1991

اکتوبر ۱۹۹۱ء

جناب وزیر اعظم! زخموں پر نمک پاشی نہ کیجئے!مولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
کتب حدیث کی انواعشیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ 
حصولِ علم کے لیے ضروری آدابشیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ 
قادیانی مکر و فریب کے تاروپودحسن محمود عودہ 
ذاتِ لازوالظہور الدین بٹ 
توکل کا مفہوم اور اس کے تقاضےالاستاذ السید سابق 
انسانی بدن کے اعضا اور ان کے منافعحکیم محمد عمران مغل 
تعارف و تبصرہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
انسان کی ایک امتیازی خصوصیتحضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ 
علماء اور سیاستداںحضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ 
مدرسہ نصرۃ العلوم کے فارغ التحصیل طالب علم کا اعزاز و امتیازادارہ 

جناب وزیر اعظم! زخموں پر نمک پاشی نہ کیجئے!

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ روز پرائم منسٹر سیکرٹریٹ اسلام آباد میں پندرہویں قومی سیرت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ

’’نفاذِ اسلام ہمارا مشترکہ خواب ہے اور اس کی عملی تعبیر ہماری مشترکہ آرزو ہے۔ اس کے لیے ہمیں مشترکہ جدوجہد کرنی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ

’’ہمیں منزل اس وقت ملے گی جب سیاست دین کے تابع ہو گی نہ کہ دین سیاست کے۔‘‘ (بحوالہ نوائے وقت لاہور ۔ ۲۴ ستمبر ۱۹۹۱ء)

نفاذِ اسلام کے حوالہ سے وزیر اعظم کا یہ ارشاد اس قدر حقیقت پسندانہ ہے کہ اس پر بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ لیکن یہ روایت قومی سطح پر ہماری بدنصیبی کا حصہ بن چکی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران جب کسی سیرت کانفرنس، علماء کانفرنس، مشائخ کانفرنس، یا مذہبی تقریب کے سٹیج پر ہوتے ہیں تو اپنے روز مرہ کے معاملات، سرکاری پالیسیوں، حکومتی فیصلوں اور گروہی طرز عمل کے دائروں سے وقتی طور پر نکل کر ایسے تخیلاتی ماحول میں پہنچ جاتے ہیں جس کا ان کی عملی زندگی سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ اور جب اس تخیلاتی فضا سے باہر آ کر اپنے عملی ماحول میں داخل ہوتے ہیں تو ان سٹیجوں پر کہی گئی باتوں کی فائیل آئندہ کسی ایسے ہی سٹیج کے لیے لپیٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کا یہی دوہرا کردار قوم کے لیے مسلسل عذاب کا باعث بنا ہوا ہے لیکن اس میں تبدیلی کے سرِدست کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔

میاں محمد نواز شریف کی حکومت نفاذِ اسلام کے وعدہ کے ساتھ برسرِ اقتدار آئی ہے لیکن سینٹ کے منظور کردہ علماء کے متفقہ پرائیویٹ شریعت بل کے ساتھ جو حشر اس حکومت کے ہاتھوں ہوا ہے وہ نفاذِ شریعت کی جدوجہد کے باشعور کارکنوں کو ایک لمبے عرصے تک نہیں بھولے گا۔ لیکن ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ سرکاری شریعت بل کو پارلیمنٹ سے منظور کراتے ہوئے اس کی دفعہ ۳ میں قرآن و سنت کی بالادستی کو ’’سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچے کے متاثر نہ ہونے‘‘ کے ساتھ مشروط کر کے قرآن و سنت کی بالادستی کا جو مذاق اڑایا گیا ہے اس کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی کہ وزیر اعظم سیاست کو دین کے تابع کرنے کی خوشخبری سنا رہے ہیں۔

کیا ہم جناب وزیر اعظم سے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ جب پارلیمنٹ میں سرکاری شریعت بل کے ذریعہ قرآن و سنت کی بالادستی کو محدود کرنے اور سود کو تحفظ دینے کے اقدامات ہو رہے تھے اس وقت ان کی ’’سیاست کو دین کے تابع کرنے‘‘ کی یہ سوچ کون سے ڈیپ فریزر میں منجمد پڑی تھی؟

معاف کیجئے! قوم اور دینی حلقے نفاذِ اسلام کے حوالہ سے حکمرانوں سے قطعی طور پر مایوس ہو چکے ہیں اور انہیں اس سلسلہ میں حال یا ماضئ قریب کے حکمرانوں سے کسی خیر کی کوئی توقع نہیں ہے۔ اب ہماری ان سے صرف یہ درخواست ہے کہ ’’نفاذِ اسلام کو مشترکہ خواب قرار دینے‘‘ اور ’’سیاست کو دین کے تابع کرنے‘‘ جیسی خوشنما اور دلفریب باتیں کر کے دلوں کے زخم نہ کریدیے اور ان زخموں پر نمک پاشی نہ کیجئیے، آپ کا اس ملک کے عوام اور دینی حلقوں پر یہی سب سے بڑا احسان ہو گا۔

علماء اور دینی کارکنوں کا قتلِ عام

گزشتہ دنوں جھنگ میں مولانا سید صادق حسین شاہؒ فاضل دیوبند اپنے چار رفقاء سمیت وحشیانہ فائرنگ کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کر گئے۔ لاہور میں سپاہ صحابہؓ کے جلسہ میں بم کے دھماکے سے چار کارکن شہید ہو گئے۔ اور نوائے وقت کے بزرگ کالم نویس میاں عبد الرشید کو ان کی رہائشگاہ پر فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

علماء اور دینی کارکنوں کے قتل کا یہ سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے۔ علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ، مولانا احسان اللہ فاروقیؒ، مولانا حبیب الرحمٰن یزدانیؒ، مولانا حق نواز جھنگویؒ، مولانا ایثار القاسمیؒ، میاں اقبال حسینؒ، مولانا عبد الصمد آزاد، اور حافظ عتیق الرحمٰن سلفی جیسے حضرات اس قتلِ عام کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، لیکن فضا میں سازش کی بو سونگھ لینے والی پنجاب پولیس ابھی تک ان علماء اور دینی کارکنوں کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکی۔

ہم جھنگ اور لاہور کے شہداء کی مغفرت اور بلندئ درجات کے لیے دلی دعا کے ساتھ ان کے پسماندگان کے ساتھ رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں اور حکمرانوں کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے متوجہ کرتے ہیں کہ قاتلوں کی گرفتاری اور علماء و دینی کارکنوں کے مسلسل قتل عام کی روک تھام کے لیے سنجیدگی کے ساتھ پیشرفت کیے بغیر امنِ عامہ کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا جا سکتا۔

انا للہ وانا الیہ راجعون

دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور بھارت کے ممتاز عالمِ دین حضرت مولانا معراج الحقؒ گزشتہ دنوں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ انہوں نے ساری زندگی علومِ دینیہ کی تعلیم و تدریس میں بسر کی اور بے شمار تشنگانِ علوم کو سیراب کیا۔

پاکستان کے ممتاز طبیب اور صاحبِ قلم جناب حکیم آزاد شیرازیؒ کا بھی گزشتہ دنوں انتقال ہو گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے حلقہ کے خاص آدمیوں میں سے تھے اور ساری عمر اہلِ حق کے ساتھ وابستہ رہے۔

اللہ تعالیٰ مرحومین کو جنت الفردوس میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین۔

کتب حدیث کی انواع

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

(۱) الجوامع

جامع وہ کتاب کہلاتی ہے جس میں حدیث کا ہر وہ باب موجود ہو جو اس شعر میں مذکور ہے ؎ 
سیر و آداب و تفسیر و عقائد
 فتن و احکام و اشراط و مناقب
اس معنی میں بخاری شریف اور ترمذی شریف تو بالاتفاق جامع ہیں، البتہ مسلم شریف میں اختلاف ہے کیونکہ اس میں باب التفسیر برائے نام ہے۔ لیکن محققین کے نزدیک تحقیقی اور صحیح بات یہی ہے کہ مسلم بھی جامع ہے، اگر چہ باب التفسیر کم ہی سہی، لیکن ہے تو ضرور۔ کیونکہ جامع ہونے کے لیے کسی باب کا ان آٹھ میں سے مفصل ہونا ضروری نہیں، بلکہ صرف وجود ہی کافی ہے۔ اسی لیے علامہ مجد الدین ابوطاہر محمد بن يعقوب فیروز آبادیؒ (المتوفی ۸۱۷ھ) صاحبِ قاموس نے اس کو جامع قرار دیا ہے۔ نیز کشف الظنون میں ملا کاتب چلپیؒ (المتوفی ۱۰۵۳ ھ) نے بھی اس کو جوامع میں شمار کیا ہے۔ ان کے علاوہ جوامع میں سے جامع معمر بن راشد الامام الحجۃ جامع سفیان ثوریؒ (۱۶۱) ، جامع عبد الرزاق بن ہمام الحافظ الكبيرؒ (المتوفی ۲۱۱ھ) (جو ”مصنف عبد الرزاق“ کے نام سے مشہور ہے اور حال ہی میں سولہ جلدوں میں شائع ہوئی ہے) اور جامع دارمی مشاہیر جوامع ہیں۔

(۲) المسانید

مسند وہ کتاب ہوتی ہے جس میں فضائل و مناقب کے لحاظ سے یا حروف تہجی کی ترکیب سے ایک صحابی کی احادیث ایک جگہ جمع کر دی جائیں، اس میں ابواب فقہیہ کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔ مثلاً مسند احمد، مسند طیالسی، مسند حمیدی، مسند نعیم بن حماد، مسند عثمان بن ابی شیبہ، مسند اسحاق بن راہویہ، مسند ابی بکر بن شیبہ، مسند اسد بن موسیٰ، مسند عبد بن حمید، مسند البزار اور مسند ابی یعلی (مسند الحسن بن سفیان، مسند عبد الله بن محمد المسندی ومسند یعقوب بن شیبہ و مسند علی بن المدینی و مسند بن ابی عزرة تذكرۃ الحفاظ (ص۳۲۸، ج۳)

(۳) السنن

ایسی کتابیں ہوتی ہیں جن میں فقہی ابواب کو ملحوظ رکھا گیا ہو اور ہر باب کی احادیث ان میں درج نہ ہوں مثلاً باب التفسیر نہ ہو۔ جیسے سنن ابی داؤد، سنن نسائی، ابن ماجہ، سنن شعبی (جو ابواب الشعبی کے نام سے مشہور ہے) ، سنن بیہقی، سنن دارمی، سنن دار قطنی، سنن سعید بن منصور، سنن ابن جریج اور سنن وکیع بن الجراج وغیره

(۴) المعاجم

معجم اس کو کہتے ہیں جس میں محدث اپنے کسی شیخ کی سنی ہوئی روایات حروف تہجی کی ترتیب پر جمع کر دے۔ جیسے معاجم ثلاثہ، صغیر، کبیر، اوسط للطبرانی، معجم اسماعیلی، معجم ابن الغوطی، معجم حجم ابی بكر المقرى، معجم شہاب الدین القوصی اور معجم ابن قانع وغیرہ

(۵) الاجزاء

جز ایسی کتاب ہوتی ہے جس میں ایک مسئلہ پر اس کے مثبت اور منفی پہلو کی احادیث جمع کر دی جائیں۔ جیسے جزء القرأة للبخاری، جزء رفع الیدین للبخاری، جزء الجہر ببسم الله للدارقطنی (متوفی ۳۸۵ھ) جزء القرأة للبيہقی ابوبكر احمد بن الحسین (المتوفی ۴۵۸ھ) اور جزء الجہر ببسم الله للخطیب البغدادی (م۴۶۳) وغیره

(۶) المستخرجات

مستخرج وہ کتاب ہوتی ہے جو کسی دوسری کتاب کی تائید اور اثبات کے لیے لکھی جاتی ہے، لیکن تدریب الراوی ص۵۶ اور عجالہ نافعہ للشاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ (المتوفی ۱۲۳۹) میں اس کی تصریح ہے کہ مستخرج اپنی جو سند پیش کرے اس سند میں اس مصنف کا واسطہ نہ آئے جس کی تائید کے لیے مستخرج لکھی گئی ہے۔ جیسے مستخرج اسماعیلی و مستخرج برقانی علی البخاری اور مستخرج ابی عوانہ و مستخرج ابی نعیم۔

(۷) المستدرکات

مستدرک وہ کتاب ہوتی ہے جس کو محدث نے اس نظریہ سے لکھا ہو کہ یہ احادیث فلاں محدث کی شرط پر ہیں، پھر اس نے ان کی تخریج کیوں نہیں کی؟ مثلاً المستدرک علی الصحیحین للحاکم وغیرہ، یہ سب سے زیادہ مشہور اور رائج ہے۔ لیکن امام حاکمؒ چونکہ تصحیح احادیث میں متساہل ہیں (تدریب ص۵۱) اس لیے انہوں نے بہت سی حسن ضعیف، منکر بلکہ موضوع احادیث کو بھی علی شرط الشیخین قرار دیا ہے۔ ان کے تساہل کی وجہ سے تو ابوسعید مالینیؒ نے یہاں تک کہہ دیا کہ مستدرک حاکم میں ایک حدیث بھی صحیح نہیں، لیکن علامہ سیوطیؒ نے تدریب الراوی ص۵۲ میں حافظ ذہبی محمد بن احمد بن عثمان شمس الدین ابو عبد الله الذہبیؒ شيخ الجرح والتعديل (مفتاح ج۱، ص۲۱۲) (المتوفی ۷۴۸ھ) (جو حاکم کے سب سے بڑے نقاد ہیں) کا قول نقل کیا ہے کہ مستدرک حاکم کی تقریباً نصف احادیث تو بے شک بخاری یا مسلم کی شرائط پر ہیں اور ایک ربع ایسی ہیں جن کے رجال قابل استدلال ہیں اور ایک ربع انتہائی ضعیف، منکر اور موضوع احادیث پر مشتمل ہے۔ اس پر علامہ ذہبیؒ نے تلخیص لکھی ہے۔ ذہبیؒ کی تصدیق پر حاکم کی تصحیح معتبر ہے۔

(۸) المسلسلات

مسلسل وہ ہے جس میں کسی راوی کی مخصوص حالت یا مخصوص قول کا ذکر ہو اور اول سے آخر تک وہ سند یوں ہی چلتی رہے۔ جیسے مسلسلات ابن ابی عصرون، مسلسلات دیباجی، مسلسلات علائی اور مسلسلات سیوطی وغیرہ۔ امام حاکمؒ نے معرفۃ علوم الحدیث (ص۳۲، طبع قاہرہ) میں اس کی مثال یوں دی ہے کہ مثلاً یہ حدیث آتی ہے۔ ” ان رسول الله صلى الله علیہ وسلم قبض على لحيتہ فقال اٰمنت بالله الى قولہ واٰمنت بالقدر خير وشره حلوه ومره الخ“  اور یہی طریقہ امام حاکمؒ تک چلا آیا، یعنی ہر استاد نے بوقت بیان ڈاڑھی پکڑی۔

(۹) العلل

وہ ایسی کتابیں ہیں جن میں معمول حدیثوں کا ذکر ہوتا ہے۔ جیسے کتاب العلل للبخاری، کتاب العلل لمسلم، علل ابن ابی حاتم، کتاب العلل الصغير و الكبير للترمذی، علل دارقطنی، علل متناہیہ لابن الجوزی و غیره

(۱۰) الاطراف

وہ ایسی کتابیں ہیں جن میں کسی حدیث کا کوئی ایک حصہ ایسے انداز پر نقل کیا جائے جو باقی حدیث پر دال ہو، مثلاً ”انما الاعمال بالنيات“ (یہ ٹکڑا بقیہ اگلی حدیث پر دال ہے) اس کی تمام اسانید جن جن سے وہ ثابت ہے جمع کر دیں یا کتب مخصوصہ کے ساتھ مقید کر دیں۔ جیسے الاشراف علی معرفۃ الاطراف لابن عساکرؒ، تحفہ الاشراف لابی الحجاج مزیؒ (استاذ ابن كثير) اور اطراف الكتب الستۃ لعبد الغنی المقدسی وغيره۔

(۱۱) الامالی

کشف الظنون میں ملا کاتب چلپی ترکی لکھتے ہیں کہ امالی املاء کی جمع ہے، وہ ایسی کتابیں ہیں کہ استاذ لکھوائے اور شاگرد لکھتے رہیں۔ جیسے امالی ابن حجر، امالی ابن شمعون، امالی ابن عساکر وغیرہ۔ فیض البارى، العرف الشذى، الكوكب الدرى اور اللامع الدراری وغیرہ بھی اسی نوع میں داخل ہیں۔

(۱۲) الشمائل

شمائل شمال کی جمع ہے جب کہ علامہ ابراہیم محمد بیجوری (المتوفی ۱۲۷۶ھ) شمائل محمدیہ ص۶ پر لکھتے ہیں: شمال ککتاب اور بعض یہ محاورہ پیش کرتے ہیں ”لیس من شمال الاكل بالشمال“ یہ ایسی کتب میں جن میں نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عادات، فضائل و محاسن ذکر ہوں، جیسے شمائل ترمذی۔

(۱۳) الرسائل

شاہ عبد العزیز صاحبؒ عجالہ نافعہ میں لکھتے ہیں کہ رسالہ وہ کتاب ہے جس میں صرف ایک ہی باب کی حدیثیں جمع کر دی جائیں، جیسا کہ ابن جوزیؒ اور حافظ ابو موسیٰ مدینیؒ نے لکھی ہیں اور امام شافعیؒ کی کتاب ”الرسالۃ فی اصول الفقہ“ جو كتاب الام کی ساتویں جلد کے آخر میں منضم ہے مشہور ہے۔

(۱۴) الاربعینات

اربعین وہ کتاب ہے جس میں چالیس حدیثیں جمع کر دی جائیں۔ ایک قسم سے تعلق ہوں یا متعدد اقسام سے، ایک سند سے متعلق ہوں یا متعدد اسانید سے۔ جیسے اربعین ابن مبارک، اربعین ابن دقیق العید، اربعین ابی نعیم، اربعین بیہقی، اربعین ابی عبد الرحمٰن، اربعین نووی، اربعین حاکم اور اربعین دارقطنی وغیره۔

(۱۵) المغازی

یہ مغزٰی کی جمع ہے۔ ایک تفسیر کی رو سے مغزی مصدر میمی ہے غزا یغزو سے اور بعض نے اسے ظرف بھی کہا ہے۔ وہ ایسی کتابیں ہیں جن میں نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے غزوات کا ذکر ہو۔ غزوہ اس جنگ کو کہتے ہیں جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنفسہٖ شریک ہوئے ہوں یا آپ نے حکم فرمایا ہو۔ جیسے مغازی ابن اسحٰق اور مغازی موسیٰ بن عقبۃ۔

(۱۶) التخریجات

تخریج ایسی کتاب ہے جس میں کسی دوسری کتاب کی احادیث کا ماخذ اسانید کے ساتھ بیان کیا جائے۔ جیسے تخریج الرافعیؒ، نصب الرایۃ فی تخریج احاديث الہدايۃ لجمال الدین یوسف زیلعیؒ (جسے تخریج الزیلعی بھی کہتے میں) اور اس کا ملخص الدرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ لابن حجرؒ ہے۔ التلخیص الحبیر لابن حجرؒ، الطاف الشاف فی تخریج احادیث الکشاف لابن حجرؒ، تخریج احیاء علوم الدین لزین الدین العراقیؒ اور البدر المنیر فی تخريج الاحاديث والآثار الواقعۃ فی الشرح الكبير لسراج الدین عمر بن الملقنؒ وغيره۔

(۱۷) الزوائد

وہ ایسی کتابیں ہوتی ہیں جن میں مرکزی کتب پر زائد احادیث پیش کی جاتی ہیں، عام اس سے کہ ان مرکزی کتب کی اسانید کے معیار پر ہوں یا نہ ہوں۔ جیسے مجمع الزوائد للہیثمیؒ وغیرہ۔

(۱۸) اختلاف الحدیث

وہ ایسی کتب میں جن میں ایک مضمون کی مختلف احادیث کو بیان کر کے ان کی تطبیق دی جائے۔ جیسے اختلاف الحدیث للشافعیؒ، مختلف الحديث لابن قتیبہؒ، مشكل الآثار و شرح معانی الآثار للطحاویؒ۔
نوٹ: کتبِ حدیث میں صرف مسند دارمی ہی ون وے ٹریفک ہے جس میں ایک ہی مد کی حدیثیں ہیں دوسری کی نہیں۔

(۱۹) السیر

سیر، سیرۃ کی جمع ہے۔ وہ ایسی کتابیں ہیں جن میں نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت اور زندگی کے حالات مذکور ہوں۔ جیسے سیرۃ ابن اسحٰق اور سیرۃ ابن جوزی وغیرہ۔

(۲۰) غرائب الحدیث

سند کے لحاظ سے غریب اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں کوئی شیخ منفرد ہوا اور دوسرے اس کو بیان نہ کرتے ہوں والغرابۃ لاتنا فى الصحۃ (مقدمہ مشكوٰة، ص۴) امام نوویؒ نے تقریب مع التدريب ص۳۷۵ اور امام سیوطیؒ نے تدریب الراوی ص۳۷۵ میں اس پر خاصی بحث کی ہے۔ بخاری کی پہلی اور آخری حدیث غریب ہے اور اس کے سوا اور بھی اس میں غرائب موجود ہیں۔
اور متن کے اعتبار سے غریب کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ حدیث کے متن کو صرف ایک ہی راوی نقل کرتا ہو، ففی الرسالۃ فی اصول الحديث للسيد الجرجانیؒ ص۲ ”والغريب ايضاً اما غريب اسنادا او متنا وهو ما تفرد بروایۃ متنہ واحد الخ“ یا اس کے متن میں کوئی لفظ مشکل ہو جس کی تفسیر کے بغیر مطلب واضح نہ ہوتا ہو۔ اس سلسلہ میں نضر بن شمیلؒ، ابو عبیدۃ معمر بن المثنىؒ، اصمعیؒ، ابو عبید القاسم بن سلامؒ، ابن قتیبہ الدینوریؒ، ابو سلمان الخطابیؒ کی کتابیں اور مجمع الغرائب لعبد الغافر الفارسیؒ و غريب الحديث لقاسم السرقسطیؒ و الفائق للزمحشری اور النہایۃ لابن اثیرؒ مشہور کتابیں ہیں (تدریب ص۳۷۸ و ص۳۷۹) اور اسی سلسلہ کی کتاب مجمع البحار لمحمد طاہر فتنیؒ اور المغرب ہیں۔

حصولِ علم کے لیے ضروری آداب

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

تحصیلِ علم میں مشغول حضرات کے لیے بعض آداب و ضروریات کا بیان مقصود ہے۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا فرمان ملاحظہ ہو:
قل هل يستوي الذين يعلمون والذين لا يعلمون إنما يتذكر أولو الألباب۔ (زمر: آیت ۹)
’’اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) !آپ کہہ دیجئے کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں (یعنی جو صاحب علم ہیں) اور وہ لوگ جو نہیں جانتے (یقیناً یہ برابر نہیں ہو سکتے) بے شک نصیحت تو وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و خرد ہیں۔‘‘
حقیقتِ حال یہ ہے کہ زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصود اور نصب العین انسان کے سامنے ضرور ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور مہمل بات ہوگی اور پھر اس کے ساتھ یہ بات بھی ضروری ہے کہ زندگی جدوجہد و تحصیل علم سے ہی پوری ہو سکتی ہے ؎ 
زندگی جہد ست و استحقاق نیست
جز بعلم انفس و آفاق نیست (اقبال)
اور انسانیت ہمیشہ علم کی روشنی میں ہی ترقی کرتی ہے، اس کے بغیر ترقی کا تصور ہی ممکن نہیں۔ چنانچہ امام بخاریؒ صحیح بخاری میں فرماتے ہیں:
انما العلم بالتعلم۔
’’علم بغیر سیکھنے کے نہیں آتا۔‘‘
علم سیکھنا پڑتا ہے کہ خود بخود نہیں آتا۔ خود بخود جو عالم بن بیٹھتے ہیں وہ نوابت (خود رو) اور اکثر گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ علم جس طرح عمل کے لیے ایک آلہ اور ذریعہ ہے، اسی طرح یہ خود مقصود بالذات شیئ بھی ہے، خصوصاً وہ علم جو ضروریاتِ دین اور حقائق الٰہیہ سے تعلق رکھتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے نمایاں وصف جو آپ نے اپنی ذات مبارکہ کے لیے خود فرمایا ہے وہ ”انما بعثت معلما“ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے معلم بنا کر بھیجا ہے اور آپﷺ کی سب سے بڑی خواہش ”رب زدنی علما“  (اے پروردگار! میرے علم میں ہر آن اضافہ فرما) ہی رہی ہے۔ اربابِ علم کا مرتبہ اور شان حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمائی ہے ”العلماء ورثۃ الأنبیاء“ علماء حق درحقیقت انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔
ہمارے اسلاف کرام نے علم کی بلندیوں کو سر کیا اور اس کے ساتھ کسی جائز کسب و ہنر سے اباء نہیں کیا۔ ہماری تاریخ کے صدہا قابل فخر رجال علم ہیں، حصاف (جوتے کے ٹانکے لگانے والا) حلوائی سقطی (کباڑیوں کا کام کرنے والا) مغازل (سوت کاتنے والے) اسکاف (موچی) جصاص (چونے کا کام کرنے والا) وغیرہ سینکڑوں ہزاروں ایسے امام اور ارباب علم ہیں جن کے آگے بڑے بڑے ملوک و امراء کی گردنیں ادب و احترام سے خم ہو جاتی ہیں۔ دین اور اہل دین اور مدارس دینیہ (مدارس عربیہ) پر انتہائی غربت کا دور ہے، ہر متعلم اور فکر مند انسان پر ذمہ داریوں کا احساس کس قدر ضروری ہے ؎ 
فانصر بھمتک العلوم واھلھا 
ان العلوم قلیلۃ الانصار
(شوقی)
’’اپنی ہمت و پوری توجہ سے علوم اور اہل علوم کی مدد کرو، کیونکہ علوم کے مددگار بہت تھوڑے ہیں۔‘‘ 
مدارس دینیہ اور درسگاہیں اسلامی قلعے ہیں اور دین کی آخری پناہ گاہیں۔ دین پر غربت کا دور دورہ ہے۔ ان قلعوں کو بہت سے غلط کار ہاتھوں نے بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ اگر یہ لوگ اپنی ذمہ داریوں اور اپنے فرائض کا احساس نہیں کر سکتے تو پھر خدا ہی حافظ ہے۔ علم دین کی ہمہ گیر وقعت اور اس پر عمل اور اس کے لیے باطنی اخلاص اور دیگر ضروری عوامل کا اس کے ساتھ ہونا بہت ضروری امر ہے۔
متعلمین کے لیے سب سے پہلے تصحیح نیت ضروری اور اہم کام ہے، تاکہ وہ خود بھی اور دوسرے بھی ان سے فائدہ اٹھا سکیں اور اس میں مندرجہ ذیل باتوں کا ہونا ضروری ہے۔

(الف) خروج من الجہل: علم کا مقصد یہ ہے کہ انسان جہالت کی تاریکی سے باہر نکل آئے اور علم کی روشنی میں سفرِ حیات طے کرے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے:

اللھم انی اعوذ بک من ان اقول فی العلم بغیر علم۔
’’اے اللہ ! میں تیری ذات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں علم کے سلسلہ میں بغیر علم کے کوئی بات کہوں۔‘‘

(ب) نفع الخلائق: علم سے مقصد یہ ہو کہ اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچائے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان:

خیر الناس من ینفع الناس۔
’’انسانوں میں بہتر انسان وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو فائدہ پہنچائے۔‘‘
اور یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
اعزل الاذى عن طريق المسلمین۔
’’مسلمانوں کے راستے سے تکلیف دینے والی باتوں کو ہٹاؤ۔‘‘

(ج) احیاء العلم: علم کو زندہ کرنا اہم مقصد ہے۔ علم کو ترک کرنے سے ضیاعِ علم ہوتا ہے۔ ایک اثر میں آتا ہے:

تعلموا العلم قبل ان یرفع ورفعہ ذھاب العلماء۔
’’علم کو سیکھ لوقبل اس کے کہ وہ اٹھا لیا جائے اور علم کا اٹھایا جانا یہ ہے کہ اچھے علماء نہ رہیں۔‘‘

(د) نیۃ العمل: علم سے عمل کرنے کی نیت اور ارادہ ہو، کیونکہ بزرگان دین کا قول ہے:

العلم بلا عمل وبال و العمل بلا علم ضلال۔
’’علم بغیر عمل کے وبالِ جان ہے اور عمل بغیر علم کے گمراہی و ضلالت ہے۔‘‘
(۲) اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کی طلب بھی مقصود ہو۔ علم سے محض تحصیلِ دنیا ہی غرض نہ ہو۔
(۳) تحصیل علم کے دوران ہر متعلم کے لیے جس چیز کا اہتمام سب سے زیادہ ضروری ہے وہ نماز ہے۔ اس کا خاص اہتمام لازم ہے۔ حضرت امیر المومنین عمرؓ فرماتے ہیں:
ان من اھم امورکم عندی الصلوة۔ (موطا)
’’تمہارے سب کاموں میں سے اہم کام میرے نزدیک نماز ہے۔‘‘
ترکِ صلوٰۃ سے حرمانِ علم ہوگا، علم کا حقیقی فائدہ ایسا شخص حاصل نہ کر سکے گا۔
(۴) علم میں بخل بھی روانہیں۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے مرفوعاً
”تناصحوا فی العلم ولا یکتم بعضکم بعضا فان خیانۃ الرجل فی علمہ اشد من خیانۃ مالہ وان اللہ سائلکم عنہ“
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ علم میں ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی کرو اور تم سے بعض بعض سے چھپائیں نہیں، کیونکہ کسی شخص کی خیانت علم میں زیادہ شدید ہے بہ نسبت اس کی خیانت کے مال میں اور بے شک اللہ تعالیٰ تم سے اس کے بارے میں سوال کرنے والا ہے۔‘‘
اور حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص علم میں بخل کرے گا تو تین آفتوں میں سے کسی نہ کسی میں مبتلا ہوگا۔ پہلی آفت یہ ہے کہ وہ مر جائے گا (اور علم سے فائدہ نہ اٹھا سکے گا) دوسری آفت یہ ہے کہ سلطان جائر (یعنی ظالم و جابر حکمران) کے فتنہ میں مبتلا ہوگا۔ تیسرا فتنہ یہ ہے کہ علم کو بھول جائے گا۔
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان کہ جس سے کوئی علم کی بات پوچھی گئی اس نے اس کو ظاہر نہ کیا جبکہ ضرورت مند کو اس کی ضرورت تھی تو قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔ (ترمذی)
(۵) احترام واجب: اکابر و اسلاف، استاذ و معلم، مسجد اور کتاب کا ادب ضروری ہے۔ اگر ان کا ادب نہیں کرے گا تو علم کی برکت سے محروم ہوگا ؎ 
قم للمعلم وفہ تبجیلا 
کاد المعلم ان یکون رسولا 
(شوقی)
’’کھڑے ہو استاذ اور معلم کا ادب بجا لاؤ۔ معلم تو رسولؐ کا نائب اور جانشین ہے۔‘‘
کتاب کو زمین پر نہ پھینکیں۔ علم اور کتاب کی عزت کر۔ بیت الخلاء وغیرہ سے نکل کر بغیر وضو یا کم از کم بغیر ہاتھ دھوئے کتاب کو نہ چھوئے ؎ 
با ادب شو با ادب 
بے ادب محروم ماند از فضل رب
(۶) لایعنی باتوں میں مشغولیت علم کے طلب گاروں کے لیے بہت مضر اور مہلک ہے۔ اگر ممکن ہے تو فارغ وقت میں حالاتِ وقت کا مطالعہ کرے، اخبارات و رسائل، کتب وغیرہ دیکھے جس سے ذہنی نشوونما ہوتی ہے اور فکری بالیدگی انسان میں پیدا ہوتی ہے۔
(۷) مجادلہ فی العلم مکروہ ہے، اس سے بہت بچنے کی کوشش کرے اور اثناء تعلیم کسی کے ساتھ خصومت و جدال نہ کرے۔ ویسے بھی عند اللہ جھگڑالو انسان پسندیدہ نہیں ہوتے۔ ”الالد الخصام“ منافق کی صفت میں آیا ہے۔ الاجدل متعصب لوگوں کے بارے میں وارد ہوا ہے۔
(۸) ہر ایک طالب علم کو اپنی نظر میں وسعت پیدا کرنی چاہیے اور جیسا کہ بزرگان دین کا قول ہے ”أصل المنافرة العجب“ خود پسندی تنافر کا سبب بنتی ہے۔ جس سے خصومت اور منازعت پیدا ہوتی ہے۔ منازعت کی صورت میں رفق و نرمی اختیار کرے۔ اگر تواضع اختیار کرے گا تو ائتلاف و مودت پیدا ہو گی، جیسا کہ بزرگوں نے کہا ہے ”اصل الاتحاد التواضع“ اتحاد و اتفاق کی اصل تواضع و انکساری ہے۔
طالب علم حتی الوسع لوگوں کے ساتھ مخالطت کم کرے۔ یہ چیزیں عائق عن العلم یعنی علم حاصل کرنے سے روکنے والی ہیں۔
(۹)  کم سے کم گزران پر راضی ہونا بھی ضروری ہے، لیکن اکل و شرب و نوم یعنی کھانے پینے اور نیند میں بقدر ضرورت حظ نفس کو ترک نہ کرنا چاہیے، لیکن صیانتِ علم ضروری ہے، جیسا کہ دارمی کے اثر میں آتا ہے:
ای شیئ اخرج العلم عن قلوب العلماء قال الطمع۔
’’کہ علماء کے قلوب سے علم کو کس چیز نے نکالا ہے تو اس کے جواب میں فرمایا کہ طمع اور لالچ نے علم کو ان کے قلوب سے نکالا ہے۔‘‘
(۱۰) طلباء کے لیے سبق کا تکرار بہت ضروری امر ہے، اپنے ساتھیوں کے ساتھ یا اکیلا۔ جیسا کہ حدیث میں صحابہ کرامؓ کے بارے میں وارد ہوا ہے:
یحدثنا و نحن نتذاکر بیننا۔ (الحديث)
’’کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے حدیث بیان فرماتے تھے اور پھر ہم لوگ آپس میں اس کا تکرار و مذاکرہ کرتے رہتے تھے۔‘‘
مفسرین کرامؒ نے بھی اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
يا يحيى خذ الكتب بقوة اى بالدرس بجذ و مواظبۃ۔
’’حضرت یحییٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اے یحییٰ! پکڑ اس کتاب (تورات) کو مضبوطی سے، اس کو پڑھو پڑھاؤ پوری کوشش اور ہمیشگی سے۔‘‘
”الدرس هو الغرس“ درس زمین میں پودا گاڑنے کو بھی کہا جاتا ہے۔ ابن ابی شیبہ اور بیہقی کی یہ روایت مشہور ہے:
اٰفۃ العلم النسیان۔
’’ کہ علم کے لیے آفت فراموش کر دینا ہے۔‘‘
(۱۱) محنت کی شدید ضرورت ہے۔ مطالعہ کی کثرت جس قدر ممکن ہو جیسا کہ حضرت امام ابویوسفؒ کا قول ہے:
العلم لا یعطیک بعضہ حتی تعطیہ کلک۔
’’یعنی علم تجھ کو اپنا بعض حصہ بھی نہیں دے گا جب تک تم پورے کے پورے اپنے آپ کو اس کے سپرد نہ کر دو۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
لا یضیع عمل عامل منکم من ذکر او انثی۔
’’بے شک اللہ تعالیٰ تم سے کسی مرد یا عورت کے عمل اور اس کی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔‘‘
امام یحییٰ ابن ابی کثیرؒ جو تابعین میں سے تھے محدثین نے ان کا یہ کلام نقل کیا ہے:
میراث العلم خیر من میراث الذھب والنفس الصالحۃ خیر من اللؤلؤ ولا یستطاع العلم براحۃ الجسم۔
’’علم کی میراث سونے (یعنی مال) کی میراث سے بہتر ہے اور ایک صالح نفس موتیوں سے زیادہ قیمتی اور بہتر ہے اور علم حاصل نہیں کیا جا سکتا جسم کی راحت کے ساتھ۔‘‘
جب کہ کوئی شخص اپنے جسم کو مشقت میں نہیں ڈالے گا اور محنت نہیں کرے گا علم سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا۔
امام شعبیؒ کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص اقصائے شام سے یمن تک ایک کلمہ کے لیے سفر کرے تو اس کا یہ سفر ہر گز ضائع نہ ہوگا۔
(۱۲) تنظیم کا خیال رکھنا طلبہ کے لیے ازحد ضروری ہے، بدنظمی نہ اللہ کے نزدیک اچھی ہے نہ مخلوق کے نزدیک۔ ہمیشہ تنظیم و ڈسپلن سے رہنا ضروری ہے۔
(۱۳) وقت کی قدر و قیمت کو پہچاننا طالب علم کے لیے ضروری ہے۔ حضرت امام شافعیؒ کا یہ قول مشہور ہے:
الوقت سيف قاطع۔
’’وقت ایک قاطع تلوار کی طرح ہے۔‘‘
؎ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں 
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
؎ غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی 
گردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹا دی
شہری یا مقامی لوگوں کے ساتھ تعلق بہت کم رکھیں یا بالکل نہ رکھیں۔
(۱۴) مجالس علم سے فائدہ اٹھانا: طلباء کے لیے ضروری ہے کہ ہمیشہ مجالس اربابِ علم سے فائدہ اٹھاتے رہیں۔ ایک اثر میں آتا ہے:
من نام عند المجلس فقد خاب من رحمۃ اللہ و کان حبیب الشیطان۔
’’جو علم کی مجلس میں سو گیا تو یقیناً اللہ کی رحمت سے ناکام ہوا اور شیطان کا دوست بنا۔‘‘
(۱۵) تقریر و تحریر کی مشق: طلباء کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوران تعلیم تقریر کی مشق بھی کرتے رہیں اور تحریر میں بھی کوشاں رہیں۔ ان دونوں میں کوتاہی کے نتائج سخت مضر ہیں۔
(۱۶) علوم جدیدہ کی طرف بھی بقدر ضرورت رغبت رکھنا ضروری ہے۔ دیکھو حضرت عمرؓ نے یہ فرمایا ہے:
تعلموا من النجوم مقدار ما تعرفون بہ امر قبلتکم و تعلموا من انساب ما تصلون بہ ارحامکم۔
’’ستاروں اور نجوم کے احوال میں سے سیکھنا تمہارے لیے ضروری ہے جس سے تم اپنے قبلہ کی سمت کو صحیح طریق سے پہچان سکو اور انساب (تاریخ) میں سے اتنا حصہ بھی تمہارے لیے سیکھنا ضروری ہے جس سے تم صلہ رحمی کر سکو (اپنے قریب و بعید اعزہ و اقرباء کو پہچان سکو، جن کے ساتھ صلہ رحمی کرنی اور ان کا حق ادا کرنا تمہارے لیے ضروری ہے)‘‘
(۱۷) جب اذان ہو جائے تو فوراً اٹھ کھڑے ہوں، خواہ مسجد میں ہوں یا کمرہ میں سبق کا تکرار کر رہے ہوں یا کسی اور شغل میں مصروف ہوں۔ ہر قسم کے اشغال سے برخاست ہو کر صرف نماز کی فکر کریں۔ جب مسجد میں لوگ نماز پڑھ رہے ہوں اونچی آواز سے ہرگز تکرار نہ کریں۔ لڑائی جھگڑا اور بداخلاقی کی کوئی بات بھی طلباء کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی۔ پر امن زندگی کے عادی بن کر اور مہذب انسانوں کی طرح رہیں اور اگر کسی کے ساتھ منازعت یا مخاصمت ہو جائے تو خود بخود فیصلہ نہ کرنے لگ جائیں، یہ بد تہذیبی کی بات ہے۔ جس ادارہ میں آپ رہتے ہیں اس ادارہ کے مہتمم، ناظم، صدر یا کسی ذمہ دار ممبر کے سامنے اس کی شکایت کریں اور اس کا فیصلہ حاصل کریں۔ اگر اسباق میں کوئی شکایت ہو تو ادارہ کے مقرر کردہ ناظم تعلیمات یا سربراہ سے رابطہ قائم کر کے اس کو حل کریں۔
بغیر مطالعہ کے سبق نہ پڑھیں۔ ایک دفعہ پڑھنے کے بعد تکرار کرنا اور پڑھتے وقت غور سے سمجھنے کی کوشش کرنا نہایت ضروری ہے۔
زائد وقت میں کوئی کمال حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ کھیل و تفریح کے بجائے خارجی مطالعہ کریں۔ کوئی زبان سیکھیں، خط کی اصلاح کریں یا اگر قرآن مجید کے الفاظ درست نہیں ادا کر سکتے تو اس کے لیے کوشش کریں۔ لہو و لعب تو شیطانی کام ہیں اور دنیا کی کافر قوموں کا شیوہ ہے، اسلام اور دین کے ساتھ اس کو کوئی مناسبت نہیں۔ جسمانی ورزش یا دفاعی مشق کرنا یہ اور چیز ہے۔
بغیر شرعی ثبوت کے کسی پر اتہام نہ لگائیں۔ تہمتیں لگانا یہ مومن کا کام نہیں۔ جس مسجد، مدرسہ یا ادارہ میں آپ رہتے ہیں اس کے سامان کی حفاظت آپ کے ذمے لازم ہے۔ یہ قومی اور ملی امانت ہے، کتابیں ہوں یا کوئی اور سامان اس کی حفاظت آپ کے ذمہ ضروری ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
المکر والخدیعۃ والخیانۃ فی النار۔
’’مکر، دھو کہ، خیانت یہ سب دوزخ میں لے جانے کا باعث ہیں۔‘‘ (الحدیث)
دو چیزیں ایسی ہیں جو علم کے لیے انتہائی خطرناک اور مضر ہیں۔ ایک عملی سیاست میں حصہ لینا، اس سے ہمیشہ گریز کرنا چاہیے اور دوسرا معاصی اور گناہ سے بچنا بھی ضروری ہے ؎ 
شکوت الی وکیع سوء حفظی
فاوصانی الی ترک المعاصی
امام شافعیؒ کہتے ہیں میں نے امام وکیعؒ کے سامنے اپنے حافظے کی کمزوری کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ گناہ ترک کر دو۔
آداب معاشرت کے سلسلہ میں طلباءِ دین کے لیے رہنا سہنا، اکل و شرب، قیام و قعود، اپنے کمرے اور مکان کی صفائی، برتن، کپڑے، لباس کی صفائی، وضو اور طہارت کا پوری طرح اہتمام کرنا، مسواک کا اہتمام، کتب و سامان کی حفاظت، گالی گلوچ سے بچنا، قوت برداشت اور حوصلہ اپنے اندر پیدا کرنا، امانت، دیانت، صدق و سچائی، بڑوں کا احترام، چھوٹوں پر شفقت نہایت ضروری امور ہیں۔
من لم یؤقر کبیرنا ولم یرحم صغیرنا فلیس منا۔
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جس نے ہم سے بڑوں کا احترام نہ کیا اور چھوٹوں پر رحم نہ کیا وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘
ایک دوسرے کے جذبات کا احترام ضروری ہے انجمن سازی و اجتماعیت سے، اگر یہ مضر نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔ طلباء اس میں انجمن تشکیل دے کر صدر، ناظم وغیرہ مقرر کر کے اپنے علمی اشتغالات کو ترقی دے سکتے ہیں۔
طلباء کرام کو اپنا مقصود ہر وقت اپنے سامنے نگاہ میں رکھنا چاہیے۔ لیکن دین اس سے بھی اہم ہے، اس کا ہر وقت خیال رکھیں۔ لوگوں کے ساتھ نہایت خوش اخلاقی سے پیش آئیں اور لوگوں کے حسن ظن کو جو وہ اہل علم و اہل دین کے لیے اپنے دلوں میں رکھتے ہیں ہرگز ضائع نہ کریں۔ عوام کے سامنے ہرگز ایسی بات نہ کریں جس سے وہ متنفر ہو جائیں اور بلا ضرورت بازاروں میں گھومنا یقیناً شرفاء کا کام نہیں ہے۔ تحصیلِ علم کا اصلی وقت زندگی کا ابتدائی دور ہوتا ہے، حضرت عمرؓ کا فرمان ہے:
تعلموا قبل ان تسودوا۔
’’کسی ذمہ داری کے پڑ جانے سے پہلے پہلے علم حاصل کر لو۔‘‘
دین و ضروریات دین سے با خبر ہو نا، صدق و امانت کو اپنا شعار بنانا، ادب کو قائم رکھنا اور اپنے صحیح اعتقاد و نظریات پر قائم رہنا بہت ضروری امر ہے ؎ 
اس دور میں سب مٹ جائیں گے ہاں 
رہ جائے گا وہ جو قائم اپنی راہ پر اور پکا اسی ہٹ کا
علم وفضل کی دستار کو تھامنا بڑا مشکل کام ہے۔ جب تعلیمی اداروں سے فارغ ہو کر یہ حضرات عوام کے سامنے جاتے ہیں تو اس دستار کو تھامنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اسی کو لوگ اچھالتے ہیں ؎ 
بزمِ جہاں میں سنبھل کے رکھنا قدم 
جہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں
علم صحیح کی روشنی نیت صادق اور عمل صالح کے ساتھ اگر آپ میدان عمل میں پہنچیں گے تو یقیناً آپ کی پذیرائی ہو گی۔ ورنہ قدم قدم پر آپ کو احساس ہوگا کہ ؎
علم در تحصیل دانش رفت و نادانم ہنوز
کارواں بگذشت و من در فکر سامانم ہنوز
سچائی ہی ایک ایسی چیز ہے جو عوائق کا مقابلہ کر سکتی ہے۔
الصدقُ سیف اللہ ما وضع علی شیئ الا قطعہ۔
’’سچائی ایک اللہ تعالیٰ کی ایسی تلوار ہے جس پر اس کو دیکھیں/ رکھیں گے اس کو کاٹ دے گی۔ اس کے سامنے کوئی چیز ٹک نہیں سکتی۔‘‘
آپ کو پورا اندازہ ہو گا کہ عزت نفس اور صیانتِ علم کس قدر مشکل امور ہیں۔ اسی لیے دانش وروں نے کہا ہے کہ ؏ 
یک ذره درد دل از علم فلاطون بہ
ناکامیوں اور محرومیوں کے وقت آپ کا بڑا امتحان ہوگا۔ اگر آپ نے اپنے آپ کو عوام کے لیے مفید بنایا اور خلق خدا کو نفع پہنچایا اور غم کی حقیقت سے آپ باخبر ہوئے تو زندگی کی دشوار گزار گھاٹیاں بھی آپ سر کر لیں گے اور آپ کو اس کا ہرگز افسوس نہیں ہوگا کہ زندگی کی خوش حالیوں اور اسباب زیست کی فراوانی اور عیش و تنعم سے آپ محروم ہیں۔ یہ حیات استعمار تو بہرحال گزر جائے گی ؎ 
زندگی سو سال ہو کہ اک پل گزر جاتی ہے
شانے پر کمبلی ہو یا شال گزر جاتی ہے 
مالداروں کی باقبال گزر جاتی ہے 
اور ہم غریبوں کی بہرحال گزر جاتی ہے 
(امجد)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی حضرت معاذ بن جبلؓ نے علم کی حقیقت و اصلیت سے اس طرح روشناس کرایا ہے:
عليكم بالعلم فان طلبہ لله۔ ۔ ۔ ۔ الى مایھم۔
(ترجمہ) ”حضرت معاذ نے کہا ہے کہ علم کو اپنے اوپر لازم پکڑو، کیونکہ اس علم کا طلب کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے عبادت ہے اور اس علم کو پہچاننا خشیت یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ہے اور علم سے بحث کرنا جہاد ہے اور اس علم کو کسی ایسے شخص کو پڑھانا جو اس کو نہیں جانتا صدقہ ہے اور اس علم کا باہم مذاکرہ کرنا تسبیح ہے اور اسی علم کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو پہچانا جا سکتا ہے اور اسی کی عبادت کی جا سکتی ہے اور اسی علم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی بزرگی و عظمت اور اس کی توحید کو معلوم کیا جا سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس علم کے ذریعہ بہت سی اقوام کو بلند کر دیتا ہے اور ان کو دوسرے لوگوں کے لیے قائد اور پیشوا بنا دیتا ہے اور لوگ ان کے ساتھ ہدایت پاتے ہیں اور ان کی رائے کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ “
یہ تمام دینی علوم کی خصوصیات ہیں جس کے ذریعہ خدا شناسی و خود شناسی انسان کو نصیب ہو سکتی ہے اور جس کے ذریعہ انسان خدا تعالیٰ کے حقوق اور انسانوں کے حقوق ادا کرنے کا اہل بن سکتا ہے اور تمام انسانیت کی خدمت اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور فلاح دارین حاصل کر سکتا ہے۔ والله الموفق والمعين

قادیانی مکر و فریب کے تاروپود

انٹرویو : حسن محمود عودہ

انٹرویو نگار : جمیلہ تھامس

ترجمہ: حافظ محمد عمار خان ناصر
(قادیانی امت کے سربراہ مرزا طاہر احمد کے سابق دست راست فلسطینی دانش ور حسن محمود عوده کے قبول اسلام کی تفصیل ”الشریعہ“ کے ایک گزشتہ شمارہ میں شائع کی جا چکی ہے۔ ذیل میں ایک امریکی نومسلم خاتون محترمہ جمیلہ تھامس اور حسن محمود عودہ کی گفتگو کا ترجمہ شائع کیا جا رہا ہے۔ محترمہ جمیلہ تھامس نے قبول اسلام کا اعلان کیا تو قادیانی جماعت نے انہیں اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ موصوفہ کو جناب حسن محمود عودہ کے ترکِ قادیانیت کا کسی ذریعہ سے علم ہو چکا تھا، اس لیے انہوں نے ان سے براہ راست ملاقات کر کے حالات معلوم کرنا زیادہ مناسب سمجھا اور اس پس منظر میں مندرجہ ذیل گفتگو ہوئی، جو ان کے قادیانیت کی گمراہی سے بچاؤ اور اصل اسلام پر استقامت کا ذریعہ بن گئی۔ جناب حسن محمود عوده ان دنوں ”التقویٰ“ کے نام سے ایک ماہنامہ جریدہ کے ذریعہ قادیانیت زدہ عرب نوجوانوں کو اصل اسلام کی طرف رجوع کی دعوت دینے کی مہم میں مصروف ہیں اور محترمہ جمیلہ تھامس کے ساتھ ان کا درج ذیل انٹرویو بھی ”التقویٰ“ کے شعبان ۱۴۱۱ھ کے شمارہ سے ان کے شکریہ کے ساتھ ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ (مدیر معاون)

جمیلہ تھامس: حسن بھائی ! اچھا ہو گا اگر آپ اپنی ذات اور مرزائیت سے تائب ہونے کے اسباب کے بارے میں کچھ بتائیں۔
حسن عودة: میری پیدائش حیفہ (فلسطین) میں ۱۹۵۵ء میں قادیانی ماں باپ کے گھر ہوئی۔ بدقسمتی سے میرے آباؤ اجداد، مرزا غلام احمد کی حقیقت کے بارے میں کچھ جانے بغیر ۱۹۲۸ء میں قادیانیت کو قبول کر بیٹھے جو کہ ہمارے ملک میں ہندو مبلغین کے ذریعے سے پہنچی تھی۔ انہیں یہ بتایا گیا کہ یہ اسلام کی اصلاح کے لیے آسمانی دعوت ہے اور مرزا غلام احمد کی صورت میں مسیح موعود اور مہدی موعود ظاہر ہو گئے ہیں۔
میرا بھی یہی عقیدہ تھا کہ قادیانیت ہی صحیح اسلام اور قادیانی ہی سچے مسلمان ہیں اور دوسرے لوگ کافر، دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ ہم مرزائیت کے بارے میں صرف مرزائی علماء کی تحریرات پڑھا کرتے تھے۔ چنانچہ میرا یہ نظریہ پختہ ہوگیا کہ قادیانی ہونے کی حیثیت سے میں ہی برحق ہوں اور جو لوگ مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی معہود پر ایمان نہیں لاتے وہ باطل پر ہیں۔ میں نے مرزائیت کے بارے میں مرزائی لٹریچر ہی پڑھا تھا۔ مسلمانوں نے مرزائیت اور مرزاغلام احمد کے بارے میں جو کچھ تحریر کیا ہے وہ میرے علم میں نہیں تھا۔
مرزائیت کے اندرونی ماحول اور مرزائیوں کے آپس کے تعلقات کے بارے میں بات لمبی ہو جائے گی، مجھے اس بارے میں وسیع تجربہ حاصل ہے۔ مختصراً یہی کہہ سکتا ہوں کہ مرزائی ایسے پر گھٹن ماحول میں رہتے ہیں جہاں کسی فرد پر دوسروں کے اخلاق و اطوار مخفی نہیں ہیں۔ میں اپنے آپ کو کسی عیب سے پاک نہیں سمجھتا اور مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی قادیانی یہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ قادیانی جماعت نے کسی بھی جگہ پر ایک اچھی جماعت ہونے کی مثال پیش کی ہے۔ چنانچہ مرزائیت کے ماحول کا فساد خود بہت سے مرزائیوں سے مخفی نہیں ہے۔
ثانوی تعلیم مکمل کرنے کے بعد یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے میں سوید چلا گیا جہاں خلیفہ ثالث مرزا ناصر سے ۱۹۷۶ء اور پھر ۱۹۷۸ء میں دو مرتبہ میری ملاقات ہوئی۔ اس وقت ”خلیفہ“ کے ساتھ ملاقات میرے لیے ایک اہم اور خاص واقعہ تھا۔ خلیفہ کے مقربین میں جگہ حاصل کرنے کے لیے میں نے سوید کو خیر باد کہا اور قادیان چلا آیا جو کہ مرزائیت کا پہلا ہیڈ کوارٹر اور اس کے بانی مرزا غلام احمد کی جائے پیدائش ہے۔ ۱۹۷۹ء میں میں نے قادیانی مبشر بننے کے لیے قادیان میں تعلیم کا آغاز کیا، خلیفہ اور دوسرے ذمہ دار لوگ میرا خاص خیال رکھتے تھے، کیونکہ میں قیام پاکستان کے بعد پہلا اور مرزائیت کے آغاز کے بعد دوسرا یا تیسرا عرب طالب علم تھا جو قادیان میں قادیانیت کی تعلیم حاصل رہا تھا۔ میں مرزا غلام احمد کی عربی تصنیفات کے مطالعہ کے علاوہ اس کی اردو تصانیف کو سمجھنے کے لیے اردو زبان بھی سیکھتا تھا۔
قادیان میں میرا قیام تقریباً سات ماہ رہا۔ چھ ماہ ”بیت الضیافۃ“ میں اور ایک ماہ ”غرفۃ الرياضۃ“ میں۔ یہ وہی کمرہ ہے جہاں مرزا نے، اپنے دعوے کے مطابق، اپنے نصف برس سے زائد مدت مسلسل روزے رکھنے کے دوران میں تمام انبیاء سے ملاقات کی۔ مجھے کہا گیا کہ مرزا کا گھر جو شعائر اللہ میں سے ہے، اس میں قیام سے بڑی برکتیں ملیں گی۔ مرزا کا گھر بیت الذكر، بيت الفكر، بيت الدعا اور مسجد مبارک وغیرہ نام کے کمروں پر مشتمل ہے۔ ”بیت“ سے مراد ایک الگ الگ کمرہ ہے۔ ”بیت الدعا“ ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جو مرزا نے دعا کے لیے خاص کیا تھا۔ ”بیت الفکر“ ایک دوسرا کمرہ ہے جس کو اس نے فکر یعنی تالیف و تصنیف کے لیے خاص کیا تھا۔ ”بیت الذکر“ کو وہ ذکر کے لیے استعمال کیا کرتا تھا، اس کا نام ”مسجد مبارک“ بھی ہے۔ اس کے دروازہ پر لکھا ہے: ”من دخلہ کان امنا“ اور کمرے کی اندرونی طرف دیوار پر لکھا ہے ”بشارة تلقاها النبیون“ (وہ بشارت جو نبیوں کو ملی) مسجد کے ساتھ ہی ایک کمرہ ہے جس کا نام ”اٰیۃ الحبر الاحمر“ ہے۔ ایک اور کمرہ کا نام ”حقیقۃ الوحی“ ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی کمرے ہیں۔
قادیان میں اپنی تعلیم کی یہ مختصر مدت گزارنے کے بعد میں حیفہ واپس چلا گیا تاکہ قادیانی مبلغین کی مدد کروں۔ پھر ایک سال کے بعد مجھے ایک مرزائی لڑکی سے شادی کرنے اور دوسری مرتبہ سالانہ جلسہ میں، جو مرزا کی وصیت کے مطابق ہر سال منعقد ہوتا ہے، شرکت کرنے کے لیے دوبارہ قادیان جانا تھا۔ پھر حیفہ واپس آنے کے بعد ۱۹۸۴ء میں مجھے مرزائی خدام کا اور میری اہلیہ کو ”لجنۃ اماء الله“ کا سربراہ بنا دیا گیا۔ ۱۹۸۵ء میں خلیفہ رابع مرزا طاہر نے مجھے مرزائی مبشر مقرر کیا اور لندن میں خلافت کے نئے مرکز میں بلا لیا۔
۱۹۸۶ء کے شروع میں میرے لندن پہنچنے کے فوراً بعد خلیفہ نے پہلی دفعہ اپنی جماعت میں عربی سیکشن کی بنیاد رکھی اور مجھے اس کا ڈائریکٹر مقرر کیا۔ ۱۹۸۸ء میں خلیفہ نے مجھے اپنی تقاریر و خطبات کو عربی میں ترجمہ کرنے کے لیے منتخب کیا اور عربی زبان میں ایک ماہنامہ مجلہ شائع کرنے کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی۔
ان ذمہ داریوں کے علاوہ میں تبلیغی اور تدریسی کاموں میں بھی مشغول رہا، مثلاً برطانیہ آنے والے مبلغین کو لیکچرز دینا، برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کو دعوتِ مرزائیت دینے کے لیے تبلیغی مجالس منعقد کرنا۔ ان مجالس میں میں نے مسلمان علماء اور طلباء سے مرزا غلام احمد کے دعاوی کی سچائی کے بارے میں بحث و مباحثہ کیا، جس سے میرے ذہن میں ایسے سوالات پیدا ہوئے جن کی وجہ سے مجھے مرزا غلام احمد کی شخصیت و دعوت کے بارے اپنے مطالعہ کی طرف رجوع کرنا پڑا۔ یہ میرے ترکِ مرزائیت کے اسباب میں سے ایک تھا۔
ایک اور سبب میرا شخصی تجربہ اور مرزائی نظم و ضبط کا مشاہدہ تھا۔ خلیفہ اور داعیین پر مشتمل اس نظام کے مشاہدہ سے مجھے یقین ہوگیا کہ مرزائیت حق سے بہت دور ایک گمراہ تحریک ہے۔ ادارے میں میرے عملی تجربہ کے اضافہ کے ساتھ ساتھ مرزائی عقائد اور نظام کے بارے میں میرے شکوک و شبہات بھی بڑھتے گئے۔
جون ۱۹۸۸ء میں مخالفینِ مرزائیت کے نام مرزا طاہر کی ”دعوت مباہلہ“ بھی قابل ذکر ہے۔ اس وقت سے میں منتظر تھا کہ مرزائیت کی حقانیت پر کوئی آسمانی نشانی اور معجزہ ظاہر ہو۔ حتیٰ کہ خلیفہ نے پہلی نشانی کے ظہور کا اعلان کیا، یعنی صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق شہید کر دیے گئے۔ صدر پاکستان نے اگرچہ دعوت مباہلہ کو قبول کیا نہ اس پر کوئی توجہ ہی دی، لیکن پھر بھی مرزائی ان کی شہادت کو آسمانی نشانی سمجھتے تھے۔ جبکہ جن مسلم علماء نے دعوت مباہلہ کو قبول کیا تھا اور انسانیت پر مرزائیت کی گمراہی کو آشکارا کیا تھا وہ صحیح سالم زندگی بسر کر رہے تھے۔ مرزائیوں کے اس طرز عمل پر مجھے حیرت ہوئی اور اس حیرت میں اضافہ تب ہوا جب خلیفہ طاہر نے اس ”آسمانی نشانی“ کے ظہور پر خوشی کے اظہار کے طور پر ٹل فورڈ، جہاں میں مقیم تھا، مرزائیوں میں تقسیم کرنے کے لیے مٹھائی بھیجی۔
اس وقت سے میں اس دعوت مباہلہ کے اصل مقصد کے بارے میں متلاشی ہوا کہ آیا یہ حقیقتاً مباہلہ ہے یا محض ڈھونگ؟ خدا سے دعا مانگی کہ ”اللہم ارنا الحق حقاً و ارزقنا اتباعہ وأرنا الباطل باطلاً و ارزقنا اجتنابہ“
میں ۱۰ جون کے اعلان مباہلہ اور اس کے وقت کی تعیین کے پس پردہ اسباب پر غور کرتا رہا۔ مرزا طاہر احمد نے اعلان مباہلہ سے قریباً ایک سال قبل اعلان کیا تھا کہ اس نے پیرس میں ایک خواب دیکھی ہے جس میں کہ کہا گیا ہے کہ “FRIDAY the 10th” (دس تاریخ کو پڑنے والا جمعہ کا دن) چنانچہ مرزائی ۱۰ تاریخ کو پڑنے والے ہر جمعہ کے دن کسی خاص اور اہم واقعہ کے رونما ہونے کے منتظر رہتے تاآنکہ خلیفہ نے ۱۰ جون ۱۹۸۸ء بروز جمعۃ المبارک اس انگریزی خواب کو پورا کرنے کے لیے دعوت مباہلہ دی۔ یہ میرے غور و فکر کا ایک پہلو تھا۔
دوسرے پہلو سے میں نے دنیا میں مرزائیت کے اندرون خانہ نظر ڈالی۔ ۱۹۸۹ ء میں جو مرزائیت کی تاسیس کی صدی پورا کرنے کا سال تھا، میں نے دیکھا کہ ادارہ اپنی سو سالہ کاوشوں کے نتائج کی پردہ پوشی کے لیے نئے اعلانات میں مشغول ہو رہا ہے، جس سے مجھے مرزائیت کے دھو کہ، گمراہی اور خلق خدا کے لیے ضلالت ہونے میں شک بھی نہ رہا۔ خلیفہ اور ادارہ کی خاص کوشش یہی تھی کہ وہ ہر متعلق و غیر متعلق کے سامنے اپنی سو سالہ کامیابیوں کو ظاہر کریں۔ اس صورت حال میں حقیقت کو سمجھ لینا مشکل نہ رہا اور پھر میں جماعت مرزائیہ کے اندرونی و بیرونی احوال سے بخوبی واقف بھی تھا۔ اب میں نے مرزائیت کو ایک نئے نقطہ نگاہ سے دیکھا۔ میں نے مرزا کے قبل ازاں تسلیم شده دعادی کو پرکھا اور اس کے بارے میں علماءِ اسلام کی تحریرات کا مطالعہ کیا۔ چنانچہ مجھ پر چند ایسے امور واضح ہوئے جن سے میں پہلے واقف نہیں تھا یا یوں سمجھیں کہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ مرزائیت سے میرے ذہنی و قلبی بعد کا آغاز اسی وقت میں ہو گیا تھا۔ جن اشکالات سے میرا واسطہ پڑا ان میں سے چند یہ ہیں:
۱۔ سچا مرزائی بننے کے لیے اپنی آمدنی کا ۲۵ء ۶ فیصد جماعت کو ادا کرنا لازمی ہے۔

۲۔ ”مقبرة الجنۃ“ میں جگہ حاصل کرنے کے لیے آمدنی کا کم از کم دس فی صد ادا کرنا ضروری ہے۔
۳۔ مرزا کا ساٹھ سال سے متجاوز عمر میں ایک ۱۷ سالہ نوجوان لڑکی سے نکاح پر اصرار کرنا اور یہ کہنا کہ ”یہ اللہ کا حکم اور ارادہ ہے“ اور پھر جب لڑکی نے اس کو ٹھکرا دیا اور نکاح نہ ہوسکا تو مرزائی یہ عذر کرنے لگے کہ اس پیشین گوئی کا نصف حصہ اس صورت میں اور اس صورت میں پورا ہو گیا ہے۔
۴۔ اس جماعت کی بنیاد پڑے ایک صدی گزر گئی، لیکن اس کا اندرونی ماحول فساد اور خرابی کی نذر ہوتا جا رہا ہے۔ مجھے پختہ یقین ہو گیا کہ یہ جماعت جب اپنی اصلاح پر قادر نہیں ہے تو اہل عالم کی اصلاح کیسے کرے گی۔
۵۔ ۹۹ فی صد مرزائی اسلام سے مرتد ہوئے ہیں۔ مرزا اپنے دعوائے مسیحیت و مہدویت کے باوصف غیر مسلموں کو تو اسلام میں داخل نہ کر سکا، البتہ مسلمانوں میں سے ہی اپنی ملت تیار کر لی۔
یہ اشکالات مشتے نمونہ از خروارے کا مصداق ہیں۔ بہرحال میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ طیبہ کے ساتھ مرزا کی سیرت کا موازنہ کیا تو مجھے شب و روز کا فرق نظر آیا۔ میں نے ترکِ مرزائیت اور قبولِ اسلام کا عزم صمیم کر لیا۔ جون ۱۹۸۹ء میں میں نے اپنے والدین اور اقرباء سے مل کر انہیں اپنے قبولِ اسلام کی خوشخبری سنائی۔ ۱۷ جولائی ۱۹۸۹ء کو میں نے اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ ”مرکز الاحمدیۃ“ میں اپنے مکان کو چھوڑ کر ایک دوسرے مکان میں سکونت اختیار کی۔ میں نے پہلا کام یہ کیا کہ قریبی مسجد میں ۲۱ جولائی ۱۹۸۹ء کے خطبہ جمعہ کے بعد مرزائیت سے برأت اور قبولِ اسلام کا اعلان کیا۔ اس کے بعد میں چند دوستوں سے ملا اور انہیں مرزائیت کے بارے اپنے تجربات اور مطالعہ سے آگاہ کیا۔
خدا کا شکر ہے کہ میری اہلیہ، بیٹے، بعض رشتہ دار اور دوست بھی مرزائیت کو ترک کر کے اسلام قبول کر چکے ہیں۔ سوید میں محترم احمد محمود رئیس قادیانی جماعت نے، حیفہ میں میرے بھائی صالح عودہ نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ اور مراکش اور الجزائر کے دیگر حضرات نے بھی ترک مرزائیت کر کے اسلام قبول کر لیا ہے، فالحمد لله رب العالمين، اللهم زد وبارك۔
جمیلہ تھامس: خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم سب کو مسلمان بنایا۔ آپ تو جانتے ہیں کہ مرزائی جماعت کے عقائد مسلمانوں سے جدا ہیں، مثلاً یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی والدہ مکرمہ حضرت مریم علیہا الصلوات والتسلیمات کے ساتھ ہجرت کر کے کشمیر چلے آئے تھے اور وہاں ایک سو بیس سال کی عمر میں وفات پاگئے اور ان کی قبر بھی وہیں ہے اور یہ کہ ان کا مثیل مرزا غلام احمد ہے اور اس کا لقب بھی مسیح موعود ہے۔ تو کیا ایسے عقائد بھی آپ کے ترکِ مرزائیت کا سبب بنے؟
حسن بن محمود عودة: ایسے نفسِ عقائد تو اگرچہ سببِ ترک نہیں بنے، البتہ مرزا کی حقیقت جاننے میں مددگار ثابت ہوئے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ قبولِ اسلام (ظاہراً) کسی سبب پر موقوف نہیں، بلکہ قانون خداوندی ہے:”فمن يرد الله ان يهدیہ يشرح صدرہ للاسلام“ البتہ كسى آدمی کے لیے اکتشافِ حقیقت کو آسان بنا دینا بھی ہدایت ہی ہے۔ مجھ پر اللہ کی یہ رحمت ہوئی کہ اس نے مرزا کی حقیقت کے بارے میں علم کو میرے لیے آسان کر دیا۔ مرزا جس کو میں نبی اور صاحبِ وحی رسول سمجھتا تھا، اس کی ہر بات میرے لیے حق تھی، جن کے انکار کی میرے لیے کوئی گنجائش نہ تھی۔ میں نے سرے سے اس کے ایسے دعاوی کی جانچ ہی نہ کی، مثلاً یہ کہ عیسیٰ علیہ الصلوات و التسلیمات سری نگر کشمیر کے علاقہ میں مدفون ہیں یا یہ کہ اللہ نے اسے خطاب کیا ہے کہ ”اسمع ولدی انت منی منزلۃ توحیدی و تفریدی“ ایک مخلص قادیانی یا جس کی ذہنی تربیت مرزائی طریق کار کے مطابق ہوئی ہو وہ مرزا غلام لعین کو اگر آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ الف صلوات سے افضل نہیں تو کم از کم اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کمتر سمجھنے کو تیار نہیں ہے، و العیاذ باللہ
مرزا غلام احمد اپنی کتاب ”خطبہ الہاميہ“ میں لکھتا ہے:
”ہمارے نبی کی روحانیت الف خامس میں اپنی مجمل صفات کے ساتھ طلوع ہوئی۔ اس وقت اس کی ترقی کی انتہا نہ ہوئی تھی، پھر کامل ہوئی اور یہ روحانیت الف سادس کے آخر میں یعنی اس وقت ظاہر ہوئی ہے تاکہ اپنے کمالِ ظہور کو پہنچے اور اپنے نور کے غلبہ سے ہمکنار ہو۔ پس میں ہی وہ نور مظہر اور نور معہود ہوں۔ ایمان لاؤ اور کافروں میں سے نہ ہو اور جان لو کہ ہمارے نبی جیسے الف خامس میں مبعوث ہوئے تھے اسی طرح الف سادس کے آخر میں مسیح موعود کی صورت میں مبعوث ہوئے ہیں، بلکہ حق تو یہ ہے کہ آپ کی روحانیت الف سادس کے آخر، یعنی ان ایام میں، پہلے سالوں سے زیادہ قوی اور کامل ہے۔ “
مرزا غلام احمد نے جان لیا تھا کہ وہ اپنے زمانہ کے عام فقراء اور اہلِ ثروت سے کیسے پیسے بٹور سکتا ہے۔ ایک ایسے زمانے اور ملک میں جہاں جہالت کا دور دورہ تھا، اس نے اسلام اور رسولِ اسلام کی مدح کے نام پر پیسے بٹورنے شروع کیے، لیکن اس میدان میں وہ تنہا نہ تھا۔ اس نے اپنے لیے ایک خاص بلند مرتبہ پسند کر لیا اور بزعم خویش ایک عام داعی دین سے آہستہ آہستہ مجدد، مہدی، مسیح، آدم اور ما فوق کی طرف ترقی کرتا چلا گیا۔ اس کے خوش حال اور مخلص پیروکار اسے خادمِ اسلام سمجھتے ہوئے اس کا دفاع کرتے رہے۔ وہ اس کے دعوائے مسیحیت، مہدویت، رسالت آخر الزماں، مثل محمد اور بروز جمیع انبیاء میں چھپے ہوئے زہر سے غافل اور جاہل ہیں۔ بالاختصار مرزا نے دینِ اسلام کی مدح و توصیف کے ذریعہ سے اپنے پیروکاروں پر اپنے دعادی کے زہر قاتل کو اسلام کے لبادے میں چھپانے کی کوشش کی۔ وہ جانتا تھا کہ عام مسلمانوں کو لوٹنا بجز اس ذریعہ کے ممکن نہیں ہے۔
یہ مرزائیوں کی بدقسمتی ہے کہ وہ مرزا کے اسلام کی مدح میں چند اشعار اور اس کی مزعومہ وحی الٰہی (مثلاً “I love you”،  ”انت منى وأنا منك “، ”انت من ماءنا“، ” انت منى بمنزلہ عرشی“ وغیرھا) کے بدلے میں اس کی نبوت، مسیحیت اور مہدویت پر ایقان کر بیٹھے، جبکہ بفضل اللہ مسلمانوں کی اکثریت نے اس کے مذکورہ دعاوی کو قبول نہیں کیا ہے۔ مرزا کا ایک شعر حضورؐ کی مدح میں یوں ہے ؎ 
يا عین فیض الله والعرفان 
یسعى اليك الخلق كالظماٰن
(ترجمہ) اے اللہ تعالیٰ کے فیض و عرفان کے چشمے! مخلوق آپ کی طرف پیاسے کی طرح دوڑی چلی آتی ہے۔
لیکن اس کے ساتھ مسلمانوں نے اس کے ان اشعار کو قبول نہیں کیا ہے جو اس نے اپنی طرح میں کہے ہیں، مثلاً ”انى من الله العزيز الاكبر“
بہت سے مرزائیوں نے اسلام، رسول اللہؐ اور صحابہ کرامؓ کی مدح میں لکھا ہے، مگر مسلمانوں نے صرف حق کو قبول کیا اور باطل کی تردید کی ہے۔
جمیلہ تھامس: مرزائیوں کو آپ کی کیا نصیحت ہے؟
حسن عودة: میں نے مرزائیت کو اس کے مخصوص منہج کی وجہ سے یا اس سبب سے ترک نہیں کیا ہے کہ اس جماعت میں عموماً گھٹیا قسم کے لوگ کام کرتے ہیں بلکہ ان میں اچھے آدمی بھی ہیں، لیکن افسوس یہ ہے کر یہ مرزا غلام احمد سے دھو کہ کھا گئے۔ میری اہم نصیحت ان کو یہ ہے کہ وہ مرزائیت اور مرزا کے بارے میں مسلمانوں کی کتابوں کا مطالعہ کریں اور خدا سے ہدایت طلب کریں، ”انہ هو الھادى وهو السميع المجیب“ مرزائی بھائی جان لیں کہ خلیفہ کے حکم کی اطاعت میں مسلمان کی ہر قسم کی تحریرات کو نظرانداز کرنے سے ان کے لیے حقیقت کو معلوم کرنا آسان نہیں ہوگا۔
جمیلہ تھامس: آخری سوال، مرزائی تاحال اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں، کیا انہیں یہ حق حاصل ہے؟
حسن عودة: صرف یہی نہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں، بلکہ وہ صرف اپنے آپ کو برحق اور باقی سب کے سب کو، جن میں مرزا غلام کے منکرین بھی ہیں، باطل پر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اسلام سے ہٹ کر اپنا ایک علیحدہ جماعتی تشخص بنایا ہے، جس کو ”احمدیت“ یا بقول بعض ”اسلام صحیح“ کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق مرزائی کا مسلمان کے پیچھے نماز پڑھنا گناہ، مرزائی عورت کا مسلمان سے نکاح معصیت اور مسلمان کی نماز جنازہ پڑھنا منکرات میں سے ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں، بلکہ وہ مسلمان کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔ جو مسلمان مرزا غلام احمد کی اتباع نہیں کرتا وہ ان کے نزدیک ”غیر احمدی“ یا دوسرے لفظوں میں کافر ہے، کیونکہ وہ مرزا پر جو نبی ہے ایمان نہیں لاتا۔
مرزا اور مرزائیت کی حقیقت کو سمجھتے ہی متعدد اسلامی تحریکات نے مرزائیوں کے بارے میں ”غیر مسلم“ ہونے کے فتوے صادر کیے۔ مرزائیت کے مستقبل پر ان فتووں کا بڑا اثر پڑا ہے، کیونکہ عالِم اسلام اور دنیا پر مرزائیت کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے ان فتووں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کی وجہ سے مرزائیت کی ترقی رک گئی ہے اور مرزائی دعوت و تبلیغ سے ہٹ کر اپنے مسلمان ہونے کے دفاع کی کوششوں میں لگ گئے ہیں۔ اگر وہ مرزا غلام احمد کو چھوڑ کر صرف اسلام پر راضی ہوتے تو انہیں اس حق کے دفاع کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔
جمیلہ تھامس: بہت بہت شکریہ، خدا آپ کو جزائے خیر دے۔

ذاتِ لازوال

ظہور الدین بٹ

روز مرہ زندگی میں بعض ایسے واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں جو اللہ کے وجود اور اسلام کی حقانیت پر ہمارے ایمان کی تقویت کا باعث بنتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ گذشتہ دنوں ترکی کے ایک نواحی گاؤں ” ادب زاری“ کے ایک کسان کو اس وقت پیش آیا جب اس نے شہد کی مکھیوں کے چھتے سے شہد اتارنے کی کوشش کی۔ کسان نے دیکھا کہ شہد کے چھتے پر عربی رسم الخط میں ”اللہ“ بنا ہوا ہے۔ اللہ کا ابھرا ہوا لفظ شہد سے معمور تھا۔ اس چھتے کا چرچا ہوا تو بے شمار لوگ شہد کے اس چھتے کو دیکھنے آئے۔ وہ لوگ شہد کی مکھیوں کی کارگزاری دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ بعد ازاں ازاں اس چھتے کی فلم تیار کی گئی، جو ترکی ٹیلی ویژن کے ذریعے ملک بھر میں دکھائی گئی۔ شہد کے اس چھتے کی تصویر لے کر ترکی کے ایک رسالہ ”ظفر“ نے ایک ٹائٹل سٹوری تیار کی۔
اس تخلیق نے مسلمانوں کا اللہ پر یقین نہ صرف پختہ کیا، بلکہ خالق کائنات کی وہ بات یاد دلائی جو اس نے سورۃ النمل (شہد کی مکھی) کی آیات ۶۸ اور ۶۹ میں کہی۔ اللہ جل جلالہ فرماتے ہیں:
”یہ اللہ ہی ہے جس نے شہد کی مکھی کو پہاڑی، درخت اور رہنے والی جگہ (انسانوں کی بستی) میں چھتہ بنانا سکھایا۔ تب اس (اللہ) نے انہیں دنیا بھر کی چیزیں کھانا سکھایا اور مہارت سے اپنی (پروردگار کی) راہ دکھائی۔ اللہ ان کے (شہد کی مکھیوں) کے جسم سے مختلف رنگوں کی کھانے کی نعمت (شہد) پیدا کرتا ہے، وہ شہد جو کئی انسانی بیماریوں کا علاج ہے۔ بے شک اس میں بے شمار نشانیاں ہیں مگر ان لوگوں کیلیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ “
اب تک اس عجیب و غریب چھتے کو لاکھوں افراد دیکھ چکے ہیں، جس پر اللہ کا نام صاف اور واضح طور پر پڑھا جاتا ہے۔

توکل کا مفہوم اور اس کے تقاضے

الاستاذ السید سابق

حافظ مقصود احمد

(الاستاذ السید سابق کے اس مضمون کا ترجمہ ہمارے رفیق محترم حافظ مقصود احمد صاحب مرحوم نے بطور خاص ”الشريعۃ“ کے لیے کیا تھا۔ آج حافظ صاحب ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں، آمین (ادارہ)
اللہ تعالیٰ پر توکل کا مطلب یہ ہے کہ اسی کی ذات پر بھروسہ کریں، اسی پر اعتماد کریں، تمام کام اسے تفویض کریں، ہر حال میں اسی سے مدد مانگیں اور اس بات کا یقین رکھیں کہ اس کی قضا نافذ ہو کر رہے گی اور ضروریات زندگی مثلاً کھانا پینا، پہننا، رہنے کے لیے مکان کا ہونا، دشمن سے بچاؤ کی تدبیر کرنا یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کرتے آئے ہیں۔ اور توکل کا محل قلب ہے۔ امام قشیریؒ فرماتے ہیں:
” ظاہر میں حرکت اور کوشش قلب کے توکل کے منافی نہیں، جبکہ دل میں یہ یقین ہو کہ تقدیر خدا تعالیٰ کا فعل ہے۔ اگر مطلوب شئی نہ مل سکی تو اس کی تقدیر سے ہے اور میسر آ گئی تو یہ اس ذات کی میسر کردہ ہے۔ فان تعسر شیئ فبتقدير، وان تیسر شیئ فبتیسیرہ“۔
انسانی زندگی رنج و الم اور تکالیف سے ہر آن دوچار ہوتی ہے۔ اب اگر انسان ان تکالیف کو دور کرنے کے لیے جدوجہد نہ کرے تو اس کی زندگی بے معنی ہو کر رہ جائے اور دل و جان کو سکون تبھی ملے گا جب اس کا بھروسہ خدا تعالیٰ پر ہو گا، اس کی ذات سے اسے حسن ظن ہو گا، اسی پر اس کا اعتماد ہوگا اور اپنے تمام امور کو اسی کے سپرد کر دے۔
حدیث قدسی میں ہے: ”انا عند ظن عبدی بی وانا معہ حين یذكرنی“
اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل انسانی ضرورت ہے۔ اس سے نہ عالم مستغنی ہو سکتا ہے نہ جاہل، نہ مرد نہ عورت، نہ حاکم نہ محکوم، نہ چھوٹا نہ بڑا۔ ان سب کی حاجات کو وہی ایک ذات پوری کر سکتی ہے، جسے قدرت کامل حاصل ہے۔ تکلیف و حاجت کسی طرف سے بھی ہو وہی ایک ذات ان کی معین و مددگار ہے۔

توکل کی دعوت

اسلام کا مطالعہ کرنے والا محسوس کرے گا کہ توکل کی دعوت بڑے صریح الفاظ میں دی گئی ہے۔ فرمان خداوندی ہے:
وتوكل على الحي الذي لا يموت۔ (الفرقان: ۵۸)
’’اس زندہ ذات پر توکل کرو جسے موت نہیں۔‘‘
ایمان کے ثمرات میں سے ایک ثمرہ تو کل بھی ہے۔
وعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون۔ (پ:۱۳، ابراہیم: ۱۱)
’’اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والوں کے دین دنیا کے تمام امور کا تکفل وہ خود کرتا ہے۔‘‘
ومن يتوكل على الله فهو حسبہ۔ (الطلاق: ۱۳)
’’جو اللہ پر بھروسہ کرے گا تو اللہ اس کے لیے کافی ہے۔‘‘
توکل تمام انبیاءؑ و رسلؑ کا طریقہ ہے۔ وہ سب خدا تعالیٰ کو ہی اپنا ملجا و ماویٰ سمجھتے رہے اور اسی پر بھروسہ کرتے رہے۔ ان کی زبانی قرآن فرماتا ہے کہ وہ ہمیشہ یہی کہتے رہے:
وما لنا ألا نتوكل على الله وقد هدانا سبلنا ولنصبرن على ما اذيتمونا وعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون۔ (ابراہیم: ۱۱)
’’ہم بھلا خدا پر توکل کیوں نہ کریں، حالانکہ اسی نے ہمیں ہدایت دی۔ البتہ ہم تمہاری ایذاؤں پر صبر ہی کریں گے اور بھروسہ کرنے والوں کو خدا پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔‘‘
غزوہ احد کے بعد جب دشمن پھر مجتمع ہوگئے اور انہیں یہ کہہ کر ڈرایا گیا کہ مشرکین تم پر حملہ کے لیے اکٹھے ہو گئے ہیں تو اس حال میں ان کا سوائے خدا کے کسی پر بھروسہ نہ تھا۔ ان کی اس کیفیت قلبی کی اللہ تعالیٰ نے قدر افزائی فرمائی اور دشمن کو ان سے ہٹا دیا اور خوش خبری کا سماں بندھ گیا۔ قرآن فرماتا ہے:
یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍ وَّ اَنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ مِنْ بَعْدِ مَا اَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْهُمْ وَ اتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌ اَلَّذِیْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِیْمَانًا وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْم الْوَكِیْلُ فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْهُمْ سُوْٓءٌ وَّ اتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللّٰهِ وَ اللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِیْمٍ (آل عمران: ۱۷۱ تا ۱۷۴)
یعنی لوگوں کے ڈرانے پر وہ ڈرتے نہیں، بلکہ ان کا جواب ”حسبنا الله ونعم الوکیل“ ہوتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان حسن الظن بالله من عبادة الله۔ (ابوداؤد، ترمذي و الحاكم)
’’بے شک خدا تعالیٰ سے حسن ظن رکھنا بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی ہے۔‘‘
ابو ہریرہ رضی الله عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:
يدخل الجنۃ اقوام افئدتهم مثل افئدة الطیر۔
’’کہ جنت میں بہت سے ایسے لوگ بھی جائیں گے جن کے سینے پرندوں جیسے ہوں۔ پوچھا، اس کا مطلب کیا ہے؟ تو فرمایا کہ یہ متوکل لوگ ہوں گے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے آپﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
لو انكم تتوكلون على الله حق توكلہ لرزقكم كما يرزق الطیر تغدو خماصا وتروح بطانا۔ (ترمذی)
’’اگر تم اللہ تعالیٰ پر اس طرح تو کل کرو جو توکل کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق ملے جس طرح پرندوں کو رزق ملتا ہے کہ صبح خالی پیٹ گھر سے نکلو تو شام کو پیٹ بھر کر واپس لوٹو۔‘‘
یعنی جس طرح پرندے خالی پیٹ نکلتے ہیں، ان کے پوٹ میں کچھ بھی نہیں ہوتا اور دن کے آخر میں جب وہ واپس لوٹتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے رزق سے ان کے پیٹ بھرے ہوتے ہیں۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا گیا تو ان کا آخری کلمہ تھا: ”حسبنا الله ونعم الوکیل“ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں آگ سے نجات عطا فرمائی۔ اسے ان کے لیے ٹھنڈا اور سلامتی والا بنا دیا۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم غزوہ ذات الرقاع میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ راہ میں ایک سایہ دار درخت کے قریب پڑاؤ ڈالا اور اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام کے لیے چھوڑ دیا۔ آپ اس کے نیچے استراحت فرمانے کے لیے لیٹ گئے اور آپ کی تلوار درخت سے لٹک رہی تھی۔ اچانک ایک مشرک آگیا اور اس نے وہ تلوار پکڑ لی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر پوچھا آپ مجھ سے ڈر گئے؟ فرمایا نہیں! کہنے لگا اب بتائیے کون آپ کو مجھ سے بچا سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ“ آپ نے اس اعتماد سے لفظ اللہ کہا کہ وہ مشرک خود ڈر گیا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گئی۔ اب وہ تلوار آپؐ نے اُٹھا کر پوچھا اب بتاؤ کون تمہیں مجھ سے بچا سکتا ہے؟ وہ کہنے لگا کوئی اچھی بات فرمائیے میں مان لوں گا۔ آپﷺ نے فرمایا تو گواہی دے۔ کہنے لگا یہ تو میں نہیں کہہ سکتا، البتہ میرا وعدہ ہے کہ میں نہ خود کبھی آپ سے لڑوں گا اور نہ ہی اس قوم کا ساتھ دوں گا جو آپ سے لڑے گی۔ چنانچہ آپﷺ نے اس کو چھوڑ دیا۔ وہ اپنے ساتھیوں کے پاس آیا تو کہنے لگا ”جئتکم من عند خیر الناس“ میں اس شخص کے پاس سے آیا ہوں جو انسانوں میں سب سے بہتر ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ توکل تمام مسلمانوں کا شعار بن جائے۔ اس لیے اپنی امت کو مختلف اوقات کی دعائیں تعلیم فرمائیں، مثلاً صبح و شام کی دعا، گھر سے نکلتے وقت کی دعا یا بستر پر جانے کی دعا۔ مطلب یہ کہ ہر حرکت کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف نفس متوجہ رہے اور قلب یادِ خدا میں بیدار رہے۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر سے نکلتے تو یہ دُعا پڑھتے ”باسم اللہ توکلت علی اللہ اللهم إني أعوذ بك أن أضل أو أضل او ازل او ازل أو أظلم أو أظلم أو أجهل أو يجهل علي“ (ابو داؤد اور نسائی نے روایت کی)
انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا جس نے گھر سے نکلتے وقت یہ کلمات پڑھے: ”باسم اللہ توکلت علی اللہ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ“ تو اسے جواب میں کہا جاتا ہے ”ھدیت و کفیت ووقیت و تنحی عنك الشیطان“ (ابو داؤد، نسائی اور ترمذی نے روایت کی ہے)
حضرت ابی الدرداء رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جو شخص ہر روز صبح و شام سات دفعہ یہ کلمات پڑھے: ”حسبی اللہ لا الہ الا ھو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم“ تو اللہ تعالیٰ اس کے دنیا اور آخرت کی تمام مشکلات کا کفیل ہو جاتا ہے۔
طلق بن حبیب کہتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور ابو درداءؓ کے کہنے لگا۔ ابو درداء! تمہارا گھر جل گیا ہے۔ آپ نے سن کر فرمایا: یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ خدا کی قسم میں نے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ جو شخص یہ کلمات پڑھے گا اسے شام تک کوئی مصیبت لاحق نہیں ہوگی اور جو شام کو پڑھے گا تو صبح تک کسی مصیبت سے دوچار نہیں ہوگا۔ وہ کلمات یہ ہیں:
اللهم أنت ربي، لا إله إلا أنت، عليك توكلت، وأنت رب العرش العظيم، ما شاء الله كان، وما لم يشأ لم يكن، لا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم، أعلم أن الله على كل شيء قدير، وأن الله قد أحاط بكل شيء علما، اللهم إني أعوذ بك من شر نفسي، ومن شر كل دابة أنت آخذ بناصيتها، إن ربي على صراط مستقيم۔
بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے کہا کہ چلو میرے ساتھ۔ چنانچہ وہ اٹھے اور ان کے ساتھ دوسرے لوگ بھی ان کے گھر گئے۔ وہاں جا کر دیکھا کہ ارد گرد کے تمام مکان جل چکے ہیں لیکن ابودرداءؓ کا مکان صحیح و سالم تھا۔
حضرت براء رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی کہ جب تو سونے لگے تو نماز والا وضو کر کے دائیں کروٹ پر لیٹ کر کہو:
اللهم اسلمت نفسى اليك ووجهت وجهي اليك وفوضت امري اليك والجأت ظهرى اليك رغبة ورهبة اليك لا ملجأ ولا منجى منك الا اليك امنت بكتابك الذي انزلت، وبنبيك الذي ارسلت۔
اور پھر فرمایا کہ اگر تو مر گیا تو دین فطرت پر تیری موت ہوگی۔ لہٰذا تیرے آخری کلمات یہی ہونے چاہئیں۔

توکل اور اسباب

اسباب کا اختیار کرنا اللہ تعالیٰ پر توکل کے منافی نہیں ہے، بلکہ تو کل اس وقت تک صحیح ہی نہیں ہوتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ اسباب کو اس کام کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ کیونکہ مسبب الاسباب نے انہیں کام کے ساتھ مربوط کیا ہے اور نتائج انہی اسباب کے اختیار کرنے پر موقوف رکھے ہیں۔ ویسے بھی انسان فطری طور پر اسباب کے اختیار کرنے پر مجبور ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اس بات کا مکلف بھی بنایا ہے۔ اسباب کا اختیار نہ کرنا خلافِ فطرت ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے منافی بھی۔ اس نے اپنی کتاب میں جا بجا حکم فرمایا ہے:
فامشوا فی مناکبھا وکلوا من رزقہ۔ (ملک: ۱۰)
خذوا حذركم فانفروا ثبات او انفروا جميعا۔ (نساء: ۲۱)
واعدوا لهم ما استطعتم من قوة ومن رباط الخيل۔ (انفال: ۶۰)
و تزودوا فان خیر الزاد التقوى۔ (البقره: ۱۹۷)
لوط علیہ السلام کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے گھر والوں کو بچا کر لے جانا چاہتے ہو تو
فاسر باهلك بقطع من الليل۔ (ہود : ۸۰)
اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کو فرمایا:
فاسر بعبادي ليلاانكم متبعون۔ (دخان : ۲۳)
یوسف علیہ السلام کے قصے میں بھائیوں کا رویہ اور ان کے والد کا ان سے بچاؤ کی تدبیر کرنا قرآن میں اس طرح مذکور ہے:
يا بنی لا تقصص رؤياك على إخوتك فيكيدوا لك كيدا۔ (يوسف : ۷)
اور فرمایا:
يا بنی لا تدخلوا من باب واحد وادخلوا من ابواب متفرقۃ۔ (یوسف ۶۷)
بیماری کے سلسلہ میں علاج کرنا، دوا کا استعمال کرنا اور اسباب کا اختیار کرنا دین کے اوامر میں سے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ايها الناس تداووا ان الله ما وضع داءً الا جعل لہ شفاء۔
’’اے لوگو! دوا کو استعمال کرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی مرض پیدا نہیں کی، جس کی شفا نہ بنائی ہو۔‘‘
خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سید المتوکلین تھے، لیکن بایں ہمہ ہر کام کے کرنے میں پوری کوشش فرماتے اور جب دشمن سے سامنا ہونا ہوتا تو اس کے مقابلے کے لیے پوری طرح تیاری کرتے اور دشمن پر کا میابی حاصل کرنے کے تمام اسباب مجتمع فرماتے۔ روزی کمانے کے لیے محنت کرتے اور تندہی سے کام کرتے تھے اور دوسروں کو بھی محنت کی ترغیب دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مقصد کو حاصل کرنے کے جو اسباب پیدا فرمائے ہیں انہیں کبھی ترک نہ فرماتے، کیونکہ دنیاوی حیات کے لیے جو اسباب اس نے پیدا فرمائے ہیں ان کا ترک کرنا خود اپنے ہاتھوں تباہی خریدنے کے مترادف ہے۔
مثلاً ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ارادہ کیا کہ اپنی اونٹنی کو باندھے بغیر ہی مسجد کے دروازے پر چھوڑ آئے۔ آپؐ سے پوچھتا ہے یا رسول اللہ! میں اپنی اونٹنی کو باندھ کر توکل کروں یا اسے خدا کے بھروسے پر کھلا چھوڑ دوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے باندھ کر خدا کے بھروسے پر چھوڑ دو۔
پس معلوم ہوا کہ توکل اسباب کے اختیار کیے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لہٰذا سنت اللہ اور اس کے قوانین کے مطابق پہلے عمل کرنا ہوگا، پھر اسی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے کام اس کے سپرد کرنا ہوگا۔ بعد ازاں نتیجہ اسی ذات پر چھوڑنا ہوگا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وللہ غیب السموات والارض والیه یرجع الامر کله فاعبده و توکل علیہ۔ (هود: ۱۲۳)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک قوم کو دیکھا جن کا یہ خیال تھا کہ اسباب کا ترک کر دینا ہی توکل ہے۔ لہٰذا انہوں نے عمل کو چھوڑ رکھا تھا اور سستی اور عجز و درماندگی میں پڑے ہوئے تھے۔ امیر المومنینؓ نے ان سے پوچھا تم کون لوگ ہو؟ کہنے لگے ہم متوکل لوگ ہیں۔ آپؓ نے فرمایا تم جھوٹ کہتے ہو، تم متوکل ہرگز نہیں۔
توکل تو یہ ہے کہ آدمی کھیت میں دانہ بوئے اور خدا پر بھروسہ کرے (کہ و ہی اس دانہ کو اگائے گا، فصل کو پکائے گا اور ہمیں غلہ بہم پہنچائے گا۔)
جو شخص کوشش اور عمل کو ترک کر دے اس امید پر کہ اس کی مطلوبہ چیز اسے حاصل ہو جائے گی، اس کی مثال ایسے شخص کی ہے جو بغیر پروں کے ہوا میں اڑنا چاہتا ہے یا بلا نکاح چاہتا ہے کہ اس کے اولاد ہو جائے یا بغیر پیٹرول کے گاڑی چل جائے یا بغیر بوئے فصل اُگ آئے۔ نعم ما قال ؎ 
ترجو النجاة ولم تسلك مسالكها 
إن السفینۃ لا تجرى على اليبس
”ترسم کہ تو میرانی زورق بہ سراب اندر“   
’’چاہتا ہے نجات اگر، اسباب مہیا کر‘‘

انسانی بدن کے اعضا اور ان کے منافع

حکیم محمد عمران مغل

سرجری کے بغیر آج کے دور میں ایک اچھا معالج بننا بہت مشکل ہے، مگر سرجری کو سمجھنے کے لیے منافع الاعضاء کا علم ہونا اس سے بھی ضروری ہے۔ بلکہ پرانے معالجوں نے سرجری کو آسان بنانے کے لیے منافع الاعضا کی شاخ کی بنیاد رکھی۔ چنانچہ منافع الاعضا سے پتا چلتا ہے کہ آدمی کا جسم ایک ایسے شہر سے ملتا جلتا ہے جس کا نظم و نسق اعلیٰ درجہ کا ہو۔ جیسے ایک شہر میں بہت سے محلے ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح جسم میں بھی الگ الگ عضو اور حصے قدرت نے بنائے ہیں، گویا یہ الگ الگ محلے اور بستیاں ہیں۔ پھر ایک محلہ میں کئی مکان ہوتے ہیں، اسی طرح ہر عضو میں گھر کی طرح خلیے ہوتے ہیں، جس سے وہ بنا ہوا ہوتا ہے۔ ان گھروں میں زندگی کے اجزاء رہائش پذیر ہیں جو مل جل کر اپنا اپنا کام کرتے رہتے ہیں، جس سے سارے شہر (جسم) کا کام بھی چلتا ہے۔ پھر ہر محلہ (یعنی عضو) کی اپنے کام کی تقسیم مقرر ہے اور تمام تقسیم شدہ کاموں کے چلنے سے سارے شہر (جسم) کا کام بخوبی چلتا رہتا ہے۔ پھر سب کی بھلائی کے لیے ایک اور نظام بھی اللہ تعالیٰ نے شہر (جسم) میں قائم کیا ہے، یعنی زندگی کی کھیتی کے لیے آبیاری کا نظام قائم کر کے نہریں پورے شہر (جسم) میں بچھا دیں (خون) ، اس خون سے بذریعہ نالیاں (نسیں) پورا شہر (جسم) سیراب ہوتا رہتا ہے۔ ہر محلہ سے کوڑا کرکٹ لے جانے کے لیے سڑکیں (رگیں) تعمیر کی گئی ہیں، تاکہ گندا مواد بروقت ٹھکانے لگایا جا سکے۔ جب سارے شہر کی گندگی ایک گٹر (بڑی آنت) میں جمع ہو جاتی ہے جو کہ گندا نالے کا کام دیتا ہے تو وہاں سے سارے شہر کی گندگی باہر پھینکی جاتی ہے۔ گندی نالی سے اگر گندگی باہر نہ نکل سکے تو تمام شہر (جسم) میں بیماریاں پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ تاہم گندہ نالہ بھرنے سے پہلے ایک مددگار نظام بھی قائم کیا گیا ہے تاکہ نوبت یہاں تک نہ پہنچ سکے، یعنی تمام شہر میں جابجا سوراخ بن دیے گئے جنہیں مسام کہا جاتا ہے (بال کی جڑ کے سوراخ) ، ان سوراخوں سے شہر بھر کی گندگی باہر کی جانب (جسم کی بیرونی کھال) دھکیل دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہر (جسم) کی دیواروں میں جا بجا منہ کھلے رہتے ہیں۔ شہری آبادی کے رئیس اعلیٰ (دماغ) کے لیے خصوصاً اور عام طبقہ (تمام اعضا) کے لیے تازہ ہوا اور آکسیجن کی آمدورفت کے لیے ایسا چھلنی نما راستہ بنایا گیا ہے کہ آنکھ سے نظر نہ آنے والا ذرہ بھی وہاں سے اندر نہیں گھس سکتا (ناک کے اندر باریک بالوں کی موجودگی) ، چنانچہ ناک کے راستے تازہ ہوا اہل محلہ کے مکینوں (جسمانی اعضا) کو ہر لمحہ میسر آتی رہتی ہے۔ پورے شہر میں بجلی کے تاروں کی طرح باریک جال بچھا دیا گیا ہے، جو آن واحد میں ڈپٹی کمشنر (یعنی دماغ) کو ٹیلی فون کر کے ہنگامی حالت کا اظہار کر دیتا ہے اور یوں دماغ اپنی مسلح افواج (نسوں کے ذریعہ) کو دشمن (بیماری) کی سرکوبی کے لیے بھیج دیتا ہے۔ سارے شہر (جسم) کے منتظمین کا ہیڈ کوارٹر دماغ ہے۔ بوقت ضرورت دماغ انہیں تیز ترین سواری (ریڑھ کی ہڈی میں نسوں کا جال) پر بٹھا کر شہر کے دور دراز حصوں میں پہنچا دیتا ہے، جہاں دنگا فساد یا بغاوت ہو رہی ہو۔

تعارف و تبصرہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’آثار السنن (اردو ترجمہ)‘‘

گزشتہ صدی کے نامور محدث حضرت علامہ محمد بن علی النیمویؒ المتوفی ۱۳۲۲ھ نے آثار السنن کے نام سے احادیث و آثار کے اس ذخیرہ کو مرتب کرنا شروع کیا تھا جو فقہ حنفی کی فروع و جزئیات کی بنیاد ہیں۔ یہ ایک وقیع علمی خدمت تھی جس سے بعض حضرات کے پھیلائے ہوئے ان شکوک و شبہات کا ازالہ بھی مقصود تھا کہ فقہ حنفی کا مدار حدیث کی بجائے اس کے مقابلہ میں محض قیاس پر ہے۔ علامہ نیمویؒ اس مجموعہ احادیث کے ذریعہ اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب رہے اور علمی حلقوں سے خراجِ تحسین وصول کیا۔ لیکن زندگی کی بے وفائی نے کتاب الطہارت اور کتاب الصلوٰۃ سے آگے جانے کا موقع نہ دیا، تاہم کتاب الطہارت اور کتاب الصلوٰۃ پر مشتمل یہ علمی ذخیرہ اہلِ علم کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوا۔

مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے استاذ محترم مولانا محمد اشرف صاحب نے اس کا اردو ترجمہ کیا ہے اور اصل کتاب کو ترجمہ کے ساتھ خوبصورت انداز سے شائع کیا ہے۔ معیاری کتابت و طباعت اور مضبوط جلد کے ساتھ پونے سات سو صفحات پر مشتمل یہ ذخیرۂ احادیث ایک سو پچاس روپے میں مکتبہ حسینیہ قذافی روڈ گرجاکھ گوجرانوالہ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

’’حضرت عیسٰی علیہ السلام کی حیات و نزول کا عقیدہ‘‘

دورِ حاضر کے نامور محقق مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے سیدنا حضرت عیسٰی علیہ السلام کی حیات و نزول کے بارے میں اہلِ اسلام کے اجماعی عقیدہ کو دلائل کے ساتھ اس کتاب میں واضح کیا ہے اور تیرہ سو سال کے اجماع پر علماء کے ارشادات نقل کیے ہیں۔ اڑھائی سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب معیاری کتابت و طباعت کے ساتھ عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت حضوری باغ روڈ ملتان نے شائع کی ہے اور اس پر قیمت درج نہیں ہے۔

’’صدائے محراب‘‘

مجلسِ احرار اسلام اور تحریکِ ختمِ نبوت کے پرجوش مقررین میں حضرت مولانا تاج محمود رحمہ اللہ تعالیٰ کو یہ امتیازی حیثیت حاصل تھی کہ وہ اپنی بھرپور شعلہ نوائی کے ذریعہ سامعین کے جذبات سے کھیلنے کے ساتھ ساتھ ان کے ذہن و دماغ کو بھی گرفت میں رکھتے تھے۔ مولانا مرحوم کے فرزند و جانشین صاحبزادہ طارق محمود نے اس روایت کو قائم رکھنے کی کافی حد تک کامیاب کوشش کی ہے۔ زیر نظر کتاب صاحبزادہ صاحب موصوف کے سال بھر خطبات جمعہ کا مجموعہ ہے جو ان کے ذوقِ مطالعہ اور حسنِ ترتیب کا غماز ہے۔ ان خطبات میں مواد بھی ہے اور بیان کا سلیقہ بھی، جو بلاشبہ نوخیز خطباء کے لیے گراں قدر تحفہ ہے۔

چھ سو صفحات پر مشتمل اس مجموعہ خطبات کی قیمت ڈیڑھ سو روپے ہے اور اسے مکتبہ لولاک جامع مسجد محمود ریلے کالونی فیصل آباد سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

’’تذکرۂ سیدنا معاویہؓ‘‘

محترم جناب قاری قیام الدین الحسینی نے امیر المومنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حالاتِ زندگی اور ان کے بارے میں اہل سنت کے مسلّمہ عقیدہ و نظریہ کو اس کتاب میں مدلل طور پر بیان کیا ہے۔ کتابت و طباعت عمدہ، خوبصورت جلد، صفحات ۲۴۰ قیمت ۷۵ روپے اور ملنے کا پتہ ہے ادارہ اسلامیات پنڈ دادنخان ضلع جہلم۔

’’میری علمی و مطالعاتی زندگی‘‘

دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم مولانا سمیع الحق نے کچھ عرصہ قبل اپنے دور کے نامور اہلِ علم سے ان کی علمی و مطالعاتی زندگی اور تجربات کے بارے میں ایک سوالنامہ کی صورت میں استفسار کیا تھا۔ زیر نظر کتاب اس سوالنامہ کے جوابات پر مشتمل ہے جن میں ممتاز علماء اور دانشوروں نے اپنے علمی و مطالعاتی تجربات و مشاہدات بیان کیے ہیں۔ دارالعلوم حقانیہ کے فاضل استاذ مولانا عبد القیوم حقانی نے یہ مجموعہ مرتب کر دیا ہے۔ تین سو ساٹھ صفحات کی یہ کتاب مؤتمر المصنفین دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ضلع پشاور سے حاصل کی جا سکتی ہے، قیمت درج نہیں ہے۔

’’شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ ۔ ایک سیاسی مطالعہ‘‘

محترم ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوری نے اس کتابچہ میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے متعدد خطبات و فتاویٰ اور خطوط و پیغامات کو مرتب کیا ہے جن سے اس دور کے سیاسی حالات اور حضرت شیخ الہندؒ کی جدوجہد کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ ابتداء میں شیخ الہندؒ کے حالات اور خدمات پر ایک مضمون بھی شامل ہے۔ صفحات ۱۶۸، قیمت ۵۱ روپے، ملنے کا پتہ: مجلس یادگار شیخ الاسلام قاری منزل مراد سٹریٹ پاکستان چوک کراچی ۱۔

’’انجمن خدامِ کعبہ ۔ تاریخِ قیام اور مقاصد و خدمات‘‘

خلافتِ عثمانیہ کے خلاف یورپین اقوام کی سازشوں میں اضافہ ہوا تو برصغیر کے مسلمانوں میں خلافت کے ساتھ ہمدردی و عقیدت اور خلافت کے زیر انتظام حرمین شریفین کے تقدس و ناموس کے تحفظ کے جذبات بیدار ہوئے اور مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ اور مولانا محمد علی جوہرؒ جیسے اکابر نے ’’انجمن خدام کعبہ‘‘ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی۔ زیر نظر کتابچہ میں جناب ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری نے انجمن خدام کعبہ کے حالات و خدمات کا تذکرہ کیا ہے جو ہماری آزادی کی جدوجہد کا ایک اہم باب ہے۔ صفحات ۱۱۲، قیمت ۴۰ روپے، ملنے کا پتہ: ادارہ تصنیف و تحقیق ۹/۱ علیگڑھ کالونی، کراچی ۴۱۔

’’قطعات تاریخ‘‘

دورِ حاضر کے متعدد نامور اہلِ قلم و دانش کی وفات پر جناب شان الحق حقی نے قطعاتِ تاریخ لکھے جنہیں زیرنظر کتابچہ میں جمع کر دیا گیا ہے۔ ان میں جگر مراد آبادی، احسان دانش، بابائے اردو مولوی عبد الحق اور جوش ملیح آبادی جیسے ممتاز حضرات بھی شامل ہیں۔ صفحات ۴۸ قیمت ۱۰ روپے، ملنے کا پتہ: مکتبہ شاہد علیگڑھ کالونی کراچی ۴۱۔

’’ماہِ محرم اور مسلمان‘‘

ہفت روزہ الاعتصام لاہور کے فاضل مدیر جناب حافظ صلاح الدین یوسف نے ماہ محرم کے بارے میں ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی بے سروپا روایات اور بدعات و رسوم پر مختلف اسلامی مضامین لکھے جو زیر نظر کتابچہ میں یکجا کر دیے گئے ہیں۔ صفحات ۹۰، ناشر مکتبہ ضیاء الحدیث مصطفیٰ، لاہور۔

انسان کی ایک امتیازی خصوصیت

حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

انسان کی دوسری امتیازی خصوصیت اس کا سلیقہ یعنی حس لطافت و زیبائش ہے۔ چوپایہ شدت بھوک اور پیاس اور گرمی و سردی سے بچنے کے لیے بقدر ضرورت و کفایت کھانے پینے اور سر چھپانے کی جگہ بنا لیتا ہے اور شکم سیری کے لیے غلیظ گھاس پھوس اور گدلا پانی کھا پی لیتا ہے اور کسی درخت کی پناہ لینے یا کسی غار میں گھس جانے پر اکتفا کرتا ہے، لیکن انسان اپنے ماکولات و مشروبات اور رہائش و مسکن میں صرف کفایت اور دفعِ ضرورت پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ وہ اس میں اپنے جمالیاتی ذوق کی تسکین اور لطف اندوز ہونے کا پورا پورا خیال رکھتے ہوئے لطافت و زیبائش کو بھی مدنظر رکھتا ہے اور سکون قلب و نظر حاصل کرتا ہے۔ (البدور البازغۃ مترجم:76)

علماء اور سیاستداں

حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تمہارے علماء ہیں کہ ان کی نظریں محض پہلے سے لکھی ہوئی کتابوں میں پھنس کر رہ گئی ہیں۔ وہ اپنے گرد و پیش دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے، اگر کبھی دیکھتے ہیں تو بس کتابی نظر۔ وہ زندگی سے کٹ چکے ہیں، اس لیے جن علوم کو وہ پڑھتے اور پڑھاتے ہیں ان علوم میں اس بنا پر نہ تو خود میں کوئی زندگی کی رمق باقی ہے اور نہ وہ علوم پڑھنے اور پڑھانے والوں میں زندگی کی حرارت و تڑپ پیدا کرتے ہیں۔
تمہارے سیاست دان بڑی بڑی سکیمیں بناتے ہیں، لیکن ان کی نظر خاص طبقوں سے آگے نہیں بڑھتی۔ وہ قوم اور وطن کا نام لیتے ہیں، مذہب اور کلچر پر زور دیتے ہیں، لیکن ان کی قوم، وطن، مذہب اور کلچر کا تصور یا تو سرے سے موہوم ہے یا ان کا اطلاق ایک خاص طبقے کے اغراض اور مصالح پر ہوتا ہے۔ (مولانا سندھیؒ کے علوم و افکار: 154)

مدرسہ نصرۃ العلوم کے فارغ التحصیل طالب علم کا اعزاز و امتیاز

ادارہ

یہ امر ہمارے لیے بے حد باعثِ مسرت ہے کہ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے ایک فارغ التحصیل طالب علم محمد سیف الرحمٰن قاسم کو، جو سعودی عرب کی ام القریٰ یونیورسٹی مکہ مکرمہ کے ادارۂ عربی زبان وادب میں شعبہ تخصص لغت و تربیت میں زیر تدریس ہیں، قابلِ رشک اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ طالب علم مذکور کو طلبہ کے امور کی نظامت کی طرف سے ۴۱۱اھ کے دوسرے سیشن کا مثالی طالب علم قرار دیاگیا ہے۔ اس ضمن میں انہیں یونیورسٹی کی طرف سے ایک خصوصی تقریب میں خصوصی سند اور ایوارڈ عطا کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ موصوف کا یہ امتیاز عالمی سطح کا اعزاز ہے، کیونکہ اس شعبے میں دنیا کے مختلف براعظموں کے طلبہ زیر تعلیم ہیں۔
ہم مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے وقار اور اعتبار پر خدائے بزرگ و برتر کا شکر ادا کرتے ہیں اور طالب علم کو ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہوئے ان کی دنیا و آخرت کی فائز المرامی کے لیے دعاگو ہیں۔ (ادارہ)