے۔
ص ۲۳۱ پر خودرو کو خوددار لکھا گیا ہے۔
بعض  مصرع وزن سے خارج ہیں یا غلط لکھ دیے گئے ہیں۔ یہی حال بعض اشعار کا ہے، اگرچہ بعض اشعار نہایت برمحل اور پرتاثیر ہیں، مثلاً ص ۹۸ پر یہ عربی شعر جو دارالعلوم کے اہلِ علم و نظر کے بارے میں ہے، بار بار گنگنانے کو جی چاہتا ہے ؎
اما الخیام فانھا کخیامھم
واری رجال الحی غیر رجالھا
ص ۹۰ پر ’’علمے کہ راہِ حق ننماید جہالت است‘‘ کو ’’علم کہ راہ حق ننماید‘‘ لکھا گیا ہے اور ص ۹۳ پر راہِ حق کو راہ بحق کر دیا گیا ہے۔
ص ۷۹ پر ’’اے از خود گریختہ‘‘ والا شعر غلط ہے۔ ’’اے کہ‘‘ زائد ہے، صحیح مصرع یوں ہے ’’از خود گریختہ اشیا چہ می جوئی‘‘۔
ص ۲۴۸ پر ہمہ آفاق کو ہمہ آفاقہا لکھا گیا، جو عروضی طور پر وزن سے باہر ہو جاتا ہے۔
ص ۱۳۰ پر ’’اسلام کے قانون حدود و تعزیرات کا ولی اللّٰہی روشنی میں اجمالی تذکرہ‘‘ کا عنوان اگر ’’اسلام کے قانونِ حدودِ تعزیرات کا فکرِ ولی اللّٰہی کی روشنی میں اجمالی تذکرہ‘‘ ہوتا تو میرے خیال میں بہتر ہوتا۔
ص ۴۸ پر ’’ممکن ہو سکتا ہے‘‘ روزمرہ کے مطابق درست نہیں، امکان اور سکنا ہم معنی ہیں۔ ’’ممکن ہے‘‘ یا ’’ہو سکتا ہے‘‘ درست ہے۔
ص ۸۰ پر اقبال کا شعر غلط نقل کیا گیا  ہے، صحیح شعر یہ ہے ؎
اس دور میں سب مٹ جائیں گے ہاں باقی وہ رہ جائے
جو قائم اپنی راہ پہ ہے اور پکا اپنی ہٹ کا ہے
(بانگِ درا، ظریفانہ کلام)
ص ۱۱۸ اور ص ۱۷۰ پر اشعار سے پہلے مصرعے کی علامت ؏ استعمال کی گئی ہے جو درست نہیں۔
ص ۲۴۲ پر ’’مرفوع احادیث آتیں ہیں‘‘ نادرست ہے۔ صحیح ہے ’’آتی ہیں‘‘۔
ص ۴۵ پر درج کی گئی حدیث کا باضابطہ حوالہ نہیں دیا گیا اور ترجمے میں زیادت ہے۔ (کیونکہ وہ اس کا کوئی اچھا محمل نکالیں گے ورنہ تم پریشانی میں مبتلا ہو جاؤ گے) بین القوسین وضاحت تو ہے، ترجمہ نہیں۔ اگر ترجمہ ہے تو متن نہیں دیا گیا۔ یوں بھی اس میں لفظ ’’محمل‘‘ عوام کے لیے مشکل ہے، ’’مفہوم‘‘ بہتر تھا۔
ص ۳۵۴ پر (در نیابد حال پختہ ہیچ خام۔ پس سخن کوتاہ باید والسلام) کے ترجمے میں سقم ہے۔ ترجمہ لکھا گیا ہے ’’یعنی خام کار آدمی کا حال پختہ یا کامل نہیں ہو سکتا‘‘۔ حالانکہ ترجمہ یوں ہونا چاہیے ’’کوئی خام کار شخص کسی پختہ کار کے حال کو سمجھ نہیں سکتا۔‘‘۔ دریا فتن کے معنی فہمیدن و درک کردن (To perceive) کے ہیں۔
ایک چیز جو کھٹکتی ہے وہ یہ کہ ابتدائیے میں انگریزی الفاظ کا بے جا استعمال ہے۔ کبھی املا کے حروف غلط ہیں اور کبھی ویسے زبان نادرست ہے۔ اماکن و اشخاص کے ساتھ تلفظ کی درستی کے لیے اگر انگریزی الفاظ لکھ دیے جاتے تو مضائقہ نہ تھا مگر یہاں بے وجہ انگریزی اور وہ بھی غلط ہجوں کے ساتھ لفظ  لکھے گئے ہیں۔ اس ضمن میں ص ۲۴۷، ص ۲۵۰، ص ۲۷۰، ص ۲۷۱، ص ۲۷۵ اور ص ۲۸۲ ملاحظہ ہوں۔
کتاب کے آخر میں ۱۰ خواب عربی زبان میں اور ۳۲ خواب اردو زبان میں ’’باب الرویا‘‘ کے عنوان سے مندرج ہیں۔ بلاشبہ ان خوابوں میں انبیا، اولیا، صلحا، اساتذہ اور علما کے تذکرے موجود ہیں لیکن مجھے اس باب کے شامل کرنے کی حکمت سمجھ میں نہیں آ سکی۔ حکما کے ہاں خواب کی تعریف یوں ہے کہ ’’سوتے میں نفس انسانی کی ایک حرکت یا نفس انسانی کی متعدد اشکال کی تصویر کا نام، جو مستقبل کے اچھے یا برے واقعات پر دلالت کرے‘‘ (کتاب الرؤیا، مترجمہ حنین بن اسحاق بحوالہ دائرہ معارف اسلامیہ)۔ جب ان خوابوں کی تعبیریں پیش نہیں کی گئیں تو عام قاری کو ان مشاہدات سے آگاہ کرنے میں مجھے کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔ یہ حضرت کے ذاتی تجربات و مشاہداتِ رویا ہیں، عوام کو ان سے کیا دلچسپی؟ کوئی معاند اگر انہیں خودستائی پر محمول کر کے غلط فہمی یا کج فہمی کا شکار ہو تو اسے کون روک سکے گا؟ جیسا کہ کئی خواب دیکھنے والوں کے ایسے خوابوں سے متعلق باتیں سننے میں آتی رہتی ہیں۔ نیز خواب کو کسی ماہر معتبر کے سوا کسی کے سامنے پیش ہی نہیں کرنا چاہیے، چہ جائیکہ ہر کس و ناکس کے سامنے الم نشرح کر دیا جائے۔
حرفِ آخر کے طور پر یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ کتاب مجموعی طور پر عوام و خواص ہر دو طبقوں کے فائدے کی ہے۔ واقعات و حقائق اور افکار و نظریات کو بلا کم و کاست پیش کر دیا گیا ہے۔ مصنف نے دوسروں کے نقطہ نگاہ کی تردید کے لیے ان کی عبارتیں من و عن دی ہیں، حتٰی کہ ایسی عبارتیں بھی جو مصنف کے اپنے حق میں زہرناک ہو کر رائے عامہ کو مسموم کر سکتی ہیں۔ ملاحظہ ہو ص ۱۱۷۔ اغیار کے ان اقتباسات کے من و عن نقل کرنے سے حضرت استاذ الاساتذہ کی دریا دلی اور عالی حوصلگی کا واضح ثبوت ملتا ہے۔
آئندہ ایڈیشن کے لیے دو تجویزیں بھی نذر قارئین ہیں:
(۱) کتاب کے آخر میں کتابیات کا حصہ اس شہ پارے کی قدر و قیمت میں کئی گنا اضافہ کر سکتا ہے۔
(۲) ترتیب کتاب میں اگر موضوعات کا لحاظ رکھا جاتا تو کتاب کے حسن میں حسین اضافہ ہوتا۔ مثلاً فکرِ ولی اللّٰہی، تنقید و تحقیق، اخلاقیات و فقہ و تدبر، اور اعلام و اماکن وغیرہ کو ایک نظم و ترتیب سے مرتب کیا جائے تو انسب ہو۔ امید ہے دوسرا حصہ بھی جلد منصہ شہود پر آئے گا۔

توہینِ رسالتؐ کی سزا کا قانون اور قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

معزز اراکین خصوصی کمیٹی! سلام مسنون!
روزنامہ جنگ لاہور ۲۳ اپریل ۱۹۹۴ء میں شائع ہونے والی ایک خبر سے معلوم ہوا کہ قومی اسمبلی آف پاکستان نے گستاخِ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کے حوالہ سے (۱) وزیر داخلہ جناب نصیر اللہ بابر (۲) وزیر قانون جناب اقبال حیدر (۳) وزیر امور بہبود آبادی جناب جے سالک (۴) مولانا محمد اعظم طارق ایم این اے (۵) مولانا شہید احمد ایم این اے (۶) مولانا عبد الرحیم ایم این اے (۷) جناب مظفر احمد ہاشمی ایم این اے (۸) فادر روفن جولیس ایم این اے اور (۹) جناب طارق سی قیصر ایم این اے پر مشتمل خصوصی کمیٹی قائم کی ہے جو اس قانون کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے سفارشات کرے گی۔
اس سلسلہ میں اس سے قبل ایمنسٹی انٹرنیشنل، وفاقی حکومت، اسلامی نظریاتی کونسل، ہیومن رائٹس کمیشن اور وفاقی لا کمیشن کے حوالہ سے مختلف خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں اور ان سب کو سامنے رکھتے ہوئے چند ضروری معروضات پیشِ خدمت کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
  • جہاں تک گستاخِ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کو تبدیل کرنے کا مسئلہ ہے، اس قسم کی کوئی ترمیم اسلامیانِ پاکستان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہو گی کیونکہ یہ شرعی سزا ہے اور اس میں تبدیلی یا تخفیف شرعی احکام میں تحریف کے مترادف ہو گی۔ مزید برآں ہولی بائبل کی مندرجہ ذیل آیات کی رو سے بھی مذہبی پیشوا اور کتابِ مقدس کی توہین کی سزا موت ہے، اس لیے مسیحی کمیونٹی کے لیے اس سزا پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے (استثنا ۱۷ : ۱۲ و ۱۳ ، ہوسیع ۷ : ۱۶ ، پطرس ۲ : ۱۰ تا ۱۲ ، ۲۔سموئیل ۶ : ۶ تا ۸ ، ۱۔سموئیل ۵ : ۱ تا ۱۲)
  • البتہ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کو اس قانون میں شامل کرنے پر کسی کو اعتراض نہیں ہو گا بلکہ اس کا خیرمقدم کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی سچے پیغمبر کی شان میں گستاخی ہمارے نزدیک یکساں جرم ہے۔
  • اسی طرح اگر اس قانون کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے کسی بھی مقدمہ میں ایف آئی آر کے اندراج سے قبل مجسٹریٹ کی انکوائری کی شرط عائد کی جائے تب بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے اور اس کا خیرمقدم کیا جائے گا۔
اس موقع پر معزز ارکان خصوصی کمیٹی اور ان کی وساطت سے قومی اسمبلی کے معزز ایوان کی خدمت میں یہ تجویز پیش کرنا چاہوں گا کہ رتہ دوہتڑ توہینِ رسالتؐ کیس اور منظور مسیح قتل کیس، جو اس وقت عالمی شہرت حاصل کر چکے ہیں، ان دونوں کیسوں کی انکوائری بھی ’’خصوصی کمیٹی‘‘ کرے اور اس سلسلہ میں ایک جامع رپورٹ سامنے لائی جائے جو ان دو کیسوں کے بارے میں عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف کیے جانے والے منفی پراپیگنڈا کا ازالہ کر سکے۔ مجھے یقین ہے کہ ان دو کیسوں کے بارے میں خصوصی کمیٹی کی رپورٹ نہ صرف عالمی سطح پر صحیح صورتحال کو سامنے لانے کا ذریعہ بنے گی بلکہ اندرون ملک بھی کشیدگی اور کشمکش میں کمی کا باعث ہو گی۔ امید ہے کہ معزز ارکان خصوصی کمیٹی ان معروضات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں گے اور جواب سے آگاہ فرمائیں گے۔
نوٹ: اس عرضداشت کی کاپیاں قومی اسمبلی اور سینٹ کے دیگر اہم افراد کو بھی بھجوائی جا رہی ہیں۔
والسلام، ابوعمار زاہد الراشدی
چیئرمین ورلڈ اسلامک فورم
خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ


جون ۱۹۹۴ء

گلگت بلتستان کا مسئلہ ۔ صدرِ پاکستان کے نام ایک عریضہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بدعت کے شبہ سے بھی بچنا چاہیےشیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر
نماز کی ایک خاص دعاشیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
توہینِ رسالت کے قانون پر ماڈرن خواتین کا اعتراضڈاکٹر عبد المالک عرفانی
خلافتِ اسلامیہ کے احیا کی اہمیت اور اس کے تقاضےمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
تدبر و حکمتِ عملی کی ضرورتمولانا محمد رابع حسنی ندوی
اسلامی ریاست میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوقمولانا منیر احمد
بائبل بے خطا اور بے عیب نہیںکیپٹن اسلم محمود
آزادیٔ صحافت کے عالمی دن کے موقع پر گوجرانوالہ میں مجلسِ مذاکراہادارہ

گلگت بلتستان کا مسئلہ ۔ صدرِ پاکستان کے نام ایک عریضہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بگرامی خدمت جناب سردار فاروق احمد لغاری صاحب، صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟

گزارش ہے کہ کچھ دنوں سے قومی اخبارات میں وفاقی کابینہ کا ایک فیصلہ زیر بحث ہے جس کے تحت مبینہ طور پر گلگت اور اس سے ملحقہ شمالی علاقہ جات کو مستقل صوبہ کی حیثیت دی جا رہی ہے۔ اس سلسلہ میں چند حقائق کی طرف آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں:

اس لیے آنجناب اور آپ کی وساطت سے حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ شمالی علاقہ جات کو مستقل صوبہ کی حیثیت دینے کے مذکورہ فیصلہ پر نظرثانی کی جائے اور کوئی بھی ایسی صورت اختیار کرنے سے مکمل گریز کیا جائے جو کشمیر کی وحدت اور کشمیری عوام کی جدوجہد کے لیے کسی بھی درجہ میں نقصان اور کمزوری کا باعث بن سکتی ہو۔

بے حد شکریہ، والسلام!

ابوعمار زاہد الراشدی

چیئرمین ورلڈ اسلامک فورم



مولانا قاری سید محمد حسن شاہؒ

علمی و دینی حلقوں میں یہ خبر انتہائی رنج و غم کے ساتھ سنی جائے گی کہ پاکستان کے ممتاز بزرگ قاری حضرت مولانا قاری سید محمد حسن شاہ صاحبؒ گزشتہ ہفتہ کے دوران مدینہ منورہ میں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت قاری صاحبؒ ہزارہ کے رہنے والے تھے، مستند عالمِ دین، ممتاز مجود اور حق گو خطیب تھے۔ ان کا شمار پاکستان میں علمِ تجوید و قراءت کی اشاعت و ترویج کرنے والے سرکردہ حضرات میں ہوتا ہے۔ ایک عرصہ تک لاہور میں علمِ تجوید کی تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے اور ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد دنیا کے مختلف حصوں میں قرآنِ کریم کی تدریس و تبلیغ میں مصروف ہے۔ کچھ عرصہ قبل مدینہ منورہ چلے گئے تھے اور اس نیت سے وہاں قیام پذیر تھے کہ زندگی کے آخری لمحات مدینۃ الرسولؐ میں بسر ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آرزو پوری کر دی اور وہ بلد رسولؐ میں ہی اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں اور ان کی دینی و علمی خدمات کو قبول کرتے ہوئے بلند درجات سے نوازیں، آمین یا الٰہ العالمین۔

بدعت کے شبہ سے بھی بچنا چاہیے

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

قرآن و سنت کے محکم دلائل سے سنت اور بدعت کی حقیقت اور اس کا حکم واضح ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی کم فہم کا شبہ باقی رہے یا عوام الناس، جو اس قسم کے مسائل میں دلائل کا موازنہ کر کے صحیح رائے قائم کرنے سے قاصر ہوں، تو ان کے لیے صحیح راہِ عمل یہی ہے کہ وہ ایسے مشکوک اور مشتبہ کام کے پاس ہی نہ جائیں۔ اور اگر کسی چیز کے بدعت، سنت یا مستحب اور مباح ہونے میں شبہ ہو تو اس سے بچنا ہی ان کے لیے راہِ عمل ہے۔ اور باتفاق علماء ان کے لیے یہی طریقہ صحیح رہنمائی کے لیے بالکل کافی ہے۔ چنانچہ حضرت وابصہؓ بن معبدؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’گناہ وہ ہے جو تیرے نفس میں کھٹکے اور تیرے دل میں تردد واقع ہو، اگرچہ لوگ (اور نام کے مفتی) تجھے فتوٰی بھی دے دیں۔‘‘ (رواہ احمد والدارمی، مشکوٰۃ ج ۱ ص ۲۴۲)
اور حضرت عطیہ السعدیؓ فرماتے ہیں کہ
’’جناب نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ پرہیزگاروں کے رتبہ کو نہیں پہنچ سکتا تاوقتیکہ وہ چیزیں نہ چھوڑ دے جن میں کوئی حرج نہیں، اس لیے  کہ وہ ذریعہ بنتی ہیں ایسی چیزوں کا جن میں حرج ہے۔‘‘ (رواہ الترمذی و ابن ماجہ، مشکوٰۃ ج ۱ ص ۲۴۲)
حضرت معاذؓ بن جبل کو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو ارشاد فرمایا:
’’تم بغیر علم کے کوئی حکم اور فیصلہ ہرگز صادر نہ کرنا، اور اگر تم پر کسی چیز میں اشکال گزرے تو توقف کرنا حتٰی کہ تم اس کو اچھی طرح روشن پا لو، یا میری طرف خط لکھنا۔‘‘ (ابن ماجہ ص ۶)
حضرت نعمانؓ بن بشیرؓ (المتوفیٰ ۶۴ھ) روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی۔ ان دونوں کے درمیان کچھ چیزیں مشتبہ ہیں، ان کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ سو جو شخص ان مشتبہات سے بچا تو اس نے اپنا دین اور عزت بچا لی، اور جو مشتبہات میں جا پڑا تو (گویا) وہ حرام میں جا پڑا، جیسے چراگاہ کے اردگرد جانوروں کو چرانے والا قریب ہے کہ چراگاہ میں جا پڑے۔‘‘ (بخاری ج ۱ ص ۱۳، ابن ماجہ ۲۹۶)
ان روایات سے آفتابِ نیم روز کی طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جن امور میں شبہ واقع ہو ان میں اپنے دین اور عزت کو صرف اسی صورت میں محفوظ رکھا جا سکتا ہے کہ ایسے کاموں میں انسان دخل ہی نہ دے اور ان پر عمل پیرا ہو کر ہرگز اپنی ابدی زندگی کو برباد نہ کرے اور خلقِ خدا کو گمراہ ہونے سے بچائے۔ خصوصاً ایسے کام جو کفر اور شرک و بدعت کا ذریعہ بنتے ہوں۔ اور یہ معاملہ صرف یہیں بس نہیں ہو جاتا بلکہ جناب نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تردد اور اشتبا والے کاموں سے بچنے کا صریح حکم ارشاد فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت حسنؓ بن علیؓ (المتوفٰی ۵۰ھ) روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’وہ چیز چھوڑ دے جو تجھے تردد اور شبہ میں ڈالے، اور ایسی چیز اختیار کر جو تیرے لیے باعث تردد نہ ہو، کیونکہ خیر باعثِ اطمینان اور شر باعثِ شک ہے۔‘‘ (مستدرک ج ۲ ص ۱۲، قال الحاکمؒ والذہبیؒ صحیح)
یہ صریح اور صحیح حدیث بھی اس امر کو روشن کر دیتی ہے کہ جس چیز میں تردد اور شبہ ہو تو ایسی چیز کو چھوڑنا ہی ضروری ہے۔ کیونکہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن سنتیں زندگی کے ہر شعبہ میں ہمارے پاس موجود ہیں، جن میں کسی قسم کا ادنٰی سے ادنٰی شک اور شبہ بھی نہیں ہے، اور وہی روشن سنتیں طمانیتِ قلب کا کافی سامان مہیا کر دیتی ہیں اور ان کی خلاف ورزی شک اور شبہ کے تاریک گڑھے میں ڈال دیتی ہے۔ 
احادیث میں اس کی تصریح آتی ہے کہ ’’کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یحب التیامن‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سرمہ لگانے، کپڑا پہننے، وضو کرنے میں، حتٰی کہ ہر کام میں داہنے پہلو سے شروع کرنے کو ترجیح دیتے تھے، لیکن حضرت عبد اللہؓ بن مسعود فرماتے ہیں کہ
’’تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں شیطان کے لیے کچھ حصہ نہ ٹھہرائے بایں طور کہ نماز سے فارغ ہوتے وقت داہنی طرف سے ہی پھرنے کو اپنے اوپر لازم سمجھ لے، اس واسطے کہ میں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بسا اوقات بائیں طرف بھی مڑتے دیکھا ہے۔‘‘ (متفق علیہ، مشکوٰۃ ج ۱ ص ۷۸)
اس حدیث کی تفسیر اور تشریح میں مشہور محقق علامہ محمد طاہر الحنفیؒ (المتوفٰی ۹۸۶ھ) فرماتے ہیں:
’’جس کسی نے کسی مندوب اور مستحب چیز پر اصرار کیا اور اس کو عزیمت بنا لیا اور رخصت پر عمل نہ کیا تو گویا اس کو شیطان نے گمراہی کے راستہ پر ڈال دیا۔ کیا حال ہو گا اس شخص کا جو کسی بدعت اور بری چیز پر اصرار کرتا ہے۔‘‘ (مجمع البحار ج ؟ ص ۲۴۴)
اور یہی الفاظ علامہ طیبی الحنفیؒ (المتوفٰی ۷۴۳ھ) نے شرح مشکوٰۃ میں اور حضرت ملا علی قاریؒ نے مرقات ج ۲ ص ۱۴ میں تحریر فرمائے ہیں، جو اس امر کی واضح ترین دلیل ہے کہ بدعت اور منکر پر اصرار کرنا تو کجا رہا، اگر کوئی شخص امر مندوب اور مستحب پر یا رخصت پر بھی اصرار کرے گا تو وہ بھی شیطان کا پیروکار ہو گا اور اس کے اس فعل میں شیطان کا حصہ ہو گا۔ علامہ برکلی الحنفیؒ (المتوفٰی ۷۴۳ھ) لکھتے ہیں کہ
’’تم جان لو کہ بدعت کا کام کرنا ترکِ سنت سے زیادہ مضر ہے۔ دلیل یہ ہے کہ حضرات فقہاء کرامؒ نے فرمایا ہے کہ جب کوئی حکم سنت اور بدعت کے درمیان دائر ہو تو اس کا ترک کرنا ہی ضروری ہو گا۔‘‘ (طریقہ محمدیہ)
اور فتاوٰی عالمگیری میں ہے کہ
’’جو چیز سنت اور بدعت کے درمیان دائر ہو وہ چھوڑی جائے گی۔‘‘ (عالمگیری مصری، ج ۱ ص ۱۷۹)
علامہ شامیؒ لکھتے ہیں کہ
’’جب حکم سنت اور بدعت کے درمیان دائر ہو تو سنت کا ترک کرنا فعلِ بدعت پر مقدم ہو گا۔‘‘ (شامی ج ۱ ص ۶۰۰)
قاضی ابراہیم صاحب الحنفیؒ فرماتے ہیں:
’’جس کام کے بدعت اور سنت ہونے میں شبہ ہو اس کو چھوڑ دے، کیونکہ بدعت کا چھوڑنا ضروری ہے اور سنت کا ادا کرنا ضروری نہیں۔‘‘ (نفائس الازہار ترجمہ مجالس الابرار ص ۱۲۹)
شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ لکھتے ہیں:
’’دہرچہ دراں شبہ بود توقف دراں لازم۔‘‘ (مکتوبات حضرت شیخ برحاشیہ اخبار الاخیار ص ۱۰۰)
بلکہ علامہ ابن نجیم الحنفیؒ لکھتے ہیں کہ
’’جو چیز بدعت اور واجب اصطلاحی کے درمیان دائر ہو تو لازم ہے کہ اس کو سنت کی طرح ترک کر دیا جائے۔‘‘ (بحر الرائق ج ۲ ص ۱۶۵)
یہ عبارات اس امر کا بین ثبوت ہیں کہ جب کوئی چیز ایسی ہو کہ اس میں سنت کے پہلو کے ادا کرنے سے بدعت لازم آتی ہو تو سنت کے پہلو سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس کو مطلقاً ترک کرنا ضروری ہو گا۔ اس لیے کہ اس کے ساتھ بدعت کا پہلو بھی تو شامل ہے۔ سنت تو خیر پھر سنت ہے، اگر کوئی چیز بدعت اور حضرات فقہاء کرام کے اصطلاحی واجب کے درمیان بھی دائر ہو تو اس کو بھی ترک کرنا لازم اور ضروری ہے کیونکہ اس سے فی الجملہ بدعت کی ترویج اور اشاعت کا اندیشہ ہے۔ اور بدعت اتنی قبیح ترین چیز ہے کہ شریعتِ مطہرہ اس کے وجود نامسعود تک کو گوارا نہیں کرتی، چہ جائیکہ اس کی نشرواشاعت کے ذرائع اور وسائل بہم پہنچائے۔ یہی وجہ ہے کہ بدعت کو ختم کرنے کے لیے مستحب، سنت اور حتٰی کہ واجب تک کی قربانی بھی گوارا کر لی جائے گی مگر بدعت کو ہرگز ہرگز فروغ نہ دیا جائے گا۔
اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص دانستہ یا نادانستہ بدعت میں آلودہ ہونا چاہے تو اس کی مرضی، ہمارے لیے سنت کافی ہے اور ہمیں ان محدثات اور مزخرفات میں الجھنے کی مطلقاً ضرورت نہیں ہے۔ کہنے والے نے کیا ہی خوب کہا ہے ۔۔۔ ؎
و خیر امور الدین ما کان سنۃ
و شر الامور المحدثات البدائع
قارئین! اگر آپ کو صحیح معنی میں اللہ تعالیٰ سے لگاؤ اور جناب نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عشق اور محبت ہے تو اس کا واحد طریق صرف یہ ہے کہ سنت کی اتباع کریں اور حضرات صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کے نقشِ قدم پر چلیں۔ وہی عقائد و اعمال اختیار کریں جو انہوں نے اختیار کیے اور ان تمام عقائد اور اعمال سے احتراز کریں جن سے انہوں نے احتراز کیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے قول (جو درحقیقت مرفوع حدیث کے حکم میں ہے) کے مطابق مسجدوں میں بھی اجتماع ہو اور ایمان سے بھی محرومی ہو۔
’’حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ وہ مسجدوں میں اکٹھے تو ہوں گے لیکن ان میں ایک بھی مومن نہ ہو گا۔‘‘ (مستدرک ج ۴ ص ۴۴۳، قال الحاکمؒ والذہبیؒ صحیح)
یہ وہی حضرت ابن عمرؓ ہیں جنہوں نے تثویب جیسی بدعت کی وجہ سے ایک مسجد ہی ترک کر دی تھی۔ الغرض اخلاص اور اتباعِ سنت کے ساتھ معمولی عبادت بھی مفید ہے، اور شرک اور بدعت کو دل میں جگہ دینے سے بڑی بڑی عبادت بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں منظور نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاص، عمل اور اتباعِ سنت کی توفیق عطا فرمائے، صرف اسی کی بارگاہ سے سب کچھ مل سکتا ہے۔

نماز کی ایک خاص دعا

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

عَنْ اَبِیْ مِجْلَزٍ قَالَ صَلّٰی بِنَا عَمَّارٌ صَلَاۃً فَاَوْجَزَ فِیْھَا فَاَنْکَرْنَا ذٰلِکَ فَقَالَ اَلَمْ اُتِمَّ الرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ قَالُوْا بَلٰی قَالَ اَمَآ اِنِّیْ قَدْ دَعَوْتُ فِیْھَا بِدُعَآءٍ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْعُوْا بِہٖ ۔۔۔ الخ (مسند احمد طبع بیروت، جلد ۴ صفحہ ۲۶۴)
ابو مجلز حضرت عمار بن یاسرؓ کے شاگرد ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمارؓ نے ہمیں مختصر سی نماز پڑھائی۔ چونکہ یہ عام معمول سے ذرا زیادہ ہی ہلکی تھی تو شاگردوں نے عرض کیا  کہ حضور آپ نے اتنی مختصر نماز پڑھائی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم اسے اوپرا کیوں سمجھتے ہو؟ کیا میں نے رکوع و سجود پورا پورا ادا نہیں کیا؟ نماز کے شرکاء نے کہا کہ ہاں رکوع و سجود تو پورا پورا ادا کیا ہے، اس میں تو کوئی کمی نہیں آئی۔ پھر حضرت عمارؓ نے کہا کہ میں نے ان دو مختصر رکعتوں میں وہ دعا کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں کیا کرتے تھے، اور وہ دعا یہ ہے:
اَللّٰھُمَّ بِعِلْمِکَ الْغَیْبَ وَ قُدْرَتِکَ عَلَی الْخَلْقِ اَحْیِنِیْ مَا عَلِمْتَ الْحَیٰوۃَ خَیْرًا لِّیْ وَتَوَفَّنِیْ اِذَا کَانَتِ الْوَفَاۃُ خَیْرًا لِّیْ اَسْئَلُکَ خَشْیَتَکَ فِی الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ وَکَلِمَۃَ الْحَقِّ فِی الْغَضَبِ وَالرِّضَا وَالْقَصْدَ فِی الْفَقْرِ وَالْغِنٰی وَلَذَّۃَ النَّظْرِ اِلٰی وَجْھِکَ وَالشَّوْقَ اِلٰی لِقَآئِکَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ ضَرَّآءٍ مُّضِرَّۃٍ وَّ مِنْ فِتْنَۃٍ مُّضِلَّۃِ اَللّٰھُمَّ زَیِّنَا بِزِیْنَۃِ الْاِیْمَانِ وَاجْعَلْنَا ھَدَاۃً مُّھْتَدِیْنَ۔
’’اے اللہ! تو غیبوں کا جاننے والا ہے، اور مخلوق پر تیری قدرت ہے۔ مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک کہ زندگی میرے لیے بہتر ہو اور مجھے اس وقت وفات دے جب کہ وفات میرے لیے بہتر ہو۔ اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ ظاہر و باطن میں میرے اندر خشیت پیدا کر دے، اور میں تجھ سے کلمہ حق کہنے کی توفیق بھی طلب کرتا ہوں، خواہ غصے کی حالت میں ہو یا خوشی کی۔ اے اللہ! میں تجھ سے تنگ دستی اور آسودگی دونوں حالتوں میں میانہ روی کی درخواست کرتا ہوں (کہ کہیں اسراف و تبذیر میں نہ پڑ جاؤں)۔ اے اللہ! مجھے اپنی ذات کی طرف دیکھنے کا لطف عطا فرما اور اپنی ملاقات کا شوق عطا فرما۔ میں نقصان دہ پریشانیوں اور تکلیفوں سے تیری ذات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں۔ اے اللہ! میں گمراہ کرنے والے فتنوں سے تیری ذات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں۔ اے اللہ! ہمیں ایمان کی زینت کے ساتھ مزین فرما دے اور ہمیں ہدایت دینے والے اور ہدایت یافتہ بنا دے۔‘‘
یہ دعا حضور علیہ السلام اکثر نوافل میں پڑھا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ دیگر بہت سی دعائیں بھی آپ سے منقول ہیں۔ فرائض ادا کرتے وقت بالخصوص جماعت کے ساتھ ادائیگی میں اختصار کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے، کیونکہ جماعت میں بعض بوڑھے، کمزور، ضعیف، حاجت مند لوگ بھی ہوتے ہیں جو زیادہ دیر تک قیام نہیں کر سکتے، لہٰذا ان کی رعایت بھی ضروری ہے۔ البتہ نوافل میں کوئی شخص جتنا چاہے طوالت اختیار کرے، یہ اس کی اپنی ہمت اور ذوق و شوق پر موقوف ہے۔

توہینِ رسالت کے قانون پر ماڈرن خواتین کا اعتراض

ڈاکٹر عبد المالک عرفانی

حال ہی میں اسلام آباد میں خواتین کی تیس تنظیموں کے نمائندگان (لیگل فورم) نے ان قوانین کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے جو خواتین کے حقوق کو (ان کے خیال میں) متاثر کرتے ہیں۔ ان کے مطالبات کا ہدف اسلامی قوانین (بشمول حدود قوانین اور ازدواجی معاملات سے متعلق قوانین) ہیں اور انہوں نے ان کی تنسیخ کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ خواتین کی یہ تنظیمیں مسلمان خواتین کی تنظیمیں ہیں اور وہ ان قوانین کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں جو خواتین کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ماڈرن اور مغرب زدہ خواتین (جو صرف نام کی مسلمان ہوتی ہیں) کا اصل مقصد خواتین کے حقوق کا تحفظ اور حصول نہیں بلکہ خود اسلام کی مخالفت ہے اور یہ مطالبات دراصل غیر مسلموں (عیسائیوں، یہودیوں، ہندوؤں اور قادیانیوں) کے مطالبات ہیں اور ان ماڈرن خواتین کی سرگرمیوں کو یہی غیر مسلم کنٹرول کر رہے ہیں۔
ہمارے اس شبہ کو اس امر سے تقویت ملتی ہے کہ ان مطالبات میں ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ توہینِ رسالت کا قانون منسوخ کیا جائے، حالانکہ توہینِ رسالت کے قانون کا خواتین کے حقوق سے دور کا تعلق بھی نہیں اور یہ مطالبہ صرف غیر مسلموں کا مطالبہ ہے، جسے ماڈرن اور مغرب زدہ خواتین کا نمائندہ فورم پیش کر رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی مرد اور کوئی عورت اس وقت تک مسلمان نہیں کہلا سکتی جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے والدین، بیوی یا خاوند یہاں تک کہ اپنی ذات سے بھی زیادہ محبت نہ کرے۔ اس صورت میں توہینِ رسالت کے قانون کی حمایت ہمارے ایمان کا جزوِ اصلی ہے۔
ہمارے ملک میں توہینِ عدالت کا قانون پوری قوت سے موجود ہے، جس میں ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا، یہاں تک کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں اس امر پر متفق ہیں کہ توہینِ عدالت کے ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنے کا حق حاصل نہیں۔ اس کے باوجود کسی غیر مسلم اور کسی ماڈرن خاتون نے توہینِ عدالت کے قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ نہیں کیا، جبکہ توہینِ رسالت کے قانون میں ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہوتا ہے، اس کے باوجود اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
توہینِ رسالت (بار بار توہینِ رسالت کے الفاظ کا استعمال رسالت کے مقدس مقام کے بارے میں ہمارے جذبات کو مجروح کرتا ہے اور یہ الفاظ ہمیں شدت سے چبھ رہے ہیں لیکن ہم حقیقت حال کی وضاحت کی خاطر انہیں مجبورًا استعمال کر رہے ہیں) کا قانون امن عامہ کو قائم رکھنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ اگر یہ قانون نہیں ہو گا اور ہر شخص کو رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے کی اجازت دی جائے گی تو شمع رسالت کے پروانوں کو توہینِ رسالت کے ارتکاب کرنے والوں کی خبر لینے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ ابھی ایک دن قبل ہی یہ صورت پیش آ چکی ہے کہ توہینِ رسالت کے مرتکب افراد پر بعض لوگوں نے فائرنگ کی اور ایک کو ہلاک اور دوسرے کو زخمی کر دیا گیا۔
اگر حکومت نے اس قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرنے والوں کی پذیرائی کی یا اس کی سزا میں کوئی رعایت برتی تو پورے ملک میں نقصِ امن کی صورت پیدا ہو جائے گی۔ اس وقت حکومت اس پوزیشن میں نہیں کہ نقضِ امن کی یہ صورت تحریک کی شکل اختیار کر لے تو اس سے عہدہ برآ ہو سکے۔ لہٰذا حکومت کو دوٹوک اعلان کرنا چاہیے کہ وہ ایسا مطالبہ کرنے والوں کی حمایت نہیں کرتی اور نہ ہی اس قانون میں کسی قسم کی کوئی ایسی ترمیم زیرغور ہے جو اس میں نرمی پیدا کرتی ہو۔
مسلمانوں کے عقیدے کی رو سے کسی بھی نبی کی توہین شدید سزا کی مستوجب ہے۔ اس وقت حکومتِ پاکستان اس قانون کے بارے میں معذرت خواہانہ اور مدافعانہ پوزیشن اختیار کیے ہوئے ہے۔ اگر حکومت دیگر انبیاء کے بارے میں بھی اس قسم کا قانون وضع کر دے (یعنی حضرت موسٰیؑ، حضرت ہارونؑ، حضرت داؤدؑ، حضرت سلیمانؑ، حضرت عیسٰیؑ اور دیگر انبیاء کرام کی توہین کرنے والے کے لیے وہی سزا مقرر کر دے جو قبل ازیں توہینِ رسالت کے لیے تجویز کی گئی ہے) تو عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے اعتراض کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی۔ یہی دونوں اس مہم میں پیش پیش ہیں، ان کا اعتراض رفع ہونے پر اس مذموم مہم میں کوئی جان نہیں رہے گی اور حکومت کی درد سری ختم ہو جائے گی۔
(بشکریہ ماہنامہ نوائے قانون، اسلام آباد، مارچ ۱۹۹۴ء)

خلافتِ اسلامیہ کے احیا کی اہمیت اور اس کے تقاضے

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۱۵ جنوری ۱۹۹۴ء کو ورلڈ اسلامک فورم کی ماہانہ فکری نشست جامع مسجد صدیقیہ سیٹلائیٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں جمعیۃ اہل سنت کے زیراہتمام منعقد ہوئی جس میں مولانا زاہد الراشدی نے مندرجہ ذیل خطاب کیا۔ مولانا حافظ گلزار احمد آزاد نے سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیے۔ ادارہ)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج کی نشست کے لیے گفتگو کا عنوان طے ہوا ہے ’’خلافتِ اسلامیہ کا احیا اور اس کا طریق کار‘‘۔ اس لیے خلافت کے مفہوم اور تعریف کے ذکر کے بعد تین امور پر گفتگو ہوگی:
  1. خلافت کا اعتقادی اور شرعی پہلو کہ ہمارے عقیدہ میں خلافت کی اہمیت اور اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
  2. خلافت کا تاریخی پہلو کہ اس کا آغاز کب ہوا تھا اور خاتمہ کب اور کیسے ہوا؟
  3. اور یہ سوال کہ آج کے دور میں خلافتِ اسلامیہ کے احیا کے لیے کون سا طریق کار قابل عمل ہے۔

خلافت کا مفہوم

سب سے پہلے یہ دیکھیں گے کہ خلافت کا مفہوم کیا ہے اور جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد کیا ہوتی ہے؟ خلافت کا لفظی معنی ہے نیابت، یعنی کسی کا نائب ہونا۔ قرآن کریم نے خلافت کا لفظ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کے حوالہ سے نسل انسانی کے لیے استعمال کیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ ’’میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘ (البقرہ)۔ یہاں خلیفہ سے مراد حضرت آدمؑ اور ان کی نسل ہے۔ یعنی اس کائنات ارضی کا نظام اللہ رب العزت نے نسل انسانی کے سپرد فرمایا ہے اور وہ اس نظام کو چلانے میں اللہ تعالیٰ کی نائب ہے۔ خلیفہ کا لفظ قرآن کریم میں حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں بھی بولا گیا ہے جو بنی اسرائیل کے پیغمبر اور بادشاہ تھے۔ چنانچہ اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں ’’اے داؤد! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے، پس لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلے کیا کر اور خواہش کی پیروی نہ کرنا‘‘ (ص)۔ بہرحال خلافت کا معنی نیابت ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ نسل انسانی اس کائنات ارضی میں خودمختار اور آزاد نہیں بلکہ نائب ہے جو اپنے دائرہ کار اور اختیارات میں مقرر کردہ حدود کا پابند ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اس مفہوم کو ایک اور انداز سے بھی بیان کیا ہے۔ جب حضرت آدمؑ اور حضرت حوا کو جنت سے زمین پر اتارا گیا تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’تم دونوں زمین پر اتر جاؤ، پس ہماری طرف سے تمہارے پاس ہدایات آئیں گی، جس نے ان کی پیروی کی وہ غم اور خوف سے نجات پائے گا اور جس نے انکار کر دیا وہ آگ کا ایندھن بنیں گے‘‘ (البقرہ)۔ یہ بھی خلافت ہی کی ایک تعبیر ہے کہ نسل انسانی دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے مطلقاً آزاد و خودمختار نہیں بلکہ آسمانی ہدایات کی پابند ہے جو حضرات انبیاء کرامؑ کے ذریعے سے نازل ہوتی رہی ہیں اور جو وحی کی صورت میں حضرت آدمؑ سے شروع ہو کر حضرت محمدؐ پر مکمل ہو گئی ہیں۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد ارشادات میں خلافت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اور بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق اس کا پورا سسٹم یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت انبیاء کرام علیہم السلام کے ہاتھ میں تھی، جب ایک نبی دنیا سے چلا جاتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا۔ اور میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے البتہ میرے بعد خلفاء ہوں گے‘‘۔ اس ارشاد گرامی میں جناب رسول اکرمؐ نے خلافت کو سیاسی قیادت اور حکمرانی کے معنی میں بیان فرمایا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ میرے بعد یہ سیاسی قیادت اور حکمرانی خلفاء کے ہاتھ میں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ نے اپنی معروف کتاب ازالۃ الخفاء میں خلافت کی جو تعریف کی ہے اس میں خلافت کو جناب نبی اکرمؐ کی نیابت سے تعبیر کیا ہے۔ چنانچہ وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’خلافت اس اقتدارِ عمومی کا نام ہے جو معاشرہ میں اقامتِ دین کا اہتمام کرے، امن و امان کا بندوبست کرے، لوگوں کو انصاف فراہم کرے، احکامِ اسلام کے نفاذ کی ذمہ داری قبول کرے اور فریضۂ جہاد کی ادائیگی کا اہتمام کرے‘‘۔ اسی کے ساتھ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ نیابتاً علی النبی کہ یہ اقتدارِ عمومی جناب نبی اکرمؐ کی نیابت کے طور پر ہوگا۔ گویا ہمارے ہاں خلافت کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی سیاست، قیادت اور حکمرانی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب کے طور پر کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ’’خلیفۃ رسول اللہ‘‘ کہا جاتا تھا جبکہ امیر المؤمنین کی اصطلاح ان کے بعد حضرت عمرؓ کے دور میں اختیار کی گئی۔

تاریخی کشمکش

اس موقع پر مناسب ہوگا کہ اس تاریخی کشمکش پر ایک نظر ڈال لی جائے جو نسل انسانی کے آغاز سے ہی خلافت اور انسانی ذہن کی کاوشوں کے درمیان شروع ہو گئی تھی اور اب تک پورے شدومد کے ساتھ جاری ہے۔ نسل انسانی کے آغاز سے اب تک انسانی معاشرہ پر جن قوانین اور ضابطوں کی حکمرانی رہی ہے وہ بنیادی طور پر دو طرح کے ہیں:
  1. ایک طرف وہ نظام ہائے حیات ہیں جنہیں خود انسانی ذہن نے تشکیل دیا اور مختلف صورتوں میں انسانی معاشرہ پر ان کی حکمرانی رہی۔ ان میں خاندانی بادشاہت بھی ہے اور شخصی ڈکٹیٹرشپ بھی، جماعتی آمریت بھی ہے اور طبقاتی بالادستی بھی۔ اسی طرح بعض قوموں کا خود کو حکمرانی کے لیے مختص کر لینا بھی اس میں شامل ہے۔ یہ سب نظام انسانی ذہن کی پیداوار ہیں، کہیں شخصی ذہن کارفرما ہے، کہیں اجتماعی ذہن دخل انداز ہے اور کہیں گروہی اور طبقاتی ذہن نے بالادستی قائم کر رکھی ہے۔ اور ان تمام مراحل سے گزرتے ہوئے اب انسانی ذہن مغربی جمہوریت اور سولائزیشن کی صورت میں اپنے نقطۂ عروج سے ہمکنار ہو چکا ہے جو ان تمام مرحلہ وار نظاموں کی ترقی یافتہ اور آخری شکل ہے۔ اور خود مغربی مفکرین کے بقول اب اس کے بعد انسانی ذہن سے اس سے بہتر کسی اور نظام کی توقع نہیں کی جا سکتی، جسے وہ ’’اینڈ آف ہسٹری‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
  2. دوسری طرف وحی الٰہی پر مبنی نظام ہے جس کا آغاز حضرت آدمؑ سے ہوا اور حضرت محمدؐ پر نازل ہونے والی وحی کی صورت میں وہ نظام مکمل ہوگیا اور اس کی عملی تعبیر خلافتِ راشدہ ہے۔
یہ دونوں نظام مکمل ہو چکے ہیں، اپنی انتہا کو پہنچ چکے ہیں اور اب ان دونوں کے درمیان آخری راؤنڈ ہونے والا ہے، فائنل مقابلہ ہونے والا ہے، ان میں سے جو جیتے گا وہی انسانی معاشرہ پر حکمرانی کرے گا۔ یہ تاریخ کا فیصلہ ہے، تاریخ کا عمل ہے جسے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ ہمارا ایمان ہے کہ اس مقابلہ میں جیت اسلام کی ہوگی، خلافت کے نظام کی ہوگی، وحی الٰہی کی ہوگی اور جناب نبی اکرمؐ کے ارشاد کے مطابق اس مقابلہ کے بعد اسلام کا غلبہ ہوگا اور ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب روئے زمین پر لا الہ الا اللہ پڑھنے والوں کے سوا کوئی موجود نہیں ہوگا۔ یہ بہرحال ہوگا اور جناب نبی کریمؐ کا ارشاد پورا ہو کر رہے گا لیکن اس سے قبل طویل کشمکش اور تاریخی ٹکراؤ کا آخری اور فیصلہ کن مرحلہ آنے والا ہے جس سے گزر کر ہم خلافت کے دو رمیں داخل ہوں گے۔

خلافت کا شرعی حکم

خلافت کے مفہوم اور تاریخی کشمکش کے تذکرہ کے بعد اب ہم اس کے شرعی حکم کی طرف آتے ہیں جسے فقہاء کرام نے وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، بالخصوص امام ولی اللہ دہلویؒ نے اس پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ فقہاء کرام نے خلافت کے قیام کو واجب قرار دیا ہے اور امام ابن حجر مکیؒ نے اپنی کتاب ’’الصواعق المحرقہ‘‘ میں اسے ’’اہم الواجبات‘‘ فرمایا ہے یعنی تمام واجبات سے زیادہ واجب۔ ان کا کہنا ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ کے نزدیک یہ واجب اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ انہوں نے اسے جناب رسول اللہؐ کی تجہیز و تکفین سے بھی مقدم سمجھا اور حضورؐ کے وصال کے بعد پہلے خلیفہ کا انتخاب کیا پھر آنحضرتؐ کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہوئے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ازالۃ الخفاء میں اسے قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے فرض کفایہ قرار دیا ہے، یعنی اگر دنیا کے کسی بھی حصہ میں خلافت کا نظام موجود نہ ہو تو دنیا بھر کے مسلمان گنہ گار قرار پائیں گے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ شرعاً خلافت کے قیام کے واجب ہونے پر تین دلائل پیش کرتے ہیں:
  1. پہلی دلیل یہ کہ جناب نبی اکرمؐ کی وفات کے بعد صحابہ کرامؓ کا سب سے پہلا اجماع خلافت کے قیام پر ہوا تھا اور انہوں نے جناب رسالت مآب کی تجہیز و تکفین سے بھی پہلے اس فریضہ کی ادائیگی کا اہتمام کیا۔
  2. دوسری دلیل کے طور پر وہ جناب نبی اکرمؐ کے اس ارشاد گرامی کو پیش کرتے ہیں کہ ’’جو شخص اس حالت میں مر گیا کہ اس کی گردن میں بیعت نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے‘‘۔ حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ یہاں بیعت سے مراد خلافت کی بیعت لیتے ہیں اور اسے ہر مسلمان کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔
  3. اور ان کی پیش کردہ تیسری دلیل یہ ہے کہ جو کام کسی فرض کی ادائیگی کے لیے ضروری ہو وہ خود بھی فرض ہو جاتا ہے۔ مثلاً وضو بذات خود فرض نہیں ہے لیکن چونکہ نماز اس کے بغیر نہیں ہوتی اس لیے نماز کے لیے وضو کرنا بھی فرض ہے۔ اسی طرح مسلم معاشرہ میں ارکان اسلام کا قیام، جہاد کا اہتمام، قضا کے نظام کا قیام، امن قائم کرنا اور علوم اسلامیہ کا احیا سب فرائض ہیں اور ان فرائض کی ادائیگی خلافت کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے خلافت کا قیام بھی ان مقاصد کے لیے اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز کے لیے وضو فرض ہے۔

خلافت کی سیاسی اہمیت

خلافت کے شرعی حکم کے ساتھ ساتھ اس کی سیاسی اہمیت کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے اور اس سلسلہ میں ایک واقعہ پیش خدمت کرنا چاہتا ہوں جو میں نے اپنے بعض اساتذہ سے سنا ہے۔ وہ یہ کہ جن دنوں تحریک آزادی کے عظیم راہنما شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ مالٹا جزیرے میں نظر بند تھے، ان کے ساتھ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی بھی گرفتار تھے ، جبکہ ایک انگریز فوجی افسر بھی کسی جرم میں وہاں سزا کاٹ رہا تھا۔ یہ دور وہ تھا جب ترکی کی خلافت عثمانیہ جس نے کم و بیش پانچ سو سال تک عالم اسلام کی خدمت کی ہے آخری دموں پر تھی اور برطانیہ، فرانس اور اٹلی سمیت پورا یورپ اس خلافت کے خاتمہ کے لیے سازشوں میں مصروف تھا۔ ایک روز ملاقات میں مولانا مدنی نے اس انگریز فوجی افسر سے پوچھا کہ آپ لوگ ایک کمزور اور برائے نام سی حکومت کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں اور خلافتِ عثمانیہ سے آخر آپ کو خطرہ کیا ہے؟ اس نے جواب میں کہا کہ بات اتنی آسان نہیں ہے جتنی آپ کہہ رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ خلافتِ عثمانیہ اس وقت ایک کمزور سی حکومت ہے جس کا رعب و دبدبہ اور قوت و شوکت قصہ پارینہ ہو چکی ہے لیکن ایک قوت اس کے پاس اب بھی باقی ہے اور وہ خلافت کا لفظ ہے اور امیر المؤمنین کی اصطلاح ہے۔ کیونکہ خلیفہ کے لفظ میں آج بھی اتنی طاقت ہے کہ اگر خلیفہ کی طرف سے دنیا کے کسی خطہ میں کسی کافر قوم کے خلاف جہاد کا اعلان ہو جائے تو دنیا بھر کے مسلمان نوجوانوں میں ہلچل مچ جاتی ہے اور ایک جذباتی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ہم اس قوت سے خائف ہیں اور اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ انگریز خلافتِ عثمانیہ کے خلاف سازش کر کے اسی قوت کو توڑنا چاہتے تھے اور اسے انہوں نے توڑ دیا جس کے بعد مسلمانوں کی سیاسی مرکزیت کا کوئی عنوان باقی نہیں رہا اور ہم انتشار و افتراق کا شکار ہوگئے۔

خلافت کا تاریخی پہلو

خلافتِ اسلامیہ کا ایک تاریخی پہلو بھی ہے جسے سامنے رکھنا ضروری ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تیس سال خلافتِ راشدہ کا دور رہا جو خلافت کا مثالی دور ہے، اس کے بعد خلافتِ عامہ کا دور شروع ہوگیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا کہنا ہے کہ خلافت راشدہ کا دور تیس سال تک ہی چل سکتا تھا کیونکہ اس کے بعد ان کڑی شرائط کے حامل لوگ موجود نہیں رہے تھے۔ اس کے بعد خلافتِ عامہ کا دور ہے جس پر خلافتِ راشدہ کا اطلاق نہیں کیا گیا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ خلافتیں غیر اسلامی تھیں بلکہ یہ خلافتیں بھی اسلامی تھیں جنہیں علماء امت نے ہر دور میں تسلیم کیا ہے، ان میں:
  1. بنو امیہ کی خلافت ہے جو حضرت معاویہؓ سے شروع ہوئی اور ۹۰ سال تک قائم رہی۔
  2. اس کے بعد اموی خلیفہ مروان ثانی سے عباسیوں نے خلافت چھین لی۔ اور اموی خاندان ہسپانیہ منتقل ہوگیا جہاں اس نے کم و بیش آٹھ سو سال تک خلافت کا پرچم لہرائے رکھا۔ جبکہ عباسیوں کی خلافت کا آغاز سفاح سے ہوا اور تقریباً پانچ سو برس تک اس کا تسلسل قائم رہا۔ حتیٰ کہ معتصم باللہ کے دور میں ہلاکو خان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور بنو عباس کی خلافت کا خاتمہ ہو گیا۔
  3. اس کے بعد بنو عثمان نے خلافت کا پرچم اٹھایا، یہ ترک تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لیے چن لیا تھا۔ سلطان عثمان اولؒ نے خلافت کے قیام کا اعلان کیا اور انہی کے نام سے یہ خلافتِ عثمانیہ کہلائی۔ خلافت کا یہ دور بھی کم و بیش پانچ سو سال کو محیط ہے اور اس سلسلہ کے آخری خلیفہ سلطان عبد الحمید مرحوم ہیں جنہیں ۱۹۲۴ء میں جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک نے جلاوطن کر کے خلافت کے خاتمہ کا اعلان کر دیا۔
جس زمانے میں یورپ ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے لیے بے چین تھا اور اس کی سازشیں منظر عام پر آرہی تھیں، ہمارے ہاں برصغیر پاک و ہند میں خلافت کی حمایت کے لیے ایک پرجوش تحریک اٹھی جو تحریک خلافت کے نام سے تاریخ کا یادگار حصہ ہے، لیکن مصطفیٰ کمال کے ہاتھوں خلافت کے خاتمہ کے بعد یہ تحریک خلافت بھی ٹھنڈی پڑ گئی۔ خلافتِ عثمانیہ کے خلاف یورپ کی سازشیں اب ایک ایک کر کے بے نقاب ہو رہی ہیں اور اس پر لٹریچر آرہا ہے کہ یورپ نے کس طرح خلافت عثمانیہ کے سقوط کی راہ ہموار کی، ترکی جیسے عالم اسلام کے بازوئے شمشیر زن کو سیکولر ازم کی طرف مائل کیا اور مسلمانوں کی سیاسی مرکزیت کا خاتمہ کر دیا۔ الغرض خلافت راشدہ کے تیس سالہ دور کے بعد حضرت معاویہؓ سے شروع ہونے والی خلافتِ عامہ ۳ مارچ ۱۹۲۴ء تک قائم رہی۔ اس دوران اچھے حکمران بھی آئے اور برے حکمران دیکھنا بھی عالمِ اسلام کو نصیب ہوئے لیکن مجموعی طور پر خلافت کا تسلسل بہرحال قائم رہا۔ بالخصوص بعض ادوار کی تمام تر خرابیوں کے باوجود خلافتِ عامہ کے اس تیرہ سو سالہ طویل دور میں عدالتی نظام کا ریکارڈ شاندار رہا ہے اور عدالتوں میں قرآن و سنت کے احکام پر عملدرآمد کا سلسلہ بلاخوف لومۃ لائم چلتا رہا ہے۔ اسی طرح جہاد کا تسلسل بھی ہر دور میں قائم رہا ہے جو دنیا میں مسلمانوں کے رعب و دبدبہ کا ذریعہ بنا رہا۔ اس دوران خلافت راشدہ کا دارالحکومت مدینہ منورہ اور کچھ عرصہ کے لیے کوفہ تھا۔ بنو امیہ کا دارالخلافہ دمشق رہا، بنو عباس نے بغداد کو دارالخلافہ بنایا، اور بنو عثمان کا دارالخلافہ قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اسی تاریخی شہر میں ۱۹۲۴ء تک قائم رہا۔

خلافت کے احیا کی ضرورت

حضرات محترم! اب ہم اس نکتہ کی طرف آتے ہیں کہ آج کے دور میں خلافتِ اسلامیہ کے احیا کی اہمیت کیا ہے اور اس کے لیے عملی طریق کار کیا ہو سکتا ہے؟ خلافت کے احیا کی پہلی صورت تو یہ ہے کہ یہ ہمارا اجتماعی شرعی فریضہ ہے جس کی ادائیگی کے بغیر ہم دنیا بھر کے تمام مسلمان گناہ گار ہیں اور شرعی فرض کے تارک ہیں۔ پھر صرف اس ایک فرض کے تارک نہیں بلکہ خلافت کے ذریعے احکام اسلامی کے نفاذ، اقامت دین، جہاد اور شرعی قضا کے جو فرائض بجا لائے جا سکتے ہیں ہم ان کے بھی تارک ہیں اور ان سب فرائض کو نظر انداز کرنے کا بوجھ ہم پر ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں سیاسی وحدت اور مرکزیت کے قیام کا واحد ذریعہ صرف اور صرف خلافت ہے اور گزشتہ صدی کے تجربات نے واضح کر دیا ہے کہ سیاسی وحدت اور مرکزیت کے بغیر عالم اسلام تمام تر وسائل اور صلاحیتوں کے باوجود اپنا ایک مسئلہ بھی حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، اس لیے آج عالم اسلام کا سب سے بڑا اور سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ خلافت کے احیا و قیام کی کوئی عملی صورت پیدا کی جائے۔

عملی طریق کار

خلافت کے انعقاد و قیام کی جو صورتیں فقہاء اسلام نے بیان کی ہیں وہ بنیادی طور پر پانچ ہیں:
  1. عام مسلمانوں کی رائے سے خلیفہ کا انتخاب کیا جائے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتخاب ہوا تھا۔
  2. خلیفۂ وقت کسی اہل شخص کو اپنا جانشین نامزد کر دے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کو نامزد کیا تھا۔
  3. خلیفۂ وقت کی نامزد کردہ خصوصی کمیٹی خلیفہ کا انتخاب کرے، جس طرح حضرت عثمان غنیؓ کا انتخاب عمل میں لایا گیا تھا۔
  4. مجلسِ شورٰی خلیفہ کو چنے، جیسے حضرت علیؓ چنے گئے تھے۔
  5. کوئی اہل شخص اقتدار پر بزور قوت قبضہ کر لے اور امت اسے قبول کر لے، جیسے حضرت حسنؓ کی بیعت کے بعد حضرت معاویہؓ کی خلافت پر امت کا اجماع ہوگیا تھا۔
آج کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ان میں سے دوسرا، تیسرا اور چوتھا طریقہ تو سرِدست قابل عمل نہیں ہے کیونکہ اس وقت کوئی شرعی خلیفہ موجود نہیں ہے جو کسی کو نامزد کر سکے، خصوصی کمیٹی بنا سکے یا مجلس شورٰی قائم کر سکے۔ اس کے بعد پہلا اور پانچواں طریق کار ہی قابل عمل رہ جاتا ہے اور اس کی عملی صورت یہ ہوگی کہ کسی مسلمان ملک کی منتخب پارلیمنٹ اپنے ملک کے دستور پر نظرثانی کر کے شرعی بنیادوں پر خلافت کے احیا کا اعلان کرے اور عام آدمیوں کی رائے سے خلیفہ وقت کا انتخاب کیا جائے۔ یا کوئی طاقتور گروہ طاقت کے زور سے اقتدار پر قبضہ کر لے اور ان میں سے خلافت کے اہل شخص کو خلیفہ کے طور پر قبول کر لیا جائے۔ اس کے علاوہ فقہاء اسلام کی بیان کردہ صورتوں میں سے خلافت اسلامیہ کے احیا اور قیام کی کوئی اور صورت موجودہ حالات میں قابل عمل نہیں ہے۔

ایک اہم قابل توجہ نکتہ

اس مرحلہ میں ایک اہم نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ۱۹۲۴ء تک خلافت کے جیسے کیسے تسلسل کو قبول کرنے کے باوجود ہمیں خلافت کے نظام کی تشکیل و تدوین میں خلافتِ راشدہ ہی کو معیار بنانا ہوگا۔ بعد کے خلافتی نظام اس بارے میں ہماری راہنمائی نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی خلافت راشدہ کے اصولوں کی طرف براہ راست رجوع کیے بغیر ہم مغربی جمہوریت اور ویسٹرن سولائزیشن کا مقابلہ کر سکیں گے۔ حکومت کی تشکیل میں عام آدمی کا حصہ، حاکمِ وقت پر تنقید کا حق، آزادیٔ رائے اور خلیفہ وقت سے اپنا حق کھلے بندوں طلب کرنے کا جو معیار خلافت راشدہ کے دور میں قائم ہوا وہ آپ کو بعد کے ادوار میں نہیں ملے گا اور یہی معیار ہے جسے عملاً سامنے لا کر مغربی جمہوریت کے کھوکھلے پن کو ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ بالخصوص دو معاملات میں خلافت راشدہ کے طرزعمل کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا:
  1. ایک حکومت کی تشکیل اور خلیفہ کے انتخاب میں عام آدمی کی رائے کی اہمیت، جسے حضرت عمرؓ نے بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق یوں بیان فرمایا کہ ’’خبردار! لوگوں کے مشورہ کے بغیر خلیفہ کی بیعت کا نام نہ لینا اور جس نے ایسا کیا اس کی بات کو قبول نہ کرنا‘‘۔
  2. اور دوسرا نظمِ مملکت چلانے میں لوگوں کے ساتھ مشاورت کا نظام، جس کا اہتمام خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور آپ کی سنت مبارکہ ہے کہ اجتماعی معاملات میں لوگوں کو مشاورت میں شریک کیا کرتے تھے، جیسا کہ بدر، احد اور احزاب کے غزوات کے حوالہ سے احادیث موجود ہیں۔ حتیٰ کہ غزوہ حنین کے قیدیوں کی واپسی کے سلسلہ میں مشاورت کے موقع پر لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث عرفاء یعنی لوگوں کے نمائندوں کے ذریعے سے ان کی رائے معلوم کر کے آنحضرتؐ نے فیصلہ فرمایا۔
اس لیے خلافت کا سیاسی نظام طے کرتے وقت ہمیں خلافت راشدہ کو مشعلِ راہ بنانا ہوگا، اسی صورت میں ہم آج کی دنیا کو مغربی جمہوریت سے بہتر نظام دے سکتے ہیں اور وقت کے چیلنج کا سامنا کر سکتے ہیں۔ حضراتِ محترم! میں آخر میں اس فکری نشست کے انعقاد پر جمعیۃ اہل سنت کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ سب دوستوں سے اس دعا کی درخواست کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں کہ اللہ رب العزت عالمِ اسلام کو خلافت کے حقیقی نظام سے ایک بار پھر بہرہ ور فرمائیں اور ہمیں اس کے لیے مؤثر اور نتیجہ خیز محنت کی توفیق دیں، آمین یا الہ العالمین۔
(ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ ۔ جون ۱۹۹۶ء)

تدبر و حکمتِ عملی کی ضرورت

مولانا محمد رابع حسنی ندوی

موجودہ صدی کے وسط سے مسلمانوں کو اپنے دین اور اپنے ملی پیغام کی طرف توجہ دلانے کی جو کوششیں ہوئیں اور ان کو ان کا عزت و عظمت کا ماضی یاد دلانے کے لیے جو لکھا اور کہا گیا، اس کے یہ اثرات پڑے کہ مسلمانوں میں بیداری اور مِلی احساس و شعور کی ایک لہر اٹھی جو جگہ جگہ محسوس کی گئی، اور اس سے مستقبل میں اچھی توقعات قائم کی جانے لگیں۔ حتٰی کہ بعض کہنے والے کہنے لگے کہ اگلی صدی اسلام کی صدی ہو گی۔
چنانچہ جب ہجری تاریخ سے نئی صدی شروع ہوئی تو بڑا غلغلہ اٹھا کہ یہ صدی اسلام کی صدی ہے اور دنیا کی قیادت اب دیر سویر مسلمان کریں گے، یہ دیکھو فلاں جگہ بڑی دینی و ملی بیداری ہو رہی ہے، فلاں جگہ اتنے لوگ مسلمان ہو گئے ہیں، فلاں جگہ ایسی ایسی دینی تحریکیں چلنا شروع ہو گئی ہیں۔
عیسوی تقویم کو بنیاد بنانے والوں نے کہا کہ اکیسویں صدی آ رہی ہے، یہ اسلام کے عروج و غلبہ کی صدی ہو گی، یورپ ٹوٹ رہا ہے، اب دنیا کی قیادت مسلمان قومیں لیں گی، کسی نے ترکی کی طرف دیکھا، کسی نے پاکستان سے امید قائم کی، کسی نے مصر کی طرف، کسی نے لیبیا کی طرف، کسی نے سعودی عرب کی طرف اور کسی نے ایران کی طرف دیکھا، اور یہ دیکھنا ظاہری آثار و حالات کے لحاظ سے غلط بھی نہ تھا کیونکہ ان سب جگہوں پر بعض بعض قیادتوں نے بہت امید پیدا کر دی تھی۔
اس سلسلہ میں مسلمان صحافت نے بھی شور مچایا اور مسلمان تحریکوں نے بھی حصہ لیا، لیکن دیکھنے میں یہ آیا کہ مسلمانوں کا اس وقت مزاج کام کرنے سے زیادہ نام کرنے کا بن گیا ہے، وہ کام سے زیادہ کام کا تذکرہ، جدوجہد سے زیادہ جدوجہد کا اعلان، اور پروگرام پر عمل کرنے سے قبل اس کا بے تحاشا اعلان اپنا وطیرہ بنائے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے مخالف کو اس کا مقابلہ کرنے سے قبل ہوشیار کر دیتے ہیں، اس کو شکست دینے کا اپنا طریقہ اور انداز کار بتا دیتے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ کمزوری ایک بڑی کمزوری کہی جا سکتی ہے، لیکن یہ ایک نفسیاتی کیفیت بھی ہے کہ آدمی اپنی ترقی، توقع اور کامیابی کا چرچا کرتا ہے اور اپنی پریشانی کا تذکرہ بھی زور سے کرتا ہے۔
لیکن راہبرانِ ملت جو فہم و فراست میں بڑھے ہوئے ہیں، اس نفسیاتی کیفیت کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور تذکرہ و چرچے کی اس خواہش کو دوسری طرف موڑ سکتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے ان حالات کا چرچا کیا جائے جن میں انہوں نے دنیا کو اخلاق و انسانیت کا درس دیا اور قوموں اور نسلوں کو حیوانی زندگی سے نکال کر انسانی زندگی میں داخل کیا:
  • انہوں نے مصیبت زدہ دنیا کو مصیبت سے نکالا،
  • غلاموں کو ان کی حقیر پوزیشن سے نکال کر دوستانہ و مساویانہ پوزیشن میں پہنچایا،
  • عورت کو ساز و سامان کی حیثیت سے نکال کر کامل انسانی حقوق کی مستحق اور رفیقہ حیات کا درجہ دیا،
  • بچیوں کو عار و ذلت کا سبب سمجھ کر زندہ دفن کر دینے سے بچا کر نعمت اور باعثِ اجر و ترقی سمجھنے کا ذریعہ بنایا،
  • انسان تو انسان ہے ہر ذی روح کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا سبق دیا،
  • مساواتِ انسانی کا ایسا سبق دیا کہ دیکھنے والے دیکھ کر ششدر رہ گئے اور اس دین کی خوبی اور اس ملت کی عظمت کو مان گئے، چنانچہ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے اور پوری پوری قومیں مسلمان ہو گئیں۔
  • بھلا غور کیجئے کہ کہاں ایسی مثالیں ملیں گی کہ مسلمان فوجوں نے ایک علاقہ کو فتح کیا، علاقے والوں نے مسلمانوں کے خلیفہ سے شکایت کی کہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان اچانک حملہ نہیں کرتے، پہلے اپنی بات پیش کرتے ہیں، اس کے نہ ماننے کے بعد کہہ کر حملہ کر کرتے ہیں، اس فوج نے ایسا نہیں کیا۔ اس شکایت پر خلیفہ نے حکم دیا کہ مسلمان فوجیں مقبوضہ ملک چھوڑ دیں، واپس آجائیں اور پہلے دعوت اور پیغام پیش کریں اور صلح کے ذریعے معاملہ کو انجام دینے کی کوشش کریں، اس میں ناکامی کے بعد حملہ کریں۔ چنانچہ مسلمان فوجوں نے مقبوضہ ملک چھوڑ دیا اور اسلام کے بتائے ہوئے طریقہ پر عمل کیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورا ملک اتنا متاثر ہوا کہ خود سے مسلمان ہو گیا۔
  • بھلا بتائیے کہ کس نے یہ تعلیم دی کہ تمہارے لیے ہر ذی حیات کے ساتھ سلوک کرنے میں اجر ہے، اور ایک پیاسے کتے کو پانی پلا دینے پر جنت چلے جانے کی بشارت دی اور ایک بلی کو کمرے میں بند کر کے مارنے پر آخرت کے عذاب کی خبر دی۔
  • بھلا بتائیے کہ یہ کس کے ہاں ملتا ہے کہ انتقال کے وقت نزع کی حالت میں یہ کہے کہ اپنے رب کی عبادت کرتے رہو اور اپنے غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔
  • بھلا بتائیے کہ یہ کہاں ملتا ہے کہ مصر کے مسلمان حاکم کے لڑکے نے ایک مصری سے گھوڑدوڑ کے مقابلہ میں پیچھے آ جانے پر ایک کوڑا مار دیا۔ مصری نے خلیفۃ المسلمین سے شکایت کی۔ خلیفۃ المسلمین نے مصری حاکم کے لڑکے کو مع باپ کے طلب کیا اور مصری کے ہاتھ سے دونوں پر کوڑا چلوایا، اور حاکم سے کہا کہ تم لوگوں نے کیا انسانوں کو غلام بنا لیا ہے حالانکہ خدا نے ان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ ذرا غور کیجئے، وہ اس زمانہ کی بات ہے جب دنیا کے متمدن ملکوں میں ،تہذیب و تمدن کے گہواروں میں غلاموں اور قیدیوں کو دعوتوں میں مہمانوں کی تفریح کے لیے جلایا جاتا تھا، اخلاق و انسانیت پر عمل کا اتنا بڑا فرق ہے۔
  • بھلا بتائیے یہ کہاں ملتا ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ایک مہم میں مسلمانوں کے لشکر کا سربراہ اپنے سابق غلام کے نوجوان لڑکے کو بنا دیا، لشکر جانے سے قبل آپ کی وفات ہو گئی، آپ کے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے لشکر روانہ کرنا چاہا تو لوگوں نے کہا کہ اس لشکر میں بڑے بڑے عرب کے سردار ہیں، اگر اس نوجوان کے بجائے کسی بڑے سردار کو قائد بنا دیا جائے تو زیادہ مضبوط بات ہو گی۔ خلیفۃ المسلمین نے کہا کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اسی کو قائم رکھا جائے گا اور یہی نوجوان اور سابق غلام کے صاحبزادے ہی قیادت کریں گے۔ چنانچہ سب نے اطاعت کی اور انہی کی قیادت میں کام کیا اور کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا۔
یہ واقعات اور ان کی اتباع میں مسلمانوں کی تاریخ میں سیکڑوں اور ہزاروں واقعات کیوں نہیں ہمارے اپنے چرچے اور تذکروں کا موضوع بنتے کہ غیر مسلم حضرات کے علم میں آئیں؟ جن کو جان کر وہ کہیں کہ مسلمان ویسا نہیں ہوتا جیسا ہم نے غلطی سے اب تک سمجھ رکھا تھا اور جیسا چند بے راہ مسلمانوں کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان چوری کر لیتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام نے چوری کی اجازت دی ہے، کوئی مسلمان کسی پر ظلم کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمانوں کو ظلم کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ مسلمانوں کا پریس، ان کے جلسے، ان کے مظاہرے، یہ تو ظاہر کرتے ہیں کہ مسلمان اپنے حریفوں کو اس طرح زک دیں گے، اس طرح شکست دیں گے، لیکن اپنے مخالفوں اور حریفوں کے ذہنوں کو بدلنے کی نہ کرنے کے برابر کوشش کرتے ہیں۔ ان کے مخالفوں اور حریفوں نے مسلم دشمن پروپیگنڈے ہی کو سنا اور جانا ہے کہ مسلمان اپنے مخالف کو ظالمانہ طریقہ سے ختم کر دیتا ہے، اس کو صرف دادِ عیش دینے اور من مانی کرنے اور اخلاقی قوانین توڑنے سے ہی دلچسپی ہے، وہ اچھا شہری نہیں ہوتا، اچھا پڑوسی نہیں ہوتا، اچھا ساتھی نہیں ہوتا، وہ ناقابلِ اعتبار ہے، ناقابلِ برداشت ہے۔ بھلا بتائیے ان خیالات کے ساتھ مسلمانوں کے دشمن اور حریف مسلمانوں کے معاملہ میں کیا رویہ رکھیں گے؟
آج ساری دنیا میں مسلمانوں پر مصیبت آئی ہوئی ہے، ہر جگہ مسلمانوں کو اپنی مذہبی آزادی اور باعزت اسلامی زندگی کے لیے سخت جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے، اور ان کی اس جدوجہد کو ہر جگہ پوری طاقت سے دبایا جا رہا ہے بلکہ بہت ظالمانہ طریقہ سے کچلا جا رہا ہے۔ یورپ ہو یا ایشیا یا امریکہ، ہر جگہ اسلام کے نام لینے والے مصیبت میں مبتلا کیے جا رہے ہیں، جیسے کہ کوئی خونخوار طاقت ابھرنے لگی ہو اور اس کو کچلنے کے لیے سب کے سب لگ جائیں۔ ضرورت ہے کہ اس مصیبت کے جتنے حصے کو ہم دعوت و وضاحت کے جائز و مؤثر طریقوں کے ذریعہ دور کر سکیں، اس سے دور کریں، اور جو وضاحت اور صحیح واقفیت کے بعد ہو اس کا پوری طاقت اور ہمت سے مقابلہ کریں۔
اس کے لیے اپنے عمل کو اور تعلق مع اللہ کو بھی درست کرنا ہو گا، اور مسلمانوں کے ایمان و اخلاق کو اسلام کی صحیح تعلیمات کے مطابق بنانے کے لیے دعوت و تربیت کے کام کو اصول و طریقہ کے مطابق سنجیدہ اور ٹھوس طریقہ سے کرنا ہو گا اور اس پر خاصا وقت صرف کرنا ہو گا۔ شور و پروپیگنڈے کو ضرورت کے مطابق رکھنا ہو گا، اس میں ہم کو جتنی کامیابی ہو گی، اتنی ہی اللہ کی طرف سے نصرت حاصل ہو گی اور کامیابی ملے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ‘‘ کہ سربلند تم ہی رہو گے اگر تم ایمان والے ہو۔ ہمیں ایمان کے تقاضے پورے کرنے ہوں گے تب ہی ہم کو سربلندی ملے گی۔
(بشکریہ ’’تعمیرِ حیات‘‘ لکھنؤ)

اسلامی ریاست میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق

مولانا منیر احمد

(زیر نظر مضمون ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور کے اپریل/مئی ۱۹۷۷ء کے تین شماروں میں بالاقساط شائع ہوا تھا جسے موجودہ حالات کے تناظر میں بعض غیر ضروری حصوں کے حذف کے ساتھ قارئین الشریعہ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)

اسلامی حکومت کے حکمرانوں کو اپنی رعایا کے ساتھ اسلام جس رواداری، حسنِ سلوک، نرم روی، انصاف پسندی، عدل گستری کا نہایت تاکیدی انداز میں پابند کرتا ہے، اس میں مسلم و غیر مسلم میں کوئی فرق و امتیاز روا نہیں رکھتا۔ بلکہ ان کو یہ سبق سکھاتا ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے دروازے اہلِ اسلام اور غیر اہلِ اسلام یہودی، عیسائی، ہندو، سکھ سب پر کھلے رکھے ہیں، ہر ایک کو رزق، ہوا، پانی، روشنی اور آسمان و زمین کی بے شمار نعمتوں سے یکساں استفادے کا حق ہے، کسی کو کسی نعمت سے استفادہ کے حق سے محروم نہیں کیا، اسی طرح جو حکومت قانونِ الٰہی پر عمل پیرا ہو اس کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اس سنتِ الٰہیہ پر چل کر قرآن و حدیث کی روشنی میں عدل پر مبنی ایسا نظامِ حکومت قائم کرے جس میں مسلم و غیر مسلم کے امتیاز کے بغیر رعایا کے ہر فرد کو بنیادی حقوق اور بنیادی ضروریاتِ زندگی حاصل ہوں۔
اور اگر کوئی ایسا متعصب اور تنگ ظرف حاکم عہدۂ حکومت پر براجمان ہو جائے جو بے شک مسلمانوں کے حقوق تو پورے طور پر ادا کرتا ہے مگر غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں تغافل برتتا ہے، ان کی حق تلفی کرتا ہے، ان کو بنیادی حقوق میں مسلمانوں کے مساوی نہ رکھتا ہو، تو قرآن و حدیث اور خلفائے راشدین کے طرز عمل کی روشنی میں باوثوق طریقے سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اور خود مسلم رعایا پر یہ ضروری ہے کہ یا اس حاکم سے اقلیتوں کے حقوق دلوانے کی کوشش کرے یا پھر اس کو حکومت سے الگ کر دے۔ اور اگر مسلم رعایا ایسا نہیں کرتی بلکہ یہ بھی خاموش تماشائی کی حیثیت سے ان کے حقوق کی پامالی کا نظارہ کرتی ہے تو یہ حاکم اور اس کی مسلم رعایا دونوں گناہ کی زد میں آ جاتے ہیں۔

اسلامی حکومت کا امتیاز

اسلامی حکومت کا یہ ایک ایسا امتیاز ہے جو اس کو دیگر غیر مسلم حکومتوں پر فوقیت دیتا ہے کہ وہ اپنے ملک کی اس رعایا کو جو مذہبی شعائر، قومی رسم و رواج، تہذیب و ثقافت اور نسل و زبان کے اعتبار سے ہر طرح مسلم قوم سے جدا تشخص رکھتی ہے، اور ہے بھی اقلیت میں، وہ حقوق عطا کرتی ہے کہ آج کی ترقی یافتہ انسانی خدمت کی دعویدار غیر مسلم حکومتوں میں شاید وہ حقوق ان کی اپنی ہم قوم و مذہب رعایا کو بھی حاصل نہ ہوں۔ اور اگر کوئی حکومت فیاضی سے کام لے کر اپنی ہم قوم رعایا کو ضروری حقوق دے ہی دے تو اس سے اس حکومت میں قومی خدمت کا جذبہ تو بے شک معلوم ہو جاتا ہے، لیکن انسانی ہمدردی، خیرخواہی، اور انسانی خدمت کے جذبہ کے لیے معیار قومی خدمت نہیں بلکہ وہ طرزعمل ہے جو اس حکومت کا غیر قوموں کے ساتھ ہے۔ اور جب اس معیار پر ایک اسلامی حکومت کا غیر مسلم حکومتوں کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھا جاتا ہے تو یقین ہو جاتا ہے کہ اسلامی حکومت کا مقصد صرف حقوقِ مسلم کی نگہبانی ہی نہیں بلکہ غیر قوموں کے حقوق کی حفاظت کی خاطر مسلمان کے جان و مال کی قربانی بھی اس کا فرض ہے۔

رعایا کے حقوق

کسی حکومت کی رعایا کے وہ حقوق اور ضروریات جن کا تحفظ حکومت کے ذمہ ہوتا ہے، بلکہ قیامِ حکومت کا مقصد قرار پاتا ہے، چار چیزوں سے متعلق ہوتے ہیں: (۱) مذہب، (۲) جان، (۳) مال، اور (۴) عزت و آبرو۔ ہر حکومت کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ رعایا کے مذہب، جان، مال، اور عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔ اسلامی حکومت بھی اپنی مسلم اور غیر مسلم رعایا کی ان چاروں چیزوں کی محافظ ہوتی ہے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔ انہی چار چیزوں کی حفاظت کرنے کے لیے محکمہ فوج، محکمہ پولیس، محکمہ عدالت، محکمہ مالیات، محکمہ تعلیم، اور محکمہ صحت کا قیام کر کے تقسیم کار کر دی جاتی ہے تاکہ مکمل طور پر یہ ذمہ داری پوری ہو سکے۔ ہم ذیل میں پہلے اجمالی طور پر غیر مسلم اقلیتوں کے مذہب، جان، مال اور عزت کی حفاظت سے متعلق قرآن و سنت اور فقہ اسلامی سے ماخوذ اسلامی دفعات پیش کرتے ہیں، اس کے بعد سیرتِ نبویؐ، عمل صحابہؓ اور تاریخی شواہد سے اس کا تفصیلی ثبوت فراہم کریں گے۔

(۱) حفاظتِ مذہب

  1. ان کے مذہب کو پورا تحفظ دیا جائے گا۔
  2. ان کو مذہبی رسوم کی ادائیگی میں پوری آزادی ہو گی۔
  3. اپنے بچوں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کے لیے اپنے مکاتب کھول سکیں گے۔
  4. ان کے مذہب میں عیب جوئی یا طعنہ زنی نہیں کی جائے گی۔
  5. ان کو اجتماعی طور پر مذہبی تہوار منانے کی اجازت ہو گی۔
  6. مذہبی تہوار میں مسلم حکومت حتی الامکان ان سے تعاون کرے گی۔
  7. پادری، رہبان، گرجوں کے پجاری اور ان کے مذہبی پیشوا اپنے عہدوں پر قائم رہیں گے۔
  8. ان کی عبادت گاہیں نہ منہدم کی جائیں گی، نہ ان کو کوئی نقصان پہنچایا جائے گا۔
  9. عبادت گاہوں کے بوسیدہ ہو جانے کی صورت میں مرمت کر سکیں گے۔
  10. خاص اپنے شہروں میں بلا اجازت اور مسلمانوں کے شہروں میں باجازتِ حاکم نئی عبادت گاہیں تعمیر کر سکیں گے۔
  11. مسلمان حاکم ان کی عبادت گاہوں کے لیے جاگیریں وقف کر سکیں گے۔
  12. ان کی عبادت گاہوں کا پورا پورا احترام کیا جائے گا۔
  13. ان کی مذہبی کتابوں کی توہین نہ کی جائے گی۔
  14. تبدیلِ مذہب پر جبر قابلِ تعزیر جرم ہو گا۔
  15. ان کو مسلمانوں کی تعلیم گاہوں میں داخلہ کی اجازت ہو گی۔
  16. فیصلہ جات میں ان کو اختیار ہو گا کہ مسلمان قاضی سے یا اپنے مذہبی پیشوا سے فیصلہ کرائیں۔
  17. ان کے مسجد میں داخل ہونے پر پابندی نہ ہو گی۔

(۲) حفاظتِ جان

  1. ان کی جان مسلمان کی جان کی طرح محفوظ ہو گی۔
  2. ذمی کے قتل ہو جانے کی صورت میں قصاص لیا  جائے گا۔
  3. ان کے کسی عضو کو کاٹ دینے کی صورت میں بدلہ ہو گا۔
  4. ان کی دیت (خون بہا) مسلمان کی دیت کے برابر ہو گی۔
  5. جو مسلم رعایا کے لیے حفاظتی انتظامات کیے جائیں گے ان کے لیے بھی کیے جائیں گے۔
  6. ان پر کوئی دشمن حملہ آور ہو گا تو مدافعت کی جائے گی۔
  7. دشمن کے ہاتھ گرفتار ہو جانے کی صورت میں اس کی رہائی کی پوری کوشش کی جائے گی۔
  8. ذمی کو کسی غیر ذمی کافر کے بدلہ میں قتل نہ کیا جائے گا۔
  9. ان کو فوجی خدمت پر مجبور نہ کیا جائے گا۔
  10. ان کو علاج کے سلسلہ میں پوری سہولتیں حاصل ہوں گی۔

(۳) حفاظتِ مال

  1. ان کا مال محفوظ رہے گا۔
  2. ان کے تجارتی قافلے اور کارواں محفوظ رہیں گے۔
  3. ان کی زمین محفوظ رہے گی۔
  4. تمام چیزیں جو ان کے قبضہ میں تھیں بحال رہیں گی۔
  5. ان کا کوئی حق جو پہلے سے ان کو حاصل تھا زائل نہ ہو گا۔
  6. جو ان میں سے کما نہ سکے اور نہ اس کی کفالت کرنے والا کوئی موجود ہو تو بیت المال سے اس کو روزینہ ملے گا۔
  7. ان کا مارا ہوا حق واپس دلایا جائے گا۔
  8. ان کو اندرون ملک اور بیرون ملک تجارت کی اجازت ہو گی۔
  9. ذرائع ترقی میں وہ برابر کے حصہ دار ہوں گے۔
  10. انہیں اسلام کی حرام کردہ اشیا، جو ان کے مذہب میں حلال ہیں، اپنے ہم مذہب لوگوں کے ساتھ ان کے کاروبار اور استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔
  11. ان کو وہ تمام مالی حقوق حاصل ہوں گے جو اہلِ اسلام کو حاصل ہوں گے۔
  12. ان کا مال چوری کرنے پر ہاتھ کاٹا جائے گا۔
  13. جزیہ (ٹیکس) یا خراج (لگان) جو ان سے لیا جائے گا، اس کے لیے محصل کے پاس خود نہیں جانا پڑے گا۔
  14. ان کی عورتوں، بچوں، بوڑھوں، پاگل، بیمار، معذور، غلام، مریض، تنگ دست، افراد سے جزیہ یا خراج وصول نہیں کیا جائے گا، البتہ یہ لوگ حقوق رعایا میں برابر کے حق دار ہوں گے۔
  15. ان سے عشر وصول نہیں کیا جائے گا۔
  16. خراج یا جزیہ کی وصولی میں ناروا سختی نہیں کی جائے گی۔
  17. خراج یا جزیہ سال سے پہلے وصول نہیں کیا جائے گا۔
  18. طے شدہ مقدار سے زیادہ وصول نہیں کیا جائے گا۔
  19. ان کی حفاظت نہ کر سکنے کی صورت میں جزیہ واپس کر دیا جائے گا۔
  20. اگر محصل بروقت وصول کرنے کے لیے نہ پہنچا اور اس پر عرصہ گزر گیا تو سابقہ سالوں کا جزیہ ساقط ہو جائے گا۔
  21. مسلمان ہو جانے کی صورت میں جزیہ اور خراج معاف کر دیا جائے گا۔
  22. جو ذمی فوجی خدمت سر انجام دیں گے ان سے جزیہ نہ لیا جائے گا۔
  23. ان کے مردہ سے باقی ماندہ جزیہ یا خراج ساقط ہو جائے گا۔
  24. ذمیوں کے چوپایوں پر کوئی ٹیکس نہ ہو گا۔
  25. ان کی نقدی، سونا، چاندی اور زیورات پر کوئی ٹیکس نہ ہو گا۔
  26. ان پر خراج اور جزیہ کے علاوہ کوئی ٹیکس عائد نہ کیا جائے گا۔
  27. اپنی ملکیت کے تصرف میں وہ آزاد ہوں گے۔

(۴) حفاظتِ عزت

  1. ان پر تہمت لگانا قابلِ تعزیر جرم ہو گا۔
  2. ان کی غیبت مسلمان کی غیبت کی طرح حرام ہو گی۔
  3. عدالتوں میں مسلم اور غیر مسلم کی حیثیت برابر ہو گی۔
  4. ملک و قوم کے وفادار ثابت ہو جانے کی صورت میں مسلم حکام کی صوابدید کے مطابق سرکاری عہدوں پر فائز ہو سکیں گے۔
  5. طے شدہ شرائط کی خلاف ورزی نہ کی جائے گی۔
  6. ان کو بلند مکان بنانے کی اجازت ہو گی۔
  7. ان کا قومی لباس تبدیل نہ کیا جائے گا۔
  8. ان سے ان کی طاقت سے زیادہ کام نہیں لیا جائے گا۔
  9. جو ان کا نکاح وغیرہ کا معاملہ اپنے دین کے مطابق ہو چکا ہو، مگر اسلام کے خلاف ہو، تو وہ اسی پر برقرار رہیں گے، اگرچہ وہ مسلمان بھی ہو جائیں۔
  10. اگر کوئی غیر مسلم حکومت اسلامی حکومت کو جزیہ دینا قبول کرے تو ان کی حکومت قائم رہے گی اور مسلمان ان کی ہر طرح حفاظت کریں گے۔
  11. ان کے ملک میں فوج کشی نہ کی جائے گی۔
  12. ان سے کسی عام معاشرتی یا اخلاقی جرم کے سرزد ہو جانے کی صورت میں مسلمانوں کی ذمہ داری ختم نہ ہو گی۔

اسلام کے سنہری دور میں اقلیتوں کے حقوق

شمالی یمن اور مکہ معظمہ کے مشرق میں سات منزل کے فاصلہ پر نجران ایک وسیع ضلع کا نام ہے، جس کی لمبائی تیز سوار کی ایک دن کی مسافت کے برابر تھی، اور تہتر بستیوں اور ایک لاکھ بیس ہزار فوج پر مشتمل تھا (ابن کثیر ص ۳۷ ج ۱)۔ یہاں کئی صدیوں سے عیسائی آباد تھے۔ انہوں نے اپنی مذہبی اور اقتصادی زندگی اچھی طرح منظم کر لی تھی۔ وہ زراعت اور مختلف قسم کی صنعتوں سے واقف تھے، جیسے پارچہ بافی اور ہتھیار سازی۔ یہاں پر عیسائیوں کا ایک عظیم الشان کلیسا بھی تھا جس کو وہ کعبہ کہتے تھے اور حرمِ کعبہ کا جواب سمجھتے تھے۔ اس میں بڑے بڑے مذہبی پیشوا رہتے تھے جن کا لقب سید اور عاقب تھا۔ عیسائیوں کا کوئی مرکز اس کا ہمسر نہ تھا۔ یہ کعبہ تین سو کھالوں سے گنبد کی شکل میں بنایا گیا تھا، جو شخص اس کی حدود میں آجاتا تھا وہ مامون ہو جاتا تھا۔ اس کعبہ کے اوقاف کی آمدنی دو لاکھ سالانہ تھی (سیرت النبی ج ۲)۔
۹ھ یا ۱۰ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کو دعوتِ اسلام کا خط لکھا جس کو مفسر ابن کثیر نے نقل کیا ہے۔ خط ملنے کے بعد نجران کے عیسائیوں کا ایک ایک معزز و موقر وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اور نجرانی عیسائیوں کے درمیان جو معاہدہ طے پایا، وہ بقول امام زہریؒ، کسی غیر مسلم قوم کے جزیہ دے کر مسلم حکومت کی رعایا بننے کا سب سے پہلا واقعہ ہے (ابن کثیر ج ۱ ص ۳۷۰)۔ اس کی تفصیلی رپورٹ جو مورخین نے دی ہے وہ اس طرح ہے:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(۱) یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ نجران کے لیے تحریر کیا۔
(۲) کیونکہ وہ اس کی حکومت کی ماتحتی قبول کر چکے ہیں۔
(۳) معاہدہ کی رو سے ان کی تمام مملوکہ اشیا سیاہ و سفید، سرخ و زرد، پھل اور غلام، جو فیصلہ کے وقت ان کی ملکیت میں ہیں، ان کے لیے محفوظ کی جاتی ہیں۔
(۴) اس شرط پر کہ وہ سالانہ دو ہزار حلے (یمنی چادروں کے دو جوڑے)، ایک ہزار ماہ صفر میں اور ایک ہزار ماہ رجب میں، ادا کرتے رہیں گے۔
(۵) ہر حلہ کی قیمت ایک کامل اوقیہ (تقریباً بیس روپے) ہو گی۔
(۶) حلوں کی کمی بیشی کا حساب اوقیوں سے ہو گا۔ (یعنی دو ہزار اوقیہ کی قیمت کے حلے ہوں خواہ کم یا زیادہ)۔
(۷) جو اونٹ، گھوڑے یا زرہیں وہ دیں گے وہ بھی اسی حساب سے لی جائیں گی۔
(۸) اہلِ نجران کی ذمہ داری ہو گی کہ میرے فرستادہ ٹیکس وصول کنندہ لوگوں کی بیس دن کی مدت تک مہمانی کریں گے۔
(۹) یمن میں کوئی سازش یا بغاوت رونما ہو تو وہ ہمیں تیس گھوڑے، تیس اونٹ، تیس زرہیں عاریتاً دیں گے۔
(۱۰) میرے فرستادگان کو یہ لوگ جو اشیا عاریتاً دیں گے وہ تا ادائیگی ان چیزوں کے ضامن ہوں گے۔
(۱۱) نجران کے غیر مسلم باشندوں اور ان کے گرد و نواح کے لوگوں کے لیے اللہ و رسول کا ذمہ اور امان ہے۔
(۱۲) یہ ذمہ و پناہ ان کی جان، مذہب، زمین، مال اور عبادت گاہوں کے لیے ہے۔
(۱۳) ان کے حاضر و غائب کے لیے، ان کے کارواں اور قاصد کے لیے بھی پناہ ہے۔
(۱۴) ان تمام مذہبی شعائر میں، جن پر وہ اس وقت قائم ہیں، کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔
(۱۵) ان کے حقوق و مذہبی شعار اسی طرح باقی رہیں گے، ان میں کوئی تغیر و تبدل نہ ہو گا۔
(۱۶) ان کے سارے مذہبی عہدے باقی رہیں گے۔
(۱۷) ان کے کسی اسقف (لاٹ پادری) کو اس کے عہدے سے برطرف نہیں کیا جائے گا۔
(۱۸) ان کے کسی راہب کو رہبانیت سے الگ نہ کیا جائے گا۔
(۱۹) نہ کسی خادمِ کلیسا کو اس خدمت سے محروم کیا جائے گا۔
(۲۰) ان مذہبی پیشواؤں کے قبضہ میں جو تھوڑا بہت ہو گا وہ محفوظ رہے گا۔
(۲۱) ان پر جاہلیت کے زمانہ کے کسی خون یا عہد کی ذمہ داری نہیں ہے۔
(۲۲) ان کو فوجی خدمت پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔
(۲۳) ان سے عشر نہیں لیا جائے گا۔
(۲۴) ان کی زمین کو کوئی لشکر پامال نہ کرے گا۔
(۲۵) نہ جزیہ لینے کے لیے ان کو جمع کیا جائے گا، بلکہ محصل خود جا کر وصول کرے گا۔
(۲۶) کسی حق کے مطالبہ کی صورت میں ان کے ساتھ ایسا انصاف ہو گا کہ نجران میںٖ یہ لوگ نہ ظالم ہوں گے نہ مظلوم۔
(۲۷) جو ان میں سے سود کھائے گا وہ میری ذمہ داری و امان سے خارج ہو جائے گا۔
(۲۸) ان میں سے کوئی  آدمی کسی دوسرے کے ظلم کی وجہ سے نہ پکڑا جائے گا۔
(۲۹) ان کے لیے اس امان نامہ میں جو کچھ ہے، اس پر اللہ تعالیٰ کی پناہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذمہ ہے، اس وقت تک کے لیے کہ اللہ کا حکم آئے۔
(۳۰) سب خیر خواہی برتیں اور ان حقوق کو ادا کرتے رہیں جن کا عہد کیا گیا ہے۔
(۳۱) ان پر کوئی ذرا برابر ظلم و زیادتی نہ ہو گی۔
گواہ شد
۱۔ ابو سفیان بن حرب
۲۔ غیلان بن عمرو
۳۔ مالک بن عوف
۴۔ اقرع بن حابس حنظلی، مغیرہ
(کتاب الخراج ص ۳۴۷، فتوح البلدان ص ۷۲، کتاب الاموال بحوالہ اسلام کا نظامِ امن)

