1989

اکتوبر ۱۹۸۹ء

’’الشریعہ‘‘ کا آغازمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
امت مسلمہ کی کامیابی کا رازمولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ
ڈاکٹر اقبالؒ کے نام سے ایک مکتبِ فکر کی نئی دریافتعلامہ ڈاکٹر خالد محمود
شریعت بل کا نیا مسودہادارہ
نویدِ مسیحاؐمحمد عمار خان ناصر
شاہ ولی اللہ یونیورسٹی گوجرانوالہپروفیسر غلام رسول عدیم
قرآن و سنت کی تشریح اور اجتہاد علماء کا کام ہے یا پارلیمنٹ کا؟الشیخ جاد الحق علی جاد الحق

’’الشریعہ‘‘ کا آغاز

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلام ایک مکمل اور جامع دین ہے جو نہ صرف زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی شعبوں میں انسانیت کی راہنمائی کرتا ہے بلکہ تاریخ عالم کے صفحات میں انسانی معاشرہ کو افکارِ جاہلیہ کے پنجے سے نجات دلا کر امن و سکون کا گہوارہ بنانے کا اعزاز اسی فطری نظام حیات کا امتیاز بن چکا ہے۔ خلافت راشدہ کا زمانہ اسلامی نظام کے عملی نفاذ اور اس کی برکات کے ظہور کا مثالی دور تھا۔ اس کے بعد بھی ملت اسلامیہ کی اجتماعی زندگی کے بیشتر شعبوں میں اسلامی احکام و اقدار کی کارفرمائی کا تسلسل کم و بیش بارہ صدیوں تک قائم رہا۔ تا آنکہ جب یورپ کے مشینی انقلاب اور اس سے پیدا شدہ مسائل کے ہاتھوں اقتدار اور کلیسا کا رشتہ ٹوٹ گیا اور مذہب سے آزادی حاصل کر کے انسانی افکار و نظریات کی بنیاد پر نیا نظام ترتیب دینے والی یورپی قوتیں انقلاب اور صنعتی ترقی کے نشہ میں مسلم ممالک پر چڑھ دوڑیں تو یورپی استعمار کے زیر تسلط آنے والے مسلم ممالک نہ صرف اپنے سابقہ نظام اور اقدار و قوانین سے محروم ہوگئے بلکہ مرعوب ذہنوں نے ملت اسلامیہ کو مغرب کی ذہنی، تہذیبی اور نظریاتی غلامی کے شکنجے میں جکڑنے کی محنت کو ہی فکر و نظر کی معراج سمجھ لیا۔

خدا بھلا کرے ان علماء حق کا جنہوں نے بیرونی استعمار کے خلاف سیاسی، نظریاتی اور تعلیمی محاذوں پر طویل اور صبر آزما جنگ لڑی اور بالآخر ملت اسلامیہ کے نظریاتی تشخص اور اسلام کے فکری و علمی اثاثہ کو محفوظ رکھنے اور مسلم ممالک پر استعماری اقتدار کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن مسلم ممالک سامراجی قوتوں کے سیاسی اقتدار سے آزادی حاصل کرنے کے باوجود بیرونی استعماری نظاموں کے مسلسل اسیر ہیں اور سامراجی آقاؤں کی فکری اولاد ان کافرانہ نظاموں کے تحفظ اور اسلامی نظام کے نفاذ اور غلبہ کو روکنے کے لیے آخری نظریاتی جنگ کا بگل بجا چکی ہے۔

یہ جنگ سیکولرازم کے نام پر انسانی اجتماعیت کو مذہب سے لاتعلق قرار دینے، اور اجتہاد مطلق کے نام پر نئی اور من مانی تعبیر و تشریح کے ذریعہ دین کو اپنے نظریات و مقاصد کے سانچے میں ڈھالنے کے دو محاذوں پر جاری ہے۔ اور اسی نظریاتی اور فکری معرکہ میں اہل حق کی خدمت اور ترجمانی کے لیے ’’الشریعہ‘‘ اپنے سفر کا آغاز کر رہا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس فکری و نظریاتی جہاد میں الشریعہ کو اہل فکر و نظر کی سرپرستی حاصل رہے گی اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور احباب کے تعاون سے الشریعہ دین و قوم کی بہتر خدمت کر سکے گا۔

امت مسلمہ کی کامیابی کا راز

مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہم تعداد میں گو کثیر ہیں مگر افسوس کہ ستاروں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں اور من مانی اور انفرادی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہم بظاہر اگرچہ ایک دوسرے سے واقف اور قریب تر ہیں لیکن درحقیقت ایک دوسرے سے بے گانہ اور دور ہیں۔ ہر شخص اپنی اپنی مفاد پرستیوں کے محور کے گرد گھومتا ہے اور حیاتِ ملّی کا نصب العین نگاہوں سے اوجھل ہے، اور یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ قوموں کی ہستی اور بقا کا مدار ان کی مرکزیت اور اجتماع پر ہوتا ہے، ان کی انفرادی اور جداگانہ حیثیت اور امتیازی خصوصیت اسی نقطۂ ماسکہ سے وابستہ ہوتی ہے۔ اگر ان کی جماعتی اور تنظیمی زندگی اور مرکزیت میں خلل اور انتشار و تشتت و خلفشار واقع ہو جائے تو ان کی قومی اور ملّی حیثیت کا شیرازہ بالکل بکھر جاتا ہے اور اندوہناک حوادث و نوازل کی باد صر صر اور دہریت و الحاد کا ہر جھونکا انہیں جدھر چاہے بے وزن پَر اور خفیف تنکے کی طرح اڑائے اڑائے پھرے گا اور ایسے ناگفتہ بہ حالات میں ان کو کہیں قرار و چین کا موقع میسر نہ آئے گا، اور صحیح اسلامی نظام کے بغیر جس کی بنیاد کتاب و سنت پر قائم ہو ایسا عالمگیر اتفاق و اتحاد کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اہلِ مغرب اور مغرب زدہ طاقتوں کے اتفاق کا مرکزی نقطہ مفاد پرستی، مکر و خداع، حیلہ سازی و تصنّع اور خود غرضی کے سوا اور کچھ نہیں جس سے ہر دردِ دل رکھنے والے غیّور اور خوفِ خدا مسلمان کو ہمیشہ پرہیز کرنا لازم ہے۔
بھلا غور تو فرمائیے کہ جو مغربی طاقتیں اور غیر اسلامی حکومتیں درونِ خانہ خود اپنے لیے مطلب پرستی کے نامبارک اور منحوس بت سے فارغ نہیں وہ ہمارے ساتھ کیا بھلائی کریں گی؟ اور جن کی سیاست اور سفارت ہی دھوکہ بازی اور حیلہ جوئی پر مبنی ہو اور جن کے وعدے اور قول و قرار اور دستی و محبت ہرجائی کے عشق کا نمونہ ہو اور جن کی اخلاقی اور روحانی طاقت الفاظ کی ہیرا پھیری میں مضمر ہو اور جو منہ سے نکلی ہوئی سیدھی سادی بات کی بے جا تاویلات کے دبیز پردوں میں حق کو مستور رکھنا چاہتے ہوں وہ بھلا ہمارے ساتھ الفت و محبت اور ہمدردی و دلسوزی کیا کر سکتے ہیں؟ ان کو تو بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ
تو بخو یشتن چہ کر دی کہ بما کنی نظیری
بخدا کہ لازم آید زتو احتراز کر دن
اس لیے مسلمانوں پر ازبس لازم ہے کہ وہ کتاب و سنت کی روشن اور غیر مبدّل ہدایات پر عمل پیرا ہوں اور درحقیقت مسلمانوں کی فلاح و کامرانی اور ان کے بقا اور عزت کا اصلی سبب ہی یہ ہے کہ وہ خالص اسلامی زندگی میں منظم ہو کر رہیں ورنہ انتشار و تشتت اور پراگندگی و تفریق سے اسلامی اور قومی زندگی بالکل پامال ہو جائے گی اور مسلمانوں کی عالمگیر اور جہانگیر جاندار اور شاندار قوم بے وزن اور بے وقعت ہو کر رہ جائے گی جیسا کہ اس دورِ فتن و شرور میں اس کا بآسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور یہ بالکل ایک قطعی حقیقت ہے کہ
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
پس اگر آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے مسلمانوں کے لیے جماعتی اور منظم زندگی شریعتِ مطہرہ کی نگاہ میں ایک ضروری اور لازمی چیز تھی تو یقین کیجئے کہ وہ آج بھی مسلمانوں کے لیے اسی طرح لازمی اور ضروری ہے اور تا قیامت لازم ہی رہے گی چاہے مسلمان عرب میں سکونت پذیر ہوں یا عجم میں، امریکہ میں فروکش ہوں یا افریقہ میں، یورپ میں رہتے ہوں یا ایشیا میں، چین میں بستے ہوں یا جاپان میں، مصر میں آباد ہوں یا ایران میں، پاکستان کے باشندے ہوں یا ہندوستان کے، غرضیکہ وہ  جہاں بھی رہتے ہوں، اسلامی زندگی اور روحانی اقدار اور کامل اتحاد و اتفاق کے بغیر ان کی کامیابی امرِ محال ہے۔ اگر مسلمانوں نے اس نازک دور میں اس صحیح منزل اور نصب العین کو پیشِ نظر نہ رکھا تو اقوامِ عالم سے متاثر ہو کر ان کے مادی اور انفرادی جذبات ان کی ناک میں نکیل ڈالے انہیں زندگی کی مختلف مگر غلط اور غیر اسلامی شاہراہوں پر اِدھر اُدھر لیے لیے پھریں گی۔ کبھی تو مادی تصورات کی ان حسین مگر مہلک وادیوں میں اور کبھی دنیائے دنی کے ناپائیدار تخیلات کی ان نگاہ فریب اور ہلاکت آفریں مناظر میں وہ مادیت اور مغربیت کے جذبات میں بہہ کر آج کچھ کر دیں گے اور کل کچھ۔ اور جس قسم کا نظریہ اور جذبہ ان کے دل میں موجزن ہو گا اسی قسم کی آواز زبان پر آئے گی۔ نہ تو وہ رہبر کو پہچانیں گے اور نہ راہزن کو اور مطلب پرستی کے غیر سعید بت ان کو خیر خواہ اور بدخواہ میں کوئی فرق نہ بتائیں گے۔
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
کیا امت مسلمہ کی یہ انتہائی نازک اور ناگفتہ بہ حالت علماء کرام، اربابِ اقتدار اور دردِ دل رکھنے والے مسلمانوں کی توجہ کے لائق نہیں؟ کیا مساجد کی کس مپرسی، نماز روزہ سے لاپروائی اور بہت سے شعائرِ دین سے غفلت حتٰی کہ بعض اصولِ دین اور ضروری عقائد سے عوام کی جہالت اصلاح کی محتاج نہیں؟ کیا خالص توحید اور صحیح سنت سے اکثر مسلمانوں کی بے نیازی اور تعلیم دین سے بے اعتنائی و اعراض مستحق تغیر و تبدّل نہیں؟ کیا اب وہ وقت نہیں کہ مسلمان اپنے تمام اندرونی اور بیرونی، مادی اور فروعی اثرات سے دلوں کو آزاد کر کے اعلائے کلمۃ الحق کے لیے اٹھیں۔ غیروں کے آسرے اور سہارے پر اعتماد کرتے ہوئے نہیں بلکہ خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر اٹھیں اور اپنی قوت و طاقت کے بل بوتے پر بھی نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے اٹھیں۔ صرف قومیت اور وطنیت کا جذبہ لے کر نہیں بلکہ حزب اللہ اور جند اللہ بن کر اٹھیں اور اپنی جاہ و شوکت اور سلطنت و حکومت کے لیے نہیں بلکہ اعلائے حق اور خالص اسلام کی نشر و اشاعت کے لیے اٹھیں۔ ملک گیری اور ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی کے لیے نہیں بلکہ رضائے حق اور شوکتِ اسلام کو اپنی آخری منزل سمجھ کر اٹھیں اور قرآن و سنت کی شمع فروزاں، حق گوئی اور اخلاق فاضلہ کی شمشیر ہاتھ میں لے کر ہر قسم کے فتنہ و فساد اور شر کا قلع قمع کر کے اسلام کو روشن کریں اور اللہ تعالیٰ ہی کے دینِ حق کو نافذ کر کے دم لیں۔
حتٰی لا تکون فتنۃ و یکون الدین کلہ للہ (الانفال ۵)
’’یہاں تک کہ فتنہ یکسر ختم ہو جائے اور دین خالص اللہ تعالیٰ ہی کا (نافذ ہو کر) رہ جائے۔‘‘
جملہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی کوشش اور سعی تبلیغِ دین اور اشاعتِ اسلام پر مرتکز کر دیں حتٰی کہ سب گمراہ اور بہکی ہوئی دنیا کا نقشہ ہی بدل جائے اور اس مادی دور کے پیدا کردہ وہ تمام مصائب و تکالیف وہ سب الجھنیں اور غلط طریقے جن کے ناپیدا کنار بھنور میں سب دنیا الجھ کر رہ گئی ہے یکسر ختم ہو جائیں اور خدا تعالیٰ کی بھٹکی ہوئی مخلوق روشنی کے اس عظیم الشان اور بلند مینار سے فائدہ اٹھائے جس کو حبل اللہ کے پیارے الفاظ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ تمام مسلمانوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ صحیح اسلامی طریقہ اور اسلامی اندازِ فکر کو بروئے کار لا کر اپنے لیے بہتر دینی اور روحانی ماحول اور سازگار فضا پیدا کریں۔ یہ آرزو ہر دردِ دل رکھنے والے مسلمان کے قلبِ مضطر میں موجود ہے کہ دینی اور روحانی، اصلاحی اور تعمیری کاموں میں کوئی ایسا منظم اور ٹھوس مگر زود اثر اور بے لوث لائحہ عمل جلد از جلد مرتب کیا جائے جو خلوص و سچائی، نیکی و استقامت سے مذہب و ملت اور قوم و وطن کی اسلامی اور روحانی بہتری کے لیے تمام نیک عزائم کی کامیابی اور شادمانی کا ضامن ہو سکے اور زندگی کے ہر شعبہ اور پہلو میں دینی اور مذہبی، روحانی اور اخلاقی بیداری کے عام نیک آثار نظر آنے لگیں، اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کچھ بعید نہیں کہ اسلام کی سربلندی کے لیے وہ بہتر سے بہتر اسباب پیدا کر دے۔ و ما ذَالک علی اللہ بعزیز۔
درگاہِ بے نیاز میں اے درد کیا نہیں
دستِ سوال جانبِ خالق اُٹھا کے دیکھ

ڈاکٹر اقبالؒ کے نام سے ایک مکتبِ فکر کی نئی دریافت

علامہ ڈاکٹر خالد محمود

پاکستان کے علمی اور اسلامی حلقوں میں اب تک جو مکاتبِ فکر معروف اور موجود رہے ہیں ان میں ڈاکٹر علامہ اقبال مرحوم کے نام سے اب تک کوئی مستقل مکتبِ فکر سنا اور پایا نہیں گیا۔ ہمارے معلومات کے مطابق پاکستان میں کوئی مکتبِ فکر یا فرقہ ڈاکٹر اقبال کے نام سے موجود نہیں، نہ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے کبھی کسی مستقل دینی قیادت کا دعوٰی کیا، نہ انہوں نے اس پر دانشوروں کی کوئی جماعت بنائی۔ اب جبکہ انہیں ہم سے جدا ہوئے نصف صدی سے زیادہ عرصہ ہو رہا ہے ان کے نام سے ایک مستقل مکتبِ فکر کی دریافت یا ڈاکٹر صاحب مرحوم کا بطور مجتہد مطلق کے تعارف واقعی اس دور کے اہلِ علم کے لیے ایک نیا باب ہو گا۔
پاکستان میں جب کبھی نفاذِ اسلام یا شریعت بل کی بات اٹھتی ہے بعض طبقے اس کی روک تھام میں کوئی نہ کوئی نئی بات سامنے لے آتے ہیں تاکہ قارئین اور دانشوروں کا ذہن خود قانون میں ہی الجھ کر رہ جائے اور قوم کسی وقت کسی واضح لائحہ عمل پر کھڑی نظر نہ آ سکے۔ پاکستان کو وجود میں آئے ایک طویل مدت ہو چکی ہے اور ہم ابھی تک یہ طے نہیں کر سکے کہ اسلام ہے کیا اور اس کی قانونی تشکیل کس طرح ہو سکے گی۔ جو قوم ہر وقت نظریات میں ہی الجھی رہی اس پر عمل کا وقت کب آئے گا اس کی عملی صورت بہرحال آپ سب کے سامنے ہے۔ 
روزنامہ جنگ کی ۲۶، ۲۷ اور ۲۹ جولائی کی اشاعتوں میں جناب ڈاکٹر محمد یوسف گورایہ کا ایک مضمون علامہ اقبال کا مکتب فکر کے نام سے تین قسطوں میں شائع ہوا ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ گورایہ صاحب بھی انہی دانشوروں میں ہیں جن کا ذہن اسلام کی قانونی تشکیل میں ابھی تک الجھا ہوا ہے لیکن یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بات یا تشکیک پیدا کرنے میں ڈاکٹر اقبال مرحوم کا سہارا ضرور لیا ہے۔ بات کچھ بھی نہ ہو لیکن کسی بڑے آدمی کا نام لینے سے بات لائقِ سماعت ضرور ہو جاتی ہے اور لوگ اس پر غور کرنے لگتے ہیں۔ 
سوال یہ نہیں کہ ڈاکٹر اقبال مرحوم نے اپنا کوئی مستقل مکتبِ فکر قائم کیا ہے یا نہیں، اس پر ہم کچھ بعد میں عرض کریں گے۔ ہمارا پہلا سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر گورایہ صاحب اس وقت کیا کہنا چاہتے ہیں؟ وہ قوم کا ذہن کدھر لے جانا چاہتے ہیں؟ اسلام کی قانونی تشکیل میں مزید الجھاؤ کی طرف یا ان کے ذہن میں اس کی کوئی عملی صورت موجود ہے جسے وہ سمجھتے ہوں کہ جمہور مسلمان اسے قبول کر لیں گے اور اپنے مکاتب فکر کو یکسر چھوڑ دیں گے اور پھر پاکستان ایک مضبوط اسلامی مملکت بن جائے گا۔ ڈاکٹر گورایہ صاحب کے ذہن میں پاکستان کے لیے اگر کوئی ایسا خاکۂ عمل ہو اور اس پر قوم کے اتفاق کے امکانات بھی برابر روشن ہوں تو گورایہ صاحب کی یہ پیشکش واقعی امت کے لیے ایک احسانِ عظیم ہو گا۔ اور اس کی یہی صورت ہونی چاہیے کہ پہلے آپ وہ راہِ عمل بتائیں اور اس کے بعد اس کی تائید میں دلائل و نظریات پیش کریں۔ دعوٰی اور دلیل میں کچھ تو فاصلہ چاہیے، دعوٰی کو دلائل کے ساتھ ملا کر بیان کرنا نتیجہ نکالنے میں آسانی پیدا نہیں کرتا۔ 
اب دوسرے سوال کی طرف آئیے کہ ڈاکٹر اقبال نے کبھی اپنے آپ کو کسی خاص مکتبِ فکر کے قائد کے طور پر متعارف کرایا ہے؟ یا ان کے پیشِ نظر صرف بات کہہ دینا ہی رہا ہے اور عملی طور پر انہوں نے نہ کوئی جماعت بنائی، نہ اپنے آپ کو کبھی مجتہد مطلق کے منصب پر بٹھایا اور نہ وقت کی کسی دیگر دینی قیادت سے ٹکر لی؟ ہاں آپ نے کبھی اسے جھنجھوڑا اور اسلامی قومیت کے لیے ابھارا ضرور ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ واقعی کسی مستقل مکتبِ فکر کے بانی تھے۔ آپ نے اگر کہا
اے گفتار ابوبکر و علی ہشیار باش
تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ سنی مسلمان نہ تھے، یا حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کو خلافتِ راشدہ نہ سمجھتے تھے۔ اسی طرح آپ نے جب کہا 
سازِ عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں سے سن
اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ
تو اس کا مطلب بھی یہ نہ لینا چاہیے کہ آپ مسلمانوں کی موجودہ پریشانیوں اور نکبتوں کا سبب صرف شیعہ کے ماتمی جلوسوں کو ہی سمجھتے ہیں اور مغرب آج اگر عروج پر ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائیوں میں شیعہ کی طرح کوئی مستقل عزادار گروہ نہیں ہے جو ہر سال حضرت مسیحؑ کے صلیب پر چڑھنے کی عزاداری میں جلوس نکالتا ہو۔ حاشا و کلّا ڈاکٹر صاحب کی یہ مراد ہرگز نہیں۔ آپ ایک قومی رہنما کی حیثیت سے قوم کو ایک اعتدال پر لانا چاہتے ہیں اور کہنا چاہتے ہیں کہ اپنی اپنی راہ پر رہتے ہوئے ہمیں متوازی حالات اور نظریات کو بھی سامنے رکھنا چاہیے اور اختلافِ مسلک ہمارے قومی استحکام میں رکاوٹ نہ بننا چاہیے۔ ایک قومی مفکر ہونے کی حیثیت سے آپ کو یہی کچھ کہنا چاہیے تھا۔ 
بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نام کے ساتھ ڈاکٹر اقبال کا نام بطور نقاشِ پاکستان آتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مسلمانوں کی ایک اسلامی قومیت کا راگ جس دلآویز رنگ میں گایا ہے وہ پورے عالمِ اسلام کا مشترکہ فکری سرمایہ ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اپنے آپ کو کسی داعی کے طور پر پیش نہیں کیا۔ آپ اپنے آپ کو ہمیشہ دوسرے مسلمانوں کا ہی ایک حصہ سمجھتے رہے ہیں، آپ نے اپنے ہاں کبھی اور کہیں اصلی اور نسلی اسلام کی سرحدیں قائم نہیں کیں۔ 
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ آپ بڑے شاعر شاعر نہ تھے، شعر و ادب تو آپ کا صرف پیمانۂ ادا تھا۔ آپ مسلمان بھی تھے اور بڑے دردمند اور حساس مسلمان تھے۔ آپ مفکر بھی تھے اور قوموں کے عروج و زوال پر آپ کی نظر بہت گہری تھی۔ قیامِ انگلستان کے دوران آپ نے مغربی تہذیب کو معرضِ زوال میں دیکھا تو آپ نے چاہا کہ جس طرح بھی بن پڑے اب اسلام ان کے سامنے پیش کیا جائے۔ یہ لوگ اپنی تہذیب سے تنگ آئے ہوئے ہیں، ہو سکتا ہے کہ اب یہ فطرت کو پہچانیں اور اسلام ان مغربی قوموں کے لیے کسی طرح لائق قبول ہو جائے۔ آپ نے ان کے مفکرین اور پھر نفسِ مذہب کے منکرین پر کاری ضرب لگائی۔ وکیل اپنا مقدمہ جیتنے کے لیے ہر طرح کے دلائل پیش کرتا ہے، اس کے پیشِ نظر صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ عدالت کو کس طرح متاثر کر سکتا ہے، قانون کا محض علمی اور فکری پھیلاؤ اس وقت اس کا موضوع نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے ایک فلسفی اور مفکر کی حیثیت سے مغربی قوموں کی سوچ پر کڑی تنقید کی ہے اور انہیں بہت حد تک اسلامی فکر سے متاثر کیا ہے۔ 
اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں
تو اقبال اس کو سمجھاتا رموزِ کبریا کیا ہے
اگر اقبال کسی مستقل مکتبِ فکر کا بانی ہوتا تو قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کی اساس اس کی فکر پر رکھتے۔ آپ سے جب کبھی پوچھا گیا کہ پاکستان کا دستورِ ریاست کیا ہو گا آپ نے قرآن بتلایا اور تحریک کا مذہبی رخ واضح کرنے کے لیے شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کو ساتھ لیا۔ ڈاکٹر اقبال اور قائد اعظم میں قومی فکری مسائل پر طویل خط و کتابت بھی رہی لیکن ہم اس میں کہیں دیکھ نہیں پاتے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے آپ کو کسی مستقل مکتب فکر کا بانی کہا ہو۔ آپ نے اپنے خطبات میں جن اصولِ شریعت اور فقہی امور پر بحث کی ہے وہ مغربی اور مشرقی سوچ میں ہم آہنگی پیدا کرنے اور انہیں اپنے قریب کرنے کی ایک فکری سوچ ہے۔ ان کی روشنی میں ڈاکٹر اقبال کے اپنے مسلک کی تعیین ایک سطحی فکر ہو گی۔ ڈاکٹر اقبال اگر یہاں (برصغیر پاک و ہند) کے مسلمانوں کو کوئی راہ دکھانا چاہتے یا یہاں کی دینی قیادت پر تنقید کرتے تو ظاہر ہے اردو آپ کی اپنی زبان تھی، کیا ضرورت پڑی تھی کہ آپ اپنے خطبات انگریزی میں لکھتے۔ علامہ مشرقی ایک اپنی فکر کے بانی تھے، انہوں نے برصغیر کی دینی قوت کو للکارا تو باوجودیکہ آپ انگریزی میں بات بہتر کہہ سکتے تھے آپ نے اپنے مضمون اردو زبان میں لکھے اور یہی مقتضائے حال تھا۔ ڈاکٹر اقبال بھی اگر اسی پوزیشن میں ہوتے تو برصغیر کی دینی قیادت کا اس درجہ احترام کبھی نہ کرتے جیسا کہ ان کے حالات میں ملتا ہے، اور آپ اپنے فکری اور فقہی خطبات پہلے اردو میں پیش کرتے۔
دیوبند کے شہرۂ آفاق محدّث مولانا انور شاہ صاحب جب لاہور آئے تو ڈاکٹر صاحب نے انہیں اپنے ہاں ٹھہرایا تھا اور کئی دنوں تک ان سے اسلام کے فکری اور قانونی مسائل پر استفادہ کرتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کسی مرحلے پر اپنے آپ کو کسی مستقل مکتبِ فکر کا نمائندہ نہیں کہا۔ انجمن خدام الدین لاہور کے سالانہ جلسہ میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی تقریر آپ بڑے اہتمام سے سنتے۔ اور جب انہیں پتہ چلا کہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کی طرف ملّت کے وطن سے بننے کی بات غلط منسوب ہوئی ہے تو آپ نے کہا کہ اب میں آپ کے معتقدین سے عقیدت میں کسی سے پیچھے نہیں ہوں۔ کیا ایسی بات وہ شخص کہہ سکتا ہے جو خود ایک مستقل دینی قیادت کا داعی ہو؟ کیا اس سے وقت کی دیگر دینی قیادتوں کا احترام اس درجہ میں پایا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ 
اگر آپ اس پس منظر میں ڈاکٹر صاحب کے اس خطبہ کو لیں جس سے ڈاکٹر گورایہ صاحب نے اپنے مضمون میں استناد کیا ہے تو یہ بات کھل کر آپ کے سامنے آ جائے گی کہ آپ اس علمی پیشکش میں اقوامِ مغرب اور فلسفہ زدہ طبقے کو روایتی اسلام کے قریب کر رہے ہیں، نہ کہ خود مفسر اور محدث بننے اور قوم کو وقت کی دیگر دینی قیادتوں سے دور ہٹانے کے لیے میدانِ عمل میں آئے ہوئے ہیں۔

شریعت بل کا نیا مسودہ

ادارہ

سینٹ آف پاکستان میں مولانا سمیع الحق اور مولانا قاضی عبد اللطیف کی طرف سے پیش کردہ شریعت بل کے بارے میں سینٹ نے ایک خصوصی کمیٹی قائم کی تھی جس نے ملک کے تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام اور راہنماؤں سے مشاورت اور بل کے تمام نکات پر تفصیل بحث و تمحیص کے بعد اس کا مندرجہ ذیل مسودہ سینٹ کے ایوان میں پیش کر دیا ہے۔ (ادارہ)

ہر گاہ کہ قراردادِ مقاصد کو، جو پاکستان میں شریعت کو بالادستی عطا کرتی ہے، دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان ۱۹۷۳ء کے مستقل حصے کی حیثیت سے شامل کر لیا گیا ہے۔ اور ہر گاہ کہ مذکورہ قراردادِ مقاصد کے اغراض کو بروئے کار لانے کے لیے ضروری ہے کہ شریعت کے فی الفور نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔ لہٰذا حسبِ ذیل قانون بنایا جاتا ہے۔ 

(۱) مختصر عنوان، وسعت اور آغاز نفاذ

(۱) — یہ ایکٹ نفاذِ شریعت ایکٹ ۱۹۸۹ء کے نام سے موسوم ہو گا۔ 
(۲) — یہ پورے پاکستان پر وسعت پذیر ہو گا۔ 
(۳) — یہ فی الفور نافذ العمل ہو گا۔ 
(۴) — اس میں شامل کسی امر کا اطلاق غیر مسلموں کے شخصی قوانین پر نہیں ہو گا۔ 

(۲) تعریفات

اس ایکٹ میں، تاوقتیکہ متن سے اس سے مختلف مطلوب ہو، مندرجہ ذیل عبارات سے وہ مفہوم مراد ہے جو یہاں ترتیب وار دیا گیا ہے۔

(الف) ’’حکومت‘‘ سے مراد 

(اول) — کسی ایسے معاملے سے متعلق جسے دستور میں وفاقی قانون سازی کی فہرست، یا مشترکہ قانون سازی کی فہرست میں شمار کیا گیا ہو، یا کسی ایسے معاملے کے بارے میں جس کا تعلق ’’وفاق‘‘ سے ہو ’’وفاقی حکومت‘‘ ہے، اور
(دوم) — کسی ایسے معاملے سے متعلق جسے مذکورہ فہرستوں میں سے کسی ایک میں شمار نہ کیا گیا ہو، یا کسی ایسے معاملے کے بارے میں جس کا تعلق صوبے سے ہو ’’صوبائی حکومت‘‘ ہے۔ 

(ب) ’’شریعت‘‘ سے مراد وہ احکامِ اسلام ہیں جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں

تشریح: شریعت کی تفسیر و تعبیر قرآن پاک اور سنت کی تفسیر و تعبیر کے مسلّمہ قواعد کے مطابق ہو گی۔ شریعت کے چار ماخذ ہیں: قرآن، سنت، اجماع اور قیاس۔

(ج) ’’عدالت‘‘

عدالت سے کسی عدالتِ عالیہ کے ماتحت کوئی عدالت مراد ہے۔ اس میں وہ ٹربیونل یا مقتدرہ شامل ہے جسے فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کی رو سے یا اس کے تحت قائم کیا گیا ہو۔ 

(د) ’’قراردادِ مقاصد‘‘

’’قراردادِ مقاصد‘‘ سے مراد وہ قرارداد مقاصد ہے جس کا حوالہ دستور کے آرٹیکل ۲ (الف) میں دیا گیا ہے اور جس کو دستور کے ضمیمے میں درج کیا گیا ہے۔ 

(ذ) ’’مقررہ‘‘

’’مقررہ‘‘ سے مراد اس ایکٹ کے تحت مقررہ قواعد ہیں۔

(و) ’’مستند دینی مدرسہ‘‘

’’مستند دینی مدرسہ‘‘ سے مراد وہ دینی مدرسہ ہے جسے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن یا حکومت قواعد کے مطابق تسلیم کرتی ہو۔ 

(ھ) ’’مفتی‘‘

’’مفتی‘‘ سے مراد شریعت سے کماحقہ واقف وہ مسلمان عالم ہے جو کسی باقاعدہ دینی مدرسہ کا سند یافتہ اور تخصیص فی الفقہ کی سند حاصل کر چکا ہو اور پانچ سال کی مستند دینی مدرسہ میں علوم اسلامی کی تدریس یا افتاء کا تجربہ رکھتا ہو، یا جو دس سال تک کسی مستند دینی مدرسے میں علوم اسلامی کی تدریس یا افتاء کا تجربہ رکھتا ہو اور جسے اس قانون کے تحت شریعت کی تشریح اور تعبیر کرنے کے لیے عدالتِ عظمٰی، کسی عدالتِ عالیہ یا وفاقی شرعی عدالت کی امانت کے لیے مقرر کیا گیا ہو۔ 

(۳) شریعت کی بالادستی

شریعت پاکستان کا اعلیٰ ترین قانون ہو گی اور اسے مذکورہ ذیل طریقے سے نافذ کیا جائے گا اور کسی دیگر قانون، رواج یا دستور العمل میں شامل کسی امر کے علی الرغم مؤثر ہو گی۔ 

(۴) عدالتیں شریعت کے مطابق مقدمات کا فیصلہ کریں گی

(۱) — اگر کسی عدالت کے سامنے یہ سوال اٹھایا جائے کہ کوئی قانون یا قانون کا کوئی حکم شریعت کے منافی ہے تو عدالت، اگر اسے اطمینان ہو کہ سوال غور طلب ہے، ایسے معاملات کی نسبت جو دستور کے تحت وفاقی شرعی عدالت کے اختیارِ سماعت کے اندر آتے ہوں وفاقی شرعی عدالت سے استصواب کرے گی اور مذکورہ عدالت مقدمہ کا ریکارڈ طلب کر سکے گی اور اس کا جائزہ لے سکے گی اور امرِ تنقیح طلب کا ساٹھ دن کے اندر اندر فیصلہ کرے گی۔ 
مگر شرط یہ ہے کہ اگر سوال مسلم شخصی قانون، کسی عدالت یا ٹربیونل کے ضابطہ کار سے متعلق کسی قانون کسی مالی قانون یا ممحصولات یا فیسوں کے عائد کرنے اور وصول کرنے یا بنکاری یا بیمہ کے عمل و طریقہ کار سے متعلق کسی قانون کے بارے میں ہو تو عدالت امرِ تنقیح طلب کو عدالتِ عالیہ کے حوالے کر دے گی جو اس کا ساٹھ دن کے اندر اندر فیصلہ کرے گی۔
مزید شرط یہ ہے کہ عدالت کسی ایسے قانون یا قانون کے حکم کی نسبت اس کے شریعت کے منافی ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کسی سوال پر غور نہیں کرے گی جس کا وفاقی شرعی عدالت یا عدالت عظمیٰ کی شرعی مرافعہ بنچ پہلے ہی جازہ لے چکی ہو اور اس کے شریعت کے منافی نہ ہونے کا فیصلہ کر چکی ہو۔ 
(۲) — ذیلی دفعہ (۱) کا دوسرا فقرہ شرطیہ وفاقی شرعی عدالت یا عدالت عظمٰی کی شرعی مرافعہ بنچ کی جانب سے دیے گئے کسی فیصلے یا صادر کسی حکم پر نظرثانی کرنے کے اختیار پر اثرانداز نہیں ہو گا۔ 
(۳) — عدالت عالیہ، خود اپنی تحریک پر یا پاکستان کے کسی شہری یا وفاقی حکومت یا کسی صوبائی حکومت کی درخواست پر یا ذیلی دفعہ (۱) کے پہلے فقرہ شرطیہ کے تحت اس سے کیے گئے کسی استصواب پر، اس سوال کا جائزہ لے گی اور فیصلہ کر سکے گی کہ آیا کوئی مسلم شخصی قانون، کسی عدالت یا ٹربیونل کے ضابطہ کار سے متعلق کوئی قانون، کوئی مالی قانون، یا محصولات اور فیسوں کے عائد کرنے اور وصول کرنے یا بنکاری یا بیمہ کے عمل و طریقہ کار سے متعلق کوئی قانون، یا مذکورہ قانون کا کوئی حکم شریعت کے منافی ہے یا نہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ سوال کا جائزہ لیتے ہوئے عدالتِ عالیہ توضیح طلب سوال سے متعلقہ شعبہ کا تخصیصی ادراک رکھنے والے ماہرین میں سے، جن کو وہ مناسب سمجھے، کو طلب کرے اور ان کے نقطۂ نظر کی سماعت کرے گی۔ 
(۴) — جبکہ عدالتِ عالیہ ذیلی دفعہ (۳) کے تحت کسی قانون یا قانون کے حکم کا جائزہ لینا شروع کرے اور اسے ایسا قانون یا قانون کا حکم شریعت کے منافی معلوم ہو تو عدالتِ عالیہ ایسے قانون کی صورت میں جو دستور میں وفاقی فہرست قانون سازی یا مشترکہ فہرست قانون سازی میں شامل کسی معاملے سے متعلق ہو وفاقی حکومت کو، یا کسی ایسے معاملے سے متعلق کسی قانون کی صورت میں جو ان فہرستوں میں سے کسی ایک میں بھی شامل نہ ہو صوبائی حکومت کو ایک نوٹس دے گی جس میں ان خاص احکام کی صراحت ہو گی جو اسے بایں طور پر منافی معلوم ہوں، اور مذکورہ حکومت کو اپنا نقطۂ نظر عدالتِ عالیہ کے سامنے پیش کرنے کے لیے مناسب موقع دے گی۔ 
(۵) — اگر عدالتِ عالیہ فیصلہ کرے کہ کوئی قانون یا قانون کا کوئی حکم شریعت کے منافی ہے تو وہ اپنے فیصلے میں حسب ذیل بیان کرے گی۔
(الف) اس کی مذکورہ رائے قائم کرنے کی وجوہ،
(ب) وہ حد جہاں تک ایسا قانون یا حکم بایں طور پر منافی ہے، اور 
(ج) اس تاریخ کا تعین جس پر وہ فیصلہ نافذ العمل ہو گا۔
مگر شرط یہ ہے کہ ایسا کوئی فیصلہ اس میعاد کے گزرنے سے پہلے جس کے اندر عدالتِ عظمٰی میں اس کے خلاف اپیل داخل ہو سکتی ہو، یا جبکہ اپیل بایں طور پر داخل کر دی گئی ہو، اس اپیل کے فیصلے سے پہلے نافذ العمل نہیں ہو گا۔ 
مزید شرط یہ ہے کہ کسی مالی قانون یا محصولات اور فیسوں کے عائد کرنے اور وصول کرنے یا بنکاری یا بیمہ کے عمل و طریقہ کار سے متعلق کسی قانون کے بارے میں عدالتِ عالیہ کا فیصلہ اس فیصلے کی تاریخ سے چھ ماہ کی مدت ختم ہونے تک نافذ العمل نہیں ہو گا۔ 
مزید شرط یہ ہے کہ عدالتِ عالیہ، وفاقی حکومت یا کسی صوبائی حکومت کی درخواست پر جس میں فیصلہ کی تعمیل نہ کرنے کی معقول وجہ ظاہر کی گئی ہو، اس مدت میں اتنے عرصے کی توسیع کر سکے گی جو تین ماہ سے زیادہ نہ ہو۔ 
(۶) — عدالتِ عالیہ کو اس دفعہ کے تحت اپنے دیے ہوئے کسی فیصلے یا صادر کردہ کسی حکم پر نظرثانی کرنے کا اختیار ہو گا۔ 
(۷) — اس دفعہ کی رو سے عدالتِ عالیہ کو عطا کردہ اختیار سماعت کو کم از کم تین ججوں کی کوئی بنچ استعمال کرے گی۔ 
(۸) — اگر ذیلی دفعہ (۱) یا ذیلی دفعہ (۲) میں محولہ کوئی سوال عدالتِ عالیہ کی یک رکنی بنچ یا دو رکنی بنچ کے سامنے اٹھے تو اسے کم از کم تین ججوں کی بنچ کے حوالے کیا جائے گا۔ 
(۹) — اس دفعہ کے تحت کسی کارروائی میں عدالتِ عالیہ کے قطعی فیصلے سے ناراض کوئی فریق مذکورہ فیصلے سے ساٹھ دن کے اندر عدالتِ عظمٰی میں اپیل داخل کر سکے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ وفاق یا کسی صوبے کی طرف سے اپیل مذکورہ فیصلے کے چھ ماہ کے اندر داخل کی جا سکے گی۔ 
(۱۰) — اس قانون میں شامل کوئی امر یا اس کے تحت کوئی فیصلہ اس قانون کے آغازِ نفاذ سے قبل کسی عدالت یا ٹربیونل یا مقتدرہ کی طرف سے کسی قانون کے تحت دی گئی سزاؤں، دیے گئے احکام یا سنائے ہوئے فیصلوں، منظور شدہ ڈگریوں، ذمہ کیے گئے واجبات، حاصل شدہ حقوق، کی گئی تشخصیات، وصول شدہ رقوم یا اعلان کردہ قابلِ ادا رقوم پر اثر انداز نہیں ہو گا۔ 
تشریح: اس ذیلی دفعہ کی غرض کے لیے ’’عدالت‘‘ یا ’’ٹربیونل‘‘ سے مراد اس قانون سے آغازِ نفاذ سے قبل کسی وقت کی قانون یا دستور کی رو سے یا اس کے تحت قائم شدہ کوئی عدالت یا ٹربیونل ہو گی، اور لفظ ’’مقتدرہ‘‘ سے مراد فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت قائم شدہ کوئی مقتدرہ ہو گی۔ 
(۱۱) — کوئی عدالت یا ٹربیونل بشمول عدالتِ عالیہ کسی زیرِ سماعت یا اس قانون کے آغازِ نفاذ کے بعد شروع کی گئی کسی کارروائی کو محض اس بنا پر موقوف یا ملتوی نہیں کرے گی کہ یہ سوال کہ آیا کوئی قانون یا قانون کا حکم شریعت کے منافی ہے یا نہیں عدالتِ عالیہ یا وفاقی شرعی عدالت کے سپرد کیا گیا ہے، یا یہ کہ عدالتِ عالیہ نے اس سوال کا جائزہ لینا شروع کر دیا ہے اور ایسی کارروائی جاری رہے گی اور اس میں امر دریافت طلب کا فیصلہ فی الوقت نافذ العمل قانون کے مطابق کیا جائے گا۔ بشرطیکہ عدالتِ عالیہ ابتدائی سماعت کے بعد یہ فیصلہ نہ دے دے کہ زیرسماعت مقدمات کو عدالت کے فیصلے تک روک دیا جائے۔ 

(۵) شریعت کے خلاف احکامات دینے پر پابندی

انتظامیہ کا کوئی بھی فرد بشمول صدر مملکت، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ شریعت کے خلاف کوئی حکم نہیں دے سکے گا، اور اگر ایسا کوئی حکم دے دیا گیا ہو تو اسے عدالتِ عالیہ میں چیلنج کیا جا سکے گا۔ 

(۶) عدلتی عمل اور احتساب

حکومت کے تمام عمّال دستور کے تابع رہتے ہوئے اسلامی نظامِ انصاف کے پابند ہوں گے اور شریعت کے مطابق عدالتی احتساب سے بالاتر نہیں ہوں گے۔ 

(۷) علماء کو جج اور معاونینِ عدالت مقرر کیا جا سکے گا

(۱) — ایسے تجربہ کار اور مستند علماء جو اس قانون کے تحت مفتی مقرر کیے جانے کے اہل ہوں، عدالتوں کے ججوں اور معاونینِ عدالت کے طور پر مقرر کیے جانے کے بھی اہل ہوں گے۔ 
(۲) — ایسے اشخاص جو پاکستان یا بیرون ملک اس مقصد کے لیے متعلقہ حکومت کے تسلیم شدہ اسلامی علوم کے معروف اداروں اور مستند دینی مدارس سے شریعت کا راسخ علم رکھتے ہوں، فی الوقت نافذ العمل کسی دیگر قانون میں شامل کسی امر کے باوجود، شریعت کی تشریح اور تعبیر کے لیے عدالت کے سامنے اس مقصد کے لیے وضع کیے جانے والے قواعد کے مطابق پیش ہونے کے اہل ہوں گے۔ 
(۳) — صدر، چیف جسٹس عدالت عالیہ کے مشورے سے ذیلی دفعہ (۱) کی غرض کے لیے قواعد مرتب کرے گا جن میں ججوں اور عدالتوں میں معاونینِ عدالت کی حیثیت سے تقرر کے لیے مطلوبہ اہلیت اور تجربہ کی وضاحت ہو گی۔ 
(۴) — ایسے اشخاص جو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد یا کسی دیگر یونیورسٹی سے قانون اور شریعت میں گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ ڈگریاں رکھتے ہوں، فی الوقت نافذ العمل کسی دیگر قانون میں شامل کسی امر کے باوجود، اس غرض کے لیے حکومت کے وضع کردہ قواعد کے مطابق ایڈووکیٹ کی حیثیت سے اندراج کے اہل ہوں گے۔ 
(۵) — اس دفعہ کے احکام کسی طور پر بھی قانون پیشہ اشخاص اور مجالس وکلاء سے متعلق قانون کے تحت اندراج شدہ وکلاء کے مختلف عدالتوں، ٹربیونلوں اور دیگر مقتدرات بشمول عدالت عظمٰی کسی عدالت عالیہ یا وفاقی شرعی عدالت میں پیش ہونے کے حق پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔ 

(۸) مفتیوں کا تقرر

(۱) — صدر، چیف جسٹس پاکستان یا چیف جسٹس وفاقی عدالت اور چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کے مشورہ سے، جس طرح وہ مناسب تصور کرے، ایسے اور اتنے مفتیوں کا تقرر کرے گا جو عدالت عظمٰی، عدالت عالیہ اور وفاقی شرعی عدالت کی شریعت کے احکام کی تعبیر و تشریح میں اعانت کے لیے مطلوب ہوں۔ 
(۲) — ذیلی دفعہ (۱) کے تحت مقرر کردہ کوئی مفتی صدر کی رضامندی کے دوران اپنے عہدہ پر فائز رہے گا اور اس کا عہدہ فی الوقت کسی نائب اٹارنی جنرل برائے پاکستان کے برابر ہو گا۔ 
(۳) — مفتی کا یہ فرض ہو گا کہ وہ حکومت کو ایسے قانونی امور کے بارے میں، جن پر شریعت کی تشریح و تعبیر درکار ہو، مشورہ دے۔ اور ایسے دیگر فرائض انجام دے جو حکومت کی طرف سے اس کے سپرد یا اس کو تفویض کیے جائیں، اور اسے حق حاصل ہو گا کہ اپنے فرائض کی بجا آوری میں عدالتِ عظمٰی اور عدالتِ عالیہ میں، جب کہ وہ اس قانون کے تحت اختیارِ سماعت استعمال کر رہی ہوں، اور وفاقی شرعی عدالت میں سماعت کے لیے پیش ہو۔ 
(۴) — کوئی مفتی کسی فریق کی وکالت نہیں کرے گا بلکہ کارروائی سے متعلق اپنی دانست کے مطابق شریعت کے حکم بیان کرے گا، اس کی توضیح، تشریح و تعبیر کرے گا اور شریعت کی تشریح کے بارے میں اپنا تحریری بیان عدالت میں پیش کرے گا۔ 
(۵) — حکومتِ پاکستان کی وزارتِ قانون و انصاف مفتیوں کے بارے میں انتظامی امور کی ذمہ دار ہو گی۔ 

(۹) شریعت کی تدریس و تربیت

(۱) — مملکت، اسلامی قانون کے مختلف شعبوں میں تعلیم و تربیت کے لیے مؤثر انتظامات کرے گی تاکہ شریعت کے مطابق نظامِ عدل کے لیے تربیت یافتہ افراد دستیاب ہو سکیں۔ 
(۲) — مملکت، ماتحت عدلیہ کے ارکان کے لیے وفاقی جوڈیشیل اکادمی اسلام آباد اور اس طرح کے دیگر اداروں میں شریعت اور اسلامی فقہ کی تدریس و تربیت نیز باقاعدہ وقفوں سے تجدیدی پروگراموں کے انعقاد کے لیے مؤثر انتظامات کرے گی۔
(۳) — مملکت، پاکستان کے لاء کالجوں میں فقہ اور اصولِ فقہ کے جامع اسباق کو نصاب میں شامل کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے گی۔  

(۱۰) معیشت کو اسلامی بنانا

(۱) — مملکت اس امر کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے گی کہ پاکستان کے معاشی نظام کی تعمیر اجتماعی عدل کے اسلامی معاشی اصولوں، اقدار اور ترجیحات کی بنیاد پر کی جائے، اور دولت کمانے کے ان تمام ذرائع پر پابندی ہو جو خلافِ شریعت ہیں۔ 
(۲) — صدر، اس قانون کے آغازِ نفاذ کے ساٹھ دن کے اندر ایک مستقل کمیشن مقرر کرے گا جو ماہرینِ معاشیات، علماء اور منتخب نمائندگان پارلیمنٹ پر مشتمل ہو گا جن کو وہ موزوں تصور کرے اور ان میں سے ایک کو اس کا چیئرمین مقرر کرے گا۔ 
(۳) — کمیشن کے چیئرمین کو حسبِ ضرورت مشیر مقرر کرنے کا اختیار ہو گا۔ 
(۴) — کمیشن کے کارہائے منصبی حسب ذیل ہوں گے:
(الف) معیشت کو اسلامی بنانے کے عمل کی نگرانی کرنا اور عدمِ تعمیل کے معاملات وفاقی حکومت کے علم میں لانا۔
(ب) کسی مالیاتی قانون یا محصولات اور فیسوں کے عائد کرنے اور وصول کرنے سے متعلق کسی قانون یا بنکاری اور بیمہ کے عمل اور طریقہ کار کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سفارش کرنا۔ 
(ج) دستور کے آرٹیکل ۳۸ کی روشنی میں عوام کی سماجی اور معاشی فلاح و بہبود کے حصول کے لیے پاکستان کے معاشی نظام میں تبدیلیوں کی سفارش کرنا، اور
(د) ایسے طریقے اور اقدامات تجویز کرنا جن میں ایسے موزوں متبادلات شامل ہوں جن کے ذریعے وہ نظامِ معیشت نافذ کیا جا سکے جسے اسلام نے پیش کیا ہے۔
(۵) — کمیشن کی سفارش پر مشتمل ایک جامع رپورٹ اس کے تقرر کی تاریخ سے ایک سال کی مدت کے اندر وفاقی حکومت کو پیش کی جائے گی اور اس کے بعد کمیشن حسبِ ضرورت وقتاً فوقتاً اپنی رپورٹیں پیش کرتا رہے گا۔ البتہ سال میں کم از کم ایک رپورٹ پیش کرنا لازمی ہو گا۔ کمیشن کی رپورٹ حکومت کو موصول ہونے کے ۳ ماہ کے اندر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے سامنے بحث کے لیے پیش کی جائے گی۔ 
(۶) — کمیشن کو ہر لحاظ سے، جس طرح وہ مناسب تصور کرے، اپنی کارروائی کے انصرام اور اپنے طریقہ کار کے انضباط کا اختیار ہو گا۔ 
(۷) — جملہ انتظامی مقتدرات، ادارے اور مقامی حکام کمیشن کی اعانت کریں گے۔ 
(۸) — وزارتِ خزانہ حکومتِ پاکستان اس کمیشن سے متعلق انتظامی امور کی ذمہ دار ہو گی۔ 

(۱۱) ذرائع ابلاغ عامہ اسلامی اقدار کو فروغ دیں گے

تمام ذرائع ابلاغ کو خلافِ شریعت پروگراموں، فواحش اور منکرات سے پاک کیا جائے گا اور مملکت کی طرف سے ایسے مؤثر اقدامات کیے جائیں گے تاکہ ذرائع ابلاغ عامہ سے اسلامی اقدار کو فروغ ملے۔ 

(۱۲) تعلیم کو اسلامی بنانا

(۱) — مملکت اسلامی معاشرہ کی حیثیت سے جامع اور متوازن ترقی کے لیے مؤثر اقدامات کرے گی تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ پاکستان کے نظامِ تعلیم و تدریس کی اساس اسلامی اقدار پر ہو۔ 
(۲) — صدر مملکت اس قانون کے آغازِ نفاذ سے ساٹھ دن کے اندر تعلیم اور ذرائع ابلاغ کو اسلامی سانچہ میں ڈھالنے کے لیے ایک کمیشن مقرر کرے گا جو ماہرینِ تعلیم، ماہرینِ ابلاغِ عامہ، علماء اور منتخب نمائندگان پارلیمنٹ پر مشتمل ہو گا، جن کو وہ موزوں تصور کرے، اور ان میں سے ایک کو اس کا چیئرمین مقرر کرے گا۔ 
(۳) — کمیشن کے چیئرمین کو حسبِ ضرورت مشیر مقرر کرنے کا اختیار ہو گا۔
(۴) — کمیشن کے کارہائے منصبی یہ ہوں گے:
(الف) دفعہ ۱۱ اور اس دفعہ کی ذیلی دفعہ (۱) میں متذکرہ مقصد کے حصول کے لیے پاکستان کے تعلیمی نظام اور ذرائع ابلاغ کا جائزہ لے اور اس بارے میں سفارشات پیش کرے۔ 
(ب) تعلیم اور ذرائع ابلاغ کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کے عمل کی نگرانی کرے اور عدمِ تعمیل کے معاملات وفاقی حکومت کے علم میں لائے۔ 
(۵) — کمیشن کی سفارشات پر مشتمل ایک جامع رپورٹ اس کے تقرر کی تاریخ سے ایک سال کی مدت کے اندر وفاقی حکومت کو پیش کی جائے گی اور اس کے بعد کمیشن حسبِ ضرورت وقتاً فوقتاً اپنی رپورٹیں پیش کرتا رہے گا۔ البتہ سال میں کم از کم ایک رپورٹ پیش کرنا لازمی ہو گا۔ کمیشن کی رپورٹ حکومت کو موصول ہونے کے تین ماہ کے اندر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور صوبائی اسمبلیوں کے سامنے بحث کے لیے پیش کی جائے گی۔ 
(۶) — کمیشن کو ہر لحاظ سے، جس طرح وہ مناسب تصور کرے، اپنی کارروائی کے انصرام اور اپنے طریقہ کار کے انضباط کا اختیار ہو گا۔ 
(۷) — جملہ انتظامی مقتدرات، ادارے اور مقامی حکام کمیشن کی اعانت کریں گے۔
(۸) — وزارتِ تعلیم حکومتِ پاکستان اس کمیشن سے متعلق انتظامی امور کی ذمہ دار ہو گی۔

(۱۳) عمّالِ حکومت کے لیے شریعت کی پابندی

انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کے تمام مسلمان ارکان کے لیے فرائض شریعت کی پابندی اور کبائر سے اجتناب لازم ہو گا۔ 

(۱۴) قوانین کی تعبیر شریعت کی روشنی میں کی جائے گی

اس قانون کی غرض کے لیے:
(اول) — قانونِ موضوعہ کی تشریح و تعبیر کرتے وقت اگر ایک سے زیادہ تشریحات اور تعبیرات ممکن ہوں تو عدالت کی طرف سے اس تشریح و تعبیر کو اختیار کیا جائے گا جو اسلامی اصولوں اور فقہی قواعد و ضوابط اور اصولِ ترجیح کے مطابق ہو، اور
(دوم) — جب کہ دو اور دو سے زیادہ تشریحات و تعبیرات مساوی طور پر ممکن ہوں تو عدالت کی طرف سے اس تشریح و تعبیر کو اختیار کیا جائے گا جو اسلامی احکام اور دستور میں بیان کردہ حکمت عملی کے اصولوں کو فروغ دے۔ 

(۱۵) بین الاقوامی مالی ذمہ داریوں کا تسلسل

اس قانون کے احکام یا اس کے تحت دیے گئے کسی فیصلے کے باوجود اس قانون کے نفاذ سے پہلے کسی قومی ادارے اور بیرونی ایجنسی کے درمیان عائد کردہ مالی ذمہ داریاں اور کیے گئے معاہدے مؤثر، لازم اور قابلِ عمل رہیں گے۔ 
تشریح: اس دفعہ میں ’’قومی ادارے‘‘ کے الفاظ میں وفاقی حکومت یا کوئی صوبائی حکومت، کوئی قانونی کارپوریشن، کمپنی، ادارہ، تجارتی ادارہ اور پاکستان میں کوئی شخص شامل ہوں گے۔ ’’بیرونی ایجنسی‘‘ کے الفاظ میں کوئی بیرونی حکومت، کوئی بیرونی مالی ادارہ، بیرونی سرمایہ منڈی بشمول بنک، اور کوئی بھی قرض دینے والی بیرونی ایجنسی بشمول کسی شخص کے شامل ہوں گے۔

(۱۶) موجودہ ذمہ داریوں کی تکمیل

اس قانون میں شامل کوئی امر یا اس کے تحت کوئی دیا گیا فیصلہ کسی عائد کردہ مالی ذمہ داری کی باضابطگی پر اثر انداز نہیں ہو گا، بشمول ان ذمہ داریوں کے جو وفاقی حکومت یا کسی صوبائی حکومت یا کسی مالی یا قانونی کارپوریشن یا دیگر ادارے نے کسی دستاویزات کے تحت واجب کی ہوں یا اس کی طرف سے کی گئی ہوں، خواہ وہ معاہداتی ہوں یا بصورتِ دیگر ہوں یا ادائیگی کے وعدے کے تحت ہوں۔ اور یہ تمام ذمہ داریاں، وعدے اور مالی پابندیاں قابلِ عمل، لازم اور مؤثر رہیں گی۔

(۱۷) قواعد

متعلقہ حکومت سرکاری جریدے میں اعلان کے ذریعے اس قانون کی اغراض کی بجا آوری کے لیے وضع کر سکے گی۔ 

نویدِ مسیحاؐ

محمد عمار خان ناصر

حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام اس دنیا میں مخصوص اوقات میں، مخصوص مقامات پر اور مخصوص زمانے کے لیے فریضۂ رسالت کی ادائیگی کے لیے وقتاً فوقتاً تشریف لاتے رہے اور تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاءؑ کی ایک بہت بڑی تعداد بنی اسرائیل یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں مبعوث ہوئی۔ یاد رہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل دو بڑے حصوں میں بٹ گئی تھی۔ ایک قبیلہ ہے بنو اسرائیل اور دوسرا قبیلہ بنو اسماعیل۔ بنو اسرائیل میں بے شمار انبیاءؑ آئے اور مختلف لوگوں نے اپنے اپنے زمانے میں ان کا ظہور دیکھا۔ اکثر اسرائیلیوں نے اپنی بد مزاجی اور بد اخلاقی کی وجہ سے یا تو انبیاءؑ کو قتل کر دیا یا پھر ان کو جھٹلا دیا۔ اس کے برعکس بنو اسماعیل میں صرف ایک نبی کا ظہور ہوا اور وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ 
یہودی اور عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی نہیں مانتے اور دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے محض تعصب کی بنا پر آپؐ کی رسالت کا انکار کیا ورنہ ان کی کتابوں میں کثیر تحریف کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں واضح پیشگوئیاں موجود تھیں اور آج بھی ہیں۔ 
کعبہ کی تعمیر مکمل ہونے پر حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے مکہ میں کھڑے ہو کر ایک رسول بھیجنے کی دعا مانگی۔ قرآن میں وہ دعا ان الفاظ میں منقول ہے:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیَاتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم
’’اے خداوندا ان میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیج جو ان کو تیری آیات پڑھ کر سنائے اور ان کو کتاب و سنت سکھائے اور ان کو پاکیزہ کر دے، بے شک تو غالب و دانا ہے۔‘‘
انجیل میں ہے کہ حضرت مسیحﷺ نے ایک مددگار کی خوشخبری دی۔ اب تو خیر اصل انجیل موجود نہیں ہے۔ قرآن پاک نے اس اصل انجیل کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ حضرت عیسٰیؑ نے فرمایا:
اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًا بِّرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗ اَحْمَد
’’میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں تورات کی تصدیق کرنے والا اور آنے والے رسول کی خوشخبری دینے والا، وہ رسول جس کا نام احمد ہے۔‘‘
موجودہ انجیل میں یوں مرقوم ہے:
’’اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا جو ابد تک تمہارے ساتھ رہے گا۔‘‘ (یوحنّا ۔ باب ۱۴ آیت ۱۶)
پھر لکھا ہے کہ
’’لیکن مددگار یعنی پاکیزگی کی راہ جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب چیزیں سکھائے گا اور سب باتیں جو میں نے تم سے کہی ہیں وہ تمہیں یاد دلائے گا۔‘‘ (یوحنّا ۔ باب ۱۵ آیت ۲۶)
ان آیات میں حضورؐ کو مددگار کہا گیا ہے۔ قدیم اردو ترجموں میں مددگار کی جگہ ’’فار قلیط‘‘ لکھا گیا ہے اور یہ یونانی کے لفظ ’’پیریکلیوطاس‘‘ کا معرب ہے اور اس کا عربی میں صحیح ترجمہ احمد ہے جو کہ قرآن پاک میں مذکور ہے۔ تو انجیل یوحنّا میں جس مددگار کی بشارت دی گئی ہے اس سے مراد حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں (یوحنّا ۱۴ : ۱۶/۱۷) میں سچائی کی روح بولا گیا ہے اور ان کے تا قیامت نبی ہونے کی پیشگوئی ہے۔ مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ مددگار ابد تک تمہارے ساتھ رہے گا یعنی وہ سچائی کی روح۔ اس کے بعد حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں:
’’لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائے گا۔‘‘ (یوحنا ۱۵ : ۲۶)
اس میں معیحؑ نے آنے والے رسول کے بارے میں فرمایا کہ وہ ان کے نام سے آئیں گے اور یہ بھی کہا کہ میری باتوں پر اکتفا نہیں ہو گا بلکہ سب باتیں تو آنے والا رسول کرے گا یعنی شریعت کی تکمیل کرے گا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ تم میری تعلیمات بھول جاؤ گے تو وہ تمہیں یاد کرائے گا اور اسی لیے قرآن پاک نے اپنے آپ کو یہود و نصارٰی پر نگران کہا ہے اور عیسائی حضرت مسیحؑ کی تعلیم یعنی توحید کو بھول کر تثلیث پر ایمان رکھتے تھے، تو قرآن نے کہا کہ وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلٰٰثَۃ ’’تین خدا مت کہو‘‘۔ اور لوگ حضرت عیسٰیؑ کی بشارت سے انکار کرتے تھے تو حضورؐ نے فرمایا کہ میں ابراہیمؑ کی دعا اور عیسٰیؑ کی بشارت ہوں۔ اس کے بعد حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور اس کا مجھ میں کچھ نہیں۔‘‘ (یوحنا ۱۵ : ۳۰)
حضرت مسیحؑ آنے والے رسول کو دنیا کا سردار کہتے ہیں اور اپنے آپ کو ان کے مقابلے میں کچھ نہیں سمجھتے۔ اور انجیل متروک برناباس میں اس سے بھی زیادہ صراحت ہے، انجیل برنباس کی ۴۴ویں فصل میں مذکور ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے فرمایا کہ:
’’کیسا مبارک زمانہ ہے جس میں یہ (رسولؐ) دنیا میں آئے گا۔ اے محمد! اللہ تیرے ساتھ ہو اور مجھ کو اس قابل بنائے کہ میں تیری جوتی کا تسمہ کھولوں۔‘‘
اس کے بعد پھر مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’جب وہ مددگار آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا یعنی سچائی کی روح جو باپ سے صادر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا۔‘‘ (یوحنّا ۱۵ : ۲۶)
کیسا صریح بیان ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسٰیؑ کی گواہی دی اور انجیل کی تصدیق کی۔ عیسائیوں کی اصلاح کی اور حضرتؑ کی اصل شخصیت اور عظمت کو دنیا میں آشکارا کیا۔ حضرت مریمؑ کی پاکیزگی کو بیان کیا۔ حضرت المسیحؑ کی صداقت تسلیم کرنے کو اسلام کا ضروری رکن قرار دیا اور حضرت عیسٰیؑ کے بارے میں تمام باطل عقائد کا تاروپود بکھیر کر رکھ دیا۔
پھر حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں کہ:
’’میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں گا تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا۔ وہ آ کر دنیا کو گناہ اور راستبازی اور عدالت کے بارے میں قصوروار ٹھہرائے گا ۔۔۔۔۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کی روح آئے گا تو تم کو سچائی کی راہ دکھائے گا اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہے گا بلکہ جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔‘‘ (یوحنا ۱۶ : ۷ تا ۱۳)
حضرت مسیح علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ وہ رسول میرے بعد آئے گا اور میرے جائے بغیر وہ نہیں آئے گا اور چونکہ لوگ میری اصلی تعلیمات کو بھول کر ان کا انکار کرتے ہوں گے تو وہ مددگار ان کو سزا دے گا اور لوگ میری تعلیمات کو بھول کر گمراہ ہو چکے ہوں گے تو وہ سچائی کی راہ دکھائے گا اور اپنی طرف سے کچھ نہیں کہے گا۔ 
قرآن کریم نے اسی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیُ یُّوْحٰی
اور فرمایا کہ آئندہ کی خبریں دے گا۔ تاریخ شاہد ہے اور موجودہ سائنس گواہ ہے کہ حضورؐ کی پیش گوئیاں حرف بحرف پوری ہوئی ہیں۔
ان تمام آیات سے بالکل واضح ہو گیا ہے کہ حضرت محمدؐ کی صداقت کو عیسائی تعصب اور بغض کی وجہ سے نہیں مان رہے اور وہ دلیل یہ بناتے ہیں کہ یہ پیش گوئیاں ذاتِ الٰہی کے تیسرے اقنوم روح القدس کے بارے میں ہیں، لیکن آپ بغور ان پیشین گوئیوں کو پڑھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ کسی انسان کے بارے میں ہیں اور خدا کی ذات پر ان کے اطلاق کے لیے مسیحی قوم کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ 

شاہ ولی اللہ یونیورسٹی گوجرانوالہ

پروفیسر غلام رسول عدیم

تعلیم نام ہے ایک نسل کے تجربات کو منظم و مرتب حیثیت سے دوسری نسل تک پہنچانے کا۔ درسگاہیں یہی کام انجام دیتی ہیں۔ گزشتہ صدی میں برصغیر میں تعلیمی نظام جس نہج پر چل رہا تھا اس میں ایک ایسی تبدیلی پیدا ہو گئی جو ایک طرف تو کسی حد تک خوشگوار خیال کی گئی مگر اس کا ایک پہلو بے حد کرب انگیز ثابت ہوا۔ ایک عرصے سے رائج علوم میں ہلچل پیدا ہوئی، ساتھ ہی افکار بدلے، اطوار بدلے اور زاویہ ہائے نظر میں ایک انقلاب آ گیا۔ ۱۸۳۴ء میں انگریزی کے سرکاری زبان قرار دیے جانے سے پرانے لسانی سانچے ٹوٹنے لگے۔ ۱۸۵۷ء کے آتے آتے انگریزی زبان و ادب نے برصغیر میں اپنا خاص مقام بنا لیا، سیاسی تغلب کے ساتھ ساتھ غیر ملکی لسانی، علمی استیلاء کے آثار واضح طور پر سامنے آ گئے۔ 

۱۸۶۷ء میں دارالعلوم دیوبند اور ۱۸۷۵ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ کی بنیاد رکھی گئی۔ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور سرسید احمد خان دونوں ہی مولانا مملوک علی کے تلامذہ میں سے تھے۔ دونوں کی فکری ساخت اور ذہنی پرداخت میں خاصا بٗعد تھا۔ دونوں کا مقصد تعلیم اگرچہ ایک ہی تھا مگر راہیں بالکل جدا جدا تھیں۔ 
  • ایک کا نقطۂ نگاہ یہ تھا کہ مسلمان جب تک اپنے ماضی کی شاندار روایات سے گہری وابستگی اختیار نہیں کرے گا وہ نشاۃ ثانیہ کے لیے تیار نہیں ہو سکتا۔ دارالعلوم دیوبند اسی شاندار ماضی سے ربط و ارتباط کا مظہر تھا۔ 
  • دوسرے کا خیال یہ تھا کہ نسلِ نو کو جب تک جدید علوم سے بہرہ ور نہ کیا جائے وہ عصری تقاضوں کا ساتھ نہ دے گی۔ ایم اے او کالج جو بعد میں مسلم یونیورسٹی علیگڑھ بنا، اسی طرزِ فکر کا نمائندہ تھا۔ 
۱۸۹۸ء میں دیوبند اور علیگڑھ میں پائے جانے والے نقائص کے ازالے کے لیے لکھنؤ میں ندوۃ العلماء کا قیام عمل میں آیا۔ ندوہ نے درمیانی راہ اختیار کی مگر پرانے طرز کی دینی درسگاہوں کے مقابلے میں انگریزی تعلیمی اداروں کو حکومتی سرپرستی حاصل تھی جبکہ پرانی درسگاہوں کو یکسر تغافل کی نذر کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف پرانے ڈھب کے قرآن و حدیث و فقہ اور دوسرے دینی علوم آلیہ کے فارغ التحصیل تھے تو دوسری طرف سکولوں اور کالجوں کے جدید تعلیم یافتہ۔ دونوں ایک ہی سوسائٹی کے افراد ہونے کے باوجود ذہنی طور پر ایک دوسرے سے طویل فاصلوں پر کھڑے تھے۔ 
اب ہمیں ایسے تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت تھی جو ایک طرف تو سیرت و کردار میں پکے اور سچے مسلمان ہوں، فکری طور پر اتنا توانا ہوں کہ کوئی سی بھی تحریکِ جدید ان کے اسلامی اخلاق پر اثرانداز نہ ہو سکے۔ دوسری طرف وہ ملک و قوم کو ٹوٹ کے چاہیں، ملک کی مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ میں ایسے سکہ بند کل پرزے کی بن کر فٹ ہو جائیں کہ مملکت پاک جدید ترقی یافتہ اقوام کو چشمک زنی کر سکے۔ وہ تعلیمی میدان میں ہوں تو ایسی نسل تیار کریں جس کا ایک ایک فرد سچا پاکستانی اور پکا مسلمان ہو، جس کی سوچ میں مادیت غالب نہ ہو، استخدام مادیت تو ہو مادیت پرستی نہ ہو، وہ جس شعبہ حیات میں ہوں اپنے ماحول کو جگمگا دیں، اپنے کردار کی صلاحیت سے پورے ماحول کو چکاچوند کر دیں۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر خود چل کر دنیا کے سامنے ایک صادق القول و العمل مسلمان کا صحیح ماڈل پیش کریں۔ 
اس مقصد کے لیے ضرورت اس امر کی تھی کہ دین اور دنیا کی مغایرت دور کی جائے کیونکہ دین دنیا کا نقیض نہیں ہے، وہ ضد ہے تو بے دینی و الحاد کی ہے۔ دین و دنیا میں رہنے بسنے والے انسانوں کے جملہ احوال کو شامل ہے اور وہ ہے اسلام ’’ان الدین عند اللہ الاسلام‘‘۔ وطن پاک میں اس تعلیمی دورَنگی اور تدریسی دوعملی کے پیشِ نظر جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ گوجرانوالہ کئی دنوں کی تپش اور کئی شبوں کے گداز کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ نسلِ نو کی صحیح بنیادوں پر تعلیم و تربیت کے لیے تعلیمی ماحول کے اس دوغلے پن کو ختم کرنا چاہیئے۔ امتدادِ وقت کے ساتھ ساتھ ارکانِ جمعیۃ کی روحوں کی بے تابی اور دلوں کی دھڑکنیں بڑھتی چلی گئیں۔ 
نتیجتاً ایک لائحہ عمل مرتب کیا گیا اور حتمی فیصلہ کر لیا گیا کہ برصغیر کے عظیم مجدد، دینی پیشوا اور فکری امام حضرت شاہ ولی اللہؒ کے نام نامی سے منسوب ایک ادارہ قائم کیا جائے جو علوم و فنون کا ایسا حسین امتزاج پیش کرے جس میں تعلیم پانے والوں کے مزاج میں علمی ثقاہت بھی ہو اور دینی رچاؤ بھی، کردار میں پختگی بھی ہو اور ملکی نظم و نسق کے چلانے کی پوری فنی مہارت و صلاحیت بھی۔ یہ منصوبہ ملک کے نامور دینی علماء شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صفدر اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی سے تصدیق و توثیق کے لیے ان کی خدمت میں پیش کیا گیا، ان بزرگوں نے ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ اس پروگرام پر صاد کیا اور جمعیۃ کی درخواست پر اس کی سرپرستی بھی قبول فرمائی۔ 
فیصلے کے مطابق گوجرانوالہ سے جانب لاہور موضع اٹاوہ کے پاس جی ٹی روڈ سے مشرق میں ریلوے سے متصل ۳۲ ایکڑ جگہ خرید لی گئی اور گزشتہ ماہ کے ایک بابرکت دن جمعیۃ کے ارکان اور دیگر سرکردہ حضرات کے ہمراہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی نے دعائے خیر کے ساتھ ابتدائی تعمیری کام کا آغاز فرمایا۔ 

منصوبے کے اہم مقاصد

  1. سب سے پہلا مقصد اس یونیورسٹی کا یہ ہو گا کہ پرانے طرز کے دینی مدارس کے فارغ التحصیل علماء کو جدید اور عصری علوم السنہ سے متعارف کرایا جائے۔ انہیں اس حد تک عصری رجحانات سے آگاہ کیا جائے کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے جدید علمی و معاشرتی تقاضوں کے مطابق خدمت انجام دے سکیں۔
  2. سکولوں اور کالجوں کے طالب علموں کو دینی تعلیم سے بہرہ ور کر کے ان میں اخلاقِ فاضلہ اپنانے کا ذوق پیدا کیا جائے تاکہ وہ بحیثیت مسلمان اپنی عملی زندگی میں اپنے آپ کو غیر مسلموں سے ممیز کر سکیں اور بد دیانت، اخلاق باختہ اور مادیت پرست نام نہاد تعلیم یافتہ مسلمان اہلکاروں کے مقابلہ میں اخلاق و کردار کے لحاظ سے امتیازی شان کے حامل ہوں۔ 
  3. ذہین اور باصلاحیت طلباء کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ مقابلے کے امتحانوں میں کامیابی حاصل کریں اور انتظامی اور عدالتی شعبوں میں جا کر ثابت کر سکیں کہ دیانت، خلوصِ نیت، ماہرانہ بصیرت اور اسلامی فکر وہ ہتھیار ہیں جن سے ہر باطل قوت کو منہدم کیا جا سکتا ہے، ماحول کو جگمگایا جا سکتا ہے اور وطنِ عزیز کو ایک فلاحی مملکت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
اس وقت تعمیراتی کمیٹی، نصاب کمیٹی اور مالیاتی کمیٹی سرگرمِ عمل ہیں۔ 
تعمیراتی کمیٹی مختلف وسائل سے ایک ماسٹر پلان کی تیاری میں مصروف ہے۔ عنقریب تعمیراتی کام شروع ہونے والا ہے۔ جونہی ایک بلاک پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا تدریسی کام کا آغاز کر دیا جائے گا ان شاء اللہ العزیز۔ اس کے لیے کئی تعمیراتی منصوبوں کے طرزِ تعمیر کے پیش نظر اپنی ضروریات کے مطابق ماہرین نقشہ سازی میں سرگرم عمل ہیں۔ 
نصاب کمیٹی نے نصابی خاکہ پیش کر دیا ہے۔ اس کے لیے ملک کے نامور ماہرین تعلیم کی آراء و تجاویز کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ امتدادِ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں حک و اضافہ کی گنجائش رکھی گئی ہے تاہم آغاز کار کے لیے درج ذیل کارڈز (شعبے) تجویز کیے گئے ہیں۔ 

جنرل کیڈر

اس کیڈر میں وہ طلبہ داخلہ لے سکیں گے جو پاکستان کے کسی منظور شدہ تعلیمی بورڈ سے سیکنڈری سکول سرٹیفکیٹ کا امتحان پاس کر چکے ہوں گے۔ یہ طالب علم یونیورسٹی میں ایف اے اور بی اے کا وہی نصاب پڑھیں گے جو گوجرانوالہ ثانوی بورڈ اور پنجاب یونیورسٹی میں رائج ہے، تاہم ان کے علاوہ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کا خصوصی نصاب و معاون نصاب پروگرام بھی جزوِ تعلیم و تدریس ہو گا۔ 

فاضل کیڈر

درس نظامی کے فارغ التحصیل طلبہ جو حکومتِ پاکستان کی حکومتی ملازمت کے لیے مقرر کردہ حد عمر سے کم عمر ہوں گے اس کیڈر میں داخلے کے مجاز ہوں گے۔ وہ کسی خاص مضمون میں ایم اے کرنے تک چار سالہ خصوصی نصاب پڑھیں گے اور انہیں سول سروس کے مقابلے کے امتحان کے لیے تیار کیا جائے گا تاکہ وہ حکومتی شعبوں بالخصوص انتظامیہ اور عدلیہ میں سچے پاکستانیوں اور پکے مسلمانوں کا رول ادا کر سکیں۔ 

درس نظامی کے فاضلین کے لیے خصوصی سٹڈی سرکل

درس نظامی کے وہ فارغ التحصیل طلبہ جو حکومتِ پاکستان کی حکومتی ملازمت کے لیے مقرر کردہ حد عمر کو پار کر چکے ہوں گے اس کیڈر میں داخلہ لے سکیں گے۔ انہیں خصوصی سٹڈی سرکل میں دو سالہ تربیت دی جائے گی، ضروری انگریزی تعلیم، جدید معلومات اور عصری تحاریک سے متعارف کرایا جائے گا۔ مزید برآں تاریخ، معلوماتِ عامہ اور ریاضی سے بھی روشناس کرایا جائے گا۔ 

ملازمین کے لیے خصوصی سٹڈی سرکل

وہ ملازمین جو مختلف محکموں میں فرائض انجام دے رہے ہیں یا وہ کاروباری حضرات جو تعلیم یافتہ ہیں اس خصوصی سٹڈی سرکل سے مستفید ہو سکیں گے، ان کے لیے اس بات کا اہتمام کیا جائے گا کہ:
  1. وہ قرآن مجید کا اردو ترجمہ سیکھ سکیں۔
  2. عربی گرائمر کے بنیادی اصول و قواعد سے آگاہ ہو کر ان سے عملی استفادہ کر سکیں۔
  3. سیاسیاتِ اسلام کے بارے میں ان کی معلومات میں اضافہ ہو سکے۔ بالفاظِ دیگر عقائد، معاملات، عبادات، اخلاقیات اور اسلامی حدود و تعزیرات کے بارے میں ان کی معلومات وقیع اور پختہ ہو سکیں۔ 

ایم پی اے کیڈر

اس کیڈر سے وہ طلبہ استفادہ کر سکیں گے جو ایم اے کی سطح پر اسی پبلک ایڈمنسٹریشن کی تعلیم حاصل کرنا چاہیں۔ اس کے لیے ترجیحی بنیادوں پر شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے گریجویٹ طلبہ کے لیے داخلہ کی سہولت ہو گی۔ جنرل کیڈر کے طلباء بی اے کے بعد اس کیڈر میں داخلہ لے سکیں گے۔ یہ فاضلین آگے چل کر سرکاری اور نجی شعبوں میں انتظامی امور کی نگہداشت و انصرام کی اہلیت پیدا کر سکیں گے۔ 

معہد اللغۃ العربیۃ

چونکہ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کا اصل مقصد اسلامی علوم کے ذریعے اسلامی ڈھب میں سیرت سازی کرنا ہے اور اس امر کے بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں کہ اسلامی علوم و فنون کے مصادر و مقامات یا تو عربی ممالک رہے ہیں یا وہ عجمی ممالک جن میں علمائے اسلام نے بیشتر کام عربی زبان و ادب میں کیا ہے۔ لہٰذا عربی زبان کا حصول اسلامی علوم کے حصول کے لیے ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اگرچہ تراجم و تعبیرات کے ذریعے دنیا کی کم و بیش ہر معروف زبان میں اسلامی لٹریچر در آیا ہے تاہم کوئی بھی شخص جو علومِ اسلامیہ کے اصل سرچشموں یعنی قرآن، حدیث اور فقہ تک رسائی کا متمنی ہے وہ عربی زبان کے حصول سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ 
اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے نصاب کمیٹی نے ’’معہد اللغۃ العربیۃ‘‘ کے خصوصی ادارے کے قیام کی سفارش کی ہے۔ یہ ادارہ قدیم و جدید عربی زبان کی تدریس کا اہتمام کرے گا جس کے لیے اندرون ملک اور بیرونِ ملک سے اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائیں گی اور طلباء کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ عربی زبان میں تقریر و تحریر کے ذریعے اظہار ما فی الضمیر اور علمی تحقیقات کی اہلیت پیدا کر سکیں۔

قرآن و سنت کی تشریح اور اجتہاد علماء کا کام ہے یا پارلیمنٹ کا؟

الشیخ جاد الحق علی جاد الحق

عالمِ اسلام کے قدیم ترین علمی مرکز جامعہ ازہر قاہرہ کے موجودہ سربراہ معالی الدکتور الشیخ جاد الحق علی جاد الحق مدظلہ العالی کا شمار ملت اسلامیہ کی ممتاز ترین علمی شخصیات میں ہوتا ہے اور انہیں دنیا بھر کے علمی مراکز اور حلقوں میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مدیر ’’الشریعہ‘‘ نے گزشتہ سال ان کی زیارت و ملاقات کے لیے قاہرہ کا سفر کیا مگر ان دنوں جامعہ ازہر میں تعطیلات تھیں اور موصوف قاہرہ میں نہیں تھے اس لیے مقصد سفر کا یہ پہلو تشنہ رہا۔ ملاقات و زیارت کے ساتھ ساتھ یہ خواہش بھی تھی کہ پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کو جن علمی و فکری مسائل کا سامنا ہے ان کے بارے میں امام اکبر سے راہنمائی حاصل کی جائے۔ چنانچہ ملاقات نہ ہو سکنے کی وجہ سے بعض اہم سوالات تحریری صورت میں ان کے دفتر کے سپرد کر دیے گئے۔ 
ادارہ الشریعہ الامام الاکبر الدکتور جاد الحق علی جاد الحق کا بے حد شکر گزار ہے کہ انہوں نے متنوع اور بے پناہ مصروفیات کے باوجود ان سوالات کو ایک مستقل مقالہ کا موضوع بنایا اور اپنے گراں قدر ارشادات و تحقیقات کو پورے بسط کے ساتھ تحریر فرما دیا۔ پہلے خیال تھا کہ ’’الشریعہ‘‘ میں اس وقیع علمی مقالہ کا خلاصہ اردو میں شائع کر دیا جائے لیکن سوالات کی اہمیت، امام اکبر کی تحقیقی کاوش اور مقالہ کی علمی وقعت کے پیش نظر یہی فیصلہ کیا گیا کہ مقالہ کا مکمل متن اردو ترجمہ کے ساتھ شائع کیا جائے تاکہ اہل علم اس سے پوری طرح مستفید ہو سکیں۔ ادارہ الشریعہ کے خصوصی کرم فرما اور گورنمنٹ ڈگری کالج گوجرانوالہ کے سینئر استاذ پروفیسر غلام رسول عدیم صاحب نے انتہائی عرق ریزی کے ساتھ مقالہ کا ترجمہ کیا ہے جس پر وہ ہم سب کے شکریہ کے مستحق ہیں۔ اس مرحلہ پر دو امور کی وضاحت ضروری خیال کی جا رہی ہے:
(۱) ایک یہ کہ ’’الشریعہ‘‘ کا بنیادی مقصد و مشن نفاذِ اسلام اور اسلامائزیشن کے علمی و فکری مسائل کا حل پیش کرنا اور اس سلسلہ میں اسلام دشمن لابیوں کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات کا ازالہ کرتے ہوئے علماء کرام، جدید تعلیم یافتہ طبقہ اور طلباء کو نفاذِ اسلام کے لیے ذہنی اور فکری طور پر تیار کرنا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اظہار خیال کا ذریعہ قومی زبان اردو کو ہی بنایا جائے اور براہ راست دوسری زبانوں میں مضامین و مقالات شائع نہ کیے جائیں۔ اس لیے ادارہ الشریعہ کی عمومی پالیسی ان شاء اللہ العزیز یہی رہے گی اور کسی انتہائی استثنائی صورت کے سوا دوسری زبانوں میں مضامین و مقالات کی اشاعت سے گریز کیا جائے گا تاکہ افادیت میں عموم کا دائرہ زیادہ سے زیادہ وسیع ہو۔ 
دوسری وضاحت یہ ضروری ہے کہ ادارہ الشریعہ کا تعلق واضح طور پر حنفی مکتب فکر سے ہے اور وہ اسلامائزیشن کے سلسلہ میں امام ولی اللہ دہلویؒ کی تعلیمات و افکار اور جدوجہد کا نقیب ہے جبکہ جامعہ ازہر کی علمی عظمت اور روایتی قدرومنزلت کے بھرپور اعتراف کے باوجود علماء ازہر کے فکر و مزاج کی کا توسع برصغیر کے علمی حلقوں میں ہمیشہ موضوع بحث رہا ہے۔ اس لیے یہ ضروری نہیں کہ اس مقالہ کے تمام پہلوؤں سے ادارہ الشریعہ پوری طرح متفق ہو، تاہم یہ ایک وقیع اور قابل قدر علمی کاوش ہے جس سے اہل علم کو استفادہ کا موقع نہ دینا شاید انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہو اور اسے اسی جذبہ اور نقطۂ نظر کے تحت شائع کیا جا رہا ہے۔ 
ہم ایک بار پھر الامام الاکبر الدکتور الشیخ جاد الحق علی جاد الحق کی اس کرم فرمائی پر ان کے شکرگزار ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت عالم اسلام کو ان کی علمی و دینی مساعی سے زیادہ سے زیادہ فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا الٰہ العالمین۔ (ادارہ)

الحمد للہ رب العٰلمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
۱۹ اکتوبر ۱۹۸۸ء کو چند سوالات پر مشتمل پاکستان کے ایک عالم الشیخ زاہد الراشدی کا مکتوب شیخ الازہر کے دفتر میں موصول ہوا جس کا خلاصہ یہ ہے:
  1. پاکستان میں اسلامی شریعت کے نفاذ سے متعلق — قرآن و سنت کی و سے اسلامی قانون سازی کا حق کس کو حاصل ہے؟ کیا پاکستان کی قومی اسمبلی کے منتخب ارکان کو، کہ وہ اس کا حق بھی رکھتے ہیں اور چنے ہوئے بھی ہیں، اور امتِ اسلامیہ کے عصری مسائل کے حل میں اجتہاد کے اہل ہیں؟ یا یہ اختصاص پختہ فکر علمائے دین کے بورڈ کو حاصل ہے جن میں اس امر کے لیے مطلوبہ شرائط وافر ہوں اور قومی اسمبلی کو اس (قانون سازی) سے کوئی واسطہ نہیں؟
  2. حکومتی سطح پر سردست کس فقہی مسلک کو نافذ کیا جائے؟ کیا وہ حنفی مسلک ہو جس کی پاکستانی قوم کی غالب اکثریت پیروکار ہے اور وہ اہل السنۃ والجماعۃ ہے، یا وہ جعفری مسلک ہو جس کے شیعہ حضرات پیروکار ہیں؟
  3. اسلامی قانون سازی کے سرچشہ و ماخذ کے لحاظ سے — کیا اس کے ماخذ کے طور پر باقی سب کو چھوڑ کر محض کتاب و سنت پر انحصار کیا جائے گا یا خلفائے راشدینؓ، صحابہ کرامؓ، اہلِ بیتؓ کے فرمودات اور اجماعِ امت سے بھی استفادہ کیا جائے گا؟
  4. غیر شرعی حکومتوں سے متعلق (یعنی وہ حکومتیں جو آزادانہ انتخاب کے بغیر تشکیل پذیر ہوں)  کیا قوم کو حق پہنچتا ہے کہ وہ ایسی حکومت سے شریعتِ اسلامیہ کے نفاذ کا مطالبہ کرے؟ اس اعتبار سے کہ جو بھی حاکم برسرِ اقتدار آئے اس کا اقتدار کامل ہوتا ہے اور قوم کا اس حکومت سے شریعتِ اسلام کے نفاذ کا مطالبہ ضروری ہو جاتا ہے، اور یہ حکومت جو قوانین جاری کرے ان کو قبول کرنا ضروری ہوتا ہے؟ یا قوم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس حکومت کو ہٹا کر اس کی جگہ منتخب شرعی حکومت لائے؟
  5. قیامِ پاکستان سے پہلے شہر لاہور میں ایک مسجد پر سکھوں کا قبضہ تھا، آج وہ بند پڑی ہے۔ ایسے ہی بعض مساجد پر قادیانی گروہ کا قبضہ ہے اور وہ ان کے زیرتسلّط ہیں۔ ایسی مساجد کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا حکومتِ اسلامیہ انہیں واگزار کرا کے ان کی تعمیرِ نو کر سکتی ہے؟

——— جواب ———

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تمہید

چونکہ فقہ اسلامی میں سیاستِ شرعیہ ایک بہت بڑا باب ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس فتوٰی کے موضوعات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے سیاسۃ شریعۃ کے مفہوم اور اس کے میدانِ عمل کو سمجھا جائے۔ 

سیاستِ شرعیہ کا مفہوم

ابن قیم جوزیؒ اپنی کتاب ’’الطرق الحکمیۃ‘‘ میں لکھتے ہیں: سیاست وہ عملی پروگرام ہے جس پر چل کر لوگ بہتری سے قریب رہیں اور فساد سے دور رہیں۔ خواہ اسے رسولؐ نے وضع نہ کیا ہو اور نہ ہی وہ وحی کے طور پر اترا ہو۔ صحابہؓ اور تابعین میں سے فقہاء و مجتہدین اس رائے پر عمل کرتے جو دین کو مضبوط بنانے والی ہوتی، اور جس مسئلے میں کتاب و سنت سے کوئی خاص دلیل نہ پاتے تو رائے اور اجتہاد کو بروئے کار لاتے۔ چنانچہ ہمارے لیے فقہائے اسلام نے ان شرعی احکام کا، جو ان کے اجتہاد کا نتیجہ تھا، عظیم ورثہ چھوڑا ہے۔ کبھی تو شرعی احکام ثابت غیر متبدل اور غیر تغیر پذیر ہوتے ہیں، زمانے اور حالات کے بدلنے سے ان کی مصلحت میں کوئی اختلاف واقع نہیں ہوتا، اور جس زمانے میں ان کا استنباط کیا گیا اس زمانے کے لوگوں کے مصالح اور عرف کی اس میں رعایت رکھی گئی ہوتی ہے۔ چونکہ لوگوں کے مفادات حالات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں، کبھی لوگوں کا ایک عرف دوسرے زمانے کے عرف سے بالکل مختلف ہوتا ہے، اور کبھی ایک ہی زمانے میں ایک قوم کا عرف دوسری قوم کے عرف سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ 
پس سیاستِ شرعیہ کی رو سے امت کے حکام ایسے قوانین بنا سکتے ہیں جو درپیش مسائل کو حل کر سکیں۔ لیکن یہ وہ خاص مسائل ہیں جن کے بارے میں وہ کتاب و سنت، اجماع یا قیاس سے کوئی خاص دلیل نہیں پاتے، اور جو ایک حالت پر نہیں رہتے بلکہ زمانے اور حالات کے بدلنے سے بدلتے رہتے ہیں اور جن کے آثار و نتائج اچانک واقع ہوتے ہیں۔ نیز یہ بات ان احکام سے خاص ہے جن کی کتاب و سنت اور اجماع میں کوئی خاص دلیل نہیں ملتی، اور نہ ہی ان کے موقع و محل کی کوئی نظیر ملتی ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ان کو قیاس کیا جا سکے۔ چنانچہ ایسے مسائل کو حل کرنے کے لیے قواعد فقہ کی طرف رجوع کیا جائے گا مثلاً رفع حرج، دفع ضرر۔ 

اسلام میں شرعی احکام کے سرچشمے کی بابت

اس امر میں مسلمانوں کا کبھی اختلاف نہیں رہا کہ قرآن کریم عبادات، معاملات، عقائد اور اخلاقیات کے گوناگوں شرعی احکام کا سرچشمۂ اولین ہے، اور یہ کہ سنتِ نبویؐ قولی، فعلی یا تقریری قانون سازی کا دوسرا مصدر ہے، اگرچہ سنت کی روایات کے اتصال و ثبوت کی شرائط میں اختلاف رہا ہے۔ 
پھر اجماع کی باری آتی ہے۔ جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ اجماع کے تقاضوں پر عمل ضروری ہے، البتہ خوارج، شیعہ اور نظام (اجماع) کو حجت نہیں مانتے۔ 
پھر قیاس کا نمبر ہے۔ اگرچہ جمہور علماء شرعی امور میں اسے واجب العمل قرار دیتے ہیں تاہم اہلِ اصول کے ہاں اس کی تعریف میں اختلاف رہا ہے۔ ابن حزمؒ ظاہری اور ان کے پیروؤں کا کہنا یہ ہے کہ قیاس کو مصدر تشریع جان کر اس پر عمل پیرا ہونا عقلی طور پر درست ہے، ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے جس کو حل کرنے کے لیے اس کا سہارا لینا ضروری ہو، مگر شرع میں امامیہ شیعہ اور نظام (اپنی ایک روایت کی رو سے) اس طرف گئے ہیں کہ قیاس پر چلنا عقلاً محال ہے۔ اور بھی دلائل ہیں جن میں اختلاف ہے اور وہ یہ ہیں۔ عرف، استصحاب، استحسان، مصالح مرسلہ، استقراء قول صحابی وغیرہ۔ ان دلائل پر عمل کرنے کے بارے میں علمائے اصولِ فقہ کے دوسرے نقلی و عقلی اقوال و اختلافات بھی ملتے ہیں۔ جہاں تک کسی صحابیٔ رسولؐ کے قول، مسلک یا فتوے کا تعلق ہے (جو مدعائے سوال ہے) اس کے بارے میں آمدی نے اپنی کتاب ’’الاحکام فی اصول الاحکام‘‘ میں نقل کیا ہے کہ علماء اس پر متفق ہیں کہ اجتہاد کے مواقع پر کسی صحابی کا مسلک دوسرے مجتہد کے خلاف حجت نہیں ہوتا خواہ وہ امام ہو، حاکم ہو یا مفتی ہو۔ البتہ وہ (علماء) تابعین اور ما بعد کے مجتہدین کے خلاف صحابی کی حجیت میں اختلاف رکھتے ہیں۔ 
اشاعرہ، معتزلہ، امام شافعیؒ اپنے ایک قول میں، امام احمد بن حنبلؒ اپنی بیان کردہ دو روایتوں میں سے ایک میں، اور کرخیؒ اس بات کے قائل ہیں کہ تابعین و تبع تابعین کے خلاف صحابی کا قول حجت نہیں۔ امام مالک بن انسؒ، امام رازیؒ، احناف میں سے برزعیؒ، اپنے ایک قول میں امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل اپنی بیان کردہ ایک روایت میں اس بات کے قائل ہیں قول صحابی قیاس کے خلاف حجت ہے۔ علماء کا ایک گروہ اس طرف بھی گیا ہے کہ اگر قولِ صحابی قیاس کا مخالف ہو تو حجت ہے ورنہ نہیں۔ دوسروں کا کہنا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کا قول حجت ہے، ان دونوں کے علاوہ کسی کا نہیں۔ پھر آمدی نے کہا کہ پسندیدہ امر یہ ہے کہ یہ (قول صحابی) بالکل حجت نہیں۔ اس نے ان اقوال کے لیے دلائل بھی پیش کیے ہیں۔ 
یہ (صورتحال) اس لیے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جہانِ فانی سے اٹھ جانے کے بعد اچانک ایسے حالات پیش آ گئے جن کے لیے کوئی صریح حکم نہ تھا اور نہ کوئی خاص حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ترجیحاً پیش کی جا سکتی تھی۔ اس صورت میں صحابہؓ نے اجتہاد کیا، اکیلے اکیلے فتوے دیے۔ نتیجتاً ان واقعات سے متعلق ان کے فتوے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے۔ بالآخر قانون سازی کے سلسلے میں ان فتووں کے مقام و مرتبہ کے بارے میں ائمہ کرام میں اختلاف پیدا ہوا۔ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے پیروؤں کا اختلافِ صحابہ کے ضمن میں طرزِ عمل یہ تھا کہ وہ صحابہ میں سے کسی ایک صحابی کا فتوٰی لے لیتے، نہ تو کسی ایک کے پابند ہوتے اور نہ ہی سبھی کا انکار کرتے۔ 
اس امام جلیل (ابوحنیفہؒ) کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ جب کتاب اللہ سے کوئی حکم مل جائے تو میں اس کو لے لیتا ہوں، اگر کتاب اللہ میں نہ ملے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور ان صحیح احادیث پر انحصار کرتا ہوں جو ثقہ لوگوں کے ذریعہ پھیلیں۔ اور اگر کتاب اللہ اور سنت رسولؐ میں بھی حکم نہ پاؤں تو صحابہ کرامؓ سے جس کا قول چاہوں لے لیتا ہوں، پھر ان کے قول کو چھوڑ کر کسی دوسرے کا قول اختیار نہیں کرتا۔ جب ابراہیم (نخعی)، شعبی، حسن (بصری)، ابن سیرین، سعید بن مسیب تک معاملہ آ پہنچے تو جس طرح انہوں نے اجتہاد کیا، میں بھی کرتا ہوں۔
امام مالکؒ نے بھی صحابی کا قول اخذ کرنے میں عموماً امام ابوحنیفہؒ کا طرزِ عمل اپنایا ہے۔ یہ اس لیے کہ صحابی کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سماع کا گمان ہو سکتا ہے، قرائن کو دیکھ کر وہ مرادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔ چونکہ صحابہ کرامؓ کی عادت تھی کہ وہ نص کے بغیر فتوٰی شاذ و نادر ہی دیتے تھے اس لیے آسان معاملے کے علاوہ واضح حکم سے فتوٰی دیتے تھے لہٰذا اگر سماع کی نفی بھی کی جائے تو بھی صحابی کا قول کسی دوسرے کی نسبت راستی سے زیادہ قریب ہے۔ 
جہاں تک امام شافعیؒ اور ان کے متبعین کا تعلق ہے ان کا موقف یہ ہے کہ صحابہؓ کے فتوے ان مسائل میں جن میں انہوں نے رائے سے اجتہاد کیا ہے حجت نہیں کیونکہ ان کے یہ فتویٰ انفرادی فتووں کی حیثیت رکھتے ہیں اور غیر معصومین کے فتوے ہونے کی وجہ سے حجت نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے امام شافعیؒ کے بارے میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ وہ صحابہؓ کے انفرادی فتووں میں سے کوئی بھی فتوٰی لے لیتے ہیں اور خود بھی ان کے خلاف فتوٰی دیتے ہیں۔ اور یہ طرزِ عمل ان فتاوٰی کے بارے میں ہے جو صحابہؓ اپنی رائے سے دیتے ہیں، اور جو وہ رائے سے نہیں دیتے اس کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مرفوع حدیث کی طرح ہے اور جمہور کی طرح امام شافعیؒ کے نزدیک اس سے اخذ کرنا واجب ہے۔ 
یہ امر ملحوظ رہے کہ صحابی کے قول یا فتوٰی سے مراد وہ مسئلہ ہے جس میں اس نے اجتہاد کیا۔ اور جب یہ منقول ہو کہ یہ فلاں صحابی کی سنت ہے یا فلاں کی سنت ہے تو اکثر فقہاء اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر ہی محمول کرتے ہیں۔ اس ضمن میں احناف میں سے ابوالحسن کرخی نے اختلاف کیا ہے، تاہم پسندیدہ (قابلِ ترجیح) مسلک جمہور علماء کا ہے جیسا کہ آمدی نے ’’الاحکام‘‘ میں، شاطبی نے ’’موافقات‘‘ میں اور کمال بن ہمام نے ’’التحریر‘‘ میں نقل کیا ہے۔ 

قرآن و سنت — اسلامی قانون سازی کی بنیاد

قرآن کریم میں انسانوں کی معاش و معاد کے جملہ مسائل کا حل موجود ہے۔ وہ مسائل عقیدہ سے متعلق ہوں یا عبادت یا اخلاق سے، انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی وہ سب میدانوں میں (ان کے حل بتاتا ہے)۔ فرمان الٰہی ہے:
’’ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جو ہر شے کو کھول کر بیان کرتی ہے اور وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہو جانے والوں کے لیے ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے۔‘‘
قرآنِ حکیم کا بیان بلیغ کبھی تو نص و تصریح سے ہوتا ہے، کبھی اشارہ و تلمیح سے، جس سے مجتہدین کے لیے ہر مسئلے میں استنباطِ احکام اور ہر مشکل کے حل کے لیے میدان کھل گئے۔ وہ امر جو قرآن کر سرچشمہ عطا ہونے اور ہر زمانے اور ہر جگہ دین کی بہترین کو ضامن ہے، وہ قرآن کے ہر چیز کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا کتابِ ہدایت و رحمت ہونا بھی ہے۔ 
مگر (سوال یہ ہے کہ) ہم اس سے اپنے احکام کیسے اخذ کریں جبکہ امتِ اسلامیہ اس حقیقی آئین سے اب تک اپنے جملہ قوانین (بنانے) کے لیے مدد لیتی رہی ہے۔ بلاشبہ استنباط (کی صورت) میں وضعِ قوانین ایک نوع کا اجتہاد ہی ہے، خواہ وہ فقہی مسالک کے ذریعے ہو یا اصلی شرعی دلائل کے ذریعے۔ استنباط کی صورت کوئی سی بھی کیوں نہ ہو اس کے لیے درج ذیل شرائط ضروری ہیں۔ 
  1. علومِ قرآن مکی، مدنی، ناسخ، منسوخ، اور محکم و متشابہ وغیرہ آیات سے مکمل آگاہی۔
  2. قرآن کے اجمال کی تفصیل اور قرآن کے مبہم کی وضاحت کے لیے سنت نبویؐ کی پہچان بھی ناگزیر ہے۔ 
  3. نص کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے عربی زبان کے علوم سے پوری آگاہی (ضروری ہے) کیونکہ ایک لفظ کے کئی کئی معنی ہوتے ہیں اور ایک معنی کے لیے متعدد الفاظ۔ عربی زبان الفاظ و اسالیب کے اعتبار سے بہت وسیع ہے۔ 
  4. جو شخص قرآن کریم سے براہِ راست شرعی احکام کا استنباط کرنا چاہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قواعدِ استنباط سے آگاہی حاصل کرے۔ چنانچہ جس شخص میں بلاواسطہ استنباط کی شرطیں وافر ہوں گی، جب اس میں مذکورہ صلاحیتیں اور دوسری استعدادیں بھی پائی جائیں تو اس کے لیے استنباط کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ یہی طریقہ ائمہ مجتہدین کا تھا۔ جو اجتہاد کی صلاحیت نہ رکھتا ہو وہ علماء مجتہدین سے دریافت کرے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ’’اگر تم نہیں جانتے تو جاننے والوں سے دریافت کر لو۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تحصیلِ علم اور فقہ کا شوق دلایا ہے۔ فرمایا: ’’اللہ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے‘‘۔ آپؐ نے نہ جاننے کے باوجود علم کا دعوٰی کرنے اور فتوٰی دینے سے خوف دلایا ہے۔ فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ بندوں سے علم یک لخت نہیں کھینچ لیتا بلکہ علماء کے اٹھا لینے سے علم اٹھا لے گا تا آنکہ جب کوئی عالم باقی نہ رہ جائے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار (پیشوائے دین) بنا لیں گے۔ وہ انہیں بغیر علم کے فتوے دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے دوسروں کو بھی گمراہ کریں ۔‘‘

تقلید کا حکم

جب اجتہاد کا یہ حکم ہے اور مجتہد میں مختصرًا ان شرائط کا بکثرت پایا جانا ضروری ہے تو جو شخص بہتر طور پر اجتہاد نہ کر سکتا ہو اور نہ ہی اس میں یہ شرطیں کثرت سے پائی جائیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ وہ دوسرے کی تقلید کرے یا نہ کرے؟ کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک ہی مسلک سے وابستگی رکھے؟ کیا ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ مشہور اور معروف مسالک میں سے کسی خاص مسلک سے وابستہ رہے؟
تقلید کے بارے میں علماء کے تین قول ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے: 
  1. اوّل: تقلید بالکل جائز نہیں کیونکہ ہر مسلمان مکلّف پر واجب ہے کہ وہ اپنے امورِ دین میں اس کے صحیح مآخذ سے استفادہ کرے اور پیش آمدہ واقعات میں اجتہاد کرے۔ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کرنے کے بعد اس کا اجتہاد جس نتیجے پر پہنچائے اس پر عمل کرے۔ 
  2. دوم: اجتہاد کا جائز نہ ہونا اور تقلید کا واجب ہونا — اس قول کے لیے دلیل یہ ہے کہ وہ ائمہ مجتہدین جن کے سپرد امت نے یہ کام کیا تھا وہ تو گزر چکے، ان کے بعد اجتہاد درست نہیں، اب ان کی تقلید واجب ہے۔ 
  3. سوم: جو درجہ اجتہاد کو نہ پہنچ سکے اس پر تقلید کا واجب ہونا۔

ان اسباب کی بنا پر جن کو ہم اختصارًا ذیل میں درج کرتے ہیں، یہی رائے پختہ ہے۔ 

اولًا: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کے امورِ دین سے متعلق تنگی دور فرما دی ہے۔ سورۃ حج میں ارشاد ہوتا ہے ’’اور تم پر دین کے سلسلے میں کوئی تنگی نہیں‘‘۔ اگر اجتہاد ہر مسلمان پر واجب ہوتا جیسے کہ پہلی رائے والوں کا کہنا ہے تو لوگ سخت تنگی میں پڑ جاتے اور ان کے مفادات کا حصول رک جاتا کیونکہ ہر مسلمان ذاتی طور پر احکامِ دین میں اجتہاد کا اہل نہیں بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کسی مسئلے میں نہ جاننے والے کو اس سے پوچھنے کا حکم دیا ہے جو اسے جانتا ہے۔ سورہ انبیاء میں فرمایا:

’’اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ ذکر (جاننے والوں) سے (مسئلہ) پوچھ لو‘‘۔ 

یہ فرمانِ الٰہی لوگوں کے علم اور تحصیلِ علم میں فرق پر واضح دلیل ہے۔ یعنی جو نہیں جانتا اسے جاننے والوں سے پوچھنا ضروری ہے، ورنہ پوچھنے پر جواب دینے سے متعلق اس آیت کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ اسی وجہ سے ہر مسلمان کو تقلید سے منع کرنے اور اس پر اجتہاد کے واجب ہونے کا قول قرآنی نص کے خلاف ہے۔ 

ثانیاً: صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ سارے کے سارے مجتہد نہ تھے، ان میں سے عام لوگ اجتہاد کرنے والوں کی طرف رجوع کرتے تھے، اچانک پیش آنے والے واقعات کے بارے میں ان سے فتوٰی پوچھتے۔ ان کا پوچھنا کسی کو ناگوار نہ ہوتا بلکہ ان میں سے مجتہد حکمِ الٰہی کے مطابق سائلین کی تشفی کرتے۔ یہ منقول نہیں کہ ان پوچھنے والوں کو اجتہاد کا حکم دیا گیا۔ صحابہؓ سے اجماع کے طور پر یہ معلوم تھا کہ جو شخص کسی شرعی حکم نہ جانتا اسے اس حکم کے بارے میں اجتہاد کا مکلّف نہیں کیا جاتا تھا، اس پر لازم تھا کہ وہ اہلِ علم سے اس بارے میں پوچھے اور ان کے فتووں پر عمل کرے۔ تابعینؒ کا عمل بھی اسی طرح جاری رہا۔ 

ثالثاً: لوگ سمجھ بوجھ اور دلائل دینے کی قوت میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ درآنحالیکہ دین میں اجتہاد کرنے اور مصادر سے احکام کے استخراج کے لیے کئی شرائط درکار ہیں بلکہ یہ تو ایک ایسی صلاحیت ہے جو سب مسلمانوں میں وافر نہیں۔ سو اگر کسی شخص کو ایسی تکلیف کا مکلّف کر دیا جائے جس کی اس میں طاقت نہ ہو تو یہ تکلیف بالایطاق ہو گی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے صاحبِ استطاعت پر فرض کر دیا اور عام مسلمانوں سے تنگی اٹھا لی جیسے سورہ بقرہ کی آیت میں ہے:

’’اللہ کسی جان کو اس کی مقدرت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا‘‘۔ 

مزید برآں یہ کہ اگر ہر مسلمان پر اجتہاد فرض کر دیا جاتا تو مسلمان کے لیے لسانی و شرعی علوم کے لوازمات کی تحصیل کی طرف متوجہ ہونا ضروری ہو جاتا اور یہ بات معاشی مفادات، ضروریاتِ زندگی اور معمولاتِ حیات سے کٹ جانے پر منتج ہوتی۔ یوں مفادات کے عدم حصول سے سوسائٹی کے نظام میں بگاڑ بلکہ تباہی پیدا ہو جاتی۔ مزید برآں حق سبحانہ تعالیٰ کا سورۂ توبہ کی اس آیت ۳ میں یہ فرمان ہے:

’’پس کیوں نہ کیا گیا کہ مومنوں کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکل آئی ہوتی کہ دین میں فہم و بصیرت پیدا کرے اور (جب تعلیم و تربیت کے بعد) وہ اپنے گروہ میں واپس جاتی تو لوگوں کے (جہل و غفلت کے نتائج سے) ہشیار کرتی تاکہ برائیوں سے بچیں‘‘۔

یہ فرمانِ الٰہی دین میں سمجھ پیدا کرنے کے لیے ایک ایسے گروہ مسلمین کو خاص کر دینے کی طرف توجہ دلاتا ہے جو جامہ ابلاغ پہن کر دین کی طرف دعوت دے اور امورِ دین میں فتوٰی دے۔ اس وجہ سے ہر مسلمان کے لیے، جو درجۂ اجتہاد کو نہ پہنچتا اور اس کے پاس اجتہاد کے لوازم بکثرت نہ ہوتے، بے حد ضروری تھا کہ ان ائمہ مجتہدین میں کسی ایک کی تقلید کرے جن کے مذاہب پھیلے، اقوال، اصول اور فروع معروف ہوئے اور ائمہ کرام نے ان کے اجتہاد کو سند قبول بخشی۔ بصورتِ دیگر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اہل علم سے ان احکامِ شرعیہ کے بارے میں استفسار کرے جو اس سے پوشیدہ رہے یا اس کے علم میں نہیں آئے، خواہ وہ احکام عبادات سے متعلق ہوں، معاملات کے بارے میں ہوں، آداب کے بارے میں ہوں، یا سیرت اور چلن وغیرہ کے بارے میں ہوں۔ 

پھر یہ سوال آتا ہے کہ کیا مقلّد پر کسی مقررہ مسلک کی پابندی ضروری ہے؟ سچی بات وہی ہے جس کی طرف جمہور علماء گئے ہیں کہ کسی خاص مسلک کی پیروی اس حیثیت سے ضروری نہیں کہ اس سے نکلنا جائز نہ ہو۔ بلکہ یہ درست ہے کہ کسی مسئلہ میں امام ابوحنیفہؒ کے قول پر عمل کرے تو کسی دوسرے مسئلہ میں مالکؒ اور شافعیؒ کے قول پر عمل پیرا ہو۔ یہ یقینی بات ہے کہ صحابہؓ اور ما بعد کے ہر زمانے میں فتوٰی پوچھنے والے ایک مرتبہ ایک مجتہد سے مسئلہ پوچھتے تھے تو دوسری مرتبہ دوسرے مجتہد سے استفسار کرتے تھے، کسی ایک ہی مفتی کا التزام نہیں کرتے تھے۔ اس طرح اگر کوئی مقلّد کسی خاص مسلک کا پابند ہو گا تو اپنی تقلید میں ہمیشہ اس کا پابند نہ رہ سکے گا۔ 

آمدی، ابن حاجب، کمال بن ہمام، رافعی وغیرہ نے یہی طرزِ فکر اپنایا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ہی مسلک سے وابستگی واجب نہیں کیونکہ واجب تو وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ نے واجب قرار دیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے یہ واجب نہیں گردانا کہ کوئی شخص مجتہدین میں سے کسی امام معین کے مسلک سے تمسک کرے، دین میں صرف اسی کی تقلید کرے اور اس کے علاوہ دوسرے سب کو چھوڑ کر اس مقرر کردہ طریقے کو اپنائے۔ کمال ابن ہمام کی ’’التحریر‘‘ کی شرح لکھتے ہوئے ابن امیر حاج نے اس ضمن میں جو کچھ لکھا ہے وہ یہ ہے:

’’پھر اصول ابن مفلح میں ہمارے بعض اصحاب (یعنی حنابلہ، مالکیہ، شافعیہ) نے ذکر کیا ہے کہ کیا کسی مسلک کو اختیار کیا جا سکتا ہے؟ اس کی رخصتوں اور عزیمتوں کو لیا جا سکتا ہے؟ اس میں دو رائیں ہیں۔ ان میں مشہور تو یہ ہے کہ نہیں (کسی خاص مسلک کو نہیں اپنایا جا سکتا) جیسے کہ جمہور علماء کا خیال ہے۔ پس (اس معاملے میں) بہتر لے لینا چاہیے ۔۔۔۔ بعض پیروان امام احمد بن حنبلؒ سے منقول ہے کہ امام نے فرمایا (کسی خاص مسلک کی) رخصتوں اور عزیمتوں کے اخذ کرنے میں التزام کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم (تعلیمات نبوی) کی اطاعت کے خلاف ہے اور یہ بات اجماع کے خلاف ہے۔ ابن حاج نے اس کے جواز کے بارے میں توقف کیا، پھر نقل کیا۔ ’’قرون فاضلہ (قرون مشہود لہا بالخیر (بھلے زمانے)) اس قول کے بغیر ہی گزر گئے (یعنی کسی مقرر مسلک سے وابستگی کے قول کے بغیر) بلکہ (حقیقت تو یہ ہے کہ) عامی کے لیے کوئی خاص مسلک درست ہی نہیں خواہ وہ کسی بھی مسلک سے وابستہ کیوں نہ ہو جائے۔ وجہ یہ ہے کہ کسی مذہب کا پیرو صرف وہی شخص بن سکتا ہے جس کا اپنے خیال کے مطابق اپنے مسلک کے بارے میں ایک اندازِ نظر ہو، طرزِ استدلال ہو اور زاویۂ نگاہ ہو، یا وہ شخص جس نے اس مسلک کے فروعی مسائل کی کوئی کتاب پڑھی ہو اور اپنے امام کے فتوے اور اقوال کو جانتا ہو، اور جو شخص اس کی قطعی اہلیت نہیں رکھتا صرف یہ کہہ دیتا ہے کہ میں حنفی ہوں یا شافعی وغیرہ ہوں، وہ محض یوں زبانی کلامی کیوں اصرار کرتا ہے ۔۔۔۔ الخ‘‘

اولی الامر کون ہیں؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

’’اے اہل ایمان اللہ کی اطاعت کرو، اس کے رسول کی فرماں برداری کرو اور اپنے میں سے اولی الامر کی ۔۔۔ الخ‘‘

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ بھی ہے:

’’اور اگر یہ لوگ اسے رسولؐ کے یا اپنے میں سے صاحبانِ امر کے حوالے کر دیتے تو ان میں سے جو لوگ استنباط کی صلاحیت رکھتے ہیں اس کی حقیقت بھی جان لیتے۔‘‘

وہ صاحبانِ امر کون لوگ ہیں جنہیں حقِ استنباط حاصل ہے؟ کہا گیا وہ لوگ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا امت نے بیعت کر کے حکومت سونپی ہو۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں: اولوالامر جس پر کہ مفسرین و فقہاء وغیرہ میں سے جمہور سلف ہیں، وہ ہیں جو والی اور امیر ہیں اور ان کی فرمانبرداری اللہ نے ضروری قرار دی ہے۔ 

ایک قول یہ ہے کہ وہ عام لوگ ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس سے مراد علماء و امراء (دونوں) ہیں۔ بعض کی رائے یہ ہے کہ وہ حکام، امراء اور والی ہیں۔ اس طرح اولو الامر ایسے اہل رائے اور اہلِ علم ہیں جو لیجسلیٹو اسمبلی کے نمائندے ہیں کیونکہ جب اسلامی نظام مجلسِ شورٰی پر قائم ہو گا تو حکام اور فرمانروا ان سے ان معاملات میں مشورہ طلب کریں گے جن کے بارے میں کوئی صریح حکم وارد نہیں ہوا۔ اگر ان میں اختلاف واقع ہوا تو اسے قرآن اور آپؐ کی حین حیات سیرت اور آپؐ کے اپنے رفیق اعلیٰ سے جا ملنے کے بعد آپؐ کی سنت کے مطابق رکھا جائے گا۔ تنازع کی صورت میں یہی دونوں (قرآن و سنت ہی) ثالث ہوں گے۔ 

انتخابِ فرمانروا کے بارے میں امت کا موقف

اسلامی حکومت کا قائم کرنا، ان معنوں میں کہ مسلمانوں کے معاملات کی سپردگی کے لیے حاکم مقرر کیا جائے، یہ ایک امرِ واجب ہے جس پر صحابہ کرامؓ کے زمانے سے مسلمانوں کا اجماع رہا ہے۔ اس کام کی اہمیت کے پیشِ نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب سے پہلا کام جس میں صحابہؓ مشغول ہوئے یہی تھا۔ ابھی آپؐ کی تدفین نہیں کی تھی کہ وہ انتخابِ خلیفہ سے فارغ ہو گئے۔ الماوردی نے ’’الاحکام السلطانیہ‘‘ میں لکھا ہے، جب امامت کا وجوب ثابت ہو جائے تو یہ جہاد اور طلبِ علم کی طرح فرض کفایہ ہو گا۔ جب وہ شخص جو اس کا اہل ہے یہ فرض ادا کرنے پر راضی ہو جائے گا تو سب لوگوں سے یہ فرض ساقط ہو جائے گا۔ اگر کوئی بھی اس فریضے کو اپنے ذمے نہ لے تو لوگوں میں سے دو فریق نکلیں۔ پہلا فریق، انتخاب کرنے کے اہل لوگ تا آنکہ امت کے لیے امام منتخب کریں۔ دوسرا، امامت کے اہل لوگ تا آنکہ ان میں سے ایک امامت کے لیے اٹھے۔ 

مطلب یہ کہ وہاں کچھ رائے دہندگان ہوں گے اور کچھ امامت کے امیدوار۔ رائے دہندگان کی جو شرطیں ذکر کی گئی ہیں ان میں دوسری شرطوں کے ساتھ سب سے اہم چیز عدالت ہے۔ اور امامت کے مستحق کے لیے دوسری شرائط کے ساتھ جس علم کا جاننا ضروری ہے وہ (اصابت) رائے اور (گہری) حکمت ہے جو بہترین امیدواروں کے چناؤ پر منتج ہوتی ہیں۔ اس کا معنی یہ ہے کہ رائے دہندگان خلق، امانت، ذمہ داری اور حسنِ سیرت کی خاص سطح کے آدمی ہوں۔ جو شرطیں امیدوار میں پائی جانی چاہئیں ان سے خوب باخبر ہوں، نہ صرف یہ بلکہ امیدواروں میں تجربہ و دانائی کے موازنہ کرنے کا علم و ادراک رکھتے ہوں۔ ان میں سے (جو کسی امیدوار میں پائی جانی چاہئیں) اہم ترین شرطیں یہ ہیں۔ وہ منصف ہو، بحرانوں میں اجتہادی اہلیت کا علم رکھتا ہو، رعایا کی قیادت اور مفادات کی تدبیر پر منتج ہونے والی رائے کا مالک ہو۔ 

بلاشبہ رائے دہندگان اور امیدواروں کے لیے وضع کردہ یہ شرائط اور پیمانے ان تمام رخنوں کو بند کرنے کے لیے کافی ہیں جن کی انتخابات کی سرگرمیوں کے دوران میں اکثر لوگ شکایت کرتے ہیں، کسی بھی مقصد کے لیے کسی بھی شکل کے جو سوالات پوچھے جاتے ہیں وہ ختم ہو جاتے ہیں۔ 

مساوات اور دیانت، یا علم اور خلق، یا ہر دو میں یہ شرائط خاص ہو جاتی ہیں۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے جب مصر کے سربراہ مالیات ہونے کی خواہش کی تھی کہ ’’میں محافظ اور باخبر ہوں‘‘ تو ان کا یہ قول ان شروط کا جامع ہے۔ اور قرآن پاک میں بوڑھے بزرگ کی بیٹی کی بات جو اس نے حضرت موسٰیؑ کے بارے میں کی کہ ’’اچھا نوکر وہ ہے جو قوت والا اور امانت دار ہو‘‘ (بھی ان شروط کا جامع ہے)۔

جب امام کا انتخاب ہو چکے تو اچھے کاموں میں اس کی بات کے سننے اور ماننے کی بیعت ہو گی، جبکہ اس کے مقابلے میں امام جماعت مسلمین کے سامنے اپنے فرائض کی انجام دہی کرے گا۔ عصرِ حاضر کے طریق ہائے انتخاب میں سے کوئی بھی طریق انتخاب کافی ہے کیونکہ جس نے کسی کے حق میں ووٹ دے دیا گویا وہ اس کی امانت پر راضی ہو گیا تو اس کی اطاعت لازم ہو گئی۔ بیعت اپنے معروف معنوں میں لوگوں اور خلیفہ، امام، امیر یا حاکم کے درمیان ہو گی۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی بیعتیں ہوئیں۔ ان میں سے ایک بیعت تو وہ ہے جو انصار مدینہ نے عقبہ کی شب مکہ میں کی تھی۔ ایک بیعت وہ ہے جو خواتین نے کی تھی۔ ایک بیعتِ رضوان ہے جو حدیبیہ میں درخت کے نیچے ہوئی تھی۔ ان میں وہ بیعتیں نہیں جو انفرادی طور پر لوگوں نے کیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا، ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر سننے اور ماننے کی بیعت کرتے تھے۔ آپؐ ہم سے فرماتے ’’(اس بارے میں بیعت کرو) جس کی تم میں استطاعت ہو‘‘۔

بیعت (دراصل) قوم اور قوت کے درمیان نیکی کے کاموں میں تعاون ہے۔ جب بیعت ہو چکے تو اس کا لازم پکڑنا ضروری ہے۔ جب تک حاکم راہِ راست پر رہے اس کا نہ ٹوٹنا ضروری ہے۔ یہ اس لیے کہ بغیر کسی صحیح وجہ کے بیعت کر کے اس کا توڑ دینا اور وعدے کی پاسداری نہ کرنا جماعت سے خروج (کے مترادف) ہے۔ اس میں وہ فتنہ ہے جو قوم کی قوت کو کمزور کر دیتا ہے اور دشمنوں کے لالچ کے لیے میدان وسیع ہوتا ہے۔ حدیث کی کتابوں میں اس کے بارے میں بڑے واضح احکام آئے ہیں۔ 

مسلمانوں کا اس حکام کے بارے میں موقف جو بغیر انتخاب کے حاکم بن بیٹھا ہو

کبھی بغیر بیعت، بغیر امیدواری اور بغیر انتخاب کے بھی حکومت پر قبضہ و اختیار ہو جاتا ہے۔ اگر حاکم مسلمان ہو تو بھلے کاموں میں اس کی اطاعت واجب ہے۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ عبد اللہ بن عمرو بن العاص جو جلیل القدر صحابی تھے، سے کسی سوال کرنے والے نے حضرت معاویہؓ کے بارے میں پوچھا، جو اقتدار پر قابض ہو گئے تھے اور جنہوں نے حضرت علیؓ اور ان کی جماعت سے پنجہ آزمائی کی تھی، آپؓ نے فرمایا جب وہ اللہ کی فرمانبرداری کریں ان کی فرمانبرداری کرو، اور جب اللہ کی نافرمانی کریں تو ان کی نافرمانی کرو۔ آپ نے ان سے لڑنے اور ان سے خروج کا فیصلہ نہیں فرمایا۔ سہلؓ بن عبد اللہ تستری سے بھی ایسا ہی سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا ان کی بات قبول کرو، اپنے جس حق کا وہ تم سے مطالبہ کریں تمہیں وہ ادا کرنا ہو گا، نہ تم ان کے کاموں سے انکار کرو نہ ان سے راہِ فرار اختیار کرو۔ 

ابن خویز مندادؒ نے کہا، اس کی بیعت پوری کرنی ہو گی جو حکومت پر آ دھمکے۔ حافظ ابن حجرؒ نے فرمایا، فقہاء اس امر پر متفق ہیں کہ اقتدار پر قابض ہو جانے والے سلطان کی اطاعت لازم ہے اور اس کے ساتھ مل کر جہاد کرنا ضروری ہے۔ اس کی اطاعت اس کے خلاف خروج سے بہتر ہے کیونکہ خونریزی سے بچاؤ ہو گا اور بلوہ رکے گا۔ استثنائی صورت اس وقت ہو گی جب سلطان نے کھلا کفر کیا ہو۔ اس صورت میں اس کی اطاعت واجب نہیں بلکہ ہر صاحبِ مقتدرت کو اس کے خلاف جہاد کرنا واجب ہے۔ 

کافروں کا مسجد پر قبضہ

فرمان الٰہی ہے:

’’اور اگر نہ ہٹایا کرتا اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے تو ڈھائے جاتے تکیے اور مدرسے اور عبادت خانے اور مسجدیں جن میں نام پڑھا جاتا ہے اللہ کا بہت اور اللہ ضرور مدد کرے گا اس کی جو مدد کرے گا اس کی بے شک اللہ زبردست زور والا ہے۔‘‘

فرمایا: 

’’وہی آباد کرتا ہے مسجدیں اللہ کی، جو ایمان لایا اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور قائم کیا نماز کو اور دیتا رہا زکوٰۃ اور نہ ڈرا سوائے اللہ کے کسی سے سو شاید ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘

اسلام میں مسجدوں کی اہمیت کے بارے میں فقہاء نے ان کے احکام کو بیان کرنے اور ان کی تعمیر میں بڑی توجہ صرف کی ہے۔ ان کی حفاظت کرنے کی بڑی ترغیب دلائی ہے۔ مسلمانوں کے سلف صالحین نے ان پر خرچ کرنے کے لیے اوقاف قائم کئے تاکہ شعائر کے معطل و مختل ہو جانے کے پیش نظر یہ اوقاف بے آباد نہ ہو جائیں۔ 

مسجدوں کی حفاظت کی غرض سے اور ان کی عمارتوں کو قائم رکھنے کے لیے فقہ شافعی میں واضح احکام ہیں کہ جب لوگوں کے شہر سے نکل جانے، شہر کے ویران ہو جانے، یا مسجد کے ویران ہو جانے کی وجہ سے بھی مسجد کسی کی ملکیت قرار نہیں دی جا سکتی۔ تاہم محمد بن حسنؒ کے اختلاف کے علی الرغم نہ تو اس کا خریدنا جائز ہے اور نہ ہی اس میں کسی قسم کا تصرف روا ہے۔ 

مالکی فقہ میں بھی یہی صورتِ حال ہے، تاہم فقہائے مالکیہ نے مسجد کے بارے میں اس امر کی اجازت دی ہے کہ جب وہ ویران ہو جائے اور بگاڑ کی وجہ سے وہ ٹوٹ پھوٹ جائے، اس کی عمارت منہدم ہونے لگے تو اس کے بیچ ڈالنے میں کوئی حرج نہیں، اس کی قیمت سے کوئی دوسری مسجد خرید لی جائے گی۔ 

امام احمد بن حنبلؒ کی فقہ میں ہے کہ جب مسجد اس حال میں ہو جائے کہ اس سے مقصد براری نہ ہو رہی ہو مثلاً وہ اہل مسجد کے لیے اس قدر تنگ ہو جائے کہ اس کی توسیع ممکن نہ رہے، یا وہ علاقہ ہی برباد ہو جائے جس میں مسجد واقع ہے اور وہ مفید مطلب نہ رہے تو اس کا بیچنا جائز ہے اور اس کی قیمت کسی دوسری مسجد کی تعمیر میں صرف کر لینے کی اجازت ہے جس کی اپنی جگہ ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ 

فقہ حنفی میں ہے کہ جب مسجد ویران ہو جائے اور اس کو آباد کرنے والے نہ رہیں یا لوگ اس سے بے نیاز ہو کر دوسری مسجد تعمیر کر لیں، یا یہ کہ ویران تو نہ ہو مگر لوگ اس کے اردگرد سے چلے جائیں اور وہ اپنی بستی کے ویران ہو جانے کی وجہ سے مسجد سے بے نیاز ہو جائیں تو ۔۔۔۔۔ امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں میں سے شیخین یعنی ابویوسفؒ اور محمدؒ نے اختلاف کیا ہے۔ 

امام ابویوسفؒ نے فرمایا، وہ ہمیشہ تا قیامت مسجد ہی رہے گی، اگر لوگ اس سے بے نیازی بھی اختیار کر لیں تو بھی وہ وقف کنندہ کی ملکیت میں نہیں جائے گی، کسی دوسری مسجد میں اس کا ملبہ اور اشیائے ضرورت لے جانا جائز نہیں۔ اکثر فقہاء نے ابویوسف کے قول کی تائید کی ہے اور ابن ہمام نے فتح القدیر میں اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ ان سے یہ روایت بھی کی گئی ہے کہ وہ مالک کی طرف نہیں لوٹے گی بلکہ اس کا ملبہ اور اشیائے ضرورت کسی دوسری مسجد میں صرف کی جائیں گی۔ صاحب اسعاف نے اسی فتوٰی کو پختہ قرار دیا ہے۔ بعد کے بہت سے علماء نے اسی کے مطابق فتوٰی دیا ہے۔ امام محمدؒ کا فتوٰی یہ ہے کہ وقف کرنے والے کی ملکیت میں چلی جائے گی بشرطیکہ وہ زندہ ہو، اور اگر وہ مر چکا ہو تو اس کے وارثوں کو وہ (ملبہ اور اشیائے ضرورت) منتقل ہو جائے گا۔ 

نتیجۃً متذکرہ تحریر سے مندرجہ ذیل اصول حاصل ہوتے ہیں:۔

اولاً: اسلامی شریعت اپنے ان کلّی اصولوں اور بنیادی قواعد کے ساتھ، جن کا مقصد ہمیشہ انصاف قائم کرنا ہے، مفادات کے تحفظ اور رفع حرج کی ذمہ دار ہے۔ اس کا مقصد حصولِ نفع اور دفعِ مضرت ہے تاکہ امت راہِ اعتدال پر سیدھی چلتی رہے۔ 

ثانیاً: سیاست شرعیہ ایک ایسا شعبہ ہے جو حکمرانوں کو امت سے متعلق اجازت دیتا ہے کہ وہ ایسے قوانین جاری کریں جو اس امت کے مفادات کو ثابت کریں اور حاجت مند کی پیش آمدہ ضرورت کو پورا کریں۔ اور وہ نئے نئے مسائل جن کے لیے کتاب و سنت، قیاس یا اجماع میں کوئی خاص دلیل نہیں ملتی اس کو پورا کریں۔ ان مسائل کے لیے قواعد کے ان مراجع سے رجوع کرنا ہوگا۔ دفعِ حرج، رفعِ ضرر، سدِ ذرائع کے اصولوں پر عمل، عرف، استصحاب، استحسان، مصالح مرسلہ۔

ثالثاً: اسلامی قانون سازی کے سرچشمے چار ہیں۔ ان میں سے دو تو ایسے ہیں کہ امت میں ان سے کسی کو اختلاف نہیں اور وہ ہیں قرآن اور سنت۔ دو ایسے ہیں کہ جمہور فقہاء ان کی حجیت پر متفق ہیں اور وہ ہیں اجماع اور قیاس۔ اور جو ان چار مآخذ کے علاوہ ہیں یعنی استحسان، استصحاب، مصالح مرسلہ، عرف، قولِ صحابی، اور ان مصادر کے بارے میں علمِ اصولِ فقہ میں خاصا اختلاف ہے۔ 

تاہم جہاں تک قولِ صحابی یا اس کے مذہب یا فتوٰی کا تعلق ہے، مثلاً علماء اس امر پر اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ صحابی کا مذہب اجتہاد کے مواقع پر دوسرے مجتہد صحابہ پر حجت نہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ تابعین اور ان کے بعد کے مجتہدین پر اس کے حجت میں اختلاف کیا گیا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ قولِ صحابی حجت نہیں۔ امام شافعیؒ کے دو فتووں میں سے ایک قول یہی ہے اور امام محمدؒ کی دو روایتوں میں سے ایک روایت بھی یہی ہے۔ ان کے پیرو علماء کا نقطۂ نگاہ یہی ہے۔ بعض کا میلان اس طرف ہے کہ حجت کو قیاس پر تقدم حاصل ہے۔ امام مالکؒ کا یہی قول ہے اور امام شافعیؒ کی دو رایوں میں سے ایک یہی ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ کی دو روایتوں میں سے بھی ایک روایت یہی ہے۔ اور بعض علماء حنفیہ کا بھی یہی نقطۂ نظر ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ اگر (قولِ صحابی) قیاس کے خلاف ہو تو حجت ہے ورنہ نہیں۔ کچھ دوسرے علماء کی یہ رائے کہ حجت صرف ابوبکرؓ اور عمرؓ کے اقوال میں ہے باقی میں نہیں۔ بعض نے یہ اندازِ فکر بھی اختیار کیا ہے کہ قولِ (صحابی) قطعًا حجت ہے ہی نہیں۔

بلاشبہ جس میں صحابہ نے اجتہاد کیا اور انفرادی سطح پر فتوٰی دیا اور ان کے فتووں میں اس معاملہ میں اختلاف ہو تو ائمہ مجتہدین میں قانون سازی سے متعلق اس فتوٰی کے مقام و مرتبہ میں اختلاف ہے۔ 

امام ابوحنیفہؒ اور ان کے متبعین کی رائے یہ ہے کہ مجتہد کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحابہ میں سے کسی ایک کا فتوٰی لے لے اور کسی ایک ہی کے فتاوٰی پر انحصار نہ کر لے اور نہ ہی ان سب سے نکل جائے۔ امام مالکؒ عام صورت میں قولِ صحابی سے استفادہ کے بارے میں امام ابوحنیفہؒ کے مسلک سے اتفاق کرتے ہیں۔ امام شافعیؒ اور ان کے متبعین کا مسلک یہ ہے کہ صحابہ کے فتوے جن میں رائے کو دخل ہو حجت نہیں۔ اسی وجہ سے ان سے منقول ہے کہ مجتہد کے لیے ضروری ہے کہ صحابہ سے انفرادی فتووں میں سے کوئی سا بھی فتوٰی لے اور وہ اس کے خلاف بھی فتوٰی دے سکتا ہے۔ 

یہ سب کچھ اس صورت میں ہے جس میں رائے سے ادراک کیا جا سکتا ہے اور یہی بہتر ہے۔ جس میں رائے کو دخل نہ ہو تو اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مرفوع حدیث کو لینا ہو گا، جمہور علماء کے نزدیک اس سے اخذ کرنا ضروری ہے اور جو امام شافعیؒ نے مذہب اختیار کیا ہے وہ زیادہ قابل قبول ہے، تاہم جس پر صحابی کی سنت کا اطلاق ہو یا بقول اس کے سنت سے ۔۔۔۔۔۔ تو اکثر فقہاء اس طرف گئے ہیں کہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر ہی محمول کیا جائے گا۔ آمدی، شاطبی، کمال بن ہمام نے اسی بات کو اختیار کیا ہے۔ 

رابعًا: یہ کہ جو شخص براہِ راست قرآن و سنت سے شرعی احکام کے استنباط کرنے کا آرزومند ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ استنباط کے قواعد سے بھی آگاہ ہو اور اس میں اجتہاد کی شرطیں کثرت سے پائی جائیں اور وہ تمام ذاتی خصوصیات اس میں پائی جائیں جو مجتہد کے لیے ضروری ہیں تاکہ وہ صحیح استنباط کر سکے۔ ائمہ مجتہدین کا یہی طرزِ عمل تھا۔ 

خامساً: ہر مسلمان جو درجۂ اجتہاد کو نہ پہنچے اور اس میں یہ خصوصیات و لوازم بھی نہ ہوں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان ائمہ مجتہدین میں سے کسی کی تقلید کرے جن کے مذاہب پھیلے اور جن کے اقوال، اصول اور فروع امت میں پھیل گئے، امت نے ان کے اجتہاد کو شرفِ قبولیت بخشا۔ یا پھر ان شرعی احکام کے بارے میں جو اس کی دسترس سے باہر ہوں یا اس کے علم میں نہ ہوں، اہلِ علم سے فتوٰی دریافت کرے، عبادات، معاملات، آداب اور اخلاق وغیرہ (کے جملہ مسائل اس ضمن میں) سب برابر ہیں۔ 

سادساً: جمہور علماء کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ مقلد پر کسی خاص مسلک کو لازم پکڑنا ضروری نہیں، اس صورت میں کہ وہ اس (تقلید) سے کبھی باہر ہی نہ آئے۔ بلکہ اس کے لیے یہ حکم ہے کہ مثال کے طور پر وہ کسی مسئلہ میں ابوحنیفہؒ کے قول پر عمل کرے اور دوسرے میں امام مالکؒ یا امام شافعیؒ کے قول پر عمل پیرا ہو۔ یہ بات یقینی ہے کہ صحابہ کرامؓ کے زمانے اور بعد کے ہر دور میں مسئلہ پوچھنے والے ایک مرتبہ ایک مجتہد سے مسئلہ دریافت کرتے تو دوسری بار دوسرے مجتہد سے مسئلہ پوچھتے، کسی ایک مفتی سے التزام کے ساتھ مسئلہ نہیں پوچھتے تھے۔ یہ بات ان مواقع پر نہیں جہاں ایک ہی عمل میں مختلف مذہبوں کے اقوال کے درمیان مطابقت ناممکن ہے، برعکس اس کے کہ جو علمِ اصولِ فقہ میں اپنے مقام پر واضح بات ہے۔ 

سابعاً: علمائے کرام کی آراء میں سے قابل ترجیح یہ ہے کہ اولی الامر، اہل الرائے اور اہل علم ہوتے ہیں۔ (یہی وہ لوگ ہیں) جو تشریعی اقتدار کے نمائندے ہوتے ہیں اور یہ کہ حکمرانوں اور گورنروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان معاملات میں، جو واضح نہ ہوں یا ان کے بارے میں کوئی نص (قطعی) وارد نہ ہوئی ہو، حکم کو واضح کریں۔ 

ثامنًا: یہ کہ حکمرانوں کا انتخاب فرضِ کفایہ ہے۔ اس پر دورِ صحابہؓ سے لے کر (آج تک) مسلمانوں کا اجماع ہے۔ یہ ان امیدواروں اور رائے دہندگان کے وجود کا تقاضا کرتا ہے جن میں خاص شرطیں وافر موجود ہوں اور یہ کہ رائے دہندگان اور امیدواروں کے لیے وضع کی گئی شرطیں اور معیار ان شکایتوں کی رخنہ بندی کے لیے کافی ہیں جن کا عوام اظہار کرتے ہیں۔ یہ مقام ایسا ہے کہ اس میں قرآن و سنت کا کوئی تفصیل واضح حکم نہیں، یہیں سے عدل و انصاف کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کے انتظام کے لیے قانون سازی میں اجتہاد کا جواز پیدا ہوتا ہے، یہیں سے حاکم عادل کی ضرورت ثابت ہوتی ہے۔ 

تاسعاً: یہ کہ جب سربراہ کو اختیار تفویض ہو چکا تو نیک کاموں میں حاکم کی بیعت کی جائے کہ (بیعت کنندگان) اس کی بات سنیں گے اور اس کی اطاعت کریں گے۔ اس کے مقابلے میں حاکم جماعت مسلمین کے سامنے اپنے فرائض (کی بجا آوری) کا جواب دہ ہو گا۔ جب قوم اور ہیئت مقتدرہ کے درمیان بیعت ہو چکے تو ضروری ہو گا کہ اسے لازم پکڑا جائے اور جب تک حکمران راہِ راست پر رہے اسے توڑا نہ جائے۔ 

عاشر: اسلام کے واضح احکام نے بیعت سے رکے رہنے سے چوکنا کیا ہے خواہ وہ بلااواسطہ طریقے سے ہو یا بالواسطہ طریقے پر۔ کیونکہ بلاوجہ بیعت نہ کرنا اور اس سے دست کش رہنا جماعت کے خلاف خروج کے حق کو ثابت کرنا ہے، اس میں فتنہ ہے جس سے سوسائٹی کمزور ہوتی ہے۔ 

حادی عشر: سنت کے واضح احکام اس امر کی وضاحت کرتے ہیں کہ جب جماعت امام کے خلاف خروج کرے تو امام کی نصرت واجب ہے تاکہ مسلمانوں کا شیرازہ نہ بکھرے۔ اور یہ بھی کہ مسلمان فرمانرواؤں کے خلاف محض ظلم اور فسق کی وجہ سے بغاوت نہیں کی جائے گی جب تک وہ اصولِ اسلام میں کوئی تغیر و تبدل نہ کریں۔ جب کہ حاکم کی بغیر امیدواری اور آزمائش کے حکمرانی (ثابت) ہو چکے تو فقہائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ غالب آ جانے والے سلطان کی اطاعت واجب ہے۔ اس کے ساتھ مل کر جہاد واجب ہے اور یہ کہ اس کی اطاعت اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے سے بہتر ہے بجز اس کے کہ اس سے واضح طور پر کفر کا ارتکاب ہو (بایں صورت) اس کی اطاعت واجب نہیں۔ 

جمہور علماء کی رائے ہے کہ جب لوگوں سے شہر کے ویران ہو جانے کی وجہ سے مسجد خالی ہو جائے یا جب مسجد ویران ہو جائے، لوگ اس سے بے پرواہ ہو جائیں اور وہ (مسجد) شعائر (دین) ادا کرنے کے قابل نہ رہے تو (بھی) ہمیشہ تا قیامِ قیامت وہ مسجد ہی رہے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسجد کے ویران ہو جانے سے اس کی صفیت مسجدیت (اس کے مسجد رہنے کا خاصہ) اس سے چھن نہیں جاتی الّا یہ کہ جب اس کے بگڑ جانے کی وجہ سے اس کے منہدم ہونے کا خوف دامن گیر ہو اور اس کی عمارت ہل گئی ہو تو اس کو دوسری مسجد کی طرف منتقل کر دینا جائز ہے، اس کو فروخت کر کے اس کی قیمت سے دوسری مسجد بنانے میں مدد لینا جائز ہے۔ 

جب ایسا ہو تو گذشتہ (سطور) کی بنیاد پر، خط میں لکھے گئے سوالات کا جواب درج ذیل طریق پر ہوگا۔ 

پہلا سوال اور اس کا جواب:۔ اسلامی قوانین کے وضع کرنے کا حق کس کو حاصل ہو گا؟

کسی بھی شہر میں اسلامی قوانین دو مرحلوں کا تقاضا کرتا ہے۔ 

پہلا مرحلہ: یہ کہ قوانین سازی کے اس معاملے کو اسلامی شریعت کے علمائے ماہرین اور دوسرے ان علوم کے تجربہ کار علماء کے سپرد کر دیا جائے جو قانون سازی کے لیے لازمی ہیں۔ یہ کہ قوانین سازی کے اس معاملے کو اس کمیٹی کے سپرد کر دیا جائے جو ایک طرف اسلامی شریعت کے علماء پر مشتمل ہو تو دوسری طرف ایسے علوم کے تجربہ کار علماء پر مشتمل ہو جو (علوم) قانون سازی کے لیے ضروری ہیں اور ان علماء میں وہ شرائط وافر موجود ہوں جو انہیں اس کام کے کرنے کا اہل بنائیں تاکہ اگر یہ کمیٹی کوئی منصوبہ بنائے تو وہ (منصوبہ) مطلوبہ قانون سازی کی گارنٹی دے سکے۔ 

دوسرا مرحلہ: یہ کمیٹی اس منصوبے کو قانون ساز اسمبلی میں دستوریہ کے پروگرام کے مطابق پیش کرے گی تاکہ قانون سازی صحیح قانونی شکل اختیار کر سکے اور قانون حکومت کی اسکیم کے مطابق ڈھل سکیں۔ 

دوسرا سوال اور اس کا جواب:۔ کس مذہب کے مطابق قانون بنائے جا سکتے ہیں؟

خصوصی کمیٹی کے لیے ضروری ہے کہ شریعتِ اسلامیہ سے مدد لے کر قانون سازی کا منصوبہ روبہ عمل لائے تاکہ وہ اس مذہب کی رعایت رکھے جس پر کسی اسلامی علاقے میں لوگوں کی غالب اکثریت کا عمل ہے تاکہ مسلمانوں کے لیے سہولت پیدا ہو سکے۔ اور وہ کمیٹی یہ خیال رکھے کہ ایسے حالات پیدا کرے جو قرآن و سنت کے ظاہری احکام سے نہ ٹکراتے ہوں۔ 
چونکہ پاکستان میں غالب اکثریت کا معمول بہٖ حنفی مذہب ہے جیسا کہ سوال سے ظاہر ہے تو بہتر یہی ہے کہ جماعت اسی کو لازم پکڑے، اسی سے اخذ و استفادہ کرے اور قانون سازی کے معاملات میں اسی کی طرف رجوع کرے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ کمیٹی بعض حالات میں دوسرے اسلامی مذاہب کے کسی قول یا اقوال سے بھی اخذ و استفادہ کرے جیسے جعفری مذہب جس کا اشارہ سوال میں موجود ہے، مگر شرط یہ ہے کہ ایسا اجتہاد کے موقع پر کیا جائے ورنہ یہ بات صریح شرعی احکام سے متعارض ہو گی یا پھر شریعتِ اسلامیہ میں عام اصولوں کے خلاف ہو گی۔

تیسرا سوال اور اس کا جواب:۔ اسلامی قانون سازی کا منبع و ماخذ کیا ہو گا؟

جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ قانون سازی کے ذرائع چار ہیں۔ دو تو ایسے ہیں کہ امت میں ان کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں، وہ قرآن اور سنت ہیں۔ جمہور فقہاء جن دوسرے دو کی حجیت پر متفق ہیں وہ دونوں اجماع اور قیاس ہیں۔ جبکہ بعض دوسرے محولہ بالا ذرائع کی حجیت پر فقہاء کا اختلاف ہے۔ جن مصادر کی حجیت میں اختلاف ہے ان میں سوال میں مذکور ایک قولِ صحابی ہے۔ صحابہ کے پیشرو اہل بیت اور خلفاء اربعہ ہیں۔ علماء اس امر میں اتفاق رکھتے ہیں کہ اجتہاد کے موقعوں پر صحابی کا مذہب، اس کا قول یا فتوٰی مجتہد صحابہ میں سے کسی کے خلاف حجت نہ ہو گا۔ جہاں تک تابعین اور ان کے بعد کے مجتہدین کے خلاف اس کی حجیت کا تعلق ہے اس میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔ ذیل میں وہ اختلاف درج ہیں۔
ایک گروہ تو کہتا ہے کہ وہ حجت نہیں۔ امام شافعیؒ کے دونوں قولوں میں سے ایک قول یہی ہے۔ امام احمدؒ کی دو روایتوں میں سے ایک روایت بھی یہی ہے۔ وہ علماء بھی اس میں شامل ہیں جنہوں نے ان دونوں کی پیروی کی درآنحالیکہ ایک گروہ کہتا ہے کہ وہ حجت ہے جسے قیاس پر تقدم حاصل ہے اور یہ امام مالکؒ کی رائے ہے۔ امام شافعیؒ کا ایک قول بھی یہی ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ کی ایک روایت بھی یہی ہے اور بعض علمائے احناف کا بھی یہی مسلک ہے۔ (یہ ایسے ہی ہے) جس طرح فقہاء کی آراء میں صحابہ کے اجتہاد کے بارے میں اختلاف ہے اور انہوں نے انفرادی فتوے دیے ہیں۔ ان کے فتووں میں اس حالت میں اختلاف ہے کہ دو اماموں امام ابوحنیفہؓ اور امام مالکؒ کی رائے یہ ہے کہ کوئی شخص مجتہد صحابہ میں سے جس کا فتوٰی چاہے لے لو اور کسی خاص شخص کی پابندی نہ کرے، اور نہ ہی ان سب سے بالکل آزاد ہو جائے، درآنحالیکہ امام شافعیؒ اور ان کے متبعین کی رائے یہ ہے کہ صحابہ کے وہ فتوے جن میں رائے کو دخل ہو حجت نہیں ہیں۔ سوسائٹی کے لیے ضروری ہے کہ صحابہ کے انفرادی فتووں میں سے کوئی سا فتوٰی لے لے، اسے یہ بھی حق پہنچتا ہے کہ ان فتووں کے خلاف فتوٰی دے۔ جہاں تک اس مسئلہ کا تعلق ہے جس میں رائے کو دخل نہ ہو تو اس کا حکم تو مرفوع حدیث کا ہوتا ہے جیسے اس پر صحابی کی سنت کا اطلاق نہ ہو گا یا اس قول کا اطلاق نہ ہو گا (فلاں کی سنت سے ۔۔۔۔۔) قولِ مختار یہ ہے کہ اسے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر محمول کیا جائے گا۔ 
جن حکمرانوں پر ان قوانین کی تیاری کی ذمہ داری ہے کہ وہ شریعت کے مقاصد کا تحفظ کریں اور جس امر میں کتاب، سنت، اجماع یا قیاس سے کوئی خاص دلیل نہ پائیں اس میں امت کی بہتری کا خیال رکھیں، ان پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عرف، استحسان، استصحاب، مصالح مرسلہ وغیرہ کے اصولوں کو ان کے مواقع اور شرائط کے ساتھ لیں جس طرح کہ وہ اصولِ فقہ کی کتابوں میں وارد ہیں۔ 

چوتھا سوال اور اس کا جواب:۔ شرعی منتخب حکومت اور غیر منتخب حکومت کے بارے میں قوم کا کیا موقف ہو گا؟

جب حکمران کی بیعت آزادانہ طریقوں کے مطابق بلاواسطہ یا بالواسطہ طریقے پر ہو چکے تو اس سے تمسک کرنا، اس کا نہ توڑنا، یا وعدہ خلافی نہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے جب تک کہ حاکم راہِ راست پر رہے۔ کیونکہ اس طرح (نقضِ بیعت سے) جماعت سے خروج واقع ہو گا اور اس میں فتنہ ہے جس سے مسلم سوسائٹی کی طاقت کمزور ہو گی۔ حکمرانوں کے خلاف، جب تک کہ وہ قواعد اسلام میں سے کسی قاعدے کو بدل نہ ڈالے، صرف ظلم اور فسق کی وجہ سے بغاوت جائز نہیں۔ 
تاہم اقتدار پر تسلط، انتخاب یا امیدوار بنے بغیر، یا آزادانہ انتخاب کے بغیر مسلمان حکمران اپنی حکومت قائم کرے جیسا کہ سوال میں ہے تو (اس صورت میں) فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ ایسے حاکم کی اطاعت واجب ہے اور اس کے ساتھ مل کر جہاد کرنا بھی فرض ہے۔ اس کی اطاعت کرنا اس کے خلاف بغاوت کرنے سے بہتر ہے کیونکہ ایسا کرنے سے خونریزی رکے گی، فتنوں کا قلع قمع ہو گا اور امن و امان قائم ہو گا۔ صحابہ میں سے اکثر کا عمل اسی پر تھا۔ گذشتہ سطور میں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے۔ 
قوم کے ہر فرد پر واجب ہے کہ معاملہ حکمران کے سامنے پیش کر دیں، اسے احسن طریق پر سمجھائیں اور اس سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ شریعتِ اسلامیہ کے مطابق حکومت چلائے۔ اگر وہ ان کی ترجمانی نہ کر سکے تو ان کے لیے ضروری ہے کہ صبر و تحمل سے کام لیں اور امت کی وحدت و اتحاد کی خاطر افتراق یا اطاعت سے نکل جانے سے باز رہیں۔ 

پانچواں سوال اور اس کا جواب:۔ مسجد کا حکم کیا ہے جبکہ وہ غیر مسلموں کے قبضے میں ہو؟

سورۃ حج میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور اگر اللہ لوگوں کا زور ایک دوسرے سے نہ گھٹاتا رہتا تو نصارٰی کی خانقاہیں اور عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے سب منہدم ہو گئے ہوتے اور اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرے گا۔ بے شک اللہ قوت والا اور غلبہ والا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ کا اقتضا یہ ہے کہ اس کی مسجدیت کا ختم ہو جانا بجز ضرورت کے جائز نہیں۔ یہیں سے جمہور فقہاء کا قول یہ ہے کہ مسجدیت کا خاصہ کسی مکان سے جو مسجد بن چکا ہو زائل نہیں ہوتا۔ اسی لیے (حکم یہ ہے) کہ جب مسجد غصب ہو جائے اور غیر مسلموں کے قبضے میں چلی جائے تو جب بھی حالات اجازت دیں اس کا (ان کے قبضے میں چلے جانے سے) بچاؤ کرنا اور اس کو واپس لینا واجب ہے جبکہ مسلمان ایسا کرنے کی طاقت رکھتے ہوں۔
تاہم شرط یہ ہے کہ کوئی شدید ضرر وقوع پذیر نہ ہو یا ایسی مقامی جنگ نہ چھڑے جو حکومت کو ضرر پہنچائے۔ اسی (قیاس) کے مطابق جن مسجدوں کو قادیانیوں نے غصب کر لیا ہے یا سکھوں کے قبضے میں ہیں تو اگر مسجدیت کی صفت ان سے زائل نہ ہو گئی ہو تو مسلمانوں کے لیے ان کا واپس لینا واجب ہے۔ اس آیت کریمہ کے وضاحتی حکم کی رو سے امت پر مسجد کا دفاع کرنا فرض ہے اور اللہ نے وعدہ فرمایا ہے جو اس کی (اس کے دین کی) مدد کریں گے وہ ان کی مدد فرمائے گا، اور نماز اور ذکر الٰہی کے لیے مسجد کا واپس لینا اس کے دین کی مدد اور اس کا بول بالا (کرنے کا ذریعہ) ہے۔ 
مذکورہ بالا امور کے پیش نظر مسلمانوں کی طاقت اور مقدرت کو نگاہ میں رکھا گیا ہے جب کہ اس بات کی گارنٹی ہو کہ شدید ضرر وقوع پذیر نہیں ہو گا۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
۲۳ ربیع الاول ۱۴۰۹ھ  — ۲ نومبر ۱۹۸۸ء
دستخط شیخ الازہر جاد الحق علی جاد الحق
مہر شیخ الازہر

نومبر ۱۹۸۹ء

اسلامی قوانین ۔ غیر انسانی؟مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مرزا طاہر احمد کی دعوت مباہلہ اور حسن محمود عودہ کا قبول اسلاممولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حجیّتِ حدیث اور ختمِ نبوت کے موضوع پر شکاگو میں عالمی کانفرنسمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
قرآنِ کریم - ایک فطری اور ابدی دستورِ حیاتمولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ
امریکہ میں مقیم مسلمانوں سے چند ضروری گزارشاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
وسیلۂ نجات ۔ کفارۂ مسیحؑ یا شفاعتِ محمدیؐمحمد عمار خان ناصر
سابق مسلم ریاست البانیہ میں مسلمانوں کی حالتِ زارمحمود احمد
سلمان رشدی، آزادیٔ رائے اور برطانوی حکومتحافظ محمد اقبال رنگونی
فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید — تقاضے اور راہِ عملمولانا قاری محمد طیبؒ

اسلامی قوانین ۔ غیر انسانی؟

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

روزنامہ جنگ لاہور نے پی پی آئی کے حوالہ سے ۷ نومبر ۱۹۸۹ء کے شمارہ میں یہ خبر شائع کی ہے کہ:
’’پاکستان ویمن لیگل رائٹس کمیٹی نے حکومت سے زنا حدود آرڈیننس فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور اسے غیر اسلامی، غیر جمہوری اور غیر انسانی قرار دیا ہے۔ کمیٹی نے اپنے حالیہ اجلاس میں کہا ہے کہ یہ آرڈیننس کسی بھی طرح خواتین کے ساتھ زنا اور اغوا جیسے جرائم کو روکنے میں مددگار ثابت نہیں ہوا بلکہ اس سے ملک میں خواتین کے احترام میں کمی واقع ہوئی ہے۔ کمیٹی نے اس سلسلہ میں دس صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ تیار کر کے ججوں سمیت مختلف حکام کو بھجوا دی ہے اور اس کی ایک کاپی وفاقی وزیر قانون افتخار گیلانی اور وفاقی وزیر بیگم ریحانہ سرور کو بھی دی گئی ہے۔ انہوں نے ان سفارشات کی روشنی میں اس آرڈیننس کے خاتمہ کے لیے مثبت اقدام کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔‘‘
زنا اور دیگر جرائم کے بارے میں شرعی قوانین پر مشتمل حدود آرڈیننس گزشتہ حکومت نے نافذ کیا تھا جس پر عملدرآمد کے سلسلہ میں ہمیں مسلسل شکایت رہی ہے اور ’’پاکستان ویمن لیگل رائٹس کمیٹی‘‘ کی مذکورہ بالا رپورٹ کے اس حصہ سے ہم متفق ہیں کہ یہ آرڈیننس زنا اور اغوا جیسے جرائم کو روکنے میں مددگار ثابت نہیں ہوا۔ لیکن ہمارے نزدیک اس کی وجہ حدود آرڈیننس میں شامل شرعی قوانین نہیں بلکہ ملک میں رائج دوہرا قانونی نظام، عملدرآمد کے ذمہ دار اداروں کی منافقانہ روش، اور شرعی قوانین کے نفاذ کے لیے مناسب عدالتی و انتظامی مشنری فراہم نہ کرنے کی پالیسی ہے۔ ورنہ حدود و قصاص کے یہی قوانین برادر ملک سعودی عرب میں بھی نافذ ہیں اور انہی احکام و قوانین کی برکت سے عالمی سطح پر مسلّمہ اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب میں جرائم کی شرح سب سے کم ہے۔
جہاں تک شرعی قوانین کو غیر انسانی، غیر جمہوری اور غیر اسلامی قرار دینے کا تعلق ہے، یہ اسلامی نظام و قوانین کے خلاف یہودی، ہندو، کمیونسٹ اور سیکولر لابیوں کی مشترکہ عالمی مہم کا ایک حصہ ہے۔ اس لیے ہم پاکستان ویمن لیگل رائٹس کمیٹی کے ارکان سے گزارش کریں گے کہ وہ حدود آرڈیننس پر مؤثر عملدرآمد، اسے جرائم کے خاتمہ کا یقینی ذریعہ بنانے، اور اس کی خامیوں کو دور کرنے کی ضرور کوشش کریں، اس سلسلہ میں انہیں ہمارا تعاون بھی حاصل ہوگا۔ لیکن اسلامی نظام و قوانین کے خلاف اسلام دشمن لابیوں کی مہم میں ان کا آلۂ کار نہ بنیں کہ یہ اسلام دشمنی کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کے ساتھ غداری کے بھی مترادف ہے۔

مرزا طاہر احمد کی دعوت مباہلہ اور حسن محمود عودہ کا قبول اسلام

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مرزا طاہر احمد کے دور میں قادیانی قیادت کی یہ ذہنی الجھن اپنے عروج کو پہنچ گئی ہے کہ دلائل و براہین اور منطق و استدلال کے تمام مصنوعی حربوں کی مکمل ناکامی کے بعد جھوٹی نبوت کے خاندان کے ساتھ قادیانی افراد کی ذہنی وابستگی کو نفسیاتی چالوں کے ذریعے برقرار رکھنا حقیقت شناسی کے اس دور میں زیادہ دیر تک ممکن نہیں رہا۔ یہ الجھن خود مرزا غلام احمد قادیانی کو بھی درپیش تھی۔ چنانچہ مناظرہ و مباہلہ کے چیلنج، اشتہار بازی اور تعلّی و شیخی کے جو مراحل مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی میں جابجا دکھائی دیتے ہیں وہ اسی ذہنی الجھن کا کرشمہ ہیں لیکن مرزا طاہر احمد تک بات پہنچی تو یہ ذہنی الجھن جھنجھلاہٹ میں تبدیل ہوگئی ہے اور قادیانی سربراہ کو اپنے پیروکاروں کی وابستگی برقرار رکھنے میں جس شدید ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کا ایک اظہار ’’مباہلہ‘‘ کی وہ کھلی دعوت ہے جو مرزا طاہر احمد نے ۱۰ جون ۱۹۸۸ء کو انتہائی جوش و جذبہ کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کے نام تحریری چیلنج کی صورت میں جاری کی لیکن اب اس مباہلہ اور اس کے نتائج کا سامنا کرنا مرزا طاہر احمد کے بس میں نہیں رہا۔
مرزا طاہر احمد کی اس دعوت مباہلہ کو دنیا کے مختلف ممالک کے مسلم راہنماؤں نے قبول کیا اور تحریک ختم نبوت کے متعدد راہنما مباہلہ کے لیے مرزا موصوف کی جائے قیام لندن تک پہنچے لیکن مرزا طاہر احمد نے یہ خود ساختہ تاویل کر کے سامنے آنے سے گریز کیا کہ مباہلہ کے لیے دونوں فریقوں کا آمنے سامنے آنا ضروری نہیں ہے۔ مرزا صاحب کا خیال یہ تھا کہ اس من گھڑت تاویل کے سہارے آمنے سامنے مباہلہ سے بچنا آسان رہے گا اور انتہائی جوش و تعلّی کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کو دی گئی یہ دعوتِ مباہلہ قادیانی امت کے افراد کو ذہنی طور پر مطمئن رکھنے کے لیے ایک نفسیاتی حربے کا کام دیتی رہے گی۔ لیکن اللہ رب العزت کا قانون بے نیازی حرکت میں آیا اور ۱۰ جون ۱۹۸۸ء کی دعوت مباہلہ میں دی گئی ایک سالہ مدت ختم ہونے سے چند گھنٹے پہلے مرزا طاہر احمد کے ایک دست راست حسن محمود عودہ نے قادیانیوں کے خود ساختہ اسلام آباد (ٹل فورڈ لندن) میں یہ اعلان کر دیا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو سچا ماننے سے انکار کرتا ہے۔ خدا کی قدرت کہ ۲۵ نومبر ۱۹۸۸ء کو ٹل فورڈ لندن میں جب مرزا طاہر احمد اپنے خطاب کے دوران مولانا منظور احمد چنیوٹی کو موضوعِ گفتگو بنا کر مباہلہ کے نتیجے میں ۱۵ ستمبر ۱۹۸۹ء سے قبل ان کی ہلاکت و رسوائی کا اعلان کر رہے تھے تو جناب حسن محمود عودہ پہلی صف میں بیٹھے مرزا طاہر احمد کی تقریر کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ اور مولانا چنیوٹی جب یکم اکتوبر ۱۹۸۹ء کو ویمبلے ہال لندن کی عالمی ختم نبوت کانفرنس میں اپنی زندہ و سلامت موجودگی اور مرزا طاہر احمد کے جھوٹا ثابت ہونے کا اعلان کر رہے تھے تو حسن محمود عودہ ان کے ساتھ اسٹیج پر کھڑے اپنے تائب ہونے کو مباہلہ کا نتیجہ قرار دے کر مرزا طاہر احمد کے جھوٹ پر مہر تصدیق ثبت کر رہے تھے۔
حسن محمود احمد عودہ فلسطینی نوجوان ہیں جن کا خاندان فلسطین میں سب سے پہلے قادیانیت قبول کرنے والا خاندان ہے۔ فلسطین کے مشہور شہر ’’حیفہ‘‘ کے عودہ خاندان میں سب سے پہلے ۱۹۲۴ء میں حسن محمود عودہ کے نانا نے قادیانیت قبول کی، پھر ان کے دادا قادیانی ہوئے اور رفتہ رفتہ پورا خاندان قادیانیت کی آغوش میں چلا گیا اور اس خاندان نے قادیانیت کے لیے ایسی خدمات سرانجام دیں کہ آج حیفہ کا قادیانی مرکز پورے مشرقِ وسطٰی کے سب سے بڑے قادیانی مرکز کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ حسن عودہ کی ولادت ۱۹۵۵ء میں حیفہ میں ہوئی، والدین قادیانی تھے، اسی ماحول میں پرورش پائی اور تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے۔ والدین کا خیال تھا کہ حسن کو قادیانی مذہب کا بہترین مبلغ بنایا جائے، اس مقصد کے لیے خصوصی تعلیم و تربیت کی غرض سے حسن کو ۱۹۷۹ء میں قادیان بھیجا گیا جہاں اس نے مرزا غلام احمد قادیانی کے گھر میں خصوصی مہمان کی حیثیت سے قیام کیا، بیت الریاضہ میں چھ ماہ کے قیام کے دوران حسن عودہ کو اردو زبان اور مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابوں کی سبقاً سبقاً تعلیم دی گئی، ایک استاذ اردو زبان کے لیے اور ایک استاذ مرزا قادیانی کی کتابیں پڑھانے پر مامور رہا۔ قادیانیت کا یکطرفہ چہرہ سامنے تھا، اسی ماحول میں ذہن و فکر کی تشکیل ہوئی تھی، جب قادیان میں نام نہاد مسجد اقصٰی، مینارۃ المسیح، بہشتی مقبرہ، مسجد مبارک اور دیگر مقامات دیکھے بلکہ ایک خاص انداز سے دکھائے گئے تو قادیانی مذہب اور خاندانِ مرزا کے ساتھ عقیدت دو آتشہ ہوگئی۔ حسن عودہ کو سری نگر کشمیر میں وہ قبر بھی دکھائی گئی جس کے بارے میں قادیانیوں کا دعوٰی ہے کہ وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی قبر ہے لیکن بھارتی پارلیمنٹ اور ایک جرمن تحقیقاتی کمیٹی نے اس دعوٰی کو مسترد کر دیا ہے۔
الغرض جب چھ سات ماہ کا خصوصی کورس مکمل کرنے کے بعد حسن عودہ فلسطین واپس پہنچا تو اس کی جوانی قادیانی مذہب کی تبلیغ و اشاعت اور قادیانیوں کو منظم و فعال بنانے کے جذبہ سے سرشار ہو چکی تھی۔ چنانچہ اسے خدام الاحمدیہ کا سربراہ بنا دیا گیا اور اس حیثیت سے اس نوجوان نے پورے جوش و جذبہ کے ساتھ فلسطین بھر میں سرگرمیوں کا جال پھیلا دیا۔ کچھ عرصہ بعد وہ دوبارہ قادیان آیا جہاں اس کی شادی کی گئی اور نکاح مرزا غلام احمد قادیانی کے گھر پڑھایا گیا۔ حسن عودہ کے جوش و جذبہ اور سرگرمیوں کی اطلاع قادیانی امت کے سربراہ مرزا طاہر احمد کو ملی تو اسے فلسطین سے لندن طلب کر لیا گیا۔ ۱۹۸۵ء میں حسن عودہ لندن پہنچا جہاں مرزا طاہر احمد نے ٹل فورڈ میں ’’اسلام آباد‘‘ کے نام سے اپنا مرکز قائم کر رکھا ہے۔ حسن عودہ کو اس مرکز میں شعبۂ عربی کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا اور عربوں میں قادیانیت کی تبلیغ و اشاعت کی ذمہ داریاں اس کے سپرد کر دی گئیں۔
حسن عودہ کا کہنا ہے کہ فلسطین اور قادیان میں تو فضا یکطرفہ تھی اور ہمیں مرزا غلام احمد قادیانی اور قادیانیت کے بارے میں جو کچھ کہا جاتا تھا اسے مانے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں تھا بلکہ ہمیں اس بات سے ڈرایا جاتا تھا کہ مسلمان علماء قادیانیوں کے بارے میں جو باتیں کرتے ہیں وہ عناد اور حسد پر مبنی ہیں اور درست نہیں ہیں، اس لیے کسی تردد اور شبہ کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ لیکن جب لندن کی کھلی فضا میں آیا اور غیر قادیانی حضرات کی باتیں سننے اور ان سے ملنے کا موقع ملا تو دال میں کچھ کالا کالا محسوس ہونے لگا۔ خاندانِ مرزا اور قادیانی قیادت کے بارے میں تصورات اور عقیدت کی دنیا بہت حسین تھی لیکن جب عملاً واسطہ پڑا اور قریب سے دیکھا تو عقیدت کا یہ محل لرزنے لگا، دل نے گواہی دی کہ جو لوگ دنیا بھر کی دینی اور روحانی قیادت کے دعویدار ہیں ان کی اپنی زندگی اس معیار پر پوری نہیں اترتی۔ اس دوران حسن محمود احمد عودہ کو قادیانی مرکز کے عربی جریدہ ’’التقوٰی‘‘ کے اجرا اور ادارت کی ذمہ داری سونپی جا چکی تھی اور مرزا طاہر احمد نے نہ صرف حسن کو اپنے عربی ترجمان کی حیثیت دے دی تھی بلکہ سالانہ اجتماعات اور دیگر تقاریب میں مرزا طاہر احمد کی طرف سے حسن عودہ کی خدمات کا تذکرہ کھلم کھلا ہونے لگا تھا۔
حسن عودہ کا کہنا ہے کہ جہاں قادیانی مرکز میں کام کرنے والے افراد کا عالمی قیادت کے معیار پر پورا نہ اترنے کا احساس میرے جذباتِ عقیدت کی جڑوں کو کرید رہا تھا وہاں مرزا قادیانی کے بارے میں مسلم علماء کے بیانات سن کر یہ خیال دل و دماغ میں جگہ پکڑنے لگا تھا کہ کوئی بات ایسی ضرور ہے جو اب تک ہم سے مخفی رکھی گئی ہے اور جسے جان بوجھ کر ہم سے چھپایا گیا ہے۔ جب اس پہلو پر تجسس کچھ آگے بڑھا تو بات کھل کر سامنے آگئی کہ یہ مرزا قادیانی کی تصویر کا وہ دوسرا رخ ہے جسے آج تک ہم سے اوجھل رکھا گیا تھا لیکن مسلمان علماء نے اس رخ پر ڈالے گئے تقدس کے نقاب کو کچھ اس طرح نوچ ڈالا کہ تصویر کے اس رخ کو حقیقی اور اصلی رخ تسلیم کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہ رہا اور اس حقیقت نے دل میں گرہ باندھ دی کہ اگر مرزا قادیانی سچا ہوتا تو اس کی تصویر کا یہ رخ ہم سے اس اہتمام کے ساتھ چھپایا نہ جاتا اور اس کے بارے میں حقائق کے اظہار سے خوف نہ محسوس کیا جاتا۔ اس کے ساتھ ہی شبہ کی ایک اور بنیاد بھی ذہن کی گہرائیوں میں جگہ پکڑنے لگی کہ دنیا بھر کے مسلمان جب کلمہ پڑھتے ہیں، قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے احکام بجا لاتے ہیں اور ان میں بے شمار لوگ بہت زیادہ اچھی زندگی بسر کرنے والے بھی ہیں تو یہ سب لوگ قادیانیوں کے نزدیک کافر کیوں ہیں؟ اور مرزا قادیانی اور اس کے پیروکاروں کو ساری دنیا کے مسلمانوں پر کفر کا فتوٰی لگانے کا کیا حق ہے؟ حقائق کے پے در پے انکشاف نے حسن عودہ کے دل و دماغ میں ہلچل مچا دی لیکن یہ طوفان سمندر کی پرسکون سطح کے پردے میں اندر ہی اندر انگڑائی لے رہا تھا اور اس وقت تک حسن عودہ قادیانی مرکز کے عربی جریدہ ’’التقوٰی‘‘ کے رئیس التحریر کی حیثیت سے ۹ شمارے شائع کر چکا تھا۔
جون ۱۹۸۹ء کی بات ہے کہ حسن عودہ کے دل کے جذبات و احساسات نے سطح سمندر کا سکون توڑ دیا اور دل کی باتیں دوستوں کے سامنے زبان پر آنے لگیں۔ بات مرزا طاہر احمد تک پہنچی تو خطرہ کی گھنٹی بجنے لگی اور خوف نے دامن پکڑ لیا کہ یہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھانے کی طرف کیوں چل پڑا ہے۔ حسن عودہ کی طلبی ہوئی اور ’’واللہ خیر الماکرین‘‘ کی حقیقت کا یہ خوبصورت اظہار ایک بار پھر اہل ایمان کے ایمان کی تازگی کا عنوان بن گیا کہ یہ طلبی ۹ جون ۱۹۸۹ء کو ہوئی جو مرزا طاہر احمد کی طرف سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو دی گئی دعوتِ مباہلہ کی ایک سالہ میعاد کا آخری دن تھا۔ حسن محمود عودہ نے مرزا طاہر احمد کے سامنے اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جن کا کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا اور بالآخر حسن عودہ نے مرزا طاہر احمد کی دعوتِ مباہلہ کو اس کی طرف سے دی گئی ایک سالہ میعاد کے آخری دن اس کے سامنے یہ اعلان کر کے منطقی انجام تک پہنچا دیا کہ ’’میں مرزا غلام احمد قادیانی کو سچا نہیں مانتا‘‘۔ مرزا طاہر احمد کے لیے یہ اعلان ایٹم بم کے دھماکے سے کم نہیں تھا مگر یہ ربوہ نہیں تھا کہ کسی تہہ خانے کا دروازہ کھلتا اور پھر عودہ خاندان دنیا بھر میں تلاش کرتا پھرتا کہ اس خاندان کا حسن نامی نوجوان جو مرز اطاہر احمد کے پہلو میں بیٹھا کرتا تھا اسے کونسی زمین نگل گئی ہے اور کس آسمان نے اچک لیا ہے۔ یہ لندن تھا اور یہاں مرزا طاہر احمد کے بس میں صرف یہی تھا کہ حسن عودہ پر ٹل فورڈ کے قادیانی مرکز کی زمین تنگ کر دی جاتی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، اسے ۹ جون کی شام سے پہلے مرکز سے نکال دیا گیا اور حکم ملا کہ فورًا برطانیہ چھوڑ دو ورنہ سپانسرشپ منسوخ کر دی جائے گی۔
حسن عودہ ایمانِ حقیقی کی لذت سے آشنا ہو چکا تھا اور اب اس کے لیے ان دھمکیوں کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی تھی، اس نے مرعوب ہونے سے انکار کر دیا حتٰی کہ اسے مسلمان دوستوں نے سنبھال لیا اور وہ ٹل فورڈ سے ۱۷ جولائی کو سلاؤ کے علاقہ میں منتقل ہوگیا۔ حسن عودہ کا کہنا ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد اسے سب سے زیادہ اشتیاق مولانا منظور احمد چنیوٹی سے ملاقات کا تھا کیونکہ وہ مولانا چنیوٹی کے بارے میں قادیانی قیادت اور مرزا طاہر احمد کے جذبات سے آگاہ تھا اور خود اس کی ادارت میں شائع ہونے والے عربی ماہنامہ التقوٰی میں مولانا چنیوٹی کو ’’اشد اعداء جماعتنا‘‘ (ہماری جماعت کا سخت ترین دشمن) کے خطاب سے نوازا جا چکا تھا۔ چنانچہ اسے اس کے لیے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا اور مولانا چنیوٹی سے، جو سلمان رشدی کے خلاف انٹرنیشنل اسلامک مشن کے زیر اہتمام ۱۳ اگست کو ویمبلے ہال لندن میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لیے برطانیہ کے دورے پر گئے ہوئے تھے، ۱۵ اگست کو ساؤتھال میں مولانا محمد طیب عباسی کی رہائش گاہ پر اسے ملاقات کا موقع مل گیا۔ اس ملاقات میں مولانا چنیوٹی نے حسن عودہ کو مرزا قادیانی اور قادیانیت کے بہت سے مخفی گوشوں سے آگاہ کیا اور کئی حقائق اس کے سامنے بے نقاب کیے۔
حسن عودہ اس کے بعد سے مسلسل اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ عام قادیانیوں بالخصوص عرب نوجوانوں کو ان حقائق سے آگاہ کر کے اسلام کے دامن میں لائیں۔ ان کی اہلیہ مسلمان ہو چکی ہیں اور بہت سے عرب نوجوان بھی دامنِ اسلام میں آ چکے ہیں۔ حسن عودہ کا پہلا ہدف عرب قادیانی ہیں اور وہ بڑی تیزی اور شوق و ذوق کے ساتھ اس کام میں مگن ہیں۔ حسن عودہ نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام یکم اکتوبر ۱۹۸۹ء کو ویمبلے کانفرنس سینٹر لندن میں منعقد ہونے والی سالانہ عالمی ختم نبوت کانفرنس سے بھی خطاب کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ قادیانیت کے خلاف ملتِ اسلامیہ اور علماء اسلام کی جدوجہد میں پورے جوش و جذبہ کے ساتھ شریک ہوں گے۔
راقم الحروف کے ساتھ حسن محمود عودہ کی ملاقات ۶ اکتوبر کو ساؤتھال لندن میں جناب حاجی محمد اسلم کی رہائش گاہ پر ہوئی جس میں مولانا منظور احمد چنیوٹی اور حاجی محمد اسلم صاحب بھی شریک تھے۔ اس ملاقات میں حسن عودہ نے مذکورہ بالا واقعات اور حقائق کا اظہار کیا۔ اس موقع پر راقم الحروف کے ایک سوال کے جواب میں حسن عودہ نے اسرائیل کے ساتھ قادیانیوں کے تعلقات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اسرائیلی حکومت کے ساتھ قادیانی جماعت کے مرکز حیفہ کے بہت خوشگوار مراسم ہیں، اسرائیلی پولیس اور رضاکار فورس میں سینکڑوں قادیانی نوجوان کام کرتے ہیں البتہ فوج میں قادیانی نہیں ہیں۔ حیفہ کا قادیانی مرکز اسرائیلی حکومت کا وفادار ہے، تنظیم آزادیٔ فلسطین کے ساتھ قادیانیوں کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اسے دشمنوں اور مخالفوں میں شمار کیا جاتا ہے، قادیانی مراکز اور عبادت گاہوں کی تعمیر میں اسرائیلی حکومت فنڈز بھی فراہم کرتی ہے اور ہر طرح کا تعاون میسر آتا ہے۔
قارئین سے استدعا ہے کہ حسن عودہ کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس نوجوان کو ثابت قدم رکھیں اور جس طرح اس کا خاندان فلسطین میں قادیانیت کے فروغ کا ذریعہ بنا تھا اللہ تعالیٰ اس نوجوان کو تمام عرب قادیانیوں کی توبہ اور قبول اسلام کا ذریعہ بنائیں، آمین یا الٰہ العالمین۔

حجیّتِ حدیث اور ختمِ نبوت کے موضوع پر شکاگو میں عالمی کانفرنس

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

شکاگو کا شمار ریاستہائے متحدہ امریکہ کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے جو دنیا کی پانچ بڑی جھیلوں کے سلسلہ میں مشی گن نامی بڑی جھیل کے کنارے آباد ہے۔ دنیا میں میٹھے پانی کی یہ سب سے بڑی جھیل کہنے کو جھیل ہے لیکن ایک سمندر کا نقشہ پیش کرتی ہے جو سینکڑوں میل کے علاقہ کو احاطہ میں لیے ہوئے ہے، میٹھے پانی کے اس سمندر کی وجہ سے شکاگو کا پورا علاقہ انتہائی سرسبز و شاداب ہے۔
شکاگو کی مجموعی آبادی ۸۰ لاکھ کے قریب ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد اڑھائی تین لاکھ کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے۔ ان میں مقامی سیاہ فام نومسلموں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو بلالی مسلم کہلاتے ہیں اور وارث دین محمد ان کی رہبری اور قیادت کر رہے ہیں۔ وارث دین محمد عالیجاہ محمد کے فرزند ہیں جس نے نبوت کا دعوٰی کیا تھا اور گورے امریکیوں کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑکا کر سیاہ فاموں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے گرد جمع کر لیا تھا۔ لیکن عالیجاہ محمد کی زندگی میں ہی اس کے دست راست مالکم ایکس نے اس کی جھوٹی نبوت سے بغاوت کر کے اسلام کے صحیح عقائد کو قبول کرنے کا اعلان کر دیا تھا جس کی پاداش میں مالکم ایکس کو شہید کر دیا گیا۔ مالکم ایکس کی شہادت رنگ لائی اور عالیجاہ محمد کی وفات کے بعد خود اس کے فرزند وارث دین محمد نے باپ کے عقائد کو مسترد کر دیا اور اب وہ صحیح العقیدہ بلالی مسلمانوں کی رہبری کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ وارث دین محمد کے خلاف ان کے دوسرے بھائیوں نے عدالت میں دعوٰی دائر کر دیا کہ چونکہ وارث اپنے باپ کے عقائد اور مذہب سے منحرف ہوگئے ہیں اس لیے عالیجاہ محمد کی کروڑوں ڈالر کی جائیداد میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ وارث یہ مقدمہ ہار گئے ہیں لیکن انہیں اس کی پرواہ نہیں ہے اور وہ پوری لگن اور محنت کے ساتھ بلالی مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے کی مہم میں مصروف ہیں۔
دوسرے نمبر پر یہاں عرب اور فلسطینی مسلمان ہیں اور پھر انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آکر یہاں آباد ہونے والے مسلمانوں کا نمبر آتا ہے۔ انڈیا سے آنے والے مسلمانوں میں حیدرآباد دکن کے حضرات کی تعداد زیادہ ہے جو اسلام کے ساتھ وابستگی اور دینی فرائض و احکام کی بجا آوری میں سب سے زیادہ پیش پیش نظر آتے ہیں۔ پاکستانی مسلمانوں کی شکاگو میں تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق دس ہزار کے قریب بیان کی جاتی ہے۔
امریکہ اور یورپ کے دیگر علاقوں کی طرح شکاگو کے مسلمانوں کا بھی سب سے بڑا مسئلہ مذہبی احکام و اقدار کے ساتھ وابستگی کو برقرار رکھنا اور امریکہ میں پیدا ہونے والی نئی مسلمان نسل کو دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرتے ہوئے اپنی اولاد کو مغربی معاشرہ کے مذہب کش جراثیم سے بچانا ہے۔ یہ کام اگرچہ بہت کٹھن اور مشکل ہے لیکن دردِ دل رکھنے والے مسلمان اس مقصد کے لیے مختلف شعبوں میں سرگرم عمل ہیں اور متعدد ادارے اس سلسلہ میں اب تک قائم ہو چکے ہیں۔ بلالی مسلمانوں کا ایک مستقل نظام ہے جو وارث دین محمد کی قیادت میں تعلیمی اور تبلیغی محاذوں پر مصروفِ عمل ہے۔ یورپین مسلمانوں نے اسلامک کلچرل سنٹر کے نام سے ایک مرکز قائم کیا ہوا ہے، مرکز میں ایک خوبصورت مسجد بھی ہے۔ ایک تنظیم اسلامک فاؤنڈیشن کے نام سے کام کر رہی ہے۔ جبکہ یہاں کے مسلمانوں کا سب سے قدیمی ادارہ مسلم کمیونٹی سنٹر ہے جس کے ساتھ عرب، پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے مسلمانوں کے علاوہ مقامی مسلمان بھی وابستہ ہیں۔
مسلم کمیونٹی سنٹر (ایم سی سی) کے صدر ان دنوں حیدر آباد دکن سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد قیصر الدین ہیں، نائب صدر مقامی نومسلم نکولس عبد اللہ ہیں اور سیکرٹری جنرل کے فرائض جناب عثمان باقی سرانجام دے رہے ہیں جن کا تعلق مدارس سے ہے۔ مسلم کمیونٹی سنٹر میں جمعہ اور نماز پنجگانہ کے لیے مسجد کے علاوہ بچوں کی تعلیم و تدریس کا ایک وسیع رضاکارانہ نظام ہے جس کے تحت ہفتہ اور اتوار کو سنٹر میں بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ ہفتہ اور اتوار دو دن یہاں سرکاری چھٹی ہوتی ہے اور ان دو دنوں میں کم و بیش ساڑھے آٹھ سو بچوں کی کلاسیں مختلف اوقات میں لگتی ہیں جبکہ ڈیڑھ سو کے لگ بھگ اساتذہ اور استانیاں ان کلاسوں میں رضاکارانہ طور پر قرآن کریم، سیرت نبویؐ اور تاریخ اسلام کی تعلیم دیتی ہیں۔ مختلف گھروں میں الگ کلاسوں کا انتظام بھی سنٹر کی طرف سے کیا جاتا ہے اور ہفتہ کے باقی چار ایام یعنی پیر، منگل، بدھ اور جمعرات کو دارالعلوم کے عنوان سے مولانا محمد عبد اللہ سلیم شام کو پانچ سے آٹھ بجے تک بچوں کو قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کی تعلیم دیتے ہیں۔ مولانا محمد عبد اللہ سلیم دارالعلوم دیوبند (وقف) کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد نعیم مدظلہ کے فرزند ہیں اور ایک عرصہ سے شکاگو میں مسلمانوں کی علمی و دینی راہنمائی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
ان جز وقتی تعلیمی اداروں کے علاوہ دو مستقل تعلیمی ادارے بھی قائم ہیں جن میں سے ایک ادارہ اسلامک فاؤنڈیشن کے تحت فل ٹائم اسکول کے طور پر کام کر رہا ہے جبکہ دوسرا ادارہ امریکن اسلامک کالج کے نام سے قائم کیا گیا ہے جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں پہلا اسلامک کالج ہے، اسے قائم کرنے میں ایک لبنانی عالم ڈاکٹر احمد صقر پیش پیش تھے جو کیلی فورنیا چلے گئے ہیں اور اب پاکستان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر غلام حیدر آسی اس ادارہ کو چلا رہے ہیں۔ کالج میں تعلیمی نصاب اور معیار وہی رکھا گیا ہے جو عام امریکی کالجوں کا ہے لیکن اس میں قرآن کریم، سیرت نبویؐ اور تاریخ اسلام کے مضامین کا اضافہ کیا گیا ہے اور مسلمان بچوں کو ایسا ماحول فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ تہذیبی اور ذہنی لحاظ سے امریکی معاشرہ میں جذب ہونے سے بچ سکیں۔ البتہ کالج کے منتظمین عام مسلمانوں کا رجحان اس کی طرف منتقل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے ابھی کالج میں طلبہ کی تعداد خاطر خواہ نہیں ہے۔ دینی، تعلیمی اور تنظیمی امور کی طرف عام مسلمانوں کی عدم توجہ کی شکایت اکثر پائی جاتی ہے بالخصوص پاکستانی حضرات کے بارے میں تو یہ شکایت افسوسناک حد تک موجود ہے کہ انہیں نہ تو دینی احکام کی بجا آوری اور اپنے بچوں کی مذہبی تعلیم سے دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ہی پاکستان کے مفاد اور نقصان کے لحاظ سے کچھ سوچنے اور کام کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اکثر پاکستانیوں کا مطمح نظر صرف ڈالر کمانا اور خود کو زیادہ سے زیادہ امریکی ثابت کرنا ہے۔
اس پس منظر میں دو پاکستانیوں کا کردار شکاگو میں قابل رشک نظر آتا ہے۔ ایک صاحب ریاض حسین وڑائچ ہیں جو ۲۶ سال سے امریکہ میں اور ۱۸ سال سے شکاگو میں قیام پذیر ہیں، چنیوٹ کے رہنے والے ہیں، یہاں کاروبار کرتے ہیں، پابندِ صوم و صلوٰۃ اور دینی معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے بزرگ ہیں، مسلم کمیونٹی سنٹر کے ڈائریکٹروں میں سے ہیں جنہیں عام مسلمانوں کے ووٹوں سے جمہوری اصولوں کے مطابق منتخب کیا جاتا ہے۔ وڑائچ صاحب ایک اور ادارے سے بھی منسلک ہیں جو غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے ’’اسلامک انسٹیٹیوٹ فار انفرمیشن اینڈ ایجوکیشن‘‘ کے نام سے کام کر رہا ہے۔ انسٹیٹیوٹ کے سربراہ ڈاکٹر سید امیر علی ہیں اور وڑائچ صاحب اس ادارے کے ٹرسٹی ہیں، اس ادارہ کا پروگرام یہ ہے کہ ۲۰۱۲ء تک اسلام کی دعوت امریکہ اور کینیڈا کے ہر غیر مسلم تک پہنچا دی جائے۔ اس مقصد کے لیے ادارہ لٹریچر شائع کرتا ہے، نو مسلموں کے لیے تربیتی کلاسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ایک پبلک دارالمطالعہ قائم کیا گیا ہے جہاں ہر شخص متعین اوقات میں جا کر اسلام کے بارے میں لٹریچر کا مطالعہ کر سکتا ہے۔ دوسرے صاحب حافظ محمد صدیق انور ہیں جو فیصل آباد کے رہنے والے ہیں اور ماہنامہ پاکستانی کے نام سے ایک اخبار تسلسل اور پابندی کے ساتھ شائع کر رہے ہیں۔ یہ جریدہ نفاذ اسلام، تحفظ ختم نبوت اور سالمیتِ پاکستان کے لیے مخلصانہ کام کر رہا ہے، سیکولر اور لادین لابیوں کے ساتھ ان کی مسلسل جنگ رہتی ہے، اسی کشمکش میں گزشتہ دنوں ان کے گھر کے سامنے ان کی گاڑی بھی نذرِ آتش کر دی گئی تھی۔ پرجوش مسلمان اور محب وطن پاکستانی ہیں، امریکہ میں مقیم دوسرے پاکستانیوں کو بھی اپنا جیسا پرجوش دیکھنا چاہتے ہیں لیکن مثبت نتیجہ نہ پا کر پریشان ہو جاتے ہیں۔
شکاگو میں بہائی مذہب کا بہت بڑا مرکز ہے، یہ مرکز شمالی امریکہ کی بہائی جماعت کو کنٹرول کرتا ہے۔ قادیانیوں کی سرگرمیاں بھی خاصی تیز ہیں اور وہ اپنے لیے میدان کھلا پا کر متحرک رہتے ہیں۔ امریکہ میں مقیم مسلمانوں میں انکارِ حدیث کے جراثیم بھی سرایت کرتے جا رہے ہیں۔ راشد خلیفہ نامی ایک صاحب نے کچھ عرصہ قبل ۱۹ کے عدد کو عنوان بنا کر قرآن کریم کے اعجاز کا ایک نیا پہلو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی اور خاصی شہرت پائی۔ ۱۹ کے عدد کو بنیاد بنا کر ان صاحب نے پہلے احادیث نبویؐ کا انکار کیا کہ احادیث ان کے ۱۹ کے فارمولا پر پورا نہیں اترتیں، پھر قرآن کریم کی بعض آیات کو اس عددی فارمولا سے ہٹا ہوا پا کر ان سے انکار کر دیا اور اب یہ صاحب خود نبوت کے دعویدار ہیں۔ جبکہ ان سے پہلے مدعی نبوت عالیجاہ محمد کے پیروکار لوئیس فرخان کی قیادت میں عالیجاہ محمد کے مذہب پر عمل پیدا اور اس کے پرچارک ہیں۔
اس پس منظر میں شکاگو اور دیگر علاقوں کے دردِ دل سے بہرہ ور مسلمانوں نے اس امر کی ضرورت محسوس کی کہ باطل مذاہب بالخصوص انکارِ ختم نبوت اور انکارِ حدیث کے سدباب کے لیے منظم جدوجہد کی جائے۔ اس مقصد کے لیے مجلس تحفظ ختم نبوت کا باقاعدہ قیام عمل میں لایا گیا جس کے امیر مولانا محمد عبد اللہ سلیم اور سیکرٹری جنرل جناب عبد الحئی ہیں۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے ۷ و ۸ اکتوبر کو ہالیڈے اِن شکاگو میں ختم نبوت اور حجیت رسول پر دو روزہ عالمی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف ممالک کے سرکردہ مسلم علماء اور دانشوروں نے شریک ہو کر متعدد دینی عنوانات پر اپنے خیالات سے شرکائے کانفرنس کو مستفید کیا۔
کانفرنس میں ایک ہزار سے زائد مندوبین شریک ہوئے جن میں حضرات و خواتین دونوں شامل تھے، جبکہ زعماء میں بھارت سے دارالعلوم (وقف) دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا محمد نعیم، ندوۃ العلماء لکھنو کے استاذ الحدیث مولانا برہان الدین سنبھلی، حیدر آباد دکن سے مولانا حمید الدین عاقل حسامی، رامپور سے مولانا محمد یوسف اصلاحی، پاکستان سے جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی، سینیٹر مولانا سمیع الحق، مولانا منظور احمد چنیوٹی، مولانا میاں محمد اجمل قادری، مولانا عبد الرحمان باوا، مولانا منظور احمد الحسینی، پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی اور راقم الحروف، سعودی شہزادہ محمد الفیصل، رابطہ عالمِ اسلامی کے جناب داؤد اسد، نیشن آف اسلام کے وارث دین محمد، ڈاکٹر جمال بدوی(کینیڈا)، ڈاکٹر مزمل صدیقی، شیخ احمد ذکی حماد، امام سراج وہاج، ڈاکٹر احمد صقر، الشیخ جمال سعید، الشیخ محمد نور، مولانا عبید الرحمان، ڈاکٹر فتحی عثمان، جناب عبد الحمید ڈوگر، جناب قادر حسین خان، ڈاکٹر عبد الوحید فخری اور دیگر سرکردہ حضرات شامل ہیں۔ کانفرنس کی پانچ نشستیں ہوئیں جن میں:
  • عقیدۂ ختم نبوت، حجیت حدیث،
  • امریکہ میں مسلم نوجوانوں کی ذمہ داریاں،
  • گھریلو زندگی میں نفاذ اسلام،
  • غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت،
  • اور نئی نسل کی دینی تعلیم و تربیت کی ضرورت جیسے اہم عنوانات پر علماء اور دانشوروں نے اظہارِ خیال کیا۔
پرنس محمد فیصل نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ حدیثِ نبویؐ پر ایمان اور ان پر عملدرآمد ہی ہمارے لیے نجات کا واحد راستہ ہے۔
امام وارث دین محمد نے ختم نبوت کے عقیدہ کی وضاحت کی اور کہا کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد ہے کہ ان کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور پوری امت چودہ سو سال سے اس عقیدہ پر متفق ہے تو اب کوئی بھی شخص نبوت کا دعوٰی کرے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی ایسے کسی دعوٰی کو قبول کیا جا سکتا ہے۔
مولانا محمد نعیم شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند (وقف) نے کہا کہ ختم نبوت اور حجیت حدیث آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم کے بعد کوئی کتاب نہیں اس لیے وہ قیامت تک محفوظ ہے، اسی طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اس لیے آنحضرتؐ کے ارشادات بھی قیامت تک کے لیے محفوظ اور حجت ہیں۔
جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی نے بھی حجیت حدیث پر اپنے مخصوص علمی انداز میں اظہار خیال کیا اور کہا کہ قرآن کریم کے احکام و معانی کے تعین کا مدار حدیثِ رسولؐ پر ہے، اس لیے اگر حدیثِ رسولؐ پر خدانخواستہ ایمان باقی نہ رہے تو قرآن کریم کے مقاصد و معانی کا تعین بھی ممکن نہیں رہتا۔
سینیٹر مولانا سمیع الحق نے قادیانیت کے سیاسی پس منظر کو بے نقاب کیا اور کہا کہ یہ بنیادی طور پر ایک سیاسی گروہ ہے جس کا مقصد استعماری قوتوں کے آلۂ کار کی حیثیت سے کام کرنا ہے۔ انہوں نے جہاد افغانستان اور پاکستان میں خاتون کی حکمرانی کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ مغربی طاقتیں جہاد افغانستان کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں اور پاکستان میں خاتون کی حکمرانی کو اپنی تہذیبی فتح قرار دے کر اسے مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
مولانا منظور احمد چنیوٹی نے حیاتِ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں اہل اسلام کے عقیدہ کی وضاحت کی اور اس سلسلہ میں قادیانیوں کی طرف سے پیش کیے گئے اعتراضات و شبہات کے جواب دیے۔ انہوں نے مرزا طاہر احمد کی دعوتِ مباہلہ کا پس منظر بیان کیا اور کانفرنس کے شرکاء کو بتایا کہ اس مباہلہ کے نتیجہ میں مرزا طاہر احمد کا سیکرٹری حسن عودہ قادیانیت سے تائب ہو کر اسلام قبول کر چکا ہے۔
مولانا محمد یوسف اصلاحی نے قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں عقیدۂ ختم نبوت کی وضاحت کی اور بتایا کہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس بنیادی عقیدہ کو بیان کیا گیا ہے۔
مولانا میاں محمد اجمل قادری نے امریکہ میں مقیم مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ وہ اپنی اولاد اور نئی نسل کے دین و اخلاق کی حفاظت کی فکر کریں اور گھروں میں دینی ماحول کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔
مولانا عاقل حسامی نے کہا کہ عقیدہ ختم نبوت اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے جس کے بغیر دین کی عمارت قائم نہیں رہتی، اس لیے تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس عقیدہ کی حفاظت کا بطور خاص اہتمام کریں۔
راقم الحروف نے اس موقع پر عرض کیا کہ امریکہ میں یہودی لابی قادیانیوں کی حمایت اور ملتِ اسلامیہ کی مخالفت میں متحرک ہے، اس لابی کا سامنا کرنا اور اس کے پھیلائے ہوئے زہر کا ازالہ کرنا یہاں کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے، اور امریکہ میں مقیم مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں۔

قرآنِ کریم - ایک فطری اور ابدی دستورِ حیات

مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

گو حسبِ تصریح علماءِ اصول دلائل اور براہین کی چار قسمیں ہیں (۱) کتاب اللہ (۲) سنت رسول اللہ (۳) اجماع (۴) قیاس۔ گو اجماع اور قیاس درحقیقت کتاب اور سنت ہی کی طرف راجع اور اسی کا ثمرہ ہیں۔ لہٰذا کائنات کی رہبری کے لیے اصولی طور پر ہدایت دو حصوں اور درجوں میں منقسم ہے۔ ایک وہ حصہ جو جمیع اصول تمام پختہ و غیر متغیر اور لازمی احکام اور اعمال پر مشتمل اور انسانی تصریف سے بالاتر اور اپنے الفاظ میں محفوظ و منضبط اور ہمیشہ کے لیے مکلف مخلوق کی ہدایت کا نصاب ہے اور اس ہدایت کے سرچشمہ کا نام وحی متلو اور قرآن مجید ہے۔ 
مذہب اور قانونِ فطرت اس معیار اور مقیاس کا نام ہے جو مقرر و معیّن ضابطہ اور قانون کلّی کی حیثیت رکھتا ہو۔ سچا اور صحیح مذہب اور آئین صرف وہی ہوتا ہے جس کی بنیاد حقیقی سچائی اور عالمگیر حقانیت پر ہو اور جس کے ذریعہ عقائد و اعمال اور اخلاق کو اچھا یا برا کہا جا سکے اور جس کی رو سے باطنی اور ظاہری اصلاح ہو کر بچا جا سکے اور جس کے اصولِ قطعی اور اٹل ہونے کے ساتھ ایسے جامع ہوں جو کائنات کی دینی اور دنیوی حاجت روائی کے لیے کافی ہوں۔ فطرت چونکہ حقیقی صداقت ہے اس لیے مذہب اسلام کی بنیاد خالقِ فطرت نے فطرت پر رکھی ہے اور جس کی بابت یوں ارشاد فرمایا ہے:
فِطْرَتَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللہِ (سورہ الروم ۳۰)
’’یہ اللہ تعالیٰ کا وہ قانونِ فطرت ہے جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے (یعنی انسانی فطرت اسی دین کے موافق ہے) اور اس قانون میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔‘‘
سچا مذہب وہ ہوتا ہے جو من جانب اللہ قطعی اور محکم طریقہ سے منکشف ہوتا ہے اور ہر صحیح الفطرت اس کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیتا ہے۔ وہ بنایا نہیں جاتا اور نہ اس میں مخلوق کی ایجاد و احداث کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ غلط اور نادرست مذہب کی شناخت یہ ہوتی ہے کہ اس کی بنیاد ان خیالات اور اوہام پر قائم کی جاتی ہے جو دل کی دنیا میں پیدا ہوتے اور خواہشات کے دریا اور طوفان میں بہہ جاتے ہیں اور نفس الامر سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ فطرت سے بے گانہ اور حقیقت اور صداقت سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ گو ان کی ظاہری چمک دمک سادہ لوح اور سطحی قسم کے لوگوں کی نارسا آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے اور وہ اس سے متاثر ہو کر اس دامِ ہمرنگ زمین کا شکار ہو جاتے ہیں۔ 
جس قدر مستقبل سے متعلق کسی کو زیادہ علم حاصل ہو گا اسی قدر وہ زیادہ صحیح قانون اور آئین بنا سکے گا۔ مخلوق کے پاس مستقبل سے متعلق علم حاصل کرنے کے ذرائع اور وسائل، تجربہ، قیاس اور حواس وغیرہ سب کے سب محدود، ناتمام اور ناقص ہیں، اس لیے مخلوق کے مجوّزہ قوانین کبھی ناقابلِ ترمیم نہیں ہو سکتے۔ ملک اور ملت کے چیدہ چیدہ اور منتخب قانون ساز بڑی کوشش اور کاوش سے بسیار بحث و تمحیص کے بعد ایک قانون تجویز کرتے ہیں مگر تھوڑے سے عرصے کے بعد اس میں ترمیم کا پیوند لگانا پڑتا ہے اور ہمیشہ اس امر کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے اور تاقیامت ہوتا رہے گا۔ ہر قانون اور آئین کے بنانے کا ایک مدعا اور مقصد ہوتا ہے۔ قانون ساز کو اگر قانون پر عمل کرنے والوں کے ساتھ شفقت اور ہمدردی ہے اور وہ ان کا حقیقی خیرخواہ اور خود غرضی سے بالا ہے تو وہ ایسا قانون بنائے گا جس سے قانون پر چلنے والوں کو نفع اور فائدہ پہنچے گا۔ اور اس بات کے تسلیم اور یقین کر لینے میں کیا تامل ہو سکتا ہے کہ مفید اور ناقابلِ تنسیخ قانون صرف وہی بنا سکتا ہے جو ہر لحاظ سے کامل علم رکھتا اور بہمہ وجوہ علیم و خبیر ہو، حقیقی ہمدرد اور مہربان ہو، خودغرضی سے بے نیاز اور مطلب پرستی سے بے احتیاج و بے پروا ہو۔ ظاہر ہے کہ مخلوق سے متعلق خالق کے سوا علمِ تام اور کسی کو نہیں ہو سکتا۔ مخفی نہیں کہ الرحمٰن سے زیادہ مہربان کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا اور پوشیدہ نہیں کہ الصمد سے بڑھ کر بے نیاز اور کوئی نہیں۔ لہٰذا خدا تعالیٰ کے سوا کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہو سکتی جو مخلوق کے لیے کامل و مکمل اور ناقابل ترمیم قانون اور آئین بنا سکے۔ ’’اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْر‘‘۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس قادر و مقتدر خدا کا بنایا ہوا قانونِ فطرت تمام موجودات میں جاری و ساری ہے۔ جمادات، نباتات اور حیوانات سب اس کے قانون میں (جس کو سنت اللہ یا قانونِ قدرت کہا جاتا ہے) جکڑے ہوئے ہیں اور کسی میں اس کی خلاف ورزی کی تاب نہیں۔ ’’وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِیْلاً‘‘۔ اور اگر ہم خدا تعالیٰ کے اس قانون میں (جس کو لاء آف نیچر کہتے ہیں) ترمیم اور تنسیخ کا اختیار رکھتے تو سرو کے درخت میں آم اور بادام پیدا کر دیتے، بیروں اور کھجوروں میں گٹھلیاں پیدا نہ ہونے دیتے، گدھے کے سر پر سینگ پیدا کر دیتے یا گدھے کے سر کی طرح گائے بیل اور بھینس کے سر سے سینگ الگ کر دیتے، اور اپنی اس حماقت اور جہالت کو عقل و دانائی قرار دے کر اس مصلحت اندیشِ حقیقی کے قانون میں اصلاح و ترمیم کرنے والے بن جاتے۔ لیکن اس کا قانون ہماری دسترس سے باہر، ہر عیب و سقم سے پاک، ہر اعتبار سے ناقابلِ ترمیم اور تمام موجوداتِ عالم میں پوری طاقت اور شوکت کے ساتھ نافذ ہے اور تمام مخلوقاتِ عالم ایک ذرّہ بے مقدار سے لے کر آفتاب عالم تاب تک، ثرٰی سے لے کر ثریّا تک اور فرش سے لے کر عرش تک اس کی تعمیل اور فرمانبرداری میں ہمہ تن مصروف اور بے اختیار ہے۔ 
مخلوقاتِ عالم میں صرف انسان ہی ایک ایسی مخلوق ہے جس کو خدا تعالیٰ نے خاص قسم کی صلاحیت اور استعداد عطا فرما کر ایک محدود دائرہ میں آزاد ارادہ اور اختیار دے دیا ہے، اور اس آزاد ارادہ اور اختیار کے لیے اس کو قانون دے کر اس کی تعمیل چاہی ہے۔ اس قانون کا نام دین اور مذہب ہے اور اسی کی تعلیم اور یاددہانی کے لیے اللہ تعالیٰ کے پیغمبر مبعوث ہوتے رہے اور اسی سلسلۂ تعلیم کو امام الانبیاء سید الرسل خاتم النبیین حضرت محمد مصطفٰی احمد مجتبٰی صلی اللہ علیہ وسلم نے مبعوث ہو کر پایۂ تکمیل تک پہنچایا اور اسی کا آپؐ کی وفات حسرت آیات سے اکیاسی روز قبل ہزاروں کی تعداد میں ان قدسی صفات اور پاک نفوس کے بھرے مجمع میں میدانِ عرفات کے اندر نویں ذی الحجہ کو جمعہ کے دن اور عصر کے وقت یہ اعلان کروایا گیا کہ 
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔ (سورہ المائدہ ۳)
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تمہارے اوپر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے میں نے دینِ اسلام کو پسند کیا۔‘‘

اس اعلانِ خداوندی کا یہی منشا ہے کہ قیامت تک اب دین میں کسی ترمیم و تنسیخ اور حذف و اضافہ کی نہ تو کوئی ضرورت ہے اور نہ گنجائش۔ ہدایت کے لیے جن احکام کی ضرورت تھی وہ اصولًا سب نازل کر دیے گئے ہیں۔ اب جو شخص دین میں کسی ایسی چیز کا اضافہ کرتا ہے جس کی تعلیم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو نہیں دی تو گویا وہ درپردہ یہ دعوٰی کر رہا ہے کہ دین نامکمل اور میری ترمیم کا محتاج ہے، یا وہ اس کا مدعی ہے کہ معاذ اللہ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود رؤف اور رحیم ہونے کے اپنی امت کو بہتر، اعلیٰ اور مکمل طریقہ نہیں بتایا۔ الغرض جس طرح اس کا قانونِ قدرت ترمیم و تنسیخ اور مخلوق کے دست برد سے بالاتر ہے اسی طرح اس کا قانون شرع بھی ترمیم و تنسیخ اور تنقیص و اضافہ سے بالاتر ہے۔ کسی کی کیا مجال ہے کہ اس میں ترمیم کر سکے اور کسی دانش فروش کا کیا حوصلہ ہے کہ وہ اس کو ناقص اور ناقابل قرار دے کر اس میں اضافہ اور اصلاح کا مدعی ہو سکے۔ کوئی حکمت اور دانائی کی ایسی بات نہیں جو قانونِ خداوندی میں موجود نہ ہو۔ انسانی زندگی کا کوئی کھلا اور چھپا ہوا شعبہ ایسا نہیں جس کے شائستہ بنانے کا نہایت اور مکمل اور ناقابلِ ترمیم دستور العمل اس میں نہ پیش کیا گیا ہو۔ 

جمیع العلم فی القراٰن لٰکن
تقاصر عنہ افھام الرجال


امریکہ میں مقیم مسلمانوں سے چند ضروری گزارشات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(جمعیۃ المسلمین واشنگٹن ڈی سی امریکہ کے زیر اہتمام ۲۳ اکتوبر ۱۹۸۹ء کو بعد نماز مغرب پیرش ہال میں ایک جلسۂ عام منعقد ہوا جس سے تحریک ختم نبوت کے عالمی راہنما مولانا منظور احمد چنیوٹی، مدیر الشریعہ مولانا زاہد الراشدی، جمعیۃ المسلمین کے امیر مولانا عبد الحمید اصغر نقشبندی اور مولانا عبد المتین نے خطاب کیا۔ مولانا چنیوٹی نے اپنے مفصل خطاب میں قادیانیت کے باطل عقائد اور اسلام دشمن سرگرمیوں پر روشنی ڈالی جبکہ مدیر الشریعہ نے امریکہ میں مقیم مسلمانوں کی ذمہ داریوں کے حوالہ سے مندرجہ ذیل خطاب کیا۔ ادارہ الشریعہ)

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ میں مسجد الہدٰی واشنگٹن ڈی سی کی انتظامیہ اور جمعیۃ المسلمین کے ذمہ دار حضرات کا شکر گزار ہوں جنہوں نے آج یہاں اس محفل کا انعقاد کر کے ہمیں اپنی دینی ذمہ داریوں کے بارے میں کچھ کہنے سننے کا موقع فراہم کیا، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دیں۔ تفصیلی خطاب تو حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی کا ہوگا جو قادیانیت کی فتنہ خیزیوں کے بارے میں آپ سے کھل کر بات کریں گے، مجھے مختصر وقت میں آپ دوستوں سے یہاں امریکہ میں مقیم مسلمانوں بالخصوص پاکستانی دوستوں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کرنی ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ کچھ مقصد کی باتیں کہنے سننے کی توفیق دیں اور دین حق کی جو بات سمجھ میں آئے اللہ تعالیٰ اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔ میں آپ دوستوں کو چند اہم امور کی طرف متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
ایک یہ کہ آپ اپنے اردگرد نظر ڈالیں گے تو آپ کو بے شمار ایسے خاندان نظر آئیں گے جو کسی زمانے میں مسلمان تھے، بالخصوص اسپینش اور میکسیکن قوم میں آپ کو ایسے خاندانوں کی ایک بڑی تعداد نظر آئے گی جن کے آباؤ اجداد کسی زمانہ میں یہاں بحیثیت مسلمان آئے تھے لیکن اب ان کی اولاد مسلمان نہیں رہی۔ میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑتا کہ امریکہ میں پہلے کولمبس آیا تھا یا اسپین کے مسلمان اس زمین پر پہلے وارد ہوئے تھے، لیکن اس تاریخی حقیقت کی طرف آپ کو متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسپین میں عیسائیت کے دوبارہ تسلط کے وقت وہاں سے بے شمار خاندان سمندر پار کر کے امریکہ میں آبسے تھے لیکن آج وہ خاندان مسلمان نہیں ہیں۔ آپ ذرا کریدیں گے تو آپ کو ان خاندانوں میں اسلام کے آثار آج بھی نظر آ سکتے ہیں لیکن یہ لوگ مذہب کے ساتھ تعلیمی تعلق باقی نہ رہنے کی وجہ سے نہ صرف یہاں کے معاشرے میں ضم ہوگئے بلکہ ایمان سے محروم ہو کر عیسائیت کی آغوش میں چلے گئے۔ پھر آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو مشرقی یورپ میں کمیونزم کے تسلط کے وقت وہاں سے ایمان بچانے کے لیے نکل کھڑے ہوئے، ان میں سے کچھ خاندان یہاں امریکہ میں آکر آباد ہوئے ان میں سے بھی بہت سے خاندان آپ کو ایسے ملیں گے جو آج مسلمان نہیں رہے اور یہاں کا کلچر اور مذہب انہیں پوری طرح ہضم کر چکا ہے۔
حضراتِ محترم! میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے اردگرد ان مشاہدات کو دیکھتے ہوئے آج آپ نے ایک فیصلہ کرنا ہے، وہ یہ کہ اس خطہ میں جہاں آپ دنیا کی زندگی کے لیے بہتر وسائل کی تلاش میں آئے ہیں آپ کی اولاد کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا آپ فی الواقع اپنی اولاد اور آنے والی نسل کے دینی مستقبل سے دستبردار ہو چکے ہیں؟ اور کیا آپ واقعتاً اس واضح طور پر نظر آنے والی تبدیلی کو ذہناً قبول کر چکے ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے اور آپ کے چہرے مجھے بتا رہے ہیں کہ آپ ذہناً اپنی اولاد کو کفر کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر یہ بات صرف خواہش کے ساتھ پوری نہیں ہوگی، اس کے لیے آپ کو کچھ کرنا ہوگا اور یہ آپ ہی کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کو کفر کی آغوش میں جانے سے بچا لیں۔ قرآن کریم نے بھی یہ ذمہ داری آپ پر عائد کی ہے کہ صرف خود جہنم کی آگ سے بچنے کی کوشش پر اکتفا نہ کریں بلکہ اپنے اہل و عیال کو بھی اس آگ سے بچائیں۔ یہ دین کا تقاضا ہے اور یہ عقل و منطق کا تقاضا بھی ہے۔
دیکھیے! ابھی سان فرانسسکو میں زلزلہ آیا ہے، یہ خدائی گرفت آتی رہتی ہے، اگر کسی جگہ زلزلہ آجائے، کسی مکان میں آگ لگ جائے تو کسی مکان کا مالک ایسا بے وقوف نہیں ہوگا کہ خود اکیلا مکان سے باہر کھلے میدان میں جا کھڑا ہو اور اطمینان کا اظہار کرے کہ میں تو آگ سے بچ گیا ہوں، عقلمند آدمی وہ سمجھا جائے گا جو پہلے گھر کے دوسرے افراد کو، بیوی بچوں کو، اہل و عیال کو آگے سے بچانے کی کوشش کرے گا اور پھر خود آگے سے بچنے کا سوچے گا۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے کہ اے ایمان والو! اپنے آپ کو بھی جہنم کی آگ سے بچاؤ اور اپنے اہل و عیال کو بھی جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کرو۔ اس لیے اولاد کے دین و عقیدہ کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کا اظہار اس طرح فرمایا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے، یہ ماں باپ ہیں جو اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔
حضراتِ محترم! میں دیکھ رہا ہوں کہ امریکہ میں مقیم مسلمانوں کو رفتہ رفتہ اپنی نئی نسل کو بطور مسلمان باقی رکھنے کی ضرورت کا احساس ہو رہا ہے، یہ جذبہ بیدار ہو رہا ہے، فکر بڑھ رہی ہے لیکن اسے صحیح طریقہ سے منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا صحیح راستہ یہ ہے کہ آپ اپنے گھروں کے ماحول کو کسی نہ کسی حد تک مذہبی بنانے کی کوشش کریں، مذہبی اقدار سے وابستگی برقرار رکھیں، گھروں میں نماز اور دیگر عبادات کا اہتمام کریں اور سب سے بڑھ کر اپنی اولاد کی دینی تعلیم کا نظم قائم کریں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ اگر آپ نے اپنی اولاد کو مسلمان باقی رکھنا ہے تو آپ کو مساجد کا نظام قائم کرنا ہوگا، آپ کو دینی مدارس کا منظم طریقہ سے آغاز کرنا ہوگا، آپ کو اپنی اولاد کی عصری اور دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی طرف متوجہ ہونا ہوگا، ورنہ آپ اپنی آئندہ نسل کو مذہب اور دین کے ساتھ وابستہ نہیں رکھ سکیں گے اور خدانخواستہ اس کا حشر وہی ہوگا جو اس سے قبل یہاں بسنے والے مسلمانوں کا ہو چکا ہے۔
ایک اور نکتہ بھی ذہن میں رکھیں کہ یہاں اس معاشرہ میں اپنی اولاد کو دین کے ساتھ وابستہ رکھنے کا واحد ذریعہ صرف اور صرف آپ ہیں۔ اپنے وطن میں اگر ماں باپ اولاد کی تربیت سے خدانخواستہ غافل ہوں تو متبادل ذرائع موجود ہیں جو نوجوان نسل کو دین سے دور جانے سے روک لیتے ہیں۔ محلہ میں مسجد ہے، اچھے دوستوں کی سوسائٹی ہے، وعظ و نصیحت کی مجلسیں ہیں۔ وہاں اگر آپ توجہ نہیں دیں گے تو بھی کوئی نہ کوئی ذریعہ اور مل سکتا ہے لیکن یہاں تو باقی سب راستے بند ہیں۔ یہاں کا معاشرہ، سوسائٹی، میڈیا، تعلیمی ادارے غرضیکہ ہر ذریعہ نوجوان کو کفر کی طرف اور جنسی انارکی کی طرف لے جانے والا ہے۔ صرف ماں باپ ہی ایک ایسا واحد ذریعہ باقی رہ جاتا ہے جو اگر صحیح توجہ دے گا تو اولاد کے مسلمان رہنے کا کوئی امکان ہے ورنہ یہاں اور کوئی متبادل ذریعہ موجود نہیں ہے۔ اس لیے یہاں آپ کی ذمہ داری اپنی اولاد کے بارے میں کئی گنا بڑھ جاتی ہے جو آپ کو بہرحال پوری کرنی ہے ورنہ آپ خدا کے مجرم تو ہوں گے ہی اپنی اولاد اور مسلمانوں کی تاریخ کے بھی مجرم شمار ہوں گے۔
محترم بزرگو اور دوستو! میں جہاں آپ کو اپنی اولاد کے دینی مستقبل کے تحفظ کے لیے مساجد اور دینی مدارس کے قیام کا مشورہ دے رہا ہوں اور دینی مراکز کے ناگزیر ہونے کا احساس دلا رہا ہوں وہاں ایک تلخ حقیقت کی طرف آپ کو متوجہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جب آپ یہ مساجد، مدارس اور دینی مراکز قائم کریں گے اور آپ کو بہرحال قائم کرنا ہوں گے تو انہیں آباد کرنے کے لیے، انہیں چلانے کے لیے آپ کو دینی افراد کی ضرورت ہوگی، وہ کھیپ آپ کہاں سے لائیں گے؟ اتنی بڑی تعداد میں حافظ، قراء اور علماء کہاں سے مہیا کریں گے؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے اور یہ آسان جواب ہے کہ ہم اپنی ضرورت کے لیے مذہبی افراد کی یہ کھیپ اپنے ملک سے منگوا لیں گے، یہ آسان راستہ ہے لیکن اس کے کچھ تلخ ثمرات بھی ہوں گے اور ان تلخ ثمرات کا تجربہ ہم اس سے قبل یورپ میں کر چکے ہیں۔ میرے بھائیو! جب ہم اپنے ملک میں دینی کام کرتے کرتے آپ کے یہاں منتقل ہوں گے تو ہمارے ساتھ بیماریوں کے وہ جراثیم بھی منتقل ہوں گے جو ہمیں لاحق ہیں، یہ وہ بیماریاں ہیں جنہوں نے ہمیں اپنے ملکوں میں کسی کام کا نہیں رہنے دیا اور باہر جا کر بھی یہ بیماریاں ہمارے لیے اور اسلام کے لیے بدنامی اور رسوائی کا باعث بن رہی ہیں۔
یورپ میں جب مسلمان منظم ہونا شروع ہوئے تو انہوں نے اپنی ضرورت کے لیے علماء اور حفاظ اپنے وطن سے منگوا لیے اور ان جراثیم کا علاج نہ کیا جو ہماری مخصوص بیماریوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے یورپ کو دیوبندی بریلوی لڑائیوں کا اکھاڑہ بنا دیا، مسجدوں کے جھگڑے ہوئے، خدا کے گھر سیل کر دیے گئے، عبادت گاہوں کو کتوں کے ذریعے خالی کرایا گیا اور ہم کفار کے سامنے ندامت اور شرمندگی کا عنوان بن کر رہ گئے۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ یہاں بھی یہی کھیل کھیلا جائے گا، اس لیے میں آپ حضرات کو قبل از وقت خبردار کر رہا ہوں کہ خدا کے لیے ان جراثیم کا کوئی علاج سوچ لیجئے۔ آج جب ہم ایک ملک سے دوسرے ملک جاتے ہیں تو ایئرپورٹ پر ہیلتھ سیرٹیفکیٹ چیک کیا جاتا ہے کہ کہیں اس ملک کی بیماریوں کے جراثیم تو ساتھ نہیں لے آئے۔ آپ کو بھی ایسا کرنا ہوگا اور ان جراثیم کو اپنے ملک میں آنے سے روکنا ہوگا ورنہ آپ اس معاشرہ میں مذاق بن کر رہ جائیں گے اور دین کی خدمت کی بجائے دین کی رسوائی کا ذریعہ ثابت ہوں گے۔
محترم بزرگو! میں آپ کو ایک اصول بتانا چاہتا ہوں۔ ہمارے دین کی تین بنیادیں ہیں، انہیں کسی حالت میں نظر انداز نہ کریں۔ (۱) قرآن کریم (۲) سنت رسول (۳) اور صحابہ کرامؓ جو شخص قرآن کو مانتا ہے، حدیثِ رسولؑ کو تسلیم کرتا ہے اور صحابہ کرامؓ کی پیروی کو قبول کرتا ہے، وہ حنفی ہو، شافعی ہو، مالکی ہو، حنبلی ہو، ظاہری ہو، دیوبندی ہو، بریلوی ہو، اہل حدیث ہو یا کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہو، اس سے کسی مسئلہ میں جھگڑا نہ کریں، کسی اختلاف میں نہ الجھیں، اور اگر آپ کو کوئی الجھانے کی کوشش کرے تو اسے ٹوک دیں، جھٹک دیں اور اس کی بات کو تسلیم نہ کریں۔
میں گزارش کر رہا تھا کہ اپنی اولاد کی دینی تعلیم اور نئی نسل کی مذہب سے وابستگی برقرار رکھنے کے لیے مساجد، مدارس اور دینی مراکز کا اہتمام آپ کی ذمہ داری ہے لیکن ان مراکز کے لیے افراد کی تلاش میں احتیاط سے کام لیں اور اگر آپ میرا مشورہ مانیں تو ایسے افراد کو درآمد کرنے کا ہی نہ سوچیں کیونکہ جن افراد نے آپ کے ماحول میں تربیت نہیں پائی، آپ کے ماحول میں کام نہیں کیا، وہ آپ کے ماحول کو سمجھ ہی نہیں سکتے، وہ اپنی ذہنی ساخت اور تربیت و ماحول کے سانچے میں آپ کو ڈھالنے کی کوشش کریں گے جس کے نتیجہ میں وہ بیماریاں پھر آپ میں عود کر آئیں گی جو خود ہمارے ملکوں میں ہمارے لیے بربادی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ اس کی بجائے آپ یہ کیوں نہیں کرتے کہ اپنی ضروریات کے لیے حفاظ، قراء اور علماء کی کھیپ خود یہاں تیار کریں۔ ایک معیاری دارالعلوم کے قیام کی طرف توجہ کریں۔ واشنگٹن ریاستہائے متحدہ امریکہ کا دارالسلطنت ہے، یہاں کے مسلمانوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک دارالعلوم بنائیں، اس میں حفاظ، قراء اور علماء تیار کریں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جو نوجوان نسل اس ماحول میں رہ کر دین کی تعلیم حاصل کریں گے وہ یہاں کے تقاضوں اور مشکلات کو زیادہ بہتر طور پر سمجھیں گے اور وہ زیادہ مؤثر طریقے سے آپ کی مساجد و مدارس کو آباد کر سکیں گے۔ میرے سامنے پڑھے لکھے دانشور دوست بیٹھے ہیں وہ اس نکتہ کو ضرور سمجھ رہے ہوں گے اور وہ یقیناً میری گزارش پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں گے۔
میرے محترم بزرگو! میں نے آپ حضرات کا خاصا وقت لے لیا ہے لیکن یہ باتیں آپ سے دوٹوک انداز میں کرنا میں اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا۔ اب ان گزارشات کا خلاصہ دہرا دیتا ہوں، میں نے آپ حضرات سے تین گزارشات کی ہیں:
  1. اپنے سے پہلے آنے والے مسلمانوں کی اولاد کے حشر سے سبق حاصل کریں اور اپنی اولاد اور نئی نسل کو مذہب کے ساتھ وابستہ رکھنے کے لیے اپنے گھروں کا ماحول مذہبی بنانے کی کوشش کریں۔
  2. مذہب کے ساتھ اپنی اور اپنی اولاد کی وابستگی کو صحیح رکھنے کے لیے مساجد، دینی مدارس اور دینی مراکز کے نظام کو منظم طریقے سے قائم کریں۔
  3. مذہبی ضروریات کے لیے یہاں کے ماحول اور تقاضوں سے ناواقف افراد کو درآمد کرنے کی بجائے ایک بڑا دارالعلوم قائم کر کے خود یہاں حفاظ، قراء اور علماء کی کھیپ تیار کریں تاکہ وہ یہاں کے ماحول اور تقاضوں کے مطابق آپ حضرات کی بہتر دینی راہنمائی اور خدمت کر سکے۔
میں آخر میں مسجد الہدٰی کی انتظامیہ، جمعیۃ المسلمین کے امیر مولانا عبد الحمید اصغر اور ان کے رفقاء کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ سب حضرات کا شکر گزار ہوں کہ ہفتہ کے دوران آپ حضرات وقت نکال کر اس اجتماع میں تشریف لائے ہیں۔ اللہ رب العزت ہم سب کی حاضری کو قبول فرمائیں اور دین حق کے لیے مثبت اور مؤثر خدمت سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا الٰہ العالمین۔

وسیلۂ نجات ۔ کفارۂ مسیحؑ یا شفاعتِ محمدیؐ

محمد عمار خان ناصر

انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے اگرچہ سلیم ہے لیکن نفسِ امّارہ اور شیطانی تحریصات کی وجہ سے گناہ سے بچ نہیں سکتا کیونکہ غلط ماحول اور غلط تربیت کے نتیجہ میں گناہ بسا اوقات انسان کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کوئی انسانی وجود گناہ سے محفوظ نہیں کیونکہ انبیاءؑ اللہ کی پاک و معصوم مخلوق ہیں۔ گناہ کر کے انسان خدا کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ
اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوْد (العادیات)
’’بے شک انسان اپنے رب (کی نعمتوں) کا ناشکرا ہے۔‘‘
اور فرمایا کہ
وَکَانَ الْاِنْسَانُ کَفُوْرًا (بنی اسرائیل)
’’انسان نا شکرا ہے۔‘‘
جب انسان اپنے ماحول اور بری تربیت کی وجہ سے گناہ کرتا ہے اور اپنے رب کی ناشکری کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے تدارک کا راستہ بھی واضح فرما دیا کہ چونکہ انسان گناہ سے عام طور پر نہیں بچ سکتا، وہ گناہ جان بوجھ کر کرے یا لا علمی کی بنا پر اسے شرمندگی ضرور ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے دوبارہ تعلق قائم کرنا چاہتا ہے تو اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ وہ ’’توبہ‘‘ کرے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے کہ
یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْا اِلَی اللہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا (التحریم)
’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کی طرف خلوصِ دل سے توبہ کرو۔‘‘
جبکہ پولسی عیسائیت کی تعلیم یہ ہے کہ خدا سے دوبارہ تعلق جوڑنے کے لیے مسیح یسوع کے ’’کفارے‘‘ پر ایمان لانا ضروری ہے۔ کفارہ کا مسئلہ آگے چل کر مذکور ہو گا، فی الحال توبہ کے علاوہ ایک اور وسیلۂ نجات کے بارے میں بات ہو گی جو گناہگاروں کی نجات کے لیے اس رحمٰن و رحیم ذات کی طرف سے بیان کیا گیا ہے۔ 
دنیا میں انسان توبہ کر لے تو کر لے، آخرت میں موقع نہیں ملے گا اور نہ ہی نزع کے عالم میں۔ اللہ پاک کا فرمان ہے
اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْءَ بِجَھَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰئِکَ یَتُوْبَ اللہُ عَلَیْھِمْ وَکَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۔ وَلَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّئَاتِ حَتّٰی اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْاٰنَ وَلَا الَّذِیْنَ یَمُوُتُوْنَ وَھُمْ کُفَّار اُولٰئِکَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا۔ (النساء)
’’اللہ ان لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے جو لاعلمی سے برا کام کر جاتے ہیں پھر جلد ہی توبہ کر لیتے ہیں تو انہیں پر اللہ رجوع کرتا ہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اور ان کی توبہ قبول نہیں کرتا جو گناہ کیے جاتے ہیں، اور کسی کو موت آتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں اب توبہ کرتا ہوں، اور ان کی جو اس حالت میں مر جاتے ہیں کہ وہ کافر ہوتے ہیں، یہی ہیں جن کے لیے ہم دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
اس آیت میں بظاہر یہ باتیں معلوم ہوتی ہیں:
  1. توبہ صرف اس کے لیے ہے جو لاعلمی کی وجہ سے گناہ کا مرتکب ہو اور بعد میں علم اور احساس ہونے پر توبہ کر لے۔
  2. ہمیشہ گناہ کرنے والے کے لیے توبہ نہیں۔ یعنی جو کرتا رہے اور کہے کہ پھر توبہ کر لوں گا اور اسی طرح ساری زندگی میں توبہ کا موقع نہ آئے اور جب موت آ جائے تو کہے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں۔
  3. کافر مرنے والے کے لیے کوئی توبہ نہیں کہ آخرت میں وہ توبہ کر لے۔

لیکن کافر کے لیے آخرت میں توبہ کرنے کا موقع نہ ملنے کا اختصاص یہاں کیوں کیا گیا ہے؟ جبکہ کافر کے علاوہ کسی مومن گناہگار کو بھی توبہ کا موقع نہیں ملے گا۔ تو یہاں سے ایک بات اور ذہن میں آتی ہے کہ مومن گناہگار کے لیے توبہ کے علاوہ بھی کوئی وسیلۂ نجات ہے، اور آخرت میں وسیلۂ نجات یا رحمت خداوندی ہے یا شفاعت۔ اور چونکہ قیامت کے دن خدا منصف ہو گا اس لیے اس کی رحمت کو ابھارنے کے لیے نبیؐ اور تمام انبیاء کرامؑ، شہداء اور حفاظ وغیرہ اللہ پاک کے حضور شفاعت کریں گے۔ قرآن پاک کا ارشاد ہے کہ

عَسٰی اَن یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا (بنی اسرائیل)
’’امید ہے کہ تیرا رب تجھے مقام محمود پر مبعوث فرمائے۔‘‘

تقریباً تمام مفسرین نے ’’مقامِ محمود‘‘ کو ’’مقامِ شفاعت‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ یہاں پر چند اقوال نقل کیے جاتے ہیں۔

حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی لکھتے ہیں:

والصحیح ان المقام المحمود مقام الشفاعۃ۔ (تفسیر مظہری ج ۲ ص ۷۵)
’’اور صحیح بات یہی ہے کہ مقام محمود شفاعت کا مقام ہے۔‘‘ 

علامہ نظام الدین القمی نیشاپوریؒ فرماتے ہیں کہ

والاولٰی ان یحض ذلک بالشفاعۃ۔ (تفسیر غرائب القرآن برحاشیہ طبری ج ۷ ص ۷۷)
’’افضل قول یہ ہے کہ مقامِ محمود شفاعت کے لیے مخصوص ہو گا۔‘‘ 

امام ابن جریر الطبریؒ فرماتے ہیں:

ذلک ھو المقام الذی ھو یقومہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم القیامۃ للشفاعۃ الناس (تفسیر طبری مطبوعہ بیروت جلد ۷ ص ۹۷)
’’یہ وہ مقام ہے جہاں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن لوگوں کی شفاعت کے لیے فائز ہوں گے۔‘‘

علامہ ابوالبرکات محمود النسفی الحنفیؒ نے بھی ابن جریرؒ کی تائید کی ہے اور لکھا ہے کہ 

وھو مقام الشفاعۃ عند الجمھور و یدل علیہ الاخبار۔ (تفسیر النسفی بحاشیہ خازن ج ۳ ص ۱۸۶)
’’جمہور علماء کے نزدیک مقامِ محمود مقامِ شفاعت ہے اور اس پر احادیث دلالت کرتی ہیں۔

علامہ علاؤ الدین البغدادیؒ کا قول ہے کہ

والمقام المحمود ھو مقام الشفاعۃ۔ (تفسیر خازن ج ۳ ص ۱۸۷)
’’اور مقامِ محمود سے مراد صرف مقامِ شفاعت ہے۔‘‘

تو ان جملہ اقوال سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا اثبات ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ آیت مذکورہ ’’عَسٰی اَن یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا‘‘ میں شفاعت سے مراد شفاعت کبرٰی ہے کیونکہ شفاعتِ صغرٰی کا حق ہر نبی کو اپنی قوم کے لیے ہوگا لیکن تمام امتوں کے لیے شفاعت کرنے کا حق صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے۔ 

قاضی ثناء اللہ المظہریؒ فرماتے ہیں کہ

لعل شفاعۃ الانبیاء غیر نبینا یختص بامۃ ولد شتمل بمیھم وشفاعۃ نبینا ینال غیر امۃ ایضًا۔ (مظہری ج ۵ ص ۸۴ و ۸۵)
’’شاید کہ ہمارے نبیؐ کے علاوہ دوسرے انبیاء کی شفاعت انہی کی امت کے ساتھ خاص ہو گی اور سب لوگوں کو شامل نہ ہو گی اور ہمارے نبیؐ کی شفاعت دوسری امت کو بھی پہنچے گی۔‘‘

آپ پہلے پڑھ چکے ہیں کہ مسلمانوں کے نزدیک آخرت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ذریعہ نجات ہے اور عیسائیوں کے نزدیک کفارۂ مسیح ذریعہ نجات ہے جو ان کے بقول واقع ہو چکا ہے۔ اب ان کا مختصرًا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

شفاعتِ کبرٰی

یہ صرف ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہے اور تمام انسانوں کو فائدہ دے گی۔ حدیث میں آیا ہے کہ قیامت میں سب انسانوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے گا اور سورج کے ازحد قریب ہوجانے سے گرمی کی شدت بڑھ جائے گی تو لوگ تنگ آ کر حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے پاس جائیں گے۔ پہلے حضرت آدمؑ کے پاس، پھر حضرت نوحؑ کے، پھر حضرت ابراہیمؑ کے، پھر حضرت موسٰیؑ کے، اور پھر حضرت عیسٰیؑ کے پاس، لیکن سب یہ کہیں گے کہ ہم اس شفاعت کے حقدار نہیں، تو سب لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے تو آپؐ فرمائیں گے ’’انا لہا انا لہا‘‘ میں ہی اس کا حقدار ہوں میں ہی اس کا حقدار ہوں۔ 

شفاعتِ صغرٰی

اس شفاعت کا حق تمام حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کو حاصل ہو گا۔ حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر نبیؐ کو ایک ایسی دعا مانگنے کا حق دیتا ہے جو ضرور قبول ہوتی ہے اور تمام انبیاءؑ اپنی اپنی مخصوص دعائیں مانگ چکے ہیں اور صرف میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے مخصوص کر رکھی ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جناب نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا کہ میری امت کا کوئی فرد بھی جہنم میں نہیں رہے گا، میں ہر ایک فرد کو نکال لوں گا، البتہ کفار کے بارے میں اللہ پاک نے کہا ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ 

کفارۂ مسیح

یہ عقیدہ عیسائیت کی بنیاد ہے اور باقی عقائد مثلاً التوحید فی التثلیث، حلول و تجسم، وراثت گناہ، صلیب وغیرہ کو اس کی تمہید سمجھ لیں۔ یہ عقیدہ ایک انوکھی منطق پر مشتمل ہے۔ اس کا مختصر بیان یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے ممنوعہ درخت کا پھل کھا کر گناہ کیا، وہ گناہ ان کی اولاد میں منتقل ہوا اور اسی طرح ہر انسان پیدائشی گناہگار ہو گیا۔ اس لیے کہ اگر خدا آدم کو معاف کر دیتا تو وہ منصف نہ رہتا اور اگر سزا دیتا تو رحیم نہ رہتا اور توبہ انسان کے گناہ کی بخشش کے لیے کافی نہیں تو توبہ کا پتا بھی صاف ہو گیا۔ اب خدا نے ایک راستہ بین بین نکال لیا تاکہ اس کی رحیمی پر کوئی زد آئے اور نہ اس کے انصاف پر۔ اور وہ راستہ یہ تھا کہ اس نے اپنے اکلوتے بیٹے یسوع مسیح کو دنیا میں بھیجا تاکہ ’’بہیتروں کی معافی کے واسطے اس کا خون بہایا جائے‘‘۔ اور وہ تمام انسانوں کے گناہوں کو اپنے سر لاد کر ان کو گناہ سے پاک کر دے۔ (گویا سب انسانوں کا گناہ ایک کے سر تھوپ کر اسے سزا دینا انصاف ہے)۔ تو اس بیٹے آ کر بزرگوں اور فقیہوں کے ہاتھوں دکھ اٹھائے اور ’’اپنوں ہی‘‘ کے ہاتھوں سولی پر چڑھ کر جان دے دی اور کہا کہ ’’تمام ہوا‘‘ یعنی انسانوں کو گناہ سے نجات دینے کا کام تمام ہوا۔ لیکن اس کفارہ سے صرف ’’اصلی گناہ‘‘ معاف ہوا۔ اگر پھر گناہ کیا تو یسوع مسیحؑ اس کا ذمہ دار نہیں۔ 

اس عقیدے کی دوسری غلطیوں سے قطع نظر اس کو شفاعت کے مقابلے میں رکھا جائے تو تین اختلافات نکھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ 

اسلام ۔ عقیدۂ شفاعت

  1. ہر شخص اپنے ہی گناہ کا عذاب سہے گا۔ کوئی اور شخص اس کے گناہ کا بار اپنے سر پر نہ اٹھائے گا۔ 
  2. اگر انسان سابقہ گناہوں سے باز آ جائے اور اللہ کے سامنے توبہ کرے تو وہ عذاب میں مبتلا نہ ہو گا۔ 
  3. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے سب گناہ معاف ہو جائیں گے۔

مسیحیت ۔ عقیدۂ کفارہ

  1. آدم نے گناہ کیا جو باپ تھا اور اس کی اولاد نے اس گناہ کا بوجھ اپنے سر پر اٹھا لیا اور پھر اس کو یسوع مسیحؑ پر لاد دیا۔
  2. انسان توبہ کرنے سے گناہ نہیں بخشوا سکتا بلکہ جب تک خون نہ بہایا جائے یعنی قربانی نہ دی جائے گناہ ’’ٹس سے مس‘‘ نہیں ہو گا۔ 
  3. کفارہ مسیحؑ سے صرف وہ گناہ معاف ہوا ہے جو آدمؑ کے ’’اصلی گناہ‘‘ کی وجہ سے انسانی سرشت میں رچ بس گیا۔ 
اب ہم ان جزئیات کو قرآن اور بائبل میں دیکھیں گے اس کے بعد آپ خود فیصلہ کر لیں کہ وسیلۂ نجات کفارۂ مسیحؑ ہے یا شفاعتِ محمدیؐ۔

اول: گناہ کے ایک دوسرے کی طرف انتقال کو قرآن نہیں مانتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی۔ (فاطر)
’’کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔‘‘

دوسری جگہ ارشاد ہے کہ

وَ اَن لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی وَاَنَّ سَعْیَہٗ سَوْفَ یُرٰی۔ (النجم)
’’انسان کو صرف اپنے کیے ہوئے اعمال کا بدلہ ملے گا اور اس کے اعمال اس کو عنقریب دکھائے جائیں گے۔‘‘

یہ نہیں کہ یہ یک طرفہ اصول ہے۔ بائبل بھی اس کی تصدیق کرتی ہے۔ 

’’جو جان گناہ کرتی ہے وہی مرے گی۔ بیٹا باپ کے گناہ کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور نہ باپ بیٹے کے گناہ کا بوجھ۔ صادق کی صداقت اسی کے لیے ہو گی اور شریر کی شرارت شریر کے لیے۔‘‘ (بائبل۔ پرانا عہد نامہ ۔ کتاب حزقی ایل ۔ باب ۱۸ آیت ۲۰)

یہی نہیں بلکہ 

’’اس کا (گناہ کرنے والے کا) گناہ اس کے سر لگے گا۔‘‘ (بائبل ۔ پرانا عہد نامہ ۔ کتاب گنتی ۔ باب ۱۵ آیت ۳۱)

حضرت موسٰی علیہ السلام کی تورات کے آخری صحیفہ ’’استثناء‘‘ میں لکھا ہے کہ

’’بیٹوں کے بدلے باپ نہ مارے جائیں نہ باپ کے بدلے بیٹے مارے جائیں۔ ہر ایک اپنے ہی گناہ کے سبب سے مارا جائے۔‘‘ (کتاب استثناء ۔ پرانا عہد نامہ ۔ باب ۲۴ آیت ۱۶)

حضرت آدمؑ کا گناہ تمہارے باپ دادا کے سر کیوں پڑ گیا، بائبل تو کہتی ہے کہ

’’ہر ایک اپنی ہی بدکرداری کے سبب سے مرے گا۔‘‘ (بائبل ۔ عہد نامہ قدیم ۔ یرمیاہ ۔ باب ۳۱ آیت ۳۰)

جب ہر ایک اپنی بدکرداری کے سبب سے مرے گا تو 

’’سب کی بدکرداری اس پر کیسے لادی گئی۔‘‘ (یرمیاہ ۵۳ : ۶)

دوم: توبہ کے بارے میں آپ اوپر پڑھ چکے ہیں کہ عیسائی عقیدۂ کفارہ میں ’’یتیم‘‘ ہے، جبکہ بائبل ببانگ دہل اعلان کرتی ہے کہ

’’اگر شریر اپنے تمام گناہوں سے جو اس نے کیے ہیں باز آجائے اور میرے سب آئین پر چل کر جو جائز اور روا ہے تو وہ یقیناً زندہ رہے گا وہ نہ مرے گا۔ وہ سب گناہ جو اس نے کیے ہیں اس کے خلاف محسوب نہ ہوں گے۔ وہ اپنی راست بازی میں جو اس نے کی ہے زندہ رہے گا ۔ ۔ ۔ اس لیے کہ اس نے سوچا اور اپنے سب گناہوں سے جو کرتا تھا باز آیا۔‘‘ (بائبل کی کتاب حزقی ایل ۔ پرانا عہد نامہ ۔ باب ۱۸ آیت ۲۱ تا ۲۸)

قرآن پاک کی ایک آیت ابتداء میں پڑھی جا چکی ہے۔ توبہ کے بارے میں خود عیسائیوں کی مقدس کتاب انجیل مرقس میں ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ

’’توبہ کرو اور خوشخبری پر ایمان لاؤ‘‘ اور ’’توبہ کرو آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے۔‘‘

اور ’’کفارہ‘‘ پر ایمان رکھنے والے حضرات انجیل کو دیکھیں، حضرت مسیحؑ نے اپنے خون کا ایک قطرہ بہانے سے بھی قبل اپنے اوپر ایمان لانے والوں کے گناہ معاف کیے۔ اگر خون بہائے بغیر گناہ معاف نہیں ہوتے تو جب آسمانی باپ نے لوگوں کو کفارہ کے بعد معاف کیا تو حضرت مسیح یسوعؑ کو کیا حق ہے کہ وہ لوگوں کے گناہ معاف کرتے پھریں اور اگر خون بہائے بغیر بھی گناہ معاف ہو جاتے ہیں تو عقیدۂ کفارہ کا سارا ڈرامہ خودبخود ختم ہو جاتا ہے۔ 

ان گزارشات سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ عیسائی مذہب کے دانشوروں نے کفارہ کے نام سے انسانی نجات کا جو ڈھونگ کھڑا کیا ہے خود بائبل اس کی تصدیق کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور نہ ہی فطرتِ سلیمہ اور عقلِ انسانی کے معیار پر یہ بات پوری اترتی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس اسلام نے گناہوں سے پاک ہونے اور نجات حاصل کرنے کے لیے انسان کو توبہ کا جو دروازہ بتایا ہے اور شفاعت کے عنوان سے رحمتِ خداوندی کی جو خوشخبری دی ہے وہی انسان کی نجات کا صحیح ذریعہ ہے اور اس بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس طرح بیان فرمایا ہے:

’’میرے ان بندوں سے کہہ دو جنہوں نے گناہ کر کے اپنی جانوں پر ظلم کیا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں۔ بے شک اللہ تعالیٰ گناہ معاف کرنے والا ہے۔‘‘ (الزمر)

سابق مسلم ریاست البانیہ میں مسلمانوں کی حالتِ زار

محمود احمد

البانیہ مشرقی یورپ کا سب سے چھوٹا مگر سب سے زیادہ پراسرار ملک ہے۔ وہاں کے شب و روز عالمی پریس سے عموماً پوشیدہ رکھے جاتے ہیں۔ اشتراکی حکمرانوں نے البانیہ کو دنیا کی پہلی سیکولر اسٹیٹ قرار دیا ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دنیا کی واحد کمیونسٹ حکومت تھی جو روس کے ایماء کے بغیر وجود میں آئی اور اس کی تشکیل میں یوگوسلاویہ کے ٹیٹو اور برطانیہ اور فرانس کی رضامندی کا دخل رہا۔ البانیہ یورپ کی واحد ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے مگر اس اکثریت کے باوجود وہاں اسلام شجرِ ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ 
البانیہ کا کل رقبہ ۲۹ ہزار مربع کلومیٹر اور آبادی ۲۵ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ مسلمانوں کی تعداد تقریباً ۱۷ لاکھ ہے جو آبادی کا ۷۰ فیصد ہے۔ جبکہ یونانی آرتھوڈکس ۲۰ فیصد اور کیتھولک عیسائی ۱۰ فیصد ہیں۔ البانوی مسلمانوں کی اکثریت سنی ہے۔ مسلمانوں میں باہمی اتحاد و اتفاق کا زبردست فقدان ہے جس کے نتیجے میں البانیہ کی آزادی سے لے کر آج تک البانیہ پر زبردست آمریت مسلّط رہی ہے اور حکمرانوں نے مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھائے ہیں۔ 
البانیہ قدیم زمانے میں الیریا سلطنت کا حصہ تھا، بعد میں رومی اور بازنطینی حکومتوں نے اس پر اقتدار جمایا، آٹھویں صدی میں بلغاریہ نے اسے اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا، جب ترکوں کی عثمانی سلطنت کے زیرنگیں آگیا۔ ترکوں نے اس علاقے میں ۴۳۴ سال حکومت کی، اس علاقے میں اسلام بکتاشی درویشوں کے ذریعے پھیلا۔ ۱۷۹۹ء کے معاہدہ کارلووٹز کے بعد سے ترکوں کا زوال شروع ہو گیا اور ان کی وسیع سلطنت میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی۔ ترکوں کا اقتدار ختم ہوا تو یہ ریاستیں مستحکم سیاسی ادارے قائم نہ کر سکیں۔ نتیجے کے طور پر پورے علاقے میں آمریت چھا گئی اور پورا مشرقی یورپ کمیونزم کے نرغے میں آ گیا۔ 
۲۸ نومبر ۱۹۱۲ء کو البانیہ کو آزادی ملی اور پہلے حکمران کے طور پر آسٹریا کے ایک شہزادے ولیم آف ویڈ کا تقرر عمل میں آیا مگر شہزادے کو جلد ہی اس ذمہ داری سے دستبردار ہونا پڑا کیونکہ اس کے خلاف بغاوت شروع ہو گئی۔ ۱۹۱۵ء میں البانیہ کی تقسیم کا ایک معاہدہ ہوا، اس معاہدے پر اٹلی اور یوگوسلاویہ میں اختلافات اس قدر بڑھ گئے کہ بات جنگ تک جا پہنچی مگر بڑی طاقتوں کی ثالثی کے نتیجے میں بیرونی فوجیں سے لوٹ گئیں۔ 
۱۹۲۰ء میں احمد بے زوغو وزیراعظم بنا مگر ۱۹۲۳ء کے انتخابات میں اس نے شکست کھائی اور اپنے خاندان کے ایک فرد شوکت بے کو حکومت سپرد کر دی مگر شوکت بے کے خلاف بھی بغاوت ہو گئی اور اسے بھی اقتدار چھوڑنا پڑا۔ زوغو فرار ہو کر یوگوسلاویہ چلا گیا اور ایک بشپ خان نولی وزیراعظم بنا۔ ادھر یوگوسلاویہ میں پناہ کے دوران زوغو اپنی حاجی فوج تیار کرتا رہا اور ۱۹۲۴ء میں اس نے البانیہ میں داخل ہو کر دارالحکومت تیرانہ پر قبضہ کر لیا، عام انتخابات کرانے اور البانیہ کو جمہوریہ قرار دے دیا۔ زوغو پہلا صدر بنا۔ اس نے کئی معاشی اصلاحات کیں اور اٹلی کے اشتراک سے قومی بینک کا قیام عمل میں آیا لیکن یکایک یکم ستمبر ۱۹۲۸ء کو اس نے آئین میں تبدیلیاں کر کے لامحدود اختیارات حاصل کر لیے اور اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ احمد زوغو نے لادینی خیالات کا پرچار شروع کر دیا اور مسلمان علماء پر ظلم کیے گئے جس کے نتیجے میں مشہور محدث علامہ ناصر الدین البانی سمیت کئی علماء البانیہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ 
۱۹۳۹ء میں مسولینی نے البانیہ پر حملہ کر دیا۔ شاہ زوغو ملک سے فرار ہو گیا۔ ۱۹۴۲ء میں جرمنوں نے البانیہ کا انتظام سنبھال لیا۔ دو سال بعد جرمن فوجیں البانیہ سے واپس چلی گئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بادل چھٹے تو سرونسٹن چرچل کی ہدایت پر اقتدار کمیونسٹ ڈیموکریٹک فرنٹ کے حوالے کر دیا گیا جس کا سربراہ انور خوجہ تھا۔ یہ انور خوجہ البانیہ پر ۴۰ سال حکومت کرتا رہا، اس کے طویل دورِ حکومت میں اسلام کے نام لیواؤں پر جو ظلم و ستم توڑے گئے انہیں دیکھ کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ اس آمرِ وقت کو اگر البانیہ کا ہٹلر قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ 
۱۹۴۵ء میں انور خوجہ نے یک جماعتی انتخابات کا ڈھونگ رچایا اور ۹۳ فیصد اکثریت سے کامیابی کا دعوٰی کر کے البانہ کو سوشلسٹ ری پبلک بنا دیا۔ خفیہ عدالتوں کے ذریعے سرسری سماعت کے بعد ہزاروں مخالفین کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ سینکڑوں افراد گرفتار کر لیے گئے۔ اسمبلی میں اپنے ہی کئی ہم جماعتوں پر غداری کے الزامات لگائے گئے اور انہیں اذیت کیمپوں میں ڈال دیا گیا۔ روس کے ایما پر کمیونسٹ پارٹی کے بانی کوچی جوج پر غداری کے الزام میں مقدمہ چلا کر فائرنگ اسکواڈ نے گولی سے اڑا دیا۔ جیسے ہی انور خوجہ نے محسوس کیا کہ اشتراکیت کے قدم مضبوط ہو چکے ہیں، تمام مساجد اور دینی تعلیم کے اداروں کو بند کر دیا گیا، ائمہ مساجد اور اساتذہ کی تنخواہیں روک دی گئیں، مذہبی رہنماؤں کی کردار کشی کی گئی۔ ۱۹۶۷ء میں یہ سرگرمیاں زور پکڑ گئیں۔ مساجد اور مدرسے ڈھا دیے گئے یا انہیں لائبریریوں اور عجائب گھروں میں تبدیل کر دیا گیا۔ حکومت نے گھروں میں بھی مذہبی شعائر کی ادائیگی گوارا نہ کی اور ایسے خفیہ اسکواڈ بنائے جو مذہبی شعائر ادا کرنے والوں پر نظر رکھیں اور انہیں گرفتار کر لیں۔ ڈاڑھی رکھنا جرم قرار دیا گیا۔ ایئرپورٹ پر جو غیر ملکی سیاح ڈاڑھی میں نظر آتا وہیں پر موجود حجام اس کی ڈاڑھی مونڈ دیتے۔ سارے ملک میں مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر ان کی ڈاڑھیاں مونڈی جانے لگیں۔ قرآن اور دوسری اسلامی کتب کا پڑھنا جرم قرار دے دیا گیا۔ خواتین کو پردہ کرنے کی اجازت نہ تھی بلکہ بالجبر ان کے برقعے چھین کر انہیں مردوں کے روبرو رقص کرنے پر مجبور کیا گیا۔ مسلمانوں کو زبردستی سور کا گوشت کھلایا گیا۔ ان احکامات کی پابندی نہ کرنے والوں کو گولی سے اڑایا جانے لگا۔ مسلمانوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ غیر مسلموں سے شادی کریں، جس کسی نے چوری چھپے مسنون طریقے سے مسلمان عورتوں سے شادی کی ان سے جبری طلاقیں دلوائی گئیں اور پھر جیل میں ڈال دیا گیا۔ اسپتال میں پیدا ہونے والے بچوں کا نام حکومت خود تجویز کرتی تھی، اسلامی نام رکھنا ممنوع تھا، بچوں کو ختنہ کرانے کی سزا تین سال قید با مشقت تھی۔ 
۱۹۷۲ء کے نئے دستور میں دین کے ساتھ کسی بھی تعلق کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔ مذہبی فرائض کی انجام دہی پر دس برس قید سے سزائے موت تک مقرر کی گئی۔ نمازوں کی امامت کرنے اور خطبہ دینے پر پابندی لگا دی گئی۔ رمضان کے روزے رکھنے اور عید منانے کی اجازت نہیں تھی۔ افراد کی نجی زندگی میں بھی مداخلت کی جاتی اور جاسوسی کا کام معصوم بچوں سے لیا جاتا۔ گھر میں آنے والے مہمانوں پر نگاہ رکھی جاتی۔ غیر ممالک سے آنے والوں کے لیے الگ ہوٹل قائم کیے گئے اور انہیں مقامی لوگوں سے ملنے جلنے کی اجازت نہیں۔ ۳۱ اکتوبر ۱۹۸۱ء کو گارڈین میں ایک مغربی سیاسی مبصر گل براؤن نے اپنے مضمون میں انکشاف کیا کہ البانیہ کے لیبر کیمپوں میں کوئی چالیس ہزار شہری جبری محنت پر مامور ہیں، زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جنہیں مذہبی عقائد کی بنا پر پکڑا گیا ہے۔ 
البانیہ کے حکمران اسلام کو ریاست کے لیے بدترین خطرہ خیال کرتے ہیں۔ انور خوجہ کے حکم پر کمیونسٹ پارٹی کے چالیس مسلمان اراکین کا خاتمہ کر دیا گیا۔ حاملہ عورتیں اور بچوں تک کو نہ بخشا گیا۔ انور خوجہ نے اپنے پرانے ساتھی اور وزیراعظم محمد شیخو کو ۱۹۸۱ء میں اس کی بیوی اور دو بچوں سمیت قصرِ صدارت میں ہی گولیوں سے اڑا دیا اور ان کی لاشیں مذہبی رسوم ادا کیے بغیر دفنا دی گئیں۔ اس کے حکم پر ۲۱۶۹ مساجد منہدم کی گئیں اور زنا و شراب وغیرہ کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ۱۹۴۱ء سے پارٹی میں پانچ بار تطہیر کی گئی۔ البانیہ اندرونی طور پر افراتفری کا شکار رہا۔ ۱۹۶۶ء میں مسلح افواج کے تمام رینک ختم کر دیے گئے۔ کمیونسٹ پارٹی پر کسی قسم کی تنقید کی اجازت نہیں۔ ۱۹۷۳ء کے آئین کی رو سے ورکرز پارٹی کا اول سیکرٹری مسلح افواج کا کمانڈر انچیف ہوتا ہے۔ 
البانیہ کی خارجہ پالیسی مستقل نہیں رہی بلکہ اس میں بے ربط تبدیلیاں آتی رہیں۔ انور خوجہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جب ملک میں ظلم و ستم کا بازار گرم ہوا اور عوام کے بنیادی حقوق چھینے جانے لگے تو مغربی اتحادیوں سے البانیہ کے تعلقات بری طرح متاثر ہوئے۔ پہلے البانیہ کے یوگوسلاویہ سے تعلقات بہت مضبوط قائم ہوئے مگر صدر ٹیٹو کی پالیسیوں پر اختلافات کے باعث ٹوٹ گئے۔ ۱۹۴۸ء سے ۱۹۶۱ء تک روس کے ساتھ تعلقات رکھے مگر جب روس میں ترمیم پسندی کا رجحان پروان چڑھا تو البانیہ روس سے بھی لاتعلق ہو گیا۔ ۱۹۶۱ء سے ۱۹۸۷ء تک البانیہ چین کا اتحادی رہا مگر جب چین نے امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تو البانیہ کے انتہاپسند کمیونسٹوں نے اس کی دوستی سے ہاتھ کھینچ لیا۔ البانیہ کی کمیونسٹ حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد کئی اسلامی ملکوں سے اپنے سفارتی تعلقات توڑ لیے۔ البانوی حکومت کے خیال میں روس اور چین میں سے کوئی صحیح مارکسی نہیں بلکہ وہ خود مارکسی نظریات کا صحیح علمبردار ہے۔ ۱۹۶۰ء میں روس نے بغاوت کے ذریعے انورخوجہ کو ہٹانے کی کوشش کی۔ البانیہ بین الاقوامی دہشت گردی کی اعانت میں بھی پیش پیش رہا۔ اس وقت وہ خود کو غیرجانبدار ملک قرار دیتا ہے۔ اپریل ۱۹۸۵ء میں انور خوجہ چالیس سال حکومت کرنے کے بعد انتقال کر گیا۔ اس کے انتقال کے وقت بھی البانیہ میں گیارہ اذیتی کیمپ قائم تھے۔ 
انورخوجہ کے بعد ایک تحقیقاتی ایجنسی کا سربراہ رمیض عالیہ صدر بنا۔ وہ بھی سابق صدر کی پالیسیوں پر گامزن ہے لیکن اس نے اتنی رعایت کی ہے کہ گھروں میں بیٹھ کر عبادت کرنے والوں کو ریاستی مداخلت سے محفوظ رکھنے کی ضمانت دی ہے، مگر ریاستی معاملات میں مذہب کے لیے اب بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔ حکمران جماعت کے دو نظریاتی بازوں ’’روج‘‘ اور ’’پارٹی‘‘ کے نظریات میں اس مسئلے پر اختلاف پیدا ہوا ہے۔ ’’پارٹی‘‘ نے سفارش کی ہے کہ اشتراکی نظریات میں لچک پیدا کی جانی چاہیے، اس کے بر خلاف ’’روج‘‘ کا خیال ہے کہ سخت اقدامات جاری رکھنے چاہئیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ رمیض عالیہ اپنے پیشروؤں کے مقابلے میں نرمی کی پالیسی اختیار کریں گے۔
البانیہ میں اس تمام تر جبر کے باوجود مسلمانوں کا اسلام سے لگاؤ ختم نہیں کیا جا سکا ہے اور اس پر ترک ثقافت کے گہرے اثرات اب بھی باقی ہیں۔ لوگ کھلے پاجامے پہنتے ہیں، سفید ترکی ٹوپی استعمال کرتے ہیں، کچھ عورتیں ابھی تک ترکی لباس پہنتی ہیں۔ اپریل ۱۹۸۴ء میں سرکاری اخبار نے انکشاف کیا کہ مسلمان اپنے لڑکوں کے ختنے کراتے ہیں، مزاروں پر جاتے ہیں، وہ مذہبی پس منظر میں شادی کرتے ہیں۔ دوسرا اخبار لکھتا ہے کہ لوگ اب بھی مذہب پر قائم ہیں، حکومت اس کا قلع قمع کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی کانفرنس، مؤتمر عالم اسلامی اور دوسرے پلیٹ فارموں سے جب بھی مسلمان اقلیتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی جائے اس میں البانیہ کے مسلمانوں کے حقوق کا مطالبہ بھی شامل ہو۔ 

سلمان رشدی، آزادیٔ رائے اور برطانوی حکومت

حافظ محمد اقبال رنگونی

گذشتہ چند دنوں میں ’’شیطانک ورسز‘‘ اور اس کے بدبخت مصنف مسٹر سلمان رشدی کے خلاف مہم نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔ اس کی وجہ جناب خمینی کا وہ اعلان ہے جو اس نے مسٹر رشدی کے قتل سے متعلق جاری کر دیا۔ برطانوی حکومت کے ساتھ یورپی ممالک نے اس اعلان کی شدید مذمت کرتے ہوئے اپنے اپنے سفراء واپس بلانے کا اعلان کیا جبکہ ایران نے بھی ان تمام ممالک سے اپنے نمائندے واپس بلا لیے۔ لیکن علامہ خمینی نے اپنا بیان واپس لینے سے انکار کرتے ہوئے انعام میں مزید اضافہ کر دیا۔ 
جناب خمینی کے اس اعلان پر برطانیہ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان سخت کشیدگی پائی جا رہی ہے۔ برطانوی ذرائع ابلاغ اور اخبارات نے دل کھول کر اس موضوع کو سرِفہرست رکھا اور تبصرہ شروع کر دیا۔ حکومت کے ساتھ ساتھ اخبارات نے بھی ایران کی اس دھمکی کو اپنے ملک میں مداخلت قرار دے کر برطانوی عوام میں ایک ذہنی انقلاب پیدا کر دیا۔ بعض اخبارات نے اس موضوع کو اچھال کر اہل اسلام کے خلاف مضامین اور تبصرے شائع کیے۔ تبصرہ نگاروں میں ان نام نہاد مسلمانوں کو سرفہرست رکھا گیا جن کی فکریں آزاد اور جن کے خیال مغربی تہذیب سے آراستہ تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کا انداز بیان وہی بلکہ اس سے بدتر ہو گا جو کسی غیر مسلم مبصر کا ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ان نام نہاد مفکروں نے اس گستاخانہ ناول کو تحریری آرٹ قرار دے کر پرزور حمایت کی اور اظہارِ رائے کی آزادی کے حق میں ووٹ دے کر کھلے لفظوں میں اس ناول کی اشاعت کو اس کا جائز حق بتلا دیا۔ 
بعض لوگوں نے ریڈیو انٹرویو کے دوران اس بات کی وضاحت کی کہ اس اعلان کا تعلق صرف شیعیت کے ساتھ ہے اور پوری دنیا میں شیعہ مذہب صرف ۱۲ فیصدی ہے، سنی مسلمانوں کا اس اعلان سے کوئی تعلق نہیں نہ ہی اس کی تائید ہے۔ کچھ دانشوروں نے مذہبی تشدد پسندی قرار دے کر جناب خمینی کے اس اعلان کی مخالفت کے ساتھ علماء کرام اور مسلمانانِ برطانیہ کے مطالبہ پر کڑی نکتہ چینی کی۔ 
دریں اثناء فرانس میں کچھ روشن خیال عرب اور فرانسیسی ادیبوں نے سلمان رشدی اور اس کی گستاخانہ کتاب کے حق میں باقاعدہ مظاہرے بھی کیے۔ غرضیکہ جس طرف نظر اٹھائیے نئی باتیں نظر آئیں گی۔ ٹی وی اور اخباروں کے مبصروں نے مختلف لوگوں سے انٹرویو لیے اور اس کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مسلمانوں میں اس موضوع پر اتحاد نہیں بلکہ تضاد بیانیاں ہیں، اس طرح مسلمانوں کی اجتماعیت میں رخنہ پڑ گیا اور معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔ 
برطانیہ میں بعض اخبارات خصوصاً نیشنل فرنٹ گروہ کو یہ سنہری موقع مل گیا، انہوں نے اس موضوع کو اس قدر حاشیہ آرائی کے ساتھ عام کیا کہ مقامی باشندوں کو مسلمانوں کی مخالفت اکسا دیا جائے اور مسلمانوں کو متشدد، تخریب کار، دہشت گرد اور جنونی قرار دے کر منافرت اور کشیدگی کی فضا پیدا کر دی ہے۔ مسلمانوں کے دفاتر اور مساجد اور دیگر تنظیموں کو فون اور خطوط کے ذریعے ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ مانچسٹر کے ایک علاقے میں مسلمانوں کے گھروں میں گمنام خطوط ارسال کیے گئے جس میں رشدی کی مخالفت ترک کرنے کا مشورہ دیا گیا، جیو اور جینے دو کے اصول پر عمل کرنے کی تاکید کی گئی اور دبے لفظوں میں دھمکی اور اخراج کا بھی تذکرہ کر دیا۔ بریڈفورڈ کے اسلامی دفاتر پر حملے کی خبریں اور دیگر دھمکی آمیز فون اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہیں کہ برطانوی مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کے لیے پوری تیاری کے ساتھ سازشوں کا جال بچھا دیا گیا ہے۔ 
لیکن اس سب کے باوجود برطانوی حکومت اور برطانوی عوام نے یہی تہیّہ کر رکھا ہے کہ اہلِ اسلام کے مطالبہ کو مسترد کر دیا جائے۔ یورپی ممالک کے ارکان بھی اس کے حامی ہیں اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ برطانیہ ایک آزاد ملک ہے، یہی آزادیٔ تقریر و تحریر معاشرہ کا ایک حصہ اور قانون ہے، اس پر کسی کی مداخلت یا پابندی قابل قبول نہیں۔ بس جسے دیکھئے آزادیٔ تحریر کے گیت گا رہا ہے لیکن کسی نے آج تک ٹھنڈے دل سے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ آخری اس کتاب میں وہ کون سی توہین و گستاخی ہے جس نے اہل اسلام کو مساجد اور گھروں سے سڑکوں پر لاکھڑا کر دیا ہے اور برطانیہ کے درودیوار ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کے اعلان سے گونج اٹھے ہیں۔ آخر کوئی بات تو ہے جس کی وجہ سے یہ اضطراب اور بے چینی پائی جا رہی ہے، افسوس کہ اس جانب کسی نے توجہ نہ کی۔ 
(۱) ہم نے مانا کہ یہ آزاد ملک ہے، یہاں آزادیٔ تقریر و تحریر کی فضا ہے لیکن اس آزادی کا مطلب یہ تو نہیں کہ کسی کی ماں بہن پر کھلے عام تبرّا کیا جائے، کسی کو گالی دی جائے، کسی کا گریبان پڑا جائے، کسی کے مذہب پر اس طرح کا کیچڑ اچھالا جائے، کسی کے خلاف اس قسم کی بدگوئی و بدزبانی اور سب و شتم کا مظاہرہ کیا جائے۔ اگر اس کا نام آزادی ہے تو یہ لفظ آزادی کی سخت توہین ہے، اس کا نام آزادی نہیں بلکہ سراسر ظلم و زیادتی ہے۔ 
(۲) آزادیٔ تقریر و تحریر کا قانون اپنی جگہ مسلّم لیکن کسی کی توہین و گستاخی اور ہتک عزت جرم ہے یا نہیں؟ کیا اس کا کوئی قانون نہیں؟ کیا برطانیہ کی عدالتوں میں توہینِ عزت کے مقدمات نہیں آتے؟ کیا ہتکِ عزت کے خلاف جرمانہ عائد نہیں کیا جاتا؟ غور فرماویں برطانیہ میں ایک نہیں ہزاروں مقدمات طے پا چکے ہیں جن میں عدالتوں نے ہتکِ عزت پر باقاعدہ سمن جاری کیے، جس کی توہین و گستاخی کی گئی اسے ہزاروں کی رقم دینےکا فیصلہ سنایا گیا اور اس آزادیٔ تقریر و تحریر والے کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا گیا۔ ابھی آج کی تازہ رپورٹ ملاحظہ فرمائیے:
’’فلم پروڈیوسر اور ڈائریکٹر مسٹر مچل ونو نے اخبارات کے خلاف ہرجانہ اور مقدمہ کا خرچہ لندن میں جیت لیا ہے۔ مسٹر مچل کے خلاف ایک سال قبل نیوز آف دی ورلڈ نے ایک گندہ مضمون شائع کیا تھا۔ مسٹر مچل نے ہتکِ عزت کا مقدمہ دائر کر کے عدالت سے اس مقدمہ کو جیت لیا ہے کیونکہ اخبارات نے ان کے خلاف غلط بیانی کی تھی۔‘‘ (مانچسٹر ایوننگ نیوز ۲۳ فروری ۱۹۸۹ء)
ملاحظہ فرمائیں، اگر اس اخبار نویس کو آزادیٔ تحریر کی اجازت تھی تو پھر اس پر کیوں مقدمہ دائر کیا گیا؟ عدالت نے کیوں جرمانہ دینے کا فیصلہ سنایا؟ وجہ یہ ہے کہ آزادیٔ تحریر کا مطلب یہ نہیں کہ ہر کسی کی پگڑی اچھالی جائے اور ہر ایک کی بے عزتی کرتا پھرے، اور اگر کسی نے بلاثبوت یہ حرکت کی تو قابلِ مواخذہ ہو گا۔ اس سے یہ ثابت کرنا آسان ہو گا کہ اس ملک میں جہاں آزادیٔ تقریر و تحریر کی اجازت اور فضا ہے تو ساتھ ہی دوسرے کی توہین و گستاخی بھی قانوناً جرم اور قابلِ مواخذہ ہے۔ 
اب اگر اس گستاخانہ ناول کے صرف ایک ہی رخ پر اصرار کرتے رہنا کہ یہ ناول آزادیٔ تقریر و تحریر کے ضمن میں ہے اور دوسرے رخ سے یکر صرفِ نظر کر دینا انصاف کے نام پر بے انصافی، آزادی کے نام پر بے عزتی نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا اس کتاب میں توہین و گستاخی پر مشتمل کوئی عبارت نہیں؟ کیا سب و شتم کا برملا اظہار نہیں؟ پھر گستاخی بھی ایرے غیرے کی نہیں، ایک ایسی مقدس و محترم ہستی کی جن کی شرافت پر آسمان کے معصوم فرشتوں کو بھی ناز ہے، جن کی عفت و عصمت کا اعتراف اہلِ اسلام ہی نہیں غیر مسلم بھی کر چکے ہیں، جن کی پاکیزہ زندگی پر غیر مسلموں کی شہادتیں بھی موجود ہیں، جن کے ماننے والے اور جنہیں اپنے اہل و عیال، عزیز و اقارب بلکہ کل کائنات کو ان پر قربان کر دینے والے ایک دو نہیں ارب ہا ارب کی تعداد میں پورے عالم میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر اہلِ اسلام نے اس انتہائی گستاخی و توہین کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے برطانوی عدالتوں اور حکومت سے انصاف کا مطالبہ کیا تو آخر کون سا جرم کیا؟ کیا گستاخی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا جرم ہے؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر اہلِ اسلام کے اس مطالبہ کو پورا کرتے ہوئے تسلیم کرنا حکومت برطانیہ کی قانونی ذمہ داری بھی ہے اور اخلاقی ذمہ داری بھی۔ 
(۳) اگر حکومتِ برطانیہ ’’آزادیٔ تقریر و تحریر‘‘ پر ہی اصرار کرتی رہے تو انہیں اس کا جواب دینا ہو گا کہ جب متحدہ ہندوستان میں انگریزی اقتدار کے خلاف علماء کرام اور عوام نے تقریریں کیں، کتابیں لکھیں، آزادی کے لیے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا تو آخر انہیں درختوں پر کیوں لٹکا دیا گیا؟ کیوں قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کیا گیا؟ آزادیٔ تقریر و تحریر کے ان متوالوں کو آخر کس جرم میں سزا کے شکنجے میں کسا گیا؟ اس وقت بھی یہی قانون تھا تو اس وقت اس عنوان کا گلا کس لیے گھونٹ دیا گیا؟ اگر اس وقت آزادیٔ تقریر و تحریر کا گلا اس لیے گھونٹ دیا گیا تھا کہ اس سے برطانوی اقتدار کی توہین و گستاخی ہو رہی ہے تو پھر خدارا انصاف فرمائیے کہ اس توہین اور انتہائی گستاخی کو کس لیے آزادیٔ تقریر و تحریر کا عنوان دیا جا رہا ہے؟ کیا اسی کا نام انصاف ہے؟
عجیب بات ہے کہ جب مسئلہ اپنی ذات کا آ جائے تو یہی آزادیٔ تقریر و تحریر جرم ہو جاتی ہے اور جب مسئلہ دوسرے فریق کا بن جائے تو پھر یہی عنوان انصاف قرار پاتا ہے، فیاللعجب۔ 
(۴) بعض دانشوروں نے اس کتاب میں انتہائی گستاخانہ جملوں کا اعتراف تو ضرور کیا لیکن آزادیٔ تقریر و تحریر کا عنوان قرار دے کر پھر اسی لکیر کے فقیر بنے رہے۔ ہم ان سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اس کتاب میں جتنے گستاخانہ جملے ہیں اگر وہاں سے ان ناموں کو ہٹا کر اس کی جگہ ملکہ برطانیہ، اس کا خاوند، اس کی صاحبزادی، اس کی بہو، اس کے عزیز و اقارب کے نام لکھ دی ےجائیں، سٹی آف جاہلیہ لندن اور نیویارک کو قرار دے دیا جائے، --- کا لفظ سر جیفری ہاؤ کے لیے لکھا جائے (وغیر ذالک) تو انصاف فرمائیے اس وقت آپ کا کیا ردعمل ہو گا؟ کیا آپ اس کتاب کو برداشت کریں گے؟ کیا اس وقت آپ کی غیرت اس بات کو گوارا کرے گی کہ اس کتاب کی عام اشاعت کی جائے۔ اس وقت اگر آپ پابندی لگانا چاہیں اور دوسرے لوگ اسے آزادیٔ تقریر و تحریر کا عنوان دے کر آپ کے خلاف محاذ بنا لیں تو کیا آپ گوارا کر لیں گے؟ چلئے ملکہ نہ سہی، وزیر اعظم نہ سہی، آپ کے والدین کے بارے میں یہ عنوان اختیار کر لیا جائے تو آپ کا ردعمل کیا ہو گا؟
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر آپ میں ذرہ بھر بھی شرم و حیا ہو گی تو آپ اس کتاب کے خلاف سخت سے سخت اقدام کرنے سے گریز نہ کریں گے۔ اس لکھنے والے کو یا تو دماغی مریض قرار دے کر پاگل خانے بھیجنے اور اس کا معائنہ کرنے کی ہدایت کریں گے یا پھر اس گستاخ کو قانون کے شکنجے میں کس کر رکھ دیں گے کہ اس نے بلاثبوت اس دریدہ دہنی و گستاخی کا مظاہرہ کر کے ملکہ یا وزیر یا میرے والد کو بدنام و بدکام بتلا دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت آپ کا قانون یہ نہیں کہے گا کہ آزادیٔ تقریر و تحریر کا مطلب ملکہ برطانیہ کو --- کہنا ہے، کسی محترم کو شیطان کے نام سے پکارنا ہے۔ بس اسی بات کو ہم سمجھانا چاہتے ہیں کہ آزادیٔ تقریر و تحریر کا قانون اپنی جگہ مسلّم لیکن جب کسی محترم و معظم کی اس انداز میں پگڑی اچھالی جائے تو اس کا نام سراسر زیادتی و ظلم ہو گا اور یہ چیز قانوناً جرم سمجھی گئی ہے۔ 
(۵) آزادیٔ تقریر و تحریر کی فضا کے ساتھ ساتھ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ جارح کون ہے؟ کس نے دوسرے پر حملہ کیا؟ کس نے کس کی عزت پر حملہ کیا؟ برطانوی قانون میں یہ شق بھی تو موجود ہے کہ جارح مجرم ہے اور اس کے خلاف ہر ممکن ذرائع و وسائل اختیار کرنا ان کا فریضہ ہے۔ مثال کے طور پر گذشتہ چند سالوں میں روس جیسی سپر طاقت نے افغانستان کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا، ظلم و ستم کے ذریعے اپنا قبضہ جاری رکھا، لیکن مغربی ممالک خصوصاً برطانیہ نے اس جارحیت کے خلاف سخت قدم اٹھایا، جارح کو برا بھلا کہا بلکہ جارح کے خلاف قراردادیں پاس کرنے میں پیش پیش رہے۔ یہی نہیں بلکہ برطانیہ نے ہزاروں پونڈ کی افغان مجاہدین کی امداد کی، انہیں ہتھیاروں سے لیس کیا، انہیں تمام ذرائع و وسائل مہیا کیے، ان کی بھرپور حمایت کی۔ آخر کیوں؟ اس لیے کہ وہ روس جارح تھا اس نے کسی کا دل دکھایا تھا تو حکومتِ برطانیہ سے برداشت نہ ہو سکا۔ لیکن جب یہی مسئلہ ان کے ملک میں پیش آتا ہے تو جرأت کی انتہا نہیں رہتی کہ جارح (مسٹر رشدی) کو نہ صرف حمایت کا یقین دلایا جاتا بلکہ اس کے بچاؤ کے لیے ہر ممکن ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں۔ روزانہ ہزاروں کا خرچ جارح پر برداشت کرنا اپنا فرض سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ یورپی ممالک کے ارکان کو جارح کی حمایت کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ روس تو جارح ٹھہرا لیکن ان کے مفادات پر ضرب پڑی تو مسٹر رشدی جارح نہیں ٹھہرا اس لیے کہ ان کے مفادات اس سے وابستہ تھے۔ خیال فرمائیے جارح کے موضوع پر ذہنیت میں کتنا فرق واقع ہو رہا ہے۔ 
ہم یہی کہنا چاہتے ہیں کہ جارح کے خلاف آپ کا جو قانون ہے وہی قانون مسٹر رشدی پر لاگو ہونا چاہیے کیونکہ وہ جارح ہے اس نے جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے اور ہزاروں نہیں بلکہ بلین مسلمانوں کے قلوب زخمی کیے ہیں۔ کیا یہ جارح کی فہرست میں نہیں آتا؟
ہماری ان ساری گذارشات کا حاصل یہ ہے کہ ’’شیطانک ورسز‘‘ اور اس کا بدبخت مصنف برطانوی قانون کے اعتبار سے بھی مجرم ہے اور ہم قانون کی روشنی میں یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس مجرم کو سخت سزا دی جائے اور قانون کو حرکت میں لایا جائے۔ یہی مطالبہ مسلمانانِ برطانیہ بار بار کر رہے ہیں جسے پورا کرنا برطانوی حکومت کا قانونی فریضہ بھی ہے۔ 
(۶) علاوہ ازیں یہ بھی ایک دعوٰی ہے کہ برطانیہ ملحد اور کمیونسٹ ملک نہیں، انہیں اعتراف ہے کہ یہ ملک ایک مذہبی (عیسائی) ملک ہے، یہاں کی ملکہ عیسائی فرقے کی ایک مذہبی رہنما بھی ہیں۔ اگر واقعتاً یہ دعوٰی حقیقت پر مبنی ہے تو پھر مذہبی اعتبار سے اس موضوع کا حل آسان ہے۔ اس کتاب میں اہلِ اسلام کے مذہب خصوصاً پیغمبرانِ اسلام کی سخت توہین و گستاخی کی گئی، انتہائی گندے الفاظ استعمال کیے گئے۔ اگر مذہبی نقطۂ نظر سے اس موضوع کو دیکھا جائے تو بھی بدبخت رشدی مجرم کی حیثیت سے سامنے آتا ہے لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس موضوع نے برطانوی دعوٰی کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ یہاں یہ بات صاف واضح ہو جاتی ہے کہ اس ملک میں مذہب نام کی کوئی چیز نہیں، مذہب کی قدر و قیمت نہیں، ان میں الحاد، بدمذہبی سرایت کر چکی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس گستاخانہ ناول کو مذہب کی بجائے سیاست کی نذر کر دیا گیا حالانکہ یہ موضوع سیاسی نہ تھا ایک خالص دینی و مذہبی معاملہ تھا۔ اگر مذہبی اعتبار سے موجودہ حکومت بغور جائزہ لے تو انہیں یقیناً اہلِ اسلام کا مطالبہ معقول نظر آئے گا لیکن حیف در حیف کہ اس خالص دینی موضوع کو سیاسی موضوع بنا کر اہلِ اسلام کو مجرم قرار دیا گیا اور مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی۔
(۷) جہاں تک نفس مسئلہ قتل کا تعلق ہے شریعتِ اسلامیہ نے اصول بیان کرتے ہوئے اس کی اجازت دے رکھی ہے۔ قرآن کریم میں، احادیث پاک میں یہ مضامین صراحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ خود سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص کسی پیغمبر کی توہین اور سب و شتم کا ارتکاب کرے اس کی سزا یہی قتل ہے۔ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اقدس میں مرتد پر اسلامی سزا نافذ کی گئی اور شاتمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حکم سنایا گیا کہ انہیں قتل کر دیا جائے۔ علامہ قاصی عیاضؒ نے ’’الشفاء‘ میں پوری تفصیل کے ساتھ اس موضوع پر کلام فرمایا ہے جس سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ شریعتِ اسلامیہ نے ارتداد اور گستاخِ رسول صلی الہ علیہ وسلم کے لیے ایک قانون بنایا ہے اور یہ قانون رہتی دنیا تک رہے گا، اس میں ترمیم یا تنسیخ کا دعوٰی کرنا اسلام سے ہاتھ دھونا ہے۔ مسٹر رشدی نے اپنے آپ کو چونکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے پیش کر کے گستاخیٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارتکاب کیا ہے اس لیے وہ اسلامی نقطۂ نظر سے مرتد اور اسی سزا کا مستحق ہے۔ 
لطف کی بات یہ ہے کہ یہ حکم اور قانون صرف شریعتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم ہی کا نہیں بلکہ بائبل نے بھی یہی سزا تجویز کر رکھی ہے۔ شریعتِ اسلامیہ میں پیغمبر کی گستاخی کفر اور اس کی سزا قتل بیان کی گئی جبکہ بائبل نے قاضی اور کاہن کی گستاخی پر قتل کا فتوٰی صادر کیا ہے۔ غور سے ملاحظہ فرمائیے:
’’شریعت کی جو بات وہ تجھ کو سکھائیں اور جیسا فیصلہ تجھ کو بتائیں اسی کے مطابق کرنا اور جو کچھ فتوٰی وہ دیں اس سے داہنے یا بائیں نہ مڑنا اور اگر کوئی شخص گستاخی سے پیش آئے تو اس کاہن کی بات جو خداوند تیرے خدا کے حضور خدمت کے لیے کھڑا رہتا ہے یا اس قاضی کا کہا نہ سنے تو وہ شخص مار ڈالا جائے اور تو اسرائیل سے ایسی برائی کو دور کر دینا اور سب لوگ سن کر ڈر جائیں گے اور پھر گستاخی سے پیش نہیں آئیں۔‘‘ (استثناء: باب ۱۷، آیت ۱۱ تا ۱۳، ص ۱۸۳)
مطلب یہ کہ تورات کے معلم کی بات کا انکار اور ان کے فتوٰی سے انحراف کرنے والا گستاخ اور واجب القتل ہے اور یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کا دور کرنا ازحد ضروری قرار دیا گیا۔ مسلمانوں کو خونخوار اور ظالم قرار دینے والے ذرا اپنی کتاب مقدس کی طرف نظر کریں اور مذہبی حیثیت سے اس موضوع کو دیکھیں تو انہیں شریعتِ اسلامیہ پر اعتراض کی کوئی گنجائش نظر نہیں آئے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس کا انکار کر دیں جیسا کہ گذشتہ سطور میں عرض کیا گیا کہ ان کے نزدیک مذہب کی کوئی حیثیت و وقعت نہیں ہے۔ 
پیش نظر رہے کہ کتاب استثناء کے بارے میں یہودی اور عیسائی دونوں فریق کے علماء اس پر متفق ہیں کہ یہ کتاب سیدنا حضرت موسٰی علیہ السلام کی تصنیف اور اپ کا بیان کردہ قانون ہے جس طرح یہودیوں کو ان احکامات پر عمل کرنا واجب ہے اسی طرح عیسائی قوموں کو بھی اس کا ماننا لازم ہے۔ اب دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ 
(۸) اب اگر یہ آج کی مغربی اور آزاد خیال قومیں یہی اعتراض کرتی پھریں کہ اسلام کے قوانین بڑے سخت اور تشدد پر مبنی ہیں، خون خرابے کے احکام ان میں موجود ہیں، آزادی کے دشمن ہیں تو بصد ادب یہ گزارش کرنا چاہیں گے کہ دوسروں کی آنکھ میں تنکا دکھانے والے اپنی آنکھ کا شہتیر کیوں نہیں دیکھتے؟ ہم یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ بائبل نے جو سزائیں تجویز کی ہیں ان کو دیکھنے والے اسلامی قانون پر اعتراض کرنے کے لائق ہی نہیں، ہم تفصیل میں جائے بغیر چند سزائیں درج ذیل کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیے:
  1. غیر اللہ کی عبادت پر سزائے قتل (دیکھئے خروج: باب ۲۲، آیت ۲۰۔ استثناء: باب ۱۳، آیت ۶ تا ۱۰)
  2. ماں باپ پر لعنت کرنے والے کے لیے سزائے قتل (دیکھئے خروج: باب ۲۱، آیت ۱۵)
  3. نافرمان بیٹا قتل کا مستوجب (دیکھئے استثناء: باب ۲۱، آیت ۱۸)
  4. اغوا کرنے والے کو قتل کر دو (دیکھئے خروج: باب ۲۱، آیت ۱۵۔ استثناء: باب ۲۴، آیت ۷)
  5. سوتیلی ماں بہو سے زنا کرنے والے قابل گردن زنی (دیکھئے احبار: باب ۲۰، آیت ۱۱)
  6. لوطی کی سزا قتل (دیکھئے احبار: باب ۲۰، آیت ۱۳)
  7. بیوی اور ساس کو اکٹھا رکھنے والا (دیکھئے احبار: باب ۲۰، آیت ۱۴)
  8. بہن کو بے شرم کرنے والا (دیکھئے احبار: باب ۲۰، آیت ۱۷)
  9. زانیہ اور زانی قابل قتل (دیکھئے احبار: باب ۲۰، آیت ۱۰۔ استثناء: باب ۲۲، آیت ۲۲)
  10. جھوٹا نبی قتل کیا جائے (دیکھئے استثناء: باب ۱۳، آیت ۲ ۔ باب ۱۸، آیت ۲۰)
  11. ایک موقع پر پہاڑ چھونے والا قتل کیا جائے (دیکھئے خروج: باب ۱۹، آیت ۱۳)
غور فرمائیے، بائبل کی سزائیں کس القاب کی مستحق ہیں؟ اسلام کے قوانین کو وحشیانہ اور ظالمانہ قرار دینے والے بائبل کی تجویز کردہ سزاؤں کو کس کھاتے میں ڈالیں گے؟ لہٰذا قانونِ خداوندی پر اعتراض سے قبل اس کے اصولوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے، جب تک ان اصولوں سے واقفیت نہ ہو گی مذہب کی قدر نہیں ہو سکتی، الحاد و بے دینی، زندقہ اور دیگر عقائد سرایت کرتے جائیں گے، پھر اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ خدائی قانون پر انسانی قوانین غالب آتے جائیں گے جو ہر روز ترمیم و تنسیخ کے محتاج اور نقصان پر مبنی ہوں گے۔ 
الغرض گذشتہ سطور سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ ’’شیطانک ورسز‘‘ اور اس کا بدبخت مصنف مسٹر رشدی مذہب اور قانون دونوں کی روشنی میں مجرم ہیں اور مجرم کے ساتھ اس انداز میں پیش آنا (جیسا کہ ہو رہا ہے) مجرم اور جرم دونوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جس کا انجام بالآخر افسوسناک ہی ہے۔ حکومتِ برطانیہ سے گزارش ہے کہ اہلِ اسلام نے جس بات کا مطالبہ کیا ہے وہ عقلاً و نقلاً صحیح ہے۔ ہم نے پہلے پیار و محبت کے ساتھ اس موضوع کا حل مانگا مگر مسترد کر دیا گیا، احتجاجی جلسے اور مظاہروں سے حکومتِ برطانیہ کو اپنے رنج و غم کا اظہار کیا، اہلِ اسلام نے انفرادی و اجتماعی طور پر خطوط بھیجے لیکن ہر مرتبہ انکار کا جواب ملتا رہا اور یوں اہلِ اسلام کے زخموں پر مزید نمک پاشی کی گئی۔ لیکن ہم بتا دینا چاہتے ہیں کہ یہ موضوع کوئی نیا نہیں۔ ماضی میں بھی ایسے بے شمار واقعات پیش آچکے ہیں اور دنیا نے حق و صداقت کی فتح اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ اہلِ اسلام ہر نازک موڑ پر کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں، ان شاء اللہ اس مرتبہ بھی خدائی قوت و نصرت ہمارے شاملِ حال ہو گی، حق کا جھنڈا بالآخر اونچا ہو گا۔ ’’جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقًا‘‘ اعلانِ خداوندی ہے۔ ہمیں دبانے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا

شیطانک ورسز ۔ غیر مسلموں کی نظر میں

رسوائے زمانہ کتاب ’’شیطانک ورسز‘‘ اور اس کے بدبخت مصنف مسٹر سلمان رشدی کے بارے میں پوری دنیا میں عموماً اور عالمِ اسلام میں خصوصاً جو ہیجان پیدا ہوا ہے اس نے پوری دنیا کی سیاست پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ اس سلسلہ میں احقر نے ایک مقالہ ’’شیطانک ورسز ۔ قانون اور مذہب کی نظر میں‘‘ تحریر کر کے یہ ثابت کیا تھا کہ رشدی اور اس کا گستاخانہ ناول واقعتاً مجرم ہے اور اس کی حمایت کرنا مجرم کی حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف ہے۔ 
عالمِ اسلام میں مسلمانوں کی طرف سے ردعمل ایک فطری عمل ہے لیکن غیر مسلموں نے بھی اس بات کا اعتراف کر لیا کہ یہ گستاخانہ ناول اس لائق نہیں کہ اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ذیل میں اختصارًا ان اعترافات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو اردو روزناموں سے ماخوذ ہیں۔ جہاں تک انگریزی اخبارات کا تعلق ہے اس کی فہرست بھی ہمارے پاس موجود ہے اور اس سے کہیں زیادہ ہے، امید ہے کہ عالمی حکومتیں اپنے موقف پر نظرثانی کرتے ہوئے اس کتاب کے ضبط ہونے کا فتوٰی جاری کریں گی۔

مسز تھیچر کا بیان

برطانوی وزیراعظم مسز تھیچر نے سلمان رشدی کے ناول کو توہین آمیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ خود ہمارے مذہب میں لوگ ایسی چیزیں کرتے ہیں جو ہم میں سے کچھ کے لیے سخت توہین آمیز ہیں اور ہم شدت سے ان کا برا مانتے ہیں اور یہی کچھ اسلام کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ مسز تھیچر نے کہا کہ ان کی رائے میں یہ عظیم مذاہب اتنے مضبوط اور گہرے ہیں کہ وہ اس قسم کے واقعات کی مزاحمت کر سکتے ہیں۔ (جنگ ۔ ۶ مارچ ۱۹۸۹ء)

وزیرداخلہ کا بیان

برطانوی وزیرداخلہ مسٹر ڈگلس ہرڈ نے کہا کہ شیطانک ورسز میں اہلِ اسلام کی گستاخی کی گئی ہے لیکن یہ ایک آزاد ملک ہے اور میں اہلِ اسلام کے جذبات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں لیکن انہیں قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے۔

وزیرخارجہ کا بیان

برطانوی وزیرخارجہ سرجیوفری ہاؤ نے کہا کہ مسٹر رشدی کی کتاب شیطانک ورسز انتہائی حد تک ناروا ہے اور انہیں اس بات کا پورا احساس ہے کہ اس کے خلاف مسلمان کیوں اس قدر مظاہرے کر رہے ہیں۔ (ملت ۔ ۲ مارچ)

کیتھولک لیڈر کا بیان

فرانس کے کیتھولک لیڈر البرٹ ڈیکوٹر نے رشدی کے ناول ’’شیطانک ورسز‘‘ اور ’’دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ‘‘ نامی فلم پر تنقید کرتے ہوئے اسے مذاہب کے پیروکاروں پر ایک حملہ قرار دیا۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ کل عیسائیوں کے خلاف کارروائی کی گئی تھی اور اب شیطانک ورسز کے ذریعے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا گیا ہے۔ (جنگ۔ ۲۳ فروری)

وٹیکن کا بیان

پوپ جان پال کے شہر وٹیکن سٹی کے اخبار نے سلمان رشدی کی کتاب کی شدید مذمت کی ہے اور اس کو غلیظ اور گالیوں پر مبنی کتاب قرار دیا ہے۔ وٹیکن کے اخبار میں کہا گیا کہ یہ کتاب دنیا بھر کے اربوں مسلمانوں کی دلآزاری کا سبب بنی ہے۔ اخبار نے اپنے ادارتی کالموں میں لکھا ہے کہ وٹیکن کو مسلمانوں کے جذبات کا احساس ہے، پوپ اور وٹیکن کے حکام اس کتاب کی مذمت کرتے ہیں اور اسے گالیوں پر مبنی کتاب تصور کرتے ہیں۔ اخبار نے لکھا کہ اس کتاب کا بنیادی مقصد نفرت پھیلانا ہے۔ یہ صرف اسلام کے خلاف ہی نہیں بلکہ خدائے تعالیٰ کے خلاف بھی ہے اور اخلاقیات کے خلاف بھی۔ (ملت ۔ ۶ مارچ)

برٹش لائبریری کا ردعمل

برٹش لائبریری نے رشدی کی کتاب کو فحش قرار دے دیا ہے اور اسے دیگر فحش لٹریچر کے ساتھ الماری میں بند رکھا جا رہا ہے، اسے حاصل کرنے کے لیے خصوصی اجازت لازمی قرار دے دی گئی ہے۔ (ملت ۔ ۶ مارچ)

بشپ آف بریڈفورڈ کا بیان

بریڈفورڈ کے بشپ ریورنڈ کرولمین نے کہا ہے کہ شیطانک ورسز کی وجہ سے شہر میں نسلی صورتحال متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے اس کتاب کو بھونڈا ادب قرار دیا اور کہا کہ وہ اس کتاب سے متاثر نہیں ہوئے اور ان کی خواہش ہے کہ یہ کتاب نہ لکھی گئی ہوتی۔ (ملت ۔ ۲۷ فروری)

بشپ آف ڈڈلی کا بیان

ڈڈلی کے بشپ نے کہا کہ سلمان رشدی کی تحریر کردہ شیطانک ورسز انہوں نے پڑھنی شروع کی تو نہایت بے ہودہ لگی۔ میں اسے ایک تہائی سے زیادہ نہ پڑھ سکا اور لائبریری کو واپس کر دی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس قدر فضول تحریر لکھنے کی ضرورت کیا تھی۔ مجھے بخوبی احساس ہے کہ اس کتاب سے مسلمانوں کے جذبات کو کتنا شدید دھچکا پہنچا ہے۔ میں اس کتاب کی سخت مذمت کرتا ہوں۔ (جنگ ۔ ۳ مارچ)

برطانوی ادیب کا بیان

برطانیہ کے معروف ادیب رونلڈ ڈاہل نے رشدی پر تنقید کرتے ہوئے مسلمانوں کو اشتعال دلانے والا خطرناک موقع پرست قرار دیا۔ اس مصنف نے رشدی کی حمایت کرنے والے تمام برطانوی مصنفوں سے اپنا ناطہ توڑتے ہوئے ٹائمز کو ایک خط تحریر کیا جس میں رشدی پر الزام لگایا کہ اس نے ایک اختلافی کتاب کو بیسٹ سیلر کی لسٹ میں شامل کرانے کے لیے سنسنی خیزی سے کام کیا ہے۔ انہوں نے لندن کے ایک اور اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ رشدی نے ایک قوم کو دوسری قوم ک ےمقابلہ میں لا کھڑا کیا ہے۔ (ملت ۔ یکم مارچ)

مائیکل ڈرکن کا بیان

یونائیٹڈ نیشنز ایسوسی ایشن کے چیئرمین مائیکل ڈرکن نے کہا کہ برطانوی حکومت یہ دلیل دیتی ہے کہ آزادیٔ تحریر کے اصول کے تحت ہم کتاب کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے جبکہ آزادی کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں، آزادی کے ساتھ کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ کسی اور کے مذہب پر کیچڑ اچھالا جائے، اپنی زبان کو بے لگام کر کے دوسروں کو دکھ پہنچایا جائے۔ اس لیے میں اس کتاب پر پابندی کے حق میں ہوں۔ (جنگ ۔ ۳ مارچ)

لیبر پارٹی کے ارکان کا بیان

برطانیہ کی لیبر پارٹی کے تین ممبران نے پارلیمنٹ میں ایک قرارداد پیش کی ہے جس میں رشدی پر زور دیا گیا کہ وہ اپنے ناول کی تیاری کا کام روک دے۔ مسٹر میڈن، فرینک لک اور کیتھ واز نے پارلیمنٹ سے کہا کہ وہ رشدی پر زور دے کہ وہ برطانیہ اور بیرون ملک اپنے پبلشروں کو ہدایت کرے کہ وہ اس ناول کے مزید نئے ایڈیشن کی تیاری کا کام فورًا روک دے۔ (ملت ۔ ۴ مارچ)
لیبر پارٹی کے ایک اور کونسلر جوپلانٹ نے کہا کہ میں نے زندگی میں بے شمار کتابیں پڑھی ہیں لیکن میں آج آپ کے سامنے عہد کرتا ہوں کہ پنگوئن کی شائع کردہ کوئی کتاب نہیں خریدوں گا کیونکہ اس نے دانستہ مسلمانوں کو دکھ پہنچایا ہے۔ اب اگر وہ اس پر پابندی لگا بھی دیں تو یہ اثرات مٹ نہیں سکتے۔ البتہ ناشر کی کتابوں کا بائیکاٹ کرنے سے آئندہ ایسی بے ہودگی کا امکان ختم ہو جائے گا۔ (جنگ ۔ ۳ مارچ)

ہندو کونسل کا ردعمل

ہندوؤں کی کونسل وشوا ہندو پرشاد نے اپنے ایک بیان میں اس کتاب سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو پہنچنے والے نقصان پر مسلم کمیونٹی سے اظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ مصنف اور اس کے پبلشر نے رقوم کمانے کے لیے ایسی کتاب شائع کی ہے جو کسی طور پر آزادیٔ اظہارِ رائے کے زمرے میں نہیں آتی۔ (جنگ ۔ ۳ مارچ)

جارج فیلکس کا بیان

یونائیٹڈ کرسچین آرگنائزیشن کے صدر جارج فیلکس نے رشدی کی دلآزار کتاب کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومتِ برطانیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس کتاب پر فوری طور پر پابندی لگائے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اس کتاب میں نہ صرف مسلمانوں کی دلآزاری کی گئی بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف بھی ناروا الفاظ استعمال کیے گئے جو کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی مذہب کسی مذہب کی توہین کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے حکومت کو چاہیئے کہ وہ اس کتاب کے ذریعے ہونے والے مذہب اسلام کی توہین کا نوٹس لے۔ (ملت ۔ ۳ مارچ)

خشونت سنگھ کا ردعمل

بھارت کے معروف صحافی خشونت سنگھ نے بھارت میں شیطانک ورسز کی اشاعت کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال مجھے پنگوئن کمپنی نے یہ مسودہ بھیجا تھا لیکن میں نے اسے پڑھنے کے بعد مسترد کر دیا تھا اور کمپنی کو اس کے نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے انتباہ کر دیا تھا جس پر کمپنی نے دوبارہ اس مسودہ کو پڑھنے اور اپنی رائے دینے کو کہا جس کے بعد میں نے کمپنی پر واضح کر دیا کہ عوام کی طرف سے اس کتاب کے خلاف زبردست احتجاج ہو گا۔ 
خشونت سنگھ، جو بھارت میں پنگوئن کمپنی کے مشیر ہیں، نے کہا کہ میں نے کمپنی کو یہ بھی انتباہ کر دیا تھا کہ اس قابلِ اعتراض کتاب کی اشاعت پر نہ صرف بھارت بلکہ خود برطانیہ کے مسلمان بھی احتجاج کریں گے۔ کتاب میں شامل قابلِ اعتراض مواد کے بارے میں بی بی سی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مصنف نے پیغمبر اسلام کو مختلف انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے علاوہ قرآن کی بعض سورتوں کو مشکوک انداز میں پیش کیا اور پیغمبر اسلام کی ازواج کا غلط انداز سے ذکر کیا ہے۔ (ملت ۔ ۲۱ فروری ۱۹۸۹ء)

یہودی راہنما کا بیان

برطانیہ کے ربائی اعلیٰ نے روزنامہ ٹائمز میں کہا کہ شیطانک ورسز کے جھگڑے میں رشدی اور ۔۔۔ دونوں آزادی تقریر کے ناجائز استعمال کے مجرم ہیں۔ رشدی نے لاکھوں مسلمانوں کے اعتقاد کی توہین کی ہے ۔۔۔۔ انہوں نے کہا کہ ایسی کسی اشتعال انگیزی کو شائع یا نشر کرنے پر پابندی ہونی چاہیئے۔ (جنگ ۔ ۶ مارچ)

اسرائیلی رابی کا بیان

اسرائیل کے چیف رابی نے کہا کہ یہودی ریاست کو چاہیئے کہ رشدی کی کتاب پر پابندی عائد کرے۔ (جنگ ۔ ۷ مارچ)

امریکی مصنف کی رائے

ایک امریکی مصنف نارمن ملر نے کہا کہ ہم اس پر مسلمانوں سے متفق ہیں کہ یہ کتاب ان کے مذہبی جذبات پر ایک حملہ ہے۔ (جنگ ۔ ۷ مارچ)

عیسائی رہنما کا بیان

ایک عیسائی مذہبی راہنما فادر جون پیری نے کہا کہ اس رسوائے زمانہ کتاب میں صرف پیغمبرِ اسلام ہی کو نہیں بلکہ حضرت عیسٰیؑ، حضرت موسٰیؑ کے جد امجد حضرت ابراہیمؑ کو نہیں بخشا گیا۔ اس لیے اس کتاب کے خلاف احتجاج میں ہم سب شریک ہیں۔ (جنگ ۔ ۸ مارچ)

جمی کارٹر کی مذمت

سابق امریکی صدر جمی کارٹر اور دیگر غیر ملکی راہنماؤں نے شیطانک ورسز کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب سے اسلام کی زبردست توہین ہوئی ہے، رشدی کا اقدام قابلِ مذمت ہے۔ (ملت ۔ ۱۰ مارچ)

وزیرتعلیم کا بیان

برطانوی وزیر تعلیم کینتھ بیکر نے کہا کہ مسٹر رشدی کی مہمل کتاب کا جواب دانشورانہ انداز میں دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ۔۔۔۔ میں اس معاملے میں جذبات میں آنے والے برطانیہ کے مسلمانوں سے کہوں گا کہ وہ حضرت عیسٰیؑ کے خلاف تیار ہونے والی قابلِ اعتراض فلم کے بارے میں سوچیں، فنی طور پر ایسے واقعات توہین اور کفر کے قانون کے تحت آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رشدی نے صحیح معنوں میں مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے ہیں کیونکہ اس میں ایسا کردار پیش کیا گیا جو حضرت محمدؐ سے ملتا جلتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب مہمل اور پڑھنے میں بہت مشکل ہے لیکن میں ایک لمحہ بھی یہ تصور نہیں کر سکتا کہ اسلام کی دیواریں گر جائیں گی۔ (ملت ۔ ۳۱ جنوری)

مسٹر نیل تھورن کا اعتراف

برطانوی رکن پارلیمنٹ مسٹر نیل تھورن نے کہا کہ سلمان رشدی کی کتاب شیطانک ورسز توہین آمیز مواد پر مبنی ہے۔ انہوں نے مسلم کمیونٹی کو مشورہ دیا کہ سلمان رشدی اور اس کی تحریر کردہ کتاب کے خلاف احتجاج کا مؤثر طریقہ یہ ہے کہ پنگئن کی شائع کردہ تمام کتب کا بائیکاٹ کیا جائے۔ اگر یہ طریقہ مؤثر ہو گیا تو آئندہ رشدی کی قبیل کے مصنفین کی کتاب چھاپنے پر کوئی تیار نہیں ہو گا۔ (جنگ ۔ ۱۰ مارچ)
نیز انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس عرضداشت پر دستخط کریں جو اس غرض سے پارلیمنٹ کو پیش کی جانے والی ہے۔ (جنگ ۔ ۱۲ ستمبر ۱۹۸۹ء)

مسٹر ٹام کس کی مذمت

برطانوی ممبر پارلیمنٹ ٹام کس نے تفصیلی بیان میں کہا کہ اس ملک میں ہر کسی کو اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو جی میں آئے کہہ دیا جائے۔ وہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ہے، اسے معلوم ہونا چاہیئے تھا کہ تحریر کا مسلمانوں پر کتنا شدید ردعمل ہو گا۔ اس نے برطانیہ میں آزادیٔ تحریر کے حق سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔ اگر وہ مشرق وسطٰی کے کسی بھی ملک میں رہتا تو یہ جسارت نہیں کر سکتا تھا۔ (جنگ ۔ ۱۲ ستمبر ۱۹۸۹ء)

بشپ آف چرچ آف انگلینڈ کا بیان

چرچ آف انگلینڈ کے بشپ ریورنڈ جان ٹیلر نے رشدی کی کتاب کے پبلشر سے اپیل کی ہے کہ وہ اس کتاب کی فروخت بند کر کے تمام دکانوں سے واپس لے لیں تاکہ اس طرح اس کتاب سے جو بین الاقوامی سطح پر بے چینی پھیلی ہے وہ ختم ہو سکے۔ انہوں نے پبلشر پر الزام لگایا کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچا کر کتاب کی فروخت سے دولت کما رہا ہے۔ جان ٹیلر، جو ہاؤس آف لارڈ کے رکن بھی ہیں، نے کہا کہ کتاب کی واپسی سے اس نقصان کی تلافی ہونے میں مدد ملے گی جو اس کی وجہ سے ہوا ہے۔ 

امریکی نائب صدر کی مذمت

امریکی نائب صدر دان کوئیل نے نیشنل پریس کلب میں سوال جواب کے دوران کہا کہ سلمان رشدی کی کتاب شیطانک ورسز یقیناً گستاخانہ ہے اور اس کے علاوہ اسے پڑھ کر بدمزگی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ (جنگ ۔ ۱۸ مارچ)

بنکاک میں ضبطی کا اعلان

تھائی لینڈ کی پولیس نے بنکاک میں کتب خانوں سے دلآزار کتاب شیطانک ورسز اٹھا کر ضبط کر لی ہے۔ تھائی لینڈ میں اس کتاب کی فروخت پر پابندی ہے۔ (جنگ ۔ ۳۱ اگست ۱۹۸۹ء)

فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید — تقاضے اور راہِ عمل

مولانا قاری محمد طیبؒ

(اسلامی علوم و افکار کی تشکیلِ جدید اور ہمہ جہت اجتہاد کی ضرورت پر علمی حلقوں میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے، اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی رحمہ اللہ تعالیٰ کا بیش قیمت علمی مقالہ پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)

۲۶ دسمبر ۱۹۷۸ء کو ذاکر حسین انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملّیہ اسلامیہ دہلی کے ایک غیر معمولی اور عظیم اجلاس میں شرکت ہوئی جس کا موضوع تھا ’’فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کا مسئلہ‘‘۔ اس اجلاس میں ملک کے تمام مرکزی اداروں کے نمائندوں اور تقریباً ہر مکتبِ خیال کے فضلاء اور دانشوروں نے شرکت کی۔ اجلاس کی اہمیت صدر جمہوریہ ہند عالی جناب فخر الدین علی احمد کی شرکت سے اور بھی زیادہ بڑھ گئی۔ احقر ناکارہ کو صدر اجلاس منتخب کیا گیا۔ چونکہ صدر مملکت نے صرف ایک گھنٹہ دیا تھا اس لیے اجلاس کی پہلی نشست کی ساری کاروائی ایک ہی گھنٹہ میں پوری کی جانی ضروری تھی۔ ابتداء میں شیخ الجامعہ پروفیسر مسعود حسین صاحب نے مہمانوں کا خیرمقدم کیا اور اس کے بعد محترم ضیاء الحسن صاحب فاروقی پرنسپل جامعہ کالج و ڈائریکٹر ذاکر حسین انسٹیٹیوٹ نے اجلاس کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی۔ پندرہ پندرہ منٹ صدر جلسہ و صدر مملکت کی تقریروں کے لیے تھے۔ احقر نے اولاً اپنی تقریر سے جلسہ کا افتتاح کیا لیکن وقت کی قلت کی وجہ سے چونکہ اس اہم موضوع پر کوئی تفصیلی روشنی ڈالنا ممکن نہ تھا اس لیے تقریر میں چند بنیادی اور اساسی نقاط ہی بیان کئے جا سکے۔ البتہ نشست کے اختتام پر جب اس کا ذکر آیا تو ذمہ داران جامعہ نے اسے مناسب خیال فرمایا کہ یہ تفصیلات نقاط مقالہ کے طور پر لکھ کر ارسال کر دی جائیں جس میں باقی ماندہ نقاط بحث بھی شامل ہوں۔ اس لیے یہ مقالہ پیش کیا جا رہا ہے جس میں وہ سب بنیادیں بھی ہیں جو اجلاس میں زبانی بیان کی گئی تھیں اور باقی ماندہ نقاط بھی آ گئے ہیں جو وہاں بیان میں نہ آسکتے تھے، ممکن ہے کہ ترتیب میں فرق ہو لیکن مقاصد سب آ گئے ہیں۔ 
فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کا مسئلہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں اس موضوع کے سلسلہ میں چند بنیادی نقاط پیش کر دوں جنہیں فکرِ جدید کی تعمیر اٹھانے والے حضرات کو پیشِ نظر رکھنا میرے نزدیک ازبس ضروری ہے۔ 

عالمِ بشریت میں فکر و تفکر کی اہمیت

پہلے بطور تمہید کے یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ عالمِ بشریت میں فکر و تفکر ایسی ایک عظیم اصولی بلکہ اصل الاصول قوت ہے کہ انسان کی ساری مصنوعی قوتیں اسی کے نیچے آئی ہوتی ہیں اور سب اسی کی دست نگر ہیں جو بلا فکر ایک قدم بھی کسی میدان میں آگے نہیں بڑھ سکتیں۔ حواس خمسہ ہوں یا عقل و دانش، ذوق و وجدان ہو یا بصیرت و تفقہ، حدس و تجربہ ہو یا جوہر قیافہ، ان سب کا قائد اور محرک فکر ہی ہے۔ پھر یہ فکر نہ صرف یہ کہ انسان کی تمام معنوی قوتوں کا سرچشمہ ہی ہے بلکہ خود انسان کی ایک ایسی امتیازی خصوصیت بھی ہے جس سے اس کی انسانیت پہچانی جاتی ہے کیونکہ یہ قوت انسان کے دوسرے ابنائے جنس کو میسر نہیں، اس لیے اگر فکری قوت کو انسان کی ماہیت کا حقیقی تعرف کہہ دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ انسان کی مشہور و معروف تعریف حیوانِ ناطق یا حیوانِ عاقل سے کی جاتی ہے، لیکن غور کیا جائے تو اس سے انسان کا کوئی امتیاز بخش تعارف نہیں ہوتا کہ اسے انسان کی حد تام یا جامع و مانع تعریف سمجھ لیا جائے۔ کیونکہ عقل کا تھوڑا بہت جوہر غیر انسان حتٰی کہ حیوانات میں بھی پایا جاتا ہے۔ ایک کتے کو بھی اگر ایک جگہ ٹکڑا ڈال دیا جائے تو اگلے دن وہ پھر اسی جگہ آ موجود ہو گا، گویا وہ قیاس کرتا ہے کہ جب آج اس جگہ ٹکڑا ملا ہے تو کل کو بھی مل سکتا ہے اور جب مل سکتا ہے تو پھر اسی جگہ پہنچ جانا چاہیئے۔ یہ صغرٰی کبرٰی ملانا آخر عقلی قیاس نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ خواہ وہ تعبیری اور لفظی نہ ہو مگر ایک حقیقت تو ہے، نیز عرف عام میں بعض جانوروں کو چالاک اور ہوشیار کہا جاتا ہے جیسے لومڑی۔ اور گدھے بھینس کو عام طور سے احمق اور بلید کہتے ہیں، سعدی شیرازی نے کہا تھا
مسکین خر اگرچہ بے تمیز است
چوں بار ہمے بود عزیز است
اور کسی نے بھینس کے بارے میں بھی کہا ہے کہ 
جاموش بے وقوف و بے ہوش
چوں شیر دبد تو چشم ازد پوش
اگر ان حیوانات میں عقل و شعور کی جنس ہی نہ ہوتی تو یہ نوعی تفاوت کی تقسیم صحیح جو عرف عام میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اندرین صورت عاقلیت یا دریافت معقولات علی الاطلاق انسان کی خصوصیت قرار دے کر اس کی حد تام حیوان ناطق کو بتلایا جانا اور اس سے نوع انسانی کا تعارف کرایا جانا کوئی جامع مانع قسم کا تعارف نہیں ہو سکتا۔ البتہ فکر و تدبر کے راستے سے حقائق کا تجزیہ کر کے ان میں امتیاز قائم کرنا، نئے نئے اکتشافات سے جزئیات پیدا کر لینا، اور جزئیات کو جمع کر کے ان سے کلیات بنانا، کلیات سے جزئیات کا نکال لینا اور جزئیات کے عواقب و نتائج کو سمجھنا، نتائج کے معیار سے عواقب اور انجام دنیا و آخرت کو پیش نظر رکھنا، نوعی خیر سگالی اور اس کی منظم تدبیریں اور اصلاح معاشرہ کے لیے سوچ بچار وغیرہ بلاشبہ انسانی نوع ہی کے ساتھ مخصوص ہے اور یہ سب اسی فکر کے کرشمے ہیں۔ اسی لیے انسانی حقیقت کی اگر کوئی جامع مانع تعریف ہو سکتی ہے تو وہ حیوان ناطق نہیں بلکہ حیوان متفکر ہو سکتی ہے کیونکہ فکرمندی، فکر نمائی اور فکری پیمائش اور وہ بھی عمومی اور پوری نوع بشری کے لیے اور نہ صرف اس حیات کے لیے بلکہ حیات ما بعد الممات تک کے لیے صرف انسان ہی کی خصوصیت ہے، جو اس کے دوسرے ابنائے جنس کو میسر نہیں۔ اس لیے حیوان متفکر ہی کو انسان کی حد تام تک کہنا کچھ زیادہ قرین عقل نظر آتا ہے۔ 
پس یہ فکری قوت ہی انسان کی سب سے بڑی فعال قوت اور اس کی ساری معنوی قوتوں میں اولوالامر کی حیثیت رکھتی ہے اور یہی وہ طاقت ہے جس سے وہ کائنات میں متصرف اور ہر عنصری مخلوق سے اونچا سمجھا جاتا ہے۔ پھر یہی نہیں کہ انسان اس قوت کا ایک ظرف ہی ہے جس میں عقل و دانش، ذوق و وجدان اور حدس  تجربہ جیسی قوتوں کی مانند فکر بھی ان ہی جیسی ایک قوت ہے اور دوسری قوتوں کی طرح وہ بھی کسی نہ کسی وقت اپنے محدود مخصوص دائرے میں کام دے جاتی ہے، بلکہ فکر کی طاقت اس کی تمام معنوی طاقتوں پر حکمران متصرف اور ان کی روح ہے جس کے اشاروں پر یہ ساری قوتیں آمادۂ عمل رہتی ہیں۔ اگر کہیں نمائشی کروفر کا بازار گرم ہو اور باجوں، گاجوں اور نعروں کی آوازیں فضا میں گونج رہی ہوں لیکن اگر راہ گیر کسی دوسرے خیال میں مستغرق ہو تو ان میں سے ایک چیز بھی نہ آنکھ کو نظر آئے گی نہ کان کوئی آواز سن پائے گا۔ اور لاعلمی کے اظہار پر جب لوگ حیرت کریں گے تو وہ یہ کہے گا کہ میں فلاں بات کے فکر میں ڈوبا ہوا تھا، مجھے ان مناظر اور آوازوں کی کچھ خبر نہیں۔ اس سے واضح ہے کہ آنکھ کان نہ خود دیکھتے ہیں نہ سنتے ہیں بلکہ قوتِ خیال و فکر ہی دیکھتی سنتی ہے، یہ آنکھ کی بینائی اور کان کی شنوائی فکر کے آلات و وسائل سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
یہی صورت عقل و دور اندیشی کا بھی ہے کہ آدمی زیرک بھی ہو اور دانائے روزگار بھی سمجھا جاتا ہو لیکن وہ کسی نظریئے کی سوچ میں محو ہو تو دوسرے کتنے ہی عقلی نظریات اس کے سامنے رکھ لیے جائیں نہ وہ انہیں سمجھ سکے گا نہ ان کا شعور ہی پا سکے گا۔ کیونکہ اس کی قوت فکر یہ کسی دوسرے میں مصروف جولانی ہے اور فکر کو فرصت نہیں ہے کہ وہ اس نظریئے پر غور کر سکے۔ اسی طرح روحانی احوال و کیفیات کا ادراک بھی قوتِ فکریہ کے بغیر وجود پذیر نہیں ہو سکتا۔ اگر غیبی میدانوں میں فکر کی قوت متوجہ ہی نہ ہو یا کسی دوسرے روحانی مقام میں محو ہو تو دوسرے غیبی اور وجدانی لطیفے قلب پر بھی منکشف نہیں ہو سکیں گے۔ آخر مراقبات میں قوتِ فکر اور دھیان ہی کا تو استعمال ہوتا ہے، احسان یا تصوف کے معنی ہی یہ ہیں کہ اللہ کو اس طرح حاضر و ناظر تصور کر کے آدمی عبادت میں مصروف ہو گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے، سو یہ قوتِ فکر کا استعمال نہیں تو اور کیا ہے؟

انسان کی فکری قوت کی کارپردازی

بہرحال یہ ایک واقعی حقیقت ہے کہ انسان کی معنویت میں حقیقی کارپرداز صرف یہ فکری قوت ہے۔ وہ نہ متوجہ ہو تو قوت باصرہ، سامعہ، شامہ، ذائقہ، لامسہ اور قوت عاملہ سب معطل رہ جاتی ہیں۔ اس لیے جب وہ محسوسات کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو حواس خمسہ ہرکاروں کی طرح اس کے حکم پر دوڑتے ہیں۔ جب عقلیات کے طرف منعطف ہوتی ہے تو عقل ایک خادم کی طرح اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہتی ہے۔ یہی قوتِ فکر جب غیبیات کی طرف چل نکلتی ہے تو وجدان و ذوق اس کے اشاروں پر کام کرتے ہیں۔ اس لیے قوتِ فکریہ نہ صرف یہ کہ انسان کی خصوصیت ہی ہے جو اس کی ماہیت کا سرنامہ ہے بلکہ اس کی ساری ہی اندرونی قوتوں کی روح اور ان کے حق میں محرک اور قائد بھی ہے۔ قرآن حکیم نے اپنے کلام معجز نظام میں اسی حقیقت کو واشگاف فرمایا ہے۔ چنانچہ جو قومیں ان حسی طاقتوں، آنکھ کی بینائی اور کان کی شنوائی وغیرہ کے ذریعہ معجزات انبیاء کو دیکھتی تھیں اور ان کے پاک کلمات سنتی تھیں مگر رضاء و تسلیم کا نام نہیں لیتی تھیں تو قرآن حکیم نے اس کی وجہ آنکھوں کی نابینائی یا کانوں کی ناشنوائی قرار نہیں دی بلکہ دل کی نابینائی بتلائی ہے جو درحقیقت اس قوتِ فکریہ کی نابینائی ہے۔ ارشاد فرمایا:
فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ۔ (الحج ۴۶)
’’بات یہ ہے کہ ان کی آنکھیں اندھی نہیں بلکہ سینوں میں دل اندھے ہیں جو فکر اور غور سے عاری ہیں۔‘‘
اس سے صاف ظاہر ہے کہ حواس کی روح اور مدارکار فکرِ قلب ہی ہے نہ کہ نظرِ چشم۔ فکر کی آنکھ نہ ہو تو حواس سب کے سب اندھے ہی رہ جاتے ہیں، گو وہ طبعی آمادگی سے دید و شنید کا کام بھی انجام دیئے جائیں۔ اس لیے قرآن حکیم نے منکرین کی ظاہری دیدہ شنید کو مانتے ہوئے بھی اس کی حقیقی کارکردگی کا انکار کیا ہے جبکہ اس کی غرض و غایت ہی اس پر مرتب نہیں ہوتی جو قوت فکر سے متعلق ہے کہ یہی فکری روح ان محسوسات کے پیکروں میں سے ان کی روح نکال کر لاتی ہے۔ ارشاد حق ہے:
وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُوْنَ اِلَیْکَ اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْکَانُوْا لَا یَعْقِلُوْنَ۔ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْظُرُ اِلَیْکَ اَفَاَنْتَ تَھْدِی الْعُمْیَ وَلَوْکَانُوْا لَا یُبْصِرُوْنَ۔ (یونس ۴۲ و ۴۳)
’’اور (آپ ان کے ایمان کی توقع چھوڑ دیجئے کیونکہ) ان میں (گو) بعض ایسے بھی ہیں جو (ظاہر میں) آپ کی طرف کان لگا لگا کر بیٹھے ہیں۔ کیا آپ بہروں کو سنا کر ان کے ماننے کا انتظار کرتے ہیں گو ان کو سمجھ بھی نہ ہو۔ اور اسی طرح ان میں بعض ایسے ہیں کہ (ظاہر آپ کو مع معجزات و کمالات) دیکھ رہے ہیں تو پھر کیا آپ اندھوں کو راستہ دکھلانا چاہتے ہیں گو ان کو بصیرت بھی نہ ہو۔‘‘
اس سے واضح ہے کہ سن کر کسی چیز کو اَن سنی کر دینا اور دیکھ کر اَن دیکھی بنا دینا قوتِ فکر ہی کے تعطل سے ہوتا ہے جس کو قرآن نے عقل و ابصار سے تعلق ہو تو وہ مبصر و مسمّع بلحاظ حقیقت غیر مسموع اور غیر مبصر کے حکم میں ہے۔ پھر اس طرح قرآن حکیم نے ایک دوسری جگہ ان منکروں کے حق میں فرمایا جو پیغمبر علیہ السلام اور ان کے پیغمبرانہ اقوال و افعال کو دیکھتے اور سنتے تھے اور طبعی انداز سے وہ بینا اور شنوا بھی تھے لیکن فکر قلبی نہ ہونے یا نہ برتنے سے ان کے یہ حواس حیوانی حواس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے اور ان میں وہ فکری شعور نہ تھا جو حقیقی معنی میں دیکھتا اور سنتا ہے جسے قرآن نے فقہ قلبی سے تعبیر کیا ہے۔ ارشاد حق ہے:
لَھُمْ قُلُوْبُ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اَعْیُنُْ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اٰذَانُْ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا اُولٰئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُولٰئِکَ ھُمُ الْغَافِلُوْنَ۔ (الاعراف ۱۷۹)
’’ان کے دل ایسے ہیں کہ جن سے وہ سمجھتے نہیں، ان کی آنکھیں ایسی ہیں کہ جن سے وہ دیکھتے نہیں، ان کے کان ایسے ہیں کہ جن سے وہ سنتے نہیں، ایسے لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بے راہ ہیں یہی لوگ غافل ہیں۔‘‘
اس سے واضح ہے کہ قلب کا محض طبعی شعور اصل نہیں جو حیوانات میں بھی موجود ہے بلکہ فقہ قلب اصل ہے جس کا دوسرا نام قوتِ فکر ہے، وہ نہ ہو تو حواس کام ہی نہ کریں گے، یا کریں گے تو وہ ناقابل اعتبار ہو گا اور غیر قابل التفات، جس سے نمایاں ہے کہ قلبی نور اصل ہے جس کا نام فکر ہے نہ کہ مطلقًا قلبی شعور جو چوپایوں میں پایا جاتا ہے۔

عقل کی کارگزاری کے قابلِ التفات ہونے کا حقیقی معیار

اسی طرح عقل کے بارے میں بھی قرآن کریم نے یہی فیصلہ دیا ہے کہ اس کی کارگزاری کے قابلِ التفات ہونے کا معیار بھی یہی قوتِ فکر ہے، عقلِ محض نہیں۔ یعنی عقلِ طبعی کے سوچ بچار کے باوجود جبکہ قلب کا فقہی سوچ بچار اس کا منشا نہ ہو جس کا نام فکر ہے تو عقلی شعور بھی بے شعور اور ناقابلِ اعتنا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ایسے قلوب کو جو بے فکرے ہوں قرآن نے انہیں عاقل نہیں کہا غافل کہا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
وَمِنْ اٰیَاتِہٖ یُرِیْکُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مآءً فَیُحْیِیْ بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۔ (الروم ۲۴) 
’’اور اسی کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ تم کو بجلی دکھاتا ہے جس سے ڈر بھی ہوتا ہے اور امید بھی ہوتی ہے اور وہی آسمان سے پانی برساتا ہے پھر اسی سے زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کر دیتا ہے، ان میں سے ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو عقل رکھتے ہیں۔‘‘
اس آیت کریمہ سے نمایاں ہے کہ برق و بخار اور بارش سے احیاء غبار (زمین) وغیرہ باوجودیکہ آنکھوں سے نظر آنے کی چیزیں ہیں جنہیں سب دیکھتے ہیں حتٰی کہ چرند و پرند بھی، اور ان سے اس دنیوی زندگی کے بارے میں کچھ نہ کچھ خوف و طمع کا اثر بھی لیتے ہیں، لیکن فرمایا یہ گیا ہے کہ ان حوادث میں قدرت کی نشانیاں پنہاں ہیں اور ان ہی کی پہچان کرانا مقصود بھی ہے۔ وہ صرف عقل لڑانے والوں ہی کے لیے ہیں، آنکھ لڑانے والوں کے لیے نہیں، اور عقل لڑانے کا نام ہی فکر کا استعمال ہے جو عقل کو کام پر لگاتا ہے، بے فکری اور بے توجہہی سے عقلی تگ و تاز بھی عبث اور بے نتیجہ رہ جاتی ہے۔ بہرحال حس ہو یا عقل، ذوق ہو یا وجدان، بلافکر کے نابینا اور بے نگاہ سمجھے گئے ہیں، جس سے فکر کا بلند مقام کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ 
قرآنِ حکیم کی انسان کو فکر و تدبر کی دعوت اور اس کا انداز
یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم نے جگہ جگہ مختلف دائروں میں انسان کو فکر و تدبر کی دعوت دی ہے، کہیں غوروفکر کے لیے انفسی آیات، کہیں شرعی اور علمی آیات سامنے رکھی ہیں اور کہیں وجدانی اور لدنی آیات اور ان میں تدبر اور غوروفکر کا مطالبہ کیا ہے۔ انفسی آیات کی طرف رہنمائی کے لیے فرمایا:
و فی انفسکم افلا تبصرون۔ (الذاریات ۲۱)
’’تمہارے اندر (خود دلائلِ معرفت) موجود ہیں، کیا تم غور نہیں کرو گے؟‘‘
اَوَلَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَکُوْتِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ۔ (الاعراف ۱۸۵)
’’کیا وہ آسمانوں اور زمین کے حقائق میں نظر (و فکر) نہیں کرتے؟‘‘
سَنُرِیْھِمْ اٰیَاتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ۔ (فصلت ۵۳)
’’ہم عنقریب ان کو اپنی (قدرت کی) نشانیاں ان کے گرد و نواح میں بھی دکھا دیں گے اور خود ان کی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہ قرآن حق ہے۔‘‘
کہیں شرعی آیات پیش کیں اور قرآن حکیم کو غور و تدبر کے لیے پیش کیا:
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا۔ (النساء ۸۲)
’’کیا پھر قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اور اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت اختلاف پاتے۔‘‘
کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آپؐ کی حیاتِ طیبہ کی شاخوں اور پاکیزہ سیرت و کردار میں غور کرنے کی طرف توجہ دلائی، تاکہ اس سیرت پاک کو دیکھ کر آپؐ کی دعوت کی صداقت دلوں میں آجائے اور لوگ اسے ماننے کے لیے تیار ہو جائیں، فرمایا:
قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُکُمْ بِوَاحِدَۃٍ اَنْ تَقُوْمُوْا لِلہِ مَثْنٰی وَفُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوْا مَا بِصَاحِبِکُمْ مِّنْ جِنَّۃٍ اِن ھُوَ اِلَّا نَذِیْرُْ لَّکُمْ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ۔ (سبا ۴۶)
’’آپ فرما دیں اے پیغمبر کہ میں تمہیں ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم دو دو اور فرادی فرادی اٹھو اور پھر فکر کرو کہ کیا واقعی تمہارے ان ساتھی (پیغمبر) میں کوئی دیوانگی یا جنون ہے؟ وہ تو اس کے سوا کچھ اور نہیں ہیں کہ تمہیں آخرت کے شدید عذاب سے ڈرانے والے ہیں جو تمہارے سامنے آنے والا ہے۔‘‘
اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا مَا بِصَاحِبِھِمْ مِّنْ جِنَّۃٍ اِنْ ھُوَ اِلَّا نَذِیْرُْ مُّبِیْنُْ۔ (الاعراف ۱۸۴)
’’کیا یہ فکر سے کام نہیں لیتے اپنے ساتھی (پیغمبر) کے بارے میں کہ کیا ان میں جنون ہے؟ وہ نہیں ہیں مگر ایک کھلے ہوئے ڈرانے والے آخرت کے عذاب سے، کیا یہ کسی مجنوں کا کام ہے؟‘‘
یہی صورت وجدانیات کی بھی ہے کہ حقائق غیبیہ کے اکتشاف میں بھی یہی قلبی فکر کام کرتا ہے جس کو ’’لُب‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ قرآن حکیم نے ارشاد فرمایا کہ:
وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّا اُولُوا الْاَلْبَابِ۔ (البقرہ ۲۶۹)
’’جسے حکمت دے دی گئی اسے خیر کثیر عطا کر دی گئی اور نصیحت وہی قبول کرتے ہیں جو گہری عقل والے ہیں۔‘‘

حاصل کلام

حاصل یہ ہے کہ مطلقًا عقل ایک طبعی عزیزہ اور طبعی مادہ ہے، جیسے بینائی اور شنوائی وغیرہ، مگر وہ صورت عقل ہے جو مادہ شعور ہے اور زیادہ سے زیادہ قیاس کے راستے سے کلیات کا ادراک کر لیتا ہے لیکن لُب اور لُباب حقیقت عقل ہے جس سے حقائق کونیہ اور حقائق شرعیہ منکشف ہوتی ہیں اسی کا نام فکر ہے۔ یہ حکمت جسے خیر کثیر کہا گیا ہے محض عقل طبعی سے برآمد نہیں ہوتی بلکہ عقل عرفانی سے منکشف ہوتی ہے جسے لُب کہا گیا ہے۔ 
بہرحال قرآن حکیم نے اس خاص قوتِ فکر کو جس کا تعلق قوانین الٰہی، معرفتِ خداوندی، حقائقِ نبوت اور اس کے ایوان کے انکشاف سے ہے جسے صبغۃ اللہ کہا گیا ہے، اسی کو کہیں فقہ قلبی سے، کہیں لبُب (عرفانی)، کہیں نظر (باطن) سے، کہیں بصیرت سے اور انصباغ من اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے جو انسان کی ساری قوتوں، حواس عقل، وجدان عقل اور حدس و تجربے کو کام میں لگاتا ہے اور یہ صرف انسان ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ بہرحال قرآن حکیم نے فکر کو انسان کا بنیادی جوہر قرار دے کر اس کا مصرف انفس و آفاق، تشریع و تکوین اور کمالات ذات و صفات نبوی اور معرفت الٰہی کو بتلایا ہے اور جگہ جگہ اسی کی دعوت دی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ فکر و تدبر چشم بینا اور گوش شنوا کا کام نہیں بلکہ قلب متفکر ہی کا کام ہے، اور فکر ہی جب ان اعضاء حواس وغیرہ کا امام بنتا ہے تو وہ اس کی اقتداء میں اپنا اپنا کام انجام دیتے ہیں، اور پھر فکر ان میں سے اصولی، کلی اور علمی مقاصد تک پہنچ کر معرفتِ حق کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ 

خلاصہ کلام

خلاصہ یہ کہ فکر ہی انسان کی امتیازی صفت ہے۔ فکر ہی انسانی حقیقت کی فصل ممیز ہے۔ فکر ہی سے علم و معرفت کے دروازے کھلتے ہیں۔ فکر ہی انسان کی ظاہری اور باطنی قوتوں کا امام اور سربراہ ہے۔ اگر فکر اسلام میں مطلوب نہ ہوتا تو اجتہاد کا دروازہ کلیۃً مسدود ہو جاتا اور شرائع فرعیہ امت کے سامنے نہ آسکتیں۔ یہ بحث الگ ہے کہ کس درجہ کا اجتہاد باقی ہے اور کس درجہ کا ختم ہو چکا ہے مگر اجتہاد کی جنس بہرحال امت میں قائم رکھی گئی ہے جو برابر قائم رہے گی۔ اس لیے جامعہ ملّیہ اسلامیہ دہلی نے اگر اس بنیادی اصول بلکہ اصل الاصول کی طرف ہندوستان کے علمی حلقوں کی توجہ دلائی اور دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کی دعوت دی اور اربابِ علم و فضل کو انسانی اور ربانی حقائق کے اکتشافات کی طرف متوجہ کیا تو نہ صرف یہ کہ اس نے ایک بڑا بنیادی مسئلہ اٹھایا ہے بلکہ خود جامعہ کی تاریخ کو بھی دہرایا ہے کیونکہ جامعہ کی بنیاد حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب قدس سرہ نے رکھی تھی جس کا نصب العین ہی قدیم و جدید تعلیم کو یکجا کر کے ملّت کی مختلف صلاحیتوں کو ایک مرکز پر جمع کر دینا تھا تاکہ فکرِ واحد کے راستے سے قوم کے ان دو گروہوں میں قدیم و جدید کی دوئی ختم کر کے انہیں افکار و خیالات اور عقائد و مقاصد کی وحدت سے قومِ واحد بنا دیا جائے۔ اس لیے بلاشبہ جامعہ ملّیہ اسلامیہ اس اقدام میں تبریک و تحسین کی مستحق ہے لیکن اس نئی نہضت اور فکرِ اسلامی کی تشکیل نو کے جذبات سامنے آنے پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس فکر کا علمی آغاز کس مرکزی نقطہ سے کیا جائے جس میں یہ تمام مذکورہ انواع جن کے لیے قرآن حکیم نے دعوت دی ہے سمٹ کر اسی مرکزی نقطہ کے نیچے جمع ہو جائیں اور کام بجائے پھیلنے کے سمٹ کر اس بنیادی نقطہ سے شروع ہو۔ 

(۱) فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کا مرکزی نقطہ ۔ منہاجِ نبوّت

اس لیے فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کے سلسلے میں پہلا قدم جو ہمیں اٹھانا چاہیئے وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے فکر کے لیے سب سے پہلا فکر ایک نشانہ اور ہدف متعین کر لینا چاہیئے جس پر ہم اپنے فکر کی توانائیاں صرف کریں اور شاخ در شاخ مسائل اس نقطے سے جوڑتے چلے جائیں جس سے نہ صرف راستہ ہی سامنے آجائے گا بلکہ تشتت افزا اوہام و خیالات بھی خودبخود اس سے دفع ہوتے چلے جائیں گے اور ہمارا قدم بجائے منفی ہونے کے مثبت انداز سے آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ سو ہمارے نزدیک وہ جامع نقطہ ایک ہی ہے جس کا نام ’’منہاجِ نبوّۃ‘‘ ہے۔ جس پر فکر کو مرکز کر دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس منہاج ہی کی شمع ہاتھ میں لے کر یہ قوم آگے بڑھی ہے اور ظلمتوں میں اجالا پھیلتا چلا گیا ہے۔ پس اس منہاج سے آج بھی آگے بڑھ سکتی ہے، اس منہاج نبوۃ کو سامنے رکھ کر ہمارے سامنے وہ مزاج آجائے گا جو اس امت میں نبیٔ امت نے پیدا فرمایا ہے۔ اور یہ واضح ہو جائے گا کہ خود اسلام کی تشکیل کا آغاز کس نوعیت سے ہوا کہ ہم اس کے فکرِ جدید کا آغاز بھی اس نوعیت سے کریں، نیز یہ بھی سامنے آجائے گا کہ اس کے ابتدائی مراحل سے گزر کر اور آخر کار اپنی انتہائی منزل پر پہنچ کر بحیثیت مجموعی اس امت کا مزاج کیسا بنایا اور اسے کس ذوق پر ڈھالا؟

منہاجِِ نبوۃ کا امت کے مزاج اور ذوق کی تعمیر پر اثر

غور کیا جائے تو اس منہاجِ نبوۃ نے اصولی طور پر ہمیں دین کے بارے میں کمال اعتدال اور توسط کا راستہ دکھایا ہے۔ نہ تو اس نے ہمیں رہبانیت کے راستے پر ڈالا ہے کہ ہم عبادت اور دین داری کے نام پر دنیا کو کلیۃً ترک کر کے زاویہ نشیں ہو جائیں، شہری آبادیوں، تمدنی معاملات اور مدنیت کے سارے تقاضوں بلکہ خود اپنے سارے طبعی جذبات و میلانات کو بھی چھوڑ کر پہاڑوں اور غاروں میں جا بیٹھیں کہ نہ گھر ہو نہ در، نہ معاشرہ ہو نہ معیشت، نہ انسانی روابط ہوں نہ قومی تعلقات، نہ موانست باہمی ہو نہ اجتماعیت، کہ یہ نہ اسلام کا مزاج ہے نہ اس کا مطالبہ اور نہ ہی فطرت کا تقاضا۔ اس لیے اسلام نے اس کا نام رہبانیت رکھ کر اس کی برملا نفی کی ہے کہ:
لا رھبانیۃ فی الاسلام۔
’’اسلام میں رہبانیت کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔‘‘
اور نہ ہی ہمیں بہیمیت کے راستے پر ڈالا ہے کہ ہم مدنیت کے نام پر عبادت الٰہی اور طاعت نبوی سے بیگانہ ہو کر کلیۃً نظام دنیا سنوارنے، جاہ و جلال کے خزانے بٹورنے میں لگ جائیں اور راحت طلبی اور عیش کوشی میں غرق ہو جائیں اور ہماری زندگی کا نصب العین ہی ہوس دانی، خط اندوزی اور ہوائے نفس کی غلامی کے سوا دوسرا نہ ہو، نہ عقائد رہیں نہ عبادات، نہ فرائض رہیں نہ سنن، نہ واجبات ہوں نہ ان کی لگن، نہ قومی تربیت کا داعیہ رہے نہ صلہ رحمی اور خیر خواہی، اور نہ اولاد و اقارب کا جذبہ، بلکہ دن رات ہوئے نفس کی پیروی، شبانہ روز لہو و لعب، عیش و طرب، آرائش و آسائش اور نمائش و زیبائش، مالی تکاثر اور جاہی تفاخر ہی زندگی کا مشغلہ بن کر رہ جائے۔ سو اسے بھی اسلام نے نمائشی زندگی، متاع اور غفلت یا با الفاظ مختصر بہیمیت کہہ کر اسے امت کے قومی مزاج سے خارج کر دیا ہے، فرمایا:
وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ (آل عمران ۱۸۵) یَعْلَمُوْنَ ظَاھِرًا مِّنَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ عَنِ الْاٰخِرَۃِ ھُمْ غَافِلُوْنَ (الروم ۷) ذَرْھُمْ یَاْکُلُوْا وَیَتَمَتَّعُوْا وَیُلْھِھِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ (الحجر ۳)
’’اور دنیاوی زندگی تو کچھ بھی نہیں صرف دھوکے کا سودا ہے۔ یہ لوگ صرف دنیاوی زندگی کے ظاہر کو جانتے ہیں اور یہ لوگ آخرت سے بے خبر ہیں۔ اور آپ ان کو ان کے حال پر رہنے دیجئے کہ وہ کھا لیں اور چین اڑا لیں اور خیالی منصوبے ان کو غفلت میں ڈالے رکھیں، ان کو ابھی حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے۔‘‘
بلکہ اس افراط و تفریط سے الگ کر کے دنیا کو ترک کرانے کی بجائے اس کی لگن کو ترک کرایا ہے اور دین کو اصل رکھنے کے ساتھ اس میں غلو اور مبالغے سے روکا ہے۔ یعنی ایک ایسا جامع فکر دیا ہے جس میں دنیا کے شعبوں کو زیر استعمال رکھ کر ان ہی میں سے آخرت پیدا کی ہے، چنانچہ دنیا کو کھیتی بتلایا اور آخرت کو اس کا پھل ’’اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْاٰٰخِرَۃِ‘‘۔ 
حاصل یہ نکلا کہ اگر پھل ضروری ہے تو کھیتی بھی اتنی ہی ضروری ہے، اس لیے اسلام کے ہر حکم میں جہاں آجر آخرت ہے وہیں حظ دنیا بھی شامل ہے۔ مثلاً اگر مسواک میں ثواب آخرت ہے تو وہیں منہ کی خوشبو بھی پیشِ نظر ہے۔ اگر طیبات رزق میں بہ نیت حسنِ عبادت کی قوت رکھی گئی ہے وہیں زبان و دہن کے ذائقے سے بھی اجتناب نہیں بتلایا گیا ہے۔ اگر لباس میں بہ نیت آخرت اور غیرت حیا اور ستر عورت کا تحفظ اصل ہے تو وہیں حسن دنیوی اور وقار بھی ملحوظ ہے۔ اگر ازار کو ٹخنوں سے نیچا اور زمین سے گھسٹتا ہوا رکھنے کی ممانعت سے کبر و نخوت اور جاہ پسندی کے تخیّل سے بچایا ہے تو وہیں لباس کو آلودگی اور گندگی سے پاک اور صاف رکھنے کی صورت اختیار کی گئی ہے جو دنیاوی مفاد ہے۔ اگر تخت شاہی کا اصل مقصد عدل کے ساتھ تحفظِ ملک، خدمتِ خلق اور قومی تربیت بجوابدہی آخرت اصل ہے تو وہیں اسے دنیوی وقار و عزت اور سیادت و قیادت کے حظوظ سے بھی بھرپور کیا گیا ہے۔ بہرحال آخرت کی سچی طلب کے ساتھ دنیا کا کسب و اکتساب بھی لازمی رکھا گیا ہے۔ صائب نے اس ذوق کو کس خوبی سے ادا کرتے ہوئے کہا ہے:
فکرِ دنیا کن اندیشۂ عقبٰی مگذار
تا بعقبٰی نہ رسی دامن دنیا مگذار
غرض منہاجِ نبوت نے رہبانیت اور بیمیت کے درمیان معتدل مزاج پر اس امت کو ڈھالا ہے جس میں طبعی جذبات بھی پامال نہ ہوں بلکہ ٹھکانے لگ جائیں اور عقلی مقاصد کی تکمیل میں بھی فرق نہ پڑے اور وہ بروئے کار آجائیں۔ اس لیے اس منہاج کے عناصر ترکیبی تہذیبِ نفس، تدبیرِ منزل، سیاستِ مدن، تسخیرِ اقالیم، تعظیمِ امر اللہ، شفقت علی خلق اللہ، نظامِ عبادت اور نظامِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اس کے ساتھ فکرِ آخرت اور محاسبہ اخروی کا استحضار قرار پائے اور پوری قوم کو اسی رنگ میں رنگا گیا ہے، تاکہ یہ قوم جامع دین و دنیا بن کر، بجائے اس کے کہ دنیا کی اقوام کی جامد، مقلد اور مقتدی بنے، اسے خوددار بنا کر امامِ اقوام اور داعی حق و صداقت کی حیثیت دی گئی۔ 
جس طرح احمد مختار ہیں نبیوں میں امام
ان کی امت بھی ہے دنیا میں امامِ اقوام

تشکیلِ جدید میں آج کی ضرورت

پس آج جس چیز کی ضرورت ہے وہ صرف یہ ہے کہ اس منہاجِ نبوت کو سمجھ کر فکرِ اسلامی کو ایک نئی ترتیب اور نئے رنگِ استدلال سے آج کی زبان اور اسلوبِ بیان سے مرتب کیا جائے کہ حقیقی معنی میں اسلامی فکر کی یہی تشکیلِ جدید ہو گی، ورنہ اس منہاج اور اس کے متوارث ذوق سے ذرا بھی ہٹ کر تشکیل ہو گئی تو وہ تشکیل نہ ہو گی بلکہ تبدیل ہو جائے گی جو قلب موضوع ہو گا، اس لیے تشکیلِ جدید کا خلاصہ دو لفظوں میں یہ ہے کہ مسائل ہمارے جدید ہوں اور دلائل قدیم تاکہ یہ تشکیل قائم کر کے ہم خلافتِ الٰہی اور نیابتِ نبوی کا حق ادا کر سکیں۔ 
فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کا یہ پہلا قدم ہے یا مرکزی نقطہ ہے جس سے ہمیں کام کا آغاز کرنا ہے اور اسی نقطہ پر اپنی تمام توانائیاں صرف کرنی ہیں۔

(۲) فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید میں اصول اور قواعد کلیہ اور ضوابط کی پابندی کی اہمیت

اس تشکیلِ جدید کے سلسلے میں دوسرا قدم وہ اصول اور قواعد کلیہ اور ضوابط ہیں جن کے نیچے منہاجِ نبوۃ کے تمام عقائد و احکام اور اخلاق و عبادات اور معاملات و اجتماعیات وغیرہ آئے ہیں تاکہ ہماری تشکیلِ جدید کا سرچشمہ وہی اصول ہوں جن سے مسائل کی تشکیلِ قدیم عمل میں آئی تھی اور اس طرح قدیم و جدید تشکیل میں کوئی تفاوت یا بُعد اور بیگانگی رونما نہ ہو گی۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اصول کلیہ سے ہٹ کر یا انہیں بدل کر یہ تشکیل اسلامی فکر کی تشکیل نہ بن سکے گی۔
اگر ایک شخص سائنس کے فکر کو مرتب یا حل کرنے کے لیے فنِ طب کے اصول سے کام لینے لگے جن کا سائنس کے اصول مسلّمہ اور علومِ متعارفہ سے کوئی تعلق نہ ہو، یا منطق و فلسفہ کی فکر کی تشکیل کے لیے صرف و نحو کے اصول سے کام لینے لگے تو وہ کبھی اس تشکیل میں کامیاب نہ ہو سکے گا۔ اس لیے سب سے پہلے اسلامی فکر کی تدوین و ترتیب میں اسلامی فکر کے اساسی اصول ہی کو سامنے رکھنا پڑے گا تاکہ ہماری تشکیل سے وہ ذوق فوت نہ ہونے پائے جو اِن اساسی اصول میں پیوست کیا گیا ہے اور انہی سے شریعت کے قواعد و مقاصد تک پہنچا ہوا ہے۔ یہ اصول و قواعد ہی درحقیقت منہاجِ نبوۃ کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں جس کا اثر پورے قانونِ شریعت میں پھیلا ہوا ہے۔ اگر تشکیلِ جدید میں یہ قواعد و ضوابط نہ رہیں تو وہ اسلامی فکر کی تشکیل نہ ہو گی صرف دماغی فکر کی تشکیل بن جائے گی۔

اصول و ضوابط کے ساتھ جزئیات کے تعیّن کا مسئلہ

البتہ ان قواعد کلیہ میں جو ضوابط عبادات اور عقائد کے بارے میں ہیں ان کی عملی جزئیات بھی شریعت نے خود متعین کر دی ہیں، اس لیے ان میں تغیر و تبدل یا کسی جدید تشکیل کا سوال پیدا نہیں ہو سکتا۔ البتہ معاملاتی، معاشرتی اور سیاسی و اجتماعی امور میں چونکہ زمانے کے تغیرات سے نقشے ادلتے بدلتے رہتے ہیں، اس لیے شریعت نے ان کے بارے میں کلیات زیادہ بیان کی ہیں اور ان کی جزئیات کی تشخیص کو وقت کے تقاضوں پر چھوڑ دیا ہے جن میں اصول و قواعد کے تحت توسعات ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ البتہ ایسے تغیرات کو چونکہ قواعد کلیہ کے تحت رکھا گیا ہے اس لیے ان میں بہرحال فنی استخراج کی ضرورت پڑے گی جسے مبصر علماء کی بصیرت ہی حل کر سکے گی جیسا کہ قرونِ ماضیہ میں کرتی رہی ہے۔ بس ایک مجتہد کو اجتہاد کی تو اجازت ہے، ایجاد کی نہیں ہے کہ وہ اتباع کے دائرے سے باہر نہ نکل سکے۔ خواہ یہ اتباع جزئیات کا ہو جبکہ وہ منصوص ہوں یا قواعد کلیہ کا ہو جبکہ وہ اجتہادی ہوں۔ جزئیات میں درحقیقت اتباع ان اصولِ اجتہاد ہی کا ہوتا ہے جس کے ذریعے یہ جزئیات باہر آتی ہیں اس لیے اس تشکیلِ جدید کے موقع پر یہ کلیات و جزئیات سامنے رکھنی ناگزیر ہوں گی اور انہی کے دائرے میں رہ کر یہ جدید تشکیل و ترتیب عمل میں آ سکے گی۔ نیز اگر اس تشکیل کا مقصد قومی تربیت ہے کہ افراد اس منہاج پر ڈھالے جائیں تو یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ تربیت اصول اور کلیات سے نہیں ہو سکتی جیسے علاج اصولِ طب اور معرفتِ خواص ادویہ سے نہیں ہو سکتا جب تک کہ مزاج کے جزوی احوال کو پہچان کر جزوی طور پر نسخہ نہ تجویز کیا جائے۔ یہی صورت شرعیات کی بھی ہے کہ اگر قومی معالجہ اور قومی اصلاح پیش نظر ہو تو وہ محض اصولِ کلیہ سے نہیں ہو سکتی بلکہ جزئیاتِ عمل ہی سے ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن اصولوں کا عمل سے کوئی تعلق نہ ہو، وہ محض ذہن کی زینت ہوں، عملی زندگی سے انہیں کوئی تعلق نہ ہو، اور کوئی عملی پروگرام بھی ان کے پیچھے نہ ہو تو شریعت نے یہ پسند نہیں کیا کہ ان میں زیادہ غوروخوض کیا جائے۔ مثلاً چاند کے گھٹنے بڑھنے کے بارے میں لوگوں نے سوال کیا تو قرآن نے اسلوبِ حکیم پر جواب دیا کہ اس کے منافع سے فائدہ اٹھاؤ، ان کے حقائق کے پیچھے مت پڑو۔ 
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَھِلَّۃِ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَج۔ (البقرہ ۱۸۹)
’’آپ سے چاندوں کے حالات کی تحقیقات کرتے ہیں، آپ فرما دیجیئے کہ وہ آلۂ شناختِ اوقات ہیں لوگوں کے لیے اور حج کے لیے۔‘‘
روح کے بارے میں سوال کیا تو فرما دیا کہ تمہارا علم اتنا نہیں ہے کہ ان حقائق کو پہچان سکو، تو کیوں اس ناقابلِ تحمل بات کے پیچھے پڑتے ہو۔ یہ حقائق یا خود ہی عملی ریاضت سے منکشف ہو جائیں گی یا اگر نہ ہوں تو قیامت میں تم سے ان کا کوئی سوال نہ ہو گا کہ نجات ان پر موقوف نہیں تھی۔ 
قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا۔ (الاسراء ۸۵)
’’آپ فرما دیجیئے کہ روح میرے رب کے حکم سے بنی ہے اور تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔‘‘
یا اس طرح قیامت کے وقت کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرما دیا گیا کہ تمہیں اس سے کیا تعلق؟ تمہاری ترقی اور سعادت اس کے مقررہ وقت کے علم پر موقوف نہیں، صرف اس کے آنے کے یقین اور عقیدے پر موقوف ہے اور اس میں یہ جزوی تفصیلات شامل نہیں۔ 
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرْسٰھَا فِیْمَ اَنْتَ مِنْ ذِکْرٰھَا اِلٰی رَبِّکَ مُنْتَھَاھَا۔ (النازعات ۴۲۔۴۴)
’’یہ لوگ آپ سے قیامت کے متعلق پوچھتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہو گا، سو اس کے بیان کرنے سے آپ کا کیا تعلق؟ اس کے علمِ تعیین کا مدار صرف آپ کے رب کی طرف ہے۔‘‘
بہرحال قرآنی رہنمائی سے علم وہی مطلوب ۔۔۔ اور قابل تحصیل ہے جس سے عملی زندگی میں کوئی سدھار پیدا ہو اور سعادۃ دارین حاصل ہوتی ہو۔ حاصل یہ ہے کہ عملی زندگی محض اصول سے نہیں بنتی بلکہ جزئیاتِ عمل ہی سے بنتی ہے جس کی بروقت تمرین اور ٹریننگ دی جائے۔ اسی لیے کسی مربّی نفس ربانی کی ضرورت ہے۔ ربانی کی تفسیر ابن عباسؓ نے اَلَّذِیْ یُرَبِّی النَّاسَ لِصِغَارِ الْعِلْمِ ثُمَّ بِکِبَارِھَا سے کی ہے۔ یعنی ربانی وہ ہے جو ابتداءً چھوٹی چھوٹی جزئیات سے لوگوں کی تربیت کرے، اس لیے قرآن کریم نے تذکیر و مواعظ اور امر بالمعروف کے نظام کو اجتماعی طور پر مستحکم کیا اور اسے تمکین فی الارض (حکومت و سلطنت) کی بنیادی غرض و غایت ٹھہرایا۔ 
خلاصہ یہ ہے کہ جس منہاج پر ہم اپنی فکر کی توانائی صرف کریں وہ جہاں اصولی ہو وہیں وہ جزئیاتِ عمل سے بھی بھرپور ہو تاکہ علم اور عمل دونوں جمع ہو سکیں کہ اس کے بغیر ہمارا فکر اور اس کی تشکیل پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی۔ 

حاصل مطلب

حاصل یہی ہوا کہ فکرِ اسلامی کی ترتیب کے وقت جیسے اسلامی بنیادوں کو سامنے رکھنا ضروری ہے ایسے ہی فقہ اور فقہی جزئیات کا سامنے رکھنا بھی ضروری ہے۔ البتہ مناسب اور آج کے دور کی نفسیات کو سامنے رکھ کر ان جزئیات میں ترجیح و انتخاب جدا بات ہے، وہ اہلِ علم کا کام ہے۔ مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ اصول کا تعارف اور ان کی جامعیت، وسعت، نیز ان کے اندرونی مضمرات کی وضاحت ان کی جزئیات کے بغیر ممکن نہیں۔ نظری اصول کتنے بھی معقول اور دلپذیر ہوں لیکن جب تک ان کی عملی مثالیں سامنے نہ ہوں ان کا حقیقی مفہوم واشگاف نہیں ہو سکتا۔ ان جزئیاتِ عمل ہی سے اسلام کی مجموعی اور صحیح صورت و شکل سامنے آ سکتی ہے اس لیے فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید میں جہاں ایک طرف مجموعہ دین کے اساسی اصول اور ان کے نیچے ہر ہر باب کے قواعد کلیہ یا ضوابط تفقہ ناگزیر ہیں وہیں دوسری طرف ان کے نیچے کی عملی جزئیات کا سامنے ہونا بھی لازمی ہے، ورنہ اصول کی وسعت و جامعیت کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہو سکتا۔ 

فقہاءِ متقدمین کے استخراجِ جزئیات کی افادیت

اس سے ان حوادث و واقعات پر بھی روشنی پڑ سکتی ہے جو ان جزئیات کے استخراج کا باعث بنے جبکہ فقہاءِ امت نے قواعد شرعیہ سامنے رکھ کر ان کے بعید سے بعید محتملات کے احکام بھی ان قواعد سے نکالے۔ ظاہر ہے کہ ہر دور کے حوادث میں نوعی طور پر یکسانی ہوتی ہے، گو حادثوں کی شکلیں حسبِ زبان و مکان کچھ جدا جدا بھی ہوں۔ اس لیے وہی جزئیات آج کے حوادث میں بھی بیکار ثابت نہیں ہو سکتیں، اور کچھ نہیں تو آج کی جزئیات کو کم از کم ان پر قیاس تو ضرور ہی کیا جا سکتا ہے، بلکہ بہت ممکن ہے کہ فقہیات میں ایسی جزئیات بکثرت مل جائیں جو آج کے دور میں سابق دور کی طرح کارآمد ثابت ہوں اور حالات کا پورا مقابلہ کر سکیں۔ ضرورت اگر ہو گی تو باب دار تلاش و جستجو کی ہو گی۔ بلکہ یہ جزئیات چونکہ فقیہانہ ذہنوں سے نکلی ہوئی ہیں اس لیے یہ نسبت ہماری استخراج کردہ جزئیات کے منہاجِ نبوۃ سے زیادہ قریب ہوں گی۔ اس لیے بجائے اس کے کہ ہم ازسرِنو قواعد کلیہ سے جزئیات کا استنباط کرنے کی مشقت میں پڑیں، یہ زیادہ سہل ہو گا کہ استخراج شدہ جزئیات کی تلاش اور ترتیب میں وہ محنت و مشقت استعمال کریں۔ پھر بھی اگر مفتی کو نئے استخراج ہی کی ضرورت داعی ہو تو یہ جزئیات سابقہ ہی اس کا راستہ بہتر طریق پر ہموار کر سکیں گی، بلکہ عین ممکن ہے کہ جب یہ فقہی جزئیات کا ذخیرہ اصول سے جڑا ہوا سامنے آئے تو شاید ہمیں کسی نئے جزیہ کے استخراج کی ضرورت ہی نہ پیش آئے کیونکہ معلوم ہو چکا ہے کہ فقہاء امت نے اصولِ تفقہ اور قواعدِ شرعیہ کی روشنی میں بعید سے بعید محتملات تک کے احکام مستنبط کر کے جمع کر دیے ہیں جس کے مجموعہ سے ایک مستقل فن بنام فقہ تیار ہو گیا، جس میں ہر شعبہ زندگی کی بے شمار جزئیات موجود ہیں۔
اس لیے فکرِ جدید کی تشکیل میں قواعد کلیہ کے ساتھ ان جزئیات کو سامنے رکھنا ازبس ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین نے کسی ایک چھوٹے سے چھوٹے جزئیہ کو بھی کسی مرعوبیت یا اقوام کے طعن و استہزاء کی وجہ سے کبھی ترک کرنا گوارہ نہیں کیا۔ حضرت سلمان فارسیؓ ایک بار بغداد (عراق) میں کھانا تناول فرما رہے تھے، ایک فارسی غلام کھانا کھا رہا تھا کہ ان کے ہاتھ سے لقمہ چھوٹ کر زمین پر گر گیا، حضرت سلمان فارسیؓ نے اسے فورًا اٹھا کر اس کی گرد جھاڑی، صاف کیا اور تناول فرما لیا۔ غلام نے عرض کیا کہ یہ ملک متمدنوں، دولتمندوں اور سیرچشموں کا ہے، وہ اس حرکت کو بڑی حقارت کی نظر سے دیکھیں گے۔ فرمایا:
اَاَتْرُکُ سُنَّۃَ حَبِیْبِیْ لِھٰؤُلَاءِ الْحُمَقَاءِ؟
’’کیا میں اپنے حبیب پاک کی سنت ان احمقوں کی وجہ سے ترک کر دوں؟‘‘
غور کیا جائے کہ ایک طرف تو دین کے ایک ایک جزئیہ کی پابندی اور دوسری طرف ملکوں کی فتوحات، خلافت کی توسیع اور تسخیر اقالیم اور اس کے ساتھ متکبروں کا تمسخر و طعن، لیکن جو نشہ ان پاک ارواح میں فیضانِ نبوت سے پیوست تھا وہ اس قسم کے عوارض سے کبھی ٹس سے مس نہ ہوتا تھا۔ آخر صحابہؓ سے زیادہ کون سننِ دین کی جزوی جزوی پابندی میں پیش قدم تھا، مگر ان سے زیادہ پھر کون اسلامی فتوحات میں تیز قدم تھا جس سے ایک طرف تو یہ واضح ہے کہ وقتی احوال و حوادث کے پیش نظر توسع اور ہمہ گیری کے معنی ذہنی ڈھیلے پن کے نہیں کہ قوموں کی رضاجوئی یا مجبوری یا آج کل کی اصطلاحی رواداری کے تحت اسلامی جزئیات میں مداہنت کی جا سکے، بلکہ یہ معنی ہیں کہ اسلام نے اصول اس درجہ وسیع اور لچک دار رکھے ہیں کہ حوادث ان سے باہر نہیں جا سکتے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ دین اپنے خاص مزاج اور اساسی پالیسی کے تحت نہ حوادث میں کبھی تہی دامن ثابت ہوا اور نہ اس نے کہیں اپنے اندر خلا محسوس کر کے سپر ڈالی۔ دوسری یہ بات بھی اس واقعے سے اور اس جیسے ہزاروں واقعات سے نمایاں ہے کہ اسلام روکھی اور سطحی قسم کا کوئی رسمی قانون نہیں بلکہ دین ہے جس کی اساس کا بنیادی عنصر عشق و محبت ہے جو ذاتِ حق، ذاتِ نبویؐ اور ذاتِ صحابہؓ سے وابستہ ہے۔ اس لیے ایک سچا عاشق اپنے محبوب کی کسی ادا کو ایک آن کے لیے بھی نظرانداز نہیں کر سکتا جیسا کہ حضرت سلمان فارسیؓ نے یہاں حبیبی کا لفظ استعمال فرما کر اس محبت کی طرف اشارہ فرما دیا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کسی جزئیہ کے ترک کرنے میں کوئی قانونی گنجائش بھی نکلتی ہو تو قانونِ عشق میں ایسی گنجائش کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے اسلامی مزاج میں یہ عشقی کیفیات بھی اسی طرح گھلی ہوئی ہیں جیسے پانی میں شکر گھل جاتی ہے جو ایک راسخ العقیدہ مسلم کو ہر ہر جزئیہ کا پابند کیے رہتی ہے اور اس سے ایک انچ بھی نہیں ٹل سکتا۔ اس لیے تشکیلِ نو کے وقت اسلام کی اس خصوصیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

(۳) اسلام میں آزادیٔ ضمیر اور حریتِ رائے کی حدود

 لیکن اس انتہائی پابندی اور قید و بند کے ساتھ ہی آزادیٔ ضمیر اور حریتِ رائے بھی پوری فراخدلی کے ساتھ اسلام نے قوم کو بخشی ہے کہ ایک عامی سے عامی آدمی بھی اس قانونِ حق کے معیار سے مسلمانوں کے بڑے بڑے سربراہ پر روک ٹوک عائد کر سکتا ہے اور اسے عوام کی تنقید کو ماننے سے چارہ کار نہیں ہوتا۔ اس کے لیے سب سے بڑی نظیر نماز کی جماعت ہے جس کا نام امامتِ صغرٰی ہے جو کلیۃً امامت کبرٰی یعنی امامت و خلافت پر منطبق ہے۔ وہاں اگر امام اور امیر ہے تو یہاں بھی امام ہے، وہاں اگر جہاد میں ہر نقل و حرکت پر نعرۂ تکبیر ہے تو یہاں بھی ہے، وہاں اگر امام کے حق میں سمع و طاعت فرض ہے تو یہاں بھی ہے، وہاں اگر میمنہ اور میسرہ ہے تو یہاں بھی ہے، وہاں اگر صفوف میں شگاف آجانا ناکامی کی علامت ہے تو یہاں بھی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس لیے امامتِ صغرٰی (جماعت صلوٰۃ) کے جو طور طریق رکھے گئے ہیں وہی نوعی طور پر امامتِ کبرٰی اور اسٹیٹ میں بھی ہیں۔ اس صورتحال کے تحت دیکھا جائے تو نماز کا مقتدی اس سے ذرا بھی منحرف ہو تو اس کی نماز ہی صحیح نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ اس مسجد کی امارت اور اسٹیٹ میں مقتدیوں پر فرض ہے کہ جب امام نیت باندھے تو مقتدی بھی ساتھ ساتھ نیت کر کے ہاتھ باندھیں، وہ قیام میں ہو تو یہ بھی قیام کریں، وہ رکوع کرے تو یہ بھی رکوع کریں، وہ سجدہ میں جائے تو یہ بھی سربسجود ہو جائیں، وہ ولاالضالین کہے تو یہ آمین کہیں، حتٰی کہ اگر امام سے سہوًا کوئی جزوی غلطی بھی ہو جائے اور وہ سجدہ سہو کرے تو مقتدی بھی اس کی اس فکری خطا میں ساتھ دیں اور سجدۂ سہو کریں۔ 
لیکن حریت و آزادی یہ ہے کہ اگر امام قراءت یا افعال صلوٰۃ میں کوئی ادنٰی سی بھی غلطی کر جائے تو ہر مقتدی کو نہ صرف ٹوک دینے کا حق ہے بلکہ مقتدی اس وقت تک امام کو چلنے نہیں دے سکتے جب تک وہ اپنی غلطی کی اصلاح نہ کرے یا قراءت صحیح نہ کرے یا کسی رکن میں غلطی ہو جائے اور اسے درست نہ کرے۔ چنانچہ امام کی غلطی پر ہر ایک مقتدی پیچھے سے تکبیر و تسبیح کی آوازوں سے اس طرح متنبہ کرتا ہے اور کرنے کا حق رکھتا ہے کہ امام غلطی کی اصلاح پر مجبور ہو جائے۔ بعینہٖ یہی صورت امامِ کبرٰی یعنی اسٹیٹ اور ریاست کی بھی ہے کہ امیر المومنین کی سمع و طاعت تو ہر ہر معاملے میں واجب ہے ورنہ تعزیر و سزا کا مستحق ہو گا لیکن ساتھ ہی خود امیر کی کسی خطا و لغزش پر ایک عامی سے عامی آدمی بھی برملا روک ٹوک کرنے کا حق رکھتا ہے جب تک کہ امیر اس فعل کی اصلاح نہ کرے یا اس کا کوئی عذر سامنے نہ رکھے۔ 
فاروقِ اعظمؓ پر ایک اعرابی نے اس وقت اعتراض کیا جب کہ وہ بحیثیت امیر المومنین منبر پر کھڑے ہو کر خطبے میں اعلان فرما رہے تھے کہ ’’لوگو! امیر کی بات سنو اور اطاعت کرو‘‘۔ اعرابی نے کہا کہ ہم نہ بات سنیں گے نہ اطاعت کریں گے۔ فرمایا کیوں؟ کہا مالِ غنیمت میں آپ کا حصہ عام لوگوں کی طرح صرف ایک چادر تھی حالانکہ آپ کے بدن پر اس وقت دو چادریں پڑی ہوئی ہیں۔ فرمایا اس کا جواب میرا بیٹا (عبد اللہ بن عمرؓ) دے گا۔ صاحبزادہ نے فرمایا کہ امیر المومنین کا قد لانبا تھا، ایک چادر کافی نہ تھی اس لیے میں نے اپنی چادر پیش کر دی، وہی ان کے بدن پر ہے جو انہوں نے آج استعمال کی ہے۔ تب اعرابی نے کہا کہ اب ہم بات سنیں گے بھی اور اطاعت بھی کریں گے۔ 
بہرحال منہاجِ نبوۃ کی مزاج کی رو سے عمل میں تو یہ تقید اور پابندی ہے کہ اس کے کسی کلی جزئیہ میں ڈھیلا پن گوارا نہیں کیا گیا حتٰی کہ ایک عامی آدمی کو بھی امیر المومنین تک پر کسی محسوس قسم کی فروگزاشت کے بارے میں اعتراض کا حق دیا گیا، لیکن حریتِ رائے اور اصول کے تحت آزادی بھی انتہائی ہے جو حقیقی قسم کی جمہوریت کی پردہ دار ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اصول و قوانین کی یہ پابندی اور ان میں زندگی کو مقید کر دینا کوئی قید و بند نہیں جو ذہنوں پر شاق ہو جب کہ ان ہی اصولوں کی پابندی سے اسلام قوم عالمگیر بنی۔ 

اسلام اور اسلامی اصول کی عالمگیری پر واقعاتی حقیقت کے شواہد

آخر جب ہم اسلام کے حق میں ایک عالمگیر دین کے مدعی ہیں تو اس ہمہ گیر کے معنٰی ان کے انہی اصولوں کی ہمہ گیری کے تو ہیں، اگر وہ تنگ اور جامد ہوتے تو اسلام عالمگیر تو کیا عرب گیر بھی نہ ہو سکتا۔ لیکن جب انہی اصول پر صدیوں ہمہ گیر حکومتیں بھی چلیں اور انہی اصول سے تربیت پا کر قوم میں عظیم شخصیتیں بھی ابھریں جنہوں نے مشرق و مغرب کو روشنی دکھائی اور ظلمتوں کی تنگنائیوں میں پھنسی ہوئی قوموں، نسلوں اور وطنوں کو ان کی مصنوعی حد بندیوں سے نکال کر انسانیت کے وسیع میدانوں میں پہنچایا تو کیا یہ اصول کی تنگیوں سے ممکن تھا؟ اس لیے فطری اصول اور فطرت کی پابندی کو قید و بند اور تنگی سمجھنا ذہنوں کی تنگی کی علامت ہو سکتا ہے، فطرت کی تنگی نہیں کہلایا جا سکتا۔ بالخصوص جب کہ ان اصولوں کی وسعتوں میں ایسی گنجائش بھی رکھی گئی ہے کہ ان سے ہر دور کے مفکر اور اہلِ علم و فضل نے استخراجِ مسائل کی حد تک بھی کام لیا ہے اور آج بھی لے سکتے ہیں، جن میں ہر دور کے حوادث کے لیے ہدایت کا سامان موجود ہے۔ 
اس لیے تمدن و معاشرت کی مشخص عملی جزئیات اور سننِ زائدہ پر اس قانونِ فطرت نے زیادہ زور نہیں دیا بلکہ اس کو وقت اور زمانے کے حوالے کر دیا ہے، ہر زمانے میں جو نئی نئی صورتیں بدلتی رہتی ہیں انہیں اہلِ علم ان کے اصول سے وابستہ کر کے ان کے احکام نکال سکتے ہیں جیسا کہ مفکران اِن اباب فتوٰی کا اسوہ اس بارے میں سامنے ہے، بالخصوص مسائل کے طرزِ استدلال کے بارے میں تو خاص طور پر ہر قرن جدید کے رنگ پیدا ہوتے رہے ہیں۔ ایک دور میں نظری فلسفہ نے رنگ جمایا اور دین کے بارے میں محض نقل و روایت لوگوں کے لیے تسلی بخش نہ رہی جب تک وہ عقلی چولے میں نہ آئے، تو رازیؒ و غزالیؒ جیسے حکمائے ملت نے دین کو فلسفیانہ انداز میں پیش کر کے لوگوں پر حجۃ تمام کی۔ ایک دور میں تصوف اور حقائق پسندی کا غلبہ ہوا تو ابن عربیؒ وغیرہ نے صوفیانہ اور عارفانہ انداز سے اسلام کو نمایاں کیا۔ ایک دور میں معاشی فلسفہ کا زور ہوا تو شاہ ولی اللہؒ جیسے حکیم امت نے نظری و معاشی رنگ کے فلسفیانہ دلائل سے اسلام کو سمجھایا اور وقت کے مسائل حل کیے۔ ایک دور سائنسی اور مشاہداتی فلسفے کا آیا تو بانی دارالعلوم (دیوبند) حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ جیسے محقق اور عارف باللہ نے اسلامی عقائد و اصول کو شواہداتی رنگ میں حسی شواہد و نظائر پیش کر کے اتمامِ حجت فرما دیا۔ جس سے ایک طرف اسلام کی ہمہ گیری اور جامعیت واضح ہوئی تو دوسری طرف اس کا توسع کھلا اور اس کے رنگِ استدلال کی یہ لچک بھی واضح ہوئی کہ اس کے حقائق پر ہمہ نوع دلائل کا لباس سج جاتا ہے اور حقیقت بدستور حقیقت رہتی ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ خود اس میں یہ سارے الوان اور سارے نہج موجود ہیں جس سے ہر رنگ کا لباس زیب زدہ ثابت ہو جاتا ہے جو درحقیقت خود اس کا رنگ ہوتا ہے، البتہ حالات اور وقت کے تقاضے صرف اجاگر کر دیتے ہیں۔ 

دورِ جدید کی عملی و نظریاتی خصوصیات اور اسلامی قوت و شوکت

آج کا دور سیاسی اور معاشی اور مختلف نظریات کی سیاستیوں اور معاشی فلسفوں کے غلبہ کا ہے۔ مذہب بن رہے ہیں تو سیاسی معاشی پارٹیاں بن رہی ہیں تو سیاسی مسائل پیدا ہو رہے ہیں تو ۔۔۔۔۔ ان حالات میں جب تک کسی دینی مسئلے کو سیاسی چاشنی کے ساتھ پیش نہ کیا جائے عوام کے لیے قابلِ التفات نہیں ہوتا۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اسلام کو سیاسی اور معاشی رنگ کے دلائل سے پیش کیا جائے، یہ سیاسی رنگ اسلام کے حق میں کوئی بیرونی رنگ نہ ہو گا بلکہ اسی کے اندر کا ہو گا۔ حالات متحرک ہوں گے، اور ان کے فطری اور طبعی قسم کے معاشی اور سیاسی پیکر اس تحریک سے نمایاں ہو کر اسلام ہی کی سیاست و اجتماعیت کے اصول و قوانین نہ ہوتے تو صدیوں تک اس کی وہ مثالی حکومتیں دنیا میں نہ چل سکتیں جنہوں نے دین و دنیا کے ساتھ سیاسی حکمرانی کے فرائض بھی انجام دیئے۔ آج بھی مسلم حکمرانوں کی بود و نمود اسی دور کی مستحکم فرمانروائیوں کے ثمرات ہیں جن میں کتاب و سنت اور فقہ فی الدین کے انوار شامل تھے، البتہ آج کے غالب یا مغلوب مسلمانوں کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے موجودہ دور کے حکومتوں کے نظریات تو اختیار کر لیے لیکن ان کے عملی کارناموں سے کوئی سبق نہ لیا۔ اگر قوم اپنے نظریات قائم رکھ کر آج کے عملی میدانوں میں دوڑتی تو آج بھی وہ ایسی ہی مثالی قوت و شوکت دکھلا سکتی تھی جو اَب سے پہلے دکھلا چکی ہے اور دنیا اس کی تقلید پر مجبور ہوتی نہ کہ قصہ برعکس ہو جاتا۔ 

دورِ جدید میں دینی مزاج کے مطابق فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کا واحد طریق عمل

بہرحال اس دور میں اس کی شدید ضرورت ہے کہ اسلامی اصول، اسلامی مزاج اور نبوت کا منہاج بجنسہ قائم رکھ کر جس میں دیانت و سیاست اور عبادت و مدنیت بیک وقت جمع ہے۔ وقت کے مسائل کو نئی تشکیل و ترتیب سے نمایاں کر کے نئے حوادث میں قوم کی مشکلات کا حل پیش کیا جائے تو یہ وقت کے تقاضوں کی تکمیل ہو گی جبکہ اس میں فقیہ المزاج شخصیات، اسلامی اصول کی روشنی اور جزئیاتِ عملیہ کی رعایت، اسلامی مزاج کی برقراری، سلف صالحین کا اسوہ، مرادات خداوندی کے ساتھ تقید، رضاء حق کی پاسداری، اجتماعی اصلاح و فلاح، اخروی نجات کا فکر وغیرہ کی حدود قائم رکھی جائیں گی تو بلاشبہ فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید دینی ہی رنگ کے ساتھ منظرِ عام پر آجائے گی۔ مگر اسی کے ساتھ ان منتخب شخصیات میں جہاں اس دینی فکر اور تفقہ مزاجی کی ضرورت ہے جس کی تفصیل عرض کی گئی، وہیں اس کی بھی شدید ضرورت ہے کہ وہ موجودہ دنیا کے مزاج اور وقت کو بھی پہچانتے ہوں، عصری حالات اور وقت کی ضرورت بھی ان کے سامنے ہوں، علومِ عصریہ میں انہیں مہارت و حذاقت میسر ہو، دنیا کی عام رفتار اور آج کے ذہن کو بھی وہ سمجھے ہوئے ہوں، اور اس میں ذی فہم اور ذی رائے بھی ہوں، کیونکہ حالات ہی اصل محرکِ فتاوٰی ہیں۔ اگر یہ منتخب شخصیات شرعیات کی خوگر ہوں لیکن عصریات سے بے خبر ہوں یا برعکس معاملہ ہو تو فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو گا۔
اس سلسلہ میں کٹھن مرحلہ ایسی جامع شخصیتوں کی فراہمی کا ہے جو شرعیات اور عصریات میں یکساں حذاقت و مہارت کی حامل ہوں، عموماً اور اکثر و بیشتر ماہرین شرعیات عصریات سے کچھ نابلد اور موجودہ دنیا کی ذہنی رفتار اور اس کے گو ناں گوں نظریات سے بے خبر ہیں اور ماہرینِ عصریات اکثر و بیشتر شرعیات سے نا آشنا ہیں۔ اس لیے فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کا بار اگر تنہا ایک طبقے پر ڈال دیا جائے تو علماء کی حد تک بلاشبہ مسائل کی تشکیل قابلِ وثوق ہو گی لیکن ممکن ہے جدید طبقے کے اعتراضات کا ہدف بن جائے گی۔ اور دوسری طرف ماہرینِ عصریات جب کہ عامۃً دینی مقاصد اور اسلام کے شرعی موقفوں کا زیادہ علم نہیں رکھتے اور قوم کے دینی مزاج سے کچھ بیگانہ بھی ہیں، اگر فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کا بار محض انہیں کے کندھوں پر ڈال دیا جائے تو حوادث کی حد تک وہ ماہرینِ شریعت کے اعتراضات کا ہدف بن جائے گی۔ بہر دو صورت تشکیلِ جدید کا خاکہ ناتمام بلکہ ایک حد تک نقصان دہ ثابت ہو گا۔ 
ان حالات میں درمیانی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ اس تشکیل کے لیے دونوں طبقوں کے مفکرین کی مشترک مگر مختصر اور جامع کمیٹی بنائی جائے جس میں یہ دونوں طبقے اسلام کے تمام تمدنی، معاشرتی اور سیاسی مسائل میں اپنے اپنے علوم کے دائرے میں غوروفکر اور باہمی بحث و تمحیص سے کسی فکر واحد پر پہنچنے کی سعی فرمائیں اور جامع فکروں کو کتاب و سنت اور فقہ کی روشنی میں مسائل کی تنقیح میں استعمال کریں تو وہ فکر یقیناً جامعیت لیے ہوئے ہو گا جس میں دینی ذوق اور شرعی دستور بھی قائم رہے گا اور عصری حالات سے باہر بھی نہ ہو گا۔ نیز ایک طبقہ کا ہدف طعن و ملامت نہ بن سکے گا اور مسائل کے بارے میں کوئی خلجان سدِّ راہ نہ ہو گا۔ 

تشکیلِ جدید کرنے والے مفکرین کے لیے ایک امرِ لازم

البتہ مفکرین کو یہ ضرور پیشِ نظر رکھنا ہو گا کہ اسلام کوئی رسمی اور دنیوی قانون نہیں بلکہ دین ہے جس میں دنیا کے ساتھ آخرت بھی لگی ہوئی ہے، اور ہر عمل میں خواہ وہ فکری ہو یا عملی، جہاں انسان کی دنیوی زندگی میں شائستگی کی رعایت رکھی گئی ہے اور انہیں تنگی اور ضیق و حرج سے بچا کر ہمہ گیر سہولتیں دی گئی ہیں، وہیں رضاء خداوندی اور آخرت کی جوابدہی بھی ان پر عائد کی گئی ہے۔ اس لیے اسے محض دنیوی قوانین اور صرف معاشی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر حوادث کا آلۂ کار بھی نہیں بننے دیا گیا ہے کیونکہ احوال ہمیشہ بدلتے رہے ہیں اور بدلتے رہیں گے۔ حال کے معنی ہی ’’مَا حَالَ فَقَدْ زَاَلَ‘‘ کے ہیں (یعنی جو حال آیا وہ زائل بھی ہو گا) پس حال تو بدلنے ہی کے لیے بنایا گیا ہے لیکن اصولِ فطرت بدلنے کے لیے نہیں لائے گئے ہیں وہ اپنی جگہ اٹل ہی رہیں گے، البتہ ان شرعی اصولوں میں ایسی وسعتیں ضرور رکھی گئی ہیں کہ وہ ہر بدلتی ہوئی حالت میں وقت کے مناسب رہنمائی کر سکیں۔ 
اس لیے مفکر کا کام صرف اتنا ہی ہو گا کہ بدلے ہوئے حالات اور نئے حوادث کو سامنے رکھ کر ان جزئیاتِ مسائل کو سامنے لے آئے جو اس حادثہ کے بارے میں منہاجِ نبوۃ نے اصولًا یا جزءًا وضع کئے ہیں اور ان پر منطبق کئے ہیں۔ پس مفکر دانشور یا مبصر مفتی کا کام حادثہ اور مسئلہ تبدیل کرنا نہیں بلکہ دونوں میں تطبیق دے دینا ہے، نہ حالات سے صرفِ نظر کرنا ہے نہ مسائل سے قطع نظر کر لینا ہے۔ اس لیے شریعت نے تمدنی اور معاشرتی احوال کی حد تک زیادہ تر قواعد کلیہ ہی سامنے رکھے ہیں، نئی جزئی صورتوں کی تشخیص نہیں کی ہے کہ وہ ہر دور میں نئے نئے رنگ میں نمایاں ہوتی رہتی ہیں۔ 

سیاسی ’’ملل و مخل‘‘ کی تدوین کی ضرورت و اہمیت

فی زمانہ اسلامی مسائل میں انتشار یا ان کے بارے میں شکوک و شبہات کی بوچھاڑ کا سرچشمہ سب جانتے ہیں کہ مغربی تہذیب و تمدن اور اس سے زیادہ آج کے سیاسی نظریات دماغوں پر مذہب کے رنگ سے چھائے ہوئے ہیں۔ آج مسلک اور اِزم بن رہے ہیں تو سیاسی اور معاشی، پارٹیاں بن رہی ہیں تو سیاسی اور معاشی، قوانین بن رہے ہیں تو سیاسی اور معاشی، حتٰی کہ عقائد بن رہے ہیں تو وہ بھی سیاسی اور معاشی۔ چنانچہ سیاسی نظریات کے بارے میں اصطلاح بھی ٹھہر گئی ہے جو مذہب اور دین کے بارے میں رائج تھی کہ ہم فلاں نظریے پر یقین رکھتے ہیں یا بالفاظِ دیگر ایمان لاتے ہیں، جو کسی دور میں دینی عقائد کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ اس لیے آج ایک سیاسی ’’ملل و مخل‘‘ کی تدوین کی بھی اشد ضرورت ہے جس میں سیاسی مذاہب کے عقائد و افکار کو تقابلی رنگ سے سامنے رکھ کر اسلام کے اجتماعی مسائل کو دلائل کی روشنی میں پیش کیا جائے جس کے لیے چند مفکر عالم اور چند مفکر گریجویٹوں کی خدمات حاصل کی جائیں کیونکہ قدیم زمانے کے ’’ملل و مخل‘‘ اس دور کے پیدا شدہ مذہبی عقائد اور افکار کے پیشِ نظر مرتب ہوئے تھے جبکہ دلوں پر سیاست کے ٹھپے لگے ہوئے نہیں تھے۔ اب عصرِ حاضر کے سیاسی عقائد و افکار کو سامنے رکھ کر اسلام کے سیاسی، اجتماعی اور معاشرتی مسائل کو دلائل و شواہد سے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ 
خوشی ہے کہ جامعہ اسلامیہ نے آج جب فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو کا مسئلہ اٹھایا تو ممکن ہے سیمینار کے ثمرے کے طور پر اس سیاسی، معاشرتی اور اجتماعی رنگ کی ’’ملل وم خل‘‘ کی مضبوط بنیاد بھی پڑ جائے۔ حدیث اور فقہی کتب میں معاشرتی، تمدنی اور اجتماعی مسائل کی جو زمین ابواب و فصول کے ساتھ جن جن عنوانوں سے پائی جاتی ہیں وہ اپنی جامعیت اور اصولیت کی وجہ سے اپنے متعلقہ مسائل کی جزئیات پر کلیۃً حاوی ہیں اور ان میں فقہاء امت کے دل و دماغ کا نچوڑ سمایا ہوا ہے۔ اس لیے اگر ان عنوانات کے تحت کام کیا جائے اور آج کے معاشرتی، سیاسی اور تمدنی مسائل کو تقابلی انداز سے سامنے رکھ کر علمی اور فکری سعی کا محور بنا لیا جائے تو اس میں تمام وقتی مسائل بھی آجائیں گے اور دوسرے مہم مسائل بھی شامل ہو جانے کی وجہ سے ایک بہترین سیاسی ’’ملل و مخل‘‘ تیار ہو جائے گی جو جامعہ کا ایک یادگار کارنامہ ہو گا۔ 
اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی توقع رکھنی چاہیے کہ یہ سعی چند زبان زد مسائل مثلاً بینک کاری، اسٹاک ایکسچینج و سودی معاملات یا انشورنس وغیرہ وغیرہ جیسے مالی اور تجارتی مسائل تک ہی محدود نہ رکھی جائے گی کیونکہ جب فکرِ اسلامی کے بارے میں قدم اٹھایا جا رہا ہے تو وہ بھرپور اٹھنا چاہیئے جس میں اس قسم کے تمام مسائل کا ایک ہی بار فیصلہ کر دیا جائے۔ 
امید ہے کہ اس تشکیل کے سامنے آجانے پر یہ شبہ بھی حل ہو جائے گا کہ آیا اسلام میں جمود ہے یا ذہنوں میں جمود ہے جسے اسلام کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے، حالانکہ اسے توڑنے والا خود اسلام ہے جیسا کہ اس نے تیرہ صدیوں میں کتنے ہی جامد ذہن اقوام کا جمود توڑا ہے۔ اسلام نے اپنے اصولِ فطرت میں ماننے والوں کو محدود کر دیا ہے جس کے معنی جمود کے سمجھے جا رہے ہیں لیکن اصولِ فطرت میں محدود رہنا جمود نہیں بلکہ جمود شکنی ہے۔ 

اسلامی مزاج اور منہاج نبوت کے اساسی اصول

منفی پہلو:

(۱) لَا اِسْلَامَ اِلَّا بِجَمَاعَۃٍ۔
’’اسلام بغیر جماعت نہیں‘‘ یعنی اسلام کا مزاج اجتماعیت پسندانہ ہے انفرادیت پسندانہ نہیں۔
(۲) لَا رَھْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ
یعنی دین کے بارے میں اسلام کا مزاج اختراع پسندی اور جدت طرازی کا نہیں بلکہ اتباع پسندی ہے نیز گوشہ گیری اور انقطاعیت پسندی کا نہیں بلکہ عام مخلوق میں ملے جلے رہ کر کام انجام دینے کا ہے۔ 
(۳) لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ۔
یعنی اسلام کا مزاج دین میں جبر و اکراہ اور تشدد کا نہیں بلکہ نرمی و محبت کے ساتھ حجت و برہان سے حق واضح کر دینے کا ہے۔ ماننا نہ ماننا کلیۃً مخاطب کا اختیاری فعل ہے۔ 
(۴) لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ فِی الْاِسْلَامِ۔
یعنی اسلام کا مزاج تخریبی یا ضرر رسانی کا نہیں بلکہ تعمیری اور نفع رسانی کا ہے۔
(۵) لَا عَدْوی وَلَا طَیَرَۃَ فِی الْاِسْلَامِ۔
یعنی اسلام کا مزاج توہم پسندانہ نہیں کہ شگون یا ٹونے ٹوٹکے یا کسی کی بیماری کسی کو لگ جانے کا تخیل باندھ لینا اس کے یہاں معتبر ہوں، بلکہ حقیقت پسندانہ ہے کہ امور واقعیہ ہی اس کے نزدیک معتبر ہوں خواہ وہ حسی اسباب سے ظہور پذیر ہوں یا معنوی اسباب سے، تخیلاتی اور توہماتی خطرات و وساوس اس کے نزدیک اسباب نہیں ہیں کہ حوادث کا ان سے تعلق ہو۔
(۶) لَا نُوَلِّیْ اَمَرَنَا ھٰذَا مَنْ طَلَبَہٗ۔
یعنی اسلام کا مزاج طالبِ عہدے کو عہدہ نہ دینے کا ہے۔ گویا عامۃً عہدوں کی طلب خودغرضی کی دلیل ہوتی ہے اور خودغرض انسان اپنی اغراض کی تکمیل میں مشغول رہ کر فرائضِ منصبی میں عادۃً قاصر رہتا ہے۔ 
(۷) لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا۔
یعنی اسلام کا مزاج کسی پر اس کی طاقت کے قدر بار ڈالنے کا ہے، خواہ انسان ہو یا حیوان، زائد از طاقت بوجھ رکھنا اس کے نزدیک ظلم ہے۔ 
(۸) لَیْسَ مِنَّا مِنْ غَشَّنَا۔
یعنی اسلام کا مزاج گندم نما جوفروشی اور نمائشی خوبصورتیاں دکھلا کر دغل و فصل کا نہیں بلکہ حقیقت پسندی اور حقیقت نمائی کا ہے۔ 
(۹) وَمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ۔
یعنی اسلام کا مزاج تصنع، بناوٹ یا نمائش پسندی کا نہیں بلکہ سادگی، سچائی اور ظاہر و باطن کی یکسانی کا ہے۔
(۱۰) لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّن رُّسُلِہٖ۔
یعنی اسلام کا مزاج شخصیاتِ مقدسہ کے نام پر تعصب، تنگی، حد بندی اور گروہ سازی کا نہیں بلکہ ان کی ہمہ گیر توقیر و تعظیم کے ساتھ بین الاقوامی طور پر اقوام کو ایک پلیٹ فارم پر لانے اور عالمِ انسانیت کو متحد کرنے کا ہے۔ 
(۱۱) لَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ۔
یعنی اسلام کا مزاج دل چھوڑ کر بیٹھ رہنے اور بزدلی اور کم ہمتی دکھلانے کا نہیں بلکہ عزیمت اور قوتِ یقین کے ساتھ عالی حوصلگی اور ہمتِ مردانہ دکھلانے کا ہے۔ 
(۱۲) لَا تَیْئَسُوْا مِنْ رّوُحِ اللہِ۔
یعنی اسلام کا مزاج، کتنی بھی مشکلات کا ہجوم سر پر آجائے، مایوسی کا نہیں بلکہ امید، بھروسہ اور اللہ پر اعتماد کے ساتھ ثبات و استقلال اور آگے بڑھتے رہنے کا ہے، مایوسی اس کے نزدیک کفر کا شعبہ ہے۔ 
(۱۳) مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ۔
اسلام کا مزاج دین کے بارے میں ضیق اور تنگی کا نہیں بلکہ فراخی کا ہے۔ معذور کو مجبور نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے مناسب حال راہ نکال دی جاتی ہے۔
(۱۴) لَنْ یَّشَاء الدِّیْنُ اِلَّا غَلْبَہُ۔
یعنی اسلام کا مزاج دین میں غلو، مبالغہ اور تحمل بیجا کا نہیں ورنہ دین اسے ہٹا دے گا، بلکہ اعتدال کے ساتھ بقدر طاقت بوجھ اٹھانے کا ہے۔ توسط و اقتصاد ہی اس کا بنیادی اصول ہے۔ 
(۱۵) لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَئَانُ قَوْمٍ عَلٰی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔
یعنی اسلام کا مزاج دوست اور دشمن میں یکساں انصاف ہے۔ جانبداری یا بے جا رعایت یا خویش نوازی اس کے یہاں خلافِ عدل اور خلافِ تقوٰی ہے۔
(۱۶) لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی۔
یعنی اسلام کا مزاج عمل پر ابھارنا ہے کہ ہر ایک کو اسی کی سعی کام دے گی، دوسرے کی محنت کام نہ آئے گی تاکہ آدمی دوسروں پر تکیہ کر کے معطل نہ ہو بیٹھے، ہمت سے خود آگے بڑھے۔

مثبت پہلو

یہی صورت اسلام کے اساسی اصول میں مثبت ضابطوں کی بھی ہے جس سے اسلام کا مزاج کھلتا ہے، مثلاً

(۱) لِیَھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْ بَیِّنَۃٍ وَّیَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَۃٍ۔
یعنی اسلام کا مزاج حجت پسندی، حجۃ طلبی اور تحقیق حال کا ہے۔ جذبات پسندی یا محض شبہات یا قرائن بے تحقیق کسی کو انعام یا انتقام دینے کا نہیں۔ 
(۲) وَالصُّلْحُ خَیْرُْ وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ۔
یعنی اسلام کا مزاج صلح جوئی اور امن پسندی کا ہے، لڑائی جھگڑا، شر انگیزی اور فتنہ جوئی کا نہیں۔ نیز اس کا مزاج احسان اور جود و کرم کا ہے، بخل، تنگی اور جزرسی کا نہیں۔
(۳) وَاصْبِرْ عَلٰی مَا اَصَابَکَ اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۔
یعنی اسلام کا مزاج انتقام پسندانہ نہیں بلکہ کریمانہ اور مصائب یا ایذا رسانیوں پر صبر و تحمل اور عفو و درگزر کا ہے۔ اس کو اس نے اولوالعزمی کہا ہے۔ 
(۴) اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃُْ۔
یعنی اسلام کا مزاج باہمی بھائی بندی اور ملنساری کا ہے، اجنبیت پسندی اور بیگانہ روش کا نہیں۔
(۵) اِنَّ النَّاسَ کُلُّھُمْ اِخْوَۃُْ۔
یعنی اسلام کا مزاج عالمی بھائی چارے کا ہے کہ تمام انسان بھائیوں کی طرح رہیں خواہ کوئی بھی قوم ہو اور کسی بھی مذہب کی ماننے والی ہو۔ غلام سازی، استحصالِ عوام یا گروہ سازیوں کے ذریعے بھائی کو بھائی سے جدا کر دینے کا نہیں ہے۔
(۶) مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا۔
یعنی اسلام کا مزاج پورے عالمِ انسانیت کا احترام و تحفظ ہے۔ انسانیت کی تحقیر و تذلیل اور لاپرواہی سے اس کے ضائع ہو جانے پر قناعت کر لینے کا نہیں۔
(۷) وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا اُولٰئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ حَقًا۔
یعنی اسلام کا مزاج خلط و التباس، حق و باطل کو مخلوط کر دینے، یا اقوام کی رضاجوئی کی خاطر حق و باطل کو جمع کر کے بین بین راہیں نکالنے کا نہیں بلکہ حق و باطل کو نکھار کر ممیز کر دینے کا ہے۔ 
(۸) اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کآفۃً۔
اسلام کا مزاج دائرہ حق (اسلام) میں پورے داخل کرانے اور یک رخی کے ساتھ دلوں کو سکون و اطمینان بخشنے کا ہے۔ ناتمام اور ادھ کجرے کام سے دلوں کو ڈانواڈول کر دینے کا نہیں۔
(۹) اَنْ تَؤَدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰی اَھْلِھَا۔
یعنی اسلام کا مزاج امانت داری اور امانت سپاری کا ہے۔ بد دیانتی، خیانت پسندی یا دغل فعل کا نہیں۔
(۱۰) وَیَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۔
اسلام کا مزاج اجتماعی طور پر استواریٔ نظام اور قیامِ امارت پر امیر کے حق میں سمع و طاعت کا ہے، اگرچہ ایک حبشی غلام ہی امیر بنا دیا جائے۔ لامرکزیت یا فوضویت اور بے مرکز جمہوریت اسلام کا مزاج نہیں کہ یہ انتشار پسندی ہے۔ 
(۱۱) کُلُّ اَمْرِءٍ بِمَا کَسَبَ رَھِیْنُْ۔
اسلام کا مزاج ہر ایک کو اپنے ہی عمل پر ابھارنا ہے تاکہ دوسروں پر تکیہ کر کے نہ بیٹھ جائے۔
(۱۲) مَنْ یَّعْمَلْ سُوْءً یُجْزَ بِہٖٖ۔
اسلام کا مزاج یہ ہے کہ کوئی اپنی نسبت یا نسب یا انتساب پر بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جائے، جس نے جو کچھ کیا ہے وہ ضرور اس کے آگے آئے گا۔
(۱۳) ثَلٰثَۃُْ لَعَنَھُمُ اللہ (۔۔۔۔۔) مُتَّبِعُْ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً جَاھِلِیَّۃً۔
یعنی اسلام کا مزاج یہ ہے کہ جاہلیت کی جن رسوم کو اس نے ہٹا دیا ہے ان کا اعادہ یا نئی نئی پگڈنڈیاں نکالنا اس کے لیے قابل برداشت نہیں کہ یہ خود اسلام کی تخریب ہے۔
(۱۴) مَا اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا۔
اسلام کا مزاج رسالت کی پیروی کرانا ہے، قانونِ حق میں ایجاد اختراع کرانا نہیں۔
(۱۵) اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْاٰخِرَۃ اور اِنَّ الدُّنْیَا خُلِقَتْ لَکُمْ وَاِنَّکُمْ خُلِقْتُمْ لِلْاٰٰخِرَۃِ۔
اسلام کا مزاج ہر عمل کو، خواہ عبادت ہو خواہ عادت، اخروی بنانا ہے دنیا پر ختم کر دینا نہیں ہے، نہ دنیوی مفادات کو اصل رکھنا ہے۔ مگر دنیا ترک کرانا بھی نہیں بلکہ اسے اختیار کر کے اس میں سے آخرت نکالنا ہے۔ اس لیے دنیا کو کھیتی کہا ہے۔ پس اگر پھل ضروری ہے تو کھیتی کرنی بھی ضروری ہے ورنہ پھل نہیں مل سکتا۔ پس اسلام کے مزاج میں ترکِ دنیا نہیں بلکہ ترکِ محبتِ دنیا ہے اس لیے کہ یہ ساری دنیا انسان کے لیے پیدا کی گئی ہے تو وہ معطل نہیں چھوڑی جا سکتی اور انسان آخرت کے لیے پیدا کیا گیا ہے تو اسے محض دنیا پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔

خلاصۂ اصول

بہرحال کتاب و سنت کے یہ چند اساسی اصول جیسے اجتماعی، انفرادی، شخصی، جماعتی مرکزیت، امارت، سمع و طاعت، تفویض عہدہ جات کی نوعیت، عوام کا طرزِ تربیت، اخلاقی بلندی، عملی جوش، معاشرت کا ڈھنگ، دین کی وسعت، خلت و التباس سے اس کا بالاتر ہونا، بدعات و محدثات سے گریز، اتباع رسالت، اخوت، ہمدردی، بے لوث عدل و انصاف، خدمتِ خلق، دنیا کا آخرت سے ربط اور آخرت کی مقصودیت وہ امور ہیں جن سے منہاجِ نبوۃ کا ذوق اور اسلامی مزاج کھل کر سامنے آآتا ہے۔ 

یہ چند مثالیں ہیں جو سرسری طور پر ذہن میں آئیں ورنہ کتاب و سنت ان جیسے سینکڑوں اصول سے بھری ہوئی ہیں، ہمیں تشکیلِ نو میں ان سب کو بہرحال سامنے رکھنا ہے۔ 

(۴) تشکیلِ جدید میں سب سے زیادہ اہم قدم رجالِ کار کا انتخاب

لیکن ان اقدامات میں سب سے زیادہ اہم قدم ۔۔۔۔ رجال کار کا انتخاب ہے جو دین کے مبصر اور فقیہانہ شان رکھتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی دین کے اصول و فروع ان کے سامنے ہوں، اسلام کی حقیقی روح ان کی روح میں پیوست ہو۔ اور اسلام کی وہ حکمتِ عملی اگر رجال کار ناواقف یا غیر فقیہہ یا غیر مبصر اور اسلام کی حکمتِ عملی سے نابلد، روح اسلام سے بیگانہ ہوں تو فکرِ اسلامی کی تشکیل ممکن نہ ہو گی۔ اس لیے سب سے بڑا مسئلہ شخصیات کے انتخاب کا ہے۔ حق تعالیٰ نے جب اس مکمل دین کو دنیا میں بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو اولًا شخصیت ہی کا انتخاب فرمایا اور وہ ذات تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ دین محض تعلیم و تفکیر کے لیے نہیں بلکہ تربیت کے لیے آتا ہے اور تربیت محض تعلیم یا کتاب کے نوشتوں سے نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس سے ہم آہنگ شخصیتیں اسے قلوب تک پہنچانے والی اور اپنے عمل سے نمایاں کرنے والی نہ ہوں۔ 

اس لیے دنیا کا کوئی دور بھی ایسا نہیں گزرا کہ امتوں کی صلاح و فلاح کے لیے محض قانون اتارا گیا ہو اور پیغمبر کی شخصیت نہ بھیجی گئی ہو کیونکہ شخصیت ہی دین اور مسائلِ دین کو اس انداز اور اس حکمتِ عملی سے پیش کر سکتی ہے جو شارح حقیقی حق تعالیٰ شانہٗ نے اس کے لیے وضع کیا ہے۔ اس لیے وہی شخصیت مخاطب قوم کی نفسیات کی رعایت رکھتی ہے اور اس کے اجتماعی مزاج سے آگاہ ہوتی ہے جو ہدایت کے لیے منتخب کی جاتی ہے کیونکہ ہر دور میں اس رنگ کی شریعت آئی جو رنگ مخاطب قوم کا تھا اور اس نوع کے معجزات سے نبوت کو ثابت کیا گیا جو نوعیت اس دور کے ذہن و مزاج کی ہوئی۔ 

آج کل نبوت ختم ہو چکی ہے تو انبیاء کا کام اس امت کے مجددوں اور مفکر علماء عرفاء کے سپرد کیا گیا کہ وہ شریعت کو اسی رنگ سے ثابت کر کے دلوں میں جمائیں جو آج کے دور کی نفسیات کا رنگ ہو۔ اس حقیقت کو امام ابن سیرینؒ نے جو ایک جلیل القدر تابعی اور تعبیرِ خواب کے امام ہیں ان لفظوں میں ادا فرمایا ہے کہ

اِنَّ ھٰذَا الْعِلْمَ دِیْنُْ فَانْظُرُوْا عَمَّنْ تَاْخُذُوْنَ دِیْنَکُمْ (مشکوٰۃ)
’’یہ علم (اور آج کی اصطلاح میں یہ فکر) ہی تمہارا دین ہے تو دیکھ لو کہ کس (شخصیت) سے تم دین (یا فکر) اخذ کر رہے ہو۔‘‘

جس سے دین اور دین کے فکر کے بارے میں ہمیں پوری رہنمائی ملتی ہے کہ تربیت کا سب سے بڑا ماخذ شخصیت ہے، کاغذ اور نوشتے نہیں ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مربی اور معلم یا مصلحِ فکر اگر خود صحیح المنہاج ہو گا تو وہی قلوب کی صحیح رہنمائی کر سکے گا ورنہ وہ خو اگر اس منہاج کا فکر لیے ہوئے نہ ہو یا قلب میں کوئی زیغ اور کجی لیے ہوئے ہو تو کتاب و سنت سے بھی وہ اسی زیغ ہی کو سامنے لا کر دوسرے قلوب میں بھر دے گا۔ 

آخر مسلمانوں میں آج کتنے متضاد فرقے ہیں جو قرآن ہی کو اپنا امام تسلیم کرتے ہیں اور اسی کا نام لے کر اپنا اپنا فکر دنیا کے سامنے رکھتے ہیں درآنحالیکہ ان متضاد فرقوں میں کوئی ایک ہی حق و ثواب پر ہو سکتا ہے، سب کے سب اس تضاد فکری کے ساتھ محق نہیں کہلائے جا سکتے۔ ظاہر ہے کہ کتاب و سنت کے سامنے ہونے اور اسے امام کہنے کے باوجود اگر کوئی فرقہ مبطل ہو سکتا ہے تو یہ اس کی واضح دلیل ہے کہ اس راستے میں فکر صحیح اور مفکر کی ذات ہی اصل ہے۔ اور کسی فرقے کے مبطل ہونے کے یہ معنی نہ ہوں گے کہ اس کے ہاتھ میں کتاب و سنت اور دینی لٹریچر نہیں، بلکہ یہ ہوں گے کہ اس میں کوئی صحیح الفکر اور ذوقِ سلف پر تربیت یافتہ شخصیت نہیں بلکہ کوئی مبطل اور زیغ زدہ شخصیت آئی ہوئی ہے۔ پس اگر شخصیت صحیح ہو تو باطل نوشتوں سے بھی وہ حق ہی سامنے لے آئے گی، اور اگر وہی فاسد الفکر ہے تو قرآن و حدیث سے بھی وہ باطل ہی نمایاں کر کے قلوب کو فاسد کر دے گی ورنہ قرآن کو امام کہنے والا کوئی مبطل فرقہ مبطل نہیں ہوتا۔ اس لیے جب کہ ہم فکرِ اسلامی کی تشکیل کے لیے قدم اٹھا رہے ہیں تو سب سے مقدم صحیح الفکر شخصیات ہی کا انتخاب ہے جس سے منہاجِ نبوۃ کا صحیح اور متوارث ذوق ہمارے سامنے آجائے اور اس سیدھے سے منہاج پر ہمارا فکر استقامت کے ساتھ رواں دواں ہو۔ 

حرفِ آخر

بہرحال فکرِ اسلامی کی تشکیل تو قابلِ تبریک ہے جس کا سہرا جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سر ہو گا لیکن اس میں:

  1. سب سے پہلا قدم نشانۂ فکر متعین کرنا ہے اور وہ منہاجِ نبوۃ ہے۔ 
  2. دوسرا قدم اس منہاج میں فکر دوڑانے کے لیے اس کے اصول و قواعد درکار ہوں گے جس میں قواعد کلیہ اور فروعات فقہیہ سب داخل ہیں۔ 
  3. تیسرا قدم اس مزاج کا پہچاننا ہے اور اسے سامنے رکھنا ہے جو ملت اسلامیہ کو بخشا گیا ہے اور اس پر اس کی صدیوں سے تربیت ہوتی آ رہی ہے۔ 
  4. چوتھا قدم رجال فکر کا انتخاب ہے کہ فکر کا ظہور صاحبِ فکر ہی سے ہو سکتا ہے نہ کہ محض کاغذ کے نوشتوں سے۔ 
  5. اور پانچواں قدم ان ظاہری اور باطنی خصوصیات کی رعایت ہے جو اس منہاج کا جوہر اور اس کی خصوصیات ہیں۔ 

مجھے اعتراف ہے کہ اجلاسِ جامعہ میں تو قلتِ وقت کی وجہ سے قرآنی اصول کی صرف اجمالی فہرست ہی پیش کر سکا تھا جو یقیناً تشنہ تفصیل تھی۔ اور اب مقالہ کی صورت میں اس کی کچھ توضیحات بھی اگر پیش کر رہا ہوں تو قلتِ فرصت کی وجہ سے وہ بھی کچھ تفصیلی اور مرتب شدہ نہیں ہیں بلکہ کثرتِ مشاغل کے سبب بھاگ دوڑ کے ساتھ جو بھی منتشر چیزیں سامنے آ رہی ہیں انہیں کو عجلت کے ساتھ جمع کر دیا گیا، جس میں نہ کسی خاص ترتیب ہی کی رعایت ہو سکتی ہے نہ نظامِ کلام کی۔ اس لیے اسے ’’جُھْدُ الْعَقْلِ زُمُوْعُہ‘‘ کے مصداق سمجھنا چاہیے جو ادائے فرض تو ہے مگر لوازمِ فرض سے آراستہ نہیں ہے۔ دعا ہے کہ حق تعالیٰ اس مہم کو انجامِ حسن تک پہنچائے اور ملت کے لیے ایک نافع قدم ثابت فرمائے، آمین۔

(ماخوذ: ماہنامہ ’’دارالعلوم‘‘ دیوبند، بھارت ۔ شمارہ جنوری فروری ۱۹۷۹ء)


دسمبر ۱۹۸۹ء

آہ! الشیخ عبد اللہ عزامؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حضرت مولانا عزیر گلؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
پیرِ طریقت مولانا حافظ غلام حبیب نقشبندیؒمولانا ضیاء الرحمٰن فاروقی
اسلام کا فطری نظاممولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ
کیا افغان مجاہدین کی جنگ مسلمان اور مسلمان کی جنگ ہے؟مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دینی تعلیم اور مدارس کی اہمیتحضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی
تلاوتِ قرآنِ مجید باعث خیر و برکت ہےمحمد اسلم رانا
کیا بائیبل میں تحریف پر قرآن کریم خاموش ہے؟محمد عمار خان ناصر
علماء کا مقام اور ان کی ذمہ داریقاضی محمد اسرائیل
کیا واقعی سندھ کو نبی اکرمؐ کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہے؟غازی عزیر
موت کا منظرحکیم سید محمود علی فتحپوری
عورت کی حکمرانی کی شرعی حیثیتمولانا مفتی حبیب الرحمٰن خیرآبادی
توہینِ صحابہؓ کے مرتکب کو تین سال قید با مشقت کی سزاادارہ
منقبتِ صحابہؓسرور میواتی
تعارف و تبصرہادارہ
قرآنی نظام اپنے لیے ماحول خود بناتا ہےشیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی

آہ! الشیخ عبد اللہ عزامؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گزشتہ روز ایک مجاہد فلسطینی عالم الدکتور الشیخ عبد اللہ عزامؒ پشاور میں اپنے دو بیٹوں سمیت بم کے دھماکہ میں جامِ شہادت نوش کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ جمعہ کی نماز پڑھ کر گاڑی میں اپنی رہائش گاہ پر واپس جا رہے تھے کہ گاڑی میں نصب کیا ہوا بم پھٹا اور تینوں باپ بیٹے شہید ہوگئے۔
ڈاکٹر عبد اللہ عزام شہیدؒ سعودی عرب کے رہنے والے تھے، یونیورسٹی کے پروفیسر تھے، جہادِ افغانستان کے آغاز کے ساتھ ہی جذبۂ جہاد سے سرشار ہو کر ملازمت سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے محاذِ جنگ پر آگئے۔ مختلف محاذوں پر جنگ میں حصہ لیا، افغان مجاہدین کی حمایت و امداد کے لیے ادارہ قائم کیا، جہادِ افغانستان پر مقالات اور کتابیں لکھیں، ’’الجہاد‘‘ کے نام سے ایک معیاری عربی جریدے کی اشاعت کا اہتمام کیا اور ان جذبۂ جہاد سے سرشار عرب نوجوانوں کی راہنمائی اور قیادت کی جو مختلف ممالک سے جہادِ افغانستان میں شرکت کے لیے محاذوں پر پہنچے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر عبد اللہ عزام شہیدؒ جہادِ افغانستان کو بجا طور پر ملتِ اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز سمجھتے ہوئے اس میں شریک تھے اور دنیا بھر کے مسلم علماء کو جہاد میں شریک دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ شہادت کی آرزو ان کے دل میں تھی اور زبان ہر وقت شہادت اور جہاد کے ذکر سے تر رہتی تھی۔ انہوں نے اپنی منزل پا لی ہے اور اپنے رب کی بارگاہ میں سرخرو جا پہنچے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کی یہ قربانی اس دنیا میں بھی رائیگاں نہیں جائے گی، افغان مجاہدین کامیابی کی منزل سے ہمکنار ہوں گے اور جہادِ افغانستان دنیا بھر میں احیائے اسلام کی جدوجہد کا نکتۂ آغاز ثابت ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر عبد اللہ عزام شہیدؒ اور ان کے بیٹوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں اور ان کے عظیم مشن کو کامیابی سے ہمکنار فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

حضرت مولانا عزیر گلؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سترہ نومبر کو روزنامہ جنگ لاہور کے آخری صفحہ پر ایک کونے میں یہ خبر نظر سے گزری کہ تحریکِ آزادی برصغیر کے نامور مجاہد اور شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ کے رفیق حضرت مولانا عزیر گلؒ انتقال فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ علالت اور ضعف و نقاہت کی خبریں کافی عرصہ سے آرہی تھیں اور عمر بھی سو سال سے تجاوز کر چکی تھی مگر اس کے باوجود دل اس خبر پر یقین کرنے کو تیار نہ ہوا۔ خبر کو بار بار پڑھا، ذمہ دار علمائے کرام کے تعزیتی پیغامابت بھی ساتھ تھے اس لیے مانے بغیر کوئی چارہ نہ تھا، زبان پر بے ساختہ انا للہ وانا الیہ راجعون جاری ہوا کہ موت ہر ذی روح کا مقدر ہے۔ جو اس دنیا میں آیا ہے اس نے بہرحال جانا ہے۔ ’’کل من علیھا فان ویبقٰی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام‘‘۔
مولانا عزیر گلؒ کون تھے؟ آج کی نسل اس سے باخبر نہیں ہے اور نئی نسل کو اس کے ماضی اور اقدار و روایات سے باخبر رکھنے کی ذمہ داری جن حضرات پر ہے انہیں نہ اس کی ضرورت کا احساس ہے اور نہ ہی اس کی اہمیت ان کے ذہنوں میں موجود ہے۔ مولانا عزیر گلؒ اس قافلۂ حریت کے فرد تھے جس نے برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف عسکری، تہذیبی، تعلیمی اور سیاسی جنگ لڑی اور بالآخر اسے شکست دے کر اس خطۂ زمین کی آزادی کی راہ ہموار کی۔
اس قافلۂ حریت کے ایک عظیم سالار شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ تھے جنہوں نے اس صدی کے دوسرے عشرہ میں متحدہ ہندوستان کی آزادی کا منصوبہ بنایا اور ملک کے طول و عرض میں مجاہدین آزادی کی فوج منظم کی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ترکی اور افغانستان کی حکومتوں کو جنگِ آزادی میں ہمنوا بنا کر ان کا تعاون حاصل کرنے کا پروگرام ترتیب دیا۔ یہ منصوبہ برطانوی سی آئی ڈی کے کاغذات میں ’’ریشمی خطوط سازش کیس‘‘ کے نام سے اس کے ریکارڈ کا ایک اہم حصہ ہے اور ہماری تاریخ میں ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ’’دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا‘‘ کے مصداق یہ منصوبہ عین اس وقت برطانوی سی آئی ڈی کے ہتھے چڑھ گیا جب کہ ملک کے اند رحریت پسند افواج کی تربیت و تنظیم کا کام کم و بیش مکمل ہو چکا تھا اور ترکی کی خلافت عثمانیہ سے عسکری و سیاسی تعاون کے حصول کے لیے حجاز مقدس میں شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ ترک حکام کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھے۔ جہادِ آزادی کی منصوبہ بندی کے بارے میں ریشمی رومالوں پر لکھے گئے خفیہ خطوط برطانوی کارندوں کے ہتھے چڑھتے ہی شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور ان کے رفقاء کو گرفتار کر لیا گیا اور متحدہ ہندوستان کے طول و عرض میں تحریک سے تعلق رکھنے والے تمام حضرات حراست میں لے لیے گئے۔
مولانا عزیر گلؒ اس تحریک اور منصوبہ بندی میں شیخ الہندؒ کے معتمد رفیق تھے اور انہی کے ساتھ گرفتار ہو کر مالٹا جزیرہ میں کم و بیش پونے چار سال تک نظر بند رہے۔ مولانا عزیر گلؒ مالاکنڈ ایجنسی کے رہنے والے تھے، دارالعلوم دیوبند میں شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ سے دینی تعلیم کی تکمیل کی اور پھر انہی کے لیے وقف ہو کر رہ گئے۔ آزاد قبائل میں فرنگی فوجوں کے ساتھ مسلسل لڑنے والے حریت پسند قبائل کے ساتھ شیخ الہندؒ کے خصوصی روابط تھے اور اس علاقہ میں شیخ الہندؒ کے شاگردوں اور حریت پسند رفقاء کی ایک بڑی تعداد مصروفِ جہاد تھی۔ قبائل کے ساتھ خفیہ روابط کے لیے مولانا عزیر گلؒ کو شیخ الہندؒ کے معتمد ایلچی کی حیثیت حاصل تھی اور وہ باہمی رابطہ کا ایک اہم ذریعہ تھے۔ حضرت شیخ الہندؒ کو مولانا عزیر گلؒ پر کس قدر اعتماد تھا اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ برطانوی سی آئی ڈی کی رپورٹوں کے مطابق حجازِ مقدس میں ترک حکام کے ساتھ شیخ الہندؒ کا جو خفیہ معاہدہ طے پانے والا تھا اسے ہندوستان کے معتمد رفقاء تک پہنچانے کی ذمہ داری مولانا عزیر گلؒ کے سپرد ہوئی تھی۔ مولانا عزیر گلؒ اپنے استاد اور قائد حضرت شیخ الہندؒ کے عاشق زار تھے، مالٹا کی تنہائیوں میں خدمت کی سعادت حاصل کی اور اپنے عظیم استادؒ کے عظیم مشن میں ان کی رفاقت کا حق ادا کر دیا۔
مولانا عزیر گلؒ حضرت شیخ الہندؒ کی زندگی تک ان کے ساتھ متحرک رہے مگر ان کی وفات کے بعد پھر کام میں وہ مزہ نہ ملا اور قیام پاکستان کے بعد تو بالکل ہی گوشہ نشین ہوگئے۔ مالاکنڈ ایجنسی میں سخاکوٹ سے دو میل کے فاصلے پر ’’سیرے‘‘ نامی گاؤں ان کا آبائی گاؤں ہے، وہیں سکونت اختیار کر لی۔ راقم الحروف کو متعدد بار حضرت مولانا عزیر گلؒ کی خدمت میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی۔ تب صحت مند اور چاق و چوبند تھے، مزاج میں بے تکلفی، نمود و نمائش سے دلی نفرت اور مہمان نوازی ان کی خصوصیات تھیں۔ اپنے محبوب استاذ حضرت شیخ الہندؒ کی یادوں کے سہارے جی رہے تھے، انہی کا تذکرہ اکثر زبان پر رہتا اور بہت سے دوست تو یہی محبوب تذکرہ سننے ان کی مجلس میں جایا کرتے تھے۔
مولانا عزیر گلؒ کا سینہ تحریک آزادی کی کئی ان کہی کہانیوں کا مخزن تھا، اے کاش کہ اس خزانہ کو تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ کرنے کا کوئی اہتمام ہو جاتا مگر اب کفِ افسوس ملنے سے کیا فائدہ۔ وہ اپنی یادوں اور خزانوں سمیت ہم سے رخصت ہو چکے ہیں اور اپنے رب کے پاس جا چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازیں، آمین یا الٰہ العالمین۔

پیرِ طریقت مولانا حافظ غلام حبیب نقشبندیؒ

مولانا ضیاء الرحمٰن فاروقی

برصغیر پاک و ہند کو عالمِ اسلام میں یہ امتیازی حیثیت حاصل ہے کہ اس سرزمین پر اولیائے کرام اور صوفیائے عظام کی قدوم میمنت لزوم سے دینِ اسلام سے والہانہ محبت، اسلامی حمیّت و غیرت کا چراغ روشن ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ ہوں یا خواجہ سید علی ہجویریؒ، حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کا فیضان ہو یا خواجہ بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ کی تعلیمات ہوں، حضرت لعل شہباز قلندرؒ کی درخشندہ تاریخ ہو یا خواجہ نظام الدین اولیاء کے کارنامے، سب اکابرین کی تاریخ ساز جدوجہد اور محنت و عرق ریزی نے انسانیت کے مردہ قلوب کو اسلام کی تابندہ روشنی سے منور کیا۔ 

عہدِ حاضر میں پوری دنیا کفر و ضلالت اور الحاد مغربیت کی زد میں جاں بلب ہے۔ مسلم ممالک تک لادینیت کے زہر سے آلودہ ہیں۔ دہریت اور جدت طرازی نے ایک ارب بیس کروڑ مسلمانوں کی ثقافت و معاشرت اور تہذیب و تمدن کو تبدیل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ غوایت و گمراہی کے ان مہیب سایوں، شرک و کفر اور بدعات و توہمات کے اندھیروں میں صرف ایک روشنی کی کرن اکابرین و اسلاف اور اولیاء عظام کی تعلیمات کی صورت میں پوری ملت اسلامیہ کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ اہلسنت والجماعت کے تمام مکاتبِ فکر ولایت و ریاضت کے چار روحانی سلسلوں میں منسلک ہیں۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ سے سلسلہ قادریہ، خواجہ شہاب الدین سہروردیؒ سے سلسلہ سہروردیہ، حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ سے سلسلہ چشتیہ، حضرت مجدد الف ثانیؒ سے سلسلہ نقشبندیہ، برصغیر پاک و ہند بنگلہ دیش میں ذکرِ الٰہی، صفائی قلب، تزکیہ نفس اور انسانیت کی سچی تعمیر کے لیے روبہ عمل ہیں۔ 
ہم زیرِ نظر مضمون میں عہدِ حاضر کی ایک ایسی برگزیدہ ہستی اور عبقری صفت انسان کا تذکرہ کریں گے جو سلسلۂ نقشبندیہ کا درخشندہ ماہتاب ہے جس کی عطر بیزی سے دنیا کے ۲۲ ممالک کے مسلمانوں کے قلوب معطر ہو رہے ہیں۔ سلسلہ نقشبندیہ کی یہ عظیم شخصیت اور لاکھوں مسلمانوں کے پیشوا حضرت پیر غلام حبیب نقشبندیؒ کے نام سے معروف ہیں۔ حال ہی میں جن کا سایہ اہلِ پاکستان کے سر سے اٹھ گیا ہے وہ لاکھوں مریدوں کو یتیم کر کے خلد بریں میں پہنچ چکے ہیں۔ آپ کے جنازے میں ایک لاکھ افراد شریک ہوئے۔ خانقاہ نقشبندیہ چکوال میں آج بھی اندرون اور بیرون ملک سے ہزاروں سوگواروں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ 
حضرت پیر غلام حبیب صاحبؒ ۱۹۰۴ء بمطابق ۱۳۲۲ھ کو موضع کورڈھی وادی سون سکیسر ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم میں قاری قمر الدین صاحب سے حفظ قرآن مکمل کیا۔ آخری تعلیم یعنی دورہ حدیث اور تفاسیر کی کتب شیخ الحدیث مولانا سید امیر فاضل دیوبند سے حاصل کی۔ تفسیرِ قرآن کے لیے آپ نے اپنے عہد کے نامور علماء اور جید اساتذہ کے فیض صحبت سے حظ وافر حاصل کیا۔ آپ کے ایک معتقد اور خصوصی شاگرد کے مطابق آپ نے ۱۹۴۲ء میں حرم کعبہ میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ سے تفسیر قرآن کے اہم رموز سیکھے۔ علاوہ ازیں علمِ تفسیر میں آپ نے نامور مفسر اور عہد حاضر کے نابغۂ روزگار، قرآنی علوم کے ماہر حضرت مولانا حسین علی واں بچھراں اور شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ سے شرفِ تلمذ پایا۔
۱۹۵۱ء میں آپ نے وطنِ مالوف کو خیرباد کہا اور مستقل طور پر چکوال میں مقیم ہو گئے۔ حضرت پیر غلام حبیب نقشبندیؒ نے جن دنوں چکوال میں قدم رکھا پورا علاقہ معصیت و کفران اور ضلالت و غوایت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ چاروں طرف دین سے بے رغبتی، جہالت اور شرک و کفر کے مہیب سائے دراز تھے۔ صحابہ کرامؓ، خلفاء راشدینؓ اور اہل بیت عظامؓ کا نام لینا اور ان کے فضائل بیان کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ جہالت و کفر کی اس سیاہ وادی میں قدم رکھنے کے بعد آپ نے ایک جامع مسجد میں درس و تدریس اور ذکرِ الٰہی کی محافل کا آغاز کیا۔ رفتہ رفتہ ہجوم اور عقیدت مندوں کا قافلہ بڑھتا گیا۔ آپ نے تھوڑے عرصے بعد دارالعلوم حنفیہ کے نام سے ایک دینی مدرسہ کا آغاز کیا۔ 
تعلیمی امور کے ساتھ آپ نے اپنے دور کی ہر دینی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مولانا پیر غلام حبیبؒ نے ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں بے مثال کردار ادا کیا۔ آپ نے علاقہ بھر میں قادیانیت کے کفر سے لوگوں کو آگاہ کیا، خود طویل عرصے تک جیل کاٹی۔ 
چکوال میں تشریف آوری سے بہت قبل آپ نے مشہور روحانی سلسلہ نقشبندیہ سے تعلق استوار کیا۔ اس کے لیے آپ احمد پور شرقیہ (بہاولپور) تشریف لے گئے۔ یہاں آپ نے حضرت فضل علی قریشیؒ کے سلسلۂ عالیہ کے ایک چشم و چراغ حضرت پیر عبد المالک صدیقیؒ نقشبندی سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔ روحانی منازل طے کرتے ہوئے تھوڑے ہی عرصہ میں آپ نے بے مثال ترقی حاصل کی اور اپنے مرشد کے خانوادہ سے خلافت کے خلعت سے مرقع ہوئے۔ سلسلۂ نقشبندیہ کے فروغ اور روحانیت کی اعلیٰ اقدار کو بامِ عروج تک پہنچانے کے لیے حضرت پیر غلام حبیب صاحبؒ نے بے پناہ محنت کی، آپ کی عرق ریزی، جہدِ مسلسل، سعیٔ پیہم کا نتیجہ تھا کہ پاکستان اور غیر ملکوں سے لاکھوں انسان آپ کے آستانہ پر حاضر ہوئے۔ دیکھتے دیکھتے چکوال کی چھوٹی سی مسجد اور مختصر سا دینی مدرسہ برصغیر کی نامور خانقاہ بن گئی۔ پاکستان کی چالیس سالہ تاریخ میں کسی خانقاہ سے اتنے لوگ منسلک نہیں ہوئے جتنے حضرت پیر غلام حبیب نقشبندیؒ کے حلقۂ ارادت میں لوگوں نے شرفِ بیعت پایا۔ آپ کو ایک نظر دیکھنے والا کوئی انسان آپ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا، موصوف حسن و جمال اور قدرتی تاثیر کی بے پایاں دولت سے بہرہ ور تھے۔ دن رات میں بائیس بائیس گھنٹے آپ وعظ و تلقین میں گزارتے، بڑھاپے کی عمر تک آپ کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا۔ 
حضرت پیر غلام حبیبؒ سال بھر میں تین چار مرتبہ بیرون ملک دوروں کے لیے تشریف لے جاتے۔ امریکہ، برطانیہ، زمبیا، فرانس، فیجی، ماریشیس، طاوی اور ۲۲ اسلامی و غیر اسلامی ممالک میں آپ کے مریدوں کی تعداد لاکھوں سے متجاوز ہے۔ حال ہی میں جب سے آپ کی وفات کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی ہے دنیا بھر سے آپ کے مریدوں اور عقیدتمندوں کی کیفیت انتہائی قابلِ دید ہے جیسے ان کے سر سے حقیقی باپ کا سایہ اٹھ گیا ہے۔ 
حضرت پیر غلام حبیب نقشبندی کے قائم کردہ دارالعلوم میں تین سو طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ آپ کی زندگی ہی میں دارالعلوم اور خانقاہ کی پرشکوہ تعمیرات کی تکمیل ہو چکی ہے۔ چکوال کے پورے علاقے میں ایسے تعمیرات ناپید ہیں۔ 
آپ کی وفات ۲۱ ستمبر بروز جمعرات ۱۹۸۹ء کو ہوئی، دنیا بھر سے علماء، صلحاء، مشائخ، سیاست دان، ڈاکٹرز، پروفیسرز اور عام مسلمانوں نے (جنازہ میں) شرکت کی۔ حضرت پیر غلام حبیب نقشبندیؒ کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادہ اور ممتاز عالم دین حضرت مولانا عبد الرحمٰن قاسمی کی دستاربندی ہوئی، اس تقریب میں ملک بھر کے ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ 

اسلام کا فطری نظام

مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

سمندر کا ایک ایک قطرہ، ریت کا ایک ایک ذرہ، درختوں کا ایک ایک پتہ، اور زمین و آسمان کا ایک ایک شوشہ بزبانِ حال ہر باشعور کو پکار پکار کر یہ دعوتِ فکر دیتا ہے کہ تمہارا اپنے آقائے حقیقی کے ساتھ ایک ازلی رشتہ اور ایک ابدی علاقہ ہے جس نے تمہاری جسمانی راحت و آرام کا جو اہتمام فرمایا ہے اس سے کہیں زیادہ اس نے تمہاری کائناتِ روحانی کی آسائش و زیبائش کا معقول اور واضح تر انتظام کیا ہے۔ یہ بہتے ہوئے دریا، یہ ابلتے ہوئے چشمے، یہ لہلہاتے ہوئے سبزے، یہ چہچہاتے ہوئے پرندے، یہ اونچی اونچی پہاڑیاں، یہ گھنی اور گنجان جھاڑیاں، یہ تناور اور پھل دار درخت، یہ خوش رنگ اور خوشبودار پھول اور پتیاں، یہ چرند و پرند، یہ نباتات و جمادات، یہ ارض و سماء اور یہ مادی عالم کے جملہ تغیرات، کیا یہ دعوت نہیں دیتے کہ زندگی کے ہر ہر لمحہ میں عبد اپنے معبود کو یاد رکھے؟ جلوت و خلوت، ظاہر و باطن، امارت و غربت، کسی حالت میں بھی اس کے خیال سے غافل نہ ہو۔ عبدِ منیب کا اپنے معبودِ حقیقی کے ساتھ یہ تعلق چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، صحت و سقم اور سفر و حضر ہی کی کیفیات تک ہرگز محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہر لمحے اور حیاتِ ناپائیدار و مستعار کی ہر گھڑی میں وہ اپنے معبود ہی کی بے نیازی و عظمت کا اقرار کرتا ہوا نظر آئے گا۔ کسی آن اور کسی شان میں بھی عبدِ مُسلم کا ربط اپنے پروردگار سے ہرگز منقطع نہیں ہو سکتا۔ 

بندہ اپنی بندگی اور بے چارگی کے تعلقات کو اپنے رب ذوالمنن اور اس کے الطاف و عنایات کے ساتھ وابستہ و استوار رکھنے کے بغیر بندہ کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہو سکتا۔ بندہ کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے خوف اور ڈر رکھنے کے باوجود بھی اس کی رحمت و رأفت کی قوی امید اور اس کی نصرت و دستگیری پر کامل اعتماد اور آسرا کرے اور ہر وقت اس کی توجہ کا مرکز صرف وہی ذاتِ کبریائی ہی ہو۔ کھانے پینے کی کوئی مجلس ہو یا کھیل و شغل کی کوئی محفل، بے تکلف کا کوئی گوشۂ تنہائی ہو یا جلوت کی رنگینی، بازار کی رونق ہو یا حجرہ کا کوئی زاویۂ خمول، میدانِ کارزار ہو یا شادی کی بزم، کہیں بھی اس کے ہاتھوں سے اپنے معبودِ حقیقی کی رضا جوئی کا مضبوط اور مستحکم سر رشتہ ہرگز جدا نہیں ہو سکتا اور زندگی کے کسی لمحہ میں بھی وہ اپنے معبود کی عظمت و جلالت کے خیال سے کبھی غافل نہیں رہ سکتا۔ خدا تعالیٰ کی بندگی اور بندوں کی بے چارگی کے ان مستحکم روابط اور تعلقات کا چولی دامن کا ساتھ ہے جو کسی وقت منفک نہیں ہو سکتے۔
ربِ قدیر سے مناجات کرتے ہوئے عبدِ منیب جب فطرت کی گہرائیوں میں ڈوب کر اپنی تمام نفسیات کا جائزہ لیتا اور اپنی ذاتی زندگی کا محاسبہ کرتا ہے اور جب اس عمیق مطالعہ کے بعد اپنا سر اٹھاتا ہے تو حسبِ ارشاد خداوندی ’’فِطْرَۃَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا‘‘ اگر وہ اس فطرت سے بیگانہ نہیں ہو چکا تو وہ خدائے ذوالجلال کے سامنے سر نیاز جھکا کر رقت انگیز لہجے اور محبت خیز لے میں یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ
ہمیشہ تیرے در پر ہو سر تسلیم خم میرا
رہے تیرے تصرف میں زبان میری قلم میرا

فطرتِ صحیحہ تک رسائی کا طریقہ

نفسانی خواہشات انسان کو انجام بینی سے روک کر تن آسانی اور راحت کا گرویدہ بنانے پر آمادہ اور مذہبی تقاضوں پر غفلت کے پردے ڈالنے میں مصروف و کوشاں رہتی ہے۔ اکتسابِ اخلاقِ فاضلہ، خیر و شر کی حقیقی تمیز اور زندگی کے اعلیٰ ترین مقصد و مرام تک پہنچنے اور ان کمالات کے حاصل کرنے سے روکتی ہیں جو مذہب پر کاربند ہو کر آنے والے سفر میں بھی رفیقِ سفر رہتے ہیں۔ 
اگر کوئی متنفس ایسا باقی نہ رہے جو خدائے بزرگ و برتر کی رضاجوئی کے لیے اپنی جان و مال سب کچھ قربان کر دینے پر آمادہ اور روزِ جزاء کے مواخذہ سے بچنے کے لیے اپنی تمام خواہشاتِ نفسانی اور نفسِ امّارہ کا مقابلہ کر سکتا ہو؛‎  اور اگر تمام باتوں کو، جو کسی نہ کسی حیثیت سے مذہب و دین کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں، فنا کر دیا جائے تو یہ دلفریب اور دلکش دنیا نہ صرف یہ کہ بے لطف و بے رونق بن جائے گی بلکہ درندوں کا جنگل، وحشی جانوروں کا اکھاڑہ، اور شیطانوں کی بستی بن جائے گی۔ پس اس بات کے تسلیم کر لینے میں ذرّہ بھر تامل نہیں ہو سکتا کہ دنیا میں اخلاق و روحانیت، تہذیب و تمدن اور تمدنی ترقیات اور عمدہ اخلاق کی بنیاد مذہب ہی نے قائم کی ہے اور مذہبیت کی عمر نسلِ انسانی کی عمر سے ایک دن بھی کم نہیں ہے۔ اور مذہب کوئی وہمی اور خیالی چیز نہیں بلکہ ایک واضح حقیقت ہے جس سے بڑھ کر کوئی اور چیز حقیقی نہیں، اور وہ ایک ایسی صداقت ہے جس سے بڑھ کر کوئی اور صداقت تصور میں نہیں آ سکتی۔ 
مگر یہ یاد رہے کہ مذہب سے مراد اس جگہ الٰہی، الہامی اور آسمانی مذہب ہے جس میں تمام عقائد و اعمال اور اخلاق و معاملات نیز حیات بعد الممات اور اسی طرح بے شمار دیگر احکام مشرح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ باقی دھرمی یا فلسفی، محض عقلی اور خودساختہ نظریات کو مذہب کہنا ہی اشد غلطی ہے اور ان بے بنیاد مذاہب کو عالمِ انسانیت میں کبھی کوئی اہمیت حاصل ہی نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے۔ مذہب صرف وہ ہے جو رسول اور نبی کے ذریعہ دنیا میں شایع ہوا، جس کی نشر و اشاعت کے لیے بہت سے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام وقتاً فوقتاً دنیا میں مبعوث ہوتے رہے، جنہوں نے فطرت اللہ کے موافق نسلِ انسانی کی بہترین رہنمائی کی اور توجہ الی اللہ کے لیے اظہارِ عبودیت کے مختلف اور متنوع اعمال و اشغال بتائے اور اس طرح فطرتِ انسانی کی شگفتگی کے ساتھ ہی ساتھ دین الفطرت بھی شگفتہ ہوتا گیا۔ 
جن لوگوں نے عقلِ صحیح اور الہامِ ربانی سے بے نیازی برتی اور اپنے ارادہ اور اختیار کا غلط استعمال کیا تو وہ فطرت اللہ کی تلاش میں آوارہ اور گم کردہ راہ بن کر انبیاء و ملائکہ، جنات و بنی آدم، احبار و رہبان، چاند و سورج، ستارے و فرضی ارواح، دریا و پہاڑ، درخت و آگ وغیرہ کو معبود سمجھ کر ان کی پرستش کرنے لگے۔ اور اب بھی مختلف ملکوں میں متعدد قوموں میں آب و تاب کے ساتھ رنگ برنگ خودساختہ دلائل سے اس کجری کی ترویج کی جا رہی ہے اور لوگ اس سے غافل ہیں۔ 
بدل کے بھیس زمانے میں پھر سے آتے ہیں
اگرچہ پیر ہے آدم، جواں ہیں لات و منات
الغرض خدا تعالیٰ کی رضاجوئی اور فطرت اللہ کے موافق زندگی بسر کرنا وحی الٰہی کے بغیر بالکل ناممکن ہے کیونکہ انسان خواہ کتنا ہی ترقی کر جائے اور اپنے علم و واقفیت کو کیسے ہی اعلیٰ سے اعلیٰ معیار اور مقام تک پہنچائے پھر بھی وہ بغیر امدادِ خداوندی اور وحیٔ الٰہی کے اور بدون رہبریٔ رسول اور راہنمائی نبیؔ کے نہ تو اپنی سعادت اور نجاتِ اخروی کے طریقوں سے واقف ہو سکتا ہے اور نہ نیکی اور بدی کا پورا تعیّن کر سکتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعے انسان کو توجہ دلائی ہے کہ تمہاری جسمانی پیدائش، بدنی پرورش اور روحانی تربیت کے تمام سامانوں کا پیدا اور مہیا کرنے والا صرف تمہارا حقیقی پروردگار ہے اور اس کی ربوبیت کے بغیر نہ تو تمہارا وجود ممکن ہے اور نہ تمہاری روحانی ترقی اور مقصدِ حیات سے ہم کنار اور فائز المرام کرنے کا کوئی اور موجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان ہادیانِ برحق کو تعلیم ربانی پیش کرنے کا نہایت مدلل و پُر اثر و دل نشین اور یقین آور ملکہ عطا فرمایا جس سے جاہل و عالم، دیہاتی و شہری، نوجوان و بوڑھا، مرد و عورت، غرض ہر طبقہ اور ہر حیثیت کا آدمی یکساں متاثر و مستفید ہوتا رہا اور اب بھی مستفیض ہو سکتا ہے۔ 
انوارِ نبوت سے اب تک دن رات میں اک تابانی ہے
اے مہرِ درخشاں کیا کہنا، اے شمعِ شبستاں کیا کہنا
اور ان سب کے بعد اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کامل و مکمل دین، ناقابلِ ترمیم و تنسیخ شریعت اور معراجِ کمال تک پہنچانے والا بہترین اسوۂ حسنہ دے کر مبعوث فرمایا جو تمام عالم کی ہدایت اور رہبری کے لیے بھیجے گئے۔ چونکہ آپ وحیٔ الٰہی مبسط اور خداوند تعالیٰ کے مخاطب اور احکامِ خداوندی کے سب سے پہلے تعمیل کنندہ اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے خواہاں اور سب سے بڑھ کر حق تعالیٰ کے فرمانبردار اور مطیع تھے اور خدا تعالیٰ نے آپ کو لوگوں کے لیے مکمل نمونہ بنا کر مبعوث فرمایا تھا لہٰذا وہی سب سے بہتر وحیٔ الٰہی کے منشاء و مراد کے سمجھنے اور سمجھانے والے تھے۔ اور اسی لیے آپؐ کی اطاعت عین خدا تعالیٰ کی اطاعت ہے اور آپؐ ہی کے مکمل نمونے کی پیروی سے دینِ حق دنیا میں قائم ہے۔ آپؐ کا ہر ایک حکم دین کے معاملے میں ایسا ہی واجب التعمیل اور ضروری ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ کا حکم۔ اور ظاہر ہے کہ آپؐ کا ہر ایک حکم خدا تعالیٰ ہی کے منشاء کے ماتحت ہوتا تھا، خدا تعالیٰ کے حکم کے خلاف آپؐ کسی کو کوئی حکم نہیں دیتے تھے۔ اگر کسی موقع پر آپؐ سے کوئی اجتہادی لغزش سرزد ہوتی تھی تو اللہ تعالیٰ تنبیہ نازل فرما کر اصلاح فرما دیا کرتے تھے اور اس لغزش پر آپؐ کو ہرگز برقرار نہیں رکھا جاتا تھا۔ 
آپؐ کے ایسے احکام کو جو قرآن کریم کے سوا ہیں وحی خفی اور حدیث کہتے ہیں۔ اور یہ ایک واشگاف حقیقت ہے کہ صحیح وحی خفی اور حدیث یقیناً وحی جلی اور قرآنِ کریم ہی کی تفسیر اور اس کی تشریح ہے، اس کی مخالف ہرگز نہیں۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کا حکم دیا گیا اور آپؐ کی نافرمانی سے منع کیا گیا ہے کہ امت کے لیے آپؐ بہترین نمونہ ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۔ (پ ۵ ۔ النساء ۱۱)
’’جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی۔‘‘
نیز فرمایا کہ:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ۔ (پ ۳ ۔ آل عمران ۴۰)
’’اے رسول! آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو تم میری اتباع کرو، اللہ بھی تم سے محبت کرے گا۔‘‘
اور ایک جگہ یوں ارشاد فرمایا ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃُْ حَسَنَۃُْ۔ (پ ۲۱ ۔ احزاب ۳)
’’مسلمانو! تمہارے واسطے جناب رسول اللہ کا طرزِ عمل پیروی کے لیے بہترین نمونہ ہے۔‘‘
غرض کہ جیسے آپؐ کی ہستی مخلوقِ خدا میں سب سے اعلیٰ و ارفع ہے، اس طرح آپؐ کا اُسوۂ حسنہ بھی بے مثل اور بے نظیر ہے جس کا تمام عالم میں کوئی بدل ہی نہیں ہے۔
شرابِ خوشگوارم ہست و یار مہرباں ساقی
ندارد ہیچکس یارے چنیں یارے کہ من دارم
جس طرح قرآن کریم میں آپؐ کی اطاعت اور اتباع کو امت کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے اور تمام امت پر آپؐ کے عمدہ ترین اسوۂ حسنہ کی پیروی ضروری بتائی گئی ہے اسی طرح خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عیاں الفاظ میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا تاوقتیکہ اس کی خواہش میری خواہش کے تابع نہ ہو۔ اور پروردگارِ عالم نے قسم اٹھا کر یہ حکم بیان کیا ہے کہ تیرے رب کی (یعنی مجھے اپنی ذات کی) قسم کہ یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے تاوقتیکہ آپ کو ہر بات اور ہر معاملہ میں اپنا فیصلہ اور حَکَم تسلیم نہ کریں اور پھر دل میں ذرہ بھر تنگی محسوس نہ کریں اور آپ کے حکم کے سامنے گردنِ تسلیم خم نہ کر دیں۔ ’’فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ‘‘- (النساء ۶۵)
اس کے بعد بھی اگر کسی آبلہ فریب کو یہ مغالطہ ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اور آپؐ کی اطاعت اور اتباع ہمارے لیے لازم نہیں اور آپؐ کے ارشادات کی حیثیت محض تاریخی واقعات کی سی ہے جن کے انکار سے کفر لازم نہیں آتا تو اس ہٹ دھرمی کا علاج یہاں نہیں بلکہ کسی اور جہان ہی میں ہو سکتا ہے۔ اور خود حالات اس کو بتائیں گے کہ دارِفانی میں اس کا کن سے عشق و پیار تھا اور دنیا میں اس نے کیا کمایا اور کیا کھویا۔ 
بوقتِ صبح شود، ہمچو روزِ معلومت
کہ باکہ باختۂ عشق در شبِ دیجور

کیا افغان مجاہدین کی جنگ مسلمان اور مسلمان کی جنگ ہے؟

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۱۲ و ۱۳ نومبر ۱۹۸۹ء کو جامعہ اشرفیہ مسلم ٹاؤن لاہور میں حرکۃ الجہاد الاسلامی (عالمی) کا سالانہ اجتماع ہوا جس کی صدارت حرکۃ الجہاد الاسلامی کے امیر مولانا قاری سیف اللہ اختر نے کی اور اس کی مختلف نشستوں سے ملک کے اکابر علماء کرام اور نے خطاب فرمایا۔ مدیر الشریعہ نے اپنے خطاب میں جہاد افغانستان کے بارے میں مختلف حلقوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے اہم سوالات کا جائزہ لیا، ان کا خطاب درج ذیل ہے۔ ادارہ الشریعہ)

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ جناب صدر، قابل احترام علماء کرام اور میرے مجاہد بھائیو!
میں حرکۃ الجہاد الاسلامی کے امیر مولانا قاری سیف اللہ اختر کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس اجتماع میں حاضری اور جہاد افغانستان کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔ وقت مختصر ہے اور علماء کرام کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جنہوں نے آپ سے مخاطب ہونا ہے اس لیے انتہائی اختصار کے ساتھ کسی تمہید کے بغیر جہاد افغانستان کے بارے میں عام طور پر کیے جانے والے دو اہم سوالوں کا جائزہ لوں گا۔
میرے محترم بھائیو! آپ حضرات میں سے بہت سے دوست وہ ہیں جو محاذ جنگ پر جا کر عملاً جہاد میں شریک ہو چکے ہیں اور بہت سے نوجوان ایسے ہیں جن کے دلوں میں جہاد کا جذبہ موجزن ہے اور وہ محاذ جنگ پر جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جہاد افغانستان کے بارے میں بعض حلقوں کی طرف سے پھیلائے جانے والے شکوک کا جائزہ لیا جائے تاکہ ذہنوں میں کسی قسم کا خلجان باقی نہ رہے۔ جہادِ افغانستان کے بارے میں اس وقت جن دو سوالوں پر سب سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے ان میں:
  1. ایک یہ ہے کہ جب روسی افواج افغانستان سے چلی گئی ہیں تو اب جہاد جاری رکھنے کا شرعی جواز کیا باقی رہ گیا ہے اور کیا افغانستان میں ہونے والی موجودہ جنگ مسلمان کی مسلمان کے ساتھ جنگ نہیں ہے؟
  2. دوسرا سوال یہ ہے کہ افغان مجاہدین نے اب تک جو جنگ لڑی ہے اس میں انہیں امریکہ، پاکستان اور دوسرے ممالک کی پشت پناہی حاصل تھی مگر اب ان ممالک کی پالیسیوں میں تبدیلی نظر آرہی ہے اور پشت پناہی اور امداد کی پہلی کیفیت باقی نہیں رہی۔ ان حالات میں افغانستان کی جنگ اب کس حال میں ہے، اس کا مستقبل کیا ہے اور اس کے جیتنے کے امکانات کس حد تک ہیں؟
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے اس کے جواب میں دو باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جہاد افغانستان کا اصل ہدف کیا تھا۔ یہ بات قطعی طور پر غلط ہے کہ افغان مجاہدین نے روسی فوجوں کے خلاف جہاد کا آغاز کیا تھا اس لیے روسی فوجوں کی واپسی کے ساتھ ہی یہ جہاد ختم ہوگیا ہے۔ کیونکہ جب افغانستان میں جہاد کا آغاز ہوا تھا اور افغان علماء نے جہاد کا فتوٰی دے کر ہتھیار اٹھائے تھے اس وقت افغانستان میں روسی فوجوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔ افغان علماء نے کابل میں کمیونسٹ نظام کے تسلط اور اسلامی اقدار و روایات کے خلاف کابل کی کمیونسٹ حکومت کے اقدامات کے علی الرغم علم جہاد بلند کیا تھا۔ روسی فوجیں تو بہت بعد میں آئی ہیں اور اس وقت آئی ہیں جب افغان مجاہدین باقاعدہ عملی جنگ کے ذریعے افغانستان کا ایک اچھا خاصا علاقہ کابل کی کمیونسٹ حکومت کے تسلط سے آزاد کرا چکے تھے۔ روسی فوجیں کابل میں اپنی حکومت اور نظام کو بچانے کے لیے آئی تھیں اور کمیونسٹ انقلاب کو مجاہدین کے ہاتھوں شکست سے بچانے کے لیے جنگ میں شریک ہوئی تھیں۔
اس پس منظر میں آپ دیکھیں کہ کابل میں جس کمیونسٹ حکومت اور کمیونسٹ نظام کے خلاف افغان مجاہدین نے جہاد کا آغاز کیا تھا، کیا اس کا خاتمہ ہوگیا ہے؟ اگر کابل کی حکومت موجود ہے اور اپنے نظریاتی موقف اور نظام و انقلاب پر قائم ہے تو اس کے خلاف افغان مجاہدین کا جہاد بھی اپنی مکمل شرعی حیثیت کے ساتھ جاری ہے۔ یہ جس طرح پہلے دن شرعی جہاد تھا آج بھی شرعی جہاد ہے اور اس وقت تک شرعی جہاد رہے گا جب تک کابل پر کمیونسٹ انقلاب کا تسلط ختم نہیں ہو جاتا اور اس کی جگہ ایک خالص نظریاتی شرعی حکومت قائم نہیں ہو جاتی۔
دوسری گزارش سوال کے اس پہلو کے بارے میں ہے کہ یہ مسلمان اور مسلمان کی جنگ ہے اور دونوں طرف سے مسلمان ہلاک ہو رہے ہیں۔ میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑتا کہ جو نام نہاد مسلمان کفر کی حمایت و حفاظت کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں ان کا مسلمان ہونا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے۔ میں انہی بھائیوں کی زبان میں بات کرتا ہوں جو کہتے ہیں کہ یہ مسلمان اور مسلمان کی جنگ ہے اس لیے شرعاً اسے جہاد کہنے کا جواز باقی نہیں رہا۔ دیکھیے! جس نوعیت کی جنگ آج افغان مجاہدین روسی استعمار کے خلاف لڑ رہے ہیں اسی طرح کی جنگ ہمارے اکابر نے برٹش استعمار کے خلاف لڑی تھی۔ برطانوی استعمار نے اسی طرح برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش پر قبضہ کر کے اپنا نظام مسلط کیا تھا اور ہمارے بزرگوں نے، علماء حق نے، اکابر نے اس کے خلاف علم جہاد بلند کیا تھا۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے اس جہاد کا فتوٰی دیا تھا اور علماء حق نے مختلف اوقات میں مختلف محاذوں پر انگریزوں سے جنگ لڑی تھی۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ان جنگوں میں فرنگی کی فوجوں میں مسلمان تھے یا نہیں تھے؟ کئی ریاستوں کے مسلم حکمران اور ان کی فوجیں فرنگی مقاصد کے لیے مجاہدین آزادی کے خلاف جنگ میں شریک ہوئی تھیں یا نہیں؟
شہدائے بالاکوٹ کو دیکھ لیجئے۔ امیر المؤمنین سید احمد شہیدؒ اور امام المجاہدین شاہ اسماعیل شہیدؒ نے جن سکھوں اور انگریزوں کے خلاف جہاد کیا تھا کیا ان کے ساتھ مسلمان نہیں تھے؟ کیا کفار کی فوج میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے شریک ہو جانے سے یہ جنگ مسلمان اور مسلمان کی جنگ بن گئی تھی اور شرعی جہاد نہیں رہا تھا؟ ۱۸۵۷ء کے جہاد آزادی کو دیکھ لیجئے۔ ہم آج تک اپنی تقریروں میں کہتے ہیں کہ مسلمان کہلانے والے نوابوں، جاگیرداروں، سرداروں، خان بہادروں اور وڈیروں نے اس جنگ میں انگریز کا ساتھ دیا تھا، انگریزی فوج کو سپاہی مہیا کیے تھے۔ ہم مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے خاندان کی انگریزی حکومت سے وفاداری ثابت کرنے کے لیے مرزا قادیانی کی کتابوں سے یہ حوالے دیتے ہیں کہ اس کے باپ نے اور دادا نے انگریزی فوج کے لیے ۱۸۵۷ء میں سینکڑوں گھوڑے اور سپاہی مہیا کیے۔ کفر کا فتوٰی تو مرزا غلام احمد قادیانی پر اس کے دعوائے نبوت کی وجہ سے لگا ہے، اس کے باپ اور دادا پر تو کسی نے کفر کا فتوٰی نہیں لگایا تھا۔ کیا ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے فرنگی فوجوں میں شامل ہو جانے سے اس کا جہاد ہونا مشکوک ہوگیا تھا؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے کیونکہ ہم یہ مانتے ہیں کہ شہدائے بالاکوٹ کی جنگ شرعاً جہاد تھی اور ۱۸۵۷ء کا معرکہ شرعاً جہاد تھا تو افغان مجاہدین کی جنگ بھی مسلمان اور مسلمان کی جنگ نہیں بلکہ شرعی جہاد ہے۔
ایک بات میں علماء کرام سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی مسلمان کفر کے نظام کا حمایتی بن جائے اور نظامِ کفر میں شامل ہو کر جنگ میں مسلمانوں کے مقابل آجائے تو اس کا حکم شرعاً کیا ہے؟ کیا اس کو گولی مارنے سے اس لیے گریز کریں گے کہ وہ کلمہ پڑھتا ہے اور کیا اس کو گولی مرنے سے اس جنگ کی شرعی حیثیت تبدیل ہو جائے گی؟ میرے محترم بزرگو اور بھائیو! یہ سب پروپیگنڈا ہے اور جہاد افغانستان کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے جس کا مقصد مجاہدین کے حوصلوں کو پست کرنے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان کی حمایت سے روکنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اب ِآئیے دوسرے سوال کی طرف کہ امریکہ اور پاکستان کی افغان پالیسی میں محسوس کی جانے والی منفی تبدیلی کے بعد جہاد افغانستان کس حال میں ہے اور اس کا مستقبل کیا ہے؟
اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ یہ کہنا ہی خلاف واقعہ ہے کہ افغان مجاہدین نے یہ جہاد امریکہ اور دوسرے ممالک کی پشت پناہی کی وجہ سے شروع کیا تھا۔ کیونکہ جب افغان علماء نے جہاد کا فتوٰی دیا تھا اور ان کی قیادت میں مجاہدین پہلے کابل حکومت اور پھر روسی فوجوں کے خلاف صف آرا ہوئے تھے تو امریکہ اور دوسرے حمایتوں کا کہیں دور دور تک کوئی پتہ نہیں تھا۔ اس وقت یہ سمجھا جا رہا تھا کہ یہ چند بے وقوف مولوی ہیں، روسی فوجوں سے ٹکرانا ان کے بس کی بات نہیں، دو چار ہفتوں میں صاف ہو جائیں گے۔ لیکن جب مجاہدین ڈٹے رہے اور انہوں نے افغانستان کا کم از کم چالیس فیصد علاقہ روسی فوجوں کے تسلط سے محفوظ کر لیا تو امریکہ اور دوسری طاقتیں متوجہ ہوئیں اور انہوں نے افغان مجاہدین کی عملی امداد کی طرف سنجیدگی کے ساتھ توجہ دی۔ یہ امر واقعہ ہے کہ جہاد افغانستان کے آغاز کے بعد کم از کم تین سال تک مجاہدین نے تن تنہا جنگ لڑی ہے، روسی فوجوں کا اسلحہ چھین کر لڑی ہے، بے سروسامانی کی حالت میں لڑی ہے، فقر و فاقہ اور کسمپرسی کے عالم میں لڑی ہے اور ایمانی قوت کے ساتھ میدان میں ڈٹ کر دنیا کو بتایا ہے کہ ایمان اور جذبہ آج بھی دنیا کی سب سے بڑی قوت ہے۔
دوسری بات یہ ذہن میں رکھیں کہ امریکہ کی امداد کے بارے میں مجاہدین اور ان کے ہمنوا کبھی اس غلط فہمی کا شکار نہیں رہے کہ یہ آخر وقت تک جاری رہے گی۔ سب جانتے ہیں کہ یہ امداد اپنے مفادات کے لیے امریکہ نے دی ہے۔ جب تک روسی فوجیں افغانستان میں موجود تھیں امریکہ کا مفاد اس میں تھا کہ مجاہدین کو امداد دی جائے اور انہیں مضبوط کیا جائے۔ اور جب روسی فوجیں چلی گئیں تو امریکہ کا مفاد اس میں ہے کہ مجاہدین کو کمزور کیا جائے اور کابل پر ان کی حکومت کو قائم ہونے سے ہر قیمت پر روکا جائے۔ یہ صرف امریکہ کا مفاد نہیں بلکہ اسلام آباد، ڈھاکہ، انقرہ، قاہرہ، خرطوم، جکارتہ اور دوسرے تمام مسلم دارالحکومتوں کا مشترکہ مفاد ہے کیونکہ اگر کابل میں خالص نظریاتی شرعی حکومت قائم ہو جاتی ہے تو مسلم ممالک کے دارالحکومتوں میں منافقت کا اسلام کابل کی اسلامی حکومت کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا، اسے میدان سے ہٹنا پڑتا ہے، دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ اور مسلم ممالک میں منافقانہ اور دکھاوے کے اسلام کی شکست امریکہ کی شکست ہے، اس کے مفادات کی شکست ہے اور عالم اسلام پر اس کی بالادستی کی شکست ہے۔ اس لیے سب مل کر اس گٹھ جوڑ میں مصروف ہیں کہ کابل پر مجاہدین کی حکومت قائم نہ ہونے دی جائے اور ظاہر شاہ یا اس قسم کے کسی اور نام سے دکھاوے کی مسلمان حکومت کابل میں قائم کر دی جائے۔ لیکن میں افغان مجاہدین اور جہاد افغانستان کے زعماء کی بصیرت و جرأت کو سلام کرتا ہوں کہ انہوں نے اس گٹھ جوڑ کو مسترد کر دیا ہے، وہ لمبی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں مگر کفر اور منافقت کے ساتھ مفاہمت پر آمادہ نہیں ہیں۔
میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ صورتحال کچھ بدل گئی ہے، حالات میں تغیر آیا ہے، مجاہدین کی مشکلات بڑھی ہیں، ان کی جنگ لمبی ہوئی ہے اور آزمائش کا عرصہ طویل ہوگیا ہے۔ لیکن جہاد کی کامیابی کا راستہ یہی ہے، کفر و منافقت کی مکمل شکست اور اسلام کی مکمل بالادستی کا راستہ یہی ہے۔ میں نے مجاہدین کو محاذ جنگ پر دیکھا ہے، ان کے مورچوں میں گیا ہوں اور ان کے عزم و حوصلہ کا مشاہدہ کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ مشکلات ان کی راہ میں حائل نہیں ہوں گی۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ جہاد افغانستان اپنی فطری رفتار کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، امریکہ اور اسلام آباد کے رویہ میں تبدیلی کے باوجود مجاہدین کے قدم رکے نہیں مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں اور فطری رفتار میں بڑھ رہے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب مجاہدین کابل پر شریعت اسلامیہ کی بالادستی کا پرچم لہرائیں گے اور میرے نزدیک وہ دن جہاد کے اختتام کا دن نہیں ہوگا بلکہ وہی دن پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک میں استعماری نظاموں اور منافقت کے اسلام کے خلاف جہاد کے آغاز کا دن ہوگا۔ خدا ہمیں وہ دن جلدی دکھائے اور اس دن کے لیے خود کو تیار رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

دینی تعلیم اور مدارس کی اہمیت

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

(پھلت ضلع مظفر نگر (انڈیا) میں ایک دینی مدرسہ کے افتتاح کے موقع پر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مدظلہ کا بصیرت افروز خطاب)
 حضراتِ علماء کرام، برادرانِ عزیز! پھلت کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی ہر صاحبِ علم کو، خاص طور پر جو تاریخ کا طالب علم رہا ہو خصوصًا ہندوستان کی تاریخ کا، اس کے لیے یہ بالکل قدرتی بات ہے کہ اسے پھلت کے وہ نامور (افراد) یاد آجائیں جو صرف پھلت ہی کے لیے باعث فخر نہیں بلکہ تمام عالمِ اسلام کے لیے۔ بارہویں صدی ہجری جس میں اس عہد کا سب سے بڑا عالمِ دین، یہ میں پوری بصیرت کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اسرارِ شریعت کا سب سے بڑا شارح، مسلمانوں کی زندگی کو شریعت کے سانچے میں ڈھالنے کا قائد یعنی حضرت شاہ ولی اللہؒ، مجھے تاریخ لکھنے کے سلسلے میں خصوصاً شاہ ولی اللہؒ کے عہد کی شخصیتوں، تحریکوں پر قلم اٹھانے کے سلسلہ میں اس عہد کا مطالعہ کرنا پڑا، علامہ اقبالؒ نے مجدد الف ثانیؒ کے بارے میں کہا تھا:
وہ ہند میں سرمایۂ ملّت کا نگہبان
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
میں اسی مطالعہ اور فکر کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ اس پورے برصغیر میں اب تک حضرت شاہ ولی اللہؒ کا شروع کیا ہوا دور چل رہا ہے۔ عربی مدارس، دارالعلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور، ندوۃ العلماء لکھنؤ، اور جتنے بھی مدارسِ اسلامیہ ہیں، یہ سب امتداد اور تسلسل ہے حضرت شاہ ولی اللہؒ کے مسلک و مزاج کا۔ ان کا مزاج ہے ولی اللہ اور اس وقت تک ہی ان میں خیر و برکت اور افادیت ہے جب تک ان میں ولی اللہ کا مزاج قائم ہے۔ اس لحاظ سے ہمارے لیے پھلت سیرگاہ نہیں بلکہ زیارت گاہ ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ کی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اخلاف اور خلفاء دونوں عطا کیے ہیں۔ اخلاف میں امام الہند شاہ عبد العزیزؒ، علومِ عقلیہ کے امام شاہ رفیع الدین دہلویؒ اور شاہ عبد القادرؒ جن کا ترجمہ قرآن پاک مشہور ہے۔ غیر عربی میں اب تک کسی بھی زبان میں ان سے بہتر کسی نے نہیں کیا۔ پھر ان کے چوتھے صاحبزادے شاہ عبد الغنی جن کو موقع نہیں ملا، اللہ نے ان کو نعم البدل یہ عطا فرمایا کہ شاہ اسماعیل شہیدؒ جیسا من اذکیاء العالم فرزند ملا۔ یہ تو ان کے اخلاف تھے۔ اور خلفاء میں آپ دیکھیں سید احمد شہیدؒ خلیفہ شاہ عبد العزیزؒ، مولانا عبد الحی شاہؒ، شاہ محمد اسحاقؒ جو درس و تدریس کے بھی امام ہیں اور سلسلۂ تصوف شریعت کے بھی ہیں۔ دہلی کو یہ خانوادہ پھلت کا عطیہ ہے۔ پھلت میں داخل ہوتے ہی یہ تمام تاریخ سامنے آ جاتی ہے اور یہ تاریخ وہی ہے عالمِ اسلام کی کہ جب دارالحکومت میں عہدوں کو حاصل کرنے کی وجہ سے، مصنوعی زندگی کی بنا پر قویٰ سست ہونے لگے، رگوں میں خون منجمد ہونے لگا تو قصبات نے نیا خون عطا کیا۔ آپ نے نہ صرف سلطنتِ مغلیہ کے دارالخلافہ بلکہ مرکزِ علم و سلوک و جذبۂ جہاد دہلی کو پھلت نے اتنا بڑا تحفہ عطا کیا۔ خانوادۂ ولی اللّٰہی، اس سے بڑھ کر تحفہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ جس طرح لکھنؤ کو سہالی کے ایک قصبہ نے خانوادۂ علماء فرنگی محل عطا کیا ایسے ہی جب بغداد میں اضمحلال پیدا ہوا، حکومت کے شر نے قویٰ کو مضمحل کر دیا اور سوائے حصولِ منصب کے کوئی مقصد لوگوں کے سامنے نہ رہا تو ایران کے ایک قصبہ جیلان نے سیدنا عبد القادر جیلانیؒ کا تحفہ دیا جس نے پورے عالمِ اسلام کو عشقِ الٰہی کے سوز سے بھر دیا، جس کی لہریں افریقہ تک پہنچیں۔ ایسے ہی ایران کے ایک معمولی قصبہ نے امام غزالیؒ جیسا مفکر عطا کیا۔ 
الغرض قصبات نے ہر دور میں دارالحکومت کو ایسا چمکتا ہوا، چمکتا ہوا نیا خون عطا کیا جس نے پورے پورے ملکوں کو گرما دیا۔ بہت سے لوگ اس کو بھول جاتے ہیں کہ یہ نیا خون کس نے عطا کیا، بڑے بڑے شہروں کی تاریخ سامنے آجاتی ہے اور وہ آڑ بن جاتی ہے۔ جہاں ایسے مردم خیز قصبوں میں جا کر یہ احساس ہوتا ہے کہ یہاں کیسے کیسے باکمال پیدا ہوئے۔ خدا کے دین کی بھی کوئی حد نہیں، اس کی قدرت کی وسعت معلوم ہوتی ہے وہاں یہ ذہن بھی جاتا ہے جو نفسیاتی ردعمل بھی ہے کہ اب ایسے لوگ پیدا نہیں ہو سکتے۔ اور خدا کی مردے سے زندہ کو پیدا کرنے کی جو قوت ہے ’’یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ‘‘ (الروم ۱۹) اس کو بھول کر ذہن کے کسی گوشہ میں یہ بات ضرور آتی ہے کہ اب تو بس تاریخ کو اور ان کے کارناموں کو پڑھنا چاہیئے اور اپنے معاش میں لگنا چاہیئے تو آپ کے سامنے پھلت کا جو تاریخی تعارف کرایا گیا ہے اس نے مجھے آمادہ کیا کہ میں یہ آیت پڑھ کر سناؤں:
کُلًا نُّمِدُّ ھٰؤُلَآءِ وَ ھٰؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّکَ وَ مَا کَانَ عَطَآءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا۔ (الاسراء ۲۰)
ہم ان کو بھی بھر بھر کر دیتے ہیں اور ان کو بھی ھؤلاء و ھؤلاء اور دیتے رہیں گے۔ آپ جانتے ہیں کہ مضارع کا صیغہ حال اور مستقبل دونوں کے معنی دیتا ہے۔ یعنی یوں کہنا کہ ’’ہم دیتے ہیں‘‘ صحیح نہیں، اور ’’دیتے رہیں گے‘‘ یہ بھی صحیح نہیں۔ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ’’دیتے رہیں گے‘‘۔ تمہارے رب کی دین میں کوئی راشننگ ہی نہیں ہے کہ اب اگر دے دیا تو انتظار کروائے گا برس کا۔ ہمارے رب کی عطاء میں کوئی راشن بندی نہیں کیونکہ اس کی بخشش لامحدود ہے۔ ’’وَمَا کَانَ عَطَاءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا‘‘۔ اکبر الٰہ آبادی مرحوم نے کہا تھا:
اللہ کی راہ اب تک ہے کھلی، آثار و نشاں بھی قائم ہیں
اللہ کے بندوں نے لیکن اس راہ پہ چلنا چھوڑ دیا
لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں۔ ہمت بلند ہو، اخلاص و سعی ہو، اللہ تعالیٰ نے کوشش کی بھی جا بجا تاکید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کوشش کرنے والے کی کوشش کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ یہ ملت تو محبوب ہے، رحمۃ للعالمینؐ کی ملت ہے، اشرف الامم ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کو انسانیت بھی عزیز ہے، اپنی پیدا کی ہوئی دنیا بھی عزیز ہے۔ جس ماحول کا ہمارے لیے انتخاب کیا گیا ہے یا ہمارا جس ماحول کے لیے انتخاب کیا گیا ہے اس کے ساتھ ہمارا جوڑ ہو اور ہم اس فضا میں اپنی افادیت ثابت کریں۔ ہمارے اکابر مجدد الف ثانیؒ ہوں یا شاہ ولی اللہؒ ہوں یا شاہ عبد القادرؒ ہوں، انہوں نے زمانے کی نبض پہچانی، انہوں نے دیکھا کہ زمانے کو روحانیت کی ضرورت ہے، علمِ صحیح کی ضرورت ہے، توحیدِ خالص کی، عہدوں اور انانیت سے بلند ہو کر اعمال میں روح پیدا کرنے کی ضرورت ہے، طلبِ رضاء الٰہی کی ضرورت ہے۔ ایسے ہی انہوں نے دیکھا کہ اس وقت انسانیت کس چیز کی پیاسی ہے۔ وہ زندہ رہنے کا استحقاق کھوتی چلی جا رہی ہے، اس سے جو مظالم سرزد ہو رہے ہیں، اس سے جو حق تلفیاں ہو رہی ہیں، اس سے جو خونِ انساں ارزاں ہو رہا ہے اور پانی کی طرح بہہ رہا ہے، کہیں اللہ تعالیٰ نسلِ انسانی کے خاتمہ کا فیصلہ نہ کر لے کیونکہ 
وَ اَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَآءً وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ۔ (الرعد ۱۷)
جو جھاگ ہے وہ چلا جاتا ہے اور جو چیز نافع ہے وہ زمین میں باقی رہتی ہے۔ معلوم ہوا کہ بقا مربوط ہے نافعیت کے ساتھ۔ جو چیز اپنی افادیت کھو بیٹھتی ہے، جو گروہ، کوئی مرکز، دعوت یا تحریک اپنی نافعیت کھو بیٹھتی ہے، وہ اس کی مستحق نہیں رہتی کہ قائم رہے، یہی سنت اللہ ہے۔ 
ان بزرگانِ دین نے دونوں کام کیے۔ ہماری نظر اس پر تو جاتی ہے کہ انہوں نے ملت کو کیا دیا۔ حدیث و تفسیر میں کیا نئی راہیں نکالیں، علومِ اسلامیہ میں کتنا عمق پیدا کیا، ماحول میں کیا روحانیت پیدا کی، لیکن ہماری نظر اس پر نہیں جاتی کہ انہوں نے غیر مسلموں کی نظر میں اسلام کا کس درجہ احترام پیدا کیا۔ سیرتِ نبویؐ کو غور سے دیکھنے، پڑھنے، مطالعہ کرنے پر کس طرح آمادہ کیا۔ مؤرخین نے بھی اس پر پردہ ڈالا۔ جہاں انہوں نے علم کے دریا بہائے، مسندِ درس بچھائی، وہیں اپنے غیر مسلم پڑوسیوں کے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمۃ للعالمین ہونے کا، اسلام کے حقانی و مطابقِ عقل ہونے کا، اور اسلام کے اس دنیا کی پیاس بجھانے کا ثبوت دیا یقین دلایا۔ ہمارے سوانحی لٹریچر میں یہ پہلو بہت مغلوب رہ گیا ہے۔ 
آج میں کہتا ہوں کہ ملتِ اسلامیہ کو یہ دونوں کام کرنے ہیں۔ عقائد صحیحہ، عباداتِ مقبولہ، طلبِ خداوندی کے ذریعے ملت کا رشتہ اللہ تعالیٰ سے صحیح بھی ہو، قوی بھی ہو۔ دونوں چیزیں ضروری ہیں۔ صرف صحیح ہونا کافی نہیں، قوی بھی ہو۔ صرف قوی ہونا کافی نہیں، صحیح بھی ہو۔ عبادت تو مشرکین بھی کرتے تھے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’وَ مَا کَانَ صَلَاتُھُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّآ مُکَآءً وَّ تَصْدِیَۃ‘‘ (الانفال ۳۵)۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ خصوصًا اس زمانے میں ملت کا یہ فریضہ بھی ہو گیا ہے کہ اپنی نافعیت ثابت کرے۔ ہماری وجہ سے کتنی بلائیں ہیں جو ٹل رہی ہیں، ملک کے لیے باعث رحمت و برکت ہیں۔ یہ تب ہی ہو گا جب آپ صحیح انسان بن کر بازاروں، دفتروں میں جائیں جو انہیں سوچنے پر مجبور کرے کہ وہ کونسا مذہب ہے جس نے ہمیں ایسا انسان بنا دیا۔ ہمیں بتائیں کہ اس ملک کے لیے پہاڑ، دریا، سمندر اتنے ضروری نہیں جتنے کہ ہم۔ ہمارا پیامِ انسانیت، ہماری خداترسی۔ 
ہم ایسے دوراہے پہ آ گئے ہیں کہ ایک راستہ سیدھا ارتداد کی طرف جا رہا ہے۔ میں اس سے کم درجہ کا لفظ استعمال کرنے پر تیار نہیں۔ اگر کوئی آسمان سے ویسا اشارہ نہ ہوا، قدرتِ خداوندی کی کوئی مداخلت نہ ہوئی تو اس کے صاف آثار ہیں۔ آثار ہی نہیں بلکہ آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ تصور کی آنکھ سے جس میں تصور نہیں بلکہ تصویر بھی شامل ہے کہ آئندہ نسل شاید اسلام کے بنیادی قائد سے بالکل ناآشنا ہو، صرف آشنا منفی طور پر ہی نہیں بلکہ اس کے بالمقابل اسلام کے برخلاف عقائد و تصورات کی حامل ہو، مشرکانہ عقائد کی قائل ہو۔ ایسے خطرناک دوراہے پر آگئے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو اس کی توفیق نہ ہوئی کہ اس کے لیے اپنی ساری توانائی صرف کر ڈالیں تو شاید آنے والی نسل ۲۵ برس بعد، یہ تو زیادہ کہہ دیا، بلکہ ۱۵ برس کے بعد خطرہ ہے کہ وہ اللہ اور رسولؐ کے نام سے بالکل ناآشنا ہو۔ اس کی مثالیں سامنے آنے لگی ہیں کہ سکولوں کے بچے بہت سے اللہ کا لفظ صحیح نہیں لکھ سکتے، پوچھتے ہیں کہ ہم اللہ کس طرح لکھیں؟ اور آج نوجوانوں کی ایک تعداد یہ سمجھتی ہے کہ اس دھرتی کو کرشن یا رام چلاتے ہیں۔ ہندو علم الاصنام، ہندو دیومالا بچوں کے ذہنوں پر اثر کر رہی ہے۔ ابھی ٹی وی پر ’’رامائن‘‘ جو سیریل چل رہی ہے، کالج کی جو کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں، اس سے جوانوں کے ذہن و دماغ متاثر ہو رہے ہیں۔ ’’یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا‘‘ (التحریم ۶)۔
معاملہ عالم و فاضل یا مفسر و محدث بنانے کا نہیں بلکہ معاملہ ہے جہنم سے بچانے کا، دوزخ کی آگ سے بچانے کا۔ ایک جلسہ میں ایک بہن ایسی تھی کہ جن کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ عورتوں نے پوچھا کہ بہن! سر میں درد ہے؟ کچھ پیٹ میں تکلیف ہے؟ بولیں، کچھ نہیں۔ پھر مزید اصرار پر بتایا کہ میں بچہ سوتا ہوا چھوڑ کر آئی تھی، اس سے کچھ فاصلے پر دیاسلائی رکھی ہوئی ہے، اگر وہ بچہ جاگ گیا اور چل کر وہاں تک گیا اور دیاسلائی سے تیلی نکال لی، پھر اپنے کپڑوں میں آگ لگا لی تو کیا ہوگا؟ عورتوں نے پوچھا کہ بچے کی عمر کیا ہے؟ بولی، ڈھائی سال کا ہے۔ سب نے کہا، ہوش کی باتیں کرو، وہ اتنا چھوٹا بچہ چارپائی سے کیسے اترے گا اور پھر چل کر وہاں تک جائے گا اور جا کر وہ یہی ایک کام کرے گا؟ جواب دیا، تمہارا بچہ ہوتا تو جانتیں، میرا بچہ ہے اس لیے مجھے ڈر ہے۔ 
میں پوچھتا ہوں کہ آج ہمارے ماں باپ کے دل میں یہ خیال پیدا کیوں نہیں ہوتا کہ اگر ہم نے بچہ کو کلمہ، نماز نہ سکھائی، توحید کا سبق یاد نہ کرایا، ابراہیم کی بت شکنی نہ سمجھائی تو کل وہ مشرک اٹھے گا۔ یہاں تو بالکل خطرات نہیں بلکہ مشاہدات ہیں، وہاں تو ایسا دور دراز کا اندیشہ تھا۔ میں ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ ایک لڑکا ڈھال کی سڑک پر سائیکل پر جا رہا ہے اور آگے گہری کھائی ہے۔ سائیکل سے اتر جاؤ۔ اسی طرح آج ہمارے سامنے گہری کھائی ہے، وہ کھائی ہندو دیو مالا کی ہے، بت پرستی کی ہے، مسلمانوں کے دلوں سے شرک و بت پرستی کی طرف سے ایسے گھن آنا ضروری ہے ۔۔۔۔۔ یہ تکدّر، یہ تعفّن، یہ وحشت دور ہوتی جا رہی ہے حالانکہ ایک مسلمان کو سب سے زیادہ خطرہ اس بات کا ہونا تھا کہ کل وہ مشرکانہ عقائد لے کر نہ اٹھے۔ حضرت خضر علیہ السلام کا ایک بچہ کو قتل کر دینے کا واقعہ تشریعی نہیں ہے، اس پر عمل آج نہیں ہو سکتا مگر یہ قصہ قرآن میں قیامت تک پڑھا جائے گا۔ اس کا مقصد و افادیت یہ ہے کہ مسلمان سمجھے کہ خاندان کے لیے فتنہ بننے والا بچہ کتنا منحوس ہوتا ہے۔ اس قصہ کو قرآن نے جگہ دی تاکہ معلوم ہو کہ یہ خطرہ کتنا بڑا تھا۔ 
پہلی بات تو یہ ہے کہ آئندہ نسلوں کو کھلی ہوئی بت پرستی سے، مشرکانہ عقائد سے بچانے کے لیے اپنے گھٹنے ٹیک دیجیئے، ہر ممکن کوشش کر ڈالیے، سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے لیے خالی وقتوں میں پرائیویٹ کلاسز کا انتظام کرائیے یا ان مدارس و مکاتب میں داخل کرائیے۔ یہ مدارس و مکاتب آج ہماری ریڑھ کی ہڈی ہیں، سانس کا حکم رکھتے ہیں۔ اگر سانس چل رہی ہے تو ہم زندہ ہیں ورنہ ختم۔ اور اپنے ماحول کو مانوس کریں، فضا اگر یونہی اشتعال انگیز رہی تو کسی وقت چنگاری سے آگ لگ سکتی ہے۔ اگر ہمیں دیکھ کر ان کے چہروں پر ناگواری کے آثار نمودار ہوتے رہے، وہ دیکھتے رہے کہ نہ ہم میں اخلاقی کردار، نہ افادیت، ہم بھی وعدہ خلاف اس طرح یہ بھی۔ جس طرح ہم جھوٹ بولتے ہیں اسی طرح یہ بھی۔ تو صرف ہم اپنے لیے ہی نہیں بلکہ اسلام کے باقی رکھنے کے لیے بھی اس ملک میں خطرہ پیدا کر رہے ہیں۔ ہمارے اکابر جو افریقہ، مراکش، اسپین تک اسلام کو پھیلاتے چلے گئے، یہ صرف زبانی کام نہیں بلکہ اس میں کردار بھی شامل تھا جنہیں دیکھ کر خودبخود غیر مسلموں میں جذبہ پیدا ہوتا تھا کہ اسلام کو قبول کریں۔ 
مسلم پرسنل لاء کی لڑائی اس لیے لڑی گئی تھی کہ عائلی تعلقات، میراث، طلاق، نکاح سب اسلامی طریقہ پر ہوں جس کے لیے سب مطالعہ کرنے والے علماء اپنے کمروں سے نکل کر میدان میں آئیں، اپنے عائلی قانون کی بھی حفاظت کرنی ہے، اپنے ملی تشخص کی بھی حفاظت کرنی ہے، اس کا قریب ترین ذریعہ یہ دینی مدارس و مکاتب ہیں۔ 
دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ یہ تلخی جو پانی، ہوا، سانسوں اور ماحول اور فضا میں آ گئی ہے اسے دور کریں۔ اسلام کا تعارف کرائیں ورنہ کسی چیز کا موقع باقی نہ رہے گا۔ ’’پیامِ انسانیت کی تحریک‘‘ یہ ایک چہار دیواری ہے، یہ ایک حصار ہے، اس میں بیٹھ کر آپ قرآن شریف پڑھیے، مسجد بنائیے، نماز پڑھیے، خدانخواستہ یہ ٹوٹ گئی، خدا ہمیں اس دن کے لیے زندہ نہ رکھے جب یہ مسئلہ چہار دیواری کے اندر آجائے اور مدارس و مساجد سب خطرے میں پڑ جائیں۔

تلاوتِ قرآنِ مجید باعث خیر و برکت ہے

محمد اسلم رانا

مسلمانوں کے ہاں تلاوتِ کلام پاک روح افزاء ہے، ایمان افروز ہے، موجبِ اجر و ثواب ہے۔ صبح سویرے تلاوت اور بچوں کے قرآن پڑھنے کی آوازوں کا بلند ہونا مسلمان گھروں کی نشانی ہے۔ لفظ قرآن (سورہ زمر آیت ۲۸) قرأ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں پڑھنا۔ کلامِ پاک کو قرآن یعنی ’’پڑھی ہوئی کتاب‘‘ اسی معنی میں کہا جاتا ہے۔ چونکہ یہ کتاب بکثرت اور بالخصوص پڑھی جانی تھی، کثرتِ تلاوت اس کا طرۂ امتیاز بننا تھا، اس لیے اللہ کریم نے اس کا نام ہی قرآن رکھا۔ تلاوتِ قرآن مجید کی اہمیت محتاجِ بیان نہیں، خود قرآنِ حکیم میں ہی اس مقدس کتاب کی تلاوت کے احکام، آداب اور اجر و ثواب کا تفصیل سے مذکور ہے۔ 

حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاوتِ قرآنِ مجید کا حکم ہوتا ہے (سورہ کہف آیت ۲۷) چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں تلاوتِ قرآن بھی کی جاتی تھی (احزاب ۳۴)۔ قرآن مجید خوب صاف صاف، خوش خوانی سے (مزمل ۴) اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جانا چاہیے (بنی اسرائیل ۱۰۶) تاکہ سامعین کو ایک ایک لفظ خوب سنائی دے، ان کی سمجھ میں آئے اور وہ بھی لطف اٹھا سکیں۔ قرآن کفار کو بھی پڑھ کر سنایا جاتا تھا (عنکبوت ۵۱) مذکور ہے کہ قرآن شریف سن کر جنوں کو ایمان نصیب ہوا (احقاف ۲۹) قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ لینی چاہیئے (نحل ۹۸) 

تلاوتِ کلام پاک موجبِ اجر و ثواب ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’بے شک جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے رہتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے دیا ہے اس میں سے پوشیدہ و علانیہ خرچ کرتے رہتے ہیں وہ ایسی تجارت کی آس لگائے ہوئے ہیں جو کبھی ماند نہ پڑے گی تاکہ ان کو ان کے (اعمال کے) صلے (اللہ تعالیٰ) پورے دے اور اپنے فضل سے ان میں (کچھ) بڑھا بھی دے بے شک وہ بڑا مغفرت کرنے والا ہے بڑا قدر دان ہے۔‘‘ (فاطر ۲۹ و ۳۰ ۔ تفسیر ماجدی)

مزید وارد ہے کہ:

’’جب قرآن کریم پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر اور خاموشی سے سننے سے رحمتِ خداوندی حاصل ہو گی۔‘‘ (اعراف ۲۰۴)

اللہ اللہ تلاوتِ قرآنِ کریم کس قدر بلند و بالا، شان والا اور عالی مرتبت عمل ہے کہ اس سے مسلمانوں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے (انفال ۲)۔ تلاوت کی یہی ایک برکت کافی و وافی ہے، تلاوت کے استحسان کا اس سے بڑا ثبوت ممکن ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی ہے کہ

’’ہم نے قرآن نازل کیا ہے اور اس کی حفاظت بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔‘‘ (حجر ۹)

باری تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا معروف انتظام اس طرح فرمایا ہے کہ قرآنِ کریم بآسانی زبانی یاد (حفظ) ہو جاتا ہے۔ ہر ملک، قوم، نسل اور دور کے لوگ اس پاک کتاب کو برضاء و رغبت حفظ کر لیتے ہیں۔ کس قدر لطف کی بات ہے کہ قرآن حفظ کرنے والوں کی ایک کثیر تعداد نابینا حضرات پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ امر انسانی محنت یا ذہانت پر منحصر نہیں ہے۔ تاریخِ عالم میں یہ شرف کسی بھی کتاب کے حصے میں نہیں آیا۔ ایک چھ سالہ بچہ کا غیر زبان عربی کی اس ضخیم کتاب کو حفظ کر لینا کرامت سے کم نہیں۔ قرآن نورِ الٰہی ہے جو سینوں میں اتر جاتا ہے۔ فرمان ربانی ہے:

’’بلکہ یہ قرآن تو آیتیں ہیں صاف ان لوگوں کے سینوں میں جن کو ملی ہے سمجھ۔‘‘ (عنکبوت ۴۹ ۔ مولانا محمود حسنؒ۔)

اور یہ سب برکت ہے تلاوت کی، عربی قرآن کو محض بغیر سوچے سمجھے پڑھنے کی۔ قرآن خوانی سے پڑھنے اور سننے والوں پر سرور و نشاط اور کیف و مستی کا ایک عجیب سماں طاری ہوتا ہے۔ مشہور امریکی مستشرق پروفیسر ہٹی لکھتے ہیں:

’’قرآن کے لفظی معنی ہیں تلاوت، تقریر، خطبہ۔ یہ کتاب ایک طاقت ور زندہ آواز ہے۔ زبانی تلاوت کے لیے مخصوص ہے۔ حظ اٹھانے کے لیے اسے اصل زبان میں ہی سننا چاہیئے۔ ترجمہ میں اس کا قافیہ پن، خوش بیانی، آواز کا زیروبم اور بہاؤ کھو جاتا ہے۔‘‘ (ہسٹری آف دی عربز ۔ ص ۱۲۷ ۔ پروفیسر فلپ کے ہٹی ۔ ۱۹۵۸ء)

ہر مسلمان کو تھوڑا بہت قرآن پاک زبانی یاد ہوتا ہے۔ قرآن حفظ ہونے کی بدولت گھروں، مدرسوں اور مسجدوں کے علاوہ سڑکوں، کھیتوں، جنگلوں، کارخانوں، فیکٹریوں، بازاروں، دکانوں، دفتروں، بسوں، ریلوں، فضاؤں، دریاؤں اور سمندروں میں زبانی پڑھا جاتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹینکا رقم طراز ہے:

’’عام عبادت، درسگاہوں اور دیگر مواقع پر قرآن کا استعمال مثلاً اکثر عیسائی ملکوں میں بائیبل کے مطالعہ سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اسے بجا طور پر دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب کہا گیا ہے۔‘‘ (انسائیکلو پیڈیا برٹینکا مطبوعہ ۱۹۱۱۔۱۹۱۰ جلد ۱۵ صفحہ ۸۹۸ کالم اول)

پروفیسر ہٹی لکھتے ہیں:

’’عہد ساز کتابوں میں سب سے کم عمر ہونے کے باوجود قرآن دنیا بھر میں لکھی جانے والی کتابوں میں سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے کیونکہ عبادت میں استعمال کے علاوہ یہ وہ مقرر درسی کتاب ہے جس سے ہر مسلمان عملی طور پر عربی پڑھنا سیکھتا ہے۔‘‘ (ایضًا ص ۱۲۶)

جنوبی افریقہ کے ایک مسیحی مشنری گرہارڈ نملز نے بائیبل اور قرآن کی زبانوں کے ضمن میں لکھا:

’’بخلاف عبرانی، آرامی اور یونانی، عربی کے زمانۂ حال تک بولے جانے میں قرآن کا بڑا ہاتھ ہے۔ ۱۵۰۰ برس پیشتر قوم یہود کے منتشر ہوجانے پر عبرانی زندہ زبان ہونے کی حیثیت سے ختم ہو کے رہ گئی۔ ان دنوں آرامی کہیں بھی نہیں بولی جاتی ہے۔‘‘ (کرسچیئنز آنسر مسلمز ۔ ص ۱۶ ۔ گرہارڈ نملز ۔ ۱۹۸۰ء)

(۲) قرآن مجید کی یہ عظمت اور لاثانی مرتبہ دشمنانِ اسلام کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ وہ ہمیشہ تلاوتِ کلام کے خلاف زہر اگلتے اور مسلمانوں کو اسے پڑھنے اور حفظ کرنے سے روکنے کی نامسعود مساعی میں مصروف رہتے ہیں۔ اس ضمن میں عالمِ عیسائیت کا مشہور ترین مناظر پادری فانڈر رقم طراز ہے:

’’محض یہی کافی نہیں کہ ہم اس کی طول طویل عبارات کو حفظ کر لیں اور ان کا مطلب بالکل نہ سمجھیں۔ ایسا کرنا طوطوں کا کام ہے انسان کی شان کے شایان نہیں ۔۔۔ بہت سے مسلمان قرآن کو بلند آواز سے پڑھنے پر قانع ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کے اور ان کے مردوں کے لیے بہت سا ثواب جمع ہو سکتا ہے۔ وہ قرآن کو عربی زبان میں پڑھتے ہیں اگرچہ ان میں کثیر التعداد لوگ ایسے بھی ہیں جو اس قریشی بولی کو بالکل نہیں سمجھتے۔ جو کتاب خدا کی طرف سے آنے کا دعوٰی کرے اس کو اس طرح سے استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ ایسا کرنا ویسا ہی نامناسب ہے جیسے کسی کافر کا اپنی مشعل کو کسی غار میں چھپا دینا اور راہ دیکھنے میں اس سے مدد نہ لینا۔‘‘ (میزان الحق مصنفہ پادری سی جی فانڈر ڈی ڈی ۔ ص ۳۵۰ و ۳۵۱)

ہم عرض کریں گے کہ اگر طوطا بننا ممکن ہوتا تو پادری صاحب اور ان کے ہمنوا ضرور ٹیں ٹیں کرتے پھرتے اور بائبل کی طول طویل عبارات کو حفظ کرنے میں مسلمانوں سے ہرگز ہرگز پیچھے نہ رہتے۔ دراصل ’’ہاتھ نہ پہنچے تھو کوڑی‘‘ والا معاملہ ہے۔ 

دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

اگر مسلمان قرآن کو عربی زبان میں پڑھتے ہیں اور اس قریشی بولی کو بالکل نہیں سمجھتے تو بھی اس سے ان کی عاقبت سنورتی ہے، عبادات ہو جاتی ہیں۔ مسیح میں خراٹے بھرنے والے پادری صاحب کیا جانیں کہ قرآن کی قریشی بولی بیس کروڑ عربوں کی مادری زبان ہے، عرب دنیا میں ہر جگہ بولی اور سمجھی جاتی ہے، چودہ سو برس بعد بھی برابر زندہ و پائندہ ہے۔ کثیر التعداد مسلمانوں کو قریشی بولی نہ سمجھنے کا طعنہ دینے والے پادری صاحب کیا یہ بتا سکیں گے کہ (عوام کا تو ذکر ہی کیا) عیسائی علماء بائبل کو اس کی اصل زبانوں میں ہی پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں؟ جواب یقیناً نفی میں ہے بلکہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ کوئی بڑے سے بڑا محقق بھی ان مردہ زبانوں کو صحییح طور پر سمجھنے کا دعوٰی نہیں کر سکتا۔ ہر بائیبل کے مترجمین اپنی اپنی ڈفلی پر اپنا اپنا راگ الاپتے ہیں۔ مسلمانوں کی ’’مشعل‘‘ گھر گھر میں پڑی ہے جبکہ یار لوگوں کی ’’مشعل‘‘ غاروں کے اندر مرتبانوں میں محفوظ ہے یا قبرستانوں میں مردوں کے ساتھ مدفون ہے یا یونیورسٹیوں اور عجائب گھروں کی زینت ہے۔ 

(۳) اغیار تو اغیار سہی ’’اہل الذکر والقرآن‘‘ ہونے کے دعویدار بھی دشمنانِ اسلام کے پہلو بہ پہلو کھڑے نظر آتے ہیں۔ ماہنامہ ’’بلاغ القرآن‘‘ لاہور بابت اکتوبر ۱۹۸۹ء تلاوتِ کلام پاک کی مخالفت میں رقم طراز ہے:

’’قرآن مجید میں اشارہ تک نہیں ملتا کہ قرآن مجید کو محض پڑھ لینے سے ثواب ملتا ہے ۔۔۔۔ یاد رکھیے کہ قرآن مجید کے محض پڑھ لینے سے کوئی ثواب نہیں ملتا۔‘‘ (ص ۷) 

تشابھت قلوبھم (بقرہ ۱۱۸) کے مصداق ان کے دل بے بصیرتی اور ناحق شناسی میں کافروں سے ملتے ہیں اور ان کے نظریات بھی دشمنوں والے ہیں۔ یہ لوگ اسلام کے کٹر مخالفین کی تقلید میں تلاوتِ کلام پاک کی مخالفت پر کمربستہ ہیں۔ محض پڑھنے کے حق میں انہیں قرآن میں اشارہ تک بھی نہیں ملتا ہے، قرآن سمجھنا تو بڑی بات ٹھہری۔ ہماری وضاحت کی روشنی میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو یہ پاک کتاب کبھی کھول کر دیکھنی بھی نصیب نہیں ہوئی، اسے سمجھنا ایسوں کا نصیب کہاں؟ اگر ’’اہل الذکر والقرآن‘‘ یہ ہیں تو اہلِ کفر و الحاد کون ہوتے ہیں؟ خدا معلوم یہ لوگ کدھر کے ’’اہل الذکر والقرآن‘‘ ہیں؟ اور ان کے اور غیر مسلموں کے درمیان فرق اور فاصلہ کیا ہے؟ کیا صرف ’’اہل الذکر والقرآن‘‘ کے لیبل کا؟ العیاذ باللہ۔ 

مذکورہ گذارشات کا مطلب تلاوتِ کلام پاک کی اہمیت و ثواب جتانا ہے۔ ہم یہ بالکل نہیں کہہ رہے کہ قرآن سمجھا نہ جائے یا اس پر عمل نہ کیا جائے۔ اگر دنیاوی علوم و فنون سیکھنے کے لیے بھاری رقوم خرچ کر کے دس دس بیس بیس برس تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے، گھر بار سے ہزاروں میل دور درسگاہوں میں مغز کھپائی کر سکتے ہیں، فیکٹریوں میں دھکے کھا سکتے ہیں تو قرآن مجید کا ترجمہ اور معانی سمجھنے کے لیے بھی مطلوبہ وقت ضرور نکالا جا سکتا ہے۔ وما علینا الا البلاغ۔

کیا بائیبل میں تحریف پر قرآن کریم خاموش ہے؟

محمد عمار خان ناصر

دنیا کا ہر مذہب کوئی نہ کوئی مقدس کتاب رکھتا ہے، جیسا کہ اسلام میں قرآنِ کریم مقدس آسمانی کتاب ہے۔ عیسائیوں کی مقدس کتاب کا نام بائیبل ہے، یہ بنیادی طور پر دو حصوں میں منقسم ہے۔ 

  1. ایک وہ جس کو ’’عہدنامہ عتیق‘‘ کہا جاتا ہے جس میں تورات، زبور اور انبیاء کبار و صغار کے الہامی و تواریخی صحائف ہیں۔ اس کے جس متن پر یہود اور نصارٰی میں سے فرقہ پروٹسٹنٹ کا اتفاق ہے، یہود اسے ۲۴ اور فرقہ پروٹسٹنٹ والے ۳۹ صحائف میں تقسیم کرتے ہیں۔ جبکہ یہی عہدنامہ عتیق کیتھولک پطرسی کلیسا کی بائیبل میں ۷ کتابوں کے اضافے کے ساتھ ۴۶ کتابوں یعنی صحائف کی شکل میں موجود ہے۔ 
  2. دوسرا وہ ’’عہدنامہ جدید‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں چار اناجیل (منسوب بہ متی، مرقس، لوقا و یوحنا) رسولوں و حواریوں کے اعمال، پولس مقدس کے ۱۴ خطوط، دیگر حواریوں کے خطوط اور یوحنا عارف کا مکاشفہ ہیں۔ اس حصہ میں کل ۲۷ کتابیں ہیں۔ یاد رہے کہ یہود ’’عہدنامہ جدید‘‘ کو الہامی تسلیم نہیں کرتے کیونکہ وہ حضرت عیسٰیؑ کی نبوت کے منکر ہیں۔ 

اب بائیبل میں سے تورات و انجیل پر ہمارا یعنی مسلمانوں کا بطریق قرآن یہ عقیدہ اور یقین ہے کہ یہ دونوں کتابیں تبدیل ہو چکی ہیں، بگڑ چکی ہیں، کیونکہ ان میں اس قدر تحریف ہوئی کہ یہ اپنی اصل صورت میں باقی نہیں رہیں۔ جبکہ مسیحی علماء اس قرآنی نص کا شدومد سے انکار کرتے ہیں۔ 

اب جاننا چاہیئے کہ تحریف کی دو قسمیں ہیں: اول، تحریفِ لفظی۔ دوم، تحریفِ معنوی۔ 

(۱) تحریفِ لفظی کہتے ہیں الفاظ کو بگاڑ ڈالنا، کلمات کو بدل ڈالنا۔ اس کے تین طریقے ہیں: (۱) تبدیلی (۲) زیادہ (۳) نقصان۔ اور تحریف لفظی تینوں طریقوں سے ان کتابوں میں موجود ہے جیسا کہ حضرت مولانا رحمت اللہ العثمانی الکیرانوی المکیؒ ’’اظہار الحق‘‘ میں اس کی صراحت ان الفاظ کے ساتھ فرماتے ہیں کہ

ان التحریف اللفظی بجمیع اقسامہ اعنی تبدیل الالفاظ و زیادتھا و نقصانھا ثابت فی الکتب المذکورۃ۔ (اظہار الحق ۲۰۹)

(۲) تحریفِ معنوی کہتے ہیں (اصل) الفاظ کی غلط تفسیر و تعبیر اور تاویل کرنا جیسا کہ آج کل کے کچھ گمراہ فرقے قرآن کریم میں تحریفِ معنوی کرتے ہیں۔ 

یہ بھی جاننا چاہیئے کہ تورات و انجیل میں تحریف (لفظی و معنوی) کے بارے میں علماء اسلام کے ہاں تین مذاہب پائے جاتے ہیں۔ 

اول وہی ہے جو مولانا رحمت اللہؒ کی عبارت سے ظاہر ہے۔ اس پر اصحاب ظواہر میں سے علامہ ابن حزمؒ نے بہت زور دیا ہے اور ’’الفصل‘‘ میں یہود و نصارٰی کے عقائد، کتب اور ان کی بطالت کے بیان میں طویل بحث کی ہے، یہ مذہب جمہور علماء کا ہے۔ 

دوم یہ کہ ان کتب میں اگرچہ تحریف ہوئی لیکن بہت کم (تحریف سے بہرحال انکار نہیں)۔ شیخ الاسلام حضرت علامہ حافظ ابن تیمیہؒ کا میلان اسی جانب ہے۔ 

سوم یہ کہ ان کتب میں تحریف قطعًا واقع نہیں ہوئی الّا یہ کہ تحریف معنوی ثابت ہے۔ لیکن اس مذہب والوں نے یہ کہہ کر قرآن میں موجود نصوص کی سخت مخالفت کی ہے اور یہ مذہب ’’شذوذ‘‘ کے زمرہ میں شمار ہوگا کیونکہ قرآن کریم میں ہے:

’’یہ کلمات کو ان کی جگہوں کے مقرر ہونے کے بعد بگاڑ ڈالتے ہیں۔‘‘ (المائدہ)

اور 

’’یہ اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھ لیتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے۔‘‘ (البقرہ)

اور یہ مذہب اس لیے بھی ناقابلِ اعتبار ہے کہ قرآن میں ہر مقام پر لفظ تحریف کو ’’تاویلِ فاسد‘‘ کہنے سے قرآن اور ان کتابوں میں حفاظت کے سلسلے میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ جبکہ سورۃ الحجر میں ’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحٰفظون‘‘ میں مذکور لفظ ’’الذکر‘‘ کو مفسرین نے بالاتفاق ’’قرآن‘‘ کا لقب کہا ہے۔ 

تحریفِ لفظی کے سلسلے میں علامہ محمود آلوسیؒ فرماتے ہیں:

والجمھور علی ان تحریفھما بتبدیل کلام من تلقائھم۔ (روح المعانی ج ۱ ص ۲۹۸)
’’جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ان کتابوں کی تحریف یہود و نصارٰی کے اپنی طرف سے ڈالے جانے والے کلام کے ذریعے ہوئی۔‘‘

مدارک التنزیل میں ہے:

یزیلونہ و یمیلونہ عن مواضعہ التی وضعہ اللہ فیھا۔ (ج ۱ ص ۴۹۶)
’’کلمات کو زائل کر دیتے تھے اور ہٹا دیتے تھے ان مقامات سے جہاں پر اللہ نے ان کو رکھا تھا۔‘‘

خازن میں ہے:

وفی قولہ من بعد مواضعہ اشارۃ الی اخراجہ من الکتاب بالکلیۃ (ج ۱ ص ۴۹۶)
’’اللہ تعالیٰ کے قول ’’من بعد مواضعہ‘‘ میں اس جانب اشارہ ہے کہ وہ کلمات کو بالکل کتاب سے ہی نکال دیتے تھے۔‘‘

قارئین کرام! یہ تو قرآنی آیات اور ان کی تفسیر ہے۔ اس قدر صراحت کے باوجود ایک عیسائی پادری کے ایل ناصر قرآن کریم کی ان واضح آیات سے چشم پوشی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:

’’قرآن شریف میں تورات و انجیل میں تحریف کا الزام کہیں نہیں ہے۔‘‘ (تصدیق الکتاب ۔ ص ۴۸ ۔ از پادری کے ایل ناصر)

اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خود مسیحی علماء کے اقوال سے اس ناقابلِ تردید حقیقت کا ثبوت پیش کیا جائے۔ 

(۱) آرچ ڈیکن پادری برکت اللہ نے لکھا ہے:

’’حسن اتفاق سے ان معلموں کے ہاتھوں میں ایک رسالہ بھی تھا جو حضرت کلمۃ اللہ کی تعلیم اور آپ کے کلمات طیبات پر مشتمل تھا۔‘‘ (قدامت و اصلیت اناجیل اربعہ ۔ ج اول ص ۳۷)

اور ص ۸۵ پر لکھا ہے:

’’اور یہ رسالہ آہستہ آہستہ نقل ہونا بند ہو گیا اور ایک زمانہ آیا جب یہ رسالہ ناپید ہو گیا۔‘‘

(۲) پادری ایچ یو سٹینٹس کا کہنا ہے کہ:

’’بعض مصنفین نے خیال کیا ہے سناپٹک اناجیل کے مصنفین کے سامنے ایک اور انجیل تھی جو ہماری موجودہ اناجیل سے بہت پہلے کی تھی اور اب مفقود ہے۔‘‘ (تفسیر متی ۔ مترجمہ پادری طالب الدین بی اے ۔ ص ۱۸)

(۳) مسیحی مجلہ سہ ماہی ’’ھما‘‘ لکھنؤ (بابت اکتوبر تا دسمبر ۱۹۶۷ء) رقم طراز ہے:

’’اب جبکہ نئے عہدنامہ کی کتابوں کو تصنیف ہوئے اٹھارہ صدیاں گزر چکی ہیں کیا ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ کتابیں آج اپنی اصل صورت میں موجود ہیں؟ مسیحی علماء متفق الرائے ہیں کہ ان کتابوں کے اصل نسخے معدوم ہو گئے ہیں۔‘‘ (ص ۵)

(۴) مفسر کریز اسٹم اپنی تفسیر ’’ہوم لی‘‘ میں لکھتا ہے:

’’پیغمبروں کی بہت سی کتابیں ناپید ہوگئیں اس لیے کہ یہودیوں نے غفلت بلکہ بے دینی سے بعض کتابوں کو کھو دیا اور بعض کو پھاڑ ڈالا اور بعض کو جلا ڈالا۔‘‘ (ج ۹)

(۵) مشہورِ زمانہ مؤرخ موسیو دینان لکھتا ہے:

’’تورات میں بھی بہت سی اہم تبدیلیاں کی گئیں۔ نئی کتابیں مثل کتاب ’’استثناء‘‘ مرتب کی گئیں اور کہا یہ گیا کہ یہ کتابیں موسٰیؑ کی اصل شریعت کی حامل ہیں حالانکہ درحقیقت ان کی روح پرانی کتابوں سے بالکل مختلف تھی۔ (لائف آف موسس ص ۴)

اور ’’حیاتِ مسیح‘‘ میں یہی مصنف لکھتا ہے:

’’ابتدائی ڈیڑھ سو سال میں اناجیل کو کوئی مستند حیثیت حاصل نہ تھی۔ ان میں اضافے کرنے یا مختلف انداز سے ترتیب دینے یا ایک کی تکمیل دوسرے سے کرنے میں کوئی باک اور تامل نہ (ہوتا) تھا۔‘‘ (ص ۱۲)

(۶) مشہور متعصب اور عنّاد مسیحی عالم پادری فانڈر لکھتا ہے کہ:

’’ہم لوگ قائل ہیں کہ بعض حروف و الفاظ میں تحریف وقوع میں آئی اور بعض آیات کی بابت مقدم اور مؤخر اور الحاق کا شبہ ہے۔‘‘ (اختتام دینی مباحثہ ۔ ص ۵۰ ۔ طبع ۱۸۵۵ء)

(۷) مشہور عیسائی مؤرخ موشیم لکھتا ہے کہ:

’’بہت سے فریب کاروں نے خود کتابیں لکھیں اور انہیں مقدس حواریوں کی طرف منسوب کر دیا۔‘‘ (پہلی صدی ۔ حصہ دوم ۔ باب ۲/۱۷)

(۸) مفسر ہارسلے اپنی تفسیر میں لکھتا ہے کہ:

’’مقدس متن میں تحریف کا وقوع شک و شبہ سے بالاتر ہے۔‘‘ (ج ۳ ص ۲۸۲)

(۹) مفسر ہورن تفسیر میں لکھتا ہے:

’’الحاق کے سلسلے میں یہ بات تسلیم کر لینی چاہیئے کہ تورات میں اس قسم کے فقرے موجود ہیں۔‘‘ (ج اول ص ۶۸)

(۱۰) یہی مفسر لکھتا ہے:

’’ناقلوں نے نہایت بے باکی کے ساتھ عہد جدید کی ایک کتاب کے فقروں کو دوسری کتاب میں داخل کر دیا۔ اسی طرح حواشی کی عبارتوں کو متن میں شامل کر دیا۔‘‘ (جلد اول ص ۴۶۷)

ہم اقوال کے سلسلے میں صرف ان دس حوالجات پر اکتفا کرتے ہیں جو ہر مسلمان کے اس قرآنی عقیدہ کو پختہ کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے کہ تورات و انجیل کو حفاظت جیسی فضیلت حاصل نہیں کیونکہ یہ اقوال قرآن یا کسی مسلم مفسر و عالم کے نہیں بلکہ خود مسیحی فضلاء و علماء کے ہیں۔

جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے

لیکن ممکن ہے کہ آج کے بزعم خویش مسیحی متکلمین و مناظرین ان محققین پر اپنی علمی و تحقیقی افضلیت و فوقیت کی خوش فہمی میں مبتلا ہوں اور تورات و انجیل کی تحریف سے انکار کریں۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تحریف کی چند واضح مثالیں بھی پیش کر دی جائیں تاکہ ان خودساختہ محققین کے دعوٰی کی حقیقت بے نقاب ہو سکے۔ 

مثال اول

وادیٔ مکہ کا ایک معروف نام فاران بھی ہے اور جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر اسی فاران سے دس ہزار صحابہ کرامؓ کی معیت میں وارد ہوئے۔ چنانچہ بائیبل میں اس واقعہ کو بطور پیش گوئی ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا تھا کہ:
’’خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر آشکارا ہوا۔ وہ کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا اور دس ہزار مقدسوں کے ساتھ آیا۔‘‘ (تورات ۔ کتاب استثناء ۔ باب ۳۳ ۔ آیت ۱ تا ۳)
اس میں ’’سینا‘‘ کا لفظ موسٰی علیہ السلام کی شریعت بتلاتا ہے اور ’’سعیر‘‘ عیسٰی علیہ السلام کی۔ جبکہ فاران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو ظاہر کرتا ہے اور دس ہزار کا لفظ صحابہ کرامؓ کی تعداد بتلاتا ہے۔ اور یہی لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے کہ اس میں وہی تعداد بتلائی جا رہی ہے جو صحابہ کرامؓ کی تھی۔ اس لیے مسیحی علماء نے اپنے معروف حربہ کے موافق اس کو اڑا دیا، موجودہ اردو ترجمہ یوں ہے:
’’وہ لاکھوں قدسیوں کے ساتھ آیا۔‘‘
اور عربی مترجم نے نہایت ہوشیاری سے لاکھوں کا لفظ بھی اڑا دیا اور ’’ربوات القدس‘‘ کر دیا یعنی ’’قدس کے ٹیلے‘‘۔ باوجودیکہ یہ صدہاسال سے اس فعلِ شنیع میں مصروف ہیں لیکن حیرت ہے کہ ابھی تک یہ عقل اور سمجھ سے پیدل ہیں۔ انگریزی ترجمہ کی طرف کسی نے خیال ہی نہیں کیا جو آج بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی نوید سنا رہا ہے:
"And he came with ten thousand of saint." (King James Version)

مثال دوم

بائیبل میں کثیر تحریف کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق مقامات و واقعات کی طرف اشارہ اس میں پایا جاتا ہے۔ سورہ آل عمران میں ایک لفظ ’’بَکَّۃَ‘‘ ہے جو مکہ مکرمہ کے لیے استعمال ہوا ہے، اور سورۂ ابراہیم میں مکہ مکرمہ کو ’’وَادٍ غَیْرَ ذِیْ زَرْعٍ‘‘ یعنی بنجر زمین کہا گیا ہے۔ یہی لفظ یعنی بکۃ زبور ۸۴ میں یوں مذکور تھا:
’’وہ وادی بکۃ سے گزر کر اسے چشموں کی جگہ بنا لیتے ہیں۔‘‘ (آیت ۶)
لیکن مسیحیوں کے تعصب و عناد کو دیکھیئے کہ مکہ مکرمہ کا نام تک اپنی کتاب میں گوارا نہیں کیا، لہٰذا موجودہ اردو ترجموں میں یوں ہے:
’’وہ وادی بُکا سے گزر کر ۔۔۔۔‘‘
یعنی لفظ کے ب پر پیش ڈال دیا جس کا معنی ’’رونا‘‘ ہے۔ عربی ترجمہ میں صراحت سے ’’عابرین فی وادی البکاء‘‘ مذکور ہے تو اس کا معنی ’’رونے کی وادی‘‘ ہو گیا ہے۔ جبکہ کیتھولک بائیبل میں  بکۃ کا ترجمہ ’’خشک وادی‘‘ کیا گیا ہے جو ’’غیر ذی زرع‘‘ کے لیے مناسب ہے۔ پروٹسٹنٹ محرفین کی اس حرکت کا مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ نے ان الفاظ میں محاسبہ کیا ہے کہ 
’’تغیر و تبدل اور اصلاح کرتے رہنا فرقہ پروٹسٹنٹ کے لیے ایک امر طبعی بن گیا ہے۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے جب کبھی ان کی کوئی کتاب دوسری بار طبع ہوتی ہے اس میں پہلے کی نسبت بے شمار تغیر و تبدل پایا جاتا ہے۔ یا تو بعض مضامین بدل دیے جاتے ہیں یا گھٹا بڑھا دیے جاتے ہیں یا کسی مبحث کو مقدم یا مؤخر کر دیا جاتا ہے۔‘‘ (اظہار الحق ج ۱ ص ۴۶)
یہ بھی واضح رہے کہ یہ شرارت صرف اردو اور عربی ترجموں کی ہے۔ انگریزی (کنگ جیمز) بائیبل میں بھی بکۃ کا لفظ ہے (Valley of Baca)۔ 

مثال سوم 

انجیل متی میں یوں تھا:
’’اور انہوں نے اسے صلیب پر چڑھایا اور اس کے کپڑے قرعہ ڈال کر بانٹ لیے تاکہ وہ پورا ہو جائے جو نبی کی معرفت کہا گیا تھا کہ انہوں نے میرے کپڑے آپس میں بانٹ لیے اور میرے لباس میں قرعہ ڈالا۔‘‘ (باب ۲۷ آیت ۳۵)
جبکہ موجودہ اردو ترجمہ صرف اتنا ہے:
’’اور انہوں نے اسے مصلوب کیا اور اس کے کپڑے قرعہ ڈال کر بانٹ لیے۔‘‘
ملاحظہ کیجیئے کہاں اتنی لمبی توضیح اور کہاں یہ مختصر سی عبارت اور پھر ’’جو نبی کی معرفت الخ‘‘ والی اہم عبارت حذف کر دی گئی ہے۔ اور سنیئے موجودہ عربی ترجمہ اردو ترجمہ کی تائید سے منکر ہے:
ولما صلبوہ اقتسموا ثیابہ مقترعین علیھا لکی یتم ما قبل بالنبی اقتسموا ثیابی و علی لباسی القوا قرعۃ۔ 
’’اور جب انہوں نے اسے سولی دی تو اس کے کپڑے تقسیم کر لیے درآنحالیکہ وہ ان کپڑوں پر قرعہ ڈالنے والے تھے تاکہ پورا ہو جو کہا گیا نبی کے ذریعے انہوں نے تقسیم کر لیے میرے کپڑے اور میرے لباس پر انہوں نے قرعہ ڈالا‘‘۔ 

مثال چہارم

یوحنا کے پہلے خط ۸۰۷/۵ میں یوں تھا:
’’اس لیے کہ آسمان میں گواہی دینے والے تین ہیں۔ باپ، کلمہ اور روح القدس اور یہ تینوں ایک ہیں۔ اور زمین میں گواہی دینے والے بھی تین ہیں۔ روح، پانی اور خون اور یہ تینوں ایک ہی بات پر متفق ہیں۔‘‘
جبکہ آج کے ترجموں میں ہمیں یہ عبارت ملتی ہے:
’’اور جو گواہی دیتا ہے وہ روح ہے کیونکہ روح سچائی ہے۔ اور گواہی دینے والے تین ہیں روح، پانی اور خون اور یہ تینوں ایک ہی بات پر متفق ہیں۔‘‘
مصیبت یہ ہے کہ عربی ترجمہ میں بھی وہی ہے جو موجودہ ترجمہ سے حذف کر دیا گیا ہے:
فان الذین یشھدون فی السماءھم ثلثۃ الأدب والکلمۃ والروح القدس وھؤلاء الثلثۃ ھم واحد۔ والذین یشھدون فی الارض ھم ثلثۃ الروح والماء والدم والثلثۃ ھم فی الواحد۔
ناظرین تحریف کی چند مثالیں آپ نے ملاحظہ کیں، اب اس سلسلے میں عیسائی احباب کا ردعمل بھی ملاحظہ فرمائیں۔ مسیحی مجلہ ’’ھما‘‘ لکھنؤ (بابت اکتوبر تا دسمبر ۱۹۶۷ء) اعتراف کرتا ہے کہ
’’انجیل مقدس کے مختلف نسخوں اور ترجموں میں ردوبدل کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔‘‘ (ص ۷)
جب مقدس صحیفوں کا یہ حال ہے تو ان کے الہام کی بابت بھی پادری والش صاحب کی یہ تحریر بھی ملاحظہ ہو:
’’اسقف بٹلر صاحب نے کہا کہ انگلستان میں ایک بھی فاضل ایسا نہیں ہے جو پاک نوشتوں کے الہام کا قائل ہو۔‘‘ (قربت الٰہی ۔ ص ۵۹ ۔ مطبوعہ ۱۸۶۸ء)
اور تحریف کی بابت خود برمیاہ نبی نے الزام لگایا کہ
’’تم نے زندہ خدا رب الافواج ہمارے خدا کے کلام کو بگاڑ ڈالا ہے۔‘‘ (ہرمیاہ ۳۶:۲۲)
اور پولس رسول کہتا ہے کہ
’’انہوں نے خدا کی سچائی کو بدل کر جھوٹ بنا ڈالا۔‘‘ (رومیوں ۲۵:۱)
محترم قارئین! ہم نے اس بحث میں پادری کے ایل ناصر اور اس کے ہمنواؤں پر ’’اتمام حجت‘‘ کر دیا ہے اور بحمد اللہ تعالیٰ واضح کر دیا ہے کہ بائیبل جس کی نسبت یہ بڑی عجیب عجیب باتیں لکھتے ہیں اور اس کو غیر محرف اور Unchanged کہتے تھکتے نہیں وہ نہ صرف قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق تحریف شدہ ہے بلکہ خود ان کے بڑوں کے بقول محرف ہے اور تورات و انجیل کے قدیم نسخے بلکہ ان کی اصل زبانیں تک گم ہو چکی ہیں۔ 

علماء کا مقام اور ان کی ذمہ داری

قاضی محمد اسرائیل

انبیاء علیہم السلام کو اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لیے دنیا میں مبعوث کیا۔ جب ایک نبی علیہ السلام کا انتقال ہوا تو دوسرا نبی اس کے بعد مبعوث کیا گیا۔ یہاں تک کہ سلسلہ رُسل کی آخری کرن آمنہ کے لال عبد اللہ کے درِّ یتیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ پاک نے پوری کائنات کے لیے رسولؐ بنا کر بھیجا اور یہ اعلان فرمایا کہ آپؐ کے بعد نبوت اور رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ اب لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے یہ نبیوں والا کام اس امت کے علماء کے حوالے کر دیا گیا ہے اور خالقِ کائنات نے اعلان فرمایا کہ میرے بندوں میں سب سے زیادہ مجھ سے ڈرنے والے علماء ہیں۔ علماء کرام کے ادب و احترام کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ علماء کرام کا مقام اور مرتبہ بہت بلند ہے۔ میں ایک جھلک علماء کرام کے مقام اور مرتبے کی آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔

خالقِ ارض و سما رب العالمین نے قرآن پاک کے اندر اعلان فرمایا: 

’’کیا علم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘ 

دوسری جگہ اعلان فرمایا: 

’’اللہ پاک جو لوگ ایمان لائے ان کے درجے اور مرتبے بلند کرے گا اور علم والے لوگوں کے بھی‘‘۔ 

اس آیت میں اللہ پاک نے علماء کرام کی عظمت اور رفعت کا ذکر کیا ہے۔ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

’’وہ شخص میری امت میں سے نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے، ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے عالم کی قدر نہ کرے‘‘ (ترغیب)

ایک اور مقام پر پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ 

’’تین شخص ایسے ہیں جن کو منافق کے سوا کوئی شخص ہلکا (ذلیل) نہیں سمجھ سکتا۔ ایک وہ شخص جو اسلام کی حالت میں بوڑھا ہو گیا، دوسرا اہلِ علم، تیسرا منصف بادشاہ‘‘ (ترغیب)

ہماری آنکھوں کے نور، دلوں کے سرور سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علماء کا مقام بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’یا تو عالم بن یا طالب علم یا علم کا سننے والا یا (علم اور علماء) سے محبت کرنے والا، پانچویں قسم میں داخل نہ ہونا ورنہ ہلاک ہو جائے گا‘‘ (مقاصد حسنہ)

حضرت علامہ حافظ ابن عبد البر فرماتے ہیں کہ پانچویں قسم سے مراد علماء کی دشمنی ہے اور ان سے بغض رکھنا۔ اسی مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

’’یا تو عالم بن یا طالب علم اور اگر دونوں نہ ہو سکے تو علماء سے محبت رکھنا ان سے بغض نہ رکھنا‘‘۔ (مجمع)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’قرآن کریم کے حاملین (علماء و حفاظ) قیامت کے دن جنت والوں کے سردار اور چوہدری ہوں گے‘‘ (طبرانی)

حضرت علامہ عبد الوہاب شعرانی جو بہت بڑے بزرگ اور صوفی گزرے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی باتوں کا مسلمانوں سے عہد لیا ان میں سے ایک یہ بات بھی تھی کہ میرے علماء کا احترام کرنا۔ علامہ شعرانیؒ فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک عام عہد اس بات کا لیا گیا ہے کہ ہم علماء کرام کا اکرام اور اعزاز کریں اور ان کی تعظیم کریں اور ہم میں یہ قدرت نہیں ہے کہ ان کے احسانات کا بدلہ کر سکیں چاہے وہ سب کچھ دے دیں جو ہماری ملک میں ہے اور خواہ مدت العمر ان کی خدمت کرتے رہیں۔ اس معاہدے میں بہت سے طالب علم اور مریدین کوتاہی کرنے لگے ہیں حتٰی کہ ہم کو ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آتا جو اپنے استاذ کے حقوق واجبہ ادا کرتا ہو۔ یہ دین کے بارے میں ایک بڑی بیماری ہے جس سے علم کی اہانت کا پتہ چلتا ہے اور اس ذات اقدس کے حکم کے ساتھ لاپرواہی کا پتہ چلتا ہے جس نے اس کا حکم فرمایا ہے۔ 

مزید وضاحت کرتے ہوئے علامہ شعرانیؒ لکھتے ہیں، ہم لوگوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک عام عہد لیا گیا ہے کہ ہم علماء اور اکابر کی تعظیم کریں چاہے وہ خود اپنے علم پر عمل نہ کریں اور ہم لوگ ان کے حقوق واجبہ کو پورا کریں اور ان کے ذاتی معاملہ کو اللہ کے سپرد کر دیں۔ جو شخص ان کے حقوق واجبہ اکرام اور تعظیم میں کوتاہی کرے وہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت کرتا ہے۔ اس لیے کہ علماء رسول اللہؐ کے جانشین ہیں اور ان کی شریعت کے حامل اور اس کے خادم۔ پس جو شخص ان کی اہانت کرتا ہے تو یہ سلسلہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے اور یہ کفر ہے۔ اور تم غور کر لو کہ بادشاہ اگر کسی کو ایلچی بنا کر کسی کے پاس بھیجے اور وہ اس کی اہانت کرے تو بادشاہ ایلچی کی بات کس غور سے سنے گا اور اپنی نعمت کو جو اس اہانت کرنے والے پر تھی ہٹا لے گا اور اس کو اپنے دربار سے ہٹا دے گا، بخلاف اس شخص کے جو ایلچی کی تعظیم اور توقیر کرتا ہے اور اس کا حق ادا کرتا ہے اور بادشاہ بھی اس کو اپنا مقرب بنا لیتا ہے۔ 

علماء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد ہیں، ان کی عزت کرنا فرض ہے، جو ان کی عزت کرے گا وہ ان شاء اللہ قیامت کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جگہ پائے گا۔ جب علماء کرام آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث اور جانشین ہیں تو پھر ہر موقعہ پر اور ہر موڑ پر علماء کو امت کی راہنمائی کرنی ہو گی اور امت کا فرض بنتا ہے کہ وہ علماء کا ساتھ دیں اور وقت کی حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ علماء حق سے راہنمائی حاصل کرے اور علماء کی ضروریات زندگی میں ان کا خیال رکھے، کسی صورت میں علماء کا وقار مجروح نہ کیا جائے۔ علماء تو زمین کے ستارے ہیں ان سے روشنی لی جائے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

’’علماء کی مثال زمین میں ایسی ہے جیسی آسمان میں ستارے جن کے ذریعے جنگل کے اندھیروں اور سمندروں میں راستہ پہچانا جاتا ہے۔ اگر ستارے بے نور ہو جائیں تو یہ بات اقرب ہے کہ راہبرانِ قوم راستہ سے بھٹک جائیں۔‘‘ (ترغیب)

علماء کو چاہیئے کہ اپنی روشنی سے پوری دنیا کو منور کریں، علم و تقوٰی سے پوری امت کو مستفید کریں۔ ایک مقام پر آپؐ نے فرمایا کہ 

’’نبوت کے درجہ کے بہت قریب ایک جماعت علماء کی ہے، دوسرے مجاہدین کی۔ اس لیے کہ علماء اس چیز کا راستہ بتاتے ہیں جو اللہ کے رسولؐ لے کر آئے ہیں اور مجاہدین اپنی تلواروں سے اس طرف متوجہ کرتے ہیں۔‘‘ (احیاء العلوم)

مضمون کو مختصر کرتے ہوئے شیرِ خدا علی المرتضٰیؓ کے ایک قول پر ختم کرتا ہوں، حضرت علیؓ نے فرمایا کہ

’’جب کوئی عالم مر جاتا ہے تو اسلام میں ایک ایسا رخنہ پیدا ہوتا ہے جس کو اس کا کوئی نائب ہی بھر سکتا ہے۔‘‘ (احیاء العلوم)

تمام امت پر یہ بات لازم ہے کہ وہ اپنے علماء کا ادب و احترام کریں، ان کی خدمت کریں، ان کے پاس جا کر دینی معلومات حاصل کریں، ان کی توہین سے بچیں اور ان لوگوں سے بھی دور رہیں جو علماء کرام کی توہین کرتے ہیں، علماء بھی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک مسلمانوں کو اپنے مذہبی راہنماؤں کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

کیا واقعی سندھ کو نبی اکرمؐ کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہے؟

غازی عزیر

ماہنامہ ’’میثاق‘‘ لاہور شمارہ ماہ ستمبر ۱۹۸۹ء بمطابق صفر المظفر ۱۴۱۰ھ پیشِ نظر ہے (۱)۔ اس شمارہ میں ’’کیا سندھ کو نبی اکرمؐ کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہے؟‘‘ کے زیر عنوان محترم ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب (ساکن پیرس) کی سیرت النبیؐ کے موضوع پر انسٹیٹیوٹ آف سندھالوجی، سندھ یونیورسٹی جام شورو (پاکستان) میں کی گئی چند سال پرانی ایک تقریر کے ابتدائی حصہ کو جو اس عنوان سے متعلق تھا ٹیپ کی ریل سے صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنی تقریر کی ابتداء میں سندھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اور اہلِ سندھ سے آپؐ کی ملاقات کے امکان پر گفتگو فرمائی تھی۔ بلکہ ماہنامہ ’’میثاق‘‘ کے ادارتی نوٹ کے مطابق ’’اس ضمن میں اپنی تحقیق کا حاصل سامعین کے سامنے رکھا تھا‘‘۔ محترم ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کی تحقیق کے اس حاصل کے پیشِ نظر اور ان کے ہی حوالہ سے محترم جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب (مؤسس و امیر تنظیم اسلامی لاہور) نے اپنی کتاب ’’استحکامِ پاکستان اور مسئلہ سندھ‘‘ (۲) میں برصغیر میں اسلام کی آمد اور اشاعت کے ضمن میں سرزمینِ سندھ کی خصوصی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ ’’سرزمینِ سندھ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہے‘‘۔ اس ضمن میں راقم نے محترم ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کے پیش کردہ تمام دلائل کا بغور جائزہ لیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ اس کی حیثیت محض ظن و مفروضہ سے زیادہ کچھ نہیں، لہٰذا ضروری محسوس ہوا کہ اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی اس بات کی حقیقت سے باخبر کروں۔ واللہ المستعان۔

ذیل میں تمام تمہیدی گفتگو پر کلام کرنے سے گریز کرتے ہوئے صرف اصل موضوع اور ان شواہد پر بحث پیش کی جاتی ہے جنہیں فاضل ڈاکٹر صاحب نے اپنی تقریر میں پیش کیا تھا، چنانچہ فرماتے ہیں:
’’حضورؐ کی ملاقات سندھیوں سے کب اور کیسے ہوئی؟ اولًا میں مشرقی عرب میں جانے کی بات کرتا ہوں، اس لیے کہ وہیں سے آپؐ سندھیوں سے ملاقات کر سکتے ہیں یا سندھ جا سکتے ہیں۔ مسند احمدؒ بن حنبل حدیث کی مشہور کتاب ہے اور ابن حنبلؒ وہ شخص ہیں جو امام بخاریؒ کے استاد ہیں، انہوں نے اپنی مسند میں دو صفحات کی ایک طویل حدیث میں بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ قبیلہ عبد القیس کے لوگ اسلام قبول کرنے کے لیے مدینہ آئے، رسول اللہؐ نے ان سے چیزیں دریافت کیں، فلاں شہر کیا ابھی موجود ہے؟، فلاں سردار یا فلاں شخص کیا ابھی زندہ ہے؟ ان سوالات پر وہ لوگ حیرت زدہ ہو گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہؐ آپ ہمارے ملک اور ہمارے آدمیوں سے ہم سے بھی زیادہ واقف معلوم ہوتے ہیں۔ اس پر مسند احمد بن حنبل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو جواب نقل ہوا ہے وہ یہ ہے۔ میں وہاں گیا ہوں، بہت دن تک اس سرزمین کو میرے پاؤں روندتے رہے ہیں، قلعہ مشغل کی چابیاں میں نے حاصل کیں اور چشمہ زہرا پر بھی کھڑا ہوا۔‘‘ (۳)
ان سطور کے متعلق پہلی بات تو یہ عرض کرنی ہے کہ مسند احمدؒ میں دو صفحات کی ایسی کوئی طویل حدیث موجود نہیں ہے جس میں قبیلہ عبد القیس اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین ہونے والے سوالات و جوابات کا محولہ مکمل متن مذکور ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محترم ڈاکٹر صاحب نے دو مختلف حدیثوں کے متن کو یکجا خلط ملط کر کے پیش کیا ہے۔ پہلی حدیث بطریق 
عبد اللہ حدثنی ابی ثنا اسماعیل بن ابراہیم قال ثنا عوف حدثنی ابوالقموص زید بن عدی قال حدثنی احد الوفد الذین وفدوا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من عبد القیس قال فذکرہ (۵) 
مروی ہے مگر مسند احمد کی اس حدیث میں محترم ڈاکٹر صاحب کے بیان کردہ یہ الفاظ قطعًا موجود نہیں ہیں: ’’میں وہاں گیا ہوں، بہت دن تک اس سرزمین کو میرے پاؤں روندتے رہے ہیں‘‘۔ البتہ مسند احمد کی ایک دوسری حدیث جو بطریق
عبد اللہ حدثنی ابی ثنا یونس بن محمد ثنا یحیٰی بن عبد الرحمٰن العصری قال ثنا شہاب بن عباد انہ سمع بعض وفد عبد القیس وھو یقول فاذکرہ (۶)
مروی ہے، میں بنو عبد القیس کے اس حیرت زدہ قول 
بابی و امی یا رسول اللہ لانت اعلم باسماء قرانا منا (۷) 
کے جواب میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول مذکور ہے:
انی قد وطئت بلادکم وفسح لی فیھا (۸)
مگر افسوس کہ اس دوسری حدیث میں ڈاکٹر صاحب موصوف کا بیان کردہ اگلا جملہ (یعنی: قلعہ مشغل کی چابیاں میں نے حاصل کیں اور چشمۂ زہراء پر بھی کھڑا ہوا ہوں) موجود نہیں ہے۔ یہ جملہ اوپر بیان کی گئی پہلی حدیث میں اس طرح مذکور ہے:
’’فو اللہ لقد دخلتھا واخذت اقلیدھا ۔۔۔۔ وقفت علی عین الزارۃ (۹)
واضح رہے کہ جس قلعہ مشغل اور چشمۂ زہراء کا تذکرہ فاضل ڈاکٹر صاحب نے اپنی تقریر میں کیا ہے وہ ہر دو حدیثوں میں سرے سے مذکور نہیں ہے البتہ اصل حدیث میں ’’المشقر‘‘ اور ’’عین الزارۃ‘‘ کے نام ضرور ملتے ہیں۔
اب مسند احمد کی ان دو حدیثوں کا مرتبہ و مقام بھی ملاحظہ فرما لیں۔ اول الذکر حدیث کے طریق میں ایک راوی ’’عوف بن ابی جمیلہ ابو سہل الاعرابی العبدی البصری‘‘ ہے جس کو بعض محدثین نے ’’ثقہ‘‘ ضرور بتایا ہے لیکن ائمہ جرح و تعدیل کا ساتھ ہی یہ قول بھی ہے کہ:
’’وہ قدری اور تشیع کرنے والا تھا۔‘‘
بندارؒ نے اس راوی کے متعلق تو یہاں تک فرمایا ہے:
’’واللہ لقد کان عوف قدریًا رافضیًا شیطانا‘‘
تفصیلی ترجمہ کے ساتھ تقریب التہذیب لابن حجر عسقلانیؒ، سوالات محمد بن عثمانؒ، تاریخ یحیٰی بن معینؒ، علل لابن حنبلؒ، تاریخ الکبیر للبخاریؒ، تاریخ الصغیر للبخاریؒ، سوالات حاکمؒ، جرح و والتعدیل لابن ابی حاتمؒ، میزان الاعتدال فی نقد الرجال للذہبیؒ، ضعفاء الکبیر للعقیلیؒ، مقدمہ صحیح مسلمؒ اور مشاہیر علماء المصار (۱۰) وغیرہ کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
زیر مطالعہ سند میں ضعف کی ایک دوسری علت ’’مجہول‘‘ راوی کی موجودگی ہے جس کی طرف ان الفاظ میں اشارہ ملتا ہے:
حدثنی احد الوفد الذین وفدوا علٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من عبد القیس۔
’’مجروح‘‘ اور ’’مجہول‘‘ رواۃ کی موجودگی کے باوجود اگر کوئی شخص اس حدیث کو ’’ضعیف‘‘ نہ کہہ کر ’’صحیح یا ثابت‘‘ اور ’’یقنی اور حتمی‘‘ سمجھتا ہو اسے ہم اس شخص کی کم عقلی یا حدیث شناسی کے مزاج سے نا آشنا ہی کہیں گے۔ 
مسند احمد کی اول الذکر روایت کی طرح اس کی آخر الذکر حدیث بھی محل نظر ہے۔ اس طریق کے ایک راوی ’’یحیٰی بن عبد الرحمٰن العصری البصری‘‘ کے متعلق امام ذہبی فرماتے ہیں:
لا یعرف لہ عن شہاب بن عباد (۱۱)
اور علامہ ہیثمیؒ فرماتے ہیں:
’’لم اعرفہ‘‘ (۱۲)
محدث عصر علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی حفظ اللہ اس راوی کے متعلق ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں:
’’عصری کے علاوہ اس طریق کے باقی رجال ثقات ہیں۔‘‘ (۱۳)
پھر اس طریق میں بھی ’’جہالت‘‘ موجود ہے جو ان الفاظ میں مذکور ہے:
انہ سمع بعض وفد عبد القیس وھو یقول ۔۔۔
پس ثابت ہوا کہ محترم ڈاکٹر صاحب نے مسند احمد کی جن روایات کو دلیل بلکہ ان کے اپنے الفاظ میں ’’قطعی ثبوت‘‘ (۱۴) کے طور پر پیش کیا تھا وہ پایۂ اعتبار سے ساقط ہیں۔
اب محترم ڈاکٹر صاحب کی تقریر کا اگلا اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔ فرماتے ہیں:
’’مشرقی عرب میں آپ کیوں گئے تھے، اس کا ایک دوسری روایت سے ہمیں پتہ چلے گا جو حدیث کی کتابوں میں نہیں بلکہ تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ ابن حبیب ایک بڑا مشہور مؤرخ گزرا ہے جس کی وفات ۲۴۵ ہجری میں ہوئی۔ اس کی کتاب ’’المحبر‘‘ میں ’’عرب کے میلے‘‘ کے نام کا ایک باب موجود ہے۔ ان میلوں کے سلسلے میں جو ہر سال لگا کرتے تھے وہ بیان کرتا ہے کہ عرب کے مشرق میں ’’دباء‘‘ نامی ایک مقام ہے (جو متحدہ عرب امارات میں حدیرہ نامی بندرگاہ کے شمال میں اب بھی موجود ہے) ۔۔۔ دباء میں سالانہ میلہ فلاں تاریخ کو ہوتا تھا۔ اس میں فلاں فلاں قسم کا سامان فروخت کے لیے آتا تھا۔ اس میں شرکت کرنے والے لوگ ہندی، سندھی، چینی، رومی، ایرانی، مشرق والے اور مغرب والے ہوتے تھے۔ یہ الفاظ ہیں جو ترجمہ کر کے میں نے آپ کو سنائے ہیں اور اس میں سندھ کا ذکر صراحت کے ساتھ آتا ہے ۔۔۔۔ اس واسطے سے گمان کیا جا سکتا ہے کہ غالبًا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی حضرت خدیجہؓ کا مال تجارت لے کر اس بڑے میلے میں شرکت کے لیے تشریف لائے ہوں گے اور وہاں چینیوں سے اور دیگر لوگوں سے بھی ملے ہوں گے۔ وہ مشہور حدیث کہ ’’علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے چاہے چین ہی جانا پڑے‘‘ ۔۔۔۔ غالبًا اس کی وجہ یہی ہو گی کہ رسولؐ اللہ نے دباء کے بازار میں چینی تاجروں کے پاس ان کا پیش کردہ سامان دیکھا ہو گا جن میں چینی ریشم اور دیگر سامان جو وہ لائے تھے آپؐ نے دیکھا ہو گا اور آپؐ متاثر ہوئے ہوں گے کہ اتنی اچھی صنعت ان کے ملک میں ہوتی ہے۔ چنانچہ آپؐ نے فرمایا ہو گا کہ ’’علم سیکھو چاہے چین جیسے دور دراز کے ملک ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘۔ غالبًا حضورؐ نے ان سے پوچھا ہو گا کہ تم کتنی دور سے آئے ہو؟ چینیوں نے کہا ہو گا کہ ہم دو ماہ کی مسافت سے چل کر آئے ہیں ۔۔۔‘‘۔ اس واقعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو موقع ملا تھا کہ سندھیوں کو دیکھیں۔ ممکن ہے کہ اور آگے جا کر سندھ میں تجارت کے لیے تشریف لے گئے ہوں۔‘‘ (۱۵)
پہلے ڈاکٹر صاحب کی مذکورہ بالا تاریخی شہادت کا جائزہ پیش خدمت ہے۔ محمد بن حبیب جو امام ابن قتیبہ الدینوریؒ کے شیوخ میں سے گزرے ہیں، اسواق العرب قبل از اسلام کی بابت اپنی کتاب ’’المحبر‘‘ میں بیان کرتے ہیں:
ثم سوق دباء وھی احدی فرضتی العرب بایھا تجار السند والہند والصین واھل المشرق والمغرب فیقوم سوقھا اٰخر یوم من رجب۔ (۱۶)
’’دباء کے اسی میلہ کا ذکر محترم ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب Introduction to Islam میں ابن الکلبی کے حوالہ سے نقل کیا ہے (۱۷)۔ عین ممکن ہے کہ محمد بن حبیب نے کتاب المحبر میں دباء کے جس بازار کا تذکرہ کیا ہے وہ ابن الکلبی کی تحقیق سے ہی ماخوذ ہو۔ یہ ابن الکلبی کون ہے، یقینی طور پر معلوم نہیں ہو سکا۔ اگر ابن الکلبی سے محترم ڈاکٹر صاحب کی مراد ’’محمد بن سائب بن بشر ابوالنفر الکلبی الکوفی‘‘ ہے تو وہ عند المحدثین ’’کذاب، ساقط، لعین، لشئ، متروک الحدیث، ضعیف، کٹر رافضی اور ناقابل اعتبار‘‘ ہے۔ (تفصیلی ترجمہ کے لیے حاشیہ ۱۸)۔ 
مگر قرائن بتاتے ہیں کہ یہ ’’ابن الکلبی‘‘ محمد بن سائب نہیں بلکہ کوئی دوسرا شخص ہے کیونکہ محترم ڈاکٹر صاحب کی تصریح کے مطابق اس ابن الکلبی کا سنہ وفات ۸۱۹ء ہے اور یہ ایک مؤرخ اور قبل از اسلام عرب کی نوادرات کا ماہر ہے۔
مگر اس تاریخی شہادت سے زیادہ سے زیادہ جو بات پتہ چلتی ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان اور سندھ سے تجار بھی اور دوسرے ممالک کے تجار کی طرح دباء کے سالانہ بازار میں اپنا اسبابِ تجارت لے کر آتے تھے۔ اس تاریخی شہادت سے یہ نتیجہ ہرگز اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعتًا دباء نامی مقام تک تشریف لے گئے تھے، یا آپؐ نے دباء کے میلہ میں جو سال میں صرف ایک مرتبہ یعنی ماہ رجب کے آخری دن لگتا تھا ضرور شرکت فرمائی تھی۔ تمام مستند تاریخی کتب صرف اس حد تک بتاتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پچیس سالہ عمر میں نبوت سے قبل حضرت خدیجہؓ کا مالِ تجارت لے کر دوسری بار شام کے سفر پر تشریف لے گئے تو آپؐ کا قافلہ وادی الظہران، وادی القرٰی، مدائن اور ارض ثمود وغیرہ سے گزرتا ہوا بصرہ پہنچا جہاں آپؐ نے شام کے عیسائی پادریوں اور راہبوں کو دیکھا اور ان سے گفتگو فرمائی تھی۔
پس معلوم ہوا کہ فاضل ڈاکٹر صاحب نے اپنے دعوٰی کی تائید میں کوئی ٹھوس اور قابلِ شہادت پیش نہیں کی ہے بلکہ چند مفروضوں، گمان اور قیاس محض پر پوری تقریر کی عمارت کھڑی کی ہے کہ ایسا اور ویسا ہوا ہو گا حالانکہ فی الواقع ایسا اور ویسا کچھ نہیں ہوا ہے۔ قارئینِ کرام! ڈاکٹر صاحب کی تقریر کے خط کشیدہ جملوں کو دہرائیں۔ یہ جملے خود آپ کو ہمارے دعوٰی کی تائید کرتے نظر آئیں گے۔ یقینًا ڈاکٹر صاحب موصوف کے پاس اپنے دعوٰی کی تائید میں کوئی ٹھوس تاریخی دلیل موجود ہوتی تو اس طرح قیاس آرائی اور جدل کی راہ اختیار نہ فرماتے۔ 
جہاں تک مشہور حدیث ’’اطلبوا العلم ولو بالصین فان طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم‘‘ کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ یہ روایت بھی صحیح و سقیم احادیث پرکھنے کی کسوٹی پر کھری ثابت نہیں ہوتی بلکہ محدثین عظام میں سے امام بیہقیؒ کے نزدیک مشہور لیکن ضعیف الاسناد، حافظ ابن الصلاحؒ اور امام حاکمؒ کے نزدیک مشہور لیکن غیر صحیح، ابو علی نیشا پوریؒ کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت نہیں، امام احمد بن حنبلؒ اور ابن راہویہؒ کے نزدیک اس باب کی ہر روایت غیر ثابت ہے، امام ابن الجوزیؒ کے نزدیک یہ سب روایات غیر ثابت، واہیات بلکہ کچھ تو موضوع بھی ہیں۔ محدث عصر علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے اس کو ’’باطل‘‘ قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے راقم کا تحقیقی مقالہ طبع در ماہنامہ ’’محدث‘‘ لاہور ملاحظہ فرمائیں (۱۹)۔
اب ڈاکٹر صاحب کو اختیار ہے کہ محض اپنے ذہن کی پیداوار اور گمان کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دباء کے میلے میں شریک کروائیں، وہاں چینیوں اور سندھیوں وغیرہ سے آپؐ کی ملاقات کروائیں، پھر اس بازار میں چینی تاجروں کے پاس ان کا سامان بالخصوص چینی ریشم وغیرہ آپؐ کو دکھائیں اور ان اسبابِ تجارت سے آپؐ کو متاثر بتاتے ہوئے یہ سوال کروائیں کہ تم کتنی دور سے آئے ہو؟ پھر خود ہی ان چینیوں کی طرف سے اس استفسار کا جواب بھی دلوائیں کہ دو ماہ کی مسافت سے چل کر آئے ہیں، پھر ان چینیوں کی صنعت یا ان کے وطن کی مسافت سے آپؐ کے متاثر ہونے کو اس مشہور حدیث کا سبب بیان کریں اور پھر بلادلیل ازخود الفاظ کے اس تانے بانے سے اس بات کا امکان بھی پیدا کر لیں کہ ’’آگے جا کر سندھ میں تجارت کے لیے تشریف لے گئے ہوں‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا صد ہزار شکر ہے کہ محترم ڈاکٹر صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف سندھ تک ہی پہنچانے کے امکان پر اکتفا کر لیا ورنہ اگر وہ مذکورہ بالا مشہور حدیث کے پیشِ نظر یہ گمان کر لیتے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم چینیوں کے اسبابِ تجارت سے متاثر ہو کر ان کے ساتھ ان کے وطن تک تشریف لے گئے ہوں گے اور پھر اسی مسافت کی طوالت کو مدّنظر رکھتے ہوئے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی ہو گی، تو کیا ہم ان کا قلم تھام لیتے یا زبان پکڑ لیتے؟
اب ڈاکٹر صاحب کی تقریر کا اگلا اقتباس ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں:
’’اسی تذکرہ میں ابھی آپؐ نے سنا کہ ہند کا بھی ذکر ہے یعنی ہندوستان کا بھی جس کا بعد میں ایک اور حدیث میں ہمیں ثبوت ملتا ہے۔ ایک دن بعض لوگ اسلام قبول کرنے کے لیے دور سے مدینہ آئے۔ سیدناؐ نے پوچھا ۔۔۔۔ ’’یہ کون لوگ ہیں جو ہندوستانیوں کے سے نظر آتے ہیں ۔۔۔‘‘ بعینہٖ یہی الفاظ ہیں جو حدیث میں موجود ہیں اور یہ وہی شخص کہہ سکتا ہے جس نے ہندوستانیوں کو اور ہندوستانیوں کے لباس کو دیکھا ہو۔ یہ لوگ یمن کے ایک قبیلہ کے لوگ تھے جو مسلمان ہونے کے لیے آئے تھے۔‘‘ (۲۰)
ڈاکٹر صاحب نے اپنی تقریر کے اس حصہ میں جس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے اسے مشہور مؤرخین میں سے ابن ہشام، طبری، ابن سعد، ابن اثیر، اور ابن کثیر رحمہم اللہ نے اپنی ۔۔۔۔ میں بیان کیا ہے۔ واقعہ اس طرح ہے کہ ۱۰ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولیدؓ کو یمن بھیجا، انہوں نے اطلاع بھیجی کہ قبیلہ بنو حارث بن کعب مسلمان ہو گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالدؓ بن ولید کو خط لکھا کہ اب مدینہ واپس آجاؤ اور نومسلم قبیلے کے چند لوگوں کو بھی ساتھ لے آؤ۔ جب وہ آئے تو ان کے ساتھ قبیلہ بنی حارث بن کعب کے نو مسلموں میں قیس بن الحصین ذوالعضہ ؓ، یزید بن عبد المدانؓ، یزید بن المحجلؓ، عبد اللہ بن قراد الزیادیؓ، شداد بن عبید اللہ القضانیؒ اور عمرو بن عبد اللہ النصیابیٌ وغیرہ شامل تھے۔ انہیں دور سے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
من ھٰؤلآء الذین کانھم رجال الھند؟
’’یہ کون لوگ ہیں جو اہلِ ہند کے سے معلوم ہوتے ہیں؟‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشادِ مبارک کو علی تقدیر صحت’’دباء‘‘ کے میلہ یا سندھ یا ہندوستان تک آپؐ کی تشریف آوری کے زیر اثر کہنے کی بجائے ارضِ شام کے ہر دو تجارتی سفروں کے تجربات و مشاہدات کے زیرِ اثر کہنا زیادہ محتاط اور معقول بات ہے کیونکہ ان مقامات تک آپؐ کا سفر موقوف نہیں ہے، البتہ سراندیپ (سری لنکا)، سندھ، ہندوستان، ایران، روم، برِاعظم افریقہ کے جنوب مشرقی سواحل، یمن، بحر عرب اور خلیج فارس کے مختلف جزائر کے باشندوں کی بصری یا دوسری نواحی تجارتی منڈیوں میں آمد و رفت کتبِ تاریخ میں بکثرت مذکور و ثابت ہے۔
پھر اس وفد کے لوگوں کو دیکھ کر ہندوستانی باشندوں کے مشابہ بیان کرنا بھی قطعی طور پر معلوم اور ثابت نہیں ہے۔ وفد بنی الحارث کے اس واقعہ کو ابن ہشامؒ نے ’’سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ (۲۱) میں اور ابن کثیرؒ نے ’’بدایۃ والنہایۃ‘‘ (۲۲) میں ابن اسحاقؒ سے بلاسند نقل کیا ہے۔ طبریؒ نے بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اپنی ’’تاریخ‘‘ میں نقل کیا ہے، مگر ابن اثیرؒ کی ’’کامل فی التاریخ‘‘ (۲۳) میں اس قول کا سرے سے کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ جہاں تک ’’طبقات الکبرٰی‘‘ میں اس جملہ کے مذکور ہونے کا تعلق ہے تو مؤلف رحمہ اللہ نے اس واقعہ کو بیان کرتے وقت سندِ روایت کا التزام کیا ہے جو اس طرح ہے:
قال اخبرنا محمد بن عمر قال حدثنی ابراھیم بن موسٰی المخزومی عن عبد اللہ بن عکرمۃ بن عبد الرحمٰن بن الحارث عن ابیہ قال فذکرہ۔ (۲۴)
مگر اسے بھی محض اتفاق ہی کہیئے کہ ابن سعدؒ کا مذکورہ طریق بھی ہالک ہے اس میں ’’محمد بن عمر‘‘ دراصل مشہور مؤرخ ’’محمد بن عمر بن واقد الاسلمی الواقدی المدنی القاضی نزیل بغداد‘‘ ہے جس کے کذاب، متروک، غیر ثقہ اور وضّاع وغیرہ ہونے پر علمائے جرح والتعدیل کا اتفاق ہے۔ واقدی کے تفصیلی ترجمہ کے لیے ملاحظہ فرمائیں (۲۵)۔
پس واقدی کی اس روایت کے ساتھ محترم ڈاکٹر صاحب کی آخری دلیل کا سہارا بی باطل اور ناقابلِ اعتبار ثابت ہوا۔ اب معزز قارئین کو اختیار ہے کہ محترم ڈاکٹر صاحب کے محض ظن و تخمین، ذاتی قیاس آرائی، بے بنیاد مفروضوں، مشکوک اور مشتبہ شواہد کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سندھ و ہندوستان تک تشریف آوری کو حکم صحت صادر فرماتے ہوئے ایک روشن حقیقت تسلیم کر لیں یا پھر تاوقتیکہ اس کا کوئی ٹھوس، صحیح اور قابلِ اعتبار ثبوت سامنے نہ آئے، ہماری اس تحقیق سے اتفاق کرتے ہوئے ان سب امکانات کو قطعًا باطل اور حقیقت سے بعید ہی تصور فرمائیں۔ وما علینا الا البلاغ۔

حواشی

  1. ماہنامہ میثاق لاہور ج ۳۸ عدد شمارہ ۹ ص ۴۵۔۴۸
  2. استحکامِ پاکستان اور مسئلہ سندھ مصنفہ ڈاکٹر اصرار احمد ص ۳۳
  3. ماہنامہ میثاق ج ۳۸ عدد ۹ ص ۴۷
  4. مسند احمدؒ ج ۴ ص ۲۰۶ طبع المکتب الاسلامی بیروت
  5. مسند احمد ج ۴ ص ۲۰۶ طبع المکتب الاسلامی بیروت
  6. مسند احمد ج ۴ ص ۲۰۶ طبع المکتب الاسلامی بیروت
  7. ایضًا
  8. ایضًا
  9. ایضًا
  10. تقریب التہذیب لابن حجرؒ ج ۲ ص ۸۹۔ سوالات محمد بن عثمانؒ ص ۶۹۔ تاریخ یحیٰی بن معینؒ ج ۴ ص ۱۴۰۔ علل لابن حنبلؒ ج ۱ ص ۱۳۴۔ تاریخ الکبیر للبخاریؒ ج ۴ /۱ ص ۵۸۔ تاریخ الصغیر للبخاری ج ۲ ص ۸۵۔ سوالات حاکمؒ ترجمہ ۴۴۴۔ جرح والتعدیل لابن ابی حاتمؒ ج ۳ /۲ ص ۱۵۔ میزان الاعتدال للذہبیؒ ج ۳ ص ۳۰۵۔ ضعفاء الکبیر العقیلیؒ ج ۳ ص ۴۲۹۔ مقدمہ صحیح مسلمؒ ص ۶۔ مشاہیر علماء المصار ترجمہ ۱۵۱۔
  11. میزان الاعتدال للذہبیؒ ج ۴ ص ۳۹۳
  12. مجمع الزوائد و منبع الفوائد للہیثمیؒ ج ۹ ص ۲۶۸
  13. سلسلۃ الاحدیث الصحیح للالبانی ج ۴ ص ۴۶۱
  14. ماہنامہ میثاق ج ۳۸ عدد ۹ ص ۴۶ سطر ۱۷
  15. ماہنامہ میثاق ج ۳۸ عدد ۹ ص ۴۶
  16. المحبر لابن حبیب ص ۲۶۵ و ۲۶۶ طبع حیدر آباد
  17. ضعفاء والمتروکین لابن الجوزیؒ ج ۳ ص ۶۲۔ تحقیق الغایہ للزاہدی ص ۳۳۲۔ نصب الرایہ للزیلعیؒ ج ۳ ص ۲۸۰، ۴۳۰، ۳۰۸، ۳۹۴، ۴۱۷۔ سنن الکبرٰی للبیہقیؒ ج ۶ ص ۲۶۱، ج ۱۰ ص ۲۹۰۔ سنن للدارقطنیؒ ج ۳ ص ۱۳۰، ۲۳۰، ۲۶۲۔ موضوعات لابن الجوزیؒ ج ۱ ص ۴۷، ۳۷۳، ج ۳ ص ۲۳۰۔ تاریخ یحیٰی بن معینؒ ج ۳ ص ۲۸۰، ۴۰۹، ۵۴۳۔ علل لابن حنبلؒ ج ۱ ص ۱۹۸۔ تاریخ الکبیر للبخاریؒ ج ۱ ص ۷۶۔ جرح والتعدیل لابن ابی حاتمؒ ج ۳ ص ۲۷۰۔ مجروحین لابن حبانؒ ج ۲ ص ۲۵۳۔ کامل فی الضعفاء لابن عدیؒ ج ۶ ترجمہ ۲۱۲۷۔ ضعفاء والمتروکین للدارقطنیؒ ترجمہ ۴۶۷۔ ضعفاء والمتروکین للنسائیؒ ترجمہ ۵۱۴۔ میزان الاعتدال للذہبیؒ ج ۳ ص ۵۵۹۔ تہذیب التہذیب لابن حجرؒ ج ۹ ص ۱۸۰۔ تقریب التہذیب لابن حجرؒ ج ۲ ص ۱۶۳
  18. Introduction to Islam  (p 256)      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  19. ماہنامہ محدث لاہور ج ۱۸ عدد شمارہ ۔۔۔ بمطابق شوال تا ذوالحجہ ۱۴۰۸ھ
  20. ماہنامہ میثاق لاہور ج ۳۸ عدد ۹ ص ۴۸
  21. سیرۃ الرسول لابن ہشامؒ ج ۴ ص ۵۹۴ طبع دارالکتب العلمیہ بیروت
  22. بدایۃ والنہایۃ لابن کثیرؒ ج ۵ ص ۹۸ طبع دارالکفر بیروت
  23. کامل فی التاریخ لابن اثیرؒ ج ۲ ص ۱۹۹ و ۲۰۰ طبع دار الکتاب العربی بیروت ۱۹۸۳ء
  24. طبقات الکبرٰی لابن سعدؒ ج ۱ ص ۳۴۰ و ۳۴۱ طبع دار صادر بیروت
  25. تاریخ یحیٰی بن معینؒ ج ۳ ص ۱۶۰۔ ضعفاء الکبیر للعقیلیؒ ج ۴ ص ۱۰۷۔ جرح والتعدیل لابن ابی حاتمؒ ج ۴ ص ۲۰۔ مجروحین لابن حبانؒ ج ۲۹۰۔ کامل فی الضعفاء لابن عدیؒ ج ۶ ترجمہ ۲۲۴۵۔ ضعفاء والمتروکون للنسائیؒ ترجمہ ۵۳۱۔ ضعفاء والمتروکون للدارقطنیؒ ترجمہ ۴۷۷۔ ضعفاء الصغیر للبخاریؒ ترجمہ ۳۳۴۔ میزان الاعتدال للذہبیؒ ج ۳ ص ۶۶۲۔ تہذیب التہذیب لابن حجر عسقلانیؒ ج ۹ ص ۳۶۸۔ 


موت کا منظر

حکیم سید محمود علی فتحپوری

یہ سرائے دہر مسافرو! بخدا کسی کا مکاں نہیں
جو مقیم اس میں تھے کل یہاں کہیں آج ان کا نشاں نہیں
یہ رواں عدم کوئے کارواں، بشر آگے پیچھے ہیں سب رواں
چلے جاتے سب ہیں کشاں کشاں، کوئی قید پیر و جواں نہیں
نہ رہا سکندرِ ذی حشم، نہ رہے وہ دارا اور نہ جسم
جو بنا گیا تھا یہاں اِرم (۱)، تہِ خاک اس کا نشاں نہیں
نہ سخی رہے نہ غنی رہے نہ ولی رہے نہ نبیؐ
یہ اجل کا خواب وہ خواب ہے کوئی ایسا خوبِ گراںنہیں
یہ موت ایک عجیب سر، کہ صفائے عقل ہے داں کدر
وہ ہے تیرے وقت کی منتظر، تجھے اس کا وہم و گماں نہیں
وہ جھپٹ کے تجھ پہ جب آئے گی تو بنائے کچھ نہ بن آئے گی
یہ عزیز جاں یوں ہی جائے گی کہ قضا سا پیکِ رواں نہیں
مگر اک حیاتِ حیات ہے، وہی جس میں سب کی نجات ہے
یہی بات سننے کی بات ہے، ایسی بات کا تو دھیاں نہیں
جو نبیؐ کے عشق کا غار ہے، وہ گلوں کا تاجِ وقار ہے
یہی ایک ایسی بہار ہے کبھی جس میں دورِ خزاں نہیں

(۱) شدّاد نے اس دنیا میں جنت بنائی تھی اس کی طرف اشارہ ہے۔ 

عورت کی حکمرانی کی شرعی حیثیت

مولانا مفتی حبیب الرحمٰن خیرآبادی

(دارالعلوم دیوبند کے ترجمان ماہنامہ ’’دارالعلوم‘‘ نے نومبر ۱۹۸۹ء کے شمارہ میں ’’عورت کی سربراہی اسلام کی نظر میں‘‘ کے عنوان سے مفتیٔ دارالعلوم دیوبند کا یہ مقالہ شائع کیا ہے۔ مقالہ کی اہمیت کے پیشِ نظر ماہنامہ دارالعلوم کے شکریہ کے ساتھ اسے نقل کیا جا رہا ہے۔ اسی عنوان پر مدیر ’’الشریعہ‘‘ کا مقالہ آئندہ شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں — ادارہ)

عورت کی سربراہی کا مسئلہ پاکستان میں آج کل موضوع سخن بنا ہوا ہے۔ ہندوستان میں بھی کچھ لوگ دلچسپی لے رہے ہیں اور اس بارے میں اخبارات میں بعض مفصل تحریریں نظر سے گزریں۔ علاوہ ازیں ایک فتوٰی بھی دیکھنے میں آیا جس میں اسلامی مملکت کے اندر عورت کی سربراہی کو قرآن و حدیث سے اور فقہی روایات سے مطلقًا جائز قرار دیا گیا ہے اور اس فتوے کو دارالعلوم دیوبند کی طرف منسوب کر کے مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند کے نام سے شایع کیا گیا ہے حالانکہ دارالعلوم دیوبند سے جواز کا کوئی فتوٰی نہیں دیا گیا اور نہ اس فتوٰی نویس کا دارالعلوم سے کوئی تعلق ہے۔ اس فتوٰی اور اس کے غلط انتساب کی وجہ سے پاکستان میں خصوصًا اور ہندوستان میں عمومًا بڑا خلجان و اضطراب پایا جا رہا ہے اس لیے بعض بزرگوں کی درخواست پر اس کا تفصیلی جواب تحریر کیا جا رہا ہے۔ 

جنسی اعتبار سے عورت کی حیثیت

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں عورتوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے:
وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ (احزاب)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
الرجال قوامون علی النسآء بما فضل اللہ بعضھم علیٰ بعض (نساء)
اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اپنے گھروں میں رہنے کا حکم دیا ہے اور بلاضرورتِ شرعی باہر نکلنے سے انہیں منع فرمایا ہے۔ انہیں باہر کی جدوجہد سے یکسو ہو کر اپنے گھروں کی اصلاح و تربیت کا فریضہ انجام دینا چاہیئے نیز بہت سے اسباب و وجوہ کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر حکمرانی اور بالادستی عطا فرمائی ہے۔ 
عورت ذات کو اللہ تعالیٰ نے ناقص العقل اور ناقص الدین بنایا، انہیں امامتِ صغرٰی، امامت کبرٰی، اذان، خطبہ، اقامتِ جمعہ، اقامتِ عیدین سے محروم رکھا، حدود و قصاص میں ان کی شہادت غیر معتبر قرار دی گئی، مردوں کے مقابلہ میں تنہا عورت کی گواہی آدھی قرار دی گئی، انہیں جنازہ میں جانے اور بغیر محرم کے سفر کرنے سے منع کیا گیا، جہاد جیسا اہم ترین رکن ان کے ذمہ واجب نہیں کیا گیا، وہ مردوں کی امامت نہیں کر سکتی ہیں۔ 
علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے عقل، علم، فہم، تدبر، حسن تدبیر ،قوت نظریہ، قوت عملیہ، قوت جسمانیہ، شجاعت، قوت، محنت، صبر و تحمل کے لحاظ سے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے، پھر مرد لوگ عورتوں پر بڑا مال خرچ کرے ہیں، ان کا مہر دیتے ہیں، انہیں رہنے کے لیے مکان، نان نفقہ دیتے ہیں، اس لحاظ سے وہ عورتوں کے محسن ہیں اور محسِن ہی کو اپنے محسَن پر حکمرانی کا حق ہوتا ہے، محسَن اپنے محسِن پر حکمرانی کا حق نہیں رکھتا ہے۔ 

عورت کی حکمرانی و سربراہی

ان ہی اسباب و وجوہ کی بنا پر کسی اسلامی مملکت میں عورت کی حکمرانی و سربراہی موجب عدم فلاح اور علماء، محدثین و فقہائے کرام کے نزدیک بالاتفاق ناجائز ہے۔ عورت کو حکمران بنانے والے سب ہی گنہگار ہوں گے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے:
لن یفلح قوم ولو امرھم امرأۃ۔
بعض روایت میں یہ الفاظ ہیں:
لن یفلح قوم اسند وامرھم الی امرأۃ۔
اور بعض روایت میں ہے:
لن یفلح قوم تملکھم امرأۃ۔
اور ایک روایت میں ہے:
مخرج قوم الا یفلحون قائدھم امرأۃ فی الجنۃ۔ (اعلاء السنن ص ۳۱ ج ۵)
ان سب احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ عورت کو اپنا حکمران بنائیں گے اور اپنے ملک کی سربراہی کسی عورت ذات کے سپرد کر دیں گے وہ لوگ فلاح سے محروم رہیں گے۔ اسلامی تاریخ کے ہر دور میں امتِ مسلمہ کا اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ حکومت کی سربراہی کسی عورت کو نہیں سونپی جا سکتی۔ اس کے لیے جہاں اور شرائط ذکر کیے گئے ہیں ان میں ایک مذکر ہونا بھی شرط قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ قاضی ابوبکر ابن العربیؒ حدیث بخاری کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وھذا نص فی ان الامراۃ لا تکون خلیفۃ ولا خلاف فیہ۔ (احکام القرآن ص ۱۴۴۵ ج ۳)
’’یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ عورت خلیفہ نہیں ہو سکتی اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘
ابن العربی کا یہ اقتباس علامہ قرطبی نے بھی اپنی تفسیر میں نقل فرمایا ہے اور اس کی تاکید فرمائی ہے، ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ علماء کے درمیان اس میں اختلاف نہیں ہے۔
قال القاضی ابوبکر بن العربی ھذا نص من ان المراۃ لا تکون خلیفۃ ولا خلاف فیہ۔ (تفسیر القرآن للقرطبی ص ۱۸۳ ج ۱۳)
علامہ بغویؒ جو مشہور مفسر و محدث گزرے ہیں وہ لکھتے ہیں:
اتفقوا علی ان المراۃ لا تصلح ان تکون امامًا لان الامام یحتاج الی الخروج لاقامۃ امر الجہاد والقیام بأمر المسلمین ۔۔۔ والمرأۃ عورۃ لا تصلح المبروز (شرح السنۃ للبغوی ص ۷۷ ج ۱۰ ۔ باب کراھیۃ تولیۃ النساء)
’’امت کا اس پر اتفاق ہے کہ عورت حکومت کی سربراہ نہیں بن سکتی کیونکہ امام کو جہاد کے معاملات انجام دینے اور مسلمانوں کے معاملات نمٹانے کے لیے باہر نکلنے کی ضرورت پڑتی ہے اور عورت پوشیدہ (پردہ میں) رہنی چاہیئے، مجمع عام میں اس کا جانا جائز نہیں۔‘‘
امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
’’حکمرانی کی چوتھی شرط مذکر ہونا ہے لہٰذا کسی عورت کی امامت منعقد نہیں ہو گی اگرچہ وہ تمام اوصاف کمال سے متصف ہو اور اس میں استقلال کی صفات پائی جاتی ہوں۔‘‘
علامہ ماوردیؒ جو اسلامی سیاست کے ماہرین میں شمار کیے جاتے ہیں اور ان کی مشہور کتاب ’’الاحکام السلطانیہ‘‘ اسلامی سیاست کا اہم ترین ماخذ سمجھی جاتی ہے اس میں انہوں نے عورت کی سربراہی تو کجا عورت کو وزارت کی ذمہ داری سونپنا بھی ناجائز قرار دیا ہے۔ انہوں نے وزارت تفویض اور وزارت تنفیذ ہر طرح کی ذمہ داری عورت پر ڈالنا ناجائز قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
فصل و اما وزارۃ التنفیذ فحکمھا اضعف و شروطھا اقل ۔۔ الخ۔ ولا یجوز ان تقوم بذلک امراۃ وان کان خبرھا مقبولا لما تضمنہ معنی الولایات المعروفۃ عن النساء لقول النبی صلی اللہ علیہ وسلم ’’ما افلح قوم اسندوا امرھم الی امراۃ ‘‘ ولان فیھا من طلب الرأی و ثبات العزم ما تضعف عن النساء و من الظھور عن مباشرۃ الامورھا ھو علیھن محظور۔ (ص ۲۷ و ۲۸)
’’جہاں تک وزارتِ تنفیذ کا تعلق ہے وہ نسبتًا کمزور ہے اور اس کے شرائط بھی کم ہیں لیکن یہ جائز نہیں کہ کوئی عورت اس کی ذمہ دار بنے، اگرچہ عورت کی خبر مقبول ہے، کیونکہ یہ وزارت ایسی ولایتوں پر مشتمل ہے جن کو شریعت نے عورتوں سے الگ رکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’لن یفلح قوم ولو امرھم امرأۃ‘‘ یعنی جو قوم اپنے معاملات کسی عورت کے سپرد کرے وہ فلاح نہ پائے گی۔ علاوہ ازیں اس وزارت کے لیے جو اصابت اور اولوالعزمی درکار ہے وہ صنفِ نازک میں بہت ضعیف درجہ کی ہوتی ہے۔ نیز اس وزارت کے فرائض انجام دینے کے لیے ایسے انداز سے لوگوں کے سامنے ظاہر ہونا پڑتا ہے جو عورتوں کے لیے شرعًا ممنوع ہے۔‘‘
بہرحال عورت کے لیے کسی مملکت کی سربراہی کے عدم جواز کا مسئلہ متفق علیہ اور اجماعی مسئلہ ہے۔ علامہ ابن حزمؒ نے اجماعی مسائل پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے اس میں وہ تحریر فرماتے ہیں:
واتفقوا ان الامامۃ لا تجوز لامراۃ۔ (مراتب الاجماع لابن تیمیہ ص ۱۲۶)
’’تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ حکومت کی سربراہی کسی عورت کے لیے جائز نہیں۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے علامہ ابن حزمؒ کی مذکورہ کتاب پر تنقید لکھی ہے یعنی جن مسائل کو علامہ ابن حزمؒ نے اجماعی قرار دیا ہے ان میں سے بعض بعض مسائل پر ابن تیمیہؒ نے اختلاف کیا ہے لیکن عورت کی سربراہی کے مسئلہ میں انہوں نے علامہ ابن حزمؒ پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے۔ (نقد مراتب الاجماع لابن تیمیہ ص ۱۲۶)

امام ابوحنیفہؒ و ابن جریر طبریؒ کا موقف

کتب احناف مثلاً درمختار، فتح القدیر وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کے نزدیک جن امور میں عورتوں کی شہادت جائز ہے ان امور میں عورت کو قاضی بنانا بھی جائز ہے کیونکہ عورت شہادت کی اہل ہے اور جب شہادت کی اہلیت رکھتی ہے تو اس کو قضا کا عہدہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ یعنی اگر کسی جگہ لوگوں نے عورت کو قاضی بنا دیا یا وہ خود اپنی طاقت کے زور سے قاضی بن بیٹھی اور کسی معاملہ میں حدود و شرح کی رعایت کرتے ہوئے فیصلہ کیا تو وہ فیصلہ قابلِ تسلیم ہو گا، البتہ اس کا فیصلہ حدود و قیاس میں معتبر نہ ہو گا۔ مگر اس کے بعد متصلًا یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ عورت کو قاضی بنانا مکروہ ہے یعنی یہ فعل بہرحال گناہ کا ہے۔ درمختار میں ہے:
والمرأۃ تقضی فی غیر حد و قود وان اثم المولی لھا لخبر البخاری لن یفلح قوم ۔۔۔ الخ۔
’’یعنی عورت کو قاضی بنانا فعل حرام کے قریب قریب ہے اور ممنوع ہے۔‘‘
اسی طرح مشہور مفسر حافظ ابن جریر طبری کی طرف یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ وہ عورت کے قاضی بنانے کے جواز کے قائل ہیں اور جب عورت کو قاضی بنایا جا سکتا ہے تو اسے کسی مملکت کی سربراہی بھی سونپی جا سکتی ہے۔ ان کی تصانیف میں تتبع و تلاش کے باوجود ہمیں ان کی یہ رائے نہیں مل سکی، جب تک ان کی کسی کتاب کا اقتباس ہمارے سامنے نہ ہو ان کے موقف کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ بالفرض ہم تسلیم بھی کر لیں کہ وہ امام ابوحنیفہؒ کی طرح عورت کو قاضی بنانے کے جواز کے قائل ہیں تو اس بات کو مطلقًا عورت کی سربراہی کے جواز کے عنوان سے نقل کرنا بھی درست نہ ہو گا۔ 
عورت کو قصاص، حدود، تعزیرات اور نکاح کے معاملات کے سوا دوسرے امور میں قاضی بنائے جانے کا مطلب یہ ہے کہ کسی مسئلہ میں اگر عورت کو ثالث بنایا جائے یا جزوی طور پر کوئی مقدمہ اس کے سپرد کیا جائے اور وہ شریعت کے اصول و ضابطے کے مطابق صحیح فیصلہ کرے تو وہ فیصلہ صحیح اور معتبر ہو گا۔ چنانچہ ہمارے اس خیال کی تائید قاضی ابوبکر ابن العربیؒ کی تحریر سے ہوتی ہے، وہ بخاری شریف کی حدیث ’’لن یفلح قوم۔۔الخ‘‘ نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ عورت خلیفہ نہیں ہو سکتی اور اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں۔ البتہ امام محمد بن جریر طبریؒ سے منقول ہے کہ ان کے نزدیک عورت کا قاضی ہونا جائز ہے لیکن ان کی طرف اس مسلک کی نسبت صحیح نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مذہب ایسا ہی ہو گا جیسا کہ امام ابوحنیفہؒ سے منقول ہے کہ عورت ان معاملات میں فیصلہ کر سکتی ہے جس میں وہ شہادت دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت علی الاطلاق قاضی بن جائے اور یہ کہا جائے کہ فلاں عورت کو قصاص اور نکاح کے معاملات کے علاوہ قاضی بنایا جا رہا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو کسی مسئلہ میں ثالث بنا لیا جائے یا کوئی ایک مقدمہ جزوی طور پر اس کے سپرد کر دیا جائے۔ وانما ذٰلک کسبیل التحکیم او الاستنابۃ فی القضیۃ الواحدہ۔‘‘ (احکام القرآن لابن العربی ص ۱۴۴۵ ج ۳)
بہرحال ان دونوں بزرگوں سے عورت کے لیے مقدمات کا فیصلہ کرنے کا جو جواز منقول ہے وہ باقاعدہ قاضی بنانے سے متعلق نہیں بلکہ جزوی حیثیت سے ثالث کے طور پر کوئی انفرادی قضیہ نمٹانے سے متعلق ہے۔ پس فقہاء کا تھوڑا سا اختلاف عورت کے قاضی بننے نہ بننے کے بارے میں ضرور ہے لیکن حکومت کا سربراہ بننے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ چنانچہ امام الحرمین علامہ جوینیؒ فرماتے ہیں:
’’سربراہی کے لیے مذکر ہونے کی شرط میں کوئی شک نہیں ہے، جن علماء نے ایسے امور میں عورت کے قاضی بننے کو جائز کہا ہے جن میں عورت گواہ بن سکتی ہے، وہ بھی سربراہی کے لیے عورت کی تقرری ناممکن قرار دیتے ہیں کیونکہ قضا کے بارے میں گو یہ ممکن ہے کہ اس کے حدود و اختیارات کو معاملات کے ساتھ خاص کر دیا جائے مگر حکومت کی سربراہی کو شریعت کے نظام کے مطابق کچھ محدود معاملات کے ساتھ خاص کرنا ممکن نہیں۔‘‘

حضرت تھانویؒ کے فتوٰی کی حیثیت

عورت کی سربراہی کے جواز میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا ایک فتوٰی پیش کیا جاتا ہے جو امداد الفتاوٰی میں مذکور ہے۔ حضرت نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ جمہوری حکومت میں سربراہ ایک رکن مشورہ کی حیثیت رکھتا ہے، اسے اختیار کلّی سلطانِ وقت کی طرح نہیں ہوتا ہے۔ ہم ذیل میں بعینہٖ وہ فتوٰی بمعہ سوال کے درج کرتے ہیں:
’’سوال نمبر ۱۰۳: بخاری میں حدیث ہے ’’لن یفلح قوم ولو أمرھم امرأۃ‘‘۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کا والی و حاکم ہونا موجبِ عدمِ فلاح ہے۔ تو کیا جن ریاستوں پر عورتیں حکمران ہیں وہ بھی اس میں داخل ہیں؟
الجواب: حکومت کی تین قسمیں ہیں۔ 
(۱) ایک قسم وہ جو تام بھی ہو عام بھی ہو۔ تام سے مراد یہ کہ حاکم بانفرادہ خودمختار ہو یعنی اس کی حکومت شخصی ہو اور اس کے حکم میں کسی حاکمِ اعلیٰ کی منظوری کی ضرورت نہ ہو، گو اس کا حاکم ہونا اس پر موقوف ہو۔ اور عام یہ کہ اس کی محکوم کوئی محدود و قلیل جماعت نہ ہو۔
(۲) دوسری قسم وہ جو تام تو ہو مگر عام نہ ہو۔
(۳) تیسری قسم وہ جو عام ہو مگر تام نہ ہو۔ 
مثال اول کی، کسی عورت کی سلطنت یا ریاست بطرز مذکور شخصی ہو۔ مثال ثانی کی، کوئی عورت کسی مختصر جماعت کی منتظم بلاشرکت ہو۔ مثال ثالث کی، کسی عورت کی سلطنت جمہوری ہو کہ اس میں والی صوری درحقیقت والی نہیں بلکہ ایک رکن مشورہ ہے اور والی حقیقی مجموعہ مشیروں کا ہے۔
حدیث کے الفاظ میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مراد حدیث میں پہلی قسم ہے۔ چنانچہ سبب و رود اس حدیث کا کہ اہلِ فارس نے دخترِ کسرٰی کو بادشاہ بنایا تھا اور لفظ ’’ولّوا‘‘ میں تولیت کے اطلاق سے متبادر اس کا کمال مفہوم ہونا پھر اس کی اسناد قوم کی طرف ہونا، یہ سب اس کا قرینہ ہے کیونکہ یہ طریقہ تولیت کاملہ کا سلطان ہی بنانے کے ساتھ خاص ہے کہ قوم کے اہلِ حل و عقد باہم متفق ہو کر کسی کو سلطان بنا دیتے ہیں، اور سلطان کا کسی کو حکومت دینا یہ بھی بواسطۂ سلطان کے قوم ہی کی طرف مسند ہو گا۔ بخلاف قسمِ ثانی کے کہ وہاں گو تولیت کامل ہوتی ہے مگر وہ مستناد قوم سے حقیقتًا یا حکمًا نہیں ہوتی۔ اور بخلاف ثالث کے کہ وہاں گو اسناد اس کی قوم کی طرف صحیح ہے مگر تولیت کامل نہیں ہے بلکہ وہ مشورۂ محضہ ہے گو اس مشورہ کو دوسرے منفرد مشوروں پر ترجیح ہو لیکن اس میں ولایت کاملہ کی شان نہیں ہے اور نہ تمام ارکان کے مخالف ہونے کی صورت میں بھی اسی کو سب پر ترجیح ہوتی، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ قرینہ تو خود الفاظ حدیث سے ماخوذ ہے۔ 
اب دوسرے دلائلِ شرعیہ میں جو نظر کی جاتی ہے تو اس تفصیل کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت بلقیس کی سلطنت کا قصہ قرآن مجید میں مذکور ہے، اس میں آیت ہے ’’ما کنت قاطعۃ امرًا حتٰی تشھدون‘‘ جس میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلطنت کا طرزِ عمل، خواہ ضابطہ سے، خواہ بلقیس کی عادت مستمرہ سے، سلطنت جمہوری کا سا تھا، اور بعد ان کے ایمان لے آنے کے کسی دلیل سے ثابت نہیں کہ ان سے انتزاعِ سلطنت کیا گیا ہو۔ پس ظاہر حکایتِ سلطنت اور عدمِ حکامیتِ انتزاع سے اس سلطنت کا بحالہا باقی رہنا ہے اور تاریخ صراحۃً اس کی مؤید ہے۔ اور قاعدہ اصولیہ ہے کہ ’’اذا قض اللہ ورسولہ علینا امرًا من غیر نکیر علیہ فھو حجۃ لنا‘‘۔ پس قرآن سے ظاہرًا ثابت ہو گیا کہ سلطنتِ جمہوری عورت کی ہو سکتی ہے، جو قسم ثالث ہے حکومت کے اقسام ثلٰثہ مذکور میں سے۔ اور راز اس میں یہ ہے کہ حقیقت اس حکومت کی محض مشورہ ہے اور عورت اہل ہے مشورہ کی۔ 
چنانچہ واقعہ حدیبیہ میں خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہؓ کے مشورہ پر عمل فرمایا اور انجام اس کا محمود ہوا۔ اور اگر سلطنت شخصی بھی ہو مگر ملکہ التزامًا اپنی انفراد رائے سے کام نہ کرتی ہو وہ بھی اس حدیث میں داخل نہیں کیونکہ علّت عدمِ فلاح کی نقصانِ علم ہے، اور جب مشورہ رجال سے اس کا انجبار ہو گیا تو علّت مرتفع ہو گئی تو معلول یعنی عدمِ فلاح بھی منفی ہو گیا، جیسے نقصانِ شہادتِ نساء انظمامِ شہادتِ رجال سے منجبر ہو جاتا ہے۔ سلطنتِ بلقیس میں یہ شق بھی محتمل ہے جس کی طرف ادھر اس عبارت میں اشارہ بھی کیا گیا ہے کہ خواہ بلقیس کی عادت مستمرہ ۔۔۔الخ۔ 
اور حدیث شیخین میں ہے ’’فالامام الذی علی الناس راعٍ الٰی قولہ علیہ السلام والمرأۃ راعیۃ علی بیت زوجھا و ولدہ وھی مسئولۃ عنھم‘‘ لفظ راعیۃ مثل لفظ راعٍ جو اس سے قبل ہے مستعمل ہے معنی حاکمہ میں، اس حدیث سے قسم ثانی کا عورت کے لیے مشروع ہونا ثابت ہوتا ہے۔ حضرات فقہاء نے امامتِ کبرٰی میں ذکورۃ کی شرط صحت اور قضا میں گو شرط صحت نہیں مگر شرط صون عن الاثم فرمایا ہے اور نظارت و وصیت و شہادت میں کسی درجہ میں اس کو شرط نہیں کہا۔ ہکذا فی الدر المختار باب الامامۃ و کتاب القاضی الی القاضی۔ قضاء کے اس حکم مذکور قسم اول و ثانی کے احکام کی تصریح ہے اور قسم ثالث مقیس ہے قسم ثانی پر ’’لاشتراکھما فی کونھما غیر جامعین لوصف التمام والعموم‘‘ جب دلائل بالا سے ثابت ہو گیا کہ حدیث میں مذکور قسم اول ہے تو معلوم ہو گیا کہ ایسی ریاستیں جو آج کل زیرفرمان عورتوں کے ہیں اس حدیث میں داخل نہیں اس لیے کہ اگر اس کے محکومین کو مختصر قرار دیا جائے تب وہ قسم ثانی ہے۔ اور اگر اس جماعت کو مختصر نہ قرار دیا جائے تب بھی وہ درحقیقت جمہوری ہیں، یا تو ظاہرًا بھی جہاں پارلیمنٹ کا وجود شاہد ہے اور یا صرف باطنًا جہاں پارلیمنٹ تو نہیں ہے لیکن اکثر احکام میں کسی حاکم بالا سے جو صاحبِ سلطنت یا نائب سلطنت سے منظوری لینا پڑتی ہے پس اس طور سے وہ قسم ثالث ہیں۔ اور اب یہ بھی شبہ نہ رہا کہ ظاہر یہ رئیسات مثل قاضی کے ہیں اور قاضی عورت کا حکم حدود و قصاص میں نافذ نہیں ہوتا۔ کما صرح بہ الفقہاء۔
تو ایسے احکام کے نفاذ کی ان ریاسات میں کوئی صورت صحت کی نہ ہو گی۔ وجہ رفع شبہ کی ظاہر ہے کہ وہ ریاست اولًا تو جمہوری ہے اور علی السبیل التنزل یوں کہا جائے گا کہ چونکہ قضاۃ تو ذکور ہیں اس لیے وہ احکام نافذ ہو جائیں گے، جیسا کہ فقہاء نے قضاۃ منصوبین من السلطان غیر المسلم کے جمیع احکام کو صحیح و نافذ فرمایا ہے، بالجملہ تحقیق مذکور ثابت ہو گیا  کہ یہ ریاستیں عدم فلاح کے حکم سے بری ہیں۔ واللہ اعلم۔‘‘
اس فتوے کا ماحصل یہ ہے کہ ایسی شخصی حکومت جس میں اقتدارِ اعلیٰ صرف امیر المسلمین یا بادشاہِ وقت کو ہوتا ہے اور اسے کلی اختیارات حاصل ہوتے ہیں، ایسی حکومت کی سربراہ عورت کو بنانا عدمِ فلاح کا موجب ہے۔ اور جمہوری حکومت جس میں پارلیمنٹ کے مشوروں کے بعد احکام کا نفاذ ہوتا ہے، سربراہ کی حیثیت اس حکومت میں ایک رکن مشورہ کی ہوتی ہے اس لیے وہ والیٔ حقیقی نہیں ہوتا، والیٔ حقیقی تو پارلیمنٹ کے ممبروں کا مجموعہ ہوتا ہے اور رکن مشورہ بننا عورت کے لیے جائز ہے کیونکہ جمہوری حکومت کی حقیقت محض مشورہ ہے اور عورت مشورہ کی اہل ہے۔ البتہ امامتِ کبرٰی یعنی حکومت کی سربراہی میں مرد ہونا شرط ہے اور قاضی بنانے میں صون عن الاثم یعنی گناہ سے بچنا شرط ہے، مرد ہونا شرط نہیں ہے۔ 
کچھ لوگ حضرت تھانویؒ کے اس فتوٰی کو عورت کی سربراہی کے جواز میں پیش کرتے ہیں اور جمہوری حکومت کے سربراہ کو پارلیمانی مشیروں کا تابع سمجھتے ہیں حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے۔ موجودہ جمہوری نظام حکومت کی سربراہی کو حضرت تھانویؒ کے مذکور فتوے پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔ حضرت تھانویؒ کا فتوٰی انگریزی دور میں لکھا گیا ہے اور انگریزی دور کی رئیسات کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ آج کی آزاد جمہوری حکومتوں کی صورتِ حال انگریزی دور سے بہت مختلف فیہ ہے۔ جمہوری نظامِ حکومت میں خواہ پارلیمنٹری نظام ہو یا صدارتی، طاقت کا مرکز وزیراعظم اور صدر مملکت دونوں ہی ہوتے ہیں۔ کہیں صدر کا پلہ بھاری ہوتا ہے اور کہیں وزیراعظم کا۔ اس لیے جمہوری حکومتوں کے یہ دونوں عہدے حضرت تھانویؒ کے فتوے کی رو سے قسم اول (یعنی حکومت تام بھی اور عام بھی) میں داخل ہیں۔ لہٰذا حضرت تھانویؒ کا فتوٰی مجوزین کے لیے مفید مقصد نہیں ہو سکتا۔ غرض تاریخِ اسلام میں کبھی کسی فقیہ یا عالم نے عورت کی حکمرانی کے جواز کا فتوٰی نہیں دیا ہے۔ 

عورت کی سربراہی پر استدلال بلقیس کے واقعہ سے

کچھ لوگ عورت کی سربراہی پر جواز کے لیے ملکۂ سبا یعنی بلقیس کی حکمرانی کا واقعہ پیش کرتے ہیں یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط لکھنے پر جب وہ مطیع اور فرمانبردار ہو کر آگئی اور اسلام قبول کر لیا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی بادشاہت کو برقرار رکھا جیسا کہ بعض کتابوں میں اس کا ذکر ملتا ہے، حالانکہ قرآن پاک کے الفاظ پر نظر ڈالنے سے معاملہ برعکس معلوم ہوتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کی حکومت تسلیم نہیں کی بلکہ اس کے نام جو خط لکھا اس کے الفاظ یہ ہیں:
انہ من سلیمان وانہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ان لا تعلوا علیّ واتونی مسلمین۔ (نمل)
’’یعنی تم میرے مقابلہ میں سر نہ اٹھاؤ اور میرے پاس میری مطیع اور فرمانبردار بن کر آجاؤ۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی حکومت کو نہ صرف یہ کہ تسلیم نہیں فرمایا بلکہ اسے اپنا ماتحت بن کر آنے کا حکم دیا، نیز اس کا بھیجا ہوا تحفہ قبول نہیں فرمایا، اس کا تختہ بھی اٹھوا کر منگوا لیا، اس کی ہیئت بھی بدل ڈالی اور بلقیس جب حضرت سلیمانؑ کے محل میں آئی تو اس نے کہا:
’’پروردگار! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کے آگے جھک گئی۔‘‘ (نمل ۴۴)
قرآن پاک کے بیان سے دور تک بھی بلقیس کی سربراہی اور اس کی حکومت برقرار رکھنے کا شائبہ تک نظر نہیں آتا، بلکہ قرآن کے پڑھنے سے یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کے اسلام کے بعد اس کی حکومت کو جائز نہیں رکھا نہ اسے تسلیم فرمایا بلکہ اس کی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ 
بعض اسرائیلی روایات میں منقول ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس سے نکاح کر کے اسے یمن بھیج دیا تھا اور بعض روایات میں ہے کہ نکاح کرنے کے بعد شام بھیج دیا تھا، بعض میں ہے کہ نکاح کے بعد بلقیس کو اپنے پاس رکھا، بعض میں ہے کہ بلقیس کا نکاح ہمدان کے بادشاہ سے کر دیا۔ غرض اس سلسلہ میں تاریخی روایات بہت متضاد ملتی ہیں۔ علامہ قرطبیؒ نے ان تمام اسرائیلی روایات کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس سلسلہ میں کوئی صحیح روایت موجود نہیں ہے، نہ اس بارے میں کہ حضرت سلیمان نے بلقیس سے نکاح کیا، نہ اس بارے میں کہ کسی اور سے نکاح کرایا۔ (تفسیر قرطبی ج ۱۳ ص ۲۱۰ و ۲۰۱۱)
بہرحال بلقیس کی سربراہی اور حکومت کا پتہ جن روایات سے معلوم ہوتا ہے وہ تمام کی تمام غیر صحیح اور غیر مستند ہیں اور آپس میں متضاد ہیں۔ اس طرح کی روایات سے عورت کی سربراہی پر استدلال کسی طرح درست نہ ہو گا۔ حضرت تھانویؒ نے تفسیر بیان القرآن میں لکھا ہے:
’’ہماری شریعت میں عورت کو بادشاہ بنانے کی ممانعت ہے پس بلقیس کے قصہ سے کوئی شبہ نہ کرے۔ اول تو یہ فعل مشرکین کا تھا، دوسرے اگر شریعت سلمانیہ نے اس کی تقریر بھی کی ہو تو شرع محمدی میں اس کے خلاف ہوتے ہوئے وہ حجت نہیں۔‘‘ (بیان القرآن ج ۸ ص ۸۵ سورہ نمل)

جنگ جمل میں حضرت عائشہؓ کی شرکت سے استدلال

بعض حضرات نے عورت کی سربراہی پر جنگِ جمل کے واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اس جنگ میں قیادت کی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ تو حضرت عائشہؓ نے کبھی قیادت کا دعوٰی کیا، نہ ان کے ساتھیوں نے آپ کو جنگ میں قائد و سربراہ بنایا، نہ ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت عائشہؓ کا مقصد نہ کوئی سیاست و حکومت تھی نہ ہی وہ جنگ کرنے کے ارادہ سے نکلی تھیں بلکہ روایات سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ وہ محض حضرت عثمانؓ کے قصاص کے جائز مطالبے کی تقویت اور اس سلسلہ میں مسلمانوں کے درمیان مصالحت کرانے کے مقصد سے گئی تھیں۔ چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:
’’جب حضرت عائشہؓ بصرہ جا رہی تھیں تو راستہ میں ایک جگہ قیام کیا، رات میں وہاں کتے بھونکنے لگے۔ حضرت عائشہؓ نے لوگوں سے پوچھا یہ کون سا مقام ہے؟ لوگوں نے بتایا ’’حؤاب‘‘ نامی چشمہ ہے۔ حوأب کا نام سنتے ہی حضرت عائشہؓ چونک اٹھیں، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ہم ازواج مطہرات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم میں سے ایک کا اس وقت کیا حال ہو گا جب اس پر حوأب کے کتے بھونکیں گے؟‘‘ (مسند احمد ص ۵۲ ج ۱)
حضرت عائشہؓ نے حوأب کا نام سن کر آگے جانے سے انکار کر دیا اور اپنے ساتھیوں سے اصرار کیا کہ مجھے مدینہ واپس لوٹا دو لیکن بعض حضرات نے آپ کو چلنے کے لیے اصرار کیا اور کہا کہ آپ کی وجہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح ہو جائے گی۔ بہرحال حضرت عائشہؓ نے دوبارہ سفر شروع کیا اور بصرہ پہنچیں اور جو مقدّر تھا وہ پیش آیا۔ (البدایہ والنہایہ ص ۱۳۱ ج ۷)
باوجودیکہ حضرت عائشہؓ کا سفر مسلمانوں کے درمیان مصالحت کے خالص دینی مقصد کے لیے تھا مگر صحابۂ کرام اور دوسری امہات المؤمنین کو حضرت عائشہؓ کا خواتین کے اسلامی دائرے سے نکلنا پسند نہ آیا۔ چنانچہ حضرت ام سلمہؓ نے جب حضرت عائشہؓ کو خط لکھا اور اس میں انہیں گھر سے نکلنے پر تنبیہ فرمائی اور گھر رہنے کی نصیحت فرمائی، اسی طرح کا نصیحت آمیز خط حضرت زید بن صوحانؓ نے بھی لکھا۔ چنانچہ اس سفر کرنے پر حضرت عائشہؓ کو بعد میں بڑی ندامت و شرمندگی رہی۔ 
حافظ ابن عبد البرؒ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہؓ نے حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ سے فرمایا آپ نے مجھے اس میں جانے سے کیوں نہیں روکا؟ اگر آپ مجھے روک دیتے تو میں گھر سے باہر نہیں نکلتی۔ بہرحال وہ نادم ہوئیں اور اپنے اس نکلنے پر توبہ بھی کی۔ بعد میں ان کا یہ حال ہو گیا تھا کہ قرآن پاک کی تلاوت کے وقت جب آیت ’’وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ‘‘ پر پہنچتیں تو اس قدر روتیں کہ ان کی اوڑھنی آنسوؤں سے تر ہو جاتی۔ ان حالات میں حضرت عائشہؓ کی سربراہی کے اوپر استدلال کرنا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے، اس کا تو تصور بھی ان کے حاشیۂ خیال میں نہیں آیا تھا۔ 
بہرحال کسی اسلامی ملک کی سربراہی کے لیے عورت کا تقرر کرنا ہرگز جائز نہیں ہے، تمام ائمہ کا یہ متفقہ فیصلہ ہے اور یہ اجماعی مسئلہ بن چکا ہے۔ کامل العقل اور اہلیت تامہ رکھنے والے مرد کے موجود ہوتے ہوئے عورت کو ملک کی وزارت یا صدر کے لیے منتخب کرنا اسلام اور مسلمانوں کے لیے نہ صرف ننگ و عار کا باعث ہے بلکہ تاریخ اسلام میں ایک بدنما داغ ہے اور مملکت کے یقینی ناکام ہونے کی علامت ہے۔ حدیث شریف میں ہے ’’اخروھن من حیث اخرھن اللہ‘‘ یعنی عورتوں کو پیچھے کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے رتبہ کو مردوں کے مقابلے میں (سلطنت ولایت وغیرہ میں) پیچھے رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق کی اتباع کرنے کی توفیق بخشے اور اپنے حفظ و امان میں رکھے، آمین۔ 

توہینِ صحابہؓ کے مرتکب کو تین سال قید با مشقت کی سزا

ادارہ

بعدالت جناب ملک محمد حفیظ صاحب! 
اسسٹنٹ کمشنر/مجسٹریٹ درجہ اوّل اسلام آباد۔ 
سٹیٹ بنام عبد القیوم علوی۔ 
مقدمہ علت ۱۳ مؤرخہ ۱۴/۲/۸۵ بجرم A۔295 و A۔298 ت پ تھانہ آبپارہ۔ 
حکم: عبد القیوم علوی ولد غلام حسین قوم اعوان سکنہ پنڈ نگرال تھانہ گولڑہ شریف اسلام آباد کو پولیس تھانہ آبپارہ نے بجرم  ۲۹۵۔اے ۲۹۸ ۔اے ت پ چالان کر کے بغرضِ سماعت پیشِ عدالت کیا۔ مختصر حالات مقدمہ اس طرح ہیں کہ مورخہ ۱۴/۲/۸۵ کو مدعی مقدمہ مولانا محمد عبد اللہ صدر جمعیۃ اہلسنت والجماعت پاکستان خطیب مرکزی مسجد سیکٹر جی سکس اسلام آباد نے تحریری درخواست تھانہ آبپارہ گزاری کہ کتاب ’’تاریخ نواصب‘‘ (حصہ اول) مصنفہ عبد القیوم علوی (ملزم) میں بعض صحابہ کرامؓ اور بزرگ ہستیوں بشمول حضرت امیر معاویہؓ کے متعلق مصنف نے قابلِ اعتراض الفاظ استعمال کیے اور ان کو معاذ اللہ ثم معاذ اللہ کافر، کتے، خنزیر کے برابر اور منافق، دشمنِ اسلام، ملعون اور دین کے معاملہ میں خصوصاً ناقابلِ اعتبار ثابت کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے جس سے مدعی اور سنی اکثریت کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ 
دورانِ تفتیش کتاب مذکورہ بالا قبضۂ پولیس میں لی گئی، گواہان کے بیانات قلمبند ہوئے، ملزم کو گرفتار کیا جا کر، بعد تکمیل تفتیش چالان عدالت کیا گیا۔ مورخہ ۱۵/۴/۸۵ کو نقول بیانات گواہان استغاثہ تقسیم ہو کر مورخہ ۳۰/۴/۸۵ کو ملزم پر فرد جرم یر دفعات A۔295 و A۔298 عائد ہوئی، ملزم کے انکار پر شہادت استغاثہ طلب ہو کر قلمبند ہوئی۔ 
گواہان استغاثہ نمبر ۱، نمبر ۲ فرد مقبوضگی Ex P1 ’’تاریخ نواصب‘‘ (حصہ اول) ہیں جنہوں نے بابت مقبوضگی کتاب بیان کیا۔ گواہ استغاثہ نمبر ۳ مدعی مقدمہ جنہوں نے اپنی رپورٹ ابتدائی Ex PB کی تائید کی اور بتایا کہ وہ ان کی قلمی و دستخطی ہے نیز اس نے بتایا کہ اس نے دوران تفتیش کتاب Ex P2 پیش کی اور وہ پولیس نے بذریعہ خود Ex PC قبضہ پولیس میں لی جس پر گواہ نے اپنے دستخط شناخت کی۔ گواہ نے اپنی شہادت کے دوران بتایا کہ کتاب کے مختلف حصوں میں مصنف نے صحابہ کرامؓ کے بارہ میں توہین آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں اور ان کو ناصبی کہا ہے جبکہ مصنف نے ناصبیوں کے لیے کتے، خنزیر، ملعون اور کافر، منافق جیسے برے القاب سے تعبیر کیا جس سے مدعی کی اور تمام اہل سنت ساتھیوں (گواہان) کی مذہبی دلآزاری ہوئی اور ان کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے۔ گواہ نے اس بارہ میں کتاب کے صفحہ ۱۶ مقام A تا A اور صفحہ ۲۱ مقام B تا B اور صفحہ ۱۵ مقام C تا C کا خاص طور پر ذکر کیا۔ مزید بتایا کہ اس نے ایک مفصل رپورٹ (Ex P3 - P6) ایسے ہی حوالہ جات پر مبنی تیار کر کے پولیس کو دی جو کہ ان کی اور گواہ عبد الغفور کی دستخطی ہے۔ گواہ نے بتایا کہ وہ اور اس کے ساتھی جن کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے حضرت معاویہؓ کو صحابی اور کاتب وحی سمجھتے ہیں۔ جرح میں گواہ نے بتایا کہ اس کی دلآزاری مسلمان ہونے کی حیثیت سے اور اہلسنت والجماعت ہونے کی حیثیت سے اور علماء دیوبند کے ساتھ تعلق کی حیثیت سے ہوئی ہے۔ 
گواہ استغاثہ ۴ کرامت خان ASI محرر FIR ہے۔ گواہ نے بتایا کہ اس نے رسمی رپورٹ ابتدائی Ex PB/I حسب آمدہ تحریر مدعی Ex PB درست طور پر قلمبند کی۔ 
گواہان استغاثہ نمبر ۵، ۶، ۷ نے بھی متفقہ طور پر بتایا کہ بحیثیت مسلمان اور اہلسنت والجماعت ان کے مذہبی جذبات ملزم کی مصنفہ کتاب ’’تاریخ نواصب‘‘ (حصہ اول) پڑھ کر مجروح ہوئے ہیں۔ چونکہ مصنف نے اپنی کتاب میں صحابہ کرامؓ کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کیے اور انہیں ناصبی گردانا جس کی تعبیر مصنف نے کتے اور خنزیر وغیرہ کے الفاظ استعمال کر کے کی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دوران شہادت گواہ استغاثہ ۶ مولانا عبد الغفور ملزم سے ذیل سوالات عدالت نے پوچھے جو کہ معہ جوابات ملزم درج ہیں:
سوال عدالت: کیا آپ نے حضرت معاویہؓ اور عمرو بن عاصؓ کو کافر، منافق، ظالم وغیرہ کہا ہے؟
جواب: میں نے بالکل یہ کہا ہے اور کتاب میں لکھا ہے۔
سوال عدالت: کیا آپ کی نظر میں ان صحابہ کو برا بھلا کہنے سے جذبات مجروح نہیں ہوتے؟
جواب: اس سے جذبات مجروح نہیں ہوتے کیونکہ اہل سنت کے نزدیک یہ ظالم اور بری شخصیتیں ہیں۔
گواہ استغاثہ ۸ ریاض احمد SI تفتیشی افسر مقدمہ ہذا ہے، گواہ نے اپنے بیان میں بتایا کہ اس نے دورانِ تفتیش حسب پیش کردہ گواہان کتاب EX P1, P2 ’’تاریخ نواصب‘‘ بذریعہ فردات Ex PC, EX PA قبضہ پولیس میں لی۔ نقشہ موقعہ Ex PE مرتب کیا اور کتاب کے قابل اعتراض اقتباسات Ex P3-P14/1-14 پیش کردہ گواہان حاصل کر کے شامل مثل کیے۔ گواہ نے مزید بتایا کہ ملزم نے صحابہ کرامؓ کی توہین کی ہے اور اہلسنت والجماعت کے جذبات کو مجروح کیا ہے جس کی وجہ سے ملزم کو گنہگار پا کر چالان عدالت کیا۔ اس گواہ پر باوجود موقعہ دینے کے ملزم نے جرح نہ کی اور اس مرحلہ پر شہادت استغاثہ کی تکمیل ہوئی۔ 
شہادت استغاثہ کی قلمبندی کے بعد مؤرخہ ۱۹/۲/۸۷ کو ملزم کا بیان زیر دفعہ 342 ص ت قلمبند کیا گیا۔ گواہ نے اپنے بیان میں بتایا کہ کتاب P1, P2 ’’تاریخ نواصب‘‘ (حصہ اول) کا وہ مصنف ہے۔ اس نے موقف اختیار کیا کہ اس نے کسی صحابیٔ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی توہین نہ کی ہے اور نہ ہی کسی سنی کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ ملزم نے مزید بتایا کہ وہ اپنے دیگر بیان میں تفصیلات بابت کتب مصنفین اہل والجماعت جس نے اصحابِ رسولؐ کو کافر و منافق وغیرہ لکھا ہو بتائے گا اور یہ بھی بتائے گا کہ اس کے خلاف مقدمہ کیوں بنایا گیا ہے۔ تاہم ملزم نے بعد ازاں مؤرخہ ۴/۳/۸۷ کو بیان کیا کہ وہ دفعہ 340 ض ف بیان نہ دینا چاہتا ہے۔ اس مرحلہ پر بحث فریقین سماعت کی گئی اور مثل کا بغور مطالعہ کیا گیا۔ 
دورانِ بحث ہماری توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی گئی کہ دفعہ 196 ض ف کے تحت دفعہ 295/8 ت پ کی سماعت سے پہلے مرکزی یا صوبائی حکومت یا ان کی طرف سے مجاز اتھارٹی کی نالش ضروری تھی جو کہ حاصل نہ کی گئی ہے۔ اس قانونی نقطہ سے ہم اتفاق کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ واقعی سماعت مقدمہ کرنے سے پہلے اس بارہ میں کارروائی کرنا لازمی تھی جو کہ نہ کی گئی ہے۔ ہم اس مرحلہ پر جب کہ مقدمہ ہذا سال ۱۹۸۵ء سے زیرسماعت ہے اس بارہ میں تحرک کو تقاضائے انصاف کے خلاف اور نامناسب سمجھتے ہیں۔ 
صفحہ مثل برآمدہ شہادت اور بیان ملزم سے عیاں ہے کہ کتاب ’’تاریخ نواصب‘‘ (حصہ اول) ملزم ہی کی تصنیف ہے اور ملزم نے اس امر کو خود تسلیم کیا۔ نیز ملزم نے دوران کارروائی عدالت واضح الفاظ میں تسلیم کیا ہے کہ اس نے اپنی کتاب مذکورہ بالا میں حضرت معاویہؓ اور عمرو بن عاصؓ اور مغیرہ بن شعبہؓ کو کافر، منافق، ملعون، بدکردار، فاسق، فاجر اور ظالم وغیرہ کہا ہے، تاہم یہ موقف اختیار کیا کہ اس کے اور اہلسنت والجماعت کے نزدیک وہ صحابی نہیں ہیں۔ 
شہادت استغاثہ اور تاریخِ اسلام پر لکھی گئی مستند کتب کے حوالے سے اس امر کے متعلق کوئی شک و شبہ نہ ہے کہ حضرت معاویہؓ صحابیٔ رسول اور کاتب وحی تھے۔ اس طرح عمرو بن عاصؓ اور مغیرہ بن شعبہؓ بھی اصحاب رسولؐ تھے۔ ملزم کے مذکورہ شخصیتوں کو اصحابؓ رسولؐ نہ ماننے سے قطعًا تاریخی واقعات و حالات تبدیل نہ ہو سکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مذہب اسلام کے لاکھوں پیروکار ان شخصیتوں کو صحابیٔ رسولؐ سمجھتے ہیں اور اس بات کا علم ملزم کو بھی ہے اور ملزم نے جان بوجھ کر ان شخصیتوں کے بارے میں عمدًا نازیبا الفاظ استعمال کر کے اہلسنت والجماعت و دیگر مسلمانوں مذہبی جذبات کو مجروح کیا ہے۔ 
بحالات بالا ہم سمجھتے ہیں کہ استغاثہ اپنے مقدمہ کو بدون شک و شبہ ثابت کرنے میں کامیاب رہا ہے نیز یہ کہ نازیبا الفاظ جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے کہ مذکورہ بالا شخصیتوں کے لیے استعمال کرنے کو بھی ملزم ازخود تسلیم کرتا ہے، لہٰذا ہم ملزم کو زیردفعہ A۔298 ت پ تین سال قید بامشقت کی سزا دیتے ہیں، تاہم اس سزا کا اطلاق حسب منشا زیر دفعہ B۔382 ض ف ہو گا، حکم سنایا گیا۔ مثل بعد ترتیب و تکمیل داخل دفتر ہووے۔
دستخط اسسٹنٹ کمشنر / مجسٹریٹ درجہ اول اسلام آباد 
۱۵/۱۱/۸۹

منقبتِ صحابہؓ

سرور میواتی


عشقِ یارانِ نبیؑ خوشنودیٔ ربِ جلیل
حُبِ اصحابِؓ نبیؑ خوش قسمتی کی ہے دلیل
جو کوئی ان کی بزرگی کا نہیں ہے معترف
دونوں عالم میں یقیناً‌ ہو گیا خوار و ذلیل
عزت و تکریمِ یارانِ محمدؑ مصطفٰی
ہے یقینِ محکم و ایمانِ اکمل کی دلیل
اُن صحابہؓ سے تنفّر ہے صریحاً‌ گمرہی
جن کے ہوں قرآن میں مذکور اوصافِ جمیل
چار یارانِؓ محمدؑ مصطفٰی کی پیروی
حفظِ ایمان و یقیں کی ہے دوائے بے عدیل
بُغضِ یارانِ نبیؑ سے حق تعالیٰ کی پناہ
مرتکب ان حرکتوں کے ہیں نہایت ہی ذلیل
ہے تبرّا ان شقی بدبخت لوگوں کا طریق
علم و دانش کا ہے جن کے پاس سرمایہ قلیل
بے تکی جن کی شریعت من گھڑت جن کا فقہ
ساتھ لغویات کا ہے دفترِ طول و طویل
اہلِ سنت والجماعت کے طریقے میں ہے خیر
دین و دنیا میں یہی ہے کامیابی کی سبیل
آخرت کی فکر کر سرورؔ غلط لوگوں سے بچ
وقت تھوڑا رہ گیا بجنے کو ہے کوسِ رحیل


تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’مُعلّمِ عربی‘‘ (حصہ اول و دوم)

مؤلف: مولانا سعید احمد عنایت اللہ
صفحات: حصہ اول (۱۸۰) حصہ دوم (۳۰۰)
کتابت و طباعت عمدہ
ناشر: قرطبہ ٹریڈرز، سیالکوٹ
عربی مسلمانوں کی دینی و علمی زبان ہونے کی وجہ سے ہر دور میں خصوصیت کی حامل رہی ہے اور دنیا بھر میں عربی کی تعلیم و ترویج کے لیے مسلم علماء اور ادارے کوشاں رہے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں عربی کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ اس خطہ میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا اور ہر دور کے ضروریات اور تقاضوں کے متعلق اہلِ علم نے س مقصد کے لیے کتب و رسائل تحریر کیے ہیں جن کو جمع کیا جائے تو ایک اچھا خاصا ذخیرہ بن جاتا ہے۔
ہمارے ہاں دینی مدارس میں رائج ’’درسِ نظامی‘‘ کے نصاب میں عربی زبان کی مہارت سے طالب علم کو بہرہ ور کرنے کے لیے صرف و نحو، ادب اور معانی و بلاغت کی جو کتابیں ایک خاص ترتیب کے ساتھ شامل کی گئی ہیں، قرآن و حدیث اور دیگر اسلامی علوم کے ذخیرہ سے بھرپور استفادہ کے لیے ان کی افادیت و ضرورت آج بھی مسلّم ہے; تاہم دورِ حاضر میں تعلیم کے طریق کار اور اسلوب پر سامنے آنے والے نئے رجحانات ان کتابوں کے حوالہ سے نصابِ تعلیم میں تکرار و طوالت کے خدشہ سے دوچار ہیں اور ایسی کتابوں کی ضرورت پر مسلسل زور دیا جا رہا ہے جس میں اختصار اور آسانی کے ساتھ تمام متعلقہ مسائل طلبہ کے ذہن نشین کرانے کی صورت اختیار کی گئی ہو۔
اگرچہ دینی علوم میں مہارت تامہ حاصل کرنے والے طلبہ اور علماء کے لیے یہ صورت ہمارے نزدیک محلِ نظر ہے; تاہم جو طبقہ جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث سے براہِ راست استفادہ کی صلاحیت و استعداد فی الجملہ حاصل کرنے کا خواہش مند ہے اس کے لیے صرف و نحو کے نصاب میں اختصار و سہولت کی ضرورت و اہمیت سے انکار کی گنجائش نہیں ہے، اور اس مقصد کے لیے اردو میں لکھی جانے والی کتابوں میں مولانا سعید احمد عنایت اللہ کی یہ کتاب بلاشبہ ایک قابل قدر اضافہ ہے۔
مولانا سعید احمد عنایت اللہ ہمارے محترم دوست ہیں، سیالکوٹ کے رہنے والے ہیں، مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ میں مدرس ہیں اور دینی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہیں۔ انہوں نے صرف و نحو کے قواعد کو آسان زبان اور سہل انداز میں مناسب ترتیب کے ساتھ جمع کر کے مشق و تمرین کے ذریعے انہیں طلبہ کے ذہنوں میں اتارنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اللہ پاک انہیں جزائے خیر سے نوازیں، آمین یا الٰہ العالمین۔
قیمت کتاب پر درج نہیں ہے، اسے قرطبہ ٹریڈرز سیالکوٹ نے شائع کیا ہے اور مکتبہ عزیزیہ اردو بازار لاہور سے بھی طلب کی جا سکتی ہے۔

’’سیرت مجمع کمالات‘‘

از پروفیسر محمد عبد الجبار شیخ
صفحات: ۳۸۰
کتابت و طباعت عمدہ
ناشر: ادارہ تعلیماتِ سیرت، علامہ اقبال کالونی، سیالکوٹ کینٹ
سیالکوٹ کے جناب پروفیسر محمد عبد الجبار شیخ کو اللہ رب العزت نے علمی و دینی ذوق کے ساتھ ساتھ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے ساتھ خصوصی لگاؤ سے نوازا ہے۔ انہوں نے مختلف عالمی اور قومی سیرت کانفرنسوں میں سیرتِ طیبہ علی صاحبہا التحیۃ والسلام کے متعدد پہلوؤں پر مقالات کی صورت میں اپنے جذبات و احساسات کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے اور زیرِ نظر کتاب ان کے اسی نوعیت کے گیارہ مقالات کا مجموعہ ہے۔جناب عبد الجبار شیخ نے روایتی انداز سے ہٹ کر اجتماعی زندگی میں پیش آمدہ مسائل پر سیرتِ طیبہ کی روشنی میں بحث کی ہے اور عام فہم انداز میں ان مسائل کے اسلامی حل سے آج کی انسانی اجتماعیت کو روشناس کرانے کی کوشش کی ہے۔

قرآنی نظام اپنے لیے ماحول خود بناتا ہے

شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی

الحمد للہ کہ پاکستان کی اسلامی مملکت قائم ہو چکی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان کی مجلس دستور ساز میں ’’قراردادِ مقاصد‘‘ بھی منظور ہو چکی ہے کہ یہاں قرآن و سنت کے ماحول میں اسلامی نظامِ حیات جاری کیا جائے گا۔ پاکستان کے قیام کا حقیقی مقصد یہی تھا کہ ہمیں ایک ایسا خطۂ ارضی مل جائے جہاں مسلم قوم کو قدرت حاصل ہو کہ وہ تمام و کمال اسلامی آئین و قوانین جاری کرے اور اللہ تعالیٰ و رسول اللہؑ کے دین کو غالب اور سربُلند کرے۔
بعض مغرب زدہ لوگ جو اپنی اسلامی بصیرت کھو چکے ہیں اور خفاش کی طرح ظلمت سے نکل کر روشنی میں آنے کا ارادہ نہیں رکھتے بلکہ اوروں کا بھی راستہ روکنا چاہتے ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ چودہ سو سال کا (معاذ اللہ) فرسودہ نظام اس نئی روشنی کی دنیا میں کہاں چل سکتا ہے؟ لیکن جونہی دنیا طرح طرح کی روشنیوں کے باوجود کروڑوں برس کے فرسودہ شمس و قمر سے ہنوز بے نیاز نہیں ہو سکی تو چودہ سو برس کے قرآنی نظام سے اس کا آنکھیں چرانا کہاں تک حق بجانب ہو سکتا ہے؟
قراردادِ مقاصد سے پہلے بعض لوگوں نے، جو مسلمانوں کی قیادت کا دم بھرتے ہیں، یہ بھی کہا کہ قرآنی نظام چلانے کے لیے ابھی ماحول تیار نہیں، لیکن قرآن جس وقت دنیا میں آیا اگر ماحول کی تیاری اور فضا کی سازگاری کا انتظار کرتا تو شاید قیامت تک بھی یہ ختم نہ ہوتا۔ قرآن تو اپنے لیے ماحول خود بناتا ہے اور قرآنی نظام کے نافذ ہونے سے بڑی حد تک فضا بدلنے لگتی ہے۔ آپ سعودی عرب کی حکومت ہی کو دیکھ لیجیئے، صرف دو تین چوروں کا ہاتھ کٹنے سے حجاز جیسے ملک میں چوری کا بیج باقی نہ رہا۔ اور متنورین کو یہ سن کر تعجب ہو گا اور شاید افسوس بھی کہ حجاز میں ٹنڈوں اور لنجوں کا کوئی بڑا شہر تو کجا چھوٹا سا گاؤں بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ آسمانی قانون کے اجراء کی یہی برکت ہے کہ اس میں جرم کی سزا جرم کو روکتی ہے، مجرم کو جیل میں بھیج کر پکا اور ڈگری یافتہ مجرم نہیں بنایا جاتا۔
(خطباتِ عثمانی ص ۲۸۲)