معاہدہ پر ایک نظر

کسی قوم کے بنیادی حقوق چار چیزوں سے متعلق ہوتے ہیں: (۱) مذہب (۲) جان (۳) مال (۴) اور عزت۔ اس معاہدہ میں اہلِ نجران کی ان چاروں اشیا کی حفاظت کی ضمانت موجود ہے۔
اسلام مسلمان حکمرانوں میں غیر مسلم رعایا کے بارے میں جس دیانت و امانت کو چاہتا ہے اس کا اندازہ معاہدہ کی شق ۱۸ اور شق ۱۰ سے کیا جا سکتا ہے کہ ان کی جو چیز عاریتاً لیں اس کی واپسی کی ذمہ داری بھی لیں۔ نہ تو یہ اس چیز کو ضائع کر سکتے ہیں اور نہ واپسی کے وقت ان کو تکلیف دیں گے، بلکہ ان کے ہاں پہنچانے کا خود بندوبست کرنا ہو گا۔
پھر ان کے علاقہ میں جا کر زبردستی ان سے مہمانی نہیں کھا سکتے، اور یہ کہ معاہدہ میں مہمانی کا معاملہ طے ہو چکا ہو پھر معاہدہ ہونے کے باوجود مقررہ دنوں میں ان سے کھانا کھا سکیں گے، اس کے بعد اپنا انتظام کرنا ہو گا اور ان سے ان کی رضامندی کے بغیر ایک لقمہ کھانا بھی حرام ہو گا۔
چونکہ اس قوم نے اپنے مذہب کے چھوڑنے سے انکار کیا تھا، اس لیے معاہدہ میں ان کے مذہب و مذہبی شعار کی چیزوں کے تحفظ کو دوبارہ دوہرایا گیا ہے۔ ان کو عدل و انصاف مہیا کرنے اور ظلم و ستم نہ کرنے کا بھی متعدد بار یقین دلایا گیا ہے۔
ان کی عزت نفس کا اتنا احترام ملحوظ رکھا گیا ہے کہ جزیہ ادا کرنے کے لیے خود ان کو نہیں آنا پڑے گا بلکہ تحصیلدار خود ان سے جا کر وصول کرے گا۔ اور جزیہ کی وصولی کے بارے میں اتنی نرمی برتی گئی ہے کہ اصل طے شدہ جزیہ تو دو ہزار اوقیہ (چالیس ہزار روپے) سالانہ تھا مگر ازراہ سہولت یہ اختیار کیا گیا ہے کہ چاہیں تو اتنی قیمت کے دو ہزار حلے یا اونٹ، گھوڑے اور زرہ میں سے جو میسر ہو سکتے ہیں وہ دے دیں تاکہ نقدی کے نہ ہونے یا کم ہو جانے کی صورت میں جزیہ کی ادائیگی میں ان کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اور جو جزیہ کی مقدار مقرر کی گئی ہے ان کی آبادی اور آمدنی کے مقابلہ میں کوئی زیادہ نہیں۔ کیونکہ نجران کا علاقہ ۷۳ گاؤں پر مشتمل تھا تو اس لحاظ سے ایک گاؤں پر ایک ہزار روپے سالانہ سے بھی کم ٹیکس پڑتا ہے۔
پھر ان سب مراعات و حقوق کی تحریری دستاویز تیار کرنے کے باوجود ان کے مزید اطمینان و اعتماد کے لیے سب سے زیادہ جو وثوق و اعتماد کی چیز ہے یعنی ’’اللہ و رسول کی ذمہ داری‘‘ اس کی ضمانت دے کر اس پر صحابہ کرامؓ کے دستخط ثبت کرائے جاتے ہیں۔
سال یا چھ ماہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ۱۱ھ میں انتقال ہو گیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفہ ہوئے تو نجرانی عیسائیوں کا ایک وفد دستاویز کی توثیق کرانے اور اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے مدینہ آیا۔ حضرت صدیقؓ نے توثیق کر دی۔ دورِ فاروقی کے ابتدائی سالوں میں بھی یہی معاہدہ زیرعمل رہا، لیکن کچھ سال بعد ان لوگوں نے عہد شکنی کی۔
(۱) معاہدہ کی رو سے وہ سودی لین دین نہیں کر سکتے تھے مگر انہوں نے بڑے وسیع پیمانے پر سودی کاروبار شروع کر دیا تھا۔
(۲) اپنی مالی حیثیت مضبوط کرنے کے بعد کافی تعداد میں ہتھیار اور گھوڑے جمع کر کے یمن اور مدینہ منورہ پر حملہ کی تیاریاں کر رہا تھے کہ حضرت عمرؓ کو باوثوق ذرائع سے اس کی اطلاع ہو گئی۔
چونکہ یہ لوگ معاہدہ کے پابند نہ رہے تھے اور اسلامی سلطنت کے دارالحکومت مدینہ منورہ پر براہ راست حملہ کی تیاریوں اور سازشوں میں ملوث تھے، ان کی اسلامی حکومت سے بغاوت و غداری پایہ ثبوت کو پہنچ چکی تھی، اس لیے حضرت عمرؓ نے نجران اور اس کے آس پاس کے دیہی علاقہ کے گورنر یعلیؓ بن منیہ کو حکم نامہ بھیجا کہ ان کو شہر بدر کر دیا جائے یعنی ان کو نجران سے دوسرے شہروں میں منتقل کر دیا جائے۔ حسب الحکم یہ لوگ نجران سے شام و عراق کی طرف منتقل کر دیے گئے، کچھ شام میں جا کر آباد ہوئے اور اکثر عراق کے صوبہ کوفہ کے دیہاتوں میں سکونت پذیر ہوئے۔
آج اگر کسی حکومت کی ہم قوم و ہم مذہب رعایا کا یہ کردار ہوتا تو وہ اس کو غدار قرار دے کر قتل یا سزائے موت سے کم کسی سزا پر اکتفا نہ کرتی اور اگر کوئی شخص یہ مطالبہ کرتا کہ ان لوگوں کو صرف شہر بدر کر کے چھوڑ دیا جائے تو حکومت کی نگاہ میں اس شخص کی ملکی و قومی وفاداری مشتبہ ہو جاتی اور اس پر حکومت غداروں کی ہمنوائی، پشت پناہی کا فتوٰی صادر کر کے قابل گردن زنی قرار دے کر ساتھ ہی دھر لیتی۔ لیکن اسلامی حکومت کے تیسرے سربراہ عمر فاروقؓ کا اپنی باغی غیر مسلم رعایا (جس کے ماضی و حال کے بھیانک کردار سے اچھی طرح واقف ہیں) اس کے ساتھ طرزعمل بھی دیکھیے جو اقوامِ عالم کے لیے قابلِ رشک اور قابلِ تقلید ہے۔ ان کی اجتماعیت کو ختم کرنے ،ان کو اس مرکز و قلعہ کو توڑنے کے لیے صرف دوسرے شہروں میں منتقل کر دینے کی سزا تو تجویز کرتے ہیں مگر نہ وہ اس جرم کی وجہ سے معاہدہ کو کالعدم قرار دیتے ہیں، نہ قتل کرتے ہیں اور نہ کوئی دوسری اذیت پہنچاتے ہیں۔ پھر معاہدہ شکنی اور اس عظیم جرم کے ارتکاب کی وجہ سے ان کے مذہبی، جانی، مالی حقوق کا تحفظ بھی ضروری نہیں رہا تھا، اور اگر وہ تحفظ نہ کرتے تو یہ معاہدہ کی خلاف ورزی ہوتی اور نہ اصول دنیا کی۔
مگر اسلامی حکومت کے اس فرمانروا کی فراخدلی، وسعت، حوصلہ، اخلاقی بلندی اور انسانیت نوازی کو سلام کیجئے اور داد دیجئے کہ انہوں نے نجرانیوں کو شام و عراق کی طرف منتقل کرنے کے بعد شام و عراق کے گورنروں کو نہ صرف یہ کہ ان کی حفاظت کی طرف توجہ دلائی بلکہ ان کے پورے پورے حقوق ادا کرنے کے لیے نہایت تاکید کے ساتھ ہدایات بھیجیں، اور بطور ثبوت و سند کے خود نجرانیوں کو ایک دستاویز لکھ دی تاکہ یہ کسی علاقہ میں جائیں تو یہ دستاویز دیکھ کر وہاں کے گورنر سے حقوق طلبی کر سکیں۔
حضرت عمر فاروقؓ نے شام و عراق کے گورنروں کو اہلِ نجران کے متعلق اپنے خصوصی ایلچی کے ذریعے مندرجہ ذیل ہدایات جاری کیں، آپ نے لکھا:
’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
یہ دستاویز عمر امیر المومنین نے اہلِ نجران کے لیے لکھی ہے کہ ان میں سے جو کوئی اپنا گھر بار چھوڑ کر چلا جائے گا وہ خدا کی امان میں رہے گا۔ کوئی مسلمان اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا اور اس عہد کا پوری طرح پاس کیا جائے گا جو پیغمبر محمدؐ اور ابوبکرؓ نے ان سے کیا تھا۔ واضح ہو کہ امرائے شام و عراق میں سے جس کے پاس نجران کے عیسائی جائیں گے، وہ ان کو کاشت کے لیے زمین دیں گے، اور جتنی زمین وہ جوت، بو لیں گے وہ صدقۃ لوجہ اللہ اور نجران میں چھوڑی ہوئی اراضی کے عوض ان کی ہو جائے گی۔ اس کو جوتنے، بونے اور اپنے تصرف میں رکھنے سے کوئی ان کے آڑے نہ آئے گا اور نہ ان کو کوئی نقصان یا ضرر پہنچائے گا۔ اگر کوئی ان پر ظلم و ستم کرے تو جو مسلمان موقع پر ہو اس کا فرض ہے کہ ان کی حمایت کرے، کیونکہ اسلام نے ان کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ نئی جگہ آنے کے چوبیس ماہ تک جزیہ سے بھی ان کو معافی دی جاتی ہے، ان کے ساتھ نہ ظلم کیا جائے گا نہ زیادتی۔‘‘ (کتاب الخراج ص ۷۳، بحوالہ حضرت عمرؓ کے سرکاری خطوط ص ۱۱۸)
حضرت عثمانؓ کے دور تک کوفہ سے تقریباً چالیس میل دور مشرق میں نجرانیوں کی ایک دیہاتی بستی آباد ہو چکی تھی جس کا نام نجرانیہ تھا۔ مقامی طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی، ان کو وہاں سے نکالنے کے لیے مسلمانوں نے حضرت عثمانؓ سے شکایت کی، دوسری طرف ۲۷ھ میں ایک نجرانی وفد حضرت عثمانؓ سے ملا اور یہ شکایات پیش کیں:
(۱) یہ ماحول ہمارے موافق نہیں ہے، ہمیں ستایا اور ذلیل کیا جاتا ہے۔
(۲) ہمارے ہم وطنوں کے بکھر جانے کی وجہ سے اجتماعی آمدنی کم ہو گئی ہے، اس لیے چالیس ہزار روپے فراہم کرنے میں ہمیں دقت ہوتی ہے۔
حضرت عثمانؓ نے ان کی باتیں پوری توجہ اور ہمدردی سے سنیں اور ولید بن عقبہ گورنر کوفہ کو فرمان بھیجا، آپ نے لکھا:
’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
بندہ خدا عثمان امیر المومنین کی طرف سے ولید بن عقبہ کو سلام علیک۔ میں اس معبود کا سپاس گزار ہوں جس کے سوا کوئی دوسرا عبادت کے لائق نہیں۔
واضح ہو  کہ اسقف (بشپ، لاٹ پادری) عاقب اور نجرانیوں کے اکابر، جو اس وقت عراق میں مقیم ہیں، مجھ سے ملے اور اپنی مشکلات کی شکایت کی، اور مجھے عمرؓ کی وہ تحریر دکھائی جس میں یمن میں متروکہ اراضی کے عوض نجرانیوں کو عراق اور شام میں اراضی دینے کا حکم دیا تھا۔ تم اس بدعنوانی سے بھی واقف ہو جو مسلمانوں نے ان کے ساتھ کی ہے۔ ان سب باتوں کے پیشِ نظر میں نے ان کے جزیہ میں سے تیس حلے (چھ سو روپے) کی تخفیف کر دی ہے۔ اور میں سفارش کرتا ہوں کہ ان کو وہ اراضی دے دی جائے جو عمرؓ نے ان کو عراق سے دلوائی تھی۔ اور اس کے علاوہ لوگوں کو اچھی طرح سمجھا دو کہ ان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئیں کیونکہ یہ ذمی ہیں جن کے ساتھ حسنِ سلوک کا ہم نے ذمہ لیا ہے۔ اس کے علاوہ میری ان لوگوں سے پرانی واقفیت بھی ہے، تم وہ تحریر خود بھی دیکھنا جو عمرؓ نے ان کو لکھ دی تھی اور جو وعدہ اس میں کیا گیا ہے اس کو پورا کرنا۔ پڑھنے کے بعد یہ تحریر نجرانیوں کو لوٹا دینا (تاکہ وقتِ ضرورت ان کے کام آئے) (والسلام)‘‘۔ (کتاب الخراج ص ۴۳، بحوالہ حضرت عثمانؓ کے سرکاری خطوط ص۱۳۳)
اسلامی حکومت کے اس چوتھے فرمانروا حضرت عثمانؓ کے عدل و انصاف، رعایا کے درمیان ’’مساوات‘‘ کا اس سے اندازہ کیجئے کہ ان کے پاس مسلمان بھی شکایت کرتے ہیں اور نجرانی عیسائی بھی۔ دونوں فریقوں کا مقدمہ جب سامنے آتا ہے تو عثمان غنیؓ مسلمانوں کی شکایت پر نہ عیسائیوں کو وہاں سے نکالتے ہیں اور نہ عیسائیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں سے ترجیحی سلوک کرتے ہیں۔ بلکہ عیسائیوں کی درخواست سن کر ان کی دستاویز دیکھ کر ان کی مقبوضہ اراضی کو محفوظ کر دیتے ہیں، اور جو ابھی تک قبضہ میں نہیں آئی تھی اس کے قبضہ دلانے کے لیے آرڈر بھیجتے ہیں۔ ان مسلمانوں کی طرف سے کی گئی زیادتی و بدعنوانی کا سدباب کر کے ہمدردی، خیرخواہی اور حسنِ سلوک کے لیے اللہ و رسول اور مسلمانوں کی ذمہ داری یاد دلا کر ان کے ساتھ اپنی پرانی واقفیت و شناسائی کو بطور سفارش پیش کرتے ہیں۔

بائبل بے خطا اور بے عیب نہیں

کیپٹن اسلم محمود

۳ اپریل ۱۹۹۱ء کو اٹک کے جناب کیپٹن اسلم محمود نے ہمیں زیر نظر خط کی فوٹو کاپی بغرضِ اشاعت ارسال فرمائی اور لکھا کہ
’’انگلستان کی کیمبرج یونیورسٹی کے سڈنی سسکس (Sidney Sussex) کالج کے شعبہ دینیات کے سربراہ پال ہاکنز (Rev. Paul Hawkins) ہمارے کرم فرما ہیں، اور دینی شعبہ میں اگر تحقیق کے درمیان کوئی مشکل مقام آ جائے تو میں ان کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ مورخہ ۳۰ مئی کو انہوں نے میرے خط کے جواب میں ایک خط تحریر فرمایا جس کی فوٹو کاپی آپ کی خدمت میں ارسال کر رہا ہوں۔‘‘
ہم اس خط کی اشاعت میں اس قدر تاخیر پر جناب کیپٹن اسلم محمود صاحب اور اپنے قارئین سے معذرت خواہ ہیں۔ بہرحال، اصل خط کا عکس مع اردو ترجمہ کے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ ترجمہ ادارہ کی طرف سے کیا گیا ہے جبکہ انجیل یوحنا کے متنازعہ پیراگراف سے متعلقہ حواشی کیپٹن اسلم محمود صاحب ہی کے ایک مضمون (’’انجیلِ مقدس میں ایک مسلمہ تحریف‘‘ شائع شدہ ماہنامہ المذاہب لاہور دسمبر ۱۹۸۹ء) سے ملخص کیے گئے ہیں۔
(مدیر)

’’ڈیئر کیپٹن محمود!
آپ کے خط مورخہ ۲۸ نومبر ۱۹۸۹ء کا شکریہ۔ آپ کو معلوم ہوا ہو گا میں مذکورہ بالا پتے پر منتقل ہو چکا ہوں، لیکن آخر کار آپ کا خط مجھ تک پہنچ گیا۔ 
میں نے یوحنا ۷ : ۵۳ تا ۸ : ۱۱ سے متعلق آپ کے سوال میں بہت دلچسپی لی ہے۔ کوئی  شخص حقیقتاً ان سوالات کے جواب سے آگاہ نہیں، لیکن غالباً یہ کہانی اس آزادانہ روایت کا ایک حصہ ہے جو اناجیل سے علیحدہ چند دہائیوں سے رائج الوقت تھی، جسے بعد میں یوحنا کی انجیل میں شامل کر دیا گیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ یسوع کے متعلق کچھ ایسی کہانیں تھیں جن کی اشاعت کلیساؤں کے ذریعے سے بار بار ہوئی، لیکن ان کو اناجیل میں شامل نہیں کیا گیا۔ یہ کہانی (یعنی یوحنا ۷ : ۵۳ تا ۸ : ۱۱) اسی سلسلے کی ایک مثال ہے۔ یہ انجیل کے لاطینی اور یونانی نسخوں میں شامل ہے، اس لیے، باوجودیکہ یہ پہلی انجیل کا حصہ نہیں، اسے بہت جلد یوحنا کی انجیل میں شامل کر لیا گیا ہو گا۔ ہم نہیں جانتے کہ اس کا ذمہ دار کون تھا۔
بائبل کے صحائف کے بے عیب الہامی اور بے خطا ہونے سے متعلق آپ کے سوال کے بارے میں میں یہ کہوں گا کہ بائبل الہامی ہے لیکن بے خطا اور بے عیب یقیناً نہیں۔ یہ بالکل واضح بات ہے۔ نکتے کی بات، مجھے یقین ہے، یہ ہے کہ خدا انسانوں کے ذریعے سے کلام کرتا ہے اور انسان غلطیاں کرتے ہیں۔ لیکن خدا نے ابلاغ کا یہی طریقہ منتخب فرمایا ہے کہ وہ اپنے کلام اور انسانوں کے ذریعے سے ایسا کرے۔ اس لیے ہم کسی بھی صحیفے کو مطلقاً بے خطا نہیں مان سکتے۔ البتہ مجھے یقین ہے کہ یہ صحیفے الہامی ہیں اور ان کے ذریعے سے ہم خدا کو اپنے ساتھ کلام کرتا ہوا سن سکتے ہیں۔ میرے انداز نظر کے مطابق کم از کم یہی طریقہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ وضاحتیں آپ کے لیے دلچسپ ہوں گی اگرچہ بلاشبہ یہ ایک فرد کی آرا ہیں۔
مجھے امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے اور میرا یہ خط بحفاظت آپ تک پہنچ جائے گا۔‘‘



اس پیرا گراف کے متعلق مزید آرا حسب ذیل ہیں:
بائبل و کلف کمنٹری میں اس موقع پر لکھا ہے:
’’نسخوں کی سند اس پیراگراف (بشمولیت ۵۳) کے حقیقی ہونے کے زبردست خلاف ہے۔ زبان بمشکل یوحنا کی ہے، تاہم کہانی سچی ضرور ہے۔ ابتدا میں چوتھی انجیل کے متن میں جگہ پا گئی۔‘‘
پادری سکافیلڈ اپنی ریفرنس بائبل میں لکھتے ہیں:
’’یہ آیات کچھ نہایت قدیم نسخوں میں نہیں ملتی ہیں۔ آگسٹین نے بتایا ہے کہ اس واقعہ کو مقدس کہانی کی کئی کاپیوں سے اس منافقانہ ڈر سے خارج کر دیا گیا تھا کہ اس سے بد اخلاقی کا سبق ملتا ہے۔‘‘
امریکن بائبل سوسائٹی، نیویارک کی شائع کردہ بائبل (جون ۱۹۷۸ء) میں اس پیراگراف پر یہ نوٹ لکھا ہے:
’’انتہائی قدیم اور معتبر ترین قلمی نسخوں میں یوحنا ۷ : ۵۳ تا ۸ : ۱۱ آیات موجود نہیں۔‘‘
آکسفورڈ بائبل (طبع ۱۹۸۱ء) میں ان آیات کو متن سے بالکل خارج کر دیا گیا ہے۔

آزادیٔ صحافت کے عالمی دن کے موقع پر گوجرانوالہ میں مجلسِ مذاکراہ

ادارہ

آزادیٔ صحافت کے عالمی دن کے موقع پر ۳ مئی ۱۹۹۴ء کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام ایک مجلس ِمذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت علامہ محمد احمد لدھیانوی نے کی اور علماء کرام اور دانشوروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ جبکہ گفتگو میں ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی، گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کے شعبہ اردو کے استاذ پروفیسر غلام رسول عدیم، روزنامہ نوائے وقت کے گوجرانوالہ بیورو کے رکن جناب محمد شفیق، اور ممتاز صنعتکار الحاج ظفر علی ڈار نے حصہ لیا۔
پروفیسر غلام رسول عدیم نے اسلامی صحافت کے موجودہ کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دینی جرائد کا معیار بہتر بنانے کی ضرورت ہے، اور اگر دینی رسالے طباعت اور ترتیب کے ساتھ ساتھ زبان و اسلوب کے لحاظ سے بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں تو وہ معاشرہ میں اسلامی اقدار کی ترویج میں زیادہ مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دینی جرائد کے مدیران اور کارکنان کو صحافت کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنی چاہیے اور باہمی مشاورت و مفاہمت کو بھی فروغ دینا چاہیے۔ اسی طرح دینی جرائد کو دینی ترجیحات میں عالمِ اسلام کے مسائل و مشکلات اور قومی معاملات کو اولیت دینی چاہیے۔ انہوں نے اردو صحافت کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالی اور سر سید احمد خان، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان اور حمید نظامی (رحمہم اللہ تعالیٰ) کے صحافتی کردار کا تذکرہ کیا۔
مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ آزادیٔ صحافت کا مغربی تصور اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح صحافت کو بھی اخلاقی اقدار کا پابند بناتا ہے اور آزادی کے گرد حدود کا ایک واضح دائرہ کھینچتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنے، ظلم کے خلاف جہاد اور اجتماعی معاملات میں اپنی رائے کو آزادانہ طور پر پیش کرنے کا تعلق ہے، اسلام نے ویسٹرن سولائزیشن سے صدیوں پہلے خلافتِ راشدہ کے دور میں اس کا واضح عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر دیا تھا، اور آج بھی اسلامی دنیا کے لیے آزادیٔ رائے کے حوالے سے وہی دور مشعلِ راہ ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی اسلام نے اشاعت و تبلیغ پر کچھ واضح قدغنیں بھی عائد کی ہیں۔ مثلاً قرآن کریم نے کہا ہے کہ معاشرہ میں فحاشی کی اشاعت کرنے والے عذابِ الیم کے مستحق ہیں، اسی طرح قرآن کریم نے شخصی اور گھریلو احوال کے تجسس سے روکا ہے، اور اس طرح کی پابندیوں کا اطلاق دیگر شعبوں کی طرح صحافت پر بھی ہوتا ہے۔
جناب محمد شفیق نے کہا کہ دینی صحافت میں کام کرنے والے اہلِ قلم کو الگ تشخص کے ساتھ ساتھ صحافت کے قومی دھارے میں بھی شریک ہونا چاہیے اور قومی اخبارات و جرائد میں لکھنے کا رجحان پیدا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ قومی صحافت کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس میں ایسے اصحابِ قلم کی ضرورت ہے جن کا دینی علم پختہ ہو اور جو دینی امور پر اعتماد کے ساتھ لکھ سکتے ہوں۔
الحاج ظفر علی ڈار صاحب نے کہا کہ ہم اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں اخلاقی پابندیوں سے آزاد ہوتے جا رہے ہیں، اس کے اثرات صحافت پر بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اخلاقی اور دینی لحاظ سے آج سے بیس سال قبل جو صورت حال تھی آج وہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دینی اور اخلاقی پابندیوں کو قبول کیے بغیر زندگی کے کسی بھی شعبہ میں اصلاح نہیں کر سکتے، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے دین کی طرف واپسی کریں اور اس کی عائد کردہ پابندیوں کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں۔
صدر مجلس علامہ محمد احمد لدھیانوی نے کہا کہ قرآن کریم نے خبر کی قبولیت کے لیے تحقیق کو بنیاد قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ تمہارے پاس کوئی فاسق شخص خبر لائے تو اس خبر کو پھیلانے سے پہلے تحقیق کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ غیر مصدقہ خبر پوری قوم کے لیے باعث وبال بن جائے۔ قرآن کریم کے بیان کردہ اس اصول کو آج کی صحافتی زندگی میں زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحافت کی تعلیم و تربیت میں قرآن و سنت کے بنیادی احکام اور ابلاغِ عامہ کے بارے میں اسلامی اصولوں کو شامل کرنا آج کا ایک اہم تقاضہ ہے، کیونکہ اسلامی تعلیمات و احکام سے آگاہی حاصل کر کے ہی ایک صحافی اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں اسلامی اصولوں کے دائرہ کو ملحوظ رکھ سکتا ہے۔ 

جولائی ۱۹۹۴ء

لاؤڈ اسپیکر اور علماء کراممولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مصائب و مشکلات کے روحانی اسبابشیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر
مسلمان بھائی سے ہمدردی کا صلہشیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
پاکستان میں نفاذِ اسلام کے لیے وفاقی وزارتِ مذہبی امور کی سفارشاتادارہ
بلا سود بینکاری کا ادارہادارہ
’’بنیاد پرستی‘‘ کی اصطلاح کا اصل پس منظرپروفیسر غلام رسول عدیم
قرآن و سنت سپریم لاء ہے - ہائیکورٹ کے فل بنچ کا فیصلہ (۱)ادارہ
مغربی میڈیا اور عالمِ اسلامادارہ
توہینِ رسالت کی سزا کا قانون اور مغربی لابیاںادارہ
تعارف و تبصرہادارہ

لاؤڈ اسپیکر اور علماء کرام

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ان دنوں پاکستان کی وفاقی حکومت کے ایک مبینہ فیصلہ کے حوالہ سے لاؤڈ اسپیکر دینی حلقوں میں پھر سے موضوع بحث ہے اور لاؤڈ اسپیکر کی آواز کو مساجد کی چار دیواری کے اندر محدود کر دینے کے فیصلہ یا تجویز کو مداخلت فی الدین قرار دے کر اس کی پرجوش مخالفت کی جا رہی ہے۔

ایک دور تھا جب لاؤڈ اسپیکر نیا نیا متعارف ہوا تو مساجد میں اس کے استعمال کے جواز و عدم جواز اور نماز میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے سے امام کی آواز مقتدیوں تک پہنچنے کی شرعی حیثیت کی بحث چھڑ گئی تھی۔ ایک مدت تک ہمارے فتاوٰی اور علمی مباحث میں اس کا تذکرہ ہوتا رہا۔ تب لوگوں کی خواہش تھی کہ آواز کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی غرض سے اس مفید ایجاد سے دینی مقاصد کے لیے فائدہ اٹھایا جائے مگر علماء کرام اس میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے تھے۔ اب جبکہ اس مفید ایجاد کے بے تحاشا اور زائد از ضرورت استعمال نے اس کے منفی پہلو کو اجاگر کیا ہے اور اس کے استعمال کو محدود کرنے کی خواہش عام لوگوں میں ابھر رہی ہے تو علماء کرام کا ایک طبقہ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس نے اہل فکر و دانش کو الجھن اور پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے جبکہ اپنے دلوں میں علماء کرام کے لیے احترام اور عقیدت کا جذبہ رکھنے والے لوگ بھی اس طرز عمل پر خود کو مطمئن نہیں پا رہے۔

جہاں تک لاؤڈ اسپیکر کا تعلق ہے یہ محض ایک آلہ ہے جو ایک شخص کی آواز کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد تک پہنچانے کا کام دیتا ہے۔ اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب یہ آلہ موجود نہیں تھا دین اس وقت بھی موجود تھا اور اب جبکہ اس سے زیادہ مفید اور موثر آلات کے استعمال میں آنے سے اس کی پہلے والی اہمیت باقی نہیں رہی، دین تب بھی قائم ہے۔ اس لیے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے مسئلہ کو دین کا سوال بنانے کی بجائے اس کی افادیت اور نقصانات کے حوالہ سے دیکھنا ہی دانشمندی کا تقاضا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ لاؤڈ اسپیکر کے بے تحاشا استعمال نے عام آدمی کی پریشانی میں اضافہ کیا ہے۔ ایک ایک محلہ میں تین تین چار چار مساجد میں انتہائی طاقتور قسم کے لاؤڈ اسپیکرز کے بیک وقت استعمال سے اہل محلہ کے کانوں اور دماغوں میں شور و غل کی جو دھماچوکڑی مچتی ہے وہ یقیناً دین، مسجد اور علماء کے ساتھ ان کے تعلق میں اضافہ کا باعث نہیں بنتی اور دینی نقطۂ نظر سے اس کا نتیجہ نقصان کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوتا۔ پھر شرعی نقطۂ نظر سے بیمار لوگوں، مطالعہ کرنے والوں، آرام کرنے والوں، اور آپس میں ضروری گفتگو کرنے والوں کے معاملات میں یہ بلند آہنگ خلل اندازی بجائے خود توجہ طلب ہے۔ لاؤڈ اسپیکر کی آواز کو محدود کرنے کی تجویز کی دین کے نام پر مخالفت کا ہمیں کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ بلکہ ایک لحاظ سے یہ ذمہ داری خود علماء کرام پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مسئلہ کے شرعی و اخلاقی تقاضوں اور مفاد عامہ کو سامنے رکھتے ہوئے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال اور اس کی آواز کے دائرہ کے لیے حدود کا تعین کریں اور اس پر عمل درآمد کا اہتمام کریں۔

چنانچہ ہم لاؤڈ اسپیکر کی آواز کو مسجد کی چار دیواری میں محدود کر دینے کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ اضافہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کار خیر کو صرف مسجد تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ بازاروں، سینماؤں، شادی بیاہ کی تقریبات، ٹیپ ریکارڈنگ کی دکانوں اور دیگر تمام مقامات پر لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو ممنوع قرار دیا جائے تاکہ عام شہری لاؤڈ اسپیکر کے ضرورت سے زیادہ استعمال سے پیدا ہونے والے شوروغل سے نجات حاصل کر سکیں۔


مصائب و مشکلات کے روحانی اسباب

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

ساری دنیا عموماً اور پاکستان خصوصاً آج جن مصائب میں مبتلا ہے، اس کا عظیم سبب بد اعتقادی اور بے عملی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذین عملوا لعلھم یرجعون۔ (الروم ۵)
 ’’پھیل پڑی ہے خرابی خشکی میں اور دریا میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ اللہ تعالیٰ چکھائے ان کو کچھ مزا ان کے کاموں کا تاکہ وہ رجوع کر لیں‘‘۔
 اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں یہ امر واضح کر دیا ہے کہ خشکی و سمندر، بر و بحر میں جو فتنے اور فسادات برپا ہیں وہ انسانوں کے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کی وجہ سے ہیں۔ پورا مزہ اور بدلہ تو مرنے کے بعد ہی ملے گا مگر انسانوں کی شرارتوں کا کچھ بدلہ اللہ تعالیٰ ان کو ان مصائب اور تکالیف کی وجہ سے دیتا ہے جو خود ان کی کمائی کا نتیجہ ہے۔ مگر ہمیشہ سے اکثریت ایسے لوگوں کی رہی ہے اور اب بھی ہے کہ ان حوادثات سے عبرت حاصل نہیں کرتی اور ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ گردشیں آئیں، دور بدلا، زمانہ بدلا، مگر بے عمل مسلمان نہ بدلا۔ بقول مفتی محمد نعیم صاحب لدھیانویؒ ؎
زمیں بدلی زماں بدلا
مکیں بدلے مکاں بدلا
نہ تو بدلا نہ میں بدلا
تو پھر بدلا تو کیا بدلا؟
اور جوں جوں مسلمانوں میں گناہ، فریب، مکر، دغا، چوری، زنا، حرام خوری، ڈکیتی، حیلہ سازی اور دیگر جرائم بڑھتے رہیں گے، مصائب بھی بڑھتے رہیں گے۔ کیونکہ ان کے اسباب ہمارے ہاتھوں کے کرتب ہیں۔ مشرقی پاکستان ہم سے کیوں جدا ہوا؟ آج پوری قوم، کیا مرد کیا زن اور کیا بوڑھے اور کیا جوان، مختلف قسم کے جسمانی دردوں میں کیوں مبتلا ہے؟ اور باہر کے اختلافات کا تو کہنا ہی کیا ہے، اسمبلی ہال تک میں آپس میں چپقلش کے روحانی اسباب درج ذیل حدیث شریف سے بخوبی سمجھ آجائیں گے۔
مشہور تابعی حضرت عطاءؒ بن ابی رباح فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہؓ بن عمرؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک نوجوان آیا اور اس نے پگڑی کے شملہ کے لٹکانے کے بارے میں حضرت عبد اللہؓ سے سوال کیا۔ حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ میں تجھے انشاء اللہ العزیز علم کے مطابق خبر دوں گا۔ فرمایا کہ ہم دس آدمی جن میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت حذیفہ، حضرت عبد الرحمٰن بن عوف اور ابو سعید الخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہم تھے، مسجد نبوی  میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے، اتنے میں ایک نوجوان انصاری آیا اور اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، پھر بیٹھ گیا اور آپ سے یہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ! مومنوں میں کون سا مومن افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا، جس کے اخلاق اچھے ہوں۔ اس نوجوان نے سوال کیا کہ کون سا مومن عقلمند اور دانا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ وہ مومن دانا ہے جو موت کو کثرت سے یاد کرے اور موت آنے سے پہلے اس کے لیے خوب تیاری کرے۔ وہ نوجوان پھر خاموش ہو گیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس نوجوان کی طرف متوجہ ہوئے اور حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے، جن کی اکثریت مہاجرین کی تھی، فرمایا، اے مہاجرین! پانچ چیزیں ہیں، ان کے تم پر وارد ہونے اور تمہارے ان میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتا ہوں کہ تمہیں ان سے سابقہ نہ پڑے۔
(۱) لم تظہر الفاحشۃ فی قوم قط حتی یعملوا بہا الاظہر فیھم الطاعون و الا وجاع التی لم تکن مضت فی اسلافھم۔
’’کبھی کسی قوم میں بے حیائی نہیں پھیلی یہاں تک کہ وہ اس کی مرتکب ہو مگر اس میں طاعون اور ایسے درد ظاہر ہوں گے جو پہلے لوگوں میں نہ تھے۔‘‘
بوڑھے مرد اور عورتیں تو کیا آج نوجوان نسل اور بالکل نئی پود اور بچے بھی جسمانی طور پر ایسے ایسے دردوں میں مبتلا ہیں کہ نہ تو ڈاکٹروں کے ٹیکے اور کیپسول کارآمد ہوتے ہیں اور نہ حکیموں کی گولیاں اور سفوف۔ ظاہری اسباب تو سبھی ہی بیان کرتے ہیں کہ خوراکیں اصلی نہیں، کھاد کا اثر اور اشیا میں ملاوٹ کا ثمرہ ہے۔ بے شک یہ ظاہری اسباب ہیں اور شریعت ان کا انکار نہیں کرتی، مگر ان دردوں کا روحانی سبب، جس سے لوگ اغماض کرتے ہیں، زنا، بے پردگی اور دیگر ہر قسم کی بے حیائی ہے جو ٹی وی، وی سی آر اور ہر جدید طریقے سے پھیلائی جاتی ہے اور اکثریت کے رگ و ریشے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔
(۲) ولم ینقصوا المکیال والمیزان الا اخذوا بالسنین وشدۃ المونۃ وجور السلطان علیھم۔
’’اور وہ ماپ اور تول میں کمی نہیں کرے گی مگر چیزوں کی گرانی اور سخت مشقت اور بادشاہ کے ظلم کا شکار ہو گی۔‘‘
اشیا میں ملاوٹ کی بیماری کے علاوہ ماپ اور تول میں کمی ناقابل تردید حقیقت ہے اور اس کے نتیجہ میں اشیا کی گرانی اور حکومت کی طرف سے آئے دن بجلی، سوئی گیس، جہازوں، ریلوں اور بسوں کے کرایوں میں اضافہ اور نئے نئے ٹیکس لگانے کا معنوی اور روحانی سبب قوم کا پیمانوں اور تول میں کمی کرنا ہے۔ ظاہری سبب تو یہی بتاتے ہیں کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں یہ بھاؤ ہے مگر افسوس کہ روحانی سبب سے بالکل آنکھیں بند کرتے ہیں۔
(۳) ولم یمنعوا الزکوٰۃ الا منعوا القطر من السماء ولولا البھا ثم لم یمطروا۔
’’اور وہ قوم زکوٰۃ نہیں دے گی مگر آسمان سے بارش اس پر روک دی جائے گی، اگر چوپائے نہ ہوں تو اس پر بارش نہ برسائی جائے۔‘‘
آج مسلمان کہلانے والی قوم کی دولت جس طرح شیطانی کاموں میں صرف ہوتی ہے، اس کی نسبت سے زکوٰۃ وغیرہ نیک کاموں پر اس کا عشر عشیر بھی صرف نہیں ہوتا، اور بارش نہ ہونے کی وجہ سے بعض علاقے پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی بے زبان مخلوق چوپائے اور جانور نہ ہوں تو بارش سے کلیتاً لوگ محروم رہیں۔ مگر حیوانات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انسانوں پر بھی رحمت فرماتا ہے۔ محکمہ موسمیات تو مون سون کی ہواؤں سے کڑی جوڑتا ہے مگر اصل سبب زکوٰۃ جیسے فریضہ سے گریز ہے اور بعض نام نہاد مسلمان سنی کہلا کر بھی زکوٰۃ اور عشر سے بچنے کے لیے رافضی بن جاتے ہیں۔
(۴) ولم ینقضوا عہد اللہ وعہد رسولہ الا سلط اللہ علیھم عدلھم من غیرھم واخذ بعض ما کان فی ایدیھم۔
’’اور وہ قوم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے ہوئے وعدہ کو نہیں توڑے گی مگر اللہ تعالیٰ اس قوم پر ان کے مخالف دشمنوں کو مسلط کر دے گا جو اس سے بعض حصہ لے لیں گے جو اس کے قبضہ میں ہو گا۔‘‘
مشرقی بنگال پاکستان کا حصہ تھا اور تقریباً ۳۰ سال تک پاکستان رہا، مگر جب پاکستانی حکمرانوں نے ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ‘‘ کو بھلا دیا، خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیے ہوئے وعدہ کو پس پشت ڈالا اور قوم کو دھوکہ دیا تو اللہ تعالیٰ نے ہندوؤں، سکھوں اور روسیوں کو ان پر مسلط کیا۔ مشرقی پاکستان بھی گیا اور قوم کی عزت بھی گئی اور رسوائی سے ہم کنار ہوئی۔
(۵) وما لم یحکم اثمتھم بکتاب اللہ الا القی اللہ باسھم بینھم۔
’’اور جب برسراقتدار طبقہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ نہیں کرے گا تو اللہ تعالیٰ ان کی آپس میں لڑائی ڈال دے گا۔‘‘
پاکستان کا برسراقتدار طبقہ، کیا حزب اقتدار اور کیا حزب اختلاف، قرآن اور سنت کی حکمرانی سے گریزاں ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کی ساری قوت اور توانائی ہی اپنے وجود کو قائم رکھنے اور دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے وقف ہے۔ اسمبلیوں میں بھی جھگڑے سے باز نہیں آتے۔ سیاسی اختلاف تو سبب ظاہری ہے، اصلی اور روحانی سبب قرآن و سنت سے روگردانی ہے جس کا وبال حکمران طبقہ اولاً بالذات اور عوام ثانیاً بالتبع بھگت رہے ہیں، اور نرے الفاظ سے قوم کو تھپکی دی جاتی ہے ؎
تفاوت ہی کچھ ایسی ہے یہاں لفظ و معانی میں
طلب کچھ اور ہے، مضمونِ دعا کچھ اور کہتا ہے
(مستدرک ج ۴ ص ۵۴۰ و ص ۵۴۱ ۔ قال الحاکمؒ والذہبیؒ صحیح)

مسلمان بھائی سے ہمدردی کا صلہ

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

متن حدیث

عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسم من نفس عن مؤمن کربۃ من کرب الدنیا نفس اللّٰہ عنہ کربۃ من کرب یوم القیامۃ ومن ستر مسلما سترہ اللّٰہ فی الدنیا والاٰخرۃ و من یسرعن معسر یسرہ اللّٰہ فی الدنیا والاٰخرۃ واللّٰہ فی عون العبد ما کان العبد فی عون اخیہ و من سلک طریقا یلتمس فیہ علما اسھل اللّٰہ بہ طریقا الی الجنۃ وما اجتمع قوم فی بیت من بیوت اللّٰہ یتلون کتاب اللّٰہ ویتدار سونہ بینھم الا نزلت علیھم السکینۃ وغشیتھم الرحمۃ وحفتہم الملٰئکۃ وذکرھم اللّٰہ عز و جل فیمن عندہ ومن ابطأ بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ۔ (مسند احمد طبع بیروت جلد ۲ ص ۲۵۲)

ترجمہ و تشریح

یہ بڑی مشہور حدیث ہے جو اکثر سنی اور سنائی جاتی ہے۔ اس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بہت سی باتیں بیان فرمائی ہیں جو حقیقت میں بے مثال جواہر پارے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو شخص دنیا میں کسی مومن کی تکلیف کو دور کرے گا، قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دور کر دے گا۔ کوئی شخص بیمار ہو جائے، کسی کو کوئی حادثہ پیش آجائے یا کوئی دیگر دنیوی تکلیف میں مبتلا ہو، اور دوسرا مسلمان اس تکلیف کو ہٹانے میں مصیبت زدہ کی اعانت کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ایسے شخص کی پریشانیوں، تکالیف اور مصائب کو دور فرما دے گا۔ 
آپؐ نے دوسری بات یہ فرمائی کہ جس شخص نے کسی مسلمان بھائی کی ستر پوشی کی، اس کے عیوب کو ظاہر کرنے کے بجائے پردے میں رکھا، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں ایسے شخص کی پردہ پوشی فرمائے گا اور اسے رسوا ہونے سے بچائے گا۔
آپؐ کا تیسرا جوہر پارہ یہ ہے کہ جس شخص نے کسی تنگ دست پر آسانی کی، مثلاً کسی مقروض کو مہلت دے دی اس پر سختی نہیں کی، تو فرمایا اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی پیدا فرمائے گا اور اسے کسی پریشانی میں مبتلا نہیں ہونا پڑے گا۔
چوتھی بات یہ فرمائی کہ جو شخص کسی مسلمان بندے کی مدد میں ہوتا ہے یعنی ضرورت کے وقت اس کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کی مشکل کے وقت مدد فرماتا ہے۔
آپ نے پانچویں نمبر پر فرمایا، جو شخص حصولِ علم کے لیے راستے پر چلا یعنی اس مقصد کے لیے سفر اختیار کیا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کے راستے کو آسان فرما دیتا ہے۔ اس علم سے مراد دین کا علم ہے۔ پھر جب ایسا شخص علم حاصل کر کے اس پر عمل پیرا ہوتا ہے اور اسے دوسروں تک پہنچاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے اور وہ آسانی کے ساتھ جنت میں پہنچ جاتا ہے۔
آپؐ کا چھٹا جوہر پارہ یہ ہے کہ جب کچھ لوگ اللہ کے گھروں میں سے ایک گھر یعنی مسجد میں جمع ہوں اور وہاں اللہ کی کتاب کی تلاوت کریں اور آپس میں پڑھیں پڑھائیں تو خدا تعالیٰ کی جانب سے ان پر تسلی نازل ہوتی ہے اور اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ کے فرشتے ان کو ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر اس مخلوق کے سامنے کرتا ہے جو اس کے پاس ہے۔ اس مخلوق سے مراد اللہ کے فرشتے ہیں جن کے سامنے اللہ تعالیٰ مسجد میں جمع ہونے والے لوگوں کی تعریف بیان کرتا ہے کہ یہ اللہ کے کلام کو پڑھنے پڑھانے والے لوگ ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے عمل کی قبولیت پر فرشتوں کو گواہ بنا لیتا ہے اور ان کو اجر عظیم سے نوازتا ہے۔
آپؐ نے ساتویں بات یہ فرمائی، جس شخص کا عمل اس کو پیچھے کی طرف ہٹائے گا اس کا حسب نسب اس کو آگے نہیں بڑھائے گا، یعنی آگے کی طرف نہیں لے جا سکتا۔ مطلب یہ ہے کہ درجات کی بلندی کا دارومدار اعمال پر ہے نہ کہ نسب پر، جس شخص کے اعمال ایسے ہیں جو اس کو ذلت و رسوائی کی طرف دھکیل رہے ہیں تو اس کا خاندان خواہ کتنا بھی اونچا ہو، اس کو عزت نہیں دلا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ اٹل قانون ہے کہ اگر اعمال اچھے نہیں تو نہ نسب کام آئے گا اور نہ خالی کسی اچھے آدمی کی طرف نسبت کام دے گی۔ لہٰذا ہر شخص کو اپنے اعمال کی درستگی اور فکر کی پاکیزگی کی طرف دھیان دینا چاہیے کہ اس کے بغیر نجات ممکن نہیں۔ جو لوگ محض نسب پر قناعت کر کے بیٹھ جاتے ہیں وہ کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔

پاکستان میں نفاذِ اسلام کے لیے وفاقی وزارتِ مذہبی امور کی سفارشات

ادارہ

ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے حکومت کی ہدایت پر وزارتِ مذہبی امور نے سفارشات پر مبنی تفصیلی رپورٹ مرتب کی ہے، جس میں نفاذِ شریعت کے لیے دستوری، عدل و انصاف، تعلیم، معیشت، ذرائع ابلاغ، اصلاحِ جیل خانہ جات، معاشرتی اور دفتری اصلاحات کے حوالے سے تفصیلی سفارشات پیش کی گئی ہیں۔ وزارت نے یہ رپورٹ ملک کی مذہبی تنظیموں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی مدد سے تیار کی ہے۔ اس رپورٹ کو کابینہ اپنے آئندہ اجلاس میں غور کرنے کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کرے گی اور ملکی آئین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے دستور میں ترمیم کرنے کی تجویز پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔
جو سفارشات کی گئی ہیں ان کی تفصیلات یہ ہیں:
دستوری سفارشات میں آئین کے آرٹیکل 2 میں ترمیم کرنے کا کہا گیا ہے۔ اس میں ترمیم کر کے آرٹیکل 2 کو 2 (1) لکھا جائے۔ آرٹیکل 2 (2) اسلام کے احکام جو قرآن پاک اور سنتِ رسولؐ میں منضبط ہیں، پاکستان کا سپریم لاء قرار پائیں گے۔ آرٹیکل 2 (3) آئین پاکستان 1973ء کی دفعہ 2 (30) اور 227 (2) میں شامل کسی امر کے باوجود کوئی قانون بشمول دستور کے یا کوئی رسم و رواج جو قانون کا حکم رکھتا ہے، تناقص کی اس حد تک کالعدم ہو گا جس حد تک وہ قرآن و سنت میں منضبط احکامِ اسلام کا مناقض ہو۔ آرٹیکل (4) مملکت کوئی ایسا قانون وضع نہیں کرے گی جو کہ قرآن پاک اور سنتِ رسولؐ میں منضبط احکامِ اسلام سے متصادم، متناقض، یا ان کے منافی ہو، یا کوئی قانون جو اس شق کی خلاف ورزی میں وضع کیا گیا ہو، وہ خلاف ورزی کی حد تک کالعدم ہو گا۔
دستوری سفارشات کے مطابق آئین کی دفعہ 203 بی کی شق سی کو حذف کر کے اس شق کا اضافہ کیا جائے کہ قانون میں دستور یا ہر وہ رسم و رواج شامل ہے جو قانون کا اثر رکھتا ہو۔ اس کے علاوہ دفعہ 203 سی کی شق 9 کو حذف کر کے اس میں اس شق کا اضافہ کیا جائے کہ چیف جسٹس یا کوئی جج اس وقت تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا جب تک اس کی عمر 70 سال کو نہ پہنچ جائے، سوائے اس کے کہ وہ یا تو خود اپنے عہدے سے استعفٰی دے یا دستور کے مطابق اس کو اپنے عہدے سے ہٹا دیا جائے۔
عدل و انصاف کے متعلق رپورٹ نے اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ عدالتی نظام میں تبدیلی وقت کی اہم اور فوری ضرورت ہے۔ معاشرے میں تبدیلی کے لیے مؤثر عدالتی نظام کو رائج کرنا ہو گا۔ پاکستان میں نفاذِ شریعت کا عمل عدل و انصاف کے نظام میں تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس ضمن میں 5 تجاویز دی گئی ہیں:
  1. صوبائی، ضلعی اور تھانے کی سطح پر قاضی اور مفتی مقرر کیے جائیں۔
  2. سستا اور فوری انصاف مہیا کیا جائے، کورٹ فیس ختم کی جائے، اپیل کے زیادہ چینل ہوں، قاضی فیصلہ کرے اور تمام عدالتی مراحل میں سے گزر کر مقدمات کے حتمی و قطعی فیصلے کے لیے زیادہ سے زیادہ مدت ایک سال مقرر کی جائے۔
  3. اسلام کا نظام احتساب بغیر کسی استثنا کے نافذ کیا جائے جو مرکز اور صوبائی سطح سے لے کر تھانے اور دیہات کی سطح پر نافذ العمل ہو۔
  4. جرائم کی روک تھام کے لیے موقع پر انصاف مہیا کیا جائے۔ ضابطہ فوجداری میں طریقہ تفتیش کے بارے میں اور عدالتی نظام میں اہم ترمیمات کی اشد ضرورت ہے، اس ضمن میں قاضی کورٹس کے مسودہ بل سے استفادہ کیا جائے۔
تعلیم کے سلسلے میں سفارشات پیش کی گئی ہیں کہ
  1. تعلیمی اداروں میں بالخصوص سکولوں میں کم از کم ایک نماز میں بچے باجماعت شریک ہوں۔
  2. طالبات کے لیے این سی سی ٹریننگ میں خاتون اساتذہ کا تقرر کیا جائے، بصورت مجبوری ریٹائرڈ معمر فوجیوں کو بھی مقرر کیا جا سکتا ہے۔
  3. علومِ جدید اور علومِ قدیم دونوں عمومی تعلیم اور دینی تعلیم کے حامل اداروں میں پڑھائے جائیں۔
  4. اسلامیات کی تعلیم کا معیار بلند کیا جائے اور اس میں تفسیر، حدیث، فقہ اور عقائد کی ٹھوس تعلیمات اتنی مقدار میں پڑھائی جائیں کہ دسویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے ہر طالب علم کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر آ جائے۔
  5. پانچویں جماعت تک ناظرہ تعلیم قرآن کریم کے لیے اسلامیات کے مضمون سے الگ مستقل وقت رکھا جائے اور اس مرحلے تک پورے قرآن کریم کی ناظرہ تدریس مکمل کرائی جائے۔
  6. عربی زبان کو اسلامیات کی تعلیم کا مستقل جزو بنایا جائے۔
  7. مخلوط تعلیم کو ختم کرنے کے لیے بلاتاخیر کم از کم مدت کا تعین کیا جائے جس میں ضروری انتظامی امور کی تکمیل کی جا سکے۔ اور طالبات کے نصاب میں ایسی تبدیلیاں کی جائیں جو ان کی فطری ضروریات کے مطابق ہوں۔ 2 خواتین یونیورسٹیوں کے قیام کے متعلق مرحوم جنرل محمد ضیاء الحق کے اعلان کو جلد از جلد عملی جامعہ پہنایا جائے۔
  8. طلبا کو ایسی غیر نصابی سرگرمیوں کی اجازت نہ دی جائے جو اسلام کے خلاف ہوں، مثلاً رقص و سرود اور مخلوط ڈرامے وغیرہ۔
معیشت کے بارے میں تجویز ہے کہ ملک کے نظامِ معیشت کو قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب کیا جائے۔ نیز وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں معیشت کے تمام شعبوں کو سود سے پاک کیا جائے اور متبادل اسلامی نظامِ معیشت قائم کیا جائے اور اس کے لیے ضروری قانون ڈھانچہ فراہم کیا جائے۔ اس ضمن میں سفارشات میں کہا گیا ہے کہ
  1. پاکستان میں بینکنگ اور مالیاتی ادارے مضاربہ اور مشارکہ کی بنیاد پر چلنے چاہئیں اور اس مقصد کے لیے ضروری قانونی ڈھانچہ فراہم کرنا ناگزیر ہے۔ لہٰذا مالی کاروبار کے ان طریقوں میں بنیادی اہمیت بلاسود شراکتی تعامل کو دی جائے۔
  2. موجودہ مارک اپ سسٹم دراصل سود کا دوسرا نام ہے۔ لہٰذا اسے ختم کیا جائے۔
  3. جدید معاشی نظام میں وینچر کیپیٹل (زر مخطرہ) معیشت کی ترقی و فروغ کے لیے بنیادی محرک تسلیم کیا جاتا ہے۔ سرمایہ پیدا کرنے اور سرمایہ کاری کا اسلامی فلسفہ صرف وینچر کیپیٹل کی اجازت دیتا ہے، نہ کہ قرض پر دیے ہوئے پہلے سے طے کردہ سود کے سرمایہ کی۔ اسلام صرف قرض حسنہ دینے کی اجازت دیتا ہے۔
  4. مالی اداروں اور بینکوں میں مضاربت اور مشارکت کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنے لین دین میں سود ختم کرنے کو یقینی بنائے۔
  5. بینکوں کا بااثر افراد کا قرضہ معاف کرنا شرعی لحاظ سے نہایت قابلِ اعتراض ہے کیونکہ یہ ان لوگوں کی دولت ہے جو بینک میں پیسہ جمع کراتے ہیں۔ یہ اختیار بینکوں اور مالیاتی اداروں کی انتظامیہ سے لے کر صرف عدالتوں کو ہوتا ہے کہ وہ ہر معاملہ کے بارے میں فیصلہ کر سکیں۔
  6. فکسڈ ٹیکسیشن کا نظام رائج کیا جائے۔
  7. بیرونی سودی قرضوں کی ادائیگی کی خاطر پاکستانی پروجیکٹس کے حصص زرمبادلہ کے عوض بیچے جائیں اور اس طرح حاصل ہونے والے زربیع سے غیر ملکی قرضے ادا کیے جائیں۔
  8. زکوٰۃ اور عشر کے موجودہ نظام میں اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔
  9. قرض حسنہ کو مجموعی طور پر اسلامی طریقہ کار کے مطابق رائج کیا جائے۔
  10. اسلام میں قرض معاف کرنے کی گنجائش سوائے قرضہ دینے والے کے کسی اور کو نہیں، اس لیے قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک حکمرانوں کے کہنے پر جو قرضے معاف ہوئے ہیں وہ واجب الادا ہیں۔
(ذرائع ابلاغ کے متعلق سفارشات)
  1. ذرائع ابلاغ کے اغراض و مقاصد قوم کو تفریحی، تعلیمی، اخلاقی، قانونی، معاشرتی اور سیاسی شعور سے آگہی اور معلومات فراہم کرنا ہیں۔ قومی مقاصد اور اسلامی تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے موعظہ حسنہ اور حکمتِ بالغہ سے رہنمائی حاصل کرنا ہو گی۔ ذرائع ابلاغ کا منتہائے مقصود یہ ہونا چاہیے کہ قوم کو نیکی، صداقت اور اچھائی کی طرف رہنمائی کریں۔
  2. ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر مخرب اخلاقی ڈراموں، فلموں، گانوں اور خلافِ اسلام پروگراموں کی نشر و اشاعت فی الفور بند کی جائے۔
  3. حکومت ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات و رسائل کے متعلق ایسا اہتمام کرے جس کی رو سے جھوٹی خبر یا اطلاع دینا یا شائع کرنا قابلِ تعزیر ہو۔
  4. اخبارات و رسائل اور دیگر ابلاغِ عامہ کو ناشائستہ اور غیر اخلاقی اشتہارات اور مواد کی اشاعت سے روکا جائے۔
  5. مخرب اخلاق ویڈیو سنٹر بند کیے جائیں، ڈش انٹینا کے بنانے، لگانے، درآمد کرنے اور استعمال کرنے کو قابلِ تعزیر جرم قرار دیا جائے۔
اصلاحِ جیل خانہ جات کے ضمن میں سفارش کی گئی ہے کہ
  1. قیدیوں کے اخلاق اور دینی اصلاح کے لیے جیل میں مستند علمائے دین کا تقرر کیا جائے جو تبلیغ کا کام انجام دے سکیں۔
  2. جو مسلم قیدی صوم و صلوٰۃ اور اسلامی شعائر کے پابند ہوں اور قرآن مجید حفظ کریں تو ان کی قید کی مدت میں کمی کی جائے۔
  3. اسلام کے نظامِ حدود و تعزیرات کے مطابق سزائیں دی جائیں تاکہ جرائم کا خاتمہ ہو۔
معاشرتی اصلاحات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ
  1. ملک میں اسلام کا نظامِ حسبہ یعنی احتساب کو رائج کیا جائے۔
  2. لسانی اور علاقائی تنظیموں پر پابندی عائد کی جائے۔
  3. مساجد کو مسلمانوں کی اجتماعی تقریبات کا مرکز و محور بنایا جائے۔
  4. عورتوں کو شرعی ستر و حجاب کا پابند بنایا جائے۔ اور حکومت یہ اہتمام کرے کہ میراث میں عورتوں کو شرعی حصہ ملے۔
  5. فرمانِ امتناعِ شراب میں جو منشیات رکھی گئی ہیں ان کو فی الفور ختم کیا جائے۔
دفتری اصلاحات کے لیے تجویز پیش کی گئی ہے کہ
  1. دفاتر میں نظامِ صلوٰۃ کو مؤثر بنایا جائے۔
  2. تمام سرکاری و غیر سرکاری تقریبات میں رقص و سرود اور خلافِ شرع امور کو ممنوع قرار دیا جائے۔
  3. بیوروکریسی اور بالخصوص پولیس کی اصلاح کی جائے۔
  4. دفاتر میں خواتین کی سروسز کی مخلوق شکل میں حوصلہ شکنی کی جائے۔
(بشکریہ روزنامہ پاکستان، لاہور ۲۲ مئی ۱۹۹۴ء)


بلا سود بینکاری کا ادارہ

ادارہ

ہمارے ہاں قومی حلقوں میں یہ بات تسلسل کے ساتھ دہرائی جا رہی ہے کہ بلاسود بینکاری کا کوئی نظام قابلِ عمل نہیں ہے، حالانکہ اسلامی نظریاتی کونسل نے دس سال قبل بلاسود بینکاری کا نظام حکومت کے سامنے مرتب صورت میں پیش کر دیا تھا مگر اس کی اشاعت پر پابندی ہے، اور حکمران طبقے بلاسود بینکاری کے ناقابلِ عمل ہونے کا مسلسل دعوٰی کیے جا رہے ہیں۔ ورلڈ اسلامک فورم کے ڈپٹی چیئرمین اور اسلامک کمپیوٹنگ سنٹر لندن کے ڈائریکٹر مولانا مفتی برکت اللہ (فاضل دیوبند) نے ہمیں ایک مالیاتی ادارے کا تعارف بھجوایا ہے جو بھیونڈی (انڈیا) میں خود ان کی زیرنگرانی کامیابی کے ساتھ بلاسود بینکاری کا کام کر رہا ہے۔ یہ تعارف قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
انڈیا میں بلاسود بینکاری کی بنیاد پر کام کرنے والے ایک اور مالیاتی ادارہ ’’بیت النصر سوسائٹی‘‘ کا تعارف اور دنیا کے مختلف ممالک میں بلاسود بینکاری کا کام کرنے والے ۲۲ مالیاتی اداروں کی فہرست الشریعہ کے اگلے شمارہ میں پیش کی جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
(ادارہ)

مختصر تعارف اور طریقہ کار

نافع اربن کوآپریٹو کریڈٹ سوسائٹی کا قیام مہاشٹر کوآپریٹو سوسائٹیز ایکٹ 1960ء کے تحت عمل میں آیا ہے۔ اس سوسائٹی کے قیام کا مقصد ہندوستان میں غیر سودی بینک کاری کے لیے نئی راہیں دریافت کرنا، سود کے لین دین کو چھوڑ کر مکمل طور پر غیر سودی بینک کاری کے خطوط پر کام کرنا، صاف اور پاکیزہ ماحول میں کم لاگت والے رہائشی مکانات کی تعمیر کرنا، مسلمانوں میں سرمایہ کاری کا رجحان پیدا کر کے ان کے قیمتی سرمایے کو محفوظ کرنا اور انہیں مالی فائدہ پہنچانا، نیز حلال آمدنی کے ذرائع تلاش کرنا ہے۔

نافع کے ممبر کیسے بنیں؟

ہر اس شخص کے لیے جو سوسائٹی میں اپنی رقم جمع کرانا، قرض لینا، ضمانت دینا چاہتا ہے، سوسائٹی کا ممبر ہونا لازمی ہے۔ ممبر بننے کے لیے کم از کم دس روپے کے تین شیئرز (حصص) خریدنا ضروری ہے، اور ایک روپیہ داخلہ فیس بھی دینا پڑتی ہے۔ اگر ممبر چاہے تو دوسال بعد اپنی ممبر شپ ختم کر کے شیئر کی رقم واپس حاصل کر سکتا ہے۔
سوسائٹی کے دفتر میں مندرجہ ذیل ڈپازٹ اسکیموں کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں، مزید تفصیلات آپ سوسائٹی سے معلوم کر سکتے ہیں۔

اسپاٹ ڈپازٹ (Spot Deposit)

یہ روزانہ ڈپازٹ کی اسکیم ہے۔ یہ بینکوں میں کرنٹ اکاؤنٹ (Current A/C) کے مشابہ (قسم کا) کھاتہ ہے۔ البتہ اس میں آپ گھر بیٹھے بچت کر سکتے ہیں۔ اس اسکیم کا طریقہ کار یہ ہے کہ آپ یہ اکاؤنٹ پانچ روپے سے کھول سکتے ہیں اور جب جتنی رقم چاہیں جمع اور نکال سکتے ہیں۔ اکاؤنٹ کھولنے کے ایک ماہ بعد تک آپ اس اکاؤنٹ سے پیسے نہیں نکال سکتے، اور تین ماہ بعد سے آپ کو اس اکاؤنٹ میں کم از کم سو روپے جمع رکھنا ضروری ہے، ورنہ نصف فیصد سروسز چارج لیا جائے گا۔ اس اکاؤنٹ کے لیے سوسائٹی کی جانب سے یہ سہولت ہے کہ ہمارا مقرر کردہ کلکٹر آپ کے مکان، دوکان یا آفس میں آ کر رقم وصول کرتا ہے۔

سیونگ ڈپازٹ (Saving Deposit)

آپ یہ اکاؤنٹ کم از کم پانچ روپے سے کھول سکتے ہیں اور جتنی رقم چاہیں جمع کر سکتے ہیں اور جب چاہیں واپس لے سکتے ہیں، اس میں کلکٹر کی سہولت نہیں ہے۔

ریکرنگ ڈپازٹ (Recurring Deposit)

اس ڈپازٹ کی رقم کم از کم پچیس روپے ماہانہ اور مدت دو سال ہے۔ مدت ختم ہونے سے قبل ضرورت پڑنے پر چند روز قبل آفس میں اطلاع دے کر رقم واپس لی جا سکتی ہے۔ سوسائٹی کا مقررہ کلکٹر ہر ماہ آپ کے مکان، دکان یا آفس سے رقم وصول کرتا ہے۔

فکسڈ ڈپازٹ (Fixed Deposit)

اس ڈپازٹ کی رقم کم از کم سو روپے اور مدت ایک سال ہے۔ مدت ختم ہونے سے قبل بوقت ضرورت چند روز پیشتر دفتر میں اطلاع دے کر رقم واپس لی جا سکتی ہے۔

قرضہ جات کے لیے شرائط

سوسائٹی سے قرض حاصل کرنے کے لیے قرض خواہ کو مندرجہ ذیل شرائط پورا کرنا ضروری ہے:
(الف) سوسائٹی کے رجسٹرڈ ممبران ہی قرض کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
(ب) سوسائٹی کے ان ممبران کو جن کا کھاتہ سوسائٹی کے پاس کم از کم ایک سال سے باقاعدہ جاری رہا ہو، زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار روپے قرض دیا جا سکتا ہے۔
(ج) نئے ممبران ممبرشپ حاصل کرنے کے تین ماہ بعد ہی قرض کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ شروع میں انہیں فی کس زیادہ سے زیادہ بیس ہزار روپے قرض دیا جا سکتا ہے۔
(د) قرض کی مطلوبہ رقم کے مطابق مندرجہ ذیل چار چیزوں کی ضمانت قبول ہو گی:
(۱) سونے کے زیورات (مالیت) کی %75 رقم بطور قرض حاصل ہو گی۔
(۲) سوسائٹی کے کھاتہ داروں کی ضمانت۔ یہ ضمانت کھاتے میں جمع شدہ رقم کی %80 سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ (یہاں یہ بات دھیان میں رکھی جائے کہ ضامن حضرات اپنے کھاتے سے ضمانت شدہ رقم اس وقت تک نہیں نکال سکتے جب تک کہ قرض کی پوری رقم ادا نہیں کی جاتی۔)
(۳) ان پبلک لمیٹڈ کمپنیوں کے اکویٹی شیئرز (حصص) پہ جو کہ Bombay Stock Exchange کے تحت رجسٹرڈ ہوں، ایسے شیئرز کی موجودہ قدر %50 ویلیو قرض دیا جا سکتا ہے۔
(۴) اسکوٹر، موٹر سائیکل، آٹو رکشا اور ٹیکسی کے رہن پر جو کہ تھانہ P.T.O میں رجسٹرڈ ہوں اور پانچ سال سے زیادہ پرانی نہ ہوں، قرض دیا جائے گا۔ البتہ مندرجہ بالا قسم کا قرض (الف) اسکوٹر اور موٹر سائیکل کے رہن پر بارہ ہزار روپے یا ان کی موجودہ قدر کے %60، ان میں سے جو بھی کم ہو دیا جائے گا۔ (ب) آٹو رکشا اور ٹیکسی کے لیے پچیس ہزار روپے یا ان کی موجودہ قدر کے %60، ان میں سے جو بھی کم ہو دیا جائے گا۔ (ج) دکان کے مال کے ذخیرے پر %50۔

ہماری مزید خدمات

(الف) اجارہ: کرایہ پر دینا۔
(ب) مرابحہ: باہمی رضامندی کا سودا۔
(ج) مضاربت: نفع و نقصان میں شرکت کی بنیاد پر تجارتی سرمایہ کار۔
(د) مشارکت: حصہ داری (پارٹنرشپ) کی بنیاد پر تجارت میں سرمایہ کی فراہمی۔
(ھ) قرضِ حسنہ: قرضہ مربوط ڈپازٹ اسکیم۔ اس کے تحت بلاسودی قرض۔
(و) آشیانہ: گھر کی تعمیر کے لیے سرمایہ کی فراہمی۔
(ز) حج ڈپازٹ: حج و عمرہ کے لیے بچت اسکیم۔
(ح) سرمایہ کاری کے لیے مشاورت۔
(ط) صنعت کاروں، تاجروں اور نادار ماہروں (Professionals) کی مالی امداد۔
(ی) رہائشی منصوبے: روشن مستقبل کی توقع پر ان شاء اللہ سوسائٹی اوونرشپ کے فلیٹ تعمیر کرے گی جس میں قرضہ جات کی سہولیات ہوں گی۔ اس سلسلے میں بمبئی کا مشہور ادارہ بیت النصر ہمارے لیے مشعلِ راہ ہو گا۔
قرضہ جات پر معمولی سروس چارج لیا جاتا ہے جس کی مدد سے سوسائٹی کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔

’’بنیاد پرستی‘‘ کی اصطلاح کا اصل پس منظر

پروفیسر غلام رسول عدیم

پیشتر اس کے کہ اس بات کی وضاحت کی جائے کہ بنیاد پرستی کیا ہے، اس انگریزی لفظ کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے جس کا یہ ترجمہ ہے۔ بنیاد پرستی انگریزی لفظ Fundamentalism کا ترجمہ ہے۔ اس لفظ کے سامنے آتے ہی اصل لفظ کی کئی جہتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ لفظ Fundus کے معنی اناٹومی میں ہیں اساس، عضو، آنکھ کی گہرائی، وہ حصہ جس میں کوئی عضو واقع ہو۔ اصلاً یہ علم تشریح الاعضا (Anatomy) سے متعلق ہے اور اس کے معنی مقعد، قاعدہ، اساس یا پیندہ کے ہیں۔ اسی سے اسمِ صفت Fundamental بنا، جس کے معنی ہیں بنیادی، اساسی، اولیہ، اولی۔
چونکہ دورِ حاضر میں مختلف علمی سطحوں پر علوم و فنون کے ہزاروں دھارے بہ رہے ہیں اور دنیا بھر کی یونیورسٹیوں اور تعلیم گاہوں میں علم کی ہزاروں شاخیں زیرِ تدریس ہیں، لہٰذا ایک ایک لفظ مختلف علوم میں مختلف لغوی و اصطلاحی معانی دے رہا ہے۔ لفظ Fundamental بھی اپنے اشتقاقی معنی کو قائم رکھتے ہوئے ہر علم میں معنی کے خاص انعکاس لیے ہوئے ہے۔ منطق میں Fundamental Beliefs کے معنی یقینیاتِ اولیہ کے ہیں تو طبیعیات میں Fundamental Colours (اصلی رنگ)، Fundamental Quantities (بنیادی مقداریں) اور Fundamental Units (بنیادی اکائیاں) کے لیے مستعمل ہیں۔ صوتیات میں Fundamental Tones کے معنی بنیادی سُر کے ہیں تو مذہب میں Fundamentals ارکانِ دین کے لیے بولا جاتا ہے۔
جب ہم کہتے ہیں کہ Fundamentals of Islam تو اس سے مراد لیے جاتے ہیں اسلام کے ارکانِ خمسہ یعنی کلمہ طیبہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔ اس لیے کہ سرکارِ رسالت مابؐ نے انہی پانچ ارکان کو اساسِ دین قرار دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
بُنی الاسلام علیٰ خمسٍ شھادۃ ان لا الٰہ الا اللّٰہ و ان محمدا رسول اللّٰہ واقام الصلوٰۃ وایتاء الزکوٰۃ والحج و صوم رمضان۔ (بخاری)
’’اسلام کی بنیاد (Fundament) پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز کا پورے اہتمام سے ادا کرنا اور (بشرط نصاب) زکوٰۃ ادا کرنا اور رمضان میں روزے رکھنا اور (بشرط استطاعت زاد راہ) حج خانہ خدا کی سعادت حاصل کرنا۔‘‘
Fundamental کو Ism کے لاحقے کی ترکیب کے ساتھ بمعنی نظریہ و عقیدہ لے لیا جاتا ہے۔ Fundamentalism کے معنی ہو گئے نظریۂ بنیاد، عقیدۂ بنیاد، مسلکِ بنیاد، بالفاظ دیگر بنیاد پرستی، بنیاد کے عقیدے سے وابستگی و چسپیدگی۔ یہی وہ بنیاد پرستی کا لفظ ہے جو Fundamentalism کے ترجمے کے طور پر کچھ عرصے سے ہمارے علمی، صحافتی حلقوں سے نکل کر اخباری دنیا میں عام ہو گیا۔ لفظی تحقیق کے بعد اس کی اصطلاحی توضیح پیش کی جاتی ہے۔
Fundamentalism (بنیاد پرستی) دراصل بیسویں صدی میں ایک مسیحی اصطلاح کے طور پر سامنے آئی جو ایک تحریک کی صورت میں پیش کی گئی۔ یہ تحریک مسیحی پروٹسٹنٹ فرقے کی متعارف کرائی ہوئی ہے۔ اس تحریک نے اس بات پر زور دیا کہ کتاب مقدس (Bible) ہر غلطی سے مبرا ہے۔ نہ صرف مسائل، عقائد اور اخلاق میں بلکہ ہر تاریخی پہلو میں بھی اس میں کوئی سقم نہیں۔ حتٰی کہ بائبل کے معتقدات اور امورِ غیبیہ مثلاً تخلیقِ انسانی، ولادتِ مسیح، مسیح کی آمدِ ثانی، دوبارہ حشر اجساد کے ضمن میں بائبل کا حرف حرف ہر شائبہ شک سے پاک اور صحت کے انتہائی معیار پر ہے۔ ابتدا میں اسی تحریک کو Fundamentalism کہتے تھے اور ان عقائد و ایمانیات پر جمے رہنے والے لوگوں کو Fundamentalist (بنیاد پرست) کہتے تھے۔ ہمارے ہاں جس حوالے سے یہ لفظ علمی حلقوں سے نکل کر عوامی، اخباری و اشتہاری حلقوں تک آ گیا ہے، اس کا پس منظر بالوضاحت ملاحظہ فرمائیے:

مغربی پس منظر

بنیاد پرستی (Fundamentalism) اپنے پس منظر کے اعتبار سے خالص مغربی اصطلاح ہے۔ یہ ایک تحریک کی صورت میں سامنے آئی۔ اس کی طرف زیادہ اعتنا اس وقت کیا گیا جب 1876ء میں بمقام Swamp Scott (امریکہ) بائبل کانفرنسوں کا آغاز ہوا۔ 1877ء میں بمقام نیویارک بائبل اجتماع ہوا۔ پھر نیاگرا میں ایک اہم کانفرنس ہوئی۔ فی الجملہ 20 سال کے عرصے میں مختلف بائبل کانفرنسیں منعقد ہوتی رہیں جن کے نتیجے میں بنیاد پرستوں نے پانچ اساسی نکات پر اتفاق کر لیا۔ وہ پانچ نکات جنہیں مسیحیت کے بنیادی عقائد کی حیثیت دی گئی، یہ تھے:
  • بائبل کا مکمل فیضان روحانی (الہامی) اور ہر غلطی سے مبرا ہونا۔
  • مسیحؑ کی الوہیت۔
  • مسیحؑ کی بن باپ کے ولادت۔
  • عقیدہ کفارہ۔
  • رفع جسمانی اور دوبارہ آمد مسیحؑ۔
آخری نکتے کو اس زور سے پیش کیا گیا کہ Jessus is coming کے عنوان سے ایک کتابچہ 20 لاکھ کی تعداد میں امریکہ میں اور 10 لاکھ کی تعداد میں بیرون امریکہ تقسیم کیا گیا۔ The Fundamentals کے عنوان سے 12 کتابوں کا ایک سلسلہ شائع کیا گیا جس کے اخراجات کی ذمہ داری دو بھائیوں Lyman اور Milton Stewart نے اٹھائی۔ اس ضمن میں انہوں نے لاس اینجلز میں بائبل انسٹیٹیوٹ بھی قائم کیا۔ اول اول امریکہ اور کینیڈا میں اس تحریک کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ اس تحریک کے ذریعے مسیحیت کی قدامت پسندانہ سوچ پر زور دیا گیا۔
جب انیسویں صدی میں اور بیسویں صدی کے آغاز میں جدیدیت کی لہر چلی تو اس لہر کے مقابلے میں قدامت پرستی کا روپ دھار لیا۔ جب دور جدید میں انتقاد عالیہ Higher Criticism کو رواج ملا تو علمائے مسیحیت میں سے کچھ لوگوں نے بائبل کا تاریخی و ادبی پہلوؤں سے بھی مطالعہ کیا، جس کے نتیجے میں بائبل پر اعتمادِ کُلّی کی چولیں ڈھیلی ہوتی نظر آنے لگیں۔ جب ڈارون کا نظریہ ارتقا مقبول ہوا تو پوری بنی نوع انسان کی ثقافتی و تمدنی اقدار کو اسی عینک سے دیکھا جانے لگا۔ مسیحیت کی بھی اسی زاویہ نگاہ سے تعبیر کی جانے لگی۔ جرمنی کے فلسفی کانٹ (Kant) کے خیالات نے ایک عالم میں ہلچل مچا دی۔ سائنسی طریق فکر اور سائنسی طریق عمل استعمال کیا جانے لگا۔ عوام پر بائبل کی وہ گرفت نہ رہی جو پہلے تھی۔ اگرچہ اکثریت مسیحؑ کے ابن اللہ (نتیجتاً خدائی صفات کا حامل) ہونے کا اقرار تو کرتی رہی مگر پوری بائبل کو کلام الٰہی ماننے سے ہچکچانے لگی۔ Newton Clarke نے صاف کہہ دیا کہ بائبل کو اسی حد تک صحیح ہونے کی سند دینی چاہیے جس حد تک وہ سائنس اور تاریخ سے مطابقت رکھتی ہے۔
1892ء میں نیویارک میں A. Briggs پر بے دینی کا مقدمہ چلایا گیا جو بائبل پر بے یقینی کے حامیوں کے لیے سنگ میل تھا۔ یہ شخص Union Theological Seminary میں ممتاز عالم اور محقق پروفیسر رہا تھا۔ اگرچہ اسے دہریت کے الزام سے تو بری کر دیا گیا مگر اسے Presbeterian کلیسا سے نکلنے پر مجبور کر دیا گیا۔
یوں بنیاد پرستی دورِ جدید کی آزادیٔ فکر (Liberalism)  کے خلاف ایک جارحانہ مگر قدامت پرستانہ پروٹسٹنٹ تحریک کی حیثیت سے ابھری۔
1941ء میں بنیاد پرستوں نے American Council of Christian Churches کے قیام کے ساتھ سخت جارحانہ انداز اختیار کر لیا، تاہم جب ان رجعت پسندوں کو خاطر خواہ پذیرائی حاصل نہ ہوئی تو راہِ اعتدال اختیار کرنے کے بارے میں سوچا گیا۔ 1942ء میں ایک معتدل طریق کار کی تنظیم بنائی گئی جس کا نام The National Association of Evangelicals رکھا گیا۔ یہ ایک قسم کی نو بنیاد پرستوں Neo Fundamentalists کی جماعت تھی جو اپنے عقائد میں سخت اور بے لچک تھے مگر طریق کار میں قدرے نرم تھے۔ 1950ء کے لگ بھگ دوسرے یورپی ممالک میں بنیاد پرستی کا چرچا ہونے لگا۔ اس کا ایک سبب تو Evangelicalism (انجیل پرستی) تھا، دوسرا مشنری جذبہ۔ (یاد رہے کہ انجیل پرست متی، لوقا، مرقس اور یوحنا کی اناجیل اربعہ کو مکمل طور پر الہامی جانتے تھے)۔ 
اب اس پس منظر میں بنیاد پرستی کا جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ مسیحیت جدید نقطۂ نگاہ اور عصری انتقادی کاوشوں کا ساتھ دینے کے بجائے انہیں اپنے خلاف یورشیں خیال کر کے ان کا مقابلہ کرنے لگی۔ یوں مسیحیت بنیاد پرستی کے نام پر انہی پانچ نکات کو اساسِ معتقدات بنا کر آزادیٔ فکر و عمل کا راستہ روکنے کے لیے کھڑی ہو گئی۔
آج بنیاد پرستی اپنے لغوی مفہوم تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کے پیچھے صدیوں کا طرز فکر کام کر رہا ہے جس نے اسے ایک اصطلاح بنا دیا ہے اور اصطلاح بھی طعن آمیز۔ ایک زمانے میں جب کہ ابھی بنیاد پرستی (Fundamentalism) کا لفظ اصطلاحاً ایجاد بھی نہیں ہوا تھا، مسیحیت کے علمبرداروں نے عقل و فطرت کی پرزور مخالفت کی۔ اصل میں یہ بنیاد پرستی کا اولین خاکہ تھا۔ یہ خاکہ پندرہویں صدی عیسوی میں تیار ہوا جب Renaissance کے ذریعے سے یونانی علوم و فنون کی ترویج ہوئی۔ 1453ء میں استنبول کے ترکوں کے قبضے میں چلے جانے سے کئی یونانی عالم بھاگ کر اٹلی پہنچے۔ 1477ء میں کیکسٹن نے انگلستان میں پہلا چھاپہ خانہ ایجاد کیا تو کتابیں عام ہاتھوں تک پہنچیں جس سے پورا یورپ علم کی روشنی سے منور ہو گیا۔ جون کولٹ (John Colet)، ٹامس مور (Thomas Moore)، ارسمس (Erasmas) جیسے علماء نے یورپ کی آنکھیں کھول دیں۔ اس کے نتیجے میں کچھ عرصہ بعد تحریکِ اصلاحِ مذہب (Reformation) سامنے آئی جس سے مسیحیت دو فرقوں میں بٹ گئی۔ پروٹسٹنٹس (Protestants) اور رومن کیتھولکس (Roman Catholics)۔
حق یہ ہے کہ پادریوں کی اخلاقی گراوٹ اور مذہبی توہم پرستی، راہب (Monks) اور راہبات (Nuns) جن کا افسر (Abbot) کہلاتا تھا، اس قدر پستی میں اتر گئے تھے کہ ردعمل کے طور پر جرمنی سے اٹھنے والی اصلاحِ کلیسا کی تحریک نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میری ٹیوڈر (1553-1558) کے عہد میں جدید ذہن رکھنے اور اندھادھند پیروی سے روکنے والوں پر بے حد سختیاں کی گئیں۔ کوئی تین سو پروٹسٹنٹ زندہ آگ میں جلا دیے گئے۔ کرینمر (آرچ بشپ آف کنٹربری)، بشپ رڈلے اور لیٹیمر جیسے روشن فکر علماء کو روشن فکری کی پاداش میں زندہ جلا دیا گیا۔ علمبردارانِ مسیحیت نے جدید فکری ترقی اور علمی پیشرفت کے آگے بہت بند باندھنے کی کوشش کی۔ جمود پسندوں نے عیش پرستی کو شعار بنا لیا، مذہب کو جاہ طلبی، زراندوزی اور ہوس رانی کا وسیلہ بنا لیا۔ مذہبی تقریبات  عشرت انگیز تفریحی جشنوں کی صورت اختیار کر چکی تھیں۔ مذہبی ضیافتیں بدچلنی کی تماشاگاہیں بن گئیں اور مرنے والوں کی برسیوں پر میلے لگتے۔ مجسموں کی پرستش بڑی ڈھٹائی سے کی جاتی۔
پادریوں نے ایسے ایسے فروعی مسائل پر اپنی توانائیاں صرف کر دیں جن سے فرقہ آرائی کو اس قدر ہوا ملی کہ عوام الناس کی وحدت پارہ پارہ ہو کر رہ گئی۔ چند زیربحث مسائل یہ تھے:
(ا) حضرت مسیحؑ کا پیشاب پاک تھا یا ناپاک۔
(ب) مائدہ آسمانی میں روٹی خمیری تھی یا فطیری۔
(ج) خدا اور مسیحؑ متحد الماہیت ہیں یا مشترک الماہیت۔
یہی وہ مذہب تھا جس نے انسانوں کو جمود زدہ کر کے رکھ دیا، علمی و تمدنی ترقی کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔
ان مذہب کے ٹھیکیداروں نے مذہب کو اس قدر ناکارہ بنا کر رکھ دیا کہ وہ علمی و تمدنی ترقی کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔ چونکہ علم و فن سے فرسودہ مذہبی خیالات بھی معرضِ خطر میں آتے تھے اور مذہب کا سارا فلسفہ اخلاق بھی ان کی زد میں تھا، لہٰذا علم و فن سے ہی انکار مذہبی لوگوں کا طرۂ امتیاز بن گیا۔ نہ صرف یہ بلکہ مذہب مسیحیت نے معاشرتی و معاشی کمزوریوں کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا۔ طبقاتی کشمکش کی پشت پناہی ہوئی۔ گیارہویں اور بارہویں صدی میں مغربی یورپ میں تقریباً نصف جاگیردار چرچ کے نمائندہ تھے۔ جاگیرداری کو زوال آیا تو سرمایہ داری نے سر اٹھایا۔ اب سرمایہ دار اور مذہبی رہنما متحد ہو کر عوام کو لوٹنے لگے۔ یوں مذہب نے ایک طرف جاگیردارانہ ذہنیت کی پیٹھ ٹھونکی اور دوسری طرف سرمایہ دارانہ نقطہ نگاہ کی پشت پناہی کے ساتھ عوام اور بادشاہ کی جنگ میں بادشاہ کا ساتھ دیا۔
یہی وہ پس منظر تھا جس میں مذہبی اجارہ داروں کو بنیاد پرست کہنے لگے۔ یہ بنیاد پرستی یورپی معاشرہ میں جامد اور ناکارہ مسیحی نقطہ نظر کی پیداوار تھی۔ اس کے مقابل میں اسلام کا ماضی علمی ترقیوں اور فنی تحقیقات میں روشنی کے سرچشمے ابالتا اور دل و نگاہ کو اجالتا ہے۔ یہاں ایک دور میں جو شخص عربی زبان نہیں جانتا تھا، علومِ طبعی پر دسترس ہی نہیں حاصل کر سکتا تھا۔ کوپر لیکس سے کہیں پہلے زرقالی نے حرکتِ زمین کا نقطہ نظر پیش کیا۔ (ابو اسحٰق ابراہیم بن یحیٰی زرقالی اندلسی قرطبی (1029-1087) اپنے دور کا سب سے بڑا منجم تھا۔ ابن صاعد کے ساتھ ٹولیڈو (اسپین) میں اصولِ جداول بنائے جنہیں زائچہ طلیطلی کہتے ہیں۔ ایک نئی اصطرلاب ایجاد کی جسے صفیحہ زرقالی کہتے تھے)۔ کسی عالم نے اس کی تردید نہیں کی۔ ابوالہیثم (960-1039) اور جابر بن حیان (متوفی 815) نے طبعی سائنسوں میں بے مثال کارنامے انجام دیے۔
آج مسیحیت کے ظالمانہ جمودی دور سے مستعار لے کر بنیاد پرستی کی اصطلاح مسلمانوں پر چسپاں کی جا رہی ہے۔ اس سارے ڈرامے کے پیچھے امتِ مسلمہ کی آزاد ریاستوں کے عوام الناس کو عموماً اور مغربی ممالک کی مسلم اقلیتوں کو خصوصاً اسلام سے برگشتہ کرنے کی مکروہ سازش ہے۔ مغربی لابیاں مسلمانوں کو بنیاد پرست کہہ کر ان پر پھبتی کستی ہیں کہ ماضی کا پادری مولوی کے روپ میں پھر زندہ ہو رہا ہے۔ یہ علم کا دشمن ہے، حکمت کا معاند ہے، سائنسی منہاجِ فکر کا قاتل ہے، جاگیرداری کا حامی ہے، برسراقتدار ٹولے کا پٹھو ہے، ایجاد و اختراع سے نفور ہے، اسے اسی طرح مسجد میں محصور کر دو جس طرح ماضی میں پادری کو چرچ میں بند کر دیا گیا تھا۔ دین کو مسجد سے باہر نہ نکلنے دو، مبادا کہ یہ عدالت، بازار، تعلیم گاہ، مارکیٹ، دفتر، دکان تک آ کر ہمیں ہمارے کوتکوں سے باز رکھنے کی کوشش کرے۔
عوام الناس کے سامنے بنیاد پرستی (Fundamentalism) کو طعن آمیز کلمے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ہمارے سادہ لوح حضرات بڑی معصومیت سے سارے پس منظر کو سامنے رکھے بغیر جوش میں کہہ اٹھتے ہیں کہ ہاں ہم تو بنیاد پرست ہیں، جس کی بنیاد ہی نہ ہو وہ ہوا میں کیسے جیے گا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ مغرب مسلمانوں پر بنیاد پرستی کا لیبل لگا کر انہیں جاہل، عقل دشمن، ضمیر فروش، تاریکی پسند اور جمود زدہ قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ درآنحالیکہ وہ ایک متروک دین کا پیرو ہونے کی حیثیت میں روشنی کا منار، علوم و فنون کا دلدادہ، حکمت و فن کا شیدائی اور علم و عمل کا معیار ہوتا ہے۔ ایسی صورت حال میں کسی بھی مسلمان کو بنیاد پرست کہنا اس کے لیے گالی ہے، اس پر الزام ہے، تہمت ہے۔ مسلمان نہ بنیاد پرست ہے نہ باطل پرست۔ نہ جمود پرست ہے نہ خود پرست۔ وہ صرف اور صرف خدا پرست ہے اور بس۔

قرآن و سنت سپریم لاء ہے - ہائیکورٹ کے فل بنچ کا فیصلہ (۱)

ادارہ

حاکم خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر علمی و فنی تنقید پر مشتمل مقالے کا اردو ترجمہ الشریعہ اکیڈمی کتابی شکل میں شائع کر چکی ہے۔ سپریم کورٹ نے زیرتنقید فیصلہ میں یہ قرار دیا تھا کہ جب دستور کا کوئی آرٹیکل ’’قرارداد مقاصد‘‘ سے متصادم ہو گا تو عدالت چارہ گری نہیں کر سکتی۔ فیصلہ کے ناقد معروف قانون دان سردار شیر عالم خان ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نے مقالہ میں فنی دلائل اور حوالوں سے ثابت کیا کہ اعلیٰ عدالتوں کا فرض منصبی ہے کہ وہ قرارداد میں درج اصولوں کی بالادستی قائم کرتے ہوئے دادرسی کریں۔ لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ کا فیصلہ اسی نقطہ نظر کا آئینہ دار ہے۔ یہ بنچ جسٹس ریاض احمد شیخ، جسٹس راجہ افراسیاب خان اور جسٹس ملک محمد قیوم پر مشتمل تھا۔ اس طرح ہائیکورٹ کا فیصلہ مطالعاتی افادیت کا حامل ہے۔ اس کا  اردو ترجمہ جناب چودھری محمد یوسف اور جناب عرفان مقبول بٹ ایڈووکیٹس نے مرتب کیا ہے جو کہ نذر قارئین ہے۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر یہ صفحات عام بحث کے لیے حاضر ہیں۔
نوٹ: اصل فیصلہ پی ایل ڈی ۱۹۹۲ء لاہور صفحہ ۹۹ پر شائع ہوا۔ بنیادی فیصلہ جسٹس ریاض احمد شیخ نے لکھا، جب کہ راجہ افراسیاب نے فیصلہ سے اتفاق کرتے ہوئے اضافی نوٹ تحریر کیا۔


شیخ ریاض احمد، راجہ افراسیاب خان، ملک محمد قیوم، جج صاحبان
مسماۃ سکینہ بی بی بنام وفاق پاکستان
رٹ درخواست نمبر ۲۶ سال ۱۹۸۹ء منفصلہ ۱۴ جنوری ۱۹۹۲ء

فیصلہ

جسٹس شیخ ریاض احمد جج

(۱) ۱۹۸۸ء میں بے نظیر بھٹو کے وزارتِ عظمٰی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد صدر پاکستان نے وزیراعظم کی ہدایت پر ۸ دسمبر ۱۹۸۸ء کو بظاہر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل ۴۵ کے تحت (اپنے حکم کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے) لکھا:
’’(اے) ۶ دسمبر ۱۹۸۸ء تک فوجی یا دیگر عدالتوں کی سنائی گئی موت کی سزاؤں کو عمر قید میں بدلنے کے لیے،
(بی) ایسی خواتین جو قتل کے علاوہ کسی دیگر جرم میں فوجی یا کسی دیگر عدالت کی دی گئی قید بھگت رہی ہیں، کو معافی دینے کے لیے،
(سی) مارشل لا کے تحت غیر حاضری میں دی گئی سزاؤں کو معاف کرنے (اور عام عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کی ہدایت) کے لیے، 
(ڈی) ایسے اشخاص جن کی عمر ساٹھ سال سے زائد ہے اور وہ فوجی یا دیگر عدالتوں کی طرف سے دی گئی سزاؤں میں سے پانچ سال  یا زائد قید بھگت چکے ہوں، ان کی سزاؤں کو معاف کرنے کے لیے،
(ای) ایسے تمام اشخاص (ماسوا مسلح افواج کے) جنہیں فوجی عدالتوں سے منشیات، سمگلنگ، رشوت ستانی، خیانت، بنک فراڈ، رہزنی، ڈکیتی، قتل، زنا، غیر فطری فعل کے علاوہ جرائم میں سزائیں ہوئی ہوں، ان کو معاف کرنے کے لیے، اور مسلح افراد کے مقدمات پر افواج کے مجاز حکام کی نظرثانی کے لیے،
(ایف) ہر قسم کے سزایافتگان (بشمول مسلح افواج کے افراد) کو تین ماہ کی معافی دینے کے لیے،
(جی) ایسے افراد جن کو فوجی عدالتوں کی سزاؤں میں معافی نہیں دی گئی، ان کو معافی دینے کے لیے،
(ایچ) فوجی عدالتوں سے سزا پانے والوں کی کل سزا میں سے دورانِ سماعت حراست کا عرصہ کاٹی گئی سزا کے طور پر شمار کرنے کی ہدایت جاری کرنے کے لیے۔‘‘
(۲) اگرچہ متنازعہ حکم اختیارات کے استعمال کے بارے میں خاموش ہے مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل ۴۵ کے سوا کوئی ایسی قانونی دفعہ نہیں جس کے تحت متنازعہ حکم جاری کیا جا سکتا ہو۔ متنازعہ حکم کا پیراگراف (اے) فوجی یا دیگر عدالتوں کی طرف سے ۶ دسمبر ۱۹۸۸ء سے پہلے دی گئی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے سے متعلق ہے، اس کلاز کو متعدد رٹ درخواستوں کے ذریعے چیلنج کیا گیا تھا اور اس قسم کے عمومی حکم پر مستغیث فریقوں کی طرف سے عذرات اٹھائے گئے۔ ایسی رٹ درخواستوں کو عدالتِ ہٰذا نے سماعت کے لیے منظور کیا اور حکم سے مستفید ہونے والے سزایافتگان کے ورثا کو نوٹس جاری کیے۔ کئی ایک مقدمات، جن میں سیشن (بشمول ایڈیشنل سیشن) ججوں کی طرف سے موت کی سزاؤں کی توثیق کے لیے ریفرینس زیرغور تھے، کے بارے میں کہا گیا کہ متنازعہ حکم کا ایسے مقدمات پر اطلاق نہیں ہوتا ہے، کیوں کہ مذکورہ سزائیں کسی طور پر قطعی نہیں ہیں۔ البتہ فوری سماعت کی خصوصی عدالتوں کی طرف سے سنائی گئی موت کی سزاؤں کی صورت مختلف ہے، کیوں کہ ایسی سزائیں عمل درآمد میں اس عدالت کے دو ججوں کی توثیق سے مشروط نہیں۔
(۳) دستور کے آرٹیکل ۲ الف کی روشنی میں آرٹیکل ۴۵ کی تعبیر اور اس کے احاطہ کار کے اہم سوال پر غور کے لیے چیف جسٹس صاحب نے موجودہ فل بنچ تشکیل دیا۔ ہر دو فریقین کے دلائل کو تفصیلاً سننے کے بعد ہم درج ذیل فیصلہ صادر کرتے ہیں۔
(۴) حکمِ متنازعہ کے بارے میں اولین کا استدلال یہ ہے کہ صدر مملکت کی جانب سے حکم اس کے مضمرات پر مناسب غور کے بغیر جاری کیا گیا ہے اور یہ حکم مکمل طور پر مبہم ہے۔ اس بارہ میں واقعاتی صورت حال کے تعین کے لیے ہم نے فاضل اٹارنی جنرل پاکستان کو صدر کے حکم، اور وزیر اعظم اور صدر کی خط و کتابت کی اصل فائل پیش کرنے کی ہدایت کی۔ اٹارنی جنرل نے حکمِ مذکورہ کی اصل فائل پیش کی اور اس کی قانونی حیثیت پر کلام کرتے ہوئے یہ کہا کہ اس حکم کی قانونی حیثیت کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا اور فی الواقع صدر پاکستان نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی ہدایت کی متابعت میں حکم جاری کیا ہے، اس طرح مزید بحث غیر ضروری ہے۔
(۵) سزایافتگان کی طرف سے اس استدلال پر زور دیا گیا کہ دستور کے آرٹیکل ۴۵ کی رو سے صدر کے اختیارات کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سربراہ مملکت کے طور پر صدر کو یہ اختیارات عطا کیے گئے ہیں، لہٰذا ان اختیارات کے استعمال پر عذر نہیں کیا جا سکتا۔ مختصرًا کہا گیا کہ یہ عدالت حکمِ متنازعہ کی تعدیل کی مجاز نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ صدر کا یہ اختیار مطلق ہے۔ اس بارہ میں بھارتی اور پاکستان کی سپریم کورٹس اور ہائی کورٹس کے بہت سے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا۔ بہرحال زیرغور سوال محض حجت بازی اور ذہنی مشق نہیں بلکہ انتہائی اہم اور سنجیدہ سوال پر مشتمل ہے، جو کہ یہ ہے کہ آرٹیکل ۲۲۷ کو آرٹیکل ۲ الف کے ہمراہ دیکھا جائے تو اسلام میں فوجداری نظامِ عدل کے بارے میں احکامات کا صدر کے اختیارات پر کیا اثر ہے؟ غور طلب امر یہ ہے کہ جن مقدمات میں سزائے موت حد یا قصاص کے طور پر عائد ہوئی، کیا صدر پاکستان اپنے طور پر ان سزاؤں کو بدل دینے کا مجاز ہے؟ جب کہ اسلام کے نظامِ فوجداری میں صرف متوفی کا ولی قصاص کا حق زائل کر سکتا ہے، مملکت کے سربراہ کو اس بارہ میں کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔
(۶) اس نزاع کو طے کرنے کے لیے ہمیں دستور کے آرٹیکل ۲۲۷، آرٹیکل ۲ اے، اور حصہ ۷ باب ۳ اے کو قصاص و دیت آرڈیننس کے ہمراہ اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلوں کو مجموعی طور پر دیکھنا  پڑے گا۔ آرٹیکل ۲۲۷ کے تحت مروجہ قوانین کو اسلامی احکامات، جس طرح کہ وہ قرآن و سنت میں درج ہیں، کے مطابق بنایا جائے گا اور اسلامی احکامات سے متصادم قانون وضع نہیں کیا جا سکتا۔ آرٹیکل ۲۲۸ کی رو سے اسلامی نظریاتی کونسل تشکیل کی گئی۔ آرٹیکل ۲۲۹ کے تحت پارلیمنٹ کی طرف سے کسی قانون کے اسلامی احکامات کے مطابق و منافی ہونے کے بارے میں ریفرینس بھیجا جا سکتا ہے۔ آرٹیکل ۲۳۰ کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کے فرائض کی صراحت کی گئی ہے۔ صدارتی حکم نمبر ۸۰/۱ کے ذریعے سے وفاقی شریعت کورٹ کے قیام کے لیے دستور ۱۹۷۳ء میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا گیا۔ اس طرح وفاقی شرعی عدالت قائم ہوئی جسے یہ اختیار دیا گیا کہ وہ کسی بھی قانون کے بارے میں طے کرے کہ وہ اسلامی احکامات، جس طرح کہ وہ قرآن و سنت میں درج ہیں، سے متصادم ہے یا نہیں۔ اگر وفاقی شرعی عدالت یہ قرار دے کہ کوئی قانون اسلامی احکامات کے منافی ہے تو وہ اپنے فیصلے میں اس بارے میں وجوہات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ قانون کے اسلامی احکام سے تصادم کی حد واضح کرتے ہوئے فیصلہ کے موثر ہونے کی تاریخ مقرر کرے گی۔ آرٹیکل ۲۰۳ اے میں یہ لکھا گیا کہ ایسے فیصلے کے بعد قانون سازی کے وفاقی دائرہ میں صدر، اور صوبائی دائرہ میں متعلقہ گورنر قانون کو اسلام کے مطابق بنانے کے لیے اقدامات کریں گے۔
(۷) یہ بات اہم ہے کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح علیہ الرحمہ کی وفات کے بعد چھ ماہ کے اندر پاکستان کی اولین دستور ساز اسمبلی نے مارچ ۱۹۴۹ء میں ایک قرارداد منظور کی جسے قراردادِ مقاصد کا نام دیا گیا۔ بعد میں یہ قرارداد دساتیر ۱۹۵۶، ۱۹۶۲، ۱۹۷۲، ۱۹۷۳ کا دیباچہ بنی۔ ضیاء الرحمان (۱) کیس میں سپریم کورٹ کے روبرو یہ استدلال پیش کیا گیا کہ قرارداد مقاصد پاکستان کی نظریاتی اساس ہے اور یہ دستور سے بالاتر دستاویز ہے۔ مگر اس استدلال کو مسترد کر دیا گیا اور یہ قرار دیا گیا کہ اختیارات کا سرچشمہ دستور کے قابل عمل حصے ہیں اور جب تک قرارداد مقاصد کو دستور کے موثر حصے میں داخل نہ کیا جائے یہ موثر نہیں ہو گی۔ پاکستان کی دستوری تاریخ میں قرارداد کو مختلف مراحل میں مملکت یا حکومت کی جانب سے اقدامات کو جائز بنانے کے لیے روبعمل لایا جاتا رہا۔ قرارداد کو عاصمہ جیلانی کیس (۲) میں قانونی نظام کا بنیادی پتھر، نظریہ کی ترجمان، مملکت اور قوم کی آخری منزل قرار دیا گیا۔ اس کے باوجود حسین نقی کیس (۳) میں اس کو دستور سے بالاتر دستاویز تسلیم نہیں کیا گیا اور اسے ناقابل نفاذ اور دیباچائی نوعیت کی حامل قرار دیا گیا۔ ضیاء الرحمان کیس میں چیف جسٹس حمود الرحمان نے اپنے فیصلہ میں لکھا:
’’میرے نقطہ نظر میں یہ کتنی ہی قابل احترام دستاویز کیوں نہ ہو مگر جب تک اسے دستور کا روبعمل حصہ نہ بنایا جائے یہ دستور کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔ عدالتیں دستور کی تخلیق ہونے کی بنا پر ازخود دستور کے کسی آرٹیکل کو ایسی کسی دستاویز سے متصادم قرار نہیں دے سکتیں۔ اس طرح ہم اپنے نظام کے تحت بھی ۱۹۴۹ء کی قرارداد مقاصد، جسے قبولیتِ عامہ حاصل رہی اور یہ کبھی منسوخ کی گئی اور نہ ہی اس سے کبھی براءت کا اظہار کیا گیا، مگر اس کے باوجود اسے دستوری دفعہ کی حیثیت حاصل نہیں ہو گی جب تک کہ یہ دستور کا روبعمل حصہ نہ بنا دیا جائے۔ اگر یہ محض دستور کے دیباچہ کے طور پر ہی رہے تو یہ ہر دوسرے دیباچے کا کام کرے گی، یعنی قانون وضع کرنے والے کے منشا کے بارے میں کوئی اشتباہ پیدا ہو تو یہ منشا کا تعین کرے گی مگر یہ اسے کنٹرول نہیں کر سکتی۔‘‘
(۸) پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کا منشا اسلامی مملکت کا قیام تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس وطن کے حصول کی تمام تر جدوجہد اسلام کے نام پر جاری و ساری ہوئی۔ ایک ہی نعرہ جس نے لوگوں کو اس تحریک کی حمایت پر جمع کر دیا تھا وہ تھا ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘‘۔ قائد اعظم علیہ الرحمہ نے اس حقیقت کو قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں واشگاف الفاظ میں واضح کر دیا تھا۔ انہوں نے کراچی بار ایسوسی ایشن کے روبرو ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو صراحت کرتے ہوئے بعض لوگوں کے اس گمراہ کن پروپیگنڈہ کو ناقابلِ فہم قرار دیا جس کے ذریعے سے وہ یہ غلط فہمی پھیلاتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر مرتب نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید فرمایا:
’’اسلامی نظریہ مثالی ہے۔ اس نے جمہوریت، مساوات، عدل اور حریت کے اصول جس طرح ہمیں سکھائے ہیں وہ اپنی اعلیٰ ترین شکل میں ہیں۔ اسلام ہر ایک کے ساتھ انصاف کا علمبردار ہے۔ آئیے مستقبل میں ان اقدار کو پاکستان کے دستور کی بنیاد بنائیں۔ اسلام محض رسمی عبادات کا مذہب نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ہر مسلمان کی زندگی کو منضبط کرتا ہے، حتٰی کہ سیاست اور معیشت اور اسی طرح کے دیگر شعبہ ہائے زندگی کو بھی۔ یہ ہر ایک کے لیے احترام، سلامتی، مساوات اور عدل کے اعلیٰ اصولوں پر مبنی ہے۔۔۔‘‘
’’اسلام میں فرد اور فرد میں کوئی امتیاز نہیں۔ مساوات، آزادی اور اخوت کے اصول اسلام کی بنیاد ہیں۔‘‘
قائد اعظم نے مزید کہا کہ رسول اللہؐ نے تیرہ سو سال قبل جمہوریت کی تاسیس فرما دی تھی۔
(۹) قائد ملت (خان لیاقت علی خان) کی وہ تقریر جو انہوں نے دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد پیش کرتے ہوئے ارشاد فرمائی، نہایت واضح ہے۔ اس کی چند سطور یہاں درج کرنا افادیت سے خالی نہیں:
’’جناب والا! میں اس موقعہ کو مملکت کی زندگی میں حصولِ آزادی کے بعد سب سے اہم موقعہ خیال کرتا ہوں کیوں کہ ہم نے آزادی حاصل کر کے اپنے عقائد کے مطابق تعمیرِ وطن کا صرف موقعہ حاصل کیا ہے۔ میں ایوان کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ بابائے قوم قائد اعظمؒ نے بے شمار مواقع پر اس امر کی صراحت کی ہے اور اس بارہ میں ان کے خیالات کی قوم نے بھرپور تائید کی ہے۔ پاکستان کی تاسیس کا مقصد محض یہ تھا کہ برصغیر کے مسلمان اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات اور روایات کے مطابق استوار کر کے دنیا پر عملاً ثابت کر دیں کہ اسلام دنیا کو درپیش بہت سے مسائل کا مداوا کر سکتا ہے۔‘‘
’’ہم پاکستانیوں کو مسلمان ہونے پر شرم محسوس نہیں ہوتی بلکہ ہمارا ایمان ہے کہ ہم اپنے عقائد اور اقدار پر استقامت سے دنیا کی فلاح میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس طرح، جناب! آپ دیکھیں گے کہ قرارداد کا دیباچہ غیر مبہم طور پر اس امرِ واقعہ کو تسلیم کرتا ہے کہ تمام اقتدار و اختیار لازماً اللہ تعالیٰ کے تابع ہو گا۔‘‘
’’لیکن ہم اسلامیانِ پاکستان یہ عزم رکھتے ہیں کہ تمام اختیارات اسلامی اصولوں اور احکامات کے مطابق استعمال کیے جائیں گے تاکہ ان کا بے جا اور غلط استعمال نہ ہو سکے۔ تمام تر اختیار و اقتدار مقدس امانت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سپرد فرمائی ہے تاکہ اسے انسان کی فلاح کے لیے استعمال کیا جائے اور اسے بندۂ ہوا و ہوس بننے سے روکا جا سکے۔‘‘
یہاں یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ قرارداد مقاصد ۱۹۴۹ء میں دیباچہ کے طور پر نہ پیش ہوئی اور نہ اس طور منظور ہوئی بلکہ اس کا تو اپنا دیباچہ ہے۔ درحقیقت یہ دستور کی ترتیب سے بہت سال پہلے پیش اور منظور ہوئی۔ یہ اصول ہے کہ دیباچہ ہمیشہ قانون کی تمام شقوں اور شیڈولز کی منظوری کے بعد پیش ہوتا ہے (۴)۔ ہاؤس آف لارڈز کے ضابطہ کار کے صفحہ نمبر ۴۷۸ میں یہی لکھا ہے۔ دستور ساز اسمبلی کے مباحث سے پتہ چلتا ہے کہ قرارداد پر طویل مباحث ہوئے اور غیر مسلم ارکان نے اس پر خاصی تنقید کی۔
(۱۰) یہ امر بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ قرارداد کی ترتیب سے پہلے اسلامی دستور کی تدوین کے لیے تمام مکاتبِ فکر کے فاضل ترین علماء پر مشتمل ایک ٹیم نے بنیادی راہنما اصول مرتب کیے۔ اس مرحلہ کے بعد قرارداد ان اصولوں کی روشنی میں تیار ہوئی۔ قرارداد کے دیباچے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگوں کی طرف سے دستور سازی کا مینڈیٹ ہے۔ اس میں بنیادی اصول درج کر دیے گئے ہیں، تفصیل یوں ہے:
’’ہرگاہ کل کائنات پر اقتدار و حاکمیت کا مالک مطلق اللہ تعالیٰ بلا شرکتِ غیرے ہے۔ اور یہ اختیار امانت ہے جسے ذاتِ برتر کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کیا جائے گا۔ اور پاکستان کے عوام کا یہ منشا ہے کہ ایسا نظام ترتیب دیا جائے جس کی رو سے اسلام کے اصول ہائے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور اجتماعی عدل کا پورا اتباع کیا جائے گا، اور جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات اور مقتضیات کے مطابق ترتیب دیں۔‘‘

مغربی میڈیا اور عالمِ اسلام

ادارہ

ابلاغِ عامہ کے عالمی ذرائع پر اس وقت مغرب کی بالادستی ہے اور اس کی پشت پر یہودی دماغ جس مہارت اور چابک دستی کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کی پہچان کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس کی وجہ سے جدید ترین ذرائع ابلاغ اور الیکٹرانک میڈیا تک رسائی آج عالمِ اسلام کا سب سے اہم مسئلہ بن گیا ہے۔ اور دنیائے اسلام میں ہر جگہ مسلم دانشور اس سلسلہ میں سوچ بچار میں مصروف ہیں۔ اسی پس منظر میں ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام ۲۸ مئی ۱۹۹۴ء کو لندن میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں میڈیا کے تکنیکی اور نظریاتی شعبوں سے تعلق رکھنے والے ڈیڑھ درجن کے قریب ماہرین نے شرکت کی۔ مذاکرہ کی اس مجلس کا اہتمام رابطہ عالمِ اسلامی کے لندن آفس کے ہال میں کیا گیا جس کی صدارت ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے کی اور معروف دانشور پروفیسر اکبر ایس احمد (آف کیمبرج یونیورسٹی) بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔ جب کہ فورم کے راہنماؤں مولانا محمد عیسٰی منصوری، پروفیسر عبد الجلیل ساجد، مفتی برکت اللہ، الحاج عبد الرحمٰن باوا، فیاض عادل فاروقی اور عمر جی بھائی کے علاوہ امپیکٹ انٹرنیشنل کے سید نیاز احمد، چاند ٹی وی کے محمد جمیل، ویڈیو وژن انٹرنیشنل کے سلیم مرزا، اسلامک اسٹینڈرڈ انٹرنیشنل کے جناب آصف محمد، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر حفیظ الرحمٰن، جناب محمد انور کھوکھر، جناب محمد مہیب الیاسی، جناب جمشید علی اور محترمہ فاطمہ یوسف نے بحث میں حصہ لیا۔
ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عالمی ذرائع ابلاغ آج دنیا کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کی جو تصویر پیش کر رہے ہیں اس کے منفی نتائج سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں ہے اور اسلام کا ہم پر یہ قرض ہے کہ جدید ترین ذرائع ابلاغ کو اختیار کرتے ہوئے اسلام کی تعلیمات اور مسلمانوں کی تاریخ کو صحیح شکل میں سامنے لانے کا اہتمام کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کی جنگ اب یورپ میں لڑی جا رہی ہے اور یہ مادی نہیں بلکہ علمی و فکری جنگ ہے جس کے نتائج پوری دنیا پر پڑیں گے، اس لیے مسلم دانشوروں کو سنجیدگی کے ساتھ اس چیلنج کا سامنا کرنا چاہیے۔
اسلامک سنٹر برالٹن کے ڈائریکٹر پروفیسر عبد الجلیل ساجد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج انسانیت کو درپیش مسائل کے حوالے سے اسلام کو مثبت انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے اور اسلام کی خدمت کے جذبہ سے کام کرنے والے افراد اور اداروں کے درمیان رابطہ و مشاورت کا اہتمام بہت زیادہ ضروری ہے۔
مہمانِ خصوصی پروفیسر اکبر ایس احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لیے علماء کو آگے آنا چاہیے اور عالمی سطح پر ہونے والے بحث و مباحثہ میں انہیں ضرور شریک ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے اس نشست کے اہتمام پر انہیں بہت خوشی ہوئی اور جب بھی علماء عالمی اور اجتماعی مسائل پر بات کرتے ہیں تو انہیں بے حد مسرت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کو علم، تہذیب، آزادی اور برابری کے مذہب کے طور پر پیش کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے معاشرہ کا تنقیدی نقطہ نظر سے جائزہ لینا ہو گا اور اسلام کو پہلے اپنے معاشرہ پر نافذ کرنا ہو گا۔ آج اسلام اور پاکستان کو ایک بد اخلاق، بیمار اور بد تہذیب نظام کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو جبر و قہر کے نمائندہ کے طور پر متعارف کرایا جا رہا ہے۔ راسخ العقیدہ مسلمانوں کو بنیاد پرست اور فنڈو کہہ کر پکارا جا رہا ہے۔ اس صورت حال کا مقابلہ جذبات کے ساتھ نہیں بلکہ عقل و حکمت کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ خالی جذبات کے ساتھ ہم سفر کا کوئی مرحلہ طے نہیں کر پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہماری نئی نسل کا ایک بڑا حصہ اسلام کے ساتھ عقیدت اور وابستگی رکھتا ہے لیکن وہ اسلام کے حوالے سے آج کے مسائل کا حل چاہتا ہے اور اس سلسلہ میں کوئی معقول پیش رفت نہ دیکھ کر پریشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر یہودی، عیسائی یا ہندو اسلام کا دشمن نہیں ہے، ان میں ایسے افراد بھی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے حق میں لکھ رہے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو اسلام کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کی دعوت اور پیغام کو آج کی زبان میں جدید میڈیا کے ذریعے سے پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے حوالہ سے عالمِ اسلام کو آج جس مسئلہ کا سامنا ہے اس کا حل مسلم حکومتوں یا میڈیا والوں کے ذمہ نہیں، علماء اور دانشوروں کے ذمہ ہے اور وہی اس چیلنج کا صحیح طور پر سامنا کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے مختلف شعبوں میں مہارت رکھنے والے حضرات کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا اور ان میں باہمی رابطہ و مفاہمت کا اہتمام ضروری ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے میڈیا سے متعلق مسائل پر بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا جائے جس میں مسلم دانشوروں اور علماء کے ساتھ ساتھ غیر مسلم ماہرین کو بھی دعوت دی جائے۔ اسی طرح ضروری ہے کہ مختلف مذاہب کے دانشوروں کے درمیان مباحثہ و مذاکرہ کا اہتمام کیا جائے تاکہ اسلام کی خوبیوں اور فوائد کو تقابل کے ساتھ سامنے لایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں میں اتحاد و یک جہتی اور باہمی مفاہمت و اعتماد کی فضا کو بھی فروغ دینے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہمیں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے طرزعمل کو ترک کرنا ہو گا۔
جناب محمد انور کھوکھر، جناب محمد جمیل، جناب سلیم مرزا اور جناب آصف محمد نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے اس سلسلہ میں اب تک کی جانے والی انفرادی کوششوں کا جائزہ لیا اور اپنے تجربات کے حوالے سے سیٹلائیٹ میڈیا کے استعمال کے لیے متعدد عملی تجاویز پیش کیں۔ جبکہ محترمہ فاطمہ یوسف نے کہا کہ مغربی میڈیا خواتین کے حقوق کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو پراپیگنڈہ کر رہا ہے اس کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اس سلسلہ میں مستقل مذاکرہ کا اہتمام ہونا چاہیے۔
صدر مذاکرہ مولانا زاہد الراشدی نے اپنے اختتامی خطاب میں میڈیا کے ماہرین اور دانشوروں کے بھرپور اجتماع پر مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ اپنی اپنی جگہ اضطراب اور بے چینی کی آنچ میں جلنے والے دلوں کو ایک جگہ جمع کر کے ورلڈ اسلامک فورم نے اپنے سفر کا ایک مرحلہ طے کر لیا ہے اور اب ان دانشوروں کی تجاویز و آرا کی روشنی میں عملی کام کے لیے آگے بڑھنا آسان ہو گیا ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی مسلم میڈیا کانفرنس کے سلسلہ میں پروفیسر اکبر ایس احمد کی تجویز کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے اس کے بارے میں مثبت فیصلہ کا جلد اعلان کر دیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔



ورلڈ میڈیا میں مسلم ٹی وی چینل کا قیام

لندن میں ’’وڈیو وژن انٹرنیشنل‘‘ کے نام سے ایک نیا نشریاتی ادارہ قائم ہوا ہے جو سیٹلائیٹ ٹی وی چینل حاصل کر کے عالمِ اسلام کے بارے میں خصوصی پروگرام نشر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ وڈیو وژن انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر جنرل محمد سلیم مرزا بمبئی سے تعلق رکھتے ہیں اور سیٹلائیٹ میڈیا میں انہیں خصوصی تکنیکی مہارت اور تجربہ حاصل ہے۔ انہوں نے اپنے پروگرام کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ وڈیو وژن انٹرنیشنل ایک لمیٹڈ فرم کے طور پر لندن میں رجسٹرڈ ہو گئی ہے اور یہ ایک آزاد اور خودمختار نشریاتی ادارہ ہو گا جو اسلامی تعلیمات اور مسلم کلچر سے دنیا کو متعارف کرانے کے لیے مثبت اور معلوماتی پروگرام پیش کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ورلڈ میڈیا کے پروگراموں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو خلا اور کنفیوژن پایا جاتا ہے اسے دور کرنے کی ضرورت ہے اور وڈیو وژن انٹرنیشنل اس سلسلہ میں ورلڈ اسلامک فورم کے تعاون سے تفصیلی پروگرام مرتب کر رہا ہے جس میں دیگر تعلیمی، ثقافتی، تفریحی اور معلوماتی پروگراموں کے ساتھ ساتھ ’’ورلڈ مسلم نیوز‘‘ کے نام سے عالمِ اسلام کے حالات، سرگرمیوں اور خبروں سے دنیا کو باخبر رکھنے کا مستقل پروگرام بھی شامل ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ وڈیو وژن انٹرنیشنل اردو، عربی اور انگلش تین زبانوں میں پروگرام نشر کرے گا اور ہماری پوری کوشش ہو گی کہ ابتدائی تیاری اور گراؤنڈ ورک مکمل کر کے جلد از جلد نشریات کا آغاز کر دیا جائے۔

توہینِ رسالت کی سزا کا قانون اور مغربی لابیاں

ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے کہا ہے کہ سیکولر مغربی لابیاں پاکستان کے اسلامی تشخص کو مجروح کرنے کے لیے  مسیحی اقلیت کو ورغلا کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور یہ خود مسیحی کمیونٹی کی مذہبی تعلیمات اور مفادات کے منافی ہے۔ وہ گزشتہ روز ختم نبوت سنٹر لندن میں ’’توہینِ رسالتؐ کی سزا کے قانون‘‘ کے حوالے سے ورلڈ اسلامک فورم کی ماہانہ فکری نشست سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ گستاخِ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کا قانون، جداگانہ الیکشن اور اس نوعیت کے دیگر مذہبی قوانین دراصل مغربی سیکولر لابیوں کے اس ہدف کے خلاف ہیں جو انہوں نے پاکستان کو لا دینی ریاست بنانے کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ لیکن سیکولر حلقے اپنی بات خود کہنے کا حوصلہ نہیں رکھتے اور مسیحی اقلیت کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
  • حالانکہ گستاخِ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کا حکم صرف اسلامی شریعت کا نہیں بلکہ بائبل نے بھی توہینِ رسالتؐ کی یہی سزا بیان کی ہے۔
  • اسی طرح جداگانہ الیکشن خود مسیحی اقلیت کے سیاسی مفاد میں ہے، کیونکہ مخلوط انتخابات میں مسیحی کمیونٹی ان نشستوں کا بیس فیصد بھی حاصل نہیں کر سکتی جو اسے اس وقت پاکستان کی اسمبلیوں میں حاصل ہیں۔

اس لیے ہم نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ ان مسائل کو مسیحی مسلم تنازعہ کا رنگ نہ دیا جائے اور اس مقصد کے لیے مسیحی راہنماؤں سے مذاکرات و مفاہمت کی غرض سے متعدد بار پیشرفت کی گئی ہے مگر مسیحی راہنما مغرب کی سیکولر لابیوں کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔

منظور مسیح قتل کیس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ مغربی ذرائع ابلاغ اس سلسلہ میں یکطرفہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، جبکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ اس کیس کی ایف آئی آر میں خود مسیحی کمیونٹی نے جن افراد کو نامزد کیا تھا وہ گرفتار ہیں اور قانونی تفتیش کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ جبکہ ان کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ انہیں بلاوجہ اس کیس میں ملوث کیا گیا ہے اور ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ منظور مسیح اور اس کے دو ساتھیوں کے خلاف تھانہ کوٹ لدھا ضلع گوجرانوالہ میں درج توہینِ رسولؐ کے مقدمہ کی مسلمانوں کی طرف سے پیروی کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ منظور مسیح قتل کیس کے بارے میں پاکستان کے وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی کا موقف یہ ہے کہ یہ بھارتی انٹیلی جنس ’’را‘‘ کی کارروائی ہے۔ اور سرگودھا پولیس نے دو شیعہ علماء کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزموں کا یہ اعتراف پریس کے لیے جاری کیا ہے کہ منظور مسیح کا قتل بھی انہی کی کارروائی ہے، اس لیے ان تین متضاد موقفوں کے ہوتے ہوئے کسی کو متعین طور پر اس کا ذمہ دار قرار دینا بہت مشکل ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی نے توہینِ رسالتؐ کی سزا کے قانون پر نظرثانی کے لیے خصوصی کمیٹی قائم کی ہے جس میں اسمبلی کے ارکان میں سے علماء، مسیحی راہنما، اور وزراء شامل ہیں۔ ہم نے پیشکش کی ہے کہ توہینِ رسالت کے مقدمات اور منظور مسیح قتل کیس کی انکوائری بھی یہی کمیٹی کر لے، لیکن مسیحی راہنماؤں نے اس پیشکش کو بھی قبول نہیں کیا۔ مولانا راشدی نے کہا کہ وہ لندن میں مسیحی راہنماؤں کے ساتھ مل کر کسی بھی فورم پر مل بیٹھنے اور ان مسائل پر کھلے دل کے ساتھ گفت و شنید کے لیے تیار ہیں اور ان کی ذاتی خواہش یہ ہے کہ مسلمان اور مسیحی راہنما آپس میں الجھنے کے بجائے متحد ہو کر ان قوتوں کا سامنا کریں جو اجتماعی زندگی سے مذہب کو قطعی طور پر بے دخل کرنے اور مذہبی اقدار و روایات کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے مسلسل مصروفِ عمل ہیں۔

(بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔ جون ۱۹۹۴ء)



تعارف و تبصرہ

ادارہ

ڈاڑھی کی شرعی حیثیت

مصنف: حفظ الرحمٰن الاعظمی الندوی۔ ناشر: دارالکتاب الاسلامی، یو پی، انڈیا۔ صفحات: ۷۲ قیمت درج نہیں۔
ڈاڑھی ایک ایسا اسلامی شعار ہے جسے فرمانِ نبویؐ کے مطابق فطرتِ انسانی اور سنتِ انبیاءؑ قرار دیا گیا ہے اور اس کا منڈوانا حرام اور ہنود و مجوس کا شعار ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں اسی پر بحث کی گئی ہے اور احادیثِ صحیحہ، تعاملِ سلف صالحین، مسالک فقہاء اربعہ اور فتاوٰی علمائے اہلِ حدیث کے حوالے سے ثابت کیا گیا ہے کہ ڈاڑھی کم از کم ایک قبضہ تک مسنون ہے، کٹوا کر اس سے چھوٹی کر لینا ناجائز و مکروہ ہے۔ نیز یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ایک قبضہ سے زائد ڈاڑھی کا کاٹنا جائز اور درست ہے۔

رواداری اور دینی غیرت

مصنف: ڈاکٹر محمد صدیق شاہ بخاری۔ ناشر: عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، ننکانہ صاحب، ضلع شیخوپورہ۔ صفحات: ۸۸ قیمت درج نہیں۔
رواداری دینِ اسلام کا ایک اہم جزو ہے جس کی خصوصی تعلیم دی گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دینی غیرت و حمیت بھی ایمانی سلامتی کی بنیاد ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی جگہ حدود و قیود ہیں اور انہیں حدود میں رہ کر دونوں پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا وجودِ اطہر امتِ مسلمہ کے لیے نمونۂ کامل ہے اور اس نمونہ میں ہمیں دونوں پر عمل کے روشن ثبوت ملتے ہیں۔
غرض یہ کہ مروت و غیرت کے دو الگ الگ دائرے ہیں اور دونوں دائروں میں ہمارے لیے اسوۂ حسنہ موجود ہے۔ دونوں کو ملا دینا حماقت اور دونوں کی تفریق ختم کر دینا جہالت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے عصرِ حاضر کے صلحِ کل اور وسیع تر اتحاد کے علمبردار مذہبی و سیاسی راہنما رواداری و مروت کے نام پر غیرت و حمیت کا جس طرح جنازہ نکال رہے ہیں وہ ایک شرمناک حادثہ ہے۔
زیرتبصرہ کتاب میں اس موضوع پر بحث کی گئی ہے اور دلائل کے ساتھ مروت و غیرت کا فرق سمجھایا گیا ہے اور اس پر بے شمار قرآنی و حدیثی شواہد پیش کیے گئے ہیں۔ ان میں سے پیغمبر اسلامؐ کا یہ فرمان خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ
’’جو شخص کسی بدعتی کی عزت کرے گا تو اس نے اسلام کو ڈھانے میں مدد دی۔‘‘
مسلم راہنماؤں کی اندھی مروت اور بہری رواداری کے برعکس غیر مسلموں کے طرزعمل پر شکوہ کرتے ہوئے مصنف رقمطراز ہیں کہ
’’مشہور گلوکار کیٹ سٹیونز (Cat Stevens) نے اسلام قبول کیا تو امریکی ریڈیو اسٹیشنوں نے اس کے پروگرام بند کر دیے۔ سلمان رشدی کے خلاف انٹرنیشنل گوریلے کے نام سے پاکستان میں فلم بنی تو برطانیہ میں اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔‘‘
کاش ہمارے راہنماؤں کی آنکھیں کھل سکیں۔ مصنف نے پاکستان میں اقلیتوں کی سرگرمیوں کا اور ان کے ذرائع ابلاغ کا بھی تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ کتاب موضوع و مواد کے اعتبار سے قابل قدر اور قابل مطالعہ ہے۔

خزینۂ رحمت

مصنف: مولانا عبد اللطیف مسعود۔ ناشر: انجمن اشاعتِ اسلام، جامع مسجد خضرٰی، نزد مشن گراؤنڈ ہائی اسکول، ڈسکہ۔ صفحات: ۱۹۲ قیمت : ۳۰ روپے۔
فرمانِ نبویؐ ہے کہ ’’الدعاء مخ العبادۃ‘‘ دعا عبادت کا مغز ہے۔ دوسرے موقعہ پر فرمایا کہ ’’الدعاء ھو العبادۃ‘‘ دعا عین عبادت ہے۔ جبکہ منکرینِ حدیث نے دعا کی اہمیت و ضرورت سے انکار کیا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب میں مصنف نے دعا کی قبولیت کی شرائط، طریقِ دعا، آدابِ دعا، مقاماتِ قبولیت، فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا مانگنے کا ثبوت، اور حضور علیہ السلام کے اذکار و وظائف پر قابلِ قدر اور اچھی بحث کی ہے۔ البتہ مسئلہ توسل میں انہوں نے جمہور اہلسنت والجماعت کے خلاف موقف اختیار کیا ہے۔ وہ صرف نیک اعمال کے وسیلہ کے قائل ہیں، صالح رجال کے وسیلہ کے قائل نہیں، حالانکہ یہ جمہور کا مسلک ہے۔ اس وضاحت کے ساتھ کتاب کی باقی ابحاث قابلِ مطالعہ ہیں۔

عقیقہ اور ولیمہ اسلام کی نظر میں

مرتب: مولانا قاری محمد اجمل خان۔ ناشر: مکتبہ اشاعتِ اسلام، عبد الکریم روڈ، قلعہ گوجر سنگھ، لاہور۔ صفحات ۸۸ قیمت درج نہیں۔
عقیقہ اور ولیمہ دو اسلامی شعار ہیں جو بچہ کی ولادت اور شادی کی خوشی میں ادا کیے جاتے ہیں۔ ان دونوں شرعی رسوم میں آج کل بے شمار عوامی رسوم داخل ہو گئی ہیں۔ مولانا محمد اجمل خان کی یہ کتاب اسی موضوع پر ان کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو کچھ عرصہ قبل ماہنامہ بینات اور ماہنامہ البلاغ کراچی میں بالاقساط شائع ہو چکے ہیں۔
اس کی دو فصلیں ہیں: پہلی فصل میں عقیقہ کی وجہ تسمیہ، اس کی مشروعیت کے فلسفہ، احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں اس کی اہمیت و فوائد، اس کے شرعی طریقہ، اس کے فقہی احکام، اور اس میں شامل ہو جانے والی غلط رسومات پر بحث کی گئی ہے۔ اور دوسری فصل میں احادیث کی روشنی میں ولیمہ کی اہمیت و فلسفہ، اس کے فقہی احکام، اور اس میں شامل عوامی رسومات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب مفید اور قابلِ مطالعہ ہے۔

شاہ جیؒ کے علمی و تقریری جواہر پارے

مرتب: اعجاز احمد خان سنگھانوی۔ ناشر: کتب خانہ انور شاہ، کورنگی، ٹاؤن شپ، کراچی۔ صفحات: ۳۶۸ قیمت درج نہیں۔
عطاء اللہ شاہ بخاریؒ ایک ایسا موضوع و عنوان ہے جس کو جتنا بھی پڑھتے اور لکھتے جائیں تشنگی ختم نہیں ہوتی۔ اس موضوع پر بے شمار کتب منظر عام پر آ چکنے کے باوجود نظر و فکر کو مزید کی تلاش رہتی ہے۔ زیرتبصرہ کتاب بھی اسی موضوع پر لکھی گئی ہے جس میں امیرِ شریعتؒ کے فنِ خطابت کی تقریری جھلکیاں بھی ہیں اور فنِ ظرافت کی مجلسی بذلہ سنجیاں بھی۔ سواطع الالہام کے اوراق سے شاعرانہ کلام بھی اور پسِ دیوارِ زنداں کے حالات و واقعات بھی۔ اساتذہ و شیوخ کا ذکر بھی ہے اور ہم عصروں کا نذرانۂ عقیدت بھی۔ ان کا نسب نامہ حریت بھی ہے اور مرزا قادیانی کے نظریاتِ باطلہ کا رد بھی۔ غرض یہ کہ کتاب ہر اعتبار سے قابلِ تعریف اور قابلِ مطالعہ ہے۔

جذبِ دل

مجموعہ کلام: پروفیسر اسرار احمد سہاروی۔ ناشر: فروغِ ادب اکادمی، گوجرانوالہ۔ صفحات: ۲۲۴ قیمت: ۵۰ روپے۔
شاعری فلاح و صلاح کا ذریعہ بھی ہو سکتی ہے اور گمراہی و بے راہ روی کا باعث بھی۔ اس کے ذریعے سے قوموں کے اخلاق و کردار بگاڑے بھی جا سکتے ہیں اور سنوارے بھی۔ اس لیے شاعری برائے شاعری کوئی مقصد نہیں۔ عصرِ حاضر میں یہ فن حسن و عشق کی حدود میں بند ہو کر اپنی اہمیت و افادیت تقریباً کھو چکا ہے، تاہم اس دور میں اس فن کو فکری و روحانی اصلاح کے لیے استعمال کرنے والے شعراء کا وجود غنیمت ہے۔
پروفیسر اسرار احمد سہاروی کا زیرتبصرہ کلام بھی اس اعتبار سے قابل تعریف ہے کہ اس میں فلاح و صلاح کا پہلو نمایاں ہے۔ بعض متنازعہ شخصیات سے ان کی وابستگی و عقیدت باعثِ اختلاف ہونے کے باوجود ان کا طرز و ذوقِ شاعری بہرحال قابلِ تحسین ہے۔ ان کے حمدیہ کلام میں ان کے یہ اشعار پورے کلام کی جان ہیں:
؎
عالم پہ ہیں محیط ان کی نوازشیں
ہر ابتدائے درد کی وہ انتہا بھی ہیں
؎ 
خیرہ چشمی نے ہمیں کر دیا رسوا اسرار
حق ادا ہو نہ سکا ہم سے جبیں سائی کا
؎
یہ جان لو کہ تمہاری تلاش ہے ان کو
اسی وجہ سے وہ رہتے ہیں شاہ رگ کے قریں
نعتیہ کلام میں درج ذیل اشعار ان کے عشقِ رسولؐ کی مکمل عکاسی کرتے ہیں:
میں رہا گم کردہ راہ حقیقت مدتوں
خوبی قسمت سے ان کے آستاں تک آ گیا
؎
منزل شناس ہو نہیں سکتا سفیر شوق
جب تک تمہارا نقش قدم رہنما نہ ہو
؎
جستجو میں کہیں منزل کا تصور بھی نہ تھا
راہ بنتی گئی دیوانے جہاں سے گزرے
امتِ مسلمہ کی بے حسی پر شاعر کا شکائتی کلام ان کے درد و الم کی غمازی کرتا ہے:
آنکھیں کھلیں تو ہم کو بھی حاصل ہو کچھ نمود
کیا پائیں گے رہے جو یونہی محو خواب میں
دخترِ مشرق کی اخلاقی پستی پر شاعر کا ناصحانہ کلام ان کے دینی و اخلاقی ذوق کی نشاندہی کرتا ہے:
تو امانت دار زہرہ ہے تجھ کو جائز نہیں ہے عریانی
شوق میں اپنی خودنمائی کی، قدر و قیمت نہ اپنی پہچانی

نقوشِ ایثار

مولف: ثناء اللہ ساجد شجاع آبادی۔ ناشر: گوشہ علم و ادب، شجاع آباد۔ صفحات: ۳۵۲ قیمت ۱۰۰ روپے۔
زیر تبصرہ کتاب میں مولانا ایثار القاسمی شہید کی تقریباً ستائیس سالہ زندگی کے نشیب و فراز اور حالات و واقعات پر بحث کی گئی ہے کہ سمندری کے علاقہ میں جنم لینے والے اس نوجوان شہید نے ٹاؤن شپ لاہور سے خطابت کا آغاز کیا، اوکاڑہ میں رفض و بدعت کے ایوانوں پر لرزہ طاری کیا، سپاہ صحابہؓ سے وابستگی اختیار کر کے گڑھ مہاراجہ کی خواب غفلت میں مبتلا روحوں کو بیدار کیا، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، جھنگوی شہیدؒ کی شہادت کے بعد جھنگ کے مضطرب اور بے چین سنی کو سہارا دیا، ۱۹۹۰ کے انتخابات میں ایم این اے اور ایم پی اے منتخب ہوا، اور چند ماہ بعد ایم پی اے کی نشست سے دستبرداری کے بعد ضمنی انتخاب کے دوران شہید کر دیا گیا۔ مختصر زندگی میں شہرت کی بے شمار منزلیں طے کرنے والے عزم و استقلال کے اس پیکر مجسم کے حالات زندگی پر دلچسپ اور عمدہ کتاب ہے جس میں ان کی تقاریر کے اقتباسات، ان کے انٹرویوز، بحیثیت ایم این اے ان کی فلاحی خدمات، قومی اسمبلی سے خطاب کا متن، غیر ملکی دوروں کی رپورٹ، اخبارات و جرائد کے تبصرے اور شعراء کرام کا منظوم خراج عقیدت و تحسین سب کچھ شامل ہے۔ نیز پاکستان کے چند بد طینت اہلِ تشیع کی کفریہ عبارات بھی نقل کی گئی ہیں، کتاب ہر لحاظ سے قابلِ مطالعہ ہے۔

اگست ۱۹۹۴ء

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہےمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اقبالؒ اور تصوفمولانا محمد عیسٰی منصوری
حضرت مولانا مرغوب الرحمٰن (مہتمم دارالعلوم دیوبند) کا مولانا محمد عیسٰی منصوری کے نام گرامی نامہادارہ
بائبل اور گستاخِ رسول کی سزامحمد اسلم رانا
گستاخِ رسولؐ کی سزا کا قانونمحمد اسلم رانا
بیت النصر اربن کوآپریٹو کریڈٹ سوسائٹی لمیٹڈ بمبئیادارہ
دنیا کے غیر سودی اسلامی مالیاتی ادارےادارہ
اسلامک ہوم اسٹڈی کورس کا پروگرامادارہ
اسلامک دعوہ اکیڈمی لیسٹر (برطانیہ)ادارہ
کمیونزم کیلئے مذہب کی تلاشادارہ

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گستاخ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کا قانون جو مختلف مراحل سے گزرتا ہوا دو سال قبل تکمیل کی منزل تک پہنچا ہے، مغرب کی سیکولر لابیوں کو مسلسل کھٹک رہا ہے اور یہ لابیاں اور پاکستان میں ان کے حواری پینترے بدل بدل کر اس قانون پر حملہ آور ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مغرب نے تو مذہب، آسمانی ہدایات، اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں اور برگزیدہ دینی شخصیات کی عقیدت و احترام کے دائرے ایک عرصہ سے توڑ تاڑ کر ایک طرف رکھ دیے ہیں اور اب مغربی معاشرہ کی کیفیت یہ ہے کہ روزنامہ جنگ لندن ۳۰ مارچ ۱۹۹۴ء میں شائع شدہ ایک خبر کے مطابق

’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت مریم علیہا السلام، حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کو پچیس مرتبہ گالی دینے والا گانا دکانوں میں فروخت ہونا شروع ہوگیا ہے (معاذ اللہ)۔ ’’سومائی سول کین سنگ‘‘ نام کا یہ گانا جیکی لیون نے گایا ہے اور ایسے وقت میں فروخت کے لیے پیش کیا ہے جب عیسائی متبرک ہفتہ (ایسٹر) منا رہے ہیں۔ یہ گانا عیسائیوں کے لیے مذہبی توہین ہے لیکن اس کے خلاف ابھی تک کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔‘‘

خبر میں قانونی کارروائی نہ ہونے کا رونا رویا گیا ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ رائے عامہ کے کسی حلقہ حتیٰ کہ مذہبی راہنماؤں کی طرف سے بھی کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ مغربی دانشور دنیا کے دوسرے مذاہب کے پیروکاروں بالخصوص مسلمانوں کو بھی اسی معیار پر لانا چاہتے ہیں اور ان کی اس مہم کو مغربی ممالک کی حکومتوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ سلمان رشدی کی حوصلہ افزائی بلکہ تحفظ، بنگلہ دیش کی تسلیمہ نسرین کے حق میں مغربی ملکوں کی بے چینی، اور پاکستان میں چند گستاخان رسولؐ کے خلاف مقدمات پر ان حلقوں کا اضطراب ایک ہی پالیسی و طرز عمل کے مختلف مظاہر ہیں جو عالم اسلام کے بارے میں مغرب کے عزائم اور رجحانات کی عکاسی کرتے ہیں۔

مغرب کے سیکولر دانشور کو دراصل یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ ’’فری سوسائٹی‘‘ کے تصور پر مبنی ویسٹرن سولائزیشن اپنی طبعی عمر پوری کر چکی ہے اور اس کا دم واپسی قریب تر ہے جس کا اندازہ روسی مدبر میخائل گورباچوف کی طرف سے عورت کو دفتر اور فیکٹری سے گھر واپس لے جانے کی حسرت کے اظہار، اور برطانوی وزیر اعظم جان میجر کی طرف سے بنیادوں کی طرف واپسی (Back to bases) کی حالیہ مہم سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ سیکولرازم کی شکست و ریخت کے اس فطری عمل کو روکنا مغربی دانشور کے بس میں نہیں ہے مگر وہ عالم اسلام میں دینی بیداری کی تحریکات اور مذہبی رجحانات میں اضافہ کے آگے بند باندھنے کی ناکام کوشش کر کے اپنے لیے ذہنی تسکین کا سامان فراہم کر رہا ہے اور اس فکری جنگ کا دائرہ دن بدن وسیع کرتا جا رہا ہے۔

اس فکری و نظریاتی جنگ کے نتیجہ کے بارے میں ہمیں کوئی شبہ نہیں ہے، وہ تو تاریخ کا عمل ہے جسے روکنا کسی کے بس میں نہیں ہے، اور اس جنگ میں ویسٹرن سولائزیشن کی شکست فاش اور اسلامی نظام حیات کی کامیابی کا ہمیں اسی طرح یقین ہے جیسے آنے والے کل کو سورج کے طلوع ہونے کا یقین ہے۔ اس لیے ہمیں مغربی دانشوروں، حکومتوں اور لابیوں سے کوئی شکایت نہیں ہے کہ وہ تو دشمن ہیں اور ہم دشمن کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں کہ وہ آخر دم تک جس طرح چاہے پینترے بدلے، جو ہتھیار اس کے بس میں ہو استعمال کرے، اور جس دفاعی لائن پر چاہے مورچہ بند ہو۔ مگر مغرب کے ان حواریوں اور کاسہ لیسوں کی حالت زار پر ضرور ترس آتا ہے جو دنیا کے اکثر مسلم ممالک میں اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہیں اور مغربی آقاؤں کی ہدایات اور اپنے ممالک کے عوام کے دینی رجحانات کے درمیان سینڈوچ بنے ہوئے ہیں۔ ان غریبوں کا حال یہ ہے کہ مغربی ملکوں اور لابیوں کا دباؤ بڑھتا ہے تو انہیں نام نہاد انسانی حقوق، ویسٹرن سولائزیشن اور مغربی مفادات کا راگ الاپنا پڑتا ہے، لیکن جب ان کے ملکوں کے عوام سڑکوں پر آتے ہیں اور ان کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہیں تو وہ اسلام کے ساتھ وابستگی اور اسلامی احکام پر یقین کا ورد کرنے لگ جاتے ہیں۔

پاکستان میں گستاخ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کے قانون کے حوالہ سے اب تک جو کچھ ہوا ہے وہ بھی اسی طرح کی افسوسناک داستان ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے واضح حکم کے بعد گزشتہ حکومت کو بادل نخواستہ اسمبلی میں یہ قانون پاس کرنا پڑا تو اس وقت کے حکمرانوں کا حال دیدنی تھا جبکہ اپوزیشن لیڈر (موجودہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو) نے تو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ یہ قانون انسانی حقوق کے منافی ہے۔ پھر ملک کی مسیحی اقلیت کو اکسا کر اس قانون کے خلاف صف بندی کی گئی تو موجودہ اور سابق حکمرانوں نے پوری طرح اس مہم کی سرپرستی کی اور دونوں کے کیمپوں میں بیٹھے ہوئے مسیحی لیڈر اس قانون کے خلاف مسلسل متحرک رہے۔ حتیٰ کہ موجودہ حکمرانوں کے بارے میں تو مسیحی راہنماؤں کا دعوٰی ہے کہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران توہین رسالت کی سزا کا قانون اور جداگانہ الیکشن ختم کرنے کا واضح وعدہ کیا تھا۔ پھر حکومت سنبھالنے کے بعد مسلسل یہ عندیہ دیا جاتا رہا کہ اس قانون میں ترمیم کی جائے گی اور سزائے موت ختم کر کے دس سالہ قید کی سابقہ سزا بحال کی جائے گی، یہ بات متعدد بار قومی پریس کے ریکارڈ پر آچکی ہے۔ لیکن اب جب ملک کے عوام اس کے خلاف سڑکوں پر آئے ہیں تو حکمرانوں نے زبان بدل لی ہے اور وفاقی وزیراطلاعات تو یہاں تک فرما رہے ہیں کہ اگر پھانسی سے بڑی کوئی سزا ہو تو ہم گستاخ رسولؐ کو وہ سزا دینے کے لیے بھی تیار ہیں، جبکہ صدر محترم کا ارشاد ہے کہ اس قانون میں ترمیم کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

ہمارے ہاں حکمرانوں کی یہ قلابازیاں کوئی نئی بات نہیں ہے، اس کا مظاہرہ اس سے قبل بھی کئی مواقع پر ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پالیسیوں کی بنیاد لوگوں کے خوف پر ہے، باہر کے لوگوں کا خوف بڑھ جائے تو رخ ادھر ہو جاتا ہے اور اندر کے لوگوں کا خوف پریشان کرنے لگے تو پالیسیوں کا توازن اس طرف جھکنے لگتا ہے۔ قومی پالیسیوں کے لیے یہ کوئی اچھی بنیاد نہیں ہے۔ ہم حکمرانوں سے گزارش کریں گے کہ وہ لوگوں کی بجائے خدا کے خوف کو اپنی پالیسیوں کی بنیاد بنائیں اور پھر اس کی برکات دیکھیں۔ خدا کا خوف انہیں دنیا کے ہر خوف سے نجات دلائے گا اور ان میں وہ قوت اور حوصلہ پیدا کرے گا جس پر کسی قوت کا دباؤ اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ ایک بار خدا کے سامنے جھک کر اور اس کے خوف پر پالیسیوں کی عمارت استوار کر کے تو دیکھیں دنیا کی قوتوں کے خوف اور دباؤ کا طلسم کس طرح ٹوٹ کر بکھرتا ہے ؎

وہ   ایک سجدہ   جسے   تو    گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

اقبالؒ اور تصوف

مولانا محمد عیسٰی منصوری

(مجلسِ اقبالؒ لندن کے صدر جناب محمد شریف بقا کی تصنیف ’’اقبال اور تصوف‘‘ کی رونمائی کی تقریب سے ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری کا خطاب۔)

صدر محترم، مہمانانِ خصوصی اور حاضرینِ مجلس!
آج کی یہ مجلس ہمارے محترم بزرگ اور دوست، اور مجلسِ اقبال لندن کے صدر جناب محمد شریف بقا صاحب کی مایہ ناز تصنیف ’’اقبال اور تصوف‘‘ کی رونمائی کے ضمن میں منعقد ہو رہی ہے۔ میں نے اخبار جنگ کی وساطت سے جناب بقا صاحب کے گرانقدر مضامین سے ہمیشہ استفادہ کیا ہے اور تقریباً ۱۵ سال سے بقا صاحب سے شناسائی و تعارف کا شرف بھی حاصل ہے۔ گزشتہ دنوں معلوم ہوا کہ اقبال اور تصوف کے موضوع پر آپ کی تازہ کتاب آئی ہے۔ میں کتاب حاصل کرنے کی فکر میں تھا کہ محترم بقا صاحب نے کرم فرمائی کی اور غریب خانہ پر تشریف لا کر کتاب عنایت فرمائی، ساتھ ہی آج کی مجلس میں خطاب کی دعوت بھی دی۔
کتاب کیا ہے، علوم و معارف کا گنجینہ ہے۔ اقبال کے کلام پر بقا صاحب کی جتنی گہری نظر ہے، اتنی ہی تصوف، علمِ کلام اور حضرات صوفیاء کرام کے احوال پر بھی نظر آئی۔ یہ چیز میرے لیے خوشگوار حیرت کا باعث تھی۔ کتاب میں انداز تحریر سلیس، عام فہم اور سادہ ہے۔ وحدۃ الوجود، مسئلہ جبر و قدر اور خودی جیسے معرکۃ الارا اور خالص علمی و فلسفیانہ مسائل کو اتنی سادہ زبان میں حل کیا ہے کہ اسے سہل ممتنع کہا جا سکتا ہے۔ نیز حضرات صوفیاء کرام کے احوال، ان کے افکار و معارف بڑے توازن و اعتدال اور جامعیت کے ساتھ کتاب میں آئے ہیں۔ میں اس بات کی شہادت دوں گا کہ اولیاء کرام کی خصوصیات، ان کے علوم و افکار اور امتیازات کو سمجھنے میں محترم بقا صاحب آج کے بیشتر علماء کرام سے زیادہ کامیاب رہے ہیں۔ نیز اقبال کے اشعار، مضامین و نثری تحریروں کے انتخاب میں مصنف نے بڑی خوش ذوقی کا ثبوت دیا ہے۔ فاضل مصنف نے جس حسنِ نزاکت اور دیدہ دری کے ساتھ اقبال کے کلام کی تشریح و ترجمانی کی ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ یہ کتاب نہ صرف تصوف پر اقبال کا نکتہ نظر سمجھنے کے لیے کافی ہے بلکہ اقبال کے پیغام کی مقصدیت و افکار و تصورات کو سمجھنے اور ساتھ ہی نفسِ تصوف اور حضرات صوفیاء کے احوال اور علوم و افکار کو سمجھنے کے لیے بھی بیش قیمت وسیلہ ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ میں اپنی زندگی میں جن کتب سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوا ہوں ان میں بقا صاحب کی یہ شاہکار تصنیف ’’اقبال اور تصوف‘‘ بھی شامل ہے۔ کتاب کے لفظ لفظ سے مصنف کی محنت اور قابلیت چھلکتی ہے۔ کتاب حشو و زوائد سے بالکل مبرا ہے۔ میں اتنی جامع، معلومات افزا اور بصیرت افروز کتاب لکھنے پر مصنف کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ساتھ ہی ان کے پبلشرز نے کتاب کو طباعت، جلد و سرورق کے لحاظ سے جتنے حسین و خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے اس کے لیے میر شکیل الرحمٰن صاحب اور ادارہ جنگ بھی بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اس کتاب کے ذریعے پہلی بار تصوف کے موضوع پر اقبال کے افکار و خیالات کا اتنا عظیم اور وقیع ذخیرہ سامنے آیا ہے۔ یہ واقعہ بھی ہے اور حادثہ بھی کہ تاریخ کی اکثر عظیم شخصیات مظلوم ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں اس ضمن میں جہاں اور بہت سے نام آتے ہیں اس میں علامہ اقبال بھی اس المیہ کا شکار ہیں۔ پاکستان میں اقبال پرستی کی ایک خاص فضا تیار کر کے اقبال فروشی کے کاروبار چمکائے گئے ہیں۔ اقبال کے افکار و آثار مسخ و مجروح شکل میں اس دھڑلے اور اس تکرار سے عام کیے گئے ہیں کہ حقیقی اقبال کی دریافت کارِ دشوار ہو گئی ہے۔ مرحوم آغا شورش کاشمیری نے کیا پتہ کی بات کہی ہے:
’’اقبال وہ شبلی نعمانی ہے جسے کوئی سلیمان ندوی نہ مل سکا۔‘‘
علامہ اقبال نے حافظ کی شاعری کے چند پہلوؤں پر تنقید کی تھی۔ اس کا سہارا لے کر علامہ کے نظریہ تصوف کے بارے میں شد و مد سے غلط فہمیاں پھیلائی گئیں اور انہیں تصوف کا مخالف مشہور کیا گیا۔ اس کتاب میں بقا صاحب نے وضاحت سے بتایا ہے کہ اقبال کس تصوف کے مخالف تھے اور کس تصوف کے موافق۔ بدقسمتی سے آج اقبال کا جانشین وہ طبقہ بن بیٹھا ہے جسے اقبال کے سوز و گداز، عشقِ نبویؐ اور اسلام کی انانیت و ابدیت پر یقین سے کوئی نسبت نہیں۔ جس کے نزدیک مغرب کی نقالی ہی ترقی کی معراج ہے۔ جو تصوف تو کیا اسلام اور اسلامی اقدار و روایات ہی سے باغی ہے۔ اس کے نزدیک اقبال کے کلام کا بہت بڑا حصہ منسوخ ہو چکا ہے جو تجدد پسندی اور مغربیت نوازی کے خلاف ہے۔ اسے صرف وہ چند اشعار یاد ہیں جو اقبال نے علماء سو یا جاہل صوفیا کے متعلق کہے ہیں۔ اس قسم کے چند اشعار کے حوالہ سے حضرات صوفیا اور تصوف کے خلاف اس قدر پروپیگنڈہ کیا گیا ہے کہ محترم بقا صاحب کی اس کتاب کو پڑھنے سے پہلے میں خود اقبال کو نفسِ تصوف کے معاند گروہ میں سمجھتا تھا۔ ’’اقبال اور تصوف‘‘ پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ تصوف کے متعلق اقبال کا نکتہ نظر بلا کم و کاست وہی ہے جو ہر دور میں علماء محققین اور اسلام کی نابغہ اور جلیل القدر ہستیوں کا رہا ہے، اور اس میں انتہائی توازن و اعتدال ہے۔
اقبال کے افکار کا جائزہ لینے سے پہلے آئیے نفسِ تصوف پر ایک نظر ڈالیں۔ آج کے دور میں اسلام میں تصوف سے زیادہ شاید ہی کوئی مسئلہ متنازعہ فیہ ہو۔
  • ایک طبقہ تصوف پر، اس کی تمام جزئیات کے ساتھ بلکہ ہر ہر دور میں وسائل و ذرائع کے طور پر جو جو طریقے اختیار کیے گئے ہیں، جن میں بڑی حد تک ان ممالک کے معاشرہ و ماحول، اس قدر کے مزاج و نفسیات اور تہذیب و تمدن کا دخل ہے، من و عن ایمان لانا ضروری سمجھتا ہے۔
  • جبکہ دوسرا طبقہ نفسِ تصوف ہی کو اسلام کے خلاف سازش اور اسلام میں عجمی یا غیر اسلامی پیوند قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک تصوف بدعت بلکہ دین کی تحریف و تنسیخ ہے جس کے لیے اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔

آئیے ہم قرآن و سنت، رسول اللہؐ کی سیرتِ طیبہ اور تاریخ کی روشنی میں اس مسئلہ کا جائزہ لیں:

جب ہم قرآن و سنت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ، آپ کے اقوال اور احوال پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دین کے دو پہلو ہیں:
  • ایک ظاہری احکام، نماز روزہ، ذکر و تلاوت، صدقہ و خیرات۔
  • اور دوسرے باطنی کیفیات، اخلاص و احتساب، خشوع و خضوع، صبر و توکل، تسلیم و رضا۔
پہلے کو فقہ ظاہر کہا جا سکتا ہے اور دوسرے کو فقہ باطن قرار دیا جا سکتا ہے۔ قرآن و سنت نے ہمیں مکمل طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی دعوت دی ہے۔ اس میں جہاں ظاہری احکام و اعمال داخل ہیں وہیں باطنی کیفیات، کمالِ ایمان، درجۂ احسان، تسلیم و رضا بھی داخل ہیں۔ اگر ان باطنی کیفیات کو ہم احسان و تزکیہ کے نام سے یاد کرتے یا اسے فقہ باطن کہتے ہیں تو اس شدید اختلاف کی نوبت نہ آتی۔ دورِ نبوت میں ہر مسلمان دین کے ظاہری و باطنی دونوں پہلوؤں پر مکمل طور پر عامل تھا۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، ذکر و تلاوت کے ساتھ ساتھ خشوع و خضوع، اخلاص و احسان اور رسولؐ کی محبت، آخرت کا شوق، استحضار، اخلاص و استقامت کا حصول، ساتھ ہی ریا، طمع، حبِ جاہ، دنیا کی محبت و حسد، تکبر و غرور جیسے رذائل و امراضِ باطنی کا علاج بھی ضروری سمجھتا تھا۔
اس باطنی پہلو کے حصول کے طرق و ذرائع کا نام بعد کی صدیوں میں تصوف پڑ گیا۔ چونکہ لفظ تصوف اور اس کی اصطلاحات و تعبیرات، اور اسی طرح وہ طرق و ذرائع جو تزکیہ باطن یا احسانی کیفیت کے حصول کے لیے بعد کے ادوار میں اختیار کیے گئے، کم از کم شروع کی ڈیڑھ صدی میں نہیں ملتے۔ اس لیے بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ کوئی غیر اسلامی چیز اسلام میں داخل ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ دوسری چیز جس نے تصوف سے بدظن کیا وہ ہر دور میں بعض پیشہ ور صوفیا کا وجود ہے۔ چنانچہ مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی اپنی کتاب ’’تزکیہ و احسان‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’دوسری چیز جس نے اس حقیقت کو زیادہ غبار آلود کر دیا وہ پیشہ ور، جاہ طلب، حقیقت فروش، اور الحاد شعار فاسد العقیدہ نام نہاد صوفی ہیں جنہوں نے دین میں تحریف کرنے، مسلمانوں کو گمراہ کر کے معاشرہ میں انتشار پیدا کرنے، آزادی و بے قیدی کی تبلیغ کرنے کے لیے تصوف کو آلہ کار بنایا۔ اور اس (تصوف) کے محافظ و علمبردار بن کر لوگوں کے سامنے آئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اہلِ غیرت اور اہلِ حمیت مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان سے بدظن ہو گئی۔ کچھ غیر محقق صوفیا ایسے تھے جو اس شعبہ کی روح اور اس کے حقیقی مقاصد سے ناآشنا تھے۔ وہ مقاصد اور وسیلہ میں تمیز نہ کر سکے۔ بعض اوقات انہوں نے وسائل پر تو بہت اصرار کیا اور مقاصد کو نظرانداز کر دیا۔ اس شعبہ اور اس فن میں ایسی چیزیں داخل کیں جس کا اس سے کوئی تعلق نہ تھا اور اس کو فن کی روح اور تن کا کمال قرار دیا بلکہ مقصود و مطلوب سمجھ بیٹھے۔‘‘ (ص ۱۸)
غرض ایسے صوفیا کی وجہ سے مخلصین اور باغیرت مسلمانوں کے ایک طبقہ میں نفسِ تصوف ہی سے دوری اور بُعد پیدا ہوا۔ اور انہیں اس بات کا اندیشہ ہونے لگا کہ تصوف کے نام پر جو عجمی افکار و تصورات دین میں داخل کیے جا رہے ہیں اگر انہیں رد نہیں کیا گیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اسلام کی صحیح صورت ہی مسخ ہو جائے۔ اس لیے انہوں نے دین کی تحریف و تبدیلی کے اندیشہ سے نفسِ تصوف ہی سے انکار کر دیا۔ بندہ کے نزدیک تصوف سے تنفر اور دوری کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بعد کے ادوار میں ان علماء نے، جن پر تصور کا گہرا رنگ چڑھا ہوا تھا، اپنی نیک نفسی اور حسنِ عقیدت کی بنا پر بعض اکابر صوفیا کے صراحتاً غیر اسلامی افکار و خیالات اور بدیہی طور پر غلط بلکہ خلافِ اسلام باتوں کو، جو ان حضرات سے اکثر حالتِ سکر و حالتِ جذب میں صادر ہوتی رہی ہیں، دور اَز کار تاویلات کے ذریعہ شریعت کے مطابق ثابت کرنا چاہتا۔ جیسے محی الدین ابن عربی، منصور حلاج اور مہدوی فرقہ کے بانی شیخ محمد جونپوری کے افکار و دعووں کو صراحتاً خلافِ شرع کہنے کے بجائے ان بزرگوں کے علم و فضل، زہد و تقوٰی اور بعض ظاہری و باطنی کمالات کی وجہ سے ان کی غلط سے غلط باتوں اور دعووں کو کھینچ تان کر شریعت کے موافق ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعض علماء کا یہ طرز عمل خاص طور پر ہمارے اس دور میں تصوف کے لیے بہت بڑا حجاب بن گیا اور بعض حلقوں نے چند ایسی باتوں کو نہایت ہوشیاری سے نفسِ تصوف کے خلاف اور تصوف سے بدظن اور متنفر کرنے کے لیے بڑی بے رحمی سے استعمال کیا۔
جہاں یہ ایک ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے کہ دورِ صحابہؓ کے بعد اسلام کی اشاعت میں سب سے نمایاں کردار حضراتِ صوفیا کا رہا ہے، دنیا کے بیشتر ملکوں میں اسلام انہی پاک نفس اہل اللہ کے ذریعہ پھیلا ہے، وہیں دوسری جانب آج آپ کسی بزرگ کے مزار پر چلے جائیں تو وہاں جو کچھ ہوتا ہے، اس کی ایک جھلک دیکھ کر آپ کہہ اٹھیں گے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ مشہور عالم ربانی، تصوف کے امام اور اپنے وقت کے بہت بڑے محقق مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے اپنے آخری دور میں اعتراف کیا تھا کہ تصوف سے فائدہ بھی ہوا ہے اور نقصان بھی بے حد و حساب ہوا ہے۔ چنانچہ حضرت مولانا منظور احمد نعمانی مدظلہ لکھتے ہیں:
’’تصوف کی تاریخ پر جن حضرات کی نظر ہے ان سے یہ بات مخفی نہیں ہو گی کہ مختلف زمانوں میں اس راہ سے کیسی کیسی گمراہیاں امت میں داخل ہوئی ہیں، اور آج بھی اپنے کو تصوف و صوفیا کی طرف منسوب کرنے والے حلقوں میں کتنی بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کے تصورات اور اعمال اسلام و توحید کی بہ نسبت کفر و شرک سے زیادہ قریب ہیں۔ اللہ نے جنہیں واقفیت اور بصیرت دی ہے، وہ جانتے ہیں کہ خانقاہی حلقوں میں اس قسم کی گمراہیاں زیادہ تر بزرگوں کے ساتھ عقیدت اور خوش اعتقادی میں غلو اور تعظیم میں افراط سے پیدا ہوئی ہیں۔‘‘ (تصوف کیا ہے؟ ص ۴۴)
یہی وجہ ہے کہ ہر دور کے علماء محققین نے تصوف میں غیر اسلامی افکار و خیالات اور باطل نظریات و فلسفوں کو رد کیا ہے اور احسان و تصوف کو صاف و شفاف طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ مولانا ندوی لکھتے ہیں:
’’اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ہر دور اور ہر ملک میں ایسے لوگ پیدا کر دیے جو دین کو مبالغہ کرنے والوں کی تحریف، باطل پرستوں کی غلط بیانیوں اور جاہلوں کی تاویلات سے پاک و صاف اور عجمیت و فلسفہ سے محفوظ کرتے رہے، بغیر کسی تاویل و تحریف کے خالص تزکیہ کی دعوت دیتے رہے، جس کا نام احسان اور فقہ باطن ہے۔ انہوں نے اس طبِ نبوی کی ہر زمانہ میں تجدید کا فرض انجام دیا۔‘‘ (ص ۱۸)
یقیناً آج بھی اس ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہر دور کی طرح آج بھی غیر اسلامی چیزیں تصوف کا جزو بنتی جا رہی ہیں۔
اب آئیے اسلام میں لفظ تصوف اور اس کی تعبیرات کی درآمد کا سراغ لگائیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ لفظ تصوف اور اس کی بعض تعبیرات یونانی اشراقیت سے آئی ہیں، چنانچہ مشہور حکیم ابو ریحان بیرونی لکھتا ہے:
’’صوف یونانی میں حکمت کو کہتے ہیں میں حکمت کو کہتے ہیں اور اسی سے فیلسفوف کو یونانی میں ’’پیلا سوپا‘‘ کہتے ہیں یعنی حکمت کا عاشق۔ چونکہ اسلام میں بعض لوگ ان کے قریب گئے اس لیے وہ بھی اسی نام (صوفیہ) سے پکارے گئے۔‘‘ (تصوف کیا ہے؟ ۔ ص ۹۴)
لفظ تصوف پر بحث کرتے ہوئے مولانا ندوی لکھتے ہیں:
’’سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوا کہ اس لفظ کی حقیقت و مراد بتائیے؟ اس کا ماخذ  و منبع کیا ہے؟ آیا وہ صوف سے ماخوذ ہے یا صفا سے نکلا ہے یا صفہ سے؟ یا وہ ایک یونانی لفظ صوفیا سے لیا گیا ہے جس کے معنی حکمت بتائے جاتے ہیں؟ آخر یہ لفظ کہاں سے برآمد کیا گیا اور کس طرح اس کا رواج ہوا؟ جبکہ نہ قرآن و حدیث میں اس کا وجود ملتا ہے، نہ صحابہ کرامؓ و تابعینؒ کے اقوال میں، نہ خیر القرون میں اس کا سراغ ملتا ہے۔ اور یہ ایسی چیز جس کا یہ حال اور جس کی یہ تاریخ ہو، بدعت کہلانے کی مستحق ہے۔‘‘ (تزکیہ و احسان ۔ ص ۱۴)
درحقیقت تصوف اسلام کے مدمقابل اور شریعت کے مخالف اسی وقت بنتا ہے جب بے جا طور پر تصوف کے نام پر یونانی فلسفہ یا افلاطونی افکار یا اشراقیت کو رائج کیا جائے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بعد کے ادوار میں تصوف میں ان چیزوں کی آمیزش ہوئی ہے۔ بہت سے صوفیا یونان و اسکندریہ کے فلسفوں میں منہمک رہے ہیں۔ بعد کے دور میں ان حضرات کے فلسفیانہ افکار و خیالات کو بھی حسنِ عقیدت کی بنا پر دین یا تصوف سمجھ لیا گیا۔ چنانچہ علامہ سید سلمان ندویؒ لکھتے ہیں:
’’فلسفیانہ تصوف سے مقصود الٰہیات سے متعلق حکیمانہ خیالات رکھنا اور فلاسفہ کی طرح خشک زندگی اختیار کر کے ان کی اخلاقی تعلیمات پر عمل کرنا ہے۔ اس فلسفیانہ تصوف کا ماخذ یونان کا اشراقی اور اسکندریہ کا افلاطونی اسکول ہونا بعض قدیم علماء کے نزدیک بھی مسلم ہے۔‘‘ (تصوف کیا ہے؟ ص ۹۶)
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اپنے رسالہ علم الظاہر والباطن میں باطنیہ و قرامطہ کی تلسیات کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اور اس قسم کی بہت سی باتیں متکلمین صوفیا کے کلام میں راہ پا گئیں۔‘‘
’’صوفیا میں بعض متکلمین کے طریق پر ہیں اور بعض فلاسفہ کے طریق پر اور ایک جماعت وہ ہے جو اہل حق کے مسلک پر ہے۔ جیسے فضیل اور وہ تمام لوگ جن کا امام قشیری نے رسالہ میں تذکرہ کیا ہے۔‘‘ (جلاء العینین ص ۳۵ ۔ تصوف کیا ہے؟ ص ۹۹)
معلوم ہوتا ہے کہ دوسری صدی ہجری کے اواخر سے ہی صوفیا کا ایک گروہ فلسفیانہ و کلامی مسائل کی بھول بھلیاں میں الجھ گیا تھا۔ ان میں سے بعض تو ایسے تھے جو انہیں باطل نظریات کے ہو کر رہ گئے تھے، جیسے کہ شیخ ابن سینا کے متصوفانہ فلسفہ کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اسے یونانی فلسفہ، بدعتی جہمیہ کے خیالات، اور اسماعیلی (آغا خانی) قرامطہ باطنیہ کے ملحدانہ خیالات کا ملغوبہ قرار دیا ہے۔
بعض اکابر صوفیا کے فلسفیانہ مباحث میں مشغول رہنے کی سب سے واضح اور بدیہی مثال وحدۃ الوجود کا مسئلہ ہے جو اصلاً فلسفہ کا مسئلہ تھا مگر صدیوں تک اسے مذہبی رنگ دے کر بال کی کھال اتاری گئی۔ خیال آتا ہے کہ وحدۃ الوجود جیسے فلسفیانہ مسئلہ پر صدیوں تک ہمارے صوفیا کرام الجھے رہے اور ہمارے بہترین دماغ اس کی گتھیاں سلجھانے میں منہمک رہے۔ آج کے دور اور موجودہ حالات کے پس منظر میں یہ چیز ہماری سمجھ سے بالاتر نظر آتی ہے مگر ہمیں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ حضرات صوفیا کے وحدۃ الوجود جیسے فلسفیانہ مسائل میں اشتعال پر اعتراض کی بڑی وجہ اس دور کا پس منظر سامنے نہ ہونا ہے۔
دوسری صدی ہجری کے اواخر میں جب اسلام عرب سے نکل کر دور دراز علاقوں تک پھیلا، اس دور میں یونان، ہندوستان، ایران وغیرہ میں دیدانت فلسفہ و حکمت کا بڑا زور تھا۔ اس دور کا تعلیم یافتہ اور دانشور طبقہ انہی اصطلاحات و تعبیرات میں بات کہنے اور سمجھنے کا عادی تھا۔ اسے اس دور کی زبان یا اس دور کا میڈیا کہا جا سکتا ہے۔ اب اہل اسلام کے ایک طبقہ نے اپنی بات سمجھانے کے لیے وہ زبان و اصطلاحات و تعبیرات استعمال کیں جو اس دور کی ضروریات اور اس دور کی زبان تھی۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ کوئی کامیاب ہوا، کوئی پوری طرح کامیاب نہ ہو سکا۔ کسی نے کسی حد تک مسئلہ کو سلجھایا اور کسی نے مسئلہ سلجھانے کی کوشش میں اسے اور الجھا دیا۔ محققین نے ہمیشہ صوفیا کے فلسفیانہ مباحث میں اشتعال سے اختلاف کیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ کو صوفیا کے جس مسئلہ سے زیادہ اختلاف تھا وہ یہی وحدۃ الوجود کا مسئلہ ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
’’اس وحدۃ الوجود کی غایت یہ ہے کہ اس کے ماننے والے عبد اور معبود، خالق اور مخلوق کا کردار، امر در امور، طاعت اور معصیت میں فرق نہیں کرتے۔‘‘ (طریق الہجرتین ص ۳۳۳)
’’ملاحدہ اہل وحدۃ الوجود کے نزدیک غیر حق عین حق میں گم ہو جاتا ہے بلکہ غیر حق کا وجود نفس حق کا وجود ہوتا ہے۔‘‘ (مدارج السالکین ج ۳ ص ۸۷ ۔ تصوف کیا ہے؟ ص ۱۲)
دوسری چیز جس میں اہلِ تصوف حدِ اعتدال سے تجاوز کر جاتے ہیں وہ احسانی کیفیت کے حصول کے وسائل و ذرائع، یا تربیت کے ان طریقوں پر اصرار کرنا ہے جو مختلف زمانوں میں اہلِ تصوف نے اختیار کیے ہیں۔ جن کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے کوئی طبیب حاذق مریض کے لیے دوا تجویز کرتا ہے جو ہر مریض کے مزاج اور موسم و احوال کے اعتبار سے بدلتی رہی ہے۔ چنانچہ مولانا اسماعیل شہیدؒ فرماتے ہیں:
’’صوفیا کے نفع بخش اشغال کی حیثیت دوا و معالجہ کی ہے کہ بوقت ضرورت ان سے کام لے اور بعد کو پھر اپنے کام میں مشغول ہو۔‘‘ (ایضاح الحق الصریح۔ تصوف کیا ہے؟ ص ۷۱)
چنانچہ محققین نے تصریح کی ہے کہ ان اشغال یا اوراد و وظائف کی حیثیت احسانی کیفیت کے حصول کے لیے محض ذریعہ کی سی ہے۔ جیسے مریض کے لیے دوا، جو ہر شخص کے مزاج اور ہر زمانہ کے مطابق بدلتی رہتی ہے، جس پر اصرار کرنا یا یہ سمجھنا کہ ان اشغال کے بغیر قلوب کا تزکیہ ہو ہی نہیں سکتا، صریح جہالت ہے۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ قول جمیل میں فرماتے ہیں:
’’ہرگز خیال نہ کرنا کہ نسبت (خدا کا تعلق) بجز ان اشغال کے کسی طرح حاصل نہیں ہو سکتی۔‘‘
ان وسائل و ذرائع میں غلو کرنے یا انہیں ہی مقصودِ اصلی سمجھ لینے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شریعت و طریقت کی دوئی کا ذہن بنتا ہے کہ شریعت الگ ہے، طریقت الگ، جو خالص جہالت و کم فہمی پر مبنی ہے۔ چنانچہ شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ فرماتے ہیں:
’’ اور بعض جہلا جو کہتے ہیں کہ شریعت اور ہے، طریقت اور ہے، محض ان کی کم فہمی ہے۔ طریقت بے شریعت خدا کے گھر مقبول نہیں۔ صفائی قلب کفار کو بھی حاصل ہوتی ہے۔ قلب کا حال مثل آئینہ کے ہے۔ آئینہ زنگ آلود ہے تو پیشاب سے بھی صاف ہو جاتا ہے اور گلاب سے بھی صاف ہو جاتا ہے۔ لیکن فرق نجاست و طہارت کا ہے۔ ولی اللہ کے پہچاننے کے لیے اتباعِ سنت کسوٹی ہے۔ جو متبع سنت ہے وہ اللہ کا دوست ہے۔ اگر مبتدع ہے تو محض بیہودہ ہے۔ خرق عادات تو دجال سے بھی ہوں گے۔‘‘ (تصوف کیا ہے؟ ص ۵۹)
اس بحث سے یہ واضح ہو گیا کہ آج کل تصوف کی جن باتوں پر اعتراض و اشکال کیا جاتا ہے، محققین کے نزدیک وہ مقصود و مطلوب نہیں ہیں۔ ان کی حقیقت محقق صوفیا کے نزدیک بھی محض وقتی وسائل و ذرائع کی ہے۔ چنانچہ مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی مدظلہ نے اپنی کتاب ’’تزکیہ و احسان‘‘ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ تصوف و شریعت کے مابین نزاع درحقیقت نزاع لفظی ہے۔ دراصل دوسری صدی ہجری میں اہل تصوف نے ایسی تعبیرات و اصطلاحات استعمال کیں جو بظاہر قرآن و سنت اور دور نبوت و دور صحابہ میں نہیں ملتیں۔ یہ تعبیرات و اصطلاحات اس دور کی فلسفیانہ زبان تھی۔
اس میں شبہ نہیں کہ تعبیرات کا بھی ایک پس منظر ہوتا ہے۔ تعبیرات و اصطلاحات مستعار لینے سے اس دور کے افکار و خیالات اور فلسفیانہ اثرات کا آنا ناگزیر ہے۔ چنانچہ تاریخِ تصوف کے لائق مصنف پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے تصوف کی یہ اصطلاحات و تعبیرات اور صفائی باطن کے ریاضات و مجاہدات ہندومت، بدھ مت، عیسائی و یہودی تصوف میں بھی تفصیل سے بیان کی ہیں۔ لیکن محض ان تعبیرات کو اختیار کرنے کی وجہ سے نہ دین کے اس اہم جزو کو چھوڑا جا سکتا ہے اور نہ تزکیہ و احسان سے بے اعتنائی برتی جا سکتی ہے۔ چنانچہ مولانا ندوی فرماتے ہیں:
’’چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن دین کے ایک شعبہ اور نبوت کے ایک اہم رکن کی طرف خصوصیت سے توجہ دلاتا ہے اور اس کو تزکیہ سے تعبیر کرتا ہے، اور ان چار ارکان میں اس کو شامل کرتا ہے جن کی تکمیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبِ نبوت سے متعلق اور مقاصدِ بعثت میں شامل تھی، اور زبانِ نبوت اس کو ’’احسان‘‘ سے تعبیر کرتی ہے جس سے مراد یقین و استحضار کی وہ کیفیت ہے جس کے لیے ہر مسلمان کو کوشاں ہونا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ احسان کیا ہے تو آپ نے فرمایا، تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے تم اس کو دیکھ رہے ہو، اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ (بخاری و مسلم)‘‘ (ملخصاً ص ۱۴ ۔ ۱۵)
یہی وہ تزکیہ و احسان ہے جسے دوسری صدی ہجری میں تصوف کے لفظ سے یاد کیا جانے لگا۔ آگے مولانا ندوی مزید وضاحت سے فرماتے ہیں:
’’زیادہ مناسب تھا کہ ہم اس علم کو، جس کا نام تزکیہ نفس و تہذیبِ اخلاق ہے، تزکیہ و احسان ہی کے نام سے یاد کرتے یا کم از کم فقہ باطنی ہی کہتے۔ اگر ایسا ہوتا تو شاید اختلاف و نزاع کی نوبت ہی نہ آتی اور سارا جھگڑا ختم ہو جاتا، اور دونوں فریق جن کو اصطلاح نے ایک دوسرے سے برسرِ نزاع کر رکھا ہے، مصالحت پر آمادہ ہو جاتے۔‘‘ (تزکیہ و احسان ۔ ص ۱۶)
’’اگر اہلِ تصوف اس مقصد کے حصول کے لیے (جس کو ہم تزکیہ و احسان سے تعبیر کرتے ہیں) کسی خاص اور متعین راستے یا شکل پر اصرار نہ کرتے (اس لیے کہ زمان و مکان اور نسلوں کے مزاج و ماحول کے ساتھ اصلاح و تربیت کے طریقے اور ان کے نصاب بدلتے رہتے ہیں) اور وسیلہ کے بجائے مقصد پر زور دیتے تو اس مسئلہ میں آج سب یک زبان ہوتے ور اختلاف کا راستہ ہی باقی نہ رہتا۔‘‘ (ص ۱۷)
اس کے بعد مولانا ندوی نے فیصلہ کن بات فرما دی ہے جو میرے نزدیک انتہائی قرین انصاف اور حرفِ آخر ہے۔ فرماتے ہیں:
’’میں تزکیہ کی کسی خاص لگی بندھی اور متعین شکل پر زور نہیں دیتا، جس کا رواج عام ہوا اور جس کا نام آخری دور میں تصوف پڑا، اور نہ ہی تصوف کے حاملین میں سے سب کو ہر طرح کی غلط روی و غلط فہمی سے بری سمجھتا ہوں، اور نہ ان کو معصوم قرار دیتا ہوں۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ اس خلا کو، جو ہماری زندگی اور ہمارے معاشرہ میں واقع ہو گیا ہے، جلد پُر کیا جائے اور تزکیہ و احسان اور فقہ باطن کو پھر سے تازہ کیا جائے، جس طرح ہمارے اسلاف نے اپنے اپنے زمانہ میں تازہ کیا تھا، اور یہ سب منہاجِ نبوت اور کتاب و سنت کی روشنی میں ہو۔ بہرحال ہر دور میں اور ہر جگہ جہاں مسلمان بستے ہوں یہ کام ضروری ہے، اس لیے کہ حقیقت میں یہ خلا ایک عظیم خلا ہے اور ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی میں اس کے اثرات و نتائج بہت دور رس ہیں۔
اپنے اپنے دور میں اس ذمہ داری کو ادا کرنے والوں اور اس خدمت کے انجام دینے والوں پر تنقید کرنے والوں سے ایک عربی شاعر کی زبان میں کہنا چاہتا ہوں ؏
اقلو علیھم لا ابا لابیکم من اللوم او سدوا المکان الذی سدوا۔
’’ان اللہ کے بندوں پر ملامت بہت ہو چکی۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا ان کی جگہ لینے والا اور درد کا مداوا کرنے والا کوئی ہے؟‘‘ (تزکیہ و احسان ص ۲۴۔۳۵)
اس ساری بحث کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ دین کے ظاہری و باطنی دونوں پہلو ضروری ہیں، اور تصوف اس دوسرے پہلو کے حصول کا محض ایک ذریعہ رہا ہے۔ محقق صوفیا کے نزدیک بھی تصوف کے اشغال مقصودِ اصلی نہیں بلکہ عشق و اخلاص اور خدا کا تعلق پیدا کرنے کے ذرائع ہیں۔ اسی طرح بیعت بھی ضروری و لازمی نہیں، محض اعتماد کے اظہار کا طریقہ ہے۔ اور کسوٹی بہرحال قرآن و سنت ہی ہے، نہ کہ کوئی بزرگ یا ولی۔ لیکن آج کل بعض پڑھے لکھے لوگوں نے یہ فیشن بنا لیا ہے کہ بڑی بے باکی سے نفسِ تصوف ہی کو زیغ و ضلال اور گمراہی کہہ دیتے ہیں۔ عام طور پر یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو نہ صرف اس کوچہ سے نا آشنائے محض ہوتے ہیں بلکہ اسلام کے فرائض کی ادائیگی سے بھی کوسوں دور ہوتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ اگر اسلام کی ۱۴ سو سالہ تاریخ سے اہل اللہ بزرگانِ دین اور ان کی کاوشوں کو الگ کر دیا جائے تو اسلامی تاریخ کے بہت بڑے حصے سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ کیا کوئی ذی عقل اسے باور کر سکتا ہے کہ ۱۴ سو سال سے اسلام کے علمبردار اکابر اہل اللہ اور صوفیائے کرام سب کے سب اصل دین سے دور محض گمراہی میں رہے؟
اب آئیے کتاب اللہ کی طرف، قرآن عظیم رہتی دنیا تک کے لیے ہدایت نامہ بن کر آیا ہے اور اس کا دعوٰی ہے ’تبیانا لکل شئی‘‘ یعنی انسانوں کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے جن جن چیزوں کی ضرورت تھی، قرآن نے اسے مکمل طور پر بیان کر دیا، کوئی پہلو ادھورا نہیں چھوڑا۔ آئیے غور کریں کہ قرآن سے ہمیں اس ضمن میں کیا رہنمائی ملتی ہے۔
تصوف اپنے انجام کے اعتبار سے رہبانیت سے زیادہ قریب ہے کہ تصوف میں غلو کا نتیجہ ہمیشہ ہر دور اور ہر ملت و مذہب میں رہبانیت کی صورت میں نکلا ہے۔ قرآنِ عزیز نے اپنے معجز انداز میں چند الفاظ میں رہبانیت کی پوری تاریخ بیان کر دی ہے۔ سورہ حدید میں ارشاد ہے:
ورھبانیۃن ابتدعوھا ما کتبنٰھا علیھم الا ابتغاء رضوان اللّٰہ فما رعوھا حق رعایتھا فاٰتینا الذین اٰمنوا منھم اجرھم وکثیر منھم فاسقون۔
(ترجمہ) ’’انہوں نے رہبانیت کو خود ایجاد کر لیا، ہم نے ان پر اس کو واجب نہ کیا تھا۔ لیکن انہوں نے اللہ کی رضا کے واسطے اس کو اختیار کیا تھا، تو انہوں نے اس رہبانیت کی پوری رعایت نہ کی۔ ان میں جو لوگ ایمان لائے، ہم نے ان کو ان کا اجر دیا اور زیادہ ان میں نافرمان ہیں۔‘‘ (از مولانا تھانویؒ)
یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ چند لفظوں میں رہبانیت کی پوری تاریخ بیان کر دی۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نصف آیت میں رہبانیت کی پوری انسائیکلوپیڈیا کو بند کر دیا ہے۔ اس آیت سے اصولی طور پر چند امور کی طرف رہنمائی ملتی ہے: (۱) رہبانیت خدا نے فرض نہیں کی۔ (۲) انسانوں نے اسے خود اختیار کیا۔ (۳) جذبہ و نیت اچھی تھی یعنی خدا کے قرب و رضا کے  حصول کی نیت رکھتے تھے۔ (۴) اس کے حدود کی رعایت نہ رکھ سکے۔ (۵) نتیجہ یہ ہوا کہ گمراہی و نافرمانی میں پڑ گئے، خدا سے قریب ہونے کے بجائے خدا سے دور ہو گئے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو تصوف کی تاریخ بھی یہی ہے کہ اللہ کے مخلص اور نیک بندوں نے احسانی کیفیت اور خدا کے تعلق و محبت کے حصول اور دنیا سے بے رغبتی پیدا کرنے کے لیے اپنے اپنے دور میں عبادات و ریاضات، اذکار و ادوار کے مختلف طریقوں کو اپنایا۔ جب تک شریعت کی حدود میں رہے ان سے فائدہ اٹھایا، اور جب غلو آ گیا تو یہی چیزیں گمراہی و نافرمانی بنتی چلی گئیں۔
حضراتِ سامعین! اگرچہ تصوف پر تمہیدی کلام کچھ طویل ہو گیا ہے مگر علامہ کے نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے یہ تفصیل ضروری معلوم ہوئی۔ اب آئیے اس طرف کہ تصوف کے متعلق علامہ کا نقطہ نظر کیا ہے۔ علامہ کی تحریروں کی روشنی میں اس کا جائزہ لیں:
’’حضرت مجدد الف ثانیؒ اپنے مکتوبات میں جگہ جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ تصوف شعائر فقہ اسلامیہ میں خلوص پیدا کرنے کا نام ہے۔ اگر تصوف کی یہ تعریف کی جائے تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض کرنے کی جرات نہیں ہو سکتی۔ راقم الحروف اس تصوف کو، جس کا نصب العین شعائر اسلام میں مخلصانہ استقامت پیدا کرنا ہو، عین اسلام جانتا ہے اور اس پر اعتراض کرنے کو بدبختی و خسران کے مترادف سمجھتا ہے۔ لیکن اہلِ نظر کو معلوم ہے کہ صوفیائے اسلام میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو شریعتِ اسلامیہ کو علمِ ظاہر کے حقارت آمیز خطاب سے یاد کرتا ہے اور تصوف سے وہ باطنی دستور العمل مراد لیتا ہے جس کی پابندی سے سالک کو فوق الادراک حقائق کا عرفان ہوتا ہے۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۲۸)
شاہ سلیمان پھلواری شریف کے نام مکتوب میں لکھتے ہیں:
’’حقیقی تصوف کا میں کیونکر مخالف ہو سکتا ہوں کہ خود سلسلہ قادریہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں نے تصوف کو کرات سے دیکھا ہے۔ بعض لوگوں نے ضرور غیر اسلامی عناصر اس میں داخل کر دیے ہیں۔ جو شخص غیر اسلامی عناصر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے وہ تصوف کا خیرخواہ ہے نہ کہ مخالف۔ انہی غیر اسلامی عناصر کی وجہ سے مغربی محققین نے تمام تصوف کو غیر اسلامی قرار دے دیا ہے اور یہ حملہ انہوں نے حقیقت میں مذہب اسلام پر کیا ہے۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۱۹۷)
ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’تصوف کی ادبیات کا وہ حصہ جو اخلاق و عمل سے تعلق رکھتا ہے نہایت قابل قدر ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے طبیعت پر سوز و گداز کی حالت طاری ہوتی ہے۔ فلسفہ کا حصہ محض بے کار اور بعض صورتوں میں میرے خیال میں قرآن کے مخالف ہے۔‘‘ (اقبال و تصوف ۲۰۳)
سید نذیر نیازی کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:
’’اسلام کو فطرت کے طور پر Realize کرنے کا نام تصوف ہے اور ایک اخلاص مند مسلمان کا فرض ہے کہ اس کیفیت کو اپنے اندر پیدا کرے۔‘‘ (اقبال و تصوف)
اسی طرح ایک عزیز دوست کو لکھتے ہیں:
’’تصوف لکھنے پڑھنے کی چیز نہیں، کرنے کی چیز ہے۔ کتابوں کے مطالعے اور تاریخی تحقیقات سے کیا ہوتا ہے۔‘‘ (ص ۲۹)
ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’خدا شناسی کا ذریعہ خرد نہیں عشق ہے، جسے فلاسفہ کی اصطلاح میں وجدان کہتے ہیں۔‘‘ (ص ۲۰۳)
رومی کے ایک شعر کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا، عالم قلم پر چلتا ہے اور صوفی قدم پر۔
ظفر احمد صدیقی کے نام اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں:
’’شریعت کو اپنے قلب کی گہرائیوں کے ساتھ محسوس کرنے کا نام طریقت ہے۔ جب احکامِ الٰہی خودی میں اس حد تک سرایت کر جائیں کہ خودی کے پرائیویٹ امیال و عواطف باقی نہ رہیں اور صرف رضائے الٰہی اس کا مقصد ہو جائے تو زندگی کی اس کیفیت کو بعض اکابر صوفیائے اسلام نے فنا کہا ہے، بعض نے اس کا نام بقا رکھا ہے۔ لیکن ہندی و ایرانی صوفیا جن سے اکثر نے مسئلہ فنا کی تفسیر ویدانت اور بدھ مت کے زیر اثر کی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اس وقت عملی اعتبار سے ناکارہ محض ہے۔ میرے عقیدے کی رو سے یہ تقسیم، بغداد کی تباہی سے بھی زیادہ خطرناک تھی اور ایک معنی میں میری تمام تحریریں اس تفسیر کے خلاف ایک قسم کی بغاوت ہیں۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۲۰۱)
علامہ نے متعدد جگہ بصراحت اس کی تکرار کی ہے کہ وہ کس تصوف کے خلاف ہیں۔ درحقیقت تصوف میں جو عجمی اثرات ہیں، خواہ وہ ہندی ویدانت کے ہوں، بدھ مت یا عیسائیت کے، یونانی اشراقیت کے ہوں یا ایرانی، یا  ان لا یعنی فلسفوں کے جن میں ایران صدیوں تک مشغول رہا اور جس کی وجہ سے قدیم عربی لٹریچر میں ایران پر خاص طور پر عجم کا اطلاق ہوتا ہے، غرض ہر وہ چیز جو باہر سے درآمد کی جائے یا جمود کی طرف لے جائے یا جس میں شریعت و طریقت کی دوئی یا باطنیت کا شائبہ پایا جائے، علامہ کی طبیعت اس سے ابا کرتی ہے اور وہ اس کے خلاف احتجاج بلکہ جہاد اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ’’اقبال اور تصوف‘‘ کے مصنف جناب شریف بقا صاحب لکھتے ہیں:
’’بعض اہلِ طریقت یا اہلِ تصوف شریعت کے علم کو ظاہری علم اور تصوف و طریقت کے علم کو باطنی قرار دیتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں علمِ باطن علمِ ظاہر سے زیادہ اہم ہے۔ علامہ اقبال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکمل پیغام کو قرآن و سنت میں محفوظ خیال کرتے ہیں۔ علمِ مخفی یا علمِ باطن کے عقیدے کو ختمِ نبوت اور قرآنی ہدایت کی تکمیل کے منافی سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ خدا کے اس آخری نبیؐ نے خدا کا پورا پیغام مسلمانوں کو پہنچا دیا تھا۔ اس لیے وہ کسی مخفی علم کو حضورؐ سے منسوب کرنا قرآنی اعلان کے خلاف تصور کرتے ہیں۔ وہ شریعت و طریقت کو ایک ہی حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ خیال کرتے ہیں۔ ان کے مرشد مولانا روم فرماتے ہیں کہ
’’شریعت ہمچو شمع است کہ رہ می نماید، چوں در راہ آمدی این رفتن تو طریقت است، چون بمقصود رسدی این رسیدن تو حقیقت است‘‘ (مثنوی دفتر پنجم)
’’شریعت راستہ دکھانے والی شمع کے مانند ہے، جب تو اس راہ میں آیا تو تیرا چلنا طریقت ہے، اور جب تو منزل مقصود تک پہنچ گیا تو تیرا یہ وہاں پہنچنا حقیقت ہے۔
یعنی شریعت روشنی ہے اور طریقت راستہ، جو منزل تک پہنچنے میں ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ اس لیے شریعت و طریقت ایک دوسرے کے مخالف کیسے ہو سکتے ہیں؟‘‘
علامہ کے نزدیک نظری طور پر عربوں کا مزاج اسلام کے مطابق ہے اور عجمیت اسلام کی شکل مسخ کرنے کی کوشش ہے۔ اس لیے وہ اسلام میں عجمی اثرات کے سخت مخالف ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ عجمیت سے الرجک ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر سید یامین کے نام خط میں لکھتے ہیں:
’’میری رائے میں عجمیت ایشیا کے مسلمانوں کے لیے تباہی کا باعث ہوئی ہے۔ اس وقت اس باطل کے خلاف جہاد کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۲۰۱)
جب تک اسلام جزیرۃ العرب میں تھا اس میں حرارت و حرکت کا عنصر شامل تھا، لیکن جب دیگر ممالک تک پھیلا تو آہستہ آہستہ اس میں عجمی اثرات شامل ہوتے گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ؎
یہ امت روایات میں کھو گئی
حقیقت خرافات میں کھو گئی
علامہ، نیاز احمد کے نام خط میں لکھتے ہیں:
’’نہایت بے دردی سے قرآن اور اسلام میں ہندی و یونانی تخیلات داخل کیے جا رہے ہیں۔‘‘ (ص ۲۰۶)
اسی طرح ایک مکتوب میں فرماتے ہیں:
’’عجمیت کی دھند سے باہر نکل کر عرب کے صحرا کی شاندار دھوپ میں چلو۔‘‘
اور
شیخ احمد سید گردون جناب
کا سب نور از ضمیرش آفتاب
با مریدے گفت اے جان پدر
از خیالات عجم باید حذر
شیخ احمد رفاعیؒ ایک عظیم المرتبت بزرگ تھے۔ سورج ان کے ضمیر سے اکتساب نور کرتا، انہوں نے ایک مرتبہ اپنے مرید سے کہا، بیٹا تجھے عجمی خیالات سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اسی طرح ایک جگہ فرماتے ہیں:
وہ صوفی کہ تھا خدمت حق میں مرد
محبت میں یکتا حمیت میں فرد
عجم کے خیالات میں کھو گیا
یہ سالک مقامات میں کھو گیا
ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’تصوف غیر اسلامی عنصر سے خالی نہیں اور میں مخالف ہوں تو صرف ایک گروہ کا جس نے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر بیعت لے کر دانستہ و نادانستہ ایسے مسائل کی تعلیم دی جو مذہبِ اسلام سے تعلق نہیں رکھتے۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۳۲)
شیخ محی الدین ابن عربی جنہوں نے ساتویں صدی ہجری میں خالق و مخلوق کے اتحاد کو تصوف کا جزو لاینفک بنا دیا تھا، ان کے بارے میں علامہ لکھتے ہیں:
’’مسلمانوں اور ہندوؤں کی تاریخ میں ایک عجیب و غریب ذہنی مماثلت ہے۔ جس نکتہ خیال سے شری شنکر نے گیتا کی تفسیر کی، اسی نکتہ خیال سے شیخ محی الدین ابن عربی اندلسی نے قرآن شریف کی تفسیر کی۔ انہوں نے مسئلہ وحدۃ الوجود کو اسلامی تخیل کا جزو لاینفک بنا دیا۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۳۶)
وحدۃ الوجود کے متعلق ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ہمہ اوست مذہبی مسئلہ نہیں فلسفہ کا مسئلہ ہے۔ وحدت و کثرت کی بحث سے اسلام کو کوئی سروکار نہیں۔ اسلام کی روح توحید ہے اور اس کی ضد کثرت بلکہ شرک ہے۔ وہ فلسفہ و مذہبی تعلیم جو انسان کی شخصیت کی نشوونما کے منافی ہو، بے کار چیز ہے۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۳۶)
سراج الدین پال کے نام ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:
’’کسی مذہب یا قوم کے دستور العمل میں باطنی معنی تلاش کرنا یا باطنی مفہوم پیدا کرنا اصل میں اس دستور العمل کو مسخ کر دینا ہے (جیسا کہ قرامطہ کے طرزعمل سے ثابت ہے)۔ یہ نہایت عیارانہ طریقہ تنسیخ ہے۔‘‘ (ص ۲۰۳)
خواجہ حسن نظامی کے نام اپنے مکتوب میں فرماتے ہیں:
’’رہبانیت عیسائی مذہب کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہر قوم میں پیدا ہوئی ہے اور ہر جگہ اس نے قانون اور شریعت کا مقابلہ کیا ہے اور اس کے اثرات کو کم کرنا چاہا ہے۔ اسلام درحقیقت اسی رہبانیت کے خلاف صدائے احتجاج ہے۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۲۰۲)
علامہ کا اسلام کی صلاحیت پر اعتماد اور اذعان کا یہ عالم تھا کہ ایک مجلس میں:
’’ہم نے آپ سے دریافت کیا، فوق البشر کی تعریف کیا ہے؟ کہنے لگے ہر صحیح مومن فوق البشر ہے۔ اسلام وہ سانچہ ہے جس میں فوق البشر ڈھلتے ہیں ۔۔۔۔ کہنے لگے ہیرو کی تعریف یہ ہے کہ وہ انسان جس کے اعمال و افعال نوع انسانی کے لیے چشمہ ہائے زندگی جاری کرنے والے ہوں۔ شخصیت پرستی (Heroworship)  ہندو قوم کی امتیازی صفت ہے، مگر اسلام اس کے خلاف ہے۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۲۰۰)
علامہ ہمیشہ ان علمائے حق اور صوفیائے عظام کے بڑے مداح اور دل سے قدردان رہے جنہوں نے تصوف کو شریعت کی حدود میں رکھا۔ ایسے علما و بزرگان دین سے بصد ادب ملتے اور ان کے مزارات پر بصد شوق و ادب حاضری دیتے، ان کے کارناموں سے مسلمانوں کے دلوں کو گرماتے، اپنے آخری دنوں میں مولانا ابوالحسن علی ندوی (جو ان دنوں نوعمر تھے) سے ملاقات کے دوران فرمایا:
’’اسلام اپنے پیروؤں میں عملیت اور حقیقت پسندی پیدا کرتا ہے۔ ہندوستان میں اسلام کی تجدید و احیا کی بات نکلی تو فرمایا، شیخ احمد سرہندیؒ اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور سلطان محی الدین عالمگیر کا وجود اور ان کی جدوجہد نہ ہوتی تو ہندوستانی تہذیب و فلسفہ اسلام کو نگل جاتا۔‘‘ (اقبال و تصوف)
ایک جگہ اکبر الٰہ آبادی کے نام خط میں لکھتے ہیں:
’’مجدد الف ثانیؒ اور مولانا اسماعیل شہیدؒ نے اسلامی سیرت کے احیا کی کوشش کی مگر صوفیا نے اس گروہِ احرار کو کامیاب نہ ہونے دیا۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۳۷)
جاوید نامہ کے اخیر میں خطاب بہ جاوید کے عنوان سے چند باتیں جاوید کے لیے لکھی ہیں۔ ان میں ایک جگہ علامہ نے چودھری محمد حسین سے کہا:
’’عصرِ حاضر میں قحط الرجال ہے اور مردانِ خدا کا ملنا کتنا مشکل ہو رہا ہے۔ اگر تم خوش قسمت ہوئے تو تمہیں کوئی صاحبِ نظر مل جائے گا۔ اگر نہ ملا تو تم میری ہی نصائح پر عمل کرنا۔ پھر کہنے لگے، میرے مرنے کے بعد جاوید جوان ہو تو اسے ان اشعار کا مطلب سمجھا دینا۔‘‘
اب آخر میں علامہ کی ایک نصیحت سن لیجئے۔ اکبر الٰہ آبادی کے نام خط میں لکھتے ہیں:
’’کوئی فعل مسلمان کا ایسا نہیں ہونا چاہیے جس کا مقصد اعلائے کلمۃ اللہ کے سوا کچھ اور ہو۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۲۰۲)
حضرات! بندہ نے ’’اقبال اور تصوف‘‘ سے یہ چند اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کیے ہیں۔ بندہ آپ سے سوال کرتا ہے کہ کیا علامہ کی ان روشن تحریروں اور افکار کی روشنی میں کوئی ذی عقل یہ کہہ سکتا ہے کہ علامہ نفسِ تصوف کے خلاف تھے؟ اور کیا آج کے اقبال شناسی کے دعوے داروں کو اقبال کے فکر و ذہن یا افکار و خیالات سے کوئی دور کی نسبت بھی ہے؟

حضرت مولانا مرغوب الرحمٰن (مہتمم دارالعلوم دیوبند) کا مولانا محمد عیسٰی منصوری کے نام گرامی نامہ

ادارہ

باسمہٖ تعالیٰ
مکرمی و محترمی، زید مجدکم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر و عافیت ہوں گے۔ گرامی نامہ نظر سے نواز ہوا، یاد فرمائی کے لیے شکرگزار ہوں۔
’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ کے نام سے ادارہ آپ حضرات نے قائم کیا۔ اخبار ’’جنگ‘‘ کی فوٹوکاپی ملاحظہ کر کے ادارہ کی کارگزاری کا علم ہوا، بے حد خوشی ہوئی۔ خدائے عز و جل اپنے فضل و کرم سے مخلص و محنتی رجال کار مہیا فرمائے۔ یہ وقت کی شدید ضرورت تھی۔ دعا ہے کہ خدائے تعالیٰ آپ اور آپ کے احباب کو اس میں کامیابی عطا فرمائے، اور اس کے ذریعہ عالمِ اسلام کی خدمت کا موقع مرحمت فرمائے، آمین۔
اگست ۹۴ء میں ہونے والے سیمینار میں شرکت کے لیے جناب نے بندہ کو تحریر فرمایا ہے۔ اولاً تو ابھی بہت وقت ہے، پھر بھی دارالعلوم کے مشاغل کار اور پھر اپنی صحت کی وجہ سے اسفار نہیں کر پاتا ہوں۔ اس محبت کے لیے ایک بار پھر شکرگزار ہوں۔ امید ہے کہ آپ بھی دعوات صالحہ سے یاد فرماتے رہیں گے۔
والسلام، مرغوب الرحمٰن عفی عنہ
مہتمم دارالعلوم دیوبند
مکرمی جناب محمد عیسٰی منصوری زید مجدہم
سیکرٹری جنرل ورلڈ اسلامک فورم لندن


بائبل اور گستاخِ رسول کی سزا

محمد اسلم رانا

الشریعہ کے مئی ۹۴ء کے شمارے میں محمد یاسین عابد صاحب کا مضمون بعنوان ’’گستاخِ رسول کے لیے سزائے  موت اور بائبل‘‘ شائع ہوا تھا۔ ماہنامہ ’’المذاہب‘‘ لاہور کے ایڈیٹر جناب محمد اسلم رانا نے اس مضمون پر ہمیں زیر نظر تنقید لکھ کر بھیجی ہے جو کہ نذرِ قارئین ہے۔ نیز رانا صاحب کے نقطۂ نظر کی مکمل توضیح کے لیے ان کا المذاہب کے جولائی ۹۴ء کے شمارہ میں شائع ہونے والا مضمون بھی زیر نظر شمارہ میں شاملِ اشاعت ہے۔
جہاں تک ہم غور کر سکے ہیں، دونوں نقطہ ہائے نظر میں، درحقیقت، کوئی اختلاف نہیں۔ محمد یاسین عابد صاحب کے مضمون کا منشا یہ ہے کہ اسلامی شریعت کی طرح موسوی شریعت میں بھی گستاخِ رسول کے لیے سزائے موت تھی، جیسا کہ استثنا ۱۷ : ۱۲۔۱۳ سے واضح ہے۔ جس میں یہ حکم ہے کہ کاہن اور قاضی کا کہا نہ ماننے اور گستاخی سے پیش آنے والے شخص کو جان سے مار دیا جائے۔ ظاہر بات ہے، نبی کا مقام و مرتبہ کاہن و قاضی سے بلند تر ہے، اس لیے اس کے گستاخ کی سزا بھی لازماً موت ہی ہو گی۔ ہاں، البتہ، اس سزا کے اثبات کے لیے ۱۔سموئیل باب ۲۵ میں بیان ہونے والے حضرت داؤد اور نابال کے قصہ سے استدلال، جیسا کہ اسلم رانا صاحب کی تنقید سے واضح ہے، درست نہیں ہے۔ 
دوسری طرف اسلم رانا صاحب نے اس پہلو کو واضح کیا ہے کہ موجودہ مسیحی دنیا کے ہاں گستاخی رسول کی کوئی خاص اہمیت نہیں، بلکہ بالکل بے قید آزادی اظہار رائے کے قائل جدید مغربی ذہن سے متاثر ہونے کی بنا پر ان کے ہاں بھی اس نوعیت کی ہر چیز ’’انسانی حقوق‘‘ میں شامل ہے۔ اور یہ چیز موسوی شریعت میں گستاخ رسول کے لیے سزائے موت کے اثبات کے منافی نہیں۔ اس سے واضح ہے کہ دونوں نقطہ ہائے نظر، درحقیقت، ایک ہی مسئلے کے دو الگ الگ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہیں اور ان میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
مضمون میں حضرت داؤد علیہ السلام کے نبی ہونے کا انکار، جیسا کہ سیاق و سباق سے واضح ہے، یہودی و عیسائی لٹریچر کے تناظر میں ہے، اس سے کسی غلطی فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے، ورنہ قرآن مجید بصراحت داؤد علیہ السلام کو اللہ کا نبی قرار دیتا ہے۔
ان ضروری تمہیدات کے بعد اب آپ اصل مضمون ملاحظہ کیجئے۔
(مدیر)
ان دنوں مسیحی اقلیت گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا کی مخالفت میں ادھار کھائے بیٹھی ہے تو مسلم علما گستاخ رسول کی سزا کے اثبات میں خوردبین کی مدد سے بائبل کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
موقر جریدہ الشریعہ مئی ۹۴ء میں اسلامی نقطہ نگاہ کی حمایت میں ایک مضمون نظر سے گزرا۔ یہ ٹھیک ہے کہ کاہن، قاضی اور والدین کی شان میں گستاخی کی سزا وارد ہے اور عہد کے صندوق (جسے قرآن مجید میں صندوق سکینہ پکارا گیا ہے، ۲۔بقرہ ۲۴۸)، لیکن خوب سمجھ لینا چاہیے کہ بائبل گستاخِ رسول کی سزا کے ضمن میں یکسر خالی، کوری اور معرا ہے۔
مضمون میں داؤد اور نابال کے قصہ سے ’’گستاخ رسول کی سزا موت‘‘ کشید کرنا شدید غلط فہمی، اور اس بیان کو ٹھیک طور پر نہ پڑھنے اور نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے ہے۔ مضمون کا متعلقہ حصہ درج ذیل ہے:
’’حضرت داؤد علیہ السلام کا نبی اللہ ہونا انجیل سے ثابت ہے (عبرانیوں ۱۱ : ۳۲)۔ معون کے رہنے والے نابال نامی ایک شخص نے حضرت داؤدؑ کے متعلق گستاخانہ الفاظ ادا کیے کہ ’’داؤد کون ہے اور یسی کا بیٹا کون ہے؟‘‘ اس کی خبر جب داؤد نبیؑ کو ہوئی تو زبانِ نبوت سے شاتِم رسول کے لیے قتل کے احکامات یوں صادر ہوئے۔‘‘
عبرانیوں کے خط سے داؤد کی نبوت ثابت کرنا کئی لحاظ سے محلِ نظر ہے۔ عبرانیوں کے نام خط کا مصنف گمنام ہے۔ پولوس، اپولوس، برنباس، لوقا، ٹموتھی، اکوئیلا، پرسیلا، ارسٹن، فلپ ڈیکن سبھی اس کے مصنف قرار دیے جا چکے ہیں۔ یہ جھگڑا آج تک طے نہیں ہو سکا ہے (وکلف بائبل کمنٹری، عہد جدید : ۱۴۰۳ کالم ۲)۔ اس لیے دیر بعد اسے سند فضیلت ملی۔ اکثر قدیم لوگ اسے پولوس کا خط سمجھتے رہے ہیں، چنانچہ انگریزی بائبلوں میں اس خط کو پولوس کے نام منسوب کر دیا گیا ہے (ڈملو صفحہ ۱۰۱۲ کالم ۱)۔ پروٹسٹنٹ اردو بائبلوں کی روش بھی یہی ہے۔ پرانی اردو بائبلوں میں اسے ’’کا خط‘‘ لکھا بھی ملتا ہے۔ پھر یہ خط مسیحیوں کے ہاں مستند، معتبر، کلامِ خدا اور الہامی تو ہو سکتا ہے، یہودیوں کے نزدیک اس کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی بنیاد پر داؤد کو (یہودیوں کا) نبی قرار دینا غلط ہے۔ کیونکہ داؤد کا ذکر بائبل کی مخصوص یہودی کتب مقدسہ (عہد عتیق) میں ہے جہاں داؤد کو نبی نہیں بتایا گیا ہے، اس لیے یہودی داؤد کو نبی نہیں مانتے۔ ان کی نظر میں داؤد اسرائیل کا عظیم ترین بادشاہ تھا، عہد عتیق کی ایک اہم ترین شخصیت تھا (قاموس الکتاب صفحہ ۳۹۲ کالم ۱)۔ پادری ڈملو نے داؤد کو جنگجو، موسیقی کا ماہر، ولی، زبور نویس اور ’’خدا اس کے ساتھ تھا‘‘ لکھا ہے، نبی نہیں لکھا (تفسیر ڈملو صفحہ ۱۸۱ کالم ۱)
ازروئے بائبل داؤد خود نبی نہیں تھا، اس کے دور میں سموئیل اور ناتن نبی تھے۔ سموئیل نے داؤد کو بطور بادشاہ مسح کیا تھا (۱۔سموئیل ۱۶ : ۱۳)۔ ناتن نبی صلاح مشورے دیا کرتا تھا، مثلاً بت سبع کے معاملہ میں اس نے داؤد کو سرزنش کی تھی (۲۔سموئیل ۱۲ : ۹)۔
بائبل کی کتاب اول سموئیل باب ۲۵ میں داؤد اور نابال کا قصہ تفصیل سے مذکور ہے۔ معون کا مکین مسمی نابال بڑا بے ادب، بدکار، خبیث اور احمق تھا۔ ہزاروں بھیڑوں بکریوں کا مالک تھا۔ تفاسیر میں بتایا گیا ہے کہ اس زمانہ کا رواج تھا اور فی زمانہ بھی یہی وطیرہ ہے کہ عرب ڈاکوؤں سے مال کی حفاظت کرنے والے، مالک سے اپنا حق الخدمت لیا کرتے ہیں۔ داؤد نے کوہ کرمل میں نابال کے ریوڑوں کی حفاظت کی تھی (۲۵ : ۷)  جس کا صلہ لینے کے لیے اس نے اپنے جوان نابال کے پاس بھیجے کہ
’’ان جوانوں پر تیرے کرم کی نظر ہو اس لیے کہ اہم اچھے دن آئے ہیں۔ میں تیری منت کرتا ہوں کہ جو کچھ تیرے ہاتھ میں آئے اپنے خادموں کو اور اپنے بیٹے داؤد کو عطا کر۔‘‘ (۲۵ : ۸)
یہ الفاظ بڑے صاف ہیں۔ داؤد کا لہجہ ایک دولت مند سے اس کے مال کی حفاظت کرنے کی مزدوری مانگنے کا ہے۔ یہ خطاب ایک نبی کا اپنے پیروکار سے نہیں ہے اور نہ ہی ممکن ہے۔ نبی قوم کا باپ ہوتا ہے بیٹا نہیں۔ جواب میں نابال نے داؤد کو حسبِ عادت درشت زبانی کی تو داؤد کو اس کی ناشکری اور نا احسان شناسی پر بڑا غصہ آیا اور وہ قریباً چار سو جوان لے کر نابال کو سزا دینے چل پڑا۔ ان جوانوں میں سے ایک نے نابال کی بیوی ابیجیل کو داؤد کے حسن سلوک (۲۵ : ۱۵، ۱۶) کی ساری بات بتائی تو وہ خود داؤد کے پاس گئی۔
’’تو داؤد نے کہا تھا کہ میں نے اس پاجی کے سب مال کی، جو بیابان میں تھا، بے فائدہ اس طرح نگہبانی کی کہ اس کی چیزوں میں سے کوئی چیز گم نہ ہوئی۔ کیونکہ اس نے نیکی کے بدلے مجھ سے بدی کی۔‘‘ (۲۵ : ۲۱)
ابیجیل نے نابال کی خباثت اور حماقت کا بتا کر اس کے لیے معافی مانگی اور داؤد کو خونریزی سے روکا۔ غرضیکہ داؤد نبی نہیں تھا، اس نے بحیثیت نبی نابال سے کچھ نہیں مانگا تھا۔ اس نے نابال کے جواب کو توہینِ نبوت اور گستاخی رسول نہیں سمجھا تھا۔ نابال نے بھی داؤد کو نبی سمجھتے ہوئے وہ الفاظ ادا نہیں کیے تھے۔ داؤد کو غصہ یہ تھا کہ ہم نے نابال کے ریوڑوں کی حفاظت کی، گویا رات دن دیوار بنے رہے، اور یہ شورید سر ہماری محنت کا بدلہ بدزبانی سے چکا رہا ہے۔
نابال کی موت میں بھی اس کی موہوم ’’گستاخی رسول‘‘ کا کچھ حصہ نہیں تھا۔ داؤد سے واپس ہو کر ابیجیل نابال کے پاس گئی تو وہ شراب کے نشہ میں دھت تھا۔ صبح کو اس کا نشہ اترا تو ابیجیل نے اسے سارا واقعہ سنایا:
’’تب اس کا دل اس کے پہلو میں مردہ ہو گیا اور پتھر کی مانند سن پڑ گیا اور دس دن کے بعد ایسا ہوا کہ خداوند نے نابال کو مارا اور وہ مر گیا‘‘ (۲۵ : ۳۷)
شاید  مرگی کا دورہ اس کی موت کا سبب بنا تھا (اے نیو کیتھولک کمنٹری آن ہولی سکرپچرز۔ ۱۹۸۱، صفحہ ۳۱۷ کالم ۱)


گستاخِ رسولؐ کی سزا کا قانون

محمد اسلم رانا

قانون گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان والا تبار میں دل آزار بات کہنے والے کو سزائے موت دی جائے گی۔ پاکستان کی مسیحی اقلیت اس قانون کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔ اسے انسانی حقوق کی مخالفت، آزادی فرد، فکر، مذہبی آزادی، اقلیتوں کے عقائد و عبادات کی آزادی، مسلّمہ بین الاقوامی حقوق اور اقوام متحدہ کے منشور انسانی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے۔ اسے شخصی آزادی پر قدغن بتایا جاتا ہے۔ اس قانون نے مسیحیوں کو امتیازات کا نشانہ بنایا ہے اور انہیں دوسرے تیسرے درجہ کے شہری بنا کے رکھ دیا ہے۔
مسیحی ماہنامہ ’’کاریتاس‘‘ لاہور مئی ۹۴ء میں تجزیہ کیا گیا ہے کہ
  • تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵سی آئینِ پاکستان کے منافی ہے،
  • اس سے اقلیتوں کے تحفظ کا عہد مجروح ہوتا ہے،
  • یہ قانون شہریوں پر ناانصافی اور عدمِ تحفظ کے دروازے کھولتا ہے،
  • حکومت کو سماجی انصاف اور معاشرتی برائیوں کے خاتمہ کی ذمہ داری سے بری الذمہ قرار دیتا ہے،
  • آئینِ پاکستان میں شہریوں کو دی گئی اظہارِ رائے کی آزادی سے محروم کرتا ہے،
  • آئینی شہری آزادیوں کو استعمال کرنے میں مانع ہے،
  • یہ قانون انسانی حقوق کے عالمی منشور کی کئی دفعات اور سماجی حقوق اور انصاف کے کئی بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
اتنا کچھ پڑھ پڑھ کر میں حیرت میں ڈوبا جاتا تھا کہ یاخدایا! ایک ارب سے زائد انسانوں کی محبوب ترین شخصیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے سے روکنے پر مسیحی آزادیٔ تحریر و تقریر سے یکسر محروم ہو گئے! بے چارے بے دست و پا ہو گئے! ان کی سوچ و فکر کی قوتیں شل کر دی گئیں! ان کی کتنی شہری آزادیاں بھاڑ میں جا گریں! یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے؟ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ مسیحی آہ و زاریوں کی بنیاد دراصل وہ اندازِ فکر ہے جس کی جڑیں مغربی افکار میں پیوست ہیں۔
اقوامِ مغرب کی سوچ کی راہیں متعین کرنے میں یونانی بت پرستی، یونانی مذہبی اقدار و شعائر، یونانی عقائد و عبادات، اور یونانی اور رومی تہذیب و ثقافت کا کردار بنیادی ہے، جسے تحریکِ اصلاحِ کلیسیا نے جلا و مہمیز بخشی تھی۔ بت پرستی میں انسانی اخلاق و اعمال پر کسی پابندی کا قطعی سوال نہیں پیدا ہوتا۔ بت پرست انسان جو کرے وہی اس کا مذہب ہوتا ہے، جو وہ کہے باون تولے پاؤ رتی بجا و درست ہوتا ہے۔ اس کا ہر ہر قول و فعل پابندی، احتساب، تنقید اور اچھائی برائی کے معیاروں سے ماورا اور بالاتر ہوتا ہے۔ بت پرستی انسان کو مادر پدر آزادی عطا کرتی ہے۔ بت پرستوں کی سوچ و فکر کے گھوڑے بے لگام ہوتے ہیں۔ بت پرست اپنے خداؤں کو بھی نہیں بخشتے، انہیں بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔
عیسائیت اس طریقِ فکر میں مستغرق اور رنگی ہوئی ہے۔ یہ امور عیسائی ذہنیت کا بنیادی پتھر ہیں۔ چنانچہ ’’آرتھوڈاکس چرچ آف پاکستان کے تمام شرکائے کلیسیا کے نام کھلا خط‘‘ میں پادری خورشید عالم ڈی ڈی بشپ پریسیٹیرین چرچ آف پاکستان بتاتے ہیں کہ انگلستان کا بادشاہ ہو یا ملکہ وہ انگلستان کا مذہبی سربراہ اور پارلیمانی ’’قانونِ برتری‘‘ کے باعث ’’سردار اعلیٰ اور محافظ دین‘‘ ہے۔ اس کی سرپرستی میں برطانوی پارلیمنٹ نے مرد کی مرد سے بدفعلی کو جائز قرار دیا اور اس غیر فطری گناہ کو تعزیرات میں نظرانداز کر دیا۔ اس روسیاہی کو گناہ نہ ٹھہرانے کے لیے ایک ممتاز مذہبی رہنما انگلیکن کینن کہف مونٹ فائر نے جولائی  ۱۹۶۷ء میں مسیح کے شادی نہ کرنے اور مجرد رہنے کی وجہ یہ بتائی کہ مسیح لونڈے بازی سے گزارا کر لیا کرتا تھا (نعوذ باللہ)۔
پچھلے سال برطانیہ کے روزنامہ ٹیلی گراف میں یہ خبر چھپی کہ ایک گرجا کے پادری نے اپنی کتاب میں بتایا کہ وہ خدا پر ایمان نہیں رکھتا۔ اس پر اس کے عقیدت مند دو پارٹیوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ کہتا تھا کہ ایک منکرِ خدا کو پادری کے فرائض ادا کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ دوسری پارٹی کا کہنا تھا کہ اس میں کیا حرج ہے؟ انکارِ خدا پادری کا ذاتی نظریہ ہے، ہم اس کی شخصی آزادی پر پابندی نہیں لگا سکتے۔
برطانیہ میں ’’گستاخِ مسیح‘‘ کا قانون موجود ہے۔ حال ہی میں بی بی سی پر دکھائی جانے والی فلموں کے بارے میں اس قانون کا ذکر آیا تو انسانی حقوق کے یورپی کمیشن نے سرکار برطانیہ کو اس قانون پر نظرثانی کا مشورہ دیا۔ مسلمانوں نے اس قانون کا دائرہ کار وسیع کرنے کا مطالبہ کیا۔ بحث بڑھی تو ایک ممتاز عیسائی رہنما بشپ آف ڈرہم نے کہا کہ ’’خدا کو گستاخی سے بچانا تضیع اوقات ہے۔‘‘ (ریکارڈر ۱۷/۳/۹۴)
Defending God from blasphemy was a waste of time.
اس سوچ کی تہ میں کارفرما یہ حقیقت ہے کہ بائبل خدا کو کوئی قابل احترام اور معزز ہستی پیش نہیں کرتی۔ لکھا ہے ’’خدا بھسم کرنے والی آگ ہے‘‘ (اثنا ۲ : ۲۴) ’’خدا دغا دینے‘‘ والا ہے (یرمیاہ ۴ : ۱۰) ’’خدا بیوقوف‘‘ ہے (کرنتھیوں ۲ : ۲۵)۔ عیسائی مسیح کو خدا اور بالکل ٹھیک ٹھاک مکمل اور خالقِ کائنات قادرِ مطلق خدا مانتے ہیں۔ ادھر ان کا ایمان یہ بھی ہے کہ ’’ہاں وہ کمزوری کے سبب سے مصلوب کیا گیا‘‘ (۲۔کرنتھیوں ۱۳ : ۴)۔ ایک شخص جسے مسیح کے بارہ شاگردوں میں شامل ہونے کا بھی اعزاز حاصل نہیں، ڈنکے کی چوٹ رقم طراز ہے ’’میں تو اپنے آپ کو ان افضل رسولوں سے کچھ کم نہیں سمجھتا‘‘ (۲۔کرنتھیوں ۱۱ : ۵)
جن لوگوں کے ہاں خدا کی شان میں گستاخی کے ہر امکان کی کھلی چھٹی ہو، جن کی کتابِ مقدس انہیں خدا سے متعلق مذکورہ الفاظ کے استعمال کا نمونہ پیش کرتی ہو، ان کی نگری میں فکری و نظری آزادی کی حدود کی وسعت مسلمانوں کے تصور میں آ ہی نہیں سکتی۔
دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک میں مغربی افکار و اثرات کا دور دورہ ہے۔ وہیں کی درسگاہوں کے تعلیم یافتہ یا متاثرین برسرِاقتدار اور ہر شعبہ حیات میں روح رواں ہیں۔ حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ نے خودکشی پر سزا ختم کرنے کا فیصلہ دیا ہے۔ ایک مضبوط دلیل مطالعہ فرمائیے کہ ’’حکومت کو کسی بھی فرد کی شخصی آزادی میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے‘‘ (نوائے وقت ۲۹/۴/۹۴)
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کو بھی دفعہ ۲۹۵سی کی مخالفت میں پیش پیش پا کر میں مزید حیران ہوتا ہوں۔ بالاخر یہ عقدہ بھی حل ہو کر رہا۔ اس کمیشن کا ترجمان ماہنامہ ’’جہد حق‘‘ اپریل ۹۴ء ہمارے سامنے ہے۔ اس کے مطالعہ سے مسیحی تصورِ حقِ آزادی کے سلسلہ میں مجھ پر چودہ طبق روشن ہو گئے۔ رپورٹ کا عنوان ہے ’’ژوب ڈویژن میں صوبہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں‘‘۔ ذیلی سرخی ’’حقِ آزادی کی تلفی‘‘ کے تحت لکھا ہے:
’’اپریل۔ صوبیدار خان، لورالائی، ۲/۴/۹۳ ۔ ٹیکس ادا کرنے سے انکار پر بلاجواز گرفتاری۔‘‘
’’جون۔ خداداد، موسٰی خیل، ۷/۶/۹۳ ۔ سرکاری کام میں مداخلت پر غیر قانونی گرفتاری۔‘‘
المذاہب: یعنی ٹیکس ادا کرنے سے انکار انسان کا ’’حقِ آزادی‘‘ ہے۔ سرکاری کام میں مداخلت کرنا بھی ’’انسانی حق‘‘ ہے، جرائم نہیں ہیں۔ ان کے ارتکاب پر بازپرس نہیں کی جانی چاہیے۔ یاللعجب!
میڈونا برطانیہ کی مشہور و معروف اخلاق باختہ فاحشہ ہے۔ اس نے اپنی جنسی کارگزاریوں پر باتصویر کتاب بعنوان ’’سیکس‘‘ (Sex)  لکھی تو مذہبی، سماجی اور اصلاحی حلقوں کی طرف سے اس کی زبردست مخالفت کی گئی۔ اب پڑھیے کہ کمیشن کی زیرمطالعہ میں رپورٹ ذیلی سرخی ’’۷۔حکومت کی طرف سے آزادی اظہار کی خلاف ورزی‘‘ کے تحت لکھا ہے:
’’اپریل۔ میڈونا کی کتاب سیکس پر ۲۱/۴/۳۹ کو حکومتِ بلوچستان نے پابندی لگائی۔‘‘
المذاہب: ’’سیکس‘‘ کے تعارف کے بعد ہم ’’حکومت کی طرف سے آزادی اظہار کی خلاف ورزی‘‘ پر اظہار رائے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔
آخر میں ’’اقلیتوں کے حقوق کی خلاف روزی‘‘ پر نوحہ خوانی کیجئے:
’’نومبر۔ ۱۱/۱۱/۹۳ ۔ اوم پرکاش، لورالائی، صرف چار بوتل شراب رکھنے کے جرم میں گرفتار۔‘‘
امید واثق ہے کہ مندرجہ بالا شواہد کی روشنی میں قارئین کرام پر مسیحیوں کے حقِ آزادیٔ اظہار کا حدود اربعہ روزِ روشن کی طرح واضح ہو گیا ہو گا اور وہ خوب سمجھ گئے ہوں گے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان والا تبار میں حسبِ منشا اول فول بکنا مسیحیوں کا حقِ آزادیٔ اظہار ہے جس سے انہیں محروم نہیں کیا جا سکتا۔ بصورتِ دیگر وہ لاہور کیتھیڈرل کے بشپ الیگزینڈر جان ملک کے الفاظ میں اقوامِ متحدہ تک سے اپروچ کریں گے۔
قانون گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وسلم منسوخ کرانے کے لیے مسیحی بھائی سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ ان کی خدمت میں آکسفورڈ کے بشپ رچرڈ ہیریز کا قول بغرض غوروخوض تحریر ہے کہ:
’’گو گستاخی مسیح کا موجودہ قانون کئی پہلوؤں سے تسلی بخش نہیں ہے، تاہم اسے ختم کر دینے کا مطلب یہ ہو گا کہ اب ہمارے معاشرہ میں مذہب کا کوئی مقام نہیں رہا ہے۔‘‘ (ریکارڈر ۱۷/۳/۹۴)

بیت النصر اربن کوآپریٹو کریڈٹ سوسائٹی لمیٹڈ بمبئی

ادارہ

بیت النصر اربن کوآپریٹو سوسائٹی کا قیام جمعہ یکم اکتوبر ۱۹۷۶ء کو مہاشٹر کوآپریٹو سوسائٹیز ایکٹ ۱۹۶۰ء کے تحت عمل میں آیا۔ سوسائٹی ہذا کے قیام کا مقصد ہندوستان میں غیر سودی بینک کاری کے لیے نئی راہیں دریافت کرنا، سود کے لین دین کو چھوڑ کر مکمل طور پر غیر سودی بینک کاری کے خطوط پر کام کرنا، صاف اور پاکیزہ ماحول میں کم لاگت والے رہائشی مکانات کی تعمیر کرنا، مسلمانوں میں سرمایہ کاری کا رجحان پیدا کر کے ان کے قیمتی سرمائے کو محفوظ کرنا اور انہیں مالی فائدہ پہنچانا اور حلال آمدنی کے ذرائع کی تلاش کرنا۔
ابتدا میں بیت النصر کا کل سرمایہ صرف ۱۲۰۰۰ روپے تھا جو ۳۱ مارچ ۱۹۹۰ء تک ۱۶.۶۵ کروڑ تک پہنچ گیا۔ سوسائٹی نے اپنے کام کا آغاز دو ملازموں سے کیا تھا اور اب ان کی تعداد بڑھ کر ۱۰۰ ہو گئی ہے۔ اس طرح یہ ادارہ قوم کے کئی افراد کے لیے ذریعہ معاش بھی بنا ہوا ہے۔ ابتدا میں ماہم کے ایک فلاحی ادارے میسوک (MESOC) کے دفتر سے سوسائٹی کا آغاز ہوا اور فی الحال عروس البلاد بمبئی کے ۹ اہم کاروباری مقامات ماہم، زکریا مسجد، مدنپورہ، مورلینڈ روڈ، باندرہ (ایسٹ)، بھارت نگر، کرلا، دھاراوی اور چیتا کیامپ میں سوسائٹی کی شاخیں ہیں۔ علاوہ ازیں تھوڑے ہی عرصہ میں ان شاء اللہ تعالیٰ ایک اور شاخ کھلنے جا رہی ہے۔ ۳۱ مارچ ۱۹۹۰ء تک سوسائٹی کے شیئرز کا کل سرمایہ ۱۴،۵۲،۰۰۰ اور تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے بطور ڈپازٹ جمع تھے۔ ابتدا سے ۳۱ مارچ ۱۹۹۰ء تک سوسائٹی ۷۳۸۲ افراد کو ۳،۴۱،۳۳،۸۰۰ روپے قرض دے چکی ہے۔

بیت النصر کے ممبر کیسے بنیں؟

ہر اس شخص کے لیے جو سوسائٹی میں اپنی رقم جمع کرنا، قرض لینا، ضمانت دینا چاہتا ہے، سوسائٹی کا ممبر ہونا لازمی ہے۔ ممبر بننے کے لیے کم از کم ۱۰ روپے کے تین شئیرز (حصص) خریدنا ضروری ہے اور ایک روپیہ داخلہ فیس بھی دینا پڑتی ہے۔ اگر ممبر چاہے تو ۲ سال بعد اپنی ممبر شپ ختم کر کے شیئرز کی رقم واپس حاصل کر سکتا ہے۔ سوسائٹی کے تمام دفاتر میں مندرجہ ذیل ڈپازٹ اسکیموں کی سہولت حاصل ہے۔ مزید تفصیلات آپ سوسائٹی کی کسی بھی شاخ سے معلوم کر سکتے ہیں۔

اسپاٹ ڈپازٹ (Spot Deposit)

یہ روزانہ ڈپازٹ اسکیم ہے۔ یہ بینکوں میں کرنٹ اکاؤنٹ (Current Account) کے مشابہ (قسم کا) کھاتہ ہے، البتہ اس میں آپ گھر بیٹھے بچت کر سکتے ہیں۔ اس اسکیم کا طریقہ یہ ہے کہ آپ یہ اکاؤنٹ کم از کم ۵ روپے سے کھول سکتے ہیں اور جب جتنی رقم چاہیں جمع اور نکال سکتے ہیں۔ اکاؤنٹ کھولنے کے ایک ماہ بعد تک آپ اس اکاؤنٹ سے پیسے نہیں نکال سکتے اور تین ماہ بعد سے آپ کو اس اکاؤنٹ میں کم از کم ۱۰۰ روپے جمع رکھنے ضروری ہیں، ورنہ ۲ روپے فی ماہ سروس چارج لیا جائے گا۔ اس اکاؤنٹ کے لیے سوسائٹی کی جانب سے یہ سہولت ہے کہ ہمارا مقرر کردہ کلکٹر خود آپ کے مکان، دکان یا آفس میں آ کر رقم وصول کرتا ہے۔

سیونگ ڈپازٹ (Saving Deposit)

آپ یہ اکاؤنٹ کم از کم پانچ روپے سے کھول سکتے ہیں اور جتنی رقم چاہیں جمع کر سکتے ہیں اور جب چاہیں واپس لے سکتے ہیں، اس میں کلکڑ کی سہولت نہیں ہے۔

ریکرنگ ڈپازٹ (Recurring Deposit)

اس ڈپازٹ کی کم از کم رقم ۲۵ روپے ماہانہ اور مدت ۲ سال ہے۔ مدت ختم ہونے سے قبل ضرورت پڑنے پر چند روز قبل آفس میں اطلاع دے کر رقم واپس لی جا سکتی ہے۔ ممبران کی سہولت کے لیے سوسائٹی کا مقرر کردہ کلکڑ ہر ماہ آپ کے مکان، دکان یا آفس سے رقم وصول کرتا ہے۔

فکسڈ ڈپازٹ (Fixed Deposit)

اس ڈپازٹ کی کم از کم رقم ۱۰۰ روپے اور مدت ایک سال ہے۔ مدت ختم ہونے سے قبل بوقت ضرورت چند دن پیشتر دفتر میں اطلاع دے کر رقم واپس لی جا سکتی ہے۔

قرضہ  جات کے لیے شرائط و ضوابط

سوسائٹی سے قرض حاصل کرنے کے لیے قرض خواہ کو مندرجہ ذیل شرائط پورا کرنا ضروری ہے:
(الف) سوسائٹی کے رجسٹرڈ ممبران ہی قرض کے لیے عرضی دے سکتے ہیں۔
(ب) سوسائٹی کے ان ممبران کو جن کا کھاتہ سوسائٹی کے پاس کم از کم ایک سال سے باقاعدہ جاری رہا ہو، زیادہ سے زیادہ پندرہ ہزار روپے قرض دیا جا سکتا ہے۔ البتہ ہمارے بنائے ہوئے رہائشی مکان اور خاص قسم کی تجارت کے لیے ۲۵ ہزار تک قرض دیا جا سکتا ہے۔
(ج) نئے ممبران ممبرشپ حاصل کرنے کے تین ماہ بعد ہی قرض کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ شروع میں انہیں فی کس زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار روپے قرض دیا جا سکتا ہے۔
(د) قرض کی مطلوبہ رقم کے مطابق مندرجہ ذیل ۴ چیزوں کی ضمانت قبول ہو گی:
(۱) سونے کے زیورات (مالیت) کی ۸۰ فیصد رقم بطور قرض حاصل ہو گی۔
(۲) سوسائٹی اور اس سے منسلک ادارہ برکت انویسٹمنٹ کے کھاتے داروں کی ضمانت۔ یہ ضمانت کھاتے میں جمع شدہ رقم کی ۸۰ فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے (یہاں یہ دھیان میں رکھی جائے کہ ضامن حضرات اپنے کھاتے سے ضمانت شدہ رقم اس وقت تک نہیں نکال سکتے جب تک کہ قرض کی پوری رقم ادا نہیں کی جاتی)۔
(۳) ان پبلک لمیٹڈ کمپنیوں کے اکویٹی شیئرز (حصص) پہ جو کہ بمبئی اسٹاک ایکسچینج کے تحت رجسٹرڈ ہوں۔ ایسے حصص کی موجودہ قدر (Value) کا ۵۰ فیصد قرض دیا جا سکتا ہے۔
(۴) ان اسکوٹر، موٹر سائیکل، آٹو رکشا اور ٹیکسی کے رہن پر (Hypothecation) جو کہ بمبئی RTO میں رجسٹرڈ ہوں اور دس سال سے زیادہ پرانی نہ ہوں، قرض دیا جائے گا۔البتہ مندرجہ بالا قسم کا قرض (الف) اسکوٹر اور موٹر سائیکل کے رہن پر بارہ ہزار روپے یا ان کی موجودہ قدر کے ۶۰ فیصد، ان میں سے جو بھی کم ہو، دیا جائے گا۔ (ب) آٹو رکشا اور ٹیکسی کے لیے پندرہ ہزار روپے یا ان کی موجودہ قدر کے ۶۰ فیصد، ان میں سے جو بھی کم ہو، دیا جائے گا۔
قرضہ جات پر معمولی سروس چارج لیا جاتا ہے جس کی مدد سے سوسائٹی کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔ قرض کی ادائیگی زیادہ سے زیادہ ۲۰ قسطوں میں ہونی چاہیے۔

بیت النصر کے دیگر ادارے اور ان کی اسکیمیں

بیت النصر گو کہ ایک اربن کوآپریٹو سوسائٹی ہے مگر بیت النصر گروپ میں تین اور مالی ادارے شریک ہیں اور ان شاء اللہ تعالیٰ اس گروپ کے ماتحت دو اور ادارے عنقریب وجود میں آ رہے ہیں۔ موجودہ تین ادارے حسب ذیل طریقے پر کام کر رہے ہیں:

(۱) فلاح انویسٹمنٹ لمیٹڈ اور (۲) اتفاق انویسٹمنٹ لمیٹڈ

بیت النصر اربن کوآپریٹو کریڈٹ سوسائٹی کی طرح یہ دونوں کمپنیاں بھی لوگوں کو سودی نظام سے بچا کر جائز اور حلال طریقوں سے سرمایہ کاری کرنے اور آمدنی کے مواقع فراہم کرنے کے لیے اپریل ۱۹۸۳ء میں وجود میں لائی گئیں۔ دونوں کمپنیاں اپنے ممبران کو جن میں ڈاکٹر، وکیل، دیگر پیشہ ور یا ملازمت پیشہ قسم کے لوگ شامل ہیں، اپنے پاس جمع کیا ہوا سرمایہ اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے سے مختلف کمپنیوں کے شیئرز (حصص) میں لگا کر ان سے فائدہ حاصل کر کے نفع کی رقم ممبران میں تقسیم کرتی ہیں۔ ایسے افراد جو بیک وقت ۳۵،۰۰۰ روپے کی رقم ان کمپنیوں میں سے کسی ایک میں جمع کرتے ہیں، انہیں پورٹ فولیو مینیجمنٹ (Portfolio Management) کی خدمات مہیا کرتی ہیں۔ ان کمپنیوں نے ایک جوائنٹ پورٹ فولیو مینیجمنٹ اسکیم (Joint Portfolio Management Scheme) بھی تشکیل دی ہے جس کا عین مقصد کم سے کم سرمایہ لگا سکنے والوں کو بھی شیئر مارکیٹ کے کاروبار سے متعارف اور مستفیض کرانا ہے۔ اس اسکیم کے ذریعے ہر ممبر ابتدا میں کم از کم صرف دس ہزار روپے جمع کر کے اسکیم میں شامل ہو سکتا ہے۔ موجودہ اسکیم کے تحت سرمایہ لگانے والوں کو ان کے سرمایے پر ہر سال ۳۰ فیصد کے حساب سے منافع دیا گیا۔ ان کاموں کے لیے شیئر مارکیٹ سے منسلک ماہرین کی خدمات اداروں کو حاصل ہیں۔

(۳) برکت انویسٹمنٹ کارپوریشن

فلاح انویسٹمنٹس اور اتفاق انویسٹمنٹس نے مل کر جنوری ۱۹۸۸ء کو برکت انویسٹمنٹس کارپوریشن جاری کیا۔ یہ کارپوریشن بھی بیت النصر سے منسلک ہے۔ رہائشی مکانات فراہم کرنے کے کاموں میں یہ بیت النصر کی شریک کار ہے۔ برکت انویسٹمنٹس کارپوریشن بیت النصر کے عملی تعاون سے اب تک نالا سوپارہ، ممبرا اور کوسہ میں رعایتی داموں پر غیر سودی قرض کے ساتھ کئی لوگوں کو رہائشی مکان (فلاٹس) مہیا کر چکی ہے۔ علاوہ ازیں اس ادارہ کی ایک فکسڈ ڈپازٹ اسکیم بھی ہے۔
اس اسکیم کے ماتحت آپ اپنا سرمایہ حقیقی املاک (Real Estate)، اجارہ (Leasing)، نفع و نقصان میں شرکت (Profit and Loss Sharing) جیسے جائز اور حلال کاروبار میں لگا کر ’’برکت‘‘ کی آمدنی میں حصہ دار بن سکتے ہیں۔
(۱) ڈپازٹ کی کم از کم میعاد ایک سال ہو گی اور کم از کم دس ہزار روپے بطور ڈپازٹ قبول کیے جائیں گے۔
(۲) منافع ہر تین مہینے سے بھی دینے کی سہولت ہے۔
(۳) دو سال سے زائد عرصہ کے لیے ڈپازٹ رکھنے والے حضرات کو برکت انویسٹمنٹ کارپوریشن کے آئندہ ہاؤسنگ اسکیموں میں ۵ فیصد تک رعایت دی جائے گی۔
(۴) فکسڈ ڈپازٹ کے تقابل میں بیت النصر سے قرض (Loan) کی سہولیات مہیا رہیں گی۔
۸۹۔۱۹۸۸ء میں برکت انویسٹمنٹس میں اس اسکیم کے ماتحت ۴۱ ڈپازٹرز نے سولہ لاکھ چھپن ہزار روپے رکھے تھے جس پر انہیں ۱۹ فیصد نفع دیا گیا۔ اس اسکیم کو لوگوں کا اس قدر اعتماد حاصل ہوا کہ ۹۰۔۱۹۸۹ء میں اس کے ڈپازٹرز کی تعداد ۴۱ سے بڑھ کر ۳۱ مارچ ۱۹۹۰ء تک ۱۹۱ ہو گئی اور رقم بھی ۴۵ لاکھ روپے تک بڑھ گئی۔ اس سال کے لیے ۱۷.۵ فیصد نفع تقسیم کیا گیا۔

دنیا کے غیر سودی اسلامی مالیاتی ادارے

ادارہ


نام ادارہ ملک سن تاسیس
1 الراجحی فار کرنسی ایکسچینج سعودی عرب ۱۹۸۳
2  بحرین اسلامک بینک
 بحرین  ۱۹۷۹
3 بحرین اسلامک انویسٹمنٹ کمپنی
بحرین
۱۹۸۱
4 بنک اسلام ملائشیا
ملائشیا
۱۹۸۳
5 دارالمال الاسلامی
سوئٹرز لینڈ
۱۹۸۱
6  دوبئی اسلامک بنک
متحدہ عرب امارات
۱۹۷۵
7  فیصل اسلامک بنک
مصر
۱۹۷۷
8 فیصل اسلامک بنک
سوڈان
۱۹۷۷
9 انٹرنیشنل اسلامک بنک
بنگلہ دیش
۱۹۸۳
10 ایرانین اسلامک بنک
تہران
۱۹۷۹
11 اسلامک بنک انٹرنیشنل
ڈنمارک
۱۹۸۳
12 اسلامک بنکنگ سسٹم انٹرنیشنل ہولڈنگ
لگزم برگ
۱۹۷۸
13 اسلامک ڈویلپمنٹ بنک
سعودی عرب
۱۹۷۵
14 اسلامی انٹرنیشنل بنک فار انویسٹمنٹ اینڈ ڈویلپمنٹ
مصر
۱۹۸۱
15  اسلامک انویسٹمنٹ ہاؤس
اردن
۱۹۸۱
16 اردن اسلامک بنک فار فنانس اینڈ انویسٹمنٹ
اردن
۱۹۷۸
17  کویت فنانس ہاؤس
 کویت ۱۹۷۷
18 کویت فنانس ہاؤس
ترکی
۱۹۸۳
19 ناصر سوشل بنک
مصر
۱۹۷۲
20 قطر اسلامک بنک
قطر
۱۹۸۳
21 سعودی فلپائن اسلامک ڈویلپمنٹ بنک
سعودی عرب
۱۹۸۲
22  تضامن اسلامک بنک
سوڈان
۱۹۸۳

(آر ولسن کی کتاب ’’اسلامک بزنس‘‘ سے ماخوذ)

اسلامک ہوم اسٹڈی کورس کا پروگرام

ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کا ایک اہم اجلاس ۹ جولائی کو مدنی مسجد نوٹنگھم میں فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں یورپی مسلمانوں کے لیے اسلامی تعلیمات کے خط و کتابت کورس اور ۶ اگست کو منعقد ہونے والے تعلیمی سیمینار کے انتظامات کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں فورم کے راہنماؤں مولانا محمد عیسٰی منصوری، مولانا رضا الحق، مولانا محمد سلیم دھورات، مولانا سید اسد اللہ طارق گیلانی اور فیاض عادل فاروقی کے علاوہ انٹرنیشنل اسلامک مشن کے سربراہ مولانا عبد الحفیظ مکی نے بھی شرکت کی۔
فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری نے اجلاس میں بتایا کہ اسلام آباد انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ دعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمود احمد غازی اور ڈربن یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے سربراہ ڈاکٹر سید سلمان ندوی نے تعلیمی سیمینار میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی دعوت منظور کر لی ہے، جو ۶ اگست ہفتہ کو ۲ بجے دن اسلامک کلچرل سنٹر ریجنٹ پارک میں منعقد ہو رہا ہے، اور اس میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ زعما مغربی ممالک کے مسلمانوں کی دینی تعلیم و تربیت کی ضروریات پر اظہارِ خیال کریں گے۔
اجلاس میں مسلمان نوجوانوں کے لیے اسلامی تعلیمات کے خط و کتابت کورس کو آخری شکل دی گئی اور اس کا نام تبدیل کر کے ’’اسلامک پوسٹل کورس‘‘ کے بجائے ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ یہ کورس اردو اور انگلش دو زبانوں میں ہو گا اور اس کا اہتمام دعوۃ اکیڈمی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے تعاون سے کیا جائے گا، جبکہ کورس مکمل کرنے والے نوجوانوں کو اسلام آباد یونیورسٹی کی طرف سے ڈپلومہ بھی دیا جائے گا۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ورلڈ اسلامک فورم کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا رضا الحق ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ کے انچارج ہوں گے اور مدنی مسجد، گلیڈ سٹون سٹریٹ، فارسٹ فیلڈ، نوٹنگھم میں کورس کا آفس ہو گا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کورس میں مسلمان لڑکوں کے علاوہ لڑکیاں بھی شریک ہو سکیں گی اور غیر مسلم بھی اسلامی تعلیمات کے اس کورس سے استفادہ کرنا چاہیں تو انہیں اس کا موقع دیا جائے گا۔
اجلاس کے بعد مولانا محمد عیسٰی منصوری نے ایک ملاقات میں برطانیہ اور یورپ بھر کے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے علاوہ نو مسلم حضرات اور اسلام میں دلچسپی رکھنے والے غیر مسلموں کو بھی اسلامی تعلیمات سے بہرہ ور کرنے کی کوشش کریں اور اس مقصد کے لیے ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ سے استفادہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی نے اس مقصد کے لیے اردو اور انگلش میں جو کورس مرتب کیے ہیں وہ مغربی معاشرہ کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے مرتب کیے گئے ہیں اور ان سے یہاں کے مسلمان نوجوان بہتر طور پر استفادہ کر سکیں گے۔


مدنی مسجد نوٹنگھم میں جلسہ عام

انٹرنیشنل اسلامک مشن کے سربراہ فضیلۃ الشیخ عبد الحفیظ مکی نے کہا ہے کہ ملتِ اسلامیہ کے عروج و ترقی کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ساتھ وابستہ کیا ہے، اس لیے ہم اسلام کے سوا اور کوئی طریقہ اختیار کر کے دنیا میں ترقی نہیں کر سکتے۔ وہ گزشتہ روز مدنی مسجد نوٹنگھم میں ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام ایک جلسہ سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المقدس کی فتح کے موقع پر واضح طور پر فرما دیا تھا کہ
’’ہم مسلمانوں کو اللہ رب العزت نے اسلام کے ساتھ عزت دی ہے اور اگر ہم اسلام کے علاوہ کسی اور چیز کے ساتھ عزت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں ذلیل کر دیں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد کو ہم تاریخ کے حوالے سے دیکھیں تو اس کی صداقت ہمارے سامنے ہے کہ ہم دنیا میں عزت اور وقار کے لیے اسلام سے ہٹ کر جو راستہ بھی اختیار کرتے ہیں وہ ہمارے لیے ذلت اور رسوائی کا باعث بن جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اجتماعی طور پر توبہ و استغفار کرتے ہوئے اسلامی احکام کی طرف رجوع کریں اور اپنی زندگیوں کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ انہوں نے برطانیہ میں دینی کام کرنے والے تمام اداروں اور حلقوں سے اپیل کی کہ وہ ایک دوسرے کا وجود تسلیم کرتے ہوئے باہمی تعاون اور اشتراک کی فضا پیدا کریں اور ملتِ اسلامیہ کے اجتماعی کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔
ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں نے اپنی نئی نسل کو دین کے ساتھ وابستہ رکھنے کی شعوری اور سنجیدہ کوشش نہ کی تو اس کے نتائج انتہائی خطرناک ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے دینی مکاتب میں مسلمان بچوں کی دینی تعلیم کے سلسلہ میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ضروری اور مفید ہونے کے باوجود ناکافی ہے، اور نوجوانوں کو اسلامی عقائد، احکام اور اخلاق سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری پوری نہیں ہو رہی۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی تعلیم کے اس نظام کو نئی نسل کی ضروریات کے لحاظ سے وسعت دی جائے اور تعلیم کے نصاب اور طرز کو یہاں پروان چڑھنے والے بچوں کی نفسیات اور ذہنی سطح کے مطابق بنایا جائے۔ انہوں نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور بچوں کی دینی و اخلاقی تربیت کے لیے بروقت توجہ دیں، ورنہ اگر انہوں نے اپنی غفلت اور بے توجہی کی وجہ سے نئی نسل کو اس معاشرہ کے حوالے کر دیا تو آنے والی نسلوں کو اسلام کے ساتھ وابستہ رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ 
جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اسلامک دعوۃ اکیڈمی لیسٹر کے ڈائریکٹر مولانا محمد سلیم دھورات نے کہا کہ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ علما اور دینی تحریکات کے ساتھ ربط پیدا کریں اور اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں، کیونکہ اسی صورت میں وہ گمراہی اور بے راہ روی سے بچ سکیں گے۔
جلسہ سے مولانا رضاء الحق کے علاوہ مرکزی جامع مسجد ساؤتھال کے خطیب مولانا اسد اللہ طارق گیلانی نے بھی خطاب کیا۔
(بشکریہ ’’جنگ‘‘ لندن ۔ ۱۱ جولائی ۱۹۹۴ء)

اسلامک دعوہ اکیڈمی لیسٹر (برطانیہ)

ادارہ

مجمع الدعوۃ الاسلامی لیسٹر کا قیام ۱۹۹۱ء میں عمل میں آیا اور اس سال شعبان میں پہلا مکمل سال اختتام کو پہونچا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور بزرگوں کی دعاؤں اور توجہات کی برکت سے یہ سوال ہر طرح سے نہایت ہی عافیت کے ساتھ گزرا۔ رمضان المبارک ۱۴۱۳ھ کے بعد مجمع الدعوۃ الاسلامی کی نئی عمارت میں ادارہ منتقل ہوا اور مندرجہ ذیل امور میں کامیابی سے ہمکنار ہوا:

(۱) دینی اور معاشرتی مسائل میں رہنمائی

بالمشافہ ملاقاتوں کے علاوہ خط اور ٹیلیفون کے ذریعے درجنوں حضرات اور خواتین نے رابطہ کیا اور الحمد للہ اکیڈمی ان میں سے اکثر کے مسائل حل کرنے میں کامیاب رہی۔

(۲) غیر مسلموں میں دینی دعوت

ایک حد تک اس کی طرف توجہ دی گئی۔ کچھ پمفلٹ بھی تقسیم کیے گئے اور غیر مسلموں سے دعوت کے پہلو پر ملاقاتیں اور بات چیت بھی رہی۔ الحمد للہ سالِ رواں میں ۲۱ غیر مسلم اسلام کے دامن میں داخل ہوئے جن میں سکھ، ہندو، سیاہ فام اور مقامی گورے بھی داخل ہیں۔

(۳) دینی لٹریچر

انگریزی زبان میں کئی ایک چھوٹے چھوٹے پمفلٹ کئی ہزار کی تعداد میں تقسیم کیے گئے، ان کی فہرست یہ ہے:
  1. اسلامی وصیت نامہ
  2.  حج
  3.  آپ عمرہ کیسے کریں؟
  4.  صوم
  5.  زکٰوۃ
  6.  اسلام کی خوبیاں، میلکم ایکس کی نظر میں۔

نیز قربانی اور عمرہ کیسے کریں دو رسالے بھی شائع کیے گئے۔ اور ماہنامہ ریاض الجنۃ اپنے تیسرے سال میں قدم رکھ چکا ہے، قارئین کی تعداد ۱۵۰۰ کے قریب قریب ہے۔

(۴) اسلامی تعلیم

مکاتیب سے فارغ ہونے والے بچوں کو زہریلے ماحول سے بچانے اور مزید تعلیم دینے کی غرض سے ایک کورس مرتب کیا ہے جس میں مندرجہ ذیل مضامین پڑھائے جاتے ہیں:
  1. قرآن مجید تجوید کے ساتھ
  2. عقائد
  3. حدیث
  4. فقہ
  5. آداب المعاشرت
  6. دعائیں
  7. اخلاق
  8. سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم

اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۲۵ طالب علموں نے اعلٰی نمبرات سے کامیابی حاصل کی ہے۔ جگہ کی تنگی کی وجہ سے مزید داخلہ دشوار ہے تاہم دوسری جگہ کے انتظام کی کوشش جاری ہے۔

(۵) درجہ علمیت

ان بچوں کے لیے جو انگریزی تعلیم میں کامیابی کے ساتھ ترقی کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ دینی علم کا ذوق بھی رکھتے ہیں، یہ انتظام کیا گیا ہے۔ چار طالب علموں نے عربی اول کی کتابوں کا امتحان دیا اور اعلیٰ نمبرات سے پاس ہوئے۔

(۶) درجہ حفظ

ایک کلاس درجہ حفظ کی تجوید کے ساتھ جاری ہے۔ جگہ کی تنگی کی وجہ سے اس میں بھی وسعت کی گنجائش نہیں۔ ۱۲۰ طالب علم ہیں اور ان شاء اللہ ان میں سے آئندہ سال کچھ ختم بھی کریں گے۔

(۷) نوجوانوں کیلئے جلسے اور قرآن کے حلقے

انگلینڈ کے مختلف شہروں میں سے کسی نہ کسی شہر میں ہر ہفتہ انگلش میں نوجوانوں کے لیے اصلاحی پروگرام اور ہر ہفتہ مقامی شہر لیسٹر میں ایک مرتبہ درسِ قرآن پاک کا پروگرام ہوتا ہے۔ سال میں ایک دفعہ کسی ہال کو کرایہ پر لے کر ان نوجوانوں کو جمع کیا جاتا ہے جو مسجد میں آنے کے لیے بھی آمادہ نہیں ہیں۔ اس سال الحمد للہ اس جلسہ میں ۵۰۰ - ۶۰۰ نوجوان جمع ہو گئے تھے اور نوجوانوں پر اچھے اثرات رہے۔ 

کمیونزم کیلئے مذہب کی تلاش

ادارہ

’’زار روس کے دور کے خاتمہ پر جب لینن برسراقتدار آئے اور انہوں نے کمیونسٹ حکومت قائم کر لی تو ایک دن اپنے قریبی دوستوں کی میٹنگ طلب کی اور اس میں انہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ہم اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن اس کو برقرار رکھنے اور اس کو چلانے کے لیے اس کی ضرورت ہے کہ ہم ایسے نظریہ حیات کو اپنائیں جو انسانی فطرت کے مطابق ہو۔ اس لیے کہ انسان کو اپنی بقا کے لیے صرف روٹی نہیں چاہیے بلکہ اس کی روح کی تسکین کے لیے ایک مذہب کی بھی ضرورت ہے۔ میں نے تمام مذاہب کا گہرا مطالعہ کیا ہے، میرے نزدیک سوائے ایک مذہب کے کسی اور میں یہ صلاحیت نہیں ہے جو ہمارے نظریہ کمیونزم کا ساتھ دے سکے۔ اس لیے میں ابھی اس مذہب کا نام ہی بتلاؤں گا، اس بارے میں رائے قائم کرنے میں آپ جلدی نہ فرمائیں، اس لیے کہ یہ سوال کمیونزم کی موت اور حیات کا ہے۔ آپ وقت لیں اور غور کریں، ہو سکتا ہے میں غلطی پر ہوں لیکن ہمیں اپنے تصفیہ کے بارے میں ٹھنڈے دل سے غور کرنا ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو اپنے مادی رجحانات میں کمیونزم پر پورا اترتا ہے۔ یہ سن کر مجمع میں شور ہونے لگا تو لینن نے ٹھنڈے دل سے پھر غور کرنے کی ہدایت کی کہ آج سے پورے ایک سال کے بعد پھر ہم ملیں گے اور اس وقت طے کریں گے کہ کمیونسٹ کو کوئی مذہب اختیار کرنا چاہیے؟ اور کونسا؟
برطانوی حکومت کے محکمہ خارجہ کو جب اس کا علم ہوا تو اس نے اس میں برطانوی سلطنت کے لیے بڑا خطرہ محسوس کیا کہ اگر کمیونزم اور اسلام مل جائیں تو روس کو برطانیہ پر ایک ناقابل تسخیر قوت اور فوقیت حاصل ہو جائے گی۔ فوری انہوں نے ایک مسئلہ کھڑا کیا کہ
’’اسلام کے لیے مارکسزم جیسا خدا سے منحرف اور ملحدانہ نظریہ قابل قبول ہو سکتا ہے؟‘‘
علماء ازھر نے، جو اس سوال کے پس منظر سے واقف نہ تھے، ایسا فتوٰی صادر کر دیا جو برطانوی حکومت چاہتی تھی۔ یہ فتوٰی طبع کروا کر دنیا کے کونے کونے میں تقسیم کروا دیا گیا حتٰی کہ روس کے اسلامی علاقوں میں اس فتوٰی کی کاپیاں ابھی تک بعض مسلمانوں کے پاس ہیں۔
ظاہر ہے کہ اس کا علم لینن کو ہو گیا۔ انہوں نے اپنی حیرت کا اظہار کیا اور کہا میں سمجھتا تھا کہ مسلمان سمجھدار ہوں گے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی اور مذاہب کی طرح بڑے کٹر اور دقیانوسی ہیں۔
جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسکیم دھری کی دھری رہ گئی اور اس کے مخالفین نے اطمینان کا سانس لیا۔‘‘

(ایم این رائے کی خودنوشت سوانح عمری سے اقتباس: رسالہ ’’سوویت یونین‘‘ (اردو) جلد ۲۸ جون ۱۹۸۲ء ۔ بحوالہ ’’اب بھی نہ جاگے تو ۔۔۔‘‘ مصنفہ مولانا شمس نوید عثمانیؒ)

ستمبر ۱۹۹۴ء

ورلڈ اسلامک فورم کا دوسرا سالانہ تعلیمی سیمینارادارہ
آہ! مولانا مفتی عبد الباقی ؒ و مولانا منظور عالم سیاکھویؒادارہ
مولانا سندھیؒ کا بچپن ۔ ولادت سے اظہارِ اسلام تکڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری
مولانا سندھیؒ کے تلامذہ، افادات اور تحریراتشیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
مولانا سندھیؒ کی ایک تاریخی تقریرڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری
کیا مولانا عبید اللہ سندھیؒ اشتراکیت سے متاثر ہوگئے تھے؟مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جشن یسوع ۔ لندن کی ایک مسیحی تقریب کا آنکھوں دیکھا حالمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مرحوم افتخار اعظمی کی یاد میںادارہ
افکارِ سندھیؒادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کا دوسرا سالانہ تعلیمی سیمینار

ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم نے یورپ کے مسلم طلبہ اور طالبات کے لیے ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ کے نام سے خط و کتابت کورس کا آغاز کر دیا ہے اور دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمود احمد غازی نے مسلمانوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی نئی نسل کا نظریاتی اور عملی رشتہ اسلام کے ساتھ باقی رکھنے کے لیے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اس کورس کے ساتھ وابستہ کریں۔
اس سلسلہ میں ورلڈ اسلامک فورم کا دوسرا سالانہ تعلیمی سیمینار اسلامک کلچرل سنٹر ریجنٹ پارک لندن میں منعقد ہوا جس میں مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کرام اور دانشوروں نے مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کے دینی مسائل اور نئی نسل کی تعلیم و تربیت کے تقاضوں پر اظہارِ خیال کیا۔
سیمینار کی پہلی نشست کی صدارت مکہ مکرمہ کے ممتاز عالم دین فضیلۃ الشیخ محمد مکی حجازی نے کی اور اس میں ڈاکٹر محمود احمد غازی بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔ جبکہ دوسری نشست کی صدارت عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سربراہ مولانا خواجہ خان محمد نے کی اور دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث مولانا سید ارشد مدنی بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔ سیمینار سے ہفت روزہ تکبیر کراچی کے مدیر محمد صلاح الدین، ڈربن یونیورسٹی جنوبی افریقہ کے شعبہ اسلامیات کے سربراہ ڈاکٹر سید سلمان ندوی، ماہنامہ محدث لاہور کے مدیر مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی، مرکز اسلامی ڈھاکہ کے ڈائریکٹر مولانا روح الامین، مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے استاذ مولانا سعید احمد عنایت اللہ، جمعیت اہلحدیث برطانیہ کے امیر ڈاکٹر صہیب حسن، پنجاب کے سابق وزیر قاری سعید الرحمٰن، اور ورلڈ اسلامک فورم کے راہنماؤں مولانا زاہد الراشدی، مولانا محمد عیسٰی منصوری، پروفیسر عبد الجلیل ساجد اور مولانا سید اسد اللہ طارق گیلانی کے علاوہ مولانا منظور احمد چنیوٹی، مولانا قاری سعید الرحمٰن تنویر، مولانا عبد الرشید ربانی، مولانا امداد الحسن نعمانی، قاری تصور الحق، دارالعلوم فلاح دارین (انڈیا) کے سربراہ مولانا محمد عبد اللہ پٹیل اور قاری عبد الرشید رحمانی نے خطاب کیا۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
  • آج مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ تعلیم و تربیت کے نظام کو صحیح خطوط پر استوار کرنے کا ہے، کیونکہ اس کے بغیر ہم اپنی نسل کو وقت کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں کر سکتے۔
  • انہوں نے کہا کہ ملتِ اسلامیہ نے ہر دور میں مخالف تہذیبوں کی یلغار کا کامیابی کے ساتھ سامنا کیا ہے اور یونانی فلسفہ، تاتاریوں اور ہندومت کے حملوں کے باوجود اپنے نظریات و افکار اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت کی ہے۔ لیکن مغربی فلسفہ جس طرح مختلف جہات سے اسلامی عقائد و نظریات اور معاشرت پر حملہ آور ہوا ہے اس نے عالمِ اسلام کی تاریخ کا سب سے بڑا بحران پیدا کر دیا ہے، جس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے مسلم دانشوروں اور علماء کو گہرے غور و فکر کے ساتھ منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔
  • انہوں نے کہا کہ مغرب کے نظریات اور ثقافتی حملوں کے نتیجہ میں مسلمان سیاسی اور عسکری طور پر کمزور اور معاشی طور پر بدحال ہو چکے ہیں اور فکری غلامی کی جڑیں گہری ہوتی جا رہی ہیں، جس کی وجہ سے ہم مغرب کے حاشیہ نشین اور نقال بنتے جا رہے ہیں۔
  • انہوں نے کہا کہ حضرت امام مالکؒ نے فرمایا ہے کہ اس امت کے آخری حصہ کی اصلاح بھی اس طریقہ سے ہو گی جس طریقہ سے امت کے پہلے حصہ کی اصلاح ہوئی، یعنی ہمیں اصلاحِ احوال کے لیے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریق کار کو اپنانا ہو گا۔
  • انہوں نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے لوگوں کے فکر و عقیدہ کی اصلاح کی تھی اور ان کی ذہنی تربیت کا اہتمام کیا تھا۔ اس لیے آج ہمیں بھی امتِ مسلمہ کے احوال کی اصلاح کے کام کا آغاز فکری تربیت اور ذہنی تطہیر سے کرنا چاہیے، کیونکہ ذہنی اور فکری تربیت اور اصلاح کی صورت میں ہی ایک اچھی قیادت مسلمانوں میں ابھر سکتی ہے۔
  • انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد نے انہی خطوط پر تعلیمی جدوجہد کا آغاز کیا ہے کہ جدید علوم کے ساتھ مسلم نوجوانوں کو قرآن و سنت کی تعلیمات اور اسلامی افکار و اخلاق سے آراستہ کیا جائے، چنانچہ ریگولر تعلیمی نظام کے علاوہ خط و کتابت کے ذریعہ بھی اسلامی تعلیمات کے متعدد کورس شروع کیے ہیں جن سے اب تک بیس ہزار سے زائد افراد گھر بیٹھے استفادہ کر چکے ہیں۔
  • انہوں نے کہا کہ یورپ کے مسلم طلبہ اور طالبات کے لیے مطالعہ اسلام کا ایک سالہ کورس بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے جو ورلڈ اسلامک فورم کے زیراہتمام شروع کیا گیا ہے اور اس کے لیے مدنی مسجد (گلیڈ سٹون سٹریٹ، فارسٹ فیلڈ، نوٹنگھم) میں دفتر نے کام شروع کر دیا ہے۔
جناب محمد صلاح الدین نے ’’اسلامی نظامِ تعلیم و تربیت میں ذرائع ابلاغ کا کردار‘‘ کے موضوع پر تفصیلی مقالہ پیش کیا جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ
  • مسلمانوں کو تعلیم و تربیت کے محاذ پر ابلاغ کے جدید ذرائع سے استفادہ کرنا چاہیے اور الیکٹرانک میڈیا کو کفر، باطل اور فحاشی کے لیے وقف نہیں کر دینا چاہیے۔ کیونکہ ذرائع محض ذرائع ہوتے ہیں، انہیں اگر اچھے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو خیر کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور برے کاموں کے لیے استعمال کیا جائے تو شر کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
  • انہوں نے کہا کہ یہ دنیا وسائل کی دنیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کے اعمال کو وسائل سے وابستہ کیا ہے، لیکن آج ہم نے وسائل اور ذرائع کو دنیائے کفر کے لیے کھلا چھوڑ دیا ہے اور خود زندگی کے ہر شعبہ میں وسائل کے لیے کافر قوموں کے محتاج ہو کر رہ گئے ہیں۔
  • انہوں نے کہا کہ مسلم معاشرہ کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ابلاغ کے تمام ذرائع، خواہ وہ سرکاری کنٹرول میں ہوں یا نجی ہاتھوں میں ہوں، ان سب پر اباحیت پسند اور زر پرست طبقے کا قبضہ ہے، جس کے نزدیک دینی و اخلاقی اقدار کوئی اہمیت نہیں رکھتیں بلکہ یہ اقدار اس طبقہ کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی مفادات کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسی تحریکِ مزاحمت شروع کی جائے جو مسلسل دباؤ ڈال کر ذرائع ابلاغ کا رخ صحیح کر سکے۔
ڈاکٹر سید سلمان ندوی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سب سے زیادہ ضرورت نوجوانوں کی طرف توجہ دینے کی ہے کیونکہ انہی کی اصلاح سے معاشرہ میں کوئی خوشگوار تبدیلی آ سکتی ہے، اس لیے علماء اور دینی اداروں کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کو قریب لانے اور ان تک رسائی حاصل کرنے کے لیے مثبت طرز عمل اختیار کریں۔
مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ تعلیم و تربیت اور دعوت و ابلاغ میں لوگوں کی مشکلات اور ضروریات کا خیال رکھنا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ جیسا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو، جو عربی زبان میں قریش کی لغت پر نازل ہوا، مگر جب دوسرے قبائل کے نئے مسلمان لوگوں کو قریش کی لغت پر قرآن کریم کی تلاوت کرنے میں دِقت پیش آئی تو ان کی اس وقت (کی ضرورت) کے پیش نظر انہیں دوسری مشہور لغات میں قرآن کریم پڑھنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ بعد میں حضرت عثمانؓ کے دور میں غیر عرب مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہونے کے خدشہ کے پیش نظر اس گنجائش کو متفقہ طور پر ختم کر دیا گیا۔ اس لیے آج بھی ہمیں اسلام کی دعوت و تعلیم میں لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے اور تمام اقوام تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے حکمت و تدبر سے کام لینا چاہیے۔
مولانا محمد مکی حجازی نے کہا کہ مغرب کے فکر و فلسفہ کے مقابلہ میں کام کو منظم کرنے کی ضرورت ہے، لیکن اس سے مرعوب ہونے کے بجائے پوری جرأت و حوصلہ کے ساتھ اس کا سامنا کرنا چاہیے۔
مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کو محبت اور شفقت کے ساتھ اور ان کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے اسلامی عقائد و احکام کے ساتھ مانوس کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ بچے میں میلان اور نقالی کا مادہ ہوتا ہے اور ماں باپ ان کے سامنے اخلاق و کردار کا اچھا نمونہ بن کر انہیں بہتر کردار کے سانچے میں ڈھال سکتے ہیں۔
مولانا قاری سعید الرحمٰن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلم نوجوان، جس نے مسلمان گھرانے میں پرورش پائی ہے، جس قسم کی خراب صورتحال سے بھی دوچار ہو، توحید اور رسالت کے عقیدہ سے منحرف نہیں ہو سکتا، مگر کلچر کے سیلاب میں جلدی بہہ جاتا ہے، اس لیے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو اسلامی کلچر سے وابستہ رکھنے کی بھرپور محنت کی جائے۔
مولانا محمد عبد اللہ پٹیل نے علماء اور دینی اداروں پر زور دیا  کہ وہ دعوت اور تعلیم کے محاذ پر اپنے طریق کار کا ازسرنو جائزہ لیں اور آج کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیمی نظام کی اصلاح کریں تاکہ وہ نئی نسل کو اس کی مِلّی ذمہ داریوں کے لیے صحیح طور پر تیار کر سکیں۔
ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری نے گزشتہ سال کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ تعلیمی نظام کی اصلاح اور میڈیا کی جنگ میں عملاً شرکت کی اہمیت کا احساس اجاگر کرنے کے لیے جو محنت شروع کی تھی اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آ رہے ہیں اور اہلِ فکر و دانش بتدریج اس کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔
فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے آئندہ سال کے پروگراموں کو اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اگلے سال کے دوران اسلامی تعلیمات کے خط و کتابت کورس ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ کے علاوہ میڈیا کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد کیا جائے گا اور علماء و طلبہ کے لیے خصوصی تربیتی کورسز کا اہتمام کیا جائے گا۔ انہوں نے اہلِ خیر سے اپیل کی کہ وہ اس طرف متوجہ ہوں اور نئی نسل کی اصلاح و تربیت اور میڈیا کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے فورم کے ساتھ بھرپور تعاون کریں۔

آہ! مولانا مفتی عبد الباقی ؒ و مولانا منظور عالم سیاکھویؒ

ادارہ

گزشتہ ہفتہ کے دوران ورلڈ اسلامک فورم کے سرپرست اعلیٰ اور ویمبلڈن پارک لندن کی جامع مسجد کے خطیب حضرت مولانا مفتی عبد الباقی انتقال فرماگئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ کافی عرصہ سے فالج کے مریض تھے اور وفات کے وقت ان کی عمر ساٹھ برس سے زائد تھی۔ مفتی صاحب مرحوم کا تعلق صوبہ سرحد پاکستان کے ضلع مردان سے تھا، وہ حضرت السید مولانا محمد یوسف بنوریؒ کے معتمد شاگردوں میں شمار ہوتے تھے اور ۱۹۷۰ء کے لگ بھگ مولانا بنوریؒ ہی کے ارشاد پر لندن آگئے تھے۔ اس لیے کہ یہاں کے مسلمانوں نے مولانا بنوریؒ سے ایسا عالم بھجوانے کی فرمائش کی تھی جس سے دینی و علمی مسائل میں راہنمائی حاصل کی جا سکے۔ مولانا مفتی عبد الباقی کو ان کے علم، تقویٰ اور دیانت و امانت کے باعث علمی و دینی حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور انہیں مفتی برطانیہ کی حیثیت حاصل تھی۔ مولانا مرحوم ورلڈ اسلامک فورم کے سرپرست تھے اور نومبر ۱۹۹۲ء میں فورم کا تاسیسی اجلاس انہی کی زیر صدارت منعقد ہوا تھا۔ بعد میں بھی علالت اور ضعف کے باوجود وہ فورم کے اجلاس میں شریک ہوتے رہے اور سرپرستی و دعاؤں سے نوازتے رہے۔
مولانا مرحوم کے معالج کے مطابق وہ وفات سے قبل مسلسل قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہے اور اسی حالت میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ان کی نماز جنازہ ویمبلڈن پارک کی مسجد میں تبلیغی جماعت برطانیہ کے امیر حاجی حافظ غلام محمد پٹیل صاحب نے پڑھائی جس میں علماء کرام اور دیگر طبقات کے مسلمانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ جنازہ کے بعد انہیں مورڈن کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں، ان کی خدمات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
اسی دوران آزاد کشمیر کے ایک بزرگ عالم دین حضرت مولانا منظور عالم سیاکھویؒ بھی نوٹنگھم برطانیہ میں انتقال فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم میرپور آزاد کشمیر کی بزرگ علمی شخصیت حضرت مولانا محمد ابراہیم سیاکھویؒ کے فرزند اور ورلڈ اسلامک فورم کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا رضاء الحق کے والد گرامی تھے۔ ان کی ساری زندگی دینی علوم کی تدریس و تعلیم میں بسر ہوئی اور اب کچھ عرصہ سے نوٹنگھم میں قیام پذیر تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

مولانا سندھیؒ کا بچپن ۔ ولادت سے اظہارِ اسلام تک

ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری

(۱) ۱۸۸۷ء میں مولانا عبید اللہ سندھی نے، جب کہ ان کی عمر صرف پندرہ برس کی تھی، اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس کے بعد کے واقعات کو مولانا نے اپنی مختصر خودنوشت میں، جو انہوں نے مکہ مکرمہ سے اپنی روانگی سے قبل مولانا غلام رسول مہر مدیر روزنامہ انقلاب لاہور کو اشاعت کے لیے بھیجی تھی، تحریر کر دیا تھا۔ مولانا سندھی کی یہ خودنوشت گو بہت مختصر ہے لیکن بہت اہم ہے۔
(۲) ان کے دورِ جلاوطنی کے زمانے کے حالات میں سب سے اہم تحریر وہ ہے جو ’’کابل میں سات سال‘‘ کے عنوان سے پروفیسر محمد سرور نے سندھ ساگر اکادمی لاہور سے شائع کی تھی۔
(۳) روس اور ترکی کے سفر، ماسکو اور استنبول کے قیام و مصروفیات اور پھر حجاز کے سفر اور قیامِ مکہ کے زمانے کے حالات میں مولانا سندھی کے قلم سے بہت اہم معلومات اور بعض اشارات ان کے خطوط، مقالات اور خطبات میں آئے ہیں۔
(۴) کابل کے سفر و قیام اور جلاوطنی کے خاتمے کے بعد وطن واپس آنے تک کے حالات کی تفصیلات کے تین اہم ماخذ اور ہیں:
(الف) ظفر حسن ایبک کی ’’آپ بیتی‘‘ جس کا نیا ایڈیشن ’’خاطرات‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔
(ب) اقبال شیدائی کی خودنوشت جو ’’انقلابی کی سرگزشت‘‘ کے عنوان سے روزنامہ امروز لاہور میں قسط وار شائع ہوئی ہے۔
(ج) مولانا عبد اللہ تھانوی کی تالیف ’’مولانا عبید اللہ سندھی کی سرگزشتِ کابل‘‘۔
(۵) وطن واپسی کے بعد کے حالاتِ زندگی کے ماخذ اخباروں کی خبریں اور رپورٹیں، مضامین اور مقالات کی شکل میں ہیں اور اپنی بازیافت کے لیے کسی باذوق صاحبِ ہمت کی منتظر ہیں۔
اس طرح مولانا سندھی کی سرگزشتِ حیات کے بنیادی اور ثانوی ماخذ تاریخ کی روشنی میں آجاتے ہیں۔ البتہ اسلام لانے سے پہلے کے واقعات تک ہماری رسائی نہیں ہوئی تھی۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اب اس دور کے اہم اور ضروری حالات بھی ہماری دسترس میں آ گئے ہیں۔ مولانا سندھی نے اپنے حالاتِ زندگی لکھنے شروع کیے تھے لیکن اس کا صرف ایک باب جو پانچ چھوٹی چھوٹی فصلوں پر مشتمل ہے، لکھا گیا تھا۔ یہ باب ’’ولادت سے اظہارِ اسلام تک‘‘ کے مختصر واقعات میں ہے، اور خاندان کے مختصر تعارف، ابتدائی ماحول، اسکول میں داخلے، تعلیم کے شوق، ریاضی کے مضمون سے دلچسپی، اور ۱۸۸۶ء میں جب مولانا ساتویں جماعت کے طالب علم تھے، کے تذکرے پر ختم ہو جاتا ہے۔
یہ حالات مولانا سندھی کے عزیز و شاگرد مولانا عزیز احمد کے پاس خود مولانا کے قلم سے لکھے ہوئے موجود تھے۔ ان سے مولانا سندھی کے ایک اور شاگرد اور عقیدت مند مولانا عبد المجید امجد نے نقل کر لیے تھے۔ مجھے ان کا فوٹو اسٹیٹ عزیزم ثناء اللہ سرور کی عنایت سے مل گیا۔ اس کے لیے میں مولانا امجد صاحب اور سرور سلّمہ دونوں کا شکرگزار ہوں۔
حضرت مولانا سندھی کے ابتدائی عمر کے حالات کا یہ واحد ماخذ ہے جو خود مولانا سندھی کے قلم سے یادگار ہے۔ یہ حالات ابھی تک نہ تو کسی کتاب میں شامل ہوئے ہیں، نہ کسی اخبار کی زینت بنے ہیں۔ امید ہے کہ یہ ارمغانِ علمی قارئین کرام کے لیے نہایت انبساط کا موجب ہو گا۔ اس تحریر کے مطالعے سے کئی اہم باتوں کی نشان دہی ہوتی ہے:
(۱) اسلام سے عدمِ تعصب اور رغبت کا پہلا بیج ’’تحفۃ الہند‘‘ سے بہت پہلے ماموں کے موازنۂ اسلام و ہندو مذہب سے ہو چکا تھا۔
(۲) اسی طرح انگریز سے نفرت اور آزادیٔ وطن کے جذبے کا بیج بھی دلیپ سنگھ سے انگریزوں کی نا انصافی اور شہیدِ وطن مولراج کے خاندان سے تعلقات کی بنا پر اس کی جاں نثاری کے تذکروں میں پڑ چکا تھا۔ اس تخم کی آبیاری کا سروسامان بھی اسی ماحول میں فراہم ہو گیا تھا۔
(۳) نصابی کتاب میں دو بلیوں اور بندر کی تصویر پر ماموں کا یہ فرمانا کہ یہ بلیاں ہندو اور مسلمان، اور بندر انگریز ہے، مولانا سندھی کے لیے ہزار درسِ آزادی سے بڑھ کر مؤثر اور دل نشین ثابت ہوا۔
اگر انہیں بچپن ہی میں یہ ماحول میسر نہ آجاتا تو ان کا اسلام قبول کرنا محض اتفاق اور قسمت کی یاوری سمجھا جاتا۔ بعد میں فکری ارتقا کے جو عوامل پیش آئے، مثلاً آبائی مذہب کے بجائے اسلام قبول کرنا، لاہور کے انقلابی مرکز کے بجائے دہلی، پنجاب کے میدانِ سیاست کے بجائے ہندوستان کا وسیع میدانِ سیاست، یا سکھ قوم کی آزادی کے بجائے تمام اقوامِ ہند کی آزادی کی جدوجہد، وہ ابتدائی ماحول اور ماموں کی وسعتِ قلب اور تربیت کا لازمی نتیجہ تھے۔
معلوم نہیں پہلا عنوان ’’بچپن کا زمانہ یعنی ابتدائی عمر کے حالات‘‘ خود مولانا مرحوم کے قلم سے ہے یا نہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ باب اول کا عنوان ’’ولادت سے اظہارِ اسلام تک‘‘ حضرت مولانا سندھی کے قلم ہی سے ہے۔
(۱۔ س۔ ش)

باب اول: ولادت سے اظہارِ اسلام تک

اللھم اہد قومی!

فصل اول

سیالکوٹ پنجاب کا مشہور تاریخی شہر ہمالیہ کے دامن میں پرفضا زرخیز میدان پر بستا ہے۔ اس کے دیہات میں پسرور کے قریب ایک گاؤں چہیاں والی ہے۔ یہی میرا مولد ہے۔
راجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں جسپت راؤ اس گاؤں کے متوسط الحال لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔ ایک سناشی سنار جس قدر اچھا ہو سکتا ہے، ایسا ہی وہ سمجھا جاتا تھا۔ حکومت کے کارندوں اور عام لوگوں کا اس پر اعتماد تھا۔ اس کے پانچ بیٹے تھے۔ ان میں متوسط کا نام رام راؤ تھا، جو میرا باپ ہے۔ حکومت کی تبدیلی پر میرا والد اپنے خاندانی پیشہ ’’سناری‘‘ سے ہی اوقات بسر کرتا رہا۔ وہ اپنے تمام بھائیوں میں اپنے والدین کی خدمت میں بہت ممتاز تھا۔ میرا نانا ’’میر علی والہ‘‘ ضلع گوجرانوالہ کا رہنے والا ایک خاندانی سکھ تھا اور ہلو وال ضلع سیالکوٹ میں منتقل ہو چکا تھا۔ اس کی سب سے بڑی لڑکی ’’پریم کور‘‘ میری والدہ ہے۔ میرا والد میرے نانا کی دعوت پر رام راؤ سے رام سنگھ بن گیا تھا۔ میرے والد کا چچا زاد بھائی حاکم راؤ اپنے گاؤں کا پٹواری تھا اور میرے دو ماموں بھی پٹواری تھے۔ میری دو بہنیں تھیں جو میری پیدائش سے پہلے ایک گکھڑ میں اور دوسری بیگواں میں بیاہی گئی تھیں۔

فصل دوم

میرا دادا ابھی زندہ تھا کہ میرا والد فوت ہو گیا۔ اس کے مرنے سے تین مہینے بعد پھاگن کے اخیر عشرے میں جمعہ کی رات کو طلوعِ فجر سے دو گھڑی پہلے میری ولادت ہوئی۔ والدہ صاحبہ کے بتلائے ہوئے واقعات کو مختلف جنتریوں سے تطبیق دینے کے بعد محقق ہوا کہ وہ تاریخ ۱۲ محرم الحرام ۱۲۸۹ ہجری اور ۱۰ مارچ ۱۸۷۲ عیسوی جو ہمارے حساب سے ۸۷۲ ہندی ہوتا ہے۔ میں دو برس کا تھا کہ میرا دادا فوت ہو گیا۔ مجھے اس کی صورت ایک خاص واقعے میں یاد ہے۔1 اس کے بعد میری والدہ زیادہ تر اپنے والد کے پاس رہنے لگی۔ اس کے بعد دو سال کے اندر اندر نانا بھی فوت ہو گیا۔ اس وقت میرا ایک ماموں جھنگ کے محکمہ بندوبست میں کام کرتا تھا۔2 اور دوسرا جام پور ضلع ڈیرہ غازی خان میں پٹواری تھا۔ میری والدہ اور نانی جھنگ ہو کر جام پور پہنچیں۔ میری عمر اس وقت چار سال کی تھی۔ جس طرح نانا کے ساتھ شطرنج کھیلنا مجھے یاد ہے، اسی طرح جام پور میں ماموں جی کا فوجی قواعد سکھانا بھی نہیں بھولتا۔ ایک سال وہاں رہ کر والدہ اپنے گھر واپس آئی۔ وہ زیادہ عرصہ میری بہنوں سے دور نہیں رہ سکتی تھی۔ یہاں سال بھر سے زیادہ رہی۔ آخر میں سخت قحط پڑا اور میری والدہ پھر مجھے جام پور لے گئی۔

فصل سوم

میری چھ برس کی عمر تھی جب جام پور کے مڈل اسکول میں داخلہ ہوا۔ ۸۷۸ ہندی سے تین سال مسلسل پڑھتا رہا۔ ۸۸۱ (ہندی) کی مردم شماری میں، میں بھی کام کرتا رہا۔
اسی زمانے میں مجھے گرمکھی کی پہلی کتاب دی گئی۔ اگرچہ میں نے اس میں سے ایک حرف بھی نہیں پڑھا مگر اس میں ایک تصویر کہ ’’دو بلیوں کی روٹی بندر بانٹ رہا ہے‘‘ ضرور یاد ہے۔ مجھے ماموں نے بتلایا کہ یہ دو بلیاں ہندو اور مسلمان ہیں اور بندر انگریز ہے۔
اس کے بعد پھر والدہ اپنے گھر آئی اور دو سال ضلع سیالکوٹ کے مختلف دیہات میں دور و نزدیک رشتہ داروں سے ملانے کے لیے مجھے لے جاتی رہی۔ میں برادری کی غمی خوشی کی تقریبوں میں شریک ہوتا رہا۔ باوجود خورد سال ہونے کے بڑے بوڑھے بھی ایسی تعظیم سے پیش آتے جو میری والدہ کا حق تھا۔ میں اس کا خاص اثر طبیعت میں محسوس کرتا ہوں۔ اپنے ہم سن رشتہ داروں سے ممتاز رہنے کا خیال رہتا تھا۔
تھوڑے عرصے کے لیے جامکی کے مڈل اسکول کی چوتھی جماعت میں شامل رہا۔ اکثر اوقات دیہاتی مساجد کے ملاؤں سے فارسی کی کتابیں ضرور پڑھتا رہا۔ والدہ اس عرصے میں میرے لیے مناسب رشتہ تلاش کرتی رہی۔ جب اس میں کامیاب ہو گئی تو مجھے پھر جام پور بھیج دیا۔

فصل چہارم

اس زمانے کا ایک واقعہ قابل تحریر ہے۔ میرا چچا حاکم راؤ جب گاؤں کی چوپال (کچہری) میں بیٹھتا تو عام مجمع اس کے گرد جمع ہو جاتا۔ ایک دن میں بھی وہیں بیٹھا تھا کہ اس نے ہندو دھرم اور اسلام کا موازنہ کیا اور اسلام کو ترجیح دی۔ اس کی تقریر کا خلاصہ مجھے اچھی طرح یاد ہے:
’’ہندوؤں اور مسلمانوں میں طویل مناظرہ ہوا۔ بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ ایک ہندو اور ایک مسلمان کنویں میں چھلانگ لگائیں، جو سلامت رہا، اسی کا مذہب حق مانا جائے گا۔ پہلے ہندو کھڑا ہوا اور شری رام کو اپنی مدد کے لیے بلایا۔ اس کے کارندے آ رہے تھے کہ اس نے شری کرشن جی کو پکارنا شروع کر دیا۔ اس پر شری رام کے خادم واپس ہوئے۔ ابھی شری کرشن کے لوگ اس کی مدد کو نہیں پہنچنے پائے تھے کہ اس نے مہادیو کو پکارنا شروع کیا، اس لیے شری کرشن کی مدد بھی اسے نہ مل سکی۔ اسی طرح اپنے مختلف بزرگوں کو یکے بعد دیگرے مدد کے لیے بلاتا رہا۔ مگر جس وقت چھلانگ ماری اس وقت کوئی بھی اس کی امداد نہ کر سکا۔ اس لیے اس کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے۔ اس کے بعد مسلمان کھڑا ہوا، اس نے ایک اللہ کو زور سے پکارنا شروع کیا اور جھٹ کنویں میں کود پڑا، اللہ کے فرشتے اس کی مدد کو پہنچے اور اسے سلامت بچا لیا۔‘‘
جہاں تک مجھے یاد ہے، اسلام کی حقانیت پر یہ پہلی تقریر ہے جو میں نے سنی اور جس سے متاثر ہوا۔ رب زدنی علماً۔

فصل پنجم

اس دو سال کے توقف سے میرے ہم جماعت تو مارچ ۸۸۴ (ہندی) کو چھٹی جماعت میں تبدیل ہوئے اور میں دو مہینے محنت کر کے چوتھی جماعت کا امتحان دے سکا اور پانچویں جماعت میں شامل ہو گیا۔ یہاں سے میری طالب علمی کا زمانہ شروع ہوتا ہے۔ اسکول کا مقررہ کام میرے لیے مشکل نہیں تھا۔ فارسی پڑھنے اور یاد کرنے میں خاص محنت کرتا۔ باقی مضامین شروع سال میں چند ہفتے صرف کر کے یاد کر لیتا۔ پھر سارا سال فارغ رہتا۔ امتحان سے تھوڑی دیر پہلے کتاب پر سرسری نظر ڈال لینا کافی ہوتا۔ سب سے زیادہ دلچسپی مجھے ریاضی سے تھی۔ حساب، الجبرا، اقلیدس میں جس قدر بہتر اور اعلٰی  کتابیں ملتیں، ان کے حل کرنے میں مصروف رہتا، مشکل سوال حل کرنے میں خاص لذت محسوس کرتا۔ ’’مراۃ الاشکال‘‘ اقلیدس کے چار مقالوں کی شرح تھی، میں نے اس کے مشقی سوالات سارے کے سارے حل کر لیے تھے۔
۸۸۶ ہندی کو ساتویں جماعت میں تھا۔ قیصری جالندھر میں ایک حل طلب سوال چھپا:
ا+ب+ج=۶ د(۲)+ب(۲)+ح(۲)=۱۴  ا(۳) +ب(۳)+ح(۳)=۳۶
دوپہر کے بعد مدرسہ میں مجھے اخبار ملا۔ اپنے معمولی کاموں میں مصروف رہا۔ فقط فرصت کے لمحے اس کے حل پر صرف کرتا رہا۔ پھر بھی مغرب سے پہلے میں نے اخبار کے نام جواب بھیج دیا۔ دوسرے ہفتے میں میرے نام سے دو کالم میں چھپ کر آ گیا۔ میں اس خوشی کو نہیں بھولتا۔
اس کے بعد تاریخ اور قصوں، ناولوں میں طبیعت مسرور ہوتی۔ جو کتاب ملتی، جب تک ساری ختم نہ کر لیتا، چین نہ آتا۔ اس ضمن میں اخبار پڑھنا شروع کیا۔ ’’آفتاب پنجاب‘‘ ہفتہ وار3 مسلسل دیکھتا۔ ’’پنجابی‘‘4 اور ’’کوہ نور‘‘ کے پرانے فائل پڑھتا5۔ پھر ’’اخبار عام‘‘ دیکھنے لگا6۔
پنجاب کی تاریخ میں سکھوں کی حکومت سے زیادہ دلچسپی محسوس کرتا۔ اپنے سکھ ہونے پر فخر کرتا۔ بچپن میں عورتوں کے ساتھ دیوان مولراج کے عزیزوں کے گھر جاتا رہا ہوں7۔ اس لیے ان کے واقعات سے زیادہ متاثر ہوتا۔ حکومت پنجاب کی سالانہ رپورٹ اردو میں چھپتی تھی، اسے مفصل پڑھتا۔
’’راجہ دلیپ سنگھ‘‘ کو پنجاب واپس آنے کی اجازت ملی اور میرے ماموں رات کو یہ خبر لائے تو ہمارے گھر میں عید کی سی خوشی ہوئی کہ ’’ہمارے راجہ‘‘ آ رہے ہیں۔ دوسرے تیسرے ہفتے جب یہ خبر ملی کہ وہ عدن سے واپس کر دیے گئے تو ہمارے گھر میں ماتم کی صف بچھ گئی8۔
اگرچہ اس علمی شغف نے اچھا کھانے، اچھا پہننے کی خواہشات سے بے نیاز کر دیا تھا، پھر بھی سوسائٹی میں کوئی ایسی چیز نہیں نظر آتی جو گھر میں مجھے میسر نہ ہو۔ اعلٰی سوسائٹی میں میرا رابطہ تھا۔ جام پور کے سرکاری افسروں کی سوسائٹی میں بھی ایسے ساتھی ملے جن سے اعلٰی اس جگہ ممکن نہیں تھے۔ تحصیلدار، نائب تحصیلدار، منصف، پولیس افسر، پوسٹ ماسٹر سب ہندو تھے۔ اس اعلٰی سوسائٹی میں میرا تعارف عزت سے تھا۔ نائب تحصیلدار ہمارے قریب علاقے کا تھا۔ اس کے لڑکے ہمارے ساتھ پڑھتے تھے۔ ان سے اور ان کے گھر سے مساویانہ برتاؤ تھا اور یہی معاملہ سوسائٹی کے باقی افراد تحصیلدار، پولیس افسر، منصف، پوسٹ ماسٹر اور ڈاکٹر کے ساتھ تھا۔

حواشی

  1. مولانا سندھی نے فصل اول، دوم اور چند سطریں فصل سوم کی لکھ کر منسوخ کر دی تھیں اور دوبارہ شروع سے مسودہ لکھا تھا۔ منسوخ شدہ مسودے میں ہے کہ ’’نانا کے ساتھ شطرنج کھیلنا مجھے یاد ہے‘‘۔ یہاں ایک خاص واقعے سے اسی طرف اشارہ ہے۔ شطرنج کھیلنے کا ذکر چند سطروں کے بعد اس مسودے میں بھی آیا ہے۔
  2. شاید یہ ماموں بھی پٹواری ہی ہوں، منسوخ شدہ مسودے میں ہے کہ ’’میرے دو ماموں پٹواری تھے۔ ایک ضلع جھنگ میں مقرر تھا اور دوسرا جام پور ضلع ڈیرہ غازی خان میں متعین تھا۔‘‘
  3. ہفتہ وار آفتاب پنجاب لاہور سے جولائی ۱۸۷۳ء میں نکلنا شروع ہوا تھا۔ اس کے مالک بوٹا سنگھ نامی ایک سکھ اور ایڈیٹر مولوی نبی بخش تھے۔
  4. پنجابی اخبار بھی لاہور سے ہفتہ وار مارچ ۱۸۵۶ء سے نکل رہا تھا۔ اس کے ایڈیٹر محمد اکبر خان خاور تھے۔ بعدہ محمد مروان علی خان رعنا ہو گئے تھے۔
  5. کوہ نور لاہور کا مشہور ہفتہ وار اخبار تھا۔ منشی ہرسکھ رائے کے اہتمام میں جنوری ۱۸۵۰ء میں نکلنا شروع ہوا تھا۔
  6. اخبار عام لاہور (ہفتہ میں تین بار) پنڈت گولی ناتھ کی ادارت میں جنوری ۱۸۷۱ء میں نکلنا شروع ہوا تھا۔
  7. جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کا ایک مجاہد، ملتان کے مقابلے میں شکست کھائی، گرفتار ہوا اور پھانسی کی سزا پائی۔
  8. دلیپ سنگھ دانی چنداں کے بطن سے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا بیٹا، مارچ ۱۸۴۹ء میں گدی سے معزول کیا گیا۔ ہزار پونڈ سالانہ وظیفہ دے کر انگلستان بھیج دیا گیا اور عیسائی بنا لیا گیا۔ ایک مصری خاتون سے شادی کر لی تھی۔ بعدہ اس نے عیسائیت ترک کر دی تھی۔ انگریزوں کا مخالف تھا۔ تقریباً ۱۸۸۰ء میں وطن لوٹ رہا تھا کہ عدن سے واپس کر دیا گیا۔ تقریباً ۱۸۹۰ء  میں انگلستان میں انتقال ہوا۔

مولانا سندھیؒ کے تلامذہ، افادات اور تحریرات

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی طرف منسوب تحریریں اکثر وہ ہیں جو املائی شکل میں ان کے تلامذہ نے جمع کی ہیں۔ مولانا کے اپنے قلم سے لکھی ہوئی تحریرات اور بعض کتب بہت دقیق، عمیق اور فکر انگیز ہیں اور وہ مستند بھی ہیں، لیکن املائی تحریروں پر پورا اعتماد نہیں کیا جا سکتا اور بعض باتیں ان میں غلط بھی ہیں جن کو ہم املا کرنے والوں کی غلطی پر محمول کرتے ہیں، مولانا کی طرف ان کی نسبت درست نہ ہو گی۔ مولانا کا ذہنی پس منظر، فکر، ذہانت، قوتِ حدس بہت بلند تھی۔ ذہانت اور قوتِ حافظہ بھی بے مثال تھی اور ان کا ذہن قوتِ قدسیہ کا مالک تھا۔ دقیق اور مشکل ترین باتوں کی تہہ تک پہنچنا مولانا کا کمال تھا۔
مولانا کا انہماک اور توجہ زیادہ تر قرآن مجید کی طرف رہا ہے۔ مولانا نے زندگی کے کم و بیش پچاس سال قرآن کریم کے مطالعہ اور افہام و تفہیم میں بسر کیے تھے۔ بالخصوص امام ولی اللہؒ کی حکمت اور علوم و فلسفہ کی روشنی میں مشکلاتِ قرآن حل کرتے رہے، اور یہ کہ قرآن کے نظام اور اس کے قوانین کو عہدِ حاضر میں کس طرح سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے۔ مولانا نے قرآن کریم کے پڑھانے میں بھی بہت وقت صرف کیا تھا اور آپ سے پڑھنے والے مختلف استعداد کے حضرات ہوتے تھے۔ کبھی بڑے ذہین و فطین ۔۔ قسم کے علماء ہوتے تھے اور بعض اوقات عام معمولی استعداد کے طلبا بھی شریک ہوتے تھے۔ جدید تعلیم یافتہ حضرات بھی ہوتے تھے اور قدیم درسِ نظامیہ کے فارغین بھی۔ مولانا کو خدا تعالٰی نے ایسی صلاحیت بخشی تھی کہ دوسرے عالی مرتبت علما چھ ماہ میں بھی اتنا قرآن کریم سے روشناس نہیں کرا سکتے تھے جتنا مولانا ایک ماہ میں کر دیتے تھے۔
مولانا سندھی سے پڑھنے والے اور استفادہ کرنے والے حضرات کی فہرست بہت طویل ہے۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ نے مولانا سندھیؒ سے حدیث بھی پڑھی اور قرآن کریم بھی۔ اور پھر مولانا نے ان سے وعدہ لیا کہ ساری عمر قرآن کریم ہی پڑھاتے رہنا۔ مولانا لاہوریؒ نے آخر دم تک اس وعدہ کو کماحقہ پورا کیا۔ کم و بیش پانچ ہزار علما کو قرآن کی تفسیر پڑھائی اور عوام کو درسِ قرآن کے ذریعہ مستفید کیا جن کی تعداد بہت زیادہ ہے، اور خاص جماعتوں کو مشکوٰۃ شریف اور حجۃ اللہ البالغہ بھی پڑھاتے تھے، اور عوامی حلقوں کی اصلاح تو لاکھوں تک پہنچتی تھی۔
اسی طرح حضرت مولانا حکیم فضل الرحمٰن صاحبؒ نے بھی مولانا لاہوریؒ کے ساتھ ہی قرآن کی تفسیر مولانا سندھیؒ سے پڑھی تھی اور اس کے علاوہ مشکوٰۃ شریف بھی پڑھی تھی۔ تقریباً پچاس سال کے بعد بھی مولانا سندھیؒ کی تقریریں ان کو یاد تھیں۔ حکیم صاحب ایم بی بی ایس بھی تھے اور حکیم اجمل خان کے مایہ ناز تلامذہ میں سے تھے۔ طبیہ کالج دہلی میں پروفیسر تھے اور متعدد طبی کتب کے مصنف تھے۔ پھر حیدر آباد دکن میں نظامیہ طبی کالج کے وائس پرنسپل ہو گئے تھے۔ احقر نے اسی دور میں حکیم صاحب سے پڑھا تھا۔ حکیم صاحب مولانا سیف الرحمٰن ٹونکی کے بھانجے تھے۔ مولانا سیف الرحمٰن حضرت گنگوہیؒ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے اور جنگِ آزادی میں انہوں نے بہت کام کیے، وہ بھی افغانستان میں مولانا سندھیؒ کے ساتھ تھے۔
مولانا سلطان محمود صاحبؒ سابق صدر مدرس فتح پوری دہلی بھی مولانا سندھیؒ کے تلامذہ میں سے تھے۔ انہوں نے بھی چند رسالے لکھے ہیں جن میں مولانا سندھیؒ کے افکار کو سمویا ہے اور اسی طرز پر قرآن کریم کی تعلیم بھی آخر تک دیتے رہے۔
مولانا عزیز احمد صاحبؒ برادر خورد مولانا احمد علی لاہوریؒ جو سفر کابل میں آپ کے ساتھ رہے، پھر مکہ مکرمہ میں بھی آپ کے ساتھ رہے، آپ کے خدمت گزار کے طور پر ہر وقت ساتھ رہتے تھے، انہوں نے خود بیان کیا تھا کہ قرآن کریم کے علاوہ شرح ملا جامی اور قطبی میں نے مولانا سے پڑھی تھی، حجۃ اللہ البالغہ بھی پڑھی تھی، اور کہتے تھے جب میں نے الخیر الکثیر مولانا سے پڑھنے کی کوشش کی تو اس میں کامیابی نہ ہو سکی، یہ بہت زیادہ مشکل تھی اور میں چونکہ قطبی سے آگے تعلیم مختلف وجوہات کی بنا پر جاری نہ رکھ سکا، اس الخیر الکثیر پڑھنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ مولانا عزیز صاحبؒ آخر تک مولانا سندھیؒ کے افکار و طریق کے حامل اور عامل رہے۔
مولانا خواجہ عبد الحئی فاروقی صاحبؒ بھی مولانا سندھیؒ کے تلامذہ میں سے تھے۔ انہوں نے بھی قرآنی افکار کے سلسلہ میں سورۃ بقرہ کی تفسیر الخلافۃ الکبرٰی اور آخری پارہ کی تفسیر رقم فرمائی ہے اور ان میں مولانا سندھیؒ کے افکارِ عالیہ سے مکمل استفادہ کیا گیا ہے۔ مولانا صبغت اللہ بختیاری مدراسیؒ نے بھی مولانا سندھیؒ سے استفادہ کیا تھا۔ مولانا قاری عبد الکریم ترکستانیؒ اور مولانا محمد طاہر آف پنج پیرؒ بھی مولانا سندھیؒ سے مکہ مکرمہ میں پڑھتے رہے ہیں۔ مولانا محمد طاہر نے مولانا سندھیؒ سے حجۃ اللہ البالغہ بھی پڑھی تھی اور اس کی تقریر بھی ضبط کی تھی۔ اسی طرح مولانا محمد عبد اللہ عمر پوریؒ بہاولپور والے فاضل دیوبند نے بھی مکہ مکرمہ میں مولانا سندھیؒ سے پڑھا تھا۔ علامہ محمد صدیق صاحب آف یزمان نے اور مولانا عبید اللہ انورؒ اور مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ نے بھی مولانا سندھیؒ سے استفادہ کیا تھا۔
آخری دور میں سب سے زیادہ مولانا غلام مصطفٰی قاسمیؒ نے مولانا سندھیؒ سے پڑھا اور فائدہ اٹھایا۔ مولانا قاسمی فاضل دیوبند اور جامع المعقول والمنقول مدرس عالم ہیں۔ آپ نے کئی کتابوں پر حاشیے بھی لکھے ہیں۔ قدوری کا حاشیہ اور اس کا عالمانہ مقدمہ تو بہت متداول ہے۔ آپ نے مولانا سندھیؒ کی مشہور کتاب التمہید بھی اپنے حاشیہ کے ساتھ شائع کروائی جو کہ بہت بڑا کام ہے۔ اور الخیر الکثیر کا اردو ترجمہ جو آپ نے مولانا سندھیؒ سے پڑھ کر ضبط کیا تھا وہ بھی شائع کرایا  ہے۔ اور امام ولی اللہؒ کی متعدد کتابیں بمع مقدمات و ضروری تشریحات کے شائع کرائی ہیں۔ پہلے الرحیم میں اور آج کل الولی میں آپ کے مضامین اور ادارتی نوٹ شائع ہوتے ہیں جو بہت قیمتی علمی و ضروری مواد پر مشتمل ہوتے ہیں۔ مولانا کچھ عرصہ رؤیتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے ہیں، بارک اللہ فی علمہ و مساعیہ و عمرہ۔
مولانا مقبول عالم لاہوری مرحوم اور غازی خدا بخش صاحبؒ بھی حضرت سندھیؒ سے استفادہ کرنے والے لوگوں میں شامل تھے۔
مولوی بشیر احمد بی اے لدھیانوی مرحوم بھی مولانا کے معتمد تھے اور انہوں نے مولانا کی متعدد تحریرات، جو قرآنی سورتوں پر مشتمل ہیں، شائع کرائی ہیں۔ تفسیر سورۃ فاتحہ، تفسیر سورۃ قتال، تفسیر سورۃ فتح، تفسیر سورۃ مزمل و مدثر، تفسیر سورۃ العصر، تفسیر سورۃ اخلاص اور تفسیر معوذتین۔ حجۃ اللہ البالغہ کا ترجمہ و تشریح ابتدائی سترہ ابواب تک، جو مولانا عبد اللہ لغاری صاحبؒ نے مولانا سندھیؒ سے مکہ مکرمہ میں ضبط کیا تھا، اس کو بھی مولانا بشیر احمد صاحب نے مرتب کر کے لاہور میں بیت الحکمت کی طرف سے شائع کیا تھا۔ اس کے علاوہ مولانا بشیر احمد صاحب کے پاس قطعات کا ترجمہ و تشریح جو مولانا سندھیؒ سے انہیں حاصل ہوئی وہ انہوں نے خود تو شائع نہیں کرائی بلکہ وہ مولانا سید محمد متین ہاشمی کو انہوں نے دی تھی، وہ انہوں نے شائع کرائی ہے۔ رسالہ محمودیہ جو مولانا سندھیؒ نے عربی اور فارسی میں ترتیب دیا تھا، اس کا ترجمہ بمع متن شیخ بشیر احمد صاحب لدھیانوی نے بیت الحکمت کی طرف سے شائع کیا۔ مولانا بشیر احمد صاحب مرحوم نے اور بھی بعض مضامین اس سلسلے میں لکھے تھے۔ مولانا بشیر احمد صاحب زندگی کا اکثر حصہ اسکول میں پڑھاتے رہے، علومِ دینیہ کی تحصیل باقاعدہ نہیں تھی، عربیت سے کچھ مناسبت تھی، مولانا سندھیؒ سے کافی استفادہ کیا تھا لیکن فلسفہ ولی اللّٰہی کی غامض باتوں کے سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔ احقر کے ساتھ مولانا بشیر احمد مرحوم کی متعدد بار ملاقات ہوئی تھی اور انہوں نے اس کا اقرار کیا تھا کہ مجھے افسوس ہے کہ میں درسِ نظامیہ کی تعلم حاصل نہ کر سکا، لیکن مولانا بشیر احمد مرحوم کی طبیعت میں استقامت تھی اور املائی تحریریں بھی ان کی اکثر محتاط ہیں۔
خلاصۃ القرآن کے نام سے جو ایک مختصر سا کتابچہ ہے، وہ بھی ایسا ہے کہ مولانا سندھیؒ جس قرآن کریم پر تلاوت کرتے تھے، تو مختلف سورتوں پر وہ کچھ اشارات نوٹ کر دیتے تھے، چنانچہ ان کو جمع کر کے اور ترتیب دے کر مولانا عزیز اللہ صاحب آف پنوں عاقل نے اسے شائع کرایا ہے۔ یہ کوئی مکمل نوٹس نہیں بلکہ اشاراتی زبان میں بعض باتیں بہت مغلق سی ہیں اور بعض مشتبہ بھی ہیں۔
المقام المحمود تفسیر پارہ عم مولانا عبد اللہ لغاری مرحوم نے مکہ مکرمہ میں مولانا سندھیؒ سے سن کر اردو زبان میں قلم بند کی تھی، وہ بھی ڈاکٹر عبد الواحد ہالی پوتا صاحب کے تقدیم و تصحیح کے ساتھ شائع کرائی گئی ہے۔ اس میں بھی بعض باتیں قابل گرفت ہیں جن کی ذمہ داری مولانا سندھیؒ پر نہیں بلکہ مولانا لغاریؒ اور مذکورین پر ہو گی۔
’’شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک‘‘ یہ ایک مختصر سا مقالہ ہے جس کو مولانا سندھیؒ نے اپنے قلم سے تحریر فرمایا اور پھر اس کو مولانا نور الحق علویؒ سابق پروفیسر اوریئنٹل کالج لاہور نے مولانا سے سبقاً سبقاً پڑھ کر اس کے تشریحی حواشی بھی لگائے۔ مولانا نور الحق علویؒ مولانا شیخ الہندؒ کے تلامذہ میں سے تھے اور نہایت ذہین، کثیر المطالعہ اور ثقہ بزرگ تھے۔ امام ولی اللہؒ کی تحریک کو سمجھنے کے لیے یہ کتابچہ بہت قیمتی معلومات فراہم کرتا ہے۔ تحریک کے تمام ادوار اور اشخاص اور اصول اس میں واضح کیے گئے ہیں۔ امام ولی اللہؒ اور ان کے خاندان کے وہ تمام حضرات جو ان کے افکار و نظریات کے حامل تھے اور اس تحریک کو آگے بڑھانے والے اور اس کی تشریح و توضیح کرنے والے امام ولی اللہ کے بیٹے پوتے اور ان کے تلامذہ اور پھر ان کے اتباع اکابر علمائے دیوبند اور ان کی مساعی و جہود کے بارہ میں اس قسم کے معلومات کسی دوسری کتاب سے  ملنے مشکل ہوں گے۔ بعض حضرات کو اس کی بعض باتوں سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ یہ بات ہر جماعت اور ہر فرد کے بارے میں ہو سکتی ہے، لیکن مجموعی طور پر یہ مقالہ بہت گراں قدر اور وقیع معلومات پر مشتمل ہے۔
مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ (حکیم الاسلام) بھی مولانا سندھیؒ سے مستفید ہونے والوں میں سے تھے۔ آخری دور میں مولانا سندھیؒ نے قاری صاحب کو اپنے سامنے بٹھا کر حجۃ اللہ البالغہ کے چند خاص مقامات خود پڑھائے اور پھر ان کو مامور کیا کہ اس طرح حجۃ اللہ البالغہ کو پڑھاؤ۔ چنانچہ قاری صاحب آخری دور میں حجۃ اللہ البالغہ اسی طریقے پر پڑھاتے تھے۔ قاری صاحب کو جب پتہ چلا کہ مولانا سندھیؒ کی کتاب ’’التمہید‘‘ کسی بزرگ کے پاس موجود ہے تو انہوں نے اس کی نقل حاصل کی، چنانچہ قاری صاحب نے اس کتاب کے بارے میں اس طرح لکھا ہے:
’’التمہید لتعریف ائمۃ التجدید
یہ کتاب ایک تاریخی اور علمی و سیاسی مرقع ہے جو حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے افکارِ صالحہ کا ثمرہ ہے۔ اس کی جلد سے جلد طبع اور شائع ہونے کی ضرورت ہے۔ احقر نے بھی اس کی ایک نقل کتب خانہ دارالعلوم دیوبند کے لیے کرائی ہے۔
محمد طیب، مہتمم دارالعلوم دیوبند، حال وارد کراچی
۵ نومبر ۱۹۵۵ء‘‘
المقام المحمود، جو مولانا عبد اللہ لغاریؒ نے ضبط کی تھی، کچھ تو براہ راست مولانا سندھیؒ سے انہوں نے سن کر لکھی تھی اور کچھ بالواسطہ۔ اس کا ابتدائی حصہ ڈاکٹر منیر احمد مغل صاحب نے مرتب کیا ہے۔ مغل صاحب نے بڑی محنت اور تحقیق سے اس کو مرتب کیا ہے اور ڈاکٹر ہالی پوتہ سے بھی اس سلسلہ میں تعاون حاصل کیا ہے۔ ابتدا میں مقدمہ مضامین، مکمل فہرست اور مولانا سندھیؒ کے افکار و خیالات کا اجمالی تذکرہ، ان کی سوانح حیات اور تعلیمی سلسلہ اور دیگر اشغال اور کچھ سیاسیات پر بھی کلام کیا ہے۔ مولانا سندھیؒ کی عربی تصانیف کا ذکر بھی ہے اور پھر اس امالی کے مضامین کی سرخیاں بہت اچھے طریقے پر لگائی ہیں، لیکن تفسیری نکات میں بعض باتیں، جن کا ذکر مغل صاحب نے مولانا سندھیؒ کی نسبت سے کیا ہے، جیسے اذن اللہ کا مفہوم، گائے کو ذبح کرنے کا مفہوم، تلاوت کا مفہوم، بدی کا مفہوم، اور یوم الحساب سے مراد وغیرہ باتیں ایسی ہیں جو امام ولی اللہؒ کی حکمت اور ان کے طریق سے مناسبت نہیں رکھتیں اور نہ مولانا سندھیؒ کا منشا ہو سکتا ہے۔ مولانا سندھیؒ شاہ ولی اللہ اور مولانا شیخ الہندؒ کے طریق سے باہر نہیں نکلتے۔ یہ باتیں ایسی ہیں کہ املا کرنے والوں نے مولانا سندھیؒ کی تقریر کو یا تو سمجھا نہیں، یا اپنے ذہن کے مطابق کشید کیا ہے۔ یہ قابل اعتبار نہیں اور نہ لائق اعتنا ہیں۔ ڈاکٹر منیر صاحب مغل نے بہت سی جگہوں میں غلط سلط تفسیر بیان کی ہے اور یہ تاثر دیا ہے کہ گویا مولانا سندھیؒ کی بیان کردہ تفسیر ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ملاحظہ فرمائیں ’’فانظر الٰی حمارک‘‘ عزیر علیہ السلام کے واقعہ میں لکھتے ہیں: ’’اپنی سواری تلاش کر کے اس پر سوار ہو جاؤ‘‘۔ اور موت و حیات کا معنی مردہ قوموں کا زندہ ہونا کس قدر غلط تفسیر ہے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں پرندوں کے بارہ میں ’’فصرہن‘‘ کو صرف سدھارنے اور مانوس کرنے کے معنی پر محمول کیا ہے۔ امام رازیؒ نے تو صرف اصفہانی کا ایک مرجوح سا قول نقل کر دیا ہے اور ادھر جمہور مفسرین جو معنی بیان کرتے ہیں اس کو چھوڑ کر صرف مجازی معنی مراد لینے کی کیا ضرورت ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس مقام پر مولانا سندھیؒ کی جو تقریر الہام الرحمٰن میں موسٰی جار اللہ صاحب نے نقل کی ہے وہ اس کے بالکل خلاف ہے۔ اس میں مولانا سندھیؒ فرماتے ہیں کہ جس نے ان آیات کی تاویل کی ہے اور ان کو معنی مجازی پر محمول کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ یہ احیا حقیقی نہیں تھا بلکہ یہ تشبہ بالحیوٰۃ تھا، مولانا سندھیؒ فرماتے ہیں کہ اس کو ہم انبیاءؑ کے طریق سے بعید خیال کرتے ہیں، اگرچہ معنی مجازی مراد لینے والا اس تاویل سے کوئی فساد والا مطلب نہ لیتا ہو۔ مولانا فرماتے ہیں کہ اعادہ حیات ہم جب نباتات میں مشاہدہ کرتے ہیں تو اللہ تعالٰی کے حکم سے انسان کیوں زندہ نہیں ہو سکتے۔ (الہام الرحمٰن صفحہ ۳۱۲ ج ۱)

مولانا سندھیؒ کی تصنیفات

(۱) ’’رسالہ محمودیہ‘‘ جس کا تذکرہ پہلے ہو چکا ہے۔
(۲) ’’امام ولی اللہ دہلویؒ کی حکمت کا اجمالی تعارف‘‘۔ یہ نہایت مفید کتاب ہے جس میں مولانا سندھیؒ نے پہلے تمہیدی امور ذکر کیے ہیں جن میں علوم و فنون حاصل کرنے کے اصول و استعداد کے بارہ میں امام ولی اللہؒ اور ان کے اکابر و اسلاف اور اخلاف سب کے طرزِتکمیل کا ذکر کیا ہے۔ پھر قرآن کریم اور تفسیر کے متعلق قواعد و ضوابط اور ضروری باتیں اور مشکلاتِ قرآن کو حل کرنے کے طریقے اور تفسیر کے اہم ترین مباحث کا ذکر ہے۔ پھر تیسرے باب میں علمِ حدیث، اور حدیث بطور شرح قرآن، اور طبقات حدیث، اور حجیتِ حدیث کے دقیق علمی مباحث، اور کتبِ حدیث، اور محدثین کے اذہان و مراتب، اور امہات کتبِ حدیث کے اصولی مباحث ذکر کیے گئے ہیں۔ باب چہارم میں علمِ فقہ کا مفید ہونا اور بطور قانون نفاذ، عرب و عجم کے اذہان کا تفاوت، اور سلاطین کا رجحان، اور فقہ و حدیث میں تطبیق، اور امام ولی اللہؒ کا فقہ میں مقام، اور حنفی فقہ کی ترجیح کی دقیق وجوہات وغیرہ کا ذکر ہے۔ باب پنجم میں تصوف اور فلسفہ کا بیان ہے۔ اس کتاب میں جابجا مولانا نور الحق علویؒ کے نہایت مفید حواشی بھی ہیں۔
(۳) ۱۳۰۷ھ میں طالب علمی کے دور میں مولانا نے کتاب ’’مراصد الوصول الٰی مقاصد الاصول‘‘ تصنیف کی تھی جس کو مولانا شیخ الہندؒ نے پسند فرمایا تھا۔ (التمہید ۔ صفحہ ۱۰)۔
مولانا سندھیؒ کی مفید تصانیف، جن کا ذکر خود انہوں نے اپنی کتاب ’’التمہید‘‘ میں کیا ہے، یہ ہیں:
(۴) ’’تعلیق علٰی شرح معانی الآثار للطحاویؒ‘‘
(۵) ’’تعلیق علٰی فتح القدیر لابن الہمامؒ‘‘
(۶) ’’بلوغ المرام‘‘ کی شرح ’’فتح الاسلام لابواب بلوغ المرام‘‘ (چند ابواب کی شرح ہے)
(۷) ’’سفر السعادۃ لفیروز آبادی‘‘ کے کچھ حصہ کی شرح
(۸) ’’تخریج ما فی الباب للامام الترمذیؒ‘‘ کا کچھ حصہ
(۹) ’’غنیۃ الطالبین‘‘ کی احادیث کی تخریج
(۱۰) ’’تہذیب رفع الیدین للامام البخاریؒ‘‘
(۱۱) ’’تنسیق احادیث بدء الوحی من الجامع الصحیح للامام البخاریؒ‘‘
(التمہید ۔ صفحہ ۱۵)
(۱۲) مولانا کی کتاب ’’التمہید‘‘ عربی زبان میں تقریباً پانچ صد صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب ہے، جس میں اسانید علمِ حدیث اور فقہ اور رجال کا ایسا مفید اور جامع تذکرہ ہے جو کسی اور کتاب میں شاید نہ مل سکے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ’’التمہید‘‘ کا مطالعہ بھی احقر نے کچھ تھوڑا بہت کیا ہے۔ ’’رسالت محمودیہ‘‘، ’’حکمت کا اجمالی تعارف‘‘ سے بھی بہت استفادہ کیا ہے، لیکن مولانا کی نمبر چار سے گیارہ تک کتب و رسائل احقر کو دستیاب نہیں ہو سکے۔ باقی مولانا کی املائی کتب و رسائل کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں۔
(۱۳) مولانا کا ایک خطبہ جو آپ نے ۱۹۱۴ء میں کابل جانے سے پہلے دیا تھا ’’قرآن پاک کا مطالعہ کیسے کیا جائے‘‘ کے نام سے طبع ہوا ہے۔ ایک سو دس صفحات کا یہ رسالہ بہت مفید ہے اور قیمتی معلومات پر مشتمل ہے۔ قرآن کریم کے بعض حقائق کو سمجھنے کے لیے کلید کا درجہ رکھتا ہے۔ بالخصوص واقعات و قصص کی تشریح اور ان کا احکام و قوانین کے ساتھ انطباق بہت عمدہ طریق پر کیا گیا ہے۔
(۱۴) اس کے علاوہ مولانا کے چند خطبات بھی ہیں جو انہوں نے جلاوطنی سے واپسی کے بعد مختلف کانفرنسوں اور اجتماعات میں پڑھے تھے۔ ان میں چونکہ بعض خطبات بحالتِ بیماری اور سفر اور بعض دیگر ذہنی کوائف کی ناہمواری کی حالت میں لکھے گئے تھے، اس لیے ان میں بعض جگہ اضطراب سا معلوم ہوتا ہے، لیکن اکثر خطبات بہت عمدہ ہیں اور اجتماعیات سیاسیات کے سلسلے میں گراں قدر معلومات فراہم کرتے ہیں۔ مولانا کی بعض تحریریں مثلاً جمعات کا دو صفحہ کا مقدمہ اتنا عمدہ ہے کہ امام شاہ ولی اللہؒ کے اکثر حکیمانہ رسائل و کتب کو سمجھنے میں بہت ممد ہے اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مولانا کا ذہنی تفوق اور علمی وسعت کس قدر زیادہ ہے۔

مولانا سندھیؒ کی ایک تاریخی تقریر

ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری

مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم ۲۴ برس کی جلاوطنی کے بعد ۷ مارچ ۱۹۳۹ء کو کراچی کی بندرگاہ کیماڑی پر جہاز سے اترے تھے اور ان کے استقبال کے لیے اہلِ سندھ اور ملک کے منتخب اصحابِ فکر و تدبر کا جو جمِ غفیر بندرگاہ پر موجود تھا، مولانا نے اسے خطاب کیا تھا۔ یہ تقریر اس وقت کے اخبارات میں شائع ہوئی تھی لیکن ان کے متن نہایت غلط تھے۔ اس کا صحیح ترین متن یہاں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ مولانا نے اس تقریر میں فرمایا تھا کہ ’’اگر میں مر گیا اور میرے مرنے کے تین سال کے اندر انگریز ہندوستان سے نہ چلا جائے تو میری قبر پر آ کر کہنا کہ انگریز یہاں بیٹھا ہوا ہے‘‘۔ مولانا مرحوم ۱۳ اگست ۱۹۴۴ء کو فوت ہوئے اور تین سال کے اندر ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کو پورا برصغیر آزاد ہو گیا اور ثابت ہو گیا کہ ’’قلندر ہرچہ گوید دیدہ گوید‘‘۔
(ابو سلمان شاہ جہان پوری)
عزیزانِ گرامی!
۱۹۱۵ء میں مجھے میرے استاد حضرت شیخ الہندؒ نے افغانستان بھیجا تھا۔ آپ کے بزرگوں نے مجھے باہر بھیجا تھا۔ باہر رہ کر جو کچھ اسلام کی خدمت کر سکتا تھا، میں نے کی۔ میرے سامنے پہاڑ آئے، شکست کھا گئے، موت آئی، شکست کھا گئی۔ میں ان سپہ سالاروں کا رفیق رہا جنہوں نے دنیا کے بڑے بڑے معرکے سر کیے۔ آپ میری باتوں کو محض تاثرات یا عارضی ہیجانات کا نتیجہ نہ سمجھئے گا۔ میرے پیچھے تجربات کی دنیا ہے۔ میرے مشاہدات بہت وسیع ہیں۔ میں نے کھلی آنکھوں سے دنیا کو دیکھا ہے اور انقلابات اور ان کے اثرات و نتائج کا انقلاب کی سرزمینوں میں رہ کر مطالعہ کیا ہے۔ میں آپ سے کوئی بات چھپانا نہیں چاہتا۔ میرے افکار وقفِ عام ہیں۔ اب میں چراغِ سحری ہوں۔ چاہتا ہوں کہ مرنے سے پہلے اس پیغام کو ہندوستان کے نوجوانوں تک پہنچا دوں۔ اگر یہی حالات رہے تو مجھے خطرہ ہے کہ بنگال تقسیم ہو جائے گا۔ پہلے پہل اس انقلاب کی لپیٹ میں افغانستان آئے گا۔ 
میں انقلاب کا پیامبر بن کر ہندوستان لوٹا ہوں۔ وہ دن دور نہیں کہ برطانیہ اور امریکہ والوں کو اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ اس انقلاب کو قیامت سے کم نہ سمجھئے۔ میں نے بڑے بڑے علما کو، بڑے بڑے افراد کو دربدر بھیک مانگتے دیکھا ہے، غیرتوں کو لٹتے دیکھا ہے۔ یہ عالم گیر انقلاب ہے۔ ایک نہ ایک دن ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر رہے گا۔ دیوارِ چین ہو یا سدِ سکندری، یہ سب کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔ دنیا ایک نئے طوفانِ نوح سے دوچار ہوا چاہتی ہے۔ بادل گھر چکے ہیں، گھٹائیں برسنے کو ہیں۔ لیکن ہمارے علما ہیں کہ ان کی نظریں کتابوں تک محدود ہیں، وہ باہر کی دنیا کو دیکھنا نہیں چاہتے۔ ہمارے سیاستدان بڑی بڑی اسکیمیں بناتے ہیں جو ان کے اغراض و مصالح پر مبنی ہوتی ہیں۔ عوام کو انتہائی نچلے درجے پر رکھ چھوڑا ہے۔
قرآن حق ہے، انجیل حق ہے، توراۃ حق ہے۔ انجیل کو غلط رنگ میں پیش کرنے سے اگر عیسائی، اور توراۃ کو غلط رنگ میں پیش کرنے سے یہودی کافر ہو سکتا ہے، تو اس ملک کے مسلمان قرآن کو غلط رنگ میں پیش کرنے سے مسلمان کیسے رہ سکتے ہیں! اب انقلاب کی گھڑی سر پر آپہنچی ہے۔ سن لو اور سنبھل جاؤ! ورنہ مٹا دیے جاؤ گے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ کل ایک طبقہ قوت و اقتدار کا مالک تھا۔ کسان اور مزدور جو کماتے تھے ان کو کھانے کو نہ ملتا تھا، اور جو طبقہ ان کی کمائی پر رہتا وہ کمانا ذلت کا نشان سمجھتا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ کماؤ طبقے پسماندہ ہوتے چلے گئے اور کھاؤ طبقے اخلاق سے گرتے گئے۔ اگر برکتیں پھیلتی تو سرمایہ دار اور جاگیرداروں کے محلوں میں۔ ذہنوں کو جلا ہوتی تو ان کے ذہنوں کو ہوتی۔ زمانہ مدتوں اسی طرح چلتا رہا۔ سرمایہ دار اور جاگیردار مزدوروں اور کسانوں پر ظلم ڈھاتے رہے۔ آگے چل کر مشینی دور آتا ہے۔ مزدوروں نے مشینوں پر قبضہ کر لیا، جاگیردارانہ نظام ختم ہو گیا۔ آج ان کا نعرہ ہے: ’’مزدور اور کسانو، اٹھو! یہ بڑی بڑی بلڈنگیں اور محلات تمہاری کمائی سے تعمیر ہوئے ہیں۔ یہ تمہارے ہیں۔ ان کے مالک تم ہو۔ اٹھو اور ان پر قبضہ کر لو۔ اور جو آڑے آئے اسے مٹا دو!‘‘
مسلمانو! اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو اس فلسفے کو قبول کرو جس کی ترجمانی امام ولی اللہ دہلویؒ نے کی ہے۔ اگر تمہارے امرا نے غربا کی خیرخواہی نہ کی تو تمہارا بھی وہی حشر ہو گا جو بخارا کے مسلمانوں کا ہو چکا ہے۔ بخارا کے اندر ایک ایک مدرسہ عربی کی یونیورسٹی تھا۔ ترکی کی جو سیاسی طاقت ہے، آپ کے ملک کی وہ سیاسی طاقت نہیں۔ جس انقلاب کے سامنے بخارا کی مذہبیت نہ ٹھہری، ترکی کی سیاست نہ ٹھہری، اس کے سامنے تم اور تمہاری یہ مسجدیں اور مدرسے کیسے ٹھہر سکتے ہیں۔ جب غریب کی جھونپڑی سے انقلاب اٹھتا ہے تو وہ امیر کے محل کو بھی پیوستِ زمین کر کے جاتا ہے۔ انقلاب آتا ہے تو نہ مسجدیں دیکھتا ہے، نہ خانقاہیں، نہ ایوان و محلات، سب کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔
اگر میں مر گیا اور میرے مرنے کے تین سال کے اندر انگریز ہندوستان سے نہ چلا گیا تو میری قبر پر آ کر کہنا کہ انگریز یہاں بیٹھا ہے۔ یاد رکھو! میں نے انگریز کی بیخ و بنیاد کو اکھیڑ دیا ہے، اب وہ ہندوستان میں نہیں رہ سکتا، عنقریب تم مجھے یاد کرو گے، میں اپنے معاملے کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔

کیا مولانا عبید اللہ سندھیؒ اشتراکیت سے متاثر ہوگئے تھے؟

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(مولانا عبید اللہ سندھیؒ قومی سیمینار منعقدہ کراچی (۱۰ و ۱۱ ستمبر ۱۹۹۴ء) کے لیے لکھا گیا۔)


یہ المیہ کم و بیش ہر بڑی شخصیت کے ساتھ پیش آتا ہے کہ اس کی تصویر کے لیے اس کے معتقدین اور ناقدین اپنے اپنے ذوق کے مطابق الگ الگ فریم اور خاکے طے کر لیتے ہیں اور پھر تصویر کو ان میں فٹ کرنے کی متضاد کوششیں بسا اوقات اصل چہرے کو دھندلا کر کے رکھ دیتی ہیں۔ مولانا عبید اللہ سندھیؒ بھی نادان دوستوں اور بے رحم ناقدوں کے اس طرز عمل سے محفوظ نہیں رہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس منفرد انقلابی مفکر کی وفات کو نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی ہم اس کی فکر کو لے کر آگے بڑھنے کی بجائے تاریخ کے صفحات میں اسے تلاش اور دریافت کرنے کے مرحلہ میں ہی رکے ہوئے ہیں۔

ان سوالات کا جائزہ لینے سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ان کی جدوجہد اور تگ و تاز کن مقاصد کے لیے تھی اور انہیں اپنی محنت کے لیے جو ماحول اور میدان ملا اس میں وہ کن مشکلات اور رکاوٹوں سے دوچار ہوئے۔

مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا ذاتی تعارف صرف اس قدر ہے کہ وہ ایک غیر مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے، اسکول کی تعلیم کے دور میں دوستوں کی سوسائٹی اور بعض کتابوں کے مطالعہ سے اسلام سے متاثر ہوا، اسلام قبول کیا، گھر بار چھوڑا، اور ان کی قسمت یاوری کرتے ہوئے انہیں اپنے وقت کے عارف باللہ سید العارفین حضرت حافظ محمد صدیقؒ (بھرچونڈی شریف سندھ) کی خدمت میں لے گئی جہاں ان کے دل و دماغ اور شخصیت و کردار کو ایک ایسا سانچہ میسر آگیا جس میں ڈھل کر وہ اسلام کے غلبہ و نفاذ اور ملت اسلامیہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کی اس تحریک میں ایک کارآمد پرزے کی طرح فٹ ہوگئے، جسے تحریک ولی اللٰہی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اس کے بعد مولانا سندھیؒ کا تعارف تحریک ولی اللٰہی کے ایک بے لوث کارکن اور باشعور راہنما کا تعارف ہے۔ اور یہی وہ پس منظر ہے جو مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی اصل شخصیت سے ہمیں متعارف کراتا ہے۔

مولانا عبید اللہ سندھیؒ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے شاگرد اور دست راست تھے جو اپنے دور میں تحریک ولی اللٰہی کے قائد اور جنگ آزادی کے سرخیل رہے ہیں۔ انہی کی وساطت سے مولانا سندھیؒ امام ولی اللہ دہلویؒ کے فلسفہ، جدوجہد اور تحریک سے متعارف ہوئے اور پھر اسی کے لیے وقف ہو کر رہ گئے۔ انہوں نے تحریک ولی اللٰہی کے لیے فکری اور نظریاتی کام بھی کیا اور معروضی حالات میں اس تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے جاں گسل محنت بھی کی۔ بلکہ اگر قربانیوں، محنت و مشقت اور ایثار کے حوالہ سے دیکھا جائے تو شاید ہی اس دور کا کوئی اور راہنما ان کا ہم پلہ ثابت ہو سکے۔

حضرت شیخ الہندؒ اور مولانا سندھیؒ کی جدوجہد کے مقاصد اور اہداف کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس فکری اور نظریاتی جنگ کے تاریخی تسلسل پر ایک نظر ڈال لی جائے جو مسلم معاشرہ کو بیرونی فلسفوں اور معاشرتوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے طویل عرصہ سے لڑی جا رہی ہے۔

  1. اس جنگ کا پہلا دور وہ تھا جب یونانی فلسفہ نے اسلامی عقائد پر یلغار کی اور مسلمانوں کے اعتقادی حصار کو توڑنا چاہا۔ مگر غزالیؒ، ابن رشدؒ اور ابن تیمیہؒ جیسی عبقری شخصیتیں سامنے آئیں اور یونانی فلسفہ ہی کی زبان اختیار کر کے اسی کے ہتھیاروں سے اس کا راستہ روک دیا۔
  2. دوسرے دور میں ہندو تہذیب و فلسفہ نے مسلم معاشرہ کو اپنے اندر ضم کر لینے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے مگر حضرت مجدد الفؒ ثانی اور ان کے رفقاء کی صبر آزما جدوجہد نے ہندو فلسفہ و معاشرت کی قوت ہاضمہ کو ناکارہ بنا دیا۔
  3. جبکہ اس جنگ کا تیسرا مرحلہ یورپی فلسفہ و معاشرت کی یلغار کا ہے جسے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے قبل از وقت محسوس کر لیا اور اس کا سامنا کرنے کے لیے ایک فکری اور علمی جدوجہد کی بنیاد رکھی دی جو آج تک اس معرکہ میں مسلمانوں کے لیے ڈھال بنی ہوئی ہے۔

مولانا عبید اللہ سندھیؒ جب حضرت شیخ الہندؒ کے معاون و مددگار کے طور پر اس تحریک میں شامل ہوئے تو یہ تحریک اس مرحلہ میں تھی کہ برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش پوری طرح انگریزی عملداری میں آچکا تھا اور اس کے خلاف جہاد بالاکوٹ، بنگال کی فرائضی تحریک، اور ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی سمیت تمام مزاحمتی تحریکیں وقتی طور پر ناکامی سے دوچار ہو چکی تھیں۔ مسلمانوں کی سیاست، تعلیم، معاشرت اور معیشت کے صدیوں سے چلے آنے والے ڈھانچے دہلی کے انگریز حکمرانوں کے ہاتھوں ٹوٹ پھوٹ چکے تھے اور شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کارکنوں کی نئی کھیپ تیار کر کے بدیشی غاصبوں کے خلاف ایک نیا معرکہ بپا کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔

گزشتہ تین صدیوں کے دوران میں جب یورپی اقوام نے دنیا بھر کو غلام بنانے کے لیے چاروں طرف یلغار کی تو یہ تنہا انگریزوں کی یلغار نہ تھی بلکہ اس میں فرانسیسی، ولندیزی، پرتگیزی اور جرمن بھی شامل تھے۔ لیکن انگریز کی شاطرانہ چالوں کے سامنے ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکا اور بالآخر یہ سب یکے بعد دیگرے سپرانداز ہوتے چلے گئے۔ حتیٰ کہ اس سلسلہ کا آخری سیمی فائنل بھی انگریزوں نے جیت لیا جو کمیونزم کے خلاف ’’کولڈ وار‘‘ کے نام پر چند سال قبل تک بپا رہا ہے۔ اور اب تمام مغربی اقوام امریکہ کی قیادت میں متحد ہو کر مسلمانوں کے ساتھ فائنل میچ کے لیے پوری طرح فارم میں ہیں۔

مگر جب شیخ الہندؒ نے اس صدی کے آغاز میں دہلی کے انگریز حکمرانوں سے دو دو ہاتھ کرنے کا پروگرام بنایا تو دنیا کا سیاسی منظر آج سے بہت مختلف تھا۔ ترکی کی خلافت عثمانیہ جو پانچ صدیوں تک مسلمانان عالم کی سیاسی وحدت و مرکزیت کی علامت سمجھی جاتی رہی ہے ابھی زندہ تھی، اور جرمن ایک توانا و طاقتور حریف کے طور پر انگریز قوم کا سامنا کر رہے تھے ، بلکہ انگریز دشمنی نے ترکوں اور جرمنوں کو ایک دوسرے کے قدرتی حلیف کی حیثیت دے رکھی تھی۔ ایسے حالات میں حضرت شیخ الہندؒ نے بھی ایک ہوشیار جرنیل کی طرح انگریزوں اور جرمنوں کی باہمی کشمکش سے فائدہ اٹھانا چاہا اور اس کے لیے منصوبہ بندی کی۔ اس کی تفصیلات مولانا سید محمد میاںؒ نے اپنی کتاب ’’تحریک شیخ الہند‘‘ میں انڈیا آفس لائبریری لندن میں محفوظ سرکاری دستاویزات کے حوالہ سے مرتب کر دی ہیں اور اب جرمن وزارت خارجہ کے ایک سابق ڈپٹی سیکرٹری اور برلن یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے استاذ پروفیسر اولف شمل کے حوالہ سے بھی منظر عام پر آئی ہیں۔ روزنامہ جنگ لندن ۱۶ اگست ۱۹۹۴ء کے مطابق پروفیسر اولف شمل کے بقول شیخ الہندؒ کی تحریک پر جرمن، ترک اور افغان حکومتیں ان کے ساتھ ایک ایسے معاہدہ پر متفق ہوگئی تھیں جس کا مقصد برصغیر میں انگریزی اقتدار کے خاتمہ کے لیے مشترکہ کارروائی کرنا تھا۔

اس جدوجہد کو ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور یہ ’’تحریک شیخ الہندؒ‘‘ کے نام سے بھی متعارف تھی جبکہ پروفیسر اولف شمل نے اسے ’’برلن پلان‘‘ کا نام دیا ہے۔ مولانا عبید اللہ سندھیؒ اس کے روح رواں تھے اور جرمنوں، ترکوں اور افغانوں کے ساتھ مذاکرات و معاہدات میں ان کے کردار کو کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔ لیکن یہ تحریک بوجوہ ناکام ہوگئی اور اسی دور میں عالمی سیاسی منظر بھی تبدیل ہوگیا۔ ترکی کی خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا، جنگ عظیم اول میں جرمن شکست کھا گئے، اور کمیونسٹ انقلاب کے بعد روس ایک نئے حریف کے طور پر انگریزوں کے سامنے آگیا۔ ان حالات میں جبکہ شیخ الہندؒ کے پلان کی ناکامی کے بعد اس تحریک کے کم و بیش سب ارکان دہلی کی انگریزی حکومت کے عتاب کا شکار ہو کر جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے جا چکے تھے اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ تنہا جیل سے باہر رہ گئے تھے تو ایک موقع شناس اور مدبر سیاستدان کی حیثیت سے مولانا سندھیؒ کے لیے فطری راستہ یہی تھا کہ وہ انگریزوں کے نئے عالمی حریف ’’کمیونسٹ روس‘‘ کے ساتھ سلسلہ جنبانی کرتے۔ اور جس طرح ان کے استاذ حضرت شیخ الہندؒ نے انگریزوں اور جرمنوں کی کشمکش سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تھی بالکل اسی طرح وہ انگریزوں اور روسیوں کی کشمکش سے فائدہ اٹھانے کی راہ نکالتے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ماسکو کا سفر کیا، وہاں کچھ عرصہ قیام کیا، کمیونسٹ لیڈروں سے ملاقاتیں کیں، کمیونسٹ انقلاب کا مطالعہ کیا اور مغربی سرمایہ داری اور کمیونزم کی کشمکش کے پس منظر میں روسی انقلاب کے بعض پہلوؤں پر کلمہ خیر بھی کہا۔

بس یہ ہے وہ پس منظر جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یار دوستوں نے مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے اشتراکیت سے متاثر ہونے کا مفروضہ قائم کر لیا اور اب تک آنکھیں بند کر کے اس لکیر کو پیٹے جا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے مولانا سندھیؒ کے بعض خوشہ چین جنہوں نے اپنے استاذ کی پیروی میں کمیونسٹ انقلاب اور نظام کے مطالعہ کی زحمت تو اٹھا لی لیکن ان کی طرح فکری و نظریاتی توازن قائم نہ رکھ سکے، خود پر ’’لغزش پا‘‘ کا الزام زیادہ بوجھل سمجھتے ہوئے انہوں نے اسے اپنے استاذ کی طرف منتقل کر دینے میں عافیت محسوس کی اور یہ بات ناقدین کے بے رحم ہاتھوں میں پہنچ کر ایک نئے فکری معرکے کا عنوان بن گئی۔ ستم بالائے ستم کہ نادان دوستوں اور بے رحم ناقدوں میں سے کسی نے بھی خود مولانا عبید اللہ سندھیؒ سے ان کا موقف اور پوزیشن سمجھنے کی زحمت گوارا نہ کی جو اپنی جلاوطنی کے اختتام پر ہندوستان واپسی سے چند ماہ قبل اپنی خود نوشت میں یہ تحریر فرما رہے ہیں کہ

’’۱۹۲۲ء میں ترکی جانا ہوا، سات مہینے ماسکو میں رہا، سوشلزم کا مطالعہ اپنے نوجوان رفیقوں کی مدد سے کرتا رہا۔ چونکہ نیشنل کانگریس سے تعلق سرکاری طور پر ثابت ہو چکا تھا اس لیے سوویٹ روس نے اپنا معزز مہمان بنایا اور مطالعہ کے لیے ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچائیں۔ (یہ غلط ہے کہ میں لینن سے ملا، کامریڈ لینن اس وقت ایسا بیمار تھا کہ اپنے قریبی دوستوں کو بھی نہیں پہچان سکتا تھا)۔ میرے اس مطالعہ کا نتیجہ ہے کہ میں اپنی مذہبی تحریک کو جو امام ولی اللہؒ کے فلسفہ کی ایک شاخ ہے، اس زمانہ کے لادینی حملہ سے محفوظ کرنے کی تدابیر سوچنے میں کامیاب ہوا۔‘‘ (بحوالہ ’’میری زندگی‘‘ مولانا سندھیؒ ص ۱۲۔ مطبوعہ مجلس قاسم المعارف دیوبند)

مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی ’’اس نص صریح‘‘ کے بعد بھی اگر کوئی صاحب ماسکو میں مولاناؒ کے قیام، سوشلزم کے مطالعہ اور برصغیر کی آزادی کے لیے روسی راہنماؤں کا تعاون حاصل کرنے کی کوششوں کو ’’اشتراکیت سے متاثر ہونے‘‘ کا عنوان دینے پر مصر ہیں تو انہیں رائے قائم کرنے کے حق سے نہیں روکا جا سکتا لیکن مولانا سندھیؒ کا دامن اس الزام سے بہرحال پاک ہے۔

مولانا سندھیؒ پر اشتراکیت سے متاثر ہونے کے الزام کا ایک اور انداز سے بھی جائزہ لے لیا جائے تو بہتر ہوگا۔ وہ یہ کہ کمیونزم اور کمیونسٹ انقلاب کے تین الگ الگ پہلو ہیں جنہیں سامنے رکھنا ضروری ہے

  1. کمیونزم کا اعتقادی پہلو جس کا تعلق خدا تعالیٰ کے انکار، مذہب سے نفرت اور اخلاقیات سے انحراف سے ہے،
  2. مغربی سرمایہ داری اور کمیونزم کے معاشی اصولوں کے تقابلی مطالعہ میں ترجیحات کا تعین،
  3. اور روسی انقلاب کے ابتدائی دور میں دنیا بھر کی تحریکاتِ آزادی کے ساتھ اس کا ہمدردانہ طرز عمل۔

جہاں تک اعتقاد و نظریات کا تعلق ہے مولانا سندھیؒ کا بڑے سے بڑا مخالف بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان کے ایمان و کردار اور عبادات و اخلاق میں آخر وقت تک کوئی ایسا جھول سامنے آیا ہو جسے کمزوری تو کجا رخصت کے دائرہ میں شامل کیا جا سکے۔ ان کا ایمان و عمل تو حضرت ابوذر غفاریؓ کی طرح عزیمت و استقامت کا ایمان و عمل ہے جس کے ساتھ سوائے رشک کے اور کوئی نسبت قائم نہیں کی جا سکتی۔ اور مولانا سندھیؒ خود اپنے ایمانی عزم کا اظہار ان الفاظ میں کر رہے ہیں کہ

’’ہم پر قطعی طور پر لازم ہے کہ ہم تمام اقوام عالم کے سامنے ثابت کر دیں کہ انسانیت کے ہاتھ میں قرآن کریم سے زیادہ درست اور صحیح کوئی پروگرام نہیں ہے۔ پھر ہم پر یہ بھی لازم ہے کہ جو لوگ قرآن کریم پر ایمان لا چکے ہیں ان کی جماعت کو منظم کیا جائے خواہ وہ کسی قوم یا نسل سے تعلق رکھتے ہوں۔ ہم ان کی کسی اور حیثیت کی طرف نہ دیکھیں بجز قرآن کریم پر ایمان لانے کے۔ پس ایسی جماعت ہی مخالفین پر غالب آئے گی لیکن ان کا غلبہ انتقامی شکل میں نہیں ہوگا بلکہ ہدایت اور ارشاد کے طریق پر ہوگا جیسا کہ والد اپنی اولاد پر غالب ہوتا ہے۔ اب اس نظام کے خلاف جو بھی اٹھ کھڑا ہوگا وہ فنا کر دینے کے قابل ہوگا۔‘‘ (الہام الرحمٰن بحوالہ ’’مولانا سندھیؒ کے علوم و افکار‘‘ از مولانا عبد الحمید سواتی ص ۱۷)

’’میرا یہ غیر متزلزل یقین اور عقیدہ ہے کہ اسلام کا مستقبل بڑا روشن اور شاندار ہے۔ بے شک اسلام پوری قوت اور توانائی کے ساتھ ایک بار پھر ابھرے گا لیکن خارج میں اس کا ڈھانچہ وہ نہیں رہے گا جو اس وقت ہے۔‘‘ (ذاتی ڈائری ص ۳۳)

’’میں مطمئن ہوں کہ اسلام کا احیاء نشاۃ ثانیہ میں دو اصولوں پر ہوگا

  1. اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے۔ اور جو آدمی ہماری اس بات پر متفق ہے وہ ہماری جماعت کا فرد ہوگا۔ یہی ایک کلمہ تمام امور کے لیے کفایت کرنے والا ہے۔
  2. سود کی قطعی حرمت اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس کو روکنا اور سود کھانے والوں کے خلاف اعلان جنگ کرنا۔ مسلمان ان دونوں اصولوں پر عمل پیرا ہوئے بغیر کسی طرح زندہ نہیں رہ سکتے۔‘‘
  3. (بحوالہ مولانا سندھیؒ کے علوم و افکار ص ۲۴)

البتہ مولانا سندھیؒ نے مغربی سرمایہ داری اور کمیونزم کے تقابلی مطالعہ میں اپنی ترجیحات ضرور قائم کی ہیں جو ان امور پر اجتہادی نظر رکھنے والے ہر صاحب علم کا حق ہے۔ اس حوالہ سے مولانا سندھیؒ کے افکار اور ترجیحات سے اختلاف یا اتفاق دونوں کی گنجائش موجود ہے لیکن ایسے معاملات میں جن کا تعلق قرآن و سنت کی صریح نصوص سے نہیں، انہیں رائے قائم کرنے اور ترجیحات متعین کرنے کے علمی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح مولانا سندھیؒ نے روسی انقلاب کے ابتدائی دور میں دنیا بھر کی تحریکات آزادی کے ساتھ اس کے ہمدردانہ رویہ کی تعریف کی ہے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کی ہے۔ یہ ایک فطری، نارمل اور معقول طرز عمل ہے جو ان جیسے حالات سے دوچار کسی بھی مجاہد آزادی کے لیے ناگزیر تھا۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ روسی انقلاب کے بارے میں مولانا سندھیؒ کے اس دور کے تاثرات کا اطلاق بعد کے ادوار پر بھی ہو جبکہ روس خود ایک استعمار کا روپ دھار چکا تھا اور مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا کی اقوام کی آزادی غصب کر کے ان کے مذہب، ثقافت اور معاشرت کو ملیامیٹ کرنے کے درپے تھا۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں رومیوں اور ایرانیوں کی باہمی جنگ کے حوالہ سے قرآن کریم نے بھی ایک موقع پر رومیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور رومیوں کی کامیابی کو مسلمانوں کے لیے باعث فرحت قرار دیا ہے۔ لیکن یہ ایک وقتی بات تھی اور اس وقت کے معروضی حالات کے پس منظر میں تھی۔ اس کے چند سال بعد خود جناب رسول اللہؐ صحابہ کرامؓ کا لشکر جرار لے کر تبوک کے مقام پر جہاد کے لیے رومی لشکر کا انتظار کر رہے تھے۔

مولانا سندھیؒ نے اس دور میں روسی انقلاب کے بارے میں اگر کچھ تعریفی باتیں کی ہیں تو انہیں اس دور کے معروضی حالات کے پس منظر میں ہی دیکھنا ہوگا۔ ورنہ جہاں تک کمیونزم کے اعتقادی اور نظریاتی پہلوؤں کا تعلق ہے ان کے بارے میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا نظریہ اور عقیدہ بھی وہی ہے جو اس دور کے دوسرے اہل علم کا ہے کہ وہ اس سے متاثر یا مرعوب ہونے کی بجائے پوری قوت سے اس کا ابطال کر رہے ہیں اور اس کے مقابلہ میں اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔

ہم اپنی معروضات کا اختتام مولانا سندھیؒ کے اس ارشاد پر کر رہے ہیں جس کے بعد اس سلسلہ میں کسی وضاحت کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

’’جو امت قرآن کریم کا پروگرام نہیں اپنائے گی وہ کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ مسلمان قرآن کی عالمی تنظیمی دعوت کا پروگرام لے کر اٹھے اور پھر وہ اپنی اس تنظیمی دعوت میں کامیاب ہوگئے اور یہ صرف پچاس سال کی مدت یعنی واقعہ صفین کی تحکیم تک ہوا۔ اب جب کوئی امت اپنی تنظیمی دعوت لے کر اٹھے گی تو وہ کبھی بھی کامیاب نہ ہوگی جب تک وہ قرآن کے پروگرام کو نہ اپنائے۔ ہم نے یہ بات تحقیق سے دریافت کی ہے اور موجودہ دور میں عالمی تحریکات کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمارا ایمان اس بات پر پختہ ہوگیا ہے۔ لوگ بالعموم یہ جانتے ہیں کہ روسی انقلاب فقط ایک اقتصادی انقلاب ہے، ادیان اور حیات اخروی سے بحث نہیں کرتا۔ اور ہم ان روسیوں کے پاس بیٹھے ہیں اور ان کے افکار و خیالات ہم نے معلوم کیے ہیں اور ہم نے بتدریج اور آہستہ آہستہ نرمی اور لطافت سے امام ولی اللہؒ کا پروگرام جو انہوں نے حجۃ اللہ البالغہ میں پیش کیا ان روسیوں کے سامنے رکھا تو انہوں نے اسے نہایت ہی مستحسن خیال کیا اور ہم سے پوچھنے لگے کہ کیا کوئی جماعت اس وقت ایسی ہے جو اس پروگرام پر عمل کرتی ہو؟ جب ہم نے نفی میں جواب دیا تو انہوں نے بہت افسوس کیا اور کہنے لگے اگر کوئی جماعت اس پروگرام پر عمل کرنے والی ہوتی تو ہم ان کے ساتھ شریک ہو جاتے اور ہم بھی ان میں داخل ہو کر ان کا مذہب اختیار کر لیتے اور یہ بات ہمارے لیے آسان بنا دیتی ہماری ان مشکلات کو جنہوں نے ہمارے پروگرام کو کسانوں میں نافذ ہونے سے روک رکھا ہے۔ یہ ان روسیوں کی بات کا بلا کم و کاست اور بلا تحریف کے خلاصہ ہے۔ اس کے بعد مجھے یقین ہوا کہ یہ لوگ ہمارے قرآنی پروگرام کو قبول کرنے کی طرف مجبور ہوں گے اگرچہ ایک زمانہ کے بعد ہی کیوں نہ ہوں۔ ہم آج کے دور میں عالمی تحریکوں میں سے کسی تحریک کو ایسا نہیں پاتے کہ وہ قرآنی تعلیمات کے خلاف اور مناقض ہو، جس طرح انقلابی روس کی تحریک قرآنی پروگرام کے مناقض اور مخالف ہے اور باوجود اس کے کہ وہ بھی مجبور اور مضطر ہیں کہ قرآن اور اس کے پروگرام کی طرف رجوع کریں، باقی تحریکات کا کیا پوچھنا۔ اور اس چیز نے میرے ایمان میں زیادتی اور قوت پیدا کر دی ہے کہ ہدایت اور فلاح قرآن کے نزول کے بعد صرف قرآن کریم کے اتباع پر ہی موقوف ہے۔‘‘ (الہام الرحمٰن ص ۷۰ بحوالہ مولانا سندھیؒ کے علوم و افکار ص ۱۹)

جشن یسوع ۔ لندن کی ایک مسیحی تقریب کا آنکھوں دیکھا حال

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۱۶ جولائی ۱۹۹۴ء کی بات ہے ورلڈ اسلامک فورم کے ایک وفد کو کچھ عرب دوستوں سے ملنا تھا۔ ملاقات کی جگہ لندن میں چیئرنگ کراس ریلوے اسٹیشن کے ساتھ اسی نام کے ہوٹل کے گیٹ پر طے تھی۔ وفد میں راقم الحروف کے علاوہ مولانا محمد عیسیٰ منصوری اور مولانا مفتی برکت اللہ شامل تھے۔ اتفاق سے عرب دوستوں کو پروگرام کے دن کے بارے میں غلط فہمی ہوگئی اور فون کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ ملاقات کے لیے تشریف نہیں لا سکیں گے۔ ہم تینوں کو باہمی گفتگو کے لیے مناسب جگہ کی تلاش ہوئی، وہیں لندن کی شہرہ آفاق نیشنل آرٹ گیلری ہے جس کے سامنے ایک کھلا میدان ہے جو ہر وقت سیرگاہ بنا رہتا ہے اور ویک اینڈ پر یعنی ہفتہ و اتوار کے دن چھٹی کی وجہ سے بہت رش ہوتا ہے۔ ہم نے سوچا کہ وہیں کسی بینچ پر بیٹھ کر باہمی گفتگو کر لیں گے اور پھر اپنے اپنے ٹھکانے کی طرف روانہ ہو جائیں گے۔

میدان میں پہنچے تو میلے کا سماں تھا، ایک طرف اسٹیج بنا ہوا تھا جس پر ایک گروپ موسیقی کے آلات سنبھالے گانے بجانے میں مصروف تھا جبکہ چاروں طرف خواتین و حضرات کا ایک ہجوم تھا جو آواز کے زیروبم کے ساتھ تھرکنے میں مگن تھا۔ ایک طرف کبوتروں کی ایک بڑی تعداد زمین پر دانہ چگنے میں محو تھی، عورتیں اور بچے اپنے ہاتھوں میں ان کے لیے دانہ لیے ادھر ادھر پھر رہے تھے اور ان کے اردگرد سینکڑوں کی تعداد میں کبوتر منڈلا رہے تھے۔ یہ کبوتر روزانہ اس جگہ لوگوں کے انتظار میں ہوتے ہیں اور لوگ ایک تفریحی مشغلہ کے طور پر جمع ہو کر انہیں دانہ ڈالتے رہتے ہیں۔ خیر ہم اس سارے منظر پر سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے ایک بینچ پر بیٹھ کر اپنی گفتگو میں مصروف ہوگئے۔ دورانِ گفتگو ایک دو بار میری نظر بعض نوجوانوں کے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی صلیب پر پڑی۔ حسب عادت چونکا کہ صلیب کا اس میلے کے ساتھ کیا جوڑ ہو سکتا ہے، غور سے دیکھا تو اکثر لوگوں کے ہاتھوں میں صلیب نظر آئی بلکہ ایک دو بڑی صلیبیں نمایاں طور پر نصب تھیں اور بیشتر لوگوں کے کپڑوں، جسموں اور چہروں پر مختلف رنگوں سے صلیب کے نشان بنے ہوئے تھے۔

زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے میں اسٹیج پر ہونے والی گفتگو اور گانوں کا مفہوم سننے کے باوجود سمجھ نہیں رہا تھا اس لیے مولانا مفتی برکت اللہ صاحب کو اس طرف متوجہ کیا کہ اس میلے کے بارے میں مجھے بتائیں کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے؟ مفتی صاحب نے اسٹیج کی طرف غور سے دیکھا اور چند لمحات اسٹیج پر ہونے والی گفتگو اور گانے کو سن کر فرمایا کہ یہ تو ان کی مذہبی تقریب ہے اور سب مذہبی جوش و جذبہ کے ساتھ اس تقریب میں شریک ہیں۔ تقریب کی کیفیت یہ تھی کہ اسٹیج پر ایک گروپ آلاتِ موسیقی سنبھالے ہوئے تھا، یہ لوگ کبھی گانے لگتے، کبھی ان میں سے کوئی شخص تقریر کے انداز میں گفتگو کرنے لگتا۔ لاؤڈ اسپیکر کی وجہ سے آواز کافی فاصلہ پر بھی سنائی دے رہی تھی۔ گانے کے چند بول جو ہماری سمجھ میں آئے اس قسم کے تھے

’’یسوع! ہم یہاں ہیں، اے یسوع! ہم تم سے محبت کرتے ہیں، ہمیں یسوع کی ضرورت ہے۔‘‘

اسی طرح مختلف بینر بھی میدان میں لگے ہوئے تھے جن پر اسی قسم کے سلوگن درج تھے۔ ایک پر لکھا تھا

’’یسوع کا پیغام محبت کا پیغام ہے۔‘‘

ایک گول اسٹیکر جو اکثر لوگوں نے کپڑوں اور چہروں پر چپکا رکھا تھا اور مختلف کارکن جگہ جگہ کھڑے ہو کر لوگوں کو یہ اسٹیکر لگا رہے تھے اس کا مضمون یہ تھا

THE UK NEEDS JESUS (برطانیہ کو یسوع کی ضرورت ہے)

بعض اوقات اسٹیج پر گائے جانے والے گانے کی دھن کے ساتھ تقریب کے اکثر شرکاء ناچنے لگ جاتے اور کچھ لوگوں کو باقاعدہ اس طرح کا ’’حال‘‘ پڑتا نظر آرہا تھا جیسے ہمارے ہاں قوالی کے موقع پر ہوتا ہے۔ مفتی برکت اللہ ازراہ تفنن کہنے لگے کہ یہ کچھ صوفی قسم کے عیسائی لگتے ہیں۔ میں نے بھی اسی وزن پر گرہ لگا دی کہ صوفی بھی چشتی طرز کے نظر آتے ہیں (صوفیائے کرام سے دلی معذرت کے ساتھ)۔ اسٹیج کے ایک طرف دو منزلہ بس کھڑی نظر آئی جس کی پیشانی پر مستقل طور پر لکھا تھا

THE MODERN JESUS ARMY (جدید مسیحی فوج)

یہ بس اسی آرمی کی تھی جس کے ساتھ مسیحی فوج کا ایک ٹرک اور ایک ویگن بھی کھڑی تھی۔ اسی دوران اسٹیج سے اعلان ہوا کہ یہ تقریب شام کو ایک اور میدان میں ہو رہی ہے جس سے اندازہ ہوا کہ یہ ایک متحرک مذہبی میلا ہے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہتا ہے۔ ایک طرف کچھ لڑکیاں مختلف رنگ برتنوں میں گھولے بیٹھی تھیں اور لوگ اس رنگ سے اپنے کپڑوں، بازوؤں اور چہروں پر صلیب کے نشان بنوا رہے تھے۔ بعض لڑکیوں نے اپنے بال رنگے ہوئے تھے، بعض نوجوانوں کی پشت پر پورے پنجے کے نشان بھی تھے۔ ایک بچہ اپنے دونوں ہاتھ رنگ کر باپ کے کپڑوں پر ثبت کرنے کی پوری کوشش کر رہا تھا مگر باپ اس کے لیے تیار نہیں تھا۔

خیر اسی گہماگہمی میں مولانا عیسیٰ منصوری تو گفتگو سے فارغ ہو کر جلدی چلے گئے مگر راقم الحروف اور مولانا مفتی برکت اللہ نے اس مذہبی میلہ کے گرد ایک چکر لگانا مناسب سمجھا۔ اسٹیج کے قریب گئے تو ایک نیا منظر دیکھا کہ اسٹیج پر کھڑا ایک گروپ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے بلند آہنگ نوحہ کے انداز میں پکار رہا تھا

’’اے یسوع! ہم یہاں ہیں‘‘۔

نوحے کا انداز دیکھ کر اپنے ہاں کے شیعہ ذاکروں کا منظر نگاہوں کے سامنے گھوم گیا۔ آگے بڑھے تو ایک چھوٹا سا اسٹال نظر آیا جس پر پمفلٹ اور کتابچے فروخت ہو رہے تھے۔ ایک ورقہ جس پر اس قسم کی تقریبات کا پروگرام درج تھا مفت تقسیم ہو رہا تھا۔ ایک طرف ایک بھاری بھر کم ملنگ دو چار حواریوں کے گھیرے میں مست بیٹھا تھا، اسے دیکھ کر اپنے محترم اور کرم فرما بزرگ جہلم کے حاجی عبد الخالق یاد آگئے۔ میں نے مفتی برکت اللہ صاحب کو آمادہ کیا کہ ان سے ہلکا پھلکا انٹرویو کر لیا جائے۔ قریب گئے تو ان کا ایک ساتھی بات کے لیے آگے بڑھا، اس سے پوچھا کہ یہ تقریب کیا ہے؟ اس نے بتایا کہ یہ ہماری مذہبی تقریب ہے جو ہم سال میں دو دفعہ کرتے ہیں اور یہ تقریبات بھی ہماری تبلیغ کا حصہ ہیں۔ ہمارے سوال پر انہوں نے بتایا کہ وہ عملی اور اجتماعی زندگی سے مذہب کی لاتعلقی پر خوش نہیں ہیں اور مذہب کو دوبارہ عملی زندگی میں لانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

تھوڑی دیر مسیحیوں کے مذہبی میلے میں گھوم کر ہم نے واپسی کا فیصلہ کیا اور ٹیوب اسٹیشن کے گیٹ پر جدا ہونے لگے تو ایک خوبرو نوجوان لڑکی نے، جو یورپی لباس میں تھی اور سر اور ٹانگوں سے بے لباس تھی، ہمارے قریب آ کر ’’السلام علیکم‘‘ کہا۔ وہ میری طرف متوجہ تھی مگر میرے لیے زبان کا مسئلہ گفتگو میں رکاوٹ تھا۔ مفتی صاحب اس سے ہم کلام ہوئے تو اس لڑکی نے بتایا کہ وہ بوسنیا کی ہے اور پناہ گزین ہے۔ مفتی صاحب اسے سلام کہہ کر آگے بڑھ گئے اور بتایا کہ یہاں خانہ بدوشوں کی ایک مستقل قوم ہے جنہیں جپسی (gypsy) کہا جاتا ہے، ان لوگوں نے بوسنیا کے حالات سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں بھیک مانگنے کا اچھا خاصا ڈھونگ رچایا ہوا ہے اور یہ لڑکی بھی آپ سے کچھ مانگنے والی تھی، انہوں نے بوسنیا کے مظلومین کے نام پر اس قدر بھیک مانگی ہے کہ خود بوسنیا کے پناہ گزینوں کو اس پر احتجاج کرنا پڑا اور انہوں نے خاصی محنت کے ساتھ اس بات کی وضاحت کی کہ یہ بھیک مانگنے والے لوگ بوسنیا کے نہیں ہیں۔

مرحوم افتخار اعظمی کی یاد میں

ادارہ

(اردو کے ممتاز شاعر افتخار اعظمی گزشتہ دنوں لندن میں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم ورلڈ اسلامک فورم کے مقاصد اور پروگرام کے ساتھ گہری دلچسپی رکھتے تھے اور وقتاً فوقتاً فورم کے پروگراموں میں شریک ہونے کے علاوہ گراں قدر مشوروں کے ساتھ راہنمائی کیا کرتے تھے۔ اللہ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا الٰہ العالمین۔ مرحوم کی زندگی کے آخری ایام میں فورم کی ایک فکری نشست ان کی زیرصدارت منعقد ہوئی جس میں انہوں نے بھی اظہار خیال فرمایا، اس نشست کی کارروائی مرحوم کی یاد کے طور پر شائع کی جا رہی ہے۔ ادارہ)

ورلڈ اسلامک فورم کا اجلاس بعنوان ’’قرآن اور ادبِ اسلامی‘‘ اردو عربی اکادمی النگٹن پارک میڈن ہیڈ (یوکے) میں منعقد ہوا۔ اجلاس کی صدارت بزرگ شاعر و ادیب جناب افتخار اعظمی صاحب نے کی۔

مولانا عیسٰی منصوری

فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری نے کہا کہ تحریر اور بیان کی قوت عطیۂ خداوندی اور خدا کا انعام ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اس کو قوتِ گویائی عطا کی، اس بات کا سلیقہ دیا کہ اپنی بات کو واضح کر سکے۔ یہ ایک عظیم طاقت ہے جو تعمیر کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہے اور تخریب کے لیے بھی۔ بین الاقوامی تاریخ میں ایسا واقعہ اور ایسا دور بار بار آیا ہے جب متاثر کرنے والا اور طاقتور قلم گمراہ ہاتھوں میں پہنچ گیا تو اس سے ایسا ادب وجود میں آیا جس نے پورے معاشرے کو متاثر کیا۔ اس ادب سے جاہلیت کی دعوت کا کام لیا گیا۔ عقائد، اخلاق اور معاشرت میں گراوٹ، کج روی اور بگاڑ پیدا ہوا۔ روم و یونان کی تاریخ پڑھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کے زوال میں بڑا حصہ اس ادب کا تھا جو لا دینیت کا ادب، نفس و شہوت پرستی کا ادب تھا۔ قرونِ وسطٰی کی تاریخ بتاتی ہے کہ قوموں کی تباہی و بربادی کا سب سے بڑا سبب یہ ہوا کہ قلم ان لوگوں کے ہاتھ میں آ گیا جو فساد کے داعی تھے۔ نفس و خواہشات کے غلام تھے، نہ انہیں انسانیت سے محبت تھی نہ خوفِ خدا تھا۔
یہ صرف مسلمانوں ہی کی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی بدقسمتی ہے کہ آج پھر قلم، صحافت، پریس و میڈیا پر ان کا کنٹرول ہے جو اسلام سے شدید عناد رکھتے ہیں، اور اسلام کو رجعت پسندی، فرسودگی اور بنیاد پرستی سے تعبیر کر کے اسلام کے خلاف اتنی نفرت پیدا کر رہے ہیں کہ پڑھا لکھا آدمی اپنے آپ کو مسلمان یا اسلام پسند کہتے ہوئے شرمائے۔ عالمِ اسلام کے لیے آج کے دور کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ صحافت اور الیکٹرونک میڈیا میں امتیاز پیدا کرے۔ طاقتور اور مؤثر اسلوبِ تحریر حاصل کرے۔ مغربی میڈیا و پریس کا مقصد مغرب کے استیلا و غلبہ کو دوام بخشنا ہے۔ مغرب کا ہی دانشور، صحافی، مفکر و معلم مغربی غلبہ و تسلط کا نمائندہ ہے۔ اس میڈیا کے حملہ کا ہمارے پاس کیا جواب ہے؟ اسی مغربی میڈیا کے لیے ورلڈ اسلامک فورم نے کئی محاذوں پر کام شروع کیا ہے جس میں ایک شعبہ تحریکِ ادبِ اسلامی ہے۔ آپ کو مغرب کے اسلام دشمن میڈیا کا طلسم توڑنا ہے اور اس کے لیے بھرپور تیاری کرنی ہو گی۔ بقول علامہ اقبال نگاہ بلند، سخن دلنواز اور جان پرسوز درکار ہے۔ بلند نگاہ پیدا کرنے کے لیے بڑی محنت جانفشانی کی ضرورت ہے۔ علماء کو نہ صرف انگریزی و یورپین زبانوں کو سیکھنا ہو گا بلکہ جدید عصری علوم سے آراستہ ہونا ہو گا۔ زمانہ کے معیار و مذاق کو سمجھنا ہو گا، مطالعہ کو وسیع کرنا ہو گا، تحریر و تقریر کے معیار کو بلند کرنا ہو گا۔ ادب و صحافت میں امتیاز پیدا کرنا اس دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور اس کے لیے ورلڈ اسلامک فورم کوشاں ہے۔

جناب افتخار اعظمی

بزرگ شاعر و ادیب جناب افتخار اعظمی صاحب نے کہا کہ قرآن کے نازل ہونے سے عربی زبان میں علوم کے سرچشمے پھوٹے۔ قرآن نہ آتا تو علمِ بیان پر کتابیں نہ آتیں، علمِ نحو و علمِ صرف پر کتابیں نہ آتیں۔ قرآن فصاحت و بلاغت اور علمِ بیان کا شاہکار ہے۔ علمِ بیان دراصل علمِ نقد و نظر ہے، علمِ تنقید ہے۔ بیان کے معنی نہاں کو واضح کرنا۔ جو ادیب اور شاعر اپنے مافی الضمیر کو واضح نہیں کر سکتا، ناقص ہے۔ علامہ حمید الدین فراہی نے فرمایا، ہر دماغ ایک کلیا (چھوٹا برتن) ہے اور قرآن ایک سمندر ہے جو کلیا میں ظرف کے مطابق سماتا ہے۔ قرآن نے عربوں کے ادبی لہجے کو وقار اور تمکن بخشی، قرآن نے عربی ادب کو ایک مثالی اسلوب عطا کیا، عربوں کو علوم و فنون سے مالامال کیا، انہیں دنیا کا استاذ و معلم بنا دیا۔ قرآن ان کے رگ و ریشے میں اتر گیا۔
قرآن کی بدولت اسلام ہمارے اندر نفوذ کیے ہوئے ہے اور ہماری روح میں ڈھل گیا ہے۔ کمیونزم کسی کی طرح میں نہیں ڈھلا اس لیے زوال پذیر ہو گیا۔ قرآن کا ادبی پہلو کمیونزم پیدا کر سکا نہ سرمایہ داری۔ آج کل ادب و شاعری کے نام پر اسلام کے خلاف محاذ قائم کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے ترقی پسند شاعر سردار علی جعفر نے پچھلے دنوں اقبال کو چھوٹا فلسفی اور بڑا شاعر کہہ کر اپنے کمیونزم کی رحلت کی بھڑاس نکالی ہے۔ کمیونزم کی شکست و زوال کے بعد بھی ترقی پسند اسلام کے خلاف اپنی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اقبال کی شخصیت کو گرا کر لینن کے مجسمہ گرانے کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ یہاں بھی ایک لابی سرگرم ہو گئی ہے، گزشتہ دنوں پروفیسر الف رسل نے کہا کہ اقبال بڑا شاعر نہیں ہے، اس کی شاعری محض مذہبی ہے۔ انہوں نے اس دعوے کی کوئی توجیہ، کوئی دلیل نہیں دی۔ معلوم نہیں ان کے نزدیک بڑے شاعر کو ناپنے کا کیا پیمانہ ہے۔ مجھے پروفیسر الف رسل کے اس بیان پر حیرت بھی ہوئی اور مسرت بھی۔ حیرت اس پر کہ ایک پروفیسر نے اتنی سطحی بات کہی، اور مسرت اس پر کہ خدا نے مجھے پروفیسر نہیں بنایا۔ پروفیسر الف رسل کے اس بیان کو روزنامہ جنگ، آواز، راوی اور پورے اردو پریس نے اس طرح چھاپا گویا کوئی اچھوتی نئی تحقیق پیش کی ہو۔
ڈاکٹر حمید اللہ (پیرس) نے کہا کہ اگر صبح کہر آلود ہو تو یہ مطلب نہیں کہ سورج طلوع نہیں ہوا۔ الف رسل کے دماغ پر کہر طاری ہے۔ مغربیت کا یہ کہر ہٹے گا تو انہیں اقبال کے سورج کا احساس ہو گا۔ بنارس یونیورسٹی کے ہندو فلسفہ کے پروفیسر مشہور آریہ سماجی عالم ہوش نارائن نے خود مجھ سے کہا کہ کالی داس سے ٹیگور تک ہندوستان کی تین ہزار سالہ تاریخ میں اقبال کے برابر کوئی خلاق اور معمارِ قوم پیدا نہیں ہوا۔ وہ مذہبی و سیاسی لیڈر نہ ہونے کے باوجود اپنے کلام اور شاعری کی بدولت ایک ملک و ریاست کا بانی بن گیا۔ اس کے اشعار کے سانچے میں ایک قوم ڈھل گئی۔ اگر مسلمان کچھ نہ پڑھیں صرف اقبال کو پڑھیں تو کافی ہے کیونکہ اقبال کا کلام قدیم و جدید دونوں فکر کا مرقع ہے۔ اقبال نے اپنے کلام میں فلسفہ، علمِ کلام اور جدید و قدیم علوم کو سمو کر جو شاعری پیش کی ہے اگر یہ اسلامی شاعری ہے تو پھر اسلامی شاعری سے بڑھ کر کوئی شاعری نہیں۔ اقبال نے صرف چند نعتیں یا اسلامی قصیدے نہیں کہے، بلکہ اسلام کا پورا نظریہ حیات اپنے کلام میں سمو دیا ہے۔
اسی طرح مفکرِ اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی کے استاذ خلیل عرب یمنی اور عبد الوہاب غزالہ نے کہا، امراء القیس، نابغہ، شوقی، محلل و متبنی جیسے قادر الکلام شعراء رکھنے کے باوجود عربوں نے اقبال جیسا شاعر پیدا نہیں کیا جس کی شاعری قرآن کی آئینہ دار ہو۔ قرآن کو کسی شاعر کے کلام میں ظہور میں چودہ سو سال لگے۔ کلامِ اقبال کو ہم ’’ہست قرآن در زبان ہندوی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ شیخ عبد الوہاب غزالہ نے کہا، تعجب ہے قرآن کا عکس عرب شاعری پر نہیں ایک ہندی شاعر کے کلام میں جھلکتا ہے۔
پروفیسر الف رسل نے اتنا بڑا دعوٰی کیا لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں دی کہ اقبال کیوں بڑا شاعر نہیں۔ اگر وہ استدلال پیش کرتے تو ہم مل کر دلائل کا تجزیہ کرتے۔ اس دور میں اقبال کی شاعری اسلام کے احیا کی معاون ہے اور اقبال مغرب کا سب سے بڑا نقاد ہے۔ اس لیے مغربی دانشور اپنے تحت الشعور سے اسلام کے عناد کو، جو صلیبی جنگوں سے چلا آ رہا ہے، نہیں نکال سکے۔ ایک مخالف مغرب شاعر کو کوئی مغربی دانشور کیسے بڑا شاعر مان سکتا ہے، جبکہ وہ شاعر اسلام کا عاشق اور مغربی تہذیب و تمدن کا نقاد بھی ہو۔ یاد رہے کہ اقبال فرنگی تہذیب و سیاست کا مخالف ہے، مغربی علوم و عالمی علوم و فنون کا مخالف نہیں۔ پروفیسر الف رسل کا بیان اسلام کے احیا کے خلاف یورپی مغربی ذہن و فکر کا آئینہ دار ہے۔ مجھے تعجب و حیرت ہے کہ یہاں (برطانیہ میں) شعراء، ادباء، صحافی الف رسل کے بیان پر ساکت و دم بخود ہیں اور پورے اردو پریس و صحافت میں کوئی ردعمل نہیں ہوا۔

جناب نصر اقبال ڈار

ممتاز ادیب جناب نصر اقبال ڈار نے کہا کہ آج مغرب کی سپر طاقتیں اسلام سے خوفزدہ ہیں۔ روس کی شکست کے بعد مغربی میڈیا نے اسلام کا یہ ہوا کھڑا کیا ہوا ہے کہ اسلام مغرب کو نگل جائے گا۔ اسلامی احیا کے خدشہ کے پیش نظر مغرب کا تعصب دوبالا ہو گیا ہے۔ پروفیسر الف رسل کے بیان کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔

جناب انور نظام الدین

پاکستان سے آنے والے معزز مہمان اور تحریکِ اتحادِ اسلامی کے راہنما جناب انور نظام الدین صاحب نے کہا کہ مغرب نے ماضی میں اسپین میں جو کیا وہی آج بوسنیا میں کر رہا ہے۔ یورپ میں اسلام کا وجود مغرب کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ اسلام کی اس مظلومیت کے عالم میں بھی مغربی میڈیا کے اسلام پر حملے مغرب کے کھوکھلے پن کی دلیل ہے۔

جناب عادل فاروقی

تحریکِ ادبِ اسلامی کے کنوینر جناب عادل فاروقی نے کہا، اقبال نے وسطِ ایشیا کی ریاستوں کے ایک ہونے کا خواب دیکھا تھا۔ فارسی زبان وسطی ایشیا میں اب بھی مقبول ہے۔ اقبال کا کلام ان کو نئی طاقت و توانائی دے سکتا ہے۔ شاید پروفیسر الف رسل اسی اندیشہ کی بنا پر اقبال کی اہمیت گھٹانا چاہتے ہیں۔ اقبال نے فرنگی تہذیب و تمدن اور اس کی انسانیت نوازی کا پردہ چاک کیا ہے، اور مغرب کے مکر و فریب اور گھناؤنے عزائم کو عریاں کیا ہے۔ یہ ایک فرنگی دانشور الف رسل کیسے گوارا کر سکتا ہے۔
اجلاس کے آخر میں کاؤٹری کے ممتاز عالمِ دین مولانا عبد الوہاب صدیقی کے انتقال پر جناب عادل فاروقی صاحب نے تعزیتی قرارداد پیش کی اور اجلاس میں ان کی مغفرت و رفع درجات کے لیے دعا کی گئی۔

افکارِ سندھیؒ

ادارہ

(ماہنامہ الشریعہ شمارہ ستمبر ۱۹۹۴ء میں مولانا سندھیؒ کے حوالے سے شائع ہونے والے شذرات)


’’دنیا میں اب تک جو انقلابات ہوئے ہیں، وہ سب کے سب جزوی انقلابات تھے۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا انقلاب نہ تھا جو ساری انسانیت کو اپنے اندر لینے کی کوشش کرتا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری امامِ انقلاب ہیں، جن کی دعوت کل انسانیت کے انقلاب کے لیے ہے، اور آپؐ نے اس کا سب سے اچھا نمونہ حجاز میں قائم کر کے دکھا دیا، جسے دنیا اب تک اسی حیثیت سے جانتی ہے اور مانتی ہے۔ آپؐ کے انقلاب میں اس وقت کی مہذب قوموں کا بڑا حصہ آ گیا، اور سب کو انسانیت کی خدمت کے ایک نقطے پر جمع کر کے ان کے تعلقات ان کے خالق کے ساتھ درست کر دیے، بلکہ ان کے آپس کے تعلقات بھی ٹھیک کر دیے۔ اب جب کبھی کوئی جماعت جامع کُل قومی انقلاب پیدا کرنا چاہے گی، اسے آپؐ ہی کے پیچھے چلنا ہو گا۔ جو جماعت اس پروگرام کے خلاف کوئی اور پروگرام لے کر اٹھے گی، وہ یا تو سرے سے ناکام رہے گی یا صرف جزوی طور پر کامیاب ہو گی۔ چنانچہ فرانس، جرمنی، ترکی اور روس (وغیرہ) کے انقلابات اس اصول کی ظاہری مثالیں ہیں۔ یہ انقلاب سب انسانی ضرورتوں کو اپنے اندر نہیں لیتے، جس طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا کیے ہوئے انقلاب نے لیا تھا۔‘‘ 

(دستورِ انقلاب ۔ ص ۱۴۹ و ۱۵۰)

’’مشاورت کا مسئلہ اسلام میں بہت بڑا مسئلہ ہے، لیکن اسلامی حکومتوں کو شورٰی سے خالی کر کے مطلق العنان انسان، جاہل حکمرانوں اور امیروں کا کھیل بنا دیا گیا۔ وہ مسلمانوں کی امانت (سرکاری خزانے) سے اپنی شہوت پرستیوں پر روپیہ صرف کرتے ہیں۔ وہ بڑی بڑی مصلحت کے مقابلے میں خیانتیں کرتے ہیں اور ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس قسم کی غلطیوں کا خمیازہ مسلمانوں کو صرف اس غلط تفسیر کی وجہ سے بھگتنا پڑا۔ ورنہ ہر ایک مسلمان ایک حاکم کے اوپر ننگی تلوار ہے اور وہ حاکم کیوں قانونِ الٰہی کی اطاعت نہیں کرتا؟ اگر وہ اطاعت نہیں کرتا تو کس بنا پر ہم سے اطاعت کا طلبگار ہوتا ہے؟ یہ طاقت مسلمانوں میں پھر سے پیدا ہو سکتی ہے اور اس سے ان کی جماعتی زندگی آسانی کے ساتھ قرآن کے مطابق بن سکتی ہے۔‘‘

(عنوانِ انقلاب ۔ ص ۱۲۶)


’’تنظیم و تبلیغ، تعلق باللہ کی استواری، غربا و مساکین کی باقاعدہ منظم خدمت، ظاہری و باطنی طہارت اور پاکیزگی کو اختیار کرنا، خیالات، افعال اور اخلاق کی طہارت کو اختیار کرنا، زرپرستی اور سرمایہ داری کی ہر شکل و صورت کو مٹانا، افراد و اشخاص کے تعلق کو اجتماعِ انسانی سے صحیح طریق پر قائم کرنا، انسان میں اپنے افکار و اعمال، افعال و کردار کی ذمہ داری کے احساس کو بیدار کرنا، ہر شخص کو اس قرآنی انقلاب میں حصہ لینے کے لیے اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا، تمام عالم میں کُل قومی پیمانہ پر عدل و انصاف کو قائم کرنے کا پختہ عزم، یہ سب قرآنی تحریک و انقلاب کا مقصد ہے۔‘‘

(شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک ۔ مولانا عبید اللہ سندھیؒ)


’’نام نہاد کمیونزم میں جس قدر مسکین نوازی ہے، اس سے کہیں زیادہ مسکین نوازی امام ولی اللہؒ کے فلسفے میں ہے، اور اس میں مزدور اور کاشتکار کے حقوق کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے، لیکن اس کی بنیاد خدا کے صحیح اور صاف تصور پر ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک کارکن اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس زندہ تصور کے ساتھ گزارتا ہے کہ خدا تعالٰی اس کے سامنے ہے یا کم از کم یہ کہ خدا تعالٰی اسے دیکھ رہا ہے۔ وہ یہ تصور بھی ایک زندہ اور پائیدار شکل میں اپنے سامنے رکھتا ہے کہ اگر اس نے کم تولا یا کسی کے حق کو ناجائز طور پر پاؤں تلے روندا تو وہ دنیا میں بھی سزا پائے گا اور مرنے کے بعد بھی اسے خدا تعالٰی کے سامنے حاضر ہو کر اپنے عملوں کی جوابدہی کرنی ہو گی۔ امام ولی اللہؒ صاحب کی حکمت اسے یہ بھی سکھاتی ہے کہ قرآن حکیم پر عمل کرنے والے کارکن کو خدا تعالٰی کے سوا کسی سے اپنے عمل کا بدلہ لینا ضروری نہیں۔ انسان بے شک اس لیے پیدا ہوا ہے کہ دنیا میں قرآن حکیم کی حکومت بین الاقوامی درجہ پر چلائے، لیکن وہ اس حکومت کے ذریعے سے اپنے لیے یا اپنے خاندان کے لیے کوئی فائدہ حاصل کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ قرآن حکیم کی تعلیم کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدیق اکبرؓ اور فاروق اعظمؓ کی حکومتیں بے نظیر ثابت ہوئیں اور آج تک دنیا ان کی مثال پیدا نہیں کر سکی۔ اب اس دور میں بھی امیر المومنین سید احمد شہیدؒ (۱۷۸۶ء۔۱۸۳۱) اور ان کے ساتھیوں نے انہی اصولوں پر اس نمونے کی حکومت پیدا کر کے ایک دفعہ پھر دکھا دی اور ثابت کر دیا کہ اس قسم کی حکومت پیدا کرنا ہر زمانے میں ممکن ہے۔ قرآن حکیم ماننے والوں کے لیے اس میں بہت بڑی عبرت اور ذمہ داری ہے۔‘‘

(عنوانِ انقلاب ۔ ص ۵۹)


’’یہ گھروندے جو تم نے بنا رکھے ہیں اور انہیں تم فلک الافلاک سے بلند سمجھتے ہو، یہ گھروندے زمانہ کے ہاتھ سے اب بچ نہیں سکتے۔ تمہارا تمدن، تمہارا سماج، تمہارے افکار، تمہاری سیاست اور تمہاری معاشرت سب کھوکھلی ہو چکی ہے۔ تم اسے اسلامی تمدن کہتے ہو، لیکن اس تمدن میں اسلام کا کہیں شائبہ بھی نہیں۔ تم مذہب کا نام لیتے ہو، لیکن یہ مذہب تمہاری ہٹ دھرمی کا نام ہے۔ مسلمان بنتے ہو تو اسلام کو سمجھو۔ یہ اسلام جسے تم اسلام کہتے ہو، یہ تو کفر سے بھی بدتر ہے۔ تمہارے امیر جاہ پرست ہیں، حکمران شہوات میں پڑے ہیں، اور غریب طبقے توہمات کا شکار ہو رہے ہیں۔ بدلو، ورنہ زمانہ تمہارا نشان تک بھی نہ چھوڑے گا۔ سنبھلو ورنہ مٹا دیے جاؤ گے۔‘‘

(مولانا عبید اللہ سندھیؒ از پروفیسر محمد سرور مرحوم ۔ ص ۳۷)


اکتوبر ۱۹۹۴ء

کچھ ’’حزب التحریر‘‘ کے بارے میںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
سیرتِ نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلومولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دینی تحریکات میں باہمی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورتمولانا سعید احمد عنایت اللہ
قرآن و سنت سپریم لاء ہے - ہائیکورٹ کے فل بنچ کا فیصلہ (۲)ادارہ
ایران کی مداخلتنسیم ایوبی
اقوامِ متحدہ کی قاہرہ کانفرنس اور عالمِ اسلامادارہ
علماء مغربی فلسفہ کی ماہیت کو سمجھیں اور انسانی معاشرہ کی راہنمائی کریںحضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی
جاہلی اقدار پھر سے انسانی معاشرہ پر غالب آ گئی ہیںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اخبار و آثارادارہ
پاکستان کے دینی و سیاسی راہنماؤں کے نام ایک اہم مراسلہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

کچھ ’’حزب التحریر‘‘ کے بارے میں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ان دنوں برطانیہ کے قومی ذرائع ابلاغ میں ’’حزب التحریر‘‘ کا تذکرہ چل رہا ہے اور ۷ اگست ۱۹۹۴ء کو ویمبلے کانفرنس ہال لندن میں حزب التحریر کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ’’بین الاقوامی خلافت کانفرنس‘‘ کے حوالہ سے مختلف امور زیر بحث ہیں۔ اس کانفرنس میں برطانیہ بھر سے ہزاروں مسلمانوں نے شرکت کی جن میں یونیورسٹیوں کے طلبہ اور طالبات نمایاں تھے جس سے یہ تاثر عام ہوا کہ حزب التحریر کو برطانیہ کے پڑھے لکھے مسلمانوں میں گہرا اثر و رسوخ حاصل ہے۔ اسی وجہ سے سیاسی و مذہبی حلقوں میں حزب التحریر سنجیدہ گفتگو کا موضوع بنی ہوئی ہے اور سیاسی حلقوں کے ساتھ ساتھ مذہبی حلقوں میں بھی اس کے عقائد اور اس کے راہ نماؤں کی مختلف تحریرات پر روایتی انداز میں تبصرہ ہو رہا ہے۔

برطانیہ میں حزب التحریر کے امیر ایک فلسطینی عالم دین الشیخ عمر بکری محمد ہیں جو اچھا علمی ذوق رکھتے ہیں اور ’’اصول الدین‘‘ کے متخصص استاذ ہیں۔ لندن میں ’’شریعہ کالج‘‘ کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ انہوں نے قائم کر رکھا ہے جس میں نوجوانوں کو بطور خاص ’’اصول دین‘‘ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ خود شافعی المذہب ہیں لیکن دوسرے فقہی مذاہب کے اصول و جزئیات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ میری ان سے متعدد ملاقاتیں ہو چکی ہیں، پہلی ملاقات کا انتظام گزشتہ سال لندن میں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کے نوجوان نے کیا تھا جن کا خلافت کے احیاء و قیام کے لیے جوش و جذبہ اور محنت قابل رشک ہے۔ اس ملاقات میں الشیخ عمر بکری محمد سے یہ معلوم کر کے مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ حزب التحریر کے بانی الاستاذ تقی الدینؒ النبہانی ہیں۔ استاذ نبہانی کے لٹریچر سے میں اس سے قبل متعارف تھا اور ان کی متعدد تصانیف میری نظر سے گزر چکی تھیں۔ بلکہ جس دور میں ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کا ایک حصہ عربی میں شائع کیا جاتا تھا، استاذ نبہانی کے ایک دو مضمون ان کی کتابوں سے ہم نے نقل بھی کیے۔ مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ استاذ نبہانی کون بزرگ ہیں، کہاں کے رہنے والے ہیں، زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں، لیکن ان کے طرز تحریر سے میں متاثر تھا کیونکہ انہوں نے اسلام کے اصول و احکام کو اس اسلوب میں پیش کیا ہے جو آج کی ضرورت ہے اور جس سے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے ذہنوں میں اسلام کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کو دور کر کے اسے اسلام کی خدمت کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے۔

اس پس منظر میں شیخ عمر کے ساتھ میری پہلی ملاقات حزب التحریر سے ذہنی قرب کا باعث بنی۔ الاستاذ تقی الدینؒ النبہانی کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوئیں کہ وہ فلسطین کے رہنے والے تھے، شافعی المذہب تھے اور عالم اسلام میں خلافت اسلامیہ کا احیاء و قیام ان کی زندگی کا سب سے بڑا مشن تھا، اور یہ افسوسناک خبر بھی کہ ان کا انتقال ہو چکا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

الشیخ عمر بکری محمد کے ساتھ اس کے بعد متعدد ملاقاتیں ہوئیں جن میں وہ بیشتر سوالات اور خدشات زیر بحث آئے جو خود میرے ذہن میں پیدا ہوگئے تھے یا بہت سے احباب نے حزب التحریر کے بارے میں مجھ سے ذکر کیے تھے۔ اہل علم میں اختلاف رائے کی گنجائش ہر وقت ہوتی ہے لیکن دیانت داری کی بات یہ ہے کہ ان ملاقاتوں میں ہونے والی طویل گفت و شنید کے بعد مجھے کوئی ایسا وزنی خدشہ یا سوال نظر نہیں آتا جسے حزب التحریر کی مخالفت یا اس کے خلاف محاذ آرائی کی بنیاد بنایا جا سکے۔

میرے ذہن میں سب سے بڑا خدشہ یہ تھا کہ حزب التحریر کا فکری دائرہ کیا ہے اور کیا وہ اہل سنت کے مسلمہ فقہی مکاتب فکر سے ہٹ کر کسی نئے خودساختہ مذہبی مکتب فکر کی داعی تو نہیں ہے؟ اس کے جواب میں شیخ عمر کا کہنا ہے کہ وہ اہل سنت سے تعلق رکھتے ہیں، اس کے تمام فقہی مذاہب کا احترام کرتے ہیں، خود شافعی المذہب ہیں اور فقہی مذاہب کی پیروی کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ البتہ نئے پیش آمدہ مسائل اور دورِ جدید کی مشکلات کے حل کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ فقہی مذہب کے طے کردہ اصولوں کی روشنی میں قرآن و سنت سے ان مسائل کا حل براہ راست استنباط کیا جائے۔ وہ اجماع صحابہؓ کو حجت سمجھتے ہیں او رخبرِ واحد کو بھی اعتقادات کے علاوہ باقی امور میں حجت مانتے ہیں۔

میرے ذہن میں دوسرا خدشہ خلافت کے قیام کے لیے ان کی جدوجہد کے طریق کار کے بارے میں تھا۔ کیونکہ اس وقت عالمی صورتحال اور عالم اسلام کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بھی ایسی تحریک ملت اسلامیہ کے مفاد میں نہیں ہے جو مخالف قوتوں کی بیداری اور ہوشیاری میں اضافہ اور مسلمانوں کی قوت کے بلاوجہ ضیاع کا باعث بنے۔ مگر یہ معلوم کر کے اطمینان ہوا کہ کام کو آگے بڑھانے کی ترتیب ان کے ذہن میں بھی کم و بیش وہی ہے جو گزشتہ تجربات کے پیش نظر خود میرے ذہن میں قائم ہو چکی ہے۔ وہ یہ کہ پہلے اہل علم اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو ذہنی اور فکری طور پر خلافت کے قیام کے لیے تیار کیا جائے اور ان کے ذہنوں میں خلافت کے احیاء کی صورت میں جو خدشات مغرب کے ذرائع ابلاغ نے مسلسل پراپیگنڈہ کے ذریعے پیدا کر دیے ہیں انہیں دور کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی رائے عامہ کو مسلم ممالک میں موجود و مسلط کافرانہ نظاموں کے خلاف منظم کیا جائے اور مسلمانوں کی پرامن اجتماعی قوت کے ساتھ کسی مناسب مقام پر خلافت کے احیاء کی طرف پیش رفت کی جائے۔

یہ تو تھے میرے ذاتی خدشات جن کا ذکر میں نے شیخ عمر سے دوٹوک طور پر کیا اور ان کے جوابات سے میں اس حد تک ضرور مطمئن ہوں کہ اگر کسی مسئلہ پر اختلاف موجود بھی ہے تو وہ اہل سنت کے مسلمات کے دائرہ سے باہر نہیں ہے اور باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ مسائل کو طے کرنے اور مشترکہ مقاصد کے لیے مل جل کر آگے بڑھنے کے امکانات موجود ہیں۔

اب میں ان خدشات و سوالات کی طرف آتا ہوں جو مختلف مذہبی حلقوں کی طرف سے حزب التحریر کے اعتقادات کے بارے میں اٹھائے گئے ہیں اور بعض مقامات پر اس سلسلہ میں اشتہارات بھی تقسیم کیے گئے ہیں۔ اس ضمن میں الشیخ عمر بکری محمد کے ساتھ ایک خصوصی ملاقات کا اہتمام کیا گیا جو ۳ ستمبر ۱۹۹۴ء کو اسلامک سنٹر اپٹن پارک لندن کے خطیب مولانا قاری عبد الرشید رحمانی کی رہائش گاہ پر ہوئی۔ اس ملاقات میں قاری صاحب موصوف کے علاوہ ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسیٰ منصوری، جامع مسجد ویمبلڈن پارک لندن کے خطیب مولانا کلام احمد اور مولانا قاری محمد شریف بھی شامل تھے۔ ملاقات میں شیخ عمر نے ان سوالات کے جوابات دیے جو بعض مذہبی حلقوں کی طرف سے ان کے بارے میں کیے جا رہے ہیں اور ان بیشتر اعتراضات کو بے بنیاد قرار دیا جو حزب التحریر کے حوالہ سے سامنے لائے جا رہے ہیں۔

مثلاً ایک اعتراض یہ تھا کہ حزب التحریر کے لوگ ’’عذاب قبر‘‘ کے منکر ہیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ غلط ہے کیونکہ وہ عذاب قبر کے قائل ہیں اور عذاب قبر سے پناہ کی دعا مانگتے ہیں، البتہ ان کے نزدیک عذاب قبر کا مسئلہ اعتقادی نہیں اخباری ہے، اس لیے وہ عذاب قبر کے منکر کی تکفیر نہیں کرتے بلکہ اسے گنہگار سمجھتے ہیں۔

دوسرا اہم سوال یہ تھا کہ وہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں شیخ عمر نے کہا کہ وہ سعودی حکمرانوں سمیت کسی مسلم حکمران کو کافر نہیں کہتے سب کو مسلمان سمجھتے ہیں، البتہ وہ مسلم ممالک میں اس وقت جو نظائم رائج ہیں ان کو کافرانہ نظام قرار دیتے ہیں اور ان نظاموں کے خلاف جدوجہد کو دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔

ایک اور سوال یہ تھا کہ حزب التحریر والے غیر محرم خواتین کے ساتھ مصافحہ اور تقبیل کو جائز کہتے ہیں، اس کے جواب میں انہوں نے زوردار لہجہ میں لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھا اور کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ کیونکہ وہ شافعی ہیں اور شوافع کے نزدیک تو عورت کو ہاتھ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اس لیے وہ یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اور پھر یہ امور زنا کے مقدمات میں سے ہیں اس لیے ان کے جواز کی بات نہیں کہی جا سکتی۔

الغرض اس نوعیت کے متعدد سوالات تھے جو بعض حلقوں کی طرف سے حزب التحریر کے خلاف زبانی اور تحریری طور پر پھیلائے جا رہے ہیں لیکن شیخ عمر کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کے دوران ان میں سے کوئی اہم بات پایۂ ثبوت تک نہیں پہنچ سکی۔

اس موقع پر یہ بات عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم دراصل فقہی و مسلکی محنت اور اجتماعی ملی مسائل کے لیے جدوجہد کے الگ الگ دائروں کا لحاظ نہیں کر پاتے اس لیے اکثر اوقات الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جہاں تک فقہی اور مسلکی محنت کا تعلق ہے وہاں فقہ و مسلک کی بنیاد پر جس قدر حدود و قیود ضروری ہوں ان میں کوئی حرج نہیں، اور کسی بھی فقہ و مسلک کے لیے ان حدود و قیود کے بغیر محنت آگے نہیں بڑھ سکتی۔ لیکن جہاں اجتماعی ملی مسائل مثلاً خلافت اسلامیہ کا احیاء، عالم اسلام کا اتحاد، ظالمانہ و کافرانہ نظاموں سے نجات، اور عالمی استعمار کے خلاف مشترکہ جدوجہد جیسے امو رکی بات آئے گی وہاں فقہی اور مسلکی حدود کو بہرحال نظر انداز کرنا ہوگا۔ اور اہل سنت کے تمام فقہی و اعتقادی مکاتب فکر احناف، شوافع، حنابلہ، مالکیہ، ظواہر، ماتریدیہ، اشاعرہ اور سلفیہ کا یکساں احترام کرتے ہوئے سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ ورنہ مسلم ممالک کو ظالمانہ و کافرانہ نظاموں سے نجات دلانے اور خلافت اسلامیہ کے قیام کے شرعی فریضہ کی تکمیل کی جدوجہد میں ہم اپنا کردار صحیح طور پر ادا نہیں کر سکیں گے۔

ان گزارشات کے ساتھ برطانیہ اور دیگر ممالک کے دینی حلقوں اور اہل علم سے گزارش کروں گا کہ وہ حزب التحریر کے بارے میں منفی ردعمل کا شکار نہ ہوں۔ اگر علمی اور دینی بنیاد پر کوئی اختلافی مسئلہ سامنے آئے تو اسے باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ یہی سلامتی کا راستہ ہے۔

سیرتِ نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی انسانی تاریخ کی وہ منفرد اور ممتاز ترین شخصیت ہے جس کے حالات زندگی، عادات و اطوار، ارشادات و فرمودات، اور اخلاق حسنہ اس قدر تفصیل کے ساتھ تاریخ کے صفحات پر موجود ہیں کہ آنحضرتؐ کی زندگی ایک کھلی کتاب کے طور پر نسل انسانی کے سامنے ہے اور آپؐ کی معاشرتی و خاندانی حتیٰ کہ شخصی اور پرائیویٹ زندگی کا بھی کوئی پہلو تاریخ کی نگاہوں سے اوجھل نہیں رہا۔ اسے محض اتفاق قرار نہیں دیا جا سکتا کہ انسانی تاریخ اپنے دامن میں جناب رسول اللہؐ کے سوا کسی اور شخصیت کے احوال و اقوال کو اس اہتمام کے ساتھ محفوظ نہیں رکھ سکی۔ بلکہ یہ قدرتِ خداوندی کا اظہار اور اللہ تعالیٰ کے تکوینی فیصلے کا آئینہ دار ہے کہ جب اللہ رب العزت نے اپنے پاکیزہ کلام قرآن کریم میں جناب محمد رسول اللہؐ کی زندگی کو پوری نسل انسانی کے لیے اسوہ اور نمونہ قرار دیا تو اس اسوۂ حسنہ او رنمونۂ کامل کا اپنی تمام جزئیات و تفصیلات کے ساتھ تاریخ کے صفحات پر محفوظ رہنا اس حکم خداوندی کا منطقی تقاضہ ہے۔ اور یہ منطقی تقاضہ ایک معجزہ کے طور پر تاریخ انسانی کا ناقابل فراموش باب بن چکا ہے۔

انسانی فطرت ہے کہ ایک انسان زندگی کے کسی بھی شعبہ میں قدم رکھنے اور آگے بڑھنے سے پہلے اپنے سے بہتر شخص کے عمل و کردار کو بطور نمونہ دیکھنا چاہتا ہے۔ اور جو شخص کسی بھی حوالے سے اس کی نظروں میں بہتر اور خوب قرار پاتا ہے اس کی پیروی کو وہ اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ’’آئیڈیل کی تلاش‘‘ کا تصور اسی انسانی فطرت کا اظہار ہے اور اللہ رب العزت نے نسل انسانی کی ہدایت و راہنمائی کے نظام میں اس کی فطرت کے اس پہلو کا لحاظ رکھا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کی سب سے پہلی سورہ الفاتحہ میں انسان کو ہدایت کے لیے جو دعا سکھائی گئی ہے وہ یہی ہے کہ

’’اے اللہ! ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلا جن پر تیرا انعام ہوا ، نہ کہ ان لوگوں کے راستے پر جو تیرے غضب کا شکار ہوئے۔‘‘

یہ انعام یافتہ لوگ جن کے نقش قدم پر چلنے کی سورہ فاتحہ میں تلقین کی گئی ہے بلاشبہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے سچے پیروکاروں کا مقدس گروہ ہے جو اپنے کردار و اخلاق کے اعتبار سے نسل انسانی کا سب سے ممتاز طبقہ ہے۔ اور نسل انسانی نے اپنے اپنے دور میں اس طبقہ کے ہر فرد سے راہنمائی اور ہدایت حاصل کی ہے۔ لیکن ان نیک اور پارسا شخصیات کی زندگیاں اپنی اپنی جگہ ہدایت کا منبع ہونے کے باوجود آج کے انسان کے لیے تاریخ کے صفحات پر اس انداز سے محفوظ نہیں ہیں کہ وہ ان سے اپنی زندگی کے مسائل و مشکلات میں راہنمائی حاصل کر سکے۔ سوائے جناب محمد رسول اللہؐ کی حیات مبارکہ کے کہ آج کا انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں راہنمائی حاصل کرنا چاہے تو اسے آنحضرتؐ کے حالاتِ زندگی یا اقوال و ارشادات میں راہنمائی کی کوئی نہ کوئی بنیاد ضرور مل جائے گی۔ یہ محض عقیدت کا اظہار نہیں بلکہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جسے آزمائش کی کسی بھی کسوٹی پر آج بھی پرکھا جا سکتا ہے۔

آج نسل انسانی جس ذہنی انتشار، دلی بے اطمینانی اور معاشرتی انارکی کا شکار ہے اس نے ان تمام نظریات، افکار، فلسفوں اور نظاموں کے بھرم توڑ کر رکھ دیے ہیں جن کے تانے بانے خود انسان ہزاروں برس سے اپنے اردگرد بنتا آرہا ہے، اور جن کے سہارے انسانی معاشرہ کو امن و سکون کی منزل سے ہمکنار کرنے کا کوئی بھی خواب تعمیر کا دامن نہیں تھام سکا۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ بے راہ روی کے تپتے ہوئے ریگستان میں بھٹکنے والی انسانی کی راہنمائی اس سرچشمۂ ہدایت کی طرف کی جائے جو سب سے زیادہ محفوظ، شفاف، شفا بخش اور خوش ذائقہ ہے۔ اور بلاشبہ وہ جناب رسول اللہؐ کا اسوہ حسنہ ہے جس کی پیروی کے بغیر نسل انسانی امن و سکون کی حقیقی منزل سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات سراپا مجموعۂ صفاتِ حمیدہ ہے۔ آپؐ کی حیات مبارکہ کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو اربابِ بصیرت اور اہلِ فکر و دانش سے خراج عقیدت وصول نہ کر چکا ہو۔ لیکن آنحضرتؐ کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو جس نے دوست و دشمن سب کو اس بارگاہ خیر و حسن میں سرنیاز خم کرنے پر مجبور کر دیا، آپؐ کے اخلاق کریمانہ ہیں جسے

اخلاق و عادات کے حوالہ سے جناب رسول اللہؐ نے صرف اپنی زندگی اور عمل کا نمونہ ہی پیش نہیں کیا بلکہ اپنی تعلیمات و ہدایات میں اچھے اور برے اخلاق کے درمیان ایک حد فاصل قائم کر دی ہے۔ آپؐ نے اخلاق حسنہ کا ایک ایسا معیار مقرر کر دیا ہے جو ڈیڑھ ہزار سال کے لگ بھگ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس باب میں حرف آخر ہے۔ آپؐ نے اچھے اخلاق کی تفصیل بیان فرمائی ہے، اچھی عادات کا ذکر کیا ہے، ان میں سے ہر ایک کے فوائد سے لوگوں کو آگاہ کیا ہے، اور پھر خود ان پر عمل کر کے اس کا نمونہ پیش کیا ہے۔ اسی طرح جناب نبی کریمؐ نے برے اخلاق اور بد عادات کا تذکرہ فرمایا ہے، ان کے نتائج سے لوگوں کو خبردار کیا ہے، اور خود اس سے بچ کر بری عادات سے گریز کی عملی تربیت دی ہے۔

یہ انسانی معاشرہ پر درسگاہِ نبویؐ کا سب سے بڑا احسان ہے کہ اسے اخلاق کریمانہ کی تعلیم اور اس پر عملدرآمد کا پورا پیکیج ایک ہی جگہ حسین توازن کے ساتھ مل رہا ہے۔ اور جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ ان کی تربیت یافتہ جماعت (صحابہ کرامؓ) کی اجتماعی زندگی بھی کھلی کتاب کی صورت میں لوگوں کے سامنے ہے جو اجتماعی اخلاق و آداب اور عادات و اطوار میں قیامت تک انسانی معاشرہ کی راہنمائی کرتی رہے گی۔

دینی تحریکات میں باہمی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت

مولانا سعید احمد عنایت اللہ

(۶ اگست ۱۹۹۴ء کو اسلامک کلچر سنٹر ریجنٹ پارک لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے دوسرے سالانہ تعلیمی سیمینار سے مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے استاذِ حدیث فضیلتُ الشیخ محمد سعید احمد عنایت اللہ کا خطاب۔)

جس طرح کفر اللہ کی نقمت اور ناراضگی کی علامت اور کائنات میں سب سے مبغوض شے ہے، کیونکہ ’’ولا یرضٰی لعبادہ الکفر‘‘ (حق تعالٰی اپنے بندوں کے کفر کو پسند نہیں کرتے) کا اعلان ہے، اسی طرح اسلام خالقِ کائنات کی سب سے بڑی نعمت اور پسندیدہ چیز ہے۔ ’’وان تشکروا یرضہ لکم‘‘ (اگر تم شکر کرو تو تم سے خوش ہے) کا اصول اسی نعمت کی عظمت کو واضح کر رہا ہے۔
حضراتِ کرام! اسلام ایسی نعمت ہے جس کو چھپانا اور اس کے محاسن کو بندوں تک نہ پہنچانا اس کی سب سے بڑی بے قدری ہے کیونکہ ’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس‘‘ میں اس خیر کو عام کرنا ہی اس امت کا نصب العین اور اولین فریضہ بتایا گیا ہے۔ اس نصب العین کے حصول اور اس نعمتِ کاملہ شاملہ کو تمام انسانیت تک پہنچانے کے لیے مؤثر ترین طریق کار اور نت نئی راہوں کی تلاش اور تمام وسائلِ نشر کو بروئے کار لانا اہلِ علم و فکر کی طرف سے جہادِ عظیم ہے۔ ’’وجاھدھم بہ جھادًا کبیرا‘‘ میں اسی واجب کی ادائیگی کا حکم ہے اور ’’ادع الٰی سبیل ربک بالحکمۃ‘‘ میں اس کے مؤثر ترین طریق کار کو بالاجمال بیان کیا گیا ہے۔ اسی جہادِ عظیم کی بدولت تو انسان کو اس کائنات میں خلعت خلافتِ ربانی عطا کی گئی تھی۔ پھر اس نعمت کو عام کرنا صرف ہمارے لیے شرف کا باعث نہیں بلکہ پوری انسانیت کی سعادت اس سے وابستگی میں مضمر ہے۔ اسلام حق تعالٰی کی رضامندی اور نصرت کا سبب ہی نہیں بلکہ وہ اپنے معقول ترین نظامِ عقائد، نظامِ عبادت، نظامِ معاملات و اخلاقیات، اور ان کے ظاہری و باطنی محاسن کے اعتبار سے پُرکشش اور جذاب بھی ہے۔ اس لیے اس کو دینِ کامل اور تمام نعمتِ الٰہی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ وہ اس قدر غنی ہے کہ اکیلے تمام انسانیت کی جملہ ضروریات کو پورا کرتا ہے اور واحد کفیل ہے۔ ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی‘‘ میں اسی کمال و جمال کی طرف اشارہ ہے۔
حضرات کرام! غور فرمائیں کہ برتری کی جملہ صفات پر مشتمل دین کوئی کم انعام ہے؟ بلکہ اس کی طرف منسوب ہونے پر ہم جس قدر فخر کریں کم ہے۔ یہی احساسِ برتری حضراتِ صحابہ کرامؓ میں پیدا گیا اور پیغمبر علیہ السلام کے تزکیہ اور تطہیر نے سب سے پہلے ان سے احساسِ کمتری کو ختم کر کے احساسِ برتری کو ان میں پیدا کیا، پھر انہوں نے اعلان کیا کہ ’’نحن قوم اعزنا اللّٰہ بالاسلام‘‘ اور یہ اعلان کیا کہ ’’بعثنا اللّٰہ لنخرج العباد من عبادۃ العباد الی عبادۃ رب العباد‘‘۔
مگر اعدائے اسلام اور حاقدینِ ملتِ اسلامیہ نے امت کے شرف و کرامت کو لوٹنے اور عباد الرحمٰن کو اس نعمتِ دین سے محروم کرنے کی مذموم سعی میں بھی کوئی کسر روا نہ رکھی اور بقول قرآن اس اضلال کو ہدف بنایا۔ ’’ودوا لو تکفرون کما کفروا فتکونون سواء‘‘ کہ یہ کفار مسلمانوں کو دوبارہ کفر کی پستیوں میں لوٹا دیں اور ذلت میں برابر ہو جائیں، اس غرض کے حصول کی خاطر ان میں دین کی وجہ سے احساسِ برتری نہ رہے اور دین کی نسبت پر فخر کی بجائے اس کو باعثِ پستی خیال کریں۔ ان میں اصولِ دین اور مبادی اسلام کے بارے میں تشکیک و تذبذب کو پیدا کیا، اور اس کے لیے ان کو ہماری صفوں سے کئی ایجنٹ اور بھی مل گئے جنہوں نے ذاتِ باری تعالٰی، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ کو ہدفِ تنقید بنایا۔ اس کے علاوہ اعدائے دین و ملت نے ہماری نسلوں کے اخلاق کے فساد کے لیے تمام وسائل کو صرف کر دیا۔ نظامِ مغرب نے تو مظاہرِ حیات میں ایسا مشغول کر دیا کہ اہمیت کے باوجود واجباتِ دینیہ کی ادائیگی کی کہاں فرصت رہی؟
مگر دوسری طرف حامیانِ ملتِ اسلامیہ اور دعاۃ حق نے ان تمام شکوک و شبہات کے رد اور دین کی حقانیت کی وضاحت کے لیے انتھک کوششیں کیں، جس کے اثرات جب نوجوان نسلوں پر مرتب ہونا شروع ہوئے اور مسلمانوں کی کثیر تعداد نے جہادی تحریکوں میں بھی شمولیت اختیار کر لی، تو اعدائے دین نے نیا حربہ اختیار کیا اور حامیانِ حق کے لیے ایسے القابات اختیار کیے جو آج کے معاشرے میں ناپسندیدہ افراد اور حامل رد افکار ہوں۔ انہیں رجعت پسند، بنیاد پرست، انتہا پسند، دہشت گرد جیسے خطابات دیے اور ان القابات کی حسبِ منشا تفسیر و تشریح کی تاکہ نئی نسلوں کو اصل دین کے رشتہ سے توڑ سکیں۔
اس پر مزید افسوس یہ ہے کہ دیارِ کفر میں نہیں، دیارِ اسلام میں ہی ان کو طبقہ حاکمہ یا طبقہ عالیہ میں سے ایسے افراد اور قوی ہاتھ مل گئے جنہوں نے بلادِ اسلامیہ میں بھی اہلِ دین اور اہلِ جہاد کے لیے نفرتوں کے بیج بوئے اور ان کی زندگی اپنی ہی سرزمین پر تنگ کر دی، کہ جو کام کھلے دشمن نہ کر سکے ان کے ان خفیہ ہاتھوں نے سر انجام دینا شروع کر دیا۔
حضرات کرام! اب اعدائے اسلام اور دشمن کے ان خفیہ ہاتھوں ہر دو کے خلاف جدوجہد اور ان کی مساعی کو ناکام بنانا امت کے اہلِ فکر، اہلِ درد اور اربابِ علم و دانش کا جہادِ عظیم ہے۔ نئی نسلوں کو تشکیک و تذبذب کی دلدل سے نکال کر اسلام کی طرف نسبت میں احساسِ برتری پیدا کرنا اور دینِ کامل میں مکمل طور پر قناعت پیدا کرنا آج کے دور کے داعی کے نام کھلا چیلنج ہے۔ جس کے لیے محض فتوٰی بازی، حدتِ اسلوب، اور شدتِ لسان ہرگز کارگر نہ ہو گی۔ خود صاحبِؐ اسوۂ حسنہ کو بتا دیا گیا تھا کہ شدت و حدت تو ہرگز دعوت کے کام میں کام نہ دے گی ’’لو کنت فظًا غلیظ القلب لانفضوا من حولک‘‘۔ بلکہ راہِ حق سے بھٹکی افکار کی منتشر انسانیت کو حق کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ارشاد باری ’’ادع الٰی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ‘‘ نے اسلوبِ حکیمانہ اور حلاوتِ لسان کو داعی پر واجب فرمایا جس سے کوئی مستثنٰی نہیں۔
حضراتِ کرام! دینِ اسلام کے محاسن، ایمان کی حلاوت اور کشش میں کچھ فرق نہیں پڑا، صرف وہ سوز و گداز مطلوب ہے جس کی طرف ’’لعلک باخع نفسک ان لا یکونوا مومنین‘‘ کے پاک ارشاد کا اشارہ ہے۔ لہٰذا اسلام کے لیے کام کرنے والوں سے فکر و تدبر کے ساتھ مسلسل جدوجہد، جملہ وسائل اور ذرائع کا بے دریغ استعمال مطلوب ہے۔ جن کی زندگی میں کہیں بخل نہیں، بس نہیں، راحت نہیں، وہ تو اپنی تمام تر صلاحیتوں، تمام مادی اشیاء اور اموال و جان کا حق تعالٰی شانہ کے ساتھ سودا کر چکے ہیں ’’ان اللہ اشترٰی من المومنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنۃ‘‘ والی آیت میں اسی مبارک عقد کا ذکر ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ ہم وہ امت ہیں جس کو ’’اعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ‘‘ کے خطاب سے مخاطب کیا گیا ہے تاکہ اپنی جملہ صلاحیتوں کو مجتمع کر کے نعمتِ الٰہی کو پھیلانے اور اعدائے دین کے عزائم کو خاک میں ملانے پر صرف کر دیں۔
برادرانِ ملتِ اسلامیہ! کل کی ندامت و حسرت سے بچنے کے لیے اسلام اور امت کی خاطر اپنی ہر قوت کو صرف کرنا ہی عین بقا کا راستہ ہے، اور دین کو ضائع کر کے کچھ تھوڑا بہت بچا لینا عین ہلاکت کا راستہ ہے۔ ’’ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ‘‘ کے شان نزول کو دیکھ لیں، اس نے اسی حقیقت کو منکشف فرمایا ہے۔ لہٰذا ہماری گزارش ہے کہ اس نعمتِ عامہ اور امانتِ ربانی کی حفاظت اور آئندہ نسلوں کی سپردواری کے فریضہ کی ادائیگی کے لیے:
  • اولاً اس کام کو ایک مختصر طبقہ تک محدود نہ کر دیں، نہ یہ کسی مخصوص جماعت یا حکومت کی ذمہ داری ہے، بلکہ اہلِ اسلام کے مختلف طبقات کی عموماً اور علمِ دین کے حاملین کی خصوصاً۔
  • ثانیاً ہر طبقہ دوسرے کو معاون سمجھے۔ اور دعوتِ دین کا کام کرنے والے مختلف شعبوں کے افراد ایک دوسرے سے حقد و حسد یا مخالفت کی بجائے ان کی تحسین اور حوصلہ افزائی کریں۔ یہ بات محض رسمی نہ ہو بلکہ یہ سمجھتے ہوئے کہ ہم سب کی جدوجہد اور کوششیں مل کر بھی دین کا کماحقہٗ حق ادا نہیں کر سکتیں، چہ جائیکہ ہم اکیلے۔ تعاون اور تحسین کے ان جذبات کے ساتھ مساجد کے خطبا، مدارس کے مدرسین، تبلیغ و دعوت کا کام کرنے والے، دعا اور خانقاہوں کے مشائخ، اپنے اپنے کام کو اس انہماک سے کریں کہ جیسے ان کا محاسبہ صرف اسی کام کے بارے میں ہو گا۔ مگر دوسرے شعبہ میں کام کرنے والے کو ہدفِ تنقید نہ بنائیں بلکہ تحسین و حوصلہ افزائی فرمائیں۔
  • ثالثاً اہلِ علم کا ایک طبقہ فکری محاذ پر وقف ہو کر رہ جائے۔ جو ایک طرف تو اسلام کے جملہ نظام کے محاسن کو بیان کر کے نئی نسل کو تو اس کی جامعیت کا قائل کرے، اور دوسری طرف اعدائے اسلام کی  پیدا کردہ تشکیک، تذبذب اور کسی بھی نظام میں تنقید و تنقیص کا مسکت اور تسلی بخش رد پیش کرے۔ نیز اس دور میں مجموعی طور پر امتِ اسلامیہ کو درپیش مسائل و مشاکل کے قرآن و سنت کی روشنی اور اسلافِ صالحین کی سیرت سے ان کے حلول سلجھائے۔
حضراتِ کرام! یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ اعدائے دین اور تمام ایجنٹ اور دشمن کے خفیہ ہاتھ اسلام اور مسلمانوں کی تباہی کے لیے متحد ہو کر انتھک کوششیں کریں اور اس کی خاطر اپنے تمام وسائل کو بے دریغ استعمال کریں، اس کی خاطر ہر قربانی کریں۔ اور ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے یہ تماشا دیکھتے رہ جائیں، جس کے نتیجہ میں سوائے حسرت اور ندامت کے ہمارے ہاتھ کچھ نہ آئے۔ حالانکہ اللہ کی نصرت اور تائید ہمارے ساتھ ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ’’ان تنصروا اللّٰہ ینصرکم‘‘ اور وعدہ برحق ہے ’’وانتم الاعلون۔ واللّٰہ معکم‘‘ اور عزت، شرافت و کرامت تو صرف اللہ، اس کے رسول اور اہلِ ایمان کا حق ہے ’’وللّٰہ العزۃ ولرسولہ وللمومنین‘‘۔

قرآن و سنت سپریم لاء ہے - ہائیکورٹ کے فل بنچ کا فیصلہ (۲)

ادارہ

(ربطِ مضمون کے لیے ملاحظہ ہو شمارہ جولائی ۱۹۹۴ء)

(۱۱) یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ دیباچہ کا ایسا طرزِ بیان نہیں ہوتا۔ یہاں فرق یہ ہے کہ دیباچہ میں قانون کے واضع کا منشا بیان کیا جاتا ہے اور ایوان کے سامنے قانون کی تمام شقوں پر غور کے بعد پیش کیا جاتا ہے۔ اس طرح دیباچہ اگر قانون کے منشا کو پورا نہ کرتا ہو تو ترمیم کیا جا سکتا ہے۔ میری نے لکھا ہے کہ ’’دیباچہ اور عنوان میں ترامیم کی اجازت اس صورت میں ہوتی ہے جب کہ قانون میں کی گئی ترامیم نے اس کی ضرورت پیدا کر دی ہو۔‘‘ اس کے برعکس قرارداد کا منشا عوام کے نمائندوں پر یہ مینڈیٹ واضح کرنا اور ان کو اس کا پابند بنانا ہے۔ بدقسمتی سے یہ امر کبھی عدالتوں کے نوٹس میں نہ لایا گیا۔ انہوں نے اسے دیباچہ کے طور پر ہی تعبیر کیا اور تعبیر میں بھی انگریزی روایت اختیار کی۔

(۱۲) اس دیباچہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ہر دستور کا جزو بنایا گیا۔ عاصمہ جیلانی کیس میں اسے نظریاتی اساس قرار دیا گیا۔ فیصلہ میں سے چیف جسٹس حمود الرحمان (۳) کی چند سطور درج ذیل ہیں:

’’ہمیں بنیادی اقدار کی تلاش میں مغرب کے ماہرینِ قانون کی طرف دیکھنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ ہمارا اصل الاصول یہ ہے کہ تمام کائنات پر قانونی اقتدارِ اعلٰی بلاشرکتِ غیرے اللہ تعالٰی کا ہے اور اس کا تفویض کردہ اختیار اس کی ہدایات کے ماتحت مقدس امانت ہے۔ یہ اصل الاصول ناقابلِ تغیر و استثنٰی ہے۔ اسے قرارداد مقاصد میں دستور ساز اسمبلی نے پوری صراحت کے ساتھ درج کیا ہے۔ یہ قرارداد اسمبلی نے ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو منظور کی‘‘ ۔۔۔۔ ’’اقتدارِ اعلٰی کے بارے میں تصور یہ ہے کہ یہ ناقابلِ تغیر اور تقسیم ہے۔ اس طرح تمام تر نظامِ سیاسی ایک مقتدر کی جانب سے امانت کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔‘‘

(۱۳) اس بارہ میں بے نظیر بھٹو کیس میں (۷) فیصلہ سے چند سطور اور:

’’فاضل جج نے چاروں دساتیر کے دیباچوں پر انحصار کیا جو کہ پاکستان کے نظریہ کی فصیح اور مستند توثیق ہے۔ لہٰذا اس میں کسی کی گنجائش نہیں کہ پاکستان کے نظریہ کی اساس مسلم قومیت پر ہے اور اس میں اسلامی نظریہ شامل ہے جسے دستور میں اسلامی احکامات سے موسوم کیا گیا ہے اور یہ مسلم قوم کا اہم ترین محرک تھا‘‘ ۔۔۔ ’’میرے نزدیک یہ دو قومی نظریہ کی توثیق ہے۔ اسلامی نظریہ، نظریۂ پاکستان کے ساتھ اس طرح پیوستہ ہے کہ اسے اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ دو قومی نظریہ کی بنیاد ہے۔ اس طرح ’’پاکستان کی سالمیت‘‘ میں پاکستان کا نظریہ ہی نہیں اسلامی نظریہ بھی شامل ہے۔ سالمیتِ پاکستان پر کوئی حملہ پاکستان کے اقتدارِ اعلٰی پر حملہ متصور ہو گا، اور اسی طرح پاکستان کے اقتدارِ اعلٰی پر حملہ پاکستان کی سالمیت پر حملہ ہو گا۔‘‘

(۱۴) اسلامی احکامات سے متصادم قوانین کو منسوخی کے خلاف دستور میں تحفظ دیا گیا تھا۔ جسے (۸) ۷ فروری ۱۹۷۹ء کو ہائیکورٹس میں شریعت بنچوں کے قیام سے ختم کر دیا گیا، اور بعد میں ۱۹۸۰ء میں (۹) کے ذریعے ان بنچوں کے بجائے وفاقی شرعی عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ہر دو عدالتوں کو اسلامی احکامات سے متصادم قوانین کو مقررہ تاریخ کے بعد غیر مؤثر قرار دینے کا اختیار ملا۔ البتہ بعض قوانین کو اس دائرہ سماعت سے استثنٰی دی گئی تھی۔ یہ عدالت اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے اور بہت سے قوانین کو منسوخ کر چکی ہے۔ چنانچہ یہ دلیل، کہ آرٹیکل ۳۰(۲) اور ۲۲۷(۲) قوانین کو منسوخی سے تحفظ دیتے ہیں اور عدالتیں انہیں باطل قرار نہیں دے سکتیں، بے وزن ہے۔ اس کے باوجود کہ یہ دونوں آرٹیکل منسوخ نہیں کیے گئے۔

(۵) یہ واضح ہے کہ اگر تحفظ دیے گئے قوانین کے بارے میں مزید آئینی اقدام سے یہ تحفظ ختم کر دیا جاتا تو یہ بھی عدالتی دائرہ میں آجاتے۔ یہی اقدام دراصل ۲ مارچ ۱۹۸۵ء کو (۱۰) آرٹیکل ۲۔اے کے دستور میں شمولیت کی صورت میں اٹھایا گیا۔ آرٹیکل ۲۔اے اس طرح ہے:

’’قراردادِ مقاصد میں درج اصول، جنہیں گوشوارہ میں دوبارہ لکھا گیا ہے، کو آرٹیکل ہذا کے ذریعہ دستور کا مؤثر جزو بنایا جاتا ہے۔‘‘

(۱۶) یہ آرٹیکل بعد میں آٹھویں ترمیم کا جزو بنا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قراردادِ مقاصد دستور کا محض دیباچہ نہیں رہی، یہ دستور میں داخل کر دی گئی ہے اور اسے اس کا مؤثر حصہ بنا دیا گیا ہے۔ بالکل ان الفاظ میں جو کہ ضیاء الرحمان کیس میں اس غرض کے لیے تجویز کیے گئے تھے۔ اس صورتحال میں اگر کوئی عدالت قراردادِ مقاصد کے دستور پر کنٹرول کا انکار کرتی ہے تو وہ ضیاء الرحمان کیس میں سپریم کورٹ کے مینڈیٹ اور دستور کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ بہرحال ہائیکورٹس کے مختلف بنچوں میں اس بارے میں کافی اختلاف رائے ہے، سپریم کورٹ نے ان میں سے کسی کیس میں اپنا آخری فیصلہ نہیں دیا۔ اس طرح غیر یقینی  صورتحال باقی ہے جسے دور کرنا ضروری ہے۔

(۱۷) ہمیں علم ہے کہ کچھ جج صاحبان نے یہ نقطۂ نظر اختیار کیا ہے کہ آرٹیکل ۲۔اے از خود مؤثر اور حاوی نہ ہے۔ دستور میں اسلامائزیشن کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل (آرٹیکل ۲۲۷(۲)) اور فیڈرل شریعت کورٹ (آرٹیکل ۲۰۳۔بی) قائم کی  گئی ہیں۔ اس طرح آرٹیکل ۲۔اے کے تحت یہ کام نہیں ہو سکتا۔ ان کے نزدیک وجہ یہ ہے کہ دستور کا ایک آرٹیکل دوسرے سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔

(۱۸) مذکورہ بالا وجوہات کا جائزہ لینے سے پہلے یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ دستور کو ایک ایسی دستاویز خیال کیا جاتا ہے جس کے تحت حکومت چلائی اور کنٹرول کی جاتی ہے۔ اس میں بالعموم وہ بنیادی اصول درج کیے جاتے ہیں جن کے تحت حکومت بنتی اور کام کرتی ہے۔ حکومت کی کوئی ایک مستقل شکل نہیں ہوتی بلکہ اس کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں۔ بہت بعد میں یہ معمول بن گیا ہے کہ دستور میں بنیادی حقوق اور مملکت کی پالیسی اصولوں کے بارے میں اعلان شامل کیا جاتا ہے۔ تمام تحریری دساتیر میں ایک چیز مشترک ہے کہ اسے اساسی اور نامیاتی یا بالاتر قانون کے طور پر دیگر قوانین پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ایسی غیر دستوری دفعات، جو دستور میں شامل کر دی جائیں، کو بھی دستوری دفعات کا سا تقدس اور دیگر قوانین پر بالادستی حاصل ہو جاتی ہے۔ اس طور ان دفعات کے ساتھ تصادم کی بنا پر دیگر دفعات یا قوانین کو جزوی یا کلی طور پر کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس بارہ میں ضیاء الرحمان کیس (۲) کا حوالہ پوری طرح منطبق ہوتا ہے۔

(۱۹) مزید برآں دستور بالعموم ہر دفعہ کے اطلاق کے لیے علیحدہ علیحدہ مشینری فراہم نہیں کرتا۔ یہ عام طور پر ایک ہی جامع دفعہ فراہم کرتا ہے جو ہر سقم سے پاک ہوتی ہے۔ دستور کا آرٹیکل ۱۹۹ اس کی بہترین مثال ہے۔ اس کے علاوہ ہر عدالت کا یہ فرض ہے کہ وہ دستور کے ہر لفظ اور دفعہ کو مقننین کے منشا کے مطابق معانی پہنائے اور دستور کے کسی لفظ یا دفعہ کو فاضل یا فالتو نہ بننے دے۔ آئیے اس سیاق میں مقننہ کا قراردادِ مقاصد کی پشت پر منشا معلوم کریں۔ یہ کہا جا چکا ہے کہ یہ قوم کے ساتھ قائد اعظم کے کیے گئے وعدہ کی تکمیل کے لیے تھی۔ قائد ِملت نے اس بات کی واشگاف صراحت دستور ساز اسمبلی کے سامنے اپنی تقریر میں کر دی تھی جس کا متعلقہ حصہ اوپر درج کیا جا چکا ہے۔ قرارداد کے اپنے الفاظ اس امر پر واضح ہیں کہ یہ لوگوں کی طرف سے اپنے نمائندوں کے لیے مینڈیٹ ہے۔

(۲۰) عدالتوں نے دستور میں اس پر ’’دیباچہ‘‘ کے عنوان کی وجہ سے اس کی حقیقی حیثیت کو قبول نہیں کیا۔ اسی طرح آرٹیکل۳۰(۲) اور ۲۲۷(۲) میں درج قیود بھی اس کی اس حیثیت کو مجروح کرنے کا باعث ہوئیں۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے قیام اور آرٹیکل ۲۔اے وضع کرنے سے قرارداد کی مؤثر حیثیت پر دونوں عذرات ختم ہو گئے ہیں۔ اس طرح اب آرٹیکل ۳۔اے اور ۲۔اے کو اپنے اپنے دائرہ کار میں مؤثر بنانے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔

(۲۱) قرارداد کی حیثیت کے بارے میں اولین عذر یہ ہے کہ یہ ازخود روبعمل اور مؤثر نہیں۔ (مطلب یہ ہے کہ اس میں یہ نہیں لکھا گیا کہ دستور کا کوئی دیگر آرٹیکل اس سے متصادم ہو تو وہ غیر مؤثر ہو گا)۔ اس عذر کو جانچنے کے لیے دستور کے حصہ اول پر ایک نظر ڈال لینا مناسب ہے، کیوں کہ قرارداد مقاصد اسی حصہ میں شامل ہے۔ اسے دستور میں آرٹیکل ۲۔اے کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ آرٹیکل نمبر ۱ میں مملکت کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ درج ہے۔ فرض کیجئے حکومت کی کوئی ایجنسی یا محکمہ یا حکومت مملکت کے نام میں سے لفظ اسلامی ترک کر دے تو کیا کوئی شہری اس کو چیلنج کر سکتا ہے، اور ایسے چیلنج کے لیے کون سا فورم ہو گا؟ مملکت کے علاقوں کی تفصیل دستور کے آرٹیکل ۱(۲) میں درج ہے۔ اللہ معاف فرمائے اگر کوئی حکومت مملکت کے علاقوں میں سے کچھ کو منتقل کرنے کا ارادہ کر لے تو کیا کوئی محب وطن شہری اس ستم کو روکنے کے لیے ادعا کر سکے گا؟ آرٹیکل ۴ بھی دستور کے اسی حصہ میں شامل ہے اور ازخود روبعمل نہیں، مگر عدالتوں، خاص طور پر سپریم کورٹ نے بہت سے راہنما فیصلے صادر کیے ہیں، کیا اس نے ایسے فیصلوں میں اپنے اختیار سے تجاوز کیا ہے؟ اس سلسلہ میں منظور الٰہی (۱۱) اور ملک غلام مصطفٰی کھر (۱۲) کے مقدمات کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔

(۲۲) دستور کے اسی حصہ میں آرٹیکل ۶ موجود ہے۔ یہ بھی ازخود روبعمل اور مؤثر نہ ہے۔ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دفعہ بھی محض علامتی اور زیبائشی ہے اور ہر کوئی بلاخوف سزا، غداری اور بغاوت کے ارتکاب میں آزاد ہے؟ یہ قابلِ غور ہے کہ نیاز احمد کیس (۱۳) میں یہ قرار دیا گیا تھا کہ اسلام کو آرٹیکل ۲ میں پاکستان کا سرکاری مذہب لکھا گیا ہے۔ اس کا منشا یہ ہے کہ اسلام مملکت کی ظاہری شناخت ہے۔ اگر ایسا ہے تو دستور کے آرٹیکل ۱ تا ۶ محض استقراری اور علامتی کیوں نہیں؟ بڑے احترام کے ساتھ عرض کیا جاتا ہے کہ درست نقطۂ نظر یہ ہے کہ دستور کے ہر لفظ کو اس کے سادہ اور فطری معنی دینا ہوں گے اور دستور کا کوئی لفظ فاضل اور فالتو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے برعکس کبھی کسی عدالت نے کسی لادینی دستور کی اس حیثیت کو علامتی یا نمائشی قرار نہیں دیا خواہ عملی طور پر ایسا ہی کیوں نہ ہو۔ بلکہ عدالتوں نے ایسے دساتیر کے تحت مذہبی مدات پر اخراجات کی اجازت سے انکار کرتے ہوئے حکومتوں کو لادینیت پر پابند کیا ہے۔ اس پر امریکی اور بھارتی حوالے دیے جا سکتے ہیں۔

(۲۳) بلاشبہ یہ امر طے شدہ ہے کہ دستور کے آرٹیکل ۸ کی رو سے کوئی قانون جو بنیادی حقوق سے متصادم ہو گا وہ تصادم کی حد تک کالعدم ہو گا، جیسا کہ جسٹس مامون قاضی نے حبیب بنک کیس (۱۴) میں قرار دیا۔ ذیلی آرٹیکل (۲) حکومت کو ایسا قانون وضع کرنے کی ممانعت کرتا ہے وگرنہ وہ بھی کالعدم ہو گا۔ ہمارے نزدیک مزید قانون کے بغیر مؤثر ہونے کی یہی صورت ہے جسے ازخود روبعمل کہا جائے گا۔ دراصل موجودہ سیاق میں یہ اصطلاح کا غلط استعمال ہے۔ ازخود مؤثر اور روبعمل دفعہ وہ ہوتی ہے جس کے باطن میں اس کے مؤثر ہونے کے لیے مکمل مشینری موجود ہو، مگر یہاں یہ صورت نہیں۔ آرٹیکل ۸ صرف استقراری صورت نتیجہ فراہم کرتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ اعلٰی عدالتوں نے بے شمار مقدمات میں مداخلت کی ہے جن میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے سے زیادہ تقاضا نہیں کیا گیا۔ انگریزی نظام قانون میں مینڈیمس، سرشوراری یا امتناع کے اصول استوار ہیں جن کو ہمارے ہاں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ اس بارہ میں، میں کسی فیصلہ کے حوالے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ ہمارے ہاں یہ اعلٰی عدالتوں کا روز کا معمول ہے۔

(۲۴) یہاں عبوری دستور ۱۹۷۲ء کے آرٹیکل ۱۴۱ اور ۱۴۲ اور اس سے پہلے کے دساتیر کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جن میں لا تعداد آرٹیکل ایسے ہیں جو آرٹیکل ۸ کی طرح ازخود روبعمل نہ ہونے کے باوجود عدالتوں نے ان کو مؤثر طور پر نافذ کیا ہے۔ یہ آرٹیکلز علاقائی اور مضمون کی نوعیت کے ہیں۔ فرض کریں، صوبائی، وفاقی مجالسِ قانون، اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرتی ہیں تو ان کے بنائے ہوئے قانون باطل ہوں گے۔ اعلٰی عدالتوں نے باصرار یہ اعلان کیا کہ اس نوعیت کا دستوری تجاوز ثابت کیا گیا تو اسے کالعدم قرار دینے کا انہیں اختیار حاصل ہے۔ اس بارہ میں حوالہ جات نمبر (۱۵)، (۱۶)، اور (۱۷) ملاحظہ ہوں۔

(۲۵) دستور ۱۹۷۳ء کے آرٹیکل ۱۹۹ کے تحت مظلوم کو دادرسی فراہم کی گئی ہے۔ مذکورہ آرٹیکل کی کلاز (۱) (اے) (i) حسبِ ذیل ہے:

’’(۱) دستور کے ماتحت ہائیکورٹ اگر مطمئن ہو اور قانون نے کوئی اور دادرسی فراہم نہ کی ہو تو متاثرہ شخص کی درخواست پر اس امر کا حکم صادر کر سکتی ہے کہ

(i) عدالت کے علاقائی دائرہ اختیار میں کسی شخص کو، جو وفاقی امور سے متعلقہ فرائض انجام دے رہا ہو، یا صوبہ یا بلدیاتی ادارہ کو کسی کام کے انجام دینے سے باز رہے، جسے انجام دینے کی قانون اسے اجازت نہ دیتا ہو، یا کسی کام ۔۔۔۔‘‘

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس آرٹیکل کے تحت آرٹیکل ۱ تا ۶ یا ایسے ہی کسی دیگر آرٹیکل کے ضمن میں کوئی حکم صادر کیا جا سکتا ہے؟ جواب بہرصورت اثبات میں ہو گا کیوں کہ جب بھی کسی کیس میں ان کے اطلاق کی صورت پیش کی گئی ہو تو عدالتوں نے کبھی پس و پیش سے کام نہیں لیا۔ طارق ٹرانسپورٹ کمپنی کیس (۱۸) میں یہ قرار دیا گیا کہ ہائیکورٹ کے رٹ، احکامات اور ہدایات انگریزی اصول ہائے قانون کی حدود میں محدود نہیں بلکہ یہ قانون کے تحت کام کرنے والے کسی بھی شخص کو کسی کام سے ممانعت اور اسے مثبت طور پر انجام دینے کی ہدایت جاری کرنے تک وسیع ہیں۔۔۔

(۲۶) اب ہم دوسری وجہ کا جائزہ لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا آرٹیکل ۲۔اے اسلامی نظریاتی کونسل کے فرائض پر تجاوز کر سکتا ہے؟ یہ امر محلِ نظر ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل محض ایک مشاورتی ادارہ ہے، یہ فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں۔ یہ پارلیمنٹ، صوبائی مجالسِ قانون، صدر اور گورنروں کو مشورہ اور رپورٹ پیش کر سکتی ہے، وہ ان رپورٹس پر غور کر سکتے ہیں مگر ان کے پابند نہیں۔ مزید برآں آرٹیکل ۲۲۷(۲) اور ۳۰(۲) کے تحت عدالتوں کو مداخلت سے روک دیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور صوبائی مجالسِ قانون ہر طرح کی قانون سازی میں آزاد ہیں خواہ وہ کتنے ہی غیر اسلامی کیوں نہ ہوں۔

(۲۷) قانون سازی کی اس بے لگام آزادی پر پہلا چیک وفاقی شرعی عدالت کے قیام سے قائم ہوا جسے قانون کو اسلام کے منافی قرار دے دینے ہی نہیں بلکہ اسے اپنی پسند کی تاریخ سے غیر مؤثر کر دینے کا بھی اختیار ہے۔ کچھ قوانین کو بہرحال وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر رکھا گیا۔ ان قوانین کے بارے میں اختیارِ سماعت وفاقی شرعی عدالت یا عام عدالتوں کو تفویض کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں مقننہ یہ خیال کر سکتی ہے کہ بڑے بڑے قوانین اسلامائز ہو چکے ہیں، اس لیے ضابطہ کار وضع کیے جائیں تاکہ لوگ عدالتی اعلانات سے آگے بڑھ کر دادرسی بھی حاصل کر سکیں۔ یہ وہ مقاصد ہیں جن کے حصول کے لیے آرٹیکل ۲۔اے کو دستور میں داخل کیا گیا ہے۔ اس طرح آرٹیکل ۲۔اے کا منشا وفاقی شرعی عدالت یا اسلامی نظریاتی کونسل کے دائرہ سےبہت مختلف ہے ۔۔۔ یہ نہ تو تکرار ہے نہ دوہر overlapping ہے۔

(۲۸) اگر ہم آرٹیکل ۲۔اے کو دیکھیں تو یہ واضح ہے کہ مقننہ نے قانونِ الٰہی کو غالب حیثیت دی ہے اور انسان کے وضع کردہ قانون کو اس کے ماتحت بنایا ہے۔ اس صورت میں کوئی جج اس قانونِ الٰہی کی پیروی سے کیسے انکار کر سکتا ہے جب کہ وہ اپنے حلف کے تحت دستور کے تحفظ اور دفاع کا ذمہ دار ہے؟ اگر آرٹیکل ۲۔اے مؤثر اور نافذ ہے تو اقتدارِ اعلٰی کا سرچشمہ پارلیمنٹ یا عوام کے بجائے اللہ تعالٰی کی ذات ہے۔ کیا اس صورت میں آرٹیکل ۲۔اے کی خلاف ورزی یا اس سے فرار کی راہ اختیار کی جا سکتی ہے؟ یہاں ہمیں آرٹیکل ۲۷۰۔اے کا بہرصورت لحاظ رکھنا پڑے گا۔ یہ آرٹیکل دستور کے ہر آرٹیکل کو اس کے وجود اور نفاذ کی حد تک مساوی قرار دیتا ہے، البتہ ایک شرط بڑی واضح ہے کہ ہر آرٹیکل اپنے مخصوص وزن اور اہمیت کے لحاظ سے مؤثر ہو گا۔ اس طرح آرٹیکل ۲۶۸(۶) کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتا۔

(۲۹) ۱۹۷۳ء کے دستور کو بحال کرنے کے لیے صدارتی حکم نمبر ۱۴ سال ۱۹۸۵ء جاری کیا گیا۔ اسی حکم کے ذریعہ قراردادِ مقاصد کو دستور میں داخل اور اسے اس کا مؤثر اور قابلِ نفاذ حصہ بنایا گیا۔ حقیقتاً یہ ایک انقلابی قدم اٹھایا گیا ہے۔ اس اقدام کا منشا اسلامیانِ پاکستان کی تشنہ تکمیل آرزوؤں کی تکمیل ہے، ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو اسلام کے مطابق بنانا ہے ۔۔۔ ضیاء الرحمان کیس میں قراردادِ مقاصد کے مؤثر ہونے میں جن کوتاہیوں اور خامیوں کی نشاندہی کی گئی تھی ان سب کو آرٹیکل ۲۔اے کے ذریعہ دور کر دیا گیا ہے۔ اس طرح اب یہ دستور کا محض دیباچہ نہیں رہی، یہ مملکت کے نظریہ، عقیدہ اور منزل سے متصادم تمام امور کو چیک کرنے کا اہتمام کرتا ہے۔ قراردادِ مقاصد کی اہمیت پر مزید زور دینے کے لیے سردار علی بنام محمد علی کیس (۱۹) کا حوالہ نہایت مفید ہے۔ اس میں پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس محمد افضل ظلہ نے اس پہلو سے تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے عاصمہ جیلانی کیس میں استعمال شدہ تراکیب کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد کے مندرجات کی اہمیت کے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا رہے گا۔ وجہ یہ ہے کہ اس میں انتہائی اعلٰی، اہم نظریاتی اور آئینی اصول درج کیے گئے ہیں، جیسے بطور مثال اللہ تعالٰی کی حاکمیتِ اعلٰی کو مذکورہ کیس میں ٹھوس معانی پہنائے گئے اور ان کا بھرپور اطلاق کیا گیا۔ فاضل چیف جسٹس نے یہ بھی قرار دیا کہ اس قرارداد کو تمام رسمی، آئینی اور قانونی دستاویزات پر فوری طور پر عائد کرنا ہو گا۔ انہوں نے اس بات پر مزید زور دیا کہ عدالتیں اپنے دائرہ کار میں روزمرہ کے تحت اس قرارداد پر عمل پیرا ہوتی رہیں گی۔

(۳۰) پاکستان میں فوجداری نظام کو قرآن و سنت کے مطابق بنانے کے سلسلے میں ایک زبردست پیش رفت شریعت ایپلٹ بنچ میں پاکستان کے چیف جسٹس محمد افضل ظلہ کے فیصلہ (۲۰) سے ہوئی۔ اس کیس میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعات ۲۹۹ تا ۳۳۸ کو اسلامی احکامت کے منافی قرار دیا گیا تھا جیسا کہ یہ اسلام کے نظامِ فوجداری کے بنیادی اصولوں کے انصرام میں ناکام رہیں۔ یہاں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کا یہ اقتباس مناسب ہے:

’’تعزیراتِ پاکستان کی دفعات ۲۹۹ تا ۳۳۸، جو انسانی جسم سے متعلقہ جرائم کے بارے میں ہیں، اسلامی احکامات کے منافی ہیں، چونکہ وہ:

(۱ے) قتل اور جروح عمد میں قرآن و سنت کے احکاماتِ قصاص کو منضبط نہیں کرتے،

(بی) شبہ عمد اور خطا کی بنا پر قتل اور جرح میں قرآن و سنت کے احکامِ دیت صفحہ قانون پر نہیں لاتے،

(سی) فریقین کے مابین معاوضہ پر سمجھوتہ کی بنیاد پر صلح کی گنجائش نہیں دیتے،

(ڈی) جرح اور قتل کے مقدمات میں بالترتیب مجروح یا مقتول کے ورثا کی طرف سے قصوروار کی معافی کی صورت میں عدالت صرف بطور تعزیر قید کی سزا، جو عمر قید سے بہرحال کم ہو، کو مدون نہیں کرتے،

(ای) نابالغ اور فاتر العقل کو قتل کی صورت میں سزائے موت سے مستثنٰی نہیں کرتے،

(ایف) قتل و جرح کو قرآن و سنت کی تشریحات کی روشنی میں فراہم کردہ سزاؤں کے ساتھ منضبط کرنے سے قاصر ہیں۔‘‘

(۳۱) اس سلسلہ میں سندھ ہائیکورٹ کے برادر جج جسٹس وجیہ الدین نے اپنے فیصلے (۲۱) میں صراحت کی کہ قرارداد مقاصد میں درج اصول دستور کے دیباچہ میں درج محض نیک خواہشات نہیں ہیں بلکہ وہ دستور کے مؤثر حصہ میں داخل ہیں اور ہر طرح قابلِ نفاذ ہیں۔ قرارداد مقاصد کو اصل الاصول کہا جا سکتا ہے اور یہ پاکستان کے سیاسی وجود کے لیے ضمیر کے درجے میں ہے جو کہ اسلامی معاشرہ کی تعمیر کے لیے مستحکم ڈھانچہ فراہم کرتی ہے۔ اگر مملکت کا کوئی ادارہ قرارداد مقاصد کی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو اسے ’’اللہ کی مقرر کردہ حدود‘‘ اور قرآن و سنت میں درج ’’مقتضیاتِ اسلام‘‘ کے معیار پر پرکھتے ہوئے (بلااختیار غیر) قانونی قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی عدالتیں ایسے دفعاتِ قانون و دستور کو اللہ تعالٰی کے اعلٰی ترین قانون سے عدمِ مطابقت کی بنا پر نظرانداز اور پائمال کرنے کی پابند ہیں۔

(۳۲) گل حسن کیس میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعات ۲۹۹ تا ۳۳۸ اور ۵۴ اور ۱۰۹ کو اسلامی احکامات کے منافی ہی نہیں قرار دیا گیا بلکہ ضابطہ فوجداری کی دفعات ۴۰۱، ۴۰۲، ۴۰۲(اے،بی)، ۴۵۳، ۳۸۱، ۳۳۷ تا ۳۳۹(اے) کا شریعت ایپلٹ بنچ نے جائزہ لیا اور انہیں قرآن و سنت کے احکامات کے منافی قرار دیا گیا (حالانکہ ضوابطی قوانین کو جائزہ سے تحفظ دیا گیا تھا)۔ مذکورہ فیصلہ کو ۲۳ مارچ ۱۹۹۰ء سے مؤثر قرار دیا گیا۔ پاکستان کے اٹارنی جنرل نے ایک نظرثانی کی درخواست پیش کی جس پر سماعت کے دوران موصوف کی اس یقین دہانی پر کہ عدالت کے فیصلہ کی تعمیل میں قصاص دیت آرڈیننس ۵ ستمبر ۱۹۹۰ء کو جاری کر دیا جائے گا جو ۱۲ ربیع الاول ۱۴۱۱ھ کو مؤثر ہو گا۔ اس طرح مذکورہ نظرثانی غیر مؤثر ہوئی۔ شریعت ایپلٹ بنچ کے سربراہ، پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس محمد افضل ظلہ نے قرار دیا کہ اگر موعودہ آرڈیننس ۱۲ ربیع الاول سے جاری کیا گیا اور وہ پارلیمنٹ کی طرف سے عدمِ توجہی کی نذر ہو جاتا ہے تو تعزیرات و ضابطہ کی دفعات، جن کو منافی اسلام قرار دیا گیا ہے، غیر مؤثر ہو جائیں گی۔ اور خلا کی اس صورت میں قتل و جرح کے بارے میں قصاص و دیت کا اسلامی قانونِ عامہ یعنی قرآن و سنت میں درج اسلامی احکامات قانون کا درجہ پا جائیں گے۔ اور عدالتیں قتل و جرح سے متعلقہ مقدمات کی سماعت میں اسلامی قانونِ عامہ (۲۲) قرآن و سنت میں قصاص و دیت کے احکامات کی پیروی کریں گے اور اس بارے میں زائل شدہ آرڈیننس سے راہنمائی لے سکیں گے۔

(۳۳) بعد ازاں قصاص دیت آرڈیننس جاری کیا گیا مگر وہ قومی اسمبلی کے سامنے پیش نہ کیا گیا، اس طرح یہ زائل ہو گیا۔ اب یہ امر پوری طرح طے شدہ ہے کہ عدالتوں کو رہنمائی کے لیے مذکورہ آرڈیننس کی دفعات کا لحاظ رکھنا ہو گا کیوں کہ آرڈیننس کی موجودہ حیثیت اسلامی قانونِ عامہ کی ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ  مذکورہ اسلامی قانونِ عامہ کا اطلاق بجا طور پر اسلامی میراث کے ساتھ ہماری پیوستگی کا لحاظ رکھ کر کیا گیا ہے۔

(۳۴) اس بارہ میں مزید پیش رفت کے طور پر حبیب وہاب الخیری بنام وفاق پاکستان کیس (۲۳) میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ سے ہوئی۔ اس میں قرار دیا گیا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعات ۴۰۱، ۴۰۲ اور ۴۰۲(اے) اسلامی احکامات کے منافی ہیں۔ اور پاکستان کے سیاسی سیاق میں اولی الامر سے مراد سربراہِ مملکت، صدر یا صدر کا کوئی نمائندہ جیسے گورنر ہو گا، جسے تعزیر کے تحت سزا یافتگان کو مفادِ عامہ میں معافی کا اختیار دیا گیا ہو، ایسے کسی شخص کو حدود، قصاص اور دیت کے مقدمات میں معافی دینے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی قرار دیا گیا تھا کہ اسلامی مملکت کے سربراہ کو قصاص اور دیت کے تحت دی گئی موت یا دیگر سزاؤں کی تبدیلی یا تخفیف کا بھی کوئی اختیار حاصل نہیں، کیونکہ ایسا اختیار صرف مظلوم کے ورثا یا جرح کے کیس میں مجروح کو حاصل ہے۔ ضابطہ فوجداری کی دفعات ۴۰۱، ۴۰۲، ۴۰۲(اے) حسب ذیل ہیں:

’’۴۰۱:

(۱) جب کوئی شخص کسی جرم میں سزایاب ہوا ہو تو صوبائی حکومت مجاز ہے کہ کسی وقت، غیرمشروط یا ایسی شرائط جن کو مجرم قبول کر لے، اس کی سزا معطل کر دے۔ یا جو سزا اس کے لیے تجویز کی گئی ہو، کلاً یا جزواً معاف کر دے۔

(۲) اگر کوئی شرط جس کی بنا پر سزا معطل یا معاف کی گئی ہو، صوبائی حکومت کی رائے میں پوری نہ کی گئی ہو، تو حکومت سزا کی معطلی یا معافی کو منسوخ کر سکتی ہے اور کوئی پولیس افسر اسے بلاوارنٹ گرفتار کر سکتا ہے تاکہ وہ باقی ماندہ سزا بھگتے۔

(۳) شرط جس پر دفعہ ہذا کے تحت سزا معطل یا معاف کی جائے، ایسی ہو سکتی ہے جسے رعایت پانے والا قبول کرے یا نہ کرے۔

(۴) احکام مندرجہ ضمن بالا فوجداری عدالت کے کسی ایسے حکم پر، جو اس مجموعہ کے تحت صادر کیا گیا ہو، یا کسی اور قانون کے تحت جس کی رو سے کسی کی آزادی سلب کی جا سکے، یا اس پر یا اس کی جائیداد پر کوئی ذمہ داری عائد کی جا سکے، لاگو ہوں گے۔

(۵) دفعہ ہذا کا کوئی مضمون صدر مملکت یا مرکزی حکومت کے معافی دینے، سزا کی مہلت دینے، موقوف کرنے، اور کم کرنے کے کسی اختیار میں خلل انداز نہ ہو گا، جب کہ ایسا اختیار انہیں تفویض کیا گیا ہو۔

(۶) صوبائی حکومت مجاز ہے کہ بذریعہ عام قواعد یا خاص احکام ہدایت کرے کہ کس طرح سزا معطل ہو گی یا کن شرائط پر درخواستیں پیش کی جائیں گی اور ان پر کارروائی کی جائے گی۔

۴۰۲:

(۱) صوبائی حکومت مجاز ہے کہ سزا یافتہ شخص کی مرضی کے بغیر مندرجہ ذیل میں سے کسی سزا کے عوض دوسری سزا، جو بعد میں لکھی گئی ہے، تبدیل کر دے: موت، قید سخت جو اس میعاد سے زیادہ نہ ہو جو اس پر قانوناً عائد ہو سکتی تھی، قید محض تا حدِ میعاد مذکورہ، جرمانہ۔

(۲) اس دفعہ کا کوئی مضمون تعزیراتِ پاکستان کی دفعات ۵۴ اور ۵۵ پر اثرانداز نہ ہو گا۔

۴۰۲(اے):

جو اختیارات بروئے دفعات ۴۰۱ اور ۴۰۲ حکومت کو عطا ہوئے ہیں، سزائے موت کی صورت میں وہ صدر مملکت بھی استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘

(۳۵) اس سلسلہ میں ایک انتہائی قوی استدلال اور بھی ہے۔ سپریم کورٹ نے قطعیت سے طے کیا ہوا ہے کہ یہ قیاس کیا جائے گا کہ فطری انصاف کے اصول (اللہ کے قوانین) ہر قانون میں شامل کیے گئے ہیں اور ان سے متصادم ہر کارروائی باطل اور کالعدم ہو گی۔ اس نقطۂ نظر کے لحاظ سے یہ کہنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ ہم قانونِ الٰہی کو بالاتر قانون نہ سمجھیں اور ان سے متصادم اقدام باطل نہ ہو۔ مزید برآں سپریم کورٹ نے ایک حالیہ کیس میں قومی مفاد کو دستور کے تحت ایک اقدام کو ترجیح دی ہے۔ تمام دستوری مقتضیات کی موجودگی میں اگر ہم قانونِ الٰہی کو سپریم لا کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتے تو کیا اس کا یہ منشا نہ ہو گا کہ قانونِ الٰہی قومی مفاد میں نہیں۔ (ملاحظہ ہو وفاق پاکستان بنام محمد سیف اللہ خان، حوالہ ۲۴)۔

(۳۶) اوپر کی بحث کی روشنی میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آرٹیکل ۲۔اے مؤثر اور روبعمل ہے اور کوئی عدالت اسے نافذ کرنے سے انکار نہیں کر سکتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت دستور کے باب ۳۔اے کے تحت دیے گئے دائرہ کار میں سماعت کرے گی، اور ہائیکورٹس دیگر تمام قوانین کے بارے میں سماعت کی مجاز ہوں گی۔ وہ ان کو اسلامی احکامات، جس طرح کہ وہ قرآن حکیم اور سنتِ رسولؐ میں درج ہیں، سے متصادم قرار دیتے ہوئے حالاتِ مقدمہ کے تحت دادرسی فراہم کریں گی۔

(۳۷) بنچ کے سامنے طے طلب اہم سوال یہ ہے کہ سزاؤں اور معافی کی تاریخوں سے قطع نظر، آرٹیکل ۲۔اے کا لحاظ رکھتے ہوئے، کیا صدر مملکت کو معافی کا اختیار حاصل ہے یا نہیں؟ ہمارا جواب عدالتی فیصلوں اور قرآن پاک اور سنتِ رسولؐ میں درج اصول ہائے قصاص و دیت (جس طرح کہ وہ آرڈیننس میں درج ہیں) کی روشنی میں نفی میں ہے۔ صدر پاکستان کو حدود، قصاص اور دیت آرڈیننس کے تحت دی گئی موت (اور دیگر سزاؤں) کی تبدیلی اور تخفیف کا کوئی اختیار حاصل نہ ہے۔ اس طرح ہماری یہ قطعی رائے ہے کہ ایسے مقدمات میں معافی کا اختیار مقتول کے ورثا کو (جرح کی صورت میں مظلوم) کو حاصل ہے۔ لہٰذا صدر کو وہ مقدمات جن میں سزائے موت دی گئی معافی، تبدیلی یا تخفیف کا اختیار حاصل نہیں تھا۔ البتہ تعزیر کے طور پر جو سزائیں دی گئی ہیں ان کا معاملہ مختلف ہے اور ان میں صدر مملکت کو معافی کا اختیار حاصل ہے۔ البتہ یہ اختیار اس شرط کے ساتھ مشروط ہو گا کہ معافی مفادِ عامہ میں ہو۔

(۳۸) حکمِ متنازعہ کے پیرا (بی) میں قتل کے جرم کے علاوہ مستورات کو فوجی یا دیگر عدالتوں کی طرف سے دی گئی سزاؤں میں کوئی استثنٰی نہیں ہو گا۔ یہی صورتحال پیرا (سی) سے متعلق ہو گی۔ البتہ پیرا (ڈی) کے بارے میں ہم یہ قرار دیتے ہیں کہ ساٹھ سال سے زائد عمر کے سزایاب جنہیں قصاص و دیت یا حدود کے تحت سزا نہیں دی گئی، حکمِ متنازعہ کے تحت معاف کی جا سکتی تھیں، لہٰذا ہم یہ قرار دیتے ہیں کہ صدر کو اس کا اختیار حاصل تھا۔ نتیجہ کے طور پر موجودہ رٹ درخواست منظور کی جاتی ہے اور قرار دیا جاتا ہے کہ مسئول علیہم کو دی گئی موت کی سزائیں صدر کی طرف سے عمر قید میں تبدیل نہیں کی جا سکتی تھیں۔

دستخط: ریاض احمد، جج

دستخط: راجہ افراسیاب خان، جج

دستخط: ملک محمد قیوم، جج

راجہ افراسیاب خان:

(۱) مجھے برادر جج شیخ ریاض احمد کے مجوزہ فیصلہ کو پڑھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ موصوف کے فیصلہ میں وجوہات اور حوالہ جات موجود ہیں۔ متنازعہ امور کی پبلک اہمیت کے پیشِ نظر میں مختصر سا نوٹ علیحدہ طور پر بھی لکھنا پسند کرتا ہوں۔

(۲) درخواست گذاران کے وکلاء نے موجودہ درخواست میں مورخہ ۸/۱۲/۱۹۸۸ کے صدر کے اس حکم کو چیلنج کیا ہے جو صدر نے وزیراعظم کے مشورہ پر جاری کیا۔ مذکورہ حکم کی رو سے صدر نے ۶/۱۲/۱۹۸۸ سے قبل فوجی اور دوسری عدالتوں سے دی جانے والی موت کی سزاؤں کو عمر قید میں تبدیل کیا تھا۔ صدر نے فوجی عدالتوں کی طرف سے مارشل لاء ریگولیشن نمبر ۳۱ کے تحت غیر حاضری میں دی گئی سزاؤں کو بھی معاف کیا تھا۔ البتہ یہ ہدایت جاری کی گئی کہ ایسے اشخاص کے مقدمات کی باقاعدہ سماعت عام عدالتوں میں کی جائے گی۔ ساٹھ سال سے زائد عمر کے سزایافتگان، جو گذشتہ پانچ سال سے قید میں ہیں، کی سزائیں معاف ہوں گی۔ مسلح افواج کے افراد کے علاوہ جو ڈرگز، سمگلنگ، بدعنوانی، خیانت، بنک فراڈ، رہزنی، ڈکیتی، قتل، زنا یا غیر فطری فعل کے جرائم کے سوا جرائم میں فوجی عدالتوں سے سزایافتگان معاف کر دیے جائیں، اور مسلح افواج کے افراد کے مقدمات پر افواج کے مجاز حکام نظرثانی کریں گے۔ صدر نے فوجی یا دیگر عدالتوں سے سزا پانے والوں کو بلاامتیاز تین ماہ کی معافی دی۔ اسی طرح یہ بھی ہدایت کی گئی کہ سماعت مقدمہ کے دوران جیل کا عرصہ سزا میں سے منہما کر دیا جائے گا۔

(۳) درخواست گزاران کی طرف سے بنیادی استدلال یہ اختیار کیا گیا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل ۲۔اے کی روشنی میں پاکستان کی مختلف مجاز عدالتوں کی طرف سے دی گئی موت کی سزاؤں کی تبدیلی یا معافی کا سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں رکھتا۔ یہ استدلال کیا گیا کہ معافی کا اختیار اسلامی احکامات کے تحت مقتول کے ورثا کو حاصل ہے اور صدر دستور کے آرٹیکل ۴۵ کے تحت یہ اختیار استعمال نہیں کر سکتا۔ یہ کہا گیا کہ قرارداد مقاصد دستور ساز اسمبلی کی طرف سے ۱۲/۳/۱۹۴۹ کو منظور کی گئی اور ۱۹۷۳ کے دستور کا جزو لاینفک بنائی گئی۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ قرارداد مقاصد جو ابتدا میں ۱۹۵۶، ۱۹۶۲ اور ۱۹۷۲ کے دساتیر میں دیباچہ کے طور پر شامل کی گئی تھی، ۱۹۸۵ میں ۱۹۷۳ کے دستور میں اس کے مؤثر جزو کے طور پر داخل کی گئی۔ اس غرض کے لیے آرٹیکل ۲۔اے ایزاد کیا گیا۔ مختصرًا آرٹیکل ۲۔اے کا منشا یہ ہے کہ تمام تر کائنات کا حقیقی حاکم و مقتدر علٰی اللہ تعالٰی ہی بلاشرکتِ غیرے ہے اور لوگوں پر حکمرانی کا اختیار ایک امانت ہے۔ ان اختیارات کا استعمال عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعہ کیا جائے گا۔ یہ کہا گیا کہ جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور سماجی عدل کے اصول، جس طرح کہ اسلامی احکامات نے ان کو متشکل کیا ہے، کی لفظاً اور معناً پوری پابندی کی جائے گی۔ مسلمانوں کو ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں اسلامی احکامات کا پابند بنایا جائے گا۔ اقلتیوں کو ان کے عقائد پر عمل اور ثقافت کی ترقی کے لیے اپنے مذاہب کی تعلیمات کے مطابق پوری سہولت دی جائے گی۔ یہ بھی کہا گیا کہ بنیادی حقوق بشمول حیثیت، مواقع اور قانون کے سامنے برابر، سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف، فکر، اظہار، اور عقیدہ اور جماعت سازی کی آزادی کی ضمانت دی جائے گی۔ عدلیہ خودمختار اور آزاد ہو گی۔ پسماندہ علاقوں اور لوگوں کی ترقی کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں گے۔ اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا، جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب (۲۵)میں تحریر فرمایا:

’’قرارداد مقاصد نے اس امر کی تصدیق کی کہ تمام تر کائنات پر مطلق اختیار صرف اور صرف اللہ تعالٰی کا ہے۔ اس ذاتِ برتر نے جو اختیار مملکتِ پاکستان کو عوام الناس کے ذریعہ تفویض کیا ہے، ایک مقدس امانت تھا۔ یہ قرارداد وفاقی مملکت جس میں منتخب نمائندوں کی حکمرانی کا اشارہ دیتی ہے اور اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے، اور یہ جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی عدل کے اصولوں کی، جس طرح اسلام نے ان کو پیش کیا ہے، علم بردار ہے۔ ‘‘

آرٹیکل ۲۔اے سے بلا شک و شبہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تشکیل کی بنیاد اللہ تعالٰی کے احکامات ہیں۔ جس طرح کہ یہ احکام قرآن حکیم میں درج ہیں۔ ان احکامات کی پیروی میں پاکستانی عوام ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی فلاح مضمر ہے۔ دوسرے لفظوں میں محروم طبقات جو کہ پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیں، کو سماجی، اقتصادی اور سیاسی طور پر اٹھایا جائے گا تاکہ انہیں پاکستان کی اقتصادیات میں مستحکم کیا جائے۔ میرے نزدیک قرارداد مقاصد میں ان مقدس اصولوں کی صراحت کر دی گئی جو کہ ناقابل تغیر اور استثنٰی ہیں۔ اس طرح میں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ یہ آرٹیکل دستور کی دیگر دفعات سے بلند تر درجہ کا حامل ہے۔ اس لحاظ سے عدالتیں قرآن و سنت کے اصولوں کے تحفظ کی پابند ہیں۔ اس نقطۂ نظر کو قیامِ پاکستان کے معاً بعد اعلٰی عدالتوں کے سامنے مناسب مقدمات میں متواتر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ عاصمہ جیلانی کیس (۳) میں یہ استدلال کیا گیا تھا کہ قرارداد مقاصد پاکستان کے لیے اصل الاصول فراہم کرتی ہے۔ اس طرح یہ نہ صرف عبوری دستور بلکہ آئندہ دستور پر بھی بالادست ہے۔ اس استدلال کو سپریم کورٹ نے حسبِ ذیل قرار کے ساتھ مسترد کر دیا تھا۔

’’ہمیں بنیادی اقتدار کی تلاش میں مغرب کے ماہرینِ قانون کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارا اصل الاصول یہ ہے کہ تمام کائنات پر قانونی اقتدارِ اعلٰی بلاشرکتِ غیرے اللہ تعالٰی کا ہے، اور اس کا تفویض کردہ اختیار اس کی ہدایات کے ماتحت مقدس امانت ہے۔ یہ اصل الاصول ہے جسے قرارداد مقاصد میں پوری صراحت کے ساتھ ثبت کیا گیا ہے۔ یہ اساسی اصول ناقابل تغیر و استثنٰی ہیں۔ یہ قرارداد ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو منظور ہوئی ۔۔۔‘‘

’’اگر اسے دستور میں داخل نہ کیا گیا یا یہ دستور کا جزو نہ ہو تو یہ دستور کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔ اگرچہ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جسے قبولیتِ عامہ حاصل ہے اور اسے کبھی منسوخ کیا گیا ہے اور نہ ہی اس سے کبھی برأت کا اظہار کیا گیا، اس کے باوجود اسے کسی دستوری دفعہ کی حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ یہ دستور میں داخل نہ کر دی جائے یا اسے دستور کا حصہ بنا دیا جائے۔‘‘

درج بالا فیصلہ سے یہ عیاں ہے کہ سپریم کورٹ نے قراردادِ مقاصد کی اہمیت واضح کی ہے لیکن یہ بھی واضح کر دیا کہ کوئی دستاویز بالاتر قانون تسلیم نہیں کی جا سکتی جب تک کہ وہ دستور کا مؤثر حصہ نہ بنا دی جائے۔ پس مقننہ نے اس مشکل کو دور کرنے کے لیے قرارداد مقاصد کو دستور ۱۹۷۳ کا مؤثر حصہ بناتے ہوئے صدارتی حکم نمبر ۱۴ مورخہ ۲ مارچ ۱۹۸۵ جاری کیا گیا۔ دستور میں اس تبدیلی کا نوٹس سردار علی وغیرہ بنام محمد علی وغیرہ (۱۹) کیس میں لیا گیا اور یہ قرار دیا گیا  کہ عدالتوں کو قرارداد مقاصد کی تنفیذ کا اختیار آرٹیکل ۲۔اے کے تحت حاصل ہو گا۔

اس طرح فاضل کونسل کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا قرآن و سنت کی روشنی میں بہرطور پر جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اسلامی قوانین کے نفاذ میں ایک اہم پیش رفت نفاذِ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء کے نفاذ مورخہ ۱۸/۶/۱۹۹۱ سے ہوئی ہے۔ ایکٹ مذکورہ کی دفعہ نمبر ۳ میں لکھا ہے کہ اسلامی احکامات جس طرح کہ وہ قرآن و سنت میں درج ہیں پاکستان کا سپریم لا ہوں گے۔ اسی طرح ۲۴/۸/۱۹۹۱ کو تعزیراتِ پاکستان اور ضابطہ فوجداری کو قرآن و سنت کے مطابق بنانے کے لیے قانون فوجداری (ترمیم ثانی) آرڈیننس ۱۹۹۰ جاری کیا گیا۔ مذکورہ آرڈیننس کی دفعہ ۳۰۹ اور ۳۱۰ میں قصاص کی صورت میں راضی نامہ کا ضابطہ فراہم کیا گیا۔ دونوں دفعات کا متن زیرغور استدلال کی صراحت کے لیے درج کیا جاتا ہے۔

’’۳۰۹: ولی کا قتلِ عمد میں قصاص زائل کرنا:

(۱) قتلِ عمد کی صورت میں عاقل، بالغ ولی کسی وقت بھی اور بغیر معاوضہ کے اپنا حقِ قصاص زائل کر سکتا ہے۔ ‘‘

’’۳۱۰: قتلِ عمد میں قصاص کا راضی نامہ (صلح):

(۱) قتلِ عمد کی صورت میں عاقل، بالغ ولی کسی وقت بھی عوض صلح وصول کر کے اپنے حق قصاص پر راضی نامہ کر سکتا ہے۔‘‘

مختصرًا اوپر کی مذکورہ دفعات میں راضی نامہ اور معاوضہ وصول کر کے سزایافتگان کے ساتھ سمجھوتہ کی صورت فراہم کی گئی ہے۔ میرے نزدیک یہ دفعات دستور کے صدارتی اختیارات کے برعکس مؤثر ہوں گی۔ اس طرح اسلامی احکامات آرٹیکل ۲۔اے کے تحت روبعمل ہوں گے۔ میں برادر جج جسٹس شیخ ریاض احمد کے مجوزہ فیصلہ کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں۔

حکم بمطابق فیصلہ

حوالہ جات


(1) Lettor No 8/15/88 Ptns Islamabad
(2) Ziau Rahman Case PLD 1972 SC 49
(3) Asma Jilani Case PLD SC 139
(4) Hussein Naqi Case PLD 1973 LAH 164
(5) Parliamentary Practice 531
(6) Benazir Bhuto Case PLD 1988 SC 416 AT 522
(7) President's Order No 3 of 1979
(8) President's Order No 1 of 1980
(9) President's Order No 14 of 1985
(10) Benazir Bhuto Case PLD 1988 SC 416
(11) Manzur Elahi Case PLD 1975 SC 66
(12) Malk Ghulam Mustafa Khar Case PLD SC 26
(13) Niaz aHmed Case PLD 1977 KAR 604
(14) Habib Bank Case PLD 1989 Karachi 371
(15) PLD 1975 SC 506 F.B Ali VS State
(16) PLD 1966 SC 854 East Pakistan Vs Siraj-ul-Haq
(17) PLD 1963 SC 486 Fazal-ul-Qadir Choudry vs Abdul Haq
(18) PLD 1958 SC 437
(19) PLD 1988 SC 287 Sardar Ali Case
(20) PLD 1989 SC 633 Gul Hasan Case
(21) 1990 CLC 428
(22) PLD FSC 236 Wahab Al-Khairy Case
(23) PLD 1989 SC 166
(24) Constitution Law and Pakistan Affairs 7

ایران کی مداخلت

نسیم ایوبی

شیعہ مذہب اپنی ولادت سے لے کر آج تک اہلِ سنت کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے۔ پہلی صدی ہجری سے یہ فرقہ اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہے۔ اہلِ سنت کے خلفاء کے خلاف سازشیں اور بغاوتیں اس فرقے کا منشور ہے۔ زیرزمین سرگرمیوں اور تقیہ کے بل بوتے پر اس گروہ نے مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو ختم کرنے میں جو کردار ادا کیا وہ غیر مسلم بھی نہ کر سکے۔ مسلم ریاستوں کے خلاف دشمنوں کے ساتھ سازباز کر کے اسلامی ریاستوں کو ختم کرنے کے لیے اس گروہ نے ہر حربہ اختیار کیا اور علقمی جیسے رسوائے زمانہ شیعوں نے اسلامی ریاست کے خاتمہ کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ ان کی ان ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں مغرب عربی میں اور مصر افریقہ میں شیعہ ریاست قائم ہوئی۔ نتیجتاً قتل و غارت گری اور اہلِ سنت کی بے حرمتی کے وہ ہولناک واقعات رونما ہوئے جن سے دھرتی کا سینہ تھرتھرانے لگا۔ آخرکار اس گروہ کے اقتدار کا سورج غروب ہو گیا۔
صفیوں کے دور میں شیعہ نے پھر انگڑائی لی لیکن ترک عثمانیوں نے انہیں کچل کر رکھ دیا۔ یہ گروہ زیرزمین سرگرمیوں میں مصروف ہو گیا اور چمگادڑ کی طرح تاریکی شب میں کام کرنے لگا۔ شیعہ نے رات دن سازشوں کے جال تیار کیے تاکہ ایک بار پھر اپنی حکومت قائم کر سکیں۔ سالہا سال تک ان کی نسلیں مسلمانوں کے خلاف حسد، کینہ اور بغض کا دودھ پی کر پلتی رہیں۔ تقیہ کے سائے میں یہ لوگ جوان ہوئے۔ ’’اوپر سے کچھ اندر سے کچھ‘‘ ان کے مذہب کا بنیادی عقیدہ ہے۔ لیکن جب اس گروہ کو اقتدار حاصل ہو جاتا ہے تو ان کی اصل حقیقت سامنے آتی ہے۔ تب یہ خلقِ خدا کی بربادی کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور پھر آبادیوں کی تباہی چشمِ فلک کو دعوتِ نظارہ دیتی ہے۔
رضا شاہ پہلوی کی حکومت کے خاتمہ پر اس دینی گروہ کو ایران میں اقتدار حاصل ہوا۔ لبنان میں ان کے گروہ آمادۂ بغاوت ہوئے، اور یوں ایران کی نئی حکومت نشۂ اقتدار میں اس قدر مدہوش ہو گئی کہ اس شیعی فساد کو، جسے انہوں نے انقلاب کا نام دے رکھا تھا، بیرون ملک برآمد کرنے کی ٹھان لی۔ اس گروہ نے اپنی سرگرمیاں افریقہ، ایشیا، یورپ اور امریکہ تک وسیع کر دیں، انہوں نے اپنی توجہات کا ارتکاز زیادہ تر ان علاقوں پر کیا جہاں جہاں شیعہ اقلیت موجود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کی شیعی حکومت نے اپنا اولین ہدف افغانستان کو بنایا کیوں کہ افغانستان نہ صرف ایران کا ملحقہ پڑوسی ہے بلکہ یہاں فارسی زبان بولنے والوں کی معقول تعداد بھی موجود ہے۔ جن میں چھ سے دس فیصد تک شیعہ گروہ کے لوگ بھی موجود ہیں۔
چنانچہ ایران نے عراق کے ساتھ اپنی نو سالہ جنگ کے المناک اور ذلّت آمیز انجام کے بعد اپنی عسکری اور فکری قوت افغانستان کی طرف مبذول کر دی تاکہ اب افغانستان کو ایک شیعہ ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے سازش کی جائے۔ افغانستان ایران کے نقطۂ نظر سے ایک اہم علاقہ ہے۔ ’’ہزارہ‘‘ قبائل کا تعلق شیعہ مذہب سے ہے جو ’’پاسبان‘‘ کے صوبے میں آباد ہیں۔ اس طرح ایک قلیل تعداد افغانستان کے دیگر صوبوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ ’’ایرانی نیشنل گارڈ‘‘ کے دستے ’’پاسبان‘‘ میں تعینات ہیں اور ایران نے اپنے خرچ سے صوبہ پاسبان میں ٹیلی فون لائنز کا جال بچھا دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ’’ہزارہ‘‘ قبیلے کے لوگ ازخود تو اتنا بڑا منصوبہ مکمل نہیں کر سکتے تھے۔
’’آیات‘‘ (آیت اللہ کی جمع) کی ایک بہت بڑی تعداد ’’تو مان نہ مان میں تیرا مہمان‘‘ کی مصداق بن کر صوبہ بامیان میں براجمان ہے۔ یہ لوگ مشیر منصوبہ بندی کے عہدوں فائز ہو کر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال چند یرغمالی ڈاکٹروں کی رہائی کے سلسلہ میں شیعہ گروہ کے ساتھ جو مذاکرات ہوئے ان میں ایرانی ’’آیات‘‘ کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی جس نے مذاکرات کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دیا۔ ایران نے بامیان کے صوبے میں عراق کے ساتھ جنگ کے خاتمہ کے بعد تقریباً چالیس ہزار مسلح جوان داخل کر دیے ہیں تاکہ اس صوبے میں شیعہ اسٹیٹ کے قیام کے لیے راہ ہموار کی جا سکے۔ بامیان کے کمانڈر مجاہد صفی الدین نے کہا کہ ان ایرانی فوجیوں کی سرگرمیوں کا واضح تعین ہنوز نہیں ہو سکا لیکن ایک آغا خانی مسٹر کیان نے کہا ہے کہ نجیب کو اقتدار سے الگ کرنے کے بعد ہم مجاہدین سے بھی دو دو ہاتھ کریں گے۔ یہ ایرانی مداخلت کار کب اور کیسے اپنے ناپاک منصوبے پر عملدرآمد کا آغاز کریں گے؟ ابھی اس بارے میں کوئی قطعی رائے دینا قبل از وقت ہے۔
ایران اس وقت بھی مسئلہ افغانستان میں مداخلت کرتا رہا ہے جبکہ وہ خود عراق کے ساتھ برسر پیکار تھا۔ ایرانی راہنما خمینی اور روسی لیڈر گورباچوف کے درمیان خط و کتابت سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ایران روسی غاصبوں کو افغانستان کی قسمت کا مالک سمجھتا ہے، کیوں کہ ایران نے روسی لیڈر کو توجہ دلائی تھی کہ افغانستان میں شیعہ کے مفادات کا تحفظ کیا جائے، جس کے جواب میں روس نے خمینی کو یقین دلایا کہ شیعہ کو افغانستان میں تمام حقوق دیے جائیں گے اور ان کا مکمل تحفظ کیا جائے گا۔
یہی صورتحال سکردو، گلگت، چترال، ہنزہ، لگر، دیامر کی ان ریاستوں کی ہے جو کبھی خودمختار ریاستیں تھیں مگر اب پاکستان کے زیر انتظام وفاقی کنٹرول میں ہیں۔ ریاست کشمیر سے ان ریاستوں کو ۱۹۴۷ء سے پاکستان نے نامعلوم وجوہ کی بنا پر الگ کر رکھا ہے۔ پاکستان کے شمال میں واقع یہ علاقہ قطعی طور پر سنی اکثریت پر مشتمل تھا مگر غربت، جہالت، پسماندگی کے سبب آغاخانی فرقہ اسماعیلیہ کے امام کے زیرانتظام چلنے والے فلاحی ادارے ان غریب لوگوں کو اپنے دامِ تزویر میں پھنسا کر اس پورے علاقے کو اسماعیلی بنا رہے ہیں۔ آغاخانی اور ایرانی شیعہ حکومت کا پورا زور اس بات پر صرف ہو رہا ہے کہ آزاد کشمیر کے شمال میں سکردو سے لے کر واخان (افغانستان) کی پوری پٹی شیعہ ریاست میں تبدیل ہو جائے اور یوں پاکستان اور آزاد کشمیر کا موجودہ علاقہ ایک طرف سے ہندوستان، دوسری  طرف سے روس اور چین، اور تیسری طرف سے افغانستان اور شیعہ ریاست کے درمیان گھر جائے۔ اور اس طرح پاکستان کے اندر اس سہ کالمی دباؤ کے ذریعے سے شیعہ حضرات کو سنیوں کے برابر حقوق دے کر فقہ جعفریہ کے نام پر ملک میں صحابہ کرامؓ کی عظمتوں کو تار تار کر دیا جائے اور خلفائے ثلاثہ ؓ اور ان کے پیروکاروں کو پس منظر میں دھکیل کر یہاں وہی تاریخ دہرائی جائے جو مختار ثقفی، حسن بن صباح اور دیگر شیعہ لیڈروں نے اسلام کے دورِ عروج کو ختم کرنے کے لیے کوفہ، بصرہ، مکہ اور مدینہ میں دہرائی تھی۔
ان لوگوں کی پشت پناہی کے جی بی، سی آئی اے، را، اور خاد کر رہی ہیں۔ تاکہ وقت آنے پر شمالی علاقوں کی طرف سے شیعہ آبادی کو بغاوت پر ابھارا جائے اور بلوچستان میں ایران اور روس کے ذریعے بغاوت کی آگ بھڑکائی جائے، اور سندھ میں ہندوستانی ایجنٹوں کے ذریعے تخریب کاری کروا کر پاکستان کو مختلف فرقہ ورانہ ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے، اور یوں اس عظیم اسلامی ملک کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے۔
اگر ہمارے سنی علماء و سیاستدان اس خطرناک موقعہ دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث کے جھگڑوں میں الجھے رہے تو یہاں نہ دیوبندی ہوں گے، نہ بریلوی اور نہ اہلِ حدیث۔ اس ملک پر یا کمیونسٹوں کا راج ہو گا یا اصحابِؓ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کا۔

اقوامِ متحدہ کی قاہرہ کانفرنس اور عالمِ اسلام

ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کے زیراہتمام لندن میں منعقدہ فکری نشست میں آبادی کے کنٹرول کے مسئلہ پر اقوامِ متحدہ کی قاہرہ کانفرنس کے ایجنڈے کو تمام آسمانی مذاہب کی بنیادی تعلیمات اور انسانی اقدار کے منافی قرار دیتے ہوئے اس سلسلہ میں جامعہ ازہر اور وٹیکن سٹی کے موقف کے موقف کی پرزور حمایت کی گئی ہے اور ایک قرارداد کے ذریعے دنیا بھر کی مسلم حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ عالمِ اسلام کو کنڈوم کلچر اور جنسی انارکی کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے مشترکہ طور پر ٹھوس اور جرأت مندانہ موقف اختیار کیا جائے اور قاہرہ کانفرنس کے ایجنڈے کو مسترد کرنے کا اعلان کیا جائے۔
یہ نشست اسلامک سنٹر سیلون روڈ اپٹن پارک لندن میں ۳ ستمبر ۱۹۹۴ء کو جمعیت علماء برطانیہ کے راہنما مولانا قاری عبد الرشید رحمانی کی زیرصدارت منعقد ہوئی جس میں مختلف جماعتوں کے راہنماؤں نے خطاب کیا۔
مفکرِ اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے بھی اس نشست سے خطاب کرنا تھا لیکن قاہرہ کانفرنس کے بارے میں رابطہ عالمِ اسلامی کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کے لیے انہیں برطانیہ کا دورہ مختصر کر کے اچانک سعودی عرب روانہ ہونا پڑا، البتہ شرکاء کے نام ایک پیغام میں مولانا ندوی نے کہا کہ ملتِ اسلامیہ کو اس وقت یورپ کی خوفناک تہذیبی یلغار کا سامنا ہے اور یہ معرکہ ان صلیبی معرکوں سے زیادہ سخت اور خطرناک ہے جن میں یورپی حکومتیں عالمِ اسلام کا مقابلہ کرنے اور اسے زیر کرنے میں ناکام رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ صورتحال انتہائی نازک ہے اور مغربی کلچر ملتِ اسلامیہ کے تہذیبی دائروں کو توڑنے اور مذہبی اقدار کو مٹانے کے لیے اپنا پورا زور صرف کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیے یہودی اور عیسائی دانشور اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود متحد ہو گئے ہیں۔ اس لیے عالمِ اسلام کی دینی قوتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو یکجا کر کے پوری سنجیدگی کے ساتھ اس فتنۂ عظمٰی کا مقابلہ کریں۔
حزب التحریر برطانیہ کے امیر الشیخ عمر بکری محمد نے کہا کہ دراصل مغربی قوتوں کو ملتِ اسلامیہ کی افرادی قوت کا خوف لاحق ہے اور وہ مغرب و مشرق میں آبادی کا توازن قائم کرنے کے لیے آبادی پر کنٹرول کے نام پر اس قسم کی حرکات کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی افرادی قوت کو بڑھانے کا حکم دیا ہے، اس لیے آبادی کو محدود کرنے کا تصور رسول اکرمؐ کی تعلیمات کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کی فکری اور اقتصادی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے عالمِ اسلام میں سیاسی بیداری کی مہم چلانے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک ہم مکمل آزادی کے ساتھ اسلام کی مکمل عملداری کا اہتمام نہیں کرتے مغرب کی سازشوں کا اسی طرح شکار ہوتے رہیں گے۔
ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ سکولوں میں جنسی تعلیم، مانع حمل اشیاء کے کھلم کھلا فروغ، اور بدکاری کی حوصلہ افزائی جیسے اقدامات کی روک تھام صرف اسلام اور مسلمانوں کا نہیں بلکہ انسانی اقدار کا مسئلہ ہے اور تمام مذاہب اس قسم کی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’فری سیکس‘‘ کے فلسفہ نے مغربی معاشرہ کا جو حشر کیا ہے اور جس طرح اس سوسائٹی کو انسانی قدروں اور رشتوں سے محروم کیا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی ذی شعور انسان قاہرہ کانفرنس کے ایجنڈے کی حمایت نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ مغرب خود تو آسمانی تعلیمات سے دستبردار ہو چکا ہے اور اب ہمیں بھی آسمانی تعلیمات سے دستبردار کرانا چاہتا ہے۔ لیکن عالمِ اسلام میں اس سلسلہ میں ہونے والے ردعمل نے واضح کر دیا ہے کہ مسلمان بے عمل یا بدعمل تو ہو سکتا ہے لیکن اپنے دین سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔
فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری نے کہا کہ اقوامِ متحدہ مغربی ملکوں کی آلۂ کار ہے جو عالمِ اسلام پر امریکہ اور اس کے حواریوں کا تسلط برقرار رکھنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اسی لیے اس کے قیام کے وقت مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے اسے کفن چوروں کی انجمن قرار دے دیا تھا اور گزشتہ نصف صدی کی تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کے بارے میں علامہ اقبالؒ کا ارشاد بالکل درست تھا۔ انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کو عورتوں کے حقوق کا غم کھائے جا رہا ہے لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ کیا بوسنیا میں مظالم کا شکار ہونے والی ہزاروں عورتیں ان کے نزدیک حقوق کی حقدار نہیں تھیں، اور ان کے لیے اقوامِ متحدہ نے کیا کردار کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ دراصل مغرب ابھی تک استعمار کا کردار ادا کر رہا ہے اور مسلمان ملکوں کو ظاہری آزادی کا فریب دے کر اقتصادی پالیسیوں اور اقوامِ متحدہ کے ذریعہ اپنا شکنجہ عالمِ اسلام پر مضبوط سے مضبوط تر کرتا جا رہا ہے۔
مجلسِ اقبالؒ لندن کے صدر جناب محمد شریف بقا نے کہا کہ مغربی ممالک نہ مسلم ممالک کو معاشی اور سائنسی طور پر خودکفیل دیکھنا چاہتے ہیں اور نہ مسلمانوں میں سیاسی اتحاد ہی کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اور مغربی حکومتوں کی تمام تر پالیسیوں کا محور یہ ہے کہ عالمِ اسلام ہمیشہ کے لیے ان کا دستِ نگر اور محتاج رہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمِ اسلام کا اتحاد اور اسلامی اقدار کی بالادستی ہی ان تمام مسائل کا حل ہے جس کے ذریعے ہم مغرب کے چیلنج کا صحیح طور پر سامنا کر سکتے ہیں۔
بزرگ عالم دین مولانا ابوبکر سعید نے کہا کہ قاہرہ کانفرنس کا ایجنڈا ہماری دینی غیرت کے لیے چیلنج ہے اور ہمیں چاہیے کہ پوری طرح متحدہ ہو کر اس کا مقابلہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ قاہرہ کانفرنس میں پیش کی جانے والی سفارشات بے حیائی اور بدکاری کو فروغ دینے کی تجاویز ہیں جنہیں مسلم معاشرہ میں کسی طور پر بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔
صدر نشست مولانا قاری عبد الرشید رحمانی نے اس بات پر زور دیا کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کو فروغ دیا جائے اور ’’فری سوسائٹی‘‘ کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے نئی نسل کی راہنمائی کی جائے۔


علماء قاہرہ کانفرنس کے فیصلوں پر نظر رکھیں۔ مولانا منصوری

ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری نے کہا ہے کہ عالمِ اسلام کے دینی حلقوں کو بہبودِ آبادی کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی قاہرہ کانفرنس کی کارروائیوں اور قراردادوں کا گہری نظر سے مطالعہ کرنا چاہیے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اسقاطِ حمل، شادی کے بغیر جنسی تعلقات، ہم جنسی اور سکولوں میں جنسی تعلیم کے حوالہ سے کانفرنس کی قابلِ اعتراض تجاویز پر پاکستان اور بعض دیگر مسلم ممالک کا طرزعمل بہتر ہے۔ لیکن اس پر اکتفا کر کے تمام امور سے بے فکر ہو جانے کا کوئی جواز نہیں ہے، کیونکہ مغرب کی تہذیبی اور ثقافتی یلغار کا طریق واردات ہمیشہ یہی رہا ہے کہ ’’تین قدم آگے بڑھو اور ردعمل زیادہ مخالف ہو تو ایک قدم پیچھے ہٹ جاؤ‘‘۔ اس طرح اسے ہر حملہ میں دو قدم آگے بڑھانے کا موقع مل جاتا ہے اور ردعمل کا اظہار کرنے والے بھی مطمئن ہو جاتے ہیں کہ اسے ایک قدم پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اس لیے عالمِ اسلام کے دینی حلقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کانفرنس کی کارروائیوں اور قراردادوں پر گہری نظر رکھیں اور اس سلسلہ میں ملتِ اسلامیہ کی بروقت راہنمائی کریں۔

علماء مغربی فلسفہ کی ماہیت کو سمجھیں اور انسانی معاشرہ کی راہنمائی کریں

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے علماء کرام اور مسلم دانشوروں پر زور دیا ہے کہ وہ اسلام کی دعوت اور پیغام کو دنیا کی دوسری اقوام تک پہنچانے کے لیے مربوط اور منظم پروگرام ترتیب دیں اور اسلامی تعلیمات کو آج کی زبان میں لوگوں تک پہنچانے کا اہتمام کریں۔ وہ ۳۱ اگست ۱۹۹۴ء کو آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز میں ورلڈ اسلامک فورم کے وفد سے بات چیت کر رہے تھے جو مولانا زاہد الراشدی، مولانا محمد عیسٰی منصوری اور مولانا سید اسد اللہ طارق گیلانی پر مشتمل تھا۔
اس موقع پر مولانا ندوی نے کہا کہ علماء حق نے ہر دور میں وقت کے فتنہ اور ضرورت کو پہچانا ہے اور اس کے مطابق لوگوں کی راہنمائی کی ہے۔ ایک دور میں جب مسلم معاشرہ میں یونانی فلسفہ کے فروغ سے اعتقادی فتنوں نے سر اٹھایا تھا تو اس وقت کے اکابر علماء نے یونانی فلسفہ پر عبور حاصل کر کے اس کی زبان میں اسلامی عقائد کی وضاحت کی تھی اور مسلمانوں کو گمراہ ہونے سے بچایا تھا۔ جبکہ آج مغرب کے مادہ پرستانہ فلسفہ نے جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں میں اسلام کے عقائد و احکام کے بارے میں بے یقینی اور شکوک کے بیج بو دیے ہیں، علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ مغربی فلسفہ کی ماہیت کو سمجھیں، یورپ کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور مادہ پرستانہ فلسفہ کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے اس کی زبان میں اسلامی عقائد و احکام کی وضاحت کریں تاکہ تشکیک اور الحاد کے فتنہ کا صحیح طور پر مقابلہ کیا جا سکے۔
مولانا ندوی نے کہا کہ مغربی تہذیب اپنے عروج کی انتہا کو پہنچ کر اب زوال کا شکار ہونے والی ہے اور مغربی معاشرہ میں دن بدن وسیع ہونے والی بے چینی اور اضطراب نے اس تہذیب پر خود مغرب کے لوگوں کے اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے اور وہ کسی نئے نظام اور پیغام کے منتظر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اسلام کے سوا دنیا کے کسی مذہب میں یہ سکت نہیں ہے کہ وہ فطرت کے تقاضوں کے مطابق انسانی معاشرہ کی راہنمائی کر سکے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ علماء کرام اور مسلم دانشور اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور اسلام کے فطری احکام اور تعلیمات کو سادہ اور فطری انداز میں لوگوں کے سامنے لائیں۔ انہوں نے کہا کہ غیر مسلم معاشرہ میں ان لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو اسلام سے نفرت رکھتے ہیں اور اس کے بارے میں معاندانہ رویہ اختیار کرتے ہیں، ان کے علاوہ باقی لوگوں تک اسلام کا پیغام صحیح انداز میں پہنچانے کا اہتمام کیا جائے تو ان میں سے بہت سے افراد اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہوں گے، مگر اصل کوتاہی ہماری طرف سے ہے اور ہم دعوت اور تبلیغ کے تقاضے پورے نہیں کر رہے۔
مولانا ندوی نے ورلڈ اسلامک فورم کی سرگرمیوں پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ خوشی کی بات ہے کہ نظریاتی اور فکری محاذ پر صحیح سمت کام کا ذوق بیدار ہو رہا ہے۔

جاہلی اقدار پھر سے انسانی معاشرہ پر غالب آ گئی ہیں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ِطیبہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے اور انسانی معاشرہ بالآخر رسول اکرمؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی امن و فلاح کی منزل حاصل کرے گا۔ وہ ۹ ستمبر کو مرکزی جامع مسجد ویمبلی لندن میں جلسہ سیرت النبیؐ سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ محبتِ رسولؐ پر مسلمانوں کے ایمان کی بنیاد ہے، جس کے بغیر کوئی شخص مومن کہلانے کا حقدار نہیں ہو سکتا۔ لیکن محبتِ رسولؐ کی بنیاد اطاعت اور اتباع ہے کیونکہ محبوب کے احکام کی تعمیل کے بغیر دنیا میں محبت کا کوئی بھی دعوٰی قابلِ قبول نہیں ہوتا اور خود رسول اکرمؐ نے بھی ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’جس نے میری اطاعت کی اس نے میری محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرا ساتھی ہو گا‘‘۔
مولانا راشدی نے کہا کہ آج دنیا جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہی ہے اور تہذیب و ترقی کے نام پر جاہلیت کی وہ تمام اقدار انسانی معاشرہ پر پھر سے غالب آ گئی ہیں جنہیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹایا تھا، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ رسول اکرمؐ کی تعلیمات سے دنیا کو آگاہ کیا جائے اور اسوۂ نبویؐ کے زیریں اصولوں سے انسانی معاشرہ کو روشناس کرایا جائے کیونکہ اور کوئی نظام اور تعلیم انسانی معاشرہ کو ان اندھیروں سے نجات نہیں دلا سکتی۔
مولانا قاری محمد عمران جہانگیری نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ نئی نسل کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے اور رسول اکرمؐ کی تعلیمات اور اسوہ سے روشناس کرانے کا بطور خاص اہتمام کیا جائے۔ جلسہ سے مولانا حافظ عزیز الرحمٰن تاراپوری نے بھی خطاب کیا۔

اخبار و آثار

ادارہ

پروفیسر خلیق احمد نظامی سے فورم کے راہنماؤں کی ملاقات

ورلڈ اسلامک فورم کے راہنماؤں مولانا زاہد الراشدی، مولانا محمد عیسٰئ منصوری اور مولانا سید اسد اللہ طارق گیلانی نے ۳۱ اگست ۱۹۹۴ء کو آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز میں بھارت کے ممتاز محقق، مصنف اور دانشور پروفیسر ڈاکٹر خلیق احمد نظامی سے ملاقات کی اور ان سے مختلف امور پر تبادلۂ خیال کیا۔ پروفیسر خلیق احمد نظامی کا شمار برصغیر کے چوٹی کے ماہرینِ تعلیم اور محققین میں ہوتا ہے اور وہ ’’شاہ ولی اللہ کے سیاسی مکتوبات‘‘، ’’تاریخِ مشائخِ چشت‘‘ اور ’’سلاطینِ دہلی کے مذہبی رجحانات‘‘ جیسی متعدد علمی اور تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
فورم کے راہنماؤں نے پروفیسر نظامی کو فورم کے پروگرام اور سرگرمیوں سے آگاہ کیا جس پر انہوں نے مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ فکری بیداری اور ذہنی تربیت کا یہ پروگرام وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ماہنامہ الشریعہ کے چند شمارے دیکھ چکے ہیں جو ایک معیاری جریدہ ہے اور اہم مقصد کے لیے  مفید کام کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ آکسفورڈ میں اسلامک اسٹڈیز کا سنٹر جو مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی نگرانی میں تعلیمی و تحقیقی خدمات سرانجام دے رہا ہے اس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فرحان احمد نظامی، پروفیسر ڈاکٹر خلیق احمد نظامی کے فرزند ہیں اور مغربی دنیا کو اسلام کے بارے میں ضروری معلومات سائنٹفک بنیادوں پر مہیا کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔

مولانا منصوری کی والدہ محترمہ انتقال فرما گئیں

ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری کی والدہ محترمہ کا گزشتہ دنوں انڈیا میں انتقال ہو گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ فورم کے راہنماؤں مولانا زاہد الراشدی، مولانا مفتی برکت اللہ، پروفیسر عبد الجلیل ساجد، مولانا سید اسد اللہ طارق گیلانی، مولانا فیاض عادل فاروقی اور مولانا قاری محمد عمران خان جہانگیری نے مرحومہ کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ اور کہا کہ ہم مولانا منصوری اور ان کے خاندان کے اس غم میں شریک ہیں اور مرحومہ کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لیے دعا گو ہیں، آمین یا رب العالمین۔

حضرت درخواستیؒ کی یاد میں گلاسگو میں تعزیتی جلسہ

عالمِ اسلام کی ممتاز دینی شخصیت اور جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمتہ اللہ علیہ کی وفات حسرتِ آیات پر گزشتہ روز گلاسگو کی مرکزی جامع مسجد میں ایک تعزیتی جلسہ منعقد ہوا جس کی صدارت پاکستان اسلامائزیشن فورم کے چیئرمین مولانا مفتی مقبول احمد نے کی اور اس میں مختلف طبقات کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
اس موقع پر حضرت درخواستیؒ  کی دینی و قومی خدمات پر خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ اپنے دور کے ولیٔ کامل اور مجاہد عالمِ دین تھے جنہوں نے ساری زندگی نفاذِ شریعت اور تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد کے لیے وقف کر دی اور بڑھاپے کے باوجود وہ علماء اور کارکنوں کو نفاذِ اسلام کی جدوجہد کے لیے مسلسل تیار کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت درخواستیؒ کی وفات سے ہم ایک خدا ترس بزرگ اور شفیق راہنما سے محروم ہو گئے ہیں۔ وہ ہمارے عظیم اسلاف کی نشانی تھے اور علم و فضل کی قدیم روایات کے امین تھے۔ حضرت درخواستیؒ اپنی طرز کے واحد بزرگ تھے اور اب مدتوں ان کا ثانی نہیں مل سکے گا۔
اس موقع پر حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ اور تحریکِ ختمِ نبوت گلاسگو کے کارکن جناب محمد علی جاوید مرحوم کو ایصالِ ثواب کے لیے قرآن کریم ختم کیا گیا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔

گلاسگو میں ’’پاکستان اسلامائزیشن فورم‘‘ کا قیام

برطانیہ کے شہر گلاسگو میں پاکستانی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے متعدد راہنماؤں نے پاکستان میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد سے تعاون، اور عالمی سطح پر اسلام اور پاکستان کے خلاف پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے ’’پاکستان اسلامائزیشن فورم‘‘ قائم کیا ہے۔ اس سلسلہ میں گزشتہ روز مرکزی جامع مسجد گلاسگو میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے کی۔ 
اجلاس میں وطنِ عزیز پاکستان میں نفاذِ اسلام کے سلسلہ میں اب تک کیے جانے والے اقدامات کے خاتمہ کے لیے مغربی لابیوں کے دباؤ کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور طے پایا کہ مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کو اس سلسلہ میں صحیح حالات سے باخبر رکھنے اور اسلام اور پاکستان کے بارے میں مخالف لابیوں کے منفی پراپیگنڈا کا جواب دینے کے لیے منظم جدوجہد کی جائے گی اور پاکستان کی دینی و سیاسی جماعتوں کو نفاذِ اسلام کی مشترکہ جدوجہد کے لیے تیار کرنے کی محنت کی جائے گی۔
اس مقصد کے لیے مولانا مفتی مقبول احمد کی سربراہی میں ’’پاکستان اسلامائزیشن فورم‘‘ قائم کیا گیا جس کا ہیڈکوارٹر گلاسگو میں ہو گا اور اس کے بنیادی ارکان میں مولانا زاہد الراشدی، چوہدری محمد یعقوب، فضل اکبر محمود، حاجی محمد صادق، حاجی صابر علی اور حاجی غلام مصطفٰی وائیں شامل ہیں۔ فورم کے سربراہ مولانا مفتی مقبول احمد نے اس موقع پر بتایا کہ اس سلسلہ میں گلاسگو میں ستمبر کے آخر میں نظامِ شریعت کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے تجاویز اور سفارشات کو عملی شکل دی جائے گی، ان شاء اللہ تعالٰی۔

پاکستان کے دینی و سیاسی راہنماؤں کے نام ایک اہم مراسلہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

باسمہٖ تعالٰی
بگرامی خدمت _________ زید مجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ مزاج گرامی؟
گزارش ہے کہ روزنامہ جنگ لندن ۲۴ اگست ۱۹۹۴ء کی ایک خبر کے مطابق پاکستان کی قومی اسمبلی نے ملک کے دستور پر نظرثانی کے لیے خصوصی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں آنجناب کی توجہ اس پہلو کی طرف مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان پر ایک عرصہ سے بیرونی قوتوں اور لابیوں کی طرف سے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ پاکستان میں اسلامائزیشن کے حوالہ سے اب تک ہونے والے اقدامات پر نظرثانی کی جائے اور ملک کو ایک سیکولر ریاست قرار دے کر اس کا رشتہ مکمل طور پر ویسٹرن سولائزیشن کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کے اندر بھی سیاسی کارکنوں اور دانشوروں کی ایک مضبوط لابی منظم کام کر رہی ہے جو حکومت اور اپوزیشن دونوں میں یکساں طور پر مؤثر اور متحرک ہے، جبکہ دینی سیاسی جماعتوں کا خلفشار اور باہمی بے اعتمادی اور عدمِ رابطہ کی فضا ان لابیوں کے لیے خاصی معاون ثابت ہو رہی ہے۔
اس پس منظر میں آٹھویں آئینی ترمیم سمیت ملک کے دستور پر مکمل نظرثانی کے لیے قومی اسمبلی میں خصوصی کمیٹی کا قیام یقیناً خطرات سے خالی نہیں ہے اور دینی سیاسی جماعتوں کو اس صورتحال پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔
جہاں تک دستورِ پاکستان پر نظرثانی کا مسئلہ ہے اس کی ضرورت بلاشبہ موجود ہے کیونکہ دستور ملک میں مکمل اسلامی نظام کے نفاذ کی ضمانت دینے کے ساتھ ساتھ برطانوی استعمار کے ورثہ کے طور پر مسلط اس نو آبادیاتی نظام کا تحفظ بھی کر رہا ہے جو قرآن و سنت کی غیر مشروط بالادستی اور اسلامی نظام کے مکمل نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لیے میری تجویز یہ ہے کہ دینی و سیاسی جماعتیں مشترکہ طور پر دینی و آئینی ماہرین کی کمیٹی قائم کر کے اس سلسلہ میں دستور کے تضادات و ابہامات کی نشاندہی کریں اور ان کو دور کرنے کے لیے مشترکہ دستوری سفارشات پارلیمنٹ میں پیش کریں تاکہ وہ پاکستان کے اسلامی تشخص کے تحفظ اور اسلام کی عملداری کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داری صحیح طور پر ادا کر سکیں۔ مجھے امید ہے کہ آنجناب ان گزارشات سے اتفاق کرتے ہوئے اس سمت عملی پیشرفت کی بھی کوئی صورت نکالیں گے۔
بے حد شکریہ، والسلام
ابوعمار زاھد الراشدی
چیئرمین ورلڈ اسلامک فورم

نومبر ۱۹۹۴ء

مسلم ممالک میں ریاستی جبر کا شکار دینی تحریکاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
شاہ ولی اللہؒ، ایک تاریخ ساز شخصیتذوالفقار علی ایم اے
نئی نسل کی فکری اصلاح اور ذہنی تربیت کی اہمیتڈاکٹر محمود احمد غازی
غیر اسلامی ماحول میں اسلامی تشخصپروفیسر ڈاکٹر سید سلیمان ندوی
ہندو صحائف میں جناب نبی اکرم ﷺ کے بارے میں پیش گوئیاںداؤد عزیز
آہ! مولانا محمد عبد اللہ درخواستی نور اللہ مرقدہٗمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا محمد سعید الرحمان علویؒ اور دیگر مرحومینمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ریشمی رومال تحریک کا اصل نام برلن پلان تھاپروفیسر اولف ثمل
مغربی مسلمانوں کے مسائل ۔ علماء کیلئے چیلنجمولانا مجاہد الاسلام قاسمی
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی یاد میں لندن اور برمنگھم میں تقریباتادارہ
گلاسگو میں نظامِ شریعت کانفرنسادارہ
ورلڈ اسلامک کی مرکزی کونسل کا سالانہ اجلاسادارہ
اخبار و آثارادارہ
وفاقی وزارتِ تعلیم کا افسوسناک فیصلہادارہ

مسلم ممالک میں ریاستی جبر کا شکار دینی تحریکات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

روزنامہ جنگ لاہور ۲۲ اکتوبر ۱۹۹۴ء کی ایک خبر کے مطابق مراکش کے دارالحکومت رباط میں ۴۱ مسلم ممالک کے وزرائے مذہبی امو رکی دو روزہ کانفرنس کے شرکاء نے ایک قرارداد کے ذریعہ مذہبی جنونیت اور کٹرپن کی مخالفت کی ہے اور اسلامی ممالک پر زور دیا ہے کہ اسلامی ثقافت کو فروغ دیں اور اسلام کی حقیقی تعلیمات کو پھیلائیں۔

مذہبی جنونیت اور کٹرپن کے خلاف کافی عرصہ سے منظم مہم چلائی جا رہی ہے جس میں مغربی ممالک کی حکومتیں، لابیاں اور ذرائع ابلاغ پیش پیش ہیں اور بنیاد پرستی کی مخالفت کے نام پر مسلم ممالک میں دینی بیداری اور اسلامی نظام کے نفاذ کی تحریکات کو ہدف تنقید بنا رہی ہیں، جبکہ مسلم ممالک کی حکومتیں اور سیکولر لابیاں بھی اس مہم میں ان کے ساتھ شریک ہیں۔ اس طرح عالمی سطح پر کمیونزم اور مغربی جمہوریت کی سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہوگیا ہے جس میں ایک طرف عالم اسلام کی دینی تحریکات ہیں جو مسلم معاشرہ میں قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی مکمل عملداری کے لیے سرگرم عمل ہیں اور دوسری طرف دنیا بھر کی غیر مسلم اور مسلم حکومتیں اور لابیاں ہیں جو اسلامی بیداری کی تحریکات کو بنیاد پرست، جنونی اور کٹرپن کی حامل قرار دے کر ان کی مخالفت اور کردار کشی کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔

عالم اسلام کی صورتحال یہ ہے کہ بیشتر مسلم ممالک میں دینی جماعتیں اور عوام اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد میں مصروف ہیں جنہیں سب سے زیادہ اپنے ملک کے مسلم حکمرانوں کی مخالفت کا سامنا ہے۔ اور بعض ممالک میں دینی تحریکات ریاستی جبر اور تشدد کا مسلسل نشانہ بنی ہوئی ہیں جن میں مصر، شام، تیونس اور الجزائر بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اور اب سعودی عرب میں سرکردہ علماء کرام اور ان کے رفقاء کی گرفتاریوں نے اس صورتحال کو اور زیادہ افسوسناک بنا دیا ہے۔ اس وقت تک حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق سعودی عرب میں الشیخ سلمان العودہ اور الشیخ سفر الحوالی جیسے سرکردہ علماء کرام صرف اس جرم میں پابند سلاسل ہیں کہ وہ عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک پر امریکہ کی بالادستی کی مخالفت کر رہے ہیں اور بادشاہت کی بجائے قرآن و سنت کے مطابق شرعی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جبکہ شام میں علماء کی ایک بڑی تعداد جیلوں میں بند ہے اور بہت سے سرکردہ علماء کرام جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی طرح مصر میں علماء اور دینی کارکنوں پر زندگی تنگ کر دی گئی ہے۔ اور الجزائر کی صورتحال تو عالمی ضمیر کے لیے چیلنج کی حیثیت اختیار کر گئی ہے جہاں اسلامی قوتوں نے تشدد اور طاقت کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے الیکشن اور ووٹ کا راستہ اپنایا اور انتخابات میں اکثریت حاصل کر لی مگر ووٹ کے اس فیصلہ کو گولی کی قوت کے ذریعہ مسترد کر دیا گیا۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کا شب و روز ڈھنڈورا پیٹنے والی مغربی حکومتیں اور لابیاں الجزائر کے عوام کے جمہوری فیصلہ اور انسانی حقوق کے کھلم کھلا پامالی پر نہ صرف خاموش تماشائی ہیں بلکہ اپنا وزن گولی اور طاقت کے پلڑے میں ڈالے ہوئے ہیں ۔

اس پس منظر میں جب ہم مسلم ممالک کے وزرائے مذہبی امور کو مذہبی جنونیت اور کٹرپن کی مخالفت میں متفق دیکھتے ہیں تو ہمیں وہ اسلام اور عالم اسلام کی تحریکات کے خلاف مغربی ممالک کی وکالت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہم بذات خود نفاذ اسلام کی جدوجہد کو تشدد اور طاقت کے ذریعہ آگے بڑھانے کے حق میں نہیں ہیں اور منطق و استدلال اور رائے عامہ کی قوت کے صحیح استعمال کو ہی غلبۂ اسلام کے لیے صحیح اور محفوظ ذریعہ خیال کرتے ہیں۔ لیکن ہم رباط میں جمع ہونے والے وزرائے مذہبی امور سے یہ ضرور پوچھنا چاہتے ہیں کہ جب اسلام کے غلبہ و نفاذ کی پر امن تحریکات کا حشر الجزائر کی طرح ہوگا اور مسلم عوام کے اکثریتی فیصلہ کو گولی کی طاقت سے مسترد کر کے انہیں غیر اسلامی نظام کے تحت زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جائے گا تو اس ریاستی جبر کے ردعمل کو آخر کس طرح پر امن رکھا جا سکے گا؟ ہم دیانتداری کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ بعض مسلم ممالک کی دینی تحریکات میں اگر تشدد کا عنصر داخل ہوگیا ہے تو یہ ان ممالک کی حکومتوں کے ناروا طرز عمل اور ریاستی جبر کا فطری ردعمل ہے جس پر دینی تحریکات کو کوسنے کی بجائے ان مسلم ممالک کی حکومتوں کو اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

مسلم ممالک کے حکمران نوشتۂ دیوار پڑھیں اور مغربی استعمار کی وکالت کرنے کی بجائے مسلم عوام کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے مغرب کے نوآبادیاتی استعماری نظام سے نجات اور قرآن و سنت کے نظام کے نفاذ کا اہتمام کریں، اور اپنے مغربی آقاؤں کی اس تاریخ کو یاد رکھیں کہ وقت آنے پر یہ ایران کے رضا شاہ پہلوی اور فلپائن کے مارکوس جیسے وفاداروں کی آہوں اور سسکیوں پر توجہ دینے کا تکلف بھی نہیں کیا کرتے۔

شاہ ولی اللہؒ، ایک تاریخ ساز شخصیت

ذوالفقار علی ایم اے

شاہ ولی اللہ وہ نادر روزگار شخصیت ہیں جن کی تعلیمات سے رہتی دنیا تک انسانیت مستفیض ہوتی رہے گی۔ انبیاء علیہم السلام کے بعد دنیا میں کم ہی ایسی شخصیات پائی گئی ہیں جن کے افکار نے دنیا سے اپنی حقیقت منوائی ہو۔ عالمِ اسلام میں آپ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے شریعت کا فلسفہ مدون کیا اور عقائد و اعمال کی حکیمانہ تشریح کی اور اسرار و رموز کو اور کلی و جزوی احکام کو فلسفہ کے ساتھ اس طرح بیان کیا کہ شریعت با آسانی سمجھ آ جاتی ہے۔
آپ کے والد محترم شاہ عبد الرحیم بھی جید عالمِ دین تھے۔ فتاوٰی عالمگیری کی نظرثانی اور اصلاح کا کام آپ نے ہی کیا تھا اور مدرسہ رحیمیہ کے بانی آپ ہی تھے۔
شاہ صاحب کے صاحبزادوں نے بھی اپنے باپ اور دادا کی تقلید میں کام کرتے ہوئے نام پایا ہے۔ شاہ عبد العزیز، شاہ رفیع الدین، شاہ عبد القادر اپنے وقت کے مشہور مفسر و محدث ہوئے، جبکہ چوتھے بیٹے شاہ عبد الغنی خود تو مشہور نہ ہوئے مگر آپ کے صاحبزادے شاہ اسماعیل شہید نے سکھوں کے خلاف جہاد شروع کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی اور بالاکوٹ میں شہید ہوئے۔

شاہ صاحب کے کارنامے

شاہ صاحب نے ۱۱۴۴ھ میں مکہ مکرمہ میں خواب دیکھا تھا جس میں آپ کو یہ بشارت دی گئی تھی کہ ہندوستان میں آپ کی مساعی جمیلہ سے مسلمانوں کے اندر پائے جانے والے مفاسد کا تدارک ہو گا اور دینی و سیاسی امامت آپ کو ملے گی۔
(۱) آپ نے سب سے پہلے قرآن مجید کا فارسی میں ترجمہ ’’فتح الرحمان‘‘ کیا۔
(۲) آپ نے تقلید کے بجائے اجتہاد کی راہ اپنائی۔
(۳) امت کے مختلف طبقات کی اصلاح کے لیے کوشش شروع کر دی۔
(۴) حدیث کے احیاء کے لیے مدرسہ رحیمیہ میں کام شروع کیا اور یہ مدرسہ برصغیر میں اولین دارالحدیث کہلایا۔
(۵) اسرائیلیات اور ضعیف روایات کو ترک کر کے کتاب و سنت پر عمل کرنے کی ترغیب دی۔
(۶) آپ نے فقہ میں اجتہاد کو ہر دور میں فرضِ کفایہ قرار دیا اور جامد و اندھی تقلید کی مذمت کی۔
(۷) مختلف فقہی مسالک میں صلح اور تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی، فقہا و صوفیا میں صلح کرائی، اور فقہائے محدثین کا ایک گروہ تیار کیا۔
(۸) آپ نے شیعہ و سنی اختلاف کو ختم کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی۔ آپ نے عالی سنیوں کے تشدد اور شیعوں کی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے ’’ازالۃ الخفا من خلافۃ الخلفا‘‘ تحریر کی۔
(۹) وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے مسئلہ پر اختلاف کے سبب شریعت و تصوف میں تطبیق پیدا کی۔ آپ نے مذہب کی ’’رسوم‘‘ کے بجائے مذہب کی اصل روح پر زور دیا۔

سیاسی نظریات

شاہ صاحب نے اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ ساتھ اہلِ سیاست کو بھی اصلاح کی ترغیب دی اور خود سیاست سے باہر رہ کر اہلِ سیاست کو متاثر کیا۔ آپ نے نجیب الدولہ کو سیاسی لحاظ سے مضبوط کیا اور اسلام کے دفاع کی ترغیب دی۔ آپ نے مرہٹوں کے بڑھتے ہوئے عزائم کو خاکستر کرنے کے لیے احمد شاہ ابدالی کو دعوت دی جس نے پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کو شکست فاش دی۔ آپ مرکزیت اور متحدہ ہندوستان کے قائل تھے۔ اس کے لیے آپ نے تجاویز اور نیا دستور پیش کیا۔ آپ نے عدل و انصاف کے رائج کرنے اور تمام مسلمانوں کو یکساں حقوق عطا کرنے کے داعی تھے۔ کیوں نہ ہوتے کہ آپ کی رگوں میں فاروقی خون دوڑتا تھا۔

مخالفت و ابتلا

اہلِ حق کو مخالفت اور ابتلا کا جس طرح سامنا کرنا پڑتا ہے، شاہ ولی اللہ بھی اس سے نہ بچ سکے۔ قرآن مجید کے ترجمہ کرنے کے سبب شہر کے علماء آپ کے مخالف ہو گئے اور فتوٰی لگا کر قتل کرنے کے درپے ہو گئے۔ جامع مسجد فتح پور دہلی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ بے پناہ ہجوم آپ پر چڑھ دوڑا، خوش قسمتی سے وہاں سے بچ نکلے۔ بعد میں حالات سے پریشان ہو کر مکہ مکرمہ چلے گئے، کچھ عرصہ بعد واپس آئے تو نجف علی خان نے ہاتھوں کو بے کار کروا دیا تاکہ کچھ لکھ نہ سکھیں۔
آپ نے اپنے پیچھے ۴۳ عدد مشہور و معروف کتب چھوڑیں اور چار عالم و فاضل بیٹے امت کو ترکے میں دیے۔

نئی نسل کی فکری اصلاح اور ذہنی تربیت کی اہمیت

ڈاکٹر محمود احمد غازی

(۶ اگست ۱۹۹۴ء کو اسلامک کلچرل سنٹر ریجنٹ پارک لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے دوسرے سالانہ تعلیمی سیمینار سے دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمود احمد غازی کا خطاب)۔

آج دنیائے اسلام جس افراتفری، بے مقصدیت اور انحطاط کا شکار ہے اس کی مثال ماضی کےکسی بحران میں نہیں ملتی۔ اسلامی تاریخ کی شاید ہی کوئی صدی ایسی گزری ہو جس میں مسلمانوں کو کسی بڑی آزمائش اور بحران سے دوچار ہونا نہ پڑا ہو، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان ہر آزمائش اور بحران میں سرخرو ہوئے اور بڑی کامیابی سے اس سے عہدہ برآ ہوئے۔یونانیوّں کے علوم و فنون کے استیلا اور غلبہ کا مسئلہ ہو، تاتاریوں کی یورش ہو، ہندوستان میں ہندو اساطیر کے زیر اثر غیر اسلامی تصوف کا عروج ہو، ان سب مسائل کا مسلمان اکابر و عوام نے بڑی کامیابی سے سامنا کیا۔ لیکن مغربی تہذیب کا غلبہ ایسا وسیع الاطراف اور کثیر الجہات بحران لے کر آیا ہے کہ جس سے عہدہ برآ ہونے کی کوئی صورت ابھی تک واضح نہیں ہوئی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی کے سارے مسائل و مشکلات زندگی کے کسی ایک پہلو پر اثرانداز ہوتے تھے اور زندگی کے دوسرے پہلو اس سے محفوظ رہتے تھے۔ یونانیوں کے علوم کا فتنہ اہلِ علم کے ایک بہت ہی محدود طبقہ میں منحصر تھا، جس کی تعداد امت میں شاید ایک فی ہزار بلکہ ایک فی لاکھ بھی نہ ہو۔ امت کے بقیہ افراد اس سے بالکل لاتعلق اور بے زار رہے اور یوں اس فتنہ کے اثرات سے عام آدمی ذرہ برابر متاثر نہ ہوا۔ یہی حال بقیہ تمام بحرانوں کا ہوا۔ اس کے برعکس مغربی تہذیب و تمدن کا لایا ہوا بحران ہمہ جہت اور کثیر الاطراف ہے۔ اس کے نتیجہ میں مسلمان سیاسی طور پر کمزور، عسکری طور پر شکست خوردہ، معاشی طور پر محتاج، فکری طور پر غلام، تہذیبی طور پر مغرب کے طفیلی، اور تمدنی طور پر استعمار کے حاشیہ نشین بن کر رہ گئے ہیں۔ ان میں سے ہر پہلو دوسرے پہلو پر اثر انداز ہوتا ہے اور یوں صورتحال دن بدن بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔
آج حالت یہ ہے کہ سیاسی کمزوری کے نتیجہ میں عسکری کمزوری پیدا ہو رہی ہے، اور عسکری کمزوری کا نتیجہ معاشی بدحالی اور اقتصادی غلامی کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔ اقتصادی غلامی سے ذہنی مرعوبیت پیدا ہو رہی ہے، جس سے فکری آزادی کے سارے تصورات مٹتے چلے جا رہے ہیں۔ اور جوں جوں فکری غلامی کی جڑیں گہری ہو رہی ہیں، ہم ثقافتی اور تہذیبی میدانوں میں تیزی سے مغرب کے حاشیہ نشین اور نقال بنتے جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ حاشیہ نشینوں اور نقالوں اور طفیلیوں میں سیاسی قوت پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔
اس صورتحال میں یہ امر بڑا اہم ہے کہ کام کا آغاز کہاں سے ہو۔ گزشتہ پچاس ساٹھ سال کے دوران سارے ممکنہ نسخے آزمائے گئے ہیں لیکن صورتحال روز بروز ابتری کی طرف مائل ہے۔ مغرب کے سیکولر جمہوری نظام سے لے کر ترقی پذیر معاشیات کے سارے گر اپنائے گئے لیکن نتیجہ جو کچھ نکلا وہ سب کے سامنے ہے۔
حضرت امام مالکؒ نے بہت خوب فرمایا تھا ’’لا یصلح اٰخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولھا‘‘۔ سرکاری دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے فکری اصلاح فرمائی، لوگوں کے ذہن بدلے، غلط تصورات اور عقائد کو لوگوں کے ذہنوں سے نکالا، اور پھر ایک ایک ایک کر کے دوسرے امور کی اصلاح فرمائی اور یوں ایک مکمل اسلامی زندگی وجود میں آئی۔
آج بھی آغازِ کار فکری اصلاح اور ذہنی تربیت ہی کے کام سے ہونا چاہیے، جس کے لیے سب سے پہلے تعلیم اور ابلاغ کے میدانوں میں کام کرنا ضروری ہے۔ جس طرح ہر دور کی ایک زبان، ایک عرف اور محاورہ ہوتا ہے، اسی طرح ہر دور کے علوم، فکری مسائل اور رکاوٹیں بھی الگ ہوتی ہیں۔ فکری اصلاح اور ذہنی تربیت کے کام میں ان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ خود ہمارے فقہاء کرام نے فقیہ کے لیے فقیہ النفس اور فقیہ الاجتماع ہونا ضروری قرار دیا ہے۔
ان حالات میں تعلیم و تربیت کا نظام اور نصاب سب سے اہم مسئلہ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ آج اہلِ علم کی ایسی نسل درکار ہے جو دورِ جدید کے علوم و مسائل اور معاصر افکار و حوادث پر گہری ناقدانہ بصیرت کے ساتھ ساتھ اسلامی علوم کے شناور ہوں۔ جس دور اور علاقہ میں اسلام کے نفاذ کی بات کی جائے گی، وہاں اس دور اور علاقہ کی ذہنی ساخت اور فکری الجھنوں کو سمجھے اور صاف کیے بغیر اسلام کی بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔
بین الاقوامی یونیورسٹی کا قیام اسی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے عمل میں لایا گیا ہے۔ اس میں جدید علوم کے براہ راست تنقیدی مطالعہ کے ساتھ ساتھ اسلامی علوم، حدیث، تفسیر، فقہ، کلام وغیرہ میں مہارت پیدا کرائی جاتی ہے۔ یہ تجربہ بڑا حوصلہ افزا ہے اور اس کے ان شاء اللہ دیرپا اور انقلابی اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن یہ ایک طویل المیعاد کام ہے اور اس کے نتائج سامنے آنے میں وقت لگے گا۔ اس لیے فوری اور قلیل المیعاد نوعیت کے منصوبوں کے لیے دعوۃ اکیڈمی اور شریعہ اکیڈمی کے نام سے دو ادارے قائم کیے گئے ہیں جو مختصر دورانیے کے بہت سے تربیتی پروگرام پیش کرتے ہیں۔ ان اداروں کے زیرانتظام متعدد خط و کتابت کورسز بھی شروع کیے گئے ہیں جن میں اب تک بیس بائیس ہزار افراد گھر بیٹھے شرکت کر چکے ہیں۔ اب ان کا دائرہ بیرونی ممالک تک پھیلایا جا رہا ہے۔ اسلام کے لیے جگہ جگہ علاقائی مراکز قائم کیے جائیں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس سلسلہ کا پہلا علاقائی مرکز ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام نوٹنگھم میں شروع ہوا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالٰی اس کوشش کو کامیاب، مقبول اور با اثر بنائے۔

غیر اسلامی ماحول میں اسلامی تشخص

پروفیسر ڈاکٹر سید سلیمان ندوی

(۶ اگست ۱۹۹۴ء کو اسلامک کلچرل سنٹر ریجنٹ پارک لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے دوسرے سالانہ تعلیمی سیمینار سے شعبہ اسلامیہ ڈربن یونیورسٹی (جنوبی افریقہ) کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سید سلیمان ندوی کا خطاب)

آپ حضرات نے جس زہریلے ماحول میں سکونت کا فیصلہ کیا ہے، اس میں اگر زہر کے اثرات سے بچنے کے لیے تریاق حاصل نہ کیا تو پھر آپ کے اسلامی تشخص کی موت یقینی ہے۔ آج کل تو مسلم ممالک میں بھی اسلامی ماحول کا قائم رکھنا محال ہو رہا ہے، چہ جائیکہ غیرمسلم ممالک میں۔ اس لیے اگر بحیثیت مسلمان کے یہاں رہنا ہے تو پھر اس کے لیے جدوجہد کرنی ہو گی، اس ماحول کے مناسب تعلیم و تربیت کا نظام قائم کرنا ہو گا۔
مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ اس مجلس میں نوجوان یا اسکول و کالج کے طلبا موجود نہیں ہیں۔ جن کی تعلیم و تربیت کے نظام کے سلسلہ میں ہم گفتگو کر رہے ہیں، وہی لوگ یہاں موجود نہیں۔ جن کے مستقبل کا ہم فیصلہ کر رہے ہیں وہی لوگ جب یہاں موجود نہیں تو کس طرح اس کا نظم ہو گا۔
یہاں کی وہ نسل جو یہاں پیدا ہوئی ہے اس کی مادری زبان تو اب انگریزی ہے۔ آپ حضرات نے اگر ان سے انگریزی میں رابطہ نہیں کیا تو آپ کے اور ان کے درمیان کوئی رابطہ قائم نہ ہو گا۔ ہمارے علما اور مدرسہ کے معلمین کے لیے ضروری ہے کہ انگریزی سیکھیں۔ اللہ تعالٰی نے بھی اس کا اہتمام فرمایا کہ جو رسول بھی کسی قوم کی طرف مبعوث کیا اس قوم کی زبان کا علم بھی اس رسول کو دیا تاکہ قوم کو اس کی زبان میں تعلیم و ہدایت دیں۔ یہ تو معمولی سمجھ کی بات ہے کہ جن لوگوں سے بھی گفتگو کرنی ہے ان کی زبان سیکھنا پڑے گی۔ علما اور نوجوانوں کے درمیان فاصلہ و بُعد بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ نوجوان علما کی زبان نہیں سمجھتے اور علما نوجوانوں کی زبان  نہیں سمجھتے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اسلامی تعلیمات اور مدرسہ میں دینیات کے لیے انگریزی زبان کا اہتمام کیا جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے اس کا سامنا کرنا ہو گا۔
جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے ایک کان میں اذان اور ایک کان میں اقامت کہی جاتی ہے۔ اس عمل سے ماں باپ یہ ظاہر کرتے ہیں اور اللہ کے سامنے عہد کرتے ہیں کہ اس بچہ کو مسلمان رکھنا ہے اور یہ بچہ مسلمان ہے۔ پھر اس کے بعد والدین اس کا نام بھی عبد اللہ یا عبد المجید یا جلیل رکھتے ہیں۔ پھر اس عمل سے دوبارہ اس کا اظہار ہوتا ہے کہ جو نام ہم نے دیا ہے وہ اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ یہ بچہ مسلمان ہے۔ یعنی اسلامی تشخص کے اظہار کا یہ بھی ذریعہ ہے۔ غرض اسلامی تشخص کے قیام کی بنیاد پیدائش کے وقت سے ہی پڑ جاتی ہے۔ اگر بچے کو مسلمان رکھنا ہے تو اس تشخص کو قائم رکھنے کے لیے اور اس کو قوی کرنے کے لیے بچوں اور نوجوانوں کی دینی و فکری تربیت اسلامی کرنی ہو گی۔
تعلیم و تربیت کی پہلی منزل وہ ہوتی ہے جب بچے کو پورا شعور نہیں ہوتا ہے اور بچہ بے چوں و چراں والدین کی بتائی ہوئی چیزوں کو قبول کر لیتا ہے اور اس کو صحیح سمجھتا ہے۔ اگر اس عمر کے بچہ کو یہ بتایا جائے کہ گدھا دراصل گھوڑا ہے تو وہ گدھے کو گھوڑا سمجھے گا لیکن شعور کے بعد فرق سمجھ جائے گا۔ بچوں کی تعلیم کا ایک دور وہ ہوتا ہے جب والدین بچہ کے ذہن میں اسلامی تعلیمات کو تکرار کر کے بٹھاتے ہیں، جس کو انگریزی میں Indoctrination کہتے ہیں۔ اس مرحلہ کے بعد بچے کا وہ دور آتا ہے جب وہ شعور حاصل کرتا ہے اور تعلیمات کو بے سمجھے بوجھے انڈوکٹریشن کے ذریعے قبول نہیں کرتا بلکہ سوالات کرتا ہے اور علمی الجھنوں کا حل طلب کرتا ہے۔ پھر یہی بچہ آگے بڑھ کر جوانی کی حدود میں قدم رکھتا ہے اور اسکول و یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے جاتا ہے۔ اب یہ نوجوان پہلی بار اسلامی لٹریچر کے مخالف لٹریچر کا مطالعہ کرتا ہے اور روزانہ غیر اسلامی ادب و تہذیب کا سامنا کرتا ہے۔ یہی وہ نازک مرحلہ ہے کہ اگر اس نوجوان کی صحیح اسلامی ذہنی و فکری تعلیم کی گئی تو راہ راست پر رہے گا ورنہ پھر ہاتھ سے نکل جائے گا۔
صرف تعلیم کافی نہیں، علم برائے علم بے کار ہے، جب تک کہ علم کے ساتھ اس کی صحیح ذہنی و فکری اسلامی تربیت نہ کی جائے۔ ذہن و فکر اور دل و نگاہ بدلنے کے لیے محنت کرنی پڑے گی۔ شاعرِ اسلام علامہ اقبال کے بقول ؎
خِرد نے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
صحیح اسلامی ذہنی و فکری تعلیم کے لیے صرف صحیح نصاب کا ہونا کافی نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں بنیادی کردار معلّم و استاذ کا ہے۔ نصاب کیسا ہی کمزور و ناقص ہو، اگر استاذ کی فکر و عقیدہ صحیح ہے تو طالب علم کے ذہن و فکر کو بھی صحیح غذا پہنچے گی۔ اس لیے ضرورت ہے کہ اسلامی دینی تعلیم کے معلمین کے لیے بھی تعلیم و تربیت کا نظام قائم کیا جائے تاکہ وقت و ماحول کے تقاضوں کے مطابق بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام ہو سکے۔ 
اگر آپ حضرات نے اسلامی تشخص کے تحفظ کے لیے جدوجہد نہیں کی تو برطانیہ میں مسلمان بحیثیت مسلمان باقی نہیں رہیں گے، اور آئندہ کا مؤرخ برطانیہ کے مسلمانوں کے لیے وہی فیصلہ دے گا جو اسپین و سسلی کے مسلمانوں کے لیے دیا۔ مسلمان باقی نہیں ہوں گے لیکن اسلام یقیناً کسی نہ کسی گوشہ میں باقی رہے گا ؎
اپنی مِلت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ
نوجوانوں سے قریب ہونے کی ضرورت ہے، ان کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے، ان کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ ایسے دلچسپ تعلیمی پروگرام بنائیں جو مسلم نوجوانوں کے ذہن و فکر کو مطمئن کر سکیں۔ اور ان سے رابطہ قائم کرنے کے لیے انگریزی سیکھیں اور ذریعۂ تعلیم بھی انگریزی کو بنائیں۔ آپ چونکہ برطانیہ میں ہیں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ انگریزی سیکھیں، اگر آپ عرب میں ہوں تو عربی ذریعۂ اظہار و تعلیم ہو گا۔ اگر جرمنی میں ہوں گے تو جرمن ذریعۂ ربط و تعلیم ہو گی۔ اگر آپ نے غفلت برتی تو یہ مسلم نوجوان ہاتھ سے نکل جائے گا۔ کہیں یہاں کا حال بھی اسپین و سسلی کا نہ ہو اور اقبال جیسے شاعر کو برطانیہ کے ساحل سے گزرتے ہوئے کہیں وہ نہ کہنا پڑے جو اقبال نے سسلی کے پاس سے گزرتے ہوئے کہا تھا ؎
دیکھ لے دل کھول کے اے دیدہ خوں نابہ بار
وہ نظر آتا ہے تہذیبِ حجازی کا مزار

ہندو صحائف میں جناب نبی اکرم ﷺ کے بارے میں پیش گوئیاں

داؤد عزیز

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام انبیاء اور رسولوں پر فضیلت کی چند اہم ترین وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب کے برعکس آنے والے تمام زمانوں اور اقوام کے لیے مبعوث فرمایا گیا تھا۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء میں سے بیشتر، جن کا ذکر قرآن میں ہے، بنی اسرائیل سے تھے، جبکہ باقی اپنے اپنے زمانوں میں دنیا کے مختلف خطوں میں منصبِ رسالت سے سرفراز فرمائے گئے تھے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’ہم نے ہر قوم کی رہنمائی کے لیے پیغمبر بھیجے‘‘۔
یہ بات اہم ہے کہ تقریباً ہر نبی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت اور فضیلت کے مدنظر اپنی قوم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بارے میں آگاہ کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور دیگر مذہبی کتب میں تحریف کے باعث یہ پیش گوئیاں یا تو دھندلا گئیں اور یا پھر سرے سے ہی غائب کر دی گئیں۔ دنیا کے قدیم مذہبی صحائف میں یہ پیش گوئیاں ابھی بھی اہلِ نظر کے سامنے ہیں، لیکن اب چونکہ محض تراجم ہی دستیاب ہیں لہٰذا ان کو اتنا الجھا دیا گیا ہے کہ ایک عام ذہن کے لیے انہیں تلاش کرنا آسان کام نہیں رہا۔
مختلف زمانوں میں صاحبِ علم و نظر نے خاص طور سے اولڈ اور نیو ٹسٹامنٹ کو کھنگال کر تحریف شدہ کتب میں سے بھی چند پیش گوئیاں نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق دنیا کے سامنے رکھی ہیں، لیکن اتنی تحقیق کسی اور مذہب کی کتب کے بارے میں نہیں ہوئی۔ یہودی اور عیسائی مذاہب سے متعلق تحقیقات اگرچہ فطرت کے تقاضے کے عین مطابق ہیں کیونکہ قرآن کا بیشتر حصہ انہیں سے مخاطب ہے، لیکن دوسرے بڑے مذاہب کی کتب سے صرفِ نظر بھی دانائی نہیں جب کہ ان کے پیروکار بھی یہ دعوٰی کرتے ہوں کہ ان کی کتب بھی آسمانی کلام ہیں، حقیقت میں بائبل سے بھی پرانی مانی جاتی ہیں۔
ذرا غور فرمائیے کہ حیدرآباد دکن کے ضلع دولت پور میں ہزاروں برس قدیم اجنتا اور ایلورا کے غار ہیں جنہیں ہندو متبرک مانتے ہیں۔ ان میں ہزاروں سال پرانی تصاویر ہیں جو ہندومت کی چند دیومالائیں بیان کرتی ہیں۔ ان میں سے سولہواں غار ’’رنگ محل‘‘ کہلاتا ہے جس میں دشنو (خدا) کے دس اوتاروں (رسولوں) کی تصاویر بنی ہوئی ہیں۔ ان میں سے آخری یعنی دسویں اوتار کی صرف سواری کی تصویر ہے جس پر وہ بیٹھ کر آئے گا۔ یہ اس لیے کہ اس وقت ہندوؤں کے مطابق آخری اوتار کا ابھی ظہور نہیں ہوا تھا اور انہوں نے عالمِ کشف میں محض اس کی سواری دیکھی جسے تصویر میں محفوظ کر لیا۔ اس سواری کو وہ ’’کلکی دہان‘‘ یعنی کلکی اوتار کی سواری کہتے ہیں۔ یہ سواری اپنی شباہت میں ہوبہو مستند احادیث میں بیان کردہ سفرِ معراج کی سواری ’’براق‘‘ جیسی ہے۔ مزید یہ کہ کلکی اوتار کا مطلب ’’بت شکن‘‘ بنتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے علاوہ کسی پر پورا نہیں اترتا۔ مزید تصدیق کے لیے مدراس سے جاری ایک انگریزی روزنامہ ’’دی ہندو‘‘ کا سرورق دیکھا جا سکتا ہے جس کے مونوگرام میں ہاتھی کے ساتھ ’’کلکی دہان‘‘ کی تصویر موجود ہے۔
ہندوؤں کا دعوٰی ہے کہ ان کے پاس موجود ’’وید‘‘ انسانی تاریخ میں سب سے پرانا کلام ہے۔ وہ یہ کلام براہ راست خدا سے منسوب کرتے ہیں جس میں ادل بدل کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگرچہ وہ ذریعہ جس سے یہ کلام انسان تک پہنچا انہیں بھی نہیں معلوم، لیکن اپنے بقول یہ کلام ہزاروں سال سے ان کے سینوں میں محفوظ چلا آ رہا ہے اور اب سے محض دو صدیاں قبل ہی ان کو اکٹھا کر کے کتابی شکل دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں البیرونی، میکس ملر اور اے ڈیو بائیس کے نام اہمیت کے حامل ہیں جنہوں نے سالہا سال محنت کر کے سنسکرت سیکھی اور اس کالم کو کتابی شکل میں محفوظ کیا۔
اگرچہ اصل وید ایک ہی تھا لیکن آج چار وید ملتے ہیں۔ بعض ہندو محققین کے خیال میں چاروں میں سے ایک اصلی ہے، بعض چاروں ہی کو درست مانتے ہیں، اور بعض خیال کرتے ہیں کہ اصل وید چاروں میں  تقسیم ہو کر موجود ہے۔ ہندومت کی باقی کتب جیسے ’’پران‘‘، ’’براہمن‘‘ وغیرہ ہیں وہ محض ویدوں ہی کی تفسیریں ہیں اور انہیں ہندو براہ راست آسمانی نہیں مانتے۔
ان چاروں ویدوں کے بغور مطالعہ سے ایسے ایسے مضامین سامنے آتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ ان تمام مضامین میں سے محض سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہی اگر بیان کر دیا جائے تو باقی کے بارے میں کوئی وضاحت ضروری نہیں رہے گی۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ گرامی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے، اور بہت سے صفاتی ناموں میں سے ایک احمد بھی ہے، تو انہی دو ناموں کے چند حوالے درج ذیل ہیں۔ ترجمہ سنسکرت سے اردو میں ہے کیونکہ وید سنسکرت ہی میں موجود ہے۔
(۱) ’’اے محبوب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) میٹھی زبان والے، قربانی دینے والے، میں آپ کی قربانیوں کو وسیلہ بناتا ہوں۔‘‘ (رگ وید: کانڈ ۱، سوکت ۱۳ آیت ۳)
(۲) ’’عظیم محمد کی قوت میں اضافہ کے لیے اور پشان (ترجمہ مہدی) جو کہ عظیم حکمران ہے اس کی نعمت ہم بیان کرتے ہیں۔ اے کریم خدا، ہمیں تمام مشکلات سے نجات بخش اور مشکل راستوں سے ہمارا رتھ پار کرا دے۔‘‘ (رگ وید: ۱۔۱۸۔۱۹)
(۳) ’’میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو دیکھا ہے، سب سے زیادہ اولوالعزم اور مشہور جیسا کہ وہ جنت میں سب کے پیغمبر تھے۔‘‘ (رگ وید: ۱۔۱۸۔۱۹)
(۴) ’’وہ تمام علوم کا منبع احمد عظیم ترین شخصیت ہے۔ روشن سورج کی طرح اندھیروں کو دور بھگانے والا ہے۔ اس سراج منیر کو جان کر ہی موت کو جیتا جا سکتا ہے، نجات کا اور کوئی راستہ نہیں۔‘‘ (یجر وید: ۳۱۔۸)
(۵) ’’احمد نے سب سے پہلی قربانی دی اور سورج جیسا ہو گیا۔‘‘ (رگ وید: ۸۔۴، ۹۔۱۰)
(واضح رہے کہ قرآن کریم میں بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سراجاً منیرا یعنی چمکتا سورج کہا گیا ہے۔)
ان حوالہ جات میں ’’محمد‘‘ ترجمہ ہے لفظ ’’نراشنس‘‘ کا، جس کا سنسکر میں مطلب ’’انتہائی قابلِ تعریف شخصیت‘‘ ہے۔ اور ’’احمد‘‘ سنسکرت میں ’’احمدت‘‘ لکھا جاتا تھا جس میں ’’ت‘‘ اضافی لگتا ہے۔
اس کے علاوہ رگ وید ۱۔۱۶۳۔۱ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’’سمدرا دوت عربن‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ سنسکرت کی ڈکشنری کے مطابق ’’س‘‘ کا مطلب ’’ساتھ‘‘، ’’مدرا‘‘ کے معنی ’’مہر‘‘، اور ’’عربن‘‘ کے معنی ’’عرب‘‘ کے ہیں (ن اضافی آواز ہے)۔ پورا مطلب ’’مہر کے ساتھ عرب والا‘‘ بنتا ہے جو محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ویدوں میں موجود غالباً سب سے اہم پیش گوئی اتھرو وید میں موجود ہے۔ ترجمہ کے مطابق:
’’لوگو! سنو! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے درمیان مبعوث کیا جائے گا۔ اس مہابر کو ہم ساٹھ ہزار نوے (۶۰۰۹۰) دشمنوں سے پناہ میں لیں گے۔ اس کی سواری اونٹ ہو گی جس کے ساتھ بیس مادہ اونٹنیاں ہوں گی۔ جس کی عظمت آسمانوں کو بھی جھکا دے گی۔ اس عظیم رشی (بزرگ) کو ۱۰۰ دینار، ۱۰ مالائیں، ۳۰۰ گھوڑے اور ۱۰۰۰۰ گائیں دی گئی ہیں۔‘‘ (اتھرو وید: ۲۰۔۱۲۷، ۱، ۲، ۳)
ان منتروں کے ترجمے کی بابت پنڈت وید پرکاش اپادھیائے، جو اسلام پر عربی زبان سیکھ کر تحقیق کر چکے ہیں، اپنی کتاب ’’نراشنس‘‘ اور ’’انتم رشی‘‘ میں کئی ابواب کی سیر حاصل بحث کے بعد ثابت کرتے ہیں کہ ۱۰۰ دینار سے مراد اصحابِ صفہ، ۱۰ مالاؤں سے مراد عشرہ مبشرہ، ۳۳۰ گھوڑے غزوہ بدر کے مجاہدین، اور ۱۰۰۰۰ گائیوں سے مراد فتح مکہ کا لشکر ہے۔ راقم کے خیال کے مطابق ۶۰۰۹۰ دشمن غالباً آغازِ اسلام میں مشرکین کی تعداد ظاہر کرتے ہیں (واللہ اعلم بالصواب)۔
قصہ مختصر کہ چاروں ویدوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اکتیس (۳۱) مرتبہ ’’نراشنس‘‘ کے نام سے مذکور ہے اور بیان کردہ خصوصیات سوائے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی پر کلّی یا جزوی پوری نہیں اترتیں۔
یہ تو تھا ویدوں کا حوالہ جنہیں ہندومت ’’سیدھا خدا سے اترا‘‘ مانتا ہے اور جس میں تحریف ممکن نہیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ویدوں کی تفسیروں میں بھی مذکور ہے جو ’’انسانی کلام‘‘ ہے۔ اس کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
’’اسی دوران محمد نامی مقدس ملیچھ وہاں آئیں گے، اپنے ماننے والوں کے ساتھ ۔۔۔ راجا بھوج انہیں کہے گا، اے ریگستان کے باشندے، شیطان کو شکست دینے والے، معجزوں کے مالک ۔۔۔ تمہیں نمسکار ہے۔ مجھے پناہ میں آیا ہوا غلام سمجھو ۔۔۔ پتھر کی مورتی کی بابت محمد کہیں گے کہ یہ تو میرا جھوٹا کھا سکتی ہے اور ایسا ہی ایک معجزہ دکھا دیں گے۔ راجا بھوج بہت متعجب ہو گا اور ملیچھ دھرم میں اس کا اعتقاد ہو جائے گا۔‘‘ (بھوشیہ پران: ۳۔۳، ۵۔۱۶)
اصل سنسکرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جگہ لفظ ’’محامد‘‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ قدیم سنسکرت میں ملیچھ غیر آریہ نسل کے لیے استعمال ہوتا تھا نہ کہ ناپاکی کے لیے، جیسا کہ اب رواج پا چکا ہے۔ انہی اشلوکوں سے تھوڑا آگے کہا گیا ہے کہ
’’رات میں خدا کا قاصد آ کر راجا بھوج کو بتائے گا کہ ختنہ کروانے والا، چوٹی نہ رکھنے والا، داڑھی رکھنے والا اور پاک جانوروں کو غذا بنانے والا ہی خدا کا مقرب بندہ ہے۔‘‘
قارئین کرام! اگر اتنے واضح اشارات کے باوجود ہندو اپنے اصل پیشوا کو نہیں پہچان پائے تو محض اس لیے کہ ہزاروں سالوں سے ہندومت کے اجارہ داروں نے عوام کے لیے سنسکرت سیکھنے کی ممانعت کر رکھی تھی، اور سوائے برہمن کے کوئی اور ہندو ان کتب کو ہاتھ لگانا تو درکنار سن بھی نہیں سکتا تھا۔ اب بھارت میں سنسکرت کو عام کیا جا رہا ہے تو یہ حیرت انگیز معلومات بھی عام ہو رہی ہیں۔ نئی بھارتی نسل اب ’’پنڈت‘‘ کے ’فتنوں‘‘ سے خوفزدہ نہیں ہے اور یہ زبان سیکھ رہی ہے۔ جبھی بعض ہندو طبقات نے اب ان قطعات کو چھپانا شروع کر دیا ہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ بلکہ آریہ سماج نامی فرقہ تو سرے سے ہی ان کا انکاری ہو گیا ہے۔ گیتا پریس گورکھپور، جو مذہبی کتب کا سب سے بڑا پریس ہے، اب بھوشیہ پران کو پران ہی نہیں مانتا۔ لیکن سناتن دھرمی فرقہ جو کہ بھاری اکثریت میں ہے ان میں سے کچھ بھی چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ ’’سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے‘‘ کے مصداق وہ دن دور نہیں جب ساری دنیا رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت سے آشنا ہو جائے گی۔

آہ! مولانا محمد عبد اللہ درخواستی نور اللہ مرقدہٗ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان کے امیر حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ گزشتہ روز طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی عمر ۱۰۰ برس کے لگ بھگ تھی اور وہ ۱۹۶۲ء سے جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان کے امیر چلے آرہے تھے۔ مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ جنہیں پاکستان کے دینی و علمی حلقوں میں حضرت درخواستیؒ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، عالم اسلام کی ممتاز علمی شخصیات میں شمار ہوتے تھے اور جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے ساتھ بے پناہ شغف اور بے شمار احادیث زبانی یاد ہونے کے باعث انہیں حافظ الحدیث کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔

حضرت درخواستیؒ کا تعلق ضلع رحیم یار خان کی بستی ’’درخواست‘‘ سے تھا جس کے باعث وہ درخواستی کہلاتے تھے۔ انہوں نے دینی تعلیم پہلے اپنے گاؤں میں اور بعد میں دین پور شریف میں حاصل کی جو اپنے وقت کے ولیٔ کامل اور مجاہدِ تحریک آزادی حضرت خلیفہ غلام محمد دین پوریؒ کا مرکز تھا اور اب بھی ان کا خاندان اس روحانی مرکز کو آباد رکھے ہوئے ہے۔ حال ہی میں جرمن وزارت خارجہ کے ایک سابق ڈپٹی سیکرٹری نے اپنی یادداشتوں میں اس تحریک آزادی کا ذکر کیا ہے جو شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے منظم کی تھی اور جس کے تحت جرمن، جاپان، ترک اور افغان حکومتوں نے مل کر برطانوی استعمار سے برصغیر پاک و ہند کی آزادی کے لیے مجاہدینِ آزادی کی عملی امداد کا اہتمام کرنا تھا۔ لیکن قبل از وقت منصوبہ کے انکشاف کے باعث یہ تحریک ناکامی کا شکار ہوگئی تھی۔ دین پور شریف اس تحریک کے اہم مراکز میں سے تھا اور حضرت خلیفہ غلام محمدؒ کو تحریک کے راہنماؤں میں نمایاں مقام حاصل تھا۔ حضرت درخواستیؒ بھی اس تحریک کے کارکنوں میں سے تھے اور کبھی کبھی اس دور کے واقعات مزے لے لے کر سنایا کرتے تھے۔ یہ ان کا طالب علمی کا دور تھا لیکن اپنے شیخ و مربی حضرت خلیفہ غلام محمدؒ کے حوالہ سے تحریک آزادی کے کاموں میں بھی شریک رہتے تھے۔

حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ بنیادی طور پر تعلیم و تربیت کے میدان کے بزرگ تھے، انہوں نے ساری زندگی قرآن کریم اور حدیث رسولؐ کا درس دیا اور لاکھوں تشنگان علوم کو علوم نبوت سے سیراب کیا۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ روحانی تربیت اور ذکر اللہ کی تلقین ان کا خصوصی ذوق تھا اور بڑے بڑے علماء و مشائخ ان کی روحانی مجالس میں بیٹھنے کو سعادت سمجھتے تھے۔ حضرت درخواستیؒ کو میں نے سب سے پہلے ۱۹۶۰ء میں دیکھا جب وہ میرے حفظ قرآن کریم کی تکمیل پر ہمارے قصبہ گکھڑ ضلع گوجرانوالہ میں تشریف لائے اور میرا آخری سبق سننے کے ساتھ ساتھ ختم قرآن کریم کی تقریب سے ایمان افروز خطاب بھی فرمایا۔ اس کے بعد ان سے مسلسل تعلق رہا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ جمعیۃ علمائے اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے ان کے ساتھ خلوت و جلوت اور سفر و حضر میں سالہا سال تک رفاقت نصیب رہی۔ اور میں اسے اپنے لیے توشۂ آخرت سمجھتا ہوں کہ جماعتی، دینی و سیاسی معاملات میں آخر وقت تک مجھے ان کا اعتماد اور شفقت حاصل رہی۔

حضرت درخواستیؒ کو حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کی وفات کے بعد علماء کرام نے اپنی امارت کے لیے منتخب کیا اور وہ نظام العلماء پاکستان کے امیر چنے گئے جو ایوب خان مرحوم کے مارشل لاء کے دور میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کے باعث جمعیۃ علمائے اسلام کی جگہ مذہبی امور کی انجام دہی کے لیے قائم کی گئی تھی۔ اور پھر مارشل لاء کے خاتمہ کے بعد سیاسی جماعت کے طور پر جمعیۃ علمائے اسلام کی بحالی پر وہ اس کے امیر چنے گئے۔ ان کی امارت میں کام کرنے والوں میں مولانا مفتی محمودؒ، مولانا عبد الحقؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا عبید اللہ انورؒ، مولانا سید گل بادشاہؒ، مولانا سید محمد شاہؒ امروٹی، اور مولانا مفتی عبد القیومؒ پوپلزئی جیسے اکابر علماء شامل رہے ہیں جو مجالس میں ان کے ساتھ دو زانو بیٹھتے اور ان سے راہنمائی کے طالب ہوتے۔

۱۹۷۶ء کی بات ہے کہ جمعیۃ علمائے اسلام کے ایک حلقہ کی طرف سے تجویز آئی کہ حضرت درخواستیؒ کی علالت اور ضعف کے باعث انہیں جمعیۃ کا سرپرست بنا دیا جائے اور مولانا مفتی محمودؒ کو امیر منتخب کیا جائے۔ شیرانوالہ لاہور میں جمعیۃ کی جنرل کونسل کے کھلے اجلاس میں مولانا مفتی محمودؒ نے اس تجویز کی شدید مخالفت کی اور کہا کہ حضرت درخواستیؒ کی موجودگی میں ہم کسی اور کی امارت کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہ بات مولانا درخواستیؒ کی بزرگی اور راہنمائی پر اپنے دور کے اہل علم کے بھرپور اعتماد کا مظہر تھی اور ان کے علم و فضل کا اعتراف تھی۔

شدید علالت اور ضعف کے آخری چند سالوں کو چھوڑ کر حضرت درخواستیؒ پورے ملک میں متحرک رہتے تھے اور شاید ہی پاکستان اور بنگلہ دیش کا کوئی حصہ ایسا ہو جہاں انہوں نے بار بار علماء کے جلسوں اور پبلک اجتماعات سے خطاب نہ کیا ہو۔ وہ جہاں جاتے نفاذ اسلام اور تحفظ ختم نبوت کے لیے علماء اور کارکنوں کو تیار کرتے، ان سے کام کرنے کا عہد لیتے، نمایاں کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کی دستار بندی کرتے اور دینی مدارس و مکاتب کے قیام کی طرف لوگوں کو توجہ دلاتے تھے۔ وہ ایک دن میں دس دس اجتماعات سے خطاب کرتے اور اس طرح مسلسل سفر میں رہتے تھے کہ میرا جیسا نوجوان کارکن بھی چند دن سے زیادہ ان کا ساتھ نہیں دے پاتا تھا۔ ان کی زندگی کا مشن پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ، عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ اور قریہ قریہ دینی مدارس کا قیام تھا۔ وہ جہاں جاتے اور جس مجلس میں ہوتے ان کی گفتگو انہی مقاصد کے حوالہ سے ہوتی تھی۔ ان کا خطاب معروف معنوں میں سیاسی نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی مربوط گفتگو کا مزاج تھا، لیکن اس روحانی اور علمی شخصیت کا کمال یہ تھا کہ لوگ گھنٹوں بیٹھے ان کی غیر مربوط گفتگو کی چاشنی سے محظوظ ہوتے رہتے۔ بسا اوقات ساری ساری رات گزر جاتی اور جب وہ تقریر کے بعد دعا سے فارغ ہوتے تو پتہ چلتا کہ فجر کی اذان کا وقت ہوگیا ہے۔ وہ جھوم جھوم کر احادیث رسولؐ کی تلاوت کرتے تو ایک عجیب سماں کی کیفیت ہوتی، خود بھی روتے اور ساتھ حاضرین کو بھی رلاتے۔ وہ خود کہا کرتے تھے کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کرتا ہوں اور ان کی احادیث سناتا ہوں تو مجھے وقت کا ہوش نہیں رہتا، یہ ان کے عشقِ رسولؐ کی علامت تھی۔

حضرت درخواستیؒ میرے مشفق امیر تھے، انہوں نے مجھے ہمیشہ اپنی شفقتوں اور اعتماد سے نوازا لیکن میں ان کے ساتھ اس سے زیادہ وفا نہ کر سکا کہ جمعیۃ علمائے اسلام میں دھڑے بندیوں کے کئی دور آئے مگر میں ان کے علاوہ کسی اور کو اپنا امیر نہ مان سکا۔ شاید یہی ایک بات آخرت میں ان کے ساتھ رفاقت کی وجہ بن جائے، آمین۔ آج میرا امیر مجھ سے جدا ہوگیا ہے اور میں وطن سے دور بہت دور گلاسگو کی مرکزی جامع مسجد میں بیٹھا آنسو بہا رہا ہوں اور ان الفاظ کے ذریعے اپنے دل کا غم ہلکا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اے کاش وقت کے یہ بے رحم فاصلے درمیان میں نہ ہوتے اور میں ان کی آخری زیارت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

مولانا محمد سعید الرحمان علویؒ اور دیگر مرحومین

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

میرے پرانے ساتھی اور معروف صاحب قلم مولانا محمد سعید الرحمان علویؒ گزشتہ روز اچانک حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم مجلس احرار اور جمعیۃ علمائے اسلام کے بزرگ راہنما حضرت مولانا محمد رمضان علویؒ کے فرزند تھے۔ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں کئی سال تک طالب علمی کے دور میں ان سے رفاقت رہی، بعض اسباق میں ہم سبق بھی تھے، مطالعہ و تحریر کا ذوق طالب علمی کے دور میں ہی نمایاں تھا اور فراغت کے بعد ہفت روزہ خدام الدین، ترجمان اسلام اور چٹان میں ایک عرصہ تک کام کرتے رہے۔ ان کے مضامین قومی اخبارات میں بھی شائع ہوتے تھے، حساس اور مضطرب دل کے حامل تھے اور اپنے احساس و اضطراب کا اظہار دوٹوک انداز میں کر دیا کرتے تھے۔ کئی برسوں سے جامع مسجد دارالشفاء شاہ جمال کالونی لاہور میں خطابت کے فرائض سر انجام دے رہے تھے، متعدد تحریکات میں حصہ لیا اور جمعیۃ علماء اسلام میں بھی ایک دور میں خاصے متحرک رہے۔ ان کا اس طرح اچانک دنیا سے منہ موڑ جانا بے حد صدمہ کا باعث ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا الٰہ العالمین۔

ان کے علاوہ پاکستان سے میری غیر حاضری کے دوران متعدد بزرگ داغ مفارقت دے گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان میں مندرجہ ذیل حضرات بطور خاص قابل ذکر ہیں:

اللہ تعالیٰ ان سب کی مغفرت فرمائیں، ان کی حسنات قبول کریں، سیئات سے درگزر کریں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

ریشمی رومال تحریک کا اصل نام برلن پلان تھا

پروفیسر اولف ثمل

لاہور (پ ل) ریشمی رومال تحریک کا اصل نام ’’برلن پلان‘‘ تھا جو ۱۵ اگست ۱۹۱۵ء کو کابل میں جرمنی اور ترکی کی مدد سے تیار کیا گیا۔ ہندوستان کی آزادی کے اس منصوبے کی تشکیل میں راجہ مہندر پرتاب، مولانا برکت اللہ اور مولانا عبید اللہ سندھی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
یہ انکشاف جرمنی کی وزارتِ خارجہ کے ایک سابق ڈپٹی سیکرٹری اور برلن یونیورسٹی میں سیاسیات کے استاد پروفیسر اولف ثمل نے ایک خصوصی ملاقات میں کیا۔ پروفیسر اولف ثمل آج کل پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ہیں اور ’’برلن پلان‘‘ پر کتاب لکھ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ برلن پلان دراصل شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے ذہن کی اختراع تھی۔ اس منصوبے کے تحت جرمنی، ترکی اور افغانستان کے علاوہ روس، چین اور جاپان کی مدد سے ہندوستان کو آزاد کروانا تھا۔ تاہم مولانا محمود الحسن صرف جرمنی، ترکی اور افغانستان کے حکمرانوں کو راضی کر سکے۔ اس پلان کے لیے مالی امداد کراچی کے تاجر حاجی عبد اللہ ہارون نے فراہم کی تھی، جبکہ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان اور نواب وقار الملک نے بھی برلن پلان کے تحت بہت سا کام کیا۔
پروفیسر اولف ثمل کے مطابق:
  • ۱۵ اگست ۱۹۱۵ء کو کابل میں ہونے والے اجلاس میں جرمن وزارتِ خارجہ کے ایک افسر ڈاکٹر منیر بے، جرمن آرمی کے کیپٹن سینڈئر میئر، لیفٹیننٹ وان ہیٹنگ اور کیپٹن دیگز کے علاوہ ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کا ایک نمائندہ شامل تھا۔ اس اجلاس میں طے پایا کہ جرمنی قبائلی علاقوں میں فوجی تربیت کے کیمپ بنائے گا۔ نیز افغانستان کے راستے سے ساٹھ ہزار جرمن فوجی اور مالی امداد بھی فراہم کی جائے گی۔ نتیجے میں سلطنتِ عثمانیہ نہ صرف جرمنی کی حمایت کرے گی بلکہ سلطانِ ترکی برطانیہ کے خلاف اعلانِ جہاد کر دے گا۔ ترکی اور افغانستان کو یہ ضمانت دی گئی کہ ان کے خلاف جارحیت کی صورت میں جرمنی اور ہندوستان ان کا تحفظ کریں گے۔ اس اجلاس کے بعد ہندوستان کی جلاوطن حکومت تشکیل دی گئی جس کا صدر راجہ مہندر پرتاب، وزیراعظم مولانا برکت اللہ، وزیرخارجہ مولانا عبید اللہ سندھی، اور فیلڈ مارشل مولانا محمود الحسن کو بنایا گیا۔
  • ۲۶ مئی ۱۹۱۶ء کو عبید اللہ سندھی نے عبد الباری اور شجاع اللہ کو حتمی معاملات طے کرنے کے لیے جرمنی بھیجا لیکن روس میں ان دونوں کو گرفتار کر کے برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا۔
  • اس دوران کابل کے نواحی علاقے باغ بابر میں جرمن آرمی کے لیفٹیننٹ والکاٹ نے تربیت کیمپ قائم کر لیا، ایک روز وہ مجاہد بھرتی کرنے قبائلی علاقے میں آیا اور گرفتار ہو گیا، انگریزوں نے اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
  • مولانا عبید اللہ سندھی نے ریشمی رومالوں پر خفیہ پیغامات لکھ کر اپنے ساتھیوں کو ہندوستان بھیجے لیکن یہ رومال پکڑے گئے اور منصوبہ بے نقاب ہو گیا، سینکڑوں افراد گرفتار ہوئے۔
  • کابل کا حکمران امیر حبیب اللہ خوفزدہ ہو گیا اور یوں منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔
  • ۱۹۱۷ء میں انقلابِ روس کے بعد لینن نے مولانا عبید اللہ سندھی کو ماسکو بلایا اور ہندوستان کی آزادی کے لیے تعاون کی پیشکش کی۔
  • جرمنی نے بھی ایک دفعہ پھر رضامندی ظاہر کر دی لیکن کابل نے مدد سے انکار کر دیا۔
  • پروفیسر الف ثمل کے مطابق حاکمِ جدہ نے مولانا محمود الحسن کو گرفتار کروا دیا تھا ورنہ یہ منصوبہ دوبارہ بھی شروع ہو سکتا تھا۔
  • ۱۹۳۳ء میں ہٹلر نے برسراقتدار آ کر اپنی وزارتِ خارجہ کو حکم دیا کہ ہندوستانی علماء کے ساتھ دوبارہ رابطہ کیا جائے لیکن علامہ عنایت اللہ مشرقی کے علاوہ کسی سے رابطہ نہ ہوا۔
  • پروفیسر اولف ثمل کا کہنا ہے کہ اگر کابل مدد کرتا تو نہ سلطنتِ عثمانیہ ختم ہوتی اور نہ ہی ہندوستان کو مزید تیس سال غلام رہنا پڑتا کیونکہ جرمنی، ترکی اور روس نے ہندوستان کو گھیرا ڈال لینا تھا۔
(روزنامہ جنگ، لندن ۔ ۱۶ اگست ۱۹۹۴ء)

مغربی مسلمانوں کے مسائل ۔ علماء کیلئے چیلنج

مولانا مجاہد الاسلام قاسمی

(بھارت کے ممتاز عالمِ دین اور آل انڈیا ملّی کونسل کے سربراہ حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی اگست ۱۹۹۳ء میں ورلڈ اسلامک فورم کے پہلے سالانہ سیمینار میں شرکت کیلئے لندن تشریف لائے اور سیمینار کے علاوہ بھی فورم کے زیراہتمام برطانیہ کے مختلف شہروں میں اجتماعات سے خطاب کیا۔ مولانا محترم نے اپنے سہ ماہی علمی و تحقیقی مجلہ ’’بحث و نظر‘‘ کے ۱۹۹۴ء کے پہلے شمارہ میں اس سفر کے بارے میں مندرجہ ذیل تاثرات کا اظہار فرمایا ہے۔ ادارہ)
ورلڈ اسلامک فورم کی دعوت پر میں ۱۴ اگست کو لندن پہونچا۔ مولانا عیسٰی منصوری اور مولانا زاہد الراشدی اس فورم کے روحِ رواں ہیں۔ موضوع تھا ’’یورپی مسلمانوں کی دشواریاں اور ان کا حل‘‘ اس موضوع پر تفصیلی خطاب ہوا۔ اس سفر میں بہت سی ممتاز شخصیتوں اور اداروں کی زیارت کا شرف حاصل ہوا اور متعدد شہروں میں جانا ہوا، لوگوں نے بے حد مشغول رکھا لیکن یہ مشغولیت بہت مبارک تھی اور کارِ دین کے لیے تھی۔
انگلستان میں مسلمان خاصی تعداد میں آباد ہیں جو مختلف اسلامی ممالک سے آ کر آباد ہو گئے ہیں۔ اصلاً یہ تلاشِ معاش میں آئے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ ترک ہیں، عرب ہیں، ہندوستانی، پاکستانی اور جنوبی ایشیا کے باشندے بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کچھ مقامی انگریزوں نے بھی اسلام قبول کیا ہے جن کی تعداد بہت کم ہے۔ مسلمانوں میں جو بھی اجتماعی جدوجہد ہے وہ ان جغرافیائی خانوں میں تقسیم ہے۔ جغرافیائی حد بندیوں سے بالاتر ’’امت اسلامیہ‘‘ کی تشکیل یہاں کا خاص مسئلہ ہے۔ بہت کم ایسے مواقع ہیں جہاں کون کہاں کا ہے اور کون سے مسلک سے تعلق رکھتا ہے، ان سوالات سے اونچا اٹھ کر صرف کلمہ کی بنیاد پر امتِ اسلامیہ کو جمع ہونے کا موقع ملے۔ ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے منعقد ہونے والے سیمینار میں مسالک و فِرَق سے بالاتر ہو کر ’’مسلمانوں‘‘ کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی تھی جو ایک حد تک کامیاب رہی۔
دوسری طرف ایک بڑا مسئلہ اس تہذیبی تضاد کا ہے جو مغرب میں آباد مسلمانوں کو درپیش ہے۔ مغربی تہذیب و معاشرت کی بنیادیں ہی کچھ اور ہیں۔ اور اسلامی تہذیب کی اساس کا تصور خیر و شر پر ہے جو وحیٔ الٰہی اور سنتِ نبوی پر مبنی ہے۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ ہر علاقہ کے مسلمان اپنے اپنے علاقوں سے کچھ رسوم و روایات اور معاشرتی اقدار کے ساتھ مغرب میں منتقل ہوئے ہیں جو مسلمانوں کی تہذیب تصور کی جاتی ہے۔ جہاں تک مسلم معاشرہ کا تعلق ہے تو اس میں خواتین، جو جلد متاثر ہونے کی فطرت رکھتی ہیں، وہ مغرب کی غیر اسلامی تہذیب سے زیادہ متاثر نظر آتی ہیں۔ جو طبقہ دین دار مسلمانوں کا تصور کیا جاتا ہے ان کے اندر خواتین کی معاشرتی حالت بھی مغربی تہذیب سے زیادہ متاثر نظر آتی ہے۔
بہرحال یہاں کے علماء اور فقہاء کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج درپیش ہے اور وہ ہے کتاب و سنت کے منصوص احکام اور اسلام کی بنیادی تعلیمات کو محفوظ رکھتے ہوئے دین کی ایسی تعبیر و تشریح جو مغرب کی راہنمائی کا فریضہ انجام دے سکے۔ اس سلسلہ میں:
  • مدارجِ احکام کا تعیّن،
  • ان احکامِ فقہیہ کی شناخت جو اپنے اپنے زمانہ، عرف، اور مقامی حالات کی روشنی میں مستنبط کیے گئے ہیں اور جن میں ابدیت نہیں،
  • اس طرح کے مسائل پر موجودہ حالات اور وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے حرج و تنگی کا دور کرنا،
  • معاشرہ کی واقعی مشکلات کا ازالہ،
  • مقاصد اور وسائل کے فرق، سدِ ذرائع کے اصول، اور استحسان و استصلاح کے قواعدِ فقہیہ کی روشنی میں غور کرنا
ان کی ذمہ داری ہے تاکہ اسلام جو ہر زمانہ اور ہر ملک کے لیے ہے، اس کی وسعت، ہمہ گیری، اور ابدیت نمایاں ہو کر سامنے آ سکے۔

حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی یاد میں لندن اور برمنگھم میں تقریبات

ادارہ

لندن

برصغیر پاک و ہند کے نامور انقلابی مفکر اور تحریکِ آزادی کے  ممتاز راہنما مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی یاد میں گزشتہ روز ساؤتھ آل لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے زیراہتمام ایک فکری نشست کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے کی۔ فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰئ منصوری نے اس موقع پر بتایا کہ مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے پچاسویں سالِ وفات کے طور پر اس سال کے دوران پاکستان میں ان کی یاد میں مختلف تقریبات ہو رہی ہیں اور یہ نشست بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی، اس سے مذکورہ بالا راہنماؤں کے علاوہ مولانا قاری تصور الحق، مولانا سید اسد اللہ طارق گیلانی، مولانا قاری محمد طیب عباسی اور علی قریشی نے بھی خطاب کیا۔
مولانا زاہد الراشدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا عبید اللہ سندھی کا تعلق پنجاب کے ایک غیر مسلم گھرانے سے تھا لیکن چونکہ ان کی تعلیمی اور تدریسی زندگی کا ایک بڑا حصہ سندھ میں گزرا، اور ان کی تعلیم و تربیت سندھ کے ایک عارف باللہ حضرت حافظ محمد صدیق آف بھرچونڈی شریف کے ہاتھوں میں ہوئی، اس لیے وہ سندھی کی نسبت سے مشہور ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے آج سے نصف صدی قبل ہمیں یہ سبق دیا تھا کہ
  • علماء کرام جدید علوم اور تقاضوں سے آگاہی حاصل کریں،
  • کالج کے طلبہ کو عربی گرامر کے ساتھ قرآن کریم کے ترجمہ کی تعلیم دی جائے،
  • اور اسلام کو پوری انسانیت کے مذہب کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔

آج جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے ان باتوں کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے لیکن ہم ان کی طرف متوجہ نہیں ہو رہے۔

مولانا محمد عیسٰی منصوری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا عبید اللہ سندھیؒ تحریکِ آزادی کے نامور رہنما تھے جنہوں نے جرمنی، جاپان اور ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کے ساتھ مل کر ہندوستان کی آزادی کا منصوبہ بنایا اور ساری زندگی آزادی کی جدوجہد کے لیے بسر کر دی۔ انہوں نے کہا کہ مولانا سندھیؒ سادگی، قناعت اور مشقت برداشت کرنے میں اپنے دور کی سب سے ممتاز شخصیت تھے اور ایثار و قربانی میں اس دور کا کوئی دوسرا رہنما ان کا ہم پلہ نہیں ہے، انہیں دیکھ کر حضرت ابوذر غفاریؓ کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔ مولانا سندھیؒ کا موقف یہ تھا کہ اسلام پوری انسانیت کا مذہب ہے اس لیے اس میں دنیا کی تمام معاشرتوں کو اپنے اندر ضم کرنے کی صلاحیت موجود ہے، اور وہ علماء کو تلقین کیا کرتے تھے کہ وہ طرزِ معاشرت اور لباس جیسے معاملات پر سختی نہ کریں بلکہ بنیادی عقائد اور احکام کی طرف لوگوں کی توجہ دلائیں۔
مولانا قاری تصور الحق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے جس طرح اپنے استاذ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے ساتھ اطاعت اور وفاداری کا تعلق زندگی بھر نبھایا، اس میں ہمارے لیے سبق ہے کہ بڑوں کی بات ماننا اور ان کی اطاعت میں ہی برکت ہے، آج یہ جذبہ مفقود ہوتا جا رہا ہے جسے دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا سندھیؒ نے غیر مسلم گھرانے میں آنکھ کھولی مگر اپنے جذبہ اور شوق کے ساتھ اس مقام تک پہنچ کر سالہا سال تک مسجد حرام میں خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھ کر علماء کو قرآن و حدیث کی تعلیم  دیتے رہے، یہ ان کی سچائی اور بارگاہِ خداوندی میں قبولیت کی علامت ہے۔
مولانا سید اسد اللہ طارق گیلانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا سندھیؒ کی زندگی مجاہدانہ خدمات سے بھری پڑی ہے اور یہ بھی ان کی خدمات کا حصہ ہے کہ جب برطانوی استعمار نے افغانستان پر تسلط قائم کرنا چاہا تو افغان قوم نے مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی راہنمائی کے باعث جنگِ استقلال میں برطانوی استعمار کا راستہ روک دینے میں کامیابی حاصل کی جس کا اعتراف اس دور کے ایک مغربی دانشور نے یہ کہہ کر کیا کہ یہ کامیابی افغانستان کی نہیں عبید اللہ سندھیؒ کی کامیابی ہے۔
(بشکریہ روزنامہ جنگ، لندن ۔ ۱۹ ستمبر ۱۹۹۴ء)

برمنگھم

تحریکِ آزادیٔ ہند کے نامور رہنما اور انقلابی مفکر مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی یاد میں گزشتہ روز مسجد طیبہ (واش وڈ ہیتھ، برمنگھم) میں ایک فکری نشست کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت ڈاکٹر اختر الزمان غوری نے کی اور اس سے ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی، مرکزی جمعیۃ علماء برطانیہ کے نائب امیر صاحبزادہ امداد الحسن نعمانی، جمعیۃ علماء برطانیہ کے رہنما مولانا قاری تصور الحق، مولانا ارشد محمود، مولانا ضیاء الحسن طیب اور مولانا محمد قاسم نے خطاب کیا۔

مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ نئی نسل کو تحریکِ آزادی کے مجاہدین کی خدمات اور قربانیوں سے آگاہ کرنا ضروری ہے تاکہ اسے آزادی کی حقیقی قدر و قیمت اور اس کے تقاضوں کا احساس ہو اور وہ اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر سمجھ سکے۔ انہوں نے کہا کہ آزادیٔ ہند اور قیامِ پاکستان کے لیے علماء کی جدوجہد کو نظرانداز کر دیا جائے تو تاریخ کے دامن میں کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ مولانا عبید اللہ سندھیؒ تحریکِ آزادی کے عظیم جرنیل ہی نہیں بلکہ قرآن کریم کے مفسر اور بہت بڑے محدث تھے جن کے ہزاروں شاگرد مختلف مسلم ممالک میں قرآن و حدیث کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

دارالعلوم مدینہ بہاولپور کے مہتمم علامہ غلام مصطفٰی بہاولپوری نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا سندھی سادگی، ایثار اور محنت کا اعلیٰ نمونہ تھے اور آج کے علماء کرام کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر اختر الزمان غوری نے کہا کہ علماء اور نوجوان نسل کے درمیان ذہنی فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں اور ان فاصلوں کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نئی نسل کو شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور ان جیسے مجاہد علماء کی جدوجہد اور خدمات سے متعارف کرایا جائے، اور آج کے علماء اپنے کردار کو ان بزرگوں کی زندگیوں کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔

صاحبزادہ امداد الحسن نعمانی نے کہا کہ ہم اپنے اکابر کے مشن اور جدوجہد کو بھول کر فکری انتشار کا شکار ہوتے جا رہے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ مجاہدینِ آزادی کی یاد کو زندہ رکھا جائے تاکہ ہم ان کے کردار سے رہنمائی حاصل کر سکیں۔

مولانا قاری تصور الحق نے کہا کہ مولانا عبید اللہ سندھی نے جس طرح اپنے مشن اور پروگرام کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں وقف کر دی تھیں اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔

(بشکریہ جنگ، لندن ۔ ۲۴ ستمبر ۱۹۹۴ء)


گلاسگو میں نظامِ شریعت کانفرنس

ادارہ

تحریکِ نفاذِ اسلام گلاسگو کے زیر اہتمام ۲۵ ستمبر ۱۹۹۴ء کو مسلم کمیونٹی ہال مرکزی جامع مسجد گلاسگو (برطانیہ) میں ایک روزہ نظامِ شریعت کانفرنس منعقد ہوئی جس کی صدارت تحریکِ نفاذِ اسلام کے امیر مولانا مفتی مقبول احمد نے کی جبکہ مختلف مکاتبِ فکر اور طبقات کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی، جمعیۃ اتحاد العلماء پاکستان کے مرکزی نائب صدر علامہ عنایت اللہ گجراتی، جمعیۃ علماء اسلام بہاولپور ڈویژن کے امیر علامہ غلام مصطفٰی بہاولپوری، آل جموں و کشمیر جمعیۃ علماء اسلام کے نائب امیر مولانا قاری سعید الرحمٰن تنویر، جامع مسجد خضراء گلاسگو کے خطیب مولانا قاضی منظور حسین رضوی، اور تحریکِ نفاذِ اسلام کے سیکرٹری چوہدری محمد یعقوب نے کانفرنس سے خطاب کیا۔ صدر کانفرنس مولانا مفتی مقبول احمد نے قراردادیں پیش کیں جو متفقہ طور پر منظور ہوئیں اور تحریکِ نفاذِ اسلام کی مرکزی کونسل کے رکن حاجی محمد صادق نے نعتِ رسولِ مقبولؐ پیش کی۔
مولانا زاہد الراشدی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اسلامائزیشن کا عمل جو پہلے ہی بہت سست رفتاری کے ساتھ چل رہا تھا، اب تعطل کا شکار ہے، بلکہ کسی مزید پیشرفت کی بجائے پہلے سے کیے گئے اقدامات کو بھی ختم کرنے کی سازش ہو رہی ہے، جس کی ذمہ داری سب سے زیادہ دینی قیادت پر عائد ہوتی ہے جو اپنے خلفشار اور شخصیات کے ٹکراؤ کے باعث اسلام دشمن لابیوں کو آگے بڑھنے کا موقع دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قیامِ پاکستان کے وقت جو نظام ہمیں ورثے میں ملا تھا وہ قطعی طور پر ناکام ہو گیا ہے اور ہمارے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید الجھتے جا رہے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ نظام کی تبدیلی کے لیے سنجیدگی کے ساتھ محنت کی جائے۔ نظام کی تبدیلی کی بات ملک کے تمام سیاسی حلقے کر رہے ہیں اور اس پر تمام حلقوں کا اتفاق پایا جاتا ہے کہ موجودہ نظام ناکام ہو گیا ہے اور اس کی جگہ نیا نظام لانے کی ضرورت ہے، لیکن نئے نظام کے بارے میں بڑی سیاسی جماعتوں کا ذہن صاف نہیں ہے اور وہ اسلام کو بطور نظام قبول کرنے کی بجائے اس سلسلہ میں راہنمائی کے لیے مغرب کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ حالانکہ صرف اور صرف اسلام ایک ایسا نظام ہے جو نہ صرف ہم مسلمانوں کے بلکہ پورے انسانی معاشرہ کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے سوا کسی اور نظام کا تجربہ مزید وقت ضائع کرنے اور قوم کو اور زیادہ پریشانیوں سے دوچار کرنے کے علاوہ کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم مسلمان کی  حیثیت سے قرآن و سنت کے تمام احکام قبول کرنے کے پابند ہیں، اور ہمیں یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ زندگی کے جس شعبے میں چاہیں قرآن و سنت کے احکام کو اختیار کر لیں اور جس شعبے میں نہ چاہیں انہیں ترک کر دیں۔ کیونکہ اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں خدائی احکام کو تقسیم کرنے والی قوموں کے لیے دنیا کی زندگی میں سخت ذلت اور رسوائی کی وعید سنائی ہے جس کا عملی مظاہرہ ہم اپنی قومی زندگی میں دیکھ رہے ہیں۔ پھر ہم نے بحیثیت قوم ایک عہد کر رکھا ہے کہ پاکستان کے نام پر الگ ملک ملنے کی صورت میں خدا تعالٰی اور اس کے آخری رسول کے احکام کی عملداری قائم کریں گے، لیکن پچاس برس سے ہم اس قومی عہد کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ جبکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ قومی عہد کی خلاف ورزی کرنے والی قوموں پر اللہ تعالٰی دشمنوں کو مسلط کر دیتا ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ مسلم ممالک میں اسلامائزیشن کی تحریکیں قیادت کے لیے پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہیں، اور دنیا بھر کی اسلام دشمن لابیاں پاکستان سے خوفزدہ ہیں کہ یہی ایک ملک ہے جو دنیا میں خلافتِ اسلامیہ کے احیا اور اسلامی نظام کے دوبارہ نفاذ کی قیادت کر سکتا ہے، لیکن پاکستان کی دینی جماعتیں باہمی خلفشار اور گروہی بالادستی کی ترجیحات میں الجھ کر رہ گئی ہیں۔
مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ پاکستان میں نفاذِ اسلام کا مسئلہ اب پاکستان کا داخلی مسئلہ نہیں رہا بلکہ بین الاقوامی مسئلہ ہے کیونکہ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کو روکنے کی جنگ اب اسلام آباد میں نہیں بلکہ جنیوا اور نیویارک میں لڑی جا رہی ہے اور اس جنگ کی قیادت واشنگٹن اور لندن کر رہے ہیں۔ اسی طرح اقوامِ متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر بین الاقوامی ادارے نفاذِ اسلام کی جدوجہد کے خلاف فریق بن چکے  ہیں، اور وہ انسانی حقوق کے مغربی فلسفہ کو بطور ہتھیار استعمال کر کے نفاذِ اسلام کا راستہ روک دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی دینی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ صورتحال کی سنگینی کا احساس کریں اور اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو یکجا کر کے ہوش مندی کے ساتھ نفاذِ اسلام کی جنگ لڑیں۔ 
انہوں نے مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں اور پاکستانیوں پر بھی زور دیا کہ وہ اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اسلام اور پاکستان کے خلاف مغربی لابیوں کی سرگرمیوں کے تعاقب اور اسلام اور پاکستان کے دفاع کے لیے منظم محنت کریں اور جرأت و حوصلہ کے ساتھ کام کریں، کیونکہ اگر نیویارک اور لندن میں رہنے والے یہودی صہیونیت اور اسرائیل کے لیے لابنگ کر سکتے ہیں تو مسلمانوں اور پاکستانیوں کو بھی اپنے دین اور وطن کے لیے لابنگ اور جدوجہد کرنے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرنا چاہیے۔
جمعیۃ اتحاد العلماء پاکستان کے مرکزی راہنما علامہ عنایت اللہ گجراتی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو اس کے اسلامی تشخص سے الگ نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن دونوں میں سے کوئی بھی اسلام کے ساتھ مخلص نہیں ہے۔ ایک گروہ کی قیادت اسلامی قوانین کو وحشیانہ اور غیر انسانی قرار دیتی رہی ہے اور دوسرے گروہ کی قیادت مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے بنیاد پرست نہ ہونے کا واضح اعلان کر چکی ہے۔ اس لیے ان دونوں میں سے کسی ایک سے بھی اسلام کے نفاذ کے سلسلہ میں کوئی مثبت توقع نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اتحاد اور اجتہاد کی ہے کہ علماء کرام فرقہ وارانہ اختلافات کو نظرانداز کرتے ہوئے متحد ہو جائیں اور اجتہاد کے ذریعے آج کے مسائل کا حل پیش کریں تاکہ وہ اسلامائزیشن کے سلسلہ میں قوم کی صحیح راہنمائی کر سکیں۔ حالات کچھ بھی کیوں نہ ہوں، ہمیں بہرحال نفاذِ اسلام کی جنگ لڑنی ہے اور دینی جماعتوں کو اس کے لیے شخصیات کے ٹکراؤ کے دائرہ سے نکل کر مشترکہ جدوجہد کا اہتمام کرنا ہو گا۔
مولانا سعید الرحمٰن تنویر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اسلام نافذ نہ ہونے کی وجہ سے جہاں پاکستان میں لاقانونیت، غنڈہ گردی اور بدعنوانی کو فروغ حاصل ہوا ہے وہاں اس سے آزادیٔ کشمیر کی جنگ کو بھی نقصان پہنچا ہے اور پاکستان کی صورتحال کو دیکھ کر مجاہدینِ کشمیر کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دینی جماعتیں آج بھی متحد ہو جائیں تو اسلامی نظام نافذ ہو سکتا ہے۔

کانفرنس کی قراردادیں

مکمل نفاذِ اسلام کا مطالبہ

تحریکِ نفاذِ اسلام پاکستان (گلاسگو) کے زیراہتمام نظامِ شریعت کانفرنس کا یہ اجلاس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی نظام کے عملی نفاذ میں مسلسل تاخیر پر سخت تشویش، اضطراب اور افسوس کا اظہار کرتا ہے، اور یہ سمجھتا ہے کہ نفاذِ اسلام کے تقاضے پورے نہ ہونے کے باعث نہ صرف قیامِ پاکستان کا مقصد ابھی تک ادھورا ہے بلکہ قومی زندگی فکری انتشار اور اخلاقی بے راہ روی کا شکار ہو گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں بدعنوانی، نا اہلیت، رشوت، اور بددیانتی قومی زندگی کے ہر شعبہ میں تیزی کے ساتھ سرایت کرتی جا رہی ہے اور وطنِ عزیز جرائم اور لاقانونیت کی آماجگاہ بن کر رہ گیا ہے۔
یہ اجتماع اپنے اس یقین کا اظہار ضروری سمجھتا ہے کہ قرآن و سنت کی غیر مشروط بالادستی اور اسلامی نظام کے مکمل نفاذ کے بغیر قومی زندگی کو موجودہ خلفشار اور افراتفری کی دلدل سے نجات دلانا ممکن نہیں ہے۔ 
یہ اجتماع نفاذِ اسلام کے سلسلہ میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دونوں کے طرزعمل پر قطعی عدمِ اطمینان کا اظہار کرتا ہے اور دینی قوتوں کے باہمی خلفشار کو نفاذِ اسلام کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے ملک کی تمام دینی و سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ شریعتِ اسلامیہ کی بالادستی اور نفاذ کے سلسلہ میں اپنے نیم دلانہ طرز عمل اور گومگو کی پالیسی پر نظرثانی کریں اور قیامِ پاکستان کے حقیقی مقصد کی طرف عملی اور سنجیدہ پیشرفت کا اہتمام کریں۔

قومی اسمبلی کی آئینی کمیٹی سے اپیل

یہ اجلاس دستورِ پاکستان بالخصوص آٹھویں آئینی ترمیم کے بل پر نظرثانی کے لیے قومی اسمبلی کی قائم کردہ آئینی کمیٹی کے حوالہ سے ان اطلاعات پر تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ آئین پر نظرثانی کا مقصد آئین کی اسلامی دفعات کو غیر مؤثر بنانا ہے تاکہ پاکستان کو ایک سیکولر مملکت بنانے کے لیے مغربی قوتوں کے تقاضوں کی تکمیل کی جا سکے۔
یہ اجلاس سمجھتا ہے کہ اگر دستورِ پاکستان کی اسلامی دفعات کو غیر مؤثر بنانے کی کوشش کی گئی تو یہ قیامِ پاکستان کے نظریاتی مقاصد کے ساتھ بے وفائی ہو گی، اس لیے قومی اسمبلی کی آئینی کمیٹی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اسلامیانِ پاکستان کے دینی جذبات کو ملحوظ رکھے اور نظرثانی کے کام کے دوران اسلامی دفعات کو غیر مؤثر بنانے کی بجائے دستور کی ان دفعات میں ترامیم تجویز کرے جو اسلام کے عملی نفاذ کی راہ میں رکاوٹ ہیں، تاکہ دستوری تضادات کو دور کر کے پاکستان میں قرآن و سنت کی عملداری کی راہ ہموار کی جا سکے۔

وحدتِ پاکستان کے خلاف سازشیں

یہ اجلاس وطنِ عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وحدت کے خلاف مبینہ سازشوں پر تشویش کا اظہار کرتا ہے جن میں
  • کراچی کو فری پورٹ بنانے کا منصوبہ،
  • کشمیر کو خودمختار حیثیت دے کر امریکہ کا فوجی اڈہ بنانے کی تجویز،
  • اور شمالی علاقہ جات کو کشمیر سے الگ کر کے ایک جداگانہ اسماعیلی ریاست بنانے کے پروگرام شامل ہیں۔
یہ اجلاس پاکستان کی حکومت، حزبِ اختلاف اور دینی و سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وطنِ عزیز کی وحدت اور استحکام کے خلاف عالمی سطح پر سامنے آنے والی ان سازشوں کے بارے میں ملکی رائے عامہ کو اعتماد میں لیا جائے اور ان کے سدباب کے لیے مشترکہ طور پر مؤثر لائحۂ عمل اختیار کیا جائے۔

مجاہدینِ کشمیر کے ساتھ یکجہتی

یہ اجلاس کشمیر کی آزادی کے لیے قربانیوں کی ایک نئی تاریخ مرتب کرنے والے مجاہدین کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہے اور پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن کے موجودہ سیاسی خلفشار کو مجاہدینِ کشمیر کی جدوجہد کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دیتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن کے لیڈروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی اور سیاسی امداد کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔

قاہرہ کانفرنس کی تجاویز پر اظہارِ افسوس

یہ اجلاس اقوامِ متحدہ کی قاہرہ کانفرنس کی طرف سے
  • شادی کے بغیر جنسی تعلقات کی حوصلہ افزائی،
  • تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم کے فروغ،
  • اسقاطِ حمل کے قانونی تحفظ، اور
  • مانع حمل اشیاء کی کھلے بندوں فراہمی

کی تجاویز کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے انہیں مسلم معاشرت کی مذہبی بنیادوں پر براہ راست حملہ سمجھتا ہے اور حکومتِ پاکستان سمیت تمام مسلم حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان تجاویز کو مسترد کرنے کا اعلان کریں۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل

یہ اجلاس اسلام اور پاکستان کے بارے میں عالمی ذرائع ابلاغ اور بین الاقوامی لابیوں کے منفی پراپیگنڈا پر افسوس کا اظہار کرتا ہے، اور پاکستان کے داخلی اور نظریاتی معاملات کو انسانی حقوق کے نام نہاد مغربی فلسفہ کے سانچے میں ڈھالنے کی مہم کو ملتِ اسلامیہ کے مذہبی معاملات میں مداخلت تصور کرتا ہے۔ جس کی واضح مثال توہینِ رسالت کی سزا کے قانون، قادیانیت آرڈیننس، اور اسلامی قوانین کے خلاف مغربی لابیوں کا طرزعمل ہے۔

یہ اجلاس سمجھتا ہے کہ اس سلسلہ میں اسلام اور وطن عزیز پاکستان کا دفاع مغربی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی ذمہ داری ہے اور انہیں اس کے لیے منظم فکری اور نظریاتی جدوجہد کرنی چاہیے۔

نیز یہ اجلاس مغربی ممالک میں مقیم پاکستانیوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنی نئی نسل کو اسلام اور اسلامی معاشرت کے ساتھ وابستہ رکھنے کی فکر کریں اور نوجوانوں کی دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں تاکہ مسلمانوں کی نئی پود کے مذہبی تشخص کا تحفظ ہو سکے۔

تحریکِ نفاذِ اسلام پاکستان کی جدوجہد

نظامِ شریعت کانفرنس کے انعقاد کے ساتھ تحریکِ نفاذِ اسلام پاکستان گلاسگو اپنی جدوجہد کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کرتی ہے۔ یہ پاکستان میں نفاذِ اسلام اور بیرون ملک اسلام اور پاکستان کے دفاع کی نظریاتی اور فکری جدوجہد ہو گی جو فرقہ وارانہ کشمکش، انتخابی سیاست اور حکومتی لابیوں سے بالاتر رہتے ہوئے شریعتِ اسلامیہ کی بالادستی کے لیے جاری رہے گی۔ یہ اجلاس ان مقاصد سے اتفاق رکھنے والے تمام مسلمانوں سے اس مقدس مشن میں دامے، قدمے، سخنے ہر طرح کے تعاون کی اپیل کرتا ہے۔

ورلڈ اسلامک کی مرکزی کونسل کا سالانہ اجلاس

ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کی مرکزی کونسل کا اجلاس یکم اکتوبر ۱۹۹۴ء کو مسجد ابوبکر ساؤتھال لندن میں مولانا زاہد الراشدی کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں گزشتہ دو سالہ کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے آئندہ سال کے لیے کام کی ترتیب طے کی گئی اور فورم کے تنظیمی ڈھانچے پر نظرثانی کی گئی اور فورم کے تنظیمی ڈھانچے پر نظرثانی کی گئی۔
فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری نے گزشتہ دو سال کی کارگزاری رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس دوران:

سالانہ تعلیمی سیمینار

لندن میں دو سالانہ تعلیمی سیمینار منعقد ہوئے جن میں مولانا خواجہ خان محمد، مولانا سید ارشد مدنی، مولانا مجاہد الاسلام قاسمی، پروفیسر ڈاکٹر سید سلمان ندوی، ڈاکٹر محمود احمد غازی، ڈاکٹر علامہ خالد محمود، پیر سید بدیع الدین راشدی، صاحبزادہ سلطان فیاض الحسن قادری، مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی، سید طفیل حسین شاہ اور دیگر سرکردہ حضرات نے خطاب کیا۔

فکری نشستیں

لندن اور گوجرانوالہ میں متعدد فکری نشستیں منعقد کی گئیں جن میں شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر، جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی، مولانا سعید احمد پالنپوری، افتخار اعظمی مرحوم، ڈاکٹر محمد شریف بقا اور دیگر اہلِ علم نے مختلف موضوعات پر خطاب کیا۔ لندن کی فکری و ادبی نشستیں تحریکِ ادبِ اسلامی کے تعاون سے منعقد کی گئیں۔

اسلامک ہوم اسٹڈی کورس

دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے تعاون سے یورپ کے مسلم نوجوانوں کے لیے اردو اور انگلش میں ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ کے نام سے خط و کتابت کورس شروع کیا گیا جس کا مستقل آفس مدنی مسجد نوٹنگھم میں کام کر رہا ہے اور ایک سالہ مطالعۂ اسلام کورس شروع ہو چکا ہے۔

قرآن کریم کا انگلش ترجمہ

مختلف ماہرین کے مشورہ سے قرآن کریم کے انگلش تراجم میں سے زبان و مواد کے لحاظ سے آسان ترجمہ کا انتخاب کر کے فورم کی طرف سے اس کے الگ ایڈیشن کی اشاعت کا اہتمام کیا گیا۔ یہ ترجمہ مدینہ یونیورسٹی کے استاذ پروفیسر الشیخ محمد تقی الہلالی اور ڈاکٹر محمد محسن خان کا ہے اور فورم کی طرف سے اس کا الگ ایڈیشن شائع ہو چکا ہے۔

دینی مکاتب کی جائزہ رپورٹ

برطانیہ میں کام کرنے والے دینی مکاتب کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے تجربہ کار اساتذہ کے مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا اور اس کی طرف سے ایک جائزہ رپورٹ پیش کی گئی۔

سیٹلائیٹ میڈیا

مغربی ذرائع ابلاغ اور لابیوں بالخصوص قادیانیوں کی طرف سے سیٹلائیٹ میڈیا کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈا کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے لندن میں میڈیا کے ماہرین کے سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس میں ڈاکٹر اکبر ایس احمد مہمانِ خصوصی تھے۔ اس سیمینار کی تجاویز کی روشنی میں ویڈیو وژن انٹرنیشنل اور چاند ٹی وی کے نام سے کام کرنے والی دو فرموں سے اسلامی مقاصد کے لیے سیٹلائیٹ میڈیا کے استعمال کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔

قاہرہ کانفرنس

بہبودِ آبادی کے عنوان سے اقوامِ متحدہ کی قاہرہ کانفرنس کے فیصلوں اور مسلم معاشرہ پر ان کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے لندن اور برمنگھم میں ورلڈ اسلامک فورم کی دعوت پر مختلف مکاتبِ فکر کے علماء اور دانشوروں کے اجتماعات ہوئے جن میں اسقاطِ حمل، تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم، شادی کے بغیر جنسی تعلقات کی  حوصلہ افزائی، ہم جنس پرستی کے قانونی تحفظ، اور مانع حمل اشیاء کی کھلے بندوں فراہم کو یقینی بنانے کے بارے میں قاہرہ کانفرنس کی تجاویز کے منفی اثرات کو اجاگر کیا گیا اور علماء کرام کو ان کے خلاف عملی جدوجہد کے لیے آمادہ کیا گیا۔

گستاخِ رسول کے لیے موت کی سزا

پاکستان میں گستاخِ رسول کے لیے موت کی سزا کے قانون کے خلاف مغربی لابیوں کے پراپیگنڈا اور امریکی حکومت کی مداخلت کے خلاف کراچی، لاہور، گوجرانوالہ اور ہری پور ہزارہ میں علماء کرام کے اجتماعات منعقد کیے گئے۔

ماہنامہ الشریعہ

فورم کا ترجمان ماہنامہ الشریعہ اس دوران گوجرانوالہ سے اردو زبان میں باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔

بیرونی دورے

فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے اس دوران سعودی عرب، کینیا، ازبکستان اور افغانستان کا دورہ کیا۔ جبکہ سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری نے بھارت، پاکستان اور پرتگال کا دورہ کیا اور فورم کے مقاصد کے حوالے سے مختلف اجتماعات میں شرکت کی۔

مرکزی دفتر

فورم کا مرکزی دفتر اس وقت لندن کے ختم نبوت سنٹر (۳۵ سٹاک ویل گرین) میں کام کر رہا ہے جبکہ فارسٹ گیٹ کے علاقہ میں مستقل ہیڈ آفس اور دینی مکتب کے قیام کے لیے عمارت کا سودا کیا گیا ہے جس کی رقم مہیا نہ ہو سکنے کی وجہ سے بروقت خریداری مکمل نہیں ہو سکی، تاہم اس سلسلہ میں سودے کی تکمیل کے لیے کوشش بدستور جاری ہے۔

مالی صورتحال

سیکرٹری جنرل نے فورم کے مالی حالات کے بارے میں اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے فورم کے قیام کے آغاز ہی میں بطور پالیسی یہ طے کر لیا تھا کہ
  • ہم کسی مسلم حکومت کی لابی سے وابستہ نہیں ہوں گے
  • اور مساجد میں چندہ کا مروجہ طریق کار بھی اختیار نہیں کریں گے

جس کی وجہ سے ہمیں اپنے کام کے لیے وسائل کی فراہمی میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مرکزی دفتر کے لیے بلڈنگ کی خریداری کے سلسلہ میں ہمارے پاس تیرہ ہزار پونڈ کے لگ بھگ رقم موجود ہے، جبکہ دوسری طرف دیگر اخراجات کی مد میں ہم دس ہزار پونڈ سے زیادہ رقم کے مقروض ہیں۔ اور ہمارا کام چونکہ روایتی طرز کا نہیں ہے اس لیے اس کی افادیت اور اہمیت کی طرف سے اصحابِ خیر کو توجہ دلانے میں بے حد دشواری پیش آ رہی ہے۔

آئندہ پروگرام کی ترتیب

مولانا محمد عیسٰی منصوری نے آئندہ سال کے لیے فورم کے مجوزہ پروگرام کا مندرجہ ذیل خاکہ پیش کیا:
  • مرکز کے لیے بلڈنگ کی خریداری کے کام کو مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
  • اسلامک ہوم اسٹڈی کورس کے پروگرام کو مزید توسیع دی جائے گی۔
  • پرتگالی زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کی اشاعت کا اہتمام کیا جائے گا۔
  • ماہنامہ الشریعہ میں انگلش صفحات کا اضافہ کیا جائے گا۔ اور لندن سے فورم کے ایک خبرنامہ کا اردو اور انگلش دو زبانوں میں اجرا کیا جائے گا۔
  • فورم کا تیرا سالانہ تعلیمی سیمینار ۱۱ جون ۱۹۹۵ء کو لندن میں منعقد ہو گا۔
  • جون ۱۹۹۵ء کے دوران لندن میں ائمہ مساجد اور خطباء کے لیے پندرہ روزہ تربیتی کورس کا اہتمام کیا جائے گا۔
  • فکری نشستیں حسبِ معمول لندن اور گوجرانوالہ میں منعقد ہوتی رہیں گی۔
  • مولانا زاہد الراشدی سعودی عرب کا اور مولانا محمد عیسٰی منصوری جنوبی افریقہ کا دورہ کریں گے۔

مرکزی کونسل نے گزشتہ کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مالی صورتحال کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا اور آئندہ سال کے مجوزہ پروگرام کی منظوری دی۔ اس کے علاوہ مرکزی کونسل نے آئندہ سال کے لیے فورم کے تنظیمی ڈھانچہ پر بھی نظرثانی کی جس کے مطابق فورم کے عہدہ دار درج ذیل ہوں گے:

سرپرست


حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر  (گوجرانوالہ، پاکستان)
حضرت مولانا محمد عبد اللہ پٹیل (ترکیسر، گجرات، انڈیا)
پروفیسر ڈاکٹر سید سلمان ندوی (ڈربن، جنوبی افریقہ)
چیئرمینمولانا زاہد الراشدی (گوجرانوالہ، پاکستان)
ڈپٹی چیئرمینمولانا مفتی برکت اللہ فاضل دیوبند (لندن، برطانیہ)
سیکرٹری جنرل
 مولانا محمد عیسٰی منصوری  (لندن، برطانیہ)
ڈپٹی سیکرٹری
 مولانا سید اسد اللہ طارق گیلانی  (ساؤتھال، لندن، برطانیہ)
سیکرٹری دفتری امور
 الحاج عبد الرحمٰن باوا  (لندن، برطانیہ)
سیکرٹری تعلیم
 مولانا رضاء الحق  (نوٹنگھم، برطانیہ)
سیکرٹری میڈیا
 مولانا فیاض عادل فاروقی  (لندن، برطانیہ)
سیکرٹری رابطہ
 حافظ حفظ الرحمٰن تارا پوری  (لندن، برطانیہ)
سیکرٹری مالیات
 الحاج غلام قادر  (لندن، برطانیہ)
 ارکان مرکزی کونسل


 مولانا ابوبکر سعید (لندن)، مولانا قاری عبد الرشید رحمانی (لندن)، مولانا محمد عمران خان جہانگیری (لندن)، مولانا منظور احمد الحسینی (لندن)، مولانا حافظ ممتاز الحق (لندن)، پروفیسر عبد الجلیل ساجد (برالٹن)، حافظ سعید احمد شاہ (ٹورانٹو)، جناب محمد اشرف (واشنگٹن)، مولانا محمد فاروق سلطان (کوپن ہیگن)، مولانا محمد سلیم دھورات (لیسٹر)، محمد سلیمان خان (لندن)، محمد انور شریف (لندن)، محمد اقبال روات (لندن)، محمد شفیق (لندن)، بیرسٹر یوسف اختر (لندن)۔

قراردادیں

  • اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی ؒ اور ورلڈ اسلامک فورم کے سرپرست حضرت مولانا مفتی عبد الباقی ؒ کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کی ملی و دینی خدمات پر خراجِ عقیدت پیش کیا گیا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔ نیز مولانا محمد عیسٰی منصوری کی والدہ محترمہ اور مولانا رضاء الحق کے والد محترم کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔
  • ایک اور قرارداد میں سعودی عرب میں سرکردہ علماء کرام اور اہلِ دین کی گرفتاریوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس موقف کا اظہار کیا گیا کہ مسلم ممالک میں امریکی تسلط اور ناروا مداخلت کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنا اور عوام کے لیے شریعتِ اسلامیہ کی بنیاد پر حقوق کا مطالبہ کرنا علمائے دین کی ذمہ داری ہے۔ اور جو علماء کرام اس سلسلہ میں جدوجہد کر رہے ہیں وہ کسی بھی ملک میں ہوں پورے عالمِ اسلام کی طرف سے تعاون اور حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں۔ قرارداد میں سعودی حکومت سے اپیل کی گئی ہے کہ علماء کرام کی گرفتاریوں کا سلسلہ بند کیا جائے، گرفتار شدگان کو رہا کیا جائے اور ان کے جائز مطالبات کو منظور کیا جائے۔
  • ایک اور قرارداد میں دنیا بھر کی مسلم حکومتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ مغرب کے سیاسی و معاشی، سائنسی اور تہذیبی تسلط سے نجات حاصل کرنے اور مسلم ممالک میں خلافتِ راشدہ کی بنیاد پر مکمل اسلامی نظام نافذ کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔
  • ایک اور قرارداد میں اقوام متحدہ کی قاہرہ کانفرنس کی طرف سے تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم کے فروغ، شادی کے بغیر جنسی تعلیمات، ہم جنس پرستی کی حوصلہ افزائی، اور اسقاطِ حمل کے قانونی تحفظ کی تجاویز کو قرآن و سنت کی بنیادی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ہوئے مسلم حکومتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ان خلافِ اسلام تجاویز کو قبول نہ کرنے کا واضح اعلان کریں۔

اخبار و آثار

ادارہ

مولانا محمد عیسٰی منصوری کا دورۂ جنوبی افریقہ

ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری ان دنوں جنوبی افریقہ کے دورہ پر ہیں۔ فورم کے سیکرٹری برائے تنظیمی امور مولانا محمد اسماعیل پٹیل بھی ان کے ہمراہ ہیں۔ انہوں نے فورم کے سرپرست ڈاکٹر سید سلمان ندوی، جمعیۃ علماء افریقہ صوبہ نٹال کے صدر مولانا محمد یونس پٹیل، اور دارالعلوم زکریا کے مہتمم مولانا شبیر احمد سلوجی کے علاوہ متعدد دیگر سرکردہ علماء کرام سے بھی ملاقاتیں کیں اور فورم کے مقاصد اور پروگرام کے حوالے سے ان سے تبادلہ خیال کیا۔
مولانا منصوری نے مختلف مقامات پر دینی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کی دعوت کو نسلِ انسانی کے تمام طبقوں تک پہنچانے اور اسلام کے بارے میں مختلف حلقوں میں پائے جانے والے خدشات و شبہات کے ازالہ کے لیے منظم اور سرتوڑ محنت کی ضرورت ہے اور علماء کرام کو اس کام کی طرف سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینی چاہیے۔ مولانا منصوری نے علماء کرام، دانشوروں اور اصحابِ خیر سے اپیل کی کہ وہ ورلڈ اسلامک فورم کے مقاصد اور پروگرام کے لیے تعاون کریں اور اس جدوجہد کو منظم کرنے میں ہمارا ہاتھ بٹائیں۔

جمعیۃ اہلِ سنت گوجرانوالہ کا استقبالیہ

ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے کہا ہے کہ پاکستان میں شریعتِ اسلامیہ کی بالادستی کی جنگ اسلام آباد میں نہیں بلکہ واشنگٹن، نیویارک، جنیوا اور لندن میں لڑی جا رہی ہے اور مغربی لابیاں اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور جنیوا کنونشن کی قراردادوں کی آڑ میں ’’انسانی حقوق‘‘ کے ہتھیاروں کے ساتھ اسلامی نظامِ حیات پر حملہ آور ہیں۔ وہ گزشتہ شب مسجد صدیقیہ سیٹلائیٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں جمعیۃ اہلِ سنت کی طرف سے دیے گئے استقبالیہ سے خطاب کر رہے تھے جو دورۂ برطانیہ سے واپسی پر ان کے اعزاز میں دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مغربی جمہوریت اور کمیونزم کے درمیان سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ اور لابیوں کا سب سے بڑا ہدف اسلام ہے اور ایک منظم سازش کے تحت اسلام کو سولائزیشن کے مخالف اور انسانی حقوق سے محروم کرنے والے مذہب کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ جس کا مقصد عالمی رائے عامہ کو اسلام سے متنفر کرنا اور مسلمانوں کی نئی نسل کو اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات اور بے یقینی سے دوچار کرنا ہے۔ اس لیے اس محاذ پر ٹھوس فکری اور نظریاتی کام کی ضرورت ہے۔ اور ورلڈ اسلامک فورم اسی مقصد کے لیے جدوجہد کو منظم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ خلافتِ راشدہ کی بنیاد پر اسلامی نظام کا صحیح تعارف دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے علاوہ انڈونیشیا، ملیشیا، مراکش، مصر، ترکی، الجزائر، تونس اور دیگر مسلم ممالک میں اسلامائزیشن کی تحریکیں موجود ہیں اور مسلم ممالک کے حکمران اپنے ملک کے عوام اور اسلام کا ساتھ دینے کی بجائے مغربی حکومتوں کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں اور متعدد ممالک میں اسلامائزیشن کی تحریکات ریاستی جبر کا شکار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب میں بھی خلافتِ راشدہ اور قرآن و سنت کی بنیاد پر شرعی حقوق کی بحالی کے لیے علماء و مشائخ سرگرم عمل ہیں اور متعدد سرکردہ علماء اس جدوجہد کی وجہ سے گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ خلیج میں امریکہ کی نئی افواج کی آمد دراصل اس خطہ میں دینی بیداری کی تحریکات کو کچلنے اور مغربی مفادات کے لیے کام کرنے والی حکومتوں کے تحفظ کے لیے ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی دینی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ آنے والے حالات کا بروقت اندازہ کریں اور عالمِ اسلام کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے مسلم ممالک میں ریاستی جبر کا شکار بننے والی دینی تحریکات کا ساتھ دیں۔
استقبالیہ تقریب کی صدارت مولانا مفتی محمد عیسٰی خان گورمانی نے کی اور جمعیۃ اہلِ سنت کے راہنما مولانا حافظ گلزار احمد آزاد نے بھی خطاب کیا جبکہ علماء اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔

وفاقی وزارتِ تعلیم کا افسوسناک فیصلہ

ادارہ

وفاقی وزارتِ تعلیم کی طرف سے امسال فیڈرل بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن اسلام آباد کو مڈل اسٹینڈرڈ سالانہ امتحان کا انتظام سپرد کیا گیا تھا۔ بورڈ نے اپنے اکیڈمک سیل کے ذریعے مڈل سٹینڈرڈ کے امتحان کی پالیسی کے اعلان میں
  • قرآن پاک ناظرہ اور عربی لازمی کو امتحان سے خارج کر دیا ہے۔
  • جبکہ اسلامیات (لازمی) اور مطالعہ پاکستان کے نمبرات ۱۰۰ سے نصف کر کے ۵۰ کر دیے ہیں۔

فیڈرل بورڈ کے اس فیصلہ نے مسلم قوم کے نونہالوں کو قرآن کریم اور اس کی زبان عربی اور پاکستان سے متعلق معلومات سے ناآشنا کر کے اسلام دشمنی کا واضح ثبوت مہیا کر دیا ہے۔ جبکہ تین سال قبل وفاقی محتسب کی ہدایت پر وفاقی وزارتِ تعلیم نے ناظرہ قرآن کو سرکاری مدارس میں لازمی قرار دے کر امتحان کے ۴۰ نمبر مقرر کیے تھے۔

یہ کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ جس ملک کی بنیاد نظریہ اسلام پر رکھی گئی ہے اس میں قرآن کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں۔ بنا بریں ہمارا مطالبہ ہے کہ

  • مسلم قوم کے بچوں کو اسلام، قرآن اور نظریہ پاکستان سے بے بہرہ اور محروم نہ کیا جائے،
  • قرآن اور اسلام کے خلاف سازش کرنے والے افسران سے بازپرس کی جائے،
  • اور مڈل اسٹینڈرڈ کے امتحان کا اختیار بورڈ سے واپس لے کر ثانوی تعلیمی مدارس کو لوٹایا جائے، جیسا کہ ملک کے چاروں صوبوں میں ہے،
  • نیز سرکاری مدارس میں قرآن کریم کی تعلیم کا معقول انتظام کیا جائے،
  • اور عربی و اسلامیات کو یکجا کر کے بی اے کی سطح تک لازمی مضمون قرار دیا جائے۔

منجانب: مولانا قاری محمد نذیر فاروقی

سیکرٹری جنرل جمعیۃ اہلِ سنت اسلام آباد

دسمبر ۱۹۹۴ء

مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت کی جدوجہدمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اسلامی نظامِ تعلیم و تربیت میں ذرائع ابلاغ کا کردارمحمد صلاح الدین
سنی شیعہ کشمکش کے اسباب و عواملمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
کنعان سے مصر تکمحمد یاسین عابد
’’معالم العرفان فی دروس القرآن‘‘ ۔ جلد ۱۳ و ۱۴ادارہ
رمضانادارہ

مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت کی جدوجہد

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مالاکنڈ ڈویژن اور باجوڑ ایجنسی میں نفاذ شریعت کا مطالبہ طاقت کے بل پر وقتی طور پر دبا دیا گیا ہے اور عوام کو ان کے مطالبات پورے کرنے کا وعدہ کر کے سردست خاموش کر دیا گیا ہے لیکن وہاں سے آنے والی خبروں کے مطابق چنگاری اندر ہی اندر سلگ رہی ہے اور اس کے کسی بھی وقت دوبارہ بھڑک اٹھنے کے امکانات موجود ہیں۔ اس خطہ کے غیور مسلمانوں کا مطالبہ یہ ہے کہ انہیں شریعت کا قانون دیا جائے، قرآن و سنت کے مطابق اپنے تنازعات کے فیصلے کرانے کا حق دیا جائے، اور پیچیدہ نوآبادیاتی عدالتی نظام کی بجائے سادہ، سہل الحصول اور فوری انصاف کے اصول پر مبنی اسلامی عدالتی نظام دیا جائے۔ یہ مطالبہ نہ تو آئین کے منافی ہے کہ ملک کا آئین اپنے شہریوں کو اسلامی قوانین کے نفاذ کی ضمانت دیتا ہے، اور نہ ہی غیر منطقی و اجنبی مطالبہ ہے کیونکہ بحیثیت مسلمان ہم قومی زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی احکام و قوانین پر عملدرآمد کے پابند ہیں اور پاکستان کا قیام ہی اس مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا تھا ۔

شریعت کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف ریاستی طاقت کے اندھادھند استعمال کا جواز یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے ہتھیار اٹھا لیے تھے اور ریاستی سسٹم کو چیلنج کر دیا تھا۔ لیکن یہ دلیل پیش کرنے والے اس بات کو بھول رہے ہیں کہ اول تو ہتھیار اس خطہ کے لوگوں کی روز مرہ کی زبان ہے، اور دوسرا یہ کہ انہیں یہ زبان بولنے پر مجبور بھی ریاستی سسٹم نے ہی کیا ہے کہ ان کے ساتھ وعدے کر کے بھلا دیے گئے، یقین دہانیاں کرا کے نظر انداز کر دی گئیں اور معاہدے کر کے توڑ دیے گئے۔ اس لیے انہوں نے احتجاج کے لیے وہی زبان استعمال کی جو وہ جانتے تھے۔ ان کا یہ احتجاج ملک کے خلاف نہیں، ملکی نظام کے خلاف ہے۔ انہوں نے ملک سے علیحدگی کا اعلان نہیں کیا بلکہ ملک کے اندر رہتے ہوئے ملک کے آئین کی طرف سے دی گئی ضمانت کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس لیے ان کی جدوجہد کو بغاوت سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے۔

نفاذ شریعت کا مطالبہ کرنے والوں کے طریق کار سے اختلاف کی گنجائش کے باوجود اس جدوجہد کی حمایت اور پشت پناہی ملک کی دینی قوتوں کی ذمہ داری ہے۔ اس حوالہ سے ملک کی دینی جماعتوں اور نفاذ شریعت کی دعوے دار قوتوں کا کردار قطعی طور پر غیر تسلی بخش رہا ہے، وہ ذہنی تحفظات کے خول میں بند رہیں اور اخباری بیانات کے ذریعہ اس ’’جہاد‘‘ میں شرکت کر کے مطمئن ہوگئیں کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ اس طرز عمل نے عوام کی مایوسی میں اضافہ کیا ہے جو ہمارے نزدیک بہت بڑا نقصان ہے۔ دینی جماعتوں کے قائدین کو مل بیٹھنا چاہیے اور شمال سے اٹھنے والی نفاذ شریعت کی جدوجہد کو صحیح رخ پر آگے بڑھانے کے لیے مشاورت اور راہنمائی کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ مالاکنڈ ڈویژن اور باجوڑ ایجنسی کے غیور مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر نفاذ شریعت کی جدوجہد کو منظم کرنے کی راہ ہموار ہو۔

جہاں تک مالاکنڈ ڈویژن اور باجوڑ ایجنسی میں تحریک نفاذ شریعت کے پس منظر، مطالبات اور تازہ ترین صورتحال کا تعلق ہے، راقم الحروف اس سلسلہ میں حالات کا براہ راست جائزہ لینے کے لیے چند روز تک خود وہاں جا رہا ہے اور اس کی تفصیلی رپورٹ ’’الشریعہ‘‘ کے اگلے شمارہ میں قارئین کی خدمت میں پیش کر دی جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

اسلامی نظامِ تعلیم و تربیت میں ذرائع ابلاغ کا کردار

محمد صلاح الدین

(۶ اگست ۱۹۹۴ء کو اسلامک کلچرل سنٹر (ریجنٹ پارک، لندن) میں ورلڈ اسلامک فورم کے دوسرے سالانہ تعلیمی سیمینار سے مدیر ہفت روزہ تکبیر جناب محمد صلاح الدین کا خطاب)

دنیا میں اور تاریخ کے کسی عہد میں ایسا کوئی انسانی معاشرہ کہیں نہیں پایا گیا جس کی زندگی کسی نہ کسی نظامِ فکر و عقیدہ پر مبنی نہ رہی ہو، اور جس میں اس فکر و عقیدہ کے اظہار و ابلاغ کی کوئی نہ کوئی صورت موجود نہ رہی ہو۔ انسانی زندگی کا آغاز تخلیقِ آدمؑ کے واقعہ سے ہوا، آدمؑ کے پیکرِ خاکی میں جان پڑتے اور شعوری زندگی کے آغاز ہوتے ہی دو صفات کا ظہور ہوا۔ ایک اپنے خالق کی موجودگی کا احساس و اعتراف، اور دوسرے اس کے عطا کردہ علم کے اظہار کے لیے قوتِ گویائی۔ اس موقع پر اللہ تعالٰی، آدمؑ اور فرشتوں کے درمیان جو تبادلۂ خیال ہوا اس میں گفتگو (Dialogue) پہلا ذریعۂ ابلاغ (Medium of Communication) بنی۔ 
حضرت آدمؑ اور حضرت حواؓ کے جوڑے کی صورت میں جنت کے اندر جس معاشرتی زندگی کا آغاز کیا گیا اس کے لیے جائز اور ناجائز، حلال اور حرام، مباح اور ممنوع، اور معروف اور منکر کی صراحت پر مبنی ایک ضابطۂ حیات دیا گیا اور اقدار (Values) کا شعور بخشا گیا۔ ابلیس کے ساتھ کشمکش کا آغاز انہی اقدار کے تحفظ کے سلسلہ میں ہوا۔ گویا انسان کو جو پہلا چیلنج درپیش ہوا وہ جان اور مال کے تحفظ کا نہ تھا، اقدارِ حیات کے تحفظ کا تھا۔ اور اس میں ناکامی نے اسے جنت کی راحتوں اور نعمتوں سے محروم کر کے اس کانٹوں بھری دنیا میں لا پھینکا۔ اور یہاں بھی شرط یہ عائد کی گئی کہ انہی اقدار کی حفاظت میں کامیابی حاصل کی تو جنتِ گم گشتہ دوبارہ تمہارا مسکن بن سکتی ہے، اور اس میں ناکام رہے تو پھر جہنم کی آگ میں ہمیشہ جلتے رہنا تمہارا مقدر ہو گا۔ سورہ بقرہ کی آیات ۳۱ تا ۳۵ کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:
’’ہم نے آدمؑ سے کہا کہ تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاؤ مگر اس درخت کا رخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے۔ آخر کار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انہیں اس حالت سے نکلوا کر چھوڑا جس میں وہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ ہم نے حکم دیا کہ اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک خاص مدت زمین میں ٹھہرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے۔ اس وقت آدمؑ نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی جس کو اس کے رب نے قبول کر لیا کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ، پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہو گا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہ آگ میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
ان آیات سے واضح ہو جاتا ہے کہ اولین انسان نے اس دنیا میں جہل کی تاریکی میں نہیں بلکہ علم و شعور کی روشنی میں اپنی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ اور اس کے ساتھ ہی انسان کے لیے دشمنی کا جذبہ لے کر ابلیس بھی یہاں نازل ہوا تھا۔ اب ان کے درمیان ازل سے جو جنگ چلی آ رہی ہے اور جو ابد تک جاری رہے گی، وہ یہ ہے کہ ابلیس انسان کو احکامِ الٰہی کی پابندی و پیروی کی راہ سے ہٹانے پر لگا ہوا ہے، اور انسان وحی کے ذریعے ملنے والی ہدایت کی روشنی میں اطاعت و فرمانبرداری کی زندگی بسر کرنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ تاریکی اور روشنی کے درمیان اس کشمکش کا ذکر قرآن حکیم نے ان الفاظ میں کیا ہے:
’’جو لوگ ایمان لاتے ہیں اللہ ان کا حامی و مددگار ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے، اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کے حامی و مددگار طاغوت ہیں وہ انہیں روشنی سے نکال کر تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
ان آیات سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی اقدار سے ہماری مراد کیا ہے۔ اسلامی اقدار زندگی کی وہ قدریں ہیں جو ہمیں وحی کے ذریعے بھیجی جاتی رہیں اور جن کی تکمیل آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے کی گئی۔
قدر درحقیقت انسانی اعمال و کردار کی جانچ پرکھ کے پیمانوں کا نام ہے۔ دنیا کی تمام ٹھوس، مائع، گیس اور دیگر مادی اشیاء کے طول و عرض، وزن اور حجم وغیرہ کے لیے ہم مختلف اوزان و پیمانہ جات استعمال کرتے ہیں۔ قدر (Value) وہ پیمانہ ہے جس سے ہم انسان کے کردار کی صفات کو ناپتے اور اس کے بارے میں اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ ایک مرکزِ حوالہ (Point of Reference) یا ایک کسوٹی ہے جس کے ذریعے کردار کا وزن اور کھراپن جانچا جاتا ہے۔
کوئی انسانی معاشرہ اچھے یا برے کی تمیز یا صحیح اور غلط کے شعور سے عاری نہیں ہوتا۔ یہ برے بھلے کی تمیز اخلاقی اقدار ہی کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ یہ اقدار کہاں سے آئی ہیں اور کس طرح انسان کے شعور و ادراک کا حصہ بنی ہیں؟ اس کے بارے میں فلسفیوں کا دعوٰی تو یہ ہے کہ یہ انسانی شعور کے ارتقاء کا نتیجہ ہیں۔ مگر قرآن حکیم ہم پر واضح کرتا ہے کہ یہ انسان کی فطرت کا لازمی حصہ ہیں اور اس کی تخلیقی اسکیم کا بنیادی جزو ہیں۔ جب یہ کہا گیا کہ ’’ہم نے آدمؑ کو تمام اشیاء کے نام سکھائے‘‘ (البقرہ ۳۱) تو اس سے مراد محض تعارفِ اشیاء نہیں۔ خواصِ اشیاء، زندگی میں ان کی حیثیت و اہمیت، زندگی سے ان کے تعلق، انسانی زندگی پر ان کے برے اور اچھے اثرات، اور ان کے استعمال سے متعلق جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی حدود، سب ہی اشیاء کے نام سکھانے کے مفہوم میں شامل ہیں۔
انسان کو جس احسن تقویم پر پیدا کیا گیا وہ بہترین جسمانی ہیئت و ساخت ہی تک محدود نہیں، اس کا شعوری وجود بھی اس میں شامل ہے۔ تخلیقِ آدم کے بعد ہدایتِ آدم کا جو اہتمام نزولِ وحی کی صورت میں کیا گیا اس میں انبیاءؑ، ان کے ساتھ اتاری جانے والی کتب اور معجزات کے علاوہ ایک چیز میزان بھی ہے۔ سورہ الحدید میں ارشاد ہوا:
’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔‘‘ (الحدید ۲۵)
یہ میزان جو لوازماتِ عدل میں شامل کی گئی ہے، تاجر کی ترازو نہیں ہے۔ بلکہ وہ میزانِ خیر و شر ہے جو انسان کے نفس میں نصب کر دی گئی ہے۔ اسے ہم ضمیر بھی کہتے ہیں۔ یہ ایک ناخواندہ فرد کے اندر بھی اسی طرح کام کرتی ہے جس طرح کسی عالم اور فاضل کے اندر۔ یہ ہر لمحہ ایک ایک نیت، ارادے، عزم اور عمل کے بارے میں فیصلہ کرتی اور قلب و ذہن پر دستک دے کر ٹوکتی جاتی ہے کہ نیت و ارادہ درست اور عدل پر مبنی ہے یا غلط اور ظلم پر مبنی؟ کوئی عمل خیر کے پیمانوں پر پورا اترتا ہے یا شر اور فساد کے زمرے میں آتا ہے؟ نفسِ انسانی کے اندر پیوست یہی وہ میزان ہے جس کے بارے میں سورۃ الشمس میں اللہ تعالٰی نے اپنی ذات اور دس اشیاء پر مشتمل طویل ترین قسم کھا کر ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’اور نفسِ انسانی کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا اور پھر اس کی بدی اور اس کی نیکی و پرہیزگاری اس پر الہام کر دی۔ یقیناً فلاح پا گیا وہ شخص جس نے نفس کا تزکیہ کیا، اور نامراد ہوا وہ جس نے اسے کچل کر دبا دیا۔‘‘
ان آیات سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن نے نیکیوں کو ’’معروف‘‘ اور برائیوں کو ’’منکر‘‘ کیوں کہا ہے۔ ان اصطلاحات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں آباد اور کسی بھی عہد میں زندگی بسر کرنے والا انسان، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم، پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ، فطرتاً نیکی اور بدی کا ایک مشترکہ شعور رکھتا ہے۔ دیانت، امانت، عدل، احسان، تحمل، بردباری، شفقت، محبت، شجاعت، پاکیزگی اور صداقت کو ہر انسانی معاشرے میں اقدارِ خیر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ اور بے ایمانی، خیانت، ظلم، زیادتی، بے صبرے پن، چھچھورے پن، عداوت، قساوت، بزدلی، غلاظت، جھوٹ اور دھوکے بازی کو ہر جگہ شر اور ممنوعات میں شمار کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ جنہیں ہم اسلامی اقدار کہتے ہیں وہ درحقیقت انسانی اقدارِ اخلاق ہیں۔
خیر و شر میں تمیز اور ان کے ترک و اختیار پر قدرت ہی وہ بنیادی صفت ہے جو انسان کو دوسری ذی حیات مخلوقات سے ممتاز کرتی اور اسے اشرف المخلوقات کے بلند مرتبے پر فائز کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے انسان ایک اخلاقی وجود قرار پاتا ہے۔ جبکہ دوسری تمام مخلوقات جبلی کردار کے تابع ایک لگے بندھے ضابطے کے مطابق زندگی گزارتی ہیں۔ انسان کا یہ اخلاقی وجود ہی ہے جس کی تعلیم و تربیت، تزکیہ و رہنمائی اور حفاظت و سلامتی کے لیے انبیاءؑ کو مبعوث کیا گیا، کتابیں نازل کی گئیں، صحیفے اتارے گئے، اور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اس تعلیم و تزکیہ کی تکمیل کی گئی۔ حضور اکرمؐ کے مشن کا تعارف کراتے ہوئے قرآن حکیم ہمیں بتاتا ہے کہ:
’’ہم نے تمہارے درمیان خود تم میں سے ایک رسولؐ بھیجا جو تمہیں ہماری آیات سناتا ہے، تمہارا تزکیہ نفس کرتا ہے، تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم جانتے نہ تھے۔‘‘ (البقرہ ۱۵۱)
گویا تزکیۂ نفس اور تطہیرِ اخلاق ہی وہ اصل کام ہے جس کے لیے حضور اکرمؐ اور آپ سے قبل کے تمام انبیاءؑ کو مبعوث فرمایا گیا۔ معمارِ حرم ابو الانبیاء حضرت ابراہیمؑ نے اسی کام کے لیے دعا فرمائی تھی کہ:
’’اے ہمارے رب! ان لوگوں میں خود انہی کے درمیان سے ایک رسولؐ اٹھائیو جو انہیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور ان کا تزکیۂ نفس کرے، تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔‘‘ (البقرہ ۱۲۹)
اس مقتدر اور حکیم ہستی نے حضرت ابراہیمؑ کی دعا قبول فرمائی اور اس سے قبل کی محولہ بالا آیت میں، جو اَب دعا کے طور پر حضور اکرمؐ کی بعثت کا ذکر، عین اسی مشن کا صراحت کے ساتھ کیا جس کی تمنا حضرت ابراہیمؑ نے ظاہر فرمائی تھی۔ خود حضورؐ نے اپنی زبانِ مبارک سے اپنا تعارف کراتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق ’’مجھے مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘۔ ایک اور حدیث میں یہی بات ان الفاظ میں کہی گئی ہے بعثت لاتمم حسن الاخلاق ’’مجھے حسنِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘۔ یعنی تعمیرِ اخلاق کا جو کام حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت عیسٰیؑ تک مختلف انبیاء کرامؑ کرتے چلے آ رہے ہیں، میں اس کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں۔
اس پورے پس منظر میں اسلامی اقدار کے فروغ و تحفظ کا مطلب یہ ہے کہ نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی معاشرے کو اخلاق کی جس بلند سطح پر پہنچایا اور چھوڑا تھا، وہ ہمارا آئیڈیل رہے۔ اور خود حضورؐ کی ذاتِ اقدس جسے قرآن نے اسوۂ حسنہ قرار دیا، ہماری نگاہوں کا مرکز بنی رہے۔ اسے مسلم معاشرے میں قیامت تک کے لیے مرکزِ حوالہ (Point of Reference) بنا دیا گیا ہے۔ اور آپؐ کے بعد مستقبل میں آنے والی تمام اسلامی حکومتوں کے لیے ایک مستقل لائحۂ عمل بھی طے کر دیا گیا ہے جو چار بنیادی نکات پر مشتمل ہے:
’’یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کو ہم زمین میں اگر تمکن و حکومت عطا کریں تو یہ نماز قائم کریں گے، زکٰوۃ ادا کریں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بدی سے روکیں گے۔‘‘
یہ لائحۂ عمل اسلامی ریاست میں تمام ذرائع ابلاغ کی سمت اور ان کے مقصد کا تعین کر دیتا ہے۔ ابلاغ کے معنی پھیلانے اور پہنچانے کے ہیں۔ اسلام نے طے کر دیا کہ پھیلانے اور پہنچانے کی چیز صرف معروف ہے۔ یہ ان ذرائع کا ایجابی اور فروغی (Positive and Promotive) کردار ہے۔ ان کا سلبی (Negative) اور دفاعی (Defensive) یا حفاظتی (Protective) کردار یہ ہے کہ منکرات کو دبانے اور مٹانے کا فریضہ انجام دیں۔ اسلامی اقدار پر جس سمت سے کوئی حملہ ہو اس کا منہ توڑ جواب دیں۔ گویا فروغِ خیر اور انسدادِ شر ان کا بنیادی کام ہے۔ ان ذرائع کو بالعموم رسمی (Formal) اور غیر رسمی (Informal) میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ تعلیم کو رسمی، اور دیگر تمام سمعی و بصری ذرائع کو جو نظامِ تعلیم کے دائرہ سے باہر واقع ہوں غیر رسمی ذرائع شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ تقسیم کسی بین الاقوامی اصول یا ضابطہ پر مبنی نہیں ہے۔
سیکولر معاشروں میں نظامِ تعلیم اور اخبارات و جرائد، ریڈیو، ٹیلیویژن اور دوسرے ذرائع میں باہم کوئی ربط و تعلق نہیں ہوتا۔ مذہب اور سیاست کی دوعملی کے زیراثر نظامِ تعلیم اور ذرائع ابلاغ بھی دو مختلف دائروں میں گردش کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن ایک نظریاتی ریاست میں رسمی اور غیر رسمی ذرائع کے درمیان ایک ربط و ہم آہنگی پائی جاتی ہے، بڑی حد تک یک رنگی دکھائی دیتی ہے۔ جو کچھ نصابی کتب کے ذریعے کلاس روم میں پڑھایا جاتا ہے اسی کی تعلیم لٹریچر، اخبارات و جرائد، ریڈیو اور ٹیلیویژن کے پروگراموں کے ذریعے دی جاتی ہے۔ تناقص اور تضادات سے مجموعی فضا کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کردار سازی میں تعمیر و تخریب کا عمل ساتھ ساتھ نہیں چلتا۔ معاشرہ جس فلسفۂ حیات پر قائم ہے اسے ہر ذریعۂ ابلاغ ذہن میں بٹھانے اور کردار و عمل کا جزو بنانے کی بڑی مربوط اور منظم کوشش کرتا ہے۔ اسی کے نتیجے میں کردار کی یکسانیت اور فکر کی یکجہتی ابھرتی اور افرادِ قوم کو متحد کرتی اور ایک دوسرے کا معاون بنا دیتی ہے۔
اسلام بھی اپنے زیرِ اقتدار معاشرے میں تمام ذرائع ابلاغ کو مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی ’’صبغۃ اللہ‘‘ یعنی اللہ کے رنگ میں رنگ دینے پر مامور دیکھنا چاہتا ہے۔ اسلامی اقدار ایک اعلٰی اخلاقی کردار کا جزو اور اس کی تشکیل کا ذریعہ ہیں۔ یہ اسی صورت میں پروان چڑھ سکتی ہیں جب آنکھوں کے اشارے ہوں یا جسم کی حرکات، قلم اور برش کی نوک ہو یا کیمرے کی آنکھ، ریڈیو کی آواز ہو یا ٹی وی اسکرین، اخبارات کے صفحات ہوں یا رسالوں کے ٹائیٹل، افسانے اور ناول ہوں یا ڈرامے اور نغمے، خبروں کے متن ہوں یا ان کی سرخیاں، ان سب پر معروف اور منکر کا قرآنی ضابطۂ اخلاق نافذ ہو۔ اور رسمی و غیر رسمی تمام ذرائع ابلاغ اس مقصد کے تابع ہوں جس کی خاطر انبیاءؑ کو مبعوث کیا گیا۔ یعنی تعمیر و تکمیلِ اخلاق اور تزکیۂ نفس۔ خالص تفریحی پروگرام بھی اس سے مستثنٰی نہ ہوں۔ آخر عہدِ نبویؐ، دورِ خلافتِ راشدہ، اور بعد کے زمانوں میں زندگی کی تمام سرگرمیاں لطائف، تفریحات اور جمالیاتی اظہار کی مختلف صورتوں سے خالی نہیں تھیں، وہ جاری و ساری رہی ہیں۔ پھر آج اسے خارج از امکان کیوں سمجھ لیا گیا ہے؟
جس طرح ایک بد اخلاق شخص تطہیرِ اخلاق اور تزکیۂ نفس کا کام انجام نہیں دے سکتا، اسی طرح بے مہار ذرائع ابلاغ سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اسلامی اقدار کے فروغ و تحفظ کا کام انجام دے سکیں۔ اس نے خود ان ذرائع کے لیے ایک ضابطۂ اخلاق مقرر کیا ہے جس کی پابندی کے بغیر وہ مثبت اور تعمیری کردار ادا نہیں کر سکتے۔ اس ضابطۂ اخلاق کے چند بڑے بڑے اصول یہ ہیں:

(۱) حق گوئی

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات یا تمہارے والدین اور رشتے داروں ہی پر کیوں نہ پڑتی ہو، فریقِ معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے، لہٰذا تم اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے نہ ہٹو، اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا، تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔‘‘ (النساء ۱۳۵)

(۲) شہادتِ حق

’’اور شہادت ہرگز نہ چھپاؤ، جو شہادت چھپاتا ہے اس کا دل گناہ سے آلودہ ہے، اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔‘‘ (البقرہ ۲۸۲)

(۳) کتمانِ حق سے گریز

’’باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور جان بوجھ کر حق کو چھپانے کی کوشش نہ کرو۔‘‘ (البقرہ ۴۲)
’’اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جس کے ذمہ اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے، اللہ تمہاری حرکات سے غافل تو نہیں ہے۔‘‘ (البقرہ ۱۴۰)

(۴) صاف اور سیدھی بات

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صاف اور کھری بات کیا کرو۔‘‘ (الاحزاب ۷۰)

(۵) بھلی بات

’’اور لوگوں سے ہمیشہ بھلی بات کیا کرو۔‘‘ (البقرہ ۸۳)

(۶) دعوت بطریق احسن

’’اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے سے جو ہر لحاظ سے بہترین ہو۔‘‘ (النحل ۱۲۵)

(۷) بہترین انسدادی تدبیر

’’برائی کو اس طریقے سے دفع کرو جو تمہارے نزدیک بہترین ہو۔‘‘ (المومنون ۹۶)

(۸) بدی کے بدلے نیکی

’’نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں، تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی ہے وہ جگری دوست بن گیا ہے۔‘‘ (حم السجدہ ۴۱)

(۹) امر بالمعروف، نہی عن المنکر

’’تم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔‘‘ (آل عمران ۱۰۴)

(۱۰) احترامِ آدمیت

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرد ایک دوسرے کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔‘‘ (الحجرات ۱۱)

(۱۱) غیبت سے گریز

’’اور تم ایک دوسرے کی برائی پیٹھ پیچھے نہ کیا کرو۔‘‘ (الحجرات ۱۲)

(۱۲) بدگمانی سے پرہیز

’’گمان کرنے سے پرہیز کیا کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔‘‘ (الحجرات ۱۲)

(۱۳) خواتین کے معاملے میں خصوصی احتیاط

’’جو لوگ پاک دامن بے خبر مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔ وہ اس دن کو نہ بھول جائیں جب ان کی اپنی زبانیں اور ان کے اپنے ہاتھ پاؤں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے۔ اس دن اللہ انہیں بھرپور بدلہ دے گا جس کے وہ مستحق ہیں اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے سچ کو سچ کر دکھانے والا۔‘‘ (النور ۲۳ تا ۲۵)

(۱۴) شرطِ تحقیق

’’اس وقت تم کیسی سخت غلطی کر رہے تھے جب تمہاری ایک زبان سے دوسری زبان اس جھوٹ کو لیتی چلی جا رہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے چلے جا رہے تھے جس کے متعلق تمہیں کوئی علم نہ تھا، تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے جبکہ اللہ کے نزدیک یہ ایک بڑی بات تھی۔‘‘ (النور ۱۵)
’’اور اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو بے جانے بوجھے نقصان پہنچا دو اور پھر اپنے کیے پر پچھتاؤ۔‘‘ (الحجرات ۶)

(۱۵) نجی زندگی کا تحفظ

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک گھر والوں سے اجازت نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیجو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے، توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے۔ پھر اگر وہاں کسی کو موجود نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تمہیں اجازت نہ مل جائے، اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جاؤ، یہ تمہارے لیے پاکیزہ طریقہ ہے۔‘‘ (النور ۲۷، ۲۸)

(۱۶) کھوج کرید سے گریز

’’اور تجسس نہ کیا کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے؟ دیکھو تم خود اس سے گھن کھاتے ہو۔‘‘ (الحجرات ۱۲)

(۱۷) فحاشی اور بے حیائی سے گریز

’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والے گروہ کے اندر فحاشی پھیلے، وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں۔‘‘ (النور ۱۰۹)
’’اور فحاشی کے قریب ہرگز نہ پھٹکو خواہ وہ کھلی ہو یا چھپی۔‘‘ (انعام ۱۵۱)
’’اے بنی آدم! ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اسی فتنے میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا اور ان کے لباس ان کے جسم سے اتروا دیے تھے تاکہ ان کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھولے، وہ اور اس کے ساتھی تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے، ان شیاطین کو ہم نے ان لوگوں کا سرپرست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔‘‘ (الاعراف ۲۷)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو، جو کوئی اس کی پیروی کرے گا وہ اسے فحاشی اور بدی پھیلانے کا حکم دے گا۔‘‘ (النور ۳۱)

(۱۸) نیکی میں تعاون

’’نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔‘‘ (المائدہ ۲۰)

(۱۹) بدی میں عدمِ تعاون

’’اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو، صرف اللہ سے ڈرو، اس کی سزا بہت سخت ہے۔‘‘ (المائدہ ۲۰)

(۲۰) مذہبی دل آزاری سے گریز

’’یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر جن معبودوں کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو۔‘‘ (الانعام ۱۰۸)

(۲۱) اظہارِ خیال میں شائستگی

’’اہلِ کتاب کے ساتھ بحث نہ کرو مگر احسن طریقے سے۔‘‘ (العنکبوت ۴۶)
یہ ضابطۂ اخلاق قرآنی آیات سے مرتب کیا گیا ہے۔ اس میں احادیث نبویؐ اور اقوالِ خلفائے راشدینؓ و صحابہ کرامؓ کو بھی شامل کر لیا جائے تو ایک نہایت مفصل اور جامع ضابطہ مرتب کیا جا سکتا ہے، جس کی حدود میں کام کرنے والے ذرائع ابلاغ ہی اسلامی اقدار کے فروغ و تحفظ کے ضامن بن سکتے ہیں۔ یہ بات کہ اسلام کن اقدار کا فروغ و ابلاغ چاہتا ہے اور کن چیزوں کا انسداد و سدباب، کوئی تحقیق طلب مسئلہ نہیں ہے، مسلمانوں کا بچہ بچہ اور خواندہ و ناخواندہ فرد اس سے بخوبی واقف ہے، مسئلہ صرف یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کو ان کا تابع اور پابند کیسے بنایا جائے؟
اس وقت اپنے کنٹرول کے لحاظ سے ذرائع ابلاغ تین دائروں میں منقسم ہیں:  سرکاری دائرہ، نجی ادارتی دائرہ، اور نجی انفرادی دائرہ۔ 
  1. ریڈیو، ٹیلیویژن اور حکومت کے زیراہتمام شائع ہونے والے تمام اخبارات و جرائد سرکاری کنٹرول میں  ہیں۔
  2. نجی اداروں کے تحت شائع ہونے والے اخبارات و جرائد پالیسی کے لحاظ سے اپنے مالکان کے کنٹرول میں ہیں۔
  3. تیسرا دائرہ جو سرکاری کنٹرول سے یکسر آزاد ہے یا آزاد رکھا گیا ہے، نجی کاروبار اور نجی رجحانات و میلانات اور ذوق و پسند کا وہ دائرہ ہے جس میں وی سی آر اور سمعی و بصری کیسٹوں، تصاویر اور کارڈوں کی فراوانی ہے اور جس نے اخلاقی زوال و انحطاط کو پستی کی انتہا پر پہنچا دیا ہے۔ ہمارے گھروں میں اسلامی اقدار و اخلاق کی تباہی اور فحاشی و بے شرمی کے فروغ میں ان ذرائع ابلاغ کا کردار سب سے نمایاں اور انتہائی تشویشناک ہے۔ بظاہر یہ ذرائع ’’ذرائع ابلاغ‘‘ (Mass Communication) کی تعریف میں نہیں آتے لیکن ان کا دائرہ گھر سے نکل کر چونکہ محلہ کی سطح پر دراز ہو چکا ہے اور ایک ایک فلم کو دیکھنے والوں کی تعداد سینما گھروں کے تماش بینوں کی تعداد کے مساوی ہو گئی ہے اس لیے یہ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ذریعہ ابلاغ بن چکا ہے۔ اور پورے معاشرے کی اجتماعی صورت گری میں اس کے اثرات بہت ہمہ گیر ہیں، اس لیے اسے نجی دائرہ تک محدود سمجھنا درست نہیں ہے۔ ہم اپنے شہروں، قصبوں اور دیہات میں اگر آڈیو اور ویڈیو کیسٹوں کی دوکانوں کا سروے کریں، ملک میں وی سی آر کی مجموعی تعداد معلوم کریں اور ان کے سامعین و ناظرین کی تعداد جان سکیں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ معاشرے پر اس کی گرفت کتنی وسعت اختیار کر چکی ہے اور بچوں، جوانوں، بوڑھوں، عورتوں اور مردوں کے کردار، ذہنی رویوں اور رجحانات و میلانات میں ان کے ذریعے کتنی بڑی تبدیلی آ چکی ہے۔
مسلم معاشرے کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ سرکاری کنٹرول میں کارفرما ذرائع ابلاغ ہوں یا نجی اداروں اور انفرادی دائروں میں کام کرنے والے ذرائع ابلاغ، ان سب پر اباحیت پسند اور رند پرست طبقے کا قبضہ ہے۔ جس کے نزدیک اخلاقی اقدار کوئی اہمیت نہیں رکھتیں بلکہ یہ اقدار اس کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مفادات کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ خام مال اور مشینری کی حد تک سو فیصد اور مواد کی حد تک ہمارا ۴۰ فیصد انحصار بیرونی ممالک پر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مغربی ثقافت اور تہذیب کے اثرات ایک سیلاب کی صورت میں ہمارے معاشرے کو اپنی زد میں لیے ہوئے ہیں۔ ہمارا نظامِ تعلیم اور خاندان کے تربیتی مراکز اپنی اثر انگیزی کھو بیٹھے ہیں۔ اسلامی اقدار کی آبیاری کے لیے جو سازگار ماحول اور رسمی و غیر رسمی ذرائع ابلاغ کا مربوط، ہم آہنگ اور یکجہت تعاون درکار ہے، وہ مفقود ہے۔
اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمیں مختصر المیعاد اور طویل المیعاد اہداف کے تعین کی ضرورت ہے:
  • مختصر المیعاد اہداف میں ایک ایسی تحریکِ مزاحمت کی ضرورت ہے جو فحاشی اور عریانی کے خلاف تسلسل کے ساتھ جاری رکھی جا سکے۔ اور حکومت، صحافتی و طباعتی اداروں، ناشروں اور کاروباری اداروں پر پورا دباؤ ڈال کر انہیں راہ راست پر لانے کے لیے مجبور کر سکے۔ اور محلہ محلہ میں تطہیرِ اخلاق کی مہم چلا سکے۔
  • طویل المیعاد اہداف میں اس برسراقتدار گروہ سے نجات پانا شامل ہے جو فحاشی و عریانی کا محافظ و سرپرست اور اسلامی اقدار کی پامالی کا اصل ذمہ دار ہے۔ یہ تبدیلیٔ حکومت اور صالح افراد کے ہاتھوں میں زمامِ اقتدار کی منتقلی کا مسئلہ ہے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہو جانی چاہیے کہ اسلامی اقدار کے فروغ و تحفظ کے لیے ہم ذرائع ابلاغ کو محض وعظ و تلقین سے اپنا قبلہ درست کر لینے پر آمادہ نہیں کر سکتے۔

سنی شیعہ کشمکش کے اسباب و عوامل

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تحریک جعفریہؒ پاکستان اور سپاہ صحابہؓ پاکستان کے درمیان کشمکش نے مسلح تصادم کی جو صورت اختیار کر لی ہے، اس سے ملک کا ہر ذی شعور شہری پریشان ہے۔ دونوں جانب سے سینکڑوں افراد اب تک اس مسلح تصادم کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اور ارباب اختیار فرقہ واریت کے خاتمہ کے عنوان سے اس کشمکش پر قابو پانے کا بار بار عزم ظاہر کرتے ہیں، مگر اس کی جڑیں معاشرہ میں اس قدر گہرائی تک اتر چکی ہیں کہ بیخ کنی کے لیے ان تک رسائی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ اس لیے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس کشیدگی کے اسباب و عوامل کا کھلے دل و دماغ کے ساتھ تجزیہ کیا جائے اور سنجیدہ عمومی بحث و مباحثہ کے ذریعہ اس کے محرکات کا کھوج لگا کر اس مقام تک پہنچا جائے جہاں سے اس کشمکش کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ تاکہ ان کو بند کرنے کی کوئی صورت نکالی جا سکے۔

یہ کشمکش اور تصادم جو عملاً سپاہ صحابہؓ پاکستان اور تحریک جعفریہؒ پاکستان کے درمیان ہے، دراصل شیعہ سنی کشمکش کا شدت پسندانہ اظہار ہے۔ اور شیعہ سنی کشمکش کی تاریخ بہت پرانی ہے جس کا آغاز پہلی صدی ہجری کے اختتام سے قبل ابتدائی شکل میں ہوگیا تھا۔ اور رفتہ رفتہ اس نے ملت اسلامیہ میں عقائد و نظریات کے لحاظ سے دو واضح متحارب گروہوں کی صورت اختیار کر لی۔ قارئین کی معلومات کے لیے دونوں گروہوں کے اعتقادات میں چند بنیادی فرق واضح کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

چنانچہ ان واضح اور بنیادی اختلافات کے ہوتے ہوئے دونوں میں سے کسی کے لیے بھی دوسرے فریق کو بطور مسلمان قبول کرنا ممکن نہیں تھا۔ اور اس کا واضح اظہار دونوں فریقوں کی بنیادی کتابوں اور اساسی تعلیمات میں موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی حد تک تعلقات اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان صدیوں سے قائم چلے آرہے ہیں جو حالات کی ضرورت کی تحت بسا اوقات مشترکہ معاملات میں باہمی تعاون کی صورت بھی اختیار کر جاتے ہیں۔

اس پس منظر میں وطن عزیز پاکستان میں شیعہ سنی تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو ماضی کے حوالہ سے ان میں حوصلہ افزائی کا پہلو نمایاں دکھائی دیتا ہے اور بہت سی دینی تحریکات میں سنی اور شیعہ قائدین ایک پلیٹ فارم پر جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں:

اس لیے یہ بات پورے شرح صدر کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اعتقادی اختلافات کی شدت اور سنگینی کے باوجود پاکستان میں اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور مشترکہ معاملات میں باہمی تعاون کچھ عرصہ پہلے تک قائم رہی ہے۔ اور اہل سنت نے اپنی واضح اکثریت کے ہوتے ہوئے بھی اہل تشیع کو قومی معاملات میں شریک کرنے حتیٰ کہ دینی تحریکات کی قیادت کی صف میں شامل کرنے میں بھی بخل سے کام نہیں لیا۔ لیکن اب یہ فضا قائم نہیں رہی اور جہاں قومی سطح پر فرقہ وارانہ کشیدگی کے مسلح تصادم کی صورت اختیار کر جانے کی شکل میں اس کے نقصانات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں، وہاں تحریک نفاذ اسلام کے ایک نظریاتی کارکن کی حیثیت سے میں اپنے اس دکھ کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ اس سے نفاذ اسلام کی جدوجہد کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں، جہاں سیکولر حلقوں کو کبھی نفاذ شریعت کے مطالبہ کو فرقہ وارانہ قرار دینے میں کامیابی نہیں ہوئی تھی، ’’شریعت بل‘‘ کے بارے میں تحریک جعفریہ کے جداگانہ موقف کے باعث نفاذ شریعت کو فرقہ واریت کا باعث قرار دینے کا ہتھیار سیکولر حلقوں کے ہاتھ میں ایسا مضبوطی کے ساتھ آیا ہے کہ بے چارے شریعت بل کے سر عام پرخچے اڑ گئے۔

سوال یہ ہے کہ باہمی برداشت اور مشترکہ معاملات میں تعاون کی یہ فضا آخر تبدیل کیسے ہوئی؟ اور وہ کون سے عوامل ہیں جنہوں نے اہل سنت اور اہل تشیع کے راہنماؤں کو تحریک پاکستان، تحریک ختم نبوت، مجلس احرار اسلام اور ۲۲ نکات کی ترتیب و تدوین کی فضا سے نکال کر ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا ہے؟ اس سوال کا ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ جائزہ لینا ضروری ہے۔ اور اب وقت آگیا ہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع دونوں کے سنجیدہ راہنما ان عوامل کا سنجیدگی سے تجزیہ کریں۔ اور تحریک جعفریہؒ اور سپاہ صحابہؓ کے مسلح تصادم کو ملک گیر سطح پر شیعہ سنی خانہ جنگی کی صورت اختیار کرنے سے روکنے کے لیے اپنے علم و دانش کو استعمال میں لائیں۔ اسی جذبہ اور درد دل کے ساتھ شیعہ سنی کشمکش کے موجودہ شدت پسندانہ اظہار کے اسباب و عوامل کے بارے میں ہم اپنا نقطہ نظر پیش کر رہے ہیں۔ اور ہمارے نزدیک حالات کو شدت اور سنگینی کے اس مقام تک لے جانے میں تین باتوں کا دخل سب سے زیادہ ہے۔ اور بد قسمتی سے تینوں باتوں کی ذمہ داری بنیادی طور پر اہل تشیع پر عائد ہوتی ہے۔

ان میں سے پہلی بات یہ ہے کہ اہل تشیع نے قومی معاملات میں جداگانہ موقف، مطالبات اور حقوق کی جدوجہد شروع کی اور تعلیمی اداروں میں اپنے لیے جداگانہ نصاب تعلیم کے ساتھ ساتھ قانونی نظام میں اپنی فقہ کے الگ نفاذ کا مطالبہ کر دیا۔ یہ دونوں مطالبات نہ صرف یہ کہ غیر منطقی اور غیر حقیقت پسندانہ تھے بلکہ ان مطالبات نے شیعہ اور سنی آبادی کے درمیان دوئی اور منافرت کی ایک واضح لکیر کھینچ دی۔ جس کے نتائج و ثمرات آج ہمارے سامنے ہیں۔ جہاں تک نصاب تعلیم کا تعلق ہے، اہل تشیع کی یہ شکایت بجا تھی کہ چونکہ سکولوں میں اسلامیات کا نصاب ملک کی اکثریت اہل سنت کے معتقدات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے، اس لیے ان کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ لیکن اس کا آسان حل یہ تھا کہ اسلامیات کا یہ نصاب شیعہ طلبہ کے لیے اختیاری قرار دے دیا جاتا اور اہل تشیع اپنے بچوں کی مذہبی تعلیم کا اہتمام اپنی مذہبی درسگاہوں میں کرتے۔ لیکن اس پر اکتفا نہ کیا گیا اور سکولوں میں دو الگ الگ نصابوں کی بیک وقت تعلیم ضروری سمجھی گئی جس سے تعلیمی اداروں سے ہی اعتقادی محاذ آرائی کا آغاز ہوگیا۔ اسی طرح فقہ جعفریہ کے متوازی نفاذ کے مطالبہ نے بھی صورت حال خراب کی۔ جہاں تک پرسنل لاء اور شخصی قوانین کا تعلق ہے، اہل سنت نے کبھی اہل تشیع کے اس حق سے انکار نہیں کیا کہ ان کے شخصی معاملات ان کی فقہ کے مطابق ہوں۔ یہ ایک مسلمہ حق ہے جس کا اعتراف علماء کے ۲۲ نکات میں بھی کیا گیا ہے اور موجودہ دستور میں بھی انہیں یہ حق حاصل ہے۔ لیکن پوری کی پوری فقہ جعفریہ کے نفاذ کا مطالبہ عملاً ملک کے پبلک لاء میں دو متوازی نظاموں کے نظام کا مطالبہ ہے جو مسلمہ اصولوں کے منافی ہے۔ اور خود ایران میں بھی، جہاں شیعہ اکثریت ہے اور ولایت فقیہ کی مذہبی حکومت ہے، یہ طریق کار اختیار نہیں کیا گیا۔ ایرانی دستور کے مطابق ملک کا سرکاری مذہب اور پبلک لاء اکثریتی فقہ اثنا عشری جعفریہ کے مطابق ہے، اور اہل سنت کو صرف پرسنل لاء میں اپنی فقہ پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔ مگر پاکستان میں اہل تشیع نے ایران سے الگ معیار اختیار کیا اور فقہ جعفریہ کے متوازی نظام کا مطالبہ کر کے جہاں سیکولر حلقوں کو موقع دیا کہ وہ نفاذ شریعت کو فرقہ وارانہ مسئلہ قرار دے کر اس کے خلاف مہم چلائیں، وہاں شیعہ اور سنی کے الگ الگ ہونے کے تصور کو اور زیادہ پختہ کر دیا۔

شیعہ سنی کشیدگی میں اضافہ کا دوسرا بڑا سبب شیعہ لٹریچر اور شیعہ مقررین کے خطابات میں حضرات صحابہ کرامؓ کے بارے میں توہین آمیز اور گستاخانہ جذبات کا برملا اظہار ہے۔ ازواج مطہراتؓ، خلفاء راشدینؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ کے بارے میں اہل تشیع کے عقائد جو بھی ہوں، یہ ان کا اپنا معاملہ ہے۔ لیکن ایک ایسے معاشرہ میں جس کی اکثریت ان بزرگوں سے والہانہ عقیدت و محبت رکھتی ہو، ان کے بارے میں مخالفانہ جذبات کا اظہار ایک الگ مسئلہ ہے۔ پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق اہل سنت کی تعداد ۹۵ فیصد ہے، اور وہ ازواج مطہراتؓ، خلفاء راشدینؓ، اور اہل بیت عظامؓ سمیت تمام صحابہ کرامؓ کے ساتھ محبت و عقیدت اور ان کے احترام کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس حقیقت کے ادراک کے باوجود یہ بھی حقائق ہیں کہ اہل تشیع کے ذمہ دار حضرات کی کھلی بندوں تقسیم ہونے والی کتابوں اور رسالوں میں ان قابل احترام ہستیوں کے بارے میں گستاخانہ مواد موجود ہوتا ہے۔ بہت سے شیعہ مقررین کھلے خطابات میں ان بزرگوں کے بارے میں توہین آمیز باتیں کہہ جاتے ہیں اور درجنوں ایسے واقعات ہو چکے ہیں جن میں صحابہ کرامؓ اور خلفاء راشدین کے پتلے کھلے عام جلا کر ان کے خلاف نفرت کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ صورت حال آخر کس حد تک برداشت ہو سکتی ہے؟ اہل سنت کی یہ مجبوری ہے کہ وہ ان باتوں کا جواب برابر کی سطح پر نہیں دے سکتے۔ کیونکہ اہل تشیع کے اس سطح کے بزرگ یعنی حضرات ائمہ اہل بیتؓ خود اہل سنت کے بھی قابل احترام بزرگ ہیں اور ان کے خلاف کوئی بات کہنا اہل سنت کے نزدیک اسی طرح ناقابل برداشت جرم ہے جیسے حضرات صحابہ کرامؓ کی توہین ناقابل برداشت ہے۔ اس لیے اہل سنت کی طرف سے ان باتوں کا رد عمل کئی گنا زیادہ شدت اختیار کر کے اپنے سامنے کے اہل تشیع کے مقابل آجاتا ہے۔ جو بہرحال کشیدگی اور اشتعال میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔

شیعہ سنی کشیدگی میں اضافہ کا تیسرا بڑا سبب اہل تشیع کے ماتمی جلوس ہیں جو اہل تشیع کے نزدیک عبادت کا درجہ رکھتے ہیں، مگر اہل سنت انہیں جائز نہیں سمجھتے۔ جہاں تک امام حسینؓ اور خانوادہ نبوت کی کربلا میں شہادت اور ان کی مظلومیت کا تعلق ہے، اہل سنت کے جذبات بھی اس معاملہ میں اہل تشیع سے کم نہیں ہیں اور وہ اپنے جذبات غم، صدمہ اور محبت کا اپنے انداز میں اظہار کرتے ہیں۔ لیکن غم کے اظہار کا جو طریقہ ماتمی جلوسوں کی صورت میں اہل تشیع کی طرف سے رواج پا گیا ہے وہ اہل سنت کے نزدیک نہ صرف یہ کہ درست نہیں بلکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے منافی ہے۔ اہل سنت کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ اہل تشیع اپنے جذبات غم کا اظہار اپنے طریقے سے کریں، بشرطیکہ وہ ان کے گھروں کی چار دیواری اور عبادت گاہوں میں محدود ہو۔ اور اس کا دائرہ اہل سنت کے گھروں اور آبادی تک وسیع نہ کیا جائے۔ سوال یہ نہیں کہ اہل تشیع کو اپنے مذہب کے مطابق ماتم کرنے کا حق ہے یا نہیں؟ وہ تو طے شدہ حق ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس کا دائرہ کار اہل تشیع تک محدود رہنا چاہیے اور ان لوگوں تک وسیع نہیں ہونا چاہیے جو اسے جائز نہیں سمجھتے۔ کیونکہ کوئی بھی ایسا اجتماع یا جلوس ان لوگوں کے درمیان لے آیا جائے جو مذہبی طور پر اسے جائز نہ سمجھتے ہوں، بہرحال کشیدگی پیدا کرتا ہے اور اس کشیدگی کے المناک مظاہرے کئی بار ہم اپنے ملک کے بازاروں اور سڑکوں پر دیکھ چکے ہیں۔

یہ ہیں وہ چند بنیادی اسباب جنہوں نے پاکستان میں شیعہ سنی تعلقات کو باہمی برداشت اور تعاون کی فضا سے نکال کر محاذ آرائی اور مسلح تصادم کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ ہم سپاہ صحابہؓ پاکستان کی پالیسی اور طریق کار سے متفق نہیں ہیں اور اس کا اظہار سپاہ صحابہؓ کے قائدین کے ساتھ روبرو گفتگو کے علاوہ پبلک بیانات میں بھی کئی بار کر چکے ہیں۔ لیکن ہمارے نزدیک سپاہ صحابہؓ اس رد عمل کا نام ہے جو اہل تشیع کے مذکورہ بالا طرز عمل کے نتیجہ میں فطری طور پر نمودار ہوا ہے۔ اور ری ایکشن کی شدت اور تلخی کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہوں، اس کی ذمہ داری بہرحال اس ’’عمل‘‘ پر عائد ہوتی ہے جو اس رد عمل کو جنم دیتا ہے۔

اسباب و عوامل کے تجزیہ کے بعد ضروری ہے کہ شیعہ سنی تعلقات کے مستقبل کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کر دی جائیں۔ ہمارے نزدیک شیعہ سنی تعلقات کو مستقبل میں منفی شاہراہ پر گامزن رکھنے یا مثبت رخ دینے کا اختیار بھی اہل تشیع کے سنجیدہ راہنماؤں کے پاس ہے۔ اگر شیعہ قیادت یہ سمجھتی ہے کہ بڑھتی ہوئی کشیدگی کو بریک لگانا ضروری ہے اور باہمی برداشت اور تعاون کی سابقہ فضا کی بحالی ملک و قوم اور خود شیعہ آبادی کے لیے مفید ہے تو ابھی اس کے دروازے بند نہیں ہوئے۔ اور اس منزل گم گشتہ کے حصول کے لیے سنجیدگی کے ساتھ پیش رفت کی جا سکتی ہے۔ بلکہ ذاتی طور پر خود ہمارا جی چاہتا ہے کہ تحریک نفاذ شریعت اور تحریک ختم نبوت میں اہل تشیع کا سابقہ رول بحال ہو۔ لیکن اس کے لیے شیعہ قیادت کو جداگانہ فقہ کے نفاذ اور ہر چھوٹی بڑی بات میں جداگانہ تشخص کے اظہار کا راستہ ترک کر کے علماء کے ۲۲ متفقہ دستوری نکات کی پوزیشن پر قومی دھارے میں واپس آنا ہوگا۔ ناموس صحابہؓ کے تحفظ اور ماتمی جلسوں کے بارے میں اہل سنت کے قیادت کے ساتھ اعتماد کی فضا بحال کرنا ہوگی۔ اور اہل سنت کے مذہبی جذبات کے احترام کا عملاً یقین دلانا ہوگا۔ اور اگر شیعہ قیادت اس پوزیشن پر واپسی کو مشکل خیال کرتی ہے اور قومی دھارے سے الگ جداگانہ تشخص، موقف اور مطالبات کی راہ پر چلتے رہنا اس کے نزدیک ناگزیر امر ہے تو اس کے منطقی تقاضوں سے آنکھیں بند کر کے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ مگر اہل سنت اس پوزیشن میں بھی اہل تشیع کے ساتھ تعلقات کار کا از سر نو تعین کرنے کے لیے تیار ہوں گے جس کے لیے ہمارے نزدیک سب سے بہتر معیار ایرانی دستور ہے۔ اور ہم اہل سنت اور اہل تشیع کے راہنماؤں کے سامنے یہ تجویز پیش کریں گے کہ:

ہمیں امید ہے کہ ملک کے سنجیدہ اہل دانش ان تجاویز کا ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ جائزہ لے کر بڑھتی ہوئی شیعہ سنی کشمکش کی روک تھام کے لیے موثر کردار ادا کریں گے۔

کنعان سے مصر تک

محمد یاسین عابد

(۱)
بائبل مقدس میں ہے کہ ’’تارح ستر برس کا تھا جب اس سے ابرام اور نحور اور حاران پیدا ہوئے‘‘ (پیدائش ۱۱ : ۱۲) یہ بات خاصی حیران کن ہے کہ تارح کی عمر پہلے سے تیسرے بیٹے کی پیدائش تک ستر برس ہی رہی۔ حالانکہ ابرام، نحور اور حاران تینوں جڑواں بھائی نہ تھے۔ پھر بھلا ابرام کی پیدائش سے شروع ہو کر نحور اور حاران کی پیدائش تک تارح کی عمر کا مسلسل ستر برس ہی رہنا کیونکر ممکن ہے؟ تارح کے تینوں بیٹوں کا جڑواں نہ ہونا مسیحی علماء نے بھی تسلیم کیا ہے (دیکھئے قاموس الکتاب از پادری ایف ایس خیر اللہ صفحہ ۳۱۶ کالم ۱ مقالہ حاران)۔ بہرحال یہ ثابت ہوا کہ ابرام کی ولادت کے وقت تارح کی عمر ستر برس تھی۔ تارح کی کل عمر ۲۰۵ برس ہوئی (پیدائش ۱۱ : ۳۲) یعنی تارح کی وفات کے وقت ابرام کی عمر ۱۳۵ = ۷۰ - ۲۰۵ (ایک سو پینتیس) برس تھی۔ ادھر پیدائش ۱۲ : ۴ میں لکھا ہے’’اور ابرام جب حاران سے روانہ ہوا، پچھتر برس کا تھا‘‘۔ ابرام کے حاران سے روانہ ہونے کا یہ واقعہ بائبل کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق اپنے باپ تارح کی وفات کے بعد کا ہے۔ اب ابرام جو کہ باپ کی فوتگی کے وقت ۱۳۵ برس کا تھا، بعد میں اس کی عمر ۶۰ برس کم ہو کر ۷۵ برس کیسے رہ گئی؟ اس سوال کا جواب ہم مسیحی پادریوں پر چھوڑتے ہیں۔
(۲)
اور جب ابرام سے ہاجرہ کے اسمٰعیل پیدا ہوا تب ابرام چھیاسی برس کا تھا (پیدائش ۱۶ : ۱۶) ابرام ۹۹ اور اسمٰعیل ۱۳ برس کا تھا جب دونوں باپ بیٹے کا ختنہ ہوا اور خدا نے ابرام کا نام ابرہام رکھا (ایضاً ۱۷ : ۱ تا ۲۷) ابرہام کی عمر ۱۰۰ برس تھی جب اضحاق پیدا ہوا (ایضاً ۲۱ : ۵) اضحاق ۶۰ برس کا تھا جب یعقوب پیدا ہوا (ایضاً ۲۵ : ۲۶) یعنی یعقوب کی ولادت کے وقت ابرہام کی عمر۱۶۰ = ۱۰۰ + ۶۰ برس تھی۔ ابرہام کی کل عمر ۱۷۵ برس ہوئی (ایضاً ۲۵ : ۷) یعنی ابرہام کی وفات کے وقت یعقوب کی عمر ۱۵ = ۱۶۰ - ۱۷۵ برس تھی۔
اضحاق کی کل عمر ۱۸۰ برس ہوئی (ایضاً ۳۵ : ۲۸ و ۲۹) یعنی اضحاق کی وفات کے وقت یعقوب کی عمر ۱۸۰ ۔ ۶۰ = ۱۲۰ برس تھی۔ اور جب بنی اسرائیل مصر گئے تو یعقوب کی عمر ۱۳۰ برس تھی (ایضاً ۴۷ : ۹) یعنی اضحاق کی وفات سے مصر جانے تک دس برس کا عرصہ ہے۔ لیکن بائبل مقدس کے بغور مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اضحاق کی وفات سے بنی اسرائیل کے مصر جانے تک کا عرصہ اس سے طویل ہے، اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
بائبل مقدس کے مطابق روبن کے اپنی ماں بلہاہ ۔۔۔ کے بعد یعقوب فدان ارام سے قریب اربع یعنی مبرون میں اپنے باپ اضحاق کے پاس آیا تو اضحاق نے ۱۸۰ برس کی عمر میں وفات پائی (پیدائش ۳۵ : ۲۲ تا ۲۹) جب عیسو ۴۰ برس کا تھا تو اس نے بیری حتی کی بیٹی یہودتھ اور ایلون حتی کی بیٹی بشامتھ سے بیاہ کر لیا تھا (ایضاً ۲۶ : ۳۴) اب اضحاق کی موت کے بعد جبکہ عیسو کی عمر ۱۲۰ برس عیسو نے تین شادیاں اور کیں، ایک تو اپنی سالی سے یعنی پہلی بیوی ایلون حتی کی بیٹی شامتھ کی بہن عدہ سے، پھر اس کے بعد حوی صبعون کی نواسی اور عنہ کی بیٹی ابیلسامہ سے نکاح کیا اور پھر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی صاحبزادی بشامہ سے نکاح کیا (پیدائش ۳۶ : ۱ تا ۳) ظاہر ہے عیسونے یہ تینوں نکاح کئی کئی برس کے وقفہ سے کیے ہوں گے۔ بعد ازاں ان عورتوں سے عیسو کی کافی اولاد پیدا ہوئی (ایضاً آیات ۴ تا ۴۳) بائبل گواہ ہے کہ ۱۲۰ برس کا آدمی چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتا (استثنا ۳۱ : ۲) ہم حیران ہیں کہ عیسو ۱۲۰ برس کا ہو کر شادیاں کرنے لگا؟ اگر اضحاق کی فوتگی کے دوسرے ہی روز عیسو نے تینوں نکاح کر لیے ہوں (جو کہ ناممکن ہے) اور اسی روز تینوں بیویاں حاملہ ہو گئی ہوں تو عدہ سے الیفزا اور بشامہ بنت اسمٰعیل سے رعوایل اور ابیلسامہ سے یعوس پیدا ہونے تک کم از کم نو ماہ کا عرصہ درکار ہے (پیدائش ۳۶ : ۴ و ۵) یعوس کی پیدائش کے روز ہی اگر ابیلسامہ پھر حاملہ ہو گئی ہو تو یعام کی پیدائش تک مزید ۹ ماہ کا عرصہ ہے، اور اگر یعام کی پیدائش کے روز ہی ابیلسامہ پھر حاملہ ہوئی ہو تو اضحاق کی موت سے قورح کی پیدائش تک کم از کم ۲ برس تین ماہ کا عرصہ ہے (ایضاً ۵) اس کے بعد عیسو اپنے بھائی یعقوبؑ کو کنعان ہی میں چھوڑ کر خود بیویوں اور بچوں کو ساتھ لے کر دوسرے ملک (کوہ شعیر) میں جا بسا (ایضاً ۶ تا ۸) وہاں عیسو کے بیٹے جوان ہوئے اور ان کی شادیاں ہوئیں، شادی کے وقت اگر عیسو کے بیٹے الیفیز کی عمر کم از کم ۱۴ برس بھی تسلیم کر لی جائے تو یکے بعد دیگرے الیفیز کے بیٹوں تیمان، اومر، صفو، جعتام، قنز، عمالیق کی پیدائش تک کم از کم اٹھارہ برس چھ ماہ کا عرصہ بنتا ہے (ایضاً ۱۰ تا ۱۹) اور اگر عمالیق کی پیدائش کے دن ہی یوسفؑ کو بیچا گیا ہو تو اضحاق کی موت سے لے کر یوسفؑ کے بیچے جانے تک مدت کم از کم ۲۰ = ۲ + ۱۸ برس تو ضرور ہی ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے مصر پہنچ جانے کے بعد یہوداہ نے حیرہ نامی ایک عدلامی دوست کی مدد سے سوع کنعانی کی بیٹی سے بیاہ کر لیا اور یکے بعد دیگرے عیر، اونان، سیلہ پیدا ہوئے (ایضاً ۳۸ : ۱ تا ۵) اگر یوسف کے بیچے جانے کے روز ہی یہوداہ نے بت سوع سے بیاہ کر لیا ہو (۱۔تواریخ ۲ : ۳) تو پہلوٹھے عیر کی پیدائش تک کم از کم ۹ ماہ کا عرصہ ضروری ہے۔ عیر کم از کم ۱۶ برس کا ہو گا جب اس کی شادی تمر سے ہوئی (پیدائش ۳۸ : ۶) پھر کافی عرصہ بعد خدا نے نامعلوم گناہ کی پاداش میں عیر کو مار ڈالا (ایضاً ۳۸ : ۷) تمر اور عیر نے اگر کم از کم ۳ ماہ بھی ازدواجی زندگی گزاری ہو تو اضحاق کی موت سے عیر کی موت تک ۳۷ برس ہوئے۔ عیر کی موت کے بعد تمر کی شادی عیر کے چھوٹے بھائی اونان سے کر دی گئی (ایضاً ۳۸ : ۸) اسلامی قوانین میں نکاح ثانی کے لیے بیوہ کو کم از کم ۳ ماہ تک عدت میں رہنا پڑتا ہے۔ اللہ جانے عیر کی وفات کے کتنی دیر بعد تمر اونان کی بیوی بنی ہو گی لیکن خدا نے اونان کو بھی قتل کر دیا کیونکہ وہ خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرتا تھا (ایضاً ۳۸ : ۸ تا ۱۰) عیر کی بیوگی اور اونان کی زوجیت میں رہنے کا عرصہ کم از کم ایک برس تو ضرور ہی ہو گا۔ یوں اضحاق کی موت سے اونان کی موت تک کم از کم ۳۸ برس کا عرصہ ہے، اس سے کم ناممکن ہے۔ اونان کی ہلاکت کے بعد یہوداہ نے تمر کو سمجھایا کہ اس کا تیسرا بیٹا ابھی نابالغ ہے لہٰذا توسیلہ کے بالغ ہونے تک اپنے باپ کے گھر بیوگی کی زندگی بسر کر (ایضاً ۳۸ : ۱۱) چھوٹا سا بچہ سیلہ بھی آخر کار بالغ ہو گیا لیکن تمر سیلہ سے بیاہی نہ گئی۔ تب تمر نے بڑے مکر و فریب سے اپنے سسر یہوداہ سے زنا کروایا اور حاملہ ہو کر فارص کو جنم دیا (ایضاً ۳۸ : ۱۳ تا ۳۰) بقول بائبل مقدس کے یہی وہ فارص ہے جس کی اولاد سے حضرت داؤدؑ و سلیمانؑ اور یسوع مسیحؑ پیدا ہوئے (روت ۴ : ۸ تا ۲۲ ، ۱۔تواریخ ۳ : ۵ ، متی ۱ : ۳ و ۶ و ۱۶) سیلہ کی نابالغی سے بالغ ہونے تک ایک طویل عرصہ لگا، کیونکہ اونان کی وفات سے کافی عرصہ بعد یہوداہ کی بیوی بت سوع مر گئی (پیدائش ۳۸  : ۱۲) اس کے بعد سیلہ کی بلوغت اور یہوداہ کے تمر سے زنا کا واقعہ مرقوم ہے۔ اونان کی وفات کے بعد سیلہ کے بالغ ہونے اور بت سوع کے مرنے اور اس کے بعد سسر یہوداہ کے بہو تمر سے زنا کے نتیجہ میں فارص کے پیدا ہونے تک کم از کم چھ برس کا عرصہ تو ضرور ہی ہے۔ قارئین حساب لگا کر دیکھ لیں وہ چھ برس سے کم کا اندازہ نہ لگا سکیں گے۔ چنانچہ اضحاق کی وفات سے فارص کے پیدا ہونے تک کا عرصہ کم از کم ۴۴ = ۲ + ۳۸ برس کا عرصہ ضروری ہے۔
پھر فارص جوان ہوا، اس کی شادی ہوئی اور دو بیٹے حصرون اور حمول پیدا ہوئے۔ یہی حصرون اور حمول مصر میں آمد کے وقت حضرت یعقوبؑ کے ساتھ تھے (ایضاً ۴۶ : ۱۲) اگر فارص کی شادی ۱۶ برس کی عمر میں بھی تسلیم کر لی جائے تو اضحاق کی موت فارص کی شادی تک کا عرصہ ۶۰ = ۱۶ + ۴۴ برس کا عرصہ کم از کم ہے۔ اگر شادی کے روز ہی فارص کی بیوی حاملہ ہو گئی ہو تو حصرون کی پیدائش تک ۹ ماہ کا عرصہ ضروری ہے اور اسی روز دوبارہ حاملہ ہو جائے تو فارص کی شادی سے حمول پیدائش تک ڈیڑھ برس کا عرصہ ضروری ہے۔ اور اگر حمول کی پیدائش کے روز ہی بنی اسرائیل مصر پہنچ گئے ہوں تو اضحاقؑ کی وفات سے بنی اسرائیل کی مصر میں آمد تک کم از کم ۱۶ برس ۶ ماہ کا عرصہ ضروری ہے۔ یہ عرصہ ہم نے پوری کوشش کر کے کم از کم بیان کیا ہے اس سے کم ممکن ہی نہیں۔ چلیے ہم یہ عرصہ مزید ڈیڑھ برس کم تسلیم کر لیتے ہیں یعنی ۶۰ برس۔ لیکن بائبل مقدس کہتی ہے کہ صرف ۱۰ برس میں یہ سب کچھ ہو گیا۔

’’معالم العرفان فی دروس القرآن‘‘ ۔ جلد ۱۳ و ۱۴

ادارہ

افادات: حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی (بانی مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ)
مرتب: حاجی لعل دین (ایم اے علومِ اسلامیہ)
ناشر: مکتبہ دروس القرآن، فاروق گنج، گوجرانوالہ
قیمت: ۲۳۰ روپے (جلد ۱۳)، ۲۰۵ روپے (جلد ۱۴)
تفسیرِ قرآن اگر ایک کارِ سعادت ہے تو ایک امرِ دشوار بھی ہے۔ اس میں ذرا سی اعتقادی و نظریاتی لغزش مفسر کو اخروی نعمتوں سے محروم بھی کر سکتی ہے اور قاری کو گمراہی کی دلدل میں بھی دھکیل سکتی ہے۔ اسی لیے جہاں علم و فہم کی ضرورت ہے وہاں اعتدال و دیانت بھی ناگزیر ہے تاکہ کمال احتیاط پیدا ہو سکے۔ اور یہ احتیاط اسی صورت میں ممکن ہے کہ فکری آزادی اور نظریاتی بے راہ روی کے اس نازک دور میں قرآن پاک کے نظریاتی اصولوں کا تسلسل و تواتر کسی مقام پر ٹوٹنے نہ پائے۔ وہی نظریاتی تسلسل مقصدِ نزولِ قرآن کی اصل روح ہے، اس کے بغیر زبان و کلام کی ادبیت و روانی سے آراستہ تفاسیر ایک بے روح و بے جان ڈھانچہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کیونکہ قرآن پاک کا درسِ اخوت اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے کہ اس کے ماننے والوں کے درمیان زنجیری ربط قائم رہے، کوئی کڑی کسی مقام پر ٹوٹنے نہ پائے، اور یہ زنجیری ربط اس وقت تک ممکن نہیں جب تک نظریاتی تسلسل قائم نہ ہو۔ اسی نظریاتی تسلسل کے حوالہ سے امتِ مسلمہ کا صدیوں پر محیط یہ زنجیری ربط اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ اسلام دشمن قوتوں کی ظاہری و باطنی کاوشیں اس ربط میں دراڑیں ڈالنے میں ناکام و نامراد رہیں۔ بے شمار فقہی اختلافات اور فروعی تنازعات کے باوجود اصولی نظریاتی وحدت بدستور موجود ہے، اور یہی وہ معیارِ حقیقت ہے جس کے ذریعے نظریاتی آزاد خیالیوں کی راہ میں بند باندھے جا سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عصرِ حاضر کے جدید مسائل میں اجتہاد اور ریسرچ کی اشد ضرورت ہے لیکن اس کے لیے قدیم و متواتر اصولوں سے انحراف و صرفِ نظر بھی قرینِ انصاف نہیں۔ دورِ جدید کے مغربی تہذیب سے مرعوب جدت پسند طبقہ نے نظریاتی قدامت پسندی کے خلاف جو خطرناک یلغار کر رکھی ہے وہ امتِ مسلمہ کو اس کے روشن و بے نظیر ماضی سے کاٹنے کی ایک خوفناک سازش ہے، اور مغرب کا میڈیا اسی طبقہ کی معاونت کے لیے پوری طرح سرگرمِ عمل ہے۔ صورت و کردار کے حوالہ سے تو امت کا کثیر حصہ اپنے ماضی سے کٹ ہی چکا ہے، اب اعتقاد و افکار کے حوالہ سے بھی اسے اکابر و اسلاف سے دور کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ شکل و صورت کے اعتبار سے تو مسلم و غیر مسلم کی تفریق پہلے ہی تقریباً مٹ چکی ہے، فکر و اعتقاد کی تبدیلی سے مسلمان کے اندر جو ’’جدید مسلمان‘‘ برآمد و نمودار ہو گا اس کے زہریلے اثرات نسلوں کی تباہی و بربادی کا باعث بن سکتے ہیں، اور جدت پسندی کے یہ سب فتنے ان لوگوں کے اٹھائے ہوئے ہیں جن کے بارہ میں اکبر الٰہ آبادی مرحوم فرماتے ہیں کہ ؎
انہوں نے دین کب سیکھا ہے جا کر شیخ کے گھر میں
پلے کالج کے چکر میں مرے صاحب کے دفتر میں
تفسیرِ قرآن کے لیے جہاں نظریاتی تسلسل ضروری ہے وہاں طرزِ بیان میں عام فہمی بھی ناگزیر ہے تاکہ علمی انحطاط کے اس دور میں نیم خواندہ اور غیر تعلیم یافتہ حضرات بھی با آسانی اس سے استفادہ کر سکیں۔ زیرِ نظر تفسیر چونکہ حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی مدظلہ (تلمیذِ رشید شیخ الاسلام حضرت حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ) کے معمول کے عوامی دروس ہی پر مشتمل ہے اس لیے اس میں وہ لفظی دشواریاں نہیں ہیں، بلکہ ہر طبقہ اور ہر سطح کے لوگ اس سے با آسانی استفادہ کر سکتے ہیں۔ اگرچہ متعدد مقامات پر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، حجۃ الاسلام حضرت (مولانا محمد قاسم) نانوتوی، اور امام انقلاب حضرت (مولانا عبید اللہ) سندھی رحمہم اللہ تعالٰی کے مضامین و اصطلاحات پر بھی بحث موجود ہے، لیکن ان کو بھی سادہ اور عام فہم انداز میں بیان کیا گیا ہے، اور ثقل موجود بھی ہے تو بہت کم مقامات پر، اس لیے مجموعی اعتبار سے یہ تفسیر ہر سطح کے لوگوں کے لیے مفید ہے۔ اس میں یہ خوبی بھی ہے کہ جدید مسائل پر حسبِ ضرورت بحث موجود ہے۔ اس تفسیر کی جلد ۱۳ اور جلد ۱۴ ہمارے پیشِ نظر ہے۔

جلد ۱۳

جلد ۱۳ میں سورۃ الفرقان، الشعراء، النمل، القصص، العنکبوت اور الروم کی تفسیر ہے۔
الفرقان سولہ دروس پر مشتمل ہے جس میں کمالِ عبدیت، نزولِ قرآن، نبی کی امتیازی حیثیت، معترضین کا تصورِ رسالت، اشتراکیت کے نظریۂ مساوات کا رد، سلطنتِ خداوندی کی خصوصیات، قانون کی پابندی، فلسفۂ جہاد، اس کے مقاصد اور اس کی اقسام، مشاہداتِ قدرت، استوٰی علی العرش کا مفہوم، برجوں اور سیاروں کی اہمیت و حیثیت، عباد الرحمٰن کے اوصاف، اور سماعِ موتٰی وغیرہ مضامین پر بحث کی گئی ہے۔
الشعراء انیس دروس پر مشتمل ہے جس میں اممِ سابقہ کے حالات، شاعری کی مجموعی اعتبار سے قباحتیں، اور شعراء حقہ کا تذکرہ کے عنوانات پر بحث موجود ہے۔
النمل سترہ دروس پر مشتمل ہے جس میں علم کی اہمیت، انبیاءؑ کی وراثت، سلیمان علیہ السلام کے واقعات کی تفصیل، سرکش اقوام کی ہلاکت، سماعِ موتٰی، سماعِ انبیاءؑ اور مناظرِ قیامت وغیرہ مضامین پر بحث کی گئی ہے۔
القصص انیس دروس پر مشتمل ہے جس میں طبقاتی کشمکش، تکمیلِ مشن کی بنیادی ضروریات، ولادتِ موسٰیؑ کے تفصیلی واقعات، مناقبِ صحابہ کرامؓ، روافض کی گمراہی، ایران کا غیر اسلامی شیعہ انقلاب، خمینی کے کفریہ عقائد، مشاہداتِ عالم، نبوت ایک وہبی منصب، اور کفار سے عدمِ تعاون وغیرہ مضامین پر بحث کی گئی ہے۔
العنکبوت بارہ دروس پر مشتمل ہے جس میں احتساب، والدین سے حسنِ سلوک، صالحین کی رفاقت، شرک کی ممانعت، ماحول کی درستگی، سرکش اقوام کی ہلاکت، فواحش و منکرات سے روک تھام، ہجرت کا حکم اور اس کی فرضیت، ذخیرہ اندوزی سے اجتناب، خاندانی منصوبہ بندی کی ممانعت، دنیا کی ناپائیداری اور مجاہدہ کی مختلف صورتیں وغیرہ مضامین زیربحث ہیں۔
الروم تیرہ دروس پر مشتمل ہے جس میں ایران پر روم کی جنگی برتری کی نبویؐ پیشگوئی، روم کے عروج و زوال کے واقعات، قماربازی کی ممانعت، زمین کی آبادکاری، جنسی تقسیم (مرد و عورت) کے اعتبار سے انسان کی تخلیق، افزائشِ نسل پر غور و تدبر کی دعوت، زبانوں کا اختلاف، آسمان کی قدرتی اور زمین کی مصنوعی بجلی کے فوائد و نقصانات، ایٹمی صلاحیت کا حصول، ٹیکنالوجی کی تیاری، نظامِ غلامی اور اس کا خاتمہ، فرقہ بندی اور اس کی مذمت، سود کی ممانعت، زکوٰۃ کی برکت، فساد کے اسباب اور اس کے نقصانات، دعا کی حجیت، وسیلہ کی جائز و ناجائز اقسام، سماعِ موتٰی، انسانی زندگی کے مختلف ادوار، خلافتِ راشدہ اور بعد کا دورِ انحطاط، جہالت کی اقسام اور اس کے نقصانات وغیرہ مضامین پر بحث کی گئی ہے۔

جلد ۱۴

جلد ۱۴ میں سورۃ لقمان، السجدۃ، الاحزاب، سبا، فاطر، یس، اور الصافات کی تفسیر شامل ہے۔
لقمان دس دردس پر مشتمل ہے جن میں مادی و روحانی نعمتیں، نماز کی اہمیت اور اس پر استقامت، جائز و ناجائز کھیلوں کی تقسیم، ناچ اور گانے کو فنونِ لطیفہ میں شامل کر کے عریانی و فحاشی کو فروغ دینے کی سازش، رقص و سرود کے بڑھتے ہوئے رجحان سے پیدا ہونے والی اخلاقی قباحتیں، قوالی کی شرائط اور حلال و حرام کی صورتیں، حدیث جبریلؑ کی روشنی میں ایمان کا مفہوم اور اس کے اجزاء، تخلیقِ جبال کے مقاصد، حکمت کی تعریف اور لقمان حکیم کی حکیمانہ باتیں، حقوقِ والدین، مدتِ رضاعت اور جمہور کا مسلک، حجیتِ تقلید، آخرت میں احتساب کا عمل، فرضیتِ نماز اور اس کی اجتماعیت کے فوائد، صبر کی ترغیب، تکبر کی ممانعت، چال میں میانہ روی، آواز میں پستی، آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کے نقصانات، توحید کے درجات، صبر و شکر کی منزل، اور مفاتح الغیب علومِ خمسہ وغیرہ عنوانات پر بحث کی گئی ہے۔
السجدۃ چھ دروس پر مشتمل ہے جس میں ملحدانہ نظام کی طرف مراجعت کے نقصانات، مشرکانہ و موحدانہ شفاعت کا فرق، اللہ تعالٰی کی صفات مختصہ حکمتِ ولی اللّٰہی کی روشنی میں، حواسِ خمسہ اور اعضائے رئیسہ کی نعمت، امامت کا مدار ہدایت پر، ظلم و ناانصافی کا سبب حکمرانوں کی عوامی معیارِ زندگی پر فوقیت، اور مسلمانوں کی محرومی کے اسباب وغیرہ مضامین پر بحث ہے۔
الاحزاب پچیس دروس پر مشتمل ہے جس میں پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر اور شرفِ خاتم الانبیاءؐ، دینی معاملات میں سودے بازی کی ممانعت، فلسفۂ ولی اللّٰہی کی روشنی میں چار اعدائے دین تعلیماتِ امامِ انقلابؒ کی روشنی میں، مروجہ سیاست کی بے اعتدالیوں کے اسباب، علمِ تشریح الاعضاء کی روشنی میں انسانی اعضاء کی تعداد، مسئلۂ ظہار، متبنی بیٹے کا حکمِ شرعی، نبی کا امت سے تعلق اور امت پر اس کے حقوق، ازواجِ مطہراتؓ کا امت سے رشتہ، میثاقِ انبیاءؑ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت، غزوۂ خندق کے واقعات اور انعاماتِ الٰہیہ، مدارِ نجات اسوۂ حسنہ، یہودِ مدینہ کی عہد شکنی اور ان کی سرکوبی، فتحِ خیبر، واقعہ ایلاء اور ازواجِ مطہراتؓ کی استقامت، امہات المومنین کا مقام، اتقاء اور تبرج جاہلیت سے گریز کا حکم، پردہ کا حکمِ شرعی اور اس کی حدود و قیود، اہلِ بیت کی طہارت اور اہلِ بیتؓ کی تعریف، مومنین و مومنات کے اوصاف، عقیدہ ختم نبوت، جھوٹے مدعیانِ نبوت اور مرزا قادیانی آنجہانی، ذکرِ الٰہی کی فضیلت اور مقاصد، اوصافِ نبوت اور عقیدۂ حاضر و ناظر کی نفی، طلاق و عدت کے مسائل، عائلی قوانین کی تباہ کاریاں، اسلام اور غیر مذاہب کا تقابلی مطالعہ، تعددِ ازواج کی اجازت اور اس کی حکمت، دعوتِ ولیمہ کی مسنونیت، امہات المومنینؓ سے نکاح کی ممانعت اور اس کے اسباب، عقیدۂ حیات الانبیاءؑ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھنے کی فرضیت اور اس کے آداب و فوائد، خدا و رسول اور مومنین کی ایذا رسانی کی سزا، پردہ کا حکم و حکمت، موسٰی علیہ السلام کی ایذا رسانی، حملِ امانت، اس کی علت، اور اقوالِ مفسرینؒ کی روشنی میں امانت کی تعریف وغیرہ مضامین پر بحث کی گئی ہے۔
السبا تیرہ دروس پر مشتمل ہے جس میں داؤد علیہ السلام کے فضائل اور ان کے معجزات، معجزہ کی تعریف، معجزہ، کرامت اور استدراج میں فرق، سلیمان علیہ السلام کے معجزات، عملیات کے ذریعہ جنات کی تسخیر کا حکم، قومِ سبا کی تاریخی حیثیت، بلدۃ طیبہ کی تعریف، اقسامِ شرک، حضور علیہ السلام کی عالمگیر نبوت، عیسائی اور یہودی مشنریوں کے کارندے وغیرہ عنوانات زیربحث ہیں۔
الفاطر گیارہ دروس پر مشتمل ہے جس میں صفاتِ خداوندی، تخلیق و اوصافِ ملائکہ، عورت کے شرعی حقوق اور مغرب زدہ عورتوں کی بے راہ روی، شیطان کی وارداتِ اغوا اور اس سے بچنے کا طریقہ، حیوانی زندگی کی نشوونما کے وسائل، تخلیقِ انسانی کے مراحل، احتساب کی فکر، تزکیہ کی ضرورت، سماعِ موتٰی، خلافتِ ارضی اور فساد فی الارض کی حقیقت، نظامِ کائنات اور اس کا استحکام وغیرہ عنوانات زیربحث آئے ہیں۔
یٰس دس دروس پر مشتمل ہے جس میں قرآن پاک کی حقانیت اور مقصدِ نزول، تصدیقِ رسالت، بدعات کا رد فلسفۂ شاہ ولی اللہؒ کی روشنی میں، دین و استقامت کے ایمان افروز واقعات، گردشِ ایام اور فلکی نظام، رزق کی خدائی تقسیم کی حکمت، شعرگوئی کی جائز و ناجائز صورتیں وغیرہ مضامین پر بحث کی گئی ہے۔
الصافات دس دروس پر مشتمل ہے جس میں مقصدِ تخلیقِ نجوم، احوالِ آخرت اور انبیاء کرامؑ کی استقامت، ابراہیم علیہ السلام کے حالات و واقعات، عصمتِ انبیاءؑ، انبیاء کرامؑ کی خطاءِ اجتہادی اور مودودی صاحبؒ کی ضلالت و گمراہی وغیرہ مضامین پر بحث کی گئی ہے۔
مضامین کی محققانہ حیثیت و اہمیت کے علاوہ مرتب کا عنوان بندی کا ذوقِ سلیم بھی قابلِ داد ہے اور حاشیہ میں مسائل و واقعات کے حوالہ جات اس پر مستزاد ہیں۔ کاغذ، کتابت، طباعت اور ڈائی دار سنہری جلد مرتب و ناشر کے اعلٰی ذوق کے آئینہ دار ہیں۔ خدا تعالٰی اس تفسیر کو مفسر، مرتب اور معاونین کے لیے ذریعۂ نجات اور قارئین کے لیے ذریعۂ ہدایت بنائیں، آمین ثم آمین۔

رمضان

ادارہ

(۱) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں۔‘‘ (متفق علیہ)

(کمپوزنگ جاری